FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

یادگار زمانہ لوگ

               پروفیسر غلام شبیر رانا

 

 

سید سعید اختر پیامی :فصیل دل کلس پر ستارہ جو تیرا غم

             عالمی شہرت کے حامل ممتاز پاکستانی ادیب، دانش ور، صحافی اور مدبر سید سعید اختر پیامی 8۔ اپریل 2013کی شام کراچی میں  خالق حقیقی سے جا ملے۔ راج گیر بہار (بھارت)میں 1931میں جنم لینے والے اس یگانہ روزگار فاضل نے اپنی علم دوستی، ادب پروری اور انسانی ہمدردی کی بنا پر دلوں کو مسخر کر لیا۔ ان کی وفات سے اردو صحافت، تخلیق ادب اور تحقیق و تنقید کے ایک درخشاں عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ علم و ادب کا ایک دبستان اور دائرۃ المعارف تھے۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا اور وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ان سے مل کر زندگی سے واقعی پیار ہو جاتا تھا۔ وہ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کا بلند ترین معیار پیش نظر رکھتے تھے۔

                                              کیا لوگ تھے جو راہ جہاں سے گزر گئے

                                                جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

           سید سعید اختر پیامی کا تعلق ایک معزز سادات خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کی علمی، ادبی اور ملی خدمات کا ایک عالم معترف تھا۔ ان کے والدین نے ان کی  تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ سید سعیداختر پیامی نے  تاریخی تعلیمی ادارے رانچی کالج سے گریجویشن کا امتحان امتیازی نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے 1946میں پٹنہ کالج میں داخلہ لیا اور یہاں سے ایم۔ اے معاشیات کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے تمام اساتذہ ان کی محنت، لگن، فرض شناسی، قابلیت اور سعادت مندی کے معترف تھے۔ اپنے تین بھائیوں سید سعید انور، شین اختر اور جابر حسین  میں سب سے وہ بڑے تھے۔ والدین نے ان کو جس شفقت سے نوازا وہ اس کے لیے ان کے ہمیشہ مداح رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو سعیِ پیہم کی تلقین کی اور ان پر واضح کر دیا کہ جہد للبقا کے موجودہ دور میں ہر شعبہ زندگی میں وہی کامیاب و کامران ہو گا جو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے گا۔

         قیام پاکستان کے وقت سید سعید اختر پیامی اخبار  مار ننگ نیوز (Morning News)سے وابستہ تھے اور ڈھاکہ میں صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ ڈھاکہ ہی میں مقیم رہے اس طرح وہ پاکستانی شہری قرار پائے جب کہ ان کے خاندان کے باقی افراد نے بھارت ہی میں قیام کا فیصلہ کر لیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1972میں کھٹمنڈو کے راستے کراچی پہنچے۔ یہاں بھی وہ اسی اخبار سے وابستہ رہے۔ مارننگ نیوز میں وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد وہ ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)میں ملازم ہو گئے۔ جب ڈان کے نیوز ایڈیٹر فضل امام ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ سید سعید اختر پیامی کا تقر ر کیا گیا۔ انھوں نے اس نئی ذمہ داری کو بہ طریق احسن ادا کیا اور ان کا شمار عالمی شہرت کے حامل صحافیوں میں ہونے لگا جو کٹھن حالات اور  ہوائے جو رو ستم میں بھی حریت فکر کا علم بلند رکھتے ہیں۔ انھوں نے جابر سلطان کے سا منے کلمہ حق کہنا اپنا نصب العین بنایا۔ وہ2007 کے اواخر تک ڈان سے وابستہ رہے اس کے بعد وہ ملازمت سے ریٹائر ہو گئے اور گلشن اقبال کراچی میں اپنے فرزند  پروفیسر سکندر مہدی کے ہاں قیام پذیر ہو گئے۔

         زمانہ طالب علمی ہی سے سید سعید اختر پیامی نے حریت فکر کے مجاہد کی حیثیت سے اپنی پہچان پیدا کر لی۔ انھوں نے ترقی پسند تحریک سے گہر ے اثرات قبول کیے۔ ان کے بعض رفقا کا کہنا ہے کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے منشور کو بہ نظر تحسین دیکھتے تھے اور ذہنی طور پر ان کے زیادہ قریب تھے۔ ایک روشن خیال اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ شبیرؓ کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ پاکستان میں صحافت کو معیار  و وقار کی رفعت سے آشنا کرنے کے سلسلے میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا اردو  شعری مجموعہ ’’آئینہ خانہ ‘‘قارئین ادب میں بے حد مقبول ہوا۔ انھوں نے ادب، کلچر، تاریخ، تہذیب و ثقافت، عمرانیات، نفسیات، سیاست اور معاشرے کے اہم موضوعات پر بے شمار وقیع مضامین لکھے۔ نامور نقاد ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے اپنی معرکہ آرا کتاب ’’اختر پیامی کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ ‘‘میں ان کے اسلوب کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا ہے۔ یہ اہم کتاب جسے ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی نے 2008میں شائع کیا، اسلوبیاتی تنقید میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے سید سعید اختر پیامی  کی شاعری اور اسلوب کے بارے  میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ سید سعید اختر پیامی نے اپنی تنقیدی تحریروں سے اردو تنقید کی ثروت میں اضافہ کیا۔ نامور شاعر کیفی اعظمی کی کلیات ’’کیفیات ‘‘پر ان کا پر مغز تبصرہ ان کی تنقیدی بصیرت کا ثبوت ہے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ ادیب، نقاد اور محقق تھے۔ انھوں نے عالمی کلاسیک کا بہ نظر غائر جائزہ لیا اور کے اہم پہلوؤں کو اردو ادب میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی۔

          سید سعید اختر پیامی نے ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے جو سکرپٹ تحریر کیے انھیں بہت پذیرائی ملی۔ وہ  زیڈ۔ اے بخاری کے مداح تھے۔ ان کے معاصرین میں نصیر حیدر، قطب الدین عزیز، افسر ماہ پوری، پروفیسر انعام الرحمٰن، سید جعفر طاہر اور شمیم علوی کے نام قابل ذکر ہیں۔ وطن، اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ انھیں قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔ زمانہ طالب علمی ہی سے وہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر انھوں نے متعدد بار مظلوموں ، محنت کشوں اور محروم طبقے کی حمایت میں نکلنے والے جلوسوں میں شرکت کی ْظالم کسی صف میں بھی ہو وہ ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا ضروری سمجھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ظلم سہنا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے۔ وہ اپنے ما فی الضمیر کو بر ملا بیان کرتے اور کسی مصلحت کا شکار نہ ہوتے تھے۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔ انھوں نے آزادیِ تحریر کو انسانی آزادی کے لیے نا گزیر قرار دیا۔ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔ ان کی تحریروں میں قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔

            سید سعید اختر پیامی کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن ایک بات کا انھیں ہمیشہ قلق رہا کہ وہ اپنے بھائیوں سے جدا ہو گئے۔ اپنی جنم بھومی سے انھیں بہت محبت تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد اب بھی بھارت میں مقیم ہیں۔ 1992میں وہ اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے ملنے کے لیے پٹنہ گئے۔ اس موقع پر انھوں نے کہا:

                                      قصہ کاکل و رخسار لیے آیا ہوں

عشق کی گرمیِ بازار لیے آیا ہوں

                                       مجھ کو سینے سے لگا لے مرے محبوب وطن

                                      اپنا ٹوٹا ہوا پندار لیے آیا ہوں

           یاد ماضی ان کے لیے مو ج نسیم کے مانند تھی کہ ا دھر آئی اور ادھر چلی گئی۔ ان کے چلے جانے کے بعد ادبی محفلیں ویران دکھائی دیتی ہیں۔ دنیا بھر میں ان کے لاکھوں مداح شدت غم سے نڈھال ہیں۔ دام غم حیات میں الجھے یہ الم نصیب تقدیر کے ستم سہنے پر مجبور ہیں .۔ ان کی جدائی میں ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ان کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتاقحط الرجال کے موجودہ زمانے میں دکھی انسانیت کے مصائب اور مسائل کے بارے میں خلوص اور درد مندی سے سوچنے والے اس محب وطن پاکستانی دانش ور کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ہم الم نصیبوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کی خاطر کسی دردمند رفیق یا صدائے جرس کی جستجو میں نکلتے ہیں مگر تقدیر ہمیں سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے جہاں سکوت کے صحرا میں ہماری آہ و فغاں صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔ فرشتہ اجل جو درد لا دوا دے جاتا ہے اس کے سامنے چارہ دل سوائے صبر نہیں۔ ان کی نیکیاں اور خوبیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ اللہ کریم سید سعید اختر پیامی کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین اور  مداحوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ان کی جدائی کے اس جان لیوا صدمے کا علاج وقت ہی ہے۔ رنج و غم کے اس عالم میں ان کی یاد کئی بھولی بسری  باتوں کو سامنے لاتی ہے۔

                             ہر درد محبت سے الجھا ہے غم ہستی

                           کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی

٭٭٭

 

امیر الاسلام ہاشمی :گزر گیا جو جہاں سے عجب مسافر تھا

           اردو کی ظریفانہ شاعری کے نامور تخلیق کار امیر الاسلام ہاشمی نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ اردو زبان و ادب کا وہ نیر تاباں جو 9۔ جولائی 1932کو بدایوں (بھارت )سے طلوع ہوا پوری دنیا میں سدا بہار مسکراہٹیں ، مسرتیں اور شادمانیاں بکھیرنے کے بعد 18۔ مارچ 2013کی شام کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گیا۔ اجل کی مہیب کالی گھٹا نے اردو کی ظریفانہ شاعری کے اس آفتاب جہاں تاب کو گہنا دیا جس کی تابانیوں نے گزشتہ چھ عشروں سے مایوسی، محرومی، نا امیدی، حسرت، ہجوم غم اور آلام روزگار کی جان لیوا تاریکیوں کو کافور کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ امیر الاسلام ہاشمی کی ظریفانہ شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ ہے جسے پڑھ کر قارئین ادب کی نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں ، چہرے پر تبسم نمودار ہو جاتا ہے اور دل کو سکون کی لا زوال دولت نصیب ہوتی ہے۔ ان کی گل افشانیِ گفتار دلوں کو مسخر کر لیتی تھی، وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے تھے۔ وہ  زندگی کی ناہمواریوں کے ہمدردانہ شعور پر مبنی مزاح کی پھلجھڑیوں سے محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتے تھے۔ ان کا انداز بیاں اس قدر شگفتہ اور پر لطف ہوتا کہ سامعین اس کے سحر میں کھو  جاتے اور ان کی طبیعت کبھی سیر نہ ہوتی۔ اردو شاعری میں طنز و مزاح کے دلوں کو موہ لینے والے نغمے الاپ کر خوشیاں بانٹنے والا رباب فرشتہ اجل کے ہاتھوں اس طرح ٹوٹا کہ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے  ماضی کا حصہ بن گئے، شگفتہ بیانی کی زندہ روایات اور نادر اسالیب خیال و خواب بن گئے۔ اس وقت ان کے لاکھوں مداح فرط غم سے نڈھال سکتے کے عالم میں ہیں۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ خوشیوں ، راحتوں اور شادمانیوں کے سریلے راگ الاپنے والا یہ رباب اور اس کی دھنوں سے پھوٹنے والے سریلے بول اور سد ا بہار گیت تا ابد قارئین ادب کے لیے سرور و کیف اور نشاط قلب و جاں کا وسیلہ ثابت ہوں گے۔ طنز و ظرافت کے نئے معائر اور متنوع اسالیب اسی رباب کی شیریں دھنوں سے پھوٹیں گے۔ امیر الاسلام ہاشمی کے اسلوب میں ایک دھنک رنگ کیفیت جلوہ گر ہے جس کے پر کشش رنگوں کی بہار قاری کو لازوال مسرت اور نشاط کے سدا بہار احساس سے سر شار کر دیتی ہے۔ اپنی ظریفانہ شاعری میں امیر الاسلام ہاشمی نے اپنے ذوق سلیم کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ سادگی، سلاست، خلوص، دردمندی، شائستگی اور شگفتگی ان کی ظریفانہ شاعری کے امتیازی اوصاف ہیں۔ ان کے ظریفانہ اسلوب شاعری میں رعایت لفظی، تضمین، مبالغہ، مزاحیہ صور ت واقعہ اور زبان و بیان کی چاشنی کو اس فنی مہارت سے رو بہ عمل لایا گیا ہے کہ اسلوب کی تاثیر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اور قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

         امیرالاسلام ہاشمی کی وفات سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اردو شاعری میں طنز و مزاح کے حوالے سے ایک معتبر، موقر اور مسحور کن آواز اجل کے ہاتھوں دائمی سکوت کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اردو کی ظریفانہ شاعری کو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع کرنے والے اس زیرک، فعال، مستعد اور مخلص تخلیق کار کی وفات پر دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ان کی الم ناک وفات سے اردو شاعری میں طنز و مزاح کا عہد زریں اپنے اختتام کو پہنچا۔ اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ حسین، پر مسرت اور دلکش باب انھوں نے اپنے خون جگر سے لکھا۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک کٹھن مر حلہ ہے۔ یہ مر حلہ انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے طے کیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کا زندہ دائرۃ المعارف تھے۔ اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں میں انھیں منفرد اور ممتاز مقام حاصل تھا۔ انھوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں روایت کو استحکام بخشا جسے  اپنے عہد کے اردو کے  نامور مزاح نگاروں اور شہرہ آفاق  ادیبوں سید ضمیر جعفری، دلاور فگار، مجید لاہوری، خضر تمیمی، رئیس امروہوی، شبنم رومانی، ضیا الحق قاسمی، مرزا محمود سرحدی، نذیر احمد شیخ، نیاز سواتی، مظفر علی ظفر اور ابن انشا نے پروان چڑھایا۔ ان کی ظریفانہ شاعری کے جو مجموعے شائع ہوئے وہ قارئین ادب میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی ظریفانہ شاعری کی کلیات بھی شائع ہو چکی ہے۔ امیر الاسلام ہاشمی  کی ظریفانہ شاعری کے درج ذیل مجموعے شائع ہوئے :

   1۔ گر تو برا نہ مانے، 2 ۔ و علیکم السلام، 3۔ ضرب ظرافت،  4۔ یہ عرض پھر کروں گا، 5  ۔ مجھ کو سمجھے خدا کرے کوئی۔

           امیر الاسلام ہاشمی نے بدایوں (بھارت)سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی۔ ایس سی  انجینئیرنگ کی ڈگری حا صل کی۔ اس کے بعد انھوں نے ایم۔ ایس سی  انجینئیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی پہنچے  بعد میں وہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے محکمہ مساحت پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ وہ 1990تک ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم رہے۔ اس کے بعد انھوں نے مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ اسلام آباد سے ان کی زندگی کی حسین یادیں وابستہ تھیں۔ یہاں ان کے حلقہ احباب میں اس عہد کے نامور ادیب شامل تھے جن میں سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، صدیق سالک، نذیر احمد شیخ، بشیر سیفی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، رحیم بخش شاہین، نظیر صدیقی، ڈاکٹر  محمد ریاض، صابر آفاقی، صابر کلوروی، ڈاکٹر محمو دالرحمٰن، رفعت سلطان اور سید جعفر طاہر کے نام قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے کئی بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی۔ پوری دنیا میں ان کی شگفتہ شاعری کے لاکھوں مداح موجود ہیں۔ ان کی شاعری میں معاشرتی زندگی کی بے ہنگم کیفیات کے بارے میں ایک اصلاحی سوچ کارفرما ہے :

کبھی کی ہو چکی ہوتی  ہماری اور اک شادی

اگر اس کا چہیتا اس قدر پاجی نہیں ہوتا

                        وہ لڑکی اب بھی راضی ہے مگر وہ کیا کرے یارو                        کہ اس لڑکی کا جو پوتا ہے وہ راضی نہیں ہوتا

          ہمارے معاشرے میں چربہ ساز، سارق اور کفن دزد متشاعروں نے جو اندھیر مچا رکھا ہے اس کے مسموم اثرات نے رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔ کئی متشاعر اور لفاظ حشرات سخن گلشن ادب کو تاراج کر رہے ہیں۔ امیر الاسلام ہاشمی نے اس اعصاب شکن صورت حال اور متشاعروں کے قبیح کردار  پر گرفت کی ہے :

میں کہ شاعر نہ سہی صاحب دیوان تو ہوں

پھول اوروں کے سہی، مالک گل دان تو ہوں

گل ہیں چوری کے ہزاروں مرے گل دانوں میں

کتنے بے نام چھپے ہیں مرے دیوانوں میں

           اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا معاشرہ ہوس زر کا اسیر ہو چکا ہے اور بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے۔ علاقائی، لسانی اور رنگ و نسل کے امتیازات نے ہمارے قومی تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔  ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں  اور لوٹ مار نے قومی معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ امیر الاسلام ہاشمی نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر معاشرتی زندگی کے ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے :

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے

اگتے ہیں تہہ سایہ گل خار غضب کے

یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی

اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

            طنز و مزاح کے ذریعے زندگی کی نا  ہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرنے میں وہ اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لانے اور اس کے فن کارانہ اظہار کی بھر پور کوشش ان کے اسلوب کو ایک شان دل ربائی عطا کرتی ہے۔ اردو نظم، غزل اور قطعہ میں ان کی تخلیقی مہارت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کے اسلوب کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر انھوں نے  مزاحیہ نظم نگاری پر زیادہ توجہ دی۔ ان کی مزاح نگاری کے جو ہر نظم میں زیادہ کھلتے ہیں۔ خاص طور پر تحریف نگاری میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔ انھوں نے اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال اور اسرار الحق مجاز کی کچھ مشہور نظموں کی بڑی مہارت سے تحریف کی ہے۔ یہ تحریف نگاری زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور قدرت کلام کی مظہر ہے۔ امیر الاسلام ہاشمی ایک زندہ دل انسان تھے۔ انھوں نے زندگی بھر حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا۔ انھوں نے مزاح کے تیشہ حرف سے مکر اور جبر کی فصیل کو منہدم کرنے اور قارئین ادب میں خوشیاں بانٹنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا۔ ا نسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ دل و جاں سے عزیز رکھتے تھے۔ وہ سلطانیِ جمہور کے پر جوش حامی تھے۔ ظالم کی مذمت کرنا، ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے ان کی جد و جہد ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ فن مزاح نگاری پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔ معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز، تضادات، ارتعاشات، حادثات، اور مناقشات کو سامنے لانے اور ان پر غور  و خوض  کے سلسلے میں ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ دیکھتے بھی تھے اور سوچتے بھی تھے۔ اپنے تمام تجربات، مشاہدات اور احساسات کو انھوں نے بڑے شگفتہ انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا۔ اپنے اسلوب سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں اور زندگی کے معمولی واقعات بھی ان کی شاعری میں غیر معمولی انداز میں سامنے آتے ہیں۔ کوہ سے لے کر کاہ تک کوئی بھی چیز ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی۔ ان کی شگفتہ بیانی کے اعجاز سے قاری کو ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے  منزل رواں دواں رہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ہوائے جو رو ستم میں بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہیں دیتے۔ وہ حوصلے ا ور امید کی شمع فروزاں رکھتے ہوئے وہ تخلیق فن کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔

        امیر الاسلام ہاشمی کی شاعری میں طنزو مزاح کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں طنز و مزاح کو اس طرح شیر و شکر کر دیا گیا ہے کہ قاری کے لیے اس حد فاصل کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو طنز اور مزاح کے مابین پائی جاتی ہے۔ اشک آور کیفیت میں بھی وہ تبسم انگیز اسلوب سے سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ظریفانہ شاعری کے سوتے ان کے دل حزیں سے پھوٹتے ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے یہ دن دکھائے ہیں کہ خلوص و مروت کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے۔ سادیت پسندی (Sadism)کے مرض میں مبتلا درندوں نے لذت ایذا کو مشغلہ بنا لیا ہے۔ امیر الاسلام ہاشمی کی شاعری میں مزاح میں وہ اپنی خامیوں پر ہنستے ہیں جب کہ طنز میں وہ دوسروں کی کم زوریوں  کو ہدف بناتے ہیں :

تکلف بر طرف

پیش لاکٹ کیا تو فرمایا

یہ تو مجھ سے بھی خوب صورت ہے

جب دیا دل تو بولیں رہنے دو

اس تکلف کی کیا ضرورت ہے

پیغام عمل

رات کا وقت ہے اور ہے مسجد بھی قریب

اٹھیے جلدی سے کہ پیغام عمل لایا ہوں

گھر میں فی الحال ہیں جتنے بھی پرانے جوتے

آپ بھی جا کے بدل لیں میں بدل لایا ہوں

منہ میں اب اپنے مسوڑھوں کے سوا کچھ بھی نہیں

پان ہم نے کھائے ہیں اتنی فراوانی کے ساتھ

منہ میں دو بھی  دانت ہوتے پھر تو بک سکتے تھے ہم

عید  کے موقع پہ یارو کتنی آسانی کے ساتھ

          اپنی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں امیر الا سلام ہاشمی نے اپنے عہد کے معاشرتی حالات اور سماجی تضادات اور بے اعتدالیوں کی لفظی مرقع نگاری بڑی خوش اسلوبی سے کی ہے۔ ان کے پر لطف  اسلوب شعر میں طنز و مزاح کا حسین امتزاج قاری کو جہان تازہ کی نوید سناتا ہے :

ذرا سی چھیڑ خانی چاہتے ہیں

محبت درمیانی چاہتے ہیں

عزیزان گرامی سے یہ کہہ دو

کہ اب تو مہربانی چاہتے ہیں

اکھاڑے میں چلو اہل زباں کے

لڑائی منہ زبانی چاہتے ہیں

یہ رشوت ہے تو پھر رشوت سمجھ لو

مگر ہم چائے پانی چاہتے ہیں

ہمیں شادی کی کچھ جلدی نہیں ہے

مصیبت نا گہانی چاہتے ہیں

             امیر الاسلام ہاشمی کی ظریفانہ شاعری میں جہاں تک مزاح کا تعلق ہے وہ محض تفریح کا پہلو لیے ہوئے ہے اس کے برعکس ان کی طنزیہ شاعری میں اصلاح کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ وہ طنز و مزاح کے امتزاج سے اصلاح و تعمیر کے پہلو تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

یہ عرض پھر کروں گا

گھر میں ہوا تھا کیا کیا یہ عرض پھر کروں گا

کیا عرض پھر کروں گا یہ عرض پھر کروں گا

لڑکی کلاسیکل تھی لڑکا کلاس کا تھا

اب کس کلاس کا تھا یہ عرض پھر کروں گا

عرق النسا کا نسخہ مہر النسا نے لکھا

نسخے میں کیا لکھا تھا یہ عرض پھر کروں گا

لڑکی نے بھی قبولا لڑکے نے بھی قبولا

دونوں نے کیا قبولا یہ عرض پھر کروں گا

جب تک رہے گا رسہ، رسہ کشی رہے گی

کب تک رہے گا رسہ یہ عرض پھر کروں گا

رشوت جو روکنا ہے جائز اسے کرا لو

یہ جائزہ ہے کس کا یہ عرض پھر کروں گا

تعویذ تو دیا تھا لڑکے کا پیر جی نے

تعویذ نے دیا کیا یہ عرض پھر کروں گا

اہل نظر کو شک ہے سرمہ نہیں لگاتا

یہ ہاشمی ہے کیسا یہ عرض پھر کروں گا

           اپنی طنزیہ نظموں میں امیر الاسلام ہاشمی نے سیاسی اور سماجی  زندگی کے تضادات اور مناقشات پر کھل کر لکھا ہے۔  ان کی نظمیں ’’قائد اعظم دیکھا تم نے اپنا پاکستان‘‘اور ’’اقبال ترے دیس کا کیا حال سناؤں ‘‘ان کی حب الوطنی، قومی دردمندی اور خلوص کی مظہر ہیں۔ ان کا اندرونی کرب ان کی طنزیہ شاعری میں نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں خندہ آور کیفیات، شگفتہ خیالات اور شستہ اور بر محل پیرایہ اظہار کی دلکش کیفیت  قاری کے لیے نشاط آور لمحات کی نوید لاتی ہے۔ معاشرتی زندگی کے تضادات کو دیکھ کر وہ چپ نہیں رہ سکتے اور اپنے شدید رد عمل کا وہ بر ملا اظہار کرتے ہیں۔ اردو کی ظریفانہ شاعری کے ساتھ ان کا خلوص اور بے تکلفی پر مبنی رویہ جہان تازہ کا نقیب ہے۔

اک چھوڑو ہو اک  اور مسمات کرو ہو

ہر سال یہ کیا قبلہ حاجات کرو ہو

سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر

بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو

کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب

سننے میں یہ آیا ہے کہ خیرات کرو ہو

مل جاؤں تو کرتے ہو نہ ملنے کی شکایت

گھر آؤں تو خاطر نہ مدارات کرو ہو

ہم ذات شریف آتے ہیں اس در پہ یہ سن کر

تم ہنس کے شریفوں سے ملاقات کرو ہو

اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب

بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو

            اللہ تعالیٰ نے امیر الاسلام ہاشمی کو اعلیٰ جمالیاتی حس سے متمتع کیا تھا جس کی عکاسی ان کی شاعری میں بھی ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں حسن بیان کے وسیلے سے جمالیاتی سوز و سرور کے  حصول کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا دلکش، پر لطف اور حسین پیرایہ اظہار قاری کے ذوق سلیم کو صیقل کرتا ہے۔ وہ  طنز و مزاح کے وسیلے سے تہذیبی تحفظ کو یقینی بنانے کے آرزو مند تھے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیل زماں کے تھپیڑوں میں اقوام و ملل کا جاہ و جلال اور عروج و اقتدار تو خس و خاشاک  کے مانند بہہ جاتا ہے لیکن تہذیبی اقدار پرابلق ایام کے سموں کی گرد نہیں پڑ سکتی۔ ان کی یہ کوشش رہی کہ طنزو مزاح کے ذریعے شگفتہ انداز میں نئی نسل کو تہذیبی میراث کے بارے میں مثبت شعور و آگہی عطا کی جا سکے۔ ان کی شاعری اصلاح اور تعلیم و تربیت کے متعدد نئے امکانات سے لبریز ہے۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر ہے۔ وہ گہر ے غور و خوض کے بعد اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے قارئین کے ذہنی شعور کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے شگفتہ اسلوب کے وسیلے سے وہ قارئین کو زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ اور بقا کی اہمیت کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

       امیرالاسلام ہاشمی نے تخلیق ادب کو ایک اہم اور موثر سماجی عمل کی حیثیت سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا۔ ان کی ظریفانہ شاعری میں مزاح  ایک فطری آہنگ  کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے یہ شاعری کئی داخلی اور خارجی حقائق کی آئینہ دار ہے۔ اس کے مطالعے سے تہذیب و معاشرت، سماجی اور عمرانی حقائق اور علم البشریات کے بارے میں حقیقی صورت حال کا علم ہوتا ہے۔ اس کے وسیلے سے پژ مردگی اور اضمحلال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے امیر الاسلام ہاشمی کا نام زندہ رہے گا۔ ان کی شاعری خوشیوں اور راحتوں کی نقیب ثابت ہو گی۔ افراد معاشرہ کے رویوں اور خیالات و افکار کی حقیقی تناظر میں تفہیم کے سلسلے میں یہ اہم کلید ثابت ہو گی۔ بہ ظاہر اپنی ذات کے حصار میں رہنے والے اس گوشہ نشین زیرک تخلیق کار کے افکار و خیالات میں کائنات کی وسعت اور سمندر کی موجوں کی طرح تلاطم موجود ہے۔ ان کی یاد تا ابد  دلوں کو مرکز مہر و وفا کرتی رہے گی۔ ان کی شگفتہ یادیں نہاں خانہ دل کو معطر کرتی رہیں گی۔

                                          پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں

                                         جس سمت نظر اٹھی  آواز تری آئی

٭٭٭


چاچا عاشق :برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا

وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

          چاچا عاشق نے ترک رفاقت کی۔ اخلاق و مروت، خلوص و دردمندی، بے لوث محبت، ایثار اور انسانی ہمدردی کا وہ آفتاب  جو 28۔ اکتوبر 1936کو سمندری (فیصل آباد )کے افق سے طلوع ہوا  پچیس نومبر 2011کی شام کو عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ جھنگ کی زمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ چاچا عاشق ایک دید ہ  ور انسان تھاجس نے اپنی تابانیوں سے معاشرتی زندگی کو منور کر رکھا تھا۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اہل قلم ان لوگوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جوکسی بلند منصب پر فائز ہوں ، ان کی شہرت کا ہر سو ڈنکا بجتا ہو یا جو صاحب ثروت ہوں اور ان کا حلقہ اثر نہایت وسیع ہو۔ میں ایک ایسے عظیم انسان کا احوال لکھ رہا ہوں جس کا تعلق ایک وضع دار، انتہائی خود دار، غریب اور بے حد شریف خاندان سے تھا۔ نہ دولت، نہ شہرت، نہ تعلقات عامہ اور نہ ہی بلند منصب اس کی پہچان تھا۔ وہ ایک عظیم انسان تھاجس نے زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بنائے رکھا۔ اس کی زندگی شمع کے مانند تھی اور وہ سب کے لیے فیض رساں تھا۔ ایسے لوگ زندگی کی شب تاریک میں ستارہ سحر کی صورت اپنے وجود کا اثبات کرتے ہیں۔ مہیب سناٹوں میں ان کی آواز نوید صبح بہار ثابت ہوتی ہے اور سفاک ظلمتوں میں ان کی ذات اور کردار روشنی کا مینار ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی آواز سے  مہیب سناٹوں کا خاتمہ ہوتا ہے اور دلوں کو ایک ولولہ تازہ نصیب ہوتا ہے۔ چاچا عاشق اپنی گوناگوں صفات ، شبانہ روز محنت، لگن اور فرض شناسی کی بہ دولت ہر کسی کی پسندیدہ شخصیت تھا۔ دراز قد، پتلا اور مضبوط جسم سر کے بال سفید، آنکھوں پر موٹے شیشوں کی نظر کی عینک لگائے ہاتھوں میں روزانہ کے احکامات اور ڈاک کے کاغذات تھامے گرمیوں میں  سٹاف روم کے سامنے غربی جانب آم کے درخت کے سائے میں کھڑا  اور سردیوں میں مرکزی کتب خانے (ثاقب میموریل لائبریری) کے جنوب میں کچنار کے درخت  کے نزدیک  دھوپ میں کھڑا چاچا عاشق ہمیشہ مرکز نگاہ رہتا۔ وہ ایسی جگہ کھڑا ہوتا تھا جہاں سے وہ سب احباب  کو دیکھ سکے اور اساتذہ اور طلبا کو ان سے متعلقہ معلومات فراہم کر سکے۔ کالج کا تمام  سٹاف اسے اپنا خادم نہیں بلکہ اپنا مخدوم سمجھتا تھا۔ وہ سب کا بزرگ اور محترم تھا۔ اس سے دعاؤں کی التجا کی جاتی اور کسی قسم کا حکم اسے کسی نے کبھی نہ دیا۔ اب یہ اس کی اپنی مرضی تھی کہ وہ از خود بنا کسی کے کہے کے سب کی خدمت پر ہمہ وقت کمر بستہ تھا اور اس میں کوئی  تساہل نہ بر تتا تھا۔ مسلسل چار عشروں تک وہ  اس ادارے میں خدمات  انجام دیتا رہا۔ وہ 27۔ اکتوبر 1996کو ریٹائر ہوا۔ ریٹائر منت کے موقع پر  اس کی طویل خدمات پر اسے زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسے تحفے تحائف دئیے گئے  اور اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ اس کے بعد وہ  اپنی زندگی کی تمام یادیں اپنے نہاں خانہ  دل میں سموئے اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھ گیا وہ نہ کسی کا گلا کرتا نہ کسی کی شکایت اور نہ ہی کسی کی غیبت کرتا وہ اپنی دنیا میں مگن صرف اور صرف اپنے کام سے تعلق رکھتا۔ فارغ وقت میں وہ تسبیح اور درود پڑھتا رہتا۔ اس کا وجود اللہ کریم کی نعمت تھا۔ اس شخص نے پوری زندگی مجبوروں ، درد مندوں ، ضعیفوں ، مظلوموں اور ناداروں کے ساتھ قلبی وابستگی اور روحانی محبت میں گزاری۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور انسانی حقوق کے لیے اس نے بھر پور جد و جہد کی۔ وہ حریت فکر و عمل کا ایسا مجاہد تھا جو جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اپنے مسلک کے خلا ف سمجھتا تھا۔ اس کا یوں اچانک اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ اس کی وفات پر میں نے ہر آنکھ کو اشک بار دیکھا اور آج بھی اس کی یاد میں سب سوگوار ہیں۔

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے

یہ رنگ آسماں دیکھا نہ جائے

             گورنمنٹ کالج جھنگ کا سب سے بڑا اعزازو امتیاز یہ ہے کہ یہاں سے ایسی ایسی نابغہ روزگار ہستیاں اٹھیں جنھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی فقید المثال کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ ادب میں سید جعفر طاہر، شیر افضل جعفری، مجید امجد، سیدغلام بھیک نیرنگ ڈاکٹر وزیر آغا، صاحب زادہ رفعت سلطان، کبیر انور جعفری، رام ریاض اور معین تابش کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ سائنس کے شعبے میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز)نے اس مادر علمی کو پوری دنیا میں بلند مقام عطا کیا۔ یہاں کے اساتذہ کو پوری دنیا میں عزت و تکریم نصیب ہوئی۔ ان اساتذہ کی عدیم النظیر  علمی اور ادبی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ ان میں ڈاکٹر سید نذیر احمد، غلام رسول شوق، جابر علی سید، محمد احمد خان، پروفیسر عبدالستار چاولہ، سیدعبدالباقی (عثمانیہ)، تقی الدین انجم (علیگ )اور رانا عبدالحمید کے نام تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ اس عظیم، قدیم اور تاریخی مادر علمی میں خدمات انجام دینے والے پہلے سکیل کے ملازمین نے اپنی بے مثال خدمات سے اپنی اہمیت کو بڑے  زوروں سے منوایا۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ادارے سنگ و خشت کی بلند و بالا عمارات سے نہیں بل کہ اپنی اقدار و روایات سے نیک نامی حاصل کرتے ہیں۔ چاچا عاشق گورنمنٹ کالج جھنگ میں پہلے سکیل کا ملازم تھا۔ اس شخص نے اپنی دیانت سے سب کے دل جیت لیے اور وہ سب کا منظور نظر بن گیا۔ طالب علم ہوں یا اساتذہ، پرنسپل ہو یا اعلیٰ افسران سب اس کو چاچا عاشق کہہ کر نہایت عزت و احترام سے گفت گو کرتے۔ چاچا عاشق گورنمنٹ کالج جھنگ کے سٹاف  روم کا نگران تھا۔ یہ ایک اہم خدمت تھی کالج میں دو سو کے قریب اساتذہ تدریسی خدمات پر مامور ہیں۔ سب کے لیے بڑی بڑی الماریوں میں  چھوٹے چھوٹے ریک بنائے گئے ہیں۔ ان میں وہ اپنی ڈائریاں ، کتب، عینک، گھڑی، موبائل اور نقدی رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان ریکس کو تالا لگانے کا انتظام بھی ہے مگر کسی استاد نے چاچا عاشق کی موجودگی میں ان ریکس کو کبھی مقفل نہیں کیا اور آج تک کسی کی کوئی چیز گم نہیں ہوئی۔ امانت اور دیانت کا یہ اعلیٰ معیار اب کہاں ؟امانت کو سنبھال کر رکھنا اور اس کے مالک تک جلد از جلد پہنچانا چاچا عاشق اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ پروفیسر صاحبان کو ناشرین کتب ڈاک کے ذریعے بیش قیمت کتب کے پارسل عام ڈاک سے بک پوسٹ کی صورت میں روانہ کر دیتے ہیں۔ محکمہ ڈاک کے اہل کار یہ پارسل سٹاف روم کی میز پر سہ پہر کو رکھ کر چلے جاتے ہیں۔ اب چاچا عاشق ان پارسلوں کی چھانٹی میں لگ جاتا اور ہرپروفیسر کی ڈاک اس کی الماری کے ریک میں ڈال کر اللہ کا شکر ادا کر تا اور نماز عصر ادا کر کے اپنے گھر کو روانہ ہوتا۔ اگر کالج تعطیلات کی وجہ سے بند ہوتا تو یہ ڈاک  وہ اپنی بائسیکل پر متعلقہ  پروفیسر صاحبان کے گھر پہنچاتا اور دعا دے کر گھر واپس آ جاتا۔ کوئی اسے اپنے بچوں کی شادی پر بلاتا تو ضرور اس تقریب میں شامل ہوتا۔ گورنمنٹ کالج جھنگ کے  سابق پرنسپل پروفیسر سید عبدالباقی (عثمانیہ)کی  بیٹی کی شادی پر چاچا عاشق راول پنڈی پہنچا اور بچی کو لباس کچھ نقدی  اور دعا دے کر گھر واپس آیا۔

           تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے

         کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

         بھول جانا پروفیسر صاحبان کا ایک امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے۔ سٹاف روم  میں میزوں پر کئی پروفیسر صاحبان اپنی عینک، گھڑی، رجسٹر، امتحانی پرچے اور جوابی کاپیاں حتیٰ کہ ہینڈ بیگ جن میں بھاری رقم بھی ہوتی تھی اکثر رکھ کر چلے جاتے۔ چاچا عاشق ان سب اشیا کو سنبھال کر رکھ لیتا اور دوسرے دن ان اشیا کو ان کے حقیقی مالکان کو واپس کر دیتا۔ اسے یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ یہ عینک کس کی ہے اور یہ موبائل کس کی ملکیت ہے۔ اس ہینڈ بیگ  کا مالک کون ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ کالج سے متعلقہ افراد کے موبائل نمبر تک چاچا عاشق زبانی یاد کر چکا تھا۔ اسے کالج کے بارے میں ایک  مخزن معلومات کی حیثیت حاصل تھی۔ جسے کچھ جاننا ہوتا چاچا عاشق  اسے مطلوبہ معلومات فی الفور فراہم کر دیتا۔  تمام احباب کے گھر کا مکمل پتا اور گھر کے ٹیلی فون نمبر اسے زبانی یاد تھے۔ شناخت اور یادداشت کا اس قدر پختہ شخص میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ چاچا  عاشق خدمت میں عظمت کا قائل تھا وہ سب کی خدمت کرتا اور اس کے بدلے ستائش اور صلے کی تمناسے ہمیشہ بے نیاز رہتا۔ اسے کالج کے در وبام، اساتذہ، طلبا و طالبات اور تمام ملازمین کے سا تھ  والہانہ محبت تھی۔ اس محبت سے سرشار ہو کر وہ ہر قسم کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا اور اپنے آرام و سکون کا بھی خیال نہ رکھتا۔  سٹاف روم بند ہو جانے کے بعد وہ از خود کالج کے باغوں کا چکر لگاتا۔ باغ نباتات  میں اگے پھولوں کو دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ اور وہ اکثر کہا کرتا کہ اس چمن کی ہم نے جگر کے خون سے آبیاری کی ہے۔ خدا کرے یہ سدا پھلا پھولا رہے۔ شام کو وہ دارالاقامۃ کا چکر لگاتا اور گھر سے دور رہنے والے طلبا و طالبات کو مطالعہ میں مشغول دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سماتا۔ ایک بار وہ تعلیمی سیر کے لیے طلبا اور اساتذہ کے ہمراہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور  ایبٹ آباد گیا۔ پروفیسر اے۔ آر شیخ اور پروفیسر سجاد اختر ملک اس کے بڑے  مداح تھے۔ وہاں کی نرسری سے ایک چیڑ کا پودا ہمراہ  لایا اور باغ نباتات میں اگایا جو کہ  اب نخل تناور بن چکا ہے۔ میدانی علاقوں میں پہاڑی علاقے کے پودے اگانے میں اسے بہت دلچسپی تھی۔ اس وقت اس تاریخی کالج میں اثمار  و اشجار کی جو فراوانی ہے اس میں کالج کے پہلے سکیل کے ملازمین نے خون پسینہ ایک کر دیا تھا اور نصف صدی کے اس قصے میں حاجی احمد بخش، اللہ بخش، جان محمد، محمد رفیع، غلام محمد اور چاچا عاشق کا اہم کردار رہا ہے۔ کس قدر مستعد اور فعال ملازم تھے یہ سب جو کہ دن رات اسی کوشش میں مصروف رہتے تھے کہ اس مادر علمی کو ہر اعتبار سے رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام  استعاروں کا مخزن بنا دیا جائے۔ اپنی راحت اور آسائش کو ترک کر کے ادارے کی نیک نامی اور حسن کو نکھارنے والے یہ با کمال لوگ کسی بھی ادارے کے لیے سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مٹی کا قرض اتارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں۔ مادر علمی پر ان کا دل ٹوٹ کر آیا تو انھوں نے اپنے آرام و سکون کی بھی پروا نہ کی اور جس طرح بھی ممکن ہوا تعمیر وطن کے کاموں میں دل و جاں سے صبح شام منہمک رہے۔ 1973میں دریائے چناب میں جو قیامت خیز سیلاب آیا اس نے پورے  جھنگ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دریا کا دس فٹ اونچا ریلا حفاظتی بند کو توڑ کو شہر میں داخل ہو گیا۔ شہر میں بہت جانی ا ور مالی نقصان ہو ا۔ ہر کسی کو اپنی جان کے لالے پڑے تھے۔ مصیبت زدہ  لوگ امدادی کیمپوں میں پناہ گزین تھے۔ اس وقت پروفیسرسمیع اللہ قریشی، محمد صدیق، محمد اکرم اور چاچا عاشق اپنی جان پر کھیل کر کالج پہنچے اور کالج کے کتب خانے کی نادرو نایاب کتب کو عمارت کی  چھتوں پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان بیش بہا کتب کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی۔ ان کے اس  بار احسان سے اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی     ثاقب میموریل لائبریری جو کہ کالج کے مرکزی کتب خانہ کی حیثیت سے اہل علم و دانش  کے مل بیٹھنے کی اہم جگہ ہے اس میں چاچا عاشق اپنا فارغ وقت گزارتا۔ یہاں وہ اخبارات کا مطالعہ کرتا اور ادبی جرائد پر بھی نظر ڈالتا۔ کتب خانے  کا عملہ جن میں محمد اکرم، محمد سلیم، فقیر محمد، ملک ظہور حسین (مہتمم کتب خانہ )شامل ہیں ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتے۔ ان کی کوشش یہی ہوتی کہ چاچا عاشق ان سے چائے کی ایک پیالی پی کر جائے مگر وہ  ایک سیر چشم انسان تھا ہمیشہ اس سے بے نیاز رہا۔ اس کے بر عکس چاچا عاشق ہمیشہ  اپنے ملنے والوں کو  موسم کی مناسبت سے چائے یا شربت ضرور پلا کر رخصت کرتا۔  ثاقب میموریل لائبریری  میں بھی وہ  روزانہ اپنی خدمات بلا تامل پیش کر تا اور  لائبریری کے ملازم فقیر محمد کا ہاتھ بٹاتا  جو کتابوں کی ترتیب اور تزئین میں ہمہ وقت مصروف رہتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ کتابیں ہی فقیر محمد کا اوڑھنا اور بچھونا بن چکی ہیں۔ اس سے مل کر نہ صرف کتابوں سے محبت ہو جاتی ہے بل کہ زندگی سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی متعدد ذمہ داریاں تھیں جو چاچا عاشق از خود سنبھال لیتا اور انھیں انجام دے کر مسرت کے احساس سے سرشا ر ہوتا۔ ان میں کالج کی سالانہ تقریبات، سالانہ کھیلیں ، ڈرامے  اور مطالعاتی دورے شامل ہیں۔ لوگ اس مادر علمی میں اس کا وجود اللہ کریم کی ایک بہت بڑی نعمت سمجھتے تھے۔ اس کے ریشے ریشے میں بے لوث محبت کے جذبات سرایت کر گئے تھے۔ اس میں وہ کسی امتیاز کا قائل نہ تھا۔ وہ سب کے ساتھ عزت اور احترام پر مبنی تعلقات قائم رکھتا اور اس کی باتیں پتھروں کو بھی موم کر دیتی تھیں۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

          چاچا عاشق ایک غریب اور خود دار انسان تھا۔ قناعت اور استغنا اس کے مزاج کا حصہ تھا۔ وہ غربت کے مسائل کو سمجھتا تھا کیونکہ وہ خود اس تجربے سے گزر چکا تھا۔ کالج میں پڑھنے والے غریب طلبا و طالبات کی اکثریت مالی امداد کی مستحق تو ہوتی ہے مگر وہ ڈر، شرم یا احساس کمتری کے باعث متعلقہ شعبے کو امداد کی درخواست ارسال کرنے میں اکثر ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ چاچا عاشق ایسے تمام طلبا و طالبات کو پہچان لیتا اور  جائزہ کمیٹی کے ارکان کو ان کے نام اور رول نمبر دے دیتا۔ اس کمیٹی میں دیوان الیاس نصیب، مہر بشارت خان، عباس ہادی، حسین احمد ارشد اور حاجی محمد حیات شامل تھے۔ یہ سب ماہرین جانتے تھے کہ چاچا عاشق جو کچھ کہہ دیتا ہے وہ اس کے طویل تجربے، ذاتی مشاہدے اور تجزیاتی انداز کا غماز ہوتا ہے۔ چاچا  عاشق جس مستحق کے لیے اپنی رائے دے دیتا اس کی کالج فنڈ سے امداد یقینی ہو جاتی۔ اس طرح کئی مستحق گھرانوں کو اپنی اولاد کی تعلیم کے اخراجات میں رعایت مل جاتی جو کہ گرانی کے اس دور میں لطیفہ غیبی کے مترادف تھی۔

           ریٹائرمنٹ کے بعد چاچا عاشق فارغ نہ بیٹھا   اور کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی۔ وہ اپنا حقہ لے کر ایک کرسی پر بیٹھ جاتا اور  حقے کے کش لگاتا رہتا اور دکان پر آنے والے گاہکوں کو اشیائے ضرورت بھی دیتا اورساتھ ہی دعا بھی دیتا۔ کم سن بچوں کو وہ ایک ٹافی دیتا اور کہتا کہ بچو دل لگا کر اپنی تعلیم مکمل کرو۔ آنے والا دور اعلیٰ تعلیم کی قدر و منزلت کا دور ہو گا۔ بے علم اور کم پڑھے لکھے افراد کی معاشرے میں کوئی جگہ نہ ہو گی۔ اس نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ اس کی بیٹیاں اور بیٹے بڑی خوش اسلوبی سے اپنا گھر بسائے ہوئے ہیں  اور اپنی  اعلیٰ سیرت اور مثالی کردار کی وجہ سے پورے علاقے میں انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتا تھا جہاں کی تمام آبادی انتہائی غربت کے عالم میں زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے۔ اس کچی آبادی کا ماحول آج بھی پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ چاچا عاشق شہر کی  بڑی مارکیٹ  میں تھوک کی دکان سے اشیائے ضرورت خرید کر لاتا اور یہ تمام اشیائے ضرورت قیمت خرید پر اس علاقے کے مکینوں کو انتہائی کم منافع پر یا بعض چیزیں تو  بغیر کسی منافع کے فروخت کر دیتا۔ اس کا یہ کام بھی خدمت خلق کی ایک صور ت تھی۔ یہ دکان خوب چلی اور کالج کے اس کے متعدد ساتھی اس  دکان سے اشیائے ضرورت کے باقاعدہ اورمستقل خریدار بن گئے ان میں فقیر محمد، غلام قاسم، اللہ بخش، جیون، مولا بخش، شمشاد، رفیع اور حمید شامل تھے۔ یہ دکان داری تو بہر ملاقات ایک تقریب کی صورت تھی۔ چاچا عاشق تمام عمر محفلوں کا شیدائی رہا، ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے مل بیٹھنے کی ایک صور ت تلاش کر لی۔ اس کے بیتے دنوں کے سب ساتھی اس سے چیزیں خریدنے کے بہانے آ جاتے تھے، ادائیگی نقد ہوتی اور خلوص و محبت کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ یہ سب شام کو اکٹھے ہوتے اور ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق کو زیر بحث لا کر اپنا تزکیہ نفس کرتے تھے۔ جب چاچا عاشق سب کو اللہ بیلی کہہ کر اپنی ابدی آرام گاہ کی جانب سدھار گیا تو اس کا بیٹا طاہر اس کی  دکان پر آ کر بیٹھ گیا اور اپنے باپ کے ساتھیوں کے ساتھ درد کا رشتہ استوار کیے ہوئے ہے۔ وہ بھی اس غم زدہ  نوجوان کی غم خواری کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود چاچا عاشق کی کمی کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ وہ سراپا شفقت و خلوص تھا۔ وہ کیا گیا کہ طلوع صبح بہاراں کی امید ہی معدوم ہو گئی ہے۔ سب اسے یاد کر کے دل تھام لیتے ہیں اور ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ زار رونا چشم کا اب معمول بن چکا ہے۔

احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ

دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے

       چاچا عاشق اگرچہ زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا لیکن اسے کئی اشعار زبانی یاد تھے اور وہ ان اشعار کے بر محل استعمال سے اپنی بات کو پر تاثیر بنا دیتا تھا۔ اسے بہت سی قرآنی آیات  اور احادیث نبوی ﷺ زبانی یاد تھیں۔ حافظ حاجی محمد حیات جب ہاسٹل کے نگران تھے تو ان سے وہ کئی فقہی مسائل کے بارے میں گفتگو کرتا اور اس طرح اپنی دینی معلومات میں مسلسل اضافہ کرتا رہتا۔ وہ مطالعہ کا بہت شوقین تھا۔ اس نے شبلی نعمانی کی سیرت النبی ﷺ اور تفہیم القرآن کا مطالعہ بہ نظر غائر کیا تھا۔ وہ مذہبی رواداری کا قائل تھا ہر قسم کی عصبیت سے وہ ہمیشہ دور رہتا۔ ایک سال وہ مسجد میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا اور اس عبادت کو اپنی زندگی میں بہت مفید قرار دیتا۔  چاچا عاشق نماز کا پابند تھا، وہ اپنی بستی کی مسجد میں با جماعت نماز ادا کرتا اور وہاں نمازیوں سے مل کر ان کی خیریت دریافت کرتا تھا۔ اس کی زندگی کے معمولات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نغمہ زار حیات  میں نیکی، خدمت، بھلائی اور انسانی ہمدردی کا چاند کبھی ماند نہیں پڑ سکتا۔ وہ اللہ کریم کی رحمت پر پختہ یقین رکھتا تھا ور یہ بات بر ملا کہتا تھا کہ شرک اور وہم و گماں ہمیشہ بے نشاں رہتے ہیں۔ دلوں میں وہم کے سم کو کافور کرنے کے لیے اس نے اللہ ہو اور ذکر و اذکار  میں پناہ تلاش کی تھی۔ کسی بھی وضیع فرعون کی یاوہ گوئی سن کر نہ تو چاچا عاشق بڑ بڑاتا تھا اور نہ ہی اس کی رگوں میں یاس و ہراس کا کوئی اندیشہ سر سراتا تھا۔ اس نے ہمیشہ وہی بات کی جو اس کے دل اور ضمیر کے مطابق ہوتی تھی۔ اس کے نطق و لب پر کسی شہر یار کا خوف کبھی مسلط نہ  ہو سکا۔ در اصل وہ دل کی آزادی کو شہنشاہی اور شکم کی بھوک کو موت کا نام دیتا تھا۔ ہر کسی کے ساتھ وہ اخلاق اور اخلاص سے بھر پور رویہ اپناتا۔ وہ سمجھتا تھا کہ فرقہ بندی اور ذات پات پر مبنی سوچ نے معاشرتی زندگی کے سکون کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ چاچا عاشق نے ہمیشہ اپنی انا اور خو داری کا بھرم قائم رکھا اور کسی کے سا منے اپنی کوئی احتیاج پیش نہ کی۔ تعلقات استوار کرنا اور تعلقات قائم رکھنا اور دوسروں کے دکھ درد میں دل و جاں سے شامل ہو کر ان کے دکھ بانٹنے میں چاچا عاشق اپنی مثال آپ تھا۔ کوئی علیل ہوتا تو اس کی بیمار پرسی کے لیے چاچا عاشق اس کے گھر پہنچتا اور اس کی صحت کے لیے دعا کرتا۔ اگر کوئی عزیز  وفات پا جاتا تو اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے تمام مصروفیات ترک کر کے جنازے میں شامل ہوتا اور میت کو کندھا دیتا۔ محمد حیات خان سیال، غلام مرتضی ٰ شاکر ترک، سمیع اللہ قریشی، عباس ہادی، حاجی محمد حیات، عمر حیات بالی، احمد حیات بالی، احمد تنویر، رام ریاض، معین تابش، رفعت سلطان، ظفر سعید، بیدل پانی پتی  اور محمد بخش گھمنانہ کے جنازے میں اسے سب نے زار و قطار روتے ہوئے دیکھا۔ وہ بہت دل گرفتہ تھا۔ سنگت کے ناتے ٹوٹنے پر اسے دلی صدمہ ہوتا تھا اور وہ کئی دن آزردہ رہتا۔ اس نے یہ شعر پڑھا تو اس کی ہچکی  بندھ گئی۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

          گورنمنٹ کالج جھنگ کی تاریخ کا ایک چشم دید گواہ ب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا۔ چاچا عاشق اس عظیم، قدیم اور تاریخی تعلیمی ادارے کو محض درس گاہ نہیں سمجھتا تھا بل کہ اس کے خیال میں یہاں ایک ذرے کو آفتاب بننے کے جو بے شمار مواقع میسر ہیں وہ اس حقیقت کے غماز ہیں کہ یہ مادر علمی ایک درگاہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہاں کی مسجد میں بیٹھ کر ذکر خدا کرنے والے دل کی مراد پا لیتے ہیں۔ یہاں جو بھی آتا ہے اسے گوہر مراد مل جاتا ہے اس ادارے کے در و بام زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کے فروغ کے گواہ ہیں۔ اگر کوئی علم کا متلاشی صدق دل سے یہاں آ کر اپنی تمناؤں کی تکمیل کی دعا مانگے تو اللہ کریم اس کی دعا سن کر اسے حر  ف باریاب کا درجہ عطا کر دیتا ہے۔ چاچا عاشق جہاں مستقبل کی ترقی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتا تھا وہاں اسے اس بات کا بھی قلق تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں فیض کے بے شمار اسباب پیدا کر دئیے ہیں وہاں قدیم تہذیب و ثقافت کے نشانات اب معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔  وہ بتاتا تھا کہ کالج میں ایک بیل خانہ ہو ا کرتا تھا۔ اس میں  بیل گاڑی کو کھینچنے والے بیل باندھے جاتے تھے۔ یہی بیل گھاس کاٹنے والی مشین بھی کھینچتے  اور انھیں کنویں پر جوت کر گھاس کے میدانوں اور کالج کے باغات کوسیراب کیا جاتا تھا۔ دریائے چناب سے نکلنے والی ایک نہر کا پانی بھی کالج تک آتا تھا۔ اب یہ تمام آثار غائب ہو چکے ہیں۔ کئی ٹیوب ویل نصب ہو چکے ہیں۔ سقے اور ماشکی  ہوتے تھے اب تو الیکٹرک کولر لگ گئے ہیں۔ جھٹ پٹے کے وقت  رو شنی کے لیے مشعل اور مٹی کے دئیے فروزاں کر نے کے لیے جگہ تو اب بھی پرانی عمارت میں موجود ہے مگر اب برقی قمقمے اور فانوس  عام ہیں۔ حیرت ہے اس قدر روشنی کے باوجود دلوں کی تاریکی اور کدورت  بڑھ رہی ہے۔ اگر معاشرے میں  مفاد پرستی اور خود غرضی کی یہی روشنی موجود رہی تو ہر طرف ہو کا عالم ہو گا اور ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے گا۔ اس تمام ترقی نے معاشرتی  زندگی سے سادگی اور بے تکلفی کو غائب کر دیا ہے۔ چاچا عاشق کی گل افشانیِ گفتار کا ایک منفرد رنگ تھا۔ وہ اکثر ماضی کی یادوں میں کھو جاتا۔ ایک دن وہ بیل خانے کا ذکر کرتے ہوئے ا س دور کے باغبانوں کے لطیفے سنا رہا تھا تو اس نے بتایا کہ کون کہتا ہے کہ اب بیل نا پید ہو چکے ہیں۔ پرانے زمانے میں لوگ اپنی انا کو کچل کر کہتے تھے کہ آ بیل مجھے مار لیکن اب مفاد پرستی اور ہوس نے یہ معیار بدل دیا ہے۔ اب جسے دیکھو وہ لذت ایذا چاہتا ہے  کیونکہ سادیت پسندی کا مرض آج کے حریص انسان کو دوسروں کے در پئے آزار رکھتا ہے۔ اب بھی ابن الوقت لوگ کہیں نہ کہیں  سے کسی بیل کو ڈھونڈ نکالتے ہیں اور اس بیل کو تھپکی لگا کر اپنے مد مخالف کی طرف اشارہ کرتے ہیں جا بیل اسے مار۔ وہ بیل اپنے آقا کے اشارے پر بے گناہ شکار پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ اب تو جس کا اشارہ  اسی کا بیل اور جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والی بات درست ثابت ہوئی ہے۔ زندگی کے معیار، اقدار اور روایات میں جو تبدیلی رونما ہو چکی ہے، چاچا عاشق اس پر دل گرفتہ رہتا تھا۔

          کچھ کم فہم لوگ ایسے وفا شعار، محنتی اور جفا کش  ملازمین کو ادنیٰ ملازمین یا درجہ چہارم کے ملازمین کہہ کر اپنی بے بصری اور کور مغزی کا ثبوت دیتے ہیں۔ میری دانست میں یہ منکسر المزاج لوگ چھوٹی پوسٹ پر  کام کرنے اور کم تنخواہ لینے کے با وجود بہت بڑے انسان ہوتے ہیں۔ یہ اپنی دنیا کے بادشاہ ہوتے ہیں  اور کبھی در کسریٰ پر صدا نہیں کرتے۔ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان بوسیدہ اور فرسودہ کھنڈرات، اور ان میں موجود لاشوں  میں اتنی سکت کہاں کہ وہ جاندار انسانوں کی آہ و فغاں سن سکیں۔ یہ اعلیٰ کردار کے حامل لوگ درجہ اول کے ملازمین ہیں جن کا سکیل بھی پہلا ہے اور عزت اور وقار میں درجہ بھی پہلا ہے۔ ان کا کام اس قدر کٹھن ہے کہ اس کا عدم اعتراف نا شکری کے مترادف ہے۔ ایسے لوگ اداروں کے لیے بہت قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اہل چمن کو نصیب ہوتا ہے۔

     پچیس نومبر 2011   شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ چاچا عاشق اپنے سفر آخرت پر روانہ ہو رہا تھا۔ لحد تیار تھی  اور اس کے بچھڑنے پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ہزاروں لوگ اس عظیم انسان کے جنازے میں شامل تھے۔ ان میں بڑی تعداد کالج کے اساتذہ اور طلبا کی تھی۔ شہر کے خطیب اور  ممتاز عالم دین حافظ اللہ دتہ نے چاچا عاشق کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا ’’ ساتھیو! چاچا عاشق اپنے اس  آخری سفر پر روانہ ہو گیا ہے جو سب زندہ  انسانوں کو درپیش ہے۔ اس کا معاملہ اب اپنے خالق کے حضور پیش ہو چکا ہے۔ اس نے اپنی زندگی میں اگر کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو اسے معاف کر دیں۔ اگر اس نے کسی کا کوئی قرض دینا ہو تو وہ اس کے بیٹوں سے ابھی اور اسی وقت  وصول کر سکتا ہے۔ ‘‘سب لوگ اشک بار تھے اور حسرت و یاس کے عالم میں  چپ تھے۔ ایک کونے سے ایک غم زدہ طالب علم نے آہ بھر کر کہا ’’چاچا عاشق تو کسی کا مقروض نہ تھا کالج کے ہزاروں طالب علم جو اس کی بے لوث محبت، اعانت اور شفقت کے مقروض ہیں وہ یہ قرض کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ قرض اب کون معاف کرے گا؟‘‘

     ’’سچ کہتے ہو ہم سب پر اس عظیم انسان کی بے لوث محبتوں کا قرض واجب الادا ہے۔ ‘‘ایک بزرگ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا ’’کاش ہم اس کی زندگی کے طریقوں کو لائق تقلید سمجھیں اور اس کی محبت کا قرض کسی طرح درد مندوں اور بے سہاروں کو ادا کر سکیں۔ ‘‘

          تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ وہ دل آویز نگاہ اب ہم پر کبھی  نہیں پڑ  سکتی جس کی ایک جھلک امید بھی بندھاتی اور تسکین کا  موثر وسیلہ بھی بن جاتی تھی۔ ہماری زندگی ریگ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے ما نند ہے جسے سیل زماں کے تھپیڑے دیکھتے ہی دیکھتے مٹا دیتے ہیں  اور ہم بچھڑنے والوں کے غم زدہ پس ماندگان بے بسی کے عالم میں دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ مشیت ایزدی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان صبر  رضا کا پیکر بن جائے اور قیامت کے دکھ میں بھی ضبط کو شعار بنائے۔ اس وقت یہی کیفیت دل پر گز رہی ہے۔ وقت کی مثال سیل زماں کی تندو تیز موجوں کی ہے جو لحظہ ہر آن نہایت سرعت سے گزر رہی ہیں۔ یہ تلا طم  خیز موجیں پلک جھپکتے میں گزر جاتی ہیں۔ کوئی شخص اپنی شدید تمنا اور سرتوڑ کوشش کے باوجود ان گزر جانے والی سیل زماں کی لہروں کے لمس سے دوبارہ کبھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ جو چاند چہرے اجل کے ہاتھوں شب فرقت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں وہ عدم کے دیس میں ابدی نیند سو جاتے ہیں اور  ہماری آنکھیں پھر ان کی دید کو ہمیشہ ترستی رہتی ہیں۔ ہم صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ و ار نکلتے ہیں مگر ہمارا واسطہ سرابوں سے پڑ جاتا ہے اور ہم سکوت کے صحرا میں بھٹکتے  پھرتے ہیں۔ زندگی کی ساعتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں مگر کسی کو اس کا احساس تک نہیں۔ سیر جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔ چاچا عاشق دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا سلیقہ جانتا تھا۔ وہ ایک سچا مسلمان، نمازی، خداترس اور محب وطن پاکستانی تھا۔ اس کی یاد دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی۔ دنیا بلا شبہ دائم آباد رہے گی مگر چاچا عاشق کے نہ ہونے کی ہونی دنیا کی بے ثباتی کے غم میں اضافہ کرتی رہے گی۔ اب تو سمے کے سم کے ثمر نے بہت  نڈھال کر دیا ہے۔ اس کے جانے سے تو رتیں ہی بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایسے لوگ کم یاب ہی نہیں بل کہ نایاب بھی ہیں۔ اس سے وابستہ یادیں  اب زندگی کا اثاثہ بن گئی ہیں۔

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں

جس سمت نظر اٹھی آواز تری آئی               ٭٭٭

 

ممتاز شیریں :اردو کی پہلی خاتون نقاد

احباب ہی نہیں تو کیا زندگی حفیظ

دنیا چلی گئی مری دنیا لیے ہوئے

          ممتا ز شیریں نے فن افسانہ نگاری، ترجمہ نگاری اور تنقید کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی کامرانیوں سے اردو ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ  ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ ندرت تخیل، اسلوب کی انفرادیت، فکر پرور اور بصیرت افروز تجزیاتی مطالعہ کو جس فن کارانہ مہارت سے انھوں نے اپنی تحریروں کو مزین کیا وہ انھیں ایک ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ ایک بلند پایہ نقاد کی حیثیت سے انھوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ افکار تازہ کی اساس پر جہان تازہ کا قصر عالی شان تعمیر کیا جائے۔ وہ ایک وسیع القلب اور فراخ دل تخلیق کار اور زیرک نقاد تھیں۔ ادبی تخلیقات کے محاسن اور معائب پر ان کی گہری نظر رہتی تھی۔ گلشن ادب کو خون دل سے نکھارنے کے سلسلے میں ان کی مساعی کا عدم اعتراف احسان فراموشی کے مترادف ہے۔ انھوں نے  اپنے اسلوب میں عصری آگہی کو پروان چڑھانے کے لیے سخت محنت کی۔ معاشرتی اور سماجی زندگی میں انھوں نے اس امر پر زور دیا کہ ایک تخلیق کار کو ایسی طرز فغاں اپنانی چاہیے جو علم و عمل کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہمدوش ثریا کر دے۔ ان کی تحریریں اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر اور معاملات کے بارے میں زندگی کی حقیقی معنویت کو سامنے لاتی ہیں۔ معاشرتی زندگی ہو یا کائنات کے غیر مختتم مسائل سب کے بارے میں ممتاز شیریں کا انداز فکر ہمہ گیر نوعیت کا رہا۔ اپنے محاکمے سے وہ  اچھائی  اور برائی میں موجود حد فاصل کے بارے میں قاری کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ زندگی کی آفاقی اور  حیات آفریں اقدار کے تحفظ، ارتقا اور بقا کو وہ دل و جاں سے عزیز رکھتی تھیں۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ان کی خدمات تاریخ ادب کا ایک اہم واقعہ ہیں۔

        ممتاز شیریں کے والد کا نام قاضی عبدالغفور تھا۔ وہ اپنے عہد کے ممتاز عالم تھے۔ عربی اور فارسی زبان پر انھیں دسترس حاصل تھی۔ ممتاز شیریں 12۔ ستمبر 1924کو اپنے آبائی وطن بنگلور میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا ٹیپو قاسم خان نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی خاطر اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح وہ بچپن ہی میں اپنے ننھیال میں رہنے لگیں۔ ممتاز شیریں کے نانا اور نانی نے اپنی اس ہو نہار نواسی کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ وہ خود بھی تعلیم یافتہ تھے اور گھر میں علمی و ادبی ماحول بھی میسر تھا۔ ممتاز شیریں ایک فطین طالبہ تھیں انھوں نے تیرہ(13)برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ 1941میں ممتاز شیریں نے مہارانی کالج بنگلور سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ 1942  میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ممتاز شیریں نے 1944میں اپنے شوہر صمد شاہین سے مل کر بنگلور سے ایک ادبی مجلے ’’نیا دور ‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس رجحان ساز ادبی مجلے نے جمود کا خاتمہ کیا اور مسائل ادب اور تخلیقی محرکات کے بارے میں چشم کشا صداقتیں سامنے لانے کی سعی کی گئی۔ صمد شاہین پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے۔ انھوں نے وکالت کے بعد ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد وہ حکومت پاکستان میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے حکومت پاکستان کے بیورو آف ریفرنس اینڈ ریسرچ میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ ممتاز شیریں نے زمانہ طالب علمی ہی سے  اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔ ان کی سنجیدگی، فہم و فراست، تدبر و بصیرت اور وسیع مطالعہ نے انھیں سب کی منظور نظر بنا دیا۔ ہر جماعت میں وہ اول آتیں اور ہر مضمون میں امتحان میں وہ سر فہرست رہتیں۔ قیام پاکستان کے بعد ممتاز شیریں کا خاندان ہجرت کر کے کراچی پہنچا۔ کراچی آنے کے بعد ممتاز شیریں نے اپنے ادبی مجلے ’’نیا دور ‘‘ کی اشاعت پر توجہ دی اور کراچی سے اس کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہو گیا لیکن 1952 میں ممتاز شیریں اپنے شوہر کے ہمراہ بیرون ملک چلی گئیں اور یوں یہ مجلہ اس طرح  بند ہو ا کہ پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آئی۔ ادبی مجلہ ’’ نیا دور ‘‘ممتاز شیریں کی تنقیدی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ پاکستان آنے کے بعد  ممتاز شیریں نے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ کراچی سے ایم۔ اے انگلش کرنے کے بعد ممتاز شیریں برطانیہ چلی گئیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں جدید انگریزی تنقید میں اختصاصی  مہارت فراہم کرنے والی تدریسی کلاسز میں داخلہ لیا اور انگریزی ادب کے نابغہ روزگار نقادوں اور ادیبوں سے اکتساب فیض کیا اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ کیا۔ ممتاز شیریں کی دلی تمنا تھی کہ آکسفورڈ  یو نیورسٹی میں ان کی تعلیم جاری رہے اور وہ اس عظیم جامعہ سے ڈاکٹریٹ (ڈی۔ فل )کریں لیکن بعض ناگزیر حالات اور خاندانی مسائل کے باعث وہ اپنا نصب العین حاصل نہ کر سکیں اور انھیں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے پاکستان وا پس آنا پڑا۔ اس کا انھیں عمر بھر قلق رہا۔

          ممتاز شیریں نے 1942میں تخلیق ادب میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’انگڑائی ‘‘ادبی مجلہ ساقی دہلی میں 1944میں شائع ہو ا تو ادبی حلقوں میں اسے زبردست پذیرائی ملی۔ اس افسانے میں ممتاز شیریں نے فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو جس مو ثر انداز میں پیش نظر رکھا ہے وہ قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ افسانہ کیا ہے عبرت کا ایک تازیانہ ہے۔ ایک لڑکی بچپن میں اپنی ہی جنس کی ایک دوسری عورت سے پیمان وفا باندھ لیتی ہے۔ جب وہ  بھر پور شباب کی منزل کو پہنچتی ہے تو اس کے مزاج اور جذبات میں جو مد و جزر پیدا ہوتا ہے وہ اسے مخالف جنس کی جانب کشش پر مجبور کر دیتا ہے۔ جذبات کی یہ کروٹ اور محبت کی یہ انگڑائی نفسیاتی اعتبار سے گہری معنویت کی حامل ہے۔ بچپن کی نا پختہ باتیں جوانی میں جس طرح بدل جاتی ہیں ، ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اس ا فسانے کا اہم موضوع ہے۔ مشہور افسانہ ’’انگڑائی ‘‘ ممتاز شیریں کے  پہلے افسانوی مجموعے ’’اپنی نگریا‘‘ میں شامل ہے۔ وقت کے ساتھ خیالات میں جو تغیر و تبدل ہوتا ہے وہ قاری کے لیے ایک انوکھا تجربہ بن جاتا ہے۔ یہ تجربہ جہاں جذباتی اور نفسیاتی  اضطراب کا مظہر ہے وہاں اس کی تہہ میں روحانی مسرت کے منابع کا سراغ بھی ملتا ہے۔ وہ ایک  مستعد اور فعال تخلیق کار تھیں۔ ان کے اسلوب کو علمی و ادبی حلقوں نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ 1954میں ہالینڈ کے دار الحکومت ہیگ میں ایک بین الاقوامی ادبی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ ا س عالمی ادبی کانفرنس میں عالمی ادب اور انسانیت کو درپیش مسائل کے بارے میں وقیع مقالات پیش کیے گئے۔ ممتاز شیریں کو اس عالمی ادبی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس عالمی ادبی کانفرنس میں ممتاز شیریں نے دنیا کے نامور ادیبوں سے ملاقات کی اور عالمی ادب کے تناظر میں عصری آگہی کے موضوع پر ان کے خیالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ادب کو وہ زندگی کی تنقید اور درپیش صورت حال کی اصلاح کے لیے بہت اہم سمجھتی تھیں۔ ممتاز شیریں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حکومت پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات پر مامور تھیں۔ ممتاز شیریں کو 1972میں پیٹ کے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ مرض میں اس قدر شدت آ گئی کہ 11مارچ 1973کو پولی کلینک اسلام آباد میں وہ انتقال کر گئیں۔ اردو افسانے اور اردو تنقید کے اس آسمان کو اسلام آباد کی زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ممتاز شیریں کی وفات سے اردو تنقید کا ایک درخشاں باب کا خا تم ہو گیا۔ اردو کی پہلی خاتون  نقاد سے ہم محروم ہو گئے۔ تانیثیت (Feminism) کی علم بردار حرف صداقت لکھنے والی اس با کمال، پر عزم، فطین اور  جری تخلیق کار کی الم ناک موت نے اردو ادب کو نا قابل اندمال صدمات سے دوچار کر دیا

           اپنی تخلیقی کامرانیوں سے ممتاز شیریں نے اردو دنیا کو حیرت زدہ کر دیا۔ رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے ان کے توانا اور ابد آشنا  اسلوب میں سمٹ آئے تھے.ان کی تمام  تحریریں قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز تھیں۔ ممتاز شیریں کی درج ذیل تصانیف انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام پر فائز کریں گی۔

(1)اپنی نگریا (افسانوں کا مجموعہ ): اسے مکتبہ جدید لاہور نے پہلی مرتبہ ستمبر 1947میں شائع کیا۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔

(2)میگھ ملہار (طویل افسانوں پر مشتمل مجموعہ ): یہ لارک پبلشرز کراچی کے زیر اہتمام پہلی مرتبہ 1962میں شائع ہوا۔

(3)معیار :یہ کتاب ممتاز شیریں کے تنقیدی مقالات پر مشتمل ہے۔ اردو میں فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کو اس تنقید میں بالعموم پیش نظر رکھا گیا ہے۔

(4)در شہوار :یہ ممتاز شیریں کے ترجمہ کی بلند پایہ کتا ب ہے۔ اس میں انھوں نے جان آسٹن کے مشہور ناول ’’دی پیرل ‘‘ کو اردو زبان کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ممتاز شیریں کا عالمانہ تحقیقی مقالہ بھی اس ترجمے میں شامل ہے جس میں انھوں نے امریکی ناول کے ارتقا پر تحقیقی نگاہ ڈالی ہے۔ اردو میں فکشن پر تنقید اور تحقیق کا یہ اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے۔ یہ ترجمہ مصنف کی اصل کتاب سے قریب ترین ہے۔

(5)امریکی کہانیاں : یہ بھی تراجم پر مشتمل کتاب ہے۔ ممتاز شیریں نے اس کتاب میں امریکی مختصر افسانوں کے اردو تراجم پیش کیے ہیں۔ ان تراجم میں انھوں نے تخلیق کی چاشنی کو اس طرح سمو دیا ہے کہ قاری ان کے اسلوب کی کشش کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان تراجم کے ساتھ ساتھ ممتاز شیریں نے امریکی افسانہ نگاروں کے اسلوب اور تخلیقات کے فنی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ممتاز شیریں کے یہ تنقیدی مضامین اور تجزیے جو نہایت جامع اور بر محل ہیں ان کے مطالعہ سے قاری پر فن افسانہ نگاری کے متعدد پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔ افسانوں پر ممتاز شیریں کی تنقید اپنی جگہ ایک مستقل افادی  نوعیت رکھتی ہے۔

        اردو ادب میں حریت فکر کی روایت کو پروان چڑھانے میں ممتاز شیریں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ عجز و انکسار اور خلوص کا پیکر تھیں۔ ظلمت نیم روز ہو یا منٹو نوری نہ ناری ہر جگہ اسلوبیاتی تنوع کا جادو سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اور محمود ہاشمی کے اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’یا خدا ‘‘ اور محمود ہاشمی کی تصنیف ’’کشمیر اداس ہے ‘‘کا پیرایہ آغاز جس خلوص کے ساتھ ممتاز شیریں نے لکھا ہے وہ ان کی تنقیدی بصیرت کے ارفع  معیار کی دلیل ہے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ قلبی لگاؤ اور والہانہ محبت ان کے قلب، جسم اور روح سے عبارت تھی ابتدا میں  اگرچہ وہ کرشن چندر کے فن افسانہ نگاری کی مداح رہیں مگر جب کرشن چندر نے پاکستان کی آزادی اور تقسیم ہند کے موضوع پر افسانوں میں کانگریسی سوچ کی ترجمانی کی تو ممتاز شیریں نے اس انداز فکر پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے سخت نا پسند کرتے ہوئے کرشن چندر کے بارے میں اپنے خیالات سے رجوع کر لیا اور تقسیم ہند کے واقعات اور ان کے اثرات کے بارے میں کرشن چندر کی رائے سے اختلاف کیا۔ ممتاز شیریں نے اردو ادب میں منٹو اور عصمت چغتائی پر جنس کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کو بلا جواز قرار دیتے ہوئے ان کے اسلوب کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ ممتاز شیریں کا تنقیدی مسلک کئی اعتبار سے محمد حسن عسکری کے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ سب کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے لبریز ان کا سلوک ان کی شخصیت کا امتیاز ی وصف تھا۔ ان کے اسلوب کی بے ساختگی اور بے تکلفی اپنی مثال آپ ہے۔ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور اسلوب کی ندرت کے اعجاز سے انھوں نے ادب، فن اور زندگی کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ ان کے ہاں فن کار کی انا، سلیقہ اور علم و ادب کے ساتھ قلبی لگاؤ، وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ وابستگی کی جو کیفیت ہے وہ انھیں ایک اہم مقام عطا کرتی ہے۔ ادب کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے کی وہ زبردست حامی تھیں۔ انھوں نے داخلی اور خارجی احساسات کو جس مہارت سے پیرایہ اظہار عطا کیا ہے وہ قابل غور ہے۔ اپنے ایک مضمون میں ممتاز شیریں نے اپنے اسلوب اور تخلیقی محرکات کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

         ’’مجھ میں فن کار کی انا سہی لیکن اتنا انکسار تو ضرور ہے کہ یہ محسوس کر سکوں کہ بڑے ادیبوں کے سامنے ہم کتنے چھوٹے ہیں اور فن کار کے ارتقا اور تکمیل تک پہنچنے میں ہمیں ابھی کتنے اور مرحلے

       طے کرنے ہیں۔ میں اپنے بارے میں صرف یہ کہہ سکتی ہوں کہ پہلے درجے سے گزر کر میں نے دوسرے میں قدم رکھا ہے اور اپنی ذات میں نارسیسی  انہماک پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔ ‘‘(1)

        ممتاز شیریں کو انگریزی، اردو، عربی، فارسی اور پاکستان کی متعدد علاقائی زبانوں کے ادب پر دسترس  حاصل تھی۔ عالمی کلاسیک کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا تھا۔ زندگی کے نت نئے مطالب اور مفاہیم کی جستجو ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ اپنی تخلیقی تحریروں اور تنقیدی مقالات کے معجز نما اثر سے وہ قاری کو زندگی کے مثبت شعور سے متمتع کرنے کی آرزو مند تھیں۔ ان کی تخلیقی اور تنقیدی تحریریں  ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہیں ا ور حیات و کائنات کے ایسے متعدد تجربات جن سے عام قاری بالعموم  نا آشنا رہتا ہے ممتاز شیریں کی پر تاثیر تحریروں کے مطالعے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے ہی  سے اس کے نہاں خانہ دل میں جا گزیں تھا۔ اس طرح فکر و خیال کی دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو تا ہے جس کی وجہ سے قاری کے دل میں اک ولولہ تازہ پیدا ہوتا ہے۔

       ترجمے کے ذریعے وہ دو تہذیبوں کو قریب تر لانا چاہتی تھیں۔ تراجم کے ذریعے انھوں نے اردو زبان کو نئے جذبوں ، نئے امکانات، نئے مزاج اور نئے تخلیقی محرکات سے روشناس کرانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ ان کے تراجم کی ایک اہم اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے مطالعہ کے بعد قاری ان کے تخلیق کار کی روح سے ہم کلام ہو جاتا ہے مترجم کی حیثیت سے وہ پس منظر میں رہتے ہوئے قاری کو ترجمے کی حقیقی روح سے متعارف کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتیں۔ ان کے تراجم سے اردو کے افسانوی ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا اور فکر و خیال کو حسن و دلکشی اور لطافت کے اعلیٰ معیار  تک پہنچانے میں کامیابی ہوئی۔ افسانوی ادب کی تنقید میں ممتاز شیریں کا دبنگ لہجہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ گزشتہ آٹھ عشروں میں لکھی جانے والی اردو تنقید پر نظر ڈالیں تو کوئی بھی خاتون نقاد  دکھائی نہیں دیتی۔ ممتاز شیریں نے اردو تنقید کے دامن میں اپنی عالمانہ  تنقید کے گوہر نایاب ڈال کر اسے عالمی ادب میں معزز و مفتخر کر دیا۔ زندگی کی صداقتوں کو اپنے اسلوب کی حسن کاریوں سے مزین کرنے والی اس عظیم ادیبہ کے تخلیقی کارنامے تاریخ ادب میں آب زر سے لکھے جائیں گے اور تاریخ ہر دور میں ان کے فقیدالمثال اسلوب لا ئق صد رشک و تحسین کام اور عظیم نام کی تعظیم کرے گی۔

مآخذ

(1)آغا بابر       :’’حرف سو گوار ‘‘، مضمون مشمولہ مجلہ سیپ، کراچی، شمارہ  55، جنوری 1990، ، صفحہ 304

٭٭٭

 

عبید اللہ بیگ :حصار سنگ میں بل کھاتی آب جو تیرا غم

       جمعہ  بائیس جون 2012کو مجھے اطلاع ملی کہ پاکستان کے نامور ادیب، ممتاز محقق، با کمال براڈ کاسٹر، بے مثال ماہر ماحولیات، لازوال تخلیق کار، ہر دل عزیز کمپیئر، عالمی شہرت کے حامل دانش ور، فلسفی اور حریت فکر کے عظیم مجاہد عبید اللہ بیگ دائمی مفارقت دے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ کریم عبید اللہ بیگ کو جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے کروڑوں مداحوں کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ عبید اللہ بیگ کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے وہ پاکستان کا بہت بڑا اثاثہ تھے۔ ان کی وفات پر بزم ادب سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ان کے لاکھوں رفقا اس جان لیوا صدمے سے نڈھال ہیں۔ ایک ایسی شام الم ہم پر مسلط ہو گئی جس میں درد کی ہوا چلنے سے رتیں بے ثمر اور آہیں بے اثر ہو کر رہ گئی  ہیں۔  ان کے اس جہاں سے اٹھ جانے کے بعد رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ صحن چمن میں ویرانی کا ایسا عالم پہلے کبھی نہ تھا۔ دیوار و در کی صور ت  ہی یکسر بدل گئی ہے پورا  ماحول ہی سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے۔ اس نے جاتے جاتے وفا کے سب سلسلے ہی توڑ ڈالے۔ شہر آرزو کی ویرانی کا جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ایسے دیدہ ور کا دنیا سے اٹھ جانا ایک ایسا سانحہ ہے جس کے باعث  فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم اب خزاں  کے مسموم بگولوں کی زد میں آ گیا ہے۔

       علم و ادب کا وہ آفتاب جو 1936میں رام پور (بھارت )سے طلوع ہوا، پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے بقعہ نور کرنے کے بعد 22جون 2012کو کراچی میں غروب ہو گیا۔ ڈیفنس کراچی کے شہر خموشاں کی زمین نے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ عبیداللہ بیگ کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس کے فکر و خیال پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان تھے۔ ان کی رحلت سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی نشریات کی اس عظیم الشان روایت کو شدید ضعف پہنچا جس کے سوتے تہذیب اور شائستگی کے ابد آشنا خزینے سے پھوٹتے تھے۔ ادب میں شرافت، وضع داری، استغنا، انکسار کا عملی پیکر ہمارے درمیان اب مو جود نہیں رہا۔ حب الوطنی، انسانی ہمدردی، بے لوث محبت، بے باک  صداقت، خلوص  و مروت، ایثار اور کمال فن کی مجسم تصویر سوئے عدم رخصت ہوئی۔ اردو زبان  و ادب کا بے لوث خادم  اپنی تمام تخلیقی فعالیتوں کا سلسلہ توڑ کر ادب کے طالب علموں کو بے یار و مدد گار چھوڑ گیا۔ شکاریات، حالات حاضرہ، جغرافیہ ، ماحولیات، عمرانیات، تاریخ، فلسفہ، نفسیات، فنون لطیفہ، ادیان عالم اور تہذیب و ثقافت کا وقیع دائرۃ المعارف اب کہاں ملے گا؟۔ وہ دانش ور جس نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو قاموس و لغت سے بے نیاز کر دیا تھا داعی ء اجل کو لبیک کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گیا۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایک ایسی ہفت اختر شخصیت کا عدم کے لیے رخت سفر باندھ لینا  ، ایک بیش بہا قومی اثاثے سے محرومی اور ایک تہذیبی معیار کی علامت شخصیت کا منوں مٹی کے نیچے دفن ہو جانا اتنا بڑا نقصان ہے جس کے اثرات وقت گزرنے کے سات ساتھ روز بہ روز گمبھیر ہوتے چلے جائیں گے۔ حیف صد حیف کہ اب ہمیں کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جسے عبیداللہ بیگ جیسا کہا جا سکے۔ اپنی پر خلوص گفتگو سے سامعین کے دلوں کو مسخر کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اپنی حاضر دماغی، بر جستگی، شگفتہ مزاجی اور وسیع مطالعہ کے اعجاز سے انھوں نے انسانیت کے بلند ترین مقام تک رسائی حاصل کی۔

          مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں                 تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

        عبیداللہ بیگ نے 1961میں ریڈیو پاکستان سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا۔ انھیں ریڈیو کی نشریات میں لانے والی شخصیت کا نام اسلم اظہر ہے۔ انھیں ا چھی طرح معلوم تھا کہ ایسے نابغہ روزگار دانش ور کی موجودگی سے ذرائع ابلاغ کی وقعت اور ثقاہت میں اضافہ ہو گا۔ ریڈیو کے پروگراموں کی میزبانی اور کمپیرنگ میں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا اس طرح استعمال کیا کہ  پوری دنیا میں ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ 1970میں جب انھوں نے کوئز پروگرام کسوٹی پیش کیا تو ان کو اس قدر پذیرائی ملی جس کی نشریات کی تاریخ میں پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کی عظیم قومی خدمات  کے اعتراف میں انھیں پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ چودہ اگست 2008کو حکومت پاکستان نے عطا کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 2009میں ملا۔ ان کی فقید المثال کامرانیوں نے انھیں جو بلند مقام عطا کیا اس میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا۔ اگرچہ وہ انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے لیکن اپنے وسیع مطالعہ کے اعجاز سے وہ علوم و فنون کا بحر بے کراں ثابت ہوئے۔

                                         کون ستارے چھو سکتا ہے                راہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے

       ’’سیلانی کے ساتھ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو ڈاکو منٹریز تیار کیں وہ اپنی نوعیت  اور افادیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ان ڈاکو منٹریز کے ذریعے وہ عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے متمنی تھے۔ ان کی ایک ایک تصویر اور ایک ایک منظر سے جو صدا نکلتی ہے وہ ناظرین کے دل کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کا امتیازی وصف ہے۔ ان کے اسلوب کی پہچان یہ ہے کہ ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے سے ایک ہی سر نکلتا ہے کہ اے نگار وطن تو سلامت رہے۔ تحفظ جنگلی حیات کے لیے ان کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب کسی مقام  پر جنگلی حیات پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اور یہ بے بس مخلوق وہاں سے کوچ کرنے پر مجبور ہو جائے یا حبس کے ماحول کے باعث طیور اپنے آشیانوں میں دم توڑ دیں تو یہ آفات ناگہانی کا اک اشارہ ہوتا ہے۔  اردو ناول اور افسانے کے فروغ کے لیے انھوں نے انتھک کام کیا۔ اردو افسانے میں انھوں نے حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کا اعلیٰ ترین معیارپیش نظر رکھا۔ ان کے دو ناول شائع ہوئے۔ ان کا پہلا ناول ’’اور انسان زندہ ہے ‘‘ان کے تجربات، احساسات اور مشاہدات کا آئینہ دار ہے۔ ان کا دوسرا ناول ’’راجپوت ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول میں انھوں نے تاریخ کے مسلسل عمل کی جانب متوجہ کیا ہے۔ اس شہر خفتگاں میں ان کی آواز تاریخی صداقتوں کی مظہر ہے ان کی شخصیت کے تمام اوصاف ان کے اسلوب میں سمٹ آئے ہیں۔ وہ کتا ب کلچر کے نمائندہ تھے۔ ایک وسیع ا  لمطالعہ ادیب کی حیثیت سے انھوں نے اپنے تبحر علمی، وسیع النظری اور تخیل  کی جولانیوں سے پوری دنیا کو ورطہ حیر میں ڈال دیا۔ ان کے لائق صد رشک کام کو دیکھ کر یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تخلیقات زمان  و مکان کی حدود سے بالا تر ہیں اور ان کی سرحدیں آفاقیت تک جا پہنچتی ہیں۔ روح عصر سے مزین ان کی تخلیقات میں ایک ایسا جذبہ بیدار جلوہ گر ہے جو  ہر دور میں دلوں کو ایک ولولہ تازہ عطا کرتا ر ہے گا۔ ان کا اسلوب ان کی عظمت فکر  اور روحانی بالیدگی کا عمدہ نمونہ ہے۔ ان کے ناول اورافسانے جدت، ندرت، رفعت تخیل اور پر تاثیر جذبات کے امین ہیں۔ ان کے مطالعہ سے جمود کاخاتمہ ہوتا ہے اور  قاری کے متخیلہ میں ایک ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ عبیداللہ بیگ کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ ان کا نام اور وقیع کام تا ابد قارئین ادب کو یاد رہے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔

پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں

جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی

٭٭٭

 

سید ضمیر جعفری :اردو شاعری میں طنز و مزاح کا سالار

Syyed Zamir Jafri was a great legend of Urdu  Language and literature. His valuable services for promotion of  satire and humour in Urdu language are glorious chapter of history of Urdu literature. As   a trend setter  poet his work for freedom of thought and expression will be remembered for ever. His poetry books are highly successful and popular in the world. His complete collection of poetry (Nishat-e-Tamasha) has been published . The success of his poetry is due to novelty of expression and explanation of the comic elements found in society .As a sincere and ginius creative writer he incidentally discusses all the matters of interest and importance related to the social life. Modern Urdu poetry is proud of his work and conduct.

     سید ضمیر جعفری کا  اصل نام ضمیر حسین شاہ تھا۔ وہ یکم جنوری 1916کوایک  معزز سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان علم و ادب کے حوالے سے پورے علاقے میں منفرد اور ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اپنی جنم بھومی موضع چک عبدالخالق سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے گورنمنٹ ہائی سکول جہلم میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے میٹرک کا امتحان اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے پاس کیا۔ ان کے اساتذہ  اپنے انتہائی ذہین اور فطین شاگرد کی خداداد صلاحیتوں کے معترف تھے۔ زمانہ طالب علمی ہی میں انھوں نے تخلیق ادب کے حوالے سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ سکول کی بزم ادب کے فعال اور مستعد رکن تھے۔ ابتدائی عمر ہی سے ان کی شگفتہ مزاجی کی  دھوم تھی۔ حاضر جوابی  اور گل افشانی ء گفتار ان کے امتیازی اوصاف تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج کیمبل پور (اٹک)میں انٹر میڈیٹ کلاس میں داخل ہوئے۔ انٹرمیڈیٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ  لاہور پہنچے اور اسلامیہ کالج، لاہور میں داخلہ لیا  اور 1938میں انھوں نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ بی۔ اے تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روزگار کی تلاش میں نکلے اور عملی زندگی کا آغاز  دفتر میں ایک عام کلرک کی حیثیت سے کیا۔ جلد ہی وہ شعبہ صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے روزنامہ ـ’’ احسان‘‘ لاہور، اور ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہو کر اہم خدمات انجام دیں۔ انھوں نے کچھ عرصہ  ہفت روزہ ’’ سدا بہار‘‘ لاہور کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ آزادیِ اظہار کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے اور اسے اپنی نوعیت کے لحاظ سے انسانی آزادی کی ایک صورت سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ حریت ضمیر سے زندہ رہنا ہے تو اسوہ شبیر پر عمل پیرا ہونا بے حد ضروری ہے۔ صحافت سے انھوں نے جو عہد وفا استوار کیا تمام عمر اسے نبھایا اور مختلف اوقات میں متعد اخبارات اور جرائد میں کالم لکھتے رہے۔ اخبارات میں انھوں نے جو کالم تحریر کیے ان میں وہ نہایت خلوص اور دردمندی  سے زندگی کی مقتضیات کو زیر بحث لاتے رہے۔

        جب برصغیر نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں پھنس چکا تھا اور برطانیہ کے زیر تسلط تھا اس عرصے میں دوسری عالمی جنگ اس خطے کے باشندوں کے لیے دوہرے عذاب کا باعث بن گئی۔ مقامی باشندوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کر کے برطانیہ نے اپنی جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اسی عرصے میں وہ برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور ان کی تعیناتی جنوب مشرقی کمان میں بہ حیثیت کپتان ہوئی۔ وہ شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے اور اس کمان کا ہیڈ کوارٹر سنگاپور میں تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران انھیں  فوجی خدمات کے سلسلے میں دنیا کے متعدد ممالک کی سیاحت کا بھی موقع ملا۔ عالمی ادب، تہذیب و ثقافت، سماجی اور عمرانی مسائل کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا۔ جب 1947میں برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہوا تو انھوں نے پاکستان بری فوج میں خدمات انجام دیں۔ ذاتی وجوہات کی بنا پر وہ 1949میں فوج سے الگ ہو گئے اور پھر سے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ اسی سال راول پنڈی سے اپنا روزنامہ اخبار ’’باد شمال، ، جاری کیا جو ایک کامیاب اخبار تھا مگر بعض ناگزیر حالات کے باعث وہ اس اخبار کی اشاعت کو جاری نہ رکھ سکے۔ 1951میں انھوں نے خار زار سیاست میں قدم رکھا اور جہلم کے ایک دیہاتی حلقہ انتخاب سے پنجاب اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب میں حصہ لیا لیکن لوٹے اور لٹیرے کب کسی قابل اور با صلاحیت انسان کو آگے آنے دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ ایک محب وطن اور بہادر سپاہی تھے انھوں نے 1952میں دوبارہ فوج میں شمولیت کا فیصلہ کیا اس کے بعد وہ ترقی کر کے میجر کے عہدے تک پہنچے اور اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ وطن، اہل وطن اور انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کا ایک عالم معترف تھا۔

        حکومت پاکستان نے انھیں کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈائریکٹر تعلقات عامہ مقرر کیا۔ انھوں نے اس عہدے پر پندرہ برس تک خدمات انجام دیں۔ وہ کچھ عرصہ پاکستان نیشنل سنٹر کے ڈپٹی ڈ ائریکٹر جنرل اور پھر وزارت بحالیات افغان مہاجرین میں مشیر مقرر ہوئے۔ ان کی زندگی کا یادگار دور وہ تھا جب انھوں نے اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان کے علمی و ادبی مجلے ’’ ادبیات‘‘ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ انھوں نے اس مجلے کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کیا۔ قومی، علاقائی اور عالمی ادب کی نمائندہ تحریریں ادبیات کی زینت بنتی رہیں۔ پاکستانی ادیبوں کی فلاح کے متعدد منصوبے انھوں نے تجویز کیے اور ادیبوں کو کتب اور مضامین کی رائلٹی جیسے اہم مسائل کو حل کرایا۔ سید ضمیر جعفری کی گراں قدر علمی، ادبی اور ملی خدمات کے اعتراف میں انھیں مندرجہ ذیل اعزازات سے نوازا گیا:

1۔ ہمایوں گولڈ میڈل (بہ دست سر شیخ عبدالقادر)       1936

2۔ تمغہ قائد اعظم                                 1967

3۔ صدارتی تمغہ برائے حسن کار کردگی                1985

سید ضمیر جعفری کی تصانیف کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ ان کا کلام ہر سطح پر نصاب میں شامل ہے۔ دنیا بھر کی جامعات میں ان کی شخصیت اور فن پر عالمانہ تحقیقی کام کا سلسلہ جاری ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری کی مندرجہ ذیل کتب بہت مقبول ہوئیں :

ما فی الضمیر، مسدس بد حالی، ولایتی زعفران، نشاط تماشا(کلیات)

     سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ فکر و خیال کے نئے پہلو پیش نظر رکھے نئے تجربات، متنوع موضوعات اور شگفتہ پیرایہ اظہار ان کے اسلوب کے امتیازی اوصاف ہیں۔ وہ تخلیق فن کے لمحوں میں مزاح کو ایک ایسی ذہنی کیفیت سے تعبیر کرتے تھے جو فکر و نظر کو اس انداز میں مہمیز کرے کہ قاری  خندہ بے اختیار کی کیفیت سے آشنا ہو اور شگفتگی کا احساس  دل و دماغ پر فرحت، مسرت اور آسودگی کے نئے در وا کر دے۔ ان کی ظریفانہ شاعری نہ صرف دلوں کو تازگی اور مسرت کے احساس سے سرشار کرتی ہے بلکہ اذہان کی تطہیر و تنویر کا بھی اہتمام کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ایک عالمانہ شان اور احساس دل ربائی ہے جس کے معجز نما اثر سے انسانی شعور کو ترفع  نصیب ہو تا ہے اور قاری اس سے گہر اثر قبول کرتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کی شگفتہ بیانی اپنی اصلیت کے اعتبار سے جہاں ہماری معاشرتی زندگی کی ذہنی استعداد کی مقیاس ہے  وہاں اس میں ہماری تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور عمرانی اقدار و روایات کا احوال بھی مذکور ہے۔ انھوں نے اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے اپنے عہد کے تمام ارتعاشات کو جس فنی مہارت، خلوص اور دردمندی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے وہ ایک منفرد تجربے کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ بنی نوع انسان کے مسائل کا جائزہ انسانی ہمدردی کے جذ بہ سے سرشار ہو کر لیتے ہیں اور اس طرح زندگی کی نا ہمواریوں کے بارے میں ان کا ہمدردانہ شعور ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے۔ انھوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کو نئے احساسات، متنوع تجربات اور نئی جہات سے مالا مال کر دیا۔ ان کی شاعری میں زندگی اور اس کے تمام نشیب و فراز کے بارے میں جو صد رنگی جلوہ گر ہے اس کی مسحور کن اثر آفرینی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کی شاعری میں چبھن اور نشتریت کی موجودگی بھی قاری کو گوار ا ہو جاتی ہے۔ ایسا   محسوس ہوتا ہے زہر خند کی یہ کیفیت ہمارے مسموم ماحول کا واحد تریاق ہے۔ ان کی ظریفانہ شاعری ادب اور کلچر کے تمام پہلو سامنے لاتی ہے۔ ان کی نظم ’’ بیماری کا نام ‘‘ قابل غور ہے :

زندگی ہے مختلف جذبوں کی ہمواری کا نام

آدمی ہے شلجم و گاجر کی ترکاری کا نام

علم الماری کا، مکتب چاردیواری کا نام

ملٹن اک لٹھا ہے، مومن خان پنساری کا نام

صاف کالر کے تلے معقول اجلی سی قمیص

ہے بہت ہی مختصر سا میری دشواری کا نام

اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے  نجد

قیس ہے در اصل اک مشہور پٹواری کا نام

عشق ہرجائی بھی ہو تو درد کم ہوتا نہیں

اک ذرا تبدیل ہو جاتا ہے بیماری کا نام

کوئی نصب العین، کوئی عشق، کوئی چاندنی

زندگی ہے ورنہ اک مصروف بے کاری کا نام

مدتوں دزدیدہ، دزدیدہ نظر سے دیکھنا

عشق بھی ہے اک طرح کی چور بازاری کا نام

میں نے تو اپنے لیے آوارگی تجویز کی

تم نے کیا رکھا ہے اپنی خود گرفتاری کا نام

بات تو جب ہے بدل جائے سرشت انسان کی

ورنہ لکھنے کو تو لکھ دو اونٹ پر لاری کا نام

دل ہو یا دلیاہو، دانائی کہ بالائی ضمیر

زندگی ہے بعض اشیا کی خریداری کا نام            (۱)

       سید ضمیر جعفری نے اپنی زندگی کو خوشیوں اور راحتوں سے متمتع کرنے کے لیے بڑی جد و جہد کی۔ ان کے احباب کی بڑی تعداد نامور ادیبوں پر مشتمل تھی۔ ان میں کرنل محمد خان، بریگیڈئیر صدیق سالک، محمد اسما عیل صدیقی، نذیر احمد شیخ، محمد خالد اختر، ڈاکٹر بشیر سیفی، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، ڈاکٹر محمد ریاض، پروفیسر نظیر صدیقی، مجید لاہوری، محسن احسان، خاطر غزنوی، غفار بابر، سید جعفر طاہر اور محمود اختر سعید کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ احباب ان کی پہچان تھے۔ وہ انھیں دل و جان سے عزیز رکھتے تھے۔ سید ضمیر جعفری نے تمام عمر ظلم و جبر کے ہر انداز پر لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایا۔ وہ ایسے موضوعات اور واقعات کا انتخاب کرتے ہیں  جن میں زندگی کے تمام نشیب و فراز حقیقی صورت میں ظریفانہ شاعری کے قالب میں ڈھل کر ایک ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرتے ہیں۔ اس شاعری کو پڑھ کر ہر طبقے کے لوگ اپنائیت محسوس کرتے ہیں۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے ممولے کو شہباز سے ہم کلام ہونے کی ترغیب دی اور پست و بلند کے جملہ امتیازات کو تیشہ مزاح سے نیست و نابود کر دیا۔ ان کی ظریفانہ شاعری کا تعلق کسی مخصوص طبقے سے نہیں بلکہ اس شاعری کا موضوع اس قدر فراواں اور عام زندگی سے منسلک ہے کہ تمام انسانیت کے مسائل اس میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کے تمام دوست اسی جد و جہد میں مصروف رہے کہ کسی طور انسانیت کے دکھوں کا مداوا ہو سکے اور مظلوم انسانیت کے زخموں کے اندمال کی کوئی صور ت نظر آئے۔ ان کے مزاح میں ہمدردی کا عنصر کائناتی عوامل کا احاطہ کرتا ہے:

پیدا کرو

شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو

ظالمو!تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

ارتقا تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے

توپ کے دھڑ، بم کے سر، راکٹ کے پر پیدا کرو

شیخ، ناصح، محتسب، ملا کہو کس کی سنیں

یارو کوئی ایک مرد معتبر پیدا کرو

میری دشواری کا کوئی حل مرے چارہ گرو

جلد تر، آسان تر اور مختصر پیدا کرو

تیرے شعر تر کو یہ اولاد آدم کیا کرے

نے نوازی ہو چکی اب نیشکر پیدا کرو

کیا چھچھوندرسے نکالے ہیں یہ بچے شیخ جی

قبلہ عالم انھیں بار دگر پیدا کرو

میری درویشی کے جشن تاج پوشی کے لیے

ایک ٹوپی اور کچھ مرغی کے پر پیدا کرو

حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا

اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو    (2)

      ایک حساس، پر خلوص اور دردمند تخلیق کار کی حیثیت سے سید ضمیر جعفری نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ انھوں نے تخلیقی اظہار کے جملہ ممکنہ امکانات کو بروئے کار لانے کی مقدور بھر سعی کی۔ وہ بہ یک وقت سپاہی، صحافی، شاعر، مزاح نگار، میزبان، براڈکاسٹر اور نقاد تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر انھوں نے جو پروگرام’’ آپ کا ضمیر ‘‘ کے نام سے پیش کیا وہ بے حد مقبول ہوا۔ اردو مزاح میں وہ سید احمد شاہ بخا ر ی پطرس کے اسلوب کو بہت اہم قرار دیتے تھے اسی طرح براڈکاسٹنگ میں انھیں سید ذوالفقار علی بخاری کا اسلوب پسند تھا۔ اپنی اندرونی کیفیات، جذبات اور احساسات کو وہ ہنسی کے حسین اور خوش رنگ دامنوں میں اس خوش اسلوبی سے چھپا لیتے ہیں کہ ان کے اسلوب کا دائمی تبسم قاری کو مسحور کر دیتا ہے وہ طنز و مزاح کے فرغلوں میں لپیٹ کر زندگی کی تلخ صداقتیں ، بے اعتدالیاں اور تضادات نہایت دل نشیں انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ ان کے اسلوب پر ایک مصلح، ناصح اور فلسفی کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ کسی طور بھی محض ہنسانے والے کا کردار ادا کرنے پر مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مزاح کو تو وہ حصول مقصد کا ایک زینہ خیال کرتے ہیں۔ ان کی وہ باتیں بھی جو کہ وہ ہنسنے کی غرض سے اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں اپنے اندر زندگی کے متعدد اسرار و رموز لیے ہوتی ہیں۔ وہ جس انداز میں تخیل کی جولانیاں دکھاتے ہیں اسے دیکھ کر ان کے مقاصد کی رفعت، اسلوب کی گہرائی اور زبان و بیان کی تاثیر کا جادو  سر چڑھ کر بولتا ہے۔ انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے انھوں نے مقدور بھر سعی کی۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی خود غرضی، ہوس اور مفاد پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو وہ سخت نا پسند کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی معاشرہ جب اندرونی تضادات، بے اعتدالیوں اور ناہمواریوں پر چپ سادھ لیتا ہے اور کسی اصلاحی بات پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ بات خطرے کی گھنٹی ہے کہ معاشرہ  بے حسی کی بھینٹ چڑھ گیا ہے اور یہ صور ت حال کسی معاشرے، سماج اور تہذیب کے لیے بہت برا شگون ہے۔ احساس ذمہ داری کا فقدان آج ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہم اپنی تمام کوتاہیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور کسی صورت میں بھی اپنے احتساب پر آمادہ نہیں ہوتے۔

قصور

ہم کریں ملت سے غداری قصور انگریز کا

ہم کریں خود چور بازاری قصور انگریز کا

گھر میں کل بینگن کے بھرتے میں جو مرچیں تیز تھیں

اس میں بھی ہو گا  بڑا بھاری قصور انگریز کا   (3)

توقعات

مارشل لا خوردہ جمہوری نظام

اس الیکشن میں نیا حل لائے گا

لوگ اس امید پر دیتے ہیں ووٹ

پھر یہ نخل بے ثمر پھل لائے گا                (4)

عذر

بہر نماز عید بھی حاضر نہ ہو سکوں

مانوس اس قدر بھی نہیں اپنے گھر سے میں

اے رحمت تمام میری یہ خطا معاف

حاضر نہ تھا خطیب کے خطبے کے ڈر سے میں         (5)

      یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ اخلاقیات کا قصر عالی شان ہمیشہ عدل و انصاف کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ معاشرہ قحط الرجال کے باعث  توازن اور اعتدال کی راہ سے بھٹک گیا ہے۔ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے۔ ہوس نے نوع انساں کو انتشار اور افتراق کی گمراہی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر لوگ اپنے ابنائے جنس کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ سید ضمیر جعفری ایک اسلامی فلاحی مملکت کے حامی تھے۔ وہ جبر اور استحصال کو سخت نا پسند کرتے اور اس بات پر اصرار کرتے کہ ظلم اور نا انصافی کے سامنے سپر انداز ہونا بہ جائے خود ایک ظلم ہے۔ ظا لم  کہیں بھی اور کیسا بھی طاقت ور ہو اس پر لعنت بھیجنا ان کا شعار تھا۔ قیام پاکستان کے بعد رونما ہونے والے سیاسی حالات سے وہ  خاصے دل گرفتہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ منزل پر وہ لوگ قابض ہو گئے جو کہ شریک سفر ہی نہ تھے۔ ان حالات میں سلطانیِ جمہور کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ آمریت کے مسموم اثرات سے ترقی اور خوش حالی کی راہیں مسدود ہوتی چلی گئیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مظلوم اور بے بس عوام  آزادی کے ثمرات سے محروم ہو گئے۔ چور محل میں جنم لینے والے جب چور دروازے سے جاہ و منصب پر غاصبانہ قبضہ کر لیتے ہیں تو بلا شبہ عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف  میں آ جاتے ہیں اور کالا دھن کمانے والے تمام وسائل پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں۔ ایسے مفا پرست لوگوں کی بد اعمالیوں اور قبیح کردار نے ہمیں اقوام عالم کی صف  میں تماشا بنا دیا ہے۔ اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو کر رہ گئی ہے۔ سید ضمیر جعفری کی نظم ’’ہم آزاد ہیں ‘‘اپنے اندر جو کرب لیے ہوئے وہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

 ہم آزاد ہیں

فرد ہو یا ملک تنہائی کا یارا بھی نہیں

بھائی چارے کے بہ جز کوئی اور چارہ بھی نہیں

ہم نے یہ مانا اکیلے میں گزارہ بھی نہیں

بات ہو جائے کسی سے یہ گوارا بھی نہیں

ہم عجب آزاد ہیں ہم کس قدر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

آج کل دنیا سمٹ کر ایک کاخ و کو میں ہے

اک قدم لاہور میں ہے ایک ٹمبکٹو میں ہے

بم شکاگو میں دھمک سارے ہنو لولو میں ہے

لالہ مصری خان لیکن اپنی ہاؤ ہو میں ہے

وہ یہ کہتا ہے کہ ہم مردان نر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

آئیے اب گھر میں آزادی کا منظر دیکھیے

جز بہ جز بکھر ہوا دفتر کا دفتر دیکھیے

اپنی صورت اپنے آئینے کے اندر دیکھیے

شرم آئے گی مگر جان برادر دیکھیے

ہم تو آزادی سے بھی کچھ بیش تر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں

خواب آزادی کی یہ تعبیر سمجھے ہیں ضمیر

یار ماری، چور بازاری، سمگلنگ، داروگیر

گھات میں بیٹھا ہوا ہے کیا پیادہ کیا وزیر

اپنا اپنا کوہ کن ہے، اپنی اپنی جوئے شیر

بے نیاز امتیاز خیر و شر آزاد ہیں

ہم زمانے میں بہ انداز دگر آزاد ہیں (6)

     انسانی فطرت کی خامیاں ، انسانی مزاج کی بے اعتدالیاں اور معاشرتی زندگی کے جملہ تضادات کو سید ضمیر جعفری نے اپنی  ظریفانہ شاعری میں مواد کے طور پر جس خلاقانہ مہارت سے استعمال کیا ہے وہ ان کے صاحب اسلوب تخلیق کار ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ ادب کو ایک سماجی فعالیت سے تعبیر کرتے تھے۔ انھوں نے ادب کو عمرانی صداقتوں کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ ان کے اسلوب میں پائی جانے والی شگفتگی ان کی شخصیت کی نفاست کی مظہر ہے۔ ان کے اسلوب  میں ہمدردی، انس، خلوص، مروت، ایثار اور افہام و تفہیم کی جو فضا ہے وہ انھیں خالص مزاح نگار کے بلند مقام پر فائز کرتی ہے۔ ان کی مضبوط اور مستحکم شخصیت میں اولوالعزمی، بلند ہمتی اور مستقل مزاجی کے عناصر پوری قوت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی مسحور کن شخصیت ان کے منفرد اسلوب میں اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ اشعار کے پس منظر میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ ایک نقاد جب کسی قوم کے فکری ارتقا کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اس امر پر توجہ دیتا ہے کہ اس قوم کی لسانی بنیاد کس قدر مستحکم ہے۔ یاد رکھنا چاہیے لسانیات کی تفہیم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی زبان کے استعمال میں کس قدر ذہنی بالیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس امر کی جانچ پرکھ  کا ایک ہی معیار ہے کہ اس زبان میں ظرافت کا کتنا وقیع سرمایہ موجود ہے۔ سید ضمیر جعفری نے اردو زبان کو طنز و مزاح کے حوالے سے ثروت مند کر دیا۔ ان کی تخلیقی فعالیت سے اردو زبان میں طنز و مزاح کی ثروت میں قابل تحسین اضافہ ہوا۔ انھوں نے اپنے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے اردو زبان کو بلند پایہ ظرافت کے شاہکاروں سے متمتع کیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اردو زبان دنیا کی متمدن زبانوں میں شامل ہے۔ ان کی شاعری کے مطالعہ سے معاشرتی بصیرت کو نمو ملتی ہے اور اس طرح قاری اپنے اندر ایک ولولہ تازہ محسوس کرتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے اور مرحلہ شوق ہے کہ ابھی طے نہیں ہو پا رہا۔

      سید ضمیر جعفری نے انسانیت کو اس عالم آب و گل کی عظیم ترین قدر قرار دیا۔ انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کرنے والوں کے خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔ انھوں نے ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ آج ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ روز بہ روز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ان لرزہ خیز اعصاب شکن حالات میں زندگی کی رعنائیاں گہنا گئی ہیں ، رتیں بے ثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، زندگیاں پر خطر اور آبادیاں خوں میں تر کر دی گئی  ہیں۔ سید ضمیر جعفری کی ظریفانہ شاعری اس امر پر اصرار کرتی ہے کہ ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو بجھنے نہ دیا جائے۔ حوصلے، امید اور رجائیت پر مبنی یہ ظریفانہ شاعری ہر عہد میں دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی۔ ان کی ظریفانہ شاعری ایک خاص نوعیت کی انفعالی کیفیت اور بصیرت کی امین ہے جس کی بدولت ہجوم یاس میں بھی دل کو سنبھالنے میں کامیابی ہوتی ہے۔ ظرافت نے ان کو عشق کے بلند مقام تک پہنچا دیا۔ ان کا مزاح گہری سوچ، فکری بالیدگی، ذہن و ذکاوت اور تجزیہ سے بھر پور ہے۔ عناصر میں رشتوں کا ایک نظام کارفرما ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری نے ایک کامیاب مزاح نگار کے طور پر ان عناصر کی بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کیا اور فن مزاح نگاری کے تمام پہلوؤں کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ وہ اعتدال پسندی کی روش اپنانے پر زور دیتے ہیں اور ان کا پیغام مسرت  ہے جہاں تک پہنچے۔

     اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ آفتاب 16مئی1999کو غروب ہو گیا۔ ان کی وفات سے اردو کی ظریفانہ شاعری کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی شاعری انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام  پر فائز کرے گی۔ لوح جہاں پر ان کا نام ہمیشہ ثبت رہے گا۔ وہ ایک عظیم الشان شعری روایت کے موجد تھے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی اردو شاعری میں طنز و مزاح کی ایک درخشاں روایت نئی نسل کو منتقل ہو گئی۔ ان کے بارے میں احباب یہ کہا کرتے تھے کہ وہ اس لیے ہنستے ہیں کہ کہیں دیدہ گریاں کی نہر انھیں بہا نہ لے جائے۔ اب سیل زماں نے ہمارے ہنستے بولتے چمن کو مہیب سناٹوں اور جان لیوا  دکھوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم

قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم

ماخذ

 (1)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، مافی اضمیر، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، 1993صفحہ 160۔

(2)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، مافی الضمیر،   صفحہ 91۔

(3)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ضمیر ظرافت، صفحہ 599۔

(4)سید ضمیر جعفری :مسدس بد حالی، دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، جنوری، 1996، صفحہ 160۔

(5)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، بے کتابے،                                     صفحہ 799۔

 (6)سید ضمیر جعفری :نشاط تماشا، ضمیریات،                                      صفحہ 515۔

٭٭٭

 

سعود عثمانی :ایک منفرد اسلوب کا حامل شاعر

        لاہور میں مقیم پاکستان کے ممتا ز شاعر سعود عثمانی گزشتہ تین عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ کتابیں ہی ان کا چمن ہیں اور ان کی اشاعت سے ان کا روزگار وابستہ ہے۔ اس باہمت تخلیق کار نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے  ہوئے  وہ تما کچھ صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے جو اسے اہل دنیا نے تجربات، مشاہدات، حادثات اور سانحات کی صورت میں دیا۔ سعود عثمانی کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ انھیں ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی ملی۔ پہلا  شعری مجموعہ ـ’’قوس‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرے شعری مجموعے کا نما ’’بارش‘‘ ہے۔ ان دونوں شعری مجموعوں  پر ادبی ایوارڈ ملے آج کا دور قحط الرجال کا دور کہلاتا ہے۔ زندگی کی اقدار عالیہ اور روایات کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں میں ماضی کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ بہہ گیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کی اجتماعی اقدار رو بہ زوال ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں سکوں محال ہے اور جہاں تک ثبات کا تعلق ہے یہ تو محض تغیر کو حاصل ہے۔ اقدار و روایا میں رو نما ہونے والے پیہم تغیر و تبدل نے تخلیقی عمل کو بھی متاثر کیا ہے۔ اسلوب بیان بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ یہ  تغیر ایک فطری اور قابل فہم صورت میں سامنے آتا ہے۔ سعود عثمانی کی شاعری میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے یہ شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اردو شاعری کو نیا آہنگ، تخلیقی تنوع، منفرد اسلوب، دلکش ڈسکورس، ہمہ گیر مشاہدہ، آفاقی تجربات اور حریت فکر سے متمتع کر کے سعود عثمانی نے جو اہم خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر کے اس جری تخلیق کار نے جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کی تکلیقی فعالیت کے سوتے انسانی ہمدردی کے جذبات سے پھوٹتے ہیں۔

         سعود عثمانی تقلید کی روش سے دامن بچاتا ہوا اپنے لیے ایک جداگانہ اور منفرد لائحہ عمل تلاش کرتا ہے۔ ادبی روایت کو وہ ایک ایسے عمل سے تعبیر کرتا ہے جو زندگی کی تما حرکت و حرارت کا نقیب ہے۔ یہ کائنات بادی النظر میں ہنوز تشنہ تکمیل ہے۔ اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر سین یہ بات روز  روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ جو دما دم صدائے کن فیکون سنائی دے رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو کا جو سلسلہ ازل سے جاری ہے وہ ابد تک جاری رہے گا۔ ادبی روایات بھی زندگی کی تاب و تواں کی امین ہوتی ہیں۔ سعود عثمانی کی شاعری میں زندگی کی اقدار عالیہ پوری قوت، صداقت اور شدت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔ سعود عثمانی ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زمانے میں  محبت کے سوا اور بے شمار مسائل ہیں۔ اس کی شاعری میں مارکس اور اینگلز کے تصورات کا پرتو بھی ملتا ہے۔ یہ ایک تلخ اور تند حقیقت ہے نکہ معاشرتی زندگی میں معیشت اور اقتصادی مسائل نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔ آج کا انسان حسیاناؤں کی زلف گرہ گیر، عشوے اور غمزے، لب لعلیں ، سیاہ چشمگی، چاہ زنخداں یا کمر سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس کے شعور اور لا شعور کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے سر چھپانے کو جھونپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے نان جویں درکار ہے۔ معیشت اور اقتصادیات کے تفکرات نے اسے نڈھال کر دیا ہے۔ سعود عثمانی نے اپنی شاعری میں ادب، کلچر اور اسے متعلق مسائل مکا احوال نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے۔ اس نے پاکستانی ادب اور کلچر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے۔ وہ اس بات سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ 1857کے سانحہ کے بعد یہاں کے عوام جن لرزہ خیز اعصاب شکن حالات اور قلزم خوں سے گزرے ان کے باعث یہاں تہذیبی انحطاط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مشرقی تہذیب کی باز یافت پر توجہ دی جائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مو ہنجو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور ماتلی کے آثار قدیمہ اس خطے کے قدیم اور عظیم کلچر کے غماز ہیں۔ سعود عثمانی اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ خوب جانتا  ہے۔ اسے معلوم ہے کہ مغرب کی بھونڈی نقالی کی روش مہلک ہے اور اس سے تہذیبی اور ثقافتی سظح پر محرومی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

      تخلیقی فعالیت سعود عثمانی کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔ بچپن میں اسے گھر میں جو علمی وا ادبی ماحول میسر آیا اس نے اس زیرک تخلیق کار کی خداداد صلاحیتوں کو صیقل کیا۔ ایک مستعد، فعال اور صاحب بصیرت تخلیق کار کی حیثیت سے سعود عثمانی نے اپنے لیے جو طرز فغاں اختراع کی وہی آ خر کار اس کی پہچان بن گئی۔ اس کا یہ اسلوب جو شرع میں تزکیہ نفس کا ایک وسیلہ تھا بعد میں اس کی عملی زندگی کا اہم ترین حصہ بن گیا۔ اس کی تحلیل نفسی کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق ادب کے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔ وہ سچ کا پرستار ہے اور سچ لکھنے کے لیے اسے جو بھی ہرجانہ دینا پڑے اس کے لیے وہ ہمو وقت تیار رہتا ہے۔ ہر ظالم  پہ لعنت بھیجنا اس کا شیوہ ہے۔ اس کی چاہتیں اور محبتیں انسانیت کے مدار میں سرگرم سفر رہتی ہیں۔ مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت میں وہ کبھی تامل نہیں کرتا۔ وہ ٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو تیشہ حرف سے فصیل جبر  منہدم کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ اگر حلقہ احباب ہو تو اس کی نرم دلی قابل دید ہوتی ہے مگر جب استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کی بات ہو تو وہ شعلہ جوالا بن جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؛

عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارہ کیا

کہ دل کو برف کیا، ذہن کو شرارہ کیا

لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک

دور سے دیکھو تو ہر شہر بھنور لگتا ہے

وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ

دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے

حجرے شکستہ دل، در  و  دیوار دم بہ خود

آرام گاہ شاہ کے آثار دم بہ خود

کھنڈر کے ذوق نمائش پہ دنگ ہوتا ہوا

میں دیکھتا رہا ملبے پہ رنگ ہوتا ہوا

کسی کنارہ روشن کے انتظار میں لوگ

مگر سفر کوئی اندھی سرنگ ہوتا ہوا

خوشیوں کی طلب نگر نگر تھی

دیکھا تو سبھی کی آنکھ تر تھی

گل چیں کو خبر نہ تھی کہ خوشبو

رنگوں سے جدا بھی معتبر تھی

   مسلسل شکست دل کی وجہ سے ای حساس تخلیق کار کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس قدر ہولناک صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے کہ اسے معاشرتی زندگی کے تضادات، ارتعاشات، استحسال اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ایک زندہ قوم کے لیے یہ بہت خطرناک اور برا شگون ہے۔ معاشرہ ایسے حالات میں بے حسی کا نمونہ بن جاتا ہے۔ جب کوئی معاشرہ بے حسی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے تو اس پر ترقی، خوش حالی، فلاح اور تہذیبی ترفع کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں روز  کا معمول بن جاتا ہے۔ ہولناک حادثات کو دیکھ کر بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ایک تخلیق کا ر کی جان پر دوہرا عذاب ہوتا ہے اسے ان جان لیوا حادثات کو دیکھنا بھیم ہوتا ہے اور اس کے بعد ان کے گمبھیر اثرات کے بارے میں سوچنا بھی ہوتا ہے۔ آج کے دور  میں ای حساس تخلیقی فن کار کا کوئی پرسان حال نہیں۔ زندگی ایک جبر مسلسل کی صورت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ ظالم و سفاک، موذی و مکار استحصالی عناصر نے اپنے مکر کی چالوں سے عوام پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے انسانیت کی توہین، تذلیل، تضحیک اور بے توقیری کے روح فرسا واقعات سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف تو سقراط اور برونو(BRUNO) جیسے لوگ معاشری بے حسی کی زد میں آ جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ٹرپن(Turpin)اور بو ٹملے (Bottomley)بھی بے مہریِ عالم کے شاکی رہتے ہیں۔ دور کیوں جائیں  خود ہمارے ہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال موجود ہے۔ جب بھی کوئی معاشرہ بے حسیم کا شکار ہو جاتا ہے تو احسان فراموشی اور محسن کشی کے المناک واقعات سامنے آتے ہیں۔ سعود عثمانی کی شاعری میں معاشرتی زندگی کی اس بوالعجبی کی کیفیات نہایت خلوص اور دردمندی مسے بیان کی گئی ہیں۔

شب فراق میں اک ہاتھ دل کے پاس آیا

ہجوم درد میں یہ  کون دل کے پاس آیا

رتوں نے جیسے دلوں سے مطابقت کر لی

سکوں کی فصل کٹی موسم ہراس آیا

نکل چکا جو فضاؤں میں اس کا زعم دروں

غبارہ لوٹ کے اپنی زمیں کے پاس آیا

چاند آنکھوں سے رگ و پے میں اتر جاتا ہے

شب کا منظر مجھے بے خواب سا کر جاتا ہے

جب بھی یادوں کی مہک آتی ہے میں سوچتا ہوں

وقت پھولوں کی طرح کھل کے بکھر جاتا ہے

کشت ویراں کبھی سیراب نہیں ہو پاتی

جی امنڈتا ہے تو پل بھر میں ٹھہر جاتا ہے

کبھی سراب کرے گا، کبھی غبار کرے گا

یہ دشت جاں ہے میاں یہ کہاں قرار کرے گا

ابھی یہ بیج کے مانند پھوٹتا ہوا دکھ ہے

بہت دنوں میں کوئی شکل اختیار کرے گا

       ایک زیرک، مستعد، فعال اور منفرد اسلوب کے حامل جری تخلیق کار کی حیثیت سے سعود عثمانی نے اپنی شاعری کے ذریعے حقائق کی صورت گری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے اس کی شاعری محض جذبات، احسات اور تجربات کے نمدار میں سر گرم سفر نہیں رہتی بلکہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کے مصداق اس سے گریز کر کے اپنے لیے نیا دھنک رنگ منظر نامہ منصہ شہود پر لاتی ہے۔ اس کی شخصیت اس شاعری میں جلوہ گر نہیں۔ اس کے خیالات کا محور انسانیت کے مسائل ہیں۔ وہ خود پس منظر میں رہتے ہوئے تمام پیش منظر کی دلکش لفظی مرقع نگاری کرتا ہے اس کے صریر خامہ کو نوائے سروش کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی دلکش شخصیت اور سچے جذبات اس پر تاثیر انداز میں جلوہ گر  ہوتے ہیں کہ قاری پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ سارے جہاں کا درد اس یگانہ روزگار تخلیق کار کے جگر میں سمٹ آتا ہے۔ اس  کا خیال ہے کہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جد جہد میں ایک با ضمیر تخلیق کار کی مقدور بھر شرکت اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے۔ اسے تاریخ اور اس کے مسلس عمل سے گہری دلچسپی ہے۔ اس کا مطمح نظر حرف صداقت لکھنا ہے۔ حالات خواہ کوئی رخ اختیار کریں ، سعود عثمانی نے ہمیشہ حالات و واقعات کی سچی تصویر پیش کر کے جریدہ عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ہے۔ سعود عثمانی کی شاعری میں کوئی ابہام کہیں نہیں پایا جاتا۔ ابہام  اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک تخلیق کار تذبذب اور گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے۔ مصلحت اندیشی کو شعار بنا لیا جائے اور حرف صداقت لکھنے کے بجائے منافقت سے کام لیتے ہوئے ابن الوقت عناصر کی صف میں شامل ہو کر چڑھتے سرج کا پجاری بن کر ذاتی مفادات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ اس کے اشعار میں کہیں بھی ذ و معنی الفاظ نہیں ملتے۔ وہ مطالب، مفاہیم اور مدعا کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کا عادی نہیں۔ اس کی شاعری کا ایک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے اس استحصالی معاشرے سے کچھ بھی حاصل کرنے کا آرزومند نہیں۔ اس کی سوچ اور خیالات اٹل ہین۔ وہ کہیں بھی تحریص و ترغیب کی زد میں نہیں آتا۔ حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنا اس کا شیوہ ہے۔ اس کے اشعار اس کے بلند نصب العین کے آئینہ دار ہیں۔

سفر قیام مرا خواب جستجو میری

بہت عجیب ہے دنیائے رنگ و بو میری

زمیں کی سانولی مٹی کے انتخاب سے قبل

کشش بہت تھی عناصر کو چار سو میری

کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے

یہ وہ ہنر ہے کہ جس کی سزا بھی ملتی ہے

یہ سیپیوں کی خموشی ہے کان دھر کے سنو

سمندروں کی اسی میں صدا بھی ملتی ہے

تو جانتا نہیں مٹی کی برکتیں کہ یہیں

خدا بھی ملتا ہے، خلق خدا بھی ملتی ہے

عجب خجالت جاں ہے نظر میں آئی ہوئی

کہ جیسے زخم کی تقریب رونمائی ہوئی

برون خاک فقط چند ٹھیکرے ہیں مگر

یہاں سے شہر ملیں گے اگر کھدائی ہوئی

       جب تک شاعری کے جذبے کو ایک ایسے فن کے طور پر نہ تسلیم کر لیا جائے جو کہ مکمل طور پر غیر شخصی نوعیت کا ہے اس وقت تک شاعری کی اثر آفرین کے بارے میں ابہام موجود رہے گا۔ سعود عثمانی نمود و نمائش کا قائل نہیں۔ تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے رگ سنگ میں اترنا ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے۔ اسکا خیال ہے کہ اس کے اشعار ہی اس کی معنوی اولاد ہیں وہ ان کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز بلکہ اپنی ذات کو بھی کم مایہ خیال کرتا ہے۔ اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں فرد کی جو حیثیت ہے وہ اس سے بہ خوبی واقف ہے۔ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر کے اس حقیقت کا شعور پیدا کرتا ہے کہ زمانہ حال کے تمام واقعات کے راز ماضی معدن میں پوشیدہ ہیں۔ اپنی شاعری میں اس نے ایام گزشتہ اور زمانہ حال کو اس طرح باہم مربوط کر دیا ہے کہ عصری آگہی کے تمام پہلو کھل کر سامنے  آ جاتے ہیں۔ شاعر رنگیں نوا کو قوم کی دیدۂ بینا کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سعود صدیقی ایک زب بیدار صوفی کے مانند ہمہ وقت جاگ کر مسائل زیست کا ادراک کرتا ہے۔ اس کے اشعار مین زندگی کی حقیقی معنویت سمٹ آئی ہے۔ وہ  عام لوگوں سے زیادہ دردمندی اور خلوص سے کام لیتے ہوئے مسائل زیست کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کی سعی کرتا ہے سعود صدیق درد آشنا بھی ہے اور حیات آشنا بھی۔ وہ اپنے افکار کی جو لانیوں سے ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اپنے دور کے حالات کے بارے میں وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا۔

اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے

خود دھوپ میں تھا  سب کو بچاتا تھا دھوپ سے

ابر رواں سے آب رواں پر وہ نقش گر

منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے

وہ شیشہ ہنر مجھے بچپن سے یاد ہے

اک پل میں سات رنگ بناتا تھا دھوپ سے

نہ گل رہے نہ کبھی کوئی شاہ پارہ بنے

سو حق تو یہ ہے کہ اب چاک بھی دوبارہ بنے

عجیب فیصلہ تھا روشنی کے خالق کا

کہ جو دیا بھی نہیں تھا وہی ستارہ بنے

یہ کیسے لوگ ہیں مٹی  کی لاٹھیوں کی طرح

نہ خود بنے نہ کسی اور کا سہار بنے

     اگر ہم سعودعثمانی کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ موضوعات کے بارے میں محض تجریدی بیان پر انحصار نہیں کرتا۔ زندگی کے جملہ زیر و بم اور معاشرے کے تمام نشیب و فرازاس کی شاعری میں سمٹ آئے ہیں۔ نفسایتی اعتبار سے اس ذہین شاعر نے معاشرے کے ہر لمحہ بدلتے ہوئے حرکیاتی کردار کو بہ طریق احسن اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اس طرح ایک اجتماعی جذبہ  فکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے جو تخلیق کار کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کی شاعری میں حقائق کی صورت گری کا جو ارفع معیار موجود ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے فن میں جزئیات کا مطالعہ قابل توجہ ہے۔ وہ  زندگی کے تمام موسموں کی سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس کی انسان دوستی اس کی شاعری میں صاف  دکھائی دیتی ہے۔ جس معاشرے میں لوٹے اور لٹیرے، مسخرے اور مفاد پرست  ہر وقت ضمیر فروشی کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہوں وہاں عزت نفس کا تصور عین عبث ہے۔ سعود عثمانی نے اس الم ناک صور حال کے بارے میں لکھا ہے۔

  ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا

وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا

ویرانی کا مسکن ہے بلا شرکت غیرے

وہ قصر جہاں شاہ کا دربار لگے تھا

بادل کی طرح  رنج فشانی کریں ہم بھی

شاید کبھی اس آگ کو پانی کریں ہم بھی

بس ایک سلسلہ بیش و کم لگا ہوا ہے

وگرنہ سب کو یہاں کوئی غم لگا ہوا ہے

       سعود عثمانی نے جس فنی مہارت سے کام لیتے ہوئے زندگی اور اس کی معنویت کے بارے میں نئے تصورات کی جستجو کی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ شاعری قاری کو حریت فکر، حریت ضمیر سے جینے اور آزادیِ اظہار کے متعلق ایک منفرد پہلو سے آشنا کرتی ہے۔ سعود عثمانی نے ان تمام عوامل کی نشان دہی کی ہے جو ہو چکے ہیں یا جن کا واقع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ کہ نئی نسل کو بے حسی نے نا اہلی، کام چوری اور تن آسانی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ا المیہ یہ ہوا ہے کہ نئی نسل کے دل سے احساس زیاں عنقا ہو گیا ہے۔ اس کے دیدہ و دل کو جن مراحل سے گزرنا پڑا ہے ان کا احوال اس نے پوری دیانت داری سے بیان کیا ہے۔ اسے اس بات کا قلق ہے کہ حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ نہ تو سحر کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی کی کوئی آس رہ گئی ہے۔ ان حالات میں مجبور، مظلوم اور بے بس انسانوں کی کوئی امید بر نہیں ا اٹی اور نہ ہی اس گرداب سے بچ نکلنے کی کوئی صور ت نظر آتی ہے۔ شہر ستم میں وصل خزاں کے بعد جانگسل تنہائی ہمارا مقدر ہے۔ سعود عثمانی ہمارے عہد کا ایک نمائندہ شاعر ہے جس نے ہوائے جورو ستم میں بھی رخ وفا کو فروزاں رکھا ہوا ہے اس شہر خفتگاں میں اس کی شاعری صحرا کی اذان کے مانند ہے۔ اس کے سخن میں وہ حسن بیان ہے کہ پتھروں سے اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔ اس جری شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک اجتماعی سوچ کو پروان چڑھایا ہے جس کے معجز نما اثر حسیات انسانی کی لاشعوری کیفیات، مسائل زیست کی اس انداز میں مرقع نگاری کی گئی ہے کہ قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں۔ اس شاعری کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں تہذیبی ترفع پر توجہ دی گئی ہے۔ زندگی کی اہمیت، انسانی ہمدردی کی افادیت اور اجتماعی شعور کی بیداری کے بارے میں سعود عثمانی کا لہجہ ایک منفرد انداز میں سامنے آیا ہے۔ اس سے مستقبل میں متعدد نئے امکانات وابستہ ہیں۔ مقصد یہ کہ، دلچسپی اور افادیت سے لبریز اس شاعری کا مستقبل بہت روشن ہے۔ مجھے یقین ہے قارئین ادب اس شاعری سے مسرت حاصل کریں گے۔

٭٭٭

 

شہر یار:دیار دل نہ رہا بزم دوستاں نہ رہی

       عالمی شہرت کے حامل نامور ادیب، ماہر تعلیم، دانش ور، نقاد، شاعر اور ماہر فنون لطیفہ و لسانیات کنور اخلاق محمد خان شہر یار 13۔ فروری  2012کی شب علی گڑھ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انھیں پھیپھڑوں کے سرطان کا عارضہ لاحق تھا۔ 16۔ جون1936کو بریلی (اتر پردیش )سے طلوع ہونے والے علم و ادب کے اس نیر تاباں نے پوری دنیا کو اپنے افکار کی تابانیوں سے منور کر دیا۔ وہ حریت فکر و عمل کے ایسے مجاہد تھے جنھوں نے تمام عمر ہوائے جور و ستم میں بھی امید اور حوصلے کی شمع فروزاں رکھی۔ ان کی شاعری دلوں کو موم کر کے  سنگلاخ چٹانوں اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے۔  احباب ان کی باغ و بہار شخصیت  کے گرویدہ تھے۔ وہ سراپا شفقت و خلوص تھے۔ سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت، اخلاص اور اخلاق سے پیش آنا ان کا معمول تھا۔ ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ پوری دنیا میں ان کی وفات کی خبر سے لوگوں کو دلی صدمہ ہوا۔  اللہ تعالی نے انھیں ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا۔ دنیا کے تیزی سے بد لتے ہوئے حالات، متنوع خیالات، رنگینی و رعنائی اور تغیر  پذیر اقدار و روایات میں وہ جنریشن گیپ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ایک حیران کن مطابقت کی صورت تلاش کر کے اپنے انداز فکر کو نئے میلانات اور بدلتے ہوئے رجحانات سے ہم آہنگ کر کے ایک مستحسن کام کیا ہے۔ علم و ادب اور فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے شہر یار کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے بھارت کی اردو فلموں کے لیے جو گیت لکھے وہ آج بھی دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور قلب و نظر کو مسخر کر لیتے ہیں۔ عوامی زندگی میں انھیں ان گیتوں کی وجہ سے بے پناہ محبتیں ، چاہتیں ، پذیرائیاں اور مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان مقبول عام گیتوں کو ان کے عہد کے ممتاز گلوکاروں نے گا کر ان کو یادگار بنا دیا۔

         فلم گمن (روانگی) کے لیے شہریار نے جو نغمے لکھے وہ اس قدر مقبول ہوئے کہ اس فلم کے نغمات میں سے ایک کو بہترین  قرار دیتے ہوئے اسے پلے بیک گلوکاری کا اعلیٰ ترین ایوارڈ 1978میں دیا گیا۔ اس نغمے میں شہریار نے  جانگسل تنہائی اور فرقت کے جا ن لیوا لمحات کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اس قدر پر تاثیر ہے کہ آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔

       آ پ کی یاد آتی رہی رات بھر                  چشم نم مسکراتی رہی رات بھر

        رات بھر درد کی شمع جلتی رہی                  غم کی لو تھر تھر اتی رہی رات بھر

       مظفر علی کی بنائی ہوئی یہ فلم شہر یار کی غزلوں کی بدولت کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ شہر یار کو زبان و بیان اور ابلاغ  پر جو  فنی مہارت حاصل تھی اس کا ایک عالم  معترف تھا۔ اردو نثر میں انھوں نے اپنی پر تاثیر، جذباتی اور بر محل  مکالمہ نگاری سے بھی فلمی دنیا میں خوب رنگ جمایا۔ فنون لطیفہ کے فروغ کے لیے انھوں نے جو بے مثال جدو جہد کی وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔  اردو زبان کی مشہور  اور مقبول فلم گمن (Gaman) کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں شہریار کی سدا بہار شاعری پورے عروج پر ہے۔ ایک زیرک، مستعد، فعال، حساس، مخلص اور جذبہ انسانیت نوازی سے سرشار تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے جس دردمندی اور صداقت سے جذبات نگاری کی ہے وہ اپنی مثال آپ  ہے۔ آج بھی ان کی یہ شاعری سن کر قاری پر عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ متعدد سوالا ت اس کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جو فکرو نظر کو مہمیز کر کے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ شاعری اس قدر پر  تاثیر ہے کہ ہر عہد کی تخلیقی فعالیت میں اس کی مہک محسوس ہوتی رہے گی۔

سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے

اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے

دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے

پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو

تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

کیا کوئی نئی بات نظر آئی ہے ہم میں

آئینہ ہمیں دیکھ کے حیران سا کیوں ہے

            تنہائی کی اس کٹھن منزل کے بارے میں شہر یار نے جو سوال اٹھایا ہے اس کا جواب منیر نیازی نے بڑی دردمندی سے دیا ہے۔ جدید اردو شاعری میں تنہائی کے موضوع پر یہ ایک خیال افروز سوچ ہے جس میں فرد کی تنہائی کے بارے میں پورے خلوص سے اپنے تجربات کو بیان کیا گیا ہے :

اس  بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشک رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو

یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو

آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا

راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو

       جب شہر یار کی دائمی جدائی خیال آتا ہے  تو منیرنیازی کی یہ غزل سن کر آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں۔ پاکستانی ادبیات سے گہری وابستگی رکھنے والے اس یگانہ روزگار فاضل نے پاکستان میں بھی اپنی تخلیقی کامرانیوں سے دلوں کو مسخرکرلیاتھا۔ ان کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس کے باعث بزم ادب مدت تک سوگواررہے گی۔

عجیب سانحہ مجھ پر  گزر گیا یارو

میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو

       لفظی مرقع نگاری اور خوب صورت الفاظ کے انتخاب میں شہر یار نے جس حسن انتخاب اور قرینے کا ثبوت دیا، وہ ان کی انفرادیت کی دلیل ہے۔ ان کی شاعری میں سادہ سلیس اور عام فہم انداز میں جذبات نگاری کی جو شان دل ربائی ہے وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ 1986میں بننے والی فلم انجمن کے لیے شہر یار کا یہ نغمہ ان کی قدر ت کلام کا منہ بولتا ثبوت ہے :

ایسا نہیں کہ اس کو نہیں جانتے ہو تم

آنکھوں میں میری خواب کی صورت بسے ہو تم

دوری کی کوئی حد کوئی منزل نہیں ہے کیا

کیسے کہوں کہ یاد بہت آ رہے ہو تم

         فنون لطیفہ کا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ آرٹ، فلم اور تھیئٹر کے ارتقا میں ادب کا اہم کردار ہے۔ اردو شاعری میں کیفی اعظمی، جانثار اختر، قتیل شفائی، حبیب جالب، منیر نیازی اور فیض احمد فیض کی طرح شہر یار کی متعدد اردو غزلیں فلموں کے لیے منتخب کی گئیں ان کے اسلوب اور الفاظ کے ساتھ ساتھ ان کی ادائیگی کی بدولت انھیں عوامی سطح پر بے پناہ پذیرائی ملی۔

         1981میں جب مرزا ہادی رسوا کی شہرہ آفاق تصنیف  ’’امراؤ جان ادا ‘‘ کو فلمایا گیا تو اس   کے بیش تر گیت شہر یار نے لکھے۔ اس کے بعد ان کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ اس یادگار فلم کی بے پناہ مقبولیت میں شہر یار کے گیتوں کا بھی اہم حصہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ شہر یار کی نغمہ نگاری  کے سوتے خلوص، درد مندی اور انسانی ہمدردی سے پھوٹتے ہیں۔  ان کے لکھے  ہوئے نغموں میں غم خواری اور محبت کی فراوانی ہے۔  سراپا نگاری میں انھیں کمال حاصل ہے۔ اس سلسلے میں ان کی باریک بینی اور جزئیات نگاری درجہ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔

ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں

ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں

اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا

اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

     اس وقت بے اختیار ذہن میں صوفی غلام مصطفی ٰ تبسم کی یاد آ گئی۔ انھوں نے خارزار محبت میں قدم رکھنے والوں کو ملنے والی رسوائی اور جگ ہنسائی کے متعلق بڑی معنی خیز بات کہی تھی۔

سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی

دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

     اسی فلم امراؤ جان ادا کا یہ گیت تو ہر عہد کا مقبول ترین گیت رہے گا۔ اس میں جذبات نگاری عروج پر ہے اور ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے شہر یار نے نہ صرف زبان و بیان پر اپنی تخلیقی قدرت  کا لوہا منوایا ہے بلکہ موقع اور موضوع کی مناسبت سے اظہار اور ابلاغ کی منفرد صور ت بھی پیش کی ہے۔ انھوں نے پر تاثیر اور مقبول عام نغموں کی تخلیق سے اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔

       دل چیز  کیا ہے آپ مری جان لیجیے

بس ایک بار میرا کہا مان لیجیے

ا س انجمن میں آپ کو آنا ہے بار بار

دیوار و در کو غور سے پہچان لیجیے

         شہر یار کی زندگی میں بہت نشیب و فراز آئے مگر انھوں نے ہمیشہ نشیبوں سے بچ کر فراز کی جانب سفر جاری رکھا۔ اتر پردیش کی تحصیل آنولا ان کا آبائی علاقہ تھا، یہیں ان کی آنول نال گڑی تھی۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ پولیس کے ملازمیں کا ایک الگ سا مزاج بن جاتا ہے وہ اپنے احباب حتیٰ کہ اپنے اہل خانہ اور اولاد پر بھی سخت نظم و ضبط کو نافذ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ شہر یار کو بچپن ہی سے کھیل کود سے گہری دلچسپی تھی اور وہ اتھلیٹ بننے کے آرزو مند تھے۔ وہ خارجی ضبط کو سخت نا پسند کرتے اور حریت فکر و عمل پر اصرار کرتے۔ اپنی ابتدائی تعلیم آنولا میں مکمل کرنے کے بعد وہ بلند شہر پہنچے اور یہاں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔ شہریار اور ان کے والد میں عملی زندگی کے لائحہ عمل کے انتخاب اور شہر یار کے مستقبل کے عزائم کے بارے میں شدید اختلاف رائے پیدا ہو گیا۔ ان کے والد نے انھیں پولیس میں شامل کرنے کی ٹھان رکھی تھی جب کہ شہر یار کو محکمہ پولیس کا کڑے نظم و ضبط پر مبنی ماحول بالکل پسند نہ تھا۔ وہ ایک روشن خیال اور آزاد منش نوجوان تھے۔ جب ان پر دباؤ حد سے بڑھا تو انھوں  نے کسی قسم کی محاذ آرائی کے  بجائے  ناچار گھر کو چھوڑ کر باہر کی دنیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ آزمائش اور ابتلا کی اس گھڑی میں خلیل الرحمٰن کی دستگیری اور مشاورت نے خضر راہ کا کام کیا۔ دو وقت کی روٹی کے لیے کوئی نہ کوئی کام تو بہ ہر صورت انھیں کرنا ہی تھا چنانچہ وہ  کچھ عرصہ انجمن ترقیِ اردو میں  ادبی معاون کے طور پر کام کرتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنے والدین سے مسلسل رابطہ رکھا  اور انھیں اپنے مستقبل کے عزائم سے آگاہ بھی رکھا بالآخر وہ انھیں اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے والدین کی خوشنودی کے حصول کو وہ اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیتے۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے افسانوی ادب کی تدریس پر مامور ہوئے۔ اسی عظیم اور تاریخی جامعہ سے انھوں نے بعد پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ملازمت کے سلسلے میں ان کا قیام مستقل طور پر ہو گیا اور وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے اس یونیورسٹی میں صدر شعبہ اردو کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور یہیں سے 1996میں ریٹائر ہوئے۔ اس عرصے میں لاکھوں طلبا و طالبات اس سر چشمہ فیض سے سیراب ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا زیادہ تر وقت تخلیق ادب میں گزرتا۔ عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ فرانس کے نئے تنقیدی تصورات( جن میں ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، مابعد جدیدیت اور رد تشکیل شامل ہیں ) کا انھوں نے بہ نظر غائر جائزہ لیا۔ ان موضوعات پر ان کے  خیالات سن کر فکر و نظر کے نئے دریچے و ا ہوتے چلے جاتے۔

          شہر یار نے اپنی زندگی فروغ علم و ادب کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ نامور ادیب مغنی تبسم کے ساتھ مل کر انھوں نے رجحان ساز ادبی مجلے ’’شعر و حکمت ‘‘کی حیدرآباد سے اشاعت کا آغاز کیا۔ اس مجلے نے اردو زبان و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ دنیا بھر کے ممتاز ادیبوں نے اس مجلے میں قلمی معاون کی حیثیت سے اپنی شمولیت سے بزم  ادب کو چار چاند لگا دئیے۔ شعر و حکمت کو تحقیق و تنقید کے ایک اہم اور بنیادی ماخذ کا درجہ دینے میں ان کی انتھک جدوجہد شامل ہے۔ شہر یار نے علم و ادب، فنون لطیفہ، تہذیب و ثقافت اور زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ان کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ پوری دنیا میں انھیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’خواب کا دربند ہے ‘‘بہت مقبول ہوا۔ یہ شعری مجموعہ 1987میں شائع ہوا، اسی سال اس شعری مجموعے پر انھیں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی کامرانیوں کا سلسلہ جاری رہا، 2008میں انھیں گیان پیٹھ ایوارڈ ملا۔ جو کہ بھارت کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔ وہ چوتھے ادیب ہیں جنھیں یہ ایوارڈ اب تک ملا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں فراق ایوارڈ اور بہادر شاہ ظفر ایوارڈ بھی عطا کیے گئے۔ جو ان کے کمال فن کا اعتراف ہے۔ جدید اردو شاعری کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو تو شہر یار نے   اپنی تخلیقی فعالیت سے اردو ادب کی ثروت میں  جو اضافہ کیا ہے وہ قابل قدر  ہے۔ وہ تصدق حسین خالد ، ن۔ م راشد، مجید امجد، حفیظ ہو شیارپوری، سید غلام بھیک نیرنگ، حبیب جالب، فیض احمد فیض، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، سید جعفر طاہر اور محمدشیر افضل جعفری کے شعری تجربوں کو بہت مفید  خیال کرتے تھے۔ شہریار کی اہم تصانیف حسب ذیل ہیں :

     اسم اعظم (1965)، ساتواں در (1969)، ہجر کے موسم (1978)، خواب کے در بند ہیں (1987)

       شہریار نے اپنی شاعری میں حقیقت نگاری کا اعلیٰ ترین معیار پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی مظہر ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرتے وقت تاریخی تناظر پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ انھوں نے بالعموم زندگی کے تضادات کو موضوع بنا کر حریت فکر کا علم بلند رکھنے کی سعی کی ہے۔ وہ افراد اور معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر بہ یک وقت نگاہ ڈالتے ہیں۔ اس عمل میں وہ تعمیری اور اصلاحی پہلو کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ حرف صداقت لکھنا ہمیشہ ان کا نصب العین رہا۔ ان کی شاعری کے موضوعات آفاقی نوعیت کے ہیں جن کا جغرافیائی حدود سے کوئی تعلق نہیں۔ سارے جہاں کا درد ان کے جگر میں سمٹ آیا ہے۔ ان کی شاعری میں قلبی، روحانی اور وجدانی کیفیات کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھیں زندگی کی وہ تمام درخشاں  اقدار و روایات   دل و جاں سے عزیز ہیں جو حق گوئی و بے باکی، عدل و انصاف، خلوص و مروت، ایثار اور دردمندی، حسن فطرت اور حسن  و جمال کی اساس پر استوار ہیں۔ زندگی کے جملہ ارتعاشات اور نشیب و فراز پر وہ اس سلیقے سے اظہار خیال کرتے ہیں کہ قاری چشم تصور سے وہ تمام  مناظر دیکھ لیتا ہے جن کی لفظی مر قع نگاری کی گئی ہے۔ اس طرح یہ شاعری ایک ایسے  جام جہاں نما کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں تمام واقعات کی پر چھائیاں قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہیں۔ ان پرچھائیوں کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔  جہاں یہ علامت بہ جائے خود گہری معنویت کی حامل ہے وہاں  اس کی مدد سے زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بھی  مدد ملتی ہے۔ یہ پر چھائیاں ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میں جلو ہ گر ہیں جن کے معجز نما اثر سے لا شعور کی جملہ حرکت و حرارت کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سائے، ہیولے، پر چھائیاں اور خواب یہ سب ایک علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان علامات کی مدد سے تخلیق کار اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے۔ ایک لفظ، ایک علامت یا ایک رنگ کی مدد سے صد رنگی کی کیفیت پیدا کرنا شہر یار کے کمال فن کی دلیل ہے۔ انھوں نے گلدستہ معانی کو ایک خاص ڈھنگ سے مرتب کیا ہے جو قلب و  نظر کو مسخرکرلیتا ہے۔ ہوائے جو ر و ستم کے مسموم ماحول میں جب ہر فرد کے چہرے پر ہوائیاں اڑتی ہیں تو خیال یار کی دلکش اور مسحور کن  پر چھائیاں گلاب کے پھولوں کے مانند نہاں خانہ دل کو معطر کر دیتی ہیں۔ جدید اردو شاعری میں تنہائی کا جو تصور ہے اس میں لفظ پر چھائیں کو شہریار نے گنجینہ معانی کا طلسم بنا دیا ہے۔

اسی سبب سے تو پر چھائیں اپنے ساتھ نہیں

صعوبت سفر شوق  سے نڈھال ہوئی

عمر کی لمبی مسافت ہر قدم کھلنے لگی

تیری پر چھائیں مرے ہمراہ کیوں چلنے لگی

پہلے تجھے دیکھا تھا  پر چھائیں کی صورت میں

پھر جسم ترا میری رگ رگ میں اتر آیا

سناؤں کیسے کہ سورج کی زد میں ہیں سب لوگ

جو حال رات کو پر چھائیوں کے گھر کا ہے

وہ ادھر اس طرف ذرا  دیکھو

ایک پر چھائیں اوس سے تر ہے

یہاں سے گزرے ہیں گزریں گے ہم سے اہل وفا

یہ راستہ نہیں پر چھائیوں کے چلنے کا

        اس دنیا کے سارے تعلق اور سہارے تجارتی نوعیت کے ہیں ، اس کے باوجود انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ ما فوق الفطرت عناصر کی مو ہوم مدد کی امید پر توجہ مر کو ز کر دیتا  ہے۔ اردو زبان کے ممتاز شاعر اور نقاد  رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ) نے کہا تھا :

اور سہارے تو دھرتی کے تجارتی ہیں

اپنی ٹانگیں اپنا بوجھ سہارتی ہیں

        زندگی کی برق رفتاریوں نے انسان کو موہوم امیدوں کا رسیا بنا دیا ہے۔ سرابوں میں بھٹکنا اس کا پسندید ہ مشغلہ بن جاتا ہے شہر یار نے پورے خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت کو  درپیش مسائل کا حوالہ دیا ہے۔ شہر یار کا یہ انداز فکر ایک مثبت ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ ان کے ہاں کبھی تو سوزو ساز رومی کی کیفیت دلوں کو مرکز مہر و وفا کر تی ہے تو کہیں پیچ و تاب راز ی کا ہنگامہ اس کارزار ہستی کی برق رفتاریوں اور ہوا  و  ہوس میں حد سے گزر جانے والوں کے عواقب کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ایک طرف تو وہ  قلبی وابستگی ، والہانہ محبت اور دلی لگاؤ کے واقعات کے بیان سے حسن پیدا کرتے ہیں تو دوسری جانب معاشرتی زندگی میں لاگ کے جان لیوا  گھاؤ انھیں آزردہ کر دیتے ہیں۔ زندگی کے یہی دو روپ ان کی قدرت کلام کے اعجاز سے ان کی شاعری کو دھنک رنگ منظر نامے میں بدل دیتے ہیں۔ وہ سراپا شفقت و خلوص اور ہمدردی و ایثار کے پیکر کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ جبر کا ہر انداز مسترد کر کے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ شبیر کو اپنانا ان کا شعری مسلک رہا۔

        شہر یار کی شاعری میں عصری آگہی کا جو عنصر ہے وہ تاریخ کے مسلسل عمل کا مر ہون منت ہے۔ 1947کے بعد اس علاقے میں جو جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہوئی ان کی وجہ سے فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ نئے تخلیقی احساس کو نمو ملی اور جمود کا خاتمہ ہو گیا۔ ظلم و استبداد کی وہ بھیانک تاریک را ت جس نے نوے سال تک اس علاقے کے بے بس عوام کی زندگی اجیرن کیے رکھی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی۔ نو آبادیاتی دور کے فسطائی جبر کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا گیا اور سلطانیِ جمہور کا دور آ گیا۔ اس کے بعد جس نئے فکری احساس نے جنم لیا اس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ایک ایسی تب و تاب جاودانہ پیدا ہوئی جس نے نہ صرف فکر و نظر کو مہمیز کیا بلکہ امید کی تگ و تاز کو بھی بڑھایا اور سوچ کی پرواز کو نئے آفاق تک رسائی کا ولولہ نصیب ہوا۔ شہر یار کی شاعری میں جذبات، احساسات، فکر و خیال کے تنوع اور جدت و بو قلمونی کی جو شان دل ربائی موجود ہے اس کے پس پردہ جو عوامل کر فرما ہیں ان میں نئے میلانات اور نئے جغرافیائی حقائق کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی شاعری میں ہر لفظ گنجینہ معانی کا طلسم ہے۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت ہے جس کی چکا چوند سے قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ شہریار کے ان منفرد شعری تجربات سے اردو شاعری کی ثروت میں اضافہ ہوا۔ ان کا اسلوب ان کی ذات ہے جو کہ ان کی شاعری میں پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ ان کی حق گوئی، خلوص، درد مندی، استقامت اور انسانی ہمدردی کا بلند ترین معیار جہاں ان کی شخصیت کی دل کشی کی دلیل ہے وہاں ان اوصاف کی بدولت ان کی تخلیقات کو بھی ارفع معیار نصیب ہو ا ہے۔

       قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ مفاد پرست استحصالی عناصر کی ریشہ دونیوں کے باعث رتیں بے ثمر ہو کر رہ گئی ہیں۔ انصاف کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے اور جلتے ہوئے روم کو دیکھ کر وقت کا نیرو چین کی بانسری بجانے کا شغل جاری رکھے ہوئے ہے۔ زندگی کی بے اعتدالیوں ، کجیوں ، تضادات اور شقاوت آمیز نا انصافیوں سے شپرانہ چشم  پوشی کو وتیرہ بنا لیا گیا ہے۔ شہریار کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ یہ لرزہ خیز اعصاب شکن صورت حال اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ مجموعی اعتبار سے معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ایسی کیفیت کو ایک بہت  برا شگون سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مسموم اثرات سے فکری اور شعوری روح کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ شہر یار نے اس امر کی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ فکر و خیال  اور شعور کو ان حیات آفریں  اقدار سے منسلک کیا جائے جو زندگی کی تاب و تواں سے مزین ہوں اور جن کے معجز نما اثر سے معاشرتی زندگی میں صحت  و سلامتی، نفاست و پاکیزگی اور امن و آشتی کی فضا پید ا ہو۔

         انسانی زندگی میں خواب کا خیال سے معاملہ بھی عجب گل کھلاتا ہے۔ شہر یار کے تخلیقی عمل اور اس کے لا شعوری محرکات میں خوابوں کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے کچھ خواب تو زندگی کے حقائق کی شیرازہ بندی کی ایک صورت سا منے لاتے ہیں اور کچھ خواب ایسے بھی ہیں جن سے عملی زندگی میں ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے۔ وہ خوابوں کے وسیلے سے لاشعور کی حرکت و حرارت کو ایک منفرد جہت عطا کر کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کی سعی  میں اپنی خداداد صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ در اصل وہ خوابوں کے رسیا نہیں بلکہ وہ  لوگوں پر یہ واضح کر نا چاہتے ہیں کہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر یہ دیکھیں کہ اور بھی دکھ ہیں دنیا میں خوابوں کے سوا۔ شہر یار کی زندگی کے واقعات کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہو تی ہے کہ وہ آلام روزگار کے مسموم ماحول  میں بھی دل کی کلی مرجھانے نہیں دیتے ہر وقت کوئی نہ کوئی نیا غنچہ کھلا رہتا ہے اور اس طرح ایک فکر ی دبستان ہے جو پورے گلستان کو اپنی عطر بیزی سے مسحور کر دیتا ہے۔ خوابوں کے رسیا لوگوں کو یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں کے مانند ہے۔ پیہم محنت اور جگر کاوی کے بغیر کسی جو ہر کے کھلنے کی توقع رکھنا سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔ یہ کار جہاں اس قدر دراز ہے کہ انسان اس میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ یہ کاروان ہستی اس قدر تیز گام ہے کہ اس کے ساتھ سر گرم سفر رہنا جان جوکھوں کا مر حلہ ہے۔ اس راہ میں سکون اور  قیام بے محل ہے۔ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ مظلوم، بے بس اور قسمت سے محروم لا چار انسانیت کے مسائل جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے رو بہ رو پیش کرنے پڑتے ہیں۔ صحرا کی اذان اور درویش کی فغان پر کوئی کان دھرنے والا نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خوابوں کی دنیا سے نکل کر اس حقیقت کا احساس و ادراک کریں کہ حیات جاوداں کا راز ستیز میں پوشیدہ ہے۔ اس کے بعد یقینی طور پر ایک ایسا مر حلہ آ جاتا ہے جب خوابوں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ خوابوں کے رسیا لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ خواب خرگوش کے جو مزے ہیں وہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ زندگی دما دم رواں ہے وقت کا سیل رواں سب توہمات اور خوابوں کے طلسمات کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔ مردوں کے ساتھ شرط باندھ کرسونے والوں ، ہوا میں گرہ لگانے والوں ، خیالی پلاؤ پکانے والوں ، اپنے منہ میاں مٹھو بننے والوں اور محض دلکش اورسہانے خوابوں کی دنیا بسا کراس میں راجہ اندر بن کر داد عیش دینے والوں کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ زندگی اور وقت کی مثال آب رواں کی تند و تیز موجوں کی ہے۔ جب یہ موجیں گزر جاتی ہیں تو کوئی فرعون اپنی تمام تر قوت اور ہیبت کے باوجود دوبارہ ان کے لمس سے فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ زندگی ایک ایسی ادق زبان ہے جس کا صحیح تلفظ کرتے وقت بڑے بڑے دانش ور بھی سہو اور تغافل کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنے کا ایک سلسلہ چل نکلا ہے۔ شہر یار نے خوابوں کے بارے متعدد چشم کشا صداقتیں بیان کی ہیں۔

جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھو دنیا کو

خوابوں کا کیا وہ تو ہر شب آتے ہیں

دل پریشاں ہو مگر آنکھ میں حیرانی نہ ہو

خواب دیکھو کہ حقیقت سے پشیمانی نہ ہو

صلہ کوئی نہیں پر چھائیوں کی پوجا کا

مآل کچھ نہیں خوابوں کی فصل بونے کا

         شاعر کو قوم کی دیدہ بینا  سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پورا معاشرہ اور سماج پیہم شکست دل کے باعث بے عملی اور بے حسی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے تو لوگ تخیل کی شادابی سے موہوم امیدوں کے سہارے دن گزارتے ہیں۔ بدرقہ اور رفیق نہ ہونے کے باوجود سرابوں میں بھٹکنے والے خوابوں کی دنیا میں کولھو کے بیل کی طرح اپنے زعم میں  منزلوں پر منزل مارتے چلے جاتے ہیں مگر پھر بھی نشان منزل ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔ چربہ ساز، سار ق اور کفن دزد عناصر اپنی ملمع سازیوں  سے سادہ لوح لوگوں کوحسین خواب اور سبز باغ دکھا کر اپنا الوسیدھا کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ مضمحل لوگ خوابوں کی اس خیالی دنیا میں افتاں و خیزاں چلتے رہتے ہیں اور ایک دن بالآخر زینہ ہستی سے اتر جاتے ہیں۔ شہر یار کی شاعری میں خوابوں کی حقیقی معنویت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ شہریار نے اپنے تخلیقی عمل کے معجز نما اثر سے حسن کو نمو بخشی ہے۔ ان  کے اسلوب میں ایک ایسی وحدت ہے جو قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں  میں اتر کر ذہن و ذکاوت کی بالیدگی کا اہتمام کرتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو خواب اور سعیِ پیہم میں حد فاصل کا احسا س پیدا کیا جائے۔ وادی خیال کو مستانہ وار طے کرنا اور لفظوں کے طوطے مینا بنانا ایک مشغلے کی حد تک تو قابل فہم ہے مگر عملی زندگی میں اس کے جو نتائج بر آمد ہوتے ہیں وہ تہذیب اور معاشرت کے مکمل انہدام پر منتج ہوتے ہیں۔ شہر یار کے اسلوب کی وحدت دراصل یقین کا ثمر ہے۔ اسی لافانی جذبے سے شادمانی، سکون اور کامرانی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بے سروپا اور بے مقصد خوابوں کا کچا چٹھا کھول کر قاری کو زندگی تلخ حقائق کے احساس و ادراک کی جانب متوجہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔

        شہریار کا خیال ہے کہ ہمیں روشن خیالی کو شعار بنانا چاہیے۔ جہاں تک خوابوں کا تعلق ہے ہمیں مستقبل کے لیے ایک واضح لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے اور آنے والے دنوں کے لیے قابل عمل طریق کار اپنانا چاہیے۔ ایسے خواب دیکھنے میں کوئی امر مانع نہیں جن کے مطابق آنے والے زمانے میں نئی نسل کے لیے امیدوں ، امنگوں ، آرزوؤں ، ترقی، خوش حالی اور کامرانی کی فصل کاشت کی جائے۔ اس مقصد کے لیے سعیِ پیہم کو ترازوئے کم و کیف حیات سمجھنا نا گزیر ہے۔ جب استحصالی معاشرے میں ظالم و سفاک، موذی و مکار استبدادی قوتوں کی شقاوت آمیز  نا انصافیوں ، بے رحمانہ مشق ستم اور انصاف کشی کے باعث امیدوں کی فصل غارت ہو جائے اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی جائے تو  نیندیں اور خواب اڑ جاتے ہیں۔ ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات میں خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر زندگی کے تلخ حقائق سے آنکھیں چار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ شہر یار نے پوری انسانیت کے حوالے سے اپنے تاثرات، تجربات اور مشاہدات کو  اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے۔ زندگی گزارنے کی ہماری جدو جہد اپنی نوعیت کے لحاظ سے جہاں مقصد حیات کا تعین کرتی ہے وہاں اس کی بدولت زندگی کی حرکت و  حرارت کی افزونی کی ایک یقینی صور ت بھی  سامنے آتی ہے۔ اس کے برعکس بے سرو  پا خواب اپنے مسموم اثرات سے گلزار ہست و بود کے لیے ہلاکت خیزی کا پیغام لاتے ہیں۔ جہاں سرو و صنوبر اگا کرتے تھے وہاں زقوم اور حنظل کی فراوانی ہو جاتی ہے۔ جن گھروں میں سرشام چراغ روشن ہو جاتے تھے وہاں چراغ غول کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آ جاتے ہیں اور ہر طرف کرگس، بوم اور شپر منڈلانے لگتے ہیں۔ ایک زیرک اور بیدار مغز تخلیق کار کی حیثیت سے شہر یار نے خوابوں کے بارے میں ہمیشہ حقیقی انداز فکر اپنایا۔ ان کے اشعارسے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے خواب بھی حقائق کی گرہ کشائی کرتے ہیں اور طلوع صبح بہاراں کی نوید لاتے ہیں۔

دنیا نے ہر  محاذ پہ مجھ کو شکست دی

یہ کم نہیں کہ خواب کا پرچم نگوں نہ تھا

آندھیاں آئیں توسب لوگوں کو معلوم ہوا

پرچم خواب زمانے میں نگوں کتنا ہے

یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو

کہیں نہ پھر سے ندی آنسوؤں کی گھٹ جائے

میں سوچتا ہوں مگر کچھ نظر نہیں آتا

کہ اختتام کہاں خواب کے سفر کا ہوا

کون سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل

ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

پھر کہیں خواب و حقیقت کا تصادم ہو گا

پھر کوئی منزل بے نام بلاتی ہے ہمیں

آنکھوں میں تیری دیکھ رہا ہوں میں اپنی شکل

یہ کوئی واہمہ یہ کوئی خواب تو نہیں

        شہر یار کی شاعری میں خوابوں کا حوالہ ایک جداگانہ انداز میں سامنے آتا ہے۔ جہاں کہیں بھی وہ خواب کا ذکر کرتے ہیں وہ بالعموم اسے ایک ایسے رویے سے تعبیر کرتے ہیں جو عمل سے دور اور محض فکر و خیال کی اساس پر استوار ہے۔ ان کے کچھ خواب ایسے بھی ہیں  جن کو وہ اپنے عزائم اور مستقبل کے منصوبوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان خوابوں کو وہ ایک فعال قوت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان کا پرچم بلند رکھنے کے داعی ہیں۔ حریت فکر و عمل اور حریت ضمیر سے جینے کے ان کے خواب یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا اور ظلم کو برداشت کر کے چپ رہنا ظلم سے کہیں بڑھ کر اہانت آمیز اور ناقابل برداشت رویہ ہے۔ خواب کا استعارہ شہر یار کی شاعری کا ایک انتہائی معتبر حوالہ بن کر سامنے آیا ہے۔ شہر یار کا کمال یہ ہے کہ وہ خواب کو بھی عملی زندگی کا ایک دلکش حوالہ بنا دیتے ہیں۔ خوابوں کی یہی خیاباں سازیاں ان کے اسلوب کا نمایاں پہلو ہیں۔

خواب میں آسمان پر دیکھا تھا میں نے اک افق

آنکھ کھلی تو دور تک دھند کا سلسلہ ملا

آج کی رات میں گھوموں گا کھلی سڑکوں پر

آ ج کی رات مجھے خوابوں سے فرصت کچھ ہے

زخموں کو رفو کر کے دل شاد کریں پھر سے

خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے

آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دئیے

ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات

تمام خلق خدا دیکھ کے یہ حیراں ہے

کہ سارا شہر میرے خواب سے پریشاں ہے

یہ اضطراب ازل سے مرا مقدر ہے

میں کچھ کروں پہ مرا جی بہل نہیں سکتا

       شہر یار کی زندگی شمع کے مانند گزری انھوں نے اپنے تمام ارادی اعمال کی تنظیم اس مؤثر انداز میں کی کہ ان کے اسلوب اور سیرت و کردار میں نکھار پیدا ہو گیا۔ عالمی کلاسیک کا مطالعہ، تحقیق اور تنقید اور تخلیق ادب کو اگرچہ ابتدا میں ان کے مشاغل کی حیثیت حاصل تھی اور وہ انھیں ایک شعوری اور اختیاری عمل کے طور پر جاری رکھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ سب دلچسپیاں ان کی فطرت ثانیہ میں بدلتی چلی گئیں۔ ان کا اسلوب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نوائے سروش کی عمدہ مثال ہے۔ ان کی سیرت کی تشکیل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علمی و ادبی ماحول کا گہرا عمل دخل تھا۔ ان کا کردار ان کی سیرت کا مظہر تھا۔ وہ بے لوث محبت کے قائل تھے اور انسانیت کا وقار اور سر بلندی انھیں دل و جاں سے عزیز تھی۔ ان کی شاعری میں جن تجربات کا ذکر ہے ان کی نوعیت آفاقی ہے :

دباؤ کم سہی میزان ذات پر میرا

مگر ہے وزن بہت کائنات پرمیرا

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

نذرانہ تیرے حسن کو کیا دیں کہ اپنے پاس

لے دے کے ایک دل ہے جو ٹوٹا ہوا سا ہے

جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہو گا

ترے لبوں پہ مرے لب ہوں ایسا کب ہو گا

            بے لوث محبت کے اعجاز سے وہ ایک طرح سے اپنی ذات کے فروغ، پر خلوص جذبات کی تسکین، تزکیہ نفس اور اپنے تجربات و احساسات کے ابلاغ کو یقینی بنانے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اعمال کی تنظیم اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کے تجربات کسی حسین، دلکش، پر مسرت اور اطمینان بخش نتیجے پر پہنچ سکیں۔ ان کی شاعری میں اس  جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ سچے جذبات کے اظہار کی راہ میں کوئی امر مانع نہیں۔ ان کے ہاں محبت کے  سچے جذبات کی فراوانی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ محبت کو ایک ایسے عمل کے طور پر اختیار کرنا چاہیے جس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ سوال وصل اور عرض غم کے مراحل طے کرنے کے دوران جو سخت مقام آتے ہیں ان کا بیان شہر یار کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ ان کی شاعری میں متعدد حکایتیں اور بے شمار شکایتیں ہیں جو حسن و رومان کے نادر تجربات کی صورت میں ان کے اسلوب کا حصہ ہیں۔

کاغذ کی کشتیاں بھی بہت کام آئیں گی

جس دن ہمارے شہر میں سیلاب آئے گا

دید سے لمس تک ہمیں کیا کیا نہ تجربے ہوئے

دکھنے میں اور کچھ تھا وہ چھونے پہ اب کچھ اور ہے

دیکھنے کے لیے اک چہرہ بہت ہوتا ہے

آنکھ جب تک ہے تجھے صرف تجھے دیکھوں گا

ساعت خواب وصل کی آنی تھی آ نہیں سکی

وہ بھی تو وہ نہیں رہا میں بھی تو اب بدل گیا

یا تیرے علاوہ بھی کسی شے کی طلب ہے

یا اپنی محبت پہ بھروسہ نہیں ہم کو

تو نے دیکھا نہیں خود کو کب سے

میں ترے سامنے اب ہوں تو دیکھ

          شہر یار نے اپنی اصابت رائے اور مستحکم طرز عمل پر اپنے اسلوب کی بنیاد رکھی۔ ان کی زندگی میں ایسے واقعات بھی رونما ہوئے جو ان کے لیے آزمائش بن گئے لیکن ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ آئی۔ یہی انداز فکر جب ان کی شاعری میں سما جاتا ہے تو ان کی شاعری قلب اور روح کو نشاط انگیز کیفیات سے متمتع کرتی ہے۔ ان کی سیرت میں جو دل آویز حسن و جمال ہے اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ محبت کے ذریعے دلوں کو مسخر کر لیتے تھے۔ ان کے ہاں محبت کا جو انداز ہے وہ لین دین کی کوئی شکل نہیں بلکہ یہ تو صرف دین ہی دین ہے۔ وہ سب کو اپنی بے لوث محبت اور ایثار سے نوازتے اور کسی قسم کی ستائش یا صلے کی کبھی توقع نہ رکھتے۔ قناعت، تسلیم و رضا اور انسانی ہمدردی کا جو معیار انھوں نے عمر بھر قائم رکھا وہ لائق تقلید ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کے تجربات کے اظہار کے سلسلے میں جو منفرد انداز اپنایا گیا ہے اس کے دو نمایاں پہلو قابل توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ زندگی کے تمام خارجی حقائق بلا کم و کاست اور من و عن بیان کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ اس کے بعد وہ قاری پر یہ بات چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کے  وقیع تجربات کو  جس انداز میں دیکھنا چاہیں دیکھ لیں۔ یہ معاملے اس قدر نازک ہیں کہ قاری کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ ان تجربات کے پس پردہ جو اقدار عالیہ اور نفسیاتی گتھیاں ہیں انھیں فکر و خیال سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دیانت دار اور با ضمیر تخلیق کار  اپنے قلم کو قارئین کی امانت خیال کرتا ہے۔ اس قلم کی بدولت اسے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی اقدار کو محفوظ کر کے اسے ایسی نہج عطا کریں جو آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوں۔

           تخلیق فن کے لمحوں میں شہر یار نے جس سادگی، سلاست اور بے تکلفی کو ملحوظ رکھا ہے وہ ان کا امتیازی وصف ہے۔ زبان و بیان پر ان کی عالمانہ اور خلاقانہ دسترس کے معجز نما اثر سے وہ اپنا موقف، طرز عمل اور  ما فی الضمیر نہایت خلوص اور درد مندی سے بیا ن کر تے ہیں۔ وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے۔ وہ عام فہم انداز میں اپنے جذبات، احساسات اور تجربات کو پورے خلوص کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھالتے ہیں۔ اس کے بعد قاری چشم تصورسے ان تمام تجربات کا منظر نامہ دیکھ  لیتا ہے۔ شہر یار کی شاعری میں اخلاقی معائر، زندگی کی اقدار عالیہ اور مسائل زیست کے بارے میں جو ہمدردانہ رویہ دکھائی دیتا ہے وہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شہر یار نے ذات کی تنہائی کا مداوا کرنے کے لیے بے لوث محبت، بے باک صداقت اور قابل فہم نوعیت کے عملی خوابوں کے امتزاج سے ایک حسین دنیا کی تشکیل کا تصور پیش کیا۔ اس کے ذریعے تنہائی کے حصار سے نکلنا ممکن ہے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ وہ ایک قلبی اور روحانی تعلق استوارکرلیتے ہیں اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیتے ہیں۔ شہریار ان تمام واقعات کو جو ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات کے امین ہیں عمیق مطالعہ کے ان کی اہمیت، ہمہ گیری اور افادیت کے لحاظ سے انھیں مر حلہ وار اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں کہ کوئی واقعہ یا تجربہ جب قاری کے لیے اہمیت اور افادیت کا حامل ہو تو اسے اشعار کے قالب میں ڈھالا جائے۔ وہ علی گڑھ کی مقصدیت کی روایت کی پاس داری کرتے اور اس پر وفادار بہ شرط استواری کو اصل ایمان کے مترادف سمجھتے۔ ان کی شاعر ی میں سل کو دل بنانے کا جو قرینہ ہے وہ اسی روایت کا اعجاز ہے۔

         شہر یار نے زندگی بھر حریت فکر و عمل کا پرچم بلند رکھا۔ لفظ کی حرمت انھیں دل و جان سے عزیز تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ حریت ضمیر سے جینے کے لیے ہر مسلمان کو اسوہ شبیرؓ کو اپنانا چاہیے۔ انھوں نے انتہائی کٹھن حالات میں بھی صبر و استقامت سے کام لیا اور کبھی حرف شکایت لب پر نہ لائے۔ ہوائے جور و ستم میں بھی انھوں نے رخ وفا کی تابانی میں کبھی کمی نہ آنے دی۔ ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے اس جری تخلیق کار نے جو طرز ادا اپنائی اس کی اساس واقعہ کربلا ہی ہے۔ بہ قول مجید امجد :

سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنھوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

         واقعہ کربلا کو شہر یار کی شاعری میں ایک ایسے نفسیاتی کل کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس کے معجز نما اثر سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بھی اگر شہسوار کر بلا ؓکی مثال کو پیش نظر رکھا جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ مسلسل شکست دل کے باعث بے حسی کا شکار ہو چکا ہے۔ شہر یار نے اس لرزہ خیز، اعصاب شکن اور مسموم ماحول میں قارئین ادب کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ ظلم سہنا اور اس کے خلاف شدید رد عمل اور احتجاج کا اظہار نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے۔ وہ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونے کے سخت خلاف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ظالم کوئی بھی ہو اور وہ کہیں بھی ہو وہ قابل نفرت ہے اور اس کے قبیح کردار پر لعنت بھیجنا ہر با ضمیر انسان کا فرض ہے۔ 10محرم 61ہجری کو نواسہ رسول ﷺ نے میدان کر بلا میں نہ صرف رمز توحید کو رقم کیا بل کہ آنے والی نسلوں کو ظلم و استبدا د سے نجات کی ر اہ  بھی دکھائی۔ شہر یار کی شاعری میں حریت فکر کے سوتے واقعہ کر بلا ہی سے پھوٹتے ہیں۔ ان کی شاعری میں واقعہ کربلا حریت فکر کا ابد آشنا استعارہ ہے:

              حسینؓ ابن  علیؓ کر بلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

گزرے تھے حسین ؓابن علی ؓ رات ادھر سے

ہم میں سے مگر کوئی بھی نکلا نہیں گھر سے

          شہر یار کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن دو نشیب ایسے بھی آئے جس نے اس کی زندگی کی تمام رتوں کے بے ثمر کر دیا۔ شہر یار نے اپنی زندگی میں نجمہ محبوب کو ٹوٹ کر چاہا اور اسے اپنی شریک حیات بنانے کی تمنا کی۔ اس کی یہ آرزو پوری ہو گئی اور 1968میں نجمہ محمود نے نجمہ شہر یار بن کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ محبت کے اس  لائق صد رشک و تحسین عمل کے ذریعے شہر یار نے اپنی ذات، قلب اور روح کی تسکین اور شخصیت کے استحکام کی مقدور بھر کوشش کی۔ خدا جانے اس ہنستے بستے گھر کو کس کی نظر کھا گئی کہ ان کے گھر کے آنگن میں حسرت و یاس، اندیشوں اور شکوک و شبہات کے مہیب سائے گہرے ہوتے چلے گئے۔ باہمی اعتماد میں اس قدر الجھاؤ اور انتشار پیدا ہو گیا کہ 1995میں نجمہ نے شہر یار سے خلع حاصل کر لیا۔ شہر یار کو اپنے ہمدم دیرینہ خلیل الرحمٰن اعظمی کی دوستی پر بہت ناز تھا۔ تقدیر ہر لحظہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا دیتی ہے۔ جب شہر یار ہجوم غم میں دل کو سنبھالنے کی کوشش میں جگر لخت لخت کو جمع کرنے کی سعی میں مصروف تھا اس وقت خلیل الرحمٰن اعظمی نے عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ ان پے در پے جان لیوا صدمات نے اس حساس تخلیق کار کی  روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا۔ اپنے ایک رفیق کار  اور محرم راز مغنی تبسم کو شہر یار نے اپنے جذبات حزیں کے بارے میں لکھا:

                         اے عزیز از جان مغنی

                          تیری پرچھائی ہوں لیکن کتنا اتراتا ہوں میں

                           اعظمی کا مرنا، نجمہ کا بچھڑنا

                          تیرے بل بوتے پہ سب کچھ سہہ گیا ہوں

      اس عالم میں  موت کے تند و تیز بگولوں نے شہریار کی زندگی کی شمع بجھا دی۔ ایک ایسی شمع بجھ گئی جو مسلسل چھ عشروں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دے رہی تھی۔ حریت فکر کا ایک ایسا مجاہد رخصت ہو گیاجس نے زہر ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا۔ علم و ادب کا ایک دبستان ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اردو زبان و ادب کا ایک بے لوث خدمت گار ہمیں دائمی مفارقت دے گیا۔ وہ دانش ور آج ہم میں موجود نہیں جس نے  پوری دنیا میں اردو زبان و ادب کو  ایک بلند مقام عطا کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں وقف کر دیں۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے عدم کے کوچ کی فکر پر روشنی ڈالتے ہوئے جو بات کہی وہ حرف بہ حر ف درست ثابت ہوئی۔

آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے

میں نے سب تیاریاں کر لی ہیں مرنے کے لیے

       لیکن مجھے یہ کہنا ہے کہ شہریار کبھی مر نہیں سکتے۔ وہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا عظیم الشان تخلیقی سرمایہ، ان کا ابد آشنا اسلوب ، ان کی تحقیقی و تنقیدی کامرانیاں  اور لائق صد رشک و تحسین تدریسی کام ان کو شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کر چکا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی عقیدت سے لبریز آنکھیں اور خلوص سے معمور دل ان کے لیے ہمیشہ سراپا سپاس رہیں گے۔ ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہے۔

           پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں                             جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی

٭٭٭

 

وحید بخش غیاث :عصری آگہی سے متمتع  عظیم تخلیق کار

         وحید بخش غیاث کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے مردم خیز خطے سے ہے۔ وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز گزشتہ سات عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔ اردو زبان و ادب کے اس زیرک، فعال، مستعد اور  بے لوث خدمت گار نے  بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے وہ اپنے لہو سے ہولی کھیلنے اور کالے کٹھن دکھوں کے پہاڑ تن تنہا اپنے سر پر جھیلنے میں ایک گونہ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ کتابیں ہی ان کا اوڑھنا اور کتابیں ہی ان کا بچھونا ہیں۔ وہ ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار ہیں۔ پاکستان کی تمام زبانوں پر انھیں خلاقانہ دسترس حاصل ہے۔ خاص طور پر اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، سرائیکی، بلوچی، پشتو، کشمیری اور ہندکو  کے کلاسیکی ادب کا انھوں نے عمیق مطالعہ کیا ہے۔ عالمی کلاسیک میں انھوں نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں کے نمائندہ اور نابغہ روزگار ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم کا انھوں نے مطالعہ کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کی کئی زبانوں کے ادب سے واقف ہیں۔ ان میں عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، جرمن، بنگالی، فرانسیسی اور چینی زبان قابل ذکر ہیں۔ اپنی جنم بھومی سے انھیں بہت محبت ہے۔ وہ دنیا کے بہت سے ممالک کی سیر کر چکے ہیں۔ حصول روزگار کے سلسلے میں انھوں نے  اپنی عمر عزیز کا بڑا حصہ بیرونی ممالک میں گزارا۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ انھوں نے  طویل عرصہ وطن سے باہر گزارا مگر وطن کی محبت ان کے ریشے ریشے میں سما چکی تھی۔ وہ جہاں بھی رہے وطن کی محبت سے ان کے مشام جاں معطر رہے اور پھر ایک دن آیا جب وہ وہیں لوٹ آئے جہاں ان کی آنول نال گڑی تھی۔ وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ وطن سے باہر رہے۔ اب جب وہ وطن واپس آگئے ہیں تو ان کے جذبات اور احساسات کی جو کیفیت ہے اسے خلوص بھرا دل اور درد بھری  آنکھیں محسوس کر سکتی ہیں ، الفاظ ان کی ترجمانی  سے قاصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حب وطن بلا شبہ ملک سلیما ن ؑسے کہیں زیادہ سکون بخش اور  وطن کے کانٹے تو سنبل و ریحان سے بھی زیادہ پر کیف ہوتے ہیں۔ ان کی حب الوطنی، علم دوستی، ادب پروری، خلوص، دردمندی، انسانی ہمدردی اور انسانیت نوازی ان کا سب سے بڑا اعزاز و امتیاز ہے۔ وہ جہاں بھی رہے انھوں نے وطن اور اہل وطن کے ساتھ  اپنی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کو برقرار رکھا۔ وہ حریت فکر کے ایسے مجاہد ہیں جنھوں نے ارضی اور ثقافتی حوالے سے وطن اور اہل وطن کی خدمت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے۔ اپنے وطن اور اہل وطن کے سا تھ  انھوں نے جو عہد وفا استوار کر رکھا ہے اسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر قرار دیتے ہیں۔ وہ حریت فکر کے عظیم مجاہد ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ جذبوں کی صداقت کا بھرم بر قرار رکھا ہے۔ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے ان کی خدمات کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ بیرونی ممالک میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد جب وہ ڈیر غازی خان واپس آئے تو سارا ماحول ہی بدل چکا تھا۔ دیار غیر میں تو وہ پرانے آشنا چہروں کو یاد کر کے ہجوم غم میں دل کوسنبھالنے کے جتن کرتے تھے۔ جب واپس اپنے آبائی علاقے میں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ سیل زماں کی مہیب موجیں تمام پرانی رفاقتوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا کے لے گئی تھیں۔ اب انھیں اپنے ہی آبائی شہر میں لو گ اجنبی گردانتے تھے۔ یہ کوہ غم ان کے لیے اس قدر گراں ثابت ہوا کہ انھوں نے تنہائی اور اجنبیت کی جان لیوا گھڑیوں کو گزارنے کے لیے تیشہ حرف سے فصیل غم کو منہدم کرنے کی مساعی کا آغاز کر دیا۔ اب و ہ سر گرداب اپنے احباب کو پکار رہے ہیں کہ شاید ساحل سے کو ئی مانوس آواز اور درد مند لہجہ سنائی دے۔ ہم اہل وطن ان کو یہاں آنے پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں اور ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں۔ وطن ہم سب کے  جسم اور روح سے عبارت ہے۔ اگرچہ وحید بخش غیاث بہت طویل عرصے کے بعد وطن آئے ہیں لیکن جب یہاں آگئے ہیں تو پھر ہم سب ان پر خلوص  بھرے  جذبات اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ وہ اب آ گئے ہیں تو وہ سب کے دل میں بس جائیں گے۔ اس میں دیر سے آنے کی شکایت کیسی اور وطن سے دور رہنے پر ندامت کا کیسا تذکرہ ؟میں یہاں ممتاز شاعر عندلیب شادانی کے یہ شعر وحید بخش غیاث کی نذر کرتا ہوں۔

دیر لگی آنے میں تم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو

آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو

شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں ، تارے، نغمے، بجلی، پھول

اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، وہ دامن ہاتھ آئے تو

جھوٹ ہے سب، تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے

اچھا میرا خواب جوانی، تھوڑا سا دہرائے تو

           وحید بخش غیاث نے 1958میں وطن سے باہر قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ حصول معاش کے لیے وہ دنیا کے متعدد ممالک میں پہنچے اس طرح انھوں نے پوری دنیا کی سیر کرنے کے عزم کی تکمیل کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے ابن بطوطہ کا جس طرح تعاقب کیا اس میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے وطن کی تہذیب، ثقافت، معاشرت اور علم و ادب کی ترجمانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ وطن اور اہل وطن کو ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات پر ناز ہے۔ تاریخ ہر دور میں ان کے ان عظیم کاموں اور فقید المثال خدمات  کی بنا پر ان کے نام کی تعظیم کرے گی۔ اردو زبان و ادب کی نئی بستیاں بسانے اور دیار غیر میں گلشن اردو کو خون جگر سے سیراب کرنے والوں میں وحید بخش غیاث کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جب وہ 1958میں مسقط میں مقیم تھے تو انھوں نے اس سر زمیں پر پہلی مرتبہ ایک عظیم ثقافتی پروگرام ترتیب دیا۔ ایک عظیم الشان عالمی اردو مشاعرہ کا انعقاد اور اس کے بعد ایک ثقافتی پروگرام میں نامور گلوکار مہدی حسن کی شرکت سے اس محفل کی رونق کو چار چاند لگ گئے۔ قطر میں انھوں نے ایک علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم قائم کی جو کہ’’ پاکستان کلچرل کونسل ‘‘کے نام سے اب بھی ایک فعال اور مستعد تنظیم ہے۔ وحید بخش غیاث اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ علمی، ادبی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں وہ ہمیشہ گہری دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ انھوں نے قطر میں جو علمی، ادبی اور ثقافتی تنظیم قائم کی وہ اس کے بانی بھی تھے اور اس کے صدر بھی وہی تھے۔ اپنے قیام کے عرصے میں انھوں نے اس تنظیم کے زیر اہتمام متعدد یاد گار تقریبات کا انعقاد کیا ان میں سے ایک یادگار تقریب وہ بھی تھی جس میں پاکستان کے مایہ ناز اداکار اور کامیڈین معین اختر نے قطر میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور پوری دنیا سے آئے ہوئے ناظرین کو اپنی لا زوال کارکردگی سے مسحور کر دیا۔ قطر میں اس نوعیت کی تقریبات اب روز کا معمول بن گئیں۔ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی والی کیفیت تھی اور مرحلہ شوق کا یہ عالم تھا کہ کبھی طے ہونے میں نہ آتا تھا۔ وحید بخش غیاث ان سب تقریبات کی روح رواں اور بانی اور منتظم ہوتے تھے۔ شاخ چمن سے پرواز کے بعد اگرچہ وہ طویل عرصہ تک عذاب در بدری سہتے رہے لیکن اس کے باوجود مٹی کی محبت میں ایسے تمام قرض بھی ادا کرتے رہے جو کہ ان پر واجب بھی نہیں تھے۔ مجھے وحید بخش غیاث کی شخصیت کا احوال پڑھتے وقت بے اختیار مجید امجد کے یہ شعر یاد آ گئے۔ انھوں نے وطن سے محبت کا جس طرح حق ادا کیا ہے اس کی ترجمانی ان اشعار میں بہ طریق احسن کی گئی ہے۔ وہ جہاں بھی رہے  اگرچہ ہماری آنکھ سے دور رہے مگر دل سے کبھی دور نہ ہوئے۔

اک عمر دل کی گھات سے تجھ پر نگاہ کی

تجھ پر تری نگاہ سے چھپ کر نگاہ کی

روحوں میں جلتی آگ خیالوں میں کھلتے پھول

ساری صداقتیں کسی کافر نگاہ کی

جب بھی غم زمانہ سے آنکھیں ہوئیں دو چار

منہ پھیر کر تبسم دل سے نگاہ کی

      وحید بخش غیاث کا نام ہر پاکستانی کی لوح دل پر لکھا ہے۔ وہ محب وطن پاکستانیوں کے لیے اجنبی کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایک ایسا محسن جس نے اپنی عمر عزیز کے پچاس سال دیار غیر میں وطن کی عظمت اور وقار کا پرچم بلند رکھنے کے لیے جد و جہد کی اسے ہر پاکستانی دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرنے میں کبھی تامل نہیں کرے گا۔ ا یام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے وقت ان کا نام دلوں کو مرکز مہرو و فا کرتا رہے گا۔ وہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں قومی، ملی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر نہایت پر تاثیر اسلوب اپنایا گیا ہے۔ ان کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کو پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے۔ ان کی موضوعاتی قومی شاعری پر ان کو متعدد اعزازات سے نواز ا گیا۔ وہ قطر میں پاکستان ایجوکیشن سنٹر کے بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔ ان کی کوشش رہی کہ جس طرح بھی ممکن ہو تعمیر وطن کا عظیم کام جاری رکھا جائے۔ اپنی زندگی کے حسین دن دیار غیر میں گزارنے والے اس نابغہ روزگار تخلیق کار نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے اردو زبان و ادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ کیا اس کی بنا پر ہرپاکستانی کا سر ان کے سامنے خم رہے گا۔ مجید امجد کے یہ شعر میرے جذبات کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔

باگیں کھنچیں ، مسافتیں کڑکیں ، فرس رکے

ماضی کی رتھ سے کس نے پلٹ کر نگا ہ کی

دونوں کا ربط ہے تری موج خرام سے

لغزش خیال کی ہو کہ ٹھوکر نگاہ کی

          جدید اردو نظم کو موضوعاتی تنوع عطا کرنے کے سلسلے میں وحید بخش کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کلام اردو کے ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ علمی اور ادبی حلقوں کے لیے ان کا نام کسی تعارف کا محتاج  نہیں۔ ان کی متعدد موضوعاتی نظمیں قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھیں۔ تعلیم ادارے ہوں یا ادبی محفلیں ان میں وحید بخش غیاث کی شرکت سے یہ محفلیں رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں سمیت  نگاہوں میں گھومنے لگتی ہیں۔ ان کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے کہ یہی تو وہ جگہ ہے کہ جہاں خلوص و محبت کا زم زم رواں دواں ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیں۔ ان کی شاعری سچے جذبات کی ترجمان ہے۔ ان کی چند نظمیں جو اپنے عہد میں بے حد مقبول ہوئی ان میں ’’خواب ‘‘، ’’یوم آزادی ‘‘، ’’پیروی دین حنیف ‘‘، ’’برکات رمضان شریف ‘‘، ’’ آشوب روزگار ‘‘’’سچ کی طاقت ‘‘، ’’شعرائے کرام سے گزارش ‘‘  اور  ’’فرق ذات پات ‘‘شامل ہیں۔ وحید بخش غیاث نے ہر صنف شعر میں اپنی تخلیقی فعالیت کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی شاعری میں نظم، غزل، قطعات، تضمین، حمد اور نعت شامل ہیں۔ ان  کی شاعری میں وطن سے دوری کا احساس نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ان کی طویل نظمیں پڑھنے کے بعد فرط جذبات سے آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ انھوں نے ہر جگہ اہل وطن کو آزادی کی اہمیت اور وطن سے محبت کا احساس دلایا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شکم کی بھوک انسان کو در بہ در لیے پھرتی ہے لیکن ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو اس عذاب در بہ دری پر غالب آ جاتا ہے اور وہ  حب الو طنی کا جذبہ ہے۔ انسان کہیں بھی رہے وطن اور اہل وطن کی حسین اور دل کش یادیں اس کے ساتھ رہتی ہیں۔ وحید بخش غیاث کے ساتھ مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ وہ تو دیار غیر میں وطن اور اہل وطن کے ساتھ کیے جانے والے پیمان وفا کو نبھاتے رہے مگر اہل وطن نے نے اپنی غفلت کے باعث انھیں وہ حقیقی مقام نہیں دیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔ وہ عظیم ادیب جس کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کا پوری دنیا کے اخبارات و جرائد میں اعتراف کیا گیا۔ روزنامہ گلف نیوز (Gulf News)نے اپنی 7۔ اگست 1986کی اشاعت میں اپنے ایک طویل مضمون میں وحید بخش غیاث کو شاعر اردو اور شاعر پاکستان کے نام سے یاد کیا ہے۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ وحید بخش غیاث نے تمام عمر ایک ایسے ادیب کی حیثیت سے وقت گزارا جس نے نمود و نمائش سے ہمیشہ دامن بچایا۔ متعدد عالمی اخبارات و جرائد نے ان کی علمی، ادبی، ملی اور لسانی خدمات کہ بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے ان کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے ایک عینی شاہد ہیں۔ انھوں نے وطن کے قیام سے لے کر اس کے دو لخت ہونے تک کے تمام مراحل دیکھے ہیں ان کے اسلوب میں جو سوزنہاں اور قلبی درد ہے وہ انھیں اپنے معاصر شعرا میں منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ایک جذبہ جو ہر جگہ پوری قو ت کے ساتھ  جلوہ گر ہے وہ وطن کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کرنے کا جذبہ ہے۔ وہ جہاں بھی رہے، جس حال میں بھی رہے وطن اور اہل وطن کی یاد سے کبھی غافل نہیں رہے۔ بہ قول افتخار نسیم :

اداس بام، کھلا در پکارتا ہے مجھے

جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے

              میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ وحید بخش غیاث کے دل کی دھڑکنوں کے تار سے ایک ہی نغمہ پھوٹتا ہے اور اس کی دھن سے سب لوگ وجد میں آ جاتے ہیں۔ وہ نغمہ ہے ’’اے نگار وطن تو سلامت رہے۔ ۔ ۔ مانگ  تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم ‘‘۔ ایسے درد مند دل رکھنے والے محب وطن پاکستانی کے لیے کون ہے جو سراپا سپاس نہ ہو گا۔ ایسے پر عزم اور با ہمت لوگ ملک و قوم کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان کی قومی خدامت کا عدم اعتراف نہ صرف ایک مہلک تاریخی غلطی ہے بلکہ اسے نا شکری پر بھی محمول کیا جائے گا۔  وحید بخش غیاث اپنے اسلوب کے معجز نما اثر سے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر دکھانے پر قادر ہیں۔ مجروح سلطان پوری نے ایسے ہی اہل دل کے بارے میں کہا تھا جنھوں نے اپنی ہمت، مسقل مزاجی ور سعی پیہم سے حالات کا رخ بدل دیا۔

اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں

موج کو گیسو، بھنور کو چشم جاناناں کہیں

           وحید بخش غیاث کی شاعری میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے۔ اس شمع  کو فروزاں رکھنے کے لیے اردو زبان و ادب کے پروانوں کی دل سوزی نا گزیر ہے۔ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی صلاحیت سے متمتع ہیں۔ زبان و  بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ان کی بات دل سے نکلتی ہے اور سیدھی دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ مسلسل شکست دل کے باعث بے حسی کا عفریت ہمارے سر پر  منڈلا رہا ہے۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن اور اپنی ہوا میں خراماں خراماں پھرتا دکھائی دیتا ہے۔ شہر نا پرساں میں ایک حساس تخلیق کار کی چشم تر پر کو ن نگاہ ڈالتا ہے۔ آئیے وحید بخش غیاث کی شاعری کے چند نمونے دیکھ لیں۔ اپنی شاعری میں انھوں نے اصلاح اور مقصدیت کو ہمیشہ اولیت دی ہے۔

وطن سے شان ہوتی ہے، وطن پہچان ہوتا ہے

وطن سے آن ہوتی ہے، وطن ایمان ہوتا ہے

وطن کچھ مانگتا بھی ہے، وطن والو ذرا سوچو

وطن پر جو نچھاور ہو، وطن کو مان ہوتا ہے

         وحید بخش غیاث اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم  و ادب ہیں۔ حب الوطنی، انسانی ہمدردی، خلوص اور دردمندی، بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے جذبات ان کے قلب و روح اور جسم و جاں میں رچ بس گئے ہیں۔ انھوں نے وطن اور اہل وطن سے والہانہ محبت کی جو بزم اپنے نہاں خانہ دل میں سجا رکھی ہے وہ ہمیشہ حسین یادوں سمیت نکھری رہتی ہے۔ ہجر و فراق اور وطن سے دوری کا کرب سہتے سہتے انھوں نے صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔ کئی بار تغافل احباب کے باعث ان کے سینہ سوزاں میں اشک رواں کی لہر اٹھی لیکن پھر بھی انھوں نے ضبط کو شعار بنایا اور بغیر آنسوؤں کے رو کر تزکیہ نفس کرنے کی صورت تلاش کر لی۔ ان کے صبر و تحمل کے سامنے گل و یا سمن بھی لب بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دل میں ایک ہی تمنا ہے کہ جب ساری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے تو پاکستان کے غم زدہ طبقے کا حال بھی بدلنا چاہیے۔ ان کے فکر و خیال کا محور  ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود، معاشرتی امن و سکون اور سماجی  زندگی کی فلاح و بہبود  رہا ہے۔ زندگی کی برق رفتاریوں نے فطرت، معاشرے اور سماج میں جو بعد، تضاد اور کشمکش کی کیفیت پیدا کر دی ہے اس پر انھیں شدید تشویش ہے۔ ان کی دلی تمنا ہے کہ ادب کے وسیلے سے زندگی کو درپیش ابتلا اور آزمائش سے عہدہ بر آ ہو ن وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ وہ ادب کو انسانی زندگی کے سب سے اہم  اور موثر شعبے کی حیثیت سے قومی زندگی کے تمام پہلوؤں پر منطبق کرنے کے آرزو مند ہیں۔ ایک بزرگ اور جہاں دیدہ ادیب کی حیثیت سے وہ پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی  اور تاریخی میراث پر گہری نظر رکھتے ہیں۔  وہ قومی کلچر کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں  اور اس ترقی کی راہ میں حائل فصیل جبر کو وہ تیشہ حرف سے منہدم کرنے کی کوشش میں  ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ فسطائی جبر کے خلاف وہ قلم بہ کف مجاہد  کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ زندگی کی حیات آفریں قوتوں کے روشن مستقبل کے بارے میں حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی جائے اور ہوائے جوروستم میں بھی اسے گل نہ ہونے دیا جائے۔ ان کی دلی آرزو ہے کہ نئے تخلیق کاروں کو پرورش لوح قلم کے اہم منصب سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے معاشرتی زندگی کو صحت مند رجحانات کے فروغ کو ہمیشہ اپنی  اولین ترجیح سمجھنا چاہیے۔ ان کی تخلیقات میں اس کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس کا اندازہ ان کی نظموں کے مطالعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کی نظمیں ’’سچ کی طاقت ‘‘ ،  ’’فرق ذات پات ‘‘، ’ ’ شعرائے کرام سے گزارش ‘‘یوم آزادی ‘‘، آشوب روزگار ‘‘، ’’ شاہ نامہ پاکستان ‘‘، ’’  اور آشوب روزگار ‘‘ان کے ذوق سلیم کی مظہر ہیں۔ ان کی شاعری جہاں فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہو تی ہے وہاں اس کے اعجاز سے قاری کے ذوق سلیم کو صیقل کیا ہے۔ یہ شاعری قاری کے لیے قلبی، روحانی اور ذہنی تسکین کی متاع بے بہا سے لبریز ہے۔ وحید بخش غیاث نے ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف ہمیشہ کھل کر لکھا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نے مظلوم اور قسمت سے محروم محنت کش طبقے پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ اس نظام کے مسموم اثرات زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایت کو شدید ضعف پہنچایا ہے۔ ان حالات میں مجبور انسانیت  کے لیے وہ دلی تڑپ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی نظم ’’آشوب روزگار ‘‘ان کے ترقی پسندانہ شعور کی مظہر ہے :

روٹی نہیں ہے کپڑا نہیں ہے مکان بھی

ہر ایک اپنے حال پہ زار و قطار ہے

اس بے بسی کے دور میں بے کس ہوئے ہیں سب

مجبوریوں کے جال میں اک اک شکار ہے

یہ لوٹ مار، خان خرابہ ہے چار سو

دنیا کے کونے کونے سے چیخ و پکار ہے

بچہ بلک رہا ہے مگر ماں میں دم نہیں

بیٹی کے غم میں باپ کا سینہ فگار ہے

نفرت کی آندھیاں ہیں عداوت کی بجلیاں

ہر آشیاں کے گرد انھی کا حصار ہے

چولے بدل رہے ہیں نئی چال چل کے لوگ

مکر و فریب سب نے بنایا شعار ہے

سانسوں کے تار ٹوٹ رہے ہیں ادھر ادھر

اور چارہ گر کے سر پہ وزارت سوار ہے

ان سب کا ایک حل ہے نظر میں غیاث کی

دامن میں پھول بھر کے کہو سب سے پیا ر ہے

         وحید بخش غیاث کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ  اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے آرزو مند ہیں۔ وہ تخلیق فن کے لمحوں میں مظلوم کی حمایت کو ادب کے معیار کی علامت سمجھتے ہیں۔ کئی ترقی پسند ادیبوں سے ان کے قریبی تعلقات زندگی بھر قائم رہے۔ ہاجرہ مسرور  کے خاندان کے بزرگوں سے ان کی قطر میں ملاقات ہوئی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وحید بخش غیاث اپنی خود نوشت میں ان تمام یادوں کو شامل کر لیں۔ وحید بخش غیاث نے معاشرے کے مفلوک الحال اور پس ماندہ طبقے کے مصائب و آلام کو پورے خلوص اور دردمندی سے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔  ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے وحید بخش غیاث نے اردو سوانح نگار ی، سفرنامے، شاعری اور تاریخ کے بارے میں اپنے اسلوب سے اردو زبان و ادب کو ثروت مند بنایا ہے۔ ان کی غیر مطبوعہ تصانیف جلد زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آنے والی ہیں۔ ان کے اسلوب میں تحلیل و تجزیہ کا عنصر قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ وہ قنوطیت سے دامن بچا کر ہمیشہ پر عزم رہنے پر اصرار کرتے ہیں۔  نثر ہو یا نظم ان کی انفرادیت کا جادو ہر صنف ادب میں  سر چڑھ کر بو لتا ہے۔ وہ مفلس کے تبسم کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے ہیں کہ اس غیور کے سینے میں ابھی تک فاقوں کی سکت باقی ہے ان کی تحریریں قاری کو ایک جہاں تازہ کی سیر کراتی ہیں۔ پاکستان کے ممتاز ادیبوں کی تخلیقی کامرانیوں کو وہ بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں۔ جب بھی کسی ادیب کی کوئی تحریر ان کو پسند آتی ہے وہ بلا تامل اسے خط لکھ کر یا ٹیلی  فون کے ذریعے اس کی تحسین کرتے  ہیں۔ یہ ان کی علم دوستی اور ادب پروری کی دلیل ہے۔

          پاکستان کے ممتاز ادبی مجلات میں وحید بخش غیاث کا کلام پڑھ کر ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ابھی کچھ لوگ اس جہاں میں ایسے بھی باقی ہیں جو قومی مفاد کو ہر قسم کے ذاتی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں اور جن کی تخلیق کے سوتے وطن اور اہل وطن کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی کے جذبات سے پھوٹتے ہیں۔ اردو زبان میں انھوں نے اپنی گل افشانیِ گفتار سے ایک دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے۔ نظم ہو یا نثر وہ ہر صنف ادب میں اپنی کامرانیوں کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔ اردو نثر میں انھوں نے جن اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ان میں افسانہ، انشائیہ، خاکہ، سفرنامہ، منظوم سفر نامہ  اور خود نوشت شامل ہیں۔ زبان و بیان کی سلاست اور اسلوب کی انفرادیت ہر صنف ادب میں ان کو اہم مقام عطا کرتی ہے۔ مجھے یہ جان کر دلی مسرت ہوئی ہے کہ وحید بخش غیاث کی نمائندہ تحریروں پر مشتمل ایک کتاب جلد شائع ہو رہی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے نہ صرف اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہو گا بل کہ اردو زبان و ادب کے طالب علم بھی اس عظیم دانش ور کے بارے میں اہم معلومات سے فیض یاب ہوں گے۔ اپنے زور طبع سے کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دینے والے اس صاحب طرز ادیب کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ 1936میں ڈیرہ غازی خان کے ایک متوسط گھرانے کے معمار کے ہاں جنم لینے والے اس صاحب بصیرت ادیب نے اس وقت کے حالات کے مطابق میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی میں اپنی دنیا آپ پیدا کی۔ تجارت اور کاروبار میں دیانت سے خود کفالت حاصل کی اور کبھی باب رعایت سے داخل ہونے کا خواب نہ دیکھا۔ وطن کی تعمیر و ترقی کا جو خواب انھوں نے دیکھا تھا اس کی تعبیر انھیں اہل وطن کی جد و جہد میں دکھائی دی۔ اس پر وہ اطمینان کا اظہار کرتے ہیں اور شکوہ ظلمت شب کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کی خاندانی شرافت، دیانت اور وقار کی وجہ سے ان کو معاشرتی زندگی میں جو قدر و منزلت نصیب ہوئی وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔ وحید بخش غیاث جیسے درویش منش اور منکسر المزاج  ملک و قوم کے بے لوث خادم ملی اثاثہ ہوتے ہیں ان کا وجود اللہ کریم کی نعمت ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسے لوگوں کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کریم نے اپنی کائنات کے نظام کو بہ طریق احسن چلانا ہے۔ جب تک ایسے نابغہ روزگار لوگ ہماری صفوں میں موجود رہیں گے ہمیں اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں کسی تشویش کی ضرورت نہیں۔ علم و ادب کے ایسے روشن ستارے اذہان کی تطہیر وتنویر کا وسیلہ ہیں۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ انھیں سدا شاد و آباد رکھے اور ان کا دامن راحتوں اور مسرتوں سے معمور رہے۔ وہ ہر پاکستانی کے لیے سرمایہ افتخار ہیں ۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید