FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

فہرست مضامین

کوئی ایک لمحہ رقم نہیں

(شعری مجموعہ)

دلشاد نظمی

انتساب

اپنے والد محترم کے نام

جنھوں نے اپنے خواب میری آنکھوں کے حوالے کر دئے

دلشاد نظمی  : ایک مختصر تعارف

سن پیدائش:  ۲۱ جنوری ۱۹۶۵

مقام پیدائش:  جمشید پور

والد:  جناب فضل کریم

ابتدائی تعلیم:  سنٹرل کریمیہ مڈل اسکول، ہائی اسکول (جمشید پور)

کالج:  کریم سٹی کالج (جمشید پور)، بی اے

ملازمت:  ٹا ٹا آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی، جمشید پور( ۶ سال)

سعودی آئرن اینڈ اسٹیل کمپنی، ( ۱۱ سال )

اہل خانہ:  بیوی:  شبانہ جمال، بیٹی:  خدیجہ عنبرین، بیٹا:  عبد المعز شاداب

پتہ:  مکان نمبر 107، روڈ نمبر 7، ذاکر نگر ایسٹ، پوسٹ:  آزاد نگر،

جمشید پور(جھارکھنڈ)

مکان نمبر 423، ہاتھی خانہ، کالی مندر روڈ۔ ڈورنڈہ، رانچی، جھارکھنڈ، انڈیا

رابطہ: (موبائل)

+91918709966321

ای۔ میل:  nazmi.dilshad@gmail.com

پس نوشت

میرا خیال تھا کہ شعر کہنے کے مقابلے نثر لکھنا نسبتاً آسان ہے۔  لیکن آج جب مجھ پر یہ افتاد پڑی ہے تو احساس ہو رہا ہے کہ یہ میری بھول تھی۔  ممکن ہے یہ احساس اس لیے بھی شدید ہو کہ میں اس میدان کا شہسوار کبھی نہیں رہا۔  مزید یہ کہ خود اپنے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے، تو یہ میرے لیے اور بھی مشکل کام ہو گیا۔  لہٰذا میں نے اس سے فرار کی ایک آسان صورت یہ نکالی ہے کہ مختصراً کچھ باتیں کہہ کر گذر جاؤں۔

تسکین ذوق کے لیے ابتدا میں دوستوں کو پریشان کرتا رہا۔  جناب نواب ظفر نوابؔؔ(جمشیدپور) سے علم عروض کے متعلق تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں، پھر ملازمت نے اس راہ سے بیگانہ کر دیا۔ پرچوں میں شائع ہونا بہت کم ہوا۔  اس میں کچھ تو میری تساہلی کا دخل رہا اور کچھ مدیر حضرات کی بے توجہی کا، سو اس میدان سے گذر کم کم ہوا۔ آج اس زمانے کو یاد کرتا ہوں اور اپنی پرانی تخلیقات پر نگاہ ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ مجھ میں ہی کمی تھی۔ بہرحال، سعودی عرب جانے کے بعد ایک ایسی دنیا سے میرا تعارف ہوا، جہاں میری فکر کو نئی راہیں ملیں۔

ایک نام جو میرے لیے بہت محترم رہا اور ہمیشہ رہے گا، وہ ہے جناب تسنیم فاروقی کا، جن کی رہنمائی نے مجھے شعر کہنے کا سچا شعور بخشا، لیکن سعودی عرب پہنچ کر یہ سلسلہ منقطع سا ہو گیا۔  میری معاشی مصروفیات نے مجھے بہت اُلجھائے رکھا۔  جناب اقبال قمر ( جہلم، پاکستان) نے ہمیشہ مجھے بہترین مشوروں سے نوازے، میری رہنمائی فرمائی اور ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں ان کے علاوہ چند ایک احباب جو عمدہ شاعر ہیں مثلاً جناب ثانی اسلمؔ، شجاع انورؔ، ظفرؔہاشمی، پرویز رحمانی۔  یہ سارے لوگ ہمیشہ میرے ذوق کو مہمیز کرتے رہے۔  سعودی عرب کی سرزمین نے الحمد للہ جہاں مجھے بہت ساری چیزوں سے نوازا، وہیں کہنے کے لیے نئے موضوعات بھی دیے اور نئے تجربات سے ہم کنار بھی کیا۔  سعودی عرب جا کر پتہ چلا کہ میں اب تک دوسری دنیا میں تھا، یہ ایک دوسری دنیا ہے۔

جھلستا جسم مسائل کی ترجمانی ہے

ہر اک ریال کے پیچھے کوئی کہانی ہے

ایک نام جس نے ابتداء میں میری رہنمائی میں نمایاں رول ادا کیا وہ تھا جناب گھائل فریدی مرحوم (راجگانگ پور اُڈیشا) کا جنہوں نے ملک کے مختلف گوشوں میں مجھے متعارف کرایا، باغ و بہار طبیعت کے مالک اور ایک مقتدر و معتبر علمی شخصیت ڈاکٹر قاسم خو رشید نے ہمیشہ مجھ ناچیز کی بھر پور حوصلہ افزائی فرمائی۔ سرزمینِ بنگال میں موجودہ ادبی منظر میں جناب سید وقیع منظر اساتذہ کی فہرست میں ایک نمایاں و منفرد نام ہے، تقریباً پینتیس سالہ دوستی کی دوسری شکل کچھ یوں ہے

مانتا ہوں تجھے استاد میں اپنا منظر

اس سے پہلے تُو مرا دوست ہے اچھا والا

مطالعہ پر زیادہ دھیان کبھی نہیں دیا بس جو ملا پڑھ لیا، مگر انٹر نیٹ کی دنیا سے وابستہ رہا۔  اردو کی مختلف ویب سائٹس سے ہمیشہ دلچسپی بنی رہی، اور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملتے رہے۔  میں شکر گزار ہوں خصوصاً   اپنی شریک حیات شبانہ جمال کا، جنھوں نے گھریلو ذمہ داریاں سنبھال کر مجھے اتنا وقت مہیا کرایا کہ میں اپنا شعری مجموعہ اطمینان و انہماک سے مکمل کر سکوں۔  میں ان تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کی دعائیں ہمیشہ مری رہنمائی میں شامل رہیں جن میں ایک نام مشہور و معروف شاعر جناب انور کمال کا ہے اور دوسرا انجم اظہر کا۔

میرا پہلا شعری مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں ہے، یہ فیصلہ میں اہل نظر پر چھوڑتا ہوں کہ میں اپنے جذبات و احساسات، اور اپنے کچے پکے افکار کو شعری قالب عطا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہو پایا ہوں اور کہاں کہاں ٹھوکر کھائی ہے۔  مجھے آپ کی آرا کا شدت سے انتظار رہے گا۔

دلشادؔ نظمی

بایئس اکتوبر دو ہزار تیئس

بحر فکر کا شناور  ۔۔ ۔۔  دلشاد نظمی

نومبر۸۸ ۱۹ء کی ادبی شب آسنسول کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ جدّ امجد سیدّ عبدالحمید مونگیری کے نام سے۔  بزمِ حمیدی وجود میں آئی، اور اس بزم کے تحت ایک تاریخی کُل ہند مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا، کئی نہج سے یہ مشاعرہ اپنی تاریخ رقم کرتا نظر آیا۔ عالمی شہرت یافتہ ماہرِ فن استاد شاعر جناب فضا ابن فیضی جہاں اس کی صدارت کر رہے تھے وہیں مشاعرے کی کامیابی کے ضامن کہے جانے والے اپنے مخصوص لہجے کے مشہور و معروف نقیب مشاعرہ جناب عمر قریشی کی سحر انگیز نظامت مشاعرے کو صبح صادق تک کامیابیوں سے ہمکنار کرتی رہی، بزم حمیدی کے چیرمین ایس ایم جلال، سرپرست الحاج عبدالرحمٰن سلفی، و ایس ایم خان، صدر محمد مسلم ناز قریشی، وغیرہم نے اس مشاعرے میں ہندوستان کے مشہور معروف شعراء کرام جن میں فضا ابن فیضی، والی آسی، نظر ایٹوی، طاہر فراز، تشنہ عالمی، نور اندوری، نواز دیو بندی، ڈاکٹر آفاق فاخری، رہبر حمیدی، جنوں اشرفی۔ عادل لکھنوی، اسلم الہ آبادی، حق کانپوری، نسیم نکہت، تاجور سلطانہ، رشید عارف، رگھو ناتھ پرشاد گستاخ، بازغ بہاری، حبیب ہاشمی، شاہد یوسفی، عرفان بنارسی، جیسے شعراء کو یکجا کیا، وہیں بہار کے ایک نوجوان شاعر دلشادؔ نظمی بھی اسٹیج پر جلوہ افروز تھے، ایک سے بڑھ کر ایک شاعر کی صف میں یہ نوجوان شاعر دلشادؔ نظمی اپنی عمر کے ساتھ خود کو تنہا اسٹیج پر محسوس کرتا نظر آیا، لیکن جوں ہی اس کپکپاتی سردی کی نصف شب، نقیب مشاعرہ نے بہار سے تشریف لائے اس نوجوان شاعر کو سامعین کے رُو برو پیش کیا تو خود میں سمٹے سامعین سردی کو بھول کر دلشادؔ نظمی کی شاعری اور مترنم آواز کی بدولت گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے نظر آئے، اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعراء کی داد نے دلشاد نظمی کی ضیافت کی، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک شاعر اور ترنم کے جادو گر موجود ہوں وہاں اس نوجوان کی اتنی پذیرائی باعث فخر و انبساط تھی اس پذیرائی نے شاعر کو مقبولیت کے اس مقام تک پہنچا دیا، جہاں آج بھی دلشادؔ نظمی، اُردو کے ساتھ ساتھ ہندی محفلوں میں مقبول و معروف ہیں، اور فی الوقت ہندوستان بھر میں جھارکھنڈ کی نمائندگی کر تے نظر آ رہے ہیں، مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں کہ موجودہ وقت کے تناظر میں دلشاد نظمی کی فکر انگیز شاعری اور پیشکش بہار و جھار کھنڈ کے اسلاف کی آبرو ہے، ان کی شاعری کا اسلوبِ بیان منفرد اور دلپذیر ہے۔ گزرتے حالات پہ ان کی گہری نگاہ ہے۔ ان کی نظموں، غزلوں قطعات کے مطالعے سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، فکر کے سمندر کا یہ شناور اپنی شعری تخلیق کے بکھرے خیالات کو سمیٹ کر کوئی ایک لمحہ رقم نہیں کے نام سے مجموعۂ غزلیات لے کر حاضر ہے، مجھے اُمید ہے کہ ان کی فکری شاعری جھارکھنڈ کی ادبی فضا میں ایک نئے باب کے اضافے کا سبب بنے گی، اللہ دلشادؔ نظمی کی شاعری اور شاعر کو ادبی تعصّب سے محفوظ رکھے، آمین

سیّد وقیع منظر

آسنسول، مغربی بنگال 91.9332295160

مختصر ترین بیانیہ اور افسانوی جہت کا شاعر:  دلشادؔ نظمی

ڈاکٹر سید اشہد کریم اُلفت

دلشاد نظمی کا شعری لہجہ محتاج تعارف نہیں۔ ان کے افکار کو جس تخلیقی زبان کی ضرورت ہے وہ اسے برتنے میں کامیاب ہیں۔ نئی زندگی کے بارے میں ان کی اپنی آئیڈیا لوجی ہے، جسے وہ اپنی شاعری ( نظم ہو یا غزل ) میں بیان کرتے رہتے ہیں، ان کی غزلوں اور نظموں کے مطالعے سے جو بات واضح طور پر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ماحول اور معاشرے کی حقیقتوں کو افسانوی لہجے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے، یہاں تک کہ یہ کیفیت ان کی حمدیہ اور نعتیہ بیان میں بھی ہے، حمد خداوند قدوس کے اندر ایک دعائیہ یا التجائیہ شعر مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے،

پانچ وقتوں کی رہے حاضری تیرے در پر

اپنا گھر چھوڑ دوں جس وقت اذاں ہو جائے

اس شعر میں جو مرکزی خیال ہے وہ اسلامی فکر سے مزیّن ہے یعنی اسلام کی پانچ بنیادی چیزوں میں سے ایک اہم چیز نماز ہے، جو احکام خداوندی کی پیروی اور رسول خدا کی اطاعت ہے۔ نماز دین کا ستون بھی ہے، لیکن آج ہمارا ماحول و معاشرہ نماز سے کتنا غافل ہو چکا اور بے گانہ ہو چکا ہے مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ذاتی طور سے کوئی بھی مسلمان اس آرزو کی تکمیل سے نجات نہیں چاہتا، مگر آج مساجد کی صف بندی اس حقیقت کا افسانوی رنگ اختیار کر جاتی ہے، شاید اس تصور کا دوسرا رخ ندا فاضلی کے ایک مشہور زمانہ شعر میں بیان ہوا ہے

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

ان دونوں اشعار کی خوبی یہ ہے کہ مرکزی خیال ان میں نماز ہے، اور اس لفظ کو شعر میں برتا نہیں گیا ہے بلکہ اس کی معنویت روح کی طرح جسم میں داخل ہے مگر دکھائی نہیں دیتی، حمد کے اس نکتۂ فکر کو دلشاد نظمی نے نعت میں بھی برتنے کی کوشش کی ہے، ایک شعر ملاحظہ فرمائیں

غم نہیں ظلم و ستم ہم پہ جو اغیار کے ہیں

ہم کہ جس حال میں ہیں احمد مختار کے ہیں

یہاں مصرعۂ ثانی میں جو دعویٰ پیش کیا گیا ہے اس کی دلیل انفرادی یا اجتماعی طور پر حقیقت سے پرے آج نظر آتی ہے، قومی اتحاد شکستہ نظر آتا ہے کوئی ایک پہلو ایسا نہیں دکھتا جس پر لوگوں کو اتفاق ہو، علماء کا اختلاف اور قائدین ملت کا نفاق ہماری رسوائی کا ایک اہم سبب ہے جس کا ادراک دلشاد نظمی کو ہے، اور ان کے درد مند دل نے اس مسئلے کو شعر میں ڈھالنے کی سعی کی ہے، غزل میں یہ احساس

مانتے ہی نہیں احکام خداوندی کو

اور کہتے ہیں کہ اللہ کو ہم مانتے ہیں

اس طرح ان کے مذہبی افکار میں جو نفسیاتی اثر کا عمل دخل ہے اس میں عصر حاضر کے ماحول سے پیدا شدہ حالات بڑے اہم ہو جاتے ہیں، جن سے ان کے اشعار کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے دلشاد نظمی نے اپنے تخلیقی روئیے کے متعلق لکھا ہے کہ

سعودی عرب کی سر زمین نے الحمد اللہ جہاں مجھے بہت ساری چیزوں سے نوازا وہیں کہنے کے لیے مجھے نئے موضوعات بھی دیے اور نئے تجربات سے ہم کنار بھی کیا، مطالعے پر زیادہ دھیان کبھی نہیں دیا، پس جو ملا پڑھ لیا، اُردو کی مختلف ویب سائٹس سے ہمیشہ دلچسپی بنی رہی اور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملتے رہے،

جہاں تک میں سمجھتا ہوں مشاعرہ سے گہری دلچسپی بھی ان کی شاعری کا ایک اہم سبب ہے اس لیے کہیں کہیں مشاعرہ بازی کا اثر بھی ان کے شعری مزاج میں داخل دکھائی دیتا ہے، لیکن ایک خاص بات یہ رہی کہ وہ مشاعرے کی سطحی روایت سے اپنی شاعری کا دامن بچانے میں کامیاب نظر آتے ہیں، در اصل جب میں نے دلشاد نظمی کی شاعری کا مطالعہ کیا تو ان کی شاعری میں مجھے سب سے خاص بات جو نظر آئی، وہ ان کے اسلوب میں فکری جہت کا بیانیہ ہے، وہی نظموں کے اندر مختصر اور غزلوں کے اندر مختصر ترین ہے، حالانکہ آپ اس سے اتفاق نہ کریں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ غزلوں کے اندر بیانیہ کی گنجائش کہاں ،؟اور شاعری و بیانیہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ان سوالات کے جوابات سے پہلے ویکی پیڈیا

کے مطابق بیانیہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں،

قطعہ یا کہانی یا بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے جو یکے بعد دیگرے اعلی الترتیب بیان ہوتے ہیں قصہ کہانی انسانی سرشت میں شامل ہے کہانی کے ساتھ انسان کا تعلق بہت دیرینہ ہے، پتھر کے زمانے سے لے کر دور جدید تک کہانی حکایت کی ایک کڑی تھی، مثالی انسان، دیو مالائی کہانی، مافوق الفطرت وغیرہ۔ لیکن آج وہ کہانی داستان، ناول، ڈرامے وغیرہ سے ہوتے ہوئے آج مختصر افسانچے کی صورت میں موجود ہے۔

اب ذرا بیانیہ کی اس تعریف کی روشنی میں دلشاد نظمی کی ایک مکمل غزل ملاحظہ فرمائیں

قیمتیں اُونچی تھی تو اندر نہیں جا پائی لڑکی

کانچ کی دیوار تھامے رو پڑی للچائی لڑکی

دور تک ویراں سڑک تھی اور میرا ہاتھ تھامے

بھیا بھیا کہہ رہی تھی خوف سے گھبرائی لڑکی

اب کوئی ہیرو یا آئے گا ویلن، اللہ جانے

منتظر ہے اپنا گھونگھٹ کاڑھ کے شرمائی لڑکی

کمرہ نمبر تین سو پندرہ میں تو بوڑھا رکا ہے

کس پرانے شوق نے ہے نصف شب منگوائی لڑکی

دفن کر دیتے تھے پہلے لوگ زندہ بچیوں کو

اب تو قاتل عورتوں نے کوکھ میں دفنائی لڑکی

اس لیے بیٹے کا کمرہ کر دیا تبدیل ماں نے

سامنے کھڑکی میں آ کر لیتی تھی انگڑائی لڑکی

یخ زدہ ہوٹل کے کمرے نے حرارت چھین لی ہے

بجھ گئی ہے جگمگاتے شہر میں صحرائی لڑکی

نارمل تو ہو گئی دلشادؔ لیکن ہر کسی پر

اب یقیں کرتی نہیں ہے پہلا دھوکا کھائی لڑکی

آٹھ اشعار پر یہ غزل مشتمل ہے اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ غزل کا ہر شعر جدا گانہ معنی رکھتا ہے، گویا آٹھ اشعار کی غزل آٹھ مختصر ترین کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، پہلا شعر یعنی مطلع غربت کا منظر نامہ لیے ہوئے ہے، جہاں غریبی بڑی دکانوں کو باہر سے للچائی نظروں سے دیکھ کر ہی رو پڑتی ہے، اور اپنے شوق کا گلا گھونٹ دیتی ہے، دوسرا شعر زمانے کی کریہہ صورت کو پیش کرتا ہے جہاں لڑکی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔ تیسرا شعر ایسا لگتا ہے کہ اس میں فلمی ڈرامہ پیش کیا گیا ہے۔ جہاں ہیرو اور ویلن کا تجسس بھرا سین خلق کیا گیا ہے، چوتھا شعر مغربی کلچر سے استفادہ کرتے ہوئے ہوٹلوں کی تہذیب پر جنسی غیر آسودگی کی ایک کہانی رقم کرتا نظر آتا ہے

پانچواں شعر قدیم و جدید روایات کا تجزیہ ہے اور اس میں معصوم بچیوں پر ہونے والے مظالم کا دردناک بیان ہے، چھٹے شعر میں ایک دور اندیشی کا ذکر ہے جسے ماں پہچان لیتی ہے

ساتویں شعر میں بھی جنسی بے راہ روی کا ترجمان ہے، جہاں شہری ہوٹل کلچر دیہی زندگی کو بھی متاثر کرتا ہے، آٹھواں شعر یعنی مقطع میں آج کی لو اسٹوری کا نتیجہ بیان ہوا ہے، جو تجربے کی بنیاد پر ہے، اس طرح کی کئی غزلیں کوئی ایک لمحہ رقم نہی کے مسودے میں موجود ہیں، ،، پہلی غزل میں ہر شعر ایک مختصر ترین بیانیہ کے ساتھ ہی رقم ہوا ہے، ان مثالوں کے اندر لفظیات کی پلاٹ سازی، جزیات نگاری، اور معنویت کا شاعر نے جو فکری نظام قائم کیا ہے وہ مختصر ترین بیانیہ اور افسانوی جہت سے پوری طرح متاثر ہے جس کے اندر موجودہ سماج کی حقیقتوں کی عکاسی کی گئی ہے اس میں غزلیہ آرٹ کا بہترین حسن پہلی غزل کوئی ایک لمحہ رقم نہیں، میں موجود ہے، جو ایک شعر میں سمٹ آیا ہے، وہ خوبصورت شعر بھی ملاحظہ فرمائیں جس کا مصرع ثانی کمال کا ہے

کسی پروہت پہ دیو داسی نثار ہو جائے تو عجب کیا

گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے

دلشاد نظمی کی غزلوں میں بیان کا ایجاز و اختصار ہی ایک لطف لیے ہوئے ملتا ہے جہاں خیال کی ندرت اور فکر کی جدت سرشاری عطا کرتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

خواب کی کون سی تعبیر گڑھی جا رہی ہے

خانۂ ہجر میں تنہائی بڑھی جا رہی ہے

میں اپنا نام لکھوں کینوس کے کونے میں؟

برش نے اس کا مکمل بدن کیا ہے ابھی

حدِ نگاہ وہی کنکریٹ کا صحرا

خیال دشت کو آباد کرنا چاہتا ہے

ہزار طرح سے مجھ کو ٹٹولتے ہیں لوگ

مری طرح مجھے اک بار کون دیکھتا ہے

کئی آوازیں کہنے کو پسِ منظر سے آتی ہیں

جو اندر تک اُترتی ہیں، وہی اندر سے آتی ہیں

ایسے ایسے بہت سارے خوبصورت اشعار دلشاد نظمی کی غزلیہ شاعری کا حصہ ہیں مگر مجھے لگتا ہے کہ ان کا کمال زندگی کے مسائل کے بیان میں ہے جہاں سماجی حقیقت نگاری کو انہوں نے شعر میں برتا ہے، وہاں زیادہ نکھرا ہوا ہے ایک خوبصورت سا شعر مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں

جھکی کمر کو اسی کی ہمت کے واسطے پھر اُٹھا رہا ہے

جوان بیٹے کی نا اُمیدی کا باپ قرضہ چکا رہا ہے

ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر معراج فیض آبادی کے مشہور زمانہ شعر

میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

کی جزئیات نگاری کی نئی تفصیل بن گیا ہے کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ نا مانوس لفظ کو بھی افسانوی کردار بنا کر انہوں نے غزلیہ شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے ایک شعر کو پڑھتے ہوئے مجھے کچھ ایسا ہی گمان ظاہر ہوا وہ شعر پیش ہے

رہ جنوں میں امیر زادی شکار ہو جانا چاہتی ہے

کسی مزارعے کا ہاتھ تھامے فرار ہو جانا چاہتی ہے

یہاں لفظ مزارعے اردو غزل کے لیے نا مانوس ہوتے ہوئے بھی ایک افسانوی کردار لیے پر اسرار سا لگتا ہے کسان اور کاشتکار کو تو اردو دنیا جان رہی ہے، لیکن مزارعے ایسا لگتا ہے کہ داستان کی وادی سے نکلا ہوا کوئی مافوق الفطری کردار ہے جو چشم حیرت میں تعجب و تجسس کا نمائندہ ہے، کہیں کہیں ایسے الفاظ بھی ان کی غزلوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں متن کی معنویت بیرون متن میں ملتی ہے۔۔ ۔۔  مثلاً یہ شعر

سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی توتلی زباں سے

پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے

یہاں لفظ گنوار کو اس کے اصل معنی میں لے کر اس شعر کی تفہیم تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ہے، بلکہ گنوار کے مد مقابل بچوں کی معصومیت کے سامنے بزرگوں کی نادان محبت ہے، جو معصومیت سے نا آشنا ہیں شنا سائی چاہتی ہے

مختصراً یہ کہ دلشاد نظمی کی نظمیں ہوں یا غزلیں ان کے بیان میں ایک ایسی افسانوی دنیا ملتی ہے کہ جو موجودہ عہد کے مسائل زیست کی ترجمان ہے، بالخصوص غزل جسے بعض لوگ بیانیہ کا حصہ نہیں مانتے انہیں دلشاد نظمی کی غزلوں کا مطالعہ کرنا چاہئیے، دلشاد نظمی کی شاعری

افسانوی جہت سے قریب تر ہے۔ انہوں نے اپنے شعری تلازمے اور پیکر طرازی کی بنیاد آج کی زندگی کے مسائل پر رکھی ہے جہاں دل کی دھڑکن مختصر ترین بیانیہ کی صورت شعری پیکر کا رُوپ دھار چکی ہے، اور میں سمجھتا ہوں اُردو شاعری کے لیے یہ خوش آئند بات ہے،

پروفیسر سید اشہد کریم۔  ہیڈ ڈپارٹمنٹ اردو

ایس وی پی کالج بھبھوا،

کیمور، بہار , 821101

mob:  9616730727

ashhadkarimulfat@gmail.com

کوئی ایک لمحہ رقم نہیں۔۔۔ دلشاؔد نظمی

ڈاکٹر قاسم خورشید۔  پٹنہ

مذہب دل کے طرفدار دلشاد نظمی کا تخلیقی منظر نامہ حسّاس آبادیوں کی آماجگاہ ہے اکثر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اب رشتوں کے بازار میں خوف اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پیغمبری اب نا پید سمجھ لیجیئے۔ صوفی صفات والے افراد بھی پاس آ کراپنی کشش کھونے لگے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم مقصدِ حیات اور مقصدِ کائنات کی تفریق کو سمجھنے سے قاصر ہو چکے ہیں، حالانکہ غیر مشروط معاملے ہی ہمیں عشق کی معنویت سے مزین کر سکتے ہیں، دلشاد نظمی نے وقت کی آہٹ کو غور سے سنا ہے اور اپنے نئے تخلیقی بیانیہ میں کچھ یوں جلوہ افروز ہوئے ہیں

لکیروں کو نئی ترکیب سے اُلجھا رہا ہے

مگر ہر زاویہ مرکز پہ واپس آ رہا ہے

وہ نقطہ دائرے میں ہو گیا ہے قید شاید

حصار ذات سے باہر اُجالا چھا رہا ہے

دلوں کی بات سجا کر زبان تک لانا

ہے متن سخت سمجھ کر بیان تک لانا

میں ایک نقطہ ہوں دلشادؔ، زاویے کے لیے

لکیر کھینچ، مجھے بھی نشان تک، لانا

پھر یہ زاویہ بھی ہے کہ

اتنا آساں نہیں تنہائی کے قابل ہونا

ہجر لمحوں میں مرے دل کا ہوا دل ہونا

ایک اک پل ترا احساس ہے زندہ مجھ میں

غیر ممکن ہے تری یاد سے غافل ہونا

کوئی ایک لمحہ رقم نہیں، ،، ، سے گزرتے ہوئے ہم دلشاد نظمی کی نئی عصری معنویت کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں، تو پتہ چلے گا کہ دور مسیحائی میں ان کی شاعری ہر شخص کی نیم بیہوشی کو مکمل بیداری سے تعبیر کر سکتی ہے

شہر گم صم سا ہوا کیوں مرے آ جانے سے

میں نے کیا چیز اُٹھا لائی ہے ویرانے سے

حاکم شہر کی دہلیز پہ سجدوں کے نشاں

کیا کوئی رسم نکل آئی ہے بت خانے سے

اس لئے ایسے میں اگر اردو کی وسیع شعری کائنات کا احتساب کیا جائے تو بعض فنی نکات سے مزیّن شاعری متعدد شعراء کے یہاں مل جاتی ہے مگر ضروری نہیں کہ شعری ڈکشن کی وجہ سے بھی تخلیقات زندہ و پائندہ رہ سکیں، ظاہر ہے یہ ایک مشکل ترین فن ہے، آتش نے کہا بھی تھا کہ

بندشِ الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

صدیوں کے سفر کے بعد بھی اگر کوئی تخلیق عصری معنویت بر قرار رکھنے میں کامیاب ہے تو پھر آفاقیت کا پیمانہ بھی یہی بن جاتا ہے، آج غالب میر مومن ذوق اقبال آتش کے بعد فیض احمد فیض، سردار جعفری، کلیم عاجز، احمد فراز، جون ایلیا، منیر نیازی، ناصر کاظمی، شہر یار، ندا فاضلی اور پروین شاکر وغیرہ کی معنویت اس لیے بھی تابندہ ہے کہ عصری معنوی فطری اور شخصی اختصاص کا حسین امتزاج بدرجہ اتم موجود ہے۔  ظاہر ہے کہ فکری معنوی اور تخلیقی مرصع سازی کے زیر اثر فن پارہ کو شہہ پارہ بننے میں ایک عمر گزر جاتی ہے، آج کل نئی دنیا سمٹ گئی ہے اس لئے ہر شعبے میں عجلت نظر آتی ہے بعض معاملات تو کاروباری ہیں اس لیے بازار کی مجبوری ہے مگر تخلیقی عمل کا تعلق قدرت کی رضا پر ہے، یہاں عجلت کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ذی فہم تخلیق کار اب بھی تخلیق کے فطری عمل پر ہی ایمان رکھتا ہے اور وہ دل کی آواز پر ہی لبیک کہتا ہے، ایسی ہی ایک منفرد آواز ہے رانچی جھارکھنڈ کی سر زمین کے شاعر دلشاد نظمی کی، پہلے دلشاد نظمی کے چند اشعار آپ ملاحظہ فرمائیں تا کہ میری بقیہ گفتگو کو تقویت حاصل ہو

بھٹکوں میں راہ عشق میں لطفِ سفر نہ ہو

برباد ہو نہ جاؤں ترا غم اگر نہ ہو

رکنے نہ دینا اپنے اُمیدوں بھرے قدم

ایسی کوئی بھی شب نہیں جس کی سحر نہ ہو

غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے

ندی چٹان کو کاٹے گی میٹھے پانی سے

اب ایرے غیرے کو ترجیح تو نہیں دوں گا

مقابلہ بھی کروں گا تو خاندانی سے

ایڑیاں اُونچی کیے وہ قد بڑھانے لگ گئے ہیں

مجھ کو اس منزل تک آنے میں زمانے لگ گئے ہیں

جس قدر بھی پی لے کوئی مسئلہ تو ظرف کا ہے

لوگ تو دو گھونٹ میں ہی ڈگمگانے لگ گئے ہیں

یوں تو میں دلشاد نظمی کے طرز تخاطب سے واقف تھا، معیاری اور ادبی نوعیت کے مشاعرے، کوی سمیلن میں اکثر ساتھ رہا، ان کے انداز اور فکری میلان نے اہل ذوق کو ہمیشہ متاثر کیا ہمارے یہاں مشاعرے اور ادب کو اکثر دو مختلف خانے میں تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس لیے مشاعرے کے وسیلے سے اپنی پہچان بنانے والے بیشتر شعراء ادب میں زندہ نہیں رہے مگر ادب کے حوالے سے پہچانے جانے والے شعراء کرام دونوں جگہوں پر زندہ و تابندہ ہیں، دلشاد نظمی کے یہاں ایسا کوئی تضاد نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ ادب اور مشاعرے میں یکساں طور پر ان کی شاعری نے معیار سازی کی ہے لب و لہجہ وقت کی سیچویشن کے مناسبت سے کبھی نہیں تبدیل کیا، انہیں بخوبی یہ اندازہ رہا ہے کہ قارئین ناظرین یا سامعین کی بہتر معیار سازی کی ذمہ داری بھی تخلیق کار کی ہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج بھی سب سے زیادہ غالب عوامی طور پر مقبول نہیں ہوتے، در اصل اپنی علمی تخلیقی تصوراتی محرومی کو ہم معیار کی سطحیت تعبیر کرنے لگے ہیں، ظاہر ہے جہاں سلیقے سے بات کہنے کے ہنر کا فقدان ہوتا ہے وہاں کوئی بات سنی بھی نہیں جاتی ہے، کلیم عاجز بھی شدت سے معترف رہے کہ

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم

بات کہنے کا سلیقہ چاہیے

میں نے دلشاد نظمی کو پڑھتے ہوئے سنتے ہوئے بھی بارہا محسوس کیا ہے کہ وہ بات کہنے کے سلیقے سے بخوبی واقف ہیں، ساتھ ہی وہ کبھی اعتماد کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے، شاعری کا وصف برقرار رکھتے ہوئے اپنا لہجہ بھی سہل رکھتے ہیں۔ اسی لیے نئی حساس آبادیوں میں بھی خندہ پیشانی سے قبول کیے جاتے ہیں

مرا عروج کی صورت زوال کر رہے ہیں

خود اپنے لوگ مجھے پائمال کر رہے ہیں

سوال کر نہیں سکتے مرید کے فاقے

ابھی تو حجرے میں مرشد خِلال کر رہے ہیں

اوریوں بھی مخاطب ہوتے ہیں کہ

صرف دشمن کو تباہی کا سبب جانتے ہیں

آپ اپنوں میں منافق نہیں پہچانتے ہیں

مانتے ہی نہیں احکام خداوندی کو

اور کہتے ہیں اللہ کو ہم مانتے ہیں

پھر شکوہ بہ لب ہونے کا یہ انداز بھی خوب ہے

مرے سخن کو سزا میرے یار دے رہے ہیں

زبان والے ہی مرتد قرار دے رہے ہیں

وہ چاہتے ہیں رہوں عمر بھر میں شرمندہ

جو حق بھی بھیک کی صورت اُدھار دے رہے ہیں

شعری محاسن کا ذکر یہاں ناگزیر اس لیے ہو جاتا ہے کہ دلشاد نظمی نے اپنے متن کو برتنے میں قطعی طور پربے جا فنی مزاحمت سے کام نہیں لیا ہے پھر بھی پُر اثر ترسیل میں کامیاب اس لیے نظر آ تے ہیں کہ صنف کے اوصاف اور اس کی اثر انگیزی کا بہتر شعور رکھتے ہیں جن سے کہیں بھی اس کا حسن زائل نہیں ہوتا، غزل کی ایک دھیمی سی آنچ ہی تو ہوتی ہے جو شعر اور غیر شعر کی تفریق بتا جاتی ہے، میرے اس قول کی صداقت کے لیے دلشاد نظمی کے اس رنگ کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے

غزل سناؤ کہ سینے کا کوئی داغ جلے

پھر آنسوؤں سے کسی یاد کا چراغ جلے

یا پھر یہ سند بھی ہے کہ

نشیلی شب ہے تری یاد کی خماری ہے

ترے خیال نے میری غزل سنواری ہے

میں خود کو دیکھتا رہتا ہوں جس کی آنکھوں میں

وہ ایک چہرہ کئی آئینوں پہ بھاری ہے

دلشاد نظمی کی غزلیہ شاعری کا یہ انداز کلاسیکی روایت کے احترام اور عصری معنویت کی بہترین غمازی کرتا ہے غزل کی نئی بستیوں میں تجربے اور مشاہدے کی جگہ جگہ نئی آماجگاہ بھی بن چکی ہے، کہیں کہیں کشش بھی نظر آتی ہے۔ مگر یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ منظر نامہ کب تک روشن رہے گا اگر کسی متن کو پہلے بہتر انداز میں پیش کیا جا چکا ہے تب انداز بیاں پر ہی شعر کی رونق موقوف ہوتی ہے اور اپنے طرز سے نئے عہد کی شاعری پہچانی جاتی ہے، غالب جیسے عظیم المرتبت شاعر کو اپنی زندہ روایت کے تقدس اور بلند قامت ہونے کا احساس تھا مگر اپنی سر بلندی کے باوجود اور وں کی سخنوری کے بھی معترف تھے۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

یعنی یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ شاعری جہاں عمدہ خیالات کی ترجمانی کرتی ہے وہاں طرز کی شگفتگی بھی بے حد معنی رکھتی ہے، دلشاد نظمی نے بھی جا بجا اشعار کو نئی جہت عطا کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھی ہیں، اور بعض مقامات پر وہ اپنے ہم عصروں سے جدا بھی نظر آتے ہیں اور ان کا یہی اختصاص نئے شعری امکانات سے مزین معلوم ہوتا ہے، دلشاد نظمی کا خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ پوری دلجمعی سے اپنے اندرون کا احتساب بھی کرتے ہیں ساتھ ہی کسی خوش فہمی کے طرفدار نہیں ہیں اور ان کی یہی راست بیانی نئے منظر نامے کی معتبریت کا پتہ دیتی ہے، جہاں گریز سے بھی مثبت رجحان کا پتہ ملتا ہے اور کوئی محض ساحل کا تماشائی نہیں بنتا بلکہ وہ سمندر کے سفر کو زندگی کی بہترین علامت تصور کرتا ہے

وقت کی شعلہ بیانی سے نکل جائیں گے

ہم بھی اک روز کہانی سے نکل جائیں گے

ڈوبنے والوں کا دیکھے گا تماشہ ساحل

تیرنے والے تو پانی سے نکل جائیں گے

آپ؎کے مصرع ء اُولیٰ کی انا ٹوٹے گی

ہم اگر مصرع ء ثانی سے نکل جائیں گے

ڈاکٹر قاسم خورشید کاکوی، پٹنہ

9334079876

حمد

خالق ارض و سما حمد بیاں ہو جائے

تیری مدحت کے لیے وقف زباں ہو جائے

مانگنے کا تو سلیقہ ہی نہیں ہے مجھ کو

میرے اشکوں سے طلب میری عیاں ہو جائے

تیرے کلمے کے سوا کچھ بھی نہ ہو رختِ سفر

کلمۂ حق میری منزل کا نشاں ہو جائے

تیری منشا ہو تو صدیوں کا سفر بھی آساں

اور غضب سے تیرے لمحہ بھی گراں ہو جائے

پانچ وقتوں کی رہے حاضری تیرے در پہ

اپنا گھر چھوڑ دوں جس وقت اذاں ہو جائے

ذہن و دل کے نہاں خانوں میں اجالا بھر دے

اور جو غیر ضروری ہو دھواں ہو جائے

وہ بصارت دے کہ پہچان سکوں راہ وفا

دے بصیرت کہ مرا عزم جواں ہو جائے

مشعل دین دے دلشادؔ کے ان ہاتھوں میں

ساری دنیا میں فقط امن و اماں ہو جائے

نعت

غم نہیں ظلم و ستم ہم پہ جو اغیار کے ہیں

ہم کہ جس حال میں ہیں احمد مختار کے ہیں

کی ہمیں صبر کی تلقین مگر یہ بھی کہا

وقت آ جائے تو پھر فیصلے تلوار کے ہیں

خود پیادہ پا چلیں اور سواری پہ غلام

ایسے انداز سفر قافلہ سالار کے ہیں

ساری صدیاں بھی سمٹ جائیں تو طے ہو نہ سفر

میہماں عرش بریں کون سی رفتار کے ہیں

جس طرف جائیے مرکز بھی وہی، حد بھی وہی

زاویے سارے اسی نقطۂ پرکار کے ہیں

حشر کے بعد وہی شافع محشر دلشادؔ

رہنما حشر تلک بھی وہی سنسار کے ہیں

رہِ جنوں میں امیر زادی شکار ہو جانا چاہتی ہے

کسی مزارعے کا ہاتھ تھامے فرار ہو جانا چاہتی ہے

کسی پروہت پہ دیو داسی نثار ہو جائے تو عجب کیا

گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے

نشے میں دھت شب زلیل کرتے ہوئے لڑھک جاتی ہے کسی دم

سحر مگر آنکھیں کھولے خدمت گزار ہو جانا چاہتی ہے

سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی توتلی زباں سے

پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے

دھکیل دیتا ہے بھیڑ کی اس پناہ سے کوئی ہاتھ باہر

مری اکائی جب ان گنت بے شمار ہو جانا چاہتی ہے

یہاں کے کلچر میں بس گئی ہے مصافحے کی عجیب سی دھن

کہ لمس پاتے ہی لڑکی فوراً ستار ہو جانا چاہتی ہے

نئے سرے سے محاسبے کا خیال آتا ہے آئینے میں

خزاں نوید بہار سن کا بہار ہو جانا چاہتی ہے

خدایا توفیق دے کہ اوقات یاد رکھے سدا غلامی

انا تو فرعون بن کے پروردگار ہو جانا چاہتی ہے

عیاں نہیں ہے مرے سخن کا جہان دلشادؔ مجھ پہ شاید

نظر تو حدِ نظر سے بھی اب کے پار ہو جانا چاہتی ہے

خواب کی کون سی تعبیر گڑھی جا رہی ہے

خانۂ ہجر میں تنہائی بڑھی جا رہی ہے

چشم حیراں میں کوئی منظر نمناک نہیں

صفحۂ دل تری رُوداد پڑھی جا رہی ہے

بچ نہ پائے گا کوئی خشک کنارہ شاید

اور منھ زور ندی ہے کہ چڑھی جا رہی ہے

کیسے گل بوٹے مرے زخم پہ ٹانکے گئے ہیں

اب مسیحائی بھی نشتر سے کڑھی جا رہی ہے

ہائے دلشادؔ کتابیں تو کوئی پڑھتا نہیں

جلد پر صرف نئی جلد چڑھی جا رہی ہے

آواز میری بیٹھ گئی ہے پکار کر

میں نے اُسے کہا تھا ذرا انتظار کر

اُف آخری ٹرین بھی مِس کر چکا ہوں میں

اُس نے بھی گہنے رکھ دیے ہوں گے اُتار کر

کہتا ہے مجھ کو دوست تو پھر دوستی نبھا

یا اپنے دشمنوں میں مجھے بھی شمار کر

نقصان تو ہوا ہے ہمارا بہت، مگر

رشتوں کو ہم نے جیت لیا خود کو ہار کر

اُس پار کا سکون مجھے بھی تو چاہئیے

یارا جنوں کی کشتی میں مجھ کو سوار کر

رکنا نہیں تو ڈھونڈ کوئی اور ہمسفر

مجھ پر ہے گر یقیں تو مرا اعتبار کر

الفاظ تو وہی ہیں تجھے چاہئیے ہُنر

کوشش تو کر کبھی مرے لہجے پہ وار کر

دل چاہتا ہے اور بھی دلشادؔ کر مرا

باقی ہے تھوڑا وقت مجھے اور پیار کر

پہلے ٹھٹکی تھوڑا جھجکی اک ذرا پہلو بدل کر

آشنا لڑکی ملی تھی، اجنبی عورت میں ڈھل کر

خواب سا تھا ایک پیالی چائے کا دورانیہ بس

بھیڑ میں گم ہو گئی تعبیر کیفے سے نکل کر

جان لے لے گا ترے ہاتھوں کا موبائل کسی دن

باولی لڑکی سڑک کو پار تو کر لے سنبھل کر

جاگتی آنکھوں میں میری خواب اس کے آ رہے ہیں

اتفاقاً اس نے مجھ کو صبح دیکھا آنکھیں مل کر

اصلیت پہچانتا ہے آپ کے اندر کا شیشہ

خوش گمانی دیکھتی ہے رات دن چہرہ بدل کر

آستیں میں پلنے والوں سا نظر آتا ہے مجھ کو

دیکھتے رہنا بہت سے دوستوں کا مجھ کو جل کر

دیر سے منڈلا رہی ہے ایک گوریا فضا میں

اک چڑا لٹکا ہوا ہے تار پر بجلی سے جل کر

پھر نئے دن کی ضرورت ہے مگن تیاریوں میں

ہر کوئی نکلے گا گھر سے خواہشوں کی راکھ مل کر

سُن خرد والوں کی باتیں، لیکن اے دلشادؔ نظمی

عشق کے سارے معمے اپنی نادانی سے حل کر

ہجر میں جَپ کر نام تمہارا سودائی نے رقص کیا

حجرۂ دل کی بزم میں کھل کر تنہائی نے رقص کیا

لا مذہب ہونے کی وضاحت اس سے بہتر کیا ہو گی

نعرہ مار کے بھیڑ کے اندر بلوائی نے رقص کیا

اُونچی قیمت دیکھ کے فوراً ہو گئیں میری آنکھیں نم

کھلی ہتھیلی پر میری پا ئی پائی نے رقص کیا

اک چھوٹی سی سوئی نے اوقات بتا دی ہے اپنی

بخئیے کے اُدھڑے سینے پر تُرپائی نے رقص کیا

بٹیا کو رخصت کر کے تو بلک کے روئی تھی وِدھوا

سہرا دیکھ کے اپنے لال کے سر، مائی نے رقص کیا

کیا کیا مانگ رہے تھے چیخ کے ساہوکار کے کارندے

اندر عزت روئی باہر شہنائی نے رقص کیا

برسوں کے اک پیاسے خواب کو اب جا کر تعبیر ملی

دریا کے میٹھے پانی پر صحرائی نے رقص کیا

مجھ کو ترکے میں بس آنسو سونپ کے کتنا خوش تھا وہ

جس دم میں گھر سے نکلا میرے بھائی نے رقص کیا

میری غزل میں قید ہوا دلشادؔ دریچے کا منظر

جسم کے اک اک لوچ کے بل پر انگڑائی نے رقص کیا

قیمتیں اُونچی تھی تو اندر نہیں جا پائی لڑکی

کانچ کی دیوار تھامے رو پڑی للچائی لڑکی

دور تک ویراں سڑک تھی اور میرا ہاتھ تھامے

بھیا بھیا کہہ رہی تھی خوف سے گھبرائی لڑکی

اب کوئی ہیرو یا آئے گا ویلن اللہ جانے

منتظر ہے اپنا گھونگھٹ کاڑھ کے شرمائی لڑکی

کمرہ نمبر تین سو پندرہ میں تو بوڑھا رکا ہے

کس پرانے شوق نے ہے نصف شب منگوائی لڑکی

دفن کر دیتے تھے پہلے لوگ زندہ بچیوں کو

اب تو قاتل عورتوں نے کوکھ میں دفنائی لڑکی

اس لیے بیٹے کا کمرہ کر دیا تبدیل ماں نے

سامنے کھڑکی میں آ کر لیتی تھی انگڑائی لڑکی

یخ زدہ ہوٹل کے کمرے نے حرارت چھین لی ہے

بجھ گئی ہے جگمگاتے شہر میں صحرائی لڑکی

نارمل تو ہو گئی دلشادؔ لیکن ہر کسی پر

اب یقیں کرتی نہیں ہے پہلا دھوکا کھائی لڑکی

سرورِ وصل نے شیریں دہن کیا ہے ابھی

یہ میں نے خواب میں کس سے سخن کیا ہے ابھی

عجیب فکر نے تائب کیا تھا کچھ پہلے

کسی خیال نے توبہ شکن کیا ہے ابھی

ضرور خواب میں آئے گی پہلی شب کی طرح

مرے خیال نے اس کو دلہن کیا ہے ابھی

میں اپنا نام لکھوں کینوس کے کونے میں

برش نے اس کا مکمل بدن کیا ہے ابھی

مرے علاوہ کسی کو نظر نہیں آتی

اُسی نگاہ نے مجھ کو مگن کیا ہے ابھی

کسی کی یاد کا دلشادؔ سنگ ہے شاید

درون خانۂ دل جس نے چھن کیا ہے ابھی

تم کو مبارک بستی بستی، اجلی پیلی کالی دھوپ

میرے بدن کو سینک رہی ہے بس میرے گھر والی دھوپ

بھیگی پسینے میں بل کھاتی الہڑ اور متوالی دھوپ

سر پہ بوجھ کو لادے پگڈنڈی پہ چلی سنتھالی دھوپ

کمروں سے آنگن میں لائی مہک پراٹھوں کی سب کو

اماں، بہوئیں، بیٹے، بچے، پان، سروتہ، چھالی، دھوپ

نئی دلہن کی نرم ہتھیلی سہلاتی ہے درد مرا

بغل میں چمٹی کاٹ کے فوراً بھاگ گئی ہے سالی دھوپ

اب کہتے ہو رشتے سارے جھلس رہے ہیں کمروں میں

سائے کی جڑ کاٹ کے تم نے آنگن میں کیوں پالی دھوپ

شب کی مستی اُف اور آہ کی تکراروں پر ختم ہوئی

پہلی کرن کے شامل آئی تھو تھو کرتی خالی دھوپ

تم کیا جانو نئے مزاجو، ان تابندہ قدروں کو

آج بھی حدّت پہنچاتی ہے مولانا کی حالی دھوپ

آنکھیں مل کر پٹ کھولا تو سڑک پہ پہلا منظر تھا

ہاتھ کے رکشے پر بیٹھی تھی سندر سی بنگالی دھوپ

پچھلی شب بے نام نوالے مہمانوں سے چھوٹ گئے

جوٹھے پتے چاٹ رہی ہے پچھواڑے کنگالی دھوپ

اپنی چھت کا سایہ اب دلشادؔ بہت یاد آتا ہے

لوٹ چلو گھر خوب کمایا صحرا کی بھی کھا لی دھوپ

دھمکیاں ملتی رہیں گی یونہی دنیا بھر سے

مصلحت جب کبھی سمجھوتہ کرے گی ڈر سے

آپ کیا کچھ ہیں یہ میدان میں ثابت ہو گا

پہلے باہر تو نکل آئیے اپنے گھر سے

ایک محافظ ابھی دستے میں ہوا ہے شامل

ایک منافق ابھی نکلا ہے مرے لشکر سے

زخم کھایا ہوا پنچھی ہوں مگر زندہ ہوں

وقت کی تیز ہوا کاٹ رہا ہوں پَر سے

ہاں وہی شخص بہادر ہے زمانے بھر میں

جو مصلے پہ کھڑا کانپ رہا ہو ڈر سے

یہ وہ دنیا ہے جو تصویر کے دھند لاتے ہے

پھر نیا چہرہ اچک لے گی کسی منظر سے

رات ہنس کر تو کہا تھا کہ میں خوش ہوں لیکن

صبح رخسار ترے کیوں لگے مجھ کو تر سے

کام آواز لگاتا ہے اندھیرے منہ ہی

اٹھنے دیتی نہیں دلشادؔ تھکن بستر سے

غرض نہیں مجھے سیلاب کی روانی سے

ندی چٹان کو کاٹے گی میٹھے پانی سے

نبھا نہ پاؤ گے کردار اپنے حصے کا

مجھے نکال کے دیکھو ذرا کہانی سے

تمہاری نیتِ تفسیر پڑھ رہا ہوں ابھی

تمہارا پیار ہے وحشت زدہ معانی سے

اب ایرے غیرے کو ترجیح تو نہیں دوں گا

مقابلہ بھی کروں گا تو خاندانی سے

کئی طرح کے خداؤں کے آسرے پہ جیو

تباہ کرتے رہو خود کو خوش گمانی سے

ہو میرا رختِ سفر لا ا لہ الا اللہ

روانہ ہونے لگوں جب سرائے فانی سے

صدائے عشق میں دلشادؔ اتنی لذت ہے

کیا نہ شکوۂ غم بھی کسی گیانی سے

چھپے ہوئے نکل پڑے ہیں آج آستین سے

لڑوں میں دشمنوں سے یا لڑوں منافقین سے

رہا کریں وہ مسلکوں کی اختراع پر بضد

جو دُور ہوتے جا رہے ہیں خود اصول دین سے

عجیب رونقیں مرید کر رہی ہیں پیر کو

وصول کر رہا ہے اب خراج عاشقین سے

تجھ ایسے تین پانچ کرنے والے پہ ہو لعنتیں

غرض ہے تیرہ سے نہ واسطہ ہے تیرے تین سے

نہارنے لگے ہیں آئنہ جناب روز و شب

معاملات چل رہے ہیں کیا کسی حسین سے

پناہ ڈھونڈتے ہیں لوگ مصلحت کی آڑ میں

کہاں گئے سوال کرنے والے ناقدین سے

رٹی رٹائی سرقے بازیاں ہی ہاتھ آئیں گی

لگائے بیٹھے آس کیسی آپ مندوبین سے

پھر آج دل کو شادؔ کرنے کا ارادہ کر لیا

غزل نکال لائے آج ہم اُسی زمین سے

ضرورت کھردرے جسموں کو اتنا دھار کر دے گی

عَلم سر کو نہتّے ہاتھ کو تلوار کر دے گی

تری مخصوص بیٹھک عام سا دربار کر دے گی

نمائش، اک مہذّب گھر کو بھی بازار کر دے گی

اجالا روکنے والی فصیلیں خوش تو ہیں لیکن

دراروں کی حمایت روشنی کو پار کر دے گی

فنا گہرے سمندر میں ڈبو دے گی جہازوں کو

بقا ٹوٹے ہوئے بازو کو بھی پتوار کر دے گی

ہماری بے حسی لپٹی ہے خوابیدہ لحافوں میں

خود اپنی چیخ ہی شاید ہمیں بیدار کر دے گی

تری رحمت پہا س درجہ یقیں ہے، اے مرے مولا

تری قدرت مرے رو مال کو دستار کر دے گی

ذرا نو کِ قلم سے حاشیہ محفوظ رکھ، ورنہ

لکیر اپنی روانی میں حدیں سب پار کر دے گی

کبھی دہلیز کے باہر نہ کر گھر کے مسائل کو

شکن دلشادؔ چہرے کی تجھے اخبار کر دے گی

پتہ نہیں کِسے ہمزاد کرنا چاہتا ہے

غلام جن مجھے آزاد کرنا چاہتا ہے

ہلا بھی لے کبھی زنجیرِ بے حسی اپنی

کبھی ضمیر بھی فریاد کرنا چاہتا ہے

حدِ نگاہ وہی کنکریٹ کا صحرا

خیال، دشت کو آباد کرنا چاہتا ہے

کہیں رکے تو سہی وہ ذرا خموش تو ہو

مرا سکوت بھی ارشاد کرنا چاہتا ہے

بہت سی میل ہے، مس کالیں اور ایس۔ ایم۔  ایس

کسی طرح وہ مجھے یاد کرنا چاہتا ہے

سنا ہے اس کو بہت کوستی ہے تنہائی

وہ ختم ہجر کی میعاد کرنا چاہتا ہے

کسی بھی حال میں تعمیر ہونا ہے اس کو

مرے وجود کو بنیاد کرنا چاہتا ہے

خوشی کسی کو ملے اب اُسے غرض ہی نہیں

بس اپنے آپ کا دل شاد کرنا چاہتا ہے

کمال ہے دشت دل کے آہو کو پالے رکھنا

پھر اپنی وحشی صفت انا بھی سنبھالے رکھنا

سماعتوں کو پسند ہے جی حضوری لہجہ

ہمیں گوارہ نہیں مرض ایسا پالے رکھنا

ہوائیں شب خون مارتی ہیں دیے کی لَو پر

حصار میں پھر ہتھیلیوں کو ہے چھالے رکھنا

کچھ ایک سطریں ہی سارا معیارطے کریں گی

تو کیا ضروری ہے ڈھیروں صفحات کالے رکھنا

میں غیب داں ہوں کہ قبل ہی اہتمام کر لوں

ضرورتوں کو بھی چاہیے منھ نکالے رکھنا

پھر آج بچپن کے بوڑھے ساتھی کی یاد آئی

وہ جس کا شیوہ تھا ذہن و دل پر اجالے رکھنا

بلا جھجھک پیش کرنا دلشادؔ فن کو، لیکن

دلیل کے ساتھ با سند کچھ حوالے رکھنا

بالآخر تھم گئی بپھری ندی آبادیاں لے کر

تب آئے ناخدا اپنی مدد کی کشتیاں لے کر

گلے سوکھے ہوئے آنکھوں میں غم کی بدلیاں لے کر

جھلستے ہیں دعاؤں کے قبیلے عرضیاں لے کر

مرا ایمان ہی میرے قبیلے کا محافظ تھا

مقابل تھی بدی تلواریں، نیزے، برچھیاں لے کر

ہر اک جانب طلب ہر سو وہی فہرست ملتی ہے

کہاں جائے گا آخر باپ اپنی بیٹیاں لے کر

مرے اجداد کو شاید گلے ملنے کی عادت تھی

گریباں اب رفوگر ڈھونڈتا ہے دھجیاں لے کر

کسی شاطر جواری سے ہوا ہے سامنا شاید

وہ کتنا خوش تھا کل تک مجھ سے ساری بازیاں لے کر

مری شہرت پسندی پر انا حاوی رہی ورنہ

مرے نزدیک تھی دلشادؔ دنیا سیڑھیاں لے کر

آج، کل جیسا رہا، یعنی ہوا کچھ بھی نہیں

پھر انا کے بوجھ کا حاصل تھا کیا، کچھ بھی نہیں

ہچکیوں کے درمیاں مانوس سانسیں فون پر

پوچھتا میں رہ گیا اس نے کہا کچھ بھی نہیں

میرے اندر ڈھیر سارے مسئلوں کا شور ہے

کیا کہا تم نے ابھی میں نے سنا کچھ بھی نہیں

آڑے ترچھے زاویوں سے ڈر نہیں لگتا مجھے

میری نظروں میں ہے نقطے سے بڑا کچھ بھی نہیں

جھنجھلاہٹ گھٹنے ٹیکے بھینچتی ہے ریت کو

صبح روشن ملگجا پن شام کا کچھ بھی نہیں

اس نے کی تحریر اپنی فتح میرے خون سے

میں نے اپنے آنسوؤں سے کیا لکھا، کچھ بھی نہیں

یاد اس کی گرم سانسوں کا مزہ دیتی رہی

چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اور کیا کچھ بھی نہیں

حاشیے میں آ چکا ہے گوشوارہ سانس کا

جمع کی تقسیم کا حاصل ہے کیا، کچھ بھی نہیں

میں خود اپنے سامنے حیرت زدہ بیٹھا رہا

عکس کو دلشادؔ نظمی کچھ ہوا، کچھ بھی نہیں

جس کے باعث ہو گئے ہیں بے بس و لاچار سے

کاٹنی ہیں اپنی زنجیریں اسی ہتھیار سے

آگہی کی کون سی منزل پہ ٹوٹا ہے یہ خواب

دھند سی چھائی ہوئی ہے اور ہیں بیدار سے

دیو قامت موجیں مجھ سے بر سرِ پیکار ہیں

کھے رہا ہوں اپنی کشتی ہاتھ بھر پتوار سے

دشمنوں کو زیر کر کے کامراں لوٹا مگر

میرے بازو کٹ گئے ہیں دوستوں کے وار سے

میرے زخموں پر نہ جا، کل کی حفاظت کے لیے

میرے بیٹے کھیل اس ٹوٹی ہوئی تلوار سے

پاؤں میں تو بے سند فتوے کی بیڑی ڈال دی

پھر کہا چلتے نہیں کیوں وقت کی رفتار سے

جس کے بیجا شوق سے رسوائیوں کا خوف ہو

گھر میں ایسی چیز نہ لایا کریں بازار سے

دھوپ میں تپتا ہوا آنگن بہت خوش حال تھا

اب تو رشتے جل رہیں ہیں سایۂ دیوار سے

شیخ تیری حق بیانی چاہیے دلشادؔ کو

کیا غرض تیرے مصلّے سے تری دستار سے

ٹریفک کے ہر اک سگنل سے ہے آگاہ ہونے کا

کسی بھی سمت سے خدشہ نہ ہو گمراہ ہونے کا

کنیزیں خواب گاہ ملکۂ عالی کی خواہش میں

جنوں خواجہ سرا کو بھی بہت ہے شاہ ہونے کا

حقیقت نے طمانچہ جڑ دیا ہے بھیڑ کے اندر

یہ خمیازہ اٹھایا ہے فقط افواہ ہونے کا

میاں تمہید رہنے دے ترے اشعار بولیں گے

کسی کی واہ واہی سے نہیں گمراہ ہونے کا

انا غرقاب ہو کر لوٹ آئی سطح ساحل پر

تماشہ بن گیا فرعون خود اللہ ہونے کا

تہی دامن رہا دلشادؔ جب تنہا تھا، لیکن اب

بہانہ ڈھونڈتا ہے ہر کوئی ہمراہ ہونے کا

سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھارا پانی

آبادی میں گھوم رہا ہے گدلایا بنجارہ پانی

آنگن کی سوندھی بیٹھک پر دھوپ بدن کو سینک رہی ہے

بل کھائی زلفوں پہ لرزاں جھلمل پارہ پارہ پانی

میں نہ کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے

دیکھ ذرا سا بند کھلا اور پھیل گیا آوارہ پانی

آگ کی لپٹیں ناچ رہی ہیں دجلہ والوں کی بستی میں

پیاس کے مارے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی

صدیوں سے کیوں ٹھہر گیا ہے اس بستی میں ایک سا منظر

سیپی، گھونگے، ریت، چٹانیں، جال لیے مچھوارا، پانی

موڑ سے پہلے پیچھے مڑ کر ایک نظر جب میں نے دیکھا

چاند سے چہرے پر پلکوں سے ڈھلکا دکھ کا مارا پانی

حمد و ثنا رب العزت کی نا ممکن دلشادؔ ہے، گرچہ

سارے پیڑ قلم بن جائیں اور سیاہی سارا پانی

کسی کا عکس نظر کے کھلے قفس میں تھا

خیال دوسرے منظر کی دسترس میں تھا

اک اجنبی سے تعارف کا لمس کیا کہیے

بہت خلوص خجالت بھری ہوس میں تھا

تمام عمر وہی محورِ طواف رہا

اسی کا ذکر مسلسل ہر اک نفس میں تھا

میں جھوٹ موٹ کا آقا بنا رہا برسوں

مرے چراغ کا جن شاطروں کے بس میں تھا

بس اس کا نام لیا کی سفر کی بسم اللہ

غرض نہیں تھی کہ دن سعد یا نحس میں تھا

وہ در کھلا تو ضیا منکشف ہوئی ورنہ

مرا خیال تو ظلمت زدہ قفس میں تھا

حصار ذات کی دلشادؔ بندشیں ٹوٹیں

کوئی مکاں اسی ملبے کے خار و خس میں تھا

جو راویوں کی روایتوں سے الجھ کے شاید گڑھی ہوئی ہے

تو خاک دامن پہ آ آنسوؤں کی یہ بیل کیسی کڑھی ہوئی ہے

مہک رہا تھا کھنکتا لہجہ نظر کی تحریر اجنبی تھی

یقیں کو لیکن گمان گزرا کتاب شاید پڑھی ہوئی ہے

ادھر کنارے پہ ایک لذت بھری تھکن منتظر ہے لیکن

سنبھل کے لنگر اٹھائیے گا کہ سر پہ ندّی چڑھی ہوئی ہے

جب آ گہی کا عذاب اترا ہوا نے محتاط کر دیا تھا

خیالِ امکاں کی ایک ساعت صدی سے آگے بڑھی ہوئی ہے

وبال جاں بن نہ جائے دلشادؔ بے سبب آپ کی خموشی

انا نے کیوں کھردرے بدن پر یہ کھال آ خر مڑھی ہوئی ہے

آگ میں جلتا ہوا تڑپے جو پانی کے لیے

ایسا کردار ضروری ہے کہانی کے لیے

آجکل بنتی ہے افواہ بھی ہجرت کا سبب

کشت و خوں شرط نہیں نقل مکانی کے لیے

صبح سے شام تلک خود سے لڑائی ہوئی ہے

اب دعا مانگوں ذرا دشمنِ جانی کے لیے

ہر نئی چیز تعلق سے ہے عاری شاید

ربط ملتا ہی نہیں ان میں پرانی کے لیے

صرف خاکہ ابھی تیار کیا ہے میں نے

اس کو سوچوں گا بہت لفظ و معانی کے لیے

آج کیوں میری عیادت کو نہیں آتے ہیں

کل جو آئیں گے میری فاتحہ خوانی کے لیے

آنے والوں کو بتانا کوئی دلشادؔ بھی تھا

یہ غزل رکھ لے میاں میری نشانی کے لیے

خود ہی چلنا ہے مسافر کو چلاتی نہیں ہے

روشنی دکھتی ہے آواز لگاتی نہیں ہے

کیسی الجھن میں تری یاد نے ڈالا ہے مجھے

دیکھنا خواب بھی ہے نیند بھی آتی نہیں ہے

لوٹ جاتی ہے خوشی کیوں مرے در سے آ کر

اک اُداسی ہے جو گھر سے مرے جاتی نہیں ہے

کام ادھورے میں سبھی کرنے میں مشغول ہوا

اب تری یاد بھی اس درجہ ستاتی نہیں ہے

جب وہ لڑکی تھی بہت چاہ رہی تھی ملنا

اب وہ عورت ہے مگر آنکھ ملاتی نہیں ہے

یاد آتی ہے تو دلشادؔ کسک اُٹھتی ہے

اس کی اب یاد مجھے اُتنا رُلاتی نہیں ہے

میں لوٹ آیا دوستوں کا قرض یوں اُتار کر

منافقوں کے ساتھ ایک شام پھر گزار کر

غلام ہو رہی ہیں خواہشیں کسی کے سامنے

ہم ایسے لوگ جی رہے ہیں خواہشوں کو مار کر

جو حرف ناشنیدہ تھے وہ سرخیوں میں آ گئے

میں تھک گیا ہوں خود کو لفظ لفظ میں اُتار کر

بھٹکتے جگنوؤں نے اطلاع دی ہے دشت میں

ہوائیں بین کر رہی ہیں روشنی کو مار کر

تجھے خود اپنے نام کی پڑی ہوئی ہے اس لیے

اے معتبر سخن شناس مجھ کو مت شمار کر

بہت بھلی لگی تری خجالتوں بھری نظر

میں فتحیاب ہو گیا ہوں آج تجھ سے ہار کر

خموش رہ، مری زبان کھل گئی تو دیکھنا

ترا بھرم رکھے گی ایک آن میں اُتار کر

بہت ہوا مصالحت سے دل نہ شاد ہو سکا

خرد کا بار اُتار دے جنوں کو اب سوار کر

حیا میں لپٹے اُجال چہرے بھی سر برہنہ نکل رہے ہیں

ہمارے گاوں میں آئے دن اب کپاس کے کھیت جل رہے ہیں

کسی کو فرصت نہیں ذرا سی، کہ میٹھے لہجے میں بات کر لے

مری نگاہوں کے آئینے میں تمام چہرے بدل رہے ہیں

یہ وقتی ٹھنڈک، گلاب پانی کے جیسی فرحت تو دے گی، لیکن

نگار خانے بدلتے موسم کے رخ پہ تیزاب مل رہے ہیں

نئی سحر آ کے دیکھ لے گی ہر اک بدن کا سیاہ ملبہ

الاؤ کے ارد گرد سارے مہیب سائے اُچھل رہے ہیں

جدید دنیا ہزار صدیوں کے پھیلے جنگل میں پھنس گئی ہے

جو ڈایئناسور ہیں وہ ہر شئے چبا رہے ہیں، کُچل رہے ہیں

اور اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ ذائقے میں نمک نہیں ہے

ہمارے اعضاء حصولِ لذت کی آگ میں روز گل رہے ہیں

پلٹ کے شب خون مارنے میں ہیں طاق دلشادؔ یہ مسافر

ابھی تو ہاتھوں میں یونہی زیتونی ٹہنیاں لے کے چل رہے ہیں

رستہ بھی دیکھتا ہے مرے پاؤں کی طرف

لے جانا چاہتی ہے تھکن چھاؤں کی طرف

اس شہرِ بے پناہ کی گلیوں میں کھو گئی

جاتی تھی ایک کچی سڑک گاؤں کی طرف

دیکھیں تو اک نظر کبھی آقا بھی بھول کر

کب تک غلام دیکھیں گے آقاؤں کی طرف

بارش رکی تو رقص بھی یکلخت تھم گیا

کیا مورنی نے دیکھ لیا پاؤں کی طرف

بیشک بہت سے مسئلے دم توڑنے لگیں

بیٹے رجوع کر لیں اگر ماؤں کی طرف

دلشادؔ کیسے خاک وطن سوکھنے لگی

کیوں ابر اُڑتے جاتے ہیں صحراؤں کی طرف

عجیب دور ہے حقدار کون دیکھتا ہے

تعلقات میں معیار کون دیکھتا ہے

وہ دیکھتا ہے فقط اپنے فائدے کے لئے

وگرنہ آپ کو بیکار کون دیکھتا ہے

نظر بھی قسط چکانے کی ہو گئی عادی

نگاہ بھر کے مرے یار کون دیکھتا ہے

کبھی عوام سمجھ کر ہی دیکھ لے ورنہ

ترا حرم ترا دربار کون دیکھتا ہے

خموش ہونٹوں پہ ہے مصلحت کی ہاں لیکن

دھڑکتے سینوں کا انکار کون دیکھتا ہے

کہیں پہ جا کے یہ آنکھیں بھی تھکنے لگتی ہیں

پھر اس کے بعد لگاتار کون دیکھتا ہے

ہُنر بھی اپنا دکھا دعوے دار فہم و سخن

لباس، مسند و دستار کون دیکھتا ہے

ہزار طرح سے مجھ کو ٹٹولتے ہیں لوگ

مری طرح مجھے اک بار کون دیکھتا ہے

خود اپنے آپ سے دلشادؔؔ خوف ہے مجھ کو

اکیلے پن میں یہ ہر بار کون دیکھتا ہے

لَو قتل ہوئی صرف دھواں میری لیے تھا

حجرے میں کوئی اور کہاں میرے لیے تھا

اتنا ہے مجھے یاد میرے بھائی تھے پیچھے

اور سامنے اک اندھا کنواں میرے لیے تھا

مانوس سی خوشبوئے محبت ہی نہیں تھی

اک جسم اندھیرے میں عیاں میرے لیے تھا

چھت پر تو کئی اور چھتوں کے تھے حسیں خواب

پر زیرِ زمیں ایک مکاں میرے لیے تھا

اک آس گزرتے ہوئے لمحوں سے پرے تھی

اک شخص کئی سال جواں میرے لیے تھا

دانستہ سی اس ہار پہ افسردہ نہیں ہوں

میں جیت بھی جاتا تو زیاں میرے لیے تھا

دنیا نے کہا رُک ابھی سامان ہے باقی

پھر سامنے اک کوہِ گراں میرے لیے تھا

دلشادؔ میں الزام اُسے دوں بھی تو کیسے

وہ دوست نما دشمنِ جاں میرے لیے تھا

خودی کی آساں نہیں ہے بیعت، محال ہے خود کا پیر ہونا

کہ دورِ ناساز گار میں تو کمال ہے با ضمیر ہو نا

کسی کسی کو خد ائے بر تر کچھ ایسے اعزاز بخشتا ہے

فقیر ہو کر امیر ہونا، امیر ہو کر فقیر ہونا

خموش بیٹھے ہیں تم سے بہتر زبان کے وضعدار چہرے

ہیں تم پہ خوش فہمیاں جو غالب، تمہیں مبارک ہو میر ہونا

ڈرا کرو اُن زوال لمحوں کی پُر اَنا ساعتوں سے ورنہ

بہت بڑا بننے کی ہوس کو جو پیش آئے صغیر ہونا

ہمارا ملنا تو مسئلوں سے فرار کا ہے کھلا بہانہ

نہ رانجھے پن کی جھلک ہے مجھ میں، نہ تیری قسمت میں ہیر ہونا

دراز سائے کے قد کو جھوٹی انا ہی جھوٹا غرور بخشے

غروب ہونے کا فلسفہ تو، ہے تیرگی کا اسیر ہونا

سخن میں نقطے کی حیثیت سے میں خود کو دلشادؔ دیکھتا ہوں

ہے زاویوں کو جو مجھ سے نسبت، مجھے ہے لازم لکیر ہونا

جس پہ آواز کی بیداری کا احسان رہا

اس کو لہجے کی حفاظت کا بڑا دھیان رہا

عشق کی راہ میں تقلید نہیں کی میں نے

راستہ کٹتا گیا چال پہ ایقان رہا

دل کبھی اس پہ فدا ہو نہ سکا ملکہ کا

شاہ بس سلطنت جسم کا سلطان رہا

کوفہ والوں نے ہر اک شئے کو مٹانا چاہا

اہل ایماں جو بچا لائے وہ ایمان رہا

اس کے ہی نام سے منسوب تھے میرے قصے

اک وہی چہرہ مری شہر میں پہچان رہا

اک ذرا اور ٹھہرتا تو تماشہ ہوتا

وہ چلا بھی گیا اور آئینہ حیران رہا

اور دلشادؔؔ ارادے کے سوا کچھ بھی نہ تھا

راہ غالب کی چنی، میر کا سامان رہا

سمجھ رہا ہوں میں اس کرشمے سے کون حیران ہو رہا ہے

نظر سلامت میں آ رہا ہوں تو کس کا نقصان ہو رہا ہے

جو میرے پہلو سے لگ کے چلنے کو اپنی پہچان مانتا تھا

کسی کے دامن کو تھامے محفل میں مجھ سے انجان ہو رہا ہے

یہاں کی مٹی میں بس رہے ہیں تمہارے بچوں کے شہری سپنے

تمہیں سمجھنا پڑے گا در اصل گاوں ویران ہو رہا ہے

ہے عین ممکن عوام کو تالیاں بجانے کا حکم دے دے

سنا ہے خواجہ سرا ہی اب سلطنت کا سلطان ہو رہا ہے

کہا تھا اُس سے کہ اپنی پہچان اور قیمت کا علم رکھنا

جہاں تہاں برتا جانے والا وہ کوئی سامان ہو رہا ہے

اب آ گیا ہوں تو چاہتا ہوں ذرا سا قد اس کا ناپ ہی لوں

سنا ہے گز بھر کی حیثیت کو لیے کوئی تھان ہو رہا ہے

گمان اور زعم سے نہ دلشادؔ جیتی جائے گی کوئی بازی

یقین کو التوا میں ڈالے وہ رہنِ امکان ہو رہا ہے

دھوپ ہے شرمندہ شرمندہ، بادل بھی حیران ہوا ہے

پیڑوں کے سر کاٹے گئے ہیں، سایوں کا اعلان ہوا ہے

مانگوں والی کچھ اک لاشیں چورا ہے کے پاس ہیں بکھری

قید ہوئے حاجت میں نعرے، جھنڈوں کا چالان ہوا ہے

فون پہ سوری کہہ کر رو دینے سے رات نہیں پلٹے گی

کیسے بتاؤں تیرے نہ آنے سے کیا کیا نقصان ہوا ہے

چوری ڈکیتی سرقے بازی کے ڈھاٹے سے چہرہ باندھے

ادب کو چنبل بنا کے بیہڑ میں بزدل ملکھان ہوا ہے

دلالوں نے بھیڑ جٹا لی ہے بھولے بھالے لوگوں کی

چوروں کی عزت افزائی، ڈاکو کا سمان ہوا ہے

میں بھی بے حس ہونے لگا ہوں شہر نا پرساں میں رہ کر

آئینے دھندلے پڑنے لگے ہیں ہر چہرہ بے جان ہوا ہے

تم کہتے ہو امن کا کوئی جلسہ ہونے والا ہے، پر

آج تمہارے شہر کا ہر اک رستہ کیوں ویران ہوا ہے

گھر پہ تمہارے ٹھیک تو ہے سب، یا تمہیں دیکھنے لوگ آئے تھے

آج کیوں اتنی چپ چپ سی ہو کچھ تو میری جان ہوا ہے

پہلے والا حکم سمجھ میں آیا نہیں دلشادؔ ابھی تک

پھر سے صاحب جی کی طرف سے لاگو اک فرمان ہوا ہے

مرے سخن کو سزا میرے یار دے رہے ہیں

زبان والے ہی مرتد قرار دے رہے ہیں

وہ چاہتے ہیں رہوں عمر بھر میں شرمندہ

تو حق بھی بھیک کی صورت اُدھار دے رہے ہیں

جو آج تک کوئی وعدہ وفا نہ کر پائے

تسلیوں سے بھرا اعتبار دے رہے ہیں

ہیں کیسے لوگ حسد کے جنون میں یارو

وہ خود کو وقت سے پہلے ہی مار دے رہے ہیں

معاملات نبھانا ہی بس نہیں آتا

عبادتوں میں تو عمریں گزار دے رہے ہیں

وہ چاہتے ہی نہیں ہیں مدد کریں دلشادؔ

تسلیاں تو مگر بے شمار دے رہے ہیں

ہم نے سحری کی تھی باقر خانی سے

ہمسائے نے روزہ رکھا پانی سے

مجھ پر ہنسنے والا عکس بھی میرا ہے

خود کو دیکھتا رہتا ہوں حیرانی سے

اپنی مرضی سے چلتی ہے یہ دنیا

تم بھی یار اُلجھ بیٹھے دیوانی سے

کیا رونا موجودہ مسائل کا رونا

لطف اُٹھایا جائے قصہ خوانی سے

ہجرت کرنے والوں کو انصار ملے

تم نے کیا پایا ہے نقل مکانی سے

آؤؑ ورنہ برف بدن ہو جاؤ گے

چادر پھٹ جائے گی کھینچا تانی سے

آخر ریت ہی ہونا ہوتا ہے اک دن

چٹانیں لڑتی رہتی ہیں پانی سے

میں نے آسانی کو مشکل سے پایا

اُس نے مشکل پیدا کی آسانی سے

ساتھ لیے پھرتا ہے دوائیں ہر لمحہ

شاید کام لیا تھا خوب جوانی سے

طیش میں آ جاتا ہے ہو کا عالم کیوں

وحشت کیا کیا پوچھتی ہے ویرانی سے

یہ بھی تو دلشادؔ بہت ممکن ہے اب

پردہ پوچھ رہا ہو کچھ عریانی سے

ایڑیاں اُونچی کئے وہ قد بڑھانے لگ گئے ہیں

مجھ کو اس منزل تک آنے میں زمانے گئے ہیں

جس قدر بھی پی لے کوئی مسئلہ تو ظرف کا ہے

لوگ تو دو گھونٹ میں ہی ڈگمگانے لگ گئے ہیں

ہم نے تو اپنا مسیحا چُن لیا تھا آپ کو ہی

آپ تو جلاد نکلے خوں بہانے لگ گئے ہیں

بھیڑ کا حصہ بنا کر نوجوانوں کو یہاں پر

اپنے اپنے کام پر سارے سیانے لگ گئے ہیں

چاند سا چہرہ گلی سے آج رخصت ہو رہا ہے

میری پلکوں پر ستارے جھلملانے لگ گئے ہیں

بس ذرا سا وقت مجھ کو چاہئیے بچوں سے میرے

کس قدر مصروف ہیں جب سے کمانے لگ گئے ہیں

جلد ہی دلشادؔ نظمی ٹوٹ جائے گی یہ بیعت

سامنے آ کر منافق قسمیں کھانے لگ گئے ہیں

مشکیزے کا بازو تپتی ریت بھگوئے گا

دیکھنا اب کہ دریا پیاسی لاشیں دھوئے گا

دکھ کا بستر، فکر کی پیٹی، بوجھ ضرورت کا

ایک مسافر چلتی ٹرین میں کیا کیا ڈھوئے گا

پاگل لڑکی مان بھی جا اب چن لے کوئی رنگ

ورنہ آنسو کب تک تیرا کاجل دھوئے گا

سامنے والی چھت پہ جھجکتا چاند گھڑی بھر کا

دن نکلے تک لڑکا دھوپ میں بے سدھ سوئے گا

دیکھ ذرا دلشادؔ یہ دنیا کتنا ہنستی ہے

آخر اپنے اندر اندر کب تک روئے گا

بنے گی کیسی صورت دیکھتے رہیے یہاں کل کی

لکڑ ہاروں نے جب تعریف کی ہو سبز جنگل کی

اُبھر آئیں ہیں میری فکر میں نیلی رگیں کیسی

کہانی پڑھ رہا تھا رات میں ناگ اور صندل کی

کنول کے پھول کی تعریف کیجئے شوق سے لیکن

جکڑ لینے کی عادت بھی بیاں کیجئے گا دلدل کی

وہی مجھ کو بتانے لگ گیا ہے میرا مستقبل

خبر جس کو نہیں ہے خود ہی اپنے دوسرے پل کی

یقیں سے تو نہیں امکاں بھری نظروں سے ہی دیکھیں

ہوا کے سامنے کیا حیثیت مغرور بادل کی

ہوا کی سر پھری دستک شکستہ در پہ ہے جاری

کسی مظلوم سی حالت ہوئی لرزیدہ سانکل کی

قلم کے نقش پر دلشادؔ چلنا ہے اُٹھا کے سر

اگرچہ جانتا ہوں میں، ہے کیسی راہ مقتل کی

کھنڈر بچے ہیں فلسطین کے بھرم کے لیے

فصیلیں اٹھنے لگیں ہیں یروشلم کے لیے

مری زمیں پہ عدو دندناتے پھرتے ہیں

مجھ ہی کو سوچنا پڑتا ہے ہر قدم کے لیے

ہمارے زخموں کو پھاہا بھی اک نصیب نہیں

ہزاروں ہاتھ بڑھیں ان کی چشم نم کے لیے

مجھے بھی ناز بہت اپنے انکسار پہ ہے

میں اپنا میں نہیں چھوڑوں گا تیرے ہم کے لیے

سیاہ کرتا نہیں خود نمائی میں صفحے

کسی سے بھیک بھی مانگی نہیں قلم کے لیے

تمام خواجہ سرا سرحدوں سے بھاگ گئے

بحال ہوتی رہیں لونڈیاں حرم کے لیے

نمازیوں کے نکلنے کا وقت ہے، مائیں

علیل بچوں کو لے کر کھڑی ہیں دم کے لیے

یہ زندگی یوں ہی دلشادؔ سوتنوں کی طرح

زیادہ چاہ کے لڑتی ہے روز کم کے لیے

نظر میں خود داریاں تھیں اب تک بحال ورنہ

جہاں کی آنکھوں میں رقص کرتا سوال ورنہ

گھرانے اک ایک کر کے خیموں میں بٹ رہے ہیں

ابھی بزرگوں کا ہے مجھے کچھ خیال ورنہ

بدن کو چھڑکاؤ کی ضرورت رہی ہمیشہ

تپش کی لیکن ہوئی نہ کوئی مجال ورنہ

میں چاہتا تھا قدم سے اس کے قدم ملانا

بدلتی رہتی تھی اس کی ہر لمحہ چال ورنہ

مجھے بھی اچھی رفاقتوں کی طلب ہے لیکن

میں دب کے اپنے ہی بوجھ سے ہوں نڈھال ورنہ

تجھے ہدایت کی روشنی دینا چاہتا تھا

تُو آرتی کی سجائے بیٹھی تھی تھال ورنہ

مصالحت کی ہے جاری دلشادؔ نظمی کوشش

وہی بتائے کہ اس کا کیا ہے خیال ورنہ

رستہ ڈھونڈ ہی لیتا ہوں میں گھرتی دیواروں کے بیچ

زندہ رہنا مشکل ہوتا ورنہ مکاروں کے بیچ

ہوا زیادہ بھرنے کا نقصان تو میں نے دیکھ لیا

اب تو دم بھی پھول رہا ہے اتنے غباروں کے بیچ

پورب پچھم اُتر دکھن چاروں جانب سے یلغار

میری حقیقت مرکز جیسی میں ہوں گھرا چاروں کے بیچ

تم کو اپنی سمت کا اندازہ اب تک نہ ہو پایا

جگنو ہمت دکھلاتا رہتا ہے اندھیاروں کے بیچ

اُونچی گردن والے نخوت سے اب مجھ کو تکتے ہیں

میری اک بونی سی عبارت اتنے فن پاروں کے بیچ

ٹائر رگڑ کھاتے ہیں ہارن چیختے ہیں پھر سڑکوں پر

پیدل چلنے والے گھِر جاتے ہیں جب کاروں کے بیچ

اب تو صحافت شعبدہ بازی جیسی ہے دلشادؔ یہاں

سچی خبریں جھوٹی ہو جاتی ہیں اخباروں کے بیچ

اُبھرے گا حق نگاہ میں اُترا ہوا سخن

لفظوں کے پل صراط سے گزرا ہوا سخن

ممکن ہے میں بھی قصۂ پارینہ ہو رہوں

کس کس کو یاد رہتا ہے گزرا ہوا سخن

سب کو بہت گمان تھا طوفان آئے گا

بیٹھا نہ جھاگ بن کے وہ بپھرا ہوا سخن

اپنے کہے ہوئے کے گماں نے شکست دی

اک مرد کی نگاہ میں خسرا ہوا سخن

معنی سے واسطہ ہے نہ تہہ داری سے شغف

لوگوں کو صرف چاہئیے اُبھرا ہوا سخن

لمبی ریاضتوں کا ہے دلشادؔ یہ ثمر

بس اک ذرا سا آیا ہے سدھرا ہوا سخن

لکیروں کو نئی ترکیب میں الجھا رہا ہے

مگر ہر زاویہ مرکز پہ واپس آ رہا ہے

وہ نقطہ دائرے میں ہو گیا ہے قید شاید

حصار ذات کے باہر اجالا چھا رہا ہے

مری وحشت کو طعنہ دے رہی ہے یہ خموشی

جنوں صحرا کے تازہ زخم کیوں سہلا رہا ہے

مشینوں کے دھوئیں سے گھٹ رہا ہے دم ہمارا

مگر سانسوں کو وہ ایندھن بھی تو پہنچا رہا ہے

کتابوں کی عبارت لگ رہی ہے دھندلی دھندلی

نظر کے سامنے ہر لفظ کیوں دھندلا رہا ہے

اسی حجرے میں ساری شب گزاری تھی خوشی نے

اسی حجرے کے باہر دن کھڑا پچھتا رہا ہے

کنیزوں سے لپٹ کر بھیگتی رہتی ہے بیگم

حرم خواجہ سرا کی سیج پر اترا رہا ہے

میں اس انعام کو نیلام کرنا چاہتا ہوں

مرا فاقہ زدہ فن آئے دن غش کھا رہا ہے

خود اپنے عکس سے الجھا ہوا دلشادؔ نظمی

عیوب و فن کے سارے قاعدے سمجھا رہا ہے

پلٹ کے خود وقت فیصلہ اپنا کر رہا ہے

تمہارا ہونا ہمارے ہونے سے ڈر رہا ہے

زقندیں بھرتی جوانی چڑھنے لگی ہے زینے

بڑھاپا ریلینگ پکڑے نیچے اُتر رہا ہے

عجیب تنہائی ہے تنفس کے زیر و بم میں

سکوت اندھے کنویں میں آوازیں بھر رہا ہے

میں جھیل آیا ہوں تجربہ گاہ کی صعوبت

ابھی ترا فن مشاہدے سے گزر رہا ہے

لبوں کی دم توڑتی ہوئی مسکراہٹوں سے

خمیدہ پلکوں کا آخری گوشہ تر رہا ہے

ہر ایک حصے کی اپنی دیواریں اُٹھ چکی ہیں

مکان، آنگن، کہاں وہ پہلے سا گھر رہا ہے

ضعیف دلشادؔ نظمی ہو تو گئے ہو لیکن

پرانی کچھ عادتوں کا پھر بھی اثر رہا ہے

شرف حاصل ہوا جن کو حرم کی پاسبانی کا

ان ہی کی بستیوں میں شور کیوں ہے بے مکانی کا

بس اک چھوٹی جمیعت نے انھیں تسخیر کر ڈالا

بہت اترا رہا تھا رنگ درفش کاویانی کا

میں اپنے خاتمے کے موڑ پر پہنچا تو یاد آیا

وہ اک بچھڑا ہوا کردار تھا میری کہانی کا

غنیم وقت کو خواجہ سرا شجرہ دکھاتے ہیں

کنیزیں بھی لقب اپنا چکی ہیں روپ رانی کا

قصیدہ لکھنے والی روشنائی تحفتاً آئی

ذرا سا مسئلہ درپیش ہے آنکھوں کے پانی کا

کرم ہے ناقدین وقت کا دلشادؔ نظمی پر

یوں ہی ادراک ہوتا جائے گا لفظ و معانی کا

دوبارہ لا اُ بالی پن پہ واپس آ گئے ہو نا

وہی مانوس منظر دیکھ کے اُکتا گئے ہو نا

میاں، تم سے زیادہ تجربہ ہے شہر کا مجھ کو

مری سنتے ہو کب، آخر کو دھوکا کھا گئے ہو نا

یہاں ہر روز تازہ رسم اک ایجاد ہوتی ہے

روایت توڑنے والوں کی زد میں آ گئے ہو نا

ذرا اُس آنکھ والے دل کی بھی تحقیق کر لینا

اگرچہ اس کو پہلی ہی نظر میں بھا گئے ہو نا

بہت ہی جلد پھنس جاؤ گے نقادوں کے نرغے میں

ابھی تو سرقے بازی سے ادب میں چھا گئے ہو نا

تمہیں پیاسوں کی کتنی فکر واقع ہے، جزاک اللہ

سرابوں پر بیاں دینا مگر صحرا گئے ہو نا

ذرا پھر سے تو کہنا پھر وہی دلشادؔ نظمی سے

ابھی تم کہتے کہتے کوئی ٹکڑا کھا گئے ہو نا

کئی آوازیں کہنے کو پسِ منظر سے آتی ہیں

جو اندر تک اترتی ہیں وہی اندر سے آتی ہیں

تری یادیں منافق کی طرح ہیں خیمۂ شب میں

بغاوت کی صدائیں نیند کے لشکر سے آتی ہیں

ہے کتنا سخت فوراً ماں بہو بیوی میں ڈھل جانا

تھکی ماندی بے چاری عورتیں دفتر سے آتی ہیں

میں گونگوں کے اشاروں پر بہت ہنستا تھا، کچھ دن سے

کئی بے ربط آوازیں مرے اندر سے آتی ہیں

بہت آہستگی سے کھولتی ہیں در تھکی راتیں

تو صبحیں سلوٹیں چھوڑے ہوئے بستر سے آتی ہیں

بہت کچھ سیکھتا ہے آدمی باہر کی دنیا سے

مگر کچھ عادتیں دلشادؔ نظمی گھر سے آتی ہیں

یقیں کے پیچھے چھپا کسی کا گماں ہو شاید

میں اپنا چہرہ کھرچ لوں تو کچھ عیاں ہو شاید

ہیں چہرہ چہرہ علامتیں بد شگونیوں کی

خدا کو مقصود پھر مرا امتحاں ہو شاید

یہ میری پلکوں پہ جلتے بجھتے نمی کے موسم

جو میرے اندر سے اُٹھ رہا ہے دھواں ہو شاید

اے میری خوش فہمیوں زمیں کو جکڑ کے رکھنا

کہ میری مٹھی میں اب جو ہے، آسماں ہو شاید

سوال الجھا ہوا ہے اب تک مباحثوں میں

جواب ہاں اور نہیں کے ہی درمیاں ہو شاید

یہ مجھ سے کہتے ہیں ہجر کے بے زبان لمحے

تمہارے آنے سے وقت کا کچھ زیاں ہو شاید

سیاسی مقتل پہ چل کے دلشادؔ آؤ ڈھونڈیں

کٹے ہوئے بازوُ اپنے اپنی زباں ہو شاید

کسی پابند جذبے کو کنوارا چھوڑ دیتا ہے

بہت سا فائدہ تھوڑا خسارہ چھوڑ دیتا ہے

لہو کو کھولنے دے نقطۂ جوش شہادت تک

حرارت کم ہو تو نلکی کو پارہ چھوڑ دیتا ہے

نئی بستی کے لوگو، ریت کا میدان مت سمجھو

یہی دریا کبھی اپنا کنارا چھوڑ دیتا ہے

تمھارا وصل تو سیراب کر دیتا ہے پل بھر میں

تمھارا ہجر یادوں کا گذارا چھوڑ دیتا ہے

یہی دلشادؔ کہتے ہیں وطن سے لوٹنے والے

وہ اب بھی تھال میں حصہ ہمارا چھوڑ دیتا ہے

ساحلی کشتیوں کے سِرے باندھ لو، قبل از وقت خاموشیاں، کچھ تو ہے

گر چھٹی حس بھی بیکار شے ہے تو ہو، زرد موسم کی حیرانیاں، کچھ تو ہے

رات بھر روئی دیوار گریہ مگر صبح دم ہو بہو ویسی ہی بن گئی

اس پر اسرار سی زندگی کے ورق کہہ رہے ہیں وہی داستاں، کچھ تو ہے

میرے قدموں سے لپٹی ہوئی الجھنو، فاصلے ہیں ابھی کہ سفر کٹ گیا

دل ہے اندیشۂ قرب منزل میں گُم، ذہن ہے محو وہم و گماں، کچھ تو ہے

وقت کے مقبرے میں قد آور سبھی آئینے ہیں طلسمی فریبوں میں گُم

مومیائے ہوئے جسم کی سلوٹو عکس ہے تم سے کیوں بد گماں، کچھ تو ہے

جب جزیرے میں آسیب نازل ہوئے، نیک اعمال موجوں کو راس آ گئے

گدلے پانی میں قبریں بھی گم ہو گئیں، تیرتی ہیں مگر تختیاں، کچھ تو ہے

نوک نیزہ پہ سر ہے کہ میری انا، مرحلہ جنگ کا ہے نہ امن و اماں

مرے ظل الٰہی پریشان ہیں، کھولتے کیوں نہیں وہ زباں، کچھ تو ہے

میرے اندر کا انسان دلشادؔ اب، چاہتا ہے مجھ ہی سے جواب سخن

عکس دہرا رہا ہے وہی گفتگو آئینہ ہے مگر درمیاں، کچھ تو ہے

خواب کہاں آنکھوں میں صرف اندھیرا ہونے لگتا ہے

انتم لوکل ٹرین کے بعد سویرا ہونے لگتا ہے

اوپر دوڑتی رہتی ہے اک دنیا رزق جٹانے میں

پل کا نچلا حصہ رین بسیرا ہونے لگتا ہے

اندر پھن کے سامنے مٹھی کا لہرانا کھیل نہیں

جالی کے باہر تو ہاتھ سپیرا ہونے لگتا ہے

کب ملتی ہے نظریں بھر کر چہرہ دیکھنے کی مہلت

منتر پڑھے جاتے ہیں فوراً پھیرا ہونے لگتا ہے

جست لگانا چاہ رہا ہے نو سے ٹھیک اٹھارہ پر

جس کو دیکھو فوراً تین سے تیرہ ہونے لگتا ہے

وہ جو زلفیں لہرائیں تو شب اپنا اعلان کرے

ان کی انگڑائی کے بعد سویرا ہونے لگتا ہے

ایک نظر سے سب کو دیکھتی رہتی ہیں بوڑھی آنکھیں

باپ کے مرتے ہی گھر تیرا میرا ہونے لگتا ہے

اپنے آپ میں پھیلتے رہتے ہیں دلشادؔ نکمے لوگ

محنت کی روٹی سے جسم چھریرا ہونے لگتا ہے

وہی منظر، وہی صحرا، ہوا خاموش بیٹھی ہے

زباں کے خشک ٹیلے پر دعا خاموش بیٹھی ہے

پہاڑوں سے پرے ہے بستیوں میں شور و غل جاری

چٹانوں سے جو پلٹی ہے صدا خاموش بیٹھی ہے

نمایاں مصلحت کے دستخط ہیں صفحہ در صفحہ

مکین حاشیہ میری انا خاموش بیٹھی ہے

ضرورت منہمک ہے فائلوں سے بات کرنے میں

نگاہیں چبھ رہی ہیں اور حیا خاموش بیٹھی ہے

کسی آئینے سے قائم نہیں پہچان کا رشتہ

کمال حسن کی اپنی ادا خاموش بیٹھی ہے

سندیسہ وقت کی دہلیز پہ دستک نہیں دیتا

لہو رونا ہے آنکھوں کو، حنا خاموش بیٹھی ہے

عجب سا حبس ہے دلشاد ہر سو بے نوائی کا

لپٹ کر پتیوں سے کیوں ہوا خاموش بیٹھی ہے

کتاب، لفظ، سبق، امتحان بھی میرا

ہتھیلیوں پہ چھڑی کا نشان بھی میرا

یقیں تو اس سے بھی آگے کی کوئی منزل ہے

پہنچ سکا نہ جہاں تک گمان بھی میرا

کوئی زباں پس دیوار تھی خلاف اگر

گناہ میں تو ملوث تھا کان بھی میرا

وہ زخم دے کے مجھے خوش ضرور ہے لیکن

ستا رہا ہے اسے اطمینان بھی میرا

ہر اک گواہ مخالف سے جا ملا آخر

میرے خلاف ہوا پھر بیان بھی میرا

پھر ایسی بزم کا احسان کیوں اٹھاؤں میں

جہاں کسی کو نہ آئے دھیان بھی میرا

اس انتظار کی دلشادؔ میں سزا کاٹوں

کہ گھر بنے گا کسی دن مکان بھی میرا

دباؤ پڑتا ہے صرف انگلی کے سر کے آگے

کلک کی آواز اور سب کچھ نظر کے آگے

پلٹ گئے تو وہی تعاقب ڈرے گا ورنہ

تمہاری جد و جہد بھی دوڑے گی ڈر کے آگے

مرے سفر کو یہ آس آوارہ کر رہی ہے

کہ ہو نہ ہو اک پڑاؤ ہے رہگزر کے آگے

یہ کوئی تکمیل کے مراحل کا تجربہ ہے

یا گیلی مٹی کا ڈھیر ہے کوزہ گر کے آگے

وہ شب دریچے میں اتفاقاً ہی آ گیا تھا

ہتھیلیوں کے ہلال میں چاند بھر کے آگے

سفر کے دوران نا مکمل سا اک تعارف

بغیر کچھ بولے چل دیا وہ اتر کے آگے

وہ لا ابالی تھی سارے دن در بدر ہوئی تھی

یہ شب تھکن ہے جو روک لیتی ہے گھر کے آگے

نگاہیں نیلام کرنے لگتی ہیں کینوس کو

میں ہوں تماشائی سا خود اپنے ہنر کے آگے

وہ ایک مدت سے تجربہ مجھ پہ کر رہا ہے

کہ سر جھکا دے کبھی تو دلشادؔ شر کے آگے

کس تعلق کے لیے کون سی یاری کے لیے

اس نے برتا ہے مجھے وقت گزاری کے لیے

منتروں میں کوئی اشلوک غلط ہے تو کیا؟

دکشنا، دان ضروری ہے پجاری کے لیے

ہر تماشائی نظر بند ہوا جاتا ہے

بھیڑ تو خود بھی تماشا ہے مداری کے لیے

ہے الگ بات کہ نقصان اٹھائیں گے مگر

اتنے ہلکے بھی نہیں ہم کسی بھاری کے لیے

اب بڑھاپے کو سہارا نہیں دیتا بیٹا

پہلے روتا تھا وہ کاندھے کی سواری کے لیے

حاشیے پر بھی نہیں اور نہ کسی کھاتے میں

صرف فہرست میں ہیں رائے شماری کے لیے

شعر بھانڈوں کی طرح لوگ پڑھے جاتے ہیں

شاعری کرتے ہیں بس وقت گزاری کے لیے

شرم گاہوں کی حفاظت نہیں ہوتی جن سے

خواہشیں رکھتے ہیں محفوظ کنواری کے لیے

اب کے آیا تو سکھا دیں گے سبق جنگل کا

جال ہم نے بھی بچھایا ہے شکاری کے لیے

بانٹ کر کھانے کی تہذیب نے دم توڑ دیا

اب تو ٹکڑوں پہ نہیں، لڑتے ہیں ساری کے لیے

ایک رشتہ بھی نہیں پوش علاقوں میں کوئی

کچی بستی کی کسی راجکماری کے لیے

اپنے پیسوں کے لیے لمبی قطاریں دلشادؔ

جیب میں کچھ بھی نہیں اب تو بھکاری کے لیے

بھلا کتنے دنوں تک جی سکو گے ایسے منظر میں

مہاجر کی طرح رہنا پڑے جب اپنے ہی گھر میں

منافق ہار میں تبدیل کر دیتا ہے ہر بازی

بھگوڑے جنگ کا نقشہ بدل دیتے ہیں پل بھر میں

یقیناً زاویئے بھی مختلف سمتوں میں بھٹکیں گے

اگر پرکار خود بے چین ہو گا اپنے محور میں

پرانی کو ملی میلی نگاہوں سے ذرا راحت

نئی لڑکی کو عہدہ مل گیا ہے آج دفتر میں

ہمیشہ مصلحت ہی آڑے آ کر روک لیتی ہے

جنوں جب باندھنے آ جا تا سہرا مرے سر میں

اب ایسی فوج سے اُمید کیسی فتح یابی کی

جہاں مال غنیمت لُو ٹنا مقصد ہو لشکر میں

خوشامد لفظ کو دلشادؔ میں شامل نہیں رکھتا

ملے گا میرے حصے کا، اگر ہو گا مقدر میں

ضرورتوں سے زیادہ کا بوجھ اُٹھاتے ہوئے

میں خود سے لڑتا رہا آستیں چڑھاتے ہوئے

بجز سکوں کبھی حصے میں کچھ نہیں آیا

وہ خرچ ہوتا رہا عمر بھر کماتے ہوئے

نگاہیں کھڑکی سے چھنتی ہوئی سی لگتی ہیں

کوئی ہے جو اُسے تکتا ہے آتے جاتے ہوئے

وصال و ہجر کی یکساں ہے کوئی کیفیت

وہ دور جانے لگا ہے قریب آتے ہوئے

گھرا ہوا تھا بزرگوں کے رشتہ داروں میں

لپٹ کے روتا رہا ہر کوئی رُلاتے ہوئے

کسی کو مصلحتاً پھیرنا پڑا چہرہ

کسی کی آنکھوں میں آنسو تھے جھلملاتے ہوئے

خود اپنے آپ کو دلشادؔ آزمانے میں

میں خود ہی ٹوٹ گیا آئینہ بناتے ہوئے

فریب کھا بھی ہم نے یہاں سنوارے دن

منافقوں میں رہے شان سے گزارے دن

نصیب عشق تھا میراؔ کا دربدر ہونا

سہاگ رات کے سپنے تھے اور کنوارے دن

تمام رات بدن کروٹوں میں جاگے گا

جوانی سو کے گزارے گی دن کو سارے دن

عجب ہے آج کے سورج کی سست رفتاری

جو شام آئے تو اپنی تھکن اُتارے دن

میں گن رہا تھا کبھی بھیگی انگلیوں سے جنہیں

کہاں گئے وہ مری عمر کے کرارے دن

مصالحت کبھی شب خون مارتی ہی نہیں

مزاحمت پہ کبھی تو مجھے اُبھارے دن

جو واقعات ہیں دلشادؔ سارے گڈ مڈ ہیں

بتاؤں کیا تمہیں کیسے کٹے ہمارے دن

عجیب آوازیں گونجتی ہیں ہمیشہ نقلیں اُتارتا ہوں

میں شہر کے بیچ رہ کے جنگل کی زندگی کیوں گزارتا ہوں

پلٹ کے آتا ہے خود کلامی کا شور میری سماعتوں میں

اندھیرے کمرے میں آنکھیں کھولے کسے میں شب بھر پکارتا ہوں

ابھی ذرا دیر پہلے مجھ پر عیاں حقیقت ہوئی تھی، لیکن

دوبارہ کس خواب کے تصور میں آئینے کو نہارتا ہوں

قسم خدا کی کتاب دل پر منافقت کی جگہ نہیں ہے

مگر یوں ہی متن کی رقابت میں حاشیے کو اُبھارتا ہوں

کمہار ہاتھوں کا تیز دھاگہ مری ضرورت کو کاٹتا ہے

کبھی چڑھاتا ہوں چاک پر میں کبھی میں خود کو اُتارتا ہوں

فریبی نظروں کے سامنے تو طلسم منظر ہے سبز سارا

ذرا ٹھہر کینوس پہ سچ مچ کا سرخ منظر اُبھارتا ہوں

معاہدہ لکھ کے صلح کیجئے جو جنگ لڑنی ہے کھل کے لڑیئے

للک ہے مرضی سے جیتنے کی، کب اپنی مرضی سے ہارتا ہوں

اُداس نسلوں کا دور دلشادؔ نظمی اب میرے سامنے ہے

صدی پہ نظریں جمائے لمحوں کی زندگی میں گزارتا ہوں

ربط ہی نہیں رکھتے بے ضمیر لوگوں سے

آپ چاہتے کیا ہیں ہم فقیر لوگوں سے

دے رہے ہیں رہ رہ کر درس امن دنیا کو

کیا اُمید رکھتے ہیں ان شریر لوگوں سے

اُس سنہرے ماضی کی سب کرامتیں تسلیم

ہے اُمید اب مجھ کو زندہ پِیر لوگوں سے

عزم گر مصمم ہو بیڑیاں بھی کٹ جائیں

کہہ دے کوئی جا کر یہ اب اسیر لوگوں سے

آپ کا سخن ہو گا ہر نظر میں مستحکم

ربط کیوں نہیں رکھتے نا گزیر لوگوں سے

ہے غریب لوگوں کی دسترس میں عزت ہی

واسطہ نہیں اس کا ہاں امیر لوگوں سے

تجربہ ضروری ہے جیت کے لئے دلشادؔ

بھیڑ ہی تو بنتی ہے بس کثیر لوگوں سے

عمر بھر خواب کی تعبیر کا ایقان کیا

مجھ کو اک شخص کی عادت نے پریشان کیا

دیکھتے دیکھتے دنیا نے فراغت پا لی

پھر زیادہ کی ہوس نے مرا نقصان کیا

جیتنے والی ہی تھی جنگ صف اول، بس

پشت کی سمت نے پسپائی کا اعلان کیا

مَل دی آ کر مرے گالوں پہ محبت کی ابیر

عید گھر آئے شری مان نے جل پان کیا

ایسے منصب کی غلامی کو توقع نہیں تھی

باندی ء شب کی عنایات نے سلطان کیا

میرے دشمن نے کی امداد چھپا کر سب سے

یار نے خوب دکھاوے بھرا احسان کیا

کتنی آسانی سے دلشادؔ کو الجھایا گیا

اس کی مشکل کو بھی مشکل سے ہی آسان کیا

مجھ کو نچانا چاہتا ہے اپنی تال پر

وہ بھی تو خرچ ہو گا مرے استعمال پر

بے چین کیوں ہے ذہن کے سفلی سوال پر

لاحول پڑھ کے پھونک دے اپنے خیال پر

بھرتا نہیں ہے رزق کا سوچا ہوا گڑھا

غصہ زمین پر ہے کہ اپنی کدال پر

اب تیسرے کسی کی اسے کچھ خبر نہیں

گاہک پہ ہے نگاہ کبھی اپنے مال پر

اس کام کے علاوہ بھی کچھ اور شغل ہیں

لڑکی نے میز چھوڑ دی مخصوص کال پر

لمحوں کے سامنے تھا نئی نسل کا عروج

تہذیب رو رہی تھی صدی کے زوال پر

حالات نے پچھاڑ دیا ایک آن میں

دلشادؔ کتنا خوش تھا گذشتہ کمال پر

جھیل کر صدموں کو پھر ہنسنے کی تیا ری کرو

یوں مسیحاؤں کی بستی میں اداکاری کرو

آبلے کھل کر بھی نہ رو پائے، کہ آئی صدا

حکم ہے یہ ما بدولت کا سفر جاری کرو

جھوٹ جب ہر زاویے سے خود کو منوانے لگے

احتیاطاً سچ کی خاطر تھوڑی مکاری کرو

یہ سخن فہموں کی بستی ہے پرکھ ہو جائے گی

کون کہتا ہے کہ تم میری طرفداری کرو

وقت بچوں سے کھلونے چھین کر کہنے لگا

جنگ یہ نسلوں کی ہے لڑنے کی تیاری کرو

کاندھے شل ہونے لگے ہیں زندگی کے بوجھ سے

پر ضرورت کہہ رہی ہے وزن کچھ بھاری کرو

جانتا ہوں امتحاں دلشادؔ نظمی ہے ابھی

پھر برائے امتحاں اپنا سفر جاری کرو

اپنی آوارگی صبح سے شام تک مختلف راستوں سے گزرتی رہی

چمنیوں سے دھواں روز اٹھتا رہا، زندگی پستیوں میں اترتی رہی

جنگ سے لوٹ کر اک اپاہج بدن اس محلے میں قصے سناتا کسے

جس محلے کی خوں ریز تصویر خود، سرحدی جنگ کو مات کرتی رہی

لوٹتے وقت گاڑی کی کھڑکی پہ میں اپنے لوگوں میں تھا اجنبی کی طرح

ان کی بھولی سی بچی اشارے مگر دور تک ننھے ہاتھوں سے کرتی رہی

شہر پُر امن ہے، سب ہے معمول پر، ایک طوفان آ کر گزر بھی گیا

ہاں مگر ایک عرصے تلک نیند بھی ایک ہلکی سی آہٹ سے ڈرتی رہی

یوں تو دلشادؔ ہم اس بڑے شہر میں، اجنبی کی طرح بس گئے ہیں مگر

عمر بھر ذہن کے کینوس پر وہی ایک چھوٹی سی بستی ابھرتی رہی

سخن معصوم سا، لفظوں میں جادو لے کے آتی ہے

وہ اک تحریر جو مٹی کی خوشبو لے کے آتی ہے

اکیلی چھت کے دامن سے سمیٹے سوکھے کپڑوں کو

ہے کیسی یاد جو کمرے میں آنسو لے کے آتی ہے

خدا روشن کرے اس کا گھرانہ اس کے قدموں سے

میری بیٹی ابھی مٹھی میں جگنو لے کے آتی ہے

تھرکتے ہیں غبار دشت میں وحشی صفت سائے

نشانے پر ہوس مظلوم آہو لے کے آتی ہے

تھکن کی واپسی ہر شب اپاہج کی طرح لیکن

ضرورت صبح دم پھر دست و بازو لے کے آتی ہے

ایک ایسی لَے کہ جس کی دھن پہ فاقے رقص کرتے ہیں

ایک ایسی تھاپ جو پیروں میں گھنگھرو لے کے آتی ہے

میں جب بھی عمر کی الجھی لٹیں دلشادؔ سلجھاؤں

ہوائے وقت کیوں پُر پیچ گیسو لے کے آتی ہے

ناقد کی طرح اپنی ہی تحریر سے کھیلو

پھر مصرعۂ غالب، سخنِ میر سے کھیلو

یہ طوق کرائے کے محافظ کی عطا ہے

گھر بیٹھے رہو حلقۂ زنجیر سے کھیلو

بکھرے رہے تنکوں کی طرح موج انا میں

اب وقت کے بہتے ہوئے شہتیر سے کھیلو

ہونٹوں پہ تبسم کی لکیریں سرِ محفل

تنہا جو رہو نالۂ دلگیر سے کھیلو

دلشادؔ مسائل کا سلجھنا ہے ضروری

فرصت جو ملے زلف گرہ گیر سے کھیلو

مرے لہجے میں اپنا زہر بھرتی جا رہی ہے

مگر دنیا مری آواز سے گھبرا رہی ہے

تری نیچی نگاہیں جھانکتی ہیں اپنی بغلیں

مری سچائی تیرے جھوٹ کو شرما رہی ہے

اندھیرا چاہتا ہے ہمسفر ہو جائے لیکن

شرافت شام سے پہلے ہی واپس آ رہی ہے

سمندر چین سے لیٹا ہوا ہے ساحلوں پر

ندی بِرہن بنی ہر موڑ پر بل کھا رہی ہے

چراغوں کو بجھا کر بھی ہوائیں خوش کہاں ہیں

شرارت جگنوؤں کی راستہ دکھلا رہی ہے

میں اپنی خواہشوں کی قبر میں اوندھا پڑا ہوں

کوئی حسرت مجھے اندر ہی اندر کھا رہی ہے

ابھی تک آگ کے دریا میں رشتے جل رہے ہیں

مہاجر بن کے تنہائی بہت پچھتا رہی ہے

سپیرے لے کے سانپوں کو حکومت کر رہے ہیں

سیاسی بھوکی ناگن اپنے بچے کھا رہی ہے

لڑکپن پھر مجھے دلشادؔ نظمی یاد آیا

جھری سے کوئی لڑکی آئینہ چمکا رہی ہے

مورخ عظمت رفتہ کی جب تفسیر تک پہنچا

مرے کشکول کا شجرہ مری جاگیر تک پہنچا

تکبر انکسار ذات کی تنویر تک پہنچا

میں اک چٹان تھا ٹو ٹا تو پھر تعمیر تک پہنچا

ہماری بے حسی جب مصلحت کی پشت پر آئی

ہمارا پاؤں خود ہی حلقۂ زنجیر تک پہنچا

فلک بوسی دھماکوں سے ہوئی تھی سرنگوں لیکن

دھواں بغداد، کابل، وادیِ کشمیر تک پہنچا

کماں رکھ دی مرے دشمن نے لا کر میرے قدموں پر

مرا جوش شہادت خود مچل کر تیر تک پہنچا

کبھی خاموشیاں دلشادؔ نظمی مجھ میں در آئیں

کبھی آواز کا پتھر مری تشہیر تک پہنچا

اپنی قیمت نہ لگائے کوئی دستار کے ساتھ

جس کو جانا ہو چلا جائے خریدار کے ساتھ

میرے قبضے میں تھی دکھتی ہوئی رگ دشمن کی

اس لڑائی کا تعلق نہ تھا ہتھیار کے ساتھ

مسئلہ ابھرے تو ہمسائے گی میں حل ڈھونڈو

جوڑ ایسا رہے دیوار کا دیوار کے ساتھ

گھر سے نکلا تھا کبھی ماں کی دعائیں لے کر

آج لوٹا تو دعا ہی ملی دیدار کے ساتھ

شیخ جی آپ، اچانک، یہاں میخانے میں

یا خدا خیر تو ہے، مجھ سے گنہگار کے ساتھ

اس تعلق سے نہ دھندلی ہوں گھروں کی قدریں

اتنی پہچان بھی اچھی نہیں بازار کے ساتھ

مجھ سے کرتے رہیں، جی چاہے تو جی بھر کے مذاق

چھیڑ خانی نہ کبھی کیجیے پندار کے ساتھ

قوت بازو پہ تکیہ نہیں کرتے دلشادؔ

تجربہ چاہیے تھامی ہوئی پتوار کے ساتھ

وحشت دل سے پریشان نہیں ہونا ہے

دشت آباد ہے، ویران نہیں ہونا ہے

دفعتاً اپنی ہی آواز سنائی نہ پڑے

خود سے اس درجہ بھی انجان نہیں ہونا ہے

سچ بغاوت ہے تو باغی ہی مجھے رہنے دے

ایک دن کا مجھے سلطان نہیں ہونا ہے

چاہیے عمر میاں خون جگر کرنے کو

ایک دو دن میں یہ سامان نہیں ہونا ہے

مورچہ بند یقیں ہونے لگے تو دل میں

وہم، ڈر، خدشہ و امکان نہیں ہونا ہے

شاعری کے لیے حلیے کی ضرورت کیسی

فن کی تخلیق میں مستان نہیں ہونا ہے

نظمیں، قطعات رباعی ہیں ضروری دلشادؔ

صرف غزلوں سے تو دیوان نہیں ہونا ہے

خارج از امکان ہوتی بھی نہیں ہے

زندگی آسان ہوتی بھی نہیں ہے

غیرتیں شاید بھنور میں پھنس گئی ہیں

خامشی طوفان ہوتی بھی نہیں ہے

ہیں مناظر بے حسی کے حاشیوں پر

اب نظر حیران ہوتی بھی نہیں ہے

آبیاری میں لگی ہیں کب سے عمریں

ریت نخلستان ہوتی بھی نہیں ہے

تھک گئے مقتل میں بازو تیرگی کے

روشنی بے جان ہوتی بھی نہیں ہے

دو دہائی، مٹھی بھر غزلوں کی پونجی

قابل دیوان ہوتی بھی نہیں ہے

ہے دریچہ منتظر دلشادؔ نظمی

پر گلی سنسان ہوتی بھی نہیں

دلوں کی بات سجا کر زبان تک لانا

ہے متن سخت سمجھ کر بیان تک لانا

یہاں پسند نہیں قیمتوں کے جھگڑے ہیں

کبھی انا کو نہ ایسی دکان تک لانا

مشقتوں بھری صبحیں، تھکی تھکی شامیں

ہے شب کا فرض بدن کو مکان تک لانا

مہاجنوں کے تقاضے، زمیں کا بنجر پن

کسان کو تو ہے مشکل لگان تک لانا

میں ایک نقطہ ہوں دلشادؔ زاویئے کے لیے

لکیر کھینچ مجھے بھی نشان تک لانا

جزیرے ڈوب گئے ایسے خوش گمانوں کے

ثبوت بھی نہ رہے سرخ رو چٹانوں کے

ہوائے وقت نے تاریخ ہی بدل ڈالی

نشان مٹتے گئے معتبر گھرانوں کے

جہاں سے گز رے ہزاروں دِلوں کو جیت لیا

عجیب قافلے نکلے تھے ساربانوں کے

پلٹ کے دے نہیں سکتے جواب کوڑوں کا

اگرچہ ہاتھ میں چابک ہیں کوچوانوں کے

تمام رات وہ کا غذ کے پُل بناتا ہے

تصوروں کے، قیاسوں کے اور گمانوں کے

خدا کی یاد بھی از راہ مصلحت آئی

قریب آنے لگے دن جو امتحانوں کے

زمیں کی چال سے دلشادؔ جو ہیں نا واقف

پتے تلاش کریں وہ نہ آسمانوں کے

پرانا غم نئے ذوق نظر تک آ گیا ہو گا

کوئی نازک سا لمحہ چشم تر تک آ گیا ہو گا

اجالوں کو مخاطب کرنے والے جانتا ہوں میں

ستارہ رہبری کرتا سحر تک آ گیا ہو گا

مجھے معلوم ہے اس دیوتا کی عظمتیں ساری

وہ پتھر تھا کسی دستِ ہنر تک آ گیا ہو گا

کسی کے چھوڑ جانے سے کہیں رستے بدلتے ہیں

جو زخم دل تھا پہلوئے جگر تک آ گیا ہو گا

کیوں اتنے طیش میں ہیں صاحب دیوان پھر شاید

کلام مبتدی اہل نظر تک آ گیا ہو گا

شریف النفس انساں یک بیک آمادۂ وحشت

سبب کچھ بھی ہو، پانی اب کہ سر تک آ گیا ہو گا

بھلا مٹی کی مقنا طیسیت ایسے ہی چھوڑے گی

وہ ہجرت کرتے کرتے خود ہی گھر تک آ گیا ہو گا

ابھی درس خرد مندی کے دن تھے آشیانے میں

جنوں کا زور ننھے بال و پر تک آ گیا ہو گا

یہ تجدید وفا کا ہے لہو دلشادؔ نظمی، یا

کوئی بار ندامت سنگ در تک آ گیا ہو گا

تنہائی کیوں ذہن و دل پر اتنا شور مچاتی ہے

سانسوں کی آواز بھی تو کمرے سے باہر جاتی ہے

کھلی فضا میں شہر کے بچے دوڑ رہے ہیں کھیتوں میں

الٹی بیڑی منھ میں ڈالے نانی دھواں اڑاتی ہے

ایڑی پر بل ڈالے جھانکتی ہیں آنکھیں دیوار کے پار

کچی سڑک کے آخری موڑ کی دھول بہت چونکاتی ہے

بڑی دکانوں میں چیزوں کے دام نہیں دیکھے جاتے

کم پیسوں والی مٹھی پورا بازار گھماتی ہے

پاگل لڑکی ساون رت میں گھر سے دور نکل آئی

جسم پسینے میں ڈوبا ہے اوپر سے برساتی ہے

رُوٹ کی آخری بس کے دروازے پہ پھنسی اک بے بس لڑکی

سیڑھی پر ہر رگڑ کو گالی دے کر جسم چراتی ہے

میں جس شور سے اپنے مطلب کی لہریں محفوظ کروں

وہ آواز مرے ہمزاد کے گونگے پن کی ساتھی ہے

غزلوں کے منظر نامے سے حال کی عکاسی جھلکے

یہ کوشش دلشادؔ مرے مستقبل کی بھی ساتھی ہے

ہریالی کا خواب لیے برسوں سے دل للچاتا ہے

بھیگی آنکھوں کا ہر قطرہ ریت کی پیاس بجھاتا ہے

مٹی کے بنجر پن نے ہجرت بخشی تھی صحرا کی

ورنہ کچھ برسوں کے اندر اتنا کون کماتا ہے

میں نے پیڑ لگایا ہے آنگن میں سائے کی خاطر

مجھ کو جنگل سے کیا لینا کتنے پیڑ اُگاتا ہے

دھوپ بھری چھت پر تلوے جلتے ہیں پر اس آس کے ساتھ

کبھی کبھی اک ڈرا سا چہرہ کھڑکی پر آ جاتا ہے

ان کو جو کچھ لکھنا ہے لکھنے دے کچھ اصلاح نہ کر

ورنہ لوٹ کے اپنا جملہ اپنی جان کو آتا ہے

دونوں اپنی نظروں سے بازار کی رونق دیکھیں گے

بچے کی انگلی تھامے میلے میں شوق گھماتا ہے

دیکھ سفیدی لہراتی ہے سر پہ ذمہ داری کی

بہنوں کی ڈولی کا خواب لیے پیسا گھر جاتا ہے

دستر خوان کشادہ رکھ دلشادؔ حصول برکت کو

سب کا اپنا رزق ہے پیارے، کون کسی کا کھاتا ہے

میں یوں ترکہ سمیٹے دیدۂ نمناک لے آیا

چھڑی، تسبیح، پگڑی اور بچی مسواک لے آیا

تلاش رزق میں پردیس جانے سے ذرا پہلے

وہ بنجر کھیت سے کیوں ایک مٹھی خاک لے آیا

مرے شہکار پہ انعام پایا یار لوگوں نے

میں محفل سے اٹھا، اپنا گریباں چاک لے آیا

تھا اتنا وقت کہ خود سیکھ جاتا تیرنا اب تک

کرائے پر بہت پہلے سے جو تیراک لے آیا

خبر پھیلی بڑی تیزی سے اعلیٰ ذات والوں میں

کوئی کم ذات کیسے گھر میں تختی چاک لے آیا

سبھی ناقد بنے دلشادؔ نظمی سے یہ کہتے ہیں

کہاں سے یہ کھرا لہجہ، نظر بے باک لے آیا

ذکر تیرا طویل ہونا ہے

متن روشن دلیل ہونا ہے

دن کئی زاویوں میں تھا تقسیم

شب، تجھے مستطیل ہونا ہے

خود ہوں اپنے ضمیر کا مجرم

خود ہی اپنا وکیل ہونا ہے

لوگ ہجرت پہ طنز کرتے ہیں

پر مجھے خود کفیل ہونا ہے

معتبر صبر کی سند لیکن

چپ کو کب تک ذلیل ہونا ہے

برف پگھلے گی کب پہاڑوں سے

خشک درّے کو جھیل ہونا ہے

حرف در حرف ہے سفر دلشادؔ

لفظ کو سنگ میل ہونا ہے

جو رکھوں شاعری سطح بیاں پر

بلا عنوان افسانے کہاں پر

بدن کی آگ کو ٹھنڈک ملے گی

نفی کا بند جب ٹوٹے گا ہاں پر

شہادت کی ہے انگلی لبلبی پر

یہ قصّہ ختم ہو گا ایک ’ٹھاں ‘ پر

مِری للکار سے پھیلا اجالا

اندھیرے حملہ آور تھے فغاں پر

کنواری لذتیں حیرت زدہ تھیں

معاً اِک تیر چڑھ بیٹھا کماں پر

بہت دن یہ جگہ خالی نہ رکھنا

کوئی آ جائے گا ورنہ یہاں پر

وہی منزل ہے میر کارواں کی

تو پھر احسان کیسا کارواں پر

ڈبو دے نفس کی فرعونیت کو

کرم ہو گا بہت اہرام جاں پر

اندھیرا اوڑھ کے بیٹھو سحر تک

بھروسہ ہے ہمیں جگنو میاں پر

کروں گا دوران ہجر ماتم کروں گا اس کا

وہ لوٹ آئے تو خیر مقدم کروں گا ا س کا

کسی سیاسی سند کی حاجت نہیں ہے مجھ کو

جہاں رہوں گا بلند پرچم کروں گا اس کا

وہ اپنی دنیا میں خوش ہے میں اپنی ذات میں گم

سمجھ رہا تھا کہ عمر بھر غم کروں گا اس کا

سفر سے لوٹے تو پہلی فرصت میں مجھ سے مل لے

تھکی ہوئی ہو گی بوجھ کچھ کم کروں گا اس کا

میں ہجر موسم کا دکھ بیاں تو نہیں کروں گا

اسے ہنساؤں گا دیدہ بھی نم کروں گا اس کا

الگ رہا تو عروج پر ہو گا اس کا غصہ

گلے لگا کر میں پارہ مدھم کروں گا اس کا

دکھاؤں دلشادؔ کم سخن کا غصیلہ تیور

میں اپنی باتوں میں ذکر کم کم کروں گا اس کا

میری انا کا سامنا خود اپنے حال سے ہوا

اس کا عروج غالباً میرے زوال سے ہوا

بس شرق و غرب میں رہا اس درجہ دل یہ منہمک

نا آشنا جنوب سے غافل شمال سے ہوا

صدیوں سے چپ تھی وحشتیں اور دشت بھی خموش تھا

فتنہ شروع عشق کا پل میں دھمال سے ہوا

پھر گھنگھروؤں نے پاؤں کو تا عمر قید کر لیا

آغاز یوں تو شوق کا بس ایک تال سے ہوا

خوش فہمیوں کی سان پہ خنجر گھسا گیا بہت

پھر میرا قتل آپ کے دستِ کمال سے ہوا

یہ اور بات ہے کہ وہ مجھ سے شکست کھا چکا

اندازہ اس کے وار کا مجروح ڈھال سے ہوا

اس کینوس پہ نام تو اک اجنبی کا ثبت تھا

نظروں میں شاہکار جو میرے خیال کا ہوا

دلشادؔ میں تو عکس کی صورت تھا اس کے سامنے

میرا ہنر تو آئینہ اس کے جمال سے ہوا

یہاں نیا کوئی طرزِ بیاں کہیں نہیں ہے

سماعتوں پہ سخن ہے زباں کہیں نہیں ہے

ہمارے چاروں طرف کنکریٹ ہے بکھری

وہ سوندھی گاؤں کی خوشبو یہاں کہیں نہیں ہے

سفید کپڑے پہ روشن ہیں خون کی چھینٹیں

یہ کیسی جائے اماں ہے، اماں کہیں نہیں ہے

مرے خلاف ہے منصف کا حکم درج یہاں

مری زبان سے نکلا بیاں کہیں نہیں ہے

یہ کس خلا میں بسر کر رہا ہوں میں خود کو

یقیں تو دور، یقیں کا گماں کہیں نہیں ہے

براجمان ہے عرشِ بریں پہ صدیوں سے

وہ ہر جگہ ہے اگرچہ عیاں کہیں نہیں ہے

گزر رہی ہیں عجب امتحان سے آنکھیں

نہیں کے پردے میں چہرے پہ ہاں کہیں نہیں ہے

ہیں آگہی کے ہرے زخم شعر میں دلشادؔ

درونِ ذات ہیں باہر نشاں کہیں نہیں ہے

پھر وہی خواب چمکتا ہوا، بالو جیسا

چڑھتا جاتا ہے نشہ پیاس کا دارو جیسا

چاند نکلا کسی چڑھتے ہوئے جادو جیسا

تیرا احساس بھی بے چین تھا آہو جیسا

چار سو پھیل گیا تو کسی خوشبو جیسا

میں کہ الجھا رہا شب بھر ترے گیسو جیسا

وقت کی تھاپ، تقاضوں کی تھرک، لَے غم کی

جسم سے سانس کا رشتہ بھی ہے گھنگھرو جیسا

اب بھی واضح ہیں بہت عہد گزشتہ کے نقوش

تیری یادیں بھی ہیں ویسی ہی، رہا تو جیسا

میں تعاقب میں کسی ننھے شکاری کی طرح

شاخ در شاخ وہ ہنستے ہوئے جگنو جیسا

اب کہ پاکیزہ انوکھا کوئی پیارا سا ملے

غم، تری آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو جیسا

گاؤں لوٹا تو سبھی رشتے فراموش کیے

چار دن میں ہی ہوا شہر کے بابو جیسا

اس خرابے میں لگی اس کی طبیعت دلشادؔ

کاش کچھ دن ہی وہ رہ لے یہاں سادھو جیسا

خجل ہوا تھا شرافت سے اپنی ڈر گیا تھا

کسی کی آنکھوں کا پانی وہاں اتر گیا تھا

یہ اور بات کہ تدفین میری اب ہوئی ہے

میں اپنے گھر میں کئی سال پہلے مر گیا تھا

یہ جسم بعد میں پہنچا ہوس کدے میں مرا

کہ پہلے خود مری نیت کو لے کے شر گیا تھا

یقیں نے پوچھ لیا اتنی دیر کیوں کر دی؟

گمان وقت کی سیڑھی سے جھٹ اتر گیا تھا

یہ حافظے کی نہیں، ہیں خطائیں ماضی کی

میں اس جگہ پہ تھا پہلے، تو پھر کدھر گیا تھا؟

تھی فیصلے کی گھڑی، مصلحت کہ قربانی؟

کسی کے ہاتھ بندھے تھے کسی کا سر گیا تھا

یہ وہ نہیں، کوئی صحرا گزید ہے شاید

اسے تو یاد نہیں کب وہ اپنے گھر گیا تھا

جب آہٹیں بنی دستک تو ایک ہی پل میں

بغیر آئینہ دیکھے کوئی سنور گیا تھا

یہ طے ہوا کہ منافق نہیں کوئی ہم میں

تو اَمن گاہ میں بارود کون بھر گیا تھا؟

ہزاروں آنکھیں سرِ راہ ملتی رہتی ہیں

وہ چلتی بس سے اچانک ہی کیوں اتر گیا تھا؟

میں بت بنا ہوا فٹ پاتھ پہ رہا دلشادؔ

وہ ایک لمحے کا منظر تھا جو گزر گیا تھا

غرور چھانے لگا کیا نئی اڑانوں کا

زمین قرض چکا دے نہ آسمانوں کا

مجھے یقیں ہے عدو سامنے سے آئے گا

ابھی تو خوف ہے فی الحال مہربانوں کا

ہمیں نہ دیکھ کبھی ابرہہ کی نظروں سے

جہاں نے دیکھا ہے انجام فیل بانوں کا

بہت سے لوگوں کو ہے بولنے کی بیماری

کبھی علاج کراتے نہیں وہ کانوں کا

ہماری نظروں کے آگے بسا ہے یہ جنگل

ہمیں پتا ہے یہاں کے نئے پرانوں کا

وزیر! تیرے نوالوں کے پاس ہے کوئی؟

جواب خود کشی کرتے ہوئے کسانوں کا

مرے یقین میں ہے لا الہ الا اللہ

وہی ہے مالک و مختار کل زمانوں کا

عجب رُت ہے یہ دلشادؔ اشکباری کی

یہ احتجاج یا نوحہ ہے بے زبانوں کا

عزتِ نفس کے بحران سے پہلے نہیں تھا

یہ تخاطب ترا احسان سے پہلے نہیں تھا

آج سجدے میں اَنا ہار کے روئی ہے بہت

سچ کہوں ربط یہ ایمان سے پہلے نہیں تھا

دل عقیدت کو لیے حجرۂ غیبت سے اٹھا

وصل دیوار کا یوں کان سے پہلے نہیں تھا

آپ عادی ہیں تو پی جائیے طوعاً کرہاً

تھوک ذلت کا اگلدان سے پہلے نہیں تھا؟

پہلے آ جاتا تھا فریاد رسی کو حاکم

سامنا گیٹ کے دربان سے پہلے نہیں تھا

ایک بھاشا ہی ملی فرقہ پرستی کے لیے

پریم کیا آپ کو رسکھان سے پہلے نہیں تھا؟

سب کو معلوم تھا جنگل کے سلگنے کا سبب

اتنا سناٹا تو طوفان سے پہلے نہیں تھا

عشق بازار میں بس ہجر کمایا میں نے

فائدہ بھی مجھے نقصان سے پہلے نہیں تھا

اتنا آساں نہیں تنہائی کے قابل ہونا

ہجر لمحوں سے مرے دل کا ہوا دل ہونا

ایک اک پل ترا احساس ہے زندہ مجھ میں

غیر ممکن ہے تری یاد سے غافل ہونا

زندگی لہروں میں گمنام ہوئی جاتی تھی

تم سے جانا نگہِ موج نے ساحل ہونا

عشق کو علمِ ریاضی نہیں آتا جاناں

تم بتادو مجھے، تم ہی مرا حاصل ہونا؟

ہاتھ پھیلا تو دیے میں نے چھڑی ماریں ناں

کیا کروں آتا نہیں آپ کے قابل ہونا

دیجیے شوق سے ناکردہ گناہوں کی سزا

میں نے منظور کیا آپ کا قاتل ہونا

مٹ گئی ہے مرے چہرے سے انا دار خوشی

آپ کے غم میں بہر طور ہے شامل ہونا

دیکھتا ہی نہیں اب میل کا پتھر دلشادؔ

آج تک آیا نہیں راہ کو منزل ہونا

گلے لگنے والے تو منظر بہت ہیں

مگر آستینوں میں خنجر بہت ہیں

وہ آئیں گے، آتے ہی ہوں گے، ٹھہر جا

ابھی جھیل کے پاس کنکر بہت ہیں

مجھے چھوڑ جا تو بھی اوروں کے جیسا

مجھے تیرے جیسے میسر بہت ہیں

فقط سر جھکا، سر جھکا کر نکل جا

یہاں کالے شبدوں کے منتر بہت ہیں

انا روک لیتی ہے جانے سے ورنہ

حویلی میں ہم جیسے نوکر بہت ہیں

میاں پھر کہیں وعظ فرمایئے گا

تماشے ابھی گھر کے اندر بہت ہیں

نیا زخم دلشادؔ پھر منتظر ہے

کرم ان دنوں ان کے مجھ پر بہت ہیں

کس کس سے ہم آنکھ چراتے چار دنوں کے جیون میں

آنکھیں گروی رکھ دیں ہم نے بھی جادوئی درپن میں

ہم دونوں کی آنکھوں میں نہ تھمنے والا دریا تھا

خالی انگلی پھیر رہا تھا ننھا خالی برتن میں

ہر سندیسہ دروازے سے دھول اڑا کر لوٹ گیا

کون ہے جو چھڑکاؤ کرے گا جسم کے جلتے آنگن میں

آج مری آواز پہ پہرے کا یہ مطلب ہے شاید

کل تک سب کچھ دیکھ رہا تھا میں ڈر کے اندھے پن میں

دنیا ہے امید پہ قائم میں نے کہا دلشادؔ اسے

سینت کے رکھ آنکھوں کا کاجل، رنگ بھرے اس ساون میں

ہونٹوں پہ پیاس آنکھ میں ساون لیے ہوئے

ساحل پہ ہم ہیں آس کا دامن لیے ہوئے

آنکھیں تھیں بند ذہن مگر جاگتا رہا

ہم سو رہے تھے جاگتی الجھن لیے ہوئے

دن بھر کا جال ایک بھی مچھلی نہ پا سکا

کنبہ ندی کے پار تھا الجھن لیے ہوئے

حیراں ہے کورا جسم کہ جانے کہاں گئی

تعبیر، میرے خواب کا ساجن لیے ہوئے

ہر راز راز رکھیے سیاست کے دور میں

رہبر یہاں ہیں صورتِ رہزن لیے ہوئے

طوفاں کا زور کچے مکانوں کو ڈھا گیا

بیٹھے تھے لوگ دھوپ کا آنگن لیے ہوئے

خود کو بچا رہا ہوں میں دلشادؔ کو بہ کو

بے چہرگی کا شہر ہے درپن لیے ہوئے

جھکی کمر کو اسی کی ہمت کے واسطے پھر اٹھا رہا ہے

جوان بیٹے کی نا اُمیدی کا باپ قرضہ چکا رہا ہے

حصول برکت کی چاہ میں میں نوالے تقسیم کر رہا ہوں

مجھے یقیں ہے کہ رزق پروردگار میرا جُٹا رہا ہے

گلی گلی میں یہ لوگ اُف کیسی ہائے توبہ مچا رہے ہیں

ہمارا پچھلا کیا ہوا ہی ہمارے آگے تو آ رہا ہے

زمین بھی سرخ ہو رہی ہیں۔ فلک پہ ابر سیہ ہیں چھائے

پرندہ ٹہنی پہ المدد کا کوئی حزیں گیت گا رہا ہے

انا پرستی کی زد میں رہ کر مناظرے خوب کرتے رہیئے

جہاں تہاں کلمہ گو کو دجال بت پرستی سکھا رہا ہے

عقیدتیں پاوں چھو رہی ہیں مرادوں کی تھالیاں سجا کر

ہوئی ہیں بابا کی سرخ آنکھیں، غلط جگہ کیوں کھجا رہا ہے

عمل کا ردِ عمل تو لازم ہے یار، نیوٹن کا ہے یہ کلیہ

گھِرا ہوا بھیڑ میں اکیلا اب اپنا رستہ بنا رہا

ہمیشہ تفریح ڈھونڈتی ہے غزل کے پیرائے میں یہ دنیا

ہمیشہ دلشادؔ کے سخن کا جو تجربہ ہے نیا رہا ہے

چھوٹے چھوٹے کمروں میں سانسیں شب بھر بل کھاتی ہیں

لوکل ٹرین کی چیخیں بے حس جسموں سے ٹکراتی ہیں

کانپ رہا ہے باہر ٹھنڈا موسم گیلی آنکھوں میں

آندھی جیسی گرم ہوائیں اندر شور مچاتی ہیں

دن بھر بوجھ مرے شانوں کو پھولوں جیسا لگتا ہے

چھوٹی چھوٹی روئی آنکھیں شام کو جب مسکاتی ہیں

آنگن، ٹھنڈی چھاؤں، ہوا کی سرگوشی سب خاک ہوئے

لیکن دیواریں کیوں اب بھی در سے کان لگاتی ہیں

نا آسودہ غزلوں کی ہے نوحہ خوانی، یا دلشادؔ

بیوائیں دہلیز پہ بیٹھی سر پہ خاک اڑاتی ہیں

یہ کیسا امتحان بن کے رہ گئی ہے زندگی

سوالیہ نشان بن کے رہ گئی ہے زندگی

سماعتوں سے چھن گئی نوائے حرف و لفظ کیوں

یا خود ہی بے زبان بن کے رہ گئی ہے زندگی

کسی پہ تنگ کر دیا ہے وقت نے زمین کو

کسی پہ آسمان بن کے رہ گئی ہے زندگی

گزر گئی طویل عمر، گھر کا خواب دیکھتے

اک عمر سے مکان بن کے رہ گئی ہے زندگی

چھپا ہوا ہدف ہے آتی جاتی سانس میں کہیں

کھنچی ہوئی کمان بن کے رہ گئی ہے زندگی

دیار غیر میں ہے جسم، رزق کی تلاش میں

وطن میں خاندان بن کے رہ گئی ہے زندگی

میں آب آب ہو رہا ہوں قیمتوں کو دیکھ کر

بہت بڑی دکان بن کے رہ گئی ہے زندگی

خوشی نے اس طرف خوشی سے رخ نہیں کیا کبھی

دکھوں کی میزبان بن کے رہ گئی ہے زندگی

سکونِ دل نہ شادمانیاں ہیں اور اس طرف

مثال اطمینان بن کے رہ گئی ہے زندگی

شہر گم صم سا ہوا کیوں مرے آ جانے سے

میں نے کیا چیز اٹھا لائی ہے ویرانے سے

حاکم شہر کی دہلیز پہ سجدوں کے نشاں

کیا کوئی رسم نکل آئی ہے بت خانے سے

پھر کوئی ہم میں سے اٹھ کر یہ علم تھامے گا

جنگ یہ ختم نہ ہو گی مرے مر جانے سے

منھ پہ سچ بولنا اچھا نہیں ہوتا اکثر

لوگ کترا کے نکل جاتے ہیں دیوانے سے

ضبط کرنا تجھے با ظرف بنا سکتا ہے

اشک بے مول ہوئے جاتے ہیں بہہ جانے سے

عشق کرتے ہو تو پھر سود و زیاں مت سوچو

یہ سبق سیکھا ہے جلتے ہوئے پروانے سے

وقت مرہم ہے مٹاتا ہے کئی داغ مگر

کچھ نشاں جاتے نہیں زخم کے بھر جانے سے

بارہا جیت ہوئی دل نے بہت ہارا بھی

کچھ تو پابند رہا کچھ ہوا آوارہ بھی

ان کو شکرانے کی توفیق کہاں سے ہو گی

مطمئن کر نہ سکا جن کو بہت سارا بھی

ننھے شانوں پہ رکھے وقت نے اوزار بڑے

ٹافیاں چھوٹ گئیں ہاتھ سے، غبارہ بھی

اک تبسم سا کھلا لب ہلے آنکھیں نہ کھلیں

میں نے ہولے سے ترے گال پہ یوں مارا بھی

زندگی تو نے مکاں کہہ کے دیا ہے خیمہ

ایسے خیمے میں تو رہتا نہیں بنجارا بھی

اک حقیقت ہے یہ منٹو کی کہانی کی طرح

برف کے جسم سے لپٹا رہا انگارہ بھی

ٹوٹ جاؤ گے تو تقسیم کرے گی دنیا

چین لینے نہیں دے گا کبھی بٹوارا بھی

اس کی وسعت سے تو انکار نہیں ہے دلشادؔ

وہ سمندر ہے تو ہو گا، ہے مگر کھارا بھی

اچھا ہے اس بہانے سیراب ہو گئے ہیں

سوکھے ہوئے گڑھے بھی تالاب ہو گئے ہیں

اک میں ہی آشنا ہوں ساری حکایتوں سے

راوی ترے غلو میں کذّاب ہو گئے ہیں

صحرا نگل رہا ہے تشنہ لبوں کو پھر سے

دجلہ فرات پھر سے خوناب ہو گئے ہیں

مد ہوش لڑ کھڑائے آنکھوں کو ملتے ملتے

اٹھے جو دست نازک محراب ہو گئے ہیں

پہچان تھی نہ کوئی اس شہر میں، اب ان کے،

دلشادؔ، کیسے کیسے القاب ہو گئے ہیں

عرصے تک اس واسطے شاید زندہ تھا

جنگل جنگل وہ خاموش پرندہ تھا

یوں تو باہر بھیڑ لگی تھی چہروں کی

اپنی ذات کا وہ تنہا باشندہ تھا

میں تو اپنی خاطر کب کا قتل ہوا

کوئی تھا جو میرے اندر زندہ تھا

ظلم کی مرضی سونپ دی ظالم ہاتھوں میں

اپنے حق کا میں بھی رائے دہندہ تھا

پشت پہ ماضی سر پہ میرے حال کا بوجھ

لیکن اگلا پاؤں مرا آئندہ تھا

سرد ہوئی آخر جلتی سانسوں کی بین

سانپ پٹاری کے اندر شرمندہ تھا

اس گھر کی ہر چیز پرائی تھی لیکن

دروازے پر میرا نام ہی کندہ تھا

خوش قسمت تھے لوگ جو بازی ہار گئے

کتنی قسطوں میں دلشادؔ تو زندہ تھا

چلتے رہیے دنیا چلتی جاتی ہے

ٹھوکر کھا کر چال سنبھلتی جاتی ہے

دشت ہُو میں ایک سا موسم آوارہ

ایک سی وحشت اب تو کھلتی جاتی ہے

صبح سے بیٹھے کس کا رستہ تکتے ہو

جاؤ بابو شام بھی ڈھلتی جاتی ہے

رہ جائیں گے صرف ہتھیلی میں کنکر

ریت بھری مٹھی سے پھسلتی جاتی ہے

ایک طرف تعمیر مسلسل ہے جاری

ایک طرف سے بستی جلتی جاتی ہے

کھول درِ اسرارِ خموشی آخرِ شب

بوجھل ساعت آنکھیں ملتی جاتی ہے

اونچا ٹیلا اجڑی نیندوں کی تعبیر

ندی سارے خواب نگلتی جاتی ہے

خوف کے سر پہ پھیلی ہوئی ہے چادرِ شب

آہٹ آگے پیچھے چلتی جاتی ہے

حیراں ہوں دلشادؔ میں اپنی دنیا سے

کیسے کسیے رنگ بدلتی جاتی ہے

ہجرتیں اپنے کاندھوں پہ ڈالے ہوئے

ہم بھی لگتے ہیں گھر سے نکالے ہوئے

ایک میلی سی چادر سنبھالے ہوئے

دے کے دستک وہ گزرا، اجالے ہوئے

سرسری طور سے ہم پڑھے جائیں گے

جیسے اردو کے سستے رسالے ہوئے

فاصلہ رکھ کے چلتا رہا دل کے بیچ

ہم سفر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے

اک طوائف بھی شوہر کی خواہش میں ہے

پارسائی کا دامن سنبھالے ہوئے

اب سیاست سپیروں کے قبضے میں ہے

سیکڑوں سانپ ہیں جن کے پالے ہوئے

کون دلشادؔ ہمراہ چلتا مرے

ہم سفر صرف اور صرف چھالے ہوئے

نہ مذہبوں، نہ علاقوں، نہ حکمرانوں نے

زباں کو زخم لگائے ہیں ہم زبانوں نے

زمیں کی گود سلامت رہے گی، لوٹ آنا

گرفت چھوڑی اگر کل کو آسمانوں نے

خدا نے ان کی قضا کنکروں پہ لکھ دی تھی

بہت غرور دکھایا تھا فیل بانوں نے

لہو بہا کے وطن کو وقار بخشا ہے

مہاجروں کا لقب سہ کے خاندانوں نے

ابھی سے قرض درانتی پکڑ کے بیٹھ گیا

ابھی تو فصل بھی کاٹی نہیں کسانوں نے

بس اک زمیں کے احاطے میں اتنی دیواریں

گھرانا بانٹ لیا ہے نئے مکانوں نے

مخالفت پہ تو دلشادؔ کھل کے سب آئے

سراہا مجھ کو ہے پھر بھی دبی زبانوں نے

زخم پھولوں کی طرح، احساس مرہم کی طرح

دے گئیں تحفہ بہاریں پچھلے موسم کی طرح

چند لمحے رات کی رانی مجھے محفوظ رکھ

دن نکلتے ہی میں کھو جاؤں گا شبنم کی طرح

تو مرے اخبار کا محبوب گوشہ ہے، جسے

پڑھ رہا ہے ہر کوئی مخصوص کالم کی طرح

خشک لہجے کی کتابیں درد سر تھیں، اس لیے

رکھ نہیں پائے انھیں ماضی کے البم کی طرح

وہ تھا اپنی ذات سے میری طرح نا آشنا

میں سمجھتا تھا جسے دلشادؔ گوتم کی طرح

بیچنے میں نظر آئے نہ خریدار میں اب

دل قلندر سا بنا پھرتا ہے بازار میں اب

جنگ اب خود ہمیں لڑنی ہے قبیلے والو

ویسی ہمت کہاں باقی رہی سردار میں اب

وقت نے کیسی ملی دھول ترے چہرے پر

سلوٹیں کیسی ابھر آئیں ہیں دستار میں اب

اس گھڑی ہوش کسی کا بھی کسی کو نہیں ہے

صرف ٹِک ٹِک کیا کرتی رہو دیوار میں اب

تیری مرضی تُو چلائے جا فقط اپنی زباں

زنگ تو لگ بھی چکا ہے تری تلوار میں اب

ایسی حالت میں بھی اک آس کے دورا ہے پر

ہم ہیں اقرار میں شامل نہ ہی انکار میں اب

ہو گئی بات مکمل تو اجازتد یجئے

اور مت ذہن مکدر کریں بیکار میں اب

سب یہی لکھتے ہیں دلشادؔ نیا کیا لکھوں

کیا مضامین نئے لاؤں گا اشعار میں اب

وعدہ کر کے بچھڑے ہیں لیکن اک نقصان یہ ہو سکتا ہے

جب تک لوٹ کے واپس آئیں بھیڑ میں کوئی کھو سکتا ہے

کس کو نظر آتا ہے اپنے دکھ کے آگے دُوجے کا غم

لوگ بھی اب رونے دیتے ہیں، کوئی کتنا رو سکتا ہے

وصل ہمیشہ آنکھیں چار کیے رہنے کی خواہش میں گُم

ہجر بدن کو آزادی ہے کسی بھی کروٹ سو سکتا ہے

شاید بخشش کا سامان ہو ناک رگڑنے والا منظر

شاید میرا کوئی آنسو میرا دامن دھو سکتا ہے

چلیے نا مل کر چُنتے ہیں رستے کے سب خاروں کو ہم

آپ تو میرے ساتھ ہیں، دشمن کتنے کانٹے بو سکتا ہے

گھر کا بڑا ہونے پر آنکھیں پتھر کرنی پڑ جاتی ہیں

سب کے آنسو پوچھنے والا تنہائی میں رو سکتا ہے

دوستی کی تھی ایک دیہاتی لڑکی سے دلشادؔ نے لیکن

اس کو کب معلوم تھا کوئی اتنا پاگل ہو سکتا ہے

جفائیں نقد، وفا میں اُدھار چل رہا ہے

محبتوں میں یہی کاروبار چل رہا ہے

یہ زندگی کا سفر ہے کہ تعزیوں کا جلوس

جسے بھی دیکھو وہی سوگوار چل رہا ہے

ہزار تلخ کلامی پہ فتح پائی تو پھر

مرے سخن پہ مرا اختیار چل رہا ہے

ہمارے رشتوں میں کھاتہ بہی کا کام نہیں

جو سامنے ہے پس اعتبار چل رہا ہے

سکون و جذب کی منزل ابھی نہیں آئی

ابھی سلوک پہ قول و قرار چل رہا ہے

سفر میں شانہ بہ شانہ مجھے بھی شامل رکھ

یہ میں ہوں یا کوئی خدمت گزار چل رہا ہے

میں اس طرف لب ساحل اُداس ہوں دلشادؔ

جو نا خدا ہے وہ دریا کے پار چل رہا ہے

عشق ہمیشہ اپنا گزارا حسبِ ضرورت چاہتا ہے

ہجر زدہ مزدور تو وصل کی شکل میں اُجرت چاہتا ہے

ہونٹوں پر مسکان ہے لیکن گیلی گیلی ہیں آنکھیں

پیار کا پہلا واقعہ آئینے سے حیرت چاہتا ہے

تھکی ہوئی سانسوں کی مدھم ہوتی ہوئی آواز کے ساتھ

کروٹ بدلے خوگر لذت جسم بھی فرصت چاہتا ہے

دونوں کو پروا نہیں اس کی دیکھتی ہیں کتنی آنکھیں

آنکھیں چار کیے رہنے کا جذبہ برکت چاہتا ہے

عرصے سے اس دشت کے اندر مچا نہیں کوئی نیا دھمال

ہو کے اس عالم میں قلندر نئی سی وحشت چاہتا ہے

آخری سانسوں کی ہے وصیت آنے والی نسلوں کو

وقت کسی کو زندہ رکھنے کے لیے قیمت چاہتا ہے

بادل کب برسیں گے اب دلشادؔ اسے معلوم نہیں

تنہا پرندہ سوکھی ڈال سے شاید ہجرت چاہتا ہے

میں سنگ میل کی صورت ابھی راہ یقیں پر ہوں

اگر تھک جاؤ تو پھر لوٹ آنا میں یہیں پر ہوں

تمہیں عقل سلیم اللہ دے، حق کہہ چکا ہوں میں

جسے تم مانتے ہو مانو، میں بھی اپنے دیں پر ہوں

ہمیشہ اس کے ہونٹوں کی تپش گردن پہ رہتی ہے

میں اک بوسے کی صورت ہر گھڑی اس کی جبیں پر ہوں

مرے اللہ تیری بے پناہی کا مکیں، یعنی

ہوں تیری چھت کے نیچے اور میں تیری زمیں پر ہوں

اسی اک بات سے ناراض ہے دلشادؔ سے دنیا

اُسے سننا ہے ہاں اور میں بضد اب تک نہیں پر ہوں

جز و کل رب کے کسی کا نہ سوالی ہونا

مر ہی جانا کبھی غیرت سے نہ خالی ہونا

دم تو بھرتے ہیں سبھی ان کی غلامی کا مگر

اصل معراج ہے جذبوں کا بلالی ہونا

رنگ احمر سے خدا نے ہے نوازا ان کو

پھر ضروری تو نہیں ہونٹوں پہ لالی ہونا

میرؔ کا اشک طلب کرتا ہے آفاقی غم

فکر غالب کے لئے شرط ہے حالی ہونا

گھر کے پودے کی حفاظت کا نہیں جن کو شعور

زیب دیتا ہے انہیں باغ کا مالی ہونا؟

آپ جو کچھ ہیں فقط اپنے لئے ہی ہوں گے

ہے بڑی بات کہ دنیا میں مثالی ہونا

ہے یہ دلشاؔد اسی رب کی کرشمہ سازی

ایک دانے سے نکل کر کئی بالی ہونا

ایسا بھی نہیں، کوئی خریدار نہیں ہے

ہر شے ہے مگر رونق بازار نہیں ہے

یوں ہاتھ ملانے میں کوئی عار نہیں ہے

شب خون کے خدشے سے بھی انکار نہیں ہے

آ، بیٹھ چٹائی پہ ادب سے، کہ یہ کٹیا

اے ظل الٰہی ترا دربار نہیں ہے

دستار کی یہ جنگ پرانی تو ہے لیکن

اب تک کوئی سر قابل دستار نہیں ہے

باقی ہے ضرورت مری کچھ لوگوں کو اب بھی

شاید مرا جینا ابھی بیکار نہیں ہے

حالات نے بت توڑ دیے مری انا کے

پہلے کی طرح دل بھی تو خوددار نہیں ہے

ماحول پہ عائد نہ کیا جرم کسی نے

دلشادؔ ہی تنہا تو سزاوار نہیں ہے

دھوپ کی انگلیوں نے فسانے وہی ٹوٹتی پتیوں کے بدن پر لکھے

جیسے بستر سے تصویر تک کا سفر حادثے رات بھر بیوہ پن پر لکھے

وقت کا ہانکا شاید بہت تیز تھا ایک شہزادی باندی بنا لی گئی

پھر شکاری درندوں نے تقسیم کے فیصلے رات بھر گلبدن پر لکھے

سینکڑوں کی صفوں سے نکل تو گیا مڑ کے سرحد سے وہ دیکھتا بھی رہا

اس کے قدموں نے فاقہ زدہ حادثے کس طرح سر زمین وطن پر لکھے

عمر کے ساتھ کچھ خواہشیں تھیں مگر، بند ہیں اب تو ساری امیدوں کے در

کس کی بے نام سی آہٹوں کے پتے ٹوٹے خوابوں نے جلتے نین پر لکھے

وقت نے میرے قدموں پہ کیا سوچ کر، فیصلے کے قلم سے سفر لکھ دیا

اور اتنی بھی مہلت نہ دی کہ کبھی زندگی چند لمحے تھکن پر لکھے

اگلی نسلیں مقدر سمجھ کر انہیں وارثوں کی طرح بانٹ لیں گی کبھی

تجربے جو مِرے عہد نے جا بجا، زندہ لاشوں کے میلے کفن پر لکھے

آگہی کے بیاباں میں دلشادؔ جب اپنی محرومیاں مشعلِ راہ تھیں

تجربے زندگی کے بہ شکل غزل ہم نے اپنی انا کی چبھن پر لکھے

خدا ہی حالِ دل بے قرار جانتا ہے

کسی کی راہ مرا انتظار جانتا ہے

خرد کھڑی رہے ساحل پہ ہاتھ باندھے ہوئے

جنون عشق تو دریا کا پار جانتا ہے

اسے یہ ضد کہ ملے قافلے کی سالاری

جو راستوں کو نہ دشت و غبار جانتا ہے

منافقوں نے وہیں مورچے بنائے ہیں

عدو ہماری صفوں کی درار جانتا ہے

خدا رسول کے بارے میں جانتا ہی نہ

مرید پیر سخی کا مزار جانتا ہے

ان ہی کو زیب ہے لفظوں سے چونچلے کرنا

مرا مزاج تو لہجے کی مار جانتا ہے

حساب رکھتے ہیں دلشادؔ وہ نوالوں کا

ہمارا رزق تو پروردگار جانتا ہے

اپنی لا علمی پہ اکثرہا بھرم بولتا ہے

میں نہیں کہتا ہے وہ، ہر جگہ ہم بولتا ہے

احتجاج آج بھی اللہ قسم بولتا ہے

میں اگر چپ بھی رہوں، میرا قلم بولتا ہے

ایک ایک لقمے پہ میں شکر بجا لاتا ہوں

پھر مرے رزق میں مولا کا کرم بولتا ہے

تالیاں پیٹنے والوں کو یہ احساس نہیں

میرے اشعار کے اندر مرا غم بولتا ہے

کوئی سنتا ہی نہ تھا میرے علاوہ اس کی

لوگ اب کہتے ہیں وہ ان دنوں کم بولتا ہے

مار بیٹھا تھا وہ رخسار یقیں پر تھپڑ

اب گماں آس دلاتا ہے بھرم بولتا ہے

چیخ اُٹھا میں اُسے ہجر زدہ دیکھ کے آج

اب تو اُس شخص کا بس دیدۂ نم بولتا ہے

قد ہی گھٹ جاتا ہے دلشادؔ بہت بولنے سے

جانتا ہے جو زیادہ وہی کم بولتا ہے

میرے قصے کے لیے کردار طے کرنے لگے

ایسے ویسے لوگ اب معیار طے کرنے لگے

لڑنے والے اسلحوں کی دھار طے کرنے لگے

جنگ سے پہلے منافق ہار طے کرنے لگے

جو ابھی بخشی ہوئی بیساکھیوں پر ہیں کھڑے

وہ اپاہج اب مری رفتار طے کرنے لگے

کس کو دو گے مشورہ، سمجھاؤ گے کس کو یہاں

مسئلے اب امن کے لٹھ مار طے کرنے لگے

یہ لطیفہ بھی بہت مشہور ہے اس دور کا

کس میں ہے حبِ وطن، غدّار طے کرنے لگے

یہ سیاست بھی قلم کے خون میں شامل ہوئی

متن اب خود حاشیہ بردار طے کرنے لگے

مسلکی فتووں نے کھو دی ہے توانائی تمام

اب تو شرعی فیصلے اغیار طے کرنے لگے

خود نمائی کو کسی تمہید کی حاجت نہیں

تیرا قد دلشادؔ خود اشعار طے کرنے لگے

کوئی ایک لمحہ رقم نہیں، کئی، مدتوں کا حساب ہے

ترے طاقِ دل پہ رکھی ہوئی مرے آنسووں کی کتاب ہے

میں حدیث دل کی امانتیں ترے نام یوں ہی رقم کروں

ترا یاد آنا ہے برکتیں، تجھے سوچنا بھی ثواب ہے

اُسے کس نگاہ سے دیکھئے اُسے کس خیال سے سوچیے

کبھی لفظ لفظ ہے آئینہ کبھی حرف حرف حجاب ہے

مرے غم کی عمر دوام سے کبھی حیرتوں میں نہ ڈوبیئے

جسے آپ کہتے ہیں زندگی اُسی میکدے کی شراب ہے

کبھی خود کو یاد نہ کر سکا، کبھی خود کو شاد نہ کر سکا

نہ شریک جُز ہی رہا کبھی نہ ہی مستقل کوئی باب ہے

آشنائی کا سفر لمحوں کے اندر کٹ گیا

درمیاں اک مال گاڑی آئی، منظر کٹ گیا

آخری تاریخ تک پھیلا کلنڈر کٹ گیا

جنوری کی آس میں پھر اک دسمبر کٹ گیا

صحن کا بوڑھا شجر اندر ہی اندر کٹ گیا

دو مکاں اُبھرے تو بٹوارے میں اک گھر کٹ گیا

کاروباری مسکراہٹ اپنے چہرے پر لیے

دکھ منافق شہر کی منڈی میں دن بھر کٹ گیا

کاٹتی رہتی تھی مجھ کو بزدلی شام و سحر

اور جس دن میں لڑا تو خود بہ خود ڈر کٹ گیا

ساحلی چٹان کی صورت میں سالم ہی رہا

جب رواں پانی سے ٹکرایا تو پتھر کٹ گٹ گیا

جب سے تنہائی میسر ہو گئی دلشادؔ تو

آشنا چہروں کے آگے سے میں اکثر کٹ گیا

جسم کے اہرام میں مدفون جاں کی خیر ہو

ہے یقیں تابوت میں باہر گماں کی خیر ہو

متن پھر اُس کا رہا ہے حرف کی تحریک کو

بھر رہا ہوں لفظ کا کاسہ، زباں کی خیر ہو

روشنی کے قتل پہ رقصاں ہواؤں کا ہجوم

تیرگیِ دشت میں جگنو میاں کی خیر ہو

بعد میں کرنا ہدف پہ گفتگو لیکن ابھی

تیر اُلٹے پاؤں ہے کھنچتی کماں کی خیر ہو

جسم سے لپٹے ہوئے بارود کا مطلب ہے کچھ

خیر کا جذبہ ہے تو اہلِ جہاں کی خیر ہو

کس کے قدموں میں عقیدت دے گی اب قربانیاں

خیر ہو دلشادؔ نظمی بے زباں کی خیر ہو

٭٭٭

تشکر: شاعر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل