FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

برق و شرر

 

 

ظفر علی خاں

ترتیب و پیشکش: اعجاز عبید

 

 

 

 

جب سے ہم میں آنریبل اور سر پیدا ہوئے

سوئے فتنے جاگ اٹھے اور شر پیدا ہوئے

 

سرمہ چشم حسیناں بن گئی تہذیب شرق

خرمن غیرت کے گھر برق و شرر پیدا ہوئے

 

حاسدان تیرہ باطن کو جلانے کے لیے

تجھ میں اے پنجاب اقبال و ظفر پیدا ہوئے

 

 

اقبال جس کا نام ہے وردِ زبانِ خلق

نازاں ہے اس کی ذات پہ خاکِ سیالکوٹ

 

اس کا کلام زندۂ جاوید ہو گیا

ہر زمزمہ نے اس کے لگائی جگر پہ چوٹ

 

اسلامیوں کی ملک میں ہے دیارِ ہند

مانا کہ اس دیار میں کم ہیں ہمارے ووٹ

 

 

صنم خانہ میں صدیوں سے پڑا تھا قفل غزنی کا

پکار اٹھا بنارس ’’ شدھی اس تالے کی ہے کنجی ‘‘

کرم کے نام پر دھوتی سنبھالی مالوی جی نے

دھرم کے نام پر لٹھ لے کو دوڑے ڈاکٹر مونجی

برات آئی ہے شدھی کی مگر یہ کیا تماشا ہے

کہ نکٹا ہے سر لنگڑا ہے دولھا اور دلہن گنجی

 

 

    چائے پیتا ہوں تو ہو جاتا ہے ایماں تازہ

چائے نوشی میری دیرینہ روایات سے ہے

حقہ پیتا ہوں تو اڑ جاتے ہیں سکھوں کے دھوئیں

خالصہ جی کی قضا میری کرامات سے ہے

 

 

میرا گناہ یہی ہے کہ مجھ کو ہے اصرار

شہید گنج کی مسجد کی بازیابی پر

 

کسی سے جُرم یہ سرزد اگر ہو مستی میں

تو حدِّ شرع نہ جاری ہو کیوں شرابی پر

 

میری نظر میں ہیں مسجد کے منبر و محراب

جمی ہوئی نظر احرار کی ہے لابی پر

 

ہے اس زمانے میں اچھا اگر کوئی مذہب

تو ہی وہی جسے قرباں کریں رکابی پر

 

علیؓ کے بازوئےِ خیبر شکن کی مجھ کو قسم

کہ ناز مجھ کو بھی ہے اپنی بو تُرابی پر

 

فریب ہے کہ قیامت بپا ہو دنیا میں

خدائے پاک کی تعمیر کی خرابی پر

 

ہے لکھنؤ کو بھی آج اتفاق دہلی سے

میرے کلام مرصّع کی لاجوابی پر

 

 

 

ہم مسلمان ہیں ازل سے شرک ہی جن کا حریف

قادیاں کا اس میں ہیکل ہو کہ ہو لندن کا دیر

 

بو لہب کی شان ہو یا ہو غلام احمد کی آن

ملتِ بیضا کے ساتھ ان کا ہی پہلے دن سے بیر

 

ہم نے ان کے ساتھ نیکی کی انہوں نے کی بدی

اور کر سکتے تھے کیا اسلام سے برتاؤ غیر

 

تیر مونجی کا کبھی دل میں ترازو ہو گیا

اور کبھی سنگین چرچل کی گئی پہلو میں پیر

 

مشرق و مغرب کے احسان ہمارے سینے پر

اس کے بھالوں کے کچھ کے اس کی بندوقوں کے فیر

 

خواجہ دہلی کو جا کر کوئی دے میرا میام

در مقاماتِ طریقت ہر کجا کردیم سیر

 

 

 

رحمتیں کونین کی نازل ہوں نیلی پوش پر

تازہ جس نے کر دیا افسانۂ عہدِ الست

 

بزم میں غمخانۂ بطحا کا ریسا آ گیا

نشہ ٹپکاتی گئی آنکھوں میں جس کی چشم مست

 

غیب سے آزادیِ کامل کے ساماں ہو گئے

کر رہا ہے ربّ اکبر آپ اس کا بند و بست

 

لرزہ طاری ہو رہا ہے کفر کے اندام پر

دیکھ کر مومن کی صورت دم بخود ہیں بت پرست

 

وقت آن پہونچا کہ جو تھے ناتواں ہوں سر بلند

اور توانا جسقدر ہیں سب کے سب ہوں زیرِ دست

 

وقت آن پہونچا کی گھر آباد ہو اللہ کا

اور جنہوں نے اس کو ڈھایا ہوں ذلیل و خوار و پست

 

خوف غیر اللہ سے خالی ہو جب انساں کا دل

ہر گز اس کو کوئی طاقت دے نہیں سکتی شکست

 

 

 

آتا ہے یگانے کو نہ بیگانیت کو چین آج

فردوس کے اعظم ہوئے سر فضل حسین آج

 

لٹتا ہے سہاگ آج سیاست کا وطن میں

برپا نہ ہوں کیوں ہند میں شور یہ شین آج

 

پنجاب کو دیتی گئی موت اس کا یہ پیغام

سب تفرقے مٹ جائیں گے یہ فرض ہی عین آج

 

دنیا کی نگاہ سے نہ ہوا جو کبھی اوجھل

اسلام کی محفل میں ہے وہ زیب نہ زین آج

 

لاہور کی پہنائیوں سے تا بہ فلسطین

ہیں کان تو سن لے کوئی بیواؤں کے بیں آج

 

محفوظ ہے خطرہ سے نہ مکّہ نہ مدینہ

بے تاب ہے ہر زرہ خاک حرمین آج

 

اللہ سے پھر رشتہ اگر جوڑ لیں اپنا

ملتی ہے ہمیں زندگی بدر و حنین آج

 

 

 

 

جن کے بازو تھے قوی آج وہ مغلوب ہوئے

ناتوانوں نے تواناؤں کو دی آج شکست

مرتبہ ہو گیا اسلام کا دنیا میں بلند

حوصلے ہو گئے انگریز کے بنگال میں پست

ہنس رہے ہیں وہ خداوند ہی جن کا معبود

رو رہے ہیں وہ جنہیں کہتے ہیں انگریز پرست

نشہ ہو جانے کو ہی سارے حریفوں کا ہرن

کہ نکل آئے ہیں میدان میں مستانِ الست

نشہ فتح سے کلکتہ ہے سارا سرشار

ہے مسرت کا یہ عالم کہ ہیں ہشیار بھی مست

نہیں معلوم کہ پہنچیں گے مسلمان کہاں

گر لگاتے رہے چندے وہ اس طرح کی جست

کیا عجب سلطنتِ ہند بھی بخشے ان کو

جس خدا میں ہے یہ قدرت کی کرے نیست کو ہست

یہ دل افروز ترانہ ہوا جس دن موزوں

عیسوی سال کی تاریخ وہ تھی پانچ اگست

 

 

 

 

مجلسِ اتحاد ملت کو

لکھئے حبل المتین کلکتہ

 

سارے ہندوؤں کی دولت کو

کہیے ملکِ یمن کلکتہ

 

کفر ہگلی میں جا کے ڈوب گیا

دیں ہوا ہے مکینِ کلکتہ

 

اثر سجدہ ہائے پیہم سے

ہوئی روشن جبینِ کلکتہ

 

ہر طرف پھر رہے ہیں نیلی پوش

آسماں ہے زمیں کلکتہ

 

 

 

کام انگریز کو دنیا سے مجھے دین سے ہے

اس کے قانون کی ٹکر میرے آئین سے ہے

 

خون اسلام سے گلرنگ ہوا روضۂ اقدس

خبر اُڑتی ہوئی آئی یہ فلسطین سے ہے

 

سینۂ توحید کے بیٹے کا مشبک ہے اگر

تو وہ تثلیث کے فرزند کی سنگیں سے ہے

 

جس سے گلرنگ ہوا مسجدِ لاہور کا صحن

نسبت اس خون کو میری ہی شرائین سے ہے

 

کب دبا سکتی ہے اس نعرہ کو توپوں کہ گرج

جو بلند آج مراکش سے تو کل چین سے ہے

 

قادیاں مردہ ہے اور زندہ جاوید ہوں میں

عشق قرآں سے مجھے اس کو تراہین سے ہے

 

خوف مونجی کو نہیں آج ہمارے لٹھ کا

اس کو ڈر ہے تو پٹھانوں کی قرابیں سے ہے

 

ہے طبیعی یہ وہ ڈر جس سے نہین کوئی مضر

یہ وہ خطرہ ہے جو کنجشک کو شاہین سے ہے

 

کانگریس میں بھی ہیں کچھ مرد مگر حق ہے یہی

گرم ہنگامۂ ہند اس کی خواتین سے ہے

 

کیوں ہم آغوشِ اجابت نہ دُعا ہو میری

جا ملی عرش پہ جبریل کی آمین سے ہے

 

چمنستان معانی میں اگر ہے رونق

تو وہ میرے ہی دل افروز مضامین سے ہے

 

چودھویں رات کا چاند آپ ہے ساماں اپنا

مطلب اس کو نہ پرن سے ہے نہ پروین سے ہے

 

 

 

درخشاں مغرب و مشرق میں ہے سارا نظام اپنا

ادھر مہر منیر اپنا ادھر ماہِ تمام اپنا

 

شراب خانہ ساز آنی ہے بطحا کے خمستاں سے

سیہ مستو، مبارک ہو کہ گردش میں ہے جام اپنا

 

رسولؐ اللہ کی عزت پہ ہم مٹنے والے ہیں

زمیں سے عرشِ اعظم تک اچھلنے کو ہے نام اپنا

 

ہمارا سر نہیں جھکتا ہے غیر اللہ کے آگے

جھکانا قیصر و کسریٰ کی گردن کو ہے کام اپنا

 

محمدؐ کی غلامی کا کمر سے باندھا کر پٹکا

بنا لیں گے کبھی انگریز کو بھی ہم غلام اپنا

 

بڑا اور چھوٹا کون ہے دیکھیں گے خود ہندو

اگر اللہ کو ہم لائیں اور وہ لائیں رام اپنا

 

زباں اپنی ہے اردو جو زباں ہندوستاں کی ہے

اسی بولی میں ہم دیتے ہیں گاندھی کو پیام اپنا

 

 

 

    تیری محفل میں دو عالم کو ہے سیری ساقی

تشنہ کامی میری توہین ہے تیری ساقی

 

محتسب کا اسے ڈر ہو جسے وہ دیکھ بھی لے

خم کا منہ کھول کہ ہے رات اندھیری ساقی

 

مے پلانی ہے تو لا خمکدۂ بطحا سے

ورنہ تسکین نہ ہو گی کبھی میری ساقی

 

ہند کی خاک سے اُٹھ کر میں قدم لوں اس کے

آئے یثرب سے جو کرتا ہوا پھیری ساقی

 

مصلحت سوزیوں کی فوج کی یلغار ہے آج

جس نے بستی تیری ہر سمت سے گھیری ساقی

 

 

 

 

شہید گنج کی مسجد پکارتی ہے تمہیں

دبے ہوؤ، وہ خود اٹھ کر ابھارتی ہے تمہیں

 

جو بال سے بھی ہے باریک دشنہ سے بھی ہے تیز

وہ اس صراط کے پل سے گزارتی ہے تمہیں

 

وہ اس جہاز سے جو گھر گیا طوفاں میں

کنارہ پر بسلامت اتارتی ہے تمہیں

 

وہ آپ اجڑتی ہے لیکن تمہیں بساتی ہے

وہ خود بگڑتی ہے لیکن سنوارتی ہے تمہیں

 

لگا کے غازہ حسنِ حیات لم یزلی

نکھر چکی ہے وہ اب نکھارتی ہے تمہیں

 

جو چاہتے ہو کہ آباد ہو تو اس کو بچاؤ

شہید گنج کی مسجد پُکارتی ہے تمہیں

 

 

 

 

قادیاں پہلے تو پاپا کا بڑا بھائی بنا

پھر وہ انگریزوں کے گھر کا معتبر نائی بنا

 

مہبی صرافہ میں نرخ اس کا گرتا ہی گیا

پیسہ سے دھیلا ہوا اور دھیلے سے پائی بنا

 

دیکھ لو جا کر بہشتی مقبرے والوں کا حال

کوئی بھتنا ہو گیا کوئی پچھلپائی بنا

 

شرک کے پچکے ہوئے گالوں کا پوڈر ہو گیا

کفر کی اکڑی ہوئی گردن کی نکٹائی بنا

 

اک نیا کزّب پیدا ہوا پنجاب میں

قادیاں اس طفل ناہموار کی دائی بنا

 

اپنا اپنا ہے مقدر اپنا اپنا ہے نصیب

ہو گیا کوئی مسلماں کوئی مرزائی بنا

 

 

 

پہنچتا ہے جہاں مسلم بناتا ہے وہیں مسجد

ہے اس اللہ والے کے لئے ساری زمیں مسجد

 

بوقتِ فجر اگر ہے بام اطلس سجدہ گاہ اس کی

تو بنتا ہے عشاء کو سایہ دیوارِ چیں مسجد

 

عبادت گاہ مومن کی زمیں سے آسماں تک ہے

کبھی فرشِ زمین مسجد کبھی عرشِ بریں مسجد

 

بتاتی ابیض و اصغر کو ہے آدابِ دنیا کے

سکھاتی اسود و احمر کو ہے ارکان دیں مسجد

 

اچھالا جذبۂ توحید نے عالم میں نام اپنا

ابھارا جس نے اس جذبہ کو ہے وہ بال یقیں مسجد

 

ہم اسکے زرہ زرہ پر نچھاور جاں کر دیں گے

کہ ہے وابستہ ناموسِ ختمِ المرسلین مسجد

 

پرائے مال کو ہتھیا رہا ہے دستِ شوق ان کا

انہیں کہہ دو کہ اللہ کی ملک میں مسجد

 

لگا لے زور کفر اپنا بت اس میں چھپ نہیں سکتے

کہ ہے پیراہن دین مبین کی آستیں مسجد

 

محافظ ربّ کعبہ آپ ہو گا اپنی پونچی کا

کہ ہے سرمایہ تہذیب کی بطحا کی امیں مسجد

 

خدا کو چھوڑ کر رکھا ہے اس کو بت کی چوکھٹ پر

نہ ہو کیوں مالوی جی کی جبین پر نکتہ چیں مسجد

 

کوئی کنٹربری کے پادری سے بر ملا کہہ دے

ہے تثلیث آفریں گرجا ہے توحید آفریں مسجد

 

حیاتِ جاوداں بخشی ہے پیغمبر نے امت کو

سناتی ہے یہی پیغام رب العالمیں مسجد

 

جہاں اس وقت خاک اڑتی نظر آتی ہے سکھوں کو

وہاں مسجد بنے گی اور وہ بھی مرمریں مسجد

 

یہی ہے فیصلہ لاہور کے گنجِ شہیداں کا

کبھی انگریز کے قبضہ میں رہ سکتی نہیں مسجد

 

 

 

وہ دن آنے کو ہے جب آزاد ہندوستاں ہو گا

مبارک باد اس کو دے رہا سارا جہاں ہو گا

 

علم لہرا رہا ہو گا ہمارا رائے سینا پر

اور اونچا سب نشانوں سے ہمارا یہ نشاں ہو گا

 

زمیں والوں کے سر خم اس کے آگے ہو رہے ہوں گے

سلامی دے رہا جھک جھک کے اس کو آسماں ہو گا

 

برہمن مندروں میں اپنی پوجا کر رہے ہوں گے

مسلماں دے رہا اپنی مساجد میں اذاں ہو گا

 

جنہیں دو وقت کی روٹی میسر اب نہیں ہوتی

بچھا ان کے لئے دنیا کی ہر نعمت کا خواں ہو گا

 

من و تن کے یہ جتنے خرشے ہیں مٹ چکے ہوں گے

نصیب اس وقت ہندو اور مسلمان کا جواں ہو گا

 

توانا جب خدا کے فضل سے ہم نا تواں ہوں گے

غرور اس وقت انگریزی حکومت کا کہاں ہو گا

 

 

 

اگر منہ زور ہے باطل کا گھوڑا

تو میرے پاس بھی ہے حق کا گھوڑا

 

چلی پنجاب میں جب دیں کی گاڑی

تو اٹکا قادیانیت کا روڑا

 

کیا مرزا نے بد نام انبیاء کو

محمد مصطفےٰؐ تک کو نہ چھوڑا

 

دئے اسلام کو چرکے جنہوں نے

انہیں سے اس نے اپنا رشتہ جوڑا

 

نبوت لنگڑی اور اندھی خدائی

ملا ہے خوب ان دونوں کا جوڑا

 

یہی اس کی نبوت کی ہے پہچان

کہ مر کر بھی نہ منہ لندن سے موڑ

 

پکڑ فولاد سے بھی ہے میری سخت

مرا سینہ ہے چکلا اور چوڑا

 

غلام احمد میرا لوہا گیا مان

اٹھایا میں نے جب دیں کا ہتھوڑا

 

ہر اک میداں سے بھاگے قادیانی

کہ ان کا پیشوا بھی تھا بھگوڑا

 

بشیر الدین کا ٹٹو تھا مریل

لگے چابک نہ لیکن پھر بھی دوڑا

 

چڑھی گھی کی کڑھائی قادیاں میں

کنھیا نے تلا اپنا پکوڑا

 

 

 

 

جس دن شہید گنج کی مسجد ہوئی شہید

اسلامیوں کے سر پہ قیامت گزر گئی

 

اپنوں کا اک گروہ پرایوں سے جا ملا

بازی جو ہم نے جیت لی تھی وہ دہر گئی

 

اسلام کی حریف کی سنگین کی انی

سینے میں پیرتی ہوئی دل تک ا تر گئی

 

مومن سے پوچھتا ہے یہ کافر براہِ طنز

تیری ہزار سالہ حمیّت کدھر گئی

 

 

 

 

 

میں صحائف کی اوراق بھی کیا کرتا ہوں

یہ خسارہ کی تجارت بھی کیا کرتا ہوں

 

سر کٹاتا ہوں میں ناموسِ مساجد کے لئے

آبِ خنجر سے طہارت بھی کیا کرتا ہوں

 

قادیاں لرزہ بر اندام میرے نام سے ہے

کہ میں ویراں یہ عمارت بھی کیا کرتا ہوں

 

صوفیوں پر جو ہوں نقلی میں برس پڑتا ہوں

بھول کر میں یہ جسارت بھی کیا کرتا ہوں

 

یاد عالم کو دلاتا ہوں فرائض اس کے

آئے دن میں یہ شرارت بھی کیا کرتا ہوں

 

ہاتھ کرتا ہوں اگر صاف میں اپنے اوپر

خوانِ انگیز کو غارت بھی کیا کرتا ہوں

 

کیا تعجب ہے کہ احرار بھی گرما جائیں

کہ میں پیدا یہ حرارت بھی کیا کرتا ہوں

 

ہندوؤں کو میں ملاتا ہوں مسلمانوں سے

کانگریس کی میں سفارت بھی کیا کرتا ہوں

 

 

 

 

عمل کی جان ہیں اور علم روح

جناب حضرتِ علامہ رشد

 

جسے بخشی گئی منقار بلبل

اسے کہتا ہے مشرقِ خامۂ رشد

 

بلائیں آ کے لیں قدسیوں نے

کیا زیب بدن جب جامۂ رشد

 

ہدایت کی ضرورت تھی زمیں کو

جب اترا آسمان سے نامۂ رشد

 

صدا حسنت کی آئی فلک سے

ہوا جس وقت پورا جامۂ رشد

 

 

 

رسول اللہ کی عزت کا لہراتا ہوا پرچم

میں کلکتہ سے رنگون اور وہاں سے مانڈلے پہنچا

 

میں آ پہنچا کہ چھڑکوں قادیاں کے زخم پر مرچیں

مسلمانوں کا منہ بھرنے کو گھی اور کھانڈ لے پہنچا

 

نئی تہذیب کا بہروپیا نکلا جو روما

تو اپنی ذات کے کچھ بھڑوے اور کچھ بھانڈ لے پہنچا

 

ہزاروں آشنا کشتے ہیں جس شکل کے غمزوں کے

ہمارے گھر بھی مغرب وہ نپوتی رانڈ لے پہنچا

 

گؤ ماتا کی آنکھیں لگ رہی تھیں جس پہ مدت سے

چلا لندن سے لنتھ گاؤ اور سانڈ لے پہنچا

 

 

 

وہ انجمن ہے جس کا نام اتحادِ ملت

شکرِ خدا کہ اس پر ہے اعتمادِ ملت

 

آزادیِ  مسجد آزادی وطن ہے

ہے عالم آشکار یہ اعتقادِ ملت

 

اس فیصلہ کے آگے کیوں سب کے سر خم نہ ہوں

قرآں کی روشنی میں ہو جس پہ صادِ ملت

 

اے ربِّ کعبہ تیرا گھر آج اجڑ رہا ہے

اجڑا یہ گھر بسا کر بر لا مرادِ ملّت

 

چھلنی ہیں گولیوں سے اسلامیوں کے سینے

پہنچا ہے آسماں تک شور نہادِ ملّت

 

سن لیں یہ سننے والے مسجد نہ ملی جب تک

اس وقت تک رہے گا جاری جہادِ ملّت

 

مسجد کی بازیابی ہے اصل کامیابی

جب سر مہم یہ ہو گی ہم لین گے دادِ ملّت

 

ملّت کے تفرقوں کا آساں ہے مٹانا

لیکن ہیں قادیانی وجہ فسادِ ملت

 

ملت اگر سمجھ لے میں کون ہوں تو اب بھی

دونوں جہاں کی دولت ہے خانہ زادِ ملّت

 

 

 

جو رونق عرب کو ہوئی شانِ احمدؐ

تو زینت عجم کی ہوئی آنِ احمدؐ

 

خدا کی محبت کی گہرائیوں نے

قسم جس کی کھائی وہ ہے جان احمدؐ

 

فرشتے یہ کل عرش پر کہہ رہے تھے

کہ کسریٰ و قیصر ہیں دربانِ احمدؐ

 

نہ دیکھی ہو تصویر رحمت کی جس نے

وہ دیکھے سراپائے رخشانِ احمدؐ

 

ہوئے ریزہ چیں گبور ترسا بھی اس سے

وسیع اس قدر ہو گیا خوانِ احمدؐ

 

ارسطو کی حکمت ہے یثرب کی لونڈی

فلاطوں ہے طفلِ و بستانِ احمدؐ

 

بنا ماہ نو جھک کے نعل اس کے سُم کی

بڑھا جب سوئے بدر کرانِ احمدؐ

 

یہ قصہ نہ ہو ختم شامِ ابد تک

گِنانے پر آؤں جو احسانِ احمدؐ

 

یہاں جنس توحید کی بیچتے ہیں

چمکتی اسی سے ہے دُکانِ احمدؐ

 

ہوئی ظلمتِ کفر کا فور جب سے

ہے روشن چراغِ شبستانِ احمدؐ

 

مجھے دین و دنیا کی دولت ملی ہے

کہ ہے میرے ہاتھوں میں دامانِ احمدؐ

 

میری مدح کرتی ہے ساری خدائی

ہوا ہوں میں جب سے ثناء خوانِ احمدؐ

 

ترانے میرے عرش پر گونجتے ہیں

میں ہوں عندلیبِ گلستانِ احمدؐ

 

یہود اور نصارا کو رہنے نہ دیں گے

عرب میں کبھی جاں نثارانِ احمدؐ

 

نکالیں گے چن چن کے ان کو یہاں سے

کہ پہنچا ہے ہم کو یہ فرمانِ احمدؐ

 

ہے الٹی عجب کھوپڑی قادیاں کی

نبی بن گئے ہیں غلامانِ احمدؐ

 

اُڑائیں گے پرزے براہیں کے ہم

کہ برہان قاطع ہے برہانِ احمدؐ

 

مبارک ہو رندانِ ہندوستاں کو

کہ پھر جوش میں ہے خمستانِ احمدؐ

 

 

 

 

نبوت مجھے بخشی انگریز نے

یہ پودا اسی کا ہے خود کاشتہ

 

پلومر کی بھٹی سلامت رہے

ہے جس کی صبوحی میرا ناشتہ

 

کنہیا بھی ہوں اور مہدی بھی ہوں

ہے دونوں کی عزت میری داشتہ

 

دکھائے نہ توحید آنکھیں مجھے

کہ تثلیث ہے پرچم افراشتہ

 

یہ ہے ٹیچی ٹیچی کی بروقت ٹچ

جو ہے میری تھیلی ذرا نپا شتہ

 

 

 

طریقِ عدل اس انگریزی حکومت کے بھی نیارے ہیں

ہوئی ہیں مسجدیں ویراں سلامت گردوارے ہیں

 

خدا ثابت قدم رکھے ہمیں اس آزمائش میں

ادھر ہیں گولیاں ان کی ادھر سینے ہمارے ہیں

 

نئی تہذیب کی مشعل کے گل ہونے کا وقت آیا

زمیں پر ٹوٹ کر گرنے کو گردوں کے ستارے ہیں

 

تباہی آئے گی یورپ کے جنگی دیوتاؤں پر

فرشتے کر رہے کچھ دن سے آپس میں اشارے ہیں

 

نہ پھیر ان سے خدایا گوشۂ چشمِ کرم اپنا

مسلماں جی رہے تیری ہی رحمت کے سہارے ہیں

 

خدا منہ چوم لیتا ہے محبت سے شہیدوں کا

وہی اللہ کا پیارا ہے جس کے کام پیارے ہیں

 

کسی دن مل ہی جائیگی ہمیں آزادیِ کامل

بہت دن ہم نے غیروں کی غلامی میں گزارے ہیں

 

 

 

رائگاں جا نہیں سکتا کبھی خونِ شہدا

رنگ لائے گا فلسطیں کے مسلمانوں کا خون

 

آپ کہتے ہیں لہو ہے یہ گنہگاروں کا

ہم اسے سمجھے ہیں بالفور کے اعلان کا خون

 

خوں نہتوں کا بہا لیتے ہیں بے شک انگریز

جب میں جانوں کہ کریں اٹلی و جاپان کا خون

 

دل و دیں چھین لیا شرم و حیا بھی چھینی

ان کی گردن پہ ہے سارے سر و ساماں کا خون

 

نظر آتا ہے ہمیں دامن برطانیہ پر

کہیں افغان کا خوں اور کہیں ایران کا خون

 

وقت آیا ہے کہ گلرنگ ہو موج اردن

اسے مل جانے کو ہے نجد کے اخوان کا خون

 

مارشل لاء کی ہر اک دفعہ پُکار اٹھے گی

کہ ہوا آپ کی تہذیب کے ارکان کا خون

 

وقت سے پہلے کہیں حشر نہ برپا ہو جائے

نہیں آسان بہانا عربستان کا خون

 

کہہ دے جا کر کوئی مغرب کے جہانبازوں سے

آج بھی گرم ہے بطحا کے شُتر بانوں کا خون

 

کرم آباد کی مسجد سے ندا آتی ہے

کہ ہوا مجلس احرار کے ارمان کا خون

 

داد کیا دیں گے میری نظم کی پرتاپ و ملاپ

جو کیا کرتے ہیں ہر نظم میں اوزان کا خون

 

 

جب ہوئی لاہور کی مسجد شہید

مچ گیا شور قیامت کو بکو

 

بھاؤ پانی سے بھی سستا ہو گیا

بہہ گیا اتنا مسلمانوں کا لہو

 

پھر یہ گھر اُجڑا ہو آباد ہو

ہے یہ ہر مومن کے دل کی آرزو

 

سر کے بل جا کر پڑھیں اس میں نماز

آبِ خنجر سے کریں اس میں وضو

 

نعرۂ اللہ اکبر ہو بلند

اور زبانوں پر ہو وردِ جاہدو

 

مال ہی قربان کرو اس راہ میں

جان دینے کی نہیں گر آرزو

 

سن لو جبرائیل میں کا یہ پیغام

لَنْ تَنَا لُو الْبِرَّ حَتّیٰ تُنْفِقُوْا

 

ہو گئے ہندوستاں میں ہم ذلیل

آبرو رکھ لے مسلمانوں کی تو

 

 

 

مری آنکھوں کو منظور آج مشقِ خونچکانی ہے

جگر تابہ مژگاں مجھ کو رود سرخ لانی ہے

 

کبھی موسم بھی آ ہی جائے گا پرہیزگاری کا

شراب تیز لا ساقی کہ ہنگام جوانی ہے

 

روایت سلف کو زندہ رکھنا اس زمانہ میں

نشانِ کامگاری ہے دلیل کامرانی ہے

 

علیؓ کے بازوئے زور آزما کی ہے قسم مجھ کو

کہ پنہاں سایۂ شمشیر میں صاحبقرانی ہے

 

محمدؐ کی غلامی کا شرف جس کو ہوا حاصل

سکندر کا وہ ہمتا ہے سلیماں ؑ کا وہ ثانی ہے

 

ہزاروں مستیاں مستیاں پیدا ہیں بطحا کے خمستاں سے

نہ ہو کیوں یہ شراب اچھی کہ صدیوں کی پرانی ہے

 

وہ خوں لاہور کی گلیوں کو کلگُوں کر دیا جس نے

مرے مضمون کا عنوان اسی سے ارغوانی ہے

 

کروں گا انقلاب اس ملک میں اک روز میں برپا

کہ نیلی پوش ہوں میں اور مرا رنگ آسمانی ہے

 

ہمیں اک روز ہوں گے جلوہ گر اس کے سنگھاسن پر

کہ صدہا سال سے دہلی ہماری راجدھانی ہے

 

کٹایا جس نے راہِ حق میں سر جنت میں جا پہنچا

بشارت یہ سنی میں نے بزرگوں کی زبانی ہے

 

میں دیتا جاؤں گا یہ مشورہ رنگوں والوں کو

کہ برما میں بساط ان کو اخوت کی بچھانی ہے

 

مبّرا ہے کلام اوروں کے اسقام سے میرا

مرے اشعار کی آمد میں دریا کی روانی ہے

 

جنہیں سمجھے ہو گا نہ ٹھیس بس کی وہ امرت کی بوندیں ہیں

انہیں کے فیض سے قائم وطن کی زندگانی ہے

 

قسم راون بھی کھاتا آج جن کی پاکبازی کی

انہیں ستونیتوں سے بھائی جی کو بدگمانی ہے

 

معانی کانگریس کی دیویوں سے مانگ لی آخر

بڑی ہی بھائی پر مانند جی کی مہربانی ہے

 

الجھنا عورتوں سے اور دنیا گالیاں ان کو

یہ ہر ہندو سبھائی کا سلیقہ خاندانی ہے

 

چڑایا منہ جنہوں نے اوبدا کر صنفِ نازک کا

اب ان کو خیر اپنے کاسہ سر کی منانی ہے

 

جلال اس وقت ہے ان دیویوں کا دید کے قابل

کوئی ہے کالکا ان میں کوئی ان میں بھوانی ہے

 

ادب سے ہاتھ جوڑے گڑگڑا کر ناک بھی رگڑی

معانی بھائی پر مانند جی کی انڈمانی ہے

 

 

 

ہندوستان میں آئے جب اسلام کے قدم

اک آن میں اکھڑ گئے اصنام کے قدم

 

چلتے اسی پہ کاش دیانند کے بھگت

جو نقش چھوڑتے گئے ہیں رام کے قدم

 

شیخ اور برہمن کے نشانات مٹ گئے

اس سر زمین میں جب سے جمے ٹام کے قدم

 

ہیں خانۂ خدا میں بھی پہرے لگے ہوئے

رکھے گا مسجدوں میں ذرا تھام کے قدم

 

نصرانیوں نے تھامی اتا ترک کی رکاب

چومے ہیں آ کے کعبہ کے خدام کے قدم

 

وہ نہیں ہیں دور کہ لیں گے بصد ادب

اٹلی و جرمنی بھی بنی سام کے قدم

 

ہر معرکہ میں جن کو عرب نے کیا ذلیل

بڑھنے لگے اسی میں ان اقوام کے قدم

 

جھوٹی پیمبری نے سہارا دیا جنہیں

کیوں لڑکھڑا نہ جائیں ان اوہام کے قدم

 

فتنے نئے نئے ہوئے پیدا جہاں گئے

پنجاب کے بنئیے بد انجام کے قدم

 

 

 

 

    حاشا کہ اس قدر نہیں سارے جہاں کی لوٹ

جتنی ہے ایک سال میں ہندوستاں کی لوٹ

 

گلچین کے دستِ شوخ کی گیراؤں کو دیکھ

سنبل کی لوٹ لالہ کی لوٹ ارغواں کی لوٹ

 

اجڑے ہوئے چمن میں ہے بلبل کا آشیان

منظور انہیں ہے شاید اب اس آشیاں کی لوٹ

 

مغرب کے رہزنوں کی نظر میں ہے رات دن

مشرق کے نقد امن و متاع اماں کی لوٹ

 

لندن سے جو بچا تھا وہ شملہ میں لُٹ گیا

اور اس پہ مستزاد ہوئی قادیاں کی لوٹ

 

 

اگر آزادیِ کامل میرا پیدائشی حق ہے

تو کونسل میں گرجنا آپ کا آرائشی حق ہے

 

رگڑنا ناک انگریزوں کی چوکھٹ پر ہے فرض ان کا

لگانا قہقہے اس پر میرا فرمائشی حق ہے

 

مبارک ضبطِ تولید آپ کو اور آپ جیسوں کو

بڑھانا نسل آدم کی میرا افزائشی حق ہے

 

بنانا عورتوں کی وضع شامل ہو کے مردوں میں

کسی سے چھین نہیں سکتا یہ وہ زیبائشی حق ہے

 

لپٹ جانا کسی سے جو عریانی کی پتلی ہو

نئی تہذیب کا بخشا ہوا آلائشی حق ہے

 

حق اپنی وضع کا ہے جھونپڑوں میں دن بسر کرنا

تو رہنا اونچے محلوں میں بھی ایک آسائشی حق ہے

 

زمین کو ناپتے پھرنا کہ یہ آخر ہماری ہے

ازل سے دیو استعمار کا پیمائشی حق ہے

 

محبانِ وطن کو قید اور پھانسی سے دھمکانا

ملوکیت پرست انگریز کا فہمائشی حق ہے

 

 

کفر کی رخشندہ بستی میں اندھیرا کر دیا

تین سو تیرہ نے اس کو تین تیرہ کر دیا

 

میں شُترباں تھا جہانباں کر دیا اسلام نے

مرتبہ اس نے بلند اس درجہ میرا کر دیا

 

مانگتا میں اس سے بڑھ کر اور کیا تجھ سے مراد

تیری رحمت نے خدایا مجھ کو تیرا کر دیا

 

اپنے بندوں کو سنایا مژدۂ لا تفنطوا

تو نے آباد ان سیہ بختوں کا ڈیرہ کر دیا

 

سیکھ لے مجھ سے کوئی آنکھوں میں راتیں کاٹنا

میری آنکھوں نے اندھیرے کو سویرا کر دیا

 

دی کسی کو حق نے ذلّت اور بنایا مالوی

بخش کر عزت کسی کو ڈی دلیرا کر دیا

 

اندلس میں جا ہی پہنچے پھر مراکش کے جواں

قصرالحمرا پہ نصب اپنا پھریرا کر دیا

 

میرزا جی کا خدا بھی خوب ہے جس نے انہیں

پہلے پیغمبر بنایا پھر لُٹیرا کر دیا

 

 

 

میں نے مانا کہ میرا پیشی خطا کوشی ہے

میرے اللہ کا شیوہ تو خطا پوشی ہے

 

میرے گھر دولت کونین خود آئی چل کر

میں ہوں اور اس کی تمنائے ہم آغوشی ہے

 

مصلحت سے نہ کبھی جس کو سروکار ہوا

وہ فقط میری جہاں سوز بلا نوشی ہے

 

بزم میں رند جو ہیں مست تو ساقی بھی مست

جس طرف دیکھئے مدہوشی ہی مدہوشی ہے

 

جس سے ہو جانے کو ہے شورِ قیامت برپا

کشورِ ہند کے مظلوم کی خاموشی ہے

 

 

برسات میں برما کی دل آویز فضا دیکھ

کشمیر کے بعد آ کے یہاں شانِ خدا دیکھ

 

سورج کا پتہ پوچھتی پھرتی ہے خدائی

بادل کو اس انداز سے گردوں پہ گِھرا دیکھ

 

ہر قطرۂ باراں پہ جو ٹپکا ہے زمیں پر

اللہ کی مخلوق کا سامانِ بقا دیکھ

 

تیری نگہ شوق پہنچتی ہے جہاں تک

ہر خطہ میں ایک منظر اندوہ ربا دیکھ

 

گنبد بھی طلائی ہے کلس بھی ہے طلائی

گوتم کا انوکھا یہ طلاکار پھیا دیکھ

 

آئی ہے دبے پاؤں صبا اس کو جگانے

انگڑائیاں لیتے ہوئے سبزہ کی ادا دیکھ

 

رنگون کی جھیلوں کے کنارے پہ چلا جا

اور نور کے سانچوں میں حسینوں کو ڈھلا دیکھ

 

جوڑے کی گل انداز گندھاوٹ پہ نظر ڈال

اور غازۂ رخسار میں صندل کو ملا دیکھ

 

بیٹھی ہوئی رنگون کی مالن ہے سرِ راہ

ہر رنگ کے پھولوں سے سبد اس کا بھرا دیکھ

 

لب ہائے حقیقی پہ نہیں پان کی سرخی

اس رنگ میں تو شوخیِ خونِ شہدا دیکھ

 

سینہ جو برہنہ ہے تو رانیں بھی ہی عریاں

پھر کر نئی تہذیب کا اندازِ حیا دیکھ

 

بجلی کی طرح گر تجھے ہنسنے کی ہے خواہش

یکجا گل و بلبل کو کسی باغ میں جا دیکھ

 

رونے کی تمنا ہے گر ابر کی مانند

گھر جا کے مسلماں کو مسلماں سے جدا دیکھ

 

دلگیر نہ ہو اس قدر اے زادۂ توحید

اٹھتی ہوئی یثرب کی بھی گھنگھور گھٹا دیکھ

 

اٹھتی جو عرب سے ہے تو برسی ہے عجم پر

ہوتا ہے کوئی دم میں تیرا کھیت ہرا دیکھ

 

ایمان کے پٹکے سے عزیمت کی کمر باندھ

کرتا ہے پھر اللہ تیرے واسطے کیا دیکھ

 

 

 

 

    تقاضا ہے مغرب کی تقلید کا

کہ ہو خبط انہیں ضبطِ تولید کا

 

جب اس سر پھرے کی ہوئی جستجو

تو نکلا وہ فرزند توحید کا

 

اشارہ ہو تہذیب نو کا اگر

کریں عزم قرآں کی تردید کا

 

شریعت کی تضحیک کرنے لگے

ہوا حوصلہ دین کی تجدید کا

 

کلوا واشربو آج عنوان ہے

کتابِ تمدّن کی تمہید کا

 

ہے منظور کعبہ کی تہذیب انہیں

تو ہے سودا مجھے اس کی تحمید کا

 

بھروسہ مسلماں کو ہے اگر

تو ہے ربِّ اکبر کی تائید کا

 

انہیں دے چکا ہوں میں مسہل بہت

فقط رہ گیا کام تبرید کا

 

ہوئی جن کی سو بار مٹی خراب

کسے اعتبار ان مواعید کا

 

 

فلسطین آزاد ہوگا ضرور

نہیں بند دروازہ امید کا

 

مرے دل میں ہے ربِّ اکبر کا خوف

نہیں ڈر مجھے ان کی تردید کا

 

برا اس سے کوئی منایا کرے

یہی رنگ ہے میری تنقید کا

 

 

 

 

میری طبع رسا فرمائشیں پوری کرے کتنی

نہ لینے دے گی مجھ کا چین میری نکتہ ایجادی

 

نئی فرمائش اب سہرے کی بھیجی ہے مصّور نے

کہ اسمعیل کی شادی ہے اور دھوم کی شادی

 

تقاضا جب ہوا چاروں طرف سے اہلِ محفل کا

یہ چند اشعار کہہ کر میں نے محفل ساری گرما دی

 

جوان سال و جواں بخت دولت جو ہے نوشہ

عروس اس کی ہے اقلیم جمالستان کی شہزادی

 

مبارک باد اس تقریب پر دی اس کو یاروں نے

ہے زیب خانہ اسلام اس کی خانہ آبادی

 

شریک اس تہنیت میں تو ہو سکتا میں بھی ہوں لیکن

مجھے ڈر ہے کہ ہونے ہی کو ہے سلب اس کی آزادی

 

نہ پائیں گے گزرنے دیکھ لینا دس مہینے بھی

نیا ہو جائے گا پیدا اک انگریزوں کا فریادی

 

 

 

 

اپنے اسلاف کا لینا ہے اگر نام مجھے

جس سے تھا کام انہیں کرنا ہے وہی کام مجھے

 

خدمت خلق اطاعت کا حقیقی مفہوم

یہی سمجھائی گئی غایت اسلام مجھے

 

جان ناموس محمدؐ پہ تصدیق ہو میری

بخشتا ہے تو خدا بخشے یہ انعام مجھے

 

مرحمت مجھ کو ہوئی لذتِ آزار کی حرص

دے نہ راحت طلبی کا کوئی الزام مجھے

 

سرفروشی ہے میرا پیشہ مجاہد ہوں میں

دلق و سجادہ و تسبیح سے کیا کام مجھے

 

جاگنے والی ہے تقدیر مسلمانوں کی

عالمِ قدس سے پہنچا ہے یہ پیغام مجھے

 

آج کے خاک نشین ہوں گے کل افلاک نشیں

دے رہی ہے یہ سبق گردشِ ایام مجھے

 

ساتھ توحید کے فرزند نہ دیں گے جس کا

نظر آتا ہے بد اس قوم کا انجام مجھے

 

تو موحد ہے تو اغیار کا پھر کیوں ہے دبیل

طعنہ سچ دیتے ہیں رنگون کے اصنام مجھے

 

دے سکتا ہوں میں اس طعنہ کا ہر بت کو جواب

گر بتا دیں علما شرع کے احکام مجھے

 

ہو گئی مجلسِ احرار یہاں بھی قائم

نظر آتا ہے نیا دانہ دامِ مجھے

 

 

 

 

    سنتا ہوں کہ سرحد ہوئی پھر نعل ور آتش

توحید کے جانباز جگر بند پھر اٹھے

 

بے تاب ہوئے سن کے فلسطین کی فریاد

ہر گوشہ سے اسلام کے فرزند پھر اٹھے

 

خیبر شکنی مشغلہ صدیوں سے ہے جن کا

مرحب کی تواضع کو وہ مہمند پھر اٹھے

 

باندھے ہوئے تیغ و کفن آن پہنچے مجاہد

کرتے ہوئے مولا کو رضامند پھر اٹھے

 

پیراہن اسلام میں خیاط عرب کے

دولت کا لگاتے ہوئے پیوند پھر اٹھے

 

کابل کی حکومت سے الجھنے کا ہے سودا

لے کر یہ جنوں لالۂ خورسند پھر اٹھے

 

دل چھین لیا جس نے خدائی کا الٰہی

وہ ولولہ ہوتا ہوا وہ چند پھر اٹھے

 

جس گرز کی اک ضرب سے لبریز ہوا چور

وہ گزر بتائید خداوند پھر اٹھے

 

عثمان کا لیتا ہوا نام انقرہ اٹھا

تیمور کی خاطر بھی سمر قند پھر اٹھے

 

 

 

 

کون ناموسِ دین ہے جن کو جاں سے بھی عزیز

عالمانِ دیں پکارے سورتی دریاؤں کے

 

مسجد لاہور کی عزت یقیناً ہو بحال

گر معاون ہوں ہمارے سورتی دریاؤں کے

 

بسکہ مال اپنا کیا اللہ کے رستے میں صرف

کوئی بھی بازی نہ ہارے سورتی دریاؤں کے

 

مسجدیں ان کی ہیں تصویرِ جمالِ مصطفےٰؐ

ربِّ اکبر کے ہیں پیارے سورتی دریاؤں کے

 

کامیابی دین و دنیا کی میسر ہو انہیں

گر سمجھ لین یہ اشارے سورتی دریاؤں کے

 

 

 

سیّد ہو یا پٹھان ہو مرزا ہو یا بلوچ

دیں سے بھی کچھ لگا وہی اس بات کو تو سوچ

 

منطق سنی ہے ان کی تو اپنے ہی سر کو پیٹ

ممکن نہ ہو اگر یہ ان کے ہی منہ کو نوچ

 

مسجد کے رخ کو چھوڑ کلیسا کی راہ لے

پہلا یہ کام کر کہ کسی مس کو جا دبوچ

 

زربفت سے منڈھا جنہیں دستِ فرنگ نے

مجھ بوریا نشیں کو میسر کہاں وہ کوچ

 

کیوں خوش نہ ہو رقیب کہ میں کوئے یار میں

ایسا گرا کہ پاؤں میں بے طرح آئی موچ

 

میں نے ادب کی بزم کو رخشندہ کر دیا

دہلی و لکھنؤ کا ہی میری زباں میں لوچ

 

 

 

 

بساطِ اخوت بچھاتا ہوا

میرے ساتھ آ تو بھی انسین چل

 

بجھاتا ہوا کفر کی لالٹین

جلاتا ہوا مشعلِ دین چل

 

سناتا ہوا وجد پرور رجز

بجاتا ہوا جند کی بین چل

 

پڑھتا ہوا درس توحید کا

سکھاتا ہوا اس کے آئین چل

 

مٹاتا ہوا نقش تہذیب نو

جماتا ہوا رنگِ تمکین چل

 

سُناتا ہوا مصطفےٰؐ کی دعا

مچاتا ہوا شور، آمین چل

 

جُھکاتا ہوا گردنِ کائنات

اُڑاتا ہوا پرچمِ دین چل

 

گر ان سارے کاموں سے فرصت ملے

کفن سر سے باندھ اور فلسطین چل

 

لگا ہے فلسطین میں چل چلاؤ

چلا ہے تو بن کر قرابین چل

 

 

 

 

دوڑتا پھرتا ہے خوں تیزی سے شیخ و شباب کا

نشہ برما کی ہوا میں ہے شرابِ ناب کا

 

مد بھری راتوں کی تنہائی یہاں دیتی ہے درس

جاہلوں اور عالموں کو وان کحوا ماطاب کا

 

ایک برما کی دلہن بھی گھر میں لانی ہے ضرور

ہے تقاضا دعوت و ارشاد کے آداب کا

 

یہ سعادت گر ہو ارزانی سعید الدیں کو

میں یہ سمجھوں فرض پورا ہو گیا پنجاب کا

 

جو گیا میدان میں بزمِ عروسی چھوڑ کر

بن گیا ہمسر رسول اللہؐ کے اصحاب کا

 

بابِ پنجم ہے گلستاں کا یہ میری پھلجھڑی

یہ نہیں موقع ہے ذکرِ منبر و محراب کا

 

ذوق کے سہرے اس سہرے پہ کیوں ترجیح ہو

کون سا اس میں لگا ایسا ہے پر سرخاب کا

 

 

 

    کعبہ سے جدا کیوں نہ کلیسا کا ہو آئین

اس کا ہے خدا ایک اور اس کے ہیں خدا تین

 

ان تین خداؤں میں سب سے بڑا ہے پٹرول

کرتے ہیں جسے سجدہ زمانہ کے سلاطین

 

ڈرتے ہیں مسولینی و ہٹلر تو اسی سے

دبتا ہے کسی سے تو اسی سے ہے سٹلین

 

پٹرول کے بعد آتی ہے بارود کی باری

ابلیس نے جاری کئے ہیں جس کے فرامین

 

بچھ جائے سرنگ اس کی تو اڑ جاتے ہیں بھک سے

ارضِ حبش و مصر و حظا و ختین و چین

 

باقی ہے اک اقنوم جسے کہتے ہیں فولاد

ملتے ہوئے دونوں سے ہیں اس کے بھی قوانین

 

اللہ ان آفاتِ ثلاثہ سے بچائے

جکڑا ہوا تینوں کی پکڑ میں ہے فلسطین

 

 

    دیا ہندوستاں کو وائسرائے نے بیل کا تحفہ

وہ دیتے کاش اس کے ساتھ سونے کی سنگوٹی بھی

 

کسی کے خوان پر ہیں چاء مکھن، توس اور انڈے

نہیں ملتی کسی کو جو کی روکھی سوکھی روٹی بھی

 

سراپا ہے کسی کا غرق اطلس اور دیبا میں

نہیں ملتی کسی بیکس کو گاڑھے کی لنگوٹی بھی

 

میں ان کی طرح فارغ فکر فردا سے اگر ہوتا

تو دیتی لُطف مجھ کو بھیرویں بھی اور جھنجھوٹی بھی

 

نہیں ہے بھائی پرمانند جی کے واسطے ممکن

کہ رکھیں تاج سر پر اور ہو اس سر پہ یہ چوٹی بھی

 

ان استعمار کی چیلوں کا جنگل بھی غضب کا ہے

نہ چھوڑی میرے جسم خوں چکاں پر ایک بوٹی بھی

 

کوئی ملت سے پوچھے سلطنت کی گر تمنا ہے

تو اس کے واسطے تو خاک میں اور خوں میں لوٹی بھی

 

جواہر لال کو ہندو سبھا کیونکر پسند آئے

جو اندھی بھی ہے لنگڑی بھی ہے ٹھگنی بھی ہے موٹی بھی

 

 

 

 

    میری انجمن میں روشن نہ رہا چراغ پہلا

نہ رہی شراب پہلی نہ رہا ایاغ پہلا

 

مری یثربی جبلّت مرا ساتھ چھوڑ بیٹھی

نہ وہ سر رہا نہ اس میں وہ رہا دماغ پہلا

 

نہ وہ حلقۂ گل و مل نہ وہ نالہائے بلبل

نہ ہی بہار پہلی نہ رہا وہ باغ پہلا

 

مری سلطنت بھی چھینی مری مسجدیں بھی ڈھائیں

وہ تھی دل کی ٹیس پہلی یہ جگر کا داغ پہلا

 

میں تلاش حق میں نکلا تو ندا حرم سے آئی

کہ حق آگہی کے گھر کا ہے یہی سراغ پہلا

 

ہے مسلیمہ کی دولت جو ملی ہے میرزا کو

یہ غراب آخرین ہے جو وہ تھا کلاغ پہلا

 

وہ اگر عرب کی ضد تھا تو یہ قادیاں کی ہٹ ہے

یہ الاغ دو یمیں ہے جو وہ تھا الاغ پہلا

 

 

 

کلام اللہ کو اس طرح کرتے تھے نبیؐ ازبر

کہ جو کچھ سن لیا روح الامیں سے پڑھ دیا فرفر

 

ہوئے آتش کدے سرد اور صنم خانوں سے بُت نکلے

خدا کی شان یکتائی کے نقارے بجے گھر گھر

 

رسول اللہؐ کی امت کی رنگا رنگیاں دیکھو

کوئی ابیض کوئی اصغر کوئی اسود کوئی احمر

 

عرب کے سارے بن زادوں کی مشور گیر سطوت نے

جو لوٹا تاج کسریٰ کو تو چھینی مسندِ قیصر

 

لٹاتی تھے وہ موتی بسکہ تھا دستِ فراخ ان کا

گہر خیز و گہر و ریز و گہر پرور

 

 

    مئے اگر حرام ہے چاء تو حلال ہے

دورِ چاء کا چلے فصلِ برشگال ہے

 

ابر ہے گہر بدوش اور ہوا گہر فروش

میرے گھر میں کیوں کہوں موتیوں کا کال ہے

 

ترکِ شوخ و شنگ کی دیکھ خود فشانیاں

خال چہرہ فرنگ مصطفےٰ کمال ہے

 

ہو رہی ہے شکوہ سنج مسجد شہید گنج

جو لٹا میری طرح وقف کا وہ مال ہے

 

حقہ پی رہا ہوں پی کے جی رہا ہوں میں

جس میں جی رہا ہوں میں عالمِ مثال ہے

 

گنگنا رہا ہوں میں گڑ گڑا رہا ہے وہ

سر ملا رہا ہوں میں دے رہا وہ تال ہے

 

سمجھے ہو جسے مذاق وہ ہمارے واسطے

زندگی و موت کا آخری سوال ہے

 

 

 

 

 

    چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

نہ ملے چاء تو خوننابِ جگر کافی ہے

بزم میں دور چلا ہے تو ابھی اور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

دیکھتے دیکھتے پنجاب کا نقشہ بدلا

آنکھوں آنکھوں میں زمانہ کے بدل طور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

جان کس انداز سے دی جاتی ہے راہِ حق میں

جسے کرنا ہو یہ نظارہ وہ لاہور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

جاں سے تنگ آئے ہوؤں سے جسے ٹکرانا ہو

اپنے انجام پہ کرتا وہ ذرا غور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

جبر پر کرتے ہوئے صبر بسوئے مقتل

خو گر ظلم و جفا وستم و جور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

مضطرب ہیں کہ شہادت کا ملے جلد ثواب

تیغ گردن پہ جو چلتی ہے تو فی الفور چلے

چاء کا دور چلے دور چلے دور چلے

 

 

 

 

    صحنِ چمنستاں میں صبا گھوم رہی ہے

مستانہ اداؤں سے گھٹا جھوم رہی ہے

 

چھپ جائے نہ بادل میں کہیں دیکھ کے مجھ کو

سورج کی کرن سبزہ کا منہ چوم رہی ہے

 

جنگل میں نوا سنج ہیں ہر رنگ کی چڑیاں

فوج ان کی درختوں میں مچا دھوم رہی ہے

 

ہر قوم کو شامل ہے نوازش رتی یارب

کیوں امت مرحوم ہی محروم رہی ہے

 

رنگون میں جو کچھ میری ان آنکھوں نے دیکھا

تخییل مری کر اسے منظوم رہی ہے

 

 

 

 

 

ضرور کیا کہ اٹھا مسیح کے احساں

    تم اپنے درد کے جب آپ ہی مداوا ہو

 

وہ علم علم ہی کیا جو عمل سے ہو خالی

عمل عمل ہی نہیں اس میں گر دکھاوا ہو

 

وہ شہسوار ہزیمت کا نام کیا جانے

دیا سمند عزیمت کو جس نے کا وا ہو

 

ضرورت آج اسی آتش فشاں پہاڑ کی ہے

اُگل رہا جو نئی زندگی کا لاوا ہو

 

ملائکہ کی قطاریں کمک کو آ پہنچیں

اگر یہود بطحاہؤں کا دھاوا ہو

 

چڑھاؤ جا کے فلسطین کے مزاروں پہ

ہمارے خوں کا بھی منظور اگر چڑھاوا ہو

 

وہ چل کے جائیں نہ کیوں سر کے بل اور آنکھ کے بل

شہید گنج نے بھیجا جنہیں بلاوا ہو

 

یہ کہہ دو ان سے کہ جو موت سے نہیں ڈرتے

تم ان کو دے رہے کس بات کا ڈراوا ہو

 

بنا سکیں گے نہ کچھ اس کا مالوی جی بھی

ہزار سال سے بگڑا ہوا جو آوا ہو

 

وہ حوصلہ نہ ہو کیوں آسماں سے بھی بلند

میری مثال جسے دے رہی بڑھاوا ہو

 

جہاں ہے ایک بھی مسجد وہ ہے وطن اپنا

دیارِ روس ہو یا سرزمینِ جاوا ہو

 

ہے آرزو یہی لے دے کے ہم غریبوں کی

اگر مدینہ ہو ملجا تو مکہ ماویٰ ہو

 

جب ایک ہو گئی ملت تو کیوں نہ اس کے لئے

دریچہ رحمت پروردگار کا وا ہو

 

میری نظر مدنی ہے جل اس کو کیا دے گا

اطالوی ہو کہ المانوی چھلاوا ہو

 

کمی رہے نہ کسی نظم میں قوافی کی

میرا شریک جو یعقوب گورا باوا ہو

 

 

 

 

    محی الدین سہرا باندھ کر لایا دلہن گھر میں

بھرے گھر کو یہ اس کی خانہ آبادی مبارک ہو

 

دلہن ہے حسن کی پتلی تو دولہا عشق کا پتلہ

نظر والوں کو  حُسن و عشق کی شادی مبارک ہے

 

نکاح اسلام کی دنیا میں پیغمبر کی سُنت ہے

اسے بھی یہ طریقہ جو ہے بنیادی مبارک ہو

 

ہے جوئے شرط لانا شرط اول وصلِ شیریں کی

محی الدین کو یہ شغلِ فرہادی مبارک ہو

 

خدا وہ دن کرے دہلی سے میں بھیجوں پیام اس کو

اسے ہندوستاں کا جشنِ آزادی مبارک ہو

 

 

 

 

    مشرق میں غریبوں کی نہیں کوئی رہی گور

سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں مغرب کے کفن چور

 

لکھتا ہوں فلسطیں کے شہیدوں کی کہانی

آلودہ لہو سے ہیں میری انگلیوں کے پور

 

یہ خون ہے وہی جس کی جھلکتی ہوئی سرخی

ہے مایۂ رنگینیِ افسانۂ بلفور

 

ہیں تیرہ و تاریک کلیسا کی فضائیں

چھائی ہوئی ہے جس پہ گھٹا جنگ کی گھنگھور

 

غلطاں ہے ادھر خاک میں جسم جشستاں

ہسپانیہ کی نعش ادھر خوں میں شرابور

 

سن سن کے اتا ترک کی تلوار کی جھنکار

روما کو دبا اور تو برلن کی دبی کور

 

فسطائیوں اور نازیوں کی فتنہ گری سے

چرچل ہیں سراسیمہ تو وحشت زدہ ہیں ہور

 

تارا ہوئی جاتی ہیں نصاریٰ کی پتنگیں

یارب انہیں کیوں اتنی پلائی گئی ہے ڈور

 

ملتا ہے کسی کو نہ یہ زاری سے نہ زر سے

انصاف ملے گا اسے حاصل ہو جسے زور

 

 

    خدا نے تم کو بخشی ہے اگر توفیقِ شنوائی

تو سن لو میری باتیں جن سے ایماں تازہ ہوتا ہے

 

ہمیشہ کے لئے ناقوس چپ ہو جائے کاشی کا

بلند اس گھر میں اب تکبیر کا آوازہ ہوتا ہے

 

نبیؐ کی یہ حویلی ہے نہیں ہے اونچ نیچ اس میں

کسی پر بند اس گھر کا دروازہ نہیں ہوتا ہے

 

ہوئیں ہند آشکارا آدمیت سوزیاں جس کی

پریشاں آج اس تہذیب کا شیرازہ ہوتا ہے

 

یہ ہے قانون قدرت جو ستائے گا غریبوں کو

بھگتنا اس کو اپنی ظلم کا خمیازہ ہوتا ہے

 

وہ گھوڑا بد لگامی جس کی دو بھرتی اچھوتوں پر

مسلماں ہو کے دیکھیں گے کہ کیوں کر قازہ ہوتا ہے

 

رہے کیوں کارواں کے دل میں فکر دوریِ منزل

کہ سر گرم سفر اسلام کا جمازہ ہوتا ہے

 

عروس سلطنت کے منہ پہ رونق جس سے آ جائے

شہیدوں کے جمال افزا لہو کا غازہ ہوتا ہے

 

 

سنا ہے ابر ستائش برس نہیں سکتا

حضورؐ سرور عالم کے ہم نشینوں پر

 

خدا کے عرش سے جو اٹھ رہی ہیں پے در پے

بٹھا دئے گئے پہرے ان آفرینوں پر

 

شہید گنج نے جن کو بچا کے رکھ تھا

وہ بل بھی پڑ گئے حکام کی جبینوں پر

 

اگر ہم اپنے بزرگوں کا نام ادب سے لیں

تو لوٹ جاتے ہیں کیوں سانپ ان کے سینوں پر

 

دعائیں ہم نے انہیں دیں وہ گالیاں سمجھے

مریں تو کیا مریں ان لکھنوی حسینوں پر

 

کشادہ ہو گئیں سجن فرنگ کی راہیں

نظام عدل نصاریٰ کے نکتہ چینوں پر

 

بت افتراق نوازی کے اس میں پنہاں ہیں

میری نظر ہے حکومت کی آستینوں پر

 

وفا شعار ہمارا روشن جفا ان کی

پڑے خدائی کی خاک ان کے ان قرینوں پر

 

ہے شیوہ ہند میں جن کا مداخلت فی الدین

مدارا امن ہے ان احمق الزینوں پر

 

ہر ایک زرہ ہے جن کا یک آسمان نیا

میرے خیال کا قبضہ ہے ان زمینوں پر

 

 

اللہ کی قدرت کا نشان ہے میری قسمت

جس کی چمک انگریز کی سنگین سے نکلے

 

نکلیں گے میرے دل کے سب ارماں بھی اسے طرح

جس طرح یہود ارجِ فلسطین سے نکلے

 

وہ آگ میں ڈوبے ہوئے نالے ہیں قیامت

جن کی عربی لے عجمی بین سے نکلے

 

گُم تھے نئی تہذیب کے فرسودہ قبالے

ڈھونڈا تو وہ پیٹرول کے ایک ٹین سے نکلے

 

مرزائیوں کے جہل مرکب کے سبھی ڈھنگ

ان کے متمنی کی براہین سے نکلے

 

اللہ کے شیروں سے یہ جنگل نہیں خالی

کچھ دن میں تمائیں سے کچھ انسین سے نکلے

 

جس میں ہے سہارا تو فقط گائے کی دُم کا

اچھا ہوا امبیدکر اس دین سے نکلے

 

پنجاب میں الفاظ کی تہذیب کے آداب

نکلے تو میرے قاف سے اور شین سے نکلے

 

ہیں جس قدر انساں کی ترقی کے مراتب

پیغمبرِؐ اسلام کے آئین سے نکلے

 

 

 

    جب نبیؐ کی نعت میں مصروف ہوتا ہے قلم

کیسے کیسے خوش نما موتی پروتا ہے قلم

 

مغفرت کی التجا کرتا ہے کاغذ کے سپرد

معصیت کے اگلے پچھلے داغ دھوتا ہے قلم

 

کم نہیں خارِ مغیلان عرب سے اس کی نوک

جس کو یورپ کے کف پا میں چبھوتا ہے قلم

 

اس کی ہر جنبش کا فریادی ہوا پاپائے روم

جس سے بیڑا اس کا قلزم میں ڈبوتا ہے قلم

 

ہنسنے لگتے ہیں معانی کے خیابانوں کے پھول

ابرِ نیساں کی طرح جس وقت روتا ہے قلم

 

جن کی قسمت کے جگانے میں ہے سرف اک اصریر

پاؤں پھیلا کر اب ان کی طرح سوتا ہے قلم

 

راہِ حق میں ست کٹا کر بھی نہ چلنے سے رُکا

جاودانی زندگی کا بیج بوتا ہے قلم

 

 

 

 

دیرینہ ہے فرنگ کی اسلام دشمنی

ہے پہلے دن کی اس سے ہماری کتاچھنی

 

دنیا کے سب یہود ہیں انگریز کے حلیف

دونوں کے ساتھ جنگ مسلمان کی ٹھنی

 

تہذیبِ نو کی جلوہ گری سے خدا بچائے

پھیلی ہوئی ہے جس کی فلسطیں میں روشنی

 

مشرق میں آ کے راہنمائی کریں گے کیا

خود اپنے گھر میں مشغلہ جن کا ہے رہزنی

 

آنکھیں دکھا رہا ہے مسلمان کو فرانس

جس کی نظر میں اہل مراکش ہیں کشتنی

 

غافل مگر ہے اس سے کہ اس کی پشت پر

بیٹھا ہوا ہے دشمنِ جاں اس کا جرمنی

 

ترکون سے ایک بات میں ہم بھی نہیں ہیں کم

ہم بات کے دھنی ہیں وہ تلوار کے دھنی

 

ایراں کا تاجور ہے رضا شاہ پہلوی

اللہ نے دیا جسے زورَ تہمنی

 

اسکی مساعدت کے لئے رونما ہوا

کابل کے تاجدار کا نیروئے ہمنی

 

ان پر ہے مستزاد نیستانِ نجد میں

ابنِ سعود کی روش ضیغم افگنی

 

پیوست ہونے والی ہے قلب صلیب میں

اسلامیوں کے نیزہ کی جوشن گزار انی

 

مسجد سے گردوارہ کمیٹی کو کام کیا

گھر میں خدا کے آئے ہیں  کیوں یہ شرومنی

 

آویزہ ہائے گوش نصیحت نیوش میں

درہائے سفتنی ہیں سخن ہائے گفتنی

 

 

    لازم ہمارے گھر کو عروسیں نئی نئی

اور ان کے گھر کا لازمہ شوہر کئی کئی

 

وہ ان پہ لوٹ رنگ ہے جن کا سفید فام

ہم ان پہ مست جن کا سراپا ہے چنپئی

 

ان کو ادھر یہ ضد ہے کہ آنکھیں ہوں نیلگوں

ہم کو ادھر یہ کد کہ یہ جادو ہو سرمئی

 

مشرق کی بے زری سے یہ کہہ دو کہ چپ رہے

معشوقۂ فرنگ کی منطق ہے نقرئی

 

تہذیبِ نو جب آئی تو خوف خدا گیا

اور ساتھ ساتھ شرم رسولِ خداؐ گئی

 

جب کربلا کی خاک نے میلا کیا اسے

پھر کیوں نہ لکھنؤ کا دوپٹہ ہوا گرئی

 

صد ہا سلام بھیج چکا اہل بیت پر

اب یہ سلام بھیج صحابہؑ پہ مجریٔ

 

 

 

 

    لرزنے لگ گئی کونسل یہ سن کے سٹھنا سے

کہ فتنہ روس کا ہم کو تباہ کر دے گا

 

بنا رہا ہے قیامت اسے جواہر لال

سفید کو یہ ستمگر سیاہ کر دے گا

 

ملا رہا ہے ہمارا وقار مٹی میں

ہم آج کوہ ہیں کل ہم کو کاہ کر دے گا

 

پھریں گے ملک میں سرمائے دار ننگے سے

جب اس کا ہاتھ انہیں لے کلاہ کر دے گا

 

سکھا کے ڈھنگ مساوات کا غریبوں کو

محال ان سے ہمارا نباہ کر دے گا

 

جگا کے ان کو جو سوتے ہیں مفلسی کی نیند

کشادہ دست درازی کی راہ کر دے گا

 

بنا کے اپنی طرح سوشلٹ ان سب کو

گناہگار کو بھی بے گناہ کر دے گا

 

نظامِ کہنہ بدل حوالۂ مزدور

یہ بارگاہِ فلک اشتباہ کر دے گا

 

زباں تک آتے ہوئے اب جو ہچکچاتا ہے

وہ اس مطالبہ کو بے پناہ کر دے گا

 

اگر ابھی سے نہ روکا اسے حکومت نے

تو کانگریس کو وہ انجم سپاہ کر دے گا

 

یہ بحث سن کے کوئی فاقہ کش بھرے گا آہ

تو کوئی پیٹ بھرا واہ واہ کر دے گا

 

مگر وہ فیصلہ جس سے ہوں مطمئن یہ فریق

زمانہ دونوں کے پیش نگاہ کر دے گا

 

اگر معلم افراط ہیں جواہر لال

تو آپ ہی وہ انہیں انتباہ کر دے گا

 

اگر ہیں رام سرن داس مائل تفریط

تو اعتدال کی پیدا وہ راہ کر دے گا

 

خدا کے فضل و کرم کو اگر ہوا منظور

تو ہر گدا کو وہ فیروز شاہ کر دے گا

 

 

 

 

تمہارے دل سے شاید نقش ان کا مٹ چکا ہے

ہمیں وہ دن نہیں بھولے ہیں جب ہم تم پہ مرتے تھے

 

بہاتے تھے تمہاری راہ میں ہم خون مسلماں کا

اور اس خوں سے تمہاری مشکِ استعمار بھرتے تھے

 

تمہارے چاہنے والے قطار اندر قطار آ کر

تصدق تم پہ ہوتے تھے جدھر سے تم گزرتے تھے

 

ہماری ہی خود افشانی کی ساری یہ کرامت تھی

کہ دنیا کے ہیں جتنے تاجور سب تم سے ڈرتے تھے

 

تمہارے ڈر سے پیلا رنگ پڑتا تھا حریفوں کا

خزاں کے زرد پتوں کی طرح گر کر بکھرتے تھے

 

دبک جاتے تھے روس اور جرمنی مانند گیدڑ کے

جب ان کے جنگلوں میں شیر لندن کے بپھرتے تھے

 

لگا دیتے تھے پیٹھ اک داؤ میں سب پہلوانوں کی

کسی دنگل میں جب لنگوٹ کس کر تم اترتے تھے

 

ہمیں جب پاؤں میں روندا تو خود بھی گئے روندے

گئے وہ دن کہ جب تم اینڈتے تھے اور بررتے تھے

 

فلسطین میں مٹا کر ہم کو آخر تم نے کیا پایا

اسی باعث تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے

 

 

 

پھرتا ہے مری آنکھ میں قسمت کا نیا پھیر

شیروں کو نیستاں میں شغالوں نے لیا گھیر

 

نگری اگر اندھی ہے تو راجہ بھی ہے اندھا

بھاجی بھی ٹکے سیر ہے کھاجا بھی ٹکے سیر

 

چھینے ہیں یہودی نے مسیحی کی مدد سے

دولت کے لگا رکھے تھے اسلام نے جو ڈھیر

 

کب ہو گی نمودار خدایا سحر اس کی

جس رات نے ڈالا ہے فلسطین میں اندھیر

 

ہم سے ترا وعدہ ہے کہ خوف کے بعد امن

یارب ترے اس وعدہ کے ایفا میں ہے کیا دیر

 

 

 

 

    عرش آشیاں ہے رفعت بام شہید گنج

کس درجہ ہے بلند مقام شہید گنج

 

گر عمر و زر بکف ہے تو ہے زید سر بکف

گھر گھر پہنچ چکا ہے پیامِ شہید گنج

 

انسان کی طرح جن و ملک کی زبان پہ ہے

گونجا ہے کائنات میں نام شہید گنج

 

اس میں نہیں تمیز بریلی و دیو بند

پہنچی ہے سب کو دعوتِ عامِ شہید گنج

 

جس نے پیا اسے وہ ہوا زندہ ابد

کوثر صفت ہے بادۂ جامِ شہید گنج

 

گلرنگ جس سے بدر کا میدان ہو گیا

تلچھٹ ہے اس لہو کی قوام شہید گنج

 

اللہ کی رضا میں جنہوں نے کٹائے سر

ہر صبح و شام ان پہ سلام شہید گنج

 

اسلامیانِ ہند کی تنظیم ہو گئی

قائم ہوا ہے جب سے نظام شہید گنج

 

برما کے عارفوں سے یہ جا کر کہے کوئی

خوشتر ہے صبح کعبہ سے شام شہید گنج

 

کابل سے چل کے تا بہ کہستاں میمیو

سب ہیں اسیر حلقہ و ام شہید گنج

 

میرا کلام زندہ جاوید کیوں نہ ہو

ہے موجب بقائے دوام شہید گنج

 

 

 

 

منکر کے اعتبار کا ساماں جمع کر

صحرا کا سینہ چیر سمندر کو پھاڑ دے

 

نجد و حجاز شام کی قوت سمیٹ کر

یورپ کے پہلوان کا لنگر اُکھاڑ دے

 

عبرانیوں کو ایک رگڑ میں رگید ڈال

نصرانیوں کو ایک پکڑ میں پچھاڑ دے

 

تہذیبِ نو کے منہ پہ وہ تھپڑ رسید کر

جو اس حرامزادی کا حُلیہ بگاڑ دے

 

پرچم جہاں بلند ہے عیسیٰ کا آج کل

جھنڈا وہاں جلالِ محمدؐ کا گاڑ دے

 

 

 

 

چمن کے صحن میں پڑتی تھی ننھی ننھی پھوار

غبار جس سے گیا سارے سبزہ زار کا دھل

 

کھلے ہوئے تھے چمن میں ہزار رنگ کے پھول

چھپی ہوئی تھی درختوں کے جھنڈ میں  بلبل

 

ہر ایک پتہ پہ ہوتا تھا ارغواں کا گماں

ہر ایک شاخ سے اٹھتا تھا نو بہار کا غل

 

یہ شور کون مچاتا ہے؟پھول نے پوچھا

دیا جواب یہ بلبل نے ہنس کے احد گُل

 

 

 

 

غریبوں کو خدا رکھے سلامت

سلامت اور وہ بھی با کرامت

 

رئیسوں سے خدا محفوظ رکھے

جو کرتے تھے غریبوں کی حجامت

 

جسے خاکِ فلسطیں نے اٹھایا

وہ فتنہ بننے والا ہے قیامت

 

نہیں آتی جنہیں روٹی کمانی

وہ کر لیتے ہیں مسجد کی امامت

 

پہنچتا تھا مجھے سرزنش کا

وہ الٹی مجھ کو کرتے ہیں ملامت

 

مرے اعمال کی صورت ہیں انگریز

جبھی تو آ گئی ہے میری شامت

 

زباں جنت ہے اور دل ہے جہنم

منافق کی ہے یہ دہری علامت

 

مسلماں ہو گیا گاندھی کا بیٹا

اسے اللہ بخشے استقامت

 

تری تہذیبِ نو ۹ دن میری سو۱۰۰ دن

مبارک ہو مجھے اس کی قدامت

 

 

 

 

بنگال کی خلیج کی پہنائیوں میں ہوں

ساحل کی دوریوں کے تماشائیوں میں ہوں

 

اوپر بھی آسماں ہے نیچے بھی آسمان

دونوں کے انقلاب کی گہرائیوں میں ہوں

 

حسنِ ازل کا پردہ کشا ہے مرا خیال

میں بھی شریک اس کی خود آرائیوں میں ہوں

 

ہے بحر و بر میں مکّہ رواں جس کے نام کا

اس کالی کملی والے کے شیدائیوں میں ہوں

 

ڈوبا ہوا  ہے عہدِ الست کے سعید سے

اپنے خدا کے رنگ کی گہرائیوں میں ہوں

 

اس سے بڑی مرے شرف و نجد کی دلیل

کیا اور ہو سکے گی بطحائیوں میں ہوں

 

جلوے مری نگہ میں ہیں خیرالقرون کے

اس قرنِ دل کشا کے تمنائیوں میں ہوں

 

اسلام کی گرفت ہے فولاد کی گرفت

جکڑا ہوا میں اس کی توانائیوں میں ہوں

 

کشتی کو موجِ بحر کی آویزشوں سے کام

میں محو اپنی قافیہ پیمائیوں میں ہوں

 

 

 

 

 

دیکھے ہیں بہت چور مگر ایسے ہیں کم چور

جو لکھ نہیں سکتے ہیں اور اس پر ہیں قلم چور

 

محروم قلم کش کو کرے حقہ کشی سے

ہو جائے نہ پیدا کہیں یا رب وہ چلم چور

 

پٹنہ کی عدالت میں ہوا جس کا دھماکہ

لائے تھے مہا دیو کی بیٹھک سے وہ بم چور

 

جس بت پہ اچھوتوں نے لگا رکھی تھی بازی

اس کو بھی اُڑا لے گئے کاشی کے صنم چور

 

لاش اس کی گھسیٹیں گے فلسطین کے بدو

توڑیں گے جب اسلام کی دہلیز پہ دم چور

 

جس کے لئے آئے وہ کفن ہاتھ نہ آیا

بیٹھے ہوئے کھائیں گے جنیوا مین یہ غم چور

 

چور آپ بھی اور ہم بھی مگر فرق ہے اتنا

اللہ کے چور آپ ہیں انگریز کے ہم چور

 

 

 

  یہ مقناطیس کی دعوت تھی آہن کیسے رد کرتا

میں کلکتہ سے رخصت ہو کر سیدھا کانپور آیا

 

نظر آئے رضا کاران نیلی پوش صف در صف

مرے دل مین سرور اترا مری آنکھوں مین نور آیا

 

سناتی داستاں لاہور اور اس کے شہیدوں کی

تو میری پیشوائی کے لئے شورِ نشور آیا

 

سیہ مستی کی دیتا ہوں صلا رندانِ مشرق کو

خمستانِ عرب کے نشہ میں ہو کر میں چور آیا

 

کیا افسانہ دنیا کا سپردِ خامہ جب میں نے

تو افسوں دین قیم کا نظر بین السطور آیا

 

مسلمانوں کی جمعیت سے ٹکرانا نہیں آساں

وہ ٹکرائیں تو سمجھو ان کی عقلوں میں فتور آیا

 

خدا کی حمد پیغمبر کی مدح اسلام کے قصّے

مرے مضموں ہیں جب سے شعر کہنے کا شعور آیا

 

 

 

 

ڈر جاتے ہیں ایک ہی بھبکی سے لیتے ہیں پیامِ آزادی کا

مر جاتے ہیں ایک ہی دھمکی میں اور لیتے ہیں نامِ آزادی کا

 

سودائے شہادت شر میں نہیں اللہ کی ہیبت دل میں نہیں

پھر کہتے ہیں قائم ہو نہ سکا دنیا میں نطامِ آزادی کا

 

اقبال وہاں ادبار یہاں تلور ادھر تقدیر ادھر

پڑھتے ہیں سبق انگریزوں سے کونسل میں غلامِ آزادی کا

 

اے معتکفانِ کنجِ حرم ملت کو ہے تم سے شکوہ یہی

بیٹھے ہوئے کرتے ہو حجروں میں تم کام تمام آزادی کا

 

تم کہتے ہو کالانعام جنہیں کچھ کر کے وہی دکھلاتے ہیں

سر ہاتھ میں لے کر مسئلہ حل کرتے ہیں عوام آزادی کا

 

پہلو میں ہو دل، دل میں ہو یقین، سرپر ہو کفن، کف میں ہو سناں

جب جمع یہ اجزا ہوتے ہیں بنتا ہے قوام آزادی کا

 

انگورہ سے لے کر کابل تک مخلوق خدا آزاد ہوئی

دہلی کی خطا کیا ہے کہ یہاں چھلکا نہیں جام آزادی کا

 

گاندھی کی نظر یثرب کی طرف اٹھ جاتی تو خیر اک بات بھی تھی

یہ کیا ہے کہ سمجھ بیٹھے ہیں وردھا کو مقامِ آزادی کا

 

تاریخِ وطن کی جانب سے پیغام کوئی انگریز کو دے

آتا ہوا تم بھی دیکھو گے سورج لبِ بام آزادی کا

 

دنیا میں ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے

یا تختہ جگہ آزادی کی یا تخت مقام آزادی کا

 

 

 

 

یہ حسن و عشق کا گھر ہے اسے کنجاہ کہتے ہیں

مرے ہر جرم کا آ کر یہاں کفارہ ہوتا ہے

 

زہے قسمت بچا لے جاؤں گر میں آبرو اپنی

کہ ہے جو آبرو والا یہاں آوارہ ہوتا ہے

 

غنیمت کی لحد ہے اب بھی سوز و ساز کی محفل

کہ اس کی خاک کا ہر ذرہ آتشپارہ ہوتا ہے

 

مرا بھی ایک شاہد ہے علی گڑھ نام ہے جس کا

مرا دل اس کی چشم مست کا گہوارہ ہوتا ہے

 

کہا کنجاہ کی کڑوی چلم نے باتوں باتوں میں

کہ تمباکو یہاں کا عقرب جزارہ ہوتا ہے

 

مسلماں بھی خدا رکھتا ہے پھر یہ ماجرہ کیا ہے

ہدف سارے مصائب کا یہی بیچارہ ہوتا ہے

 

ابد تک جو بجے گا طبل ہے وہ ہم غریبوں کا

جو پھٹ جاتا ہے وہ احرار کا نقارہ ہوتا ہے

 

جو ہیں گردوں کے سیارے وہ اب گرنے ہی والے ہیں

بلند اسلام کا پنجاب میں طیارہ ہوتا ہے

 

کہاں تک شعر کہتا جاؤں آخر کوئی حد بھی ہو

کہ حلوے میں مزا ہوتا ہے اور یکبارہ ہوتا ہے

 

 

 

 

اِس کو زرگر سے جڑاؤ نتھ کے بنوانے کی فکر

اُس کو بازاروں میں پھر کر ناک کٹوانے کی فکر

 

اِس کی یہ خواہش کہ گھر کی آبرو ضائع نہ ہو

اُس کو قیدِ پردے سے آزاد ہو جانے کی فکر

 

اِس کو بچوں کا تماشہ دیکھنے کی آرزو

اُس کو سنما جا کے جی ہر رات بہلانے کی فکر

 

اِس کی یہ کوشش کہ گھر میں چار پیسے جمع ہوں

اُس کو گھر رکھ کر گرو آئینے اور شانے کی فکر

 

اِس کو محنت کر کے دو آنے کمانے کا خیال

اُس کو آٹھ آنے کی فرمائش کے دہرانے کی فکر

 

اِس کو گاڑھے ہی کے تہمد میں مگن رہنے کی دھن

اُس کو ریشم اور لونڈر میں سما جانے کی فکر

 

اِس کی شرمیلی نگاہیں غیر سے نا آشنا

اُس کو ہر شب اک نئے شاہد کے گھر لانے کی فکر

 

اِس کے دل کی ہر تمنا ہند کے زنداں میں بند

اُس کو پیرس اور لندن جا کے ناچ آنے کی فکر

 

اِس کو یا چرخہ یا چکّی سے یا چولھے سےہے  کام

اُس کو یا ٹاکی کے یا ہاکی کے گن گانے کی فکر

 

اِس کو آپ اپنی پھٹی ساڑی کے سینے سے غرض

اُس کو رینکن سے ڈنر سے کا سوٹ سلوانے کی فکر

 

اِس کو ناموسِ شریعت اپنی جاں سے بھی عزیز

اُس کو اس قانون ربّانی کے ٹھکرانے کی فکر

 

 

 

 

 

کس آسانی سے آ جاتے ہیں نصر اللہ کے دم میں

بڑے ہی بھولے بھالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

ڈریں گے کیا کسی فرعون بے ساماں کی دھمکی سے

خدا سے ڈرنے والے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

وہی ہے رنگ ان کا خود خدا کو بھی جو پیارا ہے

نہ گورے ہیں نہ کالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

نہیں لاحول سے ماحول بہتر کوئی ہو سکتا

اور اس کے ہی حوالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

نہ ہو مغرب کے استعمار کی تدبیر کیوں الٹی

مقدر کے جب آلے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

شہادت کی قبائے ارغوانی دی گئی ان کو

لہکنے والے لالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

خدا جس خانداں کی آبرو کا خود محافظ ہے

اسی کے لڑکے بالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

ترنم چاند ہے اس شہر میں علم اور حکمت کا

درخشاں اس کے ہالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

قطار اندر قطار اسلام کا لشکر گزرتا ہے

اور اس کے رسالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

ہرا جس ابرِ رحمت نے کیا بطحا کی کھیتی کو

اسی بادل کے جھالے ہیں مسلمانانِ امرتسر

 

 

 

 

یہ گاندھی جی نے مزدوروں کے اک جلسہ میں فرمایا

کہ ہے بے سود الجھنا آج کل سرمایہ داروں سے

 

تمہیں محنت کی جو اجرت وہ دیں کر لو قبول اس کو

کہ آدھا پیٹ بھر کر پھر بھی اچھے ہو ہزاروں سے

 

کرو گے بائیکاٹ ان کا تو کیا ہاتھ آئے گا تم کو

بجز اس کے کھاؤ گولیاں ان کے اشاروں کی

 

مجھے دیکھو کہ انگریزوں سے کٹ کر میں نے کیا پایا

تعاون ہی مناسب تھا حکومت کے اداروں سے

 

موالاتی بنایا مجھ کو میری تلخ کامی نے

بمجبوری ملوں گا اپنے ان پروردگاروں سے

 

 

 

 

 

دفتر پنجاب ہے جنگل سیاسیات کا

بن گیا میرا قلم منگل سیاسیات کا

 

پہلواں اور ان کے پٹھے آ گئے خم ٹھونک کر

دیدنی ہے آج کل دنگل سیاسیات کا

 

گالیاں دے جھوٹ بول احرار کی ٹولی میں مل

نکتہ یوں ہی ہو سسکے گا حل سیاسیات کا

 

پہلے ہی دن سے ہیں جب دیدے بخاری کے پٹم

مانگتے پھرتے ہیں کیوں کاجل سیاسیات کا

 

خالصہ کا ساتھ دے جب یہ شریعت کا امیر

کیوں نہ کہے اس کو بابا ٹل سیاسیات کا

 

کیا تماشا ہے کہ زلفِ شرع کی مشاطگی

کر رہا ہے آج دستِ شل سیاسیات کا

 

ہے بہت آسان کھانا سینہ پر گینتی کی ضرب

ہے بہت مشکل چلانا ہل سیاسیات کا

 

دیکھ لے مظہر علی اظہر کو افضل حق کے ساتھ

ایک پدّی دوسرا اجھانپل سیاسیات کا

 

مجلس احرار کے نیفے کی رونق بن گیا

ایک پسّو دوسرا کھٹمل سیاسیات کا

 

دخل معقولات میں دیتا ہے کیوں بڈ مولوی

عقد کیا کھولے گا یہ دڑھیل سیاسیات کا

 

ڈاکٹر کچلو زبر ہیں اور حسام الدیں ہیں زیر

یہ دمن اس کی عہد کی وہ نل سیاسیات کا

 

جل گئے مکہ میں بھٹے مولوی داؤد کے

حد سے بڑھ کر گرم تھا بھوبل سیاسیات کا

 

انڈیپنڈٹ آخر آ ہی جائے گا یاروں کے کام

ہمدموں گھوڑا ہے یہ کوتل سیاسیات کا

 

عورتوں نے بھی کیا کونسل کا رخ مردوں کی طرح

آتی ہیں تھامے ہوئے آنچل سیاسیات کا

 

احرار کے بت خانہ سے مظہرؔ کو بلا لا

منظور بنانا ہو جو مسجد کو شوالا

 

مرزائیوں کے حق میں قیامت ہے بٹالہ

کافر کا جنازہ اسی بستی نے نکالا

 

ہر بچّہ بٹالہ کا ہے ایک مردِ مجاہد

جو سوئی یہاں کی ہے وہ بن جاتی ہے بھالا

 

ملتی ہے بچارے کو شکستوں پہ شکستیں

اسلام سے پڑتا ہے جہان کفر کو پالا

 

لالہ سے یہ کہہ دو کہ مسلماں سے نہ الجھے

معبود مسلماں کا ہے اللہ تعالیٰ

 

اسلام کی دولت کے کرشموں پہ نظر کر

آتے ہی اچھوتوں کا ہوا رُتبہ دو بالا

 

سرکارِ مدینہ سے ملا مجھ کو بھی کمبل

سکھوں نے بخاری کو جو بخشا ہے دو شالا

 

زندہ رہے پائندہ رہے نورِ محمدؐ

اسلام کا نام اس نے بٹالے میں اچھالا

 

 

 

 

سراپا ڈھل کے نکلا ہے مرا بطحا کے سانچے میں

مرا مسلک براہیمی مری فطرت حجازی ہے

 

زمین سے آسماں تک میری دارائی کے چرچے ہیں

مرا سارا سر و ساماں خدا کی کارسازی ہے

 

میں رنگ و نسل کی لعنت کا پہلے دن سے دشمن ہوں

مسلماں زادہ ہوں میری یہ شانِ امتیازی ہے

 

مری کوتاہیوں کا طعنہ گھر رکھ لیں وطن والے

کہ قائم رہنے والی میرے رشتے کی درازی ہے

 

نہیں قائل ہوا میں آج تک ان کی شریعت کا

خدا جن کا بروزی ہے نبی جن کا برازی ہے

 

خدا شرمائے مسجد بیچنے والوں کی ٹولی کو

لگائی جس نے کونسل کے لئے سر دھڑ کی بازی ہے

 

بھرم کھولا مچھندر مولوی کا خاک ساروں نے

کہ اس مسجد شکن کا کام ہی شاہد نوازی ہے

 

 

 

 

صدرِ مجلسِ احرار

 

دو غم ہیں جہاں میں غمِ زرد و غمِ کالا

دونوں کا جنازہ میری غربت نے نکالا

 

خواہش ہے یہ لالہ کی جپوں لالہ کی مالا

مالا کا ہر اک دانہ ہو پھر لو لو ء لا لا

 

میں صدر ہوں احرار کا ممدوح مرا ہے

اک پیسہ بھی جس نے مرے کشکول میں ڈالا

 

 

جنرل سکرٹری مجلسِ احرار

 

 

کونسل کی الیکشن کی بلا ہو گئی نازل

ٹوٹا ہے مرے سر پہ مصیبت کا ہمالا

 

وہ پانسو مندر مری فہرست میں ہیں درج

اسلامیوں نے جن سے ہر اک بُت کا نکالا

 

گھنٹہ نہیں بجتا ہے مہا دیو کا ان میں

ان سب میں ہمیشہ کے لئے پڑ گیا تالا

 

 

امیرِ شریعت احرار

 

اک طفل پر ہی رد کی شریعت فگنی نے

کل رات نکالا مرے تقویٰ کا دوالا

 

میں دین کا پتلا ہوں وہ دنیا کہ ہے مورت

اس شوخ کے نخرے میں مرا گرم مسالہ

 

 

 

 

جونہی نصر اللہ کی ہریانہ سے آئی صدا

رنگ افضل حق کا سنتے ہی جسے فق ہو گیا

 

گر پڑے غش کھا کے مولانا عطاء اللہ شاہ

اور کلیجہ مولوی داؤد کا شق ہو گیا

 

راہ چلتے چلتے گڑھ شنکر کی ٹمٹم رک گئی

جو چلاتا تھا اسے لنگڑا وہ اہلق ہو گیا

 

مولوی مظہر علی اظہر کی رسوائی کا داغ

ان کی مجلس کے سیہ خانے کی رونق ہو گیا

 

اس طرف مندر کا شور اور اس طرف مسجد کا زور

بیچ میں مظہر علی اظہر معلق ہو گیا

 

پوچھتے ہیں سرسکندر مسجدِ احرار سے

کیوں وزارت کا تمنائی یہ احمق ہو گیا

 

ذاکرِ احرار کا مشہور ناقوسی سلام

مالوجی کے صنم خانہ کی رونق ہو گیا

 

کون دے گا ووٹ بیچارے حسام الدین کو

کچلو امرتسر میں جب مختار مطلق ہو گیا

 

جا ملے کیا سوچ کر احرار سے ملائے غوث

سارسوں میں کس لئے شامل یہ لقلق ہو گیا

 

صدر احرار آ گئے لے کر لفنگوں کے پرے

لشکرِ اشرار سے جنگ آزما حق ہو گیا

 

شاعری میں بذلہ سنجی ہے مرا اندازِ خاص

زندہ میرے نام سے نامِ فرزوق ہو گیا

 

 

 

 

بسا رہی ہے جو عبدالحمید کے گھر کو

میں اس عروس کا سارا سنگار لایا ہوں

 

وہ نور جس کی ضرورت تھی اس کی افشاں کو

سودِ چک بریں سے اتار لایا ہوں

 

بہشتِ عدن کی مالن سے آپ گندھوا کر

میں رنگ رنگ کے پھولوں کا ہار لایا ہوں

 

نصیب جن کا برسنا ہے اس کی ڈولی پر

وہ سارے گوہرِ قلزم نثار لایا ہوں

 

ہے نو عروس کو حاجت نئے ابٹنے کی

میں غازۂ رُخ فصلِ بہار لایا ہوں

 

نیاز و ناز کی محفل کی گرمیوں کے لئے

میں حسن و عشق کے جذبے ابھار لایا ہوں

 

براتیوں کو ضرورت رہے نہ پنکھے کی

نسیمِ رحمتِ پروردگار لایا ہوں

 

مین دل کے گوشہ سے دولہا کے اور دلہن کے لئے

دعائیں لایا ہوں اور بے شمار لایا ہوں

 

نرالی وضع کا سہرا رقم کیا میں نے

سخنوری کا نیا شاہکار لایا ہوں

 

 

 

 

تو نے گاندھی کی لنگوٹی کی جہاں رکھ لی ہے شرم

میرے تہمد کو بھی یا رب فتح دے پتلون پر

 

نامۂ اسلام کی سرخی ہے قربانی مری

سب سے پہلا حق ہے آزادی کا میرے خون پر

 

جب زباں نارنگ کی چلتی ہے قینچی کی طرح

پھر سکوتِ مرگ چاری ہو گیا کیوں نون پر

 

وہ رنگیلا فلسفہ عریاں ہوا پنجاب میں

جس کی راہیں بند تھیں یونان میں افلاطون پر

 

بک چکیں گی جب بہشتی مقبرے کی ہڈیاں

ٹیکس لگ جائے گا میشِ قادیاں کی اون پر

 

عرش کے قدوسیوں نے چوم لی اسکی زباں

جب قلم نقاش کا اٹھا کسی مضمون پر

 

 

 

 

لبرل جو دکھاتے ہوئے آئے ہیں ازل سے

بازارِ تملق میں تماشا گزری کا

 

کرتے ہیں یہ دعویٰ کہ موالات ہی ماحول

حکمت کی جہات عملی و نظری کا

 

آزادیِ کامل نہ کبھی ہو گی میسر

گر ہم کو سلیقہ نہیں دریوزہ گری کا

 

میعادِ غلامی کے بڑھانے کے سوا کیا

انجام ہے احرار کی شوریدہ سری کا

 

انگریز کی دہلیز پہ رکھ دیتے اگر سر

آتا انہیں اس میں بھی مزہ تاجوری کا

 

برطانیہ گلفام ہے اور سبز پری ہند

گلفام سے کیوں عقد نہ ہو ہو سبز پری کا

 

سر تیج بہادر یہی فرماتے ہیں ارشاد

اور صاد ہے اس فلسفہ پر شاستری کا

 

 

 

ملنے والی ہے کوئی دم میں حریفوں کوشکست

فتح اسلام کے بیٹوں کی قریب آئی ہے

 

شرط اسلام بود ورزش ایماں بالغیب

غائبانہ مری جھجر سے شناسائی ہے

 

نہیں ممکن کہ غلامی پہ کبھی قانع ہو

کہ مسلماں کو ملی مسند دارائی ہے

 

حرمتِ ملت بیضا پہ میں کٹ مرتا ہوں

گرچہ ہندی ہوں طریقہ مرا بطحائی ہے

 

میں بھی ہوں شیوہ تسلم و رجا پر قائم

اگر انگریز کا مسلک ستم آرائی ہے

 

 

ملک برکت علی اور مجلسِ احرار

 

اگر سرکار مرشد تھی تو احراری ولی نکلے

اور ان کی گوشمالی کو ملک برکت علی نکلے

 

الیکشن سر پہ آیا کامیابی اس کو کہتے ہیں

کہ ہر تقریر آزادی کے سانچے میں ڈھلی نکلے

 

دعائیں مانگتی ہیں رات دن احرار کی ٹولی

کہ جس کوچے سے ہم نکلیں لفنگوں کی گلی نکلے

 

سنا دے جا کے انگریزوں کو سچی بات کونسل میں

خدایا ہم بھی ٹولی ایک ایسی منچلی نکلے

 

 

 

ٹین فروش مولانا مظہر علی اظہر علی

 

ہم ہیں احرار نہیں ہم سے الجھنا اچھا

تیری اوقات ہی کیا ہے ابے او ٹین فروش

 

 

کامریڈ محمد حسین ٹین ساز

 

میں نے مسجد نہیں بیچی کبھی تیری مانند

ابے او چندہ کے بھوکے ابے او دین فروش

 

 

 

 

 

آرائشِ اسلام ہیں گجرات کے قصاب

ان پر ہے جسے ناز وہ ہے خطّۂ پنجاب

 

مر مٹتے ہیں یہ نامِ رسولِؐ عربی پر

اس نام کی توہین کی لاتے یہ نہیں تاب

 

گجرات میں کچھ اور بھی ہیں مردِ مجاہد

ہیں بے عدد اس شہر میں اللہ کے احزاب

 

دیتے ہیں مساجد پہ جو بت خانہ کو ترجیح

میں ان کو سکھاؤں گا شریعت کے سب آداب

 

احرار کو چندہ کے سوا کچھ بھی نہ سوجھا

بلّی کو نظر آئے فقط چھیچھڑوں کے خواب

 

ربانی و یعقوب کے جوڑے کی تڑپ دیکھ

وہ برق کی تصویر ہے یہ پیکرِ سیماب

 

گجرات کی رونق ہیں حبیب اور کرامت

اسلام کے دریا کے یہ دو موتی ہیں نایاب

 

شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے

میں وقت کا رستم ہوں وہ ہے ثانٔی سہراب

 

سن لو گے کہ گجرات میں عالم کی ہوئی فتح

اس فتح مبیں کا ہے یہی شہر نیا باب

 

دریا مرے رستہ میں نہ ہوں گے کبھی حائل

مجھ کو جو گزرنا ہو تو پایاب ہو چیناب

 

 

 

جو چاہتے ہو کہ  روشن بڑوں کا نام کرو

تو جس نے ان کو برا کر دیا وہ کام کرو

 

کرو خدا پہ بھروسا جو سب سے اچھا ہے

پھر اپنی قوتِ بازو سے اعتصام کرو

 

غلامِ احمدِ مختار ہو خدا کے لیئے

نہ اپنے آپ کو اغیار کا غلام کرو

 

اس ابتلا سے خدا کی ہزار بر پناہ

کہ جھک کے تم کسی نا اہل کو سلام کرو

 

کبھی صلیب کی شہ رگ کو جس نے کاٹا تھا

پھر اس ہلال کے خنجر کو بے نیام کرو

 

نہیں ہے اس میں عرب اور عجم کی کچھ تخصیص

وہی وطن ہے تمھارا جہاں قیام کرو

 

بقائے وحدتِ اسلام ہے اگر منظور

تو قادیاں کی نبوت کی روک تھام کرو

 

 

ماخذ:

Urdu World

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید