فہرست مضامین
- ٹوٹتے خمار کے دن
- انتساب
- دیباچہ
- یہ ہے وہ نسخہ کہ جس میں ہے تری کامل شفا
- تھا تقابل پھول کا اور خار کا
- طُرٔہ خاص ہے جو، ہے وہ سبب خواری کا
- بھرا ہے پیٹ تھانیدار جی کا
- کھِل چکا تو پھول اگلے روز مرجھانے لگا
- اندیشوں میں خوف و خطر جاری رکھنا
- اپنے بچّوں کو بچاتے، گھر بھِڑوں کا پھوڑنا
- جو جو بھی تِیرِ جَور ہے پیوستِ جاں ہُوا
- میں شبانِ ہجر سا جو تشنۂ انوار تھا
- وہ کہ آمروں سے کیا تھا جو، وہ وفا کا عہد نبھا دیا
- رہ بہ رہ اور کُو بہ کُو تھا ٹھاٹھ سے مہکا کیا
- جاں بدن میں ہی جلا دی کیا کیا
- جبر نے ہم سب کے چپ رہنے کو کیا اچھّا کیا
- دل زدوں کو بالکوں جیسا ہی بہلائے گا کیا
- وقت اَن ہونی عجب دکھلا گیا
- ہوتے ہوتے مرتبہ فتح و ظفر کا پا گیا
- میں کہ پابندِ رضا تھا، رُک گیا
- چھوٹتے ہی پیشِ مضروباں یہ سر خم کر لیا
- بشر کی چاہ کا ہم سے ہے انتساب، جناب
- رحلِ دل پر اتر آئی ترے چہرے کی کتاب
- دے ہر دن ہر رات
- بہ جبرِ باد اُچھالے گئے ہیں پات بہت
- قربتِ یار کا جب سے ہے احساس بہت
- ہاں ہاں گلے لگائے ہیں رنج و محن بہت
- جمہوریت میں بھی ولی عہدوں کا رواج
- ناچتی ہیں دُوریاں، انگناؤں میں، پیاروں کے بِیچ
- دل جھیلوں میں اُترا چاند
- رکھے دُلہن یہی آس
- گنوں سے تھے جو عجب آشکارا لوگ
- ستّر سے بھی اُوپر ہو گئے، ماجِد! عمر کے سال
- قوس قزح میں، رنگِ شفق میں دِکھا جمال
- جیون دِیپ نے بُجھ جانا ہے آج نہیں تو کل
- خواب مری اور مرے سَراب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
- سج چلا ہے پھر کسی چندا سے بام
- شیرین و تلخ ہونٹ لگیں اُس کے اپنا جام
- لے کے سینوں میں پھریں حبس دوام
- فتنے بہت ہیں، خیر کے پہلو بہت ہی کم
- بڑے بھی ہیں تو فقط وہم میں گمان میں ہم
- مستِ چشم و نگاہِ یار ہیں ہم
- آج کے اِس عہد شیریں کا نیا فرہاد بن
- جیے جو ہم تو، بِتایا کیے عتاب کے دن
- آنکھوں سے تری جو ہویدا ہے وہ کیف کسی منظر میں کہاں
- کھِل کے نہ پھر مرجھائیں سیّاں
- کیمرے اِن دو آنکھوں کے سنبھال میاں
- گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
- جیب میں گھٹتی کوڑیاں، نام لکھیں زرداریاں
- اُس نے گھٹیا پن دِکھایا ہے تو اُس کا کیا کروں
- اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
- مرا نصیب یہ ہے خود کو بے نوا مانوں
- فیض اگر اِدراک سے پاؤں
- کیا کیا نہ رُوکشاں ہیں، ہمارے نصیب میں
- باغ کھلایا آنگن میں
- بَیر نہ ہوں باہم گر اپنے شاہوں میں
- جان اتر آئی ہے ساری، آنکھوں میں
- جگہ جگہ غربت کے، مہنگائی کے، اژدر دیکھوں میں
- خود کو ناقدروں سے کہیں نہ لٹا بیٹھیں
- عورتیں جس خاک پر جیتے دموں جلنے لگیں
- عزم ہے یہ، دُکھ جتنا دیکھیں
- پایۂ تخت ہِلا کر دیکھیں
- تا بہ منصف، تا بہ شہ، رستہ رسائی کا نہیں
- جو بھی منظر ہے ٹھہرے یہاں دِیدنی آنکھ اپنی جسے دیکھ پاتی نہیں
- جی رہے ہیں اور اِس جینے پہ شرم آئی نہیں
- فیضان جن کے مِلکِ خلائق ہوئے نہیں
- شادیوں سے پہلے کی ساری محبوبائیں
- اُن میں سے اِک ایک کو بے شک ہم مانیں
- ہیر پھیر لفظوں کا شرافت میں ہے یہاں
- اپنے وطن میں کیا کیا اوچھی دل لگیاں ہیں
- پروں میں شام باندھے لا رہے ہیں
- ہوئی ہے بارش تو جانے کس رَو میں ہم سے بے حال کھو گئے ہیں
- جن بچّوں سے اُن کے نوالے چھن جاتے ہیں
- سامنے ظلم کے لجیلے ہیں
- سیہ بختی، گراوٹ پر اجارے سب ہمارے ہیں
- عمرِ اخیر میں بعدِ بحالی، یہ جو خراب طبیعت ہو
- نظرِ مست ملا کر دیکھو
- دنوں مہینوں میں مُکھ دکھلائیں تو دیکھو
- شاہو! لگاؤ
- لطف رساں ہو
- لاؤ کوئی مسیحا لاؤ
- میرے انگناں پھول کھلا دے، خوشبودار، سہانے ہُو
- نفرت کرنے والے خود بھی، جلیں، جلائیں اوروں کو
- خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
- جدّی عظمت میں یہ کمی کیوں ہو؟
- شوق کی زد میں ہے گر رومانیہ
- چمک نہ پائے ہے جو اس کو مہتاب نہ کہہ
- بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
- سفر میں تھی جو لاچاری ہماری
- وہ کہ سخن کے نام پر ٹھہری ہے سلطنت مری
- دھول دھوئیں سے لِتھڑی سانسیں تیری میری
- کوئی فاختائی سی نظم ہو کوئی اِک غزل ہو غزال سی
- تیر اس کا ہے، ہے کماں جس کی
- دے حکم اہلِ جبر کے جو قتلِ عام کی
- اپنے کیے سے مکرنے کی
- یہ گردِ ضعف ہے کیا؟رُوح جس سے اَٹنے لگی
- آل کی چاہ نبھانے کو نیام اور بنی
- پھول مرے انگناں، میں بھی ہیں ہونٹوں پربھی
- لگتا ہے پھر شکل کوئی ہے گہنائی
- پل کی پل میں سروں سے اُڑا لے گئی
- فرقِ نا اہل کو کچھ اور اٹھانے جاتے
- کاش فساد سبھی سرکار کے سر ہوتے
- رُت کو نیا جامہ پہنا دے
- تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
- دریا دریا جُو جُو، پت جھڑ رقص کرے
- پگڈنڈی پگڈنڈی پھر تے تھے شاہوں سے
- درمیاں مذہب کو لانے کا عجب چرچا ملے
- سانس کے پل پل سفر کا لطف لے
- جی ملے اور بہت شتاب ملے
- سانس سانس کا کیف چُرا لے، ہنس لے جی لے
- جھاڑ کے شاخ سے ناچ نئے سکھلانا جانے
- سانس ہی سینے کے اندر جانے کب دشنہ بنے
- ہم پہ ہر بہتان وہ آگے سے دھر جانے لگے
- لے میں ہو زیر و بم تو کیا کہنے
- ڈِیل آقاؤں سے کرتے جو کہے اندر کہے
- کل جانے کیا ہو جانا ہے
- گزرے وقت کی بپتا حاصل سال کا ہے
- ملکِ عزیز کا جو قانون ہے سویا لگتا ہے
- منظر منظر کو مہکانے نکلا ہے
- وہ پاس آ بھی گیا پھر بھی دور بستا ہے
- ہم سے الجھاؤ جَورِ شب کا ہے
- چشم و بدن میں ایک عجب نشّہ اُترا ہے
- دہنِ غیر سے اکثر جو ادا ہوتا ہے
- بوریا بستر باندھنے کا وقت آنے لگا ہے
- پسِ یقیں ہے جو حرص و ہوا کا چرچا ہے
- آشیان کا پہلا تنکا روئے شجر پہ ٹکایا ہے
- قلم کو دیکھا ہے رختِ ہنر کو دیکھا ہے
- اچّھے امکانات کا اچّھے کاج کا دن ہے
- تفنگ داغتی جو ’’ٹھاہ ٹھاہ‘‘ اتری ہے
- دِن کانٹوں کی سیج ہے اور ہر شب وجہِ بیداری ہے
- موسم کی جانب سے کیوں الٹا پیغام ہی آئے
- تو کہ زر ہے جدھر بھی تو جائے
- کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
- ہر فردوس کو دوزخ جانا پڑتا ہے
- چرخ سے بوندیں گریں یا بجلیاں جینا تو ہے
- ہمت کرے تو جی لے جتنا بھی تیرا جی ہے
- ناک کی سیدھ میں چلنے کا ہُنر آتا ہے
ٹوٹتے خمار کے دن
ماجد صدیقی
انتساب
آنکھ بھر آسمان کے نام
جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور میرے بیٹے یاور ماجد کی تخلیق ہے اور اُس تخلیقی تسلسل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو قدرتِ خداوندی سے مجھے اور میری اولاد کو ودیعت ہوئی ہے۔ کہیں پوسٹ گریجوایٹ اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کہیں شاعری، کہیں افسانہ طرازی، کہیں مصوری کی صورت میں اور کہیں۔ ۔ ۔ ماہنامہ ککو اسلام آباد اورفارمنگ ریوی لیوشن اسلام آباد۔ ۔ ۔ جیسی با مقصد صحافت کے روپ میں۔
دیباچہ
آپ نے پُوچھا تو کیا مانو گے، میرا یہ کہا
’’چاہ میری شاعری ہے، میں پُجاری۔ امن کا‘‘
غنچے غنچے کی چٹک کو مِدحتِ مَولا کہوں
کہکشاؤں میں جھلکتا پاؤں، میں عکسِ خدا
میں یقیں کرتا نہیں کوئی بھی، بِن پُن چھان کے
اور مفروضوں کو جانوں شِرک کا ہم مرتبہ
نعمتِ یزداں مرے نزدیک ہے نُطقِ ضمیر
جس سے رُو گردانیاں ہیں، آپ ہم سب کی خطا
میں خدا سے بھی سدا اقبال سی باتیں کروں
اور کبھی اقبال تک سے بھی میں لُوں پنجہ لڑا
چاند کی تسخیر بھی مجھ کو نہ بھا پائی کہ میں
ہمسری مابین قوموں کے ہوں پہلے چاہتا
ننھی چڑیوں پر غضب ژالوں کا تڑپائے مجھے
فاختاؤں پر کہاں بھولے عقابوں کا کیا
شورشیں برپا عرب سے تا بہ افغان و عراق
جس قدر بھی ہو چکیں، میں اُن پہ کُڑھتا ہی رہا
ویت نام و الجزائر ہو کہ ڈھاکہ فال ہو
جبر جیسا بھی ہو میرے نزد ہے سب ایک سا
ہوں وہ کشمیر و فلسطیں، یا مری خاکِ وطن
جس کی بد بختی پہ بھی لکھا، وہ ورثہ ہے مرا
ہند و پاکستان میں جوپھُوٹ ہے آغاز سے
اب تلک اُس پھُوٹ کا حل کیوں نہیں ڈھونڈا گیا
اور افغانوں کی نگری میں نئی بے چینیاں
دورِ حاضر میں ہوئیں کس شہ کی جانب سے بپا
ایٹمی طاقت کہا جائے کسے، کس کو نہیں
ایسا ہونا تک مجھے ہرگز نہیں اچھّا لگا
چُنگلوں میں آمروں کے آ کے جو انصاف گھر
فیصلے دیتے رہے، اُن پر بھی میں تڑپا کیا
قوم کو دکھلا کے کرکٹ، تخت بچ جاتے رہے
اِس نشے کو بھی تو تھا افیون میں نے ہی کہا
کیا کتابیں کیا سخنور، سب کی نا قدری ہوئی
اور میں جیتوں کے نوحے کیا سے کیا لکھتا رہا
’’بولیاں ‘‘ جو ایک صنفِ خاص ہے پنجاب میں
مجھ سے اردو شاعری میں یہ اضافہ بھی ہوا
مجھ کو بھائے ہے ہمارے ہاں ہے جو طنز و مزاح
پر اُسے مضحک بنا دینا نہیں اچھّی ادا
میں نہ وصل و ہجر میں پڑ کے گنواؤں ثانیے
میں جو رس چوسوں نئے لمحات کا بڑھ کر سدا
میں خلافِ جبر ہوں چاہے وہ ہو سُسرال کا
جس کا اپنے ہاں ہر اک عورت کرے ہے سامنا
آجروں سے بَیر میرا کارکن میرے عزیز
بیوگاں کا، اور یتامیٰ کا ہوں سانجھی برملا
میں کوئی تفریق بھی دیکھوں جو انسانوں کے بِیچ
غیر انسانی و حیوانی اُسے سمجھوں سدا
یہ گواہی ہر کہیں میرے سخن میں پاؤ گے
مجھ کو نفرت نفرتوں سے، میں ہوں چاہت پر فِدا
حرصیوں کو چاہے وہ تاجر ہوں، یا ہوں منتظم
ہر بگڑتے نظم کو ٹھہراؤں میں شاہی خطا
اور کئی مضمون بھی میرے، پسِ معنی نہاں
اور کئی دنیاؤں تک بھی ہے پہنچتا فن مرا
باعثِ تشویش ہیں ماجد! بڑے بُوڑھوں کے دُکھ
نسلِ نَو کی صحتِ کردار، میرا مسئلہ
٭٭٭
یہ ہے وہ نسخہ کہ جس میں ہے تری کامل شفا
خود بھی رہ جنبش میں اور پیسہ بھی کچھ جنبش میں لا
حرص میں جنس و پِسَر کے اور وسطِ عمر میں
دیدنی ہیں بچّیوں کے باپ جو کھو دیں حیا
اُن کے ناتے سایۂ قانون کو تم ناپ لو
گاڑیاں جو چھین لیتے ہیں کھُلے میں برملا
اتّحادی سے وزارت چھین کر دو اور کو
تخت والو!بعد میں تم دیکھنا ہوتا ہے کیا
وہ جسے ایکا کہیں، مشکل ہے دو شخصوں کے بیچ
بعد مدّت کے، یہ رازِ خاص ہے، ہم پر کھُلا
آگ تک میں بھی تو اکثر کھِل اُٹھا کرتے ہیں پھول
آبِ رحمت میں بھی ہوتا ہے نہاں سَیلِ بلا
ہنس دیا کرتا رہا ماجد۔ ۔ ۔ بہ میدانِ عمل
کھا کے کنکر نفرتوں کے، اہلِ نفرت سے سدا
٭٭٭
تھا تقابل پھول کا اور خار کا
سامنا ہم نے کیا دلدار کا
کوئی قیمت ہے نہ ہے اُس کا بدل
حرف ہے انمول وہ اِقرار کا
ہم ہمہ دم زیربارِ خویش ہیں
کیا اتاریں قرض ہم اوتار کا
جو بھی ہے پُر امن اُس کے واسطے
ناپسندیدہ ہے نام اوزار کا
زخم، دنیا بھر کے دکھلاتی ہے یہ
وصف ہے یہ دیدۂ بیدار کا
وہ کہ ہیں جو جانِ جاں ماہین و ذی
اُن کا جیون ہے سمندر پار کا
مجھ پہ مولا جی کا ماجد ہے کرم
سلسلہ یہ خِلقتِ اشعار کا
٭٭٭
طُرٔہ خاص ہے جو، ہے وہ سبب خواری کا
ہم پہ الزام اگر ہے، توہے بیداری کا
ہم پہ کب کھُلنا تھا فردوسِ زمینی کا سُراغ
ہم پہ احسان یہ سارا ہے کسی ناری کا
نقشِ دِل تب سے ہیں آئینوں میں اُترے چہرے
جب سے تھا ہم نے کیا پہلا سفر لاری کا
خرچ ہو جائے پہنچتے جو محلّات تلک
کیا نتیجہ ہو کسی آہ، کسی زاری کا
خوار و بیزار ہیں جنّت بدری سے اب تک
مسئلہ حل نہ ہُوا اپنی خطا کاری کا
تُو نے ماجد ہیں جو اِک خلق کے غم جاں پہ سہے
کوئی تمغہ بھی ملا کیا، تجھے جِیداری کا
٭٭٭
بھرا ہے پیٹ تھانیدار جی کا
سُنیں گے کیا وہ آوازہ کسی کا
وہ چنچل بھی اِسی صورت تھی مہکی
بہت اچّھا لگے کھِلنا کلی کا
وفورِ دود و گرد و شور سے ہے
عجب حُلیہ ہُوا ہر آدمی کا
جو کہتا ہے گروہِ نا مراداں
گھنا بجنا ہے وہ ظرفِ تہی کا
کہاں طوفاں میں ہم تھے بچنے والے
کرشمہ تھا وہ ہم پر داوری کا
شرافت پر یہ دھاوا بد زباں کا
ہے خمیازہ اگر تو اَن کہی کا
لیا تھا گُرگ کیونکر بازوؤں میں
قصور اِس میں تھا ماجد بس تمہی کا
٭٭٭
کھِل چکا تو پھول اگلے روز مرجھانے لگا
مجھ کو ایسے میں سحر کا چاند یاد آنے لگا
اُس نے بھی پاکٹ منی اپنی بڑھانے کو کہا
باپ اپنی بِنت کو گُڑیا سے بہلانے لگا
میں نے اپنی مُزد کم ہونے کا کیا شکوہ کیا
ہنس کے وہ آجر مرے الفاظ دُہرانے لگا
ٹمٹماتا تھا اندھیرے میں جو اِک مُکھ کا دیا
جبرِ شب سے ہار کر وہ بھی ہے بجھ جانے لگا
بادِ صرصر شرم سے گھبرا کے چھپ جانے لگی
پیڑ پر جب آخری پتّا بھی لہرانے لگا
سن کے پہلے تو اُسے کوئی نہیں تھا گَولتا
بعد میں تو بزم پر ماجد بھی چھا جانے لگا
٭٭٭
اندیشوں میں خوف و خطر جاری رکھنا
لا وارث سڑکوں پہ سفر جاری رکھنا
جس سے گماں ہو تم پر، پتّے بازی کا
تاجرو!منفی کسبِ سفرجاری رکھنا
ہم چاہت کے بیج نئے نت بوئیں گے
تم نفرت کا شغل اُدھر جاری رکھنا
چھِین نہ لینا تاب ہم سے بس رونے کی
تُند۔ ۔ ۔ رُتو! بارانِ شرر جاری رکھنا
جھونپڑیوں سے اُٹھ کے تخت ہتھیا لینا
پھر نقلِ گنجینۂ زر جاری رکھنا
نبیوں اور ولیوں کے بس میں بھی نہ ہوا
جیون بِپتا بارِ دگر جاری رکھنا
ہجر کی رات وہ رُوئے درخشاں یاد رہے
شغل یہ ماجد تا بہ سحر جاری رکھنا
٭٭٭
اپنے بچّوں کو بچاتے، گھر بھِڑوں کا پھوڑنا
کیا کہیں جائز ہے کیسے ضابطوں کا توڑنا
ازدواجی ربط اپنے ہاں وہ دھاگا ہے جسے
توڑنے کو دوڑتے رہنا ہے پھر ہے جوڑنا
ہاں یہی کہتی ہے غُرّاہٹ سگِ بے مِہر کی
کاٹتے ہیں جو وہی جانیں بہت بھنبھوڑنا
قید خانوں کے قواعد میں ہوئی شامل یہ بات
اُن کو جو پابندِ بندش ہیں۔ ۔ ۔ ’’کھُلا مت چھوڑنا‘‘
آبِ حُرمت کو سُنا کہتے یہ، سنگ انداز سے
آئنوں کا توڑنا ٹھہرے، دِلوں کا توڑنا
سُن کے حرفِ تلخ میں کیونکر لرزنے لگ پڑا
اے ہوئے نرم آنا، اور مجھے جھنجھوڑنا
ضعف کے ماجد! شناور ہیں، لغت ادوار کی
ہاں وہ سب کعبہ صفت ہیں، منہ نہ اُن سے موڑنا
٭٭٭
جو جو بھی تِیرِ جَور ہے پیوستِ جاں ہُوا
آتے دِنوں میں اُس کا ازالہ کہاں ہُوا
تھے گال چاند سے جو، توا ہو کے رہ گئے
قد سرو کو جو مات کرے تھا، کماں ہُوا
بِچھڑا اُدھر وہ اور اِدھر دل گیا پسیج
اشکوں کا قافلہ سرِ مژگاں رواں ہُوا
بیٹی نے کرب و جبر سہا تا اخیرِ عُمر
سنبھلی ذرا سی اُس کا بھی جب نام، ماں ہُوا
پَیروں تلے جو اپنی غرض کو تھا لَوٹتا
وہ شخص اب ہمارے لیے آسماں ہُوا
جس جس کے صحن میں بھی برسنے لگا ہے ’’ہُن‘‘
گھر گھر میں ڈاکوؤں کا لگایا نشاں ہُوا
تُم نے ہیں اِس میں دھڑکنیں کیا کیا اُتار دیں
ماجد! تری یہ شاعری، قلبِ تپاں ہُوا
٭٭٭
قضیّہ تنگ نظری کا چُکا دیتے تو اچّھا تھا
سیاست میں بھی موٹر وے بنا دیتے تو اچّھا تھا
جلا وطنی بھلے خودساختہ ہو، ہے جلا وطنی
سبق خودسوں کو اِتنا بھی سِکھا دیتے تو اچّھا تھا
رَوِش جو رہبری کی ہے تحمّل اُس میں اپنا کر
بہت سوں کو جہانِ نَوسُجھا دیتے تو اچّھا تھا
سیاست میں ہمیشہ، مسٹری ہے جن کا آ جانا
کرشمہ گر کوئی وہ بھی دکھا دیتے تو اچّھا تھا
عمارت جس پہ پہلے سے کہیں ہٹ کر بنی ہوتی
کوئی بنیاد ایسی بھی اُٹھا دیتے تو اچّھا تھا
وہی جو قوم کو بانٹے ہے جانے کتنے ٹکڑوں میں
وہ کربِ نفرتِ باہم مٹا دیتے تو اچّھا تھا
ترستا ہے جو ماجد عمر بھر سے موسمِ نَو کو
اُسے ہی کچھ خبر اچّھی سُنا دیتے تو اچّھا تھا
٭٭٭
میں شبانِ ہجر سا جو تشنۂ انوار تھا
اُس سجن سے مل کے لوٹا تو سحر آثار تھا
راہ گم کردہ رہے ہم تم تلاشِ خضر میں
رہنما جو جو ملا اچّھا نہ تھا، بیمار تھا
سہل تھا جینا یہاں بس کور چشموں کے لیے
دیدۂ بیدار تو اِک مستقل آزار تھا
ہم کہ سادہ لوح تھے، ہرگام پِٹ جاتے رہے
اور زمانہ؟ واسطہ جس سے رہا، ہُشیار تھا
پیر و مرشد تھا کہ تھا کوئی مریدِ باصفا
جس کو بھی پرکھا، ضرورت سے وُہی دوچار تھا
جانتے تھے وہ جنہیں، ایسے سے تھا پالا پڑا
تھی خداوندی بہم جس کو، وہی اوتار تھا
صاحبانِ اوج کی جانبِ کشاں تھا ہر کوئی
تو ہی ماجد ایک، کم حیثیّتوں کا یار تھا
٭٭٭
وہ کہ آمروں سے کیا تھا جو، وہ وفا کا عہد نبھا دیا
مرے منصفوں نے بہ جبر و زر سرِدار مجھ کو سجا دیا
ہوئے حکمراں بھی تو کیا ہوئے، جنہیں تھا جنونِ برابری
وہ کہ خاص و عام میں فرق تھا وُہی فرق گر، نہ مٹا دیا
تھی غرض تو بس مری جاں سے تھی، گئی جاں تو غیر ہوئے سبھی
مجھے نذرِ خاک و زمیں کیا مجھے اپنے ہاتھوں جلا دیا
کہیں تاجور کہیں خاک پا کہیں خاکِ پا سے بھی ماورا
میں کہ اس کے چاک کی خاک تھامجھے جیسا چاہا بنا دیا
کبھی برتری جو دکھا سکے تو فرشتگاں پہ بھی چھا گئے
کہیں آزمائی وہ سفلگی کہ ہمِیں نے عرش ہلا دیا
جو فلک پہ پائے گئے کبھی، تو ہمیں تھے راندۂ چرخ بھی
یہ زمیں کہ مادرِ مہرباں ہے، اِسے بھی ہم نے ہے کیا دیا
یہ وہی ہے جو ترے لطف سے کبھی شاعری کا الاؤ تھا
یہ تمہارا ماجدِ مبتلا ہے دئیے سا جس کو بجھا دیا
٭٭٭
رہ بہ رہ اور کُو بہ کُو تھا ٹھاٹھ سے مہکا کیا
میں پہن کر قربِ جاناں کو تھا جب نکلا کیا
بچّیوں کی ماں سے چھُپ چھُپ کے جو وہ جوڑا کیا
دوسری نے اُس کی اُس زر کادھڑن تختہ کیا
پتّا پتّا پھیل کر کل، پیڑ یہ کہتے سُنا
اے ہوائے تُند تُو نے حشر میرا کیا کیا
میں نے اِک اِک کرب پر دیوان لکھ مارے مگر
صاحبانِ بُغض نے اِس پر بھی واویلا کیا
اُس نے مجھ کو یہ کہا، وہ بھی کہا، کیا کیا کہا
اور میں بے چارگی میں سُن کے سب، پگھلا کیا
اُس میں، جو تاریخ لکھی جا رہی ہے آج بھی
کتنے بِیناؤں کو زور و زر نے ہے اندھا کیا
ہم کہ تھے خوش اعتقاد و نرم خُو ماجد ہمیں
شاطروں نے کن بہانوں سے غلام اپنا کیا
٭٭٭
جاں بدن میں ہی جلا دی کیا کیا
دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا
راہ چلتوں کی توجّہ پانے
زر شگوفوں نے لٹا دی کیا کیا
دیکھ کر پوتیوں پوتوں کی روش
رنج گِنوائے ہے دادی کیا کیا
روز خبروں میں دکھائی جائے
گونجتی مرگِ ارادی کیا کیا
کیا ہُوا ہے ابھی کیا ہونا ہے
وقت کرتا ہے منادی کیا کیا
ابر چھایا تو نشہ سا لاگا
اور خبر رُت نے اُڑا دی کیا کیا
٭٭٭
(غزل میں یہ تجربہ ماجد صدیقی کی غزل کی پہلی کتاب آغاز میں بھی موجود ہے، جہاں کچھ شعروں میں ردیف ارادتاً بدل دی گئی)
جبر نے ہم سب کے چپ رہنے کو کیا اچھّا کیا
شہر بھر کو خامُشی کا پیرہن پہنا دیا
کچھ نہیں نایاب لیکن ہے گراں یابی بہت
تاجروں نے بھی خلافِ خلق کیا ایکا کیا
کیا کہیں اِس عہد کے منصف بھی آمر ہو گئے
ہاں جنہوں نے بھی کیا جو، آمروں جیسا کیا
وہ کہ جو بھی تھا گُنی، ترسا کیا پہچان کو
جو بھی پتّے باز تھا قد اُس نے ہی بالا کیا
بالادستوں کا جو بالا دست ہے اُس ڈھیٹ نے
جو بھی برتاؤ کیا ہم سے وہ دانستہ کیا
وہ کہ نکلے ڈھونڈنے ماں باپ سے راہِ فرار
کیا کہوں ماجد! یہ دل، کیسے اُنہیں دیکھا کیا
٭٭٭
دل زدوں کو بالکوں جیسا ہی بہلائے گا کیا
وہ کہ پانی میں ہے اُترا چاند، ہاتھ آئے گا کیا
ہم اُسے دل جا کے دے آئیں مگر کس شرط پر
کیا کہیں ایسے میں آگے سے وہ فرمائے گا کیا
اتفاقاً آن اُترا ہے جو بامِ شوق پر
وہ ہلالِ عید سا منظر سے چھپ جائے گا کیا
ہم نے آنے دی ذرا سی بھی کمی گر چاہ میں
اِس خطا پر بھی ہماری وقت اِترائے گا کیا
لگ رہا ہے ہاں یہی، نیّت رُتوں کی اور ہے
باغ خَوفِ برق و باراں میں پنپ پائے گا کیا
وہ کہ شوخ و شنگ ہے ماجد ترا شیریں سخن
اشتیاقِ شوق میں خلوت میں دُہرائے گا کیا
٭٭٭
وقت اَن ہونی عجب دکھلا گیا
دل دہل کر ہے گلے میں آ گیا
ہم نے ہے ملہار بوندوں سے سنی
لُو بھبھوکا بھی ہے دیپک گا گیا
تُندخُوئی کا چلن اُس شوخ کا
رفتہ رفتہ ہے ہمیں بھی بھا گیا
کھیل میں نا اہل ہمجولی مرا
میری ساری گاٹیاں اُلٹا گیا
پیار جتلاتے بہ حقِ بیکساں
اب تو جیسے ہے گلا بھرّا گیا
صبحدم سے ہی ٹریفک کا دھُواں
کھِل اٹھے پھولوں پہ ماجد چھا گیا
٭٭٭
ہوتے ہوتے مرتبہ فتح و ظفر کا پا گیا
سُست رَو تھا اور تھا جو مستقل رَو، چھا گیا
جب سے ہے دو نیم ٹھہرا تن جنم استھان کا
تب سے اندیشہ ہمیں اگلی رُتوں کا کھا گیا
عدل قبضے میں لیا اور انتہا کی جَور کی
حق سراؤں تک کو آمر، کیا سے کیا ٹھہرا گیا
ہاں شفا مشروط جب اِذنِ جراحت سے ہوئی
زندگی میں بارِ اوّل میں بھی کچھ گھبرا گیا
ہم نے بھی ساون سمے تک دھوپ کے دھچکے سہے
زور طوفاں کا گھٹا، بارش کا موسم آ گیا
تیرتی ہے دیکھ وہ بدلی جلو میں دھُوپ کے
بام پر وہ دیکھ آنچل پھر کوئی لہرا گیا
ریگ کی وسعت سَرابی، زہر سی ماجد لگی
اور صحراؤں کا موسم تُندیاں دکھلا گیا
٭٭٭
میں کہ پابندِ رضا تھا، رُک گیا
جب بھی سگنل سُرخ دیکھا، رُک گیا
میں بدی سے بد کو رکھتا باز کیا
خود کو یوں کرنے سے روکا، رُک گیا
عدل کیا بھُوسہ بھی داموں پر بِکے
کہتے کہتے عدل والا، رُک گیا
حاکمیّت صورتِ زر بٹ چلی
قوم کا اک اک مداوا، رُک گیا
رگ بہ رگ اُترے ہیں کھٹکوں کے کلاٹ
خُوں بدن میں چلتا چلتا، رُک گیا
جب بھی انگڑانے پہ آیا سچ کبھی
جھوٹ والوں کا ’دِکھاوا‘ رُک گیا
ہر بُرائی اوڑھ کر نکلی نقاب
کون سا ماجد ہے دھندا، رُک گیا
٭٭٭
چھوٹتے ہی پیشِ مضروباں یہ سر خم کر لیا
اعترافِ حادثہ ہم نے ہے یک دم کر لیا
دو شرابوں کو ملانے کا مزہ چکھا کیے
دردِ جاناں، دردِ جاں میں ہم نے بھی ضم کر لیا
کم نہیں جمشید سے ہم بھی تو اپنی ذات میں
یار کا چہرہ ہے ہم نے ساغرِ جم کر لیا
گر ہُوا بھی تو ہے خُوباں سے تغافل یوں ہُوا
عشق کی لَو کو ذراساہم نے مدّھم کر لیا
ہاں بدن پِیری میں دُکھنے بھی لگے تو کم دُکھے
بچپنے کی یاد کو جب سے ہے مرہم کر لیا
رو رہے تھے لوگ دُکھ اپنے، سو ہم بھی رو پڑے
ہم نے بھی آنکھوں کو اپنی اس طرح نم کر لیا
چھیڑ کر بدنیّتوں کا ذکر جانے کس لیے
پھر ہوائے صبح کو ماجد نے ہے سَم کر لیا
٭٭٭
بشر کی چاہ کا ہم سے ہے انتساب، جناب
گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب
کبھی تو عظمتِ انساں فلک نشاں ہو گی
کبھی تو پائیں گے تعبیر اپنے خواب، جناب
گرا پڑا ہمیں دیکھا تو تم کہ جارح تھے
تمہیں بھی ہونے لگا کیوں یہ اضطراب، جناب
گھٹا کے رقص کی ہو یا تمہارے قرب کی ہو
نئی رتوں کی طراوت بھی ہے شراب، جناب
ہر ایک ٹیڑھ تمہاری، ہماری سیدھ ہوئی
یہ تم کہ خیر سے ہو اپنا انتخاب، جناب
یہاں کی لذّتیں بر حق مگر بہ عمرِ اخیر
بھگت رہے ہیں ہمِیں کیا سے کیا عذاب، جناب
ادا لتا کی زباں سے جو ہو تو ہو ماجد
غزل اک ایک تمہاری ہے لا جواب، جناب
٭٭٭
رحلِ دل پر اتر آئی ترے چہرے کی کتاب
منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب
ہم سے مانگے ہے وہ خیرات بھی صرفِ جاں کی
اور پاسخ بھی وہ مکتوب کا مانگے ہے شتاب
بام پر تیرے کبوتر کی غٹر غُوں اُتری
دل کہے یہ ترے سندیس کی ہے موجِ شراب
مستقل جان نہ کوئی بھی سہولت وقتی
دیکھنا ٹوٹ نہ جائے کہیں خیمے کی طناب
برق بھی ساتھ ہی ژالوں کے لپکتی لاگے
ایک کم تھا؟ کہ اُتر آیا ہے اک اور عذاب
کیا خبر رحمتِ وافر کی خبر لایا ہو
تیرتا آئے ہے وہ دُور سے اک سُرخ سحاب
ہو بھلے آنکھ مٹّکا وہ کوئی بھی ماجد!
جو بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے سدا زیرِ نقاب
٭٭٭
دے ہر دن ہر رات
نئے نئے صدمات
پیڑ کی ہیں اوقات
جھڑ جھڑ جاتے پات
تن تن نقش ملیں
لَو دیتی ضربات
کرب سے انساں کا
ہے جنموں کا سات
استقبال کریں
قدم قدم آفات
ایک ہنسی ہے جو دے
نِت رونے کو مات
ملنے ہوئے کٹھن
ماجِد اَن اور بھات
٭٭٭
بہ جبرِ باد اُچھالے گئے ہیں پات بہت
غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت
یہ ہم کہ بندگی عنواں ہے جن کے ماتھوں کا
خدا گری پہ ہیں اپنے تحفظّات بہت
مقدّمہ جو لڑا بھی تو اہلِ دل نے لڑا
گئے ہیں جِیت بہم تھے جنہیں نُکات بہت
رسا ہوا ہے کہیں بھی نہ کوئی آوازہ
اُٹھے ہیں جو بھی کٹے ہیں وہ سارے ہات بہت
بڑا ہی ارزل و اسفل ہے یا ہے تُخمِ حرام
بَکے ہے صبح و مسا جو مغلظّات بہت
سیاہ دھَن سے سیاہ کاریوں تلک ماجد
یہاں ہمارے سَروں کی ردا ہے رات بہت
٭٭٭
قربتِ یار کا جب سے ہے احساس بہت
لگتا ہے دولت ہے اپنے پاس بہت
جو چاہا تھا ویسا دستر خواں نہ ہُوا
زرد پُلاؤ کی بگڑی ہے چاس بہت
بیٹے کا تھپّڑ ہے جب سے بہو کو لگا
خوش خوش رہتی ہے اُس دن سے ساس بہت
بھُٹّو اور بی بی تو یہ ہضما نہ سکی
اپنی قوم کو زر داری ہے راس بہت
کبھی کبھی لینے کو جو آ جاتی ہے
لطفِ فزوں کو ہے وُہ گلوں کی باس بہت
کچھ غیروں نے کی حالت پتلی اپنی
کچھ ہم نے بھی کی ہے ستیاناس بہت
رس جیسے موسم کے آموں سے چھلکے
ماجد تیرے سخن میں بھی ہے آس بہت
٭٭٭
ہاں ہاں گلے لگائے ہیں رنج و محن بہت
زر کم کمائی ہم نے، کمائی تھکن بہت
شاید کرے ہمیں بھی زمانوں کا حکمراں
ہاں ہاں ہمیں بہم ہے جو نقدِ سخن بہت
ہاں دھجیاں رہی ہیں ہمیشہ غِلافِ دل
زیبِ بدن تھے گرچہ نئے پیرہن بہت
فقدانِ گل کی ہو، کہ ہو قحطِ صبا کی بات
جانچا کیے سخن میں بس اپنا چمن بہت
ہم صف ہیں کچھ تو اُن میں ہیں کچھ حکمران بھی
درپے ہماری قوم کے ہیں گورکن بہت
فن میر و فیض کا ہو، کہ جگجیت کی وُہ دھُن
ہر آن کھینچتے ہیں ہمیں سرو تن بہت
ساغر ہو لب بہ لب کہ ہو بوتل نشے کی بند
ایسوں ہی کی ہے بس ہمیں ماجد لگن بہت
٭٭٭
جمہوریت میں بھی ولی عہدوں کا رواج
سچ ہے اپنے خداوندوں کا ہے یہ کاج
کھوج لگانے پر جانے کیا کیا نکلے
خوب ہے چھپے رہیں گر ہَما شُما کے پاج
ہمیں ارادت آقائی و غلامی سے
ہم کرتے ہیں ادا جانے کس کس کا باج
ساری دوائیں بہر فسادِ جسم بنیں
دل کے میَلوں کا ہو بھی تو کیا ہو علاج
بعد بیاہ کے ٹھہریں تختۂ مشق سبھی
بیٹیاں پھنّے خانوں کی بھی کریں کب راج
آنے و الا ہو یا بِیت گیا کل ہو
پیشِ نظر رکھنا ہے ہمیں تو آج ہی آج
قیس کو ہے توقیر، سگِ لیلیٰ تک کی
عشق پرستوں کا ہے ماجد اور سماج
٭٭٭
ناچتی ہیں دُوریاں، انگناؤں میں، پیاروں کے بِیچ
پھُوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ
بِن گُنوں کے محض رِفعت سے جو وجہِ ناز ہیں
دَب گئی ہے میری کُٹیا کیسے مِیناروں کے بِیچ
لے گئے ہیں دُور شہ کو لوک دانائی سے دُور
ہاں وہی رخنے کہ ہیں اَیواں کی دیواروں کے بِیچ
وہ کہ ہیں زیرِ تشدّد، اور لاوارث بھی ہیں
اُن کے قصّے نِت چھِڑیں شغلاً بھی اخباروں کے بِیچ
جو نہ سُلگے، جو نہ بھڑکے، پر تپاتے تھے بہت
زندگی گزری ہے اپنی اُنہی انگاروں کے بِیچ
کوئی یوسف ہو سخن کا، چاہے وُہ ماجد ہی ہو
کیا پتہ وجہِ رقابت ہو وہ مہ پاروں کے بِیچ
اب سے ماجد ٹھان لے، اُس کے سِوا کچھ بھی نہ کہہ
جونسا تیرا سخن شامل ہو شہکاروں کے بِیچ
٭٭٭
دل جھیلوں میں اُترا چاند
مکھ ہے ترا کہ یہ پُورا چاند
مجھ کو دیکھ کے اِترایا
تجھ کو دیکھ کے سمٹا چاند
ضو اُن سب سے پھوٹ بہی
جن رستوں سے گزرا چاند
دیکھا بیٹھ کے پاس اُس کے
بِن تیرے تھا ادھورا چاند
جس نے اُسے ہے زیر کیا
تھکے نہ اُس کو تکتا چاند
٭٭٭
رکھے دُلہن یہی آس
کب سُلجھے گی ساس
ایک امانت ہے
میری، اری! ترے پاس
زردہ پکے نہ ٹھیک
ٹھیک نہ ہو گر چاس
پرچارک سچ کے
جھوٹ سبھی کا لباس
فِیس کی دھُن میں طبیب
کر دے ستیا ناس
بیٹیوں کو سر تاج
کم کم آئیں راس
ماجد کام آغاز
کر، جب کر لے ٹاس
٭٭٭
گنوں سے تھے جو عجب آشکارا لوگ
ہم سے بچھڑ گئے ہیں بہت سے ستارا لوگ
ایسے بہت ہیں کام بہت سوں کے آئیں جو
دیکھے ہیں آس پاس بہت سے سہارا لوگ
حاکم تو ٹیکس پچھلے بلوں پر بھی ٹھونک دیں
سہتے ہیں اپنی جان پہ خود ہی خسارا لوگ
وہ چاہتا ہے اُس کی بقا میں نہ آئے فرق
سمجھے نہیں ہیں شاہ کا تازہ اشارا لوگ
جتنی کہاوتیں ہیں وہ فیضان اِن کا ہیں
کرتے ہیں بات بات کا کیا کیا نتھارا لوگ
ہم ہیں تو کوئی پوچھنے والا ہمیں نہیں
کل جانے کتنا سوگ کریں گے ہمارا لوگ
عیّاش حاکموں کی نہ رہ اِن سے رک سکے
گر پڑ کے کر رہے ہیں جو ماجد گزارا لوگ
٭٭٭
ستّر سے بھی اُوپر ہو گئے، ماجِد! عمر کے سال
اب تو ڈھنگ سے جینے کی کوئی طُرفہ راہ نکال
اپنا غم، اوروں کے غم، ۔ ۔ ۔ اور، اور کئی جنجال
سانسوں تک میں اُترے دیکھیں اِن فِتنوں کے جال
سورج چندا تک تو ہمارے انگناں اُتریں روز
کسے بتائیں کس سے کہیں ہم، جا کر اپنا حال
اور نہیں خود ہمِیں اُٹھائیں قدم نئے سے نیا
پھر کا ہے کو دُوجوں سے ہم رہنے لگیں نِڈھال
دھڑکن دھڑکن خوں میں ہمارے جو موجود رہے
ہاں یہ وقت ہے ہم سے جو، کھیلے ہر اُلٹی چال
میں ہوں کہ تُو، ہم حرصی خود سے کبھی کہیں نہ یہ بات
’’اپنی قامت مت نیہوڑا، مت نئے بکھیڑے پال‘‘
اچھّا ہے اپنے اندر کا، موسم دھِیما رکھ
شدّتِ سرما سے سمٹے، گرمی سے اُدھڑے کھال
٭٭٭
قوس قزح میں، رنگِ شفق میں دِکھا جمال
جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال
حالات کا گراف صعودی ہوا ہے یوں
امسال اور تلخ ہے جتنا تھا پچھلا سال
نمٹا اُسے ہی جو روشِ کج کی دَین ہے
کہتا ہے کون، اور بکھیڑوں میں خود کو ڈال
ہجر و وصال کی ہے کہیں، سازشوں کی ہے
ہر فون پر ہے اور اداؤں کی قیل و قال
بیٹے کی چاہ میں ہیں اگر بیٹیاں بہت
مردِ حریص!اور کوئی راہ دیکھ بھال
نسبت اگر ہے لمحۂ موجود سے تری
ہتھیا کہیں سے عزم و عمل کی بھی کوئی فال
ہیں اور بھی تو ساحر و منٹو و فیض سے
ماجد پٹے ہوؤں کی نہیں ایک تو ہی ڈھال
٭٭٭
جیون دِیپ نے بُجھ جانا ہے آج نہیں تو کل
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل
جاناں تیرا قرب بجا، پر وقت ندی کے بیچ
ہجر نے بھی تو تڑپانا ہے آج نہیں تو کل
وہی جو قیدِ حیات میں بھگت چکی ہے اُسکی ماں
دوشیزہ نے دُہرانا ہے آج نہیں تو کل
ہم نے رخش وہ چھوڑنا کب ہے، جس پہ سوار ہیں ہم
بد خواہوں نے شرمانا ہے آج نہیں تو کل
پیڑ نہ جانے اُس کی سج دھج کا باعث ہیں جو
برگ و ثمر نے جھڑ جانا ہے آج نہیں تو کل
ذہنوں ذہنوں روز بروز پنپتی نفرت کے
زہری ناگ نے اِٹھلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد اِس پہ نظر رکھنی ہے ہر لحظہ ہر گام
بے عملی نے دہلانا ہے آج نہیں تو کل
٭٭٭
خواب مری اور مرے سَراب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
سروِ کِنارِ جُو کا اسیر، میں چشمِ آہو کا اسیر
میرا نشہ اور مری شراب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
میرے گمان اِنہی جیسے میرے یقین اِنہی جیسے
مجھ پر اُتری نئی کتاب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
میرے پروں کو دلائیں جِلا دیں یہ مجھے رفتارِ صبا
طُولِ سفر میں یہ مری رکاب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
اِن میں سحر کا عکس ملے رگ رگ تھر تھر رقص ملے
ہائے ملیں کب کب یہ شتاب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
یاد دلائیں نئے پن کی سوندھی مہک مٹی جیسی
گھِر گھِرکے آتے یہ سحاب تتلیاں، بچّے، کھِلتے پھول
طُرّۂ فن ہیں یہ ماجد کامتنَ سخن ہیں یہ ماجد کا
جنسِ معانی کے ہیں یہ باب تتلیاں بچّے کھِلتے پھول
٭٭٭
سج چلا ہے پھر کسی چندا سے بام
پھر سہانی ہو چلی، نظروں کی شام
خوف پھر لاحق ہُوا فرعون کو
ہو چلا بچّوں کا پھر سے قتلِ عام
بُوزنے کے ہاتھ میں ہے اُسترا
اور وہ بھی خَیر سے ہے بے نیام
کج روی پھر عدل کی پکڑی گئی
ہے سڑک پر پھر عوامی اژدہام
دم بہ دم وہموں سے لرزاتا رہے
کیا سے کیا رسوا کرے اِیقانِ خام
بُوندیوں کی رُت میں کیوں آتا نہیں
دسترس میں، ہائے ! اُس پیکر کا جام
بچ کے ماجد اُن سے رہ تُو، جن کے ہے
اللہ اللہ منہ پہ، دل میں رام رام
٭٭٭
شیرین و تلخ ہونٹ لگیں اُس کے اپنا جام
چشمان و جسم میں لگے یکجا نشہ تمام
ضم کر لیا جمال میں اُس نے مرا جلال
میں تھا سراپا تیغ تو وہ سر بہ سر نیام
آب و ہوا سا رزق بھی یکساں ملے نہ کیوں
اوّل سے آج تک ہے مٔوقف مرا مدام
ہاں گھُرکیوں کی آنچ سے محنت کی دھوپ سے
محنت کشوں کے جسم پہ جھُلسا لگے ہے چام
کھِیسے میں عمر بھر کی کمائی اِسی کے ہے
عمرِ اخیر، جس کو کہیں زندگی کی شام
روشن اُدھر غزل میں ہے باقی کی چھوٹی بحر
پنڈی میں نُور بافتہ اُس کا اُدھر ’’سِہام‘‘
ماجد سخن میں مشق و ریاضت کچھ اور کر
چمکا نہیں ہے، چاہیے، جس طرح تیرا نام
(سہام:باقی صدّیقی کے گاؤں کا نام)
٭٭٭
لے کے سینوں میں پھریں حبس دوام
ہم غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام
پُوچھتا ہے کون مایہ دار اُنہیں
دھوپ میں جاتے ہیں جل جل جن کے چام
فنڈز ڈیموں کے کرو تم غت رَبُود
سَیل کو ٹھہراؤ مقسومِ عوام؟
ہر عقیدہ پختہ تر زردار کا
خام ہے تو ہے یقیں مفلس کا خام
ہے کہاں یاروں کا وہ چنچل طلوع
چاروں جانب کیوں اُتر آئی ہے شام
تم سخن ماجد! کہاں ہو لے چلے
اینٹیاں ٹھہریں جہاں یوسف کے دام
٭٭٭
فتنے بہت ہیں، خیر کے پہلو بہت ہی کم
شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم
یابس فضا کا صید ہیں کیا کیا غزال چشم
رونا کسے بہم کہ ہیں آنسو بہت ہی کم
اک سمت دہشتی ہیں تو اک سمت خوش خصال
گیدڑ یہاں کثیر ہیں، آہو بہت ہی کم
باطن میں ہے کچھ اور پہ ظاہر ہے بے مثال
گھر گھر سجے گلوں میں ہے خوشبو بہت ہی کم
جانے رخوں کی رونقیں کیوں محو ہو چلیں
انگناؤں تک میں دِکھتے ہیں مہ رُو بہت ہی کم
بازار میں غرض کے سوا اور کس کا راج؟
ملتے ہیں اہلِ سُوق میں خوش خُو بہت ہی کم
ماجد ہے کنج گیر جو تو کس سبب سے ہے ؟
جاتا ہے بزم بزم میں کیوں تو بہت ہی کم
٭٭٭
بڑے بھی ہیں تو فقط وہم میں گمان میں ہم
ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم
توہمات، تمنّائیں اور بے عملی
بسائے رکھتے ہیں کیا کیا یہ قلب و جان میں ہم
پھر اُس کے بعد تھکن اور خواب خرگوشی
دکھائیں تیزیاں کیا کیا نہ ہر اُٹھان میں ہم
نظر میں رکھیے گا صاحب ہمارے تیور بھی
بہت ہی رکھتے ہیں شیرینیاں زبان میں ہم
یہ ہم کہ سبز جزیرہ ہیں بیچ دریا کے
ہیں کتنے سیربس اِتنی سی آن بان میں ہم
کوئی نہیں ہے جو ہم میں سے اتنا سوچ سکے
تنے ہوئے ہیں ہمہ وقت کیوں کمان میں ہم
سخن میں صنفِ غزل جس کا نام ہے ماجد
ہیں محو و مست اِسی اِک سریلی تان میں ہم
٭٭٭
مستِ چشم و نگاہِ یار ہیں ہم
پی نہیں پھر بھی میگسار ہیں ہم
ہمِیں ابلیس بھی فرشتے بھی
نور بھی ایک ساتھ نار ہیں ہم
چھپ نہ پائیں کسی کے عیب ہم سے
ہاں بلا کے نگِہدار ہیں ہم
ہم کہ ہوتے ہیں شعر شعر شمار
مان لیں یہ تو بیشمار ہیں ہم
نقش ہوں گے دلوں پہ ہم بھی کبھی
میر و غالب سے یادگار ہیں ہم
میں ہوں، یاور مرا، مرا ذیشان
ہر صدی بِیچ حرفِ جار ہیں ہم
کیوں اُتارے تھَڑے روایت کے
یوں بھی ماجد گناہگار ہیں ہم
٭٭٭
آج کے اِس عہد شیریں کا نیا فرہاد بن
حکمراں میرے وطن کے ! ملک کی اولاد بن
فکر کر امروز کی اور فکرِ فردا چھوڑ دے
چھوڑ سارے وسوسے تو بندۂ آزاد بن
نقش کر کے آ گزرتی ساعتوں پر اپنا دل
ہاتھ سے نکلے زمانوں کی سہانی یاد بن
عظمت انسان کے یا ناتواں کے کرب کے
کر وظیفے رات دن اور حافظِ اوراد بن
فتح کر لے خوبیوں سے جو نگر والوں کے دل
خوشبوؤں سے لیس ہو کر آئے جو، وہ باد بن
خدمت خلقت کا جس کو ہو فراہم مرتبہ
باعثِ آسودگی ٹھہرے جو، وہ ایجاد بن
گھر ترا، تیرا سخن ’ماجد نشاں‘ ہے اور تو
جانِ ماجد فکر تازہ سے سخن آباد بن
٭٭٭
جیے جو ہم تو، بِتایا کیے عتاب کے دن
بقولِ واعظاں آگے بھی ہیں عذاب کے دن
کیا جو ہم نے، نہ آیاکسی شمار میں وہ
ہمارے نام رقم ہیں بس احتساب کے دن
فسانے جو تھے حقائق نے کر دئیے عریاں
یہ اب جو ضعف کے ہیں، ہیں یہ سب خضاب کے دن
کتابِ زیست میں اب تک ہیں ضَو فشاں جاناں
تمہارے قرب کے دن تم سے انتساب کے دن
بھلے وہ نیّرِ رخشاں ہی کیوں نہ دے جائے
طلوع ہوں تو بس اندر سے آب و تاب کے دن
کھِلے بھی ہم تو سجائے گئے کہاں سے کہاں
رضا پہ اوروں کی موقوف جُوں، گلاب کے دن
نجانے کیوں پسِ آفاق کھو گئے ماجد
وہ ماہتاب کی راتیں وہ آفتاب کے دن
٭٭٭
آنکھوں سے تری جو ہویدا ہے وہ کیف کسی منظر میں کہاں
جو تیری قرابت میں ہے نشہ وہ اور کسی ساغر میں کہاں
تُو بات کرے تو پھول جھڑیں مستی چھلکے تری آنکھوں سے
جو طنطنہ تیرے سخن میں ہے وہ اور کسی کے ہنر میں کہاں
جو باس جلو میں ترے ہے سجن کیا کہنے اُس کی تمازت کے
جو تیری نگاہ میں ہے جاناں !گرمی وہ حصولِ زر میں کہاں
تن من کو جو پل میں جگا ڈالے مائل جو کرے جل مِٹنے پر
جو آنکھ تری میں شرارت ہے، وہ اور کسی بھی شرر میں کہاں
جو ذہن و بدن کو جِلا بخشے، حدّت جو لہو کو دلاتی ہے
جو یاد تری سے ہے وابستہ وہ تازگی رُوئے قمر میں کہاں
قدموں میں جو تاب و تواں اُتری کب جسم میں ایسی توانائی
چلنے میں شرف ہے جو سمت تری وہ اور کسی بھی سفر میں کہاں
جس عمر میں چاہتے ہو کہ بڑھو پھر رفعتِ قاف کی جانب تُم
ایسی بھی توانائی ماجِد!اِس عمر کے بال و پر میں کہاں
٭٭٭
کھِل کے نہ پھر مرجھائیں سیّاں
تازہ جنم دہرائیں سیّاں
اچھے وقت کے نام پہ ہم لیں
اک دوجے کی بلائیں سیّاں
آس کے پودے پھر سے ہرے ہوں
کاش وہ دن لوٹ آئیں سیّاں
پلٹے قُرب کی عید کا دن اور
شوق کی پینگ جھلائیں سیّاں
بے چینی بڑھ جائے بدن کی
باہم گھل مل جائیں سیّاں
اپنے انگناں دیپ جلانے
جسم کی آنچ جگائیں سیّاں
ماجد چھپ کر بیٹھ رہیں تو
اُس کو کھوج دکھائیں سیّاں
٭٭٭
کیمرے اِن دو آنکھوں کے سنبھال میاں
سینت اِن میں آخر تک کے احوال میاں
جھاڑ کے پچھلے پتے نئی بہار منا
خود سے عہد نیا کر سال بہ سال میاں
عقل تری بھی ہے مانند، سیاست کے
جان کے چل اِس حرّافہ کی چال میاں
یہی تو سرِ ورق ہے تیرے ظاہر کا
تازہ رکھ تو اپنی روشن کھال میاں
جیتے دم گر دن ہو جائے سیہ بھی کوئی
اُس کو سمجھ اپنے مکھڑے کا خال میاں
جن میں الجھ کے اپنے آپ پہ حرف آئے
جی میں پال نہ ایسے بھی جنجال میاں
ماجِد!رُو بہ عروج ہے تو، بس یہ دنیا
جس کی اک اک شے ہے رُو بہ زوال میاں
٭٭٭
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
ہاں اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
٭٭٭
جیب میں گھٹتی کوڑیاں، نام لکھیں زرداریاں
لاحق ہیں ہر شخص کو قدم قدم بے زاریاں
اصل نہ ہو تو سُود کیا، ہو اپنی بہبود کیا
کیسی دُور اندیشیاں، کا ہے کی بیداریاں
گُل جی اور رئیس نے، بھٹو اور سعید نے
بھُگتیں بدلے خَیر کے کیا کیا کچھ خوں خواریاں
ہجرکے در بھی کھول دیں، وصل کے در بھی وا کریں
موٹر وے پر دوڑتی آتی جاتی لاریاں
پنچھی وہی غلام ہوں، وہی اسیرِ دام ہوں
جنکے تنوں پر نقش ہوں گردن گردن دھاریاں
لطف اُنہی کے نام ہوں، اِس دو روزہ زیست میں
جن کے عزم بلند ہوں، بالا ہوں جیداریاں
اب بھی جھلکیں ماجدا! نقش نظر میں گاؤں کے
پینگ جھلاتی عید کو پتلی لانبی ناریاں
٭٭٭
اُس نے گھٹیا پن دِکھایا ہے تو اُس کا کیا کروں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ایسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ، میں نامے جنہیں بھیجا کروں
سُرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
سامنے قدموں کے کھائی بھی اگر دیکھا کروں
مجھ کو ہر قیمت پہ دھُن بس کچھ نہ کچھ پانے کی ہے
میں نے کیا کھویا ہے اِس میں، یہ نہ اندازہ کروں
دھَجیاں اخلاق کی یوں ہیں گرانی سے اُڑیں
میہماں کوئی ہو اگلے پل اُسے چلتا کروں
وقت نے تو کب کے ہیں جُوتے مرے اُلٹا دئے
میں بھی تو ایسے اشارے کچھ نہ کچھ سمجھا کروں
میرے اندر کا ضمیرِ مستعد بولے یہی
بے ضمیروں سے بھی ماجد میں سلوک اچّھا کروں
٭٭٭
اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
کوئی عارض ہو درخشاں، کوئی قامت دل نشیں
اپنے آئندہ سفر کے واسطے میں زاد لُوں
کاش قُرعے ہوں سپھل میرے بہ حقِ خستگاں
اپنے داموں میں بھی نِت اِک شہرِ نَوآباد لُوں
کیسے پُوری کر دکھاؤں سب مرادیں میں تری
میں بھلا تیری خبر کیا اے دلِ ناشاد لُوں
کون زیرِ چرخ پہنچے گا رسائی کو مری
اپنے ذمّے میں کہ یہ اِک خلق کی فریاد لُوں
اپنے ہم عہدوں میں منصف ہے تو اِک یاور ہی ہے
میروغالب ہوں تو اُن سے اپنے فن کی داد لُوں
ناپ کو ماجد فراہم ہوں اگر اُونچائیاں
میں سخن کے واسطے اپنے قدِ شمشاد لُوں
٭٭٭
مرا نصیب یہ ہے خود کو بے نوا مانوں
اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں
خمیر جس کا فقط گرد ہی سے اُٹھا ہو
میں ایسے ابر کو کس کھیت کی ردا مانوں
مری مراد پہ قابض ہیں بندگانِ خدا
کسے صغیر کہوں کس کو کِبریا مانوں
اِک عزم کا ہے سمندر تو اک کرم کا سحاب
جگر کو قلب سے کس طرح میں جدا مانوں
جسے کھنگال کے دیکھا وہ تھا اسیرِ ہوس
کسے حریص کہوں، کس کو با صفا مانوں
دباؤ کے ہیں کرشمے جسے جدھر لے جائیں
کسے میں فحش کہوں کس کو با حیا مانوں
یہ میرے فرق پہ چھاتا سی ہے جو صحرا میں
اِس اُڑتی ریت کو جُز ریت اور کیا مانوں
بروئے ارض ہم اہلِ خدا ہی کیوں کم ہیں
میں اہلِ شر کا یہ کیوں قولِ فتنہ زا مانوں
بڑا تضاد ہے ماجد کہے میں ہر دو کے
بڑوں کا یا میں نئی نسل کا کہا مانوں
٭٭٭
فیض اگر اِدراک سے پاؤں
بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں
بادل ہُوں تو پھر کا ہے کو
اِک بستی پر ہی میں چھاؤں
علم نزاکتِ وقت کا ہو گر
صیغۂ غیب سے تِیر نہ کھاؤں
جن کی لگن میں جلاؤں کلیجہ
میں اُن کو اِک آنکھ نہ بھاؤں
بے حس ہیں جو منافق ہیں جو
کیوں مظلوم اُنہیں ٹھہراؤں
ماجِد تخت نشین نہ جانے
جو دُکھ میں فن میں گِنواؤں
٭٭٭
کیا کیا نہ رُوکشاں ہیں، ہمارے نصیب میں
کیسی یہ تتلیاں ہیں، ہمارے نصیب میں
اُڑ کر بہ شکلِ گرد فلک پر جو چھا گئیں
بے فیض بدلیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہر چالباز اپنے بیاں داغتا ملے
کیا کیا یہ سُرخیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہوتے ہیں فِیڈ دُور کے آقاؤں سے یہ لوگ
روبوٹ حکمراں ہیں ہمارے نصیب میں
جھانسے دلائیں منزلِ مقصود کے ہمیں
قزّاق کشتیاں ہیں ہمارے نصیب میں
مقصد ہے ایک ایک کٹی ڈور سی پتنگ
بے انت دُوریاں ہیں ہمارے نصیب میں
ماجِد ہیں اوڑھنا سا ہمارا جو بن چکے
جذباتِ حاسداں ہیں ہمارے نصیب میں
٭٭٭
باغ کھلایا آنگن میں
یار بُلایا آنگن میں
ہم کا ہے کو سجائیں بھلا
یار پرایا آنگن میں
ہاں بعضوں کو دفن ملی
غیبی مایہ آنگن میں
زہر پڑوس جلاپے کا
آن سمایا آنگن میں
عزمِ مکیناں نے ماجد
ہُن برسایا آنگن میں
٭٭٭
بَیر نہ ہوں باہم گر اپنے شاہوں میں
خوف دراڑیں ہوں کیوں شہر پناہوں میں
جانے کب آئے وہ راج بہاروں کا
چہرہ چہرہ پھول کھلیں کب راہوں میں
غاصبوں جابروں کے جتنے فرزند ملے
ہاں اُن ہی کا شمار ہے اب ذی جاہوں میں
پھول جو توڑنا چاہے لے گئے اور اُنہیں
خالی خُولی ٹہنیاں رہ گئیں بانہوں میں
اِس دنیا میں جانے ہمِیں کیوں، ایسے ہیں
گِنے گئے جو بے راہوں، گُمراہوں میں
مُلکوں مُلکوں اپنا تأثر بِگڑا ہے
خلقِ خدا ٹھہری، اپنے بدخواہوں میں
اپنے پاس ہے ماجِد! مایہ، بس اتنی
یہ جو گُہر اشکوں کے ہیں آنکھوں، آہوں میں
٭٭٭
جان اتر آئی ہے ساری، آنکھوں میں
جھانکے ہے اِک خلق، ہماری آنکھوں میں
دیکھنے والیوں نے جب لطف سے دیکھا تو
ساون سی اُتری میخواری، آنکھوں میں
سائل جب دربار سے لوٹ کے آئے تو
دیدنی تھی اُن کی لاچاری، آنکھوں میں
لیڈر ساہوکار یہاں کے اور عوام
لکھوا لائے ہیں ناداری آنکھوں میں
راہنما نظر یوں اثاثوں پر رکھیں
ٹیکسی والا، جیسے سواری آنکھوں میں
غور سے دیکھا جب ماجد تو دکھائی دی
فرد ڈھٹائی، کاروباری آنکھوں میں
٭٭٭
جگہ جگہ غربت کے، مہنگائی کے، اژدر دیکھوں میں
شہروں شہروں، گاؤں گاؤں کیا کیا منظر دیکھوں میں
جن جن کے ابّ و جد نے بھی اُلٹے پیچ لڑائے تھے
جاہ و جلال کی کرسی پرایسے ہی افسر دیکھوں میں
اپنے یہاں پھیلائیں نہ کیوں ؟ضَو عقل کی دوسری دنیا سی
اپنے مخالف، اپنے بَیری، یوں مہ و اختر دیکھوں میں
لوٹ کھسوٹ کی خاطر بازاروں میں مراتھن ریس لگے
جس میں شامل لوگ نہ کیا کیا کہتر و مہتر دیکھوں میں
جیسے لا وارث بچّوں کا ورثہ اُن کے بڑوں میں بٹے
راج راج کے گِدھ ٹولوں میں بٹتے یوں زر دیکھوں میں
پھیلائے جو اپنوں اور غیروں نے نئے اندیشوں کے
شام سویرے پیروں تلے ماجِد وہ اخگر دیکھوں میں
٭٭٭
خود کو ناقدروں سے کہیں نہ لٹا بیٹھیں
یار ہمارے پاس ہمارے آ بیٹھیں
میڈیا والے کہہ کے یہی نت سوتے ہیں
تنگ عوام عدالتیں خود نہ لگا بیٹھیں
گھونسلے بے آباد کریں جب چڑیوں کے
حرصی کوّے اگلے بام پہ جا بیٹھیں
سینت سنبھال کے جگہ جگہ سامانِ فنا
انساں خود ہی حشر کہیں نہ اُٹھا بیٹھیں
بے گھر بے در سارے آگ سے غفلت کی
سوتے سوتے جھونپڑیاں نہ جلا بیٹھیں
خواہشیں جن کی، دے کے جنم، روکے رکھیں
بچے ماں اور باپ کو سچ نہ سجھا بیٹھیں
ماجد صاحب ہم بھی باغی دلہن جیسا
زیورِ کرب نہ اپنی جبیں پہ سجا بیٹھیں
٭٭٭
عورتیں جس خاک پر جیتے دموں جلنے لگیں
اُس زمیں پر کھیتیاں شاہوں کی ہیں پھلنے لگیں
اپنی صبحیں دیس میں ہلچل سے رہتی ہیں اُجاڑ
جتنی شامیں ہیں اُداسی میں ہیں وہ ڈھلنے لگیں
دو دھڑوں کے بیچ کب اک سا چلن ہے عدل کا
ایسی نازیبائیاں کیوں ذہن میں پلنے لگیں
دورِجمہوری میں کیوں ہیں وسوسے سے دل بہ دل
لب بہ لب کیسی یہ افواہیں ہیں جو چلنے لگیں
مشکلیں پیدا ہوں نا اندیشیوں کے بطن سے
یہ نہ ہوں گر کم تو کیسے مشکلیں ٹلنے لگیں
حکمرانوں کی ہیں جو نا اہلیاں، اِک خلق کو
بندشوں سے برق کی اور آب کی تلنے لگیں
فکر کے دھارے میں ماجد نو بہ نو کھٹکے ہیں کیوں
فصلِ نَو میں بُوٹیاں کیسی ہیں یہ پلنے لگیں
٭٭٭
عزم ہے یہ، دُکھ جتنا دیکھیں
پیر کبھی نہ اکھڑتا دیکھیں
رحم کریں اُس پر اُتنا ہی
جتنا جس کو سفلہ دیکھیں
گانٹھیں ساتھ تنے کے ایکا
جب بھی پیڑ اُکھڑتا دیکھیں
اگلا مطلع دھیان میں رکھیں
سورج جب جب ڈھلتا دیکھیں
کم دیکھا ہے جو کچھ دیکھا
اور نہ جانے کیا کیا دیکھیں
ماجد چال میں ٹیڑھ نہ آئے
جانبِ منزل سیدھا دیکھیں
٭٭٭
پایۂ تخت ہِلا کر دیکھیں
ایواں بھی لرزا کر دیکھیں
پاس جو دیں نہ بھٹکنے، اپنے
اُن کے یہاں بھی جا کر دیکھیں
اپنی آس کے چِلّے پر ہم
آخری تِیر چڑھا کر دیکھیں
ہر سکرین منافق نکلے
چینل بھلے گھما کر دیکھیں
ہر منظر کا مزہ لینے کو
اپنی نظر اُجلا کر دیکھیں
تن من جس سے آسودہ ہوں
جاں بھی کبھی سہلا کر دیکھیں
سر ہے فراز نشاں سو اِس کو
ماجد اور اُٹھا کر دیکھیں
٭٭٭
تا بہ منصف، تا بہ شہ، رستہ رسائی کا نہیں
قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں
ہاں بہت مَیلے ہیں وہ، لیکن مفیدِ رہبراں
مجرموں کو کوئی اندیشہ دھُلائی کا نہیں
کیا سے کیا کھُل کھُل چلی ہے اُسکے چہرے کی کتاب
ہم کریں تو کیا، کہ اب موسم پڑھائی کا نہیں
رگ بہ رگ اِک دوسرے میں آخرش ضم یوں ہوئے
یار سے کوئی علاقہ اب جُدائی کا نہیں
ہاتھ سُکھ کی بھیک کو اُٹھنے لگے ہیں یا خدا
ہم نے حصہ آپ سے مانگا خُدائی کا نہیں
ہے تو شاہوں کو ہمارے بہرِ عشرت یہ جنوں
قوم کے افراد کو لپکا گدائی کا نہیں
وہ کہیں ماجد’ سخن مایہ‘ ہے کیسے اینٹھ لی
ہم کہیں یہ دھَن، دلالت کی کمائی کا نہیں
٭٭٭
جو بھی منظر ہے ٹھہرے یہاں دِیدنی آنکھ اپنی جسے دیکھ پاتی نہیں
اَوج سے جو گرے، درس دے اَوج کا خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
تخت جن سے چھِنے، وَقر جن کا لُٹے وقت پر غافلِ فرض، گر ہوں رہے
چاہے پیدا دوبارہ بھی ہوں تو اُنہیں خلقتِ شہر عزّت دلاتی نہیں
اک طرف اپنے ہاں ایک مخلوق ہے، خطِ غربت سے نیچے جو رہ کر جیئے
دوسری سمت مخلوق ایسی بھی ہے، قرض سرکار کے جو چُکاتی نہیں
لاڈلی ہو کہ لائق ہو جیسی بھی ہو، بعد شادی کے وہ کام والی بنے
جو بھی بیٹی کہیں ہے بیاہی گئی، لَوٹ کر اپنے میکے وہ آتی نہیں
’’عمرِ آخر! کوئی سُر سُنائی نہ دے ‘‘تاب سُننے کی جانے کہاں کھو گئی
کوئی گُل باغ میں کھِلکھلائے نہ اب، کوئی بلبل کہیں چہچہاتی نہیں
دشت و گلشن میں رقصاں ہوئیں وحشتیں سارے بھنورے دِبک کر کہیں رہ گئے
خوفِ دہشت سے یوں ہے ڈرائی گئی، فاختہ اب کہیں اُڑنے جاتی نہیں
بات میری یہ سُن ماجِد خستہ جاں ! حرفِ حق سا جو تریاق تُجھ پاس ہے
خلقتِ شہر جو بھی سہے سو سہے تیرا نسخہ یہ، وہ آزماتی نہیں
٭٭٭
جی رہے ہیں اور اِس جینے پہ شرم آئی نہیں
اُس بُتِ طنّاز سے مدّت سے یکجائی نہیں
رہ گیا لاگے ہمیں بولی سے باہر ہی کہیں
وقت نے قیمت ہمارے فن کی ٹھہرائی نہیں
ہم کو بھی لاحق ہے بغضِ عہد، غالب کی طرح
چاہیے تھی جو ہماری وہ پذیرائی نہیں
عاشقی بھی کی تو ہم نے ہوشمندی ہی سے کی
ہم، ہوا کرتے تھے جو پہلے، وہ سودائی نہیں
دیکھیے یہ کارنامہ بھی شہِ جمہور کا
حق دیا فریاد کا پر اُس کی شنوائی نہیں
بے حسی پر ہم پہ اندر سے جو برسائے ضمیر
چوٹ پہلے تو کبھی ایسی کوئی کھائی نہیں
جو کہا تازہ کہا ماجد بہت تازہ کہا
شاعری میں بات ہم نے کوئی دُہرائی نہیں
٭٭٭
فیضان جن کے مِلکِ خلائق ہوئے نہیں
وہ پیڑ باغ میں کبھی پھولے پھلے نہیں
گزرا ہے جو بھی، خوب نہ تھا اور جو آئے گا
لگتا ہے اُس سمے کے بھی تیور بھلے نہیں
کہنے کو رُت نے بوندیاں برسا تو دیں مگر
شدّت بہت تھی جن میں پہر وہ دھُلے نہیں
بوندوں شعاعوں، چہروں، نگاہوں سے کچھ ملے
سب راز کائنات کے ہم پر کھُلے نہیں
برسات کی نمود بھی ہے اور بہار بھی
موسم ہیں جو بھی اپنے یہاں وہ بُرے نہیں
غاصب کو جرم اُس کا سجھائے ہے آئنہ
ہم کیا اُسے سُجھائیں کہ ہم آئنے نہیں
پیچھا کیا ہے برف نے، لُو نے بطورِ خاص
کتنے بدن تھے اُن سے جو ماجد جلے نہیں
٭٭٭
شادیوں سے پہلے کی ساری محبوبائیں
اپنے خداوندوں سے کیا کیا ڈھونگ رچائیں
دیر ہے تو بس اُس مسند کو پہنچنے کی ہے
تخت پہ صاحبِ تخت کی ہیں سب دُور بلائیں
واعظ کے منہ سے بھی عذاب کی باتیں پھوٹیں
اہلِ صحافت بھی پل پل دہشت پھیلائیں
اُن کے دیارِ شوق سے ہجرت ہے اور ہم ہیں
جن کی سمت سے آتی تھیں نمناک ہوائیں
اس نگری میں کٹھن ہے کیا کیا جینا ماجد
راہ بہ راہ جہاں ہیں بدنظمی کی چِتائیں
٭٭٭
اُن میں سے اِک ایک کو بے شک ہم مانیں
شہرِ سخن میں لوگ ہمیں کم کم مانیں
قامتِ یار کہیں ہر غم کے الاؤ کو
جیون کی ہر ٹیڑھ کو زلف کا خم مانیں
آئنہ سا جو چہرہ ہر دم پاس رہے
ہم تو بس اُس کو ہی جامِ جم مانیں
کیا کیا آس نجانے اُس سے لگا بیٹھیں
ہم جس کو ہم جنس کہیں، آدم مانیں
بچپن میں بھی دھوپ ہمیں ہی جلاتی تھی
پِیری میں بھی دھونس اُسی کی ہم مانیں
روتا دیکھ کے غیر ہمیں خوش کیونکر ہوں
اپنی آنکھیں ہم کیوں ماجد نم، مانیں
٭٭٭
ہیر پھیر لفظوں کا شرافت میں ہے یہاں
دلچسپی گر ہے تو خباثت میں ہے یہاں
پچھلے ورق صدیوں کے الٹ پاؤ تو کہو
فن کی بڑھوتری صرف ریاضت میں ہے یہاں
خرما بھی اور ساتھ ثواب بھی ملتا ہے
فائدہ سمجھوتے کی سیاست میں ہے یہاں
ریل کی کھڑکی میں ہلتا اک ہاتھ کہے
المیہ کیا کیا حسن کی ہجرت میں ہے یہاں
شاخ سے توڑ کے پھل چکھیں تو یاد پڑے
لذّت جو جسموں کی قرابت میں ہے یہاں
غارت کر دے سارا تقدس چاہت کا
حرص کا کچھ عنصر کہ عبادت میں ہے یہاں
ماجد عمر گزار کے راز یہ ہم پہ کھلا
جو بھی مہارت ہے وہ خیانت میں ہے یہاں
٭٭٭
(میڈیا کے ہیرو:۲۱۰۲ کا ایک اخباری کیلنڈر چھپا دیکھ کر کہی گئی)
اپنے وطن میں کیا کیا اوچھی دل لگیاں ہیں
میڈیا کے ہیرو ریما اور اُس کے میاں ہیں
کون حکومت ہو گی جس کے حق میں کہیں یہ
’ہاں سجناں کے ہاتھ میں سجناں کی بہّیاں ہیں،
وہ کہ جگانے آتی تھی نت خلق کو، اُس کی
سال بہ سال کی برسی پر یادیں جگیاں ہیں
ٹی وی پر ہوں یا وہ چھپیں بیچ اخباروں کے
دے جاتی ہیں دکھائی جو شکلیں بھلیاں ہیں
یاد میں اُبھرے ہے پھر عید کے دن کا منظر
الہڑ ناریاں دِہ کی جھولنے کو چلیاں ہیں
خون کے رشتے ہی اُولیٰ رشتے ہیں ماجد!
باقی جتنی سانجھیں ہیں وہ سب ٹھگیاں ہیں
٭٭٭
پروں میں شام باندھے لا رہے ہیں
پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں
یہ کس صحرا میں آ ڈالا ہے ڈیرہ
بگولے کیوں ہمیں بہلا رہے ہیں
بچھاتی ہیں جو سانسوں میں سرنگیں
وہ خبریں اب نئے پل لا رہے ہیں
ہر اک دن گانٹھ بنتا جا رہا ہے
اور ہم گھونسے اُسے دکھلا رہے ہیں
قدم ایقان کے رنجور کرنے
ہزاروں وسوسے بھِّنا رہے ہیں
جو جھکڑ چھینتے ہیں برگ ہم سے
نمو جانے وہی کیوں پا رہے ہیں
٭٭٭
ہوئی ہے بارش تو جانے کس رَو میں ہم سے بے حال کھو گئے ہیں
پھُدکتے بچّوں کے شور میں بوندیوں کے سُرتال کھو گئے ہیں
بٹیر جب بے بسی میں چِیخے، تو ایسے طوفاں بھی ہم نے دیکھے
شکاریوں نے جو تان رکھے تھے فصل پر جال کھو گئے ہیں
بدیس پہنچے جو چھُپ کے کنٹینروں میں، روزی چَگونا کرنے
وطن سے دُوری کے دشت میں جا کے کتنے کنگال کھو گئے ہیں
جہاں بھی آیا ہے دور جمہوریت کا صدیوں کی کاوشوں سے
تھے بچّہ سقّوں کے جتنے سِکّے، وہ اپنی ٹیکسال کھو گئے ہیں
غذائیں بدلیں، ادائیں بدلی ہیں جب سے اپنے معاشرے کی
نجانے عمروں سے کتنے دلدوز ماہ اور سال کھو گئے ہیں
تفنگ داغی ہے دشت میں آن کے جو کارندگانِ شہ نے
بھُلا کے سارے غزال من بھاونی، مدھر چال کھو گئے ہیں
کبھی سنبھالا جو ہوشمندی نے ان کی، اُن کو دیا تو ماجد
بہت سے ایسے بھی تھے اُٹھائے جو تیغ اور ڈھال کھو گئے ہیں
٭٭٭
جن بچّوں سے اُن کے نوالے چھن جاتے ہیں
وہ بچّے پھر کھویا چین کہاں پاتے ہیں
جس سے دہن لرزائیں روز ہمارے لیڈر
یہ وہ جُگالی ہے جس سے ہم گھبراتے ہیں
مستقبل اس قوم کا کیا ہونا ہے جس کے
اہلِ قیادت بات کریں تو ہکلاتے ہیں
ساتھ نہیں دے سکنا تھا تو چاہت کیسی
اپنے کیے پر اب کا ہے کو شرماتے ہیں
میر ہیں غالب و منٹو ہیں یا فیض ایسے ہیں
جن کی فرماں روائی کے ہم گُن گاتے ہیں
وہ ساری ہیں صاحب! مبتدیوں کی باتیں
جن جن باتوں پر ہم ناحق اِتراتے ہیں
اپنوں پر شاہی قائم رکھنے کو ماجد
چھوٹے شاہ بڑوں کے پہلو گرماتے ہیں
٭٭٭
سامنے ظلم کے لجیلے ہیں
لوگ ورنہ بہت غصیلے ہیں
وہ یقیں بھی ہے کیا یقیں جس کے
ابتدا ہی سے پیچ ڈھیلے ہیں
دیکھیے یہ بھی زہرِ ناداری
ایک خلقت کے ہونٹ نیلے ہیں
بات کرنی جنہیں نہیں آتی
لفظ اُن کے بہت نُکیلے ہیں
اِتنے تیور رُتوں نے کب بدلے
جس قدر درد ہم نے جھیلے ہیں
اُسکی زلفوں سے اُسکی قامت تک
ناگ کیا کیا نہ ہم نے کیِلے ہیں
برگ کتنے ہی سبز ہوں ماجِد
بخت ساروں کے سخت پیلے ہیں
٭٭٭
سیہ بختی، گراوٹ پر اجارے سب ہمارے ہیں
فوائد سارے اوروں کے، خسارے سب ہمارے ہیں
نگر میں نام پر الزام، ہے جن کے، شقاوت کا
بظاہر خیر کے ہیں جو، ادارے سب ہمارے ہیں
بھلے وہ شیر میں پانی کے ہوں، یا جھوٹ کے سچ پر
ملاوٹ پر جو مبنی ہوں، وہ دھارے سب ہمارے ہیں
شرارت ہو کہیں برپا، ہمارے سر ہی آتی ہے
سجھائیں بد ظنی ہی جو اشارے سب ہمارے ہیں
کہیں سے ہاتھ جگنو بھی، جو آ جائیں تو ہم سمجھیں
فلک پر جس قدر ہیں، ماہ پارے سب ہمارے ہیں
ہمارے پہلوؤں میں جو سلگتے ہیں ہمہ وقتی
جو ماجد وسوسوں کے ہیں، شرارے سب ہمارے ہیں
٭٭٭
عمرِ اخیر میں بعدِ بحالی، یہ جو خراب طبیعت ہو
جانے کب چندا بُجھ جائے، سورج سر سے رُخصت ہو
گرد نے بڑھتے بڑھتے اُڑنا، برف نے گھٹ گھٹ جانا ہے
وہ کیسے نہ دکھانے پائے، جس کی جو بھی جبلّت ہو
کتنا کون جیے دنیا میں، بات ہے بس یہ انرجی کی
اُتنی دُور مسافت اُس کی، جس میں جتنی حدّت ہو
وہ کیا جانیں گردن و شہ رگ، میں نرماہٹ کیا کیا ہے
ٹوکے اور چھُرے ہی جیسی، اہلِ ستم کی شقاوت ہو
دُور سے آ جاتے ہیں نظراُس کو سگنل سب خطروں کے
واویلا اُتنا ہی کرے، جس شخص میں جتنی بصیرت ہو
طرزِ حیات کا ٹھور ٹھکانہ‘‘ ماجد ہے تو عقیدہ ہے
جھوٹ بھی اُس کا سچ لگتا ہے ‘‘جس سے ذرا سی عقیدت ہو
٭٭٭
نظرِ مست ملا کر دیکھو
ہاں کبھی موج میں آ کر دیکھو
فرش پر کیجیے گا عرش کی سیر
صحن میں دل کے سما کر دیکھو
ہو کوئی شوق، اُسے ننّھوں سا
وونوں ہاتھوں میں اٹھا کر دیکھو
ایک آدم کے ہو ابنا و بِنات
بَیر پر بَیر بڑھا کر دیکھو
ہو وہ گیدڑ بھی تو بن جائے گا شیر
دُم ذرا اُس کی دبا کر دیکھو
جی! نہ تم قمقمے اوروں کے گنو
جی! دئے گھر کے جلا کر دیکھو
پاس ماجد ہے تمہارے بھی سخن
بزم تم اپنی سجا کر دیکھو
٭٭٭
دنوں مہینوں میں مُکھ دکھلائیں تو دیکھو
بادل کم کم آئیں پہ جب آئیں تو دیکھو
عزم بڑھانے کو اپنا، صیّاد پرندے
اُڑنے کو پر اپنے پھیلائیں تو دیکھو
مجرم، اہلِ تخت نہ کیوں ٹھہرائے جائیں
اُن کے زیر نگیں پِٹ پِٹ جائیں تو دیکھو
کورے ورق پر کیا سے کیا لکھا جاتا ہے
جھریاں چہرہ چہرہ پڑ پائیں تو دیکھو
ماجد جیب کھلے بندوں، کیسے کٹتی ہے
تاجر جب اپنا فن جتلائیں تو دیکھو
٭٭٭
شاہو! لگاؤ
داؤ پہ داؤ
آہوں سے کب
بجھیں الاؤ
مفروضوں سے
بھریں نہ گھاؤ
سچ کہنے سے
مت گھبراؤ
ہر خواہش کی
پینگ جھلاؤ
بات بات میں
پھول کھلاؤ
ماجِد دُکھتے
دِل سہلاؤ
٭٭٭
لطف رساں ہو
جانِ جہاں ہو
ہم سمجھیں تم
لمسِ شہاں ہو
لفظ انوکھا
زیبِ زباں ہو
دل نگری کی
روحِ رواں ہو
ہم پہ جو صید ہیں
تنی کماں ہو
یاری میں کیوں
سود و زیاں ہو
تم ماجد کا
نطق و بیاں ہو
٭٭٭
لاؤ کوئی مسیحا لاؤ
بڑھنے لگے دھرتی کے گھاؤ
دیکھ چکے ہیں ’’آنکھ دِکھائی‘‘
دیکھ چکے ابرو کا تناؤ
جھُلسیں اِک اِک بِن چھاتا کو
دھوپ میں پنہاں ہیں جو الاؤ
پھر چندا کچھ کر ڈالے گا
پھر سے بحر میں ہے ٹھہراؤ
حق گوئی ہے وطیرہ اپنا
بھلے ہمیں مجرم ٹھہراؤ
اے آدم فرزند ترے، ہم
دیکھ بِکے ہیں کس کس بھاؤ
چاند ایسے ہر مُکھ کو ماجِد
لاحق رہتا ہے گہناؤ
٭٭٭
میرے انگناں پھول کھلا دے، خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں، میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے، خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا، رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پرکا ہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے، بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت، سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کر دیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم، حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عید کا چندا ماموں آیا عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
٭٭٭
نفرت کرنے والے خود بھی، جلیں، جلائیں اوروں کو
اپنا اِک بھی طَور نہ بدلیں، اور سِدھائیں اوروں کو
جو بھی ٹیڑھی چال چلے گا، کب منزل تک پہنچے گا
ایسے جو بھی خسارہ جُو ہیں، کیا دے پائیں اوروں کو
تُند مزاج سبھی اندر کا، خُبث سجا کر ماتھوں پر
اپنا سارا پس منظر کیا کیا نہ دکھائیں اوروں کو
وہ لگ لائی جن کی نکیلیں، ہیں اوروں کے ہاتھوں میں
خود ناچیں اور جی میں یہی، چاہیں کہ نچائیں اوروں کو
جو بھی ہیں کج فہم وہ چِپٹا، چاہیں، گول میں ٹھُنک جائے
اپنی رضا و مرضی کے، اسباق سکھائیں اوروں کو
کون بتائے وہ تو خود جلتے ہیں چِتا میں چِنتا کی
لاحق کرنے پر تُل جاتے، ہیں جو چتائیں اوروں کو
چُوسنیاں نوچیں، بیساکھیاں، معذوروں کی چھنوائیں
ماجد صاحب آپ بھی کیا کیا، کچھ نہ سُجھائیں اوروں کو
٭٭٭
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہو رہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو بر حق و شفّاف ہو جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمہارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا، نہ تم، یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلو گے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
تھا جو اُستاد وہ تھا محتسبِ اوّل ماجد
تم ادا کیوں نہ حقِ بندگیِ اُستاد کرو
٭٭٭
جدّی عظمت میں یہ کمی کیوں ہو؟
جو بھی سیّد ہے اُمّتی کیوں ہو؟
آمروں جابروں کی نیّت سے
زیردستوں کو آگہی کیوں ہو؟
گُر نہ جِنّات کے اگر آئیں
دسترس میں کوئی پری کیوں ہو؟
ہے جسارت کمائی جیون کی
وہ کہ بزدل ہے وہ جری کیوں ہو؟
خود عدالت بھی جس سے خائف ہو
ایسا ملزم کوئی بری کیوں ہو؟
لفظ ہِیرے اگر نہ ہو پائیں
فرد ویسے سخنوری کیوں ہو؟
جس کی چاہت میں کھوٹ ہو ماجد
بات اس کی کوئی کھری کیوں ہو؟
٭٭٭
شوق کی زد میں ہے گر رومانیہ
ہے پہنچ سے دُور کب برطانیہ
نوکری سے رخصتی تک کے برس
زندگی کا ہیں وہی دورانیہ
کون رہ سکتا ہے قرنوں پر محیط
بس میں آٔنے کا نہیں اک ثانیہ
چپکے چپکے دل اُڑا لے جائے ہے
کوئی کترینہ، قرینہ، تانیہ
ہو چلی ذیشان منصب کے طفیل
وہ کہ کہلاتی تھی کل تک شانیہ
ہو چلا ہے تنگ ماجد قافیہ
ہو چلا بُحران یہ، بُحرانیہ
٭٭٭
چمک نہ پائے ہے جو اس کو مہتاب نہ کہہ
نہ چیت رُت میں جو مہکے اسے گلاب نہ کہہ
جو دیدنی ہے اُسے بھی چشیدنی نہ سمجھ
نگاہِ یار کو تُو ساغر شراب نہ کہہ
تجھے جو کام ہو درپیش سہجے سہجے کر
کوئی بھی بات کہ ہو گفتنی شتاب نہ کہہ
عتاب وہ ہے دکھائے کبھی جو یارِ کوئی
فسادِ نیّتِ حاسد کو تُو عتاب نہ کہہ
کوئی نہیں ہے ھجو ماجد لُٹائے دل تجھ سا
کسی بھی شخص کئی چاہت کو بے حساب نہ کہہ
٭٭٭
بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
چھپا نہ مصلحتاً، عیب عیبیوں کے کبھی
کجی ہو جو بھی، فضا میں اُسے اچھال کے رکھ
جو تاب ہے تو، وُہی کر گزر جو کرنا ہے
نظر میں وسوسے، ہر آن مت مآل کے رکھ
ملے گی گر تو اِسی سے اُٹھان جیون میں
فنا کی بانہوں میں بانہوں کو اپنی، ڈال کے رکھ
طلوع جو بھی ہُوا، جان اُسے جنم دن سا
عزیز اسی سے، سبھی دن تُو سال سال کے رکھ
لکھا تھا نام کبھی جس شجر پہ، ساجن کا
چھپا کے پرس میں ٹکڑے اب اُسکی چھال کے رکھ
وہی جو عمرِ گزشتہ سا کھو گیا ماجِد
قلم کی نوک پہ اب، نقش اُس جمال کے رکھ
٭٭٭
سفر میں تھی جو لاچاری ہماری
گئی کب ہے وہ بیماری ہماری
کسی سے بھی ہو برتاؤ، اُسی سے
مسلسل ہے دلآزاری ہماری
ہوئی نُوری نہ ما تھا تک گھسا کے
حیاتِ فانی و ناری ہماری
کریڈٹ کارڈ ملنے میں شہی ہے
چلے یوں خوب بینکاری ہماری
کھلا یہ ہے فقط بیگھہ زمیں سے
رہے ثابت زمینداری ہماری
کوئی اعزاز ماجد اینٹھنے کا
لگے ہے ابکے ہے باری ہماری
٭٭٭
وہ کہ سخن کے نام پر ٹھہری ہے سلطنت مری
طرّۂ امتیاز ہے، لاج ہے، وہ ہے پت مری
میں کہ ہوں صاحبِ شرف اور خدا کا شاہکار
بیچ ملائکہ کے بھی کیا کیا بنی نہ گت مری
جن کو جز اپنی ذات کے سوجھے نہ وقرِ دیگراں
ایسے سبھوں کے منہ پہ ہے لعن مرا، چپت مری
عجز و نیاز کا سبب جس سے بھی پوچھیے، کہے
میں کہ غلام رہ چکا، جاتی نہیں یہ لت مری
خائنِ بے مثال سے پوچھا تو اس نے یہ کہا
ہاں جو جواریوں کی ہو، ہاں ہے وہی بچت مری
ڈھونڈے ہوں لفظ لفظ کا کیا ہے وجود کیا عدم
جب سے ہوئے کبیدہ رُو، گوش مرے سُنَت مری
ماجد سادہ لوح ہوں میں کہ مجھے پتہ نہیں
کندہ بہ بام اوج ہے، شعر مرا لخت مری
٭٭٭
دھول دھوئیں سے لِتھڑی سانسیں تیری میری
جانیں خفیہ خفیہ اُجڑیں تیری میری
جیتے جی سُونے ہیں انگنے ہم دونوں کے
بعد میں سج سکتی ہیں قبریں تیری میری
بغض و حسد کے بَیری جھونکے چُوس رہے ہیں
امیدوں کی سجری شاخیں تیری میری
آتے دنوں کے کیا کیا زائچے سامنے لائیں
ہاتھوں کی کج مج یہ لکیریں تیری میری
ہم جھلکیں اُن میں، جھلکے ہیں ہماری نسلیں
شعر ہیں ماجد کے، تصویریں تیری میری
ذہن میں بچّوں جیسے سپنے پالنا چھوڑیں
ڈوب نہ جائیں کاغذی کشتیاں تیری میری
باعثِ کرب و بلا ہر جا اِک سی بدنظمی
چھت چھت آب کو ترسیں ٹینکیاں تیری، میری
٭٭٭
کوئی فاختائی سی نظم ہو کوئی اِک غزل ہو غزال سی
مرے مدّعا و بیان میں، ہو ملائمت تری چال سی
مری کیفیات کے صحن میں، ہے کہاں سے آئی ہے یہ ذہن میں
مرے ارد گرد تنی ہوئی یہ جو موجِ خوف ہے جال سی
کوئی گھر بغیرِ نگہباں، ہو اجاڑ جیسے سر جہاں
لگے آس پاس کی خلق کیوں ؟مجھے لحظہ لحظہ نڈھال سی
کھلی آنکھ تب سے یہ سوچتے، گئی بِیت عمرِ طویل بھی
کہ نفس نفس میں ہے کیوں مرے ؟ یہ گھڑی گھڑی ہے جو سال سی
ہوئیں التجائیں نہ بارور، کوئی چاہ ٹھہری نہ کارگر
نہ ہوئیں دعائیں وہ با ثمر، تھیں جو اختیار میں ڈھال سی
مرا تن بدن مرا عکس ہے، مری آنکھ ہے مرا آئنہ
وہی عمر اُس کی بَتائے ہے، ہے تنِ شجر پہ جو چھال سی
ترے لفظ لفظ میں ہے کھنک، ترے مکھ پہ فکر کی ہے دھنک
تری لَے بھی ماجِدِ خوش گلو، ہے رفیع، اوجِ کمال سی
٭٭٭
تیر اس کا ہے، ہے کماں جس کی
اور دہشت کا ہے نشاں جس کی
اُس سے ڈریئے کہ باؤلا ہے وہ
بد زبانی ہوئی زباں جس کی
وہ بھی انسان ہے ہمیں جیسا
ہے پہنچ تا بہ آسماں جس کی
جانے کس دن نہ مُڑ کے وہ آئے
راہ دیکھے ہے آشیاں جس کی
خواب در خواب نت جُوا کھیلے
بیٹیاں ہو چلیں جواں جس کی
خود کو ٹھہرائے شاہِ کرب و بلا
نہر ہے دشت میں رواں جس کی
ہاں وہ ماجد ہے اہلِ دنیا سے
خُوبیاں ہیں ابھی نہاں جس کی
٭٭٭
دے حکم اہلِ جبر کے جو قتلِ عام کی
برپا ہو جانے کب وہ عدالت عوام کی
ذہنوں سے جانے کونسی حکمت سے تلف ہو
دیمک سی لگ چلی ہے جو فکرِ طعام کی
ہو التفاتِ خاص کہ جاناں ! تمہارا قُرب
دھُن ہے تو بس تمہاری توجہ کے جام کی
اُس کا خیال بادِ بہاری کا ہے بدل
ہے چودھویں کا چاند جھلک اُس کے بام کی
ہاں سامنے شکستِ انا جیسے رنج کے
دوزخ کی ہے جو وہ تو اذّیت ہے نام کی
ماتم کرو تم اس کا کہ باقی تھا جس کا نام
ہستی تھی یادگار وہ لوگو!سِہام کی
ہاں ہاں جیو کچھ اور کہ آئیں گے دن، وہ جب
ماجد مچے گی دھوم تمہارے کلام کی
٭٭٭
اپنے کیے سے مکرنے کی
کیا ہے ضرورت ڈرنے کی
چھینیں تخت جھِپَٹّے سے
اُف یہ حرص اُبھرنے کی
عید کا چندا کہتا ہے
ساعت ہے یہ سنورنے کی
بوڑھے، بیتے دن ڈھونڈیں
رُت آئی ہے نکھرنے کی
دھج سے جیے تو انساں کو
چِنتا ہو کیوں مرنے کی
بچپن ہی سے دھُن ہے ہمیں
پاتالوں میں اُترنے کی
ہاں ہاں تیرا سخن ماجد!
لَے ہے سریلی، جھرنے کی
٭٭٭
یہ گردِ ضعف ہے کیا؟رُوح جس سے اَٹنے لگی
کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی
بہ نامِ تفرقہ کیا کیا سرنگ نفرت کی
نہیں ہے گھر میں نہتّوں کے جا کے پھٹنے لگی
تو کیا ہمِیں میں کوئی فرق ہے کہ جس کے سبب
ہماری ناؤ ہی ہرسیل میں الٹنے لگی
یہ ٹَڈی دَل سا نجانے کہاں سے آ دھمکا
علالتوں میں ہے کیوں فصلِ جان بٹنے لگی
اگرچہ کرب نے جاں تک نچوڑ لی لیکن
گُماں کی دھُند بہت کچھ ہے اِس سے چھٹنے لگی
کنارِ دیدہ و لب سے، مرُورِ عمر کے ساتھ
جو چاشنی بھی تھی مانندِ موج ہٹنے لگی
پتنگ عزم کی ماجِد ہے ڈانواں ڈول سی کیوں
لگے ہے ڈور کہیں درمیاں سے کٹنے لگی
٭٭٭
آل کی چاہ نبھانے کو نیام اور بنی
عقد اِک اور ہُوا ایک غلام اور بنی
سینت رکھنے کو جو دل میں ہیں اُنہی شاموں سی
دفعتاً آپ کے مل جانے سے شام اور بنی
راہ چلتے ہوئے اک شوخ سے رستہ پوچھا
وجہ کچھ اور تھی پر وجہِ کلام اور بنی
حسرتِ تخت کے مارے ہوئے شاہوں کے لیے
سقّہ بچّے کی خدائی ہے پیام اور بنی
حسن و اعزاز میں بھی فرد تھے حضرت یوسف
اُن کا نیلام بھی اک وجہِ دوام اور بنی
چل کے آگے یہ کھلا ہم پہ کہ خوش خلقی کو
قید جو خود پہ لگائی تھی لگام اور بنی
سُرخیِ شام سی ماجد ہے جو ہر شام تری
منفرد زینتِ پیشانیِ بام اور بنی
٭٭٭
پھول مرے انگناں، میں بھی ہیں ہونٹوں پربھی
جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی
موسم ہی ہے پالنے والا ہمیں پھہاروں
موسم ہی کرنے والا ہے زیر و زبر بھی
کیسے فرشتہ ٹھہرے، اور شیطان ہو کیسے ؟
انساں ہی میں خیر ہے انساں ہی میں شر بھی
گھر سے نکل کے گھر لوٹ آنا مشکل لاگے
کنواں بنی ہے موت کا اک اک راہگزر بھی
کھلی فضاؤں میں بھی اُڑانیں ہیں آزردہ
موم لگے لگتے ہیں اپنے بال و پر بھی
پاس ہوں یہ تو آدمی سونا ورنہ مٹی
ماجد جی کیا چیزیں ہیں یہ سیم و زر بھی
٭٭٭
لگتا ہے پھر شکل کوئی ہے گہنائی
ویسے تو یہ آنکھ نہیں ہے بھر آئی
گرمیِ شوق کی جھلکی روزنِ ماضی سے
سُوئے فلک اک آگ سی قامت لہرائی
ہاں جس کی کل کائنات ہی اتنی تھی
بڑھیا نے یوسف کی قیمت دہرائی
دہشت سے جانے کن نوسر بازوں کی
خلقِ خدا ہے اک ایڑی پر چکرائی
سڑک سڑک پر دُود اڑانیں بھول گیا
بارش ہو چکنے پر ہر شے دھندلائی
ماجد آج کی دنیا دیکھ کے کھلتا ہے
آدم نے کچھ سوچ کے جنّت ٹھکرائی
٭٭٭
پل کی پل میں سروں سے اُڑا لے گئی
گھِر کے آئے جو بادل ہوا لے گئی
وہ کہ تھی طالبِ سلطنت، دے کے جاں
سلطنت تا ابد، خود کما لے گئی
باعثِ کرب تھی جو پئے شہریاں
فِلتھ آخر وہ، باراں بہا لے گئی
لے کے مسند سے کُوئے ملامت تلک
اپنی کرنی تھی جو، جا بجا لے گئی
عیب کچھ بھی نہیں اُس میں قانون کا
جو لُٹا اُس کو ماجِد قضا لے گئی
٭٭٭
فرقِ نا اہل کو کچھ اور اٹھانے جاتے
ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے
ہم گئے کیوں نہ کسی جشن میں آزادی کے
دیس کے بخت پہ ہی اشک بہانے جاتے
ہم نے زردار تلک کے جو قصیدے لکھے
خَیر بالفعل بھی اس سے کبھی پانے جاتے
ہوں وہ قزّاق کہ رہبر پہ قضّیے اُن کے
ہو کے منسوب نہ ہم سے کہیں مانے جاتے
وہ کہ ہے دور بہت دور پہنچ سے اپنی
ہم بھی بستی کبھی اس مہ پہ بسانے جاتے
چاہے دنیا میں کہیں بھی ہمیں ملتی جا کے
دولتِ امن وہ ہم کیوں نہ چرانے جاتے
جیسے نبّاض ہو یا کوئی مسیحا ماجد!
کاش اس طور سے ہم بھی کبھی مانے جاتے
٭٭٭
کاش فساد سبھی سرکار کے سر ہوتے
گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے
ہم نہ پہنچ پائے ایوانوں میں ورنہ
سب کے سب ایوان عوامی گھر ہوتے
لعنت بھجیے ایسی راہنمائی پر
ہم نہ کبھی خودساختہ ملک بدر ہوتے
بول ہمارے بھی سچ ہوتے گر ہم بھی
صاحب رقبہ ہوتے صاحب زر ہوتے
کیا گیا ہوتا گر روشن چہروں کو
بے آباد نہ یوں یہ اپنے نگر ہوتے
بات کی تہہ میں بھی اے کاش اتر سکتے
شاہ ہمارے گر کچھ اہلِ ہنر ہوتے
ذوق کو شاہ کی قربت کیسے بہم ہوتی
وہ بھی اگر ماجد ہم سے خودسر ہوتے
٭٭٭
رُت کو نیا جامہ پہنا دے
ہونٹ ہلا اور پھول کھلا دے
مَے اک اور ملا دے مَے میں
مستیِ قرب کا جام چڑھا دے
صبر نہ جس میں ہو تیس دنوں کا
مُژدۂ عید ابھی وہ سنا دے
جس کے بعد جِناں ملتی ہو
حشر مری جاں میں وہ اٹھا دے
نام ترے یہ جو دل نے سجائی
آ اِس بزم کے بھاگ جگا دے
قرب ترا گر معجزہ ہے تو
آ اور اجڑے بدن کو جِلا دے
جس نے ترا قد کاٹھ بڑھایا
ماجد کے لکھے کو دعا دے
٭٭٭
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے روح کے آزار ہمارے
فرہاد کی ضربت، کہیں قربِ سگِ لیلیٰ
اذہان میں کیا کیا نہیں آثار ہمارے
تم ایسے حسینوں سے بہ چشم و لب و آغوش
باغات کے باغات ہیں سرشار ہمارے
چہروں پہ مسرّت کے تھے کچھ ایسے کرشمے
چنداؤں میں، تاروں میں تھے انوار ہمارے
جو دکھ ہمیں ہونے تھے رقیبوں کے وہ سر تھے
گر تھے بھی تو ایسے ہی تھے آزار ہمارے
تم ذہن نشیں پہلے پہل جب سے ہوئے تھے
ابتک ہیں حسیں تب سے یہ افکار ہمارے
ہے اب بھی بہم قرب و تلطّف ہمیں اُن کا
ماجد تھے جو آغاز سے دلدار ہمارے
٭٭٭
دریا دریا جُو جُو، پت جھڑ رقص کرے
باغِ حیات میں ہر سُو، پت جھڑ رقص کرے
پتّی پتّی پھونک کے کومل پھولوں کی
اور ہتھیا کر خوشبو، پت جھڑ رقص کرے
سبزہ زرد پڑے تو دھُنک کر رہ جائے
ششدر ہوں سب آہو، پت جھڑ رقص کرے
ماند ہوئے، جتنے بھی رنگ شبابی تھے
سہم چلے ہیں گُلرو، پت جھڑ رقص کرے
روش روش لہرا کر تُند بگولوں سی
اور پھیلا کر بازو، پت جھڑ رقص کرے
باغوں اور مکانوں اور ایوانوں تک
روزِ ازل سے بدخُو، پت جھڑ رقص کرے
عین عروج پہ کھیتوں اور کھلیانوں میں
ماجِد کب مانے تُو، پت جھڑ رقص کرے
٭٭٭
پگڈنڈی پگڈنڈی پھر تے تھے شاہوں سے
کیا کچھ انس ہمیں تھا گاؤں کی راہوں سے
یاد ہے جیب میں دال کی تازہ پھلیاں بھر کے
شام کو بکریاں جا کے وصولنا چرواہوں سے
یاد ہے عید کو پیڑ پیڑ پر پینگ جھلانا
اور نظر کا ٹکراؤبے پرواہوں سے
یاد ہیں قدغن و بندش کے وہ سلسلے سارے
چُوڑیاں لپٹی دوشیزاؤں کی بانہوں سے
یاد ہیں چوپالوں پر کبھی کبھی کے بھنگڑے
جن کے در و دیوار تھے سب جلوہ گاہوں سے
یاد ہیں اک جانب ہونٹوں پہ ہنسی کی پھوہاریں
دوسری جانب شعلے سے اٹھتے آہوں سے
یاد ہیں اک جانب وہ نچھاور ہوتے رشتے
دوسری جانب واسطے اپنے بد خواہوں سے
یاد ہیں ماجد اک جانب وہ ٹوٹکے ٹونے
دوسری جانب فیض کے حیلے درگاہوں سے
٭٭٭
درمیاں مذہب کو لانے کا عجب چرچا ملے
عادلِ اعلیٰ بھی ہے تسبیح دکھلاتا ملے
بات پس منظر میں کچھ ہے اور وہ معمولی نہیں
تیرا میرا نام ہونٹوں تک پہ کیوں لکھا ملے
دل ہمارا بھی ہے ڈانواں ڈول کچھ ایّام سے
اُسکی آنکھوں میں بھی ہے پھر سے بھنور اٹھتا ملے
وہ جو بندر سا نچانے لگ پڑے نامِ عوام
داؤ اس جانب سے بھی ہے کچھ نہ کچھ چلتا ملے
ہو وہ ماجد کی غزل یا ہو کبوتر کی اڑان
آن ہے ہر دو کی اِک اِک پل جداگانا ملے
٭٭٭
سانس کے پل پل سفر کا لطف لے
آنکھ میں مچلی نظر کا لطف لے
ساتھ لاتا ہے جو پیاروں کا ملاپ
انگناں انگناں اُس سحر کا لطف لے
اوس سے بھیگے جو وصلِ یار کے
پھول جیسے اُس پہر کا لطف لے
کربِ خلقت کے سبب بڑھتا ہے جو
تن میں اُس سوزِ جگر کا لطف لے
وہ کہ جو اظہارِ خوبی پر ملے
جی کہے تو ایسی زر کا لطف لے
جب مخالف ہو ہوائے دہر تو
سنسناتے بال و پر کا لطف لے
ہاں عطا ہے سب سے ہٹ کر جو تجھے
تُو بھی ماجد اُس ہنر کا لطف لے
٭٭٭
جی ملے اور بہت شتاب ملے
بام پر وہ کھِلا گلاب ملے
ہر کوئی چاہتا ہے اُس کو بھی
ہو جو عالم میں انتخاب، ملے
چاند دیکھیں نہ چودھویں کا کبھی
ہم جنہیں بس ادھو رے خواب ملے
جامِ ہر چشم میں ہو جس کا سرور
گاہے گاہے تو وہ شراب ملے
دل بہ دل جا گزیں ہو آس کی ضو
موتیوں کو کبھی تو آب ملے
شام وعدہ کے طُور پر ماجد
دل جو چاہے ہے وہ جواب ملے
٭٭٭
سانس سانس کا کیف چُرا لے، ہنس لے جی لے
ساعت ساعت جشن منا لے، ہنس لے جی لے
کھلتی کلیوں کی خوشبو میں تیوری دھو لے
لطف جہاں بھی ملے وہ اڑا لے، ہنس لے جی لے
دن کا موتیا رات کی رانی یک جا کر لے
ایک مہک دوجی میں ملا لے، ہنس لے جی لے
ہجر کی دھول کو چہرے پر نہیں جمنے دینا
قربتِ یاراں جی میں سنبھالے ہنس لے جی لے
زیب کف لمحات کیے شبنم کے موتی
ساتھ رات کے بھنگڑا ڈالے ہنس لے جی لے
آنکھ میں چبھنے والی ہر تصویر مٹا کے
یاد یاد ماضی کی کھنگالے ہنس لے جی لے
ہاں ماجد یاور کے دیس سے آنے والا
ہر جھونکا سینے سے لگا لے ہنس لے جی لے
٭٭٭
جھاڑ کے شاخ سے ناچ نئے سکھلانا جانے
تُند ہوا پتّوں کو یوں بہلانا جانے
حکم پہ اپنے خلق خدا کو چلانا جانے
غاصب پینچ نگر کے، ساتھ ملانا جانے
زیر کماں منصف سے دلائے ساری سزائیں
کوئی ستمگر ہو یہ گُر اپنانا جانے
شیر ملائے جیسے سامنے آئے ہرن سے
کون بھلا کس سے یوں آنکھ ملانا جانے
وہ کیا جانے ایندھن بھی بننا ہے اسے ہی
پیڑ تو پھل دینا اور پھول کھلانا جانے
ہاں ایسا بھی اپنے یہاں ہی ہوا ہے ورنہ
کون کسی کی خاطر خود کو جلانا جانے
کون ہے ایسی لاج عدالت کی جو رکھے
ماجد ہی سقراط سا زہر چڑھانا جانے
٭٭٭
سانس ہی سینے کے اندر جانے کب دشنہ بنے
کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے
اپنے ہاں تاریخ میں ایسا ہوا اکثر کہ جب
ظلم کے ہاتھوں سروں سے کٹ کے سر، تحفہ بنے
ہٹ کے اس سے ہو چلیں کیوں ماہیِ بیرونِ آب
ہم کہ جس ماحول کا بچپن سے ہیں حصہ بنے
مظہرِ شوق شگفتہ شہریوں کا جانیے
جا بجا سڑکوں پہ جو خودساختہ رخنہ بنے
سخت رسوا عدل کا نعرہ وہ ہے اپنے یہاں
ہر نئے رہبر کا جو کچھ دن نیا شوشہ بنے
دوسرا غاصب جو برتے پہلے غاصب کے لیے
تخت سے نکلا وہ تختہ دار کا تختہ بنے
جو غزل بھی کہہ وہ ماجد کہہ کچھ اس انداز سے
بہر یاور دیس سے دوری کا جو تحفہ بنے
٭٭٭
ہم پہ ہر بہتان وہ آگے سے دھر جانے لگے
سچ کہیں گر ہم تو سب سِفلے بپھر جانے لگے
غیر رسمی اُن کی ہر فوٹیج کیوں ڈھونڈی گئی
ملزموں سے کیوں ہیں عادل اِتنے ڈر جانے لگے
عدل والوں کی توجّہ ہو اگر سوئے عوام
ہم بھی دیکھیں کیا نصیبے ہیں سنور جانے لگے
حملہ آور کب کریں بچّوں ضعیفوں کا خیال
کتنے تلیئر ہیں دھماکوں سے جو مر جانے لگے
جی علی، اقبال بانو، اور جگجیت و حسن
جتنے گائک تھے غزل کے سب بکھر جانے لگے
اختر و خاقان خاور اور کمالِ خوش خصال
کون اُن سا بات کی تہہ میں اُتر جانے لگے
چھال پیڑوں کی کٹے تو کس طرح ویسی اُگے
زخم محرومی کے ماجد کب ہیں بھر جانے لگے
٭٭٭
لے میں ہو زیر و بم تو کیا کہنے
ہو جو پیری میں دم تو کیا کہنے
دم آخر تلک خیالوں میں
ہو غزالوں سا رم تو کیا کہنے
ہائے یہ سرو قامتی اپنی
ہو نہ پائے جو خم تو کیا کہنے
شوخ لفظی، عمیق فکری میں
دے دکھائی صنم تو کیا کہنے
التفات شہان و فرعوناں
بیش ہو اور نہ کم تو کیا کہنے
ہو کہیں، باہمی تعلق میں
رہ سکے جو بھرم تو کیا کہنے
میر و غالب کے درمیاں ماجد
ہو جو مسند بہم تو کیا کہنے
٭٭٭
ڈِیل آقاؤں سے کرتے جو کہے اندر کہے
اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے
ناگ اپنے درمیاں کے، سیر ہو کر جو کہیں
بعد چڑیوں کے نگلنے کے وُہی اژدر کہے
یہ سفر کرنے کو ملتا ہے بھلا کب بار بار
زندگانی کے سفر کو دل کہاں دُوبھر کہے
ہاں یہی دنیا ہمیں پوجے گی اک دن دیکھنا
آج ہم سے حق پرستوں کو جو ہے خودسرکہے
آدمی اُس کا کہا گر مان لے تو خوب ہے
وقت کوئی درس بھی کرنے کو جب ازبر کہے
اپنی ڈِکشن ہو مگر جو ہو پتے کی بات ہو
میں کہوں یا سعدیہ یا بات وہ یاور کہے
ریل پیل اِسکی نہ شاہوں کے یہاں بھی ہو سکے
جگ جسے فتنہ کہے ماجد جسے تُو زر کہے
٭٭٭
کل جانے کیا ہو جانا ہے
کس نے کہاں پر کھو جانا ہے
خبر خبر نے وسوسۂ نَو
ذہن بہ ذہن سمو جانا ہے
اٹا ہوا ہر دن کا چہرہ
شبنمِ شب نے دھو جانا ہے
تخت سے چمٹا رہا جو، آخر
اُس نے اُس پر رو جانا ہے
گنگا میں ہر پاپ کا دھبّہ
دھن والوں نے دھو جانا ہے
ماضی کا خمیازہ سر پہ
آن پڑا ہے تو جانا ہے
لفظ لفظ روداد کا ماجد!
اشک بہ اشک پرو جانا ہے
٭٭٭
گزرے وقت کی بپتا حاصل سال کا ہے
دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے
خدشہ ہے تو ہر پل سانس کے گھٹنے کا
مستقبل کا کیا ہو، رونا حال کا ہے
دہشت و وحشت میں موسیقی کیا پنپے
اُکھڑا اُکھڑا مُکھڑا ہرسُر تال کا ہے
قدم قدم پر کھال ادھڑتی لاگے ہے
حال بہت پتلا اپنی اس ڈھال کا ہے
قامت، بالا ہو نہ ہمِیں ناداروں کی
سِحر یہ ہم پر کس شاطر کی چال کا ہے
چہرہ چہرہ ایک اداسی چھائی ہے
کھنڈر کھنڈر نقشہ تازہ جنجال کا ہے
ماجد اپنے بے دم دیس کے پیکر سے
گِدھ گِدھ ہی کا رشتہ ماضی و حال کا ہے
٭٭٭
ملکِ عزیز کا جو قانون ہے سویا لگتا ہے
ہر شہری اس رنج پہ کھویا کھویا لگتا ہے
بِن حاصل کے سونے ہیں کھلیان تمنّا کے
کھیت کھیت یوں بیج آسیب کا بویا لگتا ہے
اہلِ زمین نہ جانیں، بادل کیا کہنے آئیں
خاک کا منہ کا ہے کو نت نت دھویا لگتا ہے
ماں بھی اداس ہے بیٹیاں گھر والی کیونکر نہ ہوئیں
باپ بھی تنہائی میں رویا رویا لگتا ہے
گھر گھر میں ناچاکی کا اور باہر نخوت کا
سانس سانس میں ایک سا زہر سمویا لگتا ہے
ذکر سنو اس ذی قدرت کا صحنِ گلستاں میں
پتّا پتّا جس کی ثنا میں گویا لگتا ہے
دیکھیں کب جھومر بنتی ہے دیس کے ماتھے کا
دل ماجد جس سعد گھڑی کا جویا لگتا ہے
٭٭٭
منظر منظر کو مہکانے نکلا ہے
وہ راہوں پر پھول کھلانے نکلا ہے
دھجی دھجی ضابطے زیبِ زبان کیے
غاصب خلق خدا کو سدھانے نکلا ہے
راست روش سے ہٹا کے، دشت سیاست میں
بدّو رہ اِک اور سجھانے نکلا ہے
مون سون کی خبریں اپنے ساتھ لیے
جھونکا بن کی پیاس بجھانے نکلا ہے
کوئل نے اور بلبل نے جو سجائی ہے
کوّا بھی اس بزم میں گانے نکلا ہے
دشت میں جو چھالوں میں اترا وہ پانی
وحشی لُو نمناک بنانے نکلا ہے
کمپیوٹر میں دیکھیے، کس کس کونے تک
ماجد لکھا کہا پہنچانے نکلا ہے
٭٭٭
وہ پاس آ بھی گیا پھر بھی دور بستا ہے
کہ جیسے جھیل میں چندا اُتر کے ہنستا ہے
بہ فیضِ وقت ہیں خیمے تمام استادہ
جو توڑ توڑ طنابیں بھی اُن کی کستا ہے
وہ برگ گل ہے وہ تتلی کے ہے پروں جیسا
نظر کی آنچ سے اس کا بدن جھلستا ہے
جو ذی مقام ہے، ذی زر ہے، ذی شرف بھی ہے
اسی کا قولِ مبارک اک اک خجستا ہے
سعادتیں بھی سبھی اینٹھتے ہیں زر والے
انہی کے واسطے قُربِ خدا بھی سستا ہے
بندھی ہیں گنجلکیں جن میں خراب نیّت کی
ہماری زیست بھی پٹواریوں کا بستا ہے
٭٭٭
ہم سے الجھاؤ جَورِ شب کا ہے
یہی موضوع نطق و لب کا ہے
کیوں وہ غُرّا کے کھوئے وقر اپنا
رنج بس اُس کے اِس تعب کا ہے
نت اسے ڈھونڈتے ہیں از سر نو
وہ جو بچھڑا نجانے کب کا ہے
کوئی قانون کی نہ بات کرے
حکمِ حاکم نصیب سب کا ہے
ہم نہیں جنگلی پہ جنگلیوں سا
ہم پہ الزام کیوں غضب کا ہے
پہلی سیڑھی سے نت سفر ہو شروع
اپنا جینا کچھ ایسے ڈھب کا ہے
دشمنی ہے نصیب اوروں کا
یہ جو ماجد ہے دوست سب کا ہے
٭٭٭
چشم و بدن میں ایک عجب نشّہ اُترا ہے
بھِیگے بالوں میں نے کس کو دیکھ لیا ہے
سوچ کا زہر یہ جانے کس کا دیا ہُوا ہے
جس نے مجھے عیبی بچپن سے بنا رکھا ہے
ہمیں سُجھائے کیا کیا صنّاعی کا کرشمہ
ٹہنی پر جو گلاب کی تازہ پھول کھِلا ہے
شاہ نے جب سے پابندی خوراک پہ ٹھونسی
خلق کو کھانے پینے کا ہَوکا سا لگا ہے
خرچ کرائیں، قرضہ لینے پر اُکسائیں
رسم و رواج میں ٹہکا جانے کیا ایسا ہے
کھُل جائے گا جلد ہی اِس کا اثر ہے کتنا
ہاتھ دُعا کا دیکھو تو اپنا بھی اُٹھا ہے
رحمتِ یزداں ماجد قربتِ خاص سے برسے
دُور بہت ہی دُور سے کب بادل برسا ہے
٭٭٭
دہنِ غیر سے اکثر جو ادا ہوتا ہے
بول وہ بَیر کی بھٹی میں بھُنا ہوتا ہے
لاج وہ آدم و حوّا کی نبھاتا کب ہے
شخص کوئی بھی جو طِینت کا بُرا ہوتا ہے
وقت لکھ دیتا ہے وہ نام سرِ لَوحِ مزار
نام جس جس کا بھی پیڑوں پہ لکھا ہوتا ہے
اپنے ہاتھوں نہ کبھی پھول وہ کالر کا بنے
عکسِ انسان جو ہونٹوں پہ کھُدا ہوتا ہے
ہو چلے جو بھی کوئی حرص کے گھوڑے پہ سوار
دیکھتے دیکھتے وہ شخص ہوا ہوتا ہے
رفتہ رفتہ وہ ٹھہرنے لگے کیوں عید کا چاند
بام پر چاندسا جو پھول کھِلا ہوتا ہے
تخت والوں سے ہے کیوں اتنا بھی نالاں ماجد؟
ہر سخن زہر میں کیوں تیرا بُجھا ہوتا ہے
٭٭٭
بوریا بستر باندھنے کا وقت آنے لگا ہے
شاید تختۂ عجز و نیاز ٹھکانے لگا ہے
چرخِ سخن سے کونسا تارا جھڑنے کو ہے
کس بد خبری کا جھونکا لرزانے لگا ہے
کم تولیں اور نرخ زیادہ لکھ کے تھمائیں
اہلِ غرض کا سفلہ پن دہلانے لگا ہے
ملزم نے اتنی رشوت ٹھونسی ہے اُس کو
تھانے دار اب ملزم سے کترانے لگا ہے
مجھ کو بِل میں گھُسنے سے پہلے ہی اُچَک لے
چوہا بلّی جی کو یہ سمجھانے لگا ہے
نیولا داؤ دکھا کے سانپ نوالہ کر کے
حلق سے آگے بھیج کے کیا اٹھلانے لگا ہے
ماجد گروی رکھ کے ہمارے آتے دنوں کو
ساہوکار ہمیں کیا کیا بہلانے لگا ہے
٭٭٭
پسِ یقیں ہے جو حرص و ہوا کا چرچا ہے
لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے
نقاب میں بھی جو ہے بے نقاب، آنکھ ہے وہ
اُدھر بس آنکھ میں شرم و حیا کا چرچا ہے
یہ آئی ہے چمنِ قُرب سے ترے ہو کر
سحر سحر جو یہ بادِ صبا کا چرچا ہے
ہے جس کے نام پہ شاید اسے خبر بھی نہیں
سخن میں یہ جو کسی آشنا کا چرچا ہے
اسے خلافِ ریاست بھی گر کہیں تو بجا
کہ میڈیا کا غضب انتہا کا چرچا ہے
یہ لیڈروں کی نظر فوج پر ہی کیوں ہے لگی
بیاں بیاں میں یہ کس مدّعا کا چرچا ہے
ملے بھی تو کئی برسوں میں شاذ شاذ ملے
فقط خبر ہی میں ماجد سزا کا چرچا ہے
٭٭٭
آشیان کا پہلا تنکا روئے شجر پہ ٹکایا ہے
ساتھ ہی جانے کونداسا کیوں آنکھوں میں لہرایا ہے
ایک سوال ہے سُوئے عدالت کیوں نہ گئے وہ اس کے خلاف
بازاروں میں جس کا پتلاسُولی پر لٹکایا ہے
صبح سویرے کل کی طرح تازہ اخبار کے عنواں سے
تازہ خون کے نقش لیے پھر ایک مرقّع آیا ہے
پینچ وہی سردار وہی جو روند کے آئیں خلقت کو
اگلوں نے بھی پچھلوں سا انہی کو گلے لگایا ہے
پھول پھول کا حال سنائے وہ جو اگلے پھولوں کو
ہم نے تو اُس بھنورے کو اپنا مرشد ٹھہرایا ہے
سچ پوچھیں تو اس نے بھی، بُش صاحب ہی کا حق مارا
اوباما نے کیسے ماجد امن انعام کمایا ہے
٭٭٭
قلم کو دیکھا ہے رختِ ہنر کو دیکھا ہے
لگے ہے جیسے کسی شاہ پر کو دیکھا ہے
وہ جس سے لمس و قرابت کے ہیں مزے منسوب
بڑی کرید سے، ہاں اُس شجر کو دیکھا ہے
کسی کے دم سے جہاں رونقیں تھیں رقص کناں
بہت اداس بھی پھر اس نگر کو دیکھا ہے
شکار ملنے پہ جو سرفراز لگتا تھا
خفیف رُو بھی اسی شیرِ نر کو دیکھا ہے
دلوں کے تاج شب و روز ہیں بہم جس کو
بڑے ہی ٹھاٹھ میں اُس تاجور کو دیکھا ہے
وہ جس کی نِت کی دِہاڑی پہ ہو گزر ماجد
کب اُس غریب نے انبارِ زر کو دیکھا ہے
٭٭٭
اچّھے امکانات کا اچّھے کاج کا دن ہے
اصل میں بس میں ہمارے ہے تو آج کا دن ہے
آج تو سال کے بعد ہے پھر بندھن دن اپنا
آج تو جاناں دل پر تیرے راج کا دن ہے
ہونٹ سجیں جس دن بھی شوخ سخن سے وہ دن
نام اس شوخ خرام کے شوخ خراج کا دن ہے
زور جہالت سے ورنہ ناکیں کٹ جائیں
اپنے یہاں ہر دن ہی رسم و رواج کا دن ہے
ہے مفقود روایت اک دوجے کے بھلے کی
کوئی نہیں ایسا جو اچّھے سماج کا دن ہے
بن سمجھے عمریں تک گزریں رسوائی میں
سمجھیں تو ماجد ہر دن ہی لاج کا دن ہے
٭٭٭
تفنگ داغتی جو ’’ٹھاہ ٹھاہ‘‘ اتری ہے
ہمارے گرد وہ بَیری سپاہ اتری ہے
درشتگی میں ڈھلے ان تلک پہنچنے میں
ملائمت جو پئے اہلِ جاہ اتری ہے
گرسنگان میں ہے عضو عضو بٹنے لگی
وہ فاختہ کہ جو بہر پناہ اتری ہے
بنام عامیاں خیرات مرحمت جو ہوئی
بڑے بڑوں پہ بھی وہ گاہ گاہ اتری ہے
یہ نسل بھی نہ شہان سفید فام سی ہو
جو ہم سے خیر سے، کرنے نباہ اتری ہے
بغرض جاں طلبی یا پئے مسیحائی
ہمارے قلب میں اس کی نگاہ اتری ہے
ثمر تھے جو بھی عطا وہ عطائیوں کو ہوئے
اور ہم پہ گونجتی بس واہ واہ اتری ہے
٭٭٭
دِن کانٹوں کی سیج ہے اور ہر شب وجہِ بیداری ہے
عمر ہوئی ہے موت سے اپنی آنکھ مچولی جاری ہے
فیض کے خوابوں کی تعبیر تھا وہ جو زیبِ دار ہُوا
عدلیۂ عہدِ آمر پر ہَیبت جس کی طاری ہے
خَوف زدہ مَردوں کے ہاتھوں وہ لڑکی جو قتل ہوئی
باپ کی دار سجانے میں کیا اُس کی جان نثاری ہے
بڑے بڑوں کو دیس نکالا دینے والے آمر کو
تخت بدر اور مُلک بدر کرنے والا زرداری ہے
کہہ دے کہہ دے تیری غزل یہ، دُور ہے صنفِ قصیدہ سے
ماجد تیرا سخن ہی پیارے ! تیری عزّت داری ہے
٭٭٭
موسم کی جانب سے کیوں الٹا پیغام ہی آئے
کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے
گھر گھر بھی اک آمر خود کو اتّم ہی کہلائے
اپنے کہے پر اوّل و آخر کبھی نہ جو شرمائے
آتے جاتے موسموں سے میں کیوں یہ بات نہ پوچھوں
انسانی چہرے کا چاند ہی نت نت کیوں گہنائے
کہتے ہیں پیڑوں کے پھل پیڑوں سے اچّھے لاگیں
بچّوں بچّیوں کی اولاد بھی یونہی من کو بھائے
بیٹا بیٹا ماں کے جوتے تک بھی سر پر رکھے
پر اپنے بچّوں کی ماں کو نت نیچا دکھلائے
دھرمی دھرمی چرچا اپنے دھرم کا کبھی نہ بھولے
دوسرے دھرم کے لوگوں کو لیکن جھوٹا ٹھہرائے
ماجد بات کو گنجلک صورت بھی تو کبھی دیا کر
حالی سی کیا سادہ نثری غزلیں سامنے لائے
٭٭٭
تو کہ زر ہے جدھر بھی تو جائے
ساتھ بیگانگی کی خو جائے
دل کے پہلو سے یوں شباب گیا
دھن لٹے جیسے آبرو جائے
ایسی پھیلے خبر قرابت کی
گل رخوں سے، کہ چار سُو جائے
دل میں بچوں کی خیر کا سندیس
باغ میں جیسے آبجو جائے
سو بہ سو ساتھ اپنی خوشبو کے
پھول مہکے تو کو بہ کو جائے
ایسے لاگی ہمیں خطا اپنی
آگ جیسے بدن کو چھو جائے
یار ماجد تیاگ نفرت کو
برق کیونکر یہ مو بہ مو جائے
٭٭٭
کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
کچھ لوگ وہ تھے اپنے خصائل کے زور پر
جیتے ہوئے بھی خیر سے مردار ہو گئے
کچھ لوگ تھے کہ جنکی مثالی تھی تاب و تب
وہ بھی مرورِ وقت سے آثار ہو گئے
ہائے یہ ہم کہ خیر کے جویا رہے سدا
کن کن نحوستوں سے ہیں دوچار ہو گئے
دیکھا جو آنکھ بھر کے کبھی چاند کی طرف
ہم اس کیے پہ بھی ہیں گنہگار ہو گئے
٭٭٭
ہر فردوس کو دوزخ جانا پڑتا ہے
بِنت سے دُکھی بہو کہلانا پڑتا ہے
گھر مُڑنا ہے دن بھر کی دھتکار لیے
اور کچھ مال بھی پرس میں لانا پڑتا ہے
باس سے ملنا ہو تو ہنستے ہونٹوں سے
منہ سے سب کچھ جھاڑ کے جانا پڑتا ہے
آن بچانے اندر اندر کڑھنا ہے
سَکھیوں کے آگے اِترانا پڑتا ہے
بہرِ بقا موسم کی تُندی میں خود کو
لچکیلی ٹہنی سا جھکانا پڑتا ہے
زر کا ہو فقدان تو بچّے بچّے کو
جھڑکیاں دے دے کر سہلانا پڑتا ہے
آدم کو اس کی اوقات میں رکھنے کو
رب کو بھی، شیطان بنانا پڑتا ہے
عظمتِ فن کی جانب دھیان دلانے کو
غالب کے رستے میں یگانا پڑتا ہے
بیچ بُروں کے ماجد جینے بسنے کو
راتوں کو بھی خود کو جگانا پڑتا ہے
٭٭٭
چرخ سے بوندیں گریں یا بجلیاں جینا تو ہے
ہو کرم یا قہر ہر دو کے میاں جینا تو ہے
ہم پہ واجب آمروں کے حکم کی تعمیل بھی
ہوں بھلے جمہوریت کی تلخیاں، جینا تو ہے
ہو بھلے نازک بدن پر مہرباں راتوں کی اوس
ہوں بھلے پیروں تلے چنگاریاں جینا تو ہے
چہرہ چہرہ منعکس چاہے ہلالِ عید ہو
رُو بہ رُو شکنوں کی ہوں گلکاریاں جینا تو ہے
چھُٹ کے غیروں سے گرفتِ خویشگاں میں ہوں اسیر
ہوں غلامی کی گلے میں دھاریاں جینا تو ہے
آپ اُنہیں ماجد قفس کی تیلیاں کہہ لیں بھلے
سو بہ سو چاہے ہوں ذمّے داریاں جینا تو ہے
٭٭٭
ہمت کرے تو جی لے جتنا بھی تیرا جی ہے
پر جان لے کہ پیری بونس کی زندگی ہے
چلتے رہٹ سی، اپنی رفتارِ ارتقا کا
بچپن میں تھا جو دیکھا اب بھی چلن وہی ہے
آقا ہے جو بھی اُس نے مجھ سے یہی کہا ہے
بندہ ہوں میں تو میرا منصب ہی بندگی ہے۔
ہیں برق و سیل ہی بس اعلانیہ حقیقت
مبہم جو خواب سی ہو ہاں ہاں وہ آشتی ہے
اچّھوں کے درمیاں ہی کیونکر نفاق اُترے
اور ہاں بُروں کا پیہم کیوں ربطِ باہمی ہے
وہ پھول کی ہو چاہے یا ماہتابِ شب کی
لگتی ہے شکلِ جاناں جو شکل بھی بھلی ہے
ماجد جو پُر خطر ہو، جانے جو چھینا جھپٹی
کیوں نام پر اُسی کے لکھی گئی شہی ہے
٭٭٭
ناک کی سیدھ میں چلنے کا ہُنر آتا ہے
سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے
تب پتہ چلتا ہے یہ، پینگ میں جب جھول پڑے
راہ گم کردہ بہت دیر میں گھر آتا ہے
واہمے طَے رہِ منزل نہیں کرنے دیتے
ہاتھ کم کم ہی سجنوا کا نگر آتا ہے
ہر کہیں بانٹتے تم خیر کی سوغات پھرو
گود میں لَوٹ کے بس تحفۂ شر آتا ہے
یہ نگر اپنا بھی کیا مزرعۂ شر ہے کہ جہاں
دن کو بھی گھر سے نکلتے ہوئے ڈر آتا ہے
چاہے ماجد! اُسے تُم آن۔ ۔ کہ پہچان کہو
مرتبہ ہاتھ جو آئے تو بہ زر آتا ہے
٭٭٭
تشکر: یاور ماجد جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید