FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

گلستاں کی کہانیاں

 

پیشکش: تصنیف حیدر

 

                شیخ سعدی

 

 

 

 

 

بادشاہ اور قیدی

 

کسی بادشاہ نے ایک قیدی کے قتل کا حکم دیا۔ قیدی بیچارہ جب زندگی سے ناامید ہو گیا تو اس نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں دیں۔ کسی نے سچ کہا ہے:

جو اپنی جان سے ہاتھ دھو لیتا ہے وہ جو جی میں آتا ہے کہہ گذرتا ہے۔ مجبوری کے وقت جب بھاگنے کا موقع نہیں ملتا ہے تو انسان اپنی جان بچانے کے لیے تیز تلوار کی دھار کو ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اسی طرح جب آدمی اپنی زندگی سے ناامید ہو جاتا ہے تو اس کی زبان کھل جاتی ہے جس طرح مجبور بلّی تنگ آ کر کتّے پر حملہ کر دیتی ہے!

بادشاہ نے پوچھا یہ قیدی کیا کہہ رہا تھا۔ ایک نیک خصلت وزیر نے جواب دیا۔ حضور یہ قیدی کہہ رہا ہے کہ وہ لوگ بہت اچھے ہوتے ہیں جو غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطا معاف کر دیتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ کو رحم آگیا اور اس نے قیدی کی خطا معاف کر دی اور اس کو رہا کر دیا۔

یہ دیکھ کر ایک دوسرا وزیر جو پہلے وزیر کا دشمن تھا، بول اٹھا کہ ہمارے ساتھی وزیر کو جھوٹ نہ بولنا چاہیے۔ اس قیدی نے بادشاہ کو بُرا بھلا کہا اور گالیاں بھی دیں۔ بادشاہ اس کی بات سن کر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ پہلے وزیر کی جھوٹی بات تمھاری سچّی بات سے مجھے زیادہ پسند آئی۔ کیونکہ وہ اس موقع پر مناسب تھی اور تم نے جو سچّی بات بتائی وہ مناسب نہ تھی اور تم نے بُری نیت سے کہی تھی۔ عقل مند لوگوں نے کہا کہ جھگڑا فساد پیدا کرنے والی سچّی بات سے وہ جھوٹی بات کہنا زیادہ بہتر ہے کہ جس سے فساد پیدا ہونے کا ڈر ہو۔ (بادشاہ جس شخص کا کہنا مانتا ہو اس کو چاہیے کہ مناسب بات کرے) ایران کے بادشاہ فریدوں نے اپنے محل کے دروازے پر یہ تحریر لکھوائی تھی:

اے بھائی! یہ دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتی۔ تم اپنے دل میں صرف اللہ کی محبت کو جگہ دو دنیا کی جائداد پر ہرگز بھروسہ نہ کرو۔ اس دنیا نے تم جیسے بہت لوگوں کو پالا، پوسا اور بڑا کیا اور مار ڈالا۔

جب انسان کی عمر ختم ہونے کا وقت آتا ہے اور جان بدن سے نکلنے لگتی ہے تو اس وقت چاہے شاہی تخت پر دم نکلے، چاہے خالی زمین پر برابر ہے کیونکہ آخر میں سب مٹی میں مل جاتے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

بد شکل شہزادے کی سمجھ داری

 

ایک شہزادہ بدصورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ’’اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔

ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے!

بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔

جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔

ہر جنگل کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرو کہ وہ خالی ہوگا، تمہیں کیا خبر کہ اس میں کہیں شیر سو رہا ہو۔

میں نے سنا ہے کہ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر کہا:

میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا!

جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں!

یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔ جب باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا:

اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا!

کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔ بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنایا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بد شکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زور سے بند کیے۔ شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔

اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا!

باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصّہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔ سچّی بات یہ ہے کہ دو فقیر ایک کمبل اوڑھ کر آرام سے لیٹ سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے:

اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

بھیڑیے کا بچّہ بھیڑ یا ہی ہوتا ہے

 

عرب کے لٹیروں کا ایک گروہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا تھا۔ ادھر سے گزرنے والے قافلوں کا راستہ بند کر رکھا تھا۔ پہاڑ کے نیچے جو راستہ تھا اس پر جب کوئی شخص یا قافلہ آتا تو لٹیرے پہاڑ سے اتر کر اسے لوٹ لیتے تھے۔ لوگوں نے ان کے ڈر سے اس طرف سفر کرنا چھوڑ دیا۔ پولیس اور فوج بھی ان لیٹروں کا پتہ نہ لگا سکی۔ کیونکہ جہاں وہ رہتے تھے بہت محفوظ جگہ تھی۔ وہاں پہنچنا آسان نہ تھا۔ بہت مدت تک یہ حالت رہی۔

جب لوگ بہت پریشان ہو گئے تو اس ملک کے بادشاہ نے لٹیروں کا پتہ لگانے کے لیے ایک جاسوس مقرر کیا۔ اس نے کوشش کر کے وہ ٹھکانہ دیکھ لیا جہاں لٹیرے رہتے تھے۔ ایک دن فوج کا ایک دستہ اس پہاڑ پر پہنچ کر ایک گھاٹی میں چھپ رہا۔ لٹیرے کہیں ڈاکہ ڈالنے گئے ہوئے تھے۔ شام کے وقت جب تھکے ماندے واپس آئے تو لوٹا ہوا سامان رکھ کر سب بے خبر سوگئے۔ جب ایک پہر رات گزر گئی تو فوج کے چھُپے ہوئے سپاہی گھاٹی سے خاموشی کے ساتھ نکلے اور اچانک ان لیٹروں پر حملہ کر دیا۔ سب کے ہاتھ مونڈھوں پر باندھ دیے اور گرفتار کر کے لے گئے۔

صبح کو سب بادشاہ کے سامنے پیش کیے گئے۔ اس نے سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اتفاق سے ان میں ایک نو عمر لڑکا بھی تھا۔ بادشاہ کے ایک وزیر کو اس لڑکے پر بہت رحم آیا۔ اس نے بادشاہ سے سفارش کی اور کہا حضور! اس لڑکے نے ابھی زندگی کا لطف بھی نہیں اٹھایا ہے، بہت کم سن ہے۔ میں انصاف پسند بادشاہ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس کو معاف کر دیا جائے۔ یہ مجھ پر بھی بڑا احسان ہوگا۔

بادشاہ کو وزیر کی سفارش پسند نہ آئی۔ اس نے جواب دیا جس کی ذات بُری ہے وہ نیک لوگوں کے ساتھ رہ کر نیک نہیں بن سکتا۔ نااہل کو پڑھانا لکھانا اور اس کی پرورش کرنا اسی طرح بیکار ہے جس طرح کسی گنبد پر اخروٹ رکھا جائے تو وہ اس پر نہ تو ٹھہرے گا نہ کوئی اثر کرے گا۔ تم نے سنا ہو گا کہ:

آگ بجھا کر ایک چنگاری چھوڑ دینا خطرناک ہوتا ہے اور سانپ کو مار کر اس کے بچّے کو پالنا عقلمندی کے خلاف ہے۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر بادشاہ نے پھر کہا:

اگر بادل کے اندر سے آب حیات برسے تب بھی بید کی ٹہنی میں پھل نہیں لگ سکتے۔ کسی کمینے کے ساتھ اپنی زندگی کا قیمتی وقت خراب نہ کرو اس سے تم کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ دیکھو چٹائی بنانے والے نرکل سے شکر نہیں بن سکتی!

وزیر نے بادشاہ کا جواب سنا اور چار و نا چار پسند کیا۔ لیکن پھر نہایت ادب سے عرض کیا کہ حضور نے جو کچھ فرمایا بالکل درست ہے۔ اگر یہ لڑکا ان لٹیروں کی صحبت میں تربیت حاصل کرتا تو انھیں کی طرح لٹیرا بن جاتا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ جب یہ نیک لوگوں کی صحبت میں رہے گا تو اس کی عادتیں اچھی ہو جائیں گی اور عقل مندوں جیسی خصلتیں اختیار کر لے گا۔ ابھی کم عمر ہے۔ لٹیروں کی عادتیں نہیں سیکھی ہیں۔ جیسی صحبت میں رہے گا، ویسا ہی اثر ہوگا۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ’’حضرت نوح ؑ پیغمبر کا بیٹا بُرے لوگوں میں بیٹھا تو ایک نبی کے خاندان سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا یہ بُری صحبت کا نتیجہ تھا۔

وزیر کی باتیں سُن کر بادشاہ نے اس لڑکے کو چھوڑ دیا اور وزیر سے کہا تم اس کو اپنے ساتھ رکھو اور اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرو۔ تمھارے کہنے سے اس کو چھوڑ رہا ہوں۔ ورنہ میں اس کو معاف کرنا پسند نہیں کرتا۔

وزیر نے اس لڑکے کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کر دیا۔ کئی استاد اس کو پڑھانے اور ادب سکھانے کے لیے مقرر کیے۔ کچھ عرصہ میں اُس کی عادتیں اچھی ہو گئیں اور لوگ اس لڑکے کی تعریف کرنے لگے۔

ایک روز بادشاہ کے سامنے وزیر نے اس لڑکے کا حال سنایا اور اس کی تعریف کی اور کہا کہ اب اس پر اچھی صحبت کا پورا اثر ہو گیا ہے اور جہالت کی باتیں بالکل بھول گیا ہے۔ بادشاہ وزیر کی باتیں سن کر مسکرایا اور کہا!

سچی بات یہ ہے کہ بھیڑیے کا بچہ آخرکار بھیڑیا ہی ہوتا ہے۔ چاہے وہ انسان کے ساتھ رہتے رہتے بوڑھا ہی کیوں نہ ہو جائے!

دو سال گزر گئے۔ محلّہ کے چند غنڈے لڑکوں سے اس لڑکے نے دوستی کر لی۔ ایک دن اس نے اپنے ساتھی بدمعاش لڑکوں کی مدد سے اپنے مہربان وزیر کو قتل کر دیا اور اس کے دونوں لڑکوں کو بھی مار ڈالا اور سارا مال و اسباب لے کر اسی پہاڑ کی چوٹی پر چلا گیا جہاں اس کا ڈاکو باپ رہا کرتا تھا۔ اس نے بھی لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا۔

جب بادشاہ کو خبر پہنچی تو اس نے حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں اور کہا!

خراب لوہے سے کوئی اچھی تلوار نہیں بنا سکتا ہے۔ نالائق لڑکا کبھی پڑھانے لکھانے سے لائق نہیں بن سکتا ہے۔

بارش کے پانی میں جو خوبی ہے اس کو سب جانتے ہیں۔ اس کے برسنے سے اچھی زمین میں پھول اور پھل پیدا ہوتے ہیں اور خراب زمین میں بارش کے پانی سے گھاس پھونس اگتی ہے۔

بُروں کے ساتھ نیکی کرنا ایسا ہی ہے جیسے نیک لوگوں کے ساتھ بُرائی کرنا!

٭٭٭

 

 

 

 

آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے

 

ایک بار کوئی بادشاہ اپنے نئے جاہل غلام کے ساتھ کشتی میں بیٹھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔ اسے نرمی کے ساتھ سمجھایا گیا اور ہر طرح اطمینان دلایا گیا لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت مکدّر ہو گئی اور سیروتفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کس طرح خاموش کریں۔ اس کشتی میں ایک عقل مند آدمی بیٹھا تھا اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اس کو چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے جواب دیا۔ آپ کی بہت مہربانی اور احسان ہوگا۔

اس عقل مند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے اس کے سر کے بال پکڑ کر کشتی کے پاس لائے اور اس کے دونوں ہاتھ باندھ کر کشتی کے پتوار میں لٹکا دیا۔ جب وہ پانی سے باہر نکالا گیا تو کشتی کے ایک گوشہ میں خاموش بیٹھ گیا۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقل مند آدمی سے پوچھا۔ بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا۔ اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔

جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جَو کی روٹی اچھی نہیں معلوم ہوتی۔ جو چیز ایک شخص کو بُری نظر آتی ہے وہی دوسرے کو بھَلی لگتی ہے۔ جو شخص کسی دوست کے آنے کا انتظار کر رہا ہو اس کی طبیعت بے چین و پریشان رہتی ہے اور جس کا عزیز یا دوست اس کے پاس ہو اس کو انتظار کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ دونوں کی حالت میں فرق ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

سب انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں

 

ایک بار میں دمشق کی جامع مسجد کے اندر حضرت یحییٰ ؑ کی قبر کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا۔ اتّفاق سے عرب کے ایک ملک کا بادشاہ وہاں زیارت کے لیے آیا۔ وہ بادشاہ ناانصافی میں مشہور تھا۔ پہلے اس نے نماز ادا کی۔ پھر خدا سے دعا مانگی کیونکہ:

مال دار اور فقیر سب خدا کے بندے ہیں اور اس کے نزدیک سب برابر ہیں۔ جو دنیا میں زیادہ دولت مند ہیں وہ خدا کے یہاں سب سے زیادہ محتاج ہیں!

اس کے بعد اس بادشاہ نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا آپ درویش ہیں اور سب کے فائدے کا خیال رکھتے ہیں آپ کا نیک عمل اور سچّائی خدا پسند کرتا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں۔ میں اس زمانے میں ایک بڑے دشمن کے ہاتھوں خطرہ میں ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ تم اپنی کمزور رعایا پر رحم کرو تاکہ طاقتور دشمن سے تم کو تکلیف نہ پہنچے یاد رکھو کہ:

جو شخص گرے پڑے مصیبت کے مارے ہوئے لوگوں پر مہربانی نہیں کرتا، شاید اس کو یہ ڈر نہیں ہوتا کہ اس کی مصیبت میں بھی کوئی اس کا ساتھ نہ دے گا!

جو برائی کا بیج بو کر اچھائی کی امید کرتا ہے وہ اپنا دماغ خراب کرتا ہے آدم کی اولاد یعنی تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ ایسا تعلق رکھتے ہیں جیسے ایک جسم کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ جب بدن کے کسی ایک حصّے میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ اسی طرح جب ایک انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو سب انسانوں کو بے چین ہو جانا چاہیے!

٭٭٭

 

ظالم کے لیے فقیر کی دعا

 

ایک بار شہر بغداد میں ایک فقیر آیا جس کی دعا قبول ہو جاتی تھی۔ لوگوں نے حجّاج کو یہ خبر پہنچائی (حجّاج ایک بہت ظالم گورنر تھا) اس نے فقیر کو بلایا اور کہا آپ میرے لیے بھلائی کی دعا کریں۔ فقیر نے دعا کی کہ اے خدا اس کی جان لے لے، حجّاج گھبرا گیا اور فقیر سے کہا۔ خدا کے لیے یہ نہ کہو۔ یہ کیسی دعا ہے جو تم نے مانگی ہے۔ فقیر نے جواب دیا۔ یہ دعا تیرے لیے بہت اچھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے۔

اے کمزوروں کو ستانے والے طاقتور آدمی بھلا یہ ظلم کا بازار کب تک گرم رہے گا۔ بادشاہی تیرے کس کام آئے گی۔ تم لوگوں کو ستاتے ہو اس لیے تمھارا مرنا ہی اچھا ہے!

(فقیر نے حجّاج کے لیے یہ دعا اس لیے کی تھی کہ اس کے مر جانے سے ہزاروں آدمی اس کے ظلم سے نجات پائیں گے اور خود اس کے گناہ کم ہوں گے جو اس کے لیے اچھا ہے)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ظالم کا سوجانا جاگنے سے بہتر ہے

 

ایک ظالم بادشاہ نے ایک نیک اور عبادت کرنے والے بزرگ سے پوچھا۔ کون سی عبادت سب سے اچھی ہے؟ اس بزرگ نے جواب دیا۔ تمھارے لیے دوپہر کو سوجانا سب سے اچھی عبادت ہے تاکہ تم اس تھوڑے وقت میں لوگوں کو نہ ستاؤ۔

میں نے ایک ظالم شخص کو دوپہر کے وقت سوتے ہوئے دیکھا تو میری زبان سے نکلا کہ یہ فتنہ ہے اس کا سوجانا ہی اچھا ہے۔

جس شخص کا سو رہنا جاگنے سے اچھا ہو اس کے لیے ایسی بُری زندگی سے مر جانا بہتر ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

بادشاہ اور فقیر

 

کسی بادشاہ نے ایک رات کو ناچ گانے میں اتنی دلچسپی لی کہ صبح ہو گئی۔ اس وقت بادشاہ عیش و آرام میں مست ہو کر کہہ رہا تھا:

میرے لیے دنیا میں اس وقت سے اچھا اور کوئی وقت نہیں ہے۔ نہ تو اس وقت اچھے بُرے کی فکر ہے نہ کسی کا غم!

محل کے نیچے ایک فقیر سردی میں ننگا لیٹا ہوا تھا۔ اس نے بادشاہ کی باتیں سن لیں اور پکار کر کہا!

اے بادشاہ! تیری شان و شوکت کا مقابلہ دنیا میں کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ میں نے مانا کہ تجھ کو کوئی غم نہیں ہے۔ مگر کیا ہمارا غم بھی نہیں ہے (یعنی ہم جیسے ننگے بھوکوں کی بھی فکر نہیں ہے)!

بادشاہ نے فقیر کی باتیں سن لیں۔ اس کے دل پر اثر ہوا۔ ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور کھڑکی سے باہر لٹکا کر کہا۔ اے درویش اپنا دامن پھیلا۔ فقیر نے جواب دیا میرے بدن پر کپڑے ہی نہیں ہیں، دامن کہاں سے لاؤں بادشاہ کو اس کی غریبی پر بہت رحم آیا۔ ایک قیمتی لباس اور اشرفیوں کی تھیلی اس کے پاس بھیج دی۔ فقیر نے تھوڑے ہی دنوں میں اشرفیاں خرچ کر دیں اور دوبارہ بادشاہ کے پاس آیا۔

نیک دل لوگوں کے ہاتھ میں دولت نہیں ٹھہرتی جس طرح چھلنی میں پانی نہیں ٹھہرتا اور بے چین دل والے کو صبر نہیں آتا ہے۔

بادشاہ کو اس فقیر کا خیال بھی نہیں رہا۔ جب لوگوں نے اس کے دوبارہ آنے کی اطلاع دی اور حال بتایا تو اس کو بہت غصّہ آیا۔ سن کر منہ پھیر لیا۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ بادشاہ کی سختی اور غصّہ سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ان کی توجہ سلطنت کے بڑے بڑے کاموں کی طرف ہوتی ہے اس لیے عام لوگوں کی بھیڑ کو پسند نہیں کرسکتے:

اس شخص کے لیے بادشاہ کا انعام حرام ہے جو مناسب وقت اور موقع کا خیال نہ رکھے۔ پہلے سے وقت مقرر کرائے بغیر اس کے پاس جائے اور بے کار باتیں کر کے اپنی عزت گنوائے۔

بادشاہ نے حکم دیا کہ اس بے ادب اور فضول خرچ کرنے والے کو یہاں سے نکال دو۔ اس نے اتنی بڑی رقم کم مدت میں صرف کر دی۔ شاہی خزانہ مسکینوں اور مفلسوں کے لیے ہے، فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائیوں کے لیے نہیں ہے!

جو بے وقوف دن کی روشنی میں شمع جلاتا ہے اس کو جلدی ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے چراغ میں تیل نہیں رہا یعنی فضول خرچی کی وجہ سے مال جلد ختم ہو جاتا ہے اور اس وقت آدمی کو اپنی بے وقوفی پر ندامت ہوتی ہے!

بادشاہ کے ایک وزیر نے کہا بادشاہ سلامت! ایسے لوگوں کے گزارے کے واسطے تھوڑی رقم بطور وظیفہ مقرر کر دی جائے جو ان کو قسط وار دی جایا کرے تاکہ فضول خرچی نہ کر سکیں۔ لیکن ان کو ڈانٹ کر نکال دینے کا حکم دیا ہے وہ آپ جیسے بلند ہمت بادشاہ کے لیے مناسب نہیں ہے۔ پہلے تو آپ نے بہت مہربانی کی اور اب وہ امید لے کر دوبارہ آیا ہے اور آپ ناامید کر کے اس کا دل توڑ رہے ہیں۔

پہلے ہی کسی لالچی کو اپنے پاس آنے کا موقع نہ دینا چاہیے تاکہ وہ بار بار پریشان نہ کرے اور جب ایک دفعہ اپنی خوشی سے اس کو آنے دیا تو پھر سختی سے اس کے لیے اپنا دروازہ بند نہ کرنا چاہیے۔

حِجاز (عرب) کے ملک میں پانی کم ہوتا ہے۔ مگر یہ کسی نے نہیں دیکھا کہ وہاں کے پیاسے کبھی سمندر کا کھارا پانی پینے کے لیے جمع ہوئے ہوں۔ اس لیے جہاں کہیں میٹھے پانی کا چشمہ ہوتا ہے وہاں انسان، چڑیاں اور چیونٹیاں سب جمع ہو جاتی ہیں۔ (اسی طرح جو شخص سخی ہوتا ہے حاجت مند لوگ اسی کے پاس آتے ہیں)۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھوکا سپاہی کیسے لڑے

 

گزرے ہوئے زمانے کے بادشاہوں میں ایک ایسا بادشاہ ہوا ہے جو اپنی سلطنت کی دیکھ بھال میں کاہلی کرتا تھا اور اپنی فوج کو تکلیف دیتا تھا۔ آخر ایک زبردست دشمن نے اس کے ملک پر حملہ کر دیا۔ بادشاہ کی فوج میدان سے بھاگ نکلی۔

جب سپاہی کو تنخواہ دینے میں کوتاہی کی جائے گی تو اس کو بھی تلوار اٹھانے میں تکلیف ہوگی۔ وہ سپاہی جنگ کے میدان میں کس طرح بہادری دکھا سکتا ہے جس کا پیٹ خالی ہو اور حالت ابتر۔

جن سپاہیوں نے بادشاہ کا ساتھ نہیں دیا اور لڑائی کے میدان سے بھاگ آئے تھے ان میں میرا ایک دوست تھا۔ میں نے اس سے کہا تم بہت کمینے اور ناشکرے اور بزدل ہو کہ ذرا سی تکلیف میں اپنے پرانے مالک کا ساتھ چھوڑ دیا اور برسوں کے احسانات کا خیال نہ کیا۔ اس نے جواب دیا کہ اگر آپ میرا حال سنیں تو مجھ کو مجبور خیال کریں گے۔ آپ کو معلوم ہے لڑائی کے دن میرے گھوڑے نے دانہ نہیں کھایا تھا اور میرے گھوڑے کی کاٹھی گروی رکھی ہوئی تھی۔ جو بادشاہ سپاہیوں کو روپیہ دینے میں کنجوسی کرتا ہے اس کے لیے سپاہی اپنا سر کیوں کٹائیں۔

سپاہی کو اس کی محنت کا بدلہ دو۔ اس کی تنخواہ ادا کرو۔ تاکہ پھر وہ تمھارے لیے اپنی جان قربان کرے۔ اگر اس کو روپیہ نہ دو گے تو وہ جہاں چاہے گا چلا جائے گا اور جو چاہے گا کرے گا۔ جب بہادر سپاہی کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ دشمن پر سخت حملہ کرتا ہے اور خالی پیٹ والا بھوکا سپاہی بھاگنے میں تیزی دکھاتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

اونٹ اور لومڑی

 

میرا ایک دوست اپنی پریشانی کی شکایت لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا میری آمدنی کم ہے اور بال بچّے بہت ہیں۔ مجھ میں فاقہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ کئی بار یہ سوچا کہ کسی دوسرے ملک میں چلا جاؤں تاکہ وہاں جس حال میں بھی گزر ہوگا کسی کو میرے بُرے بھلے کی خبر نہ ہوگی۔

بہت سے لوگ بھوکے سو جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا یہ کون ہیں۔ بہتوں کی جان پر بن آئی مگر کوئی ان کے حال پر رونے والا نہ ہوا۔

پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ دشمن میری ہنسی اڑائیں گے اور مجھے طعنہ دیں گے اور کہیں گے کہ اپنے بال بچّوں کو بے سروسامانی میں چھوڑ گیا۔ یہ بات کوئی نہ کہے گا کہ بال بچّوں ہی کے لیے محنت کر کے روپیہ کمانے گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں میں علم حساب جانتا ہوں اگر آپ کے ذریعہ کوئی ملازمت مل جائے تو مجھے اطمینان حاصل ہو۔ میں زندگی بھر آپ کا احسان مانوں گا۔ میں نے اس سے کہا۔ اے میرے دوست بادشاہ کی ملازمت دوزخ ہوتی ہے۔ ایک طرف روٹی ملنے کی امید ہے تو دوسرے طرف جان کا خطرہ۔ عقل مندوں کی رائے ہے کہ کسی امید پر جان کو خطرے میں ڈالنا عقل مندی نہیں ہے۔ یا تو پریشان حالی پر راضی ہو جاؤ یا پھر جان کو خطرے میں ڈالو۔

غریبی کی حالت میں کوئی تمھارے پاس زمین اور باغ کا ٹیکس لینے نہیں آئے گا۔ فقیر کے گھر سے کوئی کچھ مانگنے نہیں آتا۔

یا تو پریشانی اور تکلیف میں زندگی بسر کرو یا پھر بادشاہ کی ملازمت کی سختی برداشت کرو اور جان کو خطرے میں ڈالو۔

اس نے جواب دیا آپ نے جو باتیں کہی ہیں وہ میری حالت کے موافق نہیں ہیں اور نہ میرے سوال کا مناسب جواب ہیں۔ آپ جانتے ہیں جو ایمان داری سے حساب کتاب رکھتا ہے اس کا ہاتھ حساب دینے کے وقت کانپتا نہیں ہے۔ (یعنی جو بے ایمانی کرتا ہے وہی خوف سے کانپتا ہے)۔

سچائی سے خدا خوش ہوتا ہے۔ جو سیدھے راستے پر چلتا ہے وہ کبھی نہیں بھٹکتا ہے۔

عقل مندوں کا کہنا ہے کہ چار آدمی چار آدمیوں کے جانی دشمن ہوتے ہیں۔ ڈاکو بادشاہ کا دشمن ہوتا ہے اور چور چوکیدار کا، اور بُرے کام کرنے والا چغل خور کا اور نافرمان کو توال سے دشمنی رکھتا ہے۔ اور جن کا حساب صاف ہوتا ہے ان کو حساب دینے میں کوئی ڈر نہیں۔

بادشاہ کے دفتر کے کاموں میں لوگوں کے ساتھ سختی کا برتاؤ نہ کرو۔ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو ملازمت سے علاحدہ کرانے کی کوشش کرنے والے تمھارے دشمن عاجز اور بے بس ہو جائیں تم اپنا حساب صاف رکھو اور کسی سے ہرگز خوف نہ کرو۔ ڈرتا وہ ہے جس کا حساب گندہ ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ دھوبی اسی کپڑے کو پتھر پر پٹکتا ہے جو میلا اور ناپاک ہوتا ہے۔

میں نے اپنے دوست کی باتیں سن کر اس سے کہا اے دوست! تمھارا حال اس لومڑی جیسا ہے جو گرتی پڑتی بھاگ رہی تھی۔ کسی نے پوچھا بی لومڑی! اتنا بدحواس ہو کر کیوں بھاگ رہی ہو۔ لومڑی نے جواب دیا! میں نے سنا ہے کہ اونٹوں کو بیکار میں پکڑا جا رہا ہے اس لیے میں بھی بھاگ رہی ہوں ایک نے کہا اے بے وقوف! تیرا اور اونٹ کا کیا جوڑ۔ کہاں تم کہاں اونٹ؟ یہ کیا بکواس کر رہی ہے۔

لومڑی نے کہا۔ چپ رہو، اگر حاسدوں نے دشمنی میں کہہ دیا کہ یہ لومڑی بھی اونٹ کا بچّہ ہے تو مجھے پکڑ لیا جائے گا۔ پھر کون چھڑائے گا۔ جب تک چھان بین کی جائے گی تب تک میں قید خانے میں تڑپ تڑپ کر مر جاؤں گی۔ جب تک عراق سے تریاق لایا جائے گا تب تک سانپ کا ڈسا ہوا مر جائے گا۔ اے میرے دوست! یہ مانا کہ تم بہت ایمان دار اور عالم فاضل ہو لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ عیب لگانے والے گھات میں بیٹھے ہیں۔ دشمن تاک لگائے ہیں۔ اگر تم کو بادشاہ کی ملازمت مل گئی تو دشمن چغل خوری کر کے اس کو تمھارے خلاف کر دیں گے اور تمھاری جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ پھر کون دربار میں صفائی دیتا پھرے گا اس لیے میں بہتر سمجھتا ہوں کہ تم سرکاری ملازمت کا خیال بالکل چھوڑ دو اور جس حال میں ہو اسی میں خوش رہو۔ تم نے یہ تو سنا ہوگا کہ:

دریا میں غوطہ لگانے والے کے لیے بہت فائدے ہیں لیکن اپنی جان کی سلامتی چاہتے ہو تو کنارے ہی پر رہنے میں بہتری ہے۔ (غوطہ لگانے میں موتی بھی ملتے ہیں اور ڈوب مرنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے)

میرے دوست کو یہ باتیں ناگوار معلوم ہوئیں۔ اس کو غصّہ آگیا۔ اس نے منہ پھیر لیا اور ناخوشی کی باتیں کرنے لگا اور کہا یہ کون سی عقل مندی کی باتیں ہیں جو آپ کر رہے ہیں۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ دوست وہ ہیں جو قید خانہ میں کام آئیں ورنہ دسترخوان پر تو دشمن بھی دوست معلوم ہوتے ہیں:

اس شخص کو ہرگز دوست مت سمجھ جو آرام کے زمانے میں ساتھ ہو اور محبت اور دوستی کی ڈینگیں مارے۔ میں تو دوست اس کو سمجھتا ہوں جو پریشان حال اور عاجزی کے وقت اپنے دوست کی مدد کرے!

میں نے دوست کا رنگ بدلا ہوا دیکھا تو میں بادشاہ کے وزیر کے پاس گیا۔ اس سے بہت پرانی جان پہچان تھی۔ میں نے اس سے اپنے دوست کی سفارش کی۔ اس کی قابلیت کا ذکر کیا۔ وزیر نے ایک معمولی جگہ پر اس کا تقرر کر دیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس نے اپنی ایمان داری اور محنت سے بہت ترقی حاصل کر لی۔ اس کے کام سے سب خوش تھے۔ رفتہ رفتہ ترقی کر کے بادشاہ کا قابلِ اعتماد مصاحب بن گیا۔ میں اس کو خوش حال دیکھ کر بہت خوش ہوا اور میں نے کہا:

کسی مشکل کام کے پیش آنے سے پریشان نہ ہو، جانتے ہو؟ آب حیات کا چشمہ اندھیرے میں ہے۔ یعنی تکلیف اٹھانے کے بعد ہی آرام نصیب ہوتا ہے۔ مصیبت اور بلا میں پھنسنے والے کو پریشان اور رنجیدہ نہ ہونا چاہیے بلکہ مصیبتوں پر صبر کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کی بہت سے مہربانیاں ہیں جو ہم پر ہوتی ہیں مگر پتہ نہیں چلتا۔ صبر بہت کڑوا ہوتا ہے مگر اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

کچھ دنوں بعد دوستوں کے ایک قافلہ کے ساتھ مجھے سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ جب مکّہ معظمہ کی زیارت کر کے واپس آرہا تھا تو وہ دوست شہر سے باہر میرے استقبال کے لیے آیا۔ میں نے اس کو پریشان حال پایا۔ فقیروں جیسا لباس پہنے ہوئے تھا۔ میں نے پوچھا یہ کیا حالت بنائی ہے اس نے کہا۔ جیسا آپ نے کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ کچھ لوگ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ مجھ پر بے ایمانی کا الزام لگایا۔ بادشاہ نے اس الزام کی چھان بین نہیں کی۔ پرانے ساتھیوں اور مخلص دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا کسی کو حق بات کہنے کی جرأت نہ ہوئی!

کیا آپ نے نہیں دیکھا ہے کہ لوگ بلند مرتبہ شخص اور حاکم کے سامنے اس کی تعریف کرتے ہیں اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر ادب کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور زمانہ کے الٹ پھیر میں وہ اپنے عہدہ اور مرتبہ سے محروم ہو جاتا ہے تو لوگ اس کے سر پر پاؤں رکھتے ہیں یعنی اس کی بے عزتی کرتے ہیں!

غرض یہ کہ میں طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا رہا۔ ملازمت ختم ہوئی، قید خانہ میں پڑا رہا، اس ہفتہ میں حاجیوں کے قافلہ کی واپسی کی خوش خبری سن کر جو قیدی رہا ہوئے ہیں میں بھی انھیں میں سے ہوں، مجھ کو بھاری بیڑیوں اور ہتھکڑیوں سے نجات ملی اور میرا سامان مجھے واپس مل گیا۔

میں نے کہا تم نے اس وقت میری بات نہ مانی اور میرے سمجھانے کو بُرا خیال کیا۔ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بادشاہ کی ملازمت دریا کے سفر کی طرح خطرناک بھی ہے اور فائدہ مند بھی۔ یا تو تم کو خزانہ ملے گا یا پھر کسی گورکھ دھندہ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا!

تجارت کے لیے سمندر میں سفر کرنے والا تاجر یا تو دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ کر اپنا دامن بھر لیتا ہے (یعنی تجارت سے بہت نفع حاصل کرتا ہے) یا سمندر کی لہر اس کے مردہ جسم کو کنارے پھینک دیتی ہے!

اس سے زیادہ بُرا بھلا کہنا مناسب نہیں معلوم ہوا اور اس کے زخموں پر نمک چھڑکنا اچھا نہیں لگا۔ صرف ایک مختصر بات کہہ دی کہ:

کیا تو یہ نہیں جانتا ہے کہ جو نصیحت کی پرواہ نہیں کرتا ہے وہ مصیبت میں پھنس جاتا ہے اور اس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑ جاتی ہیں۔ اگر تم میں ڈنک کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے تو بچھّو کے سوراخ میں انگلی مت ڈالو۔

(یعنی جو آرام کی خواہش کرے اسے تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے)!

٭٭٭

 

 

 

 

برائی کا بدلہ برائی

 

کہتے ہیں ایک ظالم شخص نے ایک نیک دل فقیر کے سر پر پتھّر مارا۔ اس بے چارے میں بدلہ لینے کی ہمّت نہ تھی۔ صبر کر لیا اور خاموش رہا۔ اس پتھّر کو اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ کسی بات پر اس ظالم شخص سے خفا ہو گیا اور اس کو ایک کنویں میں قید کر دیا۔ جب اس نیک دل فقیر نے یہ خبر سنی تو وہ پتھّر لے کر اس کنویں پر پہنچا اور وہی پتھّر اس ظالم کے سرپر مارا۔ کنویں کے اندر سے اس نے پوچھا ۔ ’’تو کون ہے؟ اور مجھ کو پتھّر کیوں مارتا ہے؟ نیک دل فقیر نے جواب دیا۔ یہ وہی پتھّر ہے جو تو نے فلاں دن میرے سر پر مارا تھا۔ ظالم نے پوچھا تم اتنے دن کہاں رہے جو اب بدلہ لینے آئے ہو؟

نیک مرد نے جواب دیا پہلے میں تمھارے مرتبہ اور طاقت سے ڈرتا تھا۔ اب تم کنویں میں قید ہو۔ یہ موقع غنیمت معلوم ہوا اس لیے بدلہ لے لیا۔

جہاں نالائق لوگ بلند مرتبہ پر ہوں اور طاقت ور ہوں۔ وہاں لائق اور عقل مند لوگ اپنی حالت پر صابر اور خاموش رہتے ہیں۔ جو شخص لوہے کے پنجہ سے اپنا پنجہ لڑاتا ہے وہ اپنی نازک کلائی کو جان بوجھ کر زخمی کرتا ہے۔

اگر تم سے زیادہ طاقت ور تم پر ظلم کرتا ہے تو صبر کرو اور اس وقت کا انتظار کرو کہ جب وہ کمزور اور مجبور ہو جائے۔ پھر تم دوستوں کی مدد سے اس کا سر توڑ دو۔

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شہزادے کی سخاوت

 

ایک شاہزادے کو بہت سی دولت اپنے باپ سے ترکہ میں ملی۔ اس نے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا اور خوب سخاوت کی۔ فوج اور رعایا کی بھلائی کے لیے بہت سا مال صرف کر دیا۔

اگر بتّی کو ڈبیہ کے اندر بند رکھا ہے تو اس کی خوشبوٗ نہیں پھیلے گی مگر جب وہ آگ میں جلائی جاتی ہے تب عنبر کی طرح عمدہ خوشبوٗ دیتی ہے۔

اگر تم بڑے صاحب عزت بننا چاہتے ہو تو سخاوت کرو، اس لیے کہ جب تک تم کھیت میں دانہ نہ بکھیرو گے اناج نہیں اُگے گا۔

شاہزادے کے پاس بیٹھنے والے لوگوں میں سے ایک نا تجربہ کار شخص نے شاہزادے کو نصیحت کرنا شروع کیا اور کہا۔ پہلے بادشاہوں نے اس دولت کو بڑی محنت سے جمع کیا تھا اور اس کو ملک کی ضرورت کے لیے محفوظ کر رکھا تھا۔ تم اس کو خرچ کرنے سے ہاتھ روک لو۔ کیا معلوم آئندہ کیسا موقع پڑ جائے۔ دشمن بھی گھات میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ضرورت کے وقت تم عاجز اور مجبور ہو جاؤ۔

اگر تم اپنا خزانہ لوگوں میں بانٹ دو گے تو ہر گھر والے کو ایک ایک چاول کے برابر حصّہ ملے گا اور خزانہ ختم ہو جائے گا۔

کیوں تم ہر ایک سے ایک جَو بھر چاندی لے کر جمع نہیں کرتے ہو کہ۔ تمھارے پاس ایک خزانہ جمع ہو جائے۔

شاہزادے کو اس شخص کی بات ناگوار ہوئی۔ سن کر منہ پھیر لیا اور اس کو جھڑک دیا اور کہا۔ خدا نے مجھ کو سلطنت کا مالک بنایا ہے تاکہ خود کھاؤں اور دوسروں میں تقسیم کروں۔ میں چوکیدار نہیں ہوں کہ مال و دولت کی رکھوالی کروں۔

قارون جیسا دولت مند مر گیا جس کے پاس خزانوں سے بھرے ہوئے چالیس مکان تھے۔ اب کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا (کیونکہ وہ ہر وقت دولت بڑھانے کی فکر میں رہتا تھا اور دوسروں کو نہیں دیتا تھا) اور دیکھو! ایران کا مشہور بادشاہ نوشیرواں نہیں مرا کیونکہ وہ بہت انصاف پسند اور سخی تھا۔ اُس کا نیک نام آج بھی زندہ ہے۔ لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کا نام عزت سے لیتے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

نوشیرواں بادشاہ کا انصاف

 

کہتے ہیں کہ ایک بار ایران کا بادشاہ نوشیرواں شکار گاہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے ملازم کباب پکا رہے تھے۔ اتفاق سے نمک موجود نہ تھا۔ ایک ملازم قریب کے گاؤں سے نمک لینے گیا۔ نوشیرواں نے اس کو ہدایت کی کہ قیمت دے کر نمک لینا تاکہ مفت لینے کی رسم نہ پڑ جائے اور گاؤں ویران نہ ہو۔ مصاحبوں نے کہا۔ تھوڑا سا نمک مفت لینے سے کیا خرابی پڑ جائے گی؟ نوشیرواں نے جواب دیا ظلم کی جڑ دنیا میں زیادہ لمبی نہ تھی اور جو نیا آیا اس کو بڑھاتا گیا۔ یہاں تک کہ اب یہ نوبت آئی کہ دنیا میں ظلم پھیل گیا:

اگر رعایا کے باغ سے بادشاہ مفت میں ایک سیب کھا لے گا تو اس کے غلام سارا درخت جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔

اگر بادشاہ ظلم و زیادتی سے کسی کا آدھا انڈا بھی لے گا تو اس کی فوج کے سپاہی ہزار مرغوں کے کباب پکا کر مفت کھا جائیں گے!

٭٭٭

 

 

 

 

ظالم حاکم کا انجام

 

میں نے سناہے کہ ایک حاکم رعایا پر بہت ظلم کرتا تھا اور لوگوں کا مال زبردستی چھین کر بادشاہ کے خزانے میں جمع کرتا تھا تاکہ خزانہ بھر جائے۔ اس کو یہ خبر نہ تھی کہ جو شخص لوگوں پر ظلم کرتا ہے خدا تعالیٰ ایک دن انھیں لوگوں کے ہاتھوں اس کو تباہ کر دیتا ہے۔

آگ خشک دانہ کو اتنی تیزی سے نہیں جلاتی جتنی جلدی مظلوم کی آہ ظالم کو جلا ڈالتی ہے!

آپ دیکھتے ہیں کہ شیر سب جانوروں کا بادشاہ کہلاتا ہے اور گدھے کو ذلیل جانور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بوجھ اٹھانے والا گدھا اس شیر سے اچھا ہے جو ان کو چیر پھاڑ کر کھا جاتا ہے!

بے چارے گدھے کو یوں تو بدتمیز کہا جاتا ہے لیکن وہ انسانوں کا بوجھ اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے اس لیے وہ انسان کو زیادہ پیارا ہے۔

بوجھ اٹھانے والے بیل اور گدھے ان آدمیوں سے بھی اچھے ہیں جو دوسروں کو ستائیں!

قصّہ مختصر کہ ایک بار بادشاہ کو حاکم کی چند بُری عادتوں کا علم ہو گیا۔ اس کو گرفتار کرایا اور طرح طرح کی سخت سزائیں دے کر مار ڈالا۔

جب تک مخلوق کی دل جوئی نہ کرو گے بادشاہ کی خوشنودی حاصل نہ ہوگی۔ اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تم پر مہربان ہو تو خدا کے بندوں پر تم بھی مہربانی کرو!

کہتے ہیں اس کے ہاتھوں ستائے ہوئے ایک مظلوم کا گذر اس جگہ پر ہوا جہاں حاکم کو سزا دی جا رہی تھی۔ اس نے وہاں ٹھہر کر اس کی حالت دیکھی اور کہا۔

جس شخص کو کوئی بڑا عہدہ اور اختیارات حاصل ہوں اس کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ شیخی مار کر لوگوں کا مال مفت میں کھا جائے اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ اگر کوئی شخص سخت ہڈی حلق سے اتارنا چاہے تو وہ آسانی سے اترسکتی ہے لیکن جب ناف میں جا کر پھنس جائے گی تو پیٹ بھی پھاڑ دے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

غلام کی عقل مندی

 

ایران کے ایک بادشاہ عمر ولیث کا ایک غلام بھاگ نکلا۔ چند آدمی اس کو پکڑ نے کے لیے بھیجے گئے۔ وہ اس کو پکڑ کر بادشاہ کے سامنے لے آئے۔ ایک وزیر اس غلام کے خلاف تھا اس نے بادشاہ سے کہا کہ اس غلام کو قتل کرا دیا جائے تاکہ دوسرے غلام کبھی ایسی حرکت نہ کریں۔ غلام نے سرجھکا کر عمر ولیث سے کہا۔ اے بادشاہ!

جو سزا آپ کے حکم سے مجھے دی جائے وہ مناسب اور درست ہے۔ آپ جیسا چاہتے ہیں ویسا ہی ہوگا۔ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ حکم تو آقا ہی دیتا ہے۔

چونکہ میں آپ ہی کے خاندان کے زیر سایہ پلا اور بڑھا ہوں، اس لیے میں یہ نہیں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن آپ میرے قتل کے الزام میں ناحق پکڑے جائیں۔ لہٰذا آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اس وزیر کو قتل کر دوں اور آپ اس کی قتل کی سزا میں مجھ کو قتل کرا دیں۔ اس طرح آپ پر میرے ناحق قتل کا الزام نہیں آئے گا۔ بادشاہ کو اس کی بات پر ہنسی آ گئی۔ اس نے وزیر سے کہا اب تمھاری کیا رائے ہے؟ وزیر نے جواب دیا۔ اے آقا۔ خدا کے لیے اس بے غیرت غلام کو آزاد کر دیجیے تاکہ یہ مجھے کسی مصیبت میں نہ پھنسا دے۔ غلطی میری ہے۔ عقل مندوں کا یہ قول درست ہے کہ:

جب تم کسی ڈھیلا مارنے والے سے لڑو گے تو یہ سمجھ لو تمھارا سر بھی ضرور پھوٹے گا۔

جب تم دشمن پر تیر چلاؤ گے تو یہ سمجھ لو تم کو بھی نشانہ بنایا جائے گا!

٭٭٭

 

 

 

 

پہلوان کا آخری داؤں

 

ایک پہلوان کشتی لڑنے کے فن میں بہت زیادہ ہوشیار تھا۔ وہ کشتی کے تین سو ساٹھ داؤں جانتا تھا۔ ہر روز ایک داؤں سے کشتی لڑتا تھا۔ وہ اپنے ایک شاگرد پر بہت مہربان تھا۔ اس کو تین سو انسٹھ داؤں سکھا دیے۔ صرف ایک داؤں نہیں سکھایا اور اس کے سکھانے میں ٹال مٹول کرتا رہا۔ اس کا شاگرد کشتی لڑنے میں بہت ماہر ہو گیا۔ ہر طرف اس کی شہرت پھیل گئی۔ کوئی پہلوان اس سے مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں نہیں آتا تھا۔ اس ملک کے بادشاہ کے سامنے پہلوان کے شاگرد نے کہہ دیا کہ استاد مجھ سے بڑے ہیں اس لیے ان کی عزت کرتا ہوں، ورنہ طاقت اور داؤں پیچ میں مجھ سے زیادہ قابل نہیں ہیں۔

بادشاہ کو اس شاگرد کی بات ناگوار گزری۔ اس نے حکم دیا کہ اکھاڑا تیار کیا جائے اور استاد اور شاگرد کی کشتی ہو جائے ایک بہت بڑے میدان میں اکھاڑا بنایا گیا۔ کشتی کے مقابلہ کے روز بادشاہ اور اس کے تمام وزیر بڑے بڑے حکّام اور عام لوگ یہ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ دوسرے شہروں کے بڑے بڑے پہلوان بھی کشتی دیکھنے کے لیے آئے۔

پہلوان اور اس کا شاگرد دونوں اکھاڑے میں اترے۔ شاگرد اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مست تھا اور ہاتھی کی طرح جھوم رہا تھا۔ استاد سمجھ گیا کہ شاگرد کے جسم میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ جب کشتی شروع ہوئی تو استاد پہلوان نے وہ داؤں لگایا جو اپنے شاگرد کو نہیں سکھایا تھا اور شاگرد اس داؤں کے توڑ سے ناواقف تھا۔ استاد نے اس کو سر سے اونچا اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ ہر طرف شور مچ گیا اور استاد کی تعریف ہونے لگی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا اور پہلوان کو بہت سا انعام دیا اور شاگرد کو خوب ڈانٹا اور کہا تو نے اپنے استاد کا مقابلہ کیا جس نے تمھارے ساتھ احسان کیا تھا۔ پھر بھی تم ہار گئے۔ شاگرد نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت! طاقت میں استاد میرا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مگر انھوں نے ایک داؤں مجھے نہیں سکھایا تھا۔ اسی داؤں سے مجھے ہرا دیا۔

استاد بول اٹھا کہ اسی دن کے لیے میں نے وہ داؤں روک رکھا تھا اور تجھ کو نہیں سکھایا تھا کیونکہ عقل مند لوگوں نے کہا کہ دوست کو اتنا طاقت ور نہ بناؤ کہ اگر کبھی دشمنی پر آمادہ ہو تو تم کو نقصان پہنچا سکے۔ ایک شخص نے اپنے شاگرد کی بے وفائی دیکھ کر کہا تھا۔

یا تو دنیا میں وفاداری تھی ہی نہیں یا اس زمانے میں کسی نے وفا نہیں کی۔ کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے مجھ سے تیر اندازی کا ہنر سیکھ کر مجھ ہی کو نشانہ نہ بنایا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

گالی دینے کا بدلہ معافی

 

ایک بار خلیفہ ہارون الرشید کا ایک لڑکا غصّہ کی حالت میں باپ کے پاس آیا اور کہا کہ فلاں سپاہی نے مجھ کو ماں کی گالی دی ہے۔ ہارون الرشید نے اپنے وزیروں سے پوچھا کہ اس سپاہی کو کیا سزا دی جائے۔ ایک وزیر نے کہا اس کو قتل کر دیا جائے ۔ دوسرے نے کہا۔ زبان کاٹ دی جائے۔ تیسرے نے رائے دی اس کو شہر بدر کر دیا جائے۔ جب سب اپنی اپنی رائیں ظاہر کر چکے تو ہارون الرشید نے کہا۔ اے بیٹے! اگر تو اس کو معاف کر دے تو سب سے اچھا ہے۔ اور اگر معاف کرنا نہیں چاہتا تو توٗ بھی اس کو گالی دے دے، وہی گالی جو اس نے تجھ کو دی ہے۔ اگر اس سے زیادہ دی تو پھر تو خطا وار ہوگا۔

حقیقت میں بہادر وہ ہے جو غصّہ کی حالت میں اپنے کو قابو میں رکھے اور بیہودہ باتیں نہ کرے۔

عقل مندوں کے نزدیک وہ شخص بہادر نہیں کہلاتا جو خواہ مخواہ مست ہاتھی سے لڑتا پھرے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

جیسی کرنی ویسی بھرنی

 

ایک بار میں چند بزرگوں کے ساتھ کشتی میں دریا کی سیر کر رہا تھا۔ ہمارے پیچھے چھوٹی کشتی آرہی تھی۔ اچانک وہ پانی میں ڈوب گئی۔ اس میں دو بھائی بیٹھے تھے وہ دونوں بھنور میں پھنس گئے۔ ہمارے ایک ساتھی نے ملّاح سے کہا کہ ان دونوں کی جان بچا لو تو ہر ایک کے بدلے تم کو پچاس روپے انعام دوں گا۔ ملّاح پانی میں کود گیا اور ایک کو بچا لیا مگر دوسرا ڈوب کر مر گیا۔ میں نے کہا اس کی عمر پوری ہو چکی تھی ملّاح مسکرایا اور بولا! آپ نے جو کچھ کہا وہ درست ہے لیکن ایک سبب اور بھی ہے۔ میں نے پوچھا دوسرا سبب کیا ہے؟

ملّاح نے کہا اس کو میں بچانا چاہتا تھا کیونکہ ایک بار میں جنگل میں تھک گیا تھا اس نے مجھ کو اپنے اونٹ پر بٹھا لیا تھا اور دوسرا جو ڈوب گیا ہے اس کے ہاتھ سے میں نے کوڑا کھایا تھا۔ اس لیے میں اس کو بچانا ہی نہیں چاہتا تھا۔

جہاں تک ہو سکے کسی کا دل نہ دکھاؤ۔ کیونکہ اس راستے میں کانٹے بہت ہیں۔ ضرورت مند غریبوں کا کام کر دو کیونکہ وقت پڑنے پر ان سے تمھارے کام بھی نکلیں گے!

٭٭٭

 

 

 

 

ملازمت بہتر کہ مزدوری

 

دو بھائی تھے۔ ایک بادشاہ کی ملازمت کرتا تھا اور دوسرا آزادی کے ساتھ محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتا تھا۔ پہلا مالدار تھا دوسرا غریب۔

ایک بار مال دار بھائی نے جو بادشاہ کا ملازم تھا اپنے غریب مزدور بھائی سے کہا کہ تم بھی بادشاہ کی ملازمت کیوں نہیں کر لیتے کہ اتنی محنت مشقت سے بچ جاؤ۔

مزدور بھائی نے جواب دیا۔ تم مزدوری کیوں نہیں کرتے ہو کہ غلامی کی ذلّت سے بچ جاؤ۔ عقل مند لوگوں کا کہنا ہے کہ جَو کی روٹی کھانا اور بے فکر ہو کر رہنا بہتر ہے نہ یہ کہ کمر میں سنہری تلوار باندھ کر خدمت گزاری کے لیے کھڑا رہنا:

گرم اور جلتا ہوا چونا ہاتھ پر رکھ لینا بہتر ہے۔ لیکن کسی امیر کا غلام بن کر سینہ پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑا رہنا اچھا نہیں ہے۔

مرا قیمتی وقت اس فکر میں گزر گیا کہ گرمی میں کیا کھاؤں گا اور جاڑوں میں کیا اوڑھوں گا۔ اے میرے بے شرم پیٹ ایک ہی روٹی پر صبر کر لے تاکہ دوسروں کی غلامی میں جھُکنا نہ پڑے!

٭٭٭

 

 

 

 

دشمن کی موت پر خوش نہ ہو

 

ایک شخص نے نوشیرواں بادشاہ کو خوش خبری سنائی کہ آپ کے ایک دشمن کو خدا نے دنیا سے اٹھا لیا ہے۔

نوشیرواں نے فوراً جواب دیا کہ تم نے یہ نہیں دیکھا کہ خدا نے مجھ کو چھوڑ دیا ہے؟

اگر دشمن مر گیا ہے تو یہ خوش ہونے کی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہماری زندگی بھی ہمیشہ باقی نہ رہے گی (مرنا سب کو ہے اس لیے کسی کی موت پر خوش نہ ہونا چاہیے)!

٭٭٭

 

 

 

 

سکندر کیسے فاتح بنا

 

لوگوں نے بادشاہ سکندر رومی سے پوچھا کہ تم نے مشرق اور مغرب کے بہت سے ملک کس طرح فتح کر لیے۔ حالانکہ تم سے پہلے کے بادشاہوں کے پاس مال و دولت اور فوج بہت زیادہ تھی مگر ان کو ایسی فتح نصیب نہ ہوئی۔ سکندر نے جواب دیا، مجھ کو خدا کی مہربانی سے حاصل ہوئی اس طرح کہ میں نے جس ملک کو فتح کیا وہاں کی رعایا کو پریشان نہیں کیا اور پہلے کے بزرگوں کے اچھے طریقوں اور قاعدوں کو باقی رکھا۔ گزرے ہوئے بادشاہوں کی بُرائی نہیں کی۔ اس لیے مجھ کو زیادہ کامیابی حاصل ہوئی:

جو شخص پہلے گزرے ہوئے بزرگوں کی بُرائی کرے اسکو عقل مند لوگ بزرگ نہیں سمجھتے!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک نیک بزرگ اور چور

 

ایک غریب اور نیک بزرگ کے گھر میں چو ر آیا۔ سارے گھر میں مال و دولت کی تلاش میں ہاتھ پیر مارتا رہا۔ مگر کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ بہت رنجیدہ ہوا۔ وہ نیک بزرگ جاگ اٹھے۔ ان کے پاس ایک کمبل تھا جس پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس کو اٹھا کر خاموشی کے ساتھ چور کے راستے میں رکھ دیا۔ تاکہ وہ خالی ہاتھ نہ جائے:

میں نے سنا ہے خدا کے نیک بندے اپنے دشمن کا دل بھی نہیں دکھاتے ہیں۔ تم روز دوستوں سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہو بھلا تم کو وہ مرتبہ کیسے حاصل ہو سکتا ہے جو نیک لوگوں کو ملتا ہے۔

جو صاف دل ہیں وہ سامنے بھی وہی کہتے ہیں جو پیٹھ پیچھے کہتے ہیں وہی سچے دوست ہیں۔

جن کے دل صاف نہیں ہوتے وہ سامنے تعریف کرتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بُرائیاں بیان کرتے ہیں۔

سامنے تو مسکین بکری بن جاتے ہیں اور پیچھے آدم خور بھیڑیے جیسی خصلت اختیار کرتے ہیں۔

جو شخص تمھارے سامنے دوسروں کی برائیاں کرتا ہے وہی تمھاری برائیاں دوسروں کے سامنے کرتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کی غیبت کرنا بُرا ہے

 

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اپنے ابّا جان کے ساتھ میں بھی اللہ کی عبادت کرتا تھا۔ راتوں میں جاگتا اور بُری باتوں سے دور رہتا تھا۔ ایک رات میں ابّا جان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور میں قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا۔ اس وقت گھر کے اور سب لوگ بے خبر سو رہے تھے۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ابّا جان! ان لوگوں کو دیکھیے کیسے بے خبر سو رہے ہیں۔ کوئی بھی اٹھ کر نماز نہیں پڑھتا اس طرح سُو رہے ہیں جیسے مر گئے ہوں۔

ابّا جان نے جواب دیا۔ بیٹا! دوسروں کی بُرائی کرنے سے یہ کہیں اچھا تھا کہ تم بھی سو رہتے۔

جو شخص اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتا ہے اس کو اپنے سوا کوئی اچھا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اس کی آنکھوں پر غرور کا پردہ پڑا ہوتا ہے!

خدا تعالیٰ اگر تم کو اصل حقیقت کو دیکھنے والی نگاہ عطا فرمائے تو تم دیکھو گے کہ تم سے زیادہ کمزور اور عاجز کوئی نہیں ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی تعریف سے خوش نہ ہو

 

کسی محفل میں لوگوں نے ایک بزرگ کی بہت تعریف کی اور اس کی خوبیاں بڑھا چڑھا کر بیان کیں۔ اس بزرگ نے سر اٹھایا اور کہا۔ میں جیسا کچھ ہوں اس کو میں جانتا ہوں اور ان سے کہا:

تم نے میری تعریف کر کے مجھ بہت دکھ پہنچایا۔ تم میری ظاہری حالت دیکھ کر تعریف کر رہے ہو۔ تم کو میرے اندر کا حال کیا معلوم۔ یعنی تمھیں کیا خبر میرے اعمال کیسے ہیں۔ میرا جسم دیکھنے میں لوگوں کو بہت اچھا معلوم ہوتا ہے لیکن میں خود اپنے اندر جو بُرائیاں پاتا ہوں ان کی ندامت سے میرا سر جھکا ہوا ہے۔

دیکھو! مور دیکھنے میں کتنا خوب صورت ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن خود مور اپنے بدصورت پیروں کو دیکھ کر کتنا شرمندہ ہوتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریاکاری بُری ہے

 

ایک شخص جو دیکھنے میں بہت پرہیزگار اور عبادت گزار معلوم ہوتا تھا۔ ایک بادشاہ کا مہمان ہوا۔ جب کھانے کے لیے دسترخوان پر بیٹھا تو اپنی خوراک سے کم کھایا اور جب نماز کے لیے کھڑا ہوا تو عادت سے زیادہ وقت صرف کیا تاکہ لوگ اس کے متعلق اچھی رائے قائم کریں اور ان کے دلوں میں اس کی عقیدت بڑھے!

اے جاہل اور گنوار شخص تو کعبہ کی زیارت کے لیے جانا چاہتا ہے مگر تو وہاں نہ پہنچ سکے گا کیونکہ تو جس راستے پر جا رہا ہے یہ تو ترکستان کا راستہ ہے!

یعنی تمھارا مقصد تو یہ ہے کہ نیک عمل کر کے خدا کی خوشنودی حاصل کرو۔ لیکن تم نے ریاکاری کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکوگے۔

جب وہ بزرگ نما شخص اپنے مکان پر واپس آیا تو کھانا مانگا۔ اُس کا لڑکا بہت سمجھ دار تھا باپ سے کہنے لگا۔ ابّا جان! کیا آپ نے بادشاہ کے دسترخوان پرکھانا نہیں کھایا۔ اس نے کہا میں نے بادشاہ کے یہاں بہت تھوڑا سا کھایا ہے تاکہ اس پر اور دوسرے لوگوں پر میری بزرگی کا اثر پڑے اور مجھ سے عقیدت بڑھے۔ لڑکے نے کہا۔ ابّا جان! آپ نما ز بھی دوبارہ پڑھ لیجیے کیونکہ بادشاہ کے ساتھ آپ نے جو نماز پڑھی وہ دکھاوے کے لیے تھی۔ خدا تعالیٰ کے لیے نہ تھی:

جو شخص اپنی معمولی ہنر مندی دوسروں کو دکھاتا ہے لیکن اپنے بڑے عیبوں کو چھپاتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح سے کھوٹے روپیہ سے کوئی چیز نہیں خریدی جا سکتی ہے اسی طرح بُرائیوں سے نیک نامی نہیں حاصل ہو سکتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

گناہ کا خوف

 

ایک پرہیزگار شخص جس کو چیتے نے زخمی کر دیا تھا مجھے دریا کے کنارے ملا۔ کسی دوا سے اس کا زخم اچھا نہیں ہو رہا تھا۔ بہت عرصہ تک بیمار رہا مگر ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔ لوگوں نے اس سے پوچھا شکر کس بات کا کرتے ہو جب کہ تمھارا زخم اچھا ہی نہیں ہوتا؟ اس نے جواب دیا کہ شکر اس بات کا ہے کہ میں مصیبت میں گرفتار ہوں گناہ میں نہیں۔ اگر خدا مجھ جیسے کمزور آدمی کو قتل کرنے کے لیے میرے عزیز دوست کے حوالے کر دے تو ہر گز یہ نہ سمجھنا کہ اس وقت مجھے اپنی جان کا غم ہوگا میں تو اس سے کہوں گا بتاؤ مجھ عاجز آدمی سے کیا خطا ہوئی کہ مجھ سے ناراض ہو گئے۔ مجھ کو تو تمھاری ناراضگی کا غم ہے۔ اپنی جان کی پرواہ نہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

دوست کی چیز لے لو دشمن سے سوال نہ کرو

 

ایک درویش نے ضرورت کے وقت مجبور ہو کر اپنے ایک درویش دوست کے گھر سے کمبل چرا لیا۔ چوری کے الزام میں پکڑا گیا۔ حاکم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ کمبل کے مالک نے حاکم سے اس کی سفارش کی اور کہا میں نے اس کی خطا معاف کر دی۔ اس کو رہا کر دیا جائے۔ حاکم نے کہا قانونِ اسلام میں چور کی سزا ہے وہ تیرے کہنے سے معاف نہیں کی جا سکتی۔ کمبل کے مالک درویش نے جواب دیا کہ درویش کا مال محتاجوں کے لیے وقف ہے۔ درویش اپنے مال کا مالک نہیں ہوتا۔ اس لیے وقف کا مال چرانے پر ہاتھ کاٹنے کی سزا دینا ضروری نہیں ہے۔ حاکم نے اس چوری کرنے والے کو چھوڑ دیا اور اس کو بُرا بھلا کہا اور یہ بھی کہا کہ اے درویش ! کیا تجھے چوری کے لیے اور گھر نہیں ملا تھا، کہ تو نے اپنے دوست کے گھر چوری کی۔ اس نے کہا کہ کیا تم نے یہ کہاوت نہیں سنی ہے کہ ضرورت پڑنے پر دوست کا گھر صاف کر دو مگر دشمن کا دروازہ نہ کھٹکھٹاؤ۔

جب تم پر پریشانی اور حاجت مندی کا وقت پڑے تو پریشان اور عاجز نہ بنو بلکہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے دشمن کی کھال کھینچ لو اور دوست کے کپڑے اتار لو!

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کی یاد

 

ایک بادشاہ نے ایک عبادت کرنے والے بزرگ سے پوچھا کہ کبھی آپ کو میری یاد بھی آتی ہے؟ بزرگ نے جواب دیا کہ ہاں آتی ہے مگر اس وقت جب میں خدا کو بھول جاتا ہوں:

خدا تعالیٰ جس کو اپنی محبت سے دور رکھتا ہے وہ چاروں طرف دوڑتا ہے۔ ہر ایک کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور جس کو وہ اپنی محبت میں مبتلا کرتا ہے وہ ہر ایک سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی کی چوکھٹ پر اپنی کوئی حاجت لے کر نہیں جاتا!

٭٭٭

 

 

 

 

بندوں سے محبت بھی عبادت ہے

 

اللہ کے نیک بندوں میں سے ایک نے خواب میں دیکھا کہ ایک بادشاہ بہشت میں ہے اور ایک عبادت گزار دوزخ میں جل رہا ہے۔ اس نے پوچھا اس کا کیا سبب ہے کہ یہ نیک اور عبادت کرنے والا دوزخ میں ہے جب کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ اپنے ظلم اور بے انصافی کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے اور نیک لوگ جنت میں۔ جواب میں آواز آئی کہ یہ بادشاہ ، اللہ کے نیک بندوں سے محبت اور عقیدت رکھتا تھا۔ اس لیے اس کو جنت میں جگہ ملی اور یہ بزرگ بادشاہ کے دربار میں رسائی حاصل کر کے اپنی عزت اور مرتبہ بڑھانے کی فکر میں رہتا تھا اس لیے دوزخ میں رکھا گیا:

اگر تم نے اپنے آپ کو برے کاموں سے دور نہ رکھا تو پھر درویشوں کی طرح کمبل اوڑھنا اور پیوند لگے کپڑے پہننا کچھ کام نہ آئے گا۔ صورت کے بجائے اللہ تعالیٰ سیرت کو دیکھتا ہے۔ تم چاہے درویشوں جیسی موٹے اونی کپڑے کی ٹوپی نہ پہنو اور اس کے بجائے تاتار کے بادشاہوں جیسی ٹوپی پہن لو مگر عادتیں درویشوں جیسی اختیار کرو۔ اصل چیز نیک عمل ہے کیونکہ نیکوں جیسے کپڑے پہن کر کوئی نیک نہیں بن سکتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

دولت مند موت سے ڈرتا ہے غریب نہیں ڈرتا

 

ہمارا قافلہ حج اور زیارت کے لیے حِجاز جا رہا تھا۔ شہر کوفہ سے گزرے تو ایک شخص ننگے سر ننگے پاؤں آیا اور ہمارے قافلہ میں شامل ہو گیا۔ اس کے پاس مال و اسباب کچھ نہ تھا۔ بہت آہستہ آہستہ بے فکر ہو کر چل رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ:

نہ تو میں خچر پر سوار ہوں نہ اونٹ کی طرح مجھ پر سامان لدا ہوا ہے۔ نہ میں کسی رعایا کا آقا ہوں اور نہ کسی بادشاہ کا غلام۔

نہ میرے پاس کچھ موجود ہے اور نہ میرا کچھ سامان غائب ہوا ہے جس کا مجھے کوئی غم ہو۔ میں آزادی سے سانس لیتا ہوں اور بے فکری سے زندگی بسر کرتا ہوں!

ایک اونٹ سوار دولت مند شخص نے اس سے کہا! اے درویش بتاؤ تم کہاں جاؤ گے؟ واپس لوٹ جاؤ راستہ کی تکلیف برداشت نہ کر سکوگے اور مر جاؤ گے۔ مگر اس نے بات نہ مانی اور قافلہ کے ساتھ جنگل میں چلنے لگا۔ جب ہم مکّہ معظّمہ کے قریب ایک مقام نخلہ محمود میں پہنچے تو وہاں اس مال دار اونٹ سوار کا انتقال ہو گیا۔ وہ درویش اس کے سرہانے آ کر بیٹھا اور کہنے لگا:

ہم سفر کی تکلیف اٹھاتے رہے مگر مرے نہیں اور تم نے آرام کے ساتھ سفر کیا پھر بھی مر گئے۔ ایک شخص پوری رات بیمار کی تیمار داری کرتا رہا اور روتا رہا۔ لیکن جب صبح ہوئی تو بیمار اچھا ہو گیا اور وہ تیمار دار مر گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نا اہل کو نصیحت کرنا بیکار ہے

 

یونان کے ملک میں لٹیروں نے ایک قافلہ کو لوٹ لیا اور بہت سامان لے گئے۔ سوداگروں نے رو، رو کر بہت خوشامد کی، خدا او رسول کا واسطہ دیا کہ ہمارا مال واپس کر دو۔ مگر کسی نے نہ سنا اور رونا دھونا کام نہ آیا!

جب بدبخت چور کامیاب ہو گئے اور مال ان کے ہاتھ آگیا تو پھر ان کو قافلے والوں کے رونے دھونے کا کیا غم!

اس قافلہ میں لقمان حکیم بھی موجود تھے۔ قافلہ والوں میں سے ایک نے حکیم لقمان سے کہا کہ آپ ان کو کچھ نصیحت کریں کہ ہمارے مال میں سے تھوڑا واپس کر دیں۔ اتنا مال ضائع ہونے کا بہت زیادہ غم ہوگا۔ لقمان نے جواب دیا کہ ان لٹیروں کو نصیحت ہی افسوس کی بات ہے!

جب لوہے میں زنگ لگ جاتا ہے اس کا مانجھنا اور چمکانا مشکل ہوتا ہے۔

سیاہ دل آدمی کو نصیحت کرنا بے کار ہے جس طرح کیل پتھر میں ٹھونکی نہیں جا سکتی اسی طرح اس پر نصیحت کا اثر نہیں ہوتا!

٭٭٭

 

 

 

 

ادب کس سے سیکھا

 

حکیم لقمان سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا۔ انھوں نے جواب دیا کہ بے ادبوں سے۔ جو بات بے ادب لوگوں کی مجھ کو پسند نہیں آئی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔

جو بات ہنسی مذاق کے انداز میں کی جاتی ہے عقل مند لوگ اس سے بھی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ اگر کم عقل شخص کو دانائی کی باتوں سے بھری ہوئی پوری کتاب پڑھ کر سنا دو تو وہ اس سب کو ہنسی مذاق کی باتوں سے زیادہ وقعت نہ دے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی کے بُرا کہنے سے بُرا نہ بنوگے

 

ایک گنہگار شخص کو اللہ تعالیٰ نے سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کی۔ وہ نیک لوگوں کی محفل میں پہنچ گیا۔ ان کی صحبت کی برکت سے اس نے بُری عادتیں چھوڑ دیں اور اچھی خصلتیں اختیار کر لیں۔ لالچ اور دوسری بُری خواہشات اپنے دل سے نکال دیں۔ مگر برائی کرنے والوں نے اُس کو بُرا بھلا کہنا نہیں چھوڑا۔ جس طرح پہلے اس کو بُرا کہتے تھے اسی طرح اب بھی کہتے تھے اس کی عبادت اور نیک عادتوں کا مذاق اڑاتے تھے!

معافی مانگنے اور توبہ کرنے کے بعد انسان خدا کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ مگر لوگوں کی زبان اور ان کے طعنوں سے چھٹکارا نہیں پا سکتا !

اس شخص کو لوگوں کی بات ناگوار گزری کہ بری باتیں ترک کرنے کے بعد بھی وہ میری برائی کرتے ہیں۔ اس نے اپنے پیر سے شکایت کی۔ انھوں نے جواب دیا کہ تم خدا تعالیٰ کی مہربانی کا شکر ادا کرو کہ لوگ تم کو جیسا کہتے ہیں اب تو ویسے نہیں ہو:

اگر تم نیک ہو اور لوگ تم کو بُرا کہتے ہیں تو اس بات سے کہیں اچھا ہے کہ تم بُرے ہوتے اور لوگ تم کو اچھا کہتے!

٭٭٭

 

 

 

 

درویش کو دولت کا لالچ نہیں ہوتا

 

ایک بادشاہ کو کوئی بہت مشکل کام پیش آ گیا۔ اس نے کہا کہ خدا نے میری مشکل آسان کر دی تو میں عبادت کرنے والے درویشوں کو بہت سا روپیہ دوں گا۔ جب بادشاہ کا وہ کام اس کی مرضی کے مطابق پورا ہو گیا اور اس کی پریشانی دور ہو گئی تو اس نے اپنی شرط پوری کرنا ضروری خیال کیا۔ اپنے ایک خاص غلام کو روپیہ سے بھری ہوئی تھیلی دی اور حکم دیا کہ یہ عبادت گزار درویشوں میں بانٹ دو۔ غلام بہت عقل مند اور چالاک تھا۔ دن بھر گھومتا رہا اور شام کو واپس آ کر روپیہ کی تھیلی بادشاہ کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ میں نے عبادت گزاروں کو بہت تلاش کیا مگر مجھے نہیں ملے۔ بادشاہ نے کہا کہ یہ تعجب کی بات ہے۔ تو نے ایسی بات کیوں کی؟ مجھے جہاں تک معلوم ہے اس ملک میں چار ہزار درویش ہیں۔ غلام نے جواب دیا۔ اے آقا! جو درویش ہے وہ روپیہ نہیں لیتا ہے اور جو لیتا ہے وہ درویش نہیں ہے، بادشاہ مسکرایا اور مصاحبوں سے کہا کہ جتنی مجھ کو عبادت گزاروں سے عقیدت ہے اتنی ہی اس غلام کو ان سے نفرت ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ غلام کی بات صحیح ہے:

جو شخص عبادت گزاروں جیسی صورت بنا کر سونا چاندی لے لیتا ہے اس کو چھوڑ دو، کچھ مت دو اور کسی اچھی سیرت والے کو تلاش کرو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھنڈا اچھا کہ پردہ

 

یہ کہانی بھی سنو! ایک بار شہر بغداد میں ایک جھنڈے اور پردے پر بحث چھڑ گئی۔ جھنڈا گرد غبار اور سفر کی تھکن سے بہت پریشان تھا۔ اس نے غصّہ کے ساتھ پردے سے کہا کہ ہم تم دونوں ایک آقا کے غلام ہیں ایک بادشاہ کے خدمت گزار ہیں۔ لیکن مجھے ذرا دیر کے لیے بھی آرام کا موقع نہیں ملتا ہے اور برابر وقت بے وقت سفر میں رہتا ہوں اور تو نے نہ لڑائی کا مزہ چھکا نہ قلعوں اور جنگلوں میں پھرا نہ ہوا اور گردو غبار کی تکلیف اٹھائی اور میں محنت کرنے میں تجھ سے بہت آگے ہوں۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ تیری عزت مجھ سے زیادہ کیوں کی جاتی ہے۔ تو خوبصورت ملازموں اور چمیلی کے پھولوں جیسی حسین خادماؤں کے پاس رہتا ہے اور میں نوکروں کے ہاتھوں میں رہتا ہوں اور سفر میں دوسروں کا پابند ہوں لوگ جہاں چاہتے ہیں مجھے لے جاتے ہیں۔

پردے نے جواب دیا کہ میں اپنے مالک کی چوکھٹ پر سر جھکاتا ہوں۔ تیری طرح اپنا سر آسمان کی طرف بلند نہیں کرتا۔ جو شخص بے فائدہ گردن اونچی کر کے چلتا ہے وہ اپنے کو سر کے بل گراتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جو شخص عاجزی اور انکساری کرتا ہے اس کو عزت حاصل ہوتی ہے اور جو غرور سے سر اٹھا کر چلتا ہے وہ ایک دن ذلیل ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بہادر وہ ہے جو غصّہ کو تھوک دے

 

ایک نیک دل نے ایک طاقت ور پہلوان کو دیکھا کہ غصّہ کے مارے اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔ اس نے پوچھا یہ کیا حالت بنائی ہے، لوگوں نے کہا کہ فلاں شخص نے اس کو گالی دی ہے۔ اسی لیے یہ غصّہ میں ہے۔ نیک دل آدمی نے کہا کہ یہ کمینہ پہلوان ہزار سیر کا پتھر اُٹھا لیتا ہے مگر ایک بات (گالی) برداشت کرنے کی طاقت اس میں نہیں ہے:

جو شخص اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے چاہے مرد ہو یا عورت اس کو بہادری اور پہلوانی کا دعویٰ نہ کرنا چاہیے۔

بہادری یہ ہے کہ تمھارے ہاتھ سے کسی کا منہ میٹھا ہو۔ یہ بہادری نہیں ہے کہ تم کسی کے منہ پر گھونسہ مار دو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

علم اچھا کہ دولت

 

ملک مصر میں ایک دولت مند آدمی تھا۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ ایک نے علم حاصل کیا اور دوسرے نے مال و دولت جمع کی۔ ایک پڑھ لکھ کر بہت بڑا عالم بن گیا اور دوسرا اپنی دولت کے سہارے مصر کا بادشاہ ہو گیا۔

مال دار بھائی نے اپنے عالم بھائی کو ذلت کی نظر سے دیکھا اور اس سے کہا کہ میں بادشاہ بن گیا اور تو غریبی کی ذلت میں پڑا رہ گیا۔ عالم نے جواب دیا کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے اور اس کا بہت بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھ کو پیغمبروں کا وارث بنایا (علم پیغمبروں کا ترکہ ہے) اور تم کو فرعون اور ہامان جیسے بادشاہ اور وزیر کا وارث بنایا (فرعون مصر کا بادشاہ تھا اور ہامان اس کا وزیر):

میں اس چیونٹی کی طرح ہوں جس کو لوگ پیروں سے مسل دیتے ہیں مگر اس بھڑ کی طرح نہیں ہوں جس کے ڈنک سے لوگ روتے اور چیختے ہیں۔

میں نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے لوگوں کو ستانے کی طاقت نہیں دی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی سے کچھ مانگنا اچھا نہیں

 

ایک درویش کے متعلق میں نے سنا ہے کہ برابر فاقہ کی آگ میں جلتا تھا۔ کھانے کو کچھ نہ ملتا اور کپڑوں میں پیوند پر پیوند لگا کر پہنتا تھا۔ اور اپنا دل بہلا نے کے لیے کہتا تھا!

میں سوکھی روٹی اور پھٹے کپڑوں پر صبر کرتا ہوں لوگوں کے احسان اٹھانے سے بہتر ہے کہ مصیبت کا بوجھ خود برداشت کروں۔

ایک شخص نے اس درویش سے کہا کہ بھلا تکلیف پر صبر کر کے کیوں بیٹھے ہو۔ دیکھو! اس شہر میں ایک سخی آدمی رہتا ہے جو سب پر مہربان ہے اور درویشوں کی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ لوگ دل سے اس کی عزت کرتے ہیں۔ اگر اس کو تمھاری جیسی حالت کا کچھ علم ہو جائے تو تمھاری خدمت کرنا وہ غنیمت خیال کرے گا۔ اور خدمت کر کے الٹا آپ کا احسان مانے گا۔ درویش نے جواب دیا۔ خاموش رہو، میرے نزدیک غریبی کی حالت میں مر جانا بہتر ہے، مگر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اچھا نہیں۔

پیوند لگے کپڑے پہننا اور صبر کر کے ایک گوشہ میں بیٹھ رہنا اس بات سے اچھا ہے کہ امیروں کے نام خط لکھ کر روپیہ طلب کیا جائے۔

اگر کسی پڑوسی کی مدد اور سہارے پر بہشت میں جانا نصیب ہو تو یقیناًوہ دوزخ کے عذاب کے برابر ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کم کھانا ہر مرض کا علاج ہے

 

عرب سے دور کسی ملک کے بادشاہ نے ایک بہت تجربہ کار حکیم کو حضرت محمد (صلعم) کی خدمت کے لیے بھیجا۔ وہ کئی سال عرب میں رہا۔ کوئی شخص بھی اس کے پاس علاج کرانے نہیں آیا۔ اس نے حضرت محمد (صلعم) سے شکایت کی کہ مجھے آپ کے ساتھیوں کے علاج کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن کوئی شخص اتنے عرصہ میں میرے پاس بیماری کی شکایت لے کر نہیں آیا اور کسی نے مجھ کو خدمت کا موقع نہ دیا۔ حضرتؐ نے جواب دیا کہ میرے ساتھیوں کی عادت یہ ہے کہ جب تک زیادہ بھوک نہیں لگتی کھانا نہیں کھاتے ہیں اور جب کھاتے ہیں تو اس طرح کہ جب تھوڑی بھوک باقی رہتی ہے تو کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ حکیم نے کہا یہی وجہ ہے کہ سب تندرست رہتے ہیں۔ کوئی بیمار نہیں ہوتا۔ وہ آپؐ کی خدمت میں آداب بجا لایا اور رخصت ہو کر اپنے وطن چلا گیا۔

عقل مند شخص اسی وقت بات کرتا ہے جب اس کے نہ بولنے سے کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے اور کھانے کے لیے اسی وقت ہاتھ بڑھاتا ہے جب نہ کھانے سے جان جانے کا خطرہ ہوتا ہے وقت اور موقع پر بولنا مفید ہوتا ہے اور ضرورت پر کھانے سے تندرستی اچھی رہتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

فاقہ کرنا اور کم کھانا اچھا ہے

 

ملک خُراسان کے رہنے والے دو درویشوں میں بہت دوستی تھی۔ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے۔ سفر میں بھی دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ان میں ایک بہت ضعیف اور کمزور تھا۔ دو راتیں گزار کر تیسری رات کو کھانا کھاتا تھا اور دوسرا طاقتور تھا وہ دن میں تین بار کھانا کھاتا تھا۔ اتفاق سے ایک بار ایک شہر میں داخل ہوتے وقت دونوں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہو گئے۔ دونوں کو قید خانہ کی کوٹھری میں بند کر دیا گیا اور دروازہ کو مٹی سے لیپ دیا گیا۔ چند دن بعد چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ دونوں بے خطا ہیں۔ کوٹھری کھولی گئی تاکہ ان کو رہا کر دیا جائے۔ دیکھا گیا تو طاقت ور درویش کا انتقال ہو چکا تھا اور ضعیف درویش زندہ تھا۔ لوگوں کو بہت تعجب ہوا۔ ایک عقل مند شخص نے دیکھا تو کہا اگر طاقت ور زندہ رہتا اور ضعیف مر جاتا تب تعجب کی بات ہوتی۔ کیونکہ وہ بہت زیادہ کھانے والا تھا اس لیے فاقہ برداشت نہ کرسکا اور مر گیا۔ اور یہ ضعیف صبر کرنے کا عادی تھا، اس نے اپنی عادت کے موافق قید میں بھی صبر کیا اور مرنے سے بچ گیا!

جب کسی کی عادت کم کھانے کی پڑ جاتی ہے تو اس کے لیے غذا نہ ملنے کی تکلیف آسان ہو جاتی ہے وہ برداشت کر لیتا ہے۔

اور جو زیادہ کھانے اور آرام کا عادی ہوتا ہے اگر اس کو کہیں کھانا نہ ملا تو بھوک کی سختی سے مر جاتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ادھار لینا اچھا نہیں

 

شہر واسط کے چند درویشوں پر ایک بنیے کا قرض تھا۔ وہ بنیا ہر روز ان سے اپنی رقم کا مطالبہ کرتا اور ان کو بُرا بھلا کہتا تھا۔ درویش اس کی سخت باتیں سن کر بہت رنجیدہ ہوتے تھے۔ مگر خاموشی سے برداشت کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی اور علاج نہ تھا ایک نیک آدمی نے یہ باتیں سُنیں تو کہا کہ اپنے آپ سے کھانے کا وعدہ کر لینا زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ بنیے سے قرض لے کر اس کی ادائیگی کا وعدہ کیا جائے!

اگر دربانوں کے ظلم و زیادتی کا اندیشہ ہو تو کسی دولت مند کا احسان نہ لینا بہت اچھا ہے۔

گوشت کھانے کی تمنا میں مر جانا اچھا ہے مگر قرض لے کر قصائی کی سخت باتیں سننا اچھا نہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

مانگنا بری عادت ہے

 

تاتاریوں سے لڑتے ہوئے ایک بہادر جوان زخمی ہو گیا۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ فلاں تاجر کے پاس زخم کی دوا موجود ہے اگر تم اس سے مانگو گے تو انکار نہ کرے گا۔ کہتے ہیں کہ وہ تاجر بہت کنجوس مشہور تھا۔

اس زخمی جوان نے جواب دیا۔ اگر میں اس سے دوا مانگوں تو ممکن ہے دے دے اور اس سے مجھے فائدہ بھی ہو جائے۔ یا نہ دے لیکن میرے لیے مانگنا ایسا ہی ہے جیسے تیز زہر کھا لینا!

کمینوں کی خوشامد کر کے اگر کوئی چیز حاصل کر لی تو جسم کو فائدہ پہنچے گا مگر اس ذلت کی وجہ سے جان کو نقصان پہنچے گا۔

عقل مندوں نے کہا ہے عزت گنوا کر آب حیات بھی ملے تو نہ لینا چاہیے۔ عزت کی موت مر جانا ذلت کی زندگی سے بہتر ہے!

خوش مزاج آدمی کے ہاتھ سے ایلوا جیسا کڑوا پھل کھا لینا اچھا ہے۔ مگر کسی بد مزاج کے ہاتھ سے مٹھائی کھانا اچھا نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

اپنی محنت کی کمائی کھانی چاہیے

 

لوگوں نے مشہور سخی حاتم طائی سے پوچھا کہ تم نے خود اپنے سے زیادہ با ہمت اور سخی آدمی بھی کبھی دیکھا ہے۔ حاتم نے جواب دیا ہاں دیکھا ہے۔ ایک دن میں نے عرب کے امیروں اور غریبوں کی دعوت کی، اور کھانے کے لیے میں نے چالیس اونٹ ذبح کرائے۔ جب کھانا تیار ہو رہا تھا تو اس وقت میں ضرورت سے باہر جنگل کی طرف گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک لکڑہارا سوکھی لکڑیاں جمع کر کے ان کا گٹھّا باندھ رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ تو آج حاتم طائی کا مہمان کیوں نہیں بن جاتا جس نے دعوت کا بڑا انتظام کیا ہے اور تمام لوگ اس کے دسترخوان پر جمع ہیں۔ اس نے جواب دیا!

جو شخص اپنی محنت کی کمائی سے روٹی کھاتا ہے وہ حاتم طائی کا احسان نہیں لیتا۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ میں نے اس کو اپنے سے زیادہ ہمت والا اور بہادر سمجھا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو ملے اس پر صبر و شکر کرو

 

میں نے کبھی زمانہ کے ناموافق حالات کی شکایت نہیں کی۔ نہ کبھی تکلیفوں پر اظہار ناگواری کیا جس حال میں رہا خوش رہا۔ اور خدا کا شکر ادا کرتا رہا کہ کہیں اس سے بھی زیادہ پریشانی میں نہ مبتلا ہو جاؤں۔ خدا نے جس حال میں رکھا اس پر صبر و شکر کیا۔ لیکن جس وقت میرے پاؤں ننگے تھے، جوتا بھی میسر نہ تھا میں بہت پریشان اور ننگے پاؤں دمشق کی جامع مسجد پہنچا۔ وہاں میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے پیر ہی نہیں تھے۔ اس کو دیکھ کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنے ننگے پیروں پر صبر کیا!

جس شخص کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے اس کو بھنا ہوا مرغ بھی ساگ پات کے برابر معلوم ہوتا ہے اور جس شخص کو اچھا کھانا میسر نہیں ہے اس کے لیے اُبلا شلجم بھی بھنے ہوئے مرغ کے برابر ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

بڑوں کی مہربانی سے چھوٹوں کا حوصلہ بڑھتا ہے لیکن بڑوں کا رتبہ نہیں گھٹتا

 

ایک بادشاہ اپنے چند خاص مصاحبوں کے ساتھ شکار کے لیے نکلا۔ جاڑوں کے دن تھے، آبادی سے دور نکل گئے، رات ہو گئی۔ قریب میں ایک کسان کا مکان نظر آیا۔ بادشاہ نے کہا کہ آج رات اس کسان کے گھر میں رہنا چاہیے تاکہ سردی کے اثر سے بچ جائیں۔ ایک وزیر نے کہا کہ یہ بات بادشاہ کے بلند مرتبہ کے لائق نہیں ہے کہ ایک کسان سے رہنے کی جگہ مانگے۔ ہم اسی جگہ خیمے لگا دیں گے اور آگ جلائیں گے تاکہ کھانا بھی تیار کرا لیں۔ کسان کو خبر ہو گئی۔ اس کے یہاں جو کچھ کھانے کے لیے موجود تھا وہ لا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا اور آداب بجا لایا اور کہا بادشاہ کا بلند مرتبہ اس سے کم نہ ہوگا لیکن یہ لوگ نہیں چاہتے کہ ایک کسان کی عزت بڑھ جائے۔ بادشاہ کو کسان کی بات پسند آئی، شام کو اس کے مکان میں قیام کیا، صبح کو رخصت ہوتے وقت اس کو انعام دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کسان کچھ دور تک بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کہتا جاتا تھا کہ:

بادشاہ نے ایک کسان کے گھر قیام کیا، مگر بادشاہ کی عزت اور بڑائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن بلند مرتبہ بادشاہ کی مہربانی کا سایہ کسان کے سر پڑا تو اس کا سر آسمان کی بلندی تک جا پہنچا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

دولت مند اور لالچ

 

ایک سوداگر بہت مال دار تھا۔ اس کے پاس مال اور اسباب سے لدے ہوئے ڈیڑھ سو اونٹ تھے اور چالیس ملازم ۔ وہ جزیرہ کیش میں رہتا تھا۔ مجھ کو اپنے کمرے میں بلا کر لے گیا اور تمام رات مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ اس کی باتیں بہت بہکی بہکی تھیں۔ مجھ کو الجھن ہو رہی تھی۔ کہنے لگا میرا فلاں سامان ترکی جائے گا اور فلاں مال ہندوستان۔ میرے پاس یہ دستاویز فلاں زمین کی ہے۔ کبھی کہتا کہ میں اسکندریہ جانا چاہتا ہوں۔ وہاں کی آب و ہوا خوش گوار ہے۔ پھر کہنے لگا نہیں ادھر نہیں جاؤں گا۔ مغربی سمندر میں طوفان آیا ہوا ہے۔

اے سعدی! مجھے ایک دوسرا سفر بھی کرنا ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہو گیا تو باقی عمر گوشہ نشینی اختیار کروں گا اور جو کچھ میرے پاس ہے اس پر صبر کروں گا۔ میں نے پوچھا دوسرا سفر کہاں کرو گے؟ کہنے لگا میں گندھک لے کر چین جاؤں گا۔ سنا ہے اس کی قیمت وہاں زیادہ ہے۔ میں وہاں بیچ کر چینی برتن خریدوں گا اور اٹلی جا کر فروخت کروں گا اور اٹلی سے ریشم خرید کر ہندوستان جاؤں گا اور ہندوستان سے لوہا خرید کر حلب پہنچاؤں گا اور حلب سے شیشہ خرید کر یمن میں فروخت کروں گا اور یمن کی چادریں خرید کر ایران لے جاؤں گا۔ بس اس کے بعد سفر کرنا بند کر دوں گا اور ایک دکان لے کر اس پر بیٹھ جاؤں گا۔

اس شخص نے پاگل پن کی تمام باتیں کر ڈالیں اور جب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ رہا تو وہ مجھ سے کہنے لگا اے سعدی! تم بھی تو کچھ باتیں کرو، تم نے دنیا میں جو کچھ دیکھا اور سنا ہے وہ بیان کرو۔ میں نے جواب دیا:

کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ پچھلے سال غور کے جنگل میں تاجروں کا ایک سردار گھوڑے پر سے گر پڑا تھا اور اس وقت اس نے کہا تھا کہ لالچی آدمی کا پیٹ یا تو صبر سے بھر سکتا ہے یا پھر یا قبر کی مٹی سے!

٭٭٭

 

 

 

 

فضول خرچی کا انجام

 

ایک نیک آدمی کے لڑکے کو اس کے چچا کے ترکہ میں سے بہت سی دولت ہاتھ آئی۔ اس نے روپیہ کے بل بوتے پر بُری عادتیں اختیار کر لیں اور اچھی عادتیں چھوڑ دیں۔ وہ نشہ آور چیزیں استعمال کرنے لگا اور طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہو گیا۔

ایک بار میں نے اُس سے نصیحت کے انداز میں کہا کہ اے بیٹے!آمدنی کی مثال بہتے پانی کی طرح ہے اور عیش و آرام چلتی ہوئی چکّی کی مثل ہے۔ زیادہ خرچ اس کو کرنا چاہیے جس کی آمدنی بے حد وحساب ہو!

جب تمہاری آمدنی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے تو تھوڑا تھوڑا خرچ کرو تم نے نہیں سنا ہے کہ دریائے دجلہ میں کشتی چلانے والے ملاح یہ گانا گاتے ہیں کہ اگر پہاڑوں پر بارش نہ ہو تو دریا دجلہ ایک سال کے اندر خشک ندی بن جائے گا۔

تم کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب یہ دولت جو مفت ہاتھ آئی ہے ختم ہو جائے گی تو تم تکلیف اٹھاؤ گے اور اس وقت پچھتاؤ گے، وہ لڑکا گانے بجانے اور شراب میں مست رہتا تھا۔ میری نصیحت کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ الٹا میری باتوں پر اعتراض کرنے لگا اور کہنے لگا اس وقت مجھ کو جو عیش و آرام حاصل ہے اس کو آنے والی تکلیف کے خوف سے چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ہے!

جاؤ اے دوست خوش رہو اور مزے اڑاؤ۔ کل کا غم اور فکر آج نہ کرنا چاہیے۔

بتاؤ کہ میں دولت خرچ کرنے سے کس طرح باز رہ سکتا ہوں۔ جب کہ میں ریاست کی مسند پر بیٹھا ہوں اور ہر طرف میری سخاوت کی شہرت پھیلی چکی ہے۔

میں نے دیکھا کہ وہ میری بات پر کان نہیں دھرتا ہے اور میری گرم سانسوں کا کوئی اثر اس کے دل پر نہیں ہوتا ہے اور اس کی حالت بالکل ٹھنڈے لوہے جیسی ہو گئی ہے تو میں نے عقل مندوں کی اس بات پر عمل کیا کہ تمہارا کام اچھی بات بتانا ہے کوئی مانے یا نہ مانے۔ اس کا کام جانے۔ تم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔

بہت عرصہ گزرنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جس بات کا مجھ کو اندیشہ تھا وہی ہوا۔ میں نے اس لڑکے کو دیکھا کہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہے اور ایک ایک لقمہ روٹی دوسروں سے مانگ کر کھاتا ہے۔ مجھے اس کی حالت دیکھ کر بہت رنج ہوا مگر میں نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ یہ سوچ کر کے اس کے زخمی دل پر نمک کیوں چھڑکوں۔ یہ تو اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے!

کمینہ خصلت شخص مستی کی حالت میں اس دن سے نہیں ڈرتا جس دن وہ مفلس ہو جائے گا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلائے گا۔

دیکھو! درخت بہار کے موسم میں پھول پھل دیتا ہے مگر پت جھڑ کے زمانے میں پتّوں سے محروم ہو جاتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

روزی کمانے کے لیے سفر کرنا اچھا بھی اور بُرا بھی

 

کہتے ہیں ایک پہلوان زمانہ کی ناواقفیت سے پریشان ہو گیا۔ غریبی اور تنگ دستی کی وجہ سے اپنی جان سے عاجز تھا۔ اس نے اپنی غریبی اور پریشان حالی کی شکایت اپنے باپ سے کی اور ساتھ ہی اس نے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیجیے میں سفر کا ارادہ کر رہا ہوں تاکہ اپنی محنت مزدوری سے روزی حاصل کروں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ:

جب تک انسان کا ہنر اور اس کا علم ظاہر نہیں ہوتا ہے اس وقت تک اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ دیکھو عود لکڑی کو آگ میں ڈالتے ہیں تب خوشبو دیتی ہے اور مشک اس وقت مہکتا ہے جب گھسا جاتا ہے۔

باپ نے کہا اے بیٹے! یہ خیال اپنے دماغ سے نکال دے اور جو کچھ ملے اس پر صبر کر کے عافیت کی جگہ رہ کیونکہ عقل مندوں نے کہا ہے کہ دولت کوشش کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ صبر کرنے سے ملتی ہے:

اگر تمہارے پاس سیکڑوں ہنر ہوں تو بیکار ہے۔ جب تمہاری قسمت بری ہے جب مقدر الٹا ہو تو جسم کی طاقت کس کام آسکتی ہے۔

لڑکے نے جواب دیا ابّا جان! سفر میں بہت فائدے ہیں۔ دل بہلتا ہے۔ کمائی کا موقع ملتا ہے دنیا کی عجیب و غریب چیزیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ شہروں کی سیر ہوتی ہے، ادب و تہذیب اور مال و دولت اور طرح طرح کے تجربے حاصل ہوتے ہیں۔ نئے لوگوں سے دوستی کرنے اور ملنے کا موقع ملتا ہے۔ بزرگوں نے کہا ہے:

جب تک تو اپنے گھر کی دکان کے چکر لگاتا رہے گا اے نا تجربہ کار شخص تو ہر گز انسان نہیں بن سکتا، جاؤ دنیا میں گھوم پھر کر خوب سیر د تفریح کرو قبل اس کے کہ اس دنیا ہی سے رخصت ہو جاؤ!

با پ نے کہا اے بیٹے جیسا تم کہہ رہے ہو سفر کے فائدے تو بہت ہیں مگر وہ پانچ قسم کے لوگوں کے لیے مناسب ہیں!

اوّل سوداگر کے لیے سفر مناسب ہے جن کے پاس مال و دولت اور غلام اور خادمائیں ہوتی ہیں اور ان کے بہت چالاک شاگرد ایک شہر سے دوسرے شہر میں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہیں اور ہر جگہ ان کو آرام و آسائش حاصل ہے اور دنیا کی نعمتوں سے لطف اٹھاتے ہیں!

مال دار آدمی چاہے جنگل میں رہے یا میدان میں وہ مسافر نہیں کہلاتا کیونکہ وہ جہاں جاتا ہے اس کے لیے خیمہ تان دیا جاتا ہے اور دربار لگ جاتا ہے اور جس کو اپنا مقصد حاصل کرنے کی بھی قوت نہیں ہے وہ خود اپنے وطن میں مسافر اجنبی بن کر رہتا ہے!

دوسرا وہ شخص جس کی زبان میٹھی ہو اور بہت اچھے انداز میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ گفتگو کرے۔ ایسا شخص جہاں جاتا ہے لوگ اس سے ملنے آتے ہیں اور اس کی عزت کرتے ہیں!

عقل مند آدمی کی ذات سونے کے چمکدار سکّے کی طرح ہے کہ وہ جہاں بھی جاتا ہے لوگ اس کی قدر و قیمت کو جانتے ہیں ناسمجھ رئیس زادہ شہر ہی میں پڑا رہتا ہے پردیش میں اس کو کوئی پوچھتا بھی نہیں!

تیسرا خوبصورت آدمی جس کے پاس لوگ اٹھنا بیٹھنا پسند کریں۔ کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ خوب صورتی دولت سے بہتر ہے اچھی شکل و صورت کا آدمی سب کو پسند آتا ہے اور اس کا کام خوشی سے کر دیتے ہیں۔

خوب صورت شخص جہاں جاتا ہے اس کی عزت ہوتی ہے۔ چاہے اس کے ماں باپ غصّہ میں نکال دیں۔ میں نے مور کا پَر قرآن شریف میں رکھا ہوا دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ تیری یہ عزت تو تیرے مرتبہ سے بہت زیادہ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ خاموش رہو جو شخص خوب صورت ہوتا ہے اس کو لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں!

چوتھا وہ شخص جو خوش آواز ہو۔ جس کی آواز حضرت داؤد پیغمبر کی آواز کی طرح اتنی دل کش ہو کہ اس کو سن کر بہتا پانی ٹھہر جائے اور اڑتی ہوئی چڑیاں بیٹھ جائیں۔ اپنی اس خوبی کی بدولت اس کو لوگوں میں عزت حاصل ہو اور گانے کا شوق رکھنے والے اس کے پاس اٹھنا بیٹھنا پسند کریں اور ہر طرح اس کی خدمت کریں۔

پانچواں وہ شخص جس نے کوئی پیشہ اختیار کیا ہو (مثلاً نائی، دھوبی، درزی اور رفوگر تمبو) اور اپنی محنت سے روزی حاصل کرتا ہے تاکہ ایک لقمہ کے لیے اپنی عزت نہ گنوائے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔

اے میرے بیٹے میں نے جو پانچ قسم کے لوگوں کی صفتیں بتائی ہیں اگر ان میں سے کسی میں کوئی صفت موجود ہے تو اس کو سفر کرنے سے فائدہ حاصل ہوگا اور اگر ان میں سے کوئی ایک وصف موجود نہیں ہے تو وہ ساری دنیا پھرتا رہے کوئی اس کا نام و نشاں بھی نہ سنے گا!

زمانہ جس کی مخالفت کرتا ہے اس کو ایسے راستہ پر لے جاتا ہے جس پر جانے سے اس کو فائدہ نہیں ہوتا۔

جس کبوتر کے مقّدر میں دوبارہ اپنا گھونسلا دیکھنا نہیں ہوتا ہے قسمت اس کو جال کی طرف لے جاتی ہے!

لڑکے نے کہا ابا جان! میں عقل مندوں کی بات کی مخالفت کس طرح کروں کہ جنھوں نے کہا ہے کہ جتنا رزق ہر ایک کی قسمت میں لکھا ہے وہ ملے گا مگر شرط یہ ہے کہ اس کے حاصل کرنے کے ذرائع اختیار کرے۔ مصیبت اگر قسمت میں لکھی ہے تو آئے گی مگر اس کے روکنے کے جو طریقے ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے!

ہر ایک کو اس کی قسمت میں لکھا ہوا رزق ملے گا۔ مگر اس کے حاصل کرنے کے لیے کوشش بھی کرنا چاہیے۔ کوئی شخص بے موت کے نہیں مرے گا۔ مگر تم جان بوجھ کر اژدھے کے منہ میں ہاتھ نہ ڈالو، یعنی جان بوجھ کر موت کے منہ میں نہ جاؤ!

اس وقت میری جو حالت ہے اس میں میں مست ہاتھی سے لڑ سکتا ہوں اور غصّہ ور شیر سے بھی مقابلہ کر سکتا ہوں۔ اس لیے! اے ابّا جان! اچھا یہی ہے کہ میں سفر کروں۔ اب اتنی مفلسی اور غریبی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ہے۔

جب آدمی اپنا گھر اور وطن چھوڑ دیتا ہے تو پھر اسے کیا غم ساری دنیا اس کی قیام گاہ ہے۔ رات کے وقت دولت مند مسافر سرائے میں ٹھہرتا ہے اور مفلس اسی جگہ قیام کر لیتا ہے جہاں رات ہو جاتی ہے!

باپ سے یہ باتیں کر کے اس نے خدا سے مدد مانگی اور باپ سے یہ کہتا ہوا سفر پر روانہ ہو گیا:

جب ہنر مند کی قسمت اس کا ساتھ نہ دے تو وہ جہاں بھی جائے کوئی اس کا نام نہ جانے گا۔

اسی حالت میں سفر کرتا ہوا وہ ایک دریا کے کنارے پہنچا۔ وہ دریا اتنے زور شور سے بہہ رہا تھا کہ ایک پتھر دوسرے پتھر سے ٹکراتا تھا اور میلوں تک اس کی آواز سنائی دیتی تھی!

ایسا خوف ناک دریا تھا کہ مرغابیاں بھی اس کی آواز سے سہم جاتی تھیں اور اونچی لہریں پن چکّی کے پتھر کو بھی اکھاڑ کر بہالے جاتی تھیں۔

اس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ معمولی سکّے ملّاح کو دے کر کشتی میں سوار ہو رہے تھے تاکہ دریا کے اس پار جا سکیں اور کشتی سفر کے لیے تیار ہو چکی تھی۔ اس جوان کے پاس ملّاح کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ تھا اس نے لوگوں کی خوشامدیں کیں بہت رو رو کر کہا کہ مجھ کو بھی کشتی میں بیٹھنے دو مگر کسی نے اس کی مدد نہ کی ملّاح بے مروتی کے ساتھ ہنسا اور کہنے لگا!

اگر تمھارے پاس روپیہ نہیں ہے تو تم دریا کے پار نہیں جاسکتے ہو۔ دس جوانوں کی طاقت بھی تم کو دریا کے اس پار نہیں پہنچا سکتی لیکن ایک آدمی کا کرایہ لے آؤ تو کشتی میں سوار ہو سکتے ہو!

جوان کو ملّاح کے طعنہ دینے پر غصّہ آگیا اور اس سے بدلہ لینے کا ارادہ کیا۔ کشتی روانہ ہو چکی تھی۔ اس نے پکار کر ملّاح سے کہا کہ اگر میرے کپڑے جو جسم پر ہیں لے کر کشتی میں بٹھا سکتے ہو تو مجھے کوئی عذر نہ ہوگا۔ ملاح کو لالچ پیدا ہوا۔ کشتی کنارے لے آیا۔ جیسے ہی اس جوان کے قریب پہنچا اس نے بڑھ کر اس کا دامن پکڑا اور گھسیٹ لیا اور بے دھڑک اس کو مارنا شروع کر دیا۔ ملّاح کا ایک دوست اس کی مدد کے لیے کشتی سے اُتر کر آیا مگر اس جوان کا جوش اور طاقت دیکھ کر بھاگ گیا۔ آخر کار اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ اس سے صلح کر لیں اور کشتی کا کرایہ نہ لیں۔ اس لیے اس جوان سے کہا جو کچھ ہونا تھا ہو گیا اس کو بھول جاؤ اور بظاہر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کی آنکھوں اور سر کو چوما اور کشتی میں لے آئے۔ کشتی چلنے لگی۔ کچھ دور پر پانی کے اندر ایک بڑا ستون کھڑا ہوا نظر آیا جو یونان کے لوگوں نے بنایا تھا۔ ملّاح نے کہا کشتی میں سوراخ ہو گیا ہے اس کے ڈوبنے کا خطرہ ہے۔ اس لیے تم میں سے جو طاقتور جوان ہو وہ اس ستون پر چڑھ جائے اور کشتی کی رسی پکڑ لے تاکہ میں اس کی مرمّت کر لوں۔ وہ جوان اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ستون پر چڑھنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ ملّاح کے دل میں اس کے لیے دشمنی پیدا ہو چکی ہے۔ عقل مندوں نے کہا ہے کہ جس شخص کو تم نے تکلیف دی ہے۔ اگر تم نے بعد میں اس کو آرام بھی پہنچایا۔ تب بھی اس کے دل سے تمھاری دشمنی دور نہ ہوگی۔ جس طرح تیر زخم سے نکل جاتا ہے تب بھی اس کی تکلیف دل میں باقی رہتی ہے!

ایک سردار نے اپنے سپاہی سے کیا اچھی بات کہی کہ جب تم دشمن کو زخمی کرو تو خود کو محفوظ نہ سمجھو۔ جب تم نے کسی کا دل دکھایا ہو تو اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرو کیونکہ وہ بھی تمھارا دل دکھائے گا۔

جیسے ہی اس جوان نے کشتی کی رسّی اپنی کلائی میں لپیٹی اور ستون پر چڑھ گیا۔ ملّاح نے رسّی کاٹ دی اور کشتی کو چلانے لگا۔ وہ جوان حیران رہ گیا اور زندگی سے ناامید ہو گیا۔ دو دن اسی ستون پر بیٹھا رہا اور بہت تکلیف اٹھائی۔ تیسرے دن نیند سے مجبور ہو کر سو گیا اور اسی حالت میں پانی کے اندر گر پڑا اور بہتا ہوا ایک رات اور ایک دن کے بعد پانی کی لہروں نے اس کو دریا کے کنارے پہنچا دیا۔ ابھی اس کے بدن میں جان باقی تھی۔ وہ پودوں کی جڑیں اور درختوں کے پتے کھانے لگا۔ جب بدن میں کچھ طاقت آئی تو وہ جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔ کمزوری اور پیاس کی حالت میں ایک کنویں پر پہنچا۔ وہاں بہت سے لوگ پانی پی رہے تھے۔ مگر پیسے دے کر پانی مل رہا تھا اس کے پاس پیسے نہ تھے لوگوں سے کہا کسی نے اس کو پانی نہ دیا نہ کسی کو اس پر رحم آیا۔ مجبوراً اس نے زبردستی پانی لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا مگر کامیابی نہیں ہوئی مجبور ہو کر کئی آدمیوں کو مارا تو لوگوں نے مل کر اسے پکڑ لیا اور خوب مارا۔ جوان زخمی ہو گیا۔ ناچار ہو کر ایک قافلہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ شام کے وقت قافلہ ایک خطرناک مقام پر پہنچا جہاں چوروں کے ملنے کا ڈر تھا۔ اس جوان نے دیکھا کہ قافلہ کے لوگ خوف سے کانپنے لگے ہیں۔ اس نے کہا تم لوگ ڈرو مت میں اکیلا پچاس آدمیوں کا مقابلہ کر سکتا ہوں، دوسرے لوگ بھی میرے ساتھ مل کر مقابلہ کریں۔ اس کے کہنے پر قافلہ والوں کے دل مطمئن ہو گئے۔ سب اس سے خوش ہو گئے اور اس کو کھانا بھی کھلایا۔ کئی دن کا بھوکا تھا پیٹ بھر کھانا کھایا اور ٹھنڈا پانی پیا تو اس کو نیند آ گئی اور سو گیا۔ قافلہ میں ایک بوڑھا شخص تجربہ کار بھی تھا۔ اس نے کہا اے دوستو! میں چوروں سے اتنا نہیں ڈرتا ہوں جتنا تمھارے اس رہنما سے۔ میں اس کے حال کے مطابق ایک واقعہ تم کو سناتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ عرب کے ایک آدمی نے کچھ روپے جمع کیے تھے۔ رات کو چوروں کے ڈر سے سوتا نہ تھا کہ کہیں روپیہ نہ لے جائیں۔ اپنے ایک دوست کو گھر لے آیا تاکہ تنہائی میں دل نہ گھبرائے۔ کئی دنوں تک اس کے ساتھ رہا تو اس کو پتہ چل گیا کہ اس کے پاس روپیہ ہے۔ اس دوست نے موقع پاکر اس عربی کا روپیہ چرا لیا اور کھا پی کر سفر پر روانہ ہو گیا۔ صبح لوگوں نے دیکھا کے عرب ننگے بدن ہے اور رو رہا ہے۔ لوگوں نے پوچھا تمھارا کیا حال ہے؟ شاید تمھارا روپیہ چور لے گیا۔ اس نے کہا ہرگز نہیں خدا کی قسم چور نہیں لے گیا بلکہ نگہبان لے گیا ہے۔ بوڑھے نے یہ کہانی سناکر قافلہ والوں سے کہا کہ کیا معلوم یہ بھی چوروں ہی کا کوئی ساتھی ہو اور دھوکہ دے کر ہمارے ساتھ ہو گیا ہے اور موقع پاکر چوروں کے گروہ کو خبر کر دے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس کو یہاں سونے دیا جائے اور ہم لوگ آگے روانہ ہو جائیں۔ ان لوگوں نے یہ بات مان لی اور اس جوان کو سوتا چھوڑ کر چل دیے۔ اس جوان کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ سر اٹھا کر دیکھا تو قافلہ جا چکا تھا۔ بے چارہ بہت دیر تک اس قافلہ کو ڈھونڈ تا رہا مگر اس کا نشان نہ ملا، پیاسہ اور بے سروسامان تھا، زمین پر لیٹ گیا اور خود کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور کہنے لگا:

کون ہے کہ جو مجھ سے باتیں کرے قافلہ والے اپنے اونٹوں پر سوار ہو کر چلے گئے اور مجھ کو تنہا چھوڑ گئے ایک مسافر کا مدد گار مسافر کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ مسافروں کے ساتھ وہی شخص سختی سے پیش آتا ہے کہ جس نے زیادہ دن مسافرت میں گزارے نہ ہوں۔

بے چارہ جوان یہی بات کہہ رہا تھا کہ اتفاق سے ایک شاہزادہ جو شکار کھیلتا ہوا اپنے سپاہیوں سے دور ہو گیا تھا۔ اس جوان کے سرہانے کھڑا اس کی باتیں سن رہا تھا اور اس کی حالت کو غور سے دیکھ رہا تھا جو دیکھنے میں پاکیزہ صورت تھا مگر اندر سے اس کا دل پریشان تھا۔ شاہزادے نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو اور اس جگہ کیوں پڑے ہو۔ جوان نے مختصر الفاظ میں اپنا حال بتایا۔ شاہزادے کو اس پر رحم آیا۔ اس کو قیمتی لباس اور روپیہ بھی دیا اور اپنے ایک قابل اعتماد آدمی کے ساتھ اس کو اس کے وطن بھیج دیا جب وہ جوان اپنے گھر پہنچا تو باپ اس کے واپس آنے پر شکر ادا کیا۔ رات کو اس نے وہ سارے واقعات اپنے باپ کو بتائے جو سفر میں اس کے ساتھ پیش آئے تھے۔ باپ نے کہا اے بیٹے! کیا میں نے گھر سے جاتے وقت تم سے نہیں کہا تھا کہ مفلس بہادر کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں اور بہادر کے پنجے غریبی کی وجہ سے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ایک مفلس ہتھیار بند آدمی نے کیا اچھی بات کہہ دی ہے کہ پچاس سیر طاقت سے تو ایک جو بھر سونا زیادہ بہتر ہے۔ بیٹے نے کہا اے ابا جان! جب تک کوئی تکلیف نہیں اٹھا لیتا اس وقت تک اس کو خزانہ نہیں ملتا اور جب تک جان کو خطرے میں نہیں ڈالو گے دشمن پر فتح حاصل نہ کر سکوگے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں نے تھوڑی تکلیفیں اٹھائیں تو کتنا زیادہ فائدہ حاصل کیا۔ یوں سمجھیے کہ شہد کی مکھّی کے ڈنک کی تکلیف تو اٹھائی مگر کتنا زیادہ شہد حاصل کر لیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ!

سمندر سے موتی نکالنے والا غوطہ خور اگر گھڑیال کا خوف کرے تو پھر وہ قیمتی موتی حاصل نہیں کرسکتا۔ چکّی کے نیچے کا پاٹ حرکت نہیں کرتا ہے بلکہ ایک جگہ جما رہتا ہے اس لیے اس پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔

باپ نے کہا اے بیٹے! اس بار سفر میں اتفاق سے تمھاری قسمت نے مدد کی کہ ایک دولت مند شاہزادہ تمھارے پاس اتفاق سے پہنچ گیا اور اس نے تم پر مہربانی کی اور تم کو روپیہ دیا اور تمھاری خستہ و خراب حالت کو ٹھیک کیا۔ ایسے اتفاق بہت کم ہوتے ہیں اور جو چیز کبھی اتفاقیہ پیش آتی ہو اس کو ہمیشہ کے لیے نمونۂ عمل نہ بنانا چاہیے۔ تاکہ لالچ میں آ کر دوسری بار نقصان نہ اٹھاؤ۔ جیسا کہ فارس کے ایک بادشاہ کا واقعہ ہے کہ اس کی انگوٹھی میں ایک بہت قیمتی نگینہ جڑا ہوا تھا۔ ایک بار بادشاہ سیر و تفریح کے لیے اپنے چند مصاحبوں کے ساتھ شہر شیراز سے باہر گیا اور اس نے حکم دیا کہ اس کی انگوٹھی بادشاہ عضدالدولہ کے مقبرے کے گنبد پر جڑ دی جائے اور نشانہ بازی کے ماہر اس انگوٹھی پر تیر چلائیں جس کا تیر انگوٹھی کے حلقے سے نکل جائے گا انگوٹھی اسی کو دے دی جائے گی۔ اتفاق سے وہاں چار سو نشانہ باز موجود تھے۔ سب نے تیر چلائے۔ کسی کا تیر بھی انگوٹھی کے حلقہ میں ہو کر باہر نہیں نکلا۔ ایک چھوٹا لڑکا ایک مسافر خانہ کی چھت پر کھڑا ہوا کھیل رہا تھا اور کھیل میں چھوٹے چھوٹے تیر بھی چلا رہا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ ہوا کی موافقت کے سبب سے اس لڑکے کا ایک تیر انگوٹھی کے حلقہ سے پار ہو گیا۔ بادشاہ نے انگوٹھی اس لڑکے کو دے دی اور اس کو بہت سا انعام بھی دیا۔

اس لڑکے نے انعام پاکر فوراً اپنا تیر اور کمان جلا دیا۔ لوگوں نے لڑکے سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے جواب دیا۔ اس لیے جلا دیا تاکہ میرے ہنر کی عزت قائم رہے جو پہلی بار اتفاق سے ظاہر ہو گیا۔ اگر دوبارہ کہیں تیر چلایا تو کون جانے کامیاب ہو یا نہ ہو۔ تم نے سنا نہیں ہے کہ:

کبھی کبھی تجربہ کار حکیم کے علاج سے مریض کو صحت نہیں ہوتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نا سمجھ لڑکا غلطی سے صحیح نشانہ لگا دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

خاموش رہنے میں فائدہ ہے

 

ایک سوداگر کو کاروبار میں نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم میرے اس نقصان کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ بیٹے نے کہا۔ ابّا جان! آپ کا حکم ہے تو کسی سے نہ کہوں گا لیکن یہ تو بتائیے کہ اس بات کو چھپانے سے کیا فائدہ ہوگا۔ سوداگر نے جواب دیا۔ چھپانے میں یہ فائدہ ہے کہ ایک غم کے بجائے دو دو غم نہ جھیلنا پڑیں۔ ایک تو مالی نقصان کی تکلیف اور دوسرے پڑوسی کے خوش ہونے کا افسوس جو ہمارے نقصان پر خوش ہوتا ہے:

اپنے غم اور تکلیف کا ذکر اپنے دشمنوں کے سامنے مت کرو۔ کیونکہ بظاہر تو وہ ہمدردی ظاہر کریں گے لیکن دل میں تمھارے نقصان پر خوش ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بڑائی جتانے سے چپ رہنا اچھا ہے

 

ایک عقل مند جوان، نہایت قابل عالم تھا، بہت سے ہنر بھی جانتا تھا جاہل اور بے ہنر لوگوں سے نفرت کرتا اور عالموں اور عقلمندوں کی محفلوں میں شریک ہوتا تھا۔ مگر خود ہمیشہ خاموش رہتا۔ ایک بار اس کے باپ نے کہا، اے بیٹے! تم بھی پڑھے لکھے ہو ان محفلوں میں اپنی معلومات کے مطابق باتیں کیا کرو۔ اس نے جواب دیا۔ ابّا جان! مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ لوگ مجھ سے ان چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیں جن سے میں ناواقف ہوں اور مجھے محفل میں شرمندہ ہونا پڑے!

کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ ایک بزرگ اپنے جوتے میں کیلیں جڑ رہے تھے ایک سپاہی نے دیکھ لیا تو ان کو پکڑ لیا اور کہا کہ تم میرے گھوڑے کی نعل بندی کر دو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

عالم اور جاہل میں فرق

 

یونان کے مشہور حکیم جالینوس نے ایک بار راستہ میں دیکھا کہ ایک جاہل آدمی ایک عالم کا گریبان پکڑے ہوئے تھا اور اس کو بُرا بھلا کہہ رہا تھا۔ جالینوس نے کہا کہ اگر یہ عالم بے وقوف نہ ہوتا تو جاہل کے ہاتھوں اس حالت کو نہ پہنچتا!

دو عقل مندوں اور عالموں میں جھگڑا نہیں ہوتا ہے اور کوئی سمجھ دار آدمی کسی ناسمجھ سے نہیں الجھتا ہے۔ اگر جاہل آدمی کسی عالم کو بُرا بھلا کہتا ہے تو وہ اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

بُری آواز کی مصیبت

 

ایک نوجوان شخص اپنی خوشی سے بخارا کی مسجد میں اذان دینے لگا اس کی آواز بہت کرخت تھی۔ اذان کے الفاظ ادا کرنے کا ڈھنگ اتنا خراب تھا کہ لوگ سن کر پریشان ہوتے تھے اور اسی وجہ سے وہ نوجوان سے نفرت کرنے لگے۔ مسجد کا متولّی ایک نیک خصلت اور انصاف پسند آدمی تھا۔ وہ بھی چاہتا تھا کہ یہ شخص اذان نہ دے۔ لیکن اس کا دل دکھانا بھی پسند نہ کرتا تھا۔ اس نے نہایت اچھا طریقہ اختیار کیا۔ اس نوجوان سے کہا۔ تم جانتے ہو کہ اس مسجد میں بہت زمانہ سے پانچ موذن موجود ہیں، ہر ایک کو میں پانچ پانچ روپے ماہوار تنخواہ دیتا ہوں تم کسی اور مسجد میں اذان دیا کرو۔ میں تم کو دس روپیہ دیا کروں گا۔ یہ تجویز اس نے پسند کی اور دوسری مسجد میں جا کر اذان دینے لگا۔ وہاں کے لوگ بھی اس کی آواز سے تنگ آ گئے اور اس سے کہا گیا کہ تم کسی اور مسجد میں چلے جاؤ تو تم کو بیس روپے دیے جائیں گے۔ اتفاق سے اس امیر کو ایک دن وہ نوجوان راستہ میں ملا اور کہا۔ آپ نے مجھ پر ظلم کیا کہ دس روپے دے کر دوسری جگہ بھیج دیا حالانکہ اب جہاں ہوں وہ لوگ مجھے بیس روپے دے رہے ہیں کہ میں کسی اور مسجد میں چلا جاؤں۔ امیر مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو گیا اور اس جوان موذن سے کہا تم ہرگز بیس روپیہ نہ لینا کہ وہ چند دن میں تم کو پچاس روپے دینے پر راضی ہو جائیں گے!

٭٭٭

 

 

 

 

سیاہ گوش اور شیر

 

کسی بادشاہ کا ایک وزیر ملازمت سے الگ کر دیا گیا۔ وہ درویشوں کی مجلس میں شامل ہو گیا، اس کی صحبت کی برکت سے اس کو اطمینان حاصل ہوا۔ کچھ دنوں بعد بادشاہ اس سے خوش ہو گیا اور دوبارہ اس کو وزیر بنانا چاہا۔ اس نے منظور نہیں کیا اور کہا۔ عقلمندوں کی رائے ہے کہ ملازمت چھوڑ کر گوشہ نشینی اختیار کرنا بہتر ہے:

جو لوگ دوسروں کی ناخوشی سے بچنے کے لیے اور اپنی سلامتی کے خیال سے سب سے الگ عافیت کے گوشہ میں بیٹھے ہیں وہ کتّوں کے کاٹنے سے محفوظ ہیں اور لوگوں کے بُرا بھلا کہنے سے بچے ہیں۔

ایسے لوگوں نے اپنے قلم توڑ ڈالے اور کاغذ پھاڑ دیے ہیں۔ اسی لیے غلطیاں پکڑنے اور اعتراض کرنے والوں کے ہاتھوں سے بچ گئے ہیں۔

بادشاہ نے کہا مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے۔ وزیر نے جواب دیا۔ زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ ایسے کاموں کو اپنے ذمہ نہ لے!

ہُما تمام پرندوں سے اس لیے زیادہ عزت رکھتا ہے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے لیکن کسی جانور کو ستاتا نہیں ہے۔

کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا کہ تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا ہے؟ اس نے جواب دیا اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں اور شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کروں اس سے پوچھا گیا کہ جب تم شیر کی حمایت کے سایہ میں رہتے ہو اور اس کی مہربانی کا شکر ادا کرتے ہو تو پھر اس کے قریب کیوں نہیں جاتے ہو؟ سیاہ گوش نے جواب دیا میں شیر کے حملے سے ڈرتا ہوں۔ جس طرح دوسرے جانور اس کے حملے سے محفوظ نہیں ہیں۔ اسی طرح میں بھی محفوظ نہیں ہوں۔

آگ کی پوجا کرنے والا اگر سو سال تک آگ جلائے رکھے، تب بھی آگ اس کی رعایت نہ کرے گی۔ کیونکہ اس کا کام ہی جلانا ہے۔ اگر پجاری ایک دم کے لیے اس میں گر پڑے تو بھی اس کو جلا دے گی۔

ایسا اتفاق بھی ہوا کرتا ہے کہ کبھی بادشاہ کا مصاحب انعام پاتا ہے اور کبھی ذرا سی غلطی پر اس کا سر کٹ جاتا ہے۔ عقل مندوں کا کہنا ہے کہ بادشاہوں کی طبیعت کا رنگ بدلتا رہتا ہے اس لیے ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہو جاتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔ بادشاہ کے جو مصاحب ہنسی دل لگی کرتے ہیں وہ انھیں کا ہنر ہے اور عقل مندوں کے لیے یہ عجیب ہے!

تم اپنی عزت اور مرتبہ کو پہنچو تو اس کا لحاظ رکھو اور ہنسی مذاق کی باتیں مسخروں کے لیے چھوڑ دو۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

بوڑھے کی نصیحت نوجوان کو

 

ایک بار میں اپنی جوانی کے گھمنڈ اور طاقت کے غرور میں بہت تیز رفتاری سے چلا۔ اس قدر تھک کر چور ہو گیا کہ ایک اونچے ٹیلہ کے نیچے بیٹھ رہا۔ آگے چلنے کی ہمت نہ رہی، آرام کے لیے لیٹ گیا۔ ایک بہت بوڑھا اور کمزور آدمی قافلہ کے پیچھے آ رہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو کہا۔ یہاں کیوں لیٹے ہو یہ سونے کی جگہ نہیں ہے۔ میں نے جواب دیا۔ اٹھ کر آگے کیسے چلوں، مجھ میں اب چلنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس بوڑھے نے کہا۔ عقل مندوں کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ آرام سے چلنا اچھا ہے یا دوڑ کر چلنا اور قافلہ سے الگ ہو جانا؟

میری نصیحت مانو، صبر سے کام لو، تمھیں اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کا شوق ہے تو جلدی نہ کرو، دیکھو عربی گھوڑا بہت تیز دوڑتا ہے اور جلدی تھک جاتا ہے اونٹ کو دیکھو آہستہ چلتا ہے اسی لیے رات دن مسلسل چلتا رہتا ہے اور تھکتا نہیں ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

کنجوس دولت مند

 

ایک مال دار بہت کنجوس تھا۔ اس کا بیٹا بیمار ہو گیا۔ اس کے ہمدرد دوستوں نے کہا کہ اس لڑکے کی صحت کے لیے قرآن شریف پڑھ کر دعا کرو گے یا کسی جانور کی قربانی کراؤ گے۔ کنجوس نے تھوڑی دیر سوچ کر جواب دیا۔ قرآن پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ جانوروں کا گلّہ دور جنگل میں ہے وہاں سے لانے میں دیر ہو گی۔ ایک نیک آدمی نے اس کی بات سن کر کہا۔ قرآن پڑھنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن کا اثر صرف زبان پر ہے اور دولت جان سے زیادہ عزیز ہے!

اگر مال خرچ کر کے نیکی حاصل کرنے کی ہمّت ہے تو پھر جسمانی عبادت کرنا نہایت افسوس کی بات ہے۔ کنجوس شخص سے اگر الحمد پڑھواؤ تو سو بار پڑھ دے گا اور اگر ایک روپیہ خرچ کرنے کا موقع پڑے گا تو گدھے کی طرح کیچڑ میں پھنس جائے گا۔ یعنی شور غوغا کرے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ماں کا دل نہ دکھاؤ

 

جوانی کی عمر میں ایک بار میں اپنی ماں پر چلّایا۔ وہ بہت رنجیدہ ہو گئیں اور مکان کے ایک گوشہ میں بیٹھ کر رونے لگیں اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ اے میرے بیٹے! کیا تم اپنے بچپن کا زمانہ بھول گئے، جب تم کمزور اور بے بس تھے؟ آج مجھ سے ایسی سختی اور بد تمیزی کا برتاؤ کر رہے ہو!

ایک بوڑھی ماں نے اپنے بیٹے سے اس وقت کیا اچھّی اور سچّی بات کہی جب وہ بہت طاقت ور اور بہادر نظر آتا تھا:

اے بیٹے! اگر تجھ کو اپنا بچپن یاد آتا کہ جب تم میری گود میں بے بس تھے تو پھر تم مجھ پر سختی نہ کرتے اب تو تم طاقت ور ہو اور میں کمزور بڑھیا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

استاد کی مار بھلائی کے لیے ہے

 

ایک بادشاہ نے اپنے شاہزادے کو پڑھانے کے لیے ایک بہت قابل استاد مقرر کیا تھا۔ استاد شاہزادے کو بے دھڑک مارتا تھا اور بہت زور سے ڈانٹتا تھا۔ شاہزادے نے اپنے باپ سے شکایت کی اور اپنے بدن پر چوٹ کے نشان دکھائے۔ بادشاہ کو سن کر بہت غصّہ آیا۔ اس کو بلایا اور کہا، آپ رعایا کے لڑکوں کو بھی اتنا نہیں مارتے، جتنا میرے لڑکے کو مارتے ہیں۔ اس کا کیا سبب ہے؟ استاد نے جواب دیا۔ عام لوگوں کے لیے اچھے اخلاق و عادات اختیار کرنا ضروری ہے۔ لیکن بادشاہ کو خاص طور پر اچھے اخلاق و عادات اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کی زبان سے جو بات نکلے گی سارے ملک میں پھیل جائے گی اور جو کام اس کے ہاتھ سے ہوگا سب کو معلوم ہو جائے گا اور عام لوگوں کی باتوں اور ان کے کاموں پر کسی کی نظر نہیں پڑتی نہ کوئی ان کا ذکر کرتا ہے۔ یہ لڑکا ایک دن بادشاہ بنے گا!

اگر کسی فقیر کے اندر سو برائیاں ہوں تو اس کے ساتھی سو میں سے ایک سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ لیکن اگر بادشاہ سے کوئی ایک بُرا کام ہو جائے تو اس کی خبر ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچتی ہے۔

آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک استاد کے لیے ضروری ہے کہ بادشاہ زادے کو اچھے اخلاق و عادات کی تعلیم دینے میں زیادہ محنت اور توجہ کرے۔ اس کے لیے اتنی محنت اور سختی کافی نہیں جو عام لوگوں کے بچوں کے ساتھ کی جاتی ہے!

جس کو بچپن میں ادب نہیں سکھایا گیا، بڑا ہو کر وہ کوئی اچھا کام نہ کرے گا۔ تازہ لکڑی کو جس طرح چاہو موڑ لو۔ لیکن جب سوکھ جائے گی تو بغیر آگ دکھائے مڑ نہیں سکتی۔

جو لڑکا استاد کی مار نہیں کھاتا، وہ زمانہ کے ہاتھوں پریشان ہوتا ہے!

بادشاہ کو استاد کا جواب بہت پسند آیا، اس کو انعام دیا اور اس کے عہدہ کو بڑھا دیا۔ * *

٭٭٭

 

 

 

 

 

اچھی اچھی نصیحتیں

 

(1) مال اور دولت خدا نے اس لیے دیا ہے کہ زندگی آرام کے ساتھ گزرے۔ زندگی اس کے لیے نہیں ہے کہ مال و دولت جمع کرنے میں صرف کریں۔

لوگوں نے ایک عقل مند شخص سے پوچھا۔ نیک بخت کون ہے؟ اور بدبخت کس کو کہیں؟

اس نے جواب دیا۔ نیک بخت وہ ہے جس نے کھایا اور بویا۔ یعنی خدا کی راہ میں خرچ کیا۔ اور بدبخت وہ ہے کہ مر گیا اور چھوڑ گیا۔ یعنی نہ خود آرام سے زندگی بسر کی نہ غریبوں کو کچھ دیا۔ سب چھوڑ کر چلا گیا۔

٭٭٭

 

(2) دو آدمیوں نے بے کار محنت کی اور بے فائدہ کوشش کی۔ ایک وہ جس نے دولت جمع کی اور خرچ نہ کی دوسرا وہ جس نے علم حاصل کیا اور اس پر عمل نہ کیا!

چاہے تم جس قدر علم حاصل کرو۔ اگر اس پر عمل نہیں ہے تو تم جاہل ہو۔ اس طرح کا بے عمل شخص نہ تو عالم ہے نہ دین دار، بلکہ اس گدھے کی طرح ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو اور اس عقل سے خالی کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ اس پر لکڑیاں لدی ہوئی ہیں یا کتابیں!

٭٭٭

 

(3) علم حاصل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دین کی خدمت کی جائے اور اس کے قانون پر عمل کیا جائے۔ اس لیے علم حاصل نہیں کیا جاتا کہ اس کے ذریعہ دنیا کا عیش و آرام حاصل ہو۔

جس شخص نے اپنے علم کو مال کے بدلے بیچ دیا اور لوگوں کے دکھانے کے لیے عبادت اور پرہیزگاری اختیار کی اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے کہ جس نے کھیت کاٹ کر کھلیان لگایا ہو اور پھر اس میں آگ لگا دی ہو۔

٭٭٭

 

(4) ملک کی عزت اور رونق عقل مندوں سے ہوتی ہے اور دین کی ترقی پرہیزگاروں کے دم سے ہے۔ عقل مند لوگ بادشاہوں کی مصاحبت کے اس قدر محتاج نہیں ہیں جس قدر بادشاہ عقل مندوں کی صحبت کے محتاج ہیں۔

٭٭٭

 

(5) تین چیزیں قائم نہیں رہتی ہیں۔ مال بغیر تجارت کے، علم بغیر بحث و مباحثہ کے اور ملک بغیر سیاست کے۔

٭٭٭

 

(6) اپنا کوئی راز کسی دوست کو نہ بتاؤ۔ تمھیں کیا خبر کہ کبھی وہ تمھارا دشمن ہو جائے اور تم کو نقصان پہنچائے۔ تم اپنے دشمن کو نقصان نہ پہنچاؤ کیونکہ ممکن ہے کسی وقت وہ تمھارا دوست بن جائے۔

٭٭٭

 

(7)جو راز تم چھپانا چاہتے ہو وہ اپنے مخلص دوست پر بھی ظاہر نہ کرو کیونکہ اس دوست کے کچھ مخلص دوست ہوں گے وہ ان کو بتا دے گا ۔ پھر وہ اپنے دوستوں کو بتائے گا اس طرح یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا اور تمھارا راز سب پر ظاہر ہو جائے گا!

اپنی زبان کو بند رکھنا اس بات سے بہتر ہے کہ تم دل کی بات کسی کو بتا کر یہ کہو کہ وہ کسی اور سے نہ کہے۔

پانی کے چشمے کا سوتا شروع ہی سے بند کر دینا چاہیے کیونکہ جب اس میں پانی زیادہ ہو جائے گا تو وہ دریا بن جائے گا اور اس کا روکنا ممکن نہ ہوگا۔

٭٭٭

 

(8) اگر دو شخص ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور تم دونوں سے ملتے ہو تو ان سے ایک دوسرے کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کہو کہ اگر کبھی ان دونوں میں دوستی ہو جائے تو تمھیں شرمندہ ہونا پڑے!

دوستوں سے آہستہ گفتگو کرو تاکہ دشمن تمھاری باتیں نہ سن لے اور زیادہ دشمنی کرنے لگے اس بات سے ہوشیار رہو کہ جس دیوار کے پاس تم باتیں کر رہے ہو کہیں اس کے پیچھے کوئی کان لگائے سن نہ رہا ہو۔

٭٭٭

 

(9) جب تم کوئی کام کرنے کا ارادہ کرو اور اس میں پس وپیش ہو تو اس وقت ایسی صورت اختیار کر وجس میں کم سے کم تکلیف ہو۔ جب تک روپیہ دے کر کام نکل سکے اس وقت تک جان کو خطرہ میں نہ ڈالو۔

٭٭٭

 

(10)کسی دشمن کی نصیحت پر عمل کرنا غلط ہے لیکن اس کو سن لینا درست ہے تاکہ تم اس کے خلاف کام کر سکو۔ ایسا کرنا بالکل درست ہوگا۔ اگر دشمن تم کو سیدھا راستہ بتا دے تو تم اس پر مت جاؤ بلکہ اس کے بجائے الٹا راستہ اختیار کرو تاکہ نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔

٭٭٭

 

(11) بہت زیادہ غصّہ کرنے سے رنج اور خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور بے موقع نرمی کرنا انسان کے رعب کو ختم کر دیتا ہے۔ تم کسی پر اتنی سختی نہ کرو کہ وہ تم سے عاجز آ جائے اور نہ اتنی نرمی کرو کہ وہ تم سے گستاخی کرنے لگے!

سختی اور نرمی، ملی جلی کرو، یعنی جب ضرورت ہو تو سختی کرو اور موقع ہو تو نرمی برتو۔ دیکھو جرّاح چیر پھاڑ بھی کرتا ہے اور مرہم بھی لگاتا ہے یعنی کسی پر سختی کرو تو اس کی بھلائی کے لیے اور جب نرمی کی ضرورت ہو تو نرمی اختیار کرو۔

٭٭٭

 

(12) اگر تم کو کوئی ایسی خبر معلوم ہو جس کو لوگ سن کر رنجیدہ ہوں گے تو اس خبر کو تم خود کسی کو نہ سناؤ بلکہ خاموش رہو تاکہ کوئی اور سنائے۔

اے بلبل تو چہک کر موسم بہار کے آنے کی خبر سنا اور بُری خبر الّو کے لیے چھوڑ دے وہ سنائے گا!

٭٭٭

 

(13)دشمن کے دھوکے سے بچو، اور اپنی تعریف کرنے والی باتیں سن کر غرور میں مبتلا نہ ہو۔ کیونکہ دشمن کی نرم باتیں دھوکے کا جال ہے اور تعریف کرنے والا لالچ کا دامن پھیلائے گا۔ بے وقوف کو تعریف پسند آتی ہے۔

اپنی تعریف میں کسی شاعر کا کلام نہ سنو کیونکہ اس کے ذریعہ وہ تم سے کچھ نفع حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اگر تم نے اس کی خواہش و طلب پوری نہ کی تو وہ اس تعریف سے کئی سو گنا زیادہ تمھاری برائیاں بیان کرے گا!

٭٭٭

 

(14) جب تک کسی بات کرنے والے کی باتوں پر یا کسی شاعر کے کلام پر کوئی اعتراض نہیں کرتا اور اس کی کوئی خرابی بیان نہیں کرتا اس وقت تک اس کے کلام میں خوبی نہیں پیدا ہوتی۔

تم اپنے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہو کر اپنی زبان و بیان کی خوبیوں پر اور کسی جاہل سے اپنی تعریف سن کر غرور مت کرو!

٭٭٭

 

(15)جو شخص اچھی صحت اور طاقت کے زمانہ میں نیک کام نہیں کرتا ہے وہ کمزوری کے زمانہ میں تکلیف اٹھاتا ہے۔ یعنی جو جوانی میں محنت مشقت نہیں کرتا اور دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتا ہے، اس کو بڑھاپے میں تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں۔

اس ظالم شخص سے زیادہ کوئی بدنصیب نہیں ہے کہ جس کا مصیبت میں کوئی مدد گار نہ ہو۔

٭٭٭

 

(16)جاہل کے لیے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں اگر وہ خاموش رہنے کی خوبی سے واقف ہوتا تو جاہل نہ کہلاتا۔

اگر تم کو زیادہ معلومات نہیں ہیں اور علم بھی کم حاصل کیا ہے تو تمھارے لیے بہتر یہ ہے کہ خاموش رہو۔

ایک بے وقوف آدمی گدھے کو پڑھایا کرتا تھا۔ اور اس کے پڑھانے میں برابر کوشش کرتا تھا۔ ایک عقل مند شخص نے اس سے کہا تم یہ کوشش کیوں کر رہے ہو، تم کو اس معاملہ میں بُرا بھلا کہنے والوں سے ڈرنا چاہیے۔ جانور تمھاری کوشش سے کبھی علم نہیں سیکھ سکتے مگر تم جانوروں سے خاموش رہنا سیکھ لو۔

٭٭٭

 

(17) جس نے علم حاصل کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا وہ بالکل اس کسان کی طرح ہے جس نے کھیت تو جوتا مگر اس میں بیج نہیں ڈالا۔

٭٭٭

 

(18) بے ہنر لوگ ہنر مند کو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں، ان سے جلتے ہیں، جس طرح بازاری کتّے شکاری کتّے کو دیکھ کر بھونکتے ہیں۔ مگر اس کے قریب نہیں جاتے، کیونکہ اس سے مقابلہ کی ہمّت نہیں رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کمینہ آدمی جب کسی کو اچھی حالت میں دیکھتا ہے اور اس کی خوبیوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا، تو اپنی خباثت کی وجہ سے پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں کرتا ہے۔

حسد کرنے والا پیٹھ پیچھے بُرائیاں کرتا ہے۔ اور سامنے بات کرتے وقت اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے!

٭٭٭

 

(19)یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کی صورت اچھی ہے۔ اس کی سیرت اچھی ہو، اس بات کا تعلق ظاہری حالت سے نہیں ہے بلکہ دل سے ہے جس طرح کسی خوب صورت پھل کے چھلکے کو دیکھ کر یہ نہیں پتہ چل سکتا کہ اس کے اندر گودا یا بیج کیسا ہے۔

انسان کے عادات کا پتہ ایک دن کے تجربہ سے چل سکتا ہے اور یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ علم و فن میں اس کا کیا مرتبہ ہے لیکن اس کے دل میں اگر کھوٹ ہے تو اس کا پتہ تم کو برسوں نہیں چل سکتا۔ اس لیے تم کسی کی ظاہری حالت دیکھ کر دھوکہ نہ کھاؤ اور اس سے ہوشیار رہو!

٭٭٭

 

(20) اگر زیادہ بھوک کی مجبوری نہ ہوتی تو کبھی کوئی پرندہ شکاری کے جال میں نہ پھنستا بلکہ شکاری خود جال نہ لگاتا۔ مطلب یہ کہ انسان بھی پیٹ کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جس طرح پرندے دانہ کے لالچ میں جال کے اندر پھنس جاتے ہیں اور اپنی جان سے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔

پیٹ (بھوک) ہی ہاتھ کی ہتھکڑی ہے اور پاؤں کی زنجیر، پیٹ کا بندہ خدا کی عبادت کم کرتا ہے۔

٭٭٭

 

(21) جو عقل مند شخص جاہلوں سے جھگڑا مول لے اسے اپنی عزت کی امید نہ رکھنا چاہیے اور اگر جاہل آدمی، زبان درازی میں عقل مند پر غالب آ جائے تو تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ جاہل ایک پتھر کی طرح ہے اور عقل مند عالم موتی کے مثل ہے اور پتھر موتی کو چکنا چور کر دیتا ہے!

اگر بلبل کو کوّے کے ساتھ ایک پنجرہ میں بند کر دو تو تعجب نہیں کہ اس کی سانس بند ہو جائے؟

٭٭٭

 

(22) اصلی مشک وہ ہے جس کی خوشبو سے لوگ پہچان لیں کہ یہ مشک ہے۔ وہ مشک نہیں جس کی تعریف عطّار کرے مگر اس میں خوشبو نہ ہو۔ عقلمند آدمی عطّار کی اس ڈبیہ کی طرح ہے جس میں مشک رکھا ہوتا ہے اور مہکتا ہے۔ اور جاہل آدمی بالکل ڈھول کی طرح ہوتا ہے کہ جس کی آواز تو بہت زور دار ہوتی ہے لیکن اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

(23)دوست بہت مدت میں بنتا ہے اس لیے اس کو معمولی باتوں پر ناراض نہ کرنا چاہیے (یعنی جب تم کسی سے دوستی کرتے ہو تو بہت عرصہ تک ملنے ملانے کے بعد دوستی پختہ ہوتی ہے، اس لیے تم کو احتیاط کرنا چاہیے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے دوست کو ناراض نہ کرو کہ پرانی دوستی ختم ہو جائے)

دیکھو! پتھر کئی سال گزرنے پر لعل بن جاتا ہے۔ اس لیے تم ہرگز ایک دم اس کو پتھر سے نہ توڑو!

٭٭٭

 

(24) تھوڑا، تھوڑا ہو ہو کر بہت ہو جاتا ہے، اور بوند بوند اکٹھّا ہو کر سیلاب بن جاتا ہے۔

٭٭٭

 

(25) جو شخص زندگی میں دولت مند ہونے کے باوجود دوسروں کی مدد نہیں کرتا جب مرجاتا ہے تو اس کا کوئی نام لیوا نہیں ہوتا۔

انگور کا مزہ بیوہ عورت جانتی ہے کیونکہ وہ محنت کی کمائی سے خریدتی ہے۔ اس کی قدر انگور بیچنے والا نہیں جانتا۔

حضرت یوسفؑ قحط کے زمانہ میں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھاتے تھے تاکہ بھوکے رہنے والوں کو بھول نہ جائیں:

جس نے عیش و آرام میں زندگی بسر کی ہے۔ اس کو بھوکے شخص کی حالت کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے!

٭٭٭

 

(26)وہ عالم جس نے علم حاصل کیا اور اس پر عمل نہیں کیا بالکل اس درخت کی طرح ہے جس میں پھل نہیں آتے۔ اور وہ عبادت گزار جس نے علم نہیں حاصل کیا بالکل اس مکان کی طرح ہے جس میں دروازہ ہی نہ ہو۔

کسی نے ایک شخص سے پوچھا بے عمل عالم کس کی طرح ہوتا ہے۔ اس نے جواب دیا بے شہد والی مکّھی جیسا ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

(27)کسی نے حضرت امام غزالی ؒ سے پوچھا کہ آپ نے اتنا بلند مرتبہ کس طرح حاصل کیا۔ آپ نے جواب دیا۔ جو بات میں نہیں جانتا تھا اس کو دوسروں سے پوچھنے میں شرم محسوس نہیں کی۔

جو بات تم کو نہیں معلوم اس کو پوچھ لو۔ پوچھنے میں جو ذلّت ہے وہی عزت حاصل کرنے کے راستہ میں تمھاری رہنمائی کرے گی!

٭٭٭

 

(28)جو شخص برے لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے مگر ان کی بری عادتیں اختیار نہیں کرتا۔ وہ بھی ان بروں کے ساتھ بیٹھنے سے بُرا کہلاتا ہے۔

٭٭٭

 

(29) نیک بخت لوگ اپنے اگلے زمانہ کے بزرگوں کے حالات اور واقعات پڑھ کر یا سن کر ان سے نصیحت حاصل کرتے ہیں تاکہ ان کے بعد آنے والے ان کے حالات سے سبق حاصل کریں۔

جب پرندہ اپنے جیسے کسی پرندہ کو جال میں پھنسا ہوا دیکھتا ہے تو پھر شکاری کے ڈالے ہوئے دانہ کو کھانے کے لیے آگے نہیں بڑھتا ہے۔ تم کو بھی دوسروں کی مصیبتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کو تم سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہ پڑے!

٭٭٭

 

(30)جو شخص اپنے سے کمزوروں پر رحم نہیں کرتا، ان کی غلطیوں کو معاف نہیں کرتا وہ خود ایک نہ ایک دن طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے!

غریبوں اور ضعیفوں کا دل نہ دکھاؤ۔ اگر تم نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں ان کو ستایا تو ایک دن تم بھی اپنے سے زیادہ کسی طاقت ور کے ہاتھ تکلیف اٹھاؤ گے۔

٭٭٭

 

(31)دو قسم کے آدمی مرتے وقت اپنے ساتھ بڑی حسرت لے جاتے ہیں۔ ایک وہ شخص کہ جس کے پاس مال و دولت موجود تھی مگر آرام سے کھا نہ سکا۔ دوسرا وہ جس نے علم حاصل کیا مگر اس پر عمل نہ کیا!

٭٭٭

ماخذ:

http:// adbiduniya.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید