FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

حصہ سوُم

 

اِسلام اور کائنات

 

 

 

فہرست مضامین

باب اوّل

اَجرامِ فلکی کی بابت اِسلامی تعلیمات

 

اِس کائناتِ ہست و بود میں اللہ ربّ العزت کی تخلیق کے مظاہر ناقابلِ شمار ہیں۔ اَجرامِ سماوی اور ان مجموعہ ہائے نجوم کی ریل پیل کائنات کے حسن کو دوبالا کرتے ہوئے اُسے ایک خاص انداز میں متوازن رکھے ہوئے ہے۔ یہی توازن اِس کائنات کا حقیقی حسن ہے، جس کے باعث مادّہ (matter) اور ضدِ مادّہ (antimatter) پر مشتمل کروڑوں اربوں کہکشاؤں کے مجموعے (clusters) بغیر کسی حادثہ کے کائنات کے مرکز کے گرد محوِ گردش ہیں۔ ان کلسٹرز میں کہکشاؤں کا ایک عظیم سلسلہ اور ہر کہکشاں میں اربوں ستارے اپنے اپنے نظام پر مشتمل سیاروں کا ایک گروہ لئے کُن فَیَکُون کی تفسیر کے طور پر خالقِ کائنات کے اوّلیں حکم کی تعمیل میں محوِ سفر ہیں۔ حرکت اِس کائنات کا سب سے پہلا اُصول ہے۔ حرکت میں برکت ہے اور برکت صرف حرکت میں ہے۔ حرکت کو ہی اِس کائنات میں حقیقی دوام اور ثبات حاصل ہے۔ حرکت زندگی ہے اور سکون موت ہے۔ کائنات کو اِس موجودہ حالت میں آئے 15 ارب سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج سے 15 ارب سال پہلے دراصل بگ بینگ (Big Bang) رُو نما ہوا تھا جس سے کائنات کا اِبتدائی مادّہ ہر سُو بکھرا اور اُس کے نتیجے میں یہ سلسلۂ اَفلاک و اَجرام سماوی وُجود میں آیا۔ تخلیقِ کائنات کا وہ عظیم لمحہ جب سے وقت کی دَوڑ شروع ہوئی نہایت عظیم لمحہ تھا۔ کُن فَیَکُون کا راز تخلیقِ کائنات کے سائنسی راز کے کھلنے پر ہی مُنکشف ہو سکتا ہے۔ مخلوق پر غور و فکر خالق تک رسائی کا بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے تبھی تو اپنے نیکوکاروں کے اَوصاف کے بیان میں فرمایا کہ میرے محبوب بندے وہ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے ہر حالت میں مجھے یاد کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق میں بھی غور و فکر کرتے رہتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرنے سے لامحالہ اُنہیں خالقِ کائنات کی عظمت کا اِدراک ہوتا ہے اور بات اِیمان بالغیب سے آگے بڑھ کر اِیقان تک جا پہنچتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

إِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیَاتٍ لِّأُولِی الاَلبَابِO الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلٰی جُنُوبِھِم وَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ھٰذَا بَاطِلاً سُبحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِO(آل عمران، . 3:190.191)

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںO یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں، (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) "اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا، تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے”O

پہلی آیتِ کریمہ میں حاملینِ عقل و شعور کے لئے تخلیقِ ارض و سماوات اور اِختلافِ لیل و نہار میں بھی اللہ ربّ العزت کی بے شمار نشانیوں کا ذِکر کرنے کے بعد دُوسری آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب بندوں کے اپنے حضور میں روز و شب کی طاعت گزاری اور تقویٰ کا ذِکر کیا اور اُس کے معاً بعد اُن کی دُوسری خوبی یہ بیان کی کہ وہ کائنات کی تخلیق و تشکیل میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ کی تخلیق کے رازوں پر سے پردہ اُٹھتے ہی اُس کی بارگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کو پکار اُٹھتے ہیں کہ "اے ہمارے ربّ! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا”۔

ایک طرف قرآنِ مجید میں تخلیقِ ارض و سماوات کے راز ہائے سربستہ سے پردہ اُٹھانے کا اِس قدر واضح حکم اللہ ربّ العزت کے محبوب و مکرم بندوں کے لئے موجود ہے اور دُوسری طرف دورِ حاضر کی جملہ کائناتی تحقیقات کے علمبردار بالعموم مغربی ممالک کے غیرمسلم سائنسدان ہیں۔ رہی بات مسلمانوں کی تو اُن کی علمی پسماندگی اِس نوبت کو جا پہنچی ہے کہ وہ اِس علم سے متعلقہ کوئی خبر بھی سن لیں تو اِس قرآنی علم کو غیروں کا علم قرار دے کر أستغفرُاﷲ/نعوذُباللہ پڑھتے ہوئے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کے محبوب بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لئے اپنے ہی اَسلاف کا پروان چڑھایا ہوا علم اَغیار سے سیکھنا اور اُسے دوبارہ سے حرزِ جاں بنانا خالقِ کائنات کی حقیقی معرفت کے حصول کے لئے ایک لابدّی امر ہے۔

سرِ دست اِس باب میں ہم چند اہم اَجرامِ سماوی کا مختصر طور پر سائنسی اور قرآنی حوالوں سے تذکرہ کریں گے تاکہ قارئین پر یہ واضح ہو سکے کہ قرآنِ مجید علمِ فلکیات (astronomy) کے کتنے اہم راز ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے اور ہم سے علمِ فلکیات کے سلسلے میں کیا توقعات رکھتا ہے۔

 

ستارے (Stars)

 

بھڑکتی ہوئی ہائیڈروجن (Hydrogen) اور ہیلئم (Helium) کے گولے جو ایک دُوسرے کے مابین لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑے پوری کائنات میں ہر سُو بکھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے اندر ہونے والی خودکار ایٹمی تابکاری ہر طرف نور بکھیرتی نظر آتی ہے۔ ستارے اپنے اندر جلنے والی گیسوں ہی کی بدولت اِس قدر روشن نظر آتے ہیں۔ جب کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تو بِگ بینگ کے نتیجے کے طور پر ہر سُو بکھرنے والے مواد سے گیسی مرغولوں نے جنم لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی کثافت بڑھتی چلی گئی اور وہ نسبتاً کثیف اَجسام کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے۔ گیس اور گَرد و غبار کے عظیم بادل کششِ ثقل سے اندرونی سمت سُکڑنا شروع ہو گئے جس سے ستاروں کو وُجود ملا۔ گیسی مرغولوں کے سُکڑنے کے اِس عمل میں ستاروں کے ایٹم باہم ٹکراتے اور رگڑ کھاتے رہے جس سے حرارت اور توانائی کا اِخراج شروع ہو گیا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا گیا توانائی کے اِخراج کا عمل اِسی قدر تیز ہوتا چلا گیا۔ مرکزی ایٹم شدید دباؤ کے تحت ایک دُوسرے کے قریب ہونے سے حرارت میں مزید اِضافہ ہوتا چلا گیا، یوں روشن و منوّر ستارے وُجود میں آ گئے۔

قرآنِ مجید میں ستاروں کے لئے "النُّجُوم” اور "المَصَابِیح” کا لفظ اِستعمال ہوا ہے۔ فرمایا:

وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ مبِأَمرِہٖ۔ (الاعراف، 7:54)

اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

سورج، چاند اور ستارے سب اللہ ربّ العزت کے تخلیق کردہ نظامِ فطرت کے یکساں پابند ہیں اور اَحکامِ خداوندی سے سرِ مُو سرتابی کی جرأت نہیں کرتے۔ نظامِ فطرت ہی کی پابندی سے کائنات میں حسن ہے اور اگر یہ نظم نہ رہے تو کائنات درہم برہم ہو جائے اور قیامت چھا جائے۔ قیامت کا وُقوع بھی فی الحقیقت ایک ایسے ہی اَمر کا متقاضی ہے، جب ستارے باہمی فاصلہ برقرار رکھنے سے مُنحرف ہو جائیں گے اور اپنے مابین طے شدہ فاصلوں کو برقرار رکھنے کی بجائے منہدم ہو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔ کششِ ثقل کا یہ توازُن جو آج جمیع کائنات کے حسن و نظم کو تھامے ہوئے ہے، بگڑے گا تو سب نیست و نابود (annihilate) ہو جائے گا۔

قرآنِ مجید بھی وُقوعِ قیامت کے ضمن میں ستاروں کی کششِ ثقل کا توازُن بگڑنے اور باہمی تصادُم پیش آنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:

فَإِذَا النُّجُومُ انکَدَرَتO(التکویر، 81:2)

اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےO

ستاروں میں موجود اِیندھن کے جل جل کر ختم ہو جانے پر اُن سے توانائی اور حرارت کا اِخراج ختم ہو جائے گا اور وہ بُجھ کر بے نور ہو جائیں گے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

وَ إِذَا النُّجُومُ طُمِسَتO(المرسلٰت، 77:8)

اور جب ستارے بے نور کر دیئے جائیں گےO

ستاروں کا بے نور ہونا دراصل اُن کی زِندگی کا آخری مرحلہ ہے۔ یہاں ہمیں ایک ستارے کی شروع سے لے کر آخر تک مکمل زِندگی کا سمجھنا ضروری ہے۔ ستارے گیسوں سے مرکب ایسے گولے ہیں جو نیوکلیئر فیوژن سے پیدا شدہ توانائی کا اخراج کرتے ہیں۔ اُن کی پیدائش گرد اور گیس کے اُن بادلوں میں ہوتی ہے جنہیں نیبیولا (nebula) کہا جاتا ہے۔ نیبیولا یعنی سحابیہ دراصل کسی ستارے کی وہ اِبتدائی دُخانی حالت (gaseous stage) ہوتی ہے جس سے وہ تشکیل پاتا ہے۔ سحابیئے میں موجود گیس اور گرد و غبار کششِ باہمی کی وجہ سے آپس میں ٹکرا کر سکڑتے ہوئے پروٹوسٹار کو جنم دیتے ہیں۔ پروٹوسٹار کو ہم نیم ستارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی پروٹوسٹار اندرونی دباؤ کے تحت کثیف اور شدید گرم ہوتے چلے جاتے ہیں، بالآخر وہ اِتنے شدید گرم ہو جاتے ہیں کہ اُن کے اندر خودکار ایٹمی دھماکوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اَب ہم اُنہیں مکمل ستارہ کہہ سکتے ہیں۔

درمیانے درجے کے ایک ستارے کی زِندگی چند ارب سال کے قریب ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ہائیڈروجن سے بنے ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن جل جل کر ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہائیڈروجن سے ہیلئم میں تبدیلی کے عمل کے ساتھ ساتھ ہیلئم بھی شدید درجۂ حرارت کی بناء پر جلنے لگتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل ستارے کو اور بھی زیادہ گرم کر دیتا ہے۔ ہیلئم کی راکھ (یعنی کاربن) ستارے کے مرکز میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔ جب ہیلئم بڑی مِقدار میں کاربن میں تبدیل ہو جاتی ہے تو ستارہ اچانک ایک دھماکے کے ساتھ پھول جاتا ہے، وہ اپنی اصل جسامت سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور اُس کا رنگ بھی سرخ ہو جاتا ہے۔ اِس حالت میں اُسے "سرخ ضخام” (red giant) کہتے ہیں۔ اُس کے بعد ستارہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ اگر وہ ستارہ ہمارے سورج سے دس گنا بڑھ ہو تو وہ مرنے سے قبل ایک بار پھر سپرنووا کے دھماکے کے ساتھ پھٹتا ہے مگر یہ مرحلہ کچھ زیادہ دیر باقی نہیں رہتا اور مرتے ہوئے ستارے کی آخری ہچکی ثابت ہوتا ہے۔ اَب وہ ستارہ جلد ہی سیاہ شگاف (black hole) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

 

سیاہ شگاف (Black hole)

 

ستارے کی زِندگی کے دوران اُسے جن مراحل سے سابقہ پڑتا ہے اُن میں سب سے پراَسرار سیاہ شگاف (black hole) ہے۔ سیاہ شگاف اِتنی بے پناہ کشش کے حامل ہوتے ہیں کہ روشنی سمیت کوئی شے اُن کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ عام ستاروں کو ہم اِس لئے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ روشنی کا اِخراج کرتے ہیں اور ’بلیک ہول‘ سے روشنی کے ہماری سمت نہ آ سکنے کی وجہ سے وہ ہماری نظروں سے مستقلاً اوجھل ہوتے ہیں۔ اِسی لئے اُنہیں ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کا نام دیا گیا ہے۔ اِس وقت ہماری کائنات کا کافی زیادہ مادّہ پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں کھو چکا ہے۔

’بلیک ہول‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے خاتمے پر روشن سپرنووا کے پھٹنے کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔ ایسے ستاروں کا کثیف مرکزہ (dense core) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں فنا ہو جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔ عظیم سائنسدان ’سٹیفن ہاکنگ‘ کے مطابق کچھ ماہرینِ تخلیقیات (cosmologists) کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور کائنات کی طرف جا نکلتا ہے۔ سیاہ شگاف فزکس کے قوانین پر عمل کرتے دِکھائی نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ اُنہیں سمجھنا نہایت دُشوار ہے۔

اوپن ہائمر (Oppenheimer) کی برس ہا برس کی تحقیقات سے جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ "بلیک ہول کا مقناطیسی میدان کسی بھی مکان-زمان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے اور روشنی کی کرنیں سیاہ شگاف کے قریب آہستگی سے اندر کو مڑ جاتی ہیں”۔ سورج گرہن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس اَمر کا بخوبی مُشاہدہ کیا گیا ہے۔ جوں جوں مرتا ہوا ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے اُس کا مقناطیسی میدان طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں، جس کے باعث روشنی کے لئے اُس سے فرار اِختیار کرنا دُشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک مرتا ہوا ستارہ اپنی اصل جسامت سے لاکھوں گنا چھوٹا ہو جاتا ہے مگر اُس کی کمیّت میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِنتہائی طاقتور ہو جاتا ہیں اور اُس کی قوتِ کشش بے پناہ بڑھ جاتی ہے۔ آخرکار جب ستارہ اپنے کم سے کم ممکنہ رد اس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کے مِقناطیسی میدان میں اِتنی طاقت آ جاتی ہے کہ وہ روشنی کے فرار کے تمام راستے مسدُود کر دیتا ہے۔ نظریۂ اِضافیت (Theory of Relativity) کے مطابق کوئی مادّی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے روشنی کے سیاہ شگاف سے نہ بچ سکنے کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بھی شے اُس سے نہیں بچ سکے گی اور اُس کا مِقناطیسی میدان اپنی زد میں آنے والی ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لیتا ہے۔

ہم زمین پر رہتے ہوئے یہ خیال کرنے سے قاصر ہیں کہ ہم میں سے کوئی اِنسان سیاہ شگاف کے مُشاہدے کے لئے خلائی گاڑی کی مدد سے اُڑ کر اُس کے قریب جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی آ جائے۔ یہی وہ مقام ہے جسے بلیک ہول کہتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں اِس سے قبل کوئی بڑا ستارہ موجود تھا۔

قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے مرے ہوئے ستارے کے اُس مقام کی اہمیت کے پیش نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:

فَلَا أُقسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِO وَ إِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَو تَعلَمُونَ عَظِیمٌO(الواقعہ،56:75)

پس میں ستاروں کے مقامات کی قسم کھاتا ہوںO اور اگر تم جان لو تو یہ بہت بڑی (چیز کی) قسم ہےO

ستاروں کے مقامات جو اُن کی موت کے بعد سیاہ شگافوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، سماوی کائنات کے باب میں قواسرز (quasars) کے بعد سب سے زیادہ پُر اسرار ہیں، کیونکہ وہ ایسے مقام ہیں جہاں سے روشنی سمیت کوئی شے فرار نہیں ہو سکتی اور اُن کی کیفیت و ماہیت فزکس کے قوانین کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے مسلمان قارئین کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں اور اُن میں گرنے والا مادّہ مکان-زمان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ دُوسری کائنات کون سی ہے؟ اور کہاں ہے؟ اُس کی ماہیت کیا ہے؟ کیا بلیک ہول سے گزرے بغیر اُس کائنات تک پہنچا جا سکتا ہے؟ یہ اور اِن جیسے بے شمار سوالوں کا جواب فزکس کے موجودہ قوانین کی رُو سے محال ہے۔ اِسی لئے اللہ ربّ العزت نے ستاروں کے اُن مقامات ’سیاہ شگافوں‘ کی قسم کھاتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ اگر بنی نوع اِنسان کا شعور اِس قدر پختہ ہو کہ اُن بلیک ہولز کی حقیقت کو جان لے تب اُسے پتہ چلے گا کہ یہاں کتنی عظیم شے کی قسم کھائی جا رہی ہے۔ (بلیک ہولز کے بارے میں مزید مطالعہ کے لئے ’سیاہ شگاف کا نظریہ اور قرآنی صداقت‘ نامی باب کا مطالعہ کریں)

 

 

دُمدار تارے (Comets)

 

ہمارے نظامِ شمسی کے اندر 9 بڑے سیاروں، اُن کے چاندوں اور سیارچوں کے علاوہ کچھ ایسے اَجرام بھی پائے جاتے ہیں جو برس ہا برس ہماری آنکھوں سے اوجھل رہنے کے بعد اپنے مقررہ وقت پر چند روز کے لئے ظاہر ہوتے ہیں اور بعد ازاں پھر اپنے طویل مدار پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں دُمدار تاروں (comets) کا نام دیا جاتا ہے۔ سورج کے گرد اُن کا مدار اِنتہائی بیضوی ہوتا ہے۔ وہ برف سے بنے بڑے بڑے گولے ہوتے ہیں، عام طور پر اُنہیں ’گرد آلود برف کے گولے‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جوں جوں کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب آتا چلا جاتا ہے اُس کا مرکزہ بخارات پر مشتمل روشن دُم بنانے لگتا ہے، جو ہمیشہ سورج کی مخالف سمت میں چمکتی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ بعض دفعہ چند کلومیٹر قطر کے دُمدار تارے کی دُم کئی لاکھ کلومیٹرز تک طویل ہوتی ہے۔

سورۂ تکویر میں اللہ ربّ العزت نے دُمدار تارے کی اِس اہمیت کے پیشِ نظر اُس کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا:

فَلَا أُقسِمُ بِالخُنَّسِO الجَوَارِ الکُنَّسِO(التکویر،81:15،16)

تو میں قسم کھاتا ہوں اُن (اَجرامِ فلکی) کی جو (ظاہر ہونے کے بعد) پیچھے ہٹ جاتے ہیںO جو بلا روک ٹوک چلتے رہتے ہیں، (پھر ظاہر ہو کر) چھپ جاتے ہیںO

سورج سے ڈیڑھ نوری سال کی مسافت پر بہت بڑا سحابیہ سورج کے گرد محوِ گردش ہے، جسے اُوورٹ بادل (Oort Cloud) کہا جاتا ہے۔ سورج کی طرف آنے والے دُمدار تارے وہیں پیدا ہوتے ہیں۔ سورج سے متعلقہ سب سے معروف دُمدار تارہ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ ہے، جو اپنے بہت زیادہ بیضوی مدار کی وجہ سے ہر 76 سال بعد منظرِ عام پر آتا ہے۔

برطانوی ماہر فلکیات ’ایڈمنڈ ہیلے‘ (Edmund Halley) نے اُسے 1682ء میں دیکھا اور پیشین گوئی کی کہ یہ 76 سال بعد 1758ء میں دوبارہ نظر آئے گا، چنانچہ اُس کے اعداد و شمار صحیح نکلے اور وہ 1758ء میں ہی نظر آیا۔ آخری بار وہ 6 فروری 1986ء کو سورج کے قریب آیا تھا۔ اُن دنوں بہت سے خلائی جہاز (probes) ریسرچ کی غرض سے اُس کی طرف بھیجے گئے۔ یورپین سپیس ایجنسی (ESA) کے خلائی جہاز Giotto نے اُس کے اِنتہائی قریب جا کر اُس کی تصاویر بنائیں اور اہلِ زمین کو اِرسال کیں، جن کی بدولت ہم دُمدار تاروں اور بالخصوص ہیلے کے دُمدار تارے کی ساخت کو سمجھنے کے قابل ہوئے۔ ’ہیلے کا دُمدار تارہ‘ اب دوبارہ اِنشاء اللہ 29 اپریل 2061ء کے روز سورج کے قریب سے گزرے گا۔

قرآنِ مجید میں دُمدار تاروں کو "اَلخُنَّس” اور "اَلجَوَارُ الکُنَّس” کے لفظوں میں اِس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ کبھی ظاہر ہوتے ہیں اور پھر عرصۂ دراز کے لئے چھپ جاتے ہے۔

صاحبِ قاموس المحیط لکھتے ہیں:

الکنّس: ھی الخنّس، لأنّھا تکنس فی المغیبِ۔ (القاموس المحیط، 2:256)

"الکنس” کا معنی چھپنا اور گم ہو جانا ہے۔ وجہِ تسمیہ اُس کی یہ ہے کہ وہ comet (طویل عرصے کے لئے) کسی نادیدہ مقام میں کھو جاتا ہے۔

 

 

سورج (The Sun)

 

سورج۔ ۔ ۔ جو ہماری زمین کے لئے روشنی اور حرارت کا سب سے بڑا منبع ہے اور جس کے بغیر کرۂ ارضی پر نباتاتی، حیوانی یا اِنسانی کسی قسم کی زِندگی کا کوئی تصوّر ممکن ہی نہ تھا۔ ۔ ۔ دراصل وہ معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے۔ سورج چونکہ باقی ستاروں کی نسبت ہم سے بہت زیادہ قریب واقع ہے اِس لئے وہ ہمیں بہت بڑا اور گرم دِکھائی دیتا ہے اور دِن کو اُس کی کرۂ ارضی پر چھا جانے والی روشنی میں دُور دراز کے ستارے نظر آنا بالکل بند کر دیتے ہیں۔

سورج کی روشنی ہمارے لئے زِندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اِرشادِ باری تعالی ہے:

ھُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَاءً۔ (یونس،10:5)

وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًاO(نوح، 71:16)

اور سورج کو (ایک روشن) چراغ بنایا ہےO

سورج کی روشنی کا باعث اُس کے اندر ہونے والے شدید ایٹمی دھماکے ہیں۔ سورج عام طور پر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہے۔ یہ دونوں نہایت لطیف گیسیں ہیں۔ سورج کے مرکز میں ایک بڑا نیو کلیائی ری ایکٹر ہے جس کا درجۂ حرارت کم از کم 1,40,00,000سینٹی گریڈ ((2,50,00,000 فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ پیدا کرتا ہے۔ اُس نیوکلیائی عمل کے دوران اُس میں موجود ہائیڈروجن ہیلئم میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی ہے، جس سے روشنی اور حرارت کی صورت میں شدید توانائی کا اِخراج عمل میں آتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی اُس شدید حرارت کا ذِکر یوں فرمایا ہے:

وَ جَعَلنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًاO(النباء،78:13)

اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایاO

اِتنے عظیم درجۂ حرارت کو برقرار رکھنے کے لئے سورج 40,00,000ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت میں اپنی کمیّت کا اِخراج کر رہا ہے۔

گردشِ آفتاب

اِنسانی زندگی کی قدیم تاریخ میں سورج کو بالعموم زمین کے گرد محوِ گردش خیال کیا جاتا تھا۔ فیثا غورث نے تاریخِ علوم میں پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے۔ بعد ازاں کوپر نیکس سے پہلے ایک نامور مسلمان سائنسدان ’زرقالی‘ نے بھی 1080ء میں زمین کی سورج کے گرد گردِش کا نظریہ پیش کیا۔ سورج اور زمین کی گردِش کے بارے میں مختلف نظریات الگ باب "سائنسی طریقِ کار اور اِقدام و خطاء کا تصوّر” میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ سائنسی علوم کی تاریخ میں یہ جھگڑا ہمیشہ سے برقرار رہا ہے کہ سورج ساکن ہے اور زمین سورج کے گرد گردِش کرتی ہے یا زمین ساکن ہے اور سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد محوِ گردش ہے اور سورج بھی ساکن نہیں ہے جیسا کہ قدیم نظریات میں خیال کیا جاتا تھا۔

ہماری کہکشاں ملکی وے (Milky Way) دراصل ایک چکر دار کہکشاں ہے۔ اُس کے چار بازو ہیں جن میں واقع کروڑوں ستارے کہکشاں کے مرکز کے گرد گردِش کر رہے ہیں۔ سورج بھی اپنے ساتھی ستاروں کی طرح کہکشاں کے مرکز سے  30,000 نوری سال کے فاصلے پر "اورِین آرم” (Orion Arm) میں واقع ہے اور کہکشاں کے مرکز کے گرد  22,00,00,000 سال میں اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے۔

سورج کی اِس گردِش کو اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے، فرمایا:

وَ الشَّمسُ تَجرِی لِمُستَقَرٍّ لَّھَا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِO(یٰسین،36:38)

اور سورج اپنے لئے مقرر کردہ راستے پر چلتا ہے، یہ (راستہ) غالب علم والے (اللہ) کا مقرر کردہ ہےO

 

 

شمسی تقویم (Solar calendar)

سورج ہمارے لئے وقت کی پیمائش کا ایک قدرتی ذریعہ ہے۔ دِنوں اور سالوں کا تعین و شمار کرنا اُسی کے ذریعے ممکن ہے۔ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 47.4624 سیکنڈ میں پورا کرتی ہے۔ شمسی سال کی اصل طوالت بعینہٖ یہی ہے۔ عام سال چونکہ 365 دِنوں کا ہوتا ہے اِس لئے بچ رہنے والے گھنٹوں کو پورا کرنے کے لئے ہر چوتھے سال کو لیپ کا سال قرار دے کر اُس میں ایک دِن کا اِضافہ کر کے 366 دِن بنا لئے جاتے ہیں، جس سے ’معیاری سال‘ میں چند منٹوں کا اِضافہ ہو جاتا ہے جسے کامل دِنوں کی صورت میں پورا کرنے کے لئے4,000 سال بعد تک بھی دِنوں میں کمی و بیشی کرنا پڑے گی۔ سال کی صورت میں وقت کی پیمائش کا ایک ہی بہترین ذریعہ ’سورج‘ ہے، جو ایک طرف ماہرینِ فلکیات کے لئے اَجرامِ فلکی کے ظہور و خفا کا تعین کرنے میں مُمِد ہوتا ہے تو دُوسری طرف ایک گنوار کسان کو موسموں کے تغیر و تبدل اور فصلوں کی بوائی و کٹائی کے موزوں وقت سے بھی آگاہ کرتا ہے۔

سورج کی طرح چاند بھی قمری تقویم کے تعین اور مہینوں کے شمار کا سادہ اور فطری ذریعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت نے سورج اور چاند دونوں کو وقت کی پیمائش کا ذریعہ بنایا۔

اِس سلسلے میں اِرشادِ ایزدی ہے:

الشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍO(الرحمن،55:5)

سورج اور چاند معلوم اور مقررّہ (فلکیاتی) حسابات کے مطابق (محوِ حرکت) ہیںO

سورج سمیت تمام ستاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلئم کی ایک بڑی مقدار موجود ہے، جو جلتے ہوئے روشنی اور حرارت خارِج کرتی ہے۔ کسی ستارے کا اِیندھن جل کر ختم ہو جاتا ہے تو وہ ’سرخ ضخام‘ (red giant) کی صورت میں پھول جاتا ہے، جس کے بعد وہ بتدریج سُکڑنے اور ٹھنڈا ہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ مکمل بے نور ہو جاتا ہے۔ سورج کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو گا۔ سورج ستاروں کے جس قبیل سے تعلق رکھتا ہے اُس حساب سے اُس کی کل عمر 9 ارب سال کے لگ بھگ ہے، جس میں سے ساڑھے چار ارب سال وہ گزار چکا ہے، گویا وہ عہدِ شباب میں ہے۔ آج سے ساڑھے چار ارب سال بعد جب اُس کا اِیندھن جل جل کر مکمل طور پر ختم ہو جائے گا تو وہ بھی دُوسرے ستاروں کی طرح بُجھ کر بے نور ہو جائے گا۔

اَحوالِ قیامت کے ضمن میں سورج کے بُجھ کر بے نور ہو جانے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:

إِذَا الشَّمسُ کُوِّرَتO(التکویر،81:1)

جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاO

سورۂ تکویر میں علاماتِ قیامت کے ضمن میں سب سے پہلی علامت سورج ہی کے بے نور ہونے کو قرار دیا گیا۔ کتنی بڑی سائنسی صداقت جس تک پہنچنے میں آج کے اِنسانی علوم کے پیچھے صدیوں کا شعور کارفرما ہے، قرآنِ مجید نے ایک ہی جملے میں بیان کر دی۔

 

 

سیارے (Planets)

 

کائنات کی اوّلین تشکیل کے وقت ’بگ بینگ‘ (Big Bang) کے بعد اِبتدائی مادّہ جو بالعموم گیسی صورت میں تھا، ہر سُو بکھر گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا درجۂ حرارت کم ہوتا چلا گیا اور اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھرنے والا وہ مادّہ کروڑوں اربوں مرکزوں پر مجتمع ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ ہر بڑے مرکز کے اندر بے شمار چھوٹے مراکز اور اُن چھوٹے مراکز کے قرب و جوار میں اُن سے بھی چھوٹے مرکزے نمو پانے لگے۔ بڑے مراکز کہکشائیں قرار پائیں اور اُن کے اندر واقع چھوٹے مراکز کا مادّہ سُکڑ کر آہستہ آہستہ ستاروں کی شکل اِختیار کرتا چلا گیا۔ یونہی اُس کے آس پاس موجود مادّے کے معمولی حصے اُن ’نیم ستاروں‘ (protostars) کے گرد گھومتے ہوئے سُکڑنے اور سیارے بننے لگے اور وقت کے ساتھ ساتھ اکثر ستاروں کے گرد اُن کے اپنے ’نظام ہائے شمسی‘ وُجود میں آ گئے۔ ہمارا سورج بھی دراصل اُنہی میں سے ایک ستارہ ہے۔ کائنات میں اِس جیسے بے شمار ستارے موجود ہیں، جن کے گرد اُن کے اپنے سیاروں کے نظام واقع ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ میں زِندگی بھی پائی جاتی ہو مگر اُن کی بے پناہ دُوری کی وجہ سے ابھی کچھ کہنا قبل اَز وقت ہو گا۔

نظامِ شمسی سورج سمیت بہت سے ایسے اَجسام پر مشتمل ہے جو اُس کی کششِ ثقل کے پابند ہو کر اُس کے ساتھ ایک مربوط نظام کی صورت میں بندھے ہوئے اُس کے گرد محوِ گردش ہیں۔ نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت دیگر ستاروں کی طرح سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9 بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلیں عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے، جن سے بعد میں 9 سیارے اور کروڑوں اربوں سیارچے وُجود میں آئے۔

ہمارا نظامِ شمسی ایک سورج، 9 سیاروں، 61 چاندوں اور بے شمار دُمدار تاروں اور سیارچوں پر مشتمل ہے۔ سیاروں میں مشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون بہت بڑے ہیں، باقی سیارے اُن سے بہت چھوٹے ہیں۔ ہماری زمین بھی اُنہی میں سے ایک ہے۔ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی رُخ میں بیضوی مدار میں سفر کر رہے ہیں۔ سورج سے فاصلے کی بنیاد پر اُن کی ترتیب یوں ہے:

1۔ عطارُد Mercury))

-2 زُہرہ (Venus)

3۔ زمین (Earth)

-4 مِرّیخ  (Mars)

5۔ مُشتری (Jupiter)

-6 زُحل (Saturn)

7۔ یورینس  Uranus))

-8 نیپچون (Neptune)

9۔  پلوٹو (Pluto)

اللہ ربّ العزت نے نظامِ شمسی کے لئے قرآنِ مجید میں "سماء الدنیا” کا لفظ اِستعمال کیا ہے، اِرشاد ہوتا ہے:

إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِزِینَتِنِ الکَوَاکِبِO(الصافات،37:6)

بیشک ہم نے آسمانِ دُنیا کو سیاروں کی زینت سے آراستہ کیاO

اِس آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزت نے سورج کے گرد محوِ گردِش سیاروں کا ذِکر کرتے ہوئے نظامِ شمسی کو آسمانِ دُنیا (یعنی زمین سے قریب ترین آسمان) قرار دیا ہے۔ ’سات آسمانوں کا قرآنی تصوّر‘ متعلقہ باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

تمام سیاروں کے اپنے مدار میں محوِ گردش ہونے کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں اِرشاد فرمایا:

وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO(یٰسین، 36:40)

اور تمام (اَجرامِ فلکی) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںO

یہ آفتاب و ماہتاب اور یہ سیارگانِ فلکی کی ریل پیل ہمارے آسمان کو کتنا دِلکش و دِلنشیں بناتی ہے مگر یہ سب آرائش عارضی ہے۔ کائنات کی ہر چیز کی طرح نظامِ شمسی کے سیاروں کو بھی ایک روز فنا ہونا ہو گا۔ سورج کی موت اُنہیں بھی موت سے ہمکنار کر دے گی۔ اُن میں سے بعض قریبی سیارے سورج میں جا گریں گے تو بیرونی سیارے اِس نظام سے رُو گرداں ہو کر نظامِ شمسی کی حدوں سے اُس پار واقع کھلے آسمان کی وُسعتوں میں بھی کھو سکتے ہیں۔ سیاروں کی سورج کے گرد گردِش کا عارضی اور وقتی ہونا اللہ تعالی نے قرآنِ مجید میں بھی بیان فرمایا ہے۔

اِرشادِ خالقِ کائنات ہے:

کُلٌّ یَّجرِی لِأَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (الرعد،13:2)

ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے مدار میں) چلتا ہے۔

تمام سیارے اور ستارے، اِس کائناتِ ارض و سما کی ہر شے اور تمام اَجرامِ فلکی و سماوی ایک معینہ مدّت تک کے لئے زِندگی کی دَوڑ میں محوِ گردش ہیں۔ ہر سیارے ہر ستارے کی اپنی ایک پیدائش ہے، زِندگی ہے اور پھر موت بھی ہے۔ کسی سیارے کی موت ہی اُس کی قیامت قرار پاتی ہے اور تمام ستاروں اور سیاروں کی اِجتماعی موت جو محتاط سائنسی اندازوں کے مطابق ’بگ کرنچ‘ (Big Crunch) کی صورت میں آج سے کم و بیش 65,00,00,00,000  سال بعد رُو نما ہو گی وہ دِن اِس کائنات کی اِجتماعی قیامت کا دِن ہو گا۔

اِس کائناتِ پست و بالا کی اِجتماعی قیامت تمام کہکشاؤں میں واقع ستاروں کے گرد گردِش کرنے والے سیاروں کو اُن کے نظام سے بہکا دے گی اور وہ بھٹک کر اپنے ہی ستارے (جس کے نظام کا وہ حصہ ہیں) یا کسی دُوسرے ستارے سے جا ٹکرائیں گے۔

سیاروں کے اپنے مداروں سے بھٹک نکلنے اور بہک کر کسی دُوسری طرف جا نکلنے کا ذِکر اللہ تعالی نے علاماتِ قیامت کے ضمن میں قرآنِ مجید میں اِن الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے:

وَ إِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَتO(الانفطار، 82:2)

اور جب سیارے گِر کر بکھر جائیں گےO

سیاروں کے اپنے مداروں سے باہر نکل جانے اور اپنی موت کی طرف چلے جانے کو اللہ ربّ العزت نے کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔

 

 

زمین (The Earth)

 

سیاروں کا نظام جو سورج سمیت اکثر ستاروں کے گرد پایا جاتا ہے، اُس میں واقع کچھ سیاروں میں زِندگی کا اِمکان بھی موجود ہے۔ تاہم ہمارے نظامِ شمسی میں صرف زمین ہی ایک ایسا سیارہ ہے جو متنوّع قسم کی اَنواعِ حیات سے معمور ہے۔ کسی سیارے پر زندگی کے پائے جانے کے لئے اُسے بقائے حیات کے لئے قدرت کی طے کردہ بہت سی کڑی شرائط پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ ہماری زمین اپنے اُوپر بسنے والی لاکھوں کروڑوں اَقسامِ حیات کے لئے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جس کے باعث یہاں زِندگی پنپ سکی ہے۔ اگر یہ ماحول کسی دُوسرے ستارے کے گرد گردِش کرنے والا کوئی سیارہ بھی مہیا کر سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہاں زندگی کے آثار پیدا نہ ہوں۔

اِس کائنات میں ہماری زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر بھی زندگی واقع ہے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے بنی نوع اِنسان کو شروع دِن سے ہی تجسس میں مبتلا کر رکھا ہے اور موجودہ سائنسی ترقی کے باوُجود ہم اِس سوال کا جواب سائنسی بنیادوں پر دینے سے اُسی طرح قاصر ہیں جیسے آج سے پانچ ہزار سال پہلے کا آدمی، تاہم اِس سائنسی ترقی نے ہمیں اِتنا پختہ فکر ضرور کر دیا ہے کہ ہم زندگی کے وہ سارے لوازمات جو کسی سیارے میں نمو و بقائے حیات کے لئے ضروری ہوتے ہیں اُنہیں جان سکیں۔ نظامِ شمسی کی حد تک تو تمام سیاروں کے بارے میں یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہاں زِندگی کا کوئی اِمکان موجود نہیں۔ اندرونی سیارے بہت زیادہ گرم ہیں تو بیرونی سیارے بہت زیادہ ٹھنڈے۔ رہ سہ کر ہمسایہ سیارے مِرّیخ سے توقع تھی سو وہ بھی ختم ہو گئی ہے، جب 1976ء میں وائکنگ (Viking) نامی خلائی جہاز (probes) اُس کی سطح پر اُترے۔ اُن کی بھیجی گئی تصاویر اور رپورٹس نے تمام اُمیدوں کو ختم کر دیا اور یہ بات طے پا گئی کہ ’سرخ سیارہ‘ بھی نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کی طرح زِندگی سے خالی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ آڑے ترچھے خطوط نظر آتے ہیں، جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اِنسانی شعور نے وہاں بسنے والی مخلوق کی کھودی ہوئی نہریں اور دریا قرار دیا، مگر وائکنگ (Viking) اور اُس جیسی دُوسری مہمّات نے یہ بات واضح کر دی کہ نظامِ شمسی کے دیگر سیّاروں کی طرح وہاں بھی زِندگی کا کوئی اِمکان نہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے کم و بیش ایک ارب سال پہلے وہاں پانی موجود تھا۔ اب صرف قطبین پر تھوڑی برف جمی رہتی ہے۔ مِرّیخ کی سطح پر کچھ ہوا بھی موجود ہے، جس میں ’کاربن ڈائی آکسائیڈ‘، ’آکسیجن‘ اور ’نائٹروجن‘ گیسیں شامل ہیں، جو زِندگی کے لئے ضروری ہیں، لیکن وہ زندگی کے بے شمار ایسے لوازمات سے عاری ہے جن کے بغیر کسی سیارے پر زِندگی پروان نہیں چڑھ سکتی۔

زمین اللہ ربّ العزت کی تخلیق کا ایک ایسا شاہکار ہے جس میں اُس کی اربوں نعمتیں وافر مقدار میں بکھری ہوئی ہیں۔ یہاں زِندگی کے لئے ضروری گیسیں ایک خاص تناسب کے ساتھ موجود ہیں اور پانی بھی وافر مقدار میں موجود ہے۔ زمین لاکھوں سالوں سے اپنے سینے پر کاروانِ حیات کو لئے سورج کے گرد محوِ سفر ہے۔ زمین پر زِندگی کے لئے سازگار ماحول میں اُس کی کمیّت، سورج سے فاصلہ، درجۂ حرارت اور ہوا کے دباؤ کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ یہ اور اِس جیسے بے شمار دُوسرے لوازمات مل کر زمین کو اِس قابل بناتے ہیں کہ ہم یہاں سانس لے سکیں۔ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں جا بجا کرۂ ارضی کو عطا کردہ اپنی نعمتوں کا ذِکر کرتے ہوئے اِنسان کو اپنا شکر بجا لانے کا حکم دیا ہے۔ سورۂ رحمن تذکرۂ نِعم سے بھری پڑی ہے۔ ان میں وہ نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں اور روزانہ مُستفید ہوتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی شامل ہیں جن سے ہم آگاہ نہیں۔ جوں جوں سائنسی ترقی اِرتقاء کی منازِل طے کر رہی ہے خالقِ کائنات کے بے پایاں اِحسان و کرم کے راز بنی نوع اِنسان پر عیاں ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

کرۂ ارضی پر اللہ ربّ العزت کی عام عطا کردہ نعمتیں بے شمار ہیں۔ ایک مقام پر چند نعمتوں کا ذِکر یوں آیا ہے:

فَأَنشَأنَا لَکُم بِہٖ جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَّ أَعنَابٍ لَکُم فِیھَا فَوَاکِہُ کَثِیرَۃٌ وَّ مِنھَا تَأکُلُونَO وَ شَجَرَۃً تَخرُجُ مِن طُورِ سَینآء تَنبُتُ بِالدُّھنِ وَ صِبغٍ لِّلاٰکِلِینَO وَ إِنَّ لَکُم فِی الأَنعَامِ لَعِبرَۃً نُسقِیکُم مِّمَّا فِی بُطُونِھَا وَ لَکُم فِیھَا مَنَافِعُ کَثِیرَۃٌ وَّ مِنھَا تَأکُلُونَO وَ عَلَیھَا وَ عَلَی الفُلکِ تُحمَلُونَO(المؤمنون، 23:-2219)

پھر ہم نے تمہارے لئے اُس سے درجہ بدرجہ (یعنی پہلے اِبتدائی نباتات، پھر بڑے پودے، پھر درخت وُجود میں لاتے ہوئے) کھجور اور انگور کے باغات بنا دیئے، (مزید برآں) تمہارے لئے زمین میں (اور بھی) بہت سے پھل اور میوے (پیدا کئے) اور (اب) تم اُن میں سے کھایا کرتے ہوO اور یہ درخت (زیتون بھی ہم نے پیدا کیا ہے) جو طورِ سینا سے نکلتا ہے، جو تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر اُگتا ہےO اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ اُن کے شِکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اُس میں سے (بعض اَجزاء کو دُودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے اُن میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم اُن میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہوO اور اُن پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کئے جاتے ہوO

آسٹرانومی کے نکتۂ نظر سے کرۂ ارضی پر جو نعمتیں موجود ہیں، اُن میں سورج سے مناسب فاصلہ (تاکہ زندگی کے لئے اوسط درجۂ حرارت اِعتدال سے تجاوُز نہ کر سکے) اور خلا کی عمیق وُسعتوں سے زمین کی طرف آنے والی مختلف اَقسام کی شعاع ریزی سے بچانے کو زمین کے اُوپر چڑھے اوزون (ozone) جیسے غلاف بھی نہایت اہم ہیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا خصوصی فضل ہے کہ اُس نے کرۂ ارضی کے گرد ہوا کا ایک خول چڑھا رکھا ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں اور اُس خول کے اُوپر کچھ ایسی فضائی تہیں موجود ہیں جو زندگی کے لئے مُضِر اثرات کی حامِل شعاع ریزی کو سطح زمین تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ اگر اوزون جیسے منطقے زمین کو چاروں اور سے گھیرے نہ ہوتے تو نہ صرف بیرونی خلا سے آنے والی شعاع ریزی بلکہ نظامِ شمسی میں اُڑنے پھرنے والے زمین کے آس پاس واقع لاکھوں آوارہ شہابیئے بھی بھٹک کر زمین کی طرف آ جاتے اور سطحِ زمین پر تباہی پھیلاتے۔

زمین کی بالائی فضا کی جانب اللہ ربّ العزت نے اہلِ زمین کے تحفّظ کے لئے جو سات تہیں بنائی ہیں اُن کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے:

وَ بَنَینَا فَوقَکُم سَبعًا شِدَادًاO(النباء،78:12)

اور (خلائی کائنات میں بھی غور کرو،) ہم نے تمہارے اُوپر سات مضبوط (طبقات) بنائے۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اپنی حکمتِ تخلیق کو عیاں کرنے کے لئے یہی بات اِن الفاظ میں بھی فرمائی:

وَ لَقَد خَلَقنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ (المؤمنون،23:17)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں اُس کی حفاظت کے لئے) سات (محفوظ) راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےO

یہ اُس ربِّ ذُوالجلال ہی کی حکمتِ تدبیر ہے کہ اُس نے مخلوق کی حفاظت کے لئے اُسے اِتنے پردوں میں محفوظ مقام پر رکھا۔ خالقِ کائنات کے خلیفہ ابوالبشر سیدنا آدمؑ کے ہبوطِ ارضی کے لئے اربوں نوری سال کی وُسعتوں میں بِکھری کائنات کا کوئی سا بھی سیارہ چنا جا سکتا تھا، اللہ ربّ العزت نے اس کے لئے زمین کو چنا اور اُس کا ماحول ہر اِعتبار سے محفوظ و مأمون کر دیا۔

سورۂ ملک میں کرۂ ارضی پر چڑھے حفاظتی غلافوں کا ذِکر کر کے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع اِنسان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اُس کی تخلیق کردہ حفاظتی پٹیوں میں نقص نکالے۔ اِرشادِ ایزدی ہے:

اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ ھَل تَرٰی مِن فُطُورٍO ثُمَّ ارجِعِ البَصَرُ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرَ خَاسِئًا وَّ ھُوَ حَسِیرٌO(الملک،67:3.4)

(بابرکت ہے وہ اللہ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے، تو رحمن کی تخلیق میں کہیں تفاوُت نہیں دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی فتور نظر آیاO (اے رحمن کی خدائی میں نقص کے متلاشی!) پھر دُہرا کر بار بار دیکھ لے تیری نگاہ تیری طرف ذلیل و عاجز ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گیO

زمین گیند کی طرح مکمل گول نہیں بلکہ ذرا سی پچکی ہوئی ہے۔ اُس کا قطبی قطر اِستوائی قطر کی نسبت چند کلومیٹر کم ہے۔ ایسا اُس کی محوری گردِش میں تیز رفتاری کی وجہ سے ہے۔ زمین کا قطبی قطر 12,714  کلومیٹر جبکہ اِستوائی قطر 12,742  سے 12,756  کلومیٹر تک چلا گیا ہے۔ زمین کی شکل یوں دب کر خربوزے کی سی ہو گئی ہے۔ زمین کی کروی حالت اور پھر اُس کا مکمل گول ہونے کی بجائے بیضوی شکل میں ہونا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بھی بیان کیا ہے۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ الأَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحَاھَا (النازعات،79:30)

اور زمین کو اُس کے بعد بیضوی شکل دے دیO

آج سے صدیوں قبل جب بالعموم دُنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم تھی، اور جہاں کہیں علم کی روشنی تھی بھی تو دھُندلائی ہوئی یونانی تحقیقات سائنسی بنیادوں پر سوچ کے تمام دروازوں کو مقفّل کر دیتی تھیں، ایسے میں پیغمبرِ آخرُ الزماں ﷺ کا قرآنِ مجید کی صورت میں اِتنے عظیم سائنسی حقائق کا اِعلان کرنا بجائے خود آپﷺ کے سچا نبی اور اِسلام کے سچا دین ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

نظامِ شمسی کی اِبتدائی تخلیق کے وقت سورج کے گرد گردِش کرنے والے 9بڑے اور ہزاروں چھوٹے گیسی مرغولے اوّلین عناصر کے دباؤ کے تحت مائع (یعنی لاوا) کی شکل اِختیار کرنے لگے، جن سے بعد میں 9 سیارے، اُن کے چاند اور بے شمار سیارچے وُجود میں آئے۔ زمین بھی اپنی اوّلین تخلیق کے وقت گیسی حالت میں سورج کے گرد محوِ گردش تھی اور وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مائع حالت اِختیار کرتی چلی گئی۔ مائع اور گیسی حالت پر مشتمل اِبتدائی زمین کے بھاری عناصر اُس کے مرکز کی طرف سمٹ کر اِکٹھے ہونے لگے اور ہلکے گیسی عناصر لاوے کے اُوپر غلاف کی صورت میں چڑھ گئے۔ رفتہ رفتہ لاوے کے اُوپر جھاگ نما تہ چڑھنے لگی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سخت ہوتی چلی گئی۔ اُس ٹھوس تہ کے نیچے گرم لاوا اُسی طرح مائع حالت میں رہا۔

لاوے کے اُوپر ٹھوس سطح کو وُجود مل جانے کے باوُجود زمین کی سطح اِس قابل نہ تھی کہ زِندگی اُس پر کسی بھی صورت میں پروان چڑھ سکتی۔ ابھی اُس کا ٹمپریچر بے اِنتہا شدید تھا اور وہ پانی کی نعمت سے بھی محروم تھی۔ پھر اُس کے بعد کرۂ ہوائی میں موجود گیسی عناصر میں کیمیائی تعامل ہوا جس کے نتیجے میں پانی نے جنم لیا اور یوں پورے کرۂ ارضی پر تاریخ کی پہلی اور طویل ترین مُوسلا دھار  بارِش ہوئی۔ یہ بارِش سالہا سال جاری رہی جس سے شدید گرم زمین پر ہر طرف جل تھل ہو گیا اور اُس کا درجۂ حرارت بھی نسبتاً کم ہونے لگا۔

لاوے اور گیسی غلاف کے درمیان موجود ٹھوس تہ، جو کافی سخت ہو چکی تھی، جن مقامات سے باریک (یعنی گہری) تھی بارش کا پانی اُن سمتوں میں بہ کر اِکٹھا ہونے لگا۔ یوں وسیع و عریض سمندر پیدا ہو گئے اور اُنہوں نے زمین کا بیشتر حصہ ڈھانپ لیا۔ اُس ٹھوس غلاف کے جو مقامات موٹے (یعنی بلند) تھے اُن کے اُوپر پانی نہ ٹھہر سکا اور وہ بتدریج براعظم اور سلسلہ ہائے کوہ بن گئے۔

زمین کو پیدا ہوئے4,50,00,00,000 سال کا عرصہ گزر چکا مگر اُس کے باوُجود اُس کا مرکز اُسی لاوے پر مشتمل ہے اور شدید گرم ہے۔ 71 فیصد سطحِ ارضی پر پھیلے ہوئے سمندروں نے اُس کی حدّت کو کنٹرول کر کے ٹھوس خلاف کے اُوپر کے ماحول کا درجۂ حرارت اوسطاً 15 ڈگری سینٹی گریڈ کر رکھا ہے، جس سے وہ زندگی کے لئے سازگار ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اگر کسی کیمیائی تعامل کے نتیجے میں سمندروں کا پانی ختم ہو جائے تو نہ صرف پانی کی قلت کی وجہ سے بلکہ اندرونی لاوے کی حدّت کے سبب بھی ہر طرح کی اَنواعِ حیات اِس طبقِ ارضی سے مفقود ہو جائیں۔

طویل ترین بارشوں کے نتیجے میں زمین کو قابلِ زندگی بنانے کے سلسلے میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:

وَ أَنزَلنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآئًم بِقَدَرٍ فَأَسکَنَّاہُ فِی الأَرضِ وَ إِنَّا عَلٰی ذَھَابٍم بِہٖ لَقَادِرُونَ (المؤمنون، 23:18)

اور ہم ایک مقررّہ مقدار میں (عرصۂ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہو گئی تو) ہم نے اُس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے اِبتدائی سمندر  وُجود میں آئے) اور بیشک ہم اُسے (بخارات بنا کر) اُڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیںO

سائنسی تحقیقات کی پیش رفت اور قرآنی بیانات میں کسی قدر ہم آہنگی ہے۔ ۔ ۔ بالکل یونہی جیسے قرآن آج کے دَور کی کتاب ہو۔ ۔ ۔ اور واقعی قرآن آج کے دَور کی کتاب ہے، قرآن ہر اُس دَور کی کتاب ہے جو علم و فن اور شعور و آگہی سے ہم آہنگ ہے۔ سائنس جوں جوں تخلیقِ کائنات کے رازوں سے پردہ اُٹھاتی جائے گی ہمیشہ قرآنِ مجید کو اپنے سے آگے اور آگے جاتا محسوس کرے گی اور یہ حقیقت علمی دُنیا کے فرزندوں کو ایک نہ ایک دِن ماننا پڑے گی کہ قرآن ہی صداقت کا آخری معیار ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے آخری نبی سیدنا محمد رسول اللہﷺ پر نازل کیا اور اُسی میں بنی نوعِ اِنسان کے جملہ مسائل کا حل ہے اور اُس کی تعلیمات سے مطابقت ہی صحیح معنوں میں آئیڈیل علمی معاشرے کے قیام کا باعث بن سکتی ہے۔

 

چاند (The Moon)

 

قرآنِ مجید میں چاند کا ذِکر دیگر اَجرامِ سماوی سے کہیں زیادہ ہے۔ اﷲ ربّ العزت نے چاند کی بہت سی خصوصیات کی بناء پر قرآنِ مجید میں قسم کھا کر اُس کا ذِکر فرمایا:

کَلَّا وَ القَمَرِO(القمر،74:32)

سچ کہتا ہوں قسم ہے چاند کیO

جس طرح زمین اور نظامِ شمسی کے دیگر ستارے سورج کے گرد محوِ گردِش ہیں اور جس طرح سورج کہکشاؤں کے لاکھوں ستاروں سمیت کہکشاں کے وسط میں واقع عظیم بلیک ہول کے گرد محوِ گردِش ہے بالکل اُسی طرح چاند ہماری زمین کے گرد گردِش میں ہے۔ نظام شمسی میں واقع اکثر سیاروں کے گرد اُن کے اپنے چاند موجود ہیں، اور اکثر کے چاند متعدّد ہیں۔ زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے جو زمین سے اَوسطاً 4,00,000 کلومیٹر کی دُوری پر زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ وہ اپنی گردِش کا ایک چکر 27.321661 زمینی دِنوں میں طے کرتا ہے۔ چاند کا قطر 3,475 کلومیٹر ہے اور یہ نظامِ شمسی کے آخری سیارے پلوٹو سے بڑا ہے۔ دورانِ گردش وہ اپنا ایک ہی رُخ زمین کی طرف رکھتا ہے۔ اُس کی محوری اور سالانہ دونوں گردشوں کا دورانیہ برابر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اُس کا ایک دن اور ایک سال دونوں برابر ہوتے ہیں۔ جوں جوں اُس کا محور گردِش کرتا ہے اُس کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے گرد بھی اُسی تناسب سے گھومتا چلا جاتا ہے اور یوں وہ زمین کی طرف اپنا ایک ہی رُخ رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔

قمری تقویم (Lunar calendar)

قمری تقویم میں چاند کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ سورج سے وقت کی پیمائش کے لئے اِنسان کو اپنے علمی سفر کی اِبتدا میں سخت دُشواریوں سے گزرنا پڑا اور ابھی تک یہ سلسلہ تھم نہیں سکا۔ کبھی مہینے کم و بیش ہوتے آئے اور کبھی اُن کے دن، یہی حالت سال کے دِنوں کی بھی ہے۔ شمسی تقویم میں جا بجا ترمیمات ہوتی آئی ہیں مگر اُس کے باوُجود ماہرین اُس کی موجودہ صورت سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ موجودہ عیسوی کیلنڈر بار بار کی اُکھاڑ پچھاڑ کے بعد 1582 ء میں موجودہ حالت میں تشکیل پایا، جب 4 اکتوبر سے اگلا دِن 15 اکتوبر شمار کرتے ہوئے دس دن غائب کر دیئے گئے۔ پوپ گریگوری کے حکم پر ہونے والی اِس تشکیلِ نو کے بعد اُسے ’گریگورین کیلنڈر‘ کہا جانے لگا۔

دُوسری طرف قمری تقویم میں خود ساختہ لیپ کا تصوّر ہی موجود نہیں۔ سارا کیلنڈر فطری طریقوں پر منحصر ہے۔ قدرتی طور پر کبھی چاند 29 دِن بعد اور کبھی 30دِن بعد نظر آتا ہے، جس سے خودبخود مہینہ 29 اور 30 دِن کا بن جاتا ہے۔ اِسی طرح سال میں بھی کبھی دِنوں کو بڑھانے یا کم کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔

چاند زمین کے گرد مدار میں اپنا 360 درجے کا ایک چکر 27دن، 7گھنٹے، 43منٹ اور 11.6/11.5 سیکنڈ کی مدّت میں مکمل کرتا ہے اور واپس اُسی جگہ پر آ جاتا ہے۔ مگر یہاں ایک بڑی اہم بات قابلِ توجہ ہے کہ زمین بھی چونکہ اُسی سمت میں سورج کے گرد محوِ گردِش ہے اور وہ مذکورہ وقت میں سورج کے گرد اپنے مدار کا 27درجے فاصلہ طے کر جاتی ہے لہٰذا اَب چاند کو ہر ماہ 27درجے کا اِضافی فاصلہ بھی طے کرنا پڑتا ہے۔ گویا ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے تو چاند کا ایک چکر 360 درجے ہی کا ہوتا ہے مگر زمین کے سورج کے گرد گردش کرنے کی وجہ سے اُس میں 27درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے اور اُسے زمین کے گرد اپنے ایک چکر کو پورا کرنے کے لئے 387 درجے کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 27 درجے کی اِضافی مسافت طے کرنے میں اُسے مزید وقت درکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قمری ماہ کی مدّت 27دن، 7گھنٹے، 43منٹ اور 11.6/11.5 سیکنڈ کی بجائے 29دن، 12گھنٹے، 44منٹ اور 2.8سیکنڈ قرار پاتی ہے۔ 29دن اور 12گھنٹے کی وجہ سے چاند 29 یا 30دنوں میں ایک مہینہ بناتا ہے اور باقی 44منٹ اور 2.8سیکنڈ کی وجہ سے سالوں میں کبھی دو ماہ مسلسل 30دنوں کے بن جاتے ہیں اور یہ فرق بھی خود بخود فطری طریقے سے پورا ہو جاتا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے اُس میں کوئی ردّ و بدل نہیں کرنا پڑتا۔

ہم نے دیکھا کہ شمسی تقویم کی طرح قمری تقویم میں بھی گوناگوں پیچیدگیاں موجود ہیں۔ اُنہیں سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں مگر اُن پیمائشوں میں پڑنے کی عام آدمی کو ضرورت ہی نہیں۔ چاند خود بخود فیصلہ کر دیتا ہے۔ شمسی تقویم کے برعکس اللہ ربّ العزت نے چاند کو تعینِ اَوقات کی ایسی ذِمہ داری سونپ دی ہے کہ فطری طریقے سے تقویم وضع ہونے لگتی ہے۔ یہ تقویم علم و فن سے عاری معاشروں کے لئے بھی وقت کے شمار کا بہترین ذریعہ ہے اور آج کا پڑھا لکھا اِنسان بھی اُس سے خوب متمتع ہو سکتا ہے۔

چاند کو سونپے گئے فطری طریقِ تقویم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں فرمایا:

وَ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَ الحِسَابِ مَا خَلَقَ اللہُ ذٰلِکَ إِلَّا بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الاٰیَاتِ

اور اُس (چاند) کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا)

لِقَومٍ یَّعلَمُونَO(یونس، 10:5)

حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہےO

ہر اگلی رات چاند کی شکل تبدیل ہو کر ظاہر ہوتی ہے۔ ایسا سورج اور زمین کے حساب سے اُس کے زاویئے میں تبدیلی کے باعث ہوتا ہے۔ پہلی تاریخ کو وہ باریک ناخن کی طرح مغربی اُفق پر ظاہر ہوتا ہے اور جلد ہی غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد ہر اگلے دِن پہلے سے بڑا ہوتا ہے اور زیادہ دیر تک اُفق پر رہتا ہے۔ ساتویں تاریخ کو وہ وسط آسمان میں ظاہر ہوتا ہے اور چودھویں کو مکمل چاند کی صورت میں مشرق سے باقاعدہ طور پر طلوع ہوتا دِکھائی دیتا ہے اور صبح طلوعِ شمس سے پہلے غروب ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعد کے دِنوں میں اُس کی روشن سطح بتدریج کم ہونے لگتی ہے اور وہ رات کو دیر سے طلوع ہوتا ہے۔ آخری تارِیخوں میں وہ صبح کے وقت طلوع ہوتا ہے۔ اُن دنوں اُس کی حالت بہت باریک ہو جاتی ہے۔ چاند کی اُس حالت کو اللہ تعالیٰ نے عرجونِ قدیم (پرانی بوسیدہ شاخ) سے تشبیہ دی ہے۔

اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:

وَ القَمَرَ قَدَّرنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدیمِO(یٰسین، 36:39)

اور ہم نے چاند کی منازِل طے کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ (اپنی پہلی حالت کو) پلٹ کر (کھجور کی) پرانی بوسیدہ ٹہنی جیسا ہو جاتا ہےO

چاند کی روشنی جو چاندنی راتوں میں اِنتہائی دِلفریب حُسن رکھتی ہے اُس کی اپنی نہیں ہوتی۔ چاند تو محض سورج کی طرف سے آنے والی روشنی کو منعکس کر کے چمکتا دِکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے زاویہ بدلنے پر اُس کی شکلیں بھی بدلنے لگتی ہیں۔ اگر ہم چاند پر جا کر زمین کی طرف دیکھیں تو زمین بھی ہمیں چاند ہی کی طرح روشنی منعکس کر کے چمکتی دِکھائی دے گی اور چاند ہی کی طرح شکلیں بدلتی بھی نظر آئے گی۔ فرق صرف اِتنا ہو گا کہ چاند شکلیں بدلنے کے ساتھ ساتھ زمین پر طلوع و غریب ہوتا بھی دِکھائی دیتا ہے مگر زمین چاند پر سے ایک ہی جگہ کھڑی نظر آئے گی اور وہیں کھڑے کھڑے شکلیں بدلتی رہے گی۔

چاند کی روشنی سورج کی مرہونِ منت ہے۔ جس طرح زمین سورج کی دُھوپ سے تمازت پاتی اور روشن ہوتی ہے اُسی طرح چاند بھی سورج ہی کی دھُوپ سے منوّر ہوتا ہے۔ یہ بات قدیم یونانی نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی، مگر قرآنی صداقت اِس سے عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان سے عاری دَور کے متداول نظریات کے خلاف قرآنِ مجید میں سورج کے لئے "روشنی دینے والا” اور چاند کے لئے "روشن کیا جانے والا” کے الفاظ فرمائے۔

سورۂ یونس میں فرمایا:

ھُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآءً وَّ القَمَرَ نُورًا۔ (یونس،10:5)

وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا)۔

اِسی طرح سورۂ نوح میں فرمایا:

وَ جَعَلَ القَمَرَ فِیھِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمسَ سِرَاجًاO(نوح،71:16)

اور اُن میں سے چاند کو چمکنے والا اور سورج کو (ایک روشن) چراغ (روشنی دینے والا) بنایا ہےO

سورۂ فرقان میں اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بے نقاب کیا:

وَ جَعَلَ فِیھَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا (الفرقان،25:61)

اور اُس میں سورج کو (روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایاO

سورج کے از خود روشن ہونے اور چاند کے مُستعار روشنی سے منوّر ہونے کی حقیقت اللہ ربّ العزت نے آج سے چودہ صدیاں پہلے قرآنِ مجید میں بیان کر دی تھی۔ یہ وہ دَور تھا جب دُنیا بھر کے علمی حلقوں میں فقط یونانی نظریات کا طوطی بولتا تھا۔ ایسے ماحول میں آج کے دَور کی سائنس کے نظریات کا کماحقہٗ پیش کرنا فقط اللہ ربّ العزت ہی کی قدرت سے ممکن ہے۔ کلامِ الٰہی کے برحق ہونے اور پیغمبرِ آخرُ الزماں ﷺ کی نبوّت کے ثبوت میں یہ اور اِس جیسی بے شمار آیات قرآنِ مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے سلیمُ العقل اِنسان اِس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اِسلام ہی دینِ حق ہے، جو آج کا بھی دین ہے اور آنے والے کل کا بھی، کہ اُسے روزِ قیامت تک کے لئے مکمل دین بنا کر بھیجا گیا ہے۔

تسخیرِ ماہتاب

سماوی کائنات کی حتیٰ المقدُور تسخیر اور اُس تسخیر کے ضمن میں اَسباب بہم پہنچانے کا حکم اللہ ربّ العزت نے اپنی دونوں مکلف مخلوقات بنی نوع اِنسان اور جنوں کو قرآنِ مجید میں دیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

یَا مَعشَرَ الجِنِّ وَ الاِنسِ إِنِ استَطَعتُم أَن تَنفُذُوا مِن أَقطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلطَانٍO

(الرحمن،55:33)

اے گروہِ جنات و اِنسان! اگر تم سماوی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدُود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیت) کے بغیر تم (یقیناً) نہیں نکل سکتےO

چاند جس کی چاندنی اِنتہائی دِلفریب ہوتی ہے اور شاعر مزاج دلوں کو پگھلا کر موم کر دیتی ہے، 1969ء میں تین امریکی خلابازوں کے قدموں نے اُسے سر کر لیا اور اِنسان کا جذبۂ تسخیر کرۂ ارضی پر واقع بڑے بڑے سلسلہ ہائے کوہ سے بڑھ کر پہلی بار کسی دُوسرے سیارے تک جا پہنچا۔ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے ’ناسا‘ (National Aeronautic Space Agency) کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کی اُس مہم میں ’نیل آرمسٹرانگ‘ (Neil Armstrong) ، ’ایڈوِن بز‘ (Edwin Buzz) اور ’کولنز‘ (Collins) وہ پہلے اِنسان تھے جو 20جولائی 1969ء کے تاریخی دِن Apollo-11 میں سوار ہو کر چاند تک پہنچے۔ اُس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں واقع زمینی مرکزKSC (کینیڈی سپیس سنٹر) میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات بھی دیتے رہے اور دو دِن کے مختصر سفر کے بعد یہ مہم جُو قافلہ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر زمین کی طرف واپس پلٹ آیا۔ اُس مہم کے دَوران پورے خطۂ ارضی پر واقع اکثر ٹی وی اور ریڈیو سٹیشنز نے پل پل کی خبر دُنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عظیم تاریخی واقعہ تھا جو چاند کی تسخیر کے سلسلے میں رُو نما ہوا۔

تسخیرِ ماہتاب کے ضمن میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:

وَ القَمَرِ إِذَا اتَّسَقَO لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍO فَمَا لَھُم لَا یُؤمِنُونَ (الانشقاق،84:18.20)

اور قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دِکھائی دیتا ہےO تم یقیناً طبق دَر طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےO تو اُنہیں کیا ہو گیا کہ (قرآنی پیشین گوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتےO

چاند کو سر کرنے کی اس مُہم کا تفصیلی اَحوال ’علومِ قرآنی کی وُسعت‘ نامی باب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

 

 

باب دُوُم

تخلیقِ کائنات کا قرآنی نظریہ

 

یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی اور بالخصوص اُس کی آخری چند دہائیوں میں حاصل کی ہیں قرآنِ مجید اُنہیں آج سے1,400سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ اِبتدائے خلق کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں موجود تھا، جسے بعد ازاں پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اِس سے کائنات میں توسیع کا عمل شروع ہوا جو ہنوز مسلسل جاری و ساری ہے۔

قرآنِ مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے:

أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاھُمَا۔ (الانبیاء،21:30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "رَتق” اور "فَتق” خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’رَتق‘ کے معنی کسی شے کو ہم جنس مواد پیدا کرنے کے لئے ملانے اور باندھنے کے ہیں۔ ’فَتق‘ متضاد ہے ’رَتق‘ کا، جس کا معنی توڑنے، جدا کرنے اور الگ الگ کرنے کا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے آج سے 14 صدیاں قبل تخلیقِ کائنات کی یہ حقیقت عرب کے ایک جاہل معاشرے میں بیان کر دی تھی اور لوگوں کو یہ دعوتِ فکر دی تھی کہ وہ اِس حقیقت کے بارے میں سوچیں۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد بیسویں صدی کے وسط میں جدید علمِ تخلیقیات (cosmology)، علمِ فلکیات (astronomy) اور علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) کے ماہرین نے بالکل وُہی نظریہ منظرِ عام پر پیش کیا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک ’صفر درجہ جسامت کی اِکائیت‘ سے ہوئی۔ ’عظیم دھماکے کا نظریہ‘ (Big Bang Theory) اسی کی معقول تشریح و توضیح ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ سائنسی معاشرے کی نشو و نما کی تمام تاریخ حقیقت تک رسائی کی ایسی مرحلہ وار جستجو پر مشتمل ہے جس میں حوادثِ عالم خود بخود انجام نہیں پاتے بلکہ ایک ایسے حقیقی اَمر کی عکاسی کرتے ہیں جو یکے بعد دیگرے امرِ ربّانی سے تخلیق پاتا اور متحرک رہتا ہے۔

تاریخِ علومِ اِنسانی میں تخلیق و وُجودِ کائنات سے متعلق بے شمار نظریات پائے جاتے ہیں، جو اُس کے آغاز کی مختلف اِبتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام نظریات ’لا محدُود کثافت‘ (infinite density) اور ’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘ (zero volume singularity) کی اِبتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، مثلاً:

1 فرائیڈمین کا خاکہ (Friedmann Model)

2 عظیم دھماکے کا خاکہ (Big Bang Model)

3 ایڈوِن ہبل کا خاکہ (Edwin Hubble’s Model)

4 پنزیاس اور وِلسن کا خاکہ (Penzias / Wilson’s Model)

5 نئے پھیلاؤ کا خاکہ (New Inflationary Model)

6 بدنظم پھیلاؤ کا خاکہ (Chaotic Inflationary Model)

یا

اِکائیت کی تحویل کا خاکہ (Singularity Theorem Model)

عظیم دھماکے کا نظریہ (Big Bang theory)

کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت اُس کا تمام مادّہ ایک اِکائی (minute cosmic egg) کی صورت میں موجود تھا، پھر اﷲ ربّ العزت نے اُس اِکائی کو پھوڑا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائناتِ پست و بالا کو وُجود ملا۔ قرآنِ مجید کے ’نظریۂ تخلیقِ کائنات‘ کے مطالعہ سے پہلے ہم کائنات کی تخلیق سے متعلقہ سائنسی تحقیقات کے اِرتقاء کی طویل جدوجہد کا مختصر ذِکر ضروری سمجھیں گے تاکہ قارئین کو اِسلامی اِعتقادات کی حقّانیت کو سمجھنے میں آسانی ہو:

ز 1687ء میں مشہور و معروف برطانوی سائنسدان ’آئزک نیوٹن‘ (Isaac Newton) نے تجاذُب کا کائناتی تصوّر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کائنات جامد اور غیر مُتغیّر ہے۔ یہ بات بیسویں صدی تک ایک مصدقہ حقیقت کے رُوپ میں تسلیم کی جاتی رہی۔

1915ء میں ’البرٹ آئن سٹائن‘ (Albert Einstein) نے ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس نظریئے میں اُس نے مادّے، توانائی، کشش، مکان اور زمان میں باہمی نسبت کی وضاحت کی۔ اُس نے ’نیوٹن‘ کا جمودِ کائنات کا تصوّر تو کسی حد تک ردّ کر دیا لیکن وہ خود کائنات کی اصلیت کے بارے میں کوئی نیا نظریہ دینے سے قاصر رہا کیونکہ نیوٹن کے نظریات کو اُس وقت تک دُنیا بھر میں غیر متبدّل سمجھا جا رہا تھا۔

1929ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ (Edwin Hubble) نے پہلی بار یہ مفروضہ پیش کیا کہ کائنات جامد اور غیر متغیر نہیں ہے، بلکہ حرکت پذیر ہونے کے علاوہ شاید وہ مسلسل وسیع بھی ہو رہی ہے۔ اُس کی تحقیق نے ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (Big Bang Theory)کو جنم دیا۔ عظیم دھماکے کے نظریئے کو اِبتدائی طور پر ’مارٹن ریلے‘ (Martin Ryle) اور ’ایلن آر سنڈیج‘ (Allan R. Sandage) نے پروان چڑھایا۔

1965ء میں دو امریکی سائنسدانوں ’آرنوپنزیاس‘ (Arno Penzias) اور ’رابرٹ وِلسن‘ (Robert Wilson) نے اپنے معمول کے تجربات کے دوران اِتفاقاً ’کائناتی پس منظر کی شعاع ریزی‘ (cosmic background radiation) دریافت کی، جس سے یہ ثابت ہوا کہ مادّی کائنات کا آغاز ایک اِکائی سے ہوا تھا۔ اُس اِکائی کو اُنہوں نے ’مختصر ترین کائناتی انڈے‘ (minute cosmic egg) کے نام سے موسوم کیا، جو اپنے اندر بے پناہ توانائی کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ اچانک پھٹا اور اُس کے نتیجے میں اِس کائنات کا مختلفُ الاقسام مادّہ تخلیق پایا اور اُسی سے بعد اَزاں مختلف کلسٹرز اور کہکشائیں تخلیق پائیں۔

چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اَجرامِ فلکی کے اپنے اپنے کروں میں موجود ہوتی ہیں، وہ بھی اُس دھماکے کے ساتھ ہی معرضِ وُجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں:

کششِ ثقل (gravity)

برقی مقناطیسیت (electromagnetism)

طاقتور نیوکلیائی طاقتیں (strong nuclear forces)

کمزور نیوکلیائی طاقتیں (weak nuclear forces)

موجودہ سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازوں کے مطابق اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش 15ارب سال گزر چکے ہیں۔ آج سے 15 ارب سال پہلے پائی جانے والی اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے وہ کیا شے تھی جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق کی گئی؟ سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس فرمان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے:

إِذَا قَضٰی أَمراً فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہٗ کُن فَیَکُونُO(مریم،19:35)

جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے: "ہو جا”، بس وہ ہو جاتا ہےO

قرآنی اِصطلاح "رَتق” کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت ’اِبتدائی کمیتی اِکائی‘ کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک کثیف اور گرم مقام تھا جسے ’اِکائیت‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اُس وقت کائنات کی کثافت اور خلائی وقت کا اِنحناء (curvature) دونوں لامحدُود تھے اور کائنات کی جسامت صفر تھی۔ اِکائیت کی اُس حالت اور صفر درجہ جسامت (zero volume) کی طرف قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے:

أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقاً۔ الانبیاء،21:30)

جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جڑے ہوئے تھے۔

اِن الفاظ میں بگ بینگ سے پہلے کا ذِکر کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد پھُوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے:

فَفَتَقنَاھُمَا۔ الانبیاء،21:30)

پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

عظیم دھماکے (Big Bang) سے رُو پذیر ہونے والے عملِ اِنشقاق (پھٹنے کے عمل) کے آغاز کے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصے (hundredth part) میں وہ ’اِکائیت‘ پھیل کر اِبتدائی آگ کا گولا (primordial fireball) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعد اُس کا درجۂ حرارت ایک کھرب سے ایک کھرب 80ارب سینٹی گریڈ کے درمیان جا پہنچا۔ تاہم عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعد ہی کائنات کا درجۂ حرارت تیزی سے گرتے ہوئے دس گنا کم ہو کر 10ارب سے 18ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔ یہ سورج کے مرکز کے موجودہ درجۂ حرارت سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ حرارت تھی۔ اُس وقت کائنات زیادہ تر فوٹان، اِلیکٹران، نیوٹریناس اور اُس کے مخالف ذرّات کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی۔

کائنات کے اُس اوّلین مرحلے کی تصویر کشی سب سے پہلے ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نامی سائنسدان نے 1948ء میں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر میں پیش کی۔ اُس نے کہا کہ ’عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کے معاً بعد کائنات اِتنی شدید گرم تھی کہ ہر طرف ’نیوکلیائی حرارتی تعاملات‘ (thermonuclear radiations) شروع ہو سکیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِبتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خُورد موجی (short-wave) فوٹانز سے معمور تھی۔ اُس نے ایک قابلِ قدر پیشین گوئی کی کہ کائنات کی اِبتدائی بے حد گرم حالتوں میں فوٹانز کی صورت میں پائی جانے والی شعاع ریزی (radiation) کو اَب بھی اپنے نسبتاً کم درجۂ حرارت کے ساتھ جاری ہونا چاہیئے، جو مطلق صفر (°-273سینٹی گریڈ) سے محض چند درجے زیادہ ہو۔ اسی شعاع ریزی کو بعد اَزاں 1965ء میں ’آرنوپنزیاس‘ اور ’رابرٹ وِلسن‘ نے دریافت کیا۔ جوں جوں کائنات میں وُسعت کا عمل جاری ہے اُس کا درجۂ حرارت گِرتا چلا جا رہا ہے۔ فی الحال کائنات کا اَوسط درجۂ حرارت -70oسینٹی گریڈ تک کم ہو چکا ہے، جو مطلق صفر سے محض 3 درجہ اُوپر ہے۔ مطلق صفر (یعنی -273.160) وہ درجۂ حرارت ہے جہاں مالیکیولز کی ہر طرح کی حرکت منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔

’جارج لویٹر‘ (George Lawaitre) نے 1931ء میں اِس بات کی طرف اِشارہ کیا کہ اگر تمام کہکشاؤں کے باہر کی سمت پھیلاؤ کا تعاقب کیا جائے اور اُس میں چھپے حقائق پر غور و فکر کیا جائے تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ وہ سب دوبارہ اُسی نقطے پر آن ملیں جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔ مادّے کا وہ بڑا قطرہ جو اِبتدائی ایٹم (primeval atom) کے نام سے جانا جاتا ہے، یقیناً ماضی بعید میں طبیعی کائنات کے طور پر پایا جانے والا کائناتی انڈہ (cosmic egg) تھا۔ ’لویٹر‘ نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ مادّے کا وہ بڑا قطرہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور ایک بم کی طرح باہر کی طرف ہر سُو اُڑ نکلا۔ یہی کائنات کی اوّلین تخلیق قرار پائی۔ ’لویٹر‘ کا یہ خیال بعد اَزاں عظیم دھماکے کے نظریئے کی صورت میں متعارف ہوا۔ یہاں ایک چیز میں اِختلاف ہے کہ صفر درجہ جسامت کی اِکائیت پر مُشتمل وہ مادّہ کس طرح تقسیم ہوا، مادّے نے کس طرح بیرونی اَطراف میں سفر شروع کیا اور علیحدگی، اِنشقاق اور دھماکہ کس طرح شروع ہوا؟ ہم اِن تفصیلات میں جانے سے اِحتراز کریں گے۔

اصل حقیقت ہر صورت وُہی ہے کہ آج ہمیں نظر آنے والی کہکشائیں اُس اِکائی مادّے سے اِنشقاق شدہ اور علیحدہ شدہ ہیں، جس کا قرآنِ حکیم میں یوں ذِکر آتا ہے:

کَانَتَا رَتقاً فَفَتَقنَاھُمَا۔(الانبیاء،21:30)

(سب) ایک اِکائی (singularity) کی شکل میں جُڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔

 

اِبتدائی دھماکے کا قرآنی نظریہ

 

جوں جوں بگ بینگ تھیوری کی صداقت ثابت ہو رہی ہے قرآنِ مجید کی حقانیّت بھی اَظہر من الشمس ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تخلیقِ کائنات کے زُمرے میں قرآنِ مجید ایک قدم مزید آگے بڑھاتا ہے۔ آج کے سائنسدانوں کو یہ سوال درپیش ہے کہ کائنات میں صفر درجہ جسامت کی اِکائیت سے اِنشقاق اور وُسعت پذیری کا عمل کس طرح شروع ہوا؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں ہے۔ مندرجہ ذیل دو آیاتِ مبارکہ اِس موضوع پر بڑی معنی خیز ہیں:

قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِO مِن شَرِّ مَا خَلَقَO(الفلق،113:1،2)

آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںO ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےO

ہمارے موضوع کی مناسبت سے اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ "فَلَق” اور "خَلَق” بطورِ خاص قابلِ توجہ ہیں۔ لفظِ ’خَلَق‘ اپنے مفہوم کا مکمل آئینہ دار ہے اور واضح طور پر عملِ تخلیق کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بات بھی خاصی توجہ طلب ہے کہ لفظِ ’فَلَق‘ عملِ تخلیق کے ساتھ ایک گہرا اور قریبی تعلق رکھتا ہے۔ آیئے اب ہم پہلی آیتِ کریمہ میں وارِد ہونے والے لفظ ’فَلَق‘ کے معانی اور اہمیت کو سمجھیں۔

’ڈاکٹر ہلوک نور باقی‘ نے عربی گرامر کی رُو سے لفظِ "فَلَق” کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ تاہم اِس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنا اور شدید دھماکہ کرنا ہے۔ یہ "فَلَقٌ” سے مشتق ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق اِس میں پھٹی ہوئی شے کا تصوّر بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہ تصوّر ہے جو مذکورہ مظہر کو عیاں کرتا ہے۔ "فَلَق” ایک شدید دھماکے کا نتیجہ ہے، جو اپنے اندر اِنتہائی غیر معمولی رفتار کا تصوّر بھی رکھتا ہے۔ مِثال کے طور پر "تَفَلُّق” کا معنی حد درجہ رفتار کے ساتھ بھاگنا ہے۔

قرآنِ مجید صفاتِ باری تعالیٰ کے ذِکر میں فرماتا ہے:

فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی۔(الانعام،6:95)

دانے اور گُٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا۔

صَرفی پس منظر کی اِس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم "فَلَق” کے لُغوی معانی پر غور کرتے ہیں۔ لُغوی اِعتبار سے "فَلَق” کے معانی کو یوں ترتیب دیا جا سکتا ہے:

* ایک ایسی مخلوق جو عدم کے پھٹنے کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ ظاہر ہو۔

*بیج کے پھٹنے سے ظاہر ہونے والا پودا۔

٭ روزانہ کا وہ عمل جس کے معنی اِس تمثیل سے لئے گئے ہیں کہ روشنی پھٹے اور اندھیرے میں ظاہر ہو، جسے پَو پھٹنا کہتے ہیں تب صبحِ  صادِق اور بعد اَزاں طلوعِ آفتاب ہوتا ہے۔

اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیرو توضیح میں بہت سے مفسّرین نے عام معانی کو ترجیح دی ہے۔ تاہم کچھ مفسّرین نے تمثیلی معانی صبحِ صادِق اور طلوعِ شمس وغیرہ بھی اَخذ کئے ہیں۔ بعض مفسّرین نے اِس سے مُراد جہنّم میں واقع شدید دھماکوں کا علاقہ بھی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظِ "فَلَق” ایسے نتیجے یا اَشیاء کا معنی دیتا ہے جو اچانک اور شدید دھماکے سے وُقوع پذیر ہوں۔ اِس لفظ کے دُوسرے مفاہیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جو تمثیلی اَنداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اِس انداز کو اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے 14صدیاں قبل علمِ طبیعیات (physics) اور علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) کے بارے میں اِنسانی شعور کی واقفیت اِس قدر نہ تھی کہ وہ ان سائنسی مفاہیم کو بعینہ اَخذ کر سکتا۔

جدید سائنسی تحقیقات کی رُو سے کائنات کا آغاز جس بڑے حادثے سے ہوا وہ ایک عظیم دھماکہ تھا۔ یہاں ہم عظیم دھماکے کے نظریئے (Big Bang theory) کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا مناسب خیال کریں گے:

1950ء کے عشرے میں ’آئن سٹائن‘ کے پھیلتی ہوئی کائنات کے تصور سے متاثر ہو کر ’ریلف الفر‘ (Ralph Alpher)، ’ہینس بیتھے‘(Hans Bethe) اور ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نے پہلی بار عظیم دھماکے کے نظرئیے کو غور و خوض کے لئے منظرِ عام پر پیش کیا۔ یہ نظریہ سالہا سال گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا رہا۔ دو اہم دریافتوں نے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ثابت ہونے میں مدد دی۔

پہلی ایڈوِن ہبل کی’ کائناتی سرخ ہٹاؤ‘ (cosmic red shift) کی دریافت تھی، جو دُور ہٹتی ہوئی کہکشاں کے طِیف (spectrum) سے حاصل ہوئی۔ تاہم سب سے حتمی اور دو ٹوک فیصلہ کن دریافت 1965ء میں ہونے والی 3درجہ کیلون کی مائیکرو ویو پس منظر کی شعاع ریزی تھی۔ یہ شعاع ریزی اِبتدائی دھماکے کے باقی ماندہ اَثرات کی صورت میں ابھی تک پوری کائنات میں سرایت کئے ہوئے ہے اور اُس کی لہروں کا شور ریڈیائی دُور  بینوں کی مدد سے بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

طبیعیات کی ایک اور اہم دریافت جس نے سائنسدانوں کو ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ کی صداقت تک پہنچنے میں مدد دی وہ ’آزاد خلا کی تباہی‘ کی دریافت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی پایا نہیں جاتا، مگر تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ خلاء میں بھی مادّے کی کوئی نہ کوئی شکل موجود ہے۔

 

کائنات میں نئے مادّے کا ظہور

 

فلکی طبیعیات کا یہ مُشاہدہ ’ہیسنبرگ‘ (Heisenberg) کے ’غیریقینی حالت کے قانون‘ (uncertainty principle) کا نتیجہ ہے۔ اِتنے عظیم واقعات کی غیریقینی حالت کی کیفیات میں سے گزر کر جب اِلیکٹران میں سے اُس کی ساری توانائی خارِج ہو گئی تو وہ بے قاعدگی کے ساتھ بکھرتی ہی چلی گئی اور یوں اُس کا اِطلاق خلاء کے مقام پر ہونے لگا۔ اگر اُن صفر مقام کے حامل تغیّرات (zero-point fluctuations) کا تعاقب کیا جائے تو وہ توانائی کی دیو قامت مِقدار کی غمازی کرتے ملیں گے، جسے ممکن ہے کہ کائنات کے دُوسرے مقامات سے اُدھار لی گئی توانائی تصوّر کیا جائے۔ نتیجۃً اُس مُستعار توانائی کے ذریعے بعض اَوقات کوئی ذرّہ پیدا بھی ہو سکتا ہے اور بعد اَزاں فوری طور پر تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ اِس تصوّر کو پہلی بار 1948ء میں ڈچ ماہرِ طبیعیات ’ہینڈرک کیسیمر‘ (Hendrick Casimir) نے پیش کیا اور بعد ازاں اُن ذرّات کی موجودگی کا اِنکشاف بھی اُسی سال 1948ء ہی میں ایک امریکی ماہرِ طبیعیات ’وِلس لیمب‘ (Willis Lamb) نے کیا۔

حال ہی میں طبیعیات کے پروفیسر ’پال ڈیویز‘ (Paul Davies) نے دلیرانہ انداز میں یہ اِعلان کیا ہے کہ نئے مادّے کا عدم سے وُجود میں آنا اﷲ ربُّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا ایک اہم ثبوت ہے۔ یہ جدید تصوّرات ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (Big Bang Theory) اور اﷲ تعالیٰ کی غیبی قدرت کے بارے میں ہمارے فہم و اِدراک میں اِضافہ کرتے ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محیّر العقول دھماکہ کائنات کی پیدائش کا ایک بنیادی سبب تھا اور اُسی کے مطابق کائنات کی طبیعی ساخت اور سِتاروں اور کہکشاؤں کا وُجود عمل میں آیا۔ جدید ترین اَعداد و شمار کے مطابق اُس دیو قامت دھماکے کا پہلا مرحلہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے (one billionth second) میں مکمل ہو گیا تھا، جب کہکشاؤں اور سِتاروں کو جنم دینے والا مادّہ آپس میں جڑا ہوا تھا۔ اَوّلیں جدائی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے (one thousandth second) میں وُقوع پذیر ہوئی تھی۔

آیئے اب ہم علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ تخلیقیات کی معلومات کی رَوشنی میں آیتِ مبارکہ کا از سرِ نو مطالعہ کرتے ہیں:

قُل أَعُوذُ بِرَبِّ الفَلَقِO مِن شَرِّ مَا خَلَقَO(الفلق 113:1.2)

آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںO ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےO

’عدم سے حاصل ہونے والے وُجود‘ اور ’پہلے سے موجود مواد سے پیدا ہونے والی مخلوق‘ کے ذِکر میں قرآنِ مجید "فَلَق” کی اِصطلاح اِستعمال کر رہا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اُن کا وُجود میں آنا ایک اِبتدائی دھماکے کا مرہونِ منّت ہے۔ اِن آیاتِ مبارکہ کا سب سے اہم رُخ یہ ہے کہ یہاں صفتِ ربوبیّت کے بیان میں "رَبُّ الفَلَقِ” کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے مفسّرین نے اِس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہ آیت اﷲ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیّت کی شان بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے (billionth second10) میں دس سنکھ (10,00,00,00,00,00,00,00,000) سِتارے ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ یہ سب اﷲ ربّ العزّت کی ربوبیّت کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔

اﷲ تعالیٰ نے مادّی کائنات کی تشکیل کا اِرادہ فرمایا اور "کُن فَیَکُونُ” کے حکم کے ساتھ ایک دھماکہ پیدا کیا۔ "فَلَق” جو اُسی دھماکے کا نتیجہ ہے، اُس وقت ربوبیّتِ بارِی تعالیٰ کی طاقت سے ایک محیّرالعقول کمپیوٹری حکم کے ذریعے منظم ہو گیا تھا۔ آیتِ کریمہ میں لفظِ "رَبّ” اور لفظِ "فَلَق” کو ذِکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اِنشقاق اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا کیا گیا۔ تاہم اِس سے پہلے کہ کوئی چیز ظہور پذیر ہونے کے لئے ضروری خصوصیات کی حامل ہو سکے اُسے اﷲ ربّ العزت کی ربوبیّت کی صفات ہی کا فیض حاصل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ طبیعی کائنات اور حیاتیاتی کمپیوٹری نظام کے قابل ہو سکے۔ یہ دَرحقیقت خالقِ کائنات کی بصیرت کا کمال ہے جو تمام کائنات پر حاوی ہے۔ گویا اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا کہ میری قدرتِ کاملہ میں ہر اُس مخلوق چیز کے شر سے پناہ حاصل کرو کہ جس کی تشکیل میری صفتِ ربوبیت کے فیضان سے ایک دھماکے کے نتیجے میں وُقوع پذیر ہوئی۔ میں تمہارا ربّ اور اِن کہکشاؤں کا حکمران ہوں جنہیں میں نے ایک عظیم دھماکے کے ساتھ خلا کی لا مُتناہی وُسعتوں میں بکھیر رکھا ہے۔ ایسا دھماکہ جو ایک اِکائی سے شروع ہوا اور اُس کے ذریعے بہت سی ایسی طاقتیں، قوتیں، شعاع ریزیاں اور ردِعمل معرضِ وُجود میں آئے، جو زِندگی کے لئے مہلک ہو سکتے ہیں۔ پس اُن ضَرَر رساں لہروں سے میری پناہ حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی میری پناہ لیتا ہے وہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

 

عظیم دھماکے کا پیش منظر

 

عظیم ماہرِ طبیعیات ’سٹیفن ہاکنگ‘(Stephen Hawking) کی تحقیق کے مطابق عظیم دھماکے سے فقط چند گھنٹے بعد ہیلئم اور دُوسرے عناصر کی افزائش تھم گئی اور اُس کے بعد اگلے کئی لاکھ سال تک کائنات کسی قابلِ ذِکر حادثے کے بغیر سکون کے ساتھ مسلسل پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھر جب رفتہ رفتہ (کائنات کا اَوسط) درجۂ حرارت چند ہزار درجے تک گِر گیا تو اِلیکٹران اور مرکزے (nuclei) کے پاس اِتنی توانائی برقرار نہ رہ سکی کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی مقناطیسی کشش پر غالب آ سکتے،

ز ’سٹیفن ہاکنگ‘ دُوربین کے مُوجد ’گیلیلیو گیلیلی‘ کی وفات کے ٹھیک 300 سال بعد 1942ء میں برطانیہ کے علمی شہر ’آکسفورڈ‘ میں پیدا ہوا۔ اُس نے فزکس کی اِبتدائی تعلیم ’آکسفورڈ یونیورسٹی‘ سے حاصل کی اور اُس کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کیمبرج چلا گیا۔ نوجوانی کی عمر میں ہی وہ ’موٹرنیورون‘ (motor neuron) نامی بیماری میں مبتلا ہو گیا مگر اُس کے باوُجود تحقیق و جستجو کے دروازے اُس نے کبھی بند نہ ہونے دیئے۔ یہ اُسی محنت کا صلہ تھا کہ وہ ’کیمبرج یونیورسٹی‘ میں ریاضی کا پروفیسر بنا اور ’نیوٹن کی تاریخی کرسی‘ کا حقدار قرار پایا۔ اُس کا مرتبہ ایک عظیم سائنسدان کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے ہم پلہ تصور کیا جاتا ہے۔ اُس نے اپنی معروف کتاب A Brief History of Time میں نہ صرف کائنات کی تخلیق و توسیع اور قیامت کی کئی ایک ممکنہ صورتوں کے متعلق جدید نظریات اِنتہائی آسان پیرائے میں بیان کئے ہیں بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ زمان-مکان پر بھی گفتگو کی ہے۔

اِس لئے اُنہیں مجبوراً باہم مل کر ایٹم تشکیل دینا پڑے اور مادّے کا بنیادی تعمیری ذرّہ ایٹم وُجود میں آیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر پوری کائنات پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ علاقے جو نسبتاً زیادہ کثیف ہیں وہاں وُسعت پذیری کا عمل زیادہ کششِ ثقل کی وجہ سے آہستہ ہو گیا ہے۔ یہی چیز آخرکار کائنات کے پھیلاؤ کو کچھ علاقوں میں روکنے کا باعث بنے گی، جس کے بعد کائنات اندر کی جانب واپسی کا سفر شروع کر دے گی۔ اندر کی طرف ہونے والے اِنہدام کے دَوران جن مخصوص حلقوں سے اِنہدام شروع ہو گا اُن سے باہر موجود مادّے کی کششِ ثقل شاید اُنہیں آہستہ سے گھمانا شروع کر دے۔ جوں جوں مُنہدم ہونے والے حلقے چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، اُن کے گھومنے میں اُسی قدر تیزی آتی چلی جائے گی۔ بالآخر جب کوئی حلقہ بہت چھوٹا رہ جائے گا تو وہ اِتنی تیزی سے گھومے گا کہ کششِ ثقل کا توازُن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ گھومتی ہوئی چکر دار کہکشائیں (spiral galaxies) بھی اِسی انداز میں پیدا ہوئی تھیں جبکہ دیگر کہکشائیں جن میں محوری گردِش کا یہ عمل ظاہر نہیں ہوا وہ بیضوی شکل اِختیار کرتی چلی گئیں جس کی وجہ سے اُنہیں بیضوی کہکشائیں (elliptical galaxies)کہا جاتا ہے۔

 

 

 

قرآن اور نظریۂ اِضافیت(Theory of Relativity)

 

قرآنِ مجید میں تخلیقِ کائنات سے متعلق بے شمار آیات موجود ہیں جن کے مطالعہ سے خالقِ کائنات کی شانِ خلّاقیت عیاں ہوتی ہے۔ اﷲ ربّ العزت نے اِس کائنات کی تخلیق میں ایک خاص حُسنِ نظم سے کام لیا ہے، جسے ہم اپنی اِستعداد کے سانچوں میں ڈھالتے ہوئے مختلف علوم و فنون کی اِصطلاحات کی صورت میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا سائنسی مطالعہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے حوالے سے علمِ تخلیقیات (cosmology) اور علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) کے مندرجہ ذیل اُصول مہیا کرتا ہے:

-1 رَتق اور فَتق کے تصوّر کے تحت قرآنِ مجید یہ بتاتا ہے کہ مادّہ اور توانائی اِبتداءً ایک ہی چیز تھے۔ مادّہ سمٹی ہوئی توانائی ہے اور توانائی مادّے کی آزاد شدہ شکل۔ اِسی طرح زمان و مکان (time / space) کو بھی ایک دُوسرے سے جدا کرنا ناممکن ہے، دونوں ہمیشہ مسلسل متصل حالت میں پائے جاتے ہیں۔ اﷲ ربُّ العزت نے اپنی ربوبیّت کی طاقت اور دباؤ کے عمل سے تمام اَجرامِ سماوی کو ایک وحدت (singularity) سے پھاڑ کر جدا جدا کر دیا اور یوں تمام سماوی کائنات کو وُجود ملا۔ یہ قرآنی راز ’آئن سٹائن‘ کے ’نظریۂ اِضافیت‘ کے ذریعے بیسویں صدی کے اَوائل میں منظرِ عام پر آیا۔

-2 وَ السَّمَآءَ بَنَینَاھَا بِأَیدٍ (الذاریات،51:47) کے تحت کائنات کو طاقت کے ذریعے پیدا کئے جانے سے حاصل ہونے والا قرآنی تصوّر اِس سائنسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ (Big Bang) سے شروع ہونے والی کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے پھیلاؤ اور موجودہ حالت تک، ایک ایٹم کے نظام سے لے کر عظیم نظامِ سیارگان اور کہکشاؤں کے بڑے بڑے گروہوں تک ہر چیز کی بقا کا اِنحصار کھنچاؤ اور توانائی کے برقرار رہنے اور اُن کے مابین توازُن پر مبنی ہے۔

یہ کھنچاؤ مرکز مائل (centripetal) اور مرکز گریز (centrifugal) قوّتوں کی صورت میں کائنات کے ہر مقام اور ہر شے میں پایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ’مرکز مائل قوّت‘ اور ’مرکز گریز قوّت‘ کا ہر جگہ برابر پایا جانا ایک ایسے توازُن کی نشاندہی کرتا ہے جو نظامِ سیارگان کے وُجود کی ضمانت ہے۔ اُن دونوں طاقتوں کے اِعتدال ہی سے ساری کائنات کا نظام قائم و دائم ہے اور ذرا سی بے اِعتدالی تمام نظامِ عالم کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔ جیسے بجلی میں مخالف بار ایک دُوسرے کو کھینچتی اور موافق بار دفع کرتی ہیں، اِسی طرح کائنات میں موجود تمام اشیاء کو۔ ۔ ۔ خواہ وہ سورج اور دُوسرے ستاروں کے گرد محوِ گردِش سیارے ہوں یا نیوکلیئس کے گرد گھومنے والے اِلیکٹران۔ ۔ ۔ ’مرکز گریز قوّت‘ ہی اُنہیں ’کششِ ثقل‘ کے زیرِ اثر مرکز میں گرنے اور مُنہدم ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ گویا کائنات کا تمام توازُن اﷲ ربّ العزت کے نظامِ ربوبیت کے پیدا کردہ کھنچاؤ اور توانائی ہی سے منظم ہے۔

-3 ’آئن سٹائن‘ کے ’خصوصی نظریۂ اِضافیت‘ (Special Theory of Relativity) کے ذریعے قرآنِ مجید کے اِس تصوّر۔ ۔ ۔ کہ کائنات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ کی واضح توثیق میسر آ چکی ہے۔ اِس نظریئے کی بنیاد E=mc2مساوات ہے، یعنی توانائی ایسے مادّے پر مشتمل ہوتی ہے جسے روشنی کی سمتی رفتار (velocity) کے مربّع کے ساتھ ضرب دی گئی ہو۔ یہ تعلق اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مادّہ توانائی ہی کی ایک شکل ہے اور روشنی کی سمتی رفتار کے تناظر میں مادّے کے ہر ایٹم کے اندر توانائی کا بے پناہ ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ یہی وہ مساوات ہے جس نے سورج اور دُوسرے ستاروں میں توانائی کے ذرائع کی وضاحت کی اور اُسی کے ذریعے بعد ازاں ایٹمی توانائی اور ایٹم بم کی بنیادیں بھی فراہم ہوئیں۔

آئن سٹائن کی یہ دریافت اِس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ایٹم کی ساخت طاقت یعنی توانائی (E=mc2) کے ذریعے وُجود میں لائی گئی ہے۔ یہ حقیقت اِن آیاتِ قرآنیہ سے کس قدر ہم آہنگ ہے:

وَ السَّمَآءَ بَنَینَاھَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَO(الذّاریات،51:47)

اور ہم نے کائنات کے سماوی طبقات کو طاقت (توانائی) کے ذریعے پیدا کیا اور ہم ہی اُسے وُسعت پذیر رکھتے ہیںO

وَ خَلَقَ کُلَّ شَئِ فَقَدَّرَہٗ تَقدیراً(الفرقان،25:2)

اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اُس (کی بقاء و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت، اَلغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےO

اِن آیاتِ کریمہ میں ہر شے کی توانائی کے ذریعے تخلیق، اور ہر چیز میں اور مادّے کے ہر ایٹم میں توانائی کے متناسب تسویہ کا تصوّر پایا جاتا ہے۔

إِنَّا کُلَّ شَئ خَلَقنَاہُ بِقَدَرٍO وَّ مَا أَمرُنَا إِلاَّ وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِO (القمر،54:49،50)

ہم نے ہر شے ایک مقرّر اَندازے سے بنائی ہےO اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکناO

یہ آیاتِ مبارکہ ظاہر کرتی ہیں کہ تخلیق کا عمل ایک حکم کی تعمیل میں ہونے والا دھماکہ تھا، جس نے عمل درآمد کے لئے پلک جھپکنے سے بھی کم، ایک سیکنڈ کا بہت تھوڑا عرصہ صرف کیا اور کائنات کا ہر ذرّہ توانائی اور خصوصیات میں مکمل تناسب رکھتا تھا۔

-4 قرآنِ مجید اِس سائنسی حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ کائنات کا تمام سماوی مواد اِبتداءً گیسی بادلوں کی صورت میں موجود تھا۔ سورۂ حم السجدہ کی آیت نمبر11 میں وَھِیَ دُخَانٌ (اور وہ اُس وقت گیس کے بادل تھے) کے اَلفاظ غیر مبہم طور پر دُخانی حالت کی موجودگی کو ثابت کرتے ہیں۔ پھر اُن گیسی بادلوں کے اندر اﷲ ربّ العزت نے متوازن فلکیاتی نظام ترتیب دیا، جس کے تحت اربوں کہکشائیں اور اُن کے اندر واقع کھربوں اِنفرادی نظاموں کو وُجود ملا۔ تمام کہکشائیں کائنات کے مرکز سے باہر کی جانب بیک وقت وُسعت پذیر ہیں اور ابھی تک اُن میں اِجتماعی طور پر کوئی ٹکراؤ یا عدم توازُن پیدا نہیں ہوا، جس روز اُن میں اِجتماعی سطح کا ٹکراؤ پیدا ہوا وہ اِس کائنات کے لئے قیامت کا دن ہو گا۔ (کہکشاؤں کی رجعتِ قہقری اور قیامت کے سائنسی اَسباب کے مطالعہ کے لئے باب دہم کی طرف رُجوع کریں)

 

 

باب سوُم

قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت

السَّمَآء کا لفظ سَمَا یَسمُو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے:”سمآئء کلِ شیٍٔ أعلاہ” )کسی بھی چیز کے اُوپر جو کچھ ہے وہ اُس چیز کا سمآء ہے(۔ چنانچہ لُغوی اِعتبار سے لفظِ ’سمآ‘ کا اِطلاق کرۂ ارض کے گِرداگِرد موجود تمام کائنات پر ہوتا ہے اور زمین کے علاوہ تمام کائنات اور اَجرامِ سماوی عالمِ سماوات میں شامل ہیں۔

لُغتِ عرب میں لفظِ سمآء کے معانی کی وُ سعت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں بھی اﷲ ربّ العزت نے اِس لفظ کا اِستعمال متعدّد معانی میں کیا ہے۔ کہیں اِس سے مُراد بادل ہیں تو کہیں بارش۔ ۔ ۔ کہیں اِس کا اِستعمال کرۂ ہوائی کے معنی میں ہوا ہے تو کہیں بالائی کائنات کے معنی میں۔ ۔ ۔ الغرض کرۂ ارضی کی فضائے بسیط سے لے کر عالمِ طبیعی کی آخری حدوں تک وسیع و عریض کائنات کے تمام گوشوں پر لفظِ سمآء کا اِطلاق ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں جن مقامات پر یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے وہاں سیاقِ کلام اُس کا مفہوم واضح کرتا ہے اور ہم آیات کے تسلسل پر غور و فکر کے بعد ہی اُس کے حقیقی معانی اور اﷲ ربُّ العزت کی غایتِ کلام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں سمآء اور سمٰوٰت کا لفظ 310 مرتبہ آیا ہے جن میں سے بیشتر مقامات پر اُس کا اِطلاق لغتِ اُردو میں استعمال ہونے والے لفظ ’آسمان‘ کی بجائے بارِش، بادل اور سماوی طبقات وغیرہ پر ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ سماء کا سب سے پہلا اِستعمال بادل کے معنی میں ہوا ہے۔

اﷲ ربّ العزت کا فرمان ہے:

أَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیہِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعدٌ وَّ بَرقٌ۔ (البقرہ،2:19)

یا اُن کی مثال بادل سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے۔

کسی مخصوص خطۂ ارضی کو اپنے دامن میں لپیٹ لینے والی کالی گھٹاؤں سے جب موسمِ گرما کی دوپہریں بھی نصف شب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو اُن بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج اور چمک سے لوگوں میں بارِش کی خوشی کے باوُجود بجلی کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع کی منظر نگاری قرآنِ مجید میں اِس مقام پر کی گئی ہے۔ جب لوگ موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والا لفظِ ’سمآئ‘ اُردو کے معروف لفظ ’آسمان‘ کی بجائے ’بادل‘ کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔

لفظِ ’سمآئ‘ کے مختلف قرآنی معانی پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ’سمآء‘ کا معنی ہر جگہ ایسے ٹھوس غلاف نہیں ہیں جنہوں نے اربوں کھربوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری کہکشاؤں کے گروہوں (clusters) کو اپنے دامن میں لپیٹ رکھا ہے اور وہ تمام مادّی عالم کو محیط ہیں۔ بلکہ قرآنِ مجید لغتِ عرب کی وُ سعت کے پیشِ نظر اِس لفظ کا اِستعمال جا بجا اور بھی بہت سے معانی کے لئے کرتا ہے۔

 

قرآنی لفظ سمآء کے معانی

 

قرآنِ مجید میں لفظ ’سمآء‘ مروّجہ سات آسمانوں کے علاوہ اِن معانی کے لئے بھی اِستعمال ہوا ہے:

 

1۔ بادل 4۔کرۂ ہوائی
2 ۔بادلوں کی فضا 5 ۔گھر کی چھت
3 ۔بارش 6۔ سماوی کائنات

1۔ بادل

قرآنِ مجید میں بہت سے مواقع پر لفظ سمآء بادلوں کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ بارِش بادلوں سے برستی ہے، جو ہماری زمین ہی کی فضا میں معلّق ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بارِش کا ذِکر آیا ہے وہاں لفظ سمآء کا اِستعمال بارِش ہی کے معنی میں ہوا ہے۔

سورۂ حجر میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ أَرسَلنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلنَا مِنَ السَّمَآءِ مآءً۔  (الحجر،: 22 : 15)

اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں، پھر ہم بادلوں سے پانی اُتارتے ہیں۔

اِس آیتِ مبارکہ میں پانی سے بھرے بادلوں کو ’سمآء‘ کہا گیا ہے، جن سے پانی برسا کر اﷲ ربُّ العزت پیاسی زمینوں کو سیراب فرماتا ہے۔ وہ تمام آیات جن میں "یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً” (آسمان سے پانی (بارِش) اُتارتا ہے) کا بیان آیا ہے وہاں سمآء سے مراد بارش ہی ہو گی۔

2۔ بادلوں کی فضا

بادل کے علاوہ بعض مقامات پر لفظ سمآء کا ذِکر کرۂ ہوائی کی اُن مخصوص تہوں کے لئے بھی ہوا ہے جن میں بادل تیرتے رہتے ہیں۔

سورۂ نور میں اﷲ ربّ العزت نے فرمایا:

أَ لَم تَرَ أَنَّ اللہَ یُزجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤلِّفُ بَینَہٗ ثُمَّ یَجعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِہٖ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِن جِبَالٍ فِیھَا مِنم بَرَدٍ۔(النور،:4324

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اُس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر اُسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے۔  اور وہ اُسی فضا سے برفانی پہاڑوں کی طرح (دِکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے۔

سورۂ نور کی اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ ’سمآء‘ کا اِستعمال زمین کے کرۂ ہوائی (atmosphere) کی اُن تہوں کے لئے ہوا ہے جن میں بادل معلّق ہوتے ہیں۔ نیز بادلوں کی بناوَٹ اور اُن کی مختلف تہوں کا ذِکر بھی کیا گیا ہے، جو سمندروں سے چل کر خشکی پر برستے ہیں اور زمینی حیات کی سیرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ کے الفاظ میں واضح طور پر بادلوں کی فضا کو سماء کہا گیا ہے۔ یہ اور اِس قبیل کی دُوسری بہت سی آیات جملہ اہلِ ایمان کو حصولِ علمِ موسمیات (meteorology) کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

لفظِ سمآء کا بادلوں کی فضا کے معنی میں ایک اور مقام پر یوں اِستعمال ہوا ہے:

اَﷲُ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیفَ یَشَآءُ۔

(الروم، 48:30) اﷲ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔

3۔ بارِش

بارِش چونکہ بادلوں سے ہی پیدا ہوتی ہے اِس لئے بادل اور بادلوں کی فضا کے علاوہ کبھی لفظِ سمآء کا اِستعمال براہِ راست بارِش ہی کے معنی میں بھی ہوا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا:

وَ أَرسَلنَا السَّمَآءَ عَلَیھِم مِّدرَاراً وَّ جَعَلنَا الأَنھَارَ تَجرِی مِن تَحتِھِم۔ (انعام، 6:6)

اور ہم نے اُن پر لگاتار برسنے والی بارِش بھیجی اور ہم نے اُن (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں۔

اِس آیتِ کریمہ میں بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔ یہاں سمآء کے مروّجہ معنی ’آسمان‘ کسی صورت میں بھی مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ آسمان تو کبھی نہیں برستا، ہمیشہ بارِش ہی برستی ہے۔ اِس آیت میں اُوپر سے برسنے والی بارِش اور زمین کے اندر بہنے والی نہروں کا متوازی ذِکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیتِ مبارکہ میں یہی مضمون اِس انداز میں وارِد ہوا ہے:

یُرسِلِ السَّمَآءَ عَلَیکُم مِّدرَارًا۔ (ھود،11:52 )

وہ تم پر مُوسلا دھار بارِش بھیجے گا۔

اِس آیتِ کریمہ میں بھی بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔

4-کرۂ ہوائی

قرآنِ مجید میں لفظِ سمآء کا اِستعمال زمین کے گِرد لپٹے کرۂ ہوائی کے لئے بھی ہوا ہے۔ پرندے زمین کی فضا میں اُس کی سطح سے کُچھ بلندی پر اُڑتے ہیں، زمینی فضا کی وہ بلندی جہاں پرندوں کی عام پرواز ہوتی ہے قرآنِ مجید میں اُسے بھی سمآء کہا گیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

أَ لَم یَرَو إِلَی الطَّیرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَآءِ مَا یُمسِکُھُنَّ إِلَّا اللہُ۔ النحل، (79:16)

کیا اُنہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اُڑتے رہتے) ہیں۔ اُنہیں اﷲ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔

اِس آیتِ مبارکہ میں فضا یا کرۂ ہوائی کو سمآء کہا گیا ہے، جہاں پرندے اُڑتے ہیں۔

5۔گھر کی چھت

سورۂ حج میں ایک مقام پر مطلق بلندی اور گھر کی چھت کے معنی میں بھی لفظِ سمآء کا اِستعمال ہوا ہے:

اِرشادِ ربّ ِ جلیل ہے:

فَلیَمدُد بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَآءِ۔ (الحج) 15:22

اُسے چاہیئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے۔

اِس آیتِ کریمہ میں تاجدارِ کائنات ﷺ کے بارے میں نیک گمان نہ رکھنے والے منافقوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت سے رسا باندھ کر اُس سے لٹک جائیں اور خودکشی کر لیں۔ یہاں گھر کی چھت کے لئے سمآء کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔

6- سماوی کائنات

لفظِ سمآء کو اﷲ ربُّ العزت نے اپنے کلامِ مجید میں کروڑوں اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھری ناقابلِ اِحصاء و شمار کہکشاؤں کے سلسلوں پر مشتمل تمام کائنات کے لئے بھی اِستعمال کیا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت ہر طرف جو دُخانی کیفیت (gaseous state) موجود تھی، اُس کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا:

ثُمَّ استَویٰ إِلیَ السَّمَآءِ وَ ھِیَ دُخَانٌ۔ ۔ ۔ فَقَضَاھُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ۔(فصلت، 41: 11.12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُنہیں سات آسمان بنا دیا۔

اِس آیتِ مبارکہ میں ’بالائی کائنات‘ کو سمآء کہا گیا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اِس مقام پر بات اُس وقت کی ہو رہی ہے جب ابھی سبع سماوات نہیں بنے تھے۔ گویا یہاں جس شے کو سمآء کہا گیا ہے وہ سبع سماوات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی۔ گویا جس حالت سے سات آسمانوں کی تخلیق عمل میں آئی اُسے بھی قرآن نے سمآء سے تعبیر کیا ہے۔

ایک اور مقام پر اﷲ ربُّ العزت نے لفظِ سمآء کو جملہ سماوی کائنات کے معنی میں اِستعمال کرتے ہوئے فرمایا:

تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیھَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًاO(الفرقان، 25:61)

وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے) چمکنے والا چاند بنایاO

قرآنِ مجید سے آسمان کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ کوئی ایسا ٹھوس اور جامد جسم نہیں جس کے آر پار جانا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا اور اُن کے زیرِ اثر ہمارے بعض علماء نے بھی یہی تصور کر لیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

ثُمَّ استَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَ ھِیَ دُخَانٌ ۔ ۔ ۔ فَقَضٰھُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآئٍ اَمرَھَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ۔ (حم السجدہ، 41: 11.12)

پھر وہ (اﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان اوپر کے طبقات کو دو ادوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اسی سے متعلق احکام بھیجے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا۔

اِن آیاتِ کریمہ اور ان کے سیاق و سباق سے درج ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:

-1 عالمِ سماء اِبتداء ً دھُواں (cloud of hot gases) تھا۔

-2 اِس عالمِ سماء کو سات محکم طبقات میں تقسیم کیا گیا، جیسا کہ اِرشادِ اِلٰہی ہے:

اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا۔ (الملک، 67:3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے۔

سات کا عدد خاص بھی ہو سکتا ہے اور لُغتِ عرب کے قاعدے کے مطابق اِس سے محض عددی کثرت بھی مُراد ہو سکتی ہے۔

-3 تمام ستارے اور سیارے مثلاً چاند، سورج اور دیگر اَجرامِ فلکی جو عالمِ اَفلاک میں چراغوں کی مانند چمک رہے ہیں، پہلے طبقۂ آسمانی میں موجود ہیں۔ اُن کا مدار آسمانِ دُنیا کے نیچے ہی ہے۔ کوئی ستارہ یا سیارہ پہلے آسمان سے اُوپر نہیں۔ یہ تمام سیارگانِ فلکی باری تعالیٰ کے حکم اور اُس کی تدبیر کے مطابق محوِ گردش ہیں۔ جیسا کہ اِرشاد ہے:

وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍم بِأَمرِہٖ۔  (الاعراف، 54: 7)

اور سورج چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ(الانبیاء، 33 :21)

تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںO

-4 کائنات کی حدُود اِس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھُوا نہ جا سکے یا اُن کے آر پار آنا جانا نا ممکن ہو۔ قرآن و حدیث سے یہ اَمر ہرگز ثابت نہیں کہ اِنسان آسمانوں کے پار نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کا عقلی و شرعی اِمکان خود قرآن سے یوں ثابت ہے۔

اﷲ ربُّ العزت نے جنوں کے ساتھ اِنسانوں کو بھی مخاطب کیا اور فرمایا:

یَا مَعشَرَ الجِنِّ وَ الاِنسِ إِنِ استَطَعتُم اَن تَنفُذُوا مِن اَقطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ اِلَّا بِسُلطَانٍO

(الرحمن، 55:33)

اے گروہِ جن و اِنسان! اگر تم میں سماوی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیّت) کے بغیر تم (یقیناً) نہیں نکل سکتےO

اِسی آیتِ کریمہ کے مفہوم کا ایک مفاد یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی حدُود سے نہیں نکل سکتا۔ سائنس تخلیقِ سماوی کے باب میں بھی قرآن کے اَحکامات کی تصدیق کرتی ہے۔

لفظِ سمآء کے مختلف قرآنی اِستعمالات کے بعد اَب ہم سات آسمانوں سے متعلق کچھ جدید سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ قرآنی بیانات کی صحت و صداقت جدید ذِہن پر آشکار ہو سکے اور وہ اُس کے کلامِ الہٰی ہونے پر یقینِ کامل پا سکے۔

 

سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر

 

قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اِن آیات میں واضح کی گئی ہے:

اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (الملک،67:3)

(بابرکت ہے وہ اﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا بنائے۔

ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰھُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَ ھُوَ بِکُلِّ شَئ عَلِیمٌ(البقرہ،2:29)

پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے اُنہیں درُست کر کے اُن کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہےO

أَلَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اﷲُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاO(نوح،71:15)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا کر رکھے ہیںO

وَ لَقَد خَلَقنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَائِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَO (المؤمنون،23:17)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےO

اگرچہ سات آسمانوں کے کچھ رُوحانی معانی اور توجیہات بھی بہت سی تفاسیر میں پیش کئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ اور ہم اُن کی تائید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ طبیعی کائنات، اُس کے خلائی طبقات، اَجسامِ سماوی اور خلاء اور کائنات سے متعلقہ کچھ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات بھی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ یہ طبیعی موجودات رُوحانی اور مابعد الطبیعی موجودات کے عینی شواہد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن دونوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔

پہلی وضاحت۔ ۔ ۔ سات آسمانوں کا کائناتی تصوّر

قرآنِ حکیم نے اپنی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر کیا ہے۔ گزشتہ 200سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں (decades) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔

ترکی کے نامور محقّق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پہلی اور مرکزی تہ بے شمار ستاروں سے بننے والی کہکشاؤں اور اُن کے گروہوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے اُوپر واقع دُوسری تہ بہت سی مِقناطیسی خصوصیات کی حامل ہے، جو قواسرز (quasars) پر مشتمل ہے، جنہیں ہم ستاروں کے بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ قواسرز کائنات کے قدیم ترین اَجرام ہیں جو بہت زیادہ ریڈ شفٹ چھوڑتے ہیں۔ اُس کے گِرد تیسری مقناطیسی پٹی ہے جو کائنات کے سِفلی مقامات کو اپنے حلقے میں لئے ہوئے ہے۔

سب سے اندرونی دائرہ اور خاص طور پر ہمارا اپنا نظامِ شمسی اپنے تمام سیاروں کے خاندان سمیت ہمارے لئے زمین پر رہتے ہوئے سب سے آسان قابلِ مُشاہدہ علاقہ ہے۔ اس نظام کی اندرونی ساخت تین الگ الگ مِقناطیسی میدانوں پر مُشتمل ہے۔

سب سے پہلے تو ہر سیارہ ایک مقناطیسی میدان کا مالک ہے، جو اُس سیارے سے اِردگرد واقع ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعد نظامِ شمسی کے اِمتزاج سے تمام سیارے ایک دُوسری مقناطیسی پٹی تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں ہر نظامِ شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ ایک الگ وسیع و عریض مقناطیسی علاقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کم از کم ایک کھرب ستارے یا سورج تو صرف ہماری کہکشاں (Milky Way) میں شامل ہیں۔ مزید اعلیٰ سطح پر آس پاس واقع کہکشائیں کلسٹرز (کہکشاؤں کے گروہ) کے ایک اور مقناطیسی میدان کا باعث بن جاتی ہیں۔ تبھی تو جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مقناطیسی پٹیوں میں گھِرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُسعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں:

-1 پہلا آسمان: وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔

-2 دُوسرا آسمان: ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مقناطیسی میدان ہے جسے مِلکی وے کا مرکز تشکیل دیتا ہے۔

-3 تیسرا آسمان: ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔

-4 چوتھا آسمان: کائنات کا مرکزی مقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔

-5 پانچواں آسمان: اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز (quasars) بناتے ہیں۔

-6 چھٹا آسمان: پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔

-7 ساتواں آسمان: سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔

اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے 14صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دیا تھا۔ (سات آسمانوں سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں)۔

 

 

دُوسری وضاحت۔ ۔ ۔ سات فلکیاتی تہیں

سات آسمانوں کے تصوّر کو ذرا واضح انداز میں سمجھنے کے لئے ہم فلکی طبیعیات سے متعلقہ چند مزید معلومات کا مختصر ذِکر کریں گے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ مذکورہ بالا آسمانی تہوں کے درمیان ناقابلِ تصوّر فاصلے حائل ہیں۔

-1 پہلی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ کم و بیش 65کھرب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔

-2 دُوسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہماری کہکشاں کا قطر بھی ہے۔ ۔ ۔ ایک لاکھ 30ہزار نوری سال وسیع ہے۔

-3 تیسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہمارا مقامی کلسٹر ہے۔ ۔ ۔ 20لاکھ نوری سال کی حدُود میں پھیلی ہوئی ہے۔

-4 چوتھی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کا مجموعہ ہے، اور کائنات کا مرکز تشکیل دیتی ہے۔ ۔ ۔ 10کروڑ نوری سال قطر پر محیط ہے۔

-5 پانچویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ایک ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔

-6 چھٹی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ 20ارب نوری سال دُور ہے۔

-7 ساتویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ اُس سے بھی کئی گنا آگے ہے، جس کا اَندازہ کرنا محال ہے۔

ایک آسمان سے دُوسرے آسمان تک کا جسمانی سفر ناممکن ہے، جس کا پہلا سبب روشنی سے کئی گنا زیادہ بے تحاشا رفتار کا عدم حصول ہے اور اُس کا دُوسرا سبب کائنات میں ہر سُو بکھری مقناطیسی قوّتوں پر نوعِ اِنسانی کا حاوی نہ ہو سکنا ہے۔ ان آسمانوں کی حدُود سے گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ رَوشنی سے زیادہ رفتار حاصل کی جائے، روشنی کی رفتار کا حصول چونکہ مادّی اَجسام کے لئے قطعاً ناممکن ہے اِس لئے اِس کا دُوسرا مطلب یہ ہوا کہ ’مادّے کی دُنیا سے نجات‘ حاصل کی جائے۔ ایسا عظیم سفر مادّی اَجسام سے تو ممکن نہیں البتہ رُوح اپنے اِرتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ایسا کرنے پر قادِر ہو سکتی ہے۔

تیسری وضاحت۔ ۔ ۔ لا مُتناہی اَبعاد

سات آسمانوں کے بارے میں لا مُتناہی اَبعاد کا تصوّر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف آسمانوں میں موجود عالمِ مکاں مختلف اَبعاد کا حامل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے سات آسمانوں کا تصوّر سات جدا جدا خلائی تسلسلوں کے تصوّر کو بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم ابھی تک وقت سمیت چار سے زیادہ اَبعاد کو محسوس نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے لئے فی الحال اِن لامتناہی اَبعاد کو کاملاً سمجھ سکنا ممکن نہیں۔

 

 

باب چہارُم

مکان- زمان (Space-time) کا قرآنی نظریہ

 

آسمان کی وُسعتوں میں کروڑوں اربوں ستارے چہار دانگِ عالم میں صدیوں سے مسلسل ضوء پاشی کر رہے ہیں۔ اُن کے مُشاہدے کے دَوران ہم دراصل اُن کے ماضی کا نظارہ کرتے ہیں۔ ہم فقط روشنی دیکھتے ہیں اور وہ روشنی جو آج سے لاکھوں سال قبل وہاں سے چلی تھی آج ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اُن ستاروں کو دیکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اسی طرح آج اگر کسی ستارے پر کوئی حادثہ پیش آ جائے یا ستارہ اپنی موت سے قبل سرخ ضخّام (red giant) میں تبدیل ہو جائے تو ہمیں لاکھوں سالوں بعد اُس وقت اِس حقیقت کی خبر ہو گی جب اُس سے خارج ہونے والی روشنی اتنی طویل مسافت طے کر کے ہم تک پہنچے گی۔ گویا آج کی حقیقت لاکھوں سال بعد دکھائی دے گی۔ اِسی طرح ’سورج‘، جو ہم سے آٹھ نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے، اگر اچانک بجھ جائے تو کرۂ ارض پر آٹھ منٹ تک زندگی جوں کی توں رواں دواں رہے گی اور زمین کے باسیوں کو خبر تک نہ ہو گی کہ سورج پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ سورج کے بجھنے کے بعد مزید آٹھ منٹ تک زمین سورج سے نکلنے والی آخری کرنوں سے روشن رہے گی تآنکہ سورج کی آخری کرن آ کر یہ پیغام دے کہ میں روشنی کی آخری سفیر ہوں اور اَب میرے پیچھے اُجالوں کا سفر ختم ہو گیا ہے۔

مغربی سائنس کی تاریخ کی صدیوں پر محیط جدّوجہد میں ارسطو سے لے کر نیوٹن تک ہمیں مطلق زمان و مکان کا نظریہ چھایا دکھائی دیتا ہے۔ اُن دونوں کا یہ نظریہ تھا کہ کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش بغیر کسی خطاء کے ممکن ہے اور یہ وقفہ کسی بھی ماپنے والے کے لئے برابر ہو گا بشرطیکہ آلاتِ پیمائش معیاری ہوں۔ یہ وہ تصوّر ہے جسے قدیم یونانی فلاسفہ کے دَور سے لے کر بیسویں صدی کے اَوائل تک عقلِ انسانی کے بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔

نیوٹن کے قوانینِ حرکت کے صدیوں بعد آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت سے ’مکان۔زمان‘ (space-time) کے جدید نظریات کا آغاز ہوا اور مسلسل اِرتقاء سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی کے آخری سالوں تک یہ نظریات ’سٹیفن ہاکنگ‘ تک آ پہنچے۔ اگرچہ ’مکان-زمان‘ کے نئے نظریات کو متعارف ہوئے برس ہا برس گزر چکے ہیں مگر پھر بھی بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن سے فرسودہ نظریۂ جمودِ کائنات مکمل طور پر محو نہیں ہو سکا۔ سٹیفن ہاکنگ اپنی شہرہ آفاق تصنیف A Brief History of Time میں لکھتا ہے کہ "ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اُس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے ’مکان۔زمان‘ (space-time) کہتے ہیں۔” چنانچہ ’مکان-زمان‘ کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سُکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہے، گویا اُس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کے رَو میں دُور کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معنی نہیں رکھتا۔ ہر فرد اور شے کے لئے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہوتا ہے جس کا اِنحصار اِس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محوِ حرکت ہے۔ یہاں آ کر زمان و مکان کی اِنفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے اور وہ باہم مل کر ’مکان-زمان‘ کو تشکیل دیتے ہیں۔

’مکان-زمان‘ (space-time) کا نظریہ یقینی طور پر یہ طے کرتا ہے کہ زمان بھی مکان کی طرح حادِث ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ نہ تھے، پھر اُنہیں پیدا کیا گیا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ دونوں موت سے ہمکنار ہوں گے۔

تقریباً 15 ارب سال عمر کی نوخیز کائنات جس کی 65 ارب سال عمر ابھی باقی ہے، خالقِ کائنات کے لئے اس کی تمام عمر (یعنی 80 ارب سال) پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت ہے۔ یہی وقت یا زمان جو اپنی سُست روی کے باعث کسی کے لئے پھیل کر لامتناہی ہو جاتا ہے، جب کسی کے لئے سُکڑتا ہے تو تیز رفتاری کے ساتھ محض چند لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ ربّ العزت نے چند ایسے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے جن میں اُس نے اپنی خالقیت اور قدرت کا نظارہ کروانے کے لئے کچھ اَفراد پر وقت کی رفتار نہایت تیز کر دی اور سالوں پر محیط وقت چند گھنٹوں میں گزر گیا۔ وقت کے یوں سُکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں "طئ زمانی” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

زمان و مکان کے اِضافی ہونے کا تصوّر بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اُس وقت منظرِ عام پر آیا جب شہرہ آفاق یہودیٔ النسل سائنسدان آئن سٹائن نے 1905ء میں نظریۂ اِضافیتِ مخصوصہ (Special Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس تھیوری میں آئن سٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ زمان و مکان (time / space) کی مطلق حیثیت کسی طور پر حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ دونوں محض ایک اِضافی حیثیت میں ہمارے اِدراک میں آتے ہیں۔ اُس نے یہ ثابت کیا کہ مادّہ (matter)، توانائی (energy)، کشش (gravity)، زمان (time) اور مکان (space) اِن سب میں ایک خاص ربط اور نسبت موجود ہے اور اُس نسبت کی بنا پر ہی اُن کی تشریح کرنا ممکن ہے۔ جب ہم اُن میں سے کسی ایک کو دُوسری سے الگ کر کے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتائج یکسر مختلف حاصل ہوتے ہیں۔ جب ہم کسی وقت یا فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی (relative) حیثیت میں کرتے ہیں۔ گویا کائنات کے مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے اور مکان کے بدلنے سے زمان کے بہاؤ اور رفتار میں کمی و بیشی بھی ممکن ہے۔ چنانچہ اِس سے یہ حقیقت منظرِ عام پر آتی ہے کہ ’آلاتِ پیمائش کے معیاری ہونے کے باوُجود کوئی سے دو واقعات کے درمیانی وقفہ کی پیمائش میں عدم یکسانی کا اِمکان بہرطور باقی رہتا ہے‘۔ نظریۂ اِضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اُس کا حجم اور کمیّت بھی اُسی تناسب سے گھٹتے اور بڑھتے ہیں۔

 

 

 

روشنی کی رفتار کا عدم حصول

 

نظریۂ اِضافیت کے اِس پہلو سے یہ نتیجہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ اِنتہائی تیز رفتار متحرک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ روشنی کی 10 فیصد رفتار پر کسی شے کی کمیّت میں اُس کی عام کمیّت سے 0.5 فیصد اِضافہ ہو جائے گا، روشنی کی 90 فیصد رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دوگنا ہو جائے گی جبکہ اُس کا حجم نصف رہ جائے گا۔ جب کسی شے کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گی تو اُس کی کمیّت میں اِضافہ تیز تر ہو جائے گا جس کی وجہ سے رفتار میں مزید اِضافے کے لئے اُسے توانائی کی مزید ضرورت بڑھتی جائے گی۔ اِس کا اصل سبب یہ ہے کہ کسی شے کو اپنی حرکت سے ملنے والی توانائی اُس کی کمیّت میں جمع ہوتی چلی جاتی ہے جس کے سبب اُس کی رفتار میں اِضافہ مشکل ہوتا چلا جائے گا۔

مثال

اگر کوئی راکٹ 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی سے 90 فیصد) کی رفتار سے 10 سال سفر کرے تو اُس میں موجود خلا نورد کی عمر میں وقت کی نصف رفتار کے پیشِ نظر محض 5 سال کا اِضافہ ہو گا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزر چکے ہوں گے اور خلا نورد اُس سے 5 سال چھوٹا رہ جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِنسانی جسم کی اِس محیر العقول رفتار پر نہ صرف دِل کی دھڑکن اور دورانِ خون بلکہ اِنسان کا نظامِ اِنہضام اور تنفّس بھی سُست پڑ جائے گا، جس کا لازمی نتیجہ اُس خلا نورد کی عمر میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔

روشنی کی رفتار کا 90 فیصد حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے وہاں جسم کا حجم بھی سُکڑ کر نصف رہ جاتا ہے اور اگر مادّی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کر لے تو اُس کے حجم اور اُس پر گزرنے والے وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔ اِس نظریئے میں سب سے دِلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی 100 فیصد رفتار حاصل کر لے تو اُس پر وقت کی رفتار لامحدود ہو جائے گی، اُس کی کمیّت بڑھتے بڑھتے  لا محدُود ہو جائے گی اور اُس کا حجم سکڑ کر صفر ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنا پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔ یوں نظریۂ اِضافیت کے مطابق کوئی مادّی جسم کبھی روشنی کی رفتار کو نہیں چھو سکتا۔ صرف روشنی اور دُوسری لہریں جن کی حقیقی کمیّت کچھ نہیں ہوتی وُہی اِس محیر العقول رفتار سے سفر کر سکتی ہیں۔ نظریۂ اِضافیت میں مطلق وقت کا وُجود نہیں ہے بلکہ اُس کی جگہ ہر شے اور فرد کا اپنا اِضافی وقت ہوتا ہے جس کی پیمائش کا اِنحصار اِس بات پر ہے کہ وہ کہاں ہے اور کس رفتار سے حرکت میں ہے۔

 

اِضافیتِ زمان و مکان

 

مکان-زمان (space-time) سے متعلقہ جدید نظریات سے مکان اور زمان دونوں اِضافی قرار پاتے ہیں اور اُن کے مطلق ہونے کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے ’مکان-زمان‘ کی تشریح میں یہ بات بھی دو ٹوک الفاظ میں بیان کی ہے کہ جس طرح ہم کائنات میں ہونے والے واقعات کا ذِکر ’مکان-زمان‘ سے ماورا ہو کر نہیں کر سکتے اِسی طرح ’آئن سٹائن‘ کے عمومی نظریۂ اِضافیت (General Theory of Relativity) کے مطابق ’مکان-زمان‘ کا ذِکر کائنات کی حدُود سے ماورا ہو کر بے معنی ہو جاتا ہے۔ یہ چیز ہمیں اِسلامی نظریات کے کافی قریب لے آتی ہے اور خالقِ کائنات اور اُس کی غیر طبیعی نوری مخلوقات کے زمان-مکان کی حدُود سے ماورا ہونے کا اِعتقاد رکھنا عینِ عقل قرار پاتا ہے۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ نے تو مکان-زمان (space-time) کے جدید نظریات کو مستحکم کرتے ہوئے ایک اور نتیجہ بھی اَخذ کیا ہے۔ اُس نے مکان-زمان کی مطلق حیثیت کی نفی اور اِضافی حیثیت کے اِثبات سے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ کائنات غیر متغیر اور قدیم نہیں ہے بلکہ یہ دراصل مسلسل وُسعت اِختیار کر رہی ہے۔ کائنات کی اِس وُسعت پذیری سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا آغاز ماضی میں ایک خاص نقطے سے ہوا تھا اور مستقبل میں کسی خاص ساعت میں اُس کا خاتمہ بھی یقینی ہے۔

یونانی فلاسفہ کے وہ فرسودہ نظریات جو کائنات کو ’قدیم‘ ثابت کرتے ہوئے تصورِ خدا کی نفی کرتے تھے اور جس کے خلاف اِسلامی عہد میں بے شمار کلامی بحثیں ہوئیں، جدید سائنس نے یوں چپکے سے اُس بے سروپا نظریئے کے پر کاٹ دیئے اور بنی نوعِ اِنسان کو کائنات کی اوّلین تخلیق اور آخرکار اُس کی عظیم تباہی (یعنی قیامت) پر بھرپور سائنسی دلائل مہیا کر دیئے۔ عقلِ انسانی کا یہ اِرتقاء اِنسان کو اِسلام کی آفاقی تعلیمات سے مزید قریب لے آیا ہے۔

وقت کا آغاز اِس کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی وُجود میں آیا تھا اور اُس کا تمام تر بہاؤ فقط اِسی طبیعی کائنات کی حدوں تک محدُود ہے۔ طبیعی کائنات سے ماوراء ہو کر وقت کی اہمیت کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ِاس مادّی کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والے فرشتوں اور اللہ تعالی کی دیگر نورانی مخلوقات کے لئے ہماری کائنات میں جاری و ساری وقت کی کچھ اہمیت نہیں ہے۔ ’ملک الموت‘ صرف اِسی کرۂ ارضی پر جہاں 5 ارب سے زائد اِنسانی آبادی زندگی بسر کر رہی ہے، ایک ہی وقت میں ہزاروں کلومیٹر کے بُعد میں واقع شہروں میں رہنے والے اِنسانوں کو موت سے ہمکنار کرتا ہے اور اُن کی اَرواح کو اُسی قلیل ساعت میں عالمِ اَرواح میں چھوڑ آتا ہے۔ ’ملک الموت‘ کا اِس سرعت سے سفر یقینا روشنی کی رفتار سے بھی لاکھوں گنا تیز ہے۔ ایک عام ذہن میں فوری یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہے؟ ایسا صرف اِس لئے ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا چاہا اور اُس نے ایسے قوانین تخلیق کئے جن کی رُو سے اُس کی غیر مادّی نورانی مخلوق ’مکان-زمان‘ (space-time) کی قیود (restrictions) سے بالا ہو کر ہزاروں لاکھوں نوری سال کی مسافت سے کائناتی وقت کا ایک لمحہ صرف کئے بغیر اپنے فرائضِ منصبی سر انجام دینے میں مصروف ہے۔

جس طرح اِس کائنات سے براہِ راست تعلق نہ رکھنے والی مخلوقات اِس کائنات کے جملہ طبیعی قوانین سے کلیتہً آزاد ہیں اور اُن کے لئے ’مکان-زمان‘ (space-time) کی اہمیت صفر ہو کر رہ جاتی ہے بالکل اُسی طرح کائنات کی پیدائش سے قبل اور اُس کے اِختتام کے بعد بھی وقت کا وُجود نہیں۔ زمانے کا آغاز تخلیقِ کائنات سے ہوا اور کائنات کی آخری تباہی (Big Crunch) پر وقت کا یہ طویل سلسلہ تھم جائے گا۔

اِس کائناتِ ارض و سما میں ’مطلق زمان‘ اور ’مطلق مکان‘ کے وُجود کی سائنسی دلائل کے ساتھ ثابت ہونے والی نفی نے ہر فرد اور ہر شے کے لئے وقت اور جگہ کے الگ الگ اِضافی پیمانے متعارف کروائے۔ ایسے ہی ’اِضافی مکان‘ اور ’اِضافی زمان‘ کا اللہ ربّ العزت نے اپنے کلام میں بھی ذِکر کیا ہے جو مختلف اَفراد کے لئے مختلف حالتوں میں اپنی رفتار تبدیل کر لیتا ہے۔

 

قرآنِ مجید اور طئ زمانی

 

اللہ ربّ العزت کا آخری کلام ہونے کے ناطے جہاں قرآنِ مجید بنی نوع اِنسان کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے وہاں وہ ہمیں بے شمار سائنسی حقائق سے آشنا کرتے ہوئے اِس کائنات کے بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ سرکاتا بھی دِکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف ہم اِکیسویں صدی کی سائنسی پیش رفت اور جدید سائنسی آلات کی معاونت سے کائنات میں چھپے رازوں سے آگہی حاصل کرتے ہیں اور عناصرِ تخلیق کی مختلف تراکیب سے طبیعی دُنیا میں نت نئے قوانین دریافت کرتے ہیں جس سے یہ کائنات نسلِ اِنسانی کے لئے مسخر ہوتی چلی جا رہی ہے تو دُوسری طرف کلامِ مجید اِس دُنیا میں ہمیں اللہ تعالی کی کچھ ایسی نشانیاں بھی دِکھاتا ہے جو عام طبیعی قوانین کے تحت ہماری حیطۂ اِدراک میں سما ہی نہیں سکتی تھیں۔

روشنی کی رفتار یا اُس کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والی مادّی اشیاء پر وقت کا اِنتہائی تیزی سے بہنا تو پچھلی چند دہائیوں کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے۔ قرآنِ مجید اِس کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں پڑے اَفراد پر بھی اللہ کی نشانی کے طور پر وقت کا نہایت تیزی سے گزر جانا بیان کرتا ہے، جس سے اللہ ربّ العزت کی قدرت کا ایک اور پہلو ہماری عقل کو چیلنج کرتا دکھائی دیتا ہے۔ زمان و مکان کے اپنی اِضافی حیثیت کی بنا پر کسی خاص فرد کے لئے سکڑ جانے کو اِسلامی لٹریچر کی اِصطلاح میں "طئ زمان” و "طئ مکان” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اَصحابِ کہف کے لئے طئ زمانی

آج سے چند ہزار برس قبل ’دقیانوس‘ بادشاہ کے ظلم سے اپنے ایمان کو بچانے کے لئے اُس دَور کے چند اَفراد شہری آبادی سے ہجرت کر کے گھاٹیوں میں چلے گئے اور اُنہوں نے ایک غار میں قیام کیا، تھکن سے چور تھے اِس لئے جلد ہی آنکھ لگ گئی۔ قرآنِ مجید نے ’طئ زمانی‘ کے ضمن میں اُن کا واقعہ بیان کیا ہے۔ وہ لوگ اُس غار میں 309 سال تک آرام کرتے رہے۔ صدیوں بعد جب اُن کی آنکھ کھلی تو اُنہیں اِس حقیقت کا اِدراک نہ ہو سکا کہ اُن پر 309 سال گزر چکے ہیں بلکہ وہ اپنی نیند کو ایک آدھ دِن سمجھتے رہے۔

قرآنِ مجید اِس محیر العقول واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے:

قَالَ قَائِلٌ مِّنھُم کَم لَبِثتُم قَالُوا لَبِثنَا یَومًا أَو بَعضَ یَومٍ (الکہف، 18:19)

اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ اُنہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔

309 سال گزر جانے کے باوُجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ابھی ایک دِن بھی پورا گزرنے نہیں پایا اور اُن کے بدن پہلے کی طرح تر  کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے:”سمآئُوتازہ اور ہشاش بشاش رہے۔ ’طئ زمانی‘ کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اَصحابِ کہف اور اُن کا کتا ایک غار میں مقیم رہے اور مرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ حکیم میں اِس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ ہمیں اِس حقیقت سے رُوشناس کرتا ہے کہ اَصحابِ کہف 309 سال تک اپنے غار میں کھانے پینے اور دیگر حوائجِ نفسانی سے بے نیاز ہو کر آرام فرما رہے اور اللہ کی رحمت نے طبیعی نظامِ کائنات کو اپنے محبوب بندوں کے لئے بالائے طاق رکھ کر اُن کے جسموں کو گردِشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا اور اُن کے اَجسام موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہے۔

309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوی ہوتے ہیں، اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کی 300 بہاریں اُن پر گزر گئیں مگر اُن کے اَجسام تر و تازہ رہے۔ تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا اور وہ بیدار ہونے پر اُس مدّت کو محض ایک آدھ دِن خیال کرتے رہے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ مطلقہ کا ظہور تھا جس سے کائنات کے طبیعی قوانین کے پیمانے سمٹ گئے۔

قرآن مجید فرماتا ہے:

وَ تَرَی الشَّمسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن کَھفِھِم ذَاتَ الیَمِینِ وَ إِذَا غَرَبَت تَّقرِضُھُم ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ھُم فِی فَجوَۃٍ مِّنہُ۔ (الکہف، 18:17)

اور آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کترا جاتا ہے اور وہ اُس غار کے کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔

اللہ تعالی کی وہ خاص نشانی جس کا ظہور اُس نے اَصحابِ کہف کی کرامت کے طور پر کیا، یہ ہے کہ اُس نے اپنے مقربین کو ظالم بادشاہ ’دقیانوس‘ کے شر سے محفوظ رکھنے کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک تبدیل کر دیئے اور ’ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ‘ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی 300 مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے بدل دیا اور فطری ضابطوں کو معطّل کئے رکھا۔

صدیوں سے جاری اِنسانی عقل کے سفر میں ایک نہایت اہم سنگِ میل ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) کے نتیجے کے طور پر ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت سے بنی نوعِ اِنسان کا عقلی و سائنسی اِرتقاء ابھی اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ روشنی کی رفتار کے قریب قریب رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت اُس کی رفتار کے تناسب سے بڑھ جاتی ہے، حجم کم ہو جاتا ہے اور وقت اُس پر تیز رفتاری سے گزرتا ہے۔ جبکہ اِس کے برخلاف مذکورہ بالا قرآنی واقعہ میں اَصحابِ کہف سفر کی بجائے سکون کی حالت میں آرام فرما تھے کہ اُن کے جسم تروتازہ رہے، اُن کا حجم بھی برقرار رہا اور وقت اُن پر اِنتہائی تیزرفتاری سے گزر گیا۔ اَب یہ سب کیسے ہوا؟ یہ ایک ایسا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب موجودہ سائنسی تحقیقات و نظریات کی رُو سے تو ممکن نہیں۔ تاہم آنے والے وقتوں میں ’مکان-زمان‘ (space-time) پر ہونے والی مزید تحقیقات شاید اِس عُقدے کو وَا کر سکیں اور قدرتِ الٰہیہ کا یہ راز بھی عقلِ انسان کو حقائق کی ایک نئی کسوٹی عطا کرے۔

خدائے عز و جل نے اپنی خصوصی رحمت سے اَصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُر کیف نیند سُلا دیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی، پھر اُنہیں ایسے مُشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہو گئیں۔

سیدنا عزیرؑ کے لئے طئ زمانی

سیدنا عزیرؑ اللہ ربّ العزت کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے تھے۔ ایک روز آپ ایک ویران اور برباد بستی کے پاس سے گزرے جس کے مکانات منہدم ہو چکے تھے۔ اُس ویرانے کے مُشاہدے کے دوران اُن کے دِل میں یہ خیال وارِد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اِس تباہ حال بستی کے مکینوں کو دوبارہ کس طرح زِندہ کرے گا جن کے جسم مٹی میں مٹی ہو چکے ہیں۔ اِس خیال پر اللہ ربّ العزت نے اُنہیں حیات بعد الموت کا نظارہ کروانے کے لئے ایک صدی کے لئے سلا دیا۔ بطورِ مُشاہدہ اُن پر 100 سال کے لئے موت طاری کر دی اور بعد اَزاں قدرتِ خداوندی ہی سے وہ زِندہ ہوئے اور ایک مکالمے میں اﷲ تعالیٰ نے ساری حقیقت اُن پر آشکار کی۔

قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے:

فَأَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ قَالَ کَم لَبِثتَ۔ (البقرہ، 2:259)

سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اُسے سو برس تک مُردہ رکھا، پھر اُسے زندہ کیا۔ (بعد اَزاں) پوچھا: تو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟

ایک صدی تک موت کی آغوش میں سوئے رہنے کے بعد جب حضرت عزیرؑ کو دوبارہ زِندگی ملی اور اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کتنا عرصہ سوئے رہے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا:

لَبِثتُ یَومًا أَو بَعضَ یَومٍ۔ (البقرہ، 2:259)

میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔

سیدنا عزیرؑ کے اِس جواب پر اللہ تعالی نے تمام بات کھول کر اُن کے سامنے رکھ دی اور اپنی قدرت کا بھرپور نظارہ کروا دیا۔ فرمایا:

بَل لَّبِثتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّہ وَ انظُر إِلٰی حِمَارِکَ وَ لِنَجعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ انظُر إِلیَ العِظَامِ کَیفَ نُنشِزُھَا ثُمَّ نَکسُوھَا لَحمًا۔ (البقرہ، 2:259)

(نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے)، پس (اَب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں، اور (اَب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اِس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اَب اُن) ہڈیوں کی طرف دیکھ، ہم اُنہیں کیسے جنبش دیتے (اور اُٹھاتے) ہیں، پھر اُنہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں!

اِس آیتِ کریمہ میں جہاں اَصحابِ کہف کی طرز پر سیدنا عزیرؑ پر وقت کا اِنتہائی تیز رفتاری سے گزرنا بیان ہو رہا ہے کہ پوری صدی اُن کے محض ایک دِن میں گم ہو گئی، وہاں اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو صدی نے گزرنے میں ایک دِن کا وقفہ بھی نہ لگایا۔ اگر وہ صدی اُس خوراک پر حضرت عزیرؑ والی رفتار کے ساتھ محض ایک دِن میں گزرتی تب بھی کھلی فضا میں پڑا کھانا یقینا باسی ہو جاتا جبکہ یہاں اللہ تعالی نے اپنی نشانی کے طور پر اُس میں عفونت اور سڑاند تک پیدا نہ ہونے دی۔ یوں اِس ایک واقعہ میں وقت کی دو مختلف رفتاریں موجود ملتی ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے پیغمبر کے گدھے کی ہڈیاں بھی گل سڑ کر پیوندِ خاک ہو گئیں۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ گدھے پر وقت اپنی اصل رفتار سے گزرا اور ایک صدی گزر جانے کے بعد یقیناً اُسے ختم ہو جانا چاہئے تھے، سو ایسا ہی ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا مُشاہدہ کروانے کے لئے اُس گدھے کو آپؐ کے سامنے زِندہ کیا، اُس کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں اور وہ زِندہ سلامت کھڑا ہو گیا۔

قرآنِ مجید میں مذکور حضرت عزیرؑ کی اِس مثال میں بھی ’طئ زمانی‘ کا ایک منفرد انداز ملتا ہے جس میں 100 سال کا عرصہ گزر جانے پر اُن کے مادّی جسم کو کوئی گزند نہ پہنچی اور وہ موسموں کے تغیر و تبدل سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رہے۔ وقت اُن کے کھانے پینے کی اشیاء پر تو گویا ایک لمحے میں گزر گیا اور اُن کی تر و تازگی میں کوئی فرق نہ آیا لیکن وُہی صدی اللہ کے نبی کے گدھے پر اپنی عام رفتار کے ساتھ کچھ اِس طرح گزری کہ اُس کا نام و نشان تک مٹ گیا، حتیٰ کہ اُس کی ہڈیاں تک بکھر گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرؑ کو احیائے موتیٰ کا نظارہ کروانے کے لئے اُن کے گدھے پر تجلی کی تو 100 سالہ مُردہ گدھے کی ہڈیاں اِکٹھی ہوئیں، اُن پر گوشت پوست چڑھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زندہ ہو کر کھڑا ہو گیا۔ قادرِ مطلق نے چشمِ زدَن میں حضرت عزیرؑ کو "طئ زمانی” اور "اِحیائے موتیٰ” کے منظر دِکھلا دیئے۔

اَصحابِ کہف کے واقعے کی طرح یہاں حضرت عزیرؑ بھی حالتِ سکون میں تھے اور 100 سال کا وقت اُن پر محض ایک دِن میں گزر گیا۔ اِس مقام پر بھی ’مکان-زمان‘ (space-time) کے جدید سائنسی نظریات صامت و ساکت ہیں۔ اِن دونوں قرآنی واقعات میں کرۂ ارضی پر حالتِ سکون میں صدیوں پڑے رہنے پر بھی وقت کا صرف ایک آدھ دِن کی صورت میں تیزی سے گزر جانا، کم از کم موجودہ سائنسی نظریات کی وساطت سے اِس کی کماحقہٗ تشریح ممکن نہیں۔ آنے والا وقت سائنسی تحقیقات میں مزید فروغ کا باعث ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ تب ’مکان-زمان‘ (space-time) پر ہونے والی مزید تحقیقات ہمارے لئے اِن قرآنی واقعات کی سائنسی تشریح کو ممکن بنا دیں۔

قرآنِ حکیم اور طئ مکانی

قرآنِ مجید میں طئ مکانی کی ایک بڑی بہترین مثال موجود ہے، جس میں طئ زمانی کا ایک پہلو بھی شامل ہے۔ وقت کی ایک قلیل ساعت میں سیدنا سلیمانؑ کی مجلس میں بیٹھنے والا ایک صحابی فقط آپ کے فیضِ صحبت اور علمِ کتاب کے بل بوتے پر کم و بیش 900 میل کی مسافت طے کر کے وہاں سے ملکۂ سبا "بلقیس” کا تخت اُٹھا لاتا ہے۔ مجلس جاری رہتی ہے اور وہ دورانِ مجلس پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں یہ کام مکمل کر دیتا ہے۔ سینکڑوں میل فاصلے پر پڑی ہوئی منوں وزنی چیز کو ایک قلیل سے لمحے میں لا حاضر کرنا زمان و مکان دونوں کو لپیٹ دینے کے مترادف ہے۔

قرانِ مجید اِس واقعہ کو یوں بیان کرتا ہے کہ سلیمانؑ نے اپنے درباریوں سے یہ سوال کیا:

یَا أَیُّھَا المَلَؤُا أَیُّکُم یَأتِینِی بِعَرشِھَا قَبلَ أَن یَّأتُونِی مُسلِمِینَO(النمل، 27:38)

اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیںO

ملکۂ سبا "بلقیس” کا تخت حضرت سلیمانؑ کے وطن سے تقریباً 900 میل دُور پڑا تھا۔ حضرت سلیمانؑ یہ چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضری کے لئے اپنے پایۂ تخت سے چل پڑی ہے، اُس کا تخت اُس کے آمد سے پیشتر سرِ دربار پیش کر دیا جائے۔

قرآنِ مجید کہتا ہے:

قَالَ عِفرِیتٌ مِّنَ الجِنِّ أَنَا أٰتِیکَ بِہٖ قَبلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَ اِنِّی عَلَیہِ لَقَوی أَمِینٌ(النمل، 27:39)

ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا: میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل  اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بیشک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوںO

قرآنِ مجید کی اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمانؑ کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئ مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لا کر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمانؑ کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اِس موقع پر آپ کا ایک اِنسان صحابی "آصف بن برخیا” جس کے پاس کتاب اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔

اِس انداز کو قرآنِ مجید نے اِس طرح بیان فرمایا:

قَالَ الَّذِی عِندَہٗ عِلمٌ مِّنَ الکِتَابِ اَنَا اٰتِیکَ بِہٖ قَبلَ اَن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُستَقِرًّا عِندَہٗ قَالَ ھٰذَا مِن فَضلِ رَبِّی۔(النمل، 27:40)

(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب سلیمان(ں) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے ربّ کا فضل ہے۔

یوں سیدنا سلیمانؑ کے ایک برگزیدہ صحابی "آصف بن برخیا” نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدّت میں تختِ بلقیس 900 میل کی دُوری سے لا کر حاضر کر دیا۔ یہ طئ مکانی کی ایک بہترین قرآنی مثال ہے جس میں فاصلے سمٹ گئے اور دُوسری طرف یہ طئ زمانی کی بھی نہایت جاندار مثال ہے کہ پلک کا جھپکنا یقیناً وقت کا ایک قلیل ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اُس قلیل ترین ساعت میں اِتنی مسافت طے کرنا اور اِتنا وزن اُٹھا کر واپس پہنچنا طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔

یہاں ایک توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ طئ زمانی و مکانی پر مشتمل اِس محیرالعقول واقعہ کا صدُور سیدنا سلیمانؑ کے ایک مقرب اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمتِ مصطفوی کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی حد کیا ہو گی! مردِ مومن کے اِشارۂ ابرو سے ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِپا آ جاتے ہیں۔ بقول حکیمُ الامت علامہ محمد اِقبالؒ :

دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا

سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی

مذکورہ بالا قصصِ قرآنی میں جہاں اَصحابِ کہف اور حضرت عزیرؑ کی مثالوں میں حالتِ سکون میں طئ زمانی کی ایک صورت سامنے آئی وہاں سیدنا سلیمانؑ کے صحابی آصف بن برخیا کی مثال میں طئ مکانی کے ساتھ ساتھ حرکت کی حالت میں طئ زمانی کی ایک صورت بھی پائی گئی۔ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مسلّمات و نظریات کی رُو سے حالتِ سکون میں وقت کا اِنتہائی تیزی سے گزر جانا محال ہے، البتہ روشنی کے قریب قریب رفتار حاصل کر لینے والے مادّی جسم کے لئے ایسا ممکن ہے۔ چنانچہ جہاں پہلی دو مثالوں کی سائنسی توجیہ موجودہ نظریات کی رُو سے ناممکن قرار پاتی ہے وہاں تیسری مثال جس میں طئ زمانی و مکانی کسی قدر اِکٹھی ہو گئی ہیں وہاں بھی سائنسی نظریات کاملاً تفہیم دینے سے قاصر ہیں اور ’آصف بن برخیا‘ کا کرۂ ارضی پر ہی رہتے ہوئے روشنی کی سی رفتار سے سفر کرنا اور 900 میل سے زیادہ فاصلہ طے کرتے ہوئے منوں وزنی تخت اُٹھا لانا عقلاً محال نظر آتا ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ قوانینِ طبیعیات کی رُو سے زمین کے کرۂ ہوائی (atmosphere) میں اِتنی محیر العقول رفتار سے کیا جانے والا سفر یقینا اُس مادّی جسم (یعنی آصف بن برخیا) کو اُسی طرح جلا کر بھسم کر دیتا جیسے خلا سے زمینی حدود میں داخل ہونے والے سیارچے (asteroids) اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے جونہی ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں، شہاب ثاقب (meteors) کے طور پر جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ ’آصف بن برخیا‘ کا اِن سائنسی قوانین کو شکست دینا اور نہ صرف اِس حیران کن رفتار پر اپنا جسم ہوا کی رگڑ کے باوُجود جلنے سے بچائے رکھنا بلکہ تختِ شاہی کو بھی آنچ نہ آنے دینا یقیناً اُن کی بہت بڑی کرامت ہے جو فقط اِلہامی کتاب کے علم ہی کی بدولت اُنہیں میسر آئی تھی۔

 

معجزۂ معراجِ مصطفی ﷺ اور طئ مکانی و زمانی

 

تاجدارِ کائنات ﷺ کا معجزۂ معراج اپنے اندر نوعِ اِنسانی کے لئے رہتی دُنیا تک کے لئے بہت سے سبق رکھتا ہے۔ وقت کے ایک نہایت قلیل لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر اور اُسی قلیل ساعت میں کرۂ ارضی کی طرف واپسی عقلِ اِنسانی سے ماوراء ایک ایسا راز ہے جسے کسی دَور کی سائنس افشاء نہ کر سکی۔ معجزہ نام ہی اُس فعل کا ہے جو عقلی کسوٹی سے پرکھا نہ جا سکے۔ شبِ معراج حضورﷺ وقت کی ایک قلیل جزئی میں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پہنچے جہاں موجود تمام انبیاء کی اَرواح نے آپﷺ کی اِقتداء میں نماز ادا کی۔ پھر آپﷺ عالمِ بالا کی طرف روانہ ہوئے اور مکان و لامکاں کی حدود کے اُس پار سدرۃُ  المنتہیٰ سے بھی آگے ربِ ذوالجلال کی رحمتِ بے پایاں سے اُس کی ملاقات سے شرف یاب ہوئے۔

اربوں نوری سال سے زیادہ وسیع مادّی کائنات کی آخری حدود سے بھی پرے اِس محیر العقول رفتار کا سفر اور سکانِ ارضی کی طرف واپسی، یہ سب کچھ وقت کے محض ایک لمحے میں ہو گیا۔ وقت کا ایک لمحہ آپﷺ پر یوں پھیلا کہ اُس میں یہ طویل عرصۂ دراز گم ہو گیا اور جب آپ واپس تشریف لائے تو دروازے کی کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔ یہ سب کیا تھا؟ یہ اللہ ربُ العزت کی قدرت کا ایک نظارہ تھا اور تاجدارِ انبیاء ﷺ کا ایک ایسا جامع معجزہ تھا جسے عقلی و سائنسی بنیادوں پر پرکھنا اور سمجھنا قیامت تک ممکن نہیں کیونکہ فزکس کے تمام قوانین اِسی طبیعی کائنات کی حدود سے متعلق ہیں۔ جب اللہ ربّ العزت کا کوئی فعل طبیعی کائنات کے عام ضابطوں سے ہٹ کر ظاہر ہوتا ہے تو اُسے ہماری دانش سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔

معجزۂ معراج طئ زمانی و مکانی دونوں کا جامع ہے۔ اس کا صدور نظریۂ اِضافیت میں ملنے والے وقت کے ٹھہراؤ کی ممکنہ صورت کے برعکس ہوا۔ نظریۂ اِضافیت کے مطابق روشنی کے قریب قریب رفتار سے بھاگنے والے مادّی جسم پر وقت کرۂ ارضی پر معمول کی زندگی کی نسبت اِنتہائی تیزی سے گزر جاتا ہے۔ آئن سٹائن کی دو جڑواں بھائیوں والی مثال میں روشنی کی نصف رفتار سے محوِ سفر خلا باز پر زمینی دس سال دُگنی رفتار سے گزرے جس کی وجہ سے خلا باز کی عمر میں صرف پانچ سال کا اِضافہ ہوا جبکہ اُس کا زمینی بھائی اپنی دس سال عمر گزار چکا تھا، گویا وہ خلا باز بھائی سے پانچ سال بڑا ہو چکا تھا۔

نظریۂ اِضافیت اور مکان-زمان کے نئے نظریات کے مطابق ہم نے دیکھا کہ روشنی کے قریب رفتار سے سفر کرنے پر وقت زیادہ تیزی سے گزر جاتا ہے اور ایسا سفر کرنے والا مادّی جسم وقت کی دَوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے جبکہ معراج کے دوران تاجدارِ کائنات ﷺ نے وقت کو پچھاڑ دیا۔ عام روشنی سے ہزاروں گنا تیز رفتار سے سفر کرنے پر بھی آپﷺ وقت کی رَو میں پیچھے رہ جانے کی بجائے آگے نکل گئے۔ یہی آپﷺ کا معجزہ ہے کہ عام سائنسی و عقلی قوانین کے برخلاف نہ صرف روشنی سے زیادہ رفتار حاصل کر لی بلکہ صحیح سلامت سفر کے بعد وقت کے اُسی لمحے میں واپس بھی تشریف لے آئے۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار تھا جس کی بدولت آپ سے یہ معجزہ صادِر ہوا، چنانچہ اللہ تعالی نے اِس فعل کی نسبت بھی اپنی ہی طرف کی اور فرمایا:

سُبحَانَ الَّذِی أَسرٰی بِعَبدِہٖ لَیلاً۔ (بنی اسرائیل، 17:1)

وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو لے گئی۔

سفرِ معراج میں اِس محیر العقول رفتار سے روانگی کا راز عقلِ اِنسانی میں نہیں سما سکتا۔ یہ اللہ ربّ العزت کی قدرتِ کاملہ ہی کا ظہور تھا جس کی بدولت ایسا ممکن ہوا۔

مکان-زمان (space-time) کے نظریئے میں وقت کی اِضافیت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف اَفراد یا مختلف مکان پر وقت کا مختلف رفتار سے گزرنا باقاعدہ ایک علمی حیثیت میں تسلیم کیا جا چکا ہے۔ اِضافیتِ زمان پر اللہ ربّ العزت کی آخری و حتمی وحی میں بہت سی آیات موجود ہیں۔ طئ زمانی و مکانی کے ضمن میں آنے والی اَمثلہ کا تعلق بھی اِضافیتِ زماں ہی سے ہے۔ تاہم یہاں ہم ان کے علاوہ کچھ اور آیاتِ مبارکہ کا ذِکر بھی کریں گے جن میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ وقت اور اُس کے گزرنے کی رفتار کی حیثیت محض ہمارے اِدراک تک محدود ہے۔ ہمارا اِدراک ہی وقت کی تعریف کرتا ہے اور یہی اُس کی رفتار کو تیز یا آہستہ قرار دیتا ہے۔ دراصل وقت محض ایک ایسا اِدراک ہے جس کا اِنحصار واقعات کی ترکیب پر ہوتا ہے اور واقعات کی ترتیب ہی وقت کے ایک سلسلے کا باعث بنتی ہے۔

 

 

 

روزِ قیامت۔ ۔ ۔ اِضافیتِ زمان

 

قیامت کا دن بھی طئ زمانی ہی کی ایک صورت میں برپا ہو گا، جس میں وقت کے گزرنے کی شرح مختلف ہو گی۔ وہ دن بعض لوگوں کے لئے محض پلک جھپکنے میں گزر جائے گا اور بعض دُوسرے لوگوں کے لئے ایک ہزار یا پچاس ہزار سال تک طویل ہو جائے گا۔ دراصل وقت محض ایک نفسی اِدراک ہے جسے ہر فرد اپنے مخصوص حالات کے پس منظر میں محسوس کرتا ہے۔ اللہ کے برگزیدہ و محبوب بندوں کے لئے وہ دن مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں نہایت تیزی سے گزر جائے گا جبکہ دُوسری طرف عام لوگوں پر مشاہدۂ حق کی بجائے کرب و اذیت کا اِحساس غالب ہو گا، جس کی بدولت اُن کے لئے وہ دِن حسبِ حالت ایک ہزار یا پچاس ہزار سال پر محیط ہو گا۔

مادّی کائنات میں طبیعی قوانین کے تحت روشنی کی رفتار کے تناسب سے تیزرفتاری سے سفر کرنے والے اَجسام پر وقت نہایت تیزی سے گزر جاتا ہے جبکہ مشاہدۂ حق میں مصروف اللہ کے محبوب بندوں پر حالتِ سکون میں ہی وقت یوں گزرتا ہے کہ صدیاں لمحوں میں تبدیل ہوتی دِکھائی دیتی ہیں:

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

قرآنِ مجید میں روزِ قیامت کے مختلف رفتاروں سے گزرنے کا ذِکر آیا ہے۔ اللہ کے نیکو کاروں پر وہ دِن پلک جھپکنے میں ختم ہو جائے گا، اِرشاد فرمایا:

وَ مَآ أَمرُ السَّاعَۃِ إِلَّا کَلَمحِ البَصَرِ أَو ھُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَي قَدیرٌO(النحل، 16:77)

اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےO

اِسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ مَا أَمرُنَا إِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمحٍم بِالبَصَرِO(القمر،54:50)

اور ہمارا حکم تو یکبارگی ایسے (واقع) ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا (کہ اُس میں دیر ہی نہیں لگتی)O

وُہی دِن جو اللہ کے نیکو کار اور اِطاعت گزار بندوں پر پلک جھپکنے میں گزر جائے گا دُوسرے لوگوں پر اُس کی طوالت ہزار برس ہو گی۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ یَومًا عِندَ رَبِّکَ کَأَلفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO(الحج، 22:47)

(جب عذاب کا وقت آئے گا) تو (عذاب کا) ایک دن آپ کے رب کے ہاں ایک ہزار سال کی مانند ہے (اُس حساب سے) جو تم شمار کرتے ہوO

ایک اور مقام پر فرمایا:

ثُمَّ یَعرُجُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ أَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO(السجدہ، 32:5)

پھر امر اُس کے پاس پہنچ جائے گا ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کا ہو گاO

یومِ قیامت کسی پر پلک جھپکنے میں گزر جاتا ہے اور کسی پر وہ ہزار برس کے برابر ہو گا، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن پر اُس دِن وقت کی رفتار اِنتہائی آہستہ ہو گی اور وہ اُس ایک دِن کو پچاس ہزار سال کے برابر خیال کریں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کے نامۂ اعمال اُن کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور وہ عذاب کی وحشت سے اِس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ ایک ایک پل اُن پر اجیرن ہو جائے گا اور وہ ایک دِن اُن کے لئے پچاس ہزار برس کے مساوی ہو گا۔

اِرشادِ ربُّ العالمین ہے:

تَعرُجُ المَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ خَمسِینَ أَلفَ سَنَۃٍO (المعارج، 70:4)

(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیل اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دن (ہو گا) جس کا اندازہ (دنیا کے) پچاس ہزار سال ہےO

 

وقت۔ ۔ ۔ اِدراک نفسی

 

روزِ قیامت کی اِضافی حیثیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں کچھ آیاتِ مبارکہ میں وقت کی اِضافی حیثیت کا ذِکر ہوا ہے۔ وقت کے اِحساس و اِدراکِ نفسی ہونے کے حوالے سے یہ آیات بیّن اور واضح ہیں۔

اِس دُنیا میں کسی شخص کی پوری زندگی جو اُسے 60، 70 سال کی طویل تاریخ کے طور پر دِکھائی دیتی ہے، بے حد مختصر ہے اور جب بندہ موت کے بعد دوبارہ زِندہ کیا جائے گا تو وہ سوچے گا کہ اُس کی زندگی تو چند ساعتوں سے زیادہ نہیں تھی۔

اِرشادِ ربِ کریم ہے:

وَ یَومَ یَحشُرُھُم کَاَن لَّم یَلبَثُوا إِلَّا سَاعَۃً مِّنَ النَّھَارِ یَتَعَارَفُونَ بَینَھُم۔ (یونس، 10:45)

اور جس دِن وہ اُنہیں جمع کرے گا (وہ محسوس کریں گے) گویا وہ (باہمی تعارف کے لئے) دن کی ایک گھڑی کے سوا دُنیا میں ٹھہرے ہی نہ تھے۔

موت سے لے کر روز آخر جی اُٹھنے تک کے طویل ترین دور کے بارے میں حیات اُخروی کی عطا کے موقع پر لوگ اپنی موت کے لاکھوں سال طویل دورانیئے کو بالکل اصحاب کہف اور سیدنا عزیرؑ ہی کی مثل بہت کم وقت خیال کریں گے۔

اِرشاد فرمایا:

یَومَ یَدعُوکُم فَتَستَجِیبُونَ بِحَمدِہٖ وَ تَظُنُّونَ إِن لَّبِثتُم إِلَّا قَلِیلاًO(بنی اسرائیل، 17:52)

جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اُس کی حمد کے ساتھ جواب دو گے اور خیال کرتے ہو گے کہ تم (دنیا میں) بہت تھوڑا عرصہ ٹھہرے ہوO

قرآنِ مجید ہماری توجہ اِس طرف بھی دلاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کی بے ثباتی اور اُخروی زندگی کے تناسب سے اس کی بے وقعتی اور محدودیت کو پہچانیں اور اُسے سدا کی زندگی سمجھ کر اپنے مولا کی یاد سے بے نیاز نہ ہو جائیں۔ چند روزہ حیاتِ دُنیوی کو طویل سمجھ کر گناہ اور ظلم میں لت پت زندگی گزارنے والے لوگ بھی قیامت کے روز اپنی تمام زندگی کو محض قلیل سا وقت قرار دیں گے۔

سورۂ مومنون میں اِرشادِ ربُّ العزت ہے:

قَالَ کَم لَبِثتُم فِی الاَرضِ عَدَدَ سِنِینَO قَالُوا لَبِثنَا یَومًا اَو بَعضَ یَومٍ فَسئَلِ العَآدِّینَO قَالَ اِن لَّبِثتُم اِلَّا قَلِیلاً لَّو اَنَّکُم کُنتُم تَعلَمُونَO(المؤمنون، 23:-114112)

اِرشاد ہو گا کہ تم زمین میں برسوں کے شمار سے کتنی مدت ٹھہرے رہے (ہو)O وہ کہیں گے: ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے (ہوں گے)، آپ اَعداد و شمار کرنے والوں سے پوچھ لیںO اِرشاد ہو گا: تم (وہاں) نہیں ٹھہرے مگر بہت ہی تھوڑا عرصہ کاش تم (یہ بات وہیں) جانتے ہوتےO

مذکورہ بالا تمام آیات اور قرآنی قصص اِضافیتِ زمان و مکان کی تشریح کرتی دِکھائی دیتی ہیں۔ نیوٹن (1642ء تا 1727ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو ردّ کر دیا تھا مگر زمان کی اِضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کر سکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریۂ اِضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اِضافی قرار دیا اور یوں اِنسانی علوم کے سفرِ اِرتقاء میں اِس مادّی کائنات کا ہر ذرّہ اِضافی قرار پایا۔ مطلق ہونا مخلوق کی شان بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ مطلق العنان وُہی ذاتِ لازوال ہے جو اِس کائنات کی خالق و مالک ہے اور ہم سب اُس کے بندے ہیں اور یہ جمیع اَفلاک اور کہکشائیں بھی اُسی کے اَمر سے ایک دن وُجود میں آئیں اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ سب کچھ نہ ہو گا۔ سو حادِث کو مطلق گرداننا کہاں کی دانائی ہے! یہی وجہ ہے کہ خود فزکس ہی کے قوانین اِس تمام عالمِ پست و بالا کو اِضافی اور حادِث ثابت کر چکے ہیں۔

 

 

باب پنجُم

اِرتقائے کائنات کے چھ اَدوار

 

قرآنِ مجید اِنسانیت کو جا بجا اُس کے اِردگرد پھیلی ہوئی بے عیب، عظیم اور با رُعب کائنات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ درس دیتا ہے کہ وہ اﷲ ربُّ العزّت کی ہدایت کی پاسداری اور اِطاعت گزاری کرے۔ مطالعۂ قرآن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جملہ کائنات کی تشکیل و تعبیر کا سلسلہ چھ اَدوار سے گزرا ہے، جنہیں چھ اَدوارِ تخلیق (six periods of creation) کا نام دیا جاتا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

-1 إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ۔ (یونس،10:3)

یقیناً تمہارا ربّ اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی و زیریں کائنات) کو چھ مراحل میں (تدریجاً) پیدا فرمایا۔

-2 اَللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ مَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِط۔ ۔ ۔ یُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الأَرضِ ثُمَّ

اﷲ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے، کو چھ مراحل میں پیدا کیا، پھر (اپنے) تخت پر قیام فرمایا۔ ۔ ۔ وہ آسمان سے

یَعرُجُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ أَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO

(السجدہ،32:4،5)

زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گاO

-3 سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِج وَ ھُوَ العَزِیزُ الحَکِیمُO  لَہٗ مُلکُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِج یُحیٖ وَ یُمِیتُج وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌO  ھُوَ الأَوَّلُ وَ الاٰخِرُ وَ الظَّاھِرُ وَ البَاطِنُج وَ ھُوَ بکُلِّ شَئ عَلِیمٌO  ھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ۔

(الحدید،57:-41)

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اﷲ کی تسبیح کرتے ہیں اور وُہی زبردست حِکمت والا ہےO  آسمانوں اور زمین میں اُسی کی حکومت ہے، وُہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر بڑا قادِر ہےO  وُہی اوّل و آخر ہے اور ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر شے سے بخوبی آگاہ ہےO  وُہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ مراحل میں پیدا کیا۔

قرآنِ حکیم میں اِن کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی آیات موجود ہیں جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مذکورہ بالا آیات سے ہم بآسانی مندرجہ ذیل نکات حاصل کر سکتے ہیں:

-1 کائنات محض حادثاتی طور پر معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ یہ اﷲ ربّ العزّت کے اِرادے اور اُس کی قدرتِ کاملہ کا نتیجہ ہے۔ اِس غیر محدُود اور تعجب خیز کائنات میں پھیلا ہوا نظم و ضبط اور نظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ اُس کا وُجود قدرتِ اِلٰہیہ کی کامل منصوبہ بندی کے تحت ہی قائم ہے۔

-2 جملہ کائنات کی تخلیق و اِرتقاء ایسا مرحلہ وار عمل تھا جو بتدریج 6 اِرتقائی اَدوار میں مکمل ہوا۔

-3 اِس دُنیا میں وُقوع پذیر ہونے والے تمام تر حوادِث و واقعات اُس کے خالق کے بنائے ہوئے نظام اور حکم کے ساتھ مربوط ہیں۔ یہ ربانی منصوبہ بندی اور اِقتدار پوری کائنات کو کچھ اِس طرح سے منظم اور ہم آہنگ بنائے ہوئے ہے کہ کوئی شے اپنے طے شدہ ضوابط سے رُوگردانی نہیں کر سکتی۔

-4 "یَوم” محض 24گھنٹے کے دَورانیئے ہی کا نام نہیں بلکہ اِس کا اِطلاق ہزاروں زمینی سالوں کے دَورانیئے پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔

 

قرآنِ مجید کا تصوّرِ یوم

 

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی چھ اَیام (چھ اَدوار) میں ہوئی۔ قرآن کا تصوّرِ یوم وہ دِن ہرگز نہیں جو عام طور پر طلوعِ شمس سے غروبِ آفتاب تک مُراد لیا جاتا ہے، کیونکہ خلقتِ کائنات کے دوران میں طلوع و غروبِ شمس کا محال ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے۔ قرآنِ مجید میں یَوم کا لفظ کئی مقامات پر مختلف دورانیوں کے لئے اِستعمال ہوا ہے۔

قرآنِ مجید نے ’یوم‘ کا لفظ ’وقت کی ایک تغیر پذیر لمبائی‘ (variable length of time) کے لئے اِستعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃُ السجدہ میں اِرشاد فرمایا:

یُدَبِّرُ الأَمرَ مِنَ السَّمَآءِ إِلَی الأَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ أَلفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّونَO(السجدہ،32:5)

وُہی آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گاO

اِسی طرح ایک اور مقام پر ’یوم‘ کا لفظ 50ہزار سال کے لئے بھی اِستعمال کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:

تَعرُجُ المَلاَئِکَۃُ وَ الرُّوحُ إِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ خَمسِینَ أَلفَ سَنَۃٍO(المعارج،70:4)

(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیلؑ اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) 50 ہزار سال ہےO

مذکورۃُ الصدر آیتِ کریمہ میں ’سِتَّۃِ أَیَّامٍ‘ کے اَلفاظ اُس مدّت کے لئے اِستعمال کئے گئے ہیں جس میں ہمارے سورج سمیت جملہ اَجرامِ سماوی کی تخلیق عمل میں آئی۔ بظاہر نظر آنے والے شب و روز کا وُجود سورج اور زمین کے وُجود میں آنے سے قبل ناممکن تھا۔ لہٰذا یہ بات عیاں ہے کہ قرآنِ مجید کا بیان کردہ لفظِ ’یَوم‘ وقت کی ایک ایسی تغیر پذیر مُعینہ مدّت ہے جو لاکھوں، اربوں سالوں پر محیط ہو سکتی ہے۔

 

تخلیقِ کائنات اور آٹھ قرآنی اُصول

 

مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی سے ہم درج ذیل نتائج اَخذ کر سکتے ہیں:

-1 کائنات از خود معرضِ وُجود میں نہیں آئی بلکہ اُسے باری تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے، یعنی اُس کی تخلیق محض اِتفاقیہ (accidental) نہیں بلکہ ایک خالق (Creator) کے اِرادے اور فعلِ خلق کا نتیجہ ہے۔

-2 کائنات کی تخلیق کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: زیریں، بالائی اور وسطانی ۔ ۔ ۔ یعنی زمینی، آسمانی اور خلائی۔

i. Earthly Creation

ii. Heavenly Creation

iii. Intermediary Creation

جیسا کہ سورۃُ السجدہ میں مذکور ہے "خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَ الأَرضَ وَ مَا بَینَھُمَا” )اُس نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے تخلیق فرمایا(۔ یہی مضمون قرآنِ مجید میں سورہ نمبر :20 6، :25 59، :32 4، :50 38، :21 16، :44 7 اور 38، :3778، :15 85، :46 3 اور :43 85 میں بھی بیان ہوا ہے۔ ارض و سما کے درمیان عالمِ خلق کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے دورِ جدید کی سائنسی تحقیقات کے مطابق cosmic extra galactic world کی طرف توجہ کرنا اشد ضروری ہے، جس میں کہکشائیں، ستارے اور سیارگانِ فلکی شامل ہیں۔

-3 آسمانوں کی طرح زمینیں بھی متعدد ہیں اگر سات کا عدد آسمانوں )بالائی طبقات( کے لئے محض تعدد اور کثرت (plurality) کے معنی میں تصور کیا جائے تو زمین کی طرح کے اور طبقات اور سیارگان بھی متعدد معلوم ہوتے ہیں اور اگر سات کے عدد کو خاص اور معین تصور کیا جائے تو زمین سے بالکل ملتے جلتے سات طبقے یا سیارے ثابت ہوتے ہیں۔ اِس دُوسرے مفہوم کے اِعتبار سے سائنس کو ابھی تحقیق و اِکتشافات کے مزید کئی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا کیونکہ قرآنِ مجید نے یہ اِشارہ اِس آیتِ کریمہ میں فرما دیا ہے:

اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الاَرضِ مِثلَھُنَّ (الطلاق، 12:65)

اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان اور ان ہی کی طرح )سات( زمینیں پیدا کیں۔

-4 کائناتِ ارض و سماء کی تخلیق تدریجاً عمل میں آئی۔

-5 کائنات کی تخلیق کا تدریجی عمل (evolutionary process of the creation) چھ ایام (اَدوار) پر مشتمل ہے۔

-6 کائناتِ ارض وسماء کے جملہ اُمور ایک باقاعدہ نظام کے تابع ہیں جو باری تعالیٰ کے حکم اور قدرت سے قائم اور رواں دواں ہے۔

-7 اُس کی تدبیر (divine planning) کائنات کے پورے نظام کو ایک مقصد اور نظم کے تحت مربوط اور منظم کرتی ہے جس کے نتیجے میں جملہ اُمور اِس طرح انجام پاتے ہیں کہ کوئی وُجود اُس ضابطۂ قدرت سے اِنحراف نہیں کر سکتا۔

-8 کسی چیز کا زمینی حدود میں داخل ہونا، اُس میں سے خارج ہونا، کسی سیارے سے آسمان کی وُسعتوں کی سمت جانا، آسمانی وُسعتوں سے زمین کی طرف اُترنا، کسی کا باقی رہنا اور ختم ہو جانا، الغرض یہ سب کچھ اُسی کے قائم کردہ نظام اور اُس کے جاری کردہ قوانین کے مطابق ہے۔

قرآنی چھ ایام کا مفہوم

اِن تمام نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں قرآنِ مجید ہی سے اِس اَمر کو متعین کرنا ہے کہ کائناتِ ارض و سماء کی تدریجی تخلیق کے ضمن میں جن چھ ایام کا ذِکر آیا ہے اُن سے مراد کیا ہے! اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہاں یوم سے مراد وہی دن ہے جو سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ قائم ہے اور چھ ایام سے مراد ہفتہ سے جمعہ تک کے معروف دن ہی ہیں تو یہ درست نہیں، اِس لئے کہ بات زمین و آسمان اور اُن کے مابین ساری کائنات کی تخلیق سے متعلق ہو رہی ہے جس میں سورج، چاند اور زمین وغیرہ کی اپنی تخلیق بھی شامل ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جب ابھی سورج، چاند اور زمین کی تخلیق خود عمل میں نہیں آئی تھی تو اُس وقت طلوع و غروبِ آفتاب کا نظام کہاں موجود تھا اور جب سورج کے طلوع و غروب کا نظام اَبھی معرضِ عمل میں نہیں آیا تھا تو معروف معنوں میں دِنوں اور ہفتوں کی گنتی کا کوئی تصوّر ہی موجود نہ تھا۔ بنابریں جب کائناتِ ارض وسما کے اِس سلسلۂ تخلیق کی مدت کو معروف معنی میں 24گھنٹوں پر مشتمل چھ دِنوں پر محمول نہیں کیا جا سکتا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ چھ ایام سے مراد کیا ہے؟ جواب بالکل واضح ہے کہ یوم سے مراد ایک دَور (period/era) ہے جو ایک غیر معینہ طویل مدت (a long span of time) پر مبنی ہے اور ستہ ایام سے مراد چھ ادوارِ تخلیق (six periods of creation) ہیں۔

قرآنِ مجید نے بھی یَوم کے لفظ کو مختلف طویل مدتوں کے بیان کے لئے اِستعمال کیا ہے۔

اِرشادِ ایزدی ہے:

یُدَبِّرُ الاَمرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلٰی الاَرضِ ثُمَّ یَعرُجُ اِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ اَلفَ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُّونَO(السجدہ، 32:5)

وہ آسمان سے زمین تک ہر کام کی تدبیر فرماتا ہے، پھر یہ کائنات اُسی کی طرف لوٹ جائے گی، ایک ایسے دِن میں جو تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہو گاo

اِس آیتِ کریمہ میں ہمارے نظامِ شمسی کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت کو ایک "یوم” سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح دُوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کی مدّت کے لئے "یوم” کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے:

تَعرُجُ المَلٰئِکَۃُ وَ الرُّوحُ اِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ خَمسِینَ اَلفَ سَنَۃٍO(المعارج، 70:4)

(روزِ قیامت وہ وقت ہو گا جب) فرشتے اور جبرئیلؑ اُس کی طرف عروج کریں گے (اور یہ) اُس دِن ہو گا) جس کا اندازہ (دُنیا کے) 50 ہزار سال ہےO

جیسا کہ ہم نے پہلے ذِکر کیا کہ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ امر طے پا گیا کہ تخلیقِ ارض و سماء کے ذکر میں جن چھ ایام کا تذکرہ ہوا ہے اُن سے مراد چوبیس گھنٹوں کی مدت پر مشتمل ہمارے مروّجہ ایام نہیں بلکہ خود قرآنی تصورِ یوم کے تحت غیر محدود طوالت پر مبنی مدت کا ایک دَور (period) ہے جو لاکھوں کروڑوں اربوں برس پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے، کیونکہ قرآنِ مجید نے اُس یوم کے لئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں فرمائی۔ جب ایک جگہ ہزار اور دوسری جگہ پچاس ہزار سال کو یوم قرار دیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ اِسی لفظِ یوم کا اِطلاق کئی لاکھ اور کروڑ برس پر بھی ہو سکتا ہے، بہرحال چھ ایام سے مراد تخلیقِ کائنات کے چھ ادوار (six periods of creation) ہیں۔

ہمارے اِس موقف کی تائید اِمام ابوالسعود العمادیؒ (951ھ) نے بھی کی ہے۔ آپ سورہ یونس کی آیت نمبر 3 کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:

(فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ) أی فی ستۃ أوقات، فإن النفس الیوم الذی ھو عبارۃٌ عن زمان کون الشمس فوق الأرض مما لایتصوّر تحققہ حین لا أرض و لا سمآء۔ (تفسیرابی السعود،1182)

"فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ” (چھ دِنوں میں) سے مراد ’چھ اَوقات و اَدوار‘ ہیں، کیونکہ وہ دِن جو سورج کے زمین پر طلوع ہونے سے عبارت ہے اُس کا تحقق ہی ممکن نہیں کیونکہ اُس وقت زمین و آسمان موجود ہی نہ تھے۔

صاف ظاہر ہے ایسی صورت میں یوم سے مراد کوئی مخصوص مدّت اور زمانہ ہی لیا جائے گا۔ اِمام راغب اِصفہانی ؒ نے بھی اِس کی تصریح کی ہے، فرماتے ہیں:

"اَلیَومُ” یعبّر بہ عن وقتِ طلوعِ الشّمس إلی غروبھا وقد یعبّر بہ عن مدۃ من الزمان أیّ مدۃ کانت۔ (المفردات: 553 )

یوم سے مراد ایک تو سورج کے طلوع سے غروب تک کا وقت ہے اور دُوسرے اُس سے مراد کسی بھی زمانے پر مشتمل مدت ہے خواہ وہ جتنی بھی ہو۔

علامہ آلوسیؒ سورۂ یونس کی تفسیر میں "سِتَّۃِ أَیَّامٍ” کے تحت فرماتے ہیں:

و لا یمکن أن یُراد بالیوم الیوم المعروف، لأنہ کما قیل عبارۃٌ عن کون الشمس فوق الأرض و ھو مما لایتصوّر تحققہ حین لا أرض و لا سمآء۔) روح المعانی، 11:64)

یہاں یوم سے مراد معروف معنی میں دِن نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کا اِستعمال زمین پر سورج کے طلوع ہونے سے عبارت ہے اور وہ ممکن ہی نہیں کیونکہ اُس وقت نہ زمین تھی نہ آسمان (اور نہ طلوعِ آفتاب کا کوئی تصور)۔

اِس امر کی تصریح اِمام آلوسیؒ نے سورۂ اَعراف کے تحت بھی کی ہے۔ ملاحظہ ہو روح المعانی جلد: 5، جز 8، صفحہ 132۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی اِس قول۔ ۔ ۔ کہ اُن ایام سے مراد ایامِ دُنیا نہیں بلکہ ایامِ آخرت کی مدّت ہے۔ ۔ ۔ سے بھی مذکورہ بالا تصور کی تائید ہوتی ہے۔

 

تخلیق کے دو مراحل

 

قرآنِ مجید کا تفصیلی مطالعہ ہمیں یہ حقیقت جاننے کے قابل بناتا ہے کہ کائنات کی تخلیق و ترقی دو ایسے مراحل میں مکمل ہوئی جو چھ مکمل اَدوار میں منقسم ہیں:

-1 مرحلۂ ما قبلِ ظہورِ حیات -2 مرحلۂ ما بعدِ ظہورِ حیات

مرحلۂ ما قبلِ ظہورِ حیات

یہ مرحلہ تخلیق کے6 اَدوار میں سے پہلے

2عہدوں پر مشتمل ہے۔ قرآنِ حکیم کی یہ آیتِ مُبارکہ اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتی ہے:

فَقَضٰھُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ أَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ أَمرَھَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِO(فصلت،41:12)

پھر اُن اُوپر کے طبقات کو دو اَدوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اُسی سے متعلق اَحکام بھیجے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا اور اُسے محفوظ بنایا۔ یہ زبردست اور علم رکھنے والے کا اِنتظام ہےO

یہ آیتِ کریمہ اِس تناظُر میں 8 مختلف اِنکشافات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آیتِ مُبارکہ کا ہر حصہ کائنات کے تخلیقی و اِرتقائی خدوخال ظاہر کرتا ہے۔

پہلا حصہ

آیت کا پہلا حصہ سات آسمانوں یا سات کائناتوں کے وُجود کا اِنکشاف کرتا ہے۔

دُوسرا حصہ

یہ حصہ اُس عرصے سے متعلق ہے جو تشکیلِ کائنات میں صرف ہوا۔

تیسرا حصہ

آیتِ کریمہ کے تیسرے حصے کے مطابق ہر آسمان یا ہر کائنات کو اُس کا مکمل نظام عطا کیا گیا ہے، ایک ایسا نظام یا عمل درآمد کا ایک ایسا اِنتظامی ڈھانچہ جو اُس کی تشکیل سے متعلقہ اَفعال کا حامل ہو۔

چوتھا اور پانچواں حصہ

اِن حصوں میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ہمارا قریب ترین آسمان یا کائنات، جو وُسعت پذیر اور غیر محدُود ہے، ناقابلِ شمار ستاروں سے بھری پڑی ہے۔

چھٹا حصہ

کہکشائیں اور ستارے کائنات میں اِس قدر دُوری میں واقع ہیں کہ سات آسمانوں میں سے ہمارا نزدیک ترین آسمان اِس قدر پھیلاؤ اور غیر محدُودیت کے سبب اِنتہائی محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ بات اِنتہائی محیرالعقول ہے کہ روشنی (جو کائنات کا اپنا مادّی حصہ ہے) اور جو مجرّد مادّی ذرّات کے لئے سفر کا تیز ترین اور حتمی ذریعہ ہے، اُس کے لئے بھی کائنات اپنی بے پناہ توسیع کے سبب ناقابلِ فسخ ہے۔ واضح رہے کہ روشنی 1,86,282.397 میل یعنی 2,99,792.458کلومیٹر فی سیکنڈ کی سمتی رفتار (velocity) سے اِس وُسعت پذیر کائنات میں سفر کرتی ہے۔ بنیادی سائنسی حقائق قرآنِ مجید کی مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ سے کس قدر حیرت انگیز حد تک مطابقت رکھتے ہیں! روشنی کی ’سمتی رفتار‘ میں ثبات کی حقیقت جو ’سمتی رفتار‘ کی شرح کو طے کرتی ہے، سائنس کی دریافت کردہ ایک زِندہ بنیادی حقیقت ہے اور یہ ایک بنیادی قانون ہے جو اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی وُسعت کے تناظُر میں اُس کے ناقابلِ فسخ ہونے کے لئے پیدا کیا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ روشنی جو اِنتہائی چھوٹے مجرّد مادّی ذرّات سے بنی ہے، کائنات میں سفر کے لئے بہت ہی زیادہ ’سمتی رفتار‘ کی حامل ہے اور اُس سے تیز شے کبھی کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ کائنات میں مادّی ذرّات کی اِنتہا درجے کی رفتار ہے۔

ساتواں حصہ

یہ بھی قرآنی آیت کا ایک منطقی اور قطعی حصہ ہے جو ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ اگر کوئی اﷲ ربّ العزّت کی قدرت کو ماپ تول کر جاننا چاہے یا اُس کی تخلیقی قوّت کا اِشارہ حاصل کرنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اپنے نزدیکی آسمان کے ناقابلِ شکست و ریخت ہونے پر غور کرے، اپنے دَور کی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قریبی کائنات کا قابلِ مُشاہدہ حصہ دیکھے جو سات آسمانوں میں سے محض ایک ہے، جس میں اربوں کہکشائیں ہیں، جن میں سے ہر ایک اربوں ستاروں پر مشتمل ہے اور اربوں سیارے اربوں نوری سال کی مسافت پر واقع ہیں۔ ایک نوری سال اُس فاصلے پر مشتمل ہوتا ہے جسے روشنی ایک لاکھ 86ہزار282 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ہماری کہکشاں کے ستاروں کے مابین فاصلہ اِس قدر زیادہ ہے کہ اگر اِس میں موجود ستاروں کی تعداد کئی لاکھ گنا زیادہ ہوتی تب بھی ہماری کہکشاں (Milky Way) بہت زیادہ پُر ہجوم نہ ہوتی۔

آٹھواں حصہ

اِس آیتِ ربانی کے آٹھویں اور آخری حصے میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ اﷲ ربّ العزّت ہر شے کا جاننے والا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وُہی سات آسمانوں اور ہماری ناقابلِ شکست و ریخت کائنات سمیت ہر شے کا خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے۔

کائنات کا ناقابلِ شکست و ریخت ہونا اُس قواسر(quasar) کی دریافت سے متحقق ہو سکتا ہے جسے ’PKS2000-300‘ کہا جاتا ہے۔ اُس قواسر کو آسٹریلوی اور برطانوی سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا اور وہ ہم سے 18 ارب نوری سال کی مسافت پر واقع کائنات کا بعید ترین روشن جسم ہے اور 10 نیل (10,00,00,00,00,00,000)  سورجوں کی توانائی خارج کرتا ہے۔ اِس قواسر کی دریافت نے پہلے سے موجود اِس تصوّر کو یکسر مُستردّ کر دیا کہ کائنات کے آخری کنارے دریافت ہو چکے ہیں۔ ماہرینِ تخلیقیات (cosmologists) کا کہنا ہے کہ صحیح معنوں میں جدید سائنسی تحقیق ہی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے جبکہ کائنات سے متعلق رِوایتی شعور میں خطاء کا بے حد اِمکان پایا جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ نئی دریافتیں تصویرِ عالم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے رکھ دیں۔

 

 

باب ششُم

کرۂ ارضی پر اِرتقائے حیات

 

کائنات کی وسیع و عریض ساخت میں زمین ایک اَیسے سورج کا اَدنیٰ سا سیارہ ہے جو لاکھوں کہکشاؤں کی ریل پیل میں سے ایک کہکشاں "ملکی وے” کے ایک کھرب ستاروں میں ایک کنارے پر واقع ہے۔

سورج نیوکلیائی اِخراج کا ایسا دیو قامت منبع ہے، جو ڈیڑھ کروڑ (1,50,00,000) سینٹی گریڈ درجۂ حرارت کے ساتھ چمک رہا ہے۔ اُس کا قطر زمین کے قطر سے 100 گنا بڑا ہے اور زیادہ تر کائنات کے ہلکے ترین عناصر ہائیڈروجن اور ہیلئم پر مشتمل ہونے کے باوجود اُس کی کمیّت زمین سے 3 لاکھ گنا زیادہ ہے۔

ہمارا سورج ملکی وے کی دُوسری یا تیسری نسل کا نمائندہ سِتارہ ہے، جو آج سے تقریباً 4ارب 6کروڑ سال پیشتر اپنے سے پہلے عظیم نوتارے (supernova) کے ملبے پر مشتمل گھومتی ہوئی گیس کے بادل سے معرضِ وُجود میں آیا تھا۔ اُس گیس اور گرد و غبار کے زیادہ تر ایٹم اپنے اندر نو ساختہ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے کثیف گولے کی طرف اِکٹھے ہونے لگے اور یوں وہ ستارہ وُجود میں آ گیا جسے آج ہم سب سورج کے نام سے جانتے ہیں۔ اُس گھومتے ہوئے گیسی مادّے کا باقی حصہ نوزائیدہ سورج کے گِرد چکر لگانے لگا، اور سب سے پہلے اُس مادّے سے نظامِ شمسی کے چاروں بڑے سیارے مُشتری، زُحل، یورینس اور نیپچون تشکیل پائے۔ زمین سمیت باقی تمام چھوٹے سیارے اور سیارچے کافی عرصہ بعد گرد و غبار کے باقی ماندہ ذرّات سے پیدا ہوئے۔

زمین پر زندگی کے آغاز کے پہلے باہمی اِنحصار کے اﷲ ربّ العزت کے تخلیق کردہ توازُن، ہم آہنگی اور تعاونِ باہمی نے پوری کائنات میں قوانینِ فطرت کو جنم دیا اور پروان چڑھایا، جن کے تحت تمام کہکشائیں، ستارے، سیارے اور مختلف سیاروں پر زِندگی گزارنے والی مخلوقات اپنا وُجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اور باہمی اِنحصار کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔

کائنات کی اس شکل و صورت کو قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے:

1۔ أَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاھُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَئ حَیٍّ أَفَلاَ یُؤمِنُونَO(الانبیاء،21:30)

اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتےO

2۔  وَ جَعَلنَا فِی الأَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِھِم وَ جَعَلنَا فِیھَا فِجَاجًا سُبُلاً لَّعَلَّھُم یَھتَدُونَO(الانبیاء،21:31)

اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے تاکہ ایسا (نہ) ہو کہ کہیں (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اس (زمین) میں کشادہ راستے (درّے) بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیںO

3۔ وَ جَعَلنَا السَّمَآءَ سَقفًا مَّحفُوظًاج وَّ ھُم عَن اٰیَاتِھَا مُعرِضُونَO(الانبیاء،21:32)

اور ہم نے سمآء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مُہلک قوّتوں اور جارحانہ لہروں کے مُضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُوگرداں ہیںO

4۔ وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّھَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَO (الانبیاء،21:33)

اور وُہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاندکو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیںO

5۔  وَ جَعَلَ فِیھَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِھَا وَ بَارَکَ فِیھَا وَ قَدَّرَ فِیھَآ أَقوَاتَھَا فِی أَربَعَۃِ أَیَّامٍ سَوآء لِّلسَّائِلِینَO(فصلت،41:10)

اور اُس نے اس (زمین کے) اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشوونما کی قوتیں) اور اُس میں (اپنی مخلوق کیلئے) چار مراحل میں (زمین) میں اُس کے ذرائعِ نِعَم رکھے، جو ہر طلبگار کیلئے برابر ہیںO

6۔  ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآِ وَ ھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرھًا قَالَتَا أَتَینَا طَائِعِینَO(فصلت،41:11)

پھر وہ (اﷲ تعالیٰ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (باہمی اِنحصار کے توازُن کے لئے) خوشی سے آؤ یا نا خوشی سے، اُن دونوں نے کہا کہ ہم (فطری نظام کے تحت) خوشی سے حاضر ہیںO

-7 فَقَضَاھُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ أَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ أَمرَھَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِO(فصلت،41:12)

پھر دو (خاص) مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے، اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں سے رَونق بخشی اور اُس کو محفوظ (بھی) کر دیا، یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے ربّ کاO

 

تخلیقِ زمین اور اُس کا فطری اِرتقاء

 

-1 زمین اِبتدائی طور پر بے اِنتہا گرم تھی اور اِس پر کسی قسم کی فضا موجود نہ تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور چٹانوں سے نکلنے والی گیسوں کے اِخراج سے اُس کے چاروں طرف ہوا کا ایک غلاف چڑھ گیا۔ زمین کے اِبتدائی دَور کی فضا ہرگز اِس قابل نہ تھی کہ ہم اُس میں زِندہ رہ سکتے۔ اُس میں آکسیجن بالکل نہیں تھی بلکہ ہائیڈروجن سلفائیڈ جیسی زہریلی گیسیں تھیں۔

-2 اُس وقت اﷲ ربّ العزّت نے زِندگی کچھ ایسی اِبتدائی حالتوں میں پیدا کی تھی جو سمندروں میں ہی پنپ اور پروان چڑھ سکتی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُس دوران میں ایٹموں کے ملنے کے نتیجے میں ایسی بڑی بڑی ساختیں پیدا ہونے لگ گئی ہوں گی، جنہیں ’میکرومالیکیولز‘ (macromolecules) کہا جاتا ہے، اور وہ امرِ باری تعالیٰ سے سمندروں میں موجود دُوسرے ایٹموں سے ایسی ہی مزید ساختیں پیدا کرنے کے قابل ہو گئے ہوں گے۔ نئے مالیکیولوں نے مزید مالیکیولز کو جنم دیا اور یوں اﷲ تعالیٰ نے زِندہ اَجسام کی خودکار اَفزائشِ نسل کو وُجود بخشا۔

-3 زِندگی کی اُن اِبتدائی شکلوں نے بہت سے زہریلے مادّے تحلیل کر دیئے اور آکسیجن کو جنم دیا۔ یوں آہستہ آہستہ فضا اُن ترکیبی عناصر میں تبدیل ہوتی چلی گئی، جو آج رُوئے زمین پر بکثرت پائے جاتے ہیں اور اُس نو ترکیب شدہ فضا نے زِندگی کی اَعلیٰ اَقسام: حشرات، مچھلیوں، ممالیہ جانوروں اور بالآخر اَشرفُ المخلوقات نسلِ اِنسانی کو ترقی پذیر ہونے کا موقع فراہم کیا، تب اﷲ تعالیٰ نے سیدنا آدمؑ کو کرۂ ارضی کی خلافت کا تاج پہنا کر مبعوث فرمایا۔

 

مراحلِ تخلیقِ اَرض

 

زمین بھی اُنہی دو مراحل میں تخلیق ہوئی جن کا ذِکر پہلے گزر چکا ہے۔ قرآنِ مجید میں اِسے زمینی تخلیق کے ضمن میں یوں بیان کیا گیا ہے:

قُل أَئِنَّکُم لَتَکفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الأَرضَ فِی یَومَینِ وَ تَجعَلُونَ لَہٗ أَندَادًا ذٰلِکَ رَبُّ العٰلَمِینَO(فصلت،41:9)

آپ (اُن سے) پوچھئے کہ کیا تم اُس ذات کے مُنکر ہو جس نے زمین کو دو مراحل میں تخلیق کیا؟ اور (دُوسروں کو) اُس کا ہمسر ٹھہراتے ہو؟ وُہی تو تمام جہانوں کا پروردگار ہےO

جدید سائنسی تحقیقات کے محتاط اندازے کے مطابق زمین کی تخلیق آج سے کم و بیش 4ارب 60کروڑ سال پہلے گیس اور گرد و غبار کے بادل سے عمل میں آئی۔ اصل حقیقت سے اﷲ تعالیٰ ہی بہتر آگاہ ہے۔ یہاں ہمیں جدید سائنس قرآنِ مجید کے پیش کردہ حقائق کی بھی تصدیق کرتی نظر آتی ہے۔ علمِ طبقاتُ الارض (geology) کے جدوَل کے مطابق ظہورِ حیات سے پہلے کے مرحلے کو اَیزویک اِیرا (asoic era) کہتے ہیں۔ اُس دَور کے بارے میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ وہ تقریباً 4ارب 5کروڑ سالوں پر محیط تھا۔ اُس زمانے میں زمین کسی بھی نوعِ حیات کے لئے قابلِ سکونت نہ تھی۔ پھر آج سے تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ سال قبل اِذنِ اِلٰہی سے زمین کے حالات کو اِبتدائی اَنواعِ حیات کے قابل بنایا گیا اور کرۂ ارضی پر حیات بیکٹیریا (bacteria) اور ایلجی (algee)کی شکل میں رُونما ہونے لگی۔ یہیں سے عملِ تخلیق کے دُوسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔

مرحلۂ ما بعدِ ظہورِ حیات

کرۂ ارضی پر ظہورِ حیات کے بعد کا مرحلہ چار اَدوار میں منقسم ہے۔ قرآنِ مجید اِس بارے میں یوں گویا ہوتا ہے:

وَ بَارَکَ فِیھَا وَ قَدَّرَ فِیھَآ أَقوَاتَھَا فِی أَربَعَۃِ أَیَّامٍ سَوآء لِّلسَّائِلِینَO(فصلت،41:10)

اور اُس نے اس (زمین کے) اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشوونما کی قوتیں) اور اُس میں (اپنی مخلوق کیلئے) چار مراحل میں (زمین) میں اُس کے ذرائعِ نِعَم رکھے، جو ہر طلبگار کیلئے برابر ہیںO

یہ جان کر اِسلام پر ہمارا یقین مزید پختہ ہوتا چلا جاتا ہے کہ جدید سائنس قرآنِ حکیم میں پیش کئے جانے والے اوّلین ظہورِ حیات کے بعد زِندگی کے چار مراحل کی مکمل طور پر بھرپور حمایت کرتی ہے۔

سائنسی تحقیقات جن چار اَدوار کو بیان کرتی ہیں وہ یہ ہیں:

-1 مرحلۂ ماقبلِ عہدِ حجری Proterozoic Era

-2 مرحلۂ حیاتِ قدیم Palaeozoic Era

-3 مرحلۂ حیاتِ وُسطیٰ Mesozoic Era

-4 مرحلۂ حیاتِ جدید Cainozoic Era

1۔ مرحلۂ ما قبلِ عہدِ حجری

اِس دَور کو Proterozoic Era کے علاوہ Precambrian Time کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ یہ stone age سے پہلے کا دور ہے۔ اُس دوران میں زمینی زندگی چار ابتدائی آثار کی شکل میں نمودار ہوئی:

i. First Life Cells iii. Protista

ii. Monera iv. Metazoa

2۔مرحلۂ حیاتِ قدیم

یہ دورِ قدیم کی زِندگی (ancient life) کہلاتی ہے جس کا آغاز آج سے 55,00,00,000 سال پہلے ہوا تھا۔ یہ وہ دَور ہے جب کرۂ ارضی شروع شروع میں اِس قابل ہوا کہ اُس پر زندگی کا آغاز ہو سکے، تب اﷲ تعالیٰ نے زِندگی کو اُس کی سادہ ترین شکلوں میں سمندروں اور بعد اَزاں خشکی پر بھی پروان چڑھانا شروع کیا۔

اس دَور کو مزید درج ذیل حصوں (periods) میں تقسیم کیا گیا ہے:

i. Cambrian Period

ii. Ordovician Period

iii. Silurian Period

iv. Devonian Period

v. Carboniferous Period

vi. Permian Period

3۔ مرحلۂ حیاتِ وُسطیٰ

یہ زندگی کا وسطانی دَور ہے، جسے middle life کہتے ہیں۔ یہ وہ دَور ہے جب کرۂ ارضی پر ہر طرف عظیمُ الجثہ جانوروں کی فرمانروائی تھی۔ ڈائنوسار اُسی دَور میں پائے جاتے تھے۔ یہ دَور آج سے  24,80,00,000سال پہلے شروع ہوا اور 18,30,00,000 سال تک قائم رہنے کے بعد آج سے تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال قبل اپنے اِختتام کو پہنچا۔

اُس دَور کے درج ذیل 3 نمایاں حصے ہیں:

i. Triassic Period

ii. Jurassic Period

iii. Cretaceous Period

4۔  مرحلۂ حیاتِ جدید

زندگی کی پیچیدہ شکلوں ڈائنوسار وغیرہ کی تباہی کے بعد ’مرحلہ حیاتِ جدید‘ کا آغاز ہوا جسے "modern life” کہتے ہیں۔ زندگی کے اِس مرحلے کو شروع ہوئے 6,50,00,000 سال بیت چکے ہیں۔ ہمیں سائنسی تحقیقات کی بدولت سب سے زیادہ معلومات اُسی دَور کے متعلق حاصل ہو سکی ہیں۔

اِس کی تقسیم مزید درج ذیل حصوں (periods) میں یوں کی گئی ہے:

i. Palaeocene Period

ii. Eocene Period

iii. Oligocene Period

iv. Miocene Period

v. Pliocene Period

vi. Pleistocene Period

vii. Holocene Period

اِن چاروں اَدوار میں رفتہ رفتہ زمین اِس قابل ہوتی چلی گئی کہ اُس پر اعلیٰ مخلوقات زندگی بسر کر سکیں۔ بیکٹیریا (Bacteria) اور ایلجی (Algae) سے شروع ہونے والے ’دورِ حیاتِ قدیم‘ کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِبتدائی پودوں اور سمندری مخلوقات کی تخلیق عمل میں آتی چلی گئی حتی کہ’ وسطی دورِ حیات‘ میں ڈائنوسار جیسے عظیمُ الجثہ دیو قامت جانور بھی پیدا ہوئے۔ تخلیقِ ارضی سے لے کر آج کے دِن تک کرۂ ارضی پر چار برفانی دَور بھی گزر چکے ہیں، جن میں سے آخری آج سے تقریباً 20,000 سال قبل رونما ہوا تھا۔ اسی اثناء میں جب زمینی ماحول اِس قابل ہوا کہ اُس پر حضرتِ انسان زندگی بسر کر سکے تو اﷲ ربّ العزت نے سیدنا آدمؑ کو خلافتِ ارضی کی خلعت سے سرفراز فرماتے ہوئے مبعوث فرمایا۔ آدمؑ کی تخلیق "خلقِ آخر” ہونے کے ناطے تخلیقِ خاص (special creation) ہے۔

جدید سائنسی تحقیقات کا دار و مدار اَزمنہ قدیم سے وابستہ حجری آثار (fossils) سے ہے جو کئی ملین سال کی قدامت کے حامل ہیں۔ قدیم جانوروں اور پودوں کی وہ باقیات جو پتھروں میں محفوظ ہیں اُن کے مطالعہ سے زمین پر رہنے والی قدیم مخلوقات کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس بات کا بھی بخوبی اَندازہ ہوتا ہے کہ کرۂ ارض پر کس دَور میں کس قسم کے موسمی و جغرافیائی حالات رہے ہیں۔ مرنے والے اکثر جانوروں کے جسم دُوسرے جانوروں کی خوراک کی نظر ہو جاتے یا پھر گل سڑ کر ختم ہو جاتے مگر بعض دفعہ مُردہ جسم مکمل طور پر فنا ہو جانے سے قبل کسی دلدل یا ریت میں دفن ہو جاتا۔ اِرد گرد کی ریت وغیرہ سے معدنی ذرّات اُس مُردہ جسم میں شامل ہو کر اُسے سخت اور محفوظ بنا دیتے۔ اور یوں کروڑوں سال بعد آج ہم نے اُن جسموں کو پتھروں میں سے نکال کر اپنی تحقیق کا موضوع بنا لیا اور اُن فوسلز کی مدد سے بے شمار قرآنی حقائق بعینہ ثابت ہوتے دِکھائی دے رہے ہیں۔ جوں جوں معدُومیات (fossils) پر تحقیق میں پیش رفت ہوتی جا رہی ہے توں توں اﷲ ربّ العزّت کی خالقیت نکھر کر سامنے آ رہی ہے۔ وہ دِن دُور نہیں جب سائنس خود اِنسان کو اللہ تعالیٰ کی دہلیز تک کھینچ لائے گی اور اِنسان پکار اُٹھے گا :

رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ھٰذَا بَاطِلاً۔ (آل عمران، 3:191)

اے ہمارے ربّ! تو نے یہ سب کچھ بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔

زمینی زندگی کا پانی سے آغاز

اِس عنصرِ تخلیق کی وضاحت بھی قرآن نے کر دی ہے۔ جس میں اِس اَمر کی صراحت ہے کہ زِندگی کا آغاز پانی سے ہوا ہے، بلکہ زیریں اور بالائی کائنات کی تخلیق کے وقت بھی ہر سو پانی ہی پانی تھا۔

ارشادِ ربانی ہے:

وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرشُہٗ عَلَی المَآءِ۔ (ہود، :11 7)

اور وُہی (اﷲ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اَدوار میں پیدا فرمایا اور (اُس سے قبل) اُس کا تختِ اِقتدار پانی پر تھا۔

اِس آیتِ کریمہ سے واضح طور پر پانی کا جملہ مظاہرِ حیات پر مقدّم ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یعنی زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے (عالمِ مادّی میں صرف) پانی تھا۔

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

وَ جَعَلنَا مِنَ المَآئِ کُلَّ شَیٔ حَیٍّ اَفَلاَ یُؤمِنُونَO (الانبیاء،:21 30)

اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز  (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی۔ کیا وہ (اِس حقیقت سے آگاہ ہو کر بھی) اِیمان نہیں لاتے؟O

اِس آیتِ قرآنی نے بہت بڑی سائنسی حقیقت (scientific fact) کو بیان کیا ہے جس کی تائید دورِ جدید کی سائنس نے آج کر دی ہے۔

تخلیقِ ارضی سے تخلیقِ حیات تک کا درمیانی زمانہ جو "Azoic Era” کہلاتا ہے اور جسے قرآن مجید نے یَومَین (two periods)سے تعبیر کیا ہے وہ زمانہ قبلِ ظہورِ حیات ہے۔ جو پانی (water) اور پہاڑوں و چٹانوں (mountains / rocks) کا زمانہ ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پہاڑوں کا وجود تو زمین کے معرضِ وُجود میں آنے کے بعد عمل میں آیا مگر پانی اس وقت سے تھا جب زمین و آسمان پر مشتمل طبیعی کائنات کی تقسیم بھی عمل میں نہیں آئی تھی۔

زمین پر زندگی کے آغاز کے اِبتدائی زمانے میں بھی زندگی کے آثار اور مظاہر خشکی پر نظر نہیں آتے بلکہ صرف پانی میں نظر آتے ہیں۔ جدید سائنسی تحقیق نے اِس قرآنی امر کو ثابت کر دیا ہے کہ اُس دَور کے پہلے زمانے (Pre-Cambrian Era) میں زندگی کے جملہ مظاہر و آثار فقط سمندروں تک ہی محدُود تھے اور اُن کا خشکی پر کوئی وُجود نہ تھا۔ قدیم حیات کے دُوسرے دَور Palaeozoic Era میں بھی اِبتداءً زِندگی فقط پانی تک محدُود تھی اور خشکی پر اُس کا نام و نشان تک نہ تھا۔

جدید سائنسی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ Palaeozoic Eraکے شروع میں Cambrian Period اور Ordovician Period کے دونوں عرصوں میں آبی حیات تو کرۂ ارضی پر موجود تھی مگر اُس عرصے میں خشکی کی زِندگی کا کوئی سراغ نہیں ملتا، لہٰذا یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ قرآنِ مجید کا اِعلان بر حق ہے کہ "ہم نے زندگی کے جملہ مظاہر کا آغاز پانی سے کیا ہے”۔ خشکی پر زندگی کا آغاز Silurian Period میں ہوا، جس میں سب سے پہلے Cooksonia نامی پودے معرضِ وُجود میں آئے۔ یہ آج سے تقریباً 43,80,00,000سال پہلے کی بات ہے۔ یہ پودے بغیر پتوں کے تھے اور سمندروں کے کناروں پر اُگے یعنی زندگی کی پہلی علامات جو خشکی پر ظہور پذیر ہوئیں وہ بھی پانی سے ہی وجود میں آئیں جبکہ اُس وقت تک پانی میں زِندگی پودوں، کیڑوں، لارووں، مچھلیوں اور دیگر چھوٹے چھوٹے جانوروں کی شکل میں کئی اِرتقائی منازِل طے کر چکی تھی۔ پھر اُس سے 3کروڑ سال بعد اگلے عرصے Devonian Period میں زمین کے خشک حصوں پر کافی حد تک سبزہ نظر آنے لگا۔ اِسی عرصے میں درختوں کو وُجود ملا  اور اُسی آخری حصے میں خشکی پر بھی بغیر پروں کے کیڑے مکوڑے (wingless insects)، مکڑیاں (spiders) اور دیگر چھوٹے جانور ظہور پذیر ہوئے۔

اِن تاریخی شواہد پر کی جانے والی سائنسی تحقیقات سے اِس اَمر کی مکمل طور پر تصدیق ہو جاتی ہے کہ زمینی زِندگی کا آغاز پانی ہی سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اِبتداء سے اَب تک زمین کا غالب حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے۔ ابھی تک زمین کا 29 فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے اور باقی دو تہائی سے بھی زیادہ حصہ پانی ہے۔ قرآنِ مجید نے سورۃُ الانبیاء میں آج سے صدیوں قبل جب کوئی اِن حقائق کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا اِس حقیقت کا اِعلان کرتے ہوئے سوال کیا:

أَ فَلَا یُؤمِنُونَ ؟ (الأنبیاء،21:30)

کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے؟

یہ وہ چیلنج ہے جسے عالمِ کفر تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے، مگر یہ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک مسلمان علماء و مفسرین خود سائنسی علوم اور تحقیقات سے کماحقہٗ آگہی حاصل نہیں کریں گے۔ دَورِ جدید کے اِن سائنسی حقائق اور اِنکشافات کا بغور مطالعہ کئے بغیر قرآنِ مجید کی عظمت و حقانیت کے اَیسے ہزاروں گوشے ہماری نظروں میں نہیں آ سکتے۔