FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

گل مہر ہے زندگی

 

 

 

                   عدم گونڈوی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

زلف، انگڑائی، تبسم، چاند، آئینہ،  گلاب

بھکمری کے مورچے پر ڈھل گیا ان کا شباب

 

پیٹ کے بھوگول میں الجھا ہوا ہے آدمی

اس عہد میں کس کو فرصت ہے پڑھے دل کی کتاب

 

اس صدی کی تشنگی کا زخم ہونٹوں پر لئے

بے یقینی کے سفر میں زندگی ہے اک عذاب

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

سبھیتا رجنیش کے حمام میں ہے بے نقاب

 

چار دن فٹ پاتھ کے سائے میں رہ کر دیکھیئے

ڈوبنا آسان ہے آنکھوں کے ساگر میں جناب

٭٭٭

 

 

 

 

 

جسم کیا ہے روح تک سب کچھ خلاصہ دیکھیئے

آپ بھی اس بھیڑ میں گھس کر تماشا دیکھیئے

 

جو بدل سکتی ہے اس پلیا کے موسم کا مجاز

اس یوا پیڑھی کے چہرے کی ہتاشا دیکھیئے

 

جل رہا ہے دیش یہ بہلا رہی ہے قوم کو

کس طرح اشلیل ہے کوتا کی بھاشا دیکھیئے

 

متسیہ گندھا پھر کوئی ہوگی کسی رشی کا شکار

دور تک پھیلا ہوا گہرا کہاسا دیکھیئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

چاند ہے زیرِ قدم۔ سورج کھلونا ہو گیا

ہاں، مگر اس دور میں کردار بونا ہو گیا

 

شہر کے دنگوں میں جب بھی مفلسوں کے گھر جلے

کوٹھیوں کی لان کا منظر سلونا ہو گیا

 

ڈھو رہا ہے آدمی کاندھے پہ خود اپنی صلیب

زندگی کا فلسفہ جب بوجھ ڈھونا ہو گیا

 

یوں تو آدم کے بدن پر بھی تھا پتوں کا لباس

روح عریاں کیا ہوئی موسم گھنونا ہو گیا

 

اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں

اس عہد میں پیار کا سمبل تکونا ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کاجو بھنے پلیٹ میں وسکی گلاس میں

اترا ہے رام راج ودھایک نواس میں

 

پکے سماجوادی ہیں تسکر ہوں یا ڈکیت

اتنا اثر ہے کھادی کے اجلے لباس میں

 

آزادی کا وہ جشن منائیں تو کس طرح

جو آ گئے  فٹ پاتھ پر گھر کی تلاش میں

 

پیسے سے آپ چاہیں تو سرکار گرا دیں

سنسد بدل گئی ہے یہاں کی نخاص میں

 

جنتا کے پاس ایک ہی چارہ ہے بغاوت

یہ بات کہہ رہا ہوں میں ہوش و حواس میں

٭٭٭

 

 

 

 

آپ کہتے ہیں سراپا گل مہر ہے زندگی

ہم غریبوں کی نظر میں اک قہر ہے زندگی

 

بھکمری کی دھوپ میں کمہلا گئی عصمت کی بیل

موت کے لمحات سے بھی تلخ تر ہے زندگی

 

ڈال پر مذہب کی پیہم کھل رہے دنگوں کے پھول

خواب کے سائے میں پھر بھی بے خبر ہے زندگی

 

روشنی کی لاش سے اب تک زِنا کرتے رہے

یہ وہم پالے ہوئے شمس و قمر ہے زندگی

 

دفن ہوتا ہے جہاں آ کر نئی پیڑھی کا پیار

شہر کی گلیوں کا وہ گندا اثر ہے زندگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھوک کے احساس کو شعر و سخن تک لے چلو

یا ادب کو مفلسوں کی انجمن تک لے چلو

 

جو غزل معشوق کے جلووں سے واقف ہو گئی

اس کو اب بیوہ کے ماتھے کی شکن تک لے چلو

 

مجھ کو نظم و ضبط کی تعلیم دینا بعد میں

پہلے اپنی رہبری کو آچرن تک لے چلو

 

گں گا جل اب برژوا تہذیب کی پہچان ہے

تشنگی کو وودکا کے آچرن تک لے چلو

 

خود کو زخمی کر رہے ہیں غیر کے دھوکے میں لوگ

اس شہر کو روشنی کے بانکپن تک لے چلو

٭٭٭

 

 

 

 

غزل کو لے چلو اب گاؤں کے دلکش نظاروں میں

مسلسل فن کا دم گھٹتا ہے ان ادبی اداروں میں

 

نہ ان میں وہ کشش ہوگی، نہ بو ہوگی، نہ رعنائی

کھلیں گے پھول بیشک لان کی لمبی قطاروں میں

 

ادیبو! ٹھوس دھرتی کی سطح پر لوٹ بھی آؤ

ملمع کے سوا کیا ہے فلک کے چاند تاروں میں

 

رہے مفلس گزرتے بے یقینی کے تجربے سے

بدل دیں گے یہ ان محلوں کی رنگینی مزاروں میں

 

کہیں پر بھکمری کی دھوپ تیکھی ہو گئی شائد

جو ہے سنگین کے سائے کی چرچا اشتہاروں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

وہ جس کے ہاتھ میں چھالے ہیں پیروں میں بوائی ہے

اسی کے دم سے رونق آپ کے بنگلے میں آئی ہے

 

ادھر اک دن کی آمدنی کا اوسط ہے چونی کا

ادھر لاکھوں میں گاندھی جی کے چیلوں کی کمائی ہے

 

کوئی بھی سرپھرا دھمکا کے جب چاہے زنا کر لے

ہمارا ملک اس معنے میں بدھوا کی لگائی ہے

 

کہ روٹی کتنی مہنگی ہے یہ وہ عورت بتائے گی

کہ جس نے جسم گروی رکھ کے یہ قیمت چکائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ہندو یا مسلم کے احساسات کو مت چھیڑیے

اپنی کرسی کے لئے جذبات کو مت چھیڑیے

 

ہم میں کوئی ہون، کوئی شک، کوئی منگول ہے

دفن ہے جو بات، اب اس بات کو مت چھیڑیے

 

غلطیاں بابر کی تھی، جمن کا گھر پھر کیوں جلے

ایسے نازک وقت میں حالات کو مت چھیڑیے

 

ہیں کہاں ہٹلر، ہلاکو، زار یا چنگیز خاں

مٹ گئے سب، قوم کی اوقات کو مت چھیڑیے

 

چھیڑیے اک جنگ، مل جل کر غریبی کے خلاف

دوست میرے مذہبی نغمات کو مت چھیڑیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جس کے سموہن میں پاگل دھرتی ہے آکاش بھی ہے

ایک پہیلی سی دنیا یہ گلپ بھی ہے اتہاس بھی ہے

 

چنتن کے سوپان پہ چڑھ کر چاند ستارے چھو آئے

لیکن من کی گہرائی میں ماٹی کی بو باس بھی ہے

 

اندر دھنش کے پل سے گزر کر اس بستی تک آئے ہیں

جہاں بھوک کی دھوپ سلونی چنچل ہے بند اس بھی ہے

 

کنکریٹ کے اس جنگل میں پھول کھلے پر گندھ نہیں

سمرتیوں کی گھاٹی میں یوں کہنے کو مدھماس بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گر چند تواریخی تحریر بدل دو گے

کیا ان سے کسی قوم کی تقدیر بدل دو گے

 

جایس سے وہ ہندی کی دریا جو بہہ کے آئی

موڑو گے اس کی دھارا یا نیر بدل دو گے

 

جو عکس ابھرتا ہے رسکھان کی نظموں میں

کیا کرشن کی وہ موہک تصویر بدل دو گے

 

تاریخ بتاتی ہے تم بھی تو لٹیرے ہو

کیا دروڑوں سے چھینی جاگیر بدل دو گے

٭٭٭

 

 

 

 

تمہاری فائلوں میں گاؤں کا موسم گلابی ہے

مگر یہ آنکڑے جھوٹے ہیں یہ دعویٰ کتابی ہے

 

ادھر جمہوریت کا ڈھول پیٹے جا رہے ہیں وہ

ادھر پردے کے پیچھے بربریت ہے، نوابی ہے

 

لگی ہے ہوڑ سی دیکھو امیری اور غریبی میں

یہ گاندھی واد کے ڈھانچے کی بنیادی خرابی ہے

 

تمہاری میز چاندی کی تمہارے جام سونے کے

یہاں جمن کے گھر میں آج بھی پھوٹی رکابی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو گھر میں ٹھنڈے چولہے پر اگر خالی پتیلی ہے

بتاؤ کیسے لکھ دوں دھوپ پھاگن کی نشیلی ہے

 

بھٹکتی ہے ہمارے گاؤں میں گونگی بھکارن سی

صبح سے فروری بیمار پتنی سے بھی پیلی ہے

 

بغاوت کے کمل کھلتے ہیں دل کی سوکھی دریا میں

میں جب بھی دیکھتا ہوں آنکھ بچوں کی پنیلی ہے

 

سلگتے جسم کی گرمی کا پھر احساس ہو کیسے

محبت کی کہانی اب جلی ماچس کی تیلی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جو الجھ کر رہ گئی ہے فائلوں کے جال میں

گاؤں تک وہ روشنی آئے گی کتنے سال میں

 

بوڑھا برگد ساکشی ہے کس طرح سے کھو گئی

رمسدھی کی جھوپڑی سرپنچ کی چوپال میں

 

کھیت جو سیلنگ کے تھے سب چک میں شامل ہو گئے

ہم کو پٹے کی سند ملتی بھی ہے تو تال میں

 

جس کی قیمت کچھ نہ ہو اس بھیڑ کے ماحول میں

ایسا سکہ ڈھالیے مت جسم کی ٹکسال میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہ محلوں کی بلندی سے نہ لفظوں کے نگینے سے

تمدن میں نکھار آتا ہے گھیسو کے پسینے سے

 

کہ اب مرکز میں روٹی ہے، محبت حاشیے پر ہے

اتر آئی غزل اس دور میں کوٹھی کے زینے سے

 

ادب کا آئینہ ان تنگ گلیوں سے گزرتا ہے

جہاں بچپن سسکتا ہے لپٹ کر ماں کے سینے سے

 

بہارِ بیکراں میں تا قیامت کا سفر ٹھہرا

جسے ساحل کی حسرت ہو اتر جائے سفینے سے

 

ادیبوں کی نئی پیڑھی سے میری یہ گزارش ہے

سنجو کر رکھیں ‘دھومل’ کی وراثت کو قرینے سے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ پر پٹّی رہے اور عقل پر تالا رہے

اپنے شاہی وقت کا یوں مرتبہ اعلیٰ رہے

 

طالبِ شہرت ہیں کیسے بھی ملے ملتی رہے

آئے دن اخبار میں پرتی بھوتی گھوٹالا رہے

 

ایک جن سیوک کو دنیا میں عدم کیا چاہئیے

چار چھ چمچے رہیں مائک رہے مالا رہے

٭٭٭

 

 

 

جو ڈلہوزی نہ کر پایا وہ یہ حکام کر دیں گے

کمیشن دو تو ہندوستان کو نیلام کر دیں گے

 

یہ وندے ماترم کا گیت گاتے ہیں صبح اٹھ کر

مگر بازار میں چیزوں کا دوگنا دام کر دیں گے

 

سدن میں گھوس دے کر بچ گئی کرسی تو دیکھو گے

وہ اگلی یوجنا میں گھوس خوری عام کر دیں گے

٭٭٭

ہندی سے اردو رسم الخط میں  تبدیلی: اعجاز عبید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید