FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

میں عشق میں ہوں

 

(’میں عشق میں ہوں‘ مجموعے کی نصف غزلیں)*

 

               منصور آفاق

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

*باقی نصف غزلیں ’مژہ پر سبز آنسو‘ او نظمیں ’محبت کی نظمیں‘ عنوانوں کی ای بکس کے تحت جمع و ترتیب دی گئی ہیں)

 

 

 

 

اے کوچۂ جاں کے بخت ورو میں عشق میں ہوں

اب گلیوں میں اعلان کرو میں عشق میں ہوں

 

دیوار و در پر شہر کی سب پوشاکوں پر

دل پینٹ کرو تصویر گرو میں عشق میں ہوں

 

اے شامِ وفا کی گرم رقاصہ گلیوں میں

اب ڈھول بجا کر رقص کرو میں عشق میں ہوں

 

ہے رنگِ چراغاں شہرِ وفا میں خوب مگر

کچھ سرخ غبارے اور بھرو میں عشق میں ہوں

 

اے صحنِ چمن کے پچھلے پہر کی تیز ہوا

بس پھولوں کے اب ہار پرو میں عشق میں ہوں

 

اب حالتِ دل کو اور چھپانا ٹھیک نہیں

اُس جانِ جہاں سے کہہ کر رو میں عشق میں ہوں

 

آواز نہ دے اب کوئی مجھے ،چپ رنگ رہیں

اے قوسِ قزح کے نرم پرو میں عشق میں ہوں

 

میں عشق میں ہوں میں عشق میں ہوں میں عشق میں ہوں

میں عشق میں ہوں آشفتہ سرو میں عشق میں ہوں

 

اے شعلۂ گل کے سرخ لبو ں کی شوخ شفق

خاموش رہو، خاموش رہو میں عشق میں ہوں

 

ہے تیز بہت یہ آگ بدن کی پہلے بھی

اے جلوۂ گل بے باک نہ ہو میں عشق میں ہوں

 

ہے نام لکھا معشوقِ ازل کا ماتھے پر

اے ظلم وستم کے شہر پڑھو میں عشق میں ہوں

 

پھر ہاتھ بڑھا کر سب کے گریباں چاک کرو

پھر زور سے تم منصور کہو میں عشق میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

میں محبت زدہ ہوں ویسے ہی

پھر کسی کا ہوا ہوں ویسے ہی

 

آج میرا بہت برا دن تھا

یار سے لڑ پڑا ہوں ویسے ہی

 

ایک رہرو سے پوچھتے کیا ہو

میں یہاں رک گیا ہوں ویسے ہی

 

پھول یوں ہی یہ پاس ہیں میرے

راستے میں کھڑا ہوں ویسے ہی

 

مجھ کو لا حاصلی میں رہنا ہے

میں تجھے سوچتا ہوں ویسے ہی

 

اس لئے آنکھ میں تھکاوٹ ہے

ہر طرف دیکھتا ہوں ویسے ہی

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیوں گماں تیرا ہوا اک اجنبی کو دیکھ کر

سوچتی ہیں کچھ یہ آنکھیں پھر اسی کو دیکھ کر

 

دوستو کہنا ضرور اس خوبصورت شخص سے

دل دھڑکتا ہی نہیں ہے اب کسی کو دیکھ کر

 

اس قدر میں نے جلائے تیرے ہجراں میں چراغ

رات آتی ہی نہیں ہے روشنی کو دیکھ کر

 

رفتہ رفتہ آ رہی سے تجھ سے باہر میری ذات

شاید اب پہچانتا ہوں زندگی کو دیکھ کر

 

جا رہی ہے غیر کے پہلو میں میری زندگی

جی لرز اٹھا ہے اپنی بے بسی کو دیکھ کر

 

پھر مرے چاروں طرف خوشبو ہے میرے یار کی

خوش ہوا ہوں غم میں اپنی واپسی کو دیکھ کر

 

رات کا ویران صحرا ذہن میں لہرا گیا

ڈر رہا تھا شام کی خالی گلی کو دیکھ کر

 

ہر جگہ منصور ظالم ہے محبت ہر جگہ

رو پڑا میں یار کی تر دامنی کو دیکھ کر

٭٭٭

 

 

 

میں نے کیا دیکھنا تھا ویسے بھی

میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی

 

اس کی آنکھیں بدل رہی تھیں ذرا

اور میں بے وفا تھا ویسے بھی

 

اس نے مجھ کو پڑھانا چھوڑ دیا

میں بڑا ہو گیا تھا ویسے بھی

 

کچھ مزاج آشنا نہ تھی دنیا

کچھ تعلق نیا تھا ویسے بھی

 

کچھ ضروری نہیں تھے درد و الم

میں اسے پوجتا تھا ویسے بھی

 

اس نے چاہا نہیں مجھے منصور

میں کسی اور کا تھا ویسے بھی

٭٭٭

 

 

 

 

بہت اداس بہت بے قرار رہتا ہے

مگر اُسی طرح دریا کے پار رہتا ہے

 

نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق

کسی کا پھر بھی مجھے انتظار رہتا ہے

 

مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں

دل اپنا یار ، یونہی سوگوار رہتا ہے

 

شبِ وصال ہی رہتی ہے میرے پہلو میں

خیال میں بھی کوئی ہم کنار رہتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اک دو گھڑی کا تیرا تعلق کہے مجھے

صدیاں گزر گئی ہیں تجھے جانتے ہوئے

 

اس کے کمالِ ضبط کی منصور خیر ہو

صرفِ نظر کیا مجھے پہچانتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

دوبارہ کاٹنے آؤ گے ۔۔۔آس ہے سائیاں

ابھی تو کھیت میں دو دن کی گھاس ہے سائیاں

 

تمہارے قرب کی مانگی تو ہے دعا میں نے

مگر یہ ہجر جو برسوں سے پاس ہے سائیاں

 

جسے ملو وہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

بھرا ہوا بھی کسی کا گلاس ہے سائیاں

 

ترے بغیر کسی کا بھی دل نہیں لگتا

مرے مکان کی ہر شے اداس ہے سائیاں

 

ٹھہر نہ جائے خزاں کی ہوا اسے کہنا

ابھی شجر کے بدن پر لباس ہے سائیاں

 

کوئی دیا کہیں مصلوب ہونے والا ہے

بلا کا رات پہ خوف و ہراس ہے سائیاں

 

نجانے کونسی کھائی میں گر پڑے منصور

یہ میرا وقت بہت بد حواس ہے سائیاں

٭٭٭

 

 

 

کبھی غم سے کبھی آزار سے مل کر رویا

اپنے گھر کے در و دیوار سے مل کر رویا

جب سے ٹوٹا ہوں اسی دن سے مسلسل منصور

اپنے اندر کے میں فنکار سے مل کر رویا

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں چشم و لب و رخسار دیکھیں

محبت کے بھی کچھ آثار دیکھیں

 

طلب کی آخری حد آ گئی ہے

وہ آئیں اور مرا انکار دیکھیں

 

اسے ہر بار ہم یوں دیکھتے ہیں

کسی کو جیسے پہلی بار دیکھیں

٭٭٭

 

 

 

خواہ یہ دل برباد رہے

اس میں تُو آباد رہے

 

اک لمحے کی خواہش میں

برسوں ہم ناشاد رہے

 

ایک دعا دکھیارے کی

غم سے تُو آزاد رہے

 

اشکوں سے تعمیر ہوئی

درد مری بنیاد رہے

 

میں بھی کوئی ہوتا تھا

اتنا تجھ کو یاد رہے

 

زخم نہ چاٹے کوئی بھی

مر جائے یا شاد رہے

٭٭٭

 

 

 

 

تجھ کو معلوم کہاں آنکھ چرانے والے

کس لئے روٹھ گئے مجھ سے زمانے والے

 

میں نے خوابوں کے دریچوں سے عبث جھانکا تھا

تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے

 

روٹھنے والے مجھے اب تو اجازت دے دے

اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے

 

میں تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتا ہوں

یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے

 

بجھ گئے اب مری پلکوں پہ سسکتے دیپک

ہو گئی دیر بہت دیر سے آنے والے

 

راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن

تم جو زندہ تھے مجھے چھوڑ کے جانے والے

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی صرف سولہ برس کی ہو تم

گھڑے دو نہ سر پہ اٹھایا کرو

 

چلا مت کرو اس قدر ناز سے

نہ بن ٹھن کے دریا پہ آیا کرو

 

مساگ آ کے ہونٹوں پہ مچلے نہیں

نہ ماتھے پہ بندیا لگایا کرو

 

تلے والی جوتی پہ موتی نہ ہوں

زری کی نہ پوشاک پہنا کرو

 

بہت تنگ کرتی پہن کر کبھی

سرِ شام گھر سے نہ نکلا کرو

 

مری جان ! ساجن کے ہوتے ہوئے

نہ لوگوں کو جوبن دکھایا کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہر موج کے پہلو میں دل تیرے لئے ہوتے

کشتی میں جو تُو ہوتی پانی پہ دئیے ہوتے

 

تُو نرس بدن کی تھی ،تُو میری معالج تھی

یہ حق تھا ترا تُو نے یہ زخم سیئے ہوتے

 

جو تیرے سٹیشن پر گاڑی نہ رکی ہوتی

ہم نے بھی نئے صحرا معلوم کئے ہوتے

 

لوٹ آئے ہیں پھر تیرے ہم کوئے ملامت میں

جی سکتے اکیلے تو ہم لوگ جئے ہوتے

 

اجداد نے ہاتھوں میں بندوق نہیں دی ہے

ورنہ شبِ ہجراں کے آنسونہ پئے ہوتے

 

اے دوست جوانی کو کیوں شیلف میں رکھا ہے

کچھ زخم دئیے ہوتے ، کچھ زخم لئے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

رات بھر وہ صبحِ ہجراں کو صدا دیتا رہا

وصل کا بے لمس لمحہ بد دعا دیتا رہا

 

آتے جاتے موسموں پر یہ ہوا کا تبصرہ

تیری خوشبوئے بدن کا بھی پتہ دیتا رہا

 

جس نے ساری عمر رو رو کر گزاری وہ مجھے

’’وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ ‘‘دیتا رہا

 

اک نیا بھیجا ہے اس نے روز تحفہ درد کا

جتنا دے سکتا تھا چاہت کا صلہ دیتا رہا

 

میں خدا کی راہ میں دیتا ہے اپنا لہو

اور مجھ کو زندگی میرا خدا دیتا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لوٹ آئی ہوئی اک گزری گھڑی حیرت سے

دیکھتی تھی مجھے ٹیرس پہ کھڑی حیرت سے

 

اک بگولے کی طرح اڑتے ہوئے دیکھتی تھی

درد کی دھول کو ساون کی جھڑی حیرت سے

 

تک رہی تھی ترے بنتے ہوئے ہیکل کے کلس

ایک دیمک زدہ لکڑی کی چھڑی حیرت سے

ق

رات کے پچھلے پہر دیکھ کے کھڑکی میں مجھے

ایک ناراض نظر بول پڑی حیرت سے

 

کیا بتاؤں میں طلسماتی بدن کی باتیں

رات بھر اپنی تو بس آنکھ لڑی حیرت سے

 

داستانِ لب و عارض جو میں لکھنے بیٹھا

ٹوٹ جاتی تھی کہانی کی کڑی حیرت سے

 

òجلد میں اتنی بھی ہوتی ہے سفیدی منصور

چھو کے دیکھا تھا اسے میں نے بڑی حیرت سے

٭٭٭

 

 

 

طویل و تیرہ سہی شب مگر تسلی رکھ

ہے ساتھ ساتھ کوئی ہمسفر، تسلی رکھ

 

اسے گزرنا انہی پتھروں سے ہے آخر

اے میری شوق بھری رہگزر ،تسلی رکھ

 

ابھی سے صبحِ جدائی کا خوف کیا کرنا

ہے ماہ تاب ابھی بام پر، تسلی رکھ

 

کسی کاساتھ گھڑی دو گھڑی بھی کافی ہے

اے زندگی کی رہِ مختصر تسلی رکھ

 

نہیں نکلتی ترے منظروں سے بینائی

یہیں کہیں ہے۔ گرفتِ نظر، تسلی رکھ

 

ثمر نصیب یہ لا حاصلی سدا منصور

یہ ہار ہار نہیں ، ہار کر تسلی رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

خراب و خستہ و ناکام کو ترے غم نے

بنایا خاص کسی عام کو ترے غم نے

 

وہ جانتا ہی نہیں تھا فراق کے آداب

لگا دی آگ درو بام کو ترے غم نے

 

کھلے ہوئے ہیں درختوں کے بال وحشت سے

رلا دیا ہے عجب شام کو ترے غم نے

 

میں آنسوؤں کے گہر ڈھونڈتا تھا پہلے بھی

بڑھایا اور مرے کام کو ترے غم نے

 

بنا دیا ہے جہاں بھر میں معتبر کیا کیا

مجھ ایسے شاعرِ بے نام کو ترے غم نے

 

بدل دیا ہے یقیں کے گمان میں منصور

فروغِ ہجر کے الزام کو ترے غم نے

٭٭٭

 

 

 

 

ٹہل رہا تھا کوئی سنگ سنگ رنگوں کے

بدل رہے تھے تسلسل سے رنگ رنگوں کے

 

وہ آسمان پہ شامِ وصال پھرتی ہے

بچھے ہیں قوسِ قزح پہ پلنگ رنگوں کے

 

اتر نہ جائے درختوں سے گل رتوں کی شال

پہن لے کپڑے ذرا شوخ و شنگ رنگوں کے

 

تری گلی سے نکلتے نہیں ہیں جانِ بہار

فقیر عارضِ گل کے ملنگ رنگوں کے

 

تری مہک سے بڑھاتے ہیں اپنی توقیریں

میں جانتا ہوں سبھی رنگ ڈھنگ رنگوں کے

٭٭٭

 

 

 

 

اک مشکِ دلربا سی پہلے پہل لگی

اچھی مجھے اداسی پہلے پہل لگی

 

اشکوں کا ذائقہ ہوا محسوس بعد میں

بھیگی ہوئی ہوا سی پہلے پہل لگی

 

پھر دردِ لا دوا سے رشتہ سدا رہا

وہ بے وفا۔ دعا سی پہلے پہل لگی

 

رنگوں کی رہ رہا ہوں اب تو سرائے میں

اچھی یہ خوش لباسی پہلے پہل لگی

 

رک رک کے بولتا تھا میرا بدن مگر

جذبوں کو بدحواسی پہلے پہل لگی

 

پھر کھو گیا بدن کے شاداب باغ میں

اپنی یہ روح پیاسی پہلے پہل لگی

 

سایوں سے بھی مجھے اب آنے لگا ہے ڈر

تنہائی کچھ خدا سی پہلے پہل لگی

٭٭٭

 

 

 

بہتی رہتی ہے گھٹا دیدۂ پرنم کی یونہی

اچھی لگتی ہے یہ برسات مجھے غم کی یونہی

 

کوئی امکان نہیں اس کے بچھڑ جانے کا

یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی

 

پھر مجھے چھوڑ کے جانا تھا کسی نے شاید

رات آئی نہ تھی یہ ماہِ محرم کی یونہی

 

اپنی آنکھوں سے بنا لینے دو تصویر مجھے

پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی

 

ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور

آگ جلتی رہے یہ نوحۂ ماتم کی یو نہی

٭٭٭

 

 

 

یہ کیا کہ ہجر کا موسم کرے دراز وہی

جسے ہے ترکِ مراسم پہ اعتراض۔ وہی

 

یہ لگ رہا ہے کہ پھر شامِ اشک آئی ہے

دکھائی دی ہے مجھے چشمِ بد لحاظ وہی

 

یہ جنگ ہارنا میرے لئے ضروری ہے

میں مانتا ہوں کہ ہے ضبط کا محاذ وہی

 

جسے پسند نہیں تھی اداس رت کی غزل

سرھانے رکھتی ہے اب کیوں مری بیاض وہی

 

تر ے فراق کی وحشت سے جو شناسا ہو

وہی وصال سے ہوتا ہے سرفراز وہی

 

مرے خیال کی مسجد میں اور کوئی نہیں

وہی وضو ،وہی سجدہ، وہی نماز وہی

 

جسے ملی ترے رخسار و لب کی گیرائی

ہوا خدائی سے منصور بے نیاز وہی

٭٭٭

 

 

 

ہمیشہ کیلئے جیون سے لڑ جانے کی جلدی تھی

نجانے کیوں تجھے جڑ سے اکھڑ جانے کی جلدی تھی

 

ابھی تو ہم ملے ہی تھے ، ابھی تو گل کھلے ہی تھے

تجھے کیا اسقدر جاناں بچھڑ جانے کی جلدی تھی

 

فقط تُو ہی نہیں بدلی ، نئی رت سے بہت پہلے

یہاں پرتو درختوں کو بھی جھڑ جانے کی جلدی تھی

 

مجھے تو ہجر میں رہنے کی عادت ہے مگر جاناں

تجھے بھی ایسا لگتا ہے اجڑ جانے کی جلدی تھی

 

بجا ہے ہاتھ کو میرے تمنا تیری تھی لیکن

ترے دامن کو بھی شاید ادھڑ جانے کی جلدی تھی

 

پلکوں سے ستاروں کی کمائی کا سبب پوچھ

آ مجھ سے کسی روز جدائی کا سبب پوچھ

 

یہ پوچھ کہ کیوں جوگ لیا سبز رتوں میں

مجھ سے بھی فقیری کا گدائی کا سبب پوچھ

 

گجروں کی کوئی شہر نگاراں میں کمی ہے

اے دوست مری خالی کلائی کا سبب پوچھ

 

یہ دیکھ کہ سیلاب کا سرچشمہ کہاں ہے

آ آنکھ میں دریا کی رسائی کا سبب پوچھ

 

دل اپنے رویے پہ شرم سار نہیں ہے

منصور سے آ تلخ نوائی کا سبب پوچھ

٭٭٭

 

 

 

 

کسی کے بام سے اٹھتی ہوئی سحر نہ دکھا

تُو خالی ہاتھ مجھے بھیج۔۔ اور در نہ دکھا

 

ترے قریب کے لوگوں سے کل بھی ملنا ہے

یہ اتنے دور سے اے دوست اپنا گھر نہ دکھا

 

یہ آفتاب ہے آتش کدہ ہے جذبوں کا

جمالِ یار کو مہتابِ یخ نظر نہ دکھا

 

گزر کے آیا ہوں پت جھڑ کے زرد صحرا سے

مجھے بہار کی یہ شاخِ بے ثمر نہ دکھا

 

یہ کاٹنی ہے مجھے حوصلے سے تنہائی

شبِ فراق مجھے اپنی چشمِ تر نہ دکھا

 

میں جانتا ہوں کہ جنگل ہیں بیچ میں منصور

مجھے یہ راہ میں پھیلے ہوئے خطر نہ دکھا

٭٭٭

 

 

 

 

کنجِ لب سے جھیل کے ۔صبحِ کنول اچھی ہوئی

تیرے ہمرہ پھر مری شامِ سجل اچھی ہوئی

 

لمس کے مصرعے اترتے تھے لب و رخسار سے

بیٹھ کر پہلوئے جاناں میں غزل اچھی ہوئی

 

نیکیوں کی پوٹلی کھلتی رہی پھر رات بھر

رات بھر پھر محفلِ حسنِ عمل اچھی ہوئی

 

تیری زلفوں سے جو نکلی قاتلہ تھی رات وہ

تیری صورت میں جو آئی وہ اجل اچھی ہوئی

 

رات بھر بیٹھے رہے سگ یار کی دہلیز پر

یار کے کوچے میں اپنے ساتھ کل اچھی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

میں آگہی کی گلی میں ریا کی شدت سے

پہنچ گیا ہوں شکستِ وفا کی شدت سے

 

دکھائی دیتا ہے طوفان مجھ میں آیا ہوا

کواڑ ٹوٹ نہ جائیں ہوا کی شدت سے

 

خدا نہیں ہے کہ اس کا شریک کوئی نہ ہو

میں چاہتا ہوں تجھے بھی بلا کی شدت سے

 

کچھ اور ہوتے ہیں روشن ستم کی راہوں میں

چراغ ظلمتِ بے انتہا کی شدت سے

 

بڑے وقار سے ٹکرا رہے ہیں پھر منصور

ضمیر قوتِ فرمانروا کی شدت سے

٭٭٭

 

 

 

 

زمیں پہ رہ کے فلک سے ہے رابطہ کرنا

کسے نصیب خدا سے مصافحہ کرنا

 

تمام شہر ہے اس کے حصار میں شاید

بڑا عجیب تھا لوگوں سے کچھ پتہ کرنا

 

ترے فراق کا دیکھیں گے مسئلہ کیا ہے

کبھی جو وقت ہو مجھ سے مکالمہ کرنا

 

گلے سے لگ کے ملا کر کبھی کبھی مجھ سے

مجھے پسند ہے تجھ سے معانقہ کرنا

 

کہے ہے آنکھ میں پوشیدہ کائنات مجھے

ہر ایک شے کا مکمل مطالعہ کرنا

 

بڑا ضروری ہے عشقِ مجاز میں منصور

خود اپنے آپ پہ خود کو فریفتہ کرنا

٭٭٭

 

 

 

کس قدر نرم سی نازک سی ہے اردو کی طرح

صرف محسوس کیا کر اسے خوشبو کی طرح

 

پھر ہرے ہو گئے اس دل میں ترے زخم کے پھول

پھر چلی سرد ہوا میگھ کے دارو کی طرح

 

قتل گاہیں اسے محبوب بہت ہیں لیکن

یار ظالم نہیں چنگیز و ہلاکو کی طرح

 

وقت سچائی خدا ساتھ ہیں تینوں میرے

میں ہوں منصور مشیت کے ترازو کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

آسرا ٹوٹے ہوئے دل کے کھلونے پر رکھا

عشق میں پاؤں تعلق ختم ہونے پر رکھا

 

دیکھتے کیا دو جہاں ہم کہ فراقِ یار میں

چشم و دیدہ کو ہمیشہ وقف رونے پر رکھا

 

رات ہم بھی یار کے ہم رقص بن سکتے تو تھے

جانے کیوں محفل میں خود کو ایک کونے پر رکھا

 

اپنی آنکھیں چھوڑ آئے تیرے دروازے کے پاس

اور تیرے خواب کو اپنے بچھونے پر رکھا

 

پانیوں کو ساحلوں میں قید کر دینے کے بعد

موج کو پابند ساحل کے ڈبونے پر رکھا

 

سونپ کر منصور دل کو آگ سلگانے کا کام

آنکھ کو مصروف دامن کے بھگونے پر رکھا

٭٭٭

 

 

 

 

چل رہے ہیں ایک ساتھ

میں خدا اور کائنات

 

دو وجودوں میں جلی

سردیوں کی ایک رات

 

گر پڑی ہے آنکھ سے

اک قیامت خیز بات

 

تیرے میرے درد کا

ایک شجرہ ،ایک ذات

 

پانیوں پر قرض ہے

فدیۂ نہرِ فرات

 

آگ سے بھی گرم تھا

یار کا منصور ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

 

وصل کی ریت پہ جلتا ہوا ساون اور میں

لمس کی آنچ سے بھیگا ہوا ساجن اور میں

 

ٹیپ ریکارڈ پہ بجتا ہوا غمگیں نغمہ

ہر طرف پھیلی اداسی ،مرا انگن اور میں

 

شہر لاہور میں داتا کی گلی کے باہر

ایک مٹیار کا ہوتا ہوا درشن اور میں

 

یہ مرے خواب میں اک ساتھ سجائے کس نے

ترا چہرہ ، تری زلفیں ترا دامن اور میں

 

تھا یہ اندیشہ کہ سبقت نہ کرے موت کہیں

کچھ اسی واسطے جلدی میں تھے دشمن اور میں

 

شور برپا تھا بلائیں تھیں ہوا میں منصور

آمنے سامنے جیسے ترا جوبن اور میں

٭٭٭

 

 

 

روٹھے ہوئے دیارِ ستم گر نے آ لیا

آوارگی کی شام مجھے گھر نے آ لیا

 

گزرا کہیں سے اور یہ آنکھیں چھلک پڑیں

یادش بخیر یار کے منظر نے آ لیا

 

میں جا رہا تھا زخم کا تحفہ لئے بغیر

اس کی گلی سے گزرا تو پتھر نے آ لیا

 

میں سن رہا ہوں اپنے ہی اندر کی سسکیاں

کیا پھر کسی عمل کے مجھے ڈرنے آ لیا

 

منصور چل رہا تھا ابھی کہکشاں کے پاس

یہ کیا ہوا کہ پاؤں کی ٹھوکر نے آ لیا

٭٭٭

 

 

 

دستکوں کی آس پر لکڑی کے در بوڑھے ہوئے

اور ہم مغرور مجنوں اپنے گھر بوڑھے ہوئے

 

جس کی تزئین کیلئے اپنی جوانی صرف کی

دوست ہم اس شہر کے فٹ پاتھ پر بوڑھے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

فن کو سدھارتے ہوئے ماہر ڈسے گئے

سانپوں کو ساتھ رکھتے تھے آخر ڈسے گئے

 

دنیا زمانہ ساز چلن سے تھی آشنا

بھولے تھے اس لئے ترے شاعر ڈسے گئے

 

تجھ کو بھی کچھ خبر ہے سپیروں کے تاج ور

تیری گلی میں کتنے مسافر ڈسے گئے

 

زلفِ سیہ کی ایک لپک سے بہار میں

اڑتے ہوئے خیال کے طائر ڈسے گئے

 

اک ساحرہ سروپ کے رخسارِ سرخ سے

منصور شہر لمس کے ساحر ڈسے گئے

٭٭٭

 

 

 

 

رات وہ کیا آنسوؤں میں عکس افگن ہو گئے

بہتے پانی میں ہزاروں بلب روشن ہو گئے

 

مسکرااٹھتے تھے برتن مانجھنے پر جھاگ سے

اس کلائی سے جو بچھڑے زرد کنگن ہو گئے

 

سارادن لاہور میں پھرتا رہا لے کر چراغ

یوں ہوا پھر رات کو داتا کے درشن ہو گئے

 

سایۂ گل کی تمنا میں ہم اہلِ گلستاں

سوختہ جاں ، سوختہ دل ، سوختہ تن ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھیں کہیں لگی تھیں دریچہ کہیں کا تھا

آیا کہیں ہوں اور ارادہ کہیں کا تھا

 

یہ آگ تھی کسی کی نظر میں لگی ہوئی

در آیا ہے جو دل میں خرابہ کہیں کا تھا

 

کچھ میں بھی تھک گیا تھا طوالت سے شام کی

کچھ اس کا انتظار کمینہ کہیں کا تھا

 

حیرت ہے جا رہا ہے ترے شہر کی طرف

کل تک یہی تو تھا کہ یہ رستہ کہیں کا تھا

 

دیکھا اسے تو آنکھ سرِ بزم رو پڑی

میں بھول ہی گیا تھا کہ وعدہ کہیں کا تھا

 

اترا کہیں پہ اور مرے وصل کا جہاز

منصور پاسپورٹ پہ ویزہ کہیں کا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ لب سمیٹ لیں صحرا کی پیاس ایسا ہو

خود آپ کے چل کے کنواں آئے پاس ایسا ہو

 

کہانی سب کو سناتا پھرے محبت کی

کسی کے عشق میں دل بدحواس ایسا ہو

 

وہ خوش جمال بدن نرم گرم جیسا ہے

مرے بھی جسم کا کوئی لباس ایسا ہو

 

ملال سسکیاں گلیوں میں بھرتے پھرتے ہیں

یہ شہر روز ترے بن اداس ایسا ہو

 

کوئی بھی راستہ یادوں کی دسترس میں نہ ہو

ہر ایک راہ پہ اگ آئے گھاس ایسا ہو

 

جسے خبر ہو کہ آنکھیں فراق کی کیا ہیں

بس ایک شہر میں چہرہ شناس ایسا ہو

 

وہ بار بار پڑھے رات دن جسے منصور

کتابِ دل کا کوئی اقتباس ایسا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

جذبوں بھری نہیں ہے کرن اشتعال کی

سوئی ہوئی ہے رات مرے ہم خیال کی

 

شاید کئی جنم کی اداسی ہے میرے ساتھ

صدیاں پڑی ہیں صحن میں شامِ ملال کی

 

میں نے تمام عمر گزاری ہے ایک رات

مجھ کو خبر نہیں کوئی صبحِ وصال کی

 

آئی ہوئی ہے گھر میں جو مہمان ان دنوں

لڑکی ہے اور ہے بھی وہ لڑکی کمال کی

 

رقصاں ہے کوئی شخص تو ماتم کی تال پر

آواز آ رہی ہے کہیں سے دھمال کی

 

پچھلے پہر میں گزری ہے منصور زندگی

چلتی ہے اپنے ساتھ یہ ساعت زوال کی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک ساتھ سونا ہے

گھر میں اک بچھونا ہے

 

سربلند لوگوں کا

بادشاہ بونا ہے

 

دوسرے کے ماتم پر

اپنا اپنا رونا ہے

 

کائنات سے باہر

گھر کا ایک کونا ہے

 

چائے کی پیالی میں

آسماں ڈبونا ہے

 

چار دن کی دنیا میں

کیا کسی کا ہونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یوں خیالوں نے بدحواس کیا

ہجر کو وصل پر قیاس کیا

 

اپنی پہچان کے عمل نے مجھے

روئے جاناں سے روشناس کیا

 

کچھ فسردہ زمیں سے تھے لیکن

آسماں نے بہت اداس کیا

 

ہم نے ہر ایک نماز سے پہلے

زیبِ تن خاک کا لباس کیا

 

بھول آئے ہیں ہم وہاں منصور

کیا بسرا کسی کے پاس کیا

٭٭٭

 

 

 

 

رفتہ رفتہ اک پہاڑی راستہ گم ہو گیا

دو گھروں کے بیچ غم کا رابطہ گم ہو گیا

 

نرم و نازک جسم کی پتھر مزاجی کے سبب

اس سیہ مورت کا کڑو ذائقہ گم ہو گیا

 

اس نے از راہِ محبت مجھ سے پوچھا حالِ دل

یہ اچانک ہونے والا واقعہ گم ہو گیا

 

زندگی کی گفتگو ہونے لگی دونوں کے پیچ

وصل کی شب کچھ نہ کہنے کا گلہ گم ہو گیا

 

ایک گہری چپ میں گم ہونا کرامت ہے مگر

سولیوں پر بولنے کا مشورہ گم ہو گیا

 

کھو گئے منصور جگنو خوبصورت شام سے

سہہ پہر سے تتلیوں کا قافلہ گم ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

دیکھ کر یونہی کسی کو۔اس پہ مر جانا غلط

میرا مجنوں میرا پاگل میرا دیوانہ غلط

 

ان دنوں غم ہائے دوراں کی کہانی ٹھیک ہے

اے غمِ جاناں ترا فی الحال افسانہ غلط

 

ایک دل اور ہر حسین سے لاکھ پیمانِ وفا

ایک شیشے کو ہر اک پتھرسے ٹکرانا غلط

 

ایک تجریدی تصور ہے یہ ساری کائنات

ایسے الجھے مسئلے بے کار۔ سلجھانا غلط

 

ہاں ترا صدیوں پرانا ذہن ہے بالکل درست

یہ لب و عارض غلط ،یہ جام و پیمانہ غلط

 

میں انالحق کہہ رہا ہوں اور خود منصور ہوں

مجھ سے اہل معرفت کو بات سمجھانا غلط

٭٭٭

 

 

 

 

 

آتے رہیں آنکھوں کو ترے خواب ہمیشہ

بھرتے رہیں پانی سے یہ تالاب ہمیشہ

 

اجڑے ہوئے لوگوں کی دعا ہے کہ تمہارا

یہ تازہ تعلق رہے شاداب ہمیشہ

 

کس وقت کوئی رات کو دوپہر بنا دے

میں رکھتا ہوں خسخانہ و برفاب ہمیشہ

 

ہے رات دسمبر کی مگر گھر سے نکل آ

گلیوں میں نکلتے نہیں مہتاب ہمیشہ

 

منصور شریک اپنی محبت میں تھی دنیا

ہجراں کے فراہم رہے اسباب ہمیشہ

٭٭٭

 

 

 

 

بے حال چلے شہر سے کمزور چلے

وہ ظلم ہے پہیے کئی چوکور چلے

 

بس پوٹلی کاندھے پہ وفا کی رکھ کر

ہم لوگ میانوالی سے لاہور چلے

 

آتی ہے سویروں سے بھی آوازِ فراق

یہ ہجر بھری رات بھی پُر شور چلے

 

ممکن ہے ٹھہر جائے لہو کی بارش

کچھ دیر گھٹا درد کی گھنگھور چلے

 

چلتی ہے وہ لڑکی کہ سرِ کنجِ صبا

پانی پہ شعاعوں بھرا بلور چلے

 

وہ خالی پڑا ہے کوئی بندوق نگر

وہ صدر مقامات سے شہ زور چلے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ واقعہ بھی آنکھ کے اندر کہیں ہوا

اک اشک کے مکاں میں سمندر مکیں ہوا

 

سینے کے بال چھونے لگی ہے دہکتی سانس

یہ کون آج یاد کے اتنے قریں ہوا

 

قسمت عجیب ہے مرے گھر کی کہ بار بار

لٹنے کے باوجود بھی خالی نہیں ہوا

 

کھڑکی سے آ رہا تھا ابھی تو نظر مجھے

یہ خانماں خراب کہاں جاگزیں ہوا

 

اک تیز دھار چاند کو رکھ کر میان میں

زیتون کا درخت مرا ہم نشیں ہوا

 

رہتی ہے اور رہنی ہے جس پہ ہمیشہ رات

وہ قریۂ فراق مری سرزمیں ہوا

 

منظر جدا نہیں ہوا اپنے مقام سے

ہونا جہاں تھا واقعہ بالکل وہیں ہوا

٭٭٭

 

 

 

اس دشتِ بے کسی کو، صبا کی گلی نہ کہہ

یہ جو گزر رہی ہے، اسے زندگی نہ کہہ

 

میرے لئے بہت ہے تری ایک ہی نظر

اس میرے روٹھنے کو، تُو ناراضگی نہ کہہ

 

میں کیسے بھول سکتا ہوں تیری اداسیاں

ممکن نہیں ہے میرے لئے جو وہی نہ کہہ

 

کہہ اس سے کہ ہوئی ہے ،محبت مجھے مگر

یہ آسمانی بات ہے اس کو یونہی نہ کہہ

 

چائے پہ سہ پہر کی اسے تُو بلا مگر

منصور اس کو بات ڈنر کی ابھی نہ کہہ

٭٭٭

 

 

 

 

یونہی بے سمت چلنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہو گا

سفر رستہ رہے گا بس ، کبھی منزل نہیں ہو گا

 

محبت کے سفر میں تیرے وحشی کو عجب ضد ہے

وہاں کشتی سے اترے گا جہاں ساحل نہیں ہو گا

 

مری جاں ! میرا وعدہ ہے کبھی چشمِ تمنا سے

یہ اظہارِ محبت اب سرِمحفل نہیں ہو گا

 

سکوتِ دشت میں کچھ اجنبی سے نقشِ پا ہوں گے

کوئی ناقہ نہیں ہو گا کوئی محمل نہیں ہو گا

 

یہی لگتا ہے بس وہ شورشِ دل کا سبب منصور

کبھی ہنگامۂ تخلیق میں شامل نہیں ہو گا

٭٭٭

 

 

 

 

ناقابلِ معافی مانا کہ پیار میں تھی

لمحوں کی بے وفائی کب اختیار میں تھی

 

اک کونج رو رہی تھی سوکھی ہوئی ندی پر

آواز میرے غم کی اس کی پکار میں تھی

 

رب کی قسم ۔ خبر کچھ اس کے سوانہیں ہے

لڑکی سیہ رنگ کی چھوٹی سی کار میں تھی

 

سگرٹ حشیش کے اب سلگا رہے تھے دونوں

غم سے نجات شاید خود سے فرار میں تھی

 

یونہی سفر کیا ہے صحرائے درد و غم کا

منصور وہ حسینہ کب انتظار میں تھی

٭٭٭

 

 

 

بے قراری ہے اضطراب نہیں

تیرے بن درد ہے عذاب نہیں

 

ہم سفر احتیاط، میرا بدن

نیکیوں کی کوئی کتاب نہیں

 

ایک بستر پہ سوئے ہیں دونوں

پھر بھی ہم رنگ اپنے خواب نہیں

 

کچھ دنوں سے بجا ہے شب کا ایک

اور گھڑیال بھی خراب نہیں

 

آئی شامِ وصالِ یار مگر

یہ مرے ہجر کاحساب نہیں

 

دوپہر ہے فراق کی مجھ میں

کوئی شب ، کوئی ماہ تاب نہیں

 

چھو کے دیکھا ہے میرے ہاتھوں نے

تیرا چہرہ پسِ نقاب نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

زندگانی کی پہیلی دیکھتی ہو

اپنے گھر اپنی سہیلی دیکھتی ہو

 

پتھروں کو کاٹتا رہتا ہوں دن بھر

کیا مری چھو کر ہتھیلی دیکھتی ہو

 

یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے چشم و لب میں

بولتی ہو رت ، چنبیلی دیکھتی ہو

 

پھر بھی مل سکتے ہیں ہم دونوں یہاں پر

ہے سڑک کتنی اکیلی۔۔ دیکھتی ہو

 

غم کی صدیوں کا کھنڈر لگنے لگا ہوں

جسم کی خالی حویلی دیکھتی ہو

 

بات خوشبو کی اچانک موسموں نے

چھین میرے ہونٹ سے لی ،دیکھتی ہو

 

مجھ میں دیکھو بیٹھ کر اس کو کوئی دن

خود میں کیا دلہن نویلی دیکھتی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

میں آگیا ہوں ترے نقشِ پا پہ چلتے ہوئے

ترے جہان میں بادِ صبا پہ چلتے ہوئے

 

عدالتِ لب و رخ کا ملا طلب نامہ

کہ لڑکھڑایا تھا راہِ وفا پہ چلتے ہوئے

 

کھڑا ہوں شہرِِ محبت کے بابِ اول پر

فصیلِ درد کی ہر انتہا پہ چلتے ہوئے

 

رکاوٹیں تو بہت تھیں مگر ترے دل تک

پہنچ گیا ہوں میں دستِ دعا پہ چلتے ہوئے

 

گرا ہوا بھی چمکتا ہوں جھیل میں منصور

میں ماہتاب تھا بامِ سما پہ چلتے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

 

قبر سی رات خامشی اور میں

تیرا وعدہ ، تری گلی اور میں

 

تیرے نقشِ قدم کی کھوج میں ہیں

آج بھی تھل میں چاندنی اور میں

 

تیرا کمرہ ، دہکتی انگیٹھی

برف پروردہ جنوری اور میں

 

ایک فیری کے خالی عرشے پر

جل پری ناچتی ہوئی اور میں

 

لائٹیں آف ، لائنیں انگیج

ایک تصویر رات کی اور میں

٭٭٭

 

 

 

 

روز وہ میرا قلم درد سے بھر دیتا ہے

میرا محبوب مجھے اذنِ ہنر دیتا ہے

 

رتجگے دیتا ہے وہ چاندنی راتوں کے مجھے

کوئی تو ہے جو محبت کا ثمر دیتا ہے

 

وہ جو کل ہاتھ پہ سر رکھ کے ادھر آیا تھا

وہ برا شخص سہی ساتھ مگر دیتا ہے

 

اس میں دیکھے ہیں قفس میں نے تو آباد بہت

ایک موسم جو پرندوں کو سفر دیتا ہے

 

میں نے تقسیم کی منزل پہ اسے وصل کہا

ایک لمحہ جو مجھے میری خبر دیتا ہے

 

شام ہوتے ہی ترے واسطے اپنے گھر کی

کوئی تو آن ،سبھی بتیاں ، کر دیتا ہے

 

ہجر کی رت کا پیمبر ہے وہ موسم منصور

آنسوؤں سے مرے تالاب جو بھر دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

سامنے جذبوں کا محشر رکھ دیا

بوجھ کہساروں کا اس پر رکھ دیا

 

پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں

آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا

 

اور پھر چپ چاپ آنسو پی لئے

اپنا دکھ اپنے ہی اندر رکھ دیا

 

میں نے اپنا استعارہ جان کر

ریل کی پٹڑی پہ پتھر رکھ دیا

 

اور پھر جاہ و حشم کے شوق میں

ہم نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا

 

میری مٹی کا دیا تھا سو اسے

میں نے سورج کے برابر رکھ دیا

 

فکر کی تازہ ہوا کے واسطے

ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا

٭٭٭

 

 

 

مرے پڑوس کو میرا خیال کم تو نہیں

مگر فراق کی شامِ ملال کم تو نہیں

 

نکاح نامے پہ کر آئے دستخط یہ ہاتھ

کسی کے تیرِ نظر کا کمال کم تو نہیں

 

توُ کیوں پہن کے بہاروں کے رنگ پھرتی ہے

ترے لئے مرے برگد کی چھال کم تو نہیں

 

اندھیرا رہنے دے کچھ دیر اور کمرے میں

ابھی نگہ میں طلب کا سوال کم تو نہیں

 

یہ کس لئے میں کوئی تجھ سی ڈھونڈ لایا ہوں

مجھے وہ وصل بھری فون کال کم تو نہیں

 

شبِ سیہ میں ابھارے جو نور کے گنبد

مرے لئے وہ سویرے کا تھال کم تو نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

یاد کے قہر میں اک برہنہ بدن

موج میں لہر میں اک برہنہ بدن

 

دیر تک پھر ٹریفک رکا ہی رہا

ہو گیا شہر میں اک برہنہ، بدن

 

پوچھتا پھر رہا ہے ’’کوئی مرد ہے‘‘

ان دنوں دہر میں اک برہنہ بدن

 

موت کے بعد خاموش تھے تبصرے

گاؤں کی نہر میں اک برہنہ بدن

 

خود سے منصور ہم لمس ہونے لگا

آخری پہر میں اک برہنہ بدن

٭٭٭

 

 

 

 

حسن تھا بے قرار ہو نہ سکا

وہ کسی کا بھی یار ہو نہ سکا

 

ہجر میں تھی کسی کی وہ بھی ہوئی

مجھ سے بھی انتظار ہو نہ سکا

 

جھڑتے پتوں کو گن رہا تھا میں

تیرے غم کا شمار ہو نہ سکا

 

تیرے جوڑے میں جو سجا نہ گلاب

آشنائے بہار ہو نہ سکا

 

تیری آغوش مل گئی جس کو

وہ اجل ہمکنار ہو نہ سکا

 

تف ہے میرے شعور پر منصور

میں کسی پر نثار ہو نہ سکا

٭٭٭

 

 

 

دلِ فگار کے یہ لخت لخت کون گنے

ہیں ارضِ خاک پہ کتنے درخت کون گنے

 

شمار کرتی ہیں آنکھیں بہار کے موسم

ٹھہر گئے ہیں جو وہ وقتِ سخت کون گنے

 

بدلتے جاتے ہیں حالات موسموں کی طرح

یہ تیرے نام سے منسوب بخت کون گنے

 

مجھے تو عارض و لب کا حساب رکھنا ہے

حسین لوگوں کے لہجے کرخت کون گنے

 

ہر اک نگر کے عجائب گھروں میں ہیں موجود

یہاں پہ ظلِ الہی کے تحت کون گنے

٭٭٭

 

 

 

 

جانِ جاں ہے مرے ساتھ ۔ آہستہ چل

جتنا ممکن ہے اے رات۔ آہستہ چل

 

یہ محبت کا رستہ خطرناک ہے

اے دلِ غیر محتاط ۔۔ آہستہ چل

 

اتنی رسوائیاں ٹھیک ہوتی نہیں

اے مرے عشق کی بات ۔ آہستہ چل

 

کتنی مشکل سے آئے ہیں وہ بزم میں

کچھ تو وقتِ ملاقات ۔ آہستہ چل

 

اس کی لافانی تصویر تخلیق کر

کینوس پہ مرے ہاتھ ۔ آہستہ چل

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی کہا ہے کسی نے یوں صاف صاف یونہی

کیا نہیں ہے محبت کا اعتراف یونہی

 

بچھڑ کے مجھ سے پلٹ آئے چاند راتوں میں

کرے وہ غم کے سزاوار کو معاف یونہی

 

چلا گیا تھا وہ موسم کی بس خرابی سے

ہیں پہر رات کے اب تک مرے خلاف یونہی

 

اسے خبر ہے کہ سردی میں میرا پہلو ہے

وہ بن رہا ہے کسی اور کا لحاف یونہی

 

ہزار پردوں میں ، میں نے چھپا رکھا ہے اسے

بدن کی پھیلتی جاتی ہے مشکِ ناف یونہی

 

نہیں تھا اتنا رقابت کا مسئلہ منصور

ہوا ہے شہر کے لوگوں سے اختلاف یونہی

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے بیچ غلط فہمیاں ہیں برسوں سے

کہ لوگ دونوں طرف درمیاں ہیں برسوں سے

 

خیال رکھ کہ پرندوں کے پر بھی ہوتے ہیں

ترے قفس کی یونہی تیلیاں ہیں برسوں سے

 

ہر ایک شام نکلتی ہیں بام پر صبحیں

دیارِ یار کی یہ شوخیاں ہیں برسوں سے

 

کبھی وصال کی وحشت کبھی فراق کے دکھ

مرے نصیب میں دشواریاں ہیں برسوں سے

 

لٹک رہے ہیں وہی عورتوں کے ملبوسات

وہی خیال کی الماریاں ہیں برسوں سے

 

یہی سے آتی ہے خوشبوئے یار بس منصور

کھلی ہوئی یہ مری کھڑکیاں ہیں برسوں سے

٭٭٭

 

 

 

یونہی رکی ہے جو رستے میں ، اس بہار میں ہوں

میں اس کے ساتھ مگر اس کے انتظار میں ہوں

 

سنا ہے اب بھی مرا ذکر کرتی رہتی ہے

یہی بہت ہے ابھی تک کسی شمار میں ہوں

 

سنا ہے اب بھی وہ گلبرگ رہ رہی ہے کہیں

مرا خیال ہے اب تک نواحِ یار میں ہوں

 

کسی کے تاج محل سے جوپے بہ پے ابھرے

میں خستہ بام انہی زلزلوں کی مار میں ہوں

 

مرے مزاج میں ہرجائی پن ہی آنا تھا

رکا ہوا میں زمانوں سے کوئے یار میں ہوں

 

ہے رنگ و نور کی نکہت طواف میں میرے

کسی چراغ بدن کی شبِ نگار میں ہوں

 

ترے لبوں کا ابھی تک ہے ذائقہ مجھ میں

شبِ وصال ابھی تک ترے خمار میں ہوں

 

ابھی گلاب کئی چل رہے ہیں پہلو میں

ابھی میں باغ سے جاتی ہوئی بہار میں ہوں

 

مرے سوا جو کسی اور کا نہ ہو منصور

اک ایسے شخص کے برسوں سے انتظار میں ہوں

٭٭٭

 

 

 

مجھے شوخ و شنگ لباس میں کوئی دلربا نہ ملا کرے

مرا دل تو جیسے جنازہ گہ کہیں مرگ ہو تو بسا کرے

 

بڑی سرپھری سی ہوا چلے کہیں شام دشت خیال میں

مرے راکھ راکھ سے جسم کو کوئی ریت پر نہ لکھا کرے

 

مرا ذکر و فکر ہوا کرے تری بارگاہِ خیال میں

مرے داغِ سجدہ کو چومنے تری جائ نماز بچھا کرے

 

مرے جسم و جاں سے پرے کہیں بڑی دور خانۂ لمس سے

کوئی خانقاہی کبوتری کہیں گنبدوں میں رہا کرے

 

کوئی قم باذنی کہے نہیں کوئی چارہ گر نہ نصیب ہو

مرا اور کوئی خدا نہ ہو ترے بعد جگ میں خدا کرے

 

اسے پوچھنا کہ وصال کا کوئی واقعہ بھی کہیں پہ ہے

وہ جو خامشی کے دیار میں کسی ان سنی کو سنا کرے

 

تری کائنات میں قید ہوں بڑے مختصر سے قفس میں ہوں

بڑی سنگ زاد گھٹن سی ہے مجھے کوئی اس سے رہا کرے

 

مرے ہر گناہ و ثواب کو یہ چھپا لے اپنے لباس میں

بڑی لاج پال ہے تیرگی کوئی رات کا نہ گلہ کرے

 

ترا وصل آبِ حیات ہے ترے جانتے ہیں محب مگر

ہے طلب درازیِ عمر کی کوئی موت کی نہ دعا کرے

٭٭٭

 

 

 

 

اے چاند پتہ تیرا کسی سے نہیں ملتا

رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا

 

او پچھلے پہر رات کے ،جا نیند سے کہہ دے

اب خواب میں بھی کوئی کسی سے نہیں ملتا

 

کیوں طے شدہ ساعت پہ ٹرام آتی نہیں ہے

کیوں وقت ترا میری گھڑی سے نہیں ملتا

 

میں تیری محبت میں کہیں گوشہ نشیں ہوں

یہ بخت کبھی نام وری سے نہیں ملتا

 

میں یار کے جوڑے میں جسے دیکھ رہا ہوں

وہ حسن کہیں ٹوٹی کلی میں نہیں ملتا

 

وہ تجھ میں کسی روز ضرور آ کے گرے گی

دریا تو کبھی جا کے ندی سے نہیں ملتا

 

دہلیز پہ رکھ دیتا ہے ہر شام جو آنکھیں

منصور عجب ہے کہ اسی سے نہیں ملتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بس اک چراغ جلانے لگا ہوں سالگرہ

اکیلے اپنی منانے لگا ہوں سالگرہ

 

یہ ایک سال کی ہونے لگی ہے تنہائی

سو اپنی آنکھ سجانے لگا ہوں سالگرہ

 

میں ڈائری سے مٹاتا ہوں دل پہ لکھی بات

یہ کیسے اس کی بھلانے لگا ہوں سالگرہ

 

بجھا کے عمر کی یہ موم بتیاں گھر سے

میں تیرے ساتھ ہی جانے لگا ہوں سالگرہ

 

سجی ہے میز پہ اب تک تُو کیک کی صورت

سو تیرے ٹکڑے بنانے لگا ہوں سالگرہ

 

جلی ہوئی ہے جو برسوں سے خانۂ دل میں

وہ موم بتی بجھانے لگا ہوں سالگرہ

 

کسی طرح تو منانا ہے سال ہجراں کا

میں اپنا گھر ہی جلانے لگا ہوں سالگرہ

 

پھر اس کے بعد سجا دوں گا گیٹ پر آنکھیں

ابھی تو خواب بچھانے لگا ہوں سالگرہ

 

ہزار رنگ بکھیروں گا درد کے منصور

میں آسمان بہانے لگا ہوں سالگرہ

٭٭٭

 

 

 

 

آئے خوشبو در و دیوار سے پہلے پہلے

پھول لا، آمدِدلدارسے پہلے پہلے

 

اس کو سمجھا کہ محبت کا تعلق کیا ہے

بول! ممکن ہے تو انکار سے پہلے پہلے

 

میرے گل پوش کو آنا ہے کسی روز یہاں

پت چھڑیں ہیں گل و گلزار سے پہلے پہلے

 

پھیل جاتی ہے شبِ وصل کی رعنائی میں

روشنی سی لب و رخسار سے پہلے پہلے

 

اب تو ملتے ہیں مجھے حسنِ تبسم کے گلاب

بات ہوتی ہی نہ تھی یار سے پہلے پہلے

٭٭٭

 

 

 

 

 

مانا مرے وصال سے رغبت نہ تھی اسے

لیکن جدائیوں سے بھی قربت نہ تھی اسے

 

چاہت بھری نگاہ سے دیکھا بس ایک بار

شاید کچھ اور کہنے کی ہمت نہ تھی اسے

 

اچھا کیا ہے اس نے تعلق کو توڑ کر

میں جانتا ہوں میری ضرورت نہ تھی اسے

 

رسماً وہ رہ رہی تھی مرے ساتھ خواب میں

مجھ کو خبر ہے مجھ سے محبت نہ تھی اسے

 

اتنا ہے اس کی تیز مزاجی کا بس سبب

منصور ساتھ رہنے کی عادت نہ تھی اسے

٭٭٭

 

 

 

 

فسردگی سی در آئی ہے بے سبب یوں ہی

یونہی یہ آنکھ بھر آئی ہے بے سبب یوں ہی

 

کسی کے نام سے وحشت نہیں ، یہ ماتھے پر

کوئی شکن ابھر آئی ہے بے سبب یوں ہی

 

جسے بھلا دیا میں نے وہ آئینے میں مجھے

ابھی ابھی نظر آئی ہے بے سبب یوں ہی

 

اسے کہو شبِ غم سے مرے مراسم ہیں

یہ صبح میرے گھر آئی ہے بے سبب یوں ہی

 

ہے میرے صحن میں آباد تیرہ رت منصور

یہ چاندنی اتر آئی ہے بے سبب یوں ہی

٭٭٭

 

 

 

 

صرف امید بد دعا پہ نہ رکھ

آسرا حشر کی سزا پہ نہ رکھ

 

زندگی خود بھٹکتی پھرتی ہے

پاؤں تُو اس کے نقشِ پا پہ نہ رکھ

 

غم تو تیری عطا ہے جانِ فراق

اس کا الزام تو خدا پہ نہ رکھ

 

حسن ہے دوست میری کمزوری

کچھ بھروسہ مری وفا پہ نہ رکھ

 

گھیر لیں گے زمین کو بادل

زلف کو گرمیِ ہوا پہ نہ رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک قدم قاتل ، آہستہ چلے کوئی

رستے میں پڑے ہیں دل،آہستہ چلے کوئی

 

ہم دونوں کی چاہت کی خاموش مسافت میں

اک تیسرا ہے حائل ، آہستہ چلے کوئی

 

پلکوں کے کناروں پر جاری ہے سفر اپنا

پانی میں چلی محمل ،آہستہ چلے کوئی

 

دشوار گزار اپنی یہ پیار کی راہیں ہیں

چلنا ہے بہت مشکل آہستہ چلے کوئی

 

پھر اپنے سمندر کی موجوں میں روانی ہے

ہے خوف زدہ ساحل ، آہستہ چلے کوئی

 

سہمی ہوئی پھرتی ہے وہ وصل کی چاپوں سے

منصور کہے منزل آہستہ چلے کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

ہوتے تھے شہر وصل میں یک جان اتنے ہی

جتنے ہیں ہم سے ان دنوں انجان اتنے ہی

 

پتھرا دیا ہے ہجر کے آسیب نے ہمیں

مشکل ہیں جتنے ہوتے تھے آسان اتنے ہی

 

برسوں کے بعد بھی وہی رختِ سفر میں خواب

نکلے تھے گھر سے بے سرو سامان اتنے ہی

 

جتنا اسے زیادہ سمجھنے لگے تھے ہم

اس کے رویے پر ہوئے حیران اتنے ہی

 

منصور تھی تمنا ٹھہرتے وہاں مگر

ممکن تھا جتنا ہم ہوئے مہمان اتنے ہی

٭٭٭

 

 

 

 

بہتا ہے انتظار کا دریا فراق میں

رہتا ہے بے قرار سا صحرا فراق میں

 

دو موم بتیاں تھیں ستارے تھے فرش پر

اک دیکھنے کی چیز تھا کمرہ فراق میں

 

میں تاپتا ہوں ہاتھ جلے دل کی راکھ پر

مجھ کو فراق ہے سہارا فراق میں

 

میں تو بناتا رہتا ہوں تصویر پیاس کی

تُو بول کیا ہے مشغلہ تیرا فراق میں

 

حد سے گزر رہا ہے وفا کا معاملہ

بجھنے لگی ہے صبحِ تمنا فراق میں

 

میں دیکھتا ہوں تیرے خد و خال کے چراغ

آئینہ دیکھتا ہے تماشا فراق میں

 

منصور پھیر اب وہی آنکھوں پہ دھجیاں

وہ یادگارِ دستِ زلیخا فراق میں

٭٭٭

 

 

 

 

اسے بدلتے ہوئے دیکھتے رہے ہم بھی

پھر اس کے بعد اچانک بدل گئے ہم بھی

 

اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی سو برسوں تک

ترے بغیر پریشاں بہت ہوئے ہم بھی

 

ہمیں بھی زعم ہے اپنی جوان مردی پر

بدن گلاب ہے تیرا تو ہیں ہرے ہم بھی

 

سنا ہے تُو نے بہت دیر مجھ کو سوچا ہے

بتایا ہوتا تو کچھ دیر سوچتے ہم بھی

 

لپٹ رکھی تھی پت چھڑ کی شال پیڑوں نے

کچھ ایسا شام کا موسم تھارو پڑے ہم بھی

 

یونہی قریب دو مانوس اجنبی آئے

ملول وہ بھی بہت تھی اداس تھے ہم بھی

 

اسے بھی نیند سے شاید کوئی عداوت تھی

ہزار جاگنے والے تھے رات کے ہم بھی

 

وہ آتے جاتے ہمیں دیکھنے لگی منصور

نواح یار کے رکھتے تھے راستے ہم بھی

٭٭٭

 

 

 

سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا

لبِ ساحل کوئی دن سا تبسم بار چہرہ تھا

 

مری نظریں اٹھی تو تھیں پلٹ کر پھر نہیں آئیں

بڑی سندر جوانی تھی بڑا دلدار چہرہ تھا

 

تکلم کی صراحی سے مسلسل گیت بن بن کر

شراب و شہد بہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا

 

کبھی کچھ دھوپ ہوتی تھی کبھی بادل سے آتے تھے

کبھی پُر خواب آنکھیں تھیں کبھی بیدار چہرہ تھا

 

شفق کے سرخ رو شعلے لب و رخسار کہتے تھے

چناروں کی طرح شاید کوئی گلنار چہرہ تھا

 

مجھے تشبہیں آتی ہے مگراس حسن کی بابت

بس اتنا جانتا ہوں وہ کوئی شہکار چہرہ تھا

 

کہوں کیسے کہ کیسا تھا مرے الفاظ گم سم ہیں

کچھ ایسا لگتا ہے جیسے پسِ دیوار چہرہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی آتا ہے میری یاد کے گھر جیسے ہی

رو پڑے ابر ادھر ، آنکھ ادھر، جیسے ہی

 

شور کرتے ہیں تمنا کے پرندے مجھ میں

تیرے رخساروں سے اٹھتی ہے سحر جیسے ہی

 

غم نئی طاقتِ اظہارسے ہوتا ہے طلوع

کچھ سنبھل جاتا ہے یہ دیدۂ تر جیسے ہی

 

گل و گلزار نظر آتی ہے میری بستی

پاؤں کو چومتی ہے راہ گزر جیسے ہی

 

حسن کیا چیز ہے پھر سوچتا رہتا ہوں میں

دیکھتا ہوں کوئی محبوبِ نظر جیسے ہی

 

دھوپ کا درد نگاہوں میں سمٹ آتا ہے

ختم ہوتا ہے اندھیرے کا سفر جیسے ہی

 

صبح ہجراں کی جوانی ہے مرے پہلو میں

کرتے ہیں ہوتی ہے اب عمر بسر جیسے ہی

 

ڈال دینا ہے تجھے دستِ گریزاں منصور

دیکھنا جھکتی ہوئی شاخ ثمر جیسے ہی

٭٭٭

ماخذ:

http://mansoorafaq.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید