FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

نماز کے اوقات کا بیان

 

باب : نماز کے اوقات اور ان کی فضیلت (کا بیان)

(۳۲۵)۔ سیدنا ابو مسعو د انصاریؓ، مغیرہ بن شعبہؓ کے پاس گئے، جبکہ وہ عراق میں تھے اور ایک دن نماز میں تاخیر ہو گئی تھی، کہا کہ اے مغیرہ ! (تم نے)  یہ کیا کیا ؟ تم نہیں جانتے کہ (ایک دن)  جبریلؑ تشریف لائے اور انھوں نے نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے (بھی)  پڑھی، پھر (دوسری)  نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (تیسری)  نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (چوتھی)  نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر (پانچویں)  نماز پڑھی تو رسول اللہﷺ نے بھی پڑھی، پھر جبریلؑ نے کہا کہ مجھے اسی طرح حکم ہوا ہے۔

باب : نماز (گناہوں)  کا کفارہ ہے

(۳۲۶)۔ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لو گ امیر المومنین عمرؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کہا کہ فتنہ کے بارے میں رسول اللہﷺ کی حدیث تم میں سے کسے یاد ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے (بالکل اسی طرح)  یاد ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا۔ امیر المومنین عمرؓ  نے فرمایا کہ پھر بیان کیجیے تو میں نے کہا کہ آدمی کا وہ فتنہ جو اس کی بیوی اور اس کے مال اور اولاد میں ہوتا ہے نماز، روزہ، صدقہ اور امر (بالمعروف)  اور نہی (عن المنکر)  اس کو مٹا دیتا ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے کہا کہ میں یہ نہیں (پوچھنا)  چاہتا بلکہ وہ فتنہ جو دریا کی طرح موج زن ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین ؟ اس فتنہ سے آپ کو کچھ خوف نہیں کیونکہ آپ (رضی اللہ عنہ)  کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ امیر المومنین عمرؓ نے فرمایا اچھا :وہ دروازہ توڑ ڈالا جائے گا یا کھولا جائے گا ؟ تو سیدنا حذیفہؓ نے کہا کہ توڑ ڈالا جائے گا۔ پھر امیر المومنین عمرؓ نے کہا تو پھر (وہ دروازہ)  کبھی بند نہ ہو گا۔ سیدنا حذیفہؓ سے پوچھا گیا کہ کیا عمرؓ اس دروازے کو جانتے تھے ؟ انھوں نے کہا ہاں (اس طرح جانتے تھے)  جیسے (تم جانتے ہو)  کہ دن کے بعد رات ہو گی۔ (سیدنا حذیفہؓ)  نے وہ حدیث بیان کی جو غلط نہ تھی۔ پس ان سے (دروازے کا)  پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ دروازہ ’’ امیر المومنین سیدنا عمرؓ تھے۔ ‘‘

(۳۲۷)۔ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کسی (اجنبی)  عورت کو بوسہ دے دیا پھر وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ سے بیان کیا تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت نازل فرما دی : ’’ نماز کو دن کے سروں میں اور کچھ رات گئے قائم کرو بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ ‘‘ تو وہ شخص بولا کہ اللہ کے رسول ! کیا یہ میرے ہی لیے ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ میری تمام امت کے لیے ہے۔ ‘‘

(۳۲۸)۔ ایک اور روایت میں ابن مسعودؓ سے مروی ہے :’’ میری امت میں سے ہر ایک (صغیرہ گناہ کا)  کام کر نے والے کے لیے (یہ کفارہ)  ہے۔ ‘‘

باب : نماز، اس کے وقت (معین)  پر پڑھنے کی فضیلت

(۳۲۹)۔ سیدناعبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اللہ کے نزدیک کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ نماز، جو اپنے وقت پر (پڑھی گئی)  ہو۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کے بعد والدین کی اطاعت کرنا۔ ‘‘ میں نے پھر پوچھا کہ اس کے بعد کونسا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ سیدنا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھ سے اسی قدر بیان فرمایا اور اگر میں آپﷺ سے زیادہ پوچھتا تو آپﷺ زیادہ بیان فرماتے۔

باب : پانچوں نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں

(۳۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے ’’ اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر بہتی ہو کہ وہ اس میں ہر روز پانچ مرتبہ نہاتا ہو کہ تو تم کیا کہتے ہو کہ یہ (نہانا)  اس کے میل کچیل کو باقی رکھے گا ؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یہ اس کے میل کچیل میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پانچوں نمازوں کی یہی مثال ہے، اللہ ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ‘‘

باب : نماز پڑھنے والا اپنے رب سے منا جات کرتا ہے

(۳۳۱)۔ ؂ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھا دے اور جب تھو کے تو چاہیے اپنے آگے نہ تھو کے اور نہ اپنی داہنی جانب، اس لیے کہ وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے۔ ‘‘

باب : گرمی کی شدت میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا

(۳۳۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب گرمی زیادہ بڑھ جائے تو نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھا کرو۔ اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی)  ہے اور جہنم نے اپنے پروردگار سے شکایت کی اور کہا کہ اے میرے پروردگار ! میرے ایک حصہ نے دوسرے حصہ کو کھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس کی سردی میں اور ایک سانس کی گرمی میں۔ اور وہی سخت گرمی ہے جس کو تم محسوس کرتے ہو اور سخت سردی ہے جسے تم پاتے ہو۔ ‘‘

(۳۳۳)۔ سیدنا ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی سفر میں نبیﷺ کے ساتھ تھے، مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ پھر اس نے چاہا کہ اذان دے تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: ’’ ٹھنڈا ہونے دو۔ ‘‘ یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ گرمی کی شدت جہنم کے جو ش سے (ہوتی)  ہے، لہٰذا جب گرمی کی شدت ہو جائے تو (ظہر کی)  نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھو۔ ‘‘

باب : ظہر کا وقت زوال کے وقت سے (شروع ہوتا)  ہے

(۳۳۴)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن)  رسول اللہﷺ جب آفتاب ڈھل گیا، باہر تشریف لائے اور آپﷺ نے ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر آپﷺ منبر پر کھڑے ہو گئے اور آپﷺ نے قیامت کا ذکر کیا اور بیان فرمایا : ’’ اس میں بڑے بڑے حوادث ہوں گے۔ ‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کچھ پوچھنا چاہے وہ پوچھے،تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں تمہیں بتا دوں گا جب تک کہ اپنے اس مقام پر ہوں۔ ‘‘ تو لوگ بہت زیادہ روئے اور آپﷺ نے کئی بار فرمایا : ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ پھر سیدنا عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کھڑے ہو گئے اور انھوں نے پوچھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارا باپ حذافہ ہے۔ ‘‘ پھر آپ بار بار یہ فرما نے لگے کہ ’’ مجھ سے پوچھو۔ ‘‘ تو امیر المومنین عمرؓ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور کہنے لگے : ’’ ہم اللہ جل جلالہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہو نے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے سے خوش ہیں۔ ‘‘ پس آپﷺ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جنت اور دوزخ میرے سامنے ابھی اس دیوار کے گوشے میں پیش کی گئی ہے، ایسی عمدہ چیز (جیسی جنت ہے)  اور ایسی بری چیز (جیسی دوزخ ہے)  کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘

(۳۳۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ صبح کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے،کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا، اس میں ساٹھ آیتوں اور سو آیتوں کے درمیان قرأت کرتے تھے اور ظہر کی نماز جب آفتاب ڈھل جاتا تھا، پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ ہم میں سے کوئی مدینہ کے کنارے تک جا کر لو ٹ آتا لیکن سورج کی دھوپ ابھی تیز ہو تی۔ راوی (ابو منہال)  کہتے ہیں اور مغرب اور بارے میں جو کچھ کہا تھا میں بھول گیا اور عشاء کی تا خیر میں تہائی رات تک آپﷺ کچھ پروانہ کرتے تھے۔ اس کے بعد (راوی نے)  کہا کہ نصف شب تک۔

باب : بغیر کسی عذر کے ظہر کی نماز کو عصر کے وقت تک مؤخر کر دینا

(۳۳۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے مدینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشاء کی سات رکعات (ایک ساتھ)  پڑھیں ۔

باب : عصر کا وقت (کس وقت ہوتا ہے ؟)

(۳۳۷)۔ سیدنا ابو برزہؓ کی اوقات نماز والی حدیث قریب گزری ہے (دیکھیں حدیث ۳۳۵ا،اس میں عصر کا وقت بتایا گیا ہے)  اور اس روایت میں (ابو برزہؓ )  عشاء کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ اور عشاء کی نماز سے پہلے سو نے کو اور اس کے بعد بات کر نے کا برا جانتے تھے ’’ (اور اس کے بعد پوری حدیث بیان کی) ۔

(۳۳۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکے ہوتے تھے، اس کے بعد کوئی آدمی بنی عمرو بن عوف (کے قبیلے)  تک جاتا تو انھیں نماز عصر پڑھتے ہوئے پاتا۔

(۲۳۹)۔ سیدنا انس  بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عصر کی نمازایسے وقت پڑھتے تھے کہ آفتاب بلند اور تیز ہوتا تھا، پھر جا نے والا عوالی (مدینہ کی نواحی بستیوں)  تک جاتا تھا اور ان لوگوں کے پاس ایسے وقت پہنچ جاتا کہ آفتاب بلند ہو تا تھا اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ سے چار میل پر یا اس کے قریب ہیں۔

باب : اس شخص کا گناہ جس کی نماز عصر جاتی رہے

(۳۴۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ وہ شخص جس کی نماز عصر جاتی رہے ایسا ہے گویا کہ اس کے اہل و مال ہلاک ہو گئے۔ ‘‘

باب : اس شخص کا گناہ جو (عمداً)  نماز عصر کو چھوڑ دے

(۳۴۱)۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کسی غزوۂ میں بارش والے دن کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو یقیناً اس کا (نیک)  عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ ‘‘

باب : نماز عصر کا فضیلت (کا بیان)

(۳۴۲) ۔ سیدنا جریر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپﷺ نے چاند کی طرف نظر کی اور فرمایا کہ بے شک تم اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں وقت، تکلیف یا مشکل محسوس نہ کرو گے۔ لہٰذا اگر تم یہ کر سکتے ہو کہ آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے کی نماز پر (شیطان سے)  مغلوب نہ ہو تو کر لو۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : ’’ پس آفتاب کے طلوع و غروب ہو نے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ پاکی بیان کرو۔ ‘‘

(۳۴۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’کچھ فرشتے رات کو تمہارے پاس یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور کچھ فرشتے دن کو اور یہ سب فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے رات کو تمہارے پاس رہے ہیں (آسمان پر)  چڑھ جاتے ہیں، تو ان سے ان کا پروردگار پوچھتا ہے، حالانکہ وہ خود اپنے بندوں سے خوب واقف ہے، کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا اور (جب)  ہم ان کے پاس پہنچے تھے (تب بھی)  وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ‘

باب : جو شخص غروب (آفتاب)  سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالے (تو گویا کہ اسے پوری نماز مل گئی) ۔

(۳۴۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز عصر کی ایک رکعت آفتاب کے غروب ہونے سے پہلے پا لے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے اور جب نماز فجر کی ایک رکعت طلوع آفتاب سے پہلے پا لے تو اسے (بھی)  چاہیے کہ اپنی نماز پوری کر لے۔

(۳۴۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے ؛ ’’ تمہاری بقا (کی مدت)  با عتباران امتوں کے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسی ہی ہے جیسے نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔ تو ریت والوں کو تو ریت دی گئی اور انھوں نے کام کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا، وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے تو دونوں اہل آفتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ہے۔ اللہ  عز و جل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے ؟ وہ بولے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یہ میری رحمت ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں (تمہارا کیا اجارہ ہے ؟) ‘‘

باب : مغرب کا وقت (کب شروع ہوتا ہے ؟)

(۳۴۶)۔ سیدنا رافع بن خدیجؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مغرب کی نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک (نماز پڑھ کے)  ایسے وقت لوٹ آتا تھا کہ وہ اپنے تیر کے گر نے کے مقامات کو دیکھ لیتا تھا۔

(۳۴۷)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ نے کہا کہ نبیﷺ ظہر کی نماز ٹھیک دو پہر کو پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ آفتاب صاف اور چمک رہا ہوتا تھا اور مغرب کی جب آفتاب غروب ہو جاتا اور عشاء کی کبھی کسی وقت،کبھی کسی وقت۔ جب آپﷺ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے اور جب آپﷺ دیکھتے کہ لوگوں نے دیر کی تو دیر سے پڑھتے اور صبح کی نماز وہ لوگ یا یہ کہا کہ نبیﷺ اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

باب : جس نے اس ا مر کو برا جانا ہے کہ مغرب کو عشاء کہا جائے

(۳۴۸)۔ سیدنا عبداللہ مزنیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ اعراب تمہاری نماز مغرب کے نام پر تم سے غلبہ نہ کریں (یعنی نماز مغرب کا کچھ اور نام رکھ دیں)  ‘‘ اور فرمایا : ’’ اعراب کہتے ہیں کہ وہ (یعنی مغرب)  عشاء ہے۔ ‘‘

باب : عشاء (کی نماز) کی فضیلت

(۳۴۹) ۔ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ کہتی ہیں کہ ایک شب عشاء کی نماز میں رسول اللہﷺ نے تاخیر کر دی اور یہ (واقعہ)  اشاعت اسلام سے پہلے (کا ہے)  پس آپﷺ نہیں نکلے یہاں تک کہ سیدنا عمرؓ نے (آپﷺ سے آ کر)  کہا کہ عورتیں اور بچے سو رہے، پس آپﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا ’’ زمین والوں میں سوا تمہارے کوئی اس نماز کا منتظر نہیں۔ ‘‘

(۳۵۰)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرے وہ ساتھی جو کشتی میں میرے ہمراہ آئے تھے، بقیع بطحان میں ٹھہر ہوئے تھے اور نبیﷺ مدینہ میں تھے تو ان میں سے ایک ایک گروپ باری باری نبیﷺ کے پاس جاتا تھا۔ پھر (ایک دن)  ہم سب یعنی میں اور میرے ساتھی نبیﷺ کے پاس گئے اور آپﷺ کو اپنے کام میں مصروفیت تھی لہٰذا (عشاء کی)  نماز میں آپﷺ نے تاخیر کر دی یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ اس کے بعد نبیﷺ باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر جب آپﷺ اپنی نماز ختم کر چکے تو جو لوگ وہاں موجود تھے ان سے فرمایا : ’’ اس وقت میں تمہارے سوا کوئی نماز نہیں پڑھتا ‘‘ یا اس طرح فرمایا : ’’ کسی نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ معلوم نہیں آپﷺ نے (ان دو جملوں میں سے)  کیا فرمایا: ’’ ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے جو کہ رسول اللہﷺ سے ہم نے سنی، خوش ہو کر لوٹے۔

باب : جو شخص (نیند)  سے مغلوب ہو جائے تو اس کے لیے عشاء سے پہلے سورہنا (جائز ہے)

(۳۵۱)۔ ام المومنین عائشہؓ کی حدیث، کہ رسول اللہﷺ نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی تو امیر المومنین عمرؓ نے آپﷺ کو پکارا، پہلے گزر ی ہے (دیکھیے حدیث ۳۴۹)  اس روایت میں اتنا زیادہ کہتی ہیں کہ صحابہ کرامؓ (عشا کی نماز)  شفق کے غائب ہو جا نے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک پڑھ لیتے تھے۔ اور سیدنا ابن عباسؓ کی روایت میں ہے : ’’ نبیﷺ نکلے گویا کہ میں آپﷺ کی طرف اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا ہے اور آپﷺ اپنا ہاتھ اپنے سر مبارک پر رکھے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو یقیناً انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز اسی طرح (اسی وقت)  پڑھا کریں۔ ‘‘

(۳۵۲)۔ سیدنا ابن عبا سؓ بتاتے ہیں کہ نبیﷺ نے اپنے سرپر ہاتھ کیسے رکھا تو انھوں نے اپنی انگلیوں کے درمیان کچھ تفریق کر دی اور اپنی انگلیوں کے سرے، سر کے ایک طرف رکھ دیے پھر ان کو ملا کر اس طرح سر پر کھینچ لائے یہاں تک کہ ان کا انگوٹھا ان کے کان کی لو سے، چہرے کے قریب ڈاڑھی کے کنارے سے مل گیا۔ نہ آپﷺ نے دیر کی اور نہ جلدی بس اسی طرح کیا جیسے میں نے تمہیں بتایا۔

باب : عشاء کا وقت آدھی رات تک (رہتا ہے)

(۳۵۳)۔ سیدنا انسؓ (عشاء کی نماز کے متعلق)  بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گویا میں اس شب میں آپﷺ کی انگوٹھی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں۔

باب : نماز فجر کی فضیلت (کا بیان)

(۳۵۴)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ‘‘

باب : فجر کا وقت

(۳۵۵)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ زید بن ثابتؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ صحابہ کرامؓ نے نبیﷺ کے ہمراہ سحری کھائی اور پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا ؟ تو سیدنا زیدؓ نے کہا کہ بقدر پچاس یاساٹھ آیات (کی تلاوت)  کے (فاصلہ تھا) ۔

(۳۵۶)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سحری کھایا کر تا تھا پھر مجھے اس بات کی جلدی ہوتی تھی کہ میں فجر کی نماز رسول اللہﷺ کے ہمراہ ادا کروں۔

باب : فجر کی نماز کے بعد آفتاب کے بلند ہو نے سے پہلے (کوئی اور)  نماز پڑھنا (جائز نہیں ہے)

(۳۵۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میرے سامنے چند پسندیدہ شخصیات نے کہ ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ میرے نزدیک امیر المومنین عمرؓ تھے، یہ بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز کے بعد آفتاب نکلنے سے پہلے اور عصر کی نماز کے بعد سور ج غروب ہو نے سے پہلے، نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

(۳۵۸)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ (اے لوگو!)  تم اپنی نمازیں طلوع آفتاب کے وقت نہ ادا کرو اور نہ غروب آفتاب کے وقت۔ ‘‘

(۳۵۹)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جب آفتاب کا کنارا نکل آئے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ آفتاب بلند ہو جائے اور جب آفتاب کا کنارا چھپ جائے تو نماز موقوف کر دو یہاں تک کہ (پورا آفتاب)  چھپ جائے۔ ‘‘

(۳۶۰)۔ سیدناا بوہریرہؓ سے مروی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے دو قسم کی بیع اور دو قسم کی پوشاک پہننے سے منع فرمایا ہے (اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے دیکھیے حدیث : ۲۴۱)  اس حدیث میں اتنا زیادہ کہا ہے : ’’ اور دو نمازوں سے منع فرمایا : (۱)  فجر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ آفتاب (اچھی  طرح)  نکل آئے اور (۲)  عصر کے بعد (نماز سے منع فرمایا)  یہاں تک کہ آفتاب (اچھی طرح)  غروب ہو جائے۔ ‘‘

باب : غروب آفتاب سے پہلے نماز کا قصد نہ کرے

(۳۶۱)۔ امیر معاویہؓ سے مروی ہے انھوں نے کہا (اے لوگو!)  تم ایک نماز ایسی پڑھتے ہو کہ بے شک ہم نے رسول اللہﷺ کی صحبت اختیار کی ہے مگر آپﷺ کو اسے پڑھتے نہیں دیکھا اور یقیناً آپ نے اس سے ممانعت فرمائی یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں۔

باب : عصر (کی نماز)  کے بعد قضا نمازوں کا پڑھ لینا (جائز ہے)

(۳۶۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ قسم اس کی جو نبیﷺ کو دنیا سے لے گیا کہ کبھی آپﷺ نے عصر کی بعد دو رکعتیں ترک نہیں فرمائیں یہاں تک کہ آپﷺ اللہ سے جا ملے اور جب آپﷺ اللہ سے جا ملے، اس وقت (جسم بھاری ہونے کا باعث)  آپﷺ نماز سے بوجھل ہو جاتے تھے اور آپﷺ اپنی بہت سی نمازیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اور نبیﷺ ان دونوں کو یعنی عصر کے بعد دو رکعتیں (ہمیشہ)  پڑھا کرتے تھے اور گھر ہی میں پڑھتے تھے، اس خوف سے کہ آپﷺ کی امت پر گراں نہ گزرے۔ آپﷺ وہی بات پسند فرماتے تھے جو آپﷺ کی امت پر آسان ہو۔

(۳۶۳)۔  ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ دو رکعتوں کو پوشیدہ و آشکارا کبھی ترک نہ فرماتے تھے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعتیں اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں۔

باب : وقت کے چلے جانے کے بعد (قضا نماز کے لیے بھی)  اذان کہنا

(۳۶۴)۔ سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک شب نبیﷺ کے ہمراہ سفر کیا تو بعض لوگوں نے کہا کہ کاش آپﷺ اخیر شب میں مع ہم سب لوگوں کے آرام فرماتے۔ آپﷺ نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم نماز (فجر)  سے (غافل ہو کر)  سو جاؤ۔ چنانچہ سیدنا بلالؓ بولے کہ میں تم سب کو جگا دوں گا۔ لہٰذا سب لیٹے رہے اور سیدنا بلالؓ اپنی پیٹھ اپنی اونٹنی سے ٹیک کر بیٹھ گئے مگر ان پر بھی نیند غالب آ گئی اور وہ بھی سو گئے۔ پس نبیﷺ ایسے وقت بیدار ہوئے کہ آفتاب کا کنارا نکل آیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے بلالؓ ! تمہارا کہنا کہاں گیا ؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ایسی نیند میرے اوپر کبھی نہیں ڈالی گئی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ (سچ ہے)  اللہ نے تمہاری جانوں کو جس وقت چاہا قبض کر لیا اور جس وقت چاہا واپس کیا، اے بلالؓ !اٹھو اور لوگوں میں نماز کے لیے اذان دے دو۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے وضو فرمایا اور جب آفتاب بلند ہو گیا اور سفید ہو گیا تو آپﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔

باب : جو شخص وقت جاتے رہنے کے بعد لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے (وہ سنت پر ہے)

(۳۶۵)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ امیر المومنین عمر بن خطابؓ (غزوۂ)  خندق میں آفتاب غروب ہو نے کے بعد اپنی قیام گاہ سے حاضر ہوئے اور کفار قریش کو برا کہنے لگے اور کہا کہ یا رسول اللہ ! میں عصر کی نماز نہ پڑھ سکا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا تو نبیﷺ نے فرمایا : ’’ واللہ میں نے بھی عصر کی نماز (ابھی تک)  نہیں پڑھی۔ ‘‘ پھر ہم (مقام)  بطحان کی طرف متوجہ ہوئے اور آپﷺ نے نماز کے لیے وضو فرمایا اور ہم سب نے (بھی)  نماز کے لیے وضو کیا پھر آپﷺ نے عصر کی نماز آفتاب غروب ہو جانے کے بعد پڑھی اور اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

باب : جو شخص کسی نماز (کے ادا کر نے)  کو بھول جائے جس وقت یاد آئے، پڑھ لے۔

(۳۶۶)۔ سیدنا انس بن مالکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی نماز کو بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یا د آئے، پڑھ لے، اس کا کفارہ یہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (سورۂ ’’ طہ ‘‘ میں)  فرماتا ہے : ’’ اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ‘‘

(۳۶۷)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ دیکھو ! لو گ نماز پڑھ چکے اور سو رہے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک کہ تم نے نماز کا انتظار کیا۔ ‘‘

(۳۶۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی حدیث کہ نبیﷺ نے (ایک مرتبہ)  عشاء کی نماز اپنی اخیر زندگی میں پڑھی۔ ۔ ۔ آخر تک (گزر چکی ہے دیکھیں حدیث ۹۶)  اور اس حدیث میں سیدنا ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ بے شک سو برس کے بعد جو شخص آج زمین کے اوپر ہے کوئی باقی نہ رہے گا۔ ‘‘ مراد آپﷺ کی اس سے یہ تھی کہ یہ قرن (دور)  گزر جائے گا۔

(۳۶۹)۔ سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحاب صفہ کچھ غریب لو گ تھے اور نبیﷺ نے فرما دیا تھا : ’’ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو (ان میں سے)  لے جائے اور اگر چار کا ہو تو پانچواں یا چھٹا ان میں سے لے جائے۔ ‘‘ اور امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ تین آدمی لے گئے اور نبیﷺ دس لے گئے، عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ میں تھا اور میرے ماں باپ۔ (راویِ حدیث ا بو عثمان نے کہا)  اور میں نہیں جانتا کہ انھوں نے یہ بھی کہا (یا نہیں)  کہ میری بیوی اور ہمارا خادم بھی تھا جو میرے اور ابو بکر صدیقؓ کے گھر میں مشترک تھا او ابو بکرؓ  نے نبیﷺ کے ہاں رات کا کھانا کھا لیا اور تھوڑی دیرو ہیں ٹھہر رہے جہاں عشاء کی نماز پڑھی گئی تھی،لوٹ کر پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ نبیﷺ نے آرام فرمایا پھر اس کے بعد جس قدر رات، اللہ نے چاہا، گزار دی (وہیں رہے)  پھر اپنے گھر میں آئے تو ان سے ان کی بیوی نے کہا کہ آپ (رضی اللہ عنہ)   کو آپ کے مہمانوں سے کس نے روک لیا تھا یا یہ کہا کہ آپ (رضی اللہ عنہ)  کے مہمان سے ؟ تو وہ بولے کیا تم نے انھیں کھانا نہیں کھلایا ؟ انھوں نے کہا وہ نہیں مانے یہاں تک کہ آپ (رضی اللہ عنہ)  آ جائیں، کھانا ان کے سامنے پیش کیا گیا تھا مگر انھوں نے انکار کیا عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے خوف کے)  جا کر چھپ گیا پس ابو بکر صدیقؓ نے اے لیئم ! اور پھر بہت سخت سست کہا اور مہمانوں سے کہا کہ تم خوب سیر ہو کر کھاؤ۔ اس کے بعد کہا کہ اللہ کی قسم ! میں ہر گز نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمنؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ہم جب کوئی لقمہ لیتے تھے تو اس کے نیچے اس سے زیادہ بڑھ جاتا تھا۔ پھر جب سب مہمان آسودہ ہو گئے اور کھانا جس قدر پہلے تھا اس سے زیادہ بچ گیا تو ابو بکر صدیقؓ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ اسی قدر تھا جیسا کہ پہلے تھا یا اس سے زیادہ بچ گیا تو ابو بکر صدیقؓ نے اپنی بیوی سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے ؟ وہ بو لیں کہ اپنی آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم ! یقیناً یہ اس وقت پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔ پھر اس میں سے ابو بکر صدیقؓ نے کھایا اور کہا یہ یعنی ان کی قسم شیطان ہی کی طرف سے تھی بالآخر اس میں سے ایک لقمہ انھوں نے کھا لیا۔ اس کے بعد اسے نبیﷺ کے پاس اٹھا لے گئے وہ صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان کچھ عہد تھا، اس کی مدت گزر چکی تھی تو ہم نے بارہ آدمی علیحدہ علیحدہ کر دیے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھی، واللہ اعلم ! ہر شخص کے ساتھ کس قدر آدمی تھے، اس کھانے سے سب نے کھا لیا یا ایسا ہی کچھ کہا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

اذان کا بیان

 

باب : اذان کی ابتداء (کیونکر ہوئی)

(۳۷۰)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ آئے تھے تو نماز کے لیے، وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو جایا کرتے تھے (اس وقت تک)  نماز کے لیے باقاعدہ اذان نہ ہوتی تھی، پس ایک دن مسلمانوں نے اس بارے میں گفتگو کی (کہ کوئی اعلان ضرور ہونا چاہیے)  تو بعض نے کہا کہ نصاریٰ کے نا قوس کی طرح ناقوس بنا لو اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہود کے بگل کی طرح ایک بگل بنا لو، پس سیدنا عمرؓ نے کہا کہ کیوں نہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے کہ وہ نماز کے لیے اذان دے دیا کرے۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ بلال اٹھو اور نماز کے لیے اذان دو۔ ‘‘

باب : اذان (کے الفاظ)  دو دو دفعہ کہنا (مسنون ہے)

(۳۷۱)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا بلالؓ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اذان (میں)  جفت (کلمات)  کہیں اور اقامت (میں)  طاق،سوائیقًدْ قَا مَت الصَّلوٰۃ کے۔

باب : اذان کہنے کی فضیلت (کا بیان)

(۳۷۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر بھا گتا ہے (اور مارنے خوف کے)  وہ گوز مارتا جاتا ہے (اور بھاگتا ہی چلا جاتا ہے)  یہاں تک کہ اذان کی آواز نہ سنے پھر جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے یہاں تک کہ جب نماز کی اقامت کہی جاتی ہے تو پھر پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے حتیٰ کہ جب اقامت بھی مکمل ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان وسو سے ڈالے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ وہ باتیں جو اس کو یاد نہ تھیں یہاں تک کہ آدمی بھول جاتا ہے کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی۔

باب : اذان دیتے وقت آواز بلند کرنا (مسنون ہے)

(۳۷۳)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ جب اذان کہو تو اپنی آواز بلند کر و، اس لیے کہ مؤذن کی دور کی آواز کو (بھی) ، جو کوئی جن یا انسان یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ ‘‘

باب : اذان سن کر قتال و خونریزی بند کرنا (ثابت ہے)

(۳۷۴) ۔ سیدنا انسؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ  جب آپﷺ ہمارے ساتھ کسی قوم سے جہاد کرتے تو ہم سے لوٹ مار نہ کرواتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور آپﷺ انتظار کر تے۔ پس اگر اذان سن لیتے تو ان لوگوں (کے قتل)  سے رک جاتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کر دیتے۔

باب : اذان سن کر کیا کہنا چاہیے ؟

(۳۷۵) ۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم اذان کی آواز سنو تو اسی طرح کہو جیسے موذن کو کہہ رہا ہے۔ ‘‘

(۳۷۶)۔ سیدنا امیر معاویہؓ نے اذان کے جواب میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲ تک اذان کی طرح کیا اور جب (موذن نے)  حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃ کہا تو انھوں نے لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّ ۃَ الاَّ باﷲ کہا اور کہا کہ میں نے نبیﷺ کو اسی طرح کہتے ہوئے سنا ہے۔

باب : اذان کے وقت کے دعا

(۳۷۷)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص اذان سن چکے، پھر یہ دعا پڑھے کہ : ’’ اے اللہ ! اس کا مل دعا اور قائم ہو نے والی نماز کے رب ! (ہمارے سردار)  محمدﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عنایت فرما اور (انھیں)  وہ مقام محمود عطا فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ ‘‘ تو اس کو قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہو گی۔ ‘‘

باب : اذان کے بارہ میں قرعہ ڈالنا (بھی منقول ہے)

(۳۷۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اگر لوگ جان لیں کہ اذان میں اور پہلی صف میں کیا (ثواب)  ہے پھر قرعہ ڈالنے کے لیے بغیر اسے نہ پائیں تو ضرور قرعہ ڈالیں اور اگر جان لیں کہ اوّل وقت نماز ظہر پڑھنے میں کیا (ثواب)  ہے تو بے شک سبقت کریں اور اگر جان لیں کہ عشاء اور صبح کی نماز (با جماعت ادا کرنے)  میں کیا (ثواب)  ہے تو ضرور ان دونوں کی (جماعت)  میں آئیں اگرچہ گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔

باب : اندھے کی اذان، جبکہ اس کے پاس کوئی وقت بتانے والا موجو د ہو۔

(۳۷۹)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ بلالؓ رات کو اذان دیتے ہیں کہ پس تم لوگ کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ)  اذان دیں۔ ‘‘ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن ام مکتومؓ نابینا آدمی تھے، وہ اذان نہ دیتے تھے یہاں تک کہ لوگ کہتے کہ صبح ہو گئی صبح ہو گئی۔

باب : فجر کے (طلوع ہونے کے)  بعد اذان کہنی (چاہیے)

(۳۸۰)۔ ام المومنین حفصہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (کی عادت مبارکہ تھی کہ)  جب موذن صبح کی اذن کہنے کھڑا ہو جاتا اور صبح کی اذان ہو جاتی تو دو رکعتیں ہلکی سی فرض کی اقامت (تکبیر)  ہونے سے پہلے پڑھ لیتے تھے۔

باب : (فجر کی)  اذان صبح ہونے سے پہلے (کہہ دینا)

(۳۸۱)۔ سیدنا ابن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کسی کو بلال (رضی اللہ عنہ)  کی اذان اس کی سحری سے باز نہ رکھے اس لیے کہ وہ رات کو اذان کہہ دیتے ہیں تا کہ تم میں سے تہجد پڑھنے والا (بغرض آرام)  لو ٹ جائے اور تاکہ تم میں سے سونے والے کو بیدار کر دیں اور یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص کہے کہ صبح (ہو گئی)  اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کیا اور ان کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر نیچے کی طرف جھکا دیا یہاں تک کہ اس طرح (یعنی سفیدی پھیل جائے) ، (زہیر راوی)  نے اپنی دونوں شہادت کی انگلیاں ایک دوسری کے اوپر رکھیں پھر دونوں کو اپنے داہنے اور بائیں جانب پھیلایا (یعنی اس طرح ہر طرف سفیدی پھیل جائے)  تب سمجھو کہ صبح ہو گئی۔

باب : اذان و اقامت کے درمیان (کے وقت میں)  جو کوئی چاہے (نفل)  نماز پڑھ لے۔

(۳۸۲)۔ سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ ہر دو اذانوں کے درمیان میں ایک نماز ہے۔ ‘‘ یہ تین مرتبہ آپﷺ نے فرمایا (پھر فرمایا کہ)  : ’’ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔ ‘‘ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت)  کے درمیان ایک نماز ہے، ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت)  کے درمیان ایک درمیان ایک نماز ہے۔ ‘‘ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ’’ اگر کوئی چاہے تو (پڑھ سکتا ہے) ۔ ‘

باب : جس نے کہا کہ سفر میں بھی ایک ہی موذن کو اذان دینا چاہیے۔

(۳۸۳)۔ سیدنا مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس آئے اور ہم بیس شب و روز آپﷺ کی خدمت میں رہے اور رسول اللہﷺ نرم دل مہربان تھے جب آپﷺ نے خیال کیا کہ ہم کو اپنے گھر والوں کے پاس (پہنچنے)  کا اشتیاق ستا رہا ہے تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ واپس لوٹ جاؤ اور ان ہی لوگوں میں رہو اور ان کو تعلیم دو اور (اچھی باتوں کا)  حکم دو اور نماز قائم کرو اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان دے اور تم میں سے جو سب سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔ ‘‘

(۳۸۴)۔ سیدنا مالک بن حویرثؓ کہتے ہیں کہ دو شخص نبیﷺ کے پاس سفر کے ارادے سے آئے تو ان سے نبیﷺ نے کہا : ’’ جب تم نکلو (اور نماز کا وقت آ جائے)  تو تم اذان دو پھر اقامت کہو اس کے بعد جو تم میں سے بڑا ہو وہ تمہارا امام بنے۔ ‘‘

باب : مسافر اگر زیادہ ہوں تو (نماز کے لیے)  اذان دیں اور اقامت (بھی)  کہیں

(۳۸۵)۔ سیدنا ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ موذن کو حکم دے دیتے تھے کہ اذان کے بعد وہ یہ کہہ دے کہ : ’’ اپنی اپنی قیام گاہوں میں نماز پڑھ لو ‘‘ (اور جماعت کے لیے نہ آؤ)  اور ایساسردی یا بارش کی رات میں (جب)  سفر میں (ہوتے تو)  کیا کرتے۔

باب : آدمی کا یہ کہہ دینا کہ نماز جاتی رہی (کیسا ہے ؟)

(۳۸۶)۔ سیدنا ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپﷺ نے کچھ لوگوں کی آواز سنی۔ پس جب آپﷺ نماز پڑھ چکے تو فرمایا : ’’ تمہارا کیا حال ہے ؟ (یعنی یہ شور کیوں ہوا ؟)  ‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ہم نے نماز کے لیے جلدی کی۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ایسا نہ کرنا جب تم نماز کے لیے آؤ تو نہایت اطمینان سے آؤ پھر جس قدر نماز پاؤ اس قدر پڑھ لو اور جس قدر تم سے جاتی رہے اس کو پورا کر لو۔ ‘‘

باب : لوگ (نماز کے لیے)  کب کھڑے ہوں، جب (وہ)  اقامت کے وقت امام کو دیکھ لیں ؟

(۳۸۷)۔ سیدنا ابوقتادہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب نماز کی اقامت کہی جائے تو تم نہ کھڑے ہو یہاں تک کہ مجھے دیکھ لو۔ ‘‘

باب : (اگر) اقامت کے بعد امام کو کوئی ضرورت پیش آئے تو۔ ۔ ۔

(۳۸۸)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نماز کی اقامت ہو گئی اور نبیﷺ مسجد کے ایک گوشہ میں کسی شخص سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہے تھے پس آپﷺ نماز کے لیے نہیں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بعض لوگ اونگھنے لگے۔

باب :نماز یا جماعت کا واجب ہو نا

(۳۸۹)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ)  رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یقیناً میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیوں کو جمع کر نے کا حکم دوں پھر نماز کے لیے حکم دوں کہ اس کے لیے اذان دی جائے تو پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کا امام بنے اور میں کچھ لوگوں کی طرف جاؤں اور ان کے گھروں کو ان پر جلادوں۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ان میں سے کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ وہ فربہ ہڈی یا دو عمدہ گوشت والی ہڈیاں پائے گا تو یقیناً عشاء کی نماز میں ضرور آئے۔ ‘‘

باب : نماز با جماعت کی فضیلت

(۳۹۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جماعت کی نماز تنہا نماز پر ستائیس درجہ (ثواب میں)  زیادہ ہے۔ ‘‘

 باب : فجر کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضیلت (کا بیان)

(۳۹۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا : ’’ جماعت کی نماز تم میں سے کسی کو تنہا نماز سے پچیس درجے (ثواب میں)  زیادہ ہے اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں یکجا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد سیدنا ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو : ’’ یقیناً فجر کے وقت کا قرآن پڑھنا حاضر کیا گیا ہے، (یعنی فرشتے حاضر ہوتے ہیں) ۔ ‘‘ (بنی اسرائیل : ۷۸)

(۳۹۲)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ سب لوگوں سے باعتبار ثواب نماز کے زیادہ وہی لوگ ہیں جن کی مسافت (مسجد سے)  دور رہے، پھر جن کی ان سے دور ہے اور وہ شخص جو نماز کا منتظر رہے حتیٰ کہ اس کو امام کے ہمراہ پڑھے، باعتبار ثواب کے اس سے زیادہ ہے (جو جلدی سے)  نماز پڑھ کے سو جاتا ہے۔ ‘‘

 باب : ظہر کی نماز اوّل پڑھنے کی فضیلت (کا بیان)

(۳۹۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ ایک شخص کسی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں کانٹوں کی ایک شاخ (پڑی ہوئی)  دیکھی تو اس کو ہٹا دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب اسے یہ دیا کہ اس کو معاف کر دیا پھر آپﷺ نے فرمایا کہ شہید پانچ لوگ ہیں جو طاعون میں مرے اور جو پیٹ کے مرض میں مرے اور جو ڈوب کر مرے اور جو دب کر مرے اور جو اللہ کی راہ میں شہید ہو۔ ‘‘ باقی حدیث گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۳۷۸)۔

باب : (مسجدجاتے وقت)  ہر ہر قدم کا ثواب (ملتا ہے)

(۳۹۴)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ بنی سلمہ نے یہ چاہا کہ اپنے مکانوں سے اٹھ کر نبیﷺ کے قریب کہیں قیام کریں تو نبیﷺ نے اس بات کو برا سمجھا کہ مدینہ کو ویران کر دیں، پس آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے بنی سلمہ ! کیا تم اپنے قدموں (سے چل کر مسجد میں آنے)  میں ثواب نہیں سمجھتے ؟‘‘

 باب : عشاء کی نماز با جماعت پڑھنے کی فضیلت

(۳۹۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ کوئی نماز منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ گراں نہیں گزرتی اور اگر وہ یہ جان لیں کہ ان دونوں (کے وقت پر پڑھنے)  میں کیا (ثواب)  ہے تو ضرور ان میں آئیں اگر چہ گھٹنوں کے بل (چل کر)  آنا پڑے۔ ‘‘

 باب : مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھنے اور مسجدوں کی فضیلت

(۳۹۶)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ سات (قسم کے)  آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا کہ جس دن سوائے اللہ کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ (۱)  عادل حاکم اور (۲)  وہ نوجوان جو اپنے پروردگار کی عبادت میں (بچپن سے)  بڑا ہو ا ہو (۳)  وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو (۴)  وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے (۵)  وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت (زنا کے لیے)  بلائے وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں (اس لیے نہیں آسکتا)  (۶) وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ معلوم ہو کہ اس کا داہنا ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے۔ (۷)  وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں (آنسوؤں سے) تر ہو جائیں۔

باب : صبح شام دونوں وقت مسجد جانے کی فضیلت

(۳۹۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص صبح شام (دونوں وقت)  مسجد میں جائے، اللہ اس کے لیے جنت سے اس کی مہمانی مہیا کرے گا جب بھی صبح اور شام کو جائے گا۔ ‘‘

 باب : نماز کی اقامت کے بعد سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں پڑھنا چاہیے

(۳۹۸)۔ سیدنا عبداللہ بن مالک بن بحینہؓ سے جو کہ قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے، روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دو (۲)  رکعت نماز پڑھتے دیکھا حالانکہ اقامت ہو چکی تھی پس جب رسول اللہﷺ فارغ ہوئے تو لوگ اس شخص کے گرد جمع ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے اس شخص سے فرمایا : ’’ کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں، کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں ؟‘‘

 باب : مریض کی کتنی بیماری تک جماعت میں حاضر ہونا چاہیے ؟

(۳۹۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ اپنے اس مرض میں جس میں آپﷺ نے وفات پائی، مبتلا ہوئے اور نماز کا وقت آیا اور اذان ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ ابوبکر (رضی اللہ عنہ)  سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ ‘‘ آپﷺ سے عرض کی گئی (عائشہؓ نے خود عرض کی)  کہ ابوبکرؓ نرم دل آدمی ہیں تو جب آپﷺ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو (شدت غم سے)  وہ نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ دوبارہ آپﷺ نے فرمایا لیکن پھر وہی عرض کی گئی۔ تیسری بار آپﷺ نے پھر حکم فرمایا اور فرمایا : ’’ تم تو یوسفؑ کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو ؟ ابو بکرؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ ‘‘چنانچہ (کہہ دیا گیا اور)  ابو بکرؓ نماز پڑھا نے چلے گئے پھر نبیﷺ نے اپنے آپ میں کچھ افاقہ محسوس کیا تو آپﷺ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نکلے گویا کہ میں (اب بھی)  آپﷺ کے دونوں پاؤں کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ بہ سبب (ضعف)  مرض کے زمین پر گھسٹتے ہوئے جاتے تھے۔ پس سیدنا ابو بکرؓ نے چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں تو نبیﷺ نے انھیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر رہو۔ پھر آپﷺ لائے گئے یہاں تک کہ ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ نبیﷺ نماز پڑھتے تھے اور ابر بکر صدیقؓ آپﷺ کی نماز کی اقتدا کرتے تھے اور لوگ سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی نماز کی اقتدا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ ابو بکر صدیقؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور ابو بکر صدیقؓ کھڑے ہوئے نماز پڑھتے تھے۔

(۴۰۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ بیمار ہوئے اور مرض بڑھ گیا تو آپﷺ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ میرے گھر میں آپﷺ کی تیمار داری کی جائے تو سب نے اجازت دے دی۔ ۔ ۔ بقیہ وہی جو ابھی گزشتہ حدیث نمبر ۳۹۹میں بیان ہوا ہے۔

باب : کیا امام، جس قدر لوگ موجود ہوں ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور کیا جمعہ کے دن بارش میں خطبہ پڑھے ؟

(۴۰۱)۔ سیدنا ابن عباسؓ نے ایک دفعہ بارش والے دن میں جمعہ کا خطبہ پڑھا اور موذن کو جب وہ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلاَۃ‘‘پر پہنچا، یہ حکم دیا کہہ دے ’’ اَلصَّلاۃُفی الرَّحَال‘‘ (اپنی اپنی جگہ پر نماز ادا کر لو)  تو لو گ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے گویا کہ انھوں نے (اس کو)  بُرا سمجھا تو سیدنا ابن عباسؓ نے کہا ایسا معلوم  ہوتا ہے کہ تم نے اس کو بُرا سمجھا ہے تو بے شک اس (عمل)  کو اس نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی نبیﷺ نے، بیشک جمعہ واجب ہے اور مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ تمہیں حرج میں ڈالوں (کہ تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے آؤ)  ۔

(۴۰۲)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے نبیﷺ سے عرض کی کہ میں (معذور ہوں)  آپﷺ کے ہمراہ نماز نہیں پڑھ سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا پس اس نے نبیﷺ کے لیے کھانا تیار کیا اور آپﷺ کو اپنے مکان میں بلایا اور آپﷺ کے لیے چٹائی بچھا دی اور چٹائی کے ایک کنارے کو دھو دیا تو اس پر آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ اتنے میں آل جارود میں سے ایک شخص نے سیدنا انسؓ سے پوچھا کہ کیا نبیﷺ نماز چاشت پڑھا کرتے تھے ؟ تو سیدنا انسؓ نے کہا کہ میں نے سوائے اس دن کے کبھی آپﷺ کو پڑھتے نہیں دیکھتا۔

باب : جس وقت کھانا (سامنے)  آ جائے اور نماز کی اقامت ہو جائے

(۴۰۳)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب کھانا آگے رکھ دیا جائے تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنے کھانے کو چھوڑ کر نماز میں عجلت نہ کرو۔ ‘‘

 باب : جب کوئی شخص گھر کا کام کاج کر رہا ہو اور نماز کی اقامت ہو جائے تو (نماز میں شرکت کے لیے گھر سے)  نکل آئے

(۴۰۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ سے پوچھا گیا کہ نبیﷺ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے ؟ وہ بولیں کہ اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والوں کی خدمت میں (مصروف)  رہتے تھے پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپﷺ نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

باب : صرف مسنون طریقۂ نماز سکھانے کے لیے لوگوں کو دکھا کر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۴۰۵)۔ سیدنا مالک بن حویرثؓ نے کہا کہ میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں اور میرا مقصود نماز پڑھنا نہیں بلکہ جس طرح میں نے نبیﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح (تمہارے دکھانے کو)  پڑھتا ہوں۔

باب : صاحب علم و فضل امامت کا زیادہ حقدار ہے

(۴۰۶)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ سے مروی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)  سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ‘‘ پہلے گزر چکی ہے (دیکھیں حدیث : ۳۹۹)  اور اس روایت میں کہتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے عرض کی کہ بیشک سیدنا ابو بکر صدیقؓ جب آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قراء ت)  نہ سنا سکیں گے لہٰذا آپ سیدنا عمرؓ کو حکم دیجیے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے حفصہؓ سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ سے عرض کرو کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ جب آپﷺ کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو (اپنی قراء ت)  نہ سنا سکیں گے۔ پس حفصہؓ نے کہہ دیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ ٹھہر و! یقیناً تم لوگ یوسفؓ کی ہم نشین عورتوں کی طرح ہو۔ ‘‘ ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)  کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔ ‘‘ تو ام المومنین حفصہؓ نے عائشہؓ  سے کہا کہ میں نے کبھی تم سے فائدہ نہ پایا۔

(۴۰۷)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نبیﷺ کی اس بیماری میں جس میں آپﷺ نے وفات پائی تھی، لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے یہاں تک کہ جب دو شنبہ کا دن ہو ا اور لو گ نماز میں صف بستہ تھے تو نبیﷺ نے حجرہ کا پردہ اٹھا یا اور ہم لوگوں کی طرف کھڑے ہو کر دیکھنے لگے (اس وقت)  آپﷺ کا چہرۂ مبارک گویا مصحف کا صفحہ تھا پھر آپﷺ بشاشت سے مسکرائے ہم لوگوں نے خوشی کی وجہ سے چاہا کہ نبیﷺ کے دیکھنے میں مشغول ہو جائیں اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ اپنے الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آئے تاکہ صف میں مل جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبیﷺ نماز کے لیے آنے والے ہیں۔ پس آپﷺ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور آپﷺ نے پردہ ڈال دیا اسی دن آپﷺ نے وفات پائی۔

باب : جو شخص لوگوں کی امامت کے لیے جائے اتنے میں امام اول آ جائے (تو کیا کرنا چاہیے ؟)

(۴۰۸)۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بنی عمرو بن عوف کی طرف ان میں باہم صلح کر انے کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا تو موذن، امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو میں اقامت کہوں ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ پس صدیق اکبرؓ نماز پڑھانے لگے تو اتنے میں رسول اللہﷺ تشریف لے آئے اور لوگ نماز میں مشغول تھے، پس آپﷺ (صفوں میں)  داخل ہوئے یہاں تک کہ (پہلی)  صف میں جا کر ٹھہر گئے اور لو گ تالی بجانے لگے اور صدیق اکبرؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو انھوں نے پیچھے دیکھا تو رسول اللہﷺ کو پایا تو رسول اللہﷺ نے انھیں اشارہ کیا کہ تم اپنی جگہ پر کھڑے رہو تو سیدنا ابو بکرؓ نے اپنے دونوں ہاتھ الٹا کے اور اس بنا ء پر کہ انھیں رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا اللہ کا شکر ادا کیا پھر ابو بکر صدیقؓ پیچھے ہٹ گئے، یہاں تک کہ صف میں آ گئے اور رسول اللہﷺ آگے بڑھ گئے اور آپﷺ نے نماز پڑھائی۔ پھر جب آپﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ اے ابو بکر ! جب میں نے تم کو حکم دیا تھا تو تم کیوں نہ کھڑے رہے ؟‘‘ تو سیدنا ابو بکرؓ نے عرض کہ ابو قحافہ کے بیٹے کی مجال نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ کے آگے  نماز پڑھائے پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ کیا سبب ہے کہ میں نے تم کو دیکھا تم نے تالیاں بکثرت بجائیں ؟ (دیکھو)  جب کسی کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو اسے چاہیے کہ سبحان اللہ کہہ دے کیونکہ وہ سبحان اللہ کہہ دے گا تو اس کی طرف التفات کیا جائے گا اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے (جائز)  ہے۔ ‘‘

 باب : امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے

(۴۰۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہر ہؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺ بیمار ہوئے تو آپﷺ نے پوچھا : ’’ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں ؟‘‘ ہم نے عرض کی کہ نہیں، اے اللہ کے رسولﷺ ! وہ تو آپﷺ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو (میں نہاؤں گا) ۔ ‘‘ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ پس آپﷺ نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بے ہوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہوش آیا تو آپﷺ نے پھر فرمایا : ’’ کیا لوگ نماز پڑھ چکے۔ ؟‘‘ ہم نے عرض کی نہیں، اللہ کے رسولﷺ ! وہ آپﷺ کے منتظر ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو۔ (چنانچہ رکھ دیا گیا)  پس آپﷺ نے غسل فرمایا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بے ہوش ہو گئے پھر ہو ش آیا تو فرمایا : ’’ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ؟ ‘‘ ہم نے عرض کی کہ نہیں، اللہ کے رسولﷺ ! وہ آپﷺ کے منتظر ہیں آپﷺ نے فرمایا : ’’ میرے لیے طشت میں پانی رکھ دو۔ ‘‘ پس آپﷺ اٹھے اور غسل کیا پھر کھڑا ہونا چاہا مگر بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب افاقہ ہوا تو پوچھا : ’’ کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں۔ ‘‘ ہم نے عرض کی نہیں، اے اللہ کے رسولﷺ ! وہ آپﷺ کے منتظر ہیں  اور لوگ مسجد میں ٹھہرے ہوئے نبیﷺ کا عشاء کی نماز کے لئے انتظار کر رہے تھے۔ پھر نبیﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس (کہلا) بھیجا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ قاصد ان کے پاس پہنچا اور اس نے کہا کہ رسول اللہﷺ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ بولے اور وہ ایک نرم دل انسان تھے،کہ اے عمرؓ! آپ لوگوں کو نماز پڑھا دیں تو سیدنا عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ تب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان بقیہ دنوں میں نماز پڑھائی۔ باقی حدیث اوپر گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث :۳۹۹)

(۴۱۰)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی حدیث کہ رسول اللہﷺ نے بحالت مرض اپنے گھر میں نماز پڑھی،پہلے گزر چکی ہے اور اس روایت میں کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔ ‘‘ (لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہو گیا تھا دیکھیے حدیث:۳۹۹)

باب : امام کے پیچھے مقتدی کب سجدہ کرے ؟

(۴۱۱)۔ سیدنا بَراء (بن عازبؓ)   نے بیان کیا کہ جب نبیﷺ سَمعَ اﷲُ لَمَنْ حَمدَہُ کہتے تو ہم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ اس وقت تک نہ جھکا تا جب تک کہ نبیﷺ سجدہ میں نہ چلے جا تے۔ آپﷺ کے بعد ہم لوگ سجدے میں جاتے تھے۔

باب : امام سے پہلے سر اٹھانا گناہ (عظیم) ہے

(۴۱۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی شخص جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھا لیتا ہے، تو کیا وہ اس بات کا خوف نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کا (سا)  سر بنا دے یا اس کی صورت گدھے کی (سی)  صورت کر دے ؟ ‘‘

 باب : غلام، آزاد کردہ شخص اور جو بالغ نہ ہو، ان کی امامت کا بیان

(۴۱۳)۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ سنو ! اطاعت کرو ! اگرچہ کوئی حبشی (تم پر)  حاکم بنا دیا جائے اور جس کا سر سوکھے انگور کے برابر ہو۔ ‘‘

 باب : جب امام (نماز کو)  پورا نہ کرے لیکن مقتدی پورے (طور پر)  کریں

(۴۱۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ یہ لوگ جو تمہیں نماز پڑھاتے ہیں اگر ٹھیک پڑھائیں گے تو تمہارے لیے ثواب ہے اور اگر وہ غلطی کریں گے تو تمہارے لیے تو ثواب ہی ہے اور ان پر گناہ ہے۔ ‘‘

 باب :جب دو (آدمی نماز پڑھتے)  ہوں تو مقتدی کو امام کے داہنی طرف اس کے پہلو میں (اس کے)  برابر کھڑا ہونا چاہیے

(۴۱۵)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے مروی حدیث کہ ایک شب وہ اپنی خالہ ام المومنین میمونہؓ کے ہاں ٹھہرے تھے،گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۱۴۲) اور اس روایت میں فرماتے ہیں کہ ’’ پھر رسول اللہﷺ سو گئے یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی۔ اس کے بعد موذن آپﷺ کے پاس آیا تو اور آپﷺ باہر تشریف لے گئے اور نماز فجر ادا کی اور وضو نہیں کیا۔ (اس حدیث میں ابن عباسؓ کا نبیﷺ کے ساتھ دائیں جانب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا ذکر ہے)

باب : جب امام (نماز کو)  طول دے اور کسی شخص کو کچھ ضرورت ہو اور وہ (نماز توڑ کو)  چلا جائے (اور کہیں اور)  نماز پڑھ لے (تو جائز ہے)

(۴۱۶)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ نبیﷺ کے ہمراہ (عشاء)  کی نماز پڑھتے اس کے بعد واپس جاتے تو اپنی قوم کی امامت کرتے (ایک مرتبہ)  انھوں نے عشاء کی نماز پڑھائی تو سورۂ بقرہ پڑھی۔ ایک شخص (نماز توڑ کر)  چل دیا تو اس سے سیدنا معاذؓ کو بڑا دکھ ہو ا۔ یہ خبر نبیﷺ کو پہنچی تو آپﷺ نے معاذؓ سے تین مرتبہ فرمایا : ’’ فتان، فتان، فتان ‘‘ (فتنا ڈالنے والا)  یا یہ فرمایا : ’’ فاتن، فاتن، فاتن ‘‘ (یعنی فتنہ پرداز)  اور آپﷺ نے معاذؓ کو اوسا مفصل کی دو سورتوں (کے پڑھنے)  کا حکم دیا۔

باب : امام کو قیام میں تخفیف کرنا (چاہیے)  اور رکوع وسجود کو پورا کر نا (چاہیے)

(۴۱۷)۔ سید نا ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں صبح کی نماز سے صرف فلاں شخص کے باعث پیچھے رہ جاتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں نماز لمبی پڑھاتا ہے۔ پس میں نے رسول اللہﷺ کو کبھی نصیحت (کے وقت)  اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں کچھ لوگ (آدمیوں کو عبادت سے)  نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو شخص تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو چاہیے کہ وہ تخفیف کیا کرے کیونکہ مقتدیوں میں ضعیف (بھی ہوتے)  ہیں اور بوڑھے بھی اور صاحب حاجت (بھی) ۔

(۴۱۸)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ (۴۱۶نمبر حدیثِ معاذ جو اوپر گزر چکی ہے کے تحت)  کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ تو نے (سَبِّعِ اسْمَ رَبِّکَ الاَ عْلٰی ﴾ اور (وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا ﴾ اور (وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشیٰ﴾ کے ساتھ نماز کیوں نہ پڑھا دی ؟

 باب : نماز میں اختصار کر نا اور اس کو کامل کرنا سنت ہے

(۴۱۹)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مختصر نماز پڑھتے اور اس کو کامل (ادا)  کرتے تھے۔

باب : جو شخص بچے کے رونے سے نماز کو مختصر کر دے

(۴۲۰)۔ سیدنا ابوقتادہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اس میں طول دوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز میں اختصار کر دیتا ہوں، اس امر کو برا سمجھ کر کہ میں اس کی ماں کی تکلیف کا باعث ہو جاؤں گا۔

باب : صفوں کا برابر کرنا خواہ اقامت کہتے وقت یا اقامت کے بعد

(۴۲۱)۔ سیدنا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ صفوں کو برابر کر لو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کو الٹ دے گا۔ ‘‘

 باب : صفوں کا برابر کرتے وقت امام کا لوگوں کی طرف متوجہ ہونا (ثابت ہے)

(۴۲۲)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ تم لوگ اپنی صفوں کو درست کر لو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ، میں تمہیں اپنی پیٹھ سے (بھی)  دیکھتا ہوں۔ ‘‘

باب : جب امام اور لوگوں کے درمیان کوئی دیوار یا سترہ ہو (تو نماز ہو جائے گی)

(۴۲۳)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز تہجد اپنے حجرے میں پڑھا کرتے تھے اور حجرے کی دیوار چھوٹی تھی تو لوگوں نے نبیﷺ کا جسم دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپﷺ کی نماز کی اقتداء کرنے کھڑے ہو گئے پھر صبح ہوئی تو انھوں نے اس کا چرچا کیا پھر دوسری رات کو آپﷺ کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ آپﷺ کی اقتداء میں اس رات بھی کھڑے ہو گئے۔ دو رات یا تین رات لوگوں نے یہاں تک کہ جب اس کے بعد رات ہوئی تو رسول اللہﷺ گھر میں بیٹھ رہے اور نماز پڑھنے نہیں نکلے۔ صبح کو لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے اس بات کا خوف کیا کہ (اس التزام کی وجہ سے کہیں)  نماز (تہجد)  تم پر فرض (نہ)  کر دی جائے۔ ‘‘

 باب : نماز تہجد  (رات کی نماز کا بیان)

(۴۲۴)۔ سیدنا زید بن ثابتؓ سے اس حدیث میں (حدیث : ۴۲۳ سے اتنا زیادہ)  روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (صبح کو تشریف لائے اور)  فرمایا: ’’ میں نے جو تمہارا فعل دیکھا اسے سمجھ لیا (یعنی تم کو عبادت کا شوق ہے)  تو اے لوگو ! اپنے گھروں میں نماز پڑھو کیونکہ آدمی کی نمازوں میں افضل نماز وہ ہے جو اس کے گھر میں ہو سوائے فرض نماز کے۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

نماز کے مسائل

 

 باب : پہلی تکبیر میں نماز شروع کرنے کے ساتھ دونوں ہاتھوں کا کندھوں تک اٹھا نا

(۴۲۵)۔ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں یعنی کندھوں کے برابر اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے اور سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ کہتے اور (دونوں)  سجدوں میں یہ (عمل)  نہ کرتے تھے۔

نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ  جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع الیدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب ’’سمع اللہ لمن حمدہ ‘‘کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدۂ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع الیدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریمﷺ تک پہنچایا۔ (کہ آنحضرتﷺ اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے)

 باب : نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنا

(۴۲۶)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ لوگوں کو (نبیﷺ کی طرف سے)  یہ حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں داہنا ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں۔

 باب : اس کا بیان کہ تکبیر (تحریمہ)  کے بعد کیا پڑھے

(۴۲۷)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اور ابو بکر صدیقؓ و عمر فاروقؓ نماز کی ابتداء(اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالْمِیْنَ) سے کیا کرتے تھے۔

(۴۲۸)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تکبیر اور قرأت کے درمیان میں کچھ سکوت فرماتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ !میرے ماں باپ آپﷺ پر فدا ہوں تکبیر اور قرأت کے مابین سکوت کرنے میں آپﷺ کیا پڑھتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں (یہ دعا)  پڑھتا ہوں ’’ اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کر دیا ہے، اے اللہ ! مجھے گناہوں سے پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ ! میرے گناہوں کو پانی اور بَرف اور اولوں سے دھو ڈال۔ ‘‘

(۴۲۹)۔ سیدنا اسماء بنت ابو بکر صدیقؓ سے مروی، نماز کسوف کے بارے میں حدیث گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث : ۷۶)۔ اس روایت میں کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اس وقت جنت میرے قریب ہو گئی تھی حتیٰ کہ اگر میں اس پر جرأت کرتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تمہارے پاس لے آتا اور دوزخ بھی میرے قریب ہو گئی تھی یہاں تک کہ میں کہنے لگا کہ اے میرے پروردگار ! کیا میں ان لوگوں کے ہمراہ (رکھا جاؤں گا ؟)  پس یکایک ایک عورت پر میری نظر پڑی۔ ‘‘ مجھے خیال ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کو ایک بلی پنجہ مار رہی تھی، میں نے کہا اس کو کیا ہوا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ اس نے بلی کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی۔ یہ (عورت)  نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے (جیسے چوہے وغیرہ کھا لیتی)  (نافع کو شک ہے کہ خَشِیْشِ یا خَشَاشِ الْاَ رْضِ کہا)   ۔

(۴۳۰)۔   اصل نسخہ کی   ’’۴۲۹اور ۴۳۰ ‘‘ احادیث اکٹھی کر دی گئی ہیں۔ (ابن ابراہیم) ۔

 باب : نماز میں امام کی طرف نظر اٹھانا (جائز ہے)

(۴۳۱)۔ سیدنا خبابؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہﷺ ظہر اور عصر (کی نماز)  میں (کچھ)  پڑھتے تھے ؟ خبابؓ نے کہا ہاں۔ پوچھا گیا کہ آپ کس بات سے اس کی تمیز کرتے تھے ؟ تو خبابؓ نے فرمایا کہ آپﷺ کی ڈاڑھی مبارک کے ہلنے سے۔

 باب : نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھا نا (جائز نہیں)

(۴۳۲)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ اپنی نماز میں اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ؟ پس اس کے بارے میں آپﷺ کی گفتگو بہت سخت ہو گئی یہاں تک کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس سے باز آئیں ور نہ ان کی بینائیاں لے لی جائیں گی۔ ‘‘

 باب : نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے ؟

(۴۳۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ یہ شیطان کی جھپٹ ہے وہ آدمی کی نماز پر ایک جھپٹ مارتا ہے۔ ‘‘

 باب : امام اور مقتدی (دونوں)  کے لیے تمام نمازوں میں (سورۂ فاتحہ)  قرأت واجب ہے

(۴۳۴)۔ سیدنا جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ اہل کوفہ نے امیر المومنین عمر فاروق سے سیدنا سعدؓ کی شکایت کی تو امیر المومنین نے سعدؓ کو معزول کر دیا اور سیدنا عمارؓ کو ان لوگوں کا حاکم بنایا، ان لوگوں نے (سیدنا سعدؓ کی بہت سی)  شکایتیں کیں یہاں تک کہ انھوں نے بیان کیا کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے تو امیر المومنینؓ نے ان کو بلا بھیجا اور کہا کہ اے ابو اسحاق ! (سعدؓ کی یہ کنیت ہے)  یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم نماز اچھی نہیں پڑھاتے تو انھوں نے کہا کہ سنو ! میں اللہ کی قسم ان کو رسول اللہﷺ کی نماز کے مثل نماز پڑھاتا تھا۔ پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر لگاتا تھا اور اخیر کی دو رکعتوں میں تخفیف کرتا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ اے ابو اسحاق ! تمہاری نسبت ایسا ہی خیال تھا پھر سیدنا عمرؓ نے ایک شخص یا ایک وفد کو سیدنا سعدؓ کے ہمراہ کوفہ بھیجا تا کہ وہ کوفہ والوں سے سیدنا سعدؓ کی بابت پوچھیں (چنانچہ وہ گئے)  اور انھوں نے کوئی مسجدنہیں چھوڑی کہ جس میں سعدؓ کی کیفیت نہ پوچھی ہو اور سب لوگ ان کی عمدہ تعریف کرتے رہے، یہاں تک کہ بنی عبس کی مسجد میں گئے تو ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا، اس کو اسامہ بن قتادہ کہتے تھے اور اس کی کنیت ابو سعدہ تھی، اس نے کہا جب تم نے ہمیں قسم دلائی تو (مجبور ہو کر میں کہتا ہوں)  کہ سعد (رضی اللہ عنہ)  لشکر کے ہمراہ (جہا د کو خود)  نہ جاتے تھے اور (غنیمت کی)  تقسیم برا بر نہ کرتے تھے اور فیصلے میں انصاف (بھی)  نہیں کرتے تھے۔ سعدؓ (یہ سن کر)  کہنے لگے کہ دیکھ میں تین بد دعائیں تجھ کو دیتا ہوں کہ اے اللہ ! اگر یہ بندہ جھوٹا ہو اور نمود و نمائش کے لیے (اس وقت)  کھڑا ہوا ہو تو اس کی عمر بڑھا دے اور اس کی فقیری بڑھا دے اور اس کو فتنوں میں مبتلا کر دے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا)  اور اس کے بعد جب اس سے (اس کا حال)  پوچھا جاتا تھا تو کہتا کہ ایک بڑی عمر والا بوڑھا ہوں، فتنوں میں مبتلا، مجھے سعدؓ کی بد دعا لگ گئی۔  عبدالملک (راویِ حدیث)  کہتے ہیں کہ میں نے اس کو اب اس حال میں دیکھا ہے اس کی دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر بڑھاپے کے سبب سے جھکی پڑی ہیں، وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیڑتا ہے اور ان پر دست درازی کرتا ہے

(۴۳۵)۔ سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔ ‘‘

(۴۳۶)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ (ایک مرتبہ)  مسجد میں تشریف لے گئے، اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبیﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ نے (سلام کا)  جواب دیا اور فرمایا : ’’ جا نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ پس وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسا کہ اس نے (پہلے)  پڑھی تھی، پھر واپس آیا اور نبیﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ جانماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ ‘‘ (اسی طرح)  تین مرتبہ (ہوا)  تب وہ بولا کہ ’’ قسم اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس سے بہتر نماز ادا نہیں کر سکتا، لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجیے۔ ‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو اس کے بعد جو تمہیں قرآن سے یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع میں اطمینان سے رہو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدے میں اطمینان سے رہو، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔ ‘‘

 باب : (نماز)  ظہر میں قرأت (ثابت ہے)

(۴۳۷)۔ سیدنا ابو قتادہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور (کوئی اور)  دو سورتیں پڑھتے تھے۔ پہلی رکعت میں لمبی قرأت کرتے تھے اور دوسری میں (اس سے)  چھوٹی سورت پڑھتے تھے اور کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں سنا دیتے تھے اور عصر کی نماز میں سورۂ فاتحہ اور کوئی دوسورتیں، پہلی رکعت میں لمبی (سورت پڑھتے تھے)  اور دوسری میں اس سے چھوٹی (سورت)  اور صبح کی نماز کی پہلی رکعت میں (بھی)  بڑی سورت پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں (اس سے)  چھوٹی سورت پڑھتے تھے۔

 باب : مغرب (کی نماز)  میں قرآن پڑھنا (ثابت ہے)

(۴۳۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ (میری والدہ)  ام افضلؓ نے (ایک مرتبہ نماز میں)  مجھے (وَالْمُرْسَلاَتِ عُرْفاً﴾ پڑھتے سنا تو کہنے لگیں کہ اے میرے بیٹے ! تو نے یہ سورت پڑھ کر مجھے یاد دلا دیا کہ یہی آخری سورت ہے جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنی، آپﷺ اس کو مغرب کی نماز میں پڑھتے تھے۔

(۴۳۹)۔ سیدنا زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو مغرب کی نماز میں دو بڑی سورتوں میں سے ایک بڑی سورت پڑھتے ہوئے سنا۔

 باب : (نماز)  مغرب میں بلند آواز سے پڑھنا (چاہیے)

(۴۴۰)۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو مغرب میں سورۂ طور پڑھتے سنا۔

 باب : عشاء (کی نماز)  میں سجدے والی سورت کا پڑھنا

(۴۴۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابو القاسمﷺ نے پیچھے نماز پڑھی تو انھوں نے (اِذَا السَّمَآ ءُ انْشَقَّتْ) پڑھی اور (اس سورت کے اس مقام پر)  سجدہ کیا، لہٰذا میں ہمیشہ اس میں سجدہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ ان سے جاملوں۔

 باب : (نماز)  عشاء میں قرآن پڑھنا (ثابت ہے)

(۴۴۲)۔ سیدنابراءؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی سفر میں تھے اور آپﷺ نے عشاء (کی نماز)  میں (وَالتِّیْنِ وَالزَّ یْتُوْنِ ) پڑھی۔ اور ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے زیادہ خوش آواز یا اچھا پڑھنے سے والا نہیں سنا۔

 باب : فجر (کی نماز)  میں قرآن پڑھنا (ثابت ہے)

(۴۴۳)۔ سیدنا ابوہریر ہؓ کہتے ہیں کہ تمام نمازوں میں قرآن پڑھا جاتا ہے پھر جن (نمازوں)  میں رسول اللہﷺ نے (بلند آواز سے پڑھ کر)  ہمیں سنایا (ان میں)  ہم (بھی)  تم کو سناتے ہیں اور جن میں (آہستہ آواز سے پڑھ کر)  ہم سے چھپایا (ان میں)  ہم (بھی)  تم سے چھپاتے ہیں اور اگر سورۂ فاتحہ سے زیادہ نہ پڑھو  تو بھی کافی ہے اور اگر زیادہ پڑھ لو تو بہتر ہے۔

 باب : نماز فجر کی قرأت کا بلند آواز سے پڑھنا

(۴۴۴)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن)  نبیﷺ اپنے چند اصحاب کے ہمراہ عکاظ کے بازار کی طرف ارادہ کر کے چلے اور (اس وقت)  شیاطین کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حجاب کیا جا چکا تھا اور ان پر شعلے پھینکے جاتے تھے۔ پس شیاطین اپنی قوم کے پاس لوٹ آئے۔ قوم نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ (اب کی مرتبہ کوئی چیز نہیں لائے)  تو شیاطین نے کہا کہ ہمارے اور آسمانی خبروں کے درمیان رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے اور اب ہم پر شعلے بر سائے جا رہے ہیں۔ قوم نے کہا تمہارے اور آسمانی خبروں کے درمیان کسی ایسی چیز نے حجاب پیدا کر دیا ہے جو ابھی ظاہر ہوئی ہے لہٰذا روئے زمین پر مشرق و مغرب میں سفر کرو اور دیکھو کہ وہ کیا چیز ہے جس نے تمہارے اور آسمانی خبر کے درمیان حجاب ڈال دیا۔ چنانچہ وہ لوگ اس تلاش میں نکلتے تو جو لوگ (ان میں سے)  تہامہ کی طرف آئے تھے وہ نبیﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ (اس وقت مقام)  نخلہ میں تھے، عکاظ کے بازار جا نے کا ارادہ رکھتے جا رہے تھے اور آپﷺ (اس وقت)  اپنے اصحاب کے ہمراہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے جب ان جنوں نے قرآن کو سنا تو اس کو سنتے ہی رہ گئے، کہنے لگے کہ اللہ کی قسم ! یہی ہے جس نے تمہارے اور آسمانی خبروں کے درمیان حجاب ڈال دیا۔ پس وہیں سے جب اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے تو کہنے لگے۔

’’ اے ہماری قوم ! ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی راہ بتایا ہے پس ہم اس پر ایمان لے آئے اور (اب)  ہم ہر گز اپنے پروردگار کا کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ ‘‘

پس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ پر (سورۂ جن کی)  یہ آیات نازل فرمائیں (قُلْ اُوَ حِیَ اِلیَّ﴾ (سورۂ الجن : ۱)  اور آپﷺ پر جنوں کی گفتگو نقل کی گئی۔

(۴۴۵)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کو جن نمازوں میں حکم دیا گیا ان میں آپﷺ نے قرأت کی اور جن میں حکم دیا گیا ان میں سکوت کیا اور ’’ تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے ‘‘ (کہ بھولے سے کوئی غلط حکم دے دے۔ سورۂ مر یم :۶۴)  ’’ اور بے شک تم لوگوں کے لیے رسول اللہﷺ (کے افعال و اقوال)  میں ایک چھی پیروی ہے۔ ‘‘ (سورۂ الا حزاب : ۲۱) ۔

 باب : ایک رکعت میں دو سورتوں کا ایک ساتھ پڑھنا اور سورتوں کی آخرت آیتوں کا پڑھنا اور ایک سورت کا ایک سورۃ سے پہلے پڑھنا (جو ترتیب میں اس سے مقدم ہے)  اور سورت کی ابتدائی آیات کا پڑھنا (بلا کر اہت جائز ہے)

(۴۴۶)۔ سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں نے رات کو مفصل سورت ایک رکعت میں پڑھی اور کہا کہ میں نے اس قدر جلد پڑھا جیسے شعر جلد پڑھا جاتا ہے بے شک میں ان ہم شکل سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبیﷺ ایک ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے پھر اس نے بیس مفصل سورتیں ذکر کیں (کہ ان میں سے)  دو سورتیں ہر رکعت میں (رسول اللہﷺ پڑ ھا کرتے تھے) ۔

 باب : پچھلی دونوں رکعتوں میں (صرف)  سورۂ فاتحہ پڑھی جائے۔

(۴۴۷)۔ سیدنا ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں اور پڑھتے تھے اور پچھلی دونوں رکعتوں میں (صرف)  ام الکتاب (یعنی سورۂ فاتحہ)  پڑھتے تھے اور ہم کو کوئی آیت (کبھی کبھی)  سنا دیتے تھے اور پہلی رکعت میں اس قدر طول دیتے تھے کہ دوسری رکعت میں نہ دیتے تھے اور اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں بھی۔

 باب : امام کا بلند آواز سے آمین کہنا (ثابت ہے)

(۴۴۸)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی تو اس کے گناہ جو پہلے ہو چکے معاف کر دیے جائیں گے۔

 باب : آمین کہنے کی فضیلت

(۴۴۹)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی آمین کہتا ہے اور ملائکہ آسمان تک کہتے ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے موافق ہوں تو اس کے گناہ جو پہلے ہو چکے، معاف کر دیے جاتے ہیں۔ ‘‘

 باب : اگر صف کے پیچھے رکوع کر دے (تو کیسا ہے ؟)

(۴۵۰)۔ سیدنا ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ وہ نبیﷺ کے پاس اس حالت میں پہنچے کہ آپﷺ رکوع کر رہے تھے تو انھوں نے قبل اس کے کہ صف سے ملیں رکوع کر دیا۔ پس اس نے اس کا ذکر نبیﷺ سے کیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ (نیک کاموں میں)  تمہارا شوق زیادہ کرے مگر پھر (ایسا)  نہ کرنا۔ ‘‘

 باب : رکوع میں (پہنچ کر)  تکبیر کو پورا کر نا (چاہیے)

(۴۵۱)۔ سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ انھوں نے بصرہ میں امیر المومنین علیؓ کے ساتھ نماز پڑھی تو امیر المومنین علیؓ نے ہمیں وہ نماز یا د دلا دی جو ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ پھر (سیدنا عمرانؓ نے)  کہا کہ وہ جب اٹھتے تھے اور جب جھکتے تھے تو تکبیر (یعنی اللہ اکبر)  کہتے تھے۔

 باب : سجدوں سے (فارغ ہو کر)  کھڑا ہو تو تکبیر کہے

(۴۵۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو جس وقت کھڑے ہوتے تکبیر کہتے تھے پھر جس وقت رکوع کرتے تھے تو تکبیر کہتے تھے پھر رکوع سے اپنی پیٹھ اٹھاتے اور سَمَعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تھے پھر کھڑے ہونے ہی کی حالت میں رَبّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہتے تھے۔

 باب : رکوع میں ہتھیلیوں کا گھٹنوں پر رکھنا

(۴۵۳)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ ان کے بیٹے مصعب نے انکے پہلو میں نماز پڑھی (مصعب)  کہتے ہیں میں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا لیا پھر ان دونوں کو اپنے گھٹنوں کے درمیان دبا لیا تو مجھے میرے والد نے منع کیا اور کہا کہ ہم اس طرح کرتے تھے تو ہمیں اس سے منع کر دیا گیا اور ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم اپنے ہاتھ (رکوع میں)  گھٹنوں پر رکھیں۔

 باب : رکوع میں پیٹھ کا برابر رکھنا اور اس میں اعتدال و اطمینان (یعنی آرام)  اختیار کرنا

(۴۵۴)۔ سیدنا براءؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا رکوع اور آپﷺ کے سجدے اور سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور (وہ حالت)  جب کہ آپﷺ رکو ع سے اپنا سر اٹھاتے تھے، تقریباً برا بر برابر ہوتے تھے سوائے قیام اور قعود کے (کہ یہ طویل ہوتے تھے) ۔

 باب : (حالت)  رکوع میں دعا کرنا (ثابت ہے)

(۴۵۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ اپنے رکوع اور اپنے سجدوں میں کہا کرتے تھے۔ (سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ ﴾ ’’ اے اللہ ! میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ اے ہمارے پروردگار! تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ ! مجھے معاف فرما دے۔ ‘‘

(۴۵۶)۔ ام المومنین عائشہؓ سے ایک دوسری حدیث میں مروی ہے : ’’ قرآن (کے حکم)  پر عمل کرتے ہوئے۔ ‘‘

 باب : اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ (کہنے)  کی فضیلت

(۴۵۷)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم کہو اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔ جس کا قول ملائکہ کے قول کے موافق (یعنی ہم آواز)  ہوا تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ ‘‘

(۴۵۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ بے شک میں نبیﷺ کی نماز کو قریب کر دوں گا (یعنی جس طرح نبیﷺ نماز پڑھاتے تھے، میں بھی اس طرح سے نماز پڑھاؤں گا کیونکہ بے شک میری نماز رسول اللہﷺ کی طرح ہے)  اور سیدنا ابو بکرؓ ظہر اور عشاء اور فجر کی نماز کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد (دعائے)  قنوت پڑھتے تو مسلمانوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے۔

(۴۵۹) ۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے دور میں فجر اور مغرب (کی نماز)  میں دعائے قنوت (پڑھی جاتی)  تھی۔

(۴۶۰)۔  سیدنا رفاعہ بن رافع زرقیؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو (ہم نے دیکھا کہ)  جب آپﷺ نے اپنا سررکوع سے اٹھایا تو فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ تو آپﷺ کے پیچھے ایک شخص نے کہا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدًا طَیّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ تو آپﷺ سے جب فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ بولنے والا کون تھا ؟‘‘ اس شخص نے کہا کہ میں تھا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے تیس سے کچھ زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اس پر باہم سبقت کرتے تھے کہ ان میں کون اس کو پہلے لکھ لے۔ ‘‘

 باب : جب رکوع سے اپنا سر اٹھائے تو اس وقت اطمینان سے کھڑا ہونا چاہیے

(۴۶۱)۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتے تھے تو وہ نماز پڑھ کر بتاتے تھے پس جس وقت وہ اپنا سررکوع سے اٹھاتے تو کھڑے ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ یقیناً آپ (سجدے میں جانا)  بھول گئے۔

 باب : جب سجدہ کرے تو تکبیر کے ساتھ جھکے

(۴۶۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب اپنا سر (رکوع سے)  اٹھاتے تھے تو   (سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد)  کہتے تھے (اور)  کچھ آدمیوں کے نام لے کر دعا کرتے تھے (اور) فرماتے تھے : ’’ اے اللہ ! ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو (کفار مکہ کے پنجۂ ظلم سے)  نجات دے۔ اے اللہ! اپنا عذاب (قبیلۂ)  مضر پر سخت کر دے اور اس سے ان کو قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسے یوسفؑ (کے دور)  کی قحط سالی تھی۔ اس وقت اہل مشرق سے (قبیلۂ)  مضر کے لوگ آپﷺ کے مخالف تھے۔ ‘‘

 باب : سجدہ کرنے کی فضیلت

(۴۶۳)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ کیا تم چودھویں رات کے چاند (کو دیکھنے)  میں شک کرتے ہو، جب اس کے اوپر بادل نہ ہو ؟ ‘‘ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تو کیا تم آفتاب (دیکھنے)  میں شک کرتے ہو جب کہ اس کے اوپر ابر نہ ہو ؟ ‘‘ لوگوں نے عرض کی کہ نہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پس تم اسی طرح اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن لوگ (زندہ کر کے)  اٹھائے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو (دنیا میں)  جس کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہولے۔ چنانچہ کوئی ان میں سے آفتاب کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان سے چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے بتوں کے پیچھے ہو جائے گا اور یہ (ایمانداروں کا)  گروہ باقی رہ جائے گا اور اسی میں اس امت کے منافق (بھی شامل)  ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ اس صورت میں جس کو وہ نہیں پہچانتے، ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں تو وہ کہیں گے (ہم تجھے نہیں جانتے)  ہم اس جگہ کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے پاس آئے اور جب وہ آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عز و جل ان کے پاس (اس صورت میں)  آئے گا (جس کو وہ پہچانتے ہیں)  اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں ؟ تو وہ کہیں گے ہاں تو ہمارا پروردگار ہے پس اللہ انھیں بلائے گا اور جہنم کی پشت پر پل صراط رکھ دیا جائے گا تو تمام پیغمبر جو اپنی امتوں کے ساتھ (اس پل سے)  گزریں گے، ان سب میں سے پہلا میں ہوں گا اس دن سوائے پیغمبروں کے کوئی بول نہ سکے گا اور پیغمبروں کا کلام اس دن (اَ اللّٰھُمَّ سَلّمِ سَلّمِْ)  ہو گا اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کے مشابہ آنکڑے ہوں گے، کیا تم لوگوں نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں ؟ صحابہؓ نے عرض کی ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا تو وہ سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے سوائے اس کے کہ ان کی بڑائی کی مقدار سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں پر ان کے اعمال کے موافق اچکیں گے تو ان میں سے کوئی اپنے اعمال کے سبب (جہنم میں گر کر)  ہلاک ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے (مارے زخموں کے)  ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، اس کے بعد نجات پائے گا یہاں تک کہ جب اللہ دوزخیوں میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو اللہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کی پرستش کرتے تھے وہ نکال لیے جائیں، چنانچہ فرشتے انھیں نکالیں گے اور فرشتے انھیں سجدوں کے نشانوں سے پہنچا لیں گے اور اللہ تعالیٰ نے (دوزخ  کی)  آگ پر حرام کر دیا ہے وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔ پس ابن آدم کے کل جسم کو آگ کھا لے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، تو آگ سے وہ نکالے جائیں گے (اس حال میں کہ)  وہ سیاہ ہو گئے ہوں گے پھر ان کے اوپر آب حیات ڈالا جائے گا تو (اس کے پڑنے سے)  وہ ایسا نمو پکڑیں گے جیسے دانہ سیل کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اس کے بعد اللہ بندوں کے درمیان میں فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا اور ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان باقی رہ جائے گا اور وہ تمام دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا کہے گا کہ اے میرے پروردگار ! میرا منہ دوزخ (کی طرف)  سے پھیر دے چونکہ مجھے اس کی ہوا نے زہر آلود کر دیا ہے اور مجھے اس کے شعلہ نے جلا دیا ہے۔ اللہ فرمائے گا، اچھا، اگر تیرے ساتھ یہ احسان کر دیا جائے توتو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے گا ؟ وہ کہے گا کہ تیری بزرگی کی قسم نہیں کچھ نہیں مانگوں گا۔ پھر اللہ عز و جل اس بات پر، جس قدر اللہ چاہے گا، اس شخص سے پختہ وعدہ لے گا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کا منہ دوزخ (کی طرف)  سے پھیر دے گا پھر جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا تو اس کی تر و تازگی دیکھے گا۔ پھر جس اللہ تعالیٰ اس شخص کا خاموش رہنا پسند کرے گا، وہ آدمی چپ رہے گا اس کے بعد کہے گا کہ اے پروردگار ! مجھے جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے اس بات پر قول و قرار نہ کیے تھے کہ اس کے سوا جو تو مانگ چکا ہے کچھ اور نہ مانگے گا ؟ وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار ! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بد نصیب تو نہ کر۔ تو اللہ فرمائے گا کہ اگر تجھے یہ بھی عطا کر دیا جائے تو تو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا کہ قسم تیری بزرگی کی ! نہیں میں اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے، جس قدر اللہ چاہے گا، قول و قرار لے گا۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے گا۔ پس جب وہ جنت کے دروازے پر پہنچ جائے گا اور اس کی تر و تازگی اور سرور اس میں دیکھے گا تو جتنی دیر اللہ اس کا چپ رہنا چاہے گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد کہے گا کہ اے میرے پروردگار !،مجھے جنت میں داخل کر دے۔ پھر عز و جل فرمائے گا کہ اے ابن آدم ! تو کس قدر عہد شکن ہے، کیا تو نے اس بات پر قول و قرار نہ کیے تھے کہ اس کے علاوہ جو تجھے دیا جا چکا ہے اور کچھ نہ  مانگے گا؟وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار!مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ (اس کی باتوں سے)  ہنسنے لگے گا اور خوش ہو گا۔ اس کے بعد اس کو جنت میں جا نے کی اجازت دے گا اور فرمائے گا کہ خواہش کر (یعنی جو جو کچھ تو مانگ سکتا ہے مانگ)  چنانچہ وہ خواہش کر نے لگے گا، یہاں تک کہ اس کی خواہشیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ بزرگ و برتر فرمائے گا کہ یہ یہ چیزیں اور مانگ۔ اب اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا یہاں تک کہ جب اس کی خواہشیں تمام ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے یہ بھی سب کچھ دیا جاتا ہے (یعنی تیری خواہشوں کے مطابق)  اور اسی کے برابر اور (بھی) ۔ ‘‘ (یہ حدیث سن کر)  سیدنا ابو سعید خدریؓ نے سیدنا ابوہریرہؓ سے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اس مقام پر یہ فرمایا تھا : ’’ اللہ عز و جل نے فرمایا کہ تجھے یہ بھی سبھی کچھ اور اس کے ساتھ اسی کی مثل دس گنا اور بھی دیا جاتا ہے۔ ‘‘ تو سیدنا ابوہریرہؓ نے جواب دیا کہ مجھے اس حدیث میں رسول اللہﷺ سے صرف یہی قول یاد ہے کہ تجھے یہ بھی دیا جاتا ہے اور اسی کے مثل اور (بھی)  تو سیدنا ابو سعیدؓ نے کہا کہ میں نے خود آپﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ تجھے یہ اور اسی کی مثل دس گنا اور دیا جاتا ہے۔ ‘‘

 باب : سجدہ سات ہڈیوں کے بل (ہونا چاہیے)

(۴۶۴)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ مجھ کو سات ہڈیوں پر سجدہ کر نے کا حکم دیا گیا ہے (وہ سات اعضاء یہ ہیں)  پیشانی (مع ناک کی نوک کے) ۔ ‘‘ یہ بتاتے ہوئے رسول اللہﷺ نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا۔ اور دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں، اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہم کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔

 باب : دونوں سجدوں کے درمیان کچھ دیر ٹھہرنا چاہیے

(۴۶۵)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں اس بات میں کمی نہ کروں گا کہ تمہیں ویسی ہی نماز پڑھاؤں جیسا کہ میں نے نبیﷺ کو پڑھاتے دیکھا ہے۔ ۔ ۔  یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۴۶۱)

 باب : سجدوں میں اپنی کہنیاں (زمین پر)  نہ بچھائے

(۴۶۶)۔ سیدنا انس بن مالکؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی دونوں کہنیاں (زمین پر) ، جس طرح کہ کتا بچھا لیتا ہے، نہ بچھائے۔ ‘‘

 باب : جو شخص اپنی نماز کی طاق رکعت میں پہلے سیدھا بیٹھ جائے پھر اس کے بعد کھڑا ہو

(۴۶۷)۔ سیدنا مالک بن حویرثؓ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبیﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا تو (دیکھا کہ)  جب آپﷺ اپنی نماز کو طاق رکعت میں ہوئے تھے تو جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے تھے کھڑے نہ ہوتے تھے۔ ‘۔ ‘

 باب : دو رکعتیں پڑھنے کے بعد تیسری کے لیے اٹھتے وقت تکبیر کہے

(۴۶۸)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نماز پڑھائی تو جس وقت انہوں نے اپنا سر (پہلے)  سجدے سے اٹھایا اور دوسر اسجدہ کیا اور جب (دوسرے سجدے سے)  سر اٹھایا اور جب دو رکعتوں سے (فراغت کر کے)  اٹھے تو (ان سب مواقع پر)  بلند آواز سے تکبیر کہی اور کہا کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔

 باب : تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ

(۴۶۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب (ان کے باپ عبداللہ ابن عمرؓ)  نماز میں بیٹھتے تو چار زانو بیٹھتے تھے، میں بھی اسی طرح بیٹھا، میں ان دنوں کمسن تھا تو (میرے باپ)  عبداللہ بن عمرؓ نے انھیں منع کیا اور کہا کہ نماز کا طریقہ تو یہی ہے کہ تم اپنا داہنا پاؤں کھڑا کر لو اور بایاں دہرا کر لو اس پر میں نے کہا آپ (یعنی عبداللہ بن عمرؓ)  بھی تو ایسا کرتے ہیں تو وہ بولے کہ میرے پاؤں (کمزور ہو گئے ہیں اور)  میرا وزن اٹھا نہیں سکتے۔

(۴۷۰)۔ سیدنا ابو حمید ساعدیؓ سے روایت ہے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اللہﷺ کی نماز یاد ہے میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ جب آپﷺ نے تکبیر (تحریمہ)  پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی بلندی تک اٹھائے اور جب آپﷺ نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے پھر اپنی پیٹھ کو جھکا دیا اور جس وقت آپﷺ نے اپنا سر (رکوع سے)  اٹھایا تو سیدھے ہو گئے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ پر چلی گئی اور جب آپﷺ نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھ دیے نہ ان کو بچھا یا اور نہ سمیٹا اور اپنے پاؤں کی انگلیاں آپﷺ نے قبلہ رخ کر لی تھیں پھر جس وقت آپﷺ دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھنے اور داہنے پاؤں کو آپﷺ نے کھڑا کر لیا پھر جب آخری رکعت میں بیٹھے تو آپﷺ نے اپنے بائیں پاؤں کو آگے کر دیا اور داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیا اور اپنی سرین پر بیٹھ گئے۔

 باب : جو پہلے تشہد کو واجب نہیں سمجھتا۔

(۴۷۱)۔ سیدنا عبداللہ بن بحینہؓ کہتے ہیں کہ وہ قبیلہ ازد شنوئیۃ کے ہیں اور نبی عبد مناف کے حلیف اور نبیﷺ کے اصحاب میں سے تھے کہ نبیﷺ نے (ایک دن)  لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی تو (بھولے سے)  پہلی دو رکعتوں (کے اختتام)  پر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں تو لوگ بھی آپﷺ کے ساتھ کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ جب آپﷺ نماز مکمل کر چکے اور لوگ آپﷺ کے سلام پھیرنے کے منتظر ہوئے تو آپﷺ نے بیٹھے ہی بیٹھے تکبیر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے اس کے بعد سلام پھیرا۔

 باب : دوسرے قعدہ میں (بھی)  تشہد پڑھنا (چاہیے)

(۴۷۲)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم جب نبیﷺ کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے تو (قعدہ میں)  یہ پڑھا کرتے تھے کہ اللہ پر سلام، جبریل پر سلام، میکائیل پر سلام اور فلاں پر سلام اور فلاں پر سلام تو (ایک مرتبہ)  رسول اللہﷺ نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا: ’’ اللہ تو خود ہی سلام ہے تو اس پر سلام بھیجنے کی کیا ضرورت ؟ پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو کہے ‘‘ تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبیﷺ ! تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور ا سکی برکتیں (نازل ہوں)  ہم پر سلام اور اللہ تعالیٰ کے سب نیک بندوں پر سلام۔ ‘‘ کیونکہ جس وقت تم یہ کہہ دو گے تو یہ دعا اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گی خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں۔ (اور)  میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ‘‘

 باب : سلام پھیرنے سے پہلے (نماز کے اندر)  دعا کرنا

(۴۷۳)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نبیﷺ کی زوجہ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے : ’’ اے اللہ ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور دجال کے فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کی خرابی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟)  تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ جب آدمی قرض دار ہو جاتا ہے تو جب وہ بات کہتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ‘‘

(۴۷۴)۔ امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمایے جسے میں اپنی نماز میں مانگوں۔ تو آپﷺ نے فرمایا یہ (دعا)  پڑھا کرو کہ ’’ اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کر نے والا نہیں پس تو مجھے اپنی رحمت سے معاف کر دے اور مجھ پر مہربانی کر بے شک تو معاف کرنے والا مہربان ہے۔ ‘‘

باب : جو دعا بھی اچھی معلوم ہو تشہد کے بعد (قعدہ میں)  پڑھے۔

(۴۷۵)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی تشہد کے بارے میں حدیث ابھی گزری ہے (دیکھیے حدیث : ۴۷۲) یہاں اس روایت میں، حدیث کے آخر میں یہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جوجو د عا اسے اچھی معلوم ہو اور وہ مانگنا چاہے تو وہ مانگ لے۔

 باب : (نماز کے اختتام پر)  سلام پھیرنا

(۴۷۶)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ، اختتام نماز پر جب سلام پھیرتے، تو جس وقت آپﷺ اپنا سلام پورا کر چکتے تو عورتیں کھڑی ہو جاتیں (اور چل دیا کرتیں)  تھیں اور آپﷺ اپنے کھڑے ہو نے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہر جایا کرتے تھے (یعنی وہیں بیٹھے رہتے تھے) ۔ امام زہر ی فرماتے ہیں :میرا خیال ہے اور پورا علم تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے کہ آپﷺ محض اس لیے ٹھہر جاتے تھے تاکہ عورتیں چلی جائیں اور مرد نماز سے فارغ ہو کر انہیں نہ پائیں۔

  باب : امام سلام پھیرے تو مقتدی بھی سلام پھیر دے

(۴۷۷)۔ سیدنا عتبان بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی تو جب آپﷺ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیر دیا۔

 باب : نماز کے بعد (اللہ کا)  ذکر کرنا (ثابت ہے)

(۴۷۸)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہوں تو اس وقت بلند آواز سے ذکر کرنا نبیﷺ کے دوراقدس میں (رائج)  تھا اور سیدنا ابن عباسؓ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب میں سنتا تھا کہ لوگ ذکر کرتے ہوئے لوٹتے تو میں (نماز کے)  مکمل ہو جانے کو معلوم کر لیتا تھا۔

(۴۷۹)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے پاس کچھ نادار لوگ آئے اور انھوں نے کہا کہ زیادہ دولت والے لوگ بڑے بڑے درجے اور دائمی عیش حاصل کر رہے ہیں، وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم روزہ رکھتے ہیں (غرض جو عبادت ہم کرتے ہیں وہ اس میں شریک ہیں اور)  ان کے پاس مال دولت کی زیادتی ہے جس سے وہ حج کرتے ہیں، عمرہ کرتے ہیں اور جہاد کرتے ہیں اور صدقہ دیتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ کیا میں تم سے ایک ایسی بات نہ بیان کروں کہ اگر اس پر عمل کرو تو جو لوگ تم سے آگے نکل گئے ہوں تم ان کو پالو اور تمہیں تمہارے بعد کوئی نہ پائے گا اور تم ان تمام لوگوں میں، جن کے درمیان تم ہو بہتر ہو جاؤ گے سوائے اس کے جو اسی کے مثل عمل کرے۔ لہٰذا تم ہر نماز کے بعد ۳۳مرتبہ سبحان اللہ، ۳۳مرتبہ الحمد للہ اور ۳۳مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم لوگوں نے اختلاف کیا اور ہم میں سے بعض نے کہا کہ ہم  ۳۳مرتبہ تسبیح پڑھیں گے اور ۳۳مرتبہ تحمید اور۴ ۳مرتبہ تکبیر پڑھیں گے تو میں نے پھر آپﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر یہ سب ۳۳، ۳۳ مرتبہ ہو جائے۔ ‘‘

(۴۸۰)۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ہر فرض نماز کے بعد (یہ دعا)  ’’ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے، وہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی ہے بادشاہت اور اسی کے لیے ہے تعریف اور وہ ہر بات پر قادر ہے۔ اے اللہ ! جو کچھ تو دے اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کوشش والے کی کو شش تیرے سامنے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ پڑھا کرتے تھے۔

 باب : جب امام سلام پھیر چکے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے بیٹھے

(۴۸۱) ۔ سیدنا سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب کوئی نماز پڑھ لیتے تو اپنا چہرہ مبارک ہماری طرف کر لیا کرتے تھے۔

(۴۸۲)۔ سیدنا زید بن خالد جہنیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ میں بارش کے بعد (جو رات کے وقت ہوئی تھی)  صبح کی نماز پڑھائی، پھر جب آپﷺ (نماز سے)  فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا : ’’ تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار عز و جل نے کیا فرمایا ہے ؟ وہ بولے کہ اللہ اور اس کا رسول اللہﷺ زیادہ جانتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بندوں میں سے کچھ لوگ مومن بنے اور کچھ کافر۔ تو جن لوگوں نے کہا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی تو ایسے لوگ میرے اوپر (یعنی اللہ پر)  ایمان لائے اور ستاروں (وغیرہ)  کا انکار کیا اور جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہم پر فلاں ستارے کے سبب سے بارش ہوئی تو وہ میرے (یعنی اللہ تعالیٰ کے)  منکر ہوئے اور ستاروں پر ایمان لائے۔ ‘‘

  باب : جو شخص لوگوں کو نماز پڑھانے کے بعد اپنی ضرورت یاد کرے اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا چلا جائے

(۴۸۳)۔ سیدنا عقبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے پیچھے مدینہ میں عصر کی نماز پڑھی تو آپﷺ سلام پھیر کر جلدی سے کھڑے ہوئے اور آدمیوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی کسی بیوی کے حجرہ کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپﷺ کی اس قدر تیزی سے گھبرا گئے۔ پھر آپﷺ ان (لوگوں)  کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپﷺ کی اس قدر تیزی کی وجہ سے متعجب ہیں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے کچھ سونا یا د آگیا تھا جو ہمارے ہاں رکھا ہوا تھا تو میں نے اس بات کو برا سمجھا کہ وہ مجھے اللہ کی یاد سے روکے لہٰذا میں نے اس کو تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔ ‘‘

  باب : نماز سے فراغت کے بعد دائیں اور بائیں گھومنا

(۴۸۴) ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں سے خواہ مخواہ شیطان کا کچھ حصہ نہ لگائے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس پر ضروری ہے کہ (نماز کے بعد)  صرف اپنی داہنی طرف کو گھومے، بے شک یقیناً میں نے نبیﷺ کو اکثر اپنی بائیں طرف کو گھومتے دیکھا ہے۔

  باب : کچے لہسن اور پیاز اور گندنا  کے باب میں جو حدیث آئی ہے اس کا بیان

(۴۸۵)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا :’ ’ جو شخص اس پودے یعنی لہسن میں سے کھائے، وہ ہماری مسجد میں ہم سے نہ ملے۔ ‘‘ راوی (عطا ء)  کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہا کہ کس قسم کا لہسن مراد ہے ؟ تو سیدنا جابرؓ بولے کہ میں یہی جانتا ہوں کہ کچا لہسن مراد ہے یا لہسن کی بد بو مراد ہے۔

(۴۸۶)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص لہسن یا پیاز کھائے وہ ہم سے علیحدہ رہے۔ ‘‘ یا یہ فرمایا : ’’ ہماری مسجد سے علیحدہ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھے ’’ اور ایک مرتبہ نبیﷺ کے پاس ایک ہنڈیا لائی گئی جس میں چند سبزیاں (پکی ہوئی)  تھیں تو آپﷺ نے اس میں کچھ بو پائی تو دریافت فرمایا: ’’ اس میں کیا ہے ؟‘‘ تو جتنی سبزیاں اس میں تھیں وہ سب آپﷺ کو بتا دی گئیں پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ اسے میرے بعض صحابہ کی طرف (جو اس وقت)  آپﷺ کے پاس تھے، قریب کر دو۔ ‘‘ پھر جب آپﷺ نے اسے دیکھا کہ اس صحابی نے بھی یہ سبزیاں کھانا ناپسند کیا ہے تو آپﷺ فرمایا : ’’ تم کھاؤ (میں نہ کھاؤں گا)  کیونکہ میں اس سے سرگوشیاں کرتا ہوں جس سے تم سرگوشیاں نہیں کرتے۔ ‘‘

(۴۸۷)۔ اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبیﷺ کے پاس ایک ’’ بدر‘‘ یعنی تھال یا بڑی پلیٹ لائی گئی جس میں سبزیاں تھیں۔

  باب : بچوں کا وضو کرنا ( ثابت ہے)

(۴۸۹)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ ایک بالکل الگ تھلگ، (لا وارث بچے کی)  قبر کے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے لوگوں کی امامت کی اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھی اور اس کی نماز (جنازہ)  پڑھی۔

(فائدہ) سیدنا ابن عباسؓ نے بھی نماز جنازہ پڑھی جو ابھی کم عمر تھے اور ظاہر ہے نماز کے لیے انہوں نے وضو کیا، جو اس حدیث سے ثابت کر نا مقصود ہے۔ (محمود الحسن اسد)

(۴۸۹)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ جمعہ کے دن ہر بالغ پر غسل واجب ہے۔ ‘‘

(۴۹۰)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے ایک شخص نے کہا کہ تم نبیﷺ کے ہمراہ (عیدگاہ)  جانے کے لیے حاضر ہوئے ہو ؟ تو انھوں نے کہا ہاں ! اگر میری قرابت آپﷺ سے نہ ہوتی تو میں حاضر نہ ہو سکتا (یعنی کمسنی کے سبب سے)  آپﷺ اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے پاس ہے پھر آپﷺ نے خطبہ پڑھا، اس کے بعد عورتوں کے پاس آئے اور انھیں نصیحت کی اور ان کو (اللہ کے احکام کی)  یاد دلائی اور انھیں حکم دیا کہ صدقہ دیں پس کوئی عورت اپنا ہاتھ اپنی انگوٹھی کہ طرف بڑھانے لگی اور کوئی اپنی بالی کی طرف اور کوئی کسی زیور کی طرف اور اس کو اتار اتار کر سیدنا بلالؓ کی چادر میں ڈالنے لگیں، پھر آپﷺ اور سیدنا بلالؓ گھر تشریف لے آئے۔

 باب : رات کے وقت اور اندھیرے میں عورتوں کا مسجدوں کی طرف جانا (منع نہیں ہے)

(۴۹۱)۔ سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب رات کے وقت تم میں سے تمہاری عورتیں مسجد میں (نماز پڑھنے کے لیے)  جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

جمعہ کا بیان

 

 باب : جمعہ کی فرضیت

(۴۹۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ ہم باعتبار ترتیب امم، سب امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں جا نے کے لحاظ سے سب سے آگے ہوں گے۔ ہاں یہود و نصاریٰ کو ہم سے پہلے کتاب ضرور دی گئی تھی پس جمعہ کے دن عبادت کرنا ان پر فرض کیا گیا تھا مگر انھوں نے اختلاف کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی ہدایت کر دی۔ پس سب لوگ اس بات میں ہم سے پیچھے ہیں۔ یہود کا دن کل (ہفتہ)  اور نصاریٰ کا دن پرسوں (یعنی اتوار)  ہے۔ ‘‘

 باب : جمعہ کے دن خوشبو لگانا (مسنون ہے)

(۴۹۳)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ ہر بالغ پر جمعہ کے دن نہانا ضروری ہے اور یہ کہ مسواک کرے اور اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے۔ ‘‘

  باب : نماز جمعہ کی فضیلت

(۴۹۴)۔  سیدنا ابوہریرہؓ سے رویت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص جمعہ کے دن مثل غسل جنابت کے (خوب اچھی طرح)  غسل کرے، اس کے بعد (نماز کے لیے)  چلے تو گویا اس نے ایک اونٹ کا صدقہ کیا اور جو دوسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک گائے صدقہ کی اور جو تیسری گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا اور جو چوتھی گھڑی میں چلے تو گویا اس نے ایک مرغی صدقہ میں دی اور جو پانچویں گھڑی میں چلے تو اس نے گویا ایک انڈا صدقہ میں دیا پس جس وقت امام (خطبہ دینے)  نکل آتا ہے تو فرشتے سننے کے لیے اندر آ جاتے ہیں (اور ثواب کا سلسلہ موقوف ہو جاتا ہے) ۔ ‘‘

 باب : جمعہ کی نماز کے لیے تیل لگا (کر جانا)  مسنون ہے

(۴۹۵)۔ سدنا سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس قدر ممکن ہو طہارت کرے پھر (بالوں کو)  تیل لگائے یا اپنے گھر کی خوشبو استعمال کرے پھر اس کے بعد (جمعہ کی نماز کے لیے)  نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان (جو مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے ہوں)  تفریق نہ کرے پھر جس قدر اس کی قسمت میں ہو نماز پڑھے اس کے بعد جس وقت امام خطبہ دینے لگے تو چپ رہے تو اس کے وہ گناہ جو اس جمعہ اور گزشتہ جمعہ کے درمیان (ہو گئے)  ہیں، معاف کر دیے جائیں گے۔ ‘‘

(۴۹۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے۔ : ’’ جمعہ کے دن غسل کرو اور اپنے سروں کو اچھی طرح دھو  ڈالو، اگرچہ تم جنبی نہ ہو اور خوشبو کا استعمال کر و۔ ‘‘ ابن عباسؓ بولے کہ غسل تو ہاں (میں بھی جانتا ہوں کہ اس کا آپﷺ نے حکم دیا ہے)  لیکن خوشبو کو میں نہیں جانتا۔

 باب : (جمعہ کے دن)  عمدہ سے عمدہ لباس جو میسر ہو پہنے

(۴۹۷)۔ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطابؓ نے ایک مسجد کے پاس دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو انھوں نے عرض کی کہ یارسول اللہﷺ ! کاش آپﷺ اس کو مول لے لیتے اور اس کو جمعہ کے دن اور قاصدوں کے سامنے جب وہ آپﷺ کے پاس آتے ہیں ، پہن لیا کریں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’اسے تو وہی شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہو۔ ‘‘اس کے بعد (کہیں سے)  اسی قسم کے کئی ریشمی جوڑے رسول اللہﷺ کے پاس آ گئے تو آپﷺ نے عمر بن خطابؓ کو اس میں سے ایک حلہ (ریشمی جوڑا)  دے دیا۔ عمرؓ نے عرض کی یارسول اللہﷺ !آپﷺ نے مجھے یہ دیدیا حالانکہ آپﷺ حلہ عطارد کے بارے میں کچھ ارشاد فرما چکے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’میں نے آپ کو اس لیے نہیں دیا کہ تم خود اس کو پہنو۔ ‘‘پس عمرؓ نے وہ حلہ اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں تھا پہنا دیا۔

  باب : جمعہ کے دن مسواک کرنا (مسنون ہے)

(۴۹۸)۔ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’مجھے اپنی امت کے لوگوں کی تکلیف و مشقت کا خیال نہ ہوتا تو بے شک انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔ ‘‘

(۴۹۹)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ ہم لوگوں سے) رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’میں نے تمہیں مسواک (کی فضیلتوں)  کے بارے میں بہت کچھ سکھایاہے۔ ‘‘

 باب : جمعہ کے دن فجر کی نماز میں کیا پڑھا جائے ؟

(۵۰۰)۔ سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جمعہ کے دن فجر (کی نماز)  میں الٓم السجدۃ (سورۂ سجدہ) اور (ھَلْ اَتیٰ عَلیَ الْاِ نْسَانِ حِیْنُ مِّنَ الدَّھْر﴾ (سورۂالدھر) پڑھا کرتے تھے۔

 باب : جمعہ گاؤں اور شہروں، دونوں میں جائز ہے

(۵۰۱)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ تم سب لوگ مسؤل (یعنی حاکم و ذمہ دار)  ہو اور تم سب لوگوں سے تمہاری رعیت کے بارے میں باز پرس ہو گی۔ امام (بھی)  مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت بازپرس ہو گی اور مرد اپنے گھر میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی باز پرس ہو گی اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی اور رعیت کی بابت باز پرس ہو گی اور خادم اپنے آقا کے مال میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی اور رعیت کی بابت بازپرس ہو گی۔ ‘‘ (راوی ابن شہاب)  کہتے ہیں کہ مجھے خیال ہے کہ انھوں نے یہ بھی کہا : ’’ آدمی اپنے باپ کے مال میں مسؤل ہے اور اس سے اس کی رعیت کی بابت باز پرس ہو گی اور تم سب کے سب مسؤل (یعنی حاکم)  ہو اور تم سب سے تمہاری رعیت کی بابت باز پرس ہو گی۔ ‘‘

(فائدہ) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس سے پہلی روایت میں بحرین کی بستی جوانی کا ذکر کر چکے ہیں جس میں نبیﷺ کی مسجد کے بعد سب سے پہلے خطبہ جمعہ ہوا۔ اور یہ روایت بھی امام زہری نے رذیق ابن حکیم کے اس سوال کے جواب میں بیان کی کہ کیا میں اپنے حبشی غلاموں کو جو میری زمینوں پر کھیتی باڑی کرتے ہیں، جمعہ پڑھاؤں تو انہوں نے کہا کہ وہاں پڑھاؤ اور پھر یہ حدیث بیان کی۔ ‘‘   (محمود الحسن اسد)

 باب : جسے جمعہ کے لیے آنا ضروری نہیں،کیا اس پرغسل جمعہ واجب ہے ؟

(۵۰۲)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کی یہ روایت کہ جس میں یہ ذکر تھا کہ ’’ ہم باعتبار ترتیب امم، سب امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں لے جا نے کے حساب سے سب سے آگے ہوں گے۔ ‘‘ گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث : ۴۹۲) اس روایت کے آخر میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’ ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک دن غسل کر ے، اس دن اپنا سر اور اپنا بدن اچھی طرح صاف کرے۔

 باب : کتنی دور سے جمعہ کے لیے آنا چاہیے اور یہ کن کن پر واجب ہے

(۵۰۳)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نبیﷺ کی زوجہ محترمہ کہتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کی نواحی بستیوں سے نماز جمعہ میں باری باری آیا کرتے تھے۔ گردو غبار کی وجہ سے ان (کے جسم)  پر غبار اور پسینہ بہت آتا تھا پھر ان کے بدن سے بھی پسینہ نکلتا تھا تو بد بو ہوا کرتی تھی پس ایک آدمی ان میں سے رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ (اس وقت)  میرے ہاں تھے تو نبیﷺ نے فرمایا : ’’ کاش تم لوگ اس دن (گردو غبار اور بد بو سے) صاف رہا کرتے۔

(۵۰۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے ہی روایت ہے کہ لوگ اپنے کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے جاتے تو اپنی اسی حالت میں چلے جاتے تو ان سے کہا گیا : ’’ کا ش تم غسل کر لیا کرو۔ ‘‘

(۵۰۵)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جمعہ کی نماز آفتاب کے ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔

 باب : جمعہ کے دن گرمی زیادہ ہو تو کیا جائے ؟

(۵۰۶)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب خوب سردی ہوتی تھی تو نبیﷺ نماز جلدی پڑھتے تھے وہ جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو نماز کو کھڑا کر کے (ٹھنڈے وقت)  پڑھتے تھے یعنی جمعہ کی نماز۔

  باب : جمعہ کے لیے (پیدل)  چلنے کا بیان

(۵۰۷)۔ سیدنا ابو عبسؓ روایت کرتے ہیں کہ اور وہ اس وقت نماز جمعہ کے لیے جا رہے تھے کہ میں نے نبیﷺ سے سنا ہے : ’’ جس کے دونوں پاؤں اللہ کی راہ میں غبار آلود ہو جائیں تو اس کو اللہ نے (دوزخ کی)  آگ پر حرام کر دیا ہے (یعنی دوزخ کی آگ اس کو نہیں چھو سکتی)۔ ‘‘

 باب :کوئی مسلمان جمعہ کے دن اپنے بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر نہ بیٹھے۔

(۵۰۸)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے منع فرمایا ہے کہ : ’’ کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ ‘‘ عرض کیا گیا کہ یہ کیا صرف جمعہ میں ؟ فرمایا : ’’ جمعہ اور اس کے علاوہ اور موقع پر بھی۔ ‘‘

  باب : جمعہ کے دن اذان کا بیان

(۵۰۹)۔ سیدنا سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن اذان نبیﷺ اور امیر المومنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروقؓ کے دور میں اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا پھر عثمانؓ (خلیفہ)  ہوئے اور (مسلمان)  لوگ زیادہ ہو گئے تو عثمانؓ نے زوراء پر تیسری اذان بڑھا دی۔ (امام بخاری رحمۃ اللہ نے کہا کہ زوراء مدینہ کے بازار میں مقام کا نام ہے) ۔

 باب : جمعہ کے دن ایک موذن کا ہونا بہتر ہے

(۵۱۰)۔ سیدنا سائب بن یزیدؓ ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے عہد میں صرف ایک ہی موذن تھا اور وہ جمعہ کے دن کی اذان اسی وقت دیتا تھا جب امام بیٹھ جاتا تھا یعنی اپنے منبر پر (بیٹھ جاتا تھا) ۔

 باب : امام کو چاہیے کہ جب منبر پر اذان سنے تو جواب دے

(۵۱۱)۔ سیدنا معاویہ بن سفیانؓ سے روایت ہے کہ وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ موذن نے اذان کہی۔ تو جب اس نے کہا (اَﷲُ اَکْبَرُ اَ ﷲُ اَکْبَرُ) معاویہؓ نے بھی کہا (اَﷲُ اَکْبَرُاﷲُ اَکْبَرُ)  پھر موذن نے کہا ( (اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ))  تو معاویہؓ نے کہا ( (وَ اَنَا)) موذن نے کہا ( (اشھد ان محمدا رسول اللہ)) تو معاویہؓ نے کہا ( (وانا))     پھر اذان ختم ہو چکی تو معاویہؓ نے کہا کہ اے لوگو! میں نے رسول اللہﷺ سے اسی مقام (یعنی منبر)  پر سنا کہ جب موذن نے اذان دی تو آپﷺ وہی فرماتے جاتے تھے جو تم نے میری گفتگو سنی۔

 باب : خطبہ منبر پر (چڑھ کر دینا چاہیے)

(۵۱۲)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کی حدیث منبر کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث ۲۴۹) کہ رسول اللہﷺ نے اس (منبر)  کے اوپر نماز پڑھی اور پھر الٹے پاؤں واپس اترے اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر جب فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا : ’’ اے لوگو ! میں نے یہ اسی لیے کیا تا کہ تم میری اقتداء کر و اور میرا (طریقۂ)  نماز سیکھ لو۔ ‘‘

(۵۱۳)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ کھجور کے تنے کا ایک ستون تھا جس پر (ٹیک لگا کر)  نبیﷺ کھڑے ہوتے تھے پھر جب آپﷺ کے لیے منبر رکھ دیا گیا تو ہم نے ستون سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی جیسی رونے کی آواز  سنی، یہاں تک کہ نبیﷺ منبر سے اترے اور اپنا ہاتھ اس ستون پر رکھا۔ (تب وہ آواز ختم ہو گئی) ۔

 باب : خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا (چاہیے)

(۵۱۴)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے، اس کے بعد بیٹھ جاتے تھے، پھر کھڑے ہو جاتے تھے جیسا کہ تم اب کرتے ہو۔

باب :جو شخص خطبے میں بعد ثنا ء کے اما بعد کہے (تو وہ سنت کے موافق کرتا ہے)

(۵۱۵)۔ سیدنا عمرو بن تغلبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی چیز لائی گئی تو آپﷺ نے اس کو تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا، پھر آپﷺ کو یہ خبر ملی کہ جن کو آپﷺ نے نہیں دیا وہ ناخوش ہو گئے ہیں تو آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : ’’ اما بعد! اللہ کی قسم میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں حالانکہ جس کو چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس سے کہ جس کو دیتا ہوں زیادہ پسند ہوتا ہے لیکن میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں بے چینی اور گھبراہٹ دیکھتا ہوں۔ (اور جنہیں میں نہیں دیتا ہوں)  ان لوگوں کو میں اس سیر چشمی اور بھلائی کے حوالے کر دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے، انھیں لوگوں میں عمرو بن تغلب (رضی اللہ عنہ)  بھی ہیں۔ ‘‘ (عمر و بن تغلبؓ کہتے ہیں)  اللہ کی قسم ! میں نہیں چاہتا کہ رسول اللہﷺ کے اس کلمہ کے عوض مجھے سرخ اونٹ بھی ملیں۔

(۵۱۶)۔ سیدنا ابو حمید ساعدیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک رات کو نماز کے بعد کھڑے ہو گئے اور تشہد پڑھا اور اللہ کی حمد بیان کی جیسا کہ اس کے لائق ہے پھر فرمایا ’’ اما بعد !۔ ‘‘

(۵۱۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (ایک روز)  نبیﷺ منبر پر چڑھے اور وہ آخری مجلس تھی جس میں رسول اللہﷺ بیٹھے۔ آپﷺ ایک بڑی چادر اپنے شانوں پر ڈالے ہوئے تھے اور آپﷺ نے اپنا سرمبارک مٹیالے رنگ کی ایک پٹی سے باندھ لیا تھا، پس آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے لوگو ! میرے قریب آ جا ؤ۔ ‘‘ چنانچہ لوگ آپﷺ کے پاس جمع ہو گئے۔ اس کے بعد آ پﷺ نے فرمایا : ’’ اما بعد ! پس یہ قبیلہ انصار کم ہوتے جائیں گے اور دوسرے لوگ بڑھتے جائیں گے لہٰذا جو شخص امت میں سے کسی چیز کا مالک ہو اور وہ اختیار رکھتا ہو کہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر یا کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہو تو اس کو چاہیے کہ ان (یعنی انصار)  میں سے نیکو کار کی (نیکی)  کو قبول کرے اور ان میں خطا کار (کی خطا)  سے تجاوز کرے۔ ‘‘

 باب : جب امام دورانِ خطبہ کسی شخص کو آتا دیکھے تو اسے حکم دے کہ دو رکعت نماز پڑھ لے۔

(۵۱۸)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص (مسجد میں)  آیا (اور بیٹھ گیا)  اس وقت نبیﷺ خطبہ دے رہے تھے تو نبیﷺ نے اس سے دریافت فرمایا : ’’ کیا تو دو رکعت (تحیۃ المسجد)  پڑھ چکا ہے ؟‘‘ اس نے عرض کی کہ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔ ‘‘

 باب : جمعہ کے دن خطبہ میں بارش کے لیے دعا مانگنا

(۵۱۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ)  نبیﷺ کے عہد میں لوگوں پر قحط سالی پڑی تو جمعہ کے دن اس حالت میں کہ نبیﷺ خطبہ دے رہے تھے، ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مال تلف ہو گیا اور بچے بھوکے ہیں تو آپﷺ ہمارے لیے (بارش کی)  دعا کیجیے۔ پس آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ہم (اس وقت)  آسمان میں ایک ٹکڑا بھی بادل کا نہ دیکھتے تھے مگر قسم اس ذات (پاک)  کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ آپﷺ اپنے ہاتھوں کو سمیٹنے بھی نہ پائے کہ بادل پہاڑوں کی طرح چھا گیا، پھر آپﷺ اپنے منبر پر سے اترے نہیں یہاں تک کہ میں نے بارش کو آپﷺ کی ڈاڑھی مبارک پر ٹپکتے ہوئے دیکھا۔ پھر اس دن ہم پر بارش ہوئی اور دوسرے دن اور تیسرے دن اور چوتھے دن (اسی طرح)  دوسرے جمعہ تک بارش برستی رہی تو وہی اعرابی  (یا انسؓ نے)  کہا کہ (کوئی)  دوسرا (آدمی جمعہ کے وقت)  پھر کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! (بارش کی کثرت سے)  مکان گر گئے اور مال ڈوب گیا پس آپﷺ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا فرمایے تو آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا : ’’ اے اللہ  ! ہمارے آس پاس مینہ بر سا اور ہم پر نہ برسا ‘‘ پھر آپﷺ بادل کے جس ٹکڑے کی طرف اشارہ کرتے تھے وہ ہٹ جاتا تھا اور پورا مدینہ (بادل سے صاف ہو کر)  مثل حوض کے ہو گیا اور وادیِ قناۃ کا نالہ ایک مہینے تک بہتا رہا اور جو شخص کسی طرف سے آتا تھا وہ بارش کی کیفیت بیان کرتا تھا۔

 باب : جمعہ کے دن اس حالت میں کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو چپ رہنا (چاہیے)

(۵۲۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : ’’ اگر جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس والے سے یہ کہے کہ چپ رہ تو بے شک تو نے لغو حرکت کی۔ ‘‘

 باب : جمعہ کے روز جس ساعت دعا مقبول ہوتی ہے (وہ کتنی دیر رہتی ہے)

(۵۲۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو فرمایا : ’’ اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس کو جو مسلمان بندہ پالے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے دے گا۔ ‘‘ اور آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس ساعت کی کمی بیان کرنے کے لیے اشارہ فرمایا۔

 باب : اگر نماز جمعہ میں لوگ امام سے (علیحدہ ہو کر)  بھاگ جائیں تو۔ ۔ ۔

(۵۲۲)۔ سیدناجابربن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں ایک قافلہ (شام کی طرف سے)  آیا جو غلہ لا دے ہوئے تھا تو لوگ اس قافلے کی طرف متوجہ ہو گئے یہاں تک کہ نبیﷺ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہو ئی : ’’ اور جب ان لوگوں نے کسی تجارت یا کھیل کو دیکھا تو اس کی طرف چل دیے اور (اسے نبی !)  تمہیں خطبہ میں کھڑے چھوڑ دیا :‘‘ (الجمعہ :۱۱)

 باب : نماز جمعہ کے بعد اور اس سے پہلے نفلی نماز پڑھنا

(۵۲۳)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر سے پہلے دو رکعات اور ظہر کے بعد دو رکعات اور مغرب کے بعد دو رکعات اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد (بھی)  دو رکعات پڑھتے اور جمعہ کے بعد نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ (اپنے گھر)  لوٹ آتے، اس کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

نماز خوف کا بیان

 

باب :نماز خوف (کا بیان)

(۵۲۴) ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ نجدؔ کی طرف جہاد کیا تو ہم دشمن کے مقابل جا پڑے پس ہم نے ان لوگوں کے لیے صف بندی کی پھر رسول اللہﷺ ، ہمیں نماز پڑھانے لگے تو ایک گروہ (ہم میں سے)  آپﷺ کے ساتھ کھڑا ہوا اور دوسرا دشمن کے سامنے رہا پھر رسول اللہﷺ نے اپنے ساتھ والوں کے ہمراہ ایک رکوع کیا اور دوسجدے کیے۔ اس کے بعد وہ لوگ (جو آپﷺ کے ساتھ نماز میں شریک تھے) ، اس گروہ کی جگہ پر چلے گئے جس نے نماز نہ پڑھی تھی۔ اب دوسرا گر وہ آیا تو رسول اللہﷺ نے ایک رکعت ان کے ساتھ پڑھی اور دو سجدے کیے، اس کے بعد سلام پھیر دیا پھر ان میں سے ہر شخص نے اکیلے ایک ایک رکوع اور دو دو سجدے ادا کیے۔

باب :نماز خوف پیا دہ اور سوار (دونوں حالتوں میں پڑھائی جا سکتی ہے)

(۵۲۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ دوسری روایت میں (رسول اللہﷺ کا فرمان نقل)  فرماتے ہیں کہ اگر دشمن، ان (مسلمان سپاہیوں)  سے زیادہ ہوں تو (یہ مسلمان سپاہی)  پیادہ اور سوار (جس طرح ممکن ہو نماز)  پڑھ لیں۔

فائدہ : ثابت ہوا کہ مسلمان فوج کے وہ شیر دل سپاہی جو کسی غیرمسلم ملک میں جا سوسی کے لیے جاتے ہیں، وہ وہاں، اوپر دی گئی حدیث کے تحت، جیسے بھی ممکن ہو نماز قائم کریں کیونکہ نماز ہر حال میں فرض ہے۔

باب : اگر دشمن کا پیچھا کر رہے ہوں یا دشمن پیچھا کر رہا تو نماز سواری پر اور اشارے سے پڑھنا

(۵۲۶)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب غزوۂ احزاب سے واپس ہوئے تو ہم سے فرمایا : ’’ کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں پہنچ کر۔ ‘‘ تو بعض لوگوں کو عصر کا وقت راستہ ہی میں ہو گیا اس لیے بعض لوگوں نے کہا کہ ہم تو نماز پڑھ لیتے ہیں کیونکہ نبیﷺ کے منع کرنے کا یہ مطلب نہ تھا کہ نماز عصر کا وقت نکل جائے چنانچہ انھوں نے نماز پڑھ لی۔ پھر یہ بات نبیﷺ سے بیان کی گئی تو آپﷺ نے کسی پر خفگی نہیں فرمائی۔

فائدہ : بعض صحابہ کرامؓ نے کسی جگہ پڑاؤ کیے بغیر سواری پر ہی نماز ادا کر لی تھی تا کہ قضا نہ ہو۔ اس پر مؤاخذہ نہ ہوا تھا۔ (محمود الحسن اسد)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

عیدین کا بیان

 

باب : عید کے دن ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیلنا

(۵۲۷)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں تھیں جو بعاث کی لڑائی کا قصہ گا رہی تھیں پس رسول اللہﷺ لیٹ رہے اور آپﷺ نے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر ابوبکر صدیقؓ  آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانی آلات نبیﷺ کے پاس ؟ پس رسول اللہﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا : ’’ انھیں چھوڑدو۔ ‘‘ پھر جب ابو بکرؓ دوسرے کام میں لگ گئے۔ تو میں نے ان دونوں لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔ یہعید کا دن تھا اور حبشی لوگ ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے۔ یا تومیں نے رسول اللہﷺ سے کہا یا خود رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا : ’’ کیا تو یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی جی ہاں۔ تو آپﷺ نے مجھ کو اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپﷺ کے رخسار کے ساتھ مس کر رہا تھا۔ آپﷺ فرماتے تھے : ’’ کھیلو کھیلو اے بنی ارفدہ۔ ‘‘یہاں تک کہ جب میں اکتا گئی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ بس ؟‘‘ میں نے کہا :جی ہاں،آپﷺ نے فرمایا : ’’ جایے۔ ‘‘

باب : عید الفطر کے دن (نماز کے لیے)  نکلنے سے پہلے کچھ کھا لینا چاہیے

(۵۲۸)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عید الفطر کے روز دن چڑھنے دیتے تھے یہاں تک کہ چند کھجوریں کھا لیتے (یعنی نماز عید سے پہلے) ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ طاق کھجوریں کھاتے تھے۔

 

باب : عید قربان کے دن کھانا کھانا (کس وقت مسنون ہے)

(۵۲۹)۔ سیدنا براء بن عازؓب کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو خطبہ میں فرماتے ہوئے سنا : ’’ ہم اپنے اس (عید کے)  دن سب سے پہلے جو کام کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں گے، اس کے بعد واپس آ کر قربانی کریں گے۔ پس جو کوئی ایسا کرے گا وہ ہماری سنت (کی راہ)  پر پہنچ جائے گا۔ ‘‘

(۵۳۰)۔ سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے عید الا ضحی کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہماری طرح قربانی کرے تو وہ یقیناً (ہمارے)  طریقے پر پہنچ گیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ (قربانی جو)  نماز سے پہلے (اس نے کی فضول)  ہے اور اس کی قربانی نہیں ہے۔ ‘‘ پس ابو بردہ بن نیارؓ براءؓ کے ماموں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے قربان کی ہے اور میں نے یہ سمجھا کہ آج کا دن کھانے اور پینے کا دن ہے اور میں نے چاہا کہ میری بکری سب سے پہلی بکری ہو جو میرے گھر میں ذبح ہو پس میں نے اپنی بکری ذبح کر ڈالی اور قبل اس کے کہ نماز کے لیے آؤں کچھ ناشتہ بھی کر لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہاری بکری گوشت کی بکری ہے (قربانی کی نہیں ہے)  ‘‘ تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ ! ہمارے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ پیارا ہے تو کیا وہ مجھے کفایت کر جائے گا ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ہاں اور تمہارے بعد کسی کو کفایت نہ کرے گا۔ ‘‘

باب : عید گاہ کی طرف بغیر منبر کے جانا

(۵۳۱)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید گاہ تشریف لے جاتے تھے تو سب سے پہلی چیز جس سے رسول اللہﷺ ابتدا فرماتے تھے نماز تھی۔ نماز مکمل ہو جانے کے بعد آپﷺ لوگوں کے مقابل کھڑے ہو جاتے اور لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے پس آپﷺ انھیں پند و نصائح فرماتے اور احکام دیتے۔ بعد ازاں اگر آپﷺ چاہتے کہ کوئی لشکر روانہ کریں تو اس کو تیار کرتے یا دیگر کسی کام کا حکم کرنا چاہتے تو حکم فرماتے پھر آپﷺ واپس ہو جاتے۔ سیدنا ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ آئندہ لوگ اسی (دستور)  پر رہے یہاں تک کہ میں مروان کے ساتھعید الا ضحی یا عید الفطر میں نکلا اور وہ اس وقت مدینہ کا حاکم تھا، پس جب ہم عید گاہ پہنچے تو ایک منبر وہاں رکھا ہوا تھا جس کو کثیر بن صلت نے تیار کیا تھا اور یکایک مروان کے یہ چاہتے ہی کہ نماز پڑھنے سے پہلے اس پر چڑھے، میں نے اس سے کہا کہ اللہ کی قسم ! تم لوگوں نے (سنت نبوی کو)  بدل دیا۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اے ابو سعید ! وہ بات جاتی رہی جو تم جانتے ہو۔ میں نے کہا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اللہ کی قسم ! وہ اس سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ تب اس نے کہا کہ لوگ ہمارے لیے نماز کے  بعد بیٹھے نہ تھے اس لیے میں نے خطبہ کو نماز سے پہلے کر دیا۔

باب : عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا اور خطبہ سے پہلے بغیر اذان و اقامت نماز ادا کرنا

(۵۳۲)۔ سیدنا ابن عباسؓ اور جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ (رسول اللہﷺ کے عہد میں) عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دن نماز (عید)  کی اذان نہ کہی جاتی تھی۔

(فائدہ)  پیدل یا سوار جا نے کی ممانعت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے جواز کا پہلو نکلتا ہے۔ اور خطبہ سے پہلے نماز کا اثبات گزشتہ حدیث سے ہو چکا۔ (محمود الحسن اسد)

باب : خطبہ،عید کی نماز کے بعد (دینا چاہیے)

(۵۳۳)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ کے ساتھ پڑھی۔ یہ سب لوگ خطبہ سے پہلے نماز  پڑھتے تھے۔

باب : ایام تشریق میں عبادت کر نے کی فضیلت

(۵۳۴)۔ سیدنا ابن عباسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اور کسی بھی دن میں عبادت کرنا ان دس دنوں میں عبادت کر نے سے افضل نہیں ہے۔ ‘‘ صحابہ نے عرض کی کہ جہاد بھی نہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ہاں ! جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو جہاد میں اپنی جان اور مال پیش کرتا ہوا نکلا پھر کسی چیز کو لے کر نہ لوٹا۔ ‘‘

باب : منیٰ میں قیام کے دوران اور عرفات میں تکبیر کہنا

(۵۳۵)۔ سیدنا انسؓ سے تلبیہ کی بابت پوچھا گیا کہ تم نبیﷺ کے ہمراہ کس طرح کیا کرتے تھے ؟ سیدنا انسؓ نے کہا کہ تلبیہ کہنے والا تلبیہ کہہ لیتا تھا اسے منع نہ کیا جاتا اور تکبیر کہنے والا تکبیر کہہ لیتا تھا تو اسے بھی منع نہ کیا جاتا تھا۔

باب : عیدگاہ میں اونٹ کی یا اور کسی جانور کی قربانی کرنا

(۵۳۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ اونٹ کی یا کسی اور جانور کی قربانی عید گاہ میں کیا کرتے تھے۔

باب : جس شخص نے عید کے دن جب واپس ہونے لگا تو راستہ بدل دیا

(۵۳۷)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ، ایک راستے سےعید گاہ جاتے اور واپسی پر راستہ بدل دیتے تھے

(۵۳۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کی حدیث حبشی لوگوں کے کھیل کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے (یکھیے حدیث : ۲۸۶)  اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ پس سیدنا عمر بن خطابؓ نے انھیں ڈانٹا تو نبیﷺ نے فرمایا : ’’ انھیں رہنے دو،بے خوف ہو جاؤ اے بنی ارفدہ۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

وتر کا بیان

 

باب : وتر کے بارے میں کیا وارد ہوا ہے ؟

(۵۳۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے نماز تہجد کی بابت پوچھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ نماز شب کی دو رکعتیں ہیں پھر جب تم میں سے کسی کو صبح ہو جانے کا خوف ہو تو وہ ایک رکعت پڑھ لے، یہ ایک رکعت جس قدر نماز وہ پڑھ چکا ہے سب کو وتر بنا دے گی۔ ‘‘

(۵۴۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ گیارہ رکعتیں پڑھا کرتے تھے یعنی یہ آپﷺ کی نماز تہجد ہوتی تھی۔ اس میں سجدہ اتنا (طویل)  کرتے تھے کہ کوئی تم میں سے پچاس آیتیں پڑھ لے قبل اس کے کہ آپﷺ اپنا سراٹھائیں اور دو رکعتیں نماز فجر سے قبل پڑھا کرتے تھے پھر اپنی دائیں جانب لیٹ رہتے تھے یہاں تک کہ موذن نماز (کی اطلاع)  کے لیے آپﷺ کے پاس آتا۔

باب : نماز وتر کے اوقات

(۵۴۱)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رات کے ہر حصہ میں رسول اللہﷺ نے نماز وتر پڑھی ہے کبھی اول شب میں، کبھی نصف شب اور کبھی آخر شب میں اور آخر میں نبیﷺ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔

باب : چاہیے کہ اپنی آخر نماز وتر کو بنائے

(۵۴۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ (اے لوگو!)  تم رات کے وقت اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔ ‘‘

باب : سواری پر وتر پڑھنا (درست ہے)

(۵۴۳)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ سفر میں نماز وتر اپنی سواری پڑھا کرتے تھے۔

باب : رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد قنوت کا پڑھنا

(۵۴۴)۔ سیدنا انسؓ سے سوال کیا گیا کہ نبیﷺ نے صبح کی نماز میں قنوت پڑھا تھا ؟ انہوں نے کہا ہاں، پھر پوچھا گیا کہ کیا رکوع سے پہلے آپﷺ نے قنوت پڑھی تھی ؟ انہوں نے کہا رکوع کے بعد کچھ دنوں تک۔

(۵۴۵)۔ سیدنا انسؓ ہی سے روایت ہے کہ ان سے قنوت کی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بے شک قنوت نبیﷺ کے عہد میں پڑھی جاتی تھی۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رکوع سے پہلے۔ کہا گیا کہ فلاں شخص نے آپ (رضی اللہ عنہ)  سے نقل کر کے یہ خبر دی کہ آپ نے کہا کہ رکوع کے بعد (قنوت پڑھی تھی) ۔ سیدنا انسؓ نے فرمایا وہ جھوٹا ہے، رسول اللہﷺ نے صرف ایک مہینہ رکوع کے بعد قنوت پڑھی تھی میں خیال کرتا ہوں کہ آپﷺ نے کچھ لوگوں کو جو قاریِ (قرآن)  کہلاتے تھے اور ستر کے قریب تھے (نجد کے)  مشرکوں کی طرف بھیجا نہ کہ ان لوگوں کی طرف (جنہوں نے ان کو قتل کیا)  اور ان کے اور رسول اللہﷺ کے درمیان عہد (صلح)  تھا (مگر ان لوگوں نے بد عہد ی کی اور ان قاریوں کو بے وجہ قتل کر دیا)  پس رسول اللہﷺ ایک مہینے تک ان کے لیے بد دعا کرتے رہے۔ اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے ایک مہینے تک قنوت پڑھی اور آپﷺ ’’رعل‘‘اور ’’ ذکوان ‘‘قبیلوں پر بد دعا کرتے رہے۔

(۵۴۶)۔ سیدنا انسؓ سے ہی روایت ہے کہ قنوت مغرب اور فجر کی نماز میں (پڑھی جاتی)  تھی

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

بارش طلب کر نے کا بیان

 

باب : استسقاء کا بیان

(۵۴۷)۔ سیدنا عبداللہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ استسقاء کے لیے (جنگل کی طرف)  تشریف لے گئے اور (اس وقت)  آپﷺ نے چادر الٹ لی۔ اور ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی۔

باب :نبیﷺ کا بد دعا دینا کہ یا اللہ ! ان پر ایسی قحط سالی ڈال جیسی یوسف (کے عہد)  کی قحط سالی (تھی)

(۵۴۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی حدیث کہ نبیﷺ غریب مسلمانوں کے لیے دعائے نجات مانگتے اور (قبیلہ)  مضر (کے کافروں)  پر بد دعا کرتے۔ ۔ ۔ پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۵۴۵) اور اس روایت میں کہتے ہیں کہ آخر میں رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ (اے اللہ !)  قبیلۂ غفار کو معاف فرما دے اور (قبیلہ)  اسلم کو سلامت رکھ۔ ’’ ابن ابو الزناد نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے کہ یہ سب صبح کی نماز میں تھا۔

(۵۴۹)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے جب (قبول دعوت اسلام سے)  لوگوں کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو (اللہ سے)  دعا کی : ’’ اے اللہ ! (ان پر)  سات برس (قحط ڈال دے)  جیسا کہ یوسفؑ کے (عہد میں)  سات برس تک (مسلسل قحط رہا تھا) ۔ ‘‘ پس قحط نے انھیں آ لیا۔ جس نے ہر قسم کی روئیدگی کونیست و نابود کر دیا حتیٰ کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار اور سڑے جانور کھانا شروع کر دیئے اور بھوک کی وجہ سے (ضعف اس قدر ہو گیا کہ)  جب کوئی ان میں سے آسمان کی طرف دیکھتا تو اس کو دھواں (سا)  دکھائی دیتا۔ پس ابو سفیان (جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے)  آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے محمد! آپ  تو اللہ کی بندگی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور بے شک یہ آپﷺ کی قوم کی لوگ (ہیں جو مارے بھوک کے)  مرے جاتے ہیں۔ آپﷺ اللہ سے ان کے لیے دعا کیجیے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’ اے نبی ! تم اس دن کا انتظار کرو جس دن آسمان ایک صریح دھواں ظاہر کرے گا اگر ہم ان کافروں سے عذاب دور کر دیں تو یہ پھر (بھی)  کفر کریں گے اس کی سزا ان کو اسی دن ملے گی جس دن ہم ایک سخت گرفت میں ان کو پکڑیں گے۔ ‘‘ (الدخان :۱۰۔ ۱۶)

ابن مسعودؓ نے کہا کہ بطشہ (یعنی پکڑ)  بدر کے دن ہوئی اور بے شک (سورۂ دخان میں)  دخان (دھواں)  اور بطشہ (پکڑ)  اور (سورۂ فرقان میں)  لزام (قید)  اور سورۂ روم کی آیت میں جو ذکر ہے سب واقع ہو چکے ہیں۔

(۵۵۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ اکثر میں شاعر کے قول کو یاد کر کے نبیﷺ کے چہرۂ (مبارک)  کی طرف دیکھتا تھا جب کہ آپﷺ (دعائے)  استسقاء مانگتے ہوتے تھے پس آپﷺ  (منبرسے)  نہ اتر نے پاتے تھے کہ تمام پر نالے بہنے لگتے تھے (وہ قول شاعر کا یہ ہے)  : ’’ گورا ان کا رنگ، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے۔ لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقے سے ‘‘ اور یہ ابو طالبؔ کا کلام ہے۔

(۵۵۱)۔ سیدنا عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط زدہ ہوتے تو امیر المومنین عمر بن خطابؓ سیدنا عباس بن عبد المطلبؓ کے ذریعے سے بارش برسنے کی دعا مانگتے۔ کہتے کہ اے اللہ ! (پہلے)  ہم اپنے نبیﷺ کے ذریعے سے دعائے استسقاء کیا کرتے تھے اور تو بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم اپنے نبیﷺ کے چچا کے ذریعے سے دعا کرتے ہیں پس (اب بھی)  بارش بر سا دے۔ (سیدنا انسؓ)  کہتے ہیں کہ بارش برسنے لگتی تھی۔

باب : جامع مسجد میں بھی بارش کی دعا مانگنا

(۵۵۲)۔ سیدنا انسؓ کی حدیث اس شخص کے بارے میں، جو کہ مسجد میں داخل ہوا اور نبیﷺ کھڑے ہو کر خطبہ فرما رہے تھے پس اس نے عرض کی کہ بارش کے لیے دعا مانگیں، پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۵۱۹) اور اس روایت میں ہے کہ (انسؓ)  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ایک ہفتہ ہم نے آفتاب (کی شکل)  نہیں دیکھی تھی پھر آئندہ جمعہ میں ایک شخص اسی دروازے سے (مسجد میں)  حاضر ہوا اور (اس وقت)  رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے (جمعہ کا)  خطبہ دے رہے تھے پس وہ شخص آپﷺ کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! (لوگوں کے)  مال (پانی کی کثرت سے)  خراب ہو گئے اور راستے بند ہو گئے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ بارش کو روک دے۔ پس رسول اللہﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس کے بعد کہا : ’’ اے اللہ ! ہمارے آس پاس  بارش برسا اور ہم پرنہ بر سا، ٹیلوں، پہاڑوں، پہاڑیوں، میدانوں، وادیوں اور درختوں کی جڑوں میں بارش برسا۔ ‘‘ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ (نبیﷺ کے یہ کہتے ہی)  بارش بند ہو گئی اور ہم لوگ دھوپ میں چلنے پھرنے لگے۔

باب : جمعہ کے خطبہ میں جب کہ قبلہ کی طرف منہ نہ ہو، بارش کی دعا مانگنا

(۵۵۳)۔ سیدنا انسؓ ہی سے روایت ہے کہ، فرماتے ہیں کہ پس رسول اللہﷺ نے (دورانِ خطبہ کھڑے ہوئے)  اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ’’ اے اللہ بارش بر سا دے، اے اللہ ! بارش برسا دے، اے اللہ ! بارش بر سادے۔ ‘‘

باب : نبیﷺ نے استسقاء میں لوگوں کی طرف اپنی پیٹھ کس طرح پھیر لی؟

(۵۵۴) ۔ عبداللہ بن زیدؓ کی حدیث استسقاء کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث :۔ ۵۴۷) اور اس روایت میں ہے کہ آپﷺ نے اپنی پیٹھ لوگوں کی طرف پھیر لی اور قبلے کی طرف منہ کر لیا اور دعا مانگنے لگے، اس کے بعد اپنی چادر الٹ لی پھر ہم لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی، ان میں بلند آوا ز سے قرأت کی۔

باب : امام کا استسقا ء (کی دعا میں)  اپنا ہاتھ اٹھانا

(۵۵۵)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنے دونوں ہاتھ (اس قدر بلند) کسی دعا میں نہ اٹھاتے تھے جتنے دعائے استسقاء میں اور آپﷺ (استسقاء میں ہاتھ اس قدر بلند)  اٹھاتے تھے کہ آپﷺ کی دونوں بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔

 باب : جب بارش برسے تو کیا کہنا چاہیے ؟

(۵۵۶)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب بارش (برستی)  دیکھتے فرماتے : ’’ (اے اللہ !)  فائدہ دینے والی بارش برسا۔ ‘‘

باب : جب ہوا چلے (تو کیا کرنا چاہیے ؟)

(۵۵۷)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ جب تیز ہوا چلتی تھی تو نبیﷺ کے چہرے پر خوف کے آثار معلوم ہوتے تھے۔

باب : نبیﷺ کا فرمانا کہ باد صبا (یعنی ہوا)  کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔

(۵۵۸)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ بادِ صبا (یعنی مشرقی ہوا)  کے ذریعہ میری مدد کی گئی اور (قوم)  عاد، مغربی ہوا سے برباد کی گئی تھی۔

باب : زلزلوں اور (قیامت کی)  علامات کے بارے میں کیا کہا گیا ہے ؟

(۵۵۹)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’ اے اللہ ! ہمارے شامؔ میں اور ہمارے یمنؔ میں برکت دے۔ ‘‘ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کی اور ہمارے نجدؔ میں بھی (برکت کی دعا مانگیں)  تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے اللہ ! ہمارے شامؔ میں اور ہمارے یمنؔ میں برکت دے۔ ‘‘ کہتے ہیں کہ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجدؔ میں (بھی برکت کی دعا مانگیں)  آپﷺ نے فرمایا : ’’وہاں زلزلے ہوں گے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا گروہ وہیں سے نکلے گا۔ ‘‘

باب : سوا اللہ بزرگ و برتر کے کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہو گی ؟

(۵۶۰)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (۱)  کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہو گا (۲)۔ کوئی نہیں جانتا کہ شکم مادر میں کیا چیز ہے (۳)  کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا (۴) کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس مقام میں مرے گا (۵) کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب ہو گی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

گرہن کے بیان میں

 

باب : سورج گرہن میں نماز (پڑھنے کا بیان)

(۵۶۱)۔ سیدنا ابو بکرؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ سورج گرہن ہو گیا تو رسول اللہ کھڑے ہوئے اور (جلدی میں)  اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ہم بھی آپﷺ کے ساتھ داخل ہوئے۔ پھر ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔ یہاں تک کہ آفتاب روشن ہو گیا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ آفتاب اور ماہتاب کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے ہیں اور جب یہ کیفیت دیکھا کرو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو، یہاں تک کہ وہ حالت جاتی رہے۔ ‘‘ ایک اور روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ لیکن ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوف دلا تا ہے۔ ‘‘ حدیث گرہن کئی بار بیان کی گئی ہے، اسی طرح کی ایک حدیث میں سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا، جس دن کہ سیدنا ابراہیم (فرزند رسول اللہﷺ)  کی وفات ہوئی تولو گوں نے کہا کہ سیدنا ابراہیم کی وفات کے سبب سے سورج گرہن ہوا ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ سورج اور چاند نہ کسی کے مرنے سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کے جینے سے لہٰذا جب تم (گرہن کو)  دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ سے دعا کرو۔ ‘‘

باب : سورج گرہن میں صدقہ دینا

(۵۶۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں (ایک مرتبہ)  سورج گرہن ہوا تو رسول اللہﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور (نماز میں)  بہت طویل قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو وہ بھی بہت طویل کیا۔ پھر (رکوع کے بعد)  قیام کیا تو بہت طویل قیام کیا اور پہلے قیام سے کم  تھا ۔ پھر دوسری رکعت میں بھی  اسی کے مثل کیا جو پہلی رکعت میں کیا تھا اس کے بعد نماز مکمل کی اور اس وقت تک آفتاب صاف ہو چکا تھا۔ پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ کی حمدو ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’ آفتاب اور ماہتاب اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، نہ کسی کے مرنے سے گرہن میں آتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی سے۔ پس تم جب اسے دیکھو تو اللہ سے دعا کرو اور اسکی بڑائی بیان کر و اور نماز پڑھو اور صدقہ دو۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے امت محمد ! اللہ کی قسم ! اللہ سے زیادہ کوئی اس بات کی غیرت نہیں رکھتا کہ اس کا غلام یا اس کی لونڈی زنا کرے۔ اے امت محمد ! اللہ کی قسم ! اگر تم لوگ ان باتوں کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تمہیں ہنسی بہت کم اور رونا بہت زیادہ آئے۔

باب : گرہن کی نماز کے لیے اعلان کرنا

(۵۶۳)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو (بن عاصؓ) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں جب سورج گرہن ہوا تو ’’ الصَّلٰوۃجَامِعَۃٌ ‘‘کے الفاظ کے ساتھ اعلان کیا گیا۔ (یعنی نماز کے لیے اکٹھے ہو جاؤ) ۔

باب : گرہن میں عذاب قبر سے پناہ مانگنا

(۵۶۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک یہود یہ ان سے (کچھ)  دریافت کرنے آئی اور اس نے (بطور دعا کے ام المومنین عائشہؓ سے)  کہا کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے پناہ دے تو عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب کیا جائے گا ؟ تو رسول اللہﷺ سے عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا : ’’ ہاں۔ ‘‘ پھر (عائشہؓ نے)  گرہن والی حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا کہ (رسول اللہﷺ نے)  لوگوں کو حکم دیا کہ عذاب قبر سے پناہ مانگیں۔

باب : گرہن کی نماز جماعت سے پڑھنا

(۵۶۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے گرہن کی طویل حدیث ذکر کی پھر کہا کہ لوگوں نے عرض کی کہ  یا رسول اللہ ! (اس وقت)  ہم نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ کھڑے کھڑے کوئی چیز اپنے ہاتھ میں پکڑ رہے تھے پھر ہم نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ پیچھے ہٹے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے جنت کو دیکھا تھا اور ایک خوشۂ انگور کی طرف میں نے ہاتھ بڑھایا، اگر میں اسے لے آتا تو تم اسے کھایا کرتے جب تک کہ دنیا باقی رہتی اور (اس کے بعد)  مجھے دوزخ دکھائی گئی تو میں نے آج کے مثل کبھی خوفناک منظر نہیں دیکھا اور میں نے عورتوں کو دوزخ میں زیادہ پایا۔ ‘‘لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ ان کے کفر کے سبب سے۔ ‘‘ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں اگر تو ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے پھر (اتفاقاً)  کوئی بد سلوکی تیری جانب سے دیکھ لے تو (بلا تامل)  کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔ ‘‘

باب : جس نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنا اچھا سمجھا

(۵۶۶)۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیقؓ کہتی ہیں کہ بے شک نبیﷺ نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔

باب : گرہن میں اللہ کا ذکر کرنا

(۵۶۷)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ کہتے ہیں (ایک مرتبہ)  سورج گرہن ہوا تو نبیﷺ خوف زدہ ہو کر کھڑے ہو گئے آپﷺ کو اس بات کا خوف تھا کہ کہیں قیامت نہ آ جائے۔ پھر آپﷺ مسجد میں تشریف لائے اور بڑے لمبے قیام اور رکوع اور سجود کے ساتھ آپﷺ نے نماز پڑھی، اس قدر طویل نماز پڑھتے میں نے کبھی آپﷺ کو نہیں دیکھا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ یہ نشانیاں ہیں جن کو اللہ عز و جل اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، نہ کسی کی موت کے سبب ایسا ہوتا ہے اور نہ کسی کی زندگی کے سبب بلکہ اس کے ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے لہٰذا جب تم اسے دیکھو تو اللہ کے ذکر کی طرف اور اس سے دعا مانگنے اور اس سے استغفار کرنے کی طرف جھک جاؤ۔

باب : گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرأت کرنا

(۵۶۸)۔  ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے نماز کسوف میں اپنی قرأت بلند آوا ز سے کی، پھر جب آپﷺ اپنی قرأت سے فارغ ہوئے تو تکبیر کہی پھر رکوع کیا اور جب رکوع سے سر اٹھا یا تو کہا ( (سَمِعَ اﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗر بَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ)) اور دوبارہ قرأت کرنے لگے (مگر یہ بات صرف)  نماز کسوف یعنی گرہن کی نماز میں (آپﷺ نے کی۔ غرض اس نماز میں)  دو رکعتوں کے اندر چار رکوع اور چار سجدے کیے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

سجدۂ تلاوت کا بیان

 

باب : سجود قرآن اور اس کے طریقے کے بارے میں کیا وارد ہوا  ہے ؟

(۵۶۹)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے مکہ میں سورۂ نجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور آپﷺ کے ہمراہ سب لوگوں نے سجدہ کیا سوائے ایک بوڑھے کے، اس نے ایک مٹھی کنکریاں یا مٹی لے لی اور اسے اپنی پیشانی تک اٹھایا اور کہا مجھے یہی کافی ہے تو میں نے اس کو آخر میں دیکھا کہ بحالت کفر قتل کر دیا گیا (اسلام نصیب نہ ہوا) ۔

باب : (سورۂ)  ’’ صٓ ‘‘ میں سجدہ کرنا ثابت ہے

(۵۷۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ سورۂ ’’ صٓ‘‘ کا سجدہ ضرور ی سجدوں میں نہیں ہے اور بے شک میں نے نبیﷺ کو اس میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

باب : مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ سجدہ کرنا حالانکہ مشرک نجس اور بے وضو ہوتا ہے

(۵۷۱)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (سورۂ)  نجم کا سجدہ کیا۔ قریب ہی ابن مسعودؓکی روایت گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۵۶۹) اور آپﷺ کے ہمراہ (اس وقت)  مسلمانوں اور مشرکوں نے اور جن وانس (سب)  نے سجدہ کیا۔

باب : جس نے آیت سجدہ پڑھی اور سجدہ نہ کیا

(۵۷۲)۔ سیدنا زید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے سامنے ’’ سورۂ نجم ‘‘ پڑھی تو آپﷺ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

باب : سورۂ اِذَا السَّمَآ ءُ انْشَقَّتْ میں بھی سجدہ کرنا  ثابت ہے

(۵۷۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۂ ( اِذَا السَّمَآ ءُ انْشَقَّت﴾ پڑھی اور اس میں سجدہ کیا تو ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں نے نبیﷺ کو سجدہ کرتے نہ دیکھا ہوتا تو میں سجدہ نہ کرتا۔

باب : جو شخص ہجوم کی وجہ سے سجدۂ تلاوت کی جگہ نہ پائے

(۵۷۴)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہمارے سامنے وہ سورت پڑھتے تھے جس میں سجدہ ہوتا تھا تو آپﷺ سجدہ کرتے تھے اور ہم (بھی اس وقت)  آپﷺ کے ساتھ سجدہ کرتے تھے، پس ہم بہت ہجوم کر دیتے تھے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعض اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ پاتے تھے کہ جہاں وہ سجدہ کریں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

نماز کا قصر کا بیان

 

باب : نماز قصر کے بارے میں کیا وارد ہوا ہے اور کتنے دنوں تک قیام کرے تو قصر کر سکتا ہے ؟

(۵۷۵)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (ایک مرتبہ)  انیس دن قیام فرمایا اور برابر قصر کرتے رہے۔

(۵۷۶)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ تک گئے تو آپﷺ برابر دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ واپس آ گئے (راوی ابو اسحاق نے کہا)  میں نے (انسؓ سے)  کہا کہ آپ نے مکہ میں کچھ قیام کیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ہم دس دن وہاں ٹھہرے تھے۔

باب : منیٰ میں نماز کو قصر کریں یا پوری پڑھیں ؟

(۵۷۷)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں،میں نے منیٰ میں نبیﷺ اور ابو بکرؓ و عمرؓ کے ہمراہ دو رکعت نماز پڑھی اور امیر المومنین عثمانؓ کے ہمراہ بھی ان کے ابتدائی دور خلافت میں (دو ہی رکعت پڑھی)  اس کے بعد انہوں نے پوری نماز شروع کر دی۔

(۵۷۸) ۔ سیدنا حارثہ بن وہبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے نہایت امن کی حالت میں مقام منیٰ میں ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔

(۵۷۹)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ جب ان سے کہا گیا کہ امیر المومنین عثمان بن عفانؓ نے منیٰ میں ہم لوگوں کو چار رکعت نماز پڑھی تو انہوں نے کہا کہ ( (اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)) پھر انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں اور امیر المومنین عمر بن خطابؓ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ اے کا ش ! بجائے ان چار رکعتوں کے میرے حصے میں وہی دو مقبول رکعتیں آتیں۔ (جو نبیﷺ اور امیر المومنین ابو بکرؓ و عمرؓ پڑھا کرتے تھے) ۔

 باب : کس قدر سفر میں نماز قصر کرے ؟

(۵۸۰)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جو عورت اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ ایک دن رات کی مسافت کا سفر (اس حال میں)  کرے کہ اس کے ہمراہ کوئی محرم نہ ہو۔

باب : مغرب کی نماز سفر میں (بھی) تین رکعت پڑھے

(۵۸۱)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپﷺ کو سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب کی نماز (میں تاخیر کر دیتے پھر)  جب (اس کو)  پڑھتے تو تین رکعت پڑھتے اور پھر تھوڑی ہی دیر ٹھہر کر عشاء کی نماز پڑھ لیتے اوراس کی دو رکعتیں پڑھتے پھر سلام پھیر دیتے اور عشاء کے بعد نفل نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ نصف شب کو اٹھتے اور تہجد کی نماز پڑھتے۔

 باب : سواری پر نفلی نماز (جیسے تہجد وغیرہ)  ادا کرنا، چاہیے سواری کا منہ کسی بھی سمت ہو۔

(۵۸۲)۔ سیدنا جا بر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نفل نماز سوار ہو نے کی حالت میں ہی پڑھ لیتے تھے حالانکہ آپﷺ قبلہ کی بجائے کسی اور سمت جاتے ہوتے۔

باب : نفل نماز کا گدھے پر سواری کی حالت میں پڑھنا

(۵۸۳)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھی اور ان کا منہ قبلہ کے بائیں طرف تھا (جب وہ نماز پڑھ چکے)  تو پوچھا گیا کہ آپ نے خلاف قبلہ نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اگر میں نے رسول اللہﷺ کو ایساکرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں (کبھی)  ایسا نہ کرنا۔

 باب : سفر میں فرض نماز کے بعد سنتیں نہ پڑھنا

(۵۸۴) ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ (سفر میں بہت)  رہا ہوں مگر میں نے آپﷺ کو سفر میں سنتیں پڑھتے کبھی نہیں دیکھا اور اللہ تعالیٰ (سورۃ الممتحنہ میں)  فرماتا ہے کہ ’’ بے شک تم لوگوں کے لیے رسول اللہﷺ کے افعال میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘

باب : جس شخص نے سفر میں فرض نماز سے پہلے یا بعد کی سنتیں نہ پڑھیں (بلکہ کوئی اور نفل نماز (یعنی تہجد یا اشراق)  پڑھی تو اس نے خلاف سنت نہیں کیا)

(۵۸۵)۔ سیدنا عامر بن ربیعہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ رات کو سفر میں اپنی سواری پر نفل نماز پڑھتے تھے، بھلے اس سواری کا منہ جس طرح بھی ہو۔ (یعنی خلاف کعبہ ہو تب بھی) ۔

باب : سفر میں مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھنا

(۵۸۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب سفر میں چلتے ہوتے تو ظہر اور عصر جمع کر لیتے اور مغرب اور عشاء کو بھی جمع کر کے ادا فرماتے تھے۔

فائدہ :۔ آجکل پانی میں چلنے والے جہاز خصوصاً ’’  بحری فوج ‘‘ کے جہا ز کئی کئی دن تک سمندر میں رہتے ہیں اور جہاز کے عملے کے ارکان پوری نماز بھی پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ سنتیں وغیرہ بھی پوری کی پوری ادا کرتے ہیں۔ بعض حالتوں میں عملے کی ڈیوٹی کی نوعیت اس طرح ہوتی ہے کہ مسلسل چار چار گھٹنے اور چھ چھ گھنٹے ڈیوٹی پر حاضر رہنا ہوتا ہے اور مزید کہ سمندر کی لہریں جہاز کو مسلسل اوپر سے نیچے پٹختی رہتی ہیں جس سے اکثر لوگوں کو  (sea sickness)سمندر کی ایک بیماری جس کی وجہ سے  سر چکرانا اور قے وغیرہ بہت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ پریشان حال ہوتے ہیں بہت سے تو بیچارے لیٹ جاتے ہیں اور ڈیوٹی بھی نہیں کر سکتے، کھانا نہیں کھا سکتے، وغیرہ وغیرہ، تو ایسی صورت میں مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بحریہ کے عملے کو ’’ قصر نماز ادا کرنا ‘‘ ہو گی نہ کی پوری نماز مع سنتوں اور نوافل کے اور پھر ان حالات میں دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنا ہو گا، کیونکہ اگر کسی کی چھ گھنٹے ڈیو ٹی ہو اور وہ اپنی ڈیوٹی چھوڑ بھی نہ سکتا ہو، تو لازماً جس کسی کی ڈیوٹی کا ٹائم دوپہر دو بچے سے رات آٹھ بجے تک ہو گا وہ نماز عصر اور نماز مغرب ادا نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا نبیﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس کو پہلے دو نمازیں یعنی ظہر کی دو رکعت نماز قصر کے ساتھ ہی عصر کی دو رکعت نماز قصر ادا کرنا ہو گی او اسی طرح جب وہ رات آٹھ بجے ڈیوٹی سے واپس آئے تو پہلے مغرب کی تین رکعت نماز ادا کرے اور پھر عشاء کی دو رکعت نماز قصر ادا کرے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں پر رسول اللہﷺ کی اتباع و اطاعت ہی فرض ہے اور رسول اللہﷺ کا طریقہ و عمل سفر میں دو ہی رکعت نماز ادا کر نا ہے، پوری نماز پڑھنا نبیﷺ کی سنت یا طریقہ و عمل نہیں ہے، البتہ رات کے وقت اگر وہ چاہے تو نفل یعنی تہجد ادا کر سکتا ہے اور فجر کی اذان سے پہلے پہلے وتر ادا کر لے۔ باقی فجر کی نماز کی سنتیں اس کو لازماً ادا کرنا ہوں گی اور پھر دو رکعت نماز فجر ادا کر نا ہو گی اور باقی لو گ بھی، با جماعت یا بغیر جماعت کے، اسی طرح اپنی اپنی نماز ’’ قصر ‘‘ کے ساتھ ادا کریں۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک رخصت ہے کہ جس کو بلا چوں چرا قبول کیا جائے اور اس کا شکر یہ ادا کیا جائے کہ اس نے ہماری کمزوریوں کو جانتے ہوئے اور ہمارے اوپر سفر کی تمام حالتوں میں ہمیں نماز قصر کی رخصت دے دی۔ یہ اس رحمن و رحیم کی خاص مہربانی ہے اور اگر ہم پھر بھی اس رخصت یعنی نماز قصر کو نہیں اپناتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف دے گئی رخصت کا عملاً انکار ہے کہ جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر سفر کی صورت یا مندرجہ بالا صورتیں، فوج، فضائیہ، رینجرز اور مجاہدین کے ساتھ پیش آئیں تو وہ بھی اس طرح نماز قائم کر سکتے ہیں۔  واللہ اعلم با لصواب !

باب : اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو پہلو پر لیٹ کر نماز پڑھے

(۵۸۷)۔ سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر تھی تو میں نے رسول اللہﷺ سے نماز کی بابت پوچھا کہ بیٹھ کر پڑھوں تو جائز ہے یا نہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ کھڑے ہو کر پڑھو اور اگر طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پھر اگر بیٹھنے کی بھی طاقت نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھو۔ ‘‘

 باب : جب مریض بیٹھ کر نماز شروع کر دے پھر درمیان نماز اچھا ہو جائے یا مرض میں تخفیف معلوم ہو تو باقی نماز کھڑے ہو کر مکمل کرے

(۵۸۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو تہجد کی نماز کبھی بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا جہاں تک کہ جب آپﷺ کی عمر مبارک زیادہ ہو گئی تو آپﷺ بیٹھ کر قر أت کرتے پھر جب رکوع کر نا چاہتے تو کھڑے ہو جاتے اور تقریباً تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔

(۵۸۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ ایک روایت میں کہتی ہیں کہ دوسری رکعت میں بھی ایسا کرتے تھے پھر جب آپﷺ نماز مکمل کر لیتے تو دیکھتے اگر میں جاگتی ہوتی تو میرے ساتھ باتیں کرتے اور اگر میں سوئی ہوتی تو آپﷺ لیٹ رہتے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

تہجد کی نماز کا بیان

 

باب : رات کے وقت نماز تہجد کا بیان

(۵۹۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتے تو کہتے : ’’ اے اللہ ! ہر طرح کی تعریف تیرے لیے ہے، تو مد بر ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جوان کے درمیان ہیں اور تیر ی ہی تعریف ہے، تو نور ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جوان کے درمیان ہیں اور تیر ی ہی تعریف ہے، تو بادشاہ ہے آسمان و زمین کا اور ان چیزوں کا جوان کے درمیان ہیں اور تیری ہی تعریف ہے، تو سچا ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تیرا ملنا برحق ہے اور تیری بات سچی ہے اور جنت و دوزخ برحق ہے اور کل پیغمبر برحق ہیں اور محمدﷺ سچے ہیں اور قیامت برحق ہے۔ اے اللہ ! میں تیرا فرمانبردار ہوں اور تجھ پر ایمان لایا ہوں اور تجھ پر بھروسا کیا ہے اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور تیر ہی مدد سے مخالفین کے ساتھ جھگڑتا ہوں اور تجھ ہی کو حاکم بناتا ہوں تو میرے اگلے پچھلے، ظاہر پوشیدہ گناہوں کو معاف فرما دے، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے، کوئی معبود نہیں مگر تو ہی۔ ‘‘ یا فرمایا : ’’ تیرے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں۔ ‘‘

باب : نماز شب یعنی تہجد کی فضیلت

(۵۹۱)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں جو شخص کوئی خواب دیکھتا تھا تو وہ رسول اللہﷺ سے بیان کر تا تھا تو مجھے بھی آرزو ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھوں اور رسول اللہﷺ سے بیان کروں اور میں نوجوان تھا اور رسول اللہﷺ کے عہد میں مسجد میں سویا کرتا تھا چنانچہ میں نے (ایک دن)  خواب میں دیکھا گویا کہ دو فرشتوں نے مجھے پکڑا ہے اور مجھے دوزخ کی طرف لے گئے تو یکایک (میں دیکھتا ہوں کہ)  وہ ایسی پیچ دار بنی ہوئی ہے جیسے کنواں اور اس کے دو کھمبے ہیں۔ اس میں کچھ لوگ ہیں جن کو میں نے پہچان لیا۔ پس میں کہنے لگا کہ دوزخ سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ سیدنا عبداللہؓ کہتے ہیں کہ پھر ہمیں ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تم ڈرو نہیں۔ اس خواب کو میں نے ام المومنین حفصہؓ (جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی ہمشیرہ تھیں)  سے بیان کیا اور حفصہؓ نے اسے رسول اللہﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ عبداللہ کیا ہی اچھا آدمی ہے، کا ش ! تہجد پڑھتا ہوتا۔ ‘‘ تو اس کے بعد عبداللہ بن عمرؓ رات کو بہت کم سوتے تھے۔

باب : مریض کے لیے قیام اللیل (تہجد)  کے چھوڑنے کا بیان

(۵۹۲)۔ سیدنا جندب بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ بیمار ہو گئے تو ایک رات یا دو رات آپﷺ (تہجد کے لیے)  نہیں اٹھے۔

باب : نبیﷺ کا تہجد اور نوافل کی ترغیب دینا بغیر اس کے کہ آپﷺ اس کو واجب کریں

(۵۹۳)۔ امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک شب ان کے اور سیدنا فاطمہؓ بنت نبیﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ’’ تم دونوں نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! ہماری جانیں تو اللہ کے اختیار میں ہیں پس جب وہ ہمیں اٹھا نا چاہے گا ہمیں اٹھا دے گا۔ جب میں نے یہ کہا تو رسول اللہﷺ واپس ہو گئے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے سنا کہ آ پﷺ جاتے ہوئے  اپنی ران پر ہاتھ مارتے جاتے تھے اور یہ فرما رہے تھے : ’’ اور انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑ الو ہے۔ ‘‘

(۵۹۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کوئی کام، حالانکہ وہ آپﷺ کو محبوب ہوتا تھا اس خوف سے ترک کر دیتے تھے کہ لوگ اس پر عمل کریں گے اور وہ کہیں ان پر فرض نہ کر دیا جائے گا اور رسول اللہﷺ نے نماز چاشت کبھی نہیں پڑھی اور میں اسے پڑھتی ہوں۔

باب : نبیﷺ کا رات کو اس قدر نماز پڑھنا کہ آپﷺ کے پاؤں سوج جاتے

(۵۹۵)۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اس قدر قیام فرماتے تھے کہ آپﷺ کے دونوں پاؤں یا (یہ کہا کہ)  آپﷺ کی دونوں پنڈلیوں پر ورم آ جاتا تھا تو آپﷺ سے کہا جاتا تھا (کہ اس قدر عبادت شاقہ نہ کیجیے)  تو آپﷺ جواب میں فرماتے تھے : ’’ کیا میں اللہ کا شکر گزار ہوں بندہ نہ بنوں ؟‘‘

باب : جو شخص اخیر رات کو سوتا رہا

(۵۹۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں سے زیادہ پسند داؤدؑ کی نماز جیسی نماز ہے اور تمام روزوں میں زیادہ پسند اللہ تعالیٰ کو داؤدؑ کے روزے جیسا روزہ ہے اور وہ نصب شب سوتے تھے اور تہائی رات میں نماز پڑھتے تھے اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سو رہتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہ رکھتے تھے۔

(۵۹۷)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جو عمل ہمیشہ کیا جا سکے (وہ عمل)  رسول اللہﷺ کو پسند تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپﷺ (رات کو)  کس وقت اٹھتے تھے ؟ انہوں نے کہا اس وقت اٹھتے تھے جب مرغ کی آواز سن لیتے تھے۔

(۵۹۸)۔ ایک روایت میں ہے کہ جب آپﷺ مرغ کی آواز سن لیتے تھے اس وقت نماز تہجد پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔

(۵۹۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ ایک دوسری روایت میں کہتی ہے کہ میں نے اخیر شب میں نبیﷺ کو اپنے پاس سوتے ہوئے ہی پایا۔

باب : نماز تہجد میں لمبا قیام کرنا مسنون ہے

(۶۰۰)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شب نبیﷺ کے ہمراہ نماز تہجد پڑھی تو آپﷺ برابر کھڑے ہوئے یہاں تک کہ میں نے ایک برا ارادہ کیا۔ پوچھا گیا کہ آپ (رضی اللہ عنہ)  نے کیا ارادہ کیا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ارادہ کیا تھا کہ نبیﷺ کو (کھڑا)  چھوڑ کر بیٹھ جاؤں۔

باب : نبیﷺ کی رات کی نماز کیسے تھی اور آپﷺ رات کو کتنی نماز پڑھتے تھے ؟

(۶۰۱)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی یعنی رات کو۔

(۶۰۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے انھیں میں وتر اور (سنت)  فجر کی دو رکعتیں بھی ہوتی تھیں۔

 باب : نبیﷺ کا رات کے وقت نماز پڑھنا اور سونا اور (اس بات کا بیان کہ)  قیام شب میں سے کس قدر منسوخ ہو گیا ؟

(۶۰۳)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کسی مہینے میں افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ خیال کرتے تھے کہ آپﷺ اب اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے مگر جس مہینے آپﷺ روزہ رکھنے لگتے تھے تو پے درپے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم لوگ خیال کرتے تھے کہ اب آپﷺ اس مہینے میں کوئی روزہ چھوڑیں گے نہیں اور آپﷺ کی (نماز پڑھنے اور سونے کی)  یہ حالت تھی کہ اگر تم چاہتے کہ آپﷺ کو رات کے وقت  نماز پڑھتے دیکھ لیں تو دیکھ لیتے اور اگر تم چاہتے کہ آپﷺ کو سوتا ہوا دیکھ لیں تو دیکھ لیتے۔

 باب : شیطان کا گردن کے پیچھے گدی پر گرہ دے دینا جب کہ کوئی شخص رات کو نماز نہ پڑھے

(۶۰۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ تم میں سے ہر ایک کی گردن کے پیچھے گدی پر شیطان تین گرہ دے دیتا ہے جب وہ سوتے لگتا ہے۔ ہر گرہ میں یہ پڑھ کر پھونک دیتا ہے ’’ ابھی بہت رات باقی ہے سوتا رہ‘‘ پھر اگر وہ بیدار ہوا اور اس نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے اور اگر اس نے وضو کر لیا تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور پھر اگر اس نے نماز پڑھ لی تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے اور صبح کو ہشاش بشاش اور دل شاد اٹھتا ہے ورنہ صبح کو بزدل اور سست مزاج اٹھتا ہے۔

باب : جب کوئی شخص سوتا رہے اور نماز نہ پڑھے شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے

(۶۰۵)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے سامنے ایک شخص کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ برابر صبح تک سوتا رہتا ہے نماز (تہجد)  کے لیے نہیں اٹھتا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ شیطان اس کے کان میں پیشاب کر دیتا ہے۔ ‘‘

باب : رات کے پچھلے پہر نماز کے اندر دعا کرنا (اللہ کو بہت پسند ہے)

(۶۰۶)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ ہمارا پروردگار بزرگ و برتر ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے جب کہ پچھلی تہائی رات باقی رہ جاتی ہے، تو فرماتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے پس میں اس کی دعا قبول کر لوں ؟ کوئی ہے جو مجھ سے کچھ مانگے تو میں اسے عطا کر دوں ؟ کوئی ہے جو استغفار کرے تو میں اسے معاف کر دوں ؟ ‘‘

 باب : جو شخص شروع رات میں سویا اور اخیر رات میں جا گا۔

(۶۰۷)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ پوچھا گیا کہ رات کو نبیﷺ کی نماز کس طرح ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپﷺ شروع رات میں سوتے تھے اور اخیر رات میں اٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد پھر اپنے بستر کی طرف لوٹ آتے تھے پھر جب موذن اذان دیتا تو آپﷺ اٹھتے پس اگر آپ کو ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔

 باب : نبیﷺ کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کا قیام

(۶۰۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے رسول اللہﷺ کی رمضان کی نماز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیا رہ رکعت سے زیادہ نماز نہ پڑھتے تھے۔ (پہلے)  چار رکعت پڑھتے تھے پس تم ان کی خوبی اور ان کے طول کی کیفیت نہ پوچھو، اس کے بعد پھر آپﷺ چار رکعت نماز پڑھتے تھے پس تم ان کی خوبی اور ان کے طول کی کیفیت نہ پوچھو، اس کے بعد تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا۔ ‘‘

 باب : عبادت میں اپنی جان پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔

(۶۰۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ مسجد میں)  نبیﷺ داخل ہوئے تو (کیا دیکھتے ہیں کہ)  ایک رسی دونوں ستونوں کے درمیان لٹک رہی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ یہ رسی کیسی ہے ؟‘‘ لوگوں نے عرض کی کہ یہ رسی ام المومنین زینبؓ کی لٹکائی ہوئی ہے جب وہ نماز میں کھڑے کھڑے تھک جاتی ہیں تو رسی سے لٹک جاتی ہیں نبیﷺ نے فرمایا : ’’ نہیں ایسا ہر گز نہ کرنا چاہیے، اس کو کھول دو، تم میں سے ہر ایک اپنی طبیعت کے خوش رہنے تک نماز پڑھے پھر جب تھک جائے تو چاہیے کہ بیٹھ جائے۔ ‘‘

باب : جو شخص رات کو اٹھتا اور نماز تہجد پڑھتا ہو تو اس کے لیے اس کا ترک کر دینا مکروہ ہے۔

(۶۱۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا : ’’ اے عبداللہ ! تم فلاں شخص کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھا کر تا تھا پھر اس نے رات کا اٹھنا اور نماز پڑھنا ترک کر دیا تھا۔ ‘‘

باب : اس شخص کی فضیلت جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے

(۶۱۱)۔ سیدنا عبادہ بن صامتؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص رات کو اٹھے اور کہے : ’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اس کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ ہی کے لیے ہر طرح کی تعریف ہے اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور اللہ بہت بڑا ہے اور طاقت و قوت کسی میں نہیں مگر اللہ کی مدد  سے۔ ‘‘ اس کے بعد کہے :۔ ’’ اے اللہ ! میرے گناہ معاف کر دے۔ ‘‘  یا کوئی دعا کرے تو اس کی دعا قبول کر لی جائے گی، پھر اگر وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز مقبول ہو گی۔ ‘‘

(۶۱۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے وعظ میں رسول اللہﷺ کا ذکر کرنے لگے کہ آپﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا : ’’ تمہارا بھائی (عبداللہ بن رواحہؓ) لغویات نہیں کہتا (کہ دیکھو وہ ان اشعار میں کیسے سچے مضامین بیان کر رہا ہے) ۔ : ’’ ہم میں اللہ کے رسول ہیں جو اسی کی کتاب پڑھ کر ہمیں سناتے ہیں جب صبح کی پو پھٹتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے، اسی نے رستہ بتلا دیا۔ بات ہے اس کی یقینی جو کہ دل میں اتر جاتی ہے۔ رات کو رکھتا ہے پہلو اپنے بستر سے الگ اور کافروں کے خواب گاہ کو نیند بھاری کرتی ہے۔ ‘‘

(۶۱۳)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد میں میں نے یہ (خواب)  دیکھا کہ گویا میرے ہاتھ میں ایک استبرق (ریشمی کپڑے)  کا ایک ٹکڑا ہے تو گویا میں جنت کے جس مقام میں جانا چاہتا ہوں وہ مجھے وہاں لے کر اڑ جاتا ہے اور میں نے یہ دیکھا گو یا کہ دو شخص میرے پاس آئے۔ بقیہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے حدیث : ۵۹۱)

باب : نفلی نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنی چاہئیں۔ (اور استخارہ کی دعا)

(۶۱۴)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں تمام کاموں میں استخارہ کی تعلیم فرمایا کرتے تھے (اور اس اہتمام کے ساتھ کہ)  جس طرح ہمیں آپﷺ قرآن کی کسی سورت کی تعلیم فرماتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کا قصد کرے تو اسے چاہیے کہ نماز فرض کے علاوہ دو رکعت نماز پڑھے اور (نماز کے بعد)  کہے : ’’ اے اللہ ! میں تیرا فضل عظیم چاہتا ہوں، بیشک تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا اور تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا، تو چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین اور دنیا میں اور میرے کام کے آغاز اور انجام میں بہتر ہے تو اس کو میرے لیے مقدر کر دے اور اس کو میرے لیے آسان کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے نقصان دہ ہے، میرے لیے دین میں یا دنیا میں اور میرے کام کے آغاز میں اور انجام میں تو اس کو مجھ سے علیحدہ کر دے اور مجھ کو اس سے علیحدہ کر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو وہ میرے لیے مقدر کر دے اور اس سے مجھ کو خوش کر دے۔ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اور اپنی حاجت کو (اللہ سے)  عرض کر دے۔ ‘‘

 باب : سنت فجر کی دونوں رکعتوں کا بالا التزام پڑھنا اور بعض لوگوں نے انھیں نفل کہا ہے

(۶۱۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نوافل میں سے کسی نفل نماز کا اتنا التزام نہیں فرماتے تھے جتنا کہ فجر کی دو رکعتوں (سنتوں)  کا (اہتمام فرماتے تھے) ۔

باب : سنت فجر کی دونوں رکعتوں میں کیا پڑھے ؟

(۶۱۶)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ان دونوں رکعتوں کو جو نماز فجر سے پہلے پڑھی جاتی ہیں بہت ہلکی پڑھتے تھے یہاں تک کہ میں (اپنے دل میں)  کہتی تھی کہ (شاید)  آپﷺ نے ام القرآن (یعنی سورۂ فاتحہ)  بھی پڑھی ہے یا نہیں۔

باب : حضر میں چاشت پڑھنا ثابت ہے

(۶۱۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں مجھے میرے جانی دوست نبیﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے میں انھیں نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ مر جاؤں وہ تین باتیں یہ ہیں (۱) ہر مہینے میں تین روزے رکھنا (۲)  نماز چاشت کا پڑھنا (۳)  وتر پڑھ کر سونا۔

با ب۔ ظہر سے پہلے دو رکعتیں مسنون ہیں

(۶۱۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں کبھی نہ چھوڑتے تھے اور صبح سے پہلے دو رکعتیں۔ (مکمل بخاری میں اس باب کی پہلی حدیث میں ظہر سے پہلے دو رکعتوں کا ہی ذکر ہے)

باب : مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت نفل نماز پڑھنا

(۶۱۹)۔ سیدنا عبداللہ مزنیؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہے کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ مغرب کی نماز سے پہلے نفل پڑھو۔ ‘‘‘ (یہی تین مرتبہ آپﷺ نے فرمایا)  اور تیسری بار یہ فرمایا : ’’ جو شخص چاہے۔ ‘‘ آپﷺ نے اس بات کو اچھا نہ سمجھا کہ لو گ اس کو سنت سمجھ لیں (لہٰذا اختیار دے دیا کہ جس کا دل چاہے پڑھے اور جس کا دل چاہے نہ پڑھے) ۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

مکہ اور مدینہ کی مسجدوں میں نماز کا بیان

 

 باب : مکہ اور مدینہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی فضلیت

(۶۲۰)۔  سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ سفرنہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف (۱)  مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ)  (۲)  مسجد نبوی (۳)  مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) ۔ ‘‘

(۶۲۱) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میری مسجد میں ایک نماز پڑھنا باقی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ایک ہزار درجے افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے (کہ اس میں پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے) ۔ ‘‘

باب : مسجد قباء (کی فضیلت کا بیان)

(۶۲۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نماز چاشت نہ پڑھتے تھے مگر جس دن کہ مکہ جاتے کیونکہ وہ مکہ میں چاشت ہی کے وقت جاتے تھے پس وہ کعبہ کا طواف کر کے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور جس دن کہ مسجد قباء میں جاتے (اس دن بھی نماز چاشت پڑھتے)  اور وہ ہر ہفتہ میں مسجد قباء جاتے پس جب وہ مسجد میں داخل ہوتے تو اس بات کو برا جانتے تھے کہ بغیر نماز پڑھے اس سے باہر نکل آئیں۔ سیدنا ابن عمرؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺ مسجد قبا کی زیارت کو سوار اور پیدل جایا کرتے تھے۔ (نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمرؓ)  کہا کرتے تھے کہ میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا کہ میں نے اپنے دوستوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں کسی کو منع نہیں کرتا رات میں یا دن میں جس وقت چاہے نماز پڑھے سوائے اس کے کہ طلوع آفتاب (کے وقت نماز پڑھنے)  کا قصد نہ کرے اور نہ غروب آفتاب (کے وقت نماز پڑھنے)  کا۔

باب : نبیﷺ کی قبر اور منبر کے درمیانی مقام کی فضیلت

(۶۲۳) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میرے گھراور منبر کے درمیان ایک باغ ہے جنت کے باغوں میں سے۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

نماز میں کوئی کام کر نے کا بیان

 

باب : نماز میں کلام کا ممنوع ہونا ثابت ہے

(۶۲۴)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کو سلام کرتے تھے حالانکہ آپﷺ نماز میں ہوتے تھے اور آپﷺ ہمیں جواب بھی دے دیا کرتے تھے۔ پھر جب ہم نجاشی (بادشاہ حبش)  کے پاس سے لوٹ کر آئے تو ہم نے آپﷺ کو نماز میں سلام کیا، تو آپﷺ نے ہمیں جواب نہ دیا اور نماز مکمل کر نے کے بعد فرمایا :’‘ نماز میں (اللہ کے ساتھ)  مشغولیت ہوتی ہے۔ ‘‘ اس لیے نماز میں اور کسی طرف مشغول نہ ہونا چاہیے ۔

(۶۲۵)۔ سیدنا زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں کہ ہم نماز میں رسول اللہﷺ کے عہد میں پہلے کلام کیا کرتے تھے۔ ہم میں سے کوئی شخص اپنی ضرورت اپنے پاس والے سے کہہ دیا کرتا تھا یہاں تک کہ  یہ آیت نازل ہوئی :

’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص کر درمیانی نماز کی اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو۔ ‘‘ (سورۂ البقرۃ : ۲۳۸)۔  پس ہمیں نماز میں سکوت کا حکم دے دیا گیا۔

باب : نماز میں کنکریوں کو چھونا کیسا ہے ؟

(۶۲۶)۔ سیدنا معقیبؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک شخص کی نسبت جو سجدہ کرتے وقت مٹی برابر کیا کرتا تھا یہ فرمایا : ’’ اگر تو ایسا کرنا ہی چاہتا ہے تو ایک مرتبہ سے زیادہ نہ کر۔ ‘‘

باب : جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اسی حالت میں اس کا جانور بھاگ جائے

(۶۲۷) ۔ سیدنا ابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے جنگ کی حالت میں نماز پڑھی اور ان کی سوا ری کی لگام ان کے ہاتھ میں تھی۔ سواری شوخی سے آگے بڑھتی جا رہی تھی اور وہ اس کے پیچھے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ تو ان سے اس کا معاملہ پوچھا گیا تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ چھ جہاد کیے ہیں یا سات یا آٹھ اور میں نے آپﷺ کی میانہ روی اور سہولت پسندی دیکھی ہے اور بے شک مجھے یہ بات کہ میں اپنی سواری کے ہمراہ رہوں، اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں اسے چھوڑ دیتا اور وہ اپنے اصطبل میں چلی جاتی (جو یہاں سے بہت دور ہے)  پھر مجھے تکلیف ہوتی۔

(۶۲۸)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے سورج گرہن کے متعلق پوری حدیث (نمبر : ۵۲۶) ذکر کی اور اس روایت میں رسول اللہﷺ کے اس قول کے بعد کہ ’’ یقیناً میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھائے جا رہا ہے۔ ‘‘ کہا کہ (رسول اللہﷺ نے فرمایا)  : ’’ اور میں نے جہنم میں عمرو بن لحی کو دیکھا اور یہ عمر وبن لحی وہ شخص ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کے آزاد کر نے کی رسم ایجاد کی ہے۔ ‘‘

باب : نماز میں سلام کا جواب (زبان سے)  نہیں دینا چاہیے

(۶۲۹)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے اپنے کسی کام کے لیے بھیجا، چنانچہ میں گیا اور اس کام کو مکمل کر کے واپس ہوا تو میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ا اور آپﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ نے مجھے سلام کا جواب نہیں دیا تو میرے دل کو (اس قدر رنج)  ہوا کہ جس کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہﷺ مجھ سے اس لیے ناراض ہو گئے کہ میں نے آپﷺ کے پاس آنے میں تاخیر کر دی۔ میں نے پھر دوبارہ آپﷺ کو سلام کیا اور آپﷺ نے جواب نہیں دیا تو اب میرے دل میں پہلی مرتبہ سے بھی زیادہ (رنج)  ہوا۔ پھر میں نے آپﷺ کو سلام کیا تو آپﷺ نے مجھے جواب دیا اور فرمایا : ’’ مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے یہ امر مانع تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ ‘‘ اور رسول اللہﷺ اپنی سواری پر تھے، قبلہ کی طرف منہ (بھی)  نہ تھا۔ ‘‘

باب : نماز میں کولہے پر ہاتھ رکھنا منع ہے

(۶۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے منع فرمایا ہے : ’’ کوئی آدمی کولہے پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھے۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

سجدۂ سہو کا بیان

 

باب : جب کوئی شخص پانچ رکعت پڑھ لے تو۔ ۔ ۔ ؟

(۶۳۱)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے (ایک مرتبہ)  ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھیں تو (نماز کے بعد)  آپﷺ سے عرض کی گئی کہ کیا نماز میں کچھ زیادتی کر دی گئی ہے ؟ آپﷺ نے  فرمایا : ’’ کیا مطلب ؟‘‘ عرض کی گئی کہ آپ  نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں تو آپﷺ نے سلام کے بعد دو سجدے (سہو کے)  کیے۔

 باب : جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہو، اس سے بات کی جائے اور وہ اس کو سن کر اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے

(۶۳۲)۔ ام المومنین ام سلمہؓ نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو نماز عصر کے بعد (دو رکعت)  نماز پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا تھا پھر میں نے آپﷺ کو نماز عصر کے بعد (دو رکعت)  نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ جس وقت کہ آپﷺ عصر کی نماز پڑھ کر میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس (اس وقت)  انصار کے قبیلہ بنی حرام کی کچھ عورتیں (بیٹھی ہوئی)  تھیں (اس لیے میں خود نہ جا سکی)  تو میں نے ایک لونڈی کو آپﷺ کے پاس بھیجا (اور)  اس سے کہہ دیا کہ تو آپﷺ کے پہلو میں کھڑی ہو جانا اور آپﷺ سے عرض کرنا کہ ام سلمہ (رضی اللہ عنہ)  آپﷺ سے عرض کرتی ہے کہ آپﷺ نے ان دونوں رکعتوں سے منع فرمایا ہے جبکہ آپ خود ہی یہ دو رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ پس اگر رسول اللہﷺ اپنے ہاتھ سے تیری طرف اشارہ کریں تو پیچھے ہٹ جانا۔ چنانچہ اس لونڈی نے ایسا ہی کیا۔ پس آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ آپﷺ سے پیچھے ہٹ گئی پھر جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’ اے ابو امیہ کی بیٹی ! تم نے عصر کے بعد دور رکعتوں کی بابت پوچھا (تو سن)  قبیلۂ عبد القیس کے کچھ لو گ میرے پاس آئے تھے اور انہوں نے مجھے ان دو رکعتوں سے جو ظہر کے بعد ہیں روک لیا تو یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں (کوئی مستقل نماز نہیں) ۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

***

 

پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید