FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

مظہر القرآن

جو در اصل شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فارسی ترجمہ قرآن کا اردو ترجمہ ہے

شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی

کتاب کا نمونہ پڑھیں

نوٹ

شاہ مظہر اللہ (۱۹۵۰ء ۱۳۶۹ھ) نے ہندوستان میں کئے گئے شاہ ولی اللہ کے قرآن کے پہلے ترجمے کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ جو مظہر القرآن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ترجمے کا یہ متن ایزی قرآن و حدیث سافٹ وئر

http://easyquranwahadees.com

سے حاصل شدہ ہے۔

۱۔ فاتحہ

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

۱۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہان کا پرورش کرنے والا

۲۔ بخشش کرنے والا مہربان ہے

۳۔ جزا کے دن کا مالک ہے

۴۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے (ہر کام میں) مدد چاہتے ہیں

۵۔ ہم کو سیدھے راستہ پر چلا

۶۔ ان لوگوں کے راستہ پر چلا جن پر تو نے انعام کیا

۷۔ نہ ان لوگوں کی راہ پر کہ جن پر تو غصہ ہوا اور جو گمراہ ہوئے

٭٭٭

۲۔ البقرہ

اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بخشش کرنے والا مہربان ہے۔

۱۔    الم

۲۔    یہ کتاب (الٰہی) ہے (یعنی قرآن) اس میں کچھ شک نہیں، راہ دکھانے والی ہے پرہیزگاروں کو

۳۔    وہ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ہم نے جو کچھ روزی ان کو دے رکھی ہے اس میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں

۴۔    اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو (اے محبوب) اتارا گیا تمہاری طرف اور جو کچھ تم سے پہلے اتارا گیا اور یہ لوگ آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں

۵۔    یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ (دنیا و آخرت میں) کامیاب ہیں۔

۶۔    بے شک جو لوگ کافر ہوئے ان کے حق میں تمہارا (اے محبوب) ڈرانا یا نہ ڈرانا (دونوں) برابر ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے

۷۔    خدا نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے (پس نہ وہ حق جان سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں) اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے (کہ دیکھ نہیں سکتے) اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے

۸۔    اور بعضے ان لوگوں میں سے (منہ سے تو) یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور وہ لوگ ایمان والے نہیں

۹۔    (اپنے نزدیک) فریب دیتے ہیں خدا کو اور مسلمانوں کو، حقیقت میں وہ (دوسروں کو کیا فریب دیں گے) خود اپنی جانوں کو فریب دیتے ہیں اور (جہالت و سرکشی کی وجہ سے) آگاہ نہیں ہوتے

۱۰۔   ان کے دلوں میں (کفر کی) بیماری ہے، پس اللہ نے (دین حق کو کامیاب کر کے) ان کی بیماری اور بڑھا دی اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بسبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔

۱۱۔   اور جب ان (منافقوں) سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ ہم تو (لوگوں میں) اصلاح کرنے والے ہیں

۱۲۔   آگاہ ہو بے شک یہی (منافق لوگ) فساد کرنے والے ہیں و لیکن انہیں سمجھ نہیں

۱۳۔   اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں: کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح (یہ) بیوقوف آدمی ایمان لے آئے ہیں، دیکھو یہی لوگ (فی الحقیقت) بیوقوف ہیں و لیکن جانتے نہیں

۱۴۔   اور جب یہ لوگ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیاطین (سرداروں) کے ساتھ اکیلے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (دل سے) تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو صرف (مسلمانوں سے) دل لگی کرتے ہیں

۱۵۔   یہ لوگ مسلمانوں سے کیا دل لگی کریں گے (حقیقت میں) اللہ ان کو ان کی ہنسی کا بدلہ دیتا ہے اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں

۱۶۔   یہی (منافق) وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی، پس نہ ان کی اس تجارت نے ان کو نفع دیا اور نہ راہ (ہدایت) پانے والے ہوئے

۱۷۔   ان (منافقوں) کی مثال اس کی سی مثال ہے جس نے (مجمع میں رات کے وقت روشنی کے لیے) آگ روشن کی، پھر جب (آگ کے شعلوں سے) اس کے آس پاس کی چیزیں خوب روش ہو گئیں تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور ان کو اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ اب ان کو کچھ نہیں سمجھائی دیتا

۱۸۔   (کانوں سے) بہرے ہیں (حق بات سن نہیں سکتے) (منہ سے) گونگے ہیں (کہ زبان سے کلمہ خیر نہیں نکال سکتے) (آنکھوں سے) اندھے ہیں (کہ راہ ہدایت نہیں دیکھ سکتے) پس دین حق کی طرف رجوع نہ ہوں گے

۱۹۔   یا ان کی مثال ایسی ہے کہ آسمان سے بھاری مینہ برسے جس میں اندھیریاں ہیں اور کڑک اور بجلی ہے۔ کڑک کی ڈراؤنی آواز کے سبب سے چلنے والے لوگ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں موت کے خوف سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے

۲۰۔   قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائی کو اچک لے جائے گی، جب بجلی کی چمک سے روشنی ہوتی ہے تو اس کی روشنی میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہے تو (یوں بھی) ان کے سننے اور دیکھنے کی قوتیں (ان سے) سلب کر لے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۲۱۔   اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو (اس پروردگار کی) جس نے تم کو اور ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے پیدا کیا تاکہ تم (عذاب سے) بچ جاؤ

۲۲۔   وہ (پروردگار عالم) جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان کو چھت کی طرح بلند کر دیا اور برسایا آسمان سے پانی (جس سے زمین شاداب ہو جاتی ہے) پھر ہر طرح کے پھل تمہارے کھانے کے لیے پیدا کیے پس اللہ کے لیے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ

۲۳۔   اور اگر تمہیں اس (قرآن کی سچائی) میں کچھ شک ہے کہ جو ہم نے اپنے خاص بندے (محمد) پر اتارا تو (اگر یہ انسانی دماغ کی بناوٹ ہے تو تم بھی انسان ہو تو صرف) اس کی مانند ایک سورت تو لے آؤ، اور اللہ کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہیں سب سے مدد لو اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو

۲۴۔   پس اگر تم ایسا نہ لا سکو اور (حقیقت یہ ہے کہ) ہرگز نہیں لا سکو گے تو چاہیے کہ سچائی کے انکار سے (باز آؤ) پس اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی بت) ہیں (وہ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔

۲۵۔   اور (اے محبوب) ان لوگوں کو خوشخبری سنا دو جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اچھے کام کیے کہ ان کے واسطے (بہشت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جب ان کو ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا (صورت دیکھ کر) کہیں گے: یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے مل چکا ہے (مگر کھانے سے نئی لذت پائیں گے) اور ان کو ایک ہی صورت و شکل کے میوے ملا کریں گے، اور ان کے لیے ان باغوں میں پاکیزہ بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے

۲۶۔   بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ کسی (حقیقت کے سمجھانے کے لیے کسی حقیر سے حقیر چیز) کی مثال بیان کرتے (مثلاً) مچھر کی یا اس سے زیادہ حقیر چیز کی پس جو لوگ ایمان رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ مثال حق ہے ان کے پروردگار کی طرف سے، اور وہ لوگ جو کافر ہیں کہتے ہیں: بھلا ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کیا چاہتا ہے، ایسی ہی مثال سے اللہ بہتیروں کو گمراہ کرتا ہے اور ایسی ہی مثال سے بہتیروں کو ہدایت دیا کرتا ہے اور وہ گمراہ نہیں کرتا مگر انہیں لوگوں کو جو بے حکم (نافرمان) ہیں

۲۷۔   بے حکم وہ لوگ ہیں جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں اس کے پکا ہونے کے بعد اور جس چیز کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا ہے ان کو قطع کر دیتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

۲۸۔   (لوگو) بھلا تم کیونکر منکر ہو سکتے ہو خدا سے اور حالانکہ تم بے جان تھے، پھر اس نے تم میں جان ڈالی پھر وہی (ہے جو زندگی کے بعد) تم کو موت دے گا، پھر تم کو (دوبارہ قیامت میں) زندہ کرے گا، پھر (بالآخر) تم سب کو اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے

۲۹۔   وہی (اللہ) ہے کہ جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا پس ٹھیک سات آسمان بنائے اور وہ سب چیزوں کا جاننے والا ہے

۳۰۔   (اے محبوب) یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ زمین میں (اپنا ایک) نائب بنانے والے ہوں فرشتوں نے کہا: کیا ایسی ہستی کو نائب کرے گا جو زمین میں فساد پھیلائے اور خونریزی کرے اور ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں (اللہ نے) فرمایا: ’’بے شک میں وہ جانتا ہوں جس کی تمہیں خبر نہیں‘‘

۳۱۔   اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام بتا دیئے، پھر اللہ نے وہ تمام چیزیں فرشتوں کے سامنے پیش کیں، پس فرمایا: اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو تو مجھ کو ان چیزوں کے نام تو بتاؤ

۳۲۔   (فرشتوں نے) عرض کیا: ساری پاکیاں تیرے ہی لیے ہیں ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتلا دیا ہے، بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے

۳۳۔   (تب خدا نے آدم کو) حکم دیا کہ اے آدم! تم فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دو پھر جب آدم نے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دیئے تو فرمایا: کیوں میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ بے شک آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ چیزوں کو میں جانتا ہوں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی میرے علم میں ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو (وہ بھی مجھ سے مخفی نہیں)

۳۴۔   اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ: آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے قبول نہیں کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا

۳۵۔   اور ہم نے (آدم سے) کہا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہو اور جنت میں سے جس چیز کو دل چاہے بے روک ٹوک ہر جگہ سے کھاؤ (پیو) مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا (اگر تم اس کے قریب گئے) تو حد سے بڑھنے والوں میں ہو جاؤ گے

۳۶۔   پس شیطان نے ان دونوں کو جنت سے لغزش دی، پس (آخر کار) جن نعمتوں میں وہ ہر تے تھے اس سے انہیں الگ کر دیا اور ہم نے کہا: تم نیچے اترو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے اور اب تمہیں زمین میں ایک خاص وقت تک رہنا اور برتنا ہے

۳۷۔   پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (معذرت کے) چند کلمات حاصل کیے، پھر خدا نے آدم کی توبہ قبول فرمائی بے شک وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا مہربان ہے

۳۸۔   (جب) ہم نے حکم دیا کہ اب تم سب کے سب جنت سے اتر جاؤ تو (ساتھ ہی یہ بھی سمجھا دیا تھا کہ) اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت آئے (تو اس پر چلنا) پس جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے

۳۹۔   اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

۴۰۔   اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم کو بخشی ہیں اور تم اس عہد کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا ہے، میں اس عہد کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا ہے اور صرف مجھ ہی سے ڈرو

۴۱۔   اور اس کتاب (یعنی قرآن) پر ایمان لاؤ جو میں نے اتاری ہے (اور وہ) اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے اور سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو۔، اور میری آیتوں (میں رد و بدل کر کے ان) کے معاوضہ میں تھوڑی قیمت (یعنی دنیاوی فائدے) حاصل نہ کرو اور مجھ سے ڈرو

۴۲۔   اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملاؤ اور حق بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ

۴۳۔   اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور نماز ادا کرو نمازیوں کے ساتھ (یعنی با جماعت)

۴۴۔   کیا تم (دوسرے) لوگوں کو بھلائی (یعنی آنحضرت پر ایمان لانے) کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھولے ہوئے ہو، حالانکہ تم کتاب (یعنی توریت) پڑھتے ہو تو پھر کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے ہو

۴۵۔   اور (مصیبتوں میں اور تمام حاجتوں کے وقت) صبر اور نماز سے مدد چاہو، اور یقیناً نماز (انسان پر) بھاری تو ضرور ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر (ہلکی ہے)

۴۶۔   وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار سے ملنا ہے اور (بالآخر) اس کے حضور میں لوٹنا ہے (تو ان پر یہ عمل شاق نہیں گزر سکتا وہ تو اس میں لذت و راحت محسوس کرتے ہیں)

۴۷۔   اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری نعمت کہ جو میں نے تم کو انعام میں دی اور یہ کہ میں نے تم کو اس زمانہ کے تمام لوگوں پر (ہر طرح کی) فوقیت دی

۴۸۔   اور اس دن (یعنی روز قیامت سے ڈرو کہ کوئی نفس کسی نفس کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ کسی کی طرف سے (بجز مومن کے) سفارش قبول ہو اور نہ کچھ لے کر اس کی جان چھوڑی جائے گی اور نہ ان کی مدد کی جاوے

۴۹۔   اور اس دن کو یاد کرو جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی، جو تم کو بڑی بڑی تکلیفیں پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے (تاکہ تمہاری نسل جاتی رہے) اور وہ زندہ چھوڑتے تھے (اپنی خدمت کے لئے) تمہاری بیٹیوں کو اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے (تمہارے صبر کی) بڑی سخت آزمائش تھی

۵۰۔   اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا پھر ہم نے تم کو بچا لیا اور فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے دیکھتے ڈبو دیا

۵۱۔   اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے وعدہ کیا تھا موسیٰ سے چالیس راتوں کا، تو پھر موسیٰ کے (چلے جانے کے) بعد تم نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی اور (یہ) تم (اپنے اوپر) ظلم کر رہے تھے

۵۲۔   پھر اس کے بعد ہم نے (اپنی رحمت سے) تمہیں معافی دی (اور اس گمراہی سے تمہیں بچا لیا) تاکہ تم شکر ادا کرو

۵۳۔   اور جب ہم نے دی موسیٰ کو کتاب (یعنی توریت) اور حجت (یعنی حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت) تاکہ تم راہ پاؤ

۵۴۔   اور وہ وقت یاد کرو جبکہ موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے: ’’اے میری قوم! بے شک تم نے (بچھڑا بنا کر) اپنی جانوں پر ظلم کیا تو (اب) چاہئے کہ توبہ کرو اپنے پروردگار کی طرف۔ پس آپس میں اپنی جانوں کو قتل کرو، یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لئے بہتر ہے“ پھر (جب تمہاری طرف سے تعمیل حکم کی آمادگی ظاہر ہوئی تو) خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی، بے شک وہی توبہ قبو ل کرنے والا مہربان ہے

۵۵۔   اور وہ وقت یا کروجب کہ تم نے کہا تھا: ’’اے موسیٰ! ہم ہر گز تمہارا یقین نہین کریں گے جب تک علانیہ ہم خدا کو نہ دیکھ لیں“ پس کڑکتی بجلی تم پر آپڑی اور تم دیکھ رہے تھے

۵۶۔   پھر زندہ کیا ہم نے تم کو تمہارے مرنے کے بعد، تاکہ تم شکر گزار ہو

۵۷۔   اور (پھر جب دھوپ کی شدت اور غذا کے نہ ملنے کی وجہ سے تم ہلاک ہو جانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر سایہ پھیلا دیا ابر کا اور تم پر من اور سلویٰ اتار دیا (اور اجازت دی) ہم نے تم کو (یہ عمدہ اور) پاکیزہ چیزیں دی ہیں (شوق سے) کھاؤ (لیکن وہ اپنی بد اعمالیوں سے باز نہ آئے) اور انہوں نے ناشکریوں سے) ہمارا کچھ نہ بگاڑا لیکن خود اپنا ہی نقصان کرتے تھے

۵۸۔   اور (یاد کرو کہ) جبکہ ہم نے کہا: ’’داخل ہو جاؤ اس بستی میں (جو موسیٰ کے زمانہ میں فتح ہوئی تھی پس وہاں دل بھر کر) جہاں سے چاہو کھاؤ (پیو) اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور تم کہتے جانا کہ ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے نیکی والوں کو زیادہ دیں گے‘‘

۵۹۔   پس ظالموں نے وہ بات (یعنی دعاواستغفار) جو ان کو بتائی گئی تھی، اس کو بدل کر دوسری (بات) بولنے لگے تو ہم نے ان ظالموں پر ان کی نافرمانی کی سزا میں آسمان سے عذاب نازل کیا

۶۰۔   اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی کی درخواست کی تھی تو ہم نے حکم دیا کہ (اے موسیٰ!) اپنا عصا اس پتھر پر مارو (موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل کی) پس اس پتھر سے بارہ چشمے جاری ہو گئے، تو ہر گروہ نے اپنا (اپنا) گھاٹ معلوم کر لیا (اس وقت کہا گیا تھا کہ) اللہ کی (دی ہوئی) روزی تم کھاؤ اور پیو اور نہ پھرو زمین میں فساد کرتے ہوئے

۶۱۔   اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے تو ایک کھانے پر ہر گز صبر نہ ہو گا۔ پس تم ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ زمین کی پیداوار میں سے ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (من وسلویٰ کی جگہ) ہمارے لئے پیدا کرے۔ موسیٰ نے کہا کہ جو چیز بہتر ہے کیا تم اس کے بدلے میں لینی چاہتے ہو ادنیٰ چیز، (اچھا تو) کسی شہر میں اترو جو تم مانگتے ہو تم کو ملے گا (اگرچہ غلامی کی ذلت ونامرادی کے ساتھ ملے گا)۔ اور بنی اسرائیل پر خواری اور محتاجی مقرر کی دی گئی اور پھر خدا کے غضب کی طرف لوٹے یہ اس لئے ہوا کہ خدا کی آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے اور پغمبروں کو ناحق شہید کر ڈالتے تھے یہ (غضب الٰہی) ان کی نافرمانیوں اور حد سے بڑھنے کے سبب سے تھا

۶۲۔   بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور بے دین، ان میں سے جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر (سچے دل سے) ایمان لائیں اور کام کریں اچھے تو ان کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں ہے اور ان پر نہ (کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ (کسی طرح) آرزدہ خاطر ہوں گے

۶۳۔   اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (توریت کی تعمیل کا) عہد لیا اور طور (پہاڑ کو تم پر اونچا کیا اور حکم دیا کہ یہ کتاب توریت، جو ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اس کے مضمون کو یاد رکھو تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ

۶۴۔   پھر اس کے بعد تم (اپنے عہد سے) پھر گئے پس اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بے شک تم نقصان پانے والوں میں سے ہو جاتے

۶۵۔   اور بے شک ان لوگوں (کے انجام) کو تو تم ضرور جانتے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دن (کا ادب اٹھا دینے) میں زیادتی کی، تو ہم نے ان کو حکم دیا: ’’ہو جاؤ بندر پٹکارے ہوئے“ (چنانچہ ایسا ہی ہوا)

۶۶۔   پس ہم نے اس واقعہ کو لوگوں کے لئے عبرت بنا دیا جو اس وقت موجود تھے اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے بعد آئیں اور پرہیز گاروں کے واسطے نصیحت (بنایا)

۶۷۔   اور وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ ذبح کرو ایک گائے وہ بولے: ’’کیا آپ ہمارے ساتھ دل لگی کرتے ہیں؟“ موسیٰ نے کہا: خدا کی پناہ! میں (احکام الٰہی کی تبلیغ میں دل لگی کروں اور) جاہلوں میں سے ہوں‘‘

۶۸۔   (یہ سن کر) بنی اسرائیل بولے: ’’اپنے پروردگار سے ہمارے واسطے دریافت کرو کہ وہ ہمیں بتائے کہ وہ گائے کیسی ہے“ (موسیٰ نے) کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جو نہ تو بالکل بوڑھی ہے اور نہ بچھیا درمیانی عمر کی ہے پس اب تو (اس کی تعمیل) کرو جس کا تم کو حکم دیا گیا ہے

۶۹۔   وہ بولے کہ ’’ اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دریافت کرو کہ ہم کو (اب) بتا دے کہ اس کا رنگ کیسا ہے، (موسیٰ نے) کہا کہ: ’ خدا حکم فرماتا ہے کہ زرد رنگ کی گائے ہے خوب گہرا زرد ایسا کہ دیکھنے والوں کا جی دیکھ کر خوش ہو جائے

۷۰۔   (پھر اس کے بعد) وہ بولے: ’’دریافت کرو ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے کہ زیادہ وضاحت کے ساتھ بتا دے کہ وہ گائے کیسی (صفت والی) ہے کیونکہ گایوں میں ہم کو شبہ پڑ گیا ہے اور (اب کی بار) خدا نے چاہا تو ہم ضرور راہ پالیں گے‘‘

۷۱۔   (اس پر موسیٰ نے) کہا: ’ اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جو نہ تو کبھی ہل میں جوتی گئی اور نہ کبھی کھیتی کو پانی دیا، بے عیب ہے جس میں کسی قسم کا داغ ودھبہ نہیں ہے ‘ وہ بولے: ’’ہاں اب تم نے ٹھیک ٹھیک بتائی“ پس انہوں نے گائے کو ذبح کیا اور ایسا کرنے پر وہ (دل سے) آمادہ نہ تھے

۷۲۔   اور (اے بنی اسرائیل!) جب تم نے ایک شخص کا خون کیا تو ایک دوسرے پر اس کی تہمت ڈالنے لگے اور (جرم کی) جو بات تم چھپاتے تھے تو خدا اسے ظہور میں لانے والا ہے

۷۳۔   پس ہم نے حکم دیا: ’’اس گائے (کے گوشت) کا یک ٹکڑا اس مقتول کو مارو اللہ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا“ اور تم کو (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو

۷۴۔   پھر اس کے بعد تمہارے دل سخت ہو گئے، پس وہ پتھر کی مانند ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ سختی میں اور بے شک پتھروں میں بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جن میں سے پانی کی ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور البتہ انہیں پتھروں میں سے وہ پتھر ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں پس ان سے پانی نکلتا ہے، اور البتہ پھتروں میں سے کچھ وہ پتھر (بھی) ہیں جو خدا کے خوف سے (لرز کر) گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے

۷۵۔   تو اے مسلمانو! کیا تم امید رکھتے ہو کہ یہود تمہارا یقین لائیں گے اور بے شک ان میں سے ایک گروہ وہ تھا جو اللہ کلام سنتے تھے پھر سمجھنے کے بعد اس کو دانستہ بدل ڈالتے تھے

۷۶۔   اور جب مسلمانوں سے ملتے تو کہتے کہ ہم ایمان لائے اور جب آپس میں اکیلے ہوتے تو کہتے: ’’جو کچھ تمہیں خدا نے (توریت کا) علم دیا ہے وہ مسلمانوں پر کیوں ظاہر کئے دیتے ہو کہ تم سے مناظرہ کریں اس دلیل سے تمہارے پروردگار کے پاس“ کیا تم اتنی عقل نہیں رکھتے

۷۷۔   کیا یہ (یہودی) نہیں جانتے کہ بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں

۷۸۔   اور بعضے ان میں سے ان پڑھ ہیں جو کتاب (یعنی توریت) کو نہیں جانتے مگر ہو صرف (اپنے مطلب کی) باطل آرزوؤں کے جانتے ہیں وہ نرے گمان میں ہیں

۷۹۔   پس افسوس ہے ان لوگوں پر جو اپنے ہاتھوں سے تو کتاب لکھیں، پھر (لوگوں سے) یہ کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ اس کی عوض میں کچھ دام (یعنی دنیاوی فائدہ) حاصل کریں، پس افسوس ہے ان کے لئے ان کے اپنے ہاتھوں کے لکھے سے اور (پھر) افسوس ہے ان پر کہ وہ ایسی کمائی کرتے ہیں

۸۰۔   اور کہا (یہودیوں نے) کہہ دوزخ کی آگ ہم کو نہیں چھوئے گی مگر گنتی کے چند روز (اے محبوبﷺ ان لوگوں سے) فرماؤ: ’’کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے پھر تو اللہ ہر گز خلاف نہیں کرے گا اپنے عہد کے، یا خدا پر وہ بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں‘‘

۸۱۔   ہاں جس کسی نے برا کام کیا اور اس کو اس کے گناہوں نے (ہر طرف سے) گھیر لیا پس وہ ہی لوگ دوزخ کے رہنے والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

۸۲۔   اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ایسے ہی لوگ بہشت کے رہنے والے ہیں وہ ہمیشہ ہمشہ اس میں رہیں گے

۸۳۔   اور (وہ وقت یاد کرو کہ) جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم کسی کی عبادت نہ کرنا سوائے خدا کے اور اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے اور لوگوں سے اچھی طرح نرمی کے ساتھ بات کرنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دینا۔ پس تم میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی (عہد سے) پھر گئے اور تم منہ موڑنے والے ہو

۸۴۔   اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خونریزی نہ کرنا اور نہ اپنی بستیوں سے اپنی قوم کو جلا وطن کرنا پھر تم نے اس کا اقرار کر لیا تھا اور تم گواہ ہو

۸۵۔   پھر تم ہی وہ گروہ ہو جو اپنی قوم کو قتل کرتے ہو اور اپنی قوم میں سے ایک گروہ کو ان کے وطن سے باہر نکالتے ہو ان پر مدد یتے ہو (ان کے مخالف کو) گناہ اور زیادتی میں، اور اگر وہی لوگ قیدی ہو کر تمہارے پاس آتے ہیں تو تم چھڑائی (جرمانہ) دے کر ان کو چھڑا لیتے ہو حالانکہ (شریعت کی رو سے) تم پر حرام ہے ان کا نکالناتو کیا تم کتاب (الٰہی کے بعض حکم کو مانتے، پس جو لوگ تم میں ایسا کریں ان کی سزا کیا ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی زندگی میں ذلت اور دن قیامت کے بڑے سخت عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور جو کچھ ت لوگ کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے

۸۶۔   یہی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلہ میں خریدی ہے پس نہ تو (قیامت کے دن) ہلکا ہی کیا جائے گا ان سے عذاب اور نہ ان کی مدد کی جائے گی

۸۷۔   اور البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب (توریت) عطا کی اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کو ہم نے روشن نشانیاں عطا فرمائیں اور روح القدس (یعنی جبرئیل) سے اس کو قوت دی۔ پس جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشوں کے خلاف کوئی حکم لے کر آیا تو تم نے سر کشی کی، پس (ان انبیاء میں) ایک گروہ کو تم نے جھٹلایا اور ایک گروہ کو تم شہید کرتے ہو

۸۸۔   اور (یہودی) کہتے ہیں: ’’ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں“ بلکہ ان کے کفر کے سبب سے خدا نے ان پر لعنت کی ہے تو ان میں سے تھوڑے ایمان لاتے ہیں

۸۹۔   اور جب کہ ان کے پا س اللہ کی طرف سے وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے پاس والی کتاب (توریت) کی تصدیق کرنے والی ہے۔ اور اس سے پہلے وہ (اسی نبی کے وسیلہ سے) کافروں پر فتح یابی چاہا کرتے تھے پس جس وقت ان کے پاس (رسول) آیا جس کو وہ جانتے تھے اس سے منکر ہو گئے پس منکروں پر خدا کی لعنت ہے

۹۰۔   بہت ہی بری چیز ہے جس کے بدلے ان لوگوں نے اپنی جانوں کو خریدا ہے کہ منکر ہو گئے اس چیز (یعنی قرآن اور نبیﷺ) سے جو خدا نے اتارا اس حسد سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتارے، پس غضب درغضب میں آ گئے اور کافروں کے واسطے ذلت کا عذاب ہے

۹۱۔   اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں: ’’ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں جو کہ ہم پر اترا ہے“ (یعنی توریت) اور وہ لوگ اس کے سوا سب کے منکر ہیں حالانکہ وہ (قرآن) حق ہے تصدیق کرتا ہے اس کتاب کی جو ان کے پاس ہے، (اے محبوبﷺ ان سے یہ تو) پوچھو کہ تم کس لئے خدا کے نبیوں کو اگلے زمانہ میں شہید کرتے آئے ہو اگر تم کو اپنی کتاب پر ایمان تھا

۹۲۔   اور البتہ تمہارے پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر آیا پھر تم نے اس کے بعد (جبکہ موسیٰ توریت لینے طور گئے تھے بچھڑے کو معبود بنا لیا، اور تم ظالم تھے

۹۳۔   اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہ ہم نے تم سے عہد لیا اور ہم نے (کوہ) طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا (اور حکم دیا کہ یہ کتاب توریت) جب کہ ہم نے تم کو دی ہے اس کو مضبوط پکڑ لو اور (جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کو) سنو (عمل کرو) انہوں نے کہا: ’’ہم نے سنا تو یہی اور (لیکن ہم اس کو مانتے نہیں“ اور ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کا ادب ان کے دلوں میں سما گیا تھا۔ تم (ان لوگوں سے) فرماؤ: ’’بری چیز ہے جو کچھ تمہارا ایمان تم کو حکم کرتا ہے اگر تم ایمان والے ہو‘‘

۹۴۔   تم فرماؤ: (بقول تمہارے) اگر آخرت کا گھر خدا کے نزدیک تمہارے ہی لئے خالص ہے اوروں کے لئے نہیں تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو

۹۵۔   اور وہ ہر گز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے ان بد اعمالیوں کے سبب سے جو پہلے ان کے ہاتھ کر چکے ہیں اور اللہ ان ظالموں (کے حال) کو خوب جاننے والا ہے

۹۶۔   اور البتہ تم ضرور ان کو (دنیوی) زندگانی پر سب سے زیادہ حریص پاؤ گے، اور ان سے بھی زیادہ حریص جو مشرک ہیں ان میں سے ہر ایک تمنا رکھتا ہے کہ کاش! ہزار برس کی عمر ہو، اور وہ بچ نہیں سکتا اس عذاب سے (اگرچہ) اتنی ہی عمر بھی دی جاوے اور خدا دیکھ رلا ہے جو کچھ وہ کر رہے ہیں

۹۷۔   (اے محبوب!ﷺ ان لوگوں سے) کہو کہ جو شخص جبرئیل (فرشتے) کا دشمن ہے (تو وہ خدا کا دشمن ہے) اس لئے کہ اس نے تو قرآن کو تمہارے دل پر خدا کے حکم سے اتارا ہے جو تصدیق کرتا ہے اپنی سے پہلی کتابوں کی اور ہدایت اور خوشخبری سناتا ہے مسلمانوں کو

۹۸۔   (اور) جو کوئی خدا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے تو بے شک اللہ کافروں کا دشمن ہے

۹۹۔   اور (اے محبوب!ﷺ) بے شک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں اتاری ہیں اور ان سے انکار نہیں کر سکتا مگر (وہی جو) فاسق لوگ (ہیں)

۱۰۰۔  اور کیا یہ نہیں کہ جب کبھی ان لوگوں نے عہد باندھا تو انہی میں سے ایک گروہ نے اس کو پھینک دیا بلکہ بہت سے لوگ ان میں سے اس کا یقین ہی نہیں رکھت

۱۰۱۔  اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے ایک رسول آیا ان کتابوں کی تصدیق کرنے والا جو ان کے پاس ہے تو (ان) اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب (توریت) کو (جس میں ان رسول کریم کے اوصاف تھے ایسا) اپنی پیٹھ پیچھے پھینکا کہ گویا اسے جانتے ہی نہیں

۱۰۲۔  اور ان (مشرکانہ) عملوں کی پیروی کی جنہیں شیطان سلیمان کے عہد سلطنت میں پڑھا کرتے تھے، اور سلیمان نے تو کفر نہ کیا بلکہ شیاطین نے کفر کیا تھا کہ وہ لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے، اور وہ جادو جو بابل میں دو فرشتوں پر اترا (جن کا نام) ہاروت ماروت (تھا) اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ دیتے تھے کہ ہم تو صرف (ذریعہ) آزمائش ہیں پھر تم کیوں کفر میں مبتلا ہوتے ہو؟ اس پر بھی ان سے ایسے منتر سیکھتے جن کی وجہ سے میاں بی بی میں جدائی ڈال دیں، (اور) وہ اس (جادو) سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اللہ کے حکم سے، اور (یہود ان سے) ایسی باتیں سیکھتے جن سے (خود) ان (ہی) کو نقصان پہنچتا اور ان کو نفع نہ ہوتا، اور ہو یہ بھی جانتے تھے کہ جو کوئی (اپنا دین بیچ کر) جادو کو مول لیتا ہے اس کے واسطے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور بے شک (بہت ہی) برا معاوضہ ہے، جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا کاش ان کو علم ہوتا

۱۰۳۔  اور اگر یہ لوگ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو اس کا ثواب اللہ کے نزدیک بہتر ہوتا، کاش ان کو علم ہوتا

۱۰۴۔  اے مومنو! (جب آنحضرتﷺ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہو تو) راعنا نہ کہو اور انظرنا کہو اور ان کی بات کان لگا کر خوب سنو اور کافروں کے واسطے درد دینے والا عذاب ہے

۱۰۵۔  ذرا بھی پسند نہیں کرتے کافر لوگ (خواہ) ان اہل کتاب میں سے (ہوں) اور (خواہ) مشرکین میں سے اس امرکو کہ تم (مسلمانوں) پر کوئی بھلائی نازل ہو تمہارے پروردگار کی طرف سے، اور اللہ تو اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے مخصوص کر لیتا ہے، اور اللہ بڑا فضل کرنے والا ہے

۱۰۶۔  (اے محبوبﷺ) ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیں یا بھلا دیں تو ہم اس سے بہتر یا سی کی مانند نازل (بھی) کر دیتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ سب چیز پر قادر ہے

۱۰۷۔  کیا تم نہیں جانتے بے شک اللہ ہی کے واسطے آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی دوست ہے اور نہ مدد گار

۱۰۸۔  (مسلمانو!) کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے ویسا سوال کرو جس طرح پہلے (زمانہ میں) موسیٰ سے (بےہودہ درخواستیں اور) سوالات کئے گئے تھے اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر لیوے پس وہ بہک گیا سیدھے راستے سے

۱۰۹۔  (مسلمانو!) اہل کتاب میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو چاہتے ہیں کہ بعد تمہارے ایمان لانے کے کفر کی طرف تم کو پھیر دیں اپنے دلی حسد کی وجہ سے بعد اس کے کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے، پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۱۱۰۔  اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور جو کچھ نیکی اپنے لئے (ذخیرہ عاقبت کر کے) پہلے سے بھیج دو گے اس کو اللہ کے ہاں (موجود) پاؤ گے، بے شک جو کچھ تم کرتے ہو اللہ دیکھ رہا ہے

۱۱۱۔  اور یہود کہتے ہیں کہ یہود کے سوا اور نصاریٰ کہتے کہ نصاریٰ کے سوا جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا (اے محبوب!ﷺ) یہ ان لوگوں کی (جاہلانہ) باطل آرزوئیں ہیں، تم ان سے فرماؤ: ’’اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو‘‘

۱۱۲۔  پس جس کسی نے بھی خدا کے آگے سر نیاز جھکا دیا اور وہ نیک کرنے والا بھی ہے تو وہ اپنے پروردگار سے اپنا اجر ضرور پائے گا اور نہیں ہے کھٹکا ان کو کسی طرح اور نہ وہ (کسی طرح) غمگین ہوں گے

۱۱۳۔  اور یہودی کہتے ہیں: ’’نصاریٰ (کا دین) کچھ نہیں ہے“ اور نصاریٰ کہتے ہیں: ’’یہودیوں (کا دین) کچھ نہیں ہے“ اور وہ (دونوں فریق) اللہ کی کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح انہی کی سی باتیں وہ (مشرکین) بھی کہا کرتے ہیں جو بے علم ہیں پس اللہ فیصلہ کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن اس بات میں جس میں ہو اختلاف کرتے ہیں

۱۱۴۔  اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہے کہ جس نے اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام لینے کی ممانعت کر دی اور ان کی ویرانی میں کوشش کرتا ہے (تو جن لوگوں کے ظلم و شرارت کا یہ حال) ان کو زیبا نہیں کہ وہ مسجدوں میں آویں (بجز اس حالت کے) ڈرتے سہمے ہوئے ہوں، ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں (بھی) رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بھی بڑا (بھاری) عذاب ہے

۱۱۵۔  اور مشرق ہو یا مغرب سب اللہ ہی کے لئے ہے پس (اس کی یاد میں) تم جدھر منہ کرو ادھر ہی وجہ اللہ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے، بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے

۱۱۶۔  اور (عیسائی) کہتے ہیں کہ خدا اولاد رکھتا ہے (حالانکہ) وہ (اس سے) پاک ہے، بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب اسی کے فرمانبردار ہیں

۱۱۷۔  پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو بس اسی کی نسبت فرما دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ فوراً ہو جاتا ہے

۱۱۸۔  اور (مشرکین عرب) جو (احکام الٰہی کچھ بھی) نہیں جانتے کہتے ہیں کہ خدا (خود) ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمیں کوئی نشانی ملے۔ اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان ہی جیسی باتیں وہ بھی کہا کرتے تھے۔ ان (سب) کے دل (کچھ) ایک ہی طرح کے ہیں جو لوگ یقین (کرنے کی صلاحیت) رکھتے ہیں ان کو تو ہم (اپنی نشانیاں صاف طور پر دکھا چکے

۱۱۹۔  بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری اور ڈر سنانے والا اور تم سے دوزخیوں کی کچھ باز پرس نہیں ہو گی

۱۲۰۔  اور (اے محبوبﷺ) تم سے ہر گز خوش نہ ہوں گے یہود اور نہ نصاریٰ تاوقتیکہ تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو، (اے محبوبﷺ) تم ان لوگوں سے فرماؤ کہ اللہ کی ہدایت وہی (اصلی) ہدایت ہے اور اے مخاطب! اگر پیروی کی تو نے ان لوگوں کی باطل آرزوؤں کی باوجود یہ کہ تیرے پاس علم (یعنی قرآن) آ چکا ہے، تجھے اللہ کے عذاب سے نہ کوئی بچانے والا ہو گا اور نہ کوئی مدد گار

۱۲۱۔  اور (اہل کتاب میں) جن لوگوں کو ہم نے کتاب (یعنی توریت) دی ہے وہ اس کو پڑھتے رہتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے، وہ یقین بھی رکھتے ہیں خدا کی ہدایت پر اور جو اس کے منکر ہوتے ہیں پس وہی لوگ ٹوٹے میں ہیں

۱۲۲۔  اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمتیں یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی ہیں اور یہ کہ میں نے تم کو اس زمانہ کے سب لوگوں پر بزرگی دی

۱۲۳۔  اور اس دن سے ڈرو کہ کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ اس (کی طرف) سے کوئی معاوضہ قبول کیا جاوے گا اور نہ کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ ان کی مدد کی جاوے گی

۱۲۴۔  اور (یاد کرو) جس وقت کہ ابراہیمؑ کو اس کے پروردگار نے کئی باتوں میں آزمایا، پس (ابراہیمؑ نے) ان کو پورا کر دیا تو (خدا نے رضا مند ہو کر) فرمایا کہ میں تم لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں عرض کی: ’’اور میری اولاد سے“ فرمایا: ’’جو ظلم کی راہ اختیار کریں تو ان کا میرے عہد میں کوئی حصہ نہیں‘‘

۱۲۵۔  اور جب ہم نے (مکہ کے) اس گھر کو (یعنی خانہ کعبہ کو) لوگوں کا مرجع (یعنی گرد آوری کا مرکز) اور امن و حرمت کا مقام ٹھہرا دیا اور (لوگوں کو حکم دیا کہ) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ (ہمیشہ کے لئے) نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم اور اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب صاف ستھرا رکھو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے

۱۲۶۔  اور جبکہ دعا مانگی ابراہیمؑ نے کہ اے میرے پروردگار! اس مقام کو امن و امان کا (ایک آباد) شہر بنا دے اور یہاں کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دیجیو جو ان میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر (یعنی قیامت پر) ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ (تمہاری دعا قبول ہوئی) اور جو کافر ہوا تھوڑا فائدہ اسے بھی دوں گا پھر (آخر کار) اس کو عذاب دوزخ کی طرف مجبور کروں گا اور وہ بہت بری جگہ ہے‘‘

۱۲۷۔  اور (یاد کرو) جس وقت ابراہیم اور (ان کے ساتھ) اسماعیل (دونوں) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (اور دعا مانگتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما، بے شک تو ہی ہے (دعا کا) سننے والا جاننے والا

۱۲۸۔  اے پروردگار ہمارے! ہم کو اپنا (بندہ) فرمانبردار بنا اور ہماری نسل میں ایک گروہ (پیدا کر) جو تیرا حکم بردار ہو اور ہمیں ہماری عبادتوں کا طریقہ بتلا دے، اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما۔ بے شک تو ہی معاف کرنے والا مہربان ہے

۱۲۹۔  اے پروردگار! ہمارے اور ان (مکے والوں) میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیج کہ ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب (یعنی قرآن) اور (پختہ) علم سکھائے اور ان کو پاک کرے (یعنی نفوس کی اصلاح کرے) بے شک تو ہی قوت والا جاننے والا ہے

۱۳۰۔  اور کون ہے جو ابراہیم کے دین سے منہ پھیرے سوائے اس کے کہ جس نے اپنے آپ کو نادانی و جہالت کے حوالے کر دیا ہے، اور بے شک ہم نے اس کا دنیا میں انتخاب کر لیا اور بے شک آخرت میں وہ ہمارے خاص نیکوں میں سے ہے

۱۳۱۔  جب کہ اس سے فرمایا اس کے پروردگار نے کہ (ہماری ہی) فرمانبرداری کر (تو) عرض کیا کہ میں سارے جہان کے پروردگار کا یعنی تیرا ہی فرمانبردار ہیں

۱۳۲۔  اور اسی دین کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کی کہ اے میرے بیٹو! بے شک خدا نے تمہارے لئے اس دین (اسلام) کو پسند فرمایا ہے پس تم نہ مرنا مگر مسلمان ہو

۱۳۳۔  کیا تم (اے بنی اسرائیل!) اس وقت موجود تھے جس وقت یعقوب کے سرہانے موت آ کھڑی ہوئی تھی جب کہ اس نے فرمایا اپنے بیٹوں سے کہ میرے (مرنے کے) بعد کس کی عبادت کرو گے انہوں نے جواب دیا کہ ہم عبادت کریں گے اس خدائے واحد کی جس کی تو نے عبادت کی اور تیرے باپوں ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق نے کی ہے، اور ہم تو اسی کے حکموں کے فرمانبردار ہیں

۱۳۴۔  (اے یہود!) یہ ایک امت تھی جو (اپنے وقتوں میں) ہو کر گزری، اس کے لئے وہ تھا جو اس نے اپنے عمل سے کمایا، تمہارے لئے وہ ہو گا جو تم اپنے عمل سے کماؤ گے، اور ان کے کاموں کی تم سے پوچھ نہ ہو گی

۱۳۵۔  اور کتابی (اہل کتاب) مسلمانوں سے کہتے ہیں: ’’یہودی یا نصرانی ہو جاؤ راہ پاؤ گے“ تم ان لوگوں سے فرماؤ: ’’ (نہیں) بلکہ ہم تو ابراہیم کے دین کی پیروی کرتے ہیں جو ایک (خدا) کا ہو رہا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا‘‘

۱۳۶۔  (مسلمانو! تم ان سے یہ) کہہ دو کہ ہم تو خدا پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اترا اور ان تمام تعلیموں پر ایمان لائے ہیں جو ابراہیم کو اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا اور جو کچھ موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا، اور (صرف اتنا ہی نہیں بلکہ) ان تمام تعلیموں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو اور تمام پیغمبروں کو ان کے پروردگار سے ملی ہیں، ہم ان میں سے کسی میں بھی فرق نہیں کرتے اور ہم (ایک خدا) کے فرمانبردار ہیں

۱۳۷۔  پس اگر یہ (اہل کتاب) بھی ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے تو بس وہ راہ پا گئے اور اگر وہ پھر گئے تو (سمجھو کہ) پس وہ (تمہاری) مخالفت میں ہیں، تو (اے محبوب!ﷺ) عنقریب اللہ کفایت کرے گا تم ان کو ان کی مخالفتوں سے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے

۱۳۸۔  (مسلمانو! ان لوگوں سے کہو کہ) ہم تو اللہ کے رنگ میں رنگے گئے اور اللہ کے رنگ سے اور کس کا رنگ بہتر ہے، اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں

۱۳۹۔  (اے محبوبﷺ) تم فرماؤ: ’’کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو اور وہی پروردگار ہمارا (بھی) اور تمہارا (بھی) وہی اور ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے اور ہم خالص اسی کو ماننے والے ہیں‘‘

۱۴۰۔  بلکہ تم تو یوں کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کے بیٹے (یہ لوگ بھی) یہودی یا نصرانی تھے، (اے محبوب!ﷺ) تم ان سے کہو: ’’کیا مت زیادہ جاننے والے ہو یا اللہ ہے اور اس سے بڑھ کر ظالم کو ن ہو گا کہ جو چھپاوے اس گواہی کو جو اللہ کی طرف سے اس کے پاس (آئی ہوئی) موجود ہے، اور جو کچھ تم کر رہے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے

۱۴۱۔  یہ ایک امت جو گزر گئی، ان کے لئے وہ ہے جو عمل کر گئے اور تمہارے لئے وہ ہو گا جو تم اپنے عمل سے کماؤ گے اور ان کے اعمال سے کچھ پوچھ نہیں ہو گی‘‘

۱۴۲۔  (اے محبوب!ﷺ تمہارے کعبہ کی طرف نماز پڑھنے سے) عنقریب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ کس چیز نے مسلمانوں کو (کعبہ کی طرف) پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے کہ جس پر وہ (پہلے رخ کر کے نماز پڑھتے چلے آتے) تھے (یعنی بیت المقدس کی طرف) اے محبوب!ﷺ) تم کہہ دو کہ مشرق و مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے۔ جس کو چاہتا ہے (دین کا) سیدھا راستہ دکھاتا ہے

۱۴۳۔  اور (اے مسلمانو! جسے ہم نے تم کو اب ٹھیک قبلہ بتا دیا ہے) اسی طرح ہم نے تم کو (سب امتوں میں) افضل بنا دیا ہے تاکہ لوگوں پر تم گوہ ہو جاؤ اور یہ رسول تمہارے گواہ بنے، اور (اے محبوب!ﷺ) ہم نے اسی غرض سے اس قبلہ کو مقرر نہیں کیا جس پر تم (پہلے) تھے (یعنی بیت المقدس) کہ جب قبلہ بدلا جائے تو ہم کو معلوم ہو جائے کہ کون رسولﷺ پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ بات (بہت) دشوار تھی مگر ان لوگوں پر کہ جن کو خدا نے ہدایت کی (ان پر کچھ دشوار نہیں) اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کرے، بے شک اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے والا مہربان ہے

۱۴۴۔  بے شک ہم دیکھ رہے ہیں (اے محبوب!ﷺ حکم کے انتظار میں) بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں اسی قبلہ کی طرف پھر جانے کا حکم دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے پس ابھی اپنا منہ پھیر لو مسجد الحرام (یعنی کعبہ) کی طرف اور (اے مسلمانو! تم بھی) جہاں کہیں ہو اسی کی منہ کر لو، اور (اے محبوب!ﷺ) بے شک وہ لوگ جو اہل کتاب ہیں ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے حق ہے، اور وہ جو تدبیریں کر رہے ہیں خدا اس سے بے خبر نہیں ہے

۱۴۵۔  اور (اے محبوب!ﷺ) اگر تم اہل کتاب کے پاس ہر دلیل لے کر آؤ تو بھی وہ تمہارے قبلہ کو ہر گز نہ مانیں گے، اور نہ تم ہی ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے ہو اور ان میں کا کوئی (فریق) بھی دوسرے (فریق) کے قبلے کی پیروی کرنے والا نہیں اور (اے مخاطب!) اگر تو اس کے بعد جو تجھے پہنچا ہے ان کی نفسانی خواہشوں کی پیروی کرے گا تو ضرور اس وقت تو ظالموں میں سے ہو گا

۱۴۶۔  وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب (توریت) دی ہے (ان کے علماء) انہیں (یعنی رسولﷺ کو) اس طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور بے شک ان میں سے ہر ایک گروہ ایسا بھی ہے جو حق (بات) کو چھپاتا ہے جان بوجھ کر

۱۴۷۔  (اے سننے والے یہ تحویل قبلہ) بر حق (اور) تیرے پروردگار (کے حکم) سے ہے، پر تو کہیں شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جائے

۱۴۸۔  اور ہر ایک (فریق) کے لئے ایک سمت (مقرر) ہے کہ وہ ادھر ہی (عبادت میں) منہ کرتا ہے۔ پس تم اے مسلمانو! نیکیوں میں سبقت لے جاؤ جہاں کہیں تم ہو، اللہ تم سب کو اکھٹا کر کے (اپنے پاس لے آئے گا، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۱۴۹۔  اور جس جگہ سے آؤ تو (نماز میں) اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف کرو، اور بے شک یہی (نیا قبلہ) برحق ہے تمہارے پروردگار کے حکم سے اور اللہ تمہارے عملوں سے غافل نہیں

۱۵۰۔  اور (اے محبوب!ﷺ) جہاں سے آؤتو اپنا منہ (نماز میں) مسجد حرام کی طرف کرو، اور (اے مسلمانو!) تم بھی جہاں کہیں ہو اپنے منہ کو (نماز میں) اسی کی طرف کرو (بار بار حکم دینے سے غرض یہ ہے) کہ لوگوں کو تم پر (کسی قسم کی) حجت (باقی) نہ رہے، مگر جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اس جماعت سے تم ان سے نہ ڈرو، اور یہ اس لئے کہ میں اپنی نعمتیں تم کو بھر پور دوں اور کسی طرح تم ہدایت پاؤ

۱۵۱۔  (مسلمانو! یہ احسان بھی اسی قسم کے ہیں) جیسا ہم نے تم میں تمہاری قوم میں کے ایک رسول کو بھیجا جو پڑھ کر سناتا ہے تم کو ہماری آیتیں اور تمہاری اصلاح کرتا ہے اور تم کو کتاب (یعنی قرآن) اور عقل (کی باتیں) سکھاتا ہے، اور تم کو وہ تعلیم فرماتا ہے جو تم نہیں جانتے

۱۵۲۔  پس یاد کرو تم مجھ کو تاکہ یاد کروں میں تم کو اور تم میرا شکریہ ادا کرو اور تم میری ناشکری نہ کرو

۱۵۳۔  اے مسلمانو! (تم کو کسی طرح کی مشکل پیش آئے تو اس کے لئے) صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

۱۵۴۔  اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو نہ کہو کہ: ’’وہ مردہ ہیں“ بلکہ وہ زندہ ہیں اور لیکن (ان کی زندگی کی حقیقت) تم نہیں سمجھتے

۱۵۵۔  بے شک ہم تم کو ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے محبوب!ﷺ) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو

۱۵۶۔  کہ جب ان پر کوئی مصیبت آپڑے تو کہیں: ’’بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں (جس حال میں چاہے رکھے) اور ہم کو اس ہی کے پاس جانا ہے‘‘

۱۵۷۔  یہی وہ لوگ ہیں کہ جن پر درودیں اور رحمت ہے ان کے پروردگار کی طرف سے، اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں

۱۵۸۔  بے شک (کوہ) صفا اور مروہ خدا کی (ٹھہرائی ہوئی) نشانیاں یعنی (ادب گاہوں میں سے ہیں، پس جو کوئی کعبہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان طواف کرے اور جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو خدا نیکی کا صلہ دینے والا خبر دار ہے

۱۵۹۔  بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ان کھلے کھلے احکام کو اور ہدایت کو کہ جس کو ہم نے نازل کیا بعد اس کے کہ لوگوں کے لئے ہم اس کتاب میں بھی واضح فرما چکے، تو ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے

۱۶۰۔  مگر وہ جنہوں نے توبہ کی اور نیکی اختیار کی اور (جو کچھ کتاب میں تھا) صاف صاف بیان کر دیا تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گا، اور میں بڑا معاف کرنے والا مہربان ہوں

۱۶۱۔  بے شک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور وہ کافر ہی مرے ان لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی

۱۶۲۔  ہمیشہ اس لعنت میں رہیں گے اور نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ مہلت دی جائے گی

۱۶۳۔  اور تمہارا خدا (تو وہی) ایک خدا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان ہے

۱۶۴۔  بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے آنے جانے میں اور جہازوں میں جو لوگوں کے فائدے کی چیزیں (یعنی مال تجارت) سمندر میں لے کرچلتے ہیں اور اس پانی میں کہ برسایا اللہ نے آسمان سے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مرنے (یعنی خشک ہونے) کے بعد پھر زندہ (یعنی شاداب) کیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلائے اور ہواؤں کے بدلنے میں جو (خدا کے حکم کے) آسمان زمین کے درمیان گھرے رہتے ہیں۔ بے شک ان سب چیزوں میں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں نشانیاں (موجود) ہیں

۱۶۵۔  اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا اوروں کو معبود ٹھہراتے ہیں اور انہیں اللہ کی طرف محبوب رکھتے ہیں، اور جو ایمان والے ہیں ان کو تو سب سے بڑھ کر خدا سے محبت ہوتی ہے (اور افسوس کریں) اگر ظالم وہ وقت دیکھیں جبکہ عذاب ان کی آنکھوں کے سامنے آئے گا اس لئے کہ ہر طرح کی قوت اللہ ہی کو ہے، اور اس لئے کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے

۱۶۶۔  (یہ ایسا ٹیڑھا وقت ہو گا) جبکہ کافروں کے سردار اپنی پیروی کرنے والوں سے بیزار ہوں گے اور (عذاب) آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اور ان کے (آپس کے) تعلقات (سب) ٹوٹ جائیں گے

۱۶۷۔  اور پیروی کرنے والے کہیں گے کہ اے کاش! (ایک دفعہ دنیا میں) پھر ہم کو لوٹا دیا جائے تو ہم بھی ان سرداروں سے اسی طرح بیزار ہو جاویں جسیا کہ یہ ہم سے (اس وقت) بیزار ہو گئے، اسی طرح اللہ انہیں دکھائے گا ان کی (بد) اعمالیوں کو (خالی) ارمان کر کے اور (اس پر بھی) ان کو دوزخ سے نکلنا (نصیب) نہ ہو گا

۱۶۸۔  اے لوگو! کھاؤ تم جو کچھ زمین میں چیزیں حلال پاکیزہ ہیں، اور قدم بقدم شیطان کے نہ چلو بے شک ہو تمہارا کھلا دشمن ہے

۱۶۹۔  وہ تو تمہیں بدی اور بے حیائی ہی (کے کام کرنے) کو کہے گا اور یہ (چاہے گا) کہ تم پر اپنی طرف سے بے سمجھے خدا پر بہتان باندھو

۱۷۰۔  اور جب کہا جاتا ہے ان (لوگوں) سے کہ تم اس کی پیروی کرو جو خدا کی طرف سے اترا ہے، تو کہتے ہیں: بلکہ ہم تو اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا“ (کیا تقلید کرتے ہیں) اگرچہ ان کے باپ دادا (دین کی) کچھ سمجھ نہیں رکھتے تھے اور نہ رستہ پاتے تھے

۱۷۱۔  اور کافروں کو سمجھانے کی مثال ایسی ہے کہ جیسا کہ کوئی شخص ان (جانوروں) کو آواز دیوے کہ جو بجز پکار اور آواز کے کچھ نہیں سنتے۔ وہ کافر بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے اس لئے کچھ نہیں سمجھتے

۱۷۲۔  اے ایمان والو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی ہے اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔

۱۷۳۔  خدا نے تم پر صرف مردار کو اور خون کو اور سور کا گوشت اور جس (جانور) پر (ذبح کرتے وقت) خدا کے نام کے سوا کسی اور کا نام پکارا جاوے حرام کئے ہیں (لیکن جو شخص بھوک سے بہت ہی بے تاب ہو جائے بشرطیکہ خواہش سے نہ کھائے اور ضرورت سے آگے نہ بڑھے (جان بچانے کے لئے) اس پر (ان چیزوں کے کھانے میں) گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

۱۷۴۔  بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ان احکام کو جو خدا نے (اپنی) کتاب (تورات) میں نازل کئے اور اس کے بدلے تھوڑا سا (دنیاوی) معاوضہ حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ کچھ نہیں کھاتے مگر اپنے پیٹوں میں آگ (بھرتے ہیں) اور قیامت کے دن خدا ان سے بات کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے

۱۷۵۔  یہ وہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے مول لیا ہے ہدایت کے بدلے گمراہی کو اور (آخرت کی) بخشش کے بدلے عذاب کو، پس کیا بڑی برداشت ہے انہیں دوزخ کی آگ کی۔

۱۷۶۔  یہ اس لئے ہے کہ اللہ نے کتاب حق کے ساتھ اتاری اور بے شک جنہوں نے اختلاف کیا اس کتاب میں البتہ وہ پرلے درجے کی مخالفت میں ہیں۔

۱۷۷۔  (مسلمانو!) نیکی یہی نہیں کہ تم (نماز میں) اپنا منہ مشرق و مغرب کی طرف کر لو بلکہ (اصل) نیکی تو ان کی ہے جو یقین رکھے خدا پر اور روز قیامت پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور اپنا عزیز مال اللہ کی محبت میں دیوے رشتہ داروں کو اور یتیموں اور فقیروں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور غلاموں کے آزاد کرانے میں، اور نماز قائم رکھے اور زکوٰۃ دیوے اور اپنا قول پورا کرنے والے کہ جب (کسی بات کا) اقرار کریں، اور صبر کرنے والے تنگدستی میں اور جنگ (یعنی جہاد) کے وقت، یہی لوگ ہیں جو سچ بولنے والے ہیں اور یہی پرہیز گار ہیں

۱۷۸۔  اے مسلمانو! لازم کیا گیا تم پر قصاص لینا جو ناحق مارے جائیں ان کے خون کا بدلہ لو، آزاد کے بدلے آزاد ہے غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، تو جس قاتل کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی تو اس پر لازم ہے پیروی کرنی حکم شرع کے موافق اور قاتل کو دینا چاہیے خون بہا وارث مقتول کو عمدگی سے، یہ آسانی ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے اور رحمت، پس جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے تو اس کے لئے عذاب دررد دینے والا ہے۔

۱۷۹۔  اور قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں تمہاری زندگی ہے۔ اے عقلمندو! تاکہ تم (خون ریزی سے) باز رہو۔

۱۸۰۔  مسلمانو تم پر لازم کیا گیا کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑا ہے تو وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قرابت کے رشتہ داروں کے لئے عمدہ طور پر، یہ واجب ہے پرہیز گاروں پر۔

۱۸۱۔  پھر جس شخص نے سن لینے کے بعد وصیت کو بدل دیا تو اس کا گناہ انہیں وصیت کے بدل دینے والوں پر ہے۔ بے شک اللہ سنتا ہے اور جانتا ہے۔

۱۸۲۔  پھر جسے اندیشہ ہوا کہ وصیت کرنے والے نے کچھ ناانصافی کی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلح کرا دی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، بے شک اللہ بخشنے وال مہر بان ہے۔

۱۸۳۔  اے مومنو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے کہ فرض ہوئے تھے ان لوگوں پر (یعنی اہل کتاب پر) جو تم سے پہلے تھے تاکہ تمہیں پرہیز گاری ملے

۱۸۴۔  روزے رکھنے کے چند گنتی کے دن ہیں (اس پر بھی) تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو (تو اس کے لئے اجازت ہے) کہ وہ دوسرے دنوں میں (روزہ رکھ کر روزہ کے دنوں کی) گنتی پوری کرے اور جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو (اور نہ آئندہ اس پر طاقت کی امید ہو) تو اس کے لئے روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر جو اپنی طرف سے زیادہ نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور یہ کہ روزہ رکھنا (ہر حال میں) تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

۱۸۵۔  مہینہ رمضان کا وہ ہے کہ جس میں قرآن نازل ہوا ہے وہ انسانوں کے لئے رہنما ہے اور ہدایت کی روشن صداقتیں رکھتا ہے اور حق کو باطل سے الگ کر دینے والا ہے، پس جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو اسے چاہیے کہ ضرور اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں تو اس کے لئے یہ حکم ہے کہہ دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزوں کی گنتی پوری کرے۔ اللہ چاہتا ہے تمہارے لئے آسانی اور تم پر دشواری نہیں چاہتا ہے اور (یہ حکم اس لئے ہے) تاکہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ کی بزرگی بیان کرو اس شکریہ میں کہ اللہ نے تم کو راہ دکھائی اور تاکہ اس کی شکر گزاری میں سر گرم رہو

۱۸۶۔  اور (اے محبوب!ﷺ) جب تم سے میرے بندے میری نسبت دریافت کریں تو (ان کو سمجھا دو کہ) میں (ان کے) نزدیک ہوں جب کوئی مجھ سے دعا کرے تو میں (ہر ایک) دعا کرنے والے کی دعا سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ پس ان کو چاہیے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ بھلائی پائیں۔

۱۸۷۔  (مسلمانو!) روزوں کی راتوں میں اپنی بیبیوں کے پاس جانا تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو (یعنی وہ تمہارے بغیر نہیں رہ سکتیں تم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے)، اللہ نے دیکھا کہ تم (ان کے پاس جانے سے) اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تم کو معافی دی۔ پس اب (روزوں کی رات کے وقت) ان سے صحبت کرو اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہے (یعنی اولاد) اور (اسی طرح رات کے وقت) کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لئے ظاہر ہو جائے ڈورا سفیدی (یعنی صبح صادق) کا (رات کی) سیاہی کے ڈورے سے۔ صبح کے وقت الگ ہو جائے۔ پھر (صبح صادق سے) رات (شروع ہونے) تک روزہ کو پورا کرو، اور اپنی بیبیوں سے خلوت نہ کرو اس حالت میں کہ جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو۔ یہ اللہ کی (باندھی ہوئی) حدیں ہیں پس ان کے پاس نہ جاؤ۔ اللہ اسی طرح اپنے احکام لوگوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ پرہیز گاری کریں

۱۸۸۔  اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق (طور پر) نہ کھاؤ اور اپنا مال حاکموں کے پاس رشوت میں نہ پہنچاؤ اور اس غرض سے کہ (اس کے ذریعہ سے) لوگوں کا کچھ مال بطریق گناہ (یعنی ظلم) کے کھا جاؤ اور تم کو (اپنے جھوٹ اور ظلم کا) علم (بھی) ہو

۱۸۹۔  (اے محبوبﷺ!) لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو (تم ان سے) فرماؤ کہ وہ لوگوں کے واسطے وقت کی علامتیں ہیں اور حج کے لئے اور اس میں کوئی فضیلت ہیں کہ گھروں میں (احرام کی حالت میں) ان کی پشت سے آؤ لیکن یہ فضیلت ہے کہ پرہیزگاری (اختیار) کرو، اور گھروں میں (آؤ تو) دروازوں کی طرف سے آؤ، اور خدا (کی نافرمانی) سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ

۱۹۰۔  اور (مسلمانو!) اللہ کی راہ (یعنی دین کی حمایت) میں ان سے لڑو جو لوگ تم سے لڑتے ہیں اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ ہر گز دوست نہیں رکھتا ہے حد سے بڑھنے والوں کو

۱۹۱۔  اور کافروں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے (یعنی مکہ سے) تم بھی ان کو (وہاں سے) نکال باہر کرو، ان کا فساد (برپا رہنا) خونریزی سے بھی بڑھ کر ہے، اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک وہ خود تم سے وہاں نہ لڑیں، اور اگر وہ لوگ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو یہی سزا ہے ایسے کافروں کی

۱۹۲۔  پھر اگر وہ باز رہیں تو بے شک اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

۱۹۳۔  اور ان لوگوں سے یہاں تک لڑو کہ جب تک (ملک میں) شرک (یعنی ظلم و فساد) باقی نہ رہے اور دین خالص اللہ ہی کے لئے ہو جائے پھر اگر وہ (کفر سے) باز آ جائیں تو (تمہیں بھی ہاتھ روک لینا چاہیے کیونکہ) زیادتی (تو) ظالموں کے سوا کسی پر (جائز ہی) نہیں

۱۹۴۔  (ان مہینوں کا تمہارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ) ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام ہے اور ادب کے بدلے ادب ہے۔ پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی تم پر اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ خدا پرہیز گاروں کا ساتھی ہے

۱۹۵۔  اور خرچ کرو خدا کی راہ میں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیک کام کرو بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے

۱۹۶۔  اور اللہ کے لئے حج اور عمرہ (کی نیت کر لی ہو تو اس) کو پورا کرو، پس اگر تم روکے جاؤ (راستہ میں) تو جو کچھ قربانی میسر آئے بھیجو اور اس وقت تک سر کے بال نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی نہ پہنچ جائے اپنے ٹھکانے پر، پھر جو تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو (اور وہ سر کو منڈا دیوے) تو اس کا بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی پھر جب تم امن کی حالت میں ہو جاؤ تو جو کوئی فائدہ اٹھائے عمرہ سے حج کے ساتھ تو اس پر لازم ہے جو کچھ کہ قربانی اس کو میسر آوے کرے۔ پھر جسے مقدور نہ ہو تو تین روزے حج کے دنوں میں رکھے اور سات (روزے) اس وقت جب اپنے گھر پلٹ کر آئے۔ یہ دس دن پورے ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے کہ جس کے اہل و عیال مسجد حرام (مکہ) کے رہنے والے نہ ہوں، اور خدا سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے

۱۹۷۔  حج کے چند مہینے ہیں جو سب کو معلوم ہیں پس جس نے لازم کر لیا اپنے پر ان مہینوں میں حج (یعنی احرام باندھ لیا) تو عورتوں سے ہم صحبت ہونا جائز نہیں ہے اور نہ کوئی گناہ اور نہ آپس میں جھگڑا حج کے وقت تک ہو، اور تم جو بھلائی کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے، اور (حج کے جانے سے پہلے) توشہ اپنے ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیز گاری ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقل والو!

۱۹۸۔  تم پر گناہ نہیں کہ (ایام حج میں) اپنے پروردگار کا فضل (یعنی روزی) تلاش کرو۔ پھر جب تم عرفات سے پلٹو تو اللہ کا ذکر کرو مشعر الحرام (یعنی مزدلفہ) کے پاس اور یاد کرو خدا کو شکر سے کہ اس نے تم کو (اپنے محبوبﷺ کے ذریعہ سے) ہدایت فرمائی اور بے شک اس سے پہلے تم گمراہوں میں سے تھے

۱۹۹۔  پھر (یہ بات بھی ضروری ہے کہ) (اے قریشو!) تم بھی لوٹ کر آؤ جہاں سے اور لوگ لوٹ کر آیا کرتے ہیں اور خدا سے بخشش مانگو، بے شک خدا بخشنے والا مہر بان ہے

۲۰۰۔  پھر جب اپنے حج کے تمام کام پورے کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو (منیٰ میں) جیسے اپنے باپ دادا کا ذکر کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ خدا کی یاد میں مشغول ہو جاؤ۔ پس بعضے آدمی یوں کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے! ہم کو تو دنیا میں دے اور ان کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ہے

۲۰۱۔  اور بعضے آدمی یوں کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے! ہم کو دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی نعمت عطا کر اور ہم کو عذاب دوز خ سے محفوظ رکھ

۲۰۲۔  یہی لوگ ہیں (جن کا دونوں جہاں میں) حصہ ہے بدولت ان کے عمل کے اور اللہ تعالیٰ جلد حساب کرنے والا ہے

۲۰۳۔  اور (حج کے) گنتی کے دنوں میں (یعنی ایام منیٰ میں) خدا کی یاد میں مشغول رہو پھر جو کوئی واپسی میں جلدی کرے دو ہی دن میں (یعنی منٰی سے روانہ ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو کوئی تاخیر کرے تو اس پر (بھی) کوئی گناہ نہیں (یہ رعایت) خاص ان کے لئے (ہے) جو پرہیز گاری کریں اور خدا سے ڈرتے رہو اور جانو کہ قیامت کے دن تم (سب کو) اسی کی طرف اٹھنا ہے۔

۲۰۴۔  اور بعض آدمی وہ ہے کہ جس کی باتیں تم کو (اس) دنیا کی زندگی میں بھلی معلوم ہوتی ہیں اور وہ خدا کو گواہ ٹھہراتا ہے اپنے دل کی بات پر، حالانکہ وہ (تمہاری مخالفت میں) سب سے جھگڑالو ہے

۲۰۵۔  اور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں کوشش کرتا پھرتا ہے کہ اس میں فساد پھیلائے اور جانوروں کو ہلاک کرے اور اللہ کو فساد پسند نہیں آتا

۲۰۶۔  اور جب اس سے کہا جاوے کہ خدا سے ڈرو تو تکبر اس کو گناہ پر ابھارے۔ پس اس کے لئے دوزخ کی سزا کافی ہے، اور بے شک وہ بری جگہ ہے

۲۰۷۔  اور لوگوں میں سے کچھ (نیک بندے) ایسے بھی ہیں جو خدا کی رضا جوئی کے لئے اپنی جان (تک بھی) دے دیتے ہیں اور اللہ ایسے بندوں پر مہربان ہے

۲۰۸۔  اے مسلمانو! (دائرہ) اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور (فاسد خیالات میں پڑ کر) شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

۲۰۹۔  پھر اگر تم اس کے بعد بھی ڈگمگا جاؤ باوجود یہ کہ ہدایت کی روشن دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں تو جان لو کہ اللہ زبردست اور حکمت والا ہے

۲۱۰۔  کا ہے کے انتظار میں ہیں مگر یہی کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب چھائے ہوئے بادلوں میں آئے اور فرشتے اتریں اور جو کچھ ہونا ہے ہو چکے (یعنی قیامت آ جائے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں

۲۱۱۔  (اے محبوب!ﷺ) بنی اسرائیل سے دریافت کرو کہ ہم نے ان کو کس قدر نشانیاں دیں کھلی کھلی اور جو شخص اللہ کی طرف سے آئی ہوئی نعمت (یعنی کتاب آسمانی) کو بدل ڈالے تو بے شک اللہ سخت عذاب والا ہے

۲۱۲۔  دنیا کی (چند روزہ) زندگانی کافروں کی نگاہ میں زینت کی گئی ہے اور وہ مسلمانوں کی (موجودہ بے سر و سامانی دیکھ کر) ہنسی اڑا تے ہیں، اور جو لوگ متقی ہیں قیامت کے دن وہی ان منکروں کے مقابلہ میں بلند مرتبہ ہوں گے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے

۲۱۳۔  (شروع میں سب) لوگ ایک ہی دین پر تھے (پھر جب آپس میں اختلاف ہوا تو) اللہ نے انبیاء کو بھیجا (جو ایمان والوں کو) خوشخبری دیتے اور (کافروں کو عذاب الہٰی سے) ڈراتے، اور ان کے ساتھ سچی کتابیں بھیجیں تاکہ وہ آسمانی کتاب سے (شرعی) فیصلہ کرے درمیان لوگوں کے اس میں کہ جس میں انہوں نے اختلاف کیا ہے، اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی بعد اس کے کہ ان کے پاس کھلے کھلے احکام آ چکے آپس کے حسد سے (ان میں اختلاف کرنے لگے تو (آخر کار) اللہ نے اپنے حکم سے مومنوں کو وہ حق بات دکھا دی جس میں انہوں نے اختلاف کر رکھا تھا، اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے

۲۱۴۔  (اے لوگو!) کیا تم نے گمان کیا ہے کہ (یوں ہی) جنت مین چلے جاؤ گے، حالانکہ ابھی تو تمہاری ویسی حالت نہیں پہنچی کہ جو تم سے پہلوں کی تھی، ان پر سختی اور مصیبت پہنچی اور ہلا ہلا ڈالے گئے (یعنی زلزلہ میں) یہاں تک کہ اٹھا رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہ خدا کی مدد کب آئے گی آگاہ ہو کہ بے شک اللہ کی مدد قریب ہے

۲۱۵۔  (اے محبوب!ﷺ) تم سے پوچھتے ہیں کہ کس طرح اپنا مال (خدا کی راہ میں) خرچ کریں؟ تو (ان کو) سمجھا دو کہ جو مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے، اور جو کچھ بھلائی کرو بے شک اللہ اسے جانتا ہے

۲۱۶۔  (مسلمانو!) تم پر جہاد کرنا فرض کیا گیا اور وہ تم کو ناگوار ہے، اور شائد تم کو کوئی بات ناپسند ہو وے اور وہ (ہی) تمہارے حق میں بہتر ہو، اور شاید کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے، اور وہ (ہی تمہارے حق میں بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

۲۱۷۔  (اے محبوب!ﷺ) مسلمان تم سے پوچھتے ہیں ماہ حرام (یعنی ادب والے مہینے) میں لڑنے کا حکم، تم ان کو سمجھا دو کہ ماہ حرام میں لڑنا بڑا گناہ ہے۔ اور اللہ کی راہ روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے روکنا اور وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا تو اللہ کے نزدیک، اس سے بھی بڑ ا گناہ ہے، اور فتنہ اٹھانا قتل سے بھی بڑھ کر ہے، اور یہ (کفار) ہمیشہ تم (مسلمانوں) سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں پھیر دیں تمہارے دین سے (اسلام سے) اگر قابو پاویں، اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جاوے پھر کافر ہی ہونے کی حالت میں مر جائے تو ایسے لوگوں کے (نیک) اعمال دنیا و آخرت میں سب غارت (برباد) ہو گئے، اور وہ دوزخ والے ہیں، انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہے

۲۱۸۔  اور البتہ جو لوگ ایمان لائے اور ہو جنہوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا (یعنی ہجرت کی) اور اللہ کی راہ میں لڑے (جہاد کیا) وہ لوگ رحمت الہٰی کے امیدوار ہیں اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے

۲۱۹۔  (اے محبوب!ﷺ لوگ) تم سے شراب اور جوئے کے باتے میں دریافت کرتے ہیں (تو ان لوگوں سے) کہہ دو ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو دنیا میں کچھ نفع بھی ہے اور ان کے نفع سے ان دونوں کا گناہ (اور نقصان) بڑھ کر ہے اور تم سے دریافت کرتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کیا خرچ کریں، تو (ان کو) سمجھا دو کہ جتنا (تمہاری حاجت سے) زائد ہو اسی طرح اللہ (اپنے) احکام تم لوگوں سے بیان کرتا ہے تاکہ تم دنیا اور آخرت کے کام سوچ سمجھ کر کیا کرو

۲۲۰۔  اور (اے محبوب!ﷺ لوگ) تم سے یتیموں کا حکم پوچھتے ہیں تو تم (ان کو) سمجھا دو کہ (جس میں) ان (یتیموں) کی بہتری ہو (وہی) بہتر ہے، اور اگر اپنا (اور) ان کا خرچ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑ نے والے کو اور سنوارنے والے سے، اور اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے

۲۲۱۔  اور (اے مسلمانو!) نکاح نہ کرو شرک کرنے والی عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لاویں، اور بے شک مسلمان لونڈی بہتر ہے مشرکہ سے اگرچہ وہ تم کو کیسی ہی بھلی (کیوں نہ) لگے اور مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں (مسلمان عورتیں) ان کے نکاح میں نہ دو، اور بے شک مسلمان غلام بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ تمہیں کیسا ہی بھلا (کیوں نہ) لگے۔ وہ لوگ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے اور اپنی آیتیں بیان کرتا ہے لوگوں کے لئے تاکہ وہ نصیحت مانیں

۲۲۲۔  اور (اے محبوب!ﷺ لوگ) تم سے پوچھتے ہیں ’’حیض کا حکم“ تم (ان کو) سمجھا دو کہ وہ نجاست ہے تم حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور ان سے قربت نہ کرو جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جاویں پھر جب ہو اچھی طرح پاک ہو جاویں تو ان سے قربت کرو جس جگہ سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے (یعنی آگے کی جانب سے) بے شک اللہ دوست رکھتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے (پاکی اور) ستھرائی والوں کو

۲۲۳۔  تمہاری بیویاں (گویا) تمہاری کھیتیاں ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لئے آئندہ (یعنی عاقبت) کا بھی بندوبست رکھو (یعنی اعمال صالحہ کا) اور اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ تم کو اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور (اے محبوب!ﷺ) مسلمانوں کو خوشخبری سنا دو

۲۲۴۔  اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے (حیلے) سے نشانہ نہ بناؤ کہ خد کی قسم! جو میں (کسی کے ساتھ) احسان کروں یا پرہیزگاری کروں یا لوگوں میں ملاپ کراؤں، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے

۲۲۵۔  اللہ تم کو نہیں پکڑتا ہے ان قسموں میں جو (بے ہودہ و) بے ارادہ زبان سے نکل جائے لیکن تم سے مواخذہ کرتا ہے ان پر کہ جو تمہارے دلوں سے سرزد ہوئی ہوئی ہیں (پورا نہ کرنے کی صورت میں)، اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے

۲۲۶۔  جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں ان کو چار مہینے کی مہلت ہے پس اگر انہوں نے (اس مدت میں) پھر ملاپ کر لیا تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے

۲۲۷۔  اور اگر پکا ارادہ کر لیا چھوڑ دینے کا تو بے شک اللہ خوب جانتا ہے

۲۲۸۔  اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو تو وہ اپنے آپ کو روکے رکھیں تین حیض یا تین طہر تک، اور ان عورتوں کو یہ بات حلال نہیں کہ خدا نے جو کچھ ان کے رحم میں پیدا کیا ہے (خواہ حمل یا حیض) اس کو چھپائیں اگر وہ عورتیں اللہ پر اور روز قیامت پر یقین رکھتی ہیں، اور ان کے شوہروں کو ان کے پھیر لینے کا زیادہ حق پہنچتا ہے اس مدت کے اندر اگر صلح کرنا چاہیں اور ان عورتوں کا بھی ایسا ہی حق مردوں پر ہے جیسا کہ مردوں کا عورتوں پر ہے قاعدہ (شرعی) کے موافق اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔

۲۲۹۔  یہ طلاق (رجعی) جس کے بعد رجوع بھی ہو سکتا ہے دو بار تک ہے پھر (دو طلاقوں کے بعد یا تو) بھلائی کے ساتھ (زوجیت میں) رکھنا ہے یا حسن سلوک کے ساتھ رخصت کر دینا اور تم کو یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے عورتوں کو دیا تھا اس میں سے کچھ واپس لو مگر یہ کہ جب میاں بی بی کو (اس بات کا) خوف ہو کہ خدا کی حدوں پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس صورت میں (اے مسلمانو!) تم کو اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدوں پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اس میں جو بدلہ دے کر عورت چھٹی لے، یہ اللہ کی حدیں مقرر کی ہوئی ہیں ان سے آ گے نہ بڑھو اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے آ گے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں

۲۳۰۔  پھر اگر تیسری طلاق عورت کو دے دی تو اب وہ عورت اس مرد کو حلال نہ ہو گی بعد اس کے کہ جب تک عورت دوسرے شوہر سے (عدت کے بعد) نکاح نہ کر لے (یعنی وہ دخول کر لے) پھر اگر وہ دوسرا خاوند اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں میں کچھ گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں (یعنی نکاح کر لیں) اگر یہ سمجھتے ہوں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے، اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو بیان فرماتا ہے دانشمندوں کے لئے

۲۳۱۔  اور جب تم نے عورتوں کو (رجعی) طلاق (یعنی دو بار) دے دی اور وہ اپنی عدت پوری کرنے کے قریب ہون تو ان کو یا تو دستور کے موافق اچھی طرح سے رکھ لو یا (تیسری طلاق دے کر) ان کو بھلائی سے رخصت کر دو، اور تکلیف دینے کے لئے ان کو اپنی (زوجیت میں) نہ روکو کہ (بعد میں ان پر) زیادتی کرو، اور جو ایسا کرے پس بے شک اس نے اپنے اوپر ظلم کیا اور اللہ کی آیتوں کو ہنسی (کھیل) نہ بنا لو اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور (اس کا) یہ (احسان بھی یاد کرو) کہ اس نے تم پر کتاب اور عقل کی باتیں اتاریں کہ تم کو اس کے ذریعہ سے نصیحت کرے، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے

۲۳۲۔  اور جب تم عورتوں کو طلاق دو پھر وہ اپنی (عدت کی) مدت پوری کر لیں تو اب ان کو اس بات سے منع نہ کرو کہ وہ اپنے (دوسرے) شوہروں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ باہم شرع کے موافق اچھی طرح سے راضی ہو جاویں۔ یہ نصیحت اسے دی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو، یہ تمہارے لئے بڑی پاکیزگی ہے اور بڑی صفائی کی بات ہے اور الل جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

۲۳۳۔  اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال یہ حکم اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے اور جس کا بچہ ہے (یعنی باپ) اس پر دستور کے مطابق دودھ پلانے والی عورت کا کھانا اور کپڑا دینا واجب ہے (یہ انتظام ہر شخص کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہئے) کسی شخص پر بوجھ نہ رکھا جائے گا مگر اس کے مقدور کے موافق نہ تو ماں کو اس بچہ کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے (یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچہ کو اور باپ اپنے بچہ کو) اور جو باپ کا قاتم مقام ہے اس پر بھی اسی طرح ہے۔ پس اگر ماں باپ دودھ چھڑانا چاہیں (یعنی دو سال سے پہلے) آپس کی رضا مندی اور صلاح و مشورہ سے تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر تم چاہو کہ اپنی اولاد کو (ماں کی جگہ) کسی انا کا دودھ پلانا تو اس میں بھی کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ (ماؤں کی حق تلفی نہ کرو اور) جو کچھ انہیں دینا (مقرر) کیا تھا بھلائی کے ساتھ ان کے حوالے کر دو، اور اللہ سے ڈرو اور جان رکھ کہ اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے

۲۳۴۔  اور تم میں سے جو لوگ مر جاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ عورتیں (نکاح وغیرہ سے) اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں، پھر جب اپنی میعاد (عدت) ختم کر لیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اس کام میں کہ جو عورتیں اپنی ذات کے لئے کچھ کاروائی (نکاح کی) کریں شرع کے موافق، اور خدا اس کام سے کہ جو کچھ کر رہے ہو خبر رکھتا ہے

۲۳۵۔  اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس بات میں جو ان عورتوں کو پیغام (نکاح) دینے کے بارے میں کوئی بات اشارۃً کہو (درمیان عدت کے) یا اپنے دلوں میں (ارادہ نکاح کو) پوشیدہ رکھو، اللہ جانتا ہے کہ تم کو ان عورتوں سے نکاح کا خیال پیدا ہو گا (سو مضائقہ کی بات نہیں) لیکن ان سے (نکاح کا) وعدہ تو چپکے سے بھی نہ کرنا، ہاں جائز طور پر بات کہہ گزرو (یعنی اشارے سے تو کچھ حرج کی بات نہیں) اور ارادہ نہ کرو عقد نکاح (پکی بات چیت کرنے) کا جب تک میعاد مقررہ (یعنی عدت) اختتام کو نہ پہنچے، اور جان لو کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، پس ڈرو اس سے اور جان لو کہ اللہ بخشنے والا برد بار ہے

۲۳۶۔  تم پر کچھ (مہر کا) مواخذہ نہیں اگر تم عورت کو طلاق دو جب تک تم نے ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر نہ کر لیا ہو اور ان کو کچھ خرچ دو (یعنی ایسی طلاق والیوں کو) لازم ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق دے اور تنگ دست پر اپنی حالت کے مطابق حسب دستور خوشی سے خرچ دینا واجب کیا گیا ہے نیکی والوں پر

۲۳۷۔  اور اگر تم نے عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ان کو طلاق دے دی ہے اور ان کے واسطے کچھ مہر بھی مقرر کر چکے تھے جو جتنا مہر تم نے مقرر کیا تھا اس کا نصف واجب ہے مگر یہ کہ وہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، وہ (اپنا حق) چھوڑ دے (یعنی پورا مہر دینے پر راضی ہو) اور اے مردو! تمہارا دینا پرہیز گاری سے نزدیک تر ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر احسان کو بھلا نہ دو، بے شک اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے

۲۳۸۔  محافظت کرو تم سب نمازوں کی اور درمیانی نماز (یعنی نماز عصر) کی۔ اور خدا کے حضور میں ادب سے کھڑے ہوا کرو

۲۳۹۔  پھر اگر تم کو (دشمن وغیرہ سے) خوف ہو تو کھڑے کھڑے نماز ادا کر لو یا سواری پر (جیسے بن پڑے)، پھر جب اطمینان سے ہو تو اللہ کو یاد کرو جیسا کہ اس نے تم کو سکھایا جو نہ تم جانتے تھے۔

۲۴۰۔  اور جو لوگ تم میں مر جاتے ہیں اور بیبیوں کو چھوڑ جاتے ہیں، وہ وصیت کر جایا کریں اپنی ان بیبیوں کے واسطے ایک سال تک نان نفقہ دینے کی اس طور پر کہ وہ گھر سے نکالی نہ جاویں، پس اگر وہ خود باہر نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں مناسب طور پر کیا (یعنی نکاح بطور شرع) اور خدا زبردست حکمت والا ہے

۲۴۱۔  اور طلاق والیوں کے لئے یہی مناسب طور پر نان نفقہ ہے یہ واجب ہے ان پر جو پرہیزگاری کرتے ہیں

۲۴۲۔  اسی طرح بیان کرتا ہے خدا تمہارے واسطے (اپنے) احکام اس لئے کہ تم سمجھو

۲۴۳۔  (اے محبوب!ﷺ) کیا تم نے ان لوگوں کو نہ دیکھا تھا کہ جو اپنے گھروں سے نکل گئے موت سے ڈر کر اور وہ ہزاروں تھے، پس اللہ نے ان کو حکم دیا: ’’مر جاؤ“ (وہ مر گئے) پھر خدا نے ان کو زندہ کر دیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ مگر اکثر لو گ ناشکرے ہیں

۲۴۴۔  اور (مسلمانو!) خدا کی راہ میں (کافروں سے) لڑو اور جانو کہ خدا سننے والا جاننے والا ہے

۲۴۵۔  کون شخص ہے کہ وہ خدا کو قرض حسن دیوے تاکہ پھر اس کو خدا دوگنا کر کے بہت بڑھا کر دیوے (یعنی وہ مال راہ حق میں خرچ کرے) اور (تنگدستی کا خوف جس کی وجہ سے تمہارا ہاتھ رک جاتا ہے تو) تنگی اور کشائش دونوں ہی اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور اسی کے حضور میں تم سب کو لوٹ کر جانا ہے

۲۴۶۔  کیا تم نے نہ دیکھا بنی اسرائیل کے اس گروہ کو کہ جو موسیٰ کے بعد ہوا تھا (سمویلؑ کی امت) جب کہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ’’ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیجئے تاکہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں“ نبی نے فرمایا: ’’شاید تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض ہو تو پھر تم نہ لڑو“ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہمارے واسطے ایسا کون سا سبب ہو گا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم اپنے وطن سے اور بال بچوں سے نکالے گئے ہیں تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو سوائے چند آدمیوں کے سب پھر گئے، اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو

۲۴۷۔  اور ان سے ان کے بنی نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے (تمہاری درخواست مطابق) تمہارے واسطے مقرر کیا ہے طالوت کو بادشاہ“ (اس پر) انہوں نے کہا کہ اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہو سکتی ہے اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اس کو تو مال (دولت کے اعتبار) سے بھی وسعت نہیں دی گئی (نبی نے فرمایا: ’’بے شک اللہ نے اس کو تم پر چن لیا ہے اور اس کو فراخی علم میں اور جسم میں (کشادگی) زیادہ دی اور اللہ دیتا ہے اپنا ملک جس کو چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے

۲۴۸۔  اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا کہ اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ (مقدس) صندوق (واپس) آ جاوے (جو تم کھو چکے ہو اور دشمنوں کے ہاتھ پڑ چکا ہے) کہ صندوق میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے لئے (فتح و کامرانی کی) تسکین ہے اور جو کچھ بھیجی ہوئی چیزیں (تبرکات) ہیں جن کو آل موسیٰ اور آل ہارون چھوڑ گئے ہیں جو (حکمت الہٰی سے) فرشتے اسے ٹھا لائیں گے۔ بے شک اس میں تمہارے واسطے پوری نشانی ہے اگر تم یقین رکھتے ہو

۲۴۹۔  پھر جب طالوت فوجوں سمیت اپنے وطن سے جدا ہوا تو (اس نے اپنے ہمراہیوں سے) کہا کہ (راستے میں ایک نہر پڑے گی) اللہ (اس) نہر سے تمہاری (یعنی تمہارے صبر کی) جانچ کرنے والا ہے پھر جس نے اس نہر کا پانی پی لیا تو وہ میرا نہیں، اور جو کوئی اس کو نہ پئے تو وہ میرا ہے لیکن جو شخص اپنے ہاتھ سے ایک چلو پانی بھی لے (تو کچھ مضائقہ نہیں) پس ان میں سوائے چند لوگوں کے سب نے (پانی) پی لیا۔ پھر جب نہر سے گزر گئے طالوت اور جو ایمان دار لوت ان کے ساتھ تھے، تو (جن لوگوں نے طالوت کی نافرمانی کی تھی) کہنے لگے: ’’ہم میں تو جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی آج طاقت نہیں ہے لیکن جن کو یقین تھا کہ ضرور ہم کو اللہ سے ملنا ہے“ انہوں نے کہا: ’’بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ تھوڑے سے لوگ بڑی جماعت پر غالب آ گئے ہیں خدا کے حکم سے“ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

۲۵۰۔  اور جب جالوت اور اس کے لشکر کے لئے وہ لوگ مقابلہ کے میدان میں آئے۔ تو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر عطا کر اور (معرکہ جنگ میں) ہمارے پاؤں جمائے رکھ کافروں کی جماعت پر ہم کو غلبہ دے

۲۵۱۔  پھر ان لوگوں نے (دشمنوں کو) بھگا دیا اللہ کے حکم سے، اور جالوت کو داؤد نے قتل کیا اور ان کو خدا نے سلطنت اور حکمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی اور جو (علم وہنر) اس کی مرضی میں آیا ان کو سکھا دیا، اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بعضے آدمیوں کو بعضوں کے ذریعہ سے دفع نہ کرے تو ضرور زمین تباہ ہو جاتی لیکن اللہ سارے جہاں پر فضل کرنے والا ہے

۲۵۲۔  یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم (اے محبوب!ﷺ) تم پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے ہیں اور بے شک تم رسولوں میں سے ہو

۲۵۳۔  یہ پیغمبر ہیں کہ فوقیت بخشی ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر، ان میں سے بعض وہ ہیں کہ اللہ نے ان سے کلام کیا اور بعض کو ان میں درجوں میں بلند کیا، اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور مدد دی ہم نے اس کو روح القدس سے، اور اگر خدا چاہتا تو ایک دوسرے سے نہ لڑتے وہ لوگ کہ بعد پیغمبروں کے تھے پیچھے اس کے کہ ان کے پاس دلیلیں آ چکیں لیکن اختلاف کیا انہوں نے پس ان میں سے بعض وہ شخص ہے کہ ایمان لایا اور بعض ان میں وہ شخص کہ کافر ہوا، اور اگر خدا چاہتا تو ایک دوسرے سے نہیں لڑتے و لیکن خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے

۲۵۴۔  اے مسلمانو! اللہ کی راہ میں خرچ کرو اس چیز سے کہ جو ہم نے تم کو دی وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہے اور نہ دوستی (کافروں کے لئے) اور نہ شفاعت، اور کافر خود ہی ظالم ہیں

۲۵۵۔  خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے والا، نہ اس کو اونگھ آئے اور نہ نیند، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کون ہے، جو اس کے یہاں سفارش کرے بغیر اس کے حکم کے، جانتا ہے جو کچھ ان کے آ گے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور نہیں گھیر سکتے لوگ خدا کی معلومات میں سے کسی چیز کو مگر جتنا اس نے چاہا ہے، اس کی کرسی میں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں، اور ان کی حفاظت اس پر بھاری نہیں، اور وہ بڑا عالی شان عظمت والا ہے

۲۵۶۔  نہیں زبردستی کرتا واسطے دین کے، تحقیق خوب جدا ہو گئی نیک راہ گمراہی سے، پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور خدا پر ایمان لاوے بے شک اس نے تھامی ایک رسی بڑی مضبوط جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے

۲۵۷۔  خدا کار ساز ہے مومنوں کا باہر لاتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف، اور جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے دوست شیاطین ہیں باہر لاتے ہیں ان کو روشنی سے اندھیروں کی طرف، یہ لوگ رہنے والے ہیں دوزخ کے، اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے

۲۵۸۔  (اے محبوب!ﷺ) کیا تم نے نہ دیکھا اس شخص کو جس نے ابراہیم سے جھگڑا کیا اس کے رب کے بارے میں اس واسطے کہ دی خدا نے اس کو بادشاہی، جبکہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے کہ جلاتا ہے اور مارتا ہے، بولا وہ کافر: ’’میں جلاتا ہوں اور مارتا ہیں“ کہا ابراہیم نے: ’’بے شک لاتا ہے خدا آفتاب کو مشرق سے پس تو اس کو مغرب کی طرف سے لے آ“ پس مغلوب ہوا وہ کافر اور خدا راہ نہیں دکھاتا ہے گروہ ظالموں کو

۲۵۹۔  یا نہ دیکھا تم نے اس شخص کو کہ گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی ہوئی تھی اپنی چھتوں پر کہا: ’’کیونکر زندہ کرے گا اس کو خدا اس کے مرنے کے بعد“ پس مردہ کیا خدا تعالیٰ نے اس کو سو برس تک، پھر زندہ کر اٹھایا فرمایا: ’’تو دیکھ (یہاں) کتنا ٹھہرا“ بولا کہ دیر کی میں نے ایک روز یا کچھ کم فرمایا: ’’ (نہیں) بلکہ تجھے گزر گئے سو برس پس دیکھ اپنے کھانے کی طرف اور پانی کی طرف کہ سڑا نہیں“ اور دیکھ اپنے گدھے کی طرف (کہ بالکل گل گیا) اور تاکہ ہم تجھ کو لوگوں کے لئے قدرت کا نمونہ بنا دیں اور دیکھ طرف ہڈیوں کے کیونکر اٹھان دیتے ہیں ہم ان کو بعد اس کے پہناتے ہیں اس پر گوشت پس جب ظاہر ہوا اس کو یہ حال کہا: ’’میں خوب جانتا ہوں تحقیق خدا ہر چیز پر قادر ہے“۔

۲۶۰۔  اور جب کہا ابراہیم نے: ’’اے رب میرے! دکھا دے مجھ کو کیونکر جلاتا ہے تو مردوں کو“ کہا: ’’خدا نے کیا یقین نہیں رکھتا ہے“ تو کہا: ’’ہاں یقین رکھتا ہوں و لیکن چاہتا ہوں کہ میرے دل کو قرار آ جاوے“ کہا خدا نے پس پکڑ چار پرندے پھر ان کو اپنے ساتھ بلا لے پھر ہر ایک پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر آواز دے ان کو بے شک آویں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے، اور جان لے اللہ غالب مضبوط حکمت والا ہے

۲۶۱۔  مثال ان لوگوں کی کہ خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں مانند مثال ایک دانہ کی ہے کہ اگاتا ہے سات بالیں (خوشے) ہر بال میں سو دانے اور خدا جس کے لئے چاہے اس سے بھی زیادہ (ثواب) بڑھائے اور خدا بڑی وسعت والا جاننے والا ہے

۲۶۲۔  وہ لوگ کہ خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں، پھر دیئے پیچھے (لینے کے بعد) نہ احسان رکھیں اور نہ ایذا پہنچائیں ان کے واسطے ہے اجر ان کا اور ان کے پروردگار کے یہاں، اور نہیں ہے خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں

۲۶۳۔  اچھی بات کہنی اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے کہ پیچھے اس کے آزردہ کرنا ہوا اور خدا بے نیاز ہے بردبار!

۲۶۴۔  اے مومنو! تباہ نہ کرو تم اپنی خیرات کو احسان رکھنے سے اور آزردہ کرنے سے، اس کی طرح جو خرچ کرتا ہے مال اپنا لوگوں کے دکھاوے کو اور ایمان نہیں رکھتا ہے خدا اور روز قیامت پر، پس مثال اس کی مانند مثال صاف پتھر کے ہے کہ اس پر کچھ مٹی پڑی ہو پس اوس پر مینہ زور کا برسا پس جس نے اسے نرا پتھر کر چھوڑا، قوت نہیں رکھتے ہیں ریاکار کسی چیز پر جو کچھ عمل کیا ہے، اور خدا کافروں کو راہ نہیں دکھاتا ہے

۲۶۵۔  اور مثال ان لوگوں کی کہ خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں کو خدا کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے اور اپنے دل جمانے کو مانند مثال (ایسے) باغ کی ہے جو بلندی پر ہو برسا اس پر زور کا مینہ پس دوگنے میوے لایا پس اگر نہیں پہنچا اس پر زور کا مینہ تو شبنم ہی کافی ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا دیکھنے والا ہے

۲۶۶۔  کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ ہو وے اس کے واسطے ایک باغ کھجور اور انگور کے درختوں کا، چلتی ہوں نیچے اس کے نہریں، اس شخص کے واسطے اس باغ میں ہر قسم کے میوے ہوں، اور اس پر بڑھاپا آ گیا ہو اور اس کے بال بچے ننھے ننھے ہوں، پس اس حالت میں پہنچا اس کو بگولا کہ اس میں آگ (بھری) ہے تو جل کر رہ گیا، اسی طرح واضح کرتا ہے خدا تمہارے واسطے آیتیں تاکہ تم غور کرو

۲۶۷۔  اے مومنو! خرچ کرو اپنی پاک کمائی میں سے اور ان چیزوں میں سے بھی کہ جو کچھ باہر لائے ہم تمہارے واسطے زمین سے، اور نہ قصد کرو ناقص چیز کا کہہ دو تو اس میں سے تمہیں ملے تو نہ لو گے جب تک چشم پوشی نہ کرو، اور جانو کہ خدا بے نیاز ہے تعریف کیا گیا

۲۶۸۔  شیطان اندیشہ دلاتا ہے تم کو تنگدستی کا اور مشورہ دیتا ہے بری بات کا، اور خدا وعدہ کرتا ہے تم سے بخشش کا اپنی طرف سے اور نعمت دینے کا، اور اللہ بڑی وسعت والا جاننے والا ہے۔

۲۶۹۔  اللہ حکمت دیتا ہے جس کو چاہے اور جس کو حکمت ملی پس تحقیق اس کو بہت بھلائی دے دی گئی، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے

۲۷۰۔  اور تم جو کچھ خرچ کرو یا منت مانو پس تحقیق خدا جانتا ہے اس کو، اور نہیں ہے ظالموں کو کوئی مدد دینے والا

۲۷۱۔  اگر تم علانیہ دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر اس کو پوشیدہ تم فقیروں کو دو تو تمہارے لئے بہت بہتر ہے، اور دور کرے تم سے بعض گناہ تمہارے، اور خدا کو تمہارے کاموں کی خبر ہے

۲۷۲۔  انہیں راہ دینا (اے محبوب!ﷺ) تمہارے ذمہ لازم نہیں و لیکن خدا ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جو کچھ خرچ کیا تم نے مال سے پس نفع تمہاری ذات کے لئے ہے اور مناسب نہیں ہے کہ تم خرچ کرو مگر خدا کی رضا مندی چاہنے کے واسطے، اور جو کچھ تم نے مال خرچ کیا تمہیں تمام پہنچایا جائے گا (یعنی اس کا ثواب) اور تم نقصان نہ دیئے جاؤ گے

۲۷۳۔  خیرات ان فقیروں کے واسطے ہے کہ جو راہ خدا میں روکے گئے نہیں طاقت رکھتے ہیں زمین میں چلنے کی (یعنی دینی کاموں سے فرصت نہیں کہ روزی کمائیں) نادان تو ان کو دولت مند جانتا ہے ان کے طمع نہ کرنے کے سبب سے، تو پہچانتا ہے ان کو قیافہ (چہروں کی طمانیت) سے کہ وہ لوگوں سے سوال نہیں کرتے ہیں لپٹ کر، اور جو کچھ تم خرچ کرو مال سے پس اللہ اس کا جاننے والا ہے

۲۷۴۔  جو لوگ کہ خیرات کرتے ہیں اپنے مالوں کو رات دن چھپے اور ظاہر پس ان کے لئے ہے ثواب ان کا کے پروردگار کے یہاں، اور نہیں ہے خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں

۲۷۵۔  اور جو لوگ سود کھاتے ہیں نہ اٹھیں گے (قیامت کے دن) قبر سے مگر جیسا کہ اٹھتا ہے وہ شخص کہ جس کو خبطی کیا ہے شیطان نے بسبب آسیب پہنچانے کے، یہ سبب وہ ہے کہ سود کھانے والوں نے کہا کہ سودا گری (تجارت) مثل سود کے ہے حالانکہ حلال کی ہے اللہ نے سوداگری (تجارت) اور حرام کیا ہے سود کو، پس وہ شخص کہ جسے اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آئی پس باز رہا اس کام سے۔ پس اس کا ہے جو پہلے لے چکا، اور اس کا کا کم خدا کے سپرد ہے اور جو کوئی پھر گیا سود خواری کی طرف پس وہ گروہ (ایسے لوگ) رہنے والے دوزخ کے ہیں وہ مدتوں اس میں رہیں گے

۲۷۶۔  خد سود کو مٹاتا ہے اور خیرات کی برکت کو بڑھاتا ہے اور خدا دوست نہیں رکھتا ہے ہر ناشکر گناہ گار کو۔

۲۷۷۔  بے شک جو لوگ کہ ایمان لائے اور نیک کام کئے اور قائم رکھی نماز اور دی زکوٰۃ ان کے لئے ہے ثواب ان کا ان کے پروردگار کے یہاں، اور نہیں ہے خوف ان پر اور نہ غمگین ہوں۔

۲۷۸۔  اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو کچھ سود لینا باقی رہا ہے اگر ہو تم ایمان والے۔

۲۷۹۔  پس اگر (ایسا تم نے نہ کیا پس تم خبردار ہو جاؤ واسطے لڑائی اللہ اور اس کے رسول کے، اور اگر توبہ کی تم نے پس تم اپنا اصل مال لے لو نہ تم (کسی پر) ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

۲۸۰۔  اور اگر ایک شخص (یعنی قرضدار) مفلس ہوئے پس لازم ہے مہلت دینا تونگری تک اور بخش دینا تو تمہارے واسطے بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔

۲۸۱۔  اور ڈرو اس دن سے کہ پھیرے جاؤ گے اس دن خدا کی طرف، پس تمام (اجر) دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ عمل کیا ہے اور ان پر ظلم نہیں کئے جاویں گے

۲۸۲۔  اے مومنو! اگر معاملہ کرو تم ایک دوسرے سے قرض کا میعاد مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو، اور چاہئے کہ تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا لکھے انصاف سے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اس کو خدا نے سکھایا ہے پس چاہیے کہ وہ لکھے اور تحریر کرے کہ قرض جو اس کے ذمہ ہے اور چاہئے کہ ڈرے اپنے پروردگار سے اور حق میں سے کچھ کم نہ کرے، پس اگر ہو وے شخص کہ قرض اس کے ذمہ ہے بے عقل یا ناتواں یا قدرت نہیں رکھتا ہے وہ لکھوانے کی پس چاہئے کہ ولی اس کا انصاف سے لکھوائے اور دو گواہ کر لیا کرو اپنے مردوں میں سے، پس اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں ان میں سے کہ تم رضا مند ہو، گواہوں میں سے اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلاوے، اور چاہئے کہ انکار نہ کریں گواہ اس وقت کہ بلائے جائیں، اور کاہلی نہ کرو اس سے کہ حق بات لکھو تھوڑی ہو یا بہت اس کی میعاد تک۔ یہ خدا کے نزدیک انصاف کی بات ہے اس میں بہت ٹھیک گواہی رہتی ہے اور قریب تر ہے اس سے کہ تم شک میں نہ ہو۔ مگر اس وقت کہ ہو وے وہ معاملہ تجارت کا دست بدست کہ اس کو درمیان اپنے (آپس میں) لیتے دیتے ہو، تو نہیں ہے تم پر گناہ اس میں کہ نہ لکھو اس کو اور گواہ کر لو جس وقت کہ خرید فروخت کرو اور چاہئے کہ رنج نہ دیا جاوے لکھنے والے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے لئے تحقیق یہ گناہ ہے، اور ڈرو تم اللہ سے، اور سکھاتا ہے تم کو خدا، اور خدا ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

۲۸۳۔  اور اگر تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ لکھنے والے کو پس لازم ہے قرض خواہ کے ہاتھ کوئی چیز گروی کر دو، پس اگر تم میں ایک کو دوسرے پر اطمینان ہو تو وہ جیسے اس نے امین سمجھا تھا اپنی امانت ادا کر دے اور اللہ سے ڈرنا چاہئے جو اس کا رب ہے، اور گواہی نہ چھپاؤ اور جو گواہی چھپائے گا تو اندر سے اس کا دل گناہ گار ہے، اور اللہ تمہارے کاموں کو جانتا ہے

۲۸۴۔  اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر ظاہر کرو تم جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے یا پوشیدہ رکھو تم اس کو تحقیق حساب لے گا تم سے خدا، پس بخشے گا جس کو چاہے گا اور عذاب کرے گا جس کو چاہے گا، اور خدا ہر چیز پر قادر ہے

۲۸۵۔  یقین لایا پیغمبر اس پر جو کچھ اتارا گیا ہے اس کے پروردگار کی طرف سے اور مومن بھی تمام ایمان لائے خدا پر اور اس کے (سب) فرشتوں پر اور اس کی (سب) کتابوں پر، اور اس کے (سب) پیغمبروں پر بولے: ’’فرق نہیں کرتے ہیں ہم درمیان کسی کے اس کے پیغمبروں میں سے اور بو لے سنا ہم نے اور مانا ہم نے تیری بخشش چاہتے ہیں اے پروردگار ہمارے! اور تیری طرف لوٹنا ہے

۲۸۶۔  خدا کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت بھر، جس نے نیکی کمائی تو اپنے لئے اور جو کچھ گناہ کیا اپنے اوپر، بولے: ’’اے پروردگار ہمارے! سزا میں نہ پکڑ ہم کو اگر بھولیں ہم یا خطا کریں ہم، اے پروردگار ہمارے! اور نہ رکھ ہمارے سر پر بوجھ بھاری جیسا کہ رکھا تو نے اس کو ان لوگوں پر جو ہم سے پہلے تھے، اے پروردگار ہمارے! اور نہ رکھ ہمارے سر پر وہ چیز جس کی ہم کو برداشت نہیں ہے، اور معاف کر ہمیں اور بخش دے ہم کو، اور مہربانی کر ہم پر، تو ہی ہمارا مولیٰ ہے پس فتح دے ہم کو کافروں کے گروہ پر‘‘

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل