FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اردو تراجم قرآن: ایک سرسری جائزہ

               رضاء اللہ عبدالکریم مدنی

 

قرآن مجید اللہ رب العالمین کا وہ آخری پیغام اور کلام ہے جو اس نے حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اس دنیا کے آخری رسول و نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ساری انسانیت کے لیے نازل فرمایا چونکہ بنیادی طور پر اس کے اولیں مخاطب عرب تھے اور ہزار خرابیوں کے باوجود زبان دانی، فصاحت و بلاغت اور دیگر اصناف معانی و بدیع سے بخوبی واقف تھے اس لیے ان کو قرآن کے سمجھنے میں دشواری نہ ہوتی تھی لیکن پھر بھی بعض دفعہ تشریح و توضیحِ مطالب کے خواہاں ہوتے تھے جس کو حامل قرآن، اللہ کی ہدایت کی روشنی میں بتلا دیا کرتے تھے۔ اس کی ایک دو نہیں متعدد مثالیں علوم قرآن پر لکھی گئی کتابوں میں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں یہاں اس تفصیل کی گنجائش نہیں۔

اسلام ساری دنیا کے لیے ہے اور قرآن ساری انسانیت کے لیے آیا ہے اس لیے غیر عرب افراد کے لیے اس کے سمجھنے میں دشواری لازمی تھی چونکہ عرب میں غیر عرب مسلم جو قرآن کے مطالب و معانی کو سمجھ نہ سکیں، خال خال ہی تھے بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے پھر ان کے لیے بجائے ترجمہ کے عربی زبان سیکھنا زیادہ بہتر تھااس لیے ان ادوار میں ترجمہ کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی لیکن جب اسلام جزیرہ عرب سے باہر نکلا اور غیر عرب اقوام نے اسلام کی دولت کو قبول کر لیا تو ان کے لیے اس کی ضرورت پڑی اور بڑھتی رہی لیکن دولت امویہ وعباسیہ کے زمانہ تک چونکہ عربی زبان کا بول بالا تھا، مدارس و مکاتب و تعلیم گاہوں میں تمام علوم کی تعلیم عربی میں ہو رہی تھی اس لیے اس کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی لیکن بعد کے ادوار میں حالات نے پلٹا کھایا اور عربی کی جگہ فارسی، ترکی یا اردو نے لے لی تو علماء حق نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا اور باقاعدہ تراجم کی طرف عنان توجہ مبذول کی۔

یہاں چونکہ ہمیں چند باتیں اردو تراجم قرآن کے تعلق سے عرض کرنی ہیں اس لیے باقی تفصیلات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

ہندوستان میں ترجمہ قرآن کی ضرورت ہمیشہ سے تھی لیکن اس کے لیے کوئی باقاعدہ اور پروگرام کے تحت کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس بارے میں گرچہ بہت سی کوششوں کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے لیکن در حقیقت اس میں قابل ذکر اور ناقابل فراموش اور اثر انگیز کام شاہ عبدالرحیم رحمہ اللہ کے فرزند دلبند الشاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اٹھایا۔ آپ نے جو کار ہائے تجدید انجام دیے ان میں کلام اللہ کا فارسی ترجمہ بھی ہے۔ اس زمانے میں علماء سو کی کثرت تھی اور دین محض رسم و رواج کا نام رہ گیا تھا، احادیث متروک ہو چکی تھیں، شرک خفی و جلی کا بازار گرم تھا ایسے میں آپ نے المُسوی و المصفی، شرح موطاء کے علاوہ حجۃ اللہ البالغہ جیسی انقلاب آفرین کتابیں تصنیف فرمائیں اور صدیوں سے چھائے ہوئے جمود کو ضربات شدیدہ سے توڑ دیا۔ لوگ جس رواجی دین و مذہب کے خوگر ہو رہے تھے اس کی تردید اور اصل دین کو اجاگر کرنے کے لیے اسلام کی اصلِ اول قرآن کو وقت کی رائج زبان میں منتقل کرنا ضروری خیال کیا اور یہ کام بڑی محنت شاقہ کے بعد پورا ہوا۔ جب علماء زمانہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ یہ گھرانا ساری دلّی اور اطراف میں مرجع عام کی حیثیت رکھتا تھا، شاہ صاحب کو بے عزت کرنے اور ان کو تکلیفات شاقہ پہنچانے میں پوری کوشش کی گئی مگر مشیت الٰہی سے رفتہ رفتہ حالات پر سکون ہو گئے اور حقیقت میں یہ ترجمہ زبردست فکری انقلاب کا باعث ہوا اور یہاں سے قرآن فہمی کی ایک ایسی لہر شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی۔

شاہ صاحب کے اس ترجمہ کے بعد ان کے فرزند شاہ عبدالقادر نے اسی ترجمہ کو بنیاد بنا کر اردو میں (اس وقت اسی کا نام ہندی تھا) ایسابامحاورہ ترجمہ کیا کہ مطالب قرآنی کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور ہر لفظ کے انتخاب میں کمال احتیاط کا مظاہر فرمایا۔ جو لفظ جہاں رکھ دیا ہے وہاں وہ ایسے بیش قیمت نگیں کا قائم مقام ہے جس کا کوئی بدل لانا مشکل ہے۔ وہ حقیقت میں شاہکار ادب اور سہل ممتنع کا مرقع ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن جماد ی الاول ۱۲۴۵؁ ھ مطابق ۱۸۲۹؁ء مطبع احمد میں طبع ہوا اور اس کے بعد لاتعداد بار طبع ہوا اور ہو رہا ہے۔

شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے اس ترجمہ کے بعد ان کے بڑے بھائی شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے تحت اللفظ ترجمہ کیا، اس کا مقصد ان کے چھوٹے بھائی کے ترجمہ سے قطعاً جدا تھا۔ اس ترجمہ کی مدد سے قرآن کے ذریعہ عربی سیکھنا اور ترجمہ کرنے کی مشق کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اس کام میں جو دقّت ہے وہ وہی جان سکتا ہے جس نے یہ کام کیا ہو اور عربی سے نابلد لوگوں کو عربی سے اردو میں ترجمہ کی ہمت دلائی ہو، اس کا اصل ادراک سوائے جید علماء کے کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ مترجم کے ترجمہ سے بار بار احساس ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کے ترجمہ کی ذمہ داری کا اس کو پورا ادراک ہے۔ وہ ایک لفظ بھی اپنی طرف سے اضافہ نہیں کرنا چاہتا اور جانتا ہے کہ ترجمہ اور وہ بھی کلام الٰہی کا کتنا دشوار امر ہے۔ یہ ان کی قابلیت، علمیت اور للہیت اور احساس ذمہ داری پر دال ہے۔ یہ ترجمہ پہلی بار دو جلد میں قواعد موضح قرآن کے ساتھ اسلامی پریس کلکتہ میں ۱۲۵۴؁ ھ مطابق ۱۸۳۸؁ ء ۱۲۵۶؁ ھ مطابق ۱۸۴۰؁ ء میں طبع ہوا۔

ان دو ترجموں کے بعد ایک دو کو چھوڑ کر تمام ترجمے ان ہی سے ماخوذ اور ان ہی کے خوشہ چیں ہیں جن میں بعض ترجموں نے شہرت پائی اور بعض ترجمے ایک دو بار کے بعد منصہ شہود پر نہیں آئے اور آج سوائے مخصوص لائبریریوں اور مکتبات کے کہیں نہیں پائے جاتے۔

               سرسید احمد خاں

سرسید احمد المتوفی کا نام بھی مفسر ین و مترجمین قرآن میں آتا ہے۔ زبان اگرچہ شستہ، انداز سہل ہے مگر مخصوص عقائد و نظریات کے باعث ان کا ترجمہ وتفسیر علماء کے یہاں ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنے رہے یہاں تک کہ متعدد علماء کرام نے ان کی تفسیر و ترجمہ کی تردید میں مستقل کتابیں لکھیں۔

               تفسیر اکسیر اعظم

شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ایک لائق شاگرد مولانا محمد احتشام الدین مراد آبادی نے ایک تفسیر اکسیر اعظم کے نام سے لکھی جو پہلی بار مطبع احتشامیہ مراد آباد میں اور پھر مطبع نول کشور میں ۹ جلدوں میں طبع ہوئی، ترجمہ نہایت عمدہ اور تفسیر عالمانہ ہے۔

               تفسیر فتح المنان

المعروف بتفسیر حقانی از مولانا ابو محمد عبدالحق حقانی دہلوی المتوفی، یہ تفسیر اور ترجمہ بھی نہایت عمدہ اور عالمانہ ہے۔ پہلی بار آٹھ جلدوں میں ۱۳۰۵؁ھ مطابق ۱۸۸۷؁ء میں شروع ہوئی، متعدد بار چھپ چکی ہے۔

               تفسیر ثنائی

ایک آسان، مختصر اور مخالفین اسلام کے اعتراضات کے جواب پر مشتمل تفسیر، تفسیر ثنائی کے نام سے حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری ؒ (المتوفی ۱۹۴۸؁ ء )نے بھی لکھی۔ یہ سات جلدوں میں تیار ہوئی اور پہلا ایڈیشن ۱۸۹۵ ؁ء میں طبع ہوا جس کے بعد بار بار طبع ہوئی اور ہو رہی ہے۔ مولانا ہی کے ترجمہ کو بنیاد بنا کر اور اس پر منتخب حواشی کا اضافہ کر کے حضرت مولانا محمد داؤد راز ؒ صاحب نے ایک نیا ایڈیشن چھاپا جس کی مانگ برابر جاری ہے اور اکثر مارکیٹ میں دستیاب نہیں رہتا۔

               تفسیر مواہب الرحمٰن

مولانا سید امیر علی ملیح آبادی( المتوفی ۱۹۱۹ ؁ء )تلمیذ شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کی تفسیر مواہب الرحمٰن اور ترجمہ قرآن بھی ہے جو ۱۹۷۷؁ ء میں منشی نول کشور نے چھاپا اگر چہ ترجمہ میں روانی نہیں ہے مگر تفسیر بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے، متعدد بار طبع ہو چکی ہے۔ عربی کی بڑی بڑی تفسیروں سے بے نیاز کرنے والی ہے۔

               غرائب القرآن

شمس العلماء مولوی حافظ نذیر احمد صاحب جو ڈپٹی نذیر احمد (المتوفی ۱۹۱۲؁ء )کے نام سے موسوم ہیں اور اردو ادب میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں، انھوں نے بھی قرآن کا ترجمہ کیا سلاست، روانی اور حصول مقصد میں یہ ترجمہ بہت اچھا ہے۔ البتہ موصوف نے دہلی کے عام محاوراتی اسلوب میں ترجمہ کر کے عام روش سے ہٹ کر کام کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کے ترجمہ قرآن کو ایک زمانہ میں بڑی مقبولیت حاصل تھی اور آج بھی اس کی زبان نہایت سادہ اور عام فہم ہے یہ ترجمہ ۱۸۹۵؁ء میں مکمل ہو چکا تھا اور دس برس کے قلیل عرصہ میں سات بار چھپ چکا تھا۔ ساتویں بار ۱۹۰۵؁ ء میں طبع ہوا۔ آج کل مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

               ترجمہ فتح الحمید

سادہ، سلیس اور عام فہم ترجمہ فتح الحمید کے نام سے مولوی فتح محمد خاں جالندھری المتوفی نے کیا جو اپنی سادگی، سلاست اور عوامی مذاق کا ہونے کے باعث بہت مشہور ہوا۔ علماء و عوام نے اس کو بہت پسند کیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن تقریباً ۱۹۰۰؁ء میں رفاہ عام پریس امرتسر سے طبع ہوا اور برابر چھپ رہا ہے۔

               موضحۃ الفرقان، وتفسیر وحیدی

تقریباً ۱۹۰۵؁ ء میں ترجمہ موضحۃ الفرقان اور حاشیہ پر تفسیر وحیدی کے نام سے ایک ترجمہ حضرت مولانا وحید الزماں حیدر آباد ی صاحب المتوفی نے شائع فرمایا۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ زبان شستہ رواں اور فصیح ہے۔ اسلوب عالمانہ مگر سلیس ہے۔ جا بجا قوسین میں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے جس سے معانی و مطالب کے بیان میں پوری وضاحت ہو گئی ہے۔ تفسیر میں ائمہ محدثین کے طریق کو اختیار فرمایا گیا ہے۔

               ترجمہ وتفسیر بیان القرآن

یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ۱۹۴۳؁ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۰۸؁ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

               موضح فرقان حمید

علماء دیوبند کے شیخ الشیوخ حضرت مولانا محمود الحسن، المعروف شیخ الہند المتوفی کا ترجمہ و حواشی از حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ، مشہور و مقبول ترجمہ ہے۔ تفسیری حواشی بھی بہت وقیع ہیں لیکن تصوف اور علم کلام کے بعض مباحث جو باب عقیدہ میں خلل پیدا کرتے ہیں اگر نہ ہوتے تو اچھا تھا۔ ترجمہ نہایت آسان، سلیس اور عمدہ ہے اور اکثر چھپتا رہتا ہے۔

               ترجمہ وتفسیراز مرزا حیرت دہلوی

مرزا حیرت دہلوی ادبی ذوق و شوق کے مالک تھے، تقلید جامد کونا پسند کرتے تھے، بڑے جری اور صاحب علم تھے۔ قرآن کا ترجمہ انگریزی واردو دونوں میں کیا۔ زبان شستہ رواں اور با محاورہ ہے۔ اخذ مطالب میں کوئی دشوار ی نہیں ہوتی۔ بعض وجوہ سے ان کے ترجمہ پر بھی بعض علماء کی طرف سے اعتراضات ہوئے مگر انھوں نے ان کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ اس ترجمہ کا پہلا ایڈیشن ۱۸۰۱ ؁ء میں کرزن پریس دہلی میں طبع ہوا۔ بعد میں بھی اس کے دو ایڈیشن نکلے، آج کل نایاب ہے۔

               کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن

مولانا احمد رضا خان بریلوی متوفی ۱۹۲۱ ؁ء نے بھی ایک ترجمہ کیا جو دراصل ان سے کروایا گیا، مشاغل کی کثرت کے سبب قیلولہ کے وقت یہ کام انجام پاتا تھا اسی لیے باوجود علم و فضل کے ترجمہ میں وہ شگفتگی نہیں جو ان کے ہم عصر ترجموں میں ہے۔ نامانوس اور علاقائی الفاظ کا استعمال بھی ہے۔ ترجمہ میں متعدد جگہ تحریف معنوی کا گمان ہوتا ہے۔ ائمہ حدیث کے طریق کے برخلاف تاویل وتفسیر بالرائے کو اختیار کیا ہے۔ حواشی مولانا نعیم الدین مراد آباد ی کے ہیں جس میں ہر طرح کی بدعات کے لیے سند جواز فراہم کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن مرادآباد کے مطبع نعیمی میں چھپا تھا، درمیان میں اس کی اشاعت رک سی گئی تھی، اب دوبارہ بڑے پیمانے پر عمل میں آ رہی ہے۔ ترجمہ اور حواشی ایک خاص مکتب فکر کی ترجمانی کرتے ہیں۔

               ترجمہ وتفسیر محمد ی

حضرت مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۴۱ ؁م) کا ترجمہ وتفسیر محمد ی جو دراصل تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ ہے۔ شستہ، شگفتہ، سہل اور آسان ہونے کے سبب بڑا مقبول ہوا۔ اپنوں اور پرائیوں سب نے اس کو نہ صرف پسند کیا بلکہ چھاپا اور اس کی اشاعت کی۔ بعض متعصبوں نے اس پر سے ان کا نام اڑا دیا جو انتہائی درجہ کی بے غیرتی ہے۔ ترجمہ کی مقبولیت اور معتبریت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی اس پر مولانا کو داد و تحسین سے نوازا۔ جوناگڑھی صاحب نے پہلے اپنے اخبار محمد ی دہلی میں ۱۹۲۸؁ء سے ۱۹۳۳؁ء تک اس کو چھاپا تھا اور پھر اس کو الگ چھاپ دیا۔ آج کل مشہور فاضل حضرت مولانا حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کے حواشی بنام احسن البیان کے ساتھ جوناگڑھی صاحب کا ترجمہ بڑی آن و بان سے چھپ رہا ہے، مدینہ کا شاہی مطبع مجمع الملک فہدلطباعۃ القرآن الکریم اس کی اشاعت بڑے پیمانے پر کر رہا ہے اور مارکیٹ میں اس کی مانگ برابر جاری ہے جو اس کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے۔

               ترجمان القرآن

مولانا ابوالکلام آزاد (متوفی ۱۹۵۸ ء)کا ترجمہ وتفسیر ان کی شخصیت کی طرح نہایت با وقار اور معتبر ہے۔ ادبی چاشنی، شستگی، شگفتگی اور سلاست اس ترجمہ کی خاص خصوصیت ہے، صاحب ترجمہ کی علمیت کا شاہکار ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۳۱ ؁ء میں جید برقی پریس دہلی میں طبع ہوا۔ بعد میں ساہتیہ اکاڈمی اس کو چھاپتی رہی چونکہ بعض وجوہ سے یہ نامکمل تھا جس کو حضرت مولانا غلام رسول مہر اور مولانا محمد عبدہ نے مکمل کر دیا ہے۔ اس کا نیا ایڈیشن حال ہی میں چھپا ہے۔

               تفہیم القرآن

اوسط درجہ کے تعلیم یافتہ حضرات اس ترجمہ اور تفسیر کے مخاطب ہیں۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنی علمی قابلیت، تجربہ اور علوم و افکار جدیدہ سے اپنی واقفیت اور ادب و انشاء کی مہارت کا پورا پورا استعمال کیا ہے۔ ترجمہ بجائے ترجمہ کے ترجمانی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ ۱۹۷۲؁ء میں یہ عظیم کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس کی کل چھ ضخیم جلدیں ہیں۔ ترجمہ وتفسیر علماء کے مقابلہ جدید تعلیم یافتہ اشخاص میں زیادہ مقبول ہوا۔ تفسیر کے بغیر صرف ترجمہ بھی چھپ چکا ہے۔

               القرآن الحکیم مع ترجمہ وتفسیر

مشہور ادیب و صحافی عبدالماجد دریابادی کا ترجمہ قرآن وتفسیر بھی اپنی سلاست، روانی اور بہتر ترجمانی کے لیے مشہور ومقبول ہے۔ انھوں نے اپنے سے متقدم علماء کے ترجموں سے پورا پورا استفادہ کیا ہے، خصوصاً مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمہ سے، ان کا ترجمہ عام فہم اور آسان ہے۔ تفسیر ماجدی ابھی نئی نئی دوبارہ چھپ گئی ہے۔

               کشف الرحمٰن مع تیسیرالقرآن

مولانا احمد سعید دہلوی کا ترجمہ وتفسیر اپنے حسن بیان و لطافت زبان میں اپنی مثال آپ ہے۔ دہلی کی صاف، سلیس اور فصیح زبان ان کا خاص امتیاز ہے۔ علماء کبار نے ان کی مہارت کا لوہا مانا ہے۔ دو جلد میں چھپ چکا ہے۔

               ترجمان القرآن بلطائف البیان

نواب صدیق حسن خاں بھوپالیؒ(المتوفی ۱۸۹۰ ؁ء ) نے عربی میں فتح البیان فی مقاصد القرآن لکھی جو دس جلد میں مکمل ہوئی اور اردو میں ترجمان القرآن لکھی جو ۱۵ جلدوں میں مکمل ہوئی۔ ترجمہ و فوائد موضح القرآن شاہ عبدالقادر سے ماخوذ ہے اور تفسیر بالماثور میں اچھا مقام رکھتی ہے۔ آج پرانی لائبریریوں کے علاوہ کہیں د ستیاب نہیں۔ ۷ جلد نواب صاحب کی باقی مولانا ذوالفقار احمد نقوی کی ہیں۔

               احسن التفاسیر

تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ۱۳۳۸؁ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ۱۳۲۰؁ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔

               تفسیر تیسیرالقرآن

حضرت مولانا عبدالرحمٰن کیلانی (المتوفی ۱۹۹۵؁ء) کی تفسیر اور ترجمہ جو حال میں سامنے آیا ہے نہایت عمدہ اور معیاری ہے۔ ترجمہ کی سلاست اور بیان کی ندرت قاری پر اچھا اثر ڈالتی ہے، ترجمہ میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ قاری نص قرآن کو سمجھ لے ترجمہ کی تزئین و آرائش پر زور و توجہ نہیں، فارسی الفاظ و تراکیب کے مقابلہ میں عربی الفاظ کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی تفسیر بھی مختصر مگر احادیث صحیحہ و آثار حسنہ سے مرصّع ہے۔

               تفسیر سراج البیان

یہ تفسیر جو آپ کے ہاتھوں میں ہے علامہ محمد حنیف ندوی صاحب کی تالیف ہے۔ آپ کی شخصیت اہل علم کے نزدیک محتاج تعارف نہیں، ایک دو نہیں درجن بھر سے زیادہ ضخیم، معتبر، معیاری اور تخلیقی کتابوں کے مصنف ہیں اور ہر کتاب پر اہل علم سے دادوتحسین حاصل کر چکے ہیں۔  یہ تفسیر، مختصر اور جامع ترین تفسیر ہے۔ ترجمہ میں اصل بنیاد ان ہی دونوں ترجموں کو بنایا ہے جو اکثر تراجم کی بنیاد ہیں لیکن اور لوگوں نے باقاعدہ اس کا اظہار نہیں کیا جیسا کہ مصنف سراج البیان نے اس کو باقاعدہ ذکر کیا ہے۔ علامہ صاحب نے صرف اتنا کیا ہے کہ اگر کوئی لفظ متروک ہو گیا ہے تو اس کو چھوڑ دیا اور نامانوس ہو ا تو ترک کر دیا اور قاری کے لیے تفہیم و تقریب ذہنی کے لیے پورا پورا انتظام فرمایا۔ ہر صفحہ کے اہم مضامین کی تبویب فرمائی اور اہم مضامین کو مختصر الفاظ میں اجاگر فرما دیا۔ اکثر وہ مضامین نمایاں فرماتے ہیں جو اکثر تفاسیر میں نظر نہیں آتے، اس کے باوجود قبوری تصوف سے کلیتاً اجتناب برتا۔

۲۔ انداز محققانہ ہے۔ نہ کسی کی تقلید ناکسی سے مرعوبیت۔

۳۔ تفسیر کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ مفسر اپنی وسعت معلومات، علوم نقلیہ  و عقلیہ پر اپنی دست رسی کا پورا پورا استعمال کرتا ہے، افکار قدیمہ و جدیدہ کا جامع ہے اور علوم شرعیہ کی پوری معلومات رکھتا ہے اور تمام طرح کی کتب تفسیر سے واقف ہے۔

۴۔ علم کلام و تصوف کے معارف تفسیری کا استیعاب بہتر انداز میں فرمایا ہے۔

۵۔ ادبی و لغوی نکات کو حسب موقع اجاگر فرمایا ہے اور اس کے ذریعہ آیت کریمہ کے معنی کی وضاحت فرمائی ہے۔

۶۔ دور جدید کے مسائل کی وضاحت بحسن و خوبی فرمائی ہے۔

۷۔ مذہب سلف کا دلیل و برہان سے برتر و اعلیٰ ہونا ثابت کیا ہے۔

۸۔ حل لغات کا التزام فرمایا ہے۔

۹۔ انداز بیاں دل نشیں اور وجد آفریں ہے۔

۱۰۔ تفسیر کا مطالعہ بیدار مغز قاری کو عجیب احساسِ سرور عطا کرتا ہے، قرآن کے ندرت خیال اور حسنِ بیان کا گرویدہ کر لیتا ہے اور اس پر قرآن کی عظمت کا پورا پورا اثر ہوتا ہے۔

اس طرح تفسیر سراج البیان، مختصر ترین ہوتے ہوئے معارف قرآن کا جامع ترین مجموعہ ہے۔

٭٭٭

ماخوذ:تفسیر سراج البیان، حضرت مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ

ٹائپنگ: ام ثوبان

http://siratulhuda.com/forum

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید