باب ہفتم
فہرست مضامین
- ڈاروِن کا مفروضۂ اِرتقائے حیات (Darwinism)
- ڈاروِنی اِرتقاء کا غیر سائنسی اَفسانہ
- مفروضۂ اِرتقاء کا کھوکھلا پن
- اِسلامی تصوّرِ تخلیق ہی حق ہے
- باب ہشتُم
- پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding Universe) کا قرآنی نظریہ
- باب نہُم
- سیاہ شگاف (Black Hole)کا نظریہاور قرآنی صداقت
- باب دہُم
- کائنات کا تجاذُبی اِنہدام اور اِنعقادِ قیامت
- باب اوّل
- اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء
- باب دُوُم
- اِنسانی زندگی کا حیاتیاتی اِرتقاء
- باب سوُم
- اِنسانی زندگی کا شعوری اِرتقاء
- باب چہارُم
- اِسلام اور طبِ جدید
- مسلسل طبی تحقیق کی ترغیب
- صحت، صفائی اور حفظِ ماتقدّم
- آدابِ طعام اور حفظانِ صحت
- برتن میں سانس لینے کی ممانعت
- متعدّی اَمراض سے حفاظت
- دانتوں اور منہ کی صفائی
- نماز کے طبی فوائد
- کم خوری اور متوازن غذا
- مجوزّہ غذائیں
- ممنوعہ غذائیں
- ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور اِمتحانی نظام
- بخار کا علاج
- آپریشن کے ذریعے علاج
- نفسیاتی اَمراض کا مستقل علاج
- اِسلام اورجینیاتی انجینئرنگ(Genetic engineering)
- کتابیات
ڈاروِن کا مفروضۂ اِرتقائے حیات (Darwinism)
اِس باب میں ہم کرۂ ارضی پر پائے جانے والے زِندگی کے موجودہ دَور اور تخلیقِ اِنسانی کے بارے میں فرسودہ ڈاروِنی مفروضے کا پر حاصل بحث کریں گے۔ یہاں ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقائے حیات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عام قارئین پر یہ حقیقت عیاں ہو سکے کہ یہ مفروضہ ہر قسم کی سائنسی صداقت سے مکمل طور پر خالی ہے۔
کرۂ ارضی پر پائے جانے والے اَدوارِ حیات میں سے اِس وقت ہم مرحلۂ حیاتِ جدید (Cenozoic Era) کے آخری حصے میں موجود ہیں، جسے سائنسی اِصطلاح میں ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ’ممالیہ گروپ‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے اِنسان کو جانوروں کے درج ذیل حصے میں شمار کیا ہے:
Phylum…………………………..Chordata
Sub-Phylum…………………….Vertebrata
Class…………………………….Mammalia
Order………………………………Primate
Superfamily………………………Hominoid
Family……………………………Hominoid
Genus………………………………..Homo
Species………………………..Homosapien
جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ (ape) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جانے لگا ہے اور اِس ضمن میں اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم قرآنِ مجید نسلِ اِنسانی کو "خَلقِ آخَر” )ممیز مخلوق( کہہ کر پکارتا ہے اور اُسے "أَحسَنِ تَقویم” )بہترین بناوَٹ( قرار دیتا ہے، لہٰذا اِس دور کو ’جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کا دَور‘ کہا جانا چاہیئے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہے کہ جانور، پرندے اور اِنسان، تینوں مخلوقات ایک ہی دَور میں ظہور پذیر ہوئیں۔
قرآنِ حکیم بھی ایک مقام پر اِسی مفہوم میں یوں فرماتا ہے:
وَ مَا مِن دَآبَّۃٍ فِی الأَرضِ وَ لاَ طَآئِرٍ یَّطِیرُ بِجَنَاحَیہِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمثَالُکُم۔ (الانعام،6:38)
اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔
ڈاروِنی اِرتقاء کا غیر سائنسی اَفسانہ
لیمارک (Lamarck)، مالتھس (Malthas)، مینڈل (Mandle)، ڈاروِن (Darwin)، اوپرائن (Oparin)، مونوڈ (Monod)، وِلسن (Wilson)، اور دُوسرے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے لیمارکزم (Lamarchism)، ڈاروِنزم (Darwinism) اور نیوڈاروِنزم (Neo Darwinism) جیسے اِرتقائی نظریات پیش کئے اُن کے تمام کئے دَھرے کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے۔ جو حقیقت میں محض مماثلتیں ہی ہیں اور اُن سے وہ نتائج اَخذ کرنا جو اُنہوں نے کئے کسی طرح بھی درُست نہیں۔ وہ مماثلتیں مندرجہ ذیل ہیں:
-1 حیاتیاتی مماثلتیں (biological similarities)
-2 عضوی یا ترکیبی مماثلتیں (anatomical similarities)
-3 حیاتی کیمیائی مماثلتیں (biochemical similarities)
-4 جینیاتی مماثلتیں (genetic similarities)
یہ تمام مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں، قرآنِ مجید نے آج سے 14صدیاں قبل اِن کا ذِکر سورۂ اَنعام کی آیت نمبر38 میں کر دیا تھا۔ "أَمثَالُکُم” (تمہارے جیسی) کا لفظ جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کے مابین مختلف اَقسام کی مماثلتوں کی طرف واضح اِشارہ کر رہا ہے، جس سے کلامِ الٰہی کی صداقت اور حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم اُن مماثلتوں سے لئے جانے والے بیہودہ ڈاروِنی اِستدلال سے ہرگز اِتفاق نہیں کرتا اور نہ تمام کے تمام سائنسدان اِس سے اِتفاق کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خود ساختہ نظریۂ اِرتقائے حیات کے حاملین اپنے اِس مَن گھڑت فرسودہ مفروضے کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں کر سکے۔ وہ اپنے مفروضے میں موجود تسلسل کے فقدان سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس عدم تسلسل کو وہ ’گمشدہ کڑیاں‘ (missing links) کہتے ہیں۔ اُن بہت سی گمشدہ کڑیوں کے با وصف مفروضۂ اِرتقاء کی بہت سی خلطِ مبحث اور متضاد تعبیرات کی جاتی ہیں اور کوئی بھی متفقہ نظریہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔
یہاں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی تحقیقات کے وہ گوشے جو قرآنی تصوّرات سے ہم آہنگ ہیں، وہ بالکل فطری انداز میں منتج ہوتے ہیں اور سائنس اُس منزل تک پہنچنے میں بآسانی کامیاب ہو جائے گی۔ دُوسری طرف تمام وہ تصوّرات جو قرآنی تعلیمات سے متعارِض ہوں کبھی بھی تذبذُب اور شکوک و شبہات سے نہیں نکل سکتے اور اُن میں اِبہام و اِلتباس ہمیشہ برقرار رہے گا اور کوئی حتمی اور قطعی نتیجہ بھی برآمد نہ ہو پائے گا۔ یہی حالت مفروضۂ ارتقاء کی بھی ہے۔
اب ہم یہاں ڈاروِن کے غیر منطقی مفروضۂ اِرتقاء کے بارے میں ترکی کے نامور محقق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کی تحقیق پیش کرتے ہیں تاکہ اِرتقاء کا یہ مَن گھڑت اَفسانہ طشت اَز بام ہو سکے۔
ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے بقول چارلس ڈاروِن (Charles Darwin) نے آج سے تقریباً ایک سو سال قبل کیمبرج یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج (Christ’s Collage) سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اِس سے پہلے اُسے علمِ حیاتیات (biology) یا علمُ الطب (medical science) کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان ایک جانور تھا جس کا اِرتقاء ’یک خلوی جسیمے‘ (unicellular organism) سے ہوا اور وہ بوزنہ (ape) سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سے سائنسدان بلا سوچے سمجھے اُس کی باتوں میں آ گئے اور اُس کے ہم نوا بن بیٹھے، اور یوں جلد ہی اِرتقاء کا یہ اَفسانہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ مفروضہ کئی سال تک دُنیا بھر کے تمام تعلیمی اِداروں میں اِس طرح پڑھایا جاتا رہا جیسے یہ واقعی کوئی سائنسی حقیقت ہو، حالانکہ سائنسی تحقیقات سے اُس کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء۔ ۔ ۔ اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا۔ ۔ ۔ محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ آر بی گولڈسمتھ (R. B. Goldschmidt) جو بیالوجی کا ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مفروضۂ اِرتقاء کا پُر زور حامی بھی ہے، اِس حد تک ضرور دیانتدار ہے کہ اُس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اِرتقاء کے حق میں تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر کوئی شہادت میسر نہیں آ سکی اور یہ محض تصوّرات کا ایک تانا بانا ہے۔
مفروضۂ اِرتقاء کا کھوکھلا پن
سائنسی علوم سے نابلد لوگ اِس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم کے خلاف سائنسی شہادتوں کے اَنبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس قسم کے نظریات باطل اور فرسودہ سوچ کے حامل گمراہ لوگوں کے لئے ہمیشہ سے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں، جو محض شہرت کی خاطر بلا تحقیق ایسے ایشوز پیدا کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ پچھلے چند برسوں سے اِس مفروضہ کے خلاف تنقید میں بڑے بڑے ماہرینِ حیاتیات کا بھرپور اِضافہ ہوا ہے۔ جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات (biology) اور علمِ حیوانات (zoology) کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen J. Gold) وغیرہ نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ جھوٹے سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔
پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے اُوٹ پٹانگ طریقوں سے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے اور اپنی مرضی کے نتائج اَخذ کئے ہیں۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔ اِن تمام اِبتدائی حقائق کے باوجود بھی ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حیاتیاتی معاملے سے متعلق اِس اَندرونی کہانی کا بالتفصیل ذِکر کر دیا جائے جسے اِرتقاء کے حامی اپنے نظریئے کی بنیاد تصوّر کرتے ہیں، تاکہ قرآنِ مجید اور اُس کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے قلوب و اَذہان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کے دروازے مکمل طور پر مقفّل ہو جائیں۔
1۔ خلیوں کی مَن گھڑت اَقسام
اپنے اِبتدائی تصوّرات کے مطابق اِرتقاء کے حامی ابھی تک خلیوں کی دو اَقسام: ’بنیادی‘ اور ’اِرتقائی‘ پر اَڑے ہوئے ہیں، حالانکہ تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ تقسیم غیر حقیقی ہے۔ 1955ء کے بعد اِس حقیقت کا انکشاف ہو گیا تھا کہ تمام خلیوں کا تانہ بانہ 99 فیصد تک ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور DNA (یعنی کیمیائی تعمیراتی بلاکوں) کے لئے یکسانی کی یہ شرح 100 فیصد تک پائی جاتی ہے۔ خلیوں کے مابین فرق محض اُن کے ریاضیاتی پروگراموں میں پایا جاتا ہے۔ جس سے کسی طور بھی اِرتقاء پسندوں کا اِستدلال درُست نہیں، جیسا کہ کسی پودے کے خلئے کا پروگرام آکسیجن کو عمل میں لانا ہے جبکہ جگر کے خلئے کے ذِمّہ صفراوی مادّے کی پیدائش ہے۔ اِن کمپیوٹرائزڈ پروگراموں کے حامل خلیوں کو محض مختلفُ النوع کام سر انجام دینے کی بناء پر ’قدیم‘ یا ’اِرتقائی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اُن میں یہ صلاحیتیں بتدریج نہیں آئیں بلکہ اُن کی تخلیق کے وقت سے ہی موجود تھیں۔ اِس لئے اُن سے متعلق اِرتقاء کا دعویٰ ہرگز درُست نہیں ہو سکتا۔ سو مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کو سب سے پہلے تو کسی خلئے اور اُس کے ریاضیاتی پروگرام سے متعلق اپنی معلومات کی اِصلاح کر لینی چاہیئے۔
2۔ اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے۔ ۔ ۔ ؟
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک کسی اِرتقاء پسند کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ ! قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے تو محض ایک سال میں وہاں اِتنی مخلوقات کیسے پیدا ہو گئیں؟
3۔ جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک اِرتقائے حیات کا عمل جینیاتی خصوصیات میں تبدّل کے ذریعے وُقوع پذیر ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا حقیقت میں کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہی ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ جینیاتی خصوصیات کبھی بھی مثبت انداز میں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ اُن کی تبدیلی ہمیشہ تباہی کی طرف ہی جاتی ہے، جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں، جیسا کہ ملّر کے تجربات سے حاصل ہونے والی سبز آنکھوں والی مکھی کمزور جسیمے کی ایک بہترین مثال ہے۔ آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے مثبت تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تبدّل کے اَفسانے میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا۔
4۔ علمی دھوکہ دہی کی ننگی داستان
اِرتقاء کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ آدمی اور اُس کے قدیم وُجود میں ربط پیدا کرنے والا ڈھانچہ موجود ہے۔ اُن میں سے سب سے زیادہ مشہور ڈھانچہ پِلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) کا تھا، جس میں موجود دھوکے کا اِنکشاف ’ریڈیو ایکٹو تجربات‘ کے ذریعے ثابت ہو چکا ہے، جس کے بعد اُسے تمام تر بے ہودہ تحریروں سمیت ’برِٹش میوزیم‘ سے نکال باہر پھینکا گیا ۔ مزید برآں قدیم مخلوق جس سے نوعِ اِنسانی کا ناطہ جوڑنے کی کوشش کی گئی، اُس کے دِماغ کا وزن 130گرام ہے جبکہ اِنسان کے دِماغ کا وزن 1350گرام ہے۔ ’مفروضۂ اِرتقائ‘ کے مطابق اِن دونوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کے لئے کم از کم 10جسیمے ہونے چاہئیں۔ اور یہ بات ناقابلِ تسلیم ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک بھی زِندہ نہ بچ سکا ہو۔ ہم اِرتقاء کے حامی گروہ سے یہ سوال کریں گے کہ بوزنہ (ape) تو آج بھی اپنی تمام تر اَقسام سمیت زِندہ ہے مگر اُس کے اور اِنسان کے درمیان پائی جانے والی ممکنہ 10 اَقسام سب کی سب کدھر گئیں۔ ۔ ۔ ؟
5۔ اَپنڈکس ہرگز غیر ضروری نہیں
اِرتقاء پسند تو اِس حد تک گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس (appendix) سلسلۂ اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ایک ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اَپنڈکس جسم کے چند مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین (tonsils) کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام اور اُن کی تعداد میں باقاعدگی لاتی ہے۔ اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے اَفعال سر انجام دیتے ہیں۔
6۔ کوئی مخلوق اِرتقاء یافتہ نہیں
مفروضۂ اِرتقاء کے جنم لینے کا سبب یہ ہے کہ اِس مفروضہ کے حاملین مذہبِ عیسائیت سے شعوری و لاشعوری سطح پر بدلہ لینے کی غرض سے خالقِ کائنات کے وُجود سے اِنکاری ہیں، اِس لئے وہ اپنی خود ساختہ مقصدیت کی تلاش میں مفروضۂ اِرتقاء کے گِرد گھوم رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ دونوں مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہٗ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ’کمال‘ سے اُن کی مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں ’تتلی‘ سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ بجلی کے آلات کے حوالے سے ’چمگادڑ‘ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ’ڈولفن‘ سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے ’دیمک‘ جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ 100ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ(ape) اِس حقیر دیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے، پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟
7۔ بقائے اَصلح (Survival of the fittest)کی حقیقت
مفروضۂ اِرتقاء کی حامیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘ (survival of the fittest) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ ڈائنوسار (dinosaur) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل ہزاروں سال پہلے کرۂ ارضی سے کلیتاً معدُوم ہو گئی تھی۔ لیکن اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں ہے کہ رُوئے زمین پر موجود 15لاکھ اَقسام پر مشتمل زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد 100سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات اپنے ماحول میں موجود مشکل ترین حالات کے باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں اور مفروضہ ارتقاء کے حامیوں کے نظریہ بقائے اَصلح کے مطابق اُن کا وُجود کرۂ ارضی سے ناپید نہیں ہو گیا۔
یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں دینا ضروری سمجھتے ہیں:
-i اَندھی مچھلی
مچھلی کی ایک ایسی قسم جو بصارت کی صلاحیت سے محروم ہے اور سمندر کی تہہ میں رہتی ہے۔ اُس مختصر سے ماحول میں اُس کے ساتھ ریڈار کے نظام کی حامل اور برقی صلاحیت کی مدد سے دیکھنے والی مچھلیوں کی چند اَقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر اِرتقاء پسندوں کی تحقیق درُست ہوتی تو اَندھی مچھلی باقی دونوں اَقسام کی مچھلیوں کی غارت گری سے مفقود ہو چکی ہوتی، لیکن ہم اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مچھلی کی یہ تینوں اَقسام لاکھوں سالوں سے ایک ساتھ پُرامن طور پر زِندگی بسر کر رہی ہیں اور ایک دُوسرے کی نسل کی بقاء کے لئے خطرہ پیدا نہیں کر سکیں۔
-ii اَندھا سانپ
یہ دَرحقیقت چھپکلی کی ایک قسم ہے جس کے ہاتھ پاؤں نہیں ہوتے اِس لئے اِس مخلوق کے لئے زِندگی اِنتہائی دُشوار ہوتی ہے، لیکن اِس کے باوُجود وہ لاکھوں سال سے کرۂ ارض پر موجود ہے۔ وہ اِس مرورِ اَیام سے معدُوم ہوا اور نہ اِرتقائی عمل سے گزر کر حقیقی چھپکلی ہی بن سکا۔ اِرتقاء کے بنیادی اُصولوں سے متعلق قصے کہانیاں کہاں گئیں۔ ۔ ۔ ؟
-iii آسٹریلوی خارپُشت
آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کا خار پُشت پایا جاتا ہے جو اپنے بچے کو کنگرو کی طرح اپنے پیٹ سے مُعلّق تھیلی میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ وہ ہزارہا سال کے اِرتقائی عمل کے تحت اپنے جسم میں ایسا تبدّل کیوں نہیں لاتا جس کی بدولت اِس تکلیف دِہ جھلی سے اُس کی جان چھوٹ جائے اور وہ بھی دُوسرے عام خار پُشتوں کی طرح آرام و سکون سے رہ سکے؟
اِس کی وجہ فقط یہ ہے کہ اﷲ ربّ العزّت نے اُس کے لئے ایسا ہی چاہا ہے۔ وہ خار پُشت اپنی زِندگی سے مطمئن ہے اور اُسی طرح اﷲ ربّ العزت کا تابع فرمان رہے گا۔ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی حامی اِس راز سے کبھی آگاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مذہب دُشمنی میں حد سے گزرتے ہوئے اَندھی منطق کے گرداب میں اُلجھا ہوا ہے۔
فطری چھانٹی یعنی بقائے اَصلح کے عجوبہ کی کوئی حیثیت نہیں، لاتعداد مخلوقات کی نمائش کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ہی مختلف اَنواعِ حیات کو تخلیق کیا ہے۔
8۔ اَصناف کا تنوّع
اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا (amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی۔ اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صرف پتنگوں کی 3لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔ پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے۔ ۔ ۔ ؟
مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں۔ جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں۔ رنگوں کے 10,000سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے۔ جیسا کہ:
چھپکلی…………اور……….مگرمچھ
بلی………….اور………..شیر
امریکی چوہا……..اور……….خنزیر
اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ صورتحال اِس کے برعکس ہے، کیونکہ اﷲ ربُّ العزّت نے اپنی مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے۔
9۔ سائنسی علوم کی عدم قبولیت
مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں مکمل طور پر ناممکن قرار پا گیا ہے۔
-i طبیعیات (Physics)
علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا۔ پُر اَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے۔ اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے 2 یا 4 اَیٹموں کو ملا کر ہیلئم (helium) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو ’تھرمونیوکلیئربم‘ (thermonuclear bomb) ہی حاصل ہو گا جس کے سبب تمام ماحول ’کھمبی‘ (mushroom) کی شکل کے دھُوئیں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا۔
-ii ریاضی (Mathematics)
ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے۔ اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں 1020[L:4 R:235]39تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے 100کھرب سال ۔ ۔ ۔ گویا موجودہ کائنات کی عمر سے 500گنا زیادہ وقت ۔ ۔ ۔ میں مکمل ہو سکتی ہیں۔ ایک بوزنہ (ape) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے 10520[L:4 R:235]3 تبدیلیوں کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِ اِستعمال لائیں تو بھی اُسے پانے میں قاصر رہیں گے۔ مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے 10124گنا سے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اِن سب حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء کا یہ تصوّر ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے۔
-iii حیاتیات (Biology)
حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک ’سسٹرن‘ (cistron) ۔ ۔ ۔ جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے ڈی این اے (deoxyribonucleic acid) کی لمبائی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ میں تبدیلی لا سکے۔ کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (genes) ۔ ۔ ۔ جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی۔ چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا۔ جیسا کہ ’نِلسن ہیریبرٹ‘ (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کی نوعیت کچھ اَیسی ہے کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
’پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر‘ (Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلیاں، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’پروفیسر ویزمین‘ (Prof. Weismann) کے ہاں ’جاوا کے آدمی‘ (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے۔ اِسی طرح ’پروفیسر گِش‘ (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے ’نبراسکا کا آدمی‘ (Nebraska Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے۔
ہمیں یہ بات ہمیشہ مدِّ نظر رکھنی چاہیئے کہ مفروضۂ اِرتقاء ایک سوچا سمجھا ڈھونگ ہے، جو اَیسے پراگندہ خیالات کو جنم دیتا ہے جن کا انجام اِنسانی معاشرے کی تباہ حالی ہے۔ جو لوگ اِس سلسلے میں مزید حقائق سے آگہی میں دِلچسپی رکھتے ہیں وہ مزید مطالعہ کے لئے درج ذیل ذرائع سے اِستفادہ کر سکتے ہیں:
- . Jeremy Rifkin, Algeny, Middlesex: Penguin,1984.
2. Paul S. Moorhead and Martin M. Kaplan, eds. Mathematical Challenges to the Neo-Darwinian Interpretations of Evolution, Philadelphia: Wistar Institute Press, 1967.
3. Norman Macbeth, Darwin Retried: An Appeal to Reason, Boston: Gambit, 1971.
4. Duane T. Gish, Evolution: The Fossils Say No[L: 33], San Diego: Creation Life Publishers, 1978.
- John Moore, On Chromosomes, Mutations and Philogeny, Philadelphia, 1971.
6. Walter J. Bock, Book Review of Evolution, Orderly Law, Science, (146) 1969.
7. Harold Francis Blum, Time’s Arrow and Evolution, Princeton University Press, 1968.
8. Nilson N. Heribert, Synthetische Artbildung, University of Lund, Sweden.
9. Pierre-Paul Grasse, Evolution of Living Organisms, New York: Academix Press, 1977.
- . David Raup. Conflicts Between Darwin and Paleontology, Field Museum of Natural History Bulletin. January 1979.
اِسلامی تصوّرِ تخلیق ہی حق ہے
اگرچہ دُنیا کے مشہور و معروف عیسائی اور یہودی سائنسدان مفروضۂ اِرتقاء کو برحق نہیں جانتے مگر اِس کے باوُجود وہ اِس گندے کھیل میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں، کیونکہ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم کا بدلہ لینے کا تصوّر اُنہیں حقائق کو مسخ کرنے کا جواز بخشتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا میں کوئی جانور بھی اِرتقائی عمل کی پیداوار نہیں، یہ محض ایک تصوّراتی اور فلسفیانہ مفروضہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کے نام پر اِنسان کی اس خودساختہ اَصل سے متعلق جو دعوے کئے جاتے ہیں سب کے سب جھوٹے ہیں۔ اِنسان کی اَصل کے متعلق ہنوز کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں آ سکا۔ تب پھر اِنسان کی اَصل کیا ہے؟ ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی رَوشنی میں دیں گے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقویمٍO(التین،95:4)
بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےO
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان ایک الگ مخلوق کے طور پر معرضِ وُجود میں آیا ہے اور یہ کسی دُوسری مخلوق سے اِرتقاء کے نتیجے میں ظاہر نہیں ہوا۔ اِنسان کی تخلیق "خلقِ آخر” ہونے کے ناطے تخلیقِ خاص (special creation) ہے، جسے اﷲ ربُّ العزّت نے ایک مناسب وقت پر تخلیق کیا۔
باب ہشتُم
پھیلتی ہوئی کائنات (Expanding Universe) کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید نے جہاں طبیعی کائنات کی تخلیق کی نسبت چند اہم حقائق بیان کئے ہیں وہاں اُس کے اِختتام کی بعض خصوصی علامات کا بھی ذکر کیا ہے جن کی تائید و تصدیق مکمل طور پر جدید سائنس کے ذریعے ہو رہی ہے۔ ہم پہلے جدید سائنس کی تحقیقات و اکتشافات کا خلاصہ درج کریں گے تاکہ اصل تصور واضح ہو جائے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ دورِ حاضر کے سائنس دانوں کی رائے میں اِس مادّی اور طبیعی کائنات (physical universe) کا آغاز اَجرامِ سماوی کی تخلیق و تقسیم کے جس عمل سے ہوا وہ آج سے تقریباً 15 ارب برس پہلے رونما ہوا اور اُس کا اِختتام آج سے تقریباً 65ارب برس بعد ہو گا۔
تخلیقِ کائنات کے بعد اُس کی مسلسل توسیع و اِرتقاء اور بالآخر اُس کے انجام کے بارے میں موجودہ سائنسی تحقیق Oscillating Universe Theory کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
کائنات کی بیکرانی
آئیے اَب اِس وسیع و عریض کائنات کی ساخت، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں ذرا غور و فکر کریں۔ تمام اَجرامِ فلکی سمیت زمین، سورج، سِتارے اور سیارے کائنات میں محض چھوٹے چھوٹے نقطوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسی کہکشاں کا سِتارہ ہے جو اِس جیسے اور اِس سے بڑے ایک کھرب سِتاروں پر مشتمل ہے اوراِس کائنات میں اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید بھی پائی جاتی ہیں۔ اَب تک کی جستجو سے معلوم کردہ دُوسری کہکشاؤں کے بعید ترین اَجسام ہم سے تقریباً16ارب نوری سال (تقریباً 93,91,28,46,33,60,00,00,00,00,000 میل) کی مسافت پر واقع ہیں۔ اُن کی شعاع ریزی (radiation) نہ صرف زمین بلکہ شاید ہماری کہکشاں کی تخلیق سے بھی پہلے اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔ اِس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہماری کہکشاں کائنات کی اوّلیں تخلیق کے وقت ہی پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ اُس کی پیدائش کائنات کی تخلیق سے کافی عرصہ بعد عمل میں آئی اور دُوسری بہت سی کہکشائیں اُس سے عمر میں بڑی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کہکشاں دُوسری یا تیسری نسل کی نمائندہ ہو۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آج یہ جس مادّہ پر مبنی ہے اُسی مادّہ پر ایک یا زائد کہکشائیں اِس سے قبل بھی مشتمل رہ چکی ہیں۔ جن میں واقع لاکھوں کروڑوں سورجوں کے گرد گردِش کناں سیاروں کی مخلوقات اپنے دَور کی قیامت کے بعد فنا ہو چکی ہیں۔جب وہ اپنی زِندگی پوری کر چکیں تو اُنہی کے متروکہ مادّے سے ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ (Milky Way)نے جنم لیا۔
سورج کے بعد ہم سے قریب ترین سِتارہ ’پروگزیما سنچری‘ (Proxima Centauri) ہے، جو ہم سے تقریباً 4.2نوری سال کی مسافت پر واقع ہے، جو تقریباً 24.68 کھرب میل کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں 4سال سے زیادہ عرصہ صرف کرتی ہے۔) ہمارا سورج ہم سے 8.3 نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے،جو تقریباً 9,27,72,934.58 میل یعنی 14,92,96,644 کلومیٹر کے مساوی ہے۔ (اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں 8.3 منٹ کا وقت صرف کرتی ہے۔) اکثر سِتارے جو ہمیں نارمل آنکھ سے دِکھائی دے جاتے ہیں وہ کئی سو نوری سال کی دُوری پر واقع ہیں۔
توسیعِ کائنات ۔ ۔ ۔ ایک سائنسی دریافت
کائنات کے مسلسل وسیع تر ہوتے چلے جانے کے بارے میں ہماری تحقیقات 1924ء سے زیادہ قدیم نہیں، جب ایک ماہرِ فلکیات ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) نے یہ اِنکشاف کیا کہ ہماری کہکشاں اِکلوتی نہیں ہے۔ کائنات میں دُوسری بہت سی کہکشائیں بھی اپنے مابین وسیع و عریض علاقے خالی چھوڑے ہوئے موجود ہیں، جو ایک دُوسرے کی مخالف سمت میں یوں حرکت کر رہی ہیں کہ آپس میں فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کہکشاؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات بھی پھیلتی چلی گئی ہے اور کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر ہبل نے کائنات کی وُسعت پذیری کا یہ راز رَوشنی کے ’سرخ ہٹاؤ‘ (red shift) کے کہکشاؤں کے ساتھ موازنے کے ذریعے دریافت کیا۔ اُس نے مسلسل بڑھنے والے فاصلوں کی درُستگی کو ’قانونِ ہبل‘ (Hubble’s Law) اور پھیلاؤ کی حقیقی شرح کے ذریعے ثابت کیا، جسے ہبل کے غیر متغیر اُصول (Hubble’s Constant) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم شعوری اِنقلابات میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اَب ہم اِس قابل ہو چکے ہیں کہ ’ڈاپلر اثر‘ (Doppler Effect) کے ذریعے کائنات اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی موجودہ شرح کو متعین کر سکیں۔ اَب ہم سب اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کائنات ہر ایک ارب سال میں 5سے 10 فیصد کی شرح کے ساتھ پھیل رہی ہے۔
ڈاپلر اثر (Doppler Effect)کی ایک عام فہم مثال
کسی جرمِ فلکی کی روشنی یا برقی مقناطیسی لہروں کا اُس جسم کے ناظر سے دُور بھاگنا یا کائنات کے ’عظیم اِبتدائی دھماکے‘ (Big Bang) کی وجہ سے طویل الموج ہونا ’ریڈشفٹ‘ یا ’سرخ ہٹاؤ‘ کہلاتا ہے۔ ایسا ’ڈاپلر اثر‘ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اِس کی سادہ مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جیسے کسی گاڑی کے آگے پیچھے ہر طرف سپرنگ باندھ کر اُسے تیزی سے دوڑایا جائے تو اُس کی تیز رفتاری کے باعث اگلے سپرنگ دب کر سکڑے ہوئے جبکہ پچھلی طرف بندھے سپرنگ کھنچ کر لمبے ہوتے نظر آئیں گے۔ بالکل اِسی طرح جب کوئی ستارہ، کہکشاں یا کوئی اور جِرمِ فلکی اپنے چاروں طرف بیک وقت ایک سی شعاع ریزی کرتے ہوئے ہم سے دُور بھاگا چلا جا رہا ہو تو اُس کی پچھلی سمت سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے لمبی دِکھائی دیں گی اور ہماری طرف آنے والے اَجرام سے نکلنے والی روشنی کی موجیں اپنے اصل طول سے قدرے سکڑی ہوئی نظر آئیں گی۔ ہم سے دُور بھاگنے والی کہکشاؤں کی لہریں ’طویل الموج‘ ہو کر رنگت میں ’سرخی مائل‘ ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری سمت آنے والے اَجرامِ فلکی کی روشنی کی لہریں ’قصیرالموج‘ ہو کر رنگت میں ’بنفشی مائل‘ ہو جاتی ہیں۔ اِسی کو ’ڈاپلر اثر‘ (doppler effect) کہتے ہیں۔
یہ تحقیق سب سے پہلے آسٹریلوی ماہرِ طبیعیات ’کرسچین ڈاپلر‘ (1803-1853) نے منظرِ عام پر لائی۔ کسی خاص عنصر کے حامل سیارے سے نکلنے والی روشنی کا رنگ اُس عنصر کے حقیقی رنگ کی نسبت مائل بہ سرخ ہونے کے تناسب سے اِس بات کا بخوبی اَندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ستارہ ہم سے کس رفتار سے کس سمت دُور جا رہا ہے۔ مجموعی طور پر تمام کہکشائیں ’بگ بینگ‘ کے اثر سے ایک دُوسرے سے دُور بھاگ رہی ہیں جس کا اندازہ ’ایڈوِن ہبل‘ نے 1924ء میں تقریباً تمام کہکشاؤں کی روشنی میں پائے جانے والے ’سرخ ہٹاؤ‘ (Red Shift) ہی کے ذریعے لگایا تھا۔
وُسعت پذیر کائنات کا قرآنی نظریہ
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں بیسویں صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں آج سے 1,400 سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے:
اَلحَمدُ ِللہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ ۔ ۔ ۔ یَزِیدُ فِی الخَلقِ مَا یَشآء إِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌO(فاطر،35:1)
تمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتداءً) بنانے والا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک اﷲ ہر شے پر قادِر ہےO
اِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے:
وَ السَّمَآءَ بَنَینَاھَا بِأَیدٍ وَّ إِنَّا لَمُوسِعُونَO(الذّاریات،51:47)
اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںO
اِس آیتِ کریمہ نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ کائنات، جسے اﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ "لَمُوسِعُون” کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر واضح دلالت کرتا ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ کائنات کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا:
وَ یَخلُقُ مَا لاَ تَعلَمُونَO(النّحل،16:8)
اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےO
مغربی دُنیا کے سائنسدانوں اور سائنس کے طلباء کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے 14صدیاں قبل۔ ۔ ۔ جب کائنات کے مجرّد اور غیر متحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا۔ ۔ ۔ علمِ فلکی طبیعیات (astrophysics) اور علمِ تخلیقیات (cosmology) کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتیٰ کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی 1915ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا پختہ یقین تھا کہ اُس نے اُس نظریئے کی مساوات میں مشہورِ عالم ’تخلیقیاتی مستقل‘ (cosmological constant)کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔
دَرحقیقت رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان ’الیگزینڈر فرائیڈ مین‘ (Alexander Friedmann) وہ شخص تھا جس نے 1922ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں 1929ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘ (Arno Penzias) اور ’رابرٹ وِلسن‘ (Robert Wilson) نے اُسے ثابت کیا۔ یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع ’بیل فون لیبارٹریز‘ میں کام کرتے تھے، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ یہ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید کا ایک سائنسی معجزہ ہے۔
باب نہُم
سیاہ شگاف (Black Hole)کا نظریہاور قرآنی صداقت
’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking) دورِ حاضر میں طبیعیات (physics) کا عظیم سائنسدان ہے۔ اِنعقادِ قیامت کے حوالے سے اُس کی تحقیقات نہایت عمدہ خیال کی جاتی ہیں۔ وہ سیاہ شگاف کو قیامت کی ایک ممکنہ شکل قرار دیتا ہے۔ ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کی اِصطلاح فزکس کی تاریخ میں زیادہ قدیم نہیں۔ اسے 1969ء میں ایک امریکی سائنسدان ’جان ویلر‘ (John Wheeler) نے ایک ایسے تصوّر کی جدوَلی صراحت کے لئے وَضع کیا جو کم از کم 200سال پرانا ہے۔ اُس وقت جبکہ روشنی کے بارے میں کوئی موجودہ نظریات نہیں پائے جاتے تھے۔ قدیم نظریات میں سے ایک نظریہ تو ’نیوٹن‘ کا تھا کہ روشنی ذرّات سے بنی ہے اور دُوسرے کے مطابق یہ لہروں پر مشتمل ہے۔ آج ہم اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دونوں نظریات اپنی جگہ درُست ہیں۔ ’کوانٹم مکینکس‘ کی لہروں اور ذرّات کی ثنویت کی وجہ سے روشنی کو لہر اور ذرّہ دونوں پر محمول کیا جا سکتا ہے۔
سیاہ شگاف (Black Hole)کا تعارُف
جب سورج سے 20گنا بڑا کوئی ستارہ 3,50,00,00,000 سینٹی گریڈ کے حامل ’عظیم نوتارہ‘ (supernova) کی صورت میں پھٹتا ہے تو اُس کا باقی ماندہ ملبہ اِتنا بڑا قالب ہوتا ہے کہ جو عام طور پر ایک ’نیوٹران ستارے‘ کا آخری مرحلہ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ اُس کی کشش اِس قدر زیادہ ہو کہ وہ ناقابلِ تصوّر حد تک ہر شے کو اپنے اندر گِراتا چلا جائے۔ جوں جوں اُس کی کثافت بڑھتی چلی جاتی ہے توں توں اُس کی قوّتِ کشش میں اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، حتی کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ روشنی سمیت کوئی شے بھی اُس کی کشش سے بچ نہیں پاتی۔ اسی کو ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کہتے ہیں۔ سیاہ شگاف کے مرکز میں سابقہ ستارے کا ملبہ تباہ ہو کر لا محدُود کثافت کا حامل ہو جاتا ہے جبکہ اُس کا حجم صفر ہوتا ہے۔ اُسی نقطہ کو ’اِکائیت‘ (singularity) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
’فلکی طبیعیات‘ (astrophysics) کے جدید نظریات کی رُو سے اِتنے کثیف ستارے کے قالب کو اپنی ہی کشش کے تحت ہونے والی غیر متناہی اندرونی تباہی سے روکنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری کہکشاں میں ایک کروڑ کے لگ بھگ سیاہ شگاف پائے جانے کا اِمکان ہے جو عظیمُ الجثہ ستاروں کے عظیم نوتارہ (supernova) دھماکوں سے معرضِ وُجود میں آئے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود اَجرامِ سماوی میں اِعتدال و توازُن اِنہی سیاہ شگافوں کی بدولت قائم ہے۔
سیاہ شگاف (Black Hole)کا معرضِ وُجود میں آنا
سیاہ شگاف بننے کے عمل کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں کسی بھی ستارے کی آغاز تا انجام زِندگی کا پورا چکر (life-cycle) سمجھنا ہو گا۔ سِتارہ اِبتدائی طور پر ایسی گیس۔ ۔ ۔ جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ ۔ ۔ کی ایک بہت بڑی مقدار کے کششِ ثقل کے باعث سُکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اُس گیس کے ایٹم آزادانہ اور تیز ترین رفتار کے ساتھ باہم ٹکراتے ہوئے گیس کو گرم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آخرکار گیس اِتنی گرم ہو جاتی ہے کہ ’ہائیڈروجن‘ (Hydrogen) کے ایٹم جب آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ زیادہ دیر اِکٹھے اُچھل کُود بند نہیں کرتے بلکہ آپس میں ضم ہو کر ’ہیلئم‘ (Helium) تشکیل دیتے ہیں۔ اِس عمل سے بے پناہ حرارت خارج ہوتی ہے۔ ۔ ۔ بالکل اُسی طرح جیسے ایک ’ہائیڈروجن بم‘ پھٹتا ہے۔ ۔ ۔ اسی کی بدولت ستارے چمکتے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ اِضافی حرارت گیس کا دباؤ اِس قدر بڑھا دیتی ہے جو کششِ ثقل میں توازُن برقرار رکھنے کے لئے کافی ہوتا ہے، اور یوں گیس مزید سکڑنا بند کر دیتی ہے۔
یہ کسی حد تک غبارے کی مِثل ہے جس کے اندر کی ہوا میں توازُن ہوتا ہے۔ ہوا غبارے کو مزید پھیلانا چاہتی ہے مگر غبارے کی ربڑ کا تناؤ اُسے چھوٹا کر دینا چاہتا ہے۔ یوں ہوا اور غبارے کی ربڑ کے مابین پائے جانے والے توازُن کے سبب غبارہ ایک خاص متوازن حد تک پھُلا رہتا ہے۔ سِتارے بھی اِسی طرح نیوکلیائی ردِ عمل سے پیدا ہونے والی حرارت اور کششِ ثقل کے درمیان توازُن کی وجہ سے عرصۂ دراز تک سلامت رہتے ہیں۔ بالآخر ستارہ جل جل کر اپنی ہائیڈروجن اور نیوکلیائی اِیندھن ختم کر دیتا ہے۔
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ جتنے زیادہ اِیندھن کے ساتھ کوئی ستارہ اپنی زندگی کی دَوڑ کا آغاز کرے گا اُتنی ہی جلدی وہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی ستارہ جتنا بڑا ہو گا اُسے اپنی کششِ ثقل کے ساتھ توازُن برقرار رکھنے کے لئے اُتنا ہی زیادہ گرم رہنا پڑے گا، اور جتنا زیادہ وہ گرم رہے گا اُسی تیزی سے وہ اپنا اِیندھن خرچ کرے گا۔ ہمارے سورج میں اِتنے اِیندھن کی موجودگی کا اِمکان ہے کہ وہ 5 ارب سال مزید گزار سکے، لیکن اُس سے بڑے سِتارے اپنا اِیندھن صرف 50کروڑ سال میں ختم کر سکتے ہیں، جو اِس کائنات کی مجموعی عمر کی نسبت بہت کم مدّت ہے۔ جب کسی ستارے کا اِیندھن کم ہو جاتا ہے تو وہ ٹھنڈا ہونے اور سکڑنے لگتا ہے۔ پھر اُس کے بعد کیا ہو تا ہے؟ اِس بات کا پتہ سب سے پہلے 1920ء کے عشرے کے اَواخر میں چلایا گیا۔
’سیاہ شگاف‘ بڑے ستاروں کی زِندگی کے اِختتام پر رَوشن نوتارے (supernova) کے پھٹنے کی صورت میں رُو نما ہوتے ہیں۔ ایسے ستارے کا کثیف مرکزہ (dense core) دھماکے کے بعد اپنی ہی کششِ ثقل کے باعث اندرونی اِنہدام کو جاری رکھتا ہے تآنکہ وہ سیاہ شگاف کی صورت میں معدُوم ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر روشنی بھی اُس سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ کچھ ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ سیاہ شگاف عظیم منہ بند سوراخ کی طرح عمل پذیر ہیں جن کے ذریعے مادّہ ہماری کائنات سے کسی اور جگہ جا نکلتا ہے۔ یوں جدید سائنسی تحقیقات ہمیں اِسلام کے تصوّرِ آخرت سے خاصا قریب لے آتی ہیں۔ ایک لحاظ سے سیاہ شگاف ’قواسرز‘ (quasars) کی طرح پُر اسرار ہیں۔ وہ فزکس کے قوانین پر عمل درآمد کرتے دِکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ناقابلِ دید ہیں۔
جب ہمارے سورج سے 10گنا بڑا کوئی ستارہ اپنی تمام تر توانائی خرچ کر بیٹھتا ہے تو اُس کی بیرونی تہہ مرکز کی طرف مُنہدم ہونا شروع کر دیتی ہے۔ تب ستارہ ’عظیم نوتارہ‘ (supernova) کے دھماکے کے ساتھ بیرونی تہہ کو دُور پھینکتے ہوئے پھٹتا ہے۔ اُس دھماکے کے بعد ستارے کا کثیف مرکزہ باقی بچ رہتا ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی ’نیوٹران ستارے‘ کی طرح شدید دباؤ زدہ ہو۔ تیزی سے گھومتے ہوئے ستاروں کو دمکتے ہوئے ’شعاع اَفشاں ذرائع‘ یا ’ پلسر‘ (pulsar) کی صورت میں پایا گیا ہے۔ اگر ستارے کے باقی ماندہ مرکزے (core) کی اہمیت بہت زیادہ ہو تو وہ اپنی کششِ ثقل کے بل بوتے پر سکڑتے ہوئے سیاہ شگاف کی صورت اِختیار کر لیتا ہے۔ اُس سوراخ میں مادّہ گِر تو سکتا ہے مگر کوئی بھی شے اُس سے فرار اِختیار نہیں کر سکتی۔
سیاہ شگاف سے روشنی بھی فرار نہیں ہو سکتی
’اوپن ہائمر‘ (Oppenheimer) کی تحقیق سے حاصل ہونے والی تصویر کشی کے مطابق سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جانے والے اُس ستارے کا ’مقناطیسی میدان‘ کسی بھی زمان و مکان میں پائی جانے والی شعاعوں کا راستہ بدل دیتا ہے۔ روشنی کی وہ ’مخروطی شکلیں‘ (cones) ۔ ۔ ۔ جو اپنے کناروں سے خارج ہونے والی روشنی کی چمک سے زمان و مکان میں اپنا راستہ نمایاں کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ اُس ستارے کی سطح کے قریب آہستگی سے اندر کو مُڑ جاتی ہیں۔ سورج گرہن کے دوران دُور واقع ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی کے جھکاؤ میں اِس امر کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت کے ثبوت کے طور پر کیا گیا تھا۔ جوں جوں کوئی ستارہ سُکڑتا چلا جاتا ہے، اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان (magnetic field) طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں مزید اندر کو جھکنے لگ جاتی ہیں۔ یہ چیز روشنی کے اُس ستارے سے فرار کو مزید مشکل بنا دیتی ہے اور دُور سے نظارہ کرنے والے ناظر کے لئے روشنی نسبتاً ہلکی اور سرخ ہو جاتی ہے۔ آخرکار جب وہ ستارہ اپنے کم از کم ممکنہ رد اس کی حد تک سکڑ جاتا ہے تو اُس کی سطح کا مقناطیسی میدان اِتنا طاقتور ہو جاتا ہے اور روشنی کی مخروطی شکلیں اُس کی طرف اِس قدر جھک جاتی ہیں کہ روشنی کے فرار کے تمام ممکنہ راستے مسدُود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق کوئی چیز روشنی سے تیز رفتار کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ اِس لئے اگر روشنی بھی اُس سیاہ شگاف بن جانے والے مُردہ ستارے سے نہیں بچ سکتی تو صاف ظاہر ہے کہ اور بھی کوئی شے اُس سے نہیں بچ سکتی، اُس کا ’مقناطیسی میدان‘ ہر شے کو اپنی جانب گھسیٹ لے گا۔ کسی دُور بیٹھے ناظر کے لئے اُن مخصوص حالات کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ وہ مُشاہدے کے لئے بلیک ہول کے زیرِ اثر مکان-زمان کے اُس مخصوص خطہ کی طرف جائے اور صحیح سلامت بچ کر واپس بھی چلا آئے۔ یہی وہ جگہ ہے جسے ہم اب ’سیاہ شگاف‘ (black hole) کا نام دیتے ہیں۔ اُس کی اصل حدُود کو’واقعاتی اُفُق‘ یا ’اِیونٹ ہورِیزن‘ (event horizon) کہا جاتا ہے اور یہ روشنی کی اُن لہروں کے راستے کے سِرے پر واقع ہوتا ہے جو سیاہ شگاف سے فرار اِختیار کرنے میں ناکام رہ جاتی ہیں۔
سیاہ شگاف بیرونی نظارے سے مکمل طور پر پوشیدہ ہیں
’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking)کہتا ہے کہ اُس کی اور ’راجرپینروز‘ (Roger Penrose) کی1965ء سے 1975ء تک کی گئی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ کے مطابق سیاہ شگاف کے اندر ’لا محدُود کمیّت کی اِکائی‘ (singularity of infinite density) اور ’زمان و مکان کے اِنحناء‘ (space-time curvature) کی موجودگی ضروری ہے۔یہ کسی حد تک زمانے کے آغاز میں رُو نما ہونے والے عظیم دھماکے کی طرح ہوتا ہے جو اِنہدام زدہ جسم اور اُس کی طرف سے خلا میں سفر کرنے والے خلا نورد کے لئے وقت کا اِختتام ثابت ہو گا۔ اُس اِکائیت کے مقام پر سائنس کے قوانین اور ہماری مستقبل کو جاننے کی صلاحیت دونوں جواب دے جائیں گی۔ تاہم ہر وہ ناظر جو اُس سیاہ شگاف سے دُور رہے گا، جہاں وہ پیش از وقت ممکنہ خدشات کے اَندازے کی صلاحیت سے محروم رہے گا وہاں وہ ہر قسم کے نقصان سے بھی محفوظ رہے گا، کیونکہ سیاہ شگاف میں واقع صفر جسامت کی حامل اُس ’اِکائیت‘ سے روشنی سمیت کوئی مضر شعاع اُسے نقصان پہنچانے کی غرض سے باہر نکل کر اُس تک نہیں پہنچ سکتی۔
زمین آخرکار سورج سے جا ٹکرائے گی
’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ یہ اِنکشاف کرتا ہے کہ بڑے اَجرامِ فلکی کشش کی ایسی لہروں کے اِخراج کا باعث بن جائیں گے جو خلاء کے اِنحناء کی وجہ سے بنتی ہیں اور روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یہ روشنی کی لہروں جیسی ہوتی ہیں جو ’برقی مقناطیسی میدان‘ میں بنتی ہیں، لیکن اُنہیں پا سکنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ یہ جن اَجسام سے خارج ہوتی ہیں اُن سے روشنی کی طرح توانائی لئے جاتی ہیں۔ اِس بات کا اَندازہ ہر کوئی بآسانی کر سکتا ہے کہ اُن بڑے اَجسام کا نظام آخرکار ساکن حالت پر آ جائے گا کیونکہ کسی بھی حرکت میں پیدا ہونے والا کشش کی لہروں کا اِخراج توانائی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ مِثال کے طور پر زمین کی سورج کے گِرد اپنے مدار میں گردِش کشش کی لہریں پیدا کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے توانائی کے ضیاع کا اثر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے مدار کو تبدیل کر دے گا اور یوں یہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی اور بالآخر اُس سے ٹکرا کر ساکن حالت اِختیار کر لے گی۔ زمین اور سورج کے معاملے میں ضائع ہونے والی توانائی کی شرح اِس قدر کم ہے کہ اُس سے ایک چھوٹا برقی چولھا بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ دُوسرے لفظوں میں زمین کو سورج میں گرنے میں تقریباً ایک ارب سنکھ (1,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,00,000) سال لگیں گے۔ سیاہ شگاف کی تشکیل کے لئے ایک ستارے کے ثِقلی اِنہدام کے دَوران حرکات اِس قدر تیز ہوں گی کہ توانائی کے ضیاع کی شرح بہت زیادہ ہو جائے گی۔ تاہم یہ اِتنا طویل نہیں ہو گا کہ ایک ساکن حالت کو پہنچ جائے۔
موجود سیاہ شگافوں کی تعداد اور جسامت
ہمیں اب تک اپنی کہکشاں (Milky Way) اور دو ہمسایہ کہکشاؤں (Magellanic Clouds) میں پائے جانے والے ’سیگنس ایکس ون‘ (Cygnus X-1) جیسے نظاموں میں موجود بہت سے سیاہ شگافوں کی شہادت میسر آ چکی ہے۔ تاہم حقیقت میں سیاہ شگافوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کائنات کی طویل ترین تاریخ میں بہت سے ستارے اپنا اِیندھن جلا کر ختم کر چکے ہوں گے اور اُنہیں اندرونی اِنہدام کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ ممکن ہے کہ سیاہ شگافوں کی تعداد قابلِ دید ستاروں سے بھی زیادہ ہو، جو تقریباً ایک کھرب کی تعداد میں تو صرف ہماری کہکشاں میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنی کثیر تعداد میں پائے جانے والے سیاہ شگافوں کی اِضافی کششِ ثقل کو شمار کرتے ہوئے ہی ہماری کہکشاں کی محورِی گردِش اور اُس کے توازُن کی موجودہ شرح کی وضاحت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ صرف قابلِ دید ستاروں کی تعداد اُس شرح کی وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ہمیں اِس بات کی شہادت بھی میسر آ چکی ہے کہ ہماری کہکشاں کے وسط میں سورج سے ایک لاکھ گنا زیادہ کمیّت کا حامل عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف موجود ہے۔ کہکشاں میں پائے جانے والے وہ ستارے جو اُس سیاہ شگاف سے زیادہ قریب آ جاتے ہیں، اپنے قریبی اور بعیدی جہات میں پائی جانے والی قوّتِ کشش میں اِختلاف کی وجہ سے جدا ہو کر اُس سیاہ شگاف کے گرد گردش کرنے والے طوفان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اُسی جیسے۔ ۔ ۔ بلکہ جسامت میں اُس سے بھی بڑے۔ ۔ ۔ کمیّت میں ہمارے سورج سے 10کروڑ گنا بڑے۔ ۔ ۔ سیاہ شگاف ’قواسرز‘ کے وسط میں پائے جاتے ہیں۔ اِتنے عظیمُ الجثہ سیاہ شگاف میں مادّے کا مسلسل گرنا ہی قوّت کا وہ ذریعہ ہے جو اِتنا عظیم ہے کہ اُسے شمار کرنے سے اُن سیاہ شگافوں سے خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ مادّہ جس سمت میں گھومتے ہوئے سیاہ شگاف میں گرتا ہے اُسی طرف کو سیاہ شگاف گھومنے لگ جاتا ہے، چنانچہ اسی سے اُس سیاہ شگاف کا ’میدانِ تجاذُب‘ پروان چڑھتا ہے۔ مادّے کے سیاہ شگاف میں گرنے سے اُس کے قریب بہت بڑی توانائی کے ذرّات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ گمان بھی بجا ہے کہ شاید ہمارے سورج سے کم کمیّت کے حامل سیاہ شگاف بھی پائے جاتے ہوں۔تاہم ایسے سیاہ شگاف ’اندرونی کششی اِنہدام‘ کی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے کیونکہ اُن کی کمیّت ’چندرشیکھر‘ کی ’کمیتی حدُود‘ (Chandrasekhar Mass Limit) سے کم ہوتی ہے۔ اِس قدر کم کمیّت کے حامل ستارے صرف اِسی صورت میں کششِ ثقل کے خلاف مزاحمت سے اپنے وُجود کو سہارا دے سکتے ہیں جب وہ اپنے نیوکلیائی اِیندھن کا مکمل طور پر اِخراج کر چکے ہوں۔ کم کمیّت کے سیاہ شگاف صرف اِسی صورت میں تشکیل پا سکتے ہیں جب مادّہ شدید ترین بیرونی دباؤ سے دب کر اِنتہا درجہ کثیف ہو جائے۔
سیاہ شگاف۔ ۔ ۔ ایک ناقابلِ دید تنگ گزرگاہ
جیسا کہ اِن کے نام سے ظاہر ہے سیاہ شگاف نظر نہیں آ سکتے کیونکہ وہ بالکل روشنی خارِج نہیں کرتے۔ ایک سیاہ شگاف اگرچہ خود تو نظر نہیں آ سکتا مگر اِس کے باوُجود جب وہ کسی ہمسایہ ستارے کو کھینچ رہا ہوتا ہے اور اُس کے مادّے کو ہڑپ کر کے نگل جاتا ہے تو ’ایکس ریز کے اِخراج‘ کی وجہ سے اُس کا سراغ لگانا ممکن ہو جاتا ہے۔
سیاہ شگاف کسی دُوسری کائنات کو جانے والی گزرگاہ کا کام دیتے ہیں، لہٰذا ممکن ہے کہ جو مادّہ سیاہ شگاف کی طرف جاتا ہے وہ زمان و مکان کے کسی اور منطقے میں بھیج دیا جاتا ہو، جس سے ہم بالکل آگاہ نہیں ہیں۔ جب ہماری تحقیق اِس مقام پر آن پہنچتی ہے تو ہمیں اِسلام کے عطا کردہ عقیدۂ آخرت پر مزید پختگی میسر آتی ہے۔
باب دہُم
کائنات کا تجاذُبی اِنہدام اور اِنعقادِ قیامت
سیاہ شگاف اور ستاروں کی زِندگی اور موت کے قریبی مشاہدے کے بعد آیئے اَب ہم قیامت سے متعلق ہونے والی سائنسی تحقیقات کے نمایاں خدّوخال اور اِسلام کے تصوّرِ قیامت اور عقیدۂ آخرت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
انجامِ کائنات سے متعلقہ سائنسی تحقیقات ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہیں:
-1 ہماری مادّی کائنات جس کا آغاز آج سے کم و بیش 15ارب سال پہلے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کی صورت میں ہوا تھا، اُس کا انجام آج سے تقریباً 65ارب سال بعد کائنات کے آخری عظیم دھماکے‘ (Big Crunch) پر ہو گا۔
-2 ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہماری پھیلتی ہوئی کائنات اپنی نصف عمر گزار لینے کے بعد کششِ باہمی کی وجہ سے سکڑاؤ کا شکار ہو جائے گی۔ باہر کو پھیلتی ہوئی کہکشاؤں کی رفتار کم ہو جائے گی، حتیٰ کہ وہ رُک جائیں گی اور پھر مرکز کی سمت اندرونی اِنہدام کا شکار ہو جائیں گی اور آپس میں ٹکرا کر مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گی۔
-3 یہ ٹکراؤ (یعنی بِگ کرنچ) بِگ بینگ جیسے اِنتہائی عظیم اوّلین دھماکے کی طرح ہو گا۔ تمام اَجرامِ سماوی کا مادّہ سیاہ شگافوں میں جا گرے گا اور کائنات کی تمام ہائیڈروجن (hydrogen) اور ہیلئم (helium) ستاروں کی تھرمونیوکلیائی آگ میں جل کر ختم ہو جائیں گی۔ کوئی نیا ستارہ پیدا نہیں ہو گا اور کائنات مُردہ ستاروں، شہابیوں، چٹانوں اور اُنہی جیسے دُوسرے کائناتی ملبے پر مشتمل ہو گی۔
-4 جب کائنات کی عمر 1027سال ہو جائے گی تو وہ بکثرت ایسے سیاہ شگافوں پر مشتمل ہو گی جو مُردہ ستاروں کے جُھرمٹ میں گھِرے ہوئے ہوں گے۔ کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعد تمام کہکشائیں گھومتی ہوئی ایک دُوسرے کی طرف آئیں گی اور آپس میں ٹکراتے ہوئے بڑے ’کائناتی سیاہ شگافوں‘ (supergalactic black holes) پر منتج ہوں گی۔ آخرکار 10106سال گزرنے کے بعد وہ عظیم سیاہ شگاف بخارات بن کر ایسے ذرّات اور شعاع ریزی کی صورت میں بھڑک اُٹھیں گے جو ایک ارب میگا واٹ ہائیڈروجن بم کے دھماکے کے برابر ہو گی۔
-5 تباہی و بربادی کا یہ عمل آج سے 65 ارب سال بعد شروع ہو گا اور 10140سال بعد مکمل ہو گا۔
-6 بالآخر یہ عمل پوری کائنات کو ایک عظیم سیاہ شگاف یا ناقابلِ دید بنا دے گا، اور شاید تمام مادّہ، توانائی، مکان اور زمان اُس میں سمٹ جائے اور وہ دوبارہ سے سُکڑتے ہوئے چھوٹی ہو کر ’اِکائیت‘ اور صفر جسامت بن جائے گی اور لاشئ اور غیر موجود (nothing / naught) ہو جائے گی۔
ہُم
کائنات کے تجاذُبی اِنہدام کا قرآنی نظریہ
قرآنِ مجید اِنعقادِ قیامت کے ضمن میں کائنات کے تمام موجودات کی کششی دھماکے سے رُو نما ہونے والی حالت اور اُس کی بے تحاشا تباہی کو یوں واضح کرتا ہے:
إِذَا وَقَعَتِ الوَاقِعَۃُO لَیسَ لِوَقعَتِھَا کَاذِبَۃٌO خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌO إِذَا رُجَّتِ الأَرضُ رَجًّاO وَّ بُسَّتِ الجِبَالُ بَسًّاO فَکَانَت ھَبآء مُّنبَثًّاO(الواقعہ،56: 1.6)
(یاد رکھو) جب قیامت واقع ہو جائے گیO تب اُسے جھوٹ سمجھنے کی گنجائش کسی کے لئے نہ ہو گیO کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والیO جب زمین کپکپا کر لرزنے لگے گیO اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گےO پھر (مکمل طور پر) غبار بن کر اُڑنے لگیں گےO
یَومَ تَرجُفُ الأَرضُ وَ الجِبَالُ وَ کَانَتِ الجِبَالُ کَثِیبًا مَّھِیلاًO(المزمل،73:14)
جس دِن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریت کے بھُربھُرے تودے ہو جائیں گےO
اَلسَّمَآءُ مُنفَطِرٌ مبِہٖ کَانَ وَعدُہٗ مَفعُولاًO(المزمل،73:18)
جس (دِن کی دہشت) سے آسمان پھٹ جائے گا، (یاد رکھو کہ) اُس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گاO
وَ حُمِلَتِ الأَرضُ وَ الجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃًO فَیَومَئِذٍ وَّقَعَتِ الوَاقِعَۃُO وَ انشَقَّتِ السَّمَآءُ فَھِیَ یَومَئِذٍ وَّاھِیَۃٌO(الحاقہ،69: 14.16)
اور زمین اور پہاڑ اُٹھائے جائیں، گے پھر یکبارگی (لپک کر) ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گےO پس اُسی
وقت جس (قیامت) کا ہونا یقینی ہے وہ واقع ہو جائے گیO اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گاO
وَ نَرَاہُ قَرِیبًاO یَومَ تَکُونُ السَّمَآءُ کَالمُھلِO وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِھنِO(المعارج، 70:7.9)
اور وہ ہماری نظر میں قریب ہےO جس دِن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گاO اور پہاڑ رنگین اُون کے گالے کی طرح ہلکے ہوں گےO
إِذَا الشَّمسُ کُوِّرَتO وَ إِذَا النُّجُومُ انکَدَرَتO وَ إِذَا الجِبَالُ سُیِّرَتO(التکویر،:81:1.3)
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاO اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےO اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گےO
إِذَا السَّمَآءُ انفَطَرَتO وَ إِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَتO وَ إِذَا البِحَارُ فُجِّرَتO(الانفطار، 82:1.3)
جب (سب) آسمانی کرے پھٹ جائیں گےO اور سیارے گِر کر بھر جائیں گےO اور جب سمندر (اور دریا) اُبھر کر بہہ جائیں گےO
وَ الأَمرُ یَومَئِذٍ لِّلّٰہِO(الانفطار،82:19)
اور حکم فرمائی اُس دن اﷲ ہی کی ہو گیO
یَسئَلُ أَیَّاَن یَومُ القِیَامَۃِO فَإِذَا بَرِقَ البَصَرُO وَ خَسَفَ القَمَرُO وَ جُمِعَ الشَّمسُ وَ القَمَرُO یَقُولُ الإِنسَانُ یَومَئِذٍ أَینَ المَفَرُّO(القیامۃ،75:6.10)
وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دِن کب ہو گاO پھر جب (ربُّ العزت کی تجلیٔ قہری سے) آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گیO اور چاند بے نور ہو جائے گاO اور سورج اور چاند ایک سی حالت پر آ جائیں گےO اُس روز اِنسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ کر جاؤںO
إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌO فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَتO وَ إِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتO وَ إِذَا الجِبَالُ نُسِفَت O(المرسلات، 77:7.10)
بیشک تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (پورا) ہو کر رہے گاO پھر جب تارے بے نور ہو جائیں گےO اور جب آسمان پھٹ جائے گاO اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) اُڑتے پھریں گےO
وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَت أَبوَاباًO وَّ سُیِّرَتِ الجِبَالُ فَکَانَت سَرَاباًO(النباء،78:19.20)
اور آسمان کے طبقات پھاڑ دیئے جائیں گے تو (پھٹنے کے باعث گویا) وہ دروازے ہی دروازے ہو جائیں
گےO اور پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) اُڑا دیئے جائیں گے، سو وہ سراب (کی طرح کالعدم) ہو جائیں گےO
اَلقَارِعَۃُO مَا القَارِعَۃُO وَ مَآ أَدرٰکَ مَا القَارِعَۃُO یَومَ یَکُونُ النَّاسُ کَالفَرَاشِ المَبثُوثِO وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِھنِ المَنفُوشِO(القارعۃ۔ 101:1.5))
(زمین و آسمان کی ساری کائنات کو) کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑکO وہ (ہر شے) کو کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک کیا ہے؟O اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ (ہر شے کو) کھڑکھڑا دینے والے شدید جھٹکے اور کڑک سے کیا مُراد ہے؟O (اِس سے مُراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دِن سارے لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گےO اور پہاڑ رنگ برنگ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گےO
کَلاَّ إِذَا دُکَّتِ الأَرضُ دَکًّا دَکًّاO(الفجر،89:21)
یقیناً جب زمین پاش پاش کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گیO
وَ إِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتO(التکویر،81:11)
اور جب سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گاO
یَومَ نَطوی السَّمَآءَ۔ (الأنبیاء،21:104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
وَ الأَرضُ جَمِیعًا قَبضَتُہٗ یَومَ القِیَامَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطویاتٌ مبِیَمِینِہٖ۔(الزُمر،39:67)
اور قیامت کے دِن تمام زمین اُس کی مٹھی میں (ہو گی) اور آسمان (کاغذ کی طرح) لپٹے ہوئے اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کی تشریح و توضیح سرورِ کائنات ﷺ کی اَحادیثِ مبارکہ میں بھی پائی جاتی ہے:
-1 سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رحمت ﷺ نے فرمایا:
اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَومَ القِیَامَۃِ۔ (صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق،1:454)
روزِ قیامت چاند اور سورج اپنی روشنی کھو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔
مختلف شارِحینِ حدیث کے مطابق اِس حدیثِ مبارکہ میں” مُکَوَّرَانِ” کا لفظ اپنے اندر تین معانی رکھتا ہے:
-i سِتارے آپس میں ٹکرا کر ایک دُوسرے کے اُوپر جا چڑھیں گے۔
-ii اُن کی روشنی ختم ہو کر بُجھ جائے گی۔
-iii سورج اور چاند سمیت تمام اَجرامِ سماوی ’تجاذُبی اِنہدام‘ کا شکار ہو جائیں گے۔
-2 سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ نے بھی اِسی مفہوم میں ایک اور حدیثِ مبارکہ روایت کی ہے:
یَقبِضُ اللہُ الأَرضَ یَومَ القِیَامَۃِ وَ یَطوی السَّمَآءَ بِیَمِینِہِ، ثُمَّ یَقُولُ: (أَنَا المَلِکُ أَینَ مُلُوکُ الأَرضِ)؟
(صحیح البخاری،2:1098) (الصحیح لمسلم،2:370) (مسند احمد بن حنبل،2:374) (سنن الدارمی،2:233)
قیامت کے دن اﷲتعالیٰ زمین اور آسمان(کائنات کی تمام موجودات) کو لپیٹ لے گا اور اپنی قوّت سے اُنہیں باہم ٹکرا دے گا اور فرمائے گا: میں کائنات کا مالک ہوں، زمین کی بادشاہی (کا دعویٰ کرنے) والے کہاں ہیں؟
کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر
کائنات کے قیامت خیز اِنہدام کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور علومِ قرآنیہ کے مابین ناقابلِ تصوّر یگانگت اور مطابقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلکی طبیعیات (astro-physics) قیامت سے متعلقہ اُمور کو بالکل اُسی طرح واضح کرتی ہے جس طرح اُنہیں قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ سیاہ شگافوں یا ناقابلِ دید مُنہدم ستاروں کی تصدیق قرآنِ مجید نے بھی ناقابلِ دید گزر گاہوں کے طور پر کی ہے۔
’آئن سٹائن‘ کے نظریہ کے مطابق کشش محض ایک پابندِ جہات حقیقت ہے جو مادّے اور توانائی کی موجودگی میں گھِری ہوئی ہے، بالکل اِسی طرح جیسے ایک گدّا (mattress) بھاری بھرکم جسم کے بوجھ تلے دَب جاتا ہے۔ کسی مادّے کا مقامی اِرتکاز جتنا زیادہ ہو گا مکاں کا اِنحناء اُس کے آس پاس اُسی قدر زیادہ ہو گا۔ جب تھرمونیوکلیائی آگ کا اِیندھن ختم ہو جائے گا اور کشش اُسے اندرونی سمت مُنہدم کر دے گی تو اُس وقت کیا بیتے گا؟ وہ ایسی ہولناک قیامت ہو گی جس کا آج ہم تصوّر کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
ہمارے سورج کی جسامت کے ستارے اپنی موت سے قبل سُکڑ کر زمین جتنے قد کے ’سفید بونے‘ (white dwarf) بن جاتے ہیں جبکہ اُس سے بڑے ستاروں کو کشش بری طرح کچل کر ’نیوٹران‘ پر مشتمل ٹھوس گیند بنا دیتی ہے۔ اُس کے ایک چمچ بھر مِقدارِ مادّہ کا وزن ۔ ۔ ۔ جو 20میل قطر کے حامل ایٹمی مرکزوں کے جڑے ہونے کی حالت ہے ۔ ۔ ۔ کئی ارب ٹن ہوتا ہے۔ اُس کے بعد ’نیوٹران تارے‘ کے مرحلے میں اُس کی کثافت اِتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مکاں اُس کے گِرد سیاہ مکے کی طرح لپٹ جاتا ہے اور پھر روشنی سمیت کوئی بھی شے اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ ستارے کا ملبہ اپنے آپ کو خوب دباتے ہوئے یوں بھینچتا چلا جاتا ہے کہ اُس کی کثافت لا محدُود ہو جاتی ہے اور مکاں لا محدُود سطح تک اِنحناء (curvature) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اُس کا نتیجہ کائناتی موت کی صورت میں نکلتا ہے، جسے ’اِکائیت‘ (singularity) کہتے ہیں، اور یہاں عمومی اِضافیت، مکاں-زماں اور علمِ طبیعیات کے دُوسرے بہت سے قوانین ٹوٹ جاتے ہیں۔
قیامت کے روز اِن حالات کے تمام کائنات پر غالب آ جانے کا معاملہ قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے:
یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأنَآ أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُہٗ وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَO (الأنبیاء،21:104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے،
جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںO
فلکی طبیعیات کا عظیم سائنسدان ’جان ویلر‘ (John Wheeler) کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص آئن سٹائن کے ’نظریۂ عمومی اِضافیت‘ (General Theory of Relativity) کو سنجیدگی سے لے تو وہ دیکھے گا کہ کائنات کی آخری عام کششی تباہی ایک حقیقی اِمکان ہے جس کے وُقوع پذیر ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ستارے کی موت کے بعد پیدا ہونے والی فطرت کی اُس عجیب و غریب تخلیق کو ’سیاہ شگاف‘ کا نام پہلے پہل اُسی نے دیا۔ اِسی چیز کا ذِکر قرآنِ مجید ’ناقابلِ دید آسمان‘ کے طور پر کرتا ہے۔ جان ویلر کے مطابق کائنات میں جابجا موجود سیاہ شگاف آخری قیامت خیز تباہی (Big Crunch) کے سلسلے میں فقط ریہرسل ہے، جو اُس کے خیال میں اِختتامِ کائنات کے وقت تخلیق کی بے ثبات حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اُس کا پردہ چاک کر دے گی۔ قرآنِ مجید کے مطابق وہ آخری تباہی یومِ قیامت کی صورت میں برپا ہو گی۔
عظیم آخری تباہی(Big Crunch)اور نئی کائنات کا ظہور
’جان ویلر‘ (John Wheeler)کی تحقیقات کے مطابق اگر کائنات سیاہ شگاف کے متعلق طبیعیاتی قوانین کے مطابق ٹکرائی تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر سے معرضِ وُجود میں آ جائے۔ ’عظیم آخری تباہی‘ (Big Crunch) کائنات کے ایک نئے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کا باعث بن سکتی ہے، جس کا نتیجہ ایک نئی کائنات کے وُجود میں آنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ کائنات کی ایک شکل سے دُوسری میں تبدیلی کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جسے جان ویلر نے ’بہت اَعلیٰ مکاں‘ (Super Space) کا نام دیا ہے۔ اُس کے مطابق وہ ایک مطلق لا محدُود جہات کا حامل مکاں ہو گا، جس کا ہر نقطہ کائنات کی مکمل ترکیب اور جیومیٹری کا آئینہ دار ہو گا۔ ویلر پُر زور انداز سے کہتا ہے کہ ’سپرسپیس‘ شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ عمومی اِضافیت کے نظریئے پر مبنی ایک حقیقت ہے۔ جیسا کہ وہ ذرا سی مبہم لائن پر بگ بینگ کے نقطے سے بِگ کرنچ کا پیچھا کرتے ہوئے نظریۂ اِضافیت کے مطابق کائنات میں دخل اَنداز ہے۔
دُوسری کائنات کِس نقطے پر رُو پذیر ہو گی؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں پہلے سے موجود ہے، جو دو ٹوک انداز میں یہ کہتا ہے کہ ہاں دُوسری کائنات یقیناً پیدا ہو گی اور یہ اﷲ ربُّ العزّت کا وعدہ ہے، جس کا اِیفاء اُس نے اپنے اُوپر لازِم قرار دیا ہے۔ مُندرجہ ذیل پہلی آیتِ کریمہ اُوپر مذکورہ سائنسی تصوّر کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور ویلر کے اِکتشافات باقی دی گئی آیات کے نزول سے مطابقت رکھتے ہیں:
یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأ نَا أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُہٗ وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ O(الأنبیاء ،21:104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںO
یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُواللہِ الوَاحِدِ القَھَّارِO(إبراہیم،14:48)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہےO
أَ وَ لَیسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَھُم بَلٰی وَ ھُوَ الخَلاَّقُ العَلِیمُO(یٰسین،36:81)
کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ اِس پر قادِر نہیں کہ اُن جیسے لوگوں کو (قیامت کے دِن پھر) پیدا کر دے، یقیناً (وہ قادِر ہے) اور وُہی تو اصل بنانے والا سب کچھ جاننے والا ہےO
أَ وَ لَم یَرَوا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ قَادِرٌ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَھُم وَ جَعَلَ لَھُم أَجَلاً لاَّ رَیبَ فِیہِ فَأَبَی الظّٰلِمُونَ إِلاَّ کُفُورًاO(الأسراء،17:99)
کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اِس بات پر (بھی) قادِر ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مِثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اُس نے اُن کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے اِنکار کر دیا ہے، مگر (یہ) ناشکری ہےO
مذکورہ بالا قرآنی آیات کائنات کی ’چکر کھاتے ہوئے آخری کششی تباہی‘، ’اوّلین عدم‘ اور ’سیاہ شگاف‘ سے متعلقہ طبیعیات کے قوانین سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہیں، جو اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہے کہ نئی جیومیٹری کے تحت مختلف ماہیت کی نئی کائنات کا ظہور ممکن ہے۔
ویلر کہتا ہے کہ اِس قسم کی دوبارہ ظہور میں آنے والی کائنات اُس قادرِ مطلق کے اِرادے ہی سے اِنعقاد پذیر ہو سکتی ہے، جو کشش کو محو کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔نئی کائنات شاید ہماری موجودہ کائنات سے ہو بہو مشابہت نہ رکھتی ہو۔ اِس مظہر کی مزید تائید ’چکر دار کائنات کے نظریہ‘ (Oscillating Universe Theory) سے بھی ملتی ہے۔ قرآنِ حکیم اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتا ہے:
یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوا ِللّٰہِ الوَاحِدِ القَھَّارِO (اِبراہیم،14:48)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہےO
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے ایک حدیثِ مبارکہ یوں مروی ہے:
سَأَلتُ رَسُولَ اﷲِﷺ عَن قَولِہِ: (یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ) فَأَینَ یَکُونُ النَّاسُ یَومَئِذٍ یَا رَسُولَ اﷲِﷺ؟ فَقَالَ: عَلٰی الصِّرَاطِ۔ (الصحیح لمسلم،2:371) (جامع الترمذی،2:140) (جامع الترمذی،2:157) (سنن ابن ماجہ:326) (سنن الدارمی،2:336) (مسند احمد،6:35،101،134،218)
میں نے رسول اﷲﷺ سے اِس آیتِ کریمہ کا مفہوم دریافت کیا (جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:) (جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے) پھر اُس دِن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: "صراط پر”۔
کائنات کی دُوسری گیسی حالت (Gaseous state)
سائنسی اور قرآنی بیانات میں ایک اور مطابقت یہ ہے کہ کائنات اپنی عظیم تباہی (Big Crunch) کے بعد پھر سے ’دُخانی حالت‘ (gaseous state) میں تبدیل ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے:
فَارتَقِب یَومَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍO(الدُخان،44:10)
پس اُس دِن کا اِنتظار کرو جب آسمان سے ایک واضح دھُواں ظاہر ہو گاO
اِسی حقیقت کو سرورِ کائنات ﷺ نے یوں واضح کیا ہے:
إنّ السّاعۃَ لَا تَکُونُ حَتّٰی عَشَر آیَاتِ ۔ ۔ ۔ الدُّخَانُ ۔ ۔ ۔ وَ طُلُوعُ الشَّمسِ مِن مَّغرِبِھَا۔ ۔ ۔ (سنن ابنِ ماجہ:302) (مسند احمد بن حنبل،2:372) (مسند احمد بن حنبل،4:7)
قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک 10علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔دُخان اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(بھی اُنہی میں سے ہے)۔
سیدنا حذیفہ بن اُسید غفاریؓ حضور نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں:
إِنَّھَا لَن تَقُومَ حَتّٰی تَرَوا قَبلَھَا عَشرَ آیَاتٍ، فَذَکَرَ الدُّخَان۔ ۔ ۔ وَ طُلُوعَ الشَّمسِ مِن مَغرِبِھَا۔ (الصحیح لمسلم‘:2 393) (مشکوۃ المصابیح: 472)
قیامت اس وقت تک واقع نہیں ہو گی جب تک اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو- پھر حضورﷺ نے (مشرق سے مغرب تک محیط) دھوئیں کا ذکر فرمایا ۔ ۔ ۔ اور آگے( سورج کے الٹی سمت سے )مغرب سے طلوع ہونے کا بھی ذکر کیا۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی وارِد ہوئے ہیں:
یَملَأُ مَا بَینَ المَشرِقِ وَ المَغرِبِ، یَمکُثُ أَربَعِینَ یَومًا وَ لَیلَۃً۔
اُسی دھُوئیں سے مشرق و مغرب تمام اَطرافِ عالم بھر جائیں گے اور وہ مسلسل 40 دِن رات قائم رہے گا۔
بہرحال اِس بات کو سمجھنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو سکتی کہ تمام کہکشاؤں کے ٹکرا جانے پر جب کشش کی قوت اپنا اثر کھو دے گی تو کائنات کا مادّہ اپنی اوّلیں صورت میں بکھر جائے گا اور ہر سُو دھُواں ہی دھُواں ہو جائے گا۔ تمام اَجرامِ سماوی جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اُس دھماکے سے آگ اور دھُوئیں کا پیدا ہونا لابدّی امر ہے۔ اِس لئے اِسی حدیث میں "وَ أٰخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ” )اور اُس کی آخری علامت آگ ہو گی( کا بیان بھی ہے۔ جدید سائنس بھی آگ اور دھُوئیں کی اُس کیفیت کے پیدا ہونے کا اِعتراف کر چکی ہے۔ مزید یہ کہ سورج کے اُلٹی سمت )مغرب( سے طلوع ہونے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کشش (gravitation) جو تمام اَجرام کو اپنے اپنے مستقر اور مدار پر مقررہ سمت میں گردِش پذیر رکھتی ہے جب اُس میں تبدیلی واقع ہو جائے گی تو اُن کی حرکت کی سمتیں بھی متضاد اور متصادم ہو جائیں گی اور اُسی کے نتیجے میں بالآخر سب کچھ آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ (گویا زمین کی گردش اُلٹی ہو جائے گی جس سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا نظر آئے گا)۔
یہ قیامت کا بیان ہے، جو اِس مادّی کائنات کے اِختتام کی ایک ممکنہ صورت ہے، جسے جدید سائنس نے اپنے اَنداز میں مِن و عن تسلیم کر لیا ہے اور اُس کی قرآن و حدیث میں مذکور علامتوں کی توجیہ بھی پیش کر دی ہے۔ ایسا قوّتِ کشش کے زائل ہو جانے کی وجہ سے ہو گا، جس نے تمام ستاروں اور اَجرامِ فلکی کو اُن کے مداروں میں جکڑ رکھا ہے۔
جدید دَور کے ذرّاتی طبیعیات دان (particle physicists) یہ کہتے ہیں کہ انجام کے طور پر اَیٹموں کے نیوکلیائی اَجزاء تباہ ہو جائیں گے اور اُس کے نتیجے میں محض لیپٹون (lepton)، ہلکے اِلیکٹران (light electron)، پازیٹران (positron) اور کثافت سے عاری نیوٹران (massless neutron) باقی بچیں گے، جس کے نتیجے میں ’فوٹانز کے بادل‘ بڑی مقدار میں پیدا ہوں گے۔ وہ نئی کائنات شعاع ریزی سے بری طرح مغلوب ہو گی کیونکہ اُس کی توانائی کا بیشتر حصہ ایسے کثافت سے عاری ذرّات ہوں گے جو روشنی کی رَفتار سے متحرّک ہوں گے۔ جبکہ دُوسری طرف آج کی کائنات ایسے مادّے سے مغلوب ہے جس کی زیادہ تر توانائی کثیف ذرّات پر مشتمل ہے اور اُس کی کم ترین توانائی کی حالت ابھی باقی ہے۔
انجامِ کائنات ۔ ۔ ۔ عظیم سیاہ شگاف (Black Hole)
رِیڈرز ڈائجسٹ نومبر 1977ء میں شائع شدہ ’جان ایل وِلہم‘ (John L. Wilhelm) کے مضمون کا ایک اِقتباس جس کا اُوپر مذکورہ سیاق سے خاصا گہرا تعلق ہے ، نیچے دیا جا رہا ہے۔ اُسے نزولِ قرآن کے اُس تناظر میں پڑھنا چاہیئے جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء اور آخری تباہی سے متعلق ہے۔
ایکس ریز کے شدید قسم کے دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہریں جو آسمان پر واقع مجمع النّجوم ’دجاجہ‘ (Cygnus) میں سے ستاروں کی گیس سے بنی ہوئی کثیف ندیوں کی صورت میں تیزی سے نکل رہی ہیں، دُوربین کی مدد سے اُن کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ گیس کی یہ ندیاں ایک قابلِ دید چمکدار ستارے میں سے نکل کر دُوسرے پُراسرار ناقابلِ دید مقام کی طرف بھاگتی ہوئی جاتی دِکھائی دیتی ہیں۔ تمام تر شواہد اِنسانی دِماغ کے تراشیدہ اِس مُہیب ترین مفروضے کی بھرپور تائید کرتے دِکھائی دیتے ہیں کہ خلاء میں اُس مقام پر ایک ناقابلِ دید سیاہ شگاف موجود ہے جو مادّے (matter) کو ہڑپ کر جاتا ہے، مکاں (space) کو مُنحنی )یعنی ٹیڑھا( کر دیتا ہے اور وقت (time) کو لپیٹ دیتا ہے۔
سیاہ شگاف اِس قدر ناقابلِ یقین قوّتِ کشش رکھتے ہیں کہ ایٹموں کو لا محدُود کمیّت کی حد تک رَوندھتے ہوئے ہر قسم کے مادّے کو بلا لحاظ کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ سیاہ شگاف ایسے تباہ حال ستارے کا ملبہ ہوتا ہے جس کا اِیندھن جل جل کر ختم ہو چکا ہو۔ اُس ستارے کی جسامت کسی دَور میں اِتنی بڑی رہ چکی ہوتی ہے کہ اُس کی بے پناہ قوّتِ کشش اُسے تباہ کر کے گالف کی گیند کی جسامت جتنا کر دیتی ہے اور پھر وہ لاشئ ہو کر معدُوم ہو جاتا ہے۔
اپنی ناقابلِ یقین کثافت کی وجہ سے ایک تباہ شدہ ستارے کی قوّتِ کشش کا دائرہ اِس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ حصے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شے جو اُس کشش کی حدُود میں سے گزرتی ہے وہ ستارے کے بھنور میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھنس جاتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اُس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتی، یہی وجہ ہے کہ اُسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ سابقہ ستارہ خلاء میں ناقابلِ پیمائش پاتال بن جاتا ہے۔ یہ آسمانی بھوت ہیں اور اُنہیں سیاہ شگاف کہا جاتا ہے۔
آج کل بہت سے سائنسدان اِس نقطے پر سوچ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ہماری ملکی وے سمیت اکثر کہکشاؤں کے وسط میں ’جینیاتی سیاہ شگاف‘ گھن لگائے ہوئے ہوں جو ستاروں کو ہڑپ کر کے نِگل جاتے ہوں اور تمام ستارے اُن کے عظیم میدانِ تجاذُب کی وجہ سے اُنہی کے گرد گردِش میں مصروف ہوں۔ ایک اَندازے کے مطابق پوری کائنات کی شاید 90 فیصد کمیّت پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں گم ہو چکی ہے۔ پُر اسرار قواسرز جو خلاء کے دُور دراز گوشوں سے بے پناہ توانائی کے کڑھاؤ کا شور مچاتے ہیں، شاید وہ تمام کہکشاؤں کے دِلوں کو ہڑپ کرتے ہوئے عظیم سیاہ شگاف ہوں۔ ’ہاروَرڈسمتھ‘ کے فلکی طبیعیات کے مرکز پر موجود ایک سائنسدان ’ہربرٹ گرسکی‘ نے دِماغ کو چونکا کر رکھ دینے والا اِمکان ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ پوری کائنات خود ایک بہت بڑا سیاہ شگاف ہو۔
سیاہ شگاف کے بننے کے لئے دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جن میں سے ایک تو بہت زیادہ مِقدار میں مادّے کی موجودگی ہے اور دُوسرے اُس مادّے کا اِنتہائی قلیل جگہ پر سما جانا ہے۔ مطلوبہ مِقدارِ مادّہ بڑے بڑے ستارے مہیا کرتے ہیں۔
جب ستارے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اُن کا ’تھرمونیوکلیائی اِیندھن‘ اپنے اِختتام کو جا پہنچتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک اپنی بیرونی تہ کو اَندرونی کشش کے مقابلے میں برقرار نہیں رکھ پاتے ۔ نتیجۃً یہ بیرونی تہیں اَیٹموں کو لپیٹتے ہوئے اور سِتاروں کو سُکیڑتے ہوئے اَندر کی سمت گِرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ایک چھوٹا کم کششی طاقت کا حامل ستارہ جو اِس قابل نہیں ہوتا کہ اِلیکٹرانوں کو باہم قریب قریب کر کے بے پناہ کثافت حاصل کر لے، اَیسا خاکستر ستارہ ’سفید بونا‘ (white dwarf) کہلاتا ہے، جس کے تمام اِلیکٹران اُس کے پروٹانوں کے ساتھ مل کر نیوٹرانوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یا پھر اَیسا ستارہ بن جاتا ہے جو آخری تباہی تک لا محدُود کثافت کے حامل نقطہ تک آن پہنچتا ہے۔ اُس آخری تحت الثریٰ کی رفتار روشنی کی سمتی رفتار (velocity) کو جا چھُوتی ہے اور اَیسا ایک سیکنڈ کے معمولی حصے میں ہو سکتا ہے۔ ستارہ غائب ہو جاتا ہے، اَدبی اَلفاظ میں پلک جھپک جاتا ہے اور ایک ’سیاہ شگاف‘ کو جنم دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی اِس آیتِ مبارکہ کو اِس سائنسی وضاحت کے بعد پھر سے پڑھنا چاہیئے:
وَ لِلّٰہِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَآ أَمرُ السَّاعَۃِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو ھُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌO(النحل،16:77)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک اﷲ ہر چیز پر بڑا قادِر ہےO
سیاہ شگاف کی سائنس اور ذرّاتی سائنس کے مطابق طبیعیاتی قوانین رُو سے ہماری کائنات جب تک عام اِرتقائی عمل کے تحت قائم و دائم رہتی ہے، اُس کی قیامت خیز تباہی کا باعث مندرجہ ذیل اَسباب میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے:
-1 سیاہ شگاف بن جانا
-2 تصادُم کے نتیجے میں مادّے اور ضدِ مادّہ کا فنا ہو جانا
-3 پروٹان کا خاتمہ
-4 اَیٹموں کے مرکزی اَجزاء کی تباہی، جب وہ زیادہ دیر کے لئے قائم نہیں رہ سکیں گے۔
تاہم پروٹان بھی ہمیشہ زِندہ نہیں رہ سکتے، اُن کی زِندگی ہر شے کے معدُوم ہو جانے کے 1032سال بعد تک ہی رہے گی۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اِس بات کا پابند نہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے کے لئے 1032سال تک پروٹانوں کی تباہی کا اِنتظار کرے۔ کائنات کے خاتمے یا قیامت کا علم صرف اﷲ ربُّ العزّت ہی کے پاس ہے۔ قیامت کی ساعت اﷲ نے طے کر رکھی ہے اور وہ اﷲ کی مرضی سے کسی بھی لمحے اور کسی بھی طریقے سے وُقوع پذیر ہو سکتی ہے اور اﷲ اُسے اُس کے مناسب وقت پر ہی آشکار کرے گا۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking) کہتا ہے کہ: "سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کائنات کو تباہی اور پھیلاؤ (اَفزائش) دونوں کو تقسیم کرنے والی لائن کے اِنتہائی قریب واقع ہونا چاہیئے”۔
’سیاہ شگاف‘ یا قرآنِ مجید کے اَلفاظ میں ’ناقابلِ دید آسمان‘ سے متعلقہ سائنس ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ پوری کائنات بالآخر سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جائے گی اور اُس کے بعد معدُوم ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جس طرح کائنات کی اِبتدائی تخلیق عمل میں آئی تھی اُسی طرح اِس کائنات کی تباہی کے بعد ایک نئی مابعدُالطّبیعیاتی دُنیا میں نوعِ اِنسانی کا انجام بھی یقینی ہے، جو آخرت میں اُس کی دوبارہ زِندگی کی صورت میں رُو نما ہو گا۔ وہ ایک اَبدی اور حقیقی دُنیا ہے جو زیادہ آرام دِہ، بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور وُہی نسلِ اِنسانی کا مستقل گھر ہے، جہاں سے ابوالبشر سیدنا آدمؑ اﷲ ربّ العزت کی طرف سے خلافتِ ارضی کا تحفہ لے کر اِس عالم رنگ و بُو میں تشریف لائے تھے۔ وہاں مالکِ ارض و سماء کی طرف سے نوعِ اِنسانی کے اَچھے لوگوں کے لئے خوش آمدید کا تحفہ منتظر ہے۔ اِس بات سے قرآنِ حکیم نے ہی اِنسانیت کو آگاہ کیا، جبکہ اِنسانی اِستعداد پر منحصر سائنس طبیعی کائنات کی حدُود سے ماوراء نہیں جا سکتی اور ہمیں یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ آخرت کی مُستقل اور زیادہ بہتر زِندگی تمام بنی نوعِ اِنسان کے لئے منطقی انجام اور مستقل ٹھکانہ ہے۔ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید اُس منظر کی تصدیق کرتا ہے جس کا نوعِ اِنسانی کے لئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اَب یہ اِنسان کا فرض ہے کہ وہ قرآنی اَحکامات کی تعمیل اور اُس کی تعلیمات پر عمل کرے، جس سے نہ صرف اُس کی دُنیوی زِندگی سنورے بلکہ آخرت کی حقیقی زِندگی میں بھی اُس کا مقدّر بھلا ہو۔
ذرا سوچیں کہ کچھ ہی عرصے بعد کائنات اُلٹی سمت بھاگ رہی ہو گی۔ تمام کائنات اور اُس کا مادّہ آج سے 65اَرب سال بعد اُسی لمحے پر جا پہنچے گا جہاں سے اِس کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تھی۔ قرآنِ حکیم اِس بات کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’کائنات کا کششی اِنہدام‘ قیامت کی ساعت میں واقع ہو گا، مگر پلک جھپکنے میں یا اُس سے بھی کم مدّت میں اﷲ ربُّ العزّت اِس کائنات کو یوں لپیٹ کر رکھ دے گا کہ جیسے ٹیپ رِیکارڈر کیسٹ کے فیتے کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔
پھر اُس کے بعد اﷲ تعالیٰ عملِ تخلیق کو اُسی طرح دُہرائے گا جیسے اُس نے پہلی بار سارا عالم تخلیق کیا تھا۔ اﷲ ربُّ العزّت نے خالق، بدیع اور اَحسنُ الخالقین کی صفات کے ساتھ خود یہ وعدہ کیا ہے اور وہ ضرور اُسے پورا کرے گا۔ یہ سب کچھ اُس کے پاک کلام ’قرآنِ مجید‘ میں سچ سچ لکھا ہوا ہے۔
آیئے چند آیات ملاحظہ کریں:
وَ لِلّٰہِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَا أَمرُ السَّاعَۃِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو ھُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌO(النحل،16:77)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک اﷲ ہر چیز پر قادِر ہےO
یَومَ نَطوی السَّمآء۔ (الأنبیاء،21:104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
یَسئَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرسٰھَا قُل إِنَّمَا عِلمُھَا عِندَ رَبَِیج لاَ یُجَلِّیھَا لِوَقتِھَآ إِلاَّ ھُوَ ثَقُلَت فِی السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ لاَ تَأتِیکُم إِلاَّ بَغتَۃً۔ (الأعراف،7:187)
یہ کفار آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اُس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اُس کا علم تو صرف میرے ربّ کے پاس ہے، اُسے اپنے (مقرّرہ) وقت پر اُس (اﷲ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آ جائے گی۔
قرآنِ مجید عالمِ اِنسانیت کی توجہ کائنات کے لپیٹے جانے اور دوبارہ معرضِ وُجود میں آنے کی طرف دِلا رہا ہے، جب یہ زمین کسی دُوسری زمین کے ساتھ تبدیل کر دی جائے گی اور کائنات بھی اُس وقت تبدیل ہو چکی ہو گی۔
تمام کائنات کی اُس اِجتماعی قیامت کے آنے میں کم و بیش 65ارب سال باقی ہیں، تاہم ہماری قیامت تو اُسی دن واقع ہو جائے گی جس روز ہماری زمین تباہ ہو جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ اربوں نوری سال کی وُ سعت میں بکھری کائنات کے کسی دُور دراز گوشے سے کوئی بھٹکتا ہوا سیارہ ہماری طرف آن نکلے اور زمین سے ٹکرا کر قیامت برپا کر دے۔ یوں زمین پر آنے والی قیامت کے بارے میں حتمی پیشین گوئی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ہمارے مشاہدے میں چند ایسی صورتیں بھی آئی ہیں جن میں زمین کی تباہی کائنات کی اِجتماعی قیامت سے بہت پہلے واقع ہو جائے گی۔
سورج کی موت اور اِنعقادِ قیامت
سورج سمیت تمام ستاروں میں موجود مادّہ کی مقدار کا بڑا حصہ ہائیڈروجن (Hydrogen) پر مشتمل ہے۔ ہائیڈروجن کے مسلسل خودکار ایٹمی دھماکوں سے روشنی اور حرارت کا وسیع تر اِخراج ہوتا ہے جس سے سورج چمکتا نظر آتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کا یہ عمل ہائیڈروجن کو ہیلئم میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اِتنا اِیندھن موجود ہے کہ وہ 4,50,00,00,000سال مزید روشن رہ سکے۔
جب ہمارے سورج کے مرکز میں واقع دس فیصد ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے گزر کر ہیلئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز اپنے بے پناہ دباؤ کے تحت مزید سُکڑے گا اور اُس کا درجہ حرارت بے پناہ حد تک بڑھ جائے گا۔ ایسے میں ہیلئم بھی جلنا شروع کر دے گی جس سے کاربن پیدا ہو کر سورج کے مرکز میں جمع ہونے لگے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل سورج میں شدید حرارت پیدا کر دے گا جس سے زوردار دھماکوں کے ساتھ سورج کی بیرونی سطح پھول جائے گی اور اُس کے بعد اُس پھولی ہوئی سطح کا ٹمپریچر بھی نسبتاً کم ہو جائے گا۔
کسی بھی ستارے کے پھُول کر اپنی اصل جسامت سے کئی گناہ بڑھ جانے کو فلکیاتی سائنس کی اِصطلاح میں ’سرخ ضخّام‘ (red giant) کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارا سورج جب red giant میں تبدیل ہو گا تو وہ پھُول کر نہ صرف عطارُد بلکہ زُہرہ کے مدار تک آ پہنچے گا۔ جس سے لامحالہ دونوں قریبی سیارے سورج میں گِر کر اُس کی کمیّت کا حصہ بن جائیں گے۔ زمین زیادہ فاصلے پر ہونے کی بنا پر سورج میں گرنے سے تو بچ جائے گی مگر سورج کا پھُول کر زمین سے اِس قدر قریب تک چلے آنا زمین کے درجۂ حرارت کو بے اِنتہا بڑھا دے گا، جس سے کرۂ ارض پر واقع کروڑوں اربوں اَقسام کی اَنواعِ حیات جُھلس کر تباہ ہو جائیں گی اور ہر سُو قیامت چھا جائے گی۔
سورج کے پُھول کر زمین سے اِس قدر قریب چلے آنے سے زمین پر قیامت برپا ہونے کے ضمن میں تاجدارِ کائنات ﷺ سے بہت سی اَحادیث مروی ہیں۔ نبیٔ آخرُالزّماںﷺ نے فرمایا:
تُدنَی الشَّمسُ یَومَ القِیَامَۃِ مِنَ الخَلقِ۔ (الصحیح لمسلم ،2:384) (جامع الترمذی،2:64) (مسند احمد بن حنبل،4:157) (مسند احمد بن حنبل،5:254)
قیامت کے روز سورج مخلوق سے اِنتہائی قریب آن پہنچے گا۔
فلکی طبیعیات (astrophysics)کی قرآنی آیات کے ساتھ کافی گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دُنیا بھر کے سائنسدانوں کو یہ دَعوت دی جاتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا سائنسی نکتۂ نظر سے مطالعہ کریں اور اِن آیاتِ کریمہ پر بطورِ خاص غور و فکر کریں جو اُنہیں یقیناً حیران کر دیں گی اور بالآخر وہ اِس حتمی سچائی یعنی اِسلام کے پیغام کی طرف آ جائیں گے۔
حصہ چہارُم
اِسلام اور اِنسانی زِندگی
باب اوّل
اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء
جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کارفرما ہیں اُسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ اِنسان کے "اَحسن تقویم” کی شان کے ساتھ منصہ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اُس کی زندگی ایک اِرتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء (chemical evolution) کا دَور ہے۔ جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دِلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں جبکہ قرآن اِنہیں چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔
کیمیائی اِرتقاء کے سات مراحل
قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم و بیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:
-1 تراب (inorganic matter)
-2 ماء (water)
-3 طین (clay)
-4 طین لازب (adsorbable clay)
-5 صلصال من حماء مسنون
(old physically / chemically altered mud)
-6 صلصال کالفخار (dried / highly purified clay)
-7 سلالہ من طین (extract of purified clay)
قرآنِ مجید مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذِکر مختلف مقامات پر یوں کرتا ہے:
1- تراب (Inorganic matter)
اﷲ ربّ العزت اِنسان کے اوّلیں جوہر کو غیر نامی مادّے سے تخلیق کیا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ۔ (المومن، 40:67)
وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی (یعنی غیرنامی مادّے) سے بنایا۔
اِس آیتِ کریمہ میں آگے حیاتیاتی اِرتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذِکر کیا گیا ہے۔ مثلاً "ثُمَّ مِن نُّطفَۃٍ ثُمَّ مِن عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخرِجُکُم طِفلاً” لیکن قابل ِتوجہ پہلو یہ بھی ہے کہ اِنسانی زندگی کے اِن اِرتقائی مرحلوں کا ذِکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربُّ العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے پہلی آیت کے آخری اَلفاظ یہ ہیں:
وَ أُمِرتُ أَن أُسلِمَ لِرَبِّ العَالَمِینَO(المومن، 40:66)
اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اُس کے سامنے گردن جھکاؤں جو سارے عوالم اور اُن کے مظاہرِ حیات کو درجہ بدرجہ مرحلہ وار کمال تک پہنچانے والا ہےO
یہاں اﷲ ربّ العزت نے اپنی شانِ ربُّ العالمین کے ذِکر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر اِنسانی زندگی کے اِرتقاء کا ذِکر کر دیا گیا ہے ،جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآنِ مجید باری تعالیٰ کے ربُّ العالمین ہونے کو اِنسانی زندگی کے نظامِ ارتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، کہ اے نسلِ بنی آدم! ذرا اپنی زندگی کے اِرتقاء کے مختلف اَدوار و مراحل پر غور کرو کہ تم کس طرح مرحلہ وار اپنی تکمیل کی طرف لے جائے گئے۔ کس طرح تمہیں ایک حالت سے دُوسری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بالآخر "اَحسن تقویم” کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ "ربُّ العالمین” کی پرورِش کا مظہر نہیں ہے جس نے تمہیں بجائے خود ایک عالم بنا دیا ہے!
2- ماء (Water)
یوں تو ہر جاندار کی تخلیق میں پانی ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے، تاہم اﷲ تعالیٰ نے اِنسان کی تخلیق میں بطورِ خاص پانی کا ذِکر کیا ہے۔ اِرشادِ ربّ العالمین ہے:
وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَآءِ بَشَراً۔ (الفرقان،25:54)
اور وُہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔
اِس آیتِ کریمہ میں بھی تخلیقِ اِنسانی کے مرحلے کے ذِکر کے بعد باری تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بیان ہے:
وَ کَانَ رَبُّکَ قَدیراً۔ (الفرقان،25:54)
اور تمہارا رب قدرت والا ہے۔
گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کا یہ سلسلہ اللہ ربُّ العزّت کے نظامِ ربوبیت کا مظہر ہے۔
اِنسان کے علاوہ کرۂ ارض پر بسنے والی لاکھوں کروڑوں مخلوقات کی اوّلیں تخلیق میں بھی پانی کی وُہی اہمیت ہے جتنی اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں۔ اِس سلسلے میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا:
وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیٍٔ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَO
(الانبیاء، 21:30)
اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز کی نمود پانی سے کی۔ تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتےO؟
یہ آیتِ کریمہ حیاتِ اِنسانی یا حیاتِ اَرضی کے اِرتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لئے دعوتِ فکر بھی ہے اور دعوتِ ایمانی بھی۔
3- طین (Clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں ’تراب‘ اور ’مائ‘ بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں عناصر کے مکس ہو جانے پر ’طین‘ کو وُجود ملا۔ ’طین‘ کا ذِکر اﷲ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں کیا ہے:
ھُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن طِینٍ۔
(الانعام،:26)
(اﷲ) وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا، (یعنی کرۂ ارضی پر حیاتِ اِنسانی کی کیمیائی اِبتدا اس سے کی)۔
یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ مترجمینِ قرآن نے بالعموم "تُرَاب” اور "طِین” دونوں کا معنی مٹی کیا ہے، جس سے ایک مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا یہ دو الگ مرحلے ہیں یا ایک ہی مرحلے کے دو مختلف نام؟ اِس لئے ہم نے دونوں کے اِمتیاز کو برقرار رکھنے کے لئے طِین کا معنی ’مٹی کا گارا‘ کیا ہے۔ تُرَاب اصل میں خشک مٹی کو کہتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی ؒ فرماتے ہیں: التُّرابُ الأرض نفسہا (تراب سے مراد فی نفسہٖ زمین ہے) جبکہ طِین اُس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ جیسا کہ مذکور ہے:
الطین: التراب والماء المختلط۔ (المفردات:312)
مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اُسے "طین” کہتے ہیں۔
اِسی طرح کہا گیا ہے:
الطین: التراب الذی یجبل بالماء۔ (المنجد:496)
"طین” سے مراد وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ (اِسی حالت کو گارا کہتے ہیں)۔
اِس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہو جاتی ہے:
مٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گارا
4- طینِ لازِب (Adsorbable clay)
’طین‘ کے بعد ’طین لازِب‘ کا مرحلہ آیا، جسے اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:
إِنَّا خَلَقنَاھُم مِّن طِینٍ لَّازِبٍO(الصافات،:1137)
بیشک ہم نے اُنہیں چپکتے گارے سے بنایاO
’طینِ لازب‘ طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ لغتِ عرب میں ہے:
إذا زال عنہ (الطی)ن قوۃُ المآءِ فھو طینٌ لازبٌ۔
جب گارے سے پانی کی سیلانیت زائل ہو جائے تو اُسے ’طینِ لازِب‘ کہتے ہیں۔
یہ وہ حالت ہے جب گارا قدرے سخت ہو کر چپکنے لگتا ہے۔
5- صلصال من حماء مسنون
(Old physically / chemically altered mud)
مٹی اور پانی سے مل کر تشکیل پانے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس میں بو پیدا ہو گئی۔ اُس بودار مادّے کو اﷲ ربّ العزت نے ’صلصال من حماء مسنون‘ کا نام دیا۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍO(الحجر، 15:26)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی(کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دُھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھاO
اِس آیتِ کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کے کیمیائی اِرتقاء میں یہ مرحلہ ’طینِ لازب‘ کے بعد آتا ہے۔ یہاں ’صلصال‘ (بجتی مٹی) کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے جس کی اصل ’صلل‘ ہے ۔ اِ مام راغب اِصفہانی ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:
تردّد الصوت من الشیٔ الیابس، سمّی الطین الجافّ صلصالًا۔ (المفردات 2: 74)
خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردّد یعنی کھنکناہٹ۔ اسی لئے خشک مٹی کو ’صلصال‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔
لغتِ عرب میں ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے:
الصلصال: الطین الیابس الذی یصل من یبسہ أی یصوت۔ (المنجد46:4)
’صلصال‘ سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی کی وجہ سے بجتی ہے یعنی آواز دیتی ہے۔
’صلصال‘ کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے پہلے نہیں۔ کیونکہ عام خشک مٹی، جسے تُرَاب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لفظِ صلصال اِس اِعتبار سے تراب سے مختلف مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ لہٰذا صلصال کا مرحلہ "طینِ لازب” یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ جب طینِ لازِب (چپکنے والا گارا) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خشک ہوتا گیا تو اُس خشکی سے اُس میں بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ یہ تو طبیعی تبدیلی (physical change) تھی مگر اِس کے علاوہ اُس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی تبدیلیاں بھی ناگزیر تھیں جن میں اُس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا۔ اِن دونوں چیزوں کی تصدیق اِسی آیت کے اگلے اَلفاظ "مِن حَمَإٍ مَّسنُونٍ” سے ہو جاتی ہے۔
"حَمٰی” حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ تپنے، کھولنے اور جلنے وغیرہ کے معنوں میں کثرت سے اِستعمال ہوا ہے۔ اِرشاداتِ ربانی ملاحظہ ہوں:
تَصلٰی نَاراً حَامِیَۃًO(الغاشیہ، 88:4)
دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گےO
یَومَ یُحمٰی عَلَیھَا فِی نَارِ جَھَنَّمَ۔ (التوبہ،59:3)
جس دِن اُس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی۔
لاَ یَذُوقُونَ فِیھَا بَرداً وَ لاَ شَرَاباًO إِلَّا حَمِیماً۔ (النباء، 78:24.25)
وہ اُس میں (کسی قسم کی) ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کاO سوائے کھولتے ہوئے گرم پانی کے۔
الغرض "حَمٰی” میں اُس سیاہ گارے کا ذِکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرارت کے باعث وُجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔
"مَسنُون” سے مراد متغیر اور بدبو دار ہے۔ یہ "سنّ” سے مشتق ہے جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے اور صیقل کرنے کے بھی ہیں، مگر یہاں اِس سے مراد متغیر ہو جانا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی شئے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ إحماء (جلانے اور ساڑنے) کا لازمی نتیجہ ہے جس کا ذِکر اُوپر ہو چکا ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے:
فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّہ۔(البقرہ،:2:259)
پس (اَب) تو اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھ، (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔
جب گارے "طینِ لازب” پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کئے تو اُس کا رنگ بھی متغیر ہو کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اَثر سے اُس میں بو بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر "صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ” میں کیا جا رہا ہے۔
کسی شئے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے، اِس کا جواب بڑا واضح ہے کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کثافتوں کے سڑنے کا عمل یا اُس کا اثر باقی رہتا ہے اور جب کثافت ختم ہو جاتی ہے تو بدبو بھی معدُوم ہو جاتی ہے۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:
صَلصَالٍ مِّن حَمآء مَّسنُونٍO(الحجر، 15:26)
سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو جانے والا گاراO
گویا لفظِ "صلصال” واضح کر رہا ہے کہ اِس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اُس کی کثافت بھی کافی حد تک معدُوم ہو چکی تھی۔
6- صلصال کالفخار(Dried / highly purified clay)
اِنسان کے کیمیائی اِرتقاء میں چھٹا مرحلہ صَلصَالٌ کَالفَخَّار ہے، جس کی نسبت اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِO(الرحمن،55:16)
اُس نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیاO
جب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا۔ اُس کیفیت کو "کَالفَخَّار” سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس تشبیہ میں دو اِشارے ہیں:
(الف) ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔
(ب) کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آ جانا۔
لفظِ "فَخَّارٌ” کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنی مباہات اور اِظہارِ فضیلت کے ہیں۔ یہ فَاخِر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ "فَخَّار” عام طور پر گھڑے کو بھی کہتے ہیں اور مترجمین و مفسرین نے بالعموم یہاں یہی معنی مراد لئے ہیں۔ ٹھیکرا اور گھڑا چونکہ اچھی طرح پک چکا ہوتا ہے اور خوب بجتا اور آوازیں دیتا ہے، گویا اپنی آواز اور گونج سے اپنے پکنے، خشک اور پختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اِس لئے اُسے فخر کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرتی ہے۔
اِمام راغب اصفہانی اِس بارے میں لکھتے ہیں:
یعبّر عن کل نفیس بالفاخر، یقال ثوب فاخرۃ وناقۃ فخور۔ (المفردات:374)
ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں۔ اِس لئے نفیس کپڑے کو ’ثوبِ فاخر‘ اور عمدہ اُونٹنی کو ’ناقۂ فخور‘ کہا جاتا ہے۔
اور فَخَّار اِسی سے مبالغہ کا صیغہ ہے جو کثرتِ نفاست اور نہایت عمدگی پر دلالت کرتا ہے۔ صاحبُ المحیط بیان کرتے ہیں:
الفاخِر: إسم فاعلٍ و الجید من کل شیٔ۔ (القاموس المحیط،2:112)
"الفاخِر” اسمِ فاعل ہے اور ہر شئے کا عمدہ (حصہ) ہے۔
فَخَّار میں عمدگی اور نفاست میں مزید اِضافہ مراد ہے۔ اِس معنی کی رُو سے اِظہارِ شرف کی بجائے اصلِ شرف کی طرف اِشارہ ہے۔ دونوں معانی میں ہرگز کوئی تخالف اور تعارُض نہیں بلکہ اِن میں شاندار مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ باری تعالیٰ تخلیقِ اِنسانی کے سلسلۂ اِرتقاء کے ضمن میں اِس مرحلے پر یہ واضح فرما رہے ہیں کہ وہ مٹی اور گارا جو بشریت کی اصل تھا۔ اِس قدر تپایا اور جلایا گیا کہ وہ خشک ہو کر پکتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ مٹی، پانی اور کثافتوں سے پاک صاف ہو کر نفاست اور عمدگی کی حالت کو بھی پا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ "صلصال کالفخّار” کے مرحلے تک پہنچی تو ٹھیکرے کی طرح خشک ہو چکی تھی اور کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اِختیار کر چکی تھی۔ گویا اَب ایسا پاک، صاف، نفیس، عمدہ اور لطیف مادّہ تیار ہو چکا ہے کہ اُسے اَشرفُ المخلوقات کی بشریت کا خمیر بنایا جا سکے۔ اِنسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ جن کی خلقت ہی آگ سے ہوئی مگر اِنسان کی خلقت میں "صلصال” کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لئے آگ کو محض اِستعمال کیا گیا۔ اُسے خلقتِ اِنسانی کا مادّہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:
خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِO وَ خَلَقَ الجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍO(الرحمن،55:14.15)
اُسی نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیاO اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیاO
اِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا:
وَ الجَانَّ خَلَقنَاہُ مِن قَبلُ مِن نَّارِ السَّمُومٍO(الحجر،15:27)
اور اُس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دھواں نہیں تھاO
اِس لئے خلقتِ انسانی کے مراحل میں آگ کو ایک حد تک دخل ضرور ہے مگر وہ جنات کی طرح اِنسان کا مادّۂ تخلیق نہیں۔
7۔ سلالہ من طین (Extract of purified clay)
اِنسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں اِرشادِ ایزدی ہے:
وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِنَ سُلٰلَۃٍ مِن طِینٍO(المؤمنون،23:12)
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا) کے خلاصہ سے فرمائیO
اِس آیتِ کریمہ میں گارے کے اس مصفیٰ اور خالص نچوڑ کی طرف اِشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے۔ یہاں اِنسانی زندگی کا کیمیائی اِرتقاء "طینِ لازب” کے تزکیہ و تصفیہ (process of purification) کا بیان ہے۔ سُلٰلَۃٌ، سَلُّ یُسَلّ سے مشتق ہے، جس کے معنی میں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا شامل ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی ؒ لکھتے ہیں کہ سُلٰلَۃٍ مِّن طِینٍ سے مراد الصَّفوُا الَّذِی یُسَلُّ مِنَ الأَرض ہے۔ یعنی مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو۔ الغرض سُلٰلَۃ کا کامل مفہوم اُس وقت وُجود میں آتا ہے جب کسی چیز کو اچھی طرح صاف کیا جائے، اُس کی کثافتوں اور میلے پن کو ختم کیا جائے اور اُس کے جوہر کو مصفّٰی اور مزکّٰی حالت میں نکالا جائے۔ گویا سُلٰ۔لَۃ کا لفظ کسی چیز کی اُس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔
تخلیقِ آدمؑ اور تشکیلِ بشریت
کرۂ ارض پر تخلیقِ انسانی کے آغاز کے لئے خمیرِ بشریت اپنے کیمیائی اِرتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لئے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اِس لائق ہوا کہ اُس سے حضرتِ اِنسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اُسے خلافت ونیابتِ الٰہیہ کے عالیشان منصب سے سرفراز کیا جائے! اُس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ضرور ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اِن اِرتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذِکر کیا ہے اُسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحبِ علم اِن جزئیات و تفصیلات کے بیان میں اِختلاف کر سکتا ہے۔ جو کچھ مطالعۂ قرآن سے ہم پر منکشف ہوا ہم نے بلا تأمل عرض کر دیا ہے۔ البتہ اِس قدر حقیقت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں مختلف اَلفاظ و اِصطلاحات کے اِستعمال سے کیمیائی اِرتقاء کے تصوّر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔
جب ارضی خمیرِ بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو چکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اُس سے باری تعالیٰ نے پہلے اِنسان کی تخلیق ابوالبشر سیدنا آدمؑ کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے اِرشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکرِ بشریت اِس طرح تشکیل دُوں گا۔ یہ تفصیلات قرآنِ مجید میں سورۃُالبقرہ،2:30.34، سورۃُالحجر، 15:26.35، سورۃُالاعراف، 7:11.16 اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔
فرشتوں کا اِس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکرِ بشریت زمین میں خونریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اِسی طرح اِبلیس کا اِنکارِ سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدمؑ کی بشریت اور صَلصَالٌ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ کا ذِکر کرنا وغیرہ یہ سب اُمور اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اُن کی نظر اِنسان کی بشری تشکیل کے اِبتدائی اور دورانی مراحل پر تھی اور ایسا خیال وہ اُن اَجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے جن کا اِستعمال کسی نہ کسی شکل میں اُس پیکرِ خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی اَشیاء کی طرف دھیان کئے ہوئے تھے، اُن کی نظر مٹی کی اُس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزکّٰی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ ’سُلٰلَۃٌ مِّن طِینٍ‘ سے تعبیر فرما رہا ہے۔ مٹی کی یہ جوہری حالت (سُلٰلَہ) کیمیائی تغیرات سے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اِس قابل ہو چکی تھی کہ اُس میں روحِ اِلٰہیہ پھونکی جاتی اور نفخِ رُوح کے ذریعے اُس کے پیکر کو فیوضاتِ اِلٰہیہ کے اَخذو قبول اور اَنوار وتجلیاتِ ربانی کے انجذاب کے قابل بنا دیا جاتا۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:
فَإِذَا سَوَّیتُہٗ وَ نَفَختُ فِیہِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَہٗ سَاجِدینَO(الحجر،15:29)
پھر جب میں اُس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درُست حالت میں لا چُکوں اور اُس پیکرِ (بشری) کے باطن میں اپنی (نورانی) رُوح پھونک دُوں تو تم اُس کے لئے سجدے میں گر پڑناO
چنانچہ بشریتِ اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اُسے نفخِ رُوح کے ذریعے عَلَّمَ آدَمَ الأَسمآء کُلَّھَا (اﷲ نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے) کا مِصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائک ہوا۔
بشریتِ محمدی ﷺ کی جوہری حالت
اِمام قسطلانی ؒ ’المواھب اللدنیہ‘ میں سیدنا کعبُ الاحبارؓ سے رِوایت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بشریتِ محمدی ﷺ کو تخلیق فرمانا چاہا تو جبریلِ امینؑ کو اِرشاد فرمایا کہ وہ دُنیا کے دِل اور سب سے اعلیٰ مقام کی مٹی لے آئے تاکہ اُسے منوّر کیا جائے۔
فھب جبریل فی ملائکۃ الفردوس و ملائکۃ الرفیع الأعلیٰ، فقبض قبضۃ رسول اﷲ ﷺ من موضع قبرہ الشریف، و ھی بیضآء منیرۃ، فجنّت بمآء التسنیم فی معین أنھار الجنۃ حتی صارت کالدرّۃ البیضآء لھا شعاع عظیم۔ (المواھب اللدنیہ،1:8)
پس جبرئیلؑ مقامِ فردوس اور رفیعِ اعلیٰ کے فرشتوں کے ساتھ (کرۂ ارضی پر) اُترے اور حضورﷺ کے مزارِ اَقدس کی جگہ سے رسول اللہﷺ کی بشریتِ مطہرہ کے لئے مٹی حاصل کی۔ وہ سفید رنگ کی چمکدار مٹی تھی۔ پھر اُسے جنت کی رواں نہروں کے صاف اور اُجلے پانی سے گوندھا گیا اور اُسے اِس قدر صاف کیا گیا کہ وہ سفید موتی کی طرح چمکدار ہو گئی اور اُس میں سے نور کی عظیم کرنیں پھوٹنے لگیں۔
اُس کے بعد ملائکہ نے اُسے لے کر عرشِ الٰہی اور کرسی وغیرہ کا طواف کیا۔ بالآخر تمام ملائکہ اور جمیع مخلوقاتِ عالم کو حضورﷺ اور آپ کی عظمت کی پہچان ہو گئی۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے اِس ضمن میں اِس قدر مختلف منقول ہے کہ آپ کے لئے خاکِ مبارک سرزمینِ مکہ کے مقامِ کعبہ سے حاصل کی گئی۔ صاحبِ عوارفُ المعارف نے بھی اِسی کی تائید کی ہے۔
(المواہب اللدنیہ،1:8)
شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانیؒ بھی جواہر العارف السید عبد اللہ میر غنی کے تحت اُن کی کتاب "الأسئلۃ النفسیۃ” کے حوالے سے اِس امر کی تائید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضورﷺ کا پیکرِ بشریت بھی نور کی طرح لطیف تھا۔ آپﷺ کی بشریتِ مطہرہ کے اُس پاکیزہ اور نورانی جوہر کی حالت کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ آپﷺ کے پیکرِ اقدس پر پر کبھی مکھی نہیں بیٹھتی تھی، جیسا کہ کتبِ سیر و فضائل میں صراحتاً منقول ہے:
إنّ الذبابَ کان لا یقع علٰی جسدِہ و لا ثیابِہ۔ (الشفاء،1:522)
مکھی نہ تو آپﷺ کے جسدِ اقدس پر بیٹھتی تھی اور نہ آپ کے لباس پر۔
حضرت عمر ؓ سے منقول ہے کہ آپ نے حضورﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا:
إنّ اللہَ عصمک من وُقوعِ الذبابِ علٰی جسدِک لأنّہ یقع علٰی النجاسات۔(تفسیرالمدارک،3:134)
بیشک اللہ تعالیٰ نے جسم پر مکھی کے بیٹھنے سے بھی آپﷺ کو پاک رکھا ہے، کیونکہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے۔
اِن مقامات پر جہاں دیگر حکمتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ کی لطافت و نظافت جو اس جوہری حالت کی آئینہ دار تھی، کا عالم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کے پیکر بشریت سے ہمہ وقت خوشگوار مہک آتی۔ پسینہ مبارک کو لوگ خوشبو کے لئے محفوظ کرتے۔ اِمام بخاریؒ تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضورﷺ جس راستے سے گزر جاتے لوگ فضا میں مہکی ہوئی خوشبو سے پہچان لیتے کہ آپﷺ اُدھر تشریف لے گئے ہیں۔ اپنا دستِ مبارک کسی کے سر یا بدن سے مس فرما دیتے تو وہ شخص بھی خوشبو سے پہچانا جاتا۔ الغرض اِن تمام اُمور سے یہ حقیقت مترشح ہو جاتی ہے کہ بشریتِ محمدی ﷺ اپنی تخلیق کے لحاظ سے ہی اعلیٰ نورانی اور رُوحانی لطائف سے معمور تھی۔ گویا یہ تخلیق بشریت کے اِرتقائی مراحل کا وہ نقطۂ کمال تھا جسے آج تک کوئی نہیں چھو سکا، یہ اعجاز و کمال اِس شان کے ساتھ فقط بشریتِ مصطفوی ﷺ کو نصیب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبیٔ اکرم ﷺ کو مقامِ اِصطفاء سے نوازا گیا اور آپ کو مصطفی کے نام سے سرفراز کیا گیا۔
باب دُوُم
اِنسانی زندگی کا حیاتیاتی اِرتقاء
اِنسانی زندگی کے حیاتیاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک مسلسل اِرتقائی عمل ہے، جس میں واضح طور پر اللہ ربُّ العزت کے نظامِ ربوبیت کی جلوہ آرائیاں نظر آتی ہیں۔ یہ اِرتقائی مرحلے ربوبیتِ الٰہیہ کے فیض سے بطنِ مادر کے نہاں خانوں میں اِس طرح طے پاتے ہیں کہ چشمِ اِنسان کو اُن کا گمان تک بھی نہیں ہو سکتا۔ سائنس صدیوں کی تحقیق کے بعد اُن اِرتقائی مراحل کا کھوج لگانے میں آج کامیاب ہوئی ہے مگر یہ مراحل جس ربِّ کریم کے نظامِ ربوبیت کے مظاہر ہیں وہ آج سے چودہ صدیاں قبل ۔ ۔ ۔ جب سائنسی شعور نے دُنیا میں آنکھ بھی نہیں کھولی تھی ۔ ۔ ۔ واضح طور پر بیان فرما چکا ہے۔ اگر حیاتیاتی اِرتقاء کے اُن مراحل کا جائزہ اِنسانی زندگی میں کارفرما نظامِ ربوبیت کے حوالے سے لیاجائے تو اُس کے 2 دَور معلوم ہوتے ہیں، ایک کا تعلق رحمِ مادر میں خلیاتی تقسیم (celluler division) اور اُس کے نظام کے ساتھ ہے اور دُوسرے کا تعلق جسمانی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے ساتھ۔
رحمِ مادر میں خلیاتی تقسیم (Mitotic division in uterus)
اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کا پہلا قرآنی اُصول یہ ہے کہ اُس کی تخلیق نفسِ واحدہ سے ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید اِس ضابطے کو متعدّد مقامات پر صراحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا:
یٰٓا اَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَفسٍ وَّاحِدَۃٍ۔ (النساء،4:1)
لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری تخلیق ایک جان (single life cell) سے کی۔
دُوسرے مقام پر اِس کی تصریح اِن الفاظ میں کی گئی ہے:
وَ ھُوَ الَّذِی أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ۔ (الانعام،6:98)
اور وُہی (اﷲ) ہے جس نے تمہاری (حیاتیاتی) نشوونما ایک جان سے کی۔
یہی اُصول سورۃُ الزمر کی آیت نمبر6 میں بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ سورۂ لقمان میں اِس اُصول کو مزید زور دار انداز میں اِن الفاظ میں واضح کیا گیا ہے:
مَا خَلقُکُم وَ لَا بَعثُکُم إِلَّا کَنَفسٍ وَّاحِدَۃٍ۔ (لقمان،31:28)
تمہیں پیدا کرنا اور تمہیں دوبارہ اُٹھانا بالکل اُسی طرح ہے جیسے ایک جان سے اِنسانی زندگی کا آغاز کیا جانا۔
اُس نفسِ واحدہ کو جدید اِصطلاح میں Zygote یا fertilized ovum کہتے ہیں۔ یہی ایک سیل حیاتِ اِنسانی کے اِرتقاء و نشوونما کے لئے مکمل یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے۔ اِس حقیقت کا اِشارہ بھی واضح طور پر قرآنِ مجید میں کر دیا گیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُطفَۃٍ أَمشَاجٍ نَبتَلِیہِ فَجَعَلنَاہٗ سَمِیعاً بَصِیراًO(الدھر،76:2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اورجانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے دیکھنے والا بنا دیتے ہیںO
اِس آیتِ کریمہ میں نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ انتظام کا بیان ہے کہ ذاتِ حق نے اُسی ایک جان کے اندر بنیادی طور پر مکمل سننے دیکھنے اور سوچنے سمجھنے والا اِنسان بننے کی تمام صلاحیتیں (potentialities) ودیعت کر دی ہیں۔
نطفۂ اَمشاج (Mingled fluid) کا مفہوم
اِنسان کے حیاتیاتی اِرتقاء کے سلسلے میں دُوسری اہم چیز نطفۂ اَمشاج ہے جس کا تعلق fertilization کے نظام سے ہے۔ اس کا ذکر قرآنِ مجید میں کم و بیش گیارہ مقامات پر کیا گیا ہے۔ اُنہی میں نطفۂ اَمشاج کا بیان بھی آتا ہے۔ قرآنِ حکیم سے fertilizing liquid کے سلسلے میں درج ذیل تفصیلات کا پتہ چلتا ہے:
1۔ منی یُمنٰی (Sperm)
اِس کا بیان قرآنِ حکیم میں اِن الفاظ کے ساتھ آیا ہے:
أَلَم یَکُ نُطفَۃً مِّن مَّنِیٍّ یُّمنٰیO ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً۔ (القیامہ،75:37.38)
کیا وہ اِبتدائً محض منی کا ایک قطرہ نہ تھا جو )عورت کے رحم میں( ٹپکا دیا گیاO پھر وہ لوتھڑا بنا۔
اِس میں نُطفَۃً مِّن مَنِیٍّ یُّمنٰی سے مراد وہ spermatic liquid یا sperm ہے جو تخلیقِ انسانی کا باعث بنتا ہے۔
2۔ ماء دافق (A liquid poured out)
اِس کا بیان قرآنِ مجید میں اِس طرح ہے:
فَلیَنظُرِ الإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَO خُلِقَ مِن مّآء دَافِقٍO یَّخرُجُ مِنم بَینِ الصُّلبِ وَ التَّرَآئِبِO (الطارق،86:5.7)
پس انسان کو غور )و تحقیق( کرنا چاہئے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہےO وہ قوت سے اُچھلنے والے پانی )یعنی قوی اور متحرک مادۂ تولید( میں سے پیدا کیا گیا ہےO جو پیٹھ اور کولہے کی ہڈیوں کے درمیان ) پیڑو کے حلقہ میں( سے گزر کر باہر نکلتا ہےO
اُسی جوہر میں اِنسانی تخلیق کی تمام صلاحیتیں رکھی گئی ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں صُلب اور تَرَآئِب دو چیزوں کا ذکر ہے۔ تَرَآئِب، تَربِیَۃ کی جمع ہے۔ عربی ادب میں سینے کی ہڈی کو تربیۃ اور سینے کی دائیں اور بائیں طرف کی چار چار پسلیوں کو تَرَآئِب کہتے ہیں۔ اِس لئے مترجمین نے بالعموم اِس کا ترجمہ "ماؤں کے سینوں” کیا ہے۔ مگر دورِ جدید کی تحقیق اور سائنسی اِصطلاح کے مطابق صُلب کو sacrum اور تَرَآئِب کو symphysis pubis کہا جاتا ہے، جو کولھے کی ہڈیوں کا جوڑ ہے۔
عصرِحاضر کی اناٹومی نے اِس امر کو ثابت کیا ہے جیساکہ میڈیکل سائنس کی کتابیں بیان کرتی ہیں:
The seminal passage in the pelvic cavity lies between the anterior and posterior segments of the pelvic girdle.
مرد کا پانی جو semen پر مشتمل ہوتا ہے اُسی صلب اور ترائب میں سے گزر کر رحمِ مادر کو سیراب کرتا ہے۔ یہ اُصول ساتویں صدی عیسوی میں ۔ ۔ ۔ جب علمِ تشریح الأعضاء (anatomy) کا کوئی وُجود نہ تھا ۔ ۔ ۔ قرآنِ مجید صراحت کے ساتھ بیان کر چکا ہے۔
بہرحال لفظِ ترائب سینوں سے اِستعارہ ہو یا کولھوں کی ہڈیوں کے جوڑ سے، پہلی صورت میں وہ خلیاتی تقسیم سے قبل کے مرحلے کا بیان کرتا ہے اور دُوسری صورت میں سیمنز پر مشتمل مرد کے پانی کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔
3۔ ماء مھین (A despised liquid)
اِس موضوع پر قرآنِ مجید کا اِرشاد ہے:
ثُمَّ جَعَلَ نَسلَہٗ مِن سُلٰلَۃٍ مِّن مّآء مَّھِینٍO(السجدہ،32:8)
پھر اُس کی نسل کو ایک حقیر پانی کے نطفہ سے پیدا کیا جو اس کی غذاؤں کا نچوڑ ہےO
4۔ نطفہ أمشاج (Mingled fluid)
اس کا ذکر قرآنِ مجید میں یوں آیا ہے:
إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُّطفَۃٍ أَمشَاجٍ۔ (الدھر،76:2)
بیشک ہم نے اِنسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔
نطفۂ اَمشاج کی اِصطلاح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادّہ کئی رطوبات کا مرکب اور مجموعہ ہے، اِس لئے قرآنِ مجید نے اُسے مخلوط کہا ہے۔ اِس امر کی تائید بھی عصرِ حاضر کی سائنسی تحقیق نے کر دی ہے۔
سائنسی تحقیق کے مطابق spermatic liquid بعض رطوبات (secretions) سے بنتا ہے، جو درج ذیل غدُودوں (glands) سے آتی ہیں:
1. Testicles
2. Seminal vesicles
3. Prostate glands
4. Glands of urinary tract
خلیاتی تقسیم (Mitotic division)
قرآنِ مجید نے اِس باب میں ربِّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا تیسرا اُصول یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس حیاتیاتی خلئے (fertilized ovum) کو مزید دو حصوں میں تقسیم فرماتا ہے۔ اِسی طرح اُنہیں مزید تقسیم کیا جاتا ہے حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق اِسی خلیاتی تقسیم کے نظام کے تحت عمل میں آتی ہے۔ دورِ جدید کی سائنس نے اِس نظامِ تقسیم کو mitotic division سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ ایزدی ہے:
یٰآ أَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنھَا زَوجَھَا وَ بَثَّ مِنھُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَّ نِسآء۔ (النساء، 4:1)
اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جو تمہاری تخلیق ایک جان (single life cell) سے کرتا ہے، پھر اُسی سے اُس کا جوڑ پیدا فرماتا ہے، پھر اُن دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلاتا ہے۔
دُوسرے مقام پر اِرشاد ہوتا ہے:
خَلَقَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنھَا زَوجَھَا۔ (الزمر، 39:6)
اُس (ربّ) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اُسی میں سے اُس کا جوڑ نکالا۔
اِن آیاتِ کریمہ میں تین اُمور واضح طور پر بیان کر دیئے گئے ہیں:
1۔ اِنسانی تخلیق کا نفسِ واحدہ (zygote) سے وُجود میں آنا۔
2۔ اُس نفسِ واحدہ کا اِبتداءً دو میں تقسیم ہونا۔
3۔ پھر اُن دو cells کا مزید تقسیم ہو کر کثیر تعداد میں پھیلنا، حتیٰ کہ تمام مردوں اور عورتوں کی تخلیق کا یہی ذریعہ بننا۔
یہی mitotic division ہے جو علمُ الحیاتیات کی رُو سے درج ذیل چار مراحل میں سے گزرتی ہے:
1. Prophase 2. Metaphase
3. Anaphase 4. Telophase
یوں اِنسان کی حیاتیاتی زِندگی، عمودی (vertically) اور اُفقی (horizontally) دونوں طرح اِرتقاء پذیر رہتی ہے۔
نفسِ واحدہ (Single life cell) کی اوّلیں تخلیق
یہ امر سائنسی مسلمات میں سے ہے کہ mitosis سے پہلے بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جسے meiosis کہتے ہیں۔ اُس میں مردانہ اور زنانہ جسیمے (cells) مرد اور عورت کے جسموں میں سے آتے ہیں جو maturity سے پہلے بالترتیب testicular cells اور ovarian cells کہلاتے ہیں۔ یہاں meiosis کے مرحلے میں سے گزرنے کے بعد spermatozoa اور ova کی تشکیل ہوتی ہے اور وہ fertilization کے ذریعے اُس نفسِ واحدہ میں بدلتے ہیں جسے zygote کہا جاتا ہے۔
انڈے کی رحمِ مادر (Uterus) میں منتقلی
جب sperm اور ovum کا ملاپ ہو جاتا ہے تو انڈا رحم (uterus) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اُسے مرحلے کو implantation of egg کہتے ہیں۔
قرآنِ مجید اُس مرحلے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کرتا ہے:
وَ نُقِرُّ فِی الأَرحَامِ مَا نَشآء إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (الحج،22:5)
اور ہم جسے چاہتے ہیں (ماؤں کے) رحموں میں ایک مقررہ مدّت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں۔
یہ انڈا (egg) رحم مادر میں بڑھتا ہے اور اس کی زمین کے اندر جڑوں کی طرح لمبائی میں پھیل جاتا ہے اور رحم کے موٹاپے سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔
علقہ (Hanging mass)کی اِبتداء
رحمِ مادر میں پرورش پانے والا نطفہ رحم کے ساتھ معلّق ہو جاتا اور جم جاتا ہے۔ اُس کے معلّق ہونے کی کیفیت کو قرآنِ مجید نے پانچ مختلف مقامات پر عَلَقَۃ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
إِقرَأ بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَO خَلَقَ الإِنسَانَ مِن عَلَقٍO(العلق،96:1.2)
اپنے رب کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیاO اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح "معلّق وُجود” سے پیدا کیاO
اِسی طرح دُوسری جگہ اِرشاد ہوتا ہے:
ثُمَّ جَعَلنَاہُ نُطفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍO ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَۃَ عَلَقَۃً۔ (المومنون، 23:13.14)
پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاO پھر ہم نے اُس نطفہ کو (رحمِ مادر میں) "معلّق وُجود” بنا دیا۔
عَلَقَۃ کے مندرجہ بالا معنی پر بحث آگے آئے گی۔ اِس وقت صرف اِتنی بات ذِہن نشین کرانا مقصود ہے کہ قرآنِ مجید نے حیاتِ انسانی کے اِرتقاء کے جملہ مرحلوں پر روشنی ڈالی ہے اور اُس وقت اِن حقیقتوں کو بیان کیا جب سائنسی تحقیق اور embryology جیسے سائنسی مضامین کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ کیا یہ سب کچھ قرآن اور اسلام کی صداقت و حقانیت کو تسلیم کرنے کے لئے کافی نہیں؟ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ قرآن اُس ربّ کی نازل کردہ کتاب ہے جس کے نظامِ ربوبیت کے یہ سب پرتَو ہیں۔ اِس لئے اُس سے بہتر اِن حقائق کو اور کون بیان کر سکتا تھا! بات صرف یہ ہے کہ سائنس جوں جوں چشمِ اِنسانی کے حجابات اُٹھاتی جا رہی ہے قرآنی حقیقتیں توں توں بے نقاب ہو کر سامنے آتی جا رہی ہیں۔
رحمِ مادر میں اِنسانی وُجود کا اِرتقاء
قرآنِ مجید میں رحمِ مادر کے اندر اِنسانی وُجود کی تشکیل اور اُس کے اِرتقاء کے مختلف مرحلے بیان کئے گئے ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ ربِّ کائنات کا نظامِ ربوبیت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بطنِ مادر کے اندر بھی جلوہ فرماہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کے نقطۂ آغاز سے لے کر اُس کی تکمیل اور تولد کے وقت تک پرورش کا ربانی نظام انسان کو مختلف تدرِیجی اور اِرتقائی مرحلوں میں سے گزار کر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اِنسانی وُجود کی داخلی کائنات ہو یا عالمِ ہست و بود کی خارجی کائنات، ہر جگہ ایک ہی نظامِ ربوبیت یکساں شان اور نظم و اُصول کے ساتھ کارفرما ہے۔ قرآنِ مجید کے بیان کردہ اِن مراحلِ اِرتقاء کی تصدیق بھی آج کی جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے ہو چکی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1۔ وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن سُلٰلَۃٍ مِّن طِینٍO
اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی کے (کیمیائی اجزا کے) خلاصہ سے فرمائیO
2۔ ثُمَّ جَعَلنَاہُ نُطفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍO
پھر ہم نے اُسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاO
3۔ ثُمَّ خَلَقنَا النُّطفَۃَ عَلَقَۃً۔
پھر ہم نے اُس نطفہ کو (رحمِ مادر میں) "معلّق وُجود” بنا دیا۔
4۔ فَخَلَقنَا العَلَقَۃَ مُضغَۃً۔
پھر ہم نے اُس معلّق وُجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔
5۔ فَخَلَقنَا المُضغَۃَ عِظَاماً۔
پھر ہم نے اُس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا۔
6۔ فَکَسَونَا العِظَامَ لَحماً۔
پھر ہم نے اُن ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے۔
7۔ ثُمَّ أَنشَانَاہُ خَلقاً اٰخَرَ فَتَبَارَکَ اﷲُ أَحسَنُ الخَالِقِینَO (المومنون، 23:12.14)
پھر ہم نے اُسے تخلیق کی دُوسری صورت میں (بدل کر تدرِیجاً) نشو و نما دی، پھر (اُس) اﷲ نے (اُسے) بڑھا کر محکم وُجود بنا دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہےO
ان آیات میں انسانی تشکیل و اِرتقاء کے سات مراحل کا ذِکر ہے۔ جن میں سے پہلے کا تعلق اُس کی کیمیائی تشکیل سے ہے اور بقیہ چھ کا اُس کے بطنِ مادر کے تشکیلی مراحل سے۔ مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ اِنسانی اِرتقاء کے مراحل (developmental stages of human embryo) درج ذیل ہیں:
1۔ سُلٰلۃ من طین
Extract of clay
2۔ نطفہ
Spermatic liquid of sperm
3۔ علقہ
Hanging mass clinging to the endometrium of the uterus
4۔ مضغہ
Chewed lump of chewed substance
5۔ عظام
Skeletal system
6۔ لحم
Muscular system
7۔ خلقِ آخَر
New creation
پھر اُس تخلیق میں باری تعالیٰ نے نظامِ سماعت کو نظامِ بصارت اور نظامِ عقل و فہم پر مقدّم رکھا ہے۔
اِرشاد فرمایا گیا:
ثُمَّ سَوَّاہُ وَ نَفَخَ فِیہِ مِن رُّوحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأَبصَارَ وَ الأَفئِدَۃَ قَلِیلاً مَّا تَشکُرُونَO(السجدہ، 32:9)
پھر اُسے (اعضائے جسمانی کے تناسب سے) درُست کیا اور اُس میں اپنی طرف سے جان پھونکی اور تمہارے لئے (سننے اور دیکھنے کو) کان اور آنکھیں بنائیں اور (سوچنے سمجھنے کے لئے) دِماغ، مگر تم کم ہی (اِن نعمتوں کی اہمیت اور حقیقت کو سمجھتے ہوئے) شکر بجا لاتے ہوO
اِسی طرح ایک دُوسرے مقام پر اِرشادِ ربانی ہے:
إِنَّا خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن نُّطفَۃٍ أَمشَاجٍ نَّبتَلِیہِ فَجَعَلنَاہُ سَمِیعاًم بَصِیراًO(الدھر، 76:2)
بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے (mingled fluid) سے پیدا کیا۔ پھر ہم اُسے مختلف حالتوں میں پلٹتے اور جانچتے ہیں، حتیٰ کہ اُسے سننے والا ( اور) دیکھنے والا ( انسان) بنا دیتے ہیںO
یہاں بھی اِس امر کی بخوبی صراحت ہے کہ اِنسانی ایمبریو (embryo) کی نشوونما میں اِنسان کے نظامِ سماعت کو پہلے وُجود میں لایا جاتا ہے اور نظامِ بصارت بعد میں تشکیل پاتا ہے۔ قرآنِ مجید میں درج اِس تخلیقی عمل کی تصریح اور تائید آج ایمبریالوجی (embryology) کی جدید تحقیق نے کر دی ہے۔ کینیڈا کی ٹورانٹو یونیورسٹی (University of Toronto) میں شعبۂ اناٹومی کے پروفیسر ڈاکٹر کیتھ ایل مُور (Dr Keith L. Moore) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں:
Primordium of the internal ears appears before the beginning of the eyes and the brain (the site of understanding) differentiates last. This part of Sura 32:9 indicates that special senses of hearing, seeing and feeling develop in this order, which is true.
ترجمہ: "کانوں کے اندرونی عضویات آنکھوں کی اِبتدا سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دِماغ (سمجھنے کی صلاحیت) اُسے ممتاز کرتی ہے۔ سورۃالسجدہ کی آیت نمبر9 کا یہ حصہ اِس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مخصوص حسِ سامعہ، حسِ باصرہ اور حسِ لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں، اور یہی حقیقت ہے”۔
تخلیقِ انسانی کے بارے میں یہ وہ سائنسی حقائق ہیں جنہیں قرآنِ مجید آج سے چودہ سو سال پہلے منظرِ عام پر لایا اور آج جدید سائنس نے اُن کی تصدیق و تائید کر دی ہے۔ اِس سے باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کی عظمتوں اور رِفعتوں کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید کی حقانیت اور نبوتِ محمدی کی صداقت و قطعیت کی ایسی عقلی دلیل بھی میسر آتی ہے جس کا کوئی صاحبِ طبعِ سلیم اِنکار نہیں کر سکتا۔
بطنِ مادر میں اِنسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے1941ء میں سٹریٹر (Streeter) نے اِیجاد کیا جو بعد ازاں1972ء میں O’ Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعے زیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اَب اِکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے، مگر قرآنِ مجید کا اِسی صحتِ ترتیب کے ساتھ آج سے 14 صدیاں قبل اِن مدارج کو بیان کرنا جس کی تصدیق آج اناٹومی اور ایمبریالوجی کی جدید تحقیقات کے ذریعے ہوئی ہے، ایک ناقابلِ اِنکار معجزہ ہے، جسے غیر مسلم دُنیا بھی اپنے تمام تر تعصبات کے باوُجود تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
جنین (Embryo)کی بطنِ مادر میں تین پردوں میں تشکیل
اِسی طرح بطنِ مادر میں نظامِ ربوبیت کے محیر العقول کرشموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باری تعالیٰ بچے کی حیاتیاتی تشکیل کے یہ تمام مرحلے ماں کے پیٹ میں تین پردوں کے اندر مکمل فرماتا ہے۔ یہ بچے کی حفاظت کا کس قدر خوشگوار اِہتمام ہے۔
اِرشادِ ربانی ہے:
یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ أُمَّھَاتِکُم خَلقاً مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ ذٰلِکُمُ اﷲُ رَبُّکُم لَہُ المُلکُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ فَأَنّٰی تُصرَفُونَO (الزمر،39:6)
وہ تمہیں ماؤں کے پیٹ میں تاریکیوں کے تین پردوں کے اندر ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں مرحلہ وار تخلیق فرماتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا ربّ )تدریجاً پرورش فرمانے والا( ہے۔ اُسی کی بادشاہی )اندر بھی اور باہر بھی( ہے۔ سو اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، پھر تم کہاں بہکے چلے جاتے ہو!O
17ویں صدی عیسوی میں Leeuwen Hookنے خوردبین (microscope) اِیجاد کی۔ صاف ظاہر ہے اِس سے پہلے اندرونِ بطن اُن مخفی حقیقتوں کی صحیح سائنسی تعبیر کس کو معلوم ہو سکتی تھی! آج سائنس اُن پردوں کی حقیقت بھی منظرِ عام پر لے آئی ہے۔ جس کی رُو سے اس امر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی ہی بطنِ مادر میں بچے کے یہ اِرتقائی مرحلے تین پردوں میں تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ جنہیں قرآنِ مجید نے ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ (three veils of darkness) کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔
اُن پردوں کے نام یہ ہیں:
1. Anterior abdominal wall
2. Uterine wall
3. Amnio-chorionic membrane
or
Extra-embryonic membranes
قرآنِ مجید نے ظُلُمٰت (veils of darkness) کا لفظ اِستعمال کیا ہے، جو layers کے لئے نہیں بلکہ opacities (تاریکیایوں) کے معنی میں مستعمل ہے۔ چونکہ ہر پردے کے اندر مزید کئی تہیں (layers) ہیں، اِس لئے ربّ ِکامل نے اُنہیں ظُلُمٰت کے لفظ کے ذریعے واضح فرمایا ہے۔ ظُلُمٰتٍ ثَلاَثٍ کی ایک اور متبادل سائنسی تعبیر بھی درج ذیل ہے:
1. Chorion 2. Amnion 3. Amniotic fluid
تاہم ڈاکٹر کیتھ مُور (Dr Keith L. Moore) کی تحقیق کی رُو سے پہلی تعبیر زیادہ صحیح اور مناسبِ حال ہے۔ یہاں اُن کی اصل انگریزی تحریر کا اِقتباس درج کیا جاتا ہے:
Keith L. Moore, Ph D, FIAC
Statements referring to human reproduction and development are scattered throughout the Qur’an. It is only recently that the scientific meaning of some of these verses has been appreciated fully. The long delay in interpreting these verses correctly resulted mainly from inaccurate translations and commentaries, and from a lack of awareness of scientific knowledge.
Interest in explanations of the verses of the Qur’an is not new, people used to ask the Prophet Muhammad all sorts of questions about the meaning of verses referring to human reproduction. The Apostle’s answer form the basis of the Hadith literature.
The translations of the verses from the Qur’an which are interpreted in this paper were provided by Sheikh Abdul Majid Zendani, a professor of Islamic Studies in King Abdulaziz University in Jeddah, Saudi Arabia.
"He makes you in the wombs of your mothers, in stages, one after another, in three veils of darkness.”
This statement is from sura 39. We do not know when it was realized that human beings underwent development in the uterus (womb), but the first known illustration of a fetus in the uterus was drawn by Leonardo de Vinci in the 15th century. In the 2nd century AD, Galen described the placenta and fetal membranes in his book On the Formation of the Foetus. Consequently, doctors in the 7th century AD likely knew that the human embryo developed in the uterus. It is unlikely that they knew that it developed in stages, even though Aristotle had described the stages of development of the chick embryo in the 4th century BC. The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the 15th century.
After the microscope was discovered in the 17th century by Leeuwen Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the 20th century. Streeter (d.1941) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O’Rahilly (d.1972).
"The three veils of darkness” may refer to: (1) the anterior abdominal wall; (2) the uterine wall; and (3) the amnio-chorionic membrane. Although there are other interpretations of this statement, the one presented here seems the most logical from an embryological point of view.
"Then we placed him as a drop in a place of rest.” This statement is from sura 23:13. The drop or nutfah has been interpreted as the sperm of spermatozoan, but a more meaningful interpretation would be the zygote which divides to form a blastocyst which is implanted in the uterus (a place of rest). This interpretation is supported by another verse in the Qur’an which states that "a human being is created from a mixed drop.” The zygote forms by the union of a mixture of the sperm and the ovum (the mixed drop(.
"Then we made the drop into a leech-like structure.” This statement is from sura 23:14. The word alaqa refers to a leech or bloodsucker. This is an appropriate description of the human embryo from days 7-24 in which it clings to the endometrium of the uterus, in the same way that a leech clings to the skin. Just as the leech derives blood from the host, the human embryo derives blood from the decidua or pregnant endometrium. It is remarkable how much the embryo of 23-24 days resembles a leech. As there were no microscopes of lenses available in the 7th century, doctors would not have known that the human embryo had this leech-like appearance. In the early part of the fourth week, the embryo is just visible to the unaided eye because it is smaller than a kernel of wheat.
"Then of that leech-like structure, We made a chewed lump.” This statement is also from sura 23:14. The Arabic word Mudghah means chewed substance or chewed lump. Toward the end of the fourth week, the human embryo looks somewhat like a chewed lump of flesh. The chewed appearance results from the somites which resemble teeth marks. The somites represent the beginnings or primordia of the vertebrate.
"Then we made out of the chewed lump, bones and clothed the bones in flesh.” This continuation of sura 23:14 indicates that out of the chewed lump stage, bones and muscles form. This is in accordance with embryological development. First the bones form as cartilage models and then the muscles (flesh) develop around them from the somatic mesoderm.
"Then we developed out of it another creature.” This next part of sura 23:14 implies that the bones and muscles result in the formation of another creature. This may refer to the human-like embryo that forms by the end of the eighth week. At this stage it has distinctive human characteristics and possesses the primordia of all the internal and external organs and parts. After the eighth week, the human embryo is called a fetus. This may be the new creature to which the verse refers.
"And He gave you hearing and sight and feeling and understanding.” This part of sura 32:9 indicates that the special senses of hearing, seeing, and feeling develop in this order, which is true. The primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and the brain (the site of understanding) differentiates last.
"Then out of a piece of chewed flesh, partly formed and partly unformed.” This part of Sura 22:5 seems to indicate that the embryo is composed of both differentiated and undifferentiated tissues. For example, when the cartilage bones are differentiated, the embryonic connective tissue or mesenchyme around them is undifferentiated. It later differentiates into the muscles and ligaments attached to the bones.
"And We cause whom we will to rest in the wombs for an appointed term.” This next part of sura 22:5 seems to imply that God determines which embryos will remain in the uterus until full term. It is well-knwon that many embryos abort during the first month of development, and that only about 30[L: 37] of zygotes that form, develop into fetus that survive until birth. This verse has also been interpreted to mean that God determines whether the embryo will develop into a boy or girl, and whether the child will be fair or ugly.
This interpretation of the verses in the Qur’an referring to human development would not have been possible in the 7th century AD, or even a hundred years ago. We can interpret them now because the science of modern embryology affords us new understanding.
Undoubtedly there are other verses in the Qur’an related to human development that will be understood in the future as our knowledge increases.
References:
1. Arey, L.B, Development Anatomy: A textbook and Laboratory Mannual of Embryology, revised 7th ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co., 1974.
2. Moore, K.L, The Developing Human Clinically Oriented Embryology, 3rd ed. Philadelphia, W.B. Sanders Co., 1982.
3. Moore, K.L, Highlights of Human Embryology in the Qur’an and the Hadith. Proceedings of the Seventh Saudi Medical Meeting, 1982.
4. Moore, K.L, Before We are Born, Basic Embryology and Birth Defects, 2nd ed., Philadelphia, W.B.Sanders Co, 1983.
5. O’ Rahilly, R, Guide to the Staging of Human Embryo
6. Streeter, G.L, Developmental Horizons in Human Embryos.
اِنسانی تکوین و تشکیل میں حسنِ نظم
اِنسانی جسم کی حیاتیاتی تشکیل میں قدم قدم پر ربوبیتِ الٰہیہ کے حسّی اور معنوی لاتعداد مظاہر کار فرما ہیں۔ ہر جگہ حسنِ نظم اور حسنِ ترتیب کی آئینہ داری ہے۔ ہر کام اور مرحلے کے لئے مخصوص مدّت اور طریقِ کار متعین ہے۔ ایک مرحلے کے جملہ مقتضیات خود بخود پورے ہو رہے ہیں۔ جو کام اِنسان کے جسمانی پیکر سے بعد میں لیا جانے والا ہے اُس کی تمام تر ضرورتیں رحمِ مادر میں پوری کی جا رہی ہیں۔ ہر مرحلے پر نہ صرف اُن ضرورتوں کی کفالت ہو رہی ہے بلکہ بہرطور اُن کی حفاظت و نگہداشت کے بھی تمام اِنتظامات ساتھ ساتھ ہو رہے ہیں۔ اﷲ ربُّ العزت کی شانِ خلّاقیت کا نظارہ اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ مکمل اِنسان کے لئے مطلوبہ تمام صلاحیتوں کا جوہر ایک نطفہ کے اندر پیدا کر دیاگیا ہے۔ پھر اُس کے خواص و آثار اور علامات کو اپنے اپنے مقررہ اَوقات پر پورا کر کے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اِس اُصول کو نظامِ ربوبیت کے تحت ’تقدیر‘ کے عنوان سے واضح کیا گیا ہے۔ ’تقدیر‘ کے معنی اَندازہ کرنے کے ہیں، خواہ یہ کسی شے کے وُجود میں ہو یا ظہور میں، کمیّت میں ہو یا کیفیت میں، مدّتِ پرورش میں ہو یا تکمیل میں۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ خَلَقَ کُلَّ شَیٍٔ فَقَدَّرَہٗ تَقدیراًO ( (الفرقان، 25.2)
اور اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے، پھر اُس (کی بقا و اِرتقاء کے ہر مرحلہ پر اُس کے خواص، اَفعال اور مدّت الغرض ہر چیز) کو ایک مقرّرہ اندازے پر ٹھہرایا ہےO
باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کے اِس حسنِ تقدیر نے کائنات کے ظاہر و باطن میں ایک عجیب نظم و ترتیب، مطابقت و یگانگت اور توازُن و اِعتدال پیدا کر دیا ہے۔ یہی رنگ ہم بچے کی تشکیل و اِرتقاء کے جملہ مراحل میں کار فرما دیکھتے ہیں۔
اِس خاص موضوع پر اِرشادِ ربانی ہے:
مِن أَیِّ شَیٍٔ خَلَقَہٗO مِن نُّطفَۃٍ خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗO ثُمَّ السَّبِیلَ یَسَّرَہٗO ثُمَّ أَمَاتَہٗ فَأَقبَرَہٗO ثُمَّ إِذَا شآء أَنشَرَہٗO (عبس، 80:18.22)
اﷲ نے اُسے کس چیز سے پیدا فرمایا ہے؟O نطفہ میں سے اُس کو پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اُس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعیّن فرما دیاO پھر (تشکیل، اِرتقاء اور تکمیل کے بعد بطنِ مادر سے نکلنے کی) راہ اُس کے لئے آسان فرما دیO پھر اُسے موت دی، پھر اُسے قبر میں دفن کر دیا گیاO پھر جب وہ چاہے گا اُسے )دوبارہ زندہ کر کے) کھڑا کر لے گاO
اِنسانی وُجود کی تکوین کے چار مراحل
قرآنِ مجید نے اِنسانی تخلیق کے ضمن میں پیش آنے والے چار مراحل کا ذِکر کیا ہے، جو یہ ہیں:
1۔ تخلیق
Creation
-2 تسویہ
Arrangement
-3 تقدیر
Estimation
-4 ہدایت
Guidance
اِن مراحل کا ذِکر سورۃ الاعلیٰ میں یوں کیا گیا ہے:
سَبِّحِ اسمَ رَبِّکَ الأَعلَیO الَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰیO وَ الَّذِی قَدَّرَ فَھَدٰیO (الاعلیٰ، 87:1.30)
اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہےO جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیاO اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرّر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایاO
ہم دیکھتے ہیں کہ تکوینِ وُجود کے تمام مرحلے نظامِ ربوبیت کی پوری جلوہ سامانیوں کے ساتھ تکمیل پذیر ہوتے ہیں۔ ہر مرحلے کو ایک خاص حکمت و تدبر اور نظم کے ساتھ مکمل کیا جاتا ہے۔
یہ بحث بڑی تفصیل کے ساتھ پہلے گزر چکی ہے کہ کس طرح اِنسانی وُجود نطفے سے باقاعدہ خلق کے مرتبے تک پہنچتا ہے۔ ہر مرحلے میں اُس کی ایک مدّت مقرر ہے جس میں بعض خاص اُمور کی تکمیل ہوتی ہے، پھر اُسے اگلے مرحلے میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔
اِرشادِ الٰہی ہے:
أَلَم نَخلُقکُم مِّن مّآء مَّھِینٍO فَجَعَلنَاہُ فِی قَرَارٍ مَّکِینٍO إِلٰی قَدَرٍ مَّعلُومٍO فَقَدَرنَا فَنِعمَ القَادِرُونَO(المرسلات، 77:20.23)
کیا ہم نے تمہیں ایک بے قدر پانی سے پیدا نہیں فرمایاO پھر ہم نے اُسے ایک محفوظ جگہ (رحمِ مادر) میں رکھاO ایک معلوم و معین انداز سے (مدت ) تکO پھر ہم نے (اگلے ہر ہر مرحلے کے لئے) اندازہ فرمایا، پس ہم کیا ہی اچھے قادر ہیںO
قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِی أَنشَأکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَۃٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَات لِقَومٍ یَّفقَھُونَO (الانعام،9:86)
اور وُہی (اﷲ) ہے جس نے تمہیں ایک جان (cell) سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور جائے اَمانت (مراد رحمِ مادر اور دُنیا ہے یا دُنیا اور قبر)، بیشک ہم نے سمجھنے والوں کے لئے (اپنی قُدرت کی) نشانیاں کھون کر بیان کر دی ہیںO
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ قابل توجہ ہیں: مُستَقَر اور مُستَودَع۔
مُستَقَرّ: قرار، إِستَقَرَّ سے ہے ۔
اور مُستَودَع: ودع، إِستَودَعَ سے ہے۔
"مستقر” میں عارضی طور پر ایک مقام پر ایک حالت میں رہنے کی طرف اِشارہ ہے جبکہ "مستودع” میں وہاں اپنا وقت گزارنے اور اگلی حالت میں منتقل ہونے کی طرف اِشارہ ہے۔ اِنسانی تکوینِ وُجود کے مرحلۂ تخلیق میں سپرم (sperm) باپ کی پشت سے آتا ہے اور رحمِ مادر کے اندر اووم (ovum) سے اپنا رابطہ قائم کرتا ہے۔
یہاں نظامِ ربوبیت کا کیسا شاندار اِہتمام ہے کہ ایک اوسط درجے کے آدمی کا ایک بار خارج شدہ مادۂ تولید اپنے اندر 40,00,00,000سپرم (sperm) رکھتا ہے جس سے چالیس کروڑ عورتوں کے حمل واقع ہو سکتے ہیں، مگر نظامِ قدرت کی کرشمہ سازیاں دیکھئے کہ جب پہلا سپرم (sperm) عورت کے رحم میں اووم (ovum) سے پیوست ہوتا ہے تو اُسی وقت اووَم (ovum) پر ایک جھلی (membrane) آ جاتی ہے، جو دُوسرے spermکو اُس میں داخل ہونے سے روک دیتی ہے۔ اُسے fertilizing membrane کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن دونوں کے ملاپ سے تکوینِ وُجودِ انسانی کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے، جس کا ذِکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔
بعد ازاں مختلف تخلیقی مرحلوں میں سے گزر کر embryo وُجود میں آتا ہے۔ ربِّ کریم کی شانِ پروردگاری دیکھئے کہ اُس کے ہر مرحلے کے لئے خاص مدت مقرر ہے، جس میں بعض تخلیقات وُجود میں آتی ہیں، جن کے اندر تدریجاً اِرتقاء ہوتا رہتا ہے اور وہ embryo یکے بعد دیگرے مختلف مرحلوں اور حالتوں میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اُس کی حالت میں ہفتہ وار تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اُس کے اعضاء کا تخلیقی اور تکوینی عمل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ چھ ہفتے کے بعد بچے کی سی شکل دِکھائی دینے لگتی ہے۔ پھر اُس میں نظامِ اُستخوان (skeleton system) اور بعد ازاں گوشت پوست کے ساتھ نظامِ اَعصاب (muscular system) کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مقامِ خلق کو پا لیتا ہے اور ھُوَ الَّذِی یُصَوِّرُکُم فِی الأَرحَامِ کَیفَ یَشآء )وہ تمہیں ماؤں کے رحموں کے اندر ہی جسمانی شکل و صورت اور اندازِ ساخت عطا کر دیتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہے( کے مراتب اور مدارج سے گزرتا ہوا لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ فِی أَحسَنِ تَقویمٍ )بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے( کی شان کے ساتھ منصہ شہود پر جلوہ گر ہو جاتا ہے۔
قرآنی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحلۂ تقدیر کی رحمِ مادر کے اندر مزید تین قسم کی تفصیلات ہیں:
1 تعدیل (equalization)
2 تصویر (personification)
3 ترکیب (methodical formation)
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَا أَیُّھَا الإِنسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الکَرِیمِO الَّذِی خَلَقَکَ فَسَوّٰکَ فَعَدَلَکَO فِی أَیِّ صُورَۃٍ مَّاشآء رَکَّبَکَO (الانفطار82:6.8)
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربّ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیاO جس نے (رحمِ مادر کے اندر ایک نُطفہ میں سے) تجھے پیدا کیا، پھر اُس نے تجھے (اعضاء سازی کے لئے) درُست اور سیدھا کیا، پھر وہ تیری ساخت میں متناسب تبدیلی لایاO جس صورت میں بھی چاہا اُس نے تجھے ترکیب دے دیاO
اِس آیتِ کریمہ میں تخلیق و تسویہ کے بعد مذکورہ بالا تینوں مراتب کا ذِکر ہے۔ تعدیل، تصویر اور ترکیب۔ یہ تمام مرحلۂ تقدیر ہی کی تفصیلات ہیں۔
باری تعالیٰ نے آغازِ حمل سے اِختتامِ ضرورتِ رضاعت تک کا عرصہ بھی مقرر فرما دیا ہے، جو کم از کم 30 ماہ پر مشتمل ہے۔ جس طرح بچہ رحمِ مادر میں پرورش پا کر عالمِ آب و گل میں رہنے کے قابل ہو جائے تو اُسے تولّد کے ذریعے دُنیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے اِسی طرح بچے کا معدہ عام غذاؤں کو ہضم کرنے کی اِستعداد حاصل کر لے تو تدریجاً ماں کا دُودھ خود بخود خشک ہونے لگتا ہے اور یہ تبدیلی اِس امر کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ اَب بچے کو رضاعت کی ضرورت نہیں رہی، اُسے دُوسری غذاؤں کی طرف منتقل کیا جائے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
حَمَلَتہُ أُمُّہٗ کُرھاً وَّ وَضَعَتہُ کُرھاً وَ حَملُہٗ وَ فِصٰلُہٗ ثَلاثُونَ شَھراً۔ (الاحقاف 46:15)
اُس کی ماں نے اُسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں رکھا اور اِس طرح تکلیف سے جنا اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت )کم از کم( تیس ماہ ہے۔
دورانِ حمل نظامِ ربوبیت کے مظاہر
جب تک بچہ رحمِ مادر میں اپنے تشکیلی اور تکوینی مراحل طے کرتا ہے باری تعالیٰ کا نظامِ ربوبیت اُس کی جملہ ضروریات کی کفالت کے ساتھ ساتھ درج ذیل چار اُمور کا بڑے حسن و خوبی سے اِنتظام کرتا ہے۔ اِس کا ایک ایک پہلو ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی نشانیوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
1 تغذِیہ (Nourishment)
بچے کی نشوونما کے لئے ہر قسم کا ضروری مواد رحمِ مادر میں فراہم ہوتا ہے۔
2 حفاظت (Protection)
ماں کو پیش آنے والے جسمانی صدمات اور ضربات وغیرہ کے اثر سے بالعموم اُس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ اُسے چوٹ نہ آئے۔
3 نقل و حرکت (Movement)
رحمِ مادر میں اُس کے مناسبِ حال ضروری نقل و حرکت کا اِنتظام کر دیا جاتا ہے۔
4 تکیّفِ حرارت (Control of temperature)
طبی ضرورت کے مطابق رحمِ مادر کے اندر بچے کو مطلوبہ حرارت (temperature) مہیا ہوتی رہتی ہے۔
ماں کے خون میں سے جو مواد بچے کے لئے مفید اور ضروری ہے اُسے خودبخود میسر آتا رہتا ہے اور جو مواد مضر اور نقصان دہ ہو وہ خود بخود ضائع ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایک خلّاقِ عالم اور قادرِ مطلق کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے بغیر یہ سب کچھ ایک نظم و ترتیب کے ساتھ کیسے ممکن ہے۔ فاعتبروا یا أولی الأبصار
باب سوُم
اِنسانی زندگی کا شعوری اِرتقاء
جس طرح اِنسان کے جسمانی وُجود کی تکوین و تکمیل کے لئے نظامِ ربوبیّت کے حسین و جمیل جلوے پوری آب و تاب کے ساتھ ہر جگہ اور ہر مرحلے پر کارفرما نظر آتے ہیں، یہی رنگ اور ڈھنگ اِنسان کے شعوری ارتقاء کے نظام میں بھی نظر آتا ہے۔ خلّاقِ عالم کے حسنِ ربوبیت نے اِنسان کی جسمانی ساخت اور پرورِش کی ذِمہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اُس کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے لئے اُسے ایک مرحلہ وار نظامِ ہدایت سے بھی نوازا ہے، جس سے وہ اپنے ہر مرحلۂ حیات پر نہ صرف مختلف ضروریات و مقتضیات کو جانتا اور پہچانتا ہے بلکہ اُن کی تسکین و تکمیل کے لئے مختلف راستے اور وسائل بھی تلاش کرتا ہے۔ وہ جوں جوں عمر کے مختلف اَدوار طے کرتا چلا جاتا ہے اُس کی ضرورتیں بدلتی چلی جاتی ہیں، اُن میں تنوّع اور تسوّع کے ساتھ ساتھ مسلسل اِضافہ بھی ہوتا چلا جاتا ہے۔ پہلے سے موجود طبعی ذرائعِ ہدایت اُس کی نئی حاجات اور تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ سو خود بخود اگلی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نئے دروازے کھل جاتے ہیں اور یوں اِنسان کا شعوری سفر اپنی منزل کی طرف جاری رہتا ہے۔ اِس شعوری پرورِش کی ذِمہ داری بھی ربِّ کائنات نے اپنے ذِمہ لے رکھی ہے اور وہ اُس کا آغاز بھی زمانۂ حمل سے کر دیتا ہے۔
جیساکہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ رحمِ مادر میں اَعضائے جسمانی کی تشکیل و تکمیل کے ساتھ ساتھ مختلف ذرائعِ ہدایت کی تکوین کا سلسلہ بھی ایک خاص نظم و ترتیب سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ پیدائش کے بعد بھی ایک خاص نظم کے تحت مختلف مراحل سے گزرتا ہوا جاری رہتا ہے۔
اِنسانی زِندگی اور اَقسامِ ہدایت
باری تعالیٰ نے اپنے نظامِ ربوبیت کا جلوۂ کمال اِنسانی زندگی کو مختلف قسم کی ہدایتوں سے سرفراز فرما کر دِکھایا ہے۔ اگر ماحولیاتی ضرورتیں، تقاضے اور حقائق کی نوعیتیں جدا جدا ہوں مگر ذریعۂ ہدایت اور ماہیتِ ہدایت ایک ہی ہو تو صاف ظاہر ہے کہ یہ تقاضائے پرورِش ہے اور نہ روِشِ بندہ پروری۔
ربّ کائنات نے اِنسان کو۔ ۔ ۔ بلکہ ہر ذِی رُوح کو۔ ۔ ۔ اُس کے حسبِ حال ذرائعِ ہدایت سے نوازا ہے۔ مطالعۂ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہدایت بنیادی طور پر درج ذیل پانچ اَقسام پر مشتمل ہے، جبکہ آخری قسمِ ہدایت مزید تین صورتوں میں پائی جاتی ہے:
1 ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی)
2 ہدایتِ حسی
3 ہدایتِ عقلی
4 ہدایتِ قلبی
5 ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
i ہدایتِ عامہ (ہدایتُ الغایہ)
Ii ہدایتِ خاصہ (ہدایتُ الطریق)
Iii ہدایتِ اِیصال (ہدایتُ الایصال)
1۔ ہدایتِ فطری (ہدایتِ وِجدانی)
شبلی نعمانی اور ابوالکلام آزاد اِسے ہدایتِ وجدانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بقول ابوالکلام وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی اِلہام موجود ہے جو اُسے زندگی اور پرورِش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ خارجی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ بچہ اِنسان کا ہو یا حیوان کا، جونہی شکمِ مادر سے باہر آتا ہے خودبخود معلوم کر لیتا ہے کہ اُس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اُسے چوسنا چاہئے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، اُن کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں لیکن ماں جوشِ محبت میں اُنہیں چاٹ رہی ہے، وہ اُس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے اِس دُنیا میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے، جسے خارِج کے مؤثرات نے چُھوا تک نہیں، وہ کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اُسے پستان منہ میں لے لینا چاہئیں اور اُس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اُس وقت اُس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اِس طرح اپنی غذا حاصل کر لے؟ یقیناً وہ فطری ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وہ فطری ہدایت ہے جو حواس و اِدراک کی روشنی نمودار ہونے سے بھی پہلے ہر مخلوق کو اُس کی پرورش و زِندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔
بلاشبہ یہ ربوبیتِ اِلٰہی کی فطری ہدایت ہے، جس کا اِلہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو اُن پر زندگی اور پرورِش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ذِی رُوح کو پیدائش کے ساتھ ہی عطا کر دی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں اِس طرح آیا ہے:
رَبُّنَا الَّذِی أَعطٰی کُلَّ شَیٍٔ خَلقَہٗ ثُمَّ ھَدٰیO(طہٰ،20:50)
ہمارا ربّ وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اُس کے لائق) وُجود بخشا، پھر (اُس کے حسبِ حال) اُس کی رہنمائی کیO
2۔ ہدایتِ حسّی
ہدایت کا دُوسرا مرتبہ حواس اور مدرِکاتِ حسّی کی ہدایت ہے اور وہ اِس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اُس جوہرِ دِماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم قدرت نے اُنہیں اِحساس و اِدراک کی وہ تمام قوّتیں دے رکھی ہیں جن کی زِندگی و معیشت کے لئے ضرورت تھی اور اُن کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، تولد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و اِدراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لئے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وُجود کو اُتنی ہی اور ویسی ہی اِستعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی اِستعداد اُس کے اَحوال و ظروف کے لئے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوتِ شامّہ نہایت دُور رس ہوتی ہے، اِس لئے کہ اُسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر اُن کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اُڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔
یہ ہدایت جو حواسِ خمسہ کے ذریعے میسر آتی ہے، اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’سمع‘ و ’بصر‘ کے حوالے سے یوں کرتا ہے:
إِنَّ السَّمعَ وَ البَصَرَ وَ الفُؤادَ کُلُّ أُولٰئِکَ کَانَ عَنہُ مَسؤلاًO (بنی اسرائیل، 17:36)
بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گیO
وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمعَ وَ الأَبصَارَ وَ الأَفئِدَۃَ۔ (ملک، 23:68
اور اُس نے تمہاری رہنمائی کے لئے کان، آنکھیں اور دِل و دماغ پیدا فرمائے۔
3۔ ہدایتِ عقلی
ہدایتِ عقلی عقل اور فہم و تدبّر سے میسر آتی ہے۔ اِس کا ذِکر قرآنِ مجید قلب، عقل، فؤاد اور تعقّل و تدبّر کے الفاظ میں کرتا ہے۔ چنانچہ جا بجا اِرشاد ہوتا ہے:
أَفَلاَ تَعقِلُونَ؟
تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ؟
وہ تدبر اور بصیرت سے کام کیوں نہیں لیتے؟
4۔ ہدایتِ قلبی
ہدایتِ قلبی تزکیۂ نفس کے ذریعے دِل کی صفائی اور باطنی روشنی سے میسر آتی ہے۔ اس کا ذِکر قرآنِ مجید ’علمِ لدُنی‘ کے اَلفاظ میں کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خضرؑ کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
أٰ تَینَاہُ رَحمَۃً مِّن عِندِنَا وَ عَلَّمنَاہُ مِن لَّدُنَّا عِلمَاًO (الکہف، 18:65
ہم نے اُسے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اُسے اپنا علمِ لدُنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھاO
یہاں تک ہدایت اور رہنمائی کی جتنی صورتیں بھی بیان ہوئیں سب ظنّی تھیں اور اُن میں خطا کا اِحتمال باقی تھا۔ اُن سے حاصل ہونے والا علم یقینی اور قطعی نہیں ہو سکتا۔ اُس سے حاصل ہونے والے نتائج خواہ کتنے ہی صحیح کیوں نہ ہوں لیکن غلطی کا اِمکان پھر بھی باقی رہتا ہے کیونکہ اُن میں اِنسانی کسب کو دخل حاصل ہے۔
5۔ ہدایتِ ربانی (ہدایت بالوحی)
اس کی مزید تین قسمیں ہیں:
-i ہدایتِ عامہ (ھدایۃُ الغایۃ)
یہ وہ یقینی ہدایت ہے جو انبیائے کرام کو بصورتِ وحی عطا ہوتی ہے اور اُن کے ذریعے وہ عام اِنسانوں تک پہنچائی جاتی ہے۔
اِس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے:
وَ جَعَلنَا مِنھُم أَئِمَّۃً یَّھدُونَ بِأَمرِنَا۔ (السجدہ، 32:24)
اور ہم نے ان میں سے پیشوا یعنی انبیاء مبعوث کر دیئے جو انہیں ہمارے حکم کی رہنمائی عطا کرتے ہیں۔
اِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا:
قَد تَبَیَّنَ الرُّشدُ مِنَ الغَیِّ۔ (البقرہ، 2:265)
بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔
فَمَن شآء فَلیُؤمِن وَ مَن شآء فَلیَکفُر۔ (الکہف،18:29)
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے اِنکار کر دے۔
ایک اور مقام پر اِس ہدایت کا ذکر یوں کیا گیا:
إِنَّا ھَدَینَاہُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاکِراً وَّ إِمَّا کُفُوراًO (الدھر، 76:3)
بیشک ہم نے اُسے سیدھی راہ دِکھا دی ہے، اَب چاہے وہ مان لے یا اِنکار کر دےO
یہ ہدایت تمام بنی نوع اِنسان کے لئے ہوتی ہے۔ اِس میں کسی کو اِمتیاز حاصل نہیں ہوتا۔ تمام انبیائے کرام کی دعوت اِسی ہدایت پر مشتمل ہوتی ہے۔ اِس لحاظ سے قرآن خود کو "ھُدیً لِّلنَّاسِ” کہتا ہے، کہ یہ قرآن تمام اِنسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یعنی تمام اِنسانوں کو بلا اِمتیازِ رنگ و نسل نورِ ہدایت مہیا کرتا ہے اور ہر ایک کو جہالت و گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر علم و ہدایت کے اُجالوں کی طرف لے آتا ہے۔ یہ ہدایت ہر ایک کو زِندگی کا مقصد اور منزل کا شعور عطا کرتی ہے۔ اسے ہدایتِ عامہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
-ii ہدایتِ خاصہ (ھدایۃُ الطریق)
یہ ہدایتِ ربانی کا دُوسرا درجہ ہے، جو ہدایتِ عامہ کے بعد بالخصوص اہلِ ایمان کو نصیب ہوتا ہے۔ جو لوگ انبیاء کی دعوت پر اِیمان لانے کے بعد سعادتِ اُخروی کی منزلِ مقصود کے حصول کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں اُنہیں باری تعالیٰ اِس خاص ہدایت کی دولت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ یہ ہدایت اُس راستے کی مفصل نشاندہی پر مبنی ہوتی ہے جو اصل منزل تک پہنچاتا ہے۔
اس کا ذِکر قرآنِ مجید میں یوں ملتا ہے:
وَ مَن یُّؤمِنم بِاﷲِ یَھدِ قَلبَہٗ۔(التغابن، 64:11)
اور جو کوئی اللہ پر اِیمان لے آئے اُس کے دِل کو صحیح رہنمائی عطا کر دی جاتی ہے۔
إِنَّ الَّذِینَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ یَھدیھِم رَبُّھُم بِإِیمَانِھِم۔(یونس، 10:9)
بیشک جو لوگ اِیمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اُنہیں اُن کا ربّاُن کے اِیمان کے باعث (جنتوں تک) پہنچا دے گا۔
صاف ظاہر ہے کہ یہ ہدایت کا وہ مقام ہے جو صرف ایمان اور اَعمالِ صالحہ کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔
مزید اِرشاد فرمایا گیا ہے:
فَھَدَی اللہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا۔(البقرہ، 2:132)
پھر اللہ تعالیٰ نے اِیمان والوں کو ہدایت دی۔
وَ الَّذِینَ جَاھَدُوا فِینَا لَنَھدیَنَّھُم سُبُلَنَا۔ )العنکبوت،69:29)
جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم یقیناً اُن پر اپنے راستے کھول دیتے ہیں۔
یہ ہدایتِ عامہ سے بلند ہدایت ہے جو ہر شخص کے لئے مقرّر نہیں۔ یہ صرف اُنہی لوگوں کے لئے خاص ہے جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں۔
اِرشاد فرمایا گیا:
وَ الَّذِینَ اھتَدَوا زَادَھُم ھُدًی۔(محمد،17:47)
اور جن لوگوں نے ہدایت پائی، اللہ نے اُن کی ہدایت میں مزید اِضافہ کر دیا۔
-iii ہدایتُ الایصال
یہ وہ آخری اور حتمی ہدایت ہے جس میں منزلِ مقصود تک کامیابی و کامرانی کے ساتھ پہنچنے کی قطعی ضمانت عطا کی جاتی ہے۔ یہ ہدایت عام اہلِ اِیمان کے لئے بھی نہیں بلکہ صرف اُن مومنوں کے لئے ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ اِس میں نہ صرف منزلِ مقصود کی روشنی مہیا کی جاتی ہے اور اُس کے راستے کی نشاندہی کی جاتی ہے بلکہ راہِ حق کے مسافروں کو خیر و عافیت کے ساتھ منزلِ مقصود تک پہنچا بھی دیا جاتا ہے۔ یہ رہنمائی کی سب سے اعلیٰ صورت ہے جس کی ضمانت قرآنِ مجید کے علاوہ دُنیا کی کوئی اور کتاب مہیا نہیں کر سکتی۔
اِس کا ذِکر اِن اَلفاظ میں کیا گیا ہے:
سَیَھدیھُم وَ یُصلِحُ بَالَھُمO(محمد،5:47)
اللہ تعالیٰ عنقریب اُنہیں اپنی منزل تک پہنچائے گا اور اُن کا حال سنوار دے گاO
اِسی طرح اہلِ جنت اپنی منزل ’جنت‘ کو پاکر کہیں گے:
اَلحَمدُ للہِ الَّذِی ھَدَانَا لِھٰذَا۔ (الاعراف،4:37)
سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔
قرآنِ حکیم اپنی رہنمائی کے اِس درجے کا ذِکر اِن اَلفاظ میں بھی کرتا ہے:
إِنَّ ھٰذَا القُرآنَ یَھدی لِلَّتِی ھِیَ أَقوَمُ۔ )بنی اسرائیل،9:17)
بیشک یہ قرآن اُس (منزل) کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے درُست ہے۔
ہدایتِ اِیصال کے میسر آ جانے کے بعد گمراہی کا کوئی اِمکان باقی نہیں رہتا۔
اِنسانی ذرائعِ علم
اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ نظامِ ربوبیت نے اِنسان کو اپنے گرد و پیش اور ماحول سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائعِ علم و ہدایت سے نوازا ہے۔ اُسے سوچنے کے لئے طاقتور دِماغ، دیکھنے کے لئے صاف شفاف آنکھیں، سُننے کے لئے حسّاس کان، چکھنے کے لئے زبان، سُونگھنے کے لئے ناک، چھُونے کے لئے ہاتھ اور اِحساسِ لمس کے لئے اَعصاب بخشے گئے ہیں۔ اِن ذرائعِ علم کو عقل اور حواس کہا جاتا ہے۔ یہ اُس ذاتِ برحق کی عنایت ہے کہ اُس نے اِن ذرائع کو بالعموم ہر اِنسان کے لئے کھلا رکھا ہے، اُنہیں محدُود اور مسدُود نہیں فرمایا۔
اِنسان کو ذرائعِ علم عطا کئے جانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ بھرپور طریقے سے کائنات میں زندگی بسر کر سکے مخلوقات اور اُن کے خواص و اَوصاف کو جانے، اُن کی حقیقتوں کا اِدراک کرے اور اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مختلف زاویوں سے غور و فکر کر سکے۔
اِس مقصد کے لئے بلا تمیز رنگ و نسل، اِنسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں اُنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
-1 حواسِ خمسہ ظاہری
-2 حواسِ خمسہ باطنی
-3 لطائفِ خمسہ قلبی
1۔ حواسِ خمسہ ظاہری
حواس کی پہلی قسم حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتی ہے، جن کی تعداد پانچ ہے اور یہ عمر کے ساتھ ساتھ تکمیلی مراحل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔
-1 حسِ لامسہ (چھُونے کی قوت)
-2 حسِ باصرہ (دیکھنے کی قوت)
-3 حسِ سامعہ (سُننے کی قوت)
-4 حسِ ذائقہ (چکھنے کی قوت)
-5 حسِ شامہ (سُونگھنے کی قوت)
یہ وہ پانچ ذرائعِ علم ہیں جن کی بدولت اِنسان اپنے گرد و پیش اور ماحول سے اپنا اِدراکی تعلق قائم کرتا ہے، مگر یہ حواس صرف ظاہری دُنیا (physical world) کی حقیقتوں کو جاننے اور اُن کا اِدراک کرنے تک محدُود رہتے ہیں۔ یہ حواس اِنسانی ذِہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے پر مامور ہیں۔ ’قوتِ لامسہ‘ کا کام کسی چیز کو چھُو کر یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے؟ نرم و گداز ہے یا سخت اور کھردری ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز غیر مادّی جسم رکھتی ہے تو ہاتھ کوشش کے باوُجود اُس کے وُجود کا سُراغ نہیں لگا سکتے۔ اِسی طرح ’قوتِ باصرہ‘ کا کام مرئی اشیاء کو دیکھنا اور اُن کے وُجود کا سراغ لگانا ہے۔ لیکن آنکھ اُسی وقت جسم کا سُراغ لگا سکتی ہے جب کوئی چیز دیکھے جانے کے قابل ہو۔ اگر کوئی چیز غیر مرئی ہے تو اُسے ’قوتِ باصرہ‘ معلوم نہیں کر سکتی۔ علیٰ ہٰذا القیاس ’قوتِ سامعہ‘ کا کام آواز کا پتہ لگانا ہے۔ خوشبو یا بدبو کو ’قوتِ شامہ‘ کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ مٹھاس یا کڑواہٹ کا اِحساس ’قوتِ ذائقہ‘ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے
آنکھ کے دائرۂ بصارت میں آنے والی کوئی چیز کسی اور حسّ کے ذریعے نہیں دیکھی جا سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی شخص کی قوّتِ سامعہ مفقود ہو جائے تو وہ بقیہ چاروں حواس کو آزمانے کے باوُجود آواز کا سُراغ لگانے سے قاصِر رہتا ہے۔ اگر زبان ذائقے کا پتہ نہ چلا سکے تو آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں سلامت ہونے کے باوُجود انسان مختلف ذائقوں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ روزمرّہ زندگی میں عام مشاہدے میں آنے والی یہ حقیقت ہمیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ حواسِ خمسہ ایک دُوسرے کا بدل نہیں بن سکتے۔
حواسِ ظاہری کا محدُود دائرۂ کار
اَب ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ اور حلقہ ہوتا ہے۔ جو اشیاء حواسِ ظاہری کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں اُنہیں ’اِدراکاتِ حسّی‘ کہتے ہیں۔ جو شئے جس حاسّے کے دائرہ کار میں آتی ہے اُسے ہمیشہ اُسی حاسّے کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر اُس حاسّے کے بجائے اُس پر دُوسرے حواس آزمائے جائیں تو لاکھ کوشش کے باوُجود اُس چیز کی صحیح ماہیت اور ہیئت کا اِدراک ناممکن ہوتا ہے۔
آواز کو کان کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ سمجھ میں آ سکتی ہے۔ رنگوں کو آنکھوں کے ترازو میں تولا جائے تو اُن میں اِمتیاز کیا جا سکتا ہے۔ خوشبو کو قوتِ شامّہ کے ذریعے معلوم کیا جائے تو وہ اِنسانی اِدراک میں سما سکتی ہے، لیکن مذکورہ بالا حواس کے علاوہ اُسی چیز کو کسی دُوسرے حاسّے کی مدد سے جاننے کی کوشش بے کار ثابت ہو گی۔ طے یہ پایا کہ اگر کوئی وُجود دُنیا میں موجود ہے مگر اُسے معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہیں تو پھر باقی سارے حواس آزمانے کے باوُجود اُس وُجود کا سُراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
ایک لطیف تمثیل
مولانا رومؒ نے اِس بات کو ذِہن نشین کرانے کے لئے بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ پانچ اندھے تھے۔ اُنہوں نے ساری زندگی ہاتھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ ہاتھی کو اُن کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا گیا اور ہر ایک سے کہا گیا کہ باری باری ہاتھ سے چھُو کر بتاؤ کہ ہاتھی مجموعی طور پر کیسا ہوتا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اُس ہاتھی کو جاننے کی کوشش کی۔ چنانچہ اِس کوشش کے نتیجے میں ایک نابینا کا ہاتھ ہاتھی کے پیٹ پر پڑا، اُس نے کہا ہاتھی تو دیوار کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نابینا نے اپنا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگوں پر رکھا تو اُس نے خیال کیا کہ ہاتھی تو ستونوں کی طرح ہوتا ہے۔ ایک نے ہاتھی کے کان کو ٹٹولا تو اُس نے گمان کیا کہ ہاتھی تو پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ اِسی طرح ایک نے سُونڈ پر ہاتھ لگایا تو اُس نے کہا کہ ہاتھ تو رَسّے کی مانند ہوتا ہے۔
الغرض پانچوں نابینا اپنے تمام تر حواس آزمانے کے باوُجود اِتنے بڑے وُجود )ہاتھی( کے صحیح اِدراک سے قاصر رہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ جس حاسّے کی مدد سے اُس وُجود کو جانا جا سکتا تھا، یہ لوگ اُس سے محروم تھے اور اُس کی عدم موجودگی میں دُوسرے تمام حواس آزمانے کے باوُجود اُنہیں ہاتھی کی شکل و صورت معلوم نہ ہو سکی۔
اِس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ:
اولاً : حواس خمسہ ظاہری صرف طبیعی دُنیا (physical world) کی اشیاء کا اِدراک کر سکتے ہیں، جس میں مادّہ اور توانائی دونوں شامل ہیں۔
ثانیاً: ہر حس کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ جو چیز اُس دائرے میں آ جائے وہ حس فقط اُسی کو محسوس کر سکتی ہے، لیکن جو چیز اُس حس کے دائرے سے باہر ہو اُس شے کا صحیح اِدراک باقی تمام حواس مل کر بھی نہیں کر سکتے۔
حواسِ خمسہ ظاہری کی بے بسی
ایک اور قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ اگر حواس درُست اور سلامت ہوں لیکن اُنہیں عقل کی سرپرستی حاصل نہ ہو تو یہ پانچوں حواس کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرنے کے باوُجود اِنسان کو کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ اُن سے حاصل شدہ مواد خام مال (raw material) یا اِدراک (perception) تو کہہ سکتے ہیں، علم (knowledge) ہرگز نہیں قرار دے سکتے۔ یہ اِدراک اور اِحساس اُس وقت علم کا رُوپ اِختیار کرتا ہے جب آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت، ہاتھوں کے لمس اور زبان کے ذائقے کا تاثر عقل پر وارِد ہو اور عقل اُس اِدراک کو منظم کرتے ہوئے اُس سے صحیح نتائج اَخذ کر کے اِنسانی جستجو کو خاص نہج عطا کر دے۔
اِنسانی جسم کے جس حصے میں یہ عمل تکمیل پذیر ہوتا ہے، اُسے دِماغ کہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے بذاتِ خود عقل کو ایک بہت بڑا کارخانہ (factory) بنا دیا ہے۔ جس طرح حواسِ ظاہری کے پانچ الگ الگ حصے ہیں، اُسی طرح عقل کے بھی پانچ الگ الگ گوشے ہیں۔ عقل کے یہ تمام حصے نہایت نظم و ضبط اور باہمی اِفہام و تفہیم سے کام کرتے ہیں۔ حواسِ خمسہ ظاہری جو کچھ محسوس کرتے ہیں اُس کے تأثرات جوں کے توں دِماغ تک پہنچا دیتے ہیں۔ عقل اپنے پانچوں شعبوں کی مدد سے اُن تأثرات سے صحیح نتیجہ اَخذ کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ کان نے کیا سنا؟ ہاتھوں نے کیا چُھوا، زبان نے کون سا ذائقہ چکھا اور آنکھ نے کیا دیکھا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن حواس کا کام دِماغ کے لئے معلومات کا خام مواد تیار کرنا ہے، اُن محسوسات کو سمجھنا نہیں۔ کان بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ سُنے ہوئے الفاظ کا مطلب کیا ہے، آنکھ بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ سرخ اور سبز رنگ میں کیا فرق ہے، ہاتھ اور زبان خود یہ نہیں بتا سکتے کہ فلاں چیز نرم ہے یا سخت، میٹھی ہے یا کڑوی، آخری فیصلہ عقلِ انسانی صادِر کرتی ہے حواسِ خمسہ نہیں۔ گویا علم کی آخری صورت گری عقل سے ہوتی ہے حواسِ خمسہ ظاہری سے نہیں۔
حواسِ خمسہ ظاہری کا دائرۂ کار جہاں مادّی اور طبیعی دُنیا (physical world) تک محدُود ہے اور غیر مادّی اَشیاء کا اِدراک حواسِ ظاہری کے ذریعے ناممکن ہے وہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ اِنسانی حواس کی معلوم کردہ اشیاء کو اگر عقلِ اِنسانی منظم اور مربوط نہ کرے تو حواسِ خمسہ کے کسی قسم کے تأثرات علم کا رُوپ نہیں دھار سکتے۔
2۔ حواسِ خمسہ باطنی
جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے قدرت نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں، اِسی طرح عقلِ اِنسانی میں بھی پانچ مُدرِکات پیدا کئے گئے ہیں جنہیں ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کہا جاتا ہے۔ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ حسِ مشترک 2۔ حسِ واہمہ
3۔ حسِ متصرفہ 4۔ حسِ خیال
5۔ حسِ حافظہ
1۔حسِ مشترک
اِنسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے تأثرات کو وصول کرتا ہے۔ حواس کے اوّلین تأثرات اِس حصۂ عقل میں پہنچ کر جذب ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب ہم اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اِنسانی عقل کے اُس حصے پر اُس کی تصویر مرتسم ہو جاتی ہے۔ اِسی لئے اِسے ’لوحُ النفس‘ بھی کہتے ہیں۔
2۔حسِ خیال
حسِ خیال کا کام یہ ہے کہ وہ حسِ مُشترک میں پہنچنے والی مُدرِکات اور محسوسات کی تصاویر اور شکلوں کی ظاہری صورت کو اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے۔ مثلاً جب ہم لفظ "میں” بولتے ہیں، تو اُس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’میم‘، ’ی‘ اور ’نون غنہ‘ ہے۔ چنانچہ اُس کے ظاہر کا یہ تأثر حسِ مشترک پر منعکس ہوتا ہے اور یہ تأثر بصورتِ تصویر ’حسِ خیال‘ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
3۔حسِ واہمہ
جس طرح محسوسات کی ظاہری شکل و صورت کو ’حسِ مشترک‘ نے حواسِ ظاہری سے وُصول کیا تھا اور ’حسِ خیال‘ نے اُسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیا تھا، اُسی طرح ’حسِ واہمہ‘ مدرِکات حِسّی کے معنٰی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا اِدراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اپنے سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے، جسے ’حافظہ‘ کہتے ہیں۔
4۔حسِ حافظہ
یہاں محسوسات کے مفہوم یعنی معنوی وُجود کو اِس طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے جیسے اُن کی ظاہری شکل کو ’حسِ خیال‘ میں محفوظ کیا گیا تھا۔
5۔حسِ متصرّفہ
پانچویں اور آخری باطنی حس ’متصرّفہ‘ کہلاتی ہے۔ اُس کا کام یہ ہے کہ ’حسِ مشترک‘ میں آنے والی ظاہری صورت کو ’حسِ واہمہ‘ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور ’حسِ خیال‘ میں محفوظ شکل و صورت کو ’حسِ حافظہ‘ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ یوں اِنسان مختلف اَلفاظ سن کر اُن کا مفہوم سمجھنے، مختلف رنگ دیکھ کر اُن میں تمیز کرنے اور مختلف ذائقے چکھ کر اُن میں فرق معلوم کرنے پر قادِر ہو جاتا ہے۔
اِس طرح یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک خاص نقطے تک پہنچتے ہیں۔ جسے ’علم‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں اِدراک ’علم‘ میں بدل جاتا ہے۔ اگر یہاں ’حسِ مشترک‘ موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس بے بس ہو کر رہ جائیں۔ اگر اُن میں ’حسِ واہمہ‘ صحیح نہ ہو، تو ہم سب کچھ دیکھیں گے لیکن جان کچھ نہ سکیں گے۔ آواز تو سنائی دے گی مگر اُس کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکے گا۔ چیز کو ہاتھوں سے چُھوا تو جا رہا ہو گا مگر نرم اور سخت چیزوں میں کوئی اِمتیاز نہیں کیا جا سکے گا۔
’حواسِ خمسہ باطنی‘ کی بے بسی
اِس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ علم تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ’حواسِ خمسہ باطنی‘ کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرِکات اِن پانچوں حواسِ باطنی سے گزر کر ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں اُس وقت تک حواسِ ظاہری کے ذریعے محسوس کئے جانے والے تمام مادّی حقائق علم کی شکل اِختیار نہیں کر سکتے۔ گویا حواسِ خمسہ ظاہری کسی شئے کو محسوس تو کرتے ہیں، اُسے معلوم نہیں کر سکتے۔
دُوسری طرف عقل اور اُس کے پانچوں باطنی حواس مکمل طور پر ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اَخذ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔
اگر کسی بچے کی پرورش کا آغاز اُس کی پیدائش کے معاً بعد ایسے مقام پر کیا جائے جہاں کوئی آواز اُس کے کان میں نہ پڑنے پائے تو وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جانے پربھی کچھ بول سکے گا اور نہ سمجھ سکے گا۔ وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں یہ دراصل اُن آوازوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظے میں محفوظ کر لیا۔ جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اُس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اُس کا دِماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا اِسی طرح اُس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔
اَب یہ طے پا گیا کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ جو حقیقت ہماری باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ قوتوں کی دسترس سے باہر ہو اُس کا اِدراک عقل بھی نہیں کر سکتی۔ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اور عقل کے بغیر سارے کے سارے حواس عبث و بے کار ہیں۔ پس انسان کو جو ذرائع عطا کئے گئے ہیں، وہ ایک دُوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لئے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ اور ’حواسِ خمسہ باطنی‘ (عقل) کی فعّالیت کے باوُجود اِنسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات تشنۂ طلب رہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اِنسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اِنسان کو کس نے پیدا کیا؟ اِنسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آغازِ کائنات کیسے ہوا اور اُس کا اِختتام کیسے اور کب ہو گا؟ اِس کائنات سے اُس کا تعلق کیا ہے؟ اِس کائنات میں زندگی گزارنے کے لئے کون سے قانون کی پاسداری کی جائے؟ کون سی چیز اچھی ہے اور کون سی بری؟ ظلم کیا ہے اور اِنصاف کیا؟ مرنے کے بعد اِنسان کہاں جاتا ہے؟ آیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز کرتا ہے؟ اگر وہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے تو اِس نظامِ زندگی کا مفہوم کیا ہوا اور اگر مرنے کے بعد نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اُس کی کیفیت کیا ہے؟ مزید یہ کہ مرنے کے بعد اُس سے کوئی جواب طلبی بھی ہو گی یا نہیں؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو اِنسانی ذِہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ علیٰ ہٰذا القیاس اگر اِنسانی زندگی با مقصد ہے تو اِنسان کو اِن سوالوں کے تسلی بخش جواب چاہئیں۔ جب یہ تمام سوالات اِنسانی عقل پر دستک دیتے ہیں تو اِنسان اُن کے جواب کے لئے اپنی ’آنکھوں‘ کی طرف رُجوع کرتا ہے۔ وہ جواب دیتی ہیں کہ ہم تو خود تیرے باعث معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ ۔ ۔ ہم تیری تخلیق سے پہلے کا حال کیونکر جان سکتی ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنے ’کانوں‘ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔ کان گویا ہوتے ہیں کہ ہمارا وُجود خود تیری ہستی کا رہینِ منت ہے۔ ۔ ۔ جو اشیاء ہمارے دائرۂ اِدراک سے ماوراء ہیں، ہم اُن کا جواب کیسے دے سکتے ہیں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ شامہ‘ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ۔ ۔ وہ جواب دیتی ہے کہ یہ حقائق سونگھنے سے معلوم نہیں ہوتے۔ ۔ ۔ میں اِن سوالات کا جواب کس طرح دُوں!۔ ۔ ۔ اِنسان اپنی ’قوتِ ذائقہ‘ سے پوچھتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ اِن ماورائی حقیقتوں کو چکھا نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔ میں بھی مجبور ہوں۔ ۔ ۔ پھر اِنسان اپنی ’قوتِ لامسہ‘ سے سوال کرتا ہے تو وہ جواب دیتی ہیں کہ میں اِن اَحوال کو چھو نہیں سکتی۔ ۔ ۔ اُن کی نسبت کیا بتاؤں۔ ۔ ۔ !
الغرض اِنسان نے ’حواسِ خمسہ ظاہری‘ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دی۔ ۔ ۔ اُن میں سے ہر ایک سے پوچھا کہ بتاؤ ہمارا خالق کون ہے۔ ۔ ۔ ؟ زِندگی کا مقصد کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مجھے مرنے کے بعد کہاں جانا ہے۔ ۔ ۔ ؟ اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ مگر اِنسانی حواس اِنتہائی درماندگی کا اِظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حقائق کوئی آواز نہیں کہ ہم سُن کر بتا سکیں، کوئی رنگ نہیں کہ دیکھ کر جواب دے سکیں، مادّی اَجسام نہیں کہ چُھو کر فیصلہ صادِر کر سکیں۔ یوں اِنسانی حواس کی بے بسی اور عاجزی پوری طرح نمایاں ہو جاتی ہے۔ اور جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے اِنسان کی اَخلاقی و رُوحانی اور اِعتقادی و نظریاتی زِندگی تشکیل پاتی ہے، وہ پانچوں حواس کی زد سے ماوراء ہیں، تب اِنسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اُس کا دامن جھنجھوڑ کر کہتا ہے، اے میرے وُجود کے لئے سرمایۂ اِفتخار چیز!۔ ۔ ۔ میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق مجھے تمام حواس نے مایوس کر دیا۔ ۔ ۔ اَب تو ہی اِس سلسلے میں میری رہنمائی کر۔ ۔ ۔ مگر عقل بھی اپنے پانچوں حواسِ باطنی کی بے بسی کا اِظہار کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اے اِنسان! میں تو خود تیرے ’حواسِ ظاہری‘ کی محتاج ہوں۔ ۔ ۔ جو چیز حواسِ خمسہ ظاہری کے اِدراک میں نہیں آ سکتی اُس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادِر کر سکتی ہوں!۔ ۔ ۔ اگر ظاہری حواس خاموش ہیں تو میرے باطنی حواس کو بھی بے بس و مجبور سمجھ۔ ۔ ۔ اور یوں اِنسان کے ظاہری و باطنی تمام حواس قطعی طور پر اپنی تنگ دامانی کا اِعتراف کر لیتے ہیں۔
3۔ اِنسانی قلب کے لطائفِ خمسہ
اِن تمام حواسِ ظاہری و باطنی کے علاوہ بھی اللہ ربُّ العزت نے اِنسان کو ذریعۂ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کر رکھا ہے، جسے ’وِجدان‘ (intuition) کہتے ہیں۔ ’وِجدان‘ بعض ایسے حقائق کا اِدراک کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جن میں حواسِ ظاہری و باطنی ناکام رہ جاتے ہیں۔
وِجدان کے بھی پانچ ہی گوشے ہیں جنہیں ’لطائفِ خمسہ‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے:
1 لطیفۂ قلب
2 لطیفۂ رُوح
3 لطیفۂ سِرّ
4 لطیفۂ خفی
5 لطیفۂ اَخفی
اِن لطائف کے ذریعے اِنسان کے دِل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اُٹھنا شروع ہو جاتے ہیں، رُوح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں اِنسانی قلب بعض اَیسی حقیقتوں کا اِدراک کرنے لگتا ہے جو حواس و عقل کی زد میں نہیں آ سکتے لیکن اِنسانی وِجدان کی پرواز بھی محض طبیعی کائنات تک ہی محدُود ہے۔
امام غزالیؒ اِس سلسلے میں اِرشاد فرماتے ہیں:
وَ وراءُ العقل طورٌ أخر، تنفتح فیہ عین أُخریٰ، فیبصربھا الغیب و ما سیکون فی المستقبل و أُموراً أخر، العقل معزول عنھا۔ (المنقذ من الضلال: 54)
اور عقل کے بعد ایک اور ذریعہ ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے۔ اُس کے ذریعے غیبی (اوجھل اور مخفی) حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے اور اُن دیگر اُمور کو بھی جن کے اِدراک سے عقل قاصر رہتی ہے۔
وِجدان طبیعی کائنات کے مخفی حقائق کا اِدراک کرنے پر قادِر ہے لیکن وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی وُ سعتوں سے ماوراء ہیں، جو خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں اور اِنسانی تخلیق اور اُس کے مقصدِ تخلیق، نیز اُس کی موت اور مابعدالموت سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے بارے میں حتمی اور قطعی علم کے سلسلے میں وِجدان بھی ’حواس خمسہ ظاہری‘ اور ’عقل‘ کی طرح قاصر ہے۔ اِنسان نے یکے بعد دیگرے تینوں ذرائعِ علم کے دروازوں پر دستک دی، اُن میں سے ایک ایک کو پکارا مگر ہر ایک نے اُسے مایوس کر دیا۔ کوئی بھی ذریعہ اُس کے علم کو حتمیت اور قطعیت نہ دے سکا۔ اب اِنسان خدا کی ذات کو پکارتا اُٹھتا ہے:
اے ربِّ کائنات! میں خود اپنی ذات، اِس کائنات اور تیری ذات کو یقینی طور پر سمجھنا چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جو مجھے مطمئن کر سکے۔ اس لئے اس کائنات میں میرے لئے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، علم کا کوئی ایسا منبع تخلیق کر دے، جو مجھے اِن حقائق کے بارے میں حقیقی آگہی بخش سکے۔ جہاں تمام حواس ناکام ہو جائیں، وہاں اُسے پکارا جا سکے، جہاں اِنسانی عقل خیرہ ہو جائے وہاں اُس سے مدد کی درخواست کی جا سکے، جہاں اِنسانی وِجدان بھی نامراد لوٹ آئے وہاں اُس سرچشمۂ علم سے فیضان کی بھیک مانگی جائے۔
اِنسانی علوم کی بے بسی اور علمِ نبوّت کی ضرورت
اِنسان جب پوری طرح اپنی علمی بے بسی اور فکری کم مائیگی کا اِعتراف کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ندا آتی ہے: اَے اِنسان!۔ ۔ ۔ تو نے اپنے علم اور اپنے ذرائع کی بے بسی کا اِعتراف کر لیا۔ ۔ ۔ ہم تجھے یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ تو کہیں اپنے حواس و عقل اور کشف و وجدان کی بدولت یہ تصوّر نہ کر بیٹھے کہ میرا علم درجۂ کمال کو پہنچ گیا ہے۔۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا علم ابھی کائنات کی حقیقتوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکا۔۔ ۔ ۔ اِسی لئے قرآنِ مجید میں رُوح کی حقیقت پر بحث کے دوران میں اِرشاد فرمایا گیا:
وَ مَا أُوتِیتُم مِّنَ العِلمِ إِلَّا قَلِیلاًO)الاسراء،17:85)
اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہےO
اے اِنسان! تُجھے جس سرچشمۂ علم کی تلاش تھی وہ ہم نے نظامِ نبوّت و رسالت کی صورت میں اِس کائنات میں قائم کر دیا ہے۔ ۔ ۔ جا دروازۂ نبوّت پر دستک دے۔ ۔ ۔ اُسی چوکھٹ سے رہنمائی طلب کر۔ ۔ ۔ علمِ نبوّت کے فیضان سے یہ تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی۔۔ ۔ ۔ چنانچہ علمِ نبوّت اور ہدایتِ ربانی نے بالآخر اِنسان پر وہ عظیم اِحسان کیا ہے کہ جس کی بدولت اُس کے شعوری، علمی اور فکری اِرتقاء کا سفر اپنی منزلِ مقصود تک جا پہنچا۔ یہ سب کچھ ربوبیتِ اِلٰہیہ کا پرتو تھا، جس نے اِنسان کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اُس کی شعوری اور فکری و علمی نشو و نما کا بھی سامان مہیا کر دیا، ورنہ وہ ہمیشہ ہمیشہ حقیقت مطلقہ سے لاعلمی اور جہالت کا شکار رہتا۔ اُسی ربِّ کریم کی شانِ ربوبیت نے اُسے سنبھالا دیا اور اُس کا فکر و شعور اپنے ساحلِ مراد تک پہنچنے کے قابل ہوا۔ اِس آخری ہدایت کے بغیر اِنسانی فکر و شعور ’حسیت‘، ’عقلیت‘ اور ’تشکیک‘ کے بھنوروں سے نکل کر بالآخر ’لااَدریت‘ کے دامن میں اِعترافِ ناکامی کر کے سستانے لگا تھا اور اِس امر کا برملا اِعلان کر رہا تھا کہ انسان حقیقتِ علیا (ultimate reality) کو نہیں جان سکتا اور حسنِ مطلق (absolute reality) کی جلوہ ریزیوں سے شادکام نہیں ہو سکتا کہ اُسے یکایک ندا سنائی دی:۔ ۔ ۔ "لَا تَقنَطُوا مِن رَّحمَۃِ اﷲِ” (اﷲ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو)۔۔ ۔ ۔ تمہاری جبلی، طبعی، حسی، عقلی اور قلبی و وِجدانی اِستعداد نے تمہیں جواب نہ دیا تو کیا ہوا، ربِّ کریم کی رحمت کا دروازہ تو بند نہیں ہوا۔ آ ہم تجھ پر اپنی ہدایت کا دروازہ کھولتے ہیں اور وہ ہے "بابِ نبوّت” جس کی دہلیز پر سرِ تسلیم خم کرنے سے تجھے وحی اِلٰہی کے نورِ علم سے یوں سرفراز اور منوّر کیا جائے گا کہ تیرے فکر و شعور کی ساری منزلیں قیامت تک اُسی روشنی میں طے ہوتی رہیں گی۔ اِس فیضانِ نبوت کے ذریعے تیری تمام مایوسیاں ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں گی۔ پھر تیرا فکری اِرتقاء اِس ’علم بالوحی‘ کی روشنی میں ہمیشہ صحیح سمت میں اِس طرح جاری رہے گا کہ اُس میں کبھی تعطل نہ آ سکے گا۔
اِنسانی زندگی کا فکری و شعوری اِرتقاء کے سلسلے میں اﷲ ربّ العزت نے حواسِ خمسہ ظاہری، عقل کے حواسِ خمسہ باطنی اور وِجدان کے لطائفِ خمسہ کو پروان چڑھایا اور اُنہیں حقیقت تک پہنچنے کے لئے ذریعہ بنایا۔ تاہم جو حقائق اُن کی حدود سے ماوراء ہیں اُن کے لئے علم بیالوحی کی ضرورت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اُن حقائق سے آگہی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے اِنسانیت کو ہدایت بخشی۔
باب چہارُم
اِسلام اور طبِ جدید
اِسلام دینِ فطرت ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا لفظ لفظ حقائق پر مبنی ہے اور اپنے اندر معانی کی لاتعداد وُسعت رکھتا ہے۔ تاہم اُن کے مُشاہدے کے لئے علم اور دانش کی ضرورت ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:
ھُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنہُ اٰیٰتٌ مُّحکَمٰتٌ ھُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِھِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنہُ ابتِغآء الفِتنَۃَ وَ ابتِغآء تَأویلِہٖ وَ مَا یَعلَمُ تَأویلَہٗٓ اِلَّا اللہُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُو الأَلبَابِO
وُہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازِل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں، وُہی (اَحکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دُوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی اِحتمال اور اِشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے اُس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِاثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مُراد لینے کی غرض سے، اور اُس کی اصل مُراد کو اللہ کے سِوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اُس پر اِیمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے ربّ کی طرف سے اُتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہےO (آل عمران، 3:7)
اِس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ حکیم میں دو طرح کی آیات نازِل کی ہیں۔ اوّل محکمات جو اَحکامِ قرانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا مطلب واضح اور مقصدِ نزول عیاں ہے، اُن میں کسی قسم کی تأویل کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ دُوم وہ آیات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متشابہات کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اِن آیات کا تعلق ماورائے عقل حقائق سے ہے اور اِنسان اپنے محدُود علم اور حواس کے ذریعے اُن کا کامل اِدراک نہیں کر سکتا۔ اُن کا صحیح مطلب اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ یعنی دانشمند لوگ اُن آیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ سے وہ لوگ مُراد ہیں جو اپنے علم و فن میں پختہ اور اپنی فیلڈ میں ماہر و کامل اور اسپیشلسٹ ہیں۔ قرآنی علوم کا دائرہ اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علوم سے وسیع ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ کمال ہے کہ اَحکام و اُصول سے متعلق کوئی بات اُس نے تشنہ یا نامکمل نہیں رہنے دی، قرآنِ مجید بنی نوعِ اِنسان کے لئے ہر علم و فن کا سرچشمہ ہے۔ اِس سلسلے میں قرآنِ مجید کے الفاظ کس قدر واضح ہیں:
وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئ۔ (النحل،16:89)
اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازِل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔
یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ قرآن اور احادیث کے عظیم مجموعے میں ہر علم و فن کے لئے اِشارے موجود ہیں مگر اُنہیں سمجھنے کے لئے عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اِسلام کی عمومی تعلیمات بنی نوعِ اِنسان کی فلاح کے لئے حفظانِ صحت کے اُصولوں کے عین مطابق ہیں جنہیں قرآنِ مجید اور پیغمبرِ اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے وضع فرمایا تھا۔ جدید سائنس اَب کہیں جا کر اُن زرّیں اُصولوں کی اِفادیت سے آگاہ ہوئی ہے جو تاجدارِ کائنات ﷺ نے بالکل سادہ اور عام فہم زبان میں اپنی اُمت کو سمجھائے تھے۔
مسلسل طبی تحقیق کی ترغیب
طبی نکتۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات ﷺ کا اِرشادِ گرامی ہے:
ما أنزل اﷲ مِن دآءٍ إلا أنزل لہ شفآءٌ۔ (صحیح البخاری، 2:847) (جامع الترمذی، 2:25)
اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔
یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔
صحت، صفائی اور حفظِ ماتقدّم
اِسلام علاج سے زیادہ حفظانِ صحت اور اِحتیاطی طبی تدابیر پر زور دیتا ہے۔ اِسلام کی جملہ تعلیمات کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا پہلا قدم اور پہلا اُصول بھی طہارت ہے۔ طہارت کے بارے میں حضور نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:
الطہورُ شطرُ الإیمانِ۔ (الصحیح لمسلم،1:118)
صفائی اِیمان کا لازمی جزو ہے۔
اِسلامی تعلیمات میں طہارت کا باب اُن مقامات کی طہارت سے شروع ہوتا ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ یہ طہارت کا پہلا اُصول ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر طہارت کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا۔
عن أنس بن مالک یقول: "کان النبیﷺ إذا خرج لحاجتہ، أجئ أنا و غلام و أداوۃ من مآء یعنی تستنجی بہ”۔
(صحیح البخاری، 1:27)
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب نبئ اکرم ﷺ رفعِ حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن لے کر حاضرِ بارگاہ ہوتے تاکہ آپﷺ اس سے اِستنجا فرما لیں۔
آج عالمِ مغرب میں پانی سے طہارت کے اس فطری طریقہ کو چھوڑ کر کاغذ وغیرہ کے استعمال کو رواج مل چکا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہ طریقہ پروان چڑھ رہا ہے حالانکہ اِس سے کئی خرابیاں اور قسم قسم کی بیماریاں بھی دَر آئی ہیں۔ عافیت درحقیقت اِسلام ہی کے بیان کردہ اُصولوں میں ہے۔ طبِ جدید کے مطابق جو لوگ رفعِ حاجت کے بعد طہارت کے لئے پانی کی بجائے فقط کاغذ استعمال کرتے ہیں اُنہیں مندرجہ ذیل بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
-1 Pilonidal Sinus: یہ ایک بال دار پھوڑا ہے جو پاخانے کی جگہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کا علاج آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
-2 Pyelonephritis: پیشاب کے راستوں اور گردوں میں پیپ کا پیدا ہو جانا، بالخصوص عورتوں میں پاخانے کے جراثیم پیشاب کی نالی میں آسانی سے داخل ہو کر سوزش اور پیپ پیدا کر دیتے ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ گردوں کی مہلک بیماری لاحق ہو جاتی ہے، جس کا پتہ بعض دفعہ اُس وقت چلتا ہے جب وہ اِنتہائی پیچیدہ صورت اِختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج صرف آپریشن رہ جاتا ہے۔
وضو سے حفظانِ صحت
نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاغسِلُوا وُجُوھَکُم وَ أَیدیَکُم اِلَی المَرَافِقِ وَ امسَحُوا بِرُئُ وسِکُم وَ أَرجُلَکُم اِلَی الکَعبَینِط(المائدہ، 5:6)
تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔
وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالی نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا از خود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔
آدابِ طعام اور حفظانِ صحت
بیماری کے جراثیم کھانا کھاتے وقت بآسانی ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے۔ اس میں اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے تاجدارِ رحمتﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
برکۃُ الطعامِ: الوضوئُ قبلہ و الوضوئُ بعدہ۔
(جامع الترمذی، 2:7)
(سنن ابی داؤد، 2:172)
کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔
کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھو کر اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کر لیا جائے تو بھی اُس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ سے ہاتھوں پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُس تولئے پر پہلے سے کچھ جراثیم موجود ہوں اور ہمارے ہاتھ خشک کرنے کے عمل سے وہ ہمارے صاف ہاتھوں سے چمٹ جائیں اور کھانے کے دوران میں ہمارے جسم میں داخل ہو جائیں۔ اِس بارے میں بھی اِسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔،فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے:
وَ لا یمسح یدہ قبل الطعام بالمندیل لیکون أثر الغسل باقیاً وقت الأکل۔(الفتاویٰ الہندیہ، 16:32)
کھانے سے پہلے دھوئے ہاتھ کسی کپڑے سے مت خشک کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے تاجدارِ کائنات ﷺ کی حدیثِ مبارکہ مروی ہے، جس میں آپﷺ نے فرمایا:
إذا أکل أحدکم فلا یمسح یدہ حتیٰ یَلعقھا أو یُلعقھا۔ (صحیح البخاری، 2:820)
جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔
تاجدارِ کائنات ﷺ کا اپنا معمول بھی یہی تھا:
کان النبیﷺ یأکل بثلاثِ أصابعٍ و لا یمسح یدہٗ حتٰی یلعقھا۔ (سنن الدارمی، 2:24)
نبی علیہ الصلوۃ والسلام تین اُنگلیوں سے کھاتے تھے اور (کھانے کے بعد) اُنگلیوں کو چاٹے بغیر ہاتھ صاف نہیں فرماتے تھے۔
کھانے کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھونا چاہئے مبادا خوراک کے ذرّات کسی اذیت کا باعث بنیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سو جانے سے حضورﷺ نے سختی سے منع فرمایا۔
اِرشادِ نبوی ہے:
مَن نام فی یدہ غمر و لم یغسلہ فأصابہٗ شئ فلا یلومنّ إلا نفسہٗ۔(سنن ابی داؤد، 2:182)
اگر کسی شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اُسی حال میں اُسے دھوئے بغیر سو جائے جس سے اُسے کچھ نقصان
پہنچے تو وہ اپنے آپ کو ہی برا کہے (یعنی اپنا ہی قصور سمجھے کہ ہاتھ دھو کر نہ سویا تھا)۔
اِسی طرح حضورِ اکرمﷺ کا اِرشاد گرامی ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں:
إذا استیقظ أحدکم من نومہ فلا یغمس یدَہٗ فی الإنائِ حتی یغسلھا ثلاثًا، فإنّہ لا یدری أین باتت یدہ۔(الصحیح لمسلم، 1:136)
جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری، (یعنی نیند کی حالت میں کہاں لگتے رہے)۔
برتن میں سانس لینے کی ممانعت
حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اَشیائے خورد و نوش کو کامل اِحتیاط سے رکھنا چاہئے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو اُنہیں ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ اُن میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحتِ انسانی کے لئے مضر ہوں۔ اِسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔
تاجدارِ کائنات ﷺ کا اِرشاد ہے:
عن عبد اﷲ بن أبی قتادۃ عن أبیہ، قال، قال رسول اﷲﷺ: "إذا شرب أحدُکم فلا تنفّس فی الانآء”۔(صحیح البخاری، 2:841)
عبداللہ بن أبی قتادہ، اپنے والد سے رِوایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔”
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا:
عن ابن عباس، قال: "نھٰی رسولُ اللہِﷺ أن یتنفّس فی الإناء أو یُنفخ فیہ۔(جامع الترمذی، 2:11) (سنن أبی داؤد، 2:168)
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے برتن میں سانس لینے اور اُس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے۔
تاجدارِ کائنات ﷺ کا اپنا معمولِ مبارک بھی یہی تھا کہ آپ کھانے پینے کی اَشیاء میں کبھی سانس لیتے اور نہ اُنہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے پھونک مارتے تاکہ اُمت کو بھی اِس کی تعلیم ہو۔
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
لم یکن رسول اﷲﷺ ینفخ فی طعام و لا شراب و لا یتنفّس فی الإناءِ۔
رسولِ اکرمﷺ کسی کھانے کی چیز میں پھونک مارتے تھے اور نہ پینے کی چیز میں اور برتن میں سانس بھی نہیں لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ : 244)
طبِ جدید کے مطابق بھی کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارنی چاہئے کیونکہ اس سے بیماری کے جراثیم اَشیائے خورد و نوش میں منتقل ہو سکتے ہیں جو بعد ازاں کسی دُوسرے کھانے والے کو بیمار کر سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے بہت پہلے یہ باتیں فرما دی تھیں۔
متعدّی اَمراض سے حفاظت
وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ آج اگرچہ اُس پر قابو پایا جا چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک یہ شہروں کے شہر ویران کر دیا کرتا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ بچتا جس میں صفِ ماتم نہ بچھتی تھی۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے تاجدارِ حکمت نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔
تاجدارِ کائنات ﷺ نے فرمایا:
إذا سمعتم بالطاعونِ بأرضٍ فلا تدخلوھا، و إذا وقع بأرضٍ و أنتم بھا فلا تخرجوا منھا۔ (صحیح البخاری، 2:853)
جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہیں ہو تو اُس علاقے کو چھوڑ کر مت بھاگو۔
گویا آپ نے نہ صرف ایسے شہر سے باہر کے لوگوں کو طاعون سے بچانے کے لئے وہاں جانے سے منع فرمایا بلکہ اُس شہر کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کر کے آس پاس کے شہروں کو بھی طاعون سے محفوظ فرما دیا مبادا وہاں سے لوگ ہر طرف بھاگ نکلیں اور یہ مرض آس پاس کے تمام شہروں میں پھیل جائے۔
دانتوں اور منہ کی صفائی
دانتوں کی صفائی کے بارے میں تاجدارِ حکمت و بصیرتﷺ کا ارشادِ مبارکہ ہے:
طھّروا أفوَاھَکم۔ (سلسۃ الأحادیث الصحیۃ للألبانی، 3:215)
اپنا منہ صاف رکھو۔
طبی نقطۂ نظر سے دانتوں کی صفائی جہاں دانتوں کو بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھتی ہے وہاں اَمراضِ معدہ کے سدِ باب کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ کائنات ﷺ نے دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیا۔
ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:
لو لا أَن أشقّ علیٰ أمتی لأمرتُھم بالسّواک مع کلّ صلوۃٍ۔ (صحیح البخاری، 1:122) (سنن النسائی، 1:6)
اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔
حضورﷺ مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔
قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضورﷺ کس میڈیکل کالج میں پڑھے، اللہ ربّ العزت تو خود حضورﷺ کو اُمی کہہ رہا ہے۔ تاجدارِ حکمتﷺ کی ذاتِ پاک کی تعلیم کا مبدا اور سرچشمہ اللہ کی ذات تھی۔ آقا علیہ الصلوۃُ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے وہ اُصول جو آج اپنے گوناگوں فوائد کے ساتھ منظرِ عام پر آ رہے ہیں، آپ نے آج سے چودہ صدیاں قبل بغیر کسی کالج/یونیورسٹی کی تعلیم کے بیان فرما دیئے۔ ایسے میں ہماری نگاہیں اُس عظیم حق کے سامنے کیوں نہ جھکیں، ہم یہ کیوں نہ تسلیم کریں کہ سرکار کا ہر فرمان حق اور درُست ہے۔ دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرنا بھی سنتِ نبوی ﷺ ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام کا اِرشاد ہے:
مَن أکل فلیتخلّل۔ (سنن الدارمی، 2:35)
جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔
دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہے۔ حضورﷺ نے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔
نماز کے طبی فوائد
نماز اَرکانِ اِسلام میں توحید و رسالت کی شہادت کے بعد سب سے بڑا رُکن ہے۔ اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے اِسے اِیمان اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات اپنی جگہ مسلّم ہیں، سرِدست چونکہ ہمارا موضوع طبی تحقیقات کے اِرتقاء میں اِسلام کا کردار ہے اِس لئے یہاں ہم اِسی موضوع کو زیرِبحث لائیں گے۔ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ فزیو تھراپی کے ماہر (physiotherapists) کہتے ہیں کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی عبادت کے طور پر وہ عمل عطا کیا کہ جس میں ورزش اور فزیو تھراپی کی غالباً تمام صورتیں بہتر صورت میں پائی جاتی ہیں۔
ایک مؤمن کی نماز جہاں اُسے مکمل رُوحانی و جسمانی منافع کا پیکیج مہیا کرتی ہے وہاں منافقوں کی علامات میں ایک علامت اُن کی نماز میں سستی و کاہلی بھی بیان کی گئی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ إِذَا قَامُوا إِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوا کُسَالٰی۔(النساء 4:142)
اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو سُستی کے ساتھ کھڑے (ہوتے ہیں)۔
تعدیلِ اَرکان کے بغیر ڈھیلے ڈھالے طریقے پر نماز پڑھنے کا کوئی رُوحانی فائدہ ہے اور نہ طبی و جسمانی، جبکہ درُست طریقے سے نماز کی ادائیگی کولیسٹرول لیول کو اعتدال میں رکھنے کا ایک مستقل اور متوازن ذریعہ ہے۔
قرآنی اَحکامات کی مزید توضیح سرکارِ مدینہﷺ کی اِس حدیثِ مبارکہ سے بھی ہوتی ہے:
فإنّ فی الصلٰوۃِ شِفاءٌ۔ (سنن ابن ماجہ:225)
بیشک نماز میں شفاء ہے۔
جدید سائنسی پیش رفت کے مطابق وہ چربی جو شریانوں میں جم جاتی ہے رفتہ رفتہ ہماری شریانوں کو تنگ کر دیتی ہے اور اُس کے نتیجہ میں بلڈ پریشر، اَمراضِ قلب اور فالج جیسی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
عام طور پر اِنسانی بدن میں کولیسٹرول کی مقدار 150 سے 250 ملی گرام کے درمیان ہوتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ہمارے خون میں اس کی مقدار اچانک بڑھ جاتی ہے۔ کولیسٹرول کو جمنے سے پہلے تحلیل کرنے کا ایک سادہ اور فطری طریقہ اللہ تعالیٰ نے نمازِ پنجگانہ کی صورت میں عطا کیا ہے۔ دن بھر میں ایک مسلمان پر فرض کی گئی پانچ نمازوں میں سے تین یعنی فجر (صبح)، عصر (سہ پہر) اور مغرب (غروب آفتاب) ایسے اوقات میں ادا کی جاتی ہیں جب انسانی معدہ عام طور پر خالی ہوتا ہے، چنانچہ ان نمازوں کی رکعات کم رکھی گئیں۔ جبکہ دُوسری طرف نمازِ ظہر اور نمازِ عشاء عام طور پر کھانے کے بعد ادا کی جاتی ہیں اِس لئے اُن کی رکعتیں بالترتیب بارہ اور سترہ رکھیں تاکہ کولیسٹرول کی زیادہ مقدار کو حل کیا جائے۔ رمضانُ المبارک میں اِفطار کے بعد عام طور پر کھانے اور مشروبات کی نسبتاً زیادہ مقدار کے اِستعمال کی وجہ سے بدن میں کولیسٹرول کی مقدار عام دنوں سے غیر معمولی حد تک بڑھ جاتی ہے اِس لئے عشاء کی سترہ رکعات کے ساتھ بیس رکعات نمازِ تراویح بھی رکھی۔
نماز کے ذریعے کولیسٹرول لیول کو اِعتدال میں رکھنے کی حکمت دورِ جدید کی تحقیقات ہی کے ذریعے سامنے نہیں آئی بلکہ اِس بارے میں تاجدارِ حکمت ﷺ کی حدیثِ مبارکہ بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
حضورﷺ نے اِرشاد فرمایا:
أذِیبوا طعامَکم بذکرِ اللہِ وَ الصلٰوۃِ(المعجم ا لأوسط،5:500، رقم:4949) (مجمع الزوائد،5:30)
اپنی خوراک کے کولیسٹرول کو اللہ کی یاد اور نماز کی ادائیگی سے حل کرو۔
اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کے اِرشاد اور عمل کے مطابق صحیح طریق پر پنج وقتی نماز ادا کریں تو جسم کا کوئی عضو ایسا نہیں جس کی اَحسن طریقے سے ہلکی پھلکی ورزش نہ ہو جائے۔ نماز کی مختلف حالتوں میں جو ورزش ہوتی ہے اُس کی تفصیل درج ذیل ہے:
تکبیرِ تحریمہ
تکبیرِ تحریمہ کے دوران نیت باندھتے وقت کہنی کے سامنے کے عضلات اور کندھے کے جوڑوں کے عضلات حصہ لیتے ہیں۔
قیام
ہاتھ باندھتے وقت کہنی کے آگے کھنچنے والے پٹھے اور کلائی کے آگے اور پیچھے کھنچنے والے پٹھے حصہ لیتے ہیں جبکہ جسم کے باقی پٹھے سیدھا کھڑے ہونے کی وجہ سے اپنا معمول کا کام ادا کرتے ہیں۔
رُکوع
رکوع کی حالت میں جسم کے تمام پٹھے ورزش میں حصہ لیتے ہیں۔ اُس میں کولہے کے جوڑ پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ گھٹنے کے جوڑ سیدھی حالت میں ہوتے ہیں۔ کہنیاں سیدھی کھنچی ہوئی ہوتی ہیں اور کلائی بھی سیدھی ہوتی ہے جبکہ پیٹ اور کمر کے پٹھے، جھکے اور سیدھے ہوتے وقت کام کرتے ہیں۔
سجدہ
سجدے میں کولہوں، گھٹنوں، ٹخنوں اور کہنیوں پر جھکاؤ ہوتا ہے جبکہ ٹانگوں و رانوں کے پیچھے کے پٹھے اور کمر و پیٹ کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں اور کندھے کے جوڑ کے پٹھے اس کو باہر کی طرف کھینچتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کلائی کے پیچھے کے عضلات بھی کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔ سجدے میں مردوں کے برخلاف عورتوں کے لئے گھٹنوں کو چھاتی سے لگانا احسن ہے یہ بچہ دانی کے پیچھے گرنے کے عارضے کا بہترین علاج ہے۔ سجدہ دل و دماغ کو خون کی فراہمی کے لئے نہایت ہی موزوں عمل ہے۔
تشہّد
التحیات کی صورت میں گھنٹے اور کولہے پر جھکاؤ ہوتا ہے، ٹخنے اور پاؤں کے عضلات پیچھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں، کمر اور گردن کے پٹھے کھنچے ہوئے ہوتے ہیں۔
سلام
سلام پھیرتے وقت گردن کے دائیں اور بائیں طرف کے پٹھے کام کرتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ سنتِ نبوی کی پیروی میں درُست طریقے سے نماز ادا کرنے کی صورت میں اِنسانی بدن کا ہر عضو ایک قسم کی ہلکی پھلکی ورزش میں حصہ لیتا ہے جو اُس کی عمومی صحت کے لئے مفید ہے۔
کم خوری اور متوازن غذا
طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ دل کی زیادہ تر بیماریاں معدے سے جنم لیتی ہیں۔ کوئی شخص جتنی زیادہ غذا کھاتا ہے اُتنی ہی زیادہ بیماریوں کو مول لیتا ہے جبکہ زائد کھانے سے اِجتناب دل کے اَمراض سے بچاؤ میں بہت مُمِد ثابت ہوتا ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی عادت اِنسانی صحت پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہیں۔ اِسی لئے اِسلام نے ہمیشہ بھوک رکھ کر کھانے اور متوازن غذا کھانے کے متعلق سختی سے اَحکامات صادِر فرمائے ہیں۔
ایک وقت میں خوراک کی زیادہ مقدار کھا جانا یا ہر روز بھاری ناشتہ کرنا یا روزانہ دوپہر کا بھرپور کھانا، شام کا بھرپور کھانا، اچھی صحت کے لئے ضروری خوراک سے کافی زیادہ ہے۔ روزانہ دن میں تین وقت کا بھرپور کھانا، خاص طور پر زیادہ کیلوریز پر مشتمل خوراک اور سیرشدہ چکنائیاں نہ صرف صحت کے لئے سخت نقصان دِہ ہیں بلکہ اَمراضِ قلب اور دُوسری بہت سی خطرناک بیماریوں مثلاً ہائی بلڈ پریشر اور شوگر وغیرہ کا سبب بھی بنتا ہے۔
قرآنِ مجید نے متوازن غذا کی عادت کو برقرار رکھنے کے لئے خوراک کے زائد اِستعمال سے دُور رہنے کی سختی سے تلقین کی ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُلُوا وَ اشرَبُوا وَ لَا تُسرِفُوا إِنَّہٗ لَا یُحِبُّ المُسرِفِینَO(الاعراف، 7:31)
کھاؤ اور پیؤ اور ضائع مت کرو اور اللہ اِسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاO
قرآنِ مجید اِفراط و تفریط سے بچا کر معتدل خوراک کی بات کر رہا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے اِسی بات کو تشبیہاً اِس انداز میں بیان فرمایا ہے:
إنّ المؤمنَ یأکلُ فی معیٍ واحدٍ، وَ الکافر یأکلُ فی سبعۃ أمعاء۔ (صحیح البخاری، 2:812) (جامع الترمذی، 2:4) (سنن الدارمی،2:25)
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔
حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے یہاں اِستعارے کی زبان اِستعمال کرتے ہوئے کتنے خوبصورت انداز میں زیادہ کھانے کو کفّار کا عمل قرار دے کر اُس سے باز رہنے کی تلقین فرمائی۔ ایک اور حدیثِ مبارکہ میں بسیارخوری کو اللہ کی ناپسندیدگی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
إنّ اللہَ یبغض الأ کلَ فوق شبعہٖ۔(کنزالعمال: 44029)
اللہ تعالیٰ بھوک سے زیادہ کھانے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
بسیار خوری بیماری کی جڑ ہے اِس لئے اِس کا مکمل خاتمہ ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام نے اِسے سختی سے ناپسند کیا ہے۔ تاجدارِ حکمت ﷺ کا فرمان ہے:
أکثر الناسِ شبعاً فی الدُّنیا أطولھم جوعاً یومَ القیامۃِ۔ (سنن ابن ماجہ :248)
جو شخص دُنیا میں جتنی زیادہ شکم پروری کرے گا قیامت کے روز اُسے اُتنا ہی لمبا عرصہ بھوکا رہنا پڑے گا۔
اِسی طرح نبی اکرمﷺ نے مزید اِرشاد فرمایا:
حسب الآٰدمی لقیمات، یقمن صلبہٗ، فإن غلبت الآٰدمی نفسہٗ فثلاث للطعامِ و ثلاث للشراب و ثلاث للنفس۔
اِنسان کی کمر سیدھی رکھنے کے لئے چند لقمے ہی کافی ہیں اور اگر زیادہ کھانے کو دل چاہے تو یاد رکھو کہ معدہ کا ایک تہائی حصہ کھانے کے لئے اور ایک تہائی مشروبات کے لئے (اِستعمال کرو) اور ایک تہائی سانس لینے میں آسانی کے لئے چھوڑ دو۔ (سنن ابن ماجہ :248)
کثرتِ طعام ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا باعث بھی بنتی ہے، جس کی اصل وجہ لبلبے کے ہارمون یعنی اندرونی رطوبت انسولین کی کمی ہے۔ زیادہ خوراک کھانے کی وجہ سے لبلبے کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور بار بار ایسا ہونے سے لبلبے کے خلئے تھک جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ انسولین کی کمی کا ایک بڑا سبب بسیار خوری بھی ہے۔ ذیابیطس اُم الامراض ہے جس کی موجودگی میں بڑے اَمراض بلڈپریشر، فالج اور اَمراضِ قلب کے حملہ آور ہونے کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔
مجوزّہ غذائیں
اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے بنیادی شے خوراک کی مقدار نہیں بلکہ ایسی خوراک کا چناؤ ہے جو متوازن ہو اور تمام جسمانی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کر سکے۔ کھانا کھاتے وقت اگر ہم اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں تو بہت سے اَمراض سے بچ سکتے ہیں۔ حلال غذائیں یوں تو بے شمار ہیں مگر اُن میں چند ایک ہی ایسی ہیں جن کی ترغیب قرآن و سنت سے ملتی ہے اور وُہی غذائیں اِنسانی جسم کے لئے حیرت انگیز حد تک مفید ہیں۔
عام آدمی کو روزانہ جتنی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے:
حرارے (calories)
2900 کیلوریز عام اوسط مردوں کیلئے، 2200 کیلوریز اوسط خواتین کے لئے
نشاستہ (carbohydrates)
400 گرام
نمکیات (minerals)
سوڈیم کلورائیڈ، کیلشیم، پوٹاشیم، آئرن، سلفر، فاسفورس، اور آیوڈین کی شکل میں۔
لحمیات (proteins)
کم از کم 45 گرام
حیاتین (Vitamins)
وٹامن A، وٹامن B1، B2، B6، B12 ، وٹامن C، وٹامن D اور وٹامن E
چکنائیاں (fats)
صرف اتنی مقدار جتنی توانائی کے لئے جلائی جا سکے
پانی (water)
خالص اور جراثیم سے پاک، یہ جسم کے 66[L: 37] حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویسے تو تمام حلال غذائیں اِستعمال کرنا جائز ہے مگر قرآن و سنت کی تعلیمات ہمیں بعض غذاؤں سے متعلق خاص ہدایات دیتی دِکھائی دیتی ہیں۔
گوشت (Meat)
گوشت اِنسانی خوراک کا ایک نہایت اہم حصہ ہے۔ بعض جانوروں کا گوشت عام انسانی صحت کے لئے مفید ہے جبکہ دوسرے بعض جانوروں کا گوشت کچھ مضر ہے۔ دیگر جانوروں کا گوشت مکمل طور پر نقصان دہ بھی ہے۔ جن جانوروں کا گوشت کسی طور پر انسان کے لئے مناسب نہیں شریعت نے اُنہیں حرام قرار دیا ہے۔ جن کا گوشت قدرے غیرمفید ہے اُن کا اِستعمال اگرچہ روا رکھا ہے مگر اُسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ جو جانور اپنے گوشت میں مضرات نہیں رکھتے اور صحتِ اِنسانی کے لئے مفید ہیں اُن کا گوشت کھانے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ شریعتِ مطہرہ میں چھوٹے اور بڑے دونوں قسم کے گوشت کو جائز قرار دیا گیا ہے لیکن سفید گوشت (یعنی مچھلی اور پرندوں وغیرہ کے گوشت) کو ترجیح دی گئی ہے اُس میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے اور اِس طرح وہ دِل کے لئے کسی نقصان کا باعث نہیں بنتا۔
گائے کا گوشت (Beef)
پیارے نبیﷺ نے سرخ گوشت کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے:
علیکم بألبانِ البقر فإنّھا شفاءٌ، و سمنھا دواءٌ و لحومھا داءٌ۔ (زاد المعاد، 4:324) (المستدرک للحاکم،4:104،197)
گائے کا دودھ شفا ہے، اُس کے مکھن میں طبی فوائد ہیں، جبکہ اُس کے گوشت میں بیماری ہے۔
گائے کا گوشت جسے سرخ گوشت بھی کہتے ہیں اُس میں کولیسٹرول کی بہت بڑی مقدار ہوتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے نبی اکرمﷺ کے اِرشاد کی مزید تصدیق کر دی ہے۔
جدید سائنسی تحقیقات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک جرثومہ taenia saginate پایا جاتا ہے جو پیٹ کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَحادیثِ مبارکہ میں اُس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
100گرام گائے کے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی یہ مقدار پائی جاتی ہے:
-1 پکے ہوئے قیمے میں 229 حرارے 15.2 گرام چکنائیاں
-2 پشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے میں 246 حرارے 14.6 گرام چکنائیاں
-3 کباب میں 218 حرارے 12.1 گرام چکنائیاں
-4 روسٹ کئے ہوئے پٹھہ میں 284 حرارے 21.1 گرام چکنائیاں
چھوٹا گوشت (Mutton)
اِس میں بھی بہت زیادہ چکنائی ہوتی ہے، درج ذیل جدول میں دیکھئے کہ 100 گرام چھوٹے گوشت میں کیلوریز اور چکنائیوں کی مقدار یوں ہے:
-1 ٹانگ کا بھنا ہوا گوشت 266 حرارے 17.9 گرام چکنائیاں
-2 پشت کا بھنا ہوا گوشت 355 حرارے 29 گرام چکنائیاں
-3 کباب (چربی کے بغیر گوشت) 222 حرارے 12.3 گرام چکنائیاں
-4 بھنا ہوا چربی کے بغیر گوشت 191 حرارے 8.1 گرام چکنائیاں
چھوٹے گوشت میں گردن ایک ایسا عضو ہے جس میں چکنائی کی مقدار باقی بدن کی نسبت کافی کم ہوتی ہے۔ اسی لئے اس میں کچھ زیادہ کولیسٹرول نہیں ہوتا۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے چھوٹے گوشت میں سے گردن کے گوشت کو تجویز کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
و کان أحبّ الشاۃِ إلٰی رسول اﷲ ﷺ مقدّمھا و کل ما علا منہ سوی الرأس کان أخفّ و أجود مما سفل۔
(زاد المعاد، 4:373)
رسول اللہ ﷺ کو بکری میں سب سے زیادہ اگلے حصے (گرد)ن کا گوشت پسند تھا اور جو کچھ سر کے علاوہ اگلے بدن میں ہے کیونکہ یہ حصہ خفیف (بوجھل پن سے پاک) ہوتا ہے اور پچھلے حصے کی نسبت عمدہ ہوتا ہے۔
ماہرینِ غذا نے بھی بغیر چربی کے گوشت (lean) کو بہترین قرار دیا ہے کیونکہ اُس میں سیرشدہ چکنائی نسبتاً کم ہوتی ہے۔
سفید گوشت (White meat)
مچھلی اور پرندوں کے گوشت میں چونکہ نسبتاً کم چکنائی ہوتی ہے اِس لئے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں اُس کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآنِ مجید نے پرندوں کے گوشت کو "جنت کی خوراک” قرار دیا ہے۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَحمِ طَیرٍ مِّمَّا یَشتَھُونَO(الواقعہ، 56:21)
اور اُنہیں پرندوں کا گوشت ملے گا، جتنا وہ چاہیں گےO
علاوہ ازیں نبی مکرمﷺ نے گوناگوں غذائی اور طبی فوائد کی بنا پر ہی مچھلی کے گوشت کی خاص طور پر اِجازت عطا کی۔ سفید مچھلی میں چکنائی بہت کم ہوتی ہے جبکہ تیل والی مچھلی میں غیر سیرشدہ چکنائی کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے جو کہ کولیسٹرول کے تناسب کو خود بخود کم کر دیتی ہے۔ اِس لئے اُس کا اِستعمال بھی اِنسانی صحت کے لئے مفید ہے۔
انجیر اور زیتون (Fig / Olive)
قرآنِ مجید میں انجیر اور زیتون کی اہمیت کو اللہ ربّ العزت نے قسم کھا کر اُجاگر کیا ہے، فرمایا:
وَ التِّینِ وَ الزَّیتُونِO(التین، 95:1)
انجیر اور زیتون کی قسمO
انجیر سے کیلشیم، فاسفورس اور فولاد کے ضروری اجزاء کی بڑی مقدار حاصل ہوتی ہے لیکن اُس کی زیادہ مقدار ریشے (fibre)میں پائی جاتی ہے۔ یہ پھیپھڑوں اور چھاتی کو طاقت بخشتا ہے اور ذہنی و قلبی امراض کے علاج میں مدد دیتا ہے۔ چونکہ اُس میں ریشے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اِس لئے غیرسیرشدہ چکنائی ہونے کے ناطے یہ کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا اِستعمال دل کے مریض کے لئے بہت مفید ہے۔
قرآنی پھل ہونے کے ناطے زیتون بہت سے اَمراض میں مفید ہے۔ جو لوگ اپنی روزانہ خوراک میں کولیسٹرول کی کمی کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے زیتون کا تیل گھی کا بہترین متبادل ہے۔
100 گرام زیتون ان اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
کیلوریز 82
پروٹین 0.7 گرام
سیرشدہ چکنائیاں 1.2 گرام
غیر سیرشدہ چکنائیاں 1.0 گرام
غذائی ریشہ 35گرام
مکمل چکنائی 8.8گرام
جبکہ اِس میں کولیسٹرول کی مقدار صفر ہوتی ہے۔
چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج کی جدید طب کی تحقیق یہ ہے کہ جمنے والی چیزوں بناسپتی گھی وغیرہ کو چھوڑ کر اُس کی جگہ تیل کو اِستعمال میں لایا جائے تاکہ اِنسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار مقررّہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ اُن محققین و ماہرینِ طب کی نظر سے آقائے دوجہاںﷺ کے فرمودات و اِرشادات کا یہ رُخ گزرے تو اُنہیں اِسلام کی حقانیت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃُ والسلام نے چودہ سو سال قبل زیتون کی اِفادیت کا اِعلان فرما دیا تھا۔ آج زیتون کی یہ تحقیق ثابت ہو چکی کہ اَمراضِ قلب، انجائنا، بلڈپریشر اور اَمراضِ سینہ وغیرہ میں زیتون کا تیل نہایت مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی میں دل کے اَمراض باقی دُنیا کی نسبت بہت کم ہوتے ہیں جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں کے باشندے گھی اور مکھن جیسی چکنائیوں کی بجائے زیتون کا تیل کثرت سے اِستعمال کرتے ہیں۔
یہاں تاجدارِ رحمت و حکمتﷺ کا یہ فرمان خاص طور پر قابلِ توجہ ہے:
إنّ عمر بن الخطاب قال، قال رسول اﷲ ﷺ: "کلوا الزیت وَ ادّھنُوا بہٖ، فإنّہٗ مِن شجرۃٍ مبارکۃٍ۔ (جامع الترمذی، 2:6)
حضرت عمر بن خطابؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "تم روغنِ زیتون کو کھاؤ اور اُس کا بدن پر بیرونی اِستعمال بھی کرو کیونکہ وہ مبارک درخت سے ہے”۔
شہد (Honey)
شہد حفظانِ صحت کے لئے بہترین ٹانک ہے۔ قدرت نے اُس میں اِنسانی جسم کی تمام ضروریات و مقتضیات کو یکجا کر دیا ہے۔ شہد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہے:
فِیہِ شِفآء لِّلنَّاسِ۔ (النحل، 16:49)
اُس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔
اِس ضمن میں رسولِ اکرمﷺ کا اِرشاد ِگرامی ہے:
علیکم بالشفائین، العسل و القرآن۔
دو چیزیں شفا کے لئے بہت ضروری ہیں: (کتابوں میں) قرآن اور (اشیائے خوردنی میں) شہد۔ (سنن ابن ماجہ :255)
شہد نہ صرف حفظانِ صحت کے لئے مفید ہے بلکہ اُس میں بہت سی بیماریوں کا علاج بھی پایا جاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ایک بیمار صحابی کا واقعہ بھی مذکور ہے جو نہایت موذی مرض میں مبتلا تھے اور اُنہیں شہد ہی سے اِفاقہ ہوا۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یوں ہیں:
عن أبی سعید، قال: جآء رجل إلی النبیﷺ، فقال: "إن أخی إستطلق بطنہ”، فقال: "اسقہ عسلاً”، فسقاہ، ثمّ جآء، فقال: "یارسولَ اﷲ! قد سقیتُہ عسلاً فلم یزدہ إلا إستطلاقًا”، فقال رسول اﷲﷺ: "اسقہ عسلاً”، قال فسقاہ، ثم جآء، فقال: "یارسول اﷲ! إنی قد سقیتُہ فلم یزدہ إلا إستطلاقا”، قال: فقال رسول اﷲﷺ: "صدق اﷲ و کذب بطن أخیک، اسقہ عسلاً”، فسقاہُ فبرأ۔
ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیںکہ حضور اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ اُس کے بھائی کو اِسہال لگے ہوئے ہیں۔ آپﷺ نے اُس کے لئے شہد تجویز فرمایا۔ اُس شخص نے واپس آ کر بتایا کہ اِسہال زیادہ ہو گئے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: "اُسے پھر شہد دو”۔ اِس طرح اُس بیمار کو تین مرتبہ شہد دیا گیا۔ چوتھی مرتبہ حضورﷺ کو بتایا گیا کہ آرام نہیں آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ خداوند تعالی نے شہد کے متعلق جو فرمایا ہے وہ درُست ہے لیکن تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ چنانچہ بیمار کو پھر شہد دیا گیا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ (جامع الترمذی، 2:29)
شہد کے اجزاء
امریکہ کے ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے بہت بڑے کیمسٹ ’ڈاکٹر سی اے براؤن‘ نے شہد میں موجود مندرجہ ذیل غذائی اَجزاء معلوم کئے ہیں:
1۔ پھلوں کی شکر 40 سے 50 فیصد
2۔ انگور کی شکر 34.2 فیصد
3۔ گنے کی شکر 1,9 فیصد
4۔ پانی 17.7 فیصد
5۔ گوند وغیرہ 1.5 فیصد
6۔ معدنیات 0.18 فیصد
شہد میں فولاد، تانبہ، میگنیز، کلورین، کیلشئم، پوٹاشیم، سوڈیم، فاسفورس، گندھک، ایلومینیم اور میگنیشئم بھی مناسب مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کینیڈا کے سائنسدان کھلاڑیوں پر تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شہد کو عام قسم کی شکر پر مندرجہ ذیل فوقیتیں حاصل ہیں:
-1 شہد معدے اور انتڑیوں کی جھلی میں خراش پیدا نہیں ہونے دیتا۔
-2 یہ زُود ہضم ہے۔
-3 اِس کا گُردوں پر کوئی مضر اثر نہیں ہے۔
-4 یہ اَعصابِ ہضم پر بغیر بوجھ ڈالے حراروں کا بہترین سرچشمہ ہے۔
-5 شہد تھکاوٹ کو بہت جلد دُور کرتا ہے اور اُسے باقاعدہ اِستعمال کرنے والا جلدی نہیں تھکتا۔
-6 یہ کسی حد تک قبض کشا بھی ہے۔
انگور (Grapes)
قرآن اسے "جنت کا پھل” کہتے ہوئے اس کے استعمال کی یوں ترغیب دیتا ہے:
حَدآءقَ وَ أَعنَابًاO(النباء، 78:32)
(وہاں اُن کے لئے) باغات اور انگور (ہوں گے)O
حالیہ طبی تحقیق کے مطابق انگور کاربوہائیڈریٹس، فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم اور خاص طور پر وٹامن اے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے دل، جگر اور معدے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یہ خاص طور پر دل و دماغ کی مختلف بیماریوں اور انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت سودمند ہے۔
لہسن (Garlic)
قرآنِ حکیم نے سورۂ بقرہ میں لہسن کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
وَ فُومِھَا۔ (البقرہ، 2:61)
اور اُس (زمین )کا لہسن۔
لہسن ایک ایسا مصالحہ ہے جو دل، دماغ، آنکھوں اور جسم کے دُوسرے حصوں کو طاقت دیتا ہے اور خاص طور پر جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیموں کو مارنے کے لئے جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ جدید طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ لہسن فالج، دمہ، ٹی بی اور جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جراثیم کش (antiseptic) خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً خون کے بڑھے ہوئے دباؤ (hypertension) پر قابو پانے میں اس کے خصوصی عمل کی وجہ سے سقوطِ قلب سے بچنے کے لئے مفید ہے۔
پیاز (Onion)
قرآن نے سورۂ بقرہ کی اِسی آیت میں پیاز کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:
وَ بَصَلِھَا۔
(البقرۃ، 2:61) اور اُس (زمین )کا پیاز۔
یہ پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، سلفر اور فولاد کا اہم ذریعہ ہے۔ 100گرام پیاز درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:
غذائی ریشہ (fiber) 1.3 گرام
حرارے (Calories) 23 گرام
لحمیات (proteins) 0.9 گرام
چینی (sugar) 5.2گرام
پیاز میں خاص طور پر B6 بھی پایا جاتا ہے، جو ٹی بی اور پھیپھڑوں کے ناسور کا سبب بننے والے جراثیموں اور مُضرِ صحت بیکٹیریا کے خاتمے میں بھی مفید ہے۔ اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ خون میں موجود کولیسٹرول کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اِس کے مستقل اِستعمال سے دِل کے دَورے کا خطرہ ممکنہ حد تک کم ہو جاتا ہے۔
ممنوعہ غذائیں
خنزیر (Pork)
قرآنِ مجید نے سؤر کے گوشت کے اِستعمال سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحمَ الخِنزِیرِ وَمَآ أُھِلَّ بِہٖ لِغَیرِ اللہِ۔ (البقرہ، 2:173)
اُس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذِبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔
بنی نوعِ انسان کے لئے اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اِسلام نے اِنسانی جسم و رُوح کو نقصان پہنچانے والی تمام اشیاء کے اِستعمال سے اپنے ماننے والوں کو سختی سے منع فرما دیا تاکہ وہ اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی (epilepsy) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔
acute trichinosis کے مریض کو تیز جسمانی درجۂ حرارت سے سابقہ پیش آ سکتا ہے۔ اُس کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔
خنزیر کے گوشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ موٹاپا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اُس میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ 100 گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 284کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ 496کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ 21.1فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ 44.8فیصد ہوتی ہے۔
اِسلام میں خنزیر کے گوشت کی ممانعت کی حکمت اَب امریکہ اور یورپ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اور وہاں کے صحت شناس لوگ بالعموم اِسلام کی حلال کردہ اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں اور سؤر کا گوشت ترک کرتے چلے جا رہے ہیں۔
شراب (Drinking)
قرآنِ مجید میں اﷲ ربّ العزت نے شراب کو کلیتاً حرام قرار دیا ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:
یٰٓا أَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الخَمرُ وَ المَیسِرُ وَ الأَنصَابُ وَ الأَزلَامُ رِجسٌ مِّن عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجتَنِبُوہُ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَO(المائدہ، 5:90)
اے ایمان والو! یقینا شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم اُن سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤo
تاجدارِ کائنات ﷺ کی یہ دونوں اَحادیثِ مبارکہ اِس آیتِ کریمہ کے شراب کی حرمت سے متعلقہ حصے کی بہترین تفسیر کرتی نظر آتی ہیں:
اِرشادِ نبوی ﷺ ہے:
کلّ مُسکرٍ خمرٌ و کل خمرٍ حرامٌ۔
ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔ (الصحیح لمسلم، 2:168)
ما أسکرَ کثیرُہٗ فقلیلُہٗ حرامٌ۔
(جامع الترمذی، 2:9)
جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اُس کی تھوڑی مقدار کا اِستعمال بھی حرام ہے۔
شراب جسم کو حرارے (کیلوریز) تو مہیا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسمانی نشوونما کے لئے ضروری وٹامنز اور امائنو ایسڈز (amino acids) مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ جسم میں خلیوں کی تخریب (metabolism) اور تعمیر کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور متعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے علاوہ یہ بالخصوص دل کے عضلات کی بیماری cardiomyopathy اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے تالو کی ہڈیوں میں توڑ پھوڑ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں شراب کا باقاعدہ استعمال خون کے دباؤ کے مسائل پیدا کرتا ہے اور نظامِ دورانِ خون (cardiovascular system) کو متاثر کرتا ہے۔
کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے سقوطِ قلب کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ شراب خون میں کولیسٹرول کی مجموعی سطح کو کم کئے بغیر ہائی ڈنسٹی لیپوپروٹینز (HDL Cholesterol) کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کولیسٹرول میں توازن بگڑ جاتا ہے اور اُس سے دِل کے دَورے کا مجموعی خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صحت شناس لوگوں میں شراب نوشی کی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے اور اکثر ہارٹ ایسوسی ایشنز (heart associations) بھی اِسی بات پر بہت زور دے رہی ہیں کہ شراب کا اِستعمال نہ کیا جائے۔
ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور اِمتحانی نظام
اوّلاً اِسلام نے اِنسانیت کے لئے حفظانِ صحت کے ایسے اُصول مرتب کئے ہیں کہ بندہ زیادہ سے زیادہ بیماریوں سے قبل از وقت بچا رہے۔ تاہم اگر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اُس کا مناسب علاج بھی پیش کیا ہے۔طب کو باقاعدہ ایک فن کے طور پر پروان چڑھانے اور اِس فن کے ماہرین پیدا کرنے میں سب سے زیادہ دخل اِسلام کو حاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے پہلے ہسپتال مسلمانوں ہی نے قائم کئے اور سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور سرجنوں کا ایک باقاعدہ نظام بھی اِنہی نے وضع کیا تاکہ مختلف بیماریوں کا صحیح طبی خطوط پر علاج کیا جا سکے۔
اِس سلسلے میں تاجدارِ کائناتﷺ کا فرمان اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اِرشاد ِنبوی ہے:
و من تطبّب و لم یعلم منہ الطب قبل ذٰلک فھو ضامنٌ۔ (سنن ابنِ ماجہ : 256)
جس شخص نے علمُ الطب سے ناآگہی کے باوُجود طب کا پیشہ اِختیار کیا تو اُس (کے غلط علاج۔/مضر اثرات) کی ذمہ داری اُسی شخص پر عائد ہو گی۔
اِس فرمان نے جہاں لوگوں کو طب میں تخصیص کے لئے مہمیز دی وہاں اِسلام کی اوّلین صدیوں میں ہی جعل سازوں سے بچنے کے لئے میڈیکل کا ایک باقاعدہ اِمتحانی نظام وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے ماہرینِ طب اور سرجن پیدا ہوئے۔
دُنیا میں سب سے پہلے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے اِمتحانات اور رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام عباسی خلافت کے دور میں 931ء میں بغداد میں وضع ہوا جسے جلد ہی پورے عالم اِسلام میں نافذ کر دیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک جعلی حکیم کے ناقص علاج سے ایک مریض کی جان چلی گئی۔ اُس حادثے کی اِطلاع حکومت کو پہنچی تو تحقیقات کا حکم ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ اُس عطائی طبیب نے میڈیکل کی مروّجہ تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور چند ایک کتابوں کو پڑھ لینے بعد مطب (clinic) کھول کر بیٹھ گیا تھا۔
اُس حادثے کے فوری بعد حکومت کی طرف سے معالجین کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے ایک بورڈ بنایا گیا، جس کی سربراہی اپنے وقت کے عظیم طبیب ’سنان بن ثابت‘ کے ذمہ ہوئی۔ اُس بورڈ نے سب سے پہلے صرف بغداد شہر کے اطباء کو شمار کیا تو پتہ چلا کہ شہر بھر میں کل 1,000 طبیب ہیں۔ تمام اطباء کا باقاعدہ تحریری اِمتحان اور اِنٹرویو لیا گیا۔ ایک ہزار میں سے 700 معالج پاس ہوئے، چنانچہ رجسٹریشن کے بعد اُنہیں پریکٹس کی اِجازت دے دی گئی اور ناکام ہو جانے والے 300 اطباء کو پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔
بخار کا علاج
عموماً انسانی جسم 105، 106 درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ٹمپریچر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر جسم انسانی کا درجۂ حرارت اِس سے بہت زیادہ تجاوز کر جائے تو فقط اُس کی حدت کی زیادتی کی وجہ سے بھی موت واقع ہو سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں سب سے مفید علاج جلد از جلد درجۂ حرارت کو نیچے لانا ہے۔ طبِ جدید کی رُو سے ایسے مریض کے تمام جسم کو برف کے پانی سے بھگو دینا چاہئے، جسم پر گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھنی چاہئیں تاکہ اُن کی برودت سے جسم کا درجۂ حرارت نسبتاً کم ہو کر اِعتدال پر آ جائے۔
اس باب میں رسولِ اکرمﷺ کا اِرشادِ گرامی یاد رکھنے کے قابل ہے، اِرشادِ نبوی ہے:
الحمی من فیح جھنم، فابرودھا بالماء۔ (صحیح البخاری، 2:852)
بخار جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:
إنّ شدۃ الحمی مِن فیحِ جہنم فابردُوھا بالمآءِ۔ (سنن ابن ماجہ : 256) (جامع الترمذی، 2:28)
بخار کی شدت جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔
آپریشن کے ذریعے علاج
جب بیماری کی نوعیت بگڑ جائے اور عام علاج سے اِفاقے کی صورت ممکن نہ ہو تو ایسے میں بعض اَوقات آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قربان جائیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت پر کہ آپ نے چودہ سو سال قبل آپریشن کے ذریعے علاج کی بنیاد رکھی اور سرجری کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ حضورﷺ کی چند احادیث جو سرجری کے باب میں مذکور ہیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔
سیدنا انسؓ تاجدارِکائناتﷺ کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أنّ النبیﷺ احتجم ثلثاً فی الاخدعین و الکاھل۔ (سنن ابی داؤد، 2:184)
رسولِ اکرمﷺ نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور اخدعین (گردن کے دونوں طرف کی رگوں) کے بیچ میں تین سنگی کھنچوائے
اِسی سلسلے میں ایک اور حدیثِ نبوی ہے:
عن ابن عباس قال: احتجم النبیﷺ و ھو صائم۔ (صحیح البخاری، 2:849)
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔
صحیح بخاری ہی میں مذکور ہے:
أنّ رسول اﷲ احتجم و ھو محرم فی رأسہٖ من شقیقۃ کانت بہ۔ (صحیح البخاری، 2:850)
رسول اللہﷺ نے سر میں دردِ شقیقہ کے علاج کے لئے حالتِ اِحرام میں پچھنے لگوائے۔
اِرشادِ نبوی ہے:
الشفاء فی ثلاثۃٍ: فی شرطۃ محجمٍ، أو شربۃ عسلٍ، أو کیّۃ بنارٍ۔ (صحیح البخاری، 2:848)
شفاء تین چیزوں میں ہے، پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ دلوانا۔
نفسیاتی اَمراض کا مستقل علاج
اگر اِسلامی طرزِ زندگی کو مکمل طور پر اپنایا جائے تو انسان بہت سی نفسیاتی بیماریوں پر بھی قابو پا سکتا ہے۔ اِسلامی طرزِ حیات اِنسان کو ذہنی تناؤ اور بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور اِنسان کو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِسلام نے انسان کو نفسیاتی دباؤ اور اُلجھنوں سے دُور رہنے اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنے پر بہت زور دیا ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فی السَّرّآء وَ الضَّرّآء وَ الکَاظِمِینَ الغَیظَ وَ العَافِینَ عَنِ النَّاسِ۔ (آل عمران، 3:134)
یہ وہ لوگ ہیں جو (معاشرے سے مفلسی کے خاتمے کے لئے) فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔
سرکارِ مدینہﷺ نے فرمایا:
إنّ الغضبَ من الشیطانِ، و إن الشیطان خُلِق من النار، و إنما تطفئ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلیتوضّاء۔ (ابوداؤد، 2:312)
غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے (تاکہ غصہ جاتا رہے)۔
غضب و غصہ پر قابو پانے سے اعصابی تناؤ اور ذہنی کھنچاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جو دِل کے امراض سے بچاؤ کی بھی ایک اہم صورت ہے۔ اِسی طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے اور دُوسروں کو معاف کر دینے کے عمل سے اِنسان کو رُوحانی خوشی و سرمستی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زندگی کی مسرّتیں اور رعنائیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔
حسد بہت سی ذہنی پریشانیوں کا منبع ہے، اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی سے حسد سے روکا ہے۔ تاجدارِ رحمتﷺ کا اِرشادِ گرامی ہے:
إیاکم و الحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب۔ (سنن ابی داؤد، 2:324)
اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، بیشک حسد تمام نیکیوں اور ثواب کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔
اِسی طرح لالچ اور خود غرضی بھی بہت سا ذِہنی تناؤ اور پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ اِن نفسانی آلائشوں سے بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے اور اُن کی بجائے اطمینان و سکون کی تلقین کی گئی ہے۔
اِسلام کی یہی تعلیم خوشگوار زندگی کی اَساس ہے جو پُر امن معاشرے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے لابدّی ہے۔ علاوہ ازیں زندگی کے ہر معاملے میں توازن پیدا کرنا چاہئے اور معمولاتِ حیات میں شدّت پیدا کرنے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے گریز بھی نہایت لازمی ہے۔
قرآنِ حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
یُرِیدُ اللہُ بِکُمُ الیُسرَ وَ لَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ۔ (البقرہ، 2:185)
اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے دُشواری نہیں چاہتا۔
آقائے دوجہاںﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
"ھلک المتنطّعون”، قالھا ثلاثاً۔ (الصحیح لمسلم، 2:339)
"مشکلات پر اِصرار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں”۔ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔
اِسلام ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ بوجھ اپنے سر نہ لے۔ قرآن مجید میں ایک دعا کی صورت میں ارشاد ہوتا ہے:
رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ۔(البقرہ، 2:286)
اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اِتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔
اگرچہ اِسلام نے جسمانی محنت و مشقت کی بھرپور تائید کی ہے، تاہم اُس کی ساری تائید صرف اور صرف توازن اور میانہ روی کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہے۔ اسلامی طرز حیات میں سے یہ وہ چند مثالیں تھیں جو اِسلام کی تجویز کردہ، اَعصابی تناؤ سے آزاد اور متوازن زندگی کی تفصیل و توجیہہ بیان کرتی ہیں۔
اِسلام اورجینیاتی انجینئرنگ(Genetic engineering)
دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ (genetic engineering) کو خاص مقام حاصل ہے ۔ کسی شخص کے جینز (genes) کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بے شمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے (Deoxyribonucleic Acid) کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلۓ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا (Encyclopaedia Britannica) کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جا رہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن DNA کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اعمال طشت از بام کئے جا سکیں گے۔
یوں طبی میدان میں کی جانے والی سائنسی پیش رفت کا فرسِ تحقیق اِس رُخ پر گامزن ہے اور جس دن اِس ممکن نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا ، دینِ اسلام کا ایک اور بنیادی ستون ’عقیدۂ آخرت‘ سائنسی توجیہ سے مزین ہو کر غیرمسلم محققین پر بھی اِسلام کی حقانیت آشکار کردے گا۔
روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیراِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں! اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں جن کا جواب DNA تھیوری میں مل سکا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے:
اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی أَفوَاھِھِم وَ تُکَلِّمُنَا أَیدیھِم وَ تَشھَدُ أَرجُلُھُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَO(یٰسین،36:65)
آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھےO
اِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاںﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
فیُختم علی فیہ، و یُقال لفخذِہ و لحمِہ و عظامِہ "انطقی”، فتنطق فخذُہ و لحمُہ و عظامُہ بعملِہ۔(الصحیح لمسلم،2:409)
پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا ۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔
سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے بھی اِسی مضمون میں ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے ۔ سرورِ کائنات ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
إنّ أوّلَ عظم من الإنسان یتکلّم یومَ یختم علٰی الأفواہ فخذُہ من الرِّجل الشمالِ۔ (الدرالمنثور،5:62)
(جس روز منہ پر مہریں لگائی جائیں گی) اِنسان کے جسم کی سب سے پہلی ہڈی جو بولے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران کی (ہڈی) ہو گی۔
یہ مضمون متعدّد احادیثِ مبارکہ میں اِسی طرح درج ہے اور اِسے قرآنی تائید بھی حاصل ہے ۔
آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسان کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔
آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی اُن جاہل کفار و مشرکین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بعض غیرمسلم اَقوام اور مغربی یلغار سے مرعوب بعض نام نہاد مسلمان اپنی کم عملی اور جہالت کی بناء پر بلاتحقیق اِسلام کے بنیادی عقیدے ’آخرت‘ کو مسلمانوں کی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر وہ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق و نظریات کا بخوبی مطالعہ کریں تو وہ اِس حقیقت پر پہنچیں گے کہ اِسلام ہی آفاقی سچائیوں سے معمور دین ہے ۔ جو ہر شعبۂ زندگی میں اِنسانیت کی رہنمائی کرتا ہے ۔ جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات جسمِ انسانی کے ہر خلۓ میں اِتنی گنجائش ثابت کر چکی ہیں جہاں دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکیں۔بغیر خوردبین کے نظر نہ آ سکنے والا معمولی خلیہ اپنے اندر اِتنی وسیع دُنیا لئے ہوئے ہے۔ روزِ آخر اللہ ربّ العزت کے حکم پر اِنسانی جسم کا ہر ہر خلیہ اپنی ساری سرنوشت زبانِ حال سے کہہ سنائے گا اور اِنسان کا سب کیا دھرا اُس کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر دے گا ۔ یہ اِسلام کی تعلیم ہے اور اِسی طرف جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات پیش قدمی کر رہی ہیں۔
طبِ جدید کی اِن ساری تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے اِرشادات پر ایک نظر کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کے قول سے بڑھ کر حق کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ آج تک سائنس اور طب کی جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ بالآخر اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نبیٔ مختارِ عالم ﷺ کی ہر بات، خواہ وہ قرآن مجید ہو یا آپﷺ کی حدیثِ مبارکہ، مبنی برحق ہے اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے معاشروں کے لئے اُس سے رُوگردانی ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کا ہر لفظ رسولِ آخر الزماں ﷺ کی عظمت پر دالّ ہے اور مُنکرینِ عظمتِ مصطفی کے دِل و دِماغ پر ضربِ کاری ہے۔
کتابیات
کتاب | مصنف | مطبع |
قرآن مجید | منزّل من اﷲ | |
صحیح البخاری | امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ، 256ھ | کراچی، قدیمی کتب خانہ، 1381ھ |
الصحیح لمسلم | امام مسلم بن الحجاج قشیریؒ، 261ھ | کراچی، قدیمی کتب خانہ، 1375ھ |
جامع الترمذی | امام محمد بن عیسیٰ ترمذیؒ، 279ھ | ملتان، فاروقی کتب خانہ |
سنن أبی داؤد | امام ابوداؤد سلیمان بن اشعثؒ، 275ھ | کراچی، ایچ-ایم-سعید کمپنی |
سنن النسائی | امام احمد بن شعیب نسائی ؒ، 303ھ | کراچی، قدیمی کتب خانہ |
سنن ابن ماجہ | امام محمد بن یزید قزوینی بن ماجہؒ، 275ھ | کراچی، ایم ایم سعید کمپنی |
مسند احمد بن حنبل | امام احمد بن محمد بن حنبلؒ، 241ھ | بیروت، المکتب الاسلامی، 1398ھ |
سنن الدارمی | امام ابو محمد عبداللہ دارمیؒ، 255ھ | ملتان، نشر السنہ |
المستدرک | امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوریؒ، 405ھ | سعودی عرب، دارالباز |
المعجم الاوسط | امام سلیمان بن احمد طبرانی ؒ، 360ھ | بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1403ھ |
مشکوٰۃ المصابیح | امام محمد بن عبداللہ خطیب تبریزیؒ | افغانستان، نعمانی کتب خانہ |
مجمع الزوائد | حافظ نور الدین علی بن ابوبکر الھیثمیؒ، 807ھ | بیروت، دارالریان للتراث |
کنز العمّال | علامہ علاؤالدین علی المتقی الہندیؒ، 975ھ | بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1399ھ |
کتاب | مصنف | مطبع |
سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ | علامہ محمد ناصر الدین البانی ؒ، 1420ھ | بیروت، المکتب الاسلامی، 1405ھ |
المدارک | امام عبداللہ بن احمد بن محمود نسفیؒ، 701ھ | بیروت، دار احیاء الکتب العربیہ |
الدالمنثور فی التفسیر بالماثور | امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطیؒ، 911ھ | بیروت، دارُالمعرفہ |
رُوح المعانی | علامہ سید محمود آلوسیؒ، 1270ھ | ملتان، مکتبہ امدادیہ |
زادُ المعاد | امام ابن القیم الجوزیہؒ، 751ھ | بیروت، مؤسسۃ الرسالہ |
المفردات | امام راغب اصفہانی ؒ، 502ھ | بیروت، دارالقلم، 1412ھ |
الاتقان | امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطیؒ، 911ھ | مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی |
الشفاء | قاضی ابوالفضل عیاضؒ، 544ھ | بیروت، دارالکتاب العربی |
شرح الشفاء | امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمدؒ، 1014ھ | مصر، قاہرہ، 1309ھ |
المواھب اللدنیہ | امام احمد بن محمد القسطلانی ؒ، 911ھ | بیروت، دارالمعرفۃ، 1973ء |
البدایہ والنھایہ | امام ابو الفداء اسماعیل بن کثیرؒ، 774ھ | بیروت، دارالفکر، 1419ھ |
تاریخ ابن خلدون | عبدالرحمن بن خلدون، 808ھ | بیروت، دارالکتب العلمیہ |
دولۃ الاسلام فی الاندلس | کتاب | مصنف |
مطبع | المنقذ من الضلال | امام ابو حامد محمد غزالی ؒ، 505ھ |
کتاب الأم | امام شافعیؒ | قانون التأویل |
قاضی ابوبکر ابن عربی ؒ | الفتاویٰ الھندیہ | ترکی، المکتبہ الاسلامیہ |
القاموس المحیط | محمد بن یعقوب الفیروز آبادی | مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، 1952ء |
المنجد | لوئیس معلوف | ایران |
بالِ جبریل | علامہ محمد اِقبال، 1938ء | پاکستان |
Ahmad Y. al-Hassan, Islamic Techonology, New York: Cambridge University Press, 1994
Ameer Ali, The Spirit of Islam
Bernard Lewis, The Muslim Discovery of Europe, London, Phoenix, 1988
Dr. Mustafa Siba’i, Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization
George Bush, The Life of Muhammad
Gerhard Endress, An Introduction to Islam, Edinburgh University Press, 1994
H. E. Bornes, A History of Historical Writings
J. Bronowski, The Ascent of Man
J. J. Witkam, Catalogue of Arabic Manuscripts
Joseph Schacht (ed), C. E. Bosworth (ed), The Legacy of Islam
Maurice Bucaille, The Bible, the Qur’an and Science
Nasim Butt, Islam and Muslim Societies, London: Crey Seal
Philip Hitti, History of Arabs
Robert Briffault, The Making of Humanity
S. H. Nasr, Islamic Sciences
Stanwood Cobb, Islam’s Contribution to World Culture
Stephen Hawking, A Brief History of Time
Strassbury, Zeitsechrift fues Assyriologie,
W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, Edinburgh University Press, 1994
W. Montgomery Watt and Pierre Cachia, A History of Islamic Spain, Edinburgh University Press, 1992
Muhammad, The Educator
Studies in the History of Medical Sciences
تشکر: عبد الستّار منہاجین، مرتّب کتاب
ان پیج سے تبدیلی اور عملِ لفظی: اعجاز عبید، تدوین: اعجاز عبید، جویریہ مسعود