FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

متاعِ فکر

 

 

 

               شائستہ سحرؔ

 

 

 

 

ہر عبقری سخن ور کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے تلخ و شیریں تجربات، عمیق مشاہدات، نازک احساسات، شدید جذبات اور محسوسات کو اپنی شاعری میں منظوم کرتا ہے جو اُس کے عہد کی تاریخ بھی ہوتی ہے اور اُس کے معاشرتی حالات کی دستاویز بھی۔ شائستہ سحرؔ کے کلام میں مذکورہ بالا تمام لوازمات شد و مد کے ساتھ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ شائستہ سحرؔ نے اپنے آپ ہی کو لکھا ہے تو شاعری کا روپ سامنے آیا ہے۔ اُن کے اندازِ تکلم، طرزِ تخاطب، ذہنی استعداد، ندرتِ خیال، تخیل کی پرواز، فکر کی گہرائی، سوچ کی گیرائی، الفاظ و محاورات کو منتخب کرنے، سجا کر پیش کرنے کے عمل، مشقِ سخن سے اُن کے دل کش اسلوبِ اظہار، ذہانت و فطانت اور تعلیمی قابلیت کا ثبوت ملتا ہے۔

شائستہ سحرؔ کا زیرِ نظر شعری مجموعہ ’’متاعِ فکر‘‘ دنیائے اُردو ادب میں اُن کی پہچان بنے گا تشنگان و حریصانِ شعر و ادب کی پیاس بجھانے میں ممد و معاون اور اُن کی شہرت کا سنگِ میل ثابت ہو گا۔

شاعر علی شاعرؔ

 

 

 

 

انتساب

 

 

 

اُس ذاتِ اقدس کے نام جس نے

شعور و آگاہی اور تخلیقِ شعر کا ہنر

ودیعت فرمایا

 

 

 

 

شائستہ سحرؔ آئینۂ سخن میں

 

               ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ

 

حضرتِ انسان جسے حیوانِ ناطق بھی کہا جاتا ہے، اپنے عقلی و علمی خصائص کی بنیاد پر اشرف المخلوقات ٹھہرا ہے۔ قدرت کی عطا ئیں اُسے مختلف میدانوں میں ممتاز و ممیز بناتی رہی ہیں۔ کسی کو بصالت و جرأت زیادہ ملی تو وہ شہسوار وغا ٹھہرا اور اگر بستۂ قوت و جسم و جاں مستراد ہو گیا تو نامی گرامی پہلوان بن گیا۔ اگر تجربہ و مشاہدہ سے نتائج اخذ کرنا آ گیا تو سائنس دان بن گیا اور اگر زبان میں چستی و چابک دستی آ گئی اور بوقت دلائل بروئے کار لانا دسترس میں ہوا تو عظیم وکیل بن گیا۔ اسی طرح اگر علمِ بدیع و بیان میں دستگاہ حاصل ہو گئی اور کلامِ موزوں کی وجدانی طاقت مل گئی تو سخنور قرار پایا۔

آج عالمِ رنگ و بو میں جہاں گلِ ہر نوع اپنی اپنی بہار دکھا رہا ہے، وہاں جہانِ شعر و ادب بھی اپنے اہلِ قلم سپوتو ں کے دم قدم سے نرالی چھب دکھا رہا ہے، جن کے سخن پارے صاحبانِ ذوق سے قرارِ واقعی داد و تحسین حاصل کر رہے ہیں۔

اسی قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک جواں فکر شاعرہ شائستہ سحرؔ کا تازہ مجموعۂ کلام ’’متاعِ فکر‘‘ اِس وقت ہمارے رو بہ رو ہے اور ہم اِس نسبت سے اظہارِ خیال پر مامور ہیں۔ میرپور خاص سے تعلق رکھنے والی یہ سخنور اپنے کلام میں آموں کی لطافت گھولے ہوئے بندِ دل کھولتی محسوس ہوتی ہے۔ عرصہ بیس سال پر محیط اِس کا ریاضتی دورانیہ اِس امر کا شاہد عادل ہے کہ اِس کا فن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رو بہ ترقی رہا ہے۔ تجربات و مشاہدات میں وسعت، تخیلات میں ترفع، افکار میں تنوع اور اسالیب میں بو قلمونی اِس کے سخن کا خاصہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اِس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اہلِ ہنر ہر بار ایک نئی چھب سے نمایاں ہوتے ہیں۔ اِن کا انداز گزرتے لمحات کے ساتھ ساتھ نئے امکانات کا نقیب ہوتا ہے۔ کلام کا ایک زاویۂ کمال یہ بھی ہے کہ خاتون ہونے کے با وصف بھی نسائیت کا دور تک سخن میں نام و نشاں نظر نہیں آتا۔ وہ کسی ایک گوشے میں محدود نہیں بلکہ آفاقی رنگ اُس کے سخن میں ہویدا ہے۔

ذیل میں ہم شائستہ سحرؔ کی نگارشات کے تناظر میں اِس کے کلام کے مختلف رنگ دکھانے کی کوشش کریں گے۔

حسنِ ہنر ایک بے حد سنجیدہ مسئلہ ہے جس کا حصول اتنا آساں نہیں ہے۔ اِس کے لیے تو کشیدِ جاں صرف کرنا پڑتی ہے۔ سحرؔ کو اِس کا پورا ادراک ہے۔ اِس کا یہ شعر اِس کی معاملہ فہمی کا مظہر ہے   ؎

لگا ہے خون پوروں سے ٹپکنے

ہنر میرا کمائی دے رہا ہے

در حقیقت ایک سچا شاعر دنیاوی آلائشوں سے بچنا چاہتا ہے، کیوں کہ معاشرتی عوارض اُسے بہت ستاتے ہیں اور فکری ناہمواریاں اُسے شدید تکلیف دیتی ہیں۔ پھر بھی اسے مصالحت کرنا پڑتی ہے اور نباہ کے نام پر اپنے قیمتی احساسات نچھاور کرنے پڑتے ہیں۔ شائستہ سحرؔ کا یہ شعر دیکھیے   ؎

فریب و مکر، لالچ، خود پسندی

یہ سب آلائشیں ہیں اور ہم ہیں

شاعر سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے پہلو میں ایک نرم اور حساس دل رکھتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں محبتیں بانٹتا ہے مگر جواب میں نفرتیں اُس کا استقبال کرتی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ناآسودہ محسوس کرتا ہے اور یوں شکوہ گزار ہوتا ہے   ؎

چرخ کا ہم نے کیا بگاڑا ہے؟

ہم سے یہ تو خفا ازل سے ہے

حالات کا مقابلہ کرتے کرتے انسان اُس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ گلشنِ افکار اُجڑ جاتا ہے۔ سعی و عمل کی صورتیں خشک ہو جاتی ہیں اور مبہوت ہو کر یہ کہنے لگتا ہے   ؎

اب جیون ہے وحشتِ ساماں

دل خاموش نگر لگتا ہے

وہ اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتا ہے، سماجی ناہمواریاں اِسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ گلزارِ تمنا ویران دکھائی دینے لگتا ہے اور بقول گو تم ’’دنیا دکھوں کا گھر ‘‘دکھائی دینے لگتی ہے جس کی ترجمانی سحرؔ یوں کرتی ہے   ؎

دنیا کے آشوب نگر میں

ہر خواہش ناکام ہوئی ہے

اِن حالات میں کبھی کبھی آرزوئیں انگڑائی لیتی ہیں۔ ارمان مچل اُٹھتے ہیں۔ دبی ہوئی تمنائیں سر اُٹھاتی ہیں۔ خوابیدہ آرزوئیں بیدار ہونے لگتی ہیں تو شائستہ سحرؔ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے ؎

سوکھے ہوئے پتوں کی قبا اوڑھ کے بن میں

آندھی سے نپٹنے کا ہنر مانگ رہی ہوں

جب گردشِ ایام دگرگوں ہو جائے، حالات کا دھارا مخالف سمت میں بہنے لگے، جذبات کا خون ہونے لگے اور احساسات کچلے جانے لگیں تو بندہ حساس درویشی اپنا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیات شاعرہ موصوفہ کے فحوائے بیان میں نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔ ذرا سنیے وہ کیا کہہ رہی ہے   ؎

جہاں کو ہر طرح جانا ہے میں نے

رہی اب خواہشِ دنیا نہیں ہے

٭

جو فقیرانہ شان رکھتے ہیں

ساری دنیا کا دھیان رکھتے ہیں

کمپرومائز کی ایک حد ہوتی ہے۔ پل پل محرومی، لمحہ لمحہ فراق اور ساعت ساعت پریشانی، ایسی صورتِ حال میں زندگی عذابِ ساماں بن جاتی ہے۔ زندہ رہنا کسی کرشمے سے کم نظر نہیں آتا۔ سحرؔ کا یہ شعر غالباً اِسی تناظر میں ہے   ؎

کتنا افسوس ہے مجھے خود پر

کہ میں تجھ سے بچھڑ کے زندہ ہوں

صدمات کی فراوانی، دکھوں کی کثرت، آلام کے طومار اور پریشانیوں کی بارش میں بھی بسا اوقات جوہرِ اصلی فنا نہیں ہوتا بلکہ اِس کی عکاسی اِن الفاظ میں ہوتی ہے   ؎

ہر ناتے سے بڑھ کر پیار کا ناتا ہے

کیا دنیا، کیا شہرت کیا دھن جانِ جاں

لیکن عمرانی تقاضے بہت جلد اُسے یہ احساس دلا دیتے ہیں کہ زندگی محض خالی خولی خوش اُمیدیوں پر نہیں گزاری جا سکتی۔ جبرِ عصر اُسے باور کرا دیتا ہے کہ حسنِ ظن کے سہارے زیست کا ہیکلِ سلیمانی بنیاد پذیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا لسانِ شاعر یوں سخن پرداز ہوتی ہے   ؎

رہ کے ایک محبس میں ذکرِ سیرِ گلشن کیا

پھول کس طرح ڈولیں خار تک نہیں ہلتے

غم و سوز کی بھٹی انسانی فکر کو کندن بنا ڈالتی ہے۔ ایک فقیرِ بے نوا درویش جاں مست بن جاتا ہے۔ اقبالؔ نے کہا تھا   ؎

چشم بند و گوش بند و لب بند

گر نہ بینی سروق برما بجند

اِسی کے بمصداق سحرؔ خود سے مخاطب ہے   ؎

تری سرگوشیوں میں رازِ ہستی

بہت واضح سنائی دے رہا ہے

اصل میں معراجِ فکر، کمالِ فن، کشفِ نظر اور کرامتِ ہنر یہی تو ہے کہ رازِ حیات انسان پر منکشف ہو جائے اور تن بدن بے در کی خبر اُس پر آشکار ہو جائے۔ یہ وہ شکتی ہے جو بندۂ خاکی کو تمام جکڑ بندیوں سے آزاد کر دیتی ہے۔ وہ جملہ قدغنوں سے ماورا ہو جاتا ہے۔ پردہ ہائے بام و در اُس کی نگاہوں سے اُٹھ جاتے ہیں اور وہ متاعِ فکر و نظر کا وارث ٹھہرتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ عزیزہ شائستہ سحرؔ کا فنی سفر اور زیادہ شان دار و تاب ناک ہو جائے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

عمیق حسّیات کی سخنور…شائستہ سحرؔ

 

               شبیر ناقدؔ

 

خالقِ ارض و سماء نے بنی نوع انسان کو فہم و فراست، عقل و شعور اور نطق و زباں جیسی نعمتِ غیر مترقبہ ودیعت فرمائی۔ اعلیٰ وجدانی اور حسیّاتی خصائص کی بدولت اشرف المخلوقات کے اعزاز سے بھی نوازا۔ اظہار کے مختلف ذرائع عطا فرمائے۔ اِن میں فنونِ لطیفہ شامل ہیں ، جن میں شاعری کو ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ فنِ شعر گوئی مختلف جذبات و احساسات اور افکار و تخیلات سے عبارت ہے۔ کسی بھی سخنور کا حسیّات عمق اِسی کی فکری وسعت کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ شذرہ ھٰذا میں شائستہ سحرؔ کی سخن سنجی کے حوالے سے رقم طراز ہیں ، جن کے فحوائے سخن میں افکار کی رنگارنگی، بوقلمونی، نادرہ کاری اور تلون و تنوع کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ، جن کا اوّلین شعری مجموعہ ’’عذابِ آگہی‘‘ سے موسوم 1997ء میں منصہ شہود پر آیا، جس میں بہتری کے فزوں تر امکانات موجود تھے۔ اب ’’متاعِ فکر‘‘ کے نام سے مجموعۂ کلام منظرِ عام پر لا رہی ہیں۔ مجموعۂ مذکور کے مطالعہ سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ وہ ایک منجھی ہوئی شاعرہ کے طورپر سامنے آئی ہیں ، جس سے اُن کا مشاطگیِ سخن سے خلوص واضح ہوا ہے اور اُن کی شبانہ روز ریاضت کی عکاسی ہوتی ہے۔ اِس کتابِ شعر میں تقریباً ایک سو غزلیات اور چند پابندو آزاد نظمیں شامل ہیں۔ غزل اِن کی محبوب ترین صنفِ سخن ہے۔ تاہم اُن کی نظمیں بھی بھرپور تاثر کی حامل ہیں۔

شائستہ سحرؔ دنیائے شعر و سخن میں اپنی ایک منفرد پہچان کی حامل ہیں۔ اُن کی شعری تخلیقات معتبر اخبارات و جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ پیشۂ معلمی سے وابستگی کے باعث شعر و ادب سے اُن کا شوق و شغف فطری نوعیت کا ہے۔ اُن کا کلام عمومی نسائی شعری ڈگر سے ہٹ کر ہے، جس سے ایک تازہ کاری کا احساس مترشح ہوتا ہے۔ ’’متاعِ فکر‘‘ سے چند شعری استشہادات مع ناقدانہ تصریحات سپردِ قرطاس ہیں۔

شائستہ کی شاعری احساسِ ذات اور کربِ ذات کی ردا اوڑھے ہوئے ہے، جس میں حرماں نصیبی کے قصے اور محرومیوں کے فسانے ہیں۔ مجموعی طور پر اِن کا سخن حزینہ رنگ کا حامل ہے۔ غم کی آنچ شدید نوعیت کی ہے جو قاری کو بھرپور انداز میں متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اِن کا نظریۂ شعر، شعر برائے شعر گفتن خوب است کے زمر سے منسوب نہیں ہے۔ اِن کی سخن سنجی شعری واردات کی حیثیت رکھتی ہے جو خود میں تادیر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اِنہیں اِس امر کا بخوبی ادراک ہے   ؎

مرے مقدر میں اُلجھنیں ہیں ، مرا مسرت سے کیا تعلق

سدا نہیں رہنا میں نے جگ میں رہے گی میری کہانی باقی

اگرچہ داخلیت و خارجیت ہر نوع کے فکری شواہد اِن کے ہاں ملتے ہیں لیکن داخلی عوامل کی عمل داری فزوں تر نظر آتی ہے اور حزن و ملال کے حوالے وفور سے پائے جاتے ہیں۔ اِن کا یہی طرزِ فکر اِن کے تخیلات و اسلوب کو بے جان اور سپاٹ نہیں ہونے دیتا، جس کے علی الرغم اِن کے کلام کی لسانیاتی و اسلوبیاتی اور فکری رونق و رعنائی بر قرار ہے   ؎

دل ہے اک خاموش جزیرہ

چاروں اور ہے ہُو کا عالم

تنہائی بے فیض مسافت

صبحیں گریاں شامیں پُر نم

سحرؔ کا کلام صرف کلبۂ کلفت و عسرت نہیں ہے بلکہ طربیہ اور رجائی امکانات بھی اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ خوشگوار و لطیف احساسات کی ایک فضا ہے جو قلب و خرد پر خیرہ گری کا سماں رکھتی ہے۔ غم و آلام سے رستگاری کے حوالے ہیں جو اُمید کے ہالے ہیں  ؎

وہ درد کا موسم بیت گیا

اب شام سہانی کیا کہنا

سحرؔ کی غزل رومان نگاری کا دلکش اور حسین مرقع ہے جس میں معرفت و مجاز کی عمدہ تمثیلات ملتی ہیں۔ اِن کا بات کرنے کا ڈھنگ منفرد اور جداگانہ ہے۔ عصری آشوب اور عصری رویے بھی بھرپور انداز میں عندالسخن پائے جاتے ہیں  ؎

جو طائر دشت میں اُترا ہوا ہے

تلاشِ یار میں نکلا ہوا ہے

فضا میں وحشتوں کا ہے بسیرا

پرندہ شاخ پر سہما ہوا ہے

اِن کے سخن میں بے پناہ اظہاری صلاحیتیں اور جسارتیں کار فرما ہیں۔ اِس لیے کہیں کہیں اِن کا اندازِ بیاں مزاحمتی و انقلابی نوعیت کا ہو جاتا ہے کہ قاری اِن کی جرأتِ اظہار کی داد دئیے بغیر نہیں رہ پاتا   ؎

سر سلامت ابھی ہے شانوں پر

جو بھی کہنا ہو برملا کہیے

٭

قلم میں اگر روشنائی نہیں ہے

تو پھر نقدِ خوں کیوں لٹائی نہیں ہے؟

وہ دنیا و مافیہا کو انتقادی زاویوں سے دیکھتی ہیں۔ اپنی معاشرت اور ذات کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں۔ اِس لیے عمرانی نقطۂ نگاہ سے اِن کے کلام کا مطالعہ مفید و متداول ہے۔ وہ فکری اعتبار سے جدت و روایت کے سنگم پر دکھائی دیتی ہیں  ؎

ہیں کھوکھلے سارے نئی تہذیب کے دعوے

فرسودہ روایات میں گم ہونے لگی ہوں

٭

بنے ہیں وہی پیرِ کامل کہ جن کی

خدا سے ذرا آشنائی نہیں ہے

کہیں کہیں اِن کے کلام کی فلسفیانہ اور حسیّاتی سطح بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ تصوف اور مابعد الطبیعاتی موضوعات جلوہ ریزیاں کر رہے ہیں جس سے ایک عمیق حسّی تاثر اجاگر ہوتا ہے   ؎

پہلے مرے وجود کو یکجا کیا گیا

پھر میرے جسم سے مجھے منہا کیا گیا

اِن کے ہاں انفرادی حوالوں کے پہلو بہ پہلو اجتماعی حوالے بھی بکثرت ملتے ہیں۔ اِن کا تخلیقی ارتقاء ذات کی اکائی سے شروع ہو کر کائنات کی اکائی پر منتج ہوتا ہے جس سے اِن کا جزوی و کلی طرزِ فکر آشکار ہوتا ہے   ؎

میں سحرؔ کچھ سمجھ نہیں پائی

کیوں مجھے فکر ہے دو عالم کی

شائستہ کے کلام میں فزوں تر استفہامیہ اشارات موجود ہیں جن کی بدولت شدتِ احساس اور زورِ بیان وفور سے پایا جاتا ہے۔ ایک غور و خوض اور دعوتِ تحریک ہے جو عندالبیان جلوہ نمائی کر رہی ہے   ؎

جہاں سارا تو کروٹ لے رہا ہے

اُٹھو تم بھی تو اب خوابِ گراں سے

سحرؔ کے کلام میں عروضی تلازمات کا التزام بخوبی ملتا ہے۔ متنوع بحور میں انتہائی کامیابی سے سخن سنجی کی ہے۔ ناد رالنظیر قوافی اور ردیفوں کا استعمال فنی چابک دستی کے پیرائے میں ملتا ہے۔ اسلوبیاتی اعتبار سے زبان و بیان کا ایک خاص معیار کار فرما ہے۔ استعارات و تمثیلات کی ایک دل فریبی ہے جو متوجہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اِن کے نظامِ ترکیبات میں سرِ خیال، پسِ خیال، ماہ و سال، روز و شب، خال و خد، چشمِ سرمگیں ، لمسِ عنبریں ، چاکِ دل، دلِ خلوت نشیں ، سوزِ نہانی، سوادِ عشق، شبِ ظلمت، دلِ وحشی، حریمِ جاں ، لبِ بحر، جسم و جاں ، رنگِ سحر، قلب و جگر، دشت و بن، وفورِ شوق، عالمِ اضطراب، کلفتِ شب، بحرِ خرابات، نالۂ شب گیر، صبحِ نوا، غمِ دوراں ، صبحِ خنداں ، پردۂ شب، جانبِ منزل، مثالِ گلِ رخشِ عصر، شرابِ ہستی، گلِ شگفتہ، چشمِ حسرت، نقش و نگار، ستم رساں ، شہرِ قائد، چشمِ حسرت، نقش و نگار، ستم رساں ، ذی نفس، شکارِ یاس، حصارِ کور چشمی، کربِ عصر، نجم گُم شدہ، موجۂ صبا، جامِ دل نوازی، شامِ یاسیت، دل و نظر، ترکِ وفا، نشاطِ ہستی، ماہ و انجم، ابرو بادہ، سرِ شام، چشمِ مسیحا، شہرِ خموشاں ، حسبِ ضرورت، جمالِ یار، ترکِ مروّت، موجۂ گل، کربِ دروں ، زیر و بم، تقدیرِ کل، شورِ زندگی، تنگیِ داماں ، نوشتِ خاک و نقش و آب، زرناب، حدیثِ صبحِ نو، گنبد و مینار، خوابِ گراں ، نخلِ با ثمر، خار و خس، بادِ بہاری، تشنہ لبی، یارِ شیریں دہاں ، کارِ ابلیس، ملمَّع کاری، بزمِ ناز، بندِ غم، لوحِ محفوظ، فروغِ گلستاں ، شہرِ کم شناس، شعورِ ذات، شیشۂ خیال، جنسِ بے وفائی، پہلوئے جاناں ، حریفِ شبنم، چشمِ پُرنم، جبرِ پیہم، فریب و مکر، حدِ نظر، زخمِ جگر، نطق و زباں ، ذکرِ سیرِ گلشن، ابرِ نیساں اور آبِ زر جیسی عمدہ تراکیب اِن کے لسانی تبحر کا پتا دیتی ہیں۔ ہندی، فارسی اور عربی لفظیات کا استخدام بھی ایک قرینے کے ساتھ ملتا ہے۔ اگر اُن کا ریاضِ شعر اِسی عرق ریزی سے جاری و ساری رہا تو تخلیقِ شعر کے نئے امکانات اور اِن کے بہتر شعری مستقبل کی روشن نوید سنائی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

’’جستجو میں ہو کس کی سرگرداں ؟‘‘

 

               نوید سروشؔ

 

شائستہ پروین، ادبی دنیا میں شائستہ سحرؔ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ شائستہ سحرؔ 23؍ستمبر 1975ء میں میر پور خاص میں پیدا ہوئیں۔ والدہ کی اچانک موت نے بچپن کی شرارتیں اور ناز نخرے چھین لیے۔ بچپن کی محرومیوں اور ماں کی کمی کو شدت سے محسوس کرنے کے جذبے نے انہیں شعر کہنے کی جانب مائل کیا۔ گھر کے حالات کے سبب حصولِ تعلیم میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر بڑے حوصلے سے تعلیمی سفر جاری رکھا۔ اردو ادب میں ایم اے کیا۔ آج کل ابن رشد گورنمنٹ گرلز کالج میر پور خاص میں بحیثیت لیکچرو تدریسی فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’عذابِ آگہی‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ اس مجموعے کی اشاعت کی روداد خاصی دلچسپ ہے۔ اپنے گھر میں پڑھنے لکھنے کی مشکل سے اجازت تھی پھر شاعری کا شوق…؟پہلے مجموعے کی اشاعت کی روداد ملاحظہ کیجیے۔

شائستہ سحر کی شادی 31مئی 1997ء میں ہوئی۔ دلہن کو ’’منہ دکھائی‘‘ میں ملنے والی رقم سے اپنا شعری مجموعہ چھپوا لیا۔ کچھ ماہ بعد کتاب کی تقریب گل محمد عمرانی(کمشنری میرپور خاص) کی صدارت میں رو ٹری کلب عمارت میں ہوئی۔ اسی تقریب میں محترمہ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پہلا مجموعہ صرف شوق اور جنونی جذبے کے تحت منظر عام پر آیا۔ انہوں نے اپنا کلام نہ کسی کو دکھایا اور نہ ہی نظرِ ثانی کی ضرورت محسوس کی لہذا اس میں معمولی قسم کی فنی خامیاں رہ گئیں۔

تخلیق کار کی ذاتی زندگی کا پر تو اور مختلف کیفیات شعوری و لا شعوری طور پر اس کی تخلیق کا حصہ بن جاتی ہیں یا کم سے کم جھلک نمایاں ہو جاتی ہے۔ شائستہ سحرؔ کی زندگی کے ابتدائی برس مصائب و پریشانی میں گزرے۔ زیست کے غم و الم انسان کو جہاں صبر و تحمل کی نعمت سے نوازتے ہیں وہاں شخصیت میں بے تابی اور سیمابی کیفیات بھی در آتی ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ حزن و ملال اور اندر کی خاموشی، اظہار کی طاقت عطا کرتے ہیں۔ شائسہ سحرؔ کی شاعری کے مختلف زاویے زندگی کے انہی پہلوؤں سے مزّین ہیں  ؎

یہ کیسی الجھنوں میں مبتلا ہیں

جہاں کی سازشیں ہیں اور ہم ہیں

٭

وفائیں کم کم جفائیں زیادہ

رفاقتوں کا نصاب سادہ

٭

بول رہی تھیں آنکھیں اس کی

لیکن میرے ہونٹ سلے تھے

شائستہ سحرؔ کی غزل میں جذبہ بھی ہے اور جذبات بھی، ریشم جیسی نرمی بھی ہے چٹان کی طرح استقامت بھی اور صبر و تحمل بھی ہے بے تابی اور اضطرابی کیفیت بھی، وہ بنیادی طور پر حزنیہ و عشقیہ لب و لہجے کی شاعرہ ہیں۔ وہ نسوانی احساسات کو مکمل آگہی کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتی ہیں اور ذمے داری کے ساتھ اسے قبول کرنے کا سلیقہ بھی رکھتی ہیں۔ اپنی محبت کو ٹوٹ کر چاہنے اور اسے حاصل کرنے کے حوالے سے سینئر شاعرات نے مختلف انداز میں نسوانی احساسات و جذبات کو نظم کیا ہے۔ شائستہ سحرؔ نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ان کے ہاں سپردگی کا جذبہ ایک عجیب سی ضد کا عنصر جھلکتا ہے۔ اس ضد میں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتیں بلکہ ایک محویت کی کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور اس سارے عمل میں وہ اپنا لہجہ دھیما رکھتی ہیں  ؎

میری نس نس میں بس گیا ہے تو

میرے بارے میں کچھ تو سوچا کر

٭

ممکن ہو سحرؔ ہم سے تو کترا کے گزر جا

رستے میں کھڑے ہیں ترے دیوار کی صورت

٭

صبر کی کوئی حد بھی ہوتی ہے

جبر کی انتہا نہیں معلوم

٭

بیاں کڑوی حقیقت کر رہی ہوں

گزر حسبِ ضرورت کر رہی ہوں

شائستہ، کے کلام میں غنائیت کی خوبی بھی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بعض غزلیں اور کچھ غزلوں کے اشعار کی لفظیات اور مزاج گیت کے قریب قریب ہیں  ؎

کومل کومل مدھم مدھم

ساجن من کی آنکھیں کھول

٭

پریتم تیری یاد کا موسم

مور پپیہے تو بھی بول

٭

تنہائی بے فیض سافت

صبحیں گریاں ، شامیں پرنم

شائستہ سحرؔ نے غزل میں عشقیہ مضامین کو وقت کے تقاضوں کے مطابق نظم کیا ہے۔ ان کی غزل کا ایک منفرد پہلو، عشق میں بے تابی و بے قراری ہے۔ وہ اپنی محبت کے حصول میں سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتی ہیں۔ وہ اپنے تصورات اور خوابوں میں بسنے والوں کو حرزِ جاں بنائے رکھتی ہیں۔ اس میں اندر کا انسان کتنا زخمی ہوتا ہے۔ وہ شائستہ سحرؔ کے کلام سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے   ؎

میں کہاں بے نیاز ہوں تجھ سے

تیری خوشبو ہے میری سانسوں میں

٭

میرے پہلو سے اٹھ کے جانے والے

تجھے چھونے کو بھی بے تاب ہوں میں

٭

کس شدت سے تم کو چاہا

لیکن تم سے پائے پتھر

شائستہ سحرؔ نا امید نہیں ہیں رجائیت کا پہلو بھی ان کی شاعری کا ایک وصف ہے۔ انہوں نے دریچۂ دل کا ایک خانہ کھلا رکھا ہے جہاں محبت اور چاہت کے چراغ روشن ہیں  ؎

تری یادوں سے گھر مہکا ہوا ہے

اجالا چارسو پھیلا ہوا ہے

٭

صبا تو ساتھ میرے ہی چلی تھی

مرے دل میں تو ہی روشن دیا تھا

شائستہ سحرؔ کے کلام میں لفظوں کی بندش اور تراکیب کے استعمال سے بخوبی انداز ہوتا ہے کہ انہوں نے قدیم و جدید اردو شعری ادب کا مطالعہ سنجیدگی سے کیا ہے۔

شائستہ سحرؔ، کی اکثر غزلیں چھوٹی بحر میں تخلیق ہوئی ہیں۔ چھوٹی بحر میں اچھا شعر کہنا یا اچھی غزل کہنا آسان نہیں۔ شائستہ نے چھوٹی بحر میں کچھ اچھی غزلیں کہی ہیں  ؎

عجب رنگِ تمنا کر دیا ہے

مجھے تو تم نے تنہا کر دیا ہے

٭

ہر ذی نفس پہ گویا

آسیب کا سماں ہے

شائستہ سحرؔ نے غزل کے علاوہ حمد نعت، گیت اور نظم بھی کہی ہے مگر ان کی پسندیدہ صنفِ غزل ہے پچھلے کچھ برسوں میں ان کا کلام ملک کے مختلف پرچوں میں شائع ہو رہا ہے   ؎

دلوں پر حکمرانی کر رہی ہوں

ہوا کی میزبانی کر رہی ہوں

الغرض شائستہ سحرؔ، غزل کے مزاج اور کیفیت کو سمجھنے والی ایسی شاعرہ کے روپ میں سامنے آئی ہیں جن سے مستقبل میں اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

ازل سے دائروں میں قید ہوں میں

مجھے ہونا کہاں تھا میں کہاں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

حمدِ باری تعالیٰ

 

سرِ خیال بھی تو ہے، پسِ خیال بھی تو

تری مثال کہاں ہے کہ بے مثال بھی تو

 

تری ہی ذات سے منسوب روز و شب میرے

کہ میرا دن، میرا لمحہ بھی، ماہ و سال بھی تو

 

ترے ہی ذکر نے بخشی ہے روشنی مجھ کو

ترا ہی عکس ہے مجھ میں ہے خد و خال بھی تو

 

ترے مزاج سے مملو مری غزل گوئی

مرا خیال بھی تو ہے، میرا جمال بھی تو

 

سحرؔ نے پائی ہیں جو نعمتیں عطا ہیں تری

ہنر بھی میرا ہے تو ہی، مرا کمال بھی تو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمہ اُوست

 

ہے عطر بیز موسم

جس میں شفق ہے مدغم

 

پھیلا ہوا کا آنچل

جیسے خوشی کا بادل

 

مستی میں سب جہاں ہے

مسحور کن سماں ہے

 

پھولوں کی پتیوں پر

روشن سے جگنوؤں پر

 

ہر شاخ، ہر شجر پر

دن رات اور سحر پر

 

تیری رقم کہانی

ہر چیز کی زبانی

 

تیری ہی داستاں ہے

تیرا ہی ہر نشاں ہے

 

ترا ہی نام ہر جا

تیرا ہی کام ہر جا

 

تیرا ہی تذکرہ ہے

مدحت کا سلسلہ ہے

 

دل ہے ستم کا مارا

تجھ میں کرم کا یارا

 

میں چپ رہوں یا بولوں

میل اپنے من کا دھو لوں

 

تو ہی مری زمیں ہے

دل میں مرے مکیں ہے

 

تو میرا آسماں ہے

سنتا مری فغاں ہے

 

تجھ پر کروں میں قرباں

میرا سخن، مری جاں

 

کمزور، ناتواں میں

پھر بھی رواں دواں میں

 

تجھ ہی سے مدعا ہے

تو ہی مرا خدا ہے

٭٭٭

 

 

 

نعت پاک

 

 

کرم کی نظر ہو اے شاہِ مدینہ

بھنور میں مسلسل ہے میرا سفینہ

 

عداوت سے ہو صاف و شفاف سینہ

عطا ہو مجھے اُلفتوں کا خزینہ

 

مری ذات کو ہے مصائب نے گھیرا

نہیں زندہ رہنے کا مجھ میں قرینہ

 

زمانے نے ہے اپنی ٹھوکر پہ رکھا

تھا احساس میرا تو مثلِ نگینہ

 

دعا گو ہوں حبِ محمدؐ کے صدقے

بنی نوع انساں سے ہو دور کینہ

٭٭٭

 

 

 

 

روبرو میرے نہیں وہ مہ جبیں

پر تصور میں ہے چشمِ سرمگیں

 

جب سے تم بچھڑے ہو میرے دل نشیں

ایک ساعت بھی سکوں پایا نہیں

 

یوں گزرتی ہے صبا چھو کر مجھے

جیسے ہو تیرا وہ لمسِ عنبریں

 

ڈھونڈنے سے مل ہی جاتی ہے مراد

آپ بھی مل جائیں گے اک دن کہیں

 

کیوں تجھے دوں زحمتِ بخیہ گری؟

چاکِ دل تو اب مرے سلتے نہیں

 

تا بہ کے دنیا سے کرنا ہے گریز

جھانک باہر بھی دلِ خلوت نشیں

 

کب مجھے حاصل ہے یارا ضبط کا؟

بھول جانا اب اُسے آساں نہیں

 

حجرۂ دل ہے سحرؔ ویران سا

کوئی کیسے ہو بھلا دل میں مکیں ؟

٭٭٭

 

 

 

دلوں پر حکمرانی کر چکی ہوں

وفا کی میزبانی کر چکی ہوں

 

مجھے اِس دھوپ سے حاصل ہوا کیا؟

لہو کو پانی پانی کر چکی ہوں

 

اُٹھا کر بوجھ کاندھوں پر سفر کا

رقم سوزِ نہانی کر چکی ہوں

 

ہوا میں پھیلتی جائے گی خوشبو

سخن کی میزبانی کر چکی ہوں

 

سحرؔ مجھ کو ہے یہ اعزاز حاصل

غموں کی باغبانی کر چکی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

سوادِ عشق میں موسم کڑے تھے

شبِ ظلمت کے سائے بھی گھنے تھے

 

بظاہر تو نہ تھا دوری کا امکاں

وفا کے سلسلے میلوں گئے تھے

 

ہم اہلِ دل کے قصے لکھتے لکھتے

تری یادوں کی لو سے جل اُٹھے تھے

 

سمٹ آئے تھے نینوں میں دو عالم

دلِ وحشی کے سارے ڈھب نئے تھے

 

جو دیکھا آئینہ تو یاد آیا

کسی کے پیار میں بے کل پھرے تھے

 

تری یادوں کے منظر تھے سہانے

کسی کے سب شگوفے کھِل اُٹھے تھے

 

حریمِ جاں میں تُو مسند نشیں تھا

ترے دم سے ہی سارے ولولے تھے

 

نہیں تھا ایک بھی بادل کا ٹکڑا

مرے چاروں طرف سورج اُگے تھے

 

کوئی ساتھی نہ کوئی ہم زباں تھا

کسی کی یاد میں تنہا جلے تھے

 

مجھے حق دو کہ میں ترمیم کر دوں

سحرؔ جو فیصلے تم نے لکھے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

وہی میرا قاتل، وہی دلربا ہے

وہی سوچ میری کا محور رہا ہے

 

اُسے تشنگی کی اذیت نے مارا

لبِ بحر طائر جو اک مر گیا ہے

 

بکھرتے گئے چار سو رنگ اُس کے

ہوا جب سے دل میں وہ جلوہ نما ہے

 

مرے غم کی وسعت کا عالم نہ پوچھو

رہی دل میں ہر پل قیامت بپا ہے

 

نویدِ مسرت مجھے بھی ملے گی

تو میری اُمنگوں کا روشن دیا ہے

 

مرا چاند تھا جانے کس کی طلب میں ؟

سدا جس کا گھر میں اجالا رہا ہے

 

سحرؔ جسم و جاں کا نہ تھا حال ایسا

کوئی مجھ میں رنگِ سحر بھر گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیشہ ایک منظر دیکھتی ہوں

تیرے ہاتھوں میں پتھر دیکھتی ہوں

 

مرے قلب و جگر میں تو ہی تو ہے

تجھے میں اپنے اندر دیکھتی ہوں

 

لپٹ جاتے ہیں پیروں سے گماں کچھ

میں جب ہی پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں

 

کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ

بدلتے تیرے تیور دیکھتی ہوں

 

جہاں کا حسن ہے تجھ میں سمایا

تجھے بانہوں میں بھر کر دیکھتی ہوں

 

ترے ہاتھوں میں ہیں ریکھائیں میری

سنورتا اب مقدر دیکھتی ہوں

 

جدا ہوتا نہیں مجھ سے وہ پل بھر

سحرؔ اُس کو ہی دن بھر دیکھتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دریا کی روانی کیا کہنا؟

موجوں کی کہانی کیا کہنا؟

 

وہ درد کا موسم بیت گیا

اب شام سہانی کیا کہنا؟

 

ہیں مست پپیہے، بلبل بھی

کوئل دیوانی کیا کہنا؟

 

ہے بھنور پاگل، ہرجائی

پھولوں کی جوانی کیا کہنا؟

 

ہے بوجھل بوجھل من اپنا

سانسوں کی گرانی کیا کہنا؟

 

ہیں ہونٹ تبسم ریز ترے

نینوں میں ہے پانی کیا کہنا؟

 

جھیل کنارے مہکی سی

تھی رات کی رانی کیا کہنا؟

 

موسم بھی سحرؔ ہے کچھ ظالم

اُف سوزِ نہانی کیا کہنا؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

مری رگوں میں تو خوں نہیں ہے نہ میرے تن میں ہے پانی باقی

مری اذیت بڑھی ہے پل پل رہی ہے غم کی روانی باقی

 

مرے مقدر میں اُلجھنیں ہیں مرا مسرت سے کیا تعلق

سدا نہیں رہنا میں نے جگ میں رہے گی میری کہانی باقی

 

وہ چاند رہتا ہے آسماں پر اُسے تو میری خبر نہیں ہے

ہے مرا سرمایہ اُس کی یادیں ، رہے گی اُس کی نشانی باقی

 

مجھے تو اُس نے کیا ہے تنہا میں دشت و بن میں رہی اکیلی

نہ قربتوں کے حسین لمحے، نہ شام کوئی سہانی باقی

 

رہا وفا کا بھرم نہیں ہے کسی کا مجھ پر کرم نہیں ہے

سحرؔ سکوں اپنا لُٹ چکا ہے ابھی ہے سر میں گرانی باقی

٭٭٭

 

 

 

 

کومل کومل، مدھم مدھم

پریتم تیری یاد کا سرگم

 

دل کی اُلجھن اور بڑھائیں

باتیں تیری مبہم مبہم

 

دل ہے اک خاموش جزیرہ

چاروں اور ہے ہُو کا عالم

 

یہ تیری دلدار نگاہیں

یاد کرائیں کیا کیا موسم؟

 

اُس نگری میں سب تنہا ہیں

کون مسیحا، کیسا مرہم؟

 

اُلجھی اُلجھی سب تعبیریں

خواب کی زلفیں برہم برہم

 

آنکھ میسر ہو تو دیکھو

میرے اندر کیا ہے عالم؟

 

تنہائی بے فیض مسافت

صبحیں گریاں ، شامیں پُرنم

 

اُس کے بھاگ میں بے چینی ہے

کب ہے سحرؔ نے رہنا بے غم؟

٭٭٭

 

 

 

 

تری یادوں سے گھر مہکا ہوا ہے

اجالا چار سو پھیلا ہوا ہے

 

جو طائر دشت میں اُترا ہوا ہے

تلاشِ یار میں نکلا ہوا ہے

 

وفورِ شوق ہے، پاسِ ادب ہے

جنوں زنجیر میں جکڑا ہوا ہے

 

فضا میں وحشتوں کا ہے بسیرا

پرندہ شاخ پر سہما ہوا ہے

 

جدائی پر ہیں دونوں مطمئن سے

مگر دل میں تو ڈر بیٹھا ہوا ہے

 

خبر پاتے نہیں اک دوسرے کی

دلوں کا رابطہ ٹوٹا ہوا ہے

 

اُسے اندیشۂ امروز کب ہے؟

ستارہ شام سے ڈوبا ہوا ہے

 

کوئی بھی دیکھنے والا نہیں ہے

مقابل آئینہ رکھا ہوا ہے

 

ہوا کی سختیاں جو سہہ نہ پایا

وہ پتّا ڈال سے ٹوٹا ہوا ہے

 

تعلق کی سحرؔ صورت نہیں ہے

کہ ریشم ذات کا اُلجھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

عالمِ اضطراب کیا کہیے؟

ہے وہ صورت جسے بلا کہیے

 

جرم برحق ترا، ستم جائز

بادِ صرصر چلے، صبا کہیے

 

اُس کے جانے پہ ہو نہ رنجیدہ

اُس کے آنے پہ مرحبا کہیے

 

ہم نے چاہا بہت کہ نِبھ جائے

پر ترا فیصلہ ہے کیا کہیے؟

 

سر سلامت ابھی ہے شانوں پر

جو بھی کہنا ہو برملا کہیے

 

دل کے ٹکڑے ہیں چار سو بکھرے

کلفتِ شب کو کربلا کہیے

 

اُس کی آنکھوں نے کیا کیا جادو؟

قافلہ دل کا بس لُٹا کہیے

 

بِن سحرؔ کے کہیں قرار نہیں

دل اُسے ڈھونڈتا ہے کیا کہیے

٭٭٭

 

 

 

 

فرقت کی سیاہ رات میں گم ہونے لگی ہوں

میں بحرِ خرابات میں گم ہونے لگی ہوں

 

میں نالۂ شب گیر کے پرچم کو اُٹھائے

اے صبحِ نوا شام میں گم ہونے لگی ہوں

 

حکمت کی یہ باتیں ، یہ تصوف کی کتابیں

عالم یہ ہے ہر بات میں گم ہونے لگی ہوں

 

ہیں کھوکھلے سارے نئی تہذیب کے دعوے

فرسودہ روایات میں گم ہونے لگی ہوں

 

میں ابر کی بوندوں سے سجی موم کی مورت

پیچیدہ خیالات میں گم ہونے لگی ہوں

 

دیکھا نہ پلٹ کر بھی سحرؔ جس نے اُسی کے

قدموں کے نشانات میں گم ہونے لگی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

روز و شب مجھ کو کھوجنے والے

ڈھونڈ کیا پائیں ڈھونڈنے والے؟

 

غمِ دوراں بھی ہے زمانے میں

میرے بارے میں سوچنے والے

 

تیرے دل کی تھکن بھی ہے شامل

میرے لفظوں میں بولنے والے

 

اپنے پیروں کی کھول زنجیریں

اُڑتے پنچھی کو روکنے والے

 

صبحِ خنداں پہ بھی نظر کر لے

پردۂ شب کے کھولنے والے

 

مجھ کو کانٹوں کا دے گئے تحفہ

جو تھے پھولوں میں تولنے والے

 

اب پکاروں سحرؔ کہاں ہیں وہ

مجھ کو راہوں میں رولنے والے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہک اُٹھی ہے کسی کی خوشبو

نہیں رہا اپنے دل پہ قابو

 

یہ کون بے چین مضطرب ہے؟

بلا رہا ہے مجھے لبِ جو

 

سمیٹ سکتے ہو تو سمیٹو

بکھر چکے ہیں وفا کے جادو

 

وہ جس کو سب سے چھپائے رکھا

دکھائی دینے لگا ہے ہر سو

 

وہ چاند کب دسترس میں ہو گا؟

کھلے ہوئے ہیں صبا کے گیسو

 

سحرؔ کے تازہ ہیں زخم اب تک

تو سنگ دل بھی ہے اور جفا جُو

٭٭٭

 

 

 

 

 

مجھے بے نام سی وحشت یہ آخر ہو رہی ہے کیوں ؟

عجب اُلجھی ہوئی بے ربط میری زندگی ہے کیوں ؟

 

کہیں سورج نہیں ڈھلتا، کہیں شب ہی نہیں ہوتی

مزاجِ آسماں تجھ میں بتا یہ سرکشی ہے کیوں ؟

 

چلی تھی جانبِ منزل دروں میں رنگ بھرنے کو

یہ کیوں دھندلا گئے منظر لہو میں بے حسی ہے کیوں ؟

 

ہوئی تقصیر کیا مجھ سے، بھلا کیا دوش ہے میرا؟

مسلسل حزن کی چادر مرے سر پر تنی ہے کیوں ؟

 

کسی کو کس لیے چاہا، کسی کو اپنا کیوں جانا

سحرؔ ہونی تو ہونی ہے بتا شرمندگی ہے کیوں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

مثالِ گل مہکتی جا رہی ہوں

نئے رنگوں میں رنگتی جا رہی ہوں

 

یہ کیسی آگ سی تن میں لگی ہے؟

بہاروں میں سلگتی جا رہی ہوں

 

مرے تن میں ہیں سارے رنگ تازہ

میں تیرا عکس بنتی جا رہی ہوں

 

تری کیفیتوں سے آشنا میں

ترے دل میں دھڑکتی جا رہی ہوں

 

پرندوں نے بدل ڈالے ٹھکانے

میں تیری سمت چلتی جا رہی ہوں

 

بظاہر ہوں میں سب کے ساتھ لیکن

سحرؔ خود سے ہی کٹتی جا رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہت ستائے ہوئے ہیں دونوں

کہ تیر کھائے ہوئے ہیں دونوں

 

یہ دوست ہیں اور وہ ہیں دشمن

سو آزمائے ہوئے ہیں دونوں

 

یہ شعر میرے، یہ میرے تیور

کسی کو بھائے ہوئے ہیں دونوں

 

اگرچہ دونوں عذاب میں ہیں

جبیں جھکائے ہوئے ہیں دونوں

 

اکیلا وہ ہے، اُداس میں بھی

فریب کھائے ہوئے ہیں دونوں

 

ضرور غم ہم غلط کریں گے

لہو رلائے ہوئے ہیں دونوں

 

سحرؔ بچا اب تو کچھ نہیں ہے

کہ دل جلائے ہوئے ہیں دونوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہیں آشنا مِرے حال سے

میرے درد، میرے کمال سے

 

میرے چار سو ہیں وبال سے

وہی کر رہے ہیں نڈھال سے

 

کئی لوگ جاں سے گزر گئے

اِسی رخشِ عصر کی چال سے

 

میرے دل کا باغ اُجڑ گیا

تیرے جبر، تیرے جلال سے

 

میں ہوں ایک لمحے کی قید میں

مجھے کیا غرض مہ و سال سے

 

میرا فن ہی میری حیات ہے

کہ میں جی رہی ہوں کمال سے

 

تجھے ڈھونڈتے ہیں اے سنگ دل

تیرے دُکھ میں بن کے غزال سے

 

اُنہیں غم کی دھوپ جلا گئی

تھے جو تابناک جمال سے

 

نہ سحرؔ اُسے میں سمجھ سکی

تھے سوال اُس کے محال سے

٭٭٭

 

 

 

 

کہہ رہے ہیں ترے سہارے کچھ

اور بھڑکیں گے یہ شرارے کچھ

 

بارشوں نے بدل دئیے منظر

اب تو آنکھوں میں ہیں نظارے کچھ

 

ہائے وہ اضطراب موجوں کا

لے گیا ساتھ کو کنارے کچھ

 

میں نے چاہا تھا صرف سورج کو

مل گئے ساتھ ہی ستارے کچھ

 

پہلے موسم نے دل کو بہکایا

پھر کیے چاند نے اشارے کچھ

 

پُر اذیت سحرؔ کا جیون ہے

اِس کو مطلوب ہیں سہارے کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

شرابِ ہستی خمار مانگے

گلِ شگفتہ نکھار مانگے

 

یہ دل کا بھٹکا ہوا پرندہ

اب آشیاں کا قرار مانگے

 

خزاں پرستوں کی خو بکھرنا

ہے کس میں جرأت بہار مانگے

 

تری وفا کا اسیر دل ہے

تری محبت کے ہار مانگے

 

یہ چشمِ حسرت تجھے ہی چاہے

ترے ہی نقش و نگار مانگے

 

دروں کی خواہش سحرؔ یہی ہے

یہ سکھ، سکوں اور قرار مانگے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کی خلش جواں ہے

تو جو ستم رساں ہے

 

ہر ذی نفس پہ گویا

آسیب کا سماں ہے

 

حیرت میں ہیں مسافر

عجلت میں کارواں ہے

 

اُترا زمیں کا چہرہ

وحشت میں آسماں ہے

 

ایسی ہوا چلی ہے

ہر شخص بدگماں ہے

 

خود کو امر کروں گی

جذبہ یہی تپاں ہے

 

اے میرے شہرِ قائد

کیوں تجھ پہ امتحاں ہے؟

 

غم ہی سحرؔ ہے قسمت

ہر پل الم جواں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

رستے میں تھک رہی ہوں

شاید بھٹک رہی ہوں

 

کیسا مقام آیا؟

حیرت سے تک رہی ہوں

 

ٹوٹا ہے اک ستارہ

کب سے بلک رہی ہوں

 

تجھ سا یہ میرے اندر

ہے کون، تک رہی ہوں ؟

 

میں ہوں سحرؔ کلی سی

گویا مہک رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خاک چبھنے لگی ہے آنکھوں میں

گھر بنا لیں کہیں ستاروں میں

 

میری تنہائی میری ساتھی ہے

اور تو بٹ گیا ارادوں میں

 

وصل کی یاد بھی نہیں باقی

ہجر کی اِن مہیب راتوں میں

 

پھر وہی شامِ غم کی عریانی

پھر وہی انتظار آنکھوں میں

 

بارہا تجھ کو میں نے جوڑا ہے

ٹوٹتے پھوٹتے خیالوں میں

 

میں نے دیکھا ہے چاند کو برسوں

یوں ہی بے کل اُداس راتوں میں

 

زیست ساری سفر میں گزری ہے

دھول ہی دھول ہے نگاہوں میں

 

چند لمحوں کی زندگانی ہے

جھوم لے زندگی کی بانہوں میں

 

کیوں سحرؔ تم اُداس رہتی ہو

پھول کم تو نہیں ہیں باغوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

نظر نے کیا نہیں دیکھا

کہیں تجھ سا نہیں دیکھا

 

پریشاں ہوں میں چوکھٹ پر

دریچہ وا نہیں دیکھا

 

شکارِ یاس کیا ہوتا؟

اُسے تنہا نہیں دیکھا

 

مرا جیون ہے بیداری

کبھی سپنا نہیں دیکھا

 

مقدر پیاس ہے میرا

کہیں دریا نہیں دیکھا

 

حصارِ کور چشمی ہے

چمن اُجلا نہیں دیکھا

 

اُسے خوش باش دیکھا ہے

جسے رسوا نہیں دیکھا

 

تھا وعدہ تیری آمد کا

سحرؔ آنا نہیں دیکھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

میرے اندر نیلی دھوپ

لیکن ہے برفیلی دھوپ

 

تنہائی کا درپن ہے

میں ہوں اور چمکیلی دھوپ

 

اندھیاروں کی بستی میں

سورج اوڑھ کے نکلی دھوپ

 

مجھ میں پیاس مچلتی ہے

تیری ذات ہے گیلی دھوپ

 

رات کی ناگن لہرائی

خوف سے ہو گئی پیلی دھوپ

 

کچھ کچھ ہے شرمیلی سی

الہڑ چھیل چھبیلی دھوپ

 

آگ کے پتھر برسا کر

اب خوش ہے پتھریلی دھوپ

 

تیری سحرؔ بھی تجھ سی ہے

دیکھ اسے رنگیلی دھوپ

٭٭٭

 

 

 

 

آنگن آنگن پھیلی دھوپ

رنگ برنگی رنگیلی دھوپ

 

لال، گلابی، زرد، ہری

کتنے رنگ ہے بدلی دھوپ

 

برسوں سے ہے ساتھ مرے

یہ دلکش البیلی دھوپ

 

تم مایوس نہ ہونا اب

دے گی دستک پگلی دھوپ

 

کس کی گرد نگاہوں نے

کی ہے سحرؔ یہ میلی دھوپ

٭٭٭

 

 

 

 

عجب یادوں کا اک میلہ لگا تھا

جہاں نیروں کا بھی جل تھل ہوا تھا

 

اجالے کو لبادہ کر لیا تھا

اندھیرا تو مگر دل میں بسا تھا

 

مجسم درد میں لپٹا ہوا تھا

وہ میری راہ میں بیٹھا ہوا تھا

 

صبا تو ساتھ میرے ہی چلی تھی

مرے دل میں تو ہی روشن دیا تھا

 

کوئی صورت نہیں تھی زندگی کی

سرہانے وہ مرے ساکت کھڑا تھا

 

مرے سینے میں تھا طوفان برپا

وہ کربِ عصر میں اُلجھا ہوا تھا

 

سحرؔ کرتے نہ کیوں صحرا نوردی

چمن میں ہجر کا موسم کڑا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب رنگِ تمنا کر دیا ہے

مجھے تو تم نے تنہا کر دیا ہے

 

جنوں نے کیا تماشا کر دیا ہے

مجھے بے آسرا سا کر دیا ہے

 

یہ میری پیاس کی شدت ہے جس نے

سمندر کو بھی صحرا کر دیا ہے

 

ہے اعجازِ محبت یہ کہ اُس نے

ستم گر کو مسیحا کر دیا ہے

 

مرا ہر شعر ہے دل کی کہانی

سو دل کا راز افشا کر دیا ہے

 

اُسے کچھ شوق تھا بخیہ گری کا

سو چاکِ زخم کو وا کر دیا ہے

 

مقدر کا کرم طُرفہ سحرؔ ہے

عدو کو میرا متوا کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کومل کومل سپنے تھے

آنکھوں میں جو رہتے تھے

 

پیت نگر میں سایہ تھا

ہر سو پیڑ گھنیرے تھے

 

تیرے وعدوں کی صورت

ابر کے رنگ سنہرے تھے

 

سر پر پیار کی چھاؤں تھی

آنکھ میں اُس کے ڈیرے تھے

 

ماں کا جب تک پاس رہا

بابل تم بھی میرے تھے

 

کیسے پیار سحرؔ نبھتا؟

دل پر خوف کے پہرے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نادار و بے نوا ہوں

میں کس کی بد دعا ہوں ؟

 

شب ہے بہت اندھیری

میں آخری دیا ہوں

 

نہیں آسمان میرا

میں نجمِ گم شدہ ہوں

 

تجھ سے نہیں شکایت

تقدیر سے خفا ہوں

 

تو میری فاش غلطی

میں تیرا فیصلہ ہوں

 

چھونا محال مجھ کو

میں موجۂ صبا ہوں

 

میں جامِ دل نوازی

مستی بھرا نشہ ہوں

 

میں شامِ یاسیت ہوں

ظلمت کی انتہا ہوں

 

کیوں ہوں سحرؔ میں بے کل؟

کس غم میں مبتلا ہوں ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

خزاں پرست تلاشِ بہار کرتے رہے

تمام عمر تیرا انتظار کرتے رہے

 

تمام شب تیرے آنے کی آس چلتی رہی

تمام رات ستارے شمار کرتے رہے

 

بٹا ہوا کئی حصوں میں وجود مگر

خیالِ یار فقط تجھ سے پیار کرتے رہے

 

دل و نظر کو بچانے میں عمر بیت گئی

عجیب دوست تھے مجھ پر ہی وار کرتے رہے

 

قمر کو دیجیے الزامِ بے رخی کیوں کر

ستارے بھی تو سحرؔ بے قرار کرتے رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وفائیں کم کم، جفا زیادہ

رفاقتوں کا نصاب سادہ

 

کیا ہے ترکِ وفا کا وعدہ

یوں ہی اچانک، بِلا ارادہ

 

نشاطِ ہستی کی صورتیں ہیں

یہ ماہ و انجم، یہ ابر و بادہ

 

خلوص کا میں بنوں جو سائل

کرو گے کیا تم جبیں کشادہ

 

رہیں فروزاں ستارہ آنکھیں

کہ تیرگی سے ڈھکا ہے جادہ

 

یہ تیرے لطف و کرم کے قصے

ادائے دلکش، قبائے سادہ

 

سحرؔ ہے روشن نہ شامِ رنگیں

سو دل جلانے کا ہے اعادہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہاں تک دھوپ ہے چھاؤں کہاں تک؟

خزاں میں پھول مہکاؤں کہاں تک؟

 

یہ رستہ ختم کیوں ہوتا نہیں ہے؟

سہیں گے آبلے پاؤں کہاں تک؟

 

صبا حیران ہے اور کہہ رہی ہے

ترے آنچل کو مہکاؤں کہاں تک؟

 

یہ حائل دائرے، قلعے، فصیلیں

کروں جو پار تو جاؤں کہاں تک؟

 

بدل دے اب مری تقدیر یارب

فسردہ گیت میں گاؤں کہاں تک؟

 

مری پرواز کے رستے میں دنیا

اگر مانع نہ ہو، جاؤں کہاں تک؟

 

محبت اُس کی قسمت میں نہیں ہے

سحرؔ میں دل کو بہلاؤں کہاں تک؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

کرنا چاہا تھا اک سفر تنہا

کر گئی ہے تری نظر تنہا

 

کوئی بھنورا اُداس ہے پل پل

اور تتلی ہے پھول پر تنہا

 

میرا سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا

کوئی ہو گا نہ اِس قدر تنہا

 

اہلِ دنیا کو کیا خبر اِس کی

رہ گیا ایک بے خبر تنہا

 

آسماں پر سجے ستارے ہیں

روشنی کیوں ہے پھر سحرؔ تنہا؟

٭٭٭

 

 

 

 

دامن سے اُلجھتا ہے مِرے خار کی صورت

ہے چاند بھی اک دیدۂ بیدار کی صورت

 

ہم ہیں ترے گلشن میں کسی خار کی صورت

اُجڑے ہوئے خوابوں کے چمن زار کی صورت

 

ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں لمحاتِ مسرت

اے عمرِ رواں ! کیوں تری رفتار کی صورت

 

ہوتا ہے چراغاں سا مرے دل میں سرِ شام

گرتی ہے اناریت کی دیوار کی صورت

 

ہم سا بھی کوئی درد طلب تو نے ہے دیکھا

اے چشمِ مسیحا! ترے بیمار کی صورت

 

سب خواب ہوئے آنکھوں کی گلیوں میں کہیں گم

یہ شہرِ خموشاں ہے دلِ زار کی صورت

 

ممکن ہو سحرؔ ہم سے تو کترا کے گزر جا

رستے میں کھڑے ہیں ترے دیوار کی صورت

٭٭٭

 

 

 

 

 

چارہ گر یاد تری پھر آئی

پھر چلی ہے حسین پروائی

 

جب نہیں تجھ سے درد کا رشتہ

کیوں مری جان پر ہے بن آئی

 

رات بھر جاگتے تو ہیں ہم بھی

ایک تم ہی نہیں ہو سودائی

 

جب جڑا نام تیرے نام کے ساتھ

کتنی اچھی لگی شناسائی؟

 

تجھ سے اعراض ہو نہیں سکتا

ہر طرف تو تیری یاد ہے چھائی

 

ضبط ہم نے بہت کیا لیکن

تجھ کو دیکھا تو آنکھ بھر آئی

 

پھر سفر کی ستم ظریفی ہے

ساتھ رہتی ہے آبلہ پائی

 

دیکھیے کون ساتھ دیتا ہے

قرب تیرا کہ اپنی تنہائی

 

لے اُڑے گی یہی سحرؔ مجھ کو

یہ جو ہے تیرے غم کی گہرائی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بیاں کڑوی حقیقت کر رہی ہوں

بسر حسبِ ضرورت کر رہی ہوں

 

مرے الفاظ میں بھی روشنی ہے

کہ چہروں کی تلاوت کر رہی ہوں

 

ملی ہے دو جہاں کی بادشاہی

دلوں پر میں حکومت کر رہی ہوں

 

محبت ہے مرا سارا اثاثہ

تمہیں جو میں ودیعت کر رہی ہوں

 

دلوں کے آئینوں کو صاف رکھنا

تمہیں لوگو! نصیحت کر رہی ہوں

 

جمالِ یار تیری روشنی میں

محبت کی حمایت کر رہی ہوں

 

کہیں ٹوٹے تھے میری ذات کے پر

اُڑوں گی پھر جسارت کر رہی ہوں

 

مجھے وضع داری خوش نہیں ہے

سحر ترکِ مروّت کر رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

موجۂ گل کی روانی اور ہے

اور درونِ دل کہانی اور ہے

 

کاش سمجھے استعاروں کی زباں

داستاں اُس کو سنانی اور ہے

 

کچھ تو اپنے بخت سے شکوہ رہا

اور تجھ سے بدگمانی اور ہے

 

دربدر ہونے کو ہے کربِ دروں

اب مکاں میں بے مکانی اور ہے

 

تیری آنکھیں زیر و بم دیکھیں فقط

میرے غم کی بے کرانی اور ہے

 

خار کے ہاتھوں میں ہے تقدیرِ گل

اب گلوں کی میزبانی اور ہے

 

آنکھ مثلِ زیر بارِ ابر ہے

ہاں غم و سوزِ نہانی اور ہے

 

پتھروں پر گھس گئیں پیشانیاں

آستاں کی سرگرانی اور ہے

 

کب اُسے ہی شوق ہے بیداد کا؟

ہم کو لطفِ نیم جانی اور ہے

 

کہہ رہی ہیں اُس کی آنکھیں جانے کیا

اور سحرؔ لب پر کہانی اور ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شعورِ زندگی ملنے سے پہلے

خزاں چھائی ہے گل کھلنے سے پہلے

 

میں اپنی تنگیِ دامن کو رو لوں

زمیں و آسماں ملنے سے پہلے

 

چمن کو دے گئی موجِ تبسم

کئی کلیاں یہاں کھلنے سے پہلے

 

اُلجھنے کیوں لگا سانسوں کا ریشم

دھنک میں اوڑھنی رنگنے سے پہلے

 

پرندہ ایک خوفِ صید میں ہے

اُڑانوں کا مزا چکھنے سے پہلے

 

خمِ ابروئے موسم دیکھ لیتے

ہوا میں بادباں کھلنے سے پہلے

 

سحرؔ آخر تجھے آنا ہی ہو گا

چراغِ آرزو بجھنے سے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہیں امرت، کہیں زرناب ہوں میں

نوشتِ خاک و نقش و آب ہوں میں

 

اگرچہ دوستی کارِ زیاں ہے

مگر کرنے کو بھی بے تاب ہوں میں

 

عطا ہو دولتِ دیدارِ جاناں

کہ اک مدت ہوئی بے خواب ہوں میں

 

وفا کی چاندنی کے رنگ سارے

مری بانہوں میں ہیں مہتاب ہوں میں

 

سحرؔ دم بھی اندھیروں کا فسوں ہے

حدیثِ صبحِ نو کا باب ہوں میں

 

 

 

 

 

چُن دیا کس نے مجھے دیوار میں ؟

چپ کھڑی ہوں گنبد و مینار میں

 

تھام لے ہمدم اگر تو ہاتھ کو

رُک نہ پاؤں وقت کی رفتار میں

 

دشمنوں نے جو کہا منہ پر کہا

مصلحت کیشی تھی بزمِ یار میں

 

ڈھونڈتا ہے اپنے ہونے کا جواز

ایک بچہ شہر کے بازار میں

 

کب سے ہوں اِس دشت میں تنہا سحرؔ

میں بھی شامل ہوں اِسی آزار میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں چپ رہتی ہوں تُو اکثر بولتا ہے

شیشے سے ٹکرا کر پتھر بولتا ہے

 

جب پھولوں کو اذنِ تبسم مل ہی گیا

تو پھر کیوں اندیشۂ صرصر بولتا ہے

 

ایک ہی چہرہ، ایک ہی خوشبو، ایک ہی رنگ

عجب ہے ہر سو اک نغمہ گر بولتا ہے

 

میں ہی نہیں ہوں محوِ تماشا اور بھی ہیں

اب ہر گھر میں ایک ہی منظر بولتا ہے

 

جب آنکھوں سے رنگِ تمنا روٹھ گیا

کیوں ایسے میں طرزِ ستمگر بولتا ہے

 

تیرے ہر اک روپ کو میں پہچان گئی

رہ رہ کر تو بھیس بدل کر بولتا ہے

 

جب جیون ہو سوگ سحرؔ پھر کیا جینا

غم کا بلبل من کے اندر بولتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دھواں اُٹھنے لگا کون و مکاں سے

لگی ہے آگ سی سوزِ نہاں سے

 

نہیں ایسا کہ تجھ سے ہی گلہ ہے

شکایت ہے مجھے سارے جہاں سے

 

جہاں سارا تو کروٹ لے رہا ہے

اُٹھو تم بھی تو اب خوابِ گراں سے

 

مجھے یکجائی کا موسم عطا کر

نہ جانے میں بکھر جاؤں کہاں سے

 

سحرؔ کہیے اجل سے منتظر ہو

مجھے فرقت نہیں کارِ جہاں سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب تو ہوائے شوق بھی زنجیر ہو گئی

اے خوابِ زندگی تری تعبیر ہو گئی

 

تو نے کہا جو وہ مری تقدیر بن گیا

میں نے کہا تو آب پر تحریر ہو گئی

 

وہ کیا گیا کہ دل سے سبھی ولولے گئے

ہر شے خیالِ یار میں تصویر ہو گئی

 

اب میرے نام سے تجھے پہچانتے ہیں لوگ

میرے ہی ذکر سے تری تشہیر ہو گئی

 

لگتا ہے ہفت آسماں طے کر لیے سحرؔ

کتنی ضخیم درد کی تفسیر ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھول ہم تھے نہ خار ہم تھے

کہ راستوں کا غبار ہم تھے

 

تمہاری آنکھوں کا نور تھے ہم

تمہارے دل کا قرار ہم تھے

 

ہمارے دم سے ہی ولولے تھے

کہ شعلہ ہم تھے، شرار ہم تھے

 

ہمارا کوئی عدو نہیں تھا

خود اپنے رستے کے خار ہم تھے

 

مفر تمہارا تھا ہم سے مشکل

تمہارے دامن کا تار ہم تھے

 

بھلانا چاہا، بھلا نہ پائے

عجیب اُلجھن میں یار ہم تھے

 

مشامِ جاں تجھ سے تھا معطر

سحرؔ خزاں میں بہار ہم تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جب دامن میں آئے پتھر

خوں کے اشک بھی لائے پتھر

 

کس شدت سے تم کو چاہا؟

لیکن تم سے پائے پتھر

 

سوچا کوئی محرم ہو گا

جب آنگن میں آئے پتھر

 

دیپک راگ نہیں ہے لیکن

جل میں آگ لگائے پتھر

 

جن ہاتھوں میں پھول تھمائے

اُن ہاتھوں سے کھائے پتھر

 

کب پتھر تمجید سے عاری

رب کی حمد سنائے پتھر

 

پتھر آخر کو پتھر ہے

کیسے راہ دکھائے پتھر؟

 

احساسات سے عاری ہے یہ

کیسے آگ بجھائے پتھر؟

 

تیری داسی پوچھ رہی ہے

کیوں چپ ہے ہمسائے پتھر؟

 

ہونٹوں پر یہ ورد سحرؔ ہے

اُف میں لُٹ گئی ہائے پتھر

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھروں سے ہم جو نکل پڑے ہیں

سو راہ میں امتحاں کڑے ہیں

 

ہے منزلوں کا سراغ مشکل

کہ راہ میں خار و خس گڑے ہیں

 

ہے چھاؤں نامعتبر سی اُن کی

درخت قامت میں جو بڑے ہیں

 

مرے ہیں جن کے فراق میں ہم

سرہانے اپنے وہ اب کھڑے ہیں

 

سحرؔ نکلنا ہے اُن کا مشکل

وہ خار جو مثلِ دُر جڑے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سوچتے ہیں کہ اب کدھر جائیں

ایسی وحشت بپا ہے مر جائیں

 

جاگتے میں وہ خواب دیکھے ہیں

ایک پل میں ہی جو بکھر جائیں

 

ہم قدم راستے میں کھویا ہے

وہ ملے جب تو ہم بھی گھر جائیں

 

غم ہی تحفے میں ہم کو ملتے ہیں

تیری دنیا میں ہم جدھر جائیں

 

اے مقدر ہمیں فراغت دے

زیست کے خال و خد نکھر جائیں

 

آئینوں کی ہمیں نہیں حاجت

تیری آنکھوں میں ہم سنور جائیں

 

تیرے در کا تو آسرا ہے ہمیں

چھوڑ کر اب اسے کدھر جائیں

 

زندگی کی مہیب راہوں میں

بن کے خوشبو سحرؔ بکھر جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

منزل تری، راہیں تری

ہر سمت ہیں گھاتیں تری

 

تو ایک نخلِ با ثمر

ہیں دور تک شاخیں تری

 

تنہا رہوں میں تا بہ کے

بے کل کریں یادیں تری

 

قاتل جو آیا یاد ہے

اُکھڑی سی ہیں سانسیں تری

 

تو گل بدن، شیریں سخن

امرت سی ہیں باتیں تری

 

جس وقت چاہوں کھینچ لوں

مٹھی میں ہوں باگیں تری

 

ہیں منتظر کس کی سحرؔ

پھیلی ہوئی بانہیں تری

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پتّی پتّی دھوپ میں جلنا

ہے شبدوں کا شعر میں ڈھلنا

 

مل کر بھی تم سے نہ ملنا

دو دھاری تلوار پہ چلنا

 

ہجر بسا ہے میرے من میں

مشکل ہے ناسور نکلنا

 

آنکھ لگی ہے اُس چوکھٹ پر

بادِ بہاری تھم کر چلنا

 

تشنہ لبی اک روگ سحرؔ ہے

مشکل اپنے آپ سنبھلنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بدلا موسم خزاں خدا حافظ

جائے گی تو کہاں خدا حافظ

 

چشم پھر حیرتوں کی زد میں ہے

کارواں ہے رواں خدا حافظ

 

معتبر ہو گئی دل کی تڑپ

نالۂ خونچکاں خدا حافظ

 

پھر ترستے ہیں انجمن کو تری

یارِ شیریں دہاں خدا حافظ

 

تندیِ موج کے حوالے ہے

میرا کچا مکاں خدا حافظ

 

فکر کیا سوئی ایک لمحے کو

کہہ گیا آسماں خدا حافظ

 

بعد اُس کے سحرؔ بیاں کیسا

جل گئی ہے زباں خدا حافظ

٭٭٭

 

 

 

 

 

سحر کا آنگن مہک رہا ہے

ہر ایک غنچہ چٹک رہا ہے

 

مرے دروں میں مقیم ہے جو

نظر ملن سے جھجک رہا ہے

 

یہ چوڑیاں ہیں ترا تکلم

ترا ہی لہجہ کھنک رہا ہے

 

تمہارا سایہ پڑا ہے مجھ پر

ستارہ دل کا چمک رہا ہے

 

زمیں پہ سورج اُگے ہوئے ہیں

ہر ایک ذرّہ دہک رہا ہے

 

جدا ہوا تھا جہاں وہ مل کر

خیال اُسی جا بھٹک رہا ہے

 

سحرؔ وظیفہ ہے ذکر تیرا

پئے سخن دل دھڑک رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اِس دل کے سادہ کاغذ پر جو کچھ لکھنا تھا بھول گئے

آغاز ہمیں ہے یاد مگر انجامِ تمنا بھول گئے

 

کچھ تتلی کے پر ہاتھ میں تھے، کچھ جگنو، کچھ تصویریں تھیں

قرطاس پہ رنگ ہوئے گڈمڈ تصویر کا ایما بھول گئے

 

ہر صبح طلوع ہوئی ہے یہاں اک درد کے سورج کو لے کر

تحریر جو لوحِ شام پہ تھی ہم اُس کو پڑھنا بھول گئے

 

کچھ پھول تھے خستہ حالت میں جو چاک گریباں پائے تھے

بیداد یہ کس نے کی اُن پر یہ غنچے کھلنا بھول گئے

 

بیگانے ہو کر دنیا سے ہم ذات میں اپنی قید ہوئے

قسمت میں سحرؔ تاریکی تھی سو صبح سے ملنا بھول گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کہ تھا اک چٹان کی صورت

گر پڑا آسمان کی صورت

 

کون روکے گا اُس کو گرنے سے

جو ہے خستہ مکان کی صورت

 

ہے انوکھا ہمارا حالِ دروں

دھیان بھی ہے گمان کی صورت

 

موسموں نے ادا بدل ڈالی

تیرے طرزِ بیان کی صورت

 

تیری صورت کے جگ میں چرچے ہیں

شوق ہے داستان کی صورت

 

زندگی اک عذاب ٹھہری ہے

میں ہوں اک امتحان کی صورت

 

میری دانش میں اک نمو ہے سحرؔ

جب سے دیکھی ہے گیان کی صورت

٭٭٭

 

 

 

 

 

رقصِ وحشت ہنوز جاری ہے

اِس لیے مجھ پہ خوف طاری ہے

 

سارے الفاظ ہیں رہینِ غم

شاعری میری غم کی ماری ہے

 

دور دورہ ہے شر کا دنیا میں

کارِ ابلیس ہے کہ جاری ہے

 

مشترک ہیں یہ درد کے لمحے

ساتھیوں وقتِ غمگساری ہے

 

کوئی شیشہ گراؤ پتھر پر

زندگی پر جمود طاری ہے

 

نفرتوں کا سماں بھی ہے ہر سو

چاہتوں کی ملمَّع کاری ہے

 

چین پل بھر مجھے نہیں آتا

کیا کہوں کیسی بے قراری ہے؟

 

ایک پل کو بھی رو نہیں پائی

تیری مطلوب راز داری ہے

 

دین و دنیا لٹائے بیٹھے ہیں

پھر بھی مشکوک جاں نثاری ہے

 

تو مبرّا ہے حسرت و غم سے

میری قسمت میں آہ و زاری ہے

 

اُس نے بھی پھیر لی نظر ہم سے

زندگی ہم نے جس پہ واری ہے

 

دیکھ لیں جھلکیاں مسرت کی

موسمِ غم کی آبیاری ہے

 

مدتوں سے سکوں نہیں پایا

نیند سے اپنی آنکھ عاری ہے

 

کیا مرے پاس ہو غمِ دنیا

تیرے ہی غم کی پاسداری ہے

 

اپنی قسمت میں تھا حزیں رہنا

عمر گریہ کناں گزاری ہے

 

راحتوں کو ہمیشہ ترسی ہوں

زندگی سرحدوں سے عاری ہے

 

دوش تیرا نہیں سحرؔ اِس میں

جان کر تو نے بازی ہاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آج پھر محوِ انتظار ہوئی

اور پھر خود ہی شرمسار ہوئی

 

میری فطرت ہے اشک افشانی

کر کے اظہار اشکبار ہوئی

 

فیصلے کی گھڑی بھی حیراں ہے

کون جیتا ہے، کس کی ہار ہوئی

 

میری نظروں میں تیرا چہرہ تھا

اپنی تصویر شاہکار ہوئی

 

روز کر کر کے توڑتی ہوں میں

اپنے وعدوں پہ شرمسار ہوئی

 

تجھ کو دیکھا جو بعد مدت کے

میں تحیّر سے ہم کنار ہوئی

 

کیا بھروسہ کریں کسی پہ سحرؔ

موجِ دل کس کی راز دار ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

پریتم دل کی آنکھیں کھول

مست پپیہے بول رے بول

 

زہر بھری رُت بیت گئی

اب کانوں میں امرت گھول

 

پی لے ساغر اُلفت کا

آ میری بانہوں میں ڈول

 

روئیں روئیں کو برمائیں

تیرے دلکش کومل بول

 

بچھڑے اک دن آن ملے

علم ہوا دھرتی ہے گول

 

آج سحرؔ چل اُن کے در پر

من برتن کو کر کشکول

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

زمیں پیاسی کو بھی سیراب کرنا چاہتے ہیں

قرارِ خاطرِ احباب کرنا چاہتے ہیں

 

اُتر آؤ زمیں پر تم کسی تارے کی صورت

ہم اپنی رات کو مہتاب کرنا چاہتے ہیں

 

تمہیں ملنا ہے یا ہم سے نہیں ملنا بتا دو

کہ اِس پر ہم رقم اک باب کرنا چاہتے ہیں

 

ہمیں جینے دو اپنے آنسوؤں کی کہکشاں میں

تمہیں کیا خود کو ہم نایاب کرنا چاہتے ہیں

 

وہ جس کے بخت میں لکھی گئی تشنہ لبی ہے

اُسی صحرا کو ہم سیراب کرنا چاہتے ہیں

 

گھٹا کا کیا بھروسہ ہے سحرؔ برسے نہ برسے

سو برپا گریۂ خوناب کرنا چاہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جیت ادھوری، مات ادھوری

میری ہر سوغات ادھوری

 

بے کل بے کل دل کی دھڑکن

دن ہے ناقص، رات ادھوری

 

کھویا کھویا چاند فلک پر

تاروں کی بارات ادھوری

 

تجھ بن تو بے چین سماں ہے

اپنی بھی ہے ذات ادھوری

 

مارے غم کے آنکھیں برسیں

لیکن ہے برسات ادھوری

 

جانے کن سوچوں میں گم ہے؟

کرنے والا بات ادھوری

 

ہجر سحرؔ سکرات بنا ہے

اور ہے یہ سکرات ادھوری

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

بارِ دگر یہ گرمِ تماشا نہیں ہوا

بکھرا مرا وجود تو یکجا نہیں ہوا

 

درپن بدل رہا ہے کیوں چہرے نئے نئے

کیا جچتا کوئی ایک بھی مکھڑا نہیں ہوا

 

جو کچھ بھی غیر نے دیا واپس نہیں کیا

اور قرضِ دوستاں ہے رکھا نہیں ہوا

 

میں کب تمہارے وصل کا خواہاں نہیں رہا؟

کب تیری بزمِ ناز میں تنہا نہیں ہوا

 

تیرے بغیر کیسے کٹیں گے یہ دن سحرؔ

راتیں کٹیں گی کیسے یہ سوچا نہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

قلم میں اگر روشنائی نہیں ہے

تو پھر نقدِ خوں کیوں لٹائی نہیں ہے

 

ابھی فرصتِ دلربائی نہیں ہے

مجھے بندِ غم سے رہائی نہیں ہے

 

ہے دنیا کا غم اور اُس پر ترا غم

ہوئی لب پہ پھر بھی دہائی نہیں ہے

 

میسر اُنہیں بھی تو ہے آب و دانہ

کہ جن کی خرد تک رسائی نہیں ہے

 

بنے ہیں وہی پیرِ کامل کہ جن کی

خدا سے ذرا آشنائی نہیں ہے

 

میں پالوں گی مقصود اپنا بھی اک دن

مری راہ میں حائل خدائی نہیں ہے

 

ہے فن کی ریاضت بھی مطلوب پیہم

مجھے خواہشِ خود نمائی نہیں ہے

 

سحرؔ مت کہو یہ زمانہ برا ہے

زمانہ خدا ہے خدائی نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آسماں تاروں بھرا

دل مرا یادوں بھرا

 

زندگی کی دھوپ میں

تو شجر چھاؤں بھرا

 

درد و غم کے دشت میں

ہجر ہے کانٹوں بھرا

 

کر گیا بے کل مجھے

لہجہ ترا خاروں بھرا

 

میں سحرؔ غمگین ہوں

لا سخن خوشیوں بھرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرا جوشِ محبت کم نہیں ہے

سوا تیرے کوئی محرم نہیں ہے

 

نہیں ہے فرصتِ تعبیر گرچہ

یہ خوابِ زندگی مبہم نہیں ہے

 

مرے ہاتھوں میں ہے تقدیر میری

لہو رونے کا اب موسم نہیں ہے

 

ہے دل کی داستاں سب سے نرالی

محبت صبر کا ریشم نہیں ہے

 

ہزاروں خواہشیں زندہ ہیں مجھ میں

مگر اب دل کا وہ عالم نہیں ہے

 

مرے افکار میں تو گونجتا ہے

مرا اپنا کوئی سرگم نہیں ہے

 

بہت خوش ہے وہ اپنی زندگی میں

بچھڑ جانے کا اُس کو غم نہیں ہے

 

چلے ہو تم کہاں پھولوں کو چننے؟

ٹھہر جاؤ یہ وہ موسم نہیں ہے

 

دوائے دردِ دل کیوں مانگتے ہو؟

یہاں پر زخم ہے مرہم نہیں ہے

 

ودیعت کی ہے اُس نے شعر گوئی

خزانوں کا مجھے کچھ غم نہیں ہے

 

جسے دیکھو سحرؔ لگتا ہے تنہا

کہاں حالات کا ماتم نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

راستہ انتظار میں گم ہے

بے قراری قرار میں گم ہے

 

مثلِ حیرت کدہ ہے آئینہ

دلکشی روئے یار میں گم ہے

 

رنگ تتلی کے اُڑ گئے سارے

اور بھنورا بہار میں گم ہے

 

مٹ چکی ہاتھ کی لکیریں بھی

زندگی کس حصار میں گم ہے

 

راستے سارے گویا انجانے

اور منزل غبار میں گم ہے

 

دیکھ کر بھی سحرؔ نہیں دیکھا

دل اُسی حسنِ یار میں گم ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل نے جتنا بھی بے قرار کیا

میں نے اک بے وفا سے پیار کیا

 

عمر کاٹی خود اپنی فرقت میں

ہجر مسلک ہی اختیار کیا

 

عشق بن زندگی ادھوری ہے

میں نے یہ راز آشکار کیا

 

لوحِ محفوظ پر نوشتہ تھا

تا ابد تیرا انتظار کیا

 

تیری قدرت سے کچھ بعید نہیں

تو نے قطرے کو بے کنار کیا

 

عکس اپنا نہ دیکھ پائے ہم

آئینے کو بھی داغ دار کیا

 

تا ازل ہے یہی مقدر میں

تا ابد عشق ہی شعار کیا

 

خندۂ گل کی بے ثباتی پر

کیوں سحرؔ تو نے اعتبار کیا

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی یہ شعلہ، کبھی شرر ہے

وفا بھی یارو! عجیب تر ہے

 

نہ تیرا کوئی پتا ہے ساجن

نہ اپنی مجھ کو کوئی خبر ہے

 

نثار اِس پر حیات میری

مرا وطن کیسا معتبر ہے

 

مجھے کسی کی نہیں ضرورت

کہ صبر ہی میرا چارہ گر ہے

 

وصال رُت بھی بہت حسیں ہے

جو چاند میرا ہے بام پر ہے

 

جو ماورا ہے زمیں کی حد سے

وہی فلک سے قریب تر ہے

 

سحرؔ کے شعروں میں عکس تیرا

رہا ہمیشہ سے جلوہ گر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ساحل پر تصویر بنانا ٹھیک نہیں

خود کو یوں دل گیر بنانا ٹھیک نہیں

 

کب یہ جاتا وقت کسی کا ہوتا ہے

لمحوں کو تقدیر بنانا ٹھیک نہیں

 

بات بھلائی کی کرنا بھی نیکی ہے

لہجے کو شمشیر بنانا ٹھیک نہیں

 

خوابوں کی تعبیریں اُلٹی ہوتی ہیں

خوابوں کو جاگیر بنانا ٹھیک نہیں

 

تیز ہوا کو قید میں رکھنا ممکن ہے

آنچل کو زنجیر بنانا ٹھیک نہیں

 

تو نے قدر سحرؔ خوشیوں کی کب کی ہے

اب جیون کو نیر بنانا ٹھیک نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیسے کیسے پھول کھلے تھے گلشن میں

لیکن آنکھیں بھیگ رہی تھیں ساون میں

 

ہر تارے میں شب کو تیرا عکس ملا

عمر بتائی جیسے میں نے درپن میں

 

انگاروں کی سیج سے اُٹھ کر آئی ہوں

کچھ بھی مجھ کو یاد نہیں ہے اَن بن میں

 

تن من کی کھیتی میں بو کے درد کا بیج

دیکھ رہے ہو چین کا برگد آنگن میں

 

ایک ہی چہرہ جلوہ گر ہے چاروں اور

سو گم ہیں آنکھیں حیرت کے اُس درپن میں

 

ٹوٹے پھوٹے وعدوں کے ہیں دام سحرؔ

اور بچا ہے کیا بوسیدہ دامن میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساحلوں کو بھی نظر بھر دیکھنا

پھر سمندر میں اُتر کر دیکھنا

 

ہے رقم رخ پر مرے تحریرِ غم

تم سدا خوشیوں کے منظر دیکھنا

 

گرد ہیں دنیا کی نظریں جانِ جاں

شیشۂ دل میں سنور کر دیکھنا

 

کر چکو جب تم حسابِ دوستاں

میری جانب بھی ستم گر دیکھنا

 

میری خوشبوئیں تمہیں دیں گی صدا

تم ہواؤں سے لپٹ کر دیکھنا

 

تھا سفر جیسا بھی آخر کٹ گیا

کیا ضروری ہے پلٹ کر دیکھنا

 

تو ہی تو دل میں سمایا ہے مرے

کوچۂ دل میں اُتر کر دیکھنا

 

جب سحرؔ ہو شوق میری دید کا

اِس طرف دنیا سے ہٹ کر دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

خلوت کی دیوار گرانا چاہتی تھی

میں تو اپنے خواب سنانا چاہتی تھی

 

بے کل ہو کر لہر نے چاند کا منہ چوما

جیسے دل کا حال بتانا چاہتی تھی

 

جس کو میرا فن بخشے لافانی عمر

میں ایسا شہکار بنانا چاہتی تھی

 

چاروں اور تھی نفرت کی شوریدہ سری

میں چاہت کے پھول کھلانا چاہتی تھی

 

شاید اُس نے کم ہی سمجھا تھا مجھ کو

میں تو غم کا بار ہٹانا چاہتی تھی

 

دل پر تیری یاد نے مرہم رکھا یوں

جیسے میں ہر یاد بھلانا چاہتی تھی

 

مانگے سحرؔ نے تجھ سے لعل و جواہر کیا

وہ تو من کا میت بنانا چاہتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

دل کا پنچھی شام سے دل گیر تھا

اُس کے پہلو میں لگا اک تیر تھا

 

سارے سجدے میرے ٹھہرے رائیگاں

کیوں کہ اک پتھر مری تقدیر تھا

 

وقت کی گردش اُسے بھی کھا گئی

اک گلستاں جو مری جاگیر تھا

 

روز و شب رہتا تھا میری آنکھ میں

ایک انساں صورتِ شمشیر تھا

 

سہہ رہی تھی اپنے ہونے کا عذاب

اور تیرا غم بھی دامن گیر تھا

 

وہ صنم تھا مائلِ جور و جفا

اور میری آنکھ میں اک نیر تھا

 

جرمِ حق گوئی سحرؔ سے ہو گیا

اک جہاں آمادۂ تعزیر تھا

٭٭٭

 

 

 

 

مجھے یہ واقعہ بھولا نہیں تھا

وہ میری عمر تھا، لمحہ نہیں تھا

 

کھلونے تھے مرے ہاتھوں میں کیا کیا

مگر یہ دل کہیں بہلا نہیں تھا

 

جدائی کب ہوئی میرا مقدر

صنم ہمزاد تھا، سایہ نہیں تھا

 

سمندر میں عمق تھا گو بلا کا

تری آنکھوں سے پر گہرا نہیں تھا

 

سحرؔ مشکل تھا منزل کا یقیں بھی

کہیں سورج، کہیں سایہ نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

غموں کی دھوپ میں کمھلا رہی ہوں

تر و تازہ تھی اب مرجھا رہی ہوں

 

نہیں کوئی بھی اب میرے مقابل

میں اپنے آپ سے ٹکرا رہی ہوں

 

مرے سائے میں آ دو پل ٹھہر جا

کہ میں ہوں شام، پر پھیلا رہی ہوں

 

یہ میرے آئینے کہتے ہیں مجھ سے

میں تیرا عکس بنتی جا رہی ہوں

 

قدم رکھا تو ہے دشتِ سخن میں

نہ جانے کیوں مگر گھبرا رہی ہوں

 

میں تنہا ہو کہ بھی تنہا نہیں اب

تری یادوں سے گھر مہکا رہی ہوں

 

تو خوگر ہے جفاؤں کا ازل سے

مگر پھر بھی میں دھوکہ کھا رہی ہوں

 

سحرؔ ترکِ تمنا اب عبث ہے

یہی خود کو میں اب سمجھا رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِس دھرتی کے سارے منظر ایک سے ہیں

ہیرے ہوں یا موتی گوہر ایک سے ہیں

 

دل جلوہ گاہِ یار بنا یوں لگتا ہے

حرم، کلیسا، مسجد، مندر ایک سے ہیں

 

یادوں کا ہنگامہ ہو یا رعد مہیب

میرے لیے دونوں غارت گر ایک سے ہیں

 

ہر اک نے ہے روپ سجایا ایک نیا

سادھو، مادھو، مست، قلندر ایک سے ہیں

 

جب آنکھوں میں نور نہیں تو کیا حاصل

صحرا ہو یا جھیل سمندر ایک سے ہیں

 

سنگدل سی ہے دنیا کی ہر چیز سحرؔ

اِس جگ میں تو گوہر، پتھر ایک سے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہجر اک ابتلا ہے کیا کہیے

رنج کی انتہا ہے کیا کہیے

 

پھر وہی سلسلے عذابوں کے

پھر وہی رتجگا ہے کیا کہیے

 

ٹوٹ جائے نہ سانس کا ریشم

زندگی اک سزا ہے کیا کہیے

 

کچھ دنوں سے زمین برہم ہے

آسماں بھی خفا ہے کیا کہیے

 

تم سے ہوتی نہیں مسیحائی

دردِ دل لادوا ہے کیا کہیے

 

ہم نہیں ہیں سحرؔ ترے طالب

دل تجھے ڈھونڈتا ہے کیا کہیے

٭٭٭

 

 

 

 

میں اپنی ذات میں اک کارواں ہوں

بزعمِ خویش اک روحِ رواں ہوں

 

غبارِ جسم اُڑتا پھر رہا ہے

نہیں ہے یہ خبر مجھ کو کہاں ہوں

 

کوئی ناسور کی صورت بدن میں

دہائی دے رہا ہے میں یہاں ہوں

 

ازل سے دائروں میں ، قید ہوں میں

مجھے ہونا کہاں تھا اور کہاں ہوں

 

مرے دم سے بہاریں معتبر ہیں

کہ میں وجہِ فروغِ گلستاں ہوں

 

سحرؔ مجھ کو گلہ ہے بے رخی سے

مجھے پہچان! تیری جسم و جاں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

اتنی مدت بعد ملے تھے

دل میں کتنے پھول کھلے تھے

 

کچھ بول رہی تھیں آنکھیں اُس کی

لیکن میرے ہونٹ سلے تھے

 

اُس کی دید میں بھول گئے ہم

کس کو دیکھا، کس سے ملے تھے

 

درشن سے کافور ہوئے ہیں

مجھ کو تم سے کتنے گلے تھے

 

خوشیوں کی وہ شام سحرؔ

من مندر میں دیپ جلے تھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

پہلے مرے وجود کو یکجا کیا گیا

پھر میرے جسم سے مجھے منہا کیا گیا

 

پہلے تو راہ و رسم رہی نور سے مجھے

کیوں میرے راستے میں اندھیرا کیا گیا

 

ہر شے یہاں کی تیرگی کے دائرے میں ہے

لیکن ہماری فکر کو اُجلا کیا گیا

 

میں سوچتی تھی زندگی کے زاویے نئے

شاید اِسی لیے مجھے تنہا کیا گیا

 

دے کر شعورِ ذات کا ادراک بارہا

یوں شہرِ کم شناس میں رسوا کیا گیا

 

پہلے جہانِ فکر فروزاں کیا گیا

پھر شہر بھر میں فن کا تماشا کیا گیا

 

پائے زباں نے ذائقے تازہ کئی سحرؔ

پھر شیشۂ خیال کو دھندلا کیا گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ کیسی نارسائی دے رہا ہے

وہ غم سے آشنائی دے رہا ہے

 

تری قربت بصارت خیز ٹھہری

جہاں کچھ کچھ دکھائی دے رہا ہے

 

لگا ہے خون پوروں سے ٹپکنے

ہنر میرا کمائی دے رہا ہے

 

جسے اندازِ اُلفت ہیں سکھائے

وہ جنسِ بے وفائی دے رہا ہے

 

تری سرگوشیوں میں رازِ ہستی

بہت واضح سنائی دے رہا ہے

 

میں اُس میں کھو گئی ہوں اور سحرؔ وہ

مجھے جگ سے رہائی دے رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہزاروں خواہشیں ہیں اور ہم ہیں

ستم کی بارشیں ہیں اور ہم ہیں

 

کہاں تک پورا کر پائیں گے آخر

تری فرمائشیں ہیں اور ہم ہیں

 

یہ کیسی اُلجھنوں میں مبتلا ہیں

جہاں کی سازشیں ہیں اور ہم ہیں

 

فریب و مکر، لالچ، خود پسندی

یہ سب آلائشیں ہیں اور ہم ہیں

 

گزرتا ہی نہیں وحشت کا عالم

جنوں کی بارشیں ہیں اور ہم ہیں

 

میسر ہے سحرؔ پہلوئے جاناں

حسیں آسائشیں ہیں اور ہم ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل نے پھر آرزوئے ہمدم کی

یہ کہانی ہے زلفِ برہم کی

 

اُس کے چہرے پہ نور افزوں تھا

لو چراغوں کی اُس نے مدھم کی

 

نین کل تک سکوں کے چشمے تھے

بے کلی عشق نے ہے مدغم کی

 

تیری چاہت نے مجھ کو بدلا ہے

میری ہستی حریفِ شبنم کی

 

یاد سے تیری میں گریزاں ہوں

مجھ کو سوگند چشمِ پُر نم کی

 

آخرش کوئی انتہا ہو گی

آسماں تیرے جبرِ پیہم کی

 

میں سحرؔ کچھ سمجھ نہیں پائی

کیوں مجھے فکر ہے دو عالم کی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

حیطۂ فکرِ لامکاں پھیلا

چار سو میرے آسماں پھیلا

 

میری ہستی حباب آسا ہے

جس میں ہے سیلِ بے کراں پھیلا

 

کتنا پھیلاؤ کا تقاضا تھا

اور کتنا مرا گماں پھیلا

 

درد دل میں ہے لامکانی سا

کون جانے کہاں کہاں پھیلا

 

سحرؔ غزل میں تراش لیں گے تجھے

جب سحر زیبِ آستاں پھیلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ترے بعد کتنی اکیلی ہوں مَیں

لگے جیسے ویراں حویلی ہوں مَیں

 

رہیں گی ترے گھر بہاریں سدا

سجا اپنا گل بن چنبیلی ہوں مَیں

 

بنیں میری آنکھیں مرا آئینہ

کڑے کتنے غم اب کے جھیلی ہوں مَیں

 

مجھے قیدِ غم سے رہائی ملے

رہی کرب کی اک سہیلی ہوں مَیں

 

ہوئی ہوں سمجھ سے تری ماورا

کہ دشوار سی اک پہیلی ہوں مَیں

 

مری ساری سکھیاں سحرؔ کھو گئیں

وہ جن کی رفاقت میں کھیلی ہوں مَیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاتھ میں تو نے ہاتھ لیا جب جانِ جہاں

کھلنے لگا تقدیر کا بند لب جانِ جہاں

 

تیرے میرے بیچ میں کتنی آنکھیں ہیں

کیوں آخر دیوار بنیں سب جانِ جہاں

 

کس کو کس کے ہاتھوں کتنے گھاؤ ملے

دیکھ رہا ہے مالک یہ سب جانِ جہاں

 

دنیا ہنستی آنکھوں کے سنگ ہنستی تھی

اب روئیں تو ہنستے ہیں سب جانِ جہاں

 

مجھ کو لوگ سحرؔ دیوانہ کہتے ہیں

لیکن مجھ میں بستا ہے رب جانِ جہاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی اک سزا ازل سے ہے

بارشِ ابتلا ازل سے ہے

 

چارہ گر کچھ بھی کر نہیں سکتے

دردِ جاں لادوا ازل سے ہے

 

میری فطرت میں ہے وفا کرنا

اور تو بے وفا ازل سے ہے

 

نیند مجھ سے سدا گریزاں ہے

چشم یہ نیم وا ازل سے ہے

 

چرخ کا ہم نے کیا بگاڑا ہے

ہم سے یہ تو خفا ازل سے ہے

 

گریۂ نیم شب ہو بار آور

زیرِ لب یہ دعا ازل سے ہے

 

درد میرا نیا سحرؔ کب ہے

من یہ زخمی ہوا ازل سے ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

عذابِ کرب کم کر

نہ اب اتنا ستم کر

 

بسی نینوں میں ہر دم

تری تصویر جم کر

 

نہ گم امروز میں رہ

تو فردا کا بھی غم کر

 

گلہ تجھ سے نہیں ہے

مرے کم کچھ الم کر

 

تمنا ہے یہی اک

من و تو کو بہم کر

 

رلاتا ہے سدا غم

مرے مولا کرم کر

 

ہے کہنا جو بھی کہہ دے

سحرؔ آنکھیں نہ نم کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

پھول آئے نہ اب شجر آئے

تیری صورت مگر نظر آئے

 

تم نے دنیا ابھی نہیں دیکھی

ہم تو اِس راہ سے گزر آئے

 

حادثے کیوں مرا مقدر ہیں ؟

جب یہ سوچوں تو آنکھ بھر آئے

 

اب تو آ جا کہ شام سنولائی

سائے آنگن میں ہیں اُتر آئے

 

پھر وہی رتجگوں کا عالم ہے

چین مجھ کو نہ رات بھر آئے

 

لاکھ چاہوں کہ میں بھلاؤں تجھے

یاد تیری مجھے مگر آئے

 

تم نے دیکھا ہے کب غمِ ہجراں

ہم سزا یہ بھی کاٹ کر آئے

 

جاگ اُٹھے طلب مسافت کی

یاد جب وہ مجھے نگر آئے

 

کب سکوں ہے سحرؔ کی قسمت میں

اُس کے حصے میں تو سفر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ویراں سارا گھر لگتا ہے

اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے

 

اب جیون ہے وحشت ساماں

دل خاموش نگر لگتا ہے

 

شہروں پر ہے ہُو کا عالم

ہر جانب ہی شر لگتا ہے

 

کیا لکھا ہے خط میں تو نے

چپ چپ نامہ بر لگتا ہے

 

اب کیا منظر دکھلائے گی

ہر ساعت سے ڈر لگتا ہے

 

یوں ہستی سنسان ہے میری

شام و سحرؔ سے ڈر لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر سو ہے اک سخت گھٹن

من چاہے اک مست پون

 

اِن آنکھوں کی برکت سے

پل میں بدلا رنگِ چمن

 

کاش تمہیں بھی مل جائے

یہ غم، یہ بے نام جلن

 

گرمِ عمل رہتی ہوں ہر دم

سہل ہے مجھ کو رنج و محن

 

آگ بھی ہے وہ شعلہ بھی

جلتا ہے یادوں سے بدن

 

کب دکھ میں ملتے ہیں سحرؔ

خاکی زمیں اور نیلا گگن

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو رہتی ہے پریشاں سی نظر تم کو مگر کیا

نہیں ہوتی شبِ غم کی سحر تم کو مگر کیا

 

مرے پیرِ مغاں تم نے مجھے تشنہ ہی رکھا

کہ ویرانی سی ہے حدِ نظر تم کو مگر کیا

 

یہ سودا ہے جو الفت کا فقط جی کا زیاں ہے

نہیں دل کو مرے اب کے مفر تم کو مگر کیا

 

ہیں یادوں کے صحیفے خون سے رنگیں ہوئے اب

کہ ہے تازہ مرا زخمِ جگر تم کو مگر کیا

 

طلب صبحِ تمنا کی مجھے بے کل کیے ہے

نہیں دل میں سحرؔ اب شب کا ڈر تم کو مگر کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل بستی گمنام ہوئی ہے

روپ نگر میں شام ہوئی ہے

 

اُس کے لہجے میں جادو تھا

بات اگرچہ عام ہوئی ہے

 

مہکی سی ہے روح کی دنیا

فکر مجھے الہام ہوئی ہے

 

اپنے بچے بیچ رہی ہے

خلقت یوں بدنام ہوئی ہے

 

لمحہ لمحہ بے کل ٹھہرا

بے چینی اب عام ہوئی ہے

 

پیت بنی ہے رسوائی اب

اُلفت اک دُشنام ہوئی ہے

 

میرے بھاگ میں کب راحت ہے

مایوسی ہر گام ہوئی ہے

 

دنیا کے آشوب نگر میں

ہر خواہش ناکام ہوئی ہے

 

کام سحرؔ کے سب سنورے ہیں

رحمتِ یزداں عام ہوئی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ لطف و کیف و سرور بھولا

ہمیں تو جینا حضور بھولا

 

جو بام پر ہے ستم کا سورج

تو دل وفا کا ظہور بھولا

 

زمیں ہے نفرت کی شورشوں میں

چمن وصالِ طیور بھولا

 

ہوا ہے یوں دھیان طاق خالی

کہ تیری یادوں کا نور بھولا

 

تمہارے سانچے میں ڈھل گئے ہیں

جو خود میں تھا وہ غرور بھولا

 

اندھیری شب کے مہیب سائے

سحرؔ دلِ ناصبور بھولا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ناداں ہوں پتنگے سے شرر مانگ رہی ہوں

جگنو کی سی طاقت ہے قمر مانگ رہی ہوں

 

اُفتادہ میں تیری ہی راہوں میں اکیلی

گم گشتہ مسافت کا ثمر مانگ رہی ہوں

 

سوکھے ہوئے پتوں کی قبا اوڑھ کے بن میں

آندھی سے نپٹنے کا ہنر مانگ رہی ہوں

 

آنکھوں کے ہوئے چشمے بھی اب اشک سے خالی

اے میرے خدا دیدۂ تر مانگ رہی ہوں

 

جس شخص کے دامن میں بچا کچھ بھی نہیں اب

کیا سادگی ہے لعل و گوہر مانگ رہی ہوں

 

احساس کی دولت سے جو عاری ہی رہے ہیں

صرف اُن کے لیے دردِ جگر مانگ رہی ہوں

 

لمحات ترے قرب کے درکار مجھے ہیں

کب تجھ سے ترے شام و سحر مانگ رہی ہوں

 

اک عہدِ جوانی کا فسوں یاد ہے اب تک

اِس عمرِ گریزاں کی سحرؔ مانگ رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

بھروسہ ایک دو پل کا نہیں ہے

کبھی آگے بہت سوچا نہیں ہے

 

اُسی کی سمت بڑھتی جا رہی ہوں

جسے میں نے ابھی دیکھا نہیں ہے

 

تنِ بسمل میں جاں باقی ہے کچھ کچھ

ابھی رختِ سفر باندھا نہیں ہے

 

میں تنہا ہوں ، میں رسوا ہوں ، حزیں ہوں

اکیلے اب سفر کٹتا نہیں ہے

 

تھکن سی ایک مجھ میں ہے سمائی

سکوں مجھ میں کبھی رہتا نہیں ہے

 

تجھے بچھڑے ہوئے مدت ہوئی ہے

مگر یہ دل تجھے بھولا نہیں ہے

 

اے ماں ! تیرے بنا کیسے رہوں گی

کبھی یہ ہجر تو سوچا نہیں ہے

 

مری راحت، مری اُلفت لُٹی ہے

کہ تجھ بن تو سکوں پایا نہیں ہے

 

مرا دل خوگرِ پاسِ ادب ہے

تمہارے ذکر میں رسوا نہیں ہے

 

جہاں کو ہر طرح جانا ہے میں نے

رہی اب خواہشِ دنیا نہیں ہے

 

میں کسی موسم کی زد میں آ گئی ہوں

مرا چہرہ وہ پہلا سا نہیں ہے

 

نشاں رستے کے مٹتے جا رہے ہیں

کسی کو راستہ دکھتا نہیں ہے

 

غرض کے خول میں ہے وہ مقید

بنا مطلب کبھی ملتا نہیں ہے

 

ہے من بستی رہینِ ظلمتِ شب

یہاں کوئی بھی اب رہتا نہیں ہے

 

تری صورت نرالی ہو گئی ہے

سحرؔ یہ آئینہ میلا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

چاکِ دل جو کھل جائیں پھر کبھی نہیں سلتے

راستے کے ملنے سے ہم سفر نہیں ملتے

 

رہ کے ایک محبس میں ذکرِ سیرِ گلشن کیا

پھول کس طرح ڈولیں خار تک نہیں ہلتے

 

ہیں میرا مقدر اب گردشیں زمانے کی

آبلے گریزاں ہیں پیر اب نہیں چھلتے

 

کیا کسی سے ملنا بھی اِس قدر ضروری ہے

جس سے دل نہیں ملتا اُس سے ہم نہیں ملتے

 

راز اُن میں پوشیدہ کیا سحرؔ ہے قدرت کا

یہی جو چاند تارے ہیں مقام سے نہیں ہلتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

میرا من ہے تیرا درپن جانِ جاں

میں ہر پل کرتی ہوں درشن جانِ جاں

 

دھیمی دھیمی آنچ نہ دے یوں خلوت کو

برسا بھی دے وصل کا ساون جانِ جاں

 

اک دوجے سے مل کر ہو گئے پورے ہم

ہیر تری میں تو ہے رانجھن جانِ جاں

 

موجِ ہوا جو لائی ہے پیغام ترا

مہکا مہکا ہے من دامن جانِ جاں

 

میں ہوں ایک مہیب کھنڈر کی کالی رات

اور تو میرے پیار کا جوبن جانِ جاں

 

پھر آنچل میں بھر کے تارے رات چلی

جگمگ تیری یاد سے آنگن جانِ جاں

 

ہر ناتے سے بڑھ کر پیار کا ناتا ہے

کیا دنیا، کیا شہرت، کیا دھن جانِ جاں

 

دیر سحرؔ مت کرنا واپس آنے میں

ہجر کا میں بن جاؤں نہ ایندھن جانِ جاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

جو فقیرانہ شان رکھتے ہیں

ساری دنیا کا دھیان رکھتے ہیں

 

دل بے مدعا نہیں پایا

پاس نطق و زبان رکھتے ہیں

 

صید ہر ایک ہے نشانے پر

تیر اک در کمان رکھتے ہیں

 

اک جہاں معترف ہے کیا جانو

ہم بھی اک آن بان رکھتے ہیں

 

ہم ترستے سحرؔ ہیں خلوت کو

جیسے خود میں جہان رکھتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

چاند کب ڈھل گیا نہیں معلوم

کیوں فزوں دکھ ہوا نہیں معلوم

 

صبر کی کوئی حد بھی ہوتی ہے

جبر کی انتہا نہیں معلوم

 

ہاتھ اُٹھتے رہے دعا کے لیے

اور حرفِ دعا نہیں معلوم

 

اشک سے پوچھ لے مری قیمت

تجھ کو نقدِ وفا نہیں معلوم

 

جانے کب جان میری چھوڑے گا

حزن کا اِبتلا نہیں معلوم

 

ہے ابھی ابتدا محبت کی

پیار کی انتہا نہیں معلوم

 

میری کشتی ڈبوئی کس نے ہے

کون تھا ناخدا نہیں معلوم

 

کار فرما تھا صبر و ضبط سحرؔ

درد کیسے سہا نہیں معلوم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

بحرِ ہستی میں اک جزیرہ ہوں

مجھ کو آواز دے کہ تنہا ہوں

 

کس نے پوچھا ہے حالِ دل میرا

شہر تیرے میں اب کے رسوا ہوں

 

اے مری وحشتوں کے خالق سُن

تیری صنعت گری کا حصہ ہوں

 

کوئی برکھا نہیں برس پائی

تشنگی کا میں تپتا صحرا ہوں

 

کتنا افسوس ہے مجھے خود پر

کہ میں تجھ سے بچھڑ کے زندہ ہوں

 

میں تو ہر حال میں ادھوری ہوں

جیسے مفلس کا ایک سپنا ہوں

 

اپنی پلکیں اُٹھا کے دیکھ ذرا

میں ترے شہرِ دل کا رستہ ہوں

 

دیکھیں جاؤں میں کس کی قسمت

ابرِ نیساں کا ایک ٹکڑا ہوں

 

تو مری خواہشوں میں ہے شامل

میں تری آرزو میں زندہ ہوں

 

کیا کسی کی سحرؔ طلب ہو مجھے

ذات اپنی میں ایک دنیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آبِ زر سے لکھی ہیں تعزیریں

یہ مرے خواب ہیں کہ تعبیریں

 

ہو چکی سب تمام تدبیریں

اور کتنی ہیں جانے تاخیریں ؟

 

کوئی روتا ہے چھپ کے تاروں میں

آسماں پر لکھی ہیں تحریریں

 

دکھ نوشتہ ہے ہر ستارے پر

نسلِ آدم کی ہیں جو تقدیریں

 

وہ تو موتی ہیں ایک مالا کے

چاہے رانجھن ہوں ، چاہے ہوں ہیریں

 

کون قیدِ نفس سے چھوٹا ہے

بجتے بجتے تھکی ہیں زنجیریں

 

رنگ تو ہیں زباں تبسم کی

اور اِن میں چھپی ہیں تصویریں

 

وحشتیں کالی حبشنوں کی طرح

رقص کرتی ہیں لے کے شمشیریں

 

اب سحرؔ سے کہاں سنبھلتی ہیں

یہ ترے دشتِ غم کی جاگیریں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

محرومی

 

 

جلی ہوں عمر ساری میں

ہمیشہ دشتِ فرقت میں

غموں نے مجھ کو گھیرا ہے

مری قسمت اندھیرا ہے

نہ خوابوں میں سویرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تحلیلِ ذات

 

ترے خیال کی کرن

مرے شعار کی لگن

چُرائے جار ہی ہے ہر گھڑی مجھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

یقین

 

بارہا تم سے میں نے پوچھا ہے

تم سے منسوب کیا ستارہ ہے

چپ رہے ہو مگر ہمیشہ تم

اِس پہ میں نے یہ بات سوچی ہے

سب سے روشن حسیں جو تارا ہے

وہ یقیناً صنم، تمہارا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

روشنی

 

 

روشنی اساس ہے

زندگی کی آس ہے

روشنی کو روکو گے

روشنی تو پھیلے گی

روک لے کوئی چاہے

روزنوں ، دریچوں سے

دائروں ، فصیلوں سے

روشنی تو پھیلے گی

ماورائے ہر حد ہے

روشنی پیامی ہے

مثلِ خود کلامی ہے

روشنی تو آشا ہے

زیست سے شناسا ہے

روشنی تو انمٹ ہے

روشنی ہے لافانی

اُس کی بزمِ روشن کو

کون چھوڑ سکتا ہے؟

اُس کا نور آنکھوں میں

روح کی پناہوں میں

روشنی تو پھیلے گی

روک تم نہیں سکتے

٭٭٭

 

 

 

گوارا کر سکو گے کیا؟

 

 

سنا ہے تم کو کلیوں اور پھولوں سے محبت ہے

سنا ہے تم کو چندا اور جگنو سے محبت ہے

سنا ہے تم کو وحشت بھی ہے پت جھڑ سے

سنا ہے چاندنی راتیں تمہیں بے خود سا کرتی ہیں

سنا ہے تم کو خوفِ ظلمتِ شب تنگ کرتا ہے

سنا ہے بحر کی موجوں سے بھی تم کو محبت ہے

یہ سب سچ ہے تو پھر سُن لو

مرے دل میں سوائے تیرگی کے کچھ نہیں باقی

کبھی تم اِن اندھیروں کو گوارا کر سکو گے کیا؟

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری اور ناصر ملک جن کے توسط سے اس کی فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید