FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شہرِ سخن

شبیر ناقدؔ

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ
فائل

ای
پب فائل
 

کنڈل
فائل

انتساب

اُن احبابِ سخن کے نام

جنہوں نے اپنے شب و روزِ حیات

خدمتِ شعر و سخن میں

صرف کر دیے ہیں

حمدِ باری تعالیٰ

کائناتِ دل میں اس کی روشنی کی دھوم ہے

خالقِ ارض و سما کی آگہی کی دھوم ہے

ذکر جس میں  ہوا سدا قرآن کا توحید کا

عالمِ ایجاد میں اس شاعری کی دھوم ہے

تیرے احسانات کا یارب نہیں ممکن شمار

حضرتِ انساں سے تیری دوستی کی دھوم ہے

جو عمل کرتا ہے تیرے ہی حسیں احکام پر

دنیا و عقبیٰ میں اس کی زندگی کی دھوم ہے

میرے مالک تیرے در کا ہے گدا بندہ ترا

اس لیے ناقِدؔ ترے کی عاجزی کی دھوم ہے

کدورتوں کے جہاں میں ہم نے محبتوں کو
فروغ بخشا

ہے نفسی نفسی کے عہد میں  بھی مروتوں کو
فروغ بخشا

سدا امینِ وفا رہے ہیں خلوص اپنا رہا ہے شیوہ

جہاں میں تھا جھوٹ عام پھر بھی صداقتوں کو فروغ
بخشا

تھی بزدلی عام سارے جگ میں تھا دہشتوں کا بھی
دور دورہ

سو ایسی صورت میں ہم نے پیہم جسارتوں کو
فروغ بخشا

عداوتوں کا چلن تھا ہر سو محبتیں بھی گریز پا
تھیں

کٹھن مصائب تھے پھر بھی ہم نے رفاقتوں کو فروغ
بخشا

وفا کا نام و نشاں نہیں ہے خلوص دنیا سے  جا چکا ہے

جہاں میں اہلِ جہاں نے ناقِدؔ ہے نفرتوں کو
فروغ بخشا

متاعِ ہستی لٹا چکے ہیں

تمہاری دنیا سے  جا چکے ہیں

سنے نہیں ہیں کسی نے اب تک

جو گیت پرسوزگا چکے ہیں

ہماری سانسوں میں تم بسے ہو

کہ دل میں تم کو بسا چکے ہیں

جنہوں نے کرنی تھی چارہ سازی

وہ اُلٹا      ہم کو رُلا چکے ہیں

وہ جن کو درسِ وفا دیا تھا

اسے وہ یکسر بھلا چکے ہیں

سکوں کا جس میں گزر نہیں ہے

وہ زیست ناقِدؔ بِتا چکے ہیں

جنوں کا حاصل ہے بے قراری

ہماری حالت ہے اضطراری

جہاں میں کیا کرتے دنیا داری

ہماری سانسیں بھی تھیں اُدھاری

جفا کو ہم سے نہیں ہے نسبت

کہ ہم نے سیکھی ہے جاں سپاری

کوئی بھی مخلص نہ تھا ہمارا

نہ کی کسی نے بھی غم گساری

اسی میں رازِ وفا ہے پنہاں

کرو مروت کی پاس داری

مری معاون خرد ہے ناقِدؔ

حیات جس نے مری سنواری

جہدِ پیہم کے سبب جو شخص ہوتا ہے امر

مہر وہ انساں لگاتا ہے جبینِ وقت پر

کون بنتا ہے زمانے میں کسی کا چارہ گر؟

جس میں ہو خوئے وفا ایسا ہو کوئی ہم سفر

راہ دل کو دل سے ہوتی ہے اسے تسلیم کر

محترز مجھ سے رہا جو تو بھی کر اس سے حذر

تجھ کو پانے کے جتن کر کے میں ہوں تھک چکا

کوئی بھی کوشش مری ٹھہری نہیں ہے کارگر

ایسے غافل ٹھوکریں کھاتے ہیں آخر دربدر

کان جو دھرتے نہیں ناقِدؔ صدائے عصر پر

زمانے کے ہر غم سے میں آشنا ہوں

سبب اس کا یہ ہے کہ اہلِ وفا ہوں

پنپنا محبت کا مشکل وہاں ہے

جہاں سارے باشندے اہلِ جفا ہوں

وہاں کیا سفینے لگیں ساحلوں پر

جہاں مہتمم سنگ دل ناخدا ہوں

وہ دنیا میں ہر اک مسرت کو ترسیں

ستم جن پہ اہلِ جہاں کے روا ہوں

اسے کیسے پہچان ہو دشمنوں کی؟

عدو جس کے ناقِدؔ مسیحا نما ہوں

اداس رت کے مہیب منظر ڈرا رہے ہیں

کہانی مجھ کو نئے غموں کی سنا رہے ہیں

ہماری آنکھوں سے اشکِ فرحت ہوئے ہویدا

ملی خبر جب وہ میت ہم کو بنا رہے ہیں

ہمیشہ ہم نے اسی کی خاطر حیات کی ہے

اسی کی خاطر ہی رات دن ہم کما رہے ہیں

کبھی تقاضا وفا کا تم سے نہیں کریں گے

حیات جیسی بھی ہے خوشی سے بِتا رہے ہیں

کبھی نہ ناقِدؔ زمانے والوں سے دشمنی کی

مروتوں کا سبق سبھی کو سکھا رہے ہیں

میں اک آزمائش میں ڈالا گیا ہوں

کہ باغِ عدن سے نکالا گیا ہوں

سنبھلنا مرا میرے بس میں کہاں  تھا؟

ترا معجزہ ہے سنبھالا گیا ہوں

مجھے مشکلیں کیا پریشاں کریں گی؟

کہ میں مشکلوں میں ہی پالا گیا ہوں

سدا مصلحت کی ہی کی پاسداری

میں ہر مصلحت میں ہی ڈالا گیا ہوں

عبث مجھ سے ناراض رہتا ہے اکثر

میں کیا اس سے کر کے کھٹالا گیا ہوں

مجھے جگ یہ ناقِدؔ بھلائے گا کیسے؟

کہ میں اس جہاں سے نرالا گیا ہوں

پیرہن ہستی کا ہر دم تار تار

چارسو میرے مسائل بے شمار

کون سنتا ہے نوائے شوق آج؟

ہر نفس لگتا ہے مجھ کو بے قرار

پیار کی بھاشا کوئی سمجھا نیں

اس لیے نالہ ہے میرا دل فگار

وصل کی دولت ملے گی ایک روز

اس لیے جاری ہے اس کا انتظار

پیار کی جو مئے پلائی تو نے تھی

آج تک اس کا نہیں اُترا خمار

میں خزاؤں میں رہا ساری حیات

ایک پل دیکھی نہیں میں نے بہار

زندگی حزن و طرب کی داستاں

آج ناقِدؔ پر ہوا ہے آشکار

کون ہوتا ہے کسی پر مہرباں؟

زندگی ہے درد و غم کی داستاں

عمر بھر ہیں دکھ مجھے اتنے ملے

کر جنہیں پایا نہیں اب تک بیاں

شعر میرا اس لیے آسان ہے

سہل سے ہے سہل تر میری زباں

کب رہا غافل تمہاری یاد سے؟

میں رہا ہوں روز و شب مدحت کناں

تیری دنیا نے ستایا بارہا

میرے حق میں کب رہا ناقِدؔ جہاں

ہے مجھے تو تیری چاہت کا لحاظ

کس نے رکھا میری الفت کا لحاظ

عمر بھر میں نے وفا تجھ سے ہی کی

کب کیا تو نے مروت کا لحاظ؟

اس لیے ہوں معتبر میں شہر میں

لوگ رکھتے ہیں صداقت کا لحاظ

ہے مرا کردار ہی پہچان آج

مجھ میں باقی ہے شرافت کا لحاظ

میں کسی انسان سے خائف نہیں

لوگ کرتے ہیں فراست کا لحاظ

میں تو ہوں ناقِدؔ سراپا دوستی

تو بھی کر میری محبت کا لحاظ

کوئی اور تو میری چاہت نہیں ہے مری
زندگی تو فقط شاعری ہے

اسی سے کیا عشق میں نے ہمیشہ مری عاشقی تو فقط
شاعری ہے

اسی نے مجھے درد و غم سے نوازا سخن کی بھی دولت
ملی ہے اسی سے

مری زندگی اس سے روشن ہوئی ہے مری روشنی تو فقط
شاعری ہے

ملی اس کے باعث ہے دولت دروں کی اسی نے سکھائی
ہے عزت بڑوں کی

اسی سے مری روح روشن ہوئی ہے مری آگہی تو فقط
شاعری ہے

کسی اور کو میں نے مخلص نہ جانا رفاقت کوئی
معتبر بھی نہ سمجھا

نہیں میرا ہمدرد و مونس کوئی بھی مری دوستی تو
فقط شاعری ہے

نہ سمجھو اسے تم حقیقت نگاری سراپا تخیل یہ میرا
سخن ہے

نہ تم عاشقی کا اسے نام دینا مری شاعری تو فقط
شاعری ہے

کوئی اور دکھ مجھ کو لاحق نہیں ہے دکھوں سے ملی
ہے مجھے رستگاری

نہ غم کوئی منسوب مجھ سے ہو ناقِدؔ مری بے کلی
تو فقط شاعری ہے

سدا رتجگوں کی ریاضت ہے جاری

سخن سے ہماری محبت ہے جاری

مجھے کیسے جانو گے الفت کے لائق

کہ مجھ سے تمہاری کدورت ہے جاری

کوئی کفر و عصیاں میں ہے محو ہر دم

کسی کی مسلسل عبادت ہے جاری

زمانے سے میں کر رہا ہوں وفائیں

مگر اہلِ دنیا کی نفرت ہے جاری

ہیں ناقِدؔ نے کب تیرے فرمان مانے؟

رہی تیری پھر بھی عنایت ہے جاری

شبِ ظلمت میں جیون ہے نہیں قسمت سحر
کوئی

کریں کیا ہم کہ ظلمت سے نہیں بس میں مفر کوئی

جہاں الفت کی رونق ہو مروت عام ہو جس میں

مرے مالک تری دنیا میں ہے ایسا نگر کوئی؟

یہاں مطلب پرستی ہے وفا ناپید ہے جگ میں

یہاں سب لوگ بے حس ہیں نہیں ہوتا اثر کوئی

مری قسمت میں تھا صحرا جلایا دھوپ نے پیہم

سدا سائے کو ترسا ہوں نہیں پایا شجر کوئی

جسے نفرت جفا سے ہو وفا کرنے کا خوگر ہو

زمانے بھر میں ڈھونڈا ہے نہیں ایسا بشر کوئی

میں ناقِدؔ اک مسافر ہوں غم و حسرت کے رستے کا

خوشی ہی جب نہیں منزل سکوں کی کب ڈگر کوئی

کٹی رتجگوں میں مری زندگانی

ہوئے خواب ہیں داستاں اک پرانی

جو میرے مسائل ہیں خود حل کروں گا

کسی نے نہیں یہ اذیت اٹھانی

مجھے رنج و غم نے کیا یوں پریشاں

نہیں کچھ خبر آئی تھی کب جوانی؟

جنوں پر تسلط رہا ہے خرد کا

کسی سے نہیں کی کبھی چھیڑ خوانی

صنم سے کروں جو میں درشن کی خواہش

سناتا ہے وہ نغمۂ لن ترانی

مجھے اس لیے یہ گوارا ہے ناقِدؔ

غمِ ہجر ہے عمر بھر کی نشانی

مروتوں کا شعار ہم ہیں

وفا کا حسن و وقار ہم ہیں

ہے اپنے دم سے خلوص باقی

جوں رُتوں کا نکھار ہم ہیں

کہاں ہے اعراض ہم سے ممکن؟

خلوص کے شہر یار ہم ہیں

کوئی ہمیں کیا بھلا سکے گا؟

کہ بزمِ ہستی کا پیار ہم ہیں

قریب تر اب ہے وقتِ رخصت

چمن سے جاتی بہار ہم ہیں

ہے ایسی ناقِدؔ مثال مشکل

سخن کا روشن عیار ہم ہیں

زندگی بے چینیوں کا ہے سماں

ہیں حریفِ جاں زمین و آسماں

ماورائے فہم ہے تیرا جہاں

کچھ سمجھ آیا نہ رازِ کن فکاں

اور کوئی دکھ مجھے لاحق نہیں

کھا گئیں مجھ کو تری بے مہریاں

اس لیے غم سے عبارت فکر ہے

ہے سخن میرا فقط آہ و فغاں

پیار کے قابل نہ سمجھا جب کوئی

بڑھ گئیں ناقِدؔ مری بے زاریاں

جو مادیت کا فسوں نہیں ہے

تو حال اپنا زبوں نہیں ہے

اگر سمجھنے کی کچھ ہو کوشش

حیات بھی بے چگوں نہیں ہے

وہ شعر ہوتا ہے بے اثر سا

کہ جس میں  سوزِ دوروں نہیں ہے

ہے زندگی ولولے سے خالی

اگر ودیعت جنوں نہیں ہے

مزید جینے کی ہے تمنا

رگوں میں ہر چند خوں نہیں ہے

اگر ہو مقصد سے دور ناقِدؔ

تو احتمالِ سکوں نہیں ہے

مجھے مہ وشوں نے ہے ترسایا اکثر

تقرب صنم کا نہیں پایا اکثر

سدا انتہا کی جفا کی انہوں نے

مجھے زندگی میں ہے تڑپایا اکثر

نہ چھیڑے کبھی میں نے عشرت کے نغمے

نہ جیون میں رنگِ سکوں آیا اکثر

سدا ذات سے ماورا ہو کے سوچا

جہاں نے ہے پھر بھی ستم ڈھایا اکثر

میں ناقِدؔ رہا بے خودی کا مسافر

سخن کو وفا سے ہے مہکایا اکثر

جنوں اذیت کی راج دھانی

خرد سکوں کی ہے پاسبانی

مرے سخن کا ہے یہ خلاصہ

نہاں ہے اس میں مری کہانی

وبال تھا یہ بھی میری خاطر

کہ مجھ پہ طاری رہی گرانی

خیال کی رونقیں ہیں اس میں

مرے سخن میں ہے بے کرانی

کہاں ہے ناقِدؔ کا ایک مسکن؟

ہے ایک بنجارہ جاودانی

مری حسرتوں کا مداوا نہیں ہے

کبھی حال تو نے بھی پوچھا نہیں ہے

جسے تو نے جینے کے لائق نہ چھوڑا

ترا غم کبھی اس کو بھولا نہیں ہے

ترے شہر میں  سب مجھے جانتے ہیں

مگر شہر میں میرا چرچا نہیں ہے

ترے عشق نے مجھ کو بخشی اذیت

کیا اس نے کب مجھ کو رسوا نہیں ہے؟

رہا آتشِ ہجر میں تیرا ناقِدؔ

تقرب ترا اس نے پایا نہیں ہے

مجھے شوخ پیکر ستاتے رہے ہیں

سدا روگ دل میں لگاتے رہے ہیں

رہے خواب تشنہ مرے قربتوں کے

وہ کیوں مجھ سے پہلو بچاتے رہے ہیں

نہ ہو پائی رنگین دنیا ہماری

ستم تازہ ہم پر وہ ڈھاتے رہے ہیں

ہوا جن کے باعث ہے مجبور دل بھی

وہ انداز ایسے دکھاتے رہے ہیں

مجھے مہ وشوں پر بھروسا نہیں ہے

کہ یہ تیر مجھ پر چلاتے رہے ہیں

جنہیں خوب ازبر جفاؤں کا فن تھا

وہی میرے دل کو لبھاتے رہے ہیں

ہمیں جن کے درشن کی حسرت ہے ناقِدؔ

وہی چہرہ ہم سے چھپاتے رہے ہیں

فراق رت کے مہیب لمحے ستا رہے ہیں

فسردہ دل ہوں مجھے یہ پیہم رلا رہے ہیں

خزاں رتوں کے عذاب دیکھے ہیں زندگی بھر

مری پریشانی غم پرانے بڑھا رہے ہیں

گوارا تیرے ستم کیے ہیں نہ کی شکایت

نہ دی دہائی کہ ہم سراپا وفا رہے ہیں

یہ واقعہ ہے کہ وہ وفا سے رہے گریزاں

وہ سنگ دل تھے سدا سراپا جفا رہے ہیں

روایتیں وہ خلوص جن کا رہا ہے خاصا

نہ جانے کیوں وہ روایتیں یہ مٹا رہے ہیں؟

میں کیوں کہوں یہ مری مروت مری خطا تھی

وہ دیتے مجھ کو مروتوں کی سزا رہے ہیں

معاملہ ہے عجیب ناقِدؔ سخن سے میرے

نفور ہیں پر غزل مری گنگنا رہے ہیں

دہر میں  عام ہے تیرگی کا چلن

اب کے مشکل ہوا روشنی کا چلن

لوگ بے حس بھی ہیں اور ظالم بھی ہیں

کس قدر بڑھ گیا بے حسی کا چلن

شعر کہنا نہیں کوئی آساں عمل

پر ہوا ہے بہت شاعری کا چلن

لاکھ انسان کرتا رہے کوششیں

ختم ہوتا نہیں بے کلی کا چلن

اس لیے عشق میں نے کیا ہی نہیں

راس آیا نہیں عاشقی کا چلن

کوئی مخلص نہیں کوئی ہمدم نہیں

دل کی دنیا میں ہے بے بسی کا چلن

مجھ کو ناقِدؔ زمانے کی پروا نہیں

سنگ رکھتا ہوں میں بے خودی کا چلن

کب ملا ہے مجھے الفتوں کا ثمر؟

سارا عالم بنا نفرتوں کا نگر

زندگی اپنی ساری ہے تنہا کٹی

کوئی پایا نہیں مہرباں ہم سفر

نفرتوں سے ہمیشہ گریزاں رہا

کر نہیں پایا میں  چاہتوں سے مفر

ذکر تیرا زباں کی ہے زینت بنا

یاد آتی رہی ہے تری رات بھر

عشق تجھ سے کیا خوف کوئی نہیں

تجھ پہ لازم ہے تو بھی کسی سے نہ ڈر

کب سہارا کسی نے ہے مجھ کو دیا

ٹھوکریں میں نے کھائیں سدا دربدر

کذب و عصیاں سے ناقِدؔ نہ میری بنی

جھوٹ بولا نہ گو بن گئی جان پر

زندگی ہے روز و شب کا امتحاں

کب میسر ہو سکیں آسانیاں؟

ہر کسی کے ہیں مسائل منفرد

کون ہوتا ہے کسی پر مہرباں؟

ناخداؤں کا بھروسا جب نہیں

کیا لگیں ساحل پہ اپنی کشتیاں؟

کیا کسی کو ہو خبر بے حال کی؟

نفسا نفسی کا سماں ہے اب یہاں

مجھ کو ہر منزل ملی ہے منتظر

کب تصور میں رہیں ناکامیاں؟

میری قوت میں نہاں ہے رازِ فتح

جو سدا میری رہی ہے پاسباں

میں کبھی ناقِدؔ نہیں تنہا رہا

ساتھ میرے ہیں مری محرومیاں

مرے کام آئیں نہ میری دعائیں

مخالف ہیں میری چمن کی فضائیں

وطن کو پڑے جب ہماری ضرورت

ہماری ہے خواہش کہ ہم کام آئیں

ہمیں روز و شب وہ ستاتے رہے ہیں

سدا جن کی لیتے رہے ہم بلائیں

ہم ہر امتحاں میں ہوئے سرخرو ہیں

ہمیں جتنا چاہیں وہ پھر آزمائیں

ہمیں تم پہ ناقِدؔ رہا ہے بھروسا

سبب ہے یہی تم سے کی ہیں وفائیں

نگر نگر ہم وفا کو ڈھونڈیں

مروتوں کی عطا کو ڈھونڈیں

قرینِ شہ رگ ہے ہر کسی کے

تو کس لیے پھر خدا کو ڈھونڈیں؟

حیات کو جو سکون بخشے

ہم ایسی رنگیں ادا کو ڈھونڈیں

ہوا ہے بے کیف اپنا جیون

چلو کسی دلربا کو ڈھونڈیں

ہیں خود جو حقانیت سے عاری

وہی ہماری خطا کو ڈھونڈیں

امیں ہیں بے لوث پیار کے ہم

نہ ہم کسی بھی جزا کو ڈھونڈیں

ہمیں وفا سے غرض نہیں ہے

کہ ہم تو تیری جفا کو ڈھونڈیں

رہا ہے نفرت سے بَیر ناقِدؔ

سو چاہتوں کی نوا کو دھونڈیں

فراق لمحے مہیب موسم

بنے ہیں میرا نصیب موسم

ہیں جس کی یادیں فریبِ ہستی

ہوا ہے میرا رقیب موسم

وصال رت ساتھ جو تھا لایا

کہاں گیا وہ حبیب موسم؟

وہ ملنے والی ہیں جس میں خوشیاں

وہ آ گیا ہے قریب موسم

انہیں میں میری شفا ہے مضمر

ملن کی گھڑیاں طبیب موسم

وہ جس میں ناقِدؔ ہوا تھا درشن

تھا راحتوں کا نقیب موسم

طلب رہی ہے ہمیں وفا کی

مگر جہاں نے سدا جفا کی

ہماری نسبت رہی ہے سچ سے

نہ جھوٹ بولا قسم خدا کی

وہ خوبصورت نہیں ہے اتنا

مگر ہے اس میں کشش بلا کی

ترا بچھڑنا ہے اک اذیت

جدائی تو نے ہمیں عطا کی

بھلی لگی ہے ہمیں شرافت

سو قدر کرتے رہے حیا کی

نہ غم کوئی پاس آئے ناقِدؔ

سدا ترے واسطے دعا کی

یہی ہوا ہے کمال اکثر

ترا رہا ہے خیال اکثر

مرا تقرب ہے کیوں ضروری؟

کیا ہے اس نے سوال اکثر

تری جدائی مری اذیت

رہا ہوں جس میں نڈھال اکثر

جو تو نے جبر و ستم کیے ہیں

رہا ہے ان کا ملال اکثر

رہا ہے اک وجد مجھ پہ طاری

جنوں میں ڈالی دھمال اکثر

یہ نین میرے ہیں نیر دریا

ہوئی نہ راحت بحال اکثر

کیا تکبر ہے جس نے ناقِدؔ

اسی کو آیا زوال اکثر

مجھ کو ملی ہے راحت لیکن کبھی کبھی

پاتا ہوں میں مسرت لیکن کبھی کبھی

چاہت ہمیشہ اس کی مجھ سے نہیں رہی

کرتا ہے وہ محبت لیکن کبھی کبھی

مجھ کو تمہاری فرقت اکثر ستائے ہے

بخشی ہے تم نے قربت لیکن کبھی کبھی

تنہا اداسیوں میں جیون بسر کیا

ہوتی ہے اک اذیت لیکن کبھی کبھی

یہ حسن ایک محشر تیری ادا غضب

دیکھی ہے یہ قیامت لیکن کبھی کبھی

ناقِدؔ غموں نے مجھ کو برباد کر دیا

ہوتی ہے طاری وحشت لیکن کبھی کبھی

خدا جانے کب جاگے من میں تمہارے محبت
کا جذبہ

سدا سے رہا موجزن ہے مرے دل میں الفت کا جذبہ

مری زندگی کذب و عصیاں و غفلت میں گزری ہے ساری

دمِ آخریں مجھ میں پیدا ہوا ہے عبادت کا جذبہ

نہ میں کوئی حاکم نہ اہلِ مروت نہ اہلِ سخا ہوں

مشیت نے مجھ کو ودیعت کیا ہے سخاوت کا جذبہ

سدا قوم اپنی پہ نازاں رہا ہوں یہ ہے امرِ خوبی

جسے چاہتا ہے خدا بخشتا ہے شجاعت کا جذبہ

رہی مجھ کو ناقِدؔ ہمیشہ ہی فہم و فراست سے
نسبت

دیا مجھ کو مالک نے شعر و ادب کی ہے خدمت کا جذبہ

نہیں کرتا میں تیرگی کی حمایت

سدا میں نے کی روشنی کی حمایت

جہالت سے رکھتا ہوں میں جنگ جاری

مرا کام ہے آگہی کی حمایت

کبھی اہلِ ثروت کو مخلص نہ سمجھا

سو کی میں نے ہے مفلسی کی حمایت

اگرچہ مرا کام ہے نقدِ فن بھی

مگر میں نے کی شاعری کی حمایت

سبھی اہلِ دنیا تھے رسیا سکوں کے

کسی نے نہ کی بے کلی کی حمایت

رہا ہوش مندوں سے اکثر میں خائف

سو کی میں نے ہے بے خودی کی حمایت

جنوں پر خرد میری غالب تھی ناقِدؔ

نہ کر پایا میں عاشقی کی حمایت

مرا دل رہا ہے محبت کا پیکر

بنا اس لیے میں مروت کا پیکر

جو ہر حال میں پاسدارِ وفا ہو

اسے جانیے گا عقیدت کا پیکر

جو ہر جور دنیا کا سہتا رہے گا

وہی شخص ہو گا شرافت کا پیکر

سدا خیر خواہی جو کرتا رہے گا

وہ ٹھہرے گا جگ میں ہدایت کا پیکر

جو سچ بولتا ہے سرِ دار ناقِدؔ

وہی معتبر ہے صداقت کا پیکر

مخالف مری سب خدا کی خدائی

اسی دکھ میں ہے نیند میں نے گنوائی

اگرچہ جفاؤں کا عادی رہا تو

مگر دوستی میں نے تجھ سے نبھائی

وفاؤں کے بدلے جفائیں ملی ہیں

مرے کام آئی نہ میری بھلائی

کوئی اور دکھ مجھ کو لاحق نہیں ہے

وہی دشمنِ جاں تری کج ادائی

تری بے وفائی کی سوغات ہے یہ

بنی تیری فرقت مری جگ ہنسائی

نہ جینے کے لائق نہ مرنے کے قابل

ہے کس موڑ پر زندگی مجھ کو لائی؟

ترے غم زمانے سے طرفہ نہیں ہیں

یہی بات ناقِدؔ ہے خود کو بتائی

رہا زندگی سے میں اکثر گریزاں

کہ ہے مجھ سے میرا ہی محور گریزاں

بڑوں کو رہی انکساری ہی زیبا

ہے دریا سے کیونکر سمندر گریزاں؟

مری زندگی اس کی طاعت میں گزری

مگر میرا مجھ سے ہے افسر گریزاں

میسر اگرچہ ہیں اسباب سارے

تو پھر کیوں ہے کوے سے کنکر گریزاں؟

مرے زخم سارے سدا سے ہرے ہیں

رہا مجھ سے ہے میرا نشتر گریزاں

مرا آشیانہ بھلا کیسے جلتا؟

رہی آشیانے سے اخگر گریزاں

سمجھ مجھ کو ناقِدؔ نہیں آئی اب تک

رہا مجھ سے کیوں میرا دلبر گریزاں؟

تھے ہم سارے دن کی مشقت کے ہارے

نہ دے پائے تسکین ہم کو سہارے

رہی میری بیگم کو مجھ سے شکایت

کیے قتل اس کے ہیں جذبے کنوارے

خدا زندہ رکھنا جسے چاہے جگ میں

وہ مرتا نہیں کوئی جتنا بھی مارے

ہمارے نصیبوں میں غم ہی لکھے تھے

نہ دے پائے راحت مقدر ہمارے

کبھی اس حقیقت کا رونا نہ روئے

نہ تم ہو ہمارے نہ ہم ہیں تمہارے

گھٹائیں سدا رشک اس پر کریں گی

اگر آئے وہ اپنی زلفیں سنوارے

مرا ملک پھر ہو گا مضبوط ناقِدؔ

اگر اپنے مضبوط ہوں گے ادارے

زندگی جبر ہے اب ہمارے لیے

کب کسی نے ہمیں ہیں سہارے دیے؟

ہر جگہ حسن تیرا تھا جلوہ نما

تیری دنیا کے جس جا نظارے کیے

اب سنبھلنے کا امکان باقی نہیں

میکدے کے سبو میں نے سارے پیے

زخم سہتے رہے مسکراتے رہے

دیکھیے کس طرح غم کے مارے جیے

میرے زخموں کی چارہ گری کب ہوئی

میں نے خود اپنے ہیں چاک سارے سیے

تیری آمد کی ناقِدؔ سنی جب خبر

میں رہا منتظر چاند تارے لیے

ہمیں خوف عقبیٰ کا پیہم ڈرائے

سدا روزِ محشر کا منظر ڈرائے

تھی نسبت جنہیں تیرے اسلام سے بھی

وہ اسباق تو نے ہیں کیوں کر بھلائے؟

مجھے غم کوئی اپنا لاحق نہیں تھا

مجھے کھا گئے غم ہیں اکثر پرائے

مجھے شوق آوارگی کا نہیں ہے

مجھے کسبِ روزی ہی در در پھرائے

یہ احساس اب اک اذیت بنا ہے

کہ اوقات اپنے ہیں کیوں کر گنوائے؟

بھلا کیسے ممکن ملاقات ہو گی؟

نہ میں پاس جاؤں نہ وہ پاس آئے

تجھے کیسے مخلص میں سمجھوں گا ناقِدؔ

کہ حملے ہیں تو نے ہی مجھ پر کرائے

کوئی بھی مرے فلسفے کو نہ سمجھا

کسی بھی مرے تجربے کو نہ سمجھا

رکاوٹ نہیں دوریاں میری خاطر

گراں میں کبھی فاصلے کو نہ سمجھا

جہاں والے کرتے رہے بدگمانی

کوئی بھی مرے رابطے کو نہ سمجھا

ہوئی واسطے اس کے دشوار منزل

جو انساں کبھی راستے کو نہ سمجھا

مجھے اس جفا کیش سے ہے شکایت

کہ ناقِدؔ کسی مرحلے کو نہ سمجھا

دورحسن و عشق سے رہنے میں اک آرام ہے

عقل والوں کا رہا ہر دور میں یہ کام ہے

جان و دل جس نے لٹائے ہیں وفا کی راہ میں

ہے وہیں سنسار میں  رسوا وہی بدنام ہے

اب تمہیں مطلب پرستی کا سنائیں حال کیا

نفسا نفسی کی وبا ہر شہر میں اب عام ہے

آگہی سے ہی مجھے نسبت رہی ہر حال میں

جو مجھے قدرت نے بخشا وہ یہی انعام ہے

بے اثر میرے لیے ہے یہ خدا کا ہے کرم

چاہے روزِ ہجر ہے چاہے شبِ اوہام ہے

آدمیت اصل میں تہذیب ہے ہر دور کی

آج کل کے ہوش مندوں کے لیے پیغام ہے

میں رقم کرنے لگا ہوں جراتوں کی داستاں

برسرِ پیکار مجھ سے گردشِ ایام ہے

مال و زر سے مجھ کو ناقِدؔ کوئی رغبت ہی نہیں

کیا کروں گا دنیا داری زندگی کی شام ہے

مجھے شہر کی رونقوں سے نہیں کوئی رغبت

میں گاؤں کا باسی ہوں گاؤں سے مجھ کو ہے الفت

فقط مجھ کو مطلوب کردار کی پختگی تھی

میں صدق و صفا ہوں مرا ہے تعارف صداقت

سدا معتبر میرا اخلاص جگ میں  رہا ہے

میں شرم و حیا ہوں مری وجہِ شہرت شرافت

مری کامیابی میں پنہاں بہت سے عناصر

رہے جن میں شامل ہیں مہر و وفا اور دیانت

میں تنہا رہا کامراں بھی رہا زندگی میں

نہ مل پائی ناقِدؔ مجھے کوئی مخلص رفاقت

شوق مشکل تھا نبھایا ہم نے

بوجھ بھاری تھا اٹھایا ہم نے

تختۂ مشقِ ستم بھی ٹھہرے

اور سکوں سکھ بھی گنوایا ہم نے

اتنی کٹھنائیاں تھیں جیون میں

دُرِ مقصود نہ پایا ہم نے

نفرتوں سے ہی پڑا تھا پالا

گیت الفت کا ہے گایا ہم نے

اب کہانی تو امر ہے اپنی

نام ایسا ہے کمایا ہم نے

ہم وفا کر کے بھی خاموش رہے

کبھی احساں نہ جتایا ہم نے

دشمنِ جاں تھا اگرچہ ناقِدؔ

اس کو پھر بھی نہ بھلایا ہم نے

ہمیں ملی ہے جہاں سے نفرت

کریں گے ہم کیا کسی سے الفت؟

تمہاری دنیا میں کب سکوں ہے؟

ہمیں نہ راس آ سکی نیابت

جو قربتوں کی تلاش میں تھے

وہ فرقتوں کی سہیں اذیت

یہ سب فسانے تھے لمحہ بھر کے

نہ میں رہا نہ مری محبت

جو تو نے لطف و کرم کیا ہے

ہے تیری مجھ پر بڑی عنایت

خدا خدا کر خدا کے بندے

قریب تر ہے ترے قیامت

ہے بے سکونی کا راج ناقِدؔ

مرا مقدر نہیں ہے راحت

یہ جو ہے اضطراب فرقت کا

اصل میں ہے نصاب الفت کا

وہ تو عقبیٰ سے بے خبر ٹھہرا

جو بجائے رباب عشرت کا

تیرا میرا ہے روح کا رشتہ

کیا لگاؤں حساب چاہت کا؟

اب فرشتہ وہ رہ نہیں سکتا

اُٹھ گیا ہے حجاب ثروت کا

سب کے سب قربتوں کے رسیا ہیں

ہم نے دیکھا عتاب قربت کا

ہم نے بخشیں جو راحتیں تم کو

مل رہا ہے ثواب راحت کا

تم نے دنیا کے غم نہیں دیکھے

ہم نے دیکھا سراب غربت کا

تم تو ناقِدؔ سکوں کے خوگر ہو

لطف چکھو جناب کلفت کا

پیشکش

اسے دوستی کی جو کی پیش کش ہے

بپا ذہن میں اس کے اب کشمکش ہے

بنا میرا اظہار معذوری میری

کہ بھانپی ہے اس نے یہ مجبوری میری

میں اے کاش اظہارِ الفت نہ کرتا

تو ہجراں میں یوں سرد آہیں نہ بھرتا

سو اس حال میں کچھ سجھائی نہ دے اب

کرے کیا کہ بندے جیے نہ مرے اب

نہ کوئی پھنسے کاش اس کشمکش میں

مسائل ہیں پنہاں اسی پیشکش میں

مغائرت

تم وفا کے منکر ہو

ہم وفا کے پیکر ہیں

تم جفا کے خوگر ہو

ہما جفا سے عاری ہیں

تم سکوں سے رہتے ہو

ہم کو بے قراری ہے

تم خوشی کے تاجر ہو

ہم غموں کے رسیا ہیں

تم سے ہم ملیں کیسے؟

طور اپنا اپنا ہے

مجھے کھائے جاتے ہیں غم دوسروں کے

فسانے سناتا ہوں میں بے بسوں کے

مری جان یہ جو ہیں اشعار میرے

ہیں در اصل حاصل مرے رت جگوں کے

جوانی پہ کیا خوب آیا ہے جوبن

مجھے روز و شب خواب ہیں تتلیوں کے

یہ اس بھیس میں بھی ہمیں لوٹتے ہیں

رقم کیا کریں ہم ستم غم زدوں کے

زمانہ ہمیں  معتبر جانتا ہے

کہ ہم بن کے آئے ہیں فاتح دکھوں کے

میں کس کس کے احساں کے قصے سناؤں؟

رہے مجھ پہ احساں بہت دوستوں کے

ملن رت مری جان آئی ہوئی ہے

کہ موسم ہیں آتے ہوئے بارشوں کے

خرد کا جو یوں دور دورہ ہوا ہے

پڑھے گا یہاں کون قصے جنوں کے؟

محبت کی منزل نہیں کوئی آساں

مسائل ہیں گمبھیر ان راستوں کے

براہِ کرم تم ہمیں یوں نہ چھیڑو

کہ ہم ہیں ستائے ہوئے مہ وشوں کے

یہ دنیا تو در اصل ہے اہلِ دل کی

سدا دیکھتی ہے چلن من چلوں کے

سدا تم نے کی ہے خوشی کی تجارت

مگر ہم پہ برسے ہیں بادل غموں کے

ہے اب کون پرسانِ حالِ فقیراں

بڑھائے گئے دکھ یہاں بے کسوں کے

مری حزن سے دوستی ہے پرانی

ہیں اشعار عکاس حالِ زبوں کے

ہیں کیا کیا خرافات منسوب ان سے

فسانے عجب ہیں یہاں دل جلوں کے

کوئی اور تو شوق ہم کو نہیں ہے

رہے ہم ہیں رسیا فقط مہ رخوں کے

بتائیں تمہیں کیا سبب شاعری کا

ہیں احوال اپنے غمِ بے چگوں کے

تخیل کا گو ہے ترفع بھی ان میں

مرے شعر حامل ہیں سوزِ دروں کے

ہوا جب سے احساس ناپید ناقِدؔ

مددگار کم پڑ گئے مفلسوں کے

وعدۂ فردا پہ جینا ہے محال

کس نے کی کس سے وفا طرفہ سوال؟

جب کیا ہے عشق نے ہم کو اسیر

زندگی اپنی ہوئی ہے اک وبال

دد کی ٹیسیں بڑھی ہیں روز و شب

میرے زخموں کا ہوا کب اندمال؟

کیوں ہوا شکوہ کناں وہ شخص بھی؟

عمر بھر کی جس کی میں نے دیکھ بھال

عمر میری کٹ گئی ہے رنج میں

رکھ نہیں پایا کوئی میرا خیال

جادۂ اغراض پر چلتے ہیں لوگ

کس کے دل میں اب کسی کا ہے ملال؟

زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہے جو

اس کا ماضی ہے نہ فردا ہے نہ حال

دور غم سے جو رہا اس دور میں

ہے مری نظروں میں ناقِدؔ باکمال

تو نے سمجھا ہی نہیں ہے آگہی کا فلسفہ

ماورائے ذہن ٹھہرا روشنی کا فلسفہ

زندگی کیا ہے کوئی یہ آج تک سمجھا نہیں

ہے خودی کا فلسفہ یا بے خودی کا فلسفہ؟

عشق میں قربانیاں دینے کو وہ تیار ہے

جو سمجھ بیٹھا ہے کیا ہے عاشقی کا فلسفہ

دوستی کا وعدہ و پیمان کیا سمجھے وہ شخص

آج تک سمجھا نہیں جو دوستی کا فلسفہ

مفلسوں سے خیر خواہی بس اسی کا کام ہے

منکشف ہو جائے جس پر مفلسی کا فلسفہ

جس کو دیکھیں عالمِ اغراض کا باشندہ ہے

آشکارا ہو کسی پر کیا کسی کا فلسفہ؟

سب کو آ جائے سمجھ یہ اتنا آساں بھی نہیں

سہل چاہے جس قدر ہے شاعری کا فلسفہ

زندگی میں تو نے کی ہے یہ بھی ناقِدؔ پیش رفت

تو نے سمجھایا جہاں کو بے کلی کا فلسفہ

تقاضے نبھاتا رہا ہوں بیاں کے

حوالہ بنے ہیں مگر دکھ جہاں کے

مری شاعری سوز سے ہے عبارت

نہیں اس میں قصے چنیں و چناں کے

سخن میرا آسان تر اس لیے ہے

مسائل سبھی میں نے سمجھے زباں کے

تھا منشور ان کا تو مطلب پرستی

جفا کیش ٹھہرے وہ مخلص کہاں کے؟

ملی مفت میں ہے مجھے کب یہ منزل؟

تھے ہنگامے ناقِدؔ خروشِ سگاں کے

مجھے اس نے رسوا کیا خود بخود

نہیں ایسے تنہا ہوا خود بخود

کبھی پانے کی جستجو بھی نہ کی

ملا جو بھی مجھ کو ملا خود بخود

مری آتما کا جو تسکین دے

غزل کوئی ایسی سنا خود بخود

مرا اس میں کوئی بھی احساں نہیں

ہوئی مجھ سے تجھ سے وفا خود بخود

اسے ڈھونڈنے کے کرو تم جتن

نہیں ملتا یوں ہی خدا خود بخود

نہیں اس میں کوشش کا محنت کا دخل

وہ کرتا ہے روزی عطا خود بخود

کوئی اس کو سمجھے نہ سمجھے مگر

بیاں ہو گیا مدعا خود بخود

طلب کا قرینہ نہیں ہے کوئی

وہ کرتے ہیں ناقِدؔ جفا خود بخود

آشوبِ ہستی

مرا رہنا سہنا اجیرن ہوا ہے

غضب ناک مجھ پر یہ جیون ہوا ہے

میں سمجھا نہیں ہوں ستم زندگی کے

بہت جبر میں نے سہے آگہی کے

جہاں مجھ پہ کرتا ہے مشقِ ستم بھی

میں اک غم بھی ہوں اور اک موجِ غم بھی

مجھے بے بسی راس آئی نہیں ہے

حقیقت ہے مطلق دہائی نہیں ہے

سدا بے کلی میں رہی میری ہستی

سمجھتا ہے اس کو جہاں ایک پستی

کبھی میں نے مخلص جہاں کو نہ پایا

سدا اپنے غم کا فسانہ سنایا

ہمیں وقت کیوں یوں  ستاتا ہے پیہم؟

ہمیں اک تماشا بناتا ہے پیہم

بہانے بنانے کے خوگر جو تم ہو

تو پھر کیوں یقیں ہم کو آتا ہے پیہم؟

مری جاں مجھے چھوڑ جاتا ہے جب تو

ترا ہجر مجھ کو رلاتا ہے پیہم

تو جتنا بھی اعراض کرتا ہے مجھ سے

مرا پیار تجھ کو بلاتا ہے پیہم

جفا تم روا اس پہ رکھتے ہو جتنی

وفا تم سے ناقِدؔ نبھاتا ہے پیہم

مہرباں مجھ پر ہوئے ہیں کب زمین و
آسماں؟

میری قسمت میں رقم ہے شوخیءِ اہلِ جہاں

کیا بتائیں حاصلِ عشق و محبت کیا رہا؟

تیری چاہت نے عطا کی ہیں ہمیں ویرانیاں

عمر بھر اہلِ زمانہ نے ہے ٹھکرایا ہمیں

ہے یہی باعث رہے ہیں ہم سدا شکوہ کناں

میں بظاہر دیکھنے میں آدمی خوش باش ہوں

میرے اندر ہے غموں کا ایک بحرِ بے کراں

پھر بھی ہم ناقِدؔ رہے ہیں خوگرِ زندہ دلی

اس لیے بخشی گئیں ہم کو سدا سرمستیاں

کیوں کسی کے عشق میں پھرتا رہوں دیوانہ
وار؟

ذہن میں میرے نہیں ہے کوئی بھی اب گل عذار

اہلِ دنیا سے سدا کھاتے رہیں ہیں ہم فریب

ہم کسی بھی شخص پر کرتے نہیں اب اعتبار

ترس کھانے کی روایت اب ہوئی عنقا یہاں

رحم کب آیا کسی کو روتے ہیں زار و قطار

اب اسے میں پیار کے قابل سمجھتا ہی نہیں

کر دیا اس نے جفا اپنی سے میرا دل فگار

جانِ من تم اب وفا کی قدر کرنا سیکھ لو

کوئی بھی کرتا نہیں ہے اب وفائیں بار بار

کر کے دیکھو سو جتن وہ رام ہوتے ہی نہیں

جن کی دستاریں ہوا کرتی ہیں اکثر پیچ دار

روح میری جب سے اپنے کُل سے ہے بچھڑی ہوئی

میں انہی ایام سے ناقِدؔ رہا ہوں بے قرار

داستانِ روز و شب ہے زندگی

ترجمانِ روز و شب ہے زندگی

اس کا پیمانہ اکائی وقت کی

پاسبانِ روز و شب ہے زندگی

سہل مت اس کو سمجھنا تم کبھی

امتحانِ روز و شب ہے زندگی

کم کسی نعمت سے اس کو مت سمجھ

ارمغانِ روز و شب ہے زندگی

درد و غم اس کا سدا حصہ رہے

اک فغانِ روز و شب ہے زندگی

اس کے ہم ناقِدؔ مشیرِ خاص ہیں

کاروانِ روز و شب ہے زندگی

کر رہے ہیں ہم وفائیں روز و شب

ان کی جاری ہیں جفائیں روز و شب

وہ بناتے ہیں ہمیں مشقِ ستم

ہم بھی لیتے ہیں بلائیں روز و شب

کوئی حرفِ خیر وہ رکھتے نہیں

ہم نے دیں جن کو دعائیں روز و شب

صبر کا یارا نہیں بیمار میں

اور پھر بھی وہ ستائیں روز و شب

وہ سدا ظلم و ستم کرتے رہیں

ناز ان کے ہم اٹھائیں روز و شب

جو وفا سے عمر بھر عاری رہے

کیوں ہمیں وہ آزمائیں روز و شب

ایک پل ناقِدؔ جنہیں بھولے نہیں

وہ ستم گر یاد آئیں روز و شب

حسن وہ ہے جو درونِ دل کرے محشر بپا

عشق وہ ہے خود میں جو رکھتا ہے اک خوئے وفا

مضطرب رہ کر گزارے ہم نے سب لیل و نہار

زندگی پائی ہے جیسے ہم نے پائی ہے سزا

آدمیت ہی بڑی تہذیب ہے ہر عہد کی

بھول بیٹھے اہلِ ثروت آئے گا روزِ جزا

زندگی کی دیکھ لیں تو نے بہاریں جس قدر

دل میں تیرے پر کبھی آیا نہیں خوفِ خدا

جھوٹ کی دنیا ہے یہ جھوٹے یہاں کے لوگ ہیں

آج کل ناقِدؔ یہاں کمیاب ہیں اہلِ صفا

سدا ہم کو رشتوں کی الفت نے مارا

ہمیں ڈر تھا چاہت کا چاہت نے مارا

بہت زُہد کا فخر شیطان کو تھا

اسے اس کے نازِ عبادت نے مارا

کسی غم سے میں مرنے والا نہیں تھا

مجھے گل عذاروں کی فرقت نے مارا

انہیں تاج داری کا تھا زعم لیکن

ہمیں ان کے طرزِ حکومت نے مارا

رہا اہلِ دنیا سے شکوہ یہی ہے

مجھے اس جہاں کی سیاست نے مارا

مرا سارا جیون ہے گھٹ گھٹ کے گزرا

تری سرد مہری کی عادت نے مارا

مجھے محفلوں نے سنوارا بہت ہے

مگر بدقماشوں کی صحبت نے مارا

رہی تیری ناقِدؔ پہ سکرات پیہم

اسے ہے وفورِ اذیت نے مارا

جو ہمیں پیہم رلائے ہے وہ دھارا وقت کا

دن کو جو تارے دکھائے ہے وہ دھارا وقت کا

اہلِ دنیا سے وفا کرتے رہے ہم دم بہ دم

پھر بھی ہم کو جو ستائے ہے وہ دھارا وقت کا

کوئی اس کی گردشوں کو آج تک سمجھا نہیں

پاس آ کر دور جائے ہے وہ دھارا وقت کا

در حقیقت امتحاں جیون ہے سب کے واسطے

روز و شب جو آزمائے ہے وہ دھارا وقت کا

زندگی کے راز کو پہچان اس کی قدر کر

جو سمجھ مشکل سے آئے ہے وہ دھارا وقت کا

تو نے کیا سمجھے ہیں ناقِدؔ زندگی کے پیچ و خم

جس کے باعث غم ہی پائے ہے وہ دھارا وقت کا

نئی ردیفوں کا چلن میرا سخن

نئے خیالوں کا چمن میرا سخن

زاویے ہیں کچھ نئے افکار کے

ہے مرا یہ بانکپن میرا سخن

فصلِ گل کا استعارہ بھی لگے

یاسمین و نسترن میرا سخن

سوز کی پرچھائیاں بھی اس میں ہیں

حاملِ رنج و محن میرا سخن

اس میں پنہاں ہیں بہت رنگینیاں

ہے طرب کی انجمن میرا سخن

ہیں زمانے کے سبھی احوال بھی

اور ذکرِ گل بدن میرا سخن

مردِ میداں بھی ہوں میں ناقِدؔ رہا

اور ہے میرا یہ فن میرا سخن

جس کو رسوائی کا ڈر ہو عشق وہ کیسے کرے؟

ایسے ہی ہر شخص کے ارمان رہتے ہیں دھرے

سکھ سکوں کی منزلوں کو فرد کیا وہ پا سکے؟

جو رہا ہو مشکلاتِ دہر سے ہر دم پرے

نیک لوگوں کے توسط سے چلی ہے کائنات

میں کھرا ہوں اور میرے ہم نشیں بھی ہیں کھرے

جو بنی نوعِ بشر سے نیکیاں کرتا رہا

تا ابد رہتا ہے زندہ وہ بھلا کیسے مرے؟

مردِ میداں ہے وہ ناقِدؔ اس جہانِ خوف میں

جو خدا کا خوف رکھتا ہے کسی سے کیا ڈرے؟

رہی جنگ جاری جہالت سے ہر پل

الجھتا رہا میں حماقت سے ہر پل

جدائی تری کا سبب اور کیا ہے؟

تجھے کھویا اظہارِ الفت سے ہر پل

میں اخلاص کا استعارہ ہوا ہوں

نہ دیکھا کرو مجھ کو نفرت سے ہر پل

مری زندگی کی حقیقت یہی ہے

لیا سانس میں نے اذیت سے ہر پل

مجھے دوستوں نے بہت غم دیے ہیں

میں خائف رہا ہوں صداقت سے ہر پل

مجھے جھوٹ سے کوئی نسبت نہیں تھی

مرا وقت گزرا صداقت سے ہر پل

مجھے لوٹنا کوئی آساں نہیں ہے

دیا مجھ کو دھوکا صباحت نے ہر پل

کبھی بے کسوں کی نہ کی دستگیری

ہے مجھ کو شکایت حکومت سے ہرپل

کیا خون اس نے اصولوں کا ناحق

رہا ہوں میں خائف سیاست سے ہرپل

نہیں کچھ بھی انسان میں خوف ناقِدؔ

ہوا دور ہے یہ شرافت سے ہر پل

مجھے کوئی دکھ ہے نہ جوشِ جنوں ہے

تو پھر کیوں مرا حال اتنا زبوں ہے؟

سمجھ آج تک مجھ کو اپنی نہ آئی

مرا غم بھی جیسے غمِ بے چگوں ہے

سبھی ولولے میرے راہی ہوئے ہیں

نہ ہے تندرستی رگوں میں نہ خوں ہے

رہا آج تک میں سمجھنے سے قاصر

مجھے کوئی آسیب ہے یا فسوں ہے

مجھے حزن اپنا رہا ہے گوارا

مرا حزن گو ہر کسی سے فزوں ہے

ملا جب مجھے ان کے درشن کا موقع

لگا خواب ہے یا کوئی خوب گوں ہے

رہا پاس میرے نہ کچھ اور ناقِدؔ

مرا ہم سفر میرا سوزِ دروں ہے

تشخیص

مجھے عاشق نہ تم جانو

کہاں ہے عشق سے نسبت؟

سخن میرا بیاں کا اک تقاضا ہے

نہ کچھ مجھ کو کہا جائے

فقط شاعر کہا جائے

یہی پہچان ہے میری

رکھوں گا میں خیال اپنے تشخص کا

یہ فطری وصف ہے میرا

تصنع سے گریزاں ہوں

مرے افکار شاہد ہیں

مجھے ناخوش بناوٹ ہے

جو مصلحت کا اسیر ٹھہرا

کہاں وہ مردِ فقیر ٹھہرا؟

غریب اس کو کہو نہ ہرگز

جو شخص دل کا امیر ٹھہرا

سوال اس کے عجیب تھے کچھ

وہ بن کے منکر نکیر ٹھہرا

مشقتوں کا رہا جو رسیا

وہی جہاں میں نظیر ٹھہرا

مٹا دیا نفرتوں کو اس نے

خلوص کا راہ گیر ٹھہرا

وہی رہا ہے مرا معاون

جو سب کا ناقِدؔ نصیر ٹھہرا

سدا اپنی نسبت رہی ہے ادب سے

رہے ہیں جدا ہم زمانے میں سب سے

مشیت نے بخشی ہے درویشی ہم کو

ہیں محفوظ ہم اس جہاں کے غضب سے

ہے کردار انساں کو انساں بناتا

نہیں فائدہ کوئی نام و نسب سے

رہا ہوں اسی دن سے پیہم پریشاں

نہیں دیکھی صورت تری میں نے جب سے

کبھی ان کی الفت سمجھ ہم نہ پائے

ملے مہرباں ہیں ہمیں کچھ عجب سے

اسے واسطے اپنے جانا سعادت

سنا اپنا شبھ نام جب تیرے لب سے

رہا منتظر تیرا برسوں سے ناقِدؔ

کبھی پاس آؤ کسی بھی سبب سے

رودادِ زیست

مرے غم ہیں سارے تخیل کے قصے

جہاں میں کوئی دکھ نہیں دیکھا میں نے

رہی ہم سفر کامرانی ہے میری

قدم چوما کرتی ہے ہر آن میرے

یہی کامیابی کا واحد سبب ہے

مجھے جہدِ پیہم سے نسبت رہی ہے

مری کاوشوں میں ہے اخلاص شامل

کبھی مشکلوں سے نہ خائف ہوا ہوں

کرایا ہے محنت کی عظمت کو باور

مری مشقِ فن ہے بڑی روح پرور

مدد گار میرا رہا میرا داور

بنا قلزمِ فن کا میں اک شناور

جہاں کیسے بیداد مجھ پر کرے گا

رقم ہے مرا نام ورقِ جہاں پر

اسی سے بقا میری ہستی نے پائی

جفا جس نے کی وہ ہے مذموم ٹھہرا

نہیں جس کا کوئی وہ مظلوم ٹھہرا

ملے ہیں مسائل بہت زندگی میں

ہے جیون اجیرن غمِ مفلسی میں

مجھے یعنی قسمت پہ حیرت ہوئی ہے

اندھیرا ملا ہے مجھے روشنی میں

سدا دوسروں سے ہے اخلاص برتا

مرے دکھ نہیں ہیں مری آگہی میں

ترے عشق نے دن کو تارے دکھائے

مجھے کیا ملا ہے تری عاشقی میں

مرا تجھ سے ویسے تکلم نہیں ہے

کہا تجھ سے جو کچھ کہا شاعری میں

کسی سے وفا کوئی کیسے کرے گا؟

نہیں ہے مروت یہ ناقِدؔ کسی میں

تصویرِ حزن

اداس رت ہے مہیب منظر

مجھے ستائیں عجیب منظر

خوشی کا کوئی نہیں تصور

نہ پیار کا ہے حسیں تصور

ہے گومگو سی حیات ساری

خراب دن ہیں تو شب ہے بھاری

ملال میرا جواں ہے پل پل

اذیتوں کا سماں ہے پل پل

خزاں زدہ ہے یہ میرا جیون

ہوئی مری زندگی اجیرن

ہمیں محبت نہ راس آئی

کبھی مسرت نہ پاس آئی

سپاس گزاری

رہی خلوتیں درد و غم سے عبارت

نہ تھا وقت میرے کا کچھ اور مصرف

کسی نے مجھے اپنی چاہت کے لائق نہ جانا

کٹا میرا جیون ہے محرومیوں میں

یہی ہے سبب میں نہیں کر سکا کچھ

پڑا ہے مجھے پالا ناکامیوں سے

ہے اس موڑ پر مجھ کو لے آئی دنیا

نہ مرنا ہے بس میں نہ جینا ہے آساں

رقم کی گئی میری قسمت میں سختی

رہا ہوں میں ہر حال میں پھر بھی شاکر

ہوئی ہے عطا مجھ کو قانع طبیعت

دل میں تیرا جو پیار بستا ہے

مجھ میں بن کر خمار بستا ہے

چین آئے بھلا مجھے کیسے؟

پیار کا جو بخار بستا ہے

اس نگر سے ہے پیت کا رشتہ

اس میں اک جاں نثار بستا ہے

میں تو جیون وہاں گزاروں گا

جس نگر میں قرار بستا ہے

دل ہمارا بھی مثلِ گلشن ہے

اس میں اک گل عذار بستا ہے

اپنی دھرتی نہ کیوں مکرم ہو

اس میں حسن و وقار بستا ہے

اس لیے ہے خوشی کا تو رسیا

تجھ میں تیرا نگار بستا ہے

ہر خوشی سے ہے دوستی ناقِدؔ

مجھ میں جشنِ بہار بستا ہے

وفا پرستوں نے کی وفاؤں کی پاسداری

اسی لیے تو حیات ان پر رہی ہے بھاری

سدا غریبوں کے کام آیا ہوں زندگی بھر

ہے میرا منصب غریب لوگوں کی غم گساری

رہے ہیں جو کرۂ زمیں پر ستم کا باعث

بہت سے چھوڑے ہوئے ہیں طاغوت نے حواری

کسی بھی صورت اداسی اپنے نہ پاس آئے

ہمارے پہلو میں رب نے رکھا ہے دل بہاری

اگرچہ ناقِدؔ خوشی نے خود کو ہے زندہ رکھا

مگر جہاں میں رہی سدا غم کی تاجداری

مرا عشق تو شاعری کیلئے ہے

مری زندگی روشنی کیلئے ہے

وفا میں نہیں رکھتا تخصیص کوئی

یہ اخلاص تو ہر کسی کیلئے ہے

کوئی چاہے جو اس سے مفہوم لے لے

مری شاعری آدمی کیلئے ہے

کسی سے عداوت نہیں مجھ کو مطلق

فقط مجھ میں غصہ بدی کیلئے ہے

نہیں فردِ واحد سے ناقِدؔ محبت

مرا پیار جیسے سبھی کیلئے ہے

رسوخ

کروں گا میں دل کھول کے تجھ سے باتیں

مرے من میں یہ ایک حسرت بسی ہے

جو ہیں باتیں دل میں سناؤں گا تجھ کو

جو ہیں تیرے دل میں سنوں  گا میں تجھ سے

ترے پیار کا مجھ کو اندازہ ہو گا

مرے پیار کا تجھ کو اندازہ ہو گا

یہ اندازہ ہو گا کہ ہم کتنے مخلص ہیں اک دوسرے
سے

مگر ترے دعوے ہیں سارے جھوٹے

اسی کے مماثل مرے عہد و پیماں بھی ہیں سارے
جھوٹے

یہی راستہ جانچ پڑتال کا ہے

ایسے حقیقت عیاں ہو گی ہم پر

یہی اپنی ہستی کا مفہوم ہو گا

زمانہ ہمیں چاہے جتنا ستائے

نہ باہر کبھی ہم بھی آپے سے آئے

مقدر نے ہم پر ستم ایسے ڈھائے

ہیں دکھ سارے اپنے تو سکھ ہیں پرائے

جو دیوانہ اپنی نہ اوقات جانے

وہی ہر قدم پر یہاں مار کھائے

قرینے سے ہستی ہے جس نے گزاری

جہاں کے سبھی سکھ اسی نے ہیں پائے

اسے زندگی بھر ندامت رہی ہے

یہاں جس نے اوقات اپنے گنوائے

ہے طاقت وروں کا سہارا یہ ناقِدؔ

جو کمزور ہیں ان کو دنیا رلائے

نفرتیں ہم نے بہت دیکھی ہیں اپنے دور میں

ہیں مصائب اور بھی پنہاں بہت اس اور میں

اور کوئی طرز اپنایا نہیں ہے عمر بھر

زندگی ہم نے بسر کی سادگی کے طور میں

بے خیالی میں گزارے ہیں شب و روزِ حیات

مشکلیں محسوس کیں ہم نے جہانِ غور میں

خلوتوں میں آپؐ نے پایا خدا کا قرب ہے

اس لیے جایا سدا کرتے تھے غارِ ثور میں

سکھ سکوں کی حسرتیں رکھتی ہیں تجھ کو مضطرب

زندگی ناقِدؔ کٹی ہے تیری جبر و جور میں

کیا سنائیں ہم کہانی اب دلِ ناشاد کی؟

اس کی خاطر ہم نے اپنی زندگی برباد کی

پَے بہ پَے تو نے دیے غم پھر بھی وہ خاموش ہے

چھین لی ہیں تو نے خوشیاں بندۂ آزاد کی

کیا بتاؤں میں کسی کو کس کو حاصل ہے یقیں؟

داستاں اتنی انوکھی ہے تری بیداد کی

کان کس نے کب دھرے عنقا یہاں احساس ہے

مانتا ہوں میں کہ میں نے کس قدر فریاد کی

بو الہوس بھی عاشقی کرتے رہے ہر دور میں

زندگی شاید ہے ناقِدؔ قیس کی فرہاد کی

ہمیں فراغت نصیب کب ہے؟

ہوئی یہ راحت نصیب کب ہے؟

پڑا تری نفرتوں سے پالا

تری محبت نصیب کب ہے؟

کوئی نہیں ہم سفر ہمارا

تری رفاقت نصیب کب ہے؟

تمہارے درشن کی آرزو ہے

تمہاری قربت نصیب کب ہے؟

مرے مقدر میں ہے کدورت

کسی کی چاہت نصیب کب ہے؟

کبھی تو ناقِدؔ کا پیار سمجھے

اسے یہ صورت نصیب کب ہے؟

گو مگو میں گزرے ہیں میرے شب و روزِ حیات

پیش آئے ہیں مجھے جیون میں پیہم سانحات

چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے

تیری دنیا میں ہوا حاصل کسی کو کب ثبات؟

ہم گوارا دکھ مسلسل رات دن کرتے رہے

کب ملا ہے دن سکوں کا کب کٹی راحت سے رات؟

غیر ممکن ہے کوئی اس میں رہے آرام سے

ہے یہ دنیا اصل میں جائے وقوعِ حادثات

ہو چکا اخلاص کے باعث یہ رسوا دہر میں

کلبۂ احزاں ہوئی ہے اب ترے ناقِدؔ کی ذات

جفاؤں پہ مائل ہیں اہلِ جہاں اب

خوشی کا نہیں ہے کوئی بھی سماں اب

خموشی سے ہوں سوئے منزل رواں اب

اگرچہ ہے پیچھے خروشِ سگاں اب

ستم اس قدر مجھ پہ ڈھائے انہوں نے

بیاں سے ہوئی میری قاصر زباں اب

بھنور سے نکالیں جو اپنے سفینے

کہاں میری ملت میں ایسے جواں اب؟

کہی ان کہی میں نہیں فرق باقی

ہوئی بے اثر میری ناقِدؔ فغاں اب

زندگی مشکل سفر ہے

اور سفر بھی مختصر ہے

وقت کو ٹھکرانے والا

ہوتا رسوا در بدر ہے

ماورا خوف و خطر سے

رہنے والا با خبر ہے

سکھ سکوں ہے پاس اس کے

دہر میں جو با اثر ہے

بخش دیتا ہے مسرت

اس کا سب حسنِ نظر ہے

میں رہا بیمار ناقِدؔ

کون میرا چارہ گر ہے

یہاں روز و شب ایک محشر ہے برپا

نہ مجھ سے ہوا حسرتوں کا مداوا

بہت میں نے جھیلے جہاں میں مصائب

زمانے کی میں ہر خوشی کو ہوں ترسا

کٹی زندگی میری جس رنگ میں بھی

مرا حال تو نے پلٹ کر نہ دیکھا

یہی سوچ کر میں بچا عاشقی سے

محبت نہ کر دے زمانے میں رسوا

رہا اس لیے تجھ سے ناقِدؔ گریزاں

جہاں میں تھا تیری جفاؤں کا چرچا

ایک مقصد کے لیے میں نے گزاری زندگی

اور اس مقصد میں پنہاں تھی مری رخشندگی

اور کوئی پاس میرے رہ نہیں پایا کبھی

درد کی ٹیسیں رہی ہیں میرے من میں ہر گھڑی

روز و شب کچھ اس طرح میرے کٹے ہیں  عمر
بھر

کی جدائی میں  تری میں نے سدا آوارگی

عاشقی کو روگ من کا میں سدا سمجھا کیا

یہ سبب ہے کر نہیں پایا کبھی میں عاشقی

اس کو اپنے اس عمل پر اب نہیں کوئی ملال

جس نے ہے رسوا کیا اور جس نے ناقِدؔ جان لی

جب مجھے تجھ سے محبت ہو گئی

میری ہستی بیش قیمت ہو گئی

باعث اعزاز ہے میرے لیے

جس قدر فن کی ریاضت ہو گئی

پیار اک پتھر سے کر بیٹھا ہوں میں

بس یہی مجھ سے حماقت ہو گئی

بے کلی کا راج ہے شام و سحر

اک ستم گر سے جو الفت ہو گئی

جب سے آیا ہے نظر ہرجائی پن

مہ وشوں سے مجھ کو نفرت ہو گئی

پیار کا اظہار تجھ سے کر دیا

ایک بزدل سے جسارت ہو گئی

کر دیا رسوا وفاؤں نے مجھے

یوں حریفِ جاں مروت ہو گئی

رشتۂ اخلاص ناقِدؔ سب سے ہے

یہ بھی اک گونہ عبادت ہو گئی

ناخدا جب دشمنِ جاں ہو گیا

پھر سفینہ نذرِ طوفاں ہو گیا

جس کی چاہت میں کیا سب کچھ فدا

اُلٹا وہ بے درد نالاں ہو گیا

آج تک میں یہ سمجھ پایا نہیں

کیوں اسیرِ زلفِ پیچاں ہو گیا؟

اس قدر تو نے جفائیں مجھ سے کیں

ہر ستم تیرے پہ حیراں ہو گیا

مہرباں سا شخص تھا ناقِدؔ بڑا

راہیِ شہرِ خموشاں ہو گیا

اک مسلسل امتحاں ہے زندگی

عبرتوں کا بھی نشاں ہے زندگی

ماورائے فہم اس کے پیچ و خم

روز و شب کی داستاں ہے زندگی

کیسے کوئی جان پائے گا اسے؟

اصل میں  رازِ نہاں ہے زندگی

ہے رواں یہ دم بہ دم اک جوش سے

یوں سمجھ پل پل جواں ہے زندگی

زندگی حُزن و طرب کا امتزاج

کب فقط آہ و فغاں ہے زندگی؟

بھید یہ سارے چھپائے آپ کے

جیسے ناقِدؔ راز داں ہے زندگی

نہیں آشنائی کوئی کارگر

نظر میں رہا کب کوئی معتبر

کوئی میرا مخلص و مونس نہیں

مری زیست ہے ایک تنہا سفر

نہ پایا کسی کو بھی جب مہرباں

کیا اپنی ہستی سے میں نے مفر

رہا بے کلی میں سدا مضطرب

نہیں راس آئی کوئی بھی ڈگر

مری کامیابی کا باعث بنیں

مری کاوشیں جو رہیں تیز تر

کسی اور خوبی کی حاجت نہیں

مرا فن ہی ناقِدؔ ہے میرا ہنر

تلاش مت کر وفا کا حاصل

نہیں جہاں دلبری کے قابل

جتن اگرچہ بہت کیے ہیں

ہوا نہ میری طرف وہ مائل

کیا ہے دل نذر جس کو میں نے

وہ بے مروت رہا ہے بے دل

سدا بھنور میں رہا سفینہ

مرے مقدر میں کب ہے ساحل

جفائیں ناقِدؔ نہ کر سکا وہ

ہوا جو مہر و وفا کا قائل

یہاں وفا با ثمر نہیں ہے

کرم کے قابل نگر نہیں ہے

غرور کیوں ہے تجھے جفا پر

جفا بدی ہے ہنر نہیں ہے

ستم ہے گو حاملِ اذیت

ستم سے لیکن مفر نہیں ہے

یہاں ہے فقدان راحتوں کا

سکوں کی دنیا ڈگر نہیں ہے

سفر یہ اس دشت کا ہے ناقِدؔ

جہاں پہ کوئی شجر نہیں ہے

رنج و محن کی داستاں ہے زندگی

درد و الم کا اک بیاں ہے زندگی

کھلتی نہیں ہے زندگی ہر شخص پر

جیسے محیطِ بے کراں ہے زندگی

جس نے بھلائے ہیں تقاضے وقت کے

اس پر بہت نامہرباں ہے زندگی

جو شخص مادیت کا رسیا ہو گیا

اس کے لیے سود و زیاں ہے زندگی

رُکتے نہیں ناقِدؔ کبھی یہ قافلے

یوں کاروں در کارواں ہے زندگی

کچھ لوگ بے وفا ہیں کہ ہمیں بھُلا چکے
ہیں

وہ خود ہیں پر مسرت ہم کو رُلا چکے ہیں

رہتا ہے راج ان کا دنیا کی ہر خوشی پر

ارمان وہ ہمارے لیکن سلا چکے ہیں

مشتاقِ وصل ہم ہیں وہ محوِ لن ترانی

آتے نہیں وہ ہرگز جتنا بُلا چکے ہیں

تحلیل ہو گئے ہیں یادوں کے اک بھنور میں

بحرِ عمیق میں وہ ہم کو گھلا چکے ہیں

ماں باپ جن کے بوڑھے خدمت جنہوں نے کی ہے

بخشش کے باب ناقِدؔ خود پر کھلا چکے ہیں

اس بے وفا سے دوستی ہے امتحاں

اس پُر جفا کی بے رخی ہے امتحاں

قدرت جسے اظہار پر حاصل نہیں

اس کے لیے تو شاعری ہے امتحاں

خوش حال مجھ کو لوگ ہیں سمجھا کیے

میرے لیے جو زندگی ہے امتحاں

بازیچۂ اطفال تو چاہت نہیں

ہر دور میں یہ عاشقی ہے امتحاں

تنہا ہوا ناقِدؔ تمہارے شہر میں

اس کے لیے تو بے بسی ہے امتحاں

سدا مروت کے دائروں میں رہا مقیّد

رہی ہے مجھ میں ہمیشہ جنسِ وفا مقیّد

میں ہوں مسائل کی دوزخوں میں سکوں نہیں ہے

ہے اپنی ہستی میں اپنی پیہم سزا مقیّد

ہے ابنِ آدم کے سر میں آوارگی کا سودا

نہ خلد میں کر سکا اسے ہے خدا مقیّد

ترا تعلق فقط جفا سے ہے عمر بھر کا

رہی ہے کردار میں ترے تو جفا مقیّد

جہاں کی ہر اک خبر سے ٹھہرا ہے لاتعلق

جو پیار تیرے میں تیرا ناقِدؔ ہوا مقیّد

زندگی روزِ ازل سے کلفتوں کی نذر ہے

ہر نفس جیسے سزا ہے حیرتوں کی نذر ہے

سکھ سکوں جیون کا سارا تج دیا تیرے لیے

اک ملن کی آس ہے سو ظلمتوں کی نذر ہے

زیست کے صحرا میں جیسے اب کے کچھ باقی نہیں

بس حیاتِ چند روزہ فرقتوں کی نذر ہے

ہے دعا آئندہ بھی کوئی الم تجھ کو نہ ہو

زندگی تیری سہانی صحبتوں کی نذر ہے

مجھ کو میری زیست نے ناقِدؔ کبھی خوشیاں نہ دیں

ہر ادھورا خواب میرا حسرتوں کی نذر ہے

سدا مصلحت نے ستم ڈھائے مجھ پر

اگرچہ زمانے سے سوچا ہے بہتر

مجھے صبر اتنا ودیعت ہوا ہے

کہ دکھ درد سارے سہے میں نے ہنس کر

کسی کو حقارت سے دیکھا نہیں ہے

مکیں ہے مرے من میں گویا قلندر

بھرم کیوں نہ رہتا مرا فن میں قائم؟

کہ میں قلزمِ شعر کا ہوں شناور

مرا تجربہ ہے وفا جس سے کی ہے

زیاں میرا ناقِدؔ کیا اس نے اکثر

پسِ وفاتِ مادر

زندگی نہیں ہوئی ماں کے بغیر

فرحتیں بے کیف ہیں ماں کے بنا

بے مزہ ہے زندگی ماں جو نہیں

کون دیتا ہے دعائیں دم بہ دم

زندگی اک بوجھ بن کے رہ گئی

جب سے ماں داغِ جدائی دے گئی

خواب سی ہے پر مسرت زندگی

اب تو ماں کی یاد ہے میری حیات

کاش ہو مجھ کو بہم صبر و ثبات

زندگی ہے دم بہ دم اک آرزو

جس میں شامل ہے مذاقِ جستجو

حسن تو حسنِ عمل کا نام ہے

کب ہے کافی صرف ہونا خوب رُو

شاعری میری نہیں ذکرِ خواص

کرتا رہتا ہوں عوامی گفت گو

میں ہوں تیرا اک حقیقی قدر داں

نام لیتا ہوں  ترا میں با وضو

جاں سپاروں کی کمی ناقِدؔ نہیں

ان کے رسیا ہیں جہاں میں کو بہ کو

زندگی تنہا کٹی ہے دم بہ دم

ساتھ میرے بے بسی ہے دم بہ دم

بس یہ خامی ہے مرے کردار میں

روز افزوں عاشقی ہے دم بہ دم

کب رہا غافل میں تیری یاد سے؟

لب پہ ذکرِ دوستی ہے دم بہ دم

اور کوئی کام راس آتا نہیں

التزامِ شاعری ہے دم بہ دم

اس کو ناقِدؔ بھول جاؤں کس طرح

ساتھ میرے جو رہی ہے دم بہ دم

وقفِ رنج و بے کلی ہے ہر گھڑی

چار دن کی چاندنی ہے ہر خوشی

میں سکوں سے رہ نہیں پایا کبھی

رات دن بڑھتی رہی ہے بے کلی

کوئی بھی مونس یہاں میرا نہیں

دہر کی ہر دوستی ہے عارضی

اہلِ دنیا کو سخن بھایا نہیں

ان کے مطلب کی نہیں یہ شاعری

دار پر لے جائے جب مجھ کو جنوں

پھر بچائے مجھ کو ناقِدؔ آگہی

کب ملی مجھ کو مسائل سے نجات؟

سکھ سکوں سے کب مری گزری ہے رات؟

اہلِ دنیا سے نہ میری بن سکی

ہر مصیبت نے لگا رکھی ہے گھات

نفسی نفسی کا ہے عالم ہر طرف

کون سنتا ہے یہاں مخلص کی بات؟

کیا بھروسا زندگی پہ کیجئے؟

زیست ہے روزِ ازل سے بے ثبات

کوئی انہونی یہاں ہوئی نہیں

کیوں ہے ناقِدؔ انتظارِ معجزات

کج ادائی اداس رکھتی ہے

بے وفائی اداس رکھتی ہے

وصل میں ہے سرور بے پایاں

پر جدائی اداس رکھتی ہے

اور کوئی بھی غم نہیں مجھ کو

جگ ہنسائی اداس رکھتی ہے

کب ملا ہے سکون عاصی کو؟

ہر برائی اداس رکھتی ہے

تجھ کو ناقِدؔ نہیں غمِ دنیا

آشنائی اداس رکھتی ہے

ہمیں حسن والوں سے نفرت ملی ہے

سدا ان کو ہم سے محبت ملی ہے

زمانے کے انداز سب جانتے ہیں

ہمیں کب جہاں سے مروت ملی ہے؟

رہے دور ہم سفلگی سے ہمیشہ

کہ ورثے میں ہم کو شرافت ملی ہے

نہیں ہے کسی قسم کا ہم کو لالچ

کہ ہم کو فزوں تر قناعت ملی ہے

یہ دولت خدا کی ہے نعمت خدا کی

تمہیں یہ جو نقدِ صباحت ملی ہے

نہ کر پائے گا ہم کو پسپا زمانہ

ہمیں ہمت و استقامت ملی ہے

غضب ناک دیکھے ہیں دنیا کے تیور

کہ بانٹی ہے چاہت حقارت ملی ہے

ہمیں دہر کے گویا سب سکھ ملے ہیں

تمہاری جو ہم کو رفاقت ملی ہے

ہے اک نعمتِ خاص دل کی خوشی بھی

ترے دم قدم سے سکینت ملی ہے

جہاں کے رواجوں سے بیزار ہیں ہم

ہمیں ایک طرفہ طبیعت ملی ہے

سدا جس نے محنت کو اپنا ناقِدؔ

اسے اس جہاں میں امامت ملی ہے

مری جاں ہے جاں تمہاری

ہے مری وفا شعاری

میں اکیلا وقفِ غم ہوں

کرے کون غم گساری؟

کبھی میں نے سکھ نہ پایا

ملی تجھ کو تاج داری

یہ جہاں عجب ہے

چلے جس طرح کٹاری

ہم نے وفا نبھائی

ہے اُٹھایا بوجھ بھاری

ہم سے ہوئی ہے ناقِدؔ

سچ کی ہی پاسداری

تری بے نیازی ہوئی ہے قیامت

تری بے رخی نے بھی دی ہے اذیت

سکوں ایک دن بھی نہیں پایا میں نے

ملی جب سے مجھ کو قلم کی رفاقت

زمانہ مری قدر کرتا نہیں ہے

مرے پاس ہے جنسِ شرم و شرافت

کبھی جھوٹ اپنے نہیں پاس بھٹکا

ودیعت ہمیں جو ہوئی ہے صداقت

کوئی اور ناقِدؔ نہیں دکھ مجھے اب

بنی آگہی میری خاطر عقوبت

ہمیں  زیست میں رنج حاصل ہوئے

جو تھے مہرباں اب وہ قاتل ہوئے

جہاں میں تھا اخلاص عالی مرا

عدو بھی دل و جاں سے قائل ہوئے

نہ ہوں گے فراموش دنیا میں وہ

جو راہِ محبت میں بسمل ہوئے

ہے وہ نفسا نفسی کا عالم نہ پوچھ

جو مخلص تھے وہ بھی ہیں سنگ دل ہوئے

نہیں مفلسی سے شکایت مجھے

ہیں کم میرے اپنے وسائل ہوئے

زمانہ سخی مانتا تھے جنہیں

یہ دیکھا گیا ہے وہ سائل ہوئے

مصائب سے پیہم الجھتے رہے

نہ کم زندگی کے مسائل ہوئے

سدا جن سے کرتا رہا ہوں وفا

مری راہ میں ہیں وہ حائل ہوئے

کسی اور کا خوف مجھ کو نہیں

عدو میرے اپنے دلائل ہوئے

زمانے میں لوہا وہ منوا گئے

کہ شیر و شکر جب قبائل ہوئے

منا لاؤں، کی ہے یہ سعیِ بلیغ

وہ ناقِدؔ نہیں پھر بھی مائل ہوئے

زندگی میرے لیے ہے زندہ رہنے کی سزا

ہر کسی نے روا رکھا سلوکِ ناروا

رہبروں نے اس قدر لوٹا ہمیں

اس لیے رکھتے نہیں ہیں کوئی بھی اب رہنما

ہم رہے ہیں دنیا داری سے پرے کوسوں پرے

سو ہماری زندگی ہے مادیت سے ماورا

اہلِ دنیا روز و شب ہم کو ستاتے رہ گئے

ہم لہٰذا ہو چکے ہیں خوگرِ جور و جفا

عشق نے ناقِدؔ ہمیں رسوا کیا ہر دور میں

حسن والے ہی خطا کر کے بھی ٹھہرے بے خطا

کتنے رنج و کرب جھیلے ہیں خبر کوئی نہیں؟

بے نوا صحرا ہے جیون چارہ گر کوئی نہیں

ایک تنہائی میں گزرے ہیں شب و روزِ حیات

رہ گزارِ زندگی میں ہم سفر کوئی نہیں

حزن و غم سے رستگاری کب میسر ہو ہمیں

عشق میں ایسے پھنسے ہیں کہ مفر کوئی نہیں

جس کے باعث عشق و الفت کا بھرم قائم رہے

تیری دنیا میں رہا ایسا بشر کوئی نہیں

ہم نے ناقِدؔ پیش کی اپنی کشیدِ جاں مگر

وہ جو بے حس تھے ہوا ان پر اثر کوئی نہیں

مجھے زیست نے ایسا بے کل کیا ہے

کہ جیون مرا اب اجیرن ہوا ہے

وفا کر کے بھی میں نے کھائے ہیں دھوکے

مروت کا مجھ کو صلہ یہ ملا ہے

کیا میں نے ایثار جس کے لیے بھی

اسی نے مجھے رنج و حرماں دیا ہے

نہیں راس آئی مجھے جنسِ الفت

بنی میری خاطر محبت سزا ہے

ہوئی ہے مری زندگی نام جس کے

مرا درد بھی تو اسی کی عطا ہے

یہاں آپا دھاپی کا عالم ہے ہر سو

یہ دنیا ہے یا کوئی روزِ جزا ہے

مری بات میں کوئی ابہام کیوں ہو؟

کہا میں نے بے لاگ جو کچھ کہا ہے

مرے غم کا ادراک ہو تجھ کو کیونکر؟

مرا دکھ ترے فہم سے ماورا ہے

جو پائے ہیں دکھ بے سبب تو نہیں ہیں

ملی اپنے کرموں کی مجھ کو سزا ہے

جسے پڑھ کے سب کے ہوئے اشک جاری

وہی میری بپتا ہے میری کتھا ہے

محبت جو کی تجھ سے ناقِدؔ نے سچی

یہی تو حقیقت میں اس کی خطا ہے

زندگی الجھی ہوئی ہے کیف و کم کے درمیاں

عمر ساری کٹ گئی ہے درد و غم کے درمیاں

اب یہاں کوئی نہیں جائے اماں میرے لیے

مجھ کو ہے لوٹا گیا دیر و حرم کے درمیاں

زندگی میں کب سکوں کا کوئی لمحہ مل سکا

میں سسکتا ہی رہا رنج و الم کے درمیاں

میری قسمت میں خوشی لکھی نہ تھی میرے لیے

عمر میری کٹ گئی ظلم و ستم کے درمیاں

کوئی ناقِدؔ آج تک سمجھا نہیں ہے راز کیا

زیست کھاتی ہے تھپیڑے زیر و بم کے درمیاں

ہوں سدا رہینِ وہم و گماں

کب ملا ہے خوشی کا جہاں؟

سارے منظر ہیں  روٹھے ہوئے

کاش ہو کوئی دلکش سماں

میں ہوں انساں عجب دوستو

جو غموں میں رہا شادماں

کیا سنے کوئی بپتا مری؟

دکھ بھری ہے مری داستاں

کیسے ناقِدؔ سکوں سے رہوں؟

ہیں مخالف مرے آسماں

مری حسرتوں کا ٹھکانہ نہیں ہے

اگرچہ معاون زمانہ نہیں ہے

مجھے زندگی نے ہیں صدمات بخشے

حقیقت ہے کوئی فسانہ نہیں ہے

سدا سکھ سکوں کو ترستا رہا ہوں

لبوں پر خوشی کا ترانہ نہیں ہے

جسے نفرتیں راس آئیں جہاں میں

بنا وہ ستم کا نشانہ نہیں ہے

ادب کی یہ دنیا ہے آباد پھر بھی

کوئی میرؔ و غالبؔ یگانہؔ نہیں ہے

بنے تیرے ہر غم کی ڈھارس جو ناقِدؔ

کسی سے ترا دوستانہ نہیں ہے

مری زندگی سخت مشکل ہوئی ہے

مری ناؤ نزدیکِ ساحل ہوئی ہے

جسے میں سمجھتا رہا ہوں مسافت

خدا کے کرم سے وہ منزل ہوئی ہے

تری ہر ادا نے کیا مجھ کو گھائل

تری ہر ادا میری قاتل ہوئی ہے

کہاں زندگی راس آئی ہے مجھ کو؟

دکھوں میں مری جان بسمل ہوئی ہے

مجھے دوستی نے بہت دکھ دیے ہیں

دکھوں سے تری پیت حاصل ہوئی ہے

جسے مہرباں میں نے سمجھا تھا ناقِدؔ

ستم پر وہی نار مائل ہوئی ہے

زندگی لمبا سفر ہے

پھر بھی لگتا مختصر ہے

جانتا ہوں خوب میں یہ

کون کتنا پر خطر ہے

کچھ نہیں نظروں سے اوجھل

سارے عالم پر نظر ہے

آہ بڑھتی بے کلی میں

کون میرا چارہ گر ہے؟

باوفا مشہور تھا جو

اب وہ رسوا دربدر ہے

کس پہ ہو ناقِدؔ بھروسا؟

کون اتنا معتبر ہے؟

نہ وہ رابطے کی فضا رہی نہ وفا رہی

نہ وہ تجھ میں خوئے جفا رہی نہ وفا رہی

ہمیں کھا گئے ہیں ضرورتوں کے ہی جبر سب

نہ وہ زندگی کی ادا رہی نہ وفا رہی

کوئی کھینچ لایا ہے دہر میں ترے شہر میں

مری جستجو میں قضا رہی نہ وفا رہی

جو نوازشات کے باب تھے وہ حباب تھے

میری جان تیری عطا رہی نہ وفا رہی

میری عمر بھر کی ریاضتیں گئی رائے گاں

نہ وہ میری فکرِ بقا رہی نہ وفا رہی

نہ خیال ناقِدِؔ مضطرب کا تمہیں رہا

مرے بھاگ میں نہ دوا رہی نہ وفا رہی

کیا زندگی نے مجھے سخت حیراں

بہت ہے کٹھن درد کا میرے درماں

جنوں اس کو سمجھا تھا اک ٹھنڈی چھاؤں

پریشاں کیے ہے مجھے زلفِ پیچاں

رہا ہوں میں اپنے مقدر سے شاکی

نہ ہو پائے پورے کبھی میرے ارماں

ہو خوش باش کیسے مری زندگانی؟

کہ دیکھا نہیں  خواب میں  بھی پرستاں

اسے تجربہ کم ہی گزران کا ہے

رہا تیرا ناقِدؔ خیالوں میں غلطاں

شب و روز کی بے قراری ستم ہے

مری زندگی رہنِ رنج و الم ہے

سدا بے رخی تو نے برتی ہے مجھ سے

ستم گر تری کج ادائی کا غم ہے

اسے میں نے جیون کی سوغات جانا

ہوا مجھ پہ جب تیرا لطف و کرم ہے

مرا دل ہے آلام کی راج دھانی

کہ ہر قسم کا دکھ مرے ہاں بَہم ہے

مصائب سے دوچار ہوں روز و شب میں

سو کیا یہ بھی تیری توقع سے کم ہے؟

خدا کا سدا نام لیتا ہوں ناقِدؔ

کہاں آشنا میرا کوئی صنم ہے؟

ہمیں اہلِ دنیا ستاتے رہیں گے

ہمارے مسائل بڑھاتے رہیں گے

وہ جن کی سدا ہم نے کی چارہ سازی

وہی اب ہمیں آزماتے رہیں گے

ہوئے ایک دن جو نہیں ہم پہ مائل

وہ احسان پھر بھی جتاتے رہیں گے

جو سمجھو تو بس ہے یہی دوش اپنا

سزائیں وفاؤں کی پاتے رہیں گے

لکھے ہیں جو نغمات مہر و وفا کے

وہ ناقِدؔ جہاں کو سناتے رہیں گے

ہمیں زندگی راس آئی نہیں ہے

حقیقت ہے کوئی دہائی نہیں ہے

وہ انسان انسانیت سے ہے عاری

کہ فطرت میں جس کی بھلائی نہیں ہے

بہت سے بھلے وصف دیکھے ہیں اس میں

مگر خوگرِ خود ستائی نہیں ہے

میں چپ چاپ دکھ درد سہتا رہا ہوں

کبھی اپنی بپتا سنائی نہیں ہے

اسے وقف کیوں اپنی خاطر کروں میں؟

مری زندگی کیا پرائی نہیں ہے؟

کہوں کیسے تنہا رہا ہوں میں ناقِدؔ؟

مرے چار سو کیا خدائی نہیں ہے؟

تجارتِ حیات

رہے مجھ کو حالات برہم کیے ہیں

سدا حسرتوں کے ہی ماتم کیے ہیں

کبھی سکھ سکوں پاس آیا نہیں ہے

مرے پاس راحت کی چھایا نہیں ہے

بنا ہوں جہاں کے ستم کا نشانہ

کمایا ہے محنت سے ہی آب و دانہ

مروت کے بدلے اذیت ملی ہے

مجھے ہر قدم پر مصیبت ملی ہے

وفا میں نے کی ہے جفا میں نے پائی

کیا ہے کرم تو سزا میں نے پائی

مرے ساتھ اتنی وفا کرو

ذرا رابطے میں رہا کرو

مجھے اور کچھ بھی طلب نہ ہو

مجھے قرب اتنا عطا کرو

نہیں دن میں  تم کو فراغ گر

مجھے رات کو ہی ملا کرو

مجھے اس سے کوئی غرض نہیں

کہ وفا کرو یا جفا کرو

تمہیں ہے جفا سے فقط غرض

مرا ساتھ کچھ تو دیا کرو

نہیں بات سنتا کوئی مری

مری تم ہی بات سنا کرو

مجھے اور کوئی غرض نہیں

مرے حق میں کچھ تو دعا کرو

مرا درد ٹھہرا ہے لادوا

مرے درد کی نہ دوا کرو

ہوں تمہارا ناقِدِؔ ناتواں

مرے ساتھ کچھ تو بھلا کرو

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ
فائل

ای
پب فائل
 

کنڈل
فائل