فہرست مضامین
- مری چاہتوں کو رہا کرو
- نعت
- مری چاہتوں کو رہا کرو
- ماں
- خطا
- سنو لوگو!
- مقدر
- مری سوچیں مقیّد ہیں
- مجذوب
- وہ آدمی ہے
- اقبال سے
- نظم
- قوم کے اس بے تکے معیار میں
- کہتی ہے تو کہنے دو دنیا کو بھی سودائی
- کرے وہ لاکھ خوشی سے جفا اسے کہنا
- جس کو چاہتا ہوں میں وہ مرا نہیں ہوتا
- جس کے لیے ہے زندگی کی شام چھین لو
- اس داستانِ زیست کا الجھا خیال تُو
- زندگی تلخ ہے تجربے مختلف
- دیکھوں جو تجھے شعلوں میں ڈھل جاتے ہیں آنسو
- دیکھو تو سہی دشمنِ دستارِ محبت
- مصروف وہاں انجمن آرائی میں کوئی
مری چاہتوں کو رہا کرو
اجمل نذیر
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
نعت
وجہِ تخلیقِ جہاں میرے محمد کے سوا
ہو بھی سکتا ہے کہاں میرے محمد کے سوا
شبِ معراج فقط دید کا باعث تو نہ تھی
کون پہنچا ہے وہاں میرے محمد کے سوا
حکمِ ربی سے بھلا کون ہے کس نے بدلا
مسلکِ عشقِ بتاں میرے محمد کے سوا
ہے کوئی شمس کو پلٹا کے دکھائے بھی اور
توڑے مہتابِ جوان میرے محمد کے سوا
بخششِ آدمِ خاکی کا وسیلہ سوچو
ہے کوئی اور وہاں میرے محمد کے سوا
ہر گھڑی سارے فرشتوں کے لبوں پر اجمل
کون ہے وردِ زباں میرے محمد کے سوا
٭٭٭
مری چاہتوں کو رہا کرو
میری چاہتوں کو رہا کرو
وہ حروف تازہ گلاب سے
جو مہک رہے ہیں یہاں وہاں
ترے پیار میں دلِ زار میں
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
وہ محبتیں وہ عنایتیں
جو چراغ بن کر عیاں رہیں
وہ جو حرف حرف رواں رہیں
وہ جو لفظ لفظ جواں رہیں
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
تجھے کیا خبر کہ گلی گلی
یا نگر نگر میں پھرا کوئی
تجھے من میں اپنے اتار کے
دلِ غمزدہ کو نکھار کے
تجھے بھول جانے کا شوق ہے
تجھے بھول جانا روا ہے جو
تو نظر مجھے وہ عطا کرو
جو کہ خواب دیکھے ترے سوا
جسے انس ہو کسی اور سے
جو بھلا سکے ترے پیار کو
اگر ہو سکے تو مرے صنم
مری سوچ ذہن سے نوچ لو
وہ جو اک کتاب ہے عشق کی
وہ جو اک نصاب ہے عاشقی
تجھے کیا خبر مرے ہمسفر
دلِ معتبر میں سما گیا
مجھے اپنا آپ بھلا گیا
مرے روبرو تو ہے تُو ہی تُو
تُو مرے لبوں کی ہے گفتگو
تُو ہی آرزو تُو ہی جستجو
تجھے بھول جانا روا ہے جو
مری سوچ ذہن سے نوچ لو
مری جان دل سے جدا کرو
مری چاہتوں کو رہا کرو
٭٭٭
ماں
جہانِ زیست میں الفت کا آسماں ہے ماں
درونِ دل سے مسرت کی ترجماں ہے ماں
کہے خدا بھی یہ موسی سے اب خیال رکھو
متاعِ رحمتِ یزداں تھی جو کہاں ہے ماں
تمام بچوں کی قسمت سنوارنے کیلئے
ہر ایک عمر میں نعمت کا اک جہاں ہے ماں
نظامِ دنیا میں جنت کا اک وسیلہ ہے
تمام لوگوں کی بخشش کا امتحاں ہے ماں
محبتوں میں تناسب ہے ایک ستر کا
مگر خدا کی عنایت سے مہرباں ہے ماں
یہ موجِ دولتِ دارین ہے رواں اجمل
حدِ نگاہ تلک بحرِ بیکراں ہے ماں
٭٭٭
خطا
وہ شاعر ہے
اُسے لفظوں میں رنگوں کو برتنے کا سلیقہ ہے
وہ جو بھی بات کرتا ہے
تو اس کی بات کو سن کر
یہی محسوس ہوتا ہے
کہ جُوں الفاظ کی صورت میں
گُلوں کے ہار بُنتا ہو
یا جیسے آسمانوں پر
دھنک کے رنگ چُنتا ہو
یا جیسے کوہساروں سے کوئی جھرنا سا گِرتا ہو
اُسے لفظوں میں رنگوں کو
برتنے کا سلیقہ ہے
مِرے ہمدم مرے ساتھی سبھی اس سے متاثر ہیں
سو اُس سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں جب
تو لفظوں کو بناوٹ کا کچھ ایسا رنگ دیتے ہیں
کہ اُس کی ذات کے شایاں
سبھی حرفوں کی مالا میں
گُلوں کی باس شامل ہو
مگر میں شاعری کرنے سے قاصر ہوں
سو مجھ کو جو بھی کہنا ہو بِلا تامل،بِلا سوچے
بِنا الفاظ میں رنگینیاں بھرنے کے کہتا ہوں
فقط میری خطا ہے
٭٭٭
سنو لوگو!
گناہ سارے زمیں سے آسماں تک
پھیل جائیں اور
فلک کو دیں عذابوں کی اگر دعوت
تو ایسے میں
ندامت کا کوئی قطرہ
عذابوں کے وسیع دریا کے رُخ کو
موڑ دیتا ہے،جنوں کو توڑ دیتا ہے
کبھی جو ہاتھ اُٹھ جائیں دعا کو تو
گناہوں کے پہاڑوں کو مِٹا ڈالیں
زمین و آسماں کو یہ ہِلا ڈالیں
چلو ہم تم دعا کر لیں،خدا سے التجا کر لیں
خلوصِ دل سے مانگو تو
وفائیں رد نہیں ہوتیں
دعائیں رد نہیں ہوتیں
دعائیں رد نہیں ہوتیں
٭٭٭
مقدر
غریبِ شہر عجب خواہشوں کی بھٹی میں
ہر ایک شب کو چراغوں کے ساتھ جلتے ہیں
اگر وہ سونا بھی چاہیں تو سو نہیں پاتے
کبھی جو رونا بھی چاہیں تو رو نہیں پاتے
کہ ایک لمحے کی فرصت انہیں نہیں سوچیں
کہاں پہ ان کے نصیبوں کے تار ٹوٹے تھے
کہاں سے آئے تھے جھونکے شکستگی اوڑھے
جنہوں نے ان کے مقدر میں تلخیاں بھر دیں
ہر ایک صبح نئی آرزو کے دھوکے میں
دلوں کی ساری امنگوں کو مجتمع کر کے
نئے سرے سے مقدر کو آزماتے ہیں
امیرِ شہر کی سوچوں کے خالی خاکوں میں
حسین رنگوں کی خاطر لہو بہاتے ہیں
اور اپنے شہر کے ماتھے پہ ان گنت کتنے
نئے پلازے نئی فیکٹریاں بناتے ہیں
مگر یہ ان کے مقدر کی تلخیاں پھر بھی
کسی طرح سے سنبھلنے انہیں نہیں دیتیں
ہر ایک لمحہ یہ پستی کے بیج بو بو کر
کسی بھی لمحہ بدلنے انہیں نہیں دیتیں
غریبِ شہر کی قسمت کا کیا کرے کوئی
جگر کے خون سے ہر اک دیا جلاتے ہیں
مگر قریب جو منزل کے پہنچ جائیں تو
یہ لوگ اپنے مقدر سے ہار جاتے ہیں
٭٭٭
مری سوچیں مقیّد ہیں
مری سوچیں مقیّد ہیں
مری سوچیں مقیّد ہیں
میں اس کے سامنے بالکل
اسی کشتی کی مانند ہوں
جو منزل کی تمنا میں
کسی طوفاں میں گھِر جائے
تلاطم خیز موجوں پر
رواں کشتی یہ کیا جانے
کہ اس کی خواہشِ منزل
اسے کس سمت لے جائے
یہ طوفانوں کی مرضی ہے
کنارہ دیں اسے یا کہ
بھنور تقدیر میں لکھیں
میں اس کے سامنے بالکل
اسی کشتی کی مانند ہوں
مری سوچیں مقید ہیں
مری سوچیں مقید ہیں
٭٭٭
مجذوب
ہیں عجیب لوگ جو در بدر،پھرے ہر جگہ مہ و سال میں ، اسی حال میں
رہے قید یونہی جو عمر بھر، کسی فقر و عجز کے جال میں، اسی حال میں
جنہیں زندگی کی عنایتوں،یا کہ عمر بھر کی ریاضتوں،کے صلے میں بس
ملی پیار کی فقط اک نظر ، ہوئے مست اپنی دھمال میں ، اسی حال میں
فقط ایک چوٹ جو پڑ گئی، تو سکوت ٹوٹا کچھ اس طرح، سرِدست پھر
مچا موج موج میں وہ غدر ، رہی لہر لہر اچھال میں ، اسی حال میں
جو فقیر بن کے پھرے یہاں، کیے ترک ساری ہی خواہشیں، دلِ زار کی
جو نمود و نام سے بے خبر، رہے ہر گھڑی ہی زوال میں، اسی حال میں
تمہیں کیا خبر کہ یہ کون ہیں،جوہیں سرپھرےسے یہ شہر میں،اے جہان سن
یہاں سب سے ہیں یہی معتبر ، یہ ہیں لوگ اوجِ کمال میں، اسی حال میں
٭٭٭
وہ آدمی ہے
وہ آدمی ہے
کہ جس نے خستہ بدن کے اندر ہنر تراشے
قلم کی جنبش سے خال و خد کو
کسی مصور کے شاہ پارے کی شکل بخشی
ہر اک ہنر میں طرح طرح کا سلیقہ برتا
کبھی تحیر،کبھی تفکر، کبھی تبسم کی طرح ڈالی
وہ آدمی ہے کہ جس نے اپنی مہارتوں سے
کھڑی چٹانوں سے بت تراشے
کئی زمانوں کی نسلِ آدم کو
اک مجسم کا روپ دے کر
نئے زمانوں کی حیرتوں کا سبب بنایا
وہ آدمی ہے
کہ جس نے ہاتھوں سے پتھروں کو نکھار دے کر
بلند و بالا عمارتوں کو وجود بخشا شہود بخشا
وہ آدمی ہے کہ جس کا ماضی
نئے زمانوں سے متصل ہے
فنا کی نیا بقا کی جانب دھکیلتا ہے
وہ آدمی ہے
نئے زمانوں میں اپنے جوہر انڈیلتا ہے
وہ آدمی ہے
میں اس روایت کا اک امیں ہوں
میں جانتا ہوں فنا سے آگے کہیں نہیں ہوں
مگر یہ لفظوں کا ایک جوہر
نئے زمانوں کے سامنے ہے
جو عہدِ ماضی کے سب دریچوں کو کھولتا ہے
ترازو لے کر زمانہ مجھ کو بھی تولتا ہے
مرا ہنر بھی کہیں کہیں پر تو بولتا ہے
٭٭٭
اقبال سے
اے شاعرِ مشرق ترے افکار و تخیل
بہتے ہوئے دھارے تھے کسی موجِ رواں کے
تا دیر اثر خیزی کا ساماں بھی وہی تھے
جو تیر تھے کچھ فہم و فراست کی کماں کے
ڈھونڈے نہ کبھی حرف و صداقت کے معانی
اپنائے ہیں غیروں کے سے انداز ‘ نہ سمجھے
تقلید کے دھوکے میں مٹا ڈالی ہے تہذیب
ملت کے تقاضوں کے حسیں راز نہ سمجھے
اسرارِ حقیقت سے چرایا ہے نظر کو
پرواز میں کوتاہی تو لازم تھی بجا تھی
پامال کیا ہم نے سدا اپنی خودی کو
ورنہ تو صدا اپنی سدا عقدہ کشا تھی
ہم منزلِ مقصود پہ پہنچے نہ لگن سے
نعروں سے لیا کام ہنر تک نہیں پہنچے
تکمیلِ تمنا کے لیے شوق بڑا تھا
پر قوتِ بازو کے اثر تک نہیں پہنچے
مجرم ہیں گہر ہم نے گراں مایہ بہ حکمت
بے نام مسافت کے جھمیلوں میں گنوائے
برسوں سے روش اپنی غلامانہ رہی ہے
ایسے میں بھلا اپنی خودی کون جگائے
اے شاعرِ مشرق ترے احساس کی دولت
اے کاش کہ سینوں میں اُتر جائے ہمارے
مایوسی کا عالم ہو کبھی ختم خدارا
امیدوں کی کشتی بھی لگے آ کے کنارے
ہو اپنا یقیں تیری تمنا کے مطابق
پھر کون بھلا غیر سے مانگے گا سہارے
یک جہتی سے منزل کی طرف ایسے رواں ہوں
گردوں سے خدا اپنے ملائک بھی اُتارے
٭٭٭
نظم
اے صبحِ ضیا! تجھ سے عبارت میرے دن رات
لہروں کی سی جولانی دیے جاتے ہیں دل کو
اک ڈھال مرے سر پہ ہے تابانِ فلک کی
پُر نور نظارے ہیں کہ مہکاتے ہیں دل کو
اے صبحِ ضیا! موج میں ہے بزمِ خیالاں
آزاد فضاؤں میں اڑانیں ہیں مری تو
سوچوں تو مسافر ہوں اِسی دشتِ فنا کا
لیکن سرِ افلاک اذانیں ہیں مری تو
میں خوش ہوں کہ آزادی کی نعمت ہے میسر
جس جا پہ رہوں میرا فلک میری زمیں ہے
شاہیں کا چلن میں نے بھی سیکھا ہے یہاں پر
گلشن کا ہر اک ذرہ مرے زیرِ نگیں ہے
لیکن مرے اسلاف نے دی مجھ کو یہ راحت
آزادی کے دیپک کو جلایا ہے لہو سے
سرشاری سے لکھتا ہے قلم آج ترانے
کچھ فکر نہیں میرے تخیل کو عدو سے
احسان کبھی بھول نہ پاؤں گا میں ان کا
کرتا ہی رہوں گا میں یونہی مدح سرائی
جینے پہ بھی توقیر بڑھاؤں گا میں ان کی
مر جاؤں تو تحریر مری دے گی گواہی
٭٭٭
قوم کے اس بے تکے معیار میں
ایک بھی موتی نہیں ہے تار میں
بک رہے ہیں ہم بلا کے با شعور
آٹا چینی کے عوض بازار میں
ہم مسیحا جان کر لائیں جنہیں
چھید کرتے ہیں وہی دستار میں
ملک کے خادم سبھی اہلِ ہوس
ٹانکتے ہیں قوم کو دیوار میں
حکمرانِ وقت ہیں ان کی سزا
ہیں جو بد اعمالیاں کردار میں
مٹ رہے ہیں آگہی کو چھوڑ کر
جو کہ ہے اسلام کے افکار میں
اک عمل کی ہے کمی اجمل یہاں
ہم وگرنہ ہیں دھنی گفتار میں
٭٭٭
کہتی ہے تو کہنے دو دنیا کو بھی سودائی
ممکن ہو کوئی اپنی مجنوں سے شناسائی
میں ہوں تو اذیّت کے احسان اٹھاتا ہوں
جو میں نہ ہُوا کس سمت جائے گی یہ رسوائی
کیوں جانے یہ خائف ہے لوگوں کے رویّے سے
آ آ کے لپٹتی ہے مجھ سے مری تنہائی
دیکھوں تو نظر آئیں اوروں کے شکستہ دل
دے مجھ کو خداوندا ایسی ہی تُو بینائی
خوشبو کے سبب آخر یہ شاخ سے ٹوٹے ہیں
کرتی ہے مظالم کیوں پھولوں پہ یہ پُروائی
جنگل ہے تحیّر کا ہر سمت ہیں افواہیں
آسیب زدہ رُت میں کس کام کی دانائی
سنتے ہیں کہاں کوئی مقصد کی خبر اجمل
مصلح کی اذانوں پر لیتے ہیں یہ انگڑائی
٭٭٭
کرے وہ لاکھ خوشی سے جفا اسے کہنا
بدل نہ پائیں گے ہم با وفا اسے کہنا
جفا گری ہے جو عادت تو کوئی بات نہیں
ہمیں پسند ہے یہ بھی ادا اسے کہنا
ابھی تلک جو فروزاں ہیں پیار کے دیپک
نہ کر سکے گی کبھی گل ہوا اسے کہنا
لو آرہے ہیں محبت کے جرم کے داعی
کوئی تو ڈھونڈ کے رکھے سزا اسے کہنا
ہمیں تو اپنی وفاؤں پہ ناز ہے اجمل
کہاں تلک وہ رہے گا جدا اسے کہنا
٭٭٭
جس کو چاہتا ہوں میں وہ مرا نہیں ہوتا
خواہشوں کا موسم کیوں دیرپا نہیں ہوتا
دل کے آئینے میں وہ اس طرح مقید ہے
عکس گردشوں میں بھی بدنما نہیں ہوتا
اس نے طور سیکھے ہیں بیوفائی کے لیکن
میں بھی ضد پہ قائم ہوں بے وفا نہیں ہوتا
کاش دیکھ لے کوئی بے بسی کا یہ منظر
بے رخی سے ملتا ہے اور گلہ نہیں ہوتا
حسرتوں کی تحریریں روز درج ہوتی ہیں
جب بھی اسکو پانے کا سلسلہ نہیں ہوتا
یاد کے جزیرے میں اس نے ڈیرے ڈالے ہیں
ظاہراََ نہ مل کر بھی وہ جدا نہیں ہوتا
خود کو بھولنا اجمل قصۂ پارینہ ہے
اس کو بھول جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا
٭٭٭
جس کے لیے ہے زندگی کی شام چھین لو
مجھ سے مرے وجود کا الہام چھین لو
ایسا کرو کہ چاہتوں کی داستاں لکھو
اس کے صلے میں جو ملا انعام چھین لو
تم چاہتے ہو زندگی میں رونقیں نہ ہوں
مجھ سے مری محبتوں کا جام چھین لو
سویا تو پھر وہ خواب میں مجھ کو ستائے گا
یارو یہ مجھ سے لذّتِ نا کام چھین لو
روشن ہوا چراغ تو دل بھی بھڑک اٹھا
اب تو کسی کی یاد کے پیغام چھین لو
لوٹا بھی دو مجھے مری معصومیت ذرا
میرے ہر ایک اشک سے الزام چھین لو
اجمل کسی کے نام سے بدنام ہو گیا
جس کے سبب سے بد ہُوا وہ نام چھین لو
٭٭٭
اس داستانِ زیست کا الجھا خیال تُو
وجہِ خوشی بھی تُو صنم وجہِ ملال تُو
میں وہ ہنر کہ جو ترے نوکِ قلم پہ ہوں
میرے ہر ایک نقش کا اوجِ کمال تُو
پھرتا ہوں دربدر یونہی تجھ کو میں اوڑھ کر
میں ہوں تری مثال اور میری مثال تُو
تجھ سے ہر ایک لفظ میں معنی چھپے ہوئے
میری سخن وری کا ہے جاہ و جلال تُو
چلتا کہاں ہے بس مرا میرے وجود پر
ناز و ادا سے کر گئی جینا محال تُو
اب تو مری وفاؤں کو کچھ اعتبار دے
مجھ کو گلی گلی میں نہ اتنا اچھال تُو
اجمل جنونِ عشق میں رقصاں ہے چار سُو
آ کر برہنہ پاؤں سے کانٹے نکال تُو
٭٭٭
زندگی تلخ ہے تجربے مختلف
دل کو لاحق رہیں عارضے مختلف
تم نہیں تو کمی کچھ نہیں ہے مگر
حسرتوں کے ہیں بس سلسلے مختلف
ہم وفادار بھی مل سکیں کس طرح
چاہتوں کے ہوں جب زاویے مختلف
تلخیاں رنج و غم حسرتیں بے بسی
پیش آتے ہیں نت حادثے مختلف
سوچ بدلی ہے یوں دوریوں نے تری
تم بھی پہلے سے اب ہو گئے مختلف
یہ مروت کہاں لے کے جائیں بھلا
ہیں نئے عہد کے فلسفے مختلف
اب تری داستاں کون اجمل پڑھے
ہو گئیں سرخیاں حاشیے مختلف
٭٭٭
دیکھوں جو تجھے شعلوں میں ڈھل جاتے ہیں آنسو
اور لذتِ فریاد کو بھڑکاتے ہیں آنسو
یادیں جو کسی لمحہ لگاتی ہیں نئے زخم
بے ساختہ آنکھوں سے نکل آتے ہیں آنسو
محتاج کہاں لفظ کوئی زورِ بیاں کے
مفہوم کئی لفظوں کو پہناتے ہیں آنسو
روتا ہے فلک درد کے مارے جو زمیں پر
چشمے بھی بہت ٹوٹ کے چھلکاتے ہیں آنسو
ہیں رات کی تنہائی میں شبنم کی تڑپ وہ
پھولوں پہ ہر اک صبح جو مسکاتے ہیں آنسو
اندر کا جنوں توڑے ہے سنگلاخ چٹانیں
پتھر کے کلیجوں کو بھی پگھلاتے ہیں آنسو
اجمل یہ تمناؤں کی شدت کا ثمر ہے
جو شام و سحر پلکوں پہ اٹھلاتے ہیں آنسو
٭٭٭
دیکھو تو سہی دشمنِ دستارِ محبت
کُھلتے ہیں کئی ہم پہ بھی اسرار محبت
تم لوگ کہ خائف ہی رہے جرمِ وفا سے
ہم لوگ کہ ٹھہرے ہیں رضاکارِ محبت
جو کوہِ گراں کاٹ کے بے فیض ہوئے تھے
وہ خون کے چھینٹے بھی تھے کردارِ محبت
ہر دور میں لٹکایا گیا دار پہ ہم کو
ہر دور میں ٹھہرے ہیں گنہگارِ محبت
دستور زمانے کا نرالا ہی تو ٹھہرا
مجنوں سے کیا مرنے پہ اظہارِ محبت
انسان کی عظمت ہے فقط عشق کے باعث
اجمل جو سمجھتے تو نہیں بیزارِ محبت
٭٭٭
مصروف وہاں انجمن آرائی میں کوئی
تڑپے ہے یہاں گوشۂ تنہائی میں کوئی
سب ساتھ چلیں رسمِ زمانہ ہے یہ مانا
پر ساتھ نبھاتا نہیں رسوائی میں کوئی
ہر ساز خوشی بن کے سماتا نہیں دل میں
اک سوز امڈ آتا ہے شہنائی میں کوئی
دی اس کی محبت نے مرے دل پہ جو دستک
اب خاک سمائے دلِ سودائی میں کوئی
اک حسن قلم میں بھی سما جاتا ہے اجمل
جب شعر لکھوں اس کی پذیرائی میں کوئی
٭٭٭
ماخذ: اردو پائنٹ ڈاٹ کام
http://urdupoint.com
اور دوسرے ماخذ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید