FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

پھر مجھے نیند آ گئی

(مجموعۂ کلام ’رات بہت ہوا چلی‘ کی غزلیں)

 

 

                 رئیس فروغ

پیشکش: تصنیف حیدر

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

ہمہ وقت جو مرے ساتھ ہیں یہ اُبھرتے ڈوبتے سائے سے

کسی روشنی کے سراب ہیں کہ ملے ہر اپنے پرائے سے

 

خَم جادہ سے میں پیادہ پا کبھی دیکھ لیتا ہوں خواب سا

کہیں دور جیسے دھواں اٹھا کسی بھولی بسری سرائے سے

 

اٹھی موجِ درد تو یک بہ یک مرے آس پاس بکھر گئے

مہ نیم شب کے اِدھر اُدھر جو لرز رہے تھے کنائے سے

 

ملا مجھ کو راہ میں اک نگر جہاں کوئی شخص نہ تھا مگر

وہ زمیں شگفتہ شگفتہ سی وہ مکاں نہائے نہائے سے

 

مِرے کار زارِ حیات میں رہے عمر بھر یہ مقابلے

کبھی سایہ دب گیا دھوپ سے کبھی دھوپ دب گئی سائے سے

٭٭٭

 

 

 

 

یادوں کی دہلیز پہ آیا

آدھا سورج آدھا سایہ

 

ایک دِیے کی دھیمی لَو سے

میں نے اپنا ہاتھ جلایا

 

آنکھیں جو بے حال ہوئی ہیں

دیکھ لیا تھا خواب پَرایا

***

 

اونچی اونچی شہنائی ہے

پاگل کو نیند آئی ہے

 

ایک برہنہ پیڑ کے نیچے

میں ہوں یا پُروائی ہے

 

میری ہنسی جنگل میں کسی نے

دیر تلک دہرائی ہے

 

روشنیوں کے جال سے باہر

کوئی کرن لہرائی ہے

 

خاموشی کی جھیل پہ شیاما

کنکر لے کر آئی ہے

 

دھیان کی ندیا بہتے بہتے

ایک دفعہ تھرّائی ہے

 

کھیت پہ کس نے سبز لہو کی

چادر سی پھیلائی ہے

 

میرے اوپر جالا بُننے

پھر کوئی بدلی چھائی ہے

 

ایک انگوٹھی کے پتّھر میں

آنکھوں کی گہرائی ہے

 

دیواروں پر داغ لہو کے

پتھریلی انگنائی ہے

 

میں نے اپنے تنہا گھر کو

آدھی بات بتائی ہے

 

میں تو اس کا سنّاٹا ہوں

وہ میری تنہائی ہے

 

صبح ہوئی تو دل میں جیسے

تھکی تھکی انگڑائی ہے

 

ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کے

رات کی پیاس بجھائی ہے

 

اپنے بادل کی کٹیا کو

میں نے آگ لگائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرا دینا

جتنے بھی ہیں روپ تمھارے جیتے جی دکھلا دینا

 

رات اور دن کے بیچ کہیں پر جاگے سوئے رستوں میں

میں تم سے اک بات کہوں گا تم بھی کچھ فرما دینا

 

اب کی رُت میں جب دھرتی کو برکھا کی مہکار ملے

میرے بدن کی مٹّی کو بھی رنگوں میں نہلا دینا

 

دل دریا ہے دل ساگر ہے اس دریا اس ساگر کی

ایک ہی لہر کا آنچل تھامے ساری عمر بِتا دینا

 

ہم بھی لے کو تیز کریں گے بوندوں کی بوچھار کے ساتھ

پہلا ساون جھولنے والو تم بھی پینگ بڑھا دینا

 

فصل تمہاری اچھی ہو گی جاؤ ہمارے کہنے سے

اپنے گاؤں کی ہر گوری کو نئی چنریا لا دینا

 

یہ مرے پودے یہ مرے پنچھی یہ مرے پیارے پیارے لوگ

میرے نام جو بادل آئے بستی میں برسادینا

 

ہجر کی آگ میں اے ری ہواؤ دو جلتے گھر اگر کہیں

تنہا تنہا جلتے ہوں تو آگ میں آگ مِلا دینا

 

آج دھنک میں رنگ نہ ہوں گے ویسے جی بہلانے کو

شام ہوئے پر نیلے پیلے کچھ بیلون اُڑا دینا

 

آج کی رات کوئی بیراگن کسی سے آنسو بدلے گی

بہتے دریا اُڑتے بادل جہاں بھی ہوں ٹھہرا دینا

 

جاتے سال کی آخری شامیں بالک چوری کرتی ہیں

آنگن آنگن آگ جلانا گلی گلی پہرا دینا

 

اوس میں بھیگے شہر سے باہر آتے دن سے ملنا ہے

صبح تلک سنسار رہے تو ہم کو جلد جگا دینا

 

نیم کی چھاؤں میں بیٹھنے والے سبھی کے سیوک ہوتے ہیں

کوئی ناگ بھی آ نکلے تو اس کو دودھ پِلا دینا

 

تیرے کرم سے یارب سب کو اپنی اپنی مراد ملے

جس نے ہمارا دل توڑا ہے اُس کو بھی بیٹا دینا

٭٭٭

 

 

 

 

جنگل سے آگے نِکل گیا

وہ دریا کتنا بدل گیا

 

کل میرے لہو کی رم جھم میں

سورج کا پہیا پھسل گیا

 

چہروں کی ندی بہتی ہے مگر

وہ لہر گئی وہ کنول گیا

 

اِک پیڑ ہَوا کے ساتھ چلا

پھِر گِرتے گِرتے سنبھل گیا

 

اِک آنگن پہلے چھینٹے میں

بادل سے اونچا اُچھل گیا

 

اِک اندھا جھونکا آیا تھا

اِک عید کا جوڑا مَسل گیا

 

اِک سانولی چھت کے گِرنے سے

اِک پاگل سایہ کُچل گیا

 

ہم دُور تلک جا سکتے تھے

تُو بیٹھے بیٹھے بہل گیا

 

جھوٹی ہو کہ سچّی آگ تری

میرا پتّھر تو پِگھل گیا

 

مِٹّی کے کھلونے لینے کو

میں بالک بن کے مچل گیا

 

گھر میں تو ذرا جھانکا بھی نہیں

اور نام کی تختی بدل گیا

 

سب کے لیے ایک ہی رستہ ہے

ہیڈیگر سے آگے رسل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا

ہَوا میں دھول تھی میں نے ہَوا سے کچھ نہ کہا

 

یہی خیال کہ برسے تو خود برس جائے

سو عمر بھر کسی کالی گھٹا سے کچھ نہ کہا

 

ہزار خواب تھے آنکھوں میں لالہ زاروں کے

مِلی سڑک پہ تو بادِ صبا سے کچھ نہ کہا

 

وہ راستوں کو سجاتے رہے انھوں نے کبھی

گھروں میں ناچنے والی بَلا سے کچھ نہ کہا

 

وہ لمحہ جیسے خدا کے بغیر بِیت گیا

اُسے گزار کے میں نے خدا سے کچھ نہ کہا

 

شبوں میں تجھ سے رہی میری گفتگو کیا کیا

دِنوں میں چاند ترے نقشِ پا سے کچھ نہ کہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اِک اپنے سلسلے میں تو اہلِ یقیں ہوں میں

چھ فیٹ تک ہوں اِس کے علاوہ نہیں ہوں میں

 

روئے زمیں پہ چار ارب میرے عکس ہیں

ان میں سے میں بھی ایک ہوں چاہے کہیں ہوں میں

 

ویسے تو میں گلوب کو پڑھتا ہوں رات دن

سچ یہ ہے اِک فلیٹ ہے جس کا مکیں ہوں میں

 

ٹکرا کے بچ گیا ہوں بسوں سے کئی دفعہ

اب کے جو حادثہ ہو تو سمجھو نہیں ہوں میں

 

جانے وہ کوئی جبر ہے یا اِختیار ہے

دفتر میں تھوڑی دیر جو کُرسی نشیں ہوں میں

 

میری رگوں کے نیل سے معلوم کیجئے

اپنی طرح کا ایک ہی زہر آفریں ہوں میں

 

مانا مری نشست بھی اکثر دِلوں میں ہے

اینجائنا کی طرح مگر دل نشیں ہوں میں

 

میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ

وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

راتوں کو دن سپنے دیکھوں دن کو بتاؤں سونے میں

میرے لیے کوئی فرق نہیں ہے ہونے اور نہ ہونے میں

 

برسوں بعد اُسے دیکھا تو آنکھوں میں دو ہیرے تھے

اور بدن کی ساری چاندی چھپی ہوئی تھی سونے میں

 

دھرتی تیری گہرائی میں ہوں گے میٹھے سوت مگر

میں تو صَرف ہوا جاتا ہوں کنکر پتھر ڈھونے میں

 

گھر میں تو اب کیا رکھا ہے ویسے آؤ تلاش کریں

شاید کوئی خواب پڑا ہو اِدھر اُدھر کسی کونے میں

 

سائے میں سایہ الجھ رہا تھا چاہت ہو کہ عداوت ہو

دُور سے دیکھو تو لگتے تھے سورج چاند بچھونے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے مرے خوابِ حسیں

میں کہیں ہوں یا نہیں

 

سارے پربت بن گئے

میرے دشمن کی جبیں

 

اپنے آنگن کو کہوں

حادثوں کی سر زمیں

 

روز میرے شہر میں

آگ لگتی ہے کہیں

 

اوس میں چلتی ہَوا

نیند میں بھیگے حَسیں

 

میرے آنسو کے لیے

آب جو کی آستیں

 

کِس دُکاں سے لاؤں میں

اپنے ہونے کا یقیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں

سیلانیوں کو خطرۂ سیلِ بَلا نہیں

 

میں نے بھی ایک حرف بہت زور سے کہا

وہ شور تھا مگر کہ کسی نے سُنا نہیں

 

لاکھوں ہی بار بُجھ کے جَلا درد کا دیا

سو ایک بار اور بُجھا پھر جلا نہیں

 

ویسے تو یار میں بھی تغیر پسند ہوں

چھوٹا سا ایک خواب مجھے بھولتا نہیں

 

سوتے ہیں سب مراد کا سورج لیے ہوئے

راتوں کو اب یہ شہر دعا مانگتا نہیں

 

اس دن ہوائے صبح یہ کہتی ہوئی گئی

یوسف میاں کے سانولے بیٹے میں کیا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو

دن بھر چہرے جمع کیے ہیں کھو جائیں گے شام کو

 

سارے پیڑ سفر میں ہوں گے اور گھروں کے سامنے

جتنے پیڑ ہیں اتنے سائے لہرائیں گے شام کو

 

دن کے شور میں شامل شاید کوئی تمھاری بات بھی ہو

آوازوں کے اُلجھے دھاگے سلجھائیں گے شام کو

 

شام سے پہلے درد کی دولت موجیں ہیں بے نام سی

دریاؤں سے مِل کے دریا بَل کھائیں گے شام کو

 

صبح سے آنگن میں آندھی ہے اندھیارا ہے دھول ہے

شاید آگ چُرانے والے گھر آئیں گے شام کو

٭٭٭

 

 

 

 

تمھارے ساتھ ہمارا سفر عجب ہے میاں

شجر شجر پہ امربیل کیا غضب ہے میاں

 

ذرا بھی تیز ہوا شعلۂ نوا تو یہ لوگ

یہی کہیں گے کہ درویش بے ادب ہے میاں

 

بلند بانگ ترے نغمہ گر ہزار سہی

ہمارے پاس تو اک حرف زیر لب ہے میاں

 

تری بہار کو کس کس لباس میں سوچوں

نفس نفس تو بدلتی ہوئی طلب ہے میاں

مرے چراغ کہ جن کا کوئی شمار نہیں

سب ایک ساتھ ہی جل جائیں بات جب ہے میاں

 

کسی طرح مری خود رفتگی گوارا کر

نصیب میں یہی اک لمحۂ طرب ہے میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جوئے تازہ کسی کہسار کہن سے آئے

یہ ہنر یوں نہیں آتا ہے جتن سے آئے

 

لوگ نازک تھے اور احساس کے ویرانے تک

وہ گزرتے ہوئے آنکھوں کی جلن سے آئے

 

شہرِ گل کاسۂ درویش بنا بیٹھا ہے

کوئی شعلہ کسی جلتے ہوئے بن سے آئے

 

درد کی موجِ سُبک سیر میں بہہ جاؤں گا

چاہے وہ جان سے چاہے وہ بدن سے آئے

 

صبح کے ساتھ عجب لذّت دریوزہ گری

رات بھر سوچتے رہنے کی تھکن سے آئے

 

ایسے ظالم ہیں مرے دوست کہ سنتے ہی نہیں

جب تلک خون کی خوشبو نہ سخن سے آئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مر گئے

پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے

 

اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ

خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے

 

دریا تھے اور ان کی گزرگاہ تھی مگر

اک دن سجے سجائے گھروں سے گزر گئے

 

کیا پوچھتے ہو یار کہ سیدھی سی بات ہے

جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں وہ گھر گئے

 

ہم اپنی فصل کاٹ رہے تھے تو کھیت میں

اک تازہ فصل کے نئے امکاں ابھر گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے

اک سوچ ہے اور سنّاٹا ہے

 

اس موج نفس کا آج تلک

جنگل کی ہوا سے رشتہ ہے

 

بادل مری گلیوں کا ساتھی

اب تو گھر میں بھی برستا ہے

 

میں اپنی حدوں میں لوٹ گیا

جیسے طوفان گزرتا ہے

 

مہکار سے گھائل ہم بھی ہیں

موسم تو اور کسی کا ہے

 

ہم جاگتے ہیں ملنے کے لیے

پھر وہ بھی مہینوں سوتا ہے

 

تری راتوں میں سمودوں گا

جتنا بھی مجھ میں اجالا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے

گھر ایسے کو سونپ دیا جو آگ بھی ہے اور ہوا بھی ہے

 

اپنی انا کا جال کسی دن پاگل پن میں توڑوں گا

اپنی انا کے جال کو میں نے پاگل پن میں بُنا بھی ہے

 

`دیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا

اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا اسی ہوا سے بجھا بھی ہے

 

روشنیوں پہ پاؤں جما کے چلنا ہم کو آئے نہیں

ویسے درِ خورشید تو ہم پر گاہے گاہے کھلا بھی ہے

 

درد کی جھلمل روشنیوں سے بارہ خواب کی دوری پر

ہم نے دیکھی ایک دھنک جو شعلہ بھی ہے صدا بھی ہے

 

تیز ہوا کے ساتھ چلا ہے زرد مسافر موسم کا

اوس نے دامن تھام لیا تو پل دو پل کو رُکا بھی ہے

 

ساحل جیسی عمر میں ہم سے ساگر نے اک بات نہ کی

لہروں نے تو جانے کیا کیا کہا بھی ہے اور سنا بھی ہے

 

عشق تو اک الزام ہے اس کا وصل کا تو بس نام ہوا

وہ آیا تھا قاتل بن کے قتل ہی کر کے گیا بھی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی مٹی کو سرافراز نہیں کرسکتے

یہ در و بام تو پرواز نہیں کرسکتے

 

عالم خواہش و ترغیب میں رہتے ہیں مگر

تیری چاہت کو سبوتاز نہیں کرسکتے

 

حسن کو حسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے

آپ مجھ کو نظرانداز نہیں کرسکتے

 

شہر میں ایک ذرا سے کسی گھر کی خاطر

اپنے صحراؤں کو ناراض نہیں کرسکتے

 

عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے

ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا

ہوا چلی تو لہو کو لہو پکارے گا

 

یہ سوچتے ہیں کہ اس بار ہم سے ملنے کو

وہ اپنے بال کس انداز میں سنوارے گا

 

شکایتیں ہی کرے گا کہ خودغرض نکلے

وہ دل میں کوئی بلٹ تو نہیں اتارے گا

 

یہی بہت ہے کہ وہ خود نکھرتا جاتا ہے

کسی خیال کا چہرہ تو کیا نکھارے گا

 

یہی بساط اگر ہے تو ایک روز فروغ

جو ہم سے جیت چکا ہے وہ ہم سے ہارے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے

کہ شہر جنگل بنا ہوا ہے

 

جہاں مری کشتیاں نہیں تھیں

وہاں بھی سیلاب آ گیا ہے

 

امید اور خوف ناچتے ہیں

وہ ناچ گھر ہے مکان کیا ہے

 

سب اس کی باتیں گھسی پٹی ہیں

مگر وہ پیکر نیا نیا ہے

 

وہ جا چکا ہے پر اس کا چہرہ

اسی طرح میز پر سجا ہے

 

سجیلی الماریوں کے پیچھے

نوکیلے شیشوں کا سلسلہ ہے

 

جو سائے کی سمت جا رہے ہیں

وہ میں ہوں اور اک اژدہا ہے

 

کلف کے کالر پہننے والا

اک آدمی قتل ہو رہا ہے

 

مرا بدن جس کو چاہتا تھا

کسی نے وہ زہر پی لیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرے آنگن میں صبا کہلائے

ورنہ آوارہ ہوا کہلائے

 

ایک سائے میں ٹھہر کر ہم بھی

کچھ دنوں اہل وفا کہلائے

 

مل گئی ہے جو تھکن گھر بیٹھے

کس مشقت کا صِلہ کہلائے

 

کون سا نام نہیں ہے بدنام

کوئی کہلائے تو کیا کہلائے

 

بعض حالات میں کچھ ہاتھوں پر

ہو لہو بھی تو حنا کہلائے

 

صبح کو شہر طرب ہو مشہور

شام کو دشتِ بلا کہلائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا

ساتھ اک سوچ کا سلسلہ بھی رہا

 

میں تو جلتا رہا پر مری آگ میں

ایک شعلہ ترے نام کا بھی رہا

 

شہر میں سب سے چھوٹا تھا جو آدمی

اپنی تنہائیوں میں خدا بھی رہا

 

زندگی یاد رکھنا کہ دو چار دن

میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا

 

رنگ ہی رنگ تھا شہر جاں کا سفر

راہ میں جسم کا حادثہ بھی رہا

 

تم سے جب گفتگو تھی تو اک ہم سخن

کوئی جیسے تمہارے سوا بھی رہا

 

وہ مرا ہم نشیں ہم نوا ہم نفس

بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا

٭٭٭

 

 

 

 

عشق افلاس گزیدہ کو مصیبت سمجھا

ہم بھی زر دار بنے درد کو دولت سمجھا

 

اپنے ہونے کو یہ سمجھا کہ کسی خواب میں ہوں

اور اے جان تجھے تیری علامت سمجھا

 

جیسے ہر شام تجھے روپ بدل کر آئے

میری آنکھوں نے الوژن کو حقیقت سمجھا

 

کچھ نہ کچھ ہم سے ہر اک شے نے کہا ہے لیکن

جو کسی نے نہ کہا اس کو ہدایت سمجھا

 

سفرِ ہجر میں تیری ہی طرح میں نے بھی

چند لمحوں کے تصادم کو رفاقت سمجھا

 

تو نے دریا کی طرح ہاتھ بڑھائے لیکن

میں نے دہشت میں ترے جسم کو پربت سمجھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سفر میں جب تلک رہنا گھروں کی آرزو کرنا

گھروں میں بیٹھ کر بیتے سفر کی گفتگو کرنا

 

رفوگر چاند نکلا ہے نہ تارے ہیں نہ جگنو ہیں

رفوگر اپنے ہاتھوں کے اجالے میں رفو کرنا

 

تمھیں دیکھیں نہ دیکھیں ایک عادت ہے کہ ہر شب کو

تمہارے خواب کی سونے سے پہلے آرزو کرنا

 

غمِ ناآگہی جب رقصِ وحشت کا خیال آئے

کہیں اوپر سے کچھ نیلاہٹیں لا کر وضو کرنا

 

جنھیں روٹھے ہوئے دلدار کی بانہیں سمجھتے ہو

وہ شاخیں کاٹ لانا پھر انھیں زیبِ گلو کرنا

 

نئے چہروں سے ملنے کیلئے کیا شکل بہتر ہے

پرانے پیرہن پر رنگ کرنا یا لہو کرنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

جس رستے پر جاؤں گا

اپنے ہی گھر جاؤں گا

 

ذرّہ بن کر آیا تھا

صحرا بن کر جاؤں گا

 

اپنی ریت بھگونے کو

ساگر ساگر جاؤں گا

 

دریا جیسی بات نہ کر

پانی سے ڈر جاؤں گا

 

تیری بھی تنہائی کو

باتوں سے بھر جاؤں گا

 

لعل ولی کے درشن کو

مست قلندر جاؤں گا

 

داتا کے دربار تلک

اندر اندر جاؤں گا

 

بیداری کا خواب لیے

نیند سے باہر جاؤں گا

 

پیارے اتنا یاد رہے

میں اک دن مر جاؤں گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا

میں دیا بن کے جھلملائے گیا

 

کل کسی اجنبی کا حسن مجھے

یاد آیا تو یاد آئے گیا

 

سفر درد میں خیال اس کا

دور سے روشنی دکھائے گیا

 

وہ نہ تھا آج اس کے آنچل میں

اک دھواں صورتیں بنائے گیا

 

چھاؤں کو گود میں لیے پہروں

نیم کا پیڑ گنگنائے گیا

میں تو ہر موسم بہار کے ساتھ

ایک ہی جسم سے نبھائے گیا

 

اس کو دل میں بسا کے میں اس سے

دل کی ویرانیاں چھپائے گیا

 

دل کی ویرانیاں چھپانے کو

جتنے شوکیس تھے سجائے گیا

 

وصل کے داغ نا تمامی کو

جب تلک ہوسکا جلائے گیا

 

کوئی گھائل زمیں کی آنکھوں میں

نیند کی کونپلیں بچھائے گیا

 

مجھ میں کیا بات تھی رئیس فروغ

وہ سجن کیوں مجھے رجھائے گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر کبھی ہوں نہ ہوں ہم بہم دوستو

مہرباں دوستو محترم دوستو

 

ہم فقیروں کے تکیے پہ کیوں آج کل

شاہِ جنات ملتا ہے کم دوستو

 

آؤ دیکھیں مزاروں کے اطراف میں

قطب عالم کے نقش قدم دوستو

 

کیا حسیں لوگ دست و گریباں ہوئے

بہر تقسیم دام و درم دوستو

 

کوئے روحانیاں میں سجائے گئے

برہمن زادیوں کے صنم دوستو

٭٭٭

 

 

 

 

متفرق اشعار

 

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اِک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

 

جس طرف کوئی دریچہ نظر آ جاتا ہے

اُس طرف ہم کوئی دیوار اٹھا لیتے ہیں

 

کیا رہے گا میرے خوابوں کا حساب

میں کسی آغوش بے پروا میں ہوں

 

آگ میں اک شعلۂ بے تاب تھا

عمر بھر کہتا رہا دریا میں ہوں

 

ہوا جانے کیا کہہ رہی ہے ہوا سے

جہاں شہر ملتا ہے دشت بلا سے

 

میں جن دنوں ترے خواب وفا نمود میں تھا

عجیب سا ترا دشمن مرے وجود میں تھا

 

بدن فشارِ مہہ و سال سے غبار ہوا

فقیر محو تماشائے ہست و بود میں تھا

 

اس ہری شاخ نے بازو تو بہت پھیلائے

ابرِ آوارہ تلک ہاتھ نہ جانے پائے

 

آنکھ جو ہم کو دکھاتی ہے وہ ہم کیا دیکھیں

دیکھنا ہے تو کسی خواب سے کم کیا دیکھیں

 

یہ کیسا جبر سن و سال درمیاں آیا

سو اس فضا میں ستارے سے کیا ستارہ ملے

 

وہ اک ہجوم تھا گرتے ہوئے درختوں کا

پکارتے تھے سہارا ملے سہارا ملے

 

شاخساروں سے الجھنے لگے بادل کیسے

ایسی برسات میں سوئے مرا جنگل کیسے

 

موج در موج مفاہیم بہا کرتے ہیں

وہی دریا ہیں مگر ہو گئے مہمل کیسے

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں

بہت برا نہیں اتنا برا تو میں بھی ہوں

 

خرام عمر ترا کام پائمالی ہے

مگر یہ دیکھ ترے زیر پا تو میں بھی ہوں

 

بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے

مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو جلا تو میں بھی ہوں

 

تلاش گم شدگاں میں نکل چلوں لیکن

یہ سوچتا ہوں کہ کھویا ہوا تو میں بھی ہوں

 

مرے لیے تو یہ جو کچھ ہے وہم ہے لیکن

یقیں کرو نہ کرو واہمہ تو میں بھی ہوں

 

زمیں پہ شور جو اتنا ہے صرف شور نہیں

کہ درمیاں میں کہیں بولتا تو میں بھی ہوں

 

عجب نہیں جو مجھی پر وہ بات کھل جائے

برائے نام سہی سوچتا تو میں بھی ہوں

 

میں دوسروں کے جہنم سے بھاگتا ہوں فروغ

فروغ اپنے لیے دوسرا تو میں بھی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی دو قدم ساتھ چلتا نہیں

مگر میں بھی رستہ بدلتا نہیں

 

دریچے تو سب کھل چکے ہیں مگر

دھواں ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں

 

وہی شب کو شبنم وہی دن کو دھوپ

محبت کا موسم بدلتا نہیں

 

کسی بات سے میری ہر بات میں

جو بل پڑ چکا ہے نکلتا نہیں

 

صبا بھی ہے ہم بھی گلی میں تری

مسافر مسافر سے جلتا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

در و دیوار سجائے میں نے

جیسے دیکھے نہیں سائے میں نے

 

سخت برہم تھی ہوائیں پھر بھی

ریت پر پھول بنائے میں نے

 

میرے آنگن کی اداسی نہ گئی

روز مہمان بلائے میں نے

 

پھر کسی خواب رمیدہ کے لیے

نیند کے جال بچھائے میں نے

 

جب سمندر میں تلاطم نہ رہا

اپنے گرداب بنائے میں نے

 

تیری تصویر جو دیکھی اس بار

رنگ پھیلے ہوئے پائے میں نے

 

دھوپ نے اور جلایا تو فروغ

اور کچھ پیڑ لگائے میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر

ہم لوگ برے لوگ ہیں ہم سے نہ ملا کر

 

شاید کسی آواز کی خوشبو نظر آئے

آنکھیں ہیں تو خوابوں کی تمنا بھی کیا کر

 

باتوں کے لیے شکوۂ موسم ہی بہت ہے

کچھ اور کسی سے نہ کہا کر نہ سنا کر

 

سونے دے انھیں رنگ جو سوئے ہیں بدن میں

آوارہ ہواؤں کو نہ محسوس کیا کر

 

تو صبح بہاراں کا حسیں خواب ہے پھر بھی

آہستہ ذرا اوس کی بوندوں پہ چلا کر

٭٭٭

 

 

 

 

جب تری یاد کا طوفان گزر جائے گا

دل کسی اور سمندر میں اتر جائے گا

 

دشت سے دور سہی سایۂ دیوار تو ہے

ہم نہ ٹھہریں گے کوئی اور ٹھہر جائے گا

 

داغ رہنے کے لیے ہوتے ہیں رہ جائیں گے

وقت کا کام گزرنا ہے گزر جائے گا

 

اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن

مجھ میں روپوش جو اک شخص ہے مر جائے گا

 

دوپہر میں وہ کڑی دھوپ پڑے گی کہ فروغ

جس کے چہرے پہ جو غازہ ہے اُتر جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے

ہنگامے سے سنّاٹے تک اپنا حال تماشا ہے

 

بوجھل آنکھیں کب تک آخر نیند کے وار بچائیں گی

پھر وہی سب کچھ دیکھنا ہو گا صبح سے جو کچھ دیکھا ہے

 

دھوپ مسافر چھاؤں مسافر آئے کوئی کوئی جائے

گھر میں بیٹھا سوچ رہا ہوں آنگن ہے یا رستہ ہے

 

آدھی عمر کے پس منظر میں شانہ بہ شانہ گام بہ گام

تو ہے کہ تیری پرچھائیں ہے میں ہوں کہ میرا سایہ ہے

 

ہم ساحل کی سرد ہوا میں خوابوں سے الجھے ہیں فروغ

اور ہمارے نام کا دریا صحرا صحرا بہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب تک جو مجھے نہیں ملے ہیں

وہ پھول مرے لیے کھلے ہیں

 

زخموں سے بچاؤں کیا بدن کو

کانٹے تو لباس میں سلے ہیں

 

مجھ سے مری رات بھی خفا ہے

مجھ سے مرے دن کو بھی گِلے ہیں

 

یوں خاک اُڑا رہا ہوں گھر میں

جیسے مرے ساتھ قافلے ہیں

 

کیا جانئے کس دیے کے پیچھے

کن روشنیوں کے سلسلے ہیں

 

چہروں کی تھکن سے کچھ نہ پوچھو

کس پاؤں میں کتنے فاصلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا

پھر خبر آئی کہ دریا جل گیا

 

دیکھ لو میں بھی ہوں میرا جسم بھی

بس ہوا یہ ہے کہ چہرہ جل گیا

 

میرے اندازے کی نسبت وہ چراغ

کم جلا تھا پھر بھی اچھا جل گیا

 

شارٹ سرکٹ سے اڑیں چنگاریاں

صدر میں اک پھول والا جل گیا

 

آگ برسی تھی بدی کے شہر پر

اک ہمارا بھی شناسا جل گیا

 

میں تو شعلوں میں نہایا تھا فروغ

دور سے لوگوں نے سمجھا جل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بجھ گیا جل جل کے دریا دھوپ میں

کیا بجاتے ہو کٹورا دھوپ میں

 

آسماں سورج کے بیٹے کو جگا

سو گیا کیسے یہ لڑکا دھوپ میں

 

سب سے اونچی کھڑکیوں پر عکس تھا

کل مرا شیشہ جو چمکا دھوپ میں

 

گرمیوں کی دوپہر کا ذکر ہے

ہم تھے گھر میں اور گھر تھا دھوپ میں

 

انتظارِ ابر کھینچا عمر بھر

روز میرا مور ناچا دھوپ میں

 

دھوپ نے بھی خوب نہلایا مجھے

خوب ہی میں بھی نہایا دھوپ میں

 

یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں

بیچتا پھرتا ہے سایا دھوپ میں

 

تپ رہا ہے ریگ زار زندگی

یار کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں

 

خشک مشکیزوں میں خواب برشگال

تشنہ لب ہیں جادہ پیما دھوپ میں

 

بادلوں سے کہہ رہا تھا وہ کہ ہاں

ایک اپنا بھی ہے بندہ دھوپ میں

 

دھوپ ہی کے سلسلے پہلے بھی تھے

عہد رفتہ ہے گزشتہ دھوپ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

گھر میں صحرا ہے تو صحرا کو خفا کر دیکھو

شاید آ جائے سمندر کو بلا کر دیکھو

 

دشت کی آگ بڑی چیز ہے آنکھوں کے لیے

شہر بھی خوب ہی جلتا ہے جلا کر دیکھو

 

تم نے خوشبو سے کبھی عہد وفا باندھا ہے

روشنی کو کبھی بستر میں لٹا کر دیکھو

 

کس نے توڑا ہے زمیں اور قدم کا رشتہ

آج کی رات یہی کھوج لگا کر دیکھو

 

یہ برستے ہوئے بادل تو نہ سونے دیں گے

کوئی بچپن کی کہانی ہی سنا کر دیکھو

 

ہجر اچھا ہے نہ اب اس کا وصال اچھا ہے

اس لیے اور کہیں عشق لڑا کر دیکھو

٭٭٭

 

 

 

 

پیاسے آئے صحرا سے

پانی لاؤں دریا سے

 

پنچھی شور مچاتے ہیں

سورج نکلے کٹیا سے

 

تو مجھے اپنی آنکھیں دے

بالک بولا بابا سے

 

بوڑھی ہے تو ہونے دو

پیار کروں گا دنیا سے

 

اپنی قمیصیں سلوائیں

میں نے ایک زلیخا سے

 

میں جھوٹے ملہار سنوں

ایک سیانی مینا سے

 

رکتی ٹھہرتی لہریں لوں

چلتی پھرتی ندیا سے

 

رم جھم کا بیوپار کروں

شہروں والی برکھا سے

 

کچے رنگ چرائے ہیں

میں نے ایک سراپا سے

 

جیون بھر کی بات نہ کر

ہم ایسے بے پروا سے

 

جب تک آ کے جائے نہیں

آس لگاؤں فردا سے

 

موسم سے ٹکراؤ میں ہے

اپنا حال ہمیشہ سے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ جو حسن ہے میری تمنا میں

کوئی سورج تھا کسی دنیا میں

 

مرا آنگن جس کے خواب سجے

کوئی ایسی لہر ہے صحرا میں

 

مجھے پیارا کھیل سرابوں کا

مرا شہر بسا ہے دریا میں

 

وہاں بدلی اوڑھ کے سو جانا

جہاں پانی آئے نیّا میں

 

یونہی شور مچاتا مر جاؤں

بڑا تیز مزہ ہے برکھا میں

 

ترا ہجر بسیرے لیتا ہے

مرے جھلمل جھلمل فردا میں

 

اسی رات میں تجھ سے ملنا تھا

یہی رات بِتائی بِرہا میں

 

کبھی آگ بنیں کبھی خاک بنیں

ترے جگنو میری کویتا میں

 

ہوئی اب کے برس اک بات نئی

ترا درد نہ چمکا پُروا میں

 

تجھے پاس بٹھا کے دیکھوں گا

کسی روز خیال تنہا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سائے میں سایہ ملا نہیں

دائرہ پورا ہوا نہیں

 

دن بھر جگنو بنا رہا

شام ہوئی تو جلا نہیں

 

آنکھوں کی چنگاریوں سے

اس کا بازو بچا نہیں

 

قامت اس کا برا نہ تھا

لیکن مجھ پر سجا نہیں

 

کالے بادل الجھے رہے

ہوا کا جادو چلا نہیں

 

میں بھی ہوں دشمن بنا ہوا

موسم بھی کچھ برا نہیں

 

جنگل آئے گزر گئے

پاؤں میں کانٹا چبھا نہیں

 

صحرا جاتا کہاں کہاں

دریا ساتھی ملا نہیں

 

کوئی بھی جس کے پیچھے نہ تھا

وہ دروازہ کھلا نہیں

 

گن لیتا تھا ارب کھرب

ستر سال جیا نہیں

 

ہاتھ کا پنکھا ٹھہر گیا

اب سونے میں مزہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے

آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے

 

نشّے میں ڈگمگا کے نہ چل سیٹیاں بجا

شاید کوئی چراغ اتر آئے بام سے

 

دَم کیا لگا لیا ہے کہ سارے دکان دار

چکھنے میں لگ رہے ہیں مجھے تُرش آم سے

 

غصے میں دوڑتے ہیں ٹرک بھی لدے ہوئے

میں بھی بھرا ہوا ہوں بہت انتقام سے

 

دشمن ہے ایک شخص بہت ایک شخص کا

ہاں عشق ایک نام کو ہے ایک نام سے

 

میرے تمام عکس مرے کرّوفر کے ساتھ

میں نے بھی سب کو دفن کیا دھوم دھام سے

 

مجھ بے عمل سے ربط بڑھانے کو آئے ہو

یہ بات ہے اگر تو گئے تم بھی کام سے

 

ڈر تو یہ ہے ہوئی جو کبھی دن کی روشنی

اس روشنی میں تم بھی لگو گے عوام سے

 

جس دن سے اپنی بات رکھی شاعری کے بیچ

میں کٹ کے رہ گیا شعرائے کرام سے

٭٭٭

 

 

 

 

ماتھے پہ جو زخموں سے دو راہا سا بنا ہے

یہ آدمی احساس کی سائیکل سے گرا ہے

 

آواز تو ہے بات سمجھ میں نہیں آتی

یہ فون بہت اس نے مجھے تنگ کیا ہے

 

لکھوں گا میں افسر سے لڑائی کا فسانہ

اپنا تو ہے اے جان برا ہے کہ بھلا ہے

 

پاگل کوئی کہتا تھا کہ سورج سے لڑوں گا

وہ اب تری دیوار کے سائے میں پڑا ہے

 

جو ہے سو پسنجر ہے مگر فرق تو دیکھو

بیٹھا ہے کوئی بس میں کوئی بس میں کھڑا ہے

 

آدرش کو سینے سے لگائے ہوئے میں نے

لکھا ہے اگر شعر تو فاقہ بھی کیا ہے

 

اس جسم کو ہر وقت دوا چاہئیے کوئی

معلوم نہیں کون سی مٹی سے بنا ہے

 

جھانکو گے دلوں میں تو ہر اک دل میں ملے گی

ایسا کوئی مرنے کی تمنا میں مزہ ہے

 

تصویر بنانے کا مرض لے گیا اس کو

اک شخص تھا پرویز ابھی کل ہی مرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے

یہ شام ہے کہ کوئی فرش پائمال سا ہے

 

ترے دیار میں کیا تیز دھوپ تھی لیکن

گھنے درخت بھی کچھ کم نہ تھے خیال سا ہے

 

کچھ اتنے پاس سے ہو کر وہ روشنی گزری

کہ آج تک در و دیوار کو ملال سا ہے

 

کدھر کدھر سے ہواؤں کے سامنے آؤں

چراغ کیا ہے مرے واسطے وبال سا ہے

 

کہاں سے اٹھتے ہیں بادل کہاں برستے ہیں

ہمارے شہر کی آنکھوں میں اک سوال سا ہے

 

سفر سے لوٹ کے آئے تو دیکھتے ہیں فروغ

جہاں مکاں تھا وہاں راستوں کا جال سا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

خوشبو کو اپنے ساتھ ہوا لائے ہے صنم

یہ اور دل کے درد کو گہرائے ہے صنم

 

خواہش کسی کنیز خوش آواز کی طرح

خوابوں کی وادیوں میں غزل گائے ہے صنم

 

تیرا تو انگ انگ مجھے رات رات بھر

یادوں کے آئینے میں نظر آئے ہے صنم

٭٭٭

 

 

 

 

نازک بیلیں آنگن میں

دھیان الجھا ہے ساجن میں

 

آگ نہا کے چمکی تھی

بھول ہوئی پاگل پن میں

 

نئی نویلی کلیاں تھیں

جلتے بجھتے دامن میں

 

ہاتھ میں تازہ جگنو تھے

اور کلائی کنگن میں

 

ہیرے بھی تھے موتی بھی

بھولے پن کی چلمن میں

 

آنکھیں موندے بیٹھی تھی

خوشبو کورے باسن میں

 

بدلی ہے تو کہیں رہے

آن ملے گی ساون میں

 

ساگر کی یہ سبک ہوا

زہر بھرا ہے بیرن میں

 

جب تک تیری سوچ نہ تھی

بھید نہیں تھے جیون میں

 

روپ جھروکا بند نہ کر

دیر لگے گی درشن میں

 

تیری تھکن کے گیت بنوں

اپنے دل کی دھڑکن میں

 

ترے بدن کا لوچ بھروں

جنم جنم کی الجھن میں

 

اپنا بِس بھی گھول ہی دوں

روشنیوں کی ناگن میں

 

میرے دن تو بیت گئے

اپنے آپ سے ان بن میں

 

دنیا میرے ساتھ رہی

ایک ادھورے بندھن میں

 

رین بسیرا لیتے ہیں

دکھ سکھ میرے تن من میں

 

میں اب بھی اس خواب میں ہوں

دیکھا تھا جو بچپن میں

٭٭٭

 

 

 

 

گرم زمیں پر آ بیٹھے خشک لب محروم لئے

پانی کی اک بوند نہ پائی بادل بادل گھوم لئے

 

سج رہے ہوں گے نازک پودے چل رہی ہو گی نرم ہوا

تنہا گھر میں بیٹھے بیٹھے سوچ لیا اور جھوم لئے

 

آنگن کی مانوس فضا میں خوابوں نے زنجیر بنی

بعد میں جھک کر اپنے سائے دیواروں نے چوم لئے

 

میں نے کتنے رستے بدلے لیکن ہر رستے میں فروغ

ایک اندھیرا ساتھ رہا ہے روشنیوں کے ہجوم لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کوئی دریا ہے نہ صحرا اپنا

اپنے گھر میں ہے تماشا اپنا

 

اک سخن ہے کہ زباں سے میری

کیے جاتا ہے تقاضا اپنا

 

کوئی چہرہ ہے کہ اس پر میں نے

کبھی دیکھا تھا اجالا اپنا

 

کہیں ملتے ہیں تو مل لیتے ہیں

رنج کہتے نہیں اپنا اپنا

 

اب ترے شہر کی دیواروں سے

بات کرتا ہے سراپا اپنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں نے سیکھا نہیں اچھوں کو برا کہہ دینا

کہیں مل جائے تو بے بی کو دعا کہہ دینا

 

وہی افسانۂ مشہور سنانا لیکن

جان پر کھیل کے اک حرف سوا کہہ دینا

 

خون تو خاک ہوا داغ ہے وہ بھی موہوم

کس کو پہچان ہے نقش کف پا کہہ دینا

 

نہ آپ سے حسین ہیں نہ آپ سے جوان ہیں

مگر وہ پیاری لڑکیاں زیادہ مہربان ہیں

 

کبھی لباس اور ہوا کبھی زمین اور گھٹا

کسی دیار کی رتیں محبتوں کی جان ہیں

 

سفر کی بات کیا کہوں کہ میری دھوپ چھاؤں سے

گزرنے والی بستیاں ہواؤں کے سمان ہیں

 

منڈیریوں سے صحن تک دیے جلا کے سوگئیں

کبوتروں کی جوڑیاں عجیب میہمان ہیں

 

تری بہار کا شجر ہرا بھرا رہے مگر

وہ ڈالیاں بھی کھول دے جو میرا سائبان ہیں

 

فراق بھی تمام ہے وصال بھی تمام ہے

مگر ابھی محبتیں ذرا ذرا جوان ہیں

 

سمجھ رہے ہیں آپ بھی کہ بھیڑ دشمنوں کی ہے

ہماری اپنی صورتیں دلوں کے درمیان ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا

دیکھو میں نے حرف جما کے نگر بنایا جاناں کا

 

پاگل پنچھی بعد میں چہکے پہلے میں نے دیکھا تھا

اس جمپر کی شکنوں میں ہلکا سا رنگ بہاراں کا

 

بستی یونہی بیچ میں آئی اصل میں جنگ تو مجھ سے تھی

جب تک میرے باغ نہ ڈوبے زور نہ ٹوٹا طوفاں کا

 

ہم املاک پرست نہیں ہیں پر یوں ہے تو یوں ہی سہی

اک ترے دل میں گھر ہے اپنا باقی ملک سلیماں کا

 

رنج کا اپنا ایک جہاں ہے اور تو جس میں کچھ بھی نہیں

یا گہراؤ سمندر کا ہے یا پھیلاؤ بیاباں کا

 

ہم کوئی اچھے چور نہیں پر ایک دفعہ تو ہم نے بھی

سارا گہنا لوٹ لیا تھا آدھی رات کے مہماں کا

٭٭٭

 

 

 

 

دیا بنو اور جلتے جاؤ

پھر سایوں میں ڈھلتے جاؤ

 

سیاروں کی آگ بچھی ہے

دھیرے دھیرے چلتے جاؤ

 

سوچ میں کوئی ساتھ نہ دے گا

گرتے جاؤ سنبھلتے جاؤ

 

ہاتھوں میں جو لہو بھرا ہے

چہرے پر بھی ملتے جاؤ

 

جب دیکھو گے رات ملے گی

دن کا نام بدلتے جاؤ

 

آنکھیں جب تک سپنے دیکھیں

پیارے پھولتے پھلتے جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں

راستے الجھے ہوئے ہیں پاؤں میں

 

بستیوں میں ہم بھی رہتے ہیں مگر

جیسے آوارہ ہوا صحراؤں میں

 

ہم نے اپنایا درختوں کا چلن

خود کبھی بیٹھے نہ اپنی چھاؤں میں

 

کس قدر نادان ہیں اہل جہاں

ہم گنے جانے لگے داناؤں میں

 

سامنے کچھ دیر لہراتے رہے

پھر وہ ساحل بہہ گئے دریاؤں میں

 

اک یہی دنیا بدلتی ہے فروغ

کیسی کیسی اجنبی دنیاؤں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں راتوں کا دریا ہوں

خوابوں کو شاداب کروں

 

اندھیاروں اجیاروں سے

بھولے بسرے خواب کہوں

 

پچھلے پہر کی رم جھم میں

کوئی انوکھی بات سنوں

 

اپنے ساتوں رنگ لئے

سندر بن میں اتر چلوں

 

سونے گھر کے ماتھے پر

جلے نگر کی راکھ ملوں

 

ایسی برہنہ راتوں میں

جی چاہے جو سوانگ بھروں

 

پھر مری خوشبو تیز ہوئی

پھر کوئی شعلہ ہاتھ میں لوں

 

پھر کوئی دریا آنکھ میں ہے

پھر کسی لہر کے ساتھ چلوں

 

آج کی نیند اچٹنے پر

کتنی دیر اداس رہوں

 

دھیان کے جل تھل ایک ہوئے

اب میں تجھ سے کہاں ملوں

٭٭٭

 

 

 

 

شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں

ایک صحرا بھی سجا ہے مجھ میں

 

کئی دن سے کوئی آوارہ خیال

راستہ بھول رہا ہے مجھ میں

 

رات مہکی تو پھر آنکھیں مل کے

کوئی سوتے سے اٹھا ہے مجھ میں

 

دھوپ ہے اور بہت ہے لیکن

چھاؤں اس سے بھی سوا ہے مجھ میں

 

کب سے الجھے ہیں یہ چہروں کے ہجوم

کون سا جال بچھا ہے مجھ میں

 

کوئی عالم نہیں بنتا میرا

رنگ خوشبو سے جدا ہے مجھ میں

 

ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی

آئینہ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں

 

آتے جاتے رہے موسم کیا کیا

جو فضا تھی وہ فضا ہے مجھ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کشادہ کشادہ فضا ہر طرف

اور یہ ایک ہی راستہ ہر طرف

 

میں ادھر سے ادھر دوڑتا ہی رہا

گونجتی ہی رہی اک صدا ہر طرف

 

میری آنکھوں میں کیا چھپ گیا ہے جسے

رات بھر ڈھونڈتی ہے ہوا ہر طرف

 

چاندنی نیند میں بام و در خواب میں

کوئی سایہ لرزتا پھرا ہر طرف

 

خواب آتے رہے خواب جاتے رہے

صبح تک ایک عالم رہا ہر طرف

 

دو گھڑی بھی نہ چمکا تھا سورج مگر

برف پہروں پگھلتا رہا ہر طرف

٭٭٭

 

 

 

 

ابدی گیت ساربانوں کے

جادے آباد ہیں زمانوں کے

 

سوچ کے جنگلوں میں دور تلک

منتشر خوف کاروانوں کے

 

یہ چٹانیں ہیں کچھ کہ پھیلے ہیں

چند اوراق داستانوں کے

 

زندہ ہیں سینۂ تلاطم میں

خواب مرحوم بادبانوں کے

 

صحن دار الشفا میں رقص کریں

منجمد لوگ سرد خانوں کے

٭٭٭

 

 

 

 

 

نئی تکلیف پر افشاں چنی ہے

پرانے زخم کی جھالر بنی ہے

 

یقیں کے بادلوں میں چھپ کے میں نے

گماں کی روئی برسوں تک دھنی ہے

 

اتر کر سوچ کی نیلاہٹوں میں

کسی مہتاب کی آہٹ سنی ہے

 

کیے جاتا ہے کب سے کائیں کائیں

تو اے کوے رشی ہے یا مُنی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہوس کا رنگ زیادہ نہیں تمنا میں

ابھی یہ موج ہے بیگانگی کے صحرا میں

 

سمندروں میں ستاروں کی آگ پھیلی ہے

مہک رہا ہے لہو لذت نظارہ میں

 

ہوا نے ابر بہاراں سے بے وفائی کی

خبر کرو کسی آرام گاہ تنہا میں

 

دلوں کے بند دریچوں سے جھانک کر دیکھو

کسی فساد کی پرچھائیاں ہیں دنیا میں

 

فریب تھا جو مجھے زعم بے کرانی تھا

اداس ہیں مرے ساحل فراق دریا میں

 

مجھے تو ایک ترا حسن ہی بہت ہے مگر

ترے لیے بھی بہت کچھ ہے خواب فردا میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پگلی ندیا گاتی جا

اجلے جھاگ اڑاتی جا

 

گیابھن گیّا آئی ہے

ٹھنڈی لہر پلاتی جا

 

دھول اڑاتے گیندوں کو

آئینہ دکھلاتی جا

 

دلدل کے گھڑیالوں کو

مل مل کے نہلاتی جا

 

خول کے اوپر اوپر ہی

کچھوے کو سہلاتی جا

 

ڈال پہ سوئے پنچھی کو

چھینٹوں سے چونکاتی جا

 

کانٹے میں جو چارا ہے

اس کی جان بچاتی جا

 

جنگل کی اندھیاری میں

دیپک بان چلاتی جا

 

کالے پیلے بادل کو

پتوں میں الجھاتی جا

 

ناؤ برابر مچھلی دے

مانجھی کو بہلاتی جا

 

پلکوں کی جھالریا سے

سپنوں تک لہراتی جا

 

ندیا اندھے دھوبی کے

پتھر کو چمکاتی جا

٭٭٭

 

 

 

دھرتی سے ملے بادل ساتھی

موسم تو کرے پاگل ساتھی

 

ایسا ہے کہ اب کی برکھا میں

کنکر بھی لگے کومل ساتھی

 

آنگن میں رہے رم جھم رم جھم

پر میں تو رہوں بے کل ساتھی

 

ساون کا رسیلا جھونکا ہے

پنچھی کی طرح گھائل ساتھی

 

بوندوں کو سہیلی یاد آئے

کس دیس گئی کوئل ساتھی

 

الجھی ہوئی سوچیں راہ نہ دیں

جیون ہے گھنا جنگل ساتھی

 

تنہا بھی ہوں میں بھوکا بھی ہوں

تو آن کے بھاجی تل ساتھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی خیال کی جھلک

جلا گئی ہے جسم تک

 

سبو نشیں تو کون ہے

اگر شراب ہے چھلک

 

حصار خواب گاہ بن

شکست ساز کی دھنک

 

کرن کا ساتھ ہے تو پھر

ہوا کے فرش پر تھرک

 

سواد شب کے راہ داں

سحر سے پیشتر نہ تھک

 

اوائل نمو رہے

اواخر بہار تک

 

فریب جاں کو چاہئیے

کسی بھی پھول کی مہک

 

کسی کسی اصول میں

کبھی کبھی کوئی لچک

 

حریف آگہی ابھی

ہزار سال تک ہمک

 

فروغ اس کے شہر میں

پئے بغیر ہی بہک

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

آدھے جسم کچل جاتے ہیں

خواب میں لوگ بدل جاتے ہیں

 

باتیں سڑک پر رہ جاتی ہیں

ساتھی دور نکل جاتے ہیں

 

جب سے تمہارا ساتھ ہوا ہے

روز ذرا سے جل جاتے ہیں

 

چکنے فرش پہ گھر والے بھی

بعض اوقات پھسل جاتے ہیں

 

کھو جاتی ہیں جن کی مائیں

وہ بچے بھی پل جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی

جس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو

 

تم سمجھتے ہو کوئی جرم کیا ہے میں نے

یہ تو اک بوجھ اٹھانے کی تھکن ہے لوگو

 

لڑکیاں روشنیاں کاریں دکانیں شامیں

انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

جینے کی مزدوری کو بیگار کہوں یا کام کہوں

نقد مرگ عطا ہوتا ہے صلہ کہوں انعام کہوں

 

خوف کو میں نے ہنر بنایا دیکھ ایسا چالاک ہوں میں

تیرا نام نہیں لیتا ہوں برکھا رت کی شام کہوں

 

اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو

دنیا پوچھے درد بتاؤں تو پوچھے آرام کہوں

 

آتی جاتی نیند کی لہریں صبح تلک ٹکراتی ہیں

کبھی کبھی میں نغمہ سمجھوں کبھی کبھی کہرام کہوں

 

شعلے کو شعلہ چاند کو چاند اور پھول کو بالکل پھول کہوں

میری آنکھیں میں تو ان کو چہرے پر الزام کہوں

 

اتنا سچا ایسا جھوٹا اور ملے گا کون تجھے

تو مٹی کا ایک بدن ہے میں تجھ کو گلفام کہوں

٭٭٭

 

 

 

 

عشق ہو جائے جواں ایسا ہے

شہر میں ایک مکاں ایسا ہے

 

تم بھی بادل سے نظر آتے ہو

آج کی شام سماں ایسا ہے

 

چہرے پہچان میں آتے ہی ہیں

شاہراہوں پہ دھواں ایسا ہے

 

کوئی پیراک نہیں ہم لیکن

وہ تو دریا ہی رواں ایسا ہے

 

دیکھتے جاؤ گزرتے جاؤ

اب کے موسم ہی میاں ایسا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی

پھر یوں ہوا کہ ساری فضا فاحشہ لگی

 

جاگیں سہاگنیں بھی پر اس چاند رات کو

کنواری ہتھیلیوں میں زیادہ حنا لگی

 

اک شور ہے بدن میں کہ اب وصل بھی کرو

کیسی یہ میرے عشق کے پیچھے بلا لگی

 

تو نے تو میگھ راج کو نہلا کے رکھ دیا

ساون کی ایک شام ترے ہاتھ کیا لگی

 

مٹی کا رنگ روپ وہی ہے جو تھا کبھی

لیکن یہ ہے کہ آج ذرا بے مزہ لگی

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنا انداز غضب لگتا ہے

آج کل عشق عجب لگتا ہے

 

تو نے بستر میں لپیٹے ہیں خیال

تو بھی آوارۂ شب لگتا ہے

 

کچھ نہ کچھ حسن ملا ہے سب کو

ہر کوئی داد طلب لگتا ہے

 

یہ جو سایہ ہے ترے سائے کے ساتھ

وصل میں شکوہ بہ لب لگتا ہے

 

جان سے لے کے بدن تک پیارے

آدمی عشق میں سب لگتا ہے

 

دوپہر تک جو نہ چہکے پنچھی

کوئی ایسا ہی سبب لگتا ہے

 

میرے جلتے ہوئے گھر کو دیکھو

دور سے جشن طرب لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گیت کے بعد بھی گائے جاؤں

اپنی آواز سنائے جاؤں

 

کوئی ایسا ہو کہ دیکھے جائے

میں جہاں تک نظر آئے جاؤں

 

اس ہوس میں کہ اندھیرا نہ رہے

گھر میں جو کچھ ہے جلائے جاؤں

 

پھیلتی جائے خموشی مجھ میں

اور میں شور مچائے جاؤں

 

اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغ

خواب ہی خواب دکھائے جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

آسماں سبز چاند عنابی

خواب سا ہے شریک بے خوابی

 

رگ جاں سے لہو اچھلتا ہے

جس طرح چھوٹتی ہے مہتابی

 

دل سے باہر ہے درد کی خوشبو

سر سے گزری ہے موج شادابی

 

جان میں اور بدن میں رہتی ہے

صبح تک ایک جنگ اعصابی

 

جب سے آیا ہے برف کا موسم

ہم لپیٹے ہوئے ہیں بے تابی

 

کس جنازے کے انتظار میں ہیں

راستے کے درخت محرابی

 

ہند سے سندھ تک مزار مرے

میں نے مایا کہاں کہاں دابی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

اپنے ہو نہ پرائے ہو

کس سے ملنے آئے ہو

 

دیس دیس کے موسم کی

تصویریں کیوں لائے ہو

 

کچھ سایہ کچھ دھوپ لیے

کہاں کہاں لہرائے ہو

 

کس کیاری کا پھول بنے

کس برکھا میں نہائے ہو

 

آنکھوں سے آکاش تلک

آنچل بن کے چھائے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

نہ سناؤ کہ اپنے پرائے ہوئے

ملو سارے ملال چھپائے ہوئے

 

دُھلی رات کی باس ہواؤں میں ہے

چلو آنکھوں میں خواب سجائے ہوئے

 

نئی کلیوں کی چاپ گھٹاؤں میں ہے

مری پلکوں سے تال ملائے ہوئے

 

کسی کنج میں تھی کوئی شاخ سمن

مرے نام کے پھول کھلائے ہوئے

 

کوئی چاندنی تھی کسی رستے میں

مرے سائے سے آس لگائے ہوئے

 

کئی طرح کے لوگ ہیں پچھلے پہر

مرے حرف کی چھاؤں میں آئے ہوئے

 

کوئی صبح تلک مرے ساتھ رہے

سبھی اپنے چراغ جلائے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

اپنا اپنا دھیان سہی

آج یہی اے جان سہی

 

اچھا سا اک بول کہو

جسم ذرا ہلکان سہی

 

برکھا رت کی لاج رکھوں

گوری کا اپمان سہی

 

کچھ تو تیرے حسن سے لوں

خوشبو کی پہچان سہی

 

تیرا سپنا دیکھ سکوں

پھر آنکھیں ویران سہی

 

بادل گہرے شام سے ہیں

آخرِ شب طوفان سہی

٭٭٭

 

 

 

 

وہ تو ساون کی ہواؤں میں پھسلتی جائے

چھاؤں آنچل سے الجھتی ہوئی چلتی جائے

 

جیسے دنیا میں کہیں اور کوئی جسم نہیں

اپنے ہی جسم کی مٹی سے بہلتی جائے

 

کیسی باتیں ہیں کہ جاناں تری ہر بات کے ساتھ

در و دیوار کی رنگت بھی بدلتی جائے

 

ہاتھ ہیں آگ نہ انگار ہیں بانہیں میری

پھر بھی وہ موم کی مریم تو پگھلتی جائے

 

کبھی سوئی ہوئی ندیا تھی پر اب کی رت میں

آپ ہی آپ کناروں سے نکلتی جائے

 

اس کی گلیوں میں جو ہے اس کو ہوا کون کہے

کوئی بہکی ہوئی ہرنی ہے سنبھلتی جائے

 

دن تو ہنسنے ہنسانے میں بِتائے گوری

شام کو دیپ جلاتے ہوئے جلتی جائے

٭٭٭

 

 

 

 

بل کھائے ندیا باتوں کی

لہرائے بدریا ماتھوں کی

 

اک شعلہ ریشمیں چہرے کا

اک چاندی سانولے ہاتھوں کی

 

الجھی ہوئی دھیمے لہجے میں

کچھ کرنیں رشتوں ناتوں کی

 

کلیوں نے ہوا کو سونپی ہیں

تنہائیاں اپنی ذاتوں کی

 

آنکھوں میں بہت آوارہ ہیں

ٹوٹی ہوئی نیندیں راتوں کی

 

دیکھو کبھی جاتے موسم کو

پرچھائیں لیے سوغاتوں کی

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی جاگیریں کوئی زر چاہے

دل پیار بھرا پیکر چاہے

 

دھرتی سے لپٹ کے سوجانا

لہروں میں گھِرا ساگر چاہے

 

جو بات کبھی برسوں میں نہ ہو

اس بات کو جی اکثر چاہے

 

بادل میں رہے متوالی سی

جو چاند کے دل میں گھر چاہے

 

اس رات میں پاگل ہو جانا

تو لاکھ نہ چاہے پر چاہے

 

اپنی تو کوئی چاہت ہی نہیں

بس یہ ہے کہ جو دلبر چاہے

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا کا وبال بھی رہے گا

کچھ اپنا خیال بھی رہے گا

 

شعلوں سے تجھے گزار دیں گے

ہم سے یہ کمال بھی رہے گا

 

بانہوں میں سمٹ کے حسن ترا

کچھ دیر نڈھال بھی رہے گا

 

اے جان تجھے خراب کر کے

تھوڑا سا ملال بھی رہے گا

 

مجھ کو تری نازکی کا احساس

دوران وصال بھی رہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ہم تو سمجھے تھے آج سو لیں گے

در و دیوار کچھ نہ بولیں گے

 

روز سائے کہیں کو جاتے ہیں

ایک دن ہم بھی ساتھ ہولیں گے

 

اک نئے غم کا ساتھ اور سہی

کبھی فرصت ملی تو رولیں گے

 

آج دامن میں خاک بھر لی ہے

کل کسی رنگ میں ڈبو لیں گے

 

ہاتھ میں ہاتھ اگر نہ آئے گا

خواب میں خواب ہی پرو لیں گے

٭٭٭

 

 

 

 

میں تو ہر لمحہ بدلتے ہوئے موسم میں رہوں

کوئی تصویر نہیں جو ترے البم میں رہوں

 

گھر جو آباد کیا ہے تو یہ سوچا میں نے

تجھ کو جنت میں رکھوں آپ جہنم میں رہوں

 

تو اگر ساتھ نہ جائے تو بہت دور کہیں

دن کو سورج کے تلے رات کو شبنم میں رہوں

 

جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پاکر

میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

لہو کے رنگ میں اک بات ہے تمہارے لیے

ہمارے گھر یہی سوغات ہے تمہارے لیے

 

تمھیں بھرے ہوئے بادل تلاش کرتے ہیں

تمام شہر میں برسات ہے تمہارے لیے

 

مرے تمام شجر میرے ساتھ سوچ میں ہیں

بڑا ہجوم خیالات ہے تمہارے لیے

 

مکاں میں رہ کے مکینوں سے مل نہیں سکتے

عجیب صورت حالات ہے تمہارے لیے

 

پلک جھکا کے ہمیں نیند کا فریب نہ دو

یہ جاگنے کی شروعات ہے تمہارے لیے

٭٭٭

 

 

 

 

دست دعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا

ہر شب ہمیں چمکتے ہوئے خواب دیکھنا

 

کیا سوچ کر ہوا ہے سمندر سے پنجہ کش

بوڑھے کو اک روز تہہ آب دیکھنا

 

صحرا کی زندگی میں ہمارے تو عیش ہیں

دن کو غزال رات کو مہتاب دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آ گئی

دور کسی نے کچھ کہا پھر مجھے نیند آ گئی

 

ابر کی اوٹ میں کہیں نرم سی دستکیں ہوئیں

ساتھ ہی کوئی در کھلا پھر مجھے نیند آ گئی

 

رات بہت ہوا چلی اور شجر بہت ڈرے

میں بھی ذرا ذرا ڈرا پھر مجھے نیند آ گئی

 

اور ہی ایک سمت سے اور ہی اک مقام پر

گرد نے شہر کو چھوا پھر مجھے نیند آ گئی

 

اپنے ہی ایک روپ سے تازہ سخن کے درمیاں

میں کسی بات پر ہنسا پھر مجھے نیند آ گئی

 

تو کہیں آس پاس تھا وہ ترا التباس تھا

میں اسے دیکھتا رہا پھر مجھے نیند آ گئی

 

ایک عجب فراق سے ایک عجب وصال تک

اپنے خیال میں چلا پھر مجھے نیند آ گئی

٭٭٭

بشکریہ طارق رئیس فروغ

ماخذ: ادبی دنیا ڈاٹ کام

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید