FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

موت کے بعد کے مرحلے اور آپ کا فیصلہ

 

 

                ابو عبداللہ

تہذیب و تصحیح : حافظ محمد ساجد اسید ندوی

 

 

 

 

تقریظ

 

مذہب اسلام میں ایمانیات کی بنیاد اساسی طور پر چھ باتوں پر رکھی گئی ہے، ان میں پانچویں بات ایمان بالآخرۃ ہے، ایمان بالآخرۃ کا مطلب ہے موت کے بعد کے حالات اور پیش آنے والے واقعات و حادثات پر ایمان اور یقین رکھنا، یوں تو ایمان کے ان چھ اساسی ارکان میں سے ہر ایک کی اپنی جگہ پر بڑی اہمیت ہے اور انسان کی اعتقادی اور عملی زندگی پر ان میں سے ہر ایک کے گوناگوں اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن انسان کے اعتقادات و افکار کو صحیح رخ دینے اور عملی اقدامات و فیصلہ جات کو درست سمت عطا کرنے میں ایمان بالآخرۃ کا رول کلیدی ہے۔

قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اچھائی پر عمل آوری اور برائی سے اجتناب و دوری کو ایمان بالآخرۃ کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے، حقیقی بات یہ ہے کہ جب تک انسان کو اپنے اعمال و حرکات کے سلسلے میں جوابدہی کا احساس اور اس جوابدہی کی بنیاد پر جزا و سزا کی تعیین کا یقین نہ ہو وہ اپنے اعمال و حرکات کی صحیح نگہداشت نہیں کر سکتا۔

ایمان بالآخرت کا عقیدہ ایک زبردست انقلابی عقیدہ ہے، یہ انسان کو نہ صرف جلوت میں بلکہ خلوت میں بھی اپنے اعمال و حرکات کے تئیں حساس اور بیدار رکھتا ہے اور اسے اپنے ہر اٹھنے والے قدم کے احتساب پر مجبور کرتا ہے، اسلامی تاریخ میں اس احتساب واحساس کے عجیب و غریب نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، بطور مثال ایک دو مثالیں ملاحظہ فرمائیے :۔

ترمذی کی روایت کے مطابق:۔

’’ایک صحابی حضرت مرثد بن ابی مرثدؓ تھے جو مکہ میں قید لوگوں کو مدینہ  تک پہنچانے کا کام انجام دیا کرتے تھے، مکہ میں ایک بد کار عورت تھی جس کا نام عناق تھا اور جس سے ان کی آشنائی تھی، انہوں نے مکہ میں قید ایک آدمی سے مدینہ پہونچانے کا وعدہ کیا، مرثد کہتے ہیں کہ میں مکہ آیا، میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار تک پہنچا تھا کہ میں نے عناق کو دیکھا، رات چاندنی تھی، اس نے دیوار کے پہلو میں میرے سایہ کی سیاہی دیکھی، مجھ تک پہنچی تو مجھے پہچان گئی اور کہنے لگی مرثد ہو؟ میں نے کہا مرثد ہی ہوں، کہنے لگی خوش آمدید، آؤ رات ہمارے پاس گذارو، مرثدؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا عناق اللہ نے زنا کو حرام قرار دیا ہے ‘‘

رات کی تاریکی اور موقعے کے حصول کے باوجود حضرت مرثدؓ کو زنا کے ارتکاب سے کس چیز نے محفوظ رکھا؟ وہ آخرت کی جوابدہی کے احساس سواکوئی دوسری چیز نہیں، حالانکہ حضرت مرثدؓ اس خاتون کے دل گرفتہ اور گرویدہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے کرنا چاہئے کہ انہوں نے مدینہ واپسی کے بعد نبیﷺ سے اس خاتون سے نکاح کی اجازت مکرر لفظوں کے ساتھ طلب کی:۔

یَا رَسُولَ اللّٰہِ اَنکِحُ عَنَاقًا، اَنکِحُ عَنَاقًا ؟

’’یارسول اللہ ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ میں عناق سے نکاح کر لوں ‘‘     ( صحیح سنن ترمذی :۳/۸۔ )

اسلامی تاریخ میں خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ  کی شخصیت بڑی معروف و مشہور شخصیت ہے، ان کی زندگی وسیرت فکر آخرت کے نتیجے میں انقلاب احوال کی بڑی عبرت خیز نمونہ ہے، خلافت سے پہلے کی زندگی مکمل عیش و تنعم کی زندگی تھی اور پوری ٹھاٹ باٹسے عبارت تھی لیکن خلافت کی ذمہ داری کے سرپر آنے کے ساتھ ہی یہ یکسر بدل کر رہ گئی اور شاہی میں فقیری کے نمونے میں تبدیل ہو گئی۔

خلافت کے چند دنوں کے بعد ہی وہ انتہائی لاغر اور کمزور نظر آنے لگے، ان کی بیوی نے لوگوں کے پوچھنے پر بیان کیا :

واللہ ! انہ لاینام اللیل، واللہ انہ یأوی الی فراشہ فیتقلب کانہ ینام علی الجمرۃ یقول :آہ آہ ! تولیت امر امۃ محمدﷺ یسألنی یوم القیامۃ الفقیر و المسکین والطفل والارملۃ

’’اللہ کی قسم ! وہ رات کو نہیں سوتے، اللہ کی قسم ! وہ اپنے بستر پر آتے ہیں تو اس طرح الٹتے پلٹتے رہتے ہیں کہ گویا وہ انگارے پر ہوں، کہتے رہتے ہیں : آہ ! امت محمدیہ کی ذمہ داری میرے کندھوں پر آ گئی، قیامت دن فقراء ومساکین، بچے اور بیوائیں سب میرا گریبان پکڑیں گے ‘‘

خوش وضعی اور خوش ذوقی جو ان کی ذات کی خاص پہچان تھی رخصت ہو گئی، جسم پر صرف ایک جوڑا رہ گیا جسے وہ روزانہ دھوتے اور استعمال کرتے، ایک عالم نے ان سے پوچھا ’’امیر المؤمنین! مکے میں ہم نے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ناز و نعم اور صحت و عافیت کے ساتھ دیکھا تھا لیکن کیا وجہ ہے کہ اب آپ بالکل بدل گئے ہیں ؟‘‘جواب دیا:

’’ابن زیاد!جب تم مجھے قبر میں دفن کئے جانے کے تین دن کے بعد دیکھو گے جبکہ میں تمام دوست و احباب سے جدا ہو کر کپڑوں سے بے نیاز ہو کر ننگا ہو چکا ہوں گا اور میرا بدن مٹی میں پڑا ہو گا تو بتاؤ میں کیسا لگوں گا؟

واللہ ! لرأیت منظرا لیسوء ک

اللہ کی قسم !ایسا منظر نظر آئے گا جو تجھے پسند نہیں آئے گا‘‘     (سنہرے نقوش ص۵۴۔ ۵۶)

تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلم معاشرہ مذکورہ قسم کی صدہا مثالیں رکھتا ہے اور حقیقت یہ ہے معاشرہ میں فکر آخرت کی جڑیں جتنی مضبوط رہیں، اتنی ہی نیکی و صالحیت، للہیت، انسانیت نوازی اور امن و عافیت کے مناظر عام رہے، اور یہ فکر جب بھی اور جس معاشرہ میں بھی کمزور پڑی وہ معاشرہ ان اچھے مناظر سے اتنا ہی محروم اور دور رہا۔

موجودہ انسانی سماج کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اس فکر سے دور اور بہت دور رہ کر زندگی گزار رہا ہے، خود مسلمان جو اعتقادی طور پر اس فکر کے سب سے بڑے امین ہیں ان کی زندگیاں اس فکرسے خطرناک حد تک عاری نظر آتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج کا سماج ہر قسم کی اچھائیوں اور نیکیوں سے عاری سماج ہے، یہاں للہیت، بے غرضی و بے لوثی، انسانیت دوستی اور احساس ذمہ داری وغیرہ جیسے اوصاف حمیدہ اجنبی محسوس ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ان کے برخلاف، نفس پرستی، خود غرضی، انسانیت دشمنی، عہدہ و مناصب کا استحصال، ذمہ داریوں سے گریز و فرار، اخلاق باختگی، بے حیائی اور دین بیزاری وغیرہ کی گرم بازاری ہے۔

محترم ابو عبد اللہ نے فکر آخرت سے دور اور انجام آخرت سے غافل ولا پرواہ سماج کو فکر آخرت کی راہ پر گامزن کرنے کی اپنی والی کوشش کی ہے، موصوف کی زیر نظر کتاب اس حوالہ سے اپنے انداز کی ایک قابل تحسین کوشش ہے، راقم الحروف کو برادرم یحییٰ بن حکیم بہاء الدین، مولانا شفیق عالم خاں جامعی اور مولانا امتیاز عالم خاں محمدی صاحبان حفظہما اللہ کے واسطے سے اس پر نظر ثانی کا شرف حاصل ہوا ہے، میں نے اپنی بساط بھر الفاظ اور تراکیب کی اصلاح کے ساتھ حوالہ جات کی تصحیح و اندراج کا کام کیا ہے، عدیم الفرصتی کے باعث اس میں نقص کا احساس و اعتراف ہے، تاہم امید کی جاتی ہے کہ کتاب پسند کی جائے گی اور اصلاح کا ذریعہ اور وسیلہ بنے گی، اللہ ہم سب کی مساعی کو قبول فرمائے اور ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین

محمد ساجد اسید ندوی

ناظم الادارۃ السلفیۃ للبحوث الاسلامیہ، حیدرآباد

و امام و خطیب مسجدتقوی، ٹولی چوکی، حیدرآباد

ومدرس و نائب ناظم جامعہ حفصہ رضی اللہ عنہا السلفیہ، قلعہ گولکنڈہ، حیدرآباد

 

 

 

 

مقدمہ

 

الحمدللہ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین، والصلاۃ والسلام علی امام الانبیاء و المرسلین: و علی اٰلہ و اصحابہ و اتباعہ الی یوم الدین،

اما بعد:

تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، اچھا انجام متقین کے لیے ہے اور درود وسلام ہو اس نبیﷺ پر جو تمام نبیوں اور رسولوں کے امام ہیں، آپ کے اٰل پر، آپ کے پاکباز صحابہ رضی اللہ پر۔ اور قیامت تک آپ کے متبعین پر۔

موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت غفلت میں ڈوبی ہوئی ہے اور انجام سے بے خبر ہے۔ اور جب کوئی مسلمان اپنے انجام سے ہی بے خبر رہے گا تو اس کے لیے کیا تیاری کرے گا؟

بلاشبہ علم دین کا حاصل کرنا، اور اس کا شوق سے مطالعہ کرنا ضروری اور فرض ہے تاکہ دینی امور میں صحیح تحقیق اور معلومات حاصل ہو جائیں، ہر انسان چار مرحلوں سے گزرتا ہے۔

 

انسانی زندگی کے چار مراحل

 

پہلا مرحلہ: ماں کا پیٹ ہوتا ہے جس میں وہ نو مہینے گزارتا ہے۔ باہر کی دنیا سے بے خبر جس میں نہ کوئی محنت ہوتی ہے نہ مشقت، جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ الزمر آیت نمبر ۵ میں یوں بیان فرمایا ہے :

’’وہی اللہ ہے جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت پر بناتا رہتا ہے تین اندھیروں میں ‘‘

(رحم کی اندھیری، اس کے اوپر کی جھلی کی اندھیری، پیٹ کی اندھیری )

دوسرا مرحلہ: جب انسان ماں کے پیٹ سے باہر کی دنیا میں آتا ہے تو ہر چیز اس کو نئی اور عجیب لگتی ہے، پہلے بچہ ہوتا ہے، پھر جوانی کی عمر کو پہنچتا ہے، پھر اللہ اس کو طاقت و قوت دیتا ہے، محنت کرنے لگتا ہے، انسانی زندگی کا یہ دوسرا مرحلہ امتحان کا مرحلہ ہے۔ اگرانسان نیک اور متقی ہو تو جنت کا راستہ چنتا ہے اور اگر کافر و گنہگار ہو تو جہنم کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اس جیسے عمل کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ اس کو موت آ جاتی ہے۔

تیسرا مرحلہ:موت کے بعد شروع ہوتا ہے، اس مرحلۂ زندگی کا نام ’’برزخ‘‘ ہے، یہ مرحلہ قیامت کے قائم ہونے تک جاری رہے گا۔

چوتھا اور آخری مرحلہ: قیامت کے قائم ہونے کے ساتھ ہی انسان ایک اور مرحلۂ زندگی میں داخل ہوتا ہے، یہ انسانی زندگی کا آخری مرحلہ اور آخری پڑا ؤ ہے، اس مرحلۂ زندگی کو حیات اخروی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

میں نے سوچا کہ انسانی زندگی کے تیسرے مرحلہ میں جو حالات اور معاملات انسان کے ساتھ پیش آنے والے ہیں پھر قیامت کے حالات اور جنت اور دوزخ کا جو بھی فیصلہ کیا جانے والا ہے، اس بارے میں لوگوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں آگاہ کرنے کی کوشش کروں تاکہ وہ اس دن کی ہولناکیوں اور گھبراہٹوں سے بچنے کی پوری پوری تیاری شروع کر دیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عذاب قبر سے اور قیامت کی گھبراہٹوں سے بچائے، اور قیامت کے دن اپنے خاص سایہ میں جگہ نصیب فرمائے۔ اور اس کتاب کو میرے لیے ثواب جاریہ بنائے۔ آمین۔

وصلی اللہ علی رسولنا وحبیبنا محمدﷺ وعلی الہ وصحبہ واتباعا والحمدللہ رب العالمین۔

٭٭٭

 

 

 

 

قبر کا بیان

 

روح کا جسم سے نکلنا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب کوئی مؤمن بندہ مر جاتا ہے تو دو نورانی چہرے والے فرشتے اس کے آگے آتے ہیں اور ان فرشتوں کے ساتھ ایک خوشبودار کپڑا ہوتا ہے جس سے مشک کی خوشبو آتی ہے۔ وہ اس مؤمن کی روح کو اس کپڑے میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس روح کو خوشخبری سناتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ’’اے پاک روح نکل اس پاک جسم سے۔ اور چل جنت کے باغات اور جنت کی ٹھنڈی ہواؤں کی طرف، پھر وہ فرشتے اس روح کو آسمان کی طرف لے کر چڑھتے ہیں، آسمان والے کہتے ہیں (یعنی فرشتے ) کوئی پاک روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ تجھ پر رحمت کرے۔ اور تیرے بدن پر جس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر وہ فرشتے اس روح کو پروردگار کے پاس لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اس روح کو لے جاؤ اپنے مقام میں یعنی علیین میں (جہاں مؤمنوں کی ارواح رہتی ہیں ) قیامت ہونے تک (وہیں رکھو)۔

اسی طرح جب کسی کافر کی روح نکلتی ہے تو دو فرشتے بدصورت اور ڈراؤنی چہرہ والے آتے ہیں اور ان فرشتوں کے ساتھ گندہ اور بدبو دار ٹاٹ ہوتا ہے، وہ اس کافر کی روح کو اس ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور لعنت بھیجتے ہوئے اس روح کو خبر سناتے ہیں۔ اے ناپاک روح نکل ناپاک جسم سے، چل جہنم کی طرف اور گرم کھولتے ہوئے پانی اور جہنم کی گرم ہواؤں کی طرف۔ رب کی ناراضگی کے ساتھ، پھر اس روح کو لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں آسمان والے (فرشتے ) کہتے ہیں کوئی ناپاک روح جو زمین کی طرف سے آئی ہے۔ پھر حکم ہوتا ہے اس کو لے جاؤ اس کے مقام میں یعنی سجین میں (جہاں کافروں کی روحیں رہتی ہیں ) قیامت قائم ہونے تک۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپﷺ نے ایک باریک کپڑا جو آپ اوڑھے ہوئے تھے اپنی ناک پر ڈالا (جب کافر کی روح کا ذکر کیا اس کی بدبو بیان کرنے کے لیے ) اس طرح سے۔ (صحیح مسلم :۷۲۲۱، ابن ماجہ :۲/۳۴۳۷)

 

قبر

 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مر جاتا ہے تو ہر صبح و شام اسے اس کا ٹھکانہ دکھایا جاتا ہے اگر وہ جنتی ہے تو جنت میں اور اگر جہنمی ہے تو جہنم میں، اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی تیرا مقام ہے جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھائے گا۔ (صحیح بخاری:۶۹۴)

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ جب بھی قبر دیکھتے تھے تو روتے تھے، لوگوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ جب آپ کے سامنے جنت اور جہنم کا ذکر ہوتا ہے تو اتنا نہیں روتے جتنا قبر کا ذکر ہوتا ہے تو روتے ہیں ؟ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے آپﷺ سے یہ فرماتے سنا کہ قبر پہلی منزل ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہوئے تو آنے والے مرحلہ میں بھی کامیابی ہو گی۔ اور اگر اس میں کامیابی اور نجات نہیں ملی تو پھر آنے والا مرحلہ اور بھی مشکل ہو گا اور میں نے آپﷺ سے یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں قبر سے زیادہ خوفناک منظر والی چیز نہیں دیکھی۔ (ترمذی :۲۳۹۸، ابن ماجہ :۴۵۶۷) شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب (صحیح الجامع: ۱۶۸۴) میں اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔

ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :

اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر  و من عذاب النار و من فتنۃ المحیای و  الممات و من فتنۃ المسیح الدجال

’’اے اللہ، میں عذاب قبر، عذاب جہنم، زندگی اور موت کی خرابی اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں‘‘ (صحیح بخاری)

میرے بھائیو اور بہنو!

بہت جلد ہم سب اس جگہ جانے والے ہیں اس زندگی کے عیش و آرام کو چھوڑ کر قبر کے گڑھے میں اترنے والے ہیں، ہر ایک کو جانا ہے اگرچہ وہ چاہے یا نہ چاہے۔ اب ہم خود ہی اپنا محاسبہ کر یں کہ ہم اس جگہ کے لیے کتنی تیاری کر رہے ہیں۔ اور اس چند دن کی زندگی کے لیے کیا گیا آرزوئیں کیے ہوئے ہیں۔

 

قبر اندھیری ہوتی ہے

 

حضورﷺ کے زمانے میں ایک عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، ایک رات اس عورت کا انتقال ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رات میں ہی اس کی جنازہ کی نماز پڑھائی اور اس کو دفن کر دیا، چندنو ں بعد آپﷺ نے دریافت کیا کہ وہ عورت کہاں گئی جو مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا کہ چند دن پہلے اس عورت کا انتقال ہو گیا اور ہم نے اس کو دفنا دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے کیوں مجھے اطلاع نہیں دی (حضورﷺ اس امت کے لیے باپ کا درجہ رکھتے ہیں اور آپ ہر ایک کی خیر خواہی کیا کرتے تھے )

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کہا کہ یا رسول اللہ اس عورت کا انتقال رات کے وقت ہو گیا۔ اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ رات کے وقت آپ کو تکلیف دیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس عورت کی قبر بتاؤ؟ پھر آپﷺ نے اس عورت کے لیے مغفرت کی دعاء کی اور فرمایا :

’’تمہاری قبر اندھیری ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں میری دعا سے نور بھر دیتے ہیں ‘‘(صحیح مسلم:۹۵۶)

یہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ آپﷺ کی بلند قدر و منزلت اور وہ اعلیٰ مقام ہے کہ آپﷺ کی دعا ء کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قبروں میں نور بھر دیتے ہیں اور یہ آپﷺ کے لیے خاص تھا۔

 

قبر دبوچتی ہے

 

جیسے ہی مردے کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو قبر اس مردے کو دبوچتی ہے۔ ہم اسی مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اسی مٹی میں ہم دفن کیے جائیں گے۔ اور اسی زمین سے ہم دوبارہ زندہ ہو کر اٹھائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔

مِنھَاخَلَقنٰکُم وَفِیھَا نُعِیدُکُم وَمِنھَا نُخرِجُکُم تَارَۃً اُخریٰ        (سورہ طہ آیت ۵۳)

’’ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ اور ہم مٹی میں ہی تم کو لوٹائیں گے۔ پھر تم زندہ کر کے دوبارہ مٹی سے نکالے جاؤ گے ‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قبر دبوچتی ہے اور اگر کوئی اس کے دبوچنے سے بچ سکتے تو وہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے مگر قبر نے ان کو بھی دبوچا اور چھوڑیا۔ (امام احمد ۶/۵۵۹۸) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب( الصحیحہ: ۱۶۸۵) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ انصاری صحابی ہے۔ ان کا درجہ بہت اونچا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت سے عرش ہل گیا۔      (صحیح مسلم:۶۳۴۶)

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اس وقت ایک بچہ کو دفنایا گیا تھا) آپﷺ نے فرمایا اگر کوئی قبر کے دبوچ سے محفوظ رہ سکتا تھا تو یہ بچہ مگر قبر نے اس کو بھی دبوچا۔ (الطبرانی نے اپنی کتاب المعجم الکبیر ۱/۱۲۱ میں اس کو نقل کیا ہے اور ہیثمی ۳/۴۷ نے اسے صحیح قرار دیا ہے )

اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ قبر کتنی مرتبہ اور کتنی دیر تک دبوچے گی۔

 

قبر کا عذاب اور اس کا فتنہ

 

قبر کا عذاب برحق ہے، قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا اس پر اجماع ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا بِالقَولِ الثَّابِتِ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ

’’قائم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ذریعہ دنیا میں اور آخرت میں بھی‘‘   (سورہ ابراہیم، آیت:۲۶ )

براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا یہ آیت ’’قائم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ذریعہ دنیا اور آخرت میں ‘‘ قبر کے عذاب کے بارے میں اتری ہے۔ (صحیح مسلم:۷۲۲۱)

میت سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے۔ تیرے نبی کون ہیں۔ اور تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمدﷺ ہیں۔ یہی مراد ہے اللہ کے اس قول سے کہ ’’قائم رکھتا ہے ایمان والوں کو پکی بات کے ذریعہ‘‘ جب مردے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس کے دفن سے فراغت کے بعد واپس جاتے ہیں تووہ مردہ اپنے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز بھی سنتا ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، منکر اور نکیر ڈراؤنی شکل اور کڑک دار آواز کے ساتھ فرشتے اس مردہ سے تین سوالات پوچھتے ہیں ان فرشتوں کو جواب دینا آسان بات نہیں ہے۔ وہ فرشتے جو سوال کریں اس کا ان کو فوری جواب چاہیے مسلمان ہو یا کافر منکر نکیر اپنی اصلی حالت میں ہی سوال پوچھتے ہیں تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ تمہارے نبی کون ہے ان تین سوالوں کا قبر میں امتحان ہے۔ اور اس کی ہم کو دنیا میں تیاری کرنا ہے۔

ہم خود غور کریں کتنا وقت ہم دے رہے ہیں اپنی زندگی میں اس آنے والے امتحان کی تیاری کے لیے (اللہ تعالیٰ ہم سب کو ثابت قدم رکھے ) آمین۔

مؤمن بندہ بولے گا میرا رب اللہ ہے۔ میرا دین اسلام ہے۔ اور میرے نبی محمدﷺ ہیں۔ جیسے ہی مؤمن بندہ یہ جواب دے گا ایک آواز آئے گی (صدق عبدی) میرے بندہ نے سچ کہا، فرشتے سوال کریں گے اور اللہ تعالیٰ مؤمن بندے کے جواب کی تصدیق کریں گے۔

اسی لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا بِالقَولِ الثَّابِتِ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ

قائم رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو پکی بات کے ذریعہ دنیا میں اور آخرت میں بھی (سورہ ابراہیم، آیت:۲۶ )

اسی طرح فرشتے منافقین اور کافروں سے سوال کریں گے جب نبیﷺ کے بارے میں پوچھیں گے تو کافر کہے گا ہمیں معلوم نہیں۔ میں سنتا تھا لوگوں سے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ فرشتے ہتھوڑی سے اس مردے کو ماریں گے جس سے اس کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔

یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محمدﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنا بہت ضروری ہے صرف ایک اللہ یعنی توحید کو ماننا کافی نہیں اور مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ تمام انبیاء پر ایمان رکھیں جیسے نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسی علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام وغیرہم۔ کیونکہ یہ انبیاء اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔

 

قبر کے سوالات امتحان ہیں

 

حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسولﷺ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے قبر کے فتنہ کے بارے میں۔ اور مسجد سے زور زور سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے رونے کی آواز آ رہی تھی میں صحیح خطبہ سن نہیں سکی۔ جب خطبہ ختم ہو گیا تو میں نے معلوم کیا کہ آپﷺ نے آخر جملہ کیا فرمایا۔ کسی نے کہا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ قبر میں آزمائے جاؤ گے۔ اسی طرح جس طرح دجال کے آنے پر آزمائش ہو گی۔ (صحیح بخاری)

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی نبی نہیں ہے مگر اس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے آگاہ کیا ہے۔ ( ابن ماجہ :۴۔ ۷۷، الترغیب والترھیب:۴۲۲۔ )

رسولﷺ نے فرمایا جب سے آدم علیہ السلام کو بنایا گیا ہے تب سے قیامت تک کوئی بڑا فتنہ نہیں ہے۔ جتنا دجال کا فتنہ ہے۔ ( مسلم:۲۹۴۶ )

میرے بھائیو اور بہنو!

ہم سب جانتے ہیں کہ دجال کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہے، ہم سب کو اس دجال جیسے فتنہ سے گزرنا ہے اپنی قبر میں۔

جب رسول اللہﷺ خطبہ دے رہے تھے صحابہ رضی اللہ عنہم رو پڑے کیونکہ ان لوگوں کے دل نرم تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ڈر ان کے دل میں تھا۔ وہ لوگ اللہ کے خوف سے اور اس کے عذاب سے ڈرتے تھے۔

مگر ہمارا یہ حال ہے کہ ہمارے دل سخت ہو گئے اگر اثر ہو بھی گیا تو چند سیکنڈس کے لیے۔ ہم جنازہ دیکھتے ہیں اور انسان کے خاتمہ کا احساس کرتے ہیں مگر افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ قبرستان میں تدفین سے پہلے یا تدفین کے بعد اس قدر دنیاوی بات میں مصروف رہتے ہیں ان کے ذہن میں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ کل میں خود اس دور سے گزرنے والا ہوں۔ کچھ لوگوں کو میں نے خود قبرستان میں ہنسی، مذاق کرتے دیکھا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف آپﷺ سے خطبہ سن کر اس قدر رو رہے تھے اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہے کہ میں خطبہ سن نہیں سکی صحابہ رضی اللہ عنہم کے رونے کی آواز اتنی زیادہ تھی۔

میرے بھائیو اور بہنو!

یہ دل مر چکے ہیں، پتھر سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں اپنے دلوں کو کسی بات کا احساس نہیں ہو رہا ہے، ہمارے دلوں میں بیماری ہے، اور ہمیں فوری چاہیے کہ اس کا علاج کرے۔ اگر ہمارے جسم میں کوئی بیماری ہوتی ہے تو فوراً ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور کئی پیسے خرچ کر دیتے ہیں۔ بیماری کو دور کرنے کے لیے، مگر اس دل کی بیماری کا ہم کوئی علاج نہیں کرواتے، افسوس ہے ہمارے حالوں پر۔

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’اگر مجھے ڈر نہیں ہوتا کہ تم اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو (قبر کے عذاب کے ڈر سے ) تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو سنائے کہ قبر میں کیا ہو رہا ہے ‘‘ (صحیح مسلم:۷۲۱۴)

ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب ہم سوجاتے ہیں اور کوئی شخص ڈراؤنی خواب دیکھتا ہے تو اس کا جسم حرکت کرنے لگتا ہے۔ اور کچھ لوگ تو نیند میں چلانا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اور اسے کچھ خبر ہی نہیں کہ کہاں جا رہا ہے حالانکہ روح جسم سے الگ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الاَنفُسَ حِینَ مَوتھَِا وَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامِہَا فَیُمسِکُ الَّتِی قَضیٰ عَلَیھَا المَوتَ وَیُرسِلُ الاُخریٰ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَّمًی        (سورۃ الزمر:۴۱)

’’اللہ تعالیٰ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی۔ انہیں ان کی نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے۔ پھر جن پر موت کا حکم لگ چکا ہے، انہیں تو روک لیتا ہے۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے ‘‘

اسی طریقہ سے قبر میں عذاب ہوتا ہے اور مردہ کا جسم بعض اوقات عذاب برداشت نہیں کر کے زمین سے اوپر آ جاتا ہے۔

(اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبر کے عذابوں سے اور اس کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ اور ہماری قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ آمین)

 

قبر کی کامیابی اور ناکامی کا بیان

 

مومن شخص جب فرشتوں کو جواب دے دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے : (صدق عبدی) میرے بندے نے سچ کہا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ میرے اس بندے کو جنت کے کپڑے پہنا دو اور اس کے لیے اس کی قبر میں جنت کی کھڑکی کھول دو، یہ قبر زمین پر ہے مگر اندر سے اس کا تعلق جنت سے ہے۔ اسی لیے علماء کرام کہتے ہیں قبر یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے، وہ مومن شخص اپنی قبر میں سے اپنی جنت کی جگہ دیکھ لیتا ہے۔ پھر اس شخص کے پاس ایک خوبصورت شخص جس کے پاس سے اچھی خوشبو آتی رہے گی آئے گا اور کہے گا میں تیرا ساتھی اور تیرا دوست ہوں۔ قیامت قائم ہونے تک تیرے ساتھ رہوں گا۔ پھر اس مومن شخص کو جہنم کی کھڑکی دکھائی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارا ٹھکانہ ہوتا مگر اللہ تعالی نے اپنی رحمت سے تم کو بچا لیا۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی رحمت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ صرف آرزوؤں اور تمناؤں سے۔

وہ مومن شخص دعا کرے گا کہ اے اللہ قیامت قائم کر دے تاکہ میں اپنی جنت کی جگہ جو آپ نے دکھائی ہے اس میں داخل ہو جاؤں اپنے گھر والوں میں، اپنے مال میں۔ (احمد، الترغیب والترھیب:۵۲۲۱)

اسی طرح جب کافر شخص سے قبر میں فرشتے سوال کرتے ہیں :

تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ تیرے نبی کون ہیں ؟ تو وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں نہیں جانتا۔ فرشتے کہتے ہیں نہ تو نے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی۔ پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ضرب لگائی جاتی ہے وہ چیخ اٹھتا ہے، اس کی چیخ پکار کو جن وانس کے علاوہ تمام چیزیں سنتی ہیں پھر فرشتوں سے کہا جاتا ہے کہ اس کو جہنم کے کپڑے پہنا دو۔ اور جہنم کی کھڑکی اس کے لیے اس کی قبر میں کھول دو۔ جس میں سے گندی بدبو اور گرم ہوائیں آئیں گی۔ پھر اس کافر شخص کے پاس ایک نہایت ہی بدصورت شخص جس کے پاس سے گندی بدبو آتی رہے گی آئے گا اور کہے گا میں تیرا ساتھی، تیرا دوست ہوں۔ قیامت قائم ہونے تک تیرے ساتھ ہی رہوں گا۔ اب یہ کافر دعا کرے گا اے اللہ ! قیامت قائم ہی نہ ہو۔ اور اس شخص کو جہنم میں اس کا ٹھکانہ دکھا دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ دیکھ یہ تیرا ٹھکانہ ہے ان اعمال کے بدلے جو تو دنیا میں کرتا تھا اب تو اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا۔ اور اس کو جنت کی کھڑکی دکھائی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا اگر تو مومن ہوتا تو تیری جنت میں یہ جگہ ہوتی۔ جس سے اس کا حسرت اور افسوس اور بڑھ جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اللہ کی اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی تجھ پر لعنت ہے جس کوا للہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتا ہے۔

اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا وَمَا تُوا وھُم کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیھِم لَعنَۃُ اللّٰہِ وَالمَلٰٓئِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجمَعِینَ

’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور مر گئے اس حال میں کہ وہ کافر تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ‘‘                (سورہ بقرہ:۱۶۱)

(عذاب قبر کی یہ تفصیلات بخاری اور احادیث کی دوسری کتابوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح سندوں سے مروی ہیں، ندوی)

 

کیا مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب ہو گا؟

 

امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ : جان لو کہ صرف کافر اور منافق کو ہی نہیں بلکہ کچھ مسلمانوں کو بھی ان کے کچھ گناہوں کی وجہ سے قبر میں عذاب ہو گا۔ یہ وہ مسلمان ہوں گے جو دنیا میں اپنے کچھ گناہوں پر بغیر توبہ کیے انتقال کر گئے۔

 

کیا وجہ ہو سکتی ہے مسلمانوں کے قبر کے عذاب میں مبتلا ہونے کی؟

 

ایک وجہ : ہر وہ کام جو گناہ کا ہے۔ اور جس کو کرنے سے اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ نے منع فرمایا ہے، اسے کرنا۔

۲۔ چوری کرنا:۔ رسول اللہﷺ کا ایک غلام تھا۔ آپﷺ کے ساتھ جہاد میں شامل ہوا۔ اور وہ رسول اللہﷺ کی سواری کی گدی تیار کر رہا تھا۔ اچانک دشمن کا ایک تیر اس کو لگا اور وہ مرگیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کہنے لگے مبارک ہو یہ شہید ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا نہیں اس نے جو کپڑا خیبر کے مال سے چوری کیا تھا اس نے آگ کا ہو کر اس کے جسم کو لپیٹ لیا۔ اور اس کو جلا رہا ہے۔ (صحیح بخاری)

میرے بھائیو اور بہنو!

ذرا سوچئے ! یہ آدمی آپﷺ کے ساتھ جہاد میں گیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے شہید ہونے کی مبارک بادی بھی دی۔ مگر آپﷺ نے فرمایا نہیں اس نے جو خیبر کے مال سے جو چادر چرائی تھی وہ آگ بن کر اس کو جلا رہی ہے۔ سبحان اللہ ذرا سوچئے : ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپیے ہڑپ کر لیتے ہیں، چوری کر کے یا لوگوں کو دھوکہ دے کر وہ آدمی چوری یا دھوکہ کے مال سے کتنی دیر تک اس کا مزہ لے سکتا ہے۔ چند مہینوں یا چند سالوں مگرسوچئے اس کا عذاب سالوں سے سالوں تک چلتا رہے گا حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ وہ مال بیماریوں کے ذریعے تکلیف کے ساتھ باہر نکال دیتا ہے یہ پیسہ آزمائش ہے۔

۳۔ جھوٹ بولنا:جھوٹی باتیں بیان کرنا جو اس سے نقل ہو کر تمام اطراف عالم میں پہنچ جاتی ہیں۔ (صحیح بخاری)

۴۔ وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا۔ مگر وہ قرآن مجید کو چھوڑ کر رات بھر سوتا رہتا۔ اور دن میں بھی اس پر عمل نہ کرتا۔ ( بخاری:۷۔ ۴۷ )

۵۔ زانی: زنا کرنے والے مرد اور عورتیں۔ ((بخاری:۷۔ ۴۷مسلم ۳۲۷۵))

۶۔ سودخور: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: سود کھانے والا، سود دینے والا، سود کے بارے میں لکھنے والا، اور اس پر گواہ بننے والا سب برابر ہیں۔ (مسلم)

قبر کے عذاب کے باعث بننے والے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جو حدیث (صحیح مسلم، صحیح بخاری وغیرہ)سے ثابت ہیں ہم طوالت کی وجہ سے اسے بیان نہیں کر رہے ہیں۔ (مزید معلومات کے لیے حدیث کی طرف رجوع کریں )

 

کون ہے جو قبر کے عذاب سے بچنے وا لا ہے ؟

 

۱۔ شہید :

اللہ تعالیٰ شہید کو سات خاص نعمتیں عطا فرمائیں گے۔

۱۔ شہید کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے پہلے مغفرت فرما دیتے ہیں۔

۲۔ شہید کی جگہ جنت میں دکھائی دی جاتی ہے۔

۳۔ قیامت کی سختیوں سے محفوظ رہتا ہے۔

۴۔ بہتر (۷۲)حور عین سے نکاح کرایا جائے گا۔

۵۔ شہید کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا جس کا ایک موتی دنیا وما فیہا سے بہتر ہو گا۔

۶۔ شہید ستر رشتہ داروں کی سفارش کریں گے۔

۷۔ شہید قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ (ترمذی)

۲۔ مرابط: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’مرنے کے بعد ہر ایک کے اعمال رک جاتے ہیں۔ مگر مرابط کے۔ اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا‘‘ (صحیح مسلم)

مرابط: مسلمانوں کے ملک کی دن و رات دشمنوں سے حفاظت کرنے والا پہریدار۔

۳۔ مسلمان جو جمعہ کے دن مرے : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جس مسلمان کی موت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں آئے اللہ تعالیٰ اس مسلمان کو قبر کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں ‘‘

(ترمذی: ۱۔ ۷۴، احکام الجنائز :۵۔ ، ۴۹، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔ )

٭٭٭

 

 

 

آخرت کا بیان

 

الحمد للہ وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد!

قیامت آنے والی ہے، جب تمام مخلوق فنا ہو جائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :۔

کُلُّ مَن عَلَیھَا فَان وَّیَبقیٰ وَجہُ رَبِّکَ ذُوالجَلٰلِ وَالاِکرَامِ                    (الرحمن :۲۷)

’’روئے زمین پر جو ہے سب فنا ہونے والا ہے۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت و اکرام والی ہے۔ باقی رہ جائے گی‘‘

 

قیامت اچانک آ جائے گی

 

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ قیامت اتنی اچانک آئے گی کہ ایک آدمی کھانے کے لیے لقمہ اپنے منہ تک لے جائے گا مگر اس کو کھا نہ سکے گا، ایک آدمی حوض درست کر رہا ہو گا۔ اس کو درست کر کے نہ بھرسکے گا۔ دو آدمی خرید و فروخت کر رہے ہوں گے۔ مگر سودا طے نہ کر پائیں گے کہ قیامت آ جائے گی۔ (صبح مسلم: ۷۴۱۳)

 

یہ سب کیسے ہو گا؟

 

یہ ایک صور ہے جو پھونکا جائے گا۔ صور کی آواز سب سے پہلے اس آدمی کو پہنچے گی جو اپنا حوض درست کر رہا ہو گا۔ جیسے ہی وہ صور کی آواز کو سنے گا بے ہوش کر گر پڑے گا۔ صور نر سنگھے جیسا ہے، صور پھونکنے والے فرشتے جن کا نام اسرافیل علیہ السلام ہے۔ صور اپنے منہ میں لیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کی طرف نظر لگائے ہوئے انتظار میں ہیں کہ کب اللہ تعالیٰ کا حکم ہو اور میں صور پھونکوں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : آپﷺ نے فرمایا: کیسے میں راحت سے رہوں ؟ جب کہ صور پھونکنے والا فرشتہ منہ میں صور لیے ہوئے حکم الٰہی کا منتظر ہے کہ کب حکم ہو، کب صور پھونکوں ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا: یا رسول اللہ پھر ہمیں کیا ارشاد ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: کہو حسبنا اللہ ونعم الوکیل توکلناعلی اللہ۔ (ترمذی:۲۵۸۵ )

صور کب پھونکا جائے گا؟

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :

’’دنوں میں سب سے بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے اور قیامت نہیں آئے گی مگر جمعہ کے دن‘‘ (صحیح مسلم:۱۹۷۷)

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن ہر جاندار مخلوق خوفزدہ رہتی ہے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے سوائے انسان اور جن کے کہ یہ بے خوف ہیں اس دن سے۔ ( ابن ماجہ۱/۸۸۸ )

میرے بھائیو اور بہنو!:

ہم لوگ دنیا کی زندگی میں اس قدر مصروف اور مست ہیں کہ ہمیں ہوش ہی نہیں رہتا جمعہ کے دن اور ہم اس ہولناک اور دلوں کو دہلا دینے والے دن کی ہولناکی سے بے خبر ہیں۔

 

صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا

 

اس بارے میں علماء کرام کی الگ الگ رائیں ہیں، امام قرطبیؒ اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ دو بار پھونکا جائے گا۔ (۱) پہلی بار صور پھونکنے سے زمین اور آسمان کی ساری مخلوق فنا ہو جائے گی، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ذوالجلال والا کرام باقی رہے گی۔ اور اللہ تعالیٰ فرمائیں گے (لمن الملک الیوم) تین بار فرمائیں گے کہ آج کس کی بادشاہت ہے ؟ تو کوئی جواب نہ آئے گا۔ پھر اللہ رب العزت خود فرمائیں گے (للہ الواحد القہار) آج بادشاہت اور حکومت صرف اللہ واحد و قہار کے لیے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم دین گے (اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کر کے ) اسرافیل علیہ السلام زندہ ہو کر صور پھونکیں گے تو ساری مخلوق زندہ ہو جائے گی۔ تب ساری مخلوق دیکھے گی کہ سورج قریب آ جائے گا۔ آسمان پھٹ جائے گا۔ پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور فرشتہ نازل ہوں گے۔ اس دن کا خوف ایسا ہو گا کہ ایک سال کی بچی کے سر کے بال گھبراہٹ کے سبب سفید ہو جائیں گے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں :

فَکَیفَ تَتَّقُونَ اِن کَفَرتُم یَومًا یَّجعَلُ الوِلدَانَ شِیبَا

’’تم اگر کافر رہے تو اس دن کیسے پناہ پاؤ گے جو دن بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘    (المزمل:۱۷)

میرے بھائیو اور بہنو!

ایک لمحہ کے لیے رکیے اور ذرا غور تو کیجیے کہ اس دن بچے کا ہولناکی اور ہیبت کے سبب یہ حال ہو گا تو ہمارا کیا حال ہو گا۔ اب ہم خود ہی فیصلہ کریں کہ ہم اس دن کے لیے کتنی تیاری کر رہے ہیں ؟

کچھ علماء کہتے ہے کہ صور تین مرتبہ پھونکا جائے گا جیسے ابن کثیرؒ اور ابن تیمیہؒ

۱۔ پہلا صور جو پھونکا جائے گا وہ گھبراہٹ کا ہو گا۔ جس کے کان میں اس صور کی آواز جائے گی وہ ادھر گرے گا ادھر کھڑا ہو گا، پھر گرے گا۔

(۲)دوسرا صور پھونکا جائے گا جس سے ہر زندہ مر جائے گا خواہ آسمان میں ہو خواہ زمین میں، یہ دوسرا صور موت کا ہو گا، جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَن فِی السَّمٰوٰتِ وَمَن فِی الاَرضِ اِلَّا مَن شَآءَ اللّٰہُ  (الزمر آیت: ۶۸)

’’صور پھونک دیا جائے گا پس آسمان اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے ‘‘

۳۔ تیسرا صور: پھر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سب سے پہلے اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کریں گے۔ پھر انہیں حکم دیں گے کہ پھر سے صور پھونکیں، جس سے ساری مخلوق جو مردہ تھی زندہ ہو جائے گی اور اٹھ کھڑے ہو کر نظر یں دوڑانے لگے گی، یعنی قیامت کی دل دوز حالت دیکھنے لگے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

ثُمَّ نُفِخَ فِیہِ اُخریٰ فَاِذَا ھُم قِیَامٌ یَّنظُرُون

’’پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ‘‘َ(زمر آیت:۶۸)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’دونوں صوروں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہے، لوگوں نے کہا اے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کیاچالیس دن کا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا چالیس کا میں نہیں کہہ سکتا چالیس دن کا، چالیس مہینہ یا چالیس سال ہاں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی مگر ریڑھ کی ہڈی باقی رہے گی۔ پھر قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا۔ (صحیح بخاری:۴۸۱۴، صحیح مسلم:۷۴۱۴)

جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا سارا جسم گل، سڑ جاتا ہے سوائے ریڑھ کی ہڈی کے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائیں گے یہ پانی اس ریڑھ کی ہڈی کو پہنچے گا تو اس سے انسان کے جسم اگیں گے جیسے کہ زمین سے سبزہ اگتا ہے، اس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر بیان فرمائی ہے۔

جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَانظُر اِلٰٓی اٰثٰرِ رَحمَتِ اللّٰہِ کَیفَ یُحیِ الاَرضَ بَعدَ مَوتھَِا اِنَّ ذٰلِکَ لَمُحیِ المَوتیٰ وھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیرٌ (روم آیت:۵۰ )

’’پس تو رحمت الٰہی کے آثار دیکھ کہ زمین کی موت کے بعد اللہ اسے زندہ کر دیتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اسی طرح وہ مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے ‘‘

قیامت کے دن سب سے پہلے رسول اللہﷺ کی قبر اطہر شق ہو گی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن میں اولاد آدم کا سردار ہوں گا۔ اور قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر پٹھے گی۔ اور سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا۔ اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی‘‘   (صحیح مسلم:(۵۹۴۔ )

میرے بھائیو اور بہنو! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو جمع کر لیں گے آدم علیہ السلام سے لے کر اس دنیا میں آنے والے آخری شخص تک کو ایک میدان میں جمع کر لیں گے، چاہے اس کی موت زمین میں ہوئی ہو۔ آسمان میں ہوئی ہو۔ سمندر میں ہوئی ہو۔ یا پہاڑوں کے نیچے ہوئی ہو اور خواہ جل کر مرا ہو یا کسی اور ذریعہ سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کر لیں گے اور اللہ تعالیٰ اس پر پورے پورے قادر ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَیَومَ نُسَیِّرُ الجِبَالَ وَتَرَی الاَرضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرنٰھُم فَلَم نُغَادِر مِنھُم اَحَدًا  (الکہف آیت:۴۷)

’’جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور آپ زمین کو کھلی ہوئی صاف دیکھیں گے اور ہم تمام لوگوں کا حشر کریں گے۔ ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے ‘‘۔

انسان کو ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جانوروں کو بھی جمع کر لیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

واذا الوحوش حشرت (سورہ تکویر آیت:۵)

’’اور جب جانور جمع کیے جائیں گے ‘‘

قیامت کے دن صرف انسانوں کا ہی نہیں بلکہ جانوروں کا بھی حساب ہو گا اور ان کے قصاص دلوائے جائیں گے۔ یہاں تکہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا تھا تو قیامت کے دن بے سینگ والی بکری کو سینگ دی جائے گی تاکہ وہ اپنا بدلہ لے لے۔ جانوروں میں اس طرح حساب کتاب کے بعد جانوروں سے کہا جائے گا مٹی ہو جاتو تمام جانور مٹی ہو جائیں گے۔ جیسا کہ حضورﷺ کی لمبی حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ کافر یہ منظر دیکھ کر کہے گا کہ ہائے ہائے کاش کہ میں بھی جانور ہوتا اور اب مٹی بن جاتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے یہی مروی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن نے مجید میں فرمایا ہے :

ویقول الکفر یالیتنی کنت ترابا  (سورہ نباء آیت:۴۔ )

’’اور کافر کہے گا کاش کہ میں مٹی بن جاتا‘‘

 

لوگوں کا کیا حال ہو گا قیامت کے دن؟

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’تم قیامت کے ننگے پیر، ننگے بدن بے ختنہ اٹھائے جاؤ گے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ سنا تو کہنے لگی یا رسول اللہ مرد، عورتیں سب ننگے ہوں گے تو کیا ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھیں گے تو آپﷺ نے فرمایا۔ اے عائشہ وہ وقت ایسا خوفناک ہو گا کہ کوئی کسی کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ کر سکے گا‘‘        (بخاری: ۶۵۲۷)

میرے بھائیو اور بہنو!:

قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پہلے شخص ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے کپڑے پہنائے گا پھر آپﷺ کو اور وہ ایسا کپڑا ہو گا کہ اس جیسا کسی کا کپڑا نہ ہو گا۔

سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ۔ پس دو سفید رنگ کی چادریں پہنائی جائے گی۔

مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’ لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے میں اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا رہوں گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ کا حلہ پہنائیں گے ‘‘       (احمد ۳/۴۵۶)

 

حشر کا میدان

 

قیامت کے دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دئے جائیں گی۔ اور اس دن زمین چاندی کی طرح سفید ہو گی۔ اور میدہ کی روٹی کی طرح صاف اور سفید ہو جائے گی۔ اور بعض سلف سے یہ منقول ہے کہ اس دن زمین چاندی کی ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا :

یَومَ تُبَدَّلُ الاَرضُ غَیرَ الاَرض وَالسَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوا لِلّٰہِ الوَاحِدِ القہَّارِ          (ابراہیم آیت :۴۸)

’’جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد کے روبرو ہوں گے ‘‘

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ قیامت کے دن لوگوں کا حشر سفید گیہوں کی روٹی کی طرح صاف اور سفید زمین پرکیا جائے گا‘‘ ( بخاری:۶۵۲۱)

 

یوم قیامت

 

یعنی حساب کا دن وہ ایک دن ہو گا جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرما تے ہیں۔

تَعرُجُ المَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوحُ اِلَیہِ فِی یَومٍ کَانَ مِقدَارُہٗ خَمسِینَ اَلفَ سَنَۃٍ                  (المعارج آیت:۴)

’’جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ‘‘

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ کافروں پر اللہ تعالیٰ اس دن کو پچاس ہزار سال کا کر دیں گے۔ (تفسیر طبری ۲۳/۶۔ ۳)

مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ دن تو بہت بڑا ہے آپﷺ سے کہا گیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا:

ٰ ’’ اللہ کی قسم یہ مومن پر اس قدر ہلکا ہو گا جیسا کہ ایک فرض نماز کے برابر کا وقت ہوتا ہے یا اس سے بھی کم ‘‘(مسند احمد ۳/۷۵)

یہ دن بہت بھاری اور مشکل دن ہو گا۔ دل دہلانے والا اور کلیجہ اڑانے والا۔ دل دھڑکنے لگیں گے اور اس کی گھبراہٹ سب کو گھیر لے گی۔ زمین کی ایسی حالت ہو جائے گی جیسے کہ کشتی کی طوفان میں یا گرداب میں یہی وقت ہو گا کہ دودھ پلانے والیاں اپنے دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی۔ اور حاملہ عورتوں کے حمل جس کی گھبراہٹ سے گر جائیں گے۔ بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ شیطان ادھر، ادھر بھاگنے لگیں گے۔ یہ دن نہایت سخت ہو گا۔ لوگ بدحواس ہوں گے۔ لوگوں کو دیکھنے سے ایسا معلوم ہو گا جیسے کہ نشہ میں بدمست ہوں مگر وہ نشہ نہ ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کے عذابوں کی سختی نے ان کو مد ہوش کر رکھا ہو گا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :۔

وَیَذَرُونَ وَرَآئَ ہُم یَومًا ثَقِیلاً (سورہ دھر آیت:۲۷)

’’اور اپنے پیچھے ایک بڑے بھاری دن کو چھوڑ دیتے ہیں ‘‘

یہ دن اس لیے بھی بھاری ہو گا کہ درد، گھبراہٹ اور خوف کا دن ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اِنَّ زَلزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیئٌ عَظِیم (الحج آیت :۱)

’’بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے ‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کی سختیوں، گھبراہٹوں سے محفوظ رکھے اور اپنے سائے میں جگہ نصیب فرمائے۔ (آمین)

یہ دن ظالموں پر بھاری اس لیے ہو گا کہ اس دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ظالموں کے لیے فرماتا ہے :

وَلَا تَحسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلاً عَمَّا یَعمَلُ الظّٰلِمُونَ اِنَّمَا یُؤَخِّرہُم لِیَومٍ تَشخَصُ فِیہِ الاَبصَارُ مھُطِعِینَ مُقنِعِی رُئُوسِہِم لَا یَرتَدُّ اِلَیہِم طَرفہُم وَاَفئِدَتُہُم ھَوَآء وَاَنذِرِ النَّاسَ یَومَ یَاتِیہِمُ العَذَابُ فَیَقُولُ الَّذِینَ ظَلَمُوارَبَّنَآاَخِّرنَآاِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیب نُّجِب دَعوَتَکَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ اَوَلَم تَکُونُوٓا اَقسَمتُم مِّن قَبلُ مَا لَکُم مِّن زَوَالٍ       (سورہ ابراہیم: آیت: ۴۲، ۴۳، ۴۴)

’’نا انصافوں کے اعمال سے اللہ تعالیٰ کو غافل نہ سمجھ، وہ تو انہیں اس دن تک مہلت دیتے ہوئے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اپنے سر اوپر اٹھائے دوڑ، بھاگ کر رہے ہوں گے خود اپنی طرف بھی ان کی نگاہیں نہ لوٹے گی۔ اور ان کے دل اڑے اور گرے ہوئے خالی ہوں گے۔ لوگوں کو اس دن سے ہوشیار کر دیجیے جب کہ ان کے پاس عذاب آ جائے اور ظالم کہنے لگیں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں بہت تھوڑے قریب کے وقت تک کی ہی مہلت دے کہ ہم تیری تبلیغ مان لیں۔ اور تیرے پیغمبروں کی تابعداری میں لگ جائیں۔ کیا تم اس سے پہلے قسمیں نہیں کھا رہے تھے کہ تمہارے لیے زوال ہی نہیں ‘‘

یہ دن اس لیے بھی بھاری ہو گا کہ اس دن سارے رشتے ناطے منقطع ہو جائیں گے، جو رشتے ہمیں دنیا میں محبوب تھے جیسے ماں باب، بیوی، بچے سب منقطع ہو جائیں گے نہ باپ کو اولاد پر شفقت ہو گی۔ اور نہ باپ کا بچے غم کھائیں گے اس دن آدمی اپنے بھائی، سے اپنے باپ سے، اپنی بیوی اور بچوں سے بھاگتا پھرے گا۔ عجب آپا دھاپی کا علم ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

یَومَ یَفِرُّ المَرئُ مِن اَخِیہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیہِ  ( عبس: ۳۴۔ ۳۶)

’’اس دن آدمی اپنے بھائی سے، اپنی ماں سے، اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے گا‘‘

 

پسینہ کی لگام

 

اس دن اللہ عزوجل کی عظمت کے سامنے کھڑے سب کپکپا رہے ہوں گے۔ ہر شخص اپنے، اپنے اعمال کے مطابق پسینہ میں غرق ہو گا۔ بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا۔ بعض کے گھٹنوں تک، بعض کی کمر تک، بعض کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا۔ روایت میں ہے کہ حضورﷺ نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے۔   (احمد ۴/۱۵۷)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’پسینہ قیامت کے دن ستر باع (دونوں ہاتھوں کی پھیلائی) زمین میں جائے گا۔ اور بعض آدمیوں کے منہ یا کانوں تک ہو گا‘‘   (صحیح مسلم: ۷۲۔ ۵)

البتہ اہل ایمان محو استراحت ہوں گے۔ اور ان پر بادل سایہ کیے ہوں گے۔ (صحیح بخاری:۶۵۳۲)

 

حساب کا انتظار حشر کے میدان میں

 

وہ دن نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا جس دن ہم اس ذات پاک کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے۔ جس پرنہ تو کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر بات۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا۔ وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی۔ اور میدان آفات و بلائیات سے پر ہو گا۔ اور وہ، وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے۔ حواس بگڑے ہوئے ہوں گے۔ ہوش جاتا رہا ہو گا۔ اور تمام مخلوق آسمان کی طرف نظریں اٹھائے سترسال تک بغیر بولے چالے کھڑی ہوں گی۔ دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی۔ اور اس طرح اس میں جوش اٹھے گا جس طرح ہانڈی میں کھد بدیاں آتی ہیں۔ سورج ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسی طرح تین سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس سال تک کھڑے رہیں گے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چالیس سال تک کھڑے رہیں گے۔

ابن ابی حاتم میں حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئے گی اور نہ کوئی حکم کیا جائے گا۔ حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے اللہ ہی مدد گار ہے۔ آپ نے فرمایا سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن تکلیفوں سے اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔

 

کافروں کا حال

 

قیامت کے دن کافر افسوس وحسرت میں رہے گا اور پچھتائے گا اپنے ہاتھوں کو چبائے گا۔ اور آہ و زاری کرے گا۔ کیونکہ جس چیز کا وہ انکار کرتا تھا وہ اس پر سچی ثابت ہوئی۔ یعنی مرنے کے بعد زندہ ہو کر اٹھنا۔ اس دن کافر اپنی ہر چیز فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو گا تاکہ وہ عذاب سے بچ جائے۔

سوچیے میرے بھائیو اور بہنو!

آج اس دنیا میں کافر مال و دولت حاصل کرنے کے لیے کیسی جد و جہد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے مال کماتا ہے حرام طریقہ سے اور دوسرے کا حق مارتے ہوئے پیسہ اکٹھا کرتا ہے۔ یہی کافر قیامت کے دن تمنا کرے گا کہ وہ زمین بھر سونا ہو تو بھی فدیہ میں دے کر عذاب سے بچ جائے۔ لیکن اس دن کوئی فدیہ اور بدلہ قبول نہ کیا جائے گا گو وہ زمین بھر سونا دے۔ آج اللہ کا وہ عذاب ان کے سامنے آئے گا کہ کبھی اس کا خیال بھی ان کو نہ گزرا تھا جوجو حرام کاریاں، بد کاریاں اور گناہ اس نے دنیا میں کی تھی۔ اب سب کی سزا آگے موجود پائے گا۔ اور اس کا عذاب اس کو چاروں طرف سے گھیر لے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَلَو اَنَّ لِلَّذِینَ ظَلَمُوامَافِی الاَرضِ جَمِیعًا وَّمِثلَہٗ مَعَہٗ لَافتَدَوا بِہٖ مِن سُوٓءِ العَذَابِ یَومَ القِیٰمَۃِ (الزمر:آیت:۴۷)

’’اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو تو قیامت کے دن بد ترین سزا کے بدلہ میں یہ سب کچھ دے دیں ‘‘

یہی نہیں کہ صرف زمین بھر سونا بلکہ اس سے دو گنا بھی ہو تو وہ اس کو عذاب کے بدلے فدیہ میں دینے کے لیے تیار رہے گا مگر اللہ تعالیٰ اس سے کوئی فدیہ قبول نہ کرے گا۔

میرے بھائیو اور بہنو!

آج کچھ مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہے کہ ہم زکوٰۃ نہ دینے کے لیے حیلے کرتے ہیں سونا، چاندی اور مال و دولت کو جما جما کر رکھتے ہیں۔

ذرا سوچئے !

کافر کا حال یہ ہو گا کہ وہ ہر چیز قیامت کے دن فدیہ میں دینے کے لیے تیار ہو گا۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن اور حدیث میں غور و فکر کریں اس دن کی تیاری کریں کہ جس دن نہ مال و اولاد کام آئے گی۔ اور نہ کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔ اور نہ کوئی سفارشی ہو گا۔ حدیث قدسی ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے فرمائیں گے جس کو جہنم میں سب سے ہلکا عذاب ہو گا کہ جہنم میں تیرے پاس اگر دنیا ہوتی اور وہ سب کچھ ہوتا جو دنیا میں ہے تو کیا اسے دے کر اپنے آپ کو عذاب سے چھڑا لیتا وہ کہے گا ہاں ہاں پروردگار۔ توا للہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے تجھ سے اس سے بھی سہل بات چاہی تھی کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ مگر تو نے نہ مانا اور شرک کیا‘‘ (صحیح مسلم:۷۔ ۸۳)

میرے بھائیو اور بہنو!

آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر نیک کام کرنے سلسلے میں ٹال مٹول کرتے ہیں ابن قیم جوزیؒ کہتے ہیں کہ اگر ہم قرآن مجید میں جہنمیوں کی پکار پر غور کریں گے تو اس میں کے اکثر لوگ یہی کہیں گے کہ ربی ارجعونی (اے ہمارے پروردگار ہمیں لوٹا دے۔ تاکہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر کچھ نیک اعمال کر لوں ) لیکن اس وقت یہ امید فضول اور لا حاصل ہے۔

حسن بصریؒ نے ایک شخص کو زور، زور سے ہنستے ہوئے دیکھا تو فرمایا :

’’ کیا اللہ تعالیٰ تم سے وعدہ کر چکا ہے کہ تم کو جنت میں داخل کرے گا کیا تم مطمئن ہو کہ پل صراط پارکر لو گے ؟ تو اس شخص نے کہا نہیں تو حسن بصریؒ فرمانے لگے کہ پھر کیوں اس طرح ہنس رہے ہو‘‘؟

جب انسان حشر کے میدان میں ہو گا تو وہ یہ خیال کرے گا کہ وہ دنیا میں بہت ہی کم عرصہ رہا۔

اس وقت تمہارا یقین ہو گا کہ تم بہت ہی کم دنیا میں رہے گویا صبح یا شام کوئی کہے گا دس دن کوئی کہے گا ایک دن، اور کوئی کہے گا ایک ساعت ہی اور اس پر قسمیں کھائیں گے۔ اس طرح دنیا میں بھی جھوٹ پر قسمیں کھایا کرتے تھے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتا ہے :

وَتَظُنُّونَ اِن لَّبِثتُم اِلَّا قَلِیلاً(بنی اسرائیل:آیت:۵۳)

’’اور تم لوگ گمان کرنے لگو کے کہ تمہارا رہنا بہت ہی تھوڑا ہوا‘‘

ہم آج دنیا میں آخرت کے لیے بہت ہی کم وقت دیتے ہیں۔ جب کہ آخرت کا دن اتنا بھاری ہے کہ وہ ایک دن ۵۔ ہزار سال کے برابر ہو گا اور جنت اور جہنم تو ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے۔ اب آپ خود دونوں زندگیوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے ہم کس زندگی کے لیے کتنی تیاری کر رہے ہیں۔ ؟

قیامت کے دن کچھ واقعات پیش آئیں گے :

۱۔ اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی ایک مٹھی میں لے لیں گے اور آسمانوں کو دائیں ہاتھ میں لپیٹ لیں گے، میں یہاں پر کچھ باتیں آپ لوگوں کو بتا دینا چاہتا ہوں۔ اپنے اوپر جو آسمان نظر آ رہا ہے وہ آسمان دنیا کہلاتا ہے۔ اور اس آسمان کے اوپر اور چھ آسمان ہیں جملہ سات آسمان ہیں۔ ساتویں آسمان پر کرسی ہے کرسی پر پانی ہے اور پانی پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عرش ہے۔ اور عرش پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی شان و عزت کے ساتھ مستوی ہے۔ جس کو ہم بیان کر سکتے ہیں نہ ہی اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ جوآسمان دنیا ہے اس میں تین سو ساٹھ سیارے ہیں۔ جو ابھی تک سائنسداں دریافت کر سکے۔ اور اپنی زمین بھی انہی میں سے ایک سیارہ ہے۔ اور اپنی اس زمین سے سب سے قریب سیارہ سورج ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ مگر کچھ سیارہ ایسے بھی ہیں جن کی روشنی زمین پر پڑنے میں کئی سال لگتے ہیں اور دوسرے آسمان کے مقابلہ میں پہلا آسمان اس طرح ہے جس طرح کہ بڑے چٹیل میدان میں چھلہ (انگوٹھی)۔

میرے بھائیواور بہنو!

اب آپ خود ہی تصور کیجیے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو جن کے مقابلہ میں دنیا ایک چھلہ کے برابر ہے اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لیں گے اور اس زمین کو اپنی ایک مٹھی میں لے لیں گے۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات اور زمین وآسمان کے تنہا مالک ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدرِہٖ وَالاَرضُ جَمِیعًا قَبضَتُہٗ یَومَ القِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطوِیّٰتٌم بِیَمِینِہٖ سُبحٰنَہٗ وَتَعٰلیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ (سورہ الزمر:۶۷)

’’ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے تھی ویسی نہیں کی ساری زمین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہو گی۔ اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں ‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو ایک مٹھی میں لے لیں گے اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لیں گے اور فرمائیں گے میں ہوں بادشاہ زمین کے دوسرے بادشاہ کہاں گئے ؟‘‘      (صحیح بخاری:۱۷۷۱)

۲۔ قیامت کے دن پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ایسا اڑنے پھرنے لگیں گے جیسا کہ دھنی ہوئی رنگیں اون ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَتَکُونُ الجِبَالُ کَالعہِنِ المَنفُوش (القارعۃ:۵)

’’اور پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح ہو جائیں گے ‘‘

۳۔ قیامت کے دن سمندر بہہ پڑیں گے آگ بن جائیں گے اور بھڑکا دیے جائیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پچھوا بھیجے گا اور وہ اسے بھڑکا دے گی۔ اور وہ شعلے مارتے ہوئے بن جائیں گے۔

وَاِذَا البِحَارُ سُجِّرَت (التکویر :آیت:۶)

’’اور جب دریا بھڑکائے جائیں گے ‘‘

۴۔ قیامت کے دن آسمان کپکپانے لگے گا اور پھٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

اِذَا السَّمَآءُ انفَطَرَت (انفطار آیت:۱)

’’جب آسمان پھٹ جائے گا‘‘

۵۔ قیامت کے دن چاند اور سورج بے نور ہو جائیں گے۔ اور اوندھا کر کے لپیٹ کر جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

اِذَا الشَّمسُ کُوِّرَت (التکویر : آیت:۱)

’’جب سورج لپیٹ لیا جائے گا‘‘

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’قیامت کے دن چاند اور سورج لپیٹ دیے جائیں گے یعنی تاریک ہو جائیں گے ‘‘  (صحیح بخاری:۳۲۔ ۔ )

۶۔ قیامت کے دن ستارے متغیر اور بے نور ہو کر جھڑ جائیں گے۔

وَاِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَت(سورہ انفطار آیت:۲)

’’اور جب ستارے جھڑ جائیں گے ‘‘

 

اللہ کا سایہ

 

قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے سایہ میں جگہ دیں گے۔ (صحیح بخاری:۶۶۰ )

یہاں یہ بات جان لینا چاہیے کہ یہ اعزاز صرف سات قسم کے لوگوں کے لیے خاص نہیں۔ بلکہ رحمت الٰہی کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ دیگر احادیث میں اس قسم کے لوگوں کی تعداد تقریباً ستر تک پہنچتی ہے جو رسول اللہﷺ نے مختلف اوقات و حالات میں بیان کیے ہیں۔       (عون الباری: ۷۱۶/۱)

 

پل صراط

 

قیامت کے دن جہنم پر پل صراط رکھی جائے گی جو تلوار جیسی تیز دھار والی ہو گی۔ بڑی پھسلن اور جگہ جگہ آنکڑے ہیں۔ اور جس پر ببول جیسے اور گوکھرو جیسے کانٹے ہیں دونوں طرف فرشتوں کی صفیں ہوں گی جن کے ہاتھوں میں جہنم کے انکس ہوں گے جن سے پکڑ پکڑ کر لوگوں یعنی کافروں اور منافقوں کو جہنم میں دھکیل دیں گے۔ فرشتے ہر طرف سے دعائیں کر رہے ہوں گے کہ اے اللہ سلامت رکھ، الٰہی بچا لے۔      (تفسیر طبری ۱۸/۲۳۲)

ایماندار تو اس پر سے پلک جھپکنے کی طرح گزر جائیں گے، بعض بجلی کی طرح گزریں گے کچھ اس طرح جیسے ہوا تیزی سے چلتی ہے۔ یا جیسے تیز رو گھوڑے یا اونٹ ہوتے ہیں۔ بعض صحیح سالم گزر جائیں گے، بعض زخمی ہو کر پار اتر جائیں گے۔ بعض کٹ کر جہنم میں گر جائیں گے۔ سب سے آخر میں جو مسلمان پار ہو گا یہ وہ ہو گا جس کے صرف انگوٹھے پر نور ہو گا۔ گرتا پڑتا نجات پائے گا۔ پل صراط سے سب کو گزرنا ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہم تمام کو بجلی کی طرح پل صراط سے گزار دے آمین)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَاِن مِّنکُم اِلَّا وَارِدھَُا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتمًا مَّقضِیًّا                  (سورہ مریم: آیت:۷۱)

’’تم میں سے ہر ایک وہاں وارد ہونے والا ہے۔ یہ تیرے پروردگار کے ذمے قطعی فیصل شدہ امر ہے ‘‘

قیامت کے دن کافر، منافق، مسلمان، مؤمن سب کا فیصلہ ہو جائے گا اور سب تین جماعتوں میں بٹ جائیں گے۔

۱۔ مقربین: جو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَالسّٰبِقُونَ السّٰبِقُون(واقعہ آیت:۱۰ )

’’اور جو اعلیٰ درجے کے ہیں وہ تو آگے والے ہیں ‘‘

۲۔ کچھ کو نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَاَصحٰبُ المَیمَنَۃِ مَآ اَصحٰبُ المَیمَنَۃِ      (واقعہ: آیت:۸)

’’پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے ‘‘

۳۔ کافروں، منافقوں اور گنہگاروں کو نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیے جائیں گے۔

وَاَصحٰبُ المَشئَمَۃِ مَآ اَصحٰبُ المَشئَمَۃ      (الواقعہ:۹)

’’اور بائیں ہاتھ والے کا کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا‘‘

بعض لوگ آپﷺ کی شفاعت سے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیے جائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جنت کا بیان

 

ویسے تو اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں لکھی اور چھاپی گئی ہیں مگر ان شاء اللہ میں کچھ الگ انداز سے جنت کا بیان کروں گا جو مسلمان بھائی یا بہن اس کتاب کو پڑھ رہے ہیں میں چاہتا ہوں کہ وہ تصور کریں کہ وہ جنت کی سیر کر رہے ہوں۔ انشاء اللہ، اللہ کی توفیق سے ہم اس سفر کو شروع کریں گے۔

 

جنت میں داخلہ اور آپ کی سلطنت

 

جیسے ہی آپ جنت میں داخل ہوں گے آپ کو آپ کی سلطنت دکھائی دے گی۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ سورۂ الانسان میں فرماتے ہیں :

وَاِذَا رَاَیتَ ثَمَّ رَاَیتَ نَعِیمًا وَّمُلکًا کَبِیرًا

’’تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈال سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا‘‘  (سورہ دہر آیت: ۲۵)

 

فرشتوں کا سلام

 

پھر جب آپ آگے پڑھیں گے تو فرشتے آپ کو سلام پیش کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

سَلٰمٌ عَلَیکُم بِمَا صَبَرتُم (سورہ رعد آیت: ۲۴)

’’فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہوتی رہے ‘‘

آپ کو آپ کا محل ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَیُدخِلھُمُ الجَنَّۃَ عَرَّفہََا لہَم (سورہ محمد آیت:۶)

’’: انہیں اس جنت میں لیے جایا جائے گا انہیں شناسا کر دیا جائے گا‘‘

اور محلیں اس طریقہ سے ہوں گے کہ ان کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔

جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

اُولٰٓئِکَ لہُم جَنّٰتُ عَدنٍ تَجرِی مِن تَحتہِمُ الاَنہٰر

’’ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں۔ ان کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی‘‘   (سورہ کہف آیت: ۳۱)

 

دنیا کے پھل اور جنت کے پھلوں میں فرق

 

دنیا کے پھلوں میں اور جنت کے پھلوں اور میووں میں صرف نام میں مشابہت ہے۔ مزہ اور لذت میں زمین و آسمان کا فرق ہے جیسے کہ دنیا کے میوے انگور، انار، سنترہ، سیب کو ہم جانتے ہیں۔ مگر جنت کے انگور، انار، سنترہ، سیب مزہ میں ان سے بہت مختلف ہیں، جنت کے پھلوں کا آپ اس حدیث سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جنت کے پھل کا ایک خوشہ کتنا بڑا ہو گا۔ وہ حدیث جس میں آپﷺ نے سورج گہن کے موقعہ پر صحابہ رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ اسی حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اے نبیﷺ ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس جگہ پر کچھ لیا اور پھر رک گئے۔ تو آپﷺ نے فرمایا:

’’میں نے جنت کو دیکھا اور اس میں سے انگور کے ایک خوشہ کو لیا۔ اگر میں اسے توڑ لیتا تو جب تک دنیا باقی رہتی تب تک تم لوگ اس میں سے کھاتے رہتے ‘‘ (صحیح مسلم:۲۱۔ ۹، صحیح بخاری:۵۶۵)

جیسے ہی آپ اپنے محل کی طرف بڑھیں گے تو آپ کو خیمے ہی خیمے نظر آئیں گے آپ چاہیں گے کہ میں اپنے خیمہ میں جاؤں۔ اور اپنے خیمہ کی سیر کروں جیسے ہی آپ اپنے خیمہ میں جائیں گے تو اپنی جنت کی بیویوں کو پائیں گے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ مومن کو جنت میں ایک خیمہ ملے گا جو ایک ہی خولدار موتی کا ہو گا۔ اس کی لمبائی ساٹھ میل تک ہو گی۔ اس میں اس مومن کی بیویاں ہوں گی۔ اور وہ ان پر گھوما کرے گا۔ پھر ایک دوسرے کو نہ دیکھے گا۔ (بوجہ کشادگی کے ) ‘‘  (صحیح مسلم:۷۱۵۸)

 

جنت کی عورتیں حور عین

 

جنت کی بیویاں بہت ہی خوبصورت، شرمیلی، بڑی بڑی نیچی نظروں والی سخت سیاہ بڑے، بڑے بالوں والی بہت ہی گوری ہوں گی۔ ان کی صفائی اور چمک مثل اس موتی کے ہے جو سیپ سے ابھی ابھی نکلا ہو جسے آپ سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا ہو اور نہ کسی جن نے۔ ان کی نزاکت اور نرمی انڈے کی اس جھلی کے مانند ہو گی جو اندر ہوتی ہے، وہ اپنی ظرافت و ملاحت، حسن صورت اور جسامت، خوش خلقی اور حلاوت کی بنا پر اپنے خاوند کی بڑی پیاریاں ہیں۔ یہ بیویاں اس قدر نازک اور نورانی ہوں گی کہ ان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر سینے کی طرف سے دیکھے گا تو صاف نظر آ جائے گا۔ اس قدر ان کی پنڈلی صاف اور آئینہ نما ہو گی جس طرح مروارید میں سوراخ کر کے ڈورا ڈال دیں تووہ ڈورا باہر سے نظر آتا ہے اسی طرح ان کی پنڈلی کا گودا نظر آئے گا۔ ایسا ہی نورانی بدن اس جنتی کا بھی ہو گا۔ وہ آپ کے خیمہ میں قیام کیے ہوئے آپ کا انتظار کر رہی ہو گی۔

ان حوروں کو اللہ تعالیٰ نے خاص آپ کے لیے ہی بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ آپ کے لیے انعام ہے، قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے ان حوروں کا ذکر کیا ہے۔

سورۂ واقعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَحُورٌعِینٌ کَاَمثَالِ اللُّؤلُؤِ المَکنُونِ (الواقعہ : ۲۲۔ ۲۳)

’’اور (اہل جنت کے لیے )موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، جیسے غلاف میں لپٹے ہوئے موتی‘‘

سورۂ رحمن میں ہے :۔

’’ان (جنتوں )میں جھکی نظروں والی (شرمیلی اور با حیا حوریں ) ہوں گی، ان سے پہلے انہیں کسی انسان اور کسی جن نے ہاتھ نہیں لگایا ہو گا۔ ۔ ۔ گویا وہ ہیرے اور موتی ہیں ‘‘  (الرحمن :۵۶۔ ۵۸)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ اہل جنت کی کوئی عورت اہل زمین کی طرف رخ کرے تو آسمان و زمین کی درمیانی فضا روشن ہو جائے۔ اور خوشبو سے مہک جائے۔ بے شک وہ دوپٹہ جو اس کے سر پر ہے وہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے ‘‘  (صحیح بخاری:۱۲۱۰ )

 

دنیا کی مومنہ عورت کو حور عین پر فضیلت

 

یہاں پر آپ کو میں یہ بات بتا  دینا چاہتا ہوں کہ جو بیوی دنیا میں نیک تھی اس کو حور عین پر فضیلت حاصل ہو گی، ہر چیز میں چاہے وہ خوبصورتی میں ہو یا کسی اور چیز میں ہو۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپﷺ سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ دنیا کی مومنہ عورتیں افضل ہیں یا حور عین؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’ اے ام سلمہ دنیا کی عورتیں حور عین سے افضل ہیں جیسے کہ استر( اندر کے کپڑے ) سے ابرا(باہر کا کپڑا) بہتر ہوتا ہے ‘‘   (طبرانی، مجمع الزوائد ج:۱۔ ص:۴۱۷، ۴۱۸)

 

جنت کے محل اور ان کی خوبصورتی

 

اب آپ تصور کیجیے کہ آپ اپنے محل میں داخل ہو رہے ہیں۔ خوبصورت محل جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں جب آپ اور آپ کی بیوی اس محل میں داخل ہوں گے تو دیکھیں گے کہ محل کی ایک اینٹ چاندی کی ہو گی اور ایک اینٹ سونے کی ہوں گی، الگ الگ خوبصورت رنگ کی دیواریں ہوں گی، اور دیواروں پر خوبصورت سونے چاندی سے کاریگری ہو گی، فرش نہایت صاف خالص مشک اور جنت کی مٹی ہو گی۔ سبز رنگ کے اعلیٰ اور قیمتی فرش اور غالیچے ہوں گے۔ حریر و ریشم کی خوبصورت نقش و نگار والی مسندیں پچھی ہوئی ہوں گی۔ اور ان مسندوں کا استر حریر و ریشم کا ہو گا۔ اور وہاں پر اونچے تخت ہوں گے۔ اور ان تختوں پر اعلیٰ فرش ہوں گے۔ کوئی سرخ رنگ کا فرش ہو گا۔ کوئی زرد رنگ کا اور کوئی سبز رنگ کا، یہ بستر مخملی ہوں گے جو بہت نرم اور بالکل خالص ہوں گے۔ اور یہ تخت سونے کے تاروں سے بنے ہوئے ہوں گے۔ اور ان فرشوں میں کئی کئی رنگ کے ملے جلے نقش بنے ہوں گے۔ عمدہ اور منقش تکیہ ترتیب سے جمے ہوں گے اور ان تکیوں پر عمدہ گلکاریاں ہوں گی۔ ہیرے، جواہرات اور موتی کے جھومر لٹک رہے ہوں گے۔ ترتیب سے پانی اور شراب کے آبخورے رکھے ہوں گے جو چاندی کی طرح سفید اور چمکدار ہوں گے۔ اور صفائی میں شیشہ جیسے گویا کہ ستارے چمک رہے ہوں، سونے کے برتن ہوں گے، سونے اور چاندی کی کنگھیاں ہوں گی۔ غرض وہاں کی ہر چیز ایسی اعلیٰ اور بالا ہو گی کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے انہیں تشبیہ دی جا سکے۔ غرض آپ دیکھیں گے کہ کس خوبصورت طریقہ سے یہ محل سجایا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

فِیھَا سُرُرٌ مَّرفُوعَۃ’ وَّاَکوَابٌ مَّوضُوعَۃٌ (سورہ غاشیۃ: ۱۴، ۱۳)

’’ جہاں اونچے، اونچے تخت ہوں گے۔ آب خورے رکھے ہوئے ہوں گے ‘‘

 

جنتیوں کے کپڑے اور زیور

 

پھر آپ کو سبز رنگ کا دبیز اور چمکدار ریشم کا کپڑا پہنایا جائے گا۔ باریک اور موٹے سبز ریشم کے چمکیلے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ سندس اعلیٰ درجہ کا خالص نرم ریشم جوجسم سے لگا ہوا ہو گا۔ اور استبرق جو عمدہ گراں قدر ریشم جس میں چمک دمک ہو گی جو اوپر سے پہنایا جائے گا۔

پھر آپ کو سونے اور چاندی کے زیور اور کنگن پہنائے جائیں گے۔ ایسے کنگن اور زیور پہنائے جائیں گے جو سونے اور چاندی کے ہوں گے جن میں ہیرے اور موتی جڑے ہوئے ہوں گے اور موتی کے کنگن پہنائے جائیں گے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

عٰلِیَہُم ثِیَابُ سُندُسٍ خُضرٌ وَّاِستَبرَقٌ وَّحُلُّوٓا اَسَاوِرَ مِن فِضَّۃٍ  (سورۃالانسان : ۲۱)

’’ان کے جسموں پر سبز مہین اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے۔ اور ان کو چاندی کے کنگن کا زیور پہنایا جائے گا‘‘

ہر ایک چیز کو چھوکر دیکھنے میں اور چھوکر محسوس کرنے میں کئی مہینوں کا وقت گزر جائے گا۔ یاد رکھیے ! جنت میں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے کوئی جلدی نہیں۔ کوئی اپائنٹمنٹ نہیں۔ وقت کہیں نہیں بھاگتا۔

میرے بھائیو اور بہنو!

جنت ایک عظیم سلطنت ہے ہم اس کا کتنا بھی تصور کر لیں حقیقت اس سے کہی بڑھ کر ہو گی۔ پھر کیوں نہ ہم اس سلطنت کو پانے کی تیاری کرے (اللہ ہمیں اپنی رحمت سے جنت الفردوس عطا فرمائے۔ آمین)

ابھی تو آپ اور آپ کی بیوی نے محل دیکھا ہے ابھی اس کے بیڈ رومس اور دوسرے رومس دیکھنا باقی ہیں۔ (مگر بیڈ رومس اور دیگر رومس کی تفصیل بیان نہیں کر رہے ہیں اس ڈر سے کہ یہ کتاب کافی طویل ہو جائے گی۔ ) ہم جنت کے بالا خانہ کا ذکر کریں گے۔

 

جنت کے بالاخانے

 

جنت میں بالا خانہ ہوں گے جو کئی کئی منزلوں کے ہیں تمام سامان آرائش سے آراستہ ہیں۔ وسیع اور بلند خوبصورت اور جگمگ۔

مسند احمد میں ہے آپﷺ فرماتے ہیں :

’’ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کا ظاہر باطن سے اور باطن ظاہر سے نظر آتا ہے ‘‘

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جنت کے لوگ ایک دوسرے کو کھڑکیوں میں اس طرح جھانکیں گے جیسے کہ تم تارے کو دیکھتے ہو آسمان میں ‘‘ (صحیح مسلم: ۷۱۴۱)

مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ:

’’ جنتی جنت کے بالاخانوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے کہ تم آسمان کے ستاروں کو دیکھتے ہو‘‘

بالا خانہ کی ریلنگ سونے کی ہو گی اور خوبصورت ڈیزائن کی ہوئی ہو گی اور عمدہ تکیہ ترتیب سے جمے ہوئے ہوں گے۔ مخملی مسندیں بچھی ہوئی ہوں گی، ٹھنڈی اور تازہ ہواؤں کے جھونکے آ رہے ہوں گے۔ ہر ہوا کے جھونکے کے ساتھ الگ الگ خوشبو آئے گی۔ جیسے کہ دنیا میں ہم مشک کی، عود کی، اور جاسمین کی خوشبو محسوس کرتے ہیں اسی طرح جنتی کو بھی جنت میں خوشبو آتی رہے گی۔

 

جنت کی انگیٹھیاں

 

حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جنت میں جنتیوں کی انگیٹھیاں لؤلؤ کی ہو گی اور ان انگیٹھیوں میں عود سلگے گا‘‘  (صحیح مسلم: ۱۳۷۴)

آپ اپنی بیوی کے ساتھ بالا خانہ میں بیٹھ کر بات چیت کرتے رہیں گے۔ کبھی دنیا کے بارے میں کہ ہم نے کس طرح دنیا میں زندگی گزاری۔ پھر قبر کی طویل زندگی کے بارے میں پھر قیامت اور حشر کے میدان سے متعلق اور پھر کیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہمیں جنت میں داخل کیا۔

آپ بالا خانہ میں بیٹھے ہوئے پھل اور پرندوں کا گوشت کھاتے رہیں گے جنت میں پھل اور میوے آپ کی طرف جھکے ہوئے ہوں گے۔ خوشہ آپ کی طرف لٹک رہے ہوں گے۔ آپ جس طرح کھانا چاہیں گے کھالیں گے۔ ان پھلوں کو لینے میں آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو گی۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَدَانِیَۃً عَلَیھِم ظِلٰلہَُا وَذُلِّلَت قُطُوفہَُا تَذلِیلًا

’’ جنتوں کے سائیں ان پر جھکے ہوئے ہوں گے۔ ان کے گچھے دار میوہ ان پر لٹکائے ہوئے ہوں گے ‘‘(سورہ انسان آیت:۱۴)

وَلَحمِ طَیرٍ مِّمَّایَشتہُون (سورہ واقعہ ۲۔ )

’’اور پرندہ کا گوشت جو ان کو مرغوب ہو‘‘

 

جنت کی سیر

 

آپ کی بیوی آپ سے کہے گی میں دنیا میں زیادہ گھر سے باہر نہیں نکلتی تھی سوائے ضرورت کے۔ کیا تم جنت کی سیر نہیں کراؤ گے۔ آپ کہیں گے یہ جنت تو دنیا سے بہت بڑی ہے انشاء اللہ ہم جنت کی سیر کریں گے۔ جیسے ہی آپ جنت کی سیر کے لیے اٹھیں گے تو فوراً ایک فرشتہ حاضر ہو جائے گا اور کہے گا کہ میں آپ کا گائیڈ ہوں آپ کو ہر ایک چیز کی سیر کراؤں گا۔ رسولﷺ کے ساتھ بھی فرشتے گائیڈ ہوا کرتے تھے جیسا کہ معراج کے واقعہ میں جبرائیل علیہ السلام آپ کے گائیڈ تھے۔ اور کچھ واقعات جو آپ خواب میں دیکھتے تھے۔ اس میں بھی فرشتہ آپ کے گائیڈ ہوتے تھے۔ کچھ منظر آپ کو دکھاتے تھے۔ پھر اس کی تفصیل بتاتے تھے فرشتہ آپ کو لے چلے گا۔

 

جنت کی نہریں

 

آپ کے لیے جنت کی نہریں منتظر ہوں گی جن میں پانی کی نہر ہو گی، جو  دنیا کے پانی سے بالکل مختلف، جو پانی کبھی بگڑتا نہیں، متغیر نہیں ہوتا، سڑتا نہیں، نہ اس میں بدبو پیدا ہوتی ہے بہت صاف موتی جیسا کوئی گدلاپن نہیں۔ یاد رکھیے : آپ پانی پیاس کی وجہ سے نہیں پی رہے ہیں کیونکہ حشر کے میدان میں رسول اللہﷺ کے دست اطہرسے جام پینے کے بعد جنتیوں کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ اور اس سے بہتر نہر ہو گی دودھ کی نہر جو دنیا کے دودھ سے بالکل مختلف بہت سفید بہت میٹھا اور نہایت صاف شفاف اور با مزہ اور پر ذائقہ۔ یہ دودھ جانوروں کی تھن سے نکلا ہوا نہیں بلکہ قدرتی ہے۔ آپ اس سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ پھر آپ کے لیے شراب کی نہر ہے۔ ایسی شراب ہو گی جو پینے والے کا دل خوش کر دے۔ جو شراب نہ تو بدبو دار ہے نہ تلخی والی ہے۔ دیکھنے میں بہت اچھی، پینے میں بہت لذیذ، نہایت خوشبودار جس سے نہ عقل میں فتور آئے نہ دماغ میں چکر آئے اور نہ منھ میں بدبو۔ یہ شراب بھی کسی کے ہاتھوں سے کشید کی ہوئی نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے تیار کی ہوئی ہے آپ اس شراب سے خوب مزہ لیں گے پھر شہد کی نہر بھی آپ کا استقبال کرے گی۔ جو بہت صاف ہے خوشبودار ہے اور ذائقہ کاتو کیا کہنا!!۔ یہ شہد بھی مکھیوں کے پیٹ سے نکلی ہوئی نہیں۔ آپ اس سے بھی لطف اندوز ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان نہروں کے بارے میں فرماتے ہیں :

مَثَلُ الجَنَّۃِ الَّتِی وُعِدَ المُتَّقُونَ فِیھَآاَنھٰرٌ مِّن مَّآءٍ غَیرِ اٰسِنٍ وَاَنھٰرٌ مِّن لَّبَنٍ لَّم یَتَغَیَّر طَعمُہٗ وَاَنھٰرٌ مِّن خَمرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِینَ وَاَنھٰرٌ مِّن عَسَلٍ مُّصَفًّی      (سورہ محمد:۱۴)

’’ اس جنت کی صفت جس کا پرہیزگاروں سے وعدہ کیا گیا اس میں نہر ہے پانی کی جو بدبو کرنے والا نہیں۔ دودھ کی نہرجس کا مزہ بدلتا نہیں، شراب کی نہر ہے جس میں پینے والوں کے لیے لذت ہے اور خالص شہد کی نہر ‘‘

 

جنت کے درخت

 

جنت میں الگ الگ قسم کے درخت ہوں گے، کچھ درخت پر پھل ہوں گے۔ جنت کے درخت زیادہ پھلوں والے اور بے خار ہوں گے۔ پھلوں کے بوجھ سے درخت کے تنے جھکے جاتے ہوں گے، بیری کے درخت ہوں گے مگر اللہ اس کے کانٹوں کو دور کر دیں گے۔ ہر ہر بیری میں بہتر قسم کے ذائقے ہوں گے۔ جن کا رنگ و مزہ مختلف ہو گا ابن ابی حاتم میں ہے کہ یہ درخت سرخ رنگ کے سونے کے ہوں گے۔ اس کے تنے سبز زُمَرَّدیں ہوں گے۔ اس کے پھل شہد سے زیادہ میٹھے اور مکھن سے زیادہ نرم ہوں گے۔ ان پھلوں میں گٹھلی بالکل نہ ہو گی۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

’’ جنت کے درختوں کے تنے سونے، چاندی کے ہیں ڈالیاں لؤلؤ، زَبَرجَد اور یاقوت کے ہیں۔ ان کے درمیان پتے اور پھل ہیں جن کے توڑنے میں کوئی دقت اور مشکل نہیں ‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جنت میں ایک درخت اتنا بڑا ہے کہ اگر سوار اس کے سایہ میں سو برس تک چلے تب بھی اسے طے نہ کر سکے ‘‘ (صحیح مسلم:۱۳۷۸)

اور کچھ درخت ہیں جنتیوں کے لباس جن سے تیار کیے جائیں گے۔ ایسے لباس جو سونے سے نقش و نگار کیے ہوئے سبزرنگ کے ریشم کے ہوں گے۔

ایک شخص نے آپﷺ سے سوال کیا کہ طوبی کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’جنتی درخت ہے جو سوسال کی راہ تک پھیلا ہوا ہے، جنتیوں کے لباس اس کی شاخوں سے نکلتے ہیں ‘‘ (احمد۳/۷۱)

آپ جنت کے کپڑوں کی خوبصورتی کا اندازہ اس حدیث سے لگا سکتے ہیں کہ آپﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ پیش کیا گیا۔ لوگ اس کی خوبصورتی سے بہت خوش ہوئے، آپﷺ نے فرمایا :

’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو جنت میں ملنے والا رو مال اس سے کہیں بہتر ہے ‘‘  (صحیح بخاری:۱۳۷۷)

میرے بھائیو اور بہنو! اس سے اندازہ لگائیے کہ وہ رو مال جس سے ہم چہرہ اور گرد و غبار صاف کرتے ہیں اس کپڑے کی جنت میں یہ حقیقت ہو گی تو بہترین اور اعلیٰ کپڑوں کی خوبصورتی اور زیبائش تو ہمارے تصورسے بالا تر ہے۔

 

جنتیوں کی محفلیں

 

جنت میں دوسرے جنتیوں کے ساتھ آپ کی محفلیں بھی جمیں گی، اونچے اونچے تختوں پر جو سونے کے تاروں سے بنے ہوں گے، عمدہ تکیوں پر پیچھے کی طرف ٹیک لگائے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کریں گے ان کے تختوں پر جگہ جگہ موتی ٹکے ہوئے ہوں گے۔ در و یاقوت جڑے ہوئے ہوں گے۔ اور چھوٹے چھوٹے نوخیز کم لڑکے جنہیں غلمان کہا گیا ہے آپ کو چھلکتا ہوا جام پیش کریں گے۔ یہ غلمان جس سن وسال میں ہوں گے اسی میں رہیں گے ایسا نہیں کہ عمر بڑھ کر صورت بگڑ جائے۔ یہ بچے نفیس پوشاکیں اور بیش قیمت جڑ ؤ زیور پہنے بہ تعداد کثیر ادھر ادھر مختلف کاموں پر جٹے ہوئے ہوں گے۔ اور دوڑ تے بھاگتے مستعدی اور چالاکی سے انجام دے رہے ہوں گے۔ گویا سفید آب دار موتی ادھر ادھر جنت میں بکھرے پڑے ہیں۔ جیسے سجائے پر تکلف فرش پر سفید چمکیلے سچے موتی ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں۔ اور یہ غلمان جام پیش کریں گے جن کی ملونی زنجبیل کی ہو گی۔ جو جنت کی ایک نہر ہے جس کا نام سلسبیل ہے، سونے اور چاندی کے چمکتے ہوئے آبخوروں اور پیالوں میں جو صفائی میں شیشہ جیسے اور سفیدی میں چاندی جیسے ہوں گے گویا ستارہ چمک رہے ہوں۔ اور ایسے انداز سے دیں گے کہ نہ پینے والے کو زیادہ ہو کہ بچ جائے۔ اور نہ کم پڑے۔ خوش ذائقہ اور بے نشہ والی شراب انہیں ملے گی۔ کہ جنتی پیتے جائیں بس لذت ہی لذت محسوس ہو، جیسے اللہ فرماتے ہیں :

عَلیٰ سُرُرٍ مَّوضُونَۃٍ        (سورہ واقعہ:۱۵، ۱۴)

’’یہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے ‘‘

آپ کو جنت میں نہ دھوپ کی گرمی محسوس ہو گی۔ اور نہ سردی کی شدت، نہ آپ بیمار ہوں گے نہ بوڑھے ہوں گے۔ نہ رینٹھ آئے نہ زکام کھانسی ہو۔ اور نہ ہی حاجت کی ضرورت بس ایک ڈکار آئے گی اس سے کھانا ہضم ہو جائے گا۔

لَا یَرَونَ فِیھَا شَمسًا وَّلَا زَمھَرِیرًا۔ (سورہ انسان :۱۳)

’’ نہ وہاں وہ آفتاب کی گرمی دیکھیں گے نہ جاڑے کی سختی‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جنت کے لوگ کھائیں گے پئیں گے نہ تھوکیں گے نہ پیشاب کریں گے اور نہ انہیں ناک آئے گی لوگوں نے عرض کیا پھر کھانا کدھر جائے گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ایک ڈکار ہو گی اور پسینہ آئے گا۔ اس پسینہ میں خوشبو مشک کی ہو گی۔ اس سے کھانا تحلیل ہو جائے گا تسبیح اور تہلیل ان کو الہام ہو گی‘‘   (صحیح مسلم:۷۱۵۲)

غرض جنت میں ہر طرح کی نعمتیں ملیں گی نئے نئے باغات اور پھل اور ہر وقت الگ الگ مزے ملیں گے۔ نہ ہی جنت میں آپ کے لیے نعمتیں کم پڑیں گی اور نہ ختم ہوں گی۔ بلکہ نعمتیں بڑھتی ہی جائیں گی جس جگہ نظر ڈالو آپ کو نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت، راحت وسرور، نعمت و نور سے چپہ چپہ معمور نظر آئے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَاِذَا رَاَیتَ ثَمَّ رَاَیتَ نَعِیمًا وَّمُلکًا کَبِیرًا (سورہ انسان:۲۔ )

’’تو وہاں جہاں کہیں بھی نظر ڈال سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا‘‘

 

آخری جنتی کو کیا ملے گا؟

 

یاد رکھیے جنت میں جو آخری شخص داخل ہو گا اس کو اللہ تعالیٰ دنیا میں جو کچھ ہے اس سے دس گنا زیادہ دیں گے۔ (صحیح مسلم:۴۶۴)

میرے بھائیو اور بہنو! :جنت کے بارے میں تو یہ صرف ہمارا تصور ہے حقیقت اس سے کہیں بالا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں نے اپنے بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا۔ یعنی دنیا میں نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل میں اس کا تصور آیا‘‘     (صحیح مسلم:۷۱۳۲)

جنت والے آواز دیے جائیں گے کہ یہ تمہاری بہشت ہے جس کے تم وارث ہوئے اس وجہ سے کہ تم نیک اعمال کرتے تھے۔ تمہاری سعی مشکور ہے تمہارے عمل پر بہت اجر ہے۔

وَنُودُوٓا اَن تِلکُمُ الجَنَّۃُ اُورِثتُمُوھَا بِمَا کُنتُم تَعمَلُون

’’ اور منادی کی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے بہ سبب اپنے کئے ہوئے اعمال کے تم وارث بنا دیے گئے ‘‘(سورہ اعراف:۴۳)

٭٭٭

 

 

 

 

جہنم کا بیان

 

اس سے پہلے کہ ہم جہنم کے بارے میں بات کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم پہلے اس حدیث کو سمجھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :۔

’’قرآن مجید میں پہلے پہل صرف وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے، یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کے سائے میں آ گئے تو حرام اور حلال کی آیتیں نازل ہوئیں اور اگر پہلے ہی مرحلہ میں وہ آیات نازل ہو جاتیں جن میں شراب اور زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے تو لوگ پکار اٹھتے ’’ہم شراب نہیں چھوڑیں گے، ہم زنا کو کبھی نہیں چھوڑیں گے ‘‘                            (بخاری:۴۹۹۳)

جہنم کا کثرت سے ذکر:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے پتہ چلا کہ جنت اور جہنم کا کثرت سے ذکر ہو تو دل اللہ تعالیٰ سے جڑ جاتے ہیں کیونکہ جب جہنم کا ذکر ہو گا تو ایک مسلمان پوری کوشش کرے گا کہ وہ کسی بھی طرح جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ اس طرح وہ ہر کام جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کرنے سے منع کیا ہے اسے چھوڑ نے کی پوری کوشش کرے گا۔

اسی طرح جب جنت کا ذکر ہو گا تو مسلمان پوری کوشش کرے گا کہ وہ کسی طرح سے جنت میں داخل ہو جائے۔ اس لیے وہ ہر عمل کرنے کی پوری کوشش کرے گا جو اسے جنت میں لے جائے۔

ہم مسلمانوں کا آج اس وقت یہ حال ہے کہ ہم جنت اور جہنم کی معلومات سے کوسوں دور ہیں جس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہم دنیا میں مصروف ہو گئے ہیں بیوی، بچے، پیسے، جائداد سے ہمیں اتنی محبت ہو گئی ہے کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملتا جنت یا جہنم کے بارے میں پڑھنے یا سوچنے کا سوائے نام کے علاوہ کچھ معلوم ہی نہیں۔ تعجب اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی جنت اور دوزخ کو ہنسی مذاق بنا لیا ہے، کافروں کی چھوڑیئے میں نے خود کچھ مسلمانوں کو یہ بولتے سنا ہے بلکہ کچھ لوگوں کا یہ تکیہ کلام بن گیا ہے "Go to hell” حتی کہ لطیفے (Jokes) بھی اس سلسلہ میں کہے سنے جا رہے ہیں۔

یاد رکھیے میرے بھائیو اور بہنو! یہ ایک سنگین بات ہے جو لوگ اپنے منہ سے نکال رہے ہیں۔ آخرت میں پتہ چلے گا کہ جہنم کی آگ اور اس کا عذاب کیسا ہوتا ہے سوچئے اگر فرشتہ آ کر ہم سے پوچھے کیا تم مرنے کے لیے تیا ہو تو ہمارا کیا جواب ہو گا؟ ویسے تو موت کا فرشتہ کسی سے پوچھتا نہیں سوائے انبیاء کے پھر بھی ایک بار سوچئے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا ہم تیار ہیں اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لیے ؟ کیا جواب ہو گا ہمارا ہم خود سوچیں رسول اللہﷺ کثرت سے جہنم کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اور ہر جمعہ کو خطبہ میں سورہق کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ کیونکہ سورہ ق میں جنت اور جہنم کا تفصیل سے بیان ہے اور موت کا بھی۔

حضرت عمرہ بنت ہشام رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

’’ میں نے سورہ قٓ و القرآن المجید رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کی کہ رسول اللہﷺ ہر جمعہ کو خطبہ میں منبر پر سورہ ق کی تلاوت کیا کرتے تھے ‘‘                       (صحیح بخاری:۲۔ ۱۲)

اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہﷺ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ اپنی امت کے بارے میں کافی فکر مند رہتے تھے۔ اور چاہتے تھے کہ ہم کسی بھی طرح جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔

ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا ’’انذرتکم النار‘‘ میں تمہیں جہنم سے ڈرا رہا ہوں۔ میں تمہیں جہنم سے ڈرا رہا ہوں۔ میں جہنم سے تمہیں ڈرا رہا ہوں۔ آپ لگاتار یہی کہہ رہے تھے اور آپﷺ کی آواز اونچی ہوتی جا رہی تھی۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بازار میں بھی ہوتا تو رسول اللہ کی بات کو سنتا۔ رسول اللہﷺ یہی کہہ رہے تھے۔ ’’’انذرتکم النار‘‘ میں تمہیں آگ سے ڈرا رہا ہوں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مسجد میں جمع ہو گئے۔ اور مسجد نبویﷺ سے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ (مسنداحمد)

سبحان اللہ ! یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا دل تھا اللہ تعالیٰ کے ڈر اور اس کے عذاب سے کانپ جاتا تھا۔ اور ہمارے دل اس سے بالکل مختلف ہیں ہماری اور رسولﷺ کی مثال ویسی ہی ہے جیسے اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا :

’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی جب اس کے گرد روشنی ہوئی تو اس میں کیڑے اور یہ جانور جو آگ کے ہیں گرنے لگے۔ اور وہ شخص ان کو روکنے لگا۔ لیکن وہ نہ رکے۔ اس میں گرنے لگے۔ یہ مثال ہے میری اور تمہاری۔ میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں۔ اور کہتا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ۔ اور تم نہیں مانتے۔ اسی میں گھسے جاتے ہو‘‘    (صحیح مسلم:۵۹۵۶)

ہم لوگ اپنے مستقبل کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس پر ہم غور و فکر کریں۔ ہم کسی دوسرے جہاں کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ ہمیں وہاں جانا نہیں ہے۔ اور نہ ہم کوئی کہانی کہہ رہے ہیں کہ جس میں کوئی حقیقت نہ ہو۔ بلکہ ہم میں سے ہر ہر شخص جو یہ کتاب پڑھ رہا اور جو یہ کتاب نہیں پڑھ رہا ہے سب کو جانا ہے۔ ہم ہمیشہ کے لیے پیدا کیے گئے ہیں چند دنوں کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بنا یا ہے ہم کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں ہاں مگر ہم ایک کے بعد ایک مرحلہ سے گزرنے والے ہیں اور آخری ٹھکانہ یا تو جنت ہو گا یا جہنم ہو گا ہمیشہ ہمیش کے لیے۔

میرے بھائیو اور بہنو!

اسی لیے اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اس کی تیاری کرو۔ آج اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں موقعہ دیا ہے کہ سنبھل جاؤ اور اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر گزارنے کی کوشش کرو، جو شخص یقین کے ساتھ جانتا ہے وہ شخص نیک کاموں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور کوشش کرنے والوں کو ان ہی چیزوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ دنیاوی چیزوں میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَسَارِعُوٓا اِلیٰ مَغفِرَۃٍ مِّن رَّبِّکُم وَجَنَّۃٍ عَرضھَُا السَّمٰوٰتُ وَالاَرض اُعِدَّت لِلمُتَّقِینَ (سورہ آل عمران:۱۳۳)

’’اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمینوں کے برابر ہے۔ اور جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے ‘‘

ہم جنت اور جہنم کے بارے میں جتنی بھی کی بات کریں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہو بہو جنت اور جہنم کا احساس کریں جیسا کہ حقیقت میں ان کو دیکھنے کے بعد ہو گا۔ یہ تو صرف ان کا تصور ہے جو ہمیں قرآن اور حدیث سے معلوم ہوا ہے۔

جنت اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اور جہنم اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’جنت اور دوزخ نے جھگڑا کیا۔ دوزخ نے کہا مجھ میں بڑے بڑے زور آور مغرور آئیں گے۔ اور جنت نے کہا مجھ میں ناتواں مسکین آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے دوزخ سے کہا تو میرا عذاب ہے جس کو چاہوں گا تجھ میں عذاب کروں گا۔ اور جنت سے کہا تو میری رحمت ہے۔ میں جس پر چاہوں گا تیرے ذریعہ رحم کروں گا۔ اور تم دونوں بھری جاؤ گی‘‘   (صحیح مسلم:۷۱۷۲)

 

جہنم کی چوڑائی

 

یہ ٹھیک ہو بہو کوئی بتا نہیں سکتا کہ جہنم کا سائز کیا ہے، ہاں جہنم کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ اور مانگتی رہے گی۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جب جہنم والے جہنم میں ڈالے جائیں گے تو جہنم کہتی رہے گی۔ مزید کچھ ہے۔ مزید کچھ ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا قدم اس پر رکھیں گے تب دوزخ کہے گی۔ بس بس ‘‘   (بخاری کتاب التفسیر سورہق آیت:۳۔ )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جہنم میں کافی جگہ ہو گیاس لیے وہ اور اور مانگتی جائے گی۔ اور ایک حدیث ہے جس سے ہم جہنم کے سائز کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہنم کتنی بڑی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’اس دن جہنم لائی جائے گی اور اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی اور ہر ایک باگ کو ستر ہزار فرشتہ کھینچتے ہوں گے۔ (تو کُل فرشتے جو جہنم کو کھینچتے ہوں گے چار ارب نوے کروڑ ہوئے ) ‘‘  (صحیح مسلم:۲۸۴۲)

 

جہنم کی گہرائی

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے اتنے میں ایک دھماکہ کی آواز آئی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم جانتے ہو یہ کیا ہے۔ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک پتھر ہے جو جہنم میں پھینکا گیا تھا ستر برس پہلے۔ اب اس کی تہ میں پہنچا۔

(صحیح مسلم:۲۸۴۴)

معاذ اللہ ! جہنم اتنی گہری ہے کہ اس کی چوٹی سے تہ تک ستر برس کی مسافت اور دوری ہے۔ اور وہ بھی اس تیز حرکت سے جس سے پتھر اوپر سے نیچے کو گرتا ہے۔

 

جہنم کی گرمی

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَاَصحٰبُ الشِّمَالِ مَآاَصحٰبُ الشِّمَالِ فِی سَمُومٍ وَّحَمِیمٍ وَّظِلٍّ مِّن یَّحمُومٍ لَّا بَارِدٍ وَّلَا کَرِیمٍ      (سورۂ واقعہ:۴۴۔ ۴۸)

’’اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے گرم ہوا، اور گرم پانی میں اور سیاہ دھوئیں کے سائیں میں۔ جو نہ ٹھنڈا ہے نہ عزت والا ہے ‘‘

انسان دھوپ اور گرمی سے بچنے کے لیے یہ تین چیزیں استعمال کرتا ہے۔

۱)ٹھنڈی ہوا۔ ۲) ٹھنڈا پانی ۳) ٹھنڈا سایہ

مگر جہنمیوں کو نہ ٹھنڈی ہوا ملے گی نہ ٹھنڈا پانی نہ ٹھنڈا سایہ بلکہ گرم کھولتا ہوا پانی گرم ہوا اور سیاہ دھوئیں کے سایوں میں رہیں گے۔

 

جہنم کا ایندھن

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِی وَقُودھَُا النَّاسُ وَالحِجَارَۃُ اُعِدَّت لِلکٰفِرِینَ           (سورہ بقرہ:۲۴)

’’اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان ہے اور پتھر‘‘

وقود کے معنی ایندھن کے ہیں، جس سے آگ جلائی جائے۔ جیسے چپٹیاں اور لکڑیاں وغیرہ۔ اور حجارۃ کہتے ہیں پتھر کو یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے بدبو دار پتھر ہیں، جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے۔ جہنم میں یہ سیاہ گندھک کے بدبو دار پتھر بھی ہیں جن کی آگ سے جہنمیوں کو عذاب کیا جائے گا۔ یا پھر پتھر سے مراد وہ پتھر ہیں جن کی دنیا میں پرستش ہوتی رہی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’تم اور تمہارے معبود جو اللہ کے سوا ہے جہنم کی لکڑیاں ہیں تم سب اس میں وارد ہوں گے ‘‘(الانبیاء:۹۸)(اللہ ہمیں محفوظ رکھے )

 

جہنم کے طبقات یا درجات

 

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے سات طبقے ہیں، جیسے جیسے درجات نیچے ہوتے جائیں گے عذاب اتنا ہی سخت ہوتا جائے گا، جنت میں جیسے جیسے درجات اونچے ہوتے جائیں گے ویسے ویسے نعمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا جہنم کے سب سے نیچے کے درجہ میں سب سے سخت عذاب ہو گا۔ اور جہنم کے سب سے نیچے کے درجہ میں منافقین ہوں گے۔ اسی طرح جہنم کے سب سے اوپری درجہ میں سب سے ہلکا عذاب ہو گا ابوطالب بھی اسی میں ہوں گے۔ اور انہیں آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے ان کا دماغ پکنے لگے گا۔ باعتبار اعمال جہنمیوں کی منزلیں ہوں گی۔ جیسا کہ حدیث سے پتہ چلتا ہے۔

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’بعضوں کو جہنم کی آگ ٹخنوں تک پکڑے گی۔ بعضوں کو گھٹنوں تک بعضوں کو کمر بند تک۔ اور بعضوں کو ہنسلی تک‘‘ (صحیح مسلم:۷۱۷۔ )

اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنا شدید عذاب ہو گا ان کو جو اس سے نیچے کے طبقہ میں ہوں گے اور جو اس سے بھی نیچے کے طبقہ میں ہو۔ (اللہ ہمیں محفوظ رکھے )

 

جہنم کے دروازے

 

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں :

’’جہنم کے سات دروازے ہیں جن میں سے ایک ان کے لیے ہے جو میری امت پر تلوار اٹھائیں ‘‘

(ترمذی کتاب التفسیر باب و من سورۃحجر )

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

لھََا سَبعَۃُ اَبوَابٍ(سورۂ حجر :۴۴)

’’اور جہنم کے سات دروازے ہیں ‘‘

ابن جریر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جہنم کے سات دروازوں کے نام یہ ہیں :

جہنم، لظی، حطمہ، سعیر، سقر، جحیم، ھاویہ

اپنے اپنے اعمال کے مطابق دروازے تقسیم شدہ ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا:

’’ جہنم کے دروازے اس طرح ہیں ایک کے اوپر ایک۔ اور وہ سات ہیں ایک ایک کر کے ساتوں دروازے پُر ہو جائیں گے ‘‘

 

جہنم کی آگ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’یہ آگ تمہاری جس کو آدمی روشن کرتا ہے ایک حصہ ہے اس میں گرمی کا جہنم کی آگ میں اس سے ایک کم گنا سترزیادہ گرمی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا قسم اللہ کی یار سول اللہ یہی آگ کافی تھی (جلانے کے لیے ) آپﷺ نے فرمایا: وہ تو اس سے ساٹھ پر نو (انہتر) حصے زیادہ گرم ہے ہر حصہ میں اتنی گرمی ہے ‘‘ (صحیح مسلم:۷۱۶۵)

اس سے اندازہ لگائیے دنیا کی آگ کے ایک حصہ میں اتنی تیزی ہے تو جہنم کے ۷۔ حصوں میں کتنی تیزی ہو گی۔ (معاذ اللہ )

 

جہنمیوں کی غذا

 

اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے کھانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

تُسقیٰ مِن عَینٍ اٰنِیَۃٍ لَیسَ لھُم طَعَامٌ اِلَّا مِن ضَرِیعٍ لَّا یُسمِنُ وَلَا یُغنِی مِن جُوعٍ (سورہ غاشیہ:۴، ۵، ۶)

’’نہ نہایت گرم چشمہ کا پانی پلائے جائیں گے۔ اور ان کے لیے سوائے کانٹے دار درخت کے کچھ کھانا نہ ہو گا۔ جو نہ بدن بڑھائے اور نہ بھوک مٹائے ‘‘

ضریع: عکرمہ رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں ان کو ضریع کے سوا کچھ کھانے کو نہ ملے گا۔ ’’ضریع‘‘ یہ عضو کی بیل ہے۔ اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے۔ اور نہایت ہی برا۔ جو حلق میں اٹک جائے۔ نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع دے اور نہ نقصان دور ہو۔

اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن میں جہنمیوں کے کھانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

اِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّومِ طَعَامُ الاَثِیمِ (سورہ دخان:۴۳)

’’بے شک زقوم کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہے ‘‘

جو مثل تلچھٹ کے ہے۔ اور پیٹ میں کھولتا رہتا ہے مثل تیز گرم پانی کے کھولنے کی ‘‘جہنمیوں کو زقوم کا درخت کھلایا جائے گا، حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی زمین میں ٹپک جائے تو تمام زمین والوں کی معاش خراب کر دے۔ یہ مثل تلچھٹ کے ہو گا۔ اپنی حرارت، بدمزگی اور نقصان کے باعث پیٹ میں جوش مارتا رہے گا۔ جہنم کی جڑ سے نکلتا ہے۔ اور اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں جیسے ہیں۔

اور جہنمیوں کے پانی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

لَا یَذُوقُونَ فِیھَا بَردًا وَّلَا شَرَابًا اِلَّا حَمِیمًا وَّغَسَّاقًا  (سورہ نباء آیت:۲۴)

’’نہ کبھی یہ خنکی کا ذائقہ پائیں نہ پانی کا۔ سوائے گرم پانی اور بہتی پیپ کے ‘‘

حمیم : کہتے ہیں سخت گرم کھولتے ہوئے پانی کو۔ سخت پیاس کے موقع پر وہ کھولتا ہوا گرم پانی جو در اصل آگ ہی ہے۔ لیکن بہ شکل پانی پینے کے لیے ملتا ہے۔ ایک گھونٹ اندر جاتے ہی آنتیں کٹ جاتی ہیں۔

غساق: کعب احبارؒ فرماتے ہیں غساق نامی جہنم میں ایک نہر ہے جس میں سانپ بچھو کا زہر جمع ہوتا ہے۔ پھر وہ گرم ہو کر اونٹنے لگتا ہے۔  اس میں جہنمیوں کو غوطے دیے جائیں گے جس سے ان کا سارا گوشت پوست جھڑ جائے گا۔ اور پنڈلیوں میں لٹک جائے گا (ابن ابی حاتم)آپﷺ فرماتے ہیں اگر غساق کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو ساری دنیا بدبو دار ہو جائے۔             (احمد: ۲۸۱۳)

غسلین:اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

وَلَا طَعَامٌ اِلّاَ مِن غِسلِینٍ (سورہ الحاقۃ: آیت:۳۶)

’’جہنمیوں کو سوائے پیپ کے اور کوئی غذا نہ ہو گی‘‘

غسلین کہتے ہیں جہنمیوں کے زخموں سے بہے ہوئے خون پیپ وغیرہ کو۔ اس گرم چیز کے مقابلہ میں غسلین اس قدر سرد ہو گی جو بجائے خود عذاب ہے اور بے حد بدبو دار ہے۔

صدید: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَیُسقیٰ مِن مَّاءٍ  صَدِیدٍ (سورہ ابراہیم:۱۶)

’’اور جہنمیوں کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا‘‘

صدید کہتے ہیں پیپ اور خون کو جو دوزخیوں کے گوشت ور ان کی کھالوں سے بہا ہوا ہو گا۔ اسی کو طینۃ الخیال بھی کہا جاتا ہے۔

مھُل: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَاِن یَّستَغِیثُوا یُغَاثُوا بِمَآئٍ کَالمھُلِ یَشوِی الوُجُوہَ بِئسَ الشَّرَابُ وَسَآءَ ت مُرتَفَقًا                (سورہ کہف :۲۹)

’’اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے جیسا ہو گا جو چہرہ بھون دے گا‘‘

مھل کہتے ہیں غلیظ پانی کو جیسے زیتون کے تیل کی تلچھٹ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سونا پگھلایا۔ جب وہ پانی جیسا ہو گیا اور جوش مارنے لگا تو فرمایا کہ مہل کی مشابہت اس میں ہے۔ کافر کے منہ کے پاس جاتے ہی چہرہ کی کھال جھلس کر اس میں آ پڑے گی۔ اور آنتیں کٹ جائیں گی۔ مگر پھر بھی وہ اس مہل کو پئیں گے کیونکہ پیاس بہت شدید ہو گی۔ اس طرح جب جہنمی کھانا مانگیں گے تو انہیں زقوم اور کانٹے دار درخت کھانے کے لیے دیا جائے گا اور جب پانی مانگیں گے تو کبھی کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ کبھی خون اور پیپ اور گندا پانی پینے کے لیے دیا جائے گا جس سے نہ تو پیاس بجھے نہ بھوک (اللہ ہمیں محفوظ رکھے )

 

جہنمیوں کے کپڑے

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَالَّذِینَ کَفَرُواقُطِّعَت لَہُم ثِیَابٌ مِّن نَّارٍ(سورہ حج:آیت:۱۹)

’’پس کافروں کے لیے تو آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے ‘‘

کفار کے لیے آگ کے کپڑے الگ الگ مقرر کر دیے جائیں گے۔ یہ تانبے کی صورت میں ہوں گے۔ جو بہت ہی حرارت پہنچاتا ہے۔               (تفسیر طبری: ۱۸/۵۹۰ )

 

جہنمیوں کے جسم

 

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’کافر کا دانت یا کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اورس کے کھال کی دبازت اور موٹائی تین دن کی مسافت کی ہو گی ‘‘(صحیح مسلم:۷۱۸۵)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت آپﷺ نے فرمایا:

’’ کافر کے دونوں مونڈھوں کے درمیان تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی‘‘(صحیح مسلم:۷۱۸۶، صحیح بخاری:۶۵۵۱)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں :

کُلَّمَا نَضِجَت جُلُودھُم بَدَّلنٰہُم جُلُودًا غَیرھََا لِیَذُوقُوا العَذَابَ    (سورۂ نساء ۵۶)

’’جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا۔ انہیں یقیناً ہم آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی۔ ہم اس کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ عذاب چکھتے رہیں ‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب اس آیت کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ پڑھنے والے سے دو بارہ پڑھنے کی فرمائش کرتے ہیں وہ دوبارہ پڑھتا ہے تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں آپ کو اس کی تفسیر بتاؤں ایک ایک ساعت میں سوسو بار کھال بدلی جائے گی اس پر عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے یہی فرماتے سنا ہے (ابن مردویہ وغیرہ)

یہ اس واسطے ہو گا کہ عذاب زیادہ ہو۔ اور یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے لیے ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت ہے۔ اور مخبر صادق نے اس کی خبر دی ہے اس لے اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو جہنم کے عذاب سے بچائے )

 

جہنم دیکھتی، بولتی اور سانس بھی لیتی ہے

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

اِذَا رَاَتھُم مِّن مَّکَانٍم بَعِیدٍ سَمِعُوا لھََا تَغَیُّظًا وَّ زَفِیرًا

’’جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی یہ اس کا غصے سے جھنجھلانا اور چلانا سنیں گے ‘‘         (سورۂ فرقان:۱۲)

ابن ابی حاتم میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:

’’جو شخص میرا نام لے کر وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو۔ اور جو شخص اپنے ماں باپ کے سوا دوسروں کو اپنا ماں باپ کہے۔ جو غلام اپنے آقا کے علاوہ دوسروں کی طرف اپنی غلامی کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان بنا لے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا یا رسول اللہ، کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی۔ ’’جب وہ انہیں دور سے دیکھے گی‘‘ جب جہنم جہنمیوں کو دور سے دیکھے گی تو مارے غصے کے تھر تھرائے گی۔ اور شور و غل چیخ  پکار اور جوش و خروش شروع کر دے گی۔ اور ایسی بھڑک رہی ہو گی کہ مارے غصہ کے پھٹ پڑے گی (اللہ ہم سب کی جہنم سے حفاظت فرمائے )‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جہنم نے اللہ تعالیٰ سے کہا: یا اللہ میرا ایک ٹکڑا دوسرے کو کھا گیا۔ سو مجھے دو سانسوں کی اجازت دیجیے۔ پس اسے دو سانسوں کی اجازت دی گئی ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ سو تم جو سردی پاتے وہ جہنم کی سانس سے ہے۔ اور جو گرمی پاتے ہو تم وہ بھی جہنم کی سانس سے ہے ‘‘ (صحیح مسلم : ۶۱۷، صحیح بخاری:۳۲۶۰ )

 

جہنم کے عذاب کے درجات

 

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے :

’’قیامت کے دن سب سے ہلکے عذاب والا وہ شخص ہو گا جس کے دونوں پاؤں کے نیچے دو انگارے رکھے جائیں گے جس کی وجہ سے اس کا دماغ اس طرح سے آ کھولے گا جس طرح ہنڈیا جوش کھاتی ہے۔ اسی درج میں سے ابوطالب بھی ہوں گے ‘‘ ( صحیح بخاری:۲۱۳۔ )

اس حدیث سے ہم یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ یہ کتنا سنگین عذاب ہے۔ حالانکہ یہی سب سے ہلکا عذاب ہے۔

جہنمی لوگ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے اے اللہ ! ایک دن کے لیے عذاب ہلکا کر دیجیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَقَالَ الَّذِینَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جھََنَّمَ ادعُوا رَبَّکُم یُخَفِّف عَنَّا یَومًا مِّنَ العَذَاب              (سورہ غافر: ۴۹)

’’تمام جہنمی مل کر جہنم کے داروغہ سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے اللہ سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو عذاب میں کمی کر دے ‘‘

جہنمیوں کو جواب ملے گا کہ ہم عذاب کو بڑھاتے ہی جائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

فَذُوقُوا فَلَن نَّزِیدَکُم اِلَّا عَذَابًا (سورہ نبا :۳۔ )

’’اب تم مزہ اٹھاؤ، ہم عذاب ہی بڑھاتے رہیں گے ‘‘

ایسے ہی اور اس سے بدترین عذاب تمہیں زیادتی کے ساتھ ہوتے رہیں گے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنمیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن آیت اور کوئی نہیں ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے۔       (تفسیر طبری ۲۴/۱۶۹)

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’ اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائیں گے جس کو سب سے ہلکا عذاب ہو گا اگر تمہارے پاس دنیا ہوتی اور جو کچھ اس میں ہے تو کیا اس کو دے کر اپنے کو عذاب سے چھڑا لیتا۔ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ کہیں گے میں نے تو اس سے بھی سہل بات تجھ سے چاہی تھی اور تواس وقت آدم کی پیٹھ میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا میں تجھ کو جہنم میں نہ لے جاؤں گا۔ مگر تو نے نہ مانا اور شرک کیا‘‘     (صحیح مسلم:۷۔ ۸۳)

 

سب سے سخت عذاب

 

منافق کو ہو گا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

اِنَّ المُنَافِقِینَ فِی الدَّرکِ الاَسفَلِ مِنَ النَّارِ (سوہ نساء ۱۴۵)

’’منافقین تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے

ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مدد گار پالے ‘‘

جہنم میں بھی در جے اور طبقے ہیں، ایک سے بڑھ کر ایک اور منافقین سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے اور سب سے سخت عذاب انہی کو ہو گا۔ (اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے )

 

جہنم میں مختلف قسم کے عذاب

 

کھال بدلنے کا عذاب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

کُلَّمَا نَضِجَت جُلُودھُم بَدَّلنٰہُمجُلُودًاغَیرھََا لِیَذُوقُوا العَذَابَ    (سورہ نساء : ۵۶)

’’یقیناً ہم انہیں آگ میں ڈال دیں گے۔ جب ان کی کھالیں پک جائیں گی تو ہم ان کو ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ عذاب چکھتے رہیں ‘‘

 

سرپرگرم پانی بہانے کا عذاب

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

یُصَبُّ مِن فَوقِ رُئُوسھِمُ الحَمِیمُ (سورہ حج :۱۹)

’’اور ان کے سروں پر گرم کھولتا ہوا پانی بہایا جائے گا‘‘

 

چہرہ جلانے کا عذاب

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

تَلفَحُ وُجُوھھُمُ النَّارُوَہُم فِیھَا کَالِحُونَ (سورہ مومنون:۱۔ ۴)

’’ان کے چہروں کو آگ جھلستی رہے گی اور وہ وہاں بد شکل بنے ہوئے ہوں گے ‘‘

 

منہ کے بل آگ میں گھسیٹنے کا عذاب

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

یَومَ یُسحَبُونَ فِی النَّارِعَلیٰ وُجُوھھِم ذُوقُوا مَسَّ سَقَر       (سورہ قمر:آیت:۴۸)

’’جس دن وہ اپنے منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے۔ دوزخ کی آگ لگنے کے مزے چکھو‘‘

چہرہ سیاہ پڑنے کا عذاب: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

کَاَ نَّمَآ اُغشِیَت وُجُوھُہُم قِطَعًا مِّنَ الَّیلِ مُظلِمًا اُولٰٓئِکَ اَصحٰبُ النَّارِ ھُم فِیھَا خٰلِدُونَ ( سورہ یونس:۲۷)

’’انہیں ذلت ڈھانپ لے گی۔ انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا کہ ان کے چہرے رات کے سیاہ ٹکڑ ے سے ڈھانپ دیے گئے ہیں۔ یہ جہنمی ہیں اور یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ‘‘

 

زنجیروں میں جکڑنے کا عذاب

 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

ثُمَّ الجَحِیمَ صَلُّوہُ ثُمَّ فِی سِلسِلَۃٍ ذَرعھَُا سَبعُونَ ذِرَاعًا فَاسلُکُوہُ اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤمِنُ بِا للّٰہِ العَظِیم            (سورۂ حاقۃ:۳۰ )

’’پھر اسے دوزخ میں ڈال دو۔ پھراسے ایسی زنجیر میں جس کی پیمائش ستر گز ہے جکڑ دو۔ یہ اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا تھا‘‘

وہ آگ جو دلوں پر چڑھ جائے گی:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

نَارُ اللّٰہِ المُوقَدَۃُ الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَی الاَفئِدَۃِ

’’یہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہے جو دلوں پر چڑھے چلی جاتی ہے ‘‘ (سورۂ ہمزہ :۷۶)

یہ آگ ان کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ لیکن یہ لوگ مرتے نہیں۔

محمد بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آگ جلاتی ہوئی ان کے حلق تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر لوٹتی پھر پہنچتی ہے۔ (تفسیر قرطبی ۲۔ /۱۸۵)

جہنمی لوگ دیوار پر چڑھ کر نکل جانے کی کوشش کریں گے مگر فرشتہ ان کو ہتھوڑے سے مارکر گرا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

کُلَّمَآ اَرَادُوٓا اَن یَّخرُجُوا مِنہَا مِن غَمٍّ اُعِیذُوا فِیھَا وَذُوقُوا عَذَابَ الحَرِیقِ                (سورۂ حج:۲۲)

’’یہ جب بھی وہاں سے وہاں کے غم سے نکل بھاگنے کا ارادہ کریں گے وہیں لوٹا دیے جائیں گے کہ عذاب چکھتے رہو‘‘

یہ تو جسم پر عذاب ہو گا مگر اس کے علاوہ اندرونی غم اور افسوس کا عذاب الگ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا العَذَابَ      (سورہ سبا: ۳۳)

’’عذاب کو دیکھتے ہی دل ہی دل میں پشیمان ہو رہے ہوں گے ‘‘

کیونکہ ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ ہو گا۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے۔ آج انہیں اللہ تعالیٰ بھلا دے گا۔

پہلے جہنمی اللہ سے خوب دعا کریں گے کہ اے اللہ ! ہم سے عذاب ہلکا کر دیجیے۔ مگر سالوں تک کوئی جواب نہ آئے گا تو پھر جہنم کے داروغہ سے کہیں گے اور داروغہ کا جواب سن کر افسوس میں رہ جائیں گے اور موت مانگیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

وَنَادَوا یٰمٰلِکُ لِیَقضِ عَلَینَا رَبُّکَ قَالَ اِنَّکُم مّٰکِثُونَ (سورۂ زخرف:۷۷)

’’اور پکار پکار کر کہیں گے کہ اے مالک (جہنم کا داروغہ) تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے۔ وہ کہے گا کہ تمہیں تو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے ‘‘

داروغہ کی بات سن کر موت، موت مانگیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :۔

لَا تَدعُوا الیَومَ ثُبُورًا وَّاحِدًا وَّادعُوا ثُبُورًا کَثِیرًا

(سورۂ فرقان:۱۴)

’’آج ایک ہی موت کو نہ پکارو۔ بہت سی موتوں کو پکارو‘‘

ایک سوال یہ ہے کہ یہ جہنمی جن کی عبادت کرتے تھے ان کا کیا حال ہو گا؟

ہر چیز جو اللہ کے ساتھ شریک کی گئی وہ جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں جلے گی۔ جیسے چاند، سورج اور پتھر وغیرہ۔ مگر جو انبیاء ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے جو ولی اللہ ہے وہ اس سے بری رہیں گے۔ کیونکہ وہ اپنی حیات میں کبھی یہ نہیں بولے کہ اللہ کے ساتھ ہم کو شریک بناؤ۔ مگر ان کے گزرنے کے بعد کچھ بیوقوف لوگوں نے ان کو اللہ کا شریک بنا لیا۔ اللہ ان لوگوں کو جنہوں نے شریک بنا لیا عذاب دیں گے۔ اور انبیاء اور اولیاء کو محفوظ رکھیں گے۔

 

جہنم میں لے جانے والے اعمال

 

شرک کرنا: یہ ایک ایسا عمل ہے کہ اگر شرک کرنے والا بغیر توبہ کے مر جائے تو ہمیشہ ہمیش کے لیے اس پر جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ اور ہر وہ کبیرہ گناہ کرنا جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ اور ہر وہ کام جس کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کرنے سے منع کیا ہے کرنا اور بغیر توبہ کیے مر جانا۔ یہاں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی مسلمان یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں جہنم سے بچ جاؤں گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت جہنم سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر چلیں۔ اور جب بھی گناہ ہو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ معاف فرمائیں گے۔

وصلی اللہ علی رسولنا وحبیبنا محمد و علی الہ واصحابہ و اتباعہ اجمعین۔

 

 

وادیِ پر خطر کا سفر

 

عنقریب ہم ایک کٹھن گھاٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سے گزر کر ایک طویل وادیِ پر  خطر کا سفر اختیار کرنے والے ہیں۔

اس وادی میں سیاہ رات جیسی تاریکی ہو گی۔

اس وادیِ پر خطر میں دشت ویراں جیسی تنہائی ہو گی۔

اس وادیِ پر خطر میں موذی درندوں جیسی وحشت ہو گی۔

اے لوگو!جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہو!

بشیر و نذیر بنا کر بھیجے گئے رسول۔ ۔ ۔ ۔ حضرت محمدﷺ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کی بات ذرا غور سے سنو!

مارأیت منظرا قط الا القبر افظع منہ

’’میں نے قبر سے زیادہ سخت گھبراہٹ والی جگہ اور کوئی نہیں دیکھی ‘‘         (ترمذی)

اے ہوش و گوش رکھنے والو۔ ۔ ۔ !اے دل اور دماغ رکھنے والو۔ ۔ ۔ !اے تنہائی، تاریکی اور وحشت کی وادیِ پر خطر میں قدم رکھنے والو۔ ۔ ۔ ۔ !

سنو، بے بسی اور بے کسی کے اس سفر پر خطر میں ایمان اور نیک اعمال۔ ۔ ۔ ۔ نماز، زکاۃ روزہ، حج، عمرہ، تلاوت قرآن، ادعیہ و اذکار، صدقہ و خیرات، نوافل، اطاعت والدین، صلہ رحمی، یتیموں اور بیواؤں سے حسن سلوک، عدل و انصاف، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہی زاد سفر ہوں گے، جو گھبراہٹ بھی دور کریں گے، روشنی بھی دیں گے، تنہائی بھی دور کریں گے اور جسم و جان کے لیے سامان راحت بھی مہیا کریں گے۔

پس اے وادیِ پر خطر کے مسافرو۔ ۔ ۔ ۔ !

روانگی سے پہلے انسانوں کے سب سے بڑے محسن اور ہمدرد کی نصیحت ذرا کان لگا کر سنو!

ایک بار آپﷺ اسی وادیِ پر خطر کے کنارے بیٹھے آنسو بہا رہے تھے، آنسو بہاتے بہاتے قبر کی مٹی تر ہو گئی اور آپﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا:

یا اخوانی !لمثل ہذا فاعدوا

’’اے میرے بھائیو! اس جیسی جگہ (یعنی قبر ) کے لیے تیاری کر لو‘‘         (ابن ماجہ)

پھر ہم میں سے کون ہے جو رسول رحمت کی بات سنے، اس پر لبیک کہے اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اس وادیِ پر خطر کے سفر کی تیاری میں لگ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

وصلی اللہ علی نبینامحمد والہ وصحبہ اجمعین

(ماخوذ از قبر کا بیان:مولانا محمد اقبال کیلانی)

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید