FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

"کتاب” اینڈرائیڈ ایپ سے حاصل کردہ ناولٹ

کبھی عشق کبھی جفا

سمیرا گُل ع‍ثمان

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں …..

کبھی عشق کبھی جفا

سمیرا گل عثمان

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا پھر ٹائم پاس بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ میں کس نمبر پر تھی یہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ کلائی کی رگ کاٹتے ہوئے اسے اتنا درد نہیں ہوا تھا جتنی اذیت ان چند جملوں پر ہو رہی تھی۔

’’ٹائم پاس، وقت گزاری، فلرٹ۔‘‘ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اوپر کہکشاؤں پرلے جا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو وہ جیسے خلا میں معلق تھی جہاں ہوا کا وجود ناگزیر تھا وہ بمشکل سانس کھینچ رہی تھی۔

اس کا دم گھٹ رہا تھا اور حواس تاریکیوں میں ڈوب گئے تھے، کبھی کسی نے تاریکیوں میں اجالے دیکھے ہیں، مگر وہ دیکھ رہی تھی، لیکن وہ اجالا تو نہیں تھا اجالا تو روشنی ہے اور روشنی تو امید ہوتی ہے یہ آگ تھی، جو شمال کے کنارے سے زمین کی سمت لپک رہی تھی، اس کے دل پر وحشت چھانے لگی خوف کی شدت جبکہ سماعتیں ہولناک دھماکوں کی زد میں تھیں، یوں لگتا تھا جیسے وہ آگ ساری کائنات کو جلا کر خاکستر کر ڈالے گی۔

’’کیا میں مر رہی ہوں۔‘‘ آگ نے اس کا دامن پکڑا تھا جب اچانک اس کے حواس لوٹ آئے اس نے خوفزدہ نظروں سے اپنے اوپر جھکی مایا کو دیکھا وہ لندن ہاسپٹل کے پرائیویٹ روم میں تھی۔

’’بھگوان کا شکر ہے کہ تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ ابھی وہ شکر گزاری کے ابتدائی مراحل میں تھی کہ اچانک اس کی زرد پڑتی رنگت اور کانپتے وجود پر بوکھلا کر رہ گئی۔

’’حریم کیا ہوا؟‘‘ اس نے آگے بڑھ کر بے ساختہ اس کا ہاتھ تھام لیا تھا جبکہ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں کس نیکی کے عوض اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا تھا۔

’’والدین کی ناراضگی اس پر اقدام خود کشی اگر میں مر جاتی تو…‘‘ اس سے آگے کا منظر اس قدر وحشت ناک تھا جس کی ہیبت اور ہولناکی ابھی تک اس کے دل پر طاری تھی۔

’’حریم پلیز ہوش میں آؤ یہ پانی پیو۔‘‘ مالا اسے سنبھالنے میں لگی ہوئی تھی اس نے ایک ہی گھونٹ میں گلاس خالی کر کہ واپس رکھ دیا تھا۔

’’میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی مالا اس نے میری زندگی برباد کر دی ہے میں بھی اسے کبھی آباد نہیں ہونے دوں گی مجھے سعودیہ جانا ہے، بس۔‘‘

’’اچھا ابھی تم پہلے ٹھیک تو ہو جاؤ میں خود چلوں گی تمہارے ساتھ۔‘‘ مالا نے اسے بہلاتے ہوئے اٹھ کر بیٹھنے میں مدد دی اور ٹشو سے اس کا چہرہ صاف کیا وہ سمجھ سکتی تھی کہ اس وقت وہ کس قدر اذیت اور ذہنی ابتری کا شکار ہے۔

اسے تو پہلے ہی شک تھا کہ وہ شخص حریم کے ساتھ مخلص نہیں ہے وہ تو ایک فیک ورلڈ تھی جھوٹی دنیا، جہاں لوگ ایک چہرے پر دس چہرے سجائے پھرتے ہیں اور اصل حقیقت کسی کو نظر نہیں آتی۔

’’حریم یہ سب کیوں کیا تم نے۔‘‘ زیب ابھی ابھی ایگزمینیشن ہال سے واپس آئی تھی اور اسے ہوش میں دیکھ کر متفکر سی اس کے سامنے کھڑی تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی حریم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

’’تم نے واپس جانے سے منع کر دیا تھا میں نے تمہارا ساتھ دیا مما کو کنوینس کیا پھر یہ سب کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔‘‘ اب وہ اس کے پاس بیٹھ چکی تھی مگر وہ ہنوز لب باہم پیوست کیے بیٹھی رہی تھی زیب نے اس کی مسلسل خاموشی سے تنگ آ کر مالا کو دیکھا۔

’’مالا تمہیں تو معلوم ہو گا۔‘‘

’’کچھ خاص نہیں بس اس کے گھر والوں نے کزن میرج سے انکار پر اس کا بائیکاٹ کر دیا ہے جس پر یہ بہت ڈیپریس ہو گئی تھی۔‘‘ اس نے بروقت ایک مثبت جواز تراش کر صورتحال کنٹرول کی تھی۔

’’اوہو حریم تم نے جسٹ اپنا حق استعمال کیا ہے اب زیادہ گلٹ فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ابھی وقتی غصہ ہے بے فکر رہو چند دنوں میں مان جائیں گے مالا تم اسے جوس وغیرہ پلاؤ میں ڈیوز کلیئر کر کے آتی ہو۔‘‘ اسے تسلی سے نوازنے کے بعد مالا کو ہدایت کرتی وہ دروازے سے واپس پلٹی تھی۔

’’خود کشی کا کیس تھا کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی۔‘‘

’’ڈاکٹر ولیم میرے جاننے والے تھے انہوں نے ہینڈل کر لیا تھا۔‘‘ انرجی ڈرنک کاٹن کھولتے ہوئے وضاحت آمیز بیان کے بعد وہ حریم کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔

٭٭٭

’’چلو یہ سوپ پیو جلدی سے اور دماغ پر اب بالکل بوجھ نہیں ڈالنا خوش رہا کرو یار، ڈپریشن کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے الٹا تم اپنی صحت خراب کر لو گی رنگت دیکھو ذرا، ایک ہی دن میں کس قدر زرد ہو چکی ہے۔‘‘ زیب اس کا آج کل بہت خیال رکھ رہی تھی مالا بھی فری ٹائم میں اسے کمپنی دینے آ جاتی تھی مگر اس کے وجود میں جیسے آگ دہک رہی تھی دل کی جگہ آتش فشاں بھڑک رہا تھا کیا وہ اتنی ارزاں تھی کہ اسے دل بہلانے کی خاطر استعمال کیا جاتا اپنی توہین کسی بھی صورت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔

اعتبار اور مان تو ٹوٹا ہی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارے خواب بھی راکھ کا ڈھیر ہو گئے تھے۔

’’ایان کو بھی اتنا ہی درد ہوا ہو گا۔‘‘ آج اپنے دل پر چوٹ لگی تھی تو اس کے ساتھ کی گئی بیوفائی کا احساس بھی جاگ اٹھا تھا۔

’’تمہیں میرے دل پر لگے ایک ایک زخم کا حساب دینا ہو گا میں تمہاری زندگی کو جہنم بنا دوں گی۔‘‘ غم و غصے کا احساس اس قدر حاوی تھا کہ اس کا بس چلتا تو وہ ساری دنیا کو تہس نہس کر دیتی، اوور کوٹ کی پاکٹ میں رکھے سیل فون کے ٹکڑے نکال کر اس نے کچرا دان میں پھینک دئیے تھے۔

’’مالا وہ جس اٹالین کمپنی میں جاب کرتا ہے، اس کا مرکزی دفتر برمنگھم میں ہے، ہمیں وہاں سے اس کا مکمل ایڈریس مل سکتا ہے ویسے بھی زیب کے ایگزیم ختم ہو چکے ہیں وہ اپنے ماموں کے پاس چھٹیاں گزارنے کا پلان بنا رہی ہے میں بھی اس کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘ اسٹور سے واپسی پر واک کرتے ہوئے اس نے مالا کو اپنے لائحہ عمل سے آگاہ کیا تو وہ رک کر ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

’’حریم میری جان کیوں خود کو تھکا رہی ہو جو ہوا فارگیٹ اٹ۔‘‘

’’بہت مشکل ہے مالا۔‘‘ پلکوں پر امڈ آنے والی نمی کو اس نے بمشکل آنسوؤں میں ڈھلنے سے روکا اور تیزی سے فرسٹ فلور کی سیڑھیاں چڑھ گئی، لیکن اپارٹمنٹ میں قدم رکھتے ہی اس کی نظروں میں جیسے زمان و مکان گھوم کر رہ گئے تھے۔

کھٹکے پر دونوں نے سر اٹھا کر مرکزی دروازے کی سمت دیکھا تو زیب کے لبوں پر استقبالیہ مسکراہٹ امڈ آئی تھی جبکہ شہروز اسے کسی حسین یونانی مورتی کی مانند دروازے میں ایستادہ دیکھ کر بے ساختہ اٹھ کھڑا ہوا تھا، وہ جس چہرے کی تلاش میں لاہور کی خاک تک چھان آیا تھا وہ یہاں تھی اس کی کزن کے اپارٹمنٹ میں، عجیب اتفاق تھا لیکن انتہائی خوشگوار بھی، ابھی چند روز قبل ہی اس نے اپنا تبادلہ برمنگھم سٹی میں کروایا تھا لیکن آفس جوائن کرنے سے قبل وہ ایک بار اس چہرے کو تلاش کرنا چاہتا تھا جس کے بغیر اب خوابوں کے رنگ پھیکے تھے۔

اس کی ذات ادھوری تھی اور دل خالی تھا، یہ ساری چھٹیاں اس نے لاہور پھپھو کے گھر کم اور جناح پارک میں زیادہ گزاری تھیں اور اب جبکہ وہ بالکل مایوس ہو کر لوٹ آیا تھا، تو تقدیر اسے اچانک سامنے لے آئی تھی، اسے جانے کیوں یقین سا تھا کہ وہ ملے گی ضرور اور اب اسے سامنے دیکھ کر اسے احساس ہوا تھا کہ اس کی لگن اس کا یقین سچا ہی تھا۔

’’کیا اللہ مجھ پر ابھی بھی اتنا مہربان ہے اس نے مجھے ایک بار پھر خوار ہونے سے بچا لیا ہے ورنہ اس شخص کی تلاش میں جانے کہاں کہاں بھٹکنا پڑتا۔‘‘ زیب کل سے ہی بے حد پر جوش تھی اپنے کزن کی بھرپور مردانہ وجاہت پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے تھے اس کے لئے خاصی ڈشز تیار کروائی گئی تھیں ان سب کے برعکس وہ اپنی ذاتی تیاری پر بھی بہت کانشس ہو رہی تھی۔

’’ماموں کا ارادہ میری اور شہروز کی انگیج منٹ کا ہے رات فون کر کے مما نے میری مرضی دریافت کی تھی اف حریم میں کیا بتاؤں کہ میں کتنی خوش ہوں وہ اتنا ڈیشنگ اور چارمنگ ہے کہ بس بندہ دیکھتا ہی رہ جائے۔‘‘ رات اس نے کس قدر پر جوش اور والہانہ انداز میں اسے سب بتایا تھا اور وہ واقعی دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔

’’حریم وہاں کیوں کھڑی ہو آؤ نا ان سے ملو یہ میرے کزن ہے شہزور، اور یہ میری دوست حریم ہے۔‘‘ زیب نے اسے بازو سے تھام کر تعارف کروایا تھا۔

’’نائس ٹو میٹ یو۔‘‘ وہ مبہم سا مسکرایا، جبکہ حریم ساکت کھڑی اس کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق ڈھونڈ رہی تھی، مگر وہاں تو کسی اور ہی جذبوں کا رنگ تھا، وہ رنگ جو کچھ روز قبل وہ اس کی آنکھوں سے نوچ کر پھینک چکا تھا اسے جانے کیوں لگا کہ وہ اس کے چہرے سے واقف تھا اور نام سے انجان جبکہ حقیقت تو اس کے برعکس تھی۔

’’حریم تم جلدی سے پیکنگ کر لو شہروز ہمارے ساتھ ہی جائے گا۔‘‘ کافی کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے زیب نے دونوں مگ اٹھائے اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔

’’حریم، نائس نیم۔‘‘ وہ توصیفی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے یوں بولا جیسے یہ نام پہلی بار سنا ہو وہ اک سرسری نگاہ اس پر ڈال کر اپنے بیڈ روم میں چلی آئی تھی جبکہ دل اس قدر زور سے دھڑک رہا تھا جیسے پسلیاں توڑ کر باہر نکل آئے گا دھڑکنوں کی بے اختیاری سے گھبرا کر اس نے جلدی سے پیکنگ شروع کر دی تھی زیب کے دو سوٹ کیس تیار پڑھے تھے جس کا مطلب تھا وہ اپنی پیکنگ کر چکی ہے اپنا مختصر سا سامان سمیٹ کر جب وہ باہر آئی تو زیب ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگائے منتظر بیٹھی تھی۔

’’آ جاؤ بھئی تمہارے انتظار میں ہم نے بھی کھانا شروع نہیں کیا۔‘‘ اس قدر پذیرائی۔

مانا کہ وہ بہت خوش اخلاق، ملنسار اور پر خلوص لڑکی تھی مگر حریم نہیں چاہتی تھی کہ وہ اب اس کا اس قدر خیال کرے۔

’’کیا میں اتنی خود غرض اور بے حس ہو چکی ہوں۔‘‘ پلیٹ میں خالی چمچ چلاتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا خوشی دھنک رنگوں میں ڈھل کر اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھی، آنکھوں میں شوخی، لبوں پر شرمگیں سا تبسم، وہ کتنے اصرار سے اس کی پلیٹ میں ہر دو منٹ کے بعد کچھ نہ کچھ ڈالے جا رہی تھی، مگر وہ… زیب کی بجائے اس کی سمت متوجہ تھا۔

پر شوق نگاہوں میں ان کہے جذبوں کی آنچ تھی حریم کا دل سلگنے لگا وہ اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی اسے دیکھ کر پہلی نظر کی محبت کا شکار ہو سکتا تھا مگر اس کے انداز بتاتے تھے جیسے وہ برسوں سے اس کے حسن کا اسیر ہو۔

لاتعلقی کا مظاہر کرتے ہوئے اس نے اپنی تمام تر توجہ کھانے کی جانب مبذول کر دی تھی وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی ایک بار کا تجربہ کافی تھا۔

’’میں اسے جتنا اگنور کروں میرے فیور میں اتنا ہی اچھا ہے بڑا غرور ہے نا اسے اپنی شاندار مردانہ وجاہت پر، بھلا نظر انداز ہونا کہاں گوارہ کرے گا۔‘‘

’’کھانا تو بہت ٹیسٹی ہے تم اتنی اچھی کک نہیں ہو سکتی۔‘‘ مشرومز والا پاستا بریانی اور مٹن کباب کے بعد اب شاہی ٹکڑوں سے مکمل انصاف کرتے ہوئے اس نے زیب کو دیکھا تو وہ حریم کی سمت اشارہ کرتے ہوئے بولی۔

’’یہ سب ان محترمہ کا کمال ہے۔‘‘

’’زیب میں مالا سے مل کر آتی ہوں۔‘‘ نیپکن سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد وہ کرسی گھسیٹ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی زیب اس کی سنجیدگی کو سابقہ حالات کا تقاضا سمجھ کر خاموشی رہی جبکہ شہروز کو اس کا یہ بے نیازی بھرا انداز اچھا لگا تھا وہ پریوں سی آن بان والی لڑکی ایسا ہی شاہانہ مزاج ڈیزرو کرتی تھی۔

٭٭٭

مالا سے مل کر وہ واپس آئی تو زیب اپارٹمنٹ لاک کر رہی تھی شہروز پارکنگ سے گاڑی نکال چکا تھا اس نے آگے جھک کر اپنا بیگ اٹھایا اور دونوں باتیں کرتے ہوئے لفٹ میں داخل ہو گئیں۔

’’تمہیں شہروز کیسا لگا۔‘‘ زیب کو جاننے کی بے تابی تھی۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی تو زیب کا صدمے سے برا حال ہو گیا۔

’’ہاں بس ٹھیک۔‘‘ سن گلاسز آنکھوں پر ٹکاتے ہوئے لفٹ سے نکل آئی تو وہ زیب اس کی پشت کو گھورتے ہوئے بڑبڑائی۔

’’اب اتنی بھی کیا خود پسندی۔‘‘

’’تم کیا جانو مجھے کس قدر نفرت ہے اس شخص سے۔‘‘ اپنے اندر اٹھتے ابال کو بمشکل ضبط کرتے ہوئے وہ گاڑی تک آئی تو زیب کو فرنٹ ڈور کھولتے دیکھ کر اسے کچھ یاد آ گیا تھا۔

’’جب میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا آئی وش تم میرے ساتھ فرنٹ پر بیٹھو۔‘‘ اس کی سماعتیں سلگنے لگیں بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ہنستے ہوئے شخص کا منہ نوچ لے اس کا حلیہ بگاڑ دے وہ حشر کرے کہ لوگ اس کے خوبصورت چہرے سے نفرت کرنے لگیں، مگر افسوس اسے بھیانک انجام سے دوچار کرنے کے لئے ابھی ضبط کے کڑے مراحل باقی تھے۔

’’ایان بھی میرے متعلق یہی سوچتا ہو گا۔‘‘ اگلا خیال اسے اندر تک جھنجھوڑ گیا تھا۔

’’مجھے اس شخص کے ساتھ ساتھ خود سے بھی نفرت کرنی چاہیے میں بھی تو خود غرض، بے وفا اور مطلب پرست نکلی ہوں یہ اذیت جو میرے حصے میں آئی ہے وہ بھی تو سہہ رہا ہو گا۔‘‘

’’حریم کچھ کھاؤ گی۔‘‘ شہروز سے باتیں کرتے ہوئے اسے اچانک گھنٹہ بھر سے خاموش بیٹھی حریم کا خیال آیا تو شہروز نے بھی بیک مرر اس پر ٹکا دیا تھا وہ اچھی خاصی جز بز ہوئی۔

’’نہیں۔‘‘ لیکن انکار کے باوجود شہروز نے راستے سے انہیں برگر، کولڈ ڈرنک اور چپس وغیرہ لے کر دی تھیں اس کے علاوہ وہ ایک جیولری شاپ پر بھی رکا تھا زیب نے اس سے پوچھا بھی کہ کیا لائے ہو مگر وہ خوبصورتی سے ٹال گیا تھا۔

’’تم بور تو نہیں ہو رہی۔‘‘ وہ سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھے اب مکمل طور پر اس کی سمت متوجہ تھی اس نے نفی میں سر ہلا دیا اس وقت اس کا کوئی بھی بات کرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔

’’اور میں تمہیں بور ہونے بھی نہیں دوں گی دیکھنا یہ دن تمہاری زندگی کے سب سے یادگار دن ہوں گے تم بہت انجوائے کرو گی۔‘‘ وہ یادگار پر زور دیتے ہوئے پورے وثوق سے بولی تھی۔

’’دن تو یہ تمہارے یادگار ہوں گے مجھ سے اتنی محبت نہ کرو کہ میرے لئے تمہاری نفرت بہت مشکل ہو جائے۔‘‘ سیٹ کی پشت پر سر ٹکاتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔

’’یہ کیا میں پژمردہ سی بیٹھی ہوں ایسا سوگوار روتا بسورتا چہرہ اسے بھلا کیا خاک اچھا لگے گا لیکن نہیں اسرار میں تو کھوج ہوتی ہے اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کے رنگ نہیں کسی جنون کا عکس جھلملاتا ہے مجھے اس مقام پر مات نہیں ہو گی۔‘‘ گھر آنے تک وہ اپنا مائینڈ اچھا خاصا میک اوور کر چکی تھی۔

شہروز راستہ بھر بیک ویو مرر میں سے اسے دیکھتے ہوئے آیا تھا پورے سفر میں وہ محض دو بار بولی تھی جبکہ اس کا بار بار دل چاہا تھا کہ وہ اسے مخاطب کرے مگر اس کے سنجیدہ رویے اور سپاٹ انداز نے کسی بھی قسم کی پیش قدمی سے باز رکھا تھا۔

وہ اپنی تصویر سے بھی زیادہ دلکش اور حسین تھی سوگواریت میں ڈھلا اس کا نوخیز پیکر، کتابی چہرہ، گوری رنگت، ہیزل گرین آنکھیں، سیاہ سلکی بال اور شنگرفی لبوں کے کونے میں چمکتا ہوا سیاہ تل، پر وقار چال کے ساتھ جب وہ اس کے پاس سے گزری تو ایسا لگا جیسے برمنگھم کا موسم مہک اٹھا ہو، وہ اس کے گھر میں تھی یہ خیال ہی کس قدر مسرت آمیز تھا۔

٭٭٭

آرٹسٹک طرز پر بنا یہ گھر قدیم دور کی حسین یادگار تھا مگر اس کے اندر کئی جدید تبدیلیاں بھی دکھائی دے رہی تھی انٹریئر ڈیکوریشن انتہائی شاندار تھا لاؤنج کے انٹرس پر مغلیہ نیچرز کی حامل بڑی خوبصورت سی مورتیاں کھڑی تھیں، اندر کا نقشہ کسی ٹی وی ڈرامے کے سیٹ سے کم نہیں تھا، باہر پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھیں۔

’’کیا سب پانے کے بعد مجھے پھر سے سب کھونا ہو گا۔‘‘ اس خیال پر وہ تھوڑا کمزور پڑی تھی لیکن دماغ نے اس کی ایک نہیں سنی۔

’’میں نے ساری خواہشیں دل کے اندر کہیں دفن کر دی ہیں اب اسے بھی روز اس قبر پر اپنی ناکام حسرتوں کا دیپ جلانا ہو گا۔‘‘

’’آپ آئیے میں آپ کو گیسٹ روم تک چھوڑ آؤں۔‘‘ شہروز اس کے عقب سے بولا تھا زیب تو راہداری سے گزرتے ہوئے جانے کس موڑ پر غائب ہو چکی تھی اس نے مدھم سا مسکراتے ہوئے اس کی معیت میں قدم بڑھا دئیے۔

’’آپ یہاں آرام کریں کسی چیز کی ضرورت ہو تو یہ بیل بجا دیجئے گا پھر ملاقات ہو گی۔‘‘ دروازے پر رک کر اس نے چند فارمل سے جملے ادا کیے اور واپس مڑ گیا نرم گرم بستر میں گھستے ہوئے وہ خوب جی بھر کر سوئی تھی، مغرب کے قریب آنکھ کھلی تو کمرہ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا، اس نے اٹھ کر لائیٹس آن کیں پھر منہ ہاتھ دھو کر اپنا حلیہ درست کرتے ہوئے باہر نکل آئی۔

راہداری سیدھے لاؤنج کی سمت جاتی تھی جہاں اس وقت گھر کے تمام افراد گرین ٹی کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں سے بھی لطف اندوز ہو رہے تھے۔

عارفہ بیگم صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں اور شہروز ان کی گود میں سر رکھے نیچے کارپٹ پر بیٹھا ہوا تھا محبت کے اس پیار بھرے مظاہرے نے اس کے اندر چنگاریاں سی بھر دی تھیں جب سے اس کے دل کا کشکول ان سکوں سے خالی ہوا تھا اس وقت سے اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس شخص سے بھی ہر رشتہ چھین لے۔

’’میں وہ دیمک ہوں شہروز جو تمہارے وجود کو کھوکھلا کر دے گی قسم سے اتنی محبت کروں گی کہ تم میرے سوا ساری دنیا کو بھول جاؤ گے اور پھر میں تمہیں چھوڑ دوں گی وہ کھیل جو تم نے میرے ساتھ کھیلا تھا اب اس کھیل کے سارے مہرے میرے ہاتھ میں ہیں۔‘‘

’’ارے آؤ حریم۔‘‘ زیب اسے آتا دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

’’ماموں آپ تو ان سے مل چکے ہیں ممانی جان یہ میری دوست حریم ہے اور حریم یہ میری سویٹ ممانی ہیں اور یہ مہروز ہیں شہروز سے چھوٹے اور اتنے ہی کھوٹے۔‘‘ ناک سیکٹر تے ہوئے اس نے جس ادا سے کہا تھا اس کا بے ساختہ قہقہہ ابل پڑا البتہ مہروز نے خوب کڑے تیوروں سے اسے گھورا تھا۔

وہ سب کو مشترکہ سلام کرنے کے بعد زیب کے قریب ہی بیٹھ گئی، شہروز نے اپنے سامنے رکھا گرین ٹی کا کپ اس کی سمت بڑھا دیا تو سب کی نظریں اس منظر پر جم گئیں۔

’’میں اور بنا لاتی ہوں۔‘‘ زیب نے اٹھتے ہوئے کہا۔

’’اٹس اوکے میرا ویسے بھی موڈ نہیں تھا۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولا تو حریم نے کافی ہچکچاہٹ کے بعد کپ تھام لیا تھا۔

’’دھیان سے حریم یہ ایک سپ لگا چکا ہے۔‘‘ زیب نے دوبارہ بیٹھتے ہوئے یونہی بے پر کی اڑائی تو مہروز نے فوراً ٹکڑا لگایا۔

’’کوئی بات نہیں جھوٹا پینے سے یوں بھی محبت بڑھتی ہے۔‘‘ فوراً ایک اور قہقہہ پڑا تھا۔

اس کا گھونٹ حلق میں اٹک گیا نظر بے ساختہ اس کی سمت اٹھی تھی وہ بھی زیر لب مسکراتے ہوئے بڑی دلچسپی سے اس کے تاثرات نوٹ کر رہا تھا، میرون اور سی گرین کنٹر اس میں وہ کتنی حسین لگ رہی تھی، حریم کو زیب کے ماموں اور عارفہ بیگم کا چہرہ بھی کچھ شناسا لگ رہا تھا بہت سوچنے پر اسے شوروم کے باہر گاڑی میں بیٹھی وہ خاتون یاد آ گئی تھیں جسے دیکھ کر اس نے کتنی حسرت سے سوچا تھا۔

’’کاش میں بھی اس گاڑی میں اتنے ہی کروفر اور شان سے بیٹھ سکتی۔‘‘ اور اب وہ ان کے گھر میں موجود تھی ان کی گاڑیوں میں گھوم رہی تھی اور بہت جلد اسے اس گھر کی مالکن بھی بن جانا تھا۔

ایک پل کو اس کا دل چاہا وہ انتقام کی ضد چھوڑ کر مزے سے یہاں اپنی تمام خواہشوں اور نا آسودہ تمناؤں کے ساتھ عیش کرے، مگر اپنی زخمی بلبلاتی انا کا کیا کرتی عزت نفس کا سودا تو اسے کسی بھی طور منظور نہیں تھا، ماموں اور عارفہ بیگم کچھ دیر بعد انہیں شب بخیر کہتےجا چکے تھے اور اب ہال کمرے میں ان چاروں کی محفل جمی تھی، زیب برمنگھم گھومنے کی فرمائش کر رہی تھی اور مہروز نے ہاتھ اٹھا کر کہہ دیا تھا۔

’’ڈرائیور میں بن جاؤں گا لیکن لنچ تمہاری طرف سے ہو گا۔‘‘

’’شرم کرو میں مہمان ہوئی تمہاری۔‘‘ اس نے آنکھیں دکھائیں۔

’’ہاں لیکن تمہاری میزبانی پر مجھے کوئی تمغہ نہیں ملنے والا جو میں اپنی جیب کا کباڑا کروں ہاں اگر گرل فرینڈ ہوتی تو اور بات تھی۔‘‘ آنکھیں مٹکاتے ہوئے وہ جس قدر معنی خیزی سے بولا تھا زیب نے کشن اٹھا کر اس کے منہ پر دے مارا۔

’’بہت کمینے ہو۔‘‘

’’ٹاس کر لیتے ہیں۔‘‘ شہروز نے آسان حل نکالا۔

’’نہیں یہ میرے ساتھ بیت بازی کا مقابلہ کرے گا۔‘‘ زیب نے تو اپنی جانب سے خوب گھیرا تھا مگر وہ خباثت سے مسکراتے ہوئے واپس بیٹھ گیا۔

’’چونکہ میں جانتا تھا آپ میری دکھتی رگ پر ہاتھ ضرور رکھیں گی سو اس بار میں خوب تیاری کے ساتھ میدان میں اترا ہوں بشرط کہ پہلا شعر حریم سنائیں تم مجھے ’’ی‘‘ میں اٹکا دیتی ہو۔‘‘ سائیڈ ٹیبل پر رکھے اخبار کا رول بنا کر اس نے انتہائی احترام کے ساتھ مائیک کی صورت حریم کے سامنے کیا تو وہ اس بے تکی فرمائش پر قدرے سٹپٹا کر رہ گئی۔

’’مجھے کوئی شعر نہیں آتا۔‘‘ اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔

’’یہ کیا بات ہوئی کچھ تو آتا ہو گا۔‘‘ زیب ماننے کو تیار نہیں تھی مہروز کا اصرار بھی بڑھ گیا تھا البتہ وہ خاموش بیٹھا گہری پر شوق نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

امید نہ رکھنا کسی سے سچے پیار کی ساقی

بڑے پیار سے دھوکہ دیتے ہیں شدت سے چاہنے والے

’’دیکھ لو ’’ی‘‘ آ گئی۔‘‘ زیب نے تالیاں بجاتے ہوئے مہروز کو چڑایا اور پھر اس سے مخاطب ہوئی۔

’’تم نے تو ابھی تک کھانا نہیں کھایا اصل میں تمہیں دو بار بلانے گئی تھی لیکن تم سو رہی تھی شہروز تم اسے کچن دکھا دو میں ذرا اس سے نمٹ لوں۔‘‘ شہروز جو اس شعر کے سیاق و سباق میں الجھا ہوا تھا چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’آئیے۔‘‘ اسے بھوک تو نہیں تھی پھر بھی کسی خیال کے تخت اس کے ساتھ چلی آئی تھی شہروز نے خود مائیکروویو میں اس کے لئے کھانا گرم کیا تھا۔

وہ کچن میں رکھی چار کرسیوں والی میز پر بیٹھی اسے کام کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

’’بس اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ چکن پاستا، بریانی اور بادام کا حلوہ گرم کرنے کے بعد اب وہ شامی کباب والی ڈش اٹھا رہا تھا جب اس نے ٹوک دیا مگر اس نے ان سنی کرتے ہوئے سلیقے سے تمام تر ڈشز ٹیبل پر منتقل کی تھیں۔

’’میڈم اور کچھ۔‘‘ وہ اب اچھے ویٹر کی مانند استفسار کر رہا تھا حریم بڑی مشکل سے مسکراتے ہوئے شان بے نیازی سے بولی۔

’’اور آپ۔‘‘

’’جی۔‘‘ اس نے سوالیہ نظریں اٹھائیں۔

’’آپ میرا ساتھ نہیں دیں گے۔‘‘ عارضوں پر جھکی ریشمی پلکوں کی جھالر اٹھی تو یوں لگا جیسے پانی میں چراغ جل اٹھا ہو ہیزل گرین آنکھوں کا کانچ ہیرے کی مانند دمک رہا تھا۔

’’آپ کا ساتھ تو میرے لئے باعث اعزاز ہے۔‘‘ذ و معنی لہجے میں کہتے ہوئے وہ اس کے مقابل بیٹھ گیا تھا وہ اس کے یوں دیکھنے پر کچھ سمٹ گئی تھی۔

’’مرد ہار بھی جائے تو نقصان عورت کا ہوتا ہے۔‘‘ کوئی اس کی سماعتوں میں بولا تھا کون… شاید اس کا وجدان۔

٭٭٭

کھانے کے دوران دونوں میں اچھی خاصی انڈر سٹیڈنگ ہو چکی تھی دونوں ایک دوسرے کی غیر نصابی سرگرمیوں، شوق اور دلچسپیوں پر کافی دیر باتیں کرتے رہے۔

اس نے بتایا تھا کہ اسے گارڈننگ کار ریس اور بکس پڑھنے کا شوق ہے اس کی ڈیٹ آف برتھ سترہ مارچ تھی اسے ایکشن اور ہارر موویز اچھی لگتی تھی اس کا فیورٹ رنگ وائیٹ تھا کھانے میں اسے اٹالین پیزا اور مشروم والا پاستا پسند تھا خوشبو وہ D&G یوز کرتا تھا اسے آرٹ اور ہسٹری میں بہت انٹرسٹ تھا اور ان ساری باتوں میں کوئی ایک بات بھی اس کی سابقہ گفتگو سے میچ نہیں کرتی تھی۔

لیکن خواتین پر آ کر اس نے صاف معذرت کر لی تھی۔

’’اس سلسلے میں میرے پاس کوئی طویل فہرست نہیں بس اک چہرے نے دل پر کلک کیا تھا اور آج جبکہ وہ سراپا مجسم میرے سامنے براجمان ہیں تو ان کی ہر بات اچھی لگ رہی ہے۔‘‘ حریم نے چونک کر الجھن آمیز نظروں سے اسے دیکھا۔

’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ دھماکہ اس قدر اچانک ہوا تھا کہ وہ بے یقین ہو کر رہ گئی تھی۔

’’آئیے میرے ساتھ سب سمجھ جائیں گی۔‘‘ وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا حریم چند لمحے یونہی خالی الذہن کی کیفیت میں دیکھتی رہی۔

’’آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘ وہ اس کا تذبذب بھانپ کر مسکرایا اور اس کے دل کو جیسے کوئی نشتر چھو کر گزرا تھا، یہ شخص اعتبار کی بات کر رہا تھا جس کے اعتبار کو محبت کا سائبان سمجھ کر اس نے ہر رشتے کو چھوڑ دیا تھا اور وہ ابر کی مانند ذرا ایک پل کو اس کے سر پہ ٹھہرا تھا پھر ہوا کا رخ بدلتے ہی کسی اور نگر کو نکل گیا۔

’’میں کس جلتے صحرا میں تنہا کھڑی ہوں تم نے پلٹ کر نہیں دیکھا کہ وہاں کتنی دھوپ تھی کتنی وحشت تھی کیسا کرب تھا کتنی اذیت تھی، تمہیں بھی اس مقام پر لے جا کر تنہا چھوڑوں گی۔‘‘ اس کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئی تو وہ اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولے اسے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔

وہ غائب دماغی کی کیفیت میں اندر داخل ہوئی تو شہروز نے اس کا ہاتھ تھام کر عقب میں دروازہ بند کر دیا۔

٭٭٭

آخری پرچہ دینے کے بعد اگیزیمینشن ہال سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کھلے آسمان پر نگاہ دوڑائی بادلوں کی ٹولیاں جوق در جوق البیلی ہواؤں کے سنگ جھومتی پانی میں گھلے رنگ کی مانند افق کی نیلی چادر پر پھیلتی جا رہی تھیں خوشگوار ہوا کے جھونکے کیاریوں میں لگے بیلے اور گلاب کے پھولوں سے اٹکھیلیاں کرتے خوب شوخیوں پر آمادہ تھے۔

کالج لان میں لڑکیاں کولڈ ڈرنک کے ٹن اور سموسوں کی پلیٹوں کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے اس حسین خوشگوار موسم کا بھرپور لطف لے رہی تھیں اس نے بے دلی کے ساتھ قدم مرکزی گیٹ کی سمت بڑھا دئیے تھے۔

وہ یہ ساری عیاشیاں افورڈ نہیں کر سکتی تھی اس کے بیگ میں محض اتنے پیسے تھے کہ دو بسوں کا کرایہ ادا کر سکتی تھی۔

باہر کالج کے پارکنگ لاٹ میں بے شمار گاڑیاں، موٹر سائیکل اور رکشہ وغیرہ کی لائینیں لگی ہوئی تھیں۔

اسے لگا بس وہ ایک واحد ہے جسے پیدل مارچ کرتے ہوئے اسٹاپ تک جانا تھا شو روم کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ گلاس وال کے اس پار رک کر لائن میں لگی لموزین، پراڈو اور لینڈ کروزر کے نئے ماڈلز کو بڑی حسرت زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی جب سرخ رنگ کی چمچماتی کرولا اس کے قدموں کے قریب چڑچڑائی۔

ایک گریس فل سا درمیانی عمر کا آدمی فرنٹ ڈور کھول کر باہر نکلتے ہوئے شوروم میں داخل ہو چکا تھا اس نے ذرا سا جھک کر گاڑی میں جھانکا۔

ایک خوبصورت اسٹائلش سی خاتون گرد و پیش کا جائزہ لینے میں مگن تھیں، حریم کی آنکھوں میں اس کے لئے بے پناہ رشک امڈ آیا تھا۔

یہ شان یہ تفاخر ادائے بے نیازی اس گاڑی کا ہی تو شاخسانہ تھی، اسے گاڑیاں بہت پسند تھیں اور اس کے نزدیک ہر وہ انسان قابل رشک تھا جس کے پاس گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھیں، ایان ہنستے ہوئے اسے چھیڑا کرتا تھا۔

’’پھر ایسا کرتا ہوں کہ میں ورکشاپ کھول لیتا ہوں اس بہانے روز تمہیں نئی نئی گاڑیوں میں گھمایا کروں گا۔‘‘ جس پر وہ منہ پھلا کر اسے باور کرواتی تھی۔

’’مکینک اور مالک میں فرق ہوتا ہے۔‘‘ آسمان سے ایک بوند گری تھی اس نے پھر نگاہ اوپر اٹھائی اور بارش کا امکان قریب ترین دیکھ کر اس کا دل کوفت سے بھر گیا تھا وہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہرگز نہیں تھی جن کے لئے ابر رحمت بن کر برستا تھا۔

ناظم صاحب کی مہربانیوں کی بدولت ان کی گلی ایک بار پھر پختہ کروائی گئی تھی اور نتیجے کے طور پر ان کا صحن جو پہلے بمشکل گلی کے برابر آتا تھا اب دو فٹ گہرا ہو چکا تھا دو بوندیں برسنے کی دیر تھی اور یوں لگتا تھا جیسے کسی نے راوی کا رخ ان کے گھر کی سمت موڑ دیا ہو، اس پر سے ٹپکتی چھت اور پیندے میں پانی گرنے کی منحوس ٹک ٹک اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی مانند برستی تھی۔

’’یا اللہ آج تو بارش نہ آئے۔‘‘ جھنجھلا کر اس نے بے ساختہ دعا مانگی آج تو وہ خوب جی بھر کر سونا چاہتی تھی، بی اے کے پرچوں نے تھکا ڈالا تھا، بس سے اترنے کے بعد ابھی مزید واک باقی تھی جب ایان کی بائیک اچانک ہی اس کے قریب آن رکی تھی۔

’’اب آئے ہو۔‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی، دو بسوں کی خجل خواری نے اس کا خوب میٹر گھمایا ہوا تھا۔

’’اچھا تو تم نے کون سا میرے ساتھ ڈیٹ فکس کی ہوئی تھی جو میں محترمہ کی راہ میں دیدہ دل فرش راہ کیے بیٹھا ہوتا۔‘‘ وہ اس کے بگڑے بگڑے زاویوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے ہنسا، جس پر وہ مزید جل گئی۔

’’میری جگہ اگر ماہا ہوتی تو تم اسے کالج سے ڈراپ کرنے جاتے۔‘‘ اس نے سڑک پر ہی محاذ کھول لیا تھا۔

’’تم نے بتایا ہی نہیں کہ تمہارا پیپر تھا۔‘‘

’’اگر میں بتاتی تو تم آ جاتے جیسے۔‘‘ وہ منہ پھلا کر سوار ہو چکی تھی۔

’’کیوں نہ آتا۔‘‘ ایان نے گردن موڑ کر الٹا سوال پوچھا۔

’’تمہارا آف ٹائم چھ بجے کا تھا۔‘‘

’’ہاں اگر تم بتاتی تو میں پانچ بجے لیو لے کر آ جاتا۔‘‘

’’یہ تم اب کہہ رہے ہو۔‘‘ وہ ہنوز خفا تھی۔

’’حریم۔‘‘ ایان نے بائیک روک دی۔

’’میں تو مذاق کر رہی تھی۔‘‘ وہ اس کی اتری شکل دیکھ کر کھلکھلائی۔

’’اتنی سنجیدگی سے مذاق نہ کیا کرو کہیں اس مذاق کے چکر میں بندہ گزر جائے۔‘‘

’’تم تو جانتے ہو کہ…‘‘

’’بریانی کھانے کا بھی اتنا مزہ نہیں آتا جتنا مجھے تنگ کرنے میں آتا ہے حالانکہ بریانی تمہیں بے حد مرغوب ہے۔‘‘ ایان نے جملہ مکمل کیا اور دونوں بے ساختہ ہنسنے لگے۔

’’اچھا سنجیدہ شکل بنا لو آگے ابا کی دوکان ہے۔‘‘

’’میں ڈرتا نہیں ہوں۔‘‘ اب چھیڑنے کی باری اس کی تھی۔

’’بات ڈر کی نہیں لحاظ کی ہے۔‘‘ حریم نے اس کے بال کھینچے۔

’’اف کس قدر ظالم لڑکی ہو سارے ہیر اسٹائل کا کباڑا کر دیا۔‘‘

’’یہ اتنے جما جما کر بال نہ بنایا کرو۔‘‘ اس نے دانت پیسے۔

’’کیوں زیادہ ہینڈسم لگتا ہوں۔‘‘ وہ شوخ ہوا۔

’’چغد لگتے ہو۔‘‘ حریم نے غبارے سے ہوا نکال دی تھی۔

’’چغد نہیں مہذب لگتا ہوں اور دفتر کی لڑکیاں جی جان سے مجھ پر فریفتہ ہوتی ہیں۔‘‘

’’نیت بھی معلوم کر لینی تھی آدھی سے زیادہ تمہاری بہنیں نکلیں گی۔‘‘

’’اور باقی کی دو چار عدد۔‘‘ اس کا استفسار معنی خیز تھا۔

’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ وہ اتر کر سبز گیٹ عبور کر گئی تھی۔

٭٭٭

کچن میں آ کر ہاٹ پاٹ میں جھانکا تو ایک روٹی مل گئی تھی مگر کل رات بننے والی ماش کی دال کا باؤل خالی تھا بھوک سے برا حال تھا جس پر اچھا خاصا خوشگوار موڈ یک لخت ہی ناگوار ہوا تھا۔

’’اماں !‘‘ وہ وہاں سے چلائی۔

’’کیا آفت آن پڑی ہے۔‘‘ بھنڈیاں کاٹتی اماں نے برآمدے سے جواب دیا۔

’’صبح سے بھوکی ہوں کسی نے اتنا خیال نہ کیا کہ تھوڑا سالن ہی رکھ دے بس سب کو اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کی فکر ہوتی ہے۔‘‘ کچن کے دروازے میں آ کر وہ شر ربار نظروں سے حرمت کو گھورتے ہوئے غرائی تھی۔

’’ہاں دیگ بنا کر رکھی تھی نا تم نے جو تیسرے پہر تک چلتی۔‘‘ حرمت سے یہ الزام ہضم نہیں ہوا تھا وہ تو خود اچار سے کام چلا کر بیٹھی تھی اور خاصی تپی ہوئی بھی تھی۔

’’اتنے نصیب کہاں کہ دیگیں پکائیں۔‘‘ وہ با آواز بڑبڑائی جو اماں کو خاصا ناگوار گزرا تھا۔

’’ارے خدا کا شکر ادا کرو کہ دو وقت کی عزت سے دے رہا ہے۔‘‘

’’اونہوں عزت۔‘‘ وہ نحوست سے سر جھٹکتے ہوئے دوبارہ کچن میں غروب ہو گئی۔

’’غربت میں بھی بھلا کوئی عزت ہے۔‘‘ تمام برتن کھنگالنے کے بعد ایک انڈا دستیاب ہو چکا تھا وہ پیاز کاٹ کر واپس پلٹی تو انڈا غائب تھا۔

’’مرغیوں کو روز میں روٹی بھگو کر ڈالتا ہوں اس کا پنجرہ بھی میں صاف کرتا ہوں اور یہ انڈا تو میں نے تین دن سے چھپا کر رکھا تھا۔‘‘ ہمایوں نے دروازے کی اوٹ سے اطلاع دی اور جھپاک سے غائب۔

اس نے ریک میں رکھے سارے برتن ہاتھ مار کر گرائے اور سرتاپا چادر تان کر لیٹ گئی تھی، غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

’’صبر کر لو ذرا دیر ابھی بھنڈیاں چڑھانے لگی ہوں۔‘‘ اماں نے اطلاع دی لیکن انڈے سے زیادہ غصہ تو اسے بھنڈیوں کا تھال دیکھ کر آیا تھا جو سامنے والوں نے اپنے صحن کے ایک جانب لگائی ہوئی تھیں اور اماں کو ہر دوسرے دن مفت میں مل جاتی تھیں۔

’’حریم۔‘‘ حرمت نے دوبارہ آواز لگائی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔

’’اچھا تو اٹھ جاؤ نا دیکھو ماہا تمہارے لئے کیا لائی ہے۔‘‘ حرمت کی آواز پہ اسے چادر کا کون ہٹانا ہی پڑا تھا بھاپ اڑاتی بریانی کی پلیٹ سامنے تھی۔

’’ان لوگوں کو بھی آج کل شو آف کرنے کا بخار چڑھا ہوا ہے کچھ بھی اچھا بنا لیں اس کی خوشبو سے ہمارے معدوں پر ضرور ستم ڈھانا ہوتا ہے۔‘‘

’’حریم بہن ہے وہ ہماری اور تم سے تو اتنا پیار کرتی ہے۔‘‘ حرمت کو خاصا برا لگا تھا، سو فوراً ماہا کی حمایت کر ڈالی جس پر وہ مزید چڑ گئی تھی۔

’’تمہیں نہیں پتہ سب ڈرامے ہیں اس کے۔‘‘

’’لگتا ہے پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے تم بریانی کھاؤ غصہ بعد میں کر لینا۔‘‘

’’دیکھا نہیں تم نے اس بار اس نے لان کے پورے پانچ سوٹ لئے ہیں جب دیکھو نیا جوڑا پہن کر چیزوں کے بہانے آ جاتی ہے شوخیاں بگھارنے، اس سے تو اچھا تھا تائی اماں مجھے گو دلے لیتی۔‘‘ تو یہ تھا اصل غصہ، حریم کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’ارے تمہیں انہوں نے بہو بنانے کے لئے رکھ چھوڑا تھا ماہا سے کیوں جیلس ہو رہی ہو وہ تو وہاں چند دنوں کی مہمان ہے پھر سسرال چلی جائے گی اصل گھر تو وہ تمہارا ہے۔‘‘

اس کے ابا احمد علی رنگ ساز تھے کبھی کام مل جاتا تھا اور کبھی کئی کئی دن یونہی بیروزگاری میں گزر جاتے تھے جبکہ اس کے تایا ابا حسن علی واپڈا کے محکمے میں سرکاری ملازم تھے ان کا ایک ہی بیٹا ایان تھا ایان کی پیدائش کے دوران کچھ ایسی پیچیدگیاں ہو گئی تھیں کہ تائی اماں دوبارہ کبھی ماں نہیں بن سکتی تھیں جبکہ احمد علی کے گھر حرمت کے دو سال بعد حریم اور ماہا پیدا ہوئیں تو تائی اماں نے ماہا کو گود لے لیا تھا، ہمایوں ان دونوں کے سات برس بعد پیدا ہوا تھا۔

ماہا نے ان بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ خوشحال حالات میں پرورش پائی تھی اور اب تو ایان کو بھی بینک میں اچھی پوسٹ پر جاب مل گئی تھی جبکہ ان کے حالات جوں کےتوں برقرار تھے جن میں حریم کے سوا کسی کو خاص شکایت بھی نہیں تھی لیکن وہ بچپن سے ہی اپنی ہر چیز کا موازنہ ماہا سے کرتی آ رہی تھی سو فطری طور پر اس سے حسد محسوس کرتی تھی۔

’’یہ ہمایوں سے کہو بیگ لے کر اندر آئے۔‘‘ باہر نکلی حرمت سے کہہ کر وہ اب بریانی کی بھاپ اڑاتی پلیٹ کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔

٭٭٭

’’ماموں کب سے آپ کا ویٹ کر رہی ہوں کہاں رہ گئے تھے۔‘‘ لاؤنج کی آخری سیڑھی پر کھڑی زیب منتظر سی سیڑھیاں اترتے ہوئے خفگی سے بولی مگر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈرائیو وے پر لے آئے، راستے میں ایک دو بار اس نے استفہامیہ نگاہوں سے ممانی کو دیکھا تھا مگر انہوں نے مکمل لا تعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاعلمی سے شانے اچکا دئیے تھے اور اب سامنے وائیٹ ہنڈا سوک کھڑی تھی۔

’’یہ رہا تمہارا برتھ ڈے گفٹ۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کی رنگ اسے تھمائی تو وہ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر ان کے سینے سے آن لگی تھی۔

’’تھینک یو سو مچ۔‘‘

’’بھائی جان اتنے مہنگے گفٹ کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ مما نے دیکھتے ہی اعتراض کیا تھا۔

’’ایک ہی لاڈلی سی بھانجی ہے میری۔‘‘ انہوں نے مما کا اعتراض چٹکیوں میں رد کر دیا تھا اور پھر اسے دیکھتے ہوئے بولے۔

’’ہو جائے ایک فاسٹ ڈرائیو۔‘‘

’’وائے ناٹ۔‘‘ اس نے شانے اچکا کو ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی۔

’’بس کالونی کا چکر لگا کر آ جاتیں میں کھانا لگوانے والی ہوں۔‘‘ مما وارننگ دیتی ممانی جان کے ساتھ لاؤنج کی سیڑھیاں چڑھ گئیں تھیں وہ بھی کھانا لگنے تک کالونی کا چکر لگا کرو اپس آ چکے تھے چاکلیٹ کیک پر لگی موم بتیاں جلاتے ہوئے مہروز نے ان کی گنتی شروع کر دی تھی۔

’’زیبی یہ تو اٹھارہ ہیں۔‘‘

’’تو۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔

’’ڈیڈ آپ کو یاد ہے یہ تین سال قبل بھی اٹھارہ ہی تھیں۔‘‘

’’مہروز پٹ جاؤ گے مجھ سے۔‘‘ وہ اس کی بات پر تلملا اٹھی۔

’’سیدھا حساب بھی کیا جائے اگر تو سولہ میں میٹرک اٹھارہ میں انٹر اور بیس میں گریجویشن دو موم بتیاں کم ہیں۔‘‘

’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے میں نے ڈائریکٹ گریڈ ون میں ایڈمیشن لیا تھا۔‘‘

’’اچھا بھئی چھوڑو یہ فضول بحث اور کیک کاٹو۔‘‘ مما نے دونوں کو سیز فائر کروایا تو وہ مہروز کو منہ چڑاتے ہوئے موم بتیاں بجانے لگی تھی۔

’’گریجویشن کے بعد کیا ارادہ ہے۔‘‘ کھانے کے دوران ماموں نے سوال کیا تھا۔

’’میں ایل ایل بی کرنا چاہ رہی تھی۔‘‘

’’میرا خیال ہے لندن آکسفورڈ یونیورسٹی سے پروفیشنل ڈگری حاصل کرو، باہر کی ڈگری کی ویلیو بھی زیادہ ہے اور اسکوپ بھی۔‘‘

’’آپ تو برمنگھم میں ہیں یہ لندن میں اکیلی کیسے رہے گی۔‘‘ مما کے دل کو کچھ ہوا تھا ویسے بھی شوہر کے انتقال کے بعد زیب ہی سے ان کے گھر رونق تھی، وہ بھلا کیونکر سات سمندر بھیج دیتیں۔

’’اکیلی کیوں ہاسٹل کس لئے ہیں۔‘‘ ماموں کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہوا کرتا تھا زیب کی ضد اور بھائی کے اصرار پر انہیں ہی ہار تسلیم کرنا پڑی تھی۔

٭٭٭

اگلے روز ماموں کی فلائیٹ تھی انہیں سی آف کرنے کے بعد مما اپنے مانٹیسوری سکول چلی گئی تھیں اور اس کا ارادہ لمبی تان کر سونے کا تھا مگر پی ٹی سی ایل کی متواتر بجتی گھنٹیوں پر متوجہ ہونا پڑا تھا۔

’’ہیلو۔‘‘ وہ جمائی روکتے ہوئے بولی۔

’’یار کیوں میری مما اور ڈیڈی پر قبضہ جمائے بیٹھی ہو انہیں ریٹرن ٹکٹ تھما کر جہاز میں بٹھا دو میں ایک ہفتہ ان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔‘‘ دوسری جانب وہ نان اسٹاپ شروع ہو چکا تھا زیب ایک ہفتے پر چونک گئی۔

’’کیوں ایک ہفتے بعد تم کیا مرنے والے ہو۔‘‘ اس نے کہہ کر بے ساختہ زبان دانتوں تلے دبائی۔

’’تو اور کیا اٹالین کمپنی میں جاب ملی تھی اور اب ایم ڈی صاحب مجھے دوسری برانچ میں ٹرانسفر کر رہے ہیں۔‘‘

’’دوسری برانچ مریخ پر تو نہیں ہے کہ تم گوریوں کے دیدار سے محروم رہ جاؤ۔‘‘

’’دوسری برانچ سعودیہ میں ہے۔‘‘ وہ لہجے میں مصنوعی بیچارگی سمو کر بولا تو زیب کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’مجھے افسوس ہوا۔‘‘ لبوں کا کونہ دانتوں تلے دبا کر وہ غیر سنجیدگی سے گویا ہوئی لیکن ساتھ ہی اسے کچھ اور بھی یاد آ گیا تھا۔

’’سنو کل تم نے مجھے وش کیوں نہیں کیا تھا۔‘‘

’’کیوں کل کیا خاص بات تھی۔‘‘ اس نے سوچنا شروع کیا۔

’’کل میرا برتھ ڈے تھا۔‘‘ وہ ریسور کو گھورتے ہوئے چلائی۔

’’کیک کھلاؤ اور تحفہ لے لو۔‘‘ وہ کھٹ سے ریسیور پٹختے ہوئے دوبارہ بستر پر ڈھیر ہو چکی تھی شہروز نے بے ساختہ سیل فون کانوں سے ہٹایا تھا۔

اس کے ماموں کے دو بیٹے تھے ماموں سال کا ایک ہفتہ پاکستان میں ان کے ساتھ ضرور گزارتے تھے اور مہروز اکثر ان کے ساتھ آتا تھا لیکن شہروز کے اپنے مشاغل اپنی مصروفیات تھیں آج کل وہ ایم بی اے کے بعد کسی اٹالین کمپنی میں جاب کر رہا تھا اور مہروز سافٹ ویئر انجینئرنگ میں بیچلر کے بعد آج کل فارغ تھا اس کے ماموں خود ایک نیوروسرجن تھے۔

٭٭٭

بڑے ابا کے گھر داخل ہوتے ہی لاؤنج میں اس کا پہلا سامنا ماہا سے ہوا تھا جو دن کے گیارہ بجے ناشتہ کرنے میں مصروف تھی، حریم نے میز پر سجے لوازمات پر نگاہ دوڑائی۔

بریڈ، انڈا، جیم، مائیو نیز، کیچپ، شامی اور اورنج جوس، کتنے ٹھاٹ تھے اس کے جبکہ وہ آج پھر بھنڈیوں کے ساتھ سوکھی روٹی کے چند نوالے کھا کر آئی تھی گھی ختم ہو چکا تھا اور ابا آج کل پھر سے بیروزگار تھے۔

’’ناشتہ کر لو۔‘‘ اس نے پر خلوص آفر کی۔

’’نہیں شکریہ میں کر چکی ہوں۔‘‘ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے اخبار اپنے سامنے پھیلا لیا تھا وہ آئی بھی اخبار دیکھنے تھی سوچا تھا فراغت سے اچھا ہے کوئی جاب کر لی جائے، جلد ہی اسے اپنی مطلوبہ ویکنسی مل گئی تھی۔

ایک فیکٹری میں ایڈمن آفیسر کی ضرورت تھی ایڈریس نوٹ کرنے کے بعد اس نے اخبار واپس رکھ دیا تب تک ماہا بھی ناشتہ کر چکی تھی اور برتن اٹھا رہی تھی۔

جب اس کی نگاہ نئے زیب تن کیے خوبصورت رنگوں اور ڈیزائن سے مزین کلاسک لان کے سوٹ سے ٹکرائی تو ایک نئے خیال کے تخت اس نے ماہا کو پکارا تھا۔

’’تم نے مجھ سے کچھ کہا۔‘‘ وہ چونکی۔

’’نہیں تمہارے بھوت سے۔‘‘ وہ اس ایکٹنگ پر اچھی خاصی جز بز ہوئی تھی۔

’’میں نے سمجھا محترمہ محض اخبار سے ملاقات کرنے آئی تھیں۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ طنزیہ تھا حریم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

’’مجھے انٹرویو کے لئے جانا تھا تمہارا یہ والا سوٹ پہن جاؤں۔‘‘ اس کی وارڈ روب، پرفیوم، جیولری، میک اپ وغیرہ ہمیشہ سے ہی وہ بڑے استحقاق سے استعمال کیا کرتی تھی، ماہا نے ایک نظر اپنے نئے سوٹ کو دیکھا اور پھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔

’’ٹھیک ہے میں دھوکر استری کر دوں گی لیکن تم جاب کرنا چاہ رہی ہو۔‘‘

’’ہاں بس دعا کرنا میرا سلیکشن ہو جائے آخر خاندان بھر کی اکلوتی گریجویٹ ہوں اب اتنی تعلیم چولہے میں جھونکنے کے لئے حاصل نہیں کی تھی۔‘‘ فخریہ کالر کھڑے کرتے ہوئے اس نے اخبار کا رول بنایا اور اس کے سر پر مارتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی در اصل یہ بھی اس پہ ایک طرح کا بھرپور طنز تھا کیونکہ وہ ایف اے کے بعد کوکنگ کی کلاسز لے رہی تھی اور تعلیم کے سلسلے کو اس نے خیر آباد کہہ دیا تھا۔

گھر آئی تو اماں کو آنٹی ثریا کے ساتھ باتوں میں مشغول پاتے ہی سلام جھاڑ کر اس نے فوراً کچن کا رخ کیا تھا اور اندازے کے عین مطابق شلف پر پڑا پائن ایپل کیک کا ڈبہ بھی نظر آ گیا تھا۔

آنٹی ثریا اس کے ابو کی فرسٹ کزن تھیں ان کے شوہر کا خوب چلتا ہوا کاروبار تھا ایک ہی بیٹا تھا فیصل، وہ خود اگرچہ قابل رشک صحت کی مالک تھیں لیکن وہم کی مریضہ تھیں۔

آئے روز انہیں مختلف بیماریوں کے وہم ستاتے تھے آج کل یہ وہم لاحق تھا بقول ان کے رشتہ داروں نے کوئی تعویذ وغیرہ کروا دئیے ہیں یا پھر کسی جادو ٹونے کا چکر تھا۔

وہ انہیں سردرد رہنے لگا تھا اس وجہ سے وہ روز ان کے ہاں قیام کرنے آتی تھیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ جادو ان کے گھر پر ہوا ہے یا خود ان پر۔

لیکن کچھ بھی ہو حریم کے لئے ان کی آمد بے حد خوشگوار ہوا کرتی تھی کیونکہ ان کی طبیعت بے حد چٹوری تھی کبھی انہیں گول گپے منگوا کر کھلاتیں تو کبھی آئسکریم، برگر، پیزا وغیرہ۔

پھر جانے سے قبل ہزار کا نوٹ زبردستی حریم کو تھمانا نہیں بھولتی تھیں، لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ان کے نخرے بھی خوب تھے جو کہ حرمت بخوشی اٹھا لیا کرتی تھی اب بھی پہلے اس نے کیک کے ساتھ چائے سرو کی تھی لیکن ساتھ ہی ان کا موڈ بدل گیا تھا۔

’’اتنی گرمی میں چائے تو رہنے ہی دو ملک شیک بنا لاؤ کریم والا۔‘‘

’’ویسے حرمت آنٹی آج کل لڑکیاں دیکھ رہی ہیں فیصل بھائی کے لئے، کیسا ہو اگر وہ تمہیں بہو بنا لیں۔‘‘ کیک کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے اس نے چٹکلا چھوڑا تو حرمت نے پہلے تو پلٹ کر اسے گھورا اور پھر ہاٹ پاٹ کے اوپر رکھا ویڈنگ کارڈ اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔

’’تمہاری اطلاع کے لئے عرض ہے انہیں لڑکی مل چکی ہے۔‘‘ اور وہ کیک کھانا بھول گئی تھی۔

’’تو کیا وہ سب میرا وہم تھا۔‘‘ اس نے اکثر اک ان کہی سی دونوں کی روشن آنکھوں میں بولتے دیکھی تھی، جب بھی وہ آنٹی کو لینے آیا تو حرمت کے ہاتھ کی چائے ضرور پی کر جاتا تھا اور اب… بے دلی سے سوچتے ہوئے اس نے کارڈ واپس پٹخ دیا۔

٭٭٭

دو بیڈ روم کے فلیٹ کو ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے اس نے اپنا سامان سیٹ کرنا شروع کر دیا تھا سوٹ کیس میں تھا ہی کیا چند سوٹ کچھ کتابیں اور ایک پینٹنگ وہ پینٹنگ اس نے لندن کی مشہور آرٹ گیلری سے خریدی تھی اور ہر جگہ وہ اس پینٹنگ کو اپنے ساتھ رکھتا تھا یہاں تک کہ پچھلے دنوں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پیرس ٹرپ پر گیا تھا تب بھی پینٹنگ ساتھ تھی۔

اس پینٹنگ میں ایک چہرہ تھا اور وہ چہرہ اس کا عشق تھا، اسے آج بھی یاد تھا وہ آرٹ گیلری میں مختلف پورٹریٹ دیکھتے ہوئے اس تصویر کے سامنے آ کر چونک سا گیا تھا پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی تھی۔

وہ آرٹ گیلری سے نکل کر اپنی گاڑی تک آیا تھا اور ڈیش بورڈ پر رکھا مرر اٹھا کر واپس گیلری میں چلا آیا تھا اور مرر کو تصویر کے ساتھ رکھ دیا تھا۔

اب وہ تصویر میں پینٹ کیا گیا چہرہ اور اپنا چہرہ ایک ساتھ دیکھ سکتا تھا، مگر وہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ دو چہروں میں سے کون سا چہرہ زیادہ خوبصورت ہے، یہ سوال اس نے وہاں کھڑے چند لوگوں سے بھی کیا تھا۔

کچھ جواب میں محض مسکرا دئیے تھے کچھ نے دونوں کو سیم ریمارکس دئیے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو الجھ گئے تھے اور فیصلہ مشکل ہو گیا تھا۔

یہ پینٹنگ اس نے اپنے بیڈ روم کے بالکل فرنٹ والی دیوار پر لگائی تھی وہ اٹھتے سوتے جاگتے آتے جاتے اور کبھی بے خیالی میں اس پینٹنگ کو دیکھا کرتا تھا۔

اور اب تو اس کی ایسی عادت ہو چکی تھی جیسے وہ اس کے لئے کوئی ناگزیر شے ہو لیکن اس کے گھر والے اس قصے کے متعلق ہنوز لاعلم تھے اور پھر کبھی کوئی اس کے بیڈ روم میں آتا بھی نہیں تھا۔

’’شہروز میں کھانا لے آیا ہوں آ جاؤ تم بھی۔‘‘ مائیک کی آواز پر وہ جلدی جلدی سارا سامان سمیٹ کر باہر نکل آیا تھا مائیک سے اس کی ملاقات آج ہی ہوئی تھی وہ فلیٹ میں اس کے ساتھ تھا۔

٭٭٭

وزیٹنگ روم میں اس کے علاوہ گیارہ لڑکیاں موجود تھیں جو تعلیم قابلیت اور تجربے میں اس سے کہیں زیادہ تھیں اسے لگا وہ یہاں تین گھنٹے بیٹھ کر محض اپنا وقت ضائع کرے گی سو وہ دفتر سے باہر نکل آئی تھی راستے میں کڈز اکیڈمی کے سائن بورڈ پر اس کی نظر پڑی تو اس نے یہاں قسمت آزمائی کا سوچا۔

گارڈ اسے آفس کا راستہ دکھا کر خود واپس گیٹ پرجا چکا تھا گلاس ڈور پر ناک کرنے کے بعد وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوئی تھی۔

’’مما آپ کو بتا رہی ہوں کہ مجھے ہاسٹل میں نہیں رہنا ڈسپلن روٹین لائف بہت بورنگ ہوتی ہے۔‘‘ وہ لڑکی شاید میم کی بیٹی تھی دونوں ماں بیٹی میں خوب بحث ہو رہی تھی وہ میم کے اشارے پر چیئر پر بیٹھ چکی تھی لیکن ابھی ان کا شاید اس کی جانب متوجہ ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔

آفس کا انٹرئیر شاندار تھا وہ دونوں کی مکالمہ بازی سے لاتعلق دیواروں پر لگی کلاسیکل پینٹنگ کا جائزہ لینے میں مگن ہو چکی تھی۔

’’اپارٹمنٹ میں رہنے کی اجازت ایک ہی صورت ملے گی اگر تم رحمت بوا کو ساتھ لے جاؤ۔‘‘ رفعت آراء کا لہجہ اب کی بار قطعی ہو چکا تھا۔

’’مما آپ سمجھتی کیوں نہیں ہیں مجھے اولڈ لوگوں کی کمپنی نہیں پسند۔‘‘ وہ زچ آ کر بولی لیکن رفعت آراء اپنی جانب سے بحث سمیٹ کر اب حریم کی سمت متوجہ ہو چکی تھی۔

’’جی فرمائیے۔‘‘

’’میں جاب کے لئے آتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی سی وی ٹیبل پر رکھتے ہوئے شائستگی سے گویا ہوئی تو زیب نے اک اچٹتی نگاہ اس پر ڈالی تھی اور پھر تو گویا پلکیں جھپکنا بھول گئی، وہ خوبصورت نہیں بے تحاشا خوبصورت تھی۔

’’اس وقت تو کوئی ویکنسی خالی نہیں ہے جب ضرورت ہوئی آپ سے رابطہ کر لیں گے۔‘‘ وہی پروفیشنل سا جواب، اس کے چہرے پر مایوسی اتر آئی وہ اٹھنے کا ارادہ کر رہی تھی جب زیب کے استفسار پر ٹھٹک کر رک گئی۔

’’آپ میرے ساتھ لندن چلیں گی۔‘‘

’’جی۔‘‘ اس کا انداز استفہامیہ تھا۔

’’سیلری آپ کی مرضی کی ہو گی اور کام بھی کچھ زیادہ نہیں ہے اپارٹمنٹ کی صفائی، کھانا وغیرہ، بنانا اور میرا خیال رکھنا۔‘‘

تو گویا وہ اسے ہاؤس میڈ کی جاب آفر کر رہی تھی حریم کا چہرہ توہین کے باعث سرخ ہو گیا تھا وہ بغیر کوئی جواب دئیے اٹھ کر چلی آئی تھی راستہ بھر اس کا موڈ بے حد خراب رہا تھا، گھر آنے کے بعد وہ کھانا کھائے بغیر ہی سو گئی تھی اور پھر اس کی آواز حرمت کی دبی دبی سسکیوں پر کھلی، وہ بستر سے اتر کر اس کے پاس چلی آئی تھی۔

’’کیوں رو رہی ہو۔‘‘

’’نہیں تو۔‘‘ وہ آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھ گئی حریم نے اس کا بازو کھینچ کر واپس بٹھایا تھا۔

’’مجھے نہیں بتاؤ گی۔‘‘

’’اماں میری شادی کا سوچ رہی ہیں۔‘‘

’’وہ موٹر مکینک۔‘‘ حریم نے تو سنتے ہی ہنگامہ اٹھا دیا تھا، تن فن کرتی اماں کے سر پہنچی، حرمت کی پسند وہ جانتی تھی فیصل نہ سہی مگر کوئی اس کے معیار کا بھی تو ہو۔

’’کیا کمی ہے حرمت میں اماں جو سر سے بوجھ کی طرح اتار کر پھینک رہی ہو، میں کسی بھی صورت حرمت کی شادی اس جگہ نہیں ہونے دوں گی وہ خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے، ہنر مند، سلیقہ شعار، مہذب سلجھی ہوئی با کردار، اس جاہل ان پڑھ واجبی سی شکل کے مالک اختر کا کوئی جوڑ نہیں ہے اس کے ساتھ اور پھر اس کے گھر کا ماحول اس کی اماں تو پوری خرانٹ لگتی ہے، اس پر تین نندیں باقی کی عمران کا جہیز اکٹھا کرنے میں گزر جائے گی۔‘‘

’’یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں اور نہ ہی تو میری ماں ہے جو میں تجھ سے مشورے کرتی پھروں۔‘‘ اماں نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورتے ہوئے خوب ٹکا سا جواب دیا تھا مگر وہ خائف ہوئے بغیر بولی۔

’’اچھا تو وہ آ کر دکھائیں ہمارے گھر بے عزتی کر کہ باہر نکالوں گی۔‘‘

’’ایک معمولی رنگ ساز ہے تیرا باپ، اس کی کوئی مل اور فیکٹریاں نہیں چل رہیں جو تم لوگوں کے لئے محلوں سے رشتے آئیں گے کتنی بار سمجھایا ہے اپنی اوقات میں رہ کر بات کیا کر۔‘‘ اماں کا جملہ اسے جیسے کسی تازیانے کی طرح لگا تھا وہ ٹھپ ٹھپ کرتی سیڑھیاں چڑھ گئی، دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا۔

’’آپ میرے ساتھ لندن چلیں گی۔‘‘ دور نظر آتی بلند و بالا عمارتوں کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک فیصلہ کر لیا تھا۔

٭٭٭

’’اماں مجھے نوکری مل گئی ہے۔‘‘ شام کے کھانے کے بعد حرمت سب کے لئے چائے بنا کر لائی تھی جب حریم نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے کن اکھیوں سے ابا کو دیکھا جو چائے میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا آج کل ابا کو ایک کوٹھی میں رنگ و روغن کا کام ملا ہوا تھا اس لئے گھر میں کافی خوشحالی تھی تین وقت کھانے کے ساتھ چائے بسکٹ، کیک وغیرہ کی عیاشیاں ہو رہی تھیں۔

لیکن اس کی مخاطب اماں تھیں اس نے جان بوجھ کر یہ وقت منتخب کیا تھا باری باری سب کو بتانے سے اچھا تھا ایک ہی وقت میں اعلان کر دیا جائے۔

حسب توقع کسی نے خاص نوٹس نہیں لیا تھا بس اماں نے ہی سرسری دریافت کیا۔

’’کیسی نوکری۔‘‘

’’کڈز اکیڈمی کی میم ہیں رفعت آراء ان کی اکلوتی بیٹی ایل ایل بی کے لئے لندن جا رہی ہے مجھے اس کے ساتھ لندن جانا ہے۔‘‘ کپ کو دونوں ہاتھوں میں گول گول گھماتے ہوئے بہت تحمل سے اس نے نوکری کی وضاحت فرمائی تھی اور اگلے ہی پل سب اپنی اپنی جگہ سے یوں اچھلے جیسے کوئی کنکھجورا دیکھ لیا ہو، حرمت بیچاری کو اتنا زبردست غوطہ لگا تھا ساری چائے چھلک چکی تھی۔

’’تمہارا اس کے ساتھ لندن میں کیا کام۔‘‘ اماں نے کپ فرش پر پٹختے ہوئے آنکھیں کھولیں۔

’’بیس ہزار تنخواہ ہے اور مجھے بس اپارٹمنٹ میں اس کے ساتھ رہنا ہے۔‘‘ آخری جملے پر وہ بے ساختہ نظریں چرا گئی تھی۔

’’حریم!‘‘ ابا کی نظروں میں کیا نہیں تھا رنج و ملال بے یقینی۔

’’بیٹا میں زندہ ہوں ابھی تم لوگوں کو دو وقت کی کما کر کھلا سکتا ہوں۔‘‘

’’ابا دو وقت کا کھانا ہی زندگی کا سامان نہیں ہے ہمارا گھر پکا ہو جائے گا حرمت کا جہیز بن جائے گا ہمایوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو جائیں گے اور میں کون سا ہمیشہ کے لئے جا رہی ہوں بس تین سال کی بات ہے آپ کہا کرتے تھے ناکہ میں آپ کی بیٹی نہیں بیٹا ہوں تو مجھے بیٹا سمجھ کر وداع کریں۔‘‘

’’ارے محلے والے، رشتے دار، کیا جواب دیں گے سب کو کہ جوان لڑکی کو تنہا پردیس بھیج دیا۔‘‘ اماں اس کے جذباتی مکالموں سے ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوئی تھیں۔

’’تنہا کیوں اماں زیب بھی تو ہے میرے ساتھ۔‘‘ اس نے بے بسی سے وال کلاک کی سمت دیکھا شام کے سات بجنے والے تھے اور میم نے یہی ٹائم دیا تھا آنے کا، اب نہ جانے کہاں رہ گئی تھیں۔

’’حریم تم ہماری خاطر یہ سب مت کرو میرے اور ہمایوں کی قسمت میں جو ہو گا ہمیں مل جائے گا تمہیں کسی کی ملازمہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حرمت نے بھی سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی مگر جو خواب اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا۔

بڑے بڑے محل نما گھر، گاڑیاں، نوکر اور انواع و اقسام کے کھانوں سے سجے دسترخوان، ان سب کے بعد اس چھوٹے سے گھر میں اور بھی گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔

’’کچھ بھی ہو میں تمہیں اس کام کی اجازت…‘‘ دروازے پر دستک ہوئی تھی ابا کی بات ادھوری رہ گئی وہ جوتا پہنے بغیر مرکزی دروازے کی سمت بھاگی تھی اور پھر سامنے ایک با وقار اور سو برسی خاتون کے ساتھ اندر آتے دیکھا تھا، چھوٹا سا صحن آگے برآمدہ جس کے دائیں سائیڈ کچن تھا اور سامنے ایک بڑا سا کمرہ، صحن میں ایک جانب چھت پر جانے کے لئے نیم پختہ سیڑھیاں تھیں وہ سب اس وقت برآمدے میں ہی چارپائیوں پر بیٹھے ہوئے تھے حرمت اٹھ کر ان خاتون کے لئے اندر سے کرسی لے آئیں جبکہ ابا تو انہیں دیکھ کر اپنی جگہ سے بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

’’بی بی صاحبہ آپ۔‘‘ رفعت آراء جو شائستگی سے سلام کرنے کے بعد اب باری باری اماں، حرمت اور ہمایوں کے چہرے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھیں کہ اس چھوٹے سے کچے مکان میں کتنے حسین لوگ رہتے ہیں ابا کی آواز پر چونک اٹھیں۔

’’ارے احمد علی تم۔‘‘ اب کی بار ان کی آنکھوں میں بھی شناسائی کے رنگ چمکے تھے اگلے ہی پل قدرے خوش اخلاقی سے ابا کا حال احوال بھی دریافت کیا گیا تو حرمت اور حریم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوالوں کا تبادلہ کرتے ہوئے لاعلمی سے شانے اچکا دئیے تھے، اماں الگ حیرت زدہ تھیں۔

’’اور صاحب کیسے ہیں۔‘‘

’’ان کا تو انتقال ہو چکا ہے۔‘‘ وہ افسردگی سے بولیں تو ماحول چند لمحوں کے لئے سوگوار سا ہو گیا تھا پھر وہ ان کے بھائی اور بچوں وغیرہ کے متعلق سوالات کرنے لگے تھے حرمت اس دوران چائے بنا لائی تھی۔

’’تم نے خواہ مخواہ تکلف کیا بھلا وہ کہاں ہمارے گھر کی چائے نوش فرمائیں گی۔‘‘ حریم نے ٹوکا تھا لیکن رفعت آراء نے شکریہ کے ساتھ کپ تھام لیا ساتھ ہی ابا کو بھی ان کا تعارف کروانے کا خیال آیا تھا۔

’’بہت پرانی بات ہے جب بی بی صاحبہ کالج جایا کرتی تھیں اور میں ان کے ہاں ڈرائیور کی نوکری کرتا تھا۔‘‘ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد رفعت آراء نے اپنا مطالبہ پیش کیا تھا اور اب تو ابا انکار کر ہی نہیں سکتے تھے اماں کی بولتی بھی ہزار ہزار کے بیس نوٹوں نے بند کر دی تھی۔

٭٭٭

وہ سہ پہر کے قریب گھر میں داخل ہوا تو اماں اور ماہا کپڑوں کا ڈھیر پھیلائے بیٹھی تھیں جنہیں ماہا سلیقے سے تہہ لگانے کے بعد پیک کرتے ہوئے اب ایک ڈبے میں چوڑیوں کے سیٹ بنا کر رکھ رہی تھی۔

’’کہیں جا رہے ہیں آپ لوگ۔‘‘ اس کے استفسار پر اماں اور ماہا نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا پھر اماں نے گولڈ کی رنگ اسے دکھاتے ہوئے پوچھا۔

’’یہ انگوٹھی ہے تین جوڑے، جوتے، میک اپ کا سامان، چوڑیاں، مہندی، گجرے وغیرہ اتنا کچھ کافی ہے تمہاری منگنی کے لئے۔‘‘

’’میری منگنی۔‘‘ وہ شاکڈ ہی تو رہ گیا تھا۔

’’کیا چچا کو حرمت کا رشتہ مل گیا۔‘‘ دونوں گھرانوں میں یہی طے تھا کہ جیسے ہی حرمت کا رشتہ ملے گا دونوں بہنوں کی ساتھ ہی رخصتی کر دیں گے سو اس کا قیاس یہی تھا۔

’’نہیں حریم کچھ عرصے کے لئے لندن جا رہی ہے تو ہم نے سوچا جانے سے قبل شگن کی رسم ادا کر دی جائے۔‘‘

’’لندن۔‘‘ اس نے الجھن آمیز نگاہوں سے ماہا کو دیکھا۔

’’ہاں وہ ہائیر اسٹڈی کے لئے لندن جا رہی ہے اس کی دوست نے اسے اسپانسر کیا ہے کہہ رہی تھی ایل ایل بی کرے گی۔‘‘ ایان کے گھر والوں کو یہی بتایا گیا تھا۔

’’یہ کون سی دوست ہے اس کی۔‘‘ وہ پیشانی مسلتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ گیا تھا بات ہی کس قدر انوکھی، عجیب اور ناقابل یقین تھی۔

منڈیر پر جھکتے ہی اس کی نگاہ بھٹکتے ہوئے برآمدے تک گئی تھی جہاں وہ مزے سے بیٹھی مہندی لگوا رہی تھی۔

’’حرمت!‘‘ اس نے بآواز پکارا تو حریم نے گھٹنوں پر رکھا سر مزید جھکا لیا، سب کا سامنا کرنا آسان تھا مگر اسے وہ بھلا کیسے منائے گی۔

’’جی فرمائیے۔‘‘ حرمت نے کچن سے سر نکال کر پوچھا۔

’’اس سے کہو اوپر آ کر میری بات سنے۔‘‘ گویا اب اس کا نام لینا بھی گوارہ نہیں تھا حریم نے موڈ کا اندازہ لگاتے ہوئے حرمت کو آنکھوں کے اشارے سے منع کر دیا تھا۔

’’کیوں آپ شام تک انتظار نہیں کر سکتے، ویسے بھی آج آپ کا پردہ ہے حریم سے۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولی۔

’’اور یہ شاہی فرمان کس نے نافذ کیا ہے۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے تو حرمت نے مصنوعی کالر کھڑے کرتے ہوئے شانے اچکا دئیے۔

’’خود کو جلال الدین اکبر تصور کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس سے کہو اوپر آ کر میری بات سنے۔‘‘ اب کی بار اس کا لہجہ پہلے کی نسبت خاصا درشت لگا حریم کو متوجہ ہونا ہی پڑا۔

’’جی کیا کہنا ہے۔‘‘ اس نے خاصا تابعداری کا مظاہرہ کیا تھا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ ضرور نثار ہو جاتا مگر اس وقت مزاج بہت گرم تھا اور اسے یہ شوخیاں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھیں۔

’’یہ لندن کا کیا چکر ہے۔‘‘

’’میری دوست…‘‘

’’کون سی دوست ایسی راتوں رات پیدا ہو گئی ہے جو تمہیں اپنے ساتھ لندن لے کر جا رہی ہے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے خوب چبا چبا کر بولا تھا۔

’’تم میری سب دوستوں سے کہاں واقف ہو کالج میں میرے ساتھ پڑھتی تھی ضوباریہ احمد گیلانی اور کیا حرج ہے اگر میں باہر جا کر پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’پہلے تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ اس نے جرح کی۔

’’تو اب بن گیا ہے نا۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔

’’حریم تم پلیز مت جاؤ۔‘‘ کچھ نہ سوجھا تو وہ بڑی منت سے بولا تھا۔

’’مجھے اپنا کیرئیر بنانا ہے ساری عمر کنویں میں پڑے مینڈک کی مانند زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘

’’حریم تم سمجھتی کیوں نہیں ہو۔‘‘ وہ بے بسی سے بولا۔

’’تو تم سمجھ جاؤ۔‘‘ اس کی بے نیازی عروج پر تھی ایان نے کچھ پل رک کر شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا اور پھر پلٹ کر سیڑھیاں اتر گیا گویا یہ ناراضگی کا واضح اظہار تھا وہ کچھ دیر کھڑی اس کی پشت کو گھورتی رہی پھر سر جھٹک کر نیچے چلی آئی گویا ایک بڑا معرکہ سر ہوا تھا۔

شام کو چھوٹی سی تقریب میں منگنی کی رسم ادا کر دی گئی تھی ایک ہفتے بعد اس کی فلائیٹ تھی اور اس پورے ہفتے میں وہ نہ تو اسے دکھائی دیا تھا اور نہ ہی ملنے آیا تھا اور اسے کبھی بھی ایان کی ناراضگی کی فکر نہیں ہوئی تھی وہ خود خفا ہوتا تھا اور پھر خود مان بھی جاتا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کیسے منایا جائے۔

٭٭٭

’’حریم ہم جانتے ہیں کہ تم وہاں پڑھائی کے لئے نہیں نوکری کے لئے جا رہی ہو، وعدہ کرو کہ ہم جب بھی واپس بلائیں تم بغیر کوئی ضد کیے آ جاؤ گی۔‘‘ وہ اپنا سامان چیک کر رہی تھی جب اماں اس کے پاس چلی آئیں انہیں نہ جانے کون کون سے خدشے وہم لاحق ہو چکے تھے۔

’’اف یہ مڈل کلاس ماؤں کی ایموشنل بیلک بلیک۔‘‘ وہ اچھی خاصی جز بز ہوئی۔

’’اماں تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے جب اس گھر کے سب مسائل حل ہو جائیں گے، میں لوٹ آؤں گی یہ نوکری میں نے اپنی خوشی سے نہیں کی ہے اور نہ ہی مجھے دربدری کا شوق چڑھا تھا۔‘‘ وہ خوب بگڑ کر بولی تھی۔

’’اچھا میرا یہ مطلب نہیں تھا دھیان سے رہنا اور اپنا خیال رکھنا۔‘‘ وہ اس کا مختصر سا سامان اٹھا کر دروازے تک چھوڑنے آئی تھیں، دروازے کے باہر میڈم رفعت آرا کا ڈرائیور گاڑی لئے کھڑا تھا۔

حرمت اور ماہا سے گلے ملنے کے بعد تایا، ابا، اماں اور تائی اماں کی دعائیں لیتے ہوئے وہ آگے بڑھی تو ہمایوں نے اس کی چادر کا کونہ تھام لیا۔

’’آپا میں اپنی ساری مرغیاں تمہیں دے دوں گا تم ان کی بریانی بنا لینا۔‘‘ بہت ضبط کے باوجود بھی وہ اس کی معصومیت بھری رشوت پر رو پڑی تھی۔

’’میں جلدی واپس آؤں گی تم دھیان سے پڑھنا۔‘‘ اس کا ماتھا چومتے ہوئے اس نے نرمی سے اپنی چادر چھڑوائی تو نگاہ بھٹکتے ہوئے اوپر اٹھ گئی تھی جہاں وہ سرخ آنکھیں لئے بہت ہی بے بسی اور وارفتگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک نظر سب کو دیکھا تو جانے کیوں ایسا لگا تھا جیسے وہ آخری بار انہیں دیکھ رہی ہو ایک لمحے کو اس کا دل سکڑ کر پھیلا تھا مگر دوسرے لمحے کا احساس زیادہ مسرت آمیز تھا، وہ آج پہلی بار اپنی پسند کی گاڑی میں بیٹھی تھی۔

٭٭٭

ہیتھرو ایرپورٹ پر زیب کے ماموں انہیں ریسیو کرنے آئے تھے۔

’’السلام علیکم ماموں جان!‘‘ زیب دور سے دیکھتے ہی بھاگ کر ان کے سینے سے جا لگی تھی اور وہ گرد و پیش کا جائزہ لینے میں مگن، لندن سٹی تھا کہ خوابوں کا نگر یا پھر ماورائی دُنیا۔

شیشے جیسی شفاف سڑکیں، برف باری کا موسم، جدی طرز کی عمارتیں اور مشینی زندگی ہر کوئی اپنی ہی موج میں مگن لگی بندھی روٹین کے تخت چل رہا تھا۔

’’کیسی ہو ماموں کی جان۔‘‘ وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولے۔

’’فرسٹ کلاس۔‘‘

’’سفر کیسا گزرا؟‘‘

’’اے ون۔‘‘

’’تمہاری مما کیسی ہیں؟‘‘

’’مما بھی ٹھیک ہے او! شٹ!! میں تو بھول ہی گئی۔‘‘ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے اس نے رخ سخن حریم کی سمت موڑا تھا۔

’’ماموں شی از مائی فرینڈ حریم۔‘‘ اور پاس کھڑی حریم اس کے انداز تخاطب پر چونک اٹھی تھی ضوباریہ نے اس کے تاثرات سے محظوظ ہوتے ہوئے مسکرا کر شانے اچکا دئیے تھے۔

’’بہت پیاری بچی ہے۔‘‘ اب وہ اس کا حال احوال دریافت کرنے لگے تھے حریم کو ان کا چہرہ کچھ جانا پہچانا محسوس ہوا تھا وہ سوچتی رہی لیکن یاد نہیں آ رہا تھا، پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ لائیڈن اسٹون پہنچ چکے تھے ان کا اپارٹمنٹ سیکنڈ فلور پر تھا۔

دو بیڈ روم، کچن، لاؤنج اور ٹیرس، گھوم پھر کر دیکھنے کے بعد وہ ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس وقت لندن میں کھڑی ہے اس سٹی میں جس کو ویب پر ریسرچ کر کے وہ گھنٹوں دیکھا کرتی تھی اس کے تو وہم و گمان میں نہیں تھا کہ نا ممکن خواب بھی کبھی کبھار یوں اچانک تعبیر پا جاتے ہیں۔

’’کافی۔‘‘ زیب نے پیچھے سے آ کر اسے چونکا دیا تھا پھر اس کے ہاتھ میں کافی کے دو مگ دیکھ کر شرمندہ سی ہو گئی وہ یہاں اس کا خیال کرنے آئی تھی اور اب الٹا وہ اس کے لئے کافی بنا کر لا رہی تھی۔

’’ایم سوری۔‘‘

’’فار واٹ۔‘‘ وہ مسکرائی۔

’’کافی کے لئے تم مجھے کہتی میں بنا دیتی۔‘‘

’’ارے چھوڑو یہ پر تکلف باتیں، کل کو یہ سب کام تمہیں ہی کرنے ہیں اور ویسے بھی حریم تم میری دوست ہو میں اتنے خوبصورت لوگوں کو نوکر نہیں بنا سکتی اور تم نے جس طرح اپنے گھر والوں کی خاطر یہ سب کیا آئی ایم رئیلی امپریسڈ، پر خلوص حساس اور خوبصورت لوگ میری کمزوری ہیں اور تم نے تو صحیح معنوں میں میرا دل جیت لیا ہے۔‘‘ آخری جملے کی غیر سنجیدگی اور بے باکی پر وہ بے ساختہ مسکرائی تھیں۔

’’ماموں ابھی تو ریسٹ کر رہے ہیں لیکن وہ یہ ایک ہفتہ ہمارے ساتھ گزاریں گے اور ہمیں لندن گھمائیں گے۔‘‘ برف کے روئی جیسے گالوں کو دونوں ہتھیلیوں کی اوک میں جمع کرتے ہوئے وہ ریلنگ پر رکھتی جا رہی تھی اور پھر اس نے برف کا چھوٹا سا بھالو بنایا تھا۔

’’تمہارے ماموں لگتا ہے بہت پیار کرتے ہیں تم سے۔‘‘

’’ہاں بہت زیادہ۔‘‘ اس کی ہتھیلیاں سرخ ہو چکی تھیں دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑتے ہوئے اسے مما کو فون کرنے کا خیال آیا تھا تو بات ادھوری چھوڑ کر لاؤنج میں چلی گئی تھی کافی کا ذائقہ کافی تلخ تھا لیکن اس ٹیسٹ کا بھی اپنا ہی مزہ تھا کیونکہ اپر کلاس کے لوگ چائے نہیں پیتے تھے۔

٭٭٭

رات دونوں نے مل کر اپنا مختصر سا سامان اپنی اپنی وارڈ روب میں سیٹ کر دیا تھا ماموں کھانا ہوٹل سے لائے تھے اور پھر برتن دھونے کے بعد دونوں ایک ہی بیڈ پر سوئی تھیں اگلے روز ناشتہ اس نے بنایا تھا لیکن زیب نے برابر اس کی ہیلپ کروائی تھی اور پھر ماموں اپنی لینڈ کروزر میں انہیں گھمانے لے گئے تھے، اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی ماورائی دنیا میں قدم رکھ چکی ہو۔

’’مادام تساؤ۔‘‘ کو دیکھ کر زیب نے اس سے کہا تھا۔

’’اگر تم اس وقت سفید لباس میں ہوتی تو تم پر بھی کسی سنگ تراش کے مومی مجسمے کا گمان ہوتا۔‘‘

لندن ساؤتھ بال ایشینز کے پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد الزبتھ محل ’’برمنگھم پیلس‘‘ دیکھا اور خوب گھوم پھر کر ونڈو شاپنگ کی، یہ اس کی زندگی کا ایک بھرپور اور خوشگوار دن تھا وہ جو کبھی پورا لاہور نہیں دیکھ پائی تھی اس نے آج لندن کا کونہ کونہ گھوم لیا تھا۔

رات سونے سے قبل اسے اچانک ایان کا خیال آیا تو زیب کے سیل فون سے اس نے پاکستان کال کی تھی فون ماہا نے ریسیو کیا۔

’’ہیلو حریم کیسی ہو تم۔‘‘ وہ اس کی آواز سن کر چہک اٹھی۔

’’میں ٹھیک ہوں تم سناؤ گھر میں سب کیسے ہیں؟‘‘

’’سب ٹھیک ہیں میں امی، ابو، چاچا، چاچی، حرمت اور ہمایوں، اس نے جان کر ہمایوں پر فل اسٹاپ لگا دیا تھا وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔

’’اور ایان کیسا ہے؟‘‘ بطور خاص پوچھنا پڑا جبکہ وہ دوسری جانب اس کا۔

’’آہم۔‘‘ اچھا خاصا معنی خیز تھا۔

’’ماہا کی بچی۔‘‘ وہ تپ اٹھی۔

’’اس کا احوال اس سے دریافت کرنا مزاج خاصے برہم ہیں محترم کے۔‘‘

’’اچھا اسے کہنا کل گیارہ بجے میں اس سے آن لائن بات کروں گی۔‘‘ آخری پیغام دے کر اس نے سیل فون بند کر دیا تھا اور پھر آرام سے سو گئی تھی۔

اگلے روز زیب ماموں کے ساتھ یونیورسٹی گئی تھی وہ کمپیوٹر کے سامنے آ بیٹھی گیارہ بج چکے تھے لیکن وہ ابھی تک آن لائن نظر نہیں آ رہا تھا، وقت گزاری کے لئے اس نے روم جوائن کر لیا تھا، جب ایک ٹیکسٹ لکھا ہوا چلا آیا۔

’’تم کون؟‘‘ اس نے بیزاری سے پوچھا۔

’’تمہارا سویٹ ہارٹ۔‘‘ مسکراہٹ بھرے کارٹون کے ساتھ جواب حاضر تھا، جبکہ وہ لب بھینچے ہنوز لفظوں کو گھورے جا رہی تھی، غور کرنے پر معلوم ہوا اس کا آئی ڈی ہی ’’سویٹ ہارٹ‘‘ تھا۔

’’بھاڑ میں جاؤ۔‘‘ اس نے تپ کر لکھا۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘ معصومیت سے دریافت کیا گیا تھا، جس پر وہ غائب دماغی سے اسکرین کو گھورنے لگی، ’’بھاڑ‘‘ کا لفظ تو سن رکھا تھا لیکن مفہوم سے نا آشنائی تھی۔

’’ہا ہا ہا آپ کو بھی نہیں پتہ تو ایسا کرتے ہیں ساتھ چلتے ہیں کبھی نہ کبھی تو ڈھونڈ ہی لیں گے۔‘‘ مقابل بھی اچھا خاصا لیچڑ ٹائپ تھا۔

’’تمہیں سمجھ میں نہیں آ رہا میں تم سے بات کرنے میں انٹرسٹڈ نہیں ہوں۔‘‘ لکھنے کے بعد اس نے روم بند کر دیا لیکن آئی ڈی سائن آؤٹ نہیں کر سکتی تھی اسے ایان کا ویٹ کرنا تھا۔

’’اوہ ہو اتنا غصہ۔‘‘

’’ہاں ہے تو۔‘‘ وہ بے مروتی سے بولی۔

’’تو میں اس کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔‘‘

’’اور میں وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔‘‘

’’اور اگر میں گیس کر لوں تو۔‘‘ اس نے جیسے چیلنج کیا تھا حریم نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے مانیٹر اسکرین کو دیکھا اور اس کے اوور کانفیڈنیٹ پر استہزائیہ انداز میں لکھا۔

’’اچھا اتنا بھروسہ ہے اپنی قابلیت پر۔‘‘

’’آپ کی سوچ سے بھی زیادہ۔‘‘

’’اوکے فرسٹ اینڈ لاسٹ چانس اینڈ نو آپشن۔‘‘

’’کسی فرینڈ سے جھگڑا ہوا ہے یا پھر کوئی آپ سے خفا ہے۔‘‘ ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ اپنی ذہانت کا ثبوت دے چکا تھا وہ کتنی ہی دیر بے یقینی کے عالم میں بیٹھی رہی تھی پھر اس نے ہمت کر کے لکھا۔

’’تمہارے پاس آپشن نہیں ہے سو ’’یا‘‘ کی گنجائش نہیں نکلتی۔‘‘

’’اب میں کوئی جوتشی نہیں ہوں اتنا مارجن تو آپ کو مجھے دینا پڑے گا ویسے آپ کی بے تکلفی مجھے اچھی لگی۔‘‘

’’کون سی بے تکلفی۔‘‘ وہ اچنبھے سے بولی۔

’’یہی آپ کا مجھے تمہارے کہنا۔‘‘

’’میں صرف ان لوگوں کو ریسپکٹ دیتی ہوں جو اس کے قابل ہوں۔‘‘

’’ایسی ریسپکٹ کا کیا فائدہ جس میں اپنائیت نہ ہو مجھے تمہارا تم کہنا اچھے لگے گا سویٹ حریم۔‘‘ ڈور بیل کی آواز پر وہ سائن آؤٹ کرتی اٹھ گئی تھی۔

٭٭٭

آنے والے زیب اور ماموں تھے وہ یونیورسٹی سے اپنا ٹائم ٹیبل اور چند کتابیں لے کر آئی تھی، ماموں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپسی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کی سیٹ ٹرین میں پہلے سے ریزروڈ تھی جانے سے قبل وہ اپنی سیاہ لینڈ کروزر زیب کو دے گئے تھے۔

اگلے روز زیب کو یونیورسٹی جانا تھا، بلیک جینز اور پنک ہائی نیک پر وہ بلیک جیکٹ پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی، کافی میں کریم مکس کرتے ہوئے اچانک اس کا دل چاہا تھا۔

’’کاش میں بھی یونیورسٹی جا سکتی۔‘‘ اسے بچپن سے ہی مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھنے کی خواہش تھی اور پھر لندن یونیورسٹی کی تو بات ہی الگ تھی لیکن۔

’’حریم جلدی ناشتہ لاؤ۔‘‘ اگلے حکم پر اسے اپنی اوقات پتہ چل گئی تھی۔

’’دروازہ اندر سے لاکڈ کر لو اور دھیان سے رہنا۔‘‘ اپنے جوتے کے اسٹریپ باندھتے ہوئے زیب نے اسے چند ہدایات دیں اور پھر ہاتھ ہلا کر دروازے کے اس پار گم ہو گئی اب اسے سارا دن کیا کرنا تھا۔

اپنا ناشتہ ختم کرنے کے بعد اس نے ڈش واشر میں برتن دھوئے اور زیب کا پھیلایا ہوا پھیلاوا سمیٹ کر کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھی۔

’’سویٹ ہارٹ۔‘‘ نے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی تھی جسے ریجیکٹ کرنے کا سوچ کر بھی اس نے نہ جانے کیوں ایکسپٹ کر لیا تھا۔

’’شکریہ۔‘‘ ساتھ ہی اس کا پی ایم چلا آیا جیسے وہ پہلے سے ہی منتظر بیٹھا ہو۔

’’بس غلطی سے ہو گئی۔‘‘ اس نے بے نیازی دکھائی۔

’’اف میرا دل ٹوٹ گیا۔‘‘ ساتھ ہی بروکن ہارٹ بھی چلا آیا تھا۔

’’ہا ہا ہا۔‘‘ اس نے تین کارٹون سینڈ کیے۔

’’ظالم لوگ۔‘‘ ساتھ ایک سیڈ سی شکل بھی نظر آ رہی تھی۔

’’یور نیم۔‘‘ اس نے پہلا سوال پوچھا تھا۔

’’سویٹ ہارٹ۔‘‘ فوراً جواب آیا۔

’’ڈونٹ بی فلرٹ۔‘‘ اسے غصہ آ گیا۔

’’ارے تمہارے ساتھ فلرٹ کا تو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔

’’بس تم اچھی لگتی ہو۔‘‘

’’میں نے تمہارا نام پوچھا تھا۔‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔

’’تمہیں سویٹ ہارٹ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے الٹا سوال پوچھا جس پر حریم نے اسے کارٹون سینڈ کیا تھا جو دائیں بائیں نفی میں سر ہلا رہا تھا۔

’’شہروز۔‘‘ اسٹائلش سی رائیٹنگ میں لکھا گیا تھا۔

’’میں حریم۔‘‘

’’حریم نہیں سویٹ حریم۔‘‘ اس نے تصحیح کی۔

’’حریم فرام۔‘‘

’’لندن۔‘‘

’’ویر ان لندن۔‘‘

’’لائیڈن اسٹون۔‘‘

’’میری فیملی برمنگھم میں ہے لیکن میں آج کل جاب کے سلسلے میں سعودیہ میں ہوں۔‘‘

’’او کے۔‘‘ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ نیکسٹ کوئسچن کیا پوچھے۔

’’یور کوالیفکیشن۔‘‘

’’ایم بی اے اور آج کل ایک اٹالین کمپنی میں جاب کر رہا ہوں۔‘‘

’’کس چیز کی کمپنی ہے؟‘‘

’’کنکریٹ۔‘‘

’’یور منتھلی انکم۔‘‘ کچھ جھجکتے ہوئے ہی سہی لیکن اب کی بار اس نے اپنے مطلب کا سوال پوچھا تھا۔

’’پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ۔‘‘

’’تین لاکھ۔‘‘ پوری آنکھیں کھولتے ہوئے اس نے زیر لب دوہرایا تھا۔

’’اچھا اور تمہاری ہابیز۔‘‘

’’مجھے گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے۔‘‘

’’انٹرسٹنگ۔‘‘ وہ اس کے اور اپنے مشترکہ شوق پر بہت خوش ہوئی تھی۔

’’لیکن یہ کافی مہنگا مشغلہ ہے۔‘‘

’’تو کیا ہوا میرے پاس لینڈ کروزر، پراڈو اور ہیوی بائیک ہے لیکن اب کی بار میں لیموزین لوں گا۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ وہ تصور میں دیکھ کر ہی متاثر ہورہی تھی۔

’’اور تمہاری ہابیز؟‘‘

’’کچھ خاص نہیں۔‘‘ اس نے ٹالنا چاہا۔

’’چلو عام ہی بتا دو۔‘‘ وہ بصد اصرار بولا۔

’’مجھے بھی تمہاری طرح گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے لیکن میں افورڈ نہیں کر سکتی۔‘‘

’’اسٹوڈنٹ ہو۔‘‘

’’ہاں میں ایل ایل بی کر رہی ہوں۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے اس نے جھوٹ لکھا تھا۔

’’پیرنٹس کے ساتھ رہتی ہو؟‘‘

نہیں فرینڈ کے ساتھ۔‘‘

’’اب کے بار میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا، آئی وش کہ تم میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھو، کیا تم میرے ساتھ گھومنے چلو گی؟‘‘

’’کافی مشکل سوال ہے۔‘‘

’’کیوں مجھ پہ ٹرسٹ نہیں ہے۔‘‘

’’ایسی بات نہیں ہے۔‘‘

’’تو پھر…‘‘

’’مجھے نہیں پسند لڑکوں کے ساتھ گھومنا۔‘‘

’’اوکے یور برتھ ڈے۔‘‘

’’فرسٹ جنوری۔‘‘

’’رئیلی۔‘‘ وہ شاکڈ ہی تو رہ گیا تھا۔

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

’’میرا برتھ ڈے بھی فرسٹ جنوری ہے۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ اسے خوشگوار حیرت نے گھیرا۔

’’یور فیورٹ کلر۔‘‘ حریم نے پوچھا۔

’’سی گرین۔‘‘

’’میرا بھی اینڈ یور فیورٹ ڈش۔‘‘

’’سندھی بریانی اور اٹالین سیلڈ۔‘‘

’’مجھے بھی بریانی بے حد پسند ہے یور فیورٹ خوشبو۔‘‘

’’میں مختلف خوشبوئیں یوز کرتا ہوں۔‘‘

’’ارے میں بھی اور مجھے ساحل کا کنارا، ڈوبتا سورج اور بارش بہت پسند ہے۔‘‘

’’حریم یار نہ کرو۔‘‘

’’کیا؟‘‘ وہ سمجھی نہیں۔

’’یار یہ سب تو میرا بھی فیورٹ ہے۔‘‘

’’اتفاق ہے۔‘‘ اس نے شانے اچکائے۔

’’حسین اتفاق ہے او کے یور فیورٹ مووی؟‘‘

’’ہم ساتھ لکھیں گے تاکہ تم چیٹنگ نہ کرو۔‘‘

’’ڈن اینڈ سٹارٹ۔‘‘ اگلے ہی پل ونڈو اسکرین پر ایک نام دو بار جگمگا رہا تھا۔

’’ٹائی ٹینک۔‘‘

’’او گاڈ۔‘‘ وہ سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے ہنستی چلی گئی تھی اور پھر نیٹ ڈس کنیکٹ کرنے سے قبل وہ اسے فرینڈ شپ کی ریکوسٹ کر چکا تھا۔

٭٭٭
’’حریم اب تم دوسرے بیڈ روم میں شفٹ ہو جاؤ مجھے رات دیر تک اسٹڈی کرنا ہوتی ہے اور تم ڈسٹرب ہوتی رہو گی۔‘‘ برتن دھونے کے بعد وہ سونے کے ارادے سے بیڈ روم میں آئی تو زیب نے اسے نیا پیغام دیا تھا جس پر سر ہلاتے ہوئے وہ اپنا مختصر سا سامان سمیٹنے لگی تھی۔

لیکن کمرے میں تنہا اکیلے اس کا دل نہیں لگ رہا تھا وہ کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگی چاندنی راتوں کا یہاں کوئی گمان نہیں تھا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور برف روئی کے گالوں کی مانند برس رہی تھی، ایک حد سے آگے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

کچھ دیر یونہی وقت گزاری کے بعد وہ بستر پر لیٹ گئی آخری خیال اسے جو آیا وہ شہروز کا تھا۔

٭٭٭

روز مرہ کے کام نپٹاتے ہوئے اسے یاد آیا زیب اسے گروسری کا کچھ سامان لانے کا کہہ کر گئی تھی اسٹور ان کے اپارٹمنٹ سے زیادہ دور نہیں تھا اپارٹمنٹ سے نکلتے ہی اس کی نظر اپنے حلیے پر پڑی۔

میرون رنگ کا یہ سوٹ اس نے چار روز سے پہنا ہوا تھا اور باقی کے دونوں سوٹ بھی بس ایویں سے تھے، ایک خیال کے تحت اس نے زیب کے بیڈ روم میں جھانکا اور پھر اس کی وارڈ روب کا جائزہ لینے لگی۔

براؤن پینٹ اور اورنج شرٹ کے ساتھ اس نے براؤن کوٹ بھی نکال لیا تھا، چینج کرنے کے بعد اسٹیپ کٹنگ بالوں میں برش چلایا لب شائنر لگانے کے بعد آنکھوں میں کاجل ڈالا تو نظر ڈریسنگ ٹیبل پر ایک کیو میں لگے پرفیومز سے ٹکرائی۔

زیب کو جوتے، بیگز اور خوشبوئیں جمع کرنے کا شوق تھا، رائیل میرج، ٹی روز، لائیٹ بلو، ڈیزائن، اینجل، وائیٹ ڈائمنڈ، سنگ، لولی، ہیوگوباس، آئس برگ، ریڈ روز، پیری ایلز اور فار ایور سب کی خوشبوئیں چیک کرنے کے بعد اس نے لائیٹ بلو اور رائیل میرج کا جی بھر کر خود پر اسپرے کیا تھا۔

ریک میں رکھے جوتوں میں سے براؤن ہیل والی سینڈل اور براؤن ہینڈ بیگ کاندھے پر ڈالتے ہوئے اس نے اپنا آخری جائزہ لیا، تو یہ اطمینان ہی سرشار کرنے کو کافی تھا، کہ وہ اس وقت کوئی لینڈ لیڈی لگ رہی تھی۔

اسٹور پر اپنا مطلوبہ سامان خریدنے کے بعد پیمنٹ کرتے ہوئے باہر نکلی تو اس نے سوچا آج وہ کیم آن کرے گی اور شہروز کو دکھائے گی کہ وہ اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہے، سسٹم آن کرنے کے بعد اسے زیادہ ویٹ نہیں کرنا پڑا تھا۔

’’میں تم سے خفا ہوں۔‘‘ ہیلو کے جواب میں اس نے فوراً ناراضگی جتا دی تھی۔

’’کیوں؟‘‘ وہ جان کر انجان بنی۔

’’کل میں نے پور تین گھنٹے تمہارا ویٹ کیا تھا۔‘‘

’’وہ نیٹ میں کچھ پرابلم ہو گیا تھا اس لئے میں آ نہیں سکی۔‘‘ بروقت یہی بہانہ سوجھ سکا تھا۔

’’اٹس اوکے کیا میں تمہیں کال کر سکتا ہوں۔‘‘

’’ہیڈ فون خراب ہیں۔‘‘

’’تو تمہارے پاس سیل فون نہیں ہے۔‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔

’’سیل فون تھا لیکن وہ پانی میں گر گیا تو آج کل خراب ہے۔‘‘ گہرا سانس بھرتے ہوئے اس نے دوسرا جھوٹ لکھا۔

’’کل ایک گزارش کی تھی۔‘‘

’’مجھے یاد نہیں۔‘‘ اس نے بے نیازی دکھائی۔

’’یہ بھی حسن والوں کی اک ادا ہے۔‘‘ وہ برا مانے بغیر بولا۔

’’کیا آپ مجھ سے دوستی کریں گی۔‘‘

’’ہاں اگر تم ہینڈسم ہوئے تو۔‘‘ اس نے ازراہ مذاق لکھا تھا حالانکہ اس شخص کی شکل و صورت سے اسے کوئی غرض نہیں تھی وہ اس کے لئے فی الحال جسٹ ٹائم پاس تھا، تنہائیوں کا ساتھی، مصروفیت کا بہانہ اور چند گھنٹوں کی خوشگوار تفریح، لیکن جب اس نے کیم آن کیا تو وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔

اگر وہ اس دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی تھی تو وہ مردوں میں یقیناً بلا کا ہینڈسم اور وجیہہ ترین تھا اسے لگ رہا تھا کہ اس نے آج سے قبل اپنے سوا اتنا پرکشش اور حسین چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔

’’کہو کیسا لگا؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا اور حریم جیسے پتھر کی ہو چکی تھی۔

’’کچھ تو بولو۔‘‘ اس نے پھر لکھا۔

’’ہیلو۔‘‘ وہ بلا رہا تھا اور حریم یونہی اپنی جگہ حیران ساکت اور گم صم سی بیٹھی رہ گئی تھی۔

٭٭٭

زیب کے آنے سے قبل وہ لباس تبدیل کر کے کھانا بنا چکی تھی آج وہ صبح خاص طور پر چکن قورمہ اور مٹر پلاؤ کی فرمائش کر کے گئی تھی رائتہ، سیلڈ اور کولڈ ڈرنکس میز پر منتقل کرنے کے بعد وہ ڈش میں چاول نکال رہی تھی، جب زیب نے ٹیبل بجایا۔

’’حریم جلدی لاؤ یار بہت بھوک لگی ہے۔‘‘

’’بس آ گئی۔‘‘ چاول کی ڈش اور قورمے کا باؤل رکھ کر وہ پلٹی تھی جب اس کی ناگواریت بھری آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔

’’قورمے سے اسمیل کس چیز کی آ رہی ہے۔‘‘

’’دہی میں نے کل والا ڈال دیا تھا۔‘‘ اس کے خجل سے اعتراف پر زیب کا موڈ بری طرح سے بگڑا تھا۔

’’تمہارا دماغ درست ہے دودھ میں سے اگر اسمیل آ رہی تھی تو تم اسے ضائع کر دیتی لیکن پہلے تم نے اس کا دہی جمایا اور پھر وہ دہی قورمے میں ڈال دیا۔‘‘

’’مجھے لگا تھا شاید قورمے میں سے نہیں آئے گی۔‘‘ اس کا چہرہ اتر گیا دو گھنٹے کی محنت تو ضائع ہوئی ہی تھی جو خرچہ ہوا سو الگ…

’’یار دھیان سے کام کیا کرو۔‘‘ نارمل انداز میں کہہ کر وہ مٹر پلاؤ اور سیلڈ سے انصاف کرنے لگی تھی لیکن اسے یوں زیب کا خود پر رعب جمانا بہت عجیب سا لگا تھا، وہ خفت زدہ سی ہو کر ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی۔

’’کیا خواب لے کر آئی تھی اور کیا بن پائی ہوں بیس ہزار کے عوض اگر میں ساری زندگی بھی اس کی ملازمہ بنی رہوں تو بھی کچھ حاصل نہیں ہو گا مجھے خود بھی اسٹرگل کرنی چاہیے ساتھ کوئی جاب…‘‘

’’حریم!‘‘ زیب کی پکار نے اس کی سوچوں کو بریک لگا دیا تھا۔

’’میرا یہ سوٹ پریس کر دو شام میں ایک دوست کے گھر کمبائن ڈنر پر جانا ہے۔‘‘ فیروزی رنگ کا خوبصورت نگینوں سے مزین کڑھائی والا فراک اس کی سمت اچھال وہ خود واش روم میں گھس گئی تھی اور جب تیار ہو کر اس نے براؤن بیگ کے متعلق حریم سے استفسار کیا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا وہ بیگ تو شاید صبح اسٹور میں ہی بھول آئی تھی۔

’’یہیں سامنے پڑا ہوا تھا اس میں میرے ڈیڑھ ہزار ڈالر تھے۔‘‘ اور اب کی بارہ وہ صحیح معنوں میں بدحواس ہوئی تھی۔

’’میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔‘‘ مختلف چیزیں الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ یونہی وقت گزاری کر رہی تھی زیب نے خود بھی ہر جگہ ڈھونڈ لیا تھا۔

’’ایک تو جب کسی چیز کی ضرورت ہو تب مجال ہے جو مل جائے تم ڈھونڈ دینا مجھے دیر ہو رہی ہے میں اب چلتی ہوں۔‘‘ آئینے میں اپنا آخری جائزہ لینے کے بعد اس نے جوتے کے اسٹریپ باندھے اور سلور بیگ لے کر چلی گئی، اس کے پارکنگ سے گاڑی نکالنے کی دیر تھی وہ بھی اپارٹمنٹ لاکڈ کرنے کے بعد لفٹ کی جانب بڑھی تھی جب ایک نسوانی آواز پر رکنا پڑا۔

’’ایکسکیوز می۔‘‘ اس نے پلٹ کر دیکھا وہی اسٹور والی سیلز گرل سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں وہ براؤن بیگ بھی تھا۔

’’یہ بیگ آپ اسٹور پر بھول گئی تھیں۔‘‘

’’او بہت شکریہ۔‘‘ وہ بیگ تقریباً جھپٹتے ہوئے بولی پھر زپ کھول کر چیک کیا ڈیڑھ ہزار اندر ہی تھے جس پر اس نے بے ساختہ سکون کا سانس لیا تھا۔

’’آپ یہاں کیسے؟‘‘ حریم نے اب کی بار اطمینان سے اس کا جائزہ لیا وہ اس کی ہم ایج تھی، بلو جینز پر اس نے وائیٹ شرٹ اور لانگ کوٹ پہنا ہوا تھا، ہیئر کٹنگ بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے رنگت صاف تھی اور نقوش بھی جاذب نظر تھے۔

’’میں آپ کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں اکثر آپ کو ٹیرس پر کھڑے دیکھا ہے۔‘‘ وہ شاید اس کی آنکھوں کی حیرت بھانپ چکی تھی سو خوشدلی سے وضاحت کر دی۔

’’تھینک گاڈ کہ میں آپ کو یاد رہی ورنہ اسٹور پر خاصا رش تھا۔‘‘

’’اتنا حسین چہرہ کسی کو بھی اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے۔‘‘ اس کی نظروں میں ستائش تھی لبوں پہ پُر خلوص مسکراہٹ۔

’’شکریہ۔‘‘ وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔

’’میرا نام مالا ہے۔‘‘ لڑکی نے اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھایا تھا۔

’’اور میں حریم۔‘‘ جسے اس نے گرمجوشی سے تھام کر تعارف مکمل کیا اور ساتھ ہی آداب میزبانی بھی یاد آئے تھے۔

’’آؤ میں تمہیں اچھی سی کافی پلواتی ہوں۔‘‘

’’آفر تو بہت اچھی ہے۔‘‘ اور وہ بے تکلفی سے کہتی اس کے ساتھ چلی آئی تھی۔‘‘

٭٭٭

’’حریم، ماہا کی کال آئی تھی میں یونیورسٹی میں تھی اس لئے تمہاری بات نہیں کروا سکی۔‘‘ وہ کہہ رہی تھی ’’ایک بجے آن لائن ہو جانا۔‘‘ ناشتے کے دوران اچانک اسے یاد آیا تھا سلائس پر مار جرین لگاتی حریم کو ایان کا خیال آ گیا۔

’’شاید اس نے ماہا سے کہا ہو۔‘‘ معمول کے کام نپٹانے کے بعد وہ ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی تھی لندن کا موسم آج قدرے خوشگوار تھا برف باری تو نہیں ہو رہی تھی لیکن سرمئی بادلوں کی چادر سی تنی ہوئی تھی اس پر سرد خنک ہوائیں، وہ تو سورج کی شکل دیکھنے کو ترس چکی تھی۔

’’ہم کتنے لکی ہیں جو ہمارے ملک میں ہر موسم ہے اس لئے تو ہماری ذات کے اندر بھی تغیر ہے ورنہ یہاں کے تو لوگ بھی موسم کی طرح ہیں سرد مزاج۔‘‘

’’ہیلو حریم۔‘‘ ساتھ والے ٹیرس کی ریلنگ پر جھکتے ہوئے مالا نے اسے مارننگ وش کیا تھا وہ بھی جواباً اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی تھی۔

مالا کے پیرنٹس کی کچھ عرصہ قبل ایک روڈ ایکسینڈنٹ میں ڈیتھ ہو چکی تھی آج کل وہ اس اپارٹمنٹ میں اکیلی ہی رہتی تھی اسے تو ان لوگوں کے لائف اسٹائل پر حیرت ہوئی تھی فرینڈز، جاب اور تفریح کے سوا ان لوگوں کے پاس شاذو نادر ہی کوئی رشتہ نظر آتا تھا۔

’’آج کہیں گھومنے چلیں۔‘‘ سورج نے بادلوں کی اوٹ سے ہلکی سی جھلک دکھائی تھی اور مالا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔

’’چلو۔‘‘ وہ فوراً مان گئی زیب کی تو اپنی مصروفیات تھیں لیکن وہ اچھی خاصی بوریت محسوس کرنے لگی تھی۔

’’میں چینج کر کے آتی ہوں۔‘‘ کچھ دیر بعد دونوں ایک ساتھ ایلین بلڈنگ کی سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔

’’تم آج جاب پر نہیں گئی۔‘‘ روڈ پر واک کرتے ہوئے دونوں نے ایک ایک بھٹہ لیا تھا اور اب کھاتے ہوئے باتوں میں مگن تھیں۔

’’ہاں بس آج میرا آف تھا۔‘‘ اس نے افسردگی سے کہا لیکن حریم کا دھیان اس کی آزردگی سے زیادہ اپنے مفاد کی جانب تھا۔

’’کتنے گھنٹے جاب کرتی ہو؟‘‘

’’آٹھ گھنٹے۔‘‘

اور تمہاری سیلری؟‘‘

’’چھ ہزار پاؤنڈ۔‘‘

’’میں بھی جاب کرنا چاہتی ہوں کیا تم اس سلسلے میں میری کوئی ہیلپ کر سکتی ہو۔‘‘

’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ مالا نے رک کر توصیفی نظروں سے اسے دیکھا ریڈ ہائی نیک جرسی اور بلیک جینز میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی کمر تک آتے اس کے اسٹیپ کٹنگ بال سینے پر بکھرے ہوئے تھے اور لمبا سا اونی مفلر گلے میں جھول رہا تھا۔

’’تم تو اتنی خوبصورت ہو سیلز گرل کی جاب تو تمہیں یوں چٹکیوں میں مل جائے گی۔‘‘

’’لیکن مجھے یہاں کی مقامی زبان نہیں آتی۔‘‘

’’انگلش تو آتی ہے نا۔‘‘

’’ہاں تقریباً۔‘‘

’’تو بس پھر ٹھیک ہے تم کل میرے ساتھ چلنا۔‘‘

’’میں بس چار گھنٹے کی شفٹ کروں گی۔‘‘

’’اوکے جیسے تمہاری مرضی لیکن مجھے تم سے ایک شکایت ہے۔‘‘

’’مجھ سے کیا؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا۔

’’آج ہماری دیوالی ہے اور تم نے مجھے وش نہیں کیا۔‘‘

’’تم ہندو ہو؟‘‘ آنکھیں پھیلاتے ہوئے وہ بمشکل اپنا جملہ مکمل کر پائی تھی۔

’’ہاں تو۔‘‘ مالا کو اس کا رد عمل عجیب لگا تھا۔

’’نہیں وہ میں نے سمجھا شاید تم مسلم ہو۔‘‘

’’تو کیا اس سے ہماری دوستی پر کوئی اثر پڑتا ہے۔‘‘

’’نہیں ہیپی دیوالی۔‘‘ اس نے فلاور شاپ سے ایک پھول خرید کر اسے وش کیا۔

’’اب میں تمہیں لنچ کرواؤں گی۔‘‘ اس کے انکار کے باوجود وہ اسے کھینچ کر چائینز ریسٹورنٹ میں لے گئی تھی۔

واپس آتے ہوئے کافی ٹائم ہو چکا تھا لیکن آج کل وہ شہروز کی وجہ سے نیٹ آن نہیں کر رہی تھی اس نے پیچھا لیا ہوا تھا کہ وائس بات کروں گا جبکہ اس کے پاس سیل فون نہیں تھا اور روز وہ کوئی نیا بہانہ بھی نہیں بنا سکتی تھی اور اب بھی یہ سوچ کر آئی ڈی سائن ان کیا تھا کہ وہاں چار بج چکے ہیں اور وہ ٹائم آفس میں ہو گا، مگر خلاف توقع اسے آن لائن دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی تھی۔

’’ویلکم سویٹ حریم۔‘‘

’’تم اس وقت۔‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔

’’ہاں میں نے نائیٹ ڈیوٹی کر لی ہے۔‘‘ اس نے مزے سے بتایا۔

’’کیوں؟‘‘ اس کی حیرت میں دو چند اضافہ ہوا تھا۔

’’بس تم نے کہا تھا کہ تم اس ٹائم فری ہوتی ہو اور رات میں آن لائن نہیں ہو سکتی۔‘‘

’’اور تم نے مجھ سے بات کرنے کی خاطر نائیٹ ڈیوٹی کر لی۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھی۔

’’ہاں۔‘‘ اس نے معصومیت سے لکھا۔

’’اچھا تم نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘ وہ غائب دماغی سے لکھ رہی تھی ان چند دنوں میں وہ اس کے لئے اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اس نے ڈیوٹی ٹائم چینج کر لیا تھا وہ بندہ جو نائن پی ایم سو جاتا تھا اب اس کی خاطر اپنی چوبیس سالہ روٹین لائف کو تبدیل کرتے ہوئے ساری رات جاگے گا۔

’’مائیک میس گیا ہے بس لے کر آتا ہی ہو گا۔‘‘

’’اوکے تم کھانا کھاؤ، مجھے ابھی کسی سے بات کرنی ہے۔‘‘ دوسری جانب ماہا آ چکی تھی سو وہ اسے جلد از جلد فارغ کرنا چاہ رہی تھی۔

’’سنو حریم۔‘‘

’’کہو۔‘‘ وہ رک گئی۔

’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم بس مجھ سے بات کیا کرو اور کسی سے نہیں۔‘‘ اور وہ اس کی فرمائش پر دنگ رہ گئی تھی کتنی شدت تھی ان لفظوں میں اس کی دھڑکنوں میں اک ہنگامہ سا جاگ اٹھا تھا۔

٭٭٭

برتن دھوتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں ایک ہی جملہ گردش کر رہا تھا۔

’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم بس مجھ سے بات کیا کرو اور کسی سے نہیں۔‘‘ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر کا موسم بدل رہا ہو وہ اپنے احساسات سے خود ہی خوفزدہ ہو رہی تھی دھلے ہوئے برتن ریک میں رکھنے کی بجائے اس نے دوبارہ سینک میں رکھ دئیے تھے ایسی بدحواسی تو اس پر پہلے کبھی نہیں چھائی تھی، اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ دوبارہ کبھی اس سے بات نہیں کرے گی دل میں مصمم ارادہ کرتے ہوئے اس نے برتن سینک میں اٹھا کر ریک میں رکھے اور ہاتھ دھو کر زیب کے روم میں چلی آئی، وہ اس وقت بستر پر کتابیں بکھیرے کچھ لکھنے میں مگن تھی۔

’’کوئی کام تھا۔‘‘ ایک پل کے لئے اس نے سر اٹھایا۔

’’ہاں۔‘‘ اثبات میں سر ہلا کر اس نے چند کتابیں اٹھائیں اور اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے بولی۔

’’میں چاہ رہی تھی مالا کے ساتھ سیلز گرل کی جاب کر لوں۔‘‘

’’جاب۔‘‘ زیب نے ناقابل فہم نگاہوں سے اسے دیکھا جاب تو وہ فل ٹائم اس کی کر رہی تھی۔

’’بس چار گھنٹے۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں کا سوال سمجھ گئی تھی۔

’’اوکے اگر تم مینج کر سکتی ہو تو ایزیو لائیک۔‘‘ وہ اجازت دے کر دوبارہ کتاب پر جھک گئی تھی۔

’’تھینکس زیب تم بہت اچھی ہو۔‘‘ اسے امید تو تھی کہ اجازت مل جائے گی لیکن اسے لگا تھا خاصا کنوینس کرنا پڑے گا لیکن وہ تو بغیر کسی دلائل کے ہی مان گئی تھی حریم کا خوش ہونا یقینی تھا۔

صبح نو بجے سے دوپہر ایک بجے تک اس کی شفٹ تھی گھر آ کر کھانا بنانے کے بعد اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا چار بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے ماہا کی فرمائش پر وہ نئے ہیڈ فون لے کر آئی تھی اسے حیرت تھی کہ یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا سیل فون کی نسبت ہیڈ فون تو وہ با آسانی افورڈ کر سکتی تھی۔

’’لیکن اب کیا فائدہ مجھے تو اس سے بات ہی نہیں کرنا تھی۔‘‘ ہیڈ فون ٹیبل پر رکھنے کے بعد وہ ٹی وی آن کر کے بیٹھ گئی تھی لیکن وہاں بھی دل نہ لگا تو دھلے ہوئے کپڑے تہہ کرنا شروع کر دئیے دو سوٹ تہہ کرنے کے بعد ان سے بھی دل اچاٹ ہو گیا تو چائے بنا کر ٹیرس پر آن کھڑی ہوئی۔

مگر گزرتے وقت کے ساتھ اس کے بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی چائے کا کپ وہیں ریلنگ پر رکھا چھوڑ کر وہ کمپیوٹر کے سامنے آن بیٹھی تھی۔

’’اتنا لیٹ میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔‘‘ اس کا آف لائن میسج آیا ہوا تھا، لیکن وہ خود شاید سائن آؤٹ ہو چکا تھا بیس منٹ تک وہ مانیٹر اسکرین کو گھورتے ہوئے اس کا ویٹ کرتی رہی تھی اور جب وہ دوبارہ آیا تو اس نے ’’کتاب گھر‘‘ کھول لیا کچھ اس کے فیورٹ نئے ناول آئے ہوئے تھے۔

’’حریم کیسی ہو؟‘‘ وہ پوچھ رہا تھا۔

’’کیا کر رہی ہو؟‘‘ دوسرا سوال۔

’’مصروف ہو۔‘‘ وہ رضیہ جمیل کا ناول پڑھنے میں مگن رہی۔

’’حریم کیا مجھ سے بات نہیں کرو گی۔‘‘ اور اس کے دل کو جیسے کچھ ہوا تھا، اسے لگا یہ شخص اس کی عادت بن چکا ہے لیکن وہ اپنی کمزوری اس پر منکشف نہیں کرنا چاہتی تھی سو بے نیازی سے اپنا کام کرتی رہی، اب اس کی کال آنے لگی تھی۔

’’السلام علیکم!‘‘

’’وعلیکم السلام۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی۔

’’تم نے ہیڈ فون لے لیا؟‘‘ اسے خوشگوار حیرت نے گھیرا۔

’’ہاں۔‘‘ وہ وائس بات کرتے ہوئے نروس ہو رہی تھی۔

’’کہاں تھی اب تک؟‘‘

’’تمہارے دل میں۔‘‘ اس نے شرارت سے بتایا۔

’’وہاں تو ازل سے تھی لیکن ابھی کہاں تھی؟‘‘ وہ اطمینان سے بولا۔

’’بزی تھی۔‘‘

’’کہاں؟‘‘ وہ جاننے پر مصر تھا۔

’’ناول پڑھ رہی تھی۔‘‘

’’اچھا، مجھے نہیں پتا تھا کہ ناول پڑھتے ہوئے بھی بندہ اتنا بزی ہوتا ہے، تم ناول پڑھو ایم ساری کہ میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا۔‘‘ وہ خفا ہو گیا تھا اور حریم کی جیسے جان پہ بن آئی تھی سارا دن وہ بے چین رہی، اسے رہ رہ کر ایک ہی بات کا خیال آ رہا تھا اسے یاد آ رہا تھا کہ ایان تو پچھلے دو ماہ سے اس سے خفا تھا اور اس نے تو ایک بار بھی اس کی پرواہ نہیں کی تھی پھر اب کیسی بے تابی ہے۔

’’تو کیا مجھے ایان سے کبھی محبت نہیں تھی۔‘‘ اس نے پوری ایمانداری کے ساتھ خود کو ٹٹولا جواب میں خاموشی تھی مکمل خاموشی۔

٭٭٭

’’کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’تمہیں مس کر رہا تھا۔‘‘

’’کل اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے؟‘‘

’’یار میرا نٹ ڈس کنیکٹ ہو گیا تھا۔‘‘

’’لیکن تم مجھے آن لائن نظر آ رہے تھے۔‘‘ وہ اس کی دروغ گوئی پر تلملائی۔

’’میں تو تمہیں ہر جگہ آن نظر آتا ہوں تمہاری آنکھوں میں بس گیا ہوں۔‘‘ وہ شوخی سے بولا حریم خاموش سی ہو گئی۔

’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ اس نے اجازت چاہی اور لہجے کی گھمبیرتا پر حریم کی ہتھیلیاں بھیگنے لگی تھیں اب جانے وہ کیا پوچھنے والا تھا۔

’’کیا بنا دیکھے پیار ہو سکتا ہے۔‘‘ عجیب سوال تھا وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی۔

’’بولو حریم۔‘‘ اسے ایک پل کی خاموشی بھی گراں گزری۔

’’پیار اگر چہروں سے نہیں ہوتا تو بنا دیکھے بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے ہم پیار چہروں سے کرتے ہیں۔‘‘ اس کی ساری شوخی بھک سے اڑ گئی تھی اس مرحلے پر تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ابھی تو وہ اپنے دل کی کیفیت کا کچھ اندازہ نہیں لگا پائی تھی۔

’’پیار ہو جائے تو بندے کو کیا کرنا چاہیے؟‘‘

’’سیمپل جا کر کہہ دو آئی لویو ویسے خیریت ہے آج اتنے پیار بھرے کوئسچن کیوں پو چھ رہے ہو کہیں کس سے پیار ویار تو نہیں ہو گیا۔‘‘ اس کا اندازہ شریر تھا۔

’’ہاں ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے جیسے تھک کر اقرار کیا تھا۔

’’کس سے؟‘‘ اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔

’’تم سے۔‘‘ اور اگلے ہی پل اسے لگا ایلین بلڈنگ کی چھت اس کے سر پہ آن گری ہو۔

’’پلیز ایسے مذاق نہ کرو۔‘‘

’’میرا پیار مذاق نہیں ہے حریم۔‘‘ وہ سنجیدگی سے بولا۔

’’ہم جسٹ فرینڈز ہیں۔‘‘ اس کا سر گھومنے لگا تھا۔

’’میں اس فرینڈ شپ کو بہت آگے لے جانا چاہتا ہوں جہاں تم میرے ساتھ ہو گی۔‘‘

’’بس اس چاہت کو یہیں چھوڑ دو اور تم پاگل ہو تم نے مجھے دیکھا نہیں اور پھر ان دیکھی لڑکی سے محبت کا دعویٰ صرف ایک جوک ہی ہو سکتا ہے۔‘‘

’’مجھے تمہارے کریکٹر پر کوئی شبہ نہیں ہے تم حریم ہو میرے لئے اتنا تعارف کافی ہے اور رہی کیسی کی بات تو میری محبت چہرہ نہیں ہے حریم دل ہے تم میرے دل میں ہو اور جس روپ میں بھی میرے سامنے آؤ گی میں آنکھیں بند کر کے تمہیں قبول کروں گا۔‘‘

’’لڑکیوں کو اچھا متاثر کر لیتے ہو ذرا یہ بتانا میرا نمبر اس لسٹ میں کہاں ہے جن سے تمہیں محبت ہوئی ہے۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔

’’محبت کسی ایک سے ہوتی ہے اس کی کوئی لسٹ نہیں بناتا۔‘‘ اس نے اچھا خاصا برا مانا تھا دونوں جانب کچھ دیر کے لئے خاموشی چھا گئی دل میں چبھتی ہوئی خامشی، روح میں حشر برپا کرتی ہوئی خامشی، شریانوں میں طوفان کی مانند گردش کرتی ہوئی خامشی۔

’’تمہیں کیا اچھا لگا مجھ میں۔‘‘ کوئی طلسم تھا جو اس کی آواز پر چھن سے ٹوٹ گیا تھا۔

’’تمہاری سادگی، صاف گوئی اور زندہ دلی۔‘‘

٭٭٭

’’تم حریم ہو میرے لئے اتنا تعارف کافی ہے اور رہی کیسی کی بات تو میری محبت چہرہ نہیں ہے دل ہے تم میرے دل میں ہو اور جس روپ میں بھی میرے سامنے آؤ گی میں آنکھیں بند کر کہ تمہیں قبول کروں گا۔‘‘ رات بھر شدتوں میں ڈوبی آواز نے اسے سونے نہیں دیا تھا محبت ابر کی صورت اس کے دل میں اتری تھی اور جیسے سارا گلشن مہک اٹھا تھا۔

وہ جانتی تھی اسے دیکھ کر تو کوئی بھی اس کی محبت میں مبتلا ہو سکتا ہے، لیکن بنا دیکھے پیار، اسے لگا وہ مزید مزاحمت نہیں کر پائے گی۔

’’میری محبت چہرہ نہیں ہے دل ہے تم میرے دل میں ہو۔‘‘ محبت کا اک سمندر تھا جو اس کی ذات میں بہہ رہا تھا وہ بے بس ہو چکی تھی ہار چکی تھی، زندگی میں پہلی بار اسے کسی سے پیار ہوا تھا بے حد پیار۔

چند ہی دنوں میں اس کی سحر انگیز شخصیت کا جادو چل چکا تھا اسے لگتا تھا جیسے اس کی ذات کسی حصار میں مقید ہو چکی ہو وہ پہلا شخص تھا جو دل و دماغ پر چھا جانے کی حد تک اس پر حاوی ہو چکا تھا، لیکن پھر بھی فیصلہ ابھی باقی تھا۔

دوسری جانب ایان ہی نہیں اس کی فیملی بھی تھی اور اس کی اماں کہا کرتی تھیں ’’غریب کے پاس عزت کے سوا کچھ نہیں ہوتا حریم ہماری عزت کا پاس رکھنا۔‘‘

’’کیا کروں اگر قدم پیچھے ہٹاؤں تو وہی تین مرلے کا گھر، گھٹا ہوا ماحول، عام سی شکل و صورت کا شوہر اور گھسٹی پٹی مفلسی کی چادر میں لپٹی سسکتی ہوئی سی زندگی اور جو قدم آگے بڑھاؤں تو کہکشاؤں کا سفر، اک نیا جہان، حسین ہم سفر، من پسند زندگی، خوابوں کی تکمیل اور ہر خواہش مٹھی میں بند، جگنو کی مانند دسترس میں، پھر قدم آگے کیوں نہ بڑھاؤں۔‘‘

’’میرے ڈیڈی نیوروسرجن ہیں برمنگھم میں، ہمارا بہت بڑا عالیشان گھر ہے۔‘‘

’’مجھے گاڑیاں جمع کرنے کا شوق ہے میرے پاس لینڈ کروزر، پراڈو اور ہیوی بائیک ہے لیکن اب کی بار میں لیموزین لوں گا۔‘‘

’’جب میں لندن آؤں گا تو تمہیں اپنی ساری گاڑیوں میں گھماؤں گا آئی وش کہ تم میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھو۔‘‘

’’پاکستانی کرنسی میں تین لاکھ۔‘‘

’’میں اس فرینڈ شپ کو بہت آگے لے جانا چاہتا ہوں جہاں تم میرے ساتھ ہو گی۔‘‘

’’تم میرے دل میں ہو۔‘‘ شہروز کی باتیں اس کے آس پاس گھوم رہی تھیں۔

٭٭٭

’’مالا اگر انسان کے پاس دو راستے ہوں بہتر اور بہترین تو وہ کس کا انتخاب کرے گا۔‘‘ اسٹور سے واپسی پر دونوں واک کرتے ہوئے گھر آ رہی تھیں جب کچھ نہ سمجھ آنے پر اس نے مالا سے رائے لینے کا سوچا تھا۔

’’بہترین۔‘‘ اس نے لمحے کی تاخیر کیے بغیر کہا جس پر وہ خاموش سی ہو گئی تھی اگر وہ یہ سوال ہزار لوگوں سے بھی دریافت کرتی تو اسے یہی جواب ملنا تھا لیکن مالا کی اگلی بات نے اسے چونکا دیا۔

’’لیکن راستوں میں چیزوں میں اور انسانوں میں فرق ہوتا ہے انسانوں کا ظاہر دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے پہلے ان کے اندر جھانکو ان کے من کو پرکھو پھر انتخاب کرو۔‘‘

’’پرکھ۔‘‘ اس پہلو پر وہ رات بھر سوچتی رہی تھی اور اگلی صبح اس نے سب سے پہلے ایک نیو آئی ڈی بنایا تھا۔

٭٭٭

’’زیب کیا میں آج تمہارا سیل فون یوز کر سکتی ہوں؟‘‘ وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو چکی تھی فائل میں نوٹس رکھتے ہوئے اس نے الجھن آمیز نظروں سے حریم کو دیکھا تو وہ وضاحت کرتے ہوئے بولی۔

’’مجھے حرمت سے ضروری بات کرنا تھی ماہا کا مائیک خراب ہے تو کتنے دنوں سے گھر والوں سے بات نہیں ہوئی اماں کی طبیعت بھی شاید اچھی نہیں ہے۔‘‘

’’اوکے لیکن مما کی کال آئے تو بتا دینا کہ میں یونیورسٹی سے واپس آ کر ان سے بات کروں گی۔‘‘ سیل فون اس کی جانب بڑھانے کے بعد اس نے فائل اور بیگ اٹھایا پھر جوتے کے اسٹریپ باندھتے ہوئے ہاتھ ہلا کر چلی گئی اس کی کلاسز آج کل سیکنڈ ٹائم ہو رہی تھیں۔

چار بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے اور اس کا ایک ایک پل بڑی مشکل سے کٹا تھا عجیب وسوسے، واہمے دل کو ہولا رہے تھے اپنا نیا آئی ڈی سائن آن کیے وہ جس قدر شدت سے اس کی منتظر تھی اسی قدر دل میں دعا گو تھی۔

کہ کاش وہ اس سے بات نہ کرے اس کی فرینڈ ریکوسٹ ایکسپٹ نہ کرے اسے کوئی رپلائی نہ کرے بلکہ اسے ڈانٹ دے اسے جھاڑ دے اس سے یہ کہہ دے کہ وہ حریم نام کی لڑکی سے محبت کرتا ہے۔

اور اگلے ہی پل وہ شاکڈ رہ گئی تھی کیا وہ قبولیت کی گھڑی تھی یا اللہ کو اس پر رحم آ گیا تھا یا پھر اس کی قسمت بدلنے والی تھی۔

اس کا مانگا حرف حرف سچ ثابت ہوا تھا، وہ کتنی خوش تھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش وہ مور ہوتی اور اپنے سنہری پنکھ پھیلا کر جنگل میں رقص کرتی یا پھر کوئی مینا ہوتی اور بارش میں بھیگتے ہوئے کوئی سریلا گیت گنگناتی یا اس کے پنکھ ہوتے اور وہ دور آسمان کی وسعتوں میں اڑتے ہوئے کہکشاؤں کو چھو آتی، وہ ایک ساتھ دو آئی ڈی سے آن لائن تھی تاکہ اسے کوئی شبہ نہ رہے، زیب کا سیل فون بھی اس نے اسی کام سے لیا تھا اور وہ اسے بتا رہا تھا۔

’’حریم یہ کوئی ضویا نام کی لڑکی ہے اس نے مجھے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی ہے اور اب چیٹنگ پر اصرار کر رہی ہے۔‘‘

’’اچھا تو کر لو اس سے بات۔‘‘ وہ زیر لب مسکرائی۔

’’سوچ لو خود اجازت دے رہی ہو پھر نہ کہنا بے وفا۔‘‘

’’تم تو ایسے ری ایکٹ کر رہے ہو جیسے پہلے کبھی کسی لڑکی سے تمہاری فرینڈ شپ رہی نہیں ہو گی جناب یہ انگلینڈ ہے بیوقوف کسی اور کو بنانا۔‘‘

’’ہاں فرینڈ شپ تو تھی لیکن محبت نہیں تھی اور اب محبت ہے تو ایسی فرینڈ شپ کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔‘‘ دو ٹوک لفظوں میں انکار کرتے ہوئے وہ اب اس سے اپنی باتیں کرنے لگا تھا لیکن اس نے بھی ہمت نہیں ہاری تھی اور اگلے کئی روز تک وہ مالا کے سیل فون سے اسے تنگ کرتی رہی تھی، مگر مجال ہے جو اس نے کوئی توجہ دی ہو تھک ہار کر اسے اعتبار کرنا پڑا تھا، کہ وہ اس کے ساتھ فیئر ہے، مہینے کے آخر میں اسے سیلری ملی تو اس نے سب سے پہلے ایک سیل فون خریدا تھا۔

’’شکر ہے یار تمہیں میرا خیال تو آیا اب مخصوص وقت کا ویٹ تو نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘ اس کا تو جیسے بڑا مسئلہ حل ہوا تھا۔

’’تم سوتے کس ٹائم ہو؟‘‘ حریم نے اپنی نیند سے بوجھل پلکیں بمشکل جھپکاتے ہوئے پوچھا تھا گیارہ بجنے والے تھے اور وہ ابھی تک وہ فون بند کرنے کو تیار نہیں تھا۔

’’بس ایک گھنٹہ اور بات کر لو۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھا، اس کی ڈیوٹی آج کل شام پانچ بجے سے رات ایک بجے تک تھی اور صبح نو بجتے ہی اس نے دوبارہ فون کر دینا تھا، کتنا بولتا تھا وہ اور اسے اتنی باتیں جانے کہاں سے آ جاتی تھی۔

’’سات گھنٹے ہو چکے ہیں ہمیں بات کرتے ہوئے۔‘‘ وہ مدھم آواز میں بولی کل تو زیب نے اس سے پوچھ بھی لیا تھا کہ وہ اتنی اتنی دیر کس سے باتیں کرتی ہے اسی وجہ سے وہ بہت دھیما بول رہی تھی۔

’’اور جب تم دس منٹ، سات منٹ، پندرہ منٹ بعد فون کاٹ دیتی ہو تب تمہارے گھنٹے کم کیوں نہیں ہوتے آج جو پہلی بار مہربان ہو ہی چکی ہو تو ایک گھنٹہ اور بات کر لو نا۔‘‘

’’اوکے لیکن بس ایک گھنٹہ۔‘‘ اسے مانتے ہی بنی تھی اور اب وہ اسے بتا رہا تھا۔

’’میں نے تمہارے لئے بروکن ہارٹ والا لاکٹ لیا ہے اور میرا دل چاہ رہا ہے کہ تم آئینے کے سامنے کھڑی ہو اور میں اپنے ہاتھوں سے تمہیں وہ لاکٹ پہناؤں۔‘‘

٭٭٭

’’حریم آج شام میری فرینڈز آئیں گی تم کھانے میں کچھ ورائٹی رکھ لینا۔‘‘ آج سنڈے تھا وہ اور مالا اپنے اپنے ٹیرس کی ریلنگ پر جھکی آؤٹنگ کا پروگرام بنا رہی تھیں جب زیب کی اطلاع پر اس کا منہ بن گیا تھا جبکہ وہ اب مالا سے باتوں میں مشغول ہو چکی تھی حریم کے بگڑتے زاویے اس نے دیکھے ہی نہیں تھے، سارا دن کچن کی نظر ہو چکا تھا زیب نے بھی برائے نام اس کی ہیلپ کروائی تھی۔

شام میں اس کی فرینڈز آئیں اور ساتھ ہی اس کا سیل فون بج اٹھا وہ ایکسکیوز کرتی ٹیرس پر چلی آئی تھی۔

’’میں آج تم سے بات نہیں کر سکتی کچھ فرینڈز آئی ہیں۔‘‘

’’اور میں اتنے گھنٹے کیسے گزاروں گا۔‘‘ اس کی آواز میں بے بسی تھی۔

’’حریم مجھے بخار ہے میں نے ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا کوئی میرا خیال رکھنے والا نہیں ہے اور اب تم بھی چھوڑ کر جا رہی ہو۔‘‘ وہ جانے کیوں اتنا حساس ہو رہا تھا۔

’’تم ناشتہ کرو، میڈیسن لو اور ریسٹ کرو اوکے بائے۔‘‘ زیب اس دوران اسے دوبارہ آواز لگا چکی تھی بمشکل جان چھڑوا کر وہ کچن میں چلی آئی کھانا سرو کرنا بھی اس کے ذمے تھا۔

’’زیب تمہاری کزن تو بہت خوبصورت ہے۔‘‘ اس کی دوستوں کے والہانہ انداز پر زیب یوں گردن اکڑا کر مسکرائی جیسے اس کی اپنی تعریف ہوئی ہو حریم نے تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھا تھا اور اس کے خلوص کی متصرف بھی ہو چکی تھی اس نے فرینڈز میں اسے کزن متعارف کروا کے اس کی عزت نفس اور خود داری کا مان رکھ لیا تھا۔

’’اب تم بھی آ جاؤ حریم۔‘‘ زیب کی آواز پر وہ کھانے میں برائے نام شریک ہو گئی جبکہ ذہن ہنوز شہروز میں الجھا ہوا تھا جانے اسے کتنا بخار تھا آواز سے ہی نقاہت جھلک رہی تھی ناشتہ بھی کیا ہو گا کہ نہیں۔

انواع و اقسام کے کھانوں سے سجی میز اس کے سامنے تھی اور اس کا کچھ بھی چکھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا حالانکہ کبھی وہ بریانی کھانے کے لئے انگلیوں پر دن گنا کرتی تھی اور آج خود سے زیادہ اس کے کھانے کی فکر ہو رہی تھی۔

’’اگر وہ اتنا خوبصورت نہ ہوتا اتنا امیر نہ ہویہ نہ ہی اس کے پاس اتنی گاڑیاں ہوتیں عالیشان محل نما گھر نہ ہوتا اگر وہ نیشنلٹی ہولڈر نہ ہوئی اگر اس کا شمار اپر کلاس میں نہ ہورہا ہوتا تو کیا پھر بھی میں اس سے اتنی محبت کرتی۔‘‘ برتن دھوتے اس کے ہاتھ ایک لمحے کو ساکت ہو چکے تھے، وہ خود کو ٹٹول رہی تھی اپنے دل میں جھانکتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا جائزہ لینا چاہتی تھی اور دل کا جواب اسے ورطہ حیرت میں ڈال گیا تھا۔

’’ہاں اس کے پاس اگر کچھ بھی نہ ہوتا تو میں پھر بھی اس سے یونہی محبت کرتی۔‘‘ وہ خود حیران تھی کیا وہ ان ساری چیزوں اور آسائشوں کے بغیر خالی انسان سے محبت کر سکتی تھی؟ اگر ہاں تو پھر اسے ایان سے محبت کیوں نہیں ہوئی۔

’’ایان گھر والوں کو پسند تھا جس پر میں نے سر جھکا دیا تھا اس لئے کہ ایان سے آگے کی دنیا تو کبھی میں نے دیکھی ہی نہیں تھی اگر مجھے شہروز نہ ملتا تو شاید میں ایان کے ساتھ ایک اچھی خوشگوار زندگی گزار لیتی لیکن یہ دل کے ضابطے بھی عجیب ہوتے ہیں ہر کسی سے محبت ممکن ہوتی تو انارکلی خود کو دیوار میں چنوانا کبھی تسلیم نہ کرتی محبت کی اگر کوئی مورت ہے تو اس میں شہروز کے نقوش ابھرتے ہیں۔‘‘

’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ بیڈ روم میں آ کر اس نے ایس ایم ایس سینڈ کیا تھا کیونکہ کال وہ ریسیو نہیں کر رہا تھا۔

’’تمہیں کیا جیسی بھی ہو۔‘‘ خفگی بھرا جواب۔

’’ناشتہ کیا ہے؟‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے دوسرا میسج سینڈ کیا۔

’’نہیں۔‘‘ وہ جتنا بھی خفا ہو اس کی یہ عادت اچھی تھی کہ رپلائے ضرور کرتا تھا۔

’’میڈیسن لائے ہو۔‘‘

’’نہیں۔‘‘ وہ نپا تلا جواب۔

’’کیوں نہیں لائے۔‘‘ اس کے پاس سوالوں کی کمی نہیں تھی۔

’’میری مرضی۔‘‘

’’تمہاری مرضی نہیں چلے گی اٹھ کر ناشتہ کرو اور میڈیسن لاؤ ورنہ میں بات نہیں کروں گی۔‘‘

’’نہ کرو۔‘‘ وہ سائن آؤٹ کر کے جا چکا تھا وہ ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو گھور کر رہ گئی۔

٭٭٭

رات بھر وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی صبح اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا اسٹور پر کھڑی وہ دس بار سیل فون نکال کر چیک کر چکی تھی لیکن نہ تو اس کا کوئی پیغام آیا تھا نہ ہی وہ آن لائن ہو رہا تھا اگرچہ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ آفس جا چکا ہو گا لیکن پھر بھی بھلا وہ اس سے خفا ہو کر کیسے کام کر سکتا تھا، غائب دماغی کے عالم میں سامنے کھڑے کسٹمر کو جو اس سے کی رنگ مانگ رہا تھا دوبارہ گلاسز تھما چکی تھی۔

’’حریم تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘ مالا نے آ کر پہلے کسٹمر کو فارغ کیا پھر اس کی سمت متوجہ ہوئی تھی۔

’’ہاں شاید ٹمپریچر ہو رہا ہے۔‘‘ وہ بے دلی سے مسکرائی۔

’’تو لیو لے کر چلی جاؤ۔‘‘ اس پرخلوص مشورے پر اس نے وال کلاک کی سمت دیکھا ابھی تو اسے آئے ڈیڑھ گھنٹہ ہوا تھا گھر جا کر بھلا باقی کا وقت کیسے گزارتی لیکن اس کا یہاں کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا وہ مینجر کو مطلع کرنے کے بعد یونہی سڑکوں پر گھومتی رہی تھی، چار بجنے میں دس منٹ باقی تھے جب اس نے اپارٹمنٹ میں قدم رکھا تھا۔

’’حریم اتنا لیٹ، تم جانتی ہو مجھے یونیورسٹی بھی جانا تھا اور کچن میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘‘ زیب کا موڈ بہت خراب تھا اس کے باوجود وہ کافی تحمل کا مظاہرہ کر رہی تھی اس کے جی میں تو آیا کہہ دے میں کوئی تمہاری نوکر نہیں ہوں مگر لب بھینچے ہوئے کچن میں چلی آئی۔

’’میں تمہیں چیز سینڈوچ بنا دیتی ہوں۔‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں میں کیفے ٹریا سے کچھ کھالوں گی ڈنر میں شامی اور چیس ضرور بنا لینا۔‘‘ اس کے جانے پر حریم نے شکر ادا کیا تھا پھر اپنے لئے سینڈوچ بنا کر لاؤنج میں چلی آئی تھی کھاتے ہوئے بھی اس کا دھیان سیل فون میں اٹکا ہوا تھا چار بج کر بیس منٹ ہو چکے تھے اور وہ ابھی تک آن لائن نہیں ہوا تھا، پہلے تو کبھی اسے اتنی تاخیر نہیں ہوئی تھی اس کی بے چینی لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگی تھی۔

وہ اسے کال بھی نہیں کر سکتی تھی زیادہ تر وہ نیٹ سے بات کرتا تھا اور اگر کبھی فون کرتا بھی تھا تو پرائیویٹ نمبر سے اور اب اسے یہ سوچ کر انتہائی کوفت ہو رہی تھی کہ کم از کم وہ اس کا نمبر تو لے لیتی۔‘‘ میں نے کیا سوچا تھا وہ یونہی عمر بھر چار بجے آن لائن ہوتا رہے گا ایسی سیچوئیشن کے متعلق مجھے دھیان کیوں نہیں آیا میرے اندر ان خدشات نے سر کیوں نہیں اٹھایا کہ وہ کبھی ناراض بھی ہو سکتا ہے اسے کوئی ایمرجنسی صورتحال بھی پیش آ سکتی ہے۔‘‘ چیز سینڈوچ کے ساتھ بلیک کافی کا آخری گھونٹ حلق سے اتار کر اس نے ابھی برتن اٹھائے ہی تھے جب اچانک سیل فون کی بل بجنے لگی تھی۔

’’ہیلو۔‘‘ نمبر چیک کیے بغیر بھی اسے جیسے یقین تھا کہ دوسری جانب شہروز ہی ہو گا لیکن اماں کی آواز سن کر اسے سخت مایوسی ہوئی، لیکن اگلے ہی پل اسے ایسا لگا تھا جیسے اس کی سماعتوں پر کسی نے بم پھوڑ دیا ہو۔

’’حریم ہم نے تمہاری اور حرمت کی شادی کی تاریخ طے کر دی ہے بس تم آنے کو تیاری کر لو۔‘‘ اور وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی رہ گئی تھی۔

کچھ روز قبل حرمت نے اسے بتایا تھا کہ آنٹی ثریا، فیصل کے لئے اس کا پرپوزل لے کر آئی ہیں وہ اپنی بیوی کو شادی کے دو ماہ بعد ہی طلاق دے چکا تھا وجہ علیحدگی گھر اور بزنس تھا لڑکی اس کی فیملی کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھی اور اس کے لئے گھر اور بزنس الگ کرنا ممکن نہیں تھا وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا پھر گھر کس سے الگ کرتا اپنی ماں سے اور بزنس باپ سے روز بروز کے جھگڑوں نے بالآخر فیصل کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا اور آنٹی ثریا کی بھی اونچے اور امیر خاندان کی بہو کا شوق پورا ہو چکا تھا اور اب وہ حرمت کی طلبگار بن کر آ گئی تھیں، لیکن یہاں بات محض حرمت کی نہیں ہو رہی تھی۔

’’حریم تم سن رہی ہو۔‘‘ اماں نے دوبارہ پوچھا تھا مگر وہ تو جیسے بہری ہو چکی تھی دل و دماغ میں جکڑے چلنے لگے تھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

ایک جانب شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی تو دوسری جانب وہ ناراض ہو کر بیٹھا تھا رابطے کی کوئی سبیل بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔

’’اب کیا کروں۔‘‘ سوچ سوچ کر اس کے اعصاب چٹخنے لگے تھے۔

٭٭٭

اپنی تمام تر ہمت یکجا کرتے ہوئے اس نے کال تو ملا دی تھی مگر اب لفظ جیسے حلق میں اٹک رہے تھے کچھ بولا ہی نہیں جا رہا تھا۔

’’ہیلو حریم کیسی ہو؟ پیکنگ کر لی جلدی آ جاؤ، مل کر شاپنگ کریں گے مجھ سے تو اکیلے اتنا پھیلاوا سمیٹا نہیں جا رہا اور تمہارا میرا لہنگا ایک جیسا ہو گا ڈیزائن میں پسند کر چکی ہوں۔‘‘ دوسری جانب حرمت نان اسٹاپ شروع ہو چکی تھی۔

’’میں نہیں آ رہی۔‘‘ وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔

’’کیوں فلائیٹ نہیں مل رہی۔‘‘ حرمت کی سوچ یہیں تک تھی سو فکر مندی سے پوچھا۔

’’اماں کو بتا دینا کہ مجھے ایان سے شادی نہیں کرنی میں یہیں سیٹل ہونا چاہتی ہوں اور شاید ہی واپس آؤں۔‘‘

’’حریم۔‘‘ حرمت کے سر پر جیسے آسمان آن گرا تھا۔

’’تم ایسا کیسے کر سکتی ہو پلیز دیکھو ابا کی عزت کا سوال ہے ہم تو کارڈز بھی بانٹ چکے ہیں اور پھر ایان کتنا پیار کرتا ہے وہ تم سے۔‘‘

’’لیکن میں اس سے پیار نہیں کرتی اور پلیز میری واپسی کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے اماں سے کہو وہ تمہاری رخصتی کر دیں میرے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

’’حریم میری بات…‘‘ جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی رابطہ منقطع کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اب سب مل کر اسے ایموشنل بلیک میل کریں گے اور جذبات میں بہہ کر وہ اتنا عظیم نقصان نہیں کر سکتی تھی سیل فون آف کر کے الماری میں بند کیا اور اٹھ کر مالا کے فلیٹ میں چلی آئی، وہ کچن میں کھڑی پکوڑے تل رہی تھی۔

’’کیا بات ہے اداس لگ رہی ہو۔‘‘ پکوڑوں کی پلیٹ اور پودینے کی چٹنی اس کے سامنے رکھتے ہوئے مالا نے اس کے دلکش لیکن سوگواریت میں ڈھلے پیکر کو دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔

’’چھوڑو یہ سب چلو کہیں گھومنے چلیں میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘ پلیٹ واپس ہٹاتے ہوئے وہ بے دلی سے بولی، اتنا بڑا فیصلہ کرتولیا تھا لیکن اب دل و دماغ بوجھل پن کے زیر اثر آ چکے تھے۔

’’ہاں موسم بھی خوشگوار ہے سیکٹر ون کا ایک چکر لگا کر واپس آ جائیں گے۔‘‘ مالا نے اتفاق کرتے ہوئے برنر بند کیا، پھر پکوڑے پاپ کارن کے خالی پیک میں بھرنے لگی حریم اس دوران نیچے جا چکی تھی اور اب پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں کا جائزہ لینے میں مشغول تھی۔

’’آ جاؤ حریم۔‘‘ مالا نے سیڑھیاں اتر کر آواز دی تو وہ خاموش گم صم سی اس کے ساتھ چلنے لگی تھی کچھ دیر واک کے بعد کالونی کا چکر لگانے کی بجائے دونوں قریبی پارک میں چلی آئیں تھیں۔

گلابی پھولوں کے جھنڈ کے قریب سنگی بینچ پر بیٹھتے ہوئے مالا اس کے بولنے کا ویٹ کر رہی تھی اس کے انداز بتا رہے تھے ضرور کچھ خاص بات ہے لیکن وہ چاہتی تھی حریم خود آغاز کرے۔

’’میں نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ وہ اپنے ناخنوں سے کیوٹکس کھرچتے ہوئے مدھم آواز میں بولی تھی مالا نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھا اسے جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا تھا۔

’’تم نے اچھا نہیں کیا تمہارے گھر والے ہمیشہ کے لئے تم سے تعلق توڑ دیں گے اور جس کی خاطر یہ سب کیا ہے کیا گارنٹی ہے کہ وہ تمہارے ساتھ مخلص ہے تین روز سے اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تمہاری عقل کیا گھاس چرنے جا چکی ہے تم ایک اجنبی شخص کی خاطر خود کو برباد کر رہی ہو۔‘‘

’’وقتی غصہ ہے یار بعد میں سب مان جائیں گے اور پلیز مجھے شہروز کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں ہے اور میں اس کی خاطر نہیں اپنی خاطر اپنے دل کی خاطر یہ سب کر رہی ہوں میں بہت محبت کرتی ہوں اس سے اس کا چہرہ میرا عشق ہے اور اس کا اسٹیٹس میری خواہش تم نہیں جانتی وہ میرے لئے ہر خواب کی تکمیل بن کر آیا ہے اسے پا کر میری ہر تمنا سرخرو ہو جائے گی۔‘‘

’’آئی وش ایسا ہی ہو۔‘‘ مالا نے پکوڑوں کا پیکٹ اس کے سامنے رکھتے ہوئے خلوص دل سے دعا دی تھی لیکن وہ شاید قبولیت کا لمحہ نہیں تھا۔

٭٭٭

’’تم نے ہم سب کو جیتے جی مار ڈالا حریم، ابا کو کسی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا ہم آخری وقت تک تمہارا انتظار کرتے رہے بڑے ابا نے ایان کا نکاح ماہا سے کر دیا ہے اب تم دوبارہ کبھی واپس مت آنا مرچکی ہو تم ہمارے لئے۔‘‘

’’حرمت پلیز میری اماں سے بات کروا دو۔‘‘ رندھے ہوئے لہجے میں وہ بڑی منت سے بولی تھی۔

’’اماں تم سے بات نہیں کرنا چاہتی دن رات صبح و شام وہ تم سے بات کرنے کے لئے تڑپتی رہیں لیکن تم نے اپنا نمبر بند کر رکھا تھا زیب کو کال کی تو تم نے بات کرنے سے انکار کر دیا رفعت آنٹی نے تمہاری سیٹ تک ریزرو کروادی تھی لیکن تم نہیں آئی اب کیا چاہتی ہو کہ ہم لوگ تمہیں گلے سے لگائیں پلکوں پر بٹھائیں تو…‘‘ اس کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی اماں نے سیل فون جھپٹ لیا تھا وہ محض ان کی آواز ہی سن سکی تھی جو حرمت سے کہہ رہی تھیں۔

’’میں نے کہا تھا نا کہ اب سے ہماری ایک ہی بیٹی ہے دوبارہ کبھی اس سے بات کی تو میں سمجھوں گی تم بھی مر گئی ہو ہمارے لئے۔‘‘ ساتھ ہی پٹاخ کی آواز کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا تھا شاید اماں نے سیل فون ہی توڑ ڈالا تھا۔

لرزتے ہاتھوں سے اس نے سیل فون کانوں سے ہٹایا اور دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔

کل اس نے ایک ہفتہ بعد سیل فون آن کیا تھا، اس میں ابا اور اماں سے برائے راست بات کرنے کی جرأت نہیں تھی سو اس نے فرار کا راستہ اپنایا تھا مگر اب وہ سوچ رہی تھی کہ کاش میں کبھی اپنا نمبر آن نہ کرتی تو زندگی ایک جھوٹ کو نبھاتے ہوئے کتنے اچھے گمان میں جی کر گزر جاتی، مگر اب تو سب ختم ہو چکا تھا، شہروز نے ایک ہفتہ قبل اسے آف لائن ٹیکسٹ کیا تھا جس میں لکھا تھا۔

٭٭٭

’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا پھر ٹائم پاس بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ میں کس نمبر پر تھی یہ میں نہیں جانتا۔‘‘

’’آؤ نا حریم۔‘‘ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسے اپنے بیڈ روم میں ملحقہ اسٹڈی روم میں لے آیا تھا اور اب وہ اپنی تصویر کے سامنے کھڑی تھی۔

’’یہ تصویر میں نے آرٹ گیلری سے خریدی تھی اس چہرے نے میرے دل پہ کلک کیا تھا مجھے پہلی نظر میں تم سے محبت ہو گئی تھی حریم اور تم وہ واحد لڑکی ہو جسے زندگی میں فرسٹ ٹائم پرپوز کر رہا ہوں۔‘‘ اپنی پاکٹ سے ڈائمنڈ رنگ نکالنے کے بعد وہ ویسٹرن اسٹائل میں گھٹنوں کے بل اس کے سامنے جھکا تھا۔

’’ول یو میری می۔‘‘

اور آج وہی شخص اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا اپنی بے پایاں محبت کا اظہار کر رہا تھا اس سے شادی کا خواہاں تھا، وہ کتنا بڑا جھوٹا تھا اس کے کتنے بہروپ تھے وہ کہہ رہا تھا تم واحد لڑکی ہو اور اس سے قبل تو اسے اپنی لسٹ میں اس کا نمبر بھی نہیں یاد تھا، وہ شاید دنیا کا سب سے خوبصورت ترین مرد تھا لیکن حریم کو اس کے چہرے سے گھن آ رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس کے منہ پر تھوک دے۔

لیکن اس سے کیا ہونا تھا وہ چند روز غمگین ہوتا اور پھر زیب سے شادی کر لیتا یہ تو بہت معمولی سی اذیت تھی جبکہ اس کا تو دل چاہ رہا تھا وہ اسے پتھروں سے سنگسار کرے۔

’’اوکے۔‘‘ وہ مدھم سا مسکرائی، شہروز نے خوشی کے بے پایاں احساس سے مغلوب ہو کر اسے رنگ پہنانا چاہی تو حریم نے ٹوک دیا۔

’’لیکن ہم میں اسٹیٹس کا بہت ڈیفرنس ہے میں ایک غریب گھرانے کی لڑکی ہوں لندن میں تعلیم حاصل کرنے نہیں بلکہ زیب کا خیال رکھنے اور اس کے اپارٹمنٹ کی دیکھ بھال کے لئے آئی تھی تمہارے پیرنٹس ہمارے ریلیشن کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘‘ یہ وہ تلخ حقیقت تھی جو وہ اس سے کسی بھی صورت چھپا نہیں سکتی تھی اس نے بہتر جانا تھا کہ مناسب الفاظ میں اس پر اپنی حیثیت آشکار کر دے، وہ ایک لمحے کو خاموش سا ہو گیا تھا، حریم کا دل ڈوبنے لگا۔

’’محبت کیا ان ضابطوں کو مانتی ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے رنگ پہنا کر اس کے خوبصورت مرمریں ہاتھ کی پشت کو اپنے لبوں سے چھوا تو وہ بدک کر دور ہٹی، کس قدر ناگوار تھا اس کی محبت کا اولین لمس۔

’’تمہاری تصویر لندن کی اتنی مشہور آرٹ گیلری میں کیسے آئی کیا وہ آرٹسٹ تمہارا کوئی دوست تھا یا پھر تم نے شوق میں بنوائی تھی۔‘‘ اگلے روز آؤٹنگ کے دوران جب زیب اور مہروز کانٹا لگائے مچھلی کا شکار کر رہے تھے تو وہ ساحل کی گیلی ریت پر ساتھ چلتے بہت دور نکل آئے تھے باتوں کے دوران اس کے اچانک استفسار پر وہ ایک لمحے کو بوکھلا کر رہ گئی تھی۔

اسے یاد تھا وہ دن جب اس کا فرسٹ ائیر کا ایڈمیشن جانا تھا ابا ان دنوں بے روزگار تھے اماں نے صاف کہہ دیا تھا۔

’’کوئی ضرورت نہیں پڑھنے کی آرام سے گھر بیٹھو ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں جو گھرداری کے ساتھ تمہارے تعلیمی اخراجات بھی پورے کریں۔‘‘ اس روز گھر سے کالج جانے کی بجائے وہ جناح پارک آ کر بیٹھ گئی تھی جب وہ اُول جلول سے حلیے ورالا لڑکا اس کے سامنے آن کھڑا ہوا۔

’’ہیلو آئی ایم رابن کین آئی پینٹ یور فیس۔‘‘

’’کیوں یہاں اور چیزیں نہیں ہیں پینٹ کرنے کیلئے۔‘‘ وہ کاٹ کھانے کو دوڑی ایک تو پہلے سے ہی دماغ خراب تھا اس پر انوکھی فرمائشیں۔

’’ہیں لیکن مجھے بہت خوبصورت چہرے کی تلاش تھی۔‘‘

’’کیا کرو گے میرا چہرہ پینٹ کر کے۔‘‘ اتنی تعریف تو کسی بھی انسان کے مزاج پر خوشگوار تاثر قائم کر سکتی تھی اس نے یونہی اپنا دھیان ہٹانے کی غرض سے پوچھ لیا۔

’’لندن آرٹ گیلری میں نمائش کرواؤں گا۔‘‘

’’ایک شرط پہ اجازت دوں گی۔‘‘ اسے لگا پرابلم کا سولوشن مل چکا ہے لڑکے نے انتہائی پرشوق انداز میں سرہلایا تھا شاید اسے اتنی جلدی مان جانے کی توقع نہیں تھی اور تب اس نے دو ہزار کے عوض اپنا چہرہ پینٹ کروانے کی حامی بھرلی تھی۔

’’تمہیں کیا بتایا تھا اس نے۔‘‘ اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے ہوئے اس نے الٹا سوال پوچھا۔

’’میں نے پوچھا تھا یہ چہرہ کہاں سے پینٹ کیا تھا تو اس نے بتایا لاہور جناح پارک، اس کے بعد وہ کسی اور سمت متوجہ ہو چکا تھا مزید پوچھنے کا موقع نہیں مل سکا۔‘‘ حریم نے اس وضاحت پر اطمینان بھرا سانس خارج کیا اور بے نیازی سے بولی۔

’’ہاں شوقیہ پینٹ کروایا تھا۔

٭٭٭

پکنک سے گھر واپس آئے تو بیگم رفعت آراء ائیر پورٹ آ چکی تھیں شہروز کو الٹے پاؤں گاڑی واپس گھمانا پڑی تھی تبھی اس کی تشویش میں مزید اضافہ ہوا تھا، شہروز تو شاید ان کی آمد کے مقصد سے لاعلم تھا۔

’’جانے اس کا ری ایکٹ کیسا ہو گا کہیں پھر سب ویسا نہ ہو جائے جتنا وہ اپنے پیرنٹس کے ساتھ اٹیچڈ ہے ایموشنل بلیک میلنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘ وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا ہی اس کا دل ڈوبتا جا رہا تھا لیکن اس بار تقدیر کچھ زیادہ ہی مہربان تھی یا شاید ستارے گردش سے نکل آئے تھے جو کہ سب کی حسب منشاء ہو رہا تھا۔

رات کو لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے شہروز کو عارفہ بیگم کے بیڈ روم کی سمت جاتے دیکھا تھا بیگم رفعت آراء اور ماموں بھی وہیں تھے لگتا تھا خاص بات ہونے والی ہے اس کا دل چاہا کہ کاش وہ اندر ہونے والی گفتگو براہِ راست سن سکے، لان کے عقبی جانب آ کر اس نے کھڑکیوں کا جائزہ لیا ایک دریجہ کھلا ہوا تھا، دیوار کی آڑ لے کر اس نے کان اندرونی آوازوں کی سمت لگا دئیے تھے۔

’’شہروز ہم نے سوچا ہے اب تمہاری اور ضوباریہ کی انگیج منٹ کر دی جائے شادی زیب کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد آرام سے ہو جائے گی تمہاری پھپھو بھی خاص اسی مقصد کے لئے آئی ہیں ہم تو ویک اینڈ نائیٹ کو فنکشن ارینج کرنے کا سوچ رہے ہیں تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘ اپنا فیصلہ سنانے کے بعد وہ اس کی رائے دریافت کر رہے تھے لڑکی سے متعلق نہیں بلکہ ارینج منٹ کے سلسلے میں، شہروز اپنی جگہ سن ہو کر رہ گیا تھا۔

’’ڈیڈی آپ کو دکھ ہو گا لیکن پلیز بات کو سمجھیں آئی ایم آل ریڈی کمٹڈ۔‘‘ شہروز کے جھنجھلاہٹ بھرے انکار اور جواز کے بعد بیڈ روم میں ایک پل کو مکمل سناٹا چھا گیا تھا کسی کو بھی شاید شہروز سے یہ توقع نہیں تھی وہ ہمیشہ سے ہی اپنے پیرنٹس کا انتہائی فرمانبردار رہا تھا۔

’’کون ہے وہ لڑکی؟‘‘ فاروق احمد کے بارعب استفسار میں برہمی کا تاثر بے حد نمایاں تھا لیکن جوان اولاد سے زبردستی وہ بھی اتنے آزاد معاشرے میں کرنا بے کار ہی تھا سو انہوں نے مصلحت آمیز راستہ اختیار کیا ویسے بھی وہ بیٹے کے مزاج سے خوف واقف تھے کہ وہ بھی انہی کا پرتو تھا لیکن لڑکی کا نام سن کر وہ اپنے ضبط پر قابو نہیں رکھ پائے تھے۔

’’حریم!‘‘ اور سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔

’’تمہارا دماغ ٹھیک ہے جانتے کیا ہو تم اس لڑکی کے متعلق۔‘‘

’’میں اس کے متعلق سب جانتا ہوں مانا کہ وہ ایک مڈل کلاس…‘‘

’’تھرڈ کلاس۔‘‘ رفعت آراء نے درمیان میں ٹوکا۔

’’اگر وہ تھرڈ کلاس بھی ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا شادی کے بعد، میرا نام میرا اسٹیٹس اور میرا یہ اعلیٰ خاندان ہی اس کی پہچان ہو گا۔‘‘ اور حریم مزید کچھ بھی سنے بغیر واپس گیسٹ روم چلی آئی تھی۔

’’کیا یہ وہی شخص ہے۔‘‘ وہ یقین نہیں کر پارہی تھی۔

’’میں جانتی تھی مجھے دیکھ کر تم میری محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔‘‘ تفاخر کا احساس رگ و پے میں سرور بن کر اتر رہا تھا سرتاپا کمبل تانتے ہوئے اس نے مزے سے آنکھیں موند لیں، دوسری جانب زیب سن کر سکتے میں آ چکی تھی۔

’’وہ کم ذات، دو ٹکے کی لڑکی تمہیں اسے اس کی اوقات میں رکھنا چاہیے تھا۔‘‘ وہ خوب بھری بیٹھی تھیں۔

’’میں اس سے خود بات کرتی ہوں۔‘‘ سیلپر پہنتے ہوئے اس نے دوپٹہ اوڑھا۔

’’کوئی فائدہ نہیں سوجاؤ ابھی، صبح ہوتے ہی میں اسے واپس روانہ کرتی ہوں۔‘‘ وہ کچھ اور ہی ارادہ کیے بیٹھی تھیں لیکن زیب کو چین کہاں تھا رات بمشکل کٹی تھی صبح کے آثار نمودار ہوتے ہی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئی، لاؤنج میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔

راہداری سے گزرتے ہوئے وہ گیسٹ روم کے دروازے پر آن کھڑی ہوئی دستک کے لئے ہاتھ اٹھایا تو کتنے ہی پل نظروں کے سامنے گھوم گئے تھے، لندن میں ساتھ گھومتے ہوئے انہوں نے کتنا انجوائے کیا تھا وہ اس کی وارڈ روب یوز کرتی تھی زیب نے سب جانتے ہوئے بھی کبھی نہیں ٹوکا تھا کل وقتی ملازمت کے باوجود اسے نوکری کرنے کی پرمیشن دی تھی حالانکہ وہ اس کے کاموں پر مامور تھی پھر بھی وہ اپنے آدھے سے زیادہ کام خود کیا کرتی تھی، اس نے جب جتنے پیسے مانگے تھے زیب نے کبھی انکار نہیں کیا تھا وہ بیمار ہوئی تو اس نے دن رات کی تمیز بھلا کر اس کا خیال رکھا تھا جس دن اس نے اپنی کلائی کی رگ کاٹی تھی اس روز وہ اپنا ایگزیم چھوڑ کر اس کی خاطر ہاسپٹل آئی تھی وہ آج کل کتنی ڈسٹرب ہے اس خیال سے وہ اسے اپنے ساتھ لے کر آئی تھی کہ کہیں اکیلے میں پھر سے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر لے ڈیپریشن کم کرنے کے لیے وہ روز سیر و تفریح کے پروگرام بنا رہی تھی ہر جگہ اسے ساتھ ساتھ لئے گھوم رہی تھی اور اس نے کیا کیا تھا، آنسوؤں کا پھندا اس کے گلے میں اٹکنے لگا تھا۔

٭٭٭

’’یس کم آن۔‘‘ دوسری دستک پر جواب موصول ہوا تھا وہ ناپ گھما کر اندر داخل ہوئی تو حریم کو پیکنگ کرتے دیکھ کر اسے جھٹکا سا لگا تھا۔

’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘

’’جہاں دل لے جائے۔‘‘ سوٹ کیس کی زپ بند کرتے ہوئے اس نے بے نیازی سے کہا اور اپنے کمر تک آتے اسٹیپ کٹنگ بالوں میں برش چلانے لگی انداز بتا رہا تھا کہ وہ اسے دانستہ نظر انداز کر رہی ہے۔

’’تم نے یہ سب کیوں کیا حریم میں نے تمہیں ہمیشہ دوستوں سے بڑھ کر چاہا تھا۔‘‘ اس کا گلا رند گیا۔

’’مجھے بلیم کرنے کی بجائے اپنے کزن سے سوال و جواب کرو اس نے مجھے پرپوز کیا ہے میں اس کے پیچھے نہیں گئی۔‘‘

’’تو تم اس کی حوصلہ افزائی نہ کرتی۔‘‘

’’کیوں نہ کرتی وہ ہینڈسم ہے ویل ایجوکیٹڈ ہے اسٹیبل اور مجھ سے محبت بھی کرتا ہے کریکٹر وائیز بھی برا نہیں آئی تھینک ہی از بیسٹ پرپوزل فارمی اور اگر تم مجھے گلٹ فیل کروانا چاہتی ہو کہ میں تم دونوں کے بیچ آئی ہوں تو ڈیٹس پوسیبل یار، وہ جسٹ تمہارا کزن تھا کوئی بوائے فرینڈ یا فیانسی نہیں۔‘‘ بالوں کو ربڑ بینڈ میں جکڑتے ہوئے اس نے لاپرواہی سے شانے اچکائے۔

’’تم اتنی خود غرض اور بے حس کیسے ہو سکتی ہو حریم۔‘‘ وہ گہرے دکھ سے بولی۔

’’اگر تم مجھے اپنے احسانات یاد دلانا چاہتی ہو تو مائینڈ اٹ زیب وہ تمہارا اپنا اچھا عمل تھا اس کے بدلے کی توقع مجھ سے ملت رکھو میں تمہاری ہاؤس میڈ ضرور تھی کوئی زر خرید غلام نہیں میری نوکری کے عوض تم نے مجھے پے کیا ہے پھر بھی تمہاری تسلی کے لئے کہہ دیتی ہوں کہ میرا اور شہروز کا رشتہ ٹرین میں بیٹھے دو مسافر کی مانند ہو گا جنہیں بس ایک اسٹیشن تک ساتھ چلنا ہے میں کنفرم نہیں بتا سکتی کہ میرا ابھی کتنا سفر باقی ہے لیکن اگر تم اس اسٹیشن کے آنے کا انتظار کر سکتی ہو تو کر لو شاید وہ تمہیں اپنی منزل ماننے پر مجبور ہو جائے۔‘‘ اس کا انداز اتنا بے رحم اور قطعی تھا کہ چہرے پہ چٹانوں کی سی سختی در آئی تھی۔

’’تم کیا کرنے والی ہو حریم۔‘‘ زیب نے الجھ کر اسے دیکھا۔

’’دوسروں کو پتھر اٹھا کے مارتے ہوئے ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ اگلے کو کتنی چوٹ لگی ہے بس اسے اس درد کا احساس دلانا ہے۔‘‘ اپنا بیگ اٹھا کر دل میں سوچتے ہوئے اس نے دروازے کی سمت قدم بڑھا دئیے تھے زیب نے اسے روکا نہیں تھا وہ اپنی جگہ بالکل سپاٹ سی کھڑی تھی۔

راہداری سے گزر کر وہ لاؤنج میں داخل ہوئی جہاں ابھی صبح کی مخصوص ہلچل آمیز گہما گہمی شروع نہیں ہوئی تھی شاید آج کسی کا بھی بیڈ روم سے نکلنے کا ارادہ نہیں تھا پورے گھر پر عجیب سناٹا اور مردنی چھائی ہوئی تھی۔

’’ابا، اماں پر بھی ایسے ہی حالات گزرے ہوں گے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ نہ تو میں مرد تھی اور نہ ہمارا گھر برمنگھم میں تھا اچھی بھلی زندگی کو میری بے راو روی نے کتنا مشکل بنا دیا ہے میرے جیسے لوگ ہوتے ہیں خواہشوں کے غلام، نفس کے پیرو کار، تقدیر کو اپنے قلم سے لکھنے پر بضد، ان کا یہی انجام ہوتا ہے پہلے اپنی عقل کا غلط استعمال کرتے ہیں اور پھر سارا حساب تقدیر کے گوشوارے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا۔‘‘ سڑک کے کنارے شدید ٹھنڈ میں کھڑے ہو کر وہ شہروز کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی جو جاکنگ کے لئے گیا ہوا تھا۔

’’حریم تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اسے دور سے آتے دیکھ کر اس نے بیگ گھسیٹنا شروع کر دیا تھا پاس آ کر حسب توقع وہ فکر مندی سے بولا تو اس کی آنکھوں سے مصنوعی آنسو بہنے لگے جس پر وہ مزید بے چین ہوا تھا۔

’’حریم پلیز مجھے بتاؤ ہوا کیا کسی نے کچھ کہا ہے۔‘‘

’’انکل، آنٹی نے میری بہت تذلیل کی ہے میں اپنی دوست مالا کے پاس جا رہی ہوں بہتر ہو گا آپ ان کی بات مان لیں ورنہ میں تو اب کسی بھی قیمت پر واپس اس گھر میں نہیں جاؤں گی اور اگر آپ کو مجھ سے شادی کرنی ہے تو ابھی اسی وقت مجھ سے نکاح کریں فیصلے کا وقت ابھی ہے۔‘‘ حریم نے اس کے لئے کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔

’’اوکے تم رکو میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔‘‘ وہ اسے وہیں چھوڑ کر اندر آیا تھا لباس تبدیل کرنے کے بعد گاڑی نکالنے میں اسے محض سات منٹ لگے تھے وہ جانتا تھا اس وقت وہ کچھ بھی کہنے سننے کے موڈ میں نہیں ہے اس نے سوچا تھا وہ بعد میں آرام سے منالے گا لیکن اس نے تو اپارٹمنٹ کے اندر جانے سے ہی انکار کر دیا تھا۔

’’پہلے ہم اسلامک سینٹر جائیں گے ہمارا نکاح ہو گا پھر میں تمہارے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں قدم رکھوں گی۔‘‘ شہروز نے گاڑی واپس اسلامک سینٹر کی سمت موڑ لی تھی دو گھنٹے بعد جب وہ واپس لوٹے تو ایک معتبر رشتے میں بندھ چکے تھے حریم کو چاہیے تھا کہ اس رشتے کی حرمت کا پاس رکھتے ہوئے وہ اب سابقہ تمام شکوے بھلا دیتی مگر اس کے حواس پر تو محض انتقام سوار تھا۔

راستہ بھر اس نے سوچا تھا کہ وہ اس شخص کو اتنی محبت دے گی کہ وہ اس کے سوا ساری دنیا بھول جائے گا مگر قربت کے پر فسوں لمحوں میں اسے احساس ہوا کہ اس کا دل تو کسی فقیر کے کشکول کی مانند بالکل خالی ہے اس میں تو مانگے کے چند سکے بھی نہیں تھے جب مانگنا اسے کبھی آیا ہی نہیں تھا تو نوازنے کا ظرف کہاں سے لاتی۔

’’مجھے ذہنی طور پر آمادہ ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘‘ اس نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔

’’تم جتنا چاہے وقت لے لو کوئی زبردستی نہیں ہے لیکن سب سے پہلے تو ناشتہ ہونا چاہیے تم آرام کرو میں باہر سے کچھ لے کر آتا ہوں۔‘‘ اس پر ایک محبت بھری نگاہ ڈال کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور دروازے سے پھر پلٹ آیا۔

’’دیکھو اب رونا بالکل بھی نہیں میں تمہیں بہت خوش دیکھنا چاہتا ہوں یہ اداسیاں تم پر اچھی نہیں لگتیں ویسے ان آنسوؤں کا بھی میں احسان مند ہوں جنہوں نے مجھ سے اتنا مشکل فیصلہ کروا لیا ورنہ عام حالات میں یہ اسٹیپ میرے لئے بہت مشکل ہوتا ابھی تو وہاں بھی بہت کچھ فیس کرنا ہے۔‘‘

’’یہ اتنا اچھا کیوں بن رہا ہے بہت جلد تمہارے چہرے پر چڑھا ایک ایک نقاب نوچ لوں گی تمہاری خوشیوں کا دورانیہ بہت کم ہے تم مجھے پا کر بھی نہ پا سکو گے نارسائی کا کرب ہی اس رشتے کا حاصل ہو گا۔‘‘

٭٭٭

کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ ناشتہ لے کر چلا آیا تھا کچن میں جا کر اس نے خود ہی تمام تر لوازمات برتنوں میں منتقل کیے تھے اس نے ایک بار بھی اس کی مدد کے خیال سے کچن میں نہیں جھانکا تھا۔

’’حریم آ جاؤ ناشتہ کر لو۔‘‘ کھڑپڑ کی آواز ساکت ہوئی تو بلاوا بھی آ گیا تھا وہ اٹھ کر ڈائیننگ ہال میں چلی آئی تھی۔

یہ اپارٹمنٹ کچھ عرصہ قبل ہی اس نے اپنے کسی دوست سے خریدا تھا، دو بیڈ روم، اوپن کچن، لاؤنج، ڈائیننگ ہال اور اسٹڈی روم کے علاوہ ٹیرس بھی تھا شہروز کی غیر موجودگی میں وہ اچھی طرح گھوم چکی تھی۔

’’یہ چیز سینڈوچ میں نے خود بنائے ہیں۔‘‘ خوبصورت کٹلری میں پوری میز نفاست سے سجی ہوئی تھی شہروز نے بیٹھتے ہی اپنے کارنامے کا تذکرہ ضروری خیال کیا تھا شاید اس کی خواہش تھی کہ وہ سب سے پہلے سینڈوچ ٹیسٹ کرے لیکن اس نے تمام تر اہتمام کو نظر انداز کر دیا تھا وہ خفت زدہ سا ہو کر وضاحت پیش کرنے لگا تھا۔

’’در اصل مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم ناشتے میں کیا کھانا پسند کرو گی اس لئے میں نے اتنا اہتمام کر لیا لنچ ہم باہر کریں گے۔‘‘

’’ناشتے کا ٹائم تو ویسے بھی گزر چکا ہے تم اسے لنچ ہی تصور کرو کہیں بھی گھومنے کو میرا دل نہیں چاہ رہا اس لئے اب کچھ دیر سونا چاہتی ہوں۔‘‘ اورنج جوس کا آخری سیپ لینے کے بعد وہ اٹھ کر دوبارہ سے بیڈ روم میں چلی آئی تھی شہروز نے سب چیزوں کو پیک کر کے فریج میں رکھا برتن اٹھا کر ڈش واشر میں دھوئے اور گاڑی کی چابی اٹھا کر اپارٹمنٹ سے باہر نکل گیا وہ کھڑکی میں کھڑی اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔

شام میں جب وہ واپس آیا تو اسے کچھ پرجوش سا لگا تھا مگر وہ دھیان دئیے بغیر ٹی وی دیکھنے میں گم رہی تھی اس نے خود ہی جا کر کچن سے پانی پیا اور پھر اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔

اس کے لئے اب ٹی وی میں دلچسپی برقرار رکھنا مشکل ہو گیا تھا اس کی وارفتہ بھری نظریں پزل کرنے کو کافی تھیں۔

’’حریم!‘‘ اس نے دھیرے سے پکارا۔

’’ہوں۔‘‘ اس کا دل پوری شدت سے دھڑکا تھا مقابل کی پکار میں کتنی محبت نرمی اور مٹھاس ہویدا تھی ان کہے جذبوں کا عکس سنہری آنکھوں میں جگمگا رہا تھا اس کے لئے نظر بھر کر دیکھنا محال ہو گیا تھا، شہروز نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا اور وہ چاہ کر بھی احتجاج نہیں کر سکی تھی۔

’’میں آج گھر گیا تھا ممی ڈیڈی کو میں نے سب بتا دیا ہے پہلے تو وہ غصہ کر رہے تھے لیکن پھر زیب نے انہیں منا لیا ہے ہم آج ہی واپس جائیں گے اور جانتی ہو اب تو سب ہمارے ولیمے کے لئے بہت ایکسائیڈڈ ہو رہے ہیں زیب اور مہروز تو خود تمہیں لینے کے لئے آنا چاہ رہے تھے لیکن میں نے منع کر دیا اب اٹھو جلدی سے پیکنگ کر لیں وہاں ڈنر پر ہمارا انتظار ہو گا۔‘‘ اس کی طویل گفتگو کے دوران حریم کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزرے تھے جس میں سب سے نمایاں رنگ بے یقینی کا تھا وہ اپنا ہاتھ کھینچ کر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’انہیں کوئی حق نہیں تھا میری انسلٹ کرنے کا۔‘‘

’’لیکن مما بتا رہی تھی کہ تم تو انہیں ملی بھی نہیں۔‘‘ وہ حق دق سا کھڑا تھا وہ اس کی باخبری پر لمحے بھر کے لئے گھبرائی پھر اگلے ہی پل ڈھٹائی عود کر آئی تھی۔

’’جھوٹ بول رہی ہیں وہ اور میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے اب کسی بھی قیمت پر وہاں نہیں جانا ہے اور اگر تم اپنے پیرنٹس کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے پھر مجھے چھوڑ دو۔‘‘

’’حریم!‘‘ وہ شاکڈ سارہ گیا تھا۔

’’تم فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔‘‘ وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے ٹھک ٹھک کرتی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر ٹیرس پر چلی آئی تھی لیکن اب اندر سے متفکر بھی تھی کہ کہیں وہ بھی فیصل بھائی کی طرح کوئی انتہائی فیصلہ نہ کر لے ابھی تو اس کا مقصد بھی پورا نہیں ہوا تھا اسے اس ملک میں رہنا تھا جس کے لئے اس رشتے کو فی الحال قائم رکھنا بے حد ضروری تھا۔

٭٭٭

وہ اس کی ذہنی کیفیت بخوبی سمجھ رہا تھا اس سے مزید کوئی اصرار نہیں کیا تھا اعتبار کی وہ مالا جو ایک بار ٹوٹ چکی تھی اس کے بکھرے ہر موتی کو محبت کے دھاگے میں پرو کر وہ بڑے مان اور استحقاق کے ساتھ اسے لوٹانا چاہتا تھا سو اس میں کچھ وقت تو لگنا ہی تھا وہ آج کل پہلے سے بھی زیادہ اس کا خیال رکھ رہا تھا، حریم اس کے رویوں پر حیران تھی۔

نہ کوئی گرل فرینڈ، نہ اسموکنگ اور نہ کہیں آوارہ گردی اپنے شب و روز کا ہر لمحہ ہر پل وہ اس کے ساتھ گزار رہا تھا ایک بیڈ روم میں رہنے کے باوجود وہ اپنے وعدے پر قائم تھا وہ اس کا سیل فون والٹ، وارڈ روب کے علاوہ کئی لاکڈ دراز تک کھنگال چکی تھی لیکن کہیں سے بھی کوئی مشکوک سراغ برآمد نہیں ہو سکا تھا۔

اس کے لیپ ٹاپ پر کوئی پاس ورڈ نہیں لگا ہوا تھا وہ باتوں کے دوران اس سے پوچھ چکی تھی کہ کیا وہ کبھی کسی سے چیٹنگ کرتا رہا ہے تب اس نے شریر انداز میں پوچھا تھا۔

’’کیا تمہارا مطلب کسی لڑکی سے ہے۔‘‘

’’ہاں۔‘‘ وہ برملا بولی۔

’’نہیں میں کبھی کبھار فیس بک یوز کر لیتا ہوں ورنہ آفس کا کام ہی بہت ہوتا ہے۔‘‘ اور وہ اس کے سفید جھوٹ پر دن بھر جلتی رہی تھی تب وہ شام میں اسے گھمانے لے گیا تھا وہ خوب ڈھیر ساری شاپنگ کر کے لوٹی تھی اس نے اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ سے ڈنر بھی کیا تھا اور سونے سے قبل جب اسے گرین ٹی کی کافی طلب ہو رہی تھی تو وہ اس کے بغیر کہے ہی دو مگ لیے حاضر تھا۔

آج کل وہ ویسی ہی عیش بھری زندگی گزار رہی تھی جس کے خواب کبھی اس نے دیکھے تھے مگر ایک بار ٹوٹنے کے عمل سے جو گزری تھی تو اب کسی بھی خوشی کا احساس باقی نہیں رہا تھا اس نے ہمیشہ سے سب چاہا تھا آدھی تکمیل تو اسے خوشی دے بھی نہیں سکتی تھی۔

نیشنلٹی کے لئے وہ اپلائے کر چکی تھی آج اس سلسلے میں ان کا انٹرویو تھا جو کہ بہت اچھا رہا تھا دو ماہ بعد نیشنیلٹی کارڈ ہاتھوں میں لئے وہ گھر آئی تو اسے اپنے اندر عجیب سے خالی پن کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا تھا۔

اس نے سوچا تھا یہ دن اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت اور یادگار دن ہو گا مگر یہ دن تو عام دنوں سے بھی زیادہ بیزار کن اور پژمردہ سا تھا سر میں ہونے والے شدید درد کے باعث وہ پین کلر لے کر لیٹ گئی تھی۔

سوچنے اور عمل کے مراحل سے گزرنے میں کتنا فرق تھا شاید اتنا ہی جتنا پھانسی کا حکم سننے اور صلیب پر لٹکنے میں تھا، یہ آخری مرحلہ تھا اور اس کے بعد وہ کہاں ہو گی شاید کہیں بھی نہیں۔

’’پہلے میں نے ابا، اماں کا دل دکھایا ان کی عزت اچھالی انہیں سارے زمانے میں رسوا کیا پھر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے حرام موت کو گلے لگانے کی کوشش کی اور اب شوہر سے بیوفائی، کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے یوں لگتا ہے جیسے کوئی مجھ سے انتقام لے رہا ہو، یا پھر زندگی کسی کی بد دعاؤں کی زد میں ہے، ہاں ایک بندے کے ساتھ کی زیادتی تو میں بھول ہی گئی ایان کتنی محبت کرتا تھا وہ مجھ سے۔‘‘ آہٹ کا احساس اس کے خیالوں میں دراڑ ڈال گیا تھا بے دھیانی میں آنکھیں کھولیں سامنے شہروز کھڑا تھا جب وہ گھر آئی تھی اس وقت وہ بالکونی میں کھڑا تھا حریم کو وہ بہت رنجیدہ اور اداس سا لگا تھا۔

ہفتہ بھر سے وہ نوٹ کر رہی تھی کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے اور پھر کہہ نہیں پاتا وہ مسکراتا تھا لیکن مسکراتے ہوئے اس کی سنہری آنکھوں میں امڈنے والی وہ مخصوص چمک جیسے بجھ سی گئی تھی وہ عجیب کشمکش کی سی کیفیت میں تھا۔

’’حریم یہاں کمرے میں اندھیرا کیے کیوں بیٹھی ہو، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔‘‘

’’میرا تمہیں اتنا احساس ہے تو اس لڑکی کے لئے کیوں بے حس ہو گئے تھے جس نے تمہاری خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔‘‘ وہ اس فکر مند تشویش بھرے انداز پہ جل کر رہ گئی تھی لیکن لبوں سے کچھ نہیں کہا تھا۔

’’حریم!‘‘ اس نے پھر پکارا۔

’’ٹھیک ہوں میں۔‘‘ وہ بیزاری سے بولی۔

’’اٹھو باہر آؤ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ وہ کہہ کر چلا گیا تھا حریم کو اٹھ کر باہر آنا ہی پڑا لیکن لاؤنج تو بالکل خالی تھا ڈائیننگ ہال میں جھانکنے کے دوران اس کی بالکونی پر نظر پڑی تو وہ اسے وہاں کھڑا دکھائی دے گیا تھا۔

ریلنگ سے ٹیک لگائے بظاہر وہ کیج میں شور مچاتے آسٹریلین طوطے دیکھ رہا تھا، لیکن اس کا انداز ایسا تھا جیسے ذہنی طور پر وہ وہاں موجود نہ ہو۔

’’کہو کیا کہنا ہے۔‘‘ وہ بھی اس کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھی۔

’’حریم اگر میں کہوں کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھا ہے صرف اس لئے کیونکہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور تمہیں کھونے کے خیال سے ڈرتا تھا اس لئے سچائی بتانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی لیکن پلیز کیا تم میرے اس جھوٹ کے لئے مجھے معاف کر دو گی۔‘‘ وہ اس کے دونوں ہاتھ تھامے کس قدر منت بھری، التجا آمیز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا حریم کو لگا اعتراف جرم کا لمحہ شاید آ چکا تھا۔

اب جبکہ وہ سزا دینے پر قادر تھی تو وہ معافی کا طلبگار بن کر آ گیا تھا مگر وہ فرشتہ نہیں تھی ایک عام سی انسان تھی اور اپنی دانست میں تو اسے انصاف کرنا تھا حالانکہ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ دونوں فریقین کی بات سن کر فیصلہ سنایا جاتا مگر اسے شاید فیصلہ سنانے کی جلدی بہت تھی یا پھر وہ انصاف کے اصولوں سے بھی نابلد تھی۔

’’اب اس کا کوئی فائدہ نہیں مجھے تم سے طلاق چاہیے میں نے محض نیشنلٹی کارڈ کی خاطر تم سے شادی کی تھی۔‘‘ اپنے دونوں ہاتھ اس کی مضبوط گرفت سے نکال کر وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے قدرے بے رحمی سے بولی تھی، جس پہ شہروز کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا۔

’’یہ کیا کہہ رہی ہو حریم۔‘‘

’’مجھے تم سے طلاق چاہیے ابھی اور اسی وقت۔‘‘ وہ اپنی بات پر مصر تھی۔

’’میں نے تمہاری خاطر اپنے سارے خاندان کو چھوڑا ہے اور تم مجھے چھوڑنے کی بات کر رہی ہو۔‘‘ وہ ہنوز بے یقین تھا۔

’’میں نے بھی چھوڑا تھا تمہارے لئے اپنا خاندان۔‘‘ وہ سکون سے بولی۔

’’حریم پلیز ایسا مت کرو میں بہت محبت کرتا ہوں تم سے۔‘‘ شدت جذبات سے اس کی آواز بھرا گئی تھی۔

’’میں نے بھی بہت محبت کی تھی تم سے۔‘‘ اس کا انداز ہنوز تھا قطعی اور بے رحم۔

’’میں مر جاؤں گا تمہارے بغیر۔‘‘ چند قطرے پلکوں کی باڑ پھلانگ گئے۔

’’میں نے بھی کوشش کی تھی لیکن دیکھو میں زندہ ہوں تم بھی زندہ رہو گے۔‘‘

’’میں وہ نہیں ہوں جوتم سمجھ رہی ہو۔‘‘

’’لیکن میں وہی حریم ہوں جو تمہارے لئے محض وقت گزاری اور ٹائم پاس کا سامان تھی جس کی تصویر کو تم پوجتے رہے اور آواز کو پہچان نہیں سکے جو تمہارے دل میں تھی لیکن تم نے اسے زندگی سے نکال دیا، جس کی…‘‘

’’وہ میں نہیں تھا۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹ کر چلایا، اسی پل دروازے پر دستک ہوئی تھی، دونوں نے کھا جانے والی نظروں سے دروازے کو گھورا جیسے اس پل کسی کی آمد انتہائی ناگوار گزری ہو، دستک مسلسل ہو رہی تھی وہ بے نیاز بنا کھڑا رہا، بالآخر وہ دروازے تک آئی اور پوچھے بغیر ایک جھٹکے سے در وا کیا، لیکن مقابل کھڑے شخص کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ شاکڈ رہ گئی تھی۔

’’ایان تم۔‘‘ اس کے لب بے آواز ہلے۔

’’چلو میرے ساتھ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔‘‘

’ایک سیکنڈ۔‘‘ وہ الٹے قدموں واپس مڑی الگنی پر رکھا اپنا بیگ اٹھایا اور اس سے سپاٹ لہجے میں بولی۔

’’میں کچھ دیر میں اپنا سامان لینے واپس آؤں گی میرے آنے تک ان کاغذات پر سائن کر دینا۔‘‘

’’حریم میری بات…‘‘ وہ اس کے پیچھے لپکا مگر دروازہ ٹھک سے اس کے منہ پر بجا تھا وہ ایک گہرا اطمینان بھرا سانس خارج کرتے ہوئے واپس صوفے پر آ کر بیٹھ گیا اس کے سارے خدشات بے بنیاد تھے وہ تو سمجھ رہا تھا حریم اس سے محبت کرتی ہے لیکن اس پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ تو اس سے نفرت کرتی ہے جو در حقیقت کسی اور کے لئے تھی۔

٭٭٭

’’ایان تم اچانک یہاں کیسے۔‘‘ واک کرتے ہوئے دونوں قریبی پارک چلے آئے تھے راستہ بھر ایک دبیز خاموشی دونوں کے مابین حائل رہی تھی سنگی بنچ پر بیٹھنے کے بعد ایان وہ لفظ تلاش کر رہا تھا جس میں روداد زیست کو سمیٹا جا سکے جبکہ حریم کے اندر حیرت آمیز سوالوں نے اودھم مچا رکھا تھا، وہ اسے یوں اچانک غیر متوقع طور پر سامنے دیکھ کر شاکڈ رہ گئی تھی۔

’’اچانک نہیں ہفتہ بھر سے آیا ہوا ہوں شہروز کو میں نے بہت بار کہا وہ تمہیں حقیقت بتا دے لیکن لگتا ہے اس نے ابھی تک تمہیں کچھ نہیں بتایا۔‘‘

’’حقیقت کون سی حقیقت اور شہروز کو تم کیسے جانتے ہو۔‘‘ وہ مزید حیران ہوئی۔

’’بتاتا ہوں۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر پھر خاموش ہو گیا تھا جیسے بات کا سرا ڈھونڈ رہا ہو۔

’’گھر میں سب کیسے ہیں اماں، ابا، ہمایوں، حرمت، ماہا۔‘‘ وہ جانے کس حقیقت کی بات کر رہا تھا لیکن حریم کو تو اسے دیکھتے ہی سب کی یاد ستانے لگی تھی۔

’’سب خیریت سے ہیں۔‘‘ وہ دل گرفتی سے بولا۔

’’مجھے یاد کرتے ہیں۔‘‘ وہ بے تابی سے پوچھنے لگی۔

’’اماں ابا مجھے معاف کر دیں گے نا ایان تم سب کو منانے میں میرا ساتھ دو گے۔‘‘

’’حریم تمہیں یاد ہے جب تم لندن آئی تھی تو میں تم سے ناراض تھا۔‘‘ وہ کیا کہہ رہی تھی اور وہ کیا پوچھ رہا تھا اسے یکلخت ڈھیروں ندامت نے آن گھیرا تو حساب کا کھاتہ کھلنے والا ہے میں کیوں حقیقت کو فراموش کر گئی تھی۔

’’میں چھت پر کھڑا تھا اور تم مجھ سے ملے بغیر چلی گئی تھی تب مجھے تمہاری نظروں میں اپنی اہمیت کا احساس ہوا تھا تم سے بہت بدگمان ہو چکا تھا اس روز میں نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا اور رات بھر نیند میری آنکھوں سے روٹھی رہی تھی لیکن جب تم نے ماہا کو پیغام دیا کہ میں گیارہ بجے آن لائن ہو جاؤں تم مجھ سے بات کرو گی، تو میرا دل چاہا کبھی تم سے بات نہ کروں تم نہیں جانتی تم میرے لئے کیا تھی، تمہیں دیکھے بغیر ایک لمحہ جینا محال تھا اور کہاں تین سال، میں ان ہواؤں میں سانس کیسے لیتا جو تمہاری خوشبو سے خالی ہو چکی تھیں مجھے لگا میری ناراضگی تمہیں زیادہ دیر وہاں رہنے نہیں دے گی اور تم جلد واپس لوٹ آؤ گی، لیکن تم سے بات کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا تھا اس لئے میں نے ’’سویٹ ہارٹ‘‘ کے آئی ڈی سے تم سے بات کی۔‘‘ اس نے ایک لمحے کا توقف کیا اور ہمہ تن گوش بیٹھی حریم کے وجود میں چیونٹیاں سی رینگنے لگی تھیں اسے پورے کا پورا آسمان اپنے سر پہ گرتا محسوس ہوا تھا۔

’’مجھے لگا تم مجھ سے بات نہیں کرو گی لیکن پہلے ایک دو بار تم نے غصہ کیا پھر ہماری گفتگو کا دورانیہ طویل ہو گیا میں نے دوستی کی آفر کی تو تم نے کہا ’’ایک شرط پہ تم سے دوستی کروں گی اگر تم ہینڈسم ہوئے تو‘‘ اس بات پر مجھے شرارت سوجھی اور میں نے اپنے اکاؤنٹ پر پڑی شہروز کی تصویر تمہیں دکھا دی شہروز سے میری دوستی فیس بک پر ہوئی تھی اور میں اس کے متعلق جو کچھ جانتا تھا میں نے سب اپنی جانب سے تمہیں بتا دیا، میں نے اپنی نوکری کی شفٹ چینج کر لی اور دن رات کی تمیز بھلا کر تم سے باتیں کرنے لگا مجھے اس کھیل میں بہت مزہ آ رہا تھا وہ ساری باتیں جو ایان بن میں تم سے کبھی نہ کر سکا وہ شہروز بن کر کر دیں جب میں نے تم سے اپنی محبت کا اظہار کیا تو تم نے میرا امتحان لینے کے لئے کہ میں کہیں تم سے فلرٹ تو نہیں کر رہا ایک روز ضویا نام کی آئی ڈی سے مجھے فرینڈ ریکوسٹ سینڈ کی لیکن میں تمہاری ہینڈ رائیٹنگ پہچان گیا تھا تم ہمیشہ سمال رائیٹنگ میں لکھتی تھی جے کو تم جی لکھتی تھی اور اس کے علاوہ تم ایک لائن میں تین کلر یوز کرتی تھی جس روز میں نے تم سے بات کرنا چھوڑا اس روز ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی میں نے سوچا اب تم واپس آ جاؤ گی تو مجھے یہ کھیل ختم کر دینا چاہیے لیکن تمہارے انکار پر میں شاکڈ ہو کر رہ گیا تھا تم مجھے چھوڑ کر شہروز کی محبت میں مبتلا ہو گئی تھی میں یقین نہیں کر پا رہا تھا مجھے تو لگا تھا تم محض فلرٹ کر رہی ہو پھر میں نے تمہیں وہ میسج سینڈ کیا تھا۔‘‘

’’سوری حریم میں تم سے محبت نہیں کرتا ہمارے درمیان جو بھی ہوا جسٹ ایک فلرٹ تھا تم اسے وقت گزاری یا ٹائم پاس کچھ بھی کہہ سکتی ہو اور تم اس لسٹ کی کس نمبر پر تھی یہ میں بھی نہیں جانتا۔‘‘ وہ جیسے کسی رو بوٹ کی مانند بولی تھی۔

’’ہاں مجھے لگا اب تم شہروز کی جانب سے مایوس ہو کر پاکستان لوٹ آؤ گی مگر میرا خیال غلط نکلا ہم آخری وقت تک تمہارا انتظار کرتے رہے لیکن تم نے نہ آنا تھا نہ آئی تب ابا نے زبردستی میرا نکاح ماہا سے کر دیا وہ لڑکی جسے میں ہمیشہ ہی بہنوں کی طرح سمجھتا آیا تھا ایک سزا کی صورت مجھ پر مسلط کر دی گئی تھی میں غم و غصے سے پاگل ہو چکا تھا مجھے تم سے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ ایک چہرہ تمہیں میرے دل، میری محبت اور ہمارے رشتے سے زیادہ عزیز ہو جائے گا، ان دنوں شہروز لاہور آیا ہوا تھا اور میری شادی پر بھی انوائیٹڈ تھا تمام تر صورتحال اس کے سامنے تھی میں نے اسے اصل حقیقت بتا دی تھی اور اس سے کہا تھا کہ وہ لندن جا کر تم سے ملے اور تمہیں سچائی بتا دے مگر وہ دھوکے باز، مکار، فریبی اس نے اتنا بڑا دھوکہ دیا مجھے کہ تم سے شادی کر لی، میں اتنی دور اپنی عمر بھر کی پونجی لگا کر یہاں محض تمہیں لینے آیا ہوں حریم چلو واپس چلیں۔‘‘ وہ اپنی بات مکمل کرنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا تھا مگر وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی ہوئی تھی اس کے دل و دماغ میں جکڑ سے چل رہے تھے اور وجود جیسے آندھیوں کی زد میں تھا ساری چیزیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔

’’تمہاری محبت میں ہوں حریم، تم شہروز سے طلاق لے لو میں ماہا کو چھوڑ دوں گا پھر ہم شادی کر لیں گے۔‘‘ ایان نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے ساکت بیٹھی حریم کو جھنجھوڑا مگر وہ تو جیسے گوں گی بہری ہو چکی تھی، نظروں کے سامنے بار بار وہ کاغذ گھوم رہا تھا جو وہ آتے ہوئے میز پر رکھ کر آئی تھی۔

’’اگر اس نے سائن کر دئیے تو۔‘‘ جان لیوا وہم کا نزول ہوا تھا اور دل جیسے کسی نادیدہ طاقت نے مٹھی میں جکڑ لیا۔

اس نے ہمیشہ غلط فیصلے کیے تھے اور بعد میں پچھتائی تھی، لیکن آج اپنے آخری فیصلے کو عمل کے مراحل میں گزرنے سے روکنا چاہتی تھی کیونکہ آج کے بعد وہ پچھتانا نہیں چاہتی تھی۔

اس شخص نے اس کی زندگی کو شطرنج کی بساط پر رکھ کر کھیلا تھا اور ہر مہرے پر مات دی تھی اور وہ مات کو جیت سمجھ کر اس پر مسرور ہونے کی بجائے ہمیشہ گلٹ محسوس کرتی رہی جیسے جیت کر اس سے کسی کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گئی ہو اور آج جب وہ اسے آگہی بخشنے آیا تھا اس کی مات کا احساس دلانے آیا تھا تو وہ اس کی مشکور تھی اس کی شکر گزار تھی، انجانے میں ہی سہی لیکن آج اس شخص نے اسے صحیح معنوں میں جیت کر خوشی سے سرشار کر دیا تھا۔

’’تم نے کہا تھا نا تمہاری محبت دل ہے تو ماہا کے دل کا کچھ خیال کر لینا۔‘‘ اٹھنے سے قبل وہ اس سے گویا ہوئی تو وہ بے ساختہ بول اٹھا۔

’’اور تمہاری محبت…‘‘

’’میری محبت تو وہ چہرہ ہے جو تم نے مجھے دکھایا تھا۔‘‘ تھوڑی دور کھڑے شہروز کو دیکھ کر وہ ایک جذب کے عالم میں بولی تو ایان کے چہرے پر سناٹے چھا گئے اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اوپر کہکشاؤں پر لے جا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو وہ جیسے خلا میں معلق تھا جہاں ہوا کا وجود ناگزیر تھا اسے سانس لینے میں وقت ہو رہی تھی۔

اور حریم نے آج خلا سے ہوا میں قدم رکھ دیا تھا اب اس کے پاؤں زمین پر تھے اور خوشیاں محبت کے خوشنما پیکر میں ڈھلی سامنے منتظر کھڑی تھیں۔

’’ہو گئے سارے حساب پورے۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر خفگی سے بولا تھا۔

’’نہیں ابھی ایک حساب باقی ہے۔‘‘ وہ شرارت سے مسکرائی۔

’’کیسا حساب؟‘‘ اس نے ابرو اچکائے۔

’’میری محبت اور تمہاری نفرت کا حساب۔‘‘ اس نے یاد دلاتے ہوئے کہا تو وہ بے یقینی سے بولا۔

’’میں تم سے نفرت نہیں کر سکتا۔‘‘

’’تو محبت کر لو۔‘‘ وہ بے ساختہ بول اٹھی شہروز سے مزید خفا رہنا مشکل ہو گیا تھا وہ اس کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا اور دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر زندگی کی محبت بھری شاہراہ پر ہم قدم ہو گئے۔

٭٭٭

بشکریہ کتاب اینڈرائڈ ایپ تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل