فہرست مضامین
- ناٹ اِیکیول ٹو لو
- تعارف مصنف
- ہندی کے پہلے چیٹ ناول کی حمایت میں چند الفاظ
- ۱۸مئی ۲۰۱۴ء
- ۷۔۳۷ بجے شام
- ۲۸ مئی۲۰۱۴ء
- ۶۔ ۵۸ بجے شام
- ۱۳جون ۲۰۱۴ء
- ۹۔ ۰۸ بجےرات
- ۱۷ جون ۲۰۱۴ء
- ۴۔۳۹ بجے شام
- ۲۶ جون ۲۰۱۴ء
- ۹۔۰۱ بجے رات
- ۲۹ جون ۲۰۱۴ء
- ۲۔۱۳ بجے دو پہر
- ۸اگست ۲۰۱۴ء
- ۱۱۔۳۸ بجے رات
- ۲۸ اگست ۲۰۱۴ء
- ۹۔۳۱ بجے رات
- ۹ ستمبر ۲۰۱۴ء
- ۴۔۳۰ شام
- یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
- ۱۱۔۳۷ بجے صبح
- یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
- ۱۔۲۵ بجے دوپہر
- یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
- ۱۰۔۴۳ بجے رات
- ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۴ء
- ۰۳۔۰۱ بجے رات
- ۲۸ نومبر ۲۰۱۴ء
- ۱۱۔۳۷ بجے رات
- ۳ دسمبر ۲۰۱۴ء
- ۳۔۳۱ بجے شام
- ۱۳ دسمبر ۲۰۱۴ء
- ۷۔۳۵ بجے صبح
- ۲۱ دسمبر ۲۰۱۴ء
- ۱۰۔۳۱ بجے صبح
- ۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ء
- ۹۔۲۱ بجے صبح
- ۳۱دسمبر ۲۰۱۴ء
- ۶۔۱۹ بجے صبح
- یکم جنوری ۲۰۱۵ء
- ۴۔۲۲ بجے شام
- ۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
- ۲۔۵۳ بجے سہ پہر
- ۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
- ۶۔۱۲ بجے شام
- ۲۹ جنوری ۲۰۱۵ء
- ۷۔۰۳ بجے شام
- ۲ فروری ۲۰۱۵ء
- ۹۔۱۳ بجے رات
- ۳ فروری ۲۰۱۵ء
- ۵۔۳۳ بجے شام
- ۱۹ فروری ۲۰۱۵ء
- ۲۔۱۳ بجے دو پہر
- ۳ مارچ ۲۰۱۵ء
- ۳۔۳۹ بجے سہ پہر
- ۱۵ مارچ ۲۰۱۵ء
- ۴۔۰ بجے، شام
- اپریل ۲۰۱۵ء
- ۹۔۲۳ بجے رات
- ۲۴ اپریل ۲۰۱۵ء
- ۹۔۰۱ بجے صبح
- ۲۷ اپریل۲۰۱۵ء
- ۴۔۴۲ بجے شام
- یکم مئی ۲۰۱۵ء
- ۹۔ ۰۷ بجے صبح
- ۲۵ مارچ ۲۰۱۵ء
- ۴۔۰۹ بجے شام
- ۲۶ مئی ۲۰۱۵ء
- ۹۔۰۰ بجے رات
- ۲ جون ۲۰۱۵ء
- ۸۔۱۲ بجے صبح
- ۶ جون ۲۰۱۵ء
- ۳۔۰۴ بجے سہ پہر
- ۳۰ جون ۲۰۱۵ء
- ۹۔ ۰۷ بجے رات
- ۲ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۶۔۰۱ بجے شام
- ۴ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۱۰۔۱۱ بجے صبح
- ۷ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۱۲۔۰۹ بجے دو پہر
- ۱۱ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۹۔۲۳ بجے رات
- ۲۴ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۸۔۰۱ بجے رات
- ۲۸ جولائی ۲۰۱۵ء
- ۹۔۵۴ بجے صبح
- ۵ اگست ۲۰۱۵ء
- ۱۰۔۲۸ بجے صبح
- 11 اگست 2015ء
ناٹ اِیکیول ٹو لو
Not Equal to Love
ہندی کے پہلے چَیٹ ناول کا اردو ترجمہ
سورج پرکاش
ترجمہ: عامر صدیقی
تعارف مصنف
نام: سورج پرکاش
پیدائش: ۱۴ مارچ ۱۹۵۲ء، بمقام دہرادون، انڈیا
تخلیقی کام: ادھوری تصویریں (کہانیوں کا مجموعہ)، حادثوں کے درمیان (ناول)، دیس برانا (ناول، آڈیو سی ڈی کے طور پر بھی دستیاب)، چھوٹے ہوئے گھر (کہانیوں کا مجموعہ)، ذرا سنبھل کے چلو (مضامین)، داڑھی میں تنکا (متفرقات)، مرد نہیں روتے (کہانیوں کا مجموعہ)، کھو جاتے ہیں گھر (کہانیوں کا مجموعہ)، چھوٹے نواب بڑے نواب (کہانیوں کا مجموعہ)، لہروں کی بانسری اور دیگر کہانیاں ( فیس بک پر کہانیوں کا مجموعہ)اور ناٹ ایکیول ٹو لو (ہندی کا پہلا چیٹ ناول)۔
انگریزی سے تراجم: جارج اورویل کا ناول اینمل فارم، گبریل گارسیا مارکیز کے ناول کرانیکل آف دی ڈیتھ فورٹولڈ، این فینک کی ڈائری، چارلی چیپلن اور، چارلس ڈارون کی سوانح عمری۔ علاوہ ازیں دنیا بھر کی بہت سی مشہور کہانیوں کے تراجم۔
گجراتی سے تراجم: دنکر جوشی کا ناول، ونود بھٹ کی تین کتابیں، گِجُو بھائی بدھَیکا کی دو کتابیں اور اس علاوہ دو سو کے آس پاس بچوں کی کہانیاں، مہاتما گاندھی کی سوانح عمری۔
مرتبہ: بمبئی 1 (بمبئی پر مبنی کہانیوں کا مجموعہ)، کتھا لندن (برطانیہ میں لکھی جا رہی ہندی کہانیوں کا مجموعہ)، کتھا دشک ( برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دس مصنفوں کی کہانیوں کا مجموعہ)۔
اعزازات: گجرات ساہتیہ اکادمی کا اعزاز، مہاراشٹر اکیڈمی کی جانب سے اعزاز اور ریاستی سطح پر اعزاز۔
مزید: کہانیوں کی مختلف مجموعات میں اشاعت کے ساتھ کہانیوں کے دوسری زبانوں میں تراجم بھی شائع ہوئے ہیں۔ کہانیاں ریڈیو پر نشر اور دوردرشن پر پربھی پیش کی جاتی رہی ہیں۔ ادبی خدمات پر تین ایم فل اور دو پی ایچ ڈیز بھی ہو چکی ہیں۔
٭٭٭
ہندی کے پہلے چیٹ ناول کی حمایت میں چند الفاظ
۱۹۹۷ ء میں، میں نے ایک کہانی لکھی تھی، دو جیون سمانتر، ( مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار جناب صغیر رحمانی اسکواردو کے قالب میں دو جیون کے نام سے ڈھال چکے ہیں۔ ع ص) تقریباً آٹھ صفحات میں سمائی اور تین ہزار دو سو الفاظ پر مشتمل، یہ کہانی ایک نئے انداز میں لکھی گئی تھی۔ ٹیلی فون پر بات چیت کی شکل میں۔ کہانی اتنی سی تھی کہ ایک لیکچرار اپنی سابق گرل فرینڈ اور اس وقت کی سینئر آفیسر سے بیس برس کے طویل عرصے کے بعد فون کرتا ہے۔ اس کہانی میں وہ بیس برس پہلے کے ماضی کی، درمیانی وقفے کی اور حال کی باتیں کرتے ہیں۔ طعنے دیتے ہیں، شکایتیں کرتے ہیں، محبت کی کھٹی میٹھی باتیں یاد کرتے ہیں اور دوبارہ نہ مل پانے کا درد بانٹا کرتے ہیں۔ انتہائی دلچسپ مکالموں میں لکھی گئی یہ کہانی خوب پسند کی جاتی رہی ہے، بیسیوں بار چھپتی رہی ہے۔ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہوئے ہیں، کئی بار اس کی اسٹیج پر ڈرامائی تشکیل ہوئی ہے اور ریڈیو پر لگاتارسنائی جاتی رہی ہے۔ یہ کہانی صوتی صورت میں نیٹ پر بھی موجود ہے۔ میں نے شاید سب سے زیادہ بار یہی کہانی سنائی ہو۔
ان انیس بیس برسوں میں تکنیکی ترقی اور گلوبل ورلڈ کے تصور نے ہماری ذاتی، خاندانی اور سماجی زندگی سمیت ہماری سوچ کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہم سب کی زندگی میں موبائل اور سوشل میڈیا نے سب سے زیادہ جگہ گھیر لی ہے اور آپس میں ہونے والی بات چیت کے، گفتگو کے سارے طور طریقے بدل گئے ہیں۔
ان سب کے روشنی میں باہمی تعلقات کو نئے نظریے سے دیکھنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ زندگی کے ساتھ ساتھ ادب بھی ان ساری سرگرمیوں سے اچھوتا نہیں رہا ہے۔ ہماری کہانیوں اور ناولوں کے اندر اور ان کی بناوٹ میں فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے۔
عمر کی ساڑھے چھ دہائیاں گذارنے اور لکھنے لکھانے کے تقریباً تیس برس پار کر لینے کے بعد میں بھی ان سب کی آنچ سے بچا نہیں رہ سکا۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی متاثر ہوا ہوں۔ ادھر میری ساری کہانیاں فیس بک سے لئے گئے الفاظ پر مبنی ہیں اور بہت پسند کی گئی ہیں۔ فیس بک کی کہانیوں کا مجموعہ حال ہی میں لہروں کی بانسری اور دیگر کہانیاں کے نام سے آیا ہے۔
ٹیلی فون پر بات چیت کے فارمیٹ پر لکھی گئی کہانی کے انیس برسوں بعد میں نے ایک اور تجربہ کیا ہے۔ فیس بک پر چیٹ کے روپ میں ایک مختصر ناول – ناٹ اِیکیول ٹو لَو لکھ کر۔ انگریزی میں ناول کا نام اپنی اہمیت خود ثابت کرے گا۔
یہ مختصر ناول آپ کو آپ بیتی یا جگ بیتی بھی لگ سکتا ہے۔ لیکن اس ناول میں اٹھائے گئے مسائل میرے نہیں بلکہ میری، آپ کی، ہم سب کی زندگیوں سے لیے گئے ہیں۔ جھوٹ کیوں بولوں، فیس بک پر بھی تو ہم ہی ہوتے ہیں، بس خود کو تھوڑاسا سجا کر، سنوار کر، تھوڑا سا الگ، تھوڑا سا مختلف، تھوڑا سا بہتر، تھوڑا سا جذباتی اور تھوڑا سا سمجھدار لگنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں آپ ارد گرد کی زندگیوں کے ایک سے زیادہ سیاق و سباق پائیں گے۔
ہندی میں فیس بک چیٹ کے طور پر لکھے گئے اس پہلے ناول کو سونپتے ہوئے میں انتہائی پر جوش ہوں ! آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔
سورج پرکاش
۱۵ نومبر۲۰۱۶ء
٭٭٭
۱۸مئی ۲۰۱۴ء
۷۔۳۷ بجے شام
– ہیلو!
– جی!
– کیسے ہیں سر؟ ؟
– میں ٹھیک، آپ؟
– میں بھی ہمیشہ کی طرح ٹھیک۔
– یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ ہمیشہ ٹھیک ہونا اور بتانا کہ ہم ہمیشہ کی طرح ٹھیک ہیں۔
– آپ نے یہ خوب کہی۔ لیجیے ذرا توجہ فرمائیں –
مجھ ہو کر بھی جدا جدا سا رہا
یوں تنہا مجھ ہی میں میرا خدا رہا … !!!
– واہ، اچھی لائنیں ہیں۔
– اور یہ بھی سر۔
آوازوں کی بستی میں
دو لفظ میرے اپنے
اک تمہاری "خاموشی”
کچھ میرے "خواب” !!
– کیا بات ہے آپ آج شاعری کے موڈ میں ہیں ؟ اپنا انٹروڈکشن دیں گی؟
– پروفائل میں ہے نا ؟؟۔ کیا کافی نہیں ہے ؟
– میڈم آپ کا پروفائل سائیلنٹ موڈ میں ہے۔ بتا کم رہا ہے، چھپا زیادہ رہا ہے۔
– سر، میں آپ کو اپنا پیج دیکھنے کے لئے انوائٹ کرنا چاہتی ہوں …
– ضرور !!
– سر، یہ رہا لنک!
– دیکھ رہا ہوں۔
– جی!
– آپ تو شاعری کے ذریعے بہت گہری باتیں کر رہی ہیں۔ بعد میں آرام سے آپ کی ساری تخلیقات کو دیکھوں گا، لیکن ایک بات ابھی کہہ دوں ؟
– جی!
– آپ کی بات چیت کے انداز سے، آپ کی تخلیقات سے اور آپ کے خیالات سے آپ کی ڈی پی میں موجود کانہا اور میرا یہاں میل نہیں کھا رہے۔ یہ مس میچ سا لگ رہا ہے کچھ تو !!
– جی، سر آپ کی وال سے ایک نظم کوڈکی ہے ابھی۔۔ ۔۔ بہت بہت اچھی لگی۔
– یہ تو میری بات کا جواب نہ ہوا۔
– سر، نظم شیئر کی ہے۔
– کون سی؟ میری یا کسی اور کی؟
-پہچان!
– یہ نظم میری تو نہیں ہے۔ کسی ٹیگ وئیر نے ٹیگ کر دی ہو گی۔ ایک بات اور کہنی ہے مجھے۔
– جی۔
– پہلی بار میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے بری بھی لگے۔
– سر، آپ کہیں تو سہی۔
– فیس بک پر اپنا فیس نہ دکھانا، شاید دوستوں سے اور خود اپنے آپ سے بے ایمانی ہے !
– ہمم!
– آپ کی پروفائل بتا رہی ہے کہ آپ شادی شدہ ہیں۔ طے ہے، اپنے شوہر کی اجازت کے بعد ہی آپ فیس بک پر ہوں گی؟
– تو اس میں پریشانی کیا؟
– فیس بک پراپنی تصویر کی جگہ گولکنڈا کے اجڑے قلعہ کی تصویر لگانے کا بھلا کیا مطلب؟ کہیں سے تو لگے کہ کسی تخلیق کار کے ہوم پیج پر ہیں !
– سر، میری تصویر آل ریڈی ہے وہاں۔
– کدھر ہے جی؟
– فوٹو البم میں دیکھئے۔
– ویٹ۔۔ !
– ویٹ بتانا ہے یا انتظار کرنا ہے ؟۔۔ ۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا !!
– اردو میں انگریزی کے لفظ انتظار والا ویٹ۔ شاید آپ اسی قلعہ میں ہی بہت دور نیلی ساڑی میں کھڑی ہیں ؟
– جی صحیح پہچانا!
– تصویر اوپر سے کٹ رہی ہے۔ تصویر میں چہرہ لگ بھگ ہے ہی نہیں۔ لہذا دھیان نہیں گیا، سوری۔
– ہا ہا ہا ہا !!
– یہ ہاہا ہی ہی کیوں ؟
– دل چاہا، بس! ؟؟
– کیا کرتی ہیں آپ نظمیں لکھنے کے علاوہ؟
– فل ٹائم جاب۔ دو اپنے بچے اور ایک ساس کے بچے کو سنبھالتی ہوں۔ ساس سسر اور نند ایکسٹرا۔ پورے گھر کی ہوم منسٹری میرے ذمے ہے۔
– ہاہا! سب سے بڑا کام !!
– ایسا کام جس میں کوئی شکریہ نہیں کہتا اور کوئی سلیری نہیں ملتی۔
– یہی کام ایسا ہے جس کے لئے کسی حکومت نے کبھی کسی بجٹ میں اس کی تنخواہ کا بل پیش نہیں کیا ہے۔ ویسے جو باہر کام کرنے جاتی ہیں، انہیں بھی گھر کے کام سے نجات کہاں ؟
– اب دیکھئے نا، ہوٹل میں کھانا کھانے جائیں گے، تو کھانے کی دس اچھائیاں بیان کریں گے، ؟ شیف کو بلا کر اس کی ڈشز کی تعریف کریں گے، ویٹر کو دنیا کا سب سے بہترین فوٹوگرافر بناتے ہوئے، اسے اپنا موبائل تھما دیں گے اور اس کے ساتھ سیلفی بھی لیں گے، ویٹر کو تگڑی ٹپ بھی دیں گے، لیکن جو لیڈی سال میں تین سو ساٹھ دن، چار بار سب کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے بہترین کھانا پکاتی ہے، اس کے لئے کبھی بھی کسی کے پاس دو الفاظ نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ کھانے میں دس خامیاں ضرور نکالیں گے۔
– آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہاؤس بیوی ہونے کے مقابلے میں، ہوٹل کا شیف ہونا کہیں زیادہ بہتر ہے !
-یس آف کورس۔ ہر لیڈی کی یہی کہانی ہے۔ تھینک لیس بٹ اَن پیڈ جاب۔ مجھے ہی دیکھیں۔ میں چار مضامین میں پوسٹ گریجویٹ ہوں۔ دو برس تک پڑھاتی رہی۔ اب انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے تلملا رہی ہوں۔ لیکن کر کیا رہی ہوں !فری اینڈ ٹائملی ٹفن سروس سب کے لئے!!
– گریٹ !! لیکن فیس بک پر ایک اجنبی کے ساتھ پہلی ہی چیٹ میں اپنے گھر والوں کے لئے اتنا غصہ دکھانا۔ ہمیں کچھ ہضم نہیں ہو رہا ہے۔ ویسے آپ کن مضامین میں ہیں پوسٹ گریجویٹ؟
– آپ کو ہنسی آئے گی!ہندی، انگریزی، ایجوکیشن اور سائیکولو جی ؟!
– اور پڑھاتی کیا رہیں ؟
– باری باری سے سب۔
– ہاہا !! اور پڑھتی کیا ہیں ؟
– خوب پڑھتی ہوں، لیکن کیا پڑھنا ہے، اس کا کوئی سلسلہ نہیں رہتا۔
– اور لکھنے کا؟
– اُس کا بھی۔
– جی، لیکن آپ ایک کام بخوبی کر سکتی ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔
– کیا؟
– تخلیقی کاموں کا ترجمہ۔ آپ کے پاس ایک حساس ذہن اور سادگی ہے۔
– کبھی کیا تونہیں، لیکن کرنا چاہوں گی۔
– آپ کو وقت ملے اور موڈ بنے تو ضرور کریں۔ آپ بہتر کر پائیں گی۔
– جی شاید اس لئے کہ میں ہندی اور انگریزی دونوں میں پوسٹ گریجویٹ ہوں۔
– جی آپ خود تخلیق کارہیں تو بہتر ترجمہ کر پائیں گی۔ اس کے علاوہ آپ چار ماسٹرز ڈگریوں والی ہیں ہی۔
-تخلیق کارہونے سے کیا فرق پڑتا ہے !
– ایسا ہے میڈم کہ تخلیق کار کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مترجم ہو، لیکن مترجم اگر تخلیق کار بھی ہے، تو سونے میں سہاگا ہوتا ہے۔
– بہت اچھی بات کہی ہے آپ نے سر۔ ہمیشہ یاد رہے گی۔
– ان دنوں کیا کر رہی ہیں ؟
– جی اس وقت تو انگریزی نیٹ کی تیاری میں لگی ہوں۔ اگلے ماہ پیپر ہیں۔
– واہ ملٹی ٹاسکنگ، ایک طرف پی ایچ ڈی کی تیاری۔ تو دوسری طرف نیٹ!
– میں نے ایچ ٹی ای ٹی پاس کیا ہے۔
– یہ کیا ہوتا ہے ؟
– ہریانہ ٹیچر ایلج بلیٹی ٹیسٹ۔
– ارے واہ، آپ کا تو خوب احترام کیا جانا چاہیے۔
– جی شکریہ۔
– ہم تو ہو ہی گئے ہیں آپ کے قدردان۔
– انتظار کر رہی ہوں کہ سرکاری نوکریاں کب نکلتی ہیں۔
– اوکے۔ نیک خواہشات آج سے شروع۔
– لیکن نیٹ کلیئر ہو جائے۔۔ ۔ تو کالج کی جاب کی بات ہی کچھ اور ہے !
– جی!
– چوبیس جون کو ایگزام ہے۔
– ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ جانتی ہیں معنی؟
– زبانوں اور ادب کا زیادہ شعورتو نہیں۔ مگراس کا مطلب۔۔ جانتی ہوں۔ عورت ہوں پھر بھی۔۔ ۔۔ ۔
– ہاہاہاہا۔ اپنے آپ پر لاگو کیجئے، ہماری مدد درکار ہو تو بولیے۔
– نوازش آپ کی۔
– عجیب بات ہے کہ قانونی زبان میں انگریزی کے he میں she شامل ہوتا ہے جبکہ اصل میں انگریزی لفظ she میں he شامل ہوتا ہے۔
– ارے میں بھی یہی ٹائپ کرنے والی تھی۔
– ہاہاہا، دو دانَو(عفریت) ایک جیسا سوچتے ہیں۔
– صحیح کہا۔
– ہم آج سے دوست ہوئے۔ دانَو دوست۔
– ہاہا دانَو! اچھا ہے۔ کیسے ہیں دانَو جی۔
– دانَو۔ مانَو(انسان) ایک ہی بات۔
– جی!
– ویسے کوئی مانَو کب دانَو بن جائے اور کوئی دانَو کب مانَو؟
– دانَومانَو۔ گڈ اوکے، ایک کام کیجئے۔۔ ۔ اپنے لئے ایک نام منتخب کیجئے۔۔ ۔ جلدی !!
– کوئی جانے نہ !!
– نام چنیں !!
– کس قسم کا؟
– دوسرا میرا !!
– آپ مانَو، باقی میں !
– مذاق نہیں، پھر ایک دوسرے کو ہم انہی ناموں سے یاد رکھیں گے۔۔ ۔ !
– مانَودانَو !!
– ہاہا !!
– آپ ما !! میں دا !!
– ٹھیک !!
– نَو نکال دیا اچھا ہے !!
– طے ہوا کچھ؟
– بچپنے میں میری بہت خواہش ہوتی تھی کہ کوئی مجھے دَیو نام سے پکارے اور میں کسی کو چھوی کے نام سے پکارو۔ ایسا کبھی ہو تو نہیں پایا، لیکن یہ دونوں نام یاد رہ گئے۔
– ہیلو دیو کیسے ہیں آپ؟ ؟؟
– ہم دیو نام سے پکارے نہیں گئے کبھی۔ بس آج ہی اس نام سے پکارے گئے۔
– جی !!
– چھوی !!
– ہائے دیو، کیسے ہیں آپ؟
– کیسی ہو چھوی؟
– ٹھیک، ہمیشہ کی طرح۔
– کہاں تھیں اتنے دنوں سے چھوی؟
– اسی کرہ ارض پر تھی دَیو! ؟؟
– کمال ہے، میں بھی یہیں تلاش کرتا رہا۔
– شاید دوسری جانب تھی۔ ؟؟
– ٹھیک تو ہو؟
– چھوٹی سی ہے دنیا !!
کتنی بھیڑ سے بھری
ہے یقین مجھ کو
کہ مل ہی جائیں گے کہیں !!!
– مل گئے !
– کیسے ہیں نام؟
– اچھے ہیں۔
– آپ نام رکھتیں تو کیا رکھتیں ؟
– خود کو کیا کہتی، جانتی نہیں !!
– آپ نے دو نام چن لینے کے لئے کہا تھا۔ آپ پر بھی یہی لاگو ہوتا ہے۔ میرے لئے کیا نام چنا ہوتا؟
– اپنے محاذ پر جانے کا وقت ہو گیا۔ کچن کی طرف کوچ کرنا ہے !!
– مجھے بھی آج ڈنر بنانا ہے۔
– کیوں ؟
– بیوی باہر، بچے باہر۔
– کہاں گئے ؟
– اپنے اپنے محاذوں پر، کوئی فلم، کوئی ایونٹ۔
– آپ یہاں کیوں رہ گئے ؟
– ہمیں رہ گئے داستاں کہتے کہتے۔ آپ سے بات کرنی تھی نا۔ ایک نئی دوست ملے گی پتہ تھا مجھے !!
– آپ کی خوش قسمتی۔
– آپ کی نہیں کیا چھوی !! صرف ہماری ہی؟ آپ نے بتائے نہیں اپنی پسند کے نام؟
– اوکے بائے !!
– ایک بات بتاتی جائیں چھوی !!
– جی !!
– نام کیا چنتیں۔
– پھر کب بات ہو گی؟
٭٭٭
۲۸ مئی۲۰۱۴ء
۶۔ ۵۸ بجے شام
– سر آپ کی ویب سائٹ دیکھ رہی ہوں۔ واہ کیا بات کہی ہے۔ "کہیں ہمیں اپناہی عکس دیکھنے کی لت پڑ جائے، تو ہم اپنے آپ کو اتنا زیادہ جاننے پہچاننے لگتے ہیں کہ اپنے اور صرف اپنے بارے میں گھنٹوں، دنوں اور مہینوں تک اچھی اچھی بات کرتے رہ سکتے ہیں۔ ” بہت اچھا لکھا ہے سر آپ نے۔
– جی!
– دیکھی آپ کی ویب سائٹ۔ کچھ وقت گزارا۔
– جی۔
– بزی ہیں سر؟
– نہیں، ایک فون آ گیا تھا۔ کہئے۔ در اصل آج کل میں ایک نیٹ میگزین کو ایڈٹ کر رہا ہوں۔ اسی کے کام میں لگا رہتا ہوں۔
– جی پتہ ہے۔ آپ کی وال پر میسج ہے اس کے بارے میں۔
– آپ کی پروفائل بتا رہی ہے کہ آپ کی سالگرہ ہے اگلے ہفتے، تو کچھ نظمیں ہمارے میگزین کے لئے خاص طور پر لکھیں۔ ہم فوراً چھاپیں گے۔
– میری وال پر آپ کو جو لائنیں اچھی لگیں ذرا بتائیں !
– یہ والی۔
مجھ میں ہو کر بھی جدا جدا سا رہا
یوں تنہا مجھ ہی میں میرا خدا رہا۔۔ ۔۔ ۔ !!!
اچھی ہے۔ آپ مکمل تحریر دیں۔
– جی ضرور۔
– کتنی ہوں گی نظمیں ؟
– مل ملا کر ہوں گی پچاس کے اریب قریب۔
– ہمیں کم از کم پانچ دیں، صرف ایک اکلوتی شرط ہے۔
– جی کہیں سر !!
– وہی تحریر دیں جو پہلے سے نیٹ پر یا آپ کی وال پر نہ ہوں۔
– نیٹ پر یہ سب، تب بیکار ہو جائیں گی کیا؟
– نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہم جو چھاپیں لوگ اسے پہلی بار ہمارے یہاں ہی پڑھیں۔
– میں تو بے حد خوشی سے لکھتی ہوں یہاں، تاکہ سب ہی پڑھ سکیں۔ لوگ پڑھتے ہیں اور کومنٹ بھی کرتے ہیں۔
– آپ فیس بک کی ٹی آرپی پر نہ جائیں۔ ہم یہی تو نہیں چاہتے کہ آپ ہی کے قاری اور دوست یہ کہیں کہ ارے یہ تو پہلے بھی پڑھی ہیں آپ کی وال پر۔ اب ہمارے لئے لکھیں خاص طور پر۔ بے شک بعد میں آپ اپنی وال پر اس کا لنک دے دیں۔ ہمارے میگزین کو تقریباً دو ہزار قارئین روز پڑھتے ہیں اور خوب پسند بھی کرتے ہیں۔
– لیکن سر، یہاں پر تو صرف دو ہی لائنوں دی ہیں۔۔ ۔۔ مکمل تحریر تو نہیں دی ہے۔
– ارے نئی لکھئے نہ۔ آپ کے لئے تو بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گا۔
– ایسا کیوں ؟
– میری بات رکھنے میں کوئی حرج ہے ؟
– اچھا یہ دیکھیں –
تم ہی تو بولتے ہو
سن بھی رہے ہو تم ہی
تم ہی دیکھتے ہو
اور آئینہ ہو تم ہی
کیا ہو تم، اور کون ہو
یہ بھی پتہ نہیں
نادور ہو، نا پاس ہو
پر ہو یہیں کہیں !!
– اچھی ہے لیکن یہ بھی آپ کی وال پر تو ہو گی نا؟
– بہت کم لوگوں نے دیکھی ہے یہ نظم یہاں۔۔ ۔ پھر بھی جو آپ کا حکم۔۔ ۔۔ ۔۔ !!!!
– یہ بات ہوئی نا۔ ہمارا میگزین پورے اعزاز کے ساتھ آپ کی تازہ ترین تخلیق پیش کرنا چاہے گا۔ نئے تخلیق کاروں کو انٹروڈیوس کرنے کے لئے ایک خاص کالم ہے۔ آؤ دھوپ۔
– دیکھا ابھی سر۔ اچھا نام دیا ہے کالم۔
– جی، اور آپ کو ترجمے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
– آپ حکم دیں سر۔
– ایک بات تو یہ کہ میں آپ کا سر نہیں۔ میرا نام لے سکتی ہیں۔
– دوسری بات؟
– کوئی اچھی سی کتاب چنئے یا کوئی کہانی۔
– جی!
– کر پائیں گی؟
– جی ان دنوں فری ہوں۔ مجھے گھر پر زیادہ کام نہیں رہتا اور کوئی بھی تخلیقی کام کرنا، میرے لئے بہت خوشی کی بات ہو گی۔
– آپ نے رسکِن بانڈ کی کہانیاں پڑھی ہوں گی؟
– جی پڑھی ہیں۔
– گڈ، بچوں کے لئے بہترین کام ہے ان کا۔ کوئی کہانی چن کر اس کا ترجمہ کرنے کے بارے میں سوچیں۔
– جی۔
– ان کی پوری کتاب کر سکیں تو بلے بلے۔
– مجھے رہنمائی چاہیے۔ کوئی بتائے تو میں بہت کام کر سکتی ہوں۔
– ہم ہیں نا، فرینڈ، فلاسفر اینڈ گائیڈ۔ سیلف ڈیکلئیرڈ۔
– ہاہاہاہا سر۔ بنایا آپ کو فرینڈ، فلاسفر اینڈ گائیڈ۔
– اور بتائیں۔
– سر، آپ کو بتایا تھا۔ میرا بہت ہی پیارا خاندان ہے۔ بھرا پورا خاندان۔ شوہر، دو بچے، ساس سسر، نند۔ ادب کے لئے کام کرنے میں کوئی بھی تکلیف نہیں ہو گی۔ آپ سجھائیں۔۔ ۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔
– اور۔۔ !!
– اور کیا؟
– جو آپ بتانا چاہیں۔ ویٹ کو چھوڑ کر ہاہا۔
– وزن بہت زیادہ ہے۔۔ ۔۔ ۔
– کم آن۔۔ ۔
– اوکے۔
– مجھے کون سا آپ کو دریا پار کرانا ہے !!
– ہاہا، اچھا سینس آف ہیومر۔
– آپ سے ایک بات پوچھتے ہیں۔
– ضرور۔
– دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ پہلے وہ جو برسات آنے پر کھڑکیاں بند کر دیتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ برسات آنے پر بند کھڑکیاں بھی کھول دیتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو کس طرح کے لوگوں میں شامل کرنا چاہیں گی؟
– آپ کی درجہ بندی کا جواب نہیں، لیکن ہم بھی اپنے جواب سے آپ کو لاجواب کر دیں گے۔
– کہیں۔
– در اصل ایک اور قسم ہوتی ہے لوگوں کی۔ ہم اسی میں آتے ہیں۔ پہلی برسات آنے پر ہم چھت پر چلے جاتے ہیں اور جی بھر کر بھیگنے کا مزہ لیتے ہیں۔ ویسے بھیگنے کے مواقع نہیں چھوڑتے۔ آپ اپنے آپ کو کہاں رکھتے ہیں جناب مصنف صاحب؟
– آپ کے جواب سے ہم بہت خوش ہوئے۔ جہاں تک بمبئی کی برسات کا سوال ہے، یہاں بھرپور ہوتی ہے اور اتنی ورائٹی کی ہوتی ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
– ارے واہ۔ ذرا ہمیں بھی بتائیں۔
– کئی بار تو چھتری کھولنے سے بھی پہلے برسات بند ہو چکی ہوتی ہے اور آپ بھیگ چکے ہوتے ہیں۔ سڑک کے اِس طرف برسات ہے اور اُس طرف نہیں ہے۔ کئی بار اتنی لمبی چلتی ہے کہ سب کچھ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم بھیگتے ہیں اور بھرپور بھیگتے ہیں۔ بس یہ دیکھ لیتے ہیں کہ موبائل اور پرس بھیگنے سے بچے رہیں۔
– واؤ! سنا ہے بمبئی کے آس پاس کئی ریزورٹس میں میوزیکل رین ڈانس کا انتظام ہوتا ہے۔
– دیکھ لیجیے، اتنی برسات کے بعد بھی ہم اور بھیگنے کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔
– سنا ہے بمبئی میں لوگ برسات اور لڑکی کا بھروسہ نہیں کرتے۔ دونوں کبھی بھی آتی جاتی رہتی ہیں۔
– صحیح فرمایا۔ یہی سچ ہے۔
– دیکھا، ہم بھی بمبئی کے بارے میں کتنا کچھ جانتے ہیں۔
– ایک اور بات بتائیں۔
– جی
– کیا پڑھنا اچھا لگتا ہے ؟
– موسیقی سننا، پڑھنا، لیکن بتایانا کہ ہر طرح کی کتابیں پڑھتی رہی ہوں، لیکن ڈگریاں بٹورنے کے چکر میں من چاہا پڑھنا۔ استقلال سے نہیں ہو پایا۔ موسیقی توہر وقت چاہیے۔
– جی، آپ کی پرسنل لائبریری ہے کیا؟
– جی کچھ کتابیں ہیں۔۔ ۔۔ ۔ تھوڑی بہت۔
– اوکے، ایک کام کرنا۔
– جی !!
– آپ رسکن بانڈ کی کوئی کتاب خریدیں۔
– پہلے بھی بتایا تھا۔ کتاب کا نام بتائیں۔
-بک شاپ میں جو بھی مل جائے۔ اس میں سے اپنی پسند کی کسی کہانی کا ترجمہ کریں۔
– جی، ضرور۔
– ویٹ، میں آپ کو ان کی ایک کہانی میل ہی کر دیتا ہوں۔ آئی ڈی بتائیں۔
– جی !!
– پرنٹر ہے کیا گھر میں ؟
– جی ہے۔
– آپ جب ترجمہ کر لیں تو ہم اپنے میگزین میں چھاپیں گے۔ یہ آپ کو سالگرہ کا تحفہ ہو گا۔ لیکن جلدی۔ میں آپ کو آج ہی کہانی بھیج دوں گا۔
– جی سرکار
– جی!
٭٭٭
۱۳جون ۲۰۱۴ء
۹۔ ۰۸ بجےرات
– آج کل کسی دوسری دنیا میں ہوں۔۔ ۔ پتہ نہیں چلتا کب لکھتی ہوں۔۔ ۔ کچھ بھی آ جاتا ہے دماغ میں۔
– یوں کہئے دل میں۔
– جی، شاید۔
ہر ایک اظہار تیری ہی سبب سے ہے۔
پھر مل گئے سر زندگی کے سارے دکھوں کو !!
– صحیح کہا۔
– کچھ ہے۔۔ ۔ جسے سمجھ نہیں پا رہی ہوں ٹھیک سے۔۔ ۔ آج کل۔
– کئی بار ہوتا ہے کہ ہم اپنے دل کی بات نہیں کہہ پاتے۔
– سامنے والا بھی تو ہو سننے کے لئے۔
– ویسے میں بہت لکی ہوں کہ مجھے سریندر جیسے شوہر ملے۔ وہ میرے لئے آل ان ون ہیں۔۔ ۔۔
– شیور۔ ویسے کیا کرتے ہیں ؟
– گائیڈ، فرینڈ، فلاسفر، مِیت، بھگوان سب کچھ۔۔ ۔
– اوہ گاڈ !!!
– یہ۔۔ ۔۔ ۔۔ آڑھتی ہیں۔ سمجھتے ہیں آپ۔۔ ۔۔ ۔ ؟
– جی، میں شمالی ہند کا ہوں اور پنجابی ہوں۔
– کمیشن ایجنٹ۔
– جانتا ہوں بھئی۔ آڑھتی کو انگریزی میں کمیشن ایجنٹ کہتے ہیں۔
– جو اناج منڈی ہوتی ہے۔۔ ۔ سمجھتے ہیں۔۔ ؟
– ارے، میں سمجھتا ہوں نا۔
– اوکے کے کے کے کے۔
– اور؟
– اور سب اچھا اچھا، جو ایک اچھی سی لائف کے لئے لازمی ہے۔
– اور شاید وائف کے لئے بھی۔
– لفظوں سے کھیلنا تو کوئی مصنفوں سے سیکھے۔ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔
– آپ گریٹ ہیں۔ لکی یو آر۔
– ویل، آپ لکی کے بجائے کہہ سکتے ہیں خوش امید۔۔ ۔۔ میرے معاملے میں یہ بہتر لفظ ہو گا۔
– جی، جو لفظ آپ کو اچھا لگے، فٹ کر لیں۔ ویسے آپ خود کس شہر کی رہنے والی تھیں، شادی سے پہلے ؟
– بہادرگڑھ، میرے بارے میں سب سے اچھی بات ہے۔ خود کو ڈھالنا۔
– آپ کہنا چاہتی ہیں کہ اپنے آپ کو موقع کے حساب سے ڈھال لینا۔
– سروائیول آف دی فٹیسٹ۔ ڈارون کا نظریہ۔
– آپ کے حوالے میں کہاں سے آ گئے ڈارون بابا؟
– خود کو ڈھالنا۔ سروائیول آف دی فٹیسٹ۔
– چپا چپا بوٹا بوٹا !!
– اس لیے کہا !!
– حال ہمارا جانے ہے !!
– صحیح فرمایا !!
٭٭٭
۱۷ جون ۲۰۱۴ء
۴۔۳۹ بجے شام
– چھوی جی، کہانی آپ کے ای میل آئی ڈی پر نہیں بھیجی جا سکی۔ کیونکہ اس نام کی کوئی آئی ڈی موجود نہیں ہے۔ بتائیں کیا کروں ؟
– اوہ!
– کہانی یہیں ایف بی کے ان باکس میں ہی لوڈ کر دی ہے۔ دیکھ لیں۔
– دیو۔۔ ۔ میری آئی ڈی کہاں گئی۔۔ ۔۔ یہیں تو تھی؟
– یہ آئی ڈی سسٹم کو منظور نہیں ہے چھوی، آپ بتائیں میں کیا کرتا!
– اچھا، وہ تو دیکھ لیا میں نے، پر میری آئی ڈی؟
– نئی بنا لیں جی میل میں۔ یا ایک کام کریں۔
– جی سر۔
– میری آئی ڈی پر ایک ٹیسٹ میل بھیجیں۔
– ابھی نہیں۔۔ ۔۔ کل۔ میری ایک اور بھی آئی ڈی ہے !
– یہ کام تو ابھی ہی ہونا ہے۔
– پلیز۔
٭٭٭
۲۶ جون ۲۰۱۴ء
۹۔۰۱ بجے رات
– ہیلو سر کیسے ہیں ؟ فیس بک کے بارے میں آپ نے جو مضمون لکھا ہے، بہت اچھا لکھا ہے۔ میرے خیال سے اس میں کچھ اور پہلو مزید جوڑے جا سکتے ہیں۔۔ ۔ !
– ہیلو، کیا آپ کچھ دیر انتظار کر سکتی ہیں۔ جلد ہی آپ سے بات کرتا ہوں۔
– آپ کو اتنے دن بعد دیکھ کر اچھا لگا۔ کیسے ہیں سر؟
– کچھ ٹائم اور دیں۔
– جی!
– اب کہیں، جی چھوی جی میں نے اس مضمون میں سے اُس لڑکی کا پورشن ہٹا دیا ہے۔ بعد میں بتا چلا کہ وہ لیس بین ہے۔ ان کا پورا گروپ ہے، جو سارا دن فیس بک پر فحش تصویریں لوڈ کرتا رہتا ہے۔ اس کا پورا گروپ فیس بک پر گند مچا رہا ہے۔ میں نے اسے بلاک کر دیا ہے۔ اگرچہ اب مضمون بہت بڑا ہو گیا ہے اور لوگ اپنے کمینٹس بھی دے رہے ہیں۔ آپ کیا تعاون کرنا چاہیں گی؟ میں شکر گزار رہوں گا۔
٭٭٭
۲۹ جون ۲۰۱۴ء
۲۔۱۳ بجے دو پہر
– سر، آپ کبھی آن لائن نہیں دکھتے۔۔ ۔۔ !
– جانے دیں۔۔ !
– بات کیا ہوا کے ساتھ کروں !
– ویسے میرے لیپ ٹاپ میں ہر وقت فیس بک کھلی ہی رہتی ہے۔ میں گھر سے باہر رہوں تب بھی۔ آپ ہی کی سیٹنگ میں کچھ گڑبڑ ہو گی۔ ویسے آپ کبھی بھی آف لائن میسج چھوڑ سکتی ہیں۔
– جی!
– ویسے بھی مجھے نیند نہیں آتی، سوتا جاگتا رہتا ہوں !
– سرکاری جاب کے لئے اپلائی کیا ہے۔ اسی کو لے کر تھوڑی درہم برہم ہوں۔
– یار چھوی، آپ پہلے بتاتیں، میں کیا مبارکباد بھی نہیں دے سکتا تھا؟
– آن لائن تو ہوتی ہوں، لیکن کمپیوٹر کے پاس نہیں ہوتی۔
– پہلے بتائیں کیسی ہیں، نیٹ امتحان کا کیا رہا؟
– نیٹ کا رزلٹ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ امتحان کیسا رہا۔
– ذرا بتائیں کہ آپ آن لائن رہ کر میسج دیتی ہیں یا آف لائن رہ کر؟
– جی!
٭٭٭
۸اگست ۲۰۱۴ء
۱۱۔۳۸ بجے رات
– میری نیک خواہشات تو صحیح وقت پر مل گئی تھی نا؟
– کہانی بھی آج۔ ابھی۔ ڈاؤن لوڈ کر لی۔۔ رسکن بانڈ کی!
– وا رے، یہ کہانی تو آپ کو تین مہینے پہلے بھیجی تھی ترجمے کے لئے۔
– ہاں پر !!
– اب ترجمہ کریں گی؟
– ہاں۔۔ ۔ پہلے دیکھ تو لوں !
– بے شک، دَیو کچھ کہنا چاہتا ہے سرکار!
– حکم ہے !
– آپ سے دو چار بار ہی باتیں ہوئیں۔ لیکن آپ سے بات کر کے بے انتہا اچھا لگا تھا۔ عام طور پر فیس بک پر ایسے قریبی تعلق نہیں بنتے۔ کسی سے بھی نہیں۔
– اگر ایسا ہی ہے تو آئی ایم آ نرڈ۔
– سچ!
– شاید۔۔ ۔ !
– آپ نے شاید محسوس نہ کیا ہو۔ میں عمر میں آپ سے بڑا ہوں اور دنیا دیکھی ہے۔ لیکن ایک چیزسچائی ہوتی ہے۔ وہی دیکھی میں نے۔
– آپ کووردان ملاہو گا شاید۔۔ ۔۔ میری طرح شاید آپ میں بھی کوئی اچھی سی بات بچی ہو گی۔ اپنی آس پاس کی دنیا کی ساری بدتمیزیوں کے باوجود۔
– آج اتنی رات گئے کس طرح جاگ رہی ہیں، کبھی دیکھا نہیں ؟
– اس میں کچھ بھی خاص نہیں۔ اب ذرا دو با توں پر روشنی ڈالیں۔
– جی کہیں !
– فیس بک کے مجازی دوستوں سے جو نیک خواہشات ملتی ہیں، وہ ریئل ہوتی ہیں۔۔ ۔ ایسا میں نے محسوس کیا ہے۔
– صحیح کہا، فیس بک بے شک مجازی ہے، لیکن یہاں ملنے والے دوست کھرے ہیں۔ دوسرا!
– کیا لکھنا دیر سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے !
-لکھنا کبھی بھی شروع کیا جا سکتا ہے، بلکہ دیر سے لکھنا شروع کرنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی تخلیقات میں زبان اور ٹریٹمنٹ کے کچے پن سے بچ جاتے ہیں اور مکمل میچیوریٹی سے تخلیق کار کے روپ میں اپنا آغاز کرتے ہیں۔
– جی سر۔ سمجھ میں آیا۔
– اب دو سوال میرے۔
– آپ بھی پوچھ ہی ڈالو، ورنہ ڈکاریں اٹکی رہیں گی۔
– چھوی، چیٹنگ کے لئے دونوں کے ہی الگ نام رکھنے کے پیچھے آئیڈیا کیا تھا اور دوسرے اتنی اپنائیت سے تعارف دینے کے اور چیٹ شروع کرنے کے مہینوں بعد کبھی کبھار ہی آپ کے درشن ہوتے ہیں۔
– میں مانتی ہوں کہ آپ نے نام سجھائے۔۔ ۔ اس میں خاص بات یہی تھی کہ مجھے لگا کہ آپ کو اس میں خوشی ملے گی۔
– تھینکس لیکن محترمہ، خوشی تو تب ملتی جب اسے ظاہر کرنے کے موقعے ملنے۔ آپ تو ایک طرح سے غائب ہی ہو گئیں !!
– لیکن آپ کو بھی تو اس سے اتنی ہی خوشی ہو گی؟
– پہلے ایگزام کی تیاری، پھر ایگزام اور ایگزام کے بعد کچھ دن آرام۔۔ پھر جاب کے لئے بھاگ دوڑ۔۔ ۔
– آپ کی یہ دلیل قابل قبول نہیں۔
– آج آپ کا اسٹیٹس اپ ڈیٹ دیکھا۔۔ لگا کہ آپ آن لائن ہیں۔
– تھینکس چھوی۔
– سچ تو ہے کہ میں فیس بک پر مشکل سے ہی کسی سے بات کرتی ہوں۔ پتہ نہیں آپ سے۔۔
– جی!
– میرے دوستوں کی لسٹ بہت چھوٹی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
– ہاں دیکھی ہیں۔ فیس بک پر تقریباً بارہ کروڑ بھارتی ہیں اور آپ کے کل گیارہ دوست اور میوچل صرف تین۔
– اور چیٹ صرف آپ سے۔ ہا ہا !!
– صرف گیارہ دوستوں کے سہارے آپ فیس بک پر اتنا وقت کس طرح گزار لیتی ہیں۔
– دیکھ لیں کہ ہم کتنی پرسکون مخلوق ہیں۔ آپ نے تو شاید ساڑھے چار ہزار توتے پالے ہوئے ہیں۔
– توتے اور توتیاں دونوں ہی۔ ان میں سے ایک آپ۔
– آپ ہی اکیلے ہیں، جن سے دوسری تیسری بار بات ہو رہی ہے۔
– جی!
– ایک سمیت سر ہیں جن سے بات ہوئی ہے۔
– تھینکس دوبارہ کہنا ہو گا کیا؟ چلو مانے لیتے ہیں !
-ہندی ٹائپنگ میں تکلیف ہوتی ہے۔ آپ کیسے کر لیتے ہیں۔
– مشق کی بات ہے۔ آ جائے گی۔ ویسے بھی اظہار معنی رکھتا ہے، زبان نہیں۔
– یہاں تو دونوں کے ہی لالے پڑے ہوئے ہیں۔
– ایک بات بتائیں۔ آپ اپنے آپ کو ایک ونڈرفل لیڈی مانتی ہیں یا سادہ سی عورت ؟؟
– مطلب؟
– آپ کو اپنی طاقت پر پورا بھروسہ ہے کہ آپ کسی بھی صورتِ حال کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
– کیا آپ اپنی بات کو آسان الفاظ میں سمجھا سکتے ہیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔
– کیا آپ کو اپنی طاقت پر بھروسہ ہے ؟ کیا آپ اپنے آپ کو کسی بھی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے قابل پاتی ہیں ؟
– کسی بھی صورتِ حال میں۔۔ ۔ جیسے ؟
– کوئی مشکل سچویشن جس میں عام طور پر لوگ ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں کہ یہ میرے بس کا کام نہیں۔ اس طرح کی صورتحال۔ کیا آپ ایسی حالت میں آگے آ کر چیلنج لے سکتی ہیں ؟
-۔۔ ۔
– آپ ہیں کیا چھوی؟
– میری زندگی کا نچوڑ یہ ہے کہ میں ایک بہت چھوٹے سے شہر میں رہتی ہوں۔۔ جوائنٹ فیملی! شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی۔۔ ۔۔ اور اتنے ہی چھوٹے سے شہر میں بائیس برس گزارے۔ بے شک پڑھ لکھ لی، لیکن میری یا کسی چھوٹے سے شہر میں رہنے والی میرے جیسی لڑکی کی زندگی میں کچھ سنسنی خیزی گھٹ ہی نہیں سکتی۔ ہم اتنے پروٹیکٹڈ ماحول میں جو رہتے ہیں۔
– ہممم۔
– ہاں چوری چوری عشق کرنے اور پھراس کا بھانڈا پھوٹ جانے کے سوا ہمارے یہاں کچھ بھی سنسنی خیز نہیں ہوتا۔ اور وہ ہم نے کیا نہیں۔
– بتاتی چلیں۔
-اس لئے کسی ٹریننگ یا چیلنج کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ زندگی ہی کوئی ڈیمانڈ رکھتی ہے۔ نہ ایسی حالت ہی آتی ہے، ہمارے سامنے پوری زندگی۔
– آپ کے لئے فیس بک؟
-۔۔ ۔
– لڑکی کے لئے آزادی؟
– جو بھی ہے اپنے بل بوتے پر اپنی خوشی کے لئے اور اپنی چہاردیواری کے اندر۔
– اور
– تھکاوٹ ہو رہی ہے۔ جانے کی اجازت ملے گی؟
– ایک پرامس کے ساتھ۔
– اگلی چیٹ میں آپ بتائیں گی کہ آپ یا کسی چھوٹے سے شہر میں رہنے والی کے لئے فیس بک کیا معنی رکھتا ہے۔
– آپ ہی آن لائن نہیں نظر آتے۔ میں کس طرح کہہ سکتی ہوں۔
– آپ کو بتایا تھا میرا لیپ ٹاپ کم ہی بند ہوتا ہے۔ آپ کب ملئے گا؟
– مجھے کیا پتہ۔۔ ۔۔ آپ کی قسمت کب اچھی ہو گی دوبارہ۔۔ ۔۔ ۔ ہا ہا۔۔ ۔ چلیں سکون کی نیند لیں آپ۔ جتنی بچی ہے رات اس کیلئے نیند کی نیک خواہش۔ بائے !
– ٹھیک ہے یہی سہی، بابا راہ دیکھے گا۔ چھوی گہری نیند پاؤ۔
– جتنی بچی ہے۔۔ ۔ زندگی۔۔ اُسے جینے کے لئے نیک خواہشات۔
– تھینکس اینڈ بائے۔
– بائے۔
٭٭٭
۲۸ اگست ۲۰۱۴ء
۹۔۳۱ بجے رات
– نیٹ مارکس آ گئے ہیں۔
– کتنے آئے ؟
– بتائے جا سکتے ہیں۔ پہلے میں ستر فیصد۔۔ ۔۔ دوسرے میں اڑتالیس فیصد۔۔ ۔ تیسرے میں چالیس فیصد
– اچھا!
– جبکہ پہلے میں چالیس۔۔ ۔ دوسرے میں چالیس۔۔ ۔۔ تیسرے میں پچاس۔۔ ۔ ضروری تھے۔
– اوہ!
– تیسرے میں ہم لڑھک گئے۔
– برا ہوا۔ کیا ایک پیپر دوبارہ دینے سے چلے گا یا تینوں کے لئے دوبارہ بیٹھنا ہو گا؟
– نہیں، سبھی پیپر دوبارہ دینے ہوں گے۔ مسئلہ نہیں۔ پھر سہی۔ زیادہ تیاری کے ساتھ۔ اس بار پتہ تو چل گیا کہ ہم دے سکتے ہیں۔
– آپ کے بارے میں اچھی بات ہے کہ آپ پوزیٹو ہیں۔
– ہاں میں بی پازیٹو ہوں۔
– اس کے لئے اضافی نمبر ملیں گے۔
– ہا ہا، ویسے آپ سے خوب نبھ رہی ہے۔ اسی کے اضافی نمبرملنے چاہیے !
– بیشک، دس میں سے پندرہ بیس جتنے نمبر چاہیں، لے لیں۔
– میں اتنی اچھی ہوں کہ سب سے نبھ جاتی ہے۔ بس، سامنے والے کو بھی میرے جتنا ہی اچھا ہونا چاہیے۔
– مطلب مجھے آپ جتنا اچھا بننا پڑے گا؟
– وہ سچ مچ لکی ہوتے ہیں، میں جن کا خیال رکھتی ہوں !
– سچ!
– لیکن آپ ان خوش نصیبوں میں سے ایک کبھی نہیں بن پائیں گے۔ سو سیڈ!
– بننے سے بھی کیا ہو جانے والا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں اپنے گھر میں بھلا۔ آپ اپنے گھر میں۔ آپ کی فہرست سے میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔
– اگر سچ میں ہو اچھے تو بننے کی ضرورت نہیں۔
– آپ جانتی ہیں کہ میں اپنے ساتھ اچھا ہونے کا سرٹیفکیٹ لئے لئے نہیں گھومتا!
– ٹھیک ہے، میرے پاس تو ہیں سرٹیفکیٹس ہا ہا !
– میں اور میرے لفظ۔
٭٭٭
۹ ستمبر ۲۰۱۴ء
۴۔۳۰ شام
– مجھے پتہ تھا سر، آپ آس پاس ہیں۔
– کیسی ہیں ؟
– اچھی ہوں۔
– چھوی آپ سامنے تو آتی نہیں۔ پتہ نہیں بات کیوں نہیں کرنا چاہتیں۔
– فون آ گیا تھا۔
– کیسی چل رہی ہے زندگی چھوی ؟
– وہی سب کچھ پراناپن لئے۔
– ایسا کیوں سوچتی ہیں ؟
– لگتا ہے سارے الفاظ اور احساسات کسی نے چھین لئے ہیں۔
– ایسا نہ کہیں دوست۔ ہمیں کہتے، ہم اپنے سارے الفاظ آپ کو سونپ دیتے۔ احساسات بے شک آپ کو بھرنے پڑتے۔
– ساون کی رم جھم پھواروں کا موسم۔
لو پھر آ گیا اُن کی یادوں کا موسم۔
– ہاں، اب ہوئی نا بات۔
– آپ مجھے کچھ اچھا پڑھنے کے لئے بھیج سکتے ہیں ؟
– اپنا صحیح ای میل آئی ڈی دیں۔
– یہ رہا۔ نیا بنایا ہے۔ آپ سے کچھ اچھے اچھے ادبی خزائن حاصل کرنے کے لئے۔
– کچھ ای بکس بھیج رہا ہوں۔
-۔۔ ۔
– آپ چپ کیوں ہو جاتی ہیں بیچ بیچ میں۔ پہنچیں کہانیوں کی کتابیں اور میری ایک نظم، آپ کے نئے ای میل آئی ڈی پر؟
– دیکھتی ہوں۔
– جی۔
– واہ، کیا لائینیں ہیں۔
کیاپتہ
کوئی کھو یا کلغی دار سکہ خوشیوں بھرا
چھپاک سے ہماری گود میں آ گرے
عمر کی گلّک سے
– اچھا لگا کہ آپ کو اچھی لگی۔
– خوبصورت شاعری۔ آپ نے آج مجھے بہت امیر کر دیا۔ کئی دن کے لئے خزانہ مل گیا۔ ایک بات اور، سر۔۔
– جی؟
– مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟ کیا مشورہ دے سکتے ہیں ؟
– پہلے تو بات کرنی چاہیے مجھ سے۔ تبھی بتا پاؤں گا نا۔
– جی۔
– پتہ تو چلے کہ کس بارے میں پوچھ رہی ہیں ؟
– لکھنے کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔
– دل میں کیا لکھنے کی خواہش ہوتی ہے ؟ شاعری، کہانی، ڈائری، نثر؟ آپ بتائیں گی۔ تبھی کچھ کہہ پاؤں گا۔
– پنکھ نہیں ہیں اور اڑنا چاہتا ہے۔۔ ۔۔
دل نا جانے کیا کیا ہونا چاہتا ہے۔
– بھٹکاؤ نہیں اپنے آپ کو۔ لکھنا مسلسل مشق مانگتا ہے، روز لکھنے کی میز پر بیٹھ کر۔ سنگیت کے ریاض کی طرح۔
– اور؟
– ایک خوبصورت ڈائری اور اس سے بھی خوبصورت پین لو۔
– پھر؟
– جو بھی ذہن میں آئے لکھتی چلو۔ اس پر تاریخ ضرور ڈالو۔
– اور؟
– وقت نکال کر پڑھو بھی۔
– کچھ سجھائیں۔
– www.gadyakosh.com یا www.hindisamay.com.پر ہندی کا بہترین ادب ہے۔ بہت سائٹوں ہیں جو گھر بیٹھے آپ کو سب کچھ دیں گی۔ وکی پیڈیا تو ہے ہی۔ بہت رسائل ہیں جو آن لائن ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے آن لائن رسائل بھی ہیں۔ سب پڑھو، لیکن جو بھی دل میں آتا ہے لکھو ضرور۔
– جی، جو حکم۔
– لکھ کر اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے کی جلد بازی نہ کرو۔
– جی۔
– سب ایسے ہی لکھنا شروع کرتے ہیں۔
– اب تو فیس بک پر اناپ شناپ ڈالنے کا سلسلہ بند ہے۔ جب سے آپ نے کہا۔۔ ۔ اس کے بعد سے۔
– کہانی کے ترجمے کا کیا ہوا؟
– نہیں کر پائی۔ جاب کے سلسلے میں بہت پریشان ہوں۔
– جاب مل گئی تو کیا ہو گا۔ پہلے ہی یہ حال ہے تو۔۔ ۔ ؟
– نہیں جانتی۔ راستہ نہیں سوجھتا۔ چھٹپٹاہٹ ہے لیکن پتہ نہیں یہ سب کیا چل رہا ہے۔
– جاب چوبیس گھنٹے نہیں ہوتی، اپنے لئے اور اپنی پسند کے کاموں کے لئے وقت نکالیں، رات کو جاگیں۔
– جی۔
– فیس بک پر کم بیٹھیں۔ اپنے آپ کو ایکسپریس زیادہ کریں۔
– اوکے۔
– اگر آپ میں لکھنے کی چھٹپٹاہٹ ہے تو ضرور لکھ پائیں گی۔
– جی۔
– صرف، لکھنا خود ہو گا۔
– لیکن لکھنے کا فائدہ کیا؟
– اگر فائدہ ہی پوچھنا تھا تو پھر اتنے سارے سوال ہی کیوں ؟
– یہ بھی درست ہے۔
– اگر آج میں مصنف ہوں تو بہت سکون ملتا ہے۔ گھٹن نہیں ہوتی۔ کبھی اکیلا پن یا خالی پن نہیں ہوتا۔
– اور؟
– دیکھو چھوی، سادہ لفظوں میں بتاؤں تو عام طور پر سوچنے سمجھنے والا آدمی تین خواہشات رکھتا ہے۔ بہتر رہنے کی، اظہار رائے کی اور تسلیم کئے جانے کی۔ یعنی جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ ہماری پہچان بنے۔ بس، ساری جد و جہد، اظہار کا ذریعہ تلاش کرنے کی اور اسے قبولیت ملنے کی ہے۔ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا ذریعہ تلاش کرنا بہت خوشی دیتا ہے۔
– صحیح کہا دَیو۔ ذرائع کس طرح تلاش کریں ؟
– مصنف بننا ہے تو لکھیں۔ خوب لکھیں۔ ڈائری لکھنے سے آغاز کریں۔ ڈائری میں لکھے اور بعد میں تخلیق کے طور پر چھپے الفاظ بہت خوشی دیتے ہیں۔
– اور؟
– دنیا کو دیکھنے کا نظریہ بدلتا ہے۔
– مطلب یہ سب تھیراپیوٹک ہوتا ہے ؟
– آپ کے پاس تو زبانوں کا علم ہے۔ ایکسپریشن آسان ہونی چاہیے۔
– ہممم۔
– آج پہلا صفحہ لکھیں، پھر بتائیں۔
– شروع ہو گیا تھیراپیوٹک اثر۔ ویسے میں نے یہ سب پہلے بھی محسوس کیا ہے۔
– کیسا تھا؟
– خوبصورت، لیکن ٹک کر کام نہیں کر پائی۔
– آپ کو سچ مچ کاسنٹریٹ کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ آپ کئی بار میڈٹیشن کی، مراقبے کی بات کرتی ہیں۔
– اسی بات کی تو مجھ میں کمی ہے۔ اپنی توانائی کو چینلائز نہیں کر پاتی۔
– پتہ ہے کلام صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
– جی؟
– جنہیں خواب دیکھنے ہوتے ہیں، ان کے لئے رات چھوٹی ہوتی ہے۔
اور جنہیں خواب پورے کرنے ہوتے ہیں، ان کے لئے دن چھوٹا ہوتا ہے۔
– واہ۔ بہت اچھی بات کہی ہے۔ ؟؟
– نیٹ۔
– نیٹ کا رزلٹ تو بتایا تھا نہ؟
– ارے میں کہہ رہا تھا کہ نیٹ تکلیف دے رہا ہے۔
– اوہ اوکے بائے فار ناؤ۔
– کچھ اورنہ لیں تو میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آپ فیس بک پر ہوتی ہیں تو کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے کوئی آپ سے بات تبھی کر سکتا ہے جب آپ چاہیں اور جب تک من پسند شخصیت نہ ملے آپ انتظار کرتی ہوں گی۔ ویسے بھی آپ کے پاس گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم ہی تو ہے۔ یہ سارا وقت آپ لکھنے پڑھنے میں لگائیں۔ کمپیوٹر پر اردو/ہندی میں ٹائپ کرنے کا طریقہ سیکھیں۔ فیس بک پر رہتے ہوئے بھی آپ فارغ رہ سکتی ہیں۔ اردو/ ہندی میں ٹائپ کرنے کی مشق بھی ہوتی رہے گی۔ گڈ لک۔
٭٭٭
یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
۱۱۔۳۷ بجے صبح
– ہیلو، کیسے ہیں سر؟
– کیسی ہو چھوی ؟
– f9
– میری بات پڑھی تھی کیا؟
– ہاں
– کیا کہتا ہے دل؟
– چھین لو یہ لفظ مجھے سنسان چاہیے
دل کو بھی نہیں معلوم کہ مجھ کو کون چاہیے ؟
– ٹھیک ہے ہم لفظ نہیں چھینیں گے، بے شک خاموشی کا تحفہ دیں گے، لیکن بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا۔ بھلے جھری بھر جگہ ہو۔ ہا ہا۔
– جی، جب بھی لکھتی ہوں اسی دنیا میں رہ جاتی ہوں۔ باہر آنا یا بیلنس بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور یہ بات میرے گھر کے مفاد میں نہیں جاتی۔ جانتے ہیں، میرا ماحول مجھے اکیلے رہنے کی، اپنی خود کی دنیا میں کھو جانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔
– میرے پاس اس بچکانی منطق کا کوئی جواب نہیں۔ کبھی تو اپنے گھر والوں کی اتنی تعریف کرتی ہیں کہ آپ دنیا کے سب سے عظیم گھروالوں کے ساتھ رہ رہی ہیں اور کبھی کوستی ہیں کہ آپ کو من پسند تنہائی نہیں ملتی۔ آپ سب کے درمیان رہ کر بھی اکیلے ہو سکتے ہیں۔ اپنے لئے کونے تلاش کریں۔ ملیں گے فرصت کے لمحے اپنے لئے۔ چاہیں تو۔
– یہ منطق نہیں تھی۔ بچکانی تو بالکل نہیں۔
– آپ سب کے لئے چوبیس گھنٹے دیں سمجھ میں آتا ہے۔ اپنے لئے ایک لمحہ بھی نہیں آپ کے پاس، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔
– میں ہر وقت مصروف رہتی ہوں بغیر کام کے۔
– یہ ساری دنیا کا مسئلہ ہے کہ جو لوگ کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے، وہ سب سے زیادہ مصروف ہو جاتے ہیں اور جو پہلے سے بزی ہوتے ہیں وہ اپنی پسند کے کاموں کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے اور آپ سے کہہ بھی چکا ہوں کہ اپنی پسند کے کاموں کے لئے وقت چرانا پڑتا ہے۔
– اس سے انکار نہیں لیکن۔۔ ۔
– کوئی آپ کے لئے نہیں جی رہا، تو آپ ہی اس خوش فہمی میں کیوں رہیں کہ آپ کو خاندان میں سب کے لئے جینا ہے۔ میں نہیں مانتا کہ آپ ہر وقت بزی ہیں اور خود کے لئے وقت نہیں۔
– ہاں
– فیس بک کا وقت کہاں سے آتا ہے ؟ خود کو پہچانیں اورسنواریں۔
– مجھے بالکل حیرانی نہیں ہوئی۔۔ ۔۔ ۔ مجھے پورا یقین تھا کہ آپ کی اگلی منطق یہ ہو گی کہ فیس بک کا وقت کہاں سے آتا ہے ؟
– آئی ایم سوری، شاید ہم اس مدعے پر بات چیت نہیں کر پائیں گے۔
– نہیں۔۔ ۔ ہم بات کریں گے۔۔ ۔۔ ہم ہی کر سکتے ہیں۔۔ اور اب کر سکتے ہیں۔ در اصل۔۔ ۔
– شاید میں اپنی حد پار گیا تھا۔
– ایسی بات نہیں ہے۔ یہ تو آپ کا بہت ہی اہم اشارہ تھا۔ اٹ واز ویری کئیرنگ۔
– میں اپنے لئے تو کچھ نہیں کر رہا تھا۔ صرف ایک مستقبل کی مصنفہ کی حوصلہ افزائی ہی کر رہا تھا۔ اور وہ بھی آپ کے پوچھے جانے پر کہ کس طرح کروں ؟
– میں سمجھ سکتی ہوں۔ اوکے، آپ نے فیس بک کی بات کہی ہے تو آپ جاننا چاہتے تھے نہ کہ فیس بک میرے لئے یا میرے جیسی ان لاکھوں لڑکیوں کے لئے کیا ہے، جن کے پاس اپنے آپ کو ہلکا کرنے یا شیئر کرنے یا اپنی بات کہنے سننے کا اب تک کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا۔
– ضرور جاننا چاہوں گا۔
– اپنا دن نہ خراب کریں۔ تھوڑی دیر میں بات کرتی ہوں۔ تب تک آپ کوا وشو کا یہ لنک بھیج رہی ہوں۔ دھیان سے سنیں۔ بے چین میں ہوں، دھیان کا لنک آپ کو بھیج رہی ہوں۔
– اٹس اوکے۔ تھینکس۔ سنتا ہوں۔
– فیس بک پر تھوڑی دیر میں بات کرتی ہوں۔ سچ کہوں تو آپ سے بات کرنے میں ہمیشہ مجھے لا محدودخوشی حاصل ہوتی ہے۔ جانتی ہوں میرا دن بہتر گزرے گا آج۔ گھر میں پوجا ہے۔۔ ۔ چار بجے۔ کھیربنا رہی ہوں کچن میں۔۔ ۔۔
– واہ۔
– چار مہمان اٹینڈ کر چکی ہوں۔ گزشتہ آدھے گھنٹے میں۔
– مطلب؟
– مہمان مطلب مہمان۔ اور کیا؟
– جانا ہو گا۔ ساسو ماں پکار رہی ہیں۔
– اوکے، ٹیک کیئر۔
– جا نہیں رہی۔ پوری بات سنو پہلے۔
– بولو۔
– کیا میرے لئے یہ خوشی کی بات نہیں کہ میں فیس بک کے ذریعے آپ جیسے کچھ اچھے لوگوں سے بات کر لیتی ہوں۔ وہ بھی تب جب میں اپنے گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھ پاتی۔ سب کچھ چاردیواری کے اندر۔ اور کئی بار تو باورچی خانے کے اندر۔ جیسے ابھی ہوں۔
– میں سمجھ سکتا ہوں۔
– عجیب بات ہے نا کہ چارمضامین میں پوسٹ گریجویٹ کو اس جوائنٹ فیملی میں اس طرح کی زندگی جینا پڑتی ہے۔ اپنے لئے کوئی جگہ نہیں۔ گنجائش ہوتے ہوئے بھی گنجائش نہیں۔
– عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ چار مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کی شادی ایک آڑھتی سے ہوتی ہے۔ میرا کہنا برا لگ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ آپ کے شوہر کا خاندانی پیشہ ہو اور وہ آپ کے کلاس فیلو بھی ہو سکتے ہیں، آپ کے برابر پڑھے لکھے ہو سکتے ہیں۔ لیکن آپ کی بات چیت سے تو یہی لگتا ہے کہ آپ شادی میں اورفیملی میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے چین ہیں۔ کچھ ہے جو مِسِنگ ہے، جس کی آپ کو تلاش ہے۔ میں آپ کے اندر کی اذیت کوسمجھ سکتا ہوں۔
– میں اذیت میں مبتلا اور وہ سب نہیں ہوں۔ لیکن ایک چیز ہے۔ انٹلکچول ضرورت۔ اسی سیکٹر میں میرے تمام خانے خالی ہیں۔ آس پاس کوئی بھی نہیں ہے، جس سے اپنے من کی بات کہہ سکوں یا کسی چیز کو لے کر بحث کر سکوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں۔۔ ۔ وہی مجھے کچھ نہ کچھ کرنے، سوچنے اور محسوس کرنے کے لئے ہمیشہ اکساتی رہتی ہے۔ لیکن نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔ اب آپ ملے ہیں، تو اپنے آپ کو ہلکا بھی کر دیتی ہوں اور اپنی آخر سے آپ کو پریشان بھی۔ سوری سر۔
– اذیت کاشکار نہیں کہا، لیکن آپ نے خود ہی مانا کہ آپ کی انٹلکچول ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ گھر کی جسمانی آرام کی سہولیات انٹلکچول ضروریات کی بھرپائی نہیں کر پاتیں۔ گھر میں قیمتی سامان یا چار نوکر چاکر ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ آپ کی ضرورتیں اِن سے اوپر کی چیزہیں۔ یہی صحیح ہو گا کہ آپ دانشورانہ دلچسپی اوراپنی ذہنی ضروریات کے لئے کچھ کریں۔
– میں اپنے لئے اسی فرنٹ پر سوری محسوس کرتی ہوں۔ تبھی تو بار بار آپ سے مدد مانگتی ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ مدد کیلئے آپ کا بڑھا ہوا ہاتھ بھی نہیں تھام پاتی۔
– دُشینت جی کے دو مصرعے ہیں –
میرے سینے میں نہ سہی تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہیے
– مکمل غزل دیں گے سر
– یہ لیجیے
ہو گئی ہے پِیرچٹان سی پگھلنی چاہئے،
اس ہمالیہ سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے۔
آج یہ دیوار، پردوں کی طرح ہلنے لگی،
شرط لیکن تھی کہ یہ بنیادہلنی چاہئے۔
ہر سڑک پر، ہر گلی میں، ہرنگر، ہر گاؤ میں،
ہاتھ لہراتے ہوئے ہر لاش چلنی چاہئے۔
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا میرا مقصد نہیں،
ساری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے۔
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی،
ہو کہیں بھی آگ، لیکن آگ جلنی چاہئے۔
– متشکر ہوں سر۔ میں اپنی بات کہوں، فیس بک کو لے کر بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ لیکن میں اس کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔ ۔ یعنی کچھ اچھے لوگوں کے ساتھ رابطہ۔
– اتنا برا نہیں ہے فیس بک۔ ہمیشہ خوش آمدید۔
– ہم بعد میں اس پر لمبی بات کریں گے۔ اگر آپ نے فیس بک والا اپنا مضمون کہیں شائع ہونے کے لئے نہ بھیجا ہو، تو میرا پوائنٹ آف ویو اس آرٹیکل میں شامل کر سکتے ہیں۔۔ ۔ ویسے وہ فائنل ہوا کیا؟
– بہت دن سے پینڈنگ پڑا ہے۔ اسے جلد ہی برش اپ کر کے آپ کی باتیں اس میں جوڑتا ہوں۔
– جی فی الحال باورچی خانہ پکار رہا ہے۔ تو بائے۔
٭٭٭
یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
۱۔۲۵ بجے دوپہر
– زندگی جیسی کوئی سزا ہی نہیں،
گناہ کیا ہے پتہ بھی نہیں۔
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں۔۔ ۔۔
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
– جی
– کس نے کہا ہے پتہ نہیں، لیکن صحیح لکھا ہے !
– میناکماری کے چند مصرعے دے رہا ہوں۔
ٹکڑے ٹکڑے دن بِیتا، دھجی دھجی رات ملی۔
جس کا جتنا آنچل تھا، اتنی ہی سوغات ملی۔
جب چاہا دل کو سمجھیں، ہنسنے کی آواز سنی۔
جیسے کوئی کہتا ہو، لو پھر تم کو اب مات ملی۔
باتیں کیسی گھاتیں کیا، چلتے رہنا آٹھ پہر۔
دل سا ساتھی پایاجب، بے چینی بھی ساتھ ملی۔
– بہت عمدہ ہے۔ تھینکس۔ اب جانا ہی ہو گا۔۔ ۔۔ ۔۔ بائے !
– بائے۔ نائس ڈے اینڈ نائس کھیر!
٭٭٭
یکم اکتوبر ۲۰۱۴ء
۱۰۔۴۳ بجے رات
– ہیلو، آپ ہیں کیا سر؟
– ہاں کہیں !
– ابھی بھی کام نمٹا نہیں ہے، ٹھیک سے !
– کھیر کھائی؟
– ہاں !
– کتنے آدمی تھے مہمانوں کے طور پر ؟قدردان کے ذمے ؟
– ساٹھ خواتین، بیس بچے اور دس حضرات۔
– گھر پر ہی یا مندر جانے کے بہانے ہا ہا ہا ہا!
– سو جانا چاہتی ہوں۔۔ اچھی نیند چاہیے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بائے !
– کہاں انتظام تھا؟
– گھر پر ہی!
– بائے نیند لیجیے !
– یہاں ہر روز کسی نہ کسی دیوتا یا دیوی کا جنم دن ہوتا ہے یا شادی کی تقریبات۔۔ ۔۔ ۔ !
– باپ رے، نپٹ گیا!
– اور ساتھ میں میرے سسر جی کا جنم دن بھی۔
– گریٹ کومبی نیشن، اوکے اور آپ کا کردار!
-انتظام کے لئے۔
– خوب بزی رہی ہوں گی؟
– بہت تعریف کر سکتی ہوں اپنی۔۔ ۔ لیکن اب نیندددددد آ! ؟؟
– لیجیے نا!
– بائے دیو!
– چھوی جاؤآرام کرو۔
– گڈ نائٹ!
٭٭٭
۲۲ اکتوبر ۲۰۱۴ء
۰۳۔۰۱ بجے رات
– سر، آپ میرے لئے اور میرے جیسی لڑکیوں کے لئے فیس بک کے معنی جاننا چاہ رہے تھے۔ میں کب سے ٹال رہی تھی۔ لیکن آج اپنی بات کہہ ہی دیتی ہوں۔ اس وقت رات کے تین بجے ہیں اور طے ہے آپ آن لائن نہیں ہوں گے ! ویسے کچھ بھروسہ نہیں۔ میرے آن لائن ہونے کی خوشبو آپ تک پہنچے اور جناب کھٹ سے سامنے آ جائیں۔ لیکن میں یہ ساری باتیں لکھ کر آپ کے میسج باکس میں ڈالنے والی ہوں۔ آپ کھٹ کھٹ کریں گے، تو بھی جواب نہیں دینے والی۔ یہاں بھی تو آپ ہی کی بات کا جواب دے رہی ہوں۔
آپ شاید جانتے ہوں گے کہ پورے شمالی ہند میں چھوٹے شہروں میں اور قصبوں میں مڈل کلاس اورلوئر مڈل کلاس کی عام لڑکیوں کی گھریلو آزادی کا عالم کیا ہے۔ باقی جگہوں کے بارے میں نہیں جانتی، اس لیے کہہ نہیں سکتی۔ یہاں آزادی کے نام پر ان کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔ نہ گھر کے اندر، نہ گھر کے باہر۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود انہیں نہ کچھ کہنے کی آزادی ملتی ہے، نہ کچھ کرنے کی۔ اور نہ کچھ جاننے کی ہی۔ آپ سروے کر کے دیکھ لیں، انہیں اپنے گھر اور اسکول یا کالج کے راستے کے علاوہ شہر کے دو راستوں کی بھی معلومات نہیں ہو گی۔ ہر طرح کی بندشیں ہیں۔ بہت سے گھروں میں لڑکیوں کو نان ویج، یہاں تک کہ انڈے بھی کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں، مرد کچھ بھی کھا پی سکتے ہیں۔ صرف مذہب کی آڑ میں۔ بھائی بیشک سارے عیش کرے، سنیما جائے، ہر طرح کی کتابیں پڑھے، سگریٹ پیئے، شراب پیئے یا آوارہ گردی کرے، بہن کے لئے یہ سب کچھ آوٹ آف کورس ہے۔ وہ کہیں اکیلی کہیں جا نہیں سکتی۔ فلم یا پارک تو بہت دور کی بات ہے، چاٹ کھانے یا اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے جانے کے لئے بھی اسے کسی سہیلی یا گھر کے کسی مرد کو ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے، چاہے وہ مرد آٹھ سال کا بچہ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بچہ اپنے سے پندرہ بیس سال بڑی لڑکی کی حفاظت کرنے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ لڑکی کا بھائی کبھی بھی کہیں بھی آ جا سکتا ہے اور کچھ بھی کرنے کے لئے آزاد ہے۔ لیکن بہن یا لڑکی کے حصے میں آج بھی کوئی آزادی نہیں آتی۔ وہ باہر کے اپنے تمام کاموں کے لئے کسی نہ کسی مرد پر منحصر رہنے پر مجبور ہے۔ اس کا حقیقی بھائی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اس کا سب سے بڑا پہریدار، دشمن اور سرپرست ہوتا ہے۔ بھائی کی اجازت یا رضامندی کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتی۔
اس آزادی کے لئے پہلی جھری کھولی تھی موبائل نے۔ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح آیا موبائل اس کی زندگی میں۔ بیشک موبائل سے ایک وقت میں ایک سے اور وہ بھی کسی واقف کار سے بات ہو پاتی تھی۔ لیکن صدیوں سے چلے آ رہے بند کمرے میں کھلنے والی جھری بہت بڑی روشنی کا پیغام لے کر آئی تھی، لیکن موبائل نے گھر کے اندر رہتے ہوئے بھی، بیشک لوکل ہی سہی، باہر کی دنیا سے بات چیت کرنے، اپنی بات کہنے، اپنی محبت کا اظہار کرنے کا ایک نایاب تحفہ تو دیا تھا۔ بیشک اسے خفیہ رکھنے، میسج ڈیلٹ کرنے کریں یا اس کا اضافی خرچہ برداشت کرنے کے لئے انہیں دس طرح کے جتن کرنے پڑتے تھے۔ جھوٹ بولنے پڑتے تھے اور کئی بار موبائل ریچارج کروانے کے لئے اپنے مرد دوستوں کے آگے ہی ہاتھ پھیلانے پڑتے تھے۔ بیشک یہ سلسلہ آج بھی تھما نہیں ہے۔ پہلے میکے میں اور پھر سسرال میں یہ سلسلہ مسلسل چلتا ہی رہتا تھا۔ جو لڑکیاں خواب میں بھی کسی نامعلوم آدمی سے، یہاں تک کہ بھائی کے یا شوہر کے دوست سے، اکیلے میں بات تک کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتی تھیں، کم سے کم اپنے دوست سے، چاہے وہ جیسا بھی ہو، اپنے دل میں بات کے مواقع پا کر جیسے آسمان کو چھو لینے لگی تھیں۔ موبائل ایسی لاکھوں لڑکیوں اور عورتوں کے لئے آزادی کی طرف اٹھائے گئے پہلا قدم رکھنے کا۔ نہ صرف ہمراز تھا بلکہ مددگار بھی تھا۔
فیس بک اور وہ بھی موبائل پر فیس بک ان سب کے لئے آزادی کی ایک اونچی چھلانگ کی طرح آیا۔ وہ بہت کم خرچے میں، اب کہیں بھی کسی سے بھی دوستی کر سکتی ہیں، بات کر سکتی ہیں، دل کی بات شیئر کر سکتی ہیں، اپنے کمرے کے تنہائی میں، دیر سویر کسی بھی وقت پوری دنیا کی سرگرمیوں میں شامل ہو سکتی ہیں۔ محبت کر سکتی ہیں، اپنے آپ کو ہلکا کر سکتی ہیں، پسند نہ آنے پر دن میں دس بار دوست بدل سکتی ہیں اور سب سے بڑی بات، اگر چاہیں تو اپنی پرائیویسی بنائے رکھ سکتی ہیں یا پرائیویسی برقرار رکھ سکتی ہیں۔ وہ اپنے پڑوسی سے بھی اپنی شناخت بتائے بغیر دوستی کر سکتی ہیں اور ڈرامائی اظہار اور شیئرنگ کی خوشی پا سکتی ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ فیس بک ان کا یا سب کا بہت ٹائم لے رہا ہے، فیس بک خاندان کا تانا بانا بگاڑ رہا ہے یا گندگی پھیلا رہا ہے یا یہ کر رہا ہے، وہ کر رہا ہے تو سر، کوئی بھی نئی چیز آتی ہے تو اس کے فوائد یا نقصانات سمجھنے میں وقت تو لگتا ہی ہے۔ فیس بک ہماری زندگی میں اچانک آیا اور آتے ہی ہماری زندگی میں اتنی جگہ گھیر چکا ہے کہ جب تک کوئی اس سے بہتر اور مضبوط چوائزنہیں آ جاتی، یہ یہیں رہنے والا ہے۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ لڑکیاں یا عورتیں اس کا کہیں نہ کہیں غلط استعمال بھی کر رہی ہوں گی، تو کیا مرد وں کا طبقہ اس کا بے جا استعمال نہیں کر رہا کیا۔ اگر موبائل کے اس طرف لڑکی ہے تو طے ہے دوسری طرف مرد ہی ہے۔ تو سودا برابری کا ہوا نا۔ دو کہانیاں اپنے ہی شہر کی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ دونوں واقعات کے کردار میرے ہی کالج کے ہیں۔
پہلا قصہ ہمارے کالج کی لائبریرین مسزسپنا اگروال کا ہے۔ ان کے شوہر دوسرے کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ان کا چکر اپنی ہی ایک شادی شدہ کولیگ سے گذشتہ بیس برس سے چل رہا ہے۔ اس کے باوجود وہ سپنا پر شک کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی، اس کا موبائل چیک کرتے ہیں کہ اس نے دن میں کس کس سے بات کی۔ سپنا نے پریشان ہو کر اس کا طریقہ تلاش کر لیا ہے۔ اس نے اپنی بچت کے پیسوں سے ایک اور موبائل خرید لیا ہے۔ اس میں فیس بک اور واٹس اپ سب ہیں۔ یہ موبائل ان کی پرسنل لائف کے لئے ہے اور کالج کے بعد ان کے ڈراور میں ہی بند رہتا ہے۔
دوسرا معاملہ ڈاکٹر سنہا کا ہے۔ اکنامکس کی ہیڈ کا۔ کار ان کی ہے چلاتے شوہر ہیں۔ بینک اکاؤنٹ ان کا ہے لیکن اے ٹی ایم کارڈ ان کے شوہر کے پاس ہے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنا موبائل چارج کرنے کے لئے کئی بار اپنے شوہر یا بیٹے سے کہنا پڑتا ہے۔
تیسرا قصہ اور بھی عجیب ہے۔ ہمارے پڑوس میں مسز آچاریہ رہتی ہیں، بڑے بچوں کے ساتھ۔ شوہر کہیں آسام کی طرف کام کرتے ہیں۔ سال میں دو بار آتے ہیں۔ وہ خود ڈبل ایم اے ہیں اور ایک کمیونٹی سنیٹر میں ہفتے میں چار بار بچوں کی مشاورت کرنے کے لئے جاتی ہیں۔ ان کی تکلیف یہ ہے کہ انہیں اپنی ہر موومنٹ کی اطلاع فون پراپنے شوہر کو دینی پڑتی ہے۔ گھر میں کون آیا، کتنی دیر بیٹھا، وہ خود کس کس سے ملیں، تمام لاگ ان کی کتاب بھرنے کی طرح شوہر کو بتانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ شوہر صاحب اس بات کے لئے بھی مسز آچاریہ سے جواب طلب کرتے ہیں کہ رات کو ان کا موبائل مسلسل انگیج کیوں جا رہا تھا۔ اتنی رات گئے وہ کس سے بات کر رہی تھیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی طرح وہ ہر وقت شوہر کی نگرانی میں رہتی ہیں۔ وہ اس مسلسل نگرانی سے اتنی دہشت کا شکار ہوتی ہیں کہ اب انہیں لگنے لگا ہے کہ کہیں یس سر یس سر کی طرز پر مسلسل رپورٹ دیتے دیتے وہ کہیں خود پاگل نہ ہو جائیں۔
میرے خیال سے ان تینوں قصوں کے بعد کچھ اور کہنے کی گنجائش نہیں بچتی کہ ہمارے لئے آزادی کی کھڑکی آج بھی کتنی کھلتی ہے۔
جہاں تک میری بات ہے، میں نے یہ آزادی حاصل ہے۔ کچھ اپنی تعلیم، خود اعتمادی کے بل بوتے پر اور کچھ سریندر کا تعاون اور حمایت پا کر۔ مجھے گھر پر اور اپنی سوسائٹی میں پورا اسپیس ملا ہوا ہے۔ میں آپ کو بتا ہی چکی ہوں کہ میں نے فیس بک کو اپنا بہترین خفیہ دوست، بہترین ٹائم پاس اور بہترین گائیڈ مانتی ہوں۔ میں بیشک یہاں آف لائن ہی رہتی ہوں، بہت تھوڑے سے، گنے چنے دوستوں سے ہی بات کرتی ہوں۔ چیٹ پر صرف آپ سے۔ آپ نے میرے لئے اپنے اور دوسروں کے بہترین ادب کے دروازے کھول دیئے، میرے ساتھ یادگار موسیقی شیئر کی اور سب سے بڑی بات میرے اندر میں زندگی کے لئے امید جگائی؟؟۔ ایسا نہیں تھا کہ میں فیس بک سے پہلے زندگی نہیں جی رہی تھی، لیکن فیس بک پر آنے کے بعد پتہ چلا کہ میں اپنے بارے میں اور اپنی ارد گرد کی دنیا کے بارے میں کتنے فالتو کے وہم پالے ہوئے تھی۔ تھینکس سر فار آل دی نائس تھنگس یو شیئرڈ وِد می۔ پہلے گھر کی چہار دیواری تک ہی میری دنیا محدود تھی، اب دنیا کا کنارہ نظر نہیں آتا۔ میں پہلے کے مقابلے میں اپنے آپ کو بہت تمانیت میں محسوس کرتی ہوں۔
فیس بک کے بارے میں آپ نے اپنی وال پر جو تبصرہ لکھا ہے، اسے پڑھ کر میں دیر تک ہنستی رہی۔ آپ بھی نا۔۔ ۔ کیا لکھا ہے آپ نے۔۔ ہمارے ملک میں بہت سی غیر مطمئن اور پیاسی روحیں رہتی ہیں۔ فیس بک ایسی غیر مطمئن اورپیاسی روح کی جذباتی پناہ گاہ ہے۔ ایسی زیادہ تر روحیں یہاں ایک مضبوط کندھاتلاش کر رہی ہیں، تاکہ اپنا سر کچھ دیر کے لئے ٹکا سکیں۔ لیکن ڈرتی بھی ہیں کہ کندھا دینے والا، کہیں پیٹھ پر ہاتھ نہ پھیرنے لگ جائے۔ میں اس دلچسپ پوسٹ کے بارے میں آپ سے بعد میں الگ سے بات کروں گی۔
ابھی اتنا ہی۔ نیند آ رہی ہے۔ اپنی اس تقریر کے ساتھ آپ کے لئے کشوری امونکر کے گائے کبیر کے بہت مدھر بول – گھٹ گھٹ پنچھی بولتا۔ کا لنک بھیج رہی ہوں۔
میں گزشتہ تین گھنٹے سے اسے بار بار سن رہی ہوں۔ دل ہی نہیں بھرتا۔ اوکے باس گڈ نائٹ۔
٭٭٭
۲۸ نومبر ۲۰۱۴ء
۱۱۔۳۷ بجے رات
– ہیلو سر!
– الوداع دوست، فیس بک سے میں رخصت لے رہا ہوں۔ فیس بک نے بہت کچھ دیا۔ ڈھیر سارے تجربے، آپ جیسے دوست اور دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا نظریہ۔ لیکن فیس بک کے چکر میں لکھنا پڑھنا چھوٹتا جا رہا ہے۔ اب سارا وقت لکھنے میں لگا ؤں گا۔ اب آپ مجھ سے ای میل سے ہی بات چیت کر سکیں گے۔
– کاپی پیسٹ کیا ہے میرے باکس میں ہا ہا !!، ست سری اکال، کاپی ٹو آل۔ اچھا ہے۔
– نہیں چھوی، مجھے لگا میں یہاں وقت برباد کر رہا ہوں۔ اب کچھ نیا لکھنا ہے۔
– چلو، مجھ سے بات کر کے کچھ تو سمجھ میں آیا۔
– ویلکم ڈیئر۔
– کتنا انتظار کراتے ہیں آپ؟
– جی، اب آرام سے فیس بک چھوڑ سکتا ہوں !
– جیسے میرے لئے ہی سانس اٹکی ہوئی تھی!
– چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں۔۔ ۔۔ !
– میرے بارے میں لکھو۔۔ ۔ اگر کچھ اچھا لکھنا ہے !
– کچھ بتاؤ تو لکھیں چھوی !
– میری کہانی اتنی مختلف ہو گی دیو کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ خود اپنی کہانی کے بارے میں سوچ کر میری روح کانپتی ہے !
– چھوی، زندگی کئی بار کہانی سے زیادہ حیران کرتی ہے اور کہانی کئی بار زندگی سے زیادہ عجیب ہوتی ہے۔
– کہانی یا زندگی جو بھی ہے، میرے پاس ہے ! آپ لکھ دو، دنیا کی سب سے بہترین کہانی ہو گی !!
– کل دن میں سنانا۔ پھر لکھنے کی سوچوں گا۔ حیرت انگیز زندگی کی حیرت انگیز کہانی، چھوی کی زبانی!
– بیشک ! جس کنکلوجن پر آپ اتنے وقت بعد پہنچے، مجھے اس کا ہی ڈر ہے، احساس بھی ہے کہ میری زندگی کاغذ پر اتاری ہی نہیں جائے گی۔ کتنی بھی لکھنے کی کوشش کرو، بہت کچھ ان کہا پھر بھی رہ ہی جائے گا۔
– پھر بھی تمہاری کہانی سننا دلچسپ ہو گا، بیشک لکھا نہ جائے اسے۔
– مجھے کہانی سنا کر نجات ملے گی اور آپ کو لکھ کر۔
– نجات لکھنے سے نہیں ملتی چھوی۔ کبھی بھی۔ لکھنا جذبہ مانگتا ہے۔ نجات بعد میں۔
– آپ ہی نے بتایا تھا۔ آپ کو کچھ ایسا لکھیں نہ جو آپ امر کر دے۔ پیار لکھیں، پیار پر لکھیں، اگر کبھی محسوس کیا ہو، ایسا پیار جس پر لکھا جا سکے، امرپریم کی امر کہانی !!پیار پر تو ہمیشہ لکھا جا سکتا ہے نہ دَیو۔
– بیشک۔ اب بھی تو لکھتے ہیں۔ پیار پر بھی اور امر ہونے کے لئے بھی۔ لیکن سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے، آپ کی کہانی میری راہ آسان کر دے۔ پر میرے لئے لکھنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔ لکھنے کی تیاری کا کوئی موازنہ نہیں ہوتا۔
– سچ !!
– کچھ بھی تخلیق کرناہمیشہ بہت مشکل ہوتا ہے تخلیق کار کے لئے۔ اندر ایک آگ سی جلانی ہوتی ہے اور پھر اس آگ کی گرمی میں کچھ لکھا جاتا ہے۔
– کہتے چلیں۔
– کئی بار لوگ موازنہ کرتے ہیں کہ تخلیق کا کرب یا لکھنے کی تکلیف، دردِ زہ کی طرح ہوتی ہے، لیکن میں اس موازنے سے متفق نہیں۔
– کیوں دَیو، اس کے موازنے میں کیا دقت ہے۔ صحیح ہی تو ہے کہ مصنف بھی اسی گہری تکلیف سے گزر تا ہے، جیسے ایک عورت بچے کو جنم دیتے وقت گزرتی ہے۔
– دونوں طرح کی تکلیفوں میں فرق ہے چھوی۔ بچے کی پیدائش کی تکلیف کی میعاد عموماً طے شدہ ہوتی ہے۔ بہت ہوا تو ایک آدھ ہفتہ آگے یا پیچھے۔ اور یہ تکلیف بھی بچہ پیدا کرنے کے وقت ہی ہوتی ہے، حمل کی پوری مدت کے دوران نہیں۔ باقی وقت اس ماں کے لئے بہت خوشی کا، امنگ کا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن کم بخت لکھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جب کسی تخلیق کے شگوفے پھوٹتے ہیں، تو نہ تو تخلیق کی باہر آنے کی مدت طے ہوتی ہے اور نہ ذہنی اتھل پتھل کی حد۔ آپ جوجھتے رہیے رات دن، دنوں، مہینوں اور کئی بار برسوں تک۔ لیکن رائیٹرزبلاک ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ کرنے ہی نہیں دیتا۔ کچھ بھی لکھا نہیں جاتا۔
– یہ رائیٹرزبلاک کیا ہوتا ہے۔ سنا تو ہے پر اس کے بارے میں زیادہ جانتی نہیں۔
– بے شک تھوڑا تفصیل سے بتانا ہو گا۔ اس وقت آپ تیار ہیں کیا۔ یہ سب جاننے کے لئے ؟
– ضرور سر، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ آپ میری ہی تو معلومات بڑھا رہے ہیں۔ آج رات ذرا کم سو لوں گی۔
– یعنی مجھے اپنی نیند کو بھی بعد میں آنے کے لئے کہنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے، اٹس اوکے۔ در اصل ہر مصنف کی اپنی خود کی دنیا بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ اس کی اندرونی اور خارجی جد و جہد، اس کی کچھ خاص عادات، اس کا طرزِ زندگی، لکھنے کے لئے خود کو تیار کرنے کے کچھ نایاب طریقے، اس کی تکلیفیں اور کئی بار اس کی طرز زندگی کے حیران کر دینے والے معاملات ہوتے ہیں اور یہ ہر مصنف کے معاملے میں مختلف ہوتے ہیں۔ لکھنا ایک ایسی خاموشی ہے، جس کا مقابلہ، اظہار کے کسی دوسرے میڈیم سے نہیں کیا جا سکتا۔
– بتاتے چلیں دَیو۔ جاننا اچھا لگ رہا ہے۔
– ہر مصنف دوسرے مصنف سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی عادات، اس کے لکھنے کا اسٹائل، اس کا لکھنے کے لئے خود کو تیار کرنا، دوسروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔
– اچھا۔
– اب ہر مصنف کی زندگی میں ایک سے زیادہ بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ اس کا لکھنا بند ہو جاتا ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں لکھ پاتا۔ وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی ہو سکتی۔ کبھی جسمانی تو کبھی ذہنی۔ یہی رائیٹرزبلاک ہوتا ہے۔ کئی بار برسوں تک چلتا رہ سکتا ہے اور کئی بار ایک سے زیادہ بار حملہ کرتا ہے۔
– انٹریسٹنگ۔
– اور مزے کی بات ہے کہ بیشک سبھی مصنف کبھی نہ کبھی اس رائیٹرزبلاک سے جوجھتے رہتے ہیں، لیکن اس سے نجات حاصل کرنے کے سب کے طریقے مختلف ہوتے ہیں۔
– جی۔
– اب کچھ مصنف تو لکھنے کی اپنی عادتیں، سسٹم یا طریقے طے کر لیتے ہیں اور زندگی بھر ان پر عمل پیرا رہتے ہیں اور کچھ مصنف بہت دلچسپ یا عجیب غریب ٹوٹکے یا سنک پال لیتے ہیں اور اسی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہوتی ہے کہ مصنف بیشک رائیٹرزبلاک سے نہ بھی دوچار ہو اور جم کے لکھ رہا ہو، وہ اپنی تحریر کو لے کر کچھ وہم، کچھ سنک اور کچھ عادتیں لے کر ہی چلتا ہے !
– ارے واہ کتنا کم جانتی ہوں میں مصنفین کی اندرونی دنیا کے بارے میں۔ ویسے اتنا تو جانتی ہی ہوں کہ کوئی بھی تخلیقی بندہ چاہے مصنف ہو، آرٹسٹ ہو یا فلاسفر ہو، آدھے سے زیادہ دیوانہ ہی ہوتا ہے۔ اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ دیوانگی کیوں اور کیا ہوتی ہے۔ اور بتاؤ نہ دَیو، میں جانتی ہوں آپ کے سونے کا وقت ہو رہا ہو گا، لیکن اتنی دلچسپ بات چھوڑ کر جانے کا دل نہیں کر رہا۔ میڈم کی تھوڑی ڈانٹ سن لینا اور دیر سے سو لینا۔ سچ، آج اپنے آپ پر افسوس ہو رہا ہے کہ پہلے آپ سے کیوں نہیں ملی۔
– زیادہ مسکا لگانے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اس برانڈ کا مکھن بننا بند ہو چکا ہے۔
– آپ مصنفین کے ٹوٹکوں کے بارے میں بتا رہے تھے دَیو۔
– پہلے عادات کے بارے میں بتاتا ہوں۔
– لیکن سنک اور ٹوٹکوں کے بارے میں بھی بتانا۔
– کچھ مصنف دن کے خاص وقت میں، توکچھ آدھی رات کو لکھتے ہیں۔ بہت سے مصنف تنہائی میں لکھتے ہیں، تو کوئی شور شرابے میں لکھتے ہیں۔ بہت سے مصنف لفظ گن کر لکھتے ہیں، تو کچھ مصنف الگ الگ لکھنے کے لئے الگ الگ رنگوں کے کاغذ یا روشنائیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ کئی ایسے بھی مصنف رہے ہیں جو کھڑے ہو کر یا لیٹ کر لکھتے تھے۔ کوئی مصنف پہاڑ پر جا کر ہی لکھ پاتا ہے، تو کوئی ہوٹل میں جا کر۔
– واہ۔
– یہ ایک بہت ہی دلچسپ تجزیہ ہے اور اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ مصنف کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے یا رائیٹرزبلاک سے بچنے کے لئے کیا کیا طریقے نہیں استعمال کرتا۔
– اور بتاؤ نا دَیو۔
– ایک مصنف موصوف تھے الیگزینڈر ڈوما۔ وہ ناول سبز کاغذ پر لکھتے تھے اور باقی تحریریں دوسرے رنگوں کے کاغذوں پر۔ ناول لکھتے وقت اگر بیچ میں سبز کاغذ ختم ہو گیا اور اتفاق سے وہ جس جگہ پر رہ کر لکھ رہے تھے، وہاں سبز کاغذ نہیں ملا۔ مجبوراً انہیں ناول کا باقی حصہ کسی اور رنگ کاغذ پر مکمل کرنا پڑا۔ اب ناول جب چھپا تو قارئین نے اسے مسترد کر دیا۔ پہلے کی طرح واہ واہی نہیں ملی۔ انہوں نے سارا الزام کاغذ کے رنگ پر پرڈال دیا کہ سبز کاغذ پر نہ لکھ پانے کی وجہ سے ناول اتنا اچھا نہیں لکھا گیا ہے۔
– حد ہے۔ ایک بات بتاؤ دَیو، یہ سنک اور عادتیں کیا دنیا بھر کے مصنفین کی ہیں یایہاں کے مصنف ہی ٹوٹکے باز ہوتے ہیں۔
– چھوی، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنے ہی مصنفین کی لکھنے کی عادات اور سنکوں کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہی نہیں۔ ہم مصنفین کی جتنی بھی عجیب وغریب کہانیاں جانتے ہیں۔ وہ سب کی سب باہری دنیا کے مصنفین کی ہیں۔
– یعنی ٹوٹکوں اور سنکوں پر ہمارا کاپی رائٹ نہیں ہے۔
– ایک مصنف ہوئے ہیں شلِر۔ وہ اپنی جیب میں سڑا ہوا سیب رکھ کر لکھتے تھے۔ ارنسٹ ہیمنگوے، چارلس ڈکنس، ورجینیا وولف، لیوس کیرول اور فلپ روتھ، آچاریہ نگیندر اور اپنے ہری ونش رائے بچن کبھی کبھی کھڑے ہو کر لکھتے یا ٹائپ کرتے تھے۔
– گریٹ اور۔۔ ۔
– یار، نیند آ رہی ہے۔ بہت طویل فہرست ہے۔ بتاتے بتاتے صبح ہو جائے گی۔
– پلیزززززز۔ کچھ تو قصے بتاؤ۔ سامنے ہوتے تو شاندار فالودے والی قلفی کھلاتی۔ ہمارے محلے کے ٹوپن داس کی فالودہ قلفی بہت مشہور ہے۔ رات ایک بجے تک کھلی رہتی ہے اس کی دکان۔
– اچھا تو لالچ دے رہی ہواس قلفی کا۔ صرف چند مصنفین کے بارے میں بتاؤں گا۔
– ڈَن۔
– اگا تھا کرسٹی اپنے ناولوں کے لئے قتل کے پلاٹ، سوچنے کے لئے باتھ ٹب میں بیٹھ کر سیب کترا کرتی تھیں۔ جارج آرویل، مارک ٹوئن، ایڈتھ وارٹن، ونسٹن چرچل اور مارسیل پرواسٹ وغیرہ جیسے مصنف، اپنا زیادہ تر کام بستر میں لیٹ کر ہی کرتے تھے۔
– واہ
– ایک تھے ٹرومین کپوتے۔ وہ پیٹھ کے بل لیٹ کر لکھتے تھے۔ وہ اپنا کوئی بھی کام جمعہ کو شروع نہیں کر پاتے تھے۔ انہیں تین تیرہ سے نفرت تھی۔ وہ ایش ٹرے میں سگریٹ کے تین ٹوٹوں سے زیادہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ اگر ٹوٹے زیادہ ہو جائیں، تو اپنے کوٹ کی جیب میں ٹھوس لیتے۔
– حیرت انگیز۔ میں سمجھتی تھی کہ اس طرح کے جھکی ہم ہی ہوتے ہیں۔ جیسے ہوٹلوں میں تیرہ نمبر کی منزل نہ ہونا۔
– جی ہاں، ایک ایئر لائنز کے جہازوں میں تیرہ نمبر کی قطار ہی نہیں ہے۔
– دَیو، مصنفین کے جھکی پنے کی بات چل رہی تھی۔
– ہمارے ایک شاعر شروع شروع میں شہتوت کے درخت پر بیٹھ کر شاعری لکھتے تھے۔ راہی معصوم رضا اپنے گھر پر ہی، بچوں کے شور شرابے کے درمیان ہی لکھ پاتے تھے۔ پنجابی افسانہ نگار نانک سنگھ غریبی کے باوجود پہاڑ پر جا کر لکھتے تھے۔ موہن راکیش بھی پہاڑ پر جا کر لکھتے تھے۔ سر والٹرا سکاٹ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر نظمیں کہتے تھے۔ نوئل کاورڈ کا یہ دعوی تھا کہ وہ ہر صبح ٹائمز میں موت کے غمگین پیغامات والا کالم پڑھ کر اپنا دن شروع کرتے تھے۔ اگر اس میں ان کا نام نہیں ہوتا تھا، تو وہ کام کرنا شروع کر پاتے تھے۔
-۔۔ ۔۔
– ہینس کرسچن اینڈرسن جب ہوٹلوں میں ٹھہرتے، تو اپنے ساتھ لمبی رسی لے کر جاتے تھے، تاکہ اگر کبھی آگ لگ جائے تو انہیں نکل بھاگنے میں آسانی ہو۔ ڈی ایچ لارنس ننگے بدن شہتوت کے درختوں پر چڑھ جایا کرتے تھے۔ اس سے ان کے تخیلی طاقت کو پنکھ لگ جاتے تھے۔ کرٹ وونیگٹ لکھنے سے پہلے ڈنڈ بیٹھک لگاتے تھے۔ گبریل گارسیا مارکیز کی میز پر زرد گلاب نہ ہوں، تو وہ لکھ نہیں پاتے تھے۔
– اور اور اور پلیز۔ کاش یہ فہرست کبھی ختم نہ ہو۔
– چارلس ڈکنس کو نیلی سیاہی سے پیار تھا۔ چیخوف کو گھڑی سامنے رکھ کر لکھنے کی عادت تھی۔ بالجاک لکھتے وقت اپنی بغل میں جلتا دیا رکھتے تھے۔ دوپہر کی تیز روشنی میں بھی ان کی بغل میں جلتا دیا رہتا۔ وجیہ دان دیتھا بجّی سبز کاغذ پر سبز سیاہی سے لکھتے تھے۔ چارلس ڈکنس اپنے ساتھ ہمیشہ ایک کمپاس رکھتے تھے۔ ان کا یہ پختہ یقین تھا کہ اگر وہ شمال کی جانب سر رکھ کر نہیں سوئیں گے، تو انہیں موت اڑا لے جائے گی۔
-۔۔ ۔
– لیو ٹالسٹائی کو نہ جانے کس طرح وہم ہو گیا تھا کہ وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ سکتے ہیں۔
– اے رام۔ کیا پٹارا کھول دیا آپ نے۔ لیکن ایک وعدہ کرو دَیو۔۔ ۔
– ابھی کچھ باقی ہے ؟
– ہاں دَیو، یہ سیریز جاری رہنی چاہیے۔ آپ ہربار کچھ نہ کچھ نیا بتاتے رہیں گے، مصنفین کی سنکوں کے بارے میں۔
– اب نیند کا ٹائم۔ بائے !
– بائے !
٭٭٭
۳ دسمبر ۲۰۱۴ء
۳۔۳۱ بجے شام
– آپ سے کچھ شیئر کرنے کا من ہے، وقت دیں گے ؟
– کیا نام تھا اُس کا؟
– آپ کو کیسے پتہ کہ میں۔۔ !
– اپنی پہلی اور اکلوتی محبت کے بارے میں کچھ کہنے والی ہوں، یہی کہتیں نہ آپ؟
– جی لیکن آپ۔۔ !
– نام پوچھا میں نے !
– چندن۔ ویسے اس کا گھر کا نام جسّی تھا۔
– کب کی بات ہے ؟
– ایم اے کے دنوں کی!
– آج کل کہاں ہے ؟
– میری شادی کے آس پاس ہی بمبئی چلا گیا تھا۔
– آپ کی شادی کی وجہ سے یا؟
– کبھی پوچھا نہیں، شاید ہاں بھی، شاید نہ بھی۔
– کیا کرتا ہے ؟
– فوٹو گرافر ہے، ویسے ایکٹر بننے گیا تھا۔
– یعنی بندہ اسمارٹ ہے۔ پھر ملاقات ہوئی کیا؟
– یہی شیئر کرنے کے لئے آپ سے بات کرنا چاہتی تھی اور آپ لے اڑے۔۔ !
– دیکھا، آپ کا کام آسان کر دیا۔ جو باتیں آپ بتانے میں دس منٹ لگاتیں، میں نے ایک ہی منٹ میں پوچھ لیں۔ کہئے کیا کہنا چاہتی تھیں ؟
– بے شک میں اسے لکی مانتی تھی۔ آج بھی مانتی ہوں۔ میرا بس چلتا تو اسے اپنی زندگی ہی سے نہ جانے دینا چاہتی۔
– بہادر گڑھ آیا ہوا ہے کیا اور آپ اس سے ملنا چاہتی ہیں ؟
– ہاں، آپ سے یہی مشورہ لینا چاہتی تھی کہ ملنا چاہیے کیا مجھے ؟
– ایک کلاس فیلو اور پرانے دوست کی طرح، تو ہاں اور ایک سابقہ گرل فرینڈ کی طرح، تو نہیں۔
– آپ نے توشش وپنج میں ڈال دیا !!
– آپ کے شوہر کیا کہتے ہیں، اس ملاقات کے بارے میں ؟
– وہ سب جانتے ہیں اور انکار نہیں کریں گے !
– تو سوال کہاں اٹھتا ہے ؟
– میں خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا چاہتی۔
– لیکن کمزور تو ہیں بیشک، ثابت نہیں کرنا چاہتیں۔
– اب سب کچھ میرے منہ سے مت کہلوائیں۔
– لیکن ملنا بھی چاہتی ہیں۔ چندن کیا سوچتا ہے اس بارے میں ؟
– چندن ہمیشہ ملنے سے بچتا رہا۔ ہی وانٹڈ ٹو اسکیپ ایوری ٹائم۔۔ ۔۔ ۔۔ کہ کہیں میری فیملی لائف برباد نہ ہو جائے !!
– مطلب اب بھی اس ملاقات کی چاہت یکطرفہ ہے۔
– نہیں جی، آپ غلط سمجھ رہے ہیں !!
– اوکے، آپ صحیح بتائیے، میں سنتا ہوں !!
– وہ ایسا نہیں تھا کبھی !!
– پھر؟
– آپ سوچ سکتے ہیں کہ اتنے برسوں سے وہ میرے لئے دعائیں کرتا رہا ہے۔ چاہے جہاں بھی رہ رہا ہو۔
– اور؟
– اب بھی پرانے دنوں کو ایک ساتھ جینے کی چاہت ہوتی ہے۔ ایک ساتھ کوالٹی ٹائم گزارنے پراصرار !!
– آپ کی یا دونوں کی؟
– آپ سوالات بہت پوچھتے ہیں۔ مشورہ دینے کے بجائے۔۔ ۔ انٹرویو لینا شروع کر دیتے ہیں۔
-سوری، لیکن پوری بات جانے بغیر مشورہ کس طرح دوں۔ آپ کا مطلب ہے کہ آپ کی طرح وہ بھی کبھی کہہ نہیں پایا۔ بیشک آپ کو چاہتا رہا۔
– کہہ نہیں سکتی، کیونکہ شادی کے بعد اس سے ایک بار ہی ملاقات ہوئی اور ہم دونوں ہی ماضی کی گرہیں کھولنے سے بچتے رہے۔
– اور فون پر بات؟
– اس نے کبھی کوشش نہیں کی اور میں جب بھی فون کرتی ہوں یا تو وہ اٹھاتا نہیں یا کوئی بھی پرانی بات کرنے سے بچتا ہے۔ بہت کم موقعوں پر ہی بات ہو پائی ہے۔ وہ بھی حال چال پوچھنے تک محدود رہی۔
– ہو سکتا ہے وہ اس ملاقات سے بھی بچنا چاہے۔
– کاش کہ ترپتی ہوتی!
– یہ ترپتی کون تھی؟
– ٹرائی اینگل کا ایک اینگل۔ ہمارے ہی گروپ میں تھی۔ انتہائی سمجھدار۔ میں سمجھتی رہی کہ چندن اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ بھی چندن کو چاہتی تھی۔ لیکن چندن کی جانب میرے جھکاؤ کو دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
– اور چندن؟
– اسے دیر تک سمجھ ہی نہیں آیا تھا کہ اس سے کون محبت کرتا ہے اور وہ خود کس سے محبت کرے !
– شاندار لوٹرائی اینگل !! اور آپ؟
– میری چھوڑیے، یہ بتائیے کہ کیا مجھے اس سے اس حالت میں ملنا چاہیے۔ خاص طور پر تب جبکہ اس کے پاس کئی ماہ سے کام نہیں ہے ؟
– اس بات کو جانے دیجیے۔ اس پر ترس کھانے کے لئے تو بالکل مت ملئے۔ بمبئی میں اس لائن میں لمبی بے روزگاری عام ہے۔ کوئی بھی اس بات کو دل سے نہیں لگاتا۔ آگے بتائیے۔
– میری شادی ہوئی۔ ترپتی کو کینسرنگل گیا اور چندن کو بمبئی کی بھیڑ ہمیشہ کے لئے کھا گئی۔
– ہمم۔
– پتہ ہے آپ کو سر۔۔ ۔ چندن اور میری کتنی باتیں ملتی ہیں۔ ہمیں کبھی بھی آپس میں اپنی بات ایک دوسرے سے نہیں کہنی پڑتی تھی۔ بنا کہے ہی سمجھ جاتے تھے۔
– اس میں کچھ بھی نیاپن نہیں۔ محبت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
– آپ بھی نہ دَیو، بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔
– آپ کو چندن سے ملنا ہے اور سریندر جی کو اعتراض نہیں۔
– کل میں نے ان سے پوچھا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا آپ مجھے اس سے ملنے جانے دو گے۔ انہوں نے کہاہاں کیوں نہیں۔۔ ۔ !
– ایک بات بتاؤ۔
– جی
– رات کو انہی لمحات میں پوچھاہو گا اور سریندر بیچارے انکار بھی نہیں کر پائے ہوں گے۔
– بتاؤں کیا؟
– سینس آف میوچل فیتھ۔ بنائے رکھیں۔
– بچوں کے اسکول کی ایک میڈم ہیں۔ اَن میرڈ۔ کل یہ اس کو بی ایڈ میں ایڈمشن کروانے کے لئے کرنال لے گئے تھے۔ اپنی گاڑی سے۔ مجھے اچھا لگا۔ ہوشیار ہے وہ لڑکی۔ لیکن میں اپنے بندے کو جانتی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ !
– ہا ہا ہا ہا میوچل اسپیس! اب آپ میرے کچھ سوالوں کا جواب دیجیے۔
– نہیں، ہمارے تعلقات وہاں تک نہیں پہنچے تھے۔
– کیا بات ہے۔ آپ بھی سمجھ گئیں کہ میں کیا پوچھنے والا ہوں۔
– اگلا سوال۔
– جب دس پندرہ برس پہلے بھی سب کچھ پلاٹانک تھا یعنی سیکس سے باہر تھا، محض ساتھ حاصل کرنے کی خواہش تھی، تو ایمانداری سے بتائیں کہ اب کیوں ملنا چاہتی ہیں، جبکہ آپ جانتی ہیں کہ نہ تو وہ آپ کی آج کی زندگی میں کہیں فٹ ہوتا ہے اور نہ ہی آپ اسے لے کر کوئی الجھن پال سکتی ہیں۔
– ایسا ہے دَیو۔۔
– ٹوکو نہیں، پہلے پوری بات سنیں۔
– سوری، کہتے چلیں۔
– چھوی، کئی رشتوں کی ایکسپائری ڈیٹ ہوتی ہے۔ یہ رشتے خون کے بھی ہو سکتے ہیں اور سماجی بندھنوں کے بھی۔ کئی بار ذاتی بھی۔ تاریخ یا میعاد نکل جانے کے بعد یا درمیان میں لا تعلقی کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد، ان رشتوں میں کچھ نہیں بچتا۔ ہم چاہ کر بھی ایسے رشتوں میں، بعد میں روح نہیں پھونک سکتے۔ بہت دنوں کے گیپ والے ایسے سوکھ چکے رشتوں کو بعد میں ہم ریپیئر نہیں کر سکتے۔
– ذرا سمجھائیے۔
– دیکھو چھوی، ہم جب کسی وجہ سے اپنی جگہ سے کہیں دور رہنے لگتے ہیں۔ تو اس فاصلے کی وجہ سے رشتوں میں بھی ایک طرح کی دوری پیدا ہو جاتی ہے، جسے پاٹ پانا آسان نہیں ہوتا۔ کئی بار کام چھا جانے کے بعد بھی بعض رشتوں میں کچھ باقی نہیں بچتا، تو کئی بار بعض رشتوں نے ہمیں اتنی تکلیف دی ہوتی ہے کہ ہم ان کو بعد میں یاد کرنا یا جینا ہی نہیں چاہتے . ایسے شخص کے سامنے پڑ جانے پر بھی کترا کر نکل جانا بہتر سمجھتے ہیں۔
– فیس بک کے رشتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں دَیو؟
– ان کی ایکسپائری ڈیٹ تو دیر سویر آنی ہی ہوتی ہے چھوی۔ بلکہ کئی بار بہت جلد آ جاتی ہے۔
– ہاں میں نے دیکھا ہے کہ فیس بک پر کئی بار کوئی فرینڈ بنتا ہے، پہلی ہی چیٹ میں بہت شاندار بات ہوتی ہے، لیکن دوسری تیسری بار بات کرنے کا دل ہی نہیں ہوتا۔ سبز روشنی جلتی دیکھ کر بھی ہیلو نہیں کر پاتی۔
– فیس بک میں ہمارے پاس ریموٹ ہوتا ہے۔ یہ جو چینل تبدیل کرنے کی عادت ہوتی ہے نہ، زندگی کے ہر کام میں ہم استعمال کرتے ہیں۔ جو پسند نہیں، اچھا نہیں، اسے سامنے سے ہٹا دو۔ ہم زندگی بھر یہی کرتے رہتے ہیں۔
-سوری بٹ۔۔ میں نے چندن کو کبھی ریجیکٹ نہیں کیا۔ برسوں دور رہنے کے باوجود۔
– مانا۔ آپ نے خود ہی کہا کہ کئی برسوں سے اس سے بات چیت نہیں ہے۔ فون وہ اٹھاتا نہیں، ملاقات وہ کرتا نہیں، اس پر آپ کو یہ خوش فہمی بھی ہے کہ وہ آپ کے لئے دعائیں بھی کرتا رہا ہے۔ اس سے بڑی آئرنی کیا ہو گی کہ بمبئی میں ایک بے روزگار اورا سٹرگلر فوٹوگرافر اپنی سو کالڈ سابقہ گرل فرینڈ اور اِس وقت کی ایک کھاتے پیتے خاندان کی بہو کے لئے دعائیں کرتا ہے اور دوسری آئرنی یہ کہ وہی سابقہ گرل فرینڈ جس نے شاید ہی کبھی اپنے اس وقت کے سو کالڈ محبوب کا ہاتھ بھی تھاما ہو، یا ایک ساتھ سنیما ہی دیکھا ہو، نہ صرف اپنے شوہر سے پوچھ کر اس سے ملنے جانا چاہتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ کوالٹی ٹائم بھی گزارنا چاہتی ہے۔ ایم آئی رائٹ میڈم؟
– دَیو، آپ کی ساری باتیں اپنی جگہ پر، لیکن یہ بتائیں کہ مجھے چندن سے ملنے جانا چاہیے یا نہیں۔
– اس کا مطلب ہے، شادی کے اتنے دن بعد بھی آپ جذباتی طور پر چندن سے منسلک ہی ہوئی ہیں۔ یکطرفہ۔
– میرا اس طرح کی محبت سے کبھی واسطہ نہیں پڑا، جس میں اُسے یا کسی کو جسمانی طور پر پا لینے کی چاہ ہو۔ جذباتی طور پر ہاں۔ صرف چندن سے۔
– لیکن۔۔
– کبھی سوچ ہی نہیں پائی کہ کبھی اس سے محبت تھی مجھے یا آج بھی ہے ؟
-ہمم
– اسے آج بھی ایک احساس کی طرح جیتی ہوں۔ ایک بات بتائیں ؟
– اور جیتی رہیں گی۔ ہمیشہ کیلئے۔ آپ کا اگلا جملہ یہی ہونا چاہیے۔
– کیا پلاٹانک لوہوتا ہے ؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ محبت میں جسم کہیں نہ آئیں ؟
– یہ تو پلاٹانک لو کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔
– آپ کیا سوچتے محبت اور بدن کے بارے میں ؟
– ضروری نہیں کہ آپ مجھ سے متفق ہوں، لیکن جو رشتے محبت سے شروع ہوتے ہیں، ان میں جسم کبھی نہ کبھی آ سکتا ہے، لیکن جو رشتے جسم سے شروع ہوتے ہیں، ان میں محبت آنے کا امکان نہیں کے برابر ہے۔ آپ کچھ پوچھ رہی تھیں چندن سے ملاقات کے بارے میں ؟
– آپ کی آج کی بات کی روشنی میں سارے معاملے پر دوبارہ سوچوں گی، تب اس بارے میں بات کروں گی۔
– مشورہ لیں گی یا ملنے کے بعد بتائیں گی؟
– بتاؤں کیا؟
– اوکے۔ ویسے آپ کو اس پر خود کہانی لکھنی چاہیے۔ تینوں کے زاویہ سے اور کہانی میں تینوں یہ سوچتے ہوئے بتاتے جائیں کہ وہ باقی دو کے بارے میں کیا سوچتا یا سوچتی ہے۔
– آپ بیتی کو جگ بیتی بنانانہیں ہو پائے گا۔
– آپ سوچیں تو سہی۔ زندگی میں چندن کیسا بھی ہو، کہانی میں چندن آپ کی کری ایشن کا چندن ہو گا، تبھی شاندار کہانی بنے گی۔
– کیا لکھ پاؤں گی اپنی کہانی؟
– کوشش کرنے میں حرج نہیں۔
– تو میں ملوں چندن سے ؟
– ہاں، لیکن وہ بات تو رہ ہی گئی کہ سرندر کی طرف سے پوری رعایت ہے۔
– ہاں بتایا نہ آپ کو، انہیں کوئی اعتراض نہیں ہیں۔ مجھے پوری آزادی ہے کہیں بھی آنے جانے کی۔
– اور آپ نے بھی انہیں پوری آزادی دے رکھی ہے۔ کہیں بھی، کسی کے ساتھ بھی، آنے جانے کی۔
– ہاں آپ کو ابھی بتایا ہی ہے۔۔
– کہ وہ ایک ان میرڈ خوبصورت میڈم کو بی ایڈ میں ایڈمشن کروانے کے لئے اپنی گاڑی سے کرنال لے گئے تھے۔
– جی رائٹر صاحب، میرے علم میں اور مجھے اپنے شوہر پر پورا بھروسہ ہے۔
– اور انہیں بھی آپ پر پورا بھروسہ ہے، تبھی تو سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ آپ کو جسّی سے ملنے جانے دے رہے ہیں۔
– تو کیا ہوا۔ لیکن آپ ساری بات کلیئر ہو جانے کے بعد اسے دوبارہ کیوں اٹھا رہے ہیں ؟
– میں صاف صاف کہوں گا تو آپ برا مان جائیں گی۔
– آپ کہہ کے دیکھیں، برا ماننے کے قابل ہو گا، تو بھی مجھ نا سمجھ کے بھلے کے لئے ہی ہو گا۔ کہیں تو۔۔ ۔
– ایسا ہے چھوی کہ آپ پتنگ اڑانا بیشک نہ جانتی ہوں، دوسروں کو پتنگ اڑاتے ضرور دیکھا ہو گا۔
– آپ ہمیں اتنا اناڑی نہ سمجھیں۔ بچپن میں اپنی چھت پر خوب پتنگیں اڑائی ہیں اور دوسروں کی کاٹی بھی ہیں۔ صرف ہم بہنوں کو لے دے کر پتنگ اڑانے کی ہی اجازت تھی۔
– اس کی وجہ بھی بتا دو۔
– یہی کام ایسا تھا، جس میں گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا تھا اور محلے میں کسی سے ملنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی تھی۔ چھت سے جتنی مرضی مستی کر لو۔
– دیٹس گریٹ۔ تو میری بات کو آسانی سے سمجھ میں آ جائیں گی۔
– گفتگو شروع کریں نا۔
– پتنگ جب بہت اوپر چلی جاتی ہے، تو ہوا کے رخ کے ساتھ اپنے آپ ہی دائیں بائیں ڈولنے لگتی ہے۔ پتنگ سمجھتی ہے، وہ اب اپنی مرضی کی مالک ہے۔ بہت اوپر آ گئی ہے، لیکن پتنگ باز تب یا تو ڈور تیزی سے کھینچتے ہوئے پتنگ کواور اوپر لے جاتا ہے یا پھر پتنگ کو خوب ڈھیل دے دیتا ہے، چرخی کو دونوں ہاتھوں میں اس طرح سے پکڑ کر رکھتا ہے کہ مانجھا اپنے آپ کھلتا جائے اور پتنگ ہوا کے زور سے اور اوپر اٹھتی چلی جائے۔
– صحیح کہا۔ ڈھیل کے وقت پتنگ اپنی مرضی سے ڈولتی رہتی ہے، لیکن اس مثال کا جسّی سے ملاقات کا کیا تعلق ہے۔
– چھوی آپ نے برا نہ ماننے کا وعدہ کیا ہے، لہذا کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ یہ جو مردوں کی قوم ہوتی ہے نا بہت چالو ہوتی ہے۔ بیوی کو پوری چھوٹ دے کراسے مغالطے میں رکھو کہ وہ میری طرف سے آزاد ہے۔ وہ کہیں بھی، کبھی بھی، کسی کے ساتھ بھی ملنے جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو اچھی طرح پتہ ہے کہ بیوی کو ڈھیل دئیے جانے والی پتنگ کی طرح، چھوٹ دیئے جانے کے بعد بھی، بیوی کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے۔ شوہر اچھی طرح جانتا ہے کہ بیوی اپنے خیالوں سے، خاندان سے، بچوں سے اور شوہر کی نام نہاد چھوٹ کے بھروسے سے اتنی بندھی ہوئی ہے کہ وہ چاہ کر بھی کہیں نہیں جانے والی۔ کتنی بھی اڑ لے، آخر اسے باندھے رہنے اور نیچے لانے کی ڈور شوہر کے ہاتھ میں ہی ہے۔
– تو کیا ہوا؟ چھوٹ تو دی ہے نا۔
– چھوٹ دی نہیں ہے چھوی، بیوی کو دھوکہ دے کر اپنے لئے چھوٹ حاصل کر لی ہے۔
– یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟
– اپنا معاملہ دیکھ لیں۔ آپ نے ہی تو بتایا کہ ایک خوبصورت، ہوشیار اور نوجوان ٹیچر کو۔۔ ۔
– مجھے اپنے ہسبینڈ پر پورا بھروسہ ہے۔ باقی کا میں نہیں جانتی۔
– انہیں بھی آپ پر پورا بھروسہ ہے کہ آپ لاکھ کوشش کریں، آج بھی چندن یا کسی اور کے ساتھ اکیلے رات گزارنے یا ان مخصوص لمحے گزارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ آپ کے ہسبینڈ موصوف نے اسی اعتماد کے بدلے سودا کیا اور نوجوان اور خوبصورت ٹیچر صاحبہ کے ساتھ نکل پڑے۔
– آپ نے آج قسم کھا رکھی ہے کہ ہم دونوں کے درمیان جھگڑا کروا کے رہیں گے۔
– میری ایسی کوئی منشا نہیں ہے۔ جب بات کھلی ہے تو مکمل طور پر کھلنی چاہیے۔ آپ ہی بتائیں کہ ساری چاہت کے باوجود اپنے آپ کو جسّی کے آگے آج بھی سرنڈر کر پائیں گی۔
– شاید نہیں۔ میرا دل نہیں مانے گا۔۔ ۔
– یہی بات میں آپ سے کہلوانا چاہتا تھا۔
– اور کچھ۔۔
– اب بھی آپ کے دل میں کچھ سوالات رہ گئے ہوں گے۔ پوچھ سکتی ہیں۔
– لیکن ایسا بھی ہوتا ہی ہے کہ عورتیں ہی اس چھوٹ کا پورا فائدہ اٹھاتی ہیں تو۔
– بے شک کوئی بھی دو تعلق ایک سے نہیں ہوتے، تو طے ہے کہ ان کی زندگی کی مثالیں بھی مختلف ہی ہوں گی۔ میں کتنی ہی ایسی خواتین کو جانتا ہوں جو شوہر یا خاندان سے چھپا کے غیر مردوں سے جسمانی تعلقات نہ صرف بنائے ہوئی ہیں، بلکہ اسے پوری شدت سے نبھا بھی رہی ہیں۔
– لیکن مرد بھی تو یہی کرتے ہیں۔
– بیشک، ایسے بھی بہت سے کیس آپ کو ملیں گے، جہاں شوہر کے کسی دوسری شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورت سے تعلقات ہیں اور اس کا پتہ چلنے پر انتقام کے جذبے سے بیوی بھی غیر مردوں سے اپنے جسمانی تعلقات قائم کر لیتی ہے۔ یا پھر زندگی بھر گھریلو زندگی میں زہر گھلتا رہتا ہے۔ دونوں ہی حالات میں گھر ٹوٹتے ہیں۔
– یہ سب غلط نہیں ہے کیا؟
– زندگی میں صحیح تو کچھ بھی نہیں ہے۔ سب غلط ہی غلط ہے۔ ہم تعلقات میں بھی اپنی سہولت ہی دیکھتے ہیں۔ تعلقات میں بھی لاء آف یوٹیلیٹی، افادیت کا اصول کام کرتا ہی ہے۔ ہم بہت سے تعلق نبھاتے ہی اس لیے ہیں کہ اس تعلق سے کتنا فائدہ ہونے والا ہے۔
– آپ بھی نہ جانے بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں۔ ان ساری با توں کو جاننے کے بعد میں چندن سے خاک ملنے جاؤں گی۔ آپ نے اچھا خاصا موڈ چوپٹ کر دیا۔
– ایک کام کریں چھوی، ضرور ملنے جائیں۔ آپ کا کوئی نقصان نہیں ہونے والا۔
– آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔
– میں آپ کے معاملے میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی آپ کے اور چندن کے درمیان پلاٹونک لوہے۔ دونوں ہی سیف ہیں۔ نہ چندن کو آپ سے کوئی خطرہ ہے نہ چندن سے آپ کو۔
– آپ بھی نا۔ اگر سامنے ہوتے تو آپ کی پٹائی طے تھی۔
– آج کل ای کا زمانہ ہے۔ ای پٹائی کر کے دیکھ لیں۔
٭٭٭
۱۳ دسمبر ۲۰۱۴ء
۷۔۳۵ بجے صبح
– میں آپ سے بہت بہت بہت ناراض ہوں۔
– یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ ناراض ہونا اور جس سے ناراض ہیں، اسی کو بتانا بھی تاکہ معاملہ وہیں سلجھایا جا سکے۔
– آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے۔ میں رات بھر سوئی نہیں ہوں۔ آپ سے ایک چھوٹا سا مشورہ کیا مانگا، دنیا بھر کے الٹے سیدھے دلائل دے کر مجھے ہی غلط ٹھہرا دیا۔
– یہ بتائیں آج چندن سے ملنے کس وقت جا رہی ہیں ؟ ڈریس اپنی پسند کا پہنیں گی یا اس کی؟
– کیابتاؤں۔ اچھا خاصا موڈ چوپٹ کر دیا۔ کان کھول کرسن لیں۔ کہیں نہیں جا رہی میں اور یہ سب آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ سریندر کی نگاہوں میں بری بنی سو الگ۔
– بہت اچھے، ہمیں بتائیں تو سہی، ہماری خطا کیا ہے۔ اچھا ہم ایک کام کرتے ہیں۔ چندن کا نمبر ہمیں دیں، ہم ہی اسے بتا دیتے ہیں کہ آپ اس سے ملنے آنا چاہتی تھیں، لیکن پاؤں میں موچ آنے کی وجہ سے نہیں آ پا رہی ہیں۔ آپ ہی کسی طرح ملنے چلے آئیں۔
– خبردار جو آپ نے یہ حرکت کی تو۔ اسے یہی پتہ ہے کہ میرے اس کے تعلق کے بارے میں کسی کو بھی نہیں پتا۔
– تو آپ ہی بتائیں کہ آپ کی ناراضگی بھی دور ہو جائے اور آپ خوشی خوشی چندن سے بھی ملنے جائیں۔ ایک اچھا دن گزرے۔
– بنو مت۔ آخر ایسا کیا ہے ہمارے رشتے میں کہ آپ نے سب کو لپیٹتے ہوئے نسائی آزادی پر اچھا خاصا لیکچر پلا ڈالا اور ایک طرح سے مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔
– کہتی رہیں۔
– جیسا کہ میں نے سب کی آزادی کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ میں اپنے حساب سے آزاد ہوں اور آزاد خیالوں کی بھی ہوں۔
– جانتا ہوں کہ آپ آزاد بھی ہیں اور آزاد خیالوں کی بھی ہیں، بس ایک ہی کمی ہے۔
– کون سی؟
– یہی کہ نہ تو آپ اپنی اس آزادی کا لطف اٹھانا جانتی ہیں اور نہ اپنی آزاد خیالی کا۔ آپ کو آتا ہی نہیں۔ ٹرائی کر کے دیکھ لیں۔
– چیلنج کر رہے ہیں کیا۔ مجھے اپنی مرضی کے کام کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔
– کہنا آسان ہے۔
– شرط لگاتے ہیں۔
– آپ ہار جائیں گی اور غلطی میرے ہی سر منڈھی جائے گی۔
– بتائیں کیا کرنا ہے۔
– ایک کام کریں۔ آپ کی مرضی کے دو دن منتخب کریں۔ ایک گھر کے اندر کی آزادی کا اور ایک گھر کے باہر کی آزادی کا۔
– پھر؟
– مان لیں کہ آج آپ کی آزادی کا پہلا دن ہے۔ گھر کے اندر کی آزادی کا۔ آپ آج کوئی کام نہیں کریں گی۔ سارا دن اپنی مرضی سے گزاریں گی۔ صبح کی چائے بے شک بنا لیں۔ لیکن اس کے بعد اعلان کر دیں کہ آج آپ ایک کہانی لکھنے والی ہیں۔ کوئی کام نہیں کریں گی۔ دوپہر کو سہیلیوں کو گپ بازی کے لئے بلائیں گی اور شام کو اپنے دوست کو چائے پر بلائیں گی۔ سچ بتائیں کہ کیا ایسا ہو گا کہ آپ کے شوہر کہیں کہ کوئی بات نہیں، کہانی لکھنے یا کچھ اچھا پڑھنے کا موڈ ہے تو ضرور کرو، میں بچوں کو اسکول چھوڑ آؤں گا، لے بھی آؤں گا اور ان کا ہوم ورک کروا دوں گا۔ کھانا باہر سے منگوا لیں گے یا باہر ہی کھائیں گے۔ جسے بلانا ہو خوشی سے بلاؤ۔ شام کی فلم کے لئے ٹکٹ بھی منگوا دیتا ہوں۔ کیا آپ کی ساس یا نند خوشی خوشی آپ کے سارے روٹین کام کر دیں گی اور رات کو ایسا بھی ہو کہ تمام گیدرنگ بنا کر بیٹھیں، آپ کی لکھی ہوئی کہانی سننے کے لئے۔
– باہر کی آزادی کی بات کریں جناب۔
– آزادی باہر کی ہو یا اندرونی، پہلی آزادی اندر کی ہوتی ہے۔ کو کرنے کا دل ہے، بے شک کرو اور لیکن دل کے خلاف کچھ نہ کرو۔ یہ ہی آزادی ہوتی ہے چھوی، جو ہم زندگی بھر نہیں پا سکتے۔ کبھی بار چاہتے نہیں اور کئی بار جانتے نہیں کہ من چاہی زندگی گزارنا کیا ہوتا ہے۔
– باہر کی آزادی میں آپ کیا کیا شامل کرتے ہیں۔ واضح کریں۔
– جانے دوچھوی، آپ سے ہو نہیں پائے گا اور بعد میں گالیاں مجھے سننی پڑیں گی۔ یہ بڑے شہروں کے چونچلے ہیں۔
– چیلنج کر رہے ہیں۔
– اچھا سنیں، پچیس سال پہلے پڑھی ایک کہانی سناتا ہوں۔ تب یہ سبھی شاپنگ مال وغیرہ نہیں تھے۔ ایک چھوٹے سے شہر میں ایک لڑکی اپنے ہاسٹل کا کمرا خالی کر کے بس اڈے پہنچی، تو پتہ چلا کہ اس کے شہر جانے والی بس دو منٹ پہلے ہی چھوٹ گئی ہے۔ اگلی بس رات کو آٹھ بجے آئے گی۔ اب کیا کرے، واپس جا نہیں سکتی، شہر میں خالہ رہتی ہے، کبھی اس سے ملنے نہیں گئی، آج کس طرح جائے۔ وہ طے کرتی ہے، سارا دن اپنے طریقے سے گزارے گی۔
وہ سامان رکھتی ہے اور چل پڑتی ہے۔ فلم دیکھتی ہے، ڈھابوں پر کھانا کھاتی ہے، چاٹ کھاتی ہے، پرانے دوستوں سے ملتی ہے، سیٹیاں بجاتی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتی ہے، شاپنگ کرتی ہے، لیکن وہ سب جگہ محسوس کرتی ہے کہ سب کی ننگی نگاہیں مسلسل اس کا بدن چھلنی کر رہی ہیں۔ وہ پرواہ نہیں کرتی۔ جب بس کا وقت ہونے والا ہوتا ہے، تو وہ ایک قلفی خریدتی ہے اور بیٹھ کر کھانے کے ارادے سے پاس ہی کے ایک پارک میں جاتی ہے۔ وہیں ایک چھوٹا سا لڑکا آتا ہے اور پورے رعب سے اس سے کہتا ہے کہ مجھے بھی قلفی دلا نا۔ لڑکی اس سے پوچھتی ہے کہ تیرے اور بھی سنگی ساتھی ہیں کیا، سب کو بلا لا۔ وہ لڑکا دوڑ کر جاتا ہے اوراپنے بہت سے ساتھیوں کو بلا لاتا ہے۔
کہانی کا اختتام اس طرح سے ہوتا ہے چھوی کہ لڑکی کو پورے دن میں پہلی بار لگتا ہے کہ اب جا کر اسے اپنی طرح رہنے والا دن ملا ہے۔ جب وہ سارے دن میں پہلی بار انجان بچوں کے ساتھ کھلکھلا رہی ہے، قہقہے لگا رہی ہے۔
– ایک بات ماننی پڑے گی دَیو کہ آپ یوں ہی افسانہ نگار نہیں بن گئے ہیں۔ چاشنی میں لپیٹ کر کریلے کھلانا کوئی آپ سے سیکھے۔ صبح صبح آپ سے ناراضگی جتانے آئی تھی اورلیکچرکی اگلی قسط سننے کو مل گئی۔ جاؤ معاف کیا۔ اس بحث کو یہیں روک دیتے ہیں۔ جواب پھر کبھی۔ کالج کا ٹائم ہو رہا ہے۔ ٹیک کیئر دَیو۔
– دن اچھا گزرے چھوی۔
٭٭٭
۲۱ دسمبر ۲۰۱۴ء
۱۰۔۳۱ بجے صبح
– ہیلو سر!
– ہیلو!
– کیسے ہیں سر! f9۔۔ ۔ کل پی کے نامی فلم دیکھنے گئی تھی۔۔ ۔ اچھی فلم ہے !
– کچھ لوگ کہتے ہیں رنگ رسیا دیکھو اور آپ پی کے !
– دونوں دیکھیں !
– میرا مسئلہ یہ ہے کہ ملٹی پلیکس تھیٹر میں دو ڈھائی گھنٹے بیٹھ نہیں سکتا!
– پی کے۔ مسٹ واچ مووی!
– دیکھتا ہوں کسی دن۔ دونوں ہی۔ کیسی ہیں آپ؟
– ہممم۔ وجہ کیا ہے نہ دیکھنے کی؟
– پیٹھ میں تکلیف ہے، جو تھیٹرکا اے سی برداشت نہیں کر پاتی۔ مسلسل بیٹھنے سے بھی درد رہ رہ کر کرنٹ مارتا ہے۔
– علاج؟
– ایسا ہے دوست کہ جب ہم کسی بلڈر کے پاس جاتے ہیں، تو وہ فلیٹ بیچنے ہی کی ہی بات کرتا ہے اور اگر محلے کے کسی پراپرٹی ایجنٹ کے پاس جاتے ہیں، تو وہ کرائے کا مکان بھڑانے کی فراق میں رہتا ہے۔ ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہے۔ سرجن کے پاس جائیں گے، تو وہ بغیر آپریشن کے مانے گا نہیں۔ ریڑھ کی ہڈی کے صرف دو فیصد معاملات میں آپریشن کی ضرورت ہوتی ہے باقی کے بارے میں کیا کہوں۔ آپریشن سے بچنا چاہتا ہوں لیکن کب تک۔ فزیو تھراپی اور روٹین واک کے سہارے آپریشن ٹال رہا ہوں۔
– آپ بہتر جانتے ہیں اس معاملے میں۔
– ہر مریض اپنے مرض کا علاج کراتے کراتے آدھا ڈاکٹر بن چکا ہوتا ہے۔
– دَیو ابھی ایک اچھا خیال آیا میرے دماغ میں !
– بیشک۔ آج آپ کا دماغ بہتر کام کر رہا ہے۔ اُسے بیکار نہ جانے دیں۔ نوٹ کر لیں۔ کیا آئیڈیا ہے ؟ فیس بک کے فرینڈ سرکل میں شیئر کریں۔ اچھا نہ بھی ہو، تو بھی شام تک سو پچاس لائیکس اور کمینٹس کی ضمانت۔
– کیا آپ کے پاس کوئی کام ہے چندن کے لئے ؟ نا مت کہنا!
– ٹیوشن ہی دلوا سکتا ہوں !
– سوچنا!
– سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس ہی کوئی کام نہیں۔ میں خود خالی بیٹھے بیٹھے بور ہو چکا۔
– فلم انڈسٹری میں تو آپ کی خوب جان پہچان ہو گی۔۔ ۔۔ جو اسے کام دے سکے۔ اس کی مدد ہو جائے گی۔
– دیکھتا ہوں ویسے اس کی پروفائل تو بھیجیں۔
– چندن کا اسٹیٹس آپ سے شیئر کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ملنا چاہیں تو مل سکتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ میرے لئے کچھ وقت برباد کریں !
– شیور، لوگ آپ کے لئے پوری زندگی داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم کچھ وقت تو دے ہی سکتے ہیں ہا ہا !!
– کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کیا؟
– نہیں ملا چندن کا لنک۔
– بھیجا ہے سر۔ ویسے میری وال پر بھی ہے۔
– کھلی ہے آپ کی وال۔ وہاں بھی کچھ نہیں دکھا۔
– اب دیکھیں۔
– ابھی دیکھا۔ یہ جسّی یا چندن ہے اسمارٹ بندہ۔
– میری طرح!
– آپ کی تو عرصہ پہلے ایک تصویر دیکھی تھی، جو آپ نے ہٹا دی !!
– وہ بھی شادی سے پہلے کی! اس کی بھی یہ پرانی تصویر ہے۔
– جانتا ہوں۔ اس تصویر میں تو وہ تئیس برس کا نظر آ رہا ہے۔
– اور کیا؟
– اب اس کی عمر؟
– بہت ہوشیار ہیں آپ۔ اُس کی عمر کے بہانے میری عمر جاننا چاہتے ہیں !!
– میری ایسی کوئی منشا نہیں۔ آپ اپنے گھر میں بیٹھی زیادہ اچھی لگ رہی ہیں۔
– چندن کا نمبر دے رہی ہوں، اگر بات کرنا چاہیں۔ زبردستی نہیں۔
– شکریہ آپ کا۔
– اوکے۔
– بیشک، مجھے کچھ وقت دیں۔ آپ کی تشویش سمجھ آتی ہیں۔
– لیکن میرا ذکر نہ کریں۔۔ ۔ !
– پتہ ہے۔
– اپنا نام کیا بتائیں گے ؟
– آپ بھی نہ۔ سب کے موبائل میں ٹرو کالر ہوتا ہے۔ آج کل نام بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خود بہ خود پہنچ جاتا ہے۔ دیکھتا ہوں کیا کر سکتا ہوں۔ کوئی جاب نظر آئے، تبھی فون کرنا ٹھیک رہے گا۔
– اس کا کیا مطلب؟
– ہاتھ میں جاب کی یقین دہانی وغیرہ ہو، تو ہی فون کروں گا۔ ہاں، اپنے رابطے والوں سے بات کرتا رہوں گا کام کے بارے میں۔ فکر نہ کریں۔
– جاب نہیں کرے گا وہ۔۔ ۔۔ ۔ فلم انڈسٹری میں ہے کئی برسوں سے، سو وہیں کرے گا جو بھی کرے گا۔
– دوست میری، وہیں ٹرائی کر رہا ہوں۔ بس، وقت لگتا ہے۔
– اوکے۔
– بی شیور۔ اب دیکھو نا، چندن یا جو بھی ہے نام اس کا، اگر دس بارہ سالوں میں انڈسٹری میں دھکے کھا کر بھی اپنی جگہ نہیں بنا پایا، تو مجھے کچھ وقت تو دو۔
– اوکے۔ جیسا آپ مناسب سمجھیں۔ دیکھتے ہیں کب تک اور کیا ہوتا ہے۔ تھینکس فار ایوری تھنگ۔ رکیں، آپ کو فون کر رہی ہوں۔
– جی۔
٭٭٭
۲۷ دسمبر ۲۰۱۴ء
۹۔۲۱ بجے صبح
– ہائے دَیو !
– ہیلو چھوی !
– آپ سچ میں جا چکے تھے فیس بک سے یا وہ کوئی بھرم تھا؟
– نہیں، میں کمینٹس دیکھ رہا تھا، لیکن واقعی میں جا چکا ہوں۔ قسم سے !
– آپ یہاں ہو کر بھی نہیں ہیں اور نہیں ہو کر بھی یہاں ہیں۔
– سچ کہہ رہا ہوں، کمینٹس دیکھنے کے لئے ہی اکاؤنٹ ری ایکٹیویٹ کیا۔ دیکھ لینا، ڈھونڈتے رہ جاؤ گے !
– سچ ہم جانتے ہیں !
– صحیح کہہ رہا ہوں۔ بہت وقت لگ رہا تھا۔ تم کیسی ہو؟
– تو پھر لوٹ کے کیوں آئے ؟ گئے ہی کیوں تھے ؟ یہیں رہیے نا! یہ فرار کیوں ؟ قدرے کم کام کر لیں گے، تو کیا فرق پڑے گا اس دنیا کی صحت پر؟
– یہ تو کوئی ایکسیوز نہ ہوا؟
– توازن بنائے رکھیں۔
– نہیں ہو پا رہا تھا۔
– ایک بار میں بات پلے نہیں پڑتی آپ کے ؟
– پڑی نا، لیکن بار بار جی کرتا ہے جھانکنے کا۔
– آپ ہی کے الفاظ دوہراؤں ؟
– کون سے ؟
– آپ نے ہی اپنی وال پر لکھا تھا کہ فیس بک کی ٹی آرپی بچے کی ڈائیپر کی طرح ہوتی ہے۔ ہوتا کچھ نہیں ہے، پھر بھی بچے کی ماں نیند میں بھی ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی رہتی ہے کہ گیلا تو نہیں ہو گیا۔ اب آپ ہی نہیں دیکھیں گے تو کون دیکھے گا۔ آپ کوتو دونوں ہاتھوں میں لڈو درکار ہیں ؟
– آپ ہی کوئی شارٹ کٹ بتائیں کہ لالچ نہ آئے !
– اور؟
– اور صرف اپنے عزیز دوستوں سے ہی بات ہو!
– یا تو یہاں رہیں یا دل سخت کر کے ترک کر دیں۔ میڈٹیشن کریں۔
– نہیں ہو پائے گا۔
– ایف بی پر جو مضمون لکھ رہے تھے آپ۔۔ ۔ مکمل کر لیا کیا؟
– وہ اب تک مکمل نہیں کر پایا۔
– تو یہ بات ہے۔ ہم چلے۔ فی الحال تو شوہر صاحب کو بریک فاسٹ دینا ہے۔ بائے۔ جلد ملتے ہیں۔
٭٭٭
۳۱دسمبر ۲۰۱۴ء
۶۔۱۹ بجے صبح
– ہیلو سر!
– ہیلو، ایک کام کریں گی؟
– جی!
– اپنا درست ای میل آئی ڈی دیں، تاکہ میں آپ کو جی ٹاک پر چیٹ کے لئے انوائٹ کر سکوں۔ قبول کر لینا۔
– ٹھیک ہے، پر کیوں ؟
– سچ میں کمزور پڑ گیا ہوں فیس بک کے آگے۔ بہت وقت دے چکا۔ اب اور نہیں رہنا یہاں۔
– تو؟
– ناول شروع کرنا ہے۔ بہت اضطراب محسوس ہو رہا ہے۔
– صحیح فیصلہ ہے۔ بس، پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں !! سچ !یہاں کچھ نہیں ہے۔
– تھینکس ڈئیر۔
– آپ ہیں کیا ؟؟؟
– بائے ٹیک کیئر۔ لاسٹ چیٹ۔
٭٭٭
یکم جنوری ۲۰۱۵ء
۴۔۲۲ بجے شام
– ہیلو!
– کیسے ہیں ؟
– یہاں بات نہیں کرنی!
– کیوں ؟ نئے سال کا یہ عہد ہضم نہیں ہوا سرکار۔ ہم تو آپ کو نئے سال کی بہت ساری نیک خواہشات دینے کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
– میں بتاؤں آپ یہی کہیں گے کہ اب فیس بک میرے لئے چیٹ کرنے کا پلیٹ فارم نہیں رہا۔ عہدکر چکا اور آپ کو بتا بھی چکا۔ مگر حضرت، آپ نے دس دن پہلے یہ عوامی اعلان کیا تھا۔ مگر اب بھی فیس بک پر اپنی دکان سجائے بیٹھے ہیں۔ ہا ہا ہا ہا !
– جی!
– یہاں کیا کر رہے ہیں ؟ کیا پان کی دکان کھولی ہے یہاں ؟
– مذاق نہیں۔ صرف تھوڑی دیر کے لئے آیا ہوں فیس بک پر۔ آپ نظر آ گئی ہیں تو بات ہو رہی ہے۔
– ایک بات بتائیں سر، فیس بک چھوڑ کر کیا پایا سر؟
– کہانی لکھ لی۔ آج کا دن بریک کا۔ فیس بک کے نام بنتا ہے۔
– اب ہم مکان میں تالا لگانے والے ہیں
پتہ چلا ہے کہ مہمان آنے والے ہیں۔
۔ راحت اندوری جی کی مدد لے کر کیا کہنا چاہتی ہیں ؟
– میں نے جانے کو کب کہا؟ آپ ہی نے ای میل آئی ڈی مانگا اور دیا، فون نمبر پہلے سے آپ کے پاس ہے۔ لیکن آپ نے کسی بھی ذریعے سے بات نہیں کی۔
-۔۔ ۔
– دَیو !
– نیٹ پرابلم پلیز!
– کیا فون کر سکتی ہوں ؟
– جی۔
– بائے !
– ہمارے حصے میں نہیں ہے بات کرنا ہا ہا !!
– کیا کریں کہ آپ سے بات چیت ہو؟
– آپ چھوی نہیں چھپی چھوی (چھپی تصویر)ہیں !
٭٭٭
۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
۲۔۵۳ بجے سہ پہر
– آپ کے پوچھنے سے پہلے آئی ایم f9۔۔ ۔ ہمیشہ کی طرح! !
– آپ ہمیشہ چھپن چھپائی کیوں کھیلتی ہیں بائی دا وے ؟
– جی نہیں جناب! آپ کھیلتے ہیں۔ کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ نہیں۔
– یہ کیا بات ہوئی!
– صحیح کہہ رہی ہوں ؟
– ارے کچھ اور بات کریں !
– کہیں !
– میری کہانی پڑھی کیا، کل بھیجی تھی!
– پی ایچ ڈی کا رزلٹ آ گیا۔۔ ۔ بہت انتظار کرایا۔ ایک دم زیرو!
– مطلب پپو پاس ہوا یا نہیں !
– انٹرویو میں رہ گئے ! ؟؟
– دوبارہ ہو گا کیا؟ موضوع کیا تھا؟ ایکسٹرنل ایگزامنر کوئی کھڑوس تھا کیا؟
– میر یٹاریٹل ڈس ہارمنی ان دی نوولز آف ششی دیش پانڈے اور انیتاڈیسائی۔
– آپ پوری بات نہیں لکھتیں۔
– پتہ ہے۔
– اب بتائیں کہ انٹرویو کی سطح پر آپ کو ریجیکٹ کیوں کر دیا گیا؟
– بہت ہی دل ٹوٹنے والی بات۔ آٹھ ہی نشستیں تھیں۔۔ ۔ صرف۔
– آپ مقالہ لکھنا چاہتی تھیں یا لکھنے کے لئے کی اجازت مانگنے گئی تھیں ؟
-۔۔ ۔
– کدھر گئیں ؟
٭٭٭
۱۹ جنوری ۲۰۱۵ء
۶۔۱۲ بجے شام
– ہیلو!
– بھئی بات تو پوری کر لیا کریں۔ ایسا بھی کیا؟
– ناول شروع کیا ہے۔
– کیا نام رکھا ہے ؟
– ایک تھی چھوی۔
– ہیرو طے ہے دَیو ہی ہو گا۔ کیسا کام چل رہا ہے ؟ میری کہانی تو نہیں ہے نا۔
– نہیں، ایم اے کے دنوں کی کہانی ہے۔ تھوڑی مختلف قسم کی۔ ابھی تو شروع ہی کیا ہے، لیکن مزہ آ رہا ہے۔
– واہ !!
– تھینکس!
٭٭٭
۲۹ جنوری ۲۰۱۵ء
۷۔۰۳ بجے شام
– کیسے ہیں سر؟
– اچھا!
– پی ایچ ڈی کے لئے کسی یو جی سی ایپرووڈ یونیورسٹی کا نام بتائیں۔
– پونے، جے این یو، عثمانیہ، حیدرآباد، بمبئی، مراٹھواڑا، انڈیا میں دوسو ہیں۔ آپ کس موضوع میں کرنا چاہیں گی؟
– رجسٹریشن تو ملے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ مجھے یہ سب نام معلوم نہیں تھے ؟
– زبان ہندی یا انگریزی؟
– کوئی بھی!
– ہندی/اردو کے لئے تو مدد کر سکتا ہوں لیکن انگریزی کے لئے شاید۔۔ ۔ نہیں !
– جی وہی سہی!
– دہلی یا بمبئی میں ہندی کے کچھ واقف کارہیں۔ ہندی سیکشن میں۔ بات کر سکتا ہوں۔
– واہ کیا بات ہے ! پوری بات بتائیں۔
– آپ پہلے زبان تو طے کر لیں۔
– اگر میں کہوں تو میں چاروں موضوعات میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوں۔ ساری زندگی بس نوٹس لیتے رہو، پڑھتے رہو، تھیلے بھربھرکے کتابیں لائبریری سے لاتے رہو۔
– اس سے کیا ہو گا؟
– ابھی میری امیج گھریلو عورت کی ہے۔ تب ہونہار اور دانشور خواتین والی ہو جائے گی۔ تب تک عینک بھی اپنے آپ لگ ہی جائے گی۔ اچھے فریم کی عینک لگا کے آیا جایا کروں گی۔
– ہاں یہ فائدہ تو ہو ہی سکتا ہے۔ ہوں نہ ہوں، لگنے میں کیا برائی ہے۔
– آپ کا یہ مذاق خوب سمجھ رہی ہوں، لیکن اس وقت اس کا جواب نہیں دے رہی سر۔ صحیح موقع پر دوں گی۔
-خوش آمدید۔ آپ جلد ایسی ہی ڈاکٹر بنیں۔ آپ کسی ایک موضوع کے سنوپسس بنا کر بھیجیں۔
– جی۔
– ویسے یہ کام تو آپ نے کر ہی رکھا ہو گا؟
– بعد میں فون پر بتاتی ہوں۔
– آپ نے اب تک جی ٹاک پر بات کرنی شروع نہیں کی ہے !
– آپ یہاں سے جائیں، تو وہاں ملیں پر بھو!
– اوہ لیکن میں یہاں آخری بار ہی ہوں !
– وقت بتائے گا۔ ویسے یہاں آپ ہر بار آخری بار ہی ملتے ہیں !
– اوکے تھینکس گڈ نائٹ۔
٭٭٭
۲ فروری ۲۰۱۵ء
۹۔۱۳ بجے رات
– میں نے آپ کو فون کیا تھا۔ دیکھا تو یہاں دکان کھولے بیٹھے ہیں۔
– جی۔
– اب آپ کو میری بتی گل تو نظر نہیں آتی۔
– سبز روشنی مبارک ہو۔
– جی۔
– ہیلو، فیس بک پر بات نہیں کر پا رہا!
– کیوں ؟
– مجھے نظر نہیں آ رہا کہ کیا ٹائپ کر رہا ہوں !
– کیوں ایسا کیا ہوا؟
-چشمہ ٹوٹ گیا ہے !
– اوکے، تکلیف نہ کریں۔ فون کرتی ہوں۔ یہاں ملتے ہی۔ چشمہ بن جانے کے بعد۔
٭٭٭
۳ فروری ۲۰۱۵ء
۵۔۳۳ بجے شام
– کیسی ہو؟
– ہمیشہ کی طرح۔ اس وقت اوشو کو سن رہی ہوں !
– ٹھیک ہے ! بعد میں بات کرتے ہیں۔
– نو نو نو میں تو پلیئر میں سی ڈی لگا کر سن رہی ہوں !
– کل کی آپ کی بات سے، بہت دیر تک اکیلے ہنستا رہا۔
– کون سی بات پر؟
– کہ آپ کے شہر میں بھی کِٹّی پارٹی ہوتی ہے اور اس میں کھیلے جانے والے کلر میچ کے کھیل میں، خواتین اوپر سے نیچے تک سب جگہ پہنا ہوا رنگ گنتی ہیں۔ ہا ہا ہا ہا۔
– ہا ہا اچھا ہے۔ ہنستے رہیے۔
– ہماری بس میں ایک عورت آتی تھی۔ اکثر سامنے والی سیٹ پر بیٹھتی تھی۔
– تو؟
– اس نے اوپر سے نیچے تک جتنا سونا چاندی پہنا ہوتا تھا، وہی گنتا رہتا تھا۔
– کتنا؟
-گلے میں چار، کانوں میں چار، ناک میں ایک، پیروں کی انگلیوں میں کل چھہ، ہاتھوں میں آٹھ، انگلیوں میں کل چھہ، سب جگہ سونا ہی سونا یا چاندی۔
– ہممم
– دن کیسا رہا؟
– جہاں سے جھک کے اٹھے نہ سر، مجھے ایسے ایک در کی تلاش ہے !
– سمجھ نہیں آیا؟
– کوئی ایسا دروازہ ہو جہاں میں اپنا ذہن جھکاؤں !
– آپ کی روحانیت!
– جی، میرے پاس اوشو کی کئی کتابیں ہیں، ایک پیار پر بھی ہے۔
– واہ!
– خوشونت سنگھ جی کی ایڈٹ کی ہوئی۔ نام ہے – being in love۔
– ان کی کئی کتابیں میں نے پڑھی ہیں – سن سیٹ کلب، ٹرین ٹو پاکستان، دا سن سیٹ کلب اور بھی کئی۔
– اوشو سچ مچ جینیس تھے۔
– آپ مطالعہ کمال کا ہے۔
– ان کوآمنے سامنے دیکھنے کی حسرت رہ ہی گئی !!
– جی، آپ کے بہت سارے محاذ ہیں – پہلے گھر، بچے اور اب فیس بک اور مطالعہ بھی۔
– اب میں سن رہی ہوں۔۔ ۔ پگ گھنگھرو باندھے میرا ناچی رے۔
– وہ زبردست بول تھے۔
– واہ ایک ایک لفظ جیسے موتی !!
– سی ڈی سن رہی ہیں یا آن لائن؟
– سی ڈی، کچن میں راشن کا سامان لگا رہی ہوں۔ سن بھی رہی ہوں ساتھ ساتھ۔
– جب دھیان کا ذائقہ بڑھنے لگتا ہے، توباقی سارے ذائقے پھیکے لگتے ہیں۔
– آپ کا کیا کہنا ہے ؟
– میں آپ سے متفق ہوں۔
– میں موسیقی کی رسیا ہوں۔
– جانتا ہوں۔
– لیکن توجہ کا جواب نہیں۔ سپریم ہے وہ !!
– اتفاق سے مجھے بھی موسیقی سننے کا بہت شوق ہے۔ موسیقی ہمیں کبھی بھی تناؤمیں نہیں رکھتی اور ہر وقت جیسے ہمیں بھرا بھرا رکھتی ہے۔
– جی۔
– میری ایوننگ واک کا وقت ہو گیا چھوی جی۔
– آپ توچشمہ ٹوٹا ہوا ہے نا؟
– ہاں تو؟
– کسی سیر کرنے والی سے ٹکرا مت جانا۔ ہا ہا بغیرچشمے کے۔
– کئی بار ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ وہاں تو ساری کی ساری 40-42-44 آتی ہیں۔
– ایک دن سیر کے لئے پارک نہیں جائیں گے، تو کوئی آپ کو مس نہیں کرے گا۔ آج کے دن اپنی کالونی والیوں کو بھی نہال کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی کہیں بھی سیر کریں، آئی پلیژر تو ملنے والا نہیں۔
– بتاؤں کیا؟
– کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں۔
– بائے۔
٭٭٭
۱۹ فروری ۲۰۱۵ء
۲۔۱۳ بجے دو پہر
– کہانی کے تین صفحے لکھے ہیں۔
– واہ !!
– اوشو کو سن رہا ہوں۔ بی اِنگ ان لو۔ آن لائن !!
– واہ صحبت کا اثر۔ نتیجہ موسیقی !! ہمارے حصے کا لنک دیجئے۔
– لیجیے محترمہ!
https://www.youutube.com/watch?v=8LfUvi\bof8
– شکریہ ادھار رہا۔
– کدھر گئیں ؟
– کام والی ماسی کو روانہ کرنے۔
– کر دیا؟
– ملتے ہیں بعد میں، اب بائے۔
– مجھے پتہ ہے۔
– کیا؟
– لوٹ کر آنا ہی ہو گا !!
– ارے یہاں تو یہ حالت ہے کہ فیس بک چھوڑ کر جائیں تو لوٹیں۔
– وہی کہاوت ہو گئی کہ ہم تو کمبل کو چھوڑ دیں کمبل ہی ہمیں نہیں چھوڑ رہا۔
٭٭٭
۳ مارچ ۲۰۱۵ء
۳۔۳۹ بجے سہ پہر
– کیسی ہیں ؟
– اچھی بھی۔۔ ۔ نہیں بھی !!
– اچھا کیا اور نہیں اچھا کیا؟
– لکھنا اچھا لگتا ہے !!
– نہیں اچھا کیا؟
– لکھ کر کریں گے کیا۔۔ یہ سوچ کر اچھا نہیں لگ رہا ہے !!
– لکھ کر طاقت ملتی ہے۔ اظہار کی خوشی۔ آپ لکھتی رہیں۔
– آپ کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں۔
– جی۔
– خوشی مل رہی ہے۔ یہ بتائیں کہ لن ترانیاں۔۔ ۔ بہت ہی پیارا لفظ ہے۔ صحیح صحیح اس کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ؟ آپ کی تحریر میں اکثر آتا ہے۔
– آپ کو کچھ اور الفاظ بھی ایسے ملیں گے۔ سب کی فہرست بنا لیں، تو ایک مکمل چیٹ ایسے الفاظ پر ہی کریں گے۔
– واہ میری بلی مجھی کو میاؤں۔ ویسے آپ کیا کر رہے ہیں ؟
– میں مہندی حسن کی گائی، فیض صاحب کی غزل – دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے، سن رہا ہوں۔
– گریٹ۔ دیکھئے آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے۔ ہم یا آپ کچھ بھی اکیلے نہیں سنیں گے۔ چیٹ کے وقت جو کچھ میں سن رہی ہوں گی، وہ آپ تک پہنچے گا اور آپ کے پاس سنے جانے والی موسیقی کی آواز یہاں بھی سنائی دینی چاہیے۔ پہلے لنک بھیجیں۔ میرے پاس اس غزل کی اچھی ریکارڈنگ نہیں تھی۔ کراچی سے میرے فیس بک فرینڈ سید آصف سعید نے فالج زدہ ہونے کے باوجود بھجوائی۔ میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ فیس بک نے مجھے اتنے قیمتی دوست دیئے۔
– میرے لئے کیا حکم ہے ؟
– پہلے لنک۔
– لیجئے –
https://www.youutube.com/watch?v=UgoWKqxDZGY
– آپ کو پتہ ہے کہ یہ غزل تقریباًتمام غزل گائیکوں نے گائی ہے اور سبھی کی آوازیں میرے کلیکشن میں ہے۔
– تو مجھ سے کیوں مانگی۔
– صرف اس لئے سرکارکہ آپ ہماری قدر کرنا سیکھیں اور مل بانٹ کر موسیقی سننے کی عادت ڈالیں۔
– اب پھرشیئر کر دی۔ اب کیا حکم ہے۔
– کچھ نہیں، آپ کی کہانی شبّو پڑھ رہی ہوں۔
– وہ بہت اچھی کہانی نہیں بن پائی تھی۔
-ڈسٹرب نہ کریں۔۔ ۔ ہا ہا !!
– بائے !!
– اچھی لگی کہانی مجھے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ !! آپ کی ایک اور کہانی۔۔ رائٹ نمبر رانگ نمبر۔ میٹرو شہروں کی تلخ حقیقت۔ رات کو پڑھی تھی !!
– رانگ نمبر کے پیچھے کا سچ۔۔ !!
– آپ کی ساری کہانیاں ایک ہی فائل میں ہیں اور الفابیٹک لی لگی ہیں۔ میں اس حساب سے نہیں پڑھ پاتی۔ کوئی بھی کہانی چن کر پڑھتی ہوں۔
– جی !!
– آپ نے ہندی ادب کے لئے کچھ سائٹیں بتائی تھیں۔ ذرا ان لنک بھیج دیں۔ آج کل خوب پڑھنے کا من ہو رہا ہے۔
– یہ لیں۔
– ارے، ان دونوں میں تو آپ کی کہانیاں بھی ہیں۔ گریٹ۔ ایک پنت دو کاج ہو گئے یہ تو۔ تھینکس۔
– وکیپیڈیا میں بھی خوب ادب موجود ہے۔ دنیا بھر کا۔ وہ صحیح معنوں میں دیو انوں کی بستی ہے۔
– میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ اتنے بڑے مصنف سے روز بات کرتی ہوں !
– اب بڑا کیا اور چھوٹا کیا۔۔ ۔ !
– کیشو کو گیمز کھیلنے ہیں۔ بعد میں ملتے ہیں۔
– جی۔
٭٭٭
۱۵ مارچ ۲۰۱۵ء
۴۔۰ بجے، شام
– آپ نے پوچھا تھا کہانی کہاں ہے۔۔ ۔ ؟
– پوچھا تو تھا! جسّی کی کہانی کے بارے میں بات کر رہی ہیں ؟
– کہانی کے فارم میں تو نہیں، میسج کے طور پر لکھ رہی ہوں۔
– ہاں، بات تو کچھ کہنے کی ہی ہے۔ فارم تو بعد میں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ویسے یہ میسج چندن کے نام ہی ہونا چاہیے !
– جانتے تو ہیں سر، اس سے ملے بغیر چین نہیں اور مل کر خود کو کمزور نہیں کرنا چاہتی۔
– جانتا ہوں، چندن سے شیئر کریں یا نہ کریں مجھ سے ضرور شیئرکئے جائیں گے یہ میسج۔
– آپ کو ابھی بور نہیں کروں گی۔ ان باکس میں بعد میں ڈال دوں گی۔
– ضرور۔
– کل کالج میں ٹیلنٹ شو ہے۔
– آپ جج ہوں گی؟
– طے ہے۔ بائے کرنے کے بعد آپ کے ان باکس میں چندن کو لکھا میسج پیسٹ کروں گی اور خیال رہے اس پر کسی تبصرے یا لائک کی ضرورت نہیں۔
– جو حکم مہا دیوی۔
– ہیلوچندن۔ کیسے ہو۔ آج تم ہنسے تھے کیا؟ میرا خیال آیا کیا؟ روز سوچتی ہوں کہ میں تمہارے بارے میں اتنا کیوں سوچتی ہوں۔ جانتے تو ہو۔ میرے بتانے سے کیا ہو جانے والا ہے۔ تم سے بات شروع کرنے سے پہلے بھی لائف میں سب کچھ تو پرفیکٹ تھا۔ ویسے تو اب بھی ہے پر تم نے کہنے کی جستجو کو جگا دیا ہے دوبارہ۔۔ ۔ میں نے تو چپ رہنا سیکھ لیا تھا۔۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ تم اتنی اچھی طرح مجھے کس طرح جانتے ہو۔ بن بات کئے، بن ملے، مجھ سے کس طرح گفتگو کر لیتے ہو۔ میرے دل کی بات سمجھ جاتے ہو اور اپنی بات مجھ تک پہنچا بھی دیتے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ جب کبھی آمنے سامنے ملتے تھے، تو بھی ہماری بات ہی کہاں ہو پاتی تھی۔۔ ۔ سب کچھ محسوس کرنا ہوتا تھا، مجھے ایم اے کے دنوں میں۔۔ جو میسج میں نے تمہیں بھیجا تھا، کہ ترپتی کے کی طرح۔۔ تب تم ناراض ہو گئے تھے۔ اور اب دیکھتی ہوں کہ تم نے مجھے فیس بک سے اَن فرینڈ کر دیا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے پتہ تھا کہ ہم کبھی بھی زیادہ بات نہیں کر پائیں گے۔۔ ۔۔ ہم دونوں کی دنیا ایک جیسی ہوتے ہوئے بھی، بالکل مختلف ہے۔ پھر بھی میں نے تمہیں فون کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ میسج بھیجے۔۔ مجھے تم سے صرف ایک بار پوچھنا تھا کہ Trance کیا ہے۔ جو لیکچر رہ گیا تھا ادھورا، اسے پورا کرو۔۔ تمہارا کریکٹر میری چاہت کی وجہ ہے۔ جیسا تم نے بتایا وہ ہی سوچ میری بھی لائف کی ہے۔۔ ۔ کئی بار ایسا لگتا ہے کہ کسی نے مجھے ہپناٹائز کر رکھا ہے۔۔ ۔ کتنی بھی کوشش کروں کہ نہ ہو، لیکن تمہارا نمبر ڈائل ہو ہی جاتا ہے۔ کتنے بھی نمبر بدلوں۔ ہر بار سب سے پہلے تمہارا ہی نمبر ڈائل ہوتا ہے۔ چاہے جواب میں کوئی بھی ریکارڈ شدہ میسج آئے۔۔ ۔۔ ہم نے ابھی کتنی باتیں کرنی تھیں۔ لیکن تم گفتگو کی ہر سرحد سے پرے کیوں چلے گئے ہو۔ آئی لو یو سو مچ۔ آئی رسپیکٹ یو سو مچ۔۔ آئی۔۔ ۔۔ ۔
٭٭٭
اپریل ۲۰۱۵ء
۹۔۲۳ بجے رات
– ایک مدت سے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
بس اس کشمکش میں پھنسا ہوں،
تو مجھ میں کھوئی ہے،
یا میں تجھ میں بسا ہوں۔
– اب میں کیا جواب ہوں ؟
– نہ سوال میں ہوں، نہ جواب میں ہوں، بس خیال میں ہوں۔
– واہ؟
– آپ کی کہانی، کیا آپ گریسی رافیل سے ملنا چاہیں گے ؟، پڑھی۔۔ ۔۔
– جی!
– مارمک(چھونا)۔ اس میں نیا لفظ آیا ہے۔ بالکل زمینی لفظ۔
– جی مادام، ہم ٹھہرے زمینی آدمی۔
– کہانی پڑھ رہی ہوں۔ ایک ریکویسٹ ہے سر۔
– جی!
– آپ آس پاس موجود رہیں۔
– ایسا کیوں ؟
– یوں ہی، کہانی پڑھتے ہوئے مصنف کے ارد گرد رہنے کا احساس۔
– ایک شرط ہے !
– جی اپنی ایک عمدہ تصویر بھیجیں، تاکہ مصنف کو بھی احساس رہے کہ قاری بھی آس پاس موجود ہے۔
– تصویر کبھی ریئل نہیں ہوتی۔ ٹوائس اوے فرام ریالٹی۔ واہ آپ لکھتے ہیں، ہم کسی مریض سے تیسری، چوتھی بار ملنے کے لئے ہسپتال جاتے ہیں اور اس کا خالی، صاف ستھرا بستر دیکھ کر ایک لمحے کے لئے چونک جاتے ہیں کہ کہیں مریض ٹھیک ہو گیا یا۔۔ ۔ اچھا جملہ ہے لیکن ڈراؤنا۔
– آخر وہیں سے تو وہ پاگل خانوں میں بھیجی گئی تھیں۔
– گھر کی ضرورتیں اتنی کم تھیں کہ ان کے پاس سارا دن بور ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوتا۔
– اس دنیا میں ہر آدمی جیسے جنون کے دہانے پر بیٹھا ہے۔
– کہانی مکمل پڑھی؟
– ذرا سے دھکے کی ضرورت ہے بس۔۔ ۔
– بے شک اس کہانی کی ہیروئن پاگل نہیں تھی، پاگل بنائی گئی تھی۔
– آپ لکھتے ہیں، کوئی تو ہے بھلے ہی انجان، نامعلوم ہی سہی، ان کی طرف تعریف بھری نگاہ سے دیکھتا تو ہے۔۔ ۔۔ اچھی مثال ہے وومن سائیکولو جی کی۔
– آگے ہے، ان کے حصے میں ان کا پورا شوہر آج تک آیا ہی نہیں تھا کہ اسے کھونے سے ڈرتیں۔۔ ۔۔ اچھا ہے۔
– دل کو چھو لینے والی کہانی۔
– جی تھینکس۔ پوری پڑھ لی؟
– اب البرٹ شروع کی ہے۔ ڈسٹرب نہ کریں !
– جی
– آپ کی کئی کہانیاں میں گیمز کاذکر آتا ہے۔ لگتا ہے ،ا سپورٹس سے گہرا تعلق ہے۔
– نہیں، سچ تو یہ ہے کہ مجھے کوئی کھیل کھیلنا نہیں آتا۔ کنچے کھیلنا، گلی ڈنڈا کھیلنا یا پتنگ اڑانا، بھی کبھی ڈھنگ سے نہیں آئے۔
– شاید یہی وجہ رہی ہو۔۔ کہ گیمز کہانیوں میں آ رہے ہیں۔
– لگتا ہے اگلی پی ایچ ڈی میرے کام پرہی کرنے والی ہیں ؟
– آپ کی کہانیوں کے کرداروں میں زندگی کے لئے جذباتیت بہت ہے، زندگی سے ناراضگی؟
– جی
– آپ کی کہانیوں میں شراب بھی بہت آتی ہے، جس میں ڈوبنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی۔۔ ۔ واپسی کا کوئی راستہ بھی نہیں ہوتا۔ مزے کی بات، آپ کی ادھر کی عموماً تمام کہانیوں میں خواتین کردار بھی کھلے عام بار میں، کلب میں پیتی دکھائی دیتی ہیں۔
– چھوی جی، ایک بات یاد رکھیں کہ جس معاشرے سے، جس طبقے سے اور جس ماحول سے وہ عورتیں میری کہانیوں میں آتی ہیں، تو وہ وہاں بھی سچ مچ پی رہی تھیں، تو میں ان کو کہانیوں میں لسی یا گنے کے رس تو نہیں پلا سکتا۔
– یہ تو کوئی دلیل نہ ہوئی۔
– تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اپنی کہانیوں میں، میں باقی باتیں تو ان کی زندگی سے لوں، لیکن جب شراب کا ذکر آئے، تو انہیں لسی پلادوں۔ ربش۔
– بھئی آپ ٹھہرے مصنف۔ اپنی تحریر کے لیے جسٹیفائی کرنے کے لئے آپ کے پاس دلائل کی کمی تھوڑے ہی ہو گی۔
– آپ کا اپنا تجربہ کیا کہتا ہے شراب کی بابت؟
– ایک بار پی تھی، یہ محسوس کرنے کے لئے کہ کیسے لگتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ وائن تھی شاید۔ مجھے اس میں اور نان سینس میں، کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا۔
– در اصل آپ نے غلط ڈرنک لے لیا۔ بھلا وائن سے بھی کوئی پینے کا آغاز کرتا ہے۔ نان سینس لگنا ہی تھا۔
– بیکار کی بات بند کرو۔ دوسرے ڈرنک بھی کم ہوں یا زیادہ، واہیات ہی ہوتے ہیں۔
– آپ کا مشورہ مان لیتے ہیں جی۔ بالکل ہو سکتے ہیں۔
– بہت مضبوط یا پھر بے چین کر دینے والے جذبات سے نجات حاصل کرنے کے لئے مراقبہ اور میڈٹیشن بہتر انتخاب ہو سکتے ہیں۔ شراب ہی کیوں ؟
– آپ کو اپنے سیشن کو شراب کی کمپنیوں کے لئے تیار کریں۔ بہت ہٹ ہوں گے۔
– خیال اپنا اپنا۔
-ا وورڈوز اس آل ویز نان سینس۔
٭٭٭
۲۴ اپریل ۲۰۱۵ء
۹۔۰۱ بجے صبح
– ایک ذاتی سوال پوچھنا ہے آج۔
– جانتی ہوں کیا پوچھیں گے۔ آپ میری محبت، پہلی محبت، اکلوتی محبت، ناکام محبت اور اب تک پیچھا نہ چھوڑنے والی بیکار کی محبت کے بارے میں جانتے ہی ہیں۔ اس میں بتانے کے قابل اور کچھ بچا نہیں۔ آپ جاننا چاہتے بھی نہیں۔ تو بتانے کے لئے میری پرسنل لائف ہی بچتی ہے۔ گھر، خاندان، شوہر اور شادی میں رچی بسی محبت۔ یہی پوچھنا ہے نا دَیو کہ میں خوش ہوں یا نہیں !
– کہتی چلیں۔
– بے شک دَیو، میرے پاس اس نہ پوچھے جانے والے سوال کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں میں بھی۔ اب تک کی چیٹ سے آپ کویہ تو پتہ چل ہی گیا ہو گا کہ میں بے حد بے چین ہوں۔ پریشان ہوں۔ اکتاہٹ بھری اوربو کھلاہٹ بھری ہوں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ تلاش کرتی رہتی ہوں جو یقین دے، میرے خالی خانے بھرے۔ مجھے سکون دے، لیکن مجھے خود نہیں پتہ کہ وہ کیا ہے۔ کچھ ہے جو غائب ہے میری زندگی سے۔ لیکن اس کے بارے میں انگلی رکھ نہیں بتا سکتی کہ یہی چیز غائب ہے۔ اور یہ بھی نہیں جانتی کہ وہ جو غائب ہے، اسے پا کر را توں رات سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں دنیا کی سب سے مطمئن عورت بن جاؤں گی۔ سن رہے ہو نہ۔۔ ۔
– آگے کہو۔
– گھر کو دیکھتی ہوں تو سب ٹھیک لگتا ہے۔ ساری سہولیات ہیں۔ شوہر کو دیکھتی ہوں، تو وہ انتہائی اچھے اور میرا خیال رکھنے والے ہیں۔ مجھے آگے بڑھنے اور مسلسل پڑھنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کو دیکھتی ہوں تو لگتا ہے دنیا کے سب سے پیارے بچے میرے حصے میں آئے ہیں۔ خاندان میں دیکھتی ہوں، تو سب سے زیادہ پڑھی لکھی بہو کا عنوان اور عزت میرے ہی پاس ہے۔ پھر بھی یہ جو تلاش ہے نہ، یہی میرا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ پتہ نہیں کب اور کہاں میری تلاش پوری ہو گی۔
– کوئی دوست ہے آپ کا؟
– شاید نہیں، لیکن اتنے اچھے شوہر کے ہوتے ہوئے، کبھی اس طرح سے سوچا نہیں۔
– میرے سوال کا جواب ہاں یا نہ میں ہونا چاہیے۔
– رئیل زندگی میں نہیں اور فیس بک پر دو تین۔ ایک تو آپ ہی ہیں۔
– کبھی ضرورت محسوس نہیں ہوئی؟
– مسٹر مصنف محترم، بمبئی جیسے انتہائی جدید شہر میں رہ کر یہ باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ آپ کے شہر میں جا کر یہاں کی لڑکیاں بھی، دو ایک برسوں میں لِو اِن میں رہنا سیکھ جاتی ہیں۔ رہتی بھی ہیں۔ جھوٹ کہا کیا؟
– بالکل صحیح کہا۔ لوکل لڑکیوں کو تو ویسے بھی کرایے کے مکان میں اس طرح رہنے کی ضرورت کہاں پڑتی ہے۔ لِو اِن ہو یا اکیلے، باہر کی لڑکیوں کو ہی ضرورت پڑتی ہے۔ تمہاراجواب ابھی پورا نہیں ہوا۔
– دونوں جگہ کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ وہاں سب اکیلے ہیں اورآپ کسی سے بات کرنے کے لئے بھی ترس جاتے ہوں گے۔ یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں معاشرے کا بنا بنایا ڈھانچہ ہے جو آپ کے چاہنے یانہ چاہنے کے باوجود، آپ کے سکھ دکھ میں نہ صرف دخل رکھتا ہے بلکہ شرکت بھی کرتا ہے۔ تو یہاں آپ کی پرائیویسی کے لئے بہت کم جگہ بچتی ہے۔
– کہتی چلو۔
– اب اسی بات کو لیں۔ اگر آپ میرے بلاوے پر، یہاں آنا بھی چاہیں تو میرے ہی سامنے دس طرح کی پریشانیاں کھڑی ہوں گی۔ آپ تب صرف میرے ہی مہمان نہیں ہوں گے۔ سبھی ٹوہ رکھیں گے اور کسی نہ کسی بہانے سے مجھے یا سریندر کو کریدیں گے۔ نہ تو میں آپ کے ہوٹل میں آپ سے ملنے آ پاؤں گی اور نہ ہی کسی طریقے کی جگہ پر آپ کے ساتھ اکیلے بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے گپ شپ ہی مار پاؤں گی۔ آپ مہمان میرے ہوں گے اور آپ کو کمپنی سریندر دے گا۔ سمجھے رائٹر جناب۔
– یہی تو بات ہے کہ چھوی کہ ہر شہر میں کئی ہندوستان بستے ہیں اور ایک ہندوستان کادوسرے ہندوستان سے کوئی موازنہ نہیں۔ ایک مزیدار بات بتاؤں چھوی۔
– ضرور، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔
– ابھی تم نے بمبئی میں لڑکیوں کے لِو اِن میں رہنے کی بات کی۔ لیکن یہیں بمبئی میں آج بھی لڑکیوں کا ایک بہت بڑا ایسا بھی طبقہ رہتا ہے۔ جو رہتا بیشک بمبئی میں ہے اور مقامی بھی ہے، زندگی کسی حد تک ماڈرن بھی ہے، لیکن بندشیں ان کے حصے میں اتنی ہی ہیں، جتنی کسی چھوٹے شہر میں لڑکیوں کے حصے میں آتی ہیں۔
– ذرا بات کھول کر بتائیں نا۔ جلیبیاں کچھ زیادہ ہی ٹیرھی میڑھی ہو رہی ہیں۔
– ابھی کچھ دن پہلے مجھے لڑکیوں کے ایک ڈگری کالج میں ایک لٹریری کیمپ منعقد کرنا تھا۔ تقریباً 75 لڑکیاں تھیں۔ کچھ مسلمان بھی تھیں جو برقعے اوڑھے تھیں۔ وہ ہی سب سے زیادہ سوال پوچھ رہی تھیں اور بات چیت میں حصہ لے رہی تھیں۔ جب میں نے ان کے رجسٹریشن فارم دیکھے تو پتہ چلا ہے کہ کم از کم ستائیس لڑکیوں نے اپنے ای میل آئی ڈی نہیں دیے تھے، گیارہ لڑکیوں نے اپنے موبائل نمبر نہیں دیے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے یہی بتایا کہ یا تو ای میل آئی ڈی ہے ہی نہیں یا انہیں دینے کی اجازت نہیں ہے۔ موبائل نمبر بھی نہ دینے والی لڑکیوں نے یہی بتایا کہ ہر کسی کو وہ اپنا موبائل نمبر نہیں دے سکتیں۔ اجازت نہیں ہے۔ مس یوز ہو سکتا ہے۔
– گریٹ انڈین اسٹوری۔ آگے کیا ہوا؟
– شام کو سیشن کے بعد چائے پیتے ہوئے کچھ لڑکیوں نے مانا کہ وہ بیشک فیس بک پر ہیں، لیکن فیک آئی ڈی سے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی مانا کہ وہ گھر اور کالج کے علاوہ کہیں نہیں جاتیں۔ یہاں تک کہ کچھ ایک لڑکیاں تو آج تک صرف چار کلومیٹر دور جوہو تک نہیں گئی تھیں۔
– دیکھا، میں یہی کہنا چاہ رہی تھی کہ ہم کتنے بھی ماڈرن ہو جائیں، کتنے بھی مہنگے موبائل ہوں ہمارے پاس، اپنی بہو بیٹیوں کو انگوٹھے تلے ہی رکھیں گے۔
– یہاں تم سے متفق ہوں چھوی۔
– دَیو، ایک دلچسپ قصہ سناتی ہوں۔
– ارشاد۔
– پوری دنیا جانتی ہے یہ قصہ، لیکن شیئر کرنے میں حرج نہیں ہے۔
– جی
– ابھی کچھ دن پہلے یہاں لوکل باڈیز کے انتخابات ہوئے تھے۔ بہت ساری سیٹیں خواتین کے لیے بھی مخصوص تھیں۔ تو جب ہر جانب انتخابی پوسٹرز لگے، تو پوسٹرز پڑھ کر ہی خوب ہنسی آتی تھی۔
– جیسے ؟
– بھیم سین چکی والے کی بیوی دلاری بائی کو ووٹ دیں یا رام سیوک سنار کی بہو گلابی کو ووٹ دے کر کامیاب بنائیں۔ پوسٹرز پر جس عورت کی تصویر ہوتی تھی، دیکھ کر لگتا تھا کہ پہلی بار کیمرے کے سامنے آئی ہے۔
– یہ ہے آزادی کا پیغام میڈم۔ اب یہ طے ہے کہ انہیں میں سے کوئی تومنتخب کر آئے گی۔ چتر لال کی یا چوکھے لال کی۔ وہ بیچاری پہلے کی طرح اپلے تھاپتی رہے گی اور ہوشیار لال جی اپنا دھندہ چھوڑ کر سیاست کی بازیاں کھیلیں گے۔
– دَیو، دیکھو نا ہماری بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔
– اپنی بات پر لوٹو۔
-اپنے شہر اور یہاں کے ماحول کی ساری باتیں تو آپ کو بت اچکی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم یہاں پرسنل فرینڈ رکھنا ایفورڈ ہی نہیں کر سکتے۔ شوہر یا بھائی کے بغیر باہر نکلے نہیں یا کہیں باہر نظر آئے نہیں کہ سب کو، لٹرلی جواب دینا پڑتا ہے کہ کون ہے۔ وی جسٹ کین ناٹ ایفورڈ ٹو ہیو اے میل فرینڈ۔ بات یہیں ختم ہو جاتی ہے۔
– سمجھ میں آ گئی جی۔ تھینکس، ہم بڑے شہروں میں رہنے والے اپنے ہی ملک کے گاؤں، قصبوں اور چھوٹے شہروں کی زندگیوں کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔
– مصنف موصوف لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھرپور دیکھنا بھی شروع کریں۔
– ٹیک کیئر چھوی۔
– یو ٹو۔ بائے۔
٭٭٭
۲۷ اپریل۲۰۱۵ء
۴۔۴۲ بجے شام
– کیا کر رہی ہیں اس وقت چیٹ کے علاوہ؟
– آپ کی کہانی، چھوٹے ہوئے گھر!
– اس وقت بھی میں آس پاس موجود رہوں کیا؟
– کیوں پوچھا؟
– بیشک فیس بک کھلا ہے، لیکن میں اپنے ناول پر کام کر رہا ہوں۔
– آپ لکھتے ہیں، کام کر کے وہ جتنا کماتی تھیں، کام کے لئے خود کو سجانے سنوارنے میں اس سے کہیں زیادہ خرچ کر ڈالتی تھیں۔
– ان کی حیثیت، راج پاٹ اور کنٹرول کا دائرہ ایک ہی جھٹکے میں بستر بھر کی جگہ میں محدود کر دیا گیا تھا۔
– یقیناً یہ لڑنا عوامی بل پر ہونے والی لڑائی کی سطح تک نہیں اترا تھا، ایک دم چوکس ہے کہانی۔
– جی۔
– مکالموں میں بہت روانی ہے۔
– میری کوشش رہتی ہے کہ کہانی میں روانی اور پڑھنے و الے کی دلچسپی بنی رہے۔
– آپ کی کہانیوں میں وومن سائیکو لوجی کے بہترین سیاق و سباق ملتے ہیں۔
– کتنی پڑھ لیں ؟
– ساری کہانیاں۔ اب یہی جملہ دیکھیں، ان کی غیر موجودگی میں عام طور پر گھروں کو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ گریٹ۔
– مرد ہوتے ہوئے بھی آپ کی کہانیوں میں خواتین میں ہارمونک چینجز کی وجہ سے ہونے والے بدلاؤ بھی اتنی باریکی سے آئے ہیں۔ غضب۔ آپ عورتوں کے دل کے بڑے جانکار ہیں۔
– آپ جانتے ہیں کہ۔۔ جس طرح لیڈیز میں Menopause ہوتا ہے، ایسا ہی کچھ جینٹس میں بھی ہوتا ہے۔ بایو لوجک لی۔
– جانتا ہوں ایک طرح کی بے حسی!
– میں یہی کہنا چاہ رہی تھی، بیشک علامات مختلف ہوتے ہیں۔
– رشتوں سے لگاؤ ختم۔۔ ۔۔ ۔۔ پتہ نہیں لوگ بزرگ ہونے کا انتظار کیوں کرتے ہیں پہلے عقل نہیں ہوتی۔۔ کہ اس دنیا کے سارے رشتے تقریباً ًجھوٹے ہی ہوتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔۔
– مطلب؟
– آپ کی کہانیوں میں مجھے ایسے مرد وں کی بھی جھلک ملی ہے جو عام نہیں ہیں، جو Menopause کی اسٹیج سے گزر رہے ہوں۔
– ذرا تفصیل سے بتائیں گی؟
– ابھی ڈسٹرب نہ کریں۔ آپ ہی کی کہانیوں کی دنیا کی سیر کر رہی ہوں۔۔ ۔
۔۔ ؟؟
– کروڑ پتی نامی کہانی پڑھ رہی ہوں، کوئی اس کے سامنے آنا نہیں چاہتا۔ وہ تو بالکل بھی نہیں، جنہوں نے اس کی ساری دولت لوٹ کر اس کی یہ حالت بنا دی ہے۔
۔۔ ؟؟
– اچھی کہانی ہے۔
– آپ میری کہانیوں سے نوٹس بھی لے رہی ہیں یا سب کچھ بھیڑچال ؟
– ساری کہانیوں کے اہم اقتباس انڈرلائن کئے ہیں۔
۔۔ ؟؟
– اب یہ کہانی دیکھیں۔ کرائے کی قوس وقزح۔ آپ لکھتے ہیں، میں نے یہ بات صبح بھی نوٹ کی تھی، اب بھی دیکھ رہا تھا کہ یہاں پر لوگ دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے چلتے ہیں، کہیں دیکھتے نہیں، صرف لپکتے سے رہتے ہیں۔ صبح چرچ گیٹ کے باہر تو میں نے بہت سی عورتوں کو بھی بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔ عورتوں کو اس طرح بھاگتے دیکھنا سچ مچ میرے لئے ایک نیا نظارہ تھا۔
۔۔ ؟؟
– کوئی تو ہے جو یہاں الفاظ کے بغیر بھی، اتنی اچھی طرح سے کمیونی کیٹ کر رہا تھا۔ ہم ہاتھ ملانے بھر میں ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔
۔۔ ؟؟
-وہ اپنے ہاتھوں میں یہ انمول خزانہ لئے بہت مسرور تھا۔
۔۔ ؟؟
– میں اتنا ایکسائیٹڈ ہوں کہ جی کر رہا ہے کہ کسی بھی شخص کو روک کر اسے اپنے سلیکشن کے بارے میں بتاؤں۔
۔۔ ؟؟
– سچ، آپ کو پڑھنا اپنے آپ میں کسی ٹریٹ سے کم نہیں۔
۔۔ ؟؟
– طویل عرصے بعد کسی ایک ہی مصنف کی اتنی تخلیقات کے درمیان سے گزرنا۔
– سچ!
– ایک سوال کا جواب دیں !
– جی؟
– تاج ہوٹل میں تب اتنی سستی تھی کیا بیئر؟
– جی ہاں جب کہانی لکھی گئی تھی، تب کافی آٹھ روپے کی اور بیئرپچیس کی تھی شاید۔ بہت پرانی بات ہے۔
– کیا کہانی لکھتے ہیں آپ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مائی گاڈ، سمپلی گریٹ !!
۔۔ ؟؟
– لیکن ایک بات بتا دوں۔ اس دنیا پر دوسری گریٹ پرسنیلٹی ہم ہیں، جنہوں نے آپ کا سارا ادبی کام ایک ہی بار میں پڑھ ڈالا اور اس پر کچھ کام کرنے کی بھی سوچ رہے ہیں !
– تھینکس ابھی کہنا ہو گا یا ادھار چلے گا؟
– بیشک میں بھی بہتر کہانیاں لکھ سکتی ہوں لیکن۔۔ ۔ میں خود کو جانتی ہوں۔ کتنی کہانیاں بکھری پڑی ہیں، میرے ارد گرد جو ہمیشہ سے کہنا چاہتی رہی۔ اگر آپ کی مدد ملے تو شاید سب کہہ پاؤں۔۔ ۔ وہ سب کچھ جو اب تک ان کہی ہیں میرے پاس۔
۔۔ ؟؟
– کچھ بولتے کیوں نہیں ؟ اتنی دیر سے آپ کی ستائش کئے جا رہی ہوں ؟
– آپ ہی نے ڈسٹرب کرنے سے منع کیا ہے !
– اف آپ بھی! ؟؟
– اوکے تو لکھو، میں ہوں نا۔ میں ہی الٹی میٹ نہیں ہوں۔ آپ بھی یقیناً مجھ سے بہتر لکھنے کا مادہ رکھتی ہیں۔ بس شروع کرنے کی دیر ہے۔
– یہ کہانی ہے، گھر کی تلاش، وہ کبھی کسی مقدس دریا کے صاف، شفاف،، رواں پانی کی طرح لگتا، جسے آر پار دیکھا، سمجھا اور جانا جا سکتا تھا۔ جیسا ہے، سب کے لئے وہی ہے۔ کوئی چھپی بات نہیں، اور کبھی یہی شخص اتنا حیران، پریشان، خاموش، اپنے خول میں بند لگنے لگتا کہ اس سے ایک ایک جملہ کہلوانے کے لئے گھنٹوں محنت کرنی پڑتی۔ لگتا، وہ مسلسل کسی گہری ذہنی آزمائش سے گزر رہا ہے۔
– کتنی کہانیاں ایک ساتھ پڑھ رہی ہیں ؟
– اچھی کہانی ہے !
– آپ کی ایک اور کہانی، کھو جاتے ہیں گھر! واہ !! – وہ اچانک گاڑی میں سے غائب ہو گیا ہے اور باہر بھاگتی دوڑتی دنیا میں شامل ہو گیا ہے۔
– اور پتا جی کا نام؟
-بابو۔
-اور ماں کا؟
پتہ نہیں۔۔ ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کبیرا وغیرہ آئیں اور اُسے سویا پا کر واپس ہو جائیں۔۔ ۔ آپ کہانیوں میں ڈیسٹنی سے لڑتے ہوئے کریکٹرز بہت ہیں، جو چاہ کر بھی قسمت کے لکھے سے بچ نہیں پاتے۔
– زندگی ایسی ہی ہے بھائی!
– تھامس ہارڈی کے ناولوں میں ہر جگہ یہی ہے۔
– شاید ہو گا، میں نے ان کو اتنا زیادہ نہیں پڑھا۔
– وہ کہتے ہیں –
Life is– but an occasional episode in general drama of pain
– اور
Happiness is — not life is۔
– کہیں کہیں ایسا بھی ہے میری تحریر وں میں۔۔ کہ سارا معاملہ ہی ٹریجڈی ہو۔
– میرے کردار کہانی کے آخر میں کبھی نہیں ملتے۔
– یہی میں کہنے والی تھی۔ ایک طرح کی مایوسی۔۔ تھامس ہارڈی کی طرح۔۔ !
– یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ آپ یوں کہہ سکتی ہیں کہ میری زیادہ تر تحریریں اوپن اینڈڈ ہیں۔ کہانی جہاں ختم ہوتی ہے، قاری اپنے تجربے، اپنے پس منظر اور اپنی مرضی سے اسے آگے بڑھا سکتا ہے۔ میں اپنی کسی بھی کہانی کا ایسا اینڈ نہیں دیتا کہ قاری کو آگے سوچنے کے لئے کچھ باقی ہی نہیں بچے۔ ایک بات اور بھی ہے کہ رشتوں کی صورت میں کرداروں کا ملنا ہی سب سے بڑی خوشی نہیں ہوتی۔ ملنا تو کہانی کا اختتام ہوا نہ۔ یہ زندگی کا بہت بڑا سچ ہے کہ جہاں ہمیں تھوڑی سی گلوری یا سکون ملتا ہے، زندگی وہیں رک جاتی ہے۔۔ ۔ تلاش ایک پیاس کی طرح ہوتی ہے، جو آگے کے سفر کے لئے اکساتی ہے۔ ملنے کا مطلب، سفر کا رک جانا۔ ہم نے کئی بار کھو کر زیادہ پا لیتے ہیں۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ میری ادھورا چھوڑا سفر ہر قاری پورا کرے۔
– بہت خوب!
– میری ایک کہانی کو اگر پانچ سو قاری پڑھتے ہیں، تو وہ اپنے حساب سے اس کے پانچ سو اینڈ طے کر سکتے ہیں۔
– اسے آپ کیا نام دیں گے ؟
– ریڈرز پارٹیسپیشن۔ وہ بھی قارئین ہونے کے ناطے کہانی سے اتنے ہی جڑے ہیں، جتنا کہ مصنف ہونے کے ناطے میں جڑا تھا۔
– ایک بات اور بھی ہے۔ میں اپنے قارئین کی بہت قدر کرتا ہوں۔ وہ اپنے سارے ضروری کام چھوڑ کر میری تخلیقات پڑھ رہے ہیں۔ میں کہانی لکھ کر ان پر احسان نہیں کر رہا۔ وہ میری کہانی پڑھ کر مجھ پر احسان کر رہے ہیں۔
– ویل سیڈ۔ یہ تو بالکل نئی بات ہو گئی۔ تھینکس۔ اب آپ کاناول پڑھنا باقی ہے۔ آج ہی صبح ڈاؤن لوڈ کیا ہے جناب۔ ابھی میرے سامنے کھلا ہے۔
٭٭٭
یکم مئی ۲۰۱۵ء
۹۔ ۰۷ بجے صبح
– ہیلو!
– ہیلو، ابھی کچھ نہ کہیں۔ کہانی پڑھ رہی ہوں۔ ایک کام کریں۔ سجاد علی کی یہ غزل، ہر ظلم تیرا یاد ہے، سن رہی ہوں۔ کئی بار سن چکی۔ یہ رہا لنک۔
https://www.youtube.com/watch?v=FkLFz2RzRHQ
۔ میرے ساتھ ساتھ سنیے۔ یہ لیجیے۔
– واہ کیا بات ہے۔ میں کئی بار سن چکا۔ ایک بار آپ کے ساتھ بھی سہی۔ ویسے اس کے شاعر کا نام الطاف مسطر ہے۔
– آپ کی کہانی، ڈر، ڈر اس میں سچا ہے یا جھوٹا؟
– اے بھگوان، ملٹی ٹاسکنگ کی حد ہے۔
– جو پوچھا وہ بتائیں بھگوان۔
– ڈر تو ڈر ہے !
– ہا ہا !
– اس پر ایک گھنٹے کی فلم بنی تھی۔
– بننی ہی چاہیے تھی۔
– بہت پریشان ہوں۔
– کیا ہوا؟
– غلطی سے دس صفحوں کی ایک ضروری فائل، کسی نے پی ڈی ایف میں تبدیل کر دی۔ اب دوبارہ ٹائپ کرنا پڑ رہا ہے۔ صبح صبح موڈ خراب۔
– اب؟
– کر رہا ہوں ٹائپ۔۔ ۔
– گڈ۔۔ ۔۔ ۔۔
– ماروں گا ہاں۔ یہاں میری جان نکلی جا رہی ہے اور آپ گڑ بانٹ رہی ہیں۔۔ ۔
– undo نہیں ہو سکتا؟
– یہ سہولت نہیں !
– ری کور نہیں کر سکتے فائل؟
– کسی اور کی غلطی بھگت رہا ہوں !
– اوہ، کس کی غلطی؟
– ایک آیا میرا قاری، لیپ ٹاپ میں دیکھ رہا تھا میری تخلیقات۔ کر بیٹھا کمال!
– فوری ٹائپ کریں ہا ہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہاں کیوں ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں ہا ہا ہا ہا !!
– یہ نہیں کہ مدد کریں۔ بھاشن اوپر سے !
– کس طرح؟
– کم از کم اسمائلی تو بھیجیں !
– آشیرواد تمہارے ساتھ ہے بچہ، لگے رہو!
– ہاں جی! اب یہی رہ گیا ہے۔ جو بھی آتا ہے ٹِکا جاتا ہے۔
– ہا ہا !
– چلو، ایف بی بند کر کے کام کروں ؟
– ملتے رہیں گے !
– بیشک !
– بائے !
– اب پورا ہوا کام۔ گڑ بانٹوں !
– پوچھنا ہی والی تھی کہ آپ کا کام مکمل ہو گیا؟
– جی ہو گیا لیکن موڈ بہت بگڑ گیا تھا!
– میرے آشیرواد کے بعد بھی ہی ہی ہی ہی!
– آپ کو تو بس!
– سب کچھ چلتا رہے گا۔ میں ہی نہیں رہوں گا۔
– اب میری ایک اور کہانی اور اس کا ڈائیلاگ مجھ ہی پر!
– آپ لکھتے ہیں، بمبئی جانا ہو گا؟ وہاں بہتر سہولیات ہیں موت کو پیچھے سرکانے کی۔ امریکہ میں اور بہتر ہیں۔ لیکن پیسے ؟
– دیویا تم کہاں ہو۔ نامی کہانی پڑھ رہی ہو؟
– لیکن مجھے تو خراب چوک والی ٹیوب لائٹ کی طرح نہ جانے کب تک بھک بھک جلنا بجھنا ہے۔ سب کی آنکھوں میں چبھتے ہوئے !
– سب کی تشویش کا گراف اٹھتا رہے گا۔ اتنا اوپر کہ ایک دن میں ہی اس گراف کی حد سے باہر نکل جاؤں گا۔
– ہم سب بھائی یہی مان لیتے ہیں، اس بار دوسرے نے بھیج دیا ہو گا۔ سامنے کوئی نہیں آتا۔
– اندھے کنویں میں پتہ نہیں کتنا ڈالنا پڑے۔ نہ واپسی کی گارنٹی، نہ میرے ٹھیک ہونے کا۔
– سورج ابھی ابھی ڈوبا ہے اور جاتے جاتے جیسے اپنے پیچھے رنگوں کی بالٹی کو ٹھوکر مار گیا ہے۔ سارے رنگ گڈ مڈ ہو کر افق میں بکھر گئے ہیں۔
– واہ، کیا تو سپیڈ ہے۔ وہ کہانی مکمل اب دوسری شروع۔۔ ! میری کسی نہ کسی کہانی کے اقتباس مجھے بھیجتی ہی رہتی ہیں۔
– ہر بات پر یہ فیس ؟؟ ؟؟ بنانا بند کریں ! اوکے ! یہاں تو ہر وقت آپ کی کوئی نہ کوئی کہانی کھلی ہی رہتی ہے !
– سڑکوں پر اب بھی پچھلے کئی برسوں کے بچے پوسٹ گریجویٹس اور گریجویٹس ہر طرح سے قابل، ضرورت مند اورمنتظر ہونے کے باوجود، اپنے لائق کوئی کام نہیں تلاش کر پائے تھے اور ہر وقت اپنے ہاتھ میں میلی پڑ چکی ڈگریوں، درخواستوں کی کاپیوں اور اخباری تراشوں کے بنڈل اٹھائے، دفتروں، فیکٹریوں، ایمپلائی منٹ سروس کے دفاتر کے گیٹ کے ارد گرد اور چوکوں، نکڑوں پر دیکھے جا سکتے تھے۔ وہ ہر کہیں موجود تھے۔ وہ سب جگہوں پر عرصہ دراز سے تھے۔
۔۔ ؟؟
– بوٹنی کا گولڈ میڈلسٹ بینک کے کاؤنٹر پر بیٹھا، دن بھر نوٹ گنتا رہتا تھا اور فزکس کا فرسٹ کلاس فرسٹ، کہیں سڑے ہوئے سرکاری دفتر میں گھن لگی کرسی پر بیٹھا آلتو فالتو کے خطوط کا اندراج کر رہا تھا۔ انگریزی ادب کے ایم اے پاس نوجوان، ہوٹل میں گاہکوں کے ڈنر کے آرڈر لیتے ملتے اور ہندی کا پی ایچ ڈی کسی دور دراز علاقے کی چنگی پر بیٹھا جاہل ٹرک ڈرائیوروں سے ما تھا پھوڑ رہا ہوتا۔ ایم ایس سی بائیوکیمسٹری میں فرسٹ ڈویژن پاس لڑکی ٹیلی فون آپریٹر کی گھٹیا سی نوکری کرنے پر مجبور تھی اور پولیسٹر ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی نوجوان کسی چائے کمپنی میں سیلزمنیجر ہوتا۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا کہ وٹیرنری ڈاکٹرکی ڈگری لے لینے کے بعد بھی، جب کسی نوجوان کو دور پاس کہیں بھی چھوٹی سی نوکری نہیں ملتی تھی، تو وہ موٹر پارٹس کی یا کتابوں کی سیلزمین والی چلنے والا کام صرف اس لئے قبول کر لیتا تھا کہ بے روزگار رہنے سے تو اچھا ہے، کچھ بیچ ہی لو۔ گھر والوں کے سامنے ہر وقت تھوبڑا لٹکائے رہنے سے تو یہی بہتر تھا۔
۔۔ ؟؟
٭٭٭
۲۵ مارچ ۲۰۱۵ء
۴۔۰۹ بجے شام
– ہیلو!
– آپ کی ساری کہانیاں اپنی سی لگتی ہیں، میری زندگی کا ایک بہترین دور تمہارے ساتھ ہی گزرا ہے۔ زندگی کے سب سے پرجوش دن تو شاید وہی رہے تھے۔
– دو جیون سمانتر!
– ہاں وہی!
– لگتا ہے سب پڑھ لیا!
– ہاں، کچھ کہانیاں تو دو تین باربھی!
– کیسا لگا گزرنا بہت دنوں بعد، کسی مصنف کے پورے ادبی کام کے بیچ سے ؟
– ونڈر فل یو آر۔ کتنی لگن ہوتی ہے مصنف میں۔ سلام ہے آپ کو!
– لگتا ہے آپ کی ماسی بھی کام سے جی چراتی ہو گی۔ دیکھتی ہو گی کہ میڈم جی تو دن بھر مصروف ہیں پڑھنے میں !
– اب جو میں لکھوں گی، ان سب کے بارے میں، وہ زبردست ہو گا۔
– جانتا ہوں، لیکن ایک مصنف کے پورے ادبی کام سے گزرنا کیسا لگا؟
– اپنی تخلیقات پر ہوئی تنقید بھیج سکیں تو آسانی ہو گی۔ میں تفصیل سے آپ پر لکھنا چاہتی ہوں۔
– آپ نے نوٹس تو بنا ہی لئے ہیں۔ تنقید بھیجی بھی ہیں اور ویب سائٹ پر بھی ہیں۔
– جی
– کچھ اور بھی ہیں۔ ا سکین کر کے بھیجنی ہوں گی۔ تھوڑا وقت لگے گا۔
– آپ کی ویب سائٹ پر آپ کابایو ڈیٹا اور انٹرویوز بھی پڑھے ہیں۔ آپ کو بہتر طریقے سے جاننے میں مدد ملی۔
-ہممم
– آپ کی کہانی، پتھر دل، در اصل میرا رول نمبر آتے ہی تم میرا ”یس سر” سننے کے لئے بالکل تیار ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ لہذا یاد رہ گیا۔
– اپنا سا لگتا تجربہ یا اس لڑکی کا، جو محبت کرنا چاہتی ہو۔ ایک بات بتاؤں دَیو ؟
– جی!
– جب کبھی بھی کسی سے لکھنے کی بات کرتی ہوں۔۔ ۔ ہمیشہ یہی مشورہ ملتا ہے کہ تھوڑا سا پڑھ لو۔ دو چار مصنفین کو تو پڑھ ہی لو۔ میں پڑھتی ہوں تو پاتی ہوں کہ ارے سب کچھ تو لکھا جا چکا ہے۔ اب میں کیا لکھوں۔ لکھنے کی کیا ضرورت ہے !
– نہیں چھوی، اپنی تحریر کو تو خود ہی جسٹی فائی کرنا ہوتا ہے۔
– جی!
– ایک سچا واقعہ ہے۔ ایک بار بہت سارے نئے مصنفین، ایک بڑے مصنف سے ملنے اور اس سے لکھنے کے بارے میں رہنمائی لینے کے لئے گئے۔ مصنف نے سب سے پوچھا کہ کیا بننا چاہتے ہو، تو سب نے ایک آواز سے کہا کہ مصنف بننا چاہتے ہیں۔ مصنف نے ایک ہی لفظ اپنے جواب میں کہا ” لکھو ” اور چلے گئے۔
– واؤ گریٹ، لیکن طمانیت کا احساس۔۔ ۔۔ میں کسی بھی اچھے مصنف کو پڑھ کر محسوس کرتی ہوں۔
– کہا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف سات ہی کہانیاں ہیں، جن پر پوری دنیا کا ادب ٹکا ہوا ہے۔ فرق صرف ہر مصنف کی کری ایٹوٹی کا ہی ہوتا ہے۔
– اور مجھے لکھتے وقت مکالموں کے ری پِیڈ ہونے کاڈر رہتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سبھی الفاظ مجھے اپنے سے لگتے ہیں۔
– پوری دنیا میں محبت حاصل کرنے اور محبت جتلانے کے طریقے ایک سے ہو سکتے ہیں، لیکن محبت کی کہانیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔
– واہ!
– چھوی جی، میں بھی پہلے یہی سوچتا تھا۔ آخر کچھ تو ہوتا ہے ہر مصنف میں، جو اس کے اسلوب کو دوسروں سے الگ کرتا ہے۔
– جی!
– پتہ ہے کہ بہت سے نئے مصنف کسی کو بھی نہیں پڑھتے کہ کہیں ان کی تحریر کسی سے متاثر نہ ہو جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ کہیں بھی نہیں پہنچتے اور وقت آگے نکل جاتا ہے۔
– آپ کیا مشورہ دیتے ہیں اپنی اس امیدوں بھری لیکن کاہل مصنفہ دوست کو۔
– مصنفہ تو آپ لکھنا شروع کرنے کے بعد بنیں گی۔
– یہ میری بات کا جواب نہیں ہے سر۔
– ہمیں، استادوں کو یہ جاننے کے لئے پڑھنا چاہیے کہ ان کے ادبی کاموں میں آخر وہ کیا تھا کہ وہ ہم تک پہنچے اور ان کے جانے کے بعد آج بھی ان کو پڑھنالازم وملزوم ہے۔ ہم عصروں کو اس لئے پڑھنا چاہیے کہ وہ اپنے عہد کو اپنی تحریروں میں جس طرح سے لا رہے ہیں، کیاوہ بھی کر پا رہے ہیں یا نہیں۔ کہیں ٹریٹمنٹ، کہانی، زبان کی ساخت وغیرہ میں پیچھے تو نہیں رہ گئے۔
– آپ سے بات کر کے ساری الجھنیں دور ہو رہی ہیں۔
– اور میری الجھن تب دور ہو گی، جب آپ کی کوئی تحریر مجھے ملے گی۔
– لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میں ہیپی اینڈنگ والی کہانیاں لکھنا چاہوں گی۔
– کچھ بھی لکھیں، لیکن لکھیں تو سہی۔
– میری سوچ آپ کی سوچ سے مختلف ہے، اس بات سے آپ پریشان تو نہیں ہوں گے نا سر؟
– سب کی سوچ الگ ہونی ہی چاہیے۔ تبھی تحریر میں نیاپن آئے گا۔ ایک اچھی بات ہے کہ آپ زندگی کے مثبت پہلو ؤں کو دیکھتی اور سمجھتی ہیں۔ اس سے بہت فرق پڑتا ہے۔
– آپ کی تو تمام تحریروں کوپورا پڑھ لیا، کسی اور مصنف کی سفارش کریں گے سر؟
٭٭٭
۲۶ مئی ۲۰۱۵ء
۹۔۰۰ بجے رات
– ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں تیرا نام رہے،
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے۔ علامہ اقبال
– گڈ مارننگ!
– اس رات کی گندھ( بو) / دھیریندر استھانہ۔۔ ۔ پڑھی اچھی لگی۔
– واہ۔
– کچھ اور مصنفین کے نام بتائیں۔
– بہت ہیں۔ خود سے تلاش کریں تو بہتر رہے گا۔ ویسے آپ کو جن سائٹوں کے لنکس دیئے تھے، سبھی اچھے اور اہم مصنفین اور ادیب وہاں ہیں۔ نام بتانے سے آپ انہی کو پڑھیں گی۔ لہذا آپ خود اپنی پسند سے پڑھیں۔
– بہت خراب ہیں آپ۔ اتنی سی مدد نہیں کر سکتے۔
– ایسا ہے کہ میں مچھلی پکڑ کر دینے کے بجائے، ماہی گیری سکھانے پر یقین رکھتا ہوں۔
– اتنی اچھی بات کہہ کر مجھے لاجواب کر دیا۔ آخر آپ میرے عزیز مصنف یوں ہی تو نہیں ہیں۔ ویسے میں نے آج صبح رماکانت کی کہانی، اندھیرا، پڑھی۔
– خوب پڑھو، خوش رہو اور دودھو نہاؤ۔
– آشیروادپورا کرو بھگوان!
– جانتی تو ہیں نا پورا آشیرواد۔ کہنے کی ضرورت ہے کیا؟
– دودھو نہاؤ، پوتوں پھلو۔ میرے لئے جیون میں سب سے بہترین آشیرواد۔ کوئی ایسا ادیب بتائیں، جس نے پہاڑوں پر خوب لکھاہو۔ بیشک اس دنیا میں پہاڑ بہت نہیں دیکھے ہیں، دنیائے ادب میں ہی پہاڑ دیکھ لیں۔
– یہ کام بھی خود ہی کرنا پڑے گا۔
– مجھے پتہ تھا یہی جواب ملے گا۔
– ادیب کو لکھنے، پڑھنے کے علاوہ دیکھنے پر بہت وقت لگانا چاہیے۔ اپنی نظر ہر دم تیار رکھنی چاہیے۔
٭٭٭
۲ جون ۲۰۱۵ء
۸۔۱۲ بجے صبح
– ہیلو! کیسی ہیں۔
– کتنا امیزنگ ہے کہ آپ کو پڑھنا اور نوٹ لکھنا، ساتھ ساتھ چلتا ہے !
– اگر مسکرانے کی اجازت ہو؟
-سینوپس بن رہے ہیں ساتھ ساتھ!
– بیشک کام ہو نہ ہو!
– بتاؤں کیا؟ ؟؟
– میں یہاں بمبئی میں اور میرا سارا تحریری کام آپ کے گھر۔ مجھے یاد ہو نہ ہو، آپ کو سب یاد ہے۔ جو چاہیں پوچھ لیں، آپ بتا دیں گی۔
– آپ بیشک مسکرائیں لیکن تھوبڑے نہ بنائیں ! ؟؟
– دِس از ٹو مچ!
– تھوبڑا لفظ آپ نے اپنی ایک کہانی میں استعمال کیا ہے۔ سارا دن اسے یاد کر کے ہنستی رہی۔ اب جا کر اِسے لکھا تو چین ملا۔ یہ رہا۔۔ ؟؟۔ کہیں کہیں ایسا بھی ہوتا کہ وٹیرنری ڈاکٹری کی ڈگری لے لینے کے بعد بھی، جب کسی نوجوان کو دور پاس کہیں بھی چھوٹی سی نوکری نہیں ملتی تھی، تو وہ موٹر پارٹس کی یا کتابوں کی سیلزمین والی چلنے والا کام صرف اس لئے قبول کر لیتا تھا کہ بے روزگار رہنے سے تو اچھا ہے، کچھ بیچ ہی لو۔ گھر والوں کے سامنے ہر وقت تھوبڑا لٹکائے رہنے سے تو یہی بہتر تھا۔
– آپ نے یہ اقتباس پہلے بھی کوڈ کیا تھا۔ میرا ہی تھوبڑا مجھے ہی واپس ہا ہا! ؟؟
– کیا کہنا چاہتے ہیں سر۔۔ ۔۔ یہ کیا ہے ؟ ؟؟
– میں مسکراتا ہوں تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔۔ ۔ خاموش رہوں تو تب بھی! ؟؟
– ہر بار ہر کہانی پر رسپانس دینے کی ضرورت نہیں۔ ٹیک اِٹ ایزی۔ میں تو پڑھتے ہوئے نوٹس بنا رہی ہوں۔ ایم ایس ورڈ فائل میں پیسٹ کر رہی ہوں۔ آپ نے اتنا خزانہ دیا ہے کہانیوں کا، تو کچھ تو مجھے بھی کرنا ہی چاہیے۔
٭٭٭
۶ جون ۲۰۱۵ء
۳۔۰۴ بجے سہ پہر
– ہیلو!
– آج gadyakosh.org پر کئی گھنٹے گزارے اور بہت کچھ پڑھا۔
– بہت فاسٹ ریڈر ہیں آپ!
– مسئلہ یہ ہے کہ اتنا پڑھنے کے بعد کوئی پوچھے کہ کون سی کہانی کس کی تھی؟۔ میرے لئے یاد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
– پڑھتے وقت ہونے والا احساس زیادہ معنی رکھتا ہے۔۔ میموری ساتھ نہیں بھی دیتی، تو بھی کوئی بات نہیں۔ ٹیکسٹ پلیزر پانا ہی بڑی بات ہے۔
– صحیح کہا آپ نے !
– شاید ایک خراب عادت ہوتی ہے کہ ایک ہی جھٹکے میں سب ختم کر دیا جائے۔ کسی بہترین تخلیق کا کسی اچھی موسیقی کی طرح لطف اٹھایا جانا چاہیے۔ اندر اترا انبساط تو زیادہ خوشی دے گا۔ آپ پڑھنے کا کوئی جبری پراجیکٹ پورانہیں کر رہی ہیں اور نہ ہی فاسٹ ریڈنگ کومپیٹیشن میں حصہ ہی لے رہی ہیں۔ کوئی ایک مصنف منتخب کریں ،ا سکی تحریروں کا مکمل مزہ لیں۔ اس کے بارے میں کچھ لکھیں، تبھی اگلے مصنف کی جانب بڑھیں۔ آپ دیکھیں گی کہ زیادہ مزہ مل رہا ہے۔
– سر آپ یہ باتیں اتنی دیر سے کیوں بتا رہے ہیں۔ آپ نے بہت اچھی بات بتائی۔ پر میرے ساتھ دوسری وجہ رہی۔۔ جب سب کچھ یاد کرنے کی عادت تھی، تو سب کہتے تھے بھول جایا کرو جلدی۔ زیادہ یادمت کیا کرو۔
– جی!
– اب عالم یہ ہے کہ چلنے دو۔۔ کے چکر میں۔۔ سب کچھ۔۔ جلد ہی آپ کے بتائے گئے طریقے سے پڑھوں گی۔ پہلے سبھی کو ایک نظر دیکھ رہی ہوں۔ بیشک یہ آپ اسے لالچ جیسا کچھ کہیں گے۔
– وہی کہتا۔
– آپ کی ساری تحریریں تو پڑھ لیں !
– جی اب آگے بڑھیں !
– جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں۔ مجھے پاگل سمجھ رکھا ہے کیا۔۔ ۔۔ ۔ ؟
– ہا ہا ہا ہا !
– میرا کہنے کا مطلب تھا کہ اب یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر کی طرح سارا دن رائٹر کو دماغ میں اٹھائے اٹھائے گھومنا مشکل ہے۔ اس کی زندگی، موت کی ساری ڈیٹیلز کے ساتھ۔
– اف۔ خاموش رہنا ہی بھلا۔۔ ۔ ؟؟
– جیسا کہ اکیڈمک کامیابی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
– جی سرکار۔
– ارے بھگوان، کوئی پی ایچ ڈی کروا دے۔۔ اس یادداشت کے مارے انسان پر۔۔ !
– بو کھلانہ جایا کریں گی۔ ذراصبر نہیں ہے کیا؟
– اتنا احسان اپنے پاس رکھو شری مان، سمجھے۔۔ وہ رائٹر ہی لکی ہو گا جس کے کام پر میں پی ایچ ڈی کروں گی۔ ہا ہا ہا ہا۔۔ !
– کیا پڑھ رہی ہیں ان دنوں۔۔ ؟
– سب کچھ اور کچھ بھی نہیں۔
– مطلب۔
– جب پڑھ رہی ہوتی ہوں تو پتہ ہوتا ہے کہ کیا پڑھ رہی ہوں۔ بعد میں یاد ہی نہیں رہتا کہ کیا پڑھا تھا۔
– جواب کیوں نہیں دے رہے ؟ اس لئے کہ آپ کے کام پر پی ایچ ڈی نہیں کر رہی؟
– آپ کہہ ہی رہی ہیں۔ ہر بار ٹوکنا اچھا تھوڑے ہی ہوتا ہے۔
– آپ کے بارے میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ آپ اپنی سمجھداری اور تجربات مجھ پر نہیں تھوپتے۔۔ ۔ ! آپ مجھے کچھ بھی سمجھانے کی جلدی میں نہیں رہتے اور مجھے ہر سوال کے مطابق جواب دیتے ہیں۔۔ ۔۔ تھینکس۔۔ ۔
– اب میں اس کا کیا جواب دوں ؟
– اب بھی کیوں جواب دیا؟ خاموش ہی رہتے ؟
– بولوں تو۔۔ ۔ نہ بولوں تو؟
٭٭٭
۳۰ جون ۲۰۱۵ء
۹۔ ۰۷ بجے رات
– ہیلو سر!
– کیسی ہیں ؟
– ٹھیک اور آپ؟
– ہمیشہ کی طرح f9 نہیں ہوں !
– کیوں کیا ہوا؟ کچھ مسئلہ!
– بخار۔۔ !
– اوہ دوا آپ لیجیے، دعا میں کرتا ہوں !
– جی، ویسے تو بخار کو مسئلہ ہونا چاہیے تھا کہ مجھے کیوں ہوا!
– ہاں !
– کم بخت پچھتا رہا ہو گا!
– کیا لے رہی ہیں – دوا، دارو یا دعا؟
– کیابتاؤں ؟
– آپ لیتی نہیں، میں آفر نہیں کر سکتا!
– ہا ہا !
– ویسے میرے تمام مرد کردار پیتے ہیں، میں بھی!
– اور عورتوں کے کردار بھی آپ کے ساتھ اور آپ کے برابر ہی پیتے ہیں ؟
– میڈم اس جملے کو اس طرح سے کہیں – عورتوں کے کردار، مردوں کے کرداروں کے ساتھ پیتے ہیں، میرے ساتھ نہیں۔ اور پڑھنے والے مرد اور خواتین اپنی خود جانیں !
– اور یہ بھی شامل کر دوں کہ پینے اور پڑھنے والیوں کے شوہر بھی جانیں !
– بیشک شامل کر دیں۔ نئی وسعتیں شامل ہوں گی۔
– کہانی میں شامل ہو یا نہ ہوں۔ اس بیچاری عورت کی زندگی میں ضرور شامل جائیں گی۔
– کہنے میں کیا حرج ہے ؟
– آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟
– بہتر، آج بہت دن بعد سیر کرنے گیا۔
– سنا ہے، بمبئی والے گاڑی میں سیر کرنے جاتے ہیں !
– صحیح سنا۔ پارک کے گیٹ تک گاڑی میں۔ کوئی اعتراض!
– نہیں، بس یہ کہ کیا شان ہے آپ کی کہ سیر کرنے بھی گاڑی میں جاتے ہیں۔
– ایسا ہے چھوی جی، بمبئی میں پیدل سڑک پار کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ دس بار سوچنا پڑتا ہے کہ کوئی گاڑی مار ہی نہ جائے اور دوسری بات آپ کے پورے شہر کا رقبہ اور آبادی اتنی نہیں ہو گی۔ جتنے ہمارے ایک ایک مضافاتی علاقے کی ہے۔ ہر مضافاتی علاقہ اپنے آپ میں ایک مکمل شہر ہے۔ تو پارک تک پیدل آنے جانے میں ہی سیر کا وقت پورا ہو جائے گا۔
– سمجھ گئی سرکار۔ میٹروپولیٹن زندگی کا ایک اور پہلو!
– آپ کو ایک مزے دار کہانی سناؤں۔
– ضرور!
– ہمارے ایک واقف کارکی شادی ہوئی۔ شادی تو کہیں اور ہوئی تھی، لیکن رہائش دہلی کے کسی مضافات میں تھی۔ پہلی ہی رات، بیوی کے ساتھ، آپ کی زبان میں کہوں تو ٹھیّے پر رات دیر سے پہنچے۔ صبح صبح بیوی نے دیکھا کہ شوہر صاحب پولی تھین بیگز میں پانی کی بوتلیں اسکوٹر کی باسکٹ میں رکھ رہے ہیں اور انہیں بھی چلنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔
-۔۔ ۔
– بیوی نے کہا کہ جہاں بھی جانا ہے، اتنی جلدی کیا ہے۔ آج پہلا ہی دن ہے، آرام سے تیار ہو کر چلیں گے۔
– پھر؟
– ہمارے دوست بولے کہ ابھی ہی چلنا پڑے گا اور یہ تیار ہونے کی جانب پہلا قدم ہے۔ بیوی حیرانی سے بولی کہ بھگوان صبح صبح اسکوٹر پر کہاں جانا ہے۔ تب شوہر نے راز بتایا کہ یہاں لیٹرین نہیں ہے کہیں۔ دور جانا پڑتا ہے۔ ا سکوٹر پر چلیں گے، تو اچھی جگہ بھی ملے گی اور جلدی لوٹ بھی آئیں گے !
– ہا ہا۔ کہانی مزے دار۔ لیکن صورت حال افسوسناک۔ کوئی اور بات کرو!
٭٭٭
۲ جولائی ۲۰۱۵ء
۶۔۰۱ بجے شام
– آپ کو آج خوب یاد کیا!
– کیوں ناول کے لئے ہی نا؟
– جی، کئی دنوں سے ناول اٹکا پڑا ہے۔ در اصل شادی ہونے اور شادی ٹوٹنے کے بیچ کے کچھ معاملات ہیں، جو سوجھ نہیں رہے۔ اورانہیں چھوڑ کر آگے بڑھا نہیں جا رہا۔
– سنیے سر، ایک لطیفہ سنیے، شاید موڈ بن جائے !
– چلیں یہی ٹوٹکا سہی۔
– ایک گاڑی کی نیلامی ہو رہی تھی۔ بیس لاکھ، پچیس لاکھ، تیس لاکھ۔۔ ۔
– ایک آدمی نے حیرت سے گاڑی کی حالت دیکھی۔ اس کی گاڑی میں کوئی چیز ٹھیک نہ لگی، تو اس نے پاس کھڑے آدمی سے پوچھا کہ بھئی، اس کھٹارا میں ایسی کون سی خوبی ہے کہ اتنا ریٹ لگ رہا ہے !
– جواب ملا، جناب اب تک اس کار کے دس حادثات ہو چکے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر حادثے میں صرف بیوی ہی مرتی ہے۔ آدمی بولا۔ چالیس لاکھ۔
٭٭٭
۴ جولائی ۲۰۱۵ء
۱۰۔۱۱ بجے صبح
– کیسی ہیں ؟
– آپ کی دعا!
– بھلا۔ کیسی ہے زندگی؟
– ہمیشہ کی طرح اچھی۔۔ اگر مناسب طریقے سے جی جائے !
– میرے خیال سے لکھنے کے لئے اضطراب بیحد ضروری ہوتا ہے۔ جب زیادہ ہو جاتا ہے تو لکھا جاتا ہے !
– جی!
– ہمیشہ اچھا ئی سے انقلاب نہیں آتا!
– بھلا ئی ہونے سے بھی نہیں آتا!
– ٹھیک ہے !
– کیا ٹھیک ہے ؟
– ٹھیک نہیں ہونا چاہیے !
– تبھی ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ ملے گا۔ ہا ہاہا ہا !
– ٹھیک ہے کا مطلب آئی ڈونٹ ایگری۔ جیسے فیس بک پر کچھ لائک کرنے کا مطلب ہر بار پسند کرنا نہیں ہوتا۔ متفق ہونا یا نو کمینٹ جیسا بھی ہو سکتا ہے۔
– سمجھ رہا ہوں۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ کئی بار کسی دکھ کی خبر پر بھی دس بیس لائک آ جاتے ہیں۔ اب چونکہ وہاں متفق ہونے یا نو کمینٹ کرنے کے لئے کوئی بٹن نہیں ہے، تو عادتاً لائک بٹن ہی دب جاتا ہے اور لوگ بکھیڑا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
– اتنی لمبی تمہید کی وجہ!
– دَین بی اینگری!
– ٹھیک ہے !
– اس کا مطلب تھا بور نہ کریں !
– آج آپ کے دماغ میں کیا ہے جی، بہکی بہکی باتیں۔ کچھ اور تان چھیڑیں !
– آپ تان چھیڑیں۔۔ ۔ میں چلی!
– کہاں چلی، رام کلی ہا ہا ہا ہا !
– جا رے جو گی رے !؟
– ملتے ہیں !
– سی یو سون!
٭٭٭
۷ جولائی ۲۰۱۵ء
۱۲۔۰۹ بجے دو پہر
-ہیلو کیسی ہیں ؟
– f9!
– میں جارج اورویل کا ناول 1984 پڑھ رہا ہوں۔ میں نے ان کے ایک ناول اینمل فارم کا ترجمہ بھی کیا ہے۔
– میں نے پڑھ لیا ہے آپ کی ویب سائٹ پر!
– واہ بتایا نہیں کبھی!
– میں نے ویسے بھی آپ کو سب کچھ کہاں بتایا ہے ؟
– یہ بھی صحیح کہا!
– چلو آج ایک بات بتا ہی دیتی ہوں کہ آپ کی تحریروں پر کچھ لکھ رہی ہوں۔ بس پوچھئے گا نہیں کہ کیا اور کب تک مکمل ہو جائے گا۔
-گریٹ اچھا لگا۔ میرا دن بن گیا۔
– دیکھیں کب تک آپ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ مکمل ہو اور پڑھنے کو ملے۔
– کبھی تو وہ لہر آئے گی۔
– بیس کو انٹرویو ہے !
– میری نیک خواہشات۔ کامیابی آپ کے قدم چومے !
– ایک اور خبر!
– وہ کیا؟
– پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی آ گئی۔ انگلش میں۔۔ ۔۔ نارتھ ایسٹ کی ایک یونیورسٹی سے !
– ڈگری آ گئی مطلب، کام کب کیا؟
– تین برس سے چل رہا تھا۔
– کمال ہے ! آپ کب سے مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ پی ایچ ڈی کرنی ہے اور یہاں گھر بیٹھے آ گئی ڈگری۔ کمال ہے ! مبارک باد ددیتا، لیکن کچھ سمجھ تو آئے۔ بلکہ آپ نے خود ہی تو بتایا تھا کہ آپ اس ڈس ہارمنی ان میرج والے مضمون میں فیل ہو گئی تھیں اور اب دور گگن کی چھاؤں سے چلی آ رہی ہے پی ایچ ڈی۔
– ہاں کر لی ہے پی ایچ ڈی یہی سچ ہے۔۔ ۔ بیک ڈیٹ سے وہاں رجسٹریشن مل جاتی ہے۔ یہ پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔
– مطلب بِنا وہاں گئے ہوئے ؟ بغیر وائی وا کئے ؟
– جی ہاں دو گائیڈ ہوتے ہے۔ ایک اپنا لوکل گائیڈ ہم منتخب کر سکتے ہیں۔۔ ۔۔ !
– واہ اسٹوڈنٹ ہی گائیڈ منتخب کرے۔ بہت خوب۔ تو اب آپ ڈاکٹر ہو گئیں ؟
– یس، اِن اے وے، ہاں !
– کہیں تسلیم شدہ ہے کیا ایسی ڈگری؟
– ہاں تسلیم شدہ تو اتنی تو نہیں، لیکن کئی جگہ دھُپّل میں چل جاتی ہے۔ پرماننٹ جاب بھی مل جاتی ہے۔
-ہمم
– لیکن سچ کہوں تو میں اس طرح کی چیزوں سے مطمئن نہیں ہوں۔ پر یہ بھی قبول کرنے میں حرج نہیں ہے کہ ریگولر کبھی ہو ہی نہیں پاتی میری پی ایچ ڈی۔
– اوکے، ایک اور کر لینا۔ انکار کس نے کیا ہے۔
– جی!
– آج ہی پڑھا میں نے کہ چھتیس گڑھ میں کوئی پانڈے جی ہیں جو بارہ مضامین میں ایم اے اور پانچ مضامین میں پی ایچ ڈی ہیں۔
– پتہ ہے آپ کو کہ جب میری شادی ہوئی تھی تو میں صرف بی اے، بی ایڈ تھی۔ پہلا ایم اے چل رہا تھا۔ جس کے امتحان شادی کے بعد دیے۔ شادی کے بعد باقی کی ساری پڑھائی، شوہر کے حوصلہ افزائی اور اپنی محنت کے بل پر کی۔ اب کوئی محنت کرنا چاہے اور اورینٹیشن نہ ملے یا ملے تو ٹائم نہ ملے تو ساری سیٹنگ خراب ہو جاتی ہے۔ اب بھی دل کی بات کہوں تو ہندی میں ہی پی ایچ ڈی کرنے کی دلی خواہش ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ کروں گی ضرور۔
– میری نیک خواہشات۔ تعاون کا وعدہ بھی۔
– ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔
– وہ کیا؟
– ساری کہانیاں پڑھ کر جتنے نوٹس بنائے تھے، بچوں نے ایک ہی کلک میں ڈیلیٹ کر دیئے !
– اس کی فکر نہ کریں۔ آپ کوری سائیکل بِن میں مل جائے گی وہ فائل۔
– کوئی فائدہ نہیں۔ سب جگہ دیکھ لیا۔ اپنے گیمز لوڈ کرنے کے لئے، اسپیس بنانے کے چکر میں، سب کچھ صاف کر دیا ہے بچوں نے۔
– اوہ، کوئی اور حل؟
– کوئی نہیں۔
٭٭٭
۱۱ جولائی ۲۰۱۵ء
۹۔۲۳ بجے رات
– ہیلو یہ سنیں۔
عجیب اندھیرا ہے ساقی تیری محفل میں
کسی نے دل بھی جلایا تو روشنی نہ ہوئی۔
-ہمم
– اور یہ بھی۔
لوگ گھر جلا کر میخانے میں جاتے ہیں
وہاں کی روشنی میں سکون ملتا ہے
– آپ کی کوئی خبر نہیں !
– میں ہمیشہ کی طرح فائن!
– گریٹ۔ آپ کی جاب، گھر، بچے، شوہر، ساس سسر، پڑھنا لکھنا، محبت، اور باقی سب کچھ؟
– سب کچھ بہترین۔ کچھ اور پوچھنا ہے ؟
– نو تھینکس۔ ویسے کالج کیسا چل رہا ہے ؟
– پڑھانا مجھے ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ لگتا ہے اس بہانے پھر سے مجھے، کالج لائف دوبارہ جینے کو مل رہی ہے !
– کیا اسی کالج میں پڑھا رہی ہیں، جہاں آپ پڑھتی تھیں ؟
– ہاں، سب کچھ جانا پہچانا۔ بس میری ہی جگہ اورذمے داری بدلی ہے۔
– اچھا لگتا ہے کہ۔ ایک بات بتاؤں ؟
– جی!
– میرے حصے میں کبھی بھی ریگولر کالج نہیں آیا۔
– کیوں، تو یہ سب تعلیم؟
– بارہویں پرائیویٹ کی۔ شام کو ایک جگہ ٹیوشن کلاسز کے لئے جاتا تھا۔ بی اے، صبح کی شفٹ سے کیا ایک نوکری کے ساتھ۔ ایم اے پھر نوکری کے ساتھ۔ جب پی ایچ ڈی کر رہا تھا تو بھی نوکری تھی۔ چھٹی کے دن ہی گائیڈ کے گھر جاتا تھا۔ باقی جو بھی ڈگریاں حاصل کی ہیں، وہ سب کے سب سنڈے یا شام کی کلاسوں میں کیں۔
– پتہ ہے مجھے !
– کس طرح؟
– آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا تھا اور اچھا لگا تھا کہ آپ نے جو بھی حاصل کیا ہے، آپ کو یوں ہی نہیں مل گیا۔
– جی
– سر، آپ کو ایک مذاقیہ جوک سناتی ہوں۔ جب سے سنا ہے مسلسل ہنس ہی رہی ہوں۔ جب تک شیئر نہ کر لوں گی، چین نہیں پڑے گا۔
– یعنی باقی ٹائم ہنسنے کی ذمہ داری میری!
– سنیں، بل گیٹس کو بنتا سنگھ کی جانب سے ایک خط ملا اور بل گیٹس وہ خط پڑھتے ہی بیہوش ہو گیا۔ پتہ چلا کہ بنتا سنگھ نے خط میں پانچ سوال پوچھے تھے۔ اس نے لکھا تھا کہ ڈیئر سر، میرے ان پانچ سوالوں کے جوابات دیں، تو مہربانی ہو گی۔
سوال نمبر ایک: کی بورڈ ٹھیک سے نہیں بنایا گیا ہے۔ اے کدھر تو بی کدھر۔ اسے الفابیٹکلی بنایا جائے۔ بتائیں صحیح کی بورڈ والا سسٹم کب تک لانچ کریں گے۔
سوال نمبر دو: اس میں اسٹارٹ کابٹن تو ہے، لیکن اسٹاپ کا بٹن کہیں نہیں ہے۔
سوال نمبر تین: اس میں ری سائیکل بِن ہے۔ ری اسکوٹر بِن والا ماڈل کب آئے گا۔
نمبر چار: آپ نے ہمیں ایم ایس ورڈ ورژن دیا۔ ایم ایس سین ٹینس ورژن کب نکالیں گے
اور آخری سوال جس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑا۔ سوال نمبر پانچ: نام آپ کا گیٹس ہے اور آپ بیچتے ونڈوز ہے۔
– ہا ہا ہا ہا۔ اب مجھے یہ آگے شیئر کرنا پڑے گا، نہیں تو میری طبیعت خراب ہو جائے گی۔
– بیشک۔ ٹھیل بیٹا ٹھیل۔
– ایک بات بتاو بلکہ سمجھاؤں۔
– جی!
– مجھے جاب چھوڑے کافی عرصہ ہو گیا۔ خوب آرام کر لیا۔ اب آرام کرتے کرتے سارا دن اکیلے گھر میں رہتے رہتے تھک گیا ہوں۔ کتنا لکھوں، کتنا پڑھوں، کتنا فیس بک پر وقت برباد کروں۔ سمجھ نہیں آ رہا۔ پیٹھ میں درد کے چکر میں گھومنا پھرنابند ہے۔ اس سارے چکر میں صحت خراب ہو رہی ہے !
– جی آگے !
– نوکری اب کرنی نہیں !
– میڈٹیشن، کوئی سوشل ورکنگ این جی او۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ !
– این جی او کاسوچا جا سکتا ہے اور۔ !
– اوشو؟
– اوشو نہیں ہو پائے گا!
– کبھی میڈٹیشن کی؟
– میری موجودہ صحت اجازت نہیں دیتی اور پھر وہ تو مستقل حل نہیں ہے۔ وقت گزارنے کا!
– آپ اپنی تنہائی سے خوش کیوں نہیں ہے۔ آپ کے پاس تو اتنی بہترین تخیلاتی دنیا ہے۔ موسیقی ہے۔ ماضی کی یادیں ہے۔ آپ اکیلے رہتے ہوئے بھی اکیلے کہاں ہوتے ہیں !۔
– دوست، اب یہ تنہائی کی حدیں پار کر کے خالی پن محسوس ہونے لگا ہے۔ میں بیشک اپنی تنہائی کو ایک نعمت مانتا ہوں، لیکن کچھ بھی کرنے کو نہیں ہوتا سارا دن۔ جبکہ پہلے میں انتہائی مصروف رہا کرتا تھا۔ اچانک یہ سب۔ جسم و جاں قبول نہیں کر پا رہے۔
– ایک کام سر!
– کہیں !
– چندن کو ایڈاپٹ کر لیں۔ اس کے گاڈ فادر بن جائیں۔ دونوں کا بھلا ہو جائے گا۔
– ہا ہا – چندن میرا باپ بننا چاہے گا۔ پتہ ہے وہ فلم لائن میں ہے۔
– آج ٹینی سن کی نظم پڑھائی۔ کراسنگ دی بار!
– ٹینی سن آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہیں۔ سلام آپ کو!
– آپ کچھ الگ کرنے کے بارے میں سوچیں۔ جس سے آپ کو روحانی سکون ملے !
– میں تو اپنی طرف سے سب کچھ روحانی سکون کے لئے ہی کرتا ہوں، لیکن جانتا ہوں دنیا میں میری حیثیت بوند سے بھی کم ہے۔ مجھ سے بہتر کہنے سننے والے آ کر چلے گئے !
-میری بات سنیں !
– جی!
– آپ یونیک ہیں !
– میں اپنی اوقات جانتا ہوں !
– آپ کا کام بولتا ہے۔ آپ کی جگہ دنیائے ادب میں۔۔ ۔۔ !
– نہیں چھوی۔ یہاں سیاست، مارکیٹنگ، ایوارڈ، اعزاز، پبلشنگ، تنقید ہر چیز کے لئے ریٹ طے ہیں اور یہ میں کبھی نہیں کر پایا۔
– چھوڑیں اس۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پہلے میری سنیں !
– بولیں، سنتا ہوں !
– کچھ ایسا ضرور کریں زندگی میں۔۔ ۔ جو آپ نے بلا ارادہ کیا ہو۔ جس میں آپ کو خوشی ملی ہو۔۔ ۔۔ ۔ بغیر کریڈٹ کے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بغیر فائدے کے۔۔ احساس کے۔ اور یہ کام روز ہو!
– کیا ہے بہت بار!
– مثلاً!
– اپنی ساری کتابیں تحفے میں دیں انجان لوگوں کو، بوٹ پالش کرنے والوں کو سامان لے کر دیا، غریبوں کو کپڑے دیئے، پیسوں سے مدد کی، لیکن اکثر میں ہی ٹھگ لیا گیا۔
– آپ پھر بھی کرتے رہیں۔ کم یا زیادہ!
– لیکن!
– اب پھر سے کریں۔ ہر دن نیا ہوتا ہے۔
– اس ہفتے پرانا پی سی دے رہا ہوں۔ ایک بات بتاتا ہوں !
– اچھا لگا ہو گا۔ ہاں بتاؤ، مجھے کیا دے رہے ہیں ؟
– پچھلے سال چھہ چوکیداروں کو ایک ایک گرم چادر دی تھی کہ رات کو سردی ہوتی ہے۔ اگلی رات دیکھا کہ کانپتے ہوئے بیٹھے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ گرم چادر کدھر ہے ؟
– بیچ دی ہو گی!
– نہیں بیویوں کو دے دیں سب نے۔ انہوں نے بکسے میں بند کر دیں۔ کتنی بار سامان دیا۔ لوگ استعمال ہی نہیں کرتے۔ گھر میں رکھ دیتے ہیں۔
– مجھے کیا ملے گا؟
– آپ بتائیں، آپ کو کیا دوں، ویسے میری حیثیت ہی کیا ہے کہ آپ کو کچھ دے پاؤں۔ پیار کے علاوہ!
– ہمم۔۔ ۔۔ بائے ابھی کے لئے۔ آرام کرنا ہے پھر برتھ ڈے پارٹی میں جانا ہے، پھر ڈنر۔۔ !
– یا کِٹّی پارٹی میں ہا ہاہا!
– لنک بھیج رہی ہوں سنیں۔ ہنگامہ ہے کیوں برپا۔۔ ۔۔
۔ کیا آپ مجھے بہترین موسیقی کے لنک یا کورئیر سے کلیکشن ہی بھیج سکتے ہیں۔ آج کل موسیقی سننے کا بہت دل ہو رہا ہے۔
– کہیں کیا بھیجوں – نور جہاں، بیگم اختر، فریدہ خانم، مہدی حسن، غلام علی، جگجیت سنگھ، ہنس راج ہنس سب ہیں میرے پاس۔
– لیکن اردو ڈکشنری کہاں سے دیکھوں۔
– لنک بھیج رہا ہوں اردو ڈکشنری کا۔ آن لائن ہے۔ بک مارک کر لینا۔
– ہر سانس یہ کہتی ہے۔۔ ہم ہیں تو خدا ہے۔
– آپ کو ایک اور لنک بھیج رہا ہوں، بہت ہی شاندار۔ اس میں تیرا بیان غالب، سنیں۔ گلزار کی آواز میں۔
– ڈکشنری کا تو اسٹائل ہی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ پتہ نہیں کیا ڈرامہ ہے۔ اردو انگریزی ہے یا انگریزی اردو
– اردو تو آنی چاہیے جناب، اردو ڈکشنری دیکھنے کے لئے۔ یا پھر انگریزی آنی چاہیے۔
– ہا ہا، بتاؤں کیا؟
– اب میں کیا کروں اردو کے سوال پر!
– اردو سکھاؤ اب!
– ٹھیک ہے۔ پہلا سبق۔ ہم زلف کا مطلب بتاؤ!
– یہ آئیڈیا اچھا ہے۔۔ کچھ خاص الفاظ کا مطلب پتہ چل جائے، تو کام چل سکتا ہے !
– بتاؤ اس کا مطلب؟
– پتہ نہیں !
– سوچ بھی نہیں سکتیں !
– نہیں !
– ہمقدم، ہمنوا، ہمسفر، ہم پیالہ، ہم نوالہ، ہم بستر، ہم شکل، ہمراہی، ہمدم، اتنے ریفرنس دے دیے۔
– گڈ، پھر بھی پتہ نہیں !
– ساڑھو۔۔ سالی کا شوہر!
– واہ، سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک ڈکشنری ہی بنا ڈالو ہم جیسوں کے لئے۔۔ اردو ٹو ہندی
– ہے نیٹ پر اس طرح کی اور ہر طرح کی ڈکشنری۔
– میرا ایک سوال ہے۔۔ ۔ گاڈ۔۔ ۔ خدا۔۔ ۔ یہ سب باتیں۔۔ آپ کیا سوچتے ہیں ؟
– میری پیٹھ میں کئی دنوں سے شدید درد ہے۔ لیٹتا ہوں تو بیٹھنے کا دل کرتا ہے۔ بیٹھتا ہوں تو لیٹنے کی خواہش ہوتی ہے۔ مجبوری میں لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا ہوں۔
– ٹیک کیئر۔ آرام کریں۔ بائے !
٭٭٭
۲۴ جولائی ۲۰۱۵ء
۸۔۰۱ بجے رات
– سنیں سر۔ آج آپ کا ناول، دَیس بِرانا، شروع کر رہی ہوں۔ دیکھتی ہوں کیا کہتا ہے، 24 ستمبر، 1992ء۔ کیلنڈر ایک بار پھر وہی مہینہ اور وہی تاریخ دکھا رہا ہے۔ ستمبر اور چوبیس تاریخ۔ ہر سال یہی ہوتا ہے۔ یہ تاریخ مجھے چڑانے، پریشان کرنے اور وہ سب یاد دلانے کے لئے میرے سامنے آ جاتی ہے، جسے میں بالکل بھی یاد نہیں کرنا چاہتا۔ اچھی شروعات۔ لگتا ہے جکڑے رکھے گا۔
– بیٹھا نہیں جا رہا!
– تو کھڑے ہو جائیں سر! ہا ہا ہا ہا، ہو سکتا ہے گھر بھی مجھے بار بار واپس بلانے کے لئے اشارے کرتا رہا ہو۔ میری راہ دیکھتا رہا ہو اور پھر مایوس ہو کر اس نے میرے لوٹنے کی امیدیں ہی چھوڑ دی ہوں۔۔ ۔ گھر۔۔ ۔ جو کبھی میرا نہیں رہا۔۔ صرف گھر کے احساس کے سہارے میں نے یہ چودہ برس کاٹ دیئے ہیں۔ ؟؟
– یہ کیا ہے ؟
– تھوبڑا! ؟؟
– کیا مصیبت ہے لڑکی!
– آپ کا ناول، شروعات بی بے نے کی ہے۔ برادری سے۔
اس عرصے میں کون کون پورا ہو گیا، کس کس کے کتنے کتنے بچے ہوئے، شادیاں، دو چار طلاقیں، جہیز کی وجہ سے ایک آدھ بہو کو جلانے کی خبر، کس نے نیا گھر بنایا اور کون کون محلہ چھوڑ کر چلے گئے اور گلی میں کون کون نئے بسنے آئے۔ کس کے گھر میں بہو کی شکل میں ڈائن آ گئی ہے، جس نے آتے ہی اپنے مرد کو اپنے بس میں کر لیا ہے اور ماں باپ سے الگ کر دیا ہے، یہ اور ایسی ڈھیروں خبریں بی بے کی پٹاری میں سے نکل رہی ہیں اور ہم سب مزے لے رہے ہیں۔
– میں بھی تو اپنی لڑائی کا میدان چھوڑ کر بِنا لڑے ہی ہار مان کر جا رہا ہوں۔ ایک ہی میدان سے دوسری بار پیٹھ دکھا کر بھاگ رہا ہوں۔
– پگلی ہے گڈّی بھی !! ایسے کمزور بھائی کو اپنا آدرش بنا رہی ہے، جو کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا نہیں کر سکتا اور دو بار فرار ہو کر گھر سے بھاگ چکا ہے۔
– ہم زندگی بھر غلط دروازے ہی کھٹکھٹاتے رہ جاتے ہیں اور کوئی کہیں اور بند دروازوں کے پیچھے ہمارے انتظار میں پوری عمر گزار دیتا ہے۔ اور ہمیں یا تو خبر ہی نہیں ہو پاتی یا اتنی دیر سے خبر ملتی ہے کہ اس وقت کوئی بھی چیز معنی نہیں رکھتی۔ بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
– گھر کی چاہت سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو گیا ہوں۔ اب کم از کم روز روز گھر کے لئے تڑپا تو نہیں کروں گا۔ بیشک تیری اور بی بے کی فکر لگی ہی رہے گی۔
– سر، آپ کے اس ناول کی تھیم کیا ہے۔
– اب تک آپ آدھا پڑھ چکی ہیں۔۔ سمجھ میں آ جانا چاہیے۔
– آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟
– ٹھیک ٹھاک!
– آپ کی کہانیوں میں حالات و واقعات بہت بڑا رول ادا کرتے ہیں۔ وہی بار بار آپ بتاتے ہیں۔ یہ ناول بھی اُسی سمت میں جا رہا ہے۔ یہ دیکھیں – پہلے تجھے اپنی کمزوریوں کے خلاف، اپنے غلط فیصلوں کے خلاف اور اپنے خلاف ہوئے غلط فیصلوں کے خلاف، لڑنا سیکھناہو گا۔ طے کر لے کہ نہ غلط فیصلے خود لے گی اور نہ کسی کو غلط فیصلے خود پر مسلط کرنے دے گی۔
– اوہ۔
– سر، کبھی کبھی تھراپی کی ہے اپنے درد پر دھیان لگانے کی؟
– کی تو نہیں ہے بتائیں !
– اوکے بتاتی ہوں۔ ا وشو پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، اسپر غور بھی کریں !
– کیا اس علاج میں حکم بھی شامل ہے ؟
– سنیں اور کریں چپ چاپ!
– جی!
– آپ ایک لمبی سانس لیں۔ ساکھشی بھاؤ سمجھتے ہیں۔
– کیا ہوتا ہے ؟
– درد کو کیسے دوا بنائیں۔ اپنےد رد کو دیکھیں۔ آپ کو درد ہو رہا ہے۔ آپ خود درد نہیں ہو!
– جی
-اعتماد نہیں ہوتا نہ۔ میڈٹیشن نہیں کرتے کبھی۔ کریں کبھی کبھی!
– اوہ میرا درد!
– کیا درد درد کئے جا رہے ہیں ؟ آنکھیں بند کریں۔ سارا دھیان درد پر لے آئیں !
– اوکے مہامایا!
– اب لیٹ جائیں میڈٹیشن کرتے ہوئے !
– جی!
– درد ورد کچھ نہیں ہوتا ہے !
– جب درد ہی نہیں ہوتا تو درد پر دھیان کس طرح لگائیں !
– یہی تو کرنا ہے۔ درد کو درد نہ مانتے ہوئے ایک وہم ماننا اور اس سے نجات پانی ہے !
– دیکھیں کتنا کر پاتا ہوں۔ فی الحال تو آپ سے رخصت ہی لینی ہو گی۔
– جی، آرام کریں !
٭٭٭
۲۸ جولائی ۲۰۱۵ء
۹۔۵۴ بجے صبح
– ایک اچھی خبر سنا رہی ہوں۔
– بمبئی آ رہی ہو۔
– آپ کے ساتھ تو بات کرنا گناہ ہے۔ بات میرے منہ سے نکلی نہیں ہوتی اور آپ تک پہنچ جاتی ہے۔
– کب کے ٹکٹ ہیں ؟
– سات اگست کے۔ واپسی گیارہ کی۔
– حکم دیں مہامایا، مجھے کیا کرنا ہے۔ ہوٹل، ٹیکسی، سی سائٹ، بگ بی یا خان برادران کے درشن۔ برسات میں بمبئی بہت خوبصورت ہو جاتا ہے۔
-پربھو، سب کام آپ ہی کے ذمے ہیں۔
– کتنی مخلوقات آ رہی ہیں ؟
– ہم، دو ہمارے دو، بھائی بھابھی دو، ان کے بھی دو۔
– یعنی سب کچھ ڈبل۔
– صحیح پکڑا ہے۔
– ہوٹل کے لئے کوئی خاص پسند؟
– پہلی بار سمندر والے شہر آ رہی ہوں، اس حساب سے میری کھڑکی سے سمندر مسلسل نظر آنا چاہیے۔ سمندر اور برسات کا کومبی نیشن۔
– نہ صرف نظر آئے گا، بلکہ پاؤں چومنے کے لئے بار بار بلائے گا بھی۔
– ڈن۔
– تو بکنگ کرا دوں۔ کوئی بجٹ۔
– میں آپ کا نمبر سریندر کو دے رہی ہوں۔ فلائٹ اور باقی کی ڈیٹیلز وہ بتائے گا اور ضرورت پڑی تو آن لائن پیمنٹ کر دیں گے۔
– میرے ہوتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
– جانتی ہوں۔
– وہ آپ کو مکمل ڈیٹیلز کے ساتھ فون کریں گے اور ہاں، میں آ دھا دن یا آدھی شام آپ کے لئے فری رکھوں گی اور کہیں گھومنے نہیں جاؤں گی۔ بمبئی سے کہیں باہر مت چلے جانا تب رائٹر صاحب۔
– آپ آئیں تو سہی۔
٭٭٭
۵ اگست ۲۰۱۵ء
۱۰۔۲۸ بجے صبح
– ہیلو
-۔۔ ۔
– آپ کا فون بند ہے۔ پتہ نہیں آپ آن لائن بھی ہیں یا نہیں۔ ہم پرسوں صبح گیارہ بجے تک بمبئی لینڈ کریں گے۔ جیٹ کی فلائٹ سے۔ سریندر نے سب بتا ہی دیا ہو گا۔ پہنچ کر فون کروں گی۔ لکنگ فارورڈ فار آ ونڈر فل میٹنگ وِد آ گریٹ رائٹر۔ سی یو سون۔
٭٭٭
11 اگست 2015ء
دَیو
اب کیسے ہیں دَیو۔ پتہ ہے آپ ابھی فون نہیں اٹینڈ کرپائیں گے۔ فیس بک تو کھولنے کا سوال ہی نہیں ہوتا۔ لہذا ای میل کر رہی ہوں۔ جانتی ہوں یہ ای میل بھی آپ کئی دن ہی بعد دیکھ پائیں گے۔ امید تو یہی کر رہی ہوں کہ اس سے پہلے ہی آپ سے بات بھی ہو جائے گی۔ آپ کی صحت کو لے کر بے انتہا فکر ہو رہی ہے۔ کل ہی آپ کے بیٹے سے فون پر بات ہوئی تھی اور اس نے بتایا ہے کہ آپریشن ٹھیک ہو گیا ہے اور آپ پہلے سے بہتر ہیں، لیکن ابھی تین چار دن آپ ہسپتال میں اور رہیں گے۔ وہ آپ سے بات کراتا، لیکن آپ اس وقت سو رہے تھے۔ ہو سکتا ہے اس نے آپ کو میرے فون کے بارے میں بتایا ہو۔ اس سے پہلے رنجنا جی سے بھی بات ہوئی تھی۔ انہوں نے ہی مجھے اسپائن آپریشن کے سلسلے میں ہسپتال میں ایڈمٹ ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔
گزشتہ کئی دنوں کی آپ کی با توں سے لگ ہی رہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے لیکن یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ سب اتنی جلدی ہو جائے گا۔ اور وہ بھی ایسے وقت جب میں بمبئی میں تھی اور آپ سے پہلی ملاقات طے تھی۔
دَیو، مجھے ڈھیر ساری معافیاں مانگنی ہیں آپ سے۔ ایک نہیں کئی با توں کے لئے۔ ساری باتیں کچھ اس طرح سے ہوتی چلی گئیں کہ میں چاہ کر بھی نہ تو آپ سے رابطہ کر سکی اور نہ ہی آپ سے ملنے ہسپتال آ سکی۔ مجھے پتہ نہیں تھا دَیو کہ بمبئی کا میرا پہلاوزٹ ہی اتناہلا گلا والا ہو گا اور مجھے وہاں جا کر آپ سے ملنے کا موقع ہی نہیں مل پائے گا۔
یہاں روانگی سے پہلے آپ کا فون نہیں مل پارہا تھا، تو میں نے ان باکس میں آپ کو اپنی فلائیٹ کے شیڈول کے بارے میں لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد بھی آپ کا نہ تو فون ہی لگا اور نہ ہی آپ فیس بک پر نظر آئے۔ میں مسلسل اس فکر میں بوکھلا تی رہی تھی کہ آپ سے کانٹیکٹ نہیں ہو پا رہا ہے، سب ٹھیک ہونا چاہیے اور یہ کہ بمبئی میں آپ سے کس طرح ملاقات ہو گی۔
دوسرا جھٹکا دہلی ایئر پورٹ پر لگا، جب ہمارے ساتھ بمبئی چلنے والے بھائی نے بتایا کہ اس نے اپنے جگاڑ استعمال کرتے ہوئے بمبئی یونیورسٹی میں کسی انٹرنیشنل گیسٹ ہاؤس میں ہم سب کے رہنے کا انتظام کیا ہے اور اس نے اس بارے میں سریندر کو پہلے ہی بتا دیا تھا۔ مزے کی بات آپ کی طرف سے کرائی گئی ہوٹل کی بکنگ کینسل کروا دی گئی تھی، اس کی ہوا بھی نہیں لگنے دی سریندر نے۔ آپ سے پوچھ بھی نہیں پا رہی تھی کہ یہ مہمان ہاؤس کیسا ہے اور کہاں ہے۔
یہ تو وہیں جا کر پتہ چلا کہ گیسٹ ہاؤس بیشک یونیورسٹی کے سرسبز سبز لان میں ہے اور اچھا بھی ہے۔ لیکن یہ جگہ سمندر سے کئی کلومیٹر دور تھی۔ میں گیسٹ ہاؤس دیکھتے ہی بے حد ناراض اور مایوس ہو گئی تھی۔ کمرے اتنے چھوٹے تھے کہ بچوں کی تو چھوڑیے، دو جن بھی آرام سے ڈبل بیڈ پر نہیں سما سکتے تھے۔ میں دونوں پر بہت غصہ ہوئی تھی کہ اتنے اچھے ہوٹل کی بکنگ کینسل کرا کے مرغی کے دڑبے جیسے کمرے کس کے مشورے پر بک کرائے گئے ہیں۔ میں بتا نہیں سکتی دَیو کہ بمبئی آنے کے میرے تمام جوش و خروش پر پانی پڑ گیا تھا۔ ادھر سے آپ کی فکر الگ ستائے جا رہی تھی کہ سب ٹھیک ہو۔ بار بار آپ کا فون ٹرائی کرتی رہی تھی درمیان میں۔ دوسرے دن آپ کے موبائل پر آپ کی بیوی سے بات ہو پائی تھی، تو پتہ چل پایا تھا کہ آپ ہسپتال میں داخل ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں آپ کو اسپائن آپریشن تھیٹر لے جایا جانا تھا۔
میں بے حد اداس ہو گئی تھی۔ سمندر سے پہلی ہی ملاقات میں ایسی خبر تو نہیں چاہی تھی میں نے دَیو۔ میں چاہ کر بھی آپ کو دیکھنے ہسپتال نہیں آ سکتی تھی۔ اگرچہ آپ کی بیوی نے بہت اچھی طرح سے بات کی تھی اور میرے پوچھنے پر وہ ہسپتال کا پتہ بھی بتا دیتیں۔ لیکن ہو نہیں پایا۔ سریندر سے کچھ بھی کہنا بیکار تھا۔ اس نے بھی اپنی طرف سے ایک بار بھی نہیں پوچھا کہ تمہارے دوست کہاں ہیں، جنہوں نے سارا انتظام کیا تھا۔
بمبئی وزٹ کی باقی ساری ڈیٹیلز میں نہ جا کر یہی بتانا ہے کہ اگلے دن ہی ہم جوہو کے ہی ایک ہوٹل میں شفٹ ہو گئے تھے۔ کوئی اور چارا نہیں تھا۔ گیسٹ ہاؤس کے کمرے میں ڈبل بیڈ اتنے چھوٹے تھے کہ رات بھر نہ بچے سو پائیں نہ بڑے۔ ایکسٹرابیڈکی نہ سہولت تھی اور نہ جگہ۔
بچوں کو بھی بمبئی آنا اچھا لگا۔ باقی سب کو بھی، لیکن میں تمام وقت اکھڑی اکھڑی رہی۔ آپ سے بات ہی ہو جاتی، تو کچھ تو تسلی رہتی۔
ہم آج شام ہی لوٹے ہیں اور آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کر رہی ہوں کہ آپ کو ای میل کر رہی ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ بہت دنوں تک فیس بک اور ای میل سے دور رہنے والے ہیں۔
آپ جلد صحت یاب ہوں، میں یہ دعا کرتی رہوں گی۔ میں یہ بھی امید کرتی رہوں گی کہ آپ فون کرنے کے قابل ہوتے ہی، مجھے فون کریں گے اور اپنی پرانی شرارت بھری آواز میں بتائیں گے کہ اب سب ٹھیک ہے۔ بہت سی چیزیں کرنی ہیں، لیکن دیکھو نا دَیو، یہ ای میل بھی کتنی بھاری بھرکم زبان میں لکھا گیا ہے۔ اور نہیں لکھ پا رہی۔
اپنا خیال رکھنا۔ گیٹ ویل سُون۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے پر پہلا فون مجھے کرنا۔ انتظار رہے گا۔
لو یو دَیو
چھوی۔
٭٭٭
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی،تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید