FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

سنن ابو داؤدؒ

 

 

جلد اول

 

(تعارف ابو داؤدؒ اور عام احادیث)

 

                   امام ابو داؤدؒ

 

 

 

 

تعارف

 

نام و نسب

ابو داؤد کنیت،سلیمان نام اور والد کا اسم گرامی اشعث ہے سلسلہ نسب یہ ہے ۔ ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران الازدی سبحستانی۔

 

سن پیدائش

امام ابو داؤد سیستان میں ٢٠٢ھ میں پیدا ہوئے لیکن آپ نے زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا اور وہیں اپنی سنن کی تالیف کی اسی لیے ان سے روایت کرنے والوں کی اس اطراف میں کثرت ہے پھر بعض وجوہ کی بنا پر ٢٧١ھ میں بغداد کو خیر باد کہا اور زندگی کے آخری چار سال بصرے میں گزارے جو اس وقت علم و فن کے لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔

 

تحصیل علم

آپ نے جس زمانہ میں آنکھیں کھولیں اس وقت علم حدیث کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا تھا۔ آپ نے بلاد اسلامیہ میں عموماً اور مصر،شام،حجاز،عراق،خراسان اور جزیرہ وغیرہا میں خصوصیت کے ساتھ کثرت سے گشت کر کے اس زمانہ کے تمام مشاہیر اساتذہ و شیوخ سے علم حدیث حاصل کیا صاحب کمال نے لکھا ہے کہ بغداد متعدد بار تشریف لائے۔

 

اساتذہ و شیوخ

امام ابو داؤد تحصیل علم کے لیے جن اکابر و شیوخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا استقصاء دشوار ہے خطیب تبریزی فرماتے ہیں کہ انہوں نے بے شمار لوگوں سے حدیثیں حاصل کیں ،ان کی سنن اور دیگر کتابو ں کو دیکھ کر حافظ ابن حجر کے اندازے کے مطابق ان کے شیوخ کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ آپ کے اساتذہ میں مشائخ بخاری و مسلم جیسے امام احمد بن حنبل،عثمان بن ابی شیبہ،قتیبہ بن سعید اور قعنبی ابو الولید طیاسی،مسلم بن ابراہیم اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ فن داخل ہیں۔

 

فن حدیث میں کمال

ابراہیم حربی نے جو اس زمانہ کے عمدہ محدثین میں سے ہیں جب سنن ابو داؤد کو دیکھا تو فرمایا کہ ”ابو داؤد کے لیے حق تعالیٰ نے علم حدیث ایسا نرم کر دیا ہے جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا ہوا تھا”حافظ ابو طاہر سلفی نے اس مضمون کو پسند کر کے اس قطعہ میں نظم کیا

 

لان الحدیث وعلمہ بکمالہ

لامام اہلیہ ابو داؤد

مثل الذی لان الحدید وسبکہ

لبنی اہل زمانہ داؤد

 

فقہی ذوق

اصحاب صحاح ستہ کی نسبت امام ابو داؤد پر فقہی ذوق زیادہ غالب تھا،چنانچہ تمام ارباب صحاح ستہ میں صرف یہی ایک بزرگ ہیں جن کو علامہ شیخ ابو اسحق شیرازی نے طبقات الفقہاء میں جگہ دی ہے امام ممدوح کے اسی فقہی ذوق کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کو صرف احادیث احکام کے لیے مختص فرمایا،فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب (سنن )میں موجود ہے صحاح ستہ میں سے کسی کتاب میں آپ کو نہیں ملے گا،چنانچہ حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی متوفی ٧٠٨ھ صحاح ستہ کی خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں اور احادیث فقہیہ کے حصرو استیعاب کے سلسلے میں ابو داؤد کو جو بابت حاصل ہے وہ دوسرے مصنفین صحاح ستہ کو نہیں علامہ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ حدیث و فقہ دونوں کے سرخیل تھے۔

 

زہد و تقویٰ

ابو حاتم فرماتے ہیں کہ امام موصوف حفظ حدیث،اتقان روایت،زہد و عبادت اور یقین و توکل میں یکتائے روزگار تھے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ورع و تقویٰ،عفت و تقوی! عبادت کے بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ ان کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے کرتے کی ایک آستین تنگ تھی اور ایک کشادہ جب اس کا راز دریافت کیا گیا تو بتایا کہ ایک آستین میں اپنے نوشتے رکھ لیتا ہوں اس لیے اس کو کشادہ بنا لیا ہے اور دوسری کو کشادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس میں کوئی فائدہ نہ تھا اس لیے اس کو تنگ ہی رکھا۔

 

جو گنج قناعت میں ہیں تقدیر پر شاکر

ہے ذوق برابر انہیں کم اور زیادہ

 

آپ کے فضل و کمال کا اعتراف

ابو داؤد کو علم و عمل میں جو امتیازی مقام حاصل تھا اس زمانہ کے علماء مشائخ کو بھی اس کا پورا پورا اعتراف تھا چنانچہ حافظ موسیٰ بن ہارون جو ان کے معاصر تھے فرماتے ہیں کہ ابو داؤد دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں دیکھا امام حاکم فرماتے ہیں کہ امام ابو داؤد بلا شک و ریب اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے۔

 

اہل اللہ کی سچی عقیدت

احد بن محمد بن لیث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری جو اس زمانہ کے اہل اللہ میں سے تھے آپ کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا: امام صاحب میں ایک ضرورت سے آیا ہوں اگر حسب امکان پوری کرنے کا وعدہ فرمائیں تو عرض کروں ۔ آپ نے وعدہ کر لیا انہوں نے کہا کہ جس مقدس زبان سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث روایت کرتے ہیں اس کو بوسہ دینے کی آرزو رکھتا ہوں ذرا آپ اسے باہر نکالیں چنانچہ آپ نے اپنی زبان مبارک باہر نکالی اور حضرت سہل نے اس کو بوسہ دیا۔

 

وفات

امام ابو داؤد نے تہتر سال کی عمر پا کر سولہ شوال ٢٧٥ھ میں انتقال فرمایا اور بصرہ میں امام سفیان ثوری کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ یوم وفات روز جمعہ ہے۔

 

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا

نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو تیرا    (اقبال)

 

تصنیفات

امام ابو داؤد نے بہت سا علمی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا ہے جس کی مجمل فہرست درج ذیل ہے۔ مراسیل ۔ الردعلی القدریہ۔ الناسخ والمنسوخ۔ ماتضروبہ اہل الامصار۔ فضائل الانصار۔ مسند مالک بن انس۔ المسائل معرفۃ الاوقات۔کتاب بدء الوحی سنن ۔ ان میں سب سے زیادہ اہم آپ کی سنن ہے۔”

 

 

 

 

سنن ابو داؤدؒ

 

 

پاکی کا بیان

 

 

                   نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وضو کی کیفیت کا بیان

 

 

محمد بن مثنی، ضحاک بن مخلد، عبد الرحمن بن وردان، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مذکورہ حدیث بیان کی مگر اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور اس روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر پر تین مرتبہ مسح کیا اور پھر تین مرتبہ پاؤں دھوئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اس سے کم وضو کرے گا تو بھی کافی ہے (یعنی اعضائے وضو کو بجائے تین تین مرتبہ دھونے کے ایک یا دو مرتبہ دھوئے) اور اس روایت میں نماز (تحیت الوضو) کا ذکر نہیں ہے۔

 

محمد بن داؤد، زیاد بن یونس، سعید بن موذن حضرت عثمان بن عبد الرحمن تیمی سے روایت ہے کہ ابن ابی ملیکہ سے وضو کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کسی نے ان سے طریقہ وضو کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے پانی منگوایا تب ایک لوٹا لایا گیا انھوں نے اس لوٹے کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا (یعنی دایاں ہاتھ دھویا) پھر داہنے ہاتھ کو برتن میں ڈال کر پانی لیا تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ دایاں ہاتھ دھویا پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ دھویا پھر (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے) برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا اور اپنے سر اور کانوں کا اندرونی و بیرونی حصہ پر ایک مرتبہ مسح کیا پھر دونوں پاؤں دھوئے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ وضو کے متعلق پوچھنے والے کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ وضو کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں وہ سب کی سب اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہے کیونکہ تمام راویوں نے اعضاء وضو کا تین مرتبہ دھونا ذکر کیا ہے مگر سر کے مسح کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ سر کا مسح کیا یعنی سر کے مسح میں کوئی عدد ذکر نہیں کیا جیسا کہ دیگر ارکان میں کیا ہے۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، عبید اللہ ابن ابی زیاد، حضرت ابو علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور وضو کیا تو پہلے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ اور اعضائے وضو کو تین تین مرتبہ دھونے کا ذکر کیا اور سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح وضو کیا تھا جیسا کہ تم نے مجھے اس وقت وضو کرتے دیکھا اور باقی حدیث زہری کی حدیث کی مانند بیان کی (یہ حدیث زہری کی حدیث سے زیادہ) مکمل ہے۔

 

ہارون بن عبد اللہ، یحیٰ بن آدم، اسرائیل، عامر بن شقیق بن جمرہ، شقیق بن سلمہ، حضرت سلمہ بن شفیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے اور تین ہی مرتبہ سر کا مسح کیا پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ وکیع نے اسرائیل سے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے تین تین مرتبہ دھونے کا ذکر کیا ہے (مطلقاً مسح کے لیے مستقل طور پر تین مرتبہ کرنے کا ذکر نہیں ہے)۔

 

مسدد، ابو عوانہ، خالد بن علقمہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے آپ اسی وقت نماز سے فارغ ہوئے تھے تبھی آپ نے وضو کے لیے پانی طلب کیا میں نے دل میں سوچا کہ پتہ نہیں آپ پانی کو کیا کریں گے کیونکہ آپ ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئے ہیں سوچا کہ شاید ہم کو کچھ سکھانا مقصود ہو۔ اتنے میں ایک برتن میں پانی اور ایک طشت لایا گیا تو آپ نے اس برتن سے داہنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ اسی داہنے ہاتھ سے جس میں پانی لیتے تھے ہر تین مرتبہ منہ دھویا پھر تین مرتبہ داہنا ہاتھ اور تین ہی مرتبہ بایاں ہاتھ دھویا پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر (پانی لیا) اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا پھر داہنا پاؤں تین مرتبہ دھویا اور بایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا اور فرمایا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کا طریقہ معلوم کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو وہ طریقہ یہی ہے

 

حسن بن علی، حسین بن علی، زائدہ، خالد بن علقمہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز پڑھ کر رحبہ گئے آپ نے پانی منگوایا ایک لڑکا پانی کا برتن اور طشت لے کر آیا آپ نے پانی کا برتن داہنے ہاتھ میں لیا اور بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن کر اندر ڈال کر پانی لیا اور تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد (اس حدیث کے راوی زائدہ نے) ابو عوانہ کی روایت کے قریب قریب بیان کیا (زائدہ نے کہا) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سر کے اگلے اور پچھلے حصہ پر ایک بار مسح کیا پھر زائدہ نے باقی حدیث ابو عوانہ کی مانند بیان کی۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، مالک بن عرفطہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کرسی لائی گئی آپ اس پر بیٹھ گئے اس کے بعد پانی کا ایک پیالہ لایا گیا جس سے آپ نے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور (شعبہ نے آگے پوری) حدیث بیان کی۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو نعیم، ربیعہ، منہال بن عمرو، حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا جب کہ ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کیفیت وضو کے بارے میں دریافت کیا گیا تو (حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ نے) وضو والی پوری حدیث بیان کی (البتہ اس میں یہ اضافہ کیا کہ) انہوں نے سر کا مسح کیا یہاں تک کہ پانی ٹپکنے والا ہی تھا اور تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو ایسا ہی تھا۔

 

زیاد بن ایوب، عبید اللہ بن موسی، فطر، ابو فروہ، حضرت ابو عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا انہوں نے تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور تین مرتبہ کہنیوں تک ہاتھ دھوئے اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح وضو کیا تھا۔

 

مسدد، ابو توبہ، ابو احوص، عمرو بن عون، ابو اسحاق ، حضرت ابو حیّہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا ہے ان کا پورا وضو تین تین مرتبہ تھا (یعنی انہوں نے تمام اعضائے وضو تین تین مرتبہ دھوئے) پھر سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے اس کے بعد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ وضو دکھاؤں۔

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، محمد، ابن سلمہ، محمد، بن اسحاق ، محمد بن طلحہ بن یزید بن رکانہ، حضرت ابن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ آپ پیشاب سے فارغ ہو کر تشریف لائے تھے آپ نے وضو کے لیے پانی مانگا چنانچہ ہم ایک برتن میں پانی لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا آپ نے کہا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ کیا میں تم کو نہ دکھاؤں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ میں نے کہا ضرور تو حضرت علی رضی اللہ عنہ برتن جھکا کر اپنے (داہنے) ہاتھ پر پانی ڈالا اور اس کو دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی لیا اور بائیں ہاتھ پر ڈال کر دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے منہ پر ڈالا پھر دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اندر سامنے کے رخ پر پھیرا پھر دوسری مرتبہ ایسا ہی کیا پھر داہنے ہاتھ میں ایک چلو پانی لے کر پیشانی پر ڈالا اور اس کو چہرہ پر بہتا ہوا چھوڑ دیا پھر تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے پھر سر پر اور کانوں کی پشت پر مسح کیا پھر دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر پانی اپنے پاؤں پر مارا اس حال میں کہ وہ پاؤں میں جوتا پہنے ہوئے تھے اور اس چلو کے پانی سے پاؤں رگڑ کر دھوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا پاؤں دھونا آپ نے جوتا پہنے پہنے کیا تھا؟ فرمایا ہاں جوتا پہنے پہنے میں نے پھر پوچھا کیا جوتا پہنے پہنے؟ فرمایا ہاں جوتا پہنے پہنے میں نے مزید استفسار کیا کہ کیا جوتا پہنے پہنے؟ جواب ملا ہاں جوتا پہنے پہنی ابو داؤد کہتے ہیں کہ شیبہ سے ابن جریج کی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے مشابہ ہے جس میں حجاج ابن محمد نے ابن جریج سے نقل کیا ہے کہ آپ نے سر کا مسح ایک مرتبہ کیا اور ابن وہب نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں) ابن جریج کے واسطہ سے تین مرتبہ مسح نقل کیا ہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، عمرو بن یحییٰ، عبد اللہ بن زید بن عاصم، عمرو بن یحیٰ مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن زید سے جو کہ عمرو بن یحیٰ مازنی کہ دادا تھے کہا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبد اللہ بن زید نے کہا ہاں اس کے بعد انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر انڈیلا پھر ان کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر دونوں ہاتھ دھوئے دو دو مرتبہ کہنیوں تک، پھر دونوں ہاتھوں سے سر پر مسح کیا یعنی پہلے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی جانب لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی جانب لائے یعنی سر کے سامنے والے حصہ سے مسح شروع کیا اور ہاتھوں کو گدی تک لائے اور پھر اسی جگہ لوٹا لائے جہاں سے مسح شروع کیا تھا اور اس کے بعد دونوں پاؤں دھوئے۔

 

مسدد، خالد عمرو بن یحییٰ، عبد اللہ بن زید بن عاصم، عمرو بن یحیٰ مازنی اپنے والد سے اور وہ عبد اللہ بن زید سے بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ ایسا ہی کیا پھر باقی حدیث پہلی حدیث کی طرح بیان کی۔

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، حبان بن واسع، حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وضو کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح نیا پانی لے کر کیا (یعنی اس پانی سے مسح نہیں کیا جو ہاتھ میں پہلے سے لگا ہوا تھا) اور دونوں پاؤں کو (رگڑ کر) دھویا یہاں تک کہ ان کو بالکل صاف و شفاف بنا دیا۔

 

احمد بن محمد بن حنبل، ابو مغیرہ، حضرت مقدام بن معدیکرب کندی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو پہلے دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھویا اور پھر چہرہ کو تین مرتبہ دھویا پھر تین تین مرتبہ دونوں ہاتھوں کو دھویا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر سر کا مسح کیا اور کانوں کا بھی اندر اور باہر سے۔

 

محمود بن خالد یعقوب بن کعب، ولید بن مسلم، حریز بن عثمان، عبد الرحمن بن میسرہ، مقدام بن عدی، حضرت مقدام بن معدیکرب کندی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے تو جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے ہوئے سر کے مسح پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دونوں ہتھیلیوں کو سر کے اگلے حصہ پر رکھ کر ان کو پیچھے کی طرف لائے یہاں تک کہ گدی تک پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھوں کو واپس اسی جگہ لائے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسح شروع کیا تھا اس حدیث کے ایک راوی محمود نے بیان کیا ہے کہ (ولید بن مسلم نے) لفظ اخبرنی کا اضافہ کر کے اخبرنی حریز نقل کیا ہے۔

 

محمود بن خالد، ہشام بن خالد، ولید، محمود بن خالد اور ہشام بن خالد سابقہ روایت کے مضمون کے نقل کرنے میں اتفاق کرتے ہوئے بیان کیا کہ ولید نے مذکورہ اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کانوں کے ظاہر و باطن دونوں طرف کا مسح کیا اور ہشام نے یہ اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کان کے سوراخ میں انگلیوں کو داخل فرمایا۔

 

مومل بن فضل، ولید بن مسلم، مغیرہ بن فروہ، یزید بن ابو مالک، معاویہ، ابو الازہر المغیرہ بن فروہ رضی اللہ عنہ، یزید بن ابی مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دکھانے کے لیے وضو کیا جیسا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کرتے دیکھا تھا جب سر کے مسح تک پہنچے تو بائیں ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر سر کے درمیانی حصہ پر ڈالا یہاں تک کہ پانی بہنے لگا یا بہنے کے قریب ہو گیا پھر مسح کیا آگے سے پیچھے کی طرف اور پیچھے سے آگے کی طرف۔

 

محمود بن خالد، حضرت ولید بن مسلم رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ روایت ہے کہ (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے) وضو کیا تین تین مرتبہ (یعنی تمام اعضاء تین بار) اور دونوں پاؤں دھوئے اور راوی نے عدد ذکر نہیں کیا

 

مسدد، بشر بن مفضل، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لاتے تھے ربیع نے واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کے لیے پانی لاؤ ربیع نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ہاتھ پہنچے تک اور تین مرتبہ منہ دھویا اور ایک مرتبہ کلی کی اور ایک مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ دونوں ہاتھ دھوئے اور دو بار سر کا مسح کیا اس طرح کہ پہلے پیچھے سے شروع کیا اور پھر آگے سے پھر دونوں کانوں کا مسح کیا اندر اور باہر اور تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسدد کی روایت کے معنی یعنی مضمون و مطلب یہی ہے غالباً مسدد کے بیان کردہ الفاظ یاد نہیں رہے۔

 

اسحاق بن اسماعیل، سفیان، حضرت ابن عقیل سے بھی یہ روایت مذکور ہے جس میں بشر کی حدیث سے بعض جگہ اختلاف ہے اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں ڈالا۔

 

قتیبہ بن سعید، یزید بن خالد، لیث ابن عجلان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے سامنے وضو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورے سر کا مسح کیا اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر کا مسح اوپر سے شروع کرتے اور بالوں کی روش پر سر کے ہر حصہ تک ہاتھ لے جاتے لیکن بالوں کو اپنی جگہ سے حرکت نہ دیتے۔

 

قتیبہ بن سعید، بکر ابن مضر، ابن عجلان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسح کیا سر پر آگے اور پیچھے اور کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، سفیان بن سعید، ابن عقیل، حضرت ربیع سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سر پر اس تری سے مسح کیا جو ان کے ہاتھ میں بچی رہ گئی تھی۔

 

ابراہیم بن سعید، وکیع، حسن بن صالح، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور اپنی انگلیوں کو کان کے سوراخ میں ڈالا۔

 

محمد بن عیسیٰ، مسدد، عبد الوارث، لیث طلحہ بن مصرف، حضرت طلحہ کے دادا کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ سر کا مسح کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گردن کے سرے تک پہنچ جاتے تھے۔ مسدد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح کیا آگے سے پیچھے تک یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا۔ مسدد نے کہا ہے کہ میں نے یہ حدیث یحیٰ سے بیان کی انہوں نے اسے منکر کہا ابو داؤد کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا وہ فرماتے تھے کہ علماء کا خیال ہے کہ ابن عیینہ اس حدیث سے انکار کرتے ہیں اور وہ کہتے تھے کہ یہ طریق سند یعنی طلحہ عن ابیہ عن جدہ کیا چیز ہوتی ہے؟ یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، عباد بن منصور، عکرمہ، بن خالد، سعید بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے (ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) حدیث ذکر کی اور اس میں تمام اعضائے وضو کو تین تین مرتبہ دھونا ذکر کیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر اور کانوں کا ایک ہی مسح کیا تھا۔

 

 

 

 

نماز کا بیان

 

                   نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کر امام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں

 

عبد اللہ بن اسحاق ، ابو عاصم، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، حضرت ابو النضر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تکبیر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھتے کہ مسجد میں لوگ کم ہیں تو بیٹھ جاتے اور نماز شروع نہ فرماتے اور جب دیکھتے کہ جماعت پوری ہو گئی تب نماز شروع فرماتے۔

 

عبد اللہ بن اسحاق ، ابو عاصم ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن جبیر، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے۔

 

                   ترک جماعت پر وعید

 

احمد بن یونس، زئدہ، سائب بن حبیش، معدان بن ابی طلحہ، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور پھر بھی وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے پس تم جماعت کو لازم کر لو کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو گلے سے الگ ہو زائدہ کہتے ہیں کہ سائب نے کہا جماعت سے مراد نماز با جماعت ہے۔

 

                   ترک جماعت پر وعید

 

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ارادہ کیا تھا کہ قیام نماز کا حکم دے کر اپنی جگہ کسی اور شخص کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اپنے ساتھ کچھ لوگ لے جاؤ جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹھڑ ہوں اور جا کر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔

 

نفیلی، ابو ملیح، یزید بن یزید، یز ید بن اصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنے نوجوانوں کو لکڑیوں کے گٹھے جمع کرنے کا حکم دوں اور پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (یزید بن یزید کہتے ہیں کہ) میں نے یزید بن اصم سے پوچھا کہ اے ابو عوف جماعت سے نماز جمعہ مراد ہے یا عام جماعت کہا میرے کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے نہ سنا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کرتے تھے لیکن انہوں نے نہ جمعہ کا تذکرہ کیا نہ کوئی اور نماز کا ۔

 

ہارون بن عباد، وکیع، مسعودی، علی بن اقمر، احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا پانچوں نمازوں کی پابندی کرو جب ان کے لیے بلایا جائے (یعنی اذان دی جائے) کیونکہ یہ سنن ہدیٰ ہیں اور اللہ تعالی نے ان نمازوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے سنن ہدیٰ بنایا ہے اور ہم نے دیکھا کہ جماعت کی نماز میں صرف وہی لوگ نہ آتے تھے جن کا نفاق کھلا ہوا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ کسی کو تو دو دو آدمی سہارا دے کر لاتے تھے اور اس کو صف میں کھڑا کرتے تھے تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ نہ ہو لیکن اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے اور مسجدوں کو چھوڑ دو گے تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کو چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کو چھوڑ دو گے تو کفر کا کام کرو گے۔

 

قتیبہ، جریر، ابو جناب، عدی بن ثابت، سعید، بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص اذان کی آواز سنے اور نماز کے لیے نہ جائے باوجود اس کے کہ کوئی عذر (خوف یا بیماری) بھی نہ ہو تو اس کی تنہا پڑھی ہوئی نماز قبول نہ ہو گی۔

 

سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عاصم بن بہدلہ، ابو رزین، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نابینا ہوں اور میرا گھر دور ہے اور جو مجھ کو لے کر آتا ہے وہ میرا تابع نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہا ہاں (میں اذان کی آواز سنتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تب میں تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتا۔

 

ہارون بن زید، ابی زرقا، سفیان، عبد الرحمن بن عابس، عبد الرحمن بن ابی لیلی، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں زہریلے کیڑے اور درندے بہت ہیں (تو کیا میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، تو حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ، حَیَّ عَلَی الفَلَاح کی آواز سنتا ہے تو ضرور آ۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو سفیان سے قاسم جرمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے

 

                   نماز با جماعت کی فضیلت

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، عبد اللہ بن ابی نصیر، ابی بن کعب، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ایک دن فجر کی نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فلاں شخص حاضر ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ فلاں شخص موجود ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دو نمازیں (عشاء فجر) منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہیں اگر تم جان لیتے کہ (خاص طور پر) ان دو نمازوں کا کتنا ثواب ہے تو تم گھٹنوں کے بل چل کر بھی آتے اور صف اول (قربت و ثواب میں) فرشتوں کی صف کی طرح ہے اور اگر تم جان لیتے کہ (صف اول کی شرکت کی) کتنی فضیلت ہے تو یقیناً تم اس کی طرف سبقت کرتے اور دو آدمیوں کا مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تین آدمیوں کا مل کر نماز پڑھنا دو آدمیوں کے مل کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور نماز میں جس قدر بھی لوگ ہوں گے اللہ کے نزدیک وہ نماز اتنی ہی پسندیدہ ہو گی۔

 

احمد بن حنبل، اسحاق بن یوسف، سفیان، ابی سہل، عثمان بن حکیم، عبد الرحمن بن ابی عمرہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص عشاء کی نماز جماعت سے ادا کرے گا گویا اس نے آدھی رات تک عبادت کی اور جو شخص عشاء و فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے گا تو گویا اس نے تمام رات عبادت میں گذاری۔

 

                   نماز کے لیے پیدل جانے کی فضیلت

 

مسدد، یحییٰ، ابن ابی ذئب، عبد الرحمن بن مہران، عبد الرحمن بن سعد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی مسجد میں جتنا دور سے آتا ہے (تو آنے جانے میں قدم اٹھاتا ہے اسی قدر ثواب ملتا ہے)۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، سلیمان، ابو عثمان، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری نظر میں مدینہ کے لوگوں میں نمازیوں میں سے کسی کا مکان مسجد سے اتنا دور نہ تھا جتنا کہ ایک شخص کا تھا مگر اس کی جماعت ناغہ نہ ہوتی تھی میں نے اس سے کہا کہ اگر تم ایک گدھا خرید لو جس پر گرمی کی شدت اور تاریکی کی بنا پر تم سوار ہو کر مسجد آ سکو تو بہتر ہو گا اس نے کہا مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد سے متصل ہو یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک بھی پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا تیرا اس قول سے کیا مقصد تھا؟ وہ بولا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری غرض اس سے یہ تھی کہ مجھے مسجد میں آنے اور جانے کا ثواب ملے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ نے تجھے وہ سب عطاء فرما دیا جو تو نے اس سے چاہا۔

 

ابو توبہ ہثیم بن عبد اللہ، یحیٰ بن حارث، قاسم ابی عبد الرحمن ابی امامہ، حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کی نیت سے نکلے گا اس کو اس قدر ثواب ملے گا جتنا کہ احرام باندھ کر حج پر جانے کا ہوتا ہے اور جو شخص نفل نماز کی نیت سے نکلے گا صرف سی کا قصد کرتے ہوئے تو اس کو ایسا ثواب ملے گا جیسا کہ عمرہ کرنے والے کو ملتا ہے اور جو نماز ایک نماز کے بعد ہو اور درمیان میں کوئی لغو اور بیہودہ کام نہ ہو تو وہ نماز علیین میں لکھی جائے گی۔

 

مسدد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کسی شخص کا جماعت سے نماز پڑھنا اس کا گھر پر یا بازار (دکان) میں تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ جب تم سے کوئی اچھی طرح وضو کرتا ہے اور محض نماز ہی کی خاطر مسجد میں جاتا ہے تو اس کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ مسجد میں پہنچ گیا تو گویا وہ نماز ہی کی حالت میں ہے۔ جب تک کہ وہ مسجد میں نماز کے لیے رکا رہے اور جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے تب تک فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم فرما، اور اس کی توبہ قبول فرما، (اور دعا کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے یا اس کو کوئی حدث لاحق نہ ہو۔

 

محمد بن عیسیٰ، ابو معاویہ، ہلال بن میمون، عطاء بن یزید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جماعت کی نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جب نماز جنگل میں پڑھی جائے اور رکوع و سجود اچھی طرح ادا کیے جائیں تو اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہو گا ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبد الواحد بن زیاد نے اس حدیث میں کہا ہے کہ جنگل میں آدمی کی نماز جماعت کی نماز سے ثواب میں دوچند زیادہ کی جاتی ہے پھر آخر تک حدیث بیان کی۔

 

                   اندھیری راتوں میں نماز کے لیے مسجد جانے کی فضیلت

 

یحیٰ بن معین، ابو عبیدہ، اسماعیل، ابو سلیمان، عبد اللہ بن اوس، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اندھیرے میں مسجد میں جانے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ قیامت کے دن ان کے لیے مکمل نور ہو گا۔

 

                   نماز کے لیے وقار و سکون کے ساتھ جانا چاہیے

 

محمد بن سلیمان، عبد الملک بن عمرو، داؤد، بن قیس، حضرت ابو ثمامہ حناط سے روایت ہے کہ کعب بن عجرہ ان کو مسجد جاتے ہوئے ملے ابو ثمامہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ کو انگلیاں چٹخاتے ہوئے دیکھا تو مجھے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے ارادہ سے نکلے تو وہ اپنے ہاتھوں سے تشبیک نہ کرے (یعنی انگلیاں نہ چٹخائے) کیونکہ وہ گویا نماز ہی کی حالت میں ہے۔

 

محمد بن معاذ بن عباد، ابو عوانہ، یعلی بن عطاء، معبد بن ہرمز، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص جب مرنے لگا تو اس نے کہا کہ میں محض ثواب کی خاطر تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لیے نکلتا ہے تو داہنا قدم اٹھاتے ہی اللہ تعالی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور بایاں قدم رکھتے ہی اس کا ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ پس جو چاہے (مسجد سے) قریب رہے یا دور رہے۔ پس اگر وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے (صغیرہ گنا ہ) معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اگر وہ مسجد میں ایسے وقت میں آتا ہے جبکہ لوگ نماز کا کچھ حصہ پڑھ چکے تھے اور کچھ باقی رہ گئی تھی اور جتنی نماز ملتی ہے وہ ان کے ساتھ پڑھ لیتا ہے اور جو باقی رہ جاتی ہے وہ بعد میں پوری کر لیتا ہے تب بھی اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اگر وہ مسجد میں ایسے وقت میں آیا جب نماز ختم ہو چکی تھی اور پھر (مسجد میں آ کر) اس نے نماز پڑھی تب بھی اس کی مغفرت کر دی جائے گی۔

 

                   آدمی نماز کے ارادہ سے مسجد کے لیے نکلا مگر جماعت ہو گئی تو بھی ثواب ملے گا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، عبد العزیز، ابن محمد، ابن طحلاء، محصن بن علی، عون بن حارث، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے لیے نکلے اور جب وہاں پہنچے تو دیکھے کہ لوگ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں (یعنی جماعت ہو چکی ہے) تو اللہ تعالی اس کو بھی اتنا ہی ثواب دیں گے جتنا اس شخص کو ملا ہے۔ جس نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہو۔ اور جماعت سے نماز پڑھ چکنے والوں کے اجر میں بھی کچھ کمی نہ ہو گی۔

 

                   مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن عمر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو لیکن وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ خوشبو لگا کر نہ جائیں۔

 

                   امامت کا مستحق کون ہے؟

 

مسدد، مسلمہ بن محمد، واحد، خالد، ابو قلابہ، حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے (یا ان کے کسی ساتھی سے) کہا کہ جب نماز کا وقت آئے تو اذان دو اور تکبیر کہو پھر تم دونوں میں سے امامت وہ کرے جو عمر میں بڑا ہو۔ سلمہ کی روایت میں ہے کہ اس زمانہ میں ہم دونوں علم میں برابر تھے (اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر کی زیادتی کو وجہ ترجیح قرار دیا) اور اسماعیل کی حدیث میں یہ ہے کہ خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ قرآن کہا گیا؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کے علم کو وجہ ترجیح قرار کیوں نہیں دیا؟) ابو قلابہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں (قرآن جاننے میں) برابر تھے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، حسین بن عیسیٰ، حکم بن ابان، عکرمہ، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے اذان وہ دے جو تم میں سے بہتر (نیک و صالح) ہو اور امامت وہ کرے جو تم میں اچھا قاری ہو۔

 

                   عورتوں کی امامت کا مسئلہ

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، ولید بن عبد اللہ بن جمیع، عبد الرحمن بن خلاد، بنت عبد اللہ بن نوجل، حضرت ام ورقہ نوفل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غزوۂ بدر میں تشریف لے گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی اپنے ساتھ جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائیے وہاں میں بیماروں (زخمیوں) کی دیکھ بھال کروں گی۔ شاید اللہ تعالی مجھے بھی مرتبہ شہادت عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے ہی گھر میں رہو اللہ تعالی تمھیں شہادت کا مرتبہ عطا فرمائیں گے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ان کا نام ہی شہید ہو گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اس لیے انھوں نے اپنے گھر میں ایک موذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک غلام اور ایک باندی کو مدبر کیا تھا (یعنی اپنے مرنے کے بعد آزادی کا وعدہ) ایک دن غلام اور باندی مل کر رات میں ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور بھاگ نکلے جب صبح ہوئی تو حضرت عمر نے فرمایا جس کو ان دونوں کا پتہ ہو یا جس نے ان کو کہیں دیکھا ہو وہ ان کو پکڑ لائے پس وہ لائے گئے اور ان کے لیے پھانسی کا حکم ہوا اور مدینہ میں پھانسی دیئے جانے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

 

حسن بن حماد، محمد بن فضیل، ولید بن جمیع، عبد الرحمن بن خلاد، حضرت ام ورقہ بنت عبد اللہ بن حارث سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لیے ایک موذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے موذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے۔

 

                   مقتدیوں کی ناراضگی کی صورت میں امامت درست نہیں

 

قعنبی، عبد اللہ بن عمر بن غانم، عبد الرحمن بن زیاد، عمران بن عبد ، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں فرماتے ایک وہ شخص جو لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود ان کی امامت کرے اور دوسرے وہ شخص جو وقت نکلنے کے بعد نماز کے لیے آئے تیسرے وہ شخص جو کسی آزاد عورت کو غلام بنا لے۔

 

                   نابینا کی امامت کا بیان

 

محمد بن عبد الرحمن ابو عبد اللہ، ابن مہدی عمران، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر ابن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر کیا تھا وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔

 

                   مہمان میزبان کی امامت نہ کرے

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، بدیل، ابو عطیہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث ہماری نماز پڑھنے کی جگہ آتے تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب تکبیر ہوئی تو ہم نے ان سے کہا کہ آگے بڑھیے اور نماز پڑھائیے انہوں نے کہا اپنے میں سے کسی کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھاؤ اور میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا کہ میں نے تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ فرمایا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں سے ملنے کے لیے جائے وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں میں سے کوئی شخص امامت کرے۔

 

                   امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر نہ کھڑا ہو

 

احمد بن سنان، احمد بن فرات، ابو مسعود، یعلی، اعمش، ابراہیم، ہمام سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے مدائین میں ایک دکان پر کھڑے ہو کر امامت کی حضرت ابو مسعود نے ان کی قمیص پکڑ کر ان کو (نیچے) کھینچ لیا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ لوگوں کو اس بات سے منع کیا جاتا تھا؟ کہا ہاں جب تم نے مجھے کھینچا تو مجھے یاد آ گیا تھا۔

 

احمد بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، ابو خالد، حضرت عدی بن ثابت سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا جو مدائین میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ جب نماز کھڑی ہوئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک دکان پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ (دوکان) سے نیچے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت حذیفہ آگے بڑھے اور ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے حضرت عمار نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا یہاں تک کہ حضرت حذیفہ نے ان کو (دوکان) سے نیچے اتار لیا جب حضرت عمار نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت حذیفہ نے ان سے کہا کہ کیا تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص قوم کی امامت کرے تو وہ ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی فرمایا تھا) اسی لیے میں آپ کے کہنے پر پیچھے ہٹ گیا تھا۔

 

                   نماز پڑھنے کے بعد پھر اسی نماز کی امامت کرنا

 

عبید اللہ بن عمر بن مسیرہ، یحیٰ بن سعید، محمد بن عجلان، عبید اللہ بن مقسم، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے تھے، اور پھر اپنے لوگوں میں آ کر وہی نماز پڑھاتے۔

 

مسدد، سفیان، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے پھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کرتے۔

 

                   امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے سے گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی داہنی کروٹ چھل گئی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا۔ امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللہٗ لِمَن حَمِدَہ کہے تو تم، ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، وکیع، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مر تبہ) مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے پر سوار ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک درخت کی جڑ میں گرا دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں میں چوٹ آ گئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کی غرض سے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور بیٹھے بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو (اپنے پیچھے کھڑے ہونے سے) منع نہیں فرمایا جب ہم دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھائی ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو (بیٹھنے کا) اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور تم ایسا مت کرو جیسا کہ اہل فارس اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں (یعنی وہ بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ کھڑے رہتے ہیں۔

 

سلیمان بن حرب، مسلم بن ابراہیم، وہیب، مصعب، بن محمد ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہے تم بھی نہ کہو جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب تک وہ رکوع نہ کرے تم بھی نہ کرو اور جب وہ سَمِعَ اللہٗ لِمَن حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الحَمد کہو اور مسلم کی روایت میں وَلَکَ الحَمد ہے اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب تک وہ سجدہ نہ کرے تم بھی نہ کرو اور جب ہو (یعنی امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بیٹھ کر پڑھو ابو داؤد کہتے ہیں کہ (سلیمان بن حرب نے جب یہ حدیث بیان کی تو یہ کلمہ) اَللہ رَبَنا لَکَ الحَمد میں ان سے نہیں سمجھ سکا یہاں تک کہ مجھے میرے ان ساتھیوں نے سکھایا (جو میرے ساتھ سماع حدیث میں شریک تھے)۔

 

محمد بن آدم، ابو خالد، ابن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پھر پوری حدیث بیان کی اور اتنا زیادہ کیا کہ جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ زیادتی یعنی اِذَا قَرَاءَ فَاَنصِتُوا محفوظ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ زیادتی ابو خالد کا وہم ہے۔

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور باقی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بیٹھنے کا (بیٹھ کر نماز پڑھنے کا) اشارہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب وہ (رکوع سے سر) اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

قتیبہ بن سعید، یزید، بن خالد بن موہب، لیث، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ (بآواز بلند) تکبیر کہتے جاتے تھے تاکہ لوگ ان کی تکبیر سن لیں (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکبیر بیٹھے ہوئے اور بیماری کی بنا پر آہستہ ہو رہی تھی) پھر پوری حدیث بیان کی۔

 

عبدہ بن عبد اللہ، زید ابن حباب، محمد بن صالح، حصین، سعد بن معاذ، اسید بن حضیر سے روایت ہے کہ وہ امامت کرتے تھے (ایک مرتبہ بیمار ہو گئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیادت کے لیے تشریف لائے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارا امام بیمار ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ابو داؤد نے کہا کہ یہ حدیث متصل (الاسناد) نہیں ہے۔

 

                   جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حضرت ام حرم کے پاس آئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھی اور کھجور پیش کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھجور کو اپنے برتن میں ڈال دو اور گھی اپنی مشک میں بھر لو کیونکہ میں روزے سے ہوں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ام سلیم اور ام حرم بھی ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ ثابت کہتے ہیں کہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرش پر اپنی داہنی جانب کھڑا کیا۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، عبد اللہ بن مختار، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی امامت کی جس میں ایک عورت بھی شامل تھی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اپنی داہنی جانب کھڑا کیا تھا اور عورت کو اپنے پیچھے۔

 

مسدد، یحییٰ، عبد الملک، بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ کے پاس رہا پس رات میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھے اور مشک کا منہ کھول کر وضو کیا پھر اس کا منہ بند کر دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے میں بھی اٹھا اور اٹھ کر اسی طرح وضو کیا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا پھر میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا داہنا پہلو پکڑا اور پیچھے سے گھما کر اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

 

عمرو بن عون، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اسی واقعہ میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا سر پکڑ کر (یا یہ کہا کہ) میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔

 

                   جب تین آدمی جماعت کریں تو کیسے کھڑے ہوں؟

 

قعنبی، مالک، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کی دادی ملیکہ نے کھانے پر بلایا جس کو خود انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے تیار کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانا کھا کر نماز پڑھی اور فرمایا کھڑی ہو جاؤ میں تم کو نماز پڑھاتا ہوں حضرت انس کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور ایک پرانا بوریا جو پڑے پڑے کالا ہو گیا تھا اس پر پانی ڈالا (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے بچھا دیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر کھڑے ہوئے اور میں اور (میرا بھائی) یتیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑھیا (ملیکہ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں اور فارغ ہو گئے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، ہارون بن عنترہ، عبد الرحمن بن اسود کے والد سے روایت ہے کہ علقمہ اور اسود نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے (اندر آنے کی) اجازت چاہی اور کافی دیر تک ان کے دروازہ پر بیٹھے رہے اتنے میں ایک باندی آئی اور اس نے (اطلاع دے کر) حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ان کے لیے اندر آنے کی اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

                   سلام پھیرنے کے بعد امام قبلہ سے رخ پھیر لے

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، یعلی، بن عطاء، جابر بن یزید بن اسود اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو (قبلہ کی طرف سے) پھر گئے۔

 

                   ظہر کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے کا بیان

 

مومل بن فضل، محمد بن شعیب، نعمان، مکحول، عنبسہ، ابو سفیان، حضرت ام حیبیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ہے جو شخص محافظت کرے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی اس پر جہنم حرام ہو جائے گی امام ابو داؤد کے کہا کہ علاد بن حارث اور سلیمان بن موسیٰ نے مکحول سے ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔

 

ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیدہ، ابراہیم، ابن منجاب، حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھی جائیں جن میں درمیان میں سلام نہ ہو تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ امام ابو داؤد نے کہا کہ ہم تک یحیٰ بن سعید قطان کا یہ قول پہنچا ہے کہ اگر میں عبیدہ سے کوئی حدیث بیان کرتا تو وہ یہی حدیث ہوتی مگر عبیدہ ضعیف ہے اور ابن منجاب کا نام سہم ہے۔

 

                   عصر سے پہلے نفل پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ابراہیم، ابو داؤد، محمد بن مہران، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث بکیر بن اشج، کریب، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباد رضی اللہ تعالی عنہ اور عبد الرحمٰن بن ازہر اور مسود بن محزمہ نے ان کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہماری طرف سے ان کو سلام کہنا اور ان سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بارے میں دریافت کرنا اور کہنا کہ ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ یہ دو رکعت عصر کے بعد پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بات معلوم ہوئی تھی کے رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے اس سے عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھنے سے منع فرمایا تھا پس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان کو لوگوں کا پیغام پہنچایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اور یہ مسئلہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کرو اور وہ عبد اللہ بن عباس وغیرہ کے پاس گیا اور حضرت عائشہ کے جواب اور مشورہ سے ان کو مطلع کیا پس پس ان سب حضرات نے مجھ کو اس پیغام کے ساتھ جو میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے گیا تھا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے سنا ہے آپ سے عصر کی نماز پڑھ میرے پاس تشریف لائے اس وقت انصار میں سے بنی حرام کی کئی عورتیں بیٹھی ہوئیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

                   جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، منصور، ہلال بن یساف، وہب بن اجدع، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقت عصر داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ہے مگر جب سورج بلند ہو۔

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے سوائے فجر اور عصر کے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ ابو عالیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میرے پاس کئی معتبر اور پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور معتبر شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اسی طرح عصر کی نماز کے بعد جب سورج غروب ہو جائے۔

 

ربیع بن نافع، محمد بن مہاجر، عباس بن سالم، حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے کس حصہ میں دعا جلد قبول ہوتی ہے؟ فرمایا رات کے آخیر حصہ میں دعا جلد قبول ہوتی ہے اس وقت تو جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس کا اجر لکھتے جاتے ہیں فجر کی نماز تک اس کے بعد ٹھہرجا یہاں تک کے سورج نکل آئے اور ایک یا دو نیزہ کے برابر ہو جائے ٹھہرنے کا حکم اس لیے ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر اس کی پوجا کرتے ہیں اس کے بعد جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اس کا اجر لکھتے ہیں جاتے ہیں یہاں تک کہ نیزہ کا سایہ اس کے برابر ہو جائے پھر ٹھہر جا کیونکہ اس وقت جہنم جوش مارتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ پس جب سورج ڈھل جائے پھر جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ اس میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور عصر کی نماز تک رہتے ہیں پھر ٹھہر جا سورج غروب ہونے تک کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان میں غروب ہوتا ہے اس وقت کافر اس کی پوجا کرتے ہیں راوی کہتے ہیں میرے شیخ نے ایک طویل حدیث بیان کی تھی میں نے اختصار سے کام لیا ہے ابی اسامہ نے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے الا یہ کہ غیر ارادی طور پر کوئی چوک مجھ سے ہو گئی ہو پس میں اللہ سے اس کی معافی چاہتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

 

مسلم بن ابراہیم، وہیب، قدامہ بن موسی، ایوب بن حصین، ابو علقمہ، یسار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام یسار سے روایت ہے کے طلوع فجر کے بعد مجھ کو ابن عمر رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا اے یسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے فرمایا جو لوگ تم میں حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو خبر دیں جو یہاں موجود نہیں کہ طلوع فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھیں سوائے دو رکعت سنت کے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، اسود، مسروق، حضرت اسود اور حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے ہوں۔

 

عبید اللہ بن سعد، ابن اسحاق ، محمد بن عمرو، بن عطاء، ذکوان، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز کے بعد پڑھتے تھے لیکن دوسروں کو منع فرماتے تھے اور خود آپ پے درپے روزے رکھتے تھے مگر اوروں کو اس سے روکتے تھے۔

 

                   مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان

 

عبید اللہ بن عمر، عبد الوارث بن سعید، حسین، حضرت عبد اللہ بن مزنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ہے مغرب کی اول دو رکعتیں پڑھو پھر فرمایا جس کا دل چاہے وہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھے اس خوف سے کہیں لوگ اس کو سنت نہ سمجھ لیں

 

محمد بن عبد الرحیم، بزار، سعید بن سلیمان، منصور بن ابو اسود، مختار بن فلفل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے زمانہ میں مختار بن فلفل نے کہا میں نے حضرت انس سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے تم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا انہوں نے کہا ہاں نہ ہم کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا۔

 

عبد اللہ بن محمد، ابن علیہ، جریری، عبد اللہ بن بریدہ، عبد اللہ بن مغفل، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا دو اذانوں یعنی اذان اور اقامت) کے درمیان جس کا جی چاہے نماز پڑھے۔

 

ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت طاؤس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عبد اللہ بن عمر کے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں کسی کو یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا البتہ انہوں نے عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی رخصت دی ابو داؤد کہتے ہیں میں نے یحیٰ بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ شعبہ کو نام ذکر کر نے میں وہم ہوا ہے اصل نام شعیب ہے نہ کہ ابو شعیب۔

 

                   چاشت کی نماز

 

احمد بن منیع، عباد، مسدد، حماد بن زید، واصل، یحیٰ بن عقیل، یحیٰ بن یعمر، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب صبح ہوتی ہے تو آدمی کے ایک ایک پور پر صدقہ لازم ہے کسی سے مل کر سلام کرنا ایک صدقہ ہے اچھی بات کی تلقین کرنا ایک صدقہ ہے بری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ایک صدقہ ہے اپنی بیوی سے جماع کرنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں اور عباد کی حدیث اتم ہے اور مسدد نے امر و نہی کو ذکر نہیں کیا اور اپنی حدیث میں زیادہ کیا ہے حماد نے کہا کے کذا و کذا اور ابن تبیع نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو اس کو صدقہ کا ثواب کیونکر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ حرام جگہ سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے کیا یہ گناہ گار نہیں ہوتا۔

 

وہب بن بقیہ، خالد بن واصل، یحیٰ بن عقیل، حضرت ابو الاسود ویلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابو ذر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں کہا جب صبح ہوتی ہے تو تم میں سے ہر شخص کے ایک ایک پور پر صدقہ لازم ہوتا ہے (بطور شکرانہ صحت و تندرستی) پھر اس کے لیے ہر نماز کا ایک صدقہ ہے اور ہر تسبیح ایک صدقہ ہے اور ہر تکبیر کا ایک صدقہ ہے ہر تحمید کا صدقہ ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نیک اعمال کو بیان کر کے فرمایا ان سب سے ایک چیز کافی ہے وہ چاشت کی دو رکعتیں

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، زبان بن فائد، حضرت معاذ بن انس جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے جو شخص فجر کی نماز سے فارغ ہو اسی جگہ بیٹھا رہے اور چاشت کی دو رکعت ادا کرے اور اس درمیانی وقفہ میں گفتگو نہ کرے سوائے اچھی گفتگو کے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔

 

ابو توبہ، ربیع بن نافع، ہیثم بن حمید یحیٰ بن حارث، قاسم ابو عبد الرحمن، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس شان سے پڑھنا کہ درمیان میں کوئی لغو بات اور بے ہودہ کام نہ ہو ایسا کام ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے علیین فرشتوں کے اس رجسٹر کا نام ہے جس میں لوگوں کے نیک اعمال درج کیے جاتے ہیں۔

 

داؤد بن رشید، ولید، سعید بن عبد العزیز، مکحول، کثیر بن مرہ، حضرت نعیم بن ہمار سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے ابن آدم دن کے آغاز پر چار رکعتیں قضا مت کر میں تیرے لیے دن کے اختتام تک کافی ہوں گا۔

 

                   صفیں برابر کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، بن زکریا، بن ابی زائدہ، ابو قاسم، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تین مرتبہ فرمایا تم اپنی صفوں کو برابر کر لو۔ یا تو اپنی صفوں کو برابر کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا۔ نعمان کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے کندھے سے کندھا۔ گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سماک بن حرب، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو صفوں میں اس طرح برابر کرتے تھے جس طرح تیر کی لکڑی برابر کی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گمان ہو گیا کہ ہم یہ بات سیکھ گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ہماری طرف) متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص اپنا سینہ آگے کو نکالے ہوئے ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی صفوں کو برابر کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان پھوٹ ڈال سے گا۔

 

ہناد بن سری، ابو عاصم بن جواس، ابو احوص، منصور، طلحہ، عبد الرحمن بن عوسجہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صف کے اندر آتے تھے اور ہمارے سینوں اور مونڈھوں کو برابر کرتے تھے اور فرماتے تھے آگے پیچھے مت ہو ورنہ تمھارے دل بھی (ایک دوسرے سے) جڑے نہ رہیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ پہلی صف والوں پر اللہ تعالی اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

 

عبید اللہ بن معاذ، خالد بن حارث، حاتم، ابن ابی صغیرہ، سماک، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری صفوں کو برابر کرتے جب صفیں برابر ہو جاتیں تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے (یعنی نماز شروع فرماتے)۔

 

عیسی بن ابراہیم، ابن وہب، قتیبہ بن سعید، لیث ابن وہب، معاویہ بن صالح، ابو زاہریہ، کثیر بن مرہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (قتیبہ کی روایت یوں ہے عن ابی الزاھریہ، عن ابی الشجرہ اس میں عبد اللہ بن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنی صفوں کو قائم کرو، مونڈھوں کو برابر کرو اور ان جگہوں کو بند کرو جو خالی رہ جائیں اور اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ(عیسی بن ابراہیم نے، بِأَیْدِی إِخْوَانِکُمْ کے الفاظ ذکر نہیں کیے) اور شیطان کے واسطے صفوں میں جگہ نہ چھوڑو جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے ملائے گا اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا (یعنی محروم کر دے گا) ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو شجرہ راوی، کثیر بن مرہ ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو۔ اور ایک صف دوسری صف کے نزدیک رکھو (یعنی درمیان میں زیادہ فاصلہ نہ ہو) اور گردنوں کو بھی برابر رکھو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں شیطان کو صف میں خالی جگہ سے یوں گھستے ہوئے دیکھتا ہوں گو یا وہ بکری کا بچہ ہے۔

 

ابو ولید، سلیمان بن حرب، شعبہ، قتادہ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا تکمیل نماز ہی کا ایک حصہ ہے۔

 

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، مصعب بن ثابت بن عبد اللہ بن زبیر، محمد بن مسلم بن سائب سے روایت ہے کہ میں نے ایک روز حضرت انس بن مالک کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھی انھوں نے پوچھا کہ تمھیں پتہ ہے کہ میں نے یہ لکڑی کیوں رکھی ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا ہاتھ اس لکڑی پر رکھتے تھے اور فرماتے تھے برابر ہو جاؤ اور صفوں کو سیدھا کرو۔

 

مسدد، حمید بن اسود، مصعب بن ثابت، محمد بن مسلم، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث (ایک دوسری سند سے) مروی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس لکڑی کو داہنے ہاتھ میں لے کر التفات کرتے ہوئے فرماتے سیدھے ہو جاؤ اور صفوں کو برابر کرو پھر (اس لکڑی کو) بائیں ہاتھ میں لیتے اور فرماتے سیدھے ہو جاؤ اور صفوں کو درست کرو۔

 

محمد بن سلیمان، عبد الوہاب، ابن عطاء سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پہلے اگلی صف کو پورا کرو پھر اس کو جو اس کے بعد ہو تاکہ اگر (صف پوری ہونے میں) کوئی کسر رہ جائے تو وہ آخری صف میں ہو۔

 

ابن بشار، ابو عاصم، جعفر بن یحیٰ بن ثوبان، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے مونڈھے نماز میں نرم رہتے ہیں۔

 

                   ستونوں کے بیچ میں صف قائم کرنا

 

محمد بن بشار، عبد الرحمن، سفیان، یحیٰ بن ہانی، حضرت عبد الحمید بن محمود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی (ہجوم کے سبب) ہم ستونوں کے بیچ ڈال دیے گئے اور ہم آگے پیچھے ہو گئے حضرت نے فرمایا کہ ہم لوگ عہد رسالت میں اس سے بچتے تھے۔

 

                   امام سے قریب رہنا باعث ثواب ہے اور اس سے دور رہنا نا پسندیدہ ہے

 

ابن کثیر، سفیان اعمش، عمارہ، بن عمیر، ابو معمر، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے قریب وہ لوگ رہیں جو بالغ اور با شعور ہیں پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اور پھر وہ جو ان سے قریب ہیں۔

 

مسدد، یزید بن زریع، خالد، ابو معشر، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کی مثل روایت ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) اختلاف نہ کرو (یعنی آگے پیچھے مت ہو) ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف واقع ہو جائے گا اور (مسجدوں میں) بازار کی طرح شور و شغب سے پرہیز کرو (اگر ضرورت ہو تو آہستگی سے گفتگو کرو)

 

عثمان بن ابی شیبہ، معاویہ، بن ہشام، سفیان، اسامہ بن زید، عثمان بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی صف اول میں داہنی جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

 

                   صف میں بچے کہاں کھڑے ہوں

 

عیسی بن شاذان، عیاش، عبد الاعلی، قرہ بن خالد، بدیل، شہر بن حوشب، حضرت عبد الرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضرت ابو مالک اشعری نے کہا کہ کیا میں تم کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں؟ پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے پہلے مردوں کی صف بنائی، پھر ان کے پیچھے نابالغ لڑکوں کی تب آپ نے نماز پڑھائی۔ ابو مالک نے آپ کی نماز کا تذکرہ کر کے کہا کہ آپ نے فرمایا نماز اس طرح ہوتی ہے، عبد الاعلی نے کہا میرا خیال ہے آپ نے یہ فرمایا کہ میری امت کی نماز یہی ہے۔

 

                   عورتوں کی صف

 

محمد بن صباح بزار، خالد اسماعیل، بن سہیل، بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کے لیے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور سب سے بری صف ان کی صف آخری صف ہے (کیونکہ وہ عورتوں کی صف سے متصل ہوتی ہے) اور عورتوں کے لئے بہتر صف ان کی آخری صف ہے اور بری صف ان کی پہلی صف ہے (کیونکہ وہ مردوں کے قریب ہے)

 

یحیٰ بن معین، عبد الرزاق، عکرمہ، بن عمار، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ پہلی صف سے دور ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی ان کو جہنم میں بھی سب سے پچھلے (درجہ میں) ڈالے گا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، محمد بن عبد اللہ ابو اشہب، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کو پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے دیکھا تو فرمایا آگے آؤ اور میری پیروی کرو اور جو لوگ تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہاری پیروی کریں (اور ایک وقت آئے گا جب لوگ) پیچھے رہنا پسند کریں گے تو اللہ تعالی بھی ان کو پیچھے ڈال دے گا۔

 

                   امام صف کے آگے کہاں کھڑا ہو؟

 

جعفر بن مسافر، ابن ابی فدیک، یحیٰ بن بشیر بن خلاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام کو درمیان میں کھڑا کرو اور خالی جگہوں کو پورا کرو۔

 

                   صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنا

 

سلیمان بن حرب، حفص بن عمر، شعبہ، عمرو بن مرہ، ہلال بن یساف، حضرت وابصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نماز دہرانے کا حکم فرمایا۔

 

                   امام کو رکوع میں جاتے ہوئے دیکھ کر صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کرنا

 

حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، زیاد، حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکرہ مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہوئے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں تھے تو انہوں نے صف سے پہلے ہی رکوع کر لیا پھر (اسی حالت میں) صف کی طرف چلے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم میں سے کس نے صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کیا تھا اور پھر چل کر صف میں شامل ہوا تھا؟ اس پر ابو بکر نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہیں عبادت کے معاملہ میں مزید حرص عطا فرمائے مگر آئندہ ایسا نہ کرنا۔

 

                   سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے

 

احمد بن حنبل، اسماعیل، ابن ابراہیم، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے اس طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتا ہیں لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو دونوں ہاتھ بھی رکھ اور جب چہرہ اٹھائے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھا لے۔

 

                   ناک اور پیشانی پر سجدہ کرنے کا بیان

 

ابن مثنی، صفوان، بن عیسیٰ، معمر، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھانے کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی اور ناک پر مٹی کا نشان ہوتا تھا۔

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، حضرت معمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔

 

                   سجدہ کا طریقہ

 

ربیع بن نافع، ابو توبہ، شریک، ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہم کو سجدہ کا طریقہ بتایا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا، گھٹنوں پر سہارا لگایا اور سرین کو بلند کیا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح سجدہ کیا کرتے تھے

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، قتادہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سجدہ میں اعتدال کرو (سجدہ اطمینان سے کرو) اور تم میں سے کوئی (اپنے ) ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے۔

 

قتیبہ بن سفیان، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو (پہلوؤں سے) اتنا جدا رکھتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہے تو گزر سکے۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، ابو اسحاق ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بغلوں کی سفیدی کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں بازوؤں کو پسلیوں سے جدا کیے ہوئے تھے۔

 

مسلم بن ابراہیم، عباد، بن راشد، حسن احمد بن جزء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو بازوؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کو (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکلیف و مشقت پر) رحم آنے لگتا تھا۔

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابن وہب، لیث دراج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے اور دونوں کو ملا کر رکھے۔

 

                   سجدہ میں کہنیوں کو زمین پر لگانے کی اجازت

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شکایت کی کہ جب ہم پھیل کر اور کھل کر سجدہ کرتے ہیں ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہنیوں سے مدد حاصل کرو (یعنی اپنا وزن کہنیوں پر ڈال دو)

 

                   نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا

 

ہناد، سری، وکیع، سعید بن زیاد بن صبیح سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے اپنا ہاتھ کمر پر رکھ لیا۔ جب نماز ہو چکی تو فرمایا یہ تو نماز میں صلب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔

 

                   نماز میں رونے کا بیان

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، یزید، ابن ہارون، حماد، ابن سلمہ، ثابت، حضرت مطرف کے والد (عبد اللہ بن الشخیر) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ رونے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سینہ سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے چکی چلنے کی آواز ہوتی ہے۔

 

                   نماز میں وساوس اور خیالات آنے کی کراہت

 

احمد بن حنبل، عبد الملک بن عمرو، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے خوب اچھی طرح وضو کیا اور دو رکعتیں اس طرح حضورِ قلب کے ساتھ پڑھیں کہ ان میں کہیں بھول نہ ہوئی تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید، ابو ادریس، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اچھی طرح وضو کرے اور پھر دو رکعتیں حضورِ قلب اور پوری توجہ کے ساتھ پڑھے اور اس کے واسطے جنت واجب نہ ہو جائے۔

 

                   امام لقمہ دینے کا بیان

 

محمد بن علاء، سلیمان بن عبد الرحمن، مروان بن معاویہ، یحییٰ، حضرت مسور بن یزید مالکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھنے میں چند آیات چھوڑ دیں پس (نماز کے بعد) ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ نے فلاں فلاں آیات چھوڑ دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے مجھے وہ آیات یاد کیوں نہ دلا دیں۔ سلیمان نے اپنی حدیث میں اس شخص کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ میں سمجھا یہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں۔

 

یزید بن محمد دمشقی، ہشام بن اسماعیل، محمد بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں قرأت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھتے بھول گئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب سے دریافت فرمایا کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی تھی؟ انھوں نے کہا ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تب پھر تم نے بتایا کیوں نہیں۔

 

                   امام کو بتانے کی ممانعت

 

عبدالوہاب، بن نجدہ، محمد بن یوسف، یونس، بن ابی اسحاق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ! امام کو نماز میں (اس کی غلطی) نہ بتا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق نے حارث سے صرف چار حدیثیں سنی ہیں اور یہ حدیث ان میں سے نہیں ہے (یعنی یہ حدیث منقطع ہے اور ناقابلِ استدلال ہے۔ )

 

                   نماز میں اِدھر ادھر دیکھنا

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو الاحوص، سعیدبن مسیب، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بندہ نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف مسلسل متوجہ رہتا ہے جب تک تو اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتا ہے۔

 

مسدد، ابو احوص، اشعث، بن سلیم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حالت نماز میں اِدھر ادھر دیکھنے کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بندہ کہ نماز میں سے شیطان کا اچک لے جاتا ہے۔

 

                   ناک پر سجدہ کرنے کا بیان

 

مومل بن فضل، عیسیٰ بن معمر، یحیٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی اور ناک پر مٹی کا نشان دیکھا گیا۔ ابو علی نے کہا ہے ابو داؤد نے جب چوتھی مرتبہ یہ کتاب پڑھی تو اس حدیث کو نہیں پڑھا۔

 

                   نماز میں کسی طرف دیکھنا

 

مسدد، ابو معاویہ، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے۔ دیکھا کہ لوگ حالتِ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کر رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو لوگ اپنی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں چاہیے کہ وہ اس سے باز آ جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی بینائی جاتی رہے۔

 

مسدد، یحییٰ، سعید، ابو عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سختی سے فرمایا اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔

 

 

 

 

مناسک حج کا بیان

 

                   قران کر نے والے کا طواف

 

ابن حنبل، یحییٰ، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے صفا و مروہ کے درمیان ایک ہی مرتبہ سعی کی ہے یعنی پہلی مرتبہ۔

 

قتیبہ، مالک، انس، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے طواف نہیں کیا جب تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی نہ کر لی

 

ربیع بن سلیمان، شافعی، ابن عیینہ، ابن ابی نجیح، عطاء، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا تیرا خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو سفیان نے کبھی تو حضرت عائشہ سے بو اسطہ عطاء موصولاً نقل کیا ہے اور کبھی عطاء سے مرسلاً روایت کیا ہے

 

                   ملتزم کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر بن عبد الحمید، یزید بن ابی زیاد، مجاہد، حضرت عبد الرحمن بن صفوان سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مکہ فتح کیا تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آج میں ضرور (نئے) کپڑے پہنوں گا اور دیکھوں گا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کیا کرتے ہیں اور میرا گھر راستہ میں تھا پس میں گیا تو میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب بھی تھے پس سب لوگ خانہ کعبہ کے دروازہ سے لے کر حطیم تک کے حصہ سے چمٹ گئے اور اپنے رخسار کعبہ سے لگا دیئے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے درمیان میں تھے۔

 

مسدد، عیسیٰ بن یونس، مثنی، ابن صباح، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ (بن عمر) کے ساتھ طواف کیا جب ہم کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے عبد اللہ بن عمر سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ سے پناہ طلب نہیں کر تے؟ انھوں نے کہا ہم اللہ سے جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ پھر وہ گئے اور جا کر حجر اسود کو چوما اور خانہ کعبہ اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا سینہ، چہرہ، دونوں ہاتھ اور ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور ان کو پھیلایا پھر فرمایا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے

 

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، یحیٰ بن سعید، سائب بن عمر، حضرت عبد اللہ بن سائب سے روایت ہے کہ وہ عبد اللہ بن عباس کو کھینچا کرتے تھے (جب کی وہ نابینا ہو گئے تھے) اور ان کو خانہ کعبہ کے دروازے کے قریب حجر اسود کے پاس تیسرے کونے میں کھڑا کر دیتے تھے پس ابن عباس نے ان سے پوچھا کہ کیا تم کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے؟ میں نے کہا ہاں پھر ابن عباس نے وہاں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔

 

                   صفا اور مر وہ کا بیان

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، ابن وہب، مالک، ہشام، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تب میں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ سے عرض کیا تھا کہ ارشاد خداوندی ہے کہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص حج یا عمرہ کرے اور ان کے درمیان سعی نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ یا جنایت نہیں ہے اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا اگر یہی بات ہوتی تو جو تم کہہ رہے ہو تو آیت قرآنی یوں ہوتی کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی تھی جبکہ وہ زمانہ جاہلیت میں منات کے واسطے حج کیا کرتے تھے اور منات قدید کے مقابل تھا یہ لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کو برا سمجھتے تھے جب اسلام آیا (اور یہ لوگ مسلمان ہو گئے) تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

 

مسدد، خالد بن عبد اللہ، اسماعیل، بن ابی خالد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب عمرہ کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھیرے میں لے رکھا تھا (تا کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہ پہنچا سکیں) حضرت عبد اللہ سے پوچھا گیا کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ قضاء کے لیے تشریف لائے) تو کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ کے اندر گئے تھے؟ فرمایا نہیں (کیونکہ اس وقت تک وہاں بت رکھے ہوئے تھے)

 

تمیم بن منتصر، اسحاق بن یوسف، شریک، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عبد اللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث (دوسری سند کے ساتھ) مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفاء و مروہ پر تشریف لائے اور ان کے درمیان سات مرتبہ سعی کی پھر سر منڈایا۔

 

نفیلی، زہیر، عطاء بن سائب، کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم صفاء مروہ کے درمیان چلتے ہو جبکہ دوسرے لوگ دوڑ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر میں چلتا ہوں تو میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اگر دوڑوں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے نیز اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں (لہذا میرے لیے چلنا درست ہے)

 

                   رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا حال

 

عبد اللہ بن محمد نفیلی، عثمان بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سلیمان بن عبد الرحمن، حضرت محمد باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے پوچھا کہ کون کون ہے؟ یہ نابینا تھے اس لیے سوال کیا) یہاں تک کہ میری باری آئی۔ میں نے کہا میں محمد بن علی بن حسین ہوں، پس انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرا اوپر کا دامن اٹھایا پھر نیچے کا دامن اٹھایا اور اپنا ہاتھ میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھا ان دنوں میں جوان لڑکا تھا اور فرمایا تجھ کو خوشی ہو۔ تو اپنے لوگوں میں آیا اے بھتیجے جو تیرا جی چاہے پوچھ تو میں نے ان سے سوالات کیے وہ نابینا تھے جب نماز کا وقت آیا تو ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوئے جو اس قدر چھوٹا تھا کہ ایک کندھے پر ڈا لتے تو دوسرا کندھا کھل جاتا آخر کار اس کپڑے کو رکھ کر نماز پڑھائی اور ان کی چادر برابر میں ایک تپائی پر رکھی تھی (نماز سے فراغت کے بعد) میں نے ان سے کہا کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا اصول بتائیے۔ انھوں نے ہاتھ کے اشارہ سے نو کا عدد بتلایا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ طیبہ میں نو سال تک رہے مگر حج نہیں فرمایا اس کے بعد دسویں سال لوگوں میں اعلان کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج کو جانے والے ہیں۔ یہ سن کر بہت سے لوگ مدینہ میں آ کر جمع ہو گئے ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرے اور جو عمل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا وہی عمل خود بھی کرے پس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حج کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے) ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے جب ہم ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اسماء بنت عمیس کے ہاں محمد بن ابی بکر کی پیدائش ہوئی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معلوم کروایا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غسل کر کے کپڑے کا ایک لنگوٹ باندھ لی اور احرام باندھ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ذوالحلیفہ کی مسجد میں) نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی بیداء کے میدان پر کھڑی ہوئی تو جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جہاں تک میری نگاہ جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دائیں بائیں آگے پیچھے پیدل اور سواروں کا ہجوم تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن نازل ہوتا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے معنی سمجھتے تھے اور ہم لوگ تو وہی کام کرتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پکار کر لبیک کہا۔ یعنی میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ میں حاضر ہوں تیری خدمت میں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں میں تیری خدمت میں سب تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور سلطنت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ اور لوگوں نے بھی اسی طرح لبیک کہی جس طرح دوسروں نے لبیک کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو منع نہ فرمایا اور آپ اپنی لبیک کہتے رہے جابر کہتے ہیں کہ ہم نے صرف حج کی نیت کی تھی اور ہم (ایام حج میں) عمرہ کو نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیت اللہ پر آئے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا اور چار پھیروں میں معمولی چال سے چلے پھر آگے مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ  اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى) 2۔ البقرۃ:125) یعنی مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ مقام ابراہیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور کعبہ کے درمیان میں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتوں میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ پڑھیں (یعنی پہلی رکعت میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور دوسری رکعت میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو بوسہ دیا اس کے بعد مسجد کے دروازے سے کوہ صفا کی طرف نکلے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِٕرِاللّٰہِ ) 2۔ البقرۃ:158) یعنی صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں شروع کرتے ہیں ہم سعی کو اس پہاڑ سے جس کا نام پہلے اللہ نے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سعی شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر چڑھ گئے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو دیکھ لیا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی تکبیر کہی اور اس کی تو حید بیان کی اور فرمایا کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے وہ تنہا ہے اس کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے اور تعریف اسی کو سجتی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس کے اور وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے بندے (محمد) کی مدد کی اور کافروں کے گروہوں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ اور یہ کام تن تنہا کیا۔ پھر اس کے درمیان میں دعا کی اور انہی کلمات کو دہرایا۔ اس کے بعد مروہ جانے کے لیے پہاڑ سے اتر آئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم نشیب میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی کے اندر دوڑ کر چلے۔ جب نشیب سے نکل کر اوپر چڑھنے لگے تو معمولی چال سے چلے یہاں تک کہ مروہ پر آئے اور وہاں بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ صفا پر کیا تھا پھر جب آخر کا پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو فرمایا اگر مجھے پہلے وہ حال معلوم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور حج کے بدلہ عمرہ کرتا لیکن تم میں سے جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے اور حج کو عمرہ میں بدل دے سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کتروائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور جس کے ساتھ ہدی تھی اس نے احرام نہیں کھولا۔ سراقہ بن جعثم کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حج کو عمرہ میں بدل دینے کا حکم) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا دو مرتبہ عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ لے کر آئے تو دیکھا کہ حضرت فاطمہ نے احرام کھول ڈالا ہے اور وہ رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے حضرت علی رضی اللہ نے اس کو فعل منکر خیال کیا اور پوچھا تمھیں ایسا کرنے کے لیے کس نے حکم دیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرے والد (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت جابر نے کہا کہ حضرت علی عراق میں کہتے تھے کہ میں فاطمہ کی شکایت کرنے کی غرض سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا کہ انھوں نے ایسا کیا ہے اور جب میں نے منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام لینے لگی۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سچ کہتی ہیں پھر پوچھا تم نے احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟ حضرت علی نے کہا میں نے یہ نیت کی تھی کہ اے اللہ میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں جس چیز کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میرے ساتھ تو ہدی ہے پس اب احرام نہ کھولنا جابر نے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدی کے جتنے جانور مدینہ سے لائے تھے اور جتنے علی رضی اللہ یمن سے لائے تھے سب ملا کر سو ہوئے پس سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کتروائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور جن کے ساتھ ہدی تھی انھوں نے احرام نہیں کھولا۔ جب یوم الترویہ ہوا (یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ہوئی) تو سب لوگ منی کی طرف متوجہ ہوئے اور حج کا احرام باندھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور منیٰ پہنچ کر ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی نماز پڑھی پھر دوسرے دن فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا جو بالوں کا بنا ہوا تھا۔ وادی نمرہ میں (یہ حرم کی حد ہے) پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منی سے عرفات کی طرف چلے اور قریش کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس ٹھہریں گے جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ٹھہرے نہیں بلکہ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچے تو دیکھا کہ وادی نمرہ میں قبہ تیار ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں اترے جب آفتاب ڈھل گیا تو قصواء (اونٹنی کا نام) کو لانے کا حکم فرمایا اس پر پالان کسا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ فرمایا تمھاری جانیں اور مال تم پر حرام ہیں جیسا کہ اس شہر میں اس مہینہ میں آج کا دن حرمت والا ہے سنو آج زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہو گئی ہے اور زمانی جاہلیت کے سب خون معاف کر دیئے گئے اور سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ ربعیہ بن الحارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ جو بنی سعد کا ایک دودھ پیتا بچہ تھا اور جس کو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر ڈالا تھا اور جتنے سود زمانہ جاہلیت کے تھے سب موقوف ہوئے اور پہلا سود جو میں معاف کرتا ہوں وہ میرے چچا (عباس بن عبد المطلب) کا سود ہے کیونکہ اب سود ختم ہو چکا ہے اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو (یعنی ان کی حق تلفی نہ کرو) کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے اور اللہ کے حکم سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے اوپر حلال کیا ہے اور ان پر تمھارا یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو (یعنی تمھاری مرضی و اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نہ آنے دیں) اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو مگر اس طرح کہ نہ ان کی ہڈی ٹوٹے اور نہ کوئی زخم آئے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ ان کو دستور کے مطابق کھانا کپڑا دو اور میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم اس کو پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور قیامت کے دن تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ تم تک اللہ کا ٹھیک ٹھیک پیغام پہنچایا یا نہیں) تو بتاؤ تم کیا کہو گے؟ اس پر سب لوگ بول اٹھے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور اس کا حق ادا کر دیا اور نصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔ اللہ تو گواہ رہ، اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ، پھر حضرت بلال نے اذان دی اور تکبیر کہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھی پھر تکبیر کہی اور عصر کی نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قصواء پر سوار ہوئے اور عرفات کے میدان میں آئے تو اپنی اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ کو (ایک جگہ کا نام) اپنے سامنے رکھا اور قبلہ کی طرف رخ کیا اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آفتاب ڈوبنے کے قریب ہو گیا اور تھوڑی زردی کم ہو گئی جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پیچھے اسامہ کو بٹھایا اور عرفات سے مزدلفہ کی طرف لوٹے اور اونٹ کی باگ تنگ کی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سرے سے آ لگا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے جاتے تھے کہ آہستہ چلو، اے لوگو آہستہ چلو، اے لوگو جب کسی بلندی پر آتے تو اونٹ کی باگ ذرا ڈھیلی کر دیتے تاکہ وہ چڑھ جائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں مغرب اور عشاء کو جمع کیا ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ عثمان راوی نے کہا کہ دونوں نمازوں کے بیچ میں کچھ نہ پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی جب ان پر فجر کھل گئی تب فجر کی نماز پڑھی سلیمان نے کہا اذان اقامت کے ساتھ (اس کے بعد کے مضمون پر سب راوی متفق ہیں) کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہو گئے قصواء پر یہاں تک کہ مشعر حرام میں آئے اور اس پر چڑھے عثمان اور سلیمان نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا اللہ کی حمد بیان کی اور تکبیر کہی اور عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ اس کی توحید بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے اور اپنے پیچھے فضل بن عباس کو بٹھایا فضل خوبصورت اور اچھے بالوں والے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے روانہ ہوئے تو عورتیں ہودوں میں بیٹھی تھیں فضل ان عورتوں کی طرف دیکھنے لگے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ فضل کے منہ پر رکھ دیا اور فضل نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ادھر ہاتھ رکھا انہوں نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محسر میں پہنچ آئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچے تو اپنی سواری کو تھوڑی سے حرکت دی (یعنی تیز چلایا) پھر دوسرے بیچ والے راستہ سے چلے جو جمرہ عقبہ پر لے جاتا ہے یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے پھر اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر تکبیر کہا اور ہر کنکری ایسی تھی جسے انگلی میں رکھ کر پھینکتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر وہاں سے لوٹ کر اپنے نحر کرنے کی جگہ آئے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹوں کی نحر کی اور باقی کے واسطے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقی اونٹوں کو نحر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہدی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شریک کیا پھر حکم کیا ہر اونٹ میں سے ایک ایک پارچہ گوشت لینے کا وہ سب پارچے دیگ میں پکائے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو کھایا اور ان کا شوربا پیا سلیمان نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے بیت اللہ کی طرف چلے اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد بنی عبد المطلب کے پاس آئے اس حال میں کہ وہ زمزم کا پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بنی عبد المطلب پانی کھینچو اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر تمہیں مغلوب کر لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا انہوں نے ایک ڈول کھینچ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑھایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے پانی پیا۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، سلیمان، احمد بن حنبل، عبد الوہاب، جعفر بن محمد، حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر اور عصر عرفات میں ایک ہی اذان سے پڑھیں اور ان کے درمیان کے نفل نہیں پڑھے لیکن تکبیریں دو رکعتیں اسی طرح مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی امام ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو حاتم بن اسماعیل نے طویل حدیث میں مسنداً روایت کیا ہے جس پر محمد بن علی جعفی نے بروایت جعفر بواسطہ والد (محمد بن علی) حضرت جابر سے روایت کرتے ہوئے ان کی موافقت بھی کی ہے بجز اس کے محمد بن علی جعفی نے اس میں یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب اور عشاء کی نماز ایک اقامت سے ادا کی ابو داؤد کہتے ہیں کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے کہ اس طویل حدیث میں حاتم بن اسماعیل نے خطاء کی ہے۔

 

احمد بن حنبل، یحیٰ بن سعید، جعفر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے اس جگہ نحر کیا اور سارا منی نحر کا مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفہ میں ٹھہرے اور فرمایا میں اس جگہ ٹھہرا اور سارا عرفات ٹھرنے کی جگہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں ٹھہرے اور فرمایا سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

 

مسدد حفص بن غیاث، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی سند کے ساتھ روایت مذکور ہے اس میں فانحروا فی رحالکم کا اضافہ ہے۔

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیٰ بن سعید، قطان، جعفر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے (یہ طویل حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ مروی ہے مگر اس میں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی پڑھنے کے بعد یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دو رکعتوں میں تو حید (قُل ہوَ اللہٗ اَحَد) اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ پڑھا اور اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول (بجائے عراق کے) کوفہ میں مذکور ہے نیز اس میں یہ لفظ نہیں ہے کہ میں ان کی شکایت کرنے گیا بلکہ تمام قصہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا۔

 

                   وقوف عرفہ کا بیان

 

ہناد، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور اس قیام کو حمس کہتے تھے اور باقی تمام عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے جب دین اسلام آیا تو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں یہ حکم اس آیت میں ہے (ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ) 2۔ البقرۃ:199) (یعنی پھر لوٹو وہاں سے جہاں سے سب لوٹتے ہیں یعنی عرفات سے)

 

                   منی کی طرف روانگی

 

زہیر بن حرب، احوص بن جواب، عمار بن رزیق، سلیمان، اعمش، حکم، مقسم، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آٹھویں تاریخ کی ظہر اور نویں تاریخ کی فجر منی میں پڑھی۔

 

احمد بن ابراہیم، اسحاق ، سفیان، عبد العزیز بن رفیع، انس بن مالک، حضرت عبد العزیز بن رفیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے وہ بات بتایئے جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یاد رکھی ہو یعنی آپ نے آٹھویں تاریخ کی ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا بطح میں پھر فرمایا اب تو وہ کر جو تیرے امیر کریں۔

 

احمد بن حنبل، یعقوب، ابن اسحاق ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کی نماز پڑھ کر منی سے (عرفات کے لیے) روانہ ہوئے جب عرفات کے قریب پہنچے تو مقام نمرہ میں اترے اور یہی عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فورا عرفات کی طرف روانہ ہوئے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی پھر خطبہ پڑھا اس کے بعد روانہ ہوئے اور عرفات کے موقف میں وقوف کیا۔

 

                   عرفہ میں نماز کے لیے روانگی کا وقت

 

احمد بن حنبل، وکیع، نافع بن عمر، سیعد بن حسان، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کر ڈالا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ دریافت کیا کہ آج کے دن (عرفہ کے دن) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کس وقت نکلے تھے؟ کہا جس وقت ہم نکلیں گے پھر جب ابن عمر رضی اللہ نے نکلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کہا کہ ابھی سورج نہیں ڈھلا (اس وقت ابن عمر رضی اللہ عنہ نابینا ہو چکے تھے) انہوں نے (کچھ دیر کے بعد پھر) پوچھا کہ کیا آفتاب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا نہیں پھر جب لوگ نے بتایا کہ آفتاب ڈھل گیا ہے تو وہ نماز کے لیے نکلے۔

 

                   عرفات میں خطبہ دینا

 

ہناد، ابن ابی زائدہ، سفیان بن عیینہ، حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ بنی ضمرہ کے ایک شخص کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے یا چچا سے سنا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عرفات میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا ہے۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، سلمہ بن نبیط سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفات میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک سرخ اونٹ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

ہناد بن سری، عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، عبد المجید، عدام، خالد بن ہودہ، ہناد، عبد المجید، ابو عمرو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن العداء بن ہوزہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عرفات میں ایک اونٹ پر اس کی دونوں رکابو ں پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن العلاء نے وکیع سے اسی طرح روایت کیا ہے جس طرح ہناد نے کیا ہے۔

 

 

 

جہاد کے دوران با جماعت نماز

 

                   پانچویں صورت بعضوں نے کہا امام ہر گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے پھر سلام پھیر دے اور وہ لوگ اپنی ایک رکعت پوری کر لیں

 

مسدد، یزید بن زریع، معمر سالم ابن عمر، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو جماعتوں میں سے ایک کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ پھر دوسرا گروہ آیا اور ان کی جگہ پر کھڑا ہوا اور یہ دشمن کے سامنے چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا۔ ان لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک رکعت اکیلے اکیلے ادا کی پھر سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلے گئے۔ اس کے بعد پہلا گروہ آیا جو ایک رکعت پڑھ چکا تھا اور انھوں نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ نافع اور خالد بن معدان نے بواسطہ ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح نقل کیا ہے اور اسی طرح ابن عباس سے مسروق اور یوسف بن مہران کا قول ہے اور اسی طرح یونس نے بواسطہ حسن حضرت ابو موسیٰ سے ان کا فعل روایت کیا ہے۔

 

                   چھٹی صورت بعضوں نے کہا ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر سلام پھیر دے اس کے بعد جو ان کے پیچھے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں اور ایک رکعت پڑھ لیں پھر پچھلے ان کی جگہ پر آ جائیں اور ایک رکعت نماز پڑھ لیں

 

عمران بن میسرہ، ابن فضیل، حصیف ابی عبیدہ عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوف کی نماز پڑھائی تو ایک صف آپ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی ہوئی۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت پہلے گروہ کے ساتھ پڑھی پھر دوسرا گروہ آیا اور ان کی جگہ پر کھڑا ہوا اور یہ دشمن کے سامنے چلے گئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکعت پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیر دیا۔ ان لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک رکعت اکیلے ادا کی پھر سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلے گئے اور پہلا گروہ جو ایک رکعت پڑھ چکا تھا آیا اور انھوں نے ایک رکعت اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔

 

تمیم بن منتصر، اسحاق بن یوسف، شریک، حضرت خصیف رضی اللہ تعالی نے سابقہ سند اور مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو دونوں صفوں نے تکبیر کہی ابو داؤد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے بھی خصیف سے اسی کے ہم معنی روایت کی ہے اور عبد الرحمن بن سمرہ نے اسی طرح نماز پڑھی مگر جن لوگوں نے امام کے ساتھ اخیر رکعت پڑھی تھی وہ امام کے سلام کے بعد دشمن کے سامنے چلے گئے اور پہلے گروہ نے ایک رکعت جو باقی تھی پڑھی اور لوٹ گیا پھر دوسرا گروہ آیا اور اس نے ایک رکعت پڑھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسلم بن ابراہیم نے بسند عبد  ا لصمد بن حبیب با خبار والد (حبیب) روایت کیا ہے کہ انھوں نے عبد الرحمن بن سمرہ کے ہمراہ کابل میں جہاد کیا تو عبد الرحمن بن سمرہ نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی تھی۔

 

                   سا تویں صورت بعضوں نے کہا کہ ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لے تو پھر دوسری رکعت پڑھنے کی ضرورت نہیں

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، اشعث بن سلیم، اسود بن ہلال، حضرت ثعلبہ بن زہدم سے روایت ہے کہ ہم طبرستان میں سعید بن العاص کے ساتھ تھے انہوں نے کہا کہ تم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے؟ حضرت حذیفہ نے کہا میں نے اور پھر انہوں نے ہر گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور کسی گروہ نے دوسری رکعت نہیں پڑھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو عبید اللہ بن عبد اللہ اور مجاہد نے عن ابن عباس عن النبی اور عبد اللہ بن شقیق نے عن ابی ہریرہ عن النبی اور یزید فقیر ابو موسیٰ نے عن جابر عن النبی اسی طرح روایت کیا ہے اور بعض نے یزید فقیر کی روایت میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے ایک رکعت قضاء کی اور اسی طرح روایت کیا ہے سماک حنفی نے بواسطہ ابن عمر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور اسی طرح روایت کیا ہے زید بن ثابت نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو رکعتیں ہوئیں اور قوم کی ایک رکعت۔

 

 

مسدد، سعیدبن منصور، ابو عوانہ، بکیر، بن اخنس، مجاہد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے تم پر حضر میں چار رکعتیں فرض کیں اور سفر میں دو اور خوف میں ایک۔

 

                   آٹھویں صورت بعضوں نے کہا ہر گروہ کے ساتھ امام دو رکعتیں پڑھے

 

عبید اللہ بن معاذ، اشعث، حسن، ابی بکرہ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حالت خوف میں ظہر کی نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف باندھی اور کچھ نے دشمن کے سامنے پس پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیرا پھر یہ لوگ چلے گئے اور وہ لوگ آئے جو دشمن کے سامنے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کی دو دو رکعتیں ہوئیں حضرت حسن اسی پر فتویٰ دیتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسی طرح مغرب میں امام کی چھ رکعتیں اور قوم کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو یحیٰ بن ابی کثیر نے بواسطہ ابو سلمہ بروایت جابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح روایت کیا ہے اسی طرح سلیمان الیشکری نے عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روایت کیا ہے۔

 

                   دشمن کو تلاش کرنے والے کی نماز

 

ابو معمر، عبد اللہ بن عمرو، عبد الوارث، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر، ابن عبد اللہ بن انیس، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا جو عرنہ اور عرفات کی طرف رہتا تھا۔ اور فرمایا جا اور اس کو قتل کر ڈال عبد اللہ بن انیس نے کہا میں نے اس کو دیکھا لیکن عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔ میں نے خیال کیا کہ اگر میں نماز کے لیے دیر کر دوں تو مجھ میں اور اس میں فاصلہ بہت ہو جائے گا لہذا میں چلتا رہا اور اشارہ سے نماز پڑھتا گیا جب میں اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا تو کون ہے؟ میں نے کہا میں عرب کا باشندہ ہوں اور میں نے یہ سنا ہے کہ تم اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے) لڑنے کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو تو میں بھی اس کام میں شرکت کی غرض سے تمھارے پاس آیا ہوں اس نے کہا ہاں میں اسی فکر میں ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑی دیر تک چلتا رہا جب میں نے موقعہ دیکھا تو اس کی گردن پر اپنی تلوار رکھ دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔

 

                   سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات

 

محمد بن عیسیٰ، ابن علیہ، داؤد بن ابی ہند، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، عتبہ بن ابو سفیان، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ایک دن بارہ رکعت فرض کے علاوہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جائے گا۔

 

احمد بن حنبل، ہشیم، خالد، مسدد، یزید بن زریع، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے میرے گھر میں چار رکعت سنت پڑھتے تھے پھر نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر میں آ کر مزید دو رکعت پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھاتے تب پھر گھر آ کر دو رکعت پڑھتے ۔ اور کبھی رات کو نو رکعت بھی پڑھتے تھے جس میں وتر بھی شامل ہوتے تھے اور رات میں دیر تک کھڑے ہو کر تہجد پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر پڑھتے اور جب تہجد کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر طلوع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت پڑھتے پھر باہر تشریف لاتے اور لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام ہو۔

 

قعنبی، مالک، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے اور نماز مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے اور نماز جمعہ کے بعد گھر آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔

 

                   فجر کی سنتوں کا بیان

 

مسدد، یحییٰ، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی نفل نماز کی اتنی پابندی نہ کرتے تھے جتنی کہ نماز فجر سے پہلے کی دو سنتوں کی۔

 

                   فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ابی شعیب، زہیر بن معاویہ، یحیٰ بن سعید، محمد بن عبد الرحمن عمرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں کو اس قدر ہلکا پڑھتے تھے کہ مجھے خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں۔

 

یحیٰ بن معین، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابی حازم، حضر ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ۔

 

احمد بن حنبل، ابو مغیرہ، عبد اللہ بن علاء، ابو زیاد عبید اللہ بن زیاد، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ صبح کی نماز کے لیے بلانے کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کسی امر کے متعلق دریافت کیا اور گفتگو میں مشغول رہیں یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو گی پس بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بار بار نماز کے لیے بلانے لگے لیکن ان کے بلانے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کس چیز کے متعلق پوچھا اور باتوں مشغول ہو گئیں یہاں تک کہ خوب صبح روشن ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکلنے میں تاخیر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا حضرت بلال نے کہا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت تاخیر فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر اس سے بھی زیادہ تاخیر ہو جاتی تب بھی میں ان رکعتوں کو خوب اچھی طرح پڑھتا۔

 

مسدد، خالد بن عبد الرحمن ابن اسحاق ، ابن زید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فجر کی سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے ہی کیوں نہ روند ڈالیں۔

 

احمد بن یونس، زہیر عثمان بن حکیم سعید بن یسار، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر فجر کی سنتوں میں پہلی رکعت میں آمَنَّا بِاللَّہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا اور دوسری رکعت میں آمَنَّا بِاللَّہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ پڑھتے تھے۔

 

محمد بن صباح بن سفیان، عبد العزیز بن محمد، عثمان بن عمر، ابن موسی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فجر کی سنتوں میں پڑھتے ہوئے سنا ہے پہلی رکعت میں قُلْ آمَنَّا بِاللَّہِ اور دوسری رکعت میں یہ پڑھتے إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِیمِ یہ شک د راہ ردی کا ہے۔

 

                   فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان

 

مسدد، ابو کامل، عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، عبد الواحد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی فجر سے پہلے دو سنتیں پڑھے تو یہ سنتیں پڑھنے کے بعد داہنی کروٹ پر لیٹ جائے۔ مروان بن حکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا مسجد تک چلنا کافی نہیں جب تک کہ داہنی کروٹ پر نہ لیٹے؟ عبید اللہ کی روایت میں یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا نہیں جب یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا آپ ان کے قول کی تردید کرتے ہیں؟ فرمایا نہیں بات یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جرأت کی اور ہم نے خوف کیا جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو انھوں نے کہا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے کہ وہ بھول گئے اور میں نے یاد رکھا۔

 

یحیٰ بن حکم، بشر بن عمر، مالک بن انس، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اخیر شب میں نماز سے فارغ ہوتے تو دیکھتے اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے اگر سوتی ہوتی مجھے جگا دیتے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آتا اور نماز صبح کے لئے بلاتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھ کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔

 

مسدد، سفیان، زیاد بن سعد، ابن ابی عتاب، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فجر کی سنتوں سے فارغ ہوتے تو دیکھتے اگر میں سوئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی لیٹ جاتے اگر جاگتی ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے

 

عباس، زیاد بن یحییٰ، سہل بن حماد، ابی مکین، ابو الفضل، رجل من الانصار، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ صبح کی نماز کے لیے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی کو سوتا ہوا دیکھتے تو اس کو نماز کے لیے پکارتے یا اس کے پاؤں ہلا دیتے زیاد کہتے ہیں ہم سے روایت کی ابو الفضل نے۔

 

                   اگر فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو اس وقت سنتیں نہ پڑھے

 

سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عاصم بن عبد اللہ بن سرجس، حضرت عبد اللہ بن سرحبیس سے روایت ہے ایک شخص آیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا ان دو۔۔۔۔۔

 

مسلم بن ابراہیم، حماد بن سلمہ، احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، ورقاء، حسن بن علی ابو عاصم ابن جریج حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب نماز کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں ہے سوائے فرض نماز کے۔

 

                   اگر فجر کی سنتیں فوت ہو جائیں تو ان کو کب ادا کیا جائے

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابن نمیر، سعد بن سعید، محمد بن ابراہیم، قیس بن عمرو، حضرت قیس بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم ایک شخص کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا آپ نے فرمایا فجر کی دو ہی رکعتیں ہیں جو فرض نماز سے پہلے ہی پڑھی جاتی ہیں۔

 

حامد بن یحییٰ، سفیان عطاء، بن ابی رباح، حامد بن یحیٰ بلجی نے سفیان سے نقل کیا کہ عطاء بن ابی رباح نے سعد بن سعید سے روایت کیا نقل کی ہے امام ابو داؤد نے کہا کہ سعید کے دونوں بیٹے عبد ربہ اور یحیٰ نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کہ ان کے دادا زید نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔

 

 

 

جہاد کا بیان

 

                   قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

 

احمد بن مریم، سعید بن حکم، لیث عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت مروان اور حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ بیان فرمایا جس وقت کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے قیدی اور اموال واپس کرنے کی درخواست کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا میرے پاس تمہاری دونوں چیزیں موجود ہیں لیکن میرے نزدیک وہی بات زیادہ پسند ہے جو زیادہ مبنی بر حقیقت ہے تم یا تو اپنے قیدیوں کو واپس لے لو اپنے مالوں کو۔ تو وہ بو لے ہم اپنے قیدی واپس لیتے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو! یہ تمہارے بھائی ہیں جو کفر و شرک سے تائب ہو کر تمھارے پاس آئے ہیں۔ میں نے تو یہ مناسب جانا کہ ان کے قیدی ان کو لوٹا دوں پس تم میں سے جو شخص خوش دلی سے چاہے وہ بتا دے اور جو شخص یہ چاہے کہ اس کا حصہ اس کو لازمی طور پر ملنا ہی چاہئے تو جب بھی اللہ تعالی ہمیں مال غنیمت عطا فرمائے گا ہم اس کا بدلہ اس میں سے دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اس پر بخوشی راضی ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ہمیں نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے رضا مندی ظاہر کی اور کس نے نہیں لہذا اب تم جاؤ اور اپنے اس معاملہ کو اپنے اپنے سرداروں کے سامنے پیش کرو۔ پس سب لوگ چلے گئے اور انہوں نے اپنے اپنے سرداروں سے بات کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی کہ وہ بھی بخوشی قیدیوں کی رہائی پر رضا مند ہیں۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب کے دادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کو لوٹا دو اور جو شخص ان میں سے کسی کو رکھنا چاہے (یعنی اپنے حق سے دستبردار نہ ہو) تو ہم اس کا بدلہ دیں گے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کے بدلہ میں چھ اونٹ دیں گے اس مال میں سے جو ہمیں اللہ تعالی عنایت فرمائے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اونٹ کے پاس گئے اور اس کے کوہان میں سے بال لے کر فرمایا لوگو اس فئے میں سے میرے لیے کچھ نہیں ہے اور نہ یہ اور انگلیوں سے فرمایا مگر خمس۔ اور وہ خمس بھی تمہارے ہی طرف لوٹا دیا جاتا ہے لہذا دھاگہ اور سوئی کو بھی ادا کرو۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا جس کے ہاتھوں میں بالوں کا ایک گچھا تھا اس نے کہا میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز میرے لیے اور بنی عبد المطلب کے واسطے ہے وہ تیرے لیے ہے تو اس شخص نے کہا جب اس ایک رسی کا گناہ اس حد تک پہنچا ہوا ہے تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں اور یہ کہہ کر اس نے وہ رسی پھینک دی۔

 

                   جب حاکم دشمن پر غالب ہو جائے تو میدان جنگ میں ٹھہرے

 

محمد بن مثنی، معاذ بن معاذ، ہارون بن عبد اللہ روح، سعید، قتادہ، انس، حضرت ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات ٹھہرتے۔ اور ابن مثنی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں تین رات ٹھہرنا پسند فرماتے۔۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یحیٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید کی پہلی حدیثوں میں سے نہیں ہے کیونکہ سال کی عمر میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا اور یہ حدیث بھی ان کی آخر عمر سے تعلق رکھتی ہے۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ وکیع نے سعید سے ان کے زمانہ تغیر ہی میں حدیث حاصل کی ہے۔

 

                   قیدیوں میں جدائی کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن منصور، عبد السلام بن حرب، یزید بن عبد الرحمن، حکم، حضرت میمون بن ابی شعیب سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک باندی اور اس کے بچے میں تفریق کی۔ (یعنی ان دونوں کو الگ الگ شخصوں کے ہاتھ بیچ ڈالا) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور بیع کو رد فرما دیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ میمون نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ وہ جنگ جماجم میں 83 ھ میں قتل ہوا تھا۔ ابو داؤد نے کہا کہ واقعہ حرّہ 63 ھ میں پیش آیا اور ابن زبیر کی شہادت 73 ھ میں ہوئی۔

 

 

                   اگر قیدی جوان ہوں تو ان میں تفریق کرنا درست ہے

 

ہارون بن عبد اللہ، ہاشم بن قاسم، عکرمہ، ایاس بن سلمہ، حضرت سلمہ سے روایت ہے کہ ہم ابو بکر کے ساتھ جہاد کی غرض سے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا۔ پس ہم نے قبیلہ فزارہ سے جہاد کیا تو ہم نے ان پر چاروں طرف سے حملہ کیا اور ان کو لوٹا۔ پھر میں نے چند لوگوں کو دیکھا جن میں بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ میں نے ان کے ایک تیر مارا وہ تیر ان کے اور پہاڑ کے بیچ میں گرا۔ پس وہ کھڑے ہو گئے اور میں ان کو پکڑ کر حضرت ابو بکر کے پاس لایا۔ ان میں قبیلہ فزارہ کی ایک عورت تھی جو کھال کا بہترین لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں شمار کی جا سکتی تھی۔ پس ابو بکر نے وہ لڑکی مجھ کو عطا فرما دی۔ اس کے بعد میں مدینہ آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے ملے اور فرمایا اے سلمہ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بخدا وہ لڑکی مجھے بے حد پسند ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں کھولا ہے (یعنی اس سے صحبت نہیں کی ہے) اس وقت آپ خاموش ہو گئے۔ اگلے دن آپ مجھے بازار میں پھر ملے اور فرمایا اے سلمہ! تجھے اپنے باپ کی قسم وہ لڑکی محض رضائے الہی کی خاطر مجھ کو ہبہ کر دے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے وہ لڑکی بہت پسند ہے اور ابھی تک میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا ہے اور وہ آپ کے واسطے ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس لڑکی کو مکہ بھیجا اور اس کے بدلہ میں مسلمان قیدیوں کو چھڑایا۔

 

                   اگر کافر جنگ میں مسلمان کا مال لے جائیں اور پھر وہی مسلمان اس مال کو غنیمت میں حاصل کرے

 

صالح بن سہیل، یحیٰ ابن ابی زائدہ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ان کا ایک غلام دشمنوں (یعنی کافروں) کی طرف بھاگ گیا۔ پھر مسلمان دشمنوں پر غالب آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو ابن عمر کی طرف لوٹا دیا اور (مال غنیمت شمار کر کے) اس کو تقسیم نہ کیا۔

 

محمد بن سلیمان، حسن بن علی، ابن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا اور دشمنوں نے اسے پکڑ لیا پھر جب مسلمان دشمنوں پر غالب آ گئے تو وہ گھوڑا ابن عمر کو لوٹا دیا گیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں پیش آیا ایسے ہی ان کا ایک غلام بھاگ کر رومیوں سے جا ملا جب مسلمان ان رومیوں پر غالب آئے تو وہی غلام خالد بن ولید نے ابن عمر کو لوٹا دیا اور یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد پیش آیا۔

 

                   اگر کافروں کے غلام مسلمانوں کے پاس بھاگ آئیں اور اسلام قبول کر لیں تو ان کا کیا حکم ہے

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، محمد ابن سلمہ، محمد بن اسحاق ، ابان بن صاع، منصور بن معتمر، ربعی بن حراش، حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن صلح ہونے سے قبل کافروں کے کئی غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بھاگ آئے تو ان غلاموں کے مالکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لکھا کہ یہ غلام تمھارے دین کی طلب میں تمھارے پاس نہیں آئے بلکہ ان کی غرض تو غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے تو کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بات بالکل درست ہے (کہ ان کا مقصد دین کا حصول نہیں بلکہ غلامی سے چھٹکارا پانا مقصود ہے) لہذا آپ ان کو ان کے مالکوں کی طرف لوٹا دیجئے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غصہ آ گیا اور فرمایا اے قریش کے لوگو! میں نہیں دیکھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ اللہ تعالی تم پر کسی ایسے شخص کو مسلط کر دے جو تمہاری نافرمانیوں پر تمہاری گردنیں اڑا دے۔ اور آپ نے ان کی واپسی کا مطالبہ منظور نہیں فرمایا اور فرمایا یہ اللہ کے آزاد کیے ہوئے ہیں۔

 

                   دشمن کی سرزمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

 

ابراہیم بن حمزہ، انس بن عیاض، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک لشکر کھانے پینے کی چیزیں اور شہد لوٹ لایا تو ان سے خمس (پانچواں حصہ) نہیں لیا گیا۔

 

 

                   دشمن کی سرزمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

 

موسیٰ بن اسماعیل، سلیمان، حمید ابن ہلال، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ خیبر کے دن میں نے ایک چربی کی تھیلی لٹکی ہوئی دیکھی۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کو اپنے سے چمٹا لیا اور کہا آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا۔ پھر جب میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ آپ میری یہ کیفیت دیکھ کر تبسّم فرما رہے تھے۔

 

                   جب غلہ کی کمی ہو تو ہر ایک کو غلہ لوٹ کر اپنے لیے رکھنا منع ہے بلکہ لشکر میں تقسیم کرنا چاہئے

 

سلیمان بن حرب، جریر، ابن حازم، ابن حکیم، حضرت ابو لبید سے روایت ہے کہ ہم عبد الرحمن بن سمرہ کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ہاتھ لگا تو انھوں نے لوٹ لیا۔ عبد الرحمن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ لوٹ مار سے منع فرماتے تھے۔ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا اپنا مال واپس کر دیا پھر عبد الرحمن نے سب لوگوں میں وہ مال تقسیم فرما دیا۔

 

محمد بن علاء، ابو معاویہ، ابو اسحاق ، محمد بن مجاہد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں کھانے پینے کی چیزوں میں سے پانچواں حصہ نکالا کرتے تھے؟ تو کہا خیبر کے دن ہم کو کھانے پینے کی چیزیں ملیں تو ہر شخص آتا تھا اور اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے جاتا تھا۔

 

ہناد بن سری، ابو احوص، حضرت عاصم بن کلیب کے والد ایک انصاری شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں روانہ ہوئے پس لوگوں کو دوران سفر کھانے پینے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر کچھ بکریاں ملیں ہر شخص نے چوپایا لوٹ لیا پس ہماری دیگچیاں ابل رہی تھیں (یعنی ان میں گوشت پک رہا تھا) اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کمان ٹیکتے ہوئے تشریف لائے اور اپنی کمان سے ہماری دیگچیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لتھیڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا لوٹ کا مال مردار سے کم نہیں ہے۔ یا یہ فرمایا کہ مردار لوٹ کے مال سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہ شک ہنّاد کی طرف سے ہے۔

 

                   دار الحرب سے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے آنا

 

سعید بن منصور، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابن حرشف ازدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض صحابہ سے مروی ہے کہ جہاد میں ہم لوگ (ضرورت کے وقت) اونٹ ذبح کر کے کھا لیا کرتے تھے اور ہم اس کو تقسیم نہ کرتے تھے یہاں تک کہ جب ہم اپنے ٹھکانوں پر لوٹتے تھے تو ہماری خورجیاں اونٹ کے گوشت سے بھری ہوتی تھیں۔

 

                   دار الحرب میں کھانے پینے کی چیزیں جب ضرورت سے زائد ہوں تو ان کو فروخت کر نے کا بیان

 

محمد بن مصطفی، محمد بن مبارک، یحیٰ بن حمزہ، ابو عبد العزیز، عبادہ بن نسی، حضرت عبد الرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ ہم نے شہر قنسرین کا محاصرہ کیا شرجیل بن سمط کے ساتھ جب انھوں نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں مال غنیمت میں بکریاں اور گائیں ملیں۔ تو کچھ تو ہم میں تقسیم کر دیں اور باقی مال غنیمت میں شامل کر دیں۔ پھر میں معاذ بن جبل سے ملا اور یہ قصہ ان سے بیان کیا۔ حضرت معاذ نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مل کر خیبر کا جہاد کیا ہے وہاں ہم کو بکریاں ملیں آپ نے ان میں سے کچھ ہم میں تقسیم فرما دیں اور باقی کو مال غنیمت میں شمار فرما دیا۔

 

                   مال غنیمت میں سے کسی چیز کو بلا ضرورت اپنے کام میں لانا

 

سعید بن منصور، عثمان بن ابی ایبہ، ابو داؤد، ابو معاویہ، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، ابی مرزوق، حضرت رویفع بن ثابت انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ (تقسیم سے پہلے) مسلمانوں کے مال غنیمت کے کسی جانور کی سواری کرے اور بلا کر کے اس کو پھر مال غنیمت میں شامل کر دے۔ اسی طرح اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ مال غنیمت کا کپڑا پہنے اور پرانا کر کے اس کو پھر مال غنیمت میں شامل کر دے۔

 

                   اگر لڑائی میں ہتھیار ملیں تو ان کا استعمال کرنا جنگ میں درست ہے

 

محمد بن علاء، ابراہیم ابن یوسف، ابی اسحاق ، ابو عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں جنگ بدر میں چلا تو میں نے راستہ میں ابو جہل کو پڑا دیکھا اس کے پاؤں پر تلوار کی ضرب تھی۔ میں نے کہا اے دشمن خدا! اے ابو جہل! آخرکار اللہ نے اس شخص کو ذلیل کر دیا جو دین حق سے دور تھا۔ ابن مسعود کہتے ہیں مجھے اس وقت ابو جہل کا خوف نہ تھا۔ ابو جہل بولا مجھے حیرت ہے کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے مار ڈالا۔ پھر میں نے اس پر تلوار کا وار کیا مگر کارگر نہ ہوا یہاں تک کہ اس کے ہاتھ سے اس کی تلوار چھوٹ گئی۔ پس میں نے اس کی تلوار سے اس کو قتل کیا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔

 

                   مال غنیمت کی چوری کا گناہ

 

مسدد، یحیٰ بن سعید، بشر بن مفضل، یحیٰ بن سعید، محمد بن یحیٰ بن حبان، ابی عمرہ، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ اصحاب رسول میں سے ایک شخص جنگ خیبر میں وفات پا گیا پس صحابہ نے (اس کی موت کا اور اس پر نماز جنازہ پڑھنے کا) ذکر آپ سے کیا۔ آپ نے فرمایا اپنے ساتھی پر تم خود ہی نماز پڑھ لو۔ (میں نہیں پڑھوں گا) آپکی یہ بات سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا تمھارے ساتھی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں اس کے سامان میں سے یہودی عورتوں کے پہننے کا ایک کپڑا ملا جس کی قیمت دو درہم بھی نہ تھی۔

 

قعنبی، مالک، ثور بن زید، ابی غیث، ابن مطیع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خیبر کے سال میں جہاد کے لیے نکلے لیکن ہم کو مال غنیمت میں سونا چاندی نہ ملا بلکہ کپڑے لتّے اور دوسرا مال و متاع ہاتھ لگا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی قری کی طرف چلے اور آپ کو ہدیہ میں ایک کالا غلام ملا تھا جس کا نام مدعم تھا۔ جب ہم وادی قری میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا اتنے میں اس کے ایک تیر آ لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ ہم نے کہا مبارک ہو اس کو جنت ملی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس نے خیبر کی لڑائی میں جو کمبل مال غنیمت کی تقسیم سے قبل لے لیا تھا آگ بن کر اس پر بھڑک رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک یا دو تسمے لے کر آیا۔ آپ نے فرمایا یہ آگ کا تسمہ تھا یا یہ فرمایا یہ دونوں تسمے آگ کے تھے۔

 

                   جب کوئی شخص مال غنیمت کی معمولی چیز چرائے تو امام اس کو چھوڑ دے اور اس کے اسباب کو نذر آتش نہ کرے

إ

ابو صالح، محبوب بن موسی، اسحاق ، عبد اللہ بن شوذب، عامر ابن بریدہ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب مال غنیمت پہنچتا تو آپ حضرت بلال کو حکم فرماتے اور وہ لوگوں میں اعلان کرتے تو سب لوگ اپنی اپنی غنیمت لے کر آتے (اور آپ کے پاس جمع کرا دیتے) پھر آپ اس میں سے (بیت المال کے لیے) پانچواں حصہ الگ کر کے باقی کو (تمام مجاہدین میں برابر برابر) تقسیم فرما دیتے۔ پس ایک شخص اس تقسیم کے بعد بالوں کی بنی ہوئی لگام لے کر آیا اور بولا یا رسول اللہ! یہ مال غنیمت کا حصہ ہے۔ آپ نے پوچھا کیا تو نے بلال کو تین مرتبہ اعلان کرتے ہوئے سنا تھا؟ اس نے کہا ہاں! آپ نے دریافت کیا تو پھر کیا چیز اس کے لانے میں مانع تھی؟ اس نے معذرت پیش کی (مگر آپ نے اس کی معذرت قبول نہیں فرمائی) اور آپ نے فرمایا اسی طرح رہ اب تو اس کو قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ اب تو میں تجھ سے اس کو ہرگز قبول نہ کروں گا۔

 

                   مال غنیمت میں سے چوری کرنے کی سزا

 

نفیلی، سعید بن منصور، عبد العزیز بن محمد، صالح، حضرت ابو واقد صالح بن محمد بن زائدہ سے روایت ہے کہ میں مسلمہ کے ساتھ ملک روم میں (جہاد کے لیے) گیا وہاں ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں سے چوری کیا تھا۔ تو مسلمہ نے سالم سے اس کا مسئلہ دریافت کیا انھوں نے کہا میں نے اپنے والد عبد اللہ سے سنا وہ حضرت عمر سے نقل کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال غنیمت کی چوری کی ہے تو اس کا مال و اسباب جلا دو اور اس کو مارو۔ راوی کا بیان ہے۔ اس کے سامان میں ایک قرآن پاک بھی تھا تو مسلمہ نے سالم سے اس کے متعلق دریافت کیا (کہ اس کا کیا کیا جائے؟) تو انھوں نے کہا کہ اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دی جائے۔

 

ابو صالح محبوب بن موسی، ابو اسحاق ، حضرت صالح بن محمد سے روایت ہے کہ ہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ ہمارے ساتھ سالم بن عبد اللہ بن عمر اور عمر بن عبد العزیز بھی تھے۔ ایک شخص نے مال غنیمت میں چوری کی تو ولید بن ہشام نے اس کا تمام سامان جلانے کا حکم دیا اور اسے لوگوں میں گھمایا گیا (کہ دیکھو یہ چور ہے) اور اس کو اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا ابو داؤد نے کہا یہ روایت زیادہ صحیح ہے اس کو ایک سے زائد افراد نے روایت کیا ہے کہ ولید بن ہشام نے زید بن سعد کا سامان جلوایا کیونکہ اس نے مال غنیمت میں چوری کی تھی اور اس کو مارا بھی تھا۔

 

محمد بن عوف، موسیٰ بن ایوب، ولید بن مسلم، زہیر بن محمد، عمرو بن شعیب نے بواسطہ والد بسند دادا روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر و عمر نے مال غنیمت میں چوری کرنے والے کا سامان جلایا اور اس کو مارا ابو داؤد کہتے ہیں کہ علی ولید اور ابن نجدہ نے بواسطہ ولید اس میں یہ زیادتی نقل کی ہے کہ اسے اس کے حصے سے بھی محروم کر دیا لیکن یہ زیادتی میں نے ان سے نہیں سنی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہمیں اس سند سے بھی پہنچی ہے ولید بواسطہ زہیر بن محمد بسند عمرو ابن شعیب لیکن اس میں عبد الوہاب بن نجدہ نے حصہ سے محروم کر دینے کی زیادتی ذکر نہیں کی۔

 

 

                   مال غنیمت چرانے والے کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہئے

 

محمد بن داؤد بن سفیان، یحیٰ بن حسان، سلیمان بن موسی، ابو داؤد، جعفر بن سعد، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس نے غنیمت کا مال چرانے والے کی پردہ پوشی کی تو وہ بھی اس کے مثل ہے (یعنی وہ بھی اس کے گناہ میں شریک ہو گا)

 

                   جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس کا اسباب اسی کو دیا جائے

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک، یحیٰ بن سعید، عمرو بن کثیر بن افلح، ابو محمد، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنگ حنین میں نکلے۔ جب ہمارا مقابلہ کافروں سے ہوا تو مسلمانوں میں افرا تفری پھیل گئی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کر لیا ہے تو میں نے اس کے پیچھے سے آ کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری وہ میری طرف جھپٹا اور مجھے آ کر ایسا دبوچا گویا اس نے مجھے موت کا مزہ چکھا دیا پھر اس کو موت آ گئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب میری ملاقات حضرت عمر سے ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آج لوگوں کو کیا ہوا تھا (کہ کافروں سے شکست کھا گئے) انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم یونہی تھا پھر مسلمان واپس ہو گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ گئے اور فرمایا جو کسی کافر کو قتل کرے گا اس کا مال و اسباب اسی کو ملے گا بشرطیکہ اس کا ثبوت ہو۔ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میں اٹھ کھڑا ہو ا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گواہ اور ثبوت کہاں سے لاؤں گا اس لیے پھر بیٹھ رہا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر ے گا تو مقتول کا تمام اسباب اسی کو ملے گا بشرطیکہ کوئی گواہ بھی موجود ہو۔ میں پھر اٹھا مگر یہ خیال کر کے پھر بیٹھ گیا کہ گواہ کہاں میسر ہوں گے۔ پھر جب تیسری مرتبہ آپ نے یہی فرمایا تو میں اٹھ کھڑا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو قتادہ تجھ کو کیا ہو ا؟ پس میں نے اصل صورت حال اور اپنا اشکال بیان کر دیا۔ اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہ! اس نے سچ کہا۔ فلاں کافر کا سامان میرے پاس ہے تو وہ سامان مجھے ان سے دلایئے۔ حضرت ابو بکر نے کہا خدا کی قسم ایسا کبھی نہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا کبھی قصد نہ کریں گے کہ ایک شیر خدا کے شیروں میں سے اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تجھے مل جائے۔ آنحضرت نے فرمایا ابو بکر سچ کہتے ہیں وہ سامان تو اسی کو دے دے ابو قتادہ کہتے ہیں کہ پھر اس نے وہ سامان مجھے دے دیا اور میں نے اس کو فروخت کر کے بنی سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد اسحاق بن عبد اللہ، ابو طلحہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس دن یعنی حنین کے دن کہ جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کافر کا مال و اسباب اسی شخص کو ملے گا پس اس دن ابو طلحہ نے بیس کافروں کو قتل کیا اور ان کا سامان بھی لیا اور ابو طلحہ (اپنی بیوی) ام سلیم سے ملے تو دیکھا ان کے پاس ایک خنجر ہے انھوں نے پوچھا اے ام سلیم یہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ دوں۔ پس ابو طلحہ نے اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کر دی ابو داؤد نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔ ابو داؤد نے کہا ہماری مراد خنجر ہے۔ اس دن اہل عجم کا ہتھیار خنجر تھے۔

 

 

 

 

جنازوں کا بیان

                   میت کے لیے دعا کرنے کا بیان

 

ابو معمر، عبد اللہ بن عمرو، عبد الوارث، ابو جلاس، عقبہ بن سیار، حضرت علی بن شماخ سے روایت ہے کہ میں مروان کے پاس موجود تھا۔ مروان نے ابو ہریرہ سے پوچھا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز جنازہ میں پڑھی جانے والی دعا کے متعلق کیا سنا ہے؟ ابو ہریرہ نے کہا کیا تو ان باتوں کے باوجود پوچھتا ہے جو تو کہہ چکا ہے؟ مروان نے کہا ہاں علی بن شماخ کہتے ہیں کہ اس سے قبل ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو چکی تھی۔ ابو ہریرہ نے کہا (آپ جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے) ترجمہ اے اللہ! تو اس کا رب ہے تو نے ہی اس کو پیدا کیا تو نے ہی اس کو اسلام کی راہ دکھائی اور اب تو نے ہی اس کی روح قبض کر لی ہے اور تو اس کے ظاہر و باطن سے اچھی طرح واقف ہے ہم اس کی سفارش کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں پس تو اس کی مغفرت فرما دے۔

 

موسیٰ بن مروان، شعیب، ابن اسحاق ، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو اس کے لیے یوں دعا کی اے اللہ! تو بخشش فرما دے ہمارے زندوں کی اور ہمارے مردوں کی ہمارے چھوٹوں کی اور ہمارے بڑوں کی ہمارے مردوں کی اور ہماری عورتوں کی ہمارے موجود لوگوں کی اور ہمارے غائبین کی۔ اے اللہ! تو ہم سے جس کو زندہ رکھے اس کو ایمان پر زندہ رکھ اور جس کو تو موت دے اس کو اسلام پر موت عطا فرما۔ اے اللہ! تو ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد گمراہ نہ کر۔

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، ولید، ابراہیم، بن موسی، ولید، عبد الرحمن، مروان بن جناح، یونس، حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ اس کے لیے یوں دعا فرما رہے تھے اے اللہ! یہ فلاں ابن فلاں تیری امان میں ہے پس تو اس کو قبر کے عذاب سے بچا لے۔ عبد اللہ کی روایت میں یوں ہے یہ تیری امان میں ہے پس تو اس کو قبر کے فتنہ اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے تو صاحب وفا اور صاحب حق ہے۔ اے اللہ! تو اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما بیشک تو بخشنے والا اور مہربان ہے۔۔۔ عبد الرحمن نے مروان بن جناح سے یہ حدیث بصیغہ عن روایت کی ہے۔

 

                   قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

 

سلیمان بن حرب، مسدد، حماد، ثابت، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام شخص (یا عورت) مسجد (نبوی) میں جھاڑو دیا کرتا تھا ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نہ پایا تو اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے اس کی خبر کیوں نہ کی؟ آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتاؤ کہاں ہے؟ لوگوں نے بتا دیا پس آپ نے اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی۔

 

                   جو مسلمان کافروں کے ملک میں مر جائے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

 

قعنبی، مالک بن انس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس دن نجاشی (شاہ حبشہ) کا انتقال ہوا تو آپ نے لوگوں کو اس کو اطلاع کی اور آپ اپنے اصحاب کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے آپ نے ان کے ساتھ صف باندھی اور چار تکبیریں کہیں۔

 

عباد بن موسی، اسماعیل ابن جعفر، اسرائیل، ابو اسحاق ، ابو بردہ، حضرت ابو ہریرہ کے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو نجاشی کے ملک میں چلنے جانے کا حکم فرمایا (یعنی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونے لگا تو آپ نے لوگوں کو حبشی کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا) پھر اس کا قصہ بیان کرنے ہوئے کہا کہ نجاشی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور محمد وہ شخص ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیھما السلام نے دی ہے اگر میں امور سلطنت میں مشغول نہ ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کی جوتیاں اٹھاتا۔

 

                   ایک قبر میں ایک ساتھ کئی مُردوں کو دفن کرنا اور کوئی علامت مقرر کرنا

 

عبدالوہاب بن نجدہ، سعید بن سالم، یحیٰ بن فضل، حاتم ابن اسماعیل، کثیر بن زید حضرت مطلب سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (بقیع میں) لایا گیا اور وہیں ان کو دفن کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم فرمایا (تاکہ قبر پر بطور نشان نصب فرمائیں) لیکن وہ اس کو اٹھا نہ سکا تو آپ خود ہی اس کو اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنی دونوں آستینیں اوپر چڑھا لیں۔ مطلب کہتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ واقعہ نقل کیا ہے وہ کہتا ہے کہ گویا میں اب بھی اپنی آنکھوں سے آپ کے ہاتھوں کی سفیدی کی طرف دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو کھولا تھا اور پھر پتھر اٹھا کر عثمان کی قبر کے سرہانے نصب فرمایا تھا اور آپ نے اس پتھر سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تو جانتا ہے کہ یہ میرے بھائی (عثمان بن مظعون) کی قبر ہے اور میرے اہل خانہ میں سے جب کسی کا انتقال ہو گا تو میں اس کو بھی اس کے آس پاس ہی دفن کروں گا

 

                   قبر کھودنے والا اگر مُردے کی ہڈی دیکھے تو اس کو توڑے نہیں بلکہ چھوڑ دے اور دوسری جگہ کھودے

 

قعنبی، عبد العزیز بن محمد، سعد، ابن سعید، عمرہ بنت عبد الرحمن، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مردہ کی ہڈی توڑنا (گناہ میں) ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔

 

                   بغلی قبر بنانے کا بیان

 

اسحاق بن اسماعیل، حکام بن سلم، علی بن عبد الاعلی، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لحد ہمارے واسطے ہے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔

 

                   میت کو رکھنے کے لیے کتنے آدمی قبر میں جائیں؟

 

احمد بن یونس، زہیر، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عامر شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت علی فضل بن عباس اور اسامہ بن زید نے غسل دیا اور ان حضرات نے انھیں قبر میں اتارا۔ راوی نے کہا مرحب (یا ابن ابی مرحب) نے بیان کیا کہ ان حضرات نے اپنے ساتھ عبد الرحمن بن عوف کو بھی شریک کر لیا۔ جب حضرت علی تدفین سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ آدمی کا کام اس کے گھر والے ہی کیا کرتے ہیں۔

 

محمد بن صباح بن سفیان، ابن ابی خالد، شعبی، حضرت ابو مرحب سے روایت ہے کہ عبد الرحمن بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر میں اترے تھے۔ پھر کہا گویا میں ان چاروں حضرات کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ (یعنی حضرت علی فضل بن عباس اسامہ بن زید اور عبد الرحمن بن عوف)

 

                   مردہ کو قبر میں کس طرح داخل کریں

 

عبد اللہ بن معاذ، شعبہ، حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت جارث نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی نمازہ جنازہ عبد اللہ بن یزید پڑھائیں لہذا انھوں نے ہی ان کی نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے ان کو قبر کے پائی ناتے کی طرف سے قبر میں داخل کیا اور یہ کہا یہ سنت ہے۔

 

                   قبر کے پاس کس طرح بیٹھنا چاہئے

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، منہال، حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں شریک ہوئے جب ہم قبر پر پہنچے تو اس وقت تک قبر تیار نہ ہوئی تھی۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی بیٹھ گئے۔

 

                   میت کو جب قبر میں رکھنے لگیں تو کیا دعا پڑھیں

 

محمد بن کثیر، مسلم بن ابراہیم، ہمام، قتادہ، ابو صدیق، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میت کو قبر میں اتارتے تو یہ دعا پڑھتے بِسْمِ اللَّہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (ترجمہ) میں اس میت کو قبر میں رکھتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت پر۔ یہ الفاظ مسلم بن ابراہیم نے نقل کیے ہیں۔

 

                   اگر کسی مسلمان کا کوئی کافر و مشرک رشتہ دار مر جائے تو کیا کرنا چاہئے

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، ابو اسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابو طالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لیے دعا فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابو طالب کی وفات حالت کفر پر ہوئی۔

 

                   قبر کو گہرا کھودنا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، سلیمان بن مغیرہ، حمید، ابن ہلال، حضرت ہشام بن عامر سے روایت ہے کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس انصار آئے اور عرض کیا ہم زخمی ہیں اور تھکے ہوئے ہیں پس آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ یعنی ہم شہداء کی قبریں کس طرح کھودیں تو آپ فرمایا قبر کشادہ کھودو اور ایک قبر میں دو اور تین کو دفن کر دو۔ لوگوں نے پوچھا اس صورتیں کس کو آگے رکھیں (قبلہ کی جانب) تو آپ نے فرمایا جو قرآن زیادہ جانتا ہو۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد عامر بھی اسی دن شہید ہوئے تھے اور دو یا ایک کے ساتھ دفن کیے گئے تھے۔

 

ابو صالح، ابو اسحاق ، ثوری، ایوب، حضرت حمید بن ہلال سے بھی اسی سند و متن کے ساتھ مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے فرمایا قبر کو گہرا کھودو۔

 

موسیٰ بن اسماعیل ، جریر، حمید بن ہلال ، سعد بن ہشام بن عامر سے بھی سابق حدیث کی طرح روایت مروی ہے

 

                   قبر کو برابر کرنا

 

محمد بن کثیر، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، ابو وائل، حضرت ابو ہیّیاج اسدی سے روایت ہے کہ مجھے حضرت علی نے بھیجا اور فرمایا کہ میں تجھے اس کام پر بھیج رہا ہوں جس کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا اور وہ کام یہ تھا کہ کسی اونچی قبر کو برابر کیے بغیر اور کسی تصویر کو مٹائے بغیر نہ چھوڑوں۔

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، حضرت ابو علی ہمدانی سے روایت ہے کہ ہم فضالہ بن عبید کے پاس ملک روم کے ایک مقام بروذس میں تھے وہاں ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا تو فضالہ نے اس کی قبر بنانے کا حکم کیا پس قبر زمین کے برابر بنائی گئی اس کے بعد کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔ آپ قبروں کے برابر کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ ابو داد نے کہا روذس سمندر کا ایک جزیرہ ہے۔

 

احمد بن صالح، ابن ابی فدیک، عمرو بن عثمان بن ہانی، حضرت قاسم سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا اے میری ماں میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے دونوں اصحاب کی قبر کھول دیجئے پس انھوں میرے لیے تینوں قبریں کھول دیں جو نہ تو بہت بلند تھیں اور نہ بالکل زمین سے ملی ہوئی اور ان پر میدان کی سرخ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ ابو علی نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر آگے ہے اور آپ کے سر مبارک کے پاس حضرت ابو بکر کی قبر ہے اور آپ کے پاؤں کے پاس حضرت عمر فاروق کی قبر ہے اس طرح حضرت عمر کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک کی طرف ہے۔

 

                   جب دفن کر کے فارغ ہوں اور لوٹنے کا قصد ہو تو میت کے لیے مغفرت طلب کریں

 

ابراہیم بن موسی، ہشام، عبد اللہ بن بحیر، ہانی، حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کیلئے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال ہو گا۔

 

 

 

خرید و فروخت کا بیان

 

 

                   مخابرہ کے بیان میں

 

ابو حفص عمر بن یزید، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، یونس بن عبید عطاء، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزانبہ محاقلہ اور استثنائی بیع سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ استثنائی بیع میں استثناء کی مقدار معلوم ہو، (تو جائز ہے)

 

یحیٰ بن معین، ابن رجاء، ابن خثیم، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے مخابرہ کو ترک نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کر رہا ہے۔

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عمر بن ایوب، جعفر، بن برقان، ثابت بن حجاج، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا مخابرہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ مخابرہ کیا ہے؟ فرمایا کہ تو زمین کے نصف یا ثلث یا ربع حصہ کی پیداوار کے بدلہ میں زمین لے لے۔

 

                   مساقات

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل خیبر کے ساتھ ان کے کھیت میں یا باغ کے پھلوں میں، و نصف مسلمانوں کی اور نصف اہل خیبر کی۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن عبد الرحمن، ابن غنج، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کے کھجور کے باغات اور ان کی زمینیں واپس دے دی تھیں اور معاملہ اس پر طے کیا تھا کہ وہ ان زمینوں میں کام کریں گے اور اس کے پھلوں میں سے نصف حصہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہو گا۔

 

ایوب بن محمد، عمر بن ایوب، جعفر، بن برقان، میمون بن مہران، مقسم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کو فتح فرمایا اور اہل خیبر کو مشروط کر دیا اس کا خیبر کی زمینیں اور اس کا سونا چاندی سب کچھ ہمارا (مسلمانوں کا) ہو گا، اہل خیبر کہنے لگے کہ ہم اپنی زمین کو آپ کی نسبت زیادہ جانتے ہیں پس وہ زمینیں ہمیں دے دیجیے اس شرط پر کہ ہم نصف حصہ پھلوں کا اور پیداوار کا آپ کو دیں گے۔ اور نصف ہمارے لئے ہو گا، چنانچہ ہم نے وہ زمینیں انہیں دے دیں کہ نصف پیداوار تمہاری اور نصف ہماری ہو گی۔ راوی کا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی شرط پر انہیں زمینیں دی تھیں پھر جب کھجور کے اترنے کا وقت آیا تو اہل خیبر کے پاس حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے اور وہ جا کر باغ کی کھجور کا اندازہ لگاتے اور یہی (یعنی اندازہ لگانے کو) اہل مدینہ خرص کہتے ہیں۔ اور ان سے کہتے کہ ان کھجور کے درختوں میں اتنی اتنی کھجوریں ہوں گی۔ اہل خیبر کہتے کہ اے ابن رواحہ تم نے ہم پر کثرت کر دی۔ عبد اللہ بن رواحہ فرماتے ہیں کہ پس میں کھجور کے توڑنے کا انتظار کروں گا، اور تمہیں اس کا نصف دوں گا جتنا میں نے تم سے کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اور سچ ہے اور اسی کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ہم راضی ہیں اتنا لینے پر جتنا تم نے کہا ہے۔

 

علی بن سہل الرملی، زید بن ابی زرقاء سے اور وہ جعفر بن برقان سے مندرجہ بالا حدیث روایت کرتے ہیں اور فخرز، کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کُلَّ صَفْرَاءَ وَبَیْضَاءَ، ، کی تفسیر سونے چاندی سے کرتے ہیں۔

 

محمد بن سلیمان، کثیر، ابن ہشام، جعفر، بن برقان مقسم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب خیبر کو فتح کیا آگے مذکورہ بالا حدیث روایت کی اور اس میں ذکر کیا کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجوروں کا اندازہ لگایا اور فرمایا کہ کھجور کے کٹنے کا انتظار کروں گا اور جتنا میں نے تم سے کہا ہے اس کا نصف تمہیں دوں گا۔

 

یحیٰ بن معین، حجاج، ابن جریج، ابن شہاب، عروہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے اور وہ اندازہ لگایا کرتے تھے کھجور کا جب اچھی ہو جاتی تھی (یعنی پکنے کے قریب) لیکن ابھی کھائی نہیں جاتی پھر یہودیوں کو اختیار دیا جاتا کہ اس اندازہ کے مطابق اسے قبول کر لیں یا مسلمانوں کے سپرد کر دیں آسان اندازہ کے مطابق تاکہ زکوٰۃ   کا صحیح شمار کیا جا سکے قبل اس کے پھل کھائے جائیں اور متفرق ہو جائیں۔

 

                   درختوں پر پھلوں کا اندازہ کرنے کا بیان

 

ابن ابی خلف، محمد بن سابق ابراہیم بن طہمان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالی نے خیبر عطا فرمایا تو آپ نے انہیں اس میں برقرار رکھا اور اسے اس کی پیداوار کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک کر لیا، پس عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا اور انہوں نے اس کا اندازہ لگایا اور درختوں پر (یعنی پھل ابھی درختوں پر ہی تھا۔ )

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، محمد بن بکر، بن جریج، ابو زبیر، فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ کو سنا وہ فرماتے تھے کہ خیبر کے پھلوں کا اندازہ لگایا ابن رواحہ نے چالیس ہزار وسق اور ان کا خیال یہ ہے کہ جب یہود کو ابن رواحہ نے اختیار دیا تو انہوں نے کھجور (سب کی سب) لے لی اور بیس ہزار وسق ان کے اوپر واجب تھے (یعنی کھجور تو سب لے لیں اور آدھی کھجور کی قیمت بیس ہزار وسق کی دینی قبول کر لی۔ )

 

                   اجارہ کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، حمید بن عبد الرحمن، مغیر بن زیاد، عبادہ بن نسی، اسود بن ثعلبہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن کریم اور کتاب اللہ کی تعلیم دی ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیہ دی۔ میں نے کہا کہ اس کی مالیت تو کچھ نہیں اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا (مقصد یہ کہ اس ہدیہ کے قبول کرنے کا خیال تھا اس واسطے کہ اس کی مالیت تو کچھ خاص نہیں تھی کہ اس کو تعلیم کا معاوضہ خیال کرتا اور نیت یہ تھی کہ اس کے ذریعہ راہ خدا میں تیر اندازی کروں گا) میں اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤں گا اور سوال کروں گا، چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک آدمی نے مجھے کمان ہدیہ کی ہے ان میں سے کہ جنہیں کتاب اللہ اور قرآن کی تعلیم دیتا ہوں اور اس کمان کی کچھ مالیت بھی نہیں ہے اور اس کے ذریعہ میں راہ خدا میں تیر اندازی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیرے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے تو اسے قبول کر لے۔

 

عمرو بن عثمان، کثیر، بن عبید بقیہ، بشر بن عبد اللہ بن یسار، عمرو عبادہ بن نسیان سند سے بھی مذکورہ حدیث منقول ہے لیکن پچھلی حدیث مکمل ہے جبکہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا کہ آگ کا انگارہ ہے تیرے دونوں کندھوں کے درمیان جسے تو نے ہار بنا لیا ہے یا لٹکا لیا ہے۔

 

                   طبیب کی کمائی کا بیان

 

مسدد ابو عوانہ، ابی بشر ابی متوکل، ابو سعید سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر میں جا رہی تھی ایک عرب کے قبیلہ میں ان کا پڑاؤ ہوا تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا لیکن اہل قبیلہ نے انکار کر دیا میزبانی سے۔ راوی کہتے ہیں کہ (اتفاقا) اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ انہوں نے اس کا ہر چیز سے علاج معالجہ کیا لیکن اسے کسی چیز نے نفع نہیں دیا۔ ان میں سے بعض لوگ کہنے لگے کہ کاش تم اس جماعت کے پاس جاتے جس نے تمہارے یہاں پڑاؤ ڈالا ہے شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے سردار کو نفع بخش دے (پس ان میں سے کچھ لوگ صحابہ کے پاس آئے) اور کہا کہ ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے پس کہا تم میں سے کسی کے پاس کوئی تعویذ وغیرہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے کہا میں تعویذ کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے مہمان نوازی چاہی تو تم نے ہماری مہمان نوازی سے انکار کر دیا لہذا میں تعویذ نہیں کروں گا حتی کہ تم کوئی اجرت وغیرہ مقرر کرو میرے لیے، انہوں نے ان کے واسطے بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت کے طور پر مقرر کیا تو وہ ان کے سردار کے پاس آئے اور اس پر سورۃ فاتحہ پڑھی اور پڑھ کر پھونکنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ اس کو شفاء ہو گئی گویا کہ کسی بندش سے چھوٹ گیا، راوی کہتے ہیں پھر انہوں نے جس پر معاہدہ کیا تھا اسے پورا کیا، ان لوگوں نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن تعویذ کرنے والے صاحب نے کہا کہ ایسا نہ کرو یہاں تک کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پاس پہنچ جائیں اور ان سے اس کے حکم کے بارے میں معلوم کر لیں، پس اگلی صبح ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ ذکر کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں کہاں سے معلوم ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ تعویذ ہے تم نے اچھا کیا اپنے ساتھ میرا بھی حصہ مقرر کرو۔

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، معبد بن سیرین، ابو سعید خدری، اس سند سے بھی مذکورہ بالا روایت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی منقول ہے۔

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، عبد اللہ بن ابی سفر، شعبی، خارجہ بن صلت، اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں وہ ایک قوم کے پاس گزرے اس قوم کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ تم بیشک اس آدمی (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس سے خیر لے کر آئے ہو، پس ہمارے اس آدمی کیلئے تعویذ کر دو، پھر وہ ایک مغلوب الحواس شخص کو جکڑ کر لائے تو انہوں نے سورۃ فاتحہ کے ذریعہ اس پر تعویذ کیا تین دن تک صبح شام اور جب بھی سورۃ فاتحہ ختم کرتے تو منہ پر تھوک جمع کر کے اس آدمی کے اوپر تھوکتے وہ ایسا ہو گیا کہ بندشوں سے چھٹکارا پایا ہو، ان لوگوں نے انہیں کوئی چیز دی، وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کیا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اسے کھا، میری عمر کی قسم کوئی تو باطل تعویذ کر کے کھاتا ہے (تو وہ ہلاک ہو گیا) بیشک تو نے تو سچا کیا ہے (یعنی جو لوگ باطل رقیہ کرتے ہیں وہ ہلاکت میں پڑ گئے لیکن تمہارا تعویذ تو بالکل حق ہے لہذا اس کے عوض میں ملنے والی چیز کھا سکتے ہو۔ )

 

                   پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، ابراہیم بن عبد اللہ ابن قارظ سائب بن یزید رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پچھنے لگانے والے کی اجرت ناپاک ہے کتے کی قیمت ناپاک ہے اور بد کار و فاحشہ عورت کی کمائی ناپاک ہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابن محضہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حجامت کی اجرت کی اجازت چاہی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا، وہ مسلسل اصرار کرتے رہے، اور سوال کرتے رہے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ اس سے اپنے اونٹوں سے چارہ کھلائے اور غلام کو کھلائے (یعنی خود استعمال نہ کرے۔ )

 

مسدد، یزید، ابن زریع، خالد، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود پچھنے لگائے اور حجام کو اس کی اجرت دی۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ناپاک سمجھتے تو اسے اجرت نہ دیتے۔

 

قعنبی، مالک، حمید، انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ابو طیبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پچھنے لگائے اور آپ نے اس کے لئے ایک صاع کھجور دینے کا حکم فرمایا اور اس کے آقاؤں کو حکم دیا کہ اس کے خراج میں سے کمی کر دیں۔

 

عبید اللہ بن معاذ، ابی شعبہ، محمد بن حجادہ ابو حازم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لونڈیوں سے کمائی لینے سے منع فرمایا ہے۔

 

ہارون بن عبد اللہ ہاشم بن قاسم، عکرمہ طارق بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن رفاعہ انصار کی ایک مجلس میں تشریف لائے اور فرمایا کہ بیشک ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آج منع فرمایا ہے پھر انہوں نے چند اشیاء کا تذکرہ کیا (یعنی ان چیزوں کا جن سے آپ نے منع فرمایا الا یہ کہ اس نے اپنے ہاتھ سے محنت کی ہو

 

 

 

سنن ابو داؤدؒ

 

 

جلد اول

 

(تعارف ابو داؤدؒ اور عام احادیث)

 

                   امام ابو داؤدؒ

 

 

 

 

تعارف

 

نام و نسب

ابو داؤد کنیت،سلیمان نام اور والد کا اسم گرامی اشعث ہے سلسلہ نسب یہ ہے ۔ ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران الازدی سبحستانی۔

 

سن پیدائش

امام ابو داؤد سیستان میں ٢٠٢ھ میں پیدا ہوئے لیکن آپ نے زندگی کا بڑا حصہ بغداد میں گزارا اور وہیں اپنی سنن کی تالیف کی اسی لیے ان سے روایت کرنے والوں کی اس اطراف میں کثرت ہے پھر بعض وجوہ کی بنا پر ٢٧١ھ میں بغداد کو خیر باد کہا اور زندگی کے آخری چار سال بصرے میں گزارے جو اس وقت علم و فن کے لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔

 

تحصیل علم

آپ نے جس زمانہ میں آنکھیں کھولیں اس وقت علم حدیث کا حلقہ بہت وسیع ہو چکا تھا۔ آپ نے بلاد اسلامیہ میں عموماً اور مصر،شام،حجاز،عراق،خراسان اور جزیرہ وغیرہا میں خصوصیت کے ساتھ کثرت سے گشت کر کے اس زمانہ کے تمام مشاہیر اساتذہ و شیوخ سے علم حدیث حاصل کیا صاحب کمال نے لکھا ہے کہ بغداد متعدد بار تشریف لائے۔

 

اساتذہ و شیوخ

امام ابو داؤد تحصیل علم کے لیے جن اکابر و شیوخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا استقصاء دشوار ہے خطیب تبریزی فرماتے ہیں کہ انہوں نے بے شمار لوگوں سے حدیثیں حاصل کیں ،ان کی سنن اور دیگر کتابو ں کو دیکھ کر حافظ ابن حجر کے اندازے کے مطابق ان کے شیوخ کی تعداد تین سو سے زائد ہے۔ آپ کے اساتذہ میں مشائخ بخاری و مسلم جیسے امام احمد بن حنبل،عثمان بن ابی شیبہ،قتیبہ بن سعید اور قعنبی ابو الولید طیاسی،مسلم بن ابراہیم اور یحییٰ بن معین جیسے ائمہ فن داخل ہیں۔

 

فن حدیث میں کمال

ابراہیم حربی نے جو اس زمانہ کے عمدہ محدثین میں سے ہیں جب سنن ابو داؤد کو دیکھا تو فرمایا کہ ”ابو داؤد کے لیے حق تعالیٰ نے علم حدیث ایسا نرم کر دیا ہے جیسے حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا ہوا تھا”حافظ ابو طاہر سلفی نے اس مضمون کو پسند کر کے اس قطعہ میں نظم کیا

 

لان الحدیث وعلمہ بکمالہ

لامام اہلیہ ابو داؤد

مثل الذی لان الحدید وسبکہ

لبنی اہل زمانہ داؤد

 

فقہی ذوق

اصحاب صحاح ستہ کی نسبت امام ابو داؤد پر فقہی ذوق زیادہ غالب تھا،چنانچہ تمام ارباب صحاح ستہ میں صرف یہی ایک بزرگ ہیں جن کو علامہ شیخ ابو اسحق شیرازی نے طبقات الفقہاء میں جگہ دی ہے امام ممدوح کے اسی فقہی ذوق کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کو صرف احادیث احکام کے لیے مختص فرمایا،فقہی احادیث کا جتنا بڑا ذخیرہ اس کتاب (سنن )میں موجود ہے صحاح ستہ میں سے کسی کتاب میں آپ کو نہیں ملے گا،چنانچہ حافظ ابو جعفر بن زبیر غرناطی متوفی ٧٠٨ھ صحاح ستہ کی خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں اور احادیث فقہیہ کے حصرو استیعاب کے سلسلے میں ابو داؤد کو جو بابت حاصل ہے وہ دوسرے مصنفین صحاح ستہ کو نہیں علامہ یافعی فرماتے ہیں کہ آپ حدیث و فقہ دونوں کے سرخیل تھے۔

 

زہد و تقویٰ

ابو حاتم فرماتے ہیں کہ امام موصوف حفظ حدیث،اتقان روایت،زہد و عبادت اور یقین و توکل میں یکتائے روزگار تھے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ورع و تقویٰ،عفت و تقوی! عبادت کے بہت اونچے مقام پر فائز تھے۔ ان کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کے کرتے کی ایک آستین تنگ تھی اور ایک کشادہ جب اس کا راز دریافت کیا گیا تو بتایا کہ ایک آستین میں اپنے نوشتے رکھ لیتا ہوں اس لیے اس کو کشادہ بنا لیا ہے اور دوسری کو کشادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اس میں کوئی فائدہ نہ تھا اس لیے اس کو تنگ ہی رکھا۔

 

جو گنج قناعت میں ہیں تقدیر پر شاکر

ہے ذوق برابر انہیں کم اور زیادہ

 

آپ کے فضل و کمال کا اعتراف

ابو داؤد کو علم و عمل میں جو امتیازی مقام حاصل تھا اس زمانہ کے علماء مشائخ کو بھی اس کا پورا پورا اعتراف تھا چنانچہ حافظ موسیٰ بن ہارون جو ان کے معاصر تھے فرماتے ہیں کہ ابو داؤد دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں میں نے ان سے افضل کسی کو نہیں دیکھا امام حاکم فرماتے ہیں کہ امام ابو داؤد بلا شک و ریب اپنے زمانہ میں محدثین کے امام تھے۔

 

اہل اللہ کی سچی عقیدت

احد بن محمد بن لیث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سہل بن عبد اللہ تستری جو اس زمانہ کے اہل اللہ میں سے تھے آپ کی خدمت میں تشریف لائے اور عرض کیا: امام صاحب میں ایک ضرورت سے آیا ہوں اگر حسب امکان پوری کرنے کا وعدہ فرمائیں تو عرض کروں ۔ آپ نے وعدہ کر لیا انہوں نے کہا کہ جس مقدس زبان سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث روایت کرتے ہیں اس کو بوسہ دینے کی آرزو رکھتا ہوں ذرا آپ اسے باہر نکالیں چنانچہ آپ نے اپنی زبان مبارک باہر نکالی اور حضرت سہل نے اس کو بوسہ دیا۔

 

وفات

امام ابو داؤد نے تہتر سال کی عمر پا کر سولہ شوال ٢٧٥ھ میں انتقال فرمایا اور بصرہ میں امام سفیان ثوری کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ یوم وفات روز جمعہ ہے۔

 

مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا

نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو تیرا    (اقبال)

 

تصنیفات

امام ابو داؤد نے بہت سا علمی ذخیرہ اپنی یادگار چھوڑا ہے جس کی مجمل فہرست درج ذیل ہے۔ مراسیل ۔ الردعلی القدریہ۔ الناسخ والمنسوخ۔ ماتضروبہ اہل الامصار۔ فضائل الانصار۔ مسند مالک بن انس۔ المسائل معرفۃ الاوقات۔کتاب بدء الوحی سنن ۔ ان میں سب سے زیادہ اہم آپ کی سنن ہے۔”

 

 

 

 

سنن ابو داؤدؒ

 

 

پاکی کا بیان

 

 

                   نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وضو کی کیفیت کا بیان

 

 

محمد بن مثنی، ضحاک بن مخلد، عبد الرحمن بن وردان، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو وضو صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مذکورہ حدیث بیان کی مگر اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور اس روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر پر تین مرتبہ مسح کیا اور پھر تین مرتبہ پاؤں دھوئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اس سے کم وضو کرے گا تو بھی کافی ہے (یعنی اعضائے وضو کو بجائے تین تین مرتبہ دھونے کے ایک یا دو مرتبہ دھوئے) اور اس روایت میں نماز (تحیت الوضو) کا ذکر نہیں ہے۔

 

محمد بن داؤد، زیاد بن یونس، سعید بن موذن حضرت عثمان بن عبد الرحمن تیمی سے روایت ہے کہ ابن ابی ملیکہ سے وضو کے متعلق دریافت کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کسی نے ان سے طریقہ وضو کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے پانی منگوایا تب ایک لوٹا لایا گیا انھوں نے اس لوٹے کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا (یعنی دایاں ہاتھ دھویا) پھر داہنے ہاتھ کو برتن میں ڈال کر پانی لیا تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ دایاں ہاتھ دھویا پھر بایاں ہاتھ تین مرتبہ دھویا پھر (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے) برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی لیا اور اپنے سر اور کانوں کا اندرونی و بیرونی حصہ پر ایک مرتبہ مسح کیا پھر دونوں پاؤں دھوئے اس کے بعد دریافت فرمایا کہ وضو کے متعلق پوچھنے والے کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ وضو کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں وہ سب کی سب اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہے کیونکہ تمام راویوں نے اعضاء وضو کا تین مرتبہ دھونا ذکر کیا ہے مگر سر کے مسح کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ سر کا مسح کیا یعنی سر کے مسح میں کوئی عدد ذکر نہیں کیا جیسا کہ دیگر ارکان میں کیا ہے۔

 

ابراہیم بن موسی، عیسیٰ، عبید اللہ ابن ابی زیاد، حضرت ابو علقمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا اور وضو کیا تو پہلے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ اور اعضائے وضو کو تین تین مرتبہ دھونے کا ذکر کیا اور سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے اور فرمایا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح وضو کیا تھا جیسا کہ تم نے مجھے اس وقت وضو کرتے دیکھا اور باقی حدیث زہری کی حدیث کی مانند بیان کی (یہ حدیث زہری کی حدیث سے زیادہ) مکمل ہے۔

 

ہارون بن عبد اللہ، یحیٰ بن آدم، اسرائیل، عامر بن شقیق بن جمرہ، شقیق بن سلمہ، حضرت سلمہ بن شفیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے اور تین ہی مرتبہ سر کا مسح کیا پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ وکیع نے اسرائیل سے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے تین تین مرتبہ دھونے کا ذکر کیا ہے (مطلقاً مسح کے لیے مستقل طور پر تین مرتبہ کرنے کا ذکر نہیں ہے)۔

 

مسدد، ابو عوانہ، خالد بن علقمہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے آپ اسی وقت نماز سے فارغ ہوئے تھے تبھی آپ نے وضو کے لیے پانی طلب کیا میں نے دل میں سوچا کہ پتہ نہیں آپ پانی کو کیا کریں گے کیونکہ آپ ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئے ہیں سوچا کہ شاید ہم کو کچھ سکھانا مقصود ہو۔ اتنے میں ایک برتن میں پانی اور ایک طشت لایا گیا تو آپ نے اس برتن سے داہنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ اسی داہنے ہاتھ سے جس میں پانی لیتے تھے ہر تین مرتبہ منہ دھویا پھر تین مرتبہ داہنا ہاتھ اور تین ہی مرتبہ بایاں ہاتھ دھویا پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر (پانی لیا) اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا پھر داہنا پاؤں تین مرتبہ دھویا اور بایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا اور فرمایا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کا طریقہ معلوم کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو وہ طریقہ یہی ہے

 

حسن بن علی، حسین بن علی، زائدہ، خالد بن علقمہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز پڑھ کر رحبہ گئے آپ نے پانی منگوایا ایک لڑکا پانی کا برتن اور طشت لے کر آیا آپ نے پانی کا برتن داہنے ہاتھ میں لیا اور بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن کر اندر ڈال کر پانی لیا اور تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد (اس حدیث کے راوی زائدہ نے) ابو عوانہ کی روایت کے قریب قریب بیان کیا (زائدہ نے کہا) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سر کے اگلے اور پچھلے حصہ پر ایک بار مسح کیا پھر زائدہ نے باقی حدیث ابو عوانہ کی مانند بیان کی۔

 

محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، مالک بن عرفطہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے کرسی لائی گئی آپ اس پر بیٹھ گئے اس کے بعد پانی کا ایک پیالہ لایا گیا جس سے آپ نے تین مرتبہ ہاتھ دھوئے پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور (شعبہ نے آگے پوری) حدیث بیان کی۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو نعیم، ربیعہ، منہال بن عمرو، حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا جب کہ ان سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کیفیت وضو کے بارے میں دریافت کیا گیا تو (حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ نے) وضو والی پوری حدیث بیان کی (البتہ اس میں یہ اضافہ کیا کہ) انہوں نے سر کا مسح کیا یہاں تک کہ پانی ٹپکنے والا ہی تھا اور تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے پھر فرمایا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو ایسا ہی تھا۔

 

زیاد بن ایوب، عبید اللہ بن موسی، فطر، ابو فروہ، حضرت ابو عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا انہوں نے تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا اور تین مرتبہ کہنیوں تک ہاتھ دھوئے اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا پھر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح وضو کیا تھا۔

 

مسدد، ابو توبہ، ابو احوص، عمرو بن عون، ابو اسحاق ، حضرت ابو حیّہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا ہے ان کا پورا وضو تین تین مرتبہ تھا (یعنی انہوں نے تمام اعضائے وضو تین تین مرتبہ دھوئے) پھر سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے اس کے بعد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ وضو دکھاؤں۔

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، محمد، ابن سلمہ، محمد، بن اسحاق ، محمد بن طلحہ بن یزید بن رکانہ، حضرت ابن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے جبکہ آپ پیشاب سے فارغ ہو کر تشریف لائے تھے آپ نے وضو کے لیے پانی مانگا چنانچہ ہم ایک برتن میں پانی لائے اور ان کے سامنے رکھ دیا آپ نے کہا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ کیا میں تم کو نہ دکھاؤں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ میں نے کہا ضرور تو حضرت علی رضی اللہ عنہ برتن جھکا کر اپنے (داہنے) ہاتھ پر پانی ڈالا اور اس کو دھویا پھر داہنا ہاتھ برتن میں ڈال کر پانی لیا اور بائیں ہاتھ پر ڈال کر دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اس کے بعد دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر کر پانی لیا اور اپنے منہ پر ڈالا پھر دونوں انگوٹھوں کو کانوں کے اندر سامنے کے رخ پر پھیرا پھر دوسری مرتبہ ایسا ہی کیا پھر داہنے ہاتھ میں ایک چلو پانی لے کر پیشانی پر ڈالا اور اس کو چہرہ پر بہتا ہوا چھوڑ دیا پھر تین مرتبہ دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے پھر سر پر اور کانوں کی پشت پر مسح کیا پھر دونوں ہاتھ برتن میں ڈال کر چلو بھر پانی اپنے پاؤں پر مارا اس حال میں کہ وہ پاؤں میں جوتا پہنے ہوئے تھے اور اس چلو کے پانی سے پاؤں رگڑ کر دھوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا پاؤں دھونا آپ نے جوتا پہنے پہنے کیا تھا؟ فرمایا ہاں جوتا پہنے پہنے میں نے پھر پوچھا کیا جوتا پہنے پہنے؟ فرمایا ہاں جوتا پہنے پہنے میں نے مزید استفسار کیا کہ کیا جوتا پہنے پہنے؟ جواب ملا ہاں جوتا پہنے پہنی ابو داؤد کہتے ہیں کہ شیبہ سے ابن جریج کی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے مشابہ ہے جس میں حجاج ابن محمد نے ابن جریج سے نقل کیا ہے کہ آپ نے سر کا مسح ایک مرتبہ کیا اور ابن وہب نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں) ابن جریج کے واسطہ سے تین مرتبہ مسح نقل کیا ہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، عمرو بن یحییٰ، عبد اللہ بن زید بن عاصم، عمرو بن یحیٰ مازنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عبد اللہ بن زید سے جو کہ عمرو بن یحیٰ مازنی کہ دادا تھے کہا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے؟ عبد اللہ بن زید نے کہا ہاں اس کے بعد انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور اپنے دونوں ہاتھوں پر انڈیلا پھر ان کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر دونوں ہاتھ دھوئے دو دو مرتبہ کہنیوں تک، پھر دونوں ہاتھوں سے سر پر مسح کیا یعنی پہلے دونوں ہاتھوں کو آگے سے پیچھے کی جانب لے گئے اور پھر پیچھے سے آگے کی جانب لائے یعنی سر کے سامنے والے حصہ سے مسح شروع کیا اور ہاتھوں کو گدی تک لائے اور پھر اسی جگہ لوٹا لائے جہاں سے مسح شروع کیا تھا اور اس کے بعد دونوں پاؤں دھوئے۔

 

مسدد، خالد عمرو بن یحییٰ، عبد اللہ بن زید بن عاصم، عمرو بن یحیٰ مازنی اپنے والد سے اور وہ عبد اللہ بن زید سے بن عاصم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ ایسا ہی کیا پھر باقی حدیث پہلی حدیث کی طرح بیان کی۔

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، حبان بن واسع، حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم مازنی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وضو کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح نیا پانی لے کر کیا (یعنی اس پانی سے مسح نہیں کیا جو ہاتھ میں پہلے سے لگا ہوا تھا) اور دونوں پاؤں کو (رگڑ کر) دھویا یہاں تک کہ ان کو بالکل صاف و شفاف بنا دیا۔

 

احمد بن محمد بن حنبل، ابو مغیرہ، حضرت مقدام بن معدیکرب کندی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو پہلے دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھویا اور پھر چہرہ کو تین مرتبہ دھویا پھر تین تین مرتبہ دونوں ہاتھوں کو دھویا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر سر کا مسح کیا اور کانوں کا بھی اندر اور باہر سے۔

 

محمود بن خالد یعقوب بن کعب، ولید بن مسلم، حریز بن عثمان، عبد الرحمن بن میسرہ، مقدام بن عدی، حضرت مقدام بن معدیکرب کندی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے تو جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کرتے ہوئے سر کے مسح پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دونوں ہتھیلیوں کو سر کے اگلے حصہ پر رکھ کر ان کو پیچھے کی طرف لائے یہاں تک کہ گدی تک پہنچ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھوں کو واپس اسی جگہ لائے جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسح شروع کیا تھا اس حدیث کے ایک راوی محمود نے بیان کیا ہے کہ (ولید بن مسلم نے) لفظ اخبرنی کا اضافہ کر کے اخبرنی حریز نقل کیا ہے۔

 

محمود بن خالد، ہشام بن خالد، ولید، محمود بن خالد اور ہشام بن خالد سابقہ روایت کے مضمون کے نقل کرنے میں اتفاق کرتے ہوئے بیان کیا کہ ولید نے مذکورہ اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں کانوں کے ظاہر و باطن دونوں طرف کا مسح کیا اور ہشام نے یہ اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کان کے سوراخ میں انگلیوں کو داخل فرمایا۔

 

مومل بن فضل، ولید بن مسلم، مغیرہ بن فروہ، یزید بن ابو مالک، معاویہ، ابو الازہر المغیرہ بن فروہ رضی اللہ عنہ، یزید بن ابی مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو دکھانے کے لیے وضو کیا جیسا کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کرتے دیکھا تھا جب سر کے مسح تک پہنچے تو بائیں ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر سر کے درمیانی حصہ پر ڈالا یہاں تک کہ پانی بہنے لگا یا بہنے کے قریب ہو گیا پھر مسح کیا آگے سے پیچھے کی طرف اور پیچھے سے آگے کی طرف۔

 

محمود بن خالد، حضرت ولید بن مسلم رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ روایت ہے کہ (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے) وضو کیا تین تین مرتبہ (یعنی تمام اعضاء تین بار) اور دونوں پاؤں دھوئے اور راوی نے عدد ذکر نہیں کیا

 

مسدد، بشر بن مفضل، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لاتے تھے ربیع نے واقعہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وضو کے لیے پانی لاؤ ربیع نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کا طریقہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ ہاتھ پہنچے تک اور تین مرتبہ منہ دھویا اور ایک مرتبہ کلی کی اور ایک مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ دونوں ہاتھ دھوئے اور دو بار سر کا مسح کیا اس طرح کہ پہلے پیچھے سے شروع کیا اور پھر آگے سے پھر دونوں کانوں کا مسح کیا اندر اور باہر اور تین مرتبہ دونوں پاؤں دھوئے ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسدد کی روایت کے معنی یعنی مضمون و مطلب یہی ہے غالباً مسدد کے بیان کردہ الفاظ یاد نہیں رہے۔

 

اسحاق بن اسماعیل، سفیان، حضرت ابن عقیل سے بھی یہ روایت مذکور ہے جس میں بشر کی حدیث سے بعض جگہ اختلاف ہے اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں ڈالا۔

 

قتیبہ بن سعید، یزید بن خالد، لیث ابن عجلان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے سامنے وضو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورے سر کا مسح کیا اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر کا مسح اوپر سے شروع کرتے اور بالوں کی روش پر سر کے ہر حصہ تک ہاتھ لے جاتے لیکن بالوں کو اپنی جگہ سے حرکت نہ دیتے۔

 

قتیبہ بن سعید، بکر ابن مضر، ابن عجلان، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسح کیا سر پر آگے اور پیچھے اور کنپٹیوں پر اور کانوں پر ایک مرتبہ۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، سفیان بن سعید، ابن عقیل، حضرت ربیع سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سر پر اس تری سے مسح کیا جو ان کے ہاتھ میں بچی رہ گئی تھی۔

 

ابراہیم بن سعید، وکیع، حسن بن صالح، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور اپنی انگلیوں کو کان کے سوراخ میں ڈالا۔

 

محمد بن عیسیٰ، مسدد، عبد الوارث، لیث طلحہ بن مصرف، حضرت طلحہ کے دادا کعب بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ سر کا مسح کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گردن کے سرے تک پہنچ جاتے تھے۔ مسدد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر کا مسح کیا آگے سے پیچھے تک یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے نیچے سے نکالا۔ مسدد نے کہا ہے کہ میں نے یہ حدیث یحیٰ سے بیان کی انہوں نے اسے منکر کہا ابو داؤد کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا وہ فرماتے تھے کہ علماء کا خیال ہے کہ ابن عیینہ اس حدیث سے انکار کرتے ہیں اور وہ کہتے تھے کہ یہ طریق سند یعنی طلحہ عن ابیہ عن جدہ کیا چیز ہوتی ہے؟ یعنی اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، عباد بن منصور، عکرمہ، بن خالد، سعید بن جبیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے (ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) حدیث ذکر کی اور اس میں تمام اعضائے وضو کو تین تین مرتبہ دھونا ذکر کیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر اور کانوں کا ایک ہی مسح کیا تھا۔

 

 

 

 

نماز کا بیان

 

                   نماز کے لیے تکبیر کہی جا چکے اور امام نہ آئے تو بیٹھ کر امام کا انتظار کریں کھڑے نہ رہیں

 

عبد اللہ بن اسحاق ، ابو عاصم، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، حضرت ابو النضر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب تکبیر ہو جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دیکھتے کہ مسجد میں لوگ کم ہیں تو بیٹھ جاتے اور نماز شروع نہ فرماتے اور جب دیکھتے کہ جماعت پوری ہو گئی تب نماز شروع فرماتے۔

 

عبد اللہ بن اسحاق ، ابو عاصم ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، نافع، ابن جبیر، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کے مثل روایت ہے۔

 

                   ترک جماعت پر وعید

 

احمد بن یونس، زئدہ، سائب بن حبیش، معدان بن ابی طلحہ، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور پھر بھی وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے پس تم جماعت کو لازم کر لو کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو گلے سے الگ ہو زائدہ کہتے ہیں کہ سائب نے کہا جماعت سے مراد نماز با جماعت ہے۔

 

                   ترک جماعت پر وعید

 

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ارادہ کیا تھا کہ قیام نماز کا حکم دے کر اپنی جگہ کسی اور شخص کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور اپنے ساتھ کچھ لوگ لے جاؤ جن کے ساتھ لکڑیوں کے گٹھڑ ہوں اور جا کر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔

 

نفیلی، ابو ملیح، یزید بن یزید، یز ید بن اصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنے نوجوانوں کو لکڑیوں کے گٹھے جمع کرنے کا حکم دوں اور پھر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا عذر اپنے گھروں میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔ (یزید بن یزید کہتے ہیں کہ) میں نے یزید بن اصم سے پوچھا کہ اے ابو عوف جماعت سے نماز جمعہ مراد ہے یا عام جماعت کہا میرے کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے نہ سنا ہو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کرتے تھے لیکن انہوں نے نہ جمعہ کا تذکرہ کیا نہ کوئی اور نماز کا ۔

 

ہارون بن عباد، وکیع، مسعودی، علی بن اقمر، احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا پانچوں نمازوں کی پابندی کرو جب ان کے لیے بلایا جائے (یعنی اذان دی جائے) کیونکہ یہ سنن ہدیٰ ہیں اور اللہ تعالی نے ان نمازوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے سنن ہدیٰ بنایا ہے اور ہم نے دیکھا کہ جماعت کی نماز میں صرف وہی لوگ نہ آتے تھے جن کا نفاق کھلا ہوا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ کسی کو تو دو دو آدمی سہارا دے کر لاتے تھے اور اس کو صف میں کھڑا کرتے تھے تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ نہ ہو لیکن اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے اور مسجدوں کو چھوڑ دو گے تو تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کو چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کو چھوڑ دو گے تو کفر کا کام کرو گے۔

 

قتیبہ، جریر، ابو جناب، عدی بن ثابت، سعید، بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی شخص اذان کی آواز سنے اور نماز کے لیے نہ جائے باوجود اس کے کہ کوئی عذر (خوف یا بیماری) بھی نہ ہو تو اس کی تنہا پڑھی ہوئی نماز قبول نہ ہو گی۔

 

سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عاصم بن بہدلہ، ابو رزین، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نابینا ہوں اور میرا گھر دور ہے اور جو مجھ کو لے کر آتا ہے وہ میرا تابع نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تو اذان کی آواز سنتا ہے؟ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہا ہاں (میں اذان کی آواز سنتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تب میں تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتا۔

 

ہارون بن زید، ابی زرقا، سفیان، عبد الرحمن بن عابس، عبد الرحمن بن ابی لیلی، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں زہریلے کیڑے اور درندے بہت ہیں (تو کیا میرے لیے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، تو حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ، حَیَّ عَلَی الفَلَاح کی آواز سنتا ہے تو ضرور آ۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو سفیان سے قاسم جرمی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے

 

                   نماز با جماعت کی فضیلت

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، عبد اللہ بن ابی نصیر، ابی بن کعب، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ایک دن فجر کی نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فلاں شخص حاضر ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کہ فلاں شخص موجود ہے؟ لوگوں نے کہا نہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دو نمازیں (عشاء فجر) منافقین پر بہت بھاری ہوتی ہیں اگر تم جان لیتے کہ (خاص طور پر) ان دو نمازوں کا کتنا ثواب ہے تو تم گھٹنوں کے بل چل کر بھی آتے اور صف اول (قربت و ثواب میں) فرشتوں کی صف کی طرح ہے اور اگر تم جان لیتے کہ (صف اول کی شرکت کی) کتنی فضیلت ہے تو یقیناً تم اس کی طرف سبقت کرتے اور دو آدمیوں کا مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل ہے اور تین آدمیوں کا مل کر نماز پڑھنا دو آدمیوں کے مل کر نماز پڑھنے سے افضل ہے اور نماز میں جس قدر بھی لوگ ہوں گے اللہ کے نزدیک وہ نماز اتنی ہی پسندیدہ ہو گی۔

 

احمد بن حنبل، اسحاق بن یوسف، سفیان، ابی سہل، عثمان بن حکیم، عبد الرحمن بن ابی عمرہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص عشاء کی نماز جماعت سے ادا کرے گا گویا اس نے آدھی رات تک عبادت کی اور جو شخص عشاء و فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے گا تو گویا اس نے تمام رات عبادت میں گذاری۔

 

                   نماز کے لیے پیدل جانے کی فضیلت

 

مسدد، یحییٰ، ابن ابی ذئب، عبد الرحمن بن مہران، عبد الرحمن بن سعد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی مسجد میں جتنا دور سے آتا ہے (تو آنے جانے میں قدم اٹھاتا ہے اسی قدر ثواب ملتا ہے)۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، سلیمان، ابو عثمان، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میری نظر میں مدینہ کے لوگوں میں نمازیوں میں سے کسی کا مکان مسجد سے اتنا دور نہ تھا جتنا کہ ایک شخص کا تھا مگر اس کی جماعت ناغہ نہ ہوتی تھی میں نے اس سے کہا کہ اگر تم ایک گدھا خرید لو جس پر گرمی کی شدت اور تاریکی کی بنا پر تم سوار ہو کر مسجد آ سکو تو بہتر ہو گا اس نے کہا مجھے یہ پسند نہیں کہ میرا گھر مسجد سے متصل ہو یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک بھی پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا تیرا اس قول سے کیا مقصد تھا؟ وہ بولا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری غرض اس سے یہ تھی کہ مجھے مسجد میں آنے اور جانے کا ثواب ملے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ نے تجھے وہ سب عطاء فرما دیا جو تو نے اس سے چاہا۔

 

ابو توبہ ہثیم بن عبد اللہ، یحیٰ بن حارث، قاسم ابی عبد الرحمن ابی امامہ، حضرت ابو عمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے فرض نماز کی نیت سے نکلے گا اس کو اس قدر ثواب ملے گا جتنا کہ احرام باندھ کر حج پر جانے کا ہوتا ہے اور جو شخص نفل نماز کی نیت سے نکلے گا صرف سی کا قصد کرتے ہوئے تو اس کو ایسا ثواب ملے گا جیسا کہ عمرہ کرنے والے کو ملتا ہے اور جو نماز ایک نماز کے بعد ہو اور درمیان میں کوئی لغو اور بیہودہ کام نہ ہو تو وہ نماز علیین میں لکھی جائے گی۔

 

مسدد، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کسی شخص کا جماعت سے نماز پڑھنا اس کا گھر پر یا بازار (دکان) میں تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ جب تم سے کوئی اچھی طرح وضو کرتا ہے اور محض نماز ہی کی خاطر مسجد میں جاتا ہے تو اس کے ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے اور جب وہ مسجد میں پہنچ گیا تو گویا وہ نماز ہی کی حالت میں ہے۔ جب تک کہ وہ مسجد میں نماز کے لیے رکا رہے اور جب تک وہ اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہتا ہے تب تک فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم فرما، اور اس کی توبہ قبول فرما، (اور دعا کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے) جب تک کہ وہ کسی کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے یا اس کو کوئی حدث لاحق نہ ہو۔

 

محمد بن عیسیٰ، ابو معاویہ، ہلال بن میمون، عطاء بن یزید، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جماعت کی نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے اور جب نماز جنگل میں پڑھی جائے اور رکوع و سجود اچھی طرح ادا کیے جائیں تو اس کا ثواب پچاس نمازوں کے برابر ہو گا ابو داؤد کہتے ہیں کہ عبد الواحد بن زیاد نے اس حدیث میں کہا ہے کہ جنگل میں آدمی کی نماز جماعت کی نماز سے ثواب میں دوچند زیادہ کی جاتی ہے پھر آخر تک حدیث بیان کی۔

 

                   اندھیری راتوں میں نماز کے لیے مسجد جانے کی فضیلت

 

یحیٰ بن معین، ابو عبیدہ، اسماعیل، ابو سلیمان، عبد اللہ بن اوس، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اندھیرے میں مسجد میں جانے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ قیامت کے دن ان کے لیے مکمل نور ہو گا۔

 

                   نماز کے لیے وقار و سکون کے ساتھ جانا چاہیے

 

محمد بن سلیمان، عبد الملک بن عمرو، داؤد، بن قیس، حضرت ابو ثمامہ حناط سے روایت ہے کہ کعب بن عجرہ ان کو مسجد جاتے ہوئے ملے ابو ثمامہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ کو انگلیاں چٹخاتے ہوئے دیکھا تو مجھے اس سے منع فرمایا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے ارادہ سے نکلے تو وہ اپنے ہاتھوں سے تشبیک نہ کرے (یعنی انگلیاں نہ چٹخائے) کیونکہ وہ گویا نماز ہی کی حالت میں ہے۔

 

محمد بن معاذ بن عباد، ابو عوانہ، یعلی بن عطاء، معبد بن ہرمز، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص جب مرنے لگا تو اس نے کہا کہ میں محض ثواب کی خاطر تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میں سے کوئی شخص اچھی طرح وضو کر کے نماز کے لیے نکلتا ہے تو داہنا قدم اٹھاتے ہی اللہ تعالی اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور بایاں قدم رکھتے ہی اس کا ایک گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ پس جو چاہے (مسجد سے) قریب رہے یا دور رہے۔ پس اگر وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کے (صغیرہ گنا ہ) معاف کر دئیے جاتے ہیں اور اگر وہ مسجد میں ایسے وقت میں آتا ہے جبکہ لوگ نماز کا کچھ حصہ پڑھ چکے تھے اور کچھ باقی رہ گئی تھی اور جتنی نماز ملتی ہے وہ ان کے ساتھ پڑھ لیتا ہے اور جو باقی رہ جاتی ہے وہ بعد میں پوری کر لیتا ہے تب بھی اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور اگر وہ مسجد میں ایسے وقت میں آیا جب نماز ختم ہو چکی تھی اور پھر (مسجد میں آ کر) اس نے نماز پڑھی تب بھی اس کی مغفرت کر دی جائے گی۔

 

                   آدمی نماز کے ارادہ سے مسجد کے لیے نکلا مگر جماعت ہو گئی تو بھی ثواب ملے گا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، عبد العزیز، ابن محمد، ابن طحلاء، محصن بن علی، عون بن حارث، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کر کے مسجد کے لیے نکلے اور جب وہاں پہنچے تو دیکھے کہ لوگ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں (یعنی جماعت ہو چکی ہے) تو اللہ تعالی اس کو بھی اتنا ہی ثواب دیں گے جتنا اس شخص کو ملا ہے۔ جس نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی ہو۔ اور جماعت سے نماز پڑھ چکنے والوں کے اجر میں بھی کچھ کمی نہ ہو گی۔

 

                   مسجد میں عورتوں کے جانے کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن عمر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو لیکن وہ اس بات کا خیال رکھیں کہ خوشبو لگا کر نہ جائیں۔

 

                   امامت کا مستحق کون ہے؟

 

مسدد، مسلمہ بن محمد، واحد، خالد، ابو قلابہ، حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے (یا ان کے کسی ساتھی سے) کہا کہ جب نماز کا وقت آئے تو اذان دو اور تکبیر کہو پھر تم دونوں میں سے امامت وہ کرے جو عمر میں بڑا ہو۔ سلمہ کی روایت میں ہے کہ اس زمانہ میں ہم دونوں علم میں برابر تھے (اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمر کی زیادتی کو وجہ ترجیح قرار دیا) اور اسماعیل کی حدیث میں یہ ہے کہ خالد کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے پوچھا کہ قرآن کہا گیا؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کے علم کو وجہ ترجیح قرار کیوں نہیں دیا؟) ابو قلابہ نے جواب دیا کہ وہ دونوں (قرآن جاننے میں) برابر تھے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، حسین بن عیسیٰ، حکم بن ابان، عکرمہ، حکم بن ابان، عکرمہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے اذان وہ دے جو تم میں سے بہتر (نیک و صالح) ہو اور امامت وہ کرے جو تم میں اچھا قاری ہو۔

 

                   عورتوں کی امامت کا مسئلہ

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، ولید بن عبد اللہ بن جمیع، عبد الرحمن بن خلاد، بنت عبد اللہ بن نوجل، حضرت ام ورقہ نوفل سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غزوۂ بدر میں تشریف لے گئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بھی اپنے ساتھ جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائیے وہاں میں بیماروں (زخمیوں) کی دیکھ بھال کروں گی۔ شاید اللہ تعالی مجھے بھی مرتبہ شہادت عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے ہی گھر میں رہو اللہ تعالی تمھیں شہادت کا مرتبہ عطا فرمائیں گے۔ راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ان کا نام ہی شہید ہو گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھی ہوئی تھیں اس لیے انھوں نے اپنے گھر میں ایک موذن مقرر کرنے کی اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک غلام اور ایک باندی کو مدبر کیا تھا (یعنی اپنے مرنے کے بعد آزادی کا وعدہ) ایک دن غلام اور باندی مل کر رات میں ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا اور بھاگ نکلے جب صبح ہوئی تو حضرت عمر نے فرمایا جس کو ان دونوں کا پتہ ہو یا جس نے ان کو کہیں دیکھا ہو وہ ان کو پکڑ لائے پس وہ لائے گئے اور ان کے لیے پھانسی کا حکم ہوا اور مدینہ میں پھانسی دیئے جانے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔

 

حسن بن حماد، محمد بن فضیل، ولید بن جمیع، عبد الرحمن بن خلاد، حضرت ام ورقہ بنت عبد اللہ بن حارث سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لیے ایک موذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے موذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے۔

 

                   مقتدیوں کی ناراضگی کی صورت میں امامت درست نہیں

 

قعنبی، عبد اللہ بن عمر بن غانم، عبد الرحمن بن زیاد، عمران بن عبد ، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی تین آدمیوں کی نماز قبول نہیں فرماتے ایک وہ شخص جو لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود ان کی امامت کرے اور دوسرے وہ شخص جو وقت نکلنے کے بعد نماز کے لیے آئے تیسرے وہ شخص جو کسی آزاد عورت کو غلام بنا لے۔

 

                   نابینا کی امامت کا بیان

 

محمد بن عبد الرحمن ابو عبد اللہ، ابن مہدی عمران، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر ابن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر کیا تھا وہ لوگوں کی امامت کرتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے۔

 

                   مہمان میزبان کی امامت نہ کرے

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، بدیل، ابو عطیہ سے روایت ہے کہ مالک بن حویرث ہماری نماز پڑھنے کی جگہ آتے تھے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب تکبیر ہوئی تو ہم نے ان سے کہا کہ آگے بڑھیے اور نماز پڑھائیے انہوں نے کہا اپنے میں سے کسی کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھاؤ اور میں تم سے ایک حدیث بیان کروں گا کہ میں نے تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھائی؟ فرمایا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص لوگوں سے ملنے کے لیے جائے وہ ان کی امامت نہ کرے بلکہ انہیں میں سے کوئی شخص امامت کرے۔

 

                   امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر نہ کھڑا ہو

 

احمد بن سنان، احمد بن فرات، ابو مسعود، یعلی، اعمش، ابراہیم، ہمام سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ نے مدائین میں ایک دکان پر کھڑے ہو کر امامت کی حضرت ابو مسعود نے ان کی قمیص پکڑ کر ان کو (نیچے) کھینچ لیا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ لوگوں کو اس بات سے منع کیا جاتا تھا؟ کہا ہاں جب تم نے مجھے کھینچا تو مجھے یاد آ گیا تھا۔

 

احمد بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، ابو خالد، حضرت عدی بن ثابت سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک شخص نے بیان کیا جو مدائین میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ جب نماز کھڑی ہوئی تو عمار آگے بڑھے اور ایک دکان پر کھڑے ہو کر نماز پڑھانے لگے اور لوگ (دوکان) سے نیچے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت حذیفہ آگے بڑھے اور ان کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے حضرت عمار نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا یہاں تک کہ حضرت حذیفہ نے ان کو (دوکان) سے نیچے اتار لیا جب حضرت عمار نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت حذیفہ نے ان سے کہا کہ کیا تم نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ جب کوئی شخص قوم کی امامت کرے تو وہ ان سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہی فرمایا تھا) اسی لیے میں آپ کے کہنے پر پیچھے ہٹ گیا تھا۔

 

                   نماز پڑھنے کے بعد پھر اسی نماز کی امامت کرنا

 

عبید اللہ بن عمر بن مسیرہ، یحیٰ بن سعید، محمد بن عجلان، عبید اللہ بن مقسم، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے تھے، اور پھر اپنے لوگوں میں آ کر وہی نماز پڑھاتے۔

 

مسدد، سفیان، عمرو بن دینار، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے پھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کرتے۔

 

                   امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کیا کریں؟

 

قعنبی، مالک، ابن شہاب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے پر سوار ہوئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے سے گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی داہنی کروٹ چھل گئی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا۔ امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو جب وہ سر اٹھائے تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سَمِعَ اللہٗ لِمَن حَمِدَہ کہے تو تم، ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی سب بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، وکیع، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مر تبہ) مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے پر سوار ہوئے اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک درخت کی جڑ میں گرا دیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں میں چوٹ آ گئی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کی غرض سے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں تشریف فرما ہیں اور بیٹھے بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں پس ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو (اپنے پیچھے کھڑے ہونے سے) منع نہیں فرمایا جب ہم دوسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرض نماز بیٹھ کر پڑھائی ہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو (بیٹھنے کا) اشارہ کیا تو ہم بیٹھ گئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور تم ایسا مت کرو جیسا کہ اہل فارس اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں (یعنی وہ بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ کھڑے رہتے ہیں۔

 

سلیمان بن حرب، مسلم بن ابراہیم، وہیب، مصعب، بن محمد ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب تک وہ تکبیر نہ کہے تم بھی نہ کہو جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب تک وہ رکوع نہ کرے تم بھی نہ کرو اور جب وہ سَمِعَ اللہٗ لِمَن حَمِدَہ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الحَمد کہو اور مسلم کی روایت میں وَلَکَ الحَمد ہے اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب تک وہ سجدہ نہ کرے تم بھی نہ کرو اور جب ہو (یعنی امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بیٹھ کر پڑھو ابو داؤد کہتے ہیں کہ (سلیمان بن حرب نے جب یہ حدیث بیان کی تو یہ کلمہ) اَللہ رَبَنا لَکَ الحَمد میں ان سے نہیں سمجھ سکا یہاں تک کہ مجھے میرے ان ساتھیوں نے سکھایا (جو میرے ساتھ سماع حدیث میں شریک تھے)۔

 

محمد بن آدم، ابو خالد، ابن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے پھر پوری حدیث بیان کی اور اتنا زیادہ کیا کہ جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ زیادتی یعنی اِذَا قَرَاءَ فَاَنصِتُوا محفوظ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ زیادتی ابو خالد کا وہم ہے۔

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھی اور باقی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بیٹھنے کا (بیٹھ کر نماز پڑھنے کا) اشارہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے لہذا جب وہ رکوع کرے تم بھی رکوع کرو اور جب وہ (رکوع سے سر) اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

قتیبہ بن سعید، یزید، بن خالد بن موہب، لیث، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ (بآواز بلند) تکبیر کہتے جاتے تھے تاکہ لوگ ان کی تکبیر سن لیں (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکبیر بیٹھے ہوئے اور بیماری کی بنا پر آہستہ ہو رہی تھی) پھر پوری حدیث بیان کی۔

 

عبدہ بن عبد اللہ، زید ابن حباب، محمد بن صالح، حصین، سعد بن معاذ، اسید بن حضیر سے روایت ہے کہ وہ امامت کرتے تھے (ایک مرتبہ بیمار ہو گئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیادت کے لیے تشریف لائے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارا امام بیمار ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ابو داؤد نے کہا کہ یہ حدیث متصل (الاسناد) نہیں ہے۔

 

                   جب دو آدمیوں میں سے ایک امامت کرے تو دوسرا کہاں کھڑا ہو

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب حضرت ام حرم کے پاس آئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھی اور کھجور پیش کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھجور کو اپنے برتن میں ڈال دو اور گھی اپنی مشک میں بھر لو کیونکہ میں روزے سے ہوں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی ام سلیم اور ام حرم بھی ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں۔ ثابت کہتے ہیں کہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے فرش پر اپنی داہنی جانب کھڑا کیا۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، عبد اللہ بن مختار، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی امامت کی جس میں ایک عورت بھی شامل تھی پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اپنی داہنی جانب کھڑا کیا تھا اور عورت کو اپنے پیچھے۔

 

مسدد، یحییٰ، عبد الملک، بن ابی سلیمان، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ کے پاس رہا پس رات میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھے اور مشک کا منہ کھول کر وضو کیا پھر اس کا منہ بند کر دیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے میں بھی اٹھا اور اٹھ کر اسی طرح وضو کیا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا پھر میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا داہنا پہلو پکڑا اور پیچھے سے گھما کر اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

 

عمرو بن عون، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اسی واقعہ میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا سر پکڑ کر (یا یہ کہا کہ) میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔

 

                   جب تین آدمی جماعت کریں تو کیسے کھڑے ہوں؟

 

قعنبی، مالک، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کی دادی ملیکہ نے کھانے پر بلایا جس کو خود انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے تیار کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانا کھا کر نماز پڑھی اور فرمایا کھڑی ہو جاؤ میں تم کو نماز پڑھاتا ہوں حضرت انس کہتے ہیں کہ میں اٹھا اور ایک پرانا بوریا جو پڑے پڑے کالا ہو گیا تھا اس پر پانی ڈالا (اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے بچھا دیا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر کھڑے ہوئے اور میں اور (میرا بھائی) یتیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑھیا (ملیکہ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں اور فارغ ہو گئے۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، ہارون بن عنترہ، عبد الرحمن بن اسود کے والد سے روایت ہے کہ علقمہ اور اسود نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے (اندر آنے کی) اجازت چاہی اور کافی دیر تک ان کے دروازہ پر بیٹھے رہے اتنے میں ایک باندی آئی اور اس نے (اطلاع دے کر) حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ان کے لیے اندر آنے کی اجازت طلب کی انہوں نے اجازت دے دی اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایسا ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

                   سلام پھیرنے کے بعد امام قبلہ سے رخ پھیر لے

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، یعلی، بن عطاء، جابر بن یزید بن اسود اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو (قبلہ کی طرف سے) پھر گئے۔

 

                   ظہر کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعت نفل پڑھنے کا بیان

 

مومل بن فضل، محمد بن شعیب، نعمان، مکحول، عنبسہ، ابو سفیان، حضرت ام حیبیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ہے جو شخص محافظت کرے ظہر سے پہلے چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی اس پر جہنم حرام ہو جائے گی امام ابو داؤد کے کہا کہ علاد بن حارث اور سلیمان بن موسیٰ نے مکحول سے ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔

 

ابن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، عبیدہ، ابراہیم، ابن منجاب، حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں پڑھی جائیں جن میں درمیان میں سلام نہ ہو تو اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ امام ابو داؤد نے کہا کہ ہم تک یحیٰ بن سعید قطان کا یہ قول پہنچا ہے کہ اگر میں عبیدہ سے کوئی حدیث بیان کرتا تو وہ یہی حدیث ہوتی مگر عبیدہ ضعیف ہے اور ابن منجاب کا نام سہم ہے۔

 

                   عصر سے پہلے نفل پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ابراہیم، ابو داؤد، محمد بن مہران، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

احمد بن صالح، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث بکیر بن اشج، کریب، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام کریب سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عباد رضی اللہ تعالی عنہ اور عبد الرحمٰن بن ازہر اور مسود بن محزمہ نے ان کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہماری طرف سے ان کو سلام کہنا اور ان سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کے بارے میں دریافت کرنا اور کہنا کہ ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ آپ یہ دو رکعت عصر کے بعد پڑھتی ہیں اور ہمیں یہ بات معلوم ہوئی تھی کے رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے اس سے عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھنے سے منع فرمایا تھا پس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان کو لوگوں کا پیغام پہنچایا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اور یہ مسئلہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت کرو اور وہ عبد اللہ بن عباس وغیرہ کے پاس گیا اور حضرت عائشہ کے جواب اور مشورہ سے ان کو مطلع کیا پس پس ان سب حضرات نے مجھ کو اس پیغام کے ساتھ جو میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لے گیا تھا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بھیجا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم سے سنا ہے آپ سے عصر کی نماز پڑھ میرے پاس تشریف لائے اس وقت انصار میں سے بنی حرام کی کئی عورتیں بیٹھی ہوئیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

                   جب سورج بلند ہو تو عصر پڑھنا درست ہے

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، منصور، ہلال بن یساف، وہب بن اجدع، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وقت عصر داخل ہونے کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ہے مگر جب سورج بلند ہو۔

 

محمد بن کثیر، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے سوائے فجر اور عصر کے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ ابو عالیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میرے پاس کئی معتبر اور پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور معتبر شخص حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز فجر کے بعد کوئی نماز نہیں ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اسی طرح عصر کی نماز کے بعد جب سورج غروب ہو جائے۔

 

ربیع بن نافع، محمد بن مہاجر، عباس بن سالم، حضرت عمر بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے کس حصہ میں دعا جلد قبول ہوتی ہے؟ فرمایا رات کے آخیر حصہ میں دعا جلد قبول ہوتی ہے اس وقت تو جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس کا اجر لکھتے جاتے ہیں فجر کی نماز تک اس کے بعد ٹھہرجا یہاں تک کے سورج نکل آئے اور ایک یا دو نیزہ کے برابر ہو جائے ٹھہرنے کا حکم اس لیے ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اور اس وقت کافر اس کی پوجا کرتے ہیں اس کے بعد جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اس کا اجر لکھتے ہیں جاتے ہیں یہاں تک کہ نیزہ کا سایہ اس کے برابر ہو جائے پھر ٹھہر جا کیونکہ اس وقت جہنم جوش مارتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ۔ پس جب سورج ڈھل جائے پھر جتنی چاہے نماز پڑھ کیونکہ اس میں بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور عصر کی نماز تک رہتے ہیں پھر ٹھہر جا سورج غروب ہونے تک کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان میں غروب ہوتا ہے اس وقت کافر اس کی پوجا کرتے ہیں راوی کہتے ہیں میرے شیخ نے ایک طویل حدیث بیان کی تھی میں نے اختصار سے کام لیا ہے ابی اسامہ نے بھی ایسی ہی حدیث بیان کی ہے الا یہ کہ غیر ارادی طور پر کوئی چوک مجھ سے ہو گئی ہو پس میں اللہ سے اس کی معافی چاہتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

 

مسلم بن ابراہیم، وہیب، قدامہ بن موسی، ایوب بن حصین، ابو علقمہ، یسار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام یسار سے روایت ہے کے طلوع فجر کے بعد مجھ کو ابن عمر رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا اے یسار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم آپ نے فرمایا جو لوگ تم میں حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو خبر دیں جو یہاں موجود نہیں کہ طلوع فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھیں سوائے دو رکعت سنت کے۔

 

حفص بن عمر، شعبہ، ابو اسحاق ، اسود، مسروق، حضرت اسود اور حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے ہوں۔

 

عبید اللہ بن سعد، ابن اسحاق ، محمد بن عمرو، بن عطاء، ذکوان، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز کے بعد پڑھتے تھے لیکن دوسروں کو منع فرماتے تھے اور خود آپ پے درپے روزے رکھتے تھے مگر اوروں کو اس سے روکتے تھے۔

 

                   مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان

 

عبید اللہ بن عمر، عبد الوارث بن سعید، حسین، حضرت عبد اللہ بن مزنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا ہے مغرب کی اول دو رکعتیں پڑھو پھر فرمایا جس کا دل چاہے وہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھے اس خوف سے کہیں لوگ اس کو سنت نہ سمجھ لیں

 

محمد بن عبد الرحیم، بزار، سعید بن سلیمان، منصور بن ابو اسود، مختار بن فلفل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے زمانہ میں مختار بن فلفل نے کہا میں نے حضرت انس سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے تم کو یہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا انہوں نے کہا ہاں نہ ہم کو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا۔

 

عبد اللہ بن محمد، ابن علیہ، جریری، عبد اللہ بن بریدہ، عبد اللہ بن مغفل، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا دو اذانوں یعنی اذان اور اقامت) کے درمیان جس کا جی چاہے نماز پڑھے۔

 

ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، حضرت طاؤس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے حضرت عبد اللہ بن عمر کے متعلق سوال کیا انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں کسی کو یہ نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا البتہ انہوں نے عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی رخصت دی ابو داؤد کہتے ہیں میں نے یحیٰ بن معین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ شعبہ کو نام ذکر کر نے میں وہم ہوا ہے اصل نام شعیب ہے نہ کہ ابو شعیب۔

 

                   چاشت کی نماز

 

احمد بن منیع، عباد، مسدد، حماد بن زید، واصل، یحیٰ بن عقیل، یحیٰ بن یعمر، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب صبح ہوتی ہے تو آدمی کے ایک ایک پور پر صدقہ لازم ہے کسی سے مل کر سلام کرنا ایک صدقہ ہے اچھی بات کی تلقین کرنا ایک صدقہ ہے بری بات سے روکنا ایک صدقہ ہے راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا ایک صدقہ ہے اپنی بیوی سے جماع کرنا ایک صدقہ ہے اور ان سب کی طرف سے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہو جاتی ہیں اور عباد کی حدیث اتم ہے اور مسدد نے امر و نہی کو ذکر نہیں کیا اور اپنی حدیث میں زیادہ کیا ہے حماد نے کہا کے کذا و کذا اور ابن تبیع نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو اس کو صدقہ کا ثواب کیونکر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ حرام جگہ سے اپنی شہوت پوری کرتا ہے کیا یہ گناہ گار نہیں ہوتا۔

 

وہب بن بقیہ، خالد بن واصل، یحیٰ بن عقیل، حضرت ابو الاسود ویلمی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت ابو ذر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں کہا جب صبح ہوتی ہے تو تم میں سے ہر شخص کے ایک ایک پور پر صدقہ لازم ہوتا ہے (بطور شکرانہ صحت و تندرستی) پھر اس کے لیے ہر نماز کا ایک صدقہ ہے اور ہر تسبیح ایک صدقہ ہے اور ہر تکبیر کا ایک صدقہ ہے ہر تحمید کا صدقہ ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نیک اعمال کو بیان کر کے فرمایا ان سب سے ایک چیز کافی ہے وہ چاشت کی دو رکعتیں

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، یحیٰ بن ایوب، زبان بن فائد، حضرت معاذ بن انس جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے جو شخص فجر کی نماز سے فارغ ہو اسی جگہ بیٹھا رہے اور چاشت کی دو رکعت ادا کرے اور اس درمیانی وقفہ میں گفتگو نہ کرے سوائے اچھی گفتگو کے تو اس کے گناہ بخش دئیے جائیں اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے بھی زیادہ ہوں۔

 

ابو توبہ، ربیع بن نافع، ہیثم بن حمید یحیٰ بن حارث، قاسم ابو عبد الرحمن، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس شان سے پڑھنا کہ درمیان میں کوئی لغو بات اور بے ہودہ کام نہ ہو ایسا کام ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے علیین فرشتوں کے اس رجسٹر کا نام ہے جس میں لوگوں کے نیک اعمال درج کیے جاتے ہیں۔

 

داؤد بن رشید، ولید، سعید بن عبد العزیز، مکحول، کثیر بن مرہ، حضرت نعیم بن ہمار سے روایت ہے کہ میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے ابن آدم دن کے آغاز پر چار رکعتیں قضا مت کر میں تیرے لیے دن کے اختتام تک کافی ہوں گا۔

 

                   صفیں برابر کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، بن زکریا، بن ابی زائدہ، ابو قاسم، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تین مرتبہ فرمایا تم اپنی صفوں کو برابر کر لو۔ یا تو اپنی صفوں کو برابر کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا۔ نعمان کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) میں نے دیکھا کہ ایک شخص دوسرے شخص کے کندھے سے کندھا۔ گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو جاتا تھا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، سماک بن حرب، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو صفوں میں اس طرح برابر کرتے تھے جس طرح تیر کی لکڑی برابر کی جاتی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گمان ہو گیا کہ ہم یہ بات سیکھ گئے ہیں اور سمجھ گئے ہیں ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ہماری طرف) متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص اپنا سینہ آگے کو نکالے ہوئے ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی صفوں کو برابر کر لو ورنہ اللہ تعالی تمہارے درمیان پھوٹ ڈال سے گا۔

 

ہناد بن سری، ابو عاصم بن جواس، ابو احوص، منصور، طلحہ، عبد الرحمن بن عوسجہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صف کے اندر آتے تھے اور ہمارے سینوں اور مونڈھوں کو برابر کرتے تھے اور فرماتے تھے آگے پیچھے مت ہو ورنہ تمھارے دل بھی (ایک دوسرے سے) جڑے نہ رہیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ پہلی صف والوں پر اللہ تعالی اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

 

عبید اللہ بن معاذ، خالد بن حارث، حاتم، ابن ابی صغیرہ، سماک، حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری صفوں کو برابر کرتے جب صفیں برابر ہو جاتیں تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر کہتے (یعنی نماز شروع فرماتے)۔

 

عیسی بن ابراہیم، ابن وہب، قتیبہ بن سعید، لیث ابن وہب، معاویہ بن صالح، ابو زاہریہ، کثیر بن مرہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (قتیبہ کی روایت یوں ہے عن ابی الزاھریہ، عن ابی الشجرہ اس میں عبد اللہ بن عمر کا ذکر نہیں ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اپنی صفوں کو قائم کرو، مونڈھوں کو برابر کرو اور ان جگہوں کو بند کرو جو خالی رہ جائیں اور اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ(عیسی بن ابراہیم نے، بِأَیْدِی إِخْوَانِکُمْ کے الفاظ ذکر نہیں کیے) اور شیطان کے واسطے صفوں میں جگہ نہ چھوڑو جو شخص صف کو ملائے گا اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے ملائے گا اور جو شخص صف کو کاٹے گا اللہ تعالی اس کو اپنی رحمت سے کاٹ دے گا (یعنی محروم کر دے گا) ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابو شجرہ راوی، کثیر بن مرہ ہے۔

 

مسلم بن ابراہیم، ابان، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صفوں میں خوب مل کر کھڑے ہو۔ اور ایک صف دوسری صف کے نزدیک رکھو (یعنی درمیان میں زیادہ فاصلہ نہ ہو) اور گردنوں کو بھی برابر رکھو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں شیطان کو صف میں خالی جگہ سے یوں گھستے ہوئے دیکھتا ہوں گو یا وہ بکری کا بچہ ہے۔

 

ابو ولید، سلیمان بن حرب، شعبہ، قتادہ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنی صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا تکمیل نماز ہی کا ایک حصہ ہے۔

 

قتیبہ، حاتم بن اسماعیل، مصعب بن ثابت بن عبد اللہ بن زبیر، محمد بن مسلم بن سائب سے روایت ہے کہ میں نے ایک روز حضرت انس بن مالک کے برابر کھڑے ہو کر نماز پڑھی انھوں نے پوچھا کہ تمھیں پتہ ہے کہ میں نے یہ لکڑی کیوں رکھی ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا ہاتھ اس لکڑی پر رکھتے تھے اور فرماتے تھے برابر ہو جاؤ اور صفوں کو سیدھا کرو۔

 

مسدد، حمید بن اسود، مصعب بن ثابت، محمد بن مسلم، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث (ایک دوسری سند سے) مروی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس لکڑی کو داہنے ہاتھ میں لے کر التفات کرتے ہوئے فرماتے سیدھے ہو جاؤ اور صفوں کو برابر کرو پھر (اس لکڑی کو) بائیں ہاتھ میں لیتے اور فرماتے سیدھے ہو جاؤ اور صفوں کو درست کرو۔

 

محمد بن سلیمان، عبد الوہاب، ابن عطاء سعید، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پہلے اگلی صف کو پورا کرو پھر اس کو جو اس کے بعد ہو تاکہ اگر (صف پوری ہونے میں) کوئی کسر رہ جائے تو وہ آخری صف میں ہو۔

 

ابن بشار، ابو عاصم، جعفر بن یحیٰ بن ثوبان، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جن کے مونڈھے نماز میں نرم رہتے ہیں۔

 

                   ستونوں کے بیچ میں صف قائم کرنا

 

محمد بن بشار، عبد الرحمن، سفیان، یحیٰ بن ہانی، حضرت عبد الحمید بن محمود سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی (ہجوم کے سبب) ہم ستونوں کے بیچ ڈال دیے گئے اور ہم آگے پیچھے ہو گئے حضرت نے فرمایا کہ ہم لوگ عہد رسالت میں اس سے بچتے تھے۔

 

                   امام سے قریب رہنا باعث ثواب ہے اور اس سے دور رہنا نا پسندیدہ ہے

 

ابن کثیر، سفیان اعمش، عمارہ، بن عمیر، ابو معمر، حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے قریب وہ لوگ رہیں جو بالغ اور با شعور ہیں پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اور پھر وہ جو ان سے قریب ہیں۔

 

مسدد، یزید بن زریع، خالد، ابو معشر، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اسی کی مثل روایت ہے اس میں اتنا اضافہ ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) اختلاف نہ کرو (یعنی آگے پیچھے مت ہو) ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف واقع ہو جائے گا اور (مسجدوں میں) بازار کی طرح شور و شغب سے پرہیز کرو (اگر ضرورت ہو تو آہستگی سے گفتگو کرو)

 

عثمان بن ابی شیبہ، معاویہ، بن ہشام، سفیان، اسامہ بن زید، عثمان بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی صف اول میں داہنی جانب کھڑے ہونے والوں پر رحمت فرماتے ہیں اور فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

 

                   صف میں بچے کہاں کھڑے ہوں

 

عیسی بن شاذان، عیاش، عبد الاعلی، قرہ بن خالد، بدیل، شہر بن حوشب، حضرت عبد الرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضرت ابو مالک اشعری نے کہا کہ کیا میں تم کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کا طریقہ نہ بتاؤں؟ پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے پہلے مردوں کی صف بنائی، پھر ان کے پیچھے نابالغ لڑکوں کی تب آپ نے نماز پڑھائی۔ ابو مالک نے آپ کی نماز کا تذکرہ کر کے کہا کہ آپ نے فرمایا نماز اس طرح ہوتی ہے، عبد الاعلی نے کہا میرا خیال ہے آپ نے یہ فرمایا کہ میری امت کی نماز یہی ہے۔

 

                   عورتوں کی صف

 

محمد بن صباح بزار، خالد اسماعیل، بن سہیل، بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردوں کے لیے سب سے بہتر صف پہلی صف ہے اور سب سے بری صف ان کی صف آخری صف ہے (کیونکہ وہ عورتوں کی صف سے متصل ہوتی ہے) اور عورتوں کے لئے بہتر صف ان کی آخری صف ہے اور بری صف ان کی پہلی صف ہے (کیونکہ وہ مردوں کے قریب ہے)

 

یحیٰ بن معین، عبد الرزاق، عکرمہ، بن عمار، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ پہلی صف سے دور ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالی ان کو جہنم میں بھی سب سے پچھلے (درجہ میں) ڈالے گا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، محمد بن عبد اللہ ابو اشہب، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کو پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے دیکھا تو فرمایا آگے آؤ اور میری پیروی کرو اور جو لوگ تمہارے پیچھے ہیں وہ تمہاری پیروی کریں (اور ایک وقت آئے گا جب لوگ) پیچھے رہنا پسند کریں گے تو اللہ تعالی بھی ان کو پیچھے ڈال دے گا۔

 

                   امام صف کے آگے کہاں کھڑا ہو؟

 

جعفر بن مسافر، ابن ابی فدیک، یحیٰ بن بشیر بن خلاد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امام کو درمیان میں کھڑا کرو اور خالی جگہوں کو پورا کرو۔

 

                   صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنا

 

سلیمان بن حرب، حفص بن عمر، شعبہ، عمرو بن مرہ، ہلال بن یساف، حضرت وابصہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھتے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نماز دہرانے کا حکم فرمایا۔

 

                   امام کو رکوع میں جاتے ہوئے دیکھ کر صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کرنا

 

حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، سعید بن ابی عروبہ، زیاد، حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکرہ مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہوئے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں تھے تو انہوں نے صف سے پہلے ہی رکوع کر لیا پھر (اسی حالت میں) صف کی طرف چلے جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا تم میں سے کس نے صف میں داخل ہونے سے پہلے رکوع کیا تھا اور پھر چل کر صف میں شامل ہوا تھا؟ اس پر ابو بکر نے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی تمہیں عبادت کے معاملہ میں مزید حرص عطا فرمائے مگر آئندہ ایسا نہ کرنا۔

 

                   سجدہ میں کن اعضاء کو زمین سے لگانا چاہیے

 

احمد بن حنبل، اسماعیل، ابن ابراہیم، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے اس طرح دونوں ہاتھ بھی سجدہ کرتا ہیں لہٰذا تم میں سے کوئی جب اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو دونوں ہاتھ بھی رکھ اور جب چہرہ اٹھائے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھا لے۔

 

                   ناک اور پیشانی پر سجدہ کرنے کا بیان

 

ابن مثنی، صفوان، بن عیسیٰ، معمر، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھانے کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی اور ناک پر مٹی کا نشان ہوتا تھا۔

 

محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، حضرت معمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔

 

                   سجدہ کا طریقہ

 

ربیع بن نافع، ابو توبہ، شریک، ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہم کو سجدہ کا طریقہ بتایا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر رکھا، گھٹنوں پر سہارا لگایا اور سرین کو بلند کیا اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح سجدہ کیا کرتے تھے

 

مسلم بن ابراہیم، شعبہ، قتادہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سجدہ میں اعتدال کرو (سجدہ اطمینان سے کرو) اور تم میں سے کوئی (اپنے ) ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے۔

 

قتیبہ بن سفیان، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو (پہلوؤں سے) اتنا جدا رکھتے تھے کہ اگر بکری کا بچہ ہاتھوں کے نیچے سے گزرنا چاہے تو گزر سکے۔

 

عبد اللہ بن محمد، زہیر، ابو اسحاق ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بغلوں کی سفیدی کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں بازوؤں کو پسلیوں سے جدا کیے ہوئے تھے۔

 

مسلم بن ابراہیم، عباد، بن راشد، حسن احمد بن جزء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سجدہ کرتے تو بازوؤں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم کو (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تکلیف و مشقت پر) رحم آنے لگتا تھا۔

عبدالملک بن شعیب بن لیث، ابن وہب، لیث دراج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اپنے ہاتھ کتے کی طرح نہ بچھائے اور دونوں کو ملا کر رکھے۔

 

                   سجدہ میں کہنیوں کو زمین پر لگانے کی اجازت

 

قتیبہ بن سعید، لیث، ابن عجلان، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شکایت کی کہ جب ہم پھیل کر اور کھل کر سجدہ کرتے ہیں ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہنیوں سے مدد حاصل کرو (یعنی اپنا وزن کہنیوں پر ڈال دو)

 

                   نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنا

 

ہناد، سری، وکیع، سعید بن زیاد بن صبیح سے روایت ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے اپنا ہاتھ کمر پر رکھ لیا۔ جب نماز ہو چکی تو فرمایا یہ تو نماز میں صلب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔

 

                   نماز میں رونے کا بیان

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، یزید، ابن ہارون، حماد، ابن سلمہ، ثابت، حضرت مطرف کے والد (عبد اللہ بن الشخیر) سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ رونے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سینہ سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسے چکی چلنے کی آواز ہوتی ہے۔

 

                   نماز میں وساوس اور خیالات آنے کی کراہت

 

احمد بن حنبل، عبد الملک بن عمرو، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے خوب اچھی طرح وضو کیا اور دو رکعتیں اس طرح حضورِ قلب کے ساتھ پڑھیں کہ ان میں کہیں بھول نہ ہوئی تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔

 

عثمان بن ابی شیبہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ربیعہ بن یزید، ابو ادریس، حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اچھی طرح وضو کرے اور پھر دو رکعتیں حضورِ قلب اور پوری توجہ کے ساتھ پڑھے اور اس کے واسطے جنت واجب نہ ہو جائے۔

 

                   امام لقمہ دینے کا بیان

 

محمد بن علاء، سلیمان بن عبد الرحمن، مروان بن معاویہ، یحییٰ، حضرت مسور بن یزید مالکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھنے میں چند آیات چھوڑ دیں پس (نماز کے بعد) ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ نے فلاں فلاں آیات چھوڑ دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو نے مجھے وہ آیات یاد کیوں نہ دلا دیں۔ سلیمان نے اپنی حدیث میں اس شخص کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ میں سمجھا یہ آیات منسوخ ہو گئی ہیں۔

 

یزید بن محمد دمشقی، ہشام بن اسماعیل، محمد بن شعیب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں قرأت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھتے بھول گئے جب نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب سے دریافت فرمایا کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی تھی؟ انھوں نے کہا ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تب پھر تم نے بتایا کیوں نہیں۔

 

                   امام کو بتانے کی ممانعت

 

عبدالوہاب، بن نجدہ، محمد بن یوسف، یونس، بن ابی اسحاق ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ! امام کو نماز میں (اس کی غلطی) نہ بتا۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ ابو اسحاق نے حارث سے صرف چار حدیثیں سنی ہیں اور یہ حدیث ان میں سے نہیں ہے (یعنی یہ حدیث منقطع ہے اور ناقابلِ استدلال ہے۔ )

 

                   نماز میں اِدھر ادھر دیکھنا

 

احمد بن صالح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو الاحوص، سعیدبن مسیب، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب بندہ نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف مسلسل متوجہ رہتا ہے جب تک تو اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتا ہے۔

 

مسدد، ابو احوص، اشعث، بن سلیم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حالت نماز میں اِدھر ادھر دیکھنے کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بندہ کہ نماز میں سے شیطان کا اچک لے جاتا ہے۔

 

                   ناک پر سجدہ کرنے کا بیان

 

مومل بن فضل، عیسیٰ بن معمر، یحیٰ بن ابی کثیر، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی اور ناک پر مٹی کا نشان دیکھا گیا۔ ابو علی نے کہا ہے ابو داؤد نے جب چوتھی مرتبہ یہ کتاب پڑھی تو اس حدیث کو نہیں پڑھا۔

 

                   نماز میں کسی طرف دیکھنا

 

مسدد، ابو معاویہ، عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے۔ دیکھا کہ لوگ حالتِ نماز میں اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کر رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو لوگ اپنی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں چاہیے کہ وہ اس سے باز آ جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی بینائی جاتی رہے۔

 

مسدد، یحییٰ، سعید، ابو عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سختی سے فرمایا اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نگاہیں اچک لی جائیں گی۔

 

 

 

 

مناسک حج کا بیان

 

                   قران کر نے والے کا طواف

 

ابن حنبل، یحییٰ، ابن جریج، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے صفا و مروہ کے درمیان ایک ہی مرتبہ سعی کی ہے یعنی پہلی مرتبہ۔

 

قتیبہ، مالک، انس، ابن شہاب، عروہ، حضرت عائشہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب نے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے طواف نہیں کیا جب تک کہ جمرہ عقبہ کی رمی نہ کر لی

 

ربیع بن سلیمان، شافعی، ابن عیینہ، ابن ابی نجیح، عطاء، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا تیرا خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو سفیان نے کبھی تو حضرت عائشہ سے بو اسطہ عطاء موصولاً نقل کیا ہے اور کبھی عطاء سے مرسلاً روایت کیا ہے

 

                   ملتزم کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر بن عبد الحمید، یزید بن ابی زیاد، مجاہد، حضرت عبد الرحمن بن صفوان سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب مکہ فتح کیا تو میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ آج میں ضرور (نئے) کپڑے پہنوں گا اور دیکھوں گا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کیا کرتے ہیں اور میرا گھر راستہ میں تھا پس میں گیا تو میں نے دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب بھی تھے پس سب لوگ خانہ کعبہ کے دروازہ سے لے کر حطیم تک کے حصہ سے چمٹ گئے اور اپنے رخسار کعبہ سے لگا دیئے اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے درمیان میں تھے۔

 

مسدد، عیسیٰ بن یونس، مثنی، ابن صباح، عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ (بن عمر) کے ساتھ طواف کیا جب ہم کعبہ کے پیچھے آئے تو میں نے عبد اللہ بن عمر سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ سے پناہ طلب نہیں کر تے؟ انھوں نے کہا ہم اللہ سے جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ پھر وہ گئے اور جا کر حجر اسود کو چوما اور خانہ کعبہ اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہو کر اپنا سینہ، چہرہ، دونوں ہاتھ اور ہتھیلیاں اس طرح رکھیں اور ان کو پھیلایا پھر فرمایا میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے

 

عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، یحیٰ بن سعید، سائب بن عمر، حضرت عبد اللہ بن سائب سے روایت ہے کہ وہ عبد اللہ بن عباس کو کھینچا کرتے تھے (جب کی وہ نابینا ہو گئے تھے) اور ان کو خانہ کعبہ کے دروازے کے قریب حجر اسود کے پاس تیسرے کونے میں کھڑا کر دیتے تھے پس ابن عباس نے ان سے پوچھا کہ کیا تم کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھتے تھے؟ میں نے کہا ہاں پھر ابن عباس نے وہاں کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔

 

                   صفا اور مر وہ کا بیان

 

قعنبی، مالک، ہشام بن عروہ، ابن وہب، مالک، ہشام، حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تب میں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عائشہ سے عرض کیا تھا کہ ارشاد خداوندی ہے کہ صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو شخص حج یا عمرہ کرے اور ان کے درمیان سعی نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ یا جنایت نہیں ہے اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا اگر یہی بات ہوتی تو جو تم کہہ رہے ہو تو آیت قرآنی یوں ہوتی کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی تھی جبکہ وہ زمانہ جاہلیت میں منات کے واسطے حج کیا کرتے تھے اور منات قدید کے مقابل تھا یہ لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کو برا سمجھتے تھے جب اسلام آیا (اور یہ لوگ مسلمان ہو گئے) تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔

 

مسدد، خالد بن عبد اللہ، اسماعیل، بن ابی خالد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب عمرہ کیا تو خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گھیرے میں لے رکھا تھا (تا کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی گزند نہ پہنچا سکیں) حضرت عبد اللہ سے پوچھا گیا کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ قضاء کے لیے تشریف لائے) تو کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خانہ کعبہ کے اندر گئے تھے؟ فرمایا نہیں (کیونکہ اس وقت تک وہاں بت رکھے ہوئے تھے)

 

تمیم بن منتصر، اسحاق بن یوسف، شریک، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عبد اللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث (دوسری سند کے ساتھ) مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفاء و مروہ پر تشریف لائے اور ان کے درمیان سات مرتبہ سعی کی پھر سر منڈایا۔

 

نفیلی، زہیر، عطاء بن سائب، کثیر بن جمہان سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم صفاء مروہ کے درمیان چلتے ہو جبکہ دوسرے لوگ دوڑ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اگر میں چلتا ہوں تو میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چلتے ہوئے بھی دیکھا ہے اور اگر دوڑوں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے نیز اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں (لہذا میرے لیے چلنا درست ہے)

 

                   رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا حال

 

عبد اللہ بن محمد نفیلی، عثمان بن ابی شیبہ، ہشام بن عمار، سلیمان بن عبد الرحمن، حضرت محمد باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے پوچھا کہ کون کون ہے؟ یہ نابینا تھے اس لیے سوال کیا) یہاں تک کہ میری باری آئی۔ میں نے کہا میں محمد بن علی بن حسین ہوں، پس انھوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرا اوپر کا دامن اٹھایا پھر نیچے کا دامن اٹھایا اور اپنا ہاتھ میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھا ان دنوں میں جوان لڑکا تھا اور فرمایا تجھ کو خوشی ہو۔ تو اپنے لوگوں میں آیا اے بھتیجے جو تیرا جی چاہے پوچھ تو میں نے ان سے سوالات کیے وہ نابینا تھے جب نماز کا وقت آیا تو ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہوئے جو اس قدر چھوٹا تھا کہ ایک کندھے پر ڈا لتے تو دوسرا کندھا کھل جاتا آخر کار اس کپڑے کو رکھ کر نماز پڑھائی اور ان کی چادر برابر میں ایک تپائی پر رکھی تھی (نماز سے فراغت کے بعد) میں نے ان سے کہا کہ مجھے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حج کا اصول بتائیے۔ انھوں نے ہاتھ کے اشارہ سے نو کا عدد بتلایا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ طیبہ میں نو سال تک رہے مگر حج نہیں فرمایا اس کے بعد دسویں سال لوگوں میں اعلان کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حج کو جانے والے ہیں۔ یہ سن کر بہت سے لوگ مدینہ میں آ کر جمع ہو گئے ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرے اور جو عمل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا وہی عمل خود بھی کرے پس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حج کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے) ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے جب ہم ذوالحلیفہ میں پہنچے تو اسماء بنت عمیس کے ہاں محمد بن ابی بکر کی پیدائش ہوئی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معلوم کروایا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غسل کر کے کپڑے کا ایک لنگوٹ باندھ لی اور احرام باندھ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ذوالحلیفہ کی مسجد میں) نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی بیداء کے میدان پر کھڑی ہوئی تو جابر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا جہاں تک میری نگاہ جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دائیں بائیں آگے پیچھے پیدل اور سواروں کا ہجوم تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن نازل ہوتا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے معنی سمجھتے تھے اور ہم لوگ تو وہی کام کرتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پکار کر لبیک کہا۔ یعنی میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ میں حاضر ہوں تیری خدمت میں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ حاضر ہوں میں تیری خدمت میں سب تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور سلطنت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔ اور لوگوں نے بھی اسی طرح لبیک کہی جس طرح دوسروں نے لبیک کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو منع نہ فرمایا اور آپ اپنی لبیک کہتے رہے جابر کہتے ہیں کہ ہم نے صرف حج کی نیت کی تھی اور ہم (ایام حج میں) عمرہ کو نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیت اللہ پر آئے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجر اسود کو بوسہ دیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا اور چار پھیروں میں معمولی چال سے چلے پھر آگے مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ  اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّى) 2۔ البقرۃ:125) یعنی مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ مقام ابراہیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور کعبہ کے درمیان میں تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعتوں میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ پڑھیں (یعنی پہلی رکعت میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور دوسری رکعت میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجر اسود کے پاس تشریف لائے اور اس کو بوسہ دیا اس کے بعد مسجد کے دروازے سے کوہ صفا کی طرف نکلے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفا کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِٕرِاللّٰہِ ) 2۔ البقرۃ:158) یعنی صفا مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں شروع کرتے ہیں ہم سعی کو اس پہاڑ سے جس کا نام پہلے اللہ نے لیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سعی شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر چڑھ گئے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو دیکھ لیا پس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کی تکبیر کہی اور اس کی تو حید بیان کی اور فرمایا کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے وہ تنہا ہے اس کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے اور تعریف اسی کو سجتی ہے وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس کے اور وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور اپنے بندے (محمد) کی مدد کی اور کافروں کے گروہوں کو شکست سے ہمکنار کیا۔ اور یہ کام تن تنہا کیا۔ پھر اس کے درمیان میں دعا کی اور انہی کلمات کو دہرایا۔ اس کے بعد مروہ جانے کے لیے پہاڑ سے اتر آئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم نشیب میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی کے اندر دوڑ کر چلے۔ جب نشیب سے نکل کر اوپر چڑھنے لگے تو معمولی چال سے چلے یہاں تک کہ مروہ پر آئے اور وہاں بھی ایسا ہی کیا جیسا کہ صفا پر کیا تھا پھر جب آخر کا پھیرا مروہ پر ختم ہوا تو فرمایا اگر مجھے پہلے وہ حال معلوم ہوتا جو بعد کو معلوم ہوا تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور حج کے بدلہ عمرہ کرتا لیکن تم میں سے جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے اور حج کو عمرہ میں بدل دے سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کتروائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور جس کے ساتھ ہدی تھی اس نے احرام نہیں کھولا۔ سراقہ بن جعثم کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (حج کو عمرہ میں بدل دینے کا حکم) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا دو مرتبہ عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علی یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ لے کر آئے تو دیکھا کہ حضرت فاطمہ نے احرام کھول ڈالا ہے اور وہ رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے حضرت علی رضی اللہ نے اس کو فعل منکر خیال کیا اور پوچھا تمھیں ایسا کرنے کے لیے کس نے حکم دیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میرے والد (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت جابر نے کہا کہ حضرت علی عراق میں کہتے تھے کہ میں فاطمہ کی شکایت کرنے کی غرض سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا کہ انھوں نے ایسا کیا ہے اور جب میں نے منع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام لینے لگی۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ سچ کہتی ہیں پھر پوچھا تم نے احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟ حضرت علی نے کہا میں نے یہ نیت کی تھی کہ اے اللہ میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں جس چیز کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میرے ساتھ تو ہدی ہے پس اب احرام نہ کھولنا جابر نے کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہدی کے جتنے جانور مدینہ سے لائے تھے اور جتنے علی رضی اللہ یمن سے لائے تھے سب ملا کر سو ہوئے پس سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کتروائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور جن کے ساتھ ہدی تھی انھوں نے احرام نہیں کھولا۔ جب یوم الترویہ ہوا (یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ ہوئی) تو سب لوگ منی کی طرف متوجہ ہوئے اور حج کا احرام باندھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور منیٰ پہنچ کر ظہر و عصر کی اور مغرب و عشاء کی نماز پڑھی پھر دوسرے دن فجر کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیمہ لگانے کا حکم کیا جو بالوں کا بنا ہوا تھا۔ وادی نمرہ میں (یہ حرم کی حد ہے) پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منی سے عرفات کی طرف چلے اور قریش کو اس بات کا یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس ٹھہریں گے جیسا کہ وہ زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ٹھہرے نہیں بلکہ آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچے تو دیکھا کہ وادی نمرہ میں قبہ تیار ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں اترے جب آفتاب ڈھل گیا تو قصواء (اونٹنی کا نام) کو لانے کا حکم فرمایا اس پر پالان کسا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ فرمایا تمھاری جانیں اور مال تم پر حرام ہیں جیسا کہ اس شہر میں اس مہینہ میں آج کا دن حرمت والا ہے سنو آج زمانہ جاہلیت کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہو گئی ہے اور زمانی جاہلیت کے سب خون معاف کر دیئے گئے اور سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ ربعیہ بن الحارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ جو بنی سعد کا ایک دودھ پیتا بچہ تھا اور جس کو قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر ڈالا تھا اور جتنے سود زمانہ جاہلیت کے تھے سب موقوف ہوئے اور پہلا سود جو میں معاف کرتا ہوں وہ میرے چچا (عباس بن عبد المطلب) کا سود ہے کیونکہ اب سود ختم ہو چکا ہے اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو (یعنی ان کی حق تلفی نہ کرو) کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے اور اللہ کے حکم سے تم نے ان کی شرمگاہوں کو اپنے اوپر حلال کیا ہے اور ان پر تمھارا یہ حق ہے کہ وہ تمھارے بستر پر کسی کو نہ آنے دیں جس کو تم ناپسند کرتے ہو (یعنی تمھاری مرضی و اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نہ آنے دیں) اگر وہ ایسا کریں تو ان کو مارو مگر اس طرح کہ نہ ان کی ہڈی ٹوٹے اور نہ کوئی زخم آئے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ ان کو دستور کے مطابق کھانا کپڑا دو اور میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر تم اس کو پکڑے رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور قیامت کے دن تم سے میرے متعلق پوچھا جائے گا (کہ تم تک اللہ کا ٹھیک ٹھیک پیغام پہنچایا یا نہیں) تو بتاؤ تم کیا کہو گے؟ اس پر سب لوگ بول اٹھے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا اور اس کا حق ادا کر دیا اور نصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر فرمایا۔ اللہ تو گواہ رہ، اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ، پھر حضرت بلال نے اذان دی اور تکبیر کہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھی پھر تکبیر کہی اور عصر کی نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کچھ نہیں پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قصواء پر سوار ہوئے اور عرفات کے میدان میں آئے تو اپنی اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ کو (ایک جگہ کا نام) اپنے سامنے رکھا اور قبلہ کی طرف رخ کیا اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آفتاب ڈوبنے کے قریب ہو گیا اور تھوڑی زردی کم ہو گئی جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے پیچھے اسامہ کو بٹھایا اور عرفات سے مزدلفہ کی طرف لوٹے اور اونٹ کی باگ تنگ کی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سرے سے آ لگا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کو داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے جاتے تھے کہ آہستہ چلو، اے لوگو آہستہ چلو، اے لوگو جب کسی بلندی پر آتے تو اونٹ کی باگ ذرا ڈھیلی کر دیتے تاکہ وہ چڑھ جائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں مغرب اور عشاء کو جمع کیا ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ عثمان راوی نے کہا کہ دونوں نمازوں کے بیچ میں کچھ نہ پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی جب ان پر فجر کھل گئی تب فجر کی نماز پڑھی سلیمان نے کہا اذان اقامت کے ساتھ (اس کے بعد کے مضمون پر سب راوی متفق ہیں) کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہو گئے قصواء پر یہاں تک کہ مشعر حرام میں آئے اور اس پر چڑھے عثمان اور سلیمان نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا اللہ کی حمد بیان کی اور تکبیر کہی اور عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ اس کی توحید بیان کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے روانہ ہوئے اور اپنے پیچھے فضل بن عباس کو بٹھایا فضل خوبصورت اور اچھے بالوں والے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں سے روانہ ہوئے تو عورتیں ہودوں میں بیٹھی تھیں فضل ان عورتوں کی طرف دیکھنے لگے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ فضل کے منہ پر رکھ دیا اور فضل نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ادھر ہاتھ رکھا انہوں نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی محسر میں پہنچ آئے جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں پہنچے تو اپنی سواری کو تھوڑی سے حرکت دی (یعنی تیز چلایا) پھر دوسرے بیچ والے راستہ سے چلے جو جمرہ عقبہ پر لے جاتا ہے یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے پھر اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر تکبیر کہا اور ہر کنکری ایسی تھی جسے انگلی میں رکھ کر پھینکتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر وہاں سے لوٹ کر اپنے نحر کرنے کی جگہ آئے اور اپنے ہاتھ سے تریسٹھ اونٹوں کی نحر کی اور باقی کے واسطے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقی اونٹوں کو نحر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی ہدی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شریک کیا پھر حکم کیا ہر اونٹ میں سے ایک ایک پارچہ گوشت لینے کا وہ سب پارچے دیگ میں پکائے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو کھایا اور ان کا شوربا پیا سلیمان نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے بیت اللہ کی طرف چلے اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی اس کے بعد بنی عبد المطلب کے پاس آئے اس حال میں کہ وہ زمزم کا پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے بنی عبد المطلب پانی کھینچو اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر تمہیں مغلوب کر لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا انہوں نے ایک ڈول کھینچ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑھایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سے پانی پیا۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، سلیمان، احمد بن حنبل، عبد الوہاب، جعفر بن محمد، حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر اور عصر عرفات میں ایک ہی اذان سے پڑھیں اور ان کے درمیان کے نفل نہیں پڑھے لیکن تکبیریں دو رکعتیں اسی طرح مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت سے پڑھا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھی امام ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس روایت کو حاتم بن اسماعیل نے طویل حدیث میں مسنداً روایت کیا ہے جس پر محمد بن علی جعفی نے بروایت جعفر بواسطہ والد (محمد بن علی) حضرت جابر سے روایت کرتے ہوئے ان کی موافقت بھی کی ہے بجز اس کے محمد بن علی جعفی نے اس میں یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مغرب اور عشاء کی نماز ایک اقامت سے ادا کی ابو داؤد کہتے ہیں کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے کہ اس طویل حدیث میں حاتم بن اسماعیل نے خطاء کی ہے۔

 

احمد بن حنبل، یحیٰ بن سعید، جعفر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے اس جگہ نحر کیا اور سارا منی نحر کا مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفہ میں ٹھہرے اور فرمایا میں اس جگہ ٹھہرا اور سارا عرفات ٹھرنے کی جگہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ میں ٹھہرے اور فرمایا سارا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔

 

مسدد حفص بن غیاث، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی سند کے ساتھ روایت مذکور ہے اس میں فانحروا فی رحالکم کا اضافہ ہے۔

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیٰ بن سعید، قطان، جعفر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے (یہ طویل حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ مروی ہے مگر اس میں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی پڑھنے کے بعد یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دو رکعتوں میں تو حید (قُل ہوَ اللہٗ اَحَد) اور قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ پڑھا اور اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول (بجائے عراق کے) کوفہ میں مذکور ہے نیز اس میں یہ لفظ نہیں ہے کہ میں ان کی شکایت کرنے گیا بلکہ تمام قصہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا۔

 

                   وقوف عرفہ کا بیان

 

ہناد، ابو معاویہ، ہشام بن عروہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ مزدلفہ میں ٹھہرا کرتے تھے اور اس قیام کو حمس کہتے تھے اور باقی تمام عرب کے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے جب دین اسلام آیا تو اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا کہ وہ عرفات میں جائیں اور وہاں ٹھہریں اور پھر وہاں سے واپس ہوں یہ حکم اس آیت میں ہے (ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ) 2۔ البقرۃ:199) (یعنی پھر لوٹو وہاں سے جہاں سے سب لوٹتے ہیں یعنی عرفات سے)

 

                   منی کی طرف روانگی

 

زہیر بن حرب، احوص بن جواب، عمار بن رزیق، سلیمان، اعمش، حکم، مقسم، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آٹھویں تاریخ کی ظہر اور نویں تاریخ کی فجر منی میں پڑھی۔

 

احمد بن ابراہیم، اسحاق ، سفیان، عبد العزیز بن رفیع، انس بن مالک، حضرت عبد العزیز بن رفیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے وہ بات بتایئے جو آپ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یاد رکھی ہو یعنی آپ نے آٹھویں تاریخ کی ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا بطح میں پھر فرمایا اب تو وہ کر جو تیرے امیر کریں۔

 

احمد بن حنبل، یعقوب، ابن اسحاق ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرفہ کے دن رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح کی نماز پڑھ کر منی سے (عرفات کے لیے) روانہ ہوئے جب عرفات کے قریب پہنچے تو مقام نمرہ میں اترے اور یہی عرفات میں امام کے اترنے کی جگہ ہے جب ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فورا عرفات کی طرف روانہ ہوئے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی پھر خطبہ پڑھا اس کے بعد روانہ ہوئے اور عرفات کے موقف میں وقوف کیا۔

 

                   عرفہ میں نماز کے لیے روانگی کا وقت

 

احمد بن حنبل، وکیع، نافع بن عمر، سیعد بن حسان، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حجاج بن یوسف نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کر ڈالا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ دریافت کیا کہ آج کے دن (عرفہ کے دن) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے کس وقت نکلے تھے؟ کہا جس وقت ہم نکلیں گے پھر جب ابن عمر رضی اللہ نے نکلنے کا ارادہ کیا تو لوگوں کہا کہ ابھی سورج نہیں ڈھلا (اس وقت ابن عمر رضی اللہ عنہ نابینا ہو چکے تھے) انہوں نے (کچھ دیر کے بعد پھر) پوچھا کہ کیا آفتاب ڈھل گیا؟ لوگوں نے کہا نہیں پھر جب لوگ نے بتایا کہ آفتاب ڈھل گیا ہے تو وہ نماز کے لیے نکلے۔

 

                   عرفات میں خطبہ دینا

 

ہناد، ابن ابی زائدہ، سفیان بن عیینہ، حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ بنی ضمرہ کے ایک شخص کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے یا چچا سے سنا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عرفات میں منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) دیکھا ہے۔

 

مسدد، عبد اللہ بن داؤد، سلمہ بن نبیط سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفات میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایک سرخ اونٹ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

ہناد بن سری، عثمان بن ابی شیبہ، وکیع، عبد المجید، عدام، خالد بن ہودہ، ہناد، عبد المجید، ابو عمرو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ بن العداء بن ہوزہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عرفات میں ایک اونٹ پر اس کی دونوں رکابو ں پر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے ابو داؤد کہتے ہیں کہ ابن العلاء نے وکیع سے اسی طرح روایت کیا ہے جس طرح ہناد نے کیا ہے۔

 

 

 

جہاد کے دوران با جماعت نماز

 

                   پانچویں صورت بعضوں نے کہا امام ہر گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے پھر سلام پھیر دے اور وہ لوگ اپنی ایک رکعت پوری کر لیں

 

مسدد، یزید بن زریع، معمر سالم ابن عمر، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو جماعتوں میں سے ایک کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے کھڑی رہی۔ پھر دوسرا گروہ آیا اور ان کی جگہ پر کھڑا ہوا اور یہ دشمن کے سامنے چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی اور سلام پھیر دیا۔ ان لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک رکعت اکیلے اکیلے ادا کی پھر سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلے گئے۔ اس کے بعد پہلا گروہ آیا جو ایک رکعت پڑھ چکا تھا اور انھوں نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ نافع اور خالد بن معدان نے بواسطہ ابن عمر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح نقل کیا ہے اور اسی طرح ابن عباس سے مسروق اور یوسف بن مہران کا قول ہے اور اسی طرح یونس نے بواسطہ حسن حضرت ابو موسیٰ سے ان کا فعل روایت کیا ہے۔

 

                   چھٹی صورت بعضوں نے کہا ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے پھر سلام پھیر دے اس کے بعد جو ان کے پیچھے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں اور ایک رکعت پڑھ لیں پھر پچھلے ان کی جگہ پر آ جائیں اور ایک رکعت نماز پڑھ لیں

 

عمران بن میسرہ، ابن فضیل، حصیف ابی عبیدہ عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خوف کی نماز پڑھائی تو ایک صف آپ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور ایک صف دشمن کے سامنے کھڑی ہوئی۔ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت پہلے گروہ کے ساتھ پڑھی پھر دوسرا گروہ آیا اور ان کی جگہ پر کھڑا ہوا اور یہ دشمن کے سامنے چلے گئے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے ساتھ بھی ایک رکعت پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیر دیا۔ ان لوگوں نے کھڑے ہو کر ایک رکعت اکیلے ادا کی پھر سلام پھیر کر دشمن کے سامنے چلے گئے اور پہلا گروہ جو ایک رکعت پڑھ چکا تھا آیا اور انھوں نے ایک رکعت اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔

 

تمیم بن منتصر، اسحاق بن یوسف، شریک، حضرت خصیف رضی اللہ تعالی نے سابقہ سند اور مفہوم کے ساتھ روایت کی ہے مگر اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو دونوں صفوں نے تکبیر کہی ابو داؤد کہتے ہیں کہ سفیان ثوری نے بھی خصیف سے اسی کے ہم معنی روایت کی ہے اور عبد الرحمن بن سمرہ نے اسی طرح نماز پڑھی مگر جن لوگوں نے امام کے ساتھ اخیر رکعت پڑھی تھی وہ امام کے سلام کے بعد دشمن کے سامنے چلے گئے اور پہلے گروہ نے ایک رکعت جو باقی تھی پڑھی اور لوٹ گیا پھر دوسرا گروہ آیا اور اس نے ایک رکعت پڑھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ مسلم بن ابراہیم نے بسند عبد  ا لصمد بن حبیب با خبار والد (حبیب) روایت کیا ہے کہ انھوں نے عبد الرحمن بن سمرہ کے ہمراہ کابل میں جہاد کیا تو عبد الرحمن بن سمرہ نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی تھی۔

 

                   سا تویں صورت بعضوں نے کہا کہ ہر ایک گروہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھ لے تو پھر دوسری رکعت پڑھنے کی ضرورت نہیں

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، اشعث بن سلیم، اسود بن ہلال، حضرت ثعلبہ بن زہدم سے روایت ہے کہ ہم طبرستان میں سعید بن العاص کے ساتھ تھے انہوں نے کہا کہ تم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ صلوٰۃ خوف پڑھی ہے؟ حضرت حذیفہ نے کہا میں نے اور پھر انہوں نے ہر گروہ کو ایک رکعت پڑھائی اور کسی گروہ نے دوسری رکعت نہیں پڑھی ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو عبید اللہ بن عبد اللہ اور مجاہد نے عن ابن عباس عن النبی اور عبد اللہ بن شقیق نے عن ابی ہریرہ عن النبی اور یزید فقیر ابو موسیٰ نے عن جابر عن النبی اسی طرح روایت کیا ہے اور بعض نے یزید فقیر کی روایت میں یہ کہا ہے کہ انہوں نے ایک رکعت قضاء کی اور اسی طرح روایت کیا ہے سماک حنفی نے بواسطہ ابن عمر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اور اسی طرح روایت کیا ہے زید بن ثابت نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دو رکعتیں ہوئیں اور قوم کی ایک رکعت۔

 

 

مسدد، سعیدبن منصور، ابو عوانہ، بکیر، بن اخنس، مجاہد، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے تمھارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے تم پر حضر میں چار رکعتیں فرض کیں اور سفر میں دو اور خوف میں ایک۔

 

                   آٹھویں صورت بعضوں نے کہا ہر گروہ کے ساتھ امام دو رکعتیں پڑھے

 

عبید اللہ بن معاذ، اشعث، حسن، ابی بکرہ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حالت خوف میں ظہر کی نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف باندھی اور کچھ نے دشمن کے سامنے پس پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کو جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیرا پھر یہ لوگ چلے گئے اور وہ لوگ آئے جو دشمن کے سامنے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کی دو دو رکعتیں ہوئیں حضرت حسن اسی پر فتویٰ دیتے تھے ابو داؤد کہتے ہیں کہ اسی طرح مغرب میں امام کی چھ رکعتیں اور قوم کی تین تین رکعتیں ہوں گی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ اس کو یحیٰ بن ابی کثیر نے بواسطہ ابو سلمہ بروایت جابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح روایت کیا ہے اسی طرح سلیمان الیشکری نے عن جابر عن النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روایت کیا ہے۔

 

                   دشمن کو تلاش کرنے والے کی نماز

 

ابو معمر، عبد اللہ بن عمرو، عبد الوارث، محمد بن اسحاق ، محمد بن جعفر، ابن عبد اللہ بن انیس، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خالد بن سفیان ہذلی کی طرف بھیجا جو عرنہ اور عرفات کی طرف رہتا تھا۔ اور فرمایا جا اور اس کو قتل کر ڈال عبد اللہ بن انیس نے کہا میں نے اس کو دیکھا لیکن عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔ میں نے خیال کیا کہ اگر میں نماز کے لیے دیر کر دوں تو مجھ میں اور اس میں فاصلہ بہت ہو جائے گا لہذا میں چلتا رہا اور اشارہ سے نماز پڑھتا گیا جب میں اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھا تو کون ہے؟ میں نے کہا میں عرب کا باشندہ ہوں اور میں نے یہ سنا ہے کہ تم اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے) لڑنے کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو تو میں بھی اس کام میں شرکت کی غرض سے تمھارے پاس آیا ہوں اس نے کہا ہاں میں اسی فکر میں ہوں میں اس کے ساتھ تھوڑی دیر تک چلتا رہا جب میں نے موقعہ دیکھا تو اس کی گردن پر اپنی تلوار رکھ دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔

 

                   سنت و نفل نمازوں کے احکام اور ان کی رکعات

 

محمد بن عیسیٰ، ابن علیہ، داؤد بن ابی ہند، نعمان بن سالم، عمرو بن اوس، عتبہ بن ابو سفیان، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ایک دن بارہ رکعت فرض کے علاوہ پڑھے گا اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دیا جائے گا۔

 

احمد بن حنبل، ہشیم، خالد، مسدد، یزید بن زریع، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نفل نمازوں کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے میرے گھر میں چار رکعت سنت پڑھتے تھے پھر نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر میں آ کر مزید دو رکعت پڑھتے اور جب مغرب کی نماز پڑھاتے تب پھر گھر آ کر دو رکعت پڑھتے ۔ اور کبھی رات کو نو رکعت بھی پڑھتے تھے جس میں وتر بھی شامل ہوتے تھے اور رات میں دیر تک کھڑے ہو کر تہجد پڑھتے اور کبھی دیر تک بیٹھ کر پڑھتے اور جب تہجد کھڑے ہو کر پڑھتے تو رکوع و سجود بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر پڑھتے تو رکوع و سجود بھی بیٹھ کر کرتے اور جب فجر طلوع ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت پڑھتے پھر باہر تشریف لاتے اور لوگوں کو نماز فجر پڑھاتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود و سلام ہو۔

 

قعنبی، مالک، نافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھتے تھے اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے اور نماز مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے اور نماز جمعہ کے بعد گھر آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔

 

مسدد، یحییٰ، شعبہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں اور فجر سے پہلے کی دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔

 

                   فجر کی سنتوں کا بیان

 

مسدد، یحییٰ، ابن جریج، عطاء، عبید بن عمیر، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی نفل نماز کی اتنی پابندی نہ کرتے تھے جتنی کہ نماز فجر سے پہلے کی دو سنتوں کی۔

 

                   فجر کی سنتوں کو ہلکا اور مختصر پڑھنے کا بیان

 

احمد بن ابی شعیب، زہیر بن معاویہ، یحیٰ بن سعید، محمد بن عبد الرحمن عمرہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں کو اس قدر ہلکا پڑھتے تھے کہ مجھے خیال ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھی ہے یا نہیں۔

 

یحیٰ بن معین، مروان بن معاویہ، یزید بن کیسان، ابی حازم، حضر ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ۔

 

احمد بن حنبل، ابو مغیرہ، عبد اللہ بن علاء، ابو زیاد عبید اللہ بن زیاد، حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ صبح کی نماز کے لیے بلانے کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کسی امر کے متعلق دریافت کیا اور گفتگو میں مشغول رہیں یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو گی پس بلال رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بار بار نماز کے لیے بلانے لگے لیکن ان کے بلانے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے تو لوگوں کو نماز پڑھائی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کس چیز کے متعلق پوچھا اور باتوں مشغول ہو گئیں یہاں تک کہ خوب صبح روشن ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نکلنے میں تاخیر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں فجر کی سنتیں پڑھ رہا تھا حضرت بلال نے کہا یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت تاخیر فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر اس سے بھی زیادہ تاخیر ہو جاتی تب بھی میں ان رکعتوں کو خوب اچھی طرح پڑھتا۔

 

مسدد، خالد بن عبد الرحمن ابن اسحاق ، ابن زید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فجر کی سنتوں کو نہ چھوڑو خواہ تمہیں گھوڑے ہی کیوں نہ روند ڈالیں۔

 

احمد بن یونس، زہیر عثمان بن حکیم سعید بن یسار، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر فجر کی سنتوں میں پہلی رکعت میں آمَنَّا بِاللَّہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا اور دوسری رکعت میں آمَنَّا بِاللَّہِ وَاشْہَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ پڑھتے تھے۔

 

محمد بن صباح بن سفیان، عبد العزیز بن محمد، عثمان بن عمر، ابن موسی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فجر کی سنتوں میں پڑھتے ہوئے سنا ہے پہلی رکعت میں قُلْ آمَنَّا بِاللَّہِ اور دوسری رکعت میں یہ پڑھتے إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِیمِ یہ شک د راہ ردی کا ہے۔

 

                   فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا بیان

 

مسدد، ابو کامل، عبید اللہ بن عمر بن میسرہ، عبد الواحد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی فجر سے پہلے دو سنتیں پڑھے تو یہ سنتیں پڑھنے کے بعد داہنی کروٹ پر لیٹ جائے۔ مروان بن حکم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا مسجد تک چلنا کافی نہیں جب تک کہ داہنی کروٹ پر نہ لیٹے؟ عبید اللہ کی روایت میں یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا نہیں جب یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کیا آپ ان کے قول کی تردید کرتے ہیں؟ فرمایا نہیں بات یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جرأت کی اور ہم نے خوف کیا جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو انھوں نے کہا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے کہ وہ بھول گئے اور میں نے یاد رکھا۔

 

یحیٰ بن حکم، بشر بن عمر، مالک بن انس، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اخیر شب میں نماز سے فارغ ہوتے تو دیکھتے اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے اگر سوتی ہوتی مجھے جگا دیتے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جاتے یہاں تک کہ مؤذن آتا اور نماز صبح کے لئے بلاتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھ کر نماز کے لئے تشریف لے جاتے۔

 

مسدد، سفیان، زیاد بن سعد، ابن ابی عتاب، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب فجر کی سنتوں سے فارغ ہوتے تو دیکھتے اگر میں سوئی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی لیٹ جاتے اگر جاگتی ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے

 

عباس، زیاد بن یحییٰ، سہل بن حماد، ابی مکین، ابو الفضل، رجل من الانصار، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ صبح کی نماز کے لیے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر کسی کو سوتا ہوا دیکھتے تو اس کو نماز کے لیے پکارتے یا اس کے پاؤں ہلا دیتے زیاد کہتے ہیں ہم سے روایت کی ابو الفضل نے۔

 

                   اگر فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو اس وقت سنتیں نہ پڑھے

 

سلیمان بن حرب، حماد بن زید، عاصم بن عبد اللہ بن سرجس، حضرت عبد اللہ بن سرحبیس سے روایت ہے ایک شخص آیا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا ان دو۔۔۔۔۔

 

مسلم بن ابراہیم، حماد بن سلمہ، احمد بن حنبل، محمد بن جعفر، ورقاء، حسن بن علی ابو عاصم ابن جریج حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب نماز کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں ہے سوائے فرض نماز کے۔

 

                   اگر فجر کی سنتیں فوت ہو جائیں تو ان کو کب ادا کیا جائے

 

عثمان بن ابی شیبہ، ابن نمیر، سعد بن سعید، محمد بن ابراہیم، قیس بن عمرو، حضرت قیس بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم ایک شخص کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا آپ نے فرمایا فجر کی دو ہی رکعتیں ہیں جو فرض نماز سے پہلے ہی پڑھی جاتی ہیں۔

 

حامد بن یحییٰ، سفیان عطاء، بن ابی رباح، حامد بن یحیٰ بلجی نے سفیان سے نقل کیا کہ عطاء بن ابی رباح نے سعد بن سعید سے روایت کیا نقل کی ہے امام ابو داؤد نے کہا کہ سعید کے دونوں بیٹے عبد ربہ اور یحیٰ نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کہ ان کے دادا زید نے رسول اللہ صلی علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔

 

 

 

جہاد کا بیان

 

                   قیدی سے مال لے کر اس کو چھوڑ دینے کا بیان

 

احمد بن مریم، سعید بن حکم، لیث عقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت مروان اور حضرت مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ بیان فرمایا جس وقت کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے قیدی اور اموال واپس کرنے کی درخواست کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا میرے پاس تمہاری دونوں چیزیں موجود ہیں لیکن میرے نزدیک وہی بات زیادہ پسند ہے جو زیادہ مبنی بر حقیقت ہے تم یا تو اپنے قیدیوں کو واپس لے لو اپنے مالوں کو۔ تو وہ بو لے ہم اپنے قیدی واپس لیتے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو! یہ تمہارے بھائی ہیں جو کفر و شرک سے تائب ہو کر تمھارے پاس آئے ہیں۔ میں نے تو یہ مناسب جانا کہ ان کے قیدی ان کو لوٹا دوں پس تم میں سے جو شخص خوش دلی سے چاہے وہ بتا دے اور جو شخص یہ چاہے کہ اس کا حصہ اس کو لازمی طور پر ملنا ہی چاہئے تو جب بھی اللہ تعالی ہمیں مال غنیمت عطا فرمائے گا ہم اس کا بدلہ اس میں سے دے دیں گے۔ لوگوں نے کہا ہم اس پر بخوشی راضی ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا ہمیں نہیں معلوم کہ تم میں سے کس نے رضا مندی ظاہر کی اور کس نے نہیں لہذا اب تم جاؤ اور اپنے اس معاملہ کو اپنے اپنے سرداروں کے سامنے پیش کرو۔ پس سب لوگ چلے گئے اور انہوں نے اپنے اپنے سرداروں سے بات کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خبر دی کہ وہ بھی بخوشی قیدیوں کی رہائی پر رضا مند ہیں۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد، محمد بن اسحاق ، عمرو بن شعیب کے دادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کو لوٹا دو اور جو شخص ان میں سے کسی کو رکھنا چاہے (یعنی اپنے حق سے دستبردار نہ ہو) تو ہم اس کا بدلہ دیں گے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کے بدلہ میں چھ اونٹ دیں گے اس مال میں سے جو ہمیں اللہ تعالی عنایت فرمائے گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک اونٹ کے پاس گئے اور اس کے کوہان میں سے بال لے کر فرمایا لوگو اس فئے میں سے میرے لیے کچھ نہیں ہے اور نہ یہ اور انگلیوں سے فرمایا مگر خمس۔ اور وہ خمس بھی تمہارے ہی طرف لوٹا دیا جاتا ہے لہذا دھاگہ اور سوئی کو بھی ادا کرو۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا جس کے ہاتھوں میں بالوں کا ایک گچھا تھا اس نے کہا میں نے اس کو پالان کے نیچے کی کملی درست کرنے کے لیے لیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چیز میرے لیے اور بنی عبد المطلب کے واسطے ہے وہ تیرے لیے ہے تو اس شخص نے کہا جب اس ایک رسی کا گناہ اس حد تک پہنچا ہوا ہے تو پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں اور یہ کہہ کر اس نے وہ رسی پھینک دی۔

 

                   جب حاکم دشمن پر غالب ہو جائے تو میدان جنگ میں ٹھہرے

 

محمد بن مثنی، معاذ بن معاذ، ہارون بن عبد اللہ روح، سعید، قتادہ، انس، حضرت ابو طلحہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات ٹھہرتے۔ اور ابن مثنی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہاں تین رات ٹھہرنا پسند فرماتے۔۔ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یحیٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید کی پہلی حدیثوں میں سے نہیں ہے کیونکہ سال کی عمر میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا اور یہ حدیث بھی ان کی آخر عمر سے تعلق رکھتی ہے۔۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ مشہور یہ ہے کہ وکیع نے سعید سے ان کے زمانہ تغیر ہی میں حدیث حاصل کی ہے۔

 

                   قیدیوں میں جدائی کرنے کا بیان

 

عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن منصور، عبد السلام بن حرب، یزید بن عبد الرحمن، حکم، حضرت میمون بن ابی شعیب سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک باندی اور اس کے بچے میں تفریق کی۔ (یعنی ان دونوں کو الگ الگ شخصوں کے ہاتھ بیچ ڈالا) پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور بیع کو رد فرما دیا۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ میمون نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ وہ جنگ جماجم میں 83 ھ میں قتل ہوا تھا۔ ابو داؤد نے کہا کہ واقعہ حرّہ 63 ھ میں پیش آیا اور ابن زبیر کی شہادت 73 ھ میں ہوئی۔

 

 

                   اگر قیدی جوان ہوں تو ان میں تفریق کرنا درست ہے

 

ہارون بن عبد اللہ، ہاشم بن قاسم، عکرمہ، ایاس بن سلمہ، حضرت سلمہ سے روایت ہے کہ ہم ابو بکر کے ساتھ جہاد کی غرض سے نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ہمارا امیر بنایا تھا۔ پس ہم نے قبیلہ فزارہ سے جہاد کیا تو ہم نے ان پر چاروں طرف سے حملہ کیا اور ان کو لوٹا۔ پھر میں نے چند لوگوں کو دیکھا جن میں بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ میں نے ان کے ایک تیر مارا وہ تیر ان کے اور پہاڑ کے بیچ میں گرا۔ پس وہ کھڑے ہو گئے اور میں ان کو پکڑ کر حضرت ابو بکر کے پاس لایا۔ ان میں قبیلہ فزارہ کی ایک عورت تھی جو کھال کا بہترین لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی جو عرب کی حسین ترین لڑکیوں میں شمار کی جا سکتی تھی۔ پس ابو بکر نے وہ لڑکی مجھ کو عطا فرما دی۔ اس کے بعد میں مدینہ آ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے ملے اور فرمایا اے سلمہ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بخدا وہ لڑکی مجھے بے حد پسند ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا نہیں کھولا ہے (یعنی اس سے صحبت نہیں کی ہے) اس وقت آپ خاموش ہو گئے۔ اگلے دن آپ مجھے بازار میں پھر ملے اور فرمایا اے سلمہ! تجھے اپنے باپ کی قسم وہ لڑکی محض رضائے الہی کی خاطر مجھ کو ہبہ کر دے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے وہ لڑکی بہت پسند ہے اور ابھی تک میں نے اس کا کپڑا بھی نہیں کھولا ہے اور وہ آپ کے واسطے ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس لڑکی کو مکہ بھیجا اور اس کے بدلہ میں مسلمان قیدیوں کو چھڑایا۔

 

                   اگر کافر جنگ میں مسلمان کا مال لے جائیں اور پھر وہی مسلمان اس مال کو غنیمت میں حاصل کرے

 

صالح بن سہیل، یحیٰ ابن ابی زائدہ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ان کا ایک غلام دشمنوں (یعنی کافروں) کی طرف بھاگ گیا۔ پھر مسلمان دشمنوں پر غالب آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس غلام کو ابن عمر کی طرف لوٹا دیا اور (مال غنیمت شمار کر کے) اس کو تقسیم نہ کیا۔

 

محمد بن سلیمان، حسن بن علی، ابن نمیر، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ گیا اور دشمنوں نے اسے پکڑ لیا پھر جب مسلمان دشمنوں پر غالب آ گئے تو وہ گھوڑا ابن عمر کو لوٹا دیا گیا۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں پیش آیا ایسے ہی ان کا ایک غلام بھاگ کر رومیوں سے جا ملا جب مسلمان ان رومیوں پر غالب آئے تو وہی غلام خالد بن ولید نے ابن عمر کو لوٹا دیا اور یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد پیش آیا۔

 

                   اگر کافروں کے غلام مسلمانوں کے پاس بھاگ آئیں اور اسلام قبول کر لیں تو ان کا کیا حکم ہے

 

عبدالعزیز بن یحییٰ، محمد ابن سلمہ، محمد بن اسحاق ، ابان بن صاع، منصور بن معتمر، ربعی بن حراش، حضرت علی ابن ابی طالب سے روایت ہے کہ حدیبیہ کے دن صلح ہونے سے قبل کافروں کے کئی غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بھاگ آئے تو ان غلاموں کے مالکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لکھا کہ یہ غلام تمھارے دین کی طلب میں تمھارے پاس نہیں آئے بلکہ ان کی غرض تو غلامی سے نجات حاصل کرنا ہے تو کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ بات بالکل درست ہے (کہ ان کا مقصد دین کا حصول نہیں بلکہ غلامی سے چھٹکارا پانا مقصود ہے) لہذا آپ ان کو ان کے مالکوں کی طرف لوٹا دیجئے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غصہ آ گیا اور فرمایا اے قریش کے لوگو! میں نہیں دیکھتا کہ تم باز آؤ گے یہاں تک کہ اللہ تعالی تم پر کسی ایسے شخص کو مسلط کر دے جو تمہاری نافرمانیوں پر تمہاری گردنیں اڑا دے۔ اور آپ نے ان کی واپسی کا مطالبہ منظور نہیں فرمایا اور فرمایا یہ اللہ کے آزاد کیے ہوئے ہیں۔

 

                   دشمن کی سرزمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

 

ابراہیم بن حمزہ، انس بن عیاض، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں ایک لشکر کھانے پینے کی چیزیں اور شہد لوٹ لایا تو ان سے خمس (پانچواں حصہ) نہیں لیا گیا۔

 

 

                   دشمن کی سرزمین پر مال غنیمت میں سے تقسیم سے قبل کھانے پینے کی چیزیں کھانے کی اجازت

 

موسیٰ بن اسماعیل، سلیمان، حمید ابن ہلال، حضرت عبد اللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ خیبر کے دن میں نے ایک چربی کی تھیلی لٹکی ہوئی دیکھی۔ میں اس کے پاس گیا اور اس کو اپنے سے چمٹا لیا اور کہا آج میں اس میں سے کسی کو کچھ نہیں دوں گا۔ پھر جب میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ آپ میری یہ کیفیت دیکھ کر تبسّم فرما رہے تھے۔

 

                   جب غلہ کی کمی ہو تو ہر ایک کو غلہ لوٹ کر اپنے لیے رکھنا منع ہے بلکہ لشکر میں تقسیم کرنا چاہئے

 

سلیمان بن حرب، جریر، ابن حازم، ابن حکیم، حضرت ابو لبید سے روایت ہے کہ ہم عبد الرحمن بن سمرہ کے ساتھ کابل میں تھے وہاں لوگوں کو مال غنیمت ہاتھ لگا تو انھوں نے لوٹ لیا۔ عبد الرحمن نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ لوٹ مار سے منع فرماتے تھے۔ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا اپنا مال واپس کر دیا پھر عبد الرحمن نے سب لوگوں میں وہ مال تقسیم فرما دیا۔

 

محمد بن علاء، ابو معاویہ، ابو اسحاق ، محمد بن مجاہد، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں کھانے پینے کی چیزوں میں سے پانچواں حصہ نکالا کرتے تھے؟ تو کہا خیبر کے دن ہم کو کھانے پینے کی چیزیں ملیں تو ہر شخص آتا تھا اور اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے جاتا تھا۔

 

ہناد بن سری، ابو احوص، حضرت عاصم بن کلیب کے والد ایک انصاری شخص سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں روانہ ہوئے پس لوگوں کو دوران سفر کھانے پینے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر کچھ بکریاں ملیں ہر شخص نے چوپایا لوٹ لیا پس ہماری دیگچیاں ابل رہی تھیں (یعنی ان میں گوشت پک رہا تھا) اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کمان ٹیکتے ہوئے تشریف لائے اور اپنی کمان سے ہماری دیگچیاں الٹ دیں اور گوشت کو مٹی میں لتھیڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا لوٹ کا مال مردار سے کم نہیں ہے۔ یا یہ فرمایا کہ مردار لوٹ کے مال سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہ شک ہنّاد کی طرف سے ہے۔

 

                   دار الحرب سے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے آنا

 

سعید بن منصور، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابن حرشف ازدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض صحابہ سے مروی ہے کہ جہاد میں ہم لوگ (ضرورت کے وقت) اونٹ ذبح کر کے کھا لیا کرتے تھے اور ہم اس کو تقسیم نہ کرتے تھے یہاں تک کہ جب ہم اپنے ٹھکانوں پر لوٹتے تھے تو ہماری خورجیاں اونٹ کے گوشت سے بھری ہوتی تھیں۔

 

                   دار الحرب میں کھانے پینے کی چیزیں جب ضرورت سے زائد ہوں تو ان کو فروخت کر نے کا بیان

 

محمد بن مصطفی، محمد بن مبارک، یحیٰ بن حمزہ، ابو عبد العزیز، عبادہ بن نسی، حضرت عبد الرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ ہم نے شہر قنسرین کا محاصرہ کیا شرجیل بن سمط کے ساتھ جب انھوں نے اس شہر کو فتح کیا تو وہاں مال غنیمت میں بکریاں اور گائیں ملیں۔ تو کچھ تو ہم میں تقسیم کر دیں اور باقی مال غنیمت میں شامل کر دیں۔ پھر میں معاذ بن جبل سے ملا اور یہ قصہ ان سے بیان کیا۔ حضرت معاذ نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مل کر خیبر کا جہاد کیا ہے وہاں ہم کو بکریاں ملیں آپ نے ان میں سے کچھ ہم میں تقسیم فرما دیں اور باقی کو مال غنیمت میں شمار فرما دیا۔

 

                   مال غنیمت میں سے کسی چیز کو بلا ضرورت اپنے کام میں لانا

 

سعید بن منصور، عثمان بن ابی ایبہ، ابو داؤد، ابو معاویہ، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، ابی مرزوق، حضرت رویفع بن ثابت انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ (تقسیم سے پہلے) مسلمانوں کے مال غنیمت کے کسی جانور کی سواری کرے اور بلا کر کے اس کو پھر مال غنیمت میں شامل کر دے۔ اسی طرح اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ مال غنیمت کا کپڑا پہنے اور پرانا کر کے اس کو پھر مال غنیمت میں شامل کر دے۔

 

                   اگر لڑائی میں ہتھیار ملیں تو ان کا استعمال کرنا جنگ میں درست ہے

 

محمد بن علاء، ابراہیم ابن یوسف، ابی اسحاق ، ابو عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں جنگ بدر میں چلا تو میں نے راستہ میں ابو جہل کو پڑا دیکھا اس کے پاؤں پر تلوار کی ضرب تھی۔ میں نے کہا اے دشمن خدا! اے ابو جہل! آخرکار اللہ نے اس شخص کو ذلیل کر دیا جو دین حق سے دور تھا۔ ابن مسعود کہتے ہیں مجھے اس وقت ابو جہل کا خوف نہ تھا۔ ابو جہل بولا مجھے حیرت ہے کہ ایک شخص کو اس کی قوم نے مار ڈالا۔ پھر میں نے اس پر تلوار کا وار کیا مگر کارگر نہ ہوا یہاں تک کہ اس کے ہاتھ سے اس کی تلوار چھوٹ گئی۔ پس میں نے اس کی تلوار سے اس کو قتل کیا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔

 

                   مال غنیمت کی چوری کا گناہ

 

مسدد، یحیٰ بن سعید، بشر بن مفضل، یحیٰ بن سعید، محمد بن یحیٰ بن حبان، ابی عمرہ، حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے کہ اصحاب رسول میں سے ایک شخص جنگ خیبر میں وفات پا گیا پس صحابہ نے (اس کی موت کا اور اس پر نماز جنازہ پڑھنے کا) ذکر آپ سے کیا۔ آپ نے فرمایا اپنے ساتھی پر تم خود ہی نماز پڑھ لو۔ (میں نہیں پڑھوں گا) آپکی یہ بات سن کر لوگوں کے چہرے متغیر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا تمھارے ساتھی نے مال غنیمت میں چوری کی ہے۔ ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں اس کے سامان میں سے یہودی عورتوں کے پہننے کا ایک کپڑا ملا جس کی قیمت دو درہم بھی نہ تھی۔

 

قعنبی، مالک، ثور بن زید، ابی غیث، ابن مطیع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خیبر کے سال میں جہاد کے لیے نکلے لیکن ہم کو مال غنیمت میں سونا چاندی نہ ملا بلکہ کپڑے لتّے اور دوسرا مال و متاع ہاتھ لگا پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی قری کی طرف چلے اور آپ کو ہدیہ میں ایک کالا غلام ملا تھا جس کا نام مدعم تھا۔ جب ہم وادی قری میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا اتنے میں اس کے ایک تیر آ لگا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ ہم نے کہا مبارک ہو اس کو جنت ملی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہرگز نہیں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس نے خیبر کی لڑائی میں جو کمبل مال غنیمت کی تقسیم سے قبل لے لیا تھا آگ بن کر اس پر بھڑک رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک یا دو تسمے لے کر آیا۔ آپ نے فرمایا یہ آگ کا تسمہ تھا یا یہ فرمایا یہ دونوں تسمے آگ کے تھے۔

 

                   جب کوئی شخص مال غنیمت کی معمولی چیز چرائے تو امام اس کو چھوڑ دے اور اس کے اسباب کو نذر آتش نہ کرے

إ

ابو صالح، محبوب بن موسی، اسحاق ، عبد اللہ بن شوذب، عامر ابن بریدہ، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب مال غنیمت پہنچتا تو آپ حضرت بلال کو حکم فرماتے اور وہ لوگوں میں اعلان کرتے تو سب لوگ اپنی اپنی غنیمت لے کر آتے (اور آپ کے پاس جمع کرا دیتے) پھر آپ اس میں سے (بیت المال کے لیے) پانچواں حصہ الگ کر کے باقی کو (تمام مجاہدین میں برابر برابر) تقسیم فرما دیتے۔ پس ایک شخص اس تقسیم کے بعد بالوں کی بنی ہوئی لگام لے کر آیا اور بولا یا رسول اللہ! یہ مال غنیمت کا حصہ ہے۔ آپ نے پوچھا کیا تو نے بلال کو تین مرتبہ اعلان کرتے ہوئے سنا تھا؟ اس نے کہا ہاں! آپ نے دریافت کیا تو پھر کیا چیز اس کے لانے میں مانع تھی؟ اس نے معذرت پیش کی (مگر آپ نے اس کی معذرت قبول نہیں فرمائی) اور آپ نے فرمایا اسی طرح رہ اب تو اس کو قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ اب تو میں تجھ سے اس کو ہرگز قبول نہ کروں گا۔

 

                   مال غنیمت میں سے چوری کرنے کی سزا

 

نفیلی، سعید بن منصور، عبد العزیز بن محمد، صالح، حضرت ابو واقد صالح بن محمد بن زائدہ سے روایت ہے کہ میں مسلمہ کے ساتھ ملک روم میں (جہاد کے لیے) گیا وہاں ایک شخص لایا گیا جس نے مال غنیمت میں سے چوری کیا تھا۔ تو مسلمہ نے سالم سے اس کا مسئلہ دریافت کیا انھوں نے کہا میں نے اپنے والد عبد اللہ سے سنا وہ حضرت عمر سے نقل کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال غنیمت کی چوری کی ہے تو اس کا مال و اسباب جلا دو اور اس کو مارو۔ راوی کا بیان ہے۔ اس کے سامان میں ایک قرآن پاک بھی تھا تو مسلمہ نے سالم سے اس کے متعلق دریافت کیا (کہ اس کا کیا کیا جائے؟) تو انھوں نے کہا کہ اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دی جائے۔

 

ابو صالح محبوب بن موسی، ابو اسحاق ، حضرت صالح بن محمد سے روایت ہے کہ ہم نے ولید بن ہشام کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ ہمارے ساتھ سالم بن عبد اللہ بن عمر اور عمر بن عبد العزیز بھی تھے۔ ایک شخص نے مال غنیمت میں چوری کی تو ولید بن ہشام نے اس کا تمام سامان جلانے کا حکم دیا اور اسے لوگوں میں گھمایا گیا (کہ دیکھو یہ چور ہے) اور اس کو اس کا حصہ بھی نہیں دیا گیا ابو داؤد نے کہا یہ روایت زیادہ صحیح ہے اس کو ایک سے زائد افراد نے روایت کیا ہے کہ ولید بن ہشام نے زید بن سعد کا سامان جلوایا کیونکہ اس نے مال غنیمت میں چوری کی تھی اور اس کو مارا بھی تھا۔

 

محمد بن عوف، موسیٰ بن ایوب، ولید بن مسلم، زہیر بن محمد، عمرو بن شعیب نے بواسطہ والد بسند دادا روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر و عمر نے مال غنیمت میں چوری کرنے والے کا سامان جلایا اور اس کو مارا ابو داؤد کہتے ہیں کہ علی ولید اور ابن نجدہ نے بواسطہ ولید اس میں یہ زیادتی نقل کی ہے کہ اسے اس کے حصے سے بھی محروم کر دیا لیکن یہ زیادتی میں نے ان سے نہیں سنی۔ ابو داؤد کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہمیں اس سند سے بھی پہنچی ہے ولید بواسطہ زہیر بن محمد بسند عمرو ابن شعیب لیکن اس میں عبد الوہاب بن نجدہ نے حصہ سے محروم کر دینے کی زیادتی ذکر نہیں کی۔

 

 

                   مال غنیمت چرانے والے کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہئے

 

محمد بن داؤد بن سفیان، یحیٰ بن حسان، سلیمان بن موسی، ابو داؤد، جعفر بن سعد، حضرت سمرہ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس نے غنیمت کا مال چرانے والے کی پردہ پوشی کی تو وہ بھی اس کے مثل ہے (یعنی وہ بھی اس کے گناہ میں شریک ہو گا)

 

                   جو شخص کسی کافر کو قتل کرے اس کا اسباب اسی کو دیا جائے

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک، یحیٰ بن سعید، عمرو بن کثیر بن افلح، ابو محمد، حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جنگ حنین میں نکلے۔ جب ہمارا مقابلہ کافروں سے ہوا تو مسلمانوں میں افرا تفری پھیل گئی۔ میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ اس نے ایک مسلمان کو مغلوب کر لیا ہے تو میں نے اس کے پیچھے سے آ کر ایک تلوار اس کی گردن پر ماری وہ میری طرف جھپٹا اور مجھے آ کر ایسا دبوچا گویا اس نے مجھے موت کا مزہ چکھا دیا پھر اس کو موت آ گئی تو اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ پھر جب میری ملاقات حضرت عمر سے ہوئی تو میں نے پوچھا کہ آج لوگوں کو کیا ہوا تھا (کہ کافروں سے شکست کھا گئے) انھوں نے جواب دیا کہ اللہ کا حکم یونہی تھا پھر مسلمان واپس ہو گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ گئے اور فرمایا جو کسی کافر کو قتل کرے گا اس کا مال و اسباب اسی کو ملے گا بشرطیکہ اس کا ثبوت ہو۔ ابو قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ سنا تو میں اٹھ کھڑا ہو ا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ گواہ اور ثبوت کہاں سے لاؤں گا اس لیے پھر بیٹھ رہا۔ آپ نے دوبارہ فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کر ے گا تو مقتول کا تمام اسباب اسی کو ملے گا بشرطیکہ کوئی گواہ بھی موجود ہو۔ میں پھر اٹھا مگر یہ خیال کر کے پھر بیٹھ گیا کہ گواہ کہاں میسر ہوں گے۔ پھر جب تیسری مرتبہ آپ نے یہی فرمایا تو میں اٹھ کھڑا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو قتادہ تجھ کو کیا ہو ا؟ پس میں نے اصل صورت حال اور اپنا اشکال بیان کر دیا۔ اتنے میں ایک شخص بولا یا رسول اللہ! اس نے سچ کہا۔ فلاں کافر کا سامان میرے پاس ہے تو وہ سامان مجھے ان سے دلایئے۔ حضرت ابو بکر نے کہا خدا کی قسم ایسا کبھی نہ ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسا کبھی قصد نہ کریں گے کہ ایک شیر خدا کے شیروں میں سے اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور سامان تجھے مل جائے۔ آنحضرت نے فرمایا ابو بکر سچ کہتے ہیں وہ سامان تو اسی کو دے دے ابو قتادہ کہتے ہیں کہ پھر اس نے وہ سامان مجھے دے دیا اور میں نے اس کو فروخت کر کے بنی سلمہ کے محلہ میں ایک باغ خریدا اور یہ پہلا مال تھا جو میں نے اسلام میں حاصل کیا۔

 

موسیٰ بن اسماعیل، حماد اسحاق بن عبد اللہ، ابو طلحہ، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس دن یعنی حنین کے دن کہ جو شخص کسی کافر کو قتل کرے گا تو اس کافر کا مال و اسباب اسی شخص کو ملے گا پس اس دن ابو طلحہ نے بیس کافروں کو قتل کیا اور ان کا سامان بھی لیا اور ابو طلحہ (اپنی بیوی) ام سلیم سے ملے تو دیکھا ان کے پاس ایک خنجر ہے انھوں نے پوچھا اے ام سلیم یہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا خدا کی قسم میرا ارادہ یہ ہے کہ اگر کوئی کافر میرے قریب آئے تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ دوں۔ پس ابو طلحہ نے اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کر دی ابو داؤد نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔ ابو داؤد نے کہا ہماری مراد خنجر ہے۔ اس دن اہل عجم کا ہتھیار خنجر تھے۔

 

 

 

 

جنازوں کا بیان

                   میت کے لیے دعا کرنے کا بیان

 

ابو معمر، عبد اللہ بن عمرو، عبد الوارث، ابو جلاس، عقبہ بن سیار، حضرت علی بن شماخ سے روایت ہے کہ میں مروان کے پاس موجود تھا۔ مروان نے ابو ہریرہ سے پوچھا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز جنازہ میں پڑھی جانے والی دعا کے متعلق کیا سنا ہے؟ ابو ہریرہ نے کہا کیا تو ان باتوں کے باوجود پوچھتا ہے جو تو کہہ چکا ہے؟ مروان نے کہا ہاں علی بن شماخ کہتے ہیں کہ اس سے قبل ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہو چکی تھی۔ ابو ہریرہ نے کہا (آپ جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے) ترجمہ اے اللہ! تو اس کا رب ہے تو نے ہی اس کو پیدا کیا تو نے ہی اس کو اسلام کی راہ دکھائی اور اب تو نے ہی اس کی روح قبض کر لی ہے اور تو اس کے ظاہر و باطن سے اچھی طرح واقف ہے ہم اس کی سفارش کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں پس تو اس کی مغفرت فرما دے۔

 

موسیٰ بن مروان، شعیب، ابن اسحاق ، یحیٰ بن ابی کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو اس کے لیے یوں دعا کی اے اللہ! تو بخشش فرما دے ہمارے زندوں کی اور ہمارے مردوں کی ہمارے چھوٹوں کی اور ہمارے بڑوں کی ہمارے مردوں کی اور ہماری عورتوں کی ہمارے موجود لوگوں کی اور ہمارے غائبین کی۔ اے اللہ! تو ہم سے جس کو زندہ رکھے اس کو ایمان پر زندہ رکھ اور جس کو تو موت دے اس کو اسلام پر موت عطا فرما۔ اے اللہ! تو ہمیں اس کے اجر سے محروم نہ رکھ اور اس کے بعد گمراہ نہ کر۔

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، ولید، ابراہیم، بن موسی، ولید، عبد الرحمن، مروان بن جناح، یونس، حضرت واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ایک مسلمان شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ اس کے لیے یوں دعا فرما رہے تھے اے اللہ! یہ فلاں ابن فلاں تیری امان میں ہے پس تو اس کو قبر کے عذاب سے بچا لے۔ عبد اللہ کی روایت میں یوں ہے یہ تیری امان میں ہے پس تو اس کو قبر کے فتنہ اور دوزخ کے عذاب سے بچا لے تو صاحب وفا اور صاحب حق ہے۔ اے اللہ! تو اس کی مغفرت فرما اور اس پر رحم فرما بیشک تو بخشنے والا اور مہربان ہے۔۔۔ عبد الرحمن نے مروان بن جناح سے یہ حدیث بصیغہ عن روایت کی ہے۔

 

                   قبر پر نماز جنازہ پڑھنا

 

سلیمان بن حرب، مسدد، حماد، ثابت، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک سیاہ فام شخص (یا عورت) مسجد (نبوی) میں جھاڑو دیا کرتا تھا ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو نہ پایا تو اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے اس کی خبر کیوں نہ کی؟ آپ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتاؤ کہاں ہے؟ لوگوں نے بتا دیا پس آپ نے اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی۔

 

                   جو مسلمان کافروں کے ملک میں مر جائے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان

 

قعنبی، مالک بن انس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس دن نجاشی (شاہ حبشہ) کا انتقال ہوا تو آپ نے لوگوں کو اس کو اطلاع کی اور آپ اپنے اصحاب کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے آپ نے ان کے ساتھ صف باندھی اور چار تکبیریں کہیں۔

 

عباد بن موسی، اسماعیل ابن جعفر، اسرائیل، ابو اسحاق ، ابو بردہ، حضرت ابو ہریرہ کے والد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو نجاشی کے ملک میں چلنے جانے کا حکم فرمایا (یعنی جب مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہونے لگا تو آپ نے لوگوں کو حبشی کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا) پھر اس کا قصہ بیان کرنے ہوئے کہا کہ نجاشی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں اور محمد وہ شخص ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیھما السلام نے دی ہے اگر میں امور سلطنت میں مشغول نہ ہوتا تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ کی جوتیاں اٹھاتا۔

 

                   ایک قبر میں ایک ساتھ کئی مُردوں کو دفن کرنا اور کوئی علامت مقرر کرنا

 

عبدالوہاب بن نجدہ، سعید بن سالم، یحیٰ بن فضل، حاتم ابن اسماعیل، کثیر بن زید حضرت مطلب سے روایت ہے کہ جب عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ (بقیع میں) لایا گیا اور وہیں ان کو دفن کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو پتھر لانے کا حکم فرمایا (تاکہ قبر پر بطور نشان نصب فرمائیں) لیکن وہ اس کو اٹھا نہ سکا تو آپ خود ہی اس کو اٹھانے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ نے اپنی دونوں آستینیں اوپر چڑھا لیں۔ مطلب کہتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ واقعہ نقل کیا ہے وہ کہتا ہے کہ گویا میں اب بھی اپنی آنکھوں سے آپ کے ہاتھوں کی سفیدی کی طرف دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ نے اپنے ہاتھوں کو کھولا تھا اور پھر پتھر اٹھا کر عثمان کی قبر کے سرہانے نصب فرمایا تھا اور آپ نے اس پتھر سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تو جانتا ہے کہ یہ میرے بھائی (عثمان بن مظعون) کی قبر ہے اور میرے اہل خانہ میں سے جب کسی کا انتقال ہو گا تو میں اس کو بھی اس کے آس پاس ہی دفن کروں گا

 

                   قبر کھودنے والا اگر مُردے کی ہڈی دیکھے تو اس کو توڑے نہیں بلکہ چھوڑ دے اور دوسری جگہ کھودے

 

قعنبی، عبد العزیز بن محمد، سعد، ابن سعید، عمرہ بنت عبد الرحمن، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مردہ کی ہڈی توڑنا (گناہ میں) ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی ہڈی توڑنا۔

 

                   بغلی قبر بنانے کا بیان

 

اسحاق بن اسماعیل، حکام بن سلم، علی بن عبد الاعلی، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لحد ہمارے واسطے ہے اور شق ہمارے غیر کے لیے ہے۔

 

                   میت کو رکھنے کے لیے کتنے آدمی قبر میں جائیں؟

 

احمد بن یونس، زہیر، اسماعیل بن ابی خالد، حضرت عامر شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت علی فضل بن عباس اور اسامہ بن زید نے غسل دیا اور ان حضرات نے انھیں قبر میں اتارا۔ راوی نے کہا مرحب (یا ابن ابی مرحب) نے بیان کیا کہ ان حضرات نے اپنے ساتھ عبد الرحمن بن عوف کو بھی شریک کر لیا۔ جب حضرت علی تدفین سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ آدمی کا کام اس کے گھر والے ہی کیا کرتے ہیں۔

 

محمد بن صباح بن سفیان، ابن ابی خالد، شعبی، حضرت ابو مرحب سے روایت ہے کہ عبد الرحمن بن عوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر میں اترے تھے۔ پھر کہا گویا میں ان چاروں حضرات کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ (یعنی حضرت علی فضل بن عباس اسامہ بن زید اور عبد الرحمن بن عوف)

 

                   مردہ کو قبر میں کس طرح داخل کریں

 

عبد اللہ بن معاذ، شعبہ، حضرت ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت جارث نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کی نمازہ جنازہ عبد اللہ بن یزید پڑھائیں لہذا انھوں نے ہی ان کی نماز پڑھائی۔ پھر انھوں نے ان کو قبر کے پائی ناتے کی طرف سے قبر میں داخل کیا اور یہ کہا یہ سنت ہے۔

 

                   قبر کے پاس کس طرح بیٹھنا چاہئے

 

عثمان بن ابی شیبہ، جریر، اعمش، منہال، حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک انصاری شخص کے جنازہ میں شریک ہوئے جب ہم قبر پر پہنچے تو اس وقت تک قبر تیار نہ ہوئی تھی۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبلہ کی طرف رخ کر کے بیٹھ گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی بیٹھ گئے۔

 

                   میت کو جب قبر میں رکھنے لگیں تو کیا دعا پڑھیں

 

محمد بن کثیر، مسلم بن ابراہیم، ہمام، قتادہ، ابو صدیق، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میت کو قبر میں اتارتے تو یہ دعا پڑھتے بِسْمِ اللَّہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ (ترجمہ) میں اس میت کو قبر میں رکھتا ہوں اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت پر۔ یہ الفاظ مسلم بن ابراہیم نے نقل کیے ہیں۔

 

                   اگر کسی مسلمان کا کوئی کافر و مشرک رشتہ دار مر جائے تو کیا کرنا چاہئے

 

مسدد، یحییٰ، سفیان، ابو اسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابو طالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لیے دعا فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابو طالب کی وفات حالت کفر پر ہوئی۔

 

                   قبر کو گہرا کھودنا

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، سلیمان بن مغیرہ، حمید، ابن ہلال، حضرت ہشام بن عامر سے روایت ہے کہ جنگ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس انصار آئے اور عرض کیا ہم زخمی ہیں اور تھکے ہوئے ہیں پس آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ یعنی ہم شہداء کی قبریں کس طرح کھودیں تو آپ فرمایا قبر کشادہ کھودو اور ایک قبر میں دو اور تین کو دفن کر دو۔ لوگوں نے پوچھا اس صورتیں کس کو آگے رکھیں (قبلہ کی جانب) تو آپ نے فرمایا جو قرآن زیادہ جانتا ہو۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے والد عامر بھی اسی دن شہید ہوئے تھے اور دو یا ایک کے ساتھ دفن کیے گئے تھے۔

 

ابو صالح، ابو اسحاق ، ثوری، ایوب، حضرت حمید بن ہلال سے بھی اسی سند و متن کے ساتھ مروی ہے اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ نے فرمایا قبر کو گہرا کھودو۔

 

موسیٰ بن اسماعیل ، جریر، حمید بن ہلال ، سعد بن ہشام بن عامر سے بھی سابق حدیث کی طرح روایت مروی ہے

 

                   قبر کو برابر کرنا

 

محمد بن کثیر، سفیان، حبیب بن ابی ثابت، ابو وائل، حضرت ابو ہیّیاج اسدی سے روایت ہے کہ مجھے حضرت علی نے بھیجا اور فرمایا کہ میں تجھے اس کام پر بھیج رہا ہوں جس کام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا اور وہ کام یہ تھا کہ کسی اونچی قبر کو برابر کیے بغیر اور کسی تصویر کو مٹائے بغیر نہ چھوڑوں۔

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، حضرت ابو علی ہمدانی سے روایت ہے کہ ہم فضالہ بن عبید کے پاس ملک روم کے ایک مقام بروذس میں تھے وہاں ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا تو فضالہ نے اس کی قبر بنانے کا حکم کیا پس قبر زمین کے برابر بنائی گئی اس کے بعد کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے۔ آپ قبروں کے برابر کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ ابو داد نے کہا روذس سمندر کا ایک جزیرہ ہے۔

 

احمد بن صالح، ابن ابی فدیک، عمرو بن عثمان بن ہانی، حضرت قاسم سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس گیا اور ان سے عرض کیا اے میری ماں میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے دونوں اصحاب کی قبر کھول دیجئے پس انھوں میرے لیے تینوں قبریں کھول دیں جو نہ تو بہت بلند تھیں اور نہ بالکل زمین سے ملی ہوئی اور ان پر میدان کی سرخ کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ ابو علی نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر آگے ہے اور آپ کے سر مبارک کے پاس حضرت ابو بکر کی قبر ہے اور آپ کے پاؤں کے پاس حضرت عمر فاروق کی قبر ہے اس طرح حضرت عمر کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک کی طرف ہے۔

 

                   جب دفن کر کے فارغ ہوں اور لوٹنے کا قصد ہو تو میت کے لیے مغفرت طلب کریں

 

ابراہیم بن موسی، ہشام، عبد اللہ بن بحیر، ہانی، حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور اس کیلئے ثابت قدمی کی دعا کرو کیونکہ اب اس سے سوال ہو گا۔

 

 

 

خرید و فروخت کا بیان

 

 

                   مخابرہ کے بیان میں

 

ابو حفص عمر بن یزید، عباد بن عوام، سفیان بن حسین، یونس بن عبید عطاء، جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزانبہ محاقلہ اور استثنائی بیع سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ استثنائی بیع میں استثناء کی مقدار معلوم ہو، (تو جائز ہے)

 

یحیٰ بن معین، ابن رجاء، ابن خثیم، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے مخابرہ کو ترک نہیں کیا تو اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کر رہا ہے۔

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، عمر بن ایوب، جعفر، بن برقان، ثابت بن حجاج، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا مخابرہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ مخابرہ کیا ہے؟ فرمایا کہ تو زمین کے نصف یا ثلث یا ربع حصہ کی پیداوار کے بدلہ میں زمین لے لے۔

 

                   مساقات

 

احمد بن حنبل، یحییٰ، عبید اللہ، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل خیبر کے ساتھ ان کے کھیت میں یا باغ کے پھلوں میں، و نصف مسلمانوں کی اور نصف اہل خیبر کی۔

 

قتیبہ بن سعید، لیث، محمد بن عبد الرحمن، ابن غنج، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کے کھجور کے باغات اور ان کی زمینیں واپس دے دی تھیں اور معاملہ اس پر طے کیا تھا کہ وہ ان زمینوں میں کام کریں گے اور اس کے پھلوں میں سے نصف حصہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہو گا۔

 

ایوب بن محمد، عمر بن ایوب، جعفر، بن برقان، میمون بن مہران، مقسم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خیبر کو فتح فرمایا اور اہل خیبر کو مشروط کر دیا اس کا خیبر کی زمینیں اور اس کا سونا چاندی سب کچھ ہمارا (مسلمانوں کا) ہو گا، اہل خیبر کہنے لگے کہ ہم اپنی زمین کو آپ کی نسبت زیادہ جانتے ہیں پس وہ زمینیں ہمیں دے دیجیے اس شرط پر کہ ہم نصف حصہ پھلوں کا اور پیداوار کا آپ کو دیں گے۔ اور نصف ہمارے لئے ہو گا، چنانچہ ہم نے وہ زمینیں انہیں دے دیں کہ نصف پیداوار تمہاری اور نصف ہماری ہو گی۔ راوی کا خیال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی شرط پر انہیں زمینیں دی تھیں پھر جب کھجور کے اترنے کا وقت آیا تو اہل خیبر کے پاس حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے اور وہ جا کر باغ کی کھجور کا اندازہ لگاتے اور یہی (یعنی اندازہ لگانے کو) اہل مدینہ خرص کہتے ہیں۔ اور ان سے کہتے کہ ان کھجور کے درختوں میں اتنی اتنی کھجوریں ہوں گی۔ اہل خیبر کہتے کہ اے ابن رواحہ تم نے ہم پر کثرت کر دی۔ عبد اللہ بن رواحہ فرماتے ہیں کہ پس میں کھجور کے توڑنے کا انتظار کروں گا، اور تمہیں اس کا نصف دوں گا جتنا میں نے تم سے کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ صحیح ہے اور سچ ہے اور اسی کی وجہ سے زمین و آسمان قائم ہیں ہم راضی ہیں اتنا لینے پر جتنا تم نے کہا ہے۔

 

علی بن سہل الرملی، زید بن ابی زرقاء سے اور وہ جعفر بن برقان سے مندرجہ بالا حدیث روایت کرتے ہیں اور فخرز، کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کُلَّ صَفْرَاءَ وَبَیْضَاءَ، ، کی تفسیر سونے چاندی سے کرتے ہیں۔

 

محمد بن سلیمان، کثیر، ابن ہشام، جعفر، بن برقان مقسم سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب خیبر کو فتح کیا آگے مذکورہ بالا حدیث روایت کی اور اس میں ذکر کیا کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کھجوروں کا اندازہ لگایا اور فرمایا کہ کھجور کے کٹنے کا انتظار کروں گا اور جتنا میں نے تم سے کہا ہے اس کا نصف تمہیں دوں گا۔

 

یحیٰ بن معین، حجاج، ابن جریج، ابن شہاب، عروہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا کرتے تھے اور وہ اندازہ لگایا کرتے تھے کھجور کا جب اچھی ہو جاتی تھی (یعنی پکنے کے قریب) لیکن ابھی کھائی نہیں جاتی پھر یہودیوں کو اختیار دیا جاتا کہ اس اندازہ کے مطابق اسے قبول کر لیں یا مسلمانوں کے سپرد کر دیں آسان اندازہ کے مطابق تاکہ زکوٰۃ   کا صحیح شمار کیا جا سکے قبل اس کے پھل کھائے جائیں اور متفرق ہو جائیں۔

 

                   درختوں پر پھلوں کا اندازہ کرنے کا بیان

 

ابن ابی خلف، محمد بن سابق ابراہیم بن طہمان، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالی نے خیبر عطا فرمایا تو آپ نے انہیں اس میں برقرار رکھا اور اسے اس کی پیداوار کو اپنے اور ان کے درمیان مشترک کر لیا، پس عبد اللہ بن رواحہ کو بھیجا اور انہوں نے اس کا اندازہ لگایا اور درختوں پر (یعنی پھل ابھی درختوں پر ہی تھا۔ )

 

احمد بن حنبل، عبد الرزاق، محمد بن بکر، بن جریج، ابو زبیر، فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ کو سنا وہ فرماتے تھے کہ خیبر کے پھلوں کا اندازہ لگایا ابن رواحہ نے چالیس ہزار وسق اور ان کا خیال یہ ہے کہ جب یہود کو ابن رواحہ نے اختیار دیا تو انہوں نے کھجور (سب کی سب) لے لی اور بیس ہزار وسق ان کے اوپر واجب تھے (یعنی کھجور تو سب لے لیں اور آدھی کھجور کی قیمت بیس ہزار وسق کی دینی قبول کر لی۔ )

 

                   اجارہ کا بیان

 

ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، حمید بن عبد الرحمن، مغیر بن زیاد، عبادہ بن نسی، اسود بن ثعلبہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اہل صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن کریم اور کتاب اللہ کی تعلیم دی ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیہ دی۔ میں نے کہا کہ اس کی مالیت تو کچھ نہیں اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا (مقصد یہ کہ اس ہدیہ کے قبول کرنے کا خیال تھا اس واسطے کہ اس کی مالیت تو کچھ خاص نہیں تھی کہ اس کو تعلیم کا معاوضہ خیال کرتا اور نیت یہ تھی کہ اس کے ذریعہ راہ خدا میں تیر اندازی کروں گا) میں اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤں گا اور سوال کروں گا، چنانچہ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک آدمی نے مجھے کمان ہدیہ کی ہے ان میں سے کہ جنہیں کتاب اللہ اور قرآن کی تعلیم دیتا ہوں اور اس کمان کی کچھ مالیت بھی نہیں ہے اور اس کے ذریعہ میں راہ خدا میں تیر اندازی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیرے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے تو اسے قبول کر لے۔

 

عمرو بن عثمان، کثیر، بن عبید بقیہ، بشر بن عبد اللہ بن یسار، عمرو عبادہ بن نسیان سند سے بھی مذکورہ حدیث منقول ہے لیکن پچھلی حدیث مکمل ہے جبکہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا کہ آگ کا انگارہ ہے تیرے دونوں کندھوں کے درمیان جسے تو نے ہار بنا لیا ہے یا لٹکا لیا ہے۔

 

                   طبیب کی کمائی کا بیان

 

مسدد ابو عوانہ، ابی بشر ابی متوکل، ابو سعید سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت سفر میں جا رہی تھی ایک عرب کے قبیلہ میں ان کا پڑاؤ ہوا تو انہوں نے ان قبیلہ والوں سے مہمان نوازی کا مطالبہ کیا لیکن اہل قبیلہ نے انکار کر دیا میزبانی سے۔ راوی کہتے ہیں کہ (اتفاقا) اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔ انہوں نے اس کا ہر چیز سے علاج معالجہ کیا لیکن اسے کسی چیز نے نفع نہیں دیا۔ ان میں سے بعض لوگ کہنے لگے کہ کاش تم اس جماعت کے پاس جاتے جس نے تمہارے یہاں پڑاؤ ڈالا ہے شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے سردار کو نفع بخش دے (پس ان میں سے کچھ لوگ صحابہ کے پاس آئے) اور کہا کہ ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے پس کہا تم میں سے کسی کے پاس کوئی تعویذ وغیرہ ہے جماعت میں سے ایک شخص نے کہا میں تعویذ کرتا ہوں لیکن ہم نے تم سے مہمان نوازی چاہی تو تم نے ہماری مہمان نوازی سے انکار کر دیا لہذا میں تعویذ نہیں کروں گا حتی کہ تم کوئی اجرت وغیرہ مقرر کرو میرے لیے، انہوں نے ان کے واسطے بکریوں کا ایک ریوڑ اجرت کے طور پر مقرر کیا تو وہ ان کے سردار کے پاس آئے اور اس پر سورۃ فاتحہ پڑھی اور پڑھ کر پھونکنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ اس کو شفاء ہو گئی گویا کہ کسی بندش سے چھوٹ گیا، راوی کہتے ہیں پھر انہوں نے جس پر معاہدہ کیا تھا اسے پورا کیا، ان لوگوں نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن تعویذ کرنے والے صاحب نے کہا کہ ایسا نہ کرو یہاں تک کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پاس پہنچ جائیں اور ان سے اس کے حکم کے بارے میں معلوم کر لیں، پس اگلی صبح ہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور سارا واقعہ ذکر کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہیں کہاں سے معلوم ہے کہ یہ سورۃ فاتحہ تعویذ ہے تم نے اچھا کیا اپنے ساتھ میرا بھی حصہ مقرر کرو۔

 

حسن بن علی، یزید بن ہارون، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، معبد بن سیرین، ابو سعید خدری، اس سند سے بھی مذکورہ بالا روایت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی منقول ہے۔

 

عبید اللہ بن معاذ، شعبہ، عبد اللہ بن ابی سفر، شعبی، خارجہ بن صلت، اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں وہ ایک قوم کے پاس گزرے اس قوم کے لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ تم بیشک اس آدمی (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس سے خیر لے کر آئے ہو، پس ہمارے اس آدمی کیلئے تعویذ کر دو، پھر وہ ایک مغلوب الحواس شخص کو جکڑ کر لائے تو انہوں نے سورۃ فاتحہ کے ذریعہ اس پر تعویذ کیا تین دن تک صبح شام اور جب بھی سورۃ فاتحہ ختم کرتے تو منہ پر تھوک جمع کر کے اس آدمی کے اوپر تھوکتے وہ ایسا ہو گیا کہ بندشوں سے چھٹکارا پایا ہو، ان لوگوں نے انہیں کوئی چیز دی، وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حاضر ہوئے اور سارا واقعہ ذکر کیا، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اسے کھا، میری عمر کی قسم کوئی تو باطل تعویذ کر کے کھاتا ہے (تو وہ ہلاک ہو گیا) بیشک تو نے تو سچا کیا ہے (یعنی جو لوگ باطل رقیہ کرتے ہیں وہ ہلاکت میں پڑ گئے لیکن تمہارا تعویذ تو بالکل حق ہے لہذا اس کے عوض میں ملنے والی چیز کھا سکتے ہو۔ )

 

                   پچھنے لگوانے کی اجرت کا بیان

 

موسیٰ بن اسماعیل، ابان، یحییٰ، ابراہیم بن عبد اللہ ابن قارظ سائب بن یزید رافع بن خدیج سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پچھنے لگانے والے کی اجرت ناپاک ہے کتے کی قیمت ناپاک ہے اور بد کار و فاحشہ عورت کی کمائی ناپاک ہے۔

 

عبد اللہ بن مسلمہ، قعنبی، مالک، ابن شہاب، ابن محضہ، اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حجامت کی اجرت کی اجازت چاہی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں اس سے منع فرما دیا، وہ مسلسل اصرار کرتے رہے، اور سوال کرتے رہے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ اس سے اپنے اونٹوں سے چارہ کھلائے اور غلام کو کھلائے (یعنی خود استعمال نہ کرے۔ )

 

مسدد، یزید، ابن زریع، خالد، عکرمہ، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود پچھنے لگائے اور حجام کو اس کی اجرت دی۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ناپاک سمجھتے تو اسے اجرت نہ دیتے۔

 

قعنبی، مالک، حمید، انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ ابو طیبہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پچھنے لگائے اور آپ نے اس کے لئے ایک صاع کھجور دینے کا حکم فرمایا اور اس کے آقاؤں کو حکم دیا کہ اس کے خراج میں سے کمی کر دیں۔

 

عبید اللہ بن معاذ، ابی شعبہ، محمد بن حجادہ ابو حازم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لونڈیوں سے کمائی لینے سے منع فرمایا ہے۔

 

ہارون بن عبد اللہ ہاشم بن قاسم، عکرمہ طارق بن عبد الرحمن سے روایت ہے کہ حضرت رافع بن رفاعہ انصار کی ایک مجلس میں تشریف لائے اور فرمایا کہ بیشک ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آج منع فرمایا ہے پھر انہوں نے چند اشیاء کا تذکرہ کیا (یعنی ان چیزوں کا جن سے آپ نے منع فرمایا الا یہ کہ اس نے اپنے ہاتھ سے محنت کی ہو) اور فرمایا کہ اس طرح اپنی انگلیوں سے مثلاً روٹی پکا کر، کپڑا بن کر اور نقش و نگار (بے جان اشیاء) بنا کر۔

٭٭٭

نوٹ: کچھ متن اصل ایکسل فائل میں ہی نا مکمل ہے، اس کی معذرت۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

مائکرو سافٹ ایکسل  سے تبدیلی، باز تدوین ، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

) اور فرمایا کہ اس طرح اپنی انگلیوں سے مثلاً روٹی پکا کر، کپڑا بن کر اور نقش و نگار (بے جان اشیاء) بنا کر۔

٭٭٭

نوٹ: کچھ متن اصل ایکسل فائل میں ہی نا مکمل ہے، اس کی معذرت۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

مائکرو سافٹ ایکسل  سے تبدیلی، باز تدوین ، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید