فہرست مضامین
محمد حمید شاہد کے افسانے
حصہ پنجم
محمد حمید شاہد
ٍ
کہانی اور کرچیاں
واصف تو بس مجھے اپنی نئی کہانی سنانے آیا کرتا تھا۔
مگر اب کے ملا تویوں کہ اس کے ہاتھ میں کسی نئی کہانی کا مسودہ نہیں تھا۔
کہانی لکھ چکنے کے بعد، اُس کے چہرے پر جو آسُودگی ہوتی تھی، وہ بھی نہ تھی۔
وہ آیا اور چپ چاپ میرے سامنے بیٹھ گیا۔ میں نے اسے چھیڑتے ہوے کیا:
’’لگتا ہے کہانی ازبر کرتے کرتے اِتنے دن لگا دیے‘‘
وُہ چپ رہا۔ میرا ما تھا ٹھنکا۔
’’خیریت تو ہے نا یار‘‘
میں نے اُسے تھام کر کہا۔ اُس کا جسم تپ رہا تھا۔ مجھے دیکھا۔ نگہ میں وہ چمک بھی نہ تھی۔ تشویش کی سنسنی میرے بدن میں تیرنے لگی۔ وُہ گم سُم رہا۔ بدن میں دوڑتی سنسنی جھنجھلاہٹ میں ڈھل گئی۔
’’ارے بابا، کچھ بولو بھی۔ کون سی نئی کہانی لکھی ہے تم نے ؟‘‘
ایک ثانیے کے لیے اس کے ہونٹ پھیلے پھر سکڑگئے۔ چہرہ یوں ہی تنا رہا۔ پھر اس کی آواز کہیں دور سے آئی۔
’’کہانی؟۔ کیسی کہانی یار؟مَیں اَب تک کہانیاں اِدھر اُدھر سے کشید کرتا رہا مگر‘‘
’’مگر کیا؟‘‘
وہ چپ رہا، مَیں چِڑ گیا۔
’’تم اپنی کہانی سنانے کے لیے کیسی پہیلیاں بجھوانا چاہتے ہو ؟‘‘
’’پہیلی ؟ پہیلی تو میری اپنی زندگی بن گئی ہے یار‘‘
وہ خواب آلود لہجے میں بولا، سَر جھٹک کر کہنے لگا:
’’تم شانوں کو تو جانتے ہونا؟‘‘
میں نے اُس بات کاٹی :
’’تمہیں یاد ہے جب تم اور تمہاری بیگم اُس کے یتیم ہونے پر اپنے گھر کے کام کاج کے لیے اُسے رکھنا چاہتے تھے تو مَیں نے تم لوگوں سے کہا تھا، ایسا نہ کرو، مَت رکھو اُسے اپنے گھر۔ جوان جہان ہے، کہیں اِدھر اُدھر منھ مار لیا تو‘‘
واصف غصے سے اُٹھ کھڑا ہوا، کہنے لگا:
’’تم سے بات کرنا بھی کتنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ میری بھی سنو گے یا اپنی ہی بکے جاؤ گے۔‘‘
میں ٹک کر بیٹھ رہا۔ کہا:
’’ہاں میں چپ ہوں، اب تم کہو؟‘‘
وہ بیٹھ گیا، ساتھ ہی اُس کا لہجہ بھی دھیما ہو گیا۔
’’کیا کہوں دوست۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں، لفظوں کے رحم ان کا مفہوم نہیں سہار سکتے‘‘
میں نے اُسے ٹوکا۔:
’’واصف، تم ایک مرتبہ پھر بہک رہے ہو۔‘‘
’’میں بہک گیا تھا‘‘
اس نے کہا تو میں چونک اٹھا:
’’تم بہک گئے تھے ؟‘‘
’’ہاں، ہاں میں۔‘‘
یوں لگتا تھا گویا واصف خواب میں بول رہا ہو۔ میں نے پوچھا:
’’کیسے بہکے تھے تم؟‘‘
اَب کے وہ سنبھل گیا۔ میرا سوال اَن سُنا کرتے ہوے کہنے لگا:
’’وہ، میرا مطلب ہے، شانوں پچھلے ہفتے آئی تھی، اُس کی گود میں نومولود بچہ تھا؟‘‘
میں نے لعاب منھ میں اکٹھا کر کے یوں تھوکا گویا کوئی کڑوی شے چکھ لی ہو:
’’حرامزادی ! میں نے کہا تھا نا، وہ ضرور ایسا ویسا گُل کھلائے گی۔ وہی ہوا نا، جس کا ڈر تھا۔‘‘
واصف نے میری بات کاٹی اور غصے سے مجھ پر پل پڑا:
’’مت بولتے جایا کرو یونہی۔ تمہارے اَندازے ہمیشہ غلط اور بے ہودہ ہوتے ہیں‘‘
’’تو کیا اُس نے شادی کر لی تھی؟‘‘
میں پوچھے بنا نہ رہ سکا۔ وُہ پھر برسا:
’’میں نے کہانا، مت بولا کرو بیچ میں۔ چپ رہو اور پہلے مجھے بات مکمل کر لینے دو۔‘‘
میں چپ بیٹھ رہا تو اُس کے سانس بحال ہوے۔ کہنے لگا:
’’اُس کی گود میں نومولود بچہ تھا، جب کہ خود اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ میں نے اسے دیکھا تو سہم گیا۔ لفظ میرے ہونٹوں کی چوکھٹ سے پَرے بارش میں بھیگی بلی کی طرح دبکے بیٹھے رہے۔ دروازے پر کھڑے چپ چاپ کئی لمحے بیت گئے۔ ’’کون ہے ؟ کون ہے ؟‘‘ کہتے ہوے میری بیوی فاخرہ دروازے پر پہنچی۔ مجھے دیکھا تو باہر جھانکا، شانوں بچہ گود میں اُٹھائے ٹک ٹک، دیدم دم نہ کشیدم مجھے تک رہی تھی۔ فاخرہ ٹھٹکی۔ پوچھا:
’’کس کا بچہ اٹھا لائی ہو شانوں ؟‘‘
شانوں چُپ سہمی کھڑی رہی۔ فاخرہ نے مجھے ایک جانب دھکیلا، اُسے گھسیٹ کر آنگن میں لے آئی۔ کہا:
’’اری بَک بھی، کس کا بچہ ہے یہ؟ اور کہاں رہی اتنا عرصہ؟
’’شانوں بدستور چپ رہی۔ پوچھا‘‘
’’شادی کر لی؟‘‘
اُس نے صرف نفی میں سر کو جنبش دی۔ فاخرہ چڑ کر بولی:
’’کس کا بچہ اُٹھا لائی ہو مردود؟‘‘
اُس نے سسکاری بھری اور رُک رُک کر بہ مشکل روتے ہوے کہا:
’’نہیں بی بی جی نہیں۔‘‘
’’ تو پھر حرام کا ہوا نا!‘‘
فاخرہ نے فیصلہ دے دیا۔
’’توبہ توبہ، خدا کا قہر نازل ہو تم پر۔ ذلیل کمینی آخر کم ذات ہی نکلی نا تم۔‘‘
اب فاخرہ کا مخاطب میں تھا۔
’’اِس کی شکل دیکھو اور اِس کے لچھن، منھ مومناں کرتوت کافراں۔ اللہ میری توبہ!‘‘
اپنے کانوں کو چھونے کے بعد پھر اُس پر برس پڑی۔
’’اب اِس حرام زادے کو میرے دروازے پر کیوں لائی ہو حرام خور؟ جس سے منھ کالا کیا ہے، اُسی کے پاس چل مر۔‘‘
فاخرہ غصے میں آپے سے باہر ہو رہی تھی۔ شانوں کو دھکے دے کر بچے سمیت باہر نکال دیا اور اندر سے کنڈی چڑھا لی۔ اُس روز سے مجھے نیند نہیں آئی یار‘‘
’’تمہیں نیند نہیں آئی؟ آخر کیوں ؟ کہیں تم گوئٹے کی طرح اسے Marinanne-Von-Willemerتو نہیں سمجھ بیٹھے تھے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا، تو واصف کہنے لگا:
’’نہیں یار نہیں۔ میرینانے کہاں اور شانوں کہاں۔ میرینانے تو خوب صورتی کا شاہ کار تھی اور شانوں ؟ شانوں تو بس واجبی سی صورت والی معصوم سی لڑکی ہے۔ فرینکفرٹ کے اَدھیڑ عمر مہاجن کی آسٹرین منکوحہ رقاصہ میرینانے کا شانوں سے کیا مقابلہ، کہ اُس کی گفتگو بھی اس قدر پُر اثر اور شاعرانہ تھی، کہ گوئٹے کے لہو میں لفظ لفظ محبت کی گرمی بن کر دوڑنے لگتا تھا۔ اور شانوں، وہ تو بس ضرورت کے چند لفظ بول سکتی ہے۔‘‘
مجھے محض اپنے مزاح کے اِس قدر سنجیدہ جواب کی توقع نہ تھی۔ گفتگو کا پہلو بدلتے ہوے کہا:
’’تو، تمہیں پھر نیند کیوں نہیں آتی؟‘‘
واصف کہنے لگا:
’’مجھے نیند کیسے آتی میرے دوست؟ نیند تو خدا کا عطیہ ہے، انعام ہے، جو وہ خُوش ہو کر آسمانوں سے نازل کرتا ہے۔ میں اَب اُس کی اِس نعمت کا حق دار کہاں تھا‘‘
واصف حساس تھا، میں یہ جانتا تھا۔ جس کرب سے وہ گزر رہا تھا، میں اُسے شانوں کی خطا کاریوں کا فطری رد عمل سمجھ رہا تھا۔ بات پھر شانوں کی جانب موڑنا چاہی:
’’وہ کہاں گئی؟‘‘
’’کہاں جاتی؟‘‘
اُس نے دھیرے سے کہا اور پھر دھیمے لہجے میں ہی کہنے لگا:
’’رات بھر باہر دیوار سے لگ کر بچے کو لپٹائے رہی۔‘‘
’’رات بھر؟ میرا مطلب ہے، باہر گلی میں ؟‘‘
’’ہاں، اور مجھ میں اِتنا حوصلہ نہ تھا کہ فاخرہ سے کہتا، انہیں اندر آنے دے اور۔۔۔‘‘
میں نے بے صبری سے اس کی بات کاٹی اور پوچھا:
’’صبح جب تم اُٹھے، تو، تو کیا وہ باہر تھی؟‘‘
’’صبح اٹھا؟‘‘
اُس نے حیرت سے میری جانب دیکھا، پھر کہا:
’’ارے بابا کہا نا! کہ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ گو میں فاخرہ کے پہلو میں لیٹا ہوا تھا مگر مجھے محسوس ہوتا تھا، بالکل ایسے، جیسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، کہ شانوں وہیں دیوار سے لگی بیٹھی تھی، بچے کو گود میں سمیٹے۔ فاخرہ بڑبڑاتے بڑبڑاتے کب کی سو چکی تھی اور مجھے لگ رہا تھا، میری آنکھیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔ گزرتے وقت کی ساعتیں میں گن سکتا تھا۔ گنتا رہا۔ مگر حوصلہ نہ تھا کہ قدم بستر سے نیچے دھرتا۔ صبح جب فاخرہ بستر سے اُٹھی اور مجھے کہا:
’’کب تک یونہی بے سُدھ پڑے رہو گے ؟‘‘
تومیں جبر کر کے اُٹھا۔ باہر نکلا۔ وہ وہاں نہیں تھی۔‘‘
میں نے بے دھیانی سے جملہ لڑھکا دیا:
’’چلی گئی ہو گی؟‘‘
وہ خوابیدہ سا بولتا رہا۔
’’چلی گئی؟ ہاں چلی گئی تھی۔ میں نے اُسے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔‘‘
میں نے حیرت سے واصف کو دیکھا اور کہا:
’’مگر تم؟ تم کیوں اُسے تلاش کرتے رہے ؟‘‘
’’و۔۔۔ و۔۔۔ ہ بے آسرا تھی۔ا ور مجھے اندیشہ تھا وہ کسی اور حادثے کا شکار نہ ہو جائے‘‘
واصف کا اندیشہ بجا تھا، میں نے رائے ظاہر کی:
’’وہ یقیناً وہاں چلی گئی ہو گی جہاں تمہارے ہاں سے بھاگ کر اِتنا عرصہ رہی۔‘‘
واصف بول پڑا:
’’وہ وہاں نہیں گئی تھی‘‘
میں چونکا:
’’مگر تم یہ کیسے وثوق سے کہہ سکتے ہو؟‘‘
وہ گڑبڑا گیا۔ کہنے لگا:
’’م۔۔۔ م۔۔۔ میرا مطلب ہے وہ وہاں کیسے جا سکتی تھی؟ اُن لوگوں نے نکال دیا ہو گا تب ہی تو ہمارے ہاں آئی ہو گی‘‘
واصف کی رائے میں وزن تھا۔
’’ہاں ایسا ممکن ہے‘‘
میں نے اتفاق کیا۔ ایک بے آسرا لڑکی کے لیے جو اب کنواری ماں بن چکی تھی، واصف کی اتنی بے چینی، میرے لیے خلاف توقع نہ تھی کہ اس کی بیشتر کہانیاں عورت کی مجبوریوں اور مظلومیت کے گھر گھومتی تھیں۔ شانوں کو نہلا پھسلا کر کسی نے بے آبرُو کیا تھا اور اب وہ ایک نومولود بچے کے ہمراہ بے آسرا ہو گئی تھی، اس واقعے کے زیر اثر واصف کا اپنی نیند کھو دینا اور اس قدر بے چین ہو جانا اس کی فطرت کے عن مطابق تھا۔
آئی بات، گزر گئی۔
وہ پہلے کی طرح کہانیاں لکھنے لگا اور وقفے وقفے کے بعد مجھے سنانے آنے لگا۔
پھر یوں ہوا کہ شانوں اور اس کا تین سالہ بچہ اچانک مجھے مل گئے۔
میں دارالامان کی عمارت میں توسیع کے منصوبے کی نگرانی پر تھا کہ وہ مجھے وہاں نظر آ گئی۔ میں نے چپکے سے اُسے جالیا۔ مجھے دیکھ کر وہ بھونچکی رہ گئی۔ میں نے پوچھا:
’’تم شانوں ہی ہو نا؟‘‘
اس نے اَثبات میں سر ہلایا۔ میں نے بچے کی جانب اشارہ کیا:
’’اور یہ؟‘‘
’’یہ امجد ہے میرا بیٹا۔‘‘
’’تم دارالامان کب آئیں ؟‘‘
میں نے بات بڑھانے کو کہا تو وہ جھوٹ بولتے ہوے کہنے لگی۔
’’و۔۔۔ وہ۔۔۔ میرا شوہر مر گیا تھا۔۔۔ نا۔۔۔ اس لیے۔‘‘
اُس کی زُبان لڑکھڑا رہی تھی۔ میں نے کہا:
’’تم نے یہ جھوٹ یقیناً دارالامان میں داخلے کے لیے بولا ہو گا؟‘‘
’’جھوٹ؟‘‘
اس نے بوکھلا کر دُہرایا:
’’ہاں۔ کیا یہ بن باپ کا بچہ نہیں ہے ؟‘‘
میں ایک مرتبہ پھر امجد کی جانب اِشارہ کر رہا تھا۔
وہ سسک پڑی۔ چہرہ پلو میں چھپا لیا پھر لفظوں کو سمیٹا اور ہاتھ جوڑ کر التجا کرنے لگی۔
’’خدا کے لیے واصف صاحب کو نہ بتائیے گا کہ۔۔۔‘‘
’’مگر کیوں ؟‘‘
میں نے بات کاٹتے ہوے کہا:
’’وہ تو تمہارے لیے بہت بے چین رہا ہے۔ تمہیں تلاش کرتا رہا ہے۔‘‘
’’تلاش؟‘‘
اس نے سسکاری بھری۔ خوفزدہ نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا پھر قہقہہ مار کر دیوانوں کی طرح ہنسی اور ہنستی ہی چلی گئی۔ اُس کی ہنسی رُکی تو خوف سے چہرہ ایک مرتبہ پھر کانپنے لگا۔ وہ بچے کی طرف بڑھی اور اُسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ کہنے لگی:
’’میں خود اس کی حفاظت کروں گی اور اُنہیں اِس تک نہ پہنچنے دوں گی۔‘‘
میں شانوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پوچھا:
’’بھلا تمہارے بیٹے کو اُس سے کیا خطرہ ہے ؟‘‘
شانوں کی ایک مرتبہ پھر گھگی بندھ گئی۔ رندھائی ہوئی آواز میں کہنے لگی:
’’بچے کی پیدائش کے بعد غربی محلے والوں نے مجھے اُس گھر سے نکال دیا تھا جہاں میں کئی ماہ سے اکیلے رہ رہی تھی۔ اب صاحب جی کی چوکھٹ ہی میری آخری امید تھی مگر بیگم صاحبہ نے مجھے گھر سے ذلیل کر کے نکال دیا اور صاحب جی بس منھ دیکھتے رہے۔‘‘
مجھے کچھ کھٹکا۔ میں نے بات کی وضاحت چاہی:
’’تم بتا رہی تھیں کہ تم غربی محلے کے مکان میں رہتی تھیں۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’وہ مکان کس نے لے کر دیا تھا تمہیں ؟‘‘
’’جی وہ صاحب جی نے کرائے پر لے کر دیا تھا مجھے، میں اُن کے گھر سے سیدھا وہیں گئی تھی‘‘
مجھے واصف کی عظمت پر رشک آنے لگا۔ ایک ادنیٰ سی ملازمہ کی غلطی کو چھپانے اور اُسے دوسروں کی نظروں سے گرنے سے بچانے کے لیے اُس نے اسے علیحدہ مکان تک لے دیا تھا۔ میں نے اسے بات جاری رکھنے کو کہا تو وہ کہنے لگی:
’’رات کے پچھلے پہر صاحب جی گلی میں نمودار ہوئے۔ میں اپنے بچے کو لپیٹے وہیں دبکی بیٹھی تھی۔ کہنے لگے :
’’لاؤ بچہ مجھے دو، میں اِس کا قصہ یہیں ختم کر دوں۔‘‘
میں نے بچہ دینے سے اِنکار کر دیا۔ اُنہوں نے چھیننا چاہا تو میں بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور کچھ نہ پوچھیں جی، یہاں تک پہنچتے پہنچتے میں کن کن مرحلوں سے گزری ہوں۔ دیکھیں نا جی، بچہ تو بچہ ہوتا ہے نا۔ گورا کالا، خوب صورت بدصورت، صحت مند معذور یا پھر حلالی حرامی کچھ نہیں ہوتا۔ اور ممتا بھی تو جی ممتا ہوتی ہے نا! اس میں بھی اور کوئی کھوٹ نہیں ہوتا جی۔ گناہ گار تھی تو میں تھی۔ میری ممتا یا بچہ تو گناہ گار نہ تھے۔ پھر میں اپنی ممتا کیوں مارتی، بچہ اُن کے حوالے کیوں کرتی؟‘‘
یک دم اُس کا لہجہ دھیما پڑگیا۔ دونوں ہاتھ میرے سامنے جوڑے اور کہنے لگی:
’’آپ خدا کے لیے صاحب جی کو مت بتائیے گا ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ وہ میرے بچے کو مار ڈالیں گے۔‘‘
یہ کہتے ہوے اس نے ایک مرتبہ پھر بچہ اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ میں نے اُس کا حوصلہ بحال کرنے لے لیے کہا:
’’نہیں نہیں اب بھلا وہ تمہارا بچہ کیوں مارے گا؟ اُس روز تو اُس نے محض یہ سوچا ہو گا کہ بن باپ کے بچے کے ساتھ تمہاری زندگی کٹھن تر ہو جائے گی۔ وہ شخص کہ جس نے ساری عمر عورت کی مظلومیت کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔ عملی طور پر بھی تمہارے ساتھ بہت ہم دردانہ سلوک کیا ہے۔ یہ معلوم ہوتے ہوے بھی کہ تم بن باپ بچے کی ماں بن رہی ہو، تمہیں معاشرے کے ظلم سے بچانے کے لیے علیحدہ مکان تک لے کر دیا۔ تمہیں تلاش کرتا رہا اِدھر اُدھر۔ وہ بھلا تمہارا بچہ اب کیوں مارے گا؟‘‘
’’بھولے ہیں صاحب جی آپ بھی۔‘‘
اُس نے پھیکی ہنسی ہنستے ہوے کہا۔ پھر اُس کا چہرہ پہلے کی طرح متفکر ہو گیا۔ کہنے لگی:
’’اب بھی میرا اَمجد اُنہیں نظر آ گیا تو وہ ضرور اُسے مار ڈالیں گے۔ ہاں ضرور۔‘‘
میں نے جھنجھلا کر کہا:
’’مگر کیوں ؟‘‘
اُس نے لمبی سانس بھری، بیٹے کو دونوں ہاتھوں سے تھاما اور کہا:
’’اِس لیے کہ امجد صرف میرا ہی نہیں، صاحب جی کا بھی بیٹا ہے اور ایسا بیٹا جسے وہ اپنا نہیں کہہ سکتے۔‘‘
ایکا ایکی حیرت انگیز خامشی اور اضطراب میرے اندر جا گھسا۔ میری نظر پھسلتے پھسلتے بچے پر جا پڑی۔ یہ واصف کی کیسی کہانی تھی، جو اُس کے نجیب بت کو سفاکی سے کرچی کرچی کر کے میرے قدموں میں ڈھیر کر رہی تھی۔
ٍ
وَاپسی
محض ایک ہفتہ باقی تھا ا ور وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا۔
حالاں کہ اُس کے بارے میں اُس کے ماتحت کام کرنے والے اور اعلیٰ افسران دونوں رائے رکھتے تھے کہ وہ لاتعلق ہو کر بیٹھنے والا یا مشکل سے مشکل حالات میں بھی حوصلہ ہارنے والا فرد نہیں، آخری لمحے تک جدوجہد کرتا تھا۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ دوسرا روز ہونے کو تھا اور وہ دفتر سے نہ نکلا تھا۔
اُن دو دنوں میں وہ ایک خط بار بار پڑھ چکا تھا۔
یہ وہ خط تھا، جو بہت دن پہلے اُسے موصول ہوا تھا اور اُسے کھولے بغیر خط کا مضمون جان گیا تھا۔ یہی کہ اُس کے اَباّ نے اُسے گاؤں آنے کو کہا ہو گا اور یہ کہ اُن کی آنکھیں اُسے دیکھنے کو ترس گئی ہوں گی۔
اُس کا اِرادہ تھا کہ وہ کلوزنگ کے بعد ہی جائے گا۔ لہٰذا کئی روز سے بند لفافہ یونہی اُس کے ٹیبل پر پڑا رہا۔
مگر کل اُسے صبح ہی صبح کھولا اور تب سے اَب تک کئی بار پڑھ چکا تھا۔
اس نے اپنے اِمی جیٹ باس کو فون کر کے شارٹ لیو اور اسٹیشن لیو لے لی اور یوں آج اَڑھائی بجے والی بس سے وہ گاؤں جا رہا تھا۔
اُس کا اِرادہ تھا وہ ویک اِنڈ اپنے والدین کے ساتھ گزارے گا، حالاں کہ قبل ازیں وہ چھٹیوں والے دن بھی سرکل افسران کے ساتھ مسلسل دورے کرتا رہا تھا جس کے نتیجے میں ٹارگٹ تک پہنچنے کی امید بندھ چلی تھی۔ جب پہلے روز اُس نے انٹر کام پر متعلقہ سرکل افسر کو بتایا کہ وہ ٹور پر ساتھ نہیں جا رہا تو وہ حیران ہوا تھا اور خود اُسے دیکھنے آیا تھا۔
وہ بجھا بجھا سا تھا اور سرکل اَفسر سے کُرید کُرید کر فضل احمد کے بارے میں پوچھتا رہا۔
اُسے بتایا گیا کہ بوڑھے فضل احمد کی حالت سنبھل گئی تھی۔ دل کا معمولی دورہ تھا اور اب اس کی زندگی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
مگر نہ جانے اُسے کیوں یقین نہ آ رہا تھا۔
یقین نہ کرنے کی بہ ظاہر کوئی وجہ نہ تھی لیکن کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو ایک لمحے میں مقید کر لیتا ہے۔
وہ بھی ایک ایسے ہی لمحے میں قید تھا۔
وہ لمحہ کہ جب بوڑھا فضل احمد عین دروازے کے بیچ لڑکھڑا کر گر پڑا تھا۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مالی سال ختم ہونے میں دو اَڑھائی ماہ باقی تھے۔ وہ اپنی سی کوششیں کر بیٹھا تھا مگر یوں لگتا تھا، مطلوبہ نتائج اس کی دسترس سے پرے تھے۔
اُس نے میٹنگ کال کی، تمام متعلقہ اَفسروں کی سرزنش کی تو ہر ایک یہ ثابت کرنے پر تُلا بیٹھا تھا کہ کوتاہی اُس کی جانب سے نہیں ہو رہی۔
اس نے نئی حکمت عملی تیار کرنے سے پہلے متعلقہ سرکل افسروں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے حلقوں کے ایسے کیسز کی فہرست بنائیں جن کی وصولیاں اِس سال کسی صورت ممکن نہ تھیں۔
فہرستیں دوسرے ہی روز اُس کے میز پر تھیں۔
اُس نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا اور کچھ غیر معمولی اِختیارات حاصل کیے جن میں بہ وقت ضرورت پولیس کے تعاون کا حصول بھی شامل تھا۔
اُس کا اِرادہ تھا ان مشکل کیسز کے آپریشن کی خود نگرانی کرے گا۔
ایک مرتبہ پھر سرکل افسروں کو طلب کیا، ہر باقی دار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں اور خدا کا نام لے کر چھاپے مار کر مہم کا آغاز کر دیا۔
اُسے باہر نکلتے دیکھ کر سرکل افسروں کے حوصلے بڑھ گئے اور پہلے سے کہیں زیادہ جاں فشانی سے کام کرنے لگے یوں وصولیوں کی شرح بڑھنے لگی مگر وہ ابھی تک مطمئن نہ تھا کہ بڑھوتری کی یہ شرح بہت معمولی تھی۔
اُس کے لیے اصل رکاوٹ با اثر اَفراد تھے یا پھر وہ لوگ جو ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ کچھ کیسز خواتین کے نام پر تھے اور کچھ باقی دار انتہائی ضعیف، معذور یا پھر لاچار تھے۔ ایسے تمام کیسز میں نہ تو اس کے پاس وقت تھا کہ رہن شدہ جائیدادوں کی ڈگری کے لیے طویل قانونی جنگ لڑی جائے اور نہ ہی وہ براہ راست ان لوگوں پر ہاتھ ڈال سکتا تھا۔
اِن حوصلہ شکن حالات میں اُسے ایک باقی دار فضل احمد کے گھر لے جایا گیا۔ اس کیس میں فضل احمد اور اُس کے بیٹے ڈاکٹر شہباز فضل نے مشترکہ طور پر ایک ہیچری لگانے کے لیے قرض لیا تھا۔ ڈاکٹر شہباز فضل کچھ ہی عرصے کے بعد اِنتہائی خاموشی سے ہیچری کی مشینری بیچ کر اور عمارت کو طویل مُدّت کے ٹھیکے پر دینے کے عوض ایک معقول رقم اینٹھ کر ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ جب کہ فضل احمد نہ صرف ضعیف العمر تھا، بل کہ فالج زدہ بھی تھا۔
اُس نے سرکل افسر سے پوچھا:
’’ فضل احمد کا بیٹا جو رقم باہر سے بھیجتا ہے، یہ اسے اپنے واجبات کی مد میں کیوں جمع نہیں کراتا؟‘‘
جواب ملا :
’’ وہ کچھ نہیں بھیجتا۔‘‘
اُس نے حیرت سے سرکل افسر کو دیکھا اور کہا:
’’تعجب ہے۔‘‘
فضل احمد کا گھر اَندرون شہر تھا۔ گاڑی بڑے چوک تک جاتی تھی۔ وہیں کھڑی کر دی گئی۔ وہ دونوں ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں سے پیدل ہی آگے گزرنے لگے۔
’’سر، یہ رہا فضل احمد کا گھر۔‘‘
چلتے چلتے اچانک سرکل افسر نے ایک دو منزلہ عمارت کی جانب انگلی اٹھائی۔
’’گھر تو شاندار ہے‘‘
اُس نے دیکھا تو تبصرہ کیا۔
’’جی ہاں ! مگر نچلا حصہ کرائے پر ہے اور فضل احمد کا واحد ذریعہ آمدن بھی یہی ہے۔‘‘
مکان کے پہلو میں تنگ سی لوہے کی سیڑھی بل کھاتی اوپر جاتی تھی۔
وہ دروازے پر تھے۔ کال بیل کے پش بٹن پر اُس نے انگلی رکھ دی۔ سرکل افسر نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹ کھٹایا اور کہا:
’’بٹن دبا کر اِنتظار کرنا بے کار ہے سر۔ گھنٹی خراب ہے‘‘
’’اوہ‘‘
’’میں جب سے آ رہا ہوں سر، تب سے ایسے ہی ہے، سر‘‘
دوسری طرف پہلے کوئی کھانستا ہی چلا گیا پھر کھانسنے کی آواز وہیں ٹکی رہی اور لاٹھی کے گھسیٹنے اور ٹک ٹک کرنے کی آواز دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ دروازے کے پاس آ کر آواز رُک گئی اور یوں لگا جیسے کوئی سانس بحال کر رہا ہو۔ تیسری آواز جو اندر سے آئی وہ دروازے پر لگی زنجیر کی تھی جو جھولنے اور رگڑ کھانے سے پیدا ہو رہی تھی۔ دروازہ بھی ’’چوں اوں‘‘ کرتا ہوا کھلا۔ سامنے اِنتہائی ضعیف العمر خاتون لاٹھی کے سہارے بہ مشکل کھڑی تھی۔ سارے چہرے پر یا جھریاں تھیں یا پھر موٹے شیشوں اور ٹوٹی ہوئی کمانی کی میلی کچیلی عینک، جسے ڈوری باندھ کر ناک پر ٹکایا گیا تھا۔ بال روئی کے گالوں جیسے سفید اور کمر ضعیفی نے دوہری کر دی تھی۔
اُس نے کپکپاتے ہاتھوں سے عینک کے اوپر اوٹ بنائی، چہرے کو اوپر کیا تو عینک کے شیشوں سے موٹی موٹی آنکھوں نے اُسے پہچاننے کی کوشش کی۔
’’جی‘‘
اَپنی کوشش میں ناکام ہو کر اس نے مختصر سوال کیا۔
’’اماں جی ہمیں فضل احمد سے ملنا ہے اُن کے ذمہ حکومت کا کچھ قرضہ باقی ہے۔‘‘
بڑھیا نے ایک مرتبہ پھر اُسے دیکھنے کی کوشش کی۔ اب کے اس کے چہرے پر تجسس کی بہ جائے پریشانی تھی۔ وہ لڑکھڑاتی دروازے سے ہٹ کر کھڑی ہو گئی۔
اس لڑکھڑاہٹ میں بڑھاپے اور پریشانی دونوں کا دخل تھا۔ کہنے لگی۔
’’اندر آ جاؤ بچے، وہ سامنے کمرے میں پڑا ہے۔‘‘
وہ اَندر داخل ہو گئے۔ بڑھیا نے دروازے کو بند کیا۔ ٹٹول کر زنجیر تلاش کی اور دروازے پر ڈال دی۔ پھر لاٹھی ٹیکتی کمرے کی طرف چل پڑی۔
اندر کا ماحول عجب آسیب زدہ تھا۔ ہر چیز بکھری ہوئی۔ روشنی بھی معقول نہ تھی۔ ایک خاص قسم کی باس بھی چاروں طرف پھیل رہی تھی، کچی کچی اور ناگوار۔ سامنے چارپائی پر ہڈیوں کا ایک پنجر پڑا تھا۔ یقیناً وہی فضل احمد تھا۔ اُسے کھانستے ہوے بھی دقت ہو رہی تھی۔ ہمارے گھر میں داخل ہونے کے بعد کھانسنے کے علاوہ اس نے تین مرتبہ اپنی بیوی کو بلایا تھا۔
’’مل لی آں‘‘
اس نے اندازہ لگایا۔ وہ مریم یا مریاں کہہ رہا تھا۔ فالج نے ایک پہلو ناکارہ کرنے کے علاوہ ا س کی زبان بھی لکنت زدہ کر دی تھی۔
وہ دونوں اس کے قریب پہنچ گئے۔ بوڑھا بے قراری سے بستر پر اُوپر ہی اوپر اُٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر جوں ہی اس نے اُس کے پیچھے سرکل افسر کا چہرہ دیکھا، دھچکے سے بستر میں دھنس کر بے سدھ ہو گیا۔ وہ ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ کمرے میں مزید گہرا سکوت چھا گیا۔
’’یہ ہمارے بڑے افسر ہیں۔‘‘
سرکل افسر نے اُس کا تعارف فضل احمد سے کرایا۔ بوڑھے نے بجھی بجھی آنکھوں سے اُسے دیکھا۔ اُس نے جواباً فائل کھولی۔ اُس میں فضل احمد اور اُس کے بیٹے کے وارنٹ دیکھے اور بے بسی سے فائل بند کر دی۔ اسے یہاں آنا بے سود لگا۔ بوڑھا حواس بحال کر چکا تھا مریل سی آواز میں بڑبڑانے لگا۔ اُس نے یونہی ایک سوال پھینک دیا:
’’بزرگو! اب کیا ہو گا؟‘‘
بوڑھے نے اُس کی جانب دیکھا۔ مایوسی کی زردی اُس کے چہرے پر بکھر گئی۔ لکنت زدہ آواز میں کہنے لگا:
’’اب کیا ہونا ہے بچے ؟ ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ اِس سے بڑھ کر تو میں ذلیلو رسوا نہیں ہو سکتا نا!۔‘‘
ایک مرتبہ پھر بوڑھا چپ ہو گیا۔
ان خاموش لمحوں کی گونج اُسے صاف سنائی دے رہی تھی۔ اُس نے اُکتاہٹ سے پہلو بدلا۔ بوڑھے کی کھانسی نے خاموشی کو توڑا۔ جب وہ اچھی طرح کھانس چکا تو اپنی بیوی کو پکارا:
’’مل لی آں‘‘
مریاں، جو دروازے کے بیچ ہی چوکھٹ پر بیٹھ گئی تھی، کراہنے کے بعد اُٹھی۔ لاٹھی ٹیکتی بوڑھے کی چارپائی کے پائیتانے ہاتھ ٹیک کر کھڑی ہو گئی:
’’بچوں کے لیے چائے بناؤ۔‘‘
اُسے پہلے ہی اُلجھن ہو رہی تھی۔ چائے کا سُن کر وہ بے قراری سے اُٹھا اور سختی سے منع کر دیا۔ بوڑھا دوبارہ بے سُدھ لیٹ گیا۔ بڑھیا دائیں کونے میں رکھے چولہے کے پاس دھرے موڑھے پر بیٹھ گئی۔
وہ مزید بیٹھنا نہیں چاہتا تھا۔ کہنے لگا:
’’اچھا بزرگو، خدا حافظ، اور ہاں بیٹے کو لکھیں کہ وہ بقایا جات جمع کرانے کا بندوبست کرے ورنہ اس مکان سمیت آپ کی ساری جائیداد نیلام ہو جائے گی۔‘‘
بوڑھا زور سے ہنسا۔ اِس قدر زور سے کہ اُس کی آنکھوں میں سے آنسو نکل آئے پھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوے سچ مچ رونے لگا۔ دفعتاً رونا موقوف کیا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ اسے تجسس ہوا، نہ جانے بوڑھا کیا کہہ رہا تھا؟ وہ ایک مرتبہ پھر قریب ہو کر بیٹھ گیا اور سماعت بوڑھے کی طرف مبذول کر دی۔ فضل احمد اپنے بیٹے کو گالیاں دیتے ہوے کہہ رہا تھا:
’’کہتا ہے بچوں کو عین دورا ہے میں کیسے چھوڑ ے، ہم چاہے موت اور زندگی کے بیچ لٹکتے رہیں‘‘
مغلظات کا ایک اور ریلا اُس کے منھ سے بہہ نکلا۔ مریاں پہلی مرتبہ اس کی بات کا ٹ کر بولی۔
’’نہ دے، نہ دے بد دعائیں۔ اپنا خُون ہے، اپنا کلیجہ، دُعا کر، خدا اُسے سُکھی رکھے۔ جہاں رہے اللہ کی امان میں رہے۔ ہمارا کیا ہے۔ ہم قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے ہیں۔آج ہیں تو ہیں۔ کل نہیں ہوں گے‘‘
اُس نے بوڑھے سے پوچھا:
’’کوئی خط وغیرہ؟‘‘
کہنے لگا:
’’ہاں لکھتا ہے۔ جب ادھر سے دس بارہ مسلسل لکھ چکتا ہوں تب ایک آدھ سطر میں جواب دے دیتا ہے۔ کہتا ہے وہاں بہت مصروف ہے۔ ماں کا۔۔۔‘‘
اُس نے فضل احمد سے کہا:
’’آپ اس کا پتا ہی دے دیں۔‘‘
’’پتا؟ مگر کیوں ؟‘‘
’’ہم اپنے طور پر اُس سے رابطہ کریں گے۔‘‘
بوڑھا فضل احمد تڑپ کر اُٹھ بیٹھا:
’’نا بیٹا نا۔ تم اُسے کسی مشکل میں ڈال دو گے۔ تم اُسے ستاؤ گے۔ سفارت خانے کو لکھو گے۔ نا بیٹا نا۔‘‘
بوڑھا پوری طرح حواس میں آ کر چوکس ہو گیا تھا۔ اُسے حیرت ہوئی۔ ابھی ابھی وہ اپنے بیٹے سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوے گالیاں دے رہا تھا اور اب اسے اس کی اتنی فکر تھی کہ وہ ہمیں اس کا پتا تک نہ دینا چاہتا تھا۔
چند ہی روز بعد اسے بتایا گیا کہ فضل احمد کی بیوی جل مری۔ بچاری کھانا پکاتے پکاتے اُٹھی اور لڑکھڑا کر عین چولہے کے اوپر جا گری۔ اُس کی چیخیں سن کر بوڑھا گرتا پڑتا، اُس کی جانب لپکا، اسے بچانے کی کوشش کی۔ خود جھلس گیا مگر اُسے بچا نہ سکا۔
اس کا دل چاہا کہ وہ بوڑھے فضل احمد سے اَفسوس کرنے جائے مگر جا نہ سکا۔
اُس کے لیے ایک ایک دن قیمتی تھا۔
آخری مہینہ شروع ہو چکا تھا اور منزل تک پہنچنے کی اُمید بھی بندھ چلی تھی۔
ابھی اس واقعے کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ سرکل افسر نے بتایا:
’’ڈاکٹر شہباز فضل آیا ہوا ہے۔‘‘
یقیناً اُسے ماں کے جل مرنے کی خبر ملی ہو گی۔ ا ُس نے اندازہ لگایا۔ اسی لمحے اس نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں ڈاکٹر شہباز کے لیے اِنتہائی نفرت جنم لے چکی تھی۔ جذباتی ہو گیا اور سرکل افسر کو ہدایت کی کہ چھاپہ مارنے کے اِنتظامات کیے جائیں۔
مغرب ڈھل چکی تھی۔ اسے یقین تھا وہ گھر میں ہی ہو گا۔
وہ گھر میں ہی تھا۔ دروازہ اُسی نے کھولا اور گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اندر داخل ہو گیا، پوچھا:
’’آپ ہی ڈاکٹر شہباز فضل ہیں ؟‘‘
’’جی‘‘
وہ کچھ اور پیچھے ہٹا۔
’’آپ حکومت کے نا دہندہ ہونے کے سبب مطلوب ہیں۔ یہ رہے آپ کے وارنٹ۔‘‘
اُس نے اُسے وارنٹ دکھاتے ہوے کہا۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹا اور کمرے میں گھس گیا۔ اِسی اثنا میں بوڑھا فضل احمد گرتا پڑتا کمرے کے دروازے تک پہنچ چکا تھا۔
’’نہیں بیٹے نہیں۔‘‘
اُس نے دروازے کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔
’’تم اِسے گرفتار نہیں کر سکتے۔‘‘
وہ آگے بڑھا اور کہا۔
’’دیکھیں بابا جی، آپ کار سرکار میں مداخلت نہ کریں۔ آپ ایک طرف ہو جائیں‘‘
اُس نے اپنا ہاتھ بوڑھے کے ہاتھ پر رکھا۔ بوڑھے کا پورا بدن کپکپانے لگا۔ چہرے کے مسام پسینے سے بھر گئے۔ اس نے بوڑھے کو ایک طرف کرنے کے لیے اُس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا تو وہ چیخنے لگا:
’’مت گرفتار کرو میرے بیٹے کو۔ مجھے لے جاؤ۔ ہاں لے جاؤ مجھے۔ وہ۔۔۔‘‘
اس کے آگے وہ کچھ نہ بول سکا اور لڑکھڑا کر کٹے ہوے درخت کی طرح عین دروازے کے بیچ گرگیا۔
اس نے کمرے اندر سہمے ہوے ڈاکٹر شہباز فضل کو دیکھا پھر اُس کے باپ کے لڑکھڑا کر گرتے وجود پر ایک نظر ڈالی اور واپس پلٹ آیا۔
اِس واقعے کو دوسرا روز ہو چلا تھا۔
اور اُس نے وہ خط جو کئی دن سے اُس کے ٹیبل پر بند پڑا تھا، اِن دو دنوں میں کئی بار پڑھ ڈالا تھا۔ اور جب وہ اَڑھائی بجے والی بس سے ایک طویل عرصے بعد اپنے گاؤں ویک اینڈ گزارنے جا رہا تھا تو سب تعجب کا اِظہار کر رہے تھے۔
ٍ
اپنا سکّہ
’’یا حضرت ! بیان جاری ہو‘‘
’’بیان؟ ارے نادانو! میں کیا، میرا بیان کیا۔ میں پہلے خود بہکا تھا۔ پھر اپنی آل کو بہک جانے دیا۔ اور اب لوٹ جانے کو مٹی میں کودے پھرتا ہوں۔ سمجھو تو یہ دنیا بڑی اشتہا انگیز ہے۔ پانیوں میں غوطہ زن نچلی ذَات کی ان لڑکیوں کی طرح، جن کا کبھی بھگوان کرشنا بہت دل دادہ تھا۔ اور جن کو بے لباس دیکھنے کے لیے تالاب کنارے چھپ بیٹھا تھا۔ اور چپکے چپکے اَشنان کرتی سب ناریوں کے کپڑے اَکھٹے کیے تھے۔ اور جھاڑیوں میں چھپا ڈالے تھے۔
ارے او نادانو! میں بھی تمہاری طرح دیوانہ تھا۔ دُنیا کو ننگی آنکھ سے دیکھنا چاہتا تھا، آخری سرے تک۔ اور میں اُس کا لباس چھپائے مطالبہ کیا کرتا تھا کہ وہ دونوں ہاتھ اُٹھائے آہستہ خرامی سے گہرے پانیوں سے نکلے گی تو ستر ڈھانپنے کو لباس لوٹاؤں گا۔ ورجل نے کہا تھا۔ ’’اگر میں دیوتاؤں سے اپنی نہیں منوا سکتا تو میں جہنم میں ہلچل مچا دوں گا‘‘ اور وہ ناریاں بھی اسی کے کہے پر عمل پیرا تھیں۔ وہ مجھ سے اپنی التجائیں نہ منوا سکی تھیں اور جہنم میں ہلچل مچ چکی تھی۔
تو اے نادانو، اُس کا مجھے بعد میں شعور ہوا کہ دنیا اپنی چال چل رہی تھی۔ جو وہ چاہتی تھی، وہی مجھ سے مطالبہ کراتی رہی اور میں اسے پانیوں سے نکالتے نکالتے خود گہرے پانیوں میں گر پڑا۔‘‘
’’ابا جی، نکلیں نا باہر۔‘‘
’’رہنے دو۔ ارے او لونڈو! یا حضرت کو اپنے حال میں مست رہنے دو۔ مت چھیڑو انہیں۔ اعلیٰ حضرت بیان فرما رہے ہیں۔‘‘
’’لوگو! خدا کے لیے اپنی اپنی راہ لو۔ یہ بزرگ، ہمارا باپ ہے۔ ذرا من موجی ہے کہ گندھی ہوئی مٹی میں قدم دھرے تم سے عجیب بہکی بہکی باتیں کرتا رہتا ہے۔ ورنہ اس کا تو اپنا گھر ہے۔‘‘
’’گھر؟ ہاہاہا۔ اپنا گھر؟ چپ ہو جاؤ عاقبت نا اندیشو! چپ ہو جاؤ۔ تمہارے دھیان نے ہی تو مجھے گھر سے نکالا تھا۔ میرے اپنے گھر سے۔ تمہارے دھیان نے۔ ہاں تمہارے دھیان نے۔‘‘
’’ارے صاحبزادو! تم بے شک اعلیٰ حضرت کے چشم و چراغ ہو، مگر اعلیٰ حضرت تو اس وقت جلال میں ہیں۔ دیکھو تو، ان پر مراقبے کا عالم طاری ہو گیا ہے۔ دیکھو تو، ان کے ہونٹ تھرتھرا رہے ہیں اور لفظ قطرہ قطرہ پھسل رہے ہیں۔ پاس پاس ہو جاؤ۔ تم بھی سنو اور ہمیں بھی سننے دو۔ لو سنو!‘‘
’’وہ ایک ایسا تاریک غار تھا کہ سورج بھی اُس سے آنکھ بچا کر نکل جایا کرتا تھا۔ یہی مناسب جگہ تھی۔ وہ غار میں داخل ہو گئے۔ اُن کے پیچھے پیچھے ایک کتا بھی چلا آیا تھا، نہ جانے کیوں ؟لاکھ اُسے واپس بھیجا گیا، مگر کتا
تھا کہ واپس پلٹنے کا نام نہ لیتا تھا۔ جب وہ غار میں تھے تو کتا اُس کے دہانے بیٹھا
ہوا تھا، یوں کہ جیسے پہرا دے رہا ہو۔‘‘
جانتے ہو، کون تھے وہ؟ کیوں چھپے بیٹھے تھے، وہاں ؟
مگر تم کیا جانو۔‘‘
’’ابا جی، ابا جی، خدارا ہوش میں آئیں۔ گھر چلیں‘‘
ہوش؟ ہاہاہا۔ ہوش۔ کیسا ہوش؟ کہ میں تو بدن کی دلدل میں اپنی چوٹی تک دھنسا ہوا ہوں۔ یہ سَت تو بَس نِرا سَت ہے۔ اِس میں چِت کہاں ؟ اور چِت بنا آنند پاؤں تو کیسے ؟
’’ مگر ابا جی۔‘‘
’’صاحبزادو! اعلیٰ حضرت کو مت ستاؤ۔ بیان جاری رہنے دو۔‘‘
’’ارے نادانو! یہ چُپ کیسے بیٹھیں گے ؟ یہ میرے بیٹے تو دراصل راون کا دوسرا بہروپ ہیں۔ شیطان راون کا دوسرا جنم۔ اور میں بھگوان ہنومان کی منت سماجت کر رہا ہوں۔ وہ میری مدد کو راضی ہو گیا ہے۔ مگر اس شرط پر کہ مجھے اس کے جڑواں بھائی کو ختم کرنے میں مدد دینی ہے۔ بارہ سال لمحہ لمحہ کر کے بیت چکے ہیں اور میں خُوش ہوں کہ ہنومان کے لیے میں پل تعمیر کر چکا ہوں۔ مگر اب یہ خدشہ میرے اندر جڑ پکڑ چکا ہے کہ جب میں ہنومان کی مدد سے سیتا تک پہنچوں گا تو نہ جانے اس پر کیا بیت چکی ہو گی؟ نہ جانے کیا اور کون جانے بیت چکی ہو گی۔‘‘
’’ابا جی، ابا جی، ہوش کریں ابا جی، دیکھیں ہم آپ کے بیٹے آپ کو لینے آئے ہیں۔‘‘
’’رُک جاؤ اعلیٰ حضرت کے جگر پاشو! اعلیٰ حضرت تو مراقبے میں ہیں۔ اُن کے دھیان میں خلل نہ ڈالو۔‘‘
’’لوگو ہمیں لے جانے دو اپنے ابا جی کو۔ دیکھو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ ہم معاشرے کے عزت داروں میں اَہم مَقام رکھتے ہیں اور جب عزت دار پوچھتے ہیں کہ تمہارے ابا جی کو کیا ہوا؟ تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں‘‘
’’شرم؟ ہاہاہا۔ شرم؟ ارے او نادانو! یہ میرے بیٹے اور شرم؟ جانتے ہو نا دُرگا کو؟ ارے پاروتی کو؟ ارے وہی وہی جسے تم کالی دیوی کہتے ہو۔ ہاں بھئی وہی جو الف ننگے مجسمے کی صورت بھگوان شیوا کے بے جان جسم پر سوار ہے اور جس کی زبان سے خُون کے قطرے ٹپکتے دکھتے ہیں۔ اور جس کے ایک ہاتھ میں پھندا، نوک دار برچھی، خُون آلودہ تلوار اور کٹا ہوا اِنسانی سر ہے۔ ہاں، اُسی پر میں نے اپنے باطن کے تمام پاکباز بچے قربان کیے تھے، تب یہ نا ہنجار میرے ہاں پیدا ہوے تھے، جن کے سر اَب میرے نام پر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ بے شرم۔ بے شرم۔‘‘
’’صاحبزادو! تھوڑا سا پیچھے ہٹ جاؤ۔ دیکھو تو اعلیٰ حضرت جلال میں ہیں۔‘‘
’’مگر، لوگو، ہمیں تو اِنہیں ساتھ لے جانا ہے۔‘‘
’’اَرے او نا ہنجارو! تم، تم مجھے لے جانے آئے ہو؟‘‘
’’جی، ابا جی ہم آپ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانے آئے ہیں۔‘‘
مگر بے شرمو! میرا گھر تو یہی گارے کی گھانڑی ہے اور تم جسے اپنا گھر کہتے ہو نا! وہاں تم نہیں تمہارا خوف رہتا ہے۔ ایسا خوف جو اَسلحہ اُٹھائے دربانوں سے بھی نہیں رکتا۔ میرے سر پر تو فلک جیسی مضبوط اور خوبصورت چھت ہے۔ جب کہ تمہارے خوف نے لوہے اور سیمنٹ سے چھت بنا کر فلک جیسی چھت بنانے والے کے ساتھ شرک کیا ہے۔ تم میرے بیٹے نہیں، خوفزدہ مشرک ہو۔ میں مشرکوں کے ساتھ بھلا کیسے رہ سکتا ہوں ؟کیسے ؟ کیسے ؟‘‘
’’اللہ‘‘
’’اللہ‘‘
دیکھو صاحبزادو! اب اعلیٰ حضرت پھر مراقبے میں ہیں۔ اب اِنہیں مت ستاؤ۔ اور دیکھو تو، ان کے ہونٹوں سے لفظ تسبیح کی طرح دانہ دانہ پھسل رہے ہیں۔ آؤ
سماعتوں کی جھولیاں پھیلائیں۔ اور دلوں پر پڑے قفل کھولیں۔ آگے بڑھو، سنو۔
’’وہ اپنے شہر اِفسس کو چھوڑ کر غار میں جا بیٹھے تھے۔ کچھ کہتے ہیں وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کتا اور کچھ کہتے ہیں، پانچ یا سات تھے اور چھٹّا یا پھر آٹھواں اُن کا کتا۔ حالاں کہ سب بے تُکی ہانکتے ہیں۔ کہ صحیح تعداد سوائے اللہ کے، کوئی نہیں جانتا۔ہاں تو اے نادانو! اُن میں ایک شخص تھا، یملیحاہ۔ اور میں اس کا ظل ہوں‘‘
’’مگر ابا جی! ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ چلیں، چلیں بھی نا اپنے گھر۔‘‘
’’دیر؟ ہاہاہا، دیر، وہ تو ہو بھی چکی۔ میں گزرے وقت کے پانی میں غوطے پہ غوطہ لگاتا ہوں، مگر گہری تہہ میں فقط ریت ہی ریت ہے۔ ایسی ریت کہ میں اوپر اٹھتا ہوں تو وہ میری مٹھی سے پھسل کر پھر نیچے جا پڑتی ہے۔ اس کار زیاں میں وقت گزرتا چلا گیا ہے۔ میری مٹھی خالی ہے اور میرے اعصاب ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘
’’ابا جی، اباجی! خدارا گھر چلیں۔‘‘
’’حرام خورو! دفع ہو جاؤ کہ تمہاری عورتیں مجھے دیکھ کر تمہیں گھر سے نکال دیں گی۔ تم نے ابھی اپنی بیویوں کو غور سے نہیں دیکھا۔ جاؤ کہ وہ سیتا کی طرح ایک ہاتھ میں ایسے نمائش پنکھے اُٹھائے ہوے ہیں جن پر راون کی تصاویر بنی ہوئی ہیں اور وہ اُنہیں سینے سے لگائے تمہاری خواب گا ہوں میں تمہارے بستروں پر دراز ہیں۔‘‘
’’ابا جی، اباجی! آپ جنوں میں نہ جانے کیا کچھ کہے جا رہے ہیں‘‘
’’نادانو! جنوں کیا؟ اور خرد کیا؟ ہاہاہا، جنوں ؟ کاش یہ دولت مجھے نصیب ہو جاتی۔ کاش، یہ دولت مجھے نصیب ہو۔ کاش، اے کاش۔‘‘
’’صاحبزادو! آج آپ نے اعلیٰ حضرت کو بہت ستایا۔ دیکھو تو وہ مراقبے میں ہیں۔ اب کچھ مت بولو اور دیکھو تو ان کے ہونٹ تھرتھرا رہے ہیں اور لفظوں کی کلیاں چٹک رہی ہیں۔ سنو!‘‘
’’۔۔۔ اور جب اُن کی آنکھ کھلی، تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے : کہو تو کتنی دیر سوئے۔ جواب ملا، شاید ایک دن یا پھر اُس سے بھی کم۔ مگر وہ یقین سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے۔ کہ اللہ ہی بہتر جانتا تھا وہ اِس حال میں کتنی دیر رہے۔
تب یملیحاہ کو چاندی کا ایک سکہ دیا گیا۔
وہ یملیحاہ کہ جس کا ظل میں ہوں۔
بھوک اُن کے جسموں میں بے قابو ہوئی پھرتی تھی۔‘‘
’’ابا جان، ابا جان، اَب ہمیں بھی بھوک لگی ہوئی ہے اور ہماری بیویاں دسترخوانوں پر ہماری منتظر ہوں گی۔‘‘
’’منتظر؟ ہاہاہا۔ ارے او حرام خورو! انتظار کا بیج تو کچی مٹی میں پھوٹتا ہے۔ اس کی سوندھی خُوشبو میں بڑھتا، پھلتا، پھولتا ہے۔ تُم کیا جانو کہ اِنتظار کیا ہے ؟ تم نے کبھی بچوں کو ان کے گالوں پر بوسہ دیا ہے ؟ اُن کے دہنوں سے اُمنڈتی کچے دُودھ کی مہک کو سونگھا ہے ؟ تُم نے کبھی بچیوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا ہے ؟ اُن کی آنکھوں میں طلوع ہوتی دھنک کو دیکھا ہے ؟ تُم نے کبھی اپنی منکوحہ عورتوں کو محض خلوص اور محبت سے دیکھا ہے ؟ اور اس کے نتیجے میں ان کے جسموں پر اُترتے رنگوں کو محسوس کیا ہے ؟ نہیں کہ نہ تمہارے پاس وقت تھا، نہ تمہارے ساتھ وقت
ہو سکتا ہے۔ تمہیں بڑی بڑی پارٹیوں سے ڈیل کرنا ہے۔ لنکس بڑھانے ہیں۔اور کندھے مارتے ہوے آگے بڑھنا ہے۔ اِدھر جو وقت نہیں رہا تو اُدھر بھی احساس جاتا رہا۔ کہ اُدھر اب نام نہاد سوشل ورک ہے۔ کلب ہیں۔ فیشن شوز ہیں۔ اور تم کیا جانو کہ انتظار کیا ہے ؟ اور وہ کیا جانیں کہ انتظار کیسا ہوتا ہے ؟‘‘
’’مگر اباجی، ہم۔۔۔‘‘
تم؟ ہاہاہا۔ تم، تو لوگوں کا منھ بند کرنے مجھ تک آئے ہو۔ مگر میں سیمنٹ اور لوہے
کے بنے ہوے قید خانوں میں خود کو کیوں مقید کروں ؟ کہ مجھے تو اس گھر سے ہجرت کرنا پڑی تھی جس کے آنگن سے مٹی کی سوندھی سوندھی مہک اُٹھتی تھی اور روح میں اترتی تھی۔ مگر جب میں نے اپنے باطن کے پاکباز بچے قربان کیے تھے اور تمہارے دھیان نے میرے شہر کو دقینوس سے تیذوسس والے شہر میں بدل دیا تھا تو بیچ میں صدیاں گزر گئی تھیں۔
صدیاں یونہی گزر رہی ہیں۔اور میرے ہاتھ میں اپنے وقتوں کا سکّہ ہے۔ ایسا سکّہ جو فقط دفینوں میں تو ہو سکتا ہے کسی زندہ فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتا۔ اب تم آئے ہو تو میں ساری حقیقت جان گیا ہوں۔ تم میرے بیٹے نہیں، نئے شہر کے کوتوال ہو۔ تم مجھے میرے ساتھیوں کے پاس لے جاؤ گے، جو نہیں جانتے کہ کیا سانحہ بیت چکا ہے تو وہ میری طرح اصل حقیقت جان جائیں گے اور دہشت زدہ میرے ساتھ لپٹ کر نہ صرف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خود سو جائیں گے، مجھے بھی سلا ڈالیں گے۔ مگر ابھی مجھے اس حیرت کدے میں رہنا ہے، اپنے سکّے کے ساتھ۔ لہٰذا چلے جاؤ کہ میں تمہارے ساتھ نہیں چل سکتا۔ نہیں چل سکتا۔ نہیں چل سکتا تمہارے ساتھ۔‘‘
ٍ
مراجعت کا عذاب
زَریاب خان چلتے چلتے تھک گیا تھا۔ اَن گنت ستارے اُس کے ذِہن کے آکاش پر چمکے اور ٹوٹے تھے، ہمت بڑھی اور دم توڑ گئی تھی، قدم اُٹھے اور لڑکھڑائے تھے۔ اُس کے مقابل اُمیدوں کے لاشے صف در صف کفن پہنے لیٹے تھے۔
دفعتاً اُمید کی ایک نئی مشعل جل اُٹھی۔ اُس نے جانا، روشنی دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے۔ اُس کے قدموں میں مسافت کی نئی گرمی بھر گئی اور وہ ایک نئی ڈگر پر پاؤں دھرنے لگا۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا ہو گا کہ وسوسے کا سانپ اُس کی راہ روک کر پھنکارا۔
کہیں اِس ڈگر کے اُس سرے پر ناکامی منھ پھاڑے نہ کھڑی ہو؟
وہ رکا۔ اُس کے قدموں کی چاپ بھی رُک گئی۔ کہیں سے تھکن کا بھاری پتھر لڑھکا اور اس پر آن گرا۔ اُس نے دیوار کا سہارا لیا، اِرد گرد نگاہ دوڑائی۔ سب اپنی دھُن میں مگن گزر رہے تھے۔ تب اُس نے اوپر تلے کئی گہری سانسیں لے کر سینے کو جھنجھوڑا تو ایک موہوم اُمید نے سر اُٹھایا۔ سانپ گھات لگائے پڑا رہا اور اُس نے قدموں کو آگے بڑھنے پر آمادہ کر لیا۔
دریائے سندھ کے بہتے پانیوں کی دوسری جانب مَنکور تھا اور اس طرف خُوشحال گڑھ کا خوب صورت ڈاک بنگلہ۔ خوشحال گڑھ کے حسن کے دامن میں فقط دریا کی شور مچاتی لہریں، قدیم پُل اور سُرخ ا ِینٹوں سے بنا ہوا ڈاک بنگلہ کو لیا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھیں تو سارا سحر ٹوٹ جاتا ہے کہ آگے بَل کھاتی سڑک کی دونوں اطراف میں محض بانجھ بھوری پہاڑیاں دکھائی دیتی ہیں۔
جہاں ان بے لباس بھوری پہاڑیوں کے بدن پر کہیں کہیں سبزے کی دھجی نظر آنا شروع ہوتی ہے، وہاں ایک چیک پوسٹ ہے۔ یہاں سے لگ بھگ پچھتّر کلو میٹر چلنے کے بعد دائیں جانب مزید چار گھنٹوں کی مسافت پر نظر اوپر اُٹھائی جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ننگی پہاڑیوں نے خوب صورت سبز فراک پہن لیا ہے۔ یہیں دائیں طرف بہت نیچے ایک ندی میٹھے سروں میں بہتی ہے۔
اِس طرف آنے والوں کو پہلے پہل ندی نظر نہیں آتی مگر جونہی عموداً اُٹھے اس پہاڑ کا پہلو آتا ہے جس کے قدموں میں زرد اور سرخ جنگلی پھولوں کے گچھے لہکتی بیلوں پر ٹنگے، سبز انگرکھا پہنے، پہلو بہ پہلو لیٹی چٹانوں کے گال چومتے اوپر بڑھتے ہیں، ندی اپنی چھب سے سامنے آ جاتی ہے۔ نیچے گہرائی میں بہتی ندی کے بہت اُوپر بالکل وہاں، جہاں سے اس کا مشاہدہ ہو رہا ہے، وہیں بادل اُڑا ُڑ کر نگاہوں کے آگے مہین سا پردہ تان دیتے ہیں۔ یوں اَدھ کھُلے حُسن کا یہ منظر لہو کی گردش کو تیز کر دیتا ہے۔
سڑک سیدھی ڈھلوان میں اُترتی ہوئی ندی تک پہنچتی ہے اور ندی کے سنگ سنگ چلتی ہوئی اُس خوب صورت ہٹ تک پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے یہ سڑک بنائی گئی تھی۔ اس سے آگے محض راستے کا گمان ہوتا ہے۔ ڈھلوانوں پر رینگتا گرتا اُچھلتا یہ راستہ، ان منھ زور گھوڑوں کی ٹھوکروں سے بنا ہے، جن پر زور آور، خان گل باز خان اور اس کے کارندے سوار ہوتے ہیں۔ یہ راستہ ان بے بس لوگوں کا مرہون منت بھی ہے، جن کے قدم اَزل سے اس کی پیشانی چمکانے کی ناکام سعی کر رہے ہیں، اس لیے کہ شاید اس راہ سے اچھے دنوں کی نوید قدم بڑھاتے اُن تک آ پہنچے۔
زَریاب جب وہاں پہنچتا، جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے، ٹھہر جاتا۔ اُس کے ذہن میں اس مَقام، بچپن اور لڑکپن کی کئی حسین ساعتیں محفوظ تھیں۔ وہ وہاں پہنچتے ہی ان یادوں میں محو ہو جاتا اور اس کا چہرہ کھل اُٹھتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے شبنم کی پھوار میں غنچہ پھول بنے اور مسکرا دے۔ شبنم کے پہلے قطرے اور پھول کے مسکرانے تک کا عمل جا چکی ساعتوں کے ایک ایک جزو کا حاصل تھا۔
زَریاب جب بھی یہاں آتا سستاتا، اپنے وجود کو منظم کرتا، رُوح میں گرمی بھرتا، خواب بنتا، خوابوں کے اُجلے کینوس پر تعبیر کے خوب صورت پھول بناتا اُس ندی کے سحر میں خود کو گم کر دیتا جو اپنے نیلگوں پانی سے میٹھے سُر بکھیرتی۔ وہ اِن سُروں کو اپنے لہو میں رچاتا اور دھیرے دھیرے اُس روش قدم بڑھاتا، جو بیضوی محرابوں والے برآمدوں کے درمیان گھرے ہٹ سے نکل کر اُسی عموداً اُٹھی پہاڑی کے عقب کی طرف جاتی ہے، جس کے قدموں میں زرد اور سرخ جنگلی پھولوں والی لہکتی بیلیں اوپر اٹھتی ہیں۔ اس کے دائیں ہاتھ ندی کا شفاف پانی پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتے ہوے ٹھنڈے میٹھے چھینٹے اُڑاتا ہے تو بائیں جانب پہاڑی کا پہلو سیدھا آسمان کی سمت یوں اٹھا ہوتا ہے جیسے کسی نے صدیوں کی محنت، ریاضت اور عقیدت سے اسے تراشا ہو۔ اَب جو نظر اُٹھتی تو منظر کچھ اور حسین ہو جاتا۔ ندی کے دوسرے سرے پر، جہان دو پہاڑیاں باہم مل رہی ہیں، انہی کے سنگم سے پانی چادر کی صورت نیچے گر رہا ہوتا۔ اسی آبشار کے مقابل ندی کے اس طرف ذرا ڈھلوان میں اُتر کر ترچھی چھتوں والا ایک ننھّا مُنَا گھر تھا۔ کوئی اجنبی اُس جانب آ نکلتا تو اسے یہ گھر اس حسین منظر میں ذرا نہ جچتا تھا مگر زَریاب کے لیے تو جیسے یہ منظر اس گھر کے بغیر ادھورا تھا۔
زرجان دروازے پرہی اُس کا استقبال کرتی۔ وہی زرجان جو چنار کی صورت دراز اور جنگلی پھولوں کی طرح سرخ تھی۔ اُس لہجے میں ندی کی مدھر تان اور نگاہ میں بادلوں کی سی ٹھنڈک ہوتی۔ زَریاب اسے دیکھتا تو روح کی گہرائیوں تک سرشار ہو جاتا۔
لیکن جب وہ آخری مرتبہ یہاں آیا تھا تو ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس نے خود کو دُکھ کی گہرائیوں میں اترتے پایا تھا۔ آنکھوں کے پیالے آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔ قویٰ مضمحل ہوے تھے اور سینے میں بھی کچھ ٹوٹا تھا۔
کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ گرتی آبشار، بہتی ندی، جنگلی گھاس، لہراتی بیلوں پر جھولتے پھول، برآمدوں میں گھیراہٹ، ترچھے چھتوں والا ننھا سا مکان اور اس کے دروازے پر کھڑی زرجان۔ مگر جب وہ آخری مرتبہ آیا تھا تو اُسے پہلی مرتبہ یہ اِحساس ہوا تھا کہ اِس سارے منظر میں ایک چیز اضافی تھی۔ اور وہ اضافی وجود خود اس کی اپنی ذات تھی۔
وہ پھول جو شبنم کی پھوار سے مسکراتا ہے، وہ اِس مسکراہٹ کے بعد ان لمحوں کے بھی قریب ہو جاتا ہے، جب تیز ہواؤں کی زد میں آ کر اس کی پتی پتی کو بکھر جانا ہوتا ہے۔ اس نے سوچا، پھول پر یہ جاں گداز لمحہ کتنا گراں ہوتا ہو گا۔ اس نے تمنا کی کاش اس کی حیات کے عناصر اس ہولناک لمحے کے انکشاف سے قبل ہی منتشر ہو چکے ہوتے۔
آخری مرتبہ وہ یہاں اُس روز سے محض ایک رات قبل آیا تھا، جس روز وہ یہاں سے میلوں دور ایک نئی ڈگر پر چلا تھا اور وسوسے کا سانپ گھات لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے اپنے سینے کو جھنجھوڑا تھا اور اپنی چھاتی سے ایک نئی اُمید نچوڑ لی تھی۔ اِسی اُمید کے سہارے اپنے جھجکتے قدموں کو مہمیز کیا تھا۔
ٍ
زَریاب سرکلر روڈ پر بڑھ رہا تھا۔ اُس کی نئی منزل گلبرگ تھی۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے اُس کے اعصاب جواب دے چکے تھے۔ اُسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ اتنا تھک کیوں گیا تھا۔ پہاڑی راستوں پر پہروں دوڑتے ہوے بھی اس کی سانسیں نہ پھولتی تھیں مگر آج اس کشادہ ہموار سڑک کے پہلو میں آہستہ آہستہ چلتے ہوے اسے لگ رہ تھا، سانسوں کا یہ زیر و بم اس کا سینہ پھاڑ دے گا۔ زَریاب نے اپنی مضبوط چھاتی کو زور سے دبایا۔ یوں، جیسے وہ اپنی سانسوں کو وہیں جما رہا ہو جہاں سے اکھڑی تھیں۔ ۱۴۲۔اے :نیچے نام تھا، پیرزادہ اکبر فیروز۔ اس عبارت کی تختی اس کوٹھی کے بڑے گیٹ پر لگی تھی، جہاں زَریاب کو پہنچنا تھا اور اس کی منزل کے درمیان فقط کچہری بازار، وکیلوں والی گلی اور گلبرگ کی چند کوٹھیاں تھیں۔
پیرزادہ اکبر فیروز کے بیٹے معیز اکبر کو زَریاب خان نے پہلی مرتبہ یونیورسٹی کے زمانے میں دیکھا تھا۔ گوری چٹی شفاف جلد، نفاست سے ترشے بال، درمیانہ قد اور بھرا بھرا جسم۔ پہلی نظر میں وہ اُسے ساری کلا س سے منفرد لگا تھا۔ وہ رفتہ رفتہ اُس کے قریب ہوتا چلا گیا۔ زَریاب پہاڑی روشوں پر چل کر یہاں تک آیا تھا، لہجہ ناملائم، اکہرا بدن، اٹھتا قد اور ڈھیلا ڈھالا لباس۔ مگر رفتہ رفتہ اس نے معیز کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ لباس میں نفاست آ گئی، لہجے میں ملائمت اور سلجھاؤ آیا، رکھ رکھاؤ، آداب، قرینہ وقت کے ساتھ ساتھ سب میں نکھار آتا چلا گیا۔
یہی وہ دورانیہ بنتا ہے کہ جب معیز کے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ وہ اس کے رابطے اس گروہ کے ساتھ ہو گئے تھے جو عارضی سکون کی پڑیا دیتے اور مستقل سکون کے ساتھ ساتھ سب کچھ لوٹ لے جاتے۔ زَریاب نے معیز کو اس حال میں دیکھا تو تو بہت سمجھایا۔ جب وہ باز نہ آیا تو دکھ کا پیرہن پہن لیا تھا۔
وہ اپریل کی ایک سہانی شام تھی، جب زَریاب نے فیصلہ کیا کہ وہ معیز کو بچا لینے کی ایک اور کوشش کرے گا۔ شام ڈھلے وہ اس تک پہنچا۔ یونہی گھومنے کے بہانے اُسے لارنس گارڈن لے آیا۔ یہیں ایک گوشے میں دونوں گھاس پر مقابل بیٹھ گئے۔ پورے دنوں کا چاند قدرے اوپر نکل آیا تھا۔ اُس کی نورانی ٹھنڈی کرنیں نیچے اُتر رہی تھیں۔ معیز کے عقب میں پھولوں کی قطار دور تک چلی گئی تھی۔ گھاس پر اوس کے قطرے چمک رہے تھے۔ اترتی چاندنی اور بہتی ہوا کے سنگ پھولوں کی مہک بھی محو خرام تھی۔
وہ دونوں چپ تھے۔
زَریاب نے پہلے چاند کو دیکھا، پھر خُوش رنگ پھولوں کا لمس نگاہوں پر محسوس کیا۔ خُوشبو کے ذائقے کو چکھا اور تب معیز کو دیکھا جس کی ہتھیلی گیلی گھاس پر پھیلی ہوئی تھی۔ پھیلی ہتھیلی کے گرد شبنم کے قطروں نے بہم مل کر روشنی کا ہالہ بنایا ہوا تھا۔ زَریاب نے سکوت توڑا اور لفظوں کی وہ تمام صراحیاں انڈیلیں جو اس کے خیال میں تاثیر کی شراب سے لبالب بھری ہوئی تھیں۔ پھر وہ ٹھہرا اور معیز کو دیکھا تو اسے لگا معیز کا جام خالی تھا۔ اپنے لفظوں کے بانجھ پن پر وہ رو دیا۔ اُس لمحے ان دیکھے چچا اطلس خان کی یاد اس کے دل میں ترازو ہو گئی۔
اَطلس خان، زَبر خان اور ریشم خان تینوں بھائی تھے، زَبر خان زَرجان کا باپ تھا اور ریشم خان زَریاب کا، جب کہ اطلس خان اُن دونوں سے چھوٹا تھا مگر تھا بلا کا حسین اور شہ زور۔ جب زَریاب پیدا ہوا تھا تو اطلس خان کو مرے پورا ایک سال گزر چکا تھا۔ مگر جس طرح وہ مرا تھا دونوں بھائیوں نے نہ صرف اُسے عمر بھر یاد رکھا، بل کہ اُس کی کہانی اپنی اولادوں کو بھی سنائی۔ زَریاب نے جب اطلس خان کی دلگداز داستان سنی تو سب کچھ دل پر محسوس کیا، لہو میں اُتارا اور روح میں سمو لیا تھا۔
جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے اور موہوم راستہ ڈھلوانوں پر اُچھلتا کودتا آگے بڑھتا ہے، وہیں سے خان گلباز خان کی ملکیت شروع ہوتی ہے۔ جب یہ اُچھلتا کُودتا راستہ تھک جاتا ہے اور دم سادھ کے سیدھا چلنے لگتا ہے تو اُس کے دونوں طرف حد نظر تک کھیت پھیل جاتے ہیں۔ جن میں فصل لہلہا رہی ہو تو عجب سی باس چہار سو پھیلی ہوتی ہے۔
کھیت اور کھیتوں میں کام کرنے والے کسان، ڈھور ڈنگر اور وہ گاؤں جو کھیتوں کے بعد آتا ہے، اس کے مکان اور مکین، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں اور بچے، سب کچھ خان گلباز خان کی ملکیت ہے اور سب کی زندگیوں کا مطمع نظر فقط بڑے خان کی خُوشنودی ہے۔
جب حکومت کی طرف ہیروئن کی فصل تلف کرنے کا حکم نامہ جاری ہوا تھا تو ہر جانب اُس پر عمل درآمد ہوا، مگر جہاں سے سڑک دم توڑتی ہے اور موہوم راستہ سَر اُٹھاتا ہے، وہیں حکم نامہ ٹھٹھر کر کھڑا ہو گیا تھا۔ بڑے خان کے کھیت یُونہی لہلہاتے رہے۔ وقت پر فصل کاشت ہوئی اور وقت پر اُس کا معاوضہ بڑے خان کے ہاتھوں میں پہنچا۔
ریشم خان، زبر خان اور اطلس خان تینوں اِسی خان گلباز خان کی ملکیت تھے، جسے وہ بھی دوسروں کی طرح بڑا خان کہتے تھے۔ اور تینوں دلو جان سے اُس کے لیے سونا اُگا رہے تھے۔ ہر فصل کی برداشت پر اُنہیں اِتنا معاوضہ دیا جاتا کہ بہ مشکل اگلی فصل تک ساتھ دیتا۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا کہ انہیں بڑے خان سے قرض لینا پڑتا تھا۔
وقت کی گاڑی یوں ہی آڑی تِرچھی چل رہی تھی۔
سب اِس پر متفق تھے کہ حالات کی زلفوں کو سنوارا نہیں جا سکتا تھا۔ حد تو یہ کہ سب ہی ایک دوسرے سے خوفزدہ تھے۔ وہ چاہتے ہوے بھی بڑے خان کی خلاف کوئی لفظ زبان پر نہ لاتے تھے۔
اچانک ایک حادثہ ہوا اور وقت کی جھیل میں ارتعاش پیدا ہوا۔
زبر خان اور ریشم خان نے یہ دیکھ کر سٹ پٹا گئے کہ اُن کا چھوٹا بھائی اطلس خان اس زہر کا رسیا ہو چکا تھا، جسے وہ بڑے خان کے لیے نسل در نسل اُگا تو رہے تھے مگر خود اس دشمن جان سے دور رہے تھے۔ دونوں بھائیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اطلس خان کو روکنا چاہا مگر اس نے رکنا تھا نہ رکا۔ یہ نشہ نہ تھا ایسی دلدل تھی کہ اطلس خان نے ایک دفعہ اس میں قدم رکھا تو نیچے ہی نیچے اترتا چلا گیا۔ بہت نیچے موت کی وادی تھی جو اُسے گود لینے کی منتظر تھی۔ سو اُس کا اِنتظار ختم ہوا۔
جب اطلس خان پیوند خاک ہو چکا تو زبر خان نے اس کی قبر کی مٹی ہاتھوں میں تھامی اور عہد کیا:
’’ہم یہ موت کی فصل پھر نہ اُگائیں گے‘‘
یہ پہلا باغیانہ جملہ تھا جو اُس فضا میں بولا گیا تھا۔
سب چپ تھے اور حیرت سے زبر خان کو دیکھ رہے تھے۔ تب ریشم خان آگے بڑھا اور اس نے اپنا ہاتھ زبر خان کے منھ پر رکھا کر کہا تھا:
’’جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
زبر خان نے ریشم خان کا ہاتھ اپنی مضبوط ہتھیلی میں تھاما اور جواب دیا:
’’ہاں جانتا ہوں۔ مجھ میں اِتنا حوصلہ نہیں کہ دُکھ اور جبر کی کٹار پر ننگے پاؤں چلتا چلا جاؤں۔ میں نامعلوم راستوں پر زندگی کے تعاقب میں قدم بڑھاؤں گا۔ چاہے اندیشوں کی کھائیاں مجھے نگل ہی لیں۔‘‘
پھر جوں ہی کچھ اَندھیرا پھیلا، زَبر خان نے اپنی بیوی پلوشے کا بازو تھاما اور رات کی تاریکی میں اُس راستے پر چل پڑا جس کے دوسرے سرے پر پختہ سڑک دم توڑ دیتی تھی۔ اَگلی صبح بڑے خان کا آدمی ریشم خان کے دروازے پرتھا۔ جب ریشم خان بڑے خان کے سامنے پیش ہوا تو اس کا بدن بادبان، طوفانی لفظوں کی زَد میں آ کر لرز رہا تھا۔ بڑے خان کے چہرے پر غصہ سانپ بن کر پھنکارنے لگا اور لفظ تیر بن کر برسنے لگے تھے۔ دفعتاً وہ چپ ہو گیا۔ کُچھ دم لینے کے بعد، لہجے کا پینترا بدلا اور کہا:
’’کاش تم اشراف خان کی طرح ہوتے، میں اس کی وفاداری پر آج بھی فخر کرتا ہوں، میرے ایک اشارے پر اپنی جان بھی قربان کر سکتا تھا اور جوان ایسا کہ جوانی پہ رشک آتا۔ فصل اُٹھانے کا وقت ہوتا تو اُس کے بازو فصل کو یوں لیتے جیسے آگ سوکھی لکڑی کو لیتی ہے۔ اور سیانا اتنا کہ زمین ٹٹول کر کہہ دیتا: مٹی سونا اگلے گی یا بیج بھی لے ڈوبے گی۔ تب میں نے خُوش ہو کر اُس کے ذمہ بارہ ایکڑ لگائے تھے اور کہا تھا: تمہیں اسی حساب سے محنتانہ ملے گا۔ میرے کارندوں نے مجھے تعجب سے دیکھا تھا لیکن وقت نے میرے فیصلے کو درست ثابت کیا تھا۔
مگر تم بھائیوں پر تو جیسے تمہارے باپ کا سایہ بھی نہیں پڑا۔‘‘
بڑے خان کا لہجہ ایک مرتبہ پھر بدل چکا تھا:
’’زبر خان کو جرأت کیسے ہوئی کہ اس نے گاؤں سے باہر قدم نکالا۔ اطلس خان کو میں نے نہیں مارا۔ اسے مرنا تھا، سو مر گیا۔ کان کھول کر سنو، میں اپنی زمینوں کو بنجر نہیں ہونے دوں گا۔ اب تم صرف دو ایکڑ زمین کاشت کرو گے اور اِسی کا معاوضہ تمہیں ملے گا۔۔۔ا ور یاد رکھو اب کوئی شکایت مجھ تک پہنچی تو وہ سزا دوں گا کہ تمہاری نسلیں بھی نہ بھول پائیں گی۔ میں چاہتا تھا کہ تم سے ساری زمین چھین لوں اور تمہیں بھوکا مرنے دوں، مگر مجھے اشراف خان کی وفاداری کا پاس ہے۔۔۔‘‘
جس دن وہ بڑے خان سے مل کر آیا تھا اس دن کے بعد ریشم خان کو کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
اس واقعہ کے ٹھیک ایک سال بعد ریشم خان کے گھر زَریاب پیدا ہوا۔ وہ بہت خُوش ہوا اور اس کے اعصاب کا تناؤ ٹوٹ گیا۔ اس کے من میں اس خواہش نے سر اٹھایا کہ یہ خبر کسی بہت ہی پیارے کو سنائے۔ تب وہ بھاگا بھاگا اطلس خان کی قبر پر گیا تھا۔ وہ جونہی وہ وہاں پہنچا تھا، اس کے بدن سے خوشی منہا ہو گئی تھی اور اس کا چہرہ تپتی لو کی زد میں آئے پھول کی طرح لٹک گیا۔ اُس نے دل پر ہاتھ رکھا اور اپنی دھڑکنوں کو بے ہنگم ہوتے محسوس کیا۔ وہ قبر کے سرہانے بیٹھ گیا حتی کہ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔
وہ آہستہ آہستہ اس موہوم راستے پر ہو لیا جس کے دوسرے سرے پر پختہ سڑک دم توڑتی تھی۔ جہاں آبشار ندی میں گرتی اور پہاڑ عموداً اُوپر کو اُٹھتا تھا۔ جہاں پھولوں سے لدی ہوئی جنگلی بیلیں جھوم کر سبز گھاس کا انگرکھا پہنے محوِ استراحت چٹانوں پر لوٹتی تھیں۔ کہ وہیں ایک خوبصورت ہٹ تھا۔ بیضوی محرابوں والے برآمدوں والے اِس ہٹ میں آنے والے زیادہ تر غیر ملکی ہوتے۔ زبر خان کو ہٹ کی صفائی دیکھ بھال اور سیاحوں کی خدمت کا معقول معاوضہ مل جاتا تھا۔ یہیں عموداً اٹھی پہاڑی کے عقب میں، ایک چھوٹے سے گھر میں، وہ یوں رہنے لگا تھا کہ یہیں کا ہو کر رہ گیا تھا۔
یہاں آنے والوں میں کئی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آتے۔ یہاں کے حسن کو محسوس کرتے۔ تازہ دم ہوتے اور خُوش گوار یادوں کے ساتھ لوٹ جاتے تھے۔ تاہم کچھ ایسے بھی ہوتے جو خالی یادوں کی پوٹلی اُٹھا کر ساتھ نہ لے جانا چاہتے تھے۔ چناں چہ وہ اسی موہوم راستے پر قدم بڑھاتے، پھر دائیں کو پلٹ جاتے کچھ اور آگے بڑھتے ہوے شمشیر خان کے ڈیرے پر پہنچتے جو بڑے خان کا خاص کا رندہ تھا۔ جو کچھ لینا دینا ہوتا، اُس سے لیتے دیتے اور واپس پلٹ جاتے۔ زبر خان نے اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہ رکھا ہوا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ بڑے خان کو اپنی سرحد پر زبر خان کی موجودگی نہ کھٹکی تھی۔
ریشم خان جب زبر خان اور پلوشے کے ہاں پہنچا تو دونوں کے پاؤں خُوشی سے زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ جب اس نے زَریاب کے پیدا ہونے کی خبر سنائی تو زبر خان کا چہرہ خُوشی سے دمک اُٹھا اور پلوشے دھم سے اُس کے قریب جا کر بیٹھ گئی اور تجسس سے زَریاب کی شکلو صورت اور قد بت کے بارے میں بہت سے سوال کر ڈالے۔ تب ریشم خان نے بتایا:
’’بس یوں سمجھ لو وہ اطلس خان کی طرح لگتا ہے‘‘
یہ سن کر زَبر خان کے چہرے پر پہلے تو خُوشی کی پھوار پڑی۔ دوسرے ہی لمحے تشویش کی کالی گھٹا اُس کے چہرے پر چھا گئی۔ وہ منھ ہی منھ میں بڑبڑایا:
’’اطلس خان‘‘
رنج کی سولی پر چڑھے اطلس خان کے نام کو ریشم خان نے سنا تو تشویش کا تیر کمان سے نکلا اور اس نے جانا جیسے اس تیر کا رُخ اس کی سمت تھا۔ تب تینوں نے کئی لمحوں کے لیے چپ کا روزہ رکھا تھا۔ اور جب تینوں نے خامشی کا جالا توڑنا چاہا تو یوں لگتا تھا، لفظوں کی فصل اُجڑ چکی تھی۔ پھر ریشم خان وہاں زیادہ دیر ٹھہر نہ سکا۔
وہ رات کی تاریکی میں آیا تھا اور رات کی تاریکی میں پلٹ گیا۔
جب ریشم خان کے گھر گُل مکئی پیدا ہوئی تو بھی ریشم خان یہ خبر زَبر خان کو سنانا چاہتا تھا مگر اپنے گھر کی دہلیز ہی سے کچھ سوچ کر واپس پلٹ گیا۔ اُس دن کہ جب زَریاب اپنے ننھے منے قدموں سے چل کر اس کے پاس آیا اور اپنے ننگے پاؤں ریشم خان کے بھاری بھرکم جوتوں میں ڈال کر خُوشی سے تالیاں بجائیں، تب وہ اچھل کر یوں کھڑا ہو گیا جیسے اس نے غلطی سے بجلی کے ننگے تاروں کو چھو لیا ہو۔ اُس رات اُس نے اطلس خان کو پھر یاد کیا۔خوب رویا اور اگلے روز گھر سے بالکل نہ نکلا۔ پھر جب رات اُتری تو زَریاب کو ساتھ لے کر اپنی دہلیز کی جانب یوں بڑھا کہ چند ہی لمحوں بعد اُس کے قدم موہوم راستے کو روند رہے تھے۔
ریشم خان کی بیوی زَمُرد جان نے اپنے شوہر کی باتوں کو غور سے سُنا تھا اور ایک ایک لفظ سے اِتفاق کیا تھا۔ اپنے کلیجے کو ہاتھوں سے تھاما تھا اور بیٹے پر آنسوؤں کی بارش کی تھی۔ محبت کے لفظ اگلے تھے اور دعاؤں سے رخصت کیا تھا۔
اور جب ریشم خان اپنے بیٹے کو لے کر زبر خان کے ہاں پہنچا تو وہ بہت خُوش ہوا اور ریشم خان کے فیصلے کو سراہا۔ پلوشے نے زَریاب کو سینے سے لگا یا اور اپنی دو ماہ کی بچی زَرجان، ریشم خان کے سامنے کر دی۔ تب ریشم خان کا دل بہت زور سے دھڑکا اور آنکھوں کے جام خُوشی کے آنسوؤں سے جل تھل ہو گئے۔ زبر خان اور پلوشے کی شادی کو چھ برس بیت چکے تھے اور یہ ان کے گھر کی پہلی خُوشی تھی۔ ریشم خان بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ایک مرتبہ پھر لفظوں کی تتلیاں اس کی گرفت سے نکل گئیں۔ وہ لُکنت زَدہ لہجے میں، بڑے بے ڈھنگے پن سے مبارک باد کا لفظ لڑھکا رہا۔ اس کیفیت کو دیکھ کر زبر خان اور پلوشے سے بہت محظوظ ہوے اور خُوشی سے قہقہے لگائے۔ تینوں کے دلوں سے کچھ وقت کے لیے بوجھ کا پتھر لڑھک گیا تھا۔ ریشم خان کو یاد آیا، اُسے بھی گُل مکئی کی خبر سنانا تھی۔ اُس شب وہ ان کے ہاں رُک گیا اور وہ رات بھر باتیں کرتے رہے۔
ابھی پو نہ پھٹی تھی کہ وہ واپس ہو پڑا۔ گاؤں پہنچتے پہنچتے دھوپ شدّت سے چمکنے لگی۔ ریشم خان کے گھر پہنچنے سے بہت پہلے زَریاب کو زَبر خان کے حوالے کرنے کی خبر، اُس کی دہلیز سے نکل کر، بڑے خان کی حویلی میں پہنچ چکی تھی۔
بڑا خان اس کا منتظر تھا۔
ابھی گھر داخل ہوا ہی تھا کہ اُسے بڑے خان کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ تب اُسے لگا جیسے یہ زمین اس کے لیے تنگ ہو گئی تھی۔ وہ سہما سہما بڑے خان کے سامنے پیش ہوا تو اُسے بڑے خان نے اپنا اٹل فیصلہ سنا دیا۔
’’آج کا سورج غروب ہونے سے پہلے، ریشم خان، تمہیں یہ گاؤں چھوڑ نا پڑے گا۔ ہم نمک حراموں کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
اُس نے بہت منتیں کیں۔ اپنے باپ کی وفاداریوں کا واسطہ دیا مگر بڑے خان کا فیصلہ بدلنا تھا، نہ بدلا۔
جب ریشم خان، زمرد جان اور گُل مکئی کے ساتھ گاؤں سے نکل رہا تھا تو اس کا دل بھی ڈوبتے سورج کی طرح ڈوب رہا تھا۔ دور مغرب میں آسمان اور پہاڑوں کے بیچ سرخی اُبل رہی تھی اور ادھر زمرد جان کی سوجی ہوئی سرخ آنکھوں سے آنسو اُمنڈ رہے تھے۔ ننھی گُل مکئی بے خبر تھی اور نہ جان پا رہی تھی کہ کیا ہو رہا تھا۔
جب وہ تینوں زبر خان کے ہاں پہنچے اور جا چکے لمحوں کی راکھ کو حزن کی اُنگلیوں سے کریدا گیا تو سب نے دُکھ کی بُکل اوڑھ لی۔ ریشم خان نے اپنی گزر چکی بانجھ عمر کے خشک پیڑ کی ایک ایک شاخ کو ٹٹولا، جن پر ایک بھی سبز کونپل نہ تھی۔ اُ س نے اپنا زَبر خان سے موازنہ بھی کیا اور پہلی دفعہ محسوس کیا کہ اس کے بھائی کے قدموں پر جتنے آبلے تھے، وقت نے اُنہیں مندمل کر دیا تھا۔ ایک چھوٹا سا گھر، جس کے آنگن میں خُوشیوں کے پھول کھلتے تھے۔ اُس کے در و دیوار سے سکون کا ٹھنڈا سایہ اُترتا اور جس کی مٹی میں اطمینان کی باس تھی۔ تب اُس نے اِسی پسِ منظر میں زَبر خان اور پلوشے کے چہروں کو دیکھا تو اسے یہ جان کر بڑی طمانیت ہوئی کہ ان کے چہرے پہلے سے بہت نکھر گئے تھے۔
چہرہ تو زندگی کے باب کا عنوان ہوتا ہے، ایسا عنوان، جس میں سارا نفس مضمون نچوڑ کر بھر دیا گیا ہو۔ دُکھ چہرے پر جالا بُن دیتا ہے اور سُکھ اُس کو نکھارتا چلا جاتا ہے۔ اَندیشے لہو پی کر اُس کے ایک ایک خلیے کو زرد کر دیتے ہیں اور اطمینان سے اس میں لہو ہلکورے کھاتا ہے۔ گویا چہرہ جا چکی ساعتوں کی ستم ظریفیوں، لمحۂ موجود کی تلخ حقیقتوں اور مستقبل کے اندیشوں کی باہم گندھی مٹی سے بنے جسم کا لباس ہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے لفظ مفہوم کا لباس ہوتے ہیں۔ لفظ سماعت تک پہنچے تو مفہوم تمام رعنائیوں کے ساتھ اپنی جزئیات کو عیاں کر دے اور چہرے پر نگہ ڈالو تو بصارت کے لمس سے ایک ایک خلیے پر بنی مفہوم کی تصویر ٹٹولتے جاؤ۔
ریشم خان نے زَبر خان اور پلوشے کے چہروں کے دونوں روپ دیکھے تھے اور اس نئے روپ نے اسے مسحور کر دیا تھا۔ اس سحر کے زیر اثر اس نے اپنے قدموں میں مسافت بھری زمرد جان، زَریاب خان اور گُل مکئی کو وہیں چھوڑ ا اور خود شہر کی طرف نکل گیا۔
قسمت نے یاوری کی اور اسے ایک مِل میں ملازمت مل گئی۔ کچھ عرصہ بعد ایک کوارٹر حاصل کرنے میں کام یاب ہوا تو بچوں کے ساتھ زمرد جان کو بھی وہیں بلا لیا۔ زندگی کی اس اَدا سے وہ بہت محظوظ ہوئے۔ زَریاب سکول جانے لگا تو دونوں نے خوابوں کے ایسے جال بُن کر مستقبل کے سمندر میں پھینکے جن کا شکار تعبیر کی سنہری مچھلیاں تھیں۔ یوں زَریاب ماں باپ اور بہن سے بہت دور یونیورسٹی جا پہنچا۔ وہ حالات کی اونچ نیچ سمجھتا تھا لہٰذا خوب دل لگا کر محنت کی اور کام یابیوں کی سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگا۔ جب ساتویں سمسٹر میں کام یابی پر اس کے بدن سمندر میں مُسرَّتوں کے خُوش رنگ بلبلے تیر رہے تھے تب درد کی ایک ظالم لہر اٹھی تھی اور خُوشی کے سارے رنگ نابود ہو گئے تھے۔ اب کی بار زَریاب حزن کے جال میں بے بس مچھلی کی طرح تڑپا۔ وہ خبر سنتے ہی میلوں کو پاٹ کر باپ کے سرہانے جا کھڑا ہوا۔ اس کا فالج زدہ باپ ہسپتال میں سفید چادر بچھے لوہے کے پلنگ پر لیٹا تھا اور اپنے سرہانے کھڑے زَریاب کو یوں ٹک ٹک دیکھ رہا تھا کہ آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے لبا لب بھرے ہوے تھے۔ ماں جو ریشم خان کے پاؤں دبا رہی تھی، اس نے بیٹے کو دیکھا تو جلدی سے اپنے پاؤں پلنگ سے نیچے سرکائے اور لپک کر بیٹے کے کندھے کو تھاما۔ بیٹا چُپ تھا اور نگاہ باپ کے چہرے پر تھی۔ باپ کے ایک جانب ڈھلکتے چہرے پر ہونٹ کپکپا رہے تھے اور لفظ آواز پیدا کیے بنا مر رہے تھے۔ ماں نے بیٹے کو زور سے جھنجھوڑا۔ اتنی زور سے کہ جیسے اُسے دُکھ نے اندر سے جھنجھوڑ ڈالا تھا۔ وہ چاہتی تھی اپنے اندر سرایت کر جانے والے کرب کی ایک ایک ساعت کی روداد بیٹے کو سنا ڈالے۔ مگر جب بیٹے کا چہرہ اُس کے مقابل آیا تو فقط سسکیوں کے، اِظہار کا اور کوئی وسیلہ ہاتھ نہ آیا۔ جب تینوں کے سینوں میں اُٹھنے والے طوفان کا زور کچھ تھما تو زَریاب نے سب کو اپنا ایک خواب سنایا۔ ریشم خان چُپ تھا۔ زمرد جان چپ تھی۔ اور زَریاب کہہ رہا تھا:
’’گذشتہ رات خواب میں، مَیں اُس پہاڑ پر چڑھنا چاہتا تھا جس کی چوٹی پر ایک خوب صورت دھنک رنگ پھول تھا اور جس کے بارے میں میرے دل میں یقین اُترا تھا کہ اس کو سونگھنے سے عناصر حیات میں مُسرَّتوں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ میں نے رسی اُس کی چوٹی کی جانب پھینکی۔اس وقت آپ دونوں کے علاوہ بہن گُل مکئی بھی وہاں موجود تھی۔‘‘
اتنا کہہ کر زَریاب رُک گیا۔ دروازے کے جانب قدموں کی چاپ بڑھ رہی تھی۔ اُس نے پلٹ کر دیکھا تو گُل مکئی باپ کے لیے کھانا لے کر آ رہی تھی۔ ایک مرتبہ پھر چاروں دُکھ کی زَد میں آ کر لرزنے لگے تو ایکا ایکی چاروں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا، ان کے یوں رونے سے دوسروں کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ تب چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا تھا اور طوفان ٹھہر سا گیا۔ جب طوفان تھما تو زَریاب نے اپنا خواب پھر سنانا شروع کر دیا:
’’جس وقت میں نے پہاڑ کی چوٹی پر رسی پھینکی اُس وقت نہ صرف آپ لوگ میری مدد کو وہاں موجود تھے چچا زَبر خان، چچی پلوشے اور زَرجان بھی ہاتھوں کو دُعا کی صورت اُٹھائے مجھے دیکھ رہے تھے۔ تب میں نے سوچا، نہ صرف مجھے چوٹی پر پہنچنا اور دھنک رنگ پھول کی مہک سے مشامِ جان معطر کرنا ہے، مجھے آپ سب کو بھی وہاں لے جانا ہے۔ جب رسی کا سرا اوپر چوٹی میں اٹک گیا تو سب کے چہروں پر خوشیاں کھیل رہی تھیں اور ہونٹوں سے دعا کے لفظ پھسل رہے تھے۔ میں نے خوب جھٹکے دے کر یہ یقین کر لیا کہ رسی اب اوپر سے نہ کھسکے گی۔ اپنے پاؤں جوتوں سے بے نیاز کیے اور دائیں پاؤں کے انگوٹھے اور انگلیوں کے درمیان رسی کو پھنسا کر دوسرا قدم اوپر بڑھایا۔ جب میں کافی اوپر پہنچا تو پلٹ کر دیکھا۔ تم سب بہت نیچے تھے اور دلدل تمہارے جسموں پر چڑھ دوڑی تھی۔ تمہارے سینوں سے کوئی صدا نہ اُٹھ رہی تھی۔ اگر اُٹھ رہی تھی تو مجھ تک نہ پہنچ پا رہی تھی۔ میں حیرت سے سہم گیا۔ اپنے ذِہن پر خوب زور ڈالا اور اس لمحے کو تمام جزئیات کے ساتھ یاد کیا جب میں نے اپنے پاؤں سے جوتوں کو اتارا تھا۔ مجھے یقین تھا اس وقت زمین پتھر کی طرح سخت تھی۔ یہ دلدل کہاں سے آئی تھی؟ مجھ پر طاری حیرت نے بوکھلاہٹ کر رکھ دیا۔ میں نے حسرت سے اس پھول کو دیکھا جو دھنک رنگ تھا اور تمہارے چہروں کو دیکھا، جو کرب کے ایک ہی رنگ میں رنگے ہوے تھے۔ میں نے چیخ کر کہا: اس رسی کو تھام لو۔ تم سب نے اپنے ہاتھ رسی کی طرف اور نظریں میری جانب بڑھائیں۔ میں نے تیز قدموں سے اس مسافت کو پاٹنا چاہا جو میرے اور دھنک رنگ پھول کے درمیان تھی۔ اور اس وقت کہ جب بات چند ساعتوں کی رہ گئی تھی، رسی چوٹی سے سرک گئی۔‘‘
ریشم خان، زمرد اور گُل مکئی سب سانسیں روکے اُسے دیکھ رہے تھے۔ جب زَریاب خواب سنا چکا تو سب نے یوں محسوس کیا جیسے اُن کے سینوں میں کوئی چیز ڈوب رہی تھی۔
اُس لمحے، کہ جب دُکھ پر پردہ ڈالنے کو، سب نظریں ایک دوسرے سے بچا رہے تھے، زَریاب نے ایک فیصلہ سنایا:
’’میں مزید نہیں پڑھوں گا۔ میں باپ کا سہارا بنوں گا‘‘
زَریاب کی زبان سے یہ سنتے ہی ریشم خان کا جسم زور سے لرز اور فالج زدہ ہونٹ بے صدا لفظوں سے کانپ اُٹھے۔ تب زمرد جان نے ریشم خان کے چہرے کو دیکھا اور مفہوم کا ایک ایک لفظ نچوڑا پھر ریشم خان کے لہجے میں زَریاب کو فیصلہ سنا دیا۔
’’تم اپنی تعلیم مکمل کرو گے۔‘‘
یہ کہتے ہوے اِعتماد اُ س کے چہرے پر برس پڑا تھا۔ سب کی نگاہیں اس پر عزم چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ ریشم خان کا چہرہ قدرے پر سکون ہو گیا۔ تاہم ایک سوال نگاہوں میں تیر رہا تھا اور یہی سوال زَریاب کے حیرت زدہ ہونٹوں سے پھسلا:
’’کیسے ؟‘‘
زمرد جان نے بیٹے کو اطمینان سے دیکھا اور کہا:
’’میں اپنی ہمسائن گلنار جان کی طرح مِل اَفسروں کے گھروں میں کام کروں گی۔ اُن کے برتن مانجھوں گی۔ اُن کے بچوں کو لوریاں سناؤں گی، اور تم پڑھو گے !‘‘
زَریاب یہ سن کر بے قابو ہو گیا۔ اس کی مٹھیاں بھنچ گئیں۔ ہونٹ دانتوں تلے جا پہنچے۔ ریشم خان جو فخر سے اپنی شریک حیات کو دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں کے آگے اندیشوں کی دھند آتی چلی گئی۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ بہت گہری اور تاریک کھائی میں گر گیا تھا۔ کچھ دیر بعد جب کہ اس پر یہی خوابیدہ کیفیت طاری تھی اسے اپنا بدن روشنی کی جانب اُٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ سامنے زبر خان، پلوشے اور زرجان کے ساتھ موجود تھا۔ زبر خان کہہ رہا تھا:
’’زَریاب ضرور پڑھے گا۔‘‘
زَریاب پڑھتا رہا۔
ریشم خان اسپتال سے اپنے کوارٹر اور پھر ایک بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں منتقل ہو گیا۔ زبر خان کے اصرار کے باوجود وہ شہر میں ہی ٹک گئے کہ ریشم خان کو علاج کی ضرورت تھی۔ دوا وقت پر چاہیے تھی۔
زمرد جان کے ہاتھوں پر کوٹھی والوں کے برتن مانجھتے کپڑے دھوتے اور جھاڑو دیتے رعشہ طاری ہو گیا کہ دوا کے لیے پیسوں کی بھی ضرورت تھی۔ زَریاب پڑھتا رہا۔
اور گُل مکئی نے چپ چاپ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔
ریشم خان کی مٹھی میں اُمید کی تتلیاں تھیں۔
زمرد جان کے رعشہ زدہ ہاتھوں کی اوک دُعا کے پانی سے بھری ہوئی تھی۔
اور گُل مکئی کے زرد چہرے پر اِنتظار کی آنکھیں تھیں۔
چچا زَبر خان استقامت سے اس کی مدد کر رہا تھا۔ زرجان کی آنکھوں میں سنہرے سپنے تھے مگر پلوشے کے من میں اندیشے تھر تھرا رہے تھے۔ تب پلوشے نے اندیشوں کے ڈھیر سے ایک مٹھی بھر کر زبر خان کی جھولی میں ڈالی تو زبر خان مسکرا دیا ور کہا:
’’فکر کیوں کرتی ہو پلوشے ؟ جب زَریاب افسر بنے گا تو میری بیٹی زرجان بھی تو راج کرے گی۔‘‘
زرجان کی سماعت میں اس شیریں اُمید کا رس نچڑا تو بدن پر مُسرَّت کی دھنک اُتر آئی اور وہ دوڑ کر ندی کے اس کنارے پہنچی جہاں عموداً اُٹھے پہاڑ کے قدموں سے ندی کی جانب نیچے پھسلتی سڑک صاف نظر آتی تھی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب زَریاب آخری مرتبہ یہاں آیا۔
آٹھویں سمسٹر تک پہنچتے پہنچتے زَریاب کی سانس پھول چکی تھی۔ اگرچہ چچا زبر خان اس کی ضرورتوں کا بہت خیال رکھتا تھا مگر اس کی آمدنی تھی بھی کتنی کہ اس کے بھاری بھرکم تعلیمی اخراجات کی متحمل ہو سکتی۔ چناں چہ زَریاب فارغ اوقات میں کبھی ٹیوشن پڑھاتا اور کبھی کوئی اور دھندہ کرتا۔ یوں وقت کا ایک ایک لمحہ اس کے لہو کے جام لنڈھا کر گزرنے لگا۔ اس کا ایک ہی عزیز دوست تھا معیز، مگر دونوں میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔
جس رات پورا چاند نکلا تھا اور گیلی گھاس پر دونوں مقابل بیٹھے تھے، گھاس پر بچھے معیز کے ہاتھ کے گرد اوس کے قطروں نے مل کر چمکدار ہالا بنایا تھا، اُس رات کے بعد بھی وہ ایک دوسرے سے ملتے رہے تھے، مگر ایک کھچاؤ دونوں کے بیچ ٹھہر گیا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ رابطے کی ڈوری بالکل ٹوٹ گئی۔ معیز نے مطالبہ کیا تھا، زَریاب اس کے لیے کام کرے اور اسے وہ لا کر دے جو اس کے باپ دادا نسل در نسل اُگا رہے تھے۔ اس نے معیز کو بتایا تھا کہ اس کے باپ نے موت کی یہ فصل اُس روز اگانا بند کر دی تھی جس روز اس نے اپنے ننھے قدم باپ کی بھاری بھرکم جوتوں میں دھرے تھے مگر معیز اپنی ضد پر ڈٹا رہا۔ اسی ضد نے ان کے درمیان خلیج وسیع تر کر دی۔
جس روز آخری مرتبہ زَریاب وہاں سے پلٹا تھا جہاں کچا دم توڑتا راستہ عموداً اٹھے پہاڑ کے پہلو سے ندی کی جانب کودتی سڑک کے دہانے میں گم ہوتا ہے، اُس روز اُس نے اپنے چاروں طرف دیکھا اور سوچا تھا: کاش ابا سے، امی سے یا پھر چچا سے ہی اپنی ضرورت کہہ سکتا مگر وہ کہتا تو کیوں کر؟
فالج زدہ باپ نے اُمید سے دیکھا تھا اور شاید سوچا ہو گا، لمحۂ موجود کے سوکھے شجر پر جب سبز کونپلیں پھوٹیں گی تو اس کے بے حس ہوتے وجود میں آتے وقتوں کی سرشاری زندگی کی لہر دوڑا دے گی۔ ماں کے ہونٹوں پر سوال تھا؟ رعشہ زدہ ہاتھوں کو مشقت کا پتھر اور کتنے عرصے تک دھکیلنا ہو گا؟ اُ س نے اپنی بہن گُل مکئی کے زرد چہرے کو دیکھا اور چپ چاپ وہاں سے نکل آیا۔ وہ چچا زبر خان کے ہاں پہنچا مگر وہاں بھی ایک لفظ نہ کہہ سکا۔ پھر وہ وہاں تک گیا، جہاں پختہ سڑک دم توڑتی ہے مگر ابھی کچے راستے پر قدم نہ دھرا تھا کہ واپس پلٹ آیا۔
جب وہ پلٹ آیا تو اس کی جیب میں فقط ایک سو نوے روپے تھے اور سینے میں ٹوٹی ہوئی سانسیں۔ وہ اپنی سانسیں بحال کر کے تیز تیز چلنے لگا تو وہ دونوں جو اس کے آگے چل رہے تھے سراسیمہ ہو کر اور زیادہ تیز چلنے لگے۔ چلتے چلتے لمبی مونچھوں والے نے، کہ جس کے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا بریف کیس تھا، خشخشی ڈاڑھی والے کے کان میں کچھ کہا۔ خشخشی داڑھی والے کا چہرہ متغیر ہو گیا۔
وہ کچہری بازار سے وکیلوں والی گلی میں مڑ گئے۔
زَریاب بھی مڑ گیا۔
آگے جانے والوں نے پھر سرگوشی کی۔ چہروں کے تاثرات بدلتے رہے۔ زَریاب کو ان کی جانب اس لیے متوجہ ہونا پڑا کہ وہ پلٹ پلٹ کر اُسے دیکھتے اور کھسر پھسر شروع کر دیتے تھے۔ وہ حیران تھا کہ وہ اُسے یوں کیوں دیکھ رہے تھے ؟ رفتہ رفتہ زَریاب ان سے بے نیاز اپنی دنیا میں کھوتا چلا گیا۔ اسے معیز کے گھر پہنچنا تھا۔ قدموں میں تیز آ گئی۔ وہ بھی تیزی سے گلبرگ کی وسیع سڑک پر پہنچ گئے۔ زَریاب بھی چند لمحوں میں اسی سڑک پر تھا۔
اِس مرتبہ خشخشی داڑھی والے نے مونچھوں والے کے کان میں سرگوشی کی اور دونوں کی رفتار سست پڑ گئی۔
معیز کی کوٹھی تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔
زَریاب کے قدموں میں مزید تیزی آ گئی۔
فاصلہ گھٹنے لگا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ خشخشی داڑھی والا فیصلہ کن انداز میں اپنے قدموں پر گھوما، دوسرے ہی لمحے میں زَریاب اس کی بانہوں میں جکڑا ہوا تھا۔ زَریاب بھونچکا رہ گیا۔ جب اُس کے حواس بحال ہوے تو وہ بُری طرح پھنس چکا تھا۔
لمبی مونچھوں والا ’’مدد، مدد‘‘ پکار رہا تھا۔ بریف کیس سڑک پر کھلا ہوا پڑا تھا اور سرخ نوٹ اس سے جھانک رہے تھے۔ لوگوں کا جم غفیر پل بھر میں جمع ہو گیا۔ لمبی مونچھوں والا نوٹ سمیٹے جاتا اور لوگوں کو بتاتا جاتا، کہ کیسے اس نے ان کا پیچھا شروع کیا، ا ور کیسے وہ انہیں لوٹنا چاہتا تھا۔
زَریاب نے فرد جرم پر حیرت کا اظہار کیا اور اپنی صفائی میں بہت کچھ کہنا چاہا مگر کسی نے کچھ نہ سنا۔ ہر طرف سے گالیاں گھونسے اور لاتیں حرکت میں آ چکی تھیں۔ جب لوگ تسلی کر چکے تو اُسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
مُقدّمہ درج ہوا۔ اور وہ حوالات میں بند کر دیا گیا۔
اُس نے پہلے اپنے زخموں کو سہلایا، پھر خود کو مجتمع کیا، دُکھ سے فلک کی اُس دھجی کو دیکھا جو کوٹھری سے نظر آ رہی تھی پھر سلاخوں کو تھاما اور اپنے پیاروں کو یاد کیا۔ اُسے لگا اُمید کے سارے دئیے بجھ گئے تھے۔ وہ نڈھال ہو کر فرش پر بیٹھ گیا۔
ایسے میں ایک مانوس آواز نے اسے چونکا دیا۔ اوپر دیکھا۔ خُوشگوار حیرت کی گرمی بدن میں بھر گئی۔ ایک دم اُٹھا۔ سلاخوں کی اس جانب معیز کھڑا تھا۔ اُمید اپنی پوری رعنائی سے جاگی۔ اس نے سارا ماجرا معیز کو کہہ سنایا۔ جب وہ سب کچھ کہہ چکا تو اُمید سے معیز کو دیکھا مگر معیز کہہ رہا تھا:
’’زَریاب میں تمہاری مدد کروں گا مگر تم بھی میرے لیے وہ کرو گے جو میں نے کہا تھا۔‘‘
زَریاب نے یہ سنا تو اس کا خُون کھولنے لگا، اعصاب تن گئے، دانتوں نے ہونٹ کچل ڈالے اور ہتھیلیاں بھنچ گئیں۔ آنکھیں سرخ انگارہ بن گئیں اور زبان شعلے اگلنا چاہتی تھی مگر اُس نے ضبط کو تھامے رکھا اور اپنے من کے گوشے میں، معیز کے لیے جو محض چند نرم لفظ بچے تھے، اُن کو ملا کر ایک جملہ بہ مشکل کہا:
’’تم جو چاہتے ہو، وہ میں نہیں کر سکتا۔ دور ہو جاؤ کمینے ورنہ۔۔۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا، کمینہ اُلٹے قدموں پلٹ پڑا۔
جب وہ واپس ہونے لگا تو زَریاب نے دیکھا، اس کے بہت پیچھے خشخشی داڑھی اور لمبی مونچھوں والا دونوں موجود تھے۔ تب زَریاب کے سینے سے ایک صدا اٹھی اور حلق کی بہ جائے آنکھوں میں جا دھنسی اور آنکھیں چوپٹ دروازے کی طرح کھل گئیں۔ اسے یوں لگنے لگا تھا، نیچے بہت نیچے دلدل میں اس کے اپنوں کے جسم دھنسے جا رہے تھے۔ اور بے بس چہروں پر دھری آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں اور رسی دھنک رنگ پھول کے قدموں سے سرک چکی تھی۔ اور وہ دم بہ دم اپنوں سے ملنے کے لیے تیزی سے دلدل کی سمت بڑھ رہا تھا۔
ٍ
آئینے سے جھانکتی لکیریں
میں اپنی نگہ میں سمٹ کر بھدی چھت سے پھسلتی دیوار تک آ پہنچی تھی۔
میں نیچے آ رہی تھی یا دیوار اُوپر اُٹھ رہی تھی؟
کچھ نہ کچھ تو ضرور ہو رہا تھا۔
اور جو کچھ ہو رہا تھا وہ میرے باطن کے کٹورے کو اطمینان کے شیریں پانیوں سے کناروں تک بھر رہا تھا۔
باطن کا شہر بھی عجیب ہوتا ہے۔
بدن کو گھیرتی دیواریں گر جائیں یا ہیچ ہو جائیں۔ تو اندر کے بانجھ پرنالے بھی شرڑ شرڑ بہنے لگتے ہیں اور ساری گلیاں اطمینان کے گدلے پانیوں سے جل تھل ہو جاتی ہیں۔
پھر یوں لگتا ہے کہ وہ شہر جو ابھی ابھی پانیوں میں ڈوب رہا تھا، اب وہی اُن پانیوں پر تیر رہا ہے۔
اور جب میں، اُوپر ہی اُوپر تیر رہی تھی۔
تو میں نے اپنی آنکھوں سے نکل کر پھیلنا شروع کر دیا۔
پھر جب میں بہتے پر نالوں کے پانیوں کی طرح سارے کی ساری اپنی آنکھوں سے نکل چکی تو وہ تل برابر رہ گئیں۔
تل کے یہی دانے تیرتے تیرتے اُوپر اُٹھنے لگے اور میرے چہرے پر پہنچ کر پیشانی کے عین نیچے نصب ہو گئے۔
اَب مَیں جِسے دیکھ رہی تھی، وہ آئینہ تھا۔
وہ آئینہ تھا یا میں تھی ؟
شاید وہ آئینہ بھی تھا اور میں بھی!
اگر میں آئینے کے اُس طرف تھی تو پھر اِدھر کون تھی؟
جستجو قدم بڑھاتے میرے سینے تک آ پہنچی تھی۔
اور وہ، جو آئینے کے باہر تھی، اپنے آپ میں سمٹتی چلی گئی۔
آئینے کے اُس پار والی تصویر بن گئی۔
اور آئینے سے باہر والی، پامال مسافتوں کے لیے نکل کھڑی ہوئی۔
میں کیوں چل رہی تھی؟
شاید مجھے بھوک لگی تھی۔
مگر میرا پیٹ کہاں گیا؟
میں نے اُس جگہ کو ٹٹولا جہاں شکم ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں تو بس شکنیں ہی شکنیں تھیں۔
بھوک تو اُسے ہوتی ہے، جس کا پیٹ ہو۔
تو میں بصارت کی طلب میں ہوں گی تاکہ میں اُسے اپنی آنکھوں میں بسا سکوں !
مگر؟
شاید جس کے چہرے پر تل برابر آنکھیں نصب ہوئی تھیں وہ آئینے سے پار رہ گئی تھی کہ
اِدھر تو آنکھوں کے گڑھے بھی موجود نہ تھے۔
شاید مجھے کسی شے کی تلاش نہ تھی۔
اور میں نے بے نام سفر سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔
مگر میرے قدم بھی تو نہیں تھے۔
ایک سفر تھا، جو میرے اَندر ہو رہا تھا۔
دم بہ دم بڑھتی قدموں کی چاپ غالباً اِسی باطنی سفر کی تھی۔
چاپ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
یا وہ شور بڑھ رہا تھا، جو بالکل چاپ جیسا تھا۔
میرے اندر کا غیر مرئی ’’میں‘‘ قدموں کے بغیر بھی چاپ پیدا کر رہا تھا،
یوں کہ دھرتی لرز رہی تھی۔
وہ آنکھیں نہ ہونے کے باوجود، بصارت کی اُنگلی تھامے، مخصوص سمت بڑھا چلا جا رہا تھا۔
ایسے کہ، منزل اُس کی جانب کھچی چلی آتی تھی،
اور پیٹ نہ رکھتے ہوے بھی اپنا وجود تازہ دم رکھے ہوے تھا، جیسے حیاتِ جاوداں کا اَمرت رس پی رکھا ہو۔
اس کا سفر مسلسل آگے ہی آگے کی جانب تھا۔
اُس غیر مرئی وجود کا لباس میرا کریہہ بدن تھا جو نظرانداز ہو کر بھُربھُرا ہو گیا تھا۔
جب ساری بھُربھُری مٹی جھڑ گئی تھی تو میرے اندر کا ’’میں‘‘ الف ننگا ہو گیا تھا۔
بدن کی بھر بھری مٹی یخ بستہ زمین پر بکھری پڑی تھی اور زرہ زرہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔
زمین ایسے یخ بستہ تھی،
جیسے دسمبر کے آخری کنارے پر رات کی ٹھٹھری ہوئی لاش،
اور غیر مرئی وجود ننگا ہی آگے بڑھ رہا تھا۔
کبھی تاریکی روشنی میں مدغم ہوتی تھی اور کبھی روشنی تاریکی میں۔
پھر راہ میں خُونی معرکے آ پڑے۔
’’بول میری مچھلی
کتنا پانی۔۔۔ ؟
گوڈے گوڈے پانی۔‘‘
پانی؟۔۔۔ پانی اور خُون کی پہچان ختم ہو چکی تھی۔
سانس پھولنے لگی تھی۔
اور غیر مرئی وجود (؟) میں تیرتا اپنے چہرے کی جھریوں میں تاریکی اور اُجالے کے نقوش سمیٹتا چلا جا رہا تھا۔
پھر پھولی سانسیں ٹوٹنے لگی تھیں۔
اور اس ٹوٹ پھوٹ سے ایک سانحہ نمودار ہوا۔
روشنی چہرے سے نچڑتی چلی گئی۔
اور درپیش تاریکیاں جھریوں میں جذب ہونا شروع ہو گئیں۔
یہ عین اس وقت ہوا جب دھیان کی ڈور ڈھیلی پڑ گئی تھی۔
پھر وہاں، جہاں محض گڑھے تھے۔
وہاں ایسی آنکھیں بھی اُگ آئی تھیں جو فقط باہر کی جانب دیکھ سکتی تھیں۔
اندر تاریکی کا جنگل اُگنے لگا۔
اندھیرے کی غذا پا کر شکم خود رو جھاڑیوں کی طرح بڑھنا شروع ہو گیا۔
اور چاپ قدموں کی زائیدگی کا دُکھ سہہ کر ٹوٹ رہی تھی۔
پھر جو قدم آگے کو دھرے گئے وہ پیچھے پڑ رہے تھے۔
آنکھیں تھیں مگر بصارت لکنت زدہ ہو گئی تھی۔
ہاں پیٹ مسلسل پھولتا چلا جا رہا تھا
حتیٰ کہ غیر مرئی وجود اس میں سمٹتا چلا گیا۔
شفق کی سرخی دھرتی پر اتر آئی۔
وہ سرخی جو فلک کے ما تھا پیٹنے سے پھوٹ پڑی تھی۔
اور وہ دھرتی، جہاں اپنی ہیئت بدلتے وجود نے، قدم آگے کو دھرے تھے اور الٹے پڑے تھے، وہ دولخت ہو گئی تھی۔
اور، اور۔۔۔
شفق کی ساری سرخی اس دولخت دھرتی میں آ کر پھنس گئی تھی۔
تب سوالوں کی بوچھاڑ ہوئی تھی۔
’’کون؟۔۔۔ کیوں ؟۔۔۔ کیسے ؟۔۔۔ کس لیے ؟‘‘
سوچ قدموں کی زنجیر بننا چاہتی تھی۔
مگر پیٹ نے پھیل کر، ہیئت بدلتے وجود کو، اس کی سوچ اور سوال سمیت، اپنے اندر لے لیا تھا۔
میں لڑھک رہی ہوں، بوسیدہ چیتھڑوں سے بنے کھِدو کی طرح۔
کیا میں واقعی کھِدو ہوں ؟
پھر میرا اندر لِیر لِیر کیوں ہے ؟
میں لوگوں کے قدموں کی زد پر کیوں ہوں ؟
ایک خاص سمت میں کیوں نہیں بڑھ رہی ؟
لمحہ بہ لمحہ میری سمت کیوں بدل رہی ہے ؟
اور۔۔۔ اور اس ٹھوکر کو تو بہت شدید ہونا چاہیے تھا کہ جس سے دھرتی دولخت ہو گئی تھی اور شفق کی سرخی اس میں آ پھنسی تھی۔
مگر میرے قدم اُلٹے پڑتے چلے گئے۔
اور اب میں ایک مرتبہ پھر اس بھدی چھت تلے ہوں جہاں سے پھسل کر دیوار تک پہنچی تھی۔
سامنے آئینہ ہے، جس میں مَیں کسی اور کو دیکھ رہی ہوں۔
اور جو آئینے کی دوسری جانب ہے، مجھے نفرت سے دیکھ رہی ہے،
مجھ سے کہہ رہی ہے :
’’میں تمھارا چہرہ نہیں ہوں‘‘
میں یقینی اور بے یقینی سے آنکھ مچولی کھیل رہی ہوں۔
میرے اندر جو سوچ کی بڑھیا چرخہ رکھے سوت کاتنا چاہتی ہے
اس کی تند کب کی ٹوٹ چکی ہے
جب کہ ترکّل ٹیڑھا ہے۔
آنکھوں کے سرخ ڈورے یوں پھیلے ہوے ہیں، جیسے گاڑی کے نیچے آ کر کچلے جانے والے بوڑھے کی انتڑیاں۔
میری آنکھیں ایسی تو نہ تھیں۔
شک اور تشویش نے بے یقینی کے کان میں سرگوشی انڈیل دی ہے۔
مگر آئینے کی دوسری جانب والا چہرہ یقین کی اُنگلی تھامے آگے بڑھتا ہے اور ایسی یخ بستہ ہنسی ہنستا ہے کہ میں ٹھٹھر کر رہ جاتی ہوں۔
عجب چہرہ ہے، دسمبر کی ٹھٹھری رات کی طرح سرد۔
اکتیسویں سال میں قدم رکھتی یتیم کنواری کے چہرے کی طرح زرد۔
وقت کا سمندر آگے بڑھنے کے لیے عقب سے آنے والی لہروں کو سمیٹنے پیچھے ہٹتا ہے تو میں چہرے کے ساحل پر وقت کے سمندر کی شوخیوں سے پیدا ہونے والی لکیروں کو گننا شروع کر دیتی ہوں۔
اکتیس، بتیس، پینتیس، چالیس، پینتالیس، سینتالیس۔۔۔
لہر در لہر، لکیریں ہی لکیریں
میں دیکھ رہی ہوں،
ہر آخری لکیر کے بطن سے ایک اور لکیر جنم لے رہی ہے۔
میں گِن رہی ہوں۔
گنتی جا رہی ہوں۔
حتیٰ کہ ہونٹ بے سکت ہوتے جا رہے ہیں۔
مگر لکیریں، وہ تو مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
میری گنتی کا انتظار کیے بغیر،
مجھے روندتی ہوئیں، مجھے کچلتی ہوئیں۔
ٍ
آخری صفحہ کی تحریر
جب پہلا خُون ہوا تھا تو اُس نے لہو کا ذائقہ چکھا تھا، بہت کڑوا کسیلا تھا۔
سارا محلہ صحن میں اُمنڈ آیا تھا۔
نعش کو کندھوں پر اٹھا کر سارے شہر میں پھرایا گیا تھا۔
جب نعش کی خوب نمائش ہو چکی تو چیرویں قبر کھودی گئی۔ سفید کفن میں لپیٹ کر نعش کو قبر کے عین درمیان لٹا دیا گیا۔ پھر پتھروں سے چھت بنائی گئی۔ جب پتھروں سے چھت بنا کر اس کے تمام سوراخوں کو گیلی مٹی سے بند کر دیا گیا، تب بھری بھری مٹی ڈالی گئی تھی۔
اور یہ سب کچھ اس نے خود بچشمِ سَر دیکھا تھا۔
جب وہ واپس پلٹا تھا تو ایک بات بھی قبر سے کسی نامعلوم راستے سے نکلی تھی اور اُس کے ساتھ ہو لی تھی اور جب یہ بات کچھ آگے بڑھی تو لوگوں کی زبانوں پر ناچ رہی تھی، یہی کہ
یہ اُس کا پہلا قتل ہے۔
وہ کہتا تھا، یہ خُون اس نے نہیں کیا۔ ہونی شدنی اُس کی بے بسی سے بندھی تھی۔ اور جب پاؤں مَن بھر کے ہو گئے تھے، طے شدہ فاصلے کا بوجھ کمر پر لدا تھا، آگے تاریکی تھی اور راستہ اس میں گم تھا۔ اور جب وہ بہت تھک گیا تھا ور کچھ بھی سجھائی نہ دے رہا تھا، تو مجبوراً وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔ پھر اُس نے تینوں کو دیکھا تھا جن میں سے ایک قتل ہوا تھا۔اُن کے پیٹ پیٹھوں نے جکڑے ہوے تھے اور زبانیں ٹھوڑی سے بھی نیچے لٹک آئی تھیں۔ اُن کے حلق خشک تھے اور آنکھیں لپک لپک کر اُسے ٹٹول رہی تھیں۔
تب لہو اُس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا تھا۔
اس نے ذائقہ چکھا، بہت کڑوا کسیلا تھا۔
سب نے کہا، خُون اسی نے کیا ہے۔
مگر وہ کہتا تھا، یہ قتل میں نے نہیں کیا۔
یہ وہ پہلا خُون تھا جس سے وہ انکاری تھا اور بعد والے قتل وہ تسلیم کرتا تھا۔
مگر یہ پہلا اور آخری خُون تھا جو لوگ اس کے سر منڈھتے تھے اور کہتے تھے، پھر اس سے کوئی قتل نہ ہوا۔
اس نے مَن بھر کے قدموں کو جھاڑ دیا تھا اور وہاں وہ قدم اُگ آئے تھے جن میں اَن چھوئے رستوں کی مسافت تھی۔ پھر وہ اتنی مہارت سے چلا کہ ان تینوں میں سے جو دو قتل ہونے سے رہ گئے تھے، ان کی پیٹھوں نے ہاتھ ڈھیلے کر دیے اور پیٹ آگے کو لپک آئے تھے۔
اور اب وہ لہو کے بھرے ہوے پیالے پیتے تھے۔
مگر لوگ کہتے تھے، پھر اس نے کوئی قتل نہیں کیا۔
اس نے سارے خُون اپنی ڈائری میں لکھے ہوے تھے۔
پہلے صفحہ پر جو قتل درج تھا وہ، وہ نہیں تھا جو لوگ کہتے تھے۔
اس نے لکھا تھا کہ سب سے پہلے اس نے اپنی گردن کاٹی تھی اور سارا لہو ہاتھ کے کٹوروں میں بھرا تھا۔ پھر کٹے سر کو بدن پر جوڑا، اور لہو کے کٹورے ہونٹوں سے لگا کر غٹا غٹ پی گیا تھا۔
اس روز کے بعد جب بھی وہ واپس پلٹتا تھا لہو کا بھرا مشکیزہ ساتھ لاتا تھا۔
اور وہ دونوں، جو تین میں سے قتل ہونے سے بچ گئے تھے، بھر بھر کے لہو کے پیالے پیتے تھے۔
وہ چاہتا تھا، وہ قتل نہ ہو جو ڈائری کے پہلے صفحے پر لکھا گیا۔
مگر جب اس نے سیاہ گاؤن اتارا تھا، اور رول کیے ہوے موٹے کاغذ کو کھول کر ایک ایک کے سامنے دھرا تھا تو سب نے نفی میں سر ہلائے تھے۔
تب اُس کے قدم من من کے ہو گئے اور گزر چکا فاصلہ اس کی پیٹھ کا بوجھ بن گیا تھا۔
آگے اندھیرا تھا اور گھر میں داخل ہونے پر ایک خُون اس کے سر منڈھ دیا گیا تھا۔
وہ بہت رویا۔ رات بھر کانپتا رہا۔ اور صبح اس نے اپنے قتل کا فیصلہ کیا۔
جب وہ اپنا قتل کر چکا تھا تو اس نے اپنی نئی ڈائری کے پہلے پر سارا وقوعہ لکھا اور ایک مرتبہ پھر زور سے رویا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ ڈائری کے ورق ورق سیاہ ہوتے رہے۔
پہلے پہل تو اُسے کراہت محسوس ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کے ہونٹ لہو کے عادی ہو گئے۔
شروع میں جو ہچکچاہٹ ہوتی وہ بھی جاتی رہی بعد ازاں اسے اپنا شکار گرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔
وہ لہو پیتا رہا۔
اور وہ دو بھی اُس کے لائے ہوے لہو سے کام و دہن آلود کرتے رہے جو تین میں سے قتل ہونے سے بچ گئے تھے۔
روز روز کے تازہ خُون نے اُن کے جسموں کو بہت پھیلا دیا۔
اور تینوں نے محسوس کیا، گھر کی دیواریں جسموں سے ٹکرانے لگی ہیں، حبس بڑھ رہا ہے اور اگر وہ کچھ اور عرصے ان دیواروں کے اندر رہ گئے تو گھُٹ کے مر جائیں گے۔
وہ وہاں سے نکلے اور کھلی فضا میں پہنچے۔ دور دور دیواریں کھنچوا دیں۔ عظیم شاہراہ کی طرف صدر دروازہ رکھا۔ اور اس پر نیم پلیٹ لگو ادی۔
اب انہیں ماحول اچھا لگتا تھا۔ فضا بھی صاف ستھری تھی۔ حبس نہ تھا اور نہ ہی چاروں طرف ندیدے لوگ رہتے تھے۔ جو ارد گرد رہتے تھے، انہیں اس بات کی پروا نہ تھی کہ ساتھ والے گھر میں وہ رہتے ہیں جو خُون پیتے ہیں۔
اور وہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کے چاروں طرف رہنے والے لہو پیتے ہیں یا۔۔۔ ؟
ویسے وہ سب اگر یہ جانتے بھی تھے تو اسے معمول کا عمل سمجھتے تھے۔
۔۔۔ اور وہ لہو پیتے رہے۔
وہ، جس نے ڈائری کے پہلے صفحے پر اپنے قتل کی روداد لکھی تھی، اس نے بعد کے ہر صفحے پر اپنے شکاری کی تفصیل کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ اگر وہ صیاد ہے تو سچ یہ ہے کہ اسی لمحے صید بھی ہے۔
پھر یوں ہوا کہ آخری والی سطر سے ایک خیال پھڑک کر اُٹھا اور کہنے لگا:
’’تم کچھ نہ کچھ بہت پیچھے بھول آئے ہو‘‘
یہ سنتے ہی وہ پلٹ پڑا۔ دوڑتے دوڑتے وہاں گیا جہاں کے حبس سے ڈر کر کھلی فضا میں دیواریں تعمیر کی تھیں۔ جب وہ وہاں پہنچا جہاں پر وہ تھی، جسے وہ بھول آیا تھا تو یہ جان کر بہت پریشان ہو اکہ دروازہ دیوار سمیت غائب تھا۔ دروازے اور دیواریں تو اجنبی قدموں میں جھجک بھرنے کے لیے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ جو اندر باہر ہو رہے تھے ان کے قدموں میں جھجک نہ تھی، اشتہا تھی ایک مہین سا پردہ، کسی بھی سہارے کے بغیر، معلق تھا جو اشتہا کو مہمیز کر رہا تھا۔
اس نے دیکھا، جو لوگ اندر باہر ہو رہے تھے، ان کے ہونٹ اس کے لہو سے تر تھے، جسے وہ پیچھے چھوڑ گیا تھا۔
وہ تیزی سے آگے بڑھا اور وہ پردہ نوچ پھینکا جو قدموں میں اشتہا بھر رہا تھا۔
اندر پہنچا، دیکھا، اُس کے بدن میں لہو کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔جب وہ کچھ اور آگے بڑھا تو کھلی آنکھوں میں حیرت تھَیا تھَیا ناچ رہی تھی۔اس نے اسے چھونا چاہا مگر ایک چیخ درمیان میں آکھڑی ہوئی۔ اس نے چیخ کو پرے پٹخ دیا اور اُسے چھوا۔ تب وہ حیرت اور نفرت کے درمیان بھاگتے بھاگتے مر گئی۔
اس موت نے اسے بوکھلا دیا اور وہ الٹے قدموں کھلی فضا کی جانب بھاگا۔ اپنی ڈائری کے آخری سے پہلے صفحے پر سارا وقوعہ لکھنے کے بعد اس نے اپنا یہ فیصلہ بھی لکھا:
’’اب مزید خُون نہیں پیوؤں گا۔‘‘
مگر وہ دو، جو قتل ہونے سے بچ گئے تھے، خون مانگتے تھے۔
اور جتنے دن انہیں خون نہ ملا، اتنے دن وہ اس پر برستے رہے اور اپنے شکموں کو دباتے رہے۔
تب اس نے وہ سارا خون تھوکنا شروع کیا، جو اس نے پیا تھا
اور جب خُون تھوکتے تھوکتے تھک گیا، تو ایک سوچ اس کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، یہی کہ ان دونوں کو قتل کرے، جو تین میں سے زندہ بچ گئے تھے یا پھر ان دو کے لیے مزید خون کرتا جائے کہ لہو مانگتے تھے۔
اور جس رات اس کے دروازے پر اس سوچ نے دستک دی تھی، اسی رات کی صبح، وہ پنکھے کے ساتھ رسی باندھ کر لٹک گیا تھا اور یہ سارا وقوعہ نامعلوم ہاتھوں نے ڈائری کے آخری صفحہ پر عدم کے لفظوں سے لکھ دیا۔
کفن کہانی
ہاں میری معصوم بچی! میں اپنے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں کہ کہانی اس کا کفن نہ بن سکی، تو تمہارا کفن ضرور بنے۔ اور اب جب کہ تم زندگی کی سانسیں ہار چکی ہو تو میں تمہاری نعش کے سرہانے کاغذ تھامے اس کہانی کو لفظ دینے کا دُکھ سہہ رہا ہوں۔
جب وہ آخری سانسیں لے رہی تھی تو کہانی لکھنے کی یہی خواہش میرے اندر یوں سر پٹخ رہی تھی جیسے چودہویں کی رات، سمندر کی بپھرتی لہریں، ساحل پر سر پٹختی ہیں۔ مگر اس کی ٹھہر ٹھہر کر آتی سانسوں کے سنگ، ہونٹوں پر سرسراتے نرم گرم لفظوں کی مہک نے میرے قلم کو ایک لفظ تک تخلیق نہ کرنے دیا۔ اور جب اس کے ہونٹوں پر سارے لفظ غروب ہو گئے، اور وہاں چپ اَندھیرے نے جالا بُن دیا، تو یوں لگا، میں نے یہ کہانی نہ لکھ ڈالی، تو میرا سینہ پھٹ جائے گا۔
مگر قلم چپ تھا ا ور لفظ اُس سے پرے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے۔
اور آج جب کہ اس اَن کہی کہانی میں تمہاری کہانی بھی شامل ہو چکی ہے، وہی خواہش میرے اندر پھر انگڑائیاں لے رہی ہے۔
اور تم ہو کہ جو ابھی ابھی میٹھی باتوں کا امرت رس میر ی سماعتوں میں گھول کر ابد کی نیند سو گئی ہو، مجھے یقین ہے، آنکھیں کھول دو گی اور مجھ سے ایک بار پھر پوچھو گی:
’’بابا! کہانی مکمل ہو گئی؟‘‘
میں جواب نفی میں دوں گا، تو تم وہ کہانی مجھے تھما دو گی جو دو روز قبل مکمل کر کے تم نے میرے لیے تکیے کے نیچے رکھ چھوڑ ی تھی۔
یوں وہ کہانی، جو میرے سینے کے محبس میں پھڑپھڑا رہی ہے، اَن کہی رہ جائے گی۔
میری بچی، میں جو ایسا اِتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں تو اِس لیے کہ چودہ برس قبل انہی دنوں اور انہی لمحوں میں جب اس نے سانس کی بازی ہاری تھی اور گھر میں مفلسی ننگا ناچ رہی تھی، تو میں نے چاہا تھا، اس کی اپنی کہانی سے اس کا کفن بناؤں گا۔
تم نے میرے بانجھ قلم کو دیکھا اور پھر اس کاغذ کو دیکھا تھا جس پر ایک لفظ کا بھی احسان نہ تھا۔ میرے بھنچے ہوئے ہونٹوں کو دیکھا اور میری آنکھوں میں جھانکا تھا، جن سے سارے بدن کا کرب قطرہ قطرہ بہہ رہا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوے بھی تم نے سہمے لفظوں سے کہا تھا:
’’بابا !کہانی مکمل ہو گئی ؟‘‘
میں ایک لفظ بھی منھ سے نہ کہہ سکا تھا۔ ایک درد سینے سے اٹھا اور حلق میں آ پھنسا تھا۔ مگر تم پر تو جیسے میرا جواب کہیں جا چکے لمحوں میں اتر چکا تھا۔ تم نے یقین کی فضا سے نفی والے جواب کی سرگوشی سن لی تھی۔ تب ہی تو تم لمحۂ موجود کی حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے اپنے قدموں سے چل کر میرے قدموں میں آ بیٹھی اور بھیگے لفظوں میں التجا کی تھی:
’’بابا! میرے پاس بھی ایک کہانی ہے۔ اسے دے دیجیے مگر اپنے نام سے کہ یہ اس طرح یہ ماں کا کفن بن سکتی ہے‘‘
مجھے معلوم تھا، بیٹی کہ وہ تمہاری پہلی کہانی تھی۔
میں نے اُسے پڑھا اور اُس کی چوٹ دل پر محسوس کی۔ بے شک وہ فن کا شاہکار تھی۔
مگر دنیا فن کو نہیں، نام کو تولتی ہے۔ اور نام کو منڈی میں لانے کے لیے طویل مسافت کی گرد پھا نکنا پڑتی ہے۔ اس طویل مسافت پر جانے کے لیے تمہارے پاس وقت نہ تھا۔ سامنے اس کی نعش پڑی تھی اور گھر میں مفلسی ننگا ناچ رہی تھی۔ لفظ قلم سے پرے کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے اور کاغذ کورے کا کورا تھا۔آنکھوں سے بدن کا کرب بہہ رہا تھا اور تم بھیگے لفظوں سے کہہ رہی تھیں۔
’’بابا! یہ کہانی ماں کا کفن بن سکتی ہے۔‘‘
میں چاہتا تھا، جو کہانی تخلیق کرنے کا دُکھ تم نے سہا ہے، تم ہی سے منسوب ہو مگر یہ بھی جانتا تھا کہ جب اسے تمہارے نام سے اِشاعت کے لیے دوں گا تو شاید شکریہ کے بے ثمر لفظوں کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ اور شکریہ کا لفظ کفن نہیں بن سکتا تھا۔
پھر میری بیٹی، میں نے مجبوراً تمہاری کہانی پر اپنا نام لکھا اور اُس کا کفن بنا ڈالا۔
اور آج جب کہ تم چپ کے لا محدود گہرے پانیوں میں اُتر گئی ہو اور لفظ میرے قلم سے پرے تھر تھر کانپ رہے ہیں۔مجھے یقین ہے، تم کہہ دو گی:
’’بابا، میرے کفن کے لیے کہانی سرہانے پڑی ہے۔‘‘
مگر میری بچی، میں نے آج فیصلہ کر لیا ہے کہ لفظ چاہے قلم کی گرفت میں آئیں، نہ آئیں، میں چپ مفہوم کے سہارے، ساری کہانی تمہارے ٹھنڈے وجود پر اُتار دوں گا۔ اور تمہارے سرہانے بیٹھا جا چکے لمحوں کی ایک ایک اکائی سے گزروں گا، جن کے تانے بانے سے یہ کہانی تشکیل پا کر میرے سینے میں پھڑا پھڑا رہی ہے۔
سنو میری بچی! غور سے سنو!
جب میں نے اس کہانی کے پہلے مرحلے میں اُسے آخری بار دیکھا تھا، اس وقت عورتیں اس کا ذکر کرتے ہوے ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں انڈیلنے لگتی تھیں۔ حیرت کی اُنگلیاں دانتوں تلے جا دبتیں اور آنکھوں کی پتلیاں یوں کھُل جاتیں، جیسے آنکھوں میں ادھر ادھر تیزی سے پھدکنے والا کالا سا موتی ابھی باہر آ گرے گا۔
پنگھٹ پر مٹیاریں اُس کا ذکر کرتی تھیں، تو کبھی کھنکتے قہقہوں، کبھی بھیگے لفظوں، اور کبھی تعجب سے۔ کوئی سن رہا ہو یا نہیں، بس آواز مدھم ہو جاتی اور لفظ دھیرے دھیرے پھسل پھسل کر دوسری کے کانوں میں گرتے۔ جن کی سماعت کی جھولیوں میں لفظ گرتے، ان کے سینے کے اندر مقید پرندہ کبھی گہری فضا میں غوطہ لگاتا اور کبھی اوپر کو اُٹھتا۔ جب وہ گہری فضا میں غوطہ لگاتا، تو سکوت کا چولا پہنے ہوتا اور جب اُوپر اٹھتا، تو اس کے پروں سے کھنک دار پھڑپھڑاہٹ اٹھتی، جو حلق سے نکلتی تو فضا مترنم ہو جاتی۔
سراداراں کا تنور تو جیسے اُس کی باتوں کے لیے گرم ہوتا تھا۔ جتنی روٹیاں پکتیں اُن میں اُس کے لذت اور کرب بھرے ذِکر کے پھول ضرور ڈالے جاتے۔ تنور پر اس کے ذکر سے ہونے والی کھُسر پھُسر اور پنگھٹ پر اُس کے نام سے اُٹھنے والی سرگوشیوں کی عمر ایک سی تھی۔ اس کے سرو جیسے قد، نیلی جھیل آنکھوں، چھوٹی مگر ستواں ناک، لمبے بالوں یا پھر شفق سے سرخی چرائی شفاف رنگت کا تذکرہ ہوتا تو چند دنوں بعد خودبخود دم توڑ دیتا کہ جب نوعمر لڑکیوں میں اس کے حسن کا ذکر چھڑتا، تو دو چار لفظوں سے بات آگے نہ بڑھتی اور ہر ایک اپنے سراپے میں حسن تلاش کرنے لگتی۔ کوئی بوڑھی جو اُس کی من موہنی صورت کا مصرعہ اٹھاتی، تو دوسری گزرے وقتوں کی کتاب سے اپنے حسن کی غزل نکال لاتی۔
مگر جس روز سے مہر اللہ بخش گم حواس کے ساتھ گھر پلٹا تھا تو پنگھٹ اور تنور پر اس کا ذکر تواتر سے ہونے لگا۔
مہر اللہ بخش اس کا باپ تھا اور یوں چلتا تھا جیسے زمین کے ایک ذرّے کو کھنگال رہا ہو۔ اُس کے جھریوں بھرے ہاتھوں پر کہیں کہیں سفید بال تھے۔ ایک ہاتھ کمر پر ہوتا، دوسرا لاٹھی پر۔ وہ لاٹھی کو مضبوطی سے زمین پر جماتا تھا، تب قدم آگے بڑھا پاتا۔ وقت نے اس کی پشت پر اونٹ کی طرح کا کوہان بنا ڈالا تھا۔ وہ گردن سدھائے ہوے بیل کی طرح جھکائے رکھتا تھا۔ دھیرے دھیرے نپے تلے قدم اُٹھاتا، یوں جیسے وہ نہیں چل رہا ہوتا، زمین آہستہ آہستہ پیچھے سرک رہی ہوتی۔
جس روز وہ واقعی اپنے قدموں سے چلا تھا، اس روز زمین ساکت ہو گئی تھی اور وہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک ہاتھ لاٹھی پر تھا جو تھر تھر کانپ رہا تھا اور دوسرا جو کمر پر ہوتا تھا، تیز ہوا کی زد میں آئے ہوے خشک پتے کی صورت فضا میں ڈول رہا تھا۔ وہ لاٹھی جو کانپتے ہاتھ میں تھی، زمین پر پڑنے کی بہ جائے گھسٹ کر ایک نشان چھوڑ رہی تھی۔ یوں، جیسے کوئی سانپ چھوڑ دیا کرتا ہے۔
اِسی لکیر سے سرگوشیوں نے اپنا پھن اُٹھایا تھا۔
پنگھٹ پر اس کا ذکر ہوتا تو سینے زور زور سے دھڑک اٹھتے۔ یوں لگتا، اندر ایک ایسا پرندہ تھا جو اپنی پھڑپھڑاہٹ سے سینے کا قفس توڑ دے گا اور فضا میں تیرنے لگے گا۔ حیرت سے کھلی آنکھیں اک ادا سے شرم و حیا کا بوجھ اُٹھا کر جھک جاتیں یا تعجب سے چہرے لٹکتے یا پھر عجب معنی خیز مسکراہٹ چہروں پر ناچنے لگتی۔ سرداراں کے تنور پر تو جیسے ایسے چہروں کا داخلہ بند تھا، جن پر اس کے ذکر سے حیا کی چمک دوڑ جایا کرتی تھی۔
گاؤں کے عین وسط میں سرداراں کا تنور تھا۔ بس یوں کہہ لیجیے گاؤں ہر گلی سرداراں کے تنور پر ضرور پہنچتی تھی۔ گویا وہ مرکز تھا جہاں سے سارے راستے پھوٹتے تھے۔جتنی باتیں گاؤں کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچتی تھیں ان پر سرداراں کے تنور پر بیٹھنے والیوں کی مہریں ضرور لگتی تھیں۔
سرداراں کیا تھی، بس ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ سر پر میل سے اَٹے ہوے سفید بال، یوں جیسے پہلے آٹا گوندھا گیا ہو، پھر اُس سے موٹی موٹی سویاں بنائی گئی ہوں اور پھر انہیں گرد آلود کر کے سرداراں کے سر پر چپکا دیا گیا ہو۔ اس کے ہاتھ بڑے بڑے تھے، ایسے کہ اگر اس کے سارے وجود کو چھپا دیا جاتا اور صرف ہاتھ سامنے رہنے دیے جاتے تو یوں لگتا، جیسے وہ اس کسان کے ہاتھ تھے، جو سارا دن جنگل میں بڑے کلہاڑے کے ساتھ لکڑیاں کاٹتا ہے، ٹوکتا گیڑتا ہے یا پھر بیلوں کی جوڑی پیچھے پیچھے چیختا چلاتا ہل تھامے رہتا ہے۔ خیر، سچ پوچھو تو سرداراں کے ہاتھ اتنے بڑے بھی نہ تھے، جتنی اُس کی زبان۔ اس کی آنکھیں باہر کو یوں نکلی ہوئی تھیں جیسے قمیض کے بٹن کا دھاگہ ڈھیلا ہو جائے تو وہ آگے کو جھک آتا ہے۔ مگر اس کے گال اندر کو دھنسے ہوے تھے۔ ہونٹ خوب سیاہ تھے، جیسے سارے تنور کی راکھ بس انہی پر جمی ہو۔ جب وہ تنور کے پاس بیٹھ جاتی تو سر پر آٹے اور مٹی سے لتھڑا کپڑا باندھ لیتی اور ایسا ہی ایک کپڑا ایک ہاتھ پر لپیٹ لیتی۔ جب شعلے خوب مچل چکتے اور واپس اپنے منبع میں پلٹ جاتے تو وہ تنور پر جھکتی اور ہاتھ پر لپٹے کپڑے سے تنور کی اندرونی سطح کو صاف کرتی۔ کپڑا ایک طرف دھر کے، ہاتھ کو پہلی کے چاند کی صورت خم دیتی اور سب سے پہلے آنے والی ہم مجلس کی پرات میں موجود گندھے آٹے کو اس چاند میں بھر لیتی تو بھدے ہاتھ چمکنے لگتے تھے۔ وہ آٹے کے پیڑے کو دوسرے ہاتھ کی مدد سے ہتھیلی میں یوں گھماتی جیسے زمین اپنے محور پر گھوم رہی ہو۔ پھر اُسے زور زور سے کبھی ایک ہاتھ پر پٹختی اور کبھی دوسرے ہاتھ پر مگر اس ہوشیاری کے ساتھ کہ وہ چودھویں کے چاند کی صورت گول ہو جاتی۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ اس میں مزید پھیلنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر اسے دائیں ہاتھ پر دھرتی اور تنور میں جھک کر مہارت سے ایک جانب تھپک دیتی۔ اس سارے عرصے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہ آتا جب اُس کی زبان رک گئی ہو۔ ہاتھ اپنے محور پر حرکت کرتے، مینڈک کی طرح باہر کو امنڈتی آنکھیں اپنے زاویے پر پھدکتی رہتیں اور زبان لفظوں کے پیڑے بنا بنا کر اِدھر اُدھر تھپکتی رہتی۔
عین چورا ہے کے وسط میں، پھونس کے چھپر تلے، جتنی بھی عورتیں بیٹھتیں وہ سرداراں کی ہم عمر ہوتیں۔ فرق ہوتا بھی تو اُنیس بیس کا۔ کنواری لڑکیوں کا داخلہ بند تھا۔ گاؤں کا چوراہا تھا، مرد آتے جاتے تھے۔ کنواریوں کا اس جگہ بیٹھنا صحیح بھی نہ تھا۔ اور یہ معقول بہانہ تھا جس کے ذریعے بوڑھیوں نے لڑکیوں کو اپنی محفل سے نکال رکھا تھا۔ یوں، جیسے اُن کے ذِکر ہی سے سرداراں کے تنور سے شعلے اُٹھتے تھے، وہ آنے لگیں تو ان کی باتیں نہ ہوں گی، آگ نہ بھڑکے گی، روٹی نہ پکیں گی۔ بوڑھیاں چاہتی تھیں، آگ جلتی رہے، روٹیاں پکتی رہیں۔
معاملہ اگر بڑی بوڑھیوں تک محدود رہتا تو لڑکیاں کب کا جیت چکی ہوتیں مگر مقابل سرداراں تھی جس کی زبان لفظوں کے شعلے اگلتی تھی۔اور جب وہ پوری طرح ڈٹی ہوئی تھی تو کس لڑکی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ بے رحم طوفانی لفظوں سامنے ایک لمحے کے لیے بھی ٹھہر سکتی۔
’’ کیا بن سنور کر نکلی ہوری۔ کیا غضب ڈھار ہی ہو۔ کیا ٹھمک ٹھمک چلتی ہو۔ کسی نے گزرنا ہے یہاں سے ؟ خیال کرنا کوئی اور قتل نہ ہو جائے‘‘
اس پر بوڑھیوں کے قہقہوں کا کورس۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضبوط اعصاب والی، لڑکیوں کے بیٹھنے کی رسم ڈال ہی دیتی مگر جو کچھ آگے کہا جاتا، خدا پناہ۔
اور یوں بوڑھیاں اس محفل میں اور لڑکیاں پنگھٹ پر خوب کھل کر گفتگو کرتیں۔
اس کا ذکر دونوں جگہ عجب انداز سے چلتا رہا۔
ایک طرف بے تاب سینوں میں چنگاریاں سلگاتے ہوے تو دوسری طرف پیڑی جمے ہونٹوں پر، ہُوں ہُوں اور ہونہہ کے ساتھ۔
کم عمر بچوں کا داخلہ نہ تو پنگھٹ پر بند تھا، نہ سرداراں کے تنور پر کہ دونوں جانب یہی خیال تھا یہ عمر ایسی باتوں کے سمجھنے کی نہیں ہوتی۔ کھل کر بات ہوتی بھی کب تھی؟مخصوص اشارے، مخصوص علامتیں، مخصوص استعارے۔ ان کی دانست میں ان نادانوں کی فہم کے نازک قدم اتنی گہری کھائیوں میں اُترنے کے قابل نہ تھے۔
میں نے جب اُسے اِس کہانی کے پہلے مرحلے میں آخری بار دیکھا تھا تو میں پنگھٹ پر بھی جایا کرتا تھا اور تنور پر بھی۔ شاید میں کچھ بڑا ہو گیا تھا تب ہی تو لڑکیوں کے کھنکتے قہقہوں میں مفہوم تلاش کرنے لگتا اور بوڑھیوں کے اِشاروں سے تصویریں بنانے لگتا تھا۔ جب میں یوں کرتا تو میرے چہرے پر سنجیدگی لکھی جاتی تھی جسے کنواریاں پڑھتیں تو قہقہوں کی کھنک ایکا ایکی رُک جاتی۔ جیسے چلتے ریکارڈ سے سوئی اچانک اُتر گئی ہو۔ اور بوڑھیاں میرے چہرے کی اس کیفیت کو دیکھتیں تو تنور کے شعلے آنکھوں میں بھر کر میری جانب برسا دیتیں۔ میں ٹھہرا رہتا تو آگ کے انگارے منھ میں بھر کر میری جانب اُچھال جاتے اور مجھے وہاں سے کھسکتے ہی بنتی۔
پھر وہ لمحہ بھی آیا کہ جب میں لڑکیوں کے قہقہوں اور بوڑھیوں کی حیرت گزیدہ پیشانیوں کا مفہوم سمجھنے لگا اور اس کے ذکر سے عجب سی اُلجھن محسوس کرنے لگا تھا۔ اس کا ذکر ہو رہا ہوتا تو جی چاہتا اُٹھ کر چل دوں۔ مگر جیسے زمین قدم جکڑ لیتی، سینے کے اندر ہی اندر کچھ ہونے لگتا، سماعتیں لپک کر سرگوشیوں کو پکڑنے کو پکڑنے کی سعی کرتیں۔ سرگوشیاں اور بیچ بیچ میں اٹھتے قہقہے، میرے جسم پر چیونٹیوں کی صورت تیرنے لگتے اور میں ان چیونٹیوں کی گدگداہٹ میں یوں کھو جاتا، جیسے میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ ہوا چلتے چلتے رک سی جاتی، پانی بہتے بہتے ٹھہر جاتا اور بادل فلک سے اتر کر میرے قدموں میں بچھ جاتے۔ مگر جونہی اس کا ذِکر ختم ہوتا، ہوا پہلے کی طرح چل رہی ہوتی۔شاخیں سب ٹھیک کا اشارہ کرتے ہوے ہِل رہی ہوتیں۔پانی اپنے مخصوص نغمے گاتے بہہ رہا ہوتا اور بادل اسی طرح چاند سے آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے۔
میں نے جب پانچ جماعتیں گوٹھ کے سکول میں پڑھ لیں تو میرے ابا نے کہا تھا:
’’تمہیں ساتھ والے گوٹھ کے سکول میں داخل ہو نا ہو گا‘‘
جب میں نے ابا کی یہ بات سنی تھی تو میں نے اس کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھا تھا۔ مجھے یوں لگا تھا، اُس کا چہرہ اُس کھیت کی طرح تھا جس پر ابھی ابھی ہل چلا دیا گیا ہو۔ اور جس میں نمی محفوظ ہو چکی ہو۔ اور بیج اس میں دفن ہو چکا ہو۔ اور اپنی جھریوں سے آسمان کی جانب دُعا کے لیے اُٹھتی ہتھیلیوں کی صورت اوک بنائے، سازگار موسموں کی آس لگائے بیٹھا ہو۔ اس یقین کے ساتھ کہ رُتیں ساتھ دیں گی تو بیج سے کونپل تنا بنے گی، تنوں سے شاخیں اُگیں گی اور اُن پر پھول کھلیں گے، جن سے مہک اُٹھے گی اور پھل لگے گا اور اس پھل کا بیج دُکھ کی کوکھ سے سُکھ کا سورج اُگائے گا۔ اُس لمحے میں، مَیں نے تشویش کی لمبی اُنگلیوں سے اپنے ماتھے کی لکیروں کو ٹٹولا تھا اور اُس خوبصورت لکیر کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی جو میرے باپ نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے میرے ماتھے پر دیکھ لی تھی۔
جس روز میں ساتھ والے گوٹھ کے مڈل سکول میں جانے لگا تھا، پنگھٹ اور تنور پر اُس کے ذِکر کی عمر ایک سال سے بھی بڑھ چکی تھی۔ مہر اللہ بخش کبھی کبھار گھر سے نکلا کرتا۔ اُس نے تو جیسے باہر نہ نکلنے کی قسم کھا لی تھی۔
جب میں آٹھ جماعتیں پاس کر چکا تو اُس کے تذکرے اِسی طرح جواں تھے۔ میرا داخلہ پنگھٹ اور تنور پر گرچہ بند ہو چکا تھا مگر اس سارے عرصے میں، میں نے اُس کا ذِکر سننے کے لیے سرداراں کے تنور کے پیچھے چھاتی تک اٹھی کچی دیوار کے عقب میں خود کو کئی کئی گھنٹے چھپایا تھا۔ اور پنگھٹ کے مشرق میں درختوں اور جھاڑیوں کے جھنڈ سے نوخیز لڑکیوں کے قہقہوں میں پروئی باتوں کے ایک ایک لفظ سے مفہوم نچوڑا تھا۔ اس روز کہ جب میرے ابا نے مجھے شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا کہ وہاں میں چچا کی ورکشاپ میں کام بھی کروں گا اور اپنا نصیب بھی چمکاؤں گا۔ اس روز مجھ پر عجب افسوس کا بادل جھک آیا تھا۔ میں نے محسوس کیا، مجھ سے محض گوٹھ کے در و دیوار نہیں چھُٹ رہے، اُس کا ذکر بھی چھُٹ رہا ہے۔ میں نے جب یہ سوچا تو خلوصِ دل سے دُکھ کی جھیل میں اُتر گیا تھا۔
وہ گوٹھ جو اُس کے ذِکر سے لبالب بھرا ہوا تھا، مجھ سے چھُٹ گیا۔ ابھی میں نے پانچ ماہ ہی شہر میں گزارے تھے کہ میرے ماتھے پر خُوش قسمتی کی لکیر تلاش کرنے والی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مُند گئیں۔ ابا کے سرہانے میں خوب رویا، میرے اعصاب شل تھے۔ مجھے یوں لگتا تھا، بادل جو مجھ پر ٹھنڈی چھاؤں کرتا تھا، چھُٹ گیا۔ وہ ہاتھ جو میرے لیے دُعا کو اُٹھتے تھے، نہ رہے۔ بس میں تھا اور دُکھ تھا۔ جب کوئی ہم دردی کے دو کلمات کہتا، مجھے یوں لگتا، جیسے میرے مَن کی دھرتی پر کرب کے دو اور بیج بو دیے گئے ہوں۔ جو بھی آتا تھا، میرے سینے پر کرب کی یہی فصل اُگاتا تھا۔ بس ایک مہر اللہ بخش تھا جو چپ کا چولا پہنے آیا، خاموش نگاہوں سے میرے چہرے کو دیکھا اور زمین کی قبر میں اپنی نظریں دفن کر دیں۔ وہ جتنی دیر رہا، چپ چاپ زمین کو تکتا رہا۔ میں جتنے روز رہا، وہ اتنے دن آیا مگر ایک لفظ بھی نہ کہا۔ مجھے یوں لگا تھا کہ بس یہی ایک شخص تھا، جس نے دکھ کے مفہوم کو سمجھا تھا۔ میں اس سانحے سے اتنا متاثر ہوا تھا کہ مجھے کسی اور کا ہوش نہ رہا۔ ہاں، جب کبھی محض ایک ساعت کے لیے، مہر اللہ بخش آتے ہوے یا پھر جاتے وقت، میری جانب دیکھتا تھا تو مجھے یوں لگتا تھا، اس کی آنکھوں میں سمندر جتنا پانی ہے اور اس پانی میں اس کی بیٹی ڈوب رہی ہے۔
میں شہر لوٹ آیا تو وقت پرندے کی طرح پر لگا کر اڑتا رہا۔ یوں دس سال بیت گئے۔
میری بچی! دس سال کیسے بیتے ؟یہ ایک الگ کہانی ہے جسے لفظوں کا پیر ہن پہنانا چا ہوں تو شاید اتنا وقت درکار ہو گا کہ تمہارے بے روح اور بے کفن وجود سے میری کہانی کے اس حصے کی طرح تعفن اٹھنے لگے گا۔ اِس لیے اے میرے بچی، اِس حصے سے یوں گزر جاؤ، جیسے کوئی اجنبی ایسے انجانے شہر سے گزرتا ہے جس میں اُسے روکنے والی کوئی زنجیر نہیں ہوتی۔ ہاں بس اِتنا یاد رکھو کہ میں اس کے بعد گوٹھ واپس کبھی نہ پلٹا کہ وہ بادل نہ رہا تھا جو مجھ پر برستا تھا اور تشنگی میں، مَیں جس کی جانب پیاس بجھانے کو لپکتا تھا۔
شہر میں میرا ٹھکانا چچا کے پاس تھا۔ صبح اگر میں سکول اور بعد ازاں کالج جایا کرتا تو شام کو چچا کی ورکشاپ میں کبھی پیچ کس، کبھی پھانا، پلاس بنا کسی گاڑی کے اِنجن پر جھکا ہوتا تو کبھی سٹپنی بنا گاڑی کے نیچے گھسا ہوتا۔ وقت اور ماحول نے میرے چہرے پر کالک مَل دی تھی جو رفتہ رفتہ موٹی اور تہ دار ہو رہی تھی۔ وہ لکیر جو میرے ابا نے بڑی محنت، صبر اور اُمید سے میرے ماتھے پر کھودی تھی وہ اِسی کالک میں کہیں گم ہو گئی تھی۔
جب میں نے محسوس کیا کہ ورکشاپ کا کام میرے لیے بوجھ بن رہا ہے تو میں نے ورکشاپ اور چچا، دونوں کو چھوڑ دیا اور ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھانے لگا۔ شام ہوتی تو کبھی احباب کے ساتھ لفظوں کی بازی گری کرتا اور کبھی کسی لائبریری میں اوراق کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا۔ یہ کیفیت سال بھر رہی۔ اس عرصے میں میرا نام لکھنے والوں کی صف میں کچھ اور اوپر جا پہنچا۔ تاہم میرے اندر ایک طوفان تھا جس نے مجھے یہاں بھی تھمنے نہ دیا تھا۔ مجھ سے کہانیاں مانگنے والے یاد دہانی کراتے کراتے تھک گئے جب کہ میں چپکے سے تاریک را ہوں پر چل دیا۔ میرے نزدیک زندگی کا مفہوم کچھ بھی نہ تھا۔ زندگی کیا تھی، محض ایک دھوکہ، ایک جھوٹا ڈرامہ جو سٹیج ہو رہا تھا۔ ڈرامہ بھی ایسا، جس میں کوئی تماشائی نہ تھا۔ وہ جو ہنس رہا تھا، وہ اپنا رول ادا کر رہا تھا۔ جو رو رہا تھا، اس کے سکرپٹ میں رونا لکھا تھا۔ میں جو تاریک را ہوں پر چل پڑا تھا، سمجھ رہا تھا کہ مجھے یہی کردار ادا کرنا تھا۔
مگر اے میری بچی، اب جب کہ تھاری مقدس نعش میرے سامنے پڑی ہے۔ تمہارا کفن ابھی تیار ہونا ہے۔ اور لفظ میرے قلم سے پرے کھڑے ہیں۔ اس لمحے میں، مجھے یوں لگ رہا ہے، میری سوچ باطل تھی۔ زندگی کا مقصد تو بہت عظیم ہے۔ ہمیں روحوں میں تعفن اُٹھنے سے پہلے بے داغ اور بے عیب سفید کفن بنانا ہو گا۔
ہاں تو میری بچی، میرے دل کے ٹکڑے، میں سوچتا ہوں، کتنا وقت جا چکا۔ میرے پاس اِختیار کی وہ زنجیر بھی نہیں، جو جا چکے لمحوں کے ساتھ بندھی ہوتی اور میں اس زنجیر کو کھینچتا کہ لمحے پلٹ آتے۔ اب جب کہ تم اور وہ، دونوں اپنے سینے کی سانس چنگیر میں پڑی روٹیوں کا ایک ایک ٹکڑا عدم کے پرندوں کو کھلا چکی ہو، تو مجھے یوں لگاہے، جیسے میرے اندھے قدموں نے جتنی بھی مسافت طے کی تھی، وہ عموداً تھی۔ اوپر سے نیچے۔ ایسے ہی، جیسے میں نے دلدل میں قدم رکھے تھے اور دلدل میرے سینے چڑھ دوڑی تھی۔
اس سب کو چھوڑ و، میری معصوم بچی، کہ یہ سب کچھ میری زندگی کا اثاثہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ کالک ہے، جو میں اپنے ماتھے سے دھونا چاہتا ہوں۔ مگر میری بچی، کیا کروں ! کہ یہ کہانی انہی کالی گلیوں سے گزرتی ہے۔ ان سے کترا کا نکلنا چا ہوں تو بھی نہ نکل پاؤں گا۔
انہی دنوں میں سے وہ ایک دن تھا کہ جب میں تاریک گلیوں میں گھوما کرتا تھا۔ میں اس روز گلی کے وسط میں کھڑا تھا۔ اوپر گھنگرو بول رہے تھے اور چلمنوں سے روشنی جھانک رہی تھی۔ باہر گلی میں تاریکی اتر آئی تھی۔ ایسی گاڑھی تاریکی کہ میرے چاروں طرف کمبل کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ پھر بھی ادھر سے گزرنے والے اندھیرے کی اوٹ میں کافی تعداد میں موجود تھے۔ دائیں جانب بجلی کا کھمبا تھا۔ زرد روشنی بلب سے پھوٹ کر نیچے اترنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ عین اُس کھمبے کے نیچے ایک ریڑھی والا تھا، جس کی ریڑھی میں چند آموں کے سوا کچھ نہ تھا۔ بوڑھے ریڑھی والے کے سر پر گنتی کے چند بال تھے۔ ہونٹ موٹے بھدے، ٹھوڑی نیچے تک لٹکی ہوئی اور مونچھیں داڑھی میں گم ہو رہی تھیں۔ وہ جھولتے بیل کی طرح آگے بڑھ رہا تھا اور ریڑھی بھی اس کے جسم کے ساتھ کبھی دائیں جانب کھسکتی، کبھی بائیں جانب۔ وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے اس کی بڑبڑاہٹ سنی۔ میں نے اندازہ لگایا وہ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔ جونہی وہ مجھ سے چند قدم آگے بڑھا، اوپر سے ایک جسم نعش کی صورت آیا اور دھپ سے اُس کی ریڑھی پر جا پڑا۔ اس سے پہلے کہ جسم ریڑھی تک پہنچتا، ایک چیخ فلک کو پرواز کر گئی تھی۔ اس چیخ کی بازگشت میرے کانوں میں گونجنے لگی تھی۔ میں ڈرا بھی اور جھجکا بھی مگر یہ کیفیت چند لمحوں میں میرے ذہن سے یوں پھسل گئی، جیسے بہتے پانی میں ریت مٹھی سے نکل جاتی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر پل بھر میں جمع ہو گیا۔ میں راستہ بناتا، اس نازل ہوتے وجود تک پہنچا۔ وہ کوئی عورت تھی اور ریڑھی پر الٹی پڑی تھی۔ بازو دائیں بائیں جھول رہے تھے اور ما تھا اس جگہ پر تھا، جہاں ریڑھی والے نے ابھی ابھی اپنے بوڑھے ہاتھوں کو رکھا ہوا تھا۔ ریڑھی والے کے ہاتھ اس کے اپنے چہرے پر جمے تھے اور چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھنچا ہوا تھا۔ جب کہ آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں۔ اُن کھلی آنکھوں سے تشویش جھانک کر ریڑھی پر پڑے جسم پر پھسل رہی تھی۔ جسم ریڑھی پر نعش کی صورت اوندھا پڑا تھا۔ بال بوڑھے برگد کی طرح پھیلے ہوے اور جٹائیں زمین تک دفن ہونے کو لپک رہی تھیں۔جہاں بال زمین کو چھو رہے تھے وہاں خُون کی ایک جھیل بنتی جا رہی تھی۔ وہ لوگ جو اوپر معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے، ان میں سے چند ایک قدموں کی اس چاپ کے پیچھے بھاگے جو سیڑھیوں سے اتر کر بغلی گلی میں گم ہو رہی تھی۔
میرا دل ڈوب رہا تھا۔ آگے بڑھا اور کانپتے ہاتھوں سے اس کا بدن سیدھا کر دیا۔ اب اُس کی ٹانگیں ریڑھی کے دائیں بائیں جھولنے لگیں۔ پاؤں جوتوں سے بے نیاز تھے۔ اس کے بدن پر سبز پھولدار کپڑے تھے اور عین پیٹ پر پچکے آم اپنا نشان چھوڑ گئے تھے۔ اُس کا سر اَب ریڑھی کی ہتھی سے پھسل کر نیچے جھول رہا تھا۔ ماتھے سے پھوٹتا لہو بالوں کی سیڑھی بنا کر زمین پر پڑ رہا تھا۔ ادھر میرے چہرے پر حیرت نے قدم جما لیے تھے۔ ہوا ساکت تھی اور بجلی کے کھمبے سے اُترتی زَرد روشنی وہیں ٹھٹھر گئی تھی۔
وہ جو اُس کے گرد تھے، وہ بھی شاید نہ تھے۔
جب میں حیرت کے قدموں تلے سے نکلا تو سینے سے ایک چیخ اُچھل کر نکلی اور لبوں کا حصار توڑ کر فضا میں تیر گئی۔ زبان نے ’نہیں‘ کا لفظ تین بار اگلا۔ جب میرے ہی کانوں میں میرے لفظ پلٹ کر گونجے تو دل سے درد کا ایک اور بادل اٹھا اور آنکھوں میں جا برسا۔ تب میں بے اختیار اس پر جھک گیا۔ اور جب دوبارہ اُٹھا تو میرے بازوؤں میں اس کا جسم نعش کی صورت جھول رہا تھا۔ سارا مجمع دم بخود تھا اور سب کے چہرے کھڈی پر چڑھے کھدر کی مانند تنے ہوئے تھے۔ اُس کھدر پر سوالیہ نشان تھرتھرا رہا تھا۔ ان کے قدم زمین پر یوں جم گئے تھے، جیسے وہ اسی جگہ سے اُگے تھے۔
میری پیاری بچی، شاید یہی وہ لمحہ تھا جب میرے قدم دلدل سے نکلے تھے۔ میں نے پہلی مرتبہ زمین کی سختی کو محسوس کیا۔ اس لمحے میرے سینے سے جو درد کی لہر اٹھی، اس کی لذت ہی انوکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس درد نے صدا بن کر فضا کو چیرا تھا۔ میرے سر میں ایک جنون تھا۔ میرے قدم ہسپتال کی جانب تیزی سے بھاگ رہے تھے۔
جب اس کے سینے سے زندگی کی سانسیں ہونٹوں تک آئیں، پتلیاں تھر تھرا کر اوپر اٹھیں اور نیل گوں آنکھیں حیرت سے مجھے تکنے لگیں تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔
اور پھر میری بچی، میں ہسپتال سے سیدھا اُسے اپنے گھر لایا۔وہ عمر میں مجھ سے دس سال بڑی تھی اور اس وقت سے بہت مختلف ہو چکی تھی جب میں نے شہر آنے سے قبل، سائیں اللہ رکھا کی منڈیر سے، اُسے آخری بار دیکھا تھا۔ اس روز گرچہ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، مگر ان میں دکھ کی عجب کشش تھی۔
اس کے سر پر موٹا کپڑا جھول رہا تھا۔ پاؤں میں کھلے سلیپر تھے اور وہ اس دیوار سے ٹیک لگائے سامنے آسمان کو گھور رہی تھی، جس سے کچھ دیر پہلے سایہ اتر کر اس کے قدموں سے جا لپٹا تھا۔ ہوا ہولے ہولے چل رہی تھی اور اس کی قمیض کا پلو ہوا کے سنگ اڑ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں ساکت تھیں اور اس کے چہرے پر خُون کی پھوار پڑ رہی تھی۔
اب وہ یوں میرے مقابل آئی کہ وقت کے تیشے نے اس پر بہت طبع آزمائی کی تھی۔ تاہم نہ جانے کیوں، میرے من میں آیا، اس کا ہاتھ تھام لوں۔ اس نے مجھے دلدل سے نکالا تھا اور میں نے محسوس کیا تھا کہ میرے پاؤں سخت زمین پر تھے۔ میرے سینے سے دلدل کا بوجھ اتر گیا تھا اور سچے جذبوں نے وہاں پھول کھلائے تھے۔ جب میں اس کا ہاتھ تھاما، تو اس نے مجھے اپنا سائبان بنا لیا اور ہم نے اپنی زندگی کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیا۔
اور پھر میری بچی، تم ہمارے آنگن میں اتریں۔ میرے من میں پیار کی ایک نئی جوت جاگ اٹھی۔ ایک عجب برکھا برسی کہ میں نہال ہوتا چلا گیا۔ پہلے پہل تم نے زندگی کا رس اس کے بدن سے چوسا۔ تمہارے نتھنے زندگی کی ہمک سے پھڑپھڑانے لگے، تو مجھے پتہ چلا، زندگی تو یہی ہے۔ میں نے اس خدا کو پہلی مرتبہ جانا، جو تخلیق بھی کرتا اور رزق بھی دیتا اور جس کے کرم کی پھوار مجھ پر مسلسل پڑ رہی تھی۔ جب تم کلکاری مارتی، تو میں عجب احساس سے محور ہو جاتا۔ یوں، جیسے ہوا تھم گئی ہو اور بادل میرے قدموں تلے ہوں، آنکھوں میں سمندر اتر آیا ہو اور دل میں کبوتر پھڑپھڑا رہے ہوں۔
میں آج تک اس کیفیت کو کوئی نام نہ دے سکا۔
بہت پہلے جب میں نے اپنے گوٹھ سے پانچ جماعتیں پاس کر لی تھیں اور ساتھ والے مڈل سکول میں پڑھ رہا تھا۔ پنگھٹ کے اُدھر، جھاڑیوں میں چھپ کر، نوعمر لڑکیوں کی باتیں سنا کرتا تھا یا سرداراں کے تنور کے عقب میں، سینے تک اٹھی، کچی دیوار کے پیچھے چھپ جایا کرتا اور اس کا ذکر چھڑتا تو میرے بدن پر ایسے ہی لمحے گزرتے تھے۔ میں اسے کس جذبے کا نام دوں ؟ آج تک نہ جان سکا۔ کیا وہ محبت تھی؟ اور تمھارے ننھے منے کلکاریاں بھرتے وجود کو دیکھتا اور کچھ اس سے ملی جلی کیفیت سے گزرتا۔ کیا یہ بھی محبت ہے ؟ میرا دل میری یہ بات مانتا ہے، نہ ذہن تسلیم کرتا ہے۔ سچ پوچھو تو بیٹی، محبت کا لفظ فرسودہ ہو چکا۔ لکھنے والوں نے اسے اتنا بدنام کیا ہے کہ میں لفظ محبت ادا کرنے سے قبل اردگرد دیکھتا ہوں کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا۔ میرا اِیمان ہے، ہر لفظ با عصمت ہوتا ہے مگر شاید محبت ایسا لفظ ہے، جسے لکھنے والوں نے سب سے زیادہ بے آبرُو کیا ہے۔
میرے دل میں اُس کے لیے یا پھر تمہارے لیے، جو بھی جذبات ہیں اُن کی تعبیر میں محبت جیسے لفظ پامال سے نہیں کر سکتا۔ ان جذبات کے لیے تو ایسا اچھوتا لفظ ہونا چاہیے جو ادائیگی میں ملائم ہو۔ ایسے کہ ادا کرتے وقت ہونٹ باہم یوں ملیں جیسے پھول پر شبنم کا قطرہ پڑتا ہے۔ اور وہ اپنے اندر کائنات کی وسعت جتنی اپنائیت اور خلوص کا مفہوم رکھتا ہو۔ سچ جانو تو میرا تعلق تم سے یا اس سے ایسا تھا، جیسا میرے بدن کا آنکھ سے ہے۔ میرے بدن کو آنکھ سب سے زیادہ عزیز ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ آنکھ نہ رہی تو اندھے وجود کو خو د سے متنفر ہونا پڑے گا۔ یا پھر تم دونوں کا تعلق کہیں میرے اندر ہے، وہیں جہاں دھک دھک ہوتی ہے تو جسم کا ایک ایک خلیہ حیات کی خُوشبو سے مخمور رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میری آنکھوں کے کینوس پر روز بروز بڑھتے تمہارے وجود کا پورٹریٹ بنتا، تو میرے اندر ایک روحانی کیفیت کے لہجے میں خُوشی کے پر پھڑپھڑانے لگتے اور اس کے دن بدن زرد ہوتے وجود کو دیکھتا، تو دُکھ میرے اندر کلبلاتا۔ ان دونوں کیفیتوں پر میری آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے لبالب بھر جایا کرتے۔
پھر اے میری بچی، جب تم اٹھارہ برس کی ہو گئیں تو اس کے ہاتھوں پر رعشہ اتر آیا۔ میں تمہاری جانب دیکھتا، تم فطرت کا ایک مسحور کن اور روح پرور نقش لگتیں اور اسے دیکھتا تو محسوس ہوتا، وہ اس قمیض کی مانند تھی جسے نچوڑ دیا گیا ہو۔
میری پیاری بچی، یہ انہی دنوں میں سے ایک دن تھا، جب اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی اور مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ دُکھ کے تپتے صحرا سے گزرنے کے بعد سکھ کی ٹھنڈی چھاؤں ملے، تب بھی سانسیں برابر نہیں ہوتیں۔ بہ ظاہر پر سکون نظر آنے والے سمندر میں ان گنت طوفان تھے۔ اُس کے قدموں کے سارے آبلے اس کے باطن میں جا چھپے تھے۔ اور وہ آبلوں کو پھوڑ رہی تھی۔ اور بپھرتی لہروں کو گن رہی تھی۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے۔ جب میں بھی چھوٹا تھا۔ اور اس کا ذکر پنگھٹ اور سرداراں کے تنور پر نہیں چھڑا تھا اور اس نے تمہاری طرح اٹھارویں سال میں قدم رکھا تھا۔ کچھ لمحے پہلے اس کا باپ مہر اللہ بخش اپنے قدموں سے چلتا ہوا گھر واپس پلٹا تھا۔ اس کے ہاتھ میں موجود لاٹھی زمین پر گھِسٹ رہی تھی اور پیچھے ایسا نشان چھوڑ رہی تھی جیسے سانپ چھوڑ تا ہے۔ اسی لمحے مہر اللہ بخش نے ایک ایک لفظ اپنی بیٹی کو بتایا تھا کہ کیسے سانول نظامانی نے اس کا راستہ روکا اور کیسے وہ اسے اپنے ڈیرے پر لے گیا اور کیوں کر وہ اس پر جھکا اور کس طرح اس نے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوے مہر اللہ بخش کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ بڑھ گئی تھی۔ کمر کچھ اور خمیدہ ہو گئی اور آنکھوں سے پانی پھوٹ بہا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھا اور شاید پھر کچھ سوچا تھا۔ باپ کو تھاما اور پیار سے بٹھایا تھا۔ اور ایک ایک لفظ سن کر اپنی سماعتوں پر محسوس کیا تھا۔تاہم اسے تسلی ہوئی کہ باپ کہہ رہا تھا:
’’میری زندگی میں سانول کو اس گھر سے کچھ نہ ملے گا‘‘
اُسے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی کہ سانول نظامانی کون تھا؟
وہ جو اِرد گرد کے ساٹھ گوٹھوں میں سے لڑکیاں اغوا ہو جایا کرتی تھیں۔ اونٹوں پر لدا سامان سرحد پار اُتر جاتا اور مہینے میں ایک آدھ بار کوئی نہ کوئی لہو کا چولا پہنتا تھا، اس سب کے ساتھ اس کا ذکر ضرور ہوتا تھا۔ جیسے یہ واقعات اگر پتنگ تھے تو ڈور اس کی انگلی پر ناچ رہی تھی۔ ادھر ایک پتنگ کٹتی ادھر دوسری ڈور سے بندھی فضا میں ہلکورے کھا رہی ہوتی کہ سانول دھُن کا پکا تھا۔
وہ تھا بھی پکی عمر کا، جب کہ وہ، وہ تو بس کچی کلی تھی۔
وہ انسان نہ تھا، وحشی تھا۔ جدھر سے گزرتا ادھر گلیاں ویران ہو جاتیں۔ پنگھٹ خامشی کا کفن پہن لیتا۔ تنور چپ کی پرات سے ڈھک جاتا اور بچے سہم کر کونوں کھدروں میں جا چھپتے۔
وہ کہ جس نے ابھی کچے قدموں سے بچپنے کی منزل کو چھوڑ ا تھا، غم زدہ باپ کے سامنے بیٹھی، اس کا دکھ اپنی آنکھوں میں چبھتا ہوا محسوس کر رہی تھی، اُسے بھی سانپ نے سونگھ لیا تھا۔
جب مہر اللہ بخش کی بات فضا کے سنگ سنگ گلیوں میں سرسرائی، تنور کے شعلوں پر ناچی اور پنگھٹ کے پانیوں کے ساتھ بہی تو خوف اور تجسس نے جالا بن دیا۔
آگے کیا ہو گا؟
یہ سوال پنگھٹ پر تھا اور تنور پر بھی۔ لوگ حیران تھے۔ وقت گزر رہا تھا اور گزرتے وقت کی چاپ سبھی سن رہے تھے۔ بہ ظاہر سانول خاموش تھا مگر سماعتوں نے سنا تھا، جب کبھی مہر اللہ بخش کو ملتا تھا، تو اپنا فیصلہ ضرور سناتا تھا کہ ایک دن وہی ہونا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
چار سال پل پل ہو کے گزرے اور کسی نے ان کا دروازہ نہ کھٹکھٹایا۔ کس میں ہمت تھی کہ سانول سے دشمنی مول لیتا؟ مہر اللہ بخش نے سوچا تھا یا یہ سوچ خود بخود اس کے وجود میں سرایت کر گئی کہ وہ اب کے اور زندہ نہ رہ سکے گا۔ وہ زندہ نہ رہا، تو اس کی بیٹی ننگے آسمان تلے ہو گی۔ اس کی بیٹی کو چھت چاہیے تھی۔ کوئی نہ تھا، جس نے دروازے پر دستک دیتا۔ کس میں ہمت تھی۔
عین اسی لمحے، کہ جب اس کے دل میں یہ دھڑکا رینگنے لگا تھا، اُسے سانول اچھا لگنے لگا۔ اس کا نکلتا قد، بَھرا بَھرا جسم، گھنی مونچھیں اور نام جیسا سانولا رنگ، اسے کچھ بھی برا نہ لگا تھا۔ اور جب میں نے اس کہانی کے دوسرے مرحلے میں، پہلی بار، ریڑھی پر نعش کی صورت اسے گرتے دیکھا تھا، تو اس درمیانی وقت کی ایک ایک ساعت نے اُس سے حساب لیا تھا۔
میری بچی، اس نے مجھے بتایا تھا، کہ اس نے ملائمت کا چولا پہن لیا تھا اور سانول کا ہر جبر اپنے دامن میں چھپا لیا تھا۔اس کے قدموں کو اپنے جسم پر سہا مگر اس کے پاؤں کی گرد صاف کی تھی۔ پھر لوگوں نے دیکھا، سانول کے قدم بخود گرد آلود را ہوں سے کترانے لگے تھے۔ اس کی نظر رفتہ رفتہ جھکتی گئی۔ لہجے کی سخت شاخ پر ملائم اور کومل پھول کھلنے لگے۔ ارد گرد کے گوٹھوں سے لڑکیوں کا اغوا بند ہو گیا۔ قتل کی وارداتیں ہوتیں نہ لدے ہوے اونٹ سرحد پار اترتے۔
گلیوں، پنگھٹ اور تنور سے خوف نے چادر سمیٹ لی اور زندگی کی چہکار تو جیسے اس کے ساتھ سفر کر رہی تھی۔ سرداراں کے تنور پر اب اس کے ذکر کے پھول ہر روٹی پر ڈالے جاتے۔ ان پھولوں کو کنواریوں نے بہتے پانیوں میں تیرتے دیکھا، رنگوں کو اپنی نگا ہوں میں بھرا اور خُوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کیا۔
پھر میری بچی، ایک روز غضب کی آندھی چلی۔وہ تمام دئیے بجھ گئے جو گھروں میں جل رہے تھے۔ لوگوں نے کواڑ سختی سے بھینچ کر بند کر لیے۔ بجلی اس زور سے کڑکی کہ بچے سہم کر ماؤں کی گودوں میں جا سمٹے اور مائیں سمٹ کر اپنے مردوں کے گھٹنوں سے جا لگیں۔ جب سب لوگ آندھی کی پھنکار اور بجلی کی کڑک سے خوب دہل چکے تو بارش کی ایسی باڑھ چلی کہ مکانوں کی چھتیں تک رونے لگی تھیں۔ ایسے میں وہ آواز لوگوں تک کیسے پہنچتی جو شعلے اگلتی بندوقوں کے دہانوں سے نکلی اور سانول کے وجود کو چیر گئی تھی۔ لوگ تو وہ دل دوز چیخیں بھی نہ سن سکے تھے، جو اس کے حلق سے نکلی تھیں، جس کا شوہر اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوا تھا۔ وہ چیخ رہی تھی اور آسمان رو رہا تھا مگر آنے والے بے رحم ہاتھ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے رہے جو سانول نے اُن کی راہ سے جدا ہو کر بھڑکائی تھی۔
جب بارش رُکی اور لوگوں کے اوسان بحال ہوے تو لوگ گھروں سے باہر نکلے۔ سائیں اللہ رکھا کی بہو مٹھن نے یوں ہی احوال لینے کو اس کے آنگن میں جھانکا تو ایسی دہشت کی چیخ ماری، جس نے سارے گوٹھ کو باندھ کر اس کے آنگن میں لا کھڑا کیا تھا۔ سب چپ تھے اور سانول کی بھیگی ہوئی نعش ان کے درمیان پڑی تھی اور خُون کب کا گدلے پانی کے ساتھ بہہ کر اپنا رنگ کھو چکا تھا اور وہ وہاں نہیں تھی۔
لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو حزن کی چادر اوڑھ لی۔ زبانوں نے حیرت کے لفظ جنے اور کنواریوں نے چوڑیاں توڑ ڈالیں۔ جوانوں نے غصے سے لہو کے جام لنڈھائے اور بوڑھوں نے کہنہ سال فلک کو دیکھا۔ پھر میری بچی، وہ جو اسے لے گئے تھے، انہوں نے اسے اُن تاریک گلیوں میں بیچ ڈالا، جن سے کبھی گزرتا تھا۔
اور پھر ایک دن جب اس کالی گلی سے گزر رہا تھا اور پرے کھڑے کھمبے سے زرد روشنی ٹھٹھرتے ہوے نیچے اس ریڑھی والے کے چہرے پر پڑی رہی تھی جس کے سر پر محض چند بال تھے اور۔۔۔ اور۔۔۔
اور جب وہ میرے گھر آ گئی تو اس نے میرے ساتھ فاقے کاٹے۔ جب تم اٹھارہ برس کی ہو گئیں، تو اس نے اپنی کہانی سنائی۔ جب کہانی سنا چکی تو اس نے ہوش کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی۔ جب اُس کے حواس بحال ہوے تو میرے ہوش گم ہو گئے تھے۔ جب میری سماعت بحال ہوئی تو ڈاکٹر کہہ رہا تھا:
’’یہ بہت خطرناک آپریشن ہے۔ دماغ میں ایک پھوڑا ہے۔ جو روز بروز بڑھ رہا ہے۔اور جوں جوں وہ بڑھ رہا ہے مریض کی سانسیں گھٹ رہی ہیں‘‘
ڈاکٹر کہہ رہا تھا:
’’ آپریشن بہت ضروری ہے۔‘‘
میرے پاس کیا تھا؟ جب سے وہ ہسپتال آئی تھی، نوکری چھٹ چکی تھی اور گھر کا اثاثہ بک چکا تھا۔ قلم بانجھ تھا اور وہ سارے دوست جو مجھ سے ملا کرتے تھے، میری پھیلی ہتھیلی پر ان سب نے کچھ نہ کچھ دھرا تھا مگر اب راہیں بدلنے لگے تھے۔ انہیں اندیشہ تھا۔ سامنا ہو گا تو ہاتھ پھیلے گا۔ وہ بھی سچے تھے، بھلا کب تک کسی کی پھیلی ہتھیلی کو بھر اجا سکتا تھا۔
میری ہتھیلی خالی تھی۔
لفظ قلم سے پرے کھڑے تھے
وہ آخری سانسیں گن رہی تھی۔
اس نے اشارے سے مجھے پاس بلایا اور کچھ کہا، جسے میں سن سکا، نہ سمجھ سکا۔ پھر اس نے بجھتی آنکھوں سے تمہاری جانب دیکھا تو نہ سمجھ آنے والے لفظوں کا مفہوم خود بخود میرے باطن میں جا اترا۔ اور جب میں نے اس کا بے روح بدن اپنے آنگن میں اتارا اور قلم تھاما تو ایک لفظ بھی قلم پر نازل نہ ہوا تھا۔
تم نے، ہاں میری بچی تم نے کہا تھا:
’’بابا میں نے ایک کہانی لکھی ہے۔‘‘
اور پھر جب ایک لمبے دُکھ نے تمہیں چاٹ لیا۔ زندگی کی بتیس خزاں زدہ بہاریں اس گھر میں گزار کر تم عدم کی راہ پر جا چکی ہو اور میرے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے۔ جس گھر میں قرض خواہ دستک دیتے ہوں اور ہر بار انہیں مفلسی اپنا چہرہ دکھاتی ہو تو ایسے گھر کے دروازے پر تمہیں سکھ کا سندیسہ دینے کون آتا؟ دسمبر کی ٹھٹھرتی چاندی دیکھنے کا حوصلہ کس میں تھا؟ مگر تم نے یہ سب کچھ دیکھا اور اپنے اندر محسوس کیا تھا۔ پھر چپکے سے ایک کہانی لکھ کر میرے سرہانے رکھ دی۔
تم، جو چپ کی کشتی پر پہلے ہی سوار تھیں، اب موت کے گہرے پانیوں میں جا اتریں۔
اور اب جب کہ میری پیاری بچی، تاریکی زینہ زینہ اُتر رہی ہے۔ مجھے تمہارا کفن لانا ہے۔میرا قلم بانجھ ہے اور کاغذ پر ایک لفظ کا بھی احسان نہیں۔ دیکھو میں اپنا بانجھ قلم رکھ رہا ہوں۔ اور اپنے سرہانے تلے رکھی کہانی نکال رہا ہوں۔ اور دیکھو سرناویں پر میں نے اپنا نام بھی لکھ دیا ہے۔ میں کہانی بیچنے جا رہا ہوں۔ تم گھبرانا مت، گھبرانا مت۔ میں جب واپس پلٹوں گا، تو تمہارے لیے سفید بے داغ کفن میرے ہاتھوں میں ہو گا۔ اسے میں اپنے سینے سے بھینچوں گا تو تمہاری ماں کی کہانی خُوشبو بن کر کفن میں سما جائے گی۔ تُو کفن پہنے گی تو میرے سینے سے بوجھ کے قدم اتر جائیں گے۔ لیکن اسی لمحے ایک اور بوجھ قدم بہ قدم میرے سینے پر بڑھ رہا ہے کہ جب میں اس مرحلہ میں داخل ہوں گا، جس میں اب تم ہو، یا کبھی تمہاری ماں تھی تو میرے لیے کفن کہانی کون لکھے گا؟
ماخوذ تاثر کی کہانی
وہ کہانیاں لکھتا رہتا ہے، نئی نئی کہانیاں۔
مگر میں اُس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔
اُسے گلہ ہے، سب لوگ اس کی کہانیوں کو نیا تجربہ قرار دیتے ہیں، اُس کی بہت تعریف کرتے ہیں مگر میں، اُس کی بیوی ہوتے ہوے بھی اس کی کہانیاں نہیں پڑھتی۔
یہ درست نہیں کہ میں نے اس کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔
شروع شروع میں وہ جو بھی کہانی لکھتا، میں پڑھتی تھی۔
مگر جب اُس نے یہ بتایا کہ اُس نے جانوروں کی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تو میں خوفزدہ ہو گئی۔
میں نے فیصلہ کیا، میں اس کی کہانیاں نہیں پڑھوں گی۔
دراصل بچپن میں، میں نے ایک شکاری کی ڈائری پڑھی تھی جس میں ایک پرندہ ہر شب ایک انسان کو نگل جاتا تھا۔
اگرچہ شکاری نے آخر میں اس درندے کو مار دیا تھا مگر تب جو خوف میرے اندر اترا تھا اب تک میرے اندر ہی اندر دندناتا پھرتا ہے۔
اور میں جانوروں کی کہانیاں نہیں پڑھ سکتی۔
وہ مجھے قائل کرنے کوشش کرتا ہے۔ جب بھی نئی کہانی لکھتا ہے، میرے سامنے لا رکھتا ہے۔ میں خوفزدہ ہو کر اُسے پرے دھکیل دیتی ہوں اور وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔
جب میں اُس کی بات نہیں مانتی یا پھر اُس کی بات کاٹ دیتی ہوں تو وہ مشتعل ہو جایا کرتا ہے۔
میں مزید خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
ایسے میں جھوٹ بول دیتی ہوں کہ میں نے اس کی کہانی پڑھ لی ہے۔
وہ خُوش ہو کے پوچھتا ہے۔
’’بتاؤ کیسی لگی؟‘‘
میں جھوٹ موٹ تعریف کرتی ہوں اور روایتی جملے بول دیتی ہوں۔
وہ اور زیادہ خُوش ہوتا ہے اور اپنی کہانی کے ایک ایک نکتے کو کھول کھول کر بیان کرنے لگتا ہے۔
جب وہ ایسا کر رہا ہوتا ہے تو اُس کے نتھنے گرم سانسوں سے بھر جاتے ہیں اور جبڑے اس قدر سرعت سے اوپر نیچے حرکت کرتے ہیں کہ میں خوفزدہ ہو جاتی ہوں اور وہاں سے اُٹھ جاتی ہوں۔
جب وہ اپنی بات نامکمل چھوٹتا دیکھتا ہے، تو طیش میں آ جاتا ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر دروغ گوئی کا سہارا لیتی ہوں اور کہتی ہوں :
’’میں وہ ساری باتیں سمجھ گئی ہوں جو تم نے کہانی میں بیان کی ہیں۔‘‘
’’ساری باتیں، جو علامت اور استعارے کی زبان میں ہوئی ہیں وہ بھی؟‘‘
وہ سوال کرتا ہے۔
’’ہاں، وہ سب بھی۔ اور وہ بھی جو تم نے بیان نہیں کیں مگر کہانی میں موجود ہیں۔‘‘
میرا یہ جواب سن کروہ تحسین بھری نظروں سے مجھے دیکھتا ہے۔
اس خوف سے کہ مبادا وہ میرا جھوٹ پکڑ نہ لے میں اسے مزید کہتی ہوں :
’’دیکھو کہانی اپنے قاری پر ایک الگ مفہوم کھولتی ہے۔ کہانی لکھتے وقت جو خیال محرک بنا، اُسے بیان کر کے تم کہانی محدود کیوں کرتے ہو؟‘‘
یہ ویسے ہی جملے ہیں جیسے کبھی میں نے اُس سے سنے تھے۔
وہ اِن جملوں کو سن کر مطمئن ہو جاتا ہے۔
حالاں کہ جب سے اُس نے جانوروں کی کہانیاں لکھنا شروع کی ہیں میں نے اس کی کوئی کہانی نہیں پڑھی۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے دھری چنگیر روٹیوں سے خالی رہنے لگتی ہے۔
اور منّے کی بوتل میں دودھ کی بہ جائے پانی کی مِقدار بڑھ جاتی ہے۔
حتیٰ کہ اُس کی ماں کی پرانی کھانسی دوانہ ملنے سے تازہ ہو جاتی ہے۔
میں اُس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہوں جب کہ اس طرح دیکھنے کی مجھے بالکل اجازت نہیں ہے۔
وہ مشتعل ہو جاتا ہے اور کہتا ہے۔
’’میں ساری عمر تمہارے شکموں کا ایندھن بنتا رہا ہوں۔ میری ساری صلاحیتیں، قوتیں، سارا وقت، سارا سرمایہ لقمہ لقمہ تمہارے بدنوں کا حصہ بنتا رہا مگر اب مجھے اپنے وجود کا یقین بھی چاہیے۔ ہاں اپنے وجود کا یقین۔ سمجھیں !‘‘
مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آتا۔ ڈر جاتی ہوں اور چپ ہو جاتی ہوں۔
وہ چپ ماحول میں آخری جملہ پھینکتا ہے۔
’’میں نے اپنی ہستی کو اپنی کہانیوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں اب کتابی صورت میں لا رہا ہوں۔‘‘
میں اسے ایک مرتبہ پھر حیرت سے دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ وہ تو جانوروں کی کہانیاں لکھ رہا تھا۔
پھر میں اُس کی بات بھول جاتی ہوں۔
دراصل اب کہیں جا کر میں اس قابل ہوئی ہوں کہ کچھ بھول سکوں حالاں کہ وہ بہت پہلے سے یہ چاہتا تھا۔ خصوصاً جب وہ میری تحقیر کر چکتا اور اِشتعال کی کیفیت سے نکل آتا تو یہی چاہتا کہ میں وہ سب بھول جاؤں جو اُس نے کہا ہوتا تھا۔
مجھے اُس کی ہر بات پر عمل کرنا ہوتا ہے کہ میری تربیت اِسی نہج پر ہوئی ہے۔
شروع شروع میں مجھے اُس کی بات گوارا تک نہیں ہوتی تھی۔
اور جب بھی گوارا ہی نہ ہو تو بھولتی کب ہے ؟
مگر رفتہ رفتہ میں نے کوشش سے خود کو اس کا عادی بنا لیا ہے۔
اب تو وہ باتیں بھی بھولنے لگی ہوں جنہیں بھولنے کی وہ ہدایت نہیں کرتا۔
اور غالباً میرا، اُنہیں یاد رکھنا ہی اُس کا منشا ہوتا ہو گا۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ میں وہ باتیں بھول جاتی ہوں جنہیں بھول جانے کی وہ ہدایت کرتا ہے۔
مگر اچانک یوں ہوتا ہے کہ مجھے اُس کی ساری باتیں شدّت سے یاد آنے لگتی ہیں۔
اور یہ تب ہونے لگا ہے جب سے اُس کی نئی کتاب آنے کی خبر اَخبار میں چھپی ہے۔
اور اس کا یہ جملہ بھی کہ اس نے اپنی ذات اور اپنے عہد کو ان کہانیوں کے ذریعے دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں اخبار ایک طرف رکھ کر کتاب اُٹھا لیتی ہوں۔
وہی کتاب جو گذشتہ ہفتے اس نے لا کر میری گود میں ڈالی تھی تو وہ خُوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔
اُس کا خیال تھا کہ اب اسے صحیح طور پر جانا جانے لگے گا۔
مگر اُس نے جو کہا تھا وہ میں بھول جاتی ہوں۔
اور اُس کی کتاب بھی پڑھنا بھول جاتی ہوں حالاں کہ اُس نے اپنی کتاب، گھر میں ہر کہیں بکھیر دی ہے۔ یہاں، وہاں۔ ڈرائنگ، ڈائنگ، بیڈ۔ شیلفوں میں، سرہانے تلے، سائیڈ ٹیبل پر۔ کتاب ہر کہیں ہے مگر میں پڑھنا بھولے رہنا چاہتی ہوں۔
میں نے کہا ہے نا! جانوروں کی کہانیاں میں نہیں پڑھ سکتی۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں، جو ہر بات بھول جاتی ہوں، یہ کیوں نہ بھول پائی کہ اس میں جانوروں کی کہانیاں ہیں۔
وہ کہا کرتا تھا:
’’کہانیاں تو کہانیاں، ہوتی ہیں، چاہے انسان کی ہوں یا جانوروں کی یا پھر دونوں کی۔‘‘
مجھے اُس کی تیسری صورت مضحکہ خیز لگتی ہے۔
کیوں کہ میرا خیال ہے کہانی یا تو اِنسانوں سے متعلق ہوتی ہے یا پھر جانوروں سے۔ مگر اس کا دعویٰ ہے کہ دونوں کے بارے میں کہانیاں لکھنا ہی دراصل وہ منطقہ ہے جو اُس نے دریافت کیا ہے۔
اُس کی یہ دلیل بھی مجھے اُس کی کہانیاں پڑھنے پر آمادہ نہیں کر پاتی۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ میں اخبار میں خبر پڑھتی ہوں۔
بل کہ یوں کہوں تو مناسب ہو گا کہ خبر میں اُس سے منسوب جملہ پڑھا تو بے اختیار کتاب پڑھنے بیٹھ گئی۔
دراصل مجھے اس خواہش نے کتاب پڑھنے پر مجبور کیا کہ میں بھی اسے دریافت کر سکوں۔
میں اُسے شروع سے جاننا چاہتی تھی۔ پہلے پہل کوشش بھی کی مگر جان نہ پائی۔ میں اُسے جان بھی کیسے پاتی کہ وہ اپنی ذات کے گنبد بے در میں محصور تھا۔
کسی کو جانے بغیر صدیوں پر محیط زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارنے سے بہتر ہے کہ محض معرفت کی ایک ساعت میسر ہو جائے۔
زندگی کے بارے میں میرا یہی نقطہ نظر ہے۔
مگر وہ مجھ پر نہ کھل سکا۔
اس نے میرے اندر جھانکنے کی کوشش بھی نہ کی اور وقت گزرتا رہا۔
حتیٰ کہ وقت گزرنے کا اِحساس میرے اندر سے معدوم ہوتا چلا گیا۔
معدوم ہوتے اِحساس نے میرا اندر سے انہدام شروع کر دیا۔
ممکن تھا میں مکمل طور پر منہدم ہو جاتی کہ میں اخبار میں اس سے منسوب جملہ پڑھتی ہوں۔
یہ جملہ پڑھتے ہی فوراً کتاب اٹھاتی ہوں اور خود کو کوستی ہوں کہ میں نے پہلے یہ کہانیاں کیوں نہ پڑھ ڈالیں۔ ناحق وقت برباد کیا۔
میں جم کر بیٹھ جاتی ہوں اور ایک ایک لفظ پڑھ ڈالتی ہوں۔
کتاب پڑھ کر بند کرتی ہوں تو نظر اُس کی تصویر پر ٹھہر جاتی ہے۔
اُس کے ہونٹ تھوتھنی بننے لگتے ہیں اور۔۔۔ اور۔۔۔
میرے اندر خوف کی آندھیاں چلنے لگتی ہیں۔
میں کتاب کو پَرے اُچھال دیتی ہوں اور کوشش کرتی ہوں کہ جو پڑھا ہے وہ سب بھول جاؤں یا پھر تصویر کی بابت جو محسوس ہوا ہے، وہ احساس جاتا رہے۔
مگر مجھے دُکھ ہوتا کہ میں بھول جانا بھول چکی ہوں۔
میں اُس لمحے کو کوستی ہوں جب میں نے اخبار میں اُس سے منسوب جملہ پڑھا تھا اور خود کو اس کی کتاب پڑھنے پر مجبور پایا تھا۔
میری نظر بے اِختیار اُس کی دوسری تصویر پر پڑتی ہے جو سائیڈ ٹیبل پر دھری ہے۔
یہ تصویر، جب سے میں اس گھر میں آئی ہوں، یہیں ہے۔
اس تصویر کو میں نے جتنا دیکھا ہے، جتنی نزدیک سے اور جتنی بار، اتنا تو میں خود اسے بھی نہیں دیکھ پائی ہوں۔
مگر اب جو دیکھتی ہوں تو کتاب کی کہانیاں تصویر کے چہرے میں اُترنا شروع ہو جاتی ہیں۔
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔
مگر تصویر، تصور میں جا اُترتی ہے۔
اور وہ کہانیاں بھی، جو جانوروں سے متعلق نہیں ہیں۔
نہیں، جو محض جانوروں سے متعلق نہیں ہیں۔
یا پھر آدمیوں سے متعلق ہیں۔ نہیں، وہ کہانیاں محض آدمیوں سے متعلق بھی نہیں ہیں۔
میرے چہرے کا رُخ تصویر کی سمت ہی رہتا ہے۔
اور لمحہ لمحہ اُس کے بدلتے خالو خد دیکھتی ہوں تو مزید خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
میں اپنے سارے وسوسے (اگر یہ وسوسے ہیں تو) جھٹک دینا چاہتی ہوں اور خود کو یقین دلاتی ہوں کہ یہ اس کی ہی تصویر ہے۔
نہیں، یہ اُس کی تصویر نہیں ہے۔
تو پھر یہ اُس کے اَندر کی تصویر ہے۔
نہیں، یہ محض اُس کے باطن کی تصویر بھی نہیں ہے۔
میں ایک مرتبہ پھر آنکھیں میچ لیتی ہوں۔
مگر اُس کے پل پل بگڑتے خال و خد میرے اندر اُترنے لگتے ہیں۔
میں آنکھیں پوری طرح کھولتی ہوں کہ یہ تو اس سے بھی زیادہ بھیانک صورتحال ہے۔ اب تصویر پر نظریں گاڑے اس کی صورت کو ویسا ہی دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں جیسی وہ کتاب پڑھنے سے پہلے نظر آتی تھی۔
میں چاہتی ہوں کتاب کا ایک لفظ بھی مجھے یاد نہ رہے۔
مگر شاید میں بھول جا نا بھول چکی ہوں۔
اُف خدایا، یہ ہونٹ، یہ تھوتھنی
اوپر سے عجیب طرح کی مونچھیں
اور بالوں کا فرسودہ سٹائل
کندھے گرا کر چلنا
آنکھوں کی سرخی
اور دیکھنے کا بے ہودہ انداز
اِدھر اُدھر سے خوف اُمڈ پڑتا ہے۔ میں خوف میں ڈوب جاتی ہوں اور تیرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتی ہوں۔ ہاتھ اس کی تصویر پر جا پڑتا ہے۔
میں اُسے اٹھا کر پَرے پھینک دیتی ہوں۔
فریم کا شیشہ کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔
مگر تصویر سے اُبلتے ہوے خال و خد سے اسی طرح خوف اُبلتا رہتا ہے۔
میں تصویر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہوں۔
نظر کتاب پر پڑتی ہے، اُلٹ دیتی ہوں، تصویر وہاں بھی ہے۔
سرہانے سے کتاب اُٹھا کر پرے پھینکتی ہوں۔
کتاب پائینتی پر یوں جا پڑتی ہے کہ تصویر کا رُخ اُوپر کی جانب ہوتا ہے۔
وہی سرخ سرخ آنکھیں، وہی تھوتھنی، وہی مونچھیں کھردری اور بے ڈھنگی، وہی۔۔۔
میں پاؤں سے چھو کر اُسے فرش طرف کھسکانا چاہتی ہوں۔
یکایک خیال گزرتا ہے۔
اگر اس نے مجھے ڈس لیا تو؟
عجب مضحکہ خیر خدشہ ہے۔
مجھے اپنے خیال پر حیرت ہوتی ہے اور خیال کی تہہ تک پہنچنے کے لیے سوچتی ہوں۔
ایسا کیوں ہوا؟
ایسا خیال کیوں آیا؟؟
آخر کیوں ؟؟؟
مجھے اس کتاب میں کتوں اور کتیوں، سانپوں اور سپنیوں حتیٰ کہ مچھروں کے بارے میں ایک سے زائد کہانیاں یاد آتی ہیں۔
مگر یہ تو کتاب ہے، کیسے کاٹ ڈس سکتی ہے ؟
کیسے، کیسے ؟؟
تو کیا میں اسے وہیں پڑا رہنے دوں۔
کتاب میں موجود کہانی کی اُس کتیا کی طرح، جو اپنے پلوں کے ساتھ گھر کی دہلیز پر پڑی رہتی ہے اور جب بھی گھر کا مالک باہر نکلتا ہے اسے دزدیدہ نظروں سے دیکھتی ہے۔
مالک اُسے دھتکارتا ہے، گالیاں بکتا ہے، ٹھوکریں مارتا ہے، اور کہتا ہے :
’’تم اسی لائق ہو۔ تم اور تم جیسی سب لائق ہیں، بچے جنیں، دروازوں پر پڑی رہیں اور دھتکاری جاتی رہیں۔‘‘
کہانی آگے چلتی ہے اور آخر میں اپنا بھید کھولتی ہے۔
گھر کے مالک کی بابت انکشاف کرتی ہے کہ وہ خود بھی اِسی قبیل سے تھا۔
اور چوں کہ اِسی بستی میں سب ہی ایک قبیل کے تھے لہٰذا خدا کا کرنا یوں ہوا کہ ایک مجذوب کا گزر اس بستی سے ہوا۔
اس بستی کا کوئی فرد مجذوب کے مقابل نہ آیا، سوائے اُس کے جو بعد میں اپنے پِلوں کے ساتھ دہلیز پر جا بیٹھی تھی۔
مجذوب بھوکا تھا۔ اس نے کھانا دیا۔
مجذوب نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے وہاں منڈلاتی گدھوں کو کھلا دیا۔ کہا:
’’جانتی ہو گدھ کہاں زیادہ منڈلاتے ہیں ؟‘‘
اُس نے اَدب سے جواب دیا:
’’آپ بہتر جانتے ہیں سرکار۔‘‘
مجذوب کا جواب تھا:
’’جہاں مردار ہو۔’’
’’مردار؟‘‘
اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو وہ مجذوب کے کہے کی تہہ تک پہنچ گئی۔
’’سرکار، مجھے اِن گدھوں سے بچائیے۔ مجھے اِن سے مختلف کیجئے۔‘‘
مجذوب نے نگاہ اوپر کی اور جب نگاہ پلٹ کر نیچے آئی تو وہ آئینہ بن چکی تھی۔
لہٰذا اُس کا مَقام اُسی کی دہلیز قرار پائی۔
وہ دہلیز پر بیٹھی اُسے دزدیدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور تاسف سے اُن لمحوں کی بابت سوچتی ہے کہ جب پھر مجذوب آئے گا اور سب کا ظاہر باطن کی جون پر بدل دیا جائے گا۔
کہانی کا یہ حصہ یاد کر کے، میں خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
پھر کتاب کی پُشت والی تصویر کو دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے مجذوب آ کے گزر گیا ہے کہ تصویر والے کا چہرہ بدلتا جا رہا ہے۔ ہونٹ، ہونٹوں سے تھوتھنی، اور۔۔۔
میں خوف سے کانپنے لگتی ہوں اور باہر نکل کھڑی ہوتی ہوں۔
دالان عبور کرتی ہوں۔
دالان سے گزرتے ہوے مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے صدیوں کی مسافت پر محیط صحرا عبور کیا ہے۔
جب چوکھٹ آ جاتی ہے تو خود بخود میں دو زانو بیٹھ جاتی ہوں۔
دہلیز آنسوؤں سے سیلن زدہ ہے۔
میں دہلیز چھوتی ہوں اور آنسوؤں کے ساتھ ساتھ سسکیاں اور آہیں بھی میری پوروں میں سما جاتی ہیں۔ میں ہمت کر کے اپنے قدموں پر کھڑی ہوتی ہوں۔ خُوشی سے سوچتی ہوں کہ میں بھی اپنے قدموں پر کھڑی ہوں۔ تب میں گلیوں میں بھاگتی ہوئی اس روشنی تک جانا چاہتی ہوں جو گلی کی نکڑ پر ایک کھمبے کے نیچے سمٹی ہوئی ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہانی والی ’’وہ‘‘ میرے ساتھ بھاگ رہی ہے جس کا تعاقب بھونکار اور غراہٹیں کرتی ہیں۔
میں اُسے دیکھتی ہوں۔ وہ میری طرح خوفزدہ ہے۔
میں نہیں چاہتی کہانی کا اگلا حصہ مجھے یاد آئے۔
مگر یاد تو و ہ چیز آتی ہے جو بھولی ہوئی ہو۔
جب کہ میں بھولنا بھول چکی ہوں۔
اور ’’وہ‘‘ میرے ساتھ ساتھ ہے مگر خوف سے تھر تھر کانپے جا رہی ہے۔
میں جھک کر پتھر اٹھا نا چاہتی ہوں۔۔۔ مگر پتھر زمین میں دھنسے ہوے ہیں۔
میں خالی ہاتھ ہی اُن کی طرف اُچھال دیتی ہوں۔
بھونکار اور غراہٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ میں نکڑ تک جا پہنچتی ہوں۔
کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں ایک چوہیا ہے۔
کہانی مجھے ایک مرتبہ پھر یاد آتی ہے، وہی جس میں چوہیا سدھائی جاتی ہے۔
میں خود کو سوچتی ہوں اور مری ہوئی چوہیا کو دیکھتی ہوں۔ ایک بار پھر خوفزدہ ہو جاتی ہوں۔
اس سے پہلے کہ مٹھی بھر روشنی تلے ایک اور چوہیا مری پڑی ہو، میں واپس گھر کی جانب بھاگ کھڑی ہوتی ہوں۔
جونہی دہلیز پار کرتی ہوں، وہ سامنے آ جا تا ہے، اور مجھے دیکھتا ہے۔
میں اُسے نہیں دیکھنا چاہتی، مگر نظر پڑ جاتی ہے۔
عین اُس لمحے کہ جب اُس کی نظر پڑتی ہے مجھے گمان گزرتا ہے کہ میں نے چوہیا نہیں ایک چوہا دیکھا تھا۔
لمبی تھوتھنی ا ور۔۔۔
میں آنکھیں بند کر لیتی ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے، چوہا میرے اندر اتر گیا ہے اور اس نے مجھے اندر سے کترنا شروع کر دیا ہے۔
آنکھیں کھولتی ہوں، تو وہ گھورتا ہے۔
آنکھیں بند کرتی ہوں، تو وہ اندر سے کترتا ہے۔
تب یکایک میرے اندر سے کراہت کا غبار اٹھتا ہے۔ مرا ہوا چوہا۔
سامنے چھت سے لیمپ لٹک رہا ہے اور عین اس کے نیچے وہ بیٹھا ہوا ہے۔
نکڑ پر عین روشنی تلے، مرا ہوا چوہا۔
مجھے اُبکائی آتی ہے۔ میں بھاگ کر واش بیسن تک پہنچتی ہوں اور اِستفراغ کے عمل سے گزر جاتی ہوں۔
ساس مجھے دیکھتی ہے اور خُوشی خُوشی اُسے کہتی ہے :
’’مبارک ہو۔‘‘
وہ جو پہلے مجھے گھور رہا تھا، اَب اُوپر نہیں دیکھتا۔
میں اِنتظار کرتی ہوں ا ور چاہتی ہوں کہ وہ مجھے دیکھے، مگر نہیں دیکھتا اور رات بیت جاتی ہے۔
تب میں پاؤں پٹختی ہوں۔
میرے پاؤں پٹخنے کی صدا فقط میری ہی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔
جب اس کی خامشی اور بے اعتنائی میرا بدن نوچنے لگتی ہے تو میں دوسری بار دہلیز پار کر جاتی ہوں اور بھاگنے لگتی ہوں۔ مسلسل بھاگتی رہتی ہوں۔
حتیٰ کہ وہ پارک آ جاتا ہے جہاں رنگ ہی رنگ ہیں۔ قہقہے ہی قہقہے ہیں۔
میں مُسرت بھری آوازوں کو سنتی ہوں، تتلیوں کو دیکھتی ہوں، خُوشبوؤں سے مشامِ جاں معطر کرتی ہوں اور ان ساری کہانیوں کو بھولنا چاہتی ہوں جو میں نے پڑھی ہیں۔
مگر رفتہ رفتہ جب شام کے سائے اُترنے لگتے ہیں تو کہانیوں کے دھُندلکے بھی میرے اندر اُتر جاتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے وہ پارک نہیں ایک جنگل ہے، گھنا جنگل۔ دور ادھر آسمان سے سایا اُترتا ہے اور بدنوں کی کھال بنتا جاتا ہے۔
اُس کی ایک کہانی میں بھی یہی ہوتا ہے۔
کہ اندر کی تاریکی باہر کی کھال بن جاتی ہے۔
یا پھر باہر کی سیاہ کھال اندر کی تاریکی بن کر گھس بیٹھتی ہے۔
پھر لمبی تھوتھنیوں والے اپنی جون بدل کر انسانی بستیوں میں جا پہنچے ہیں۔
روز کسی نہ کسی پر شب خُون مارتے ہیں حتیٰ کہ وہاں فقط وہی رہ جاتے ہیں جو اپنی جون میں نہیں ہیں۔
بس یہیں تک کہانی یاد کر پاتی ہوں کہ خوف میرے چاروں جانب دھمال ڈالنے لگتا ہے۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے میرے اردگرد سب وہ ہیں جو اپنی جون میں نہیں ہیں۔
میں اُلٹے قدموں بھاگ کھڑی ہوتی ہوں۔
مگر ٹھوکر کھا کر گھر کی دہلیز سے اندر جا پڑتی ہوں۔
وہ چیختا ہے اور پوچھتا ہے کہ میں کہاں رہی؟
میں چپ کے دھاگے سے ہونٹ سیئے رکھتی ہوں۔
میں چاہے چپ رہوں یا بولوں، اُسے ہر صورت میں طیش آتا ہے۔
لیکن جب میں چپ رہنے پر بولنے کو ترجیح دوں تو وہ آپے میں نہیں رہتا۔
اگرچہ اب کے میں چپ رہنے کو مناسب خیال کرتی ہوں مگر میری چپ اُسے اس سے زیادہ طیش دلا دیتی ہے جتنا اُسے میرے بولنے پر آیا کرتا ہے۔
میں اُسے دیکھتی ہوں۔
اُس کی ساری کہانیاں اُس کے چہرے پر اُگ آئی ہیں۔
تھوتھنی، دانت، کھردری مونچھیں، آنکھوں کی سرخی۔۔۔
وہ آگے بڑھتا ہے اور مجھے بھنبھوڑ ڈالتا ہے۔
اس قدر کہ میرا جسم زخموں سے چور ہو جاتا ہے۔
جب سارے جسم کے زخم رسنے لگتے ہیں تو وہ میری روح پر چرکے لگاتا ہے۔
اور جب اُسے یقین ہو چکتا ہے کہ مجھ میں سنبھلنے کی ذرا بھی سکت نہیں رہی تو وہ مجھے یوں ہی کھلے صحن میں چھوڑ کر اندر چلا جاتا ہے۔
اور جب سب کچھ بھول جاتا ہے تو وہ باہر آتا ہے۔
مجھے بہلا پھسلا کر ہمیشہ کی طرح سب کچھ بھول جانے کا مشورہ دیتا ہے۔
مگر میں اب بھول جانا، بھول چکی ہوں۔
میں اُٹھتی ہوں اور پہلی مرتبہ اُسے نظرانداز کرتی ہوں جو دو زانو بیٹھا ہوتا ہے۔ میں اُسے یوں ہی بیٹھا چھوڑ کر اندر چل دیتی ہوں۔
اُس کی ساری کتابیں اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر باہر نکلتی ہوں اور عین اس کے سامنے ڈھیر لگا دیتی ہوں۔
پھر بھری ہوئی تیل کی بوتل ڈھیر پر اُنڈیل دیتی ہوں۔
وہ اُٹھتا ہے اور مجھے دھکا دے کر پَرے گرا دیتا ہے مگر میں حوصلہ نہیں ہارتی اور ماچس کی تیلی کتابوں کے ڈھیر کو دکھا دیتی ہوں۔
شعلے بھڑکنے لگتے ہیں اور وہ آگ کی تپش سے موم کی طرح پگھلتا چلا جاتا ہے۔
جب وہ سارے کا سارا پگل چکتا ہے، تو میں اُسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتی ہوں اور وہاں بوسہ دیتی ہوں جہاں سے توتھنی برآمد ہوا کرتی تھی۔
وہ میرے بھیگے بوسے سے کھل اٹھتا ہے۔
اس کی نظر شعلوں پر پڑتی ہے تو وہ بڑبڑاتا ہے :
’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
میں اُسے دیکھتی ہوں اور موم کی طرح پگھلتے اُس کے وجود کو محبت کی پوروں سے اصلی خال و خد میں لاتی ہوں اور کہتی ہوں :
’’اب تم صرف انسانوں کی کہانیاں لکھو گے۔‘‘
وہ میری طرف دیکھتا ہے۔
اس کی آنکھوں کی ساری سرخی غائب ہو چکی ہے۔
وہ دہراتا ہے :
’’انسانوں کی کہانیاں ؟۔۔۔ م۔۔۔ م۔۔۔ مگر کیسے ؟‘‘
میں اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُسے ایک مرتبہ پھر بانہوں میں سمیٹتی ہوں۔
’’ہاں انسانوں میں رہ کر انسانوں کی کہانیاں اور محبتوں میں بس کر محبت کی کہانیاں‘‘
اپنے ہونٹ دوبارہ وہاں جا رکھتی ہوں جہاں کچھ دیر پہلے پھول کھل اُٹھے تھے۔
عین اسی لمحے سارے میں مہک بھر جاتی ہے۔
ٍ
گرفت
ہم دو ہیں اور تیسرا کوئی نہیں۔
اگر ہے بھی تو ہم نے اُسے ذِہن کی سلیٹ سے رگڑ رگڑ کر مٹا ڈالا ہے۔
وہ میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے میرا بدن اُس موم کی طرح ہے جو شعلے کی آنچ سے اس قدر نرم ہو جائے کہ جدھر چا ہو موڑ لو۔
یہ شعلہ اُس کے اندر بھی ہے اور میرے اندر بھی۔
مگر حیرت ہے یہ شعلہ اس کے بدن کو تپا کر مزید سختی عطا کرتا ہے اور مجھے پگھلا تا چلا جاتا ہے۔
یہی سختی اور نرماہٹ پھسلن کی شروعات ہو سکتی ہیں۔
مجھے یقین ہے، ہمیں پھسلنے سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔
ویسے ہم دو کے علاوہ ہے بھی کون، جو ہمیں بچا سکے۔
اور اگر ہے بھی تو ہم نے اُسے اپنے ذہن کی سلیٹ سے یوں رگڑ رگڑ کر مٹا ڈالا ہے کہ اس کا ہونا نہ ہونا ایک جیسا ہے۔
مجھے خدشہ ہے یوں پھسل کر گرنے سے مجھے گومڑ نکل آئے گا۔
ایسا گومڑ جو میری ساری رعنائی نچوڑ کے مجھے بد وضع کر دے گا۔
یہ گومڑ پک کر پھٹ جائے گا تو مجھے بدبو دار خُون اور پیپ میں بھگو دے گا۔
اور شاید اس قدر بھگو دے کہ دیکھنے والوں کو ابکائیاں آنے لگیں۔
وہ کہتا ہے کہ چوٹ تو اسے بھی آ سکتی ہے۔
مگر، میں جانتی ہوں وہ جھوٹ کہتا ہے۔
اُسے جھوٹا سمجھنے کی میرے پاس ٹھوس دلیل ہے۔
وہ یہ کہ ہم جب بھی پھسلنے کو ہوتے ہیں میرا رخ زمین کی طرف اور اُس کا رخ آسمان کی بہ جائے میری جانب ہوتا ہے مگر ہر بار وہ پشت کے بل اوپر ہی کو اُٹھتا ہے۔
عجب واقعہ ہے کہ وہ آسمان کو آنکھ بھر کر دیکھنے سے گریز کرتا ہے اور نظر مجھ پر ہی جمائے رکھتا ہے۔
جس روز بھولے سے بھی اُس کی نظر آسمان پر پڑ جائے اس کے ہونٹوں پر لفظ پیڑی کی صورت جم جاتے ہیں۔
مجھے حیرت ہوتی ہے، کیا یہ وہی الفاظ ہیں جو اُس کے ہونٹوں سے پھسل پھسل کر پھسلن بناتے رہے ہیں ؟ ایسی پھسلن کہ میں نہ چاہتے ہوے بھی اُس پر لڑھکتی رہی ہوں۔
ہاں، پھسلن کی وجہ اُس کے ہونٹوں سے پھسلنے والے لجلجے الفاظ بھی ہو سکتے ہیں۔
کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ گفتگو کو میں ہی اِبتدا دیتی ہوں۔
مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
اتنا کم کہ انگلیوں پر گِن سکتی ہوں۔
اُنگلیوں پر گننا مجھے اَچھا لگتا ہے۔
مگر بار بار دو تک گننے سے مجھے جھنجھلاہٹ ہونے لگتی ہے۔
میں اُسے کہتی ہوں :
’’آ ؤ، پھسلتے پھسلتے وہاں اُن ٹھنڈے میٹھے چشموں تک جا پہنچیں جن کا متبرک پانی ہمارے بدنوں سے بانجھ مشقتوں کو دھو کر انہیں زرخیز کر دے گا پھر نئے پھو ل اُگیں گے۔ ایسے پھول، جن کی مہک خدشوں کی دلدل کو ڈھانپ لے گی۔‘‘
وہ یہ سن کر بپھر جاتا ہے۔
اور میری ان انگلیوں کو جنہیں دو تک گنتی ازبر ہو چکی ہے، ان انگلیوں سمیت جو گنتی کے عمل سے ہی ناآشنا ہیں، سختی سے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
عجب سختی ہے جو اُنگلیوں سے ہتھیلی اور ہتھیلی سے بدن میں نرماہٹ اُتارتی چلی جاتی ہے۔
میری ماں کہتی تھی۔
’’عورت پیدا ہوتے ہی آدھی زمین میں دفن ہو جاتی ہے اور زمین میں دفن ہونے والی، باہر رہ جانے والی کو ساری عمر اپنی گرفت میں لینے کے جتن کرتی ہے۔‘‘
ماں کی بات مجھے یوں یاد آئی کہ پھسل کر گرتے وقت وہ کشش ثقل سے آزاد ہو جاتا ہے اور مجھے کوئی نیچے بہت نیچے کھینچتا چلا جاتا۔
شاید یہ وہی میرے بدن کا حصہ، آدھی عورت ہے جس کی بابت ماں نے بتایا تھا۔
مجھے اُس وقت ماں کی باتوں پر ہنسی آتی تھی، جب کہ اب میں اُلجھن پڑ جاتی ہوں۔
میری ہنسی کی سنہری مچھلی نے اُلجھن کا کانٹا اُس روز نگلا تھا جب مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میں اُس علاقے میں داخل ہو چکی ہوں جہاں پھسلن ہی پھسلن ہے۔
دراصل میں پہلے پہل خلوص دل سے سمجھتی تھی کہ میری ماں ناسمجھ ہے۔
مگر جب سے وہ یہ کہنے لگا ہے کہ ساری ہی لڑکیاں ناسمجھ ہوتی ہیں، مجھے اپنی ماں کی باتیں یاد کر کے ہنسی نہیں آتی۔
اب مجھے پہلے پہل کی اپنی بے جا ہنسی پر دُکھ ہوتا ہے۔
ہمارے گھر کے صحن میں ایک برگد اُگا ہوا ہے۔
مجھے یاد ہے یہ اس وقت بھی تھا جب بان کی کھری چارپائی پر لیٹے ایک شخص کو سفید میلی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
میں نے ماں کو پہلی مرتبہ دو ہتڑ سینے پر مارتے، بال نوچتے اور دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا تھا۔
مجھے حیرت ہوئی تھی کہ وہ تو چپکے چپکے رونے کی عادی تھی، یوں کہ سینے کے اندر کچھ ہوتا رہتا جس کی دھمک بہ مشکل مجھ تک پہنچ پاتی تھی۔ ہونٹ دانتوں تلے دبے ہوتے اور آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ مگر یوں منھ کھول کر روتے اور ہاتھ لہرا لہرا کر بین کرتے میں نے اُسے پہلی بار دیکھا تھا۔
میں نے بے اختیاری میں اُس کے چہرے سے چادر اُلٹ دی تھی۔
اجنبی، بالکل اجنبی چہرہ، سخت یوں جیسے پتھر سے تراشا گیا ہو۔
اُس اجنبی شخص کو، کہ جسے میں نہ جانتی تھی اور جس کے لیے میری ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی، صبح ہی صبح، صحن میں بچھی کھری چارپائی پر ڈال دیا گیا تھا۔
میری آنکھ اُس وقت کھلی جب میری ماں بوکھلا کر میرے پہلو سے اُٹھی تھیا ور اُس کے سینے کی دھمک دانتوں تلے دبے ہونٹوں سے شراٹے بھرتی نکلی تھی۔
پھر میری ماں نے میرے نیچے بچھی چادر کوا س قدر تیزی سے کھینچا تھا کہ میں لڑھکتی پرے جا پڑی تھی۔
ماں نے مجھے نہیں سنبھالا تھا حالاں کہ وہ میرا بہت خیال رکھتی تھی۔
جب وہ بھاگ کر صحن میں بچھی چارپائی تک پہنچی تھی تو اُس نے اِدھر اُدھر دیکھے بغیر چادر کو پھیلا کر اُس شخص کے بدن پر ڈال دیا تھا۔
ایسا کر کے ماں نے اپنے ہاتھوں کی ساری چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں۔ بال کھول لیے تھے اور ما تھا چارپائی کے پائے سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی کر لیا تھا۔
مجھے ماں کے رویے پر حیرت ہوئی تھی۔
میں بہت کچھ پوچھنا چاہتی تھی مگر جلد ہی اس کی لمبی چیخیں، لمبی چپ نے نگل لیں۔
اور لمبی چپ اُسے تب لگی جب اُس نے یوں ہی روتے دھوتے لمحہ بھر کو نظر بھر کو مجھے دیکھا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وہ خود بھی چُپ کی چادر اوڑھ کر بے سُدھ برگد تَلے بچھی کھری چارپائی پر لیٹ گئی۔
مجھ پر حیرت در حیرت کی جمتی تہیں سِل کی طرح ہو گئیں۔
حیرت کی سِل اس روز تڑخ کر ٹوٹ گئی جب اُس شخص نے میرے لیے لجلجے لفظ اُگلے تھے جن کی وجہ سے چاروں طرف پھسلن ہوتی جا رہی تھی۔
میں نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھا تھا۔ بالکل وہی چہرہ تھا۔ پتھر سے تراشا ہوا۔
وہی جو بہت پہلے اپنے گھر کے صحن میں برگد تلے دیکھا تھا۔
اور جس کے سرہانے میری ماں نے بین کیے تھے، چوڑیاں توڑ ڈالی تھیں اور سینے میں دفن دُکھوں کو سسکیوں سے چیخوں میں ڈھلنے دیا تھا۔
گھر کے صحن میں اَب بس وہی برگد کا درخت ہے اور میں ہوں۔
وہ چہرہ، جو پتھر سے تراشا گیا ہے فقط میری سوچوں میں ہے۔
محض اُس کا چہرہ ہی پتھریلا نہیں اُس کا سارا بدن پہاڑوں جیسا ہے۔
ایسا پہاڑ جس کے اندر آتش فشاں کھول رہا ہے اور جس نے اپنا دہانہ کھول دیا ہے جہاں سے لفظوں کا لاوا نکلتا ہے۔ یہی لجلجا اور گرم گرم لاوا مجھے آن کی آن میں پگھلا دیتا ہے۔
اوپر کوا چھلتا کودتا۔
اس کا پہاڑوں جیسا بدن اپنے ہی لاوے کا جزو بن کر اوپر ہی اوپر اچھلتا رہا اور میں روز بہ روز زمین کی طرف گرتی چلی گئی۔
مجھے وہی گومڑ بھی نکل آیا ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔
وہ قہقہے لگاتا رہا اور کہتا رہا کہ اُسے بھی تو چوٹ لگ سکتی ہے۔
مگر میں شروع ہی سے جانتی ہوں، وہ جھوٹ بولتا ہے۔
اب جب کہ میں عین برگد تلے کھڑی ہوں مجھے اپنی ماں خُوش نصیب لگنے لگی ہے۔
اُس نے پتھر جیسا چہرہ اپنے سامنے بے بس پڑے دیکھا تھا۔
اس پر آنسو بہائے تھے اور بین کئے تھے۔
کاش میں بھی اتنی خُوش بخت ہوتی۔
مجھے تو وہ ساری آوازیں سننی پڑ رہی ہیں جو گھر کے دروازے پر بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
مجھے خبر ہے وہاں ایک نہیں پتھر جیسے چہروں والے کئی ہیں۔
وہ بھی ان ہی میں ایک ہے۔ ان سب کے بیچ اپنی پہچان کھونے والا۔
اُن سب کو میرے گومڑ نے مشتعل کر رکھا ہے۔
ابھی میرا گومڑ نہیں پھٹا۔
مگر انہیں خدشہ ہے کہ اگر وہ پھٹ گیا تو ان سب کے گھر اور گلیاں خُون اور پیپ سے لت پت ہو جائیں گے۔
دروازہ ٹوٹ چکا ہے۔
اب وہ مجھے دھکیلتے ہوے شہر سے باہر لے جا رہے ہیں۔
میں گرتے پڑتے اُن کے آگے آگے بھاگ رہی ہوں اور وہاں پہنچ جاتی ہوں جہاں پھسلن ہے۔
مجھے حیرت ہوتی ہے۔ پتھر چہروں والے سارے مرد، کہ جن کے ہاتھوں میں بھی پتھر ہیں، پھسلنا شروع ہو گئے ہیں۔
ان میں سے کسی ایک کو بھی چوٹ نہیں لگ رہی اور مجھے اس پر تعجب نہیں ہو رہا۔
میں اپنے گومڑ کو دیکھتی ہوں اور اُن کے پھسلتے اور اُچھلتے بدنوں کو دیکھتی ہوں۔
پھر اس تضاد پر زور زور سے قہقہے لگاتی ہوں اور اس کے لیے بانہیں کھول دیتی ہوں جو میرے پیدا ہوتے ہی مجھے اپنی گرفت میں لینے کے جتن کر رہی تھی۔
ٍ
دوسرا آدمی
کم آمیزی میرے مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔
سفر کے دوران تو میں اور بھی اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہوں۔
بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ میلوں سفر کر جاتا ہوں مگر ساتھ بیٹھے مسافر سے رسمی علیک سلیک بھی نہیں ہو پاتی۔
مگر وہ عجب باتونی شخص تھا کہ اس نے زورا زوری مجھے بھی شریک گفتگو کر لیا تھا۔
ماڈل ٹاؤن منتقل ہونے کے بعد مجھے ذاتی گاڑی پر روزانہ دفتر آنا جانا ترک کرنا پڑا کہ دفتر اور گھر کے بیچ لگ بھگ بیس بائیس کلو میٹر کا فاصلہ پڑتا ہے اور جو تنخواہ کٹ کٹا کر بچتی ہے، اس میں پٹرول اور گاڑی کے توڑ پھوڑ کے اضافی خرچ کی کوئی گنجائش نہیں۔
مجھے کئی سالوں کے بعد ذاتی گاڑی کی بہ جائے ویگن میں آنے جانے سے اُلجھن سی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو ویگن کا اِنتظار اُلجھن سے کوفت میں بدل جاتا ہے۔
اور وہ ایسا ہی روز تھا۔
دفتر سے نکلا تو شدید ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ ویگن سٹاپ تک پہنچتے پہنچتے بوندا باندی ہونے لگی۔ مجھے یوں زیادہ بھیگنا نہ پڑا کہ جلد ہی ویگن آ گئی۔
میں کوششیں کرتا ہوں کہ سب سے پچھلی نشست کے ایک طرف ہو بیٹھوں۔ یوں میں باہر کا نظارہ بھی کرتا رہتا ہوں اور باہر سے اندر آتی روشنی میں اخبار یا رسالہ بھی پڑھ سکتا ہوں جو عموماً سفر کے لیے ساتھ لے کر چلتا ہوں۔
مگر اُس روز دائیں ہاتھ ایک میلا کچیلا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور دوسری طرف لحیم شحیم شخص۔ مجھے مجبوراً بائیں جانب اسی شخص کے ساتھ بیٹھ جانا پڑا۔
میں عمومی اور اجنبی چہروں کو غور سے دیکھنے کا عادی نہیں ہوں۔سرسری نظر ڈالتا ہوں اور گزر جاتا ہوں۔ ہاں کوئی بہت دل کش چہرہ ہو تو نظر ٹھہر جاتی ہے۔
اُس کا بھی عام سا چہرہ تھا، کرخت اور بے ہودہ۔ مگر مجھے دیکھنا پڑا کہ یہ وہ شخص تھا جو میری پسندیدہ نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے عادتاً اخبار اپنے دامن پہ پھیلا لیا۔ جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری بے سود کوشش تھی۔ اس شخص کا بے طرح پھیلا بدن شیشے سے چھن چھن کر آتی روشنی کو پوری طرح روکے ہوے تھا۔ میں نے جھنجھلا کر قمیض کے دامن سے عینک کے شیشوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا مگر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کے باوجود الفاظ بصارت کی گرفت میں نہ آ رہے تھے۔ میں نے اخبار تہہ کر دیا اور نہ چاہتے ہوے بھی اس شخص کو دیکھا۔
وہ مجھے اپنی جانب متوجہ پا کر بے ہنگم مسکرا دیا۔
مجھے اس کی مسکراہٹ زہر لگی، منھ پھیر لیا۔ میرے چہرے پر پھیلتی ناگواری کو محسوس کیے بغیر وہ کہنے لگا:
’’یہ آپ نے اچھا کیا بھائی صاحب، آخر اخبار میں ہوتا کیا ہے۔ حکمرانوں کے جھوٹے وعدے، سیاستدانوں کے لمبے چوڑے بیانات، قتل، چوری، ڈکیتی اور اغوا کی خبریں۔ اللہ قسم میں اخبار دیکھتا ہوں تو خوف سے ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔‘‘
باہر زور کی بارش ہونے لگی اور ویگن میں جو بھی مسافر داخل ہوتا، پانی میں تر بتر ہوتا۔ میری دوسری جانب اب جو مسافر آیا، اس سے بھی پانی نچڑ رہا تھا۔ میرے ساتھ بیٹھنے لگا تو میں کھسک کر اس لحیم شحیم شخص کے ساتھ لگ گیا، جو میرے مطالعے کا شغل منقطع ہونے پر خُوشی کا اِظہار کر چکا تھا۔
اُس کے چربی چڑھے بدن سے گرمی کے ہُلے اُٹھ رہے تھے۔ مجھے اُس کے بدن سے جا لگنا خُوشگوار لگا۔
اب وہ کنڈیکٹر سے اُلجھ رہا تھا۔
’’ارے او چھوٹے اب بس بھی کر۔ سواریاں تو پوری ہو چکی ہیں۔ اب کیوں گھسیڑے جا رہے ہو ہر ایک کو اندر۔ اب اور نہ بٹھانا کسی کو۔‘‘
کنڈیکٹر جان بوجھ کر اُس کی جانب متوجہ نہ ہو رہا تھا۔
وہ جھنجھلا کر بولا۔
’’دیکھیں نا بھائی صاحب! یہاں تو ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے لوگوں میں بے حسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ کسی کو کسی کی پروا نہیں۔ سواریاں ٹھسی بیٹھی ہیں مگر ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ دیکھیں نا۔۔۔!‘‘
اتنا کہہ کر وہ رک گیا۔ میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔
’’کیا نام بتایا تھا آپ نے ؟‘‘
حالاں کہ نہ اُس نے پہلے مجھ سے نام پوچھا تھا، نہ ہی میں نے بتایا تھا۔ بہ ہر حال میں نے اپنا نام بتایا تو وہ کہنے لگا:
’’جی عاطف صاحب!آپ ان کی نظر میں عاطف نہیں، نہ ہی میں ان کی نظر میں ہاشم ہوں۔ ہم محض کرنسی نوٹ ہیں۔ اور یہ جو میرے اور آپ کے منھ پر کان، ناک اور ہونٹ ہیں نا!یہ فقط نوٹ پر چھپے نقش و نگار ہیں۔‘‘
میرے اندر سے بے اختیار ہنسی چھوٹی اور ہونٹوں پر پھیل گئی۔
اب وہ مجھے میرے نام سے پکار پکار کر گفتگو کر رہا تھا۔ میرے ہونٹ جو ابھی مسکراہٹ کے لیے کھلے تھے اب ’’ہاں ہوں‘‘ بھی کرنے لگے تھے۔
’’دیکھیں نا جی عاطف صاحب ! ایسا نفسانفسی کا دور چلا ہے کہ کسی کو کسی کی پروا نہیں۔ آپ ماڈل ٹاؤن میں ہی رہتے ہیں نا؟‘‘
یہ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا۔ اس طرح کے سوالات وہ وقفے وقفے سے، بغیر کسی تمہید کے میری جانب پھینک کر، مجھ سے میرے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کر چکا تھا۔ ان سوالات نے مجھے چوکنا ہو کر اُس کی گفتگو سننے پر مجبور کر دیا۔
اُسے جب یہ معلوم ہو گیا کہ میں ماڈل ٹاؤن میں ہی رہتا ہوں تو وہ کہنے لگا:
’’یہ عجب شہر ہے عاطف صاحب ! ادھر والے ادھر والے کی خبر نہیں۔ ادھر والا ادھر والے کو نہیں جانتا۔ آتے جاتے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں مگر نام تک نہیں پوچھتے۔ ابھی کل ہی کی لیں، میری بیوی درد کی شدّت سے تڑپ رہی تھی۔ میں پڑوسیوں میں سے کسی کو نہ جانتا تھا۔ ہفتہ بھر پہلے ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہوا تھا۔ ایک ہفتے میں بھلا میں کیسے جان پاتا؟ پریشانی سے تو میرے پسینے چھوٹ گئے۔ پہلے بھی آپریشن سے صبیح پیدا ہوا تھا۔ اب اللہ جانے کیا ہو؟ ادھر قریب کوئی نرسنگ ہوم یا ہسپتال بھی نہیں ہے۔ جو ہے بھی تو میں نہیں جانتا کہاں ہے ؟ اس پریشانی میں کئی دفعہ دروازے تک گیا اور واپس پلٹ آیا۔ ہر بار بیوی مجھے کچھ نہ کچھ کرنے کو کہتی مگر میں کیا کرتا؟ آخر کہنے لگی، یہ ہمارے پیچھے جو سمیرا رہتی ہے نا، اُس کا میاں ڈاکٹر ہے اُسے بلا لاؤ۔
’’یہ سننا تھا کہ میری جان میں جان آئی، عاطف صاحب! یہ جو عورتیں ہوتی ہیں نا! یہ ہم مردوں سے زیادہ سوشل ہوتی ہیں، جلد تعلقات بنا لیتی ہیں ایک دوسرے سے۔ ایک ہی ہفتے میں سمیرا سے اس کی دو ملاقاتیں ہو چکی تھیں اور اِن ملاقاتوں میں جو تعلقات بنے تھے، ان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کو میں گھر لے آیا۔ اُنہوں نے انجکشن لگایا۔ رات چین سے کٹی۔ ورنہ اللہ جانے آج صبح میں اُسے ہسپتال لے بھی جا سکتا یا۔ اللہ معاف کرے۔ یہ جو تعلقات اور میل جول ہے نا عاطف صاحب ! یہ بہت ضروری ہے۔ مگر عجب زمانہ آ لگا ہے جی کہ میلوں سفر کر جاتے ہیں مگر ساتھ بیٹھے مسافر سے ایک لفظ تک نہیں کہتے۔ گھر کی دیوار سے دیوار ملی ہوتی ہے مگر نہیں جانتے کہ ساتھ والا کرتا کیا ہے ؟ عجب بے گانگی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
مجھے یوں لگا۔ اب وہ براہ راست مجھ پر چوٹ کر رہا تھا۔ میں جھینپ کی مسکرانے لگا۔ اسی لمحے ویگن والے نے ماڈل ٹاؤن کا نعرہ مارا۔ ویگن رُکی۔ میں چند سواریوں کے بعد نیچے اُترا اور ایک طرف کھڑا ہو گیا کہ وہ بھی اُترے تو اس سے ہاتھ ملاؤں اور خدا حافظ کہوں۔
وہ بھاری بھرکم جثے کی وجہ سے سواریوں کو اِدھر اُدھر دھکیلتا باہر اترا۔ سانس درست کیا۔ اِسی اثنا میں، میں نے اپنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھایا اور خدا حافظ کا لفظ ابھی ہونٹوں سے نہ پھسلا تھا کہ وہ بائیں جانب مڑا، سرسری سی نگاہ میری جانب پھینکی اور جھولتا ہوا، میرے ہاتھ کو دیکھے بنا چل دیا۔
ٍ
مَرگ زار
وہ دھند میں ڈوبی ہوئی ایک صبح تھی۔
مری میں میری پوسٹنگ کو چند ہی روز گزرے تھے اور جتنی صبحیں میں نے اس وقت تک دیکھی تھیں سب ہی دھند میں لپٹی ہوئی تھیں۔
کلڈنہ روڈ پر ہمارا دفتر تھا۔ ابھی مجھے گھر نہیں ملا تھا لہذا میں روزانہ پنڈی سے یہاں آیا کرتا تھا گذشتہ ہفتے کے آخری تین روز تو مناظر اپنی طرف کھینچتے اور جی لبھاتے رہے مگر اگلے ہفتے کے پڑتے ہی دل پر عجب بے کلی کی دھند چھانے لگی تھی، بالکل ویسی دھند جو گذشتہ ہفتے مری کی صبحوں کو آغوش میں لے کرسہلاتی رہی تھی اور اب تیور بدل کراس کی چھاتی بھینچے جاتی تھی۔
وہ صبح میری چھاتی بھی بھینچ رہی تھی۔
میں ابھی دفتر پہنچا ہی تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی چیخ اٹھی۔ دوسری جانب سے ایک مانوس آواز لرز رہی تھی جو یک بہ یک سسکیوں میں ڈھل گئی۔ نواز کہہ رہا تھا تمہارا بھائی مصعب شہید ہو گیا۔ مزید ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ادا نہ ہو سکا کہ اس کی آواز سسکیوں میں ڈوب گئی تھی۔
شدید دُکھ میرے پورے وجود میں تیر گیا اور لفظ شہادت کی تکرار میرے اندر گونجنے لگی۔
’’دعا کرنا امی اللہ مجھے شہادت نصیب کرے‘‘
’’دعا کرنا بھائی میں خدا کی راہ میں شہید ہو جاؤں‘‘
’’باجی دعا کرنا اللہ مجھے شہدا کے قافلے میں شریک کرے‘‘
امی کے نام، بھائیوں کے نام اور بہن کے نام اس نے جتنے خطوط لکھے وہ بس اسی تکرار پر تمام ہوتے تھے۔ لفظ شہادت کے ساتھ جو تقدس وابستہ تھا اس کے باعث میں بغیر سوچے سمجھے آمین کہتا رہا مگر ہر بار یوں ہوتا تھا کہ یہ لفظ میرے ہونٹوں سے پھسلتے ہی مجھے بوکھلا دیتا پورے بدن میں سنسنی سی دوڑ جاتی اور میں بوکھلا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگ جاتا۔حتی کہ پچھتاوا مجھے جکڑ لیتا اور میں خلوص دل اور گہرے تاسف سے سوچتا کہ جسے میرے ہونٹوں سے لڑھکتی آمین کو سننا تھا وہ تو سن کر کوئی فیصلہ دے بھی چکا ہو گا۔
نواز میرا قریبی عزیز تھا اس تک جو خبر پہنچ چکی تھی وہ اسے مجھ تک منتقل کرنے میں دقت محسوس کر رہا تھا کہ سسکیاں لفظوں کو راہ ہی نہ دے رہی تھیں۔ کسی اور نے اس سے ٹیلی فون لے لیا اور پشاور کا ایک نمبر دیتے ہوے کہا آپ مزید تفصیلات اس پر معلوم کر سکتے ہیں۔میں نے پشاور والے نمبر پر فون کیا اور جوں ہی اپنا نام بتایا، دوسری طرف سے کہا گیا
’’آپ سے رابطہ کرتے کرتے بہت دیر ہو چکی ہے آپ کو مبارک ہو آپ کا اور ہمارا بھائی مصعب شہادت کی منزل پا گیا۔‘‘
مبارک۔۔۔ مبارک۔۔۔ مبارک، ایک گونج تھی جو سیدھی چھاتی پر پڑتی تھی اور ایک بوچھاڑ تھی کہ آنکھوں سے برس پڑی تھی۔
اطلاع دینے والی آواز جیسے چابی سے چل رہی تھی، بغیر کسی وقفے کے آتی چلی گئی۔
’’زندگی میں مصعب نے جس سعادت کی موت کی تمنا کی تھی وہ اسے نصیب ہوئی۔‘‘
میں تو پہلے ہی چپ تھا اب اُدھر کی چابی بھی ختم ہو گئی تھی، دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔ بس ایک میرے سینے کی دھمک تھی جو سارے میں دندناتی پھرتی تھی۔
میں نے چھاتی کو دبایا اور خود کو کچھ کہنے کے لیے مجتمع کیا، بہ مشکل کہا :
’’ بھائی کی لاش۔۔۔‘‘
ترت جواب آیا:
’’ جی لاش ہمارے پاس ہے، مگر۔۔۔‘‘
میں بے حوصلہ ہو گیا اور لگ بھگ چیخ کر کہا :
’’جو کچھ کہنا ہے ایک ہی دفعہ بک کیوں نہیں دیتے‘‘
چابی والی آواز رک رک کر آنے لگی جیسے جس کَل سے آواز آ ہی تھی اسے چلانے والی گراریاں پھنسنے لگی تھیں۔
وہ جو کچھ کہہ رہا تھا مجھے پوری طرح سمجھ نہیں آ رہا تھا تاہم جب اس نے یہ کہا کہ تابوت ہمارے پاس پڑا ہے تو اس کی آواز پھر سے صاف اور واضح ہو گئی تھی۔وہ کہہ رہا تھا:
’’کوئی ساڑھے پانچ بجے جلال آباد کے اگلے مورچوں پر شہادت کا واقعہ ہوا۔ ہمیں دو تین گھنٹے لاش اکٹھا کرنے میں لگ گئے اور۔۔۔‘‘
میں ایک دفعہ پھر چیخ رہا تھا:
’ ’ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ یہ لاش اکٹھا کرنے سے کیا مراد ہے تمہاری؟‘‘
وہ چپ ہو گیا، اتنا چپ جیسے ادھر دوسری جانب کوئی تھا ہی نہیں۔ حتی کہ مجھے ’’ہیلو، ہیلو‘‘ چلا کر اسے بولنے پر مجبور کرنا پڑا۔
’’دیکھیں ہمیں آپ کا تعاون درکار ہے۔‘‘
’’تعاون ؟‘‘
’’جی اور اجازت بھی‘‘
’’کس بات کی اجازت؟‘‘
’’ہمیں شہید بھائی کی وصیت پر عمل کرنا ہے، آپ تعاون کریں گے اور اجازت دیں گے تو ایسا ممکن ہو پائے گا۔ پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔‘‘
’’کیا وصیت کی تھی بھائی نے۔۔۔ اور۔۔۔ کب ؟‘‘
’’دیکھیں جی ظاہر ہے وصیت اس نے شہادت سے پہلے کی تھی اور وصیت کے مطابق اسے دوبارہ جلال آباد لے جانا ہے۔‘‘
’’دوبارہ جلال آباد۔۔۔ مگر کیوں ؟‘‘
’’ اس لیے کہ اس کی وصیت یہ تھی کہ شہید ہونے کی صورت میں اسے جلال آباد کے شہداء کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔‘‘
’’پھر لاش۔۔۔‘‘
’’خدارا زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں۔ ہمیں اجازت دیں کہ شہید کی وصیت پر عمل کر سکیں۔‘‘
میں بے بس ہوتا جا رہا تھا کہا :
’’میں کیسے اجازت دے سکتا ہوں۔۔۔ وہ۔۔۔ امی جان سے۔۔۔‘‘
’’جی ان سے رابطہ کی کو شش کی گئی مگر ان سے بات نہ ہو سکی، بس پیغام دیا جا سکا ہے۔‘‘
’’میں بڑبڑایا، میں کیسے اجازت۔۔۔ ؟‘‘
شاید میری بڑبڑاہٹ اس تک پہنچ گئی تھی تبھی تو اس نے فوراً کہا تھا:
’’جی مجبوری ہے ؟‘‘
’’گویا میں اجازت دوں نہ دوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘
میں روہانسا ہو کر چیخا۔ میری آواز پھٹ گئی تھی اور پھٹی آواز کے دندانے میرے حلقوم کو بھی پھاڑ گئے تھے۔
(نوٹ: اب مجھے کہانی روک کر یہاں وضاحت کر ہی دینی چاہیے کہ یہ کہانی میں انور کی اصرار پر لکھ رہا ہوں۔ انور آج کل موت کے کنول پر منڈلاتی کہانیوں کا اسیر ہے خود بھی زندگی کی بہ جائے موت کی کہانیاں لکھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مجھے بھی اپنے پاس موجود کسی بھی ایسی کہانی کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔اس کا خیال ہے کہ آج کل کی زندگی کی کہانیوں سے کہیں زیادہ جَوہر موت کی اِن کہانیوں میں ہوتا ہے۔ میں اس کی بات سے متفق نہیں تھا لہذا اس کہانی کو اسے سنانے کے با وصف لکھنے سے احتراز کرتا رہا اور جس قدر کتراتا رہا اتنا ہی اس کا اصرار بڑھتا گیا یہاں تک کہ اوپر کی سطور قلم زد ہو گئیں۔ یہاں پہنچ کر مجھے بہت سی وضاحتوں کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب کہانی اپنے زور سے بہہ رہی ہو تو وضاحتوں کو موخر کر دینا چاہیے۔لہذا کہانی کا سرا وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے یہ ٹوٹی تھی۔ اس کے لیے مجھے کہانی کے راوی کی کھال میں گھسنا ہے، وضاحتوں کے لیے مناسب مَقام تلاش کرتے ہی پھر حاضر ہو جاؤں گا۔
میں منت سماجت کرنے پر مجبور ہو گیا تھا گھگھیا گھگھیا کر کہنے لگا:
’’ مجھے بھائی کا چہرہ دیکھنا ہے‘‘
ادھر سے بالکل سپاٹ آواز میں کہا گیا:
’’آپ کے آتے آتے تو بہت دیر ہو جائے گی۔‘‘
میں ہتھے سے اُکھڑ گیا، پھٹی ہوئی آواز کو اور لیر لیر کرتے ہوے چلایا:
’’ تم جھوٹ بولتے ہو تمہارے پاس لاش ہے ہی نہیں ورنہ تم۔۔۔‘‘
میں نے اپنی بات قصداً نامکمل چھوڑ دی۔ سارے میں سناٹا چھا گیا۔ پورا دفتر میرے کمرے میں جمع ہو گیا تھا اور کوئی بھی کچھ نہ کہہ رہا تھا۔ ٹیلی فون کے دوسری طرف بھی کچھ دیر کا سکوت اتنا دبیز تھا کہ چھاتی پر بھاری سل کی طرح اپنا دباؤ بڑھا تا چلا گیا، حتی کہ مجھے گماں گزرنے لگا کہ میری پسلیاں چٹخ جائیں گی۔ دفعتاً ریسیور میں سے چابی بھری آواز نے آ کر بھاری سل سرکا دی :
’’ آپ آ جائیں، ۔۔۔۔۔۔ ابھی‘‘
میں نے لمبا سانس لیا اور فورا کہا :
’’جی میں آتا ہوں، میرا انتظار کیجئے۔۔۔ اور امی کو بھی ساتھ لیتا آؤں گا‘‘
’’نہیں اس طرح تو بہت دیر ہو جائے گی‘‘
اس نے رٹا رٹایا جملہ دہرا دیا اور ساتھ ہی تاکید بھی کر دی:
’’بس آپ خود ہی آ جائیے مگر دیر نہ کیجئے گا‘‘
اس خدشے کے پیش نظر کہ میں پھر سے نہ بول پڑوں اس نے حیات آباد کے ایک مکان کا نمبر مجھے دیا اور کہا:
’’ہم اس پتے پرآپ کا دو اڑھائی گھنٹے ہی انتظار کر پائیں گے‘‘
فون بند ہو گیا۔ ساتھ ہی میرا دل بھی جیسے دھڑکنا بند ہو گیا تھا۔ میں جہاں تھا، وہیں کھڑا رہا اور دوسری طرف سے کچھ سننے کے لیے سماعت کو پوری طرح حاضر رکھا، یہاں تک کہ لائن کٹ گئی۔ میں دونوں ہاتھوں کو میز پر رکھ کر کرسی پر یوں ڈھے گیا تھا جیسے بدن عین وسط سے کٹ گیا تھا۔ میں رو دینا چاہتا تھا، دھاڑیں مار مار کر، اپنی چھاتی پیٹ ڈالنا چاہتا تھا۔۔۔ عین وہاں سے جہاں دل پسلیوں میں گھونسے مار رہا تھا مگر میرے اردگرد سارا دفتر جمع ہو گیا تھا۔
(وضاحت نمبر ۱:
کہانی کے راوی نے اپنی ماں کو ساتھ لانے کی بات کی اور باپ کا تذکرہ نہیں کیا۔ ممکن ہے یہ بات کسی قاری کو الجھائے لہذا یہاں وضاحت ضروری ہو گئی ہے کہ راوی کا باپ پہلے ہی فوت ہو چکا تھا۔
وضاحت نمبر ۲:
راوی کے بھائی کی شہادت کا واقعہ ہمسایہ ملک افغانستان میں ہوا جب کہ حیات آباد اس کے اپنے ملک کے ایک شہر پشاور میں واقع ہے۔
وضاحت نمبر ۳:
اس خدشے کے پیش نظر کہ اسے ایک دہشت پسند کی کہانی نہ سمجھ لیا جائے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ یہ واقعہ قدرے پرانا ہے، اتنا پرانا کہ ابھی آزادی اور خود مختاری کی جدوجہد کرنے والے دہشت گرد قرار نہیں پائے تھے انہیں فلسطین میں فدائی، کشمیر، چیچنیا میں حریت پسند اور افغانستان میں مجاہدین کہا جاتا تھا اور ان کی حمایت اوربا قاعدہ سر پرستی ہماری قومی ترجیحات کا لازمی جزو تھا۔
وضاحت نمبر ۴:
ابھی دو میں سے ایک بڑی قوت یعنی روس کو ٹوٹنا تھا تاہم وہ آخری دموں پر تھا جب کہ ہمیں امداد دے کر اپنی جنگ کو ہمارے لیے جہاد بنانے والے امریکہ نے ہمیں یقین دلایا ہوا تھا کہ پڑوسی ملک میں ہونے والی جدو جہد دراصل ہمارے اپنے ملک کی بقا کے لیے جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔
وضاحت نمبر ۵:
راوی کا خاندان ایمان اور زمین دونوں سے جڑا ہوا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب یہ خاندان ایک قافلے کے ساتھ یہاں آ رہا تھا تو راوی کا تایا بلوائیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا جبکہ اس کی ایک جوان پھوپھی اٹھا لی گئی تھی۔ اس خاندان نے اس قربانی کو اللہ کی منشا جان کر قبول کر لیا تھا۔
وضاحت نمبر ۶:
راوی خود تقسیم کے معاملے کو ایمان سے زیادہ معاشی آزادی کی جدوجہد قرار دیتا تھا۔ راوی کا باپ اپنی زندگی میں اپنے اس بڑے بیٹے کی ان باتوں سے بہت نالاں رہتا تھا۔وہ اس پر بہت برہم ہوتا اور کہتا کہ اس طرح تو تقسیم میں جان قربان کرنے والے شہید کہلائے جا سکیں گے نہ اٹھا لی جانے والی عورتیں اپنے وجود کے گرد تقدس کا ہالہ بنا کر نئے ملک میں آ کر بسنے والوں کے لیے محترم ہو پائیں گی۔ مگر باپ کے مرنے کے بعد راوی کو یوں محسوس ہوا جیسے ایمان اور زمین سے جڑنے والی ساری نسل مر مرا چکی تھی۔
وضاحت نمبر ۷:
چوں کہ وہ شروع ہی سے اپنے خاندان سے الگ سوچتا تھا اور اپنے پورے خاندان کو سادہ فہم اور جذباتی سمجھتا تھا لہذا اس شہادت پر بھی اس کا رد عمل ایک ایسے آدمی کا تھا جو اس ساری جنگ کو ایمان اور زمین سے نہیں جوڑتا۔ وہ صرف اتنا ہی سوچ پایا تھا کہ مارا جانے والا اس کا اپنا بھائی تھا، وہ بھائی، جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔
وضاحت نمبر ۸:
راوی ماں کے ساتھ بھی بہت محبت کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ بیٹے کی لاش ماں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اگر چہ وہ اس کو ضروری نہیں سمجھتا تھا کہ اس وصیت پر عمل بھی کیا جائے جو اپنی ہی دھن میں مگن اس کا بھائی کر گیا تھا اور اگر اس پر عمل کرنا بہت ضروری ہے تب بھی ماں اس کی لاش کو خود جلال آباد کے لیے رخصت کرے مگر اس کے لیے اسے اپنے قصبے جانا پڑتا جو ایک سو پچھتر کلو میٹر دوسری سمت واقع تھا۔ یوں دیا گیا وقت وہاں پہنچنے میں ہی صرف ہو جا نے کا احتمال تھا اور اسے خدشہ تھا کہ وہ انتظار کئے بغیر بھائی کی لاش واپس جلال آباد لے جائیں گے۔
میں گاڑی جتنی تیزی سے مری کے پہاڑوں سے اتار سکتا، اُتار لی۔اسلام آباد، ترنول، ٹیکسلا، حسن ابدال، اٹک کا پل، نوشہرہ غرض سب کو روندتا آگے بڑھتا رہا۔ مجھے خد شہ تھا کہ میرے پہنچنے سے پہلے کہیں وہ بھائی کی لاش واپس جلال آباد نہ لے جائیں۔دو تین مَقامات پر گاڑی بے قابو ہو کر ٹکراتے ٹکراتے بچی تاہم میں کسی بھی صورت دیئے گئے وقت کے اندر اندر پہنچ جانا چاہتا تھا۔
اور میں واقعی اتنے کم وقت میں وہاں پہنچ گیا تھا۔
وہ میرا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے یوں جیسے میں نے بہت دیر کر دی تھی۔
وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے ان سب کا عجب طرح کا سفاک استقلال میرے احساسات کی شدت کو پچھاڑ رہا تھا۔
وہ باری باری مجھ سے بغل گیر ہو رہے تھے اور مجھے بھائی کی شہادت کی مبارک باد دہے تھے
میں بھائی کو دیکھنا چاہتا تھا اور اس کی لاش سے لپٹ کر رونا چاہتا تھا۔زور زور سے منھ پھاڑ کر اور سینہ پیٹ پیٹ کر۔ میرا اندر دکھ سے ابل رہا تھا مگر وہ سب بھیگی داڑھیوں والے مجھے مبارکباد دے ہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں خُوش نصیب تھا کہ میں ایک شہید کا بھائی تھا۔
وہ ختم ہونے میں ہی نہ آتے تھے مجھے لگا میری چھاتی پھٹ گئی تھی اور آنکھیں پھوٹ گئی تھیں، سماعتیں بند ہو گئی تھیں اور میں ان میں سے کسی کی بانہوں میں جھول گیا تھا۔
میں فوری طور پر اندازہ نہیں کر پایا کہ مجھے کتنی دیر بعد ہوش آیا تھا تاہم جب ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک نیم تاریک کمرے میں قالین پر پڑا پایا۔ مجھے یہ جان لینے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ میں کہاں تھا۔ وہ کمرا گلاب کی خوشبو سے کناروں تک بھرا ہوا تھا۔ بہت جلد مجھے یہ باور ہو گیا کہ لاش کہیں پاس ہی تھی۔ مجھے ہوش میں آتے دیکھتے ہی ان میں سے کئی ایک مجھ پر جھک گئے تھے اور یوں میں آزادی سے گردن گھما کر کمرے کا جائزہ نہ لے سکتا تھا۔ ان میں سے ایک، جو کچھ زیادہ ہی گٹھے ہوے جسم کا مالک تھا، دوسروں کو پیچھے دھکیلتا میرے چہرے پر جھک گیا اور کہا کہ مجھے اٹھ کر وضو کر لینا چاہییے کہ پہلے نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ میں ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ بے قراری سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ کمرا خالی تھا۔۔۔ بالکل خالی بھی نہ تھا۔۔۔ اس میں بچھے اس ایرانی قالین پر وہ سب ننگے قدموں سے کھڑے تھے، جس پر کچھ دیر پہلے میں لیٹا پڑا تھا۔ سارے میں ایک بوجھل خُوشبو پھیلی ہوئی تھی جو نتھنوں میں گھسے آتی تھی۔ میں نے اپنے پاس کھڑے ہونے والوں کی ٹانگوں کے بیچ سے دائیں دیوار کے پاس پڑا ایک تابوت بھی دیکھ لیا جو گلاب کی پتیوں سے لدا ہوا تھا۔
دل میری چھاتی کے شکنجے سے نکلا اور حلق کی سمت اچھلا۔ میں تابوت کے پاس جانا چاہتا تھا اور اس کا تختہ اکھیڑ کر اندر پڑی لاش کی چھاتی سے لگ جانا چاہتا تھا مگر ان۔۔۔
( نوٹ: یہاں پہنچ کر راوی نفرت یا پھر غصے کے سبب خاموش ہو جاتا ہے لہذا کچھ اندازے لگانا پڑتے ہیں :
اندازہ نمبر ۱ :
کہانی کے اس مرحلے پر راوی کی عقل ماری گئی ہو گی تب ہی تو اس نے بے قابو ہو کر گالی بک دینا چاہی تاہم وہ تہذیب یافتہ شخص تھا لہذا کسی اور احساس یا پھر اپنی آپ کو ناحق برہم پاتے پا کر ندامت سے دوچار ہوا اور گالی کو ہونٹوں میں دبا لیا ہو گا۔
اندازہ نمبر ۲ :
راوی نے یہ نہیں بتایا کہ ان سب کی داڑھیاں کیوں گیلی تھیں لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا سبب ان کی آنسو نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ سب یقیناً وضو کر کے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ انہیں بارڈر پار جانا تھا وہ روشنی میں سرحد پار کرنا چاہتے تھے اس کے پہنچنے اور جنازے میں شامل ہونے کے بعد ہی لاش کو واپس لے جایا جا سکتا تھا مگر راوی اتنے کمزور ایمان اور بودے دل والا نکلا کہ اس عظیم وقوعے کو صبر و استقامت سے برداشت کرنے اور وقار سے اپنے شہید بھائی کو رخصت کرنے کی بہ جائے بے ہوش ہو گیا تھا۔
اندازہ نمبر۳ :
وہ غالباً روشنی میں اس لیے سرحد تک پہنچ جانا چاہتے تھے کہ ادھر سے انہیں پوری محافظت دینے والوں کا یہی حکم ہو گا۔ جب کہ رات کو کچھ اور خطروں کے جاگ اٹھنے کا احتمال بھی ہو گا۔
اندازہ نمبر۴:
ہوش میں آنے کے بعد بھی انہیں اسے وضو کرنے اور جنازہ پڑھنے تک شہید کی لاش سے قدرے فاصلے پر رکھنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔
ان اندازوں کے بعد کہانی راوی کے بیان سے جڑ جاتی ہے۔ )
خدا خدا کر کے نماز جنازہ ہو چکی تو میں بھاگ کر تابوت تک پہنچا میں اتنی تیزی سے تابوت کی طرف لپکا تھا کہ اوپر کا تختہ الٹنے تک وہ مجھ تک نہ پہنچ پائے تھے۔
تختہ الٹ دینے کے بعد وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔
وہ سب جو مجھے قدم قدم پر روک رہے تھے، وہ بھی نہیں۔
میں جو تابوت پر جھکا ہوا تھا، میں بھی نہیں۔
وہ لاش جسے تابوت میں ہونا چاہیے تھا حتی کہ وہ بھی نہیں۔
میں نے کفن کی اس جانب کو ٹٹولا جہاں سر ہونا چاہیے تھا۔۔۔ وہاں سر نہیں تھا۔ میں نے کفن الٹ دیا وہاں سرخ سرخ بوٹیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ میں نے وہاں ہاتھ سرکایا جہاں کندھے ہوتے ہیں وہاں کندھے بھی نہ تھے چھاتی بھی گوشت کا ڈھیر تھی خُون کی پھٹکیوں اور مہک میں بسا ہوا گوشت کا ڈھیر۔
مجھے گمان گزرا ایک لمحے کے لیے کہ وہ میرے بھائی لاشہ نہیں تھا اس سے پہلے کہ میں انہیں جھوٹا کہہ کر ان پر چڑھ دوڑتا میری انگلیاں ایک جگہ سلامت جلد کا لمس پا کر رک گئیں۔ میں نے وہاں سے کفن الٹ ڈالا لہو میں ڈوبا بازو میرے سامنے تھا۔ میں نے پہچان لیا وہ سب جھوٹے نہیں تھے، یہ بازو میرے بھائی ہی کا تھا۔ اس کی دو انگلیاں اندر کو مڑی ہوئی انگوٹھے کو چھو رہی تھیں جبکہ دوسری دو اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں، جیسے کوئی تتلی اڑان بھر رہی ہو۔ میں نے بازو کو وارفتگی میں اٹھا کر بو سہ دینا چاہا تو وہ کہنی سے کٹا بازو میرے ہاتھوں میں جھولنے لگا یوں کہ میں بوسہ دینا بھول گیا اور ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔وہ مجھے سنبھال رہے تھے اور میں روتے روتے ایک بار پھر بے ہوش ہو گیا تھا۔
( نوٹ : راوی یہاں پہنچ کر چپ ہو جاتا ہے اور کچھ وقفے کے بعد کہانی سے بر گشتہ باتیں کرنے لگتا ہے یوں، جیسے وہ سننے والوں کو نظر انداز کر کے خود سے کلام کر رہا ہو۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں کہانی سے جوڑنے میں مجھے دقت ہو رہی ہے لہذا قوسین کے بعد اس نوٹ کی ذیل میں ان کو صرف اشاروں کی صورت دے رہا ہوں تاکہ راوی کی ذہنی کیفیت کا دُرُست دُرُست اندازہ لگایا جا سکے۔
پہلی بر گشتہ بات کا اشارہ :
راوی نے مٹھیاں بھینچیں اور کہا اب سارے بھیگی داڑھیوں والے اور خود کو ملت واحد کہنے والے بھیگی بلیاں بنے ہوے ہیں۔
دوسری بر گشتہ بات کا اشارہ :
اب کون ہے جو اس زمین پر ٹکنا چاہتا ہے۔ ایسی زمین پر جہاں قربانی حماقت ہو گئی ہے، نیکی بے وقوفی اور ایمان سے وابستگی تنگ نظری۔ ایسا کہتے ہوے راوی کے ہونٹوں سے سسکی نکلی تھی (جب راوی کی سسکی نکلی تو میرا گمان ہے کہ راوی نے اپنے اس تایا کو یاد کیا ہو گا جو ہجرت کرتے ہوے مارا گیا تھا اور اس پھوپھی کی بابت بھی سوچا ہو گا جو اٹھا لی گئی تھی۔
تیسری بر گشتہ بات کا اشارہ :
راوی نے ایک پرانا اخبار جیب سے نکالا تھا جس میں اس ہیرو کی تصویر چھپی ہوئی تھی جو اب ہیرو نہیں رہا تھا اور قہقہہ لگاتے ہوے الفاظ چبا چبا کر کہا تھا وہ جس کی ہم جوتیاں چاٹتے ہیں وہ جب چاہتا ہے ہمارے ہاتھوں سے ہمارے ہیرو کو زیرو بناتا ہے جب چاہتا زیرو کو ہیرو بنوا لیتا ہے۔ہم اپنے پیاروں کو خود رسوا کرتے ہیں اور اپنے غداروں کو خود کندھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد راوی کئی روز کے لیے خاموش ہو جاتا ہے۔اس کی خاموشی بھی کہانی سے برگشتہ باتوں پر عین محرم کی دسویں کو ٹوٹی تھی۔
چوتھی برگشتہ بات کا اشارہ:
راوی یہ بات بتاتے ہوے خود رونے لگا تھا کہ ماں اب مصعب کو یاد کر کر کے روتی تھی اور زور زور سے بین کرتے ہوے انہیں بھی یاد کرتی تھی جن سے کوفے والوں نے غداری کی تھی اور جنہیں کربلا میں شہید ہونا پڑا تھا۔ وہ ان مقدس ہستیوں کو روتے روتے تقسیم کے دوران اپنے بچھڑے ہوے پیاروں کو یاد کرنے لگتی تھی اور وہ سارے آنسو بہا دینا چاہتی تھی جو بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر اس نے روک لیے تھے
۔۔۔۔۔
( پیارے انور ایک نوٹ تمہارے لیے :یہاں موت کی کہانی ختم ہونے کے قریب ہے۔ وہ کہانی جو تم لکھوانا چاہتے تھے اس کہانی کے اندر ہی کہیں تحلیل ہو گئی ہے اب چاہے کوئی ماں کی کوکھ سے جنم لیتے لیتے سانسیں توڑ بیٹھے، اپنے بستر پر طویل عمر پا کر بے بسی کی موت مرے، سڑک پر چلتے چلتے کسی ٹرک تلے کچلا جائے یا کسی اعلی آدرش کے لیے جان دے دے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ بعد میں سب موتوں کے معنی بدل جانے ہوتے ہیں۔ اب تو کہانیوں کا وہ متن بھی بے وفا ہو گیا ہے، جسے تم نے یا میں نے لکھا ہوتا ہے کہ پڑھنے والا اس پر زیادہ استحاق رکھنے لگا ہے۔ بالکل اسی طرح، جس طرح ہم جس کے تصرف میں ہیں، اکیلے اکیلے یا ایک گلے کی صورت میں، وہ جس طرف چاہتا ہے ہماری زندگیوں کو ہانک لے جاتا ہے اور جب چاہتا ہے ہماری شہادتوں کو تہمت بنا دیتا ہے۔ لو میں بھی بہک گیا ہوں راوی اِدھر ہی کو آ رہا ہے لہذا میں اپنی بات موقوف کرتا ہوں راوی کے آخری جملے سن لو کہ کہانی تکمیل کو پہنچے
۔۔۔۔۔
ماں اس وقت بالکل نہ روئی تھی جب میں گھر پہنچا تھا، ہاں ماسی جو پاس ہی بیٹھی تھی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا اٹھا کر بین کرنے لگی تھی۔ ماں نے ماسی کے اٹھے ہوے ہاتھ جھٹک کر گرا دیئے اور اسے رونے سے منع کر تے ہوے کہا تھا کہ شہیدوں پر رویا نہیں کرتے۔ میں ماں کے حوصلے پر دنگ اور اس کی سادگی پر برہم تھا۔۔۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ تب ایمان کے معاملے میں وہ اندر سے اتنی مضبوط تھی کہ میں اندر سے کافر ہوتے ہوے بھی اسے ٹوک نہ پاتا تھا۔۔۔ مگر یہ تو تب کی بات ہے جب ایمان اور زمین کی کوئی وقعت تھی اب تو ماں روتی ہے اور رلاتی بھی ہے۔ اتنا زیادہ، اور اتنے تسلسل سے، کہ میں بھی رونے لگتا ہوں اور بچھڑے ہوؤں کو یاد کر نے بیٹھ جاتا ہوں۔ میں بچھڑے ہوؤں کو اتنا یاد کرتا ہوں کہ اندر کا کافر دل پسیج کر ایمان اور زمین سے وابستہ ان جذبوں کو اپنے ہی اندر سے ڈھونڈ نکالتا ہے، جو وہاں کبھی تھے ہی نہیں۔
پارہ دوز
(تین پارچے :ایک کہانی)
پہلا پارچہ
اُس روز تو میری آنکھیں باہر کو اُبل رہی تھیں۔
بے خوابی کا عارضہ میرے لیے نیا نہ تھا تاہم پہلے میں مُسکّن ادویات سے اس پر قابو پا لیا کرتا تھا، یوں نہیں ہوتا تھا کہ ادل بدل کر دوائیں لینے سے بھی افاقہ نہ ہو۔مگر اس بار ایسا نہ ہوا تھا۔ دونوں کنپٹیوں کے نواح سے درد برآمد ہو کر پورے بدن پر شب خُون مارتا تھا اور میرے عصبی ریشے بری طرح ٹوٹنے لگتے تھے۔جب سارے ٹسٹ ہو چکے اور کہیں بھی کوئی خرابی نہ نکلی تو مجھے تشویش کے دورے پڑنے لگے میں اس ٹوٹ پھوٹ سے نڈھال تھا مگر یہ درد کیوں تھا، اس کی تشخیص ہی نہ ہو پا رہی تھی۔ اور یہی بات مجھے دہلائے دیتی تھی۔ بے پناہ تشویش کے ایسے ہی دورانیے میں میرا دھیان آنکھوں کی دُکھن کی جانب ہو گیا۔ بل کہ مجھے یوں کہنا چاہیے کہ جب سارا درد آنکھوں میں برچھی کی طرح کھُب گیا تو دھیان کے وہاں ارتکاز کے علاوہ میرے پاس کوئی اور صورت تھی ہی نہیں۔
بدن کا درد تو کسی کو نظر نہ آیا تھا مگر میری ان آنکھوں کو تو دیکھا جا سکتا تھا جو انگاروں کی طرح دہک رہیں تھیں۔
نافی کا خیال تھا :اس میں تشویش کا کوئی پہلو نہیں تھا۔
یہ بات اس نے میری آنکھوں میں دیکھے بغیر ہی کہہ دی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی مصنوعی پلکیں چپکا رہی تھی۔ مجھے اس کے روّیے پر طیش آ رہا تھا تاہم میں نہیں جانتا تھا کہ میں اس پر اپنے غصے کا اظہار کیسے کروں۔ ہم دونوں کے درمیان رشتہ کچھ ایسی نہج پر پہنچ چکا تھا کہ ہم ایک دوسرے پر غصہ کرنا لگ بھگ ہی بھول گئے تھے۔
میں نے ہمت جمع کی اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا، کچھ یوں کہ اس کی نظر آئینے کی بہ جائے میری سرخ بیرا بنی، ابلتی ہوئی آنکھوں پر پڑ جائے۔
نافی نے کندھے سکیڑ کر پہلو بدلتے ہوے اپنی داہنی کہنی کو قدرے باہر کو نکلی ہوئی میری توند کے بائیں جانب ٹکا دیا، یوں کہ آئینہ دیکھتی اس کی نیلی آنکھیں میری گردن کے ایک طرف سے بغیر کسی رکاوٹ کے دیکھتی رہیں۔ میں نے بائیں کو مزید کھسک کر درمیان میں حائل ہونا چاہا تو وہ میرے ارادے کو بھانپ گئی اور ’’اوں ہونہہ‘‘ کہتے ہوے میرے پیٹ پر ٹکی کہنی پر دائیں جانب دباؤ بڑھا دیا۔
میں مجبوراً ایک طرف کھسک گیا تاہم ہمت نہ ہاری اور لگ بھگ گھگھیا کر کہا ’’نافی دیکھو نا ڈارلنگ میری آنکھیں درد سے پھٹ رہیں ہیں۔‘‘
مجھے اپنی آواز اجنبی لگی تھی، اتنی کہ میں اَدبَدا کر آئینے میں خود کو دیکھنے لگا تھا۔ ایک ثانیے کے لیے، جی محض ایک ثانئے کے لیے۔ مجھے یوں لگا تھا جیسے میری آنکھیں سرخ نہیں تھیں، مگر دوسرے ہی لمحے سارے آئینے میں سرخ لوتھڑا بنی آنکھیں اُگ آئی تھیں۔ میں نے ادھر سے دھیان ہٹا کر ساری توجہ نافی پر مرتکز کر دی کہ شاید یوں وہ آئینے کے واسطے سے میری آنکھوں پر نظر ڈال لے۔ میں ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا مگر وہ اپنے آپ میں بری طرح مگن تھی کچھ اس محویت سے کہ اس سلسلے کو روک کر میری طرف دیکھنے کی گنجائش نکلتی ہی نہ تھی۔ تاہم ہمارے حسی نظام کی تربیت اس نہج پر ہو چکی تھی کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھے بغیر سہولت سے ضروری فیصلے کر سکتے تھے۔۔۔ اور اس نے فیصلہ کیا تھا کہ مجھے وہاں کھڑا رہنے کی بہ جائے اپنے لیے کوئی اور مصروفیت ڈھونڈنی چاہیے :
’’اوہ موظی ڈیئر، میں نے دیکھ لی ہیں نا تمہاری آنکھیں‘‘۔
وہ جھوٹ بول رہی تھی یا ممکن ہے اس نے میرا چہرہ دیکھے بغیر ہی میری آنکھیں دیکھ لی تھیں تاہم میں دیکھ رہا تھا ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نگاہ اس کے اپنے چہرے سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس کے جملے پر ایک بار پھر غور کرنا پڑا، اور جب میں اسے خوب جانچ چکا تو اس کا مطلب بھی سمجھ آ گیا تھا۔
وہ ہمیشہ سے نچلے ہونٹ کو قدرے ڈھلا چھوڑ کر مجھے معظم کی بہ جائے موظی کہتی چلی آ رہی تھی، حتی کہ ایسے کہنا اس کی عادت ہو گئی۔ تاہم ایک زمانہ تھا کہ موظی کہتے ہوے اس کا نچلا ہونٹ رسیلا ہو جایا کرتا تھا۔ جب پہلی بار اس نے مجھے موظی کہا تھا تو میں بہت ہنسا تھا۔ میں نے سیلاب جیسی ہنسی تھمتے ہی اس کے رسیلے ہونٹوں کے صدقے اس کا موظی کہنا قبول کر لیا تھا۔ اور جب اس نے پوچھا تھا کہ میں اسے نفیسہ کی بہ جائے محبت سے کیا کہا کروں گا تو مجھے کچھ نہ سوجھا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے نام کو بدلنے کی مجھے طلب ہی نہ ہو رہی تھی۔ میں اسے نفیسہ کہتا تھا تو اس کا پورا وجود انتہائی نفاست ہے میرے سامنے ایستادہ ہو جاتا تھا لہذا میں نے کہہ دیا کہ محبت مجھے نفیسہ کہنے سے باز نہیں رکھے گی۔ مگر اس نے ضد کر کے اپنے لیے نافی سے پکارا جانا تجویز کر لیا تھا۔
نافی جہاں تھی وہاں اب میرا ٹکنا مشکل ہو رہا تھا مگر یوں تھا کہ میں اس کی توجہ کے لیے مرے جاتا تھا۔ اس طرح کا مرنا تو میں ایک مُدّت سے بھول چکا تھا۔۔۔ مگر آہ میری سرخ بوٹی کی سی آنکھیں۔۔۔ میں وہاں سے کیسے ٹل سکتا تھا کہ ابھی تک اس نے ان میں جھانکا ہی نہیں تھا۔
جب وہ آئنے کے اوپر جھک کر نفاست سے بنی اپنی بھنووں کو دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے باری باری سہلا کر جائزہ لے رہی تھی تو میری دُکھتی ہوئی آنکھیں آئینے ہی سے اس کے چکنے شانے سے پھسلتی ڈیپ وی میں گر گئی تھیں۔ روئی کے گالے جیسی نرمی ان کے لیے مرہم ہو گئی تھی۔ میں اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے وہاں، اُس گداز میں بھول سکتا تھا مگر عین اسی لمحے نرم اور ملائم جلد کٹتی چلی گئی، تیز نشتر کی نوک سے، بالکل ایک سیدھ میں۔ اور جب وہ پوری طرح کٹ گئی تو لہو شراٹے بھر کر بہنے لگا، اتنا کہ میری آنکھیں اس لہو میں ڈوب گئی تھیں۔
دوسرا پارچہ
میرے لیے وہ پہلا آپریشن نہیں تھا۔ اس عورت کی باری آنے سے پہلے اس جیسے لگ بھگ سات سو بائیس مریضوں کو چھ سال میں آپریٹ کر چکا تھا۔ ایک ایک پیشنٹ کا ریکارڈ میرے پاس تھا۔ اگر میں اس عرصے میں کام یاب نہ ہونے والے آپریشنز کی شرح نکالنا چا ہوں تو وہ محض ایک اشاریہ ایک صفر آٹھ فی صد بنتی ہے۔ اس عرصے میں آپریشن کے تختے پر یا پوسٹ آپریشن ٹریٹمنٹ کے دوران مرنے والوں میں سے پانچ کی عمر اٹھاون سے اوپر تھی دو لڑکے نو اور گیارہ برس کے تھے جبکہ ایک عورت عین اس عمر میں آپریٹ ہوئی تھی جس میں اب نافی تھی۔
جس کے لہو سے میری آنکھیں بھیگی تھیں وہ مرنے والی یہ عورت نہیں تھی۔ نہ یہ نہ باقی مرنے والی عورتیں۔وہ عورت تو زندگی کے ایسے دورانئے میں آپریشن تھیٹر میں لائی گئی تھی جو طویل تر ہو گیا تھا، اتنا کہ کاٹتے رہنے سے بھی کٹنے میں نہ آتا تھا۔
سات سو بائیس مریضوں کے آپریشن کے چھ برس کتنی جلدی بیت گئے تھے۔ میرا اپنا دل اُس سارے عرصے میں عین پسلیوں کے بیچ نشتر چلاتے ہوے ایک بار بھی نہیں کانپا تھا۔ جنہیں زندگی ملنا تھی، انہیں میرے نشتر کی دھار سے ملی اور جن کی سانسوں کا کوٹہ ختم ہو گیا تھا انہیں میرا خلوص اور انتھک محنت بھی زندگی نہ دلا سکا تھا۔ تاہم جب میری مہارت اور قابلیت کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تو ڈاکٹر میر باز سے ملاقات ہو گئی۔
ڈاکٹر میر باز سے میں پہلے بھی مل چکا تھا غالباً پہلی بار ان دنوں جب وہ وفاقی علاقے میں اپنا ہسپتال بنانے کا منصوبہ بنا رہا تھا ان دنوں وہ اس سرکاری ہسپتال کے سربراہ سے ملنے آیا تھا جس میں، میں پریکٹس کرتا تھا۔ اسے بہت سے امور میں میرے باس کی مدد چاہیے تھی، یہ مدد اسے ملتی رہی ایک شاندار ہسپتال اس کے دیکھتے ہی دیکھتے بن گیا۔ جتنے سرکاری ادارے اس کے پینل پر آ سکتے تھے وہ لائے گئے اور اس میں بھی میرے باس کی مدد شامل تھی۔تاہم میں اسے دیکھتا تھا تو مجھے ابکائی آنے لگتی اور جب اس کے ہسپتال کے پاس سے گزرنے کا موقع نکلتا تو مرعوبیت مجھ پر چڑھ دوڑتی تھی۔ شاید یہی وہ اسباب تھے کہ میں اس کے قریب نہ ہو پا رہا تھا لہذا اپنے کام میں مگن ہو گیا حتی کہ وہ دن آ گیا کہ جس کی شام کو ہمیں کرائے کا مکان بدلنا تھا اور نفیسہ نے، جو ابھی نافی نہیں بنی تھی، ہاتھ ملتے ہوے کہا تھا کہ ہم کب تک کرائے کے مکان بدلتے رہے گے۔ یہ بات نفیسہ نے عین اس وقت کہی تھی جب اس نے سامان گھسیٹتے ہوے میری پشت سے اپنی پشت کو ٹکرا لیا تھا۔ اس ٹکرانے میں کچھ ایسا لطف تھا کہ وہ یونہی سی ایک بات سمجھ کر اپنے اس جملے کو بھول گئی تھی جس کی تلخی میرے اندر اتر گئی تھی۔ جب وہ مزے سے اور اپنے آپ سے بے پروا ہو کر ہنس رہی تھی تو اس کی آواز کے ہلکوروں میں ایک میٹھا سا بھید چھلکنے لگا تھا۔ اس بھید میں اس کا بدن ڈوب اُبھر رہا تھا۔ میں نے اُسے نظر بھر کر دیکھا تھا اور ساری تلخی بھول کران ہلکوروں میں خود بھی بہہ گیا تھا۔
آخری پارچہ
اسے سننا، اس کی آواز کے ہلکوروں میں بہہ جانا یا پھر اُس کے بدن کو یوں دیکھنا کہ لطف اور لذت ساری دُکھن سمیٹ لے ایک مُدّت کے بعد ہوا تھا۔ اتنی مُدّت کے بعد کہ اب یہ اندازہ کرنے کے لیے، کہ آخری بار ایسا کب ہوا تھا، مجھے ذہن پر بہت زور دینا پڑے گا۔
ذہن پر غیر معمولی زود دیئے بغیر یہ بات میں یقین سے کہہ سکتا تھا کہ یہ واقعہ سرکاری ہسپتال سے الگ ہونے اور ڈاکٹر میر باز کے نئے ہسپتال میں میرے پہلے آپریشن سے بھی پہلے کا تھا۔ جی، اس پہلے آپریشن کا جس نے ابھی ابھی میری آنکھیں خُون میں نہلا دی تھی۔ بعد کے برسوں کی تعداد اور یادیں میں نے قصداً سینت سینت کر نہیں رکھی تھیں کہ انہیں سوچوں تو مجھے خود پر ویسی ہی اُبکائی آنے لگتی جیسی کبھی ڈاکٹر میر باز خان کو دیکھ کر آتی تھی۔
تاہم اس وقت میرا مسئلہ ابکائی نہیں آنکھیں تھیں جو درد سے پھٹی جا رہی تھیں۔
’’ دیکھو موظی ڈیئر بہتر یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے سو جاؤ، خود ہی آرام آ جائے گا‘‘
اس نے اس بار بھی میری آنکھوں میں دیکھے بغیر یہ کہا تھا۔ جملے کی ساخت میں بہ ظاہر محبت اور تشویش تھی مگر آواز جس مخرج سے برامد ہوئی تھی اس نے اسے سپاٹ اور سارے ممکنہ جذبوں سے عاری بنا دیا تھا۔
اس طرح بولنا اور اسی طرح کی آوازوں کو سننا اور ان کے مطابق اپنے آپ کو حرکت دینا اب ہماری زندگی کا معمول تھا۔ لہذا میرے لیے وہاں کھڑے رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔
میں گذشتہ طویل عرصے سے مختلف دوائیں پھانک رہا تھا اور کچھ ہی دیر پہلے اپنی ابلتی آنکھوں میں قطرے بھی ڈال لیے تھے۔مگر وہ درد جس نے میری آنکھوں کو گروی رکھا ہوا تھا۔ ٹلتا ہی نہ تھا۔اور نافی کا کہنا تھا کہ مجھے آرام کرنا چاہیے۔
بیڈ پر بیٹھتے ہی میں نے زور سے خود کو پیچھے گرا دیا۔ خود کو یوں گرانے سے میں ایسی آواز پیدا کرنا چاہتا تھا جو نافی کو متوجہ کر لے مگر فومی گدے کی نرماہٹ پر میرا بدن جھول کر رہ گیا۔ اپنی اس کوشش کے بعد اس کو دیکھا۔ وہ پہلے کی طرح آئینے میں مگن تھی تاہم میں نے محسوس کیا تھا کہ جب تک میں وہاں کھڑا رہا، وہ بھی کھڑی رہی تھی، یوں جیسے آئینہ اس کے وجود سے کھڑا تھا۔ مگر اب وہ بیٹھ چکی تھی اور آئینہ اسے جھُک جھُک کر جھانک رہا تھا۔
دودھ جیسی گوری گردن تک سلیقے سے ترشے ہوے بالوں کو چھونے کے لیے جب نافی دونوں کہنیاں باہر کو اُٹھا کر ہاتھ پیچھے کو لے آئی تو ایک بار پھر میں اپنی اُبلتی آنکھوں کو بھول گیا۔ اس نے ہتھیلیوں کا رخ اپنے گالوں کی طرف کیا دونوں ہاتھوں کی چھوٹی انگلیوں کو اوپر اٹھایا اور پھر انہیں لچکا کر بالوں کے نیچے گردن پر رگڑتے ہوے باہم ملا لیا۔ اس کے سارے بال ان ننھّی مُنّی انگلیوں کے اوپر جمع ہوے گئے تھے۔ پھر اس نے یکدم ہاتھوں کو کچھ یوں جنبش دی کہ بالوں کے نیچے سے نکل آنے والی انگلیوں سمیت دونوں ہاتھوں کی آخری تین تین انگلیاں تتلی کے پروں کی طرح ہوا میں لہرا گئیں، کچھ اس ادا سے کہ باقی کی انگلیاں پہلے سے سمٹے سمٹائے بالوں کو دھیرے دھیرے اپنی پوروں سے بوسے دینے لگی تھیں۔
عین اس لمحے میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ پہلے کے مقابلے میں بلکی ہو گئی تھی۔ قمیض کی سَلوٹیں اُس کے بدن کے گداز میں دھنس رہی تھیں۔ گلا آگے پیچھے دونوں طرف سے ڈیپ تھا جو اندر کی ساری نرمی باہر پھینک رہا تھا۔ بازو اوپر اٹھانے سے اس کے کولہے دائیں بائیں اور پیچھے کو کچھ اور پھول گئے تھے۔ اتنے کہ میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی تھی کہ میں اٹھ کر انہیں پیار سے تھپتھپا دوں۔ میں نے اٹھنا چاہا بھی مگر آنکھوں کی شدید چبھن نے مجھے اٹھنے ہی نہ دیا اور وہ خواہش قضا ہو گئی۔اتنی شدید اور اتنی خالص خواہش کے اس قدر مختصر دورانئے پر مجھے بہت دکھ ہوا۔ تاہم عین اسی لمحے پر حیران بھی تھا۔ اور حیرت اس بات پر تھی کہ یہ خواہش میرے اندر ابھی تک موجود تھی۔اب میں اسے دیکھتے رہنا چاہتا تھا مگر اسے یوں دیکھنا میرے لیے ممکن نہ رہا تھا کہ میرا سر گھومنے لگا۔اور میں قبر جیسے اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔ شان دار روشن قبر کے گہرے اندھیرے میں۔
جو نہی میں قبر کے پیندے سے جا لگا ٹیلی فون کی گھنٹی چیخنے لگی۔ میں گن نہیں پایا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی کتنی بار بجی تھی تاہم آخری بار ابھی اس کی گونج پوری طرح معدوم نہیں ہوئی تھی کہ نافی کے ہیلو کہنے کی آواز سنائی دی۔ دوسری طرف جو بھی تھا اسے نافی نے یہ نہ بتایا تھا کہ میں اس کے کہنے پر آرام کر رہا تھا۔ اُس نے اگلے آدھے گھنٹے کے اندر میرے پہنچنے کا خود ہی تخمینہ بھی لگا لیا تھا۔ بات مکمل کرتے ہی اس نے مجھے جھنجھوڑ ہی ڈالا تھا اتنی زور سے کہ اتنا جھنجھوڑنے پر مُردے بھی زندہ ہو سکتے تھے۔
وہ آپریشن ڈے تھا اور مجھے اُوپر تلے تین آپریشن کرنا تھے۔
جب میں تیار ہو کر اپنے خوب صورت گھر کے پورچ سے اپنی نئی گاڑی نکال رہا تھا تو نہیں جانتا تھا کہ ایک مرا ہوا شخص زندگی کے بخیے کیسے لگا پائے گا۔
ٍ
وراثت میں ملنے والی نا کردہ نیکی
اماں کہتی ہیں، میرے پیدا ہونے کے بعد وہ چھلّہ ہی دھو پائی تھی کہ میرے ابا نے اسے سامان باندھنے کا حکم سنا دیا۔ ڈھور ڈنگر بیچ ڈالے گئے، زمین ٹھیکے پر چڑھا دی گئی اور ابا نے اماں اور مجھ ننھی جان کو ساتھ لے شہر آ کر دم لیا۔ ابا کا خیال تھا، یوں میں ان تمام محرومیوں سے محفوظ رہوں گا جن کے یخ بستہ گھنے سائے تلے وہ خود عمر بھر ٹھٹھرتے رہے۔
میرے نزدیک ابا مرحوم کا تب کا فیصلہ بروقت اور اِنتہائی دانشمندانہ تھا۔
اماں کہتی ہیں، تمہارے ابا آنے کو شہر آ گئے تھے مگر جب تک زندہ رہے ان کی روح گاؤں کی گرد آلود گلیوں میں ہی بھٹکتی رہی۔
دادی اماں تو تب ہی فوت ہو گئی تھیں جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم گاؤں سے شہر آ گئے تو دادا جان نے چپکے سے اپنے اندر کو دُکھ کا گھن لگا لیا۔ اماں کہتی ہیں، دادا جان نے ابا کو شہر منتقل ہونے سے نہ روکا تھا البتہ جب شہر کے لیے روانہ ہونے لگے تھے، تو اُن آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے جنہیں کبھی کسی نے روتے نہ دیکھا تھا۔
جب دُکھ کے گھن نے دادا جان کو اندر ہی اندر سے چاٹ لیا تو وہ ایک رات چپکے سے مر گئے۔
ابا میری طرح دادا جان کے اکلوتے بیٹے تھے۔ دادا کا مرنا تھا کہ حویلی خالی ہو گئی۔ اماں کہتی ہیں یہ وہ حویلی تھی جس کے ایک کمرے میں اسے نے کئی برس پہلے رات بھر زندگی اور موت کی خوفناک جنگ کے بیچ میری پہلی چیخ سنی تھی۔ اسے وہ چیخ اب تک نہیں بھولتی، جو موت کی شکست اور ہم دونوں کی زندگی کی فتح کا اعلان تھی۔ اسے وہ حویلی اس لیے بھی یاد آتی تھی کہ اس نے شادی کے بعد وہیں قدم رکھا تھا اور میٹھی یادوں کی ایک تسبیح تھی، جس کے موتی اس حویلی کے کونے کونے میں بکھرے پڑے تھے۔
مگر حویلی خالی ہو گئی تو خالی پن سے بوسیدگی کے وسوسے نے ابا کے کانوں میں ذیلداروں کی بات مان لینے کی سرگوشی انڈیلی، جو حویلی کی قیمت تھامے ابا کے سامنے بیٹھے تھے۔
اور یوں حویلی بِک گئی۔
ابا کے پاؤں تلے سے گاؤں کی زمین اُسی روز کھسک گئی تھی جب وہ اماں اور مجھے لے کر شہر منتقل ہوے تھے۔ دادا جان کے مرنے اور حویلی کے بکنے کے بعد زمین ہاتھوں سے بھی کھسکنے لگی۔ ٹھیکیدار، کہ جن سے ٹھیکے کی رقم لینے ابا کو گاؤں کے کئی کئی پھیرے لگانے پڑتے تھے، اب وہ زمین کا سودا کرنے خود ابا کے پاس آ رہے تھے۔ ابا کے نزدیک معاوضہ اچھا خاصا تھا۔ شہری زندگی کی عمارت میں جگہ جگہ ضرورتوں کے شگاف پڑ گئے تھے۔ زمین بِک گئی تو ان شگافوں کو بھی کسی حد تک پاٹنے میں مدد ملی۔
بہ ظاہر گاؤں سے تعلق کے سارے واسطے ایک ایک کر کے ٹوٹ چکے تھے مگر ابا اپنی حیاتی کے آخری لمحے تک گاؤں سے جڑے رہے۔ گاؤں کے سادہ لوح دیہاتی اور عزیز و اقارب شہر میں اپنے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر پیچیدہ سے پیچیدہ امور کے حل کے لیے ابا سے رابطہ کرتے تھے۔ اور جب میں چیزوں کو سمجھنے لگا تو محسوس کیا، ابا کی روح ان لوگوں میں اٹکی ہوئی تھی۔ گاؤں سے لوگ آتے، پہروں مجلسیں جمتیں، احوال پوچھے جاتے، کبھی کسی کے ساتھ پٹوار خانے جاتے تو کبھی تھانے کچہری کا چکر لگاتے۔ شام گئے پلٹتے تو بدن تھکن سے چور ہوتا مگر ایک سرشاری چہرے پر بشاشت بن کر تیر رہی ہوتی۔
ابا مرے تو بھی کچھ عرصہ تک لوگ اپنے کاموں کے سلسلے میں، میرے پاس آتے رہے۔ وہ سب کچھ میرے بس میں نہ تھا جو ابا ان کے لیے کیا کرتے تھے۔ میرے پاس وقت نہ تھا کہ اُن کی باتیں سنوں، ہم دردی کے الفاظ نہ تھے کہ ان کے دُکھوں پر مرہم رکھ سکوں۔ بے ساختہ قہقہے نہ تھے کہ اُن کے غیر دلچسپ قصوں پر موقع بے موقع لگا سکوں۔ پٹواریوں کے پاس جاتا، تحصیل اور کچہریوں کے چکر لگاتا تو کیوں ؟ کہ کئی اَہم کام کرنے کو پڑے تھے۔
تو یوں تھا کہ میرا رویہ خود بخود ایک دیوار گاؤں اور میرے بیچ بلند کرتا چلا گیا تھا۔
مگر وہ بوڑھا، کہ جسے میری بیٹی نے ماڈل بنا رکھا تھا، اسی دیوار میں اپنی معصومیت اور اُمید کے تیشے سے اپنے لیے جگہ بنا کر مجھ تک آ پہنچا تھا۔
بدن پر میلے چکّٹ بوسیدہ کپڑے، پاؤں برہنہ، کمر خمیدہ، بال مسافت کی گرد سے اَٹے ہوئے۔ وہ لاٹھی ٹیکتا اندر داخل ہوا۔ مجھے لان میں بیٹھے دیکھا تو سیدھا وہیں آ گیا۔ میری نگاہ اس کے چہرے پر پڑی۔۔۔ وہاں جھریوں نے جالا بن رکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ میری نظریں پھسلتے پھسلتے اس کے قدموں پر جا پڑیں جو تھکاوٹ سے لڑکھڑا رہے تھے۔ گرد سے پھٹی ایڑیاں خُون میں لتھڑی ہوئی تھیں۔ وہ دھم سے میرے قدموں میں یوں بیٹھ گیا کہ چند ثانیے اور نہ بیٹھتا تو خود بخود گر پرتا۔ جب وہ اپنی سانسیں بحال کر چکا تو کہنے لگا:
’’میاں برخوردار!تُو چوہدری شہباز خان کا بیٹا طاہر خان ہے نا؟‘‘
میری جانب سے اثبات پر اس نے ابا کے ساتھ اپنے تعلق خاص کا ذِکر کچھ ایسی محبت اور عقیدت سے کیا کہ میں اس تذکرے کی مہک سے مسحور ہوتا چلا گیا۔ باتوں سے اُس کا جی نہ بھرتا تھا اور اس کی باتوں کی کشش مجھے اپنی گرفت میں لیے ہوے تھی۔ مگر مجھے چند ضروری امور انجام دینے تھے۔ اسے درمیان میں ہی ٹوک دیا۔ اور روا روی میں کہا:
’’بابا جی کوئی میرے لائق خدمت؟‘‘
اس کا چہرہ کھل اٹھا، کھسک کر میرے اور قریب ہو گیا، پھر ڈھیروں دعاؤں کے بعد کہنے لگا:
’’بیٹا سنا ہے تم بہت بڑے افسر لگے ہوے ہو، میرا بیٹا ا کرم ہے نا وہ ایک عرصے سے بے روزگار پھر رہا ہے۔ اس کی ملازمت کا بندوبست کر دو۔ زمین کا جو ایک ٹکڑا تھا وہ بیچ باچ کر اس کے پڑھنے کا شوق پورا کیا۔ سوچا تھا، پڑھ لکھ جائے گا تو اپنے جو گا بھی ہو گا اور ہمیں بھی بڑھاپے میں سہارا دے گا مگر یونہی جوتیاں چٹخاتے چٹخاتے مایوسی نے اسے چڑچڑا کر دیا ہے۔ بیٹا تم ہی کچھ کرو نا۔ کرو گے نا کچھ اس کے لیے۔۔۔ ؟‘‘
میں نے اس کا دل رکھنے کو کہہ دیا:
’’ہاں ہاں کیوں نہیں، اپنے بیٹے کو میرے پاس دفتر بھیج دینا‘‘
وہ مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہونے کو اٹھا ہی تھا کہ میری بیٹی مدیحہ آ گئی۔ اُسے دیکھا، ٹھٹھک کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی:
’’ونڈر فل۔۔۔ مجھے ایسے ہی چہرے کی ضرورت تھی۔‘‘
پھر وہ مجھ سے اصرار کرنے لگی کہ بابا جی کو روک لوں تا کہ وہ اس کا پورٹریٹ بنا سکے۔
بوڑھا میری بات مان گیا۔
مدیحہ اپنے ضروری سامان کے ساتھ جھٹ لان میں پلٹی اور پوری یکسوئی سے کینوس پر بوڑھے کے چہرے کی جھریاں منتقل کرنے لگی۔
میں انہیں وہیں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
ٍاماں کو دُکھ تھا کہ میرے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی تھی۔ اماں کے نزدیک دادا جان خُوش قسمت تھے جو ان کے ہاں میرے ابا پیدا ہوے تھے اور ابا مقدّر والے تھے کہ میں ان کے آنگن کا پھول بنا۔۔۔ مگر میری قسمت کا ذکر کرتے ہوے اس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی تھیں۔ مجھے اماں کے اس رویے پر حیرت ہوتی۔ کیوں کہ مدیحہ مجھے بہت عزیز تھی۔ شاید اگر میرا کوئی بیٹا ہوتا تو میں اس سے اتنا پیار نہ کر سکتا، جتنا میں اپنی بیٹی کو کرتا ہوں۔ مدیحہ فائن آرٹس کی فائنل ائیر کی طالبہ ہے۔ مگر اس کم سنی میں ہی اس نے فن مصوری میں وہ کمال حاصل کیا ہے کہ اس کا نام اب ملک کے چوٹی کے چند فن کاروں میں ہونے لگا ہے۔
پچھلے دنوں جب وزارت ثقافت نے عالمی مقابلہ میں شرکت کے لیے پورٹریٹس طلب کیے تو مجھے حیرت ہوئی کہ مدیحہ اس کے لیے کوئی تیاری نہ کر رہی تھی۔ وجہ پوچھی۔ کہنے لگی:
’’ابھی تک ایسا چہرہ ہی نہیں ملا جس کا پورٹریٹ بنا سکوں۔ وہ اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق کام کرنے کی عادی ہے۔ میں چاہتا تو اس کی گیلری سے کوئی بھی فن پارہ اٹھا کر مقابلے میں شرکت کے لیے وزارت کو بھجوا دیتا۔ سیکرٹری صاحب سے میری اتنی علیک سلیک تھی کہ وہ اس فن پارے کو دوسرے منتخبہ فن پاروں کے ساتھ بیرون ملک مقابلے میں بھیج دیتے۔۔۔ مگر خدشہ تھا کہ اس طرح مدیحہ بپھر جائے گی کہ ایسا سب کچھ وہ پسند نہیں کرتی۔
جوں جوں مقابلے میں شرکت کی آخری تاریخ قریب آ رہی تھی، مدیحہ کی بے قراری بڑھتی چلی جاتی تھی۔ میرے پاس لان میں بیٹھے بوڑھے پر نظر پڑتے ہی وہ کھل اٹھی تھی۔ جب میں گھر سے نکل رہا تھا تو وہ بنیادی خاکہ بنا رہی تھی اور جب واپس پلٹا تو بوڑھا جا چکا تھا اور مدیحہ اپنے کمرے میں بند ہو چکی تھی۔
چند روز بعد ابھی میں دفتر نہ گیا تھا، مدیحہ خُوش خُوش میری راہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی:
’’میں آج بہت خُوش ہوں‘‘
حالاں کہ اُسے یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ مسرت اُس کے چہرے کے خلیے خلیے سے چھلک رہی تھی۔ مجھے کھینچتے کھینچتے اپنے کمرے میں لے گئی۔ میں دم بخود رہ گیا۔ مجھے کسی بھی فن پارے کے بارے میں فنی رائے دینے کا سلیقہ نہیں آتا مگر مدیحہ نے ایسا فن پارہ تخلیق کیا تھا کہ دل پر ہاتھ پڑتا تھا۔ بوڑھا اپنے جھریوں بھرے چہرے کے ساتھ مجھے یوں دیکھ رہا تھا جیسے پوچھ رہا ہو:
’’میرے بیٹے کو ملازمت دو گے نا؟‘‘
میں نے مدیحہ کو دیکھا وہ خُوشی میں نہال تھی۔
جس نے میری بیٹی کو اتنی خُوشیاں دی تھیں میں اس کے لیے معمولی سا کام کیوں نہ کروں گا۔ دفتر میں ایک آسامی خالی تھی۔ کسی نہ کسی کو تو اُسے پر کرنا ہی تھا۔ دل میں عہد کیا، کوئی اور کیوں ؟ بوڑھے کا بیٹا ہی سہی۔
جب میں دفتر جانے لگا، تب تک مدیحہ پورٹریٹ کر فریم میں لگا کر پیک کر چکی تھی۔ کہنے لگی:
’’آج مقابلے میں شرکت کے لیے فن پارے بھجوانے کی آخری تاریخ ہے۔ اگر وقت ہو تو اسے وزارت کے دفتر جمع کراتا چلوں۔‘‘
میں نے کہا:
’’کیوں نہیں۔۔۔ ؟۔۔۔ میرے پاس وقت نہ بھی ہو تو اپنی پیاری سی بیٹی کے لیے ضرور نکال لوں گا‘‘
ہنس کر کہنے لگی:
’’ایک بات یاد رکھیے گا کہ مجھے یہ پورٹریٹ ہر قیمت پر واپس بھی چاہیے۔ اگر مقابلے کے بعد واپس مل سکے تو جمع کرائیں، ورنہ واپس لیتے آئیں کہ اس شاہکار کی تخلیق ہی میری سب سے بڑی خُوش بختی ہے۔‘‘
میں سیدھا وزارت کے دفتر پہنچا۔ مطلوبہ معلومات حاصل کیں، کوائف لکھوائے، پورٹریٹ جمع کرایا اور ابھی واپس پلٹنا ہی چاہتا تھا کہ فصیح الدین سے سامنا ہو گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی خُوشی سے کِھل اُٹھا۔ اصرار کر کے مجھے چائے کے لیے روکا۔ میرے آنے کا مقصد جاننے کے بعد کہنے لگا:
’’چیئرمین کمیٹی اپنا یار ہے دوست، فکر نہ کرو تمہاری بیٹی کا پورٹریٹ مقابلے کے لیے ضرور بھیجا جائے گا۔‘‘
میں مدیحہ کے لیے سفارش نہیں کرنا چاہتا تھا کہ سفارش کرنے پر وہ چڑ جاتی تھی مگر نہ چاہتے ہوے بھی اسے کہہ دیا کہ وہ خیال رکھے۔۔۔ حالاں کہ مجھے یقین تھا مدیحہ کے بنائے ہوے پورٹریٹ کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں اُٹھنے لگا تو فصیح الدین کہنے لگا:
’’فاطاں میرے ہاں مُدّت سے گھریلو کام کرتی ہے۔ سچ پوچھو تو گھر کا سارا نظام اُسی نے سنبھال رکھا ہے۔ اس کے بیٹے کو ملازمت چاہیے۔ رکھنے کو تو میں اسے یہاں رکھ لیتا لیکن مجھے کچھ آک ورڈ لگتا ہے۔ ایک اور جگہ اسے ملازمت ملی ہے اور اب وہ ماں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اس کے ساتھ منتقل ہو جائے جب کہ ہم فاطاں کا یوں چلے جانا افورڈ نہیں کر سکتے۔ اس طرح تو گھر کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اب آپ کو دیکھا ہے تو ایک خیال آیا ہے۔۔۔ کیوں نہ آپ اسے دفتر میں ملازم رکھ لیں آپ کا دفتر تو ہمارے گھر کے قریب ہی ہے نا۔ اس طرح فاطاں کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ کوئی آسامی خالی ہو گی نا آپ کے دفتر میں ؟‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں !‘‘
میں نے کہا، پھر فاطاں کے بیٹے کو دفتر بھیجنے کا کہہ دیا۔ اگلے روز میں دفتر میں بیٹھا ہی تھا کہ فصیح الدین نے لڑکا دفتر بھیج دیا۔۔۔ ضروری کار روائی مکمل ہوئی اور تقرر نامہ جاری کر دیا گیا۔
اُسی روز کہ جب فصیح الدین کی ملازمہ فاطاں کے بیٹے کی ملازمت کی چھٹی میرے دستخطوں سے جاری ہوئی تھی۔۔۔ ہاں اسی روز میرے ابا کی خُوش گوار یادوں کے سہارے مجھ تک پہنچنے والے بوڑھے کا بیٹا ا کرم بھی دفتر آ دھمکا۔ آسامی ایک تھی اور وہ پُر ہو چکی تھی۔ میں ا کرم کو خُوش اَسلوبی سے ٹالنا چاہتا تھا کہ اس کے بوڑھے باپ کی وجہ سے میری بیٹی نے ایک شاہ کار پورٹریٹ تخلیق کیا تھا۔ لہٰذا اس کی تسلی کے لیے اس سے اسناد لیں، سٹینو سے کہا کہ جتنے محکمے اس کے ذہن میں آتے تھے سب کو اس کی ملازمت کے لیے درخواستیں بمعہ اسناد کی عکسی نقول بھیج دے۔
پھرا کرم سے کہا فی الحال ہمارے ہاں کوئی آسامی خالی نہیں ہے، ہاں کوشش کروں گا کہ کہیں نہ کہیں اسے ملازمت مل جائے۔
وہ مطمئن ہو گیا تو میں نے اسے واپس چلے جانے اور انتظار کرنے کو کہا۔
اب میں بھی مطمئن تھا کہ نہ تو بوڑھا پلٹے گا اور نہ ہی اس کا بیٹا۔ میرے پاس وقت نہ تھا کہ میں مختلف محکموں میں اس کے لیے سفارش کرتا پھرتا۔۔۔ لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی۔
وقت دھیرے دھرے گزرتا رہا اور ایک روز یوں ہوا کہ میری بیٹی خُوشی سے چیختی چلاتی داخل ہوئی، مجھے دیکھتے ہی کانگرچولیشن کا نعرہ لگایا اور مجھ سے چمٹ گئی۔ پوچھا:
’’ارے ارے کس بات کی مبارکباد؟‘‘
کہنے لگی:
’’میرا پورٹریٹ بیرون ملک مقابلے میں شرکت کے لیے جانے والے فن پاروں میں شامل کر لیا گیا ہے۔‘‘
میں نے خُوش ہو کر کہا:
’’مجھے یقین تھا بیٹی کہ ایسا ضرور ہو گا اس لیے کہ تم ڈیزرو کرتی ہو‘‘
مدیحہ نے نفی میں سر ہلایا۔کہا:
’’ہوں ہونہہ۔۔۔ اس میں ان بابا جی کا کمال ہے جو باہر لان میں بیٹھے ہوے ہیں۔‘‘
بابا جی؟۔۔۔ ‘‘ میں بڑبڑایا۔
’’ہاں بابا جی‘‘۔۔۔ اُس نے دہرایا۔
میں دم بخود کھڑا تھا۔ مدیحہ اصرار کرنے لگی کہ باہر لان میں بابا جی کے پاس چلتے ہیں۔ ندامت نے میرے قدم جکڑ رکھے تھے۔ اس نے میرا بازو چھوڑ ا اور سامنے کھڑی ہو گئی۔ کہنے لگی:
’’مجھے آپ کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے‘‘
’’میرا شکریہ؟‘‘: میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’ہاں آپ شکریہ‘‘: وہ چہک کر بولی:
’’اس لیے کہ آپ نے میرے محسن بابا جی کے بیٹے کو ملازمت دلوانے میں مدد کی ہے‘‘
میں کچھ نہ سمجھ رہا تھا اور جب میں لان میں بوڑھے کے مقابل کھڑا تھا تو اس نے کہا:
’’بیٹے تم نیکو کار کی اولاد ہو، اپنی مٹی سے تعلق جوڑے رکھنے والے کی اولاد۔ تم نے مجھ سے یہ نیکی کر کے مجھے ساری حیاتی کے لیے خرید لیا ہے۔ تمہاری کوششوں سے میرے اکرم کو نوکری مل گئی۔ لوگ بکواس کرتے ہیں کہ تم اپنوں کے کام نہیں کرتے۔ تم تو بالکل اپنے باپ کی طرح نیک اور اپنوں کے کام آنے والے ہو۔‘‘
وہ مسلسل مجھے دعائیں دے رہا تھا۔ میں نے مدیحہ کو دیکھا۔ وہ تحسین بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔۔۔ اور میں دعاؤں اور نظروں کی ٹکٹکی پر چڑھا وراثت میں ملنے والی نا کردہ نیکی کو اپنے اندر ٹٹول رہا تھا۔
***
ماخذ:
http://hameedshahid.com
مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ
تدوین اور ای بک: اعجاز عبید