FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

 

مقدمہ شعر و شاعری

 

 

الطاف حسین حالی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

انتساب ٭

 

اردو محفل کے مرحوم اراکین

محمد شمشاد خان

اور

محمد وارث

کی اردو خدمات کے نام

 

 

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

 

____________________________________

(اس برقی نسخے کا)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تمہید

حکیم علی الاطلاق نے اس ویرانۂ آباد نما یعنی کارخانۂ دنیا کی رونق اور انتظام کے لیے انسان کے مختلف گروہوں میں مختلف قابلیتیں پیدا کی ہیں تا کہ سب گروہ اپنے اپنے مذاق اور استعداد کے موافق جدا جدا کاموں میں مصروف رہیں۔ اور ایک دوسرے کی کوشش سے سب کی ضرورتیں رفع ہوں اور کسی کا کام اٹکا نہ رہے۔ اگرچہ ان میں بعض جماعتوں کے کام ایسے بھی ہیں جو سوسائٹی کے حق میں چنداں سودمند معلوم نہیں ہوتے۔ مگر چونکہ قسامِ ازل سے ان کو یہی حصہ پہنچا ہے اس لیے وہ اپنی قسمت پر قانع اور اپنی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ جو کام ان کی کوششوں سے سرانجام ہوتا ہے گو تمام عالم کی نظر میں اس کی کچھ وقعت نہ ہو۔ مگر ان کی نظر میں وہ ویسا ہی ضروری اور ناگزیر ہے جیسے گروہوں کے مفید اور عظیم الشّان کام تمام عالم کی نظر میں ضروری اور ناگزیر ہیں۔ کسان اپنی کوشش سے عالم کی پرورش کرتا ہے۔ اور معمار کی کوشش سے لوگ سردی گرمی، مینہ اور آندھی کی گزند سے بچتے ہیں اس لیے دونوں کے کام سب کے نزدیک عزت اور قدر کے قابل ہیں۔ لیکن ایک بانسری بجانے والا جو کسی سنسان ٹیکرے پر تن تنہا بیٹھا بانسری کی لے سے اپنا دل بہلاتا اور شاید کبھی کبھی سننے والوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچتا ہے گو اس کی ذات سے بنی نوع کے فائدہ کی چنداں توقع نہیں۔ مگر وہ اپنے دلچسپ مشغلہ کو کسان اور معمار کے کام سے کچھ کم ضروری نہیں سمجھتا۔ اور اس خیال سے اپنے دل میں خوش ہے کہ اگر اس کام کو سلسلۂ تمدّن میں کچھ دخل نہ ہوتا تو صانعِ حکیم انسان کی طبیعت میں اس کا مذاق ہر گز پیدا نہ کرتا۔

ہزار رنگ دریں کارخانہ درکارست

مکیر نکتہ نظیری ہمہ نکو بستند

 

شعر کی مدح و ذم

شعر کی مدح و ذم میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور جس قدر اس کی مذمّت کی گئی ہے وہ بہ نسبت مدح کے زیادہ قرین قیاس ہے۔ خود ایک شاعر کا قول ہے کہ دنیا میں شاعر کے سوا کوئی ذلیل سے ذلیل پیشہ والا ایسا نہیں ہے جس کی سوسائٹی کو ضرورت نہ ہو۔ افلاطون نے جو یونان کے لیے جمہوری سلطنت کا ایک خیالی ڈھانچہ بنایا تھا۔ اس میں شاعروں کے سوا ہر پیشہ اور ہر فن کو لوگوں کی ضرورت تسلیم تھی۔ زمانۂ حال میں بعضوں نے شعر کو ‘میجک لینٹرن’ سے تشبیہ دی ہے یعنی میجک لینٹرن جس قدر تاریک کمرے میں روشن کی جاتی ہے اسی قدر زیادہ جلوے دکھاتی ہے۔ اسی طرح شعر جس قدر جہل و تاریکی کے زمانہ میں ظہور کرتا ہے اسی قدر زیادہ رونق پاتا ہے۔

 

شاعری کا ملکہ بے کار نہیں

یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی باتیں جو شعر کے برخلاف کہی گئی ہیں۔ ایسی ہیں جو لامحالہ تسلیم کرنی پڑتی ہیں۔ مگر اس بات کا بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی ایسے پیدا ہوئے ہیں جن کو قدرت نے اسی کام کے لیے بنایا تھا اور یہ بلکہ ان کی طبیعت میں ودیعت کیا تھا اگرچہ اکثر نے اس ملکہ کو مقتضائے فطرت کے خلاف استعمال کیا۔ پس ایک ایسے عطیّہ کو جو قدرت نے عنایت کیا ہو صرف اس وجہ سے کہ اکثر لوگ اس کو فطرت کے خلاف استعمال کرتے ہیں کسی طرح عبث اور بیکار نہیں کہا جا سکتا۔ عقل خدا کی ایک گراں بہا نعمت ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو مکر و فریب اور شر و فساد میں استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح شجاعت ایک عطیّۂ الٰہی ہے مگر بعض اوقات وہ قتل و غارت و رہزنی میں صرف کی جاتی ہے۔ کیا اس سے عقل کی شرافت اور شجاعت کی فضیلت میں کچھ فرق آ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ملکہ شعر کسی کے برے استعمال سے برا نہیں ٹھیر سکتا۔

یہ بات تسلیم کی گئی ہے کی شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ہوتا وہی شاعر بنتا ہے۔ شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونیِ طبع سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو اشعار بعضے فاضلوں سے موزوں نہیں پڑھے جاتے ان کو بعض ان پڑھ اور صغیر سن بچے بلا تکلف موزوں پڑھ دیتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ شاعری کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے بلکہ بعضی طبیعتوں میں اس کی استعداد خدا داد ہوتی ہے۔ پس جو شخص اس عطیّۂ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا۔ ممکن نہیں کہ اس سے سوسائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے۔

 

شعر کی تاثیر مسلّم ہے

شعر کی تاثیر کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کا اکثر اس سے حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بھاپ سے جو حیرت انگیز کرشمے اب ظاہر ہوئے ہیں ان کا سراغ اوّل اس خفیف حرکت میں لگا تھا جو اکثر پکتی ہانڈی پر چپنی کو بھاپ کے زور سے ہُوا کرتی ہے۔ اُس وقت کون جانتا تھا کہ اس ناچیز گیس میں جرّار لشکروں اور زخّار دریاؤں کی طاقت چھُپی ہوئی ہے۔

 

ناٹک

ہمارے ملک میں بھانڈ اور نقالوں کا کام بہت ذلیل سمجھا جاتا ہے اور ہولی میں جو سوانگ بھرے جاتے ہیں وہ سوسائٹی کے لیے مضر خیال کیے جاتے ہیں۔ لیکن یورپ میں اسی سوانگ اور نقالی نے اصلاح پا کر قوموں کو بے انتہا اخلاقی اور تمدّنی فائدے پہنچائے ہیں۔

 

باجا

باجے کے آلات جو ہمارے ہاں ہمیشہ لہو و لعب کے مجمعوں میں مستعمل ہوتے ہیں اور جن کو یہاں کے ملّا محض فضول جانتے ہیں۔ شائستہ قوموں نے ان کے مناسب استعمال سے نہایت گراں بہا فائدے اٹھائے ہیں۔ یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ میدان جنگ میں جب اصول مقررہ کے موافق باجا بجتا ہے تو سپاہ کے دل حد سے زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اور افسر کے حکم پر ہر سپاہی جان فدا کرنے کو موجود ہو جاتا ہے۔ اور جب کسی وجہ سے جنگ کے موقع پر باجا بجنے سے رک جاتا ہے تو ان کے دل سرد ہو جاتے ہیں اور افسر کا حکم بہت کم مانا جاتا ہے۔

 

شعرا کا حسن قبول

تاریخ میں ایسی مثالیں بے شمار ملتی ہیں کہ شعرا نے اپنی جادو بیانی سے لوگوں کے دلوں پر فتح نمایاں حاصل کی ہے۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر ایک چیز یہاں تک کہ اس کے عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں اور لوگ اس بات میں کوشش کرتے ہیں کہ آپ بھی ان عیبوں سے متصّف ہو کر دکھائیں۔ بائرن کی نسبت مشہور ہے کہ ’’لوگ اس کی تصویر نہایت شوق سے خریدتے تھے اور اس کی نشانیاں اور یادگاریں سینت سینت کر رکھتے تھے۔ اس کے اشعار حفظ یاد کرتے تھے اور ویسے ہی اشعار کہنے میں کوشش کرتے تھے۔ بلکہ یہ چاہتے تھے کہ خود بھی ویسے ہی دکھائی دینے لگیں۔ اکثر لوگ آئینہ سامنے رکھ کر مشق کیا کرتے تھے کہ اوپر کے ہونٹ اور پیشانی پر ویسی ہی شکن ڈال لیں جیسی کہ لارڈ بائرن کی بعض تصویروں میں پائی جاتی ہے۔ بعضوں نے اس کی ریس سے گلو بند[1] باندھنا چھوڑ دیا تھا‘‘۔

پولیٹکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گئے ہیں

یورپ میں پولیٹکل مشکلات کو وقت قدیم پوئٹری کو قوم کی ترغیب و تحریص کا ایک زبردست آلہ سمجھتے رہے ہیں۔ ایک زمانہ میں ایتھنز اور مگارا والوں میں جزیرۂ سیلمس کی بابت مدّت دراز تک جنگ رہی۔ جس میں ایتھنز والوں کو برابر شکستیں ہوتی رہیں۔ اور رفتہ رفتہ اُن کا حوصلہ ایسا پست ہوا کہ وہ ہمیشہ کے لیے لڑائی سے دست بردار ہو گئے۔ اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ جو شخص اس لڑائی کا ذکر کرے یا دوبارہ لڑنے کی تحریک دے وہ قتل کیا جائے۔ اس وقت ایتھنز کا مشہور مقنن سولن زندہ تھا۔ اس کو نہایت غیرت آئی۔ اس نے اہل وطن کو پھر لڑائی پر آمادہ کرنا چاہا۔ وہ دانستہ مجنون بن گیا۔ جب ایتھنز میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ سولن دیوانہ ہو گیا ہے اس نے کچھ اشعار نہایت درد انگیز لکھے اور پرانے زدہ کپڑے پہن کر اور اپنے گلے میں ایک رسی اور سر پر پرانی چادر ڈال کر گھر سے نکلا۔ لوگ یہ حال دیکھ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ ایک بلندی پر جہاں اکثر فصحا منادی کیا کرتے تھے جا کھڑا ہوا۔ اور اپنی عادت کے خلاف اشعار پڑھنے شروع کیے، جن کا مضمون یہ تھا "کاش میں ایتھنز میں پیدا نہ ہوتا۔ بلکہ عجم یا بَربَر یا کسی اور ملک میں پیدا ہوتا جہاں اس کے باشندے میرے ہموطنوں سے زیادہ جفا کش، سنگدل اور یونان کے علم و حکمت سے بے خبر ہوتے۔ وہ حالت میرے لیے اس سے بہت بہتر تھی کہ لوگ مجھے دیکھ کر ایک دوسرے سے کہیں کہ یہ شخص اسی ایتھنز کا رہنے والا ہے جو سیلمس کی لڑائی سے بھاگ گیا۔ اے عزیزو! جلد دشمنوں سے انتقام لو۔ اور یہ ننگ و عار ہم سے دور کرو۔ اور چین سے نہ بیٹھو۔ جب تک کہ اپنا چھِنا ہوا ملک ظالم دشمنوں کے پنجہ سے نہ چھُڑا لو” ان غیرت انگیز اشعار سے ایتھنز والوں کے دل پر ایسی چوٹ لگی کہ اسی وقت سب نے ہتھیار ہتھیار سنبھال کر سولن کو سپاہ کا سردار اور حاکم مقرر کیا اور سب کے سب ماہی گیروں کی کشتیوں میں سوار ہو کر سیلمس پر چڑھ گئے۔ آخر جیسا کہ تاریخ میں بتفصیل مذکور ہے جزیرۂ سیلمس پر قابض ہو گئے۔ اور دشمنوں میں سے بہت قید ہوئے اور باقی تمام مال و اسباب چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ایک بار پھر غنیم نے بیڑے ساز و سامان کے ساتھ سیلمس پر چڑھائی کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا۔

 

مثال ۲

انگلستان کی تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایڈورڈ نے جب ویلز پر چڑھائی کی تو ویلز کے شاعروں نے قومی ہمدردی کے جوش میں نہایت ولولہ انگیز اشعار کہنے شروع کیے۔ تا کہ اہل ویلز کی ہمت اور غیرت زیادہ ہو۔ اگرچہ انگلستان کی سپاہ کے آگے ان کی کچھ حقیقت نہ تھی لیکن شاعروں کے پر جوش کلام نے ان میں حب وطن کا جوش اس قدر پھیلا دیا تھا کہ جب وہ فوج شاہی کے مقابلہ میں کامیابی سے بالکل مایوس ہو گئے تو بھی اطاعت خوشی سے قبول نہ کی۔ شاعروں کے کلام سے ایڈورڈ کی اس قدر مزاحمت ہوئی اور اس کو ایسی دقّتیں اٹھانی پڑیں کہ فتح کے بعد اس نے ویلز کے تمام شاعروں اور نسابوں کے قتل کروا ڈالا۔ اگرچہ شاعری کا نتیجہ ویلز کے شاعروں کے حق میں بہت برا ہوا اور ملک کے لیے بھی مفید نہ ہوا۔ لیکن اس واقعہ سے شعر کا تاثر اور کرامت بخوبی ثابت ہوتی ہے۔

 

مثال ۳

لارڈ بائرن کی نظم موسوم بہ ’چائلڈ ہیرلڈز پلگریمیج‘ ایک مشہور نظم ہے۔ جس کے ایک حصہ میں فرانس، انگلستان اور روس کو غیرت دلائی ہے اور یونان کو ترکوں کی اطاعت سے آزاد کرانے پر بر انگیختہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ جو فائدے یونان کے علم و حکمت سے یوروپ نے اور خاص کر فرانس اور انگلستان نے حاصل کیے ہیں اس کا بدلہ آج تک یونان کو کچھ نہیں دیا گیا۔ اور روس نے بھی جو کہ گریک چرچ کی پیروی کا دم بھرتا ہے یونان کی کسی قسم کو مدد نہیں دی۔ پھر تینوں سلطنتوں کو غیرت دلانے کے لیے یونانیوں کو ترغیب دی ہے کہ غیروں سے کچھ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ بلکہ خود اپنے دست و بازو پر بھروسا کر کے ترکوں کی غلامی سے آزاد ہو جانا چاہیے۔ ۱۸۱۲ء میں اس نظم کی اشاعت ہوئی جس کے سبب بائرن کی شاعری تمام یوروپ میں دھوم ہو گئی اور انگریز اس کی نظم پر مفتون ہو گئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ فرانس، انگلستان، اٹلی، آسٹریا اور روس میں اس نظم نے وہ کام کیا جو آگ بارود پر کرتی ہے۔ جس وقت یونان نے ترکی سے بغاوت اختیار کی یوروپ کا متّفقہ بیڑا فوراً اس کی کمک کو پہنچا۔ ۱۸۲۷ء میں متّفقہ بیڑے نے ترکوں کے بیڑے کو شکست دی اور ترکی کو یونان کے آزاد کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس کی آزادی کو تمام یوروپ نے تسلیم کر لیا۔ اوتھو ایک ڈنمارک کا شہزادہ یونان کا بادشاہ بنایا گیا اور یونان میں پارلیمنٹ قائم کی گئی۔

 

مثال ۴

۱۸۳۰ء میں جب کہ چارلس دہم بادشاہ فرانس نے قانون آزادی کے برخلاف کاروائی کرنی شروع کی اور رعایا سے فرانس میں سخت اضطراب اور سراسیمگی پیدا ہوئی۔ اس وقت فرانس میں بھی دو قصیدے [2] ایک منسوب بہ پیرس اور دوسرا منسوب بہ مارسلیز لکھے گئے تھے۔ جو گزر گاہوں اور شاہ راہوں میں طبل جنگ پر گائے جاتے تھے اور جن میں لوگوں کو بادشاہ سے بغاوت اور آزادی کی حمایت کرنے پر اُکسایا گیا تھا۔

الغرض یورپ میں لوگوں نے شعر سے بہت بڑے بڑے کام لیے ہیں۔ خصوصاً ڈریمٹک پوئیٹری نے یوروپ کو جس قدر فائدہ ہے اس کا اندازہ کرنا نہایت مشکل ہے۔ اسی واسطے شکسپیئر کے ڈراموں سے پولیٹکل، سوشل اور مورل ہر طرح کے بیشمار فائدے اہل یوروپ کو پہنچے ہیں۔ یہ بائبل کے ہم پلّہ سمجھے جاتے ہیں۔ بلکہ جو لوگ مذہب کی قید سے آزاد ہیں وہ ان کو بائبل سے بھی زیادہ سودمند اور فائدہ رساں خیال کرتے ہیں۔

ایشیا کی شاعری میں اگرچہ ایسی مثالیں جیسی کہ اوپر ذکر کی گئی ہیں شاید مشکل سے مل سکیں لیکن ایسے واقعات بہ کثرت بیان کیے جا سکتے ہیں جن سے شعر کی غیر معمولی تاثیر اور اس کے جادو کا کافی ثبوت ملتا ہے۔

 

اعشیٰ کے کلام کی تاثیر

عرب کا مشہور شاعر میمون بن قیس[3]  جس کو نابینا ہونے کے سبب اعشیٰ کہتے تھے اس کے کلام میں یہ تاثیر ضرب المثل تھی کہ جس کی مدح کرتا ہے وہ عزیز و نیک نام اور جس کی ہجو کرتا ہے وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے۔ ایک بار ایک عورت اس کے پاس آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں سے ان کو بَر نہیں ملتا۔ اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعہ سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ اعشیٰ نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا۔ جس کی بدولت ان لڑکیوں کی صورت اور سیرت کا چرچا تمام ملک میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے لگے۔ یہاں تک کہ امرا نے بھاری بھاری مہر مقرر کر کے ان سے شادیاں کر لیں۔ لڑکیوں کی ماں جب کوئی لڑکی بیاہی جاتی تھی ایک اونٹ بطور شکریہ کے اعشیٰ کے واسطے ہدیہ بھیج دیتی تھی۔

 

زمانۂ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر

اس کے سوا زمانۂ جاہلیت کی شاعری میں ایسی مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ مثلاً شاعر اپنے قبیلہ کو جب کہ تمام قبیلہ کے لوگ اپنے مقتول کا خوں بہا لینے پر راضی ہیں ملامت کرتا ہے اور قاتل سے انتقام لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ یا کسی رنجش کی وجہ سے اپنے قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے لڑنے یا بدلہ لینے کے لیے بر انگیختہ کرتا ہے۔ یا اپنے پانی کے چشمے یا چراگاہ کے چھن جانے پر قوم سے مدد لینی اور ان میں جوش پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور اکثر اپنی تحریصوں میں کامیاب ہوتا ہے۔ مثلاً عبد اللہ بن معدیکرب جو کہ بنی زبید کا سردار تھا۔ ایک روز بنی مازن کی مجلس میں بیٹھا تھا اور شراب پی رکھی تھی کہ مخزوم مازنی کے ایک حبشی غلام نے کچھ اشعار ایک عورت کی تشبیب کے جو کہ بنی زبید میں سے تھی گائے۔ عبد اللہ نے اٹھ کر زور سے اس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ غلام چلایا۔ بنی مازن نے غیظ و غضب میں آ کر عبد اللہ کو مار ڈالا۔ پھر عمرو بن معدیکرب کے پاس جو کہ عبد اللہ کا بھائی تھا جا کر عذر کیا کہ تمہارے بھائی کو ہم میں سے ایک نادان آدمی نے جو نشہ میں مدہوش تھا مار ڈالا ہے۔ سو ہم تم سے عفو کے خواستگار ہیں اور خون بہا جس قدر چاہو دینے کو تیار ہیں۔ عمرو خون بہا لینے پر آمادہ ہو گیا۔ جب بھائی کی آمادگی کا حال کبثہ بنت معدیکرب[4] کو معلوم ہوا تو اس نے نہایت ملامت آمیز اشعار کہے جن میں عمرو کو انتقام نہ لینے پر سخت غیرت دلائی ہے۔ آخر عمرو بہن کی ملامت سے متاثر ہو کر انتقام لینے کو کھڑا ہو گیا۔ اور مازینوں سے اپنے بھائی کو خون کا بدلہ لے کر چھوڑا۔

 

رودکی کے کلام کی تاثیر

 

ایران کے مشہور شاعر رودکی کا قصہ مشہور ہے کہ امیر نصر بن احمد سامانی نے جب خراسان کو فتح کیا اور ہرات کی فرحت بخش آب و ہوا اس کو پسند آئی تو اس نے وہیں مقام کر دیا۔ اور بخارا جو کہ سامانیوں کا اصلی تختگاہ تھا اس کے دل سے فراموش ہو گیا۔ لشکر کے سردار اور اعیانِ امرا جو بخارا میں عالیشان عمارتیں اور عمدہ باغات رکھتے تھے ہرات میں رہتے رہتے اکتا گئے اور اہلِ ہرات بھی سپاہی کے زیادہ ٹھیرنے سے گھبرا اٹھے۔ سب نے استاد ابو الحسن رودکی سے یہ درخواست کی کہ کسی طرح امیر کو بخارا کی طرف مراجعت کرنے کی ترغیب دے۔ رودکی نے ایک قصیدہ لکھا[5]  اور جس وقت بادشاہ شراب اور راگ رنگ میں محو ہو رہا تھا اس کے سامنے پڑھا۔ اس قصیدہ نے امیر کے دل پر ایسا اثر کیا کہ جمی جمائی محفل چھوڑ کر اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا۔ اور بغیر موزہ پہنے گھوڑے پر سوار ہو کر مع لشکر کے بخارا کو روانہ ہو گیا۔ اور دس کوس پر جا کر پہلی منزل کی۔

شاید اس قبیل کے واقعات ایشیائی شاعری میں کم دستیاب ہوں لیکن ایسی حکایتیں بیشمار ہیں کہ شعر کسی مناسب موقع پر پڑھا یا گایا گیا ہو۔ اور سامعین کے دل قابو سے باہر ہو گئے۔ اور صحبت کا رنگ دگر گوں ہو گیا۔ اس موقع پر ایک حکایت نقل کی جاتی ہے۔

 

عمر خیام کی رباعی کی تاثیر

نور بائی گائن جس نے اپنے حسن و جمال، خوش آوازی، بذلہ سنجی اور مصاحبت کی عمدہ لیاقت کے سبب محمد شاہ کے تقرب کا درجہ حاصل کیا تھا۔ اور جو تمام امرا دربار کے دلوں پر قابض تھی ایک روز نواب روشن الدولہ کے ہاں بیٹھی تھی اور ہنسی چہل کی باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے میں غالباً میراں سید بھیک صاحب کی سواری جن سے نواب کو کمال عقیدت تھی آ پہنچی۔ نواب نے فوراً بائی کو دوسرے کمرے میں بٹھا کر آگے سے چلمن چھڑوا دی۔ میراں صاحب آئے اور اتفاقاً بہت دیر بیٹھے۔ بائی جو ایک نہایت چلبلی اور بے چین طبیعت کی عورت تھی تنہائی میں زیادہ بیٹھنے کی تاب نہ لا کر بیباکانہ باہر نکل آئی۔ اور شیخ کی حضور میں جھک کر آداب بجا لائی۔ اور عرض کی کہ لونڈی کو حکم ہو تو کچھ گائے۔ میراں صاحب سماع کے عاشق تھے خاموش ہو رہے۔ بائی نے ان کی خاموشی کو اجازت سمجھ کر یہ رباعی نہایت سوز و گداز کی لے میں گانی شروع کی:

شیخے بہ زنے فاحشہ گفتا مستی

کز خیر گستی و بہ شر پیوستی

زن گفت چنانکہ مینمایم ہستم

تو نیز چنانکہ مینمائی ہستی؟

شیخ کی حالت اس بر محل رباعی کے سننے سے ایسی متغیر ہو گئی کہ بائی کو اپنی جسارت سے سخت نادم ہونا پڑا۔ باوجودیکہ نور بائی کو خاموش کر دیا گیا تھا شیخ کی شورش کسی طرح کم نہ ہوتی تھی۔ وہ زمین پر مرغ بسمل کی طرح لوٹتے تھے اور دیواروں میں سر دے دے مارتے تھے۔ دیر تک یہی حال رہا اور بہت مشکل سے ہوش میں آئے۔

 

شاعری نا شائستگی کے زمانہ میں ترقی پاتی ہے

بہرحال شعر اگر اصلیت سے بالکل متجاوز اور محض بے بنیاد باتوں پر مبنی نہ ہو تو تاثیر اور دلنشینی اس کی نیچر میں داخل ہے۔ لیکن شاعری نسبت جو رائیں زمانہ حال کے اکثر محققوں نے قائم کی ہیں ان کا جھکاؤ اس طرف پایا جاتا ہے کہ سویلیزیشن کا اثر شعر پر برا ہوتا ہے۔ جس قدر کہ علم زیادہ محقق ہوتا جاتا ہے اسی قدر تخیل جس پر شاعری کی بنیاد ہے گھٹتا جاتا ہے اور کرید کی عادت جو ترقی علم کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ شعر کے حق میں سم قاتل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک سوسائٹی نیم شائستہ اور اس کا علم اور واقفیت محدود رہتی ہے اور علل و اسباب پر اطلاع کم ہوتی ہے اس وقت تک زندگی خود ایک کہانی معلوم ہوتی ہے۔ زندگی کی سرگزشت جو کہ بالکل ایک واقعات کا سلسلہ ہوتا ہے اگر ایک نیم شائستہ سوسائٹی میں سیدھے سادے طور پر بھی بیان کی جائے تو اس سے کہیں خوف اور کہیں تعجب اور کہیں جوش خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ اور انہی چیزوں پر شاعری بنیاد ہے۔ لیکن جب شائستگی زیادہ پھیلتی ہے تو یہ چشمے بند ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کہیں بند نہیں ہوتے تو ان کو نہایت احتیاط کے ساتھ روکا جاتا ہے تا کہ ان کا مضحکہ نہ اڑے۔

اس رائے کا ایک بڑا حامی یہ کہتا ہے کہ "شعر دل پر ویسا ہی پردا ڈالتا ہے جیسا میجک لینٹرن آنکھ پر ڈالتی ہے۔ جس طرح اس لال ٹین کا تماشا بالکل اندھیرے کمرے میں پورے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح شعر محض تاریک زمانہ میں اپنا پورا کرشمہ دکھاتا ہے۔ اور جس طرح روشنی کے آتے ہی میجک لینٹرن کی تمام نمائشیں نابود ہو جاتی ہیں اسی طرح جوں جوں حقیقت کی حدود اربعہ صاف اور روشن اور احتمالات کے پردے مرتفع ہوتے جاتے ہیں اسی قدر شاعری کے سیمیائی جلوے کافور ہوتے جاتے ہیں کیونکہ دو متناقض چیزیں یعنی حقیقت اور دھوکا جمع نہیں ہو سکتیں۔”

 

فردوسی کی مثال

اس مطلب کے زیادہ دلنشین ہونے کے لیے ذیل کی مثال پر غور کرنی چاہیے۔ فردوسی نے اپنے ہیرو رستم کی زور مندی اور بہادری کے متعلق جو کچھ شاہنامہ میں لکھا ہے ایک زمانہ وہ تھا کہ اس کو سن کر رستم کی غیر معمولی عظمت اور بڑائی کا یقین دل میں پیدا ہوتا تھا۔ اس کے زور اور شجاعت کا سن کر تعجب کیا جاتا تھا۔ سامعین کے دل میں خود بخود اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کے حریفوں سے بر خلافی کا خیال پیدا ہوتا تھا۔ لیکن اب جس قدر کہ علم بڑھتا جاتا ہے روز بروز وہ طلسم ٹوٹتا جاتا ہے اور وہ زمانہ قریب آتا ہے کہ رستم ایک معمولی آدمی سے زیادہ نہ سمجھا جائے گا۔

 

شاعری شائستگی میں قائم رہ سکتی ہے

اگرچہ رائے جو شاعری کی نسبت اوپر بیان ہوئی کسی قدر صحیح ہے مگر اس کو بھی بے سوچے سمجھے قبول کرنا نہیں چاہیے۔ جو لوگ اس رائے کے بر خلاف ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ علم کی ترقی سے الفاظ کے معنی محدود اور بہت سی باتوں کی واقعیت کے خیال محو ہو گئے ہیں۔ مگر زبانیں پہلے کی نسبت زیادہ لچکدار اور اکثر مقاصد کے بیان کرنے کے زیادہ لائق ہوتی جاتی ہیں۔ بہت سی تشبیہیں بلا شبہ اس زمانے میں بیکار ہو گئی ہیں مگر ذہن نئی تشبیہیں اختراع کرنے سے قاصر نہیں ہوا۔ یہ سچ ہے کہ سائنس اور مکینکس جوشیلے خیالات کو مردہ کرنے والے ہیں لیکن انہی کی بدولت شاعر کے لیے نئی نئی تشبیہات اور تمثیلات کا لازوال ذخیرہ جو پہلے موجود نہ تھا مہیا ہو گیا ہے اور ہوتا جاتا ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ سوسائٹی کے ترقی کرنے سے امیجنیشن یا تخیل کی طاقت ضعیف ہو جاتی ہے بلکہ ان کا اعتقاد ہے کہ ابد کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط ہے۔ جب تک بے شمار اسباب اور مواقع جن کا انکار نہیں ہو سکتا چاروں طرف سے ہم کو گھیرے ہوئے ہیں، جب تک عشق انسان کے دل پر حکمران ہے اور ہر فرد بشر کی روداد زندگی کو ایک دلچسپ قصہ بنا سکتا ہے، جب تک قوموں میں حب وطن کا جوش موجود ہے، جب تک بنی نوع انسانی ہمدردی پر متفق ہو کر شامل ہونے کے لیے حاضر ہیں اور جب تک حوادث اور وقائع جو زندگی میں وقتاً بعد وقت حادث ہوتے ہیں خوشی کا یا غم کی سلسلہ جنبانی کرتے ہیں تب تک اس بات کا خوف نہیں ہو سکتا کہ تخیل کی طاقت کم ہو جائے گی۔ اور اس سے بھی کم خوف جب تک کہ نیچر کی کان کھلی ہوئی ہے اس بات کا ہے کہ شاعر کا ذخیرہ نبڑ جائے گا۔ ہاں مگر اس میں شک نہیں کہ نیچر کی جو نمایاں چیزیں تھیں۔ وہ اگلے مزدوروں نے چن لیں اور چونکہ ان کے لیے وہ پہلی تھیں اور اس لیے عجیب تھیں۔ اب ان کے تعجب انگیز بیان پر کوئی سبقت نہیں لے جا سکتا۔

 

شاعری کا تعلق اخلاق کے ساتھ

شعر سے جس طرح نفسانی جذبات کو اشتعالک ہوتی ہے۔ اسی طرح روحانی خوشیاں بھی زندہ ہوتی ہیں۔ اور انسان کی روحانی اور پاک خوشیوں کو اس کے اخلاق کے ساتھ ایسا صریح تعلق ہے جس کے بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ شعر اگرچہ براہ راست علم اخلاق کی طرح تلقین اور تربیت نہیں کرتا لیکن از روئے انصاف اس کو علم اخلاق کا نائب مناسب اور قائم مقام کہہ سکتے ہیں۔ اسی بناء پر صوفیۂ کرام کے ایک جلیل القدر سلسلہ میں سماع کو جس کا جزو اعظم اور رکن رکین شعر ہے وسیلۂ قربِ الٰہی اور باعثِ تصفیۂ نفس و تزکیۂ باطن مانا گیا ہے۔

 

شعر کی عظمت

یوروپ کا ایک محقق کہتا ہے کہ

’’مشاغل دنیوی میں انہماک کے سبب جو قومیں سو جاتی ہیں شعر ان کو جگاتا ہے اور ہمارے بچپن کے ان خالص اور پاک جذبات کو جو لوثِ غرض کے داغ سے منزہ اور مبرا تھے پھر تر و تازہ کرتا ہے۔ دنیوی کاموں کی مشق اور مہارت سے بیشک ذہن میں تیزی آ جاتی ہے مگر دل بالکل مر جاتا ہے۔ جب کہ افلاس میں قوت لا یموت کے لیے یا تونگری میں جاہ و منصب کے لیے کوشش کی جاتی ہے اور دنیا میں چاروں طرف خود غرضی دیکھی جاتی ہے۔ اس وقت انسان کو سخت مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اگر اس کے پاس کوئی ایسا علاج نہ ہوتا جو دل کے بہلانے اور تر و تازہ کرنے میں چپکے ہی چپکے مگر نہایت قوت کے ساتھ افلاس کی صورت میں مرہم اور تونگری کی صورت میں تریاق کا کام دے سکے۔ یہ خاصیت خدا نے شعر میں ودیعت کی ہے۔ وہ ہم کو محسوسات کے دائرہ سے نکال کر گزشتہ اور آئندہ حالتوں کو ہماری موجودہ حالت پر غالب کر دیتا ہے۔ شعر کا اثر محض عقل کے ذریعہ سے نہیں بلکہ زیادہ تر ذہن اور ادراک کے ذریعہ سے اخلاق پر ہوتا ہے پس ہر قوم اپنے ذہن کی جودت اور ادراک کی بلندی کے موافق شعر سے اخلاق فاضلہ اکتساب کر سکتی ہے۔ قومی افتخار، قومی عزت، عہد و پیمان کی پابندی، بے دھڑک اپنے تمام عزم پورے کرنے، استقلال کے ساتھ سختیوں کو برداشت کرنا اور ایسے فائدوں پر نگاہ نہ کرنی جو پاک ذریعوں سے حاصل نہ ہو سکیں اور اسی قسم کی وہ تمام خصلتیں جن کے ہونے سے ساری قوم تمام عالم کی نگاہ میں چمک اٹھتی ہے۔ جن کے نہ ہونے سے بڑی سے بڑی سلطنت دنیا کی نظروں میں ذلیل رہتی ہے۔ اگر کسی قوم میں بالکل شعر ہی کی بدولت پیدا نہیں ہو جاتیں تو بلا شبہ ان کی بنیاد تو اس میں شعر ہی کی بدولت پڑتی ہے۔ اگر افلاطون اپنے خیالی کانسٹی ٹیوشن سے شاعروں کو جلا وطن کر دینے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ ہر گز اخلاق پر احسان نہ کرتا بلکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سرد مہر، خود غرض اور مروّت سے دور ایسی سوسائٹی قائم ہو جاتی جس کا کوئی کام اور کوئی کوشش بدون موقع اور مصلحت کے محض دل کے ولولہ اور جوش سے نہ ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ تمام دنیا شعرا کا ادب اور تعظیم کرتی ہے۔ جنہوں نے اس خاتم سلیمانی کی بدولت جو قوت متخیلہ نے ان کے قبضہ میں دی ہے انسان میں ایسی تحریک اور بر انگیختگی پیدا کی ہے جو کہ خود نیکی ہے یا نیکی کی طرف لے جانے والی۔

 

شاعری سوسائٹی کی تابع ہے

 

مگر باوجود ان تمام باتوں کے جو کہ شعر کی تائید میں کہی گئی ہیں۔ ممکن ہے کہ سوسائٹی کے دباؤ یا زمانہ کے اقتضا سے شعر پر ایسی حالت طاری ہو جائے کہ وہ بجائے اس کے کہ قومی اخلاق کی اصلاح کرے اس کے بگاڑنے اور برباد کرنے کا ایک زبردست آلہ بن جائے۔ قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات، اس کی رائیں، اس کی عادتیں، اس کی رغبتیں، اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارادہ معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے۔ شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور شاعری کو ہجو گوئی نے برباد کیا۔ اس کا منشا وہی سوسائٹی کا دباؤ تھا۔ اور عبید زاکانی[6]  نے جو علم و فضل سے دست بردار ہو کر ہزل گوئی اختیار کی۔ یہ وہی زمانہ کا اقتضا تھا۔ جس طرح خوشامد اور نذر بھینٹ کا چٹخارا رفتہ رفتہ ایک متدین اور راست باز جج کی نیت میں خلل ڈال دیتا ہے اسی طرح دربار کی واہ واہ اور صلہ کی چاٹ ایک آزاد خیال اور جذبیلے شاعر کو چپکے چپکے ہی بھٹنی، جھوٹ اور خوشامد یا ہزل و تمسخر پر اس طرح لا ڈالتی ہے کہ وہ اسی کو کمال شاعری سمجھنے لگتا ہے۔

خود مختار بادشاہ جن کا کوئی ہاتھ روکنے والا نہیں ہوتا اور تمام بیت المال جس کا جیب خرچ ہوتا ہے اس کی بے دریغ بخشش شعراء کی آزادی کے حق میں سم قاتل ہوتی ہے۔ وہ شاعر جس کو قوم کا سرتاج اور سرمایۂ افتخار ہونا چاہیے تھا۔ ایک بندہ ہوا و ہوس کے دروازہ پر دریوزہ گروں کی طرح صدا لگاتا اور شیئ اللہ کہتا ہوا پہنچتا ہے۔ اول اول مدح و ستائش میں سچ بالکل قطع نظر نہیں کی جاتی۔ کیونکہ قومی عروج کی ابتدا میں ممدوح اکثر مدح کے مستحق ہوتے ہیں اور شاعر کی طبیعت سے آزادی کا جوہر رفتہ رفتہ زائل نہیں ہو جاتا لیکن جب واقعات نبٹ جاتے ہیں اور مداح سرائی کی کر ہمیشہ کے لیے شاعر کے ذمہ لگ جاتی ہے تو اس کی شاعری کا مدار صرف جھوٹی تہمتیں باندھنے پر رہ جاتا ہے۔ پھر جب آفتابِ اقبال کا دورہ جس کی عمر طبیعی شخصی سلطنتوں میں اکثر سو برس سے زیادہ نہیں ہوئی ختم ہونے کو ہوتا ہے اور سلاطین و امراء میں خوبیاں جن کے سبب سے وہ جمہور انام کے شکر و سپاس و مدح و ستائش کے مستحق اور شعراء کی مداحی سے مستغنی ہوں باقی نہیں رہتیں تو ان شاعروں کی بھٹی کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں سوجھتی جس کو سن کر ان کا نفس موٹا ہو۔ لہذا ان کو شعرا کی زیادہ قدر کرنی پڑتی ہے۔ اس سے جھوٹی شاعری کو اور زیادہ ترقی ہوتی ہے پھر بہت سے نا شاعر جب شاعروں کو گراں بہا صلے اور خلعت و انعام برابر پاتے دیکھتے ہیں تو ان کو بہ تکلف اپنے تئیں شاعر بنانا پڑتا ہے لیکن چونکہ ان کی طبیعت میں شاعرانی جدت و اختراع کا مادہ نہیں ہوتا وہ اصلی شاعروں کی نہایت بھونڈی تقلید کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جس طرح بڑھاپے کی تصویر بچپن سے کچھ مناسبت نہیں رکھتی اسی طرح رفتہ رفتہ شعر کی صورت کو یا مسخ ہو جاتی ہے اور شاعری کا ماحصل سوا اس کے کہ اس سے قربِ سلطانی ہوتا ہے اور کچھ نہیں رہتا۔

چوتھی صدی ہجری میں شعر کی نسبت کیا خیال تھا

مرزا محمد طاہر نصر آبادی اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ ایک روز رات کے وقت صاحب ابن عباد طالقانی کی مجلس میں حسب معمول فضلا اور شعراء جمع تھے۔ اثنائے سخن میں شر کا ذکر چھڑ گیا بعضے شعر کی تعریف کرتے تھے بعضے مذمت۔ جو لوگ مذمت کرتے تھے انہوں نے کہا کہ شعرا اکثر مدح یا ذم پر مشتمل ہوتا ہے اور دونوں چیزوں کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ اس کے بعد ابو محمد خازن نے جو بہت بڑا صاحب علم و فضل تھا شعر کی تائید میں یہ کہا کہ شعر میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہم باوجودیکہ ہر علم و ہنر سے بہرہ مند ہیں ان میں سے کوئی چیز ہماری کامیابی کا ذریعہ نہیں ہو سکتی۔ صرف شر ہی ایسی چیز ہے۔ جس کے ذریعے سے ہم کو سلاطین و وزراء کے ہاں تقرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ رہی یہ بات کہ شعر میں اکثر جھوٹ اور مبالغہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں بے شک ہوتا ہے لیکن جب یہ تانبا (یعنی جھوٹ) شعر کے طلا سے مطلا کیا جاتا ہے و ہمرنگ زر خالص ہو جاتا ہے۔ اور شعر کا حسن جھوٹ کی برائی پر غالب آ جاتا ہے۔“ اس بات کو سب نے پسند کیا اور بحث ختم ہو گئی۔

اس حکایت سے علاوہ اس بات کے کہ صاحب ابن عباد کے زمانہ یعنی چوتھی صدی ہجری میں ہماری شاعری محض ایک ذریعہ سلاطین و امراء کے تقرب کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ اور مبالغہ شعر کے ذاتیات میں داخل ہو گیا تھا۔

 

مسلمان شعرا کی کثرت

یورپ کا ایک مورخ عربی لٹریچر کے ذکر میں لکھتا ہے کہ “صرف عرب کی قوم میں اتنے شاعر ہوئے ہیں کہ تمام جہاں کی قوموں کے شاعر شمار میں ان کے برابر نہیں ہو سکتے۔“ ظاہر اس نے عرب قوم کے شعرا سے صرف عربی زبان کے شاعر مراد لیے ہیں اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر عربی کے ساتھ فارسی، ترکی، پشتو اور اردو کو بھی خالص مسلمانوں کی زبانیں ہیں شامل کر لیا جائے تو مسلمان شاعروں کی تعداد کس حد تک پہنچ جائے گہ۔ اور اگر بالفرض عرب کی قوم سے مطلقاً مسلمان شاعر مراد ہوں تو بھی تمام جہان کی قوموں کے شعراء سے ان کی تعداد کا زیادہ ہونا کچھ تعجب خیز نہیں۔

 

اس کی کثرت کا سبب

بظاہر اس کثرت کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں :ایک مدح و ستائش پر ممدوح کی طرف سے صلہ و انعام ملنے کا رواج جس کی وجہ سے ہر موزوں طبع کا عام اس سے کہ وہ شاعر بننے کے لائق ہو یا نہ ہو شاعری اختیار کرنے کا خیال ہوتا تھا۔ دوسرے ہر درجہ کے شعر پر سامعین کی طرف سے جا و بیجا تحسین و آفرین ہونے کا دستور۔ اور یہ پچھلا سبب پہلے سے بھی زیادہ شعر کوئی کی تحریک کرنے والا تھا۔ کیونکہ صلہ و انعام کا لالچ صرف انہیں لوگوں کو ہوتا تھا جنہیں اس کی احتیاج تھی۔ لیکن واہ واہ سننے کی خواہش میں بادشاہ اور امیر اور غریب سب برابر تھے۔ ان دونوں سببوں سے مسلمانوں کی شاعری کو دو طرف سے صدمہ پہونچا۔ جب صلے اور انعام مستحق اور غیر مستحق دونوں کو برابر ملنے لگے اور تحسین و آفرین کی بوچھاڑ محل اور بے محل ہر درجہ کے شعر پر ہونے لگی تو جو فی الحقیقت صلہ و تحسین کے مستحق تھے۔ ان کے دل بجھ گئے اور شاعری کی اعلی لیاقتیں جو ان کی طبیعت میں ودیعت تھیں وہ خریداروں کی بے تمیزی کے سبب جیسی ہونی چاہیے ظاہر نہ ہونے پائیں اور جو مستحق نہ تھے ان کے دل بڑھے اور ان کو قوم میں اپنی بساند پھیلانے اور شاعری پر ظلم کرنے کا موقع ملا۔

 

عرب میں شعرا کی قدر

شعرا کی قدر تمام دنیا میں ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے سلطنتوں نے ہمیشہ اس کی قدر کی ہے اور قوموں نے ان کے دل بڑھائے ہیں۔ عرب میں شاعر قوم کی آبرو سمجھا جاتا تھا جب کسی قبیلہ میں کوئی شخص شاعری میں ممتاز ہوتا تھا تو اور قبیلوں کے لوگ اس قبیلہ کو آ کر مبارک باد دیتے تھے اور سب مل کر خوشیاں کرتے تھے۔ قبیلوں کی عورتیں اپنے بیاہ کے زیور پہن کر آتی تھیں اور فخریہ اشعار گاتی تھیں کہ ہم میں ایسا شخص پیدا ہوا جو تمام قبیلہ کی ناک رکھنے والا، ان کے نسب اور زبان کی حفاظت کرنے والا اور ان کے کارہائے نمایاں اخلاف و اعقاب تک پہنچانے والا ہے۔ شعراء کی ناز برداری یہاں تک کی جاتی تھی کہ اگر وہ کوئی محال سوال کر بیٹھتا تو بھی صراحتاً اس کو رد نہ کیا جاتا تھا۔ ایک بار اعشیٰ بہت سا مال و اسباب لیے بلا دنبی عامر میں ہو کر گزر اور راہزنوں کے خوف سے اثنائے راہ میں علقمہ بن علاثہ کے ہاں ٹھہر گیا اور پناہ چاہی اس نے بسر و چشم قبول کیا اعشیٰ نے کہا تو نے مجھے جن و انس سے پناہ دی؟ علقمہ نے کہا ہاں۔ اعشیٰ نے کہا اور موت سے؟ وہ بولا یہ تو امکان سے خارج ہے۔ اعشیٰ وہاں سے ناراض ہو کر عامر بن الطفیل کے ہاں چلا گیا۔ اس نے دونوں باتوں کی حامی بھر لی۔ اعشیٰ نے کہا موت سے کیونکر پناہ دی؟ کہا میری پناہ میں تجھے موت آ جائے گی تو تیرا خونبہا تیرے وارثوں کو بھیج دوں گا۔ اعشیٰ بہت خوش ہوا اور اس کی مدح میں قصیدہ کہا اور علقمہ کی ہجو لکھی۔

 

قومی سلطنتوں میں شعرا کی قدر مفید معلوم ہوتی ہے مگر شخصی حکومت میں مضر ہوتی ہے

عرب کے سوال اور ملکوں میں بھی شعرا کی قدر دانی کا ایسا ہی حال رہا ہے قومی سلطنتوں میں جہاں بادشاہ حاکم علی الاطلاق نہیں ہوتا۔ ایسی قدردانیوں سے شاعری بے انتہا ترقی پاتی ہے۔ شاعر جب تک تمام قوم میں مقبول نہیں ٹھہر جاتا سلطنت سے اس کی تقویت اور امداد نہیں ہوتی اور قوم میں وہی شاعر مقبول ہو سکتا ہے جو شاعری کے فرائض بغیر امید و بیم کے نہایت آزادی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ نہ اس کو سلطنت کی دستگیری کی کچھ پرواہ ہے اور نہ بادشاہ کے مواخذہ کا کچھ خوف ہے۔

لیکن خود مختار سلطنتوں میں شاعر کو ہر حال میں دربار کی رضا جوئی کا لحاظ رکھنا اور آزادی سے دست بردار ہونا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سچے جوش اور ولولے جن کے بغیر شعر کو ایک قالب بے روح سمجھنا چاہیے۔ سب رفتہ رفتہ خاک میں مل جاتے ہیں۔ نہ وہ اپنے دل کی امنگ سے کسی کی مدح کر سکتا ہے نہ سچے جوش سے کسی کی ہجو لکھ سکتا ہے۔ مروان بن ابی حفصہ جو کہ خلیفہ مہدی کے زمانہ میں مشہور شاعر تھا اس نے معن زائدہ کے مرثیہ میں، جس کی شجاعت اور سخاوت ضرب المثل تھی، یہ شعر لکھ دیا تھا۔

و قلنا این نرحل بعد معن

و قد ذھب النوال فلا نوالا​

مہدی نے اس کو دربار میں بلا کر یہ شعر پڑھوایا اور نہایت نے عزتی کے ساتھ دربار سے نکلوا دیا۔ لکھا ہے کہ جعفر برمکی کے سوا پھر کسی امیر یا خلیفہ نے اس کو صلہ نہیں دیا۔ جہاں وہ قصیدہ کہہ کر لے جاتا وہاں سے جواب ملتا۔ فیاضی تو معن کے ساتھ گئی۔ جعفر برمکی جس کا ایک زمانہ اور خاص کر شعرا مرہون احسان تھے اس کے مرثیے لکھنے پر بہت سے شاعر ہارون کے حکم سے قتل کیے گئے تو تاشی نے اکثر شعرا کے قتل کے بعد خفیہ ایک مرثیہ لکھا تھا، اس کے اخیر میں کہتا ہے۔

اما و اللہ لو لا لا خوف واش

و عین للخلیفتہ لا تنام

لطفنا حول قبرک و استمنا

کما للناس بالحجرا اسلام​

ترجمہ: واللہ اگر غماز کا اور خلیفہ کی چشم بیدار کا خوف نہ ہوتا تو ہم تیری قبر کے گد طواف کرتے اور بوسہ دیتے جیسے کہ لوگ حج اسود کو بوسہ دیتے ہیں۔

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل