فہرست مضامین
- کلام مرزا رضا برقؔ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- اثر زلف کا برملا ہو گیا
- پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
- چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
- زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
- کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
- گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
- لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا
- لب رنگیں سے اگر تو گہر افشاں ہوتا
- مثال تار نظر کیا نظر نہیں آتا
- مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
- نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
- بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
- وہ شاہ حسن جو بے مثل ہے حسینوں میں
- اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
- جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
- دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی
- رنگ سے پیرہن سادہ حنائی ہو جائے
- شمع بھی اس صفا سے جلتی ہے
- قمر کی وہ خورشید تصویر ہے
- میں اگر رونے لگوں رتبۂ والا بڑھ جائے
- نہ رہے نامہ و پیغام کے لانے والے
- وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
کلام مرزا رضا برقؔ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید اور محمد عظیم الدین
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں
اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا
جنوں لے کے ہم راہ آئی بہار
نئے سر سے پھر ولولا ہو گیا
دیا غیر نے بھی دل آخر اسے
مجھے دیکھ کر من چلا ہو گیا
سمائی دل تنگ کی دیکھیے
کہ عالم میں ثابت خلا ہو گیا
تعلی زمیں سے جو نالوں نے کی
فلک پر عیاں زلزلہ ہو گیا
ہوا قتل بے جرم میں جا کے برقؔ
وہ کوچہ مجھے کربلا ہو گیا
پردہ الٹ کے اس نے جو چہرا دکھا دیا
رنگ رخ بہار گلستاں اڑا دیا
وحشت میں قید دیر و حرم دل سے اٹھ گئی
حقا کہ مجھ کو عشق نے رستا بتا دیا
پھر جھانک تاک آنکھوں نے میری شروع کی
پھر غم کا میرے نالوں نے لگا لگا دیا
انگڑائی دونوں ہاتھ اٹھا کر جو اس نے لی
پر لگ گئے پروں نے پری کو اڑا دیا
سیکھی ہے اس جوان نے پیر فلک کی چال
ہر پھر کے مجھ کو خاک میں آخر ملا دیا
وہ سیر کو جو آئے تو صدقہ میں ان کو برقؔ
ہر ایک گل نے طائر نکہت اڑا دیا
چاند سا چہرہ جو اس کا آشکارا ہو گیا
تن پہ ہر قطرہ پسینہ کا شرارا ہو گیا
چھپ سکا دم بھر نہ راز دل فراق یار میں
وہ نہاں جس دم ہوا سب آشکارا ہو گیا
جس کو دیکھا چشم وحدت سے وہی معشوق ہے
پڑ گئی جس پر نظر اس کا نظارا ہو گیا
ہم کناری کی ہوس اے گوہر یکتا یہ ہے
آب ہو کر غم سے دل دریا ہمارا ہو گیا
خلق میں گرد یتیمی سے گہر کی قدر ہے
خاکساری سے فزوں رتبہ ہمارا ہو گیا
دل میں ہے اے برقؔ اس بت کے در دنداں کی یاد
یہ گہر عرش بریں کا گوشوارہ ہو گیا
زیر زمیں ہوں تشنۂ دیدار یار کا
عالم وہی ہے آج تلک انتظار کا
گزرا شراب پینے سے لے کون درد سر
ساقی دماغ کس کو ہے رنج خمار کا
محشر کے روز بھی نہ کھلے گی ہماری آنکھ
صدمہ اٹھا چکے ہیں شب انتظار کا
عبرت کی جا ہے عالم دنیا نہ کر غرور
سر کاسۂ گدا ہے کسی تاجدار کا
بعد فنا بھی ہے مرض عشق کا اثر
دیکھو کہ رنگ زرد ہے میرے غبار کا
الفت نہ کچھ پری سے نہ کچھ حور سے ہے عشق
مشتاق برقؔ روز ازل سے ہے یار کا
کس طرح ملیں کوئی بہانا نہیں ملتا
ہم جا نہیں سکتے انہیں آنا نہیں ملتا
پھرتے ہیں وہاں آپ بھٹکتی ہے یہاں روح
اب گور میں بھی ہم کو ٹھکانا نہیں ملتا
بدنام کیا ہے تن انور کی صفا نے
دل میں بھی اسے راز چھپانا نہیں ملتا
دولت نہیں کام آتی جو تقدیر بری ہو
قارون کو بھی اپنا خزانا نہیں ملتا
آنکھیں وہ دکھاتے ہیں نکل جائے اگر بات
بوسہ تو کہاں ہونٹ ہلانا نہیں ملتا
طاقت وہ کہاں جائیں تصور میں جو اے برقؔ
برسوں سے ہمیں ہوش میں آنا نہیں ملتا
گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
جلا دو کاٹ کے اس نخل میں نہ بار آیا
قدم عدم میں یہ کہہ کر رکھوں گا اے قاتل
ہزار شکر کہ میں بار سر اتار آیا
مثال مہر وہ قاتل شعاع عارض سے
ہزار تیغ قضا کھینچے ایک بار آیا
اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں تجھے عاشق ترا پکار آیا
تری تلاش میں اے ماہ مثل ریگ رواں
نہ میری خاک کو بعد از فنا قرار آیا
پھنسا جو زلف میں چھوٹا وہ قید ہستی سے
رہا ہوا جو ترے دام میں شکار آیا
ہمیشہ دیکھ کے مجنوں کو خلق کہتی تھی
عدم سے برقؔ کی آمد ہے پیشکار آیا
لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا
پردہ کھل جائے گا ہر پردہ کتاں ہو جائے گا
جوہر تیغ اصالت سب عیاں ہو جائے گا
امتحاں کے وقت اپنا امتحاں ہو جائے گا
تو اگر اے ماہ آ نکلا کسی دن بعد مرگ
پردۂ خاک مزار اپنا کتاں ہو جائے گا
پیچ زلفوں کے جو کھل جائیں گے روئے یار پر
سنبل تر آتش گل کا دھواں ہو جائے گا
تو وہ گل رو ہے کہ تجھ کو دیکھ کر نکلے گی جان
بلبل روح و رواں بے آشیاں ہو جائے گا
روئے رنگیں کی حکایت نظم اگر کرنے لگیں
برقؔ سب دیواں ہمارا بوستاں ہو جائے گا
لب رنگیں سے اگر تو گہر افشاں ہوتا
لکھنؤ لعلوں کے معدن سے بدخشاں ہوتا
اے پری تو وہ پری ہے کہ تری دیکھ کے شکل
ہر فرشتہ کی تمنا ہے کہ انساں ہوتا
رہ گیا پردہ مرا ورنہ ترے جاتے ہی
نہ یہ دامن نظر آتا نہ گریباں ہوتا
آ نکلتا کبھی زاہد جو تری محفل میں
ہاتھ میں شیشۂ مے طاق پہ قرآں ہوتا
خیر گزری جو کھلے بالوں کو اس نے باندھا
ورنہ مجموعہ عناصر کا پریشاں ہوتا
مر گیا زلف کی میں پیچ اٹھا کر اے برقؔ
کیوں نہ افسانہ مرا خواب پریشاں ہوتا
مثال تار نظر کیا نظر نہیں آتا
کبھی خیال میں موئے کمر نہیں آتا
ہمارے عیب نے بے عیب کر دیا ہم کو
یہی ہنر ہے کہ کوئی ہنر نہیں آتا
محال ہے کہ مرے گھر وہ رات کو آئے
کہ شب کو مہر درخشاں نظر نہیں آتا
تمام خلق میں رہتی ہے دھوپ راتوں کو
وہ مہر بام سے جب تک اتر نہیں آتا
محال ہے کہ جہنم میں خلد سے جائیں
جو در پر آپ کے جاتا ہے گھر نہیں آتا
ہماری زیست میں تھے ساتھ کون کون اے برقؔ
اب ایک فاتحہ کو قبر پر نہیں آتا
مطلب نہ کعبہ سے نہ ارادہ کنشت کا
پابند یہ فقیر نہیں سنگ و خشت کا
سر سبز ہوں جو آپ دکھا دیجے خط سبز
کشتوں کو کھیت میں ابھی عالم ہو کشت کا
اس حور کی جو گلشن عارض کی یاد تھی
دیکھا کیا فراق میں عالم بہشت کا
کیا منشی ازل کی یہ صنعت ہے دیکھنا
ماہر نہیں کسی کی کوئی سر نوشت کا
نادان اعتراض ہے صانع پہ غور کر
بے جا ہے امتیاز یہاں خوب و زشت کا
اے برقؔ سیر کرتے ہیں ہم تو جہان کی
ہر کوچۂ صنم ہے نمونہ بہشت کا
نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
وہی وہی نظر آئے گا جہاں جہاں دیکھا
بہشت میں بھی اسی حور کو رواں دیکھا
یہاں جو دیکھ چکے تھے وہی وہاں دیکھا
خزان عمر کجا و کجا بہار شباب
فلک کو رشک ہوا کوئی جب جواں دیکھا
گئے جہان سے جو لوگ دو جہاں سے گئے
کسی نے پھر نہ کبھی اپنا کارواں دیکھا
جلایا بزم میں ہر روز شمع کے مانند
ہزاروں باتیں سنائیں جو بے زباں دیکھا
قیامت آئی یہ تڑپا فراق میں اے برقؔ
نہ پھر زمین کو پایا نہ آسماں دیکھا
بے بلائے ہوئے جانا مجھے منظور نہیں
ان کا وہ طور نہیں میرا یہ دستور نہیں
لن ترانی کے یہ معنی ہیں بجا ہے دعویٰ
دیکھے بے پردہ تجھے کوئی یہ مقدور نہیں
وہ کہاں تاج کہاں تخت کہاں مال و منال
قابل اب بھیک کے بھی کاسۂ فغفور نہیں
بے عبادت نہ خدا بخشے گا سبحان اللہ
ایسی فردوس سے ہم گزرے کہ مزدور نہیں
میں وہ مے کش ہوں نہ رکھوں کبھی بھولے سے قدم
کوئی کہہ دے یہ اگر خلد میں انگور نہیں
دم بہ دم اٹھتے ہیں طوفان جو برقؔ اشکوں کے
نوح کا وقت نہیں آنکھ ہے تنور نہیں
وہ شاہ حسن جو بے مثل ہے حسینوں میں
کبھی فقیر بھی تھا ان کے ہم نشینوں میں
اگر حیات ہے دیکھیں گے ایک دن دیدار
کہ ماہ عید بھی آخر ہے ان مہینوں میں
نہ اختلاط نہ وہ آنکھ ہے نہ وہ چتون
یہ کیا سبب کہ پڑا فرق سب قرینوں میں
نہیں بتوں کے تصور سے کوئی دل خالی
خدا نے ان کو دئیے ہیں مکان سینوں میں
مآل کار وہی سب کا ہے وہی آغاز
ہزار فرق کریں خود پرست دینوں میں
عبث حریص ہوس سے ذلیل ہوتے ہیں
امٹ ہے برقؔ جو تحریر ہے جبینوں میں
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق
پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے
بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو
ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار
واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے
یوں تکبر نہ کرو ہم بھی ہیں بندے اس کے
سجدے بت کرتے ہیں حامی جو خدا ہوتا ہے
برقؔ افتادہ وہ ہوں سلطنت عالم میں
تاج سر عجز سے نقش کف پا ہوتا ہے
جب عیاں صبح کو وہ نور مجسم ہو جائے
گوہر شبنم گل نیر اعظم ہو جائے
مرثیہ ہو مجھے گانا جو سنوں فرقت میں
بے ترے بزم غنا مجلس ماتم ہو جائے
دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوں
وصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے
دیکھ کر پھولوں کو انگاروں پہ لوٹوں اے گل
بے ترے گلشن فردوس جہنم ہو جائے
کم نہیں ملک سلیماں سے وصال ساقی
گردش جام مجھے حلقۂ خاتم ہو جائے
دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی
آئی ہوئی بلا مرے سر پر سے ٹل گئی
پوچھا اگر کسی نے مرا آ کے حال دل
بے اختیار آہ لبوں سے نکل گئی
عریاں حرارت تپ فرقت سے میں رہا
ہر بار میرے جسم کی پوشاک جل گئی
کیفیت بہار جو یاد آئی زیر خاک
داغ جنوں سے اپنی طبیعت بہل گئی
اس کے دہان تنگ کی تنگی نہ پوچھئے
اعجاز سمجھے بات جو منہ سے نکل گئی
فرقت میں ہم بغل جو ہوا برقؔ گور سے
حسرت وصال یار کی دل سے نکل گئی
رنگ سے پیرہن سادہ حنائی ہو جائے
پہنے زنجیر جو چاندی کی طلائی ہو جائے
خود فروشی کو جو تو نکلے بہ شکل یوسف
اے صنم تیری خریدار خدائی ہو جائے
خط توام کی طرح عاشق و معشوق ہیں ایک
دونوں بے کار ہیں جس وقت جدائی ہو جائے
تنگی گوشۂ عزلت ہے بیاں سے باہر
نہیں امکان کہ چیونٹی کی سمائی ہو جائے
یہی ہر عضو سے آتی ہے صدا فرقت میں
وقت یہ وہ ہے جدا بھائی سے بھائی ہو جائے
اپنی ہی آگ میں اے برقؔ جلا جاتا ہوں
عنصر خاک ہو تربت جو لڑائی ہو جائے
شمع بھی اس صفا سے جلتی ہے
تیرے رخ پر نگہ پھسلتی ہے
خاک اڑاتی ہے اے صبا میری
بے ادب کس طرح سے چلتی ہے
وہ نہ آیا تو جان جائیں گے
کب طبیعت مری بہلتی ہے
دل نکلتا ہے اس کے گیسو سے
ناگنی دیکھو من اگلتی ہے
نگہ گرم یار دیکھے ہے
کب کسی سے یہ آنکھ جلتی ہے
اک پری رو پہ برقؔ مرتا ہوں
جان اس پر مری نکلتی ہے
قمر کی وہ خورشید تصویر ہے
گلے میں ستاروں کی زنجیر ہے
کہاں پائے جاناں کہاں میرا سر
یہ طالع یہ قسمت یہ تقدیر ہے
خفا آپ سے آپ ہوتے ہو کیوں
بتا دو جو کچھ میری تقصیر ہے
نہ کھولو خط اس کا دھڑکتا ہے دل
خدا جانے کیا اس میں تحریر ہے
نمایاں ہے قوس قزح ابر میں
مسی پر لکھوٹے کی تحریر ہے
مناسب ہے کچھ کھا کے مر جاؤ برقؔ
یہی درد فرقت کی تدبیر ہے
میں اگر رونے لگوں رتبۂ والا بڑھ جائے
پانی دینے سے نہال قد بالا بڑھ جائے
جوش وحشت یہی کہتا ہے نہایت کم ہے
دو جہاں سے بھی اگر وسعت صحرا بڑھ جائے
قمریاں دیکھ کے گلزار میں دھوکہ کھائیں
طوق منت کا جو اے سرو تمنا بڑھ جائے
ہاتھ پر ہاتھ اگر مار کے دوڑوں باہم
راہ الفت میں قدم قیس سے میرا بڑھ جائے
داغ پر داغ سے اے برقؔ مجھے راحت ہے
درد کم ہو تو شب ہجر میں ایذا بڑھ جائے
نہ رہے نامہ و پیغام کے لانے والے
خاک کے نیچے گئے عرش کے جانے والے
کشور عشق کی رسمیں عجب الٹی دیکھیں
سلطنت کرتے ہیں سب دل کے چرانے والے
منعمو عالم دنیا ہے سرائے عبرت
جائیں گے سوئے عدم خلق میں آنے والے
بوریا ساتھ نہ جائے گا نہ تخت سلطاں
سب برابر ہیں بشر خلق سے جانے والے
کوئی باقی نہ رہا ہے نہ رہے گا کوئی
بے نشاں ہو گئے سب شان دکھانے والے
نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم
بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے
اپنے اشعار کا اے برقؔ نہ کیوں شہرہ ہو
ساتھ ہیں طائر مضموں کے اڑانے والے
وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
جب تک کہ تمہیں شہر میں رسوا نہ کریں گے
گھبرا گئے بیتابی دل دیکھ کے اے جان
ٹھہرو تو ابھی ہجر میں کیا کیا نہ کریں گے
مر جاؤں تو مر جاؤں برا مانیں تو مانیں
پھر کیسے مسیحا ہیں جو اچھا نہ کریں گے
وہ حسن میں کامل ہیں تو ہم صبر میں یکتا
تا عمر کبھی ذکر بھی ان کا نہ کریں گے
چھپ چھپ کے کہیں گے جو چھپانے کے سخن ہیں
ہم تم سے کسی بات کا پردا نہ کریں گے
بدنامی سے ڈرتے ہو عبث عشق میں اے برقؔ
کب تک بشر اس بات کا چرچا نہ کریں گے
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل ڈاؤن لوڈ کریں