FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

شرعی نکاح  اور کامیاب ازدواجی زندگی سے متعلق اسلامی اصول و ہدایات پر مشتمل ایک رہنما کتاب

 

 

شادی ۔۔ کیوں اور کیسے ؟

 

 

 

تالیف

                   حافظ محمد سَاجِداُسَید ندوی

 

 

 

اپنی بات

 

الحمدللہ کفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفی، امابعد!

شرعی نکاح اور کامیاب ازدواجی زندگی سے متعلق اسلامی آداب و احکام پر مشتمل یہ مختصر سی کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے، نکاح نہ صرف یہ کہ ایک بالغ اور ذہنی وجسمانی اعتبار سے صحتمند انسان کی فطری اور پیدائشی ضرورت ہے بلکہ یہ اس کی سماجی اور دینی ضرورت بھی ہے، نکاح کے بغیر انسان کا ایک متمدن و مہذب اور سماجی مخلوق کی حیثیت سے روئے زمین پر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔

شریعت اسلامیہ میں نکاح کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے، اسلام نے نکاح سے متعلق ہر پہلو سے اپنے ماننے والوں کی رہنمائی کی ہے، اس نے نکاح کی ترغیب و تاکید کے ساتھ اس کیلئے ایسے اصول و ضوابط اور ہدایات و آداب متعین کئے ہیں جن سے نکاح کا عمل آسان ہو جائے اور آسان ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی بنیاد پر مردو و عورت کے درمیان قائم ہونے والے تعلق و محبت کواستقرار واستحکام اور مضبوطی و دوام بھی حاصل ہو۔

مقام افسوس ہے کہ آج امت مسلمہ کی اکثریت نے نکاح کے تعلق سے شرعی احکام و آداب سے کنارہ کشی اور اعراض و بے توجہی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے، نتیجے کے طور پر نکاح کا عمل نہ صرف یہ کہ آج مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے بلکہ نکاح کے ذریعہ وجود میں آنے والا تعلق بھی ناپائداری کا شکار اور عدم استحکام کی ناگفتہ بہ صورتحال سے دوچار ہے، معاشرہ میں طلاق کے واقعات کی اس قدر کثرت ہے کہ الامان و الحفیظ۔

راقم نے یہ کتاب اس مقصد سے ترتیب دی ہے کہ وہ اس سلسلے میں لوگوں کی رہنمائی اور شادی کے تعلق سے مسلم معاشرے میں راہ پا گئی بے راہرویوں اور کمزوریوں کی اصلاح کا ذریعہ بنے، اس کتاب کیلئے بیشتر مواد راقم نے اپنی کتاب   ’’ پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے ؟‘‘ سے لیا ہے، اس کے علاوہ جن کتابوں سے استفادہ کیا ہے ان میں فقہ کی مختصر عربی کتاب ’’الوجیز فی فقہ السنۃ والکتاب العزیز ‘‘بطور خاص قابل ذکر ہے، میاں اور بیوی کے حقوق و فرائض سے متعلق تقریباً تمامتر حصہ اسی کتاب سے منقول اور مستفاد ہے، پوری کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بے دلیل اور غیر مستند بات کتاب کا حصہ نہ بنے، تاہم اگر تقاضائے بشریت سے کہیں ایسا ہو گیا ہو تو با ذوق اور اہل علم حضرات سے رہنمائی کی گزارش کی جاتی ہے، راقم اس سلسلے میں دل کی گہرائیوں سے ممنون و شکر گزار ہو گا، دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو نفع بخش اور عبرت و ہدایت کا ذریعہ بنائے، آمین۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ و اصحبہ و سلم

محمد ساجد اسیدندوی

ناظم ’’الادارۃ السلفیۃ للبحوث الاسلامیۃ‘‘ حیدرآباد

ناظم جامعہ حفصہ رضی اللہ عنہا للبنات، قلعہ گولکنڈہ

و امام و خطیب مسجد تقویٰ، ٹولی چوکی حیدرآباد

۹/اکتوبر ۲۰۱۴ء

 

 

 

 

 

نکاح: اہمیت و ضرورت اور ترغیب و تاکید

 

نکاح کیا ہے ؟

 

انسانی معاشرہ دو صنفوں (یعنی مردو عورت) سے مل کر وجود میں آتا ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟بنیادی طور پر اس کا مقصد مرد و عورت کے باہمی تعلق اور ملاپ کے ذریعے انسانی نسل کو آگے بڑھانا اور پروان چڑھانا ہے، جیساکہ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور نبی اکرمﷺ  کے فرامین سے واضح ہوتا ہے، اسی مقصد کی تکمیل کیلئے دونوں صنفوں کے درمیان فطری طور پر جنسی کشش رکھی گئی ہے، اس فطری کشش کے نتیجے میں جنسی قوت اور شہوانی طاقت کے وجود اور آغاز کے ساتھ ہی یہ دونوں صنفیں ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرتی اور ایک دوسرے سے سکون ڈھونڈنے لگتی ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں کی طرح دیگر مخلوقات میں بھی یہ جنسی میلان اور ازدواجی و صنفی کشش کی یہ صورت موجود ہے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان یا دوسرے لفظوں میں مکلف مخلوق (یعنی انسان و جن ) کو اس سلسلے میں دیگر مخلوقات سے کونسی چیز ممتاز اور الگ کرتی ہے ؟

اس کا جواب کچھ اس طرح ہے کہ مرد و عورت کے در میان جو صنفی کشش اور شہوانی خوا ہش رکھی گئی ہے اس کی تکمیل و تسکین کی دو صورتیں تھیں۔

ایک یہ کہ ان کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ آزادانہ طور پر جس طرح چاہیں اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور شہوت کی پیا س بجھائیں۔

دوسری صورت یہ تھی کہ انہیں ایک مضبوط ومستحکم اور شریفانہ نظام کے ذریعہ ایک دوسرے سے جوڑ دیا جائے اور اس خواہش کی تسکین و تکمیل کا موقع دیا جائے۔

ہر عقل رکھنے والا شخص یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ پہلی صورت دیگر حیوانات اور جانداروں کے لائق تو ہو سکتی ہے لیکن انسانوں کے مناسب بہر حال نہیں، اسلئے کہ انسان صرف ایک حیوانی وجود کا نام نہیں ہے بلکہ وہ ایک متمدن اور سماجی مخلوق کی حیثیت سے وجود میں آیا ہے اور اس حیثیت سے اس کے کاندھوں پر فرائض اور ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں، ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے وہ ایک خاص قسم کے ما حول اور مخصوص قسم کی تربیت و نگہداشت کا  محتاج ہے اور اس کی یہ محتاجگی چند دنوں یا ہفتوں یا مہینوں تک نہیں بلکہ سالہا سال کے طویل عرصے تک قائم رہتی ہے۔

پہلی صورت میں جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ مرد چند گھڑیوں کیلئے عورت سے مل کر اور لطف اندوز ہو کر اس سے اور اس ملاپ کے نتیجے سے خود کو الگ کر لے اور حمل، ولادت(پیدائش)، رضاعت(دودھ پلانے ) اور اس کے بعد پرورش و نگہداشت  وغیرہ کی ساری ذمہ داریوں اور تکلیفوں کی سزاوار ایک اکیلی کمزور و ناتواں عورت ٹھہرے، ظاہر سی بات ہے کہ ایک اکیلی عورت تنہا اس ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے کیسے تیار ہو سکتی ہے ؟اس لئے پہلی بات تو ہے کہ وہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار ہی نہ ہو گی اور اگر ہو بھی جائے تو اس کی کماحقہ ادائیگی سے قاصر اور عاجز ہی رہے گی۔

اس طرح دوسری صورت ہی کے ذریعہ نسلِ انسانی کا تسلسل و بقا اور تمدن کا تحفظ وجود میں آسکتا ہے، اسلئے کہ اس سے مستقل وابستگی اور تعلق کی صورت میں خاندانی   نظام کی تشکیل عمل میں آتی ہے اور مرد و عورت ماں اور باپ کی شکل میں مشترکہ طور پر فرائض کی تقسیم کے ساتھ بچوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت و کفالت کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں۔

شریعتِ اسلامیہ میں پہلی صورت کو ’’زنا و بدکاری‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اسے قبیح ترین جرم قرار دے کر اس کیلئے سخت اخروی عقاب و عذاب کی وعید کے ساتھ سنگین دنیوی سزائیں بھی متعین کی گئی ہیں، اگر زناکار مرد و عورت غیر شادی شدہ ہوں تو سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا متعین کی گئی ہے اور اگر شادی شدہ ہوں توسنگساری  یعنی پتھر مار مارکر ہلاک کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے راقم کی کتاب ’’پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے ؟‘‘)

شریعت اسلامیہ میں نہ صرف یہ کہ زنا سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے بلکہ اس کے اسباب و دواعی سے بھی دور اور بہت دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنَا اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَاءَ سَبِیْلاً}

’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے ‘‘                       (الاسراء :۳۲)

شیخ عبد الرحمن بن ناصرالسعدی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’زنا کے قریب بھی جانے کی ممانعت مطلق عملِ زنا کی ممانعت سے زیادہ مؤثر اور بلیغ ہے، اسلئے کہ یہ ممانعت زنا کے ساتھ اس کے مقدمات و دواعی کی ممانعت کو بھی شامل ہے ‘‘     ( تفسیر کلام المنان ۴/۲۷۵)

دوسری صورت کا نام’’ نکاح‘‘ ہے، مرد کے ساتھ عورت کی تخلیق کے مقصد کی تکمیل کا واقعی ذریعہ بس نکاح ہی ہے، نکاح نہ صرف یہ کہ نسل انسانی کی افزائش اور تربیت و نگہداشت کا بے خطر اور محفوظ وسیلہ ہے بلکہ اس کے ذریعہ مرد و عورت کے درمیان جو محبت و تعلق وجود میں آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، یہ محبت و تعلق مردو عورت کو لطف ومسرت سے بھرپور جنسی زندگی گزارنے اور حقیقی شہوانی لذت وسکون سے ہمکنار ہونے کا ایسا موقع فراہم کرتا ہے کہ اس کی نظیر پیش کرنا ناممکن ہے، اللہ کے رسولﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے :

(( لَمْ یُرَ لِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلُ التَّزْوِیْجِ  ))

’’دو آپس میں محبت کرنے والوں کے لئے شادی کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی گئی‘‘ (صحیح ابن ماجہ کتا ب النکاح: ۱۵۹۷)

 

   انسانی زندگی میں نکاح کی اہمیت و ضرورت

 

نکاح انسان کی فطری اور ذاتی ضرورت بھی ہے اور سماجی و معاشرتی ضرورت بھی،  اس طرح انسانی زندگی میں نکاح کو غیر معمولی اہمیت و عظمت حاصل ہے۔

انسان کے کاندھوں پر احکام و فرائض کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے وہ اس کی اس حیثیت کی بناپر ہے کہ وہ عاقل ہونے کے ساتھ ایک متمدن اور سماجی مخلوق ہے، تمدن وسماج کا وجود خاندانوں کے وجود سے وابستہ ہے جبکہ خاندانوں کا وجود مردو عورت کے مابین بہتر و منظم اور پائیدار ومستحکم تعلق کا مرہونِ منت ہے، اس حیثیت سے غور کیجئے تو تمام احکام و فرائض اور ہر قسم کی عبادات و معاملات کی صحیح انجام دہی مرد و عورت کے صحیح تعلق پر موقوف ہے، اس طرح نکاح انسان کی فطری اور سماجی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ دینی اور شرعی ضرورت بھی ہے، اللہ کے رسولﷺ نے نکاح کی اہمیت کے اس پہلو کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔

(( اِذَاتَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ))

’’جب بندہ نکاح کرتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہو جاتا ہے ‘‘

(بیہقی، الصحیحہ :۶۲۵)

اور اسی حوالے سے آپﷺ  کی یہ حدیث بھی قابلِ مطالعہ ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا:۔

((وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ ))

’’تم میں سے ایک کی شرمگاہ (کے ذریعہ ہم بستری) میں صدقہ ہے ‘‘

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کی یہ بات سن کر عرض کیا:

(( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیَاْتِیْ اَحَدُنَا شَہْوَتَہٗ وَیَکُوْنُ لَہٗ فِیْھَا اَجْرٌ؟ ))

’’اے اللہ کے رسول!ہم اپنی شہوت پوری کریں اور اس پر ہمیں ثواب سے نوازا جائے ؟ ‘‘

تو آپﷺ نے فرمایا:۔

(( اَرَأَیْتُمْ لَوْوَضَعَھَا فِیْ حَرَامٍ اَکَانَ عَلَیْہِ فِیْھَا وِزْرٌ؟ فَکَذَالِکَ اِذَا وَضَعَھَافِی الْحَلَالِ کَانَ لَہٗ اَجْرٌ ))

’’بتلاؤ اگر آدمی اپنی شرمگاہ حرام جگہ پر استعمال کرے تو کیا وہ گناہ گار نہیں ہو گا ؟، اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پر استعمال کر رہا ہے تووہ اجر کا مستحق ہے ‘‘     (بخاری :۵۳۵۴، مسلم:۱۶۲۸)

 

 نکاح اور اسلام

 

جس نکاح کے ساتھ انسان کی ایسی گوناگوں ضرورتیں وابستہ ہیں کیسے ممکن تھا کہ اسلام جو دین فطرت ہے اسے اہمیت نہ دیتا اور اپنی تعلیمات و ہدایات کے ساتھ اس کی طرف توجہ نہ کرتا؟اسلام نے نکاح یا بالفاظ دیگر ازدواجی زندگی کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اس اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے نہ صرف یہ کہ نکاح کے سلسلے میں ترغیب و تاکید سے کام لیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنانے کے ساتھ ان تمام باتوں کو بھی دور کرنے کا پورا اہتمام کیا ہے جن سے نکاح کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔

 

 نکاح کا شرعی حکم

 

نکاح انبیاء اور رسل علیہم السلام کی انتہائی تاکیدی سنتوں میں سے ایک ہے، ارشاد ربانی ہے :

(ترجمہ) ’’ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان سب کو بیوی اور بچوں والا بنا یا تھا ‘‘              (الرعد:۲۸)

اس سلسلے میں نبی اکرمﷺ  کا ارشاد ہے :۔

(( اَرْبَعٌ مِّنْ سُنَنِ الْمُرْسَلِیْنَ التَّعَطُّرُوَالنِّکَاحُ وَالسِّوَاکُ وَالْحَیَاءُ))

’’ چار باتیں رسولوں کی سنتوں میں سے ہیں، خوشبو استعمال کرنا، نکاح کرنا، مسواک کرنا اور حیا‘‘        (احمد: ۵/۴۱۲)

بغیر کسی عذر کے نکاح کرنے سے گریز کرنا مکروہ وناپسندیدہ حرکت ہے، نبی اکرمﷺ نے تین صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم سے جن میں سے ایک نے شادی نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، فرمایا:۔

(( أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَاوَکَذَا، أَمَا وَاﷲِاِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْ قُدُوَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))

’’کیا تم ہی لوگوں نے ایسا اور ایسا کہا ہے ؟خبردار!قسم اﷲ کی میں تم سے زیادہ اﷲ سے ڈرنے والا اور پرہیز گاری اختیا رکرنے والاہوں، اس کے باوجودمیں روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں رات کو نوافل ادا کرتاہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں توجس شخص نے میرے طریقے سے رو گردانی کی وہ مجھ سے نہیں ‘‘

(بخاری کتاب النکاح:۵۰۶۳ مسلم ایضا:۱۴۰۱)

اسی طرح ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے، آپﷺ  نے فرمایا:۔

((  اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَّمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَتَزَوَّجُوْافَاِنِّیْ مُکَاثِرٌبِکُمُ الْاُمَمَ ))

’’نکاح میرا طریقہ ہے جس نے میرے طریقے پر عمل نہ کیا وہ مجھ سے نہیں، شادی کرو کیوں کہ میں تمہاری کثرت کے باعث امتوں پر فخر کرنا چاہتا ہوں ‘‘    (صحیح ابن ماجہ کتاب النکاح :۱۴۵۶)

جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اور اسے برائی میں پڑنے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہو اس کے لئے نکاح کرنا فرض اور واجب ہے ’’ اس لئے کہ زنا حرام ہے، اسی طرح وہ ساری چیزیں جو زنا کا سبب اور مقدمہ بنیں وہ بھی حرام ہوں گی، تو جو شخص اپنے بارے میں زنا میں پڑنے کا خطرہ محسو س کرے اس کے ذمہ لازم ہے کہ وہ خود سے اس خطرہ کو دور کرے، اس کا دور کرنا اگر نکاح ہی سے ممکن ہو تو پھر نکاح کرنا اس کیلئے واجب ہو گا‘‘                   (السیل الجرار  ۳/۲۴۳للشوکانی)

اور جو شخص نکاح کی خواہش و رغبت رکھنے کے باوجود نکاح کرنے سے قاصر اور عاجز ہو اسے روزوں کی پابندی کرنی چاہئے، سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے ارشاد فرمایا:۔

’’اے نوجوانوں کی جماعت!تم میں سے جسے نکاح کرنے کی استطاعت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے، کیونکہ نکاح نظر کو جھکانے والا اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے والا ہے اور جسے استطاعت نہ ہو اس کے لئے   روزے کا اہتمام ضروری ہے اسلئے کہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے ‘‘

(بخاری کتاب النکاح :۵۰۶۰، مسلم:۱۴۰۰)

 

نکاح اور سلف صالحین رحمہم اللہ

 

شریعت کی طرف سے نکاح کی خاص تاکید و ترغیب کی بنا پر بزرگانِ سلف نکاح کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور تجرد(بغیر شادی) کی زندگی کو بڑی ذلت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اس سلسلے میں یہ چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :۔

سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :۔

’’(بھائیو)نکاح کر لو، کیونکہ ازدواجی زند گی کا ایک دن غیر شادی شدہ  زندگی کے اتنے اور اتنے برسوں کی عبادت سے بہتر ہے ‘‘

سیدنا عبداﷲ بن مسعودرضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :۔

’’اگر میری زندگی کے صرف دس روز رہ جائیں، تب بھی میں شادی کر لینا پسند کروں گا، تاکہ غیر شادی شدہ حالت میں رب کو منہ نہ دکھاؤں ‘‘  ( تحفۃ العروس مترجم الدارالسلفیۃ ممبئی ص۵۶، ۳۴)

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ اپنے لوگوں سے فرماتے :۔

’’میری شادی کا انتظام کرو، کیونکہ نبیﷺ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں غیر شادی شدہ حالت میں اللہ سے ملاقات نہ کروں ‘‘

( احکام القرآن للجصاص ۳/۳۵۴  )

تابعی جلیل حضرت طاؤوس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :۔

’’ نوجوان کی عبادت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ نکاح نہ کر لے ‘‘  ( مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۱۲۷)

 

نکاح کے سلسلے میں سرپرست حضرات اور سماج و معاشرہ کی ذمہ داری

 

شریعت اسلامیہ نے نہ صرف یہ کہ ایک بالغ شخص کو ذاتی اور شخصی طور پراس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ خود کو شادی کے بندھن میں باندھ لے بلکہ معاشرہ کے دوسرے افراد کو بھی اس بات کی تلقین کی ہے کہ وہ غیر شادی شدہ افراد کی شادی کی فکر کریں، قرآنِ مجید میں ارشاد ربانی ہے :۔

(ترجمہ)’’ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت(مومن)غلام کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا، اﷲ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے ‘‘

(النور:۳۲)

آیت میں خطاب یا تو اولیاء اور سرپرستوں سے ہے کہ وہ اپنی زیر ولایت لڑکیوں اور غیر شادی شدہ خواتین کی شادی کی تدبیر وسعی کریں، ان کیلئے رشتوں کی تلاش وجستجو میں لگے رہیں اور مناسب اور شرعی طور پر قابل قبول رشتوں کی موجودگی یا فراہمی کے باوجود ان کی شادی میں تاخیر ہرگز نہ کریں، نبی اکرمﷺ  کی اس حدیث سے اس      ذمہ داری کی نزاکت و اہمیت کا اندازہ کرنا چاہئے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’تو رات میں لکھا ہے کہ جس شخص کی بیٹی ۱۲سال کی عمر(یعنی بلوغت) کو پہنچ گئی اور اس نے اس کا نکاح نہیں کیا اور وہ گناہ کی مرتکب ہوئی تو گناہ اس کے والد پر ہو گا‘‘   (شعب الایمان :ا ا/ ۸۸۰۳، مشکوٰۃ، الالبانی :۲/۹۳۹)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کے یہاں اس بارے میں فکر وسعی کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، مثال کے طور پر صحیح بخاری کی یہ ایک روایت ملاحظہ فرمائیے، سیدنا   ا بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :۔

’’ عمرؓ کی صاحبزادی حفصہؓ  جب بیوہ ہو گئیں، ان کے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ  تھے جو اصحاب رسول میں سے تھے، ان کی وفات مدینہ میں ہوئی، تو عمرؓ نے بتایا کہ میں عثمان کے پاس آیا اور ان کو حفصہ سے نکاح کی پیش کش کی، انہوں نے کہا کہ میں اس بارے میں غور کروں گا، پھر کچھ دنوں کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میری رائے ابھی شادی نہ کرنے کی ہوئی ہے، پھر میں ابوبکر سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ سے آپ کا نکاح کر دوں ؟ ابوبکر خاموش رہے اور انہوں نے کچھ بھی جواب نہ دیا (جس سے )مجھے ان سے عثمان کے مقابلہ میں زیادہ رنج پہونچا، پھر کچھ ہی دنوں بعد رسول اللہﷺ  کا پیغام حفصہ کیلئے آیا اور میں نے اس کا نکاح آپﷺ سے کر دیا، اب جب حضرت ابوبکر سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ اس دن میں نے آپ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا تو آپ کو رنج ہوا ہو گا، لیکن میں نے نبیﷺ  کو حفصہ کا ذکر کرتے سنا تھا، میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ آپﷺ  کے راز کو فاش کر دوں اگر آپﷺ  نے چھوڑ دیا ہوتا تو یقیناً میں نکاح کر لیتا‘‘ (بخاری:۵۱۲۲)

مشہور تابعی حضرت احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے تھے :۔

’’اپنے گھر کے کسی کونے میں کسی اژدہے کا وجود مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ غیر شادی شدہ عورت کے لئے اس کے لائق مرد کی طرف سے پیغام آئے اور میں اسے رد کر دوں ‘‘   ( مصنف ابن ابی شیبہ ۴/۱۲۷)

یا پھر آیتِ کریمہ میں خطاب پوری امت سے ہے اور مقصود اس بات کی تاکید ہے کہ معاشرہ کے غیر شادی شدہ افراد کو شادی کی ترغیب دی جائے، نکاح کے عمل کو آسان اور سہل بنانے کی فکر و تدبیر کی جائے، نکاح کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور نکاح کے خواہشمند اور حاجتمند افراد کا نکاح کے اسبا ب اور ضروری اخراجات و وسائل کی فراہمی وغیرہ میں حتی الامکان تعاون و مدد کی جائے، چنانچہ غیر شادی شدہ اور مجرد افراد کو شادی کی ترغیب اور پھر ان کا مالی تعاون وغیرہ کرنا عہد نبوی اور بعد کے زمانوں  میں عام اور مشہور و معروف بات تھی۔

حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے، نہ مالدار تھے اور نہ ہی معروف خاندان سے تعلق تھا، رنگ بھی سانولہ تھا، اللہ کے رسولﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اور آپﷺ کی صحبت سے مستفید ہوتے، ایک دن رسول اللہﷺ  ان سے گویا ہوئے اور فرمایا:۔

’’اے جلیبیب شادی نہیں کرو گے ؟‘‘

انہوں نے عرض کیا:۔

’’اے اللہ کے رسول! مجھ جیسے شخص سے بھلا کون شادی کرنا پسند کرے گا؟‘‘

آپﷺ نے پھر فرمایا:۔

’’جلیبیب!شادی نہیں کرو گے ؟‘‘

انہوں نے پھر جواب دیا:۔

’’مجھ سے بھلا شادی کون کرے گا، نہ مال ہے اور نہ کچھ اور ؟‘‘

آپ نے تیسری مرتبہ اپنی بات دہرائی اور جواب میں انہوں نے پھر یہی کہا کہ اللہ کے رسول !مجھ سے شادی کون کرے گا؟تو آپﷺ نے فرمایا:

’’فلاں انصاری کے گھر جاؤ اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسولﷺ تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کر دو‘‘

جلیبیب روانہ ہوئے، انصار ی کے گھر پہونچے اور دروازہ پر دستک دی، گھر والوں نے پوچھا :کون ؟کہا جلیبیب، گھر والوں نے کہا ہم تو تمہیں نہیں جانتے اور نہ ہی تم سے ہماری کوئی غرض ہے، وغیرہ خیر گھر کا مالک باہر نکلا، پوچھا کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟ کہا ’’اللہ کے رسول نے تمہیں سلام بھجوایا ہے ‘‘یہ سن کر گھر والے بہت خوش ہوئے، پھر کہا ’’اور تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو‘‘ گھر والے نے کہا ’’ذرا ٹھہرو میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں ‘‘اندر جا کر جب ماں کو یہ بات پہنچائی تو وہ کہنے لگی ’’نانا، نانا۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی قسم میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی‘‘ ان کی لڑکی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی، اس نے والدین کی طرف دیکھا اور کہنے لگی:

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسولﷺ کے حکم کو ٹھکرانا چاہتے ہیں !مجھے رسول اللہ کے حوالہ کر دیجئے وہ مجھے ضائع نہیں فرمائیں گے ‘‘

پھر اس نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی :

{وَمَاکَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَامُؤْمِنَۃٍ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ }

’’اور کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا‘‘        (الاحزاب :۳۶)

لڑکی کے والد اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ کا حکم سرآنکھوں پر، میں شادی کرنے کیلئے تیار ہوں، آپﷺ  کو جب اس لڑکی کے جواب کا علم ہوا تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:۔

(( اَللّٰہُمَّ صُبَّ الْخَیْرَعَلَیْھَا صَبًّاوَلَاتَجْعَلْ عَیْشَھُمَا کَدًّا))

’’اے اللہ اس پر بھلائی کا بھر پور نزول فرما اور ان دونوں کی زندگی کو مشقت سے دور رکھ‘‘

بعد ازاں جلیبیب کے ساتھ اس کی شادی ہو گئی، رسولﷺ  کی دعا کی برکت سے یہ شادی بڑی بابرکت ثابت ہوئی، تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہو گئے کہ راوی کا بیان ہے :۔

’’وہ خاتون انصار کے سب سے زیادہ خرچ کرنے والے اور مالدار لوگوں میں سے ایک تھی‘‘   (موارد الظمآن:۲۲۶۹، احمد: ۴/۴۲۵ مجمع الزوائد: ۹/۳۷۰ وغیرہ)

اسی طرح ایک صحابی ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، وہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔

’’میں رسول اللہﷺ  کی خدمت کیا کرتا تھا، آپﷺ نے دریافت فرمایا ربیعہ شادی نہ کرو گے ؟میں نے عرض کیا :اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول میرا ارادہ شادی کرنے کا نہیں ہے، میرے پاس عورت کی ضروریات کی چیزیں بھی نہیں ہیں اور میں اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی چیز مجھے آپﷺ سے مشغول کر دے، آپ نے مجھے چھوڑ دیا، میں آپ کی خدمت کرتا رہا، آپ نے پھر دوبارہ مجھ سے پوچھا ربیعہ شادی نہ کرو گے ؟ میں نے پھر جواب دیا کہ میرا ارادہ شادی کرنے کا نہیں ہے، میرے پاس عورت کی ضروریات کی چیزیں بھی نہیں ہیں اور میں اس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی چیز مجھے آپﷺ سے مشغول کر دے، آپﷺ  خاموش ہو گئے، پھر میں نے اپنے آپ میں غور کیا کہ اللہ کی قسم! اللہ کے رسولﷺ  میری دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو مجھ سے زیادہ جاننے والے ہیں، اللہ کی قسم! اگر اب آپ نے مجھ سے شادی کرنے کو کہا تو ہاں میں جواب دوں گا اور عرض کروں گا کہ آپ جو حکم چاہیں فرمائیں، چنانچہ آپ نے مجھ سے شادی کرنے کو کہا تو میں نے عرض کیا کہ آپﷺ کی جو خواہش ہو حکم فرمائیں، آپ نے فرمایا فلاں قبیلہ میں چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ رسول اللہﷺ  نے مجھے آپ لوگوں کی طرف بھیجا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ لوگ فلاں خاتون سے میری شادی کر دیں، وہ کہنے لگے رسول اللہ اور رسول اللہ کے پیامبر کو خوش آمدید ہو، رسول اللہ کے پیامبر اپنی ضرورت کے ساتھ ہی لوٹیں گے، انہوں نے میری شادی کر دی، میر ے ساتھ لطف و عنایت کا معاملہ کیا اور مجھ سے گواہ کے بھی طالب نہ ہوئے، میں آپﷺ  کے پاس غمگین لوٹ کر آیا، آپ نے فرمایا ربیعہ کیا بات ہے ؟عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں شریف لوگوں میں پہونچا، ، انہوں نے میری شادی کر دی، میر ے ساتھ لطف و عنایت کا معاملہ کیا اور مجھ سے گواہ  کے بھی طالب نہ ہوئے، میرے پاس مہر میں دینے کیلئے کچھ نہیں ہے، آپﷺ  نے فرمایا اے بریدہ اسلمی!اس کیلئے گٹھلی برابر سونے کا انتظام کر دو، انہوں نے انتظام کر دیا تو میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ  نے فرمایا اسے لے کر جاؤ اور ان سے کہو کہ یہ خاتون کا مہر ہے، میں نے ایسا ہی کیا انہوں نے اسے پسند اور قبول کر لیا اور کہنے لگے خوب اور عمدہ ہے، میں پھر آپﷺ  کی خدمت میں غمگین لوٹا، آپ نے دریافت فرمایا ربیعہ کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ  میں نے ان سے زیادہ شریف لوگ نہیں دیکھے، میں نے انہیں جو پیش کیا اسے پسند کر لیا، اس کی تحسین کی اور اسے بہت اور عمدہ قرار دیا، اب میرے پاس ولیمہ کرنے کو کچھ نہیں ہے، آپ نے فرمایا اے بریدہ! اس کیلئے ایک بکری کا انتظام کر دو، انہوں نے میرے لئے ایک موٹی تازی بکری کا انتظام کر دیا، پھر آپﷺ نے مجھ سے فرمایا عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ غلہ کی ٹوکری بھیج دیں، میں ان کے پاس آیا اور انہیں آپ کی بات سے آگاہ کیا، وہ کہنے لگیں کہ اس ٹوکری میں نو صاع جو ہے، صبح کیلئے اب ہمارے پاس کوئی غلہ نہیں ہے، میں ٹوکری لے کر آپ کی خدمت میں پہونچا اور آپ کو عائشہؓ کی بات بتلائی، آپ نے فرمایا یہ ٹوکری ان لوگوں کے ہاں لے جاؤ اور کہو کہ صبح اس کی روٹی بنا لیں، میں گیا، جانور بھی ساتھ لے گیا، میرے ساتھ قبیلۂ اسلم کے بھی کچھ لوگ تھے، میں نے اس قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ صبح کے وقت آپ لوگ اس کی روٹی اور ا س جانور کا سالن تیار کر لیں، انہوں نے کہا کہ روٹی تو ہم بنا لیں گے، گوشت کی ذمہ داری تمہاری، تو میں نے قبیلہ اسلم کے لوگوں کے ساتھ بکری ذبح کی، اس کا کھال اتارا اور اسے پکایا، صبح کے وقت روٹی اور گوشت تیار تھا، میں نے ولیمہ کیا اور نبیﷺ  کو بھی دعوت دی، ربیعہ کہتے ہیں کہ بعد ازاں رسول اللہﷺ  نے مجھے ایک زمین مرحمت فرمائی‘‘      (مسند احمد:۴/۵۸، مجمع الزوائد:۴/۲۵۷)

مسند احمد میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :۔

’’جب علی نے فاطمہ کیلئے نکاح کا پیغام دیا تو رسول اللہﷺ  نے فرمایا: ’’شادی کیلئے ولیمہ ضروری ہے ‘‘اس پر حضرت سعد نے عرض کیا میں ایک بکری کی ذمہ داری لیتا ہوں اور فلاں نے کہا کہ میرے ذمہ اتنی اور اتنی مکئی ہے ‘‘(مسند احمد:۵/۳۵۹، مجمع الزوائد:۴/۴۹)

سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :۔

’’مجھ سے ابن عباس نے پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے ؟ میں نے جواب دیا نہیں، تو انہوں نے فرمایا تو پھر تم شادی کرہی لواس لئے کہ اس امت کے بہترین فرد(یعنی نبیﷺ )بہت سی بیویوں والے تھے ‘‘

( بخاری کتاب النکاح: ۵۰۶۹، احمد: ۱/۲۳۱)

میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا:۔

’’تم ضرور شادی کر لو ورنہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو عمرؓ نے ابو الزوائر سے کہی تھی کہ تو شادی یا تواسلئے نہیں کر رہا ہے کہ تو نامرد ہے یا پھرتو بدکار ہے ‘‘          (البیان والتبیین۲/۲۰۴ )

یہ روایتیں کھلے طور پر بتلا رہی ہیں کہ عہد نبوی و خیر القرون میں شادی کی ترغیب اور اس کیلئے ضرورت مندوں کی مدد و تعاون کی بات کس قدر عام تھی۔

آیت کریمہ میں غیر شادی شدہ افراد (جن کا نکاح کرا دینے کا حکم دیا گیا ہے ) کیلئے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ ہے ’’اَیَامیٰ‘‘  یہ ’’اَیِّم ‘‘کی جمع ہے، یہ لفظ اپنے معنے میں بڑی وسعت رکھتا ہے، اس کا استعمال ان عورتوں کیلئے بھی ہوتا ہے جو بیوہ ہوں یا مطلقہ اور مجرد ہوں اور ان مردوں کیلئے بھی جن کی بیوی یا بیویاں فوت ہو چکی ہوں یا جنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو، اسی طرح اس کا اطلاق ان کنوارے مردوں اور کنواری عورتوں پر بھی ہوتا ہے جن کی بلوغت کے بعد تا دیر شادی نہ ہوئی ہو۔     (  تیسیر القرآن از عبد الرحمن کیلانی ج ۳ ص۲۶۴)

اس طرح اس آیت کے مطابق جس طرح بالکل کنوارے مرد و خواتین کی شادی کی فکر ضروری ہے اسی طرح، بیوہ اور مطلقہ خواتین اور ان مردوں کی شادی کا اہتمام و انتظام اور سعی و تدبیر بھی ضروری ہے جن کی بیویاں فوت ہو چکی ہوں یا انہوں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہو، چنانچہ عہد نبوی اور زمانۂ خیر القرون وغیرہ میں یہ مشاہدہ اور منظر بالکل عام نظر آتا ہے کہ ادھر کوئی عورت مطلقہ یا بیوہ ہوئی اور معاشرہ میں اس سے نکاح کرنے یا نکاح کرانے کی فکر شروع ہو گئی اور عدت گذرتے ہی اس کا عقد ہو گیا اور ادھر کسی مرد کی بیوی کا انتقال ہوا یا طلاق ہو گئی اور جلد ہی وہ رشتۂ  ازدواج سے منسلک ہو گیا۔

یہاں اس وضاحت کی ضرورت اسلئے محسوس کی گئی کہ موجودہ مسلم سماج خصوصاً ہندوستانی معاشرہ میں جس طرح یہاں کی مخصوص تہذیب وفکر اور خاص ذہنیت و ماحول کے زیر اثر بیوہ عورتوں کے نکاح کو معیوب اور ناپسندیدہ سمجھاجاتا ہے اسی طرح بیوی کی وفات یا طلاق کی وجہ سے تجرد اور بہت حد تک محرومی کی زندگی گذارنے والے مرد کے نکاح کوسخت ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خصوصاً جب اولاد کچھ سیانی ہو گئی ہو تو پھر اس عمل کو تقریباً گناہ قرار دیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ گناہ ناقابل معافی اور طعن و تشنیع سے بڑھ کر تکلیف و اذیت رسانی کا باعث ٹھہرتا ہے۔

اس صورتحال اور طرز عمل کا بنیادی سبب اور محرک دراصل یہ ہے کہ باپ کی شادی کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہوئی تو وہ جائداد و وراثت میں حصہ دار بن جائے گی یا پھر جھوٹی قسم کی غیرت کے تحت ایسا ہوتا ہے، بہرحال یہ صریح طور پر آیت الہی کا مذاق اڑانا اور خود کو حکم الہی کے مقابلہ میں لانا ہے جو واضح ہے کہ انتہائی تباہ کن عمل ہے، فقہاء کرام کے نزدیک جب باپ ضرورت محسوس کرے تو لڑکے کیلئے اس کی شادی کا انتظام کرنا لازم ہے، جس کیلئے بشرط گنجائش اسے مجبور کیا جائے گا۔ ( المغنی لابن قدامہ ۷/۵۸۲، ۵۸۷، ۵۸۸، مزید حوالوں کیلئے دیکھئے اسلام کا نظریۂ جنس)

انسان کی جنسی اور شہوانی ضرورت سے قطع نظر زندگی کے ہر مرحلہ میں رفیقۂ  زندگی کی ضرورت اس کی زندگی کا ناگزیر حصہ ہے، بہت سارے مواقع زندگی میں وہ  پیش آتے ہیں جہاں بیوی کی موجودگی انسان کیلئے درد کا درماں اور الجھنوں کا مداوا ثابت ہوتی ہے اور بہت ساری ضرورتیں انسان کی وہ ہیں جن کی تکمیل کیلئے بیوی ہی مناسب اور لائق ہو سکتی ہے۔

مردوں کیلئے ایک سے زائد شادی کی اجازت کیوں ؟

ہمارے معاشرے میں جس طرح بڑی عمر کے مرد و خواتین کے نکاح کو معیوب و        نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح ایک سے زیادہ نکاح کے عمل کو بھی انتہائی ناپسندیدگی اور عیب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، بلکہ بیشتر مردو خواتین اسے پہلی بیوی کے حق میں ظلم سمجھتے ہیں حالانکہ اس کی اجازت اس ذات کی طرف سے ہے جو اپنے بندوں کی ضروریات اور ان کے جذبات واحساسات کا بخوبی علم رکھنے وا لی ہے، قرآن مجید میں ’’دو دو‘‘ ’’تین تین‘‘ اور ’’چار چار‘‘ عورتوں سے شادی کی اجازت دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

(ترجمہ )’’عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو، دو، تین تین چارچارسے ‘‘        (النسائ:۳)

یہ اجازت چونکہ علیم و حکیم ذات کی طرف سے ہے اس لئے ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ حکمت و مصلحت سے خالی ہو سکتی ہے ؟لیکن ہم اپنی ظاہری نگاہ سے دیکھیں تو اس اجازت کے پیچھے بہت سے انفرادی اور معاشرتی مصالح اور مقاصد کار فرما ہیں۔

ان میں ایک بڑا مقصد مرد و خواتین کو بدکاری اور حرام کاری سے بچانا اور محفوظ رکھنا ہے، بعض مردوں کی جنسی شہوت تیز ہوتی ہے، اب ان کے سامنے دوراستے ہیں، یا تووہ بدکاری کا راستہ اختیار کریں یا پھر دوسری عورت سے شادی کریں، ایک شریف و صالح انسان کے لئے ظاہر ہے کہ دوسرا راستہ ہی پسندیدہ ہو سکتا ہے۔

اکثر ملکوں میں مردوں کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، تعداد کے اس فرق کی مختلف وجوہات ہیں، اس بارے میں ایک کھلی ہوئی حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کی شرح پیدائش مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے، اس کے علاوہ جنگوں اور دیگر مختلف قسم کے حادثات کا شکار عموماً مرد ہی ہوتے ہیں۔

اب ایسی صورتحال میں ایک سے زائد شادی کی اجازت نہ ہو تو یقینی طور پر بے حیائی پھیلے گی، ناجائز اولاد کی کثرت ہو گی اور عورتیں معاشرہ کیلئے بوجھ بھی بنی رہیں گی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر سے قبل ہی بیوی بڑھاپے کی وجہ سے یا ضعف و بیماری کی وجہ سے ہم بستری کی قابل نہیں رہتی، اس صورت میں ایک حل یہ ہے کہ مرد زناکاری و بدکاری کاراستہ اختیار کر لے، اس کے علاوہ ایک صورت یہ ہے کہ مرد اسے طلاق دیدے اور دوسری شادی کر لے لیکن ظاہر ہے کہ ایسا کرنا اس کے حق میں غیر مناسب اور اسے اس کی اولاد سے جدا کرنے کا باعث ہو گا۔

مزید یہ کہ ایک عورت کو ہر ماہ حیض(جسے اﷲ تعالیٰ نے اس کے پیٹ میں پلٹے والے بچے کی خوراک کے لئے جاری فرمایا ہے )کی اذیت و تکلیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے، ولادت کے بعد وہ’’نفاس‘‘کی مدت سے گذرتی ہے اور پھر حمل کا زمانہ اس کے حصہ میں آتا ہے، حیض ونفاس کی حالت میں جماع وہم بستری جہاں باعث گندگی و پلیدگی ہے وہیں عورت کی ذہنی اذیت اور مرد و عورت دونوں کی جسمانی بیماری کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، اسی طرح حمل کا زمانہ بعض عورتوں کے لیے جماع وہم بستری سے نفور کا زمانہ ہوتا ہے، ایسی تمام حالتوں میں مرد و عورت کی پریشانی کا حل تعدد ازدواج ہی ہے۔

اسی لئے اسلام نے ایک سے زائد شادی کی اجازت دی، ساتھ ہی اس صورت میں مساویانہ برتاؤ اور یکساں سلوک کی تاکید کی اور کہا:۔

(ترجمہ)’’اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے ‘‘         (النساء:۳)

اور نبیﷺ  کا ارشاد گرامی ہے :۔

’’ جس آدمی کے پاس دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ منصفانہ اور مساویانہ برتاؤ نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گا کہ اس کے جسم کا آدھا حصہ جھکا ہو گا‘‘(ابوداؤد:۲۱۳۳، ترمذی، نسائی)

عدل سے مراد ان باتوں میں عدل ہے جن کی انسان قدرت و طاقت رکھتا ہے، مثلاً باری مقرر کرنا، لباس اور کھانا وغیرہ مہیا کرنا، جہاں تک قلبی میلان و محبت میں برابری کی بات ہے تو یہ انسان کے بس سے باہر ہے، خود نبیﷺ  اس معاملہ میں عاجز ہی رہے، آپﷺ  کو اپنی تمام بیویوں میں سب سے زیادہ حضرت عائشہ    رضی اللہ عنہاسے محبت تھی، امام بخاریؒ نے اپنی صحیح بخاری میں یہ باب قائم کیا ہے :۔

’’باب حب الرجل بعض نساء ہ أفضل من بعض‘‘

’’ باب، اگر مرد کو اپنی ایک بیوی سے زیادہ محبت ہو تو کچھ گناہ نہ ہو گا‘‘

پھر یہ روایت نقل کی ہے :۔

’’ عمرؓ(اپنی صاحبزادی)حضرت حفصہؓ کے یہاں گئے اور ان سے کہا کہ بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آ جانا جسے اپنی خوبصورتی پر اور آپﷺ  کی محبت پر ناز ہے ‘‘ ان کا اشارہ حضرت عائشہؓ کی طرف تھا۔ ۔ ۔ عمرؓ کہتے ہیں کہ ’’پھر میں نے یہی بات آپﷺ کے سامنے دہرائی، آپﷺ مسکرانے لگے ‘‘        (بخاری کتاب النکاح: ۵۲۱۸)

یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے :۔

(ترجمہ)’ ’تم سے کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی بیویوں میں ہر طرح عدل کرو گو تم اس کی کتنی ہی خواہش وکوشش کرو‘‘        (النسائ: ۱۲۹)

یہاں خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مراد یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے، آگے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :۔

’’اسلئے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ میں لٹکتی نہ چھوڑ دو‘‘

یعنی کسی کے ساتھ یہ قلبی میلان دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتا ہی کا باعث نہ بن جائے کہ ظاہر ی طور پر بھی ان کے حقوق نہ ادا کرو، نہ انہیں طلاق دو اور نہ ہی حق زوجیت ادا کرو، یہی وہ صورت ہے جس پر حدیث میں وعیدسنائی گئی ہے۔

نبی اکرمﷺ  اس سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ روایت کے مطابق:۔

’’آپﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے ناموں کا قرعہ ڈالتے پھر جس بیوی کا نام نکلتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ‘‘ (بخاری: ۵۲۱۴، مسلم :۱۴۶۱)

چارسے زائد کی صورت میں عدل ومساوات قائم رکھ پانا چونکہ از حد مشکل بلکہ تقریباً ناممکن تھا، ساتھ ہی یہ تعداد جنسی خواہش کی تکمیل کیلئے بہرصورت (جیسا کہ علماء اسلام علامہ ابن القیمؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرہما نے واضح فرمایا ہے ) کافی بھی تھی اس لئے ایک سے زائد شادی کی اجازت کو چار کی تعداد میں محدود کر دیا گیا۔

عورت کیلئے ایک سے زائد کی اجازت کیوں نہیں ؟ اس کے جواب میں علامہ  ابن القیم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر عورت کو بھی چار خاوند کی بیک وقت اجازت ملتی تو انتظام عالم درہم برہم ہو جاتا، نسب اور حسب غارت ہو جاتا، لوگوں میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوتا، بلائیں اور فتنے پھیل جاتے، وہ لڑائیاں اٹھتیں جو کبھی نہ دبتیں، پھر اس عورت کا کیا حشر ہوتا جو چار کے نیچے ہو اور خود ان چاروں شریکوں کا کیسا برا حال ہوتا؟‘‘

بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی شہوت مرد سے بھی زیادہ ہے، یہ بات بالکل غلط ہے، شہوت کا منبع حرارت ہے پھر عورت مرد کی حرارت کا فرق ظاہر ہے، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ظاہر میں جو کچھ نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتیں فارغ ہونے اور نفقہ کی ذمہ داری نہ ہونے کی وجہ سے اور بعض دوسری کمزوریوں کی بنا پر جذبات کا شکار ہو جاتیں اور اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پاتی ہیں ‘‘ ( اعلام المؤقعین مترجم ج ۱ص۳۷۲، ۳۷۳ )

مولانا سلطان احمد اصلاحی کے لفظوں میں :۔

’’اتفاقی اور استثنائی طور پر یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی عورت کی شہوانی قوت کسی مرد سے زیادہ ہو جس طرح کہ مثال کے طور پر کوئی عورت اپنی جسمانی و ذہنی صلاحیتوں میں اتفاقیہ مرد سے اوپر ہو سکتی ہے، اس طرح کی اتفاقی صورت میں  اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے مقابلہ میں جنسی طور پر کمزور پڑ رہا ہو اور اس سے اس کی شہوانی تسکین نہ ہو رہی ہو، اسلام میں اس کی پوری اجازت ہے کہ عورت اگر چاہے تو شوہر سے باضابطہ جدائی حاصل کر کے اپنے جوڑ کے مرد سے دوسری شادی کر لے جس سے اس کیلئے جنسی عدم تسکین کا خطرہ نہ رہے، لیکن یہ کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بالکل ہی ایک مرد کے قابو میں نہ آئے اور اسے اپنی جنسی تسکین کیلئے بہر صورت ایک سے زیادہ مردوں کی ضرورت ہو، اسلام کے نقطۂ نظر سے یہ خیال قطعی بے بنیاد ہے، بحیثیت نوع کے ایک مرد ایک ہی نہیں بلکہ ایک سے زیادہ عورتوں کی جنسی تسکین کیلئے بالکل کافی ہے ‘‘  ( اسلام کا نظریۂ جنس ص۹۴)

دور جدید کے بہت سے ماہر جنسیات کی تحقیق نے اس بات کو وا شگاف کر دیا ہے کہ تعدد ازدواج کے سلسلے میں اسلام نے مرد و عورت کے درمیان جو فرق ملحوظ رکھا ہے وہ ان دونوں کی فطرت کے عین مطابق ہے، چنانچہ اس سلسلے میں ایک ماہر جنسیات ایڈورڈ ہارٹ مین (Edward Hartman)کا بیان ہے :۔

’’مرد کا فطری رجحان تعدد ازدواج کے حق میں ہے، عورت فطرتاً ایک زوجگی چاہتی ہے ‘‘

( Marriage commission report P:2.8 بحوالہ عائلی قوانین پر اعتراضات کا معروضی جائزہ، یونیورسل پیس فاؤنڈیشن، نئی دہلی)

ایک دوسرے ماہر جنسیات ڈاکٹر مریئر (Dr.Mareer) لکھتے ہیں :۔

’’عورت فطرتاً ایک شوہر چاہتی ہے جبکہ مرد میں تعدد ازدواج کے رجحان پائے جاتے ہیں ‘‘

(Conduct and its disorders biologically considered P:292.293بحوالۂ سابق(

٭٭٭

 

 

 

 

 

 نکاح : رکاوٹیں، شرعی تدابیر اور موجودہ مسلمانوں کا رویہ

 

 

مذہبِ اسلام نے نہ صرف یہ کہ نکاح کے سلسلے میں بڑی ترغیب اور انتہائی تاکید سے کام لیا ہے بلکہ اسے آسان سے آسان تر بنانے کی پوری سعی کے ساتھ ان تمام باتوں کو بھی دور کرنے کی پوری کوشش کی ہے جن سے نکاح کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں، آئیے اب نکاح کے سلسلے میں رکاوٹ بننے والے بعض امور اور ان سے متعلق شریعت اسلامیہ کی طرف سے اختیار کی گئیں تدابیر کا مطالعہ کرتے ہیں۔


غربت وتنگدستی اور نکاح

 

نکاح کی راہ میں سب سے زیادہ جو چیز رکاوٹ بنتی ہے وہ انسان کی غربت و تنگدستی ہے، اس رکاوٹ کے ازالے کی خاطر سورۂ نور(آیت:۳۲) میں فرمایا گیا ہے :۔

’’ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت(مومن)غلام کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا، اﷲ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے ‘‘

حافظ صلاح الدین یوسف ’’احسن البیان‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :۔

’’یعنی محض غربت اور تنگی دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہئے ممکن ہے نکاح کے بعد اﷲ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت و فراخی میں بدل دے، حدیث میں آتا ہے، تین شخص ہیں جن کی اﷲ ضرور مدد فرماتا ہے، نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے، مکا تب غلام جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے اور ا ﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والا (ترمذی )‘‘

ایک موقع پرسیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:۔

’’لوگو!تم اﷲ کے (نکاح کرنے کے )حکم کی تعمیل کرو !اس کے بدلے میں اﷲ تعالیٰ اپنا(خوشحالی اور غنی بنانے گا)وعدہ پورا فرمائے گا‘‘

اسی طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’نکاح کرو تاکہ خوشحال بنو‘‘              ( روح المعانی۱۸/۴۹  )

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :۔

’’مجھے اس فقیر پر تعجب ہوتا ہے جو شادی کر کے اپنی محتاجی دور کرنے کا سامان نہیں کرتا‘‘(تیسیرالرحمن۲/۱۰۴ از ڈاکٹر محمد لقمان سلفی)

نبی اکرمﷺ  نے بھی شادی کو غناء و مالداری کا سبب بتلایا ہے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :

’’شادیاں کرو عورتیں مال لے کر آئیں گی‘‘      (مسند بزار، مجمع الزوائد: ۴/۲۵۵)

 

 نکاح اور حق مہر

 

مہر وہ معاوضہ ہے جو حق زوجیت کے طور پر مرد اپنی بیوی کو ادا کرتا ہے، اس کی ادائیگی شوہر پر واجب ہے، قرآن کریم میں جہاں کہیں نکاح کی بات کہی گئی ہے تقریباً ہر جگہ مہر کی ادائیگی کی بات بھی دہرائی گئی ہے۔

مہر کی حیثیت دراصل عورت کی تکریم و عزت افزائی کے ایک رمز و علامت کی ہے، شریعت میں مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں کی گئی ہے، ایک آدمی اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق جتنا مہر چاہے متعین کرسکتا ہے، ارشاد ہے :۔

(ترجمہ)’’اگر تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی(بطور مہر)دیا ہو تو اس سے (طلاق کے وقت)کچھ نہ لو‘‘           (النساء:۲۰)

لیکن مہر کی گرانی نکاح کے لئے رکاوٹ بن سکتی تھی، اس لئے شریعت میں کم سے کم اور آسان سے آسان مقدار مہر متعین کرنے کی تلقین کی گئی، نبی اکرمﷺ  کا ارشاد ہے :

’’بہترین حق مہر وہ ہے جسے ادا کرنا انتہائی آسان ہو‘‘ (ابوداؤد کتاب النکاح :۲۱۱۷، ارواء الغلیل :۱۹۲۴)

اور آپﷺ کا ارشاد ہے :۔

’’مبارک عورت وہ ہے، جس سے منگنی کرنا آسان ہو اور جس کا مہر دینا آسان ہو‘‘   (ابن حبان:۷/۱۵۸، سنن بیہقی: ۷/۲۳۵)

نبی اکرمﷺ نے ایک صحابی سے دریافت فرمایا کہ تو نے کتنے مہر پر شادی کی ہے ؟ صحابی نے بتایا کہ چار اوقیہ (ایک سوساٹھ درہم )پر، تو آپ نے (گویا ناراضگی کے ساتھ ) فرمایا :۔

’’چار اوقیہ پر؟گویا تم اس پہاڑ کے دامن سے چاندی تراشتے ہو! ہمارے پاس کچھ نہیں ہے کہ ہم تمہیں دیں ‘‘        (مسلم: ۱۴۲۴)

قولی اور زبانی ترغیب و تحریض کے ساتھ آپﷺ نے آسان سے آسان مہر مقرر کرنے کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا، سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

’’ایک خاتون رسول اﷲﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ اے اﷲک ے رسول!میں خود کو آپ کے لئے ہبہ کرنے آئی ہوں، نبی اکرمﷺ  نے نگاہ اوپر نیچے کر کے دیکھا پھر اپنا سر جھکا لیا، عورت نے جب اپنے بارے میں آپﷺ سے کوئی فیصلہ کن بات نہیں سنی تو وہیں بیٹھ گئی کچھ دیر بعد ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے اے اﷲ کے رسول !اگر آپ کو اس عورت کی حاجت نہیں تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجئے، آپﷺ نے فرمایا تمہارے پاس(بطور مہر دینے کیلئے ) کچھ ہے ؟اس نے عرض کیا یارسول اﷲ! اﷲ کی قسم !میرے پاس کچھ نہیں ہے، آپﷺ  نے فرمایا ’’ جاؤ اپنے گھر جا کر دیکھو ممکن ہے کوئی چیز مل جائے، وہ گھر گیا اور واپس آ کر عرض کرنے لگا، اﷲ کی قسم !میں نے کچھ بھی نہ پایا، آپﷺ  نے فرمایا جا کر دیکھو گو کہ لوہے کی کوئی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو؟وہ پھر گیا اور واپس آ کر عرض کیا اﷲ کی قسم! کوئی انگوٹھی بھی نہیں ہے، ہاں یہ میرا ازار (تہبند)ہے، آدھا اس میں سے عورت کودے سکتا ہوں، اس کی یہ بات سن کر آپ نے فرمایا ’’بھلا تمہارے اس ازار سے کیا بننے والا ہے، اگر تم اسے پہنو تو اس کے لئے کچھ نہ بچے گا اور اگر وہ پہنے تو تمہارے لئے اس میں کچھ نہیں رہ جائے گا؟‘‘آپ کی یہ بات سن کر وہ بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر چلنے لگا، آپﷺ نے اسے جاتے ہوئے دیکھا تواسے بلانے کا حکم فرمایا، جب وہ آ گیا تو آپ نے پوچھا تمہیں قرآن کا کو نسا حصہ یاد ہے ؟اس نے عرض کیا مجھے فلاں اور فلاں سورتیں یاد ہیں، آ پ نے پوچھا ’’کیا تم ان سورتوں کو اپنی یاد سے پڑھ سکتے ہو؟‘‘اس نے کہا ہاں تو آپ نے فرمایا ’’تو پھر جاؤ میں نے جو سورتیں تمہیں یاد ہیں ان کے عوض اس عورت سے تمہارا نکاح کر دیا‘‘ (بخاری کتاب النکاح: ۵۰۸۷مسلم: ۱۴۲۵ )

نبی اکرمﷺ نے اس شخص کی خواہش نکاح کوسمجھتے ہوئے نکاح کیلئے آسان سے آسان تر صورتِ مہر نکال کر امت کیلئے یہ اسوہ پیش فرمایا کہ شادی کو آسان کرو، تاکہ شادی کی خواہش رکھنے والا کوئی شخص اپنی خواہش نفس سے مغلوب ہو کر غلط کاری کی راہ پر چل کر اپنی عاقبت کی بربادی اور کسی عصمت مآب کی عفت کی تارتاری کے ساتھ سماج و معاشرہ کیلئے زنا کاری و بدکاری کی لعنت وشرمساری کا نمونہ نہ چھوڑ جائے۔

ابوداؤد( ۲۱۰۶) اور ترمذی(۱۱۱۴ ) وغیرہ کی روایت کے مطابق امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے (اپنے زمانۂ خلافت میں غالباً جب لوگوں کو گرانقدر مہر باندھتے دیکھا تو)اپنے ایک خطبہ میں فرمایا:۔

’’خبردار! عورتوں کے مہر بڑھا چڑھا کر مت باندھو، اس لئے کہ اگر یہ(مہر کی زیادتی) دنیا میں عزت اور اﷲ کے ہاں تقوی کا باعث ہوتی تو اﷲ کے نبیﷺ  اس کے تم میں سب سے زیادہ حقدار تھے ‘‘

 

نکاح اور ولیمہ کی دعوت

 

نبی اکرمﷺ  نے نکاح کے اعلان و شہرت کے مقصدسے دعوت ولیمہ کی تاکید فرمائی ہے، ولیمہ کی دعوت کا تعلق مالی استطاعت سے ہے، یہ دعوت حسب استطاعت ہونی چاہئے وگرنہ یہ شادی سے رکاوٹ بن جائے گی۔

نبی اکرمﷺ نے ایک طرف ولیمہ کی تاکید فرمائی تو دوسری طرف عملا اس سلسلے میں امت کوسادگی اور عدمِ تکلف کی تعلیم دی، آپﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد محض ایک بکری سے، (بخاری :۵۱۶۸ مسلم: ۱۴۲۸ ) حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے موقع پر کھجور اور ستو سے (ترمذی:۱۰۹۵) اور ایک دوسری بیوی سے عقد کے بعد فقط دو مد(تقریباً سواسیر)جَو (بخاری :۵۱۷۲)کے ساتھ ولیمہ کیا، آپﷺ  نے نمائش وا لی دعوتوں میں شرکت سے منع فرمایا ہے، جیساکہ آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’دو باہم مقابلہ کرنے والوں کی دعوت نہ قبول کی جائے، نہ ہی ان کا کھانا کھایا جائے ‘‘    (شعب الایمان بیہقی، صحیح الجامع ۲/۱۷۴)

 

موجودہ مسلمانوں کا طرز عمل

 

نکاح کی ترغیب و تاکید کے ساتھ اس کو آسان بنانے اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کو دور کرنے کے سلسلے میں کی گئی شرعی اور نبوی تدابیر کی یہ بعض مثالیں تھیں جو آپ کے سامنے آئیں، ایک طرف نکاح اور اس کی آسانی کے تعلق سے شریعت کی طرف سے اس قسم کی تدبیریں ہیں تو دوسری طرف موجودہ مسلمانوں کی اکثریت کا طرز عمل ہے جو نکاح کے آسان بنانے سے متعلق شرعی اہتمامات و ہدایات کے بالکل برعکس اور الٹا ہے۔

 

نکاح اور زندگی کا مغربی تصور

 

ایک طرف شریعت کی یہ تاکید ہے کہ نکاح کا انعقاد ہو اور فقر وتنگدستی کواس بارے میں رکاوٹ نہ بننے دیا جائے تو دوسری طرف زندگی اور آسائشِ زندگی کا مغربی اور یورپی تصور ہے جس نے مسلمانوں کو اپنا غلام اور اسیر بنا لیا ہے، زندگی کے اس تصور کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ایک لڑکاحسب استطاعت زندگی کی ساری ضرورتیں بہم نہ پہونچا لے اور آسائش کے سارے سامان(نوکری یا اچھی تجارت وغیرہ)نہ جمع کر لے اور ایک لڑکی جب تک اعلیٰ تعلیمی ڈگری حاصل کر کے خود کو ترقی یافتہ سوسائٹی کا فرد ثابت نہ کر دے، شادی غیر ضروری بلکہ نامناسب چیز ہے خواہ عمر کا اچھا خاصا حصہ اس خواہش و کوشش کی نذر کیوں نہ ہو جائے اور خواہش نفس سے مجبور ہو کر بدکاری کی راہ سے ہی کیوں نہ گزرنا پڑ جائے ؟؟

 

بھاری بھرکم مہر کی مصیبت

 

شریعت نے نکاح کو آسان بنانے کی خاطرآسان سے آسان مقدار مہر متعین کرنے کی ترغیب دی ہے لیکن بعض مقامات پر لڑکی والوں کی طرف سے اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے یا بعض ذہنوں کے مطابق اس مقصد کی خا طر کہ مہر کی زیادتی لڑکے کو طلاق سے روکنے کا ذریعہ بنے گی لڑکوں سے گرانقدر مہر کا مطالبہ کیا جاتا ہے، حالانکہ مہر کی زیادتی نہ فخر و بڑائی کا ذریعہ ہے اسلئے کہ شرف اور بڑائی دوسروں کو دینے اور ان پر آسانی کرنے میں ہے نہ کہ دوسروں سے لینے اور ان کو تنگی و پریشانی میں ڈالنے میں اور نہ ہی لڑکی کی طلاق سے حفاظت کا ذریعہ ہے، اس لئے کہ نبی اکرمﷺ  نے جیسا کہ حدیث گذر چکی ہے مہر کی آسانی کو برکت کی علامت قرار دیا ہے، تابعی جلیل عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں :۔

’’میں اپنی طرف سے کہتا ہوں کہ عورت کی پہلی بے برکتی اور نحوست یہ ہے کہ اس کا مہر زیادہ ہو‘‘       (مستدرک حاکم ۲/۸۱)

ظاہر سی بات ہے کہ مہر کی زیادتی اور گرانقدری کا یہ رجحان بھی شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والا ہے، سعودی عرب میں گرانقدر مہر کی یہ بیماری چونکہ عام ہے، جیسا کہ وہاں کے سابق مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’مہر کی گرانقدری کا مسئلہ فی زمانہ ان بڑے مسائل میں سے ایک ہے جن کے حل کی فکر ضروری ہے، اس لئے کہ اس سے بہت سے مفاسد و نقصانات سامنے آرہے ہیں، مثال کے طور پر:

۱۔ شادی کی قلت، جو غیر شادی شدہ مردو عورت کی کثرت اور بگاڑوفساد کے پھیل جانے کا سبب ہے۔

۲۔ اسراف و تبذیر جو شرعاً ممنوع ہے۔

اور ۳۔ ولی کی اپنی زیر ولایت لڑکیوں کے ساتھ خیانت، اس لئے کہ وہ صالح اور مناسب رشتہ کو محض اسلئے ٹھکرا دیتا ہے کہ وہ زیادہ مہر نہیں دے سکے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘        (  مجموعۃ ثلاث رسائل ص ۱۰۰)

اس لئے ایک رپورٹ کے مطابق صرف شہرِ جدہ میں شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی چار لاکھ لڑکیاں ہیں، ان کی عمریں سولہ سے تیس سال کے درمیان ہیں، تیس سال سے زائد عمر کی خواتین کی گنتی اس میں شامل نہیں، واضح رہے کہ شہر جدہ کی مجموعی آبادی تیس لاکھ ہے۔     ( اردو نیوز، جدہ ۱۶/مارچ ۲۰۰۲بحوالہ غیرت کا فقدان ص۸۹)

 

ولیمہ کی پر تکلف اور اسراف پر مبنی دعوتیں

 

نبی اکرمﷺ  نے ولیمہ کی ترغیب کے ساتھ عملا اس سلسلے میں سادگی اور عدم تکلف کی تعلیم دی ہے، لیکن موجودہ مسلمانوں نے اسے بھی نکاح کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کی شکل دے دی ہے، موجودہ مسلمانوں نے نمود و نمائش کے جذبہ سے اس کو اسراف و فضول خرچی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور اس طرح یہ دعوت بھی اب نکاح کے سلسلے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکی ہے، ایک آدمی اس وقت تک نکاح کی سوچ ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ پر تکلف دعوت کے اخراجات و وسائل کا  انتظام نہ کر لے۔

 

فضول خرچی کے دیگر عناوین

 

شریعت سے ثابت شدہ امور میں پیدا کر لی گئیں ان خرابیوں کے پہلو بہ پہلو مسلمانوں نے اور دوسری بہت ساری ایسی رسمیں، خرافات اور لغویت و بے ہودگی پر مبنی اعمال ایجاد کر لئے ہیں جنہوں نے شادی کو گراں اور دشوار کر دیا ہے، جیسے منگنی کی رسم جس میں عالیشان اور پر تکلف دعوت کے اہتمام کے ساتھ آپس میں تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور جس کو اب خصوصاً نو دولتیوں نے اپنی نمود و نمائش کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ہزاروں اور لاکھوں روپے محض اپنی شان اور بڑائی کے اظہار کیلئے پانی کی طرح بہا دیئے جاتے ہیں، علاوہ ازیں دعوت کیلئے گراں قیمت دعوت ناموں کی تقسیم، پر تکلف اور عالیشان پنڈالوں کا قیام یا شادی خانوں کا انتظام، قریب و بعید کے تمام رشتہ داروں کو جمع کر نا اور لڑکے والوں کی طرف سے باراتیوں کی ایک بڑی تعداد کو عمدہ اور نفیس قسم کی غذائیں اور ڈشیں کھلانے کا مطالبہ وغیرہ۔

ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کی ساری چیزیں غیر شرعی اور لغو و منکر ہیں، یہ فضول خرچی کے ضمن میں آتی ہیں جو کہ شیطانی عمل ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

’’اور بیجا خرچ سے بچو، بیجا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے ‘‘(بنی اسرائیل:۲۶، ۲۷)

باراتیوں کا مطالبہ و دباؤ کے ساتھ کھانا کھانا حرام خوری کے سوا اور کیا ہے ؟اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :۔

’’اے ایمان والو!اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید و فروخت‘‘    (النساء :۲۹)

اور یہ واضح ہے کہ یہ کھانا رضامندی اور خوشدلی سے نہیں کھلایا جاتا۔

 

جہیز کی مصیبت

 

نکاح کے راستے میں کھڑی کی گئی نوع بنوع مصیبتوں میں ایک انتہائی سنگین اور بدترین قسم کی مصیبت جہیز کے لین دین کی لعنت و مصیبت ہے، یہ وہ مصیبت ہے جس نے نکاح کے حوالے سے معاشرہ کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہے۔

شریعت نے مرد کو’’ قوّام‘‘ (نگراں )کی حیثیت دی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ عورتوں پر خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے، جیساکہ سورۂ نساء(:۳۴)میں ارشاد ربانی ہے :

’’مرد عورتوں پر نگراں ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ‘‘

امام ابن کثیر رحمہ اللہ’’ اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔

’’یعنی مہر اور وہ نفقات و اخراجات جنہیں اللہ تعالی نے قرآن اور سنت نبوی میں مردوں پر عورتوں کیلئے واجب قرار دیا ہے ‘‘ ( ابن کثیر۱/۴۹۱)

اور نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :۔

’’جس عورت کا نکاح، نکاح سے پہلے ہی مہر یا عطیہ یا کسی وعدہ پر ہو تو یہ اسی کا حق ہے، ہاں نکاح کے بعد جو( کچھ دیا گیا)ہو تو وہ اس کا ہے جسے وہ دیا جائے اور آدمی کسی چیز پر سب سے زیادہ تکریم و عزت افزائی کا مستحق ہے تووہ اس کی بیٹی یا اس کی بہن ہے ‘‘ ( احمد ۲/۱۸۲، نسائی ۶/۱۲۰)

گویا آپﷺ نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکی کے ولی کو تحفہ وغیرہ دے کر اس کی عزت افزائی کی جائے، لیکن غیر اسلامی ماحول و معاشرت کے زیر اثر آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بے غیرتی کی حدوں کو پھلانگتے ہوئے اور خود کو گداگری و فقیری کا نمائندہ بنا کر لڑکی والوں سے ’’جہیز ‘‘کی شکل میں مطالبہ کرتا ہے، گرانقدر رقم کا، گھریلو آسائش و ضروریات کی تمام اشیاء کا بلکہ ان سے آگے بڑھ کر موٹر سائیکلوں اور موٹر کاروں کا اور بے دینی کی حدوں سے آگے بڑھتے ہوئے کلر ٹی وی اور اس سے متعلق دیگر چیزوں کا۔

جہیز کی یہ لعنت مسلمانوں میں ہندوؤں سے آئی ہے، اسلام میں اس رسمِ بد کا کوئی تصور نہیں، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں اس طرح کا کوئی رواج نہیں پایا جاتا، فاطمہ رضی اللہ عنھا کے حوالہ سے جس جہیزک ی بات کی جاتی ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا اپنا کوئی گھر بار نہیں تھا، نبی کریمﷺ ہی ان کے کفیل تھے، آپ کے ہاں ہی ان کی پرورش ہوئی، جب آپﷺ نے اپنی صاحبزادی کے ساتھ ان کان کاح کر دیاتو گھر بسانے کیلئے چند چیزیں آپ نے انہیں عطا فرمائیں، اور وہ تھیں ایک چادر، ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھالیں بھری ہوئی تھیں، ایک چکی، ایک مشک اور دو مٹکے۔ ( البدایہ والنہایہ ۶ / ۷ ۳۳ )

بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ ساری چیزیں نبیﷺ نے علی رضی اللہ عنہ ہی کی ایک زرہ فروخت کر کے خریدی تھیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’ فاطمہؓ سے نکاح کیلئے ابوبکر و عمرؓ نے یکے بعد دیگرے پیغام دیا، آپﷺ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے علی کو پیغام دینے کا مشورہ دیا، علی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے میری توجہ اس جانب مبذول کرائی تومیں اسی وقت چادر گھسیٹتے ہوئے آپﷺ کی خدمت میں پہونچا اور فاطمہ سے نکاح کی درخواست کی، آپﷺ نے پوچھا تمہارے پاس (مہر کیلئے )کچھ ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک گھوڑا اور ایک زرہ ہے، آپﷺ نے فرمایا گھوڑے کی تو تمہیں ضرورت ہے، زرہ بیچ آؤ، میں نے اسے چارسو اسی درہم میں بیچ دیا اور انہیں لے کر آپﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا، آپﷺ نے کچھ درہم  بلال کو دئیے اور فرما یا ان سے خوشبو خرید لاؤ، پھر آپ نے کچھ سامان تیار کرنے کا حکم دیا تو بان کی ایک چارپائی اور ایک چمڑے کا تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری تھی فاطمہؓ  کیلئے تیار کیا گیا ‘‘   (شرح زرقانی ۲/۴، دلائل النبوۃ ۳/۱۶۰، اسد الغابہ ۸/۱۶)

ہندوؤں میں چونکہ عورتوں کا وراثت میں حق نہیں سمجھا جاتا اسلئے جہیز ہی کو اس کا بدل تصور کر لیا گیا ہے، بد قسمتی سے اب مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کچھ سمجھنا شروع کر دیا ہے، چنانچہ اس کے نتیجہ میں لڑکیوں کی وراثت کا خیال بالکل ختم ہوتا جا رہا ہے، یا یوں کہیے کہ اس رسمِ بد کے زور پکڑنے کی ایک وجہ لڑکیوں کی وراثت سے محرومی ہے، بہر حال یہ سمجھنا قطعاً غلط ہے کہ جہیز وراثت کا بدل ہو سکتا ہے، یہ تو شریعت الٰہی کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔

ایک باپ اگر اپنی خو شی سے اپنی لڑکی کو یا بطور تحفہ و دلداری اپنے ہونے والے داماد کو کچھ دیتا ہے تو شرعی اعتبار سے اس میں کچھ خاص قباحت نہ تھی، لیکن آج جہیز ایک خطر ناک فتنہ میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کے بطن سے متعدد خطرناک خرابیاں جنم لے چکی ہیں، چنانچہ اس کی وجہ سے سماج میں ایک عام خود غرضانہ و ظالمانہ ماحول اور استحصالانہ مزاج قائم ہو گیا ہے، لڑکیاں زندہ جلائی جا رہی ہیں، ان کا گلا گھونٹ کر انہیں موت کے منہ میں پہنچایا جا رہا ہے، کتنی لڑکیاں سسرال والوں کے ظالمانہ رویہ سے تنگ آ کر خود کشی کر لیتی ہیں اور معاملہ یہاں تک پہونچ گیا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر چوتھے گھنٹے پر ایک جان جہیز کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے بیشتر واقعات کا تعلق غیر مسلم گھرانوں سے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے جس سے انکار بہرحال ممکن نہیں کہ مسلم گھرانے بھی اس قسم کے واقعات سے اچھوت نہیں رہ گئے ہیں۔

جہیز کی اس لعنت نے لڑکیوں کے تئیں نفرت و حقارت کے زمانۂ جاہلیت کے رویہ کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے، چنانچہ اب لوگ عموماً لڑکیوں کی پیدائش کو پسند نہیں کر تے جس کے نتیجہ میں جنین کشی کی وبا عام ہو رہی ہے جو ظاہر ہے کہ انتہائی خطرناک جرم اور تباہ کر دینے والا عمل ہے۔

جہیز کی اس لعنت نے نکاح کو عملا مشکل سے مشکل تر کر دیا ہے، ۲۰۰۲ء کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف حیدرآباد کے پرانے شہر میں جہیز کی وجہ سے ایک لاکھ سے زائد لڑکیاں شادی کے انتظار میں ۳۰ سال سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ( اردو نیوز، جدہ ۱۶/مارچ ۲۰۰۲بحوالہ غیرت کا فقدان ص۱۸۹ ) ملک کے بیشتر شہروں کی تقریباً یہی صورتحال ہے۔

اسی طرح ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے سے زیادہ لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں جن میں سے ۴۰ لاکھ لڑکیوں کی شادی کی عمر گذر چکی ہے۔  ( اردو نیوز، ۱۷ اپریل ۱۹۹۶ء بحوالہ نکاح کے مسائل ص۶۲)

غریب والدین کی پوری زندگی سامان جہیز بٹورنے میں گذر جاتی ہے، بعض لوگ تو اپنی جائداد تک جہیز کیلئے فروخت کر دیتے ہیں، جبکہ بہت سے قرض لے کر جہیز جمع کرتے ہیں اور طویل مدت تک ان قرضوں کو ادا کرتے رہتے ہیں، کتنے والدین اپنی بیٹی کی شادی کی تمنا لئے قبروں میں جاسوئے اور کتنے ہیں جن کی بیٹیوں نے ان کی حالت زار اور بے چارگی پر ترس کھا کر خود کو موت کے آغوش میں ڈال دیا اور کتنی لڑکیاں ہیں جو اپنی عزت و عصمت گنوا بیٹھیں یا مسلم اور غیر مسلم کی تفریق کے بغیر کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ کر سول میرج جیسا غیر شرعی نکاح کر بیٹھیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم آئے دن اس طرح کی خبریں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں کہ فلاں مقام پر مسلم خاندان کی ایک دوشیزہ ایک غیر مسلم لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی اور فلاں جگہ پر آشنائی کے چکر میں ایک جوڑے کو موت کے منہ میں پہنچا دیا گیا وغیرہ، ان باتوں کا تقاضہ ہے کہ جہیز کی رسم کی بیخ کنی کی جائے اور اسے بالکل حرام و نا جائز قرار دیا جائے۔

کاش! مسلم معاشرہ ان باتوں کو قابل توجہ سمجھے اور شرعی اصولوں کی پامالی سے بچ کر خود کو مستحقِ عذاب و عتاب ہونے سے بچائے۔

 

آسان نکاح، ایک مثال

 

یہ آج کے مسلمانوں کا طرز عمل ہے جو انہوں نے شرعی ہدایات و احکامات کے برخلاف نکاح کے تعلق سے اختیار کر رکھا ہے، آئیے اس سلسلے کے آخر میں ہم سلف  کی شادیوں کا ایک نمونہ آپ کے سامنے رکھیں اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ ہمارے لئے عبرت اور نصیحت کا ذریعہ بنے :

سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی اور عشرۂ مبشرہ میں سے ایک ہیں، سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ان پر زرد رنگ کا نشان دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک عورت سے (کھجور کی) گٹھلی کے بقدر سونا حق مہر دے کر نکاح کر لیا ہے، یہ سن کر آپﷺ  نے فرمایا:۔   ’’اللہ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی سے ہو‘‘  (بخاری کتاب النکاح:۵۱۶۷، مسلم :۱۴۲۷)

غور کیجئے عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ نے شادی کر لی اور آپﷺ کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوئی، اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو شادی کے موقعوں پر قریب و بعید کے تمام رشتہ داروں کو جمع کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اس میں ان لوگوں کیلئے بھی سبق ہے جنہیں غلطی سے بھی اگرایسے موقعوں پر یاد نہیں کیا گیا تو ناک بھوں چڑھاتے اور قطع تعلق تک کاراستہ اپنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

ہمارے یہاں شادی کے موقعوں پر ’’بڑوں ‘‘اور ’’بزرگوں ‘‘کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے، اگر واقعہ ایساہی ہوتا تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے لئے نبی اکرمﷺ  سے بڑھ کر ’’بزرگ‘‘ اور کون ہو سکتا تھا؟لیکن انہوں نے حصول برکت کی غرض سے ہی سہی آپﷺ کی شرکت ضروری نہیں سمجھی۔ (اس سلسلے کی مزید مثالوں کے دیکھیں راقم کی کتاب ’’پاکیزہ نسل اور ۔ ۔ ۔ ۔ )

٭٭٭

 

 

 

 

نکاح –  شریک حیات کے انتخاب سے لے کر دعوت ولیمہ تک

 

نکاح کا ارادہ رکھنے والے شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ شریک حیات کے انتخاب  اور انعقاد نکاح وغیرہ کے سلسلے میں ان ہدایات و آداب کا اہتمام کرے جو اس سلسلے میں شریعت کی طرف سے مقرر کئے گئے ہیں۔

 

مشرک مردو عورت سے نکاح

 

شریک حیات کے انتخاب کیلئے اس کا مؤمن و موحد ہونا ضروری ہے، مشرک مرد و عورت سے نکاح شریعت اسلامیہ میں حرام ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

{وَلاَ تَنْکِحُوا ا لْمُشْرِکَاتِ حَتّیٰ یُؤْمِنَّ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٖ }

’’اور شرک کرنے والی عورتوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لائیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے اگرچہ مشرک تمہیں اچھا لگے، یہ (مشرک) لوگ تمہیں جہنم کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالی اپنے اذن سے تمہیں جنت و مغفرت کی طرف بلاتا ہے ‘‘            (البقرہ:۲۲۱)

 

بدکار مرد و عورت سے نکاح

 

جس طرح مشرک مردو عورت سے نکاح جائز نہیں اسی طرح زناکار اور بدکار مردو عورت کو بھی شریک حیات بنانا جائز نہیں، اس بارے میں اﷲ تعالیٰ کا  ارشاد ہے :۔

{اَلزَّانِیْ لَایَنْکِحُ اِلاَّزَانِیَۃً۔ ۔ ۔ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ}

’’زانی مرد صرف زانی یا مشرک عورت سے نکاح کرتا ہے اور زانی عورت صرف زانی یا مشرک مردسے ہی نکاح کرتی ہے اور یہ (نکاح) مسلمانوں پر حرام کیا گیا ہے ‘‘               (النور:۳)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرھما کی رائے ہے کہ پاکدامن مرد کی شادی زانیہ عورت سے صحیح نہیں ہو گی، یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کر لے، اسی طرح پاکدامن عورت کی شادی زانی وفاجرمردسے صحیح نہیں ہو گی، یہاں تک کہ وہ سچی توبہ کر لے، جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسا کرنا مومنوں کے لئے حرام کر دیا گیا ہے، ( ابن عباس رضی اللہ عنہماسے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے )۔   ( تیسیر الرحمان لبیان القرآن ج۲ص ۹۹۲)

اس رائے کی تائید ذیل کی روایتوں سے ہوتی ہے :۔

سیدنامرثدبن أبی مرثد غنویؓ سے ایک بد کار عورت(عناق)سے شادی کا اظہار کیا تو نبیﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ بالا نازل ہوئی، تو آپﷺ  نے  انہیں بلا کر فرمایا ((لَاتَنْکِحْھَا))’’اس سے نکاح نہ کرو‘‘۔        (ابو داؤدکتاب النکاح :۲۰۵۱، ترمذی:۳۷۷، نسائی: ۶/۱۰۶۶)

اسی طرح سیدناعبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’ ایک مسلمان نے ام مہزول نامی ایک بد کار عورت سے نکاح کیلئے آپﷺ سے اجازت چاہی تو آپﷺ نے اسی آیت مذکورہ کی تلاوت فرما کر اسے ایسی عورت سے نکاح کرنے سے منع فرما دیا‘‘(احمد :۲/۱۵۸)

 

محرم عورتوں سے نکاح

 

مشرکہ اور زانیہ عورتوں کے علاوہ ان عورتوں سے بھی نکاح حرام ہے، جنہیں شریعت میں ’’محرمات ‘‘قرار دیا گیا ہے، محرمات جن سے شریعت اسلامیہ میں نکاح حرام قرار دیا گیا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں :(الف)ابدی محرمات اور (ب )عارضی یاسببی محرمات۔

 

ابدی محرمات

 

ابدی محرمات سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے ابدی طور پر نکاح کرنا حرام ہے، ابدی حرمت کے اسباب تین ہیں :۱۔ نسب، ۲۔ رضاعت اور ۳۔ مصاہرت (سسرالی رشتہ )، ان تینوں اسباب کی بنیاد پر حرام قرار دی گئی عورتوں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

۱۔ نسبی محرمات

٭…امھات:(مائیں )ان کے ساتھ نانیاں اور پرنانیاں اسی طرح دادیاں اور        پر داد یا ں بھی شامل ہیں۔

٭…بنات:(بیٹیاں )اس میں پوتیاں، نواسیاں اور ان کی بیٹیاں شامل ہیں۔

٭…اخوات:(بہنیں )سگی اور سوتیلی دونوں۔

٭…عمات: (پھوپھیاں )اس میں باپ کی پھوپھیاں اور خالائیں شامل ہیں۔

٭…خالات:(خالائیں ) اس میں ماں کی خالائیں اور پھوپھیاں داخل ہیں۔

٭…بنات الاخ:(بھتیجیاں )حقیقی، علاتی(باپ کی طرف سے )اور اخیافی (ماں کی طرف سے )تینوں قسم کے بھائیوں کی بیٹیاں اور پھر ان کی بیٹیاں اور نواسیاں شامل ہیں۔

٭…بنات الاخ:(بھانجیاں )تینوں قسموں کی بہنوں کی بیٹیاں اور نواسیاں۔

۲۔ رضاعی محرمات

رضاعت کی بنیاد پر دودھ پلانے عورت کی حیثیت دودھ پینے والے کی ماں کی ہو جاتی ہے، اس بنیاد پروہ سات قسم کے رشتے حرام ہو جاتے ہیں جونسب کی بنیاد پر حرام ہوتے ہیں، جیساکہ آپﷺ کا ارشاد ہے :

’’دودھ پینے سے حرمت اسی طرح ثابت ہوتی ہے جس طرح خون (کے رشتہ ) سے حرمت ثابت ہوتی ہے ‘‘( بخاری :۵۰۹۹، مسلم:۱۴۴۴)

دوسری روایت کے الفاظ ہیں :

’’اللہ تعالی نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کر دیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے ‘‘ (ترمذی:۱۱۴۶، ارواء الغلیل:۶/۲۸۴)

واضح رہے کہ رضاعت اس وقت ثابت ہو گی جبکہ دوسال(حولین کاملین)کی عمر سے پہلے اور پانچ مرتبہ علیحدہ علیحدہ دودھ پلایا گیا ہو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :۔

’’قرآن کریم میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ دس مرتبہ دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہو گی لیکن پھر اسے پانچ مرتبہ دودھ پلانے کے ساتھ منسوخ کر دیا گیا اور پھر پانچ مرتبہ پلانے سے حرمت ثابت ہوتی یہاں تک کہ رسول اللہﷺ فوت ہو گئے اور معاملہ اسی طرح رہا‘‘(مسلم:۲۶۳۵)

۳۔ سسرالی محرمات

٭…باپ اور دادا کی بیویاں۔

٭…بیوی کی ماں (دادی اور نانی کے ساتھ)۔

٭…مدخولہ (جس سے ہمبستری کر لی گئی ہو)بیوی کی بیٹی۔

٭…سگے بیٹے کی بیوی(بہو)۔

 

عارضی یاسببی محرمات

 

عارضی محرمات سے مراد وہ عورتیں جنہیں عارضی اور وقتی سبب کی بنا پر نکاح کرنا درست نہیں، ایسی خواتین کی تفصیل کچھ اس طرح ہے :

٭…بیوی کی بہن (سالی)۔

٭…بیوی کی پھوپھی اور خالہ، ان کی حرمت حدیث سے ثابت ہے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’ایک مرد کے نکاح میں پھوپھی اور بھتیجی اور خالہ اور بھانجی کو جمع نہ کیا جائے ‘‘  (بخاری کتاب النکا ح :۵۱۰۹، مسلم:۱۴۰۸)

ان تینوں سے اس وقت تک نکاح جائز نہیں جب تک بیوی عقد میں ہے، اگر اسے طلاق ہو جا تی ہے، تو عدت کے بعد، اسی طرح اس کے مرنے کے بعد ان سے نکاح درست ہے۔

٭وہ عورت جوکسی کے عقد میں ہو، اس سے اس وقت نکاح جائز ہو گا جبکہ اسے طلاق یا خلع ہو جائے یاوہ بیوہ ہو جائے اور عدت گذر جائے۔

مذکورہ خواتین کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح جائز ہے، البتہ یہاں بھی ترجیح کے ان پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہئے جو شرعی طور پر مطلوب اور پسندیدہ ہیں۔

دیندار جوڑے کا انتخاب:

ان میں پہلی بات یہ ہے کہ عورت/مرد دیندار ہو، شرعی طور پر جوڑے کے انتخاب کے سلسلے میں کفاءت اور برابری کا معیار اصلاً دینداری ہی ہے نہ کہ نسب وحسب، ذات و برادری اور مال و دولت وغیرہ، نبی اکرمﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’عورت سے نکاح چار باتوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، اس کے مال کی بنا پر، اس کے خاندان کو دیکھ کر، اس کے حسن و جمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے پس تم دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کرو، اگر ایسا نہ کرو تو تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں ‘‘  (بخاری کتاب النکاح :۵۰۹۰مسلم:۱۴۶۶)

سیدناثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت :۔

{والذین یکنزون الذھب والفضۃ}الایۃ

’’جو لوگ سونا اور چاندی کو خزانہ بنا کر رکھتے ہیں الخ‘‘

نازل ہوئی، ہم لوگ رسول اللہﷺ  کے ساتھ ایک سفرمیں تھے، آپﷺ کے ایک ساتھی نے کہا کہ یہ آیت سونا اور چاندی کے سلسلے میں اتری ہے، اگر ہمیں معلوم ہو سکتا کہ کونسا مال اچھا ہے تو ہم اسے اپنے لئے اختیار کرتے ؟‘‘تو آپﷺ نے فرمایا :۔

’’سب سے عمدہ مال ذکر کرنے والی زبان، شکر ادا کرنے والا دل اور ایمان والی بیوی ہے جو ایمان کے سلسلے میں آدمی کی مدد کرنے والی ہو‘‘     (ترمذی :۳۰۹۴، صحیح ترمذی ۳/۵۶)

ایک روایت کے مطابق آپﷺ  نے فرمایا:

’’تم میں سے ہر شخص کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسی صاحب ایمان بیوی کرنی چاہئے جو آخرت کے معاملہ میں اس کی مددگار بنے ‘‘    (ابن ماجہ:۱۸۵۶)

ان احادیث سے جو بات کھلے طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ کہ اسلام نے کفاءت و برابری اور انتخاب کے معاملے میں خاندان ونسل، ذات و برادری، صنعت و حرفت اور دولت و ثروت کو قطعاً معیار نہیں بنایا ہے، اس کے نزدیک بس ایک ہی معیار اور کسوٹی ہے اور وہ دین اور تقوی ہے، آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا:۔

’’اے بنوبیاضہ ابوہند کا(اپنے قبیلے میں )نکاح کر دو اور اس کی لڑکیوں کے لئے پیغام نکاح دو‘‘   (ابو داؤد :۲۱۰۲، احمد:۲/۳۴۲، ۴۲۳)

بنوبیاضہ انصار کا ایک قبیلہ تھا اور ابوہند جن کا اصل نام سالم تھا، اس قبیلہ کے ایک مولیٰ(آزاد کردہ غلام)تھے۔ ( شرح ابوداؤد از قطان ۲/۵۸۰)

محض دین و ایمان کو معیار انتخاب قرار دینے سے دراصل شریعت کا ایک بڑا مقصد نکاح کو آسان بنانا اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کر کے زناکاری کی راہ کو مسدود کرنا ہے۔

نبی اکرمﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف نے ہمارے لئے اس سلسلے میں عمدہ عملی نمونے پیش کئے ہیں، چنانچہ آپﷺ نے اپنی پھوپھی زاد سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کیا، آپﷺ کی چچا زاد بہن ضبابہ رضی اللہ عنہا بنت زبیر بن عبدالمطلب کا نکاح مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے ہوا تھا، جو ایک قول کے مطابق حبشی مولیٰ تھے جن کو اسود نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔   (  فتح الباری۹/۱۳۳۔ ۱۳۵)

سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بہن کی شادیسیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ بن عتبہ بن ربیعہ(قریشی)نے اپنے بھائی ولید کی لڑکی کو اپنے مولیٰ سالم رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دیا جو ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کورسول اﷲﷺ  کے عقد میں آنے سے پہلے سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر پیش کیا تھا۔

اس سلسلے میں سید التابعین سعید بن مسیبؒ کا واقعہ خصوصی طور پر پڑھنے اور عبرت حاصل کرنے کے قابل ہے، ان کے ایک شاگرد، عبد اﷲ بن ابی وداعہ بیان کرتے ہیں :۔

’’میں ان کے درس میں حاضر ہوا کرتا تھا، ایک مرتبہ کچھ دنوں کی غیر حاضری کے بعد حاضر خدمت ہوا تو دریافت فرمانے لگے کہ اتنے دنوں تک کہاں رہے ؟میں نے عرض کیا، بیوی کا انتقال ہو گیا تھا اسلئے غیر حاضر رہا، پوچھنے لگے کہ کیا تم نے کسی عورت کو پیغام نکاح دیا ہے ؟ عرض کیا:اﷲ آپ پر مہربان ہو، بھلا مجھ سے کون شادی کرے گا! میرے پاس تو ’’تین درہم‘‘ سے زیادہ اور کچھ نہیں ؟کہنے لگے میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کروں گا، میں نے (حیران ہو کر)پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کریں گے !کہا ہاں، پھر حمد و صلاۃ کے بعد دو تین درہم ہی کے عوض میری شادی کر دی، (اب)مارے خوشی کے میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ؟

گھر پہنچ کر سوچنے لگا کہ کسی سے کچھ مال بطور قرض لے لوں، مغرب کی صلاۃ سے فراغت کے بعد گھر میں داخل ہوا اور چراغ جلایا، اس روز میں روزہ سے تھا، کھانے کے لیے میں نے اپنے آگے روٹی اور زیتون رکھا، اتنے میں میرے دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے پوچھا کون؟جواب آیا سعید، میں نے سعید نام سن کر اپنی پہچان کے تمام لوگو ں کا تصور ذہن میں دوڑایا لیکن سعید بن مسیب کا خیال بالکل میرے ذہن میں نہ آیا، اسلئے کہ پچھلے چالیس سالوں کے دوران وہ اپنے گھر سے مسجد کے علاوہ کہیں نہیں گئے تھے، میں نے دروازہ کھولا تو سعید بن مسیب کھڑے تھے، میں نے سمجھا شاید اپنی رائے بدلنے آئے ہوں، میں نے عرض کیا، اے ابو محمد!آپ نے زحمت کیوں اٹھائی؟میں خود حاضر خدمت ہو جاتا، کہنے لگے تم اکیلے تھے پھر جب شادی کر لی تو مجھے اچھا نہیں لگا کہ تم تنہا رات گذارو، یہ تمہاری بیوی ہے، ان کی صاحبزادی ان کے پیچھے کھڑی تھی، انہوں نے اپنی بیٹی کو دروازہ کے اندر کر دیا اور واپس چلے گئے، میں نے خلوت کی تو میری بیوی بہت ہی خوبصورت اور سراپا حسن و جمال تھی‘‘  ( ابن خلکان ۱/۲۰، حلیۃ الاولیاء۲/۱۶۷۔ ۱۶۹ )

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعید رحمہ اللہ کی یہ وہ صاحبزادی ہیں جن کیلئے خلیفہ     عبد الملک نے اپنے جانشیں ولید بن عبد الملک کیلئے پیغام نکاح دیا تھا لیکن سعید   رحمہ اللہ نے اس کو ٹھکر ا دیا تھا۔

اگر مردوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ صفات کی حامل عورت کو تلاش کرے تو عورت کے ولی کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کیلئے اہل اور نیک مرد ڈھونڈے۔

نبی اکرمﷺ نے امت کو اس کا حکم دیتے ہوئے اور دین و اخلاق کے علاوہ دوسری چیزوں کو معیار انتخاب و کفاءت بنانے کے خطرناک اثرات و نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا :۔

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس سے نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا‘‘ (ترمذی :۱۰۸۴، ارواء الغلیل: ۱۸۶۸)

اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ نیک لوگوں کو پیش کرے، عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی کا رشتہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کو پیش کیاجیساکہ روایت گزر چکی ہے۔

دور حاضر کی مصیبتوں میں سے ایک عام مصیبت یہ بھی ہے کہ رشتہ کے انتخاب کے سلسلے میں دینداری اور عقیدہ وعمل کی صحت کی پرواہ نہیں کی جاتی، صورتحال یہ ہے کہ اچھے خاصے صحیح العقیدہ اور با عمل مسلمانوں کے نزدیک بھی اس بات کی تو کوئی اہمیت نہیں ہوتی کہ لڑکا یا لڑکی صحیح العقیدہ، موحد و متبع سنت اور با عمل و نیک سیرت ہے یا بدعقیدہ، مبتلائے شرک و بدعت اور بد عمل و بد کردار؟ لیکن یہ بات قابل اہتمام ضرور ہوتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی کا تعلق ان کی مزعومہ برادری سے ہے یا نہیں ؟جبکہ کچھ لوگوں کی نگاہ لڑکے یا لڑکی کی مالی حیثیت پر ہوتی ہے خواہ اس کا مسلک و عقیدہ کچھ بھی ہو؟اس کے نتیجہ میں اولاً تو شادی میں تاخیر ہوتی ہے ثانیاً شادی ہو بھی جائے تو عموماً صحیح العقیدہ اور دیندار لڑکے اور لڑکیوں کی مٹی پلید ہو کر رہتی ہے اور ان کی زندگی نمونۂ جہنم بنی رہتی ہے۔

 

خوبرو جوڑے کا انتخاب

 

انتخاب کے سلسلے میں اصل تو یہی ہے کہ دینداری کو معیار بنایا جائے لیکن دیندار ی کے ساتھ ساتھ اگر جوڑا ظاہری حسن و جمال سے بھی سرفراز ہو تو یہ سونے پر سہاگہ ہے، نبی اکرمﷺ  نے اچھی بیوی کے اوصاف میں ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا ہے :

’’جسے شوہر دیکھے تو خوش ہو جائے ‘‘(احمد ۲/۲۵۱، صحیح نسائی :۳۰۳۰)

فقہا ء نے اس بات کو مستحب قرار دیا ہے کہ شادی کیلئے  خوبصورت عورت کا انتخاب کیا جائے تاکہ میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت قائم ہو اور آدمی خوبصورت بیوی نہ ہونے کی وجہ سے دیگر خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر دل برداشتہ نہ ہو۔

جدید ذرائع ابلاغ کے واسطے سے آج ہمارے سماج میں جو مختلف طرح کی مصیبتیں      در کر آئی ہیں ان میں سے ایک سنگین مصیبت حسن پرستی کی مصیبت بھی ہے، انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے خوبصورت سے خوبصورت عورتوں کی تصاویر تک رسائی کے نتیجے میں آج نوجوان خوبصورت سے خوبصورت عورت پر بھی راضی ہوتے نظر نہیں آتے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد خوب سے خوب ترکی تلاش میں مسلسل حیران وسرگرداں نظر آتی ہے، خوب سے خوب ترکی تلاش کا یہ سفر بسا اوقات اتنا لمبا ہوتا ہے کہ عمر کا بیشتر حصہ اسی میں گذر جاتا ہے، فقہاء کرام نے خوبصورت بیوی کے انتخاب کو مستحب ضرور قرار دیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ خوبصورتی ہی کوسب کچھ سمجھ لیا جائے اور اس میں اتنا مبالغہ کیا جائے کہ عمر کا ایک بڑا حصہ اسی میں گذر جائے اور معاملہ بدکاری تک پہونچ جائے، یا کم از کم مایوسی کی کیفیت طاری ہو کر قسمت کی خرابی کا رونا رونے کی نوبت آ جائے، کاش یہ نوجوان اخروی نقطۂ نظرسے سوچتے اور ان کی نگاہیں دنیوی حسن سے آگے بڑھ کر حورانِ بہشت کے حسن و خوبصورتی کی متلاشی ہوتیں، اس میں کیا شبہ کہ یہ حسن عارضی اور فانی ہے جبکہ وہ حسن لافانی اور ابدی ہے   ؎

حسن ہے بے وفا بھی، فانی بھی

کاش سمجھے اسے جوانی بھی

اس ابدی حسن کے حصول کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں کہ شرعی احکام وقوانین کی پاسداری کی جائے اور نوجوانوں کے لئے یقیناً شرعی حکم یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں تاکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

باکرہ عورت کا انتخاب

 

بیوی کے انتخاب کے سلسلے میں یہ بھی مستحب ہے کہ وہ باکرہ ہو الا یہ کہ ثیبہ سے نکاح کرنے میں کوئی مصلحت ہو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

’’انہوں نے نبیﷺ  سے پوچھا:اگر آپﷺ  کسی وادی میں اتریں، اس میں ایک درخت ایسا ہو جس سے کھایا گیا ہو اور ایک دوسرا درخت ہو جس سے کھایا نہ گیا ہو، آپ ان میں کس درخت سے اپنے اونٹ کوکھلا نا پسند کریں گے، آپﷺ  نے فرمایا اس درخت سے جس سے کھایا نہ گیا ہو، اس درخت سے مراد عائشہ رضی اللہ عنہا خود کو لے رہی تھیں کہ وہ باکرہ تھیں ‘‘                     (بخاری:۱۹۵۳)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :۔

’’ایک جنگ میں ہم رسول اﷲﷺ کی معیت میں تھے، جب ہم واپسی میں مدینہ منورہ کے قریب پہونچے تومیں نے عرض کیا، اے اﷲ کے رسول !میرا ابھی ابھی نکاح ہوا ہے، آپ نے مجھ سے دریافت کیا، نکاح ہو گیا ہے ؟ میں نے ہاں میں جواب دیا، آپ نے دریافت کیا کنواری لڑکی سے یا بیوہ سے ؟ میں نے عرض کیا، بیوہ سے، آپ نے فرمایا کنواری لڑکی سے کیوں نہ کیا تواس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے لطف اندوز ہوتی؟، پھر جب ہم مدینہ میں داخل ہونے کے قریب ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا:ابھی رک جاؤ ہم عشاء کے وقت داخل ہوں گے تاکہ پراگندہ بالوں والی عورتیں اپنے بالوں کوسنوارلیں اور جن عورتوں کے شوہر سفرمیں رہے ہیں وہ اپنی صفائی کر لیں یعنی بال صاف کرنے کے لوازمات استعمال کر لیں ‘‘    (بخاری: ۲۰۹۷، مسلم: ۷۱۵)

اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کنواری لڑکی سے نکاح کرنامستحب اور بہتر ہے، اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ کنواری لڑکی کا دل کسی شخص کے ساتھ متعلق نہیں ہوتا جب کہ بیوہ اور مطلقہ کے دل میں اپنے پہلے شوہر کا خیال ہو سکتا ہے جو کہ یک گونہ       بے التفاتی کا ذریعہ بن سکتا ہے، اس سلسلے میں ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :۔

’’کنواری لڑکیوں سے شادی کرواس لئے کہ وہ شیریں زبان ہوتی ہیں، زیادہ بچے جن سکتی ہیں اور تھوڑی چیز پر راضی ہو جاتی ہیں ‘‘    (ابن ماجہ :۱۸۶۱، الصحیحہ: ۶۲۳)

 

زیادہ بچے جننے والی اور شوہرسے محبت کرنے والی عورت کا انتخاب

 

بیوی کے انتخاب میں اس بات کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ وہ زیادہ بچے جننے والی ہو، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ  نے ارشاد فرما یا :۔

’’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ قیامت کے دن میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا‘‘        (ابوداؤ د کتاب النکاح: ۲۰۵۰)

 

بچوں سے محبت و شفقت کرنے والی عورت کا انتخاب

 

اسی طرح اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ عورت کے اندر بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کرنے کی صفت ہو، نبی اکرمﷺ  سے ارشاد فرمایا:

’’اونٹ پر سوار ہونے والی (یعنی عرب)عورتوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو بچے پر زیادہ مہربان اور اپنے شوہر کے سامان کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہیں ‘‘  (بخاری :۱۹۵۵)

 

ہم عمر اور قریب العمر جوڑے کا انتخاب

 

قرآن وسنت میں ایسی کوئی نص تو نہیں ملتی کہ جس سے رشتۂ زوجیت میں منسلک ہونے والے مرد و خاتون کے مابین عمر کی تحدید و تعیین کا پتہ چلے یا مرد کیلئے اپنی عمر سے بہت کم عمر کی لڑکی سے نکاح کی ممانعت کی بات سامنے آئے، لیکن اللہ تعالی کا ارشاد ہے :۔

’’اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں ‘‘ (البقرہ:۲۲۸)

اور مردو عورت کی عمر میں بہت زیادہ فرق ہونے کی صورت میں اس بات کا غالب امکان ہے کہ فریقین یکساں طور پر ایک دوسرے کا حق ادانہ کرسکیں اور ان میں سے کسی کے جذبات و خواہشات کی تسکین و تکمیل کماحقہ نہ ہو سکے، اس لئے منا سب اور بہتر یہی ہے کہ ہم عمر یا قریب العمر جوڑے کا انتخاب کیا جائے، اس لئے کہ یہ چیز عین ممکن ہے کسی ناگوار بلکہ حرام معاملہ کا پیش خیمہ بن جائے، اس سلسلے میں ہمیں اس روایت سے بھی رہنمائی ملتی ہے کہ جب  فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے پیغام نکاح دیا تو آپﷺ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فاطمہ کم عمر اور چھوٹی ہیں۔            (نسائی:۳۲۲۳)

 

نکاح سے قبل مخطوبہ (منگیتر)کو دیکھ لینے کی ہدایت و حکمت

 

مذکورہ اور دیگر ضروری و شرعی بنیادوں پر کسی خاتون کے انتخاب کے بعد اسے نکاح کا پیغام دینے سے پہلے مشروع اور مستحب یہ ہے کہ آدمی اسے دیکھ لے، نکاح سے قبل مخطوبہ(منگیتر)کو دیکھ لینے کی خصوصی تا کید کی گئی ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ  نے ارشاد فرمایا:۔

’’تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگر ممکن ہو تو اس سے وہ کچھ دیکھ لے جو اس کے لئے نکاح کا باعث ہو‘‘

سیدناجابررضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں :۔

’’پھر میں نے ایک عورت کو پیغام نکاح دیا اور خود چھپ کر اسے دیکھنے کی کوشش کرتا رہا یہاں تک میں نے اس کی وہ چیز دیکھ لی جس کی غرض سے شادی کرنا چاہتا تھا‘‘(ابو داؤد: ۲۰۸۲، احمد:۳/ ۳۳۴)

اس حکم کے پیچھے جو حکمت کار فرما ہے وہ یہ کہ اس سے نکاح کو استقرار واستحکام حاصل ہو گا اور میا ں و بیوی کی باہمی الفت و یگانگت سے گھریلو زندگی خوشگوار اور بہتر ہو گی، جیساکہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :۔

’’ میں نے ایک عورت کو پیغامِ نکاح دیا، نبیﷺ  نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تو نے اسے دیکھ لیا ہے ؟میں نے عرض کیا نہیں تو آپﷺ  نے فرمایا اسے دیکھ لو، اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہو جائے ‘‘

(ترمذی :۱۰۸۷، ابن ماجہ :۱۸۶۵، احمد:۴/۲۴۴، وغیرھم )

سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں ہے :۔

’’میں ایک انصاری عورت کے گھر گیا، اس کے والدین سے اس کا رشتہ مانگا اور انہیں یہ بھی بتایا کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے لڑکی کو دیکھ لینے کو کہا ہے، انہوں نے لڑکی کو دکھانے کو پسند نہ کیا، وہ عورت اندر پردہ میں تھی، اس نے میری بات سن لی، کہنے لگی کہ اگر اللہ کے رسو ل نے یہ حکم دیا ہے کہ تم مجھے دیکھو تو تم مجھے دیکھ سکتے ہو ورنہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتی ہوں، گویا اس نے اس کو بڑا اہم سمجھا‘‘ مغیرہؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے اسے دیکھا اور پھراس سے شادی کر لی اور اس کے ساتھ میرا خوب نباہ رہا‘‘ (ابن ماجہ کتاب النکاح:۱۸۶۶، نسائی: ۵۲۳۵)

فی زمانہ مسلمانوں میں کچھ سادہ لوح اور نادان قسم کے لوگ تو وہ ہیں جن کے نزد یک آپﷺ  کی اِن احادیث کی کوئی حیثیت نہیں یعنی وہ اپنی نا معقول اور بیجا قسم کی قدامت پسند ی کی بنا پر ہر گز بھی اس بات کے رو ادار نہیں کہ پیغام دینے والے کو نکاح سے قبل لڑکی کو دیکھ لینے کا موقع دیا جائے تو دوسری طرف وہ مغرب زدہ طبقہ ہے جن کے یہاں نکاح سے قبل ہی لڑکے اور لڑکی کو ہر طرح کی آزادانہ ملاقات اور خلوت و تنہائی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ طرز عمل سراسر اسلامی روح و مزاج کے خلاف اور کھلے طور پر زناکاری و بدکاری کی راہ ہموار کرنے کا ذریعہ ہے، اس آزادانہ ملاقات اور خلوت و تنہائی کے نتیجہ میں شادی سے قبل ہی لڑکے اور لڑ کیوں کے تعلقات اب معمول کے واقعات بنتے جا رہے ہیں، ابھی کچھ ہی دنوں قبل کی بات ہے کہ راقم کو ایک نوجوان ساتھی نے فون کے ذریعہ بتایا کہ میرا ایک دوست اپنی منگیتر کے ساتھ محو ملاقات و گفتگو تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر سے معاملہ صرف بوس و کنار اور بعض اعضاء کے چھونے تک ہی پہنچا تھا لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے اسے بھی معمولی واقعہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شادی سے قبل اس طرح کی ملاقاتوں سے لڑکے اور لڑکیوں کو آپس میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے حالانکہ یہ صریح طور پر ان کی حماقت اور  بد عقلی ہے، یو رپ میں اسی فکر نے ( Dating) کے طریقہ کو جنم دیا ہے، اس کا مطلب ہے لڑکا اور لڑکی کا ایک دوسرے کو مقررہ تاریخ پر مدعو کرنا، مقصد شادی سے پہلے ایک دوسرے کا تجربہ کرنا ہوتا ہے، اس چیز نے ترقی کر کے اب باقاعدہ جنسی تعلقات کی صورت اختیار کر لی ہے اور مغربی لڑکوں کے لئے یہ ایک مہذب فیشن بن گیا ہے کہ وہ ڈیٹ دے کر ایک لڑکی کو تنہا کمرے میں بلائیں اور اس کے ساتھ جبری طور پر زنا کریں۔

 

مخطوبہ کو دیکھنے کی حد

 

فقہاء کے یہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ مخطوبہ کو کس حد تک دیکھنا مباح ہے، لیکن اکثریت کی رائے یہ ہے کہ مخطوبہ کے صرف چہرہ اور ہا تھ کو دیکھنا ہی مباح ہے، چنانچہ اس سلسلے میں امام نوویؒ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’خاطب (پیغام نکاح دینے والے ) کیلئے عورت کا فقط چہرہ اور ہاتھ  دیکھنا ہی جائز ہے، اسلئے کہ یہ دونوں اعضاء ستر میں داخل نہیں اور اس لئے کہ چہرہ سے عورت کی خوبصورتی یا بدصورتی معلوم کی جا سکتی ہے اور ہتھیلیوں سے اس کے بدن کی تازگی یا عدم تازگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، یہی ہمارا اور اکثر فقہاء کا مذہب ہے ‘‘

ڈاکٹر فضل الہی اس رائے کو راجح قرار دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :۔

’’گو کہ بعض علماء نے اس سے بڑھ کر بھی دیکھنے کی بات کہی ہے لیکن ہماری رائے میں دواسباب کی بنا پر صرف چہرہ اور ہتھیلیوں کے دیکھنے پر ہی اکتفاء مناسب ہے :

۱۔ چہرہ (جیسا کہ امام نووی اور ابن قدامہ نے تحریر فرمایا ہے )حسن کا مرکز ہے اور عورت کی خوبصورتی اور بدصورتی کا پتہ دینے کیلئے کافی ہے، جبکہ ہتھیلیوں سے (جیسا کہ امام نوویؒ نے لکھا ہے )جسم کی تازگی و مضبوطی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، لہذا چہرہ اور ہتھیلیوں سے تجاوز مناسب نہیں۔

۲۔ جس شخص کو محض چہرہ اور ہتھیلیوں کے دیکھنے سے اطمینان نہ ہو اور وہ مزید تحقیق کا طالب ہو اس کیلئے ممکن ہے کہ اپنی کسی رشتہ دار خاتون کو بھیج کر تحقیق کروا لے، اس سلسلے میں حضرت انسصسے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے ایک خاتون سے شادی کا ارادہ فرمایا تو آپ نے اسے دیکھنے کی غرض سے ایک عورت کو بھیجا اور فرمایا:

’’اس کے منھ کی بو معلوم کرو اور اور اس کی کوچیں ((ایڑی کے اوپر کا پٹھا)دیکھ لو‘‘

وہ عورت گئی، (خاتون کے گھرکے ) لوگوں نے اس سے کہا اے فلاں کی ماں کیا ہم آپ کو کچھ کھلائیں نہ؟ اس نے کہا میں تو وہی کھانا کھاؤں گی جو فلانہ لے کر آئے گی، وہ خاتون (کھانا لانے کی غرض سے ) بالکنی پر چڑھی تو عورت نے اس کی کوچیں دیکھ لیں پھر کہنے لگی: بیٹی میری جوئیں تو نکال دو، وہ خاتون جوئیں نکالتی رہی اور وہ اس کے منھ کی بو سونگھتی رہی، بعد ازاں آپ کی خدمت میں حاضر ہو ئی اور آپﷺ کواس کی بابت بتلایا۔            (مستدرک حاکم: ۲/۱۶۶)

شریعتِ اسلامیہ نے جس مقصد کی خاطر خاطب کو اپنی مخطوبہ کو دیکھ لینے کی تاکید و ہدایت کی ہے، اس مقصد کا تقاضا یہ ہے کہ مخطوبہ بھی خاطب کو دیکھ لے، چنانچہ فقہاء نے اسے بھی مستحب قرار دیا ہے۔ (دیکھئے التدابیر الواقیۃ من الزنا از ڈاکٹر فضل الہی)

 

خِطبہ (پیغام نکاح)سے متعلق بعض دیگرمسائل

 

٭…خطبہ کا مطلب ہے لوگوں کے درمیان معروف اور مروج طریقے سے عورت کے سامنے نکاح کی پیشکش رکھنا، اگر پیشکش کا جواب موافقت کی صورت میں سامنے آتا ہے تو یہ صرف وعدۂ نکاح ہو گا (نہ کہ نکاح) اس لئے پیغام دینے والے کیلئے مخطوبہ، جب تک عقد نہ ہو جائے اجنبیہ ہی رہے گی اور اسی طرح حرام جس طرح ایک اجنبیہ رہتی ہے۔

٭…کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے پیغام پر نکاح کا پیغام دے، اس لئے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :

’’نبیﷺ  نے اس بات سے منع کیا کہ تم میں سے کوئی کسی کے بیع پر بیع کرے، اور اس بات سے بھی کہ کوئی آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام دے اس وقت تک جب تک کہ پہلے پیغام دینے والا چھوڑ نہ دے یا اجازت نہ دیدے ‘‘              (بخاری :۵۱۴۲)

٭…کسی ایسی خاتون کو نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں جو طلاق رجعی کی عدت گزار رہی ہو، اس لئے کہ اب بھی وہ زوجیت کے سایہ میں ہے، اسی طرح ایسی عورت کو کھلے لفظوں میں نکاح کا پیغام نہیں دیا جا سکتا جو طلاق بائن یا وفات کی عدت گزار رہی ہو ہاں اشاروں اور کنایوں میں ایسا کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارۃً  کنایۃً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو، یا اپنے دل میں پوشیدہ ارادہ کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘   (البقرہ :۲۳۵)

 

منگنی کی رسم اور انگوٹھی

 

پیغامِ نکاح کے بعد نکاح کیلئے اظہارِ رضامندی کے عمل یا بالفاظ دیگر وعدۂ  نکاح کو ’’منگنی ‘‘ کہا جاتا ہے، شرعاً منگنی کا جواز ثابت ہے اور اس موقع پر ضیافت اور تحائف کا تبادلہ (اگر رسم نبھائی کے طور پر نہ ہو تو) بالکل جائز ہے، لیکن آج یہ عمل نکاح کو مشکل کرنے کا ایک ذریعہ بنتا جا رہا ہے اور جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ منگنی کی رسم پر فضول خرچیاں حد سے سوا ہو رہی ہیں اور اس موقع پر ہونے والی بعض دعوتیں اور اہتمامات تو نکاح اور ولیمہ کی دعوتوں کا بھی منہ چڑاتے نظر آتے ہیں، اس لئے اس جائز عمل کو زیادہ عام کرنے اور وسعت دینے کی بجائے ’’چٹ منگنی پٹ بیاہ ‘‘ کے اس مفہوم پر عمل کیا جائے جو نبی اکرمﷺ  اور صحابہ وسلف کے طرز عمل سے ثابت ہے اور جس کی بعض مثالیں گزشتہ فصل میں پیش کی جاچکی ہیں تو بہت بہتر ہو گا، اس سے نہ جانے کتنی غیر شادی شدہ جوڑوں کی شادی کیلئے آسانی کا راستہ پید ا کیا جا سکتا ہے۔

منگنی کے موقع پر انگوٹھی پہننے اور پہنانے کا عمل غیر اسلامی ہے، اس لئے کہ یہ مسیحیوں کا مذہبی شعار اور ان کا طریقہ ہے جیساکہ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔            (دیکھئے آداب الزفاف ص۱۴۰۔ ۱۴۱)

 

عقد نکاح اور اس کے ارکان

 

رشتہ کے انتخاب اور پیغام نکاح پر اظہارِ رضامندی کے بعد لڑکا اور لڑکی کا ایک دوسرے کو شریکِ حیات تسلیم کرنے کا عمل ’’عقد ‘‘ کہلاتا ہے، ایک دوسرے کو شریک حیات تسلیم کرنے کا عمل’’ ایجاب و قبول ‘‘کے ذریعہ انجام پاتا ہے، ایجاب کا مطلب ہے لڑکے کی طرف سے یا لڑکی کے ولی کی طر ف سے نکاح کی پیشکش، اور قبول کا مطلب ہے اس پیش کش کو قبول کر لینا، یوں ایجاب کا عمل لڑکے کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور لڑکی والے کی طرف سے بھی، اسی طرح قبول کا عمل بھی دونوں میں سے کسی کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے، ایجاب اور قبول، ’’نکاح کے ارکان‘‘ ہیں، ان کے بغیر نکاح کا انعقاد عمل میں نہیں آسکتا۔

یہاں یہ بات جان لینی ضروری ہے کہ ایجاب و قبول اگر مذاق کے طور پر بھی ہو تو نکاح کا انعقاد ہو جائے گا، اس لئے کہ رسول اللہﷺ  کا ارشاد ہے :

’’تین چیزوں میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے، نکاح، طلاق اور رجوع کرنا‘‘ (ابوداؤد:۲۱۹۴، ترمذی:۱۱۸۴)

 

 عقد کی شرطیں

 

جس طرح نکاح کے دو ارکان ہیں اسی طرح نکاح کی دو شرطیں بھی ہیں :

 

۱۔ نکاح کیلئے ولی کی شرط

 

عقد کی شرطوں میں سے ایک شرط لڑکی کیلئے ولی اور اس کی اجازت کا ہونا ہے، سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپﷺ  کا فرمان ہے :۔

((لَانِکَاحَ اِلَّابِوَلِیٍّ))

’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ‘‘(ابوداؤد کتاب النکاح :۲۰۸۲، ترمذی: ۱۱۰۱، احمد۴/۳۹۴وغیرھم)

امام حاکم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’اس مسئلہ میں حضرات علیؓ، عبداللہ بن عباسؓ، معاذ بن جبلؓ ، عبد اللہ بن عمرؓ، جابر بن عبداللہؓ ، ابوذر غفاریؓ ، مقداد بن اسودؓ، عبد اللہ بن مسعودؓ، ابوہریرہؓ، عمران بن حصینؓ ، عبد اللہ بن عمرو، مسور بن مخرمہؓ اور انس بن مالکؓ سے احادیث مروی ہیں اور اکثر صحیح ہیں، اسی طرح اس مسئلہ میں ازواج مطہرات، حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ اور زینبؓ بنت جحش سے بھی صحیح روایات مروی ہیں ‘‘  (مستدرک :۲/۱۷۲)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی اکرمﷺ  نے فرمایا:

’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے ‘‘  (ابوداؤد: ۲۰۸۳، ترمذی:۱۱۰۲، احمد۲/ ۴۷)

ایک روایت میں ولی کے بغیر نکاح کرنے والی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا، آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرائے اور نہ ہی عورت (بغیر ولی کے )خود اپنا نکاح کرے جو عورت اپنا نکاح خود کرے وہ زانیہ ہے ‘‘(صحیح ابن ماجہ: ۱۵۲۷)

قرآن مجید میں جہاں کہیں مرد کے نکاح کا ذکر ہے، وہاں نَکَحَ یَنْکِحُ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے، جس کے معنی خود نکاح کرنے کے ہوتے ہیں، لیکن جہاں عورت کے نکاح کا ذکر آیا ہے وہاں عموماً بابِ اِ فعال (سے نکاح) کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نکاح کرانے کے ہیں۔ ( اس مسئلہ سے متعلق مزید دلائل اور تفصیلات کیلئے دیکھئے راقم کی کتاب’’ پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے ؟‘‘)

لڑکی کو ولی وسرپرست کی اجازت و رضا مندی کو نظر انداز کر کے نکاح کرنے کی اجازت نہ دینے میں بڑی حکمت و مصلحت کار فرما ہے، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’اگر یہ(حکم)نہ ہوتا تو ہر زانی اپنے دوستوں کولے کر عورت کے پاس چلا جاتا اور اس سے کہہ دیتا کہ دس درہم کے مہر پر تو مجھ سے نکاح کر لے وہ ہاں کہہ دیتی، اس کے دوبدکاردوست اس کے گواہ بن جاتے، اب خوب منہ کالا کرتے ‘‘(اسلامی احکام کی حکمتیں مطبوعہ مکتبہ الفہیم، مؤ)

واضح رہے کہ ولی سے باپ مراد ہے، باپ کی غیر موجودگی میں دادا، پھر بھائی، پھر چچا ہے (یعنی عصبہ رشتہ دار) قریبی ولی کی موجودگی میں ولی ابعد(دور کے ولی)کی ولایت درست اور جائز نہیں ہو گی، اگرکسی کے دو ولی ہوں اور نکاح کے موقع پر کوئی اختلاف واقع ہو جائے تو ترجیح قریبی ولی کوہو گی اور اگر دونوں ولی برابر حیثیت کے ہوں تو اختلاف کی صورت میں حاکم ولی ہو گا۔  (فتح الباری: ۹/۱۸۶، ابن ابی شیبہ: ۱۵۹۶۳)

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر کسی عورت کا ولی ظالم ہو اور مناسب رشتہ ملنے اور لڑکی کی پسند کے باوجود اپنے ذاتی مفاد یا انا کی وجہ سے شادی میں رکاوٹ بن رہا ہو تو شرعی طور پر ایسے شخص کی ولایت ختم ہو جاتی ہے، حافظ ابن حجرؒسیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی حدیث(بخاری: ۵۱۳۰) کی شرح میں لکھتے ہیں :۔

’’معقلؓ  کی حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی اگر نکاح میں رکاوٹ بنے تو پہلے حاکم اسے اس سے باز آنے کا حکم دے، اگر باز آ جائے تو ٹھیک وگر نہ حاکم نکاح کروائے گا، واللہ اعلم ‘‘(فتح الباری:۹ /۱۸۸)

اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’اگر وہ (لڑکی )کسی شخص کو پسند کرے اور وہ اس کے لائق بھی ہو تو اس کے باپ، بھائی، چچا یا جو بھی ولی ہو اس کے ساتھ اس کی شادی کر دے  اگر وہ اس کو روکے رکھے یا شادی میں رکاوٹ ڈالے تو اس کا دور کا ولی یا پھر حاکم اس کی اجازت کے بغیر بھی اس کا نکاح کرسکتا ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے، ولی کو اس کا نکاح ایسے شخص کے ساتھ کسی صورت نہیں کرنا چاہئے جسے وہ ناپسند کرتی ہو لیکن جو اس کے قابل ہو اور اس کو پسند بھی ہو تو باتفاق علماء اس کو اس کے ساتھ شادی کرنے سے روکنا نہیں چاہئے۔

جاہل اور ظالم لوگ اس کو روکے رکھتے ہیں یا اپنی مرضی کے مطابق اپنی ذاتی اغراض کیلئے اس کی شادی کر دیتے ہیں، اس میں عورت کی کوئی مصلحت نہیں ہوتی، اگر وہ نہ مانے تو اسے مجبور کریں گے یا عار دلاتے رہیں گے تاآنکہ وہ راضی ہو جائے، اور اپنے فائدے کیلئے یا کسی عداوت کے سبب اس کو اس کے قابل شخص سے جدا رکھتے ہیں، یہ تمام کام ظلم اور دشمنی ہیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا ظلم و عداوت کے حرام ہونے پر اتفاق ہے ‘‘ ( مجموع الفتاوی ۳۲/۴۰)

 

۲۔ عقد کیلئے گواہوں کی شرط

 

عقد کیلئے دوسری شرط کم از کم دو گواہوں کا ہونا ہے، سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲﷺ نے فرمایا:۔

’’ولی اور دو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘   (دارقطنی ۳/۲۲۵، بیہقی ۷/۱۲۵، ارواء الغلیل ۱۸۶۰)

اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماسے موقوفاً روایت ہے :۔

’’دو عادل گواہوں اور ایک مرشد ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا‘‘  (ارواء الغلیل: ۱۸۴۴)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کا معاملہ لایا گیاجس میں صرف ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھی تو انہوں نے فرمایا:۔

’’یہ خفیہ نکاح ہے اور میں اسے جائز قرار نہیں دیتا اور اگر تم اس میں مزید پیش قدمی کرتے تومیں رجم کا حکم دیتا‘‘   (مؤطا ۲/۵۳۵)

 

 نکاح کے واجبات ومستحبات اور جائز و مشروع امور

 

نکاح کے ارکان و شروط کے علاوہ اس کے کچھ واجبات ومستحبات بھی ہیں، جن کا التزام گناہوں سے بچنے کا ذریعہ اور حصول ثواب کا باعث ہے۔

 

نکاح سے قبل لڑکی سے اجازت لینے کا وجوب اور اس کا طریقہ

 

نکاح سے قبل عورت کی رضامندی اور اس کی اجازت کا حاصل کرنا واجب اور ضروری ہے، چنانچہ نبیﷺ کا فرمان ہے :۔

’’شوہر دیدہ(بیوہ اور مطلقہ وغیرہ)کا نکاح اس سے (زبانی)امر طلب کرنے سے پہلے نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس سے اجازت لئے بغیر نہ کیا جائے ‘‘

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:

’’اے اﷲ کے رسول! اس سے اجازت حاصل کرنے کی کیا صورت ہو گی‘‘(وہ مارے شرم کے بولے گی کیوں ؟)

آپﷺ  نے فرمایا:

’’یہ کہ وہ خاموش رہے ‘‘(بخاری کتاب النکاح:۵۱۳۶مسلم:۱۴۱۹)

حدیث کے الفاظ سے واضح ہے کہ اجازت لینے سے مقصود لڑکی کی رضامندی کا حصول ہے، نہ کہ خانہ پری کے لئے رسمی طور پر یا جبر و دباؤ کے ذریعہ زبان سے ہاں کہلوا لیا جائے، مگر آج مسلم سماج میں بہت سے مقامات پر اجازت لینے کا عجیب ہی طریقہ رائج ہے، مولانا محمد اعظمی کے الفاظ میں ’’ہوتا یہ ہے کہ عقد نکاح کے روز جب مہمانوں کا خوب ہجوم ہوتا ہے اور ولیمہ کا انتظام مکمل طور پر عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو عین نکاح کے وقت لڑکی مہمان عورتوں اور اپنی سہیلیوں کے بیچ مجمع میں بیٹھتی ہے پھر تین اجنبی مرد، ایک قاضی اور دو گواہ اس مجمع میں لڑکی سے اجازت لینے جاتے ہیں بھلا سوچئے کون ایسی بے حیا لڑکی ہو گی جو ایسے ماحول میں اپنے قول یا فعل سے اظہار ناراضگی کی جرأت کرے گی؟لڑکی سے اجازت لینے کے لئے اجنبی (غیر)مردوں کو بھیجنا انتہائی جہالت ہے، شریعت اسلامیہ نے اجازت لینے کا حق صرف ولی کو دیا ہے {یَسْتَأْذِنُھَا اَبُوْھَا}لیکن عین عقد نکاح کے وقت نہیں بلکہ جب مناسب پیغام آئے تو آزادانہ ماحول میں لڑکی کی رضامندی معلوم کرے پھر عقد نکاح کے لئے قدم اٹھائے، اگر صریح رضامندی معلوم کرنے کا اتفاق نہ ہو سکا ہو لیکن دستور کے مطابق مرد کی جانب سے بھیجے ہوئے تحفے قبول کرتی رہی اور عقد نکاح کے وقت اس کے دیئے ہوئے کپڑے اور زیور وغیرہ بخوشی پہن لے کسی ناراضگی کا اظہار نہ کرے تو یقیناً یہ اجازت اور رضا مندی کا ثبوت ہے ‘‘ (آداب زواج ص۳۶، طبع مکتبہ فہیم مؤ)

نبیﷺ جب اپنی کسی صاحبزادی کا نکاح کرنا چاہتے تو آپﷺ  اس کے پردہ کے پاس بیٹھ جاتے پھر فرماتے کہ فلاں شخص نے فلاں کیلئے نکاح کا پیغام بھیجا ہے اگر وہ خاموش رہتیں تو یہ ان کی اجازت سمجھی جاتی۔ (احمد و ابویعلیٰ، مجمع الزوائد۹/۲۷۷۔ ۲۷۸)

اسی طریقہ کے مطابق جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے لئے پیغام نکاح دیا تو آپﷺ  نے ان سے فرمایا: علی تمہارا تذکرہ کر ر ہا ہے، جس پر وہ خاموش رہیں تو آپﷺ نے ان کا نکاح کر دیا۔ (مسندبزار، مجمع الزوائد:۴/۲۷۸)

اجازت لینے کیلئے گواہوں کی موجودگی اور حاضری بھی محض ایک رسم ہے، شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اسی طرح بعض مقامات پر وکیل بنانے کا رواج ہے، اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ گواہوں کے سامنے لڑکی کی رضامندی معلوم کر کے نکاح پڑھا نے والے کو سنادے کہ لڑکی کو یہ نکاح منظور ہے، یہ بھی جہالت اور شریعت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، شرعاً وکیل کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جبکہ طرفین میں سے کوئی موجود نہ ہو، لڑکی کی عدم موجودگی میں اس کا ولی(باپ یا بھائی وغیرہ)وکیل ہو گا۔

شریعت نے لڑکی کو یہ اختیار دیا ہے کہ اگر اس کا ولی اس کی اجازت و رضا مندی کے بغیر کسی سے اس کا نکاح کر دے تو اگر وہ چاہے تو نکاح فسخ کرا سکتی ہے، سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے :۔

’’ایک کنواری لڑکی نبیﷺ  کے پاس آئی اور بتانے لگی کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے حالانکہ وہ(لڑکے کو)پسند نہیں کرتی، تو آپﷺ نے سے اختیار دے دیا‘ ‘

( ابوداؤد، ابن ماجہ :۱۸۷۵، احمد:۱/۲۷۳)

اسی طرح ایک صحابیہ خنساء بنت خذام انصاریہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے :۔

’’ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا جبکہ وہ بیوہ تھیں، انہوں نے اس کو ناپسندکیا، وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، آپﷺ نے ان کے نکاح کو رد کر دیا‘‘   (بخاری کتاب النکاح:۵۱۳۸)

لیکن یہ اختیار اس صورت میں ہے جبکہ نکاح کے بعد ابھی رخصتی نہ ہوئی ہو، رخصتی کے بعد خلع یا طلاق یاکسی شرعی سبب کی بنا پر ہی اختیار ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں یہ اجازت صرف کنواری بالغہ یا بیوہ بالغہ سے لی جائے گی، نابالغہ سے اجازت لینا ضروری نہیں جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اس وقت کر دیا تھا جبکہ وہ چھ سال کی تھیں۔ (بخاری کتاب النکاح: ۱۵۳۳، مسلم: ۱۴۲۲)

 

حق مہر کا وجوب

 

نکاح میں مہر کی ادائیگی کی حیثیت بھی واجب کی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’عورتوں کے مہر خوشدلی سے دے دو، اگر عورتیں دل کی خوشی سے اس کا کچھ حصہ معاف کر دیں تو تم اسے مزے سے کھا سکتے ہو‘‘  (النساء :۴)

شریعت میں مہر کی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار کی تعیین نہیں کی گئی ہے، ایک آدمی حسبِ حیثیت ہر اس چیز کو بطور مہر پیش کرسکتا ہے جس کی قیمت ہو اور جسے اجرت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہو، سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

’’عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ  کی خدمت میں آئے، ان کے جسم پر زردی کا نشان تھا، آپﷺ  نے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ انہوں نے انصار کی ایک خاتون سے نکاح کر لیا ہے، آپﷺ نے پوچھا تم نے اسے کتنا مہر دیا، عرض کیا ایک گٹھلی کے برابر سونا، فرمایا:ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی سے ہو‘‘   (بخاری :۵۱۴۹، مسلم:۱۴۲۵)

مہر کی کمی بیشی سے متعلق آیت اور روایات گزر چکی ہیں اور یہ بات بھی عرض کی جاچکی ہے کہ شریعت نے نکاح کو آسان بنانے کے مقصد سے کم سے کم مقدار مہر کی تعیین کی ترغیب دی ہے۔

مستحب یہی ہے کہ پورا کا پورا مہر فورا ادا کر جائے جیساکہ نبیﷺ  کے قول و عمل سے ثابت ہے، لیکن مہر تاخیر سے ادا کرنا بھی درست ہے، اسی طرح کچھ حصے کی فوری اور کچھ کی بعد میں ادائیگی بھی جائز ہے۔

مرد اگر کچھ دیئے بغیر عورت سے مل لے تو یہ جائز ہے، اس صورت میں اگر مہر متعین نہ ہو توا س کے ذمہ مہر مثل کی ادائیگی ہو گی اور اگر مہر متعین ہوتو متعینہ مہر کی ادائیگی کرنی ہو گی، ایسا ہر گز نہ ہو کہ طے شدہ شرط پوری نہ کی جائے، اس لئے کہ رسول اللہﷺ  کا ارشاد ہے :

’’ شرطوں میں سب سے زیادہ نبھائے جانے کی حقدار وہ شرط ہے جس کے ذریعے تم نے شرمگاہ کو حلال کیا ہے ‘‘  (بخاری :۵۱۵۱، مسلم:۱۴۱۸)

اگر عقد کے بعد اور ملنے سے قبل ہی مرد کا انتقال ہو جاتا ہے تو عورت کو پورا مہر ملے گا، جیساکہ علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے :

’’عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے پاس مسئلہ آیا کہ ایک عورت سے کسی مرد نے شادی کی پھر اس کا انتقال ہو گیا اور اس نے عورت کیلئے کوئی مہر متعین نہیں کیا اور نہ ہی اس سے ملا ؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میری رائے میں اس کیلئے مہر مثل ہے، اسے میراث میں حصہ ملے گا اور اس کے ذمہ عدت ہے، معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ نبیﷺ  نے بروع بنت واشق کے سلسلے میں وہی فیصلہ فرمایا جو انہوں نے فرمایا ہے ‘‘        (ترمذی:۱۱۵۴، ابوداؤد:۲۱۰۰)

 

 خطبۂ نکاح کی مشروعیت اور خطبہ کی جامعیت و معنویت

 

نکاح کے موقع پر خطبہ مشروع ومستحب ہے، بیہقی کی روایت کے مطابق نبیﷺ  نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی نکاح یا اس کے علاوہ کسی حاجت کیلئے خطبہ دینے کا ارادہ کرے تو کہے ’’الحمد للہ نحمدہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ‘‘(بیہقی ۷/۱۴۶)

نکاح وغیرہ کے موقع پر جس خطبہ کے پڑھنے کی تلقین نبیﷺ  نے کی ہے، وہ بڑا جامع اور عقیدۂ  و عبادات اور معاملاتِ زندگی سے متعلق  تمام بنیادی باتوں کی وضاحت پر مشتمل ہے، مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں :

’’اس میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ دین کیا ہے اور کہاں سے لیا جا سکتا ہے اور اس کی بھی نشاندہی کر دی گئی ہے کہ دین کی حدیں کہاں پر ختم ہو جاتی ہیں اور گمراہی کی حدیں کہاں شروع ہوتی ہیں، اس میں صراط مستقیم کی تعیین جس جامعیت کے ساتھ کر دی گئی ہے اس پر کاربند ہو کر انسان ہر طرح کی گمراہی و کجروی اور ناکامی و نا مرادی سے محفوظ رہ سکتا ہے ‘‘     (ماہنامہ’’ محدث ‘‘بنارس فروری ۱۹۸۲ء)

اس خطبہ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے :

’’بلاشبہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں اور اس سے بخشش طلب کرتے ہیں، نیز ہم اپنے نفس کے شر اور اعمال کی خرابی سے بچنے کیلئے اللہ کی پناہ حاصل کرتے ہیں، جسے اللہ راہ دکھائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ اپنے در سے دھتکار دے اس کیلئے کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ ہے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ  اس کے بندے اور  اس کے رسول ہیں۔

{حمد وصلو ۃ کے بعد، (معلوم ہو کہ )بلاشبہ تمام باتوں سے بہتر بات اللہ تعالی کی کتاب ہے اور تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمدﷺ  کا ہے اور تمام کاموں سے بدترین کام وہ ہے (جو دین میں ) اپنی طرف سے نکالے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ }

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیساکہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور (پھر ) اس جان سے اس کی بیوی کو بنایا اور (پھر) ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں اور انہیں (زمین پر) پھیلا دیا، اللہ سے ڈرتے رہو جس کے ذریعے سے (یعنی جس کے نام پر)تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں (کو توڑنے ) سے ڈرو، بے شک اللہ تمہاری نگرانی کر رہا ہے۔

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسی بات کہو کہ جو محکم (سیدھی اور سچی ) ہو، اللہ تمہارے اعمال کی اصلاح اور تمہارے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی تو اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی‘‘

(مسلم :۸۶۸، نسائی :۳۲۷۹، دارمی :۲۲۰۸، ابوداؤد:۲۱۱۸)

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ ’’بریکٹ {۔ ۔ }والا حصہ، خطبۂ حاجت خطبۂ  نکاح کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسے نبیﷺ  نے خطبہ جمعہ اور عیدین میں پڑھا ہے، تاہم روایات میں اسے تشہد کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے (ملاحظہ ہو مسند احمد ۳/۳۱۹، صحیح مسلم:۸۶۷، خطبۃ الحاجۃ للالبانی ص:۳۰)

 

 نکاح کا اعلان اور اس کیلئے دف بجانا

 

نکاح کا اعلان بھی مشروع ومستحب ہے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’نکاح کا اعلان کرو‘‘     (آداب الزفاف للالبانی ص۱۸۳)

اسی مقصد کی خاطر نبی کریمﷺ  نے دف بجانے اور گانے کا بھی حکم دیا ہے، آپﷺ کا ارشاد ہے :

’’حرام و حلال کے درمیان فرق کرنے والی چیز دف بجانا اور نکاح کا اعلان کرنا ہے ‘‘(ترمذی کتاب النکاح :۰۸۸ا، ابن ماجہ وغیرہما)

سیدنا عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’ایک نکاح کی مجلس میں حضرت قرظہ بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں جانا ہوا، وہاں کچھ لڑکیاں گانا گا رہی تھیں، میں نے ان سے کہا:آپ کو رسول اللہﷺ  کے صحابی ہونے اور غزوۂ بدر میں شرکت کا شرف حاصل ہے، یہ آپ کے سامنے کیا ہو رہا ہے ؟ ان دونوں نے مجھ سے کہا اگر آپ پسند کریں تو ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں اور گیت سنیں اور جانا پسند کریں تو چلے جائیں  اس لئے کہ ہمیں نکاح کے موقع پر گیت گانے کی اجازت دی گئی ہے ‘‘       (نسائی ۶/۱۳۵)

واضح رہے کہ دف ہلکے چمڑے سے تیار ایک معمولی قسم کے باجے کو کہتے ہیں لہذا اس کی بنیاد پر ڈھول اور تاشے وغیرہ بجانے کا جواز فراہم کرنا جائز اور درست نہیں، شادی کے موقعوں پر نبوی دور میں اشعار پڑھنے کا ثبوت موجود ہے، لیکن جن روایتوں سے اس کا ثبوت ملتا ہے، ان سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ اشعار یا بچیاں پڑھتی تھیں یا لونڈیا ں بالغ اور شریف عورتیں نہیں، علاوہ ازیں اشعار، نیکی اور بھلائی کی باتوں، اسلاف کے اچھے کارناموں اور دعا وغیرہ پر مشتمل ہوتے تھے نہ کہ عشق و معاشقہ اور بے حیائی و بیہودگی کی باتوں پر۔

( دیکھئے بخاری کتاب النکاح، احمد۴/۷۷، ابن ماجہ:۱۹۰۰ وغیرہ)

 

نکاح کا مسجد میں انعقاد

 

رسول اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’اس نکاح کا اعلان کرو اور اسے مسجد میں منعقد کرو‘‘(ترمذی)

اس روایت کی بنا پر مسجد میں نکاح کے انعقاد کو مستحب قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ روایت سندی اعتبار سے ضعیف ہے۔ ( دیکھئے ھدیۃ العروس ص۱۳۲)

تاہم نکاح کے اعلان کے پیش نظر اور حصول برکت کی نیت سے اگر مسجد کا انتخاب ہو تو بہتر ہے، مزید مسجد میں نکاح کی صورت میں نکاح سے متعلق بہت سی غیر شرعی چیزوں اور خرافات وغیرہ سے بھی حفاظت ممکن ہے۔

 

نکاح کی مبارکبادی

                       

نکاح کی مبارکبادی دینا مستحب ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’نبیﷺ : جب نکاح کی مبارکبادی دیتے تو کہتے :

{بَارَکَ اﷲُ  لَکَ، وَبَارَکَ عَلَیْکَ، وَجَمَعَ بَیْنَکُمَافِیْ خَیْرٍ}

(اﷲ تیرے لئے اور تجھ پر برکت اتارے اور تم دونوں کو بھلائی پر اکٹھا کرے )           (ابوداؤد:۲۱۳۰، ترمذی:۱۰۹۱)

نکاح کے موقع پر دولہا اور دلہن کو تحفے دینا:

نکاح کے موقع پر دولہا اور اور دلہن کو تحائف وغیرہ دینا مشروع ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں یہ عنوان قائم کیا ہے :

(( باب الھدیۃ للعروس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ))

’’دولہا دلہن کیلئے تحائف کا بیان ‘‘

پھر اس کے تحت درج ذیل حدیث نقل کی ہے، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

’’ ایک بار ایسا ہوا کہ آنحضرتﷺ  دولہا بنے اور حضرت زینب سے آپ نے نکاح کیا۔ میری والدہ (ام سلیمؓ ) مجھ سے کہنے لگیں کہ اس وقت اگر ہم اللہ کے رسولﷺ  کو کوئی تحفہ بھیجیں تو یہ بہت اچھا ہو گا میں نے بھی کہا کہ ہاں مناسب ہو گا ہے۔ چنانچہ میری والدہ نے کھجور، گھی اور پنیر ملا کر ایک برتن میں حلوہ تیار کیا اور میرے ہاتھوں نبی اکرمﷺ  کے پاس بھجوایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔     (بخاری :۵۱۶۳)

آپس میں تحائف کا تبادلہ ایک پسندیدہ اور مستحسن عمل ہے، نبی اکرمﷺ  نے اس کی ترغیب دی ہے، ارشاد ہے :

’’آپس میں تحفے دیا کرو اور اس طرح آپس میں محبت بڑھاؤ۔ ‘‘  ( الادب المفرد : ۵۹۴)

تحائف کے تبادلے کی ترغیب پر مشتمل اس عمومی دلیل کی بناپر اس بات کی پوری گنجائش ہے کہ شوہر اور بیوی اور ان کے اقرباء آپس میں تحفے دیں اور لیں، لیکن اگر یہ رسم نبھائی کے طور پر ہو تو ظاہر سی بات ہے کہ ایک غیر ضروری عمل اور تحائف کے تبادلے کے مقصد کے خلاف ہے، لہذا اس حوالے سے اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے اس سے احتراز ہی بہتر اور اولی ہو گا۔

 

نکاح کے موقع پر کھانا کھانے اور کھلانے کا مسئلہ

 

نکاح کی تقریب میں شرکت کرنے والے مہمانوں کے لئے کھا نے کا انتظام کرنے میں شرعاً کوئی برائی نہیں ہے، شریک ہونے والے افراد کی حیثیت مہمان کی ہے اور مہمان کی ضیافت و تواضع کی ترغیب نبی اکرمﷺ  نے تاکیدی انداز میں دی ہے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :

’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت و تکریم کرے‘‘  ( مسلم : ۱۹)

تاہم مہمانوں کی ضیافت حسبِ استطاعت ہی ہونی چاہئے، غیر ضروری تکلفات اور پھر بجبر و قہر دولہے والے کی طرف سے مہمانوں کے انبوہ کی شرکت نے آج اس جائز اور مشروع چیز کو گھناؤ نی شکل دے دی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے شادی کی ضیافت کو غیر شرعی اور دعوت کو ناجائز و حرام سمجھنا اور ٹھہرانا شروع کر دیا ہے، حالانکہ یہ بات قطعاً درست نہیں، اس ضیافت کے سلسلے میں ہو رہی فضول خرچی اور دولہے والوں کی طرف سے (باراتیوں کی کثرت اور حسب فرمائش کھانے اور ڈشس کے انتظام کی صورت میں ) روا رکھی جا رہی زیادتی کے سلسلے میں ہم اس سے پہلے عرض کر چکے ہیں۔

 

                رخصتی اور پہلی ملاقات سے متعلق شرعی آداب و ہدایات

 

عقد نکاح کے بعد مرد و عورت ایک دوسرے کیلئے حلال ہو جاتے ہیں، اب شرعی طور پر ان کے یکجا ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں، اس طرح عقد کے فوری بعد رخصتی اور دولہا اور دلہن کی ملاقات ہو سکتی ہے تاہم اگر عقد کے بعد رخصتی اور وداعی کو کچھ وقتوں کیلئے مؤخر کر دیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، نبی اکرمﷺ کا عقد عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تو ان کی عمر اس وقت چھ سال تھی جبکہ رخصتی کے وقت ان کی عمر نوسال تھی، رخصتی اور ملاقات کے وقت درجہ ذیل امور مشروع ومستحب ہیں :

 

۱۔ دلہن کو سنوارنا اور دولہے کیلئے آراستہ کرنا

 

اس سلسلے میں سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی روایت ہے، وہ کہتی ہیں :

’’میں نے رسول اللہﷺ  کیلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار اور آراستہ کیا، پھر آپ کے پاس آئی اور آپ کو بلایا تاکہ آپ انہیں دیکھیں، آپﷺ تشریف لائے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں بیٹھ گئے، پھر دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، آپﷺ  نے اس سے پیا، پھر اسے عائشہ  رضی اللہ عنہا کو پیش فرمایا، انہوں نے حیا کی وجہ سے اپنا سر جھکا لیا، میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو جھڑکا اور کہا کہ نبی کریمﷺ  کے ہاتھ سے پیالہ پکڑ لو، اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسو ل اللہﷺ  سے پیالہ پکڑا اور کچھ دودھ پیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘   (احمد ۶/۴۳۸، آداب الزفاف ص۹۲)

اسی طرح عروہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک انصاری شخص کی شادی کے لئے اس کی دلہن کا بناؤ سنگھار کیا تھا۔     ( بخاری :  ۵۱۶۲)

جس طرح دلہن کو دولہے کیلئے سنوارنا مستحب ہے اسی طرح یہ بھی مناسب اور مستحسن ہے کہ دولہا بھی خود کو سنوارے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :۔

’’میں اپنی بیوی کیلئے اسی طرح بننا سنور نا پسند کرتا ہوں جس طرح مجھے یہ پسند ہے کہ وہ میرے لئے بنے اور سنورے، اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں ‘‘     (البقرہ:۲۲۸) (تفسیر طبری ۴/ ۵۳۲)

دلہن کو شوہر کیلئے سنوارنا اور شوہر کا اپنی بیوی کیلئے بننا سنورنا مستحسن اور مطلوب عمل ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ یہ عمل شرعی حدود و آداب کے اندر ہو، لہذا دونوں کو حسن و آرائش کی ان شکلوں سے پرہیز کرنا چاہئے جن سے شریعت اسلامیہ نے روکا ہے، اس سلسلے میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :۔

’’اللہ تعالی نے بدن گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور پلکوں کے بال اکھڑوانے والیوں اور خوبصورتی کیلئے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کرتی ہیں لعنت فرمائی ہے‘‘   (بخاری کتاب اللباس: ۵۹۳۱، مسلم:۲۱۲۵)

خواتین کے حسن و آرائش کی ایک ناجائز شکل اپنے بالوں میں وِگ (مصنوعی بالوں ) کا جوڑنا بھی ہے، یعنی بعض خواتین جن کے بال چھوٹے یا ان کے مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہوتے وہ اپنے بالوں میں دوسرے قدرتی یا بناوٹی بال جوڑ لیتی ہیں یا دوسروں سے جڑوا لیتی ہیں، حدیث میں اس پر بھی لعنت کی گئی ہے، ایک خاتون نے نبیﷺ سے پوچھا کہ میری بیٹی کے بال جلد کی بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے ہیں، میں نے اس کی شادی کر دی ہے، کیا میں اس میں مصنوعی بال جوڑ سکتی ہوں ؟ آپﷺ نے فر مایا :

’’اللہ تعالی نے بال جوڑنے والی پر، بال جڑوانے کی خواہش کرنے والی پر اور اس پر جس کے بال لے کر جوڑے جائیں لعنت فرما ئی ہے ‘‘        (بخاری کتاب اللباس: ۵۹۳۱، مسلم:۲۱۲۵)

موجودہ دور میں نسوانی آرائش کی ایک شکل یہ بھی موجود ہے کہ خواتین غیر معمولی  طور پر ناخن بڑھا لیتی ہیں، یہ عمل غیر مہذب اور دینی اعتبار سے قبیح ہونے کے ساتھ طبی نقطۂ نظر سے بھی ضرر رسانی سے خالی نہیں، علامہ ابن بازؒ  سے کسی خاتون نے پوچھا کہ ناخنوں کو لمبا کرنے اور ان پر پالش لگانے کا کیا حکم ہے، ؟تو انہوں نے جواب میں تحریر فرمایا:۔

’’ناخنوں کو لمبا کرنا خلافِ سنت ہے، نبیﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:۔

’’پانچ چیزیں فطرت (سے )ہیں، زیر ناف صاف کرنا، ختنہ کرنا، مونچھ کترنا، موئے بغل اکھاڑنا اور ناخنوں کو تراشنا‘‘

اور ان چیزوں کو چالیس دنوں سے زیادہ چھوڑنا جائز نہیں ہے جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، انہوں نے کہا:۔

’’ہمارے لئے رسول اللہﷺ نے مونچھ کترنے، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھا ڑ نے اور زیر ناف مونڈنے کا وقت متعین فرما دیا کہ ہم ان چیزوں میں سے کسی کو چالیس راتوں سے زیادہ نہ چھوڑیں ‘‘

نیز اس لئے بھی کہ ناخن لمبا کرنے میں چوپایوں اور بعض کافروں سے مشابہت ہے، رہا نیل پالش تو اس کا استعمال نہ کرنا افضل ہے اور وضو کے وقت اس کو زائل کرنا واجب ہے، کیونکہ یہ ناخن تک پانی کو پہونچنے سے روکتا ہے‘‘   (فتاوی برائے خواتین اسلام ص ۶۹۲، ۶۹۳)

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ  نے فرمایا :

’’مردوں کے لئے ( لائق استعمال ) خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو نمایاں ہو اور رنگ وغیرہ نمایاں نہ ہوں جبکہ عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ نمایاں ہو مگر خوشبو نمایاں نہ ہو ‘‘( ترمذی : ۲۷۸۷)

مرد حضرات میں آرائش کی جو ناجائز شکلیں رائج ہیں، ان میں سرفہرست داڑھی کا مونڈنا ہے، شرعاً یہ عمل حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اس میں اللہ کی تخلیق میں تبدیلی، عورتوں کی مشابہت اور کافروں کی نقالی پائی جاتی ہے، اور یہ ساری چیزیں حرام اور ممنوع ہیں، نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :۔

’’مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو چھوڑ دو اور مونچھیں کترواؤ‘‘    (بخاری کتاب اللباس: ۵۸۹۲، مسلم:۲۵۹)

داڑھی رکھنے کے سلسلے میں اور بھی متعدد روایتیں ہیں، امام نوویؒ  تحریر فرماتے ہیں :

’’اس سلسلے میں پانچ طرح کی روایتیں مروی ہیں جن میں {اعفوا } {اَوْفوا} {اَرْخوا} {اَرْجو}اور {وَفِّروا} کے الفاظ ہیں ان سب کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو‘‘             (شرح مسلم ۱/۱۲۹)

ناجائز آرائش کی ایک شکل سفید بالوں کو کالے خضاب وغیرہ سے رنگنا بھی ہے، نبی اکرمﷺ نے سفید بالوں کو رنگنے کی ترغیب دی ہے، جیساکہ نبیﷺ  ارشاد ہے :۔

’’بڑھاپے (کے اثر)کو بدل دو اور یہود کی مخالفت کرو‘‘  (بخاری :۵۷۸۴)

دوسری روایت میں ہے :۔

’’یہودی اور عیسائی (داڑھی اور سر کے سفید بال )نہیں رنگتے، تم ان کی مخالفت کرو’’   (بخاری ایضاً:۵۸۹۹، مسلم:۲۱۰۳)

لیکن آپﷺ نے بالوں کو کالے رنگ سے رنگنے سے منع فرمایا ہے، آپﷺ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ  رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:۔

’’اسے (سفید بال) کوکسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو‘‘   (مسلم کتاب اللباس: ۲۱۰۲)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:۔

’’کچھ لوگ ہوں گے جو آخری زمانے میں کالا خضاب لگائیں گے کبوتروں کے سینوں کی مانند، انہیں جنت کی خوشبو تک نہ ملے گی‘‘ (ابو داؤد کتاب الترجل، احمد۴/۱۵۶)

بہت سے لوگ اپنے سر اور داڑھی کے سفید بالوں کو اکھاڑ دیتے ہیں، نبی اکرمﷺ  نے اس سے منع فرمایا ہے، آپﷺ کا فرمان ہے :۔

’’بڑھاپے کو ختم مت کرو، کیونکہ جو مسلمان اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو اتو اس کا بڑھاپا اس کیلئے قیامت کے دن نور ہو گا‘‘

اور ایک روایت میں ہے :۔

’’اللہ تعالی اس بڑھاپے کے ذریعے اس کیلئے ایک نیکی لکھ دے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا‘‘  (ابوداؤد: ۴۲۰۲، ترمذی: ۲۸۲۱)

مردوں کیلئے سونے کا استعمال اور ریشمی کپڑے پہننے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے، نبیﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کیلئے حلال ہے اور میری امت کے مردوں کیلئے حرام ہے ‘‘   (ترمذی: ۱۷۲۰، احمد ۴/۳۹۳وغیرھما)

ہاں چاندی کا استعمال مردوں کیلئے جائز ہے، جیسا کہ آپﷺ کا فرمان ہے :۔

’’چاندی کو لازم پکڑو اور جیسے چاہو اسے استعمال کرو‘‘ (ابوداؤد : ۴۲۳۶، احمد: ۲/۳۷۸)

نبی اکرمﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی، (بخاری :۵۸۶۶)واضح رہے کہ آپﷺ نے لوہے کی انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد: ۳۲۲۳، احمد ۲/ ۱۶۳۔ ۱۷۹ ) ساتھ ہی آپﷺ نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے بھی منع کیا ہے۔     (ابوداؤد ایضاً: ۴۲۲۵، ترمذی: ۱۷۸۶)

 

۲۔ شوہر کا بیوی کو دلجوئی کی خاطر کوئی تحفہ یا کچھ کھانے کو پیش کرنا

 

ان دونوں باتوں سے متعلق روایتیں گزر چکی ہیں۔

۳۔ بیوی کے سر پر ہاتھ رکھنا اور برکت کی دعا کرنا:

نبی کریمﷺ  نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی شخص شادی کرے یا خادم (غلام) خریدے تو اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھے، بسم اللہ پڑھے اور برکت کی دعا کرے اور کہے :

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ خَیْرَھَا و َخَیْرَ مَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّمَا جَبَلْتَھَا عَلَیْہِ

(اے اﷲ!میں تجھ سے اس کی بھلائی کاسوال کرتا ہوں اور اس چیز کی بھلائی کا بھی جس پر تو نے اسے پیدا کیا اور تیری پناہ میں آتا ہوں اس کے شرسے اور اس چیز کے شرسے جس پر تو نے اسے پیدا کیا)

(ابوداؤد:۲۱۶۰، ترمذی:۱۱۵۴، ابن ماجہ:۱۹۱۸)

 

۴۔ بیوی کے ساتھ دو رکعتیں نماز پڑھنا

 

شقیق تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ایک آدمی آیا جسے ابو حریز کہا جاتا تھا، اس نے کہا میں نے ایک کنواری جوان لڑکی سے شادی کی ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھ سے دوری نہ اختیار کرے، تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:بے شک محبت و الفت اللہ کی طرف سے اور نفرت و جدائی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے شیطان یہ چاہتا ہے کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دے، لہذا جب وہ تمہارے پاس آئے تو اسے حکم دینا کہ وہ تیرے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے (ایک روایت میں مزید یہ اضافہ ہے )اور یہ دعا پڑھو :

((اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْ اَہْلِیْ وَبَارِکْ لَہُمْ فِیَّ اَللّٰہُمَّ اجْمَعْ بَیْنَنَا مَاجَمَعْتَ بِخَیْرٍ وَفَرِّقْ بَیْنَنَا اِذَا فَرَّقْتَ بِخَیْرٍ ))

’’اے اللہ !میری بیوی میں میرے لئے برکت عطا فرما اور میرے اہل و عیال کیلئے مجھ میں برکت عطا فرما، جب تک تو ہمیں یکجا رکھ خیر کے ساتھ یکجا رکھ اور جب ہمارے درمیان جدائی ڈالنا چاہے تو خیر و بھلائی کے ساتھ ہمارے درمیان جدائی ڈال‘‘(ابن ابی شیبہ ۷/۵۰، آداب الزفاف ص ۹۶)

 

۵۔ جب بیوی کے ساتھ ہم بستری کا ارادہ ہو تو دعا پڑھے

 

سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ اگر تم میں سے کوئی بیوی سے ہم بستری سے قبل یہ دعا پڑھ لے :

((بِسْمِ اﷲِ، اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَارَزَقْتَنَا))

(اﷲ کے نام کے ساتھ، الٰہی ہمیں شیطان سے بچا اور جو اولاد تو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے بچا)

تو اگر بچہ پیدا ہو تو وہ شیطان کے ضررسے محفوظ رہے گا‘‘  (بخاری: ۱۴۱، مسلم:۱۴۳۴ )

 

۶۔ ہم بستری سے قبل حصولِ ثواب اور طلبِ اولاد کی نیت کرے تاکہ یہ عمل عبادت اور حکم الہی کی تعمیل کے طور پر لکھا جائے

 

جائز ہم بستری کے حوالے سے یہ حدیث گزر چکی ہے، آپﷺ  نے فرمایا :

’’تم میں سے ایک کی شرمگاہ (کے ذریعہ ہم بستری) میں صدقہ ہے ‘‘

(بخاری :۵۳۵۴، مسلم:۱۶۲۸)

جبکہ طلبِ اولاد کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے :

(ترجمہ)’’اب اجازت ہے کہ تم ان سے مباشرت کرو اللہ تعالی کی لکھی ہوئی چیز (اولاد)تلاش کرو‘‘                    (البقرۃ:۱۸۷)

 

۷۔ بیوی سے ہم بستری جائز مقام اور جائز حالت میں کی جائے

 

اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

(ترجمہ)’’(حیض سے پاکی کے بعد)ان(عورتوں )کے پاس جاؤ جہاں سے اﷲ نے تمہیں اجازت دی ‘‘         (البقرہ:۲۲۲)

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کو نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :۔

’’یہ آیت کریمہ عورت کے پچھلے حصہ میں دخول سے دو وجوہات سے روکتی ہے، ایک یہ کہ قرآن کریم نے کھیتی میں آنے کی بات کہی ہے اور وہ مقامِ ولادت ہے نہ کہ پاخانہ کی جگہ جو گندگی اور پلیدگی کا مقام ہے،  ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ’’ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ‘‘سے فرج (اگلی شرمگاہ)مراد ہے ‘‘ ( زاد المعاد۴ /۲۴۰)

نبیﷺ نے اس سلسلے میں سخت وعیدیں سنائی ہیں، چنانچہ آپﷺ کا فرمان ہے :۔

’’جو شخص عورت سے اس کے پچھلے حصے میں جماع کرے وہ لعنتی ہے ‘‘  (ابو داؤد کتاب النکاح :۲۱۶۲، ابن ماجہ: ۱۹۲۳)

ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں :۔

’’اللہ ایسے شخص کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھے گاجس نے اپنی بیوی سے اس کے پچھلے حصے میں جماع کیا‘‘(ابن ماجہ: ۱۹۲۳)

نبیﷺ  نے حیض کی حالت میں عورت سے ہم بستری کرنے کے سلسلے میں فرمایا:

’’جو شخص حیض والی عورت سے جماع کرے یا عورت سے اس کے پچھلے حصے میں جماع کرے یا کاہن کے پاس آئے تواس نے گویا اس دین کا انکار کیا جو محمد (ﷺ ) پر نازل کیا گیا ہے ‘‘   (ابوداؤد :۳۹۰۴، ترمذی :۱۳۵)

نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’جو حالت حیض میں اپنی بیوی سے ہم بستری کر لے وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے‘‘   (ابوداؤد:۲۶۴، احمد ۱/۲۲۹)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں :

’’اگر ابتداء حیض میں ہم بستری کرے تو ایک دینار اور خون کے انقطاع پر جماع کرے تو آدھا دینار ‘‘ (ابوداؤد:۲۶۵)

 

۸۔ میاں بیوی کیلئے ایک دوسرے کا ستر دیکھنا جائز ہے

 

نبی کریمﷺ  کا ارشاد ہے :

’’اپنی شرمگاہ کو بیوی یا لونڈی کے علاوہ چھپا کر رکھو‘‘

(ابو داؤد :۴۰۱۷، ابن ماجہ:۱۹۲۰)

اس روایت سے واضح ہے کہ بیوی اور لونڈی کے سامنے ستر کا کھولنا اور برہنہ ہونا جائز ہے، بالفاظ دیگر میاں بیوی کیلئے ایک دوسرے کا ستر دیکھنا جائز ہے، سعودی عرب کی مستقل فتوی کمیٹی نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔           (فتاوی اللجنۃ۱۹/۳۶۱)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت جس کے الفاظ ہیں :

’’میں نے کبھی رسول اللہﷺ  کی شرمگاہ نہیں دیکھی ‘‘

سندی اعتبار سے ضعیف ہے، اس لئے لائقِ دلیل نہیں۔ (آداب الزفاف ص ۱۰۹)

 

۹۔ اگر ایک ہی وقت میں دوبارہ جماع کا ارادہ ہو تو

 

بہتر یہ ہے کہ وضو کر لیا جائے، نبی اکر مﷺ  کا ارشاد ہے :

’’جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ہم بستری کر لے، پھر دوبارہ ہم بستری کرنا چاہے تو وضو کر لے، یہ جماع کیلئے خوب چستی پیدا کر دیتا ہے ‘‘      (مسلم :۳۰۸، ترمذی:۱۴۱، ابو داؤ د:۲۲۰)

 

۱۰۔ ہم بستری اور ملاقات کی باتوں کو بیان کرنا سخت گناہ کا عمل ہے

 

نبیﷺ ارشاد فرماتے ہیں :۔

’’قیامت کے دن بدترین مقام اس شخص کاہے جو اپنی بیوی سے مباشرت کرتا ہے اور وہ اس کے ساتھ اس میں شریک ہوتی ہے پھر وہ اس کی پوشیدہ باتوں کو پھیلاتا اور بیان کرتا ہے ‘‘       (مسلم:۱۴۳۷)

ابو داؤد کی روایت میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:۔

’’کیا تم میں سے (کوئی)آدمی اپنی بیوی کے پاس آتا ہے پھر اپنے دروازہ کو بند کر لیتا ہے اور اپنے اوپر پردہ ڈال لیتا ہے اور اﷲ سے بھی پردہ اختیار کرتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا:ہاں اے اﷲ کے رسول !آپﷺ نے فرمایا:پھراس کے بعد کسی مجلس میں بیٹھ کر کہتا ہے کہ میں نے ایسا اور ایساکیا؟اس پر لوگ خاموش رہے پھر آپﷺ  عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے کیا تم میں سے کوئی ہے جو بیان کرے ؟ عورتیں بھی خاموش رہیں، ایک دوشیزہ اپنے دونوں گھٹنوں میں سے ایک پر کھڑی ہو گئی تاکہ قدرے بلند ہو جائے اور رسول اﷲﷺ اسے دیکھ لیں اور اس کی گفتگوسن لیں اس نے کہا اے اﷲ کے رسول !یہ (مرد)بھی گفتگو کرتے ہیں اور یہ عورتیں بھی کرتی ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا:۔

’’کیا تم جانتے ہواس کی مثال کیا ہے ؟درحقیقت اس کی مثال اس شیطانہ کی طرح ہے جو کسی شیطان سے گلی میں ملتی ہے پھر وہ اس سے اپنی حاجت پوری کرتا ہے اور لوگ اس کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں ‘‘ (صحیح الجامع: ۰۳۷ ۷ )

 

                ولیمہ اور اس سے متعلق شرعی آداب و احکام

 

دولہا اور دلہن کی ملاقات کے بعد ولیمہ کی دعوت مشروع ہے، نبیﷺ نے اس کی خصوصی تاکید فرمائی ہے، آپﷺ نے سیدناعبد الر حمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

’’ ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہو‘‘(بخاری :۵۱۶۷، مسلم: ۱۴۲۷)

اسی طرح جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے نکاح کا پیغام دیا تو آپﷺ  نے فرمایا:

’’شادی کیلئے ولیمہ ضروری ہے ‘‘   (صحیح ابن ماجہ :۲۴۱۹، احمد ۱۶/۲۰۵)

سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد حافظ عمران ایوب لاہوری لکھتے ہیں :

’’اس حدیث میں نبی کریمﷺ  نے ولیمہ کرنے کا حکم دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دعوت ولیمہ کا اہتمام کرنا واجب ہے، اس موقف کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے جتنے نکاح کئے تمام میں ولیمہ کیا، نیز عہد رسالت میں کوئی بھی ایسا نکاح معروف نہیں جس میں ولیمہ نہ کیا گیا ہو، اس لئے ولیمہ کا اہتمام کرنا ہی اولیٰ  و افضل ہے ‘‘ (نکاح کی کتا ب ص۲۲۴)

ولیمہ کی دعوت حسب استطاعت ہونی چاہئے جیسا کہ اس کی وضاحت اس سے پہلے ہو چکی ہے۔

ولیمہ ایک دن سے زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے، نبی اکرمﷺ  نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کا ولیمہ تین دن کیا تھا۔ (مسند ابی یعلی، آداب الزفاف للالبانی ص۷۴)

ولیمہ میں نیک اور صالح لوگوں کو مدعو کرنا چاہئے، اس لئے کہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :

’’کسی مؤمن ہی کو اپنا ساتھی بناؤ اور تمہارا کھا نا نیک لوگ ہی کھائیں ‘‘  (ابوداؤد:۴۸۳۲، ترمذی:۲۳۹۵)

نبی کریمﷺ  کا ارشاد ہے :

’’ولیمہ کا وہ کھانا بدترین کھانا ہے جس میں صرف مالداروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے‘‘   (بخاری:۵۱۷۷، مسلم:۱۴۳۲)

نبیﷺ نے دعوت ولیمہ میں شرکت ضروری قرار دی ہے، آپﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’ جب تم میں سے کسی کو ولیمہ کی دعوت ملے تو وہ اس میں شریک ہو‘‘ (بخاری، کتاب النکاح:۵۱۷۳)

اور آپﷺ نے فرمایا :۔

’’جس نے (بغیر عذر کے ) دعوت قبول نہیں کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی‘‘(بخاری: ۵۱۷۷، مسلم: ۱۴۳۲)

ایک روایت میں محض حاضری ضروری قرار دی گئی ہے اور کھانا کھانے کو آدمی کی خواہش پر چھوڑ دیا گیا ہے :۔

’’اگر چاہے تو کھا لے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے ‘‘(مسلم :۱۴۳۰)

دعوتِ ولیمہ میں حاضر ہونے والوں کیلئے دو باتیں مستحب ہیں :

۱۔ کھانا کھا چکنے کے بعد صاحبِ دعوت کیلئے دعا کرنا، اس سلسلے میں کئی دعائیں منقول ہیں۔

۲۔ دولہا اور دلہن کو خیرو برکت کی دعا دینا، جیسا کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے۔

دعوت ولیمہ میں عورت اور بچوں کی شرکت جائز ہے، امام بخاری’’بَابُ ذِھَابِ النِّسَائِ وَالصِّبْیَانِ اِلَی الْعُرْسِ ‘‘(باب دعوت شادی میں عورتوں اور بچوں کا بھی جانا جائز ہے )کے تحت نقل فرماتے ہیں کہسیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:۔

’’ نبی کریمﷺ  نے عورتوں اور بچوں کوکسی شادی سے آتے دیکھا تو آپ خوشی کے مارے جلدی سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا:۔

’’اﷲ(گواہ رہے )تم لوگ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب ہو‘‘    (بخاری: ۵۱۸۰)

عورتوں کی یہ شرکت مشروط ہے شرعی ہدایات و آداب کی پابندی کے ساتھ، اور وہ یہ کہ وہ مکمل پردے میں ہوں، انہوں نے مہکنے والی خوشبو نہ لگا رکھی ہو اور دعوت میں مردو عورت کا اختلاط نہ ہو۔

ایسی دعوت میں شرکت جائز نہیں جس میں معصیت و گناہ کی کوئی بات پائی جاتی ہو، سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’میں نے کھانا تیار کیا اور رسول اللہﷺ  کو مدعو کیا، آپﷺ  آئے اور گھر میں کچھ تصویریں دیکھیں تو لوٹ گئے، میں نے (حاضر ہو کر) عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کس وجہ سے لوٹ گئے، فرمایا:گھر میں ایک پردہ تھا جس میں کچھ تصویریں تھیں، اور فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں ‘‘        (ابن ماجہ :۳۳۵۹)

حافظ مبشر حسین لاہوری ایسی دعوتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں جن میں شرکت جائز نہیں :

۱)…اگر دعوت ولیمہ کے موقع پر ڈھول ڈھمکے، سارنگیاں طبلے، بینڈ باجے، رقص وسرود، گانے بجانے، فلم بنانے اور اس جیسی منکرات کا وجود ہو توایسی دعوت، مجلس اور مقام پر شرکت کی صرف یہی ایک صورت جائز ہے کہ متعلقہ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ کی جائے لیکن اگر اس کی قدرت نہ ہو تو پھر ایسی دعوت اور مجلس میں شرکت قطعی حرام ہے۔

۲)…اگر دعوت ولیمہ کے موقع پر حرام اور ناجائز اشیاء وغیرہ کا اہتمام کیا گیا ہو یا صاحب دعوت کی کمائی حرام کی ہو تو اس کی دعوت میں شرکت کرنا منع ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا:

’’جو شخص اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور دورہ ہو‘‘(ترمذی:۲۸۰۱، ابوداؤد:۳۷۷۰)

۳)…جہاں جاندار چیزوں کی تصویر کا شوقیہ اہتمام کیا گیا ہو، وہاں بھی شرکت درست نہیں (جیساکہ حدیث گزر چکی ہے۔ ۔ )

۴)…ایسی دعوتِ ولیمہ میں شرکت سے گریز کرنا چاہئے جہاں فخر و ریاکاری کیلئے کھانے پینے کا انتظام کیا گیا ہو(اس لئے کہ نبیﷺ  نے اس سے منع فرمایا ہے، حدیث گزر چکی ہے )  (ھدیۃ العروس ص۱۶۱۔ ۱۶۳)

 

                نکاح سے متعلق بعض غیر شرعی رسومات

 

نکاح سے متعلق گزشتہ صفحات میں جو باتیں آپ نے ملاحظہ فرمائیں ان میں شریعت سے ثابت شدہ امور و احکام کے پہلو بہ پہلو بعض غیر شرعی اور خرافات و منکرات کی وضاحت بھی آپ کے ملاحظے میں آئی، اب اس سلسلے کے آخر میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اور شادی سے متعلق بعض ان بدعات و خرافات کی طرف سرسری طور پر اشارہ کر دیا جائے جن کی مسلم معاشرے میں بڑی پابندی کی جاتی ہے حالانکہ قرآن وسنت سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، جیسے :

٭… محرم، صفر اور ماہ رمضان میں اور بعض دیگر دنوں میں شادی نہ کرنا۔

٭…شادی سے قبل مہندی، مانجے اور سانچک کی رسم جس میں ناچ گانے کے علاوہ نوجوان مردو عورت کا اختلاط اور  بے حیائی کی دوسری باتوں کا ارتکاب ہوتا ہے، یہاں ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مردوں کے لیے مہندی لگانادرست نہیں، یہ صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے، مرد صرف سر اور داڑھی کے بالوں میں مہندی لگا سکتا ہے، جیساکہ احادیث گزر چکی ہیں۔

٭…سہرہ بندی کی رسم اور دولہے کو ہار پہنانا۔

٭…دولہا اور دلہن کو سلامیاں دینا۔

٭…بارات کے ساتھ بینڈ باجے کا اہتمام اور بعض لوگوں کا ناچنے اور گانے والے مردو عورت کومدعو کرنا۔

٭…نکاح کے موقع پر پیسے لٹانا۔

٭…نکاح پڑھاتے وقت لڑکے اور لڑکی کو کلمے پڑھانا۔

٭…نکاح کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی یا انفرادی دعا کرنا، ایسا کرنا نبیﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔

٭…نکاح کے بعد چھوہارے لٹانا۔

٭…دودھ پلائی کی رسم ادا کرنا۔

٭…لڑکی کو قرآن کے سائے میں رخصت کرنا۔

٭…مٹھی بھر چاول پھینکنے کی رسم ادا کرنا۔

٭…دولہا کے گھر میں داخلے سے پہلے دروازے کی چوکھٹوں پر تیل ڈالنا۔

٭…منہ دکھائی اور گود بٹھائی کی رسم ادا کرنا۔

٭…لڑکے کے جوتے چھپانا اور پھر پیسے لے کر واپس کرنا۔

٭… دولہے کے آنے تک مہمانوں کو کھانے کے لیے انتظار کرانا۔

٭…شادی کے موقعوں پر گھروں میں چراغاں کرنا اور غیر ضروری قمقموں کا اہتمام کرنا حالانکہ یہ غیر شرعی عمل اور آتش پرستوں کی نقل ہے۔

ان رسومات میں بعض وہ ہیں جنہیں ہم بد عقیدگی کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے، جبکہ بعض کی حیثیت محض بیجا قسم کے جاہلانہ خرافات کی ہے، یہ رسومات خواہ کسی ضمن میں آئیں ان سے اجتناب کرنا اور مسلم معاشرہ کو ان سے نجات دلانے کی کوشش کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ لوگوں کی بد عقیدگی و خرافات سے حفاظت کے ساتھ ساتھ نکاح کا عمل بھی آسان ہو سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نکاح – دائمی رفاقت نہ کہ عارضی ہم سفری

 

 

نکاح کے ذریعہ جس رشتۂ  ازدواج کا ظہور عمل میں آتا ہے اس سے جہاں نسل انسانی کی افزائش و ترقی کا بنیادی مقصد حاصل ہوتا ہے وہیں مرد و عورت کی زنا و بدکاری سے حفاطت کا سامان بھی ہوتا ہے، اسلئے شریعت اسلامیہ اپنی ہدایات و تعلیمات کے ذریعہ اس بات کی پوری کوشش کرتی ہے کہ مرد و عورت جب ایک مرتبہ رشتۂ زوجیت سے منسلک ہو جائیں تو پھر وہ آخری دم تک اس رشتہ سے جڑے رہیں تاکہ نکاح کے مذکورہ مقاصد کی کماحقہ تکمیل ہو سکے۔

اسی لئے شریعت اسلامیہ میں نکاح کی ان شکلوں کیلئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی جو محض وقتی اور عارضی (شہوانی یا غیر شہوانی ) مصلحت کیلئے وجود میں آئیں۔

 

نکاح متعہ اور اس کی حرمت

 

چنانچہ اسلام نے ’’نکاح متعہ‘‘ کو حرام قرار دیا ہے، متعہ کسی عورت سے ایک مقررہ مدت تک کے لئے نکاح کر لینے کو کہتے ہیں، ابتدائے اسلام میں اس نکاح کو وقتی طور پر  ضر ورتاً اور مصلحتا ً جائز رکھا گیا تھا، سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :۔

’’ہم رسول اﷲﷺ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے تھے، ہمارے ساتھ ہماری بیویاں نہیں ہوتی تھیں، اس لئے ہم نے عرض کیا کہ ہم اپنے آپ کو خصی کیوں نہ کر لیں ؟ آپﷺ نے اس سے روک دیا اور رخصت دے دی کہ ہم کسی عورت سے کپڑے یا(کسی بھی چیز) کے عوض نکاح کر لیں ‘‘ (بخاری کتاب التفسیر :۴۶۱۵، مسلم:۱۴۰۴)

لیکن ۷ھ میں فتح خیبر کے موقع پراسے حرام قرار دیا گیا، جیساکہسیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :۔

’’نبیﷺ نے جنگ خیبر کے وقت نکاح متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا‘‘(بخاری:۵۱۱۵، مسلم، :۱۴۰۷)

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق :۔

’’پھر غزوۂ اوطاس کے موقع پر تین دنوں کے لئے نکاح متعہ کی اجازت دی پھراس سے منع فرما دیا‘‘       (مسلم:۱۴۰۵وغیرہ)

ابتدائے اسلام میں جتنی مرتبہ بھی متعہ حلال ہوا وہ صرف اضطرار اور ضرورت شدیدہ کی بنا پر غزوات اور حالت سفرمیں ہوا کسی موقعہ پر بھی اس کی حلت حضر میں نہیں ہوئی جیساکہ مذکورہ روایتوں سے واضح ہے، مزید سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :۔

{اِنَّمَاکَانَتِ الْمُتْعَۃُلِخَوْفِنَاوَلِحَرْبِنَا}

’’حالتِ خوف اور غزوات کی وجہ سے متعہ حلال ہوا تھا‘‘

(السنن الکبریٰ ۷/۲۰۷)

 

نکاحِ حلالہ کی حرمت

 

اسی طرح نکاحِ حلالہ کو بھی حرام ٹھہرایا گیا ہے، علامہ ابن القیمؒ تحریر فرماتے ہیں :۔

’’حلالہ کہتے ہیں جس عورت کو تین طلاقیں ہو چکی ہوں اس کا نکاح کسی سے صرف اسلئے کر دینا کہ وہ اگلے خاوند کے لئے حلال ہو جائے یہ نیا خاونداس سے سیاہ کاری کر کے اس کو طلاق دے تو پہلا دیوث خاوند اس سے پھر نکاح کر لے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، حلالہ در اصل خفیہ زنا ہے جو شرعاً حرام محض ہے ‘‘     ( اعلام المؤقعین مترجم ج۲ص۷۶)

رسول اﷲﷺ نے محلِّل(حلالہ کی نیت سے نکاح کرنے والے )اور محلَّل لہ (پہلے شوہر)دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔ (ترمذی : ۱۱۲۰، نسائی، احمد، بیہقی)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:۔

’’کیا میں تمہیں ادھار کے سانڈکی خبر نہ دوں ؟‘‘

صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کیوں نہیں !اے اﷲ کے رسول !تو آپﷺ نے فرمایا:۔

’’وہ حلالہ کرنے والا ہے، اﷲ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘   (ابن ماجہ کتاب النکاح دارقطنی، بیہقی، ارواء الغلیل ۶/۳۰۰)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :۔

’’اﷲ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے دونوں لائے گئے تو دونوں کو رجم کر دوں گا‘‘  (ابن ابی شیبہ ۴/۲۹۴، عبدالرزاق ۹/۳۴۹، بیہقی۷/۲۰۸)

سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا، انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا:۔

’’یہ عورت حلالہ کے ذریعہ پہلے شوہر کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعہ لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ ہو اور دھوکا دہی سے پاک ہو‘‘                    ( بیہقی ۷/ ۲۰۸، ۰۹ ۲ )

اسی طرح سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پو چھا گیا جس نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دیں، پھراس کے بھائی نے اس کے مشورہ کے بغیراس سے اس لئے نکاح کر لیاتاکہ وہ اس عورت کواپنے بھائی کے لئے حلال کر دے کیا اس طرح یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے ؟سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقہ کورسول اﷲﷺ کے زمانے میں بدکار ی  ( زنا) شمار کرتے تھے۔        (حاکم: ۲۸۰۶، بیہقی ۷/۲۰۸، التلخیص الجبیر ۳ /۱ ۷ ۱ )

ایک روایت کے الفاظ ہیں :۔

’’حلالہ کرنے والے مردو عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں وہ زنا ہی کرتے رہیں گے جبکہ مقصد عورت کو پہلے شوہر کیلئے حلال کرنا ہو‘‘۔  (حاکم ۱۹۹/۲، بیہقی۲۰۸/۷)

نکاح متعہ اور نکاح حلالہ دونوں میں ایک مشترک بات یہ پائی جاتی ہے کہ دونوں میں نکاح سے مقصودگھربسانا اور توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کرنا نہیں ہوتا، اسی طرح ان کی بنیاد محبت و مودت پر نہیں ہوتی بلکہ ایک میں محض جنسی خواہش کی تسکین اور دوسرے میں ایک ناجائز چیزکو جائزٹھہرانے کا غلط ارادہ و نیت کار فرما ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں منشائے شریعت کے ساتھ کھلواڑ کی مترادف ہیں۔

 

نکاحِ شغار کی حرمت

 

اسلام نے اس سلسلے میں اس حد تک اہتمام کیا ہے کہ اس نے نکاح کی اس شکل کو بھی حرام قرار دیا ہے جو آگے چل کر آپسی تعلق کے بگاڑ اور شادی شدہ زندگی کے مقصد کو ٹھیس پہنچانے کی باعث بنے، نکاح کی ایسی ہی ایک شکل ’’شِغار ‘‘ کی ہے، جسے ہم اردو میں   ’’ تبادلے کا نکاح‘‘ کہہ سکتے ہیں اور جس کی تعریف یہ ہے کہ ’’کوئی آدمی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کسی سے اس شرط پر کرے کہ وہ بھی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی اس سے کر دے گا‘‘ (مسلم : ۱۴۱۶ وغیرہ )شریعت میں اس نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے، سیدنا عباس بن عبد اللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبد الرحمن بن حکم سے کیا اور عبد الرحمن نے ان سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، دونوں نے مہر مقرر کیا تھا، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم کو ایک خط لکھ کر ان دونوں کے درمیان جدائی کا حکم دیا اور کہا کہ یہ وہی ’’شغار‘‘ جس سے رسول اللہﷺ  نے منع فرمایا ہے۔   (ابوداؤد:۲۰۷۵، احمد ۴/۹۴)

حافظ مبشر حسین لاہوری حفظہ اللہ نکاح شغار کی حرمت کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’دراصل شادی کے بعد میاں بیوی میں نباہ ہو گا یا نہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا خواہ شادی سے پہلے دونوں فریق راضی ہی کیوں نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ وٹہ سٹہ (شغار )کی شادی میں ایک شادی تو کامیاب ثابت ہو اور دوسری ناکام ہو جائے، ناکامی کا نتیجہ طلاق یا کم از کم تعلقات کی خرابی کی شکل میں سامنے آتا ہے، اب اگر ایک طرف ناکامی ہوتی اور طلاق تک نوبت پہنچتی ہے تو دوسری طرف بھی طلاق محض اس کا بدلہ لینے کیلئے کامیاب شادی کو توڑ دیا جاتا ہے ورنہ دھمکی دی جاتی ہے کہ دوسری طرف بھی طلاق نہ دی جائے ورنہ ادھر بھی طلاق دے دی جائے گی، ان دونوں صورتوں میں بہت سی قباحتیں جنم لیتی ہیں ‘‘   (ھدیۃ العروس ص ۳۸۷)

 

طلاق و خلع کی اجازت انتہائی مجبوری میں ؟

 

اسلام کی نگاہ میں چونکہ نکاح کا مقصد دائمی محبت اور زندگی بھر کی رفاقت و صحبت ہے، اس لئے وہ طلاق کو انتہائی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس ناپسندیدگی کا اندازہ ان روایتوں سے کیا جا سکتا ہے، نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے :۔

’’اللہ تعالی کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ ایک آدمی کسی عورت سے نکاح کر لے اور جب اپنی ضرورت پوری کر لے تو اسے طلاق دیدے اور اس کا مہر بھی اس کو نہ دے ‘‘(ترمذی : ۱۱۸۷، الصحیحۃ: ۹۹۹)

نبی اکرمﷺ نے بغیرکسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کوسخت وعید سنائی ہے، آپﷺ کا ارشادہے :۔

’’جو عورت اپنے شوہرسے بغیرکسی وجہ کے طلاق کامطالبہ کرے اس پرجنت کی خوشبو حرام ہے ‘‘(ابوداؤدکتاب الطلاق: ۳۲۶۲، احمد۵/۲۷۷، وغیرھما)

آپﷺ  نے اس شخص کوبھی شدید وعید سنائی ہے جو میاں اور بیوی کے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کرے، آپﷺ کا ارشاد ہے :۔

’’جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر سے برگشتہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘ (ابوداؤد :۲۱۷۵)

دراصل طلاق سے نہ صرف یہ کہ بدکا ری کے دروازے کھلتے ہیں بلکہ خاندانوں میں دوریاں اور بغض وعداوت پیدا ہو جاتی ہے نتیجے میں معاشرہ عدم استحکام کی مصیبت سے دو چارہو جاتا ہے، ساتھ ہی بچوں کا مستقبل بھی تباہ وبرباد ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ابلیس کو مرد و عورت کی جدائی سے حد درجہ کی دلچسپی اور خوشی ہے، رسول اﷲﷺ  کا ارشاد ہے :۔

’’ابلیس ‘‘اپناتخت (سمندرکے )پانی پررکھتا ہے پھروہ لوگوں کوگمراہ کرنے کے لئے (زمین کے ہرگوشے میں )اپنے فوجی دستے بھیجتا ہے اس کے ہاں سب سے زیادہ مقرب وہ شیطان ہوتا ہے جوبہت بڑافتنہ پردازہو(وہ سب واپس آ کر اپنے اپنے کام کی رپورٹ دیتے ہیں ) ان میں سے ایک کہتا ہے میں نے اس طرح اور اس طرح کیا ہے ’’ابلیس‘‘ کہتا ہے تونے کچھ نہیں کیا، پھران میں سے ایک اور شیطان آ کر کہتا ہے میں نے فلاں آدمی کونہیں چھوڑایہاں تک کہ میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفرقہ ڈال دیا’’ابلیس ‘‘اسے اپنے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے اچھا ایجینٹ توتوہی ہے اور پھراسے گلے سے لگالیتا ہے ‘‘(مسلم:۷۲۸۴)

شیخ الحدیث عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں :۔

’’(میاں اور بیوی کی تفریق اور جدائی سے ابلیس کی مسرت وخوشی کی) وجہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی عقد اور معاہدہ ہے جس کے ذریعہ بیوی   حلا ل ٹھہرتی ہے، ابلیس چاہتا ہے کہ اس گرہ(عقد) کو کھول دے جسے شریعت نے باندھا ہے تاکہ شریعت کی حرام کردہ چیز حلا ل ہو جائے، زناکی کثرت ہو، حرامی بچے پھیلیں، زمین پر فتنہ وفساد کی گرم بازاری ہو، شرعی حدود پامال ہوں اور حدود اللہ سے تجاوز کیا جائے، یہ باتیں امام طیبیؒ نے لکھی ہیں، حدیث سے مقصود زوجین میں تفریق کے اسباب سے باز رہنے کی تاکید ہے اس لئے کہ زوجین کے درمیان تفریق کی صورت میں زنا میں پڑنے اور سلسلۂ   نسل کے منقطع ہونے کا خدشہ ہے ‘‘                (مرعاۃالمفاتیح  ۱/۳۸۱)

طلاق وخلع کو ناپسند کرنے کے باوجود، اسلام نے ان دونوں کیلئے گنجائش رکھی ہے اور ان کی اجازت دی ہے، کیوں ؟ تو اس کا جواب مختصرا یہ ہے کہ انسانی طبیعتیں فطری طور پر مختلف واقع ہوئی ہیں، طبیعتوں کے اس فطری اختلاف سے میاں اور بیوی مستثنی نہیں ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ اختلاف کبھی اس حد میں داخل ہو جا ئے کہ میاں اور بیوی کیلئے ایک دوسرے کو یا ان میں سے کسی ایک کیلئے دوسرے کوبرداشت کر پانا ممکن نہ رہے، یا اور کوئی ناپسندید گی کاسبب ایسا نکل آئے کہ ان کا ایک ساتھ رہنا مشکل ہو جا ئے، اب ایسی صورت میں ان کو زبردستی ساتھ رہنے پرمجبور کرنا ان کے ساتھ ظلم ہونے کے ساتھ مقاصد نکاح کے حصول کے عین برعکس بلکہ کسی ناخوشگوار حادثہ(قتل و بدکاری وغیرہ) کا ذریعہ اور وسیلہ ہو گا، بنا بریں شریعت اسلامیہ نے افراط وتفریط سے ہٹ کر میاں اور بیوی کو ایک دوسرے سے علاحدگی اختیار کر لینے کی اجازت دی ہے، اسلئے کہ قرآن کے الفاظ میں :

’’اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں تو اللہ اپنے فضل سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے ‘‘    (النساء : ۱۳۰)

یعنی عین ممکن ہے کہ اللہ مرد کیلئے اس کے مناسب حال اور عورت کے لئے اس کی مطلوبہ صفات کاحامل جوڑا مہیا کر دے۔

جدائی اور علاحدگی میں پہل اگر مرد کی طرف سے ہو تو اسے ’’طلاق ‘‘کہتے ہیں اور اگر جدائی کامطالبہ عورت کی طرف سے ہو تو یہ’’خلع ‘‘ ہے، طلاق وخلع کے درمیان فرق یہ ہے کہ طلاق کے ذریعہ مرد بذات خود علاحدگی اختیار کرسکتا ہے، طلاق میں مرد مہر کی ادائیگی کا یا ادا کرچکا ہوتوواپس نہ لینے کا مکلف ہے، طلاق کی عدت تین حیض یا تین ماہ یا حمل کی صورت میں وضع حمل ہے، جبکہ خلع میں عورت مرد سے طلاق کا مطالبہ کرے گی اگر وہ تسلیم کر لے تو ٹھیک ورنہ عدالتِ شرعی یا جہاں شرعی عدالت کا وجود نہ ہو علما ء کی جماعت یاعام نیک اور پرہیز گار مسلمانوں کی پنچایت کے ذریعہ وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے یعنی وہ بذات خود طلاق دینے کا اختیار نہیں رکھتی، مردکو اس سے مہر کی حد تک ایک خاص رقم یادوسری چیز وصول کرنے کا اختیارہو گا۔

اس سلسلے میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ اے اللہ کے رسول ! میں (اپنے شوہر) ثابت پر دین و اخلاق کے سلسلے میں کوئی الزام تو نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں کفر (شوہر کی نافرمانی جس کا انہیں ناپسند کرنے کی وجہ مجھے ڈر ہے )کو پسند نہیں کرتی، آپﷺ  نے فرما یا کیا تم انہیں ان کا (مہر میں دیاہوا) باغ لوٹاتی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں تو آپﷺ نے سیدناثابت سے فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور اسے ایک طلاق دے دو‘‘ (بخاری کتاب الطلاق : ۵۲۷۳)

 

 خلع کی عدت ایک حیض، ایک ماہ یا وضع حمل ہے

 

اسلام نے طلاق وخلع کی اجازت ضرور دی ہے لیکن اس اجازت کی حیثیت ایک اضطراری امر اور آخری ناگزیرچارۂ کار کی ہے، ورنہ اسلام نے آخری حد تک اس بات کی پور ی کوشش کی ہے کہ عورت ومرد کا اختلاف اس آخری انجام کو نہ پہنچے، اس سلسلے میں اسلام نے تاکید کی ہے کہ کوئی ناپسندیدہ معاملہ پیش آئے یا مرد کسی بنا پر عورت کو پسند نہ کرے تو اسے صبر ودرگذر سے کام لینا چاہئے۔

اسلام نے واضح لفظوں میں تاکید کی ہے کہ عورت کی طرف سے اگر کوئی ناپسندیدہ بات پیش آتی ہے تو پہلے اسے نصیحت کی جائے، اگر اس سے کام نہ چلے تو وقتی اور عارضی جدائی کا وسیلہ اختیار کیا جائے، پھر بھی نہ سمجھے تو (ہلکے اندازمیں اور چہرہ وغیرہ نازک اعضاء سے بچتے ہوئے )ماراجا ئے، قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر کوئی راستہ نہ تلاش کرو(النسائ: ۳۴)ان کوششوں کے ناکام ہو جانے کے بعد بھی دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقرر ہو اور وہ اصلاح کی پوری کوشش کریں، اب بھی بات نہ بنے تو ظاہر سی بات ہے کہ آخری چارہ طلاق وجدائی ہے، اس مرحلہ پر بھی اسلام ملانے کے مواقع ڈھونڈتا ہے اور اپنی والی پوری کوشش کرتا ہے کہ شاید بات بن جائے اور نباہ کی کوئی صورت نکل آئے چنانچہ اسلام نے تاکید کی ہے کہ حیض کی حالت میں عورت کو طلاق نہ دی جا ئے، مولانا محمد اقبال کیلانی کے لفظوں میں :

’’حیض ایک بیماری کی کیفیت ہے جس میں قدرتی طور پر مرد اور عورت میں کچھ دوری پیدا ہو جاتی ہے جبکہ حالت طہر میں قدرتی طور پر مرد اور عورت ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں ‘‘   ( طلاق کے مسائل ص ۱۰)

طلاق کی تعداد ایک کی بجائے تین متعین کی گئی ہے، تین طلاقوں میں دو مرتبہ کی طلاقیں رجعی ہیں یعنی اگر شوہر چاہے تو ان کے بعد بھی بیوی سے رشتہ استوار کرسکتا ہے، اس کیلئے  طلاق کے بعد عورت کیلئے عدت کا ایک طویل وقفہ رکھا گیا ہے اور اس وقفہ میں مرد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ عورت کو گھر سے نہ نکالے نہ عورت خود ہی گھر سے نکلے، اس مدت میں نفقہ کی ذمہ داری حسب سابق مرد ادا کرتارہے، مرد عدت کے اس وقفہ میں بغیر نکاح کے اپنی بیوی کو لوٹا سکتا ہے، ہاں عدت گذرجانے کے بعد اسے ازسر نو نکاح کے عمل سے گذرنا پڑے گا، واضح ہے کہ یہ ساری تدبیریں اور احکامات تعلقات ختم کرنے کیلئے نہیں بلکہ ازسرنو بحا ل کرنے کیلئے ہیں۔

کامیاب شادی شدہ زندگی کے سنہری اسلامی اصول وہدایات:

نکاح کے مقصود حقیقی کی حفاظت کیلئے اسلام نے میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے ذمے ایسے فرائض لگا دیئے ہیں اور دونوں ہی کیلئے ایسے حقوق متعین کر دیئے ہیں جن کی حفاظت ونگداشت سے شادی شدہ زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے اور محبت ورفاقت کو دوام واستحکام کی دولت سے سرفراز کیا جا سکتا ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

’’اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پرمردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ‘‘  (البقرہ:۲۲۸)

اسی طرح نبی اکرمﷺ  کا ارشاد ہے :

’’یاد رکھو!جس طرح تمہارا حق تمہاری بیویوں پرہے (اسی طرح) تمہاری بیویوں کاحق تم پر ہے ‘‘(ترمذی:۱۱۷۳، ابن ماجہ :۱۸۵۱)

آئیے ہم ان حقوق وفرائض کا مطالعہ عقیدت کی نگاہ اور عمل کی نیت کے ساتھ کرتے ہیں۔

 

 میاں کے فرائض اور بیوی کے حقوق

 

۱۔ بیوی کا شوہر کے اوپر پہلا حق یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ اچھی معاشرت اور بہتر سلوک کا اہتمام کرے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

{وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ }

’’ان کے ساتھ اچھے طریقہ سے بودوباش رکھو‘‘(النسائ:۱۹)

اچھے طریقے سے بودوباش رکھنے اور حسن معاشرت کا مطلب یہ ہے کہ جب مرد خود کھائے تو اس کے کھانے کا بھی انتظام کرے، جس طرح خود پہنے اسی طرح اسے بھی پہنائے، اگراس کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات(نافرمانی وغیرہ) پیش آئے تو پہلے اسے نصیحت کی جائے، اگر اس سے کام نہ چلے تو وقتی اور عارضی جدائی کا وسیلہ اختیار کیا جائے، پھر بھی نہ سمجھے تو ہلکے اندازمیں اور چہرہ وغیرہ نازک اعضاء سے بچتے ہوئے مارا   جا ئے، جیساکہ اللہ تعالی نے سورۂ نسائ(آیت:۳۴) میں رہنمائی فرمائی ہے اور نبی اکرمﷺ  نے حجۃ الوداع کے اپنے خطا ب میں فرمایا تھا:۔

’’سنو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو، اسلئے کہ وہ تمہارے ماتحت ہیں، تم ان سے اس (ہم بستری کے اور اپنی عصمت اور تمہارے مال کی حفاظت ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے، ہاں اگر وہ کسی بڑی کوتاہی اور بدزبانی (یاکھلی بے حیائی)کا ارتکاب کریں (تو سزا دے سکتے ہو ) تواگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں سے دور کر دو اور انہیں مارو لیکن اذیت ناک مار نہ ہو، پھر وہ تمہاری فرمانبرداری اختیارکر لیں تو ان کیلئے کوئی اور راستہ مت ڈھونڈو(طلاق وغیرہ کا)یاد رکھو!جس طرح تمہارا حق تمہاری بیویوں پرہے (اسی طرح)تمہاری بیویوں کاحق تم پر ہے، تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور ایسے لوگوں کوگھر کے اندرآنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے، سنو!اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ ان کی پوشاک اور خوراک میں اچھا سلوک کرو‘‘                (ترمذی، ابواب النکا ح: ۳ ۶ ۱۱ )

یہ آدمی کے اخلاق کے کامل اور ایمان کے مکمل ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے کہ وہ اپنے گھر والوں پر شفیق ومہربان ہو، جیساکہ نبی اکرمﷺ  نے ارشاد فرمایا :

’’مؤ منوں میں ایمان کے اعتبار سے سب سے کامل وہ ہیں جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والے ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کیلئے تم میں سب سے بہتر ہوں ‘‘(ترمذی:۱۱۷۲)

عورت کا اکرام وعزت مرد کی شخصیت کے کامل ہونے کی دلیل ہے اور عورت کی اہانت وتذلیل اس کی خست وکمینگی کی علامت ہے، عورت کے اکرام میں یہ بات داخل ہے کہ اس کے ساتھ دلجوئی وخوش طبعی کا مظاہر ہ کیا جائے جیسا کہ نبی اکرمﷺ  کیا کرتے تھے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

’’رسول اللہﷺ  نے مجھ سے دوڑ کا مقابلہ کیا، میں ان سے آگے نکل گئی، پھر ایک مدت بعد جب میں پُرگوشت اور جسمانی اعتبارسے بوجھل ہو چکی تھی آپ نے مجھ سے مقابلہ کیا اور آپ آگے نکل گئے اور فرمانے لگے یہ پچھلے مقابلے کا بدلہ ہو گیا ‘‘           (ابوداؤد:۲۵۶۱)

نبی اکرمﷺ نے ہر قسم کے کھیل کو باطل شمار کیا ہے سوائے اس کے جو اپنی بیوی کے ساتھ ہو، آپﷺ  نے ارشاد فرمایا:

’’ہر وہ چیز جس کے ذریعے آدم کا بیٹا دل بہلائی کا کام لے باطل ہے سوائے تین چیزوں کے، اس کا اپنی کمان سے تیر چلانا، اپنے گھوڑے کو سدھانا اور تیار کرنا اور اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی اور خوش طبعی کرنا، یہ چیزیں حق اور درست ہیں ‘‘    (صحیح ابن ماجہ:۴۵۳۴)

۲۔ بیوی کا شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس کی تکلیف دہ باتوں پر صبر کرے اور اس کی لغزشوں سے در گزر کرتا رہے، نبیﷺ  کا فرمان ہے :

’’کوئی مومن شخص( اپنی) مومنہ (بیوی)سے بغض نہ رکھے، اگراس کی ایک عادت ناپسندہو گی تواس کی کسی دوسری عادت کووہ پسند بھی کرے گا‘‘  (مسلم :۱۴۶۹)

اور آپﷺ  نے  فرمایا:۔

’’عورتوں کے ساتھ بھلائی کی وصیت قبول کروبلاشبہ ان کی پیدائش پسلی کی ہڈی سے ہوئی ہے، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کے اوپر کا حصہ ہوتا ہے، اگر تم اسے سیدھی کرنے لگ جاؤ تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر چھوڑ دوگے تو برابر ٹیڑھی رہے گی، لہذا عورتوں کے بارے میں خیر کی وصیت قبول کرو‘‘ (بخاری کتاب النکاح :۵۱۸۴، مسلم: ۱۴۶۸)

سلف میں سے کسی نے کہا ہے :

’’عورت کے ساتھ حسن اخلاق یہ نہیں کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اس کے ساتھ حسن اخلاق یہ ہے کہ اس کی تکلیف دہ باتوں کو برداشت کر لیا جائے، اور اس کے طیش وغضب کے وقت بردباری اور تحمل کا ثبوت دیا جائے، جیسا کہ نبی اکرمﷺ  کا اسوہ ہے، آپ کی بیویاں آپ کے منہ لگ جاتی تھیں اور کوئی تو ایک رات اور دن آپ کے پاس آتی ہی نہ تھیں ‘‘     (مختصر منہاج القاصدین ص۸۷)

۳۔ عورت کا یہ بھی حق ہے کہ مرد اس کی ایسی تمام باتوں سے حفاظت کرے جو اس کے شرف وعزت کو ٹھیس پہنچانے والی ہوں اور اس کی بے عزتی کا سبب بنیں، اسے بے پردگی اور اظہار زینت سے روکے اور  مردوں کے ساتھ اختلاط سے بچائے، اس کی پوری نگہداشت کرتے ہوئے دین واخلاق کی خرابیوں سے دور رکھے اور اسے اس بات کا موقع نہ دے کہ وہ فسق وفجور کے راستے پر چل پڑے، مرد اس کا نگراں اور اس کی حفاظت وصیانت کا ذمہ دار ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

’’مرد عورتوں پر نگراں ہیں ‘‘             (النساء:۳۴)

اور آپﷺ کا ارشادہے۔

’’مرد اپنے اہل وعیال کا نگراں ہے اور اس نگرانی کے بارے میں اس سے سوال کیا جائے گا‘‘      (بخاری:۸۹۳، مسلم :۱۸۲۹)

۴۔ مرد کے ذمے عورت کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اسے ضروری دینی امور کی تعلیم دے یا اسے علم کی مجلسوں میں حاضری کی اجازت دے، اس لئے کہ دین کی اصلاح اور روح کے تزکیہ کی ضرورت اس کیلئے کھانے اور پینے کی ضرورت سے بڑھ کرہے جس کا انتظام کرنا مرد پر واجب ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’اے ایمان والو!تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر ‘‘      (التحریم:۶)

جہنم سے بچاؤ ایمان اور عملِ صالح کے ذریعے ہو گا اور عمل صالح کیلئے علم ومعرفت ضروری ہے تاکہ اس کی اس طریقے پرادائیگی ہو سکے جو شرعاً مطلوب ہے۔

۵۔ عورت کا مرد پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اسے دین پر چلنے اور نماز کی پابندی کرنے کا حکم دے، اس لئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’اپنے گھرکے لوگوں کو نماز کی تاکید کرو اور خود بھی اس پرجمے رہو ‘‘     (طہ:۱۳۲)

۶۔ مرد پر عورت کا یہ حق بھی ہے کہ وہ اسے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دے جبکہ اسے گھر سے نکلنے کی ضرورت ہو، جیسے وہ نماز با جماعت میں حاضر ہونے یا اپنے گھرکے لوگوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ملاقات کی خواہش کرے، ہاں اس شرط کے ساتھ کہ وہ باحجاب نکلے، بے پردگی کا مظاہر ہ نہ کرے، خوشبو لگا کر نہ نکلے، مردوں سے اختلاط ومصافحہ سے دور رہے اور ٹی وی دیکھنے اور گانے وغیرہ سننے سے پرہیز کرے۔

۷۔ مرد کے ذمے عورت کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے رازوں کی حفاظت کرے، اس لئے کہ وہ اس کا امین ہے اور اس کی نگہداشت وحفاظت اس کی ذمہ داری ہے، سب سے زیادہ اہمیت کا حامل راز بستر کا راز ہے، نبی اکرمﷺ  نے اس سے بطور خاص منع فرمایا ہے، سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپﷺ  نے فرمایا:۔

’’کیاکوئی مرداپنی بیوی کیساتھ کئے کام کوبیان کرتا ہے یاکوئی عورت اپنے تعلقات زن وشوئی کوبیان کرتی ہے ؟‘‘

لوگ خاموش رہے، میں نے عرض کیا اﷲکی قسم !اے اﷲکے رسول یہ (عورتیں ) بھی ایسا کرتی ہیں اور یہ (مرد) بھی ایسا کرتے ہیں توآپﷺ نے فرمایا:۔

’’ایسانہ کروکیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے نرشیطان مادہ شیطان سے راستہ میں ملے اور لوگوں کے سامنے ہی صحبت وہم بستری کرے ‘‘ (احمد۶/۴۵۷، آداب الزفاف ص۱۴۴، للالبانی)

۸۔ مرد کے او پر عورت کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس سے اپنے امور ومعاملات میں مشورے کرے بطورخاص ان امور میں جن کا تعلق دونوں سے اور ان کی اولاد سے ہو، رسول اللہﷺ  کا اسوہ یہی ہے، آپﷺ  اپنی بیویوں سے مشورے کرتے اور ان کی رائے پر عمل کرتے، صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آپﷺ  صلح کی تحریر سے فارغ ہوئے تو صحابہ سے فرمایا:اٹھو اور قربانی کر کے اپنے بالوں کو مونڈلو، آپﷺ  نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی لیکن کوئی بھی اٹھ کھڑا نہیں ہوا، جب آپ نے یہ صورتحال دیکھی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور لوگوں کے اس طرز عمل کا ذکر فرمایا، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عر ض کیا :اے اللہ کے نبی کیا آپ ایسا چاہتے ہیں ؟ تو جائیے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنے اونٹ ذبح کر دیجئے اور اپنے بال مونڈنے والے کو بلا کر بال مونڈوا لیجئے، آپﷺ  نے ایسا ہی کیا، اب کیا تھا، صحابہ سارے کے سارے اٹھ کھڑے ہوئے، قربانی کی اور آپس میں ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے، غم میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے بعضوں کا معاملہ ایسا ہورہا تھا کہ کہیں وہ ساتھی کو قتل نہ کر دیں، اس طرح اللہ تعالی نے اپنے رسولﷺ  کیلئے ان کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی رائے میں خیر رکھدی۔

۹۔ مرد کے اوپر عورت کا یہ حق بھی ہے کہ وہ عشاء کے بعد فورا اس کی طرف لوٹ آئے، گھر سے باہر اس سے دور رہ کر دیر رات گئے تک جاگتا نہ رہے کہ یہ چیز عورت کی بے خوابی اور پریشانی کا سبب بنے گی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر برابر ایسا ہو تو اس سے اس کے سینے میں شکوک وشبہات جنم لیں، مرد پر عورت کا تو اس سے آگے بڑھ کر یہانتک حق ہے کہ وہ اس کاحق ادا کئے بغیر گھر میں بھی اس سے دور رہ کر جاگتا نہ رہے خواہ یہ نماز کیلئے ہی کیوں نہ ہو، نبی اکرمﷺ نیسیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص   رضی اللہ عنہما کو اس حوالے سے تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’بلاشبہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ‘‘  (بخاری :۱۹۷۵، مسلم:۱۱۵۹)

۱۰۔ مرد پر عورتوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اگر اس کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان کھانے پینے، لباس، رہائش اور بستر پر رات گزارنے کے سلسلے میں عدل اور انصاف سے کام لے، ان میں سے کسی بات میں کوتاہی ظلم اور نا انصافی ہے جو کہ سخت حرام ہے۔

اسلامی بھائیو! یہ وہ حقوق ہیں جو عورتوں کے آپ کے ذمے ہیں، ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا اور اس سلسلے میں کوتاہی سے حتی الامکان بچنا آپ کی ذمہ داری ہے، ان حقوق کی ادائیگی آپ کو ازدواجی زندگی میں سعادت ومسرت سے ہمکنار کرے گا، اور اس سے گھروں کواستحکام وسلامتی حاصل ہونے کے ساتھ ان تمام باتوں سے حفاظت نصیب ہو گی جو آپ کی راتوں کی نیند حرام کریں اور آپ سے آپ کا چین وسکون چھین لیں۔

خواتین کو بھی ہماری نصیحت ہے کہ اگر شوہر کی طرف سے کسی حق کی ادائیگی میں کو ئی کوتاہی ہوتی ہے تو وہ نظر انداز کریں اور اس کوتاہی کا جواب مزید ان کی خدمت واطاعت کے ذریعے دیں، اس طرح ازدواجی زندگی کی گاڑی شاداں وفرحاں ہمیشگی وکامیابی کی منزل کی طرف گامزن رہے گی۔

 

بیوی کے فرائض اور شوہر کے حقوق

 

بیوی کے اوپر مرد کا حق بڑا عظیم ہے، نبی اکرمﷺ  نے اس حق کی عظمت کو ان لفظوں میں فرمایا:

’’شوہر کا بیوی کے اوپر ایسا حق ہے کہ اگر شوہر کو (پیپ آلود)زخم ہواور بیوی اس کو چاٹ لے تب بھی اس نے حق ادا نہیں کیا‘‘     (صحیح ابن ماجہ :۳۱۴۸)

ہوشمند اور عقلمند عورت وہی ہے جو اُن چیزوں کو عظمت کی نگاہ سے دیکھے جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے باعظمت بنایا ہے، ایسی ہی عورت اپنے شوہر کی پوری قدرداں ہوتی ہے اور اس کی اطاعت وفرماں برداری میں لگی رہتی ہے، اسلئے کہ شوہر کی اطاعت جنت میں لے جانے کے اسباب میں سے ہے، جیساکہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا :

’’عورت جب پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اس کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ ‘‘ (صحیح ابن ماجہ :۶۶۰)

اے مسلمان خاتون! غور کیجئے کہ کس طر ح شوہر کی اطاعت کو اسی طرح جنت کو واجب کر دینے والی چیزوں میں شمار کیا گیا ہے جس طرح نماز اور روزوں کو جنت میں داخل ہونے کا سبب بتایا گیا ہے، تو آپ شوہرکی اطاعت کو لازم پکڑئیے اور اس کی نافرمانی سے بچئے، کیونکہ اس کی نافرمانی میں رب کی ناراضگی ہے، اللہ کے رسولﷺ  نے ارشاد فرمایا:

’’اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جوشوہراپنی بیوی کو اپنے بستر پر (آنے کی)دعوت دے اور وہ انکارکر دے توآسمان والا اس پر اس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک شوہراس سے راضی نہ ہو جائے ‘‘                  (بخاری :۵۱۹۳، مسلم :۱۴۳۶)

تو اے مسلمان خاتون! آپ کے ذمہ لازم ہے کہ آپ ایسی تمام باتوں میں اپنے شوہر کی پوری اطاعت کریں جو شریعت کی مخالف نہ ہوں، ہاں یہ اطاعت غلو کی یہ صورت بھی نہ اختیار کر لے کہ آپ گناہ اور نافرمانی میں بھی اس کی اطاعت کرتی رہیں  اگر ایسا ہوتا ہے تو آپ گناہگار ٹھہریں گی۔

مثال کے طور پر آپ اس کی خاطر خوبصورت بننے کی غرض سے وہ کام کرنے لگیں جن پر نبی اکرمﷺ  نے لعنت فرمائی ہیں۔

اسی طرح آپ اپنے شوہر کی اطاعت گھر سے بے پردہ نکلنے کے سلسلے میں کریں، اس لئے تاکہ وہ آپ کی خوبصورتی کے ذریعہ لوگوں میں فخر کرے، نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود(لباس کے تنگ یاشگاف دار      و باریک ہونے کی وجہ سے )ننگی ہوں، مردوں کی طرف مائل ہونے والی اور ان کواپنی طرف مائل کرنے والی ہوں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبوپائیں گی جبکہ خوشبوپانچ سوسال کے سفرکی مسافت سے آئے گی ‘‘(مؤطا، کتاب الجامع: ۲۶۵۲اور مسلم کتاب الجنۃ: ۳۱۲۸، الفاظ کے معمولی اضافے اور فرق کے ساتھ )

ایک دوسری روایت میں ایسی عورتوں کو ملعون قراردیا گیا ہے :۔

’’آخری زمانہ میں ایسی عورتیں ہوں گی جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان نما ہوں گے، ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ ملعون ہیں ‘‘                   (طبرانی اوسط :۹۳۳۱)

اسی طرح آپ اپنے شوہر کی اطاعت اس بارے میں کریں کہ وہ حیض کی حالت میں یا پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے، اس سے متعلق حدیث گزرچکی ہے۔

اسی طرح آپ اپنے شوہر کی اطاعت اس طرح کریں کہ اس کے کہنے پر اجنبی مردوں کے سامنے آئیں، غیر مردوں سے آپ کی ملاقات ومصافحہ وغیرہ اور ایسی تمام باتوں میں جو خلاف شرع ہیں، شوہر کی اطاعت آپ کے ذمہ فرض نہیں، اطاعت صرف نیکی اور بھلائی کے کاموں میں کرنا ہے، رب کی نافرمانی کر کے بندے کی اطاعت جائز نہیں۔

۲۔ بیوی پر اپنے شوہر کا یہ حق بھی ہے کہ وہ اپنی عزت ووقار کی حفاظت کرے، نیز شوہر کے مال، اس کی اولاد اور گھر سے متعلق تمام چیزوں کی نگہداشت کرے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’پس نیک عورتیں فرماں بردارہیں، غیر حاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں اس لئے کہ اللہ نے (انہیں )محفوظ رکھا‘‘    (النساء :۳۴)

اور نبی اکرمﷺ  کا فرمان ہے :

’’بیوی اپنے شوہرکے گھراور اس کے بچوں کی نگراں ہے، اس سے ان کے متعلق باز پرس ہو گی‘‘    (بخاری :۷۱۳۸، مسلم:۴۸۲۸ )

۳۔ مرد کا عورت پر یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کیلئے بنے سنورے، اس سے ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملے، منہ بگاڑے اور ایسی صورت بنائے اس کے سامنے نہ آئے جو اسے پسند نہ ہو، نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’بہترین عورت وہ ہے جسے آپ دیکھیں تو آپ کو خوش کر دے، جب حکم دیں تو اطاعت کرے اور آپ کی غیر حاضری میں اپنی اور آپ کے مال کی حفاظت کرے ‘‘ (صحیح ابن ماجہ :۳۲۹۹)

بہت سی خواتین کا طرز عمل اس بارے میں بالکل عجیب ہی ہوتا ہے، شوہر کے سامنے زینت اور خوبصورتی اختیارکرنے کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اگروہ گھر سے باہرنکلیں تو آرائش وزیبائش کے پورے اہتمام کے ساتھ نکلتی ہیں گویا کہ ان کا معاملہ اس عربی مقولہ کے بالکل مطابق ہوتا ہے کہ ’’گھر میں بندریا اور سڑک پر ہرنی ‘‘ ایسی اللہ کی بندیوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے، ان کی زینت وخوبصورتی کا پورا پورا حقدار ان کا شوہر ہے، غیروں کے سامنے اظہار زینت تو حرام اور انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔

۴۔ بیوی کے اوپر شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اپنے گھر کو لازم پکڑے اور شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم نہ نکالے، خواہ نماز کی خاطر مسجد جانے کیلئے ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’اور اپنے گھروں میں جمی رہو‘‘           (الاحزاب:۳۳)

۵۔ شوہر کا اپنی بیوی کے اوپر یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کوگھر کے اندر نہ آنے دے، جیسا کہ نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر ایسے لوگوں کو نہ روندنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو اور ایسے لوگوں کوگھر کے اندرآنے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے ‘‘        (ترمذی: ۳ ۶ ۱۱ )

۶۔ عورت کے ذمے مرد کا یہ حق بھی ہے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کرے اور اس کی اجازت کے بغیر اس میں سے کچھ بھی خرچ نہ کرے، نبی اکرمﷺ  کا ارشاد ہے :

’’کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کچھ بھی خرچ نہ کرے، آپ سے پوچھا گیا کھانے کی چیز بھی نہیں آپ نے فرمایا:وہ تو ہمارا سب سے عمدہ مال ہے ‘‘  (ترمذی:۲۲۰۳، ابوداؤد:۳۵۴۸)

بلکہ شوہر کا تو یہ بھی حق ہے کہ بیوی خود اپنا مال بھی اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے، جیساکہ نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’کسی عورت کیلئے جائز نہیں کہ اپنے مال میں سے کچھ بھی اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اڑائے ‘‘    (الصحیحۃ للالبانی:۷۷۵)

۷۔ بیوی پر مرد کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے، نبیﷺ  کا فرمان ہے :

’’عورت کے لئے جائزنہیں کہ اپنے شوہرکی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزے رکھے ‘‘   (بخاری: ۵۱۹۵، مسلم:۱۰۲۶ )

۸۔ شوہر کا اپنی بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ اس پر یا اس کی اولاد پر کچھ مال خرچ کرتی ہے تو اس پراحسان نہ جتلائے، اسلئے کہ احسان جتلانے سے اجروثواب باطل ہو جاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

’’اے ایمان والو!احسان جتلا کر اور تکلیف دہ بات کر کے اپنے صدقات کو باطل نہ کرو‘‘ (البقرہ:۲۶۴)

۹۔ شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ تھوڑے پر راضی رہے، موجود چیزوں پر قناعت کرے اور اسے ایسے کسی خرچ کی تکلیف نہ دے جو اس کے بس میں نہ ہو، اللہ تعا لی کا فرمان ہے :

’’خوشحال آدمی کو چاہئے کہ اپنی حیثیت کے مطابق نفقہ دے اور جسے رزق کم دیا گیا ہے وہ اسی کے مطابق خرچ دے گا جو اللہ نے اسے دیا ہے، اللہ کسی کو اسی کے مطابق تکلیف دیتا ہے جو اس نے اسے دیا ہے، اللہ جلد ہی تنگی کے بعد آسانی کر دے گا‘‘       (الطلاق :۷)

۱۰۔ بیوی پر اس کے شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ صبر کے ساتھ اس کی اولاد کی بہتر تربیت کا اہتمام کرے، اس کے سامنے اس کی اولاد پرغضبناکی کا اظہار نہ کرے، نہ بددعا دے اور نہ ہی انہیں برابھلا کہے، اس لئے کہ یہ باتیں شوہر کیلئے باعث اذیت ہوں گی اور اللہ کے رسولﷺ  کا ارشاد ہے :

’’جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہے تو حور عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے، اسے تکلیف نہ دو اللہ تمہیں غارت کرے، وہ تو تمہارے پاس مہمان ہے جلد ہی تم سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجانے والا ہے ‘‘                       (ترمذی:۱۱۸۴)

۱۱۔ شوہر کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے والدین اور شتہ داروں کے ساتھ اچھا معاملہ کرے، جوخاتون شوہر کے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بہتر برتاؤ نہیں کرے وہ شوہر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والی نہیں ہو سکتی۔

۱۲۔ شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ جب وہ بیوی کو اپنی خاص ضرورت(ہم بستری) کیلئے بلائے تو وہ انکار نہ کرے، اس لئے کہ نبیﷺ  کا ارشاد ہے :

’’جب شوہراپنی بیوی کواپنے بسترپرآنے کی دعوت دے (اور )وہ انکار کر دے اور شوہر اس سے ناراض ہو کررات بسرکرے توصبح تک اس پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں ‘‘(بخاری :۵۱۹۴، مسلم:۱۴۳۶)

اور آپﷺ  نے فرمایا:

’’جب شوہراپنی بیوی کوجماع کے لئے بلائے تواسے اس کے پاس آجاناچاہئے اگرچہ وہ تنورپرہو‘‘(ترمذی، ابواب الرضاع :۱۱۶۰)

۱۳۔ عورت کایہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر کے رازوں کی حفاظت کرے، کسی راز کو فاش نہ کرے، بطورخاص بستر کے راز کو بالکل نہ کھولے، بہت سی خواتین اس سلسلے میں کمزوری کا ثبوت دیتی ہیں، حالانکہ نبیﷺ  نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ حدیث گزرچکی ہے۔

۱۴۔ عورت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کی محبت ورفاقت کی حفاظت کی حریص رہے اور اس کے ساتھ تازندگی نباہنے کی کوشش کرے اور بغیر کسی سبب کے طلاق کا مطالبہ نہ کرے، اس سلسلے میں وعید پرمشتمل روایتیں پیچھے گزرچکی ہیں۔

اے مسلمان خاتون!یہ آپ کے اوپر عائد ہونے والے آپ کے شوہر کے حقوق ہیں، آپ کیلئے لازم ہے کہ آپ ان حقوق کی ادائیگی کی پوری پوری کوشش کریں اور اپنے حق کے سلسلے میں شوہر کی طرف سے ہورہی کوتاہی سے چشم پوشی کریں، اس طرح آپ کی محبت کودوام ملے گا، گھروں کی درستگی کا سامان ہو گا اور گھروں کی درستگی سے سماج اور اور معاشرے کی درستگی وجود میں آئے گی۔

 

ایک دانا ماں کی نصیحت اپنی بیٹی کو

 

ماؤں کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اِن حقوق کی ادائیگی کی نصیحت وتلقین کریں اور شب زفاف سے پہلے ہی ہر ماں اپنی بیٹی کو ان حقوق کی یاددہانی کرادے، سلف کی خواتین کا یہی طرزعمل اور طریقہ تھا، چنانچہ کندہ کے بادشاہ عمرو بن حجر نے ام ایاس بنت عوف شیبانی سے شادی کی، جب رخصتی اور شوہر سے ملاقات کاوقت قریب ہونے کو ہو اتو لڑکی کی ماں امامہ بنت حارث نے لڑکی کو تنہائی میں نصیحت کی، اس میں باسعادت اور خوشگوار ازدواجی کے اصول بیان کر کے رکھ دیئے، اس نے کہا:

’’اے میری بیٹی !اگر کسی کی شائستگی اور اس کے ادب وخوبی سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اسے نصیحت سے بالاتر سمجھا جا سکتا ہے توتواس کی حقدار ہے، لیکن نصیحت غافل کیلئے تنبیہ کا سامان اور عقلمند کیلئے مدد کا ذریعہ ہوتی ہے، اور اگر کوئی عورت اپنے ماں باپ کی محبت اور ان کی دولت کی بناپر شوہر سے بے نیاز ہو سکتی توتو اس کے سب سے زیادہ لائق ہے لیکن عورتیں مردوں کیلئے پیدا ہوئی ہیں اور مرد کی تخلیق عورتوں کیلئے ہوئی ہے۔

میری بیٹی !تو اس فضا سے جدا ہورہی ہے جس میں تو پیدا ہوئی اور اس گھونسلے کو چھوڑ کر جس میں تو پروان چڑھی ایسے آشیانہ کی طرف جارہی ہے جس سے تو آشنا نہیں اور ایسے ساتھی کی طرف جارہی ہے جس سے تو مانوس نہیں ہے، اب وہ اپنے اختیار کی بنیادپر تمہارانگراں اور نگہباں بن چکا ہے، پس تو اس کی لونڈی بن جا وہ تمہارا فرماں بردار غلام بن جائے گا، اور اس کے حوالے سے دس خصلتوں اور باتوں کی حفاظت کرو، یہ تمہارے لئے بطور ذخیرہ کام آئیں گی۔

ان میں پہلی اور دوسری خصلت یہ ہے کہ قناعت پسندی اختیار کرنا اور خندہ پیشانی کے ساتھ اس کی اطاعت کرنا (قناعت میں دل کا سکون اور اطاعت میں رب کی رضا پوشیدہ ہے )

تیسری اور چوتھی خصلتیں یہ ہیں کہ اس کی نگاہ اور ناک کی جگہوں کا خیال رکھنا، ایسا نہ ہو کہ اس کی نگاہیں تمہاری بدصورتی کے کسی مقام پر پڑ جائیں اور دیکھو وہ تم سے صرف عمدہ بو(خوشبو) ہی سونگھے۔

پانچویں اور چھٹی بات یہ ہے کہ اس کے سونے اور کھانے کے اوقات کا خیال رکھنا  کیونکہ بھوک کی شدت آدمی کو غضبناک کر دیتی ہے جبکہ نیند میں خلل اندازی اسے آپے سے باہر کر دیتی ہے۔

ساتویں اور آٹھویں بات یہ کہ اس کے مال کی حفاظت کرنا اور اس کی عزت اور  اس کے عیال واولاد کی نگہداشت کرنا، مال کے سلسلے میں سب سے اہم چیز اس کا عمدہ استعمال ہے اور عیال کے ساتھ سب سے زیادہ قابل توجہ بات ان کا احترام ہے۔

اور نویں ا وردسویں بات یہ ہے کہ کسی معاملے میں اس کی نافرمانی نہ کرنا، اس کے کسی راز کو فاش نہ کرنا، اگر تم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کا سینہ تمہارے خلاف غصے سے بھر جائے گا اور اگر تونے اس کے راز کو فاش کر دیا تو تو اس کی غداری اور بے وفائی سے محفوظ نہیں رہ سکتی، اگر وہ غمگین ہوتو کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس سے مسرت جھلکے اور اگر وہ مسرور ہو تو اس کے سامنے رونی صورت بنا کر نہ آنا‘‘   (مستفاد از’’الوجیز من فقہ السنۃ والکتاب العزیز‘‘)

٭٭٭

 

 

 

 

مؤلف کی دیگر کتابیں اور قلمی کاوشیں

 

تالیفات:

۱۔ باتیں سعادت وکامرانی کی (اسلامی کوئز، ۵۰۰ سے زائد سوالات وجوابات کا مجموعہ)

۲۔ غیبت یا دونوں جہاں کی مصیبت ؟             (صفحات:۶۴)

۳۔ بدعت، حقیقت اور تباہ کاریاں، شبہات ومغالطات

(ڈاکٹر طاہر القادری اور دیگر اہل بدعت کے شبہات ومغالطات کا رد، صفحات:۱۴۰)

۴۔ سیرت رسولﷺ  کوئز                     (دو حصے )

۵۔ سلفی نصاب دینیات                  (بچوں کی ابتدائی دینی تعلیم کیلئے )

۶۔ کتاب وسنت پر عمل کا محفوظ راستہ تقلید یا تحقیق؟   (صفحات:۶۴)

۷۔ فقہ کے چالیس اسباق

(درو س کی شکل میں طہارت وصلاۃ اور جنازہ کے مسائل کی وضاحت، صفحات :۲۴۰)

۸۔ پاکیزہ نسل اور صالح معاشرہ کیوں اور کیسے ؟              (صفحات :۳۸۴)

۹۔ عقیدۂ ختم نبوت، فتنۂ قادیانیت اور جماعت اہل حدیث    (صفحات :۱۴۰)

۱۰۔ علامہ ثنا ء اللہ امرتسری کون اور کیا تھے ؟از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

(تقدیم و اضافہ جات)

۱۱۔ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی سنہری تحریریں           (جمع وتقدیم )

۱۲۔ اختلافی مسائل اور ان کا حل از عبد الخبیر اسلم             (تقدیم واضافہ جات)

عربی سے اردو ترجمے :

۱۔ طہارت، صلاۃ اور جنازہ از علامہ محمد بن صالح العثیمینؒ      (ترجمہ مع اضافہ جات)

۲۔ صحابۂ  کرام رضی اللہ عنہم کے سلسلے میں اہل سنت کا عقیدہ   (ترجمہ وتقدیم)

۳۔ قبروں کی پوجا اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد    (ترجمہ دمعۃ علی التوحید)

۴۔ سلفی دعوت کیا ہے ؟ٍٍٍٍ                 (ترجمہ ھذہ دعوتنا از علامہ البانیؒ )

۵۔ شرح العقیدۃ الواسطیۃ للہراس از جاوید اختر عمری   (مراجعہ وتقدیم)

۶۔ منتخب اور جامع قرآنی ونبوی دعائیں اور اذکار۔      (ترجمہ وتقدیم مع اضافہ جات)

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید