فہرست مضامین
نماز کے اسرار و رموز
حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد
پیش لفظ
نماز دین کا ستون ہے، جنت کی کنجی ہے، نماز مومن کی معراج ہے اور بندے کیلئے پروردگار سے ہمکلامی کا ذریعہ ہے۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا لا صلوٰۃ الا بحضور القلب (دل کی توجہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی) آج کے پر فتن مشینی دور میں انسان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پریشانیوں نے اسے خوب پریشان کر رکھا ہے۔ اسے سارا جہان مسائلستان نظر آتا ہے۔ حالت یہ ہو گئ ہے کہ کھڑا نماز کی حالت میں ہوتا ہے مگر گھریلو پریشانیوں کی گتھیاں سلجھا رہا ہوتا ہے کبھی کاروباری معاملات میں ڈوبا ہوتا ہے اور کبھی نفسانی شیطانی شہوانی تقاضوں کے دریا میں غوطے لگا رہا ہوتا ہے نماز کی رکعتیں بھول جانا۔ التحیات میں سورۃ فاتحہ پڑھنا اور قیام میں سورۃ بھول جانا عام سی بیماری بن گئ ہے۔ حدیث پاک میں قرب قیامت کی ایک نشانی یہ بھی بتائی گئ ہے کہ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہو گی مگر ان کے دل اللہ کی یاد سے خالی ہوں گے۔ ایک مسجد میں امام صاحب کو نماز کی رکعتوں میں مغالطہ لگا، سلام پھیر کر مقتدی حضرات سے پوچھا کہ میں نے پوری رکعتیں پڑھی ہیں یا کم پڑھی ہیں۔ پوری مسجد میں ایک بھی نمازی ایسا نہ تھا جو یقین محکم اور صمیم قلب سے کہتا کہ ہم نے اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح کی نمازوں کے متعلق حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ وہ نمازی کے منہ پر واپس مار دی جاتی ہیں۔ کتنے غم کی بات ہے کہ ایک شخص نے وقت بھی فارغ کیا۔ نماز بھی پڑھی مگر اٹھک بیٹھک کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مسجد میں نماز تو سب پڑھتے ہیں مگر ہر شخص کو اس کے خشوع و خضوع کے مطابق اجر ملتا ہے۔ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ ایک من سونا ہو، لوہا ہو یا مٹی ہو، وزن میں تو سب برابر مگر قیمت سب کی اپنی اپنی۔ اللہ والوں کی نماز پر اگر سونے کا بھاؤ لگتا ہے تو عام صالحین کی نما ز پر لوہے کا بھاؤ لگتا ہے جبکہ غافلین کی نماز کو مٹی کے بھاؤ بھی قبول نہیں کرتے۔ بقول شاعر
بز میں چوں سجدہ کر دم ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا خراب کر د ی تو بسجدہ ریائی
(جب میں نے زمین پر سجدہ کیا تو زمین سے آواز آئی، او ریا ء کے سجدہ کرنے والے! تو نے مجھے بھی خراب کر ڈالا)
علامہ اقبال نے خوب کہا ہے۔
میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
سوچنے کی بات ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار عاشق نامراد تو فانی چیزوں کے عشق میں اس حد تک گرفتار ہو جاتا ہے کہ ہر وقت انہیں کے خیالوں میں کھویا رہتا ہے اور انکے حصول کی تمنا دل میں لئے نہ جانے کیا کیا منصوبے بناتا رہتا ہے۔ وہ اپنے مطلوب کو پانے کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور کبھی اپنی جان مال اور عزت و ناموس تک برباد کر لیتا ہے۔ اور ہم کیسے اللہ تعالیٰ کے نام لیوا اور عاشق صادق ہیں کہ عین نماز میں جب کہ ہم انکی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اس وقت بھی انکی یاد دل میں نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ ہم اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔اسی لئے ہماری نمازیں بے روح و بے لذت ہیں۔بقول شاعر
عشق اگر ترا نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
جن سلف صالحین نے نماز کی حضوری حاصل کرنے کیلئے محنت کی انہیں اسی دنیا میں اپنی مراد مل گئ۔ چنانچہ شیخ عبدالواحد کے سامنے تذکرہ ہوا کہ جنت میں نماز نہیں ہو گی تو رو پڑے۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت کیوں روئے۔ فرمایا اگر جنت میں نماز نہیں ہوگی تو پھر جنت کا مزہ کیسے آئے گا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے سامنے کسی نے جنت کے حور و قصور کا تذکرہ کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ بھئی اگر قیامت کے دن مجھ پر اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت ہو گئ تو میں یہ عرض کروں گا کہ اللہ۔ اپنے عرش کے نیچے مصلٰے کی جگہ عنایت فرما دیجئے۔
حضرت مولانا یحیٰ کاندھلویؒ لمبا سجدہ کرتے تھے کسی نے پوچھا تو فرمایا کہ جب میں سجدے میں ہوتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنا سر محبوب کے قدموں پر رکھ دیا ہے۔ بس پھر سر اٹھانے کو دل ہی نہیں چاہتا
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی مجھے کیا خبر تھی سجود کی
تیرے نقش پا کی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے اپنے مکاتیب میں لکھا ہے۔
جان لیں کہ دنیا میں نماز کا مرتبہ آخرت میں رویت باری تعالیٰ کے مرتبہ کی مانند ہے” پس جو شخص دنیا میں بغیر وساوس کے نماز ادا کرے گا اسے جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار بغیر حجاب کے ہو گا۔ اور اگر وساوس کے ساتھ نماز پڑھے گا تو آخرت میں دیدار بھی پردوں کے اندر سے ہو گا۔”
کس قدر حسرت کی بات ہے کہ نماز پر محنت نہ کرنے کی وجہ سے نمازی کو دیدار خداوندی نصیب ہو گا مگر پردوں کے ساتھ۔ اے کاش ۔۔۔۔ ہم اپنی نمازوں پر محنت کرتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا سیکھتے تو روز محشر جمال بے نقاب کے دیدار کے مزے پاتے۔
خاص طور پر سالکین طریقت کے تمام تر ذکر و سلوک اور اوراد و وظائف کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح ذات الٰہی کی رضا اسکی لقا اور اس کا مشاہدہ نصیب ہو جائے۔ اگر یہ بھی نماز جیسی عظیم الشان عبادت جو کہ اللہ جل شانہ کے مشاہدے کا مقام ہے سے غافل ہو جائیں تو یہ اپنی منزل آپ کھو دینے کے مترادف ہے۔ فقیر جب ایک طرف نماز کی اس اہمیت کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف نماز کی ادائیگی کے معاملے میں دوستوں کے احوال کو دیکھتا ہے دل میں شدت سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ سالکین کو بالخصوص اور عامۃ الناس کو بالعموم اس بارے میں فکر مند کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بہت سے نمازی ایسے ہیں کہ انکو نماز کی اہمیت و عظمت کا احساس ہی نہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو حضور قلب کی نعمت سے محروم ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو ارکان نماز کی صحت سے غافل ہیں اور بہت سے ہیں جو ارکان نماز کی درستگی کی تو پوری کوشش کرتے ہیں لیکن طہارت کا معاملہ ڈھیلا ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز شرف قبولیت سے محروم رہتی ہے۔ فقیر نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ ان تمام پہلوؤں سے طالبین کی رہنمائی کی جائے۔ تاکہ وہ کامل نماز ادا کرنے والے بن جائیں۔
دادیم ترا ز گنج مقصود نشان
گر ما نہ رسیدیم تو شاید برسی
ہم نے تمہیں گنج مقصود کی نشاندہی کر دی ہے کہ ہم نہ پہنچے تو شاید تو ہی پہنچ جائے)
قارئین کے پیش نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ یہ کتاب کو ئی مسائل کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق نماز کے باطنی امور سے ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ نماز کے فقہی مسائل، فقہ کی معروف کتب سے یا مقامی علماء سے سیکھ کر عمل کریں تاکہ ظاہر و باطن ہر دو لحاظ سے نماز کی تکمیل ہو سکے۔
نبی علیہ السلام نے نماز کی ظاہری حالت کو درست کرنے سے متعلق فرمایا:
صلوا کما را یتمونی اصلی
(ایسے نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)
نماز کی باطنی کیفیت درست کرنے سے متعلق فرمایا:
ان تعبداللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک
(تو اللہ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے اگر ایسا نہ کر سکتا ہو تو یہ سمجھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے)
معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن دونوں لحاظ سے نماز کی درستگی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقت والی نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا فرما دے، وہ ہماری نمازوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اور اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ذریعہ بنا دے اور دیدار جمال یار تک پہنچا دے۔ آمین ثم آمین واللہ الموفق۔
دعاگو و دعا جو
فقیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی
کان اللہ لہ عوضا عن کل شیء
٭٭٭
نماز کی فرضیت
نماز کے معانی
نماز اردو زبان کا لفظ ہے اور شریعت اسلامی میں اسکا مطلب ہے ایک خاص ترتیب سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔ نماز کو عربی میں صلٰوۃ کہتے ہیں۔ اسکے حروف اصلی تین ہیں (ص، ل، الف) عربی لغت کے اعتبار سے نماز کے معنی ہیں دعا کرنا، تعظیم کرنا، آگ جلانا، آگ میں جانا، آگ پر گرم کر کے ٹیڑھی لکڑی کو سیدھا کرنا وغیرہ۔
عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ کسی لفظ کے لغوی معنی اور شرع معنی میں مناسبت ضرور ہونی چاہئے۔ پس جس قدر صلوٰۃ کے لغوی معنی ہیں وہ شرعی اعتبار سے صلوٰۃ کے عمل میں موجود ہیں مثلاً
* نماز میں اپنے لئے ، والدین کیلئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعا ہے۔
* تعظیم کی تین صورتیں، کھڑے ہونا، جھکنا، سجدہ کرنا یہ سب نماز میں موجود ہیں۔
* نماز کے ذریعے انسان کے دل میں عشق الٰہی کی آگ بھڑکتی ہے۔
* نمازی کے گناہوں کا جل کر خاک ہو جانا احادیث سے ثابت ہے۔
* نمازی کے ٹیڑھے اور برے اخلاق کا درست ہونا اظہر من الشمس ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ (عنکبوت:۸۵)
(بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے)
نماز کی شان
شریعت میں نمازی کے عمل کو دوسرے عملوں کی نسبت یہ خاص امتیازی شان حاصل ہے کہ تمام احکام زمین پر فرض ہوئے۔ نماز معراج شریف کی رات میں عرش سے اوپر جا کر فرض ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو پاس بلا کر خاص الخاص حضوری میں آمنے سامنے مقام تدلیٰ پر فرض کی۔ جس قدر اہتمام اس فرض کا ہوا بقیہ فرائض کا اہتمام اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوا۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ
(نماز دین کا ستون ہے)
٭٭
نماز کی فرضیت
امام سیوطیؒ نے در منثور میں نقل کیا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ معراج کی شب بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچے تو وہاں ایک جگہ حوران جنت کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ حوروں نے نبی اکرم ﷺ کو سلام کیا۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ حوران جنت نے عرض کیا نَحْنُ خَیْرَاتٌ حَسَانٌ نِسَاءُ قَوْمٍ اَبْرَارٍ یا رسول اللہ ﷺ ہم نیک لوگوں کی بیبیاں حوران جنت ہیں۔ آج آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے آئی ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ وہاں سے آگے چلے جب مسجد اقصیٰ کے اندر پہنچے تو ساری مسجد کو نمازیوں سے بھرا ہوا پایا۔ ایک دراز قامت خوبصورت بزرگ کو نماز میں مشغول دیکھ کر پوچھا کہ جبرئیلًؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا، یہ آپ ﷺ کے جد امجد حضرت آدمؑ ہیں۔ ایک اور نورانی شکل و صورت والے بزرگ کو نماز پڑھتے دیکھا جن کے سر اور داڑھی کے بال سفید تھے۔ پوچھا، جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ ایک اور بزرگ کو دیکھا جن کی رنگت سانولی سلونی بڑی من موہنی تھی۔ چہرے پر جلال کے آثار نمایاں تھے۔ پوچھا کہ جبرئیلؑ! یہ کون ہیں؟ عرض کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے عاشق صادق لاڈلے پیغمبر حضرت موسیٰؑ ہیں۔ الغرض نبی اکرم ﷺ کے وہاں پہنچتے ہی حضرت جبرئیلؑ نے اذان کہی، آسمان کے دروازے کھلے، فرشتے قطار اندر قطار آسمان سے نازل ہوئے۔ جب ساری مسجد اندر باہر سے بھر گئ تو ملائکہ ہوا میں صف بستہ ہوئے حتیٰ کہ زمین و آسمان کا خلا پر ہو گیا۔ اتنے میں حضرت جبرئیلؑ نے اقامت کہی تو صف بندی ہو گئ۔ امام کا مصلّیٰ خالی تھا۔ حضرت جبرئیلؑ نے امام الاولین والآخرین سید الانس والملائکہ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر عرض کیا، اللہ کی قسم! مخلوق خدا میں آپ ﷺ سے افضل اور کوئی نہیں، آپ ﷺ امامت فرمائیے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ سلام پھیرنے کے بعد جبرئیلؑ نے عرض کیا، اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مرسلین اور ساتوں آسمانوں کے خاص خاص فرشتوں نے نماز ادا کی ہے۔ نماز سے فراغت پر آپﷺ کو رف رف کی سواری پیش کی گئ۔ آپ ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ ملائکہ کے قبلہ بیت المعمور کے پاس پہنچ کر آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ فرشتوں نے اقتدا کی ۔ نماز کے بعد آپ ﷺ نے دو طرح کے لوگ دیکھے، ایک گورے چٹے سفید رنگ کے جن کے لباس بھی سفید تھے، دوسرے وہ جن کے چہرے سیاہ اور کپڑے میلے تھے۔ نبی علیہ السلام نے پوچھا جبرئیلؑ! یہ کون لوگ ہیں؟ عرض کیا، روشن چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے نیکوکار ہیں اور سیاہ چہروں والے آپ ﷺ کی امت کے گنہگار ہیں۔ آپ ﷺ نے وہیں پر گنہگاروں کے لئے شفاعت فرمائی جو قبول ہوئی۔ یہاں سے چل کر سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچے۔ وہاں جبرئیلؑ نے عرض کیا، آپ ﷺ آگے تشریف لے جائیے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا (بقول شیخ سعدی)
چو در دوستی مخلصم یافتی
عنانم ز صحبت چرا تافتی
اگر تم مجھ سے سچی محبت رکھتے ہو تو پھر ساتھ کیوں چھوڑ تے ہو)
جبرئیلؑ نے عرض کیا
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوز پرم
نبی علیہ السلام کو یہاں سے اوپر کی طرف عروج نصیب ہوا حتیٰ کہ آپ ﷺ صاف سیدھے میدان یعنی خطیر القدس پہنچے۔ وہاں آپ ﷺ پر تجلی کا خاصہ ورود ہوا۔
آپ ﷺ نے فوراً فرمایا:
اَلتَّحِیَّاتُ لِلہِ وَ الصَّلْوَاتُ وَ الطَّیِّبَاتُ
(تمام قولی عبادتیں اور فعلی عبادتیں اور مالی عبادتیں اللہ ہی کیلئے ہیں)
اللہ رب العزت کی طرف سے ارشاد ہوا۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَ حْمَۃُ اللہِ وَ بَرَ کَا تُہ
(اے نبی آپ پر سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں)
نبی علیہ السلام نے اللہ رب العزت کی عنایت و مہربانی کو دیکھا تو گنہگار امت یاد آئی فرمایا:
اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ
(سلامتی ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر)
اللہ رب العزت کو یہ ہم کلامی اتنی پسند آئی کہ اسے یادگار بنا دیا۔ ارشاد ہوا، اے محبوب ﷺ ہم نے آپ ﷺ کی امت پر پچاس نمازیں فرض فرمائیں۔ نبی علیہ السلام اس وقت محو تجلیات الٰہی تھے۔ آپ ﷺ پر پانچ سو نمازیں بھی فرض کر دی جاتیں تو آپ ﷺ قبول فرما لیتے۔ کیا نہیں دیکھا کہ دنیا کا فانی عشق فانی محبوب اور فانی وصال کی حالت ہو ش اڑا دیتی ہے۔ عورت جیسی نازک چیز دیدار یوسفؑ میں ایسی غافل ہوئی کہ بجائے ترکاری کے اپنی انگلیاں کاٹ لیں، فرہاد نے شیریں کے دیدار کے بدلے کوہستان کھود مارے، ادھم فقیر نے شاہ بلخ کی لڑکی کے حسن و جمال کو دیکھ کر سمندر خالی کرنے پر کمر باندھ لی۔ الغرض مشکل ترین بوجھ کو سر پر اٹھا لینا دیدار محبوب کے وقت آسان ہوتا ہے۔ اللہ اکبر۔ حسن مولیٰ کے سامنے عشق لیلیٰ کی کیا حیثیت ہے؟
جب نبی کریم ﷺ دیدار الٰہی میں مگن تھے آپ ﷺ کیلئے پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم بہت آسان تھا۔ آپ ﷺ خوشی خوشی واپس تشریف لے آئے۔ راستے میں حضرت موسیٰؑ نے توجہ دلائی کہ اے محبوب کل جہاں ﷺ! آپ ﷺ محو تجلی تھے آپ ﷺ کی ساری امت تو محو تجلی نہ ہو گی۔ میری امت کیلئے دو نمازیں پڑھنی مشکل تھیں آپ ﷺ بارگاہ احدیت میں پھر حاضری دیجئے اور آسانی کیلئے فرمائش کیجئے۔ چنانچہ چند بار اوپر نیچے آنے جانے کا معاملہ پیش آیا۔ صرف پانچ نمازیں فرض رہ گئیں۔ لیکن پروردگار عالم نے فرمایا،
مَا یُبَدِّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَ مَا اَنَا بِظَلَّا مٍ لِلْعَبِیْدِ (سورۃ ق:۲۹)
(میرے ہاں فیصلے تبدیل نہیں کئے جاتے اور میں بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں)
آپ ﷺ کی امت پانچ نمازیں پڑھے گی مگر انکو پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا۔ اصول سامنے آ گیا
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشَرَ اَمْثَا لُھَا (سورۃ انعام: ۱۶۰)
(جس نے ایک نیکی کی تو اس کیلئے اجر دس گنا ہے)
پس پانچ نمازوں کا حکم قائم اور محکم ہو گیا۔ فالحمد للہ رب العالمین۔
نماز کے فضائل
حافظ بن حجرؒ نے منبہات میں حضرت عثمان غنیؓ سے روایت کی ہے کہ جو شخص اوقات کی پابندی کے ساتھ نماز کی محافظت کرے اللہ تعالیٰ نو چیزوں سے اس کا اکرام فرماتے ہیں۔
* اسکو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں۔
* اسکو تندرستی عطا کرتے ہیں۔
* فرشتے اسکی حفاظت کرتے ہیں۔
* اسکے گھر میں برکت عطا کرتے ہیں۔
* اسکے چہرے پر صلحاء کا نور ظاہر ہوتا ہے۔
* اس کا دل نرم فرما دیتے ہیں۔
* روز محشر اس کو پل صراط سے بجلی کی تیزی سے گزاریں گے۔
* جہنم سے نجات عطا فرمائیں گے۔
* جنت میں نیکوں کا ساتھ عطا کریں گے۔
منبہات ابن حجر میں ایک دوسری روایت ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ نماز دین کا ستون ہے اور اس میں دس خوبیاں ہیں۔
* چہرے کی رونق ہے۔
* دل کا نور ہے۔
* بدن کی راحت اور تندرستی کا سبب ہے۔
* قبر کا انس ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی رحمت اترنے کا ذریعہ ہے۔
* آسمان کی کنجی ہے۔
* اعمال نامے کے ترازو کا وزن ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب ہے۔
* جنت کی قیمت ہے۔
* دوزخ سے آڑ ہے۔
لہذا جس نے نماز کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا۔ جس نے اسے چھوڑا اس نے دین کو گرایا۔
فقیہ ابو اللیث سمر قندیؒ نے تنبیہ الغافلین میں حدیث نقل کی ہے کہ:
* نماز اللہ تعالیٰ کی رضا کا سب ہے۔
* فرشتوں کی محبوب چیز ہے۔
* انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
* نماز سے معرفت کا نور پیدا ہوتا ہے۔
* اس سے دعا قبول ہوتی ہے۔
* رزق میں برکت ہوتی ہے۔
* نماز ایمان کی بنیاد ہے۔
* بدن کیلئے راحت ہے۔
* دشمن کیلئے ہتھیار ہے۔
* نمازی کیلئے سفارشی ہے۔
* قبر کا چراغ اور اسکی وحشت میں دل بہلانے والی ہے۔
* منکر نکیر کے سوال کا جواب ہے۔
* قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے اور اندھیرے میں روشنی ہے۔
* جہنم کی آگ سے بچاؤ ہے۔
* پل صراط سے جلدی گزارنے والی ہے۔
* جنت کی کنجی ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے منبہات میں ایک اور حدیث نقل کی ہے۔
نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تین چیزیں محبوب ہیں
* خوشبو
* نیک بیوی
* میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ یہ سن کر تڑپ اٹھے اور عرض کیا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
* آپ ﷺ کے چہرہ انور کا دیدار کرنا
* اپنا مال آپﷺ پر خرچ کرنا
* میری بیٹی آپ ﷺ کے نکاح میں ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
* امر بالمعروف کرنا
* نہی عن المنکر کرنا
* پرانا کپڑا پہننا
حضرت عثمان غنیؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
* بھوکوں کو کھانا کھلانا
* ننگوں کو کپڑا پہنانا
* تلاوت قرآن کرنا
حضرت علی المرتضیٰؓ نے یہ سن کر کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
* مہمان نوازی کرنا
* گرمی میں روزہ رکھنا
* دشمن پر تلوار چلانا
اتنے میں جبرئیلؑ نازل ہوئے اور کہا کہ مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں
* بھولے ہوئے کو راستہ دکھانا
* نیک غریبوں سے محبت رکھنا
* عیالدار مفلسوں کی مدد کرنا
جبرئیلؑ نے بتایا کہ اللہ رب العزت کو بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔
* اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنا
* فاقہ پر صبر کرنا
* گناہ پر ندامت کے ساتھ رونا
حضرت شفیق بلخیؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں میں پایا۔
* قبر کا نور تہجد کی نماز میں پایا۔
* منکر نکیر کے سوال کا جواب تلاوت قرآن میں پایا۔
* قیامت کے دن کی پیاس سے بچاؤ روزہ میں پایا۔
* پل صراط سے جلدی گزرنے کو صدقہ خیرات میں پایا۔
* روزی کی فراخی کو چاشت کی نماز میں پایا۔
امام ابن سیرینؒ تعبیر الرویاء میں لکھتے ہیں کہ جس نے خواب دیکھا کہ اس نے
* نماز فجر پڑھی تو اس سے کیا گیا وعدہ پورا ہو گا۔
* نماز ظہر پڑھی تو اسے حاسدوں اور دشمنوں پر غلبہ نصیب ہو گا۔
* نماز عصر پڑھی تو جس کام میں لگا ہے اس میں کامیابی نصیب ہو گی۔
* نماز عشاء پڑھی تو اسے خوشی نصیب ہو گی۔
طہارت کی اہمیت
ارشاد باری تعالیٰ ہے
فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُ وْ ا وَ اللہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ (التوبہ: ۱۰۸)
(اس میں ایسے مرد ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ پاکیزہ رہیں اور اللہ پسند فرماتا ہے پاکیزہ رہنے والوں کو)
اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرامؓ کی ایک عادت کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکیزگی سے محبت رکھتے تھے اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی گئ کہ اللہ رب العزت پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔ پس ہر مومن کے دل میں یہ تمنا ہونی چاہئے کہ وہ پاکیزہ رہے تاکہ رب کریم کے محبوب بندوں میں شمولیت نصیب ہو۔ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔
اَلطَّھُوْ رُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ
(صفائی ایمان کا حصہ ہے)
صفائی اور پاکیزگی
صفائی اور پاکیزگی میں فرق ہے۔ اگر کسی چیز پر میل کچیل نہ ہو تو اسے صاف کہتے ہیں مگر عین ممکن ہے کہ وہ شرع کے نقطہ نظر سے پاکیزہ نہ ہو۔ پاکیزہ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں سے پاک ہو۔
نجاست غلیظہ
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں سخت اور زیادہ ہو مثلاً
* انسان کا پیشاب، پاخانہ اور منی
* جانوروں کا پاخانہ
* حرام جانوروں کا پیشاب
* انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون
* شراب اور سور کا گوشت ، ہڈی ، بال وغیرہ
* مرغی، بطخ اور مرغابی کی بیٹ
نجاست خفیفہ
وہ نجاست جو ناپاک ہونے میں ہلکی اور کم ہو ۔مثلاً حلال جانوروں کا پیشاب اور حرام پرندوں (چیل ، گدھ) کی بیٹ۔
نجاست حقیقی
نجاست غلیظہ اور خفیفہ دونوں کو نجاست حقیقی کہتے ہیں۔
نجاست حکمی
وہ نجاست جو دیکھنے میں نہ آئے مگر شریعت سے ثابت ہو مثلاً بے وضو ہونا، احتلام یا جماع وغیرہ کی وجہ سے غسل کا فرض ہو جانا۔ قرآن مجید میں ہے
اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ (التوبہ:۲۸)
(مشرک نجس ہوتے ہیں)
حدث اکبر
جب مردو عورت پر احتلام یا جماع کی وجہ سے غسل فرض ہو جائے یا عورت حیض و نفاس سے فارغ ہو جائے تو اس پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔ اس کو حدث اکبر کہتے ہیں۔
حدث اصغر
وضو ٹوٹ جانے کو حدث اصغر کہتے ہیں۔
طہارت کے چار درجات
اللہ رب العزت پاک ہیں۔ ان سے واصل ہونے کیلئے مومن کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔ مشائخ نے اس کے چار درجات متعین فرمائے ہیں۔
۱۔ طہارت بدن از نجاست
بدن کو نجاست حقیقی اور حکمی دونوں سے پاک رکھا جائے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
فرض غسل
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ فرض غسل کے تین فرائض ہیں۔
* غرغرہ یعنی کلی اس طرح کرنا کہ پانی اچھی طرح حلق کے اندر تک پہنچ جائے۔
* ناک کے اندر نرم ہڈی تک پانی کو اچھی طرح پہنچانا۔
* پورے جسم پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔
پورے جسم کو اچھی طرح مل مل کر دھونا اور ناف، کان ، بغل وغیرہ میں انگلی ڈالنا اور جگہ کو گیلا کرنا واجب ہے۔
اگر عورت نے بالوں کی چٹیا بنائی ہوئی ہے تو اسکے لئے سر پر اچھی طرح پانی بہانا فرض ہے۔ اگر لمبے بال گندھے ہونے کی وجہ سے خشک رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اگر بال کھلے ہوں تو سر کے ہر ہر بال کو گیلا کرنا ضروری ہے۔
جن عورتوں نے زیور پہنا ہوا ہو انکے لئے ضروری ہے کہ زیور کے نیچے کی جگہ پر پانی پہنچائیں۔ خاص طور پر انگلیوں میں انگوٹھی کے نیچے، کان کی بالیوں کے سوراخ میں اور ناک میں لونگ کے سوراخ میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخنوں پر ناخن پالش لگی ہوئی ہو تو اسکو اتارنا ضروری ہے تاکہ اس کی تہہ کے نیچے پانی پہنچ سکے۔
اگر ہاتھ پاؤں کے ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو انکے اندر کی میل کچیل نکالنا اور اس میں پانی پہنچانا ضروری ہے۔
اگر ہونٹوں پر لپ اسٹک لگی ہوئی ہو تو اسے سو فیصد صاف کرنا ضروری ہے تاکہ ہونٹوں تک پانی پہنچ سکے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بیرون ملک کی تیار شدہ لپ اسٹک میں حرام اشیاء شامل ہوتی ہیں۔
استنجاء کرنا
جب انسان قضائے حاجت کیلئے بیت الخلاء میں جائے اور پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو تو اسے چاہئے کہ مٹی کے ڈھیلوں سے پیشاب کے قطروں کو خشک کر لے پھر تین ڈھیلوں سے پاخانہ صاف کرے، اگر مٹی کے ڈھیلے میسر نہ ہوں تو ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے بعد پانی کے ساتھ پیشاب پاخانے کی جگہ کو تین مرتبہ دھوئے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے پھر ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر دوسری مرتبہ ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے، پھر دوبارہ ہاتھ کو پاک کرے۔ پھر تیسری بار ناپاکی کی جگہ پر پانی بہائے اور ہاتھ سے ملے حتیٰ کہ نجاست دھلنے کا یقین ہو جائے پھر تیسری دفعہ ہاتھ کو پاک کرے۔ بعض لوگ استنجاء سے فراغت پر ہاتھوں کو مٹی یا صابن سے دھو لیتے ہیں۔ طمانیت قلب حاصل کرنے کیلئے یہ اچھی عادت ہے۔ چند باتیں غور طلب ہیں۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں ایسے جوتے رکھے جاتے ہیں جو پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ ایسے جوتوں کا پاک رکھنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر اس پر پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو بھلا کیسے پاک کریں؟ جوتے ایسے میٹیریل کے بنے ہوں جو پانی جذب نہ کریں اور فقط پانی بہانے سے انکے ساتھ لگی ہوئی ناپاکی دھل جائے۔ مزید برآں جوتے کا تلوہ موٹا ہونا چاہئے تاکہ فرش کا پانی پاؤں کو نہ لگے۔ پتلے تلوے والی چپلیں پاؤں جلدی ناپاک کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تاہم اپنی تسلی کیلئے جوتوں کو وقتاً فوقتاً پاک کرتے رہنا ضروری ہے۔
بعض جگہوں پر بیت الخلاء میں قالین بچھا دیئے جاتے ہیں۔ ایسے قالین کے اوپر تولیے بچھا دینے چاہئیں تاکہ انہیں دوسرے تیسرے دن دھوتے رہیں۔
جن جگہوں پر بیت الخلاء میں نیچا کموڈ (پاؤں کے بل بیٹھنے والی سیٹ) لگا ہو وہاں پیشاب کرتے وقت اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے کہ پاؤں کے اندرون ٹخنے والی سائڈ پر پیشاب کے قطرے کموڈ سے منعکس ہو کر نہ لگیں۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔ بعض غافل مسلمان بھی انکا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں ایک تو صالحین کے طریقے کی مخالفت ہے دوسرا کپڑوں کے ناپاک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بعض نوجوان پیشاب کے قطروں کے بارے میں بے احتیاطی کرتے ہیں۔ ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے دو آدمیوں کو قبر کا عذاب ہوتے دیکھا، ایک کو چغلخوری کی وجہ سے اور دوسرے کو پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنے کی وجہ سے ۔
اگر مرد کو پیشاب کے قطرے گرنے کی بیماری ہو یا عورت کو سیلان الرحم کی بیماری ہو تو بار بار استنجاء کرنے سے تنگ نہیں ہونا چاہئے۔ جسم کی طہارت فرض ہے اور فرض کی ادائیگی میں تکلیف اٹھانا قرب الٰہی کا سبب ہوتا ہے۔
بعض لوگ بیت الخلاء میں ننگے پاؤں چلے جاتے ہیں اور گیلے پاؤں لیکر باہر فرش پر آ جاتے ہیں۔ ان بیچاروں کو پاکی اور ناپاکی کے فرق کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔ پھر انہی پاؤں سے مصلےٰ پر آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خود تو کیا پاک ہونا تھا الٹا مصلےٰ کو بھی ناپاک کر دیتے ہیں۔ بعض لوگ وضو خانے کے گیلے جوتے استعمال کرتے ہیں۔ بہتر ہے ایسے جوتوں کو پاک کیا جائے ورنہ عموماً ایسے جوتے ناپاک ہوتے ہیں۔
جب بیت الخلاء میں استنجاء سے یا غسل سے فراغت حاصل کریں تو جسم کے گیلے حصے کو تولئے وغیرہ سے اچھی طرح صاف کر لیں اگر گیلے ہاتھوں سے دروازے کا ہینڈل پکڑیں گے تو ہاتھ ناپاک ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ گھر کی خادمائیں جب بیت الخلاء دھوتی ہیں تو گیلے ہاتھوں سے دروازے کے ہینڈل پکڑ لیتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہینڈل ناپاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہینڈل کو خشک ہاتھ سے پکڑنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر گیلے ہاتھ سے پکڑ لیا جائے تو ہینڈل کی ناپاکی ہاتھ کو بھی ناپاک کر دے گی۔
ضروری نکتہ
اگر کوئی چیز ناپاک ہے مگر خشک ہے تو اسے خشک ہاتھوں سے چھو لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ناپاکی منتقل نہیں ہوتی۔ البتہ اگر ناپاک چیز گیلی ہے یا ہاتھ گیلے ہیں یا دونوں گیلے ہیں تو ایسی صورتحال میں ناپاکی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو جاتی ہے۔ اول تو ہر وقت ہاتھ خشک رکھیں دوسرا گر گیلا ہاتھ کسی چیز کو لگائیں یا گیلی چیز کو ہاتھ لگائیں تو خبردار رہیں ۔ ناپاکی منتقل ہونے سے جسم یا کپڑے ناپاک ہو سکتے ہیں۔
طہارت لباس
اللہ رب العزت نے اپنے محبوب ﷺ سے خطاب فرمایا
وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ (مدثر: ۴)
(آپ اپنے کپڑے پاک رکھئے)
پس ایمان والوں کو چاہئے کہ اپنے کپڑوں کو پاک بھی رکھیں اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی و نجاست سے بھی صاف رکھیں۔
عموماً کپڑے دھونے کا کام گھروں میں عورتیں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ کپڑوں کو تین مرتبہ دھوئیں۔ اچھی طرح پانی بہائیں اور ہر مرتبہ پانی خوب نچوڑیں۔ جو کپڑے دھل چکے ہوں انہیں علیحدہ صاف چیز میں رکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے کپڑوں کو دھوتے وقت جو چھینٹے اڑتے ہیں وہ پاک کپڑوں کو ناپاک بنا دیں۔ جب دھلے ہوئے کپڑوں کو پاک کرنے لگیں تو اپنے مستعمل کپڑوں کو ہاتھ نہ لگائیں۔
جن لوگوں کے گھروں میں واشنگ مشین ہوتی ہے انہیں چاہئے کہ ساتھ ڈرائر بھی لیا کریں۔ اس میں اگر ۳ مرتبہ کا تعین کر لیں تو مشین کپڑے کو خودبخود تین مرتبہ دھوتی اور نچوڑتی ہے۔ ایسے کپڑے بہت صاف اور پاک ہوتے ہیں۔ انسانی ہاتھوں سے اس قدر اچھی طرح نچوڑنا ممکن نہیں جس قدر مشین سے ممکن ہے۔
بعض لوگوں کو دھوبی سے کپڑے دھلوانے کی عادت ہوتی ہے۔ اگر دھوبی نیک دین دار ہو اور پاکیزگی کا لحاظ رکھنے والا ہو تو ٹھیک ہے ورنہ تو پاک ناپاک کپڑوں کو اس طرح اکٹھا کر دیتے ہیں کہ سب کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں۔ پاکیزہ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں کپڑے دھونے کا انتظام رکھیں۔
بعض لوگ اپنے کپڑوں کو ڈرائی کلین کروا لیتے ہیں۔ اس طرح کپڑے صاف تو ہو جاتے ہیں مگر پاک نہیں ہوتے۔
بعض لوگ کپڑے استری کرتے وقت کپڑے پر پانی اسپرے کرتے ہیں۔ اگر پانی پاک نہیں تو کپڑے کو بھی ناپاک بنا دے گا۔
بعض لوگ وضو کرتے وقت یا عورتیں فرش وغیرہ دھوتے وقت اپنے کپڑوں پر چھینٹیں پڑنے کا خیال نہیں کرتیں۔ اس سے کپڑے کی پاکیزگی و طہارت میں فرق آ جاتا ہے۔
بعض عورتیں پرفیوم لگانے کی شوقین ہوتی ہیں مگر الکحل والی پرفیوم لگا لیتی ہیں۔ الکحل حرام بھی ہے اور ناپاک بھی ہے۔ نمازی لوگ اول تو عطر استعمال کیا کریں اور اگر پرفیوم ہی استعمال کرنی ہو تو بغیر الکحل والی پرفیوم استعمال کریں۔
طہارت طعام
ارشاد باری تعالیٰ ہے
کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَات، وَاعْمَلُوْا صَالِحاً (مومنون: ۵۱)
(پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو انسان غیر پاکیزہ چیزیں کھائے گا وہ اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جائے گا۔ غذا میں اول قدم پر اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ رزق حلال سے حاصل کی گئ ہو۔ دوسرے قدم پر وہ چیز شرعاً حلال ہو۔ مثلاً ایک آدمی حلال مال سے ایسی آئس کریم خریدتا ہے جس میں حرام چیزوں کی ملاوٹ ہے تو اسکے کھانے سے دل میں ظلمت پیدا ہو گی۔ تیسرے قدم پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس غذا کو بناتے وقت طہارت و پاکیزگی کا خیال رکھا گیا ہو۔ بعض جگہوں پر لوگ سموسے وغیرہ بناتے ہیں مگر ایک ہی پانی میں ساری پلیٹیں جمع کر دیتے ہیں۔ پھر ایک ہی کپڑے سے انہیں صاف کر کے رکھ دیتے ہیں۔ پلیٹ دیکھنے میں صاف تو ہو جاتی ہے مگر پاک نہیں ہوتی۔ اسی لئے ہمارے مشائخ بازار کی بنی ہوئی کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ نماز ادا کرنے مسجد سے باہر نکلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ نمازیوں کے جوتے کچھ دائیں طرف پڑے ہیں بقیہ بائیں طرف پڑے ہیں۔ جب آپ اسکی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کو کشف ہوا کہ دائیں طرف والے اصحاب الیمین ہیں اور بائیں طرف والے اصحاب الشمال ہیں۔ آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جوتوں کو الگ الگ کس نے رکھا؟ بتایا گیا کہ آپ کے صاحبزادہ خواجہ محمد معصومؒ اور خواجہ محمد سعیدؒ کھیل رہے تھے۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ کی خدمت میں خط لکھ کر اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔ حضرت خواجہ باقی باللہؒ نے بچوں کو اپنے پاس دہلی بلوایا اور انہیں بازار سے منگوا کر کھانا کھلایا۔ اس کھانے کی ظلمت کی وجہ سے صاحبزادگان کا کشف ختم ہو گیا۔ سوچنا چاہئے کہ اگر آج سے پانچ سو سال پہلے کا بازار کا پکا کھانا اتنی کثافت رکھتا تھا تو آج کل کے کھانوں کا کیا حال ہو گا۔ لوگ چکن تکہ، چکن کباب تو مزے لے لے کر کھاتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ مرغ کو صحیح طریقہ سے حلال بھی کیا گیا تھا یا نہیں۔ دہی بھلے اور چاٹ کھانے کی عادت ہوتی ہے جس سے دل میں ظلمت آتی ہے۔ اگر بازار میں کسی ایسے آدمی کی دکان ہو یا ہوٹل ہو جو نمازی ہو ، طہارت اور حرام و حلال کا خیال رکھنے والا ہو تو ایسی جگہ کے پکے ہوئے کھانے کو کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر عام مشاہدہ یہی ہے کہ کام کرنے والے بے نمازی بھی ہوتے ہیں۔ طہارت کا بھی خیال نہیں رکھتے۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ بے نمازی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت خواجہ عبدالمالک صدیقیؒ چکوال تشریف لائے۔ حضرت مرشد عالمؒ تبلیغی دورے پر گئے ہوئے تھے۔ حضرت قاسمیؒ نے انکی مہمان نوازی کی۔ جب حضرت صدیقیؒ کے سامنے دستر خوان پر کھانا رکھا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار فرما دیا اور حضرت قاسمیؒ سے پوچھا کہ آپ کے گھر میں سؤر کہاں سے آیا؟ حضرت قاسمیؒ نے والدہ ماجدہ کو آ کر صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ فرمانے لگیں، مجھ سے غلطی سرزد ہوئی۔ میری ہمسائی مدت سے اس بات کی تمنا رکھتی تھی کہ حضرت صدیقیؒ کا کھانا پکائے۔ میں نے اسکے اصرار کی وجہ سے اسے کھانا پکانے کی اجازت دے دی۔ یہ کھانا ہمارے گھر کا نہیں ہمسائے کے گھر سے آیا ہوا ہے۔ والدہ ماجدہ نے اپنے گھر کا کھانا پکا کر دیا تو حضرت صدیقیؒ نے تناول فرمایا۔
کئ لوگ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ حضرت صدیقیؒ مشتبہ مال والا کھانا ہر گز نہیں کھاتے تھے۔ انہوں نے دعوت کے دوران مشتبہ مال سے بہترین کھانے پکا کر سامنے رکھے جب کہ حلال مال سے خشک روٹی اور دال پکوائی۔ حضرت صدیقیؒ نے بغیر کسی کے بتائے دال روٹی کھائی، مرغے چرغے کی طرف دھیان ہی نہ دیا۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ آم، سیب اور امرود وغیرہ کے پھل اسی لئے نہیں کھاتے تھے کہ پنجاب کے باغوں میں درختوں پر پھل آنے سے پہلے ان کا سودا کر لیا جاتا ہے۔ اس کو بیع باطل کہتے ہیں۔
حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے پاس ایک شخص انگور لایا۔ آپ کھانے لگے تو فرمایا کہ ان انگوروں سے مردے کی بو آتی ہے۔ وہ شخص بڑا حیران ہوا۔ جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ باغ کے مال نے قبرستان کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے وہاں انگور کی بیلیں اگائی ہوئی تھیں۔
حضرت خواجہ عبداللہ دہلویؒ کو ایک شخص نے مشتبہ لقمہ کھلا دیا جس سے انکے لطائف بند ہو گئے۔ انہوں نے حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ سے اپنے حالات کا تذکرہ کیا۔ حضرت مرزا صاحب نے انہیں مراقبہ میں روزانہ توجہات دینی شروع کیں تو چالیس دن کے بعد دل سے ظلمت صاف ہوئی اور لطائف جاری ہوئے۔
آج کل کے بعض مالدار لوگوں نے کچن میں کام کرنے کیلئے غیر مسلم عورتوں کو رکھا ہوا ہوتا ہے۔ پھر شکوہ کرتے ہیں کہ بچے نافرمان بن گئے، گھر سے پریشانی ختم نہیں ہوتی۔ غیر مسلم کا پاکی اور ناپاکی سے کیا واسطہ۔
بعض لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے پیسے بینک میں سود پر جمع کروا دیتے ہیں پھر ہر مہینے سود کے پیسے لے کر گھر کے اخراجات چلاتے ہیں۔ یہ سب شرعاً حرام ہے۔ ایسی غذا کھانے والا عبادات کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔
بیرون ملک کی بنی ہو ئی غذائی اشیاء خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس میں کسی حرام چیز مثلاً حرام جانور کی چربی (جیلئین) وغیرہ کا استعمال تو نہیں کیا گیا، ورنہ تو پیسے لگا کر گھر تباہ کرنے والا معاملہ ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں کے ایف سی ، میکڈونلڈ وغیرہ کے نام سے فاسٹ فوڈ کی کئ دکانیں کھل گئ ہیں۔ لوگ ان جگہوں پر جا کر کھانا اعلیٰ معیار زندگی کی علامت سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ہمارے بیرون ملک کے ایک مدرسے میں ایک لڑکا قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کیلئے داخل ہوا۔ اسکے متعلق عام تاثر یہی تھا کہ وہ اپنے سکول میں اول انعام حاصل کرنے والا طالبعلم ہے۔ مدرسہ میں ایک سال پڑھنے کے بعد اس کا ایک پارہ بھی ختم نہ ہوا۔ نگران حضرات نے استاد کو سمجھایا کہ اس طالبعلم کی مقدار خواندگی بہت کم ہے۔ استاد نے کہا کہ میں نے محنت تو بہت کی ہے۔ خود بچے نے بھی خوب دل لگا کر پڑھا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ طالبعلم جب چند صفحے آگے پڑھ لیتا ہے تو پیچھے سے بھول جاتا ہے۔ ہم تو مغز کھپائی کر کے تنگ آ گئے ہیں۔ طالبعلم سے پوچھنے پر تصدیق ہوئی کہ استاد کے پڑھانے میں کوئی کمی نہیں تھی اور خود طالبعلم کی محنت میں بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ جب طالبعلم سے پوچھا گیا کہ آپ کیا چیزیں کھانے کے عادی ہو تو اس نے پانچ سات غیر ملکی ریسٹورانٹ کے نام گنوا دیئے۔ جہاں وہ اپنے والدین کے ہمراہ جا کر شام کا کھانا کھایا کرتا تھا۔ نگران حضرات نے اسکے والدین کو بلا کر سمجھایا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے رزق حلال دیا ہے مگر آپ کفار کے ہاتھوں سے تیار شدہ حرام اور مشتبہ غذا بچے کو کھلاتے ہیں جس کی وجہ سے بچہ قرآن مجید کی برکات سے محروم ہو گیا ہے۔ آپ وعدہ کریں کہ آئندہ بچے کو گھر کی بنی ہوئی غذا کھلائیں گے اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو بچے کو اپنے ہمراہ واپس لے جائیں اور تعلیم کا کوئی اور بندوبست کر لیں والدین بات کی حقیقت سمجھ گئے۔ انہوں نے طالبعلم کو گھر کی بنی ہوئی حلال او ر پاکیزہ غذا کھلانے کا معمول بنا لیا۔ آنے والے ایک ہی سال میں بچے نے پورا قرآن مجید مکمل پڑھ لیا۔
اس مثال سے یہ بات با آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ طعام کی پاکیزگی کا عبادات میں دلجمعی اور خشوع و خضوع کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔
۲۔ طہارت حواس از گناہ
اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں:
وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ (الانعام: ۱۲۰)
(چھوڑ دو گناہ جو ظاہر میں کرتے ہو یا پوشیدہ کرتے ہو)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا
یٰاَ ایُّھَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلیٰ اَنْفُسِکُمْ (یونس: ۲۳)
(اے انسانو! تمہاری بغاوتیں تمہاری اپنی جانوں پر)
یہ بات روزمرہ کے مشاہدے میں آئی ہے کہ جو انسان اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا وہ نیک اعمال کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص غیر محرم عورت سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عبادت میں لذت عطا فرماتے ہیں۔ پس جو شخص اپنی نگاہوں کو غیر محرم سے نہیں بچائے گا وہ عبادت کی لذت سے محروم ہو جائے گا۔ غیر محرم پر ہوس بھری نگاہیں ڈالنے والا گناہ آج کل عام ہو گیا ہے۔ حدیث پاک میں وارد ہے
اَلنَّاظِرُ وَ الْمَنْظُوْ رُ کِلاَ ھُمَا فِیْ النَّارِ
(غیر محرم کا جسم دیکھنے والا مرد اور غیر محرم کو جسم دکھانے والی عورت دونوں جہنم میں جائیں گے)
ایک روایت میں آیا ہے کہ جو عورت اس لئے زیب و زینت اختیار کرے کہ اسے غیر محرم دیکھے۔اس عورت کی طرف اللہ تعالیٰ محبت کی نظر نہیں ڈالتے۔
آج کل ٹی وی، ڈراموں اور فلموں کے ذریعے عریانی و فحاشی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ٹی وی درحقیقت ایمان کیلئے ٹی بی بن چکا ہے۔ بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں اور وہ مختلف جرائم کے نئے نئے طریقے سیکھتے ہیں۔یوں سمجھ لینا چاہئے کہ جس گھر میں ٹی وی موجود ہے اس گھر میں شیطان کی ایک بریگیڈ فوج موجود ہے۔
بعض بے پردہ پھرنے والی عورتیں یہ سوال کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں چہرے کا پردہ نہیں ہے؟ ان بھولی عورتوں سے کوئی پوچھے کہ جب حجاب سے متعلقہ آیات اتریں تو اس وقت امہات المومنین کو کیا چھپانے کا حکم ہوا تھا۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر بتائیں کہ چہرہ چھپانے کا حکم ہوا یا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ وہ ننگے سر یا ننگے سینہ پھرتی تھیں اور انہیں سر اور سینہ چھپانے کا حکم ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ انہیں چہرہ چھپانے کا حکم ہوا۔ اسی لئے فرمایا گیا کہ
ذٰلِکَ اَدْنیٰ اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلاَ یُؤْذَیْن (الاحزاب: ۵۹)
(اس میں قریب ہے کہ پہچانی جائیں تو نہ ستائی جائیں)
اگر کسی کا چہرہ کھلا ہو تو اس کو پہچاننے میں ایک منٹ نہیں لگتا۔
بعض عورتیں پردے سے متعلق بحث و مباحثہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پردہ تو آنکھ کا ہوتا ہے۔ ہماری نگاہیں پاک ہوتی ہیں۔ انہیں پوچھنا چاہئے کہ آپ کی نگاہیں پاک سہی اگر آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہیں پاک نہ ہوئیں تو آپ مصیبت میں پڑیں گی یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ پردہ آنکھ کا ہوتا ہے تو عقل کا پردہ بھی تو ہوتا ہے۔ عام طور پر جب عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے تو آنکھ کا پردہ کافی نظر آتا ہے، ایسی عورتیں چہرے کا پردہ کرنے سے گھبراتی ہیں۔
ہمارے مشائخ نظر کی اس قدر حفاظت کرتے تھے کہ اگر نماز کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے نظر غیر محرم پر پڑ جاتی تو دوبارہ وضو کی تجدید کرتے اور پھر نماز ادا کرتے تھے۔
زبان کو جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور بہتان وغیرہ سے بچانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی بڑی وقعت ہے۔ انسان کلمہ شہادت کے چند الفاظ بولتا ہے تو مومن بن جاتا ہے، نکاح کے وقت ایجاب و قبول کے چند الفاظ بولتا ہے تو پرائی لڑکی اپنوں سے بھی زیادہ اپنی بن جاتی ہے۔ بعض لوگ وقتی شرمندگی سے بچنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں اور آخرت کی شرمندگی سے نہیں ڈرتے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ مومن سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
اپنے کانوں کو غیبت اور موسیقی وغیرہ سننے سے بچانا چاہئے۔ بعض لوگوں کو فلمی گانے سننے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ لوگ بعض اوقات نماز میں کھڑے ہوتے ہیں اور انکے کانوں میں شہنائیاں بج رہی ہوتی ہیں۔
آج کل قوالی کے نام سے موسیقی کی دھنوں پر عشقیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں جو گانے کو اسلامی رنگ دینے کی ایک مکروہ کوشش ہے۔ یہ سو فیصد حرام ہے۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ موسیقی کا سننا کان کا زنا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ موسیقی سننے والے کے دل میں زنا کی خواہش ایسے پیدا ہوتی ہے جیسے بارش کے برسنے سے زمین میں کھیتی پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث میں نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ میں مزامیر (آلات موسیقی) کو توڑنے کیلئے دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔
بعض نوجوان ٹیلیفون پر غیر محرم لڑکیوں سے گپیں لگانے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ زنا کا دروازہ کھلنے کی کنجی ہے۔ پہلے انسان گفتگو کرتا ہے اور پھر ایک دوسرے کو دیکھنے کیلئے دل بیتاب ہوتا ہے۔ اسکی دلیل قرآن مجید سے ملتی ہے۔ حضرت موسیٰؑ کو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف نصیب ہوا۔تمام انبیاء میں سے صرف حضرت موسیٰٰ نے تمنا ظاہر کی
رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْکَ (الاعراف: ۱۴۳)
(میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں)
شرمگاہ کو گناہ سے بچانا عبادات کی حضوری نصیب ہونے کیلئے ضروری شرط ہے حدیث پاک میں ہے کہ انسان جتنی دیر زنا کرتا ہے۔ اتنی دیر ایمان اسکے جسم سے نکل جاتا ہے۔ اکثر چند لمحوں کی غلطی کئ کئ سالوں کی عبادات پر پانی پھیر دیتی ہے۔
۳۔ طہارت دماغ از تخیلات
اپنے دماغ کو شیطانی، نفسانی، اور شہوانی خیالات سے بچانا ضروری ہے۔جب تک سوچ پاک نہ ہو اس وقت تک دل پاک نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں کہ فکر کی گندگی ذکر سے دور ہوتی ہے۔ برے خیالات کا دماغ میں آنا برا نہیں ہے انکو خود دماغ میں لانا اور جمانا برا ہے۔ جب بھی کوئی برا خیال دماغ میں آئے تو اسے جھٹک دینا چاہئے اور لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِا للہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمِ پڑھنا چاہئے۔ جو شخص یہ چاہے کہ مجھے نماز میں یکسوئی نصیب ہو اسے چاہئے کہ نماز کے علاوہ اوقات میں یکسوئی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
۴۔ طہارت قلب از مذمومات و محمودات
قلب کو مذمومات سے پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے دل میں غیر شرعی آرزوئیں اور تمنائیں نہیں ہونی چاہئیں۔ ایسی آرزوؤں کا بدلنا ضروری ہوتا ہے۔
تیری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے
تر ی دعا ہے کہ ہو تیر ی آر ز و پو ر ی
مر ی د عا ہے تری آ ر ز و بد ل جائے
محمودات سے قلب کو پاک کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اچھائیوں اور نیکیوں پر بھی انسان کی نظر نہ ہو۔ یعنی اپنی اچھی باتوں کا دل میں مان نہ ہو کہ میں بڑا نیک ہوں، یہ خود پسندی بھی بندے کے گرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ مشائخ کرام نے فرمایا ہے کہ متواضع گنہگار متکبر عابد سے افضل ہوتا ہے۔ اخلاقی برائیوں میں سے سب سے آخر پر عجب انسان کے دل سے نکلتا ہے۔ اس لئے حدیث پاک میں انسان کو ہلاک کر دینے والی باتوں کا تذکرہ ہوا تو اس میں سے ایک چیز کی نشاندہی کی گئ۔ فرمایا و اعجاب المرء بنفسہ کا آدمی کا اپنے نفس کو اچھا سمجھنا۔ تو یہ عجب بھی انسانوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔
طہارت دل از مذمومات و محمودات کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو دل میں برائیوں کے منصوبے ہوں اور نہ ہی بندہ اپنی نیکیوں پر فریفتہ ہو۔ طہارت کے یہ چار مراتب ہیں، اگر نماز کو بنانے کیلئے یہ چاروں مراتب حاصل کر لیں گے تو اللہ تعالیٰ مقام احسان والی نماز عطا فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں طہارت کے یہ سب مقامات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔
٭٭
وضو کا اہتمام
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
* اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
* حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)
* ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
* وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
* ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقت بِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
فضائل وضو
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ (وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔
حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ (تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی با وضو گزارو۔ ہمارے گھر کا چھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپ کو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر لیتے ہیں۔
حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھے کہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا ‘فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کے ساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کے ساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے سپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کر گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا ‘حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی’۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔
فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کے مشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
٭٭
مسواک کا اہتمام
ایک حدیث پاک میں ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر مجھے امت پر بوجھ کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کرنا فرض قرار دے دیتا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو نماز مسواک کے ساتھ وضو کر کے پڑھی جائے وہ اس نماز سے ستر گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے جو بغیر مسواک کے پڑھی جائے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کے اہتمام میں ستر فائدے ہیں۔ ایک فائدہ یہ ہے کہ مرتے وقت کلمہ نصیب ہوتا ہے۔
ایک حدیث پاک میں ہے کہ مسواک کا اہتمام کرو اس میں دس فائدے ہیں۔
* منہ کو صاف کرتی ہے۔
* اللہ تعالیٰ کی رضا کا سب ہے۔
* شیطان کو غصہ دلاتی ہے۔
* اللہ تعالیٰ اور فرشتے مسواک کرنے والے سے محبت کرتے ہیں۔
* مسوڑھوں کو قوت دیتی ہے۔
* بلغم کو قطع کرتی ہے۔
* منہ میں خوشبو پیدا کرتی ہے۔
* صفراء دور کرتی ہے۔
* نگاہ کو تیز کرتی ہے۔
* نبی علیہ السلام کی سنت ہے۔
علامہ شامیؒ نے رد المختار میں مختصراً مسواک کرنے کے مواقع کو تحریر فرمایا ہے جو درج ذیل ہیں۔
* وضو کے وقت۔
* لوگوں کے اجتماع میں شامل ہونے سے قبل۔
* منہ میں بدبو ہو جانے پر۔
* نیند سے بیدار ہونے پر۔
* نماز سے قبل اگرچہ کہ وہ پہلے با وضو ہو۔
* گھر میں داخل ہونے کے وقت۔
* قرآن کریم کی تلاوت کے وقت۔
(رد المختار ج۱ ، ص۸۰)
* مومن کو چاہئے کہ اپنے منہ کو صاف رکھے۔ چونکہ اسی منہ سے اللہ رب العزت کا قرآن پڑھنا ہوتا ہے۔
* صحابہ کرامؓ مسواک کی اتنی پابندی کرتے تھے کہ مسواک کو اپنے کان پر قلم کی طرح رکھا کرتے تھے۔
* ایک روایت میں ہے کہ جو شخص پابندی سے مسواک کرے موت کے وقت عزرائیلؑ اسے کلمہ یاد دلاتے ہیں۔
* ایک روایت کا مفہوم ہے کہ اگر تم پابندی سے مسواک کرو گے تو تمہاری عورتیں پاکدامنی کی زندگی گذاریں گی۔
حضرت علیؓ فرمایا کرتے تھے کہ تین چیزیں حافظہ کو قوی کرتی ہیں۔
* مسواک۔
* تلاوت قرآن۔
* روزہ۔
* بعض عورتیں اخروٹ کے درخت کی چھال استعمال کرتی ہیں جس سے منہ صاف ہو جاتا ہے وہ مسواک کے قائم مقام ہے۔ پیلو کے درخت کی مسواک بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔
* بعض لوگ برش اور پیسٹ سے منہ صاف کرنا معیوب سمجھتے ہیں۔ آج کل کی غذائیں اتنی مرغن ہوتی ہیں کہ اگر صرف لکڑی کی مسواک استعمال کی جائے تو دانت صحیح صاف نہیں ہوتے۔ ایسی صورت میں برش سے دانت صاف کرنا ضروری ہوتے ہیں۔ مسواک کرنے کا مقصد صرف خانہ پری نہیں ہوتی بلکہ منہ کو صاف کرنا ہوتا ہے اگر کسی کے منہ کے دانت مسواک سے صاف نہ ہوں تو برش پیسٹ سے صاف کرنے چاہئیں۔
* نبی علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی باہر سے گھر تشریف لاتے تھے تو اپنے دہن مبارک کو مسواک کے ذریعے خوب صاف فرماتے تھے۔
* آج کل کی سائنسی تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ رات کو سوتے وقت اپنے دانتوں کو ضرور صاف کرنا چاہئے۔ اکثر لوگوں کے دانت رات کے اوقات میں زیادہ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ منہ بند ہوتا ہے، بیکٹیریا کو اپنا کام کرنے کا خوب موقع مل جاتا ہے۔ نبی علیہ السلام کی عادت مبارکہ تھی کہ رات کو سونے سے پہلے مسواک کر لیا کرتے تھے۔ اس سنت کا اہتمام ضرور کرنا چاہئے۔
معارف وضو
درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتے ہیں۔
* وضو کو یکسوئی اور توجہ سے کرنا اعلیٰ مرتبہ کی نماز پڑھنے کا مقدمہ ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو عادتاً غفلت سے وضو کرے مگر نماز حضوری کے ساتھ پڑھے۔ پس معلوم ہوا کہ اہتمام وضو اور حضوری نماز میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
* مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ در حقیقت وضو انفصال عن الخلق (مخلوق سے کٹنا ہے) جبکہ نماز اتصال مع الحق (اللہ تعالیٰ سے جڑنا) ہے۔ جو شخص جس قدر مخلوق سے کٹے گا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے جڑے گا۔ یہی مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا۔ پس لا الہ کا مقصود یہ ہے کہ مخلوق سے کٹو اور الا اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جڑو۔ ماسوی اللہ سے قلبی تعلق توڑنے کو عربی زبان میں تبتل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً (المزمل: ۸) (اور اپنے رب کا نام پڑھے جا اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف سب چھوڑ کر چلا آ)
* پانی کی خاصیت یہ ہے کہ آگ کو بھجا دیتا ہے۔ لہذا جو شخص وضو کر کے حضوری کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو اس شخص کیلئے نماز دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔
* وضو میں شش جہات (چھ اطراف) سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ سے دائیں طرف۔ بائیں ہاتھ سے بائیں طرف۔ چہرہ دھونے سے آگے کی طرف۔ گردن کا مسح کرنے سے پیچھے کی طرف۔ سر کا مسح کرنے سے اوپر کی طرف اور پاؤں دھونے سے نیچے کی طرف سے پاکیزگی حاصل ہو گئ۔
* وضو کرنے سے انسان چھ اطراف سے پاکیزہ ہو گیا۔ پس محبوب حقیقی سے ملاقات کی تیاری مکمل ہو گئ۔ جب نماز ادا کرے گا تو اسے ملاقات بھی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ ( تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے) اسی لئے کہا گیا کہ اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِ (نماز مومن کی معراج ہے) حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے تو اعضاء دھلنے کے ساتھ ہی ان سے کئے گئے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ایسا کشف نصیب ہو گیا تھا کہ وہ وضو کے پانی کے ساتھ گناہ کو جھڑتا دیکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وضو کے مستعمل پانی کو مکروہ کہا۔ ویسے بھی نمازی کو حکم ہے کہ وضو کا پانی کپڑوں پر نہ گرنے دے۔بعض مشائخ کا معمول تھا کہ وضو کے وقت جو لباس زیب تن فرماتے تھے اسے بدل کر نماز ادا فرماتے تھے۔
* شرع شریف میں پاکیزگی اور طہارت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھَّرِیْنَ (البقرہ: ۲۲۲)(بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)
* توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوئے تو انسان باطنی طور پر پاکیزہ ہو گیا۔ حدیث پاک میں اسی مضمون کو مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے جسم پر میل کچیل نہیں رہ سکتی۔ جو شخص پانچ مرتبہ اہتمام سے وضو کرے اور حضوری سے نماز ادا کرے اسکے دل پر سیاہی نہیں رہ سکتی۔
* شرع شریف کا حسن و جمال دیکھئے کہ وضو میں سارا جسم دھلانے کے بجائے صرف انہی اعضاء کو دھلوانے پر اکتفا کیا گیا جو اکثر و بیشتر کام کاج میں کھلے رہتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ، پاؤں ، بازو، چہرہ وغیرہ۔ جو اعضاء کم کھلتے ہیں ان کا مسح کروایا گیا مثلاً سر اور گردن۔ جو اعضاء پردے میں رہتے ہیں انکو مستثنیٰ قرار دیا گیا مثلاً شرمگاہ وغیرہ۔
* وضو میں جن اعضاء کو دھلوایا گیا قیامت کے دن انہی کو نورانی حالت عطا کی جائے گی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں امت اپنے اعضاء کی نورانیت سے پہچان لی جائے گی۔
* وضو مین جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے قیامت کے دن ان اعضاء کو عزت و شرافت سے نوازا جائے گا۔ ہاتھوں میں حوض کوثر کا جام عطا کیا جائے گا۔ چہرے کو تروتازہ بنا دیا جائے گا جیسے فرمایا وُجُوْہٌ یَّوْ مَئِذٍ نَّاعِمَہٌ (اس دن چہرےتروتازہ ہوں گے) سر کو عرش الٰہی کا سایہ عطا کیا جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے یوم لا ظل الا ظل عرشہ ( قیامت کے دن عرش الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا) پاؤں کو پل صراط پر چلتے وقت استقامت عطا کی جائے گی۔
وضو میں چند علمی نکات
علمی نکتہ۔ ۱
وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب
پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے ولا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اسکو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔
علمی نکتہ۔ ۲
وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟
جواب
حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ تاکہ انسان اپنی تمام غلطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سے شجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اسکی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
علمی نکتہ۔ ۳
وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کیوں کی گئ؟
جواب
تاکہ موت کے وقت مال سے ہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔
علمی نکتہ۔ ۴
وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟
جواب
وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلاً سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سے ہیں مثلاً ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔
علمی نکتہ۔ ۵
تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟
جواب
تیمم اس وقت کرتے ہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پر بوجھ کم کر دیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سے کون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سے چنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرے کو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتے ہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئ البتہ ذرائع عمل میں سے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلیٰ ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلیٰ اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔ علمی نکتہ ۶: تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
علمی نکتہ۔ ۶
تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
جواب
وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیا جاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورے سر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسے بھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت سر پر مٹی ڈالتے ہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کر دیا گیا تاکہ جہلا کے عمل سے مشابہت نہ ہو۔
عملی نکتہ۔ ۷
تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟
جواب
انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کتا ہے۔اس لئے انکا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پر خوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)
(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)
کفار کے چہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔
وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)
(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)
دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئے بعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتْماً مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)
(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔
وضو کے فوائد سائنسی نکتہ نظر سے
دن میں پانچ بار وضو کرنے میں سائنسی نقطہ نظر سے بہت زیادہ جسمانی فوائد ہیں۔ درج ذیل میں انکی تفصیل پیش کی جاتی ہے۔
ہاتھ دھونا
کام کاج کے دوران انسان کے ہاتھ بعض ایسی اشیاء پر لگتے ہیں جن پر بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم لگے ہوتے ہیں۔ وہ جراثیم ہاتھوں سے چمٹ جاتے ہیں جب انسان کے ہاتھ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے لگتے ہیں تو وہ جراثیم وہاں منتقل ہو جاتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے پھیلنے کا باعث بنتے ہیں۔ نمازی انسان دن میں کم از کم پانچ مرتبہ اپنے ہاتھوں کو دھوتا ہے لہذا اسکے ہاتھ صاف ستھرے رہتے ہیں۔ بہت سی بیماریوں سے خود بخود بچاؤ ہو جاتا ہے۔
کلی کرنا
انسان جب کوئی چیز کھاتا ہے تو دانتوں کی درمیانی جگہوں میں اسکے اجزاء پھنس جاتے ہیں۔ اگر منہ کو اچھی طرح صاف نہ کیا جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اجزاء گل سڑ جاتے ہیں۔ منہ سے بدبو آنی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر دوبارہ کھانا کھایا جائے تو یہ گندے اجزاء کھانے کے ساتھ مل کر معدے میں پہنچ جاتے ہیں اور پیٹ کی بیماریوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔ وضو کرنے والا انسان دن میں پانچ مرتبہ اپنے منہ کو اچھی طرح صاف کرتا ہے لہذا دانتوں کی اور آنتوں کی بیماریوں سے بچا رہتا ہے۔
ناک میں پانی ڈالنا
انسان کے پھیپھڑوں میں ہوا کا جانا اور آکسیجن کا جسم کو مہیا ہونا انسانی زندگی کا سبب ہے۔ ہوا میں مختلف جراثیم اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہوتے ہیں اللہ نے انسان کے ناک میں بال اگا کر ائر فلٹر بنا دیا تاکہ صاف ہوا جسم کو ملے۔ جس طرح گاڑیوں کے ائر فلٹر کچھ عرصے بعد چوک ہو جاتے ہیں انکو صاف کرنا پڑتا ہے اسی طرح انسان کی ناک میں مختلف جراثیم اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ ناک کو بار بار صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی بھی انسان اپنے ناک میں دن میں ایک دو مرتبہ سے زیادہ پانی ڈال کر صاف نہیں کرتا ہو گا مگر ایک مسلمان نمازی دن میں پانچ مرتبہ اپنے ناک کی پانی سے صفائی کرتا ہے۔
چہرہ دھونا
وضو کے دوران چہرے کا دھونا فرض ہے۔ جب چہرہ دھویا جاتا ہے تو اسکی جلد صاف ہو جاتی ہے، مسام کھل جاتے ہیں تر و تازگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مزید برآں چہرہ دھوتے وقت آنکھوں میں پانی کا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ آنکھوں کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دن میں چند بار آنکھوں میں تازہ پانی کے چھینٹے مارے جائیں تو آنکھیں کئ بیماریوں سے محفوظ ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر صبح کے وقت جب کہ ہوا میں اوزون (۰۳) کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے پانی کے چھینٹے آنکھوں میں مارنے سے انسان موتیا بند کی بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
گردن کا مسح کرنا
انسانی دماغ سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی رگیں (نروز) پورے جسم میں پھیل جاتی ہیں اور مختلف اعضاء کو سگنل پہنچانے کا کام کرتی ہیں۔ یہ سب رگیں دماغ سے نکل کر گردن کے پیچھے سے ہوتی ہوئی ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے جسم کی مختلف جگہوں سے ملی ہوتی ہیں۔ گردن کے پیچھے کا حصہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اس حصے کو خشک رکھا جائے تو رگیں کھنچے کی وجہ سے انسان کے دماغ پر اسکا اثر پڑتا ہے۔ کئی لوگ تو دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ ڈاکٹر لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ وہ گردن کے پچھلے حصے کو وقتاً فوقتاً تر کرتے رہیں۔ نمازی آدمی جب وضو کرتا ہے تو اسے یہ نعمت خود بخود مل جاتی ہے۔
ایک شخص فرانس کے ائر پورٹ پر وضو کر رہا تھا تھا اس سے کسی نے پوچھا کہ آپ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں اس نے کہا پاکستان سے ۔ سائل نے پوچھا کہ پاکستان میں کتنے پاگل خانے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے تعداد کا پتہ نہیں ویسے چند ایک ہی ہوں گے۔ سائل نے اپنا تعارف کروایا کہ میں یہاں کے ایک پاگل خانے کے ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ میری پوری عمر اس تحقیق میں گزری ہے کہ لوگ پاگل کیوں ہوتے ہیں؟ میری تحقیق کے مطابق جہاں اور بہت ساری وجوہات ہیں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی گردن کے پچھلے حصے کو خشک رکھتے ہیں۔ کھچاؤ کی وجہ سے رگوں پر اسکا اثر ہوتا ہے۔ جو لوگ اس جگہ کو وقتاً فوقتاً نمی پہنچاتے رہیں وہ پاگل ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے ہاتھ پاؤں دھونے کے ساتھ ساتھ گردن کے پیچھے کے حصے پر بھی گیلے ہاتھ پھیرے۔ نمازی نے بتایا کہ وضو کرتے وقت گردن کا مسح کیا جاتا ہے اور ہر نمازی دن میں پانچ مرتبہ گردن کا مسح کرتا ہے۔ ڈاکٹر کہنے لگا کہ اسی لئے آپ کے ملک میں لوگ کم تعداد میں پاگل ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر۔ ایک ڈاکٹر کی پوری زندگی کی تحقیق نبی علیہ السلام کے بتائے ہوئے ایک چھوٹے سے عمل پر آ کر ختم ہو گئ۔
پاؤں دھونا
انسانی جسم میں بعض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جن کا اثر پاؤں پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً شوگر کے مریض کے پاؤں پر زخم بھی ہو جائیں تو اسے پتہ نہیں چلتا۔ ڈاکٹر لوگ شوگر کے مریض کو سمجھاتے ہیں کہ وہ اپنے پاؤں کو صاف رکھے۔ دن میں چند مرتبہ اسے غور سے دیکھے کہ کہیں کوئی زخم وغیرہ تو نہیں۔ اچھی طرح پاؤں کا مساج کرے تاکہ خون کی شریانوں میں اگر کہیں رکاوٹ ہے تو وہ دور ہو جائے۔ نمازی آدمی دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتا ہے تو یہ سب کام خود بخود ہو جاتے ہیں۔ پاؤں کی انگلیوں کے درمیان فنگس کی وجہ سے زخم ہو جاتے ہیں۔ وضو کرنے والا انگلیوں کے درمیان خلال کرتا ہے تو اسے صورتحال کا پتہ چل جاتا ہے ۔ پاؤں زمین کے قریب ہونے کی وجہ سے بہت جلد جراثیم کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ انہیں صاف رکھنا اور متعدد بار دھونا بہت ضروری ہے۔ یہ نعمت نمازی کو وضو کے دوران نصیب ہو جاتی ہے۔ اسے کہتے ہیں ہم خرما و ہم ثواب کہ وضو کرنے سے گناہ بھی جھڑ گئے اور جسمانی بیماریوں سے بھی نجات مل گئ۔
وضو کے ان فضائل، معارف اور فوائد و ثمرات کو دیکھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ اللہ رب العزت نے وضو کا حکم فرما کر ہمارے اوپر کس قدر احسان فرمایا۔
٭٭
اذان کا جواب
شرع شریف میں نماز با جماعت کیلئے اذان دینا واجب ہے۔ بعض صحابہ کرامؓ نے خواب میں اذان کے کلمات سنے۔ جب نبی علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا تو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ بلالؓ کو یہ کلمات بتا دو۔ صحابہ کرامؓ میں سے چار حضرات کو مسجد نبوی کا مؤذن ہونے کا شرف حاصل رہا۔ (۱)حضرت بلالؓ بن رباح (۲) عمر بنؓ ام مکتوم (۳) سعد بن قرظؓ (۴) حضرت ابو محذورہ
اذان کے علمی نکات
* جب اذان میں چار مرتبہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت آگ پانی ہوا اور مٹی گویا ہر چیز کی طاقت سے زیادہ ہے پس اس پروردگار کی طرف آ جاؤ، تمہیں اسکے گھر میں بلایا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی کہ چاروں اطراف میں پیغام پہنچانے کیلئے چار مرتبہ اللہ اکبر کہا گیا۔
* حضرت عبداللہ بن عباسؓ جب اذان کی اللہ اکبر سنتے تو اتنا روتے کہ چادر بھیگ جاتی۔ کسی نے پوچھا تو بتایا کہ میں اللہ اکبر کے الفاظ سنتا ہوں تو عظمت الہیٰ اور ہیبت الہیٰ کی ایسی کیفیت دل پر طاری ہوتی ہے کہ گریہ طاری ہو جاتا ہے۔
* اذان میں حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے الفاظ سے یہ بتایا گیا کہ نماز میں فلاح ہے۔ یہی پیغام قرآن مجید میں دیا گیا کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلوٰ تِھِمْ خَاشِعُوْنَ (المؤمنون : ۱۔۲) (کامیاب ہو گئے ایمان والے، جو اپنی نماز میں جھکنے والے تھے) پس اذان اور نماز کے پیغام میں مطابقت موجود ہے۔
* مؤذن اللہ اکبر کے الفاظ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی گواہی دے رہا ہوتا ہے لہذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کو عزت و شرافت سے نوازیں گے۔ حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن مؤذن کا چہرہ منور ہو گا اور اسکی گردن دوسروں کی نسبت اونچی ہو گی۔ یہ اعزاز اسے اذان دینے کی وجہ سے ملیں گے۔
* علماء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی کافر اپنے ارادے سے اذان دے تو اسکے مسلمان ہونے کا فتویٰ دیا جائے گا۔
* ایک مرتبہ نبی علیہ السلام نے مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان کھڑے ہو کر فرمایا کہ مؤذن اذان دے تو سننے والے کو چاہئے کہ وہی الفاظ کہے جو مؤذن کہتا ہے البتہ حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے۔ اسی طرح فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہے تو جواب میں یوں کہا جائے صَدَقْتَ وَ بَرَرْتَ (تو نے سچ کہا اور تو بری ہو گیا)
* جب بچہ پیدا ہو تو اسکے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔ اس کا مقصد اصلی اس بچے کے کان میں اللہ رب العزت کی عظمت کو پہنچانا ہوتا ہے۔
* مولانا احمد علی لاہوریؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان جب اذان کی آواز سنے تو ادب کی وجہ سے خاموش ہو جائے، اذان کا جواب دے اور آخر پر مسنون دعا پڑھے۔ تجربہ ہے کہ اذان کے ادب کی وجہ سے اسے موت کے وقت کلمہ پڑھنے کی توفیق نصیب ہو گی۔
* زبیدہ خاتون ایک نیک ملکہ تھی۔ اس نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوق خدا کو بہت فائدہ پہنچایا۔ اپنی وفات کے بعد وہ کسی کو خواب میں نظر آئی۔ اس نے پوچھا کہ زبیدہ خاتون! آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟ زبیدہ خاتون نے جواب دیا کہ اللہ رب العزت نے بخشش فرما دی۔ خواب دیکھنے والے نے کہا، آپ نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوق کو فائدہ پہنچایا آپ کی بخشش تو ہونی ہی تھی۔ زبیدہ خاتون نے کہا نہیں، نہیں۔ جب نہر زبیدہ والا معاملہ پیش ہوا تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ کام تو تم نے خزانے کے پیسوں سے کروایا۔ اگر خزانہ نہ ہوتا تو نہر بھی بنتی۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے میرے لئے کیا عمل کیا۔ زبیدہ نے کہا کہ میں تو گھبرا گئ کہ اب کیا بنے گا۔ مگر اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرمائی۔ مجھے کہا گیا کہ تمہارا ایک عمل ہمیں پسند آ گیا۔ ایک مرتبہ تم بھوک کی حالت میں دسترخوان پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھی کہ اتنے میں اللہ اکبر کے الفاظ سے اذان کی آواز سنائی دی۔ تمہارے ہاتھ میں لقمہ تھا اور سر سے دوپٹہ سرکا ہوا تھا۔ تم نے لقمے کو واپس رکھا، پہلے دوپٹے کو ٹھیک کیا ، پھر لقمہ کھایا۔ تم نے لقمہ کھانے میں تاخیر میرے نام کے ادب کی وجہ سے کی چلو ہم نے تمہاری مغفرت کر دی۔
* حضرت امام احمد بن حنبلؒ کے مکان کے سامنے ایک لوہار رہتا تھا۔ بال بچوں کی کثرت کی وجہ سے وہ سارا دن کام میں لگا رہتا۔ اسکی عادت تھی کہ اگر اس نے ہتھوڑا ہوا میں اٹھایا ہوتا کہ لوہا کوٹ سکے اور اسی دوران اذان کی آواز آ جاتی تو وہ ہتھوڑا لوہے پر مارنے کی بجائے اسے زمین پر رکھ دیتا اور کہتا کہ اب میرے پروردگار کی طرف سے بلاوا آ گیا ہے میں پہلے نماز پڑھوں گا پھر کام کروں گا۔ جب اسکی وفات ہوئی تو کسی کو خواب میں نظر آیا۔ اس نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگا کہ مجھے امام احمد بن حنبلؒ کے نیچے والا درجہ عطا کیا گیا۔ اس نے پوچھا کہ تمہارا علم و عمل تو اتنا نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا کہ میں اللہ کے نام کا ادب کرتا تھا اور اذان کی آواز سنتے ہی کام روک دیتا تھا تاکہ نماز ادا کروں اس ادب کی وجہ سے اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرما دی۔
* امام ابن سیرینؒ کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ میں نے دیکھا کہ خواب کی حالت میں اذان دے رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا تجھے عزت نصیب ہو گی۔ کچھ عرصے کے بعد اس شخص کو عزت ملی۔ دوسرے شخص نے خواب دیکھا کہ اذان دے رہا ہوں۔ ابن سیرینؒ نے فرمایا کہ تجھے ذلت ملے گی وہ شخص کچھ عرصے بعد چوری کے جرم میں گرفتار ہوا اسکے ہاتھ کاٹے گئے۔ ابن سیرینؒ کے ایک شاگرد نے پوچھا کہ حضرت دونوں نے ایک جیسا خواب دیکھا مگر تعبیر مختلف کیوں ہوئی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب پہلے نے اذان دیتے ہوئے دیکھا تو میں نے اس شخص میں نیکی کے آثار دیکے تو مجھے قرآن میں یہ آیت سامنے آئی وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّ (الحج:۲۶) ‘اور پکار دے لوگوں کو حج کے واسطے’ میں نے تعبیر دی کہ اسے عزت ملے گی۔ جب دوسرے نے خواب سنایا تو اسکے اندر فسق و فجور کے آثار تھے۔ مجھے قرآن مجید کی یہ آیت سامنے آئی۔ ثُمَّ اَذَّنَ مُؤَذِّنْ اَیَّتُھَا الْعِیْرُ اِنَّکُمْ لَسَارِ قُوْنَ (یوسف: ۷۰) ‘پھر پکارا پکارنے والے نے، اے قافلہ والو: تم تو البتہ چور ہو) پس میں نے یہ تعبیر لی اس شخص کو ذلت ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔’
* اگر کوئی شخص خواب میں دیکھے کہ میں بے وقت اذان دے رہا ہوں تو اسکی تعبیر یہ ہے کہ اسے ذلت ملے گی۔ اگر عورت خواب میں دیکھے کہ اذان دے رہی ہے تو وہ بیمار ہو گی۔
* ایک شخص نے ابن سیرینؒ سے خواب بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ میں مردوں کے منہ پر اور عورتوں کی شرمگاہوں پر مہر لگا رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا لگتا ہے کہ تم مؤذن ہو اور ماہ رمضان میں وقت سے پہلے فجر کی اذان دیتے ہو۔ تحقیق کرنے پر تعبیر صحیح نکلی۔ چونکہ اذان کی آواز سن کر لوگ روزے کی نیت کر لیتے تھے لہذا وہ لوگوں کو کھانے پینے اور جماع سے روکتا تھا حالانکہ ابھی اذان کا وقت نہیں ہوتا تھا۔
اذان کا جواب
مؤذن جب اذان دیتا ہے تو اسکا جواب دینے کے دو انداز ہیں پہلا یہ کہ زبان سے اسکا جواب دے یہ سنت ہے۔ دوسرا یہ کہ عملی جواب دے اور نماز با جماعت کیلئے مسجد میں آ جائے یہ واجب ہے۔
سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے۔
عن عائشۃؓ کان رسول اللہ ﷺ یحد ثنا و نحدثہٗ فا ذا حضرت الصلوۃ فکانہ لم یعرفنا ولم نعرفہٗ (احیاء)
(حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے باتیں کرتے رہتے ہم بھی آپ سے باتیں کرتے لیکن جب نماز کا وقت آ جاتا تو آپ ایسے ہو جاتے جیسے نہ آپ ہمیں پہچانتے ہیں نہ ہم آپ کو پہچانتے ہیں)
امام زین العابدین جب اذان کی آواز سنتے تو آپ پر ہیبت طاری ہو جاتی۔ آپ فرمایا کرتے۔
اتدرون بین یدی من اردید ان اقوم(احیاء)
(کیا تم جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہونا چاہتا ہوں)
حضرت سعید بن المسیبؓ کے بیس برس ایسے گذرے کہ جب اذان ہوئی تو وہ مسجد میں پہلے سے موجود تھے۔
حضرت سالم حداد اذان کی آواز سن کر کھڑے ہو جاتے۔ دکان کھلی چھوڑ کر چل دیتے اور یہ اشعار پڑھتے۔
اذا ما دعا دا عیکہ قمت مسرعاً
مجیباً لمولیٰ جل لیس لہٗ مثل
(جب تمہارا منادی پکارنے کیلئے کھڑا ہو جاتا ہے تو میں جلدی سے کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ایسے مالک کی پکار کو قبول کرتے ہوئے جس کی بڑی شان ہے اسکی مثل کوئی نہیں)
اجیب اذا نادیٰ بسمع و طا عۃٍ
وبی نشوۃ لبیک یا من لہ الفضل
(میں جواب میں کہتا ہوں اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ بحالت نشاط میں، اے فضل و بزرگی والے میں حاضر ہوں)
و یصفر لو نی خیفۃً و مھا یۃً
و یرجع لی عن کل شغل بہٖ شغلً
( اور میرا رنگ خوف اور ہیبت سے زرد پڑ جاتا ہے اور اس ذات کی مشغولیت مجھے ہر کام سے بے خبر کر دیتی ہے)
و حقکم ما لذلی غیر ذ کر کم
و ذکر سوا کم فی فمی قط لا یجدو
( اور تمہارے حق کی قسم ۔ تمہارے ذکر کے سوا مجھے کو ئی چیز لذیذ نہیں لگتی اور تمہارے سوا کسی کے ذکر میں مجھے مزہ نہیں آتا)
متیٰ یجمع الایام بینی و بینکم
ویفرح مشتاق اذا جمع الشمل
(دیکھیں زمانہ مجھے اور تمہیں کب جمع کرے گا اور عاشق تو تبھی خوش ہوتا ہے جب اسے وصل حاصل ہو)
فمن شا ھد ت عیناہ نور جما لکم
یموت اشتیاقاً نحوکم قط لا یسلوا
(جس کی آنکھوں نے تمہارے جمال کا نور دیکھ لیا ہے۔ وہ تمہارے اشتیاق میں جان دے دیگا مگر تسلی نہ ہو گی)
حضرت معاذ ابن انسؓ سے روایت ہے۔
عن رسول اللہ ﷺ انہ قال الجفاء کل الجفاء والکفر والنفاق من سمع منادی اللہ ینادی الی الصلوٰۃ فلا یجیبہٗ
(سراسر ظلم اور کفر اور نفاق ہے ، جو شخص اللہ کی منادی کی آواز سنے کہ وہ مسجد کی طرف بلاتا ہے اور پھر یہ اس کا جواب نہ دے یعنی مسجد میں جماعت کیلئے حاضر نہ ہو) (احمد)
نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ من سمع النداء فلم یمنعہٗ من اتباعہٖ عذر قالوا وما العذر قال خوف او مرض لم تقبل صلوٰۃ التی صلّیٰ۔ (ابوداؤد)
(حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اذان سنی اور اس نے اسکی اتباع نہ کی، سوائے اسکے کہ اس کو کوئی عذر مانع ہو تو ایسے شخص کی نماز قبول نہ ہو گی۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ عذر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا خوف اور بیماری۔)
٭٭
مساجد سے محبت
ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَداً۔
(یہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں نہ تم پکارو اللہ کے ساتھ کسی کو۔ الجن ۱۸)
مساجد ان جگہوں کو کہا جاتا ہے جہاں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے۔ مساجد بیت اللہ شریف کی شاخیں ہیں۔ قیامت کے دن تمام مساجد کو بیت اللہ شریف کے ساتھ ملا کر جنت کا حصہ بنا دیا جائیگا۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہوتی ہے۔ اس پر خرچ کرنا، اسے پاک صاف رکھنا اس میں عبادت کرنا اور اس سے محبت رکھنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے کی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ
(بے شک وہی آباد کرتا ہے اللہ تعالیٰ کی مسجدیں جو اللہ پر یقین رکھتا ہے۔ التوبہ۱۸)
* حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مسجد سے الفت رکھے اللہ تعالیٰ اس سے الفت رکھتے ہیں۔ (جامع الصغیر)
انسانی فطرت ہے کہ اسے جس جگہ سے محبت ہو اس کا دل چاہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت وہاں گذرے۔ مومن مسجد میں آ کر اس طرح پر سکون ہو جاتا ہے جیسے بچہ ماں کی گود میں آ کر پر سکون ہو جاتا ہے۔
* نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا
المومن فی المسجد کالسمک فی الماء
(مومن مسجد میں ایسے ہی ہے جیسے مچھلی پانی میں)
اردو زبان میں ماہی بے آب کا فقرہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ مچھلی پانی سے جدا ہو کر جس طرح تڑپتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ جبکہ مچھلی ساری عمر پانی میں رہے تب بھی اس کا دل نہ بھرے۔ یہی حال مومن کا ہوتا ہے کہ وہ مسجد میں رہ کر پر سکون ہوتا ہے اور مسجد سے جدا ہو کر مضطرب ہوتا ہے۔ مومن با وضو ہو کر مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کا دل اس طرح خوش ہوتا ہے جس طرح دولہا اپنی بارات کے ساتھ خوش دلی سے چلتا ہے۔ دولہا کو اپنی زوجہ سے جسمانی ملاپ نصیب ہونے پر خوشی ہوتی ہے جبکہ مومن کو مسجد میں نماز ادا کر کے اپنے پروردگار سے روحانی ملاپ ہونے پر خوشی ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی علیہ السلام فرماتے تھے۔
ارحنی یا بلال
(اے بلال ! ہمیں راحت دو)
اور نماز کے متعلق فرمایا کرتے
قرۃ عینی فی الصلوۃ
(میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے)
دنیا داری کا نفسانی تعلق رکھنے والے عشاق کے لیے محبوب کی گلی سے گزرنا اس کے مکان کی طرف دیکھنا اور اس کے مکان کے گرد چکر لگانا باعث طمانیت ہوتا ہے۔
مومن بھی مسجد کی طرف چلنا اور مسجد میں وقت گزارنے کو دلی سکون کا باعث محسوس کرتے ہیں۔
سنا ہے مجنوں نے لیلیٰ کی محبت میں یہ اشعار کہے۔
اطوف علی الجدار دیار لیلیٰ
اقبل ذالجدار و ذالجدارا
و ما حب الدیار شغفن قلبی
و لکن حب من سکن الدیارا
(میں لیلیٰ کے گھر کی دیواروں کا طواف کرتا ہوں کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں کبھی اس دیوار کو۔ اور در اصل ان گھروں کی محبت نہیں میرے دل پر چھا گئی بلکہ اس مکین کی محبت ہے جو اس مکان میں رہتا ہے)
مومن بھی بار بار مسجد کی طرف چل کے جانے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے۔
* نبی علیہ السلام نے اندھیرے میں چل کر مسجد میں جانے والوں کو خوشخبری بھی سنائی۔
عن سہیل بن سعد الساعدیؓ قال قال رسول اللہ ﷺ بشر المشائین فی الظلم الی المساجد بالنور التام یوم القیٰمۃ (ابن ماجہ)
(حضرت سہیل بن سعد ساعدیؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘اندھیروں میں مسجدوں کی طرف چلنے والوں کو قیامت کے دن کے کامل نور کی خوش خبری دے دو’)
* ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سات آدمی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوگا۔ اٹکا ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہو مسجد سے متعلقہ امور کے بارے میں فکر مند رہتا ہو اور اس کا بیشتر وقت یا تو مسجد کے اندر گزرتا ہو یا مسجد سے متعلقہ کاموں میں گزرتا ہو۔
* ایک حدیث پاک میں وارد ہے کہ مشقت کے وقت وضو کرنا اور مسجد کی طرف قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں (مسجد میں) بیٹھے رہنا گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ (جامع الصغیر)۔
* حضرت ابو سعیدؓ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جس شخص کو مسجد کا عادی دیکھو تو اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو۔
* ایک حدیث میں ہے کہ مسجدیں جنت کے باغ ہیں۔ (جامع الصغیر)
* ایک حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میرے پڑوسی کہاں ہیں ؟ فرشتے پوچھیں گے کہ آپ کے پڑوسی کون ہیں ؟ ارشاد ہو گا کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے۔
* ایک حدیث میں ہے کہ جب آسمان سے کوئی بلا نازل ہوتی ہے تو مسجد کے آباد کرنے والوں سے ہٹا لی جاتی ہے۔ (جامع الصغیر)
* حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور گھر آنے والے کا اکرام ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ پر ان کا اکرام ضروری ہے جو مسجدوں میں حاضر ہونے والے ہیں۔
* حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں کسی جگہ عذاب بھیجنے کا ارادہ کرتا ہوں مگر وہاں ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مسجدوں کو آباد کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے واسطے آپس میں محبت کرتے ہیں ، اخیر راتوں میں استغفار کرتے ہیں تو عذاب کو موقوف کر دیتا ہوں۔ (در منشور)
* حضرت ابو الدرداءؓ نے حضرت سلمان فارسیؓ کو خط لکھا:
‘اکثر اوقات مسجد میں گزارا کرو۔ میں نے نبی علیہ السلام سے سنا ہے کہ مسجد متقی کا گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا عہد فرما لیا ہے کہ جو شخص اکثر اوقات مسجد میں رہتا ہے اس پر رحمت کروں گا۔ اس کو راحت دوں گا۔ قیامت میں پل صراط کا راستہ آسان کروں گا اور اپنی رضا نصیب کروں گا۔
* بعض مشائخ سے منقول ہے کہ روز محشر نمازی لوگ پل صراط سے اپنی مسجدوں میں اس طرح سوار ہو کر گزریں گے جس طرح دنیا میں لوگ بحری جہازوں پر سوار ہو کر سمندروں میں سے گزر جاتے ہیں۔
* ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے زیادہ نا پسندیدہ جگہیں بازار ہیں۔ اس بات کو بتانے کے لیے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے اتنا قریب بلایا کہ مجھے اتنا قرب پہلے کبھی نصیب نہیں ہوا۔
* مشائخ عظام سے منقول ہے کہ:
‘اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے خوش ہوتے ہیں تو اسے مسجد کا منتظم بنا دیتے ہیں پس وہ ہر وقت مسجد کی خدمت میں اور اس کے کاموں کو سمیٹنے میں مشغول رہتا ہے۔’
آج کل کے متولی حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ مسجد کے کام کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کریں۔ نام و نمود اور مخلوق کی واہ واہ پر نظر نہ ڈالیں۔ یہ طمع دل میں نہ رکھیں کہ لوگ ہماری تعریف کریں گے۔ مسجد کے ائمہ و خطباء کا اکرام کریں انہیں اپنی رعایا نہ سمجھیں ۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احسان مند رہیں کہ اس نے اپنے گھر کی خدمت کے لیے چن لیا ہے۔
منت منہ کہ خدمت سلطاں ہمی کنی
منت ازوشناس کہ در خدمت گزاشت
(اے مخاطب تو احسان نہ جتلا کہ بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے۔ (اس کی خدمت کرنے والے لاکھوں) یہ بادشاہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں خدمت کے لیے قبول کر لیا)
* ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ ایک مسجد کے متولی کا حساب ہو رہا ہے۔ متولی سخت پریشانی کے عالم میں ہے۔ اتنے میں ایک مسجد کو سامنے پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ شخص ہر وقت اس مسجد کی خدمت میں لگا رہتا تھا۔ فرشتوں نے مسجد کی مٹی سے مٹھی بھر بھر کے میزان میں ڈالنی شروع کی۔ ہر مٹھی مٹی میزان میں جا کر احد پہاڑ کی مانند بن جاتی۔ دیکھتے دیکھتے متولی کی نیکیوں کا پلڑا جھک گیا اور اسے جنت بھیج دیا گیا۔
* علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص مسجد میں جھاڑو دیتا ہے تو اڑنے والے گردو غبار کا ایک ایک ذرہ جنتی حور کا حق مہر بن جاتا ہے۔ ۱۸۔ علماء نے لکھا ہے کہ جس نوجوان کی شادی میں رکاوٹ ہو۔ اگر وہ مسجد میں جھاڑو دے اور خدمت کرے تو اس خدمت کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو خادمہ عطا فرما دیتے ہیں۔
* مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنا حرام ہے۔ نیکیاں برباد گناہ لازم والا معاملہ ہے۔ حضرت سعید بن مسیبؓ نے فرمایا کہ ‘ جو شخص مسجد میں بیٹھے وہ اپنے رب کے ساتھ ہم نشینی کرتا ہے اس کے حق میں یہی مناسب ہے کہ خیر کے علاوہ اور کوئی بات نہ کہے۔’
* نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آخر زمانے میں میری امت میں سے کچھ لوگ آئیں گے اور مسجدوں میں آ کر حلقہ بنا کر بیٹھیں گے، ان کا ذکر دنیا اور دنیا کی محبت ہو گی، تم ان کے پاس مت بیٹھنا کہ اللہ تعالیٰ کو ان سے کچھ مطلب نہیں۔
* جو شخص نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھے یا اعتکاف کی نیت سے بیٹھے تو اسے ہر سانس پر ۱۰ نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔
* مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کی آیت کے مطابق جو شخص اذان سے پہلے نماز با جماعت کے لیے مسجد میں آ جائے وہ سابق بالخیرات میں سے ہے۔ جو اذان سن کر مسجد میں آ جائے وہ مقتصد لوگوں میں سے ہے۔ جو اذان کی آواز سن کر بھی مسجد میں نہ آئے وہ ظالم لنفسہ میں سے ہے۔
* ایک حدیث میں ہے کہ
من الف المسجد الفہ اللہ تعالیٰ (طبرانی)
(جو شخص مسجد سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں)
* علامہ زمحشریؒ حج بیت اللہ کے لیے گئے تو مسجد حرام میں ڈیرے لگا لیے۔ جب دیکھو مسجد میں موجود۔ جب دیکھو مسجد میں موجود۔ لوگوں نے ان کا نام جار اللہ (اللہ کا پڑوسی ) رکھ دیا۔ محمد ابن سیرینؒ کی بہن حفصہ بن سیرین نے گھر میں مسجد بنائی ہوئی تھی۔ انہوں نے زندگی کے ۳۵ سال اس حال میں گزارے کہ قضائے حاجت کے لیے مسجد سے نکلتیں اور بقیہ وقت اعتکاف کی نیت سے مسجد میں گزار دیتیں۔
* حدیث پاک میں ہے من بنیٰ للہ مسجد ابنی اللہ لہ بیتا فی الجنۃ
(جو اللہ کے لیے مسجد بنائے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید