فہرست مضامین
مقال
حصہ دوم
آفاق عالم صدیقی
ایسے دیوانے پھر نہ آئیں گے۔۔ علی سردار جعفری
علی سردار جعفری کی شاعری سے متعلق بات شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے پس منظر سے تھوڑی واقفیت حاصل کر لی جائے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کی کئی حکومتوں نے اشتراکی نظام کو اپنا لیا۔ اس طرح اشتراکیت کا نظریہ تیزی سے پھولنے پھلنے لگا۔ یہی وہ صورتحال تھی جس سے ایشیا میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ اور انسان کی آزادی و ارتقاء کے تصورات سائنس و ٹکنولوجی کی پیش رفت سے سچ ثابت ہوتے نظر آنے لگے۔
۱۹۱۹ میں ہندوستان کو جب انگریزی حکومت سے کچھ دستوری اصلاحات کی مراعات ملی تو یہاں کا متوسط طبقہ شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا۔ جنگ کے زمانے میں ہندوستان اور یوروپ میں جو قربت پیدا ہوئی تھی۔ اس نے ہندوستانیوں کی آنکھیں کھول دی تھی۔ مگر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے کسی عملی اقدام کا راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی زمانہ میں گاندھی جی نے قومیت کا نظریہ دے کر ہندوستانیوں کو چونکا دیا۔ اور پھر انہوں نے اپنا آندولن شروع کر دیا۔ اس آندولن سے عملی اقدام کا راستہ کھل گیا۔ اور ایک طرح کی اصلاح کاری کا آغاز ہو گیا۔ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ اصلاح کاری کی سرشاری سے ہی انقلاب کے راستے کی ہمواری ہوتی ہے۔ کیونکہ جب اصلاح اور اصلاحی تحریک ثمر بار نہیں ہو پاتی ہے تو اپنے آپ انقلاب کا خیال ذہنوں میں سر ابھارنے لگتا ہے۔ ہندوستانی نوجوانوں کو یوروپی قربت کی وجہ سے یہ راہیں نظر آنے لگی تھیں۔ کیونکہ ان کا شعور اتنا بالیدہ تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ دنیا کی انقلابی تحریکوں سے متاثر ہو کر راہ عمل کا تعین کرسکیں۔ چنانچہ وہ بڑے جوش و خروش سے حب الوطنی جمہوریت اور سماج واد کی باتیں کرنے لگے۔ اس طرح نئی سیاسی صورتحال کا جنم ہوا۔ اس نئی سیاسی صورتحال نے نئے شعور کو اور نئے شعور نے نئی زندگی اور نئے ادب کو پروان چڑھایا۔ چنانچہ اس عہد کے ادب میں ہندوستان کے دل کی دھڑکن بڑی آسانی سے سنی جاسکتی ہے۔
۱۹۳۶ء میں فاشزم کے خلاف ثقافت کی حفاظت کیلئے جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی تھی۔ اس کی صدائے بازگشت ہندوستان میں بھی سنائی دینے لگی اور یہاں کی تمام زبانوں کے اہل قلم ہوشیار ہو گئے۔ تب سے آج تک دوسری زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب بھی اپنے ترقی پسندانہ زاویہ نظر سے ان غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ جو قومیت کی سا لمیت کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اس بیداری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کی سبھی زبانوں میں ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم ہو گئی۔ جس نے زندگی اور ادب کو باہم مربوط کرنے کے لئے تمام تر تخلیقی ذرائع کا فنکارانہ استعمال کیا۔ اور اس خوبی سے اس مقصد کی تکمیل میں لگ گئے کہ ایک مبنی بر حقائق تخلیقی منظر نامے کو وسیع تر امکانات سے روشناس کرا دیا۔
ویسے تو اردو زبان و ادب کا مزاج شروع ہی سے عوامی اور زندگی کے حقائق کا آئینہ بردار رہا ہے۔ لیکن ترقی پسندی نے اسے اور بھی موثر و معتبر بنا دیا۔ تبھی تو ترقی پسند مصنفین کی ایک روداد میں لکھا گیا ہے کہ
’’غالبؔ ، حالیؔ، سرسیدؔ، شبلیؔ، اقبالؔ، ابوالکلام آزادؔ، چکبستؔ، اکبرؔ، پریم چندؔ، اور جوشؔ سے لے کر کرشن چندر اور کیفی اعظمی تک۔ اردو کے شاعروں اور ادیبوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے جو ہماری قوم کے خون کے ہر قطرے کا حساب لکھ رہا ہے۔ اور آنے والی نسلوں کیلئے ادب کی زبان میں قومی تاریخ مرتب کر رہا ہے۔ ‘‘
علی سردار جعفری انجمن ترقی پسند مصنفین کے اہم ترین اراکین میں سے ایک ہیں ، ان کی پوری زندگی چاہے وہ تخلیقی ہو یا عملی جدّوجہد آزادی سے لے کر استحصالی نظام حکومت، ظلم و جبر، اور سماجی ناانصافی کیلئے ایک انقلاب آفریں احتجاج ہے۔ لیکن میں یہاں ان کی عملی زندگی سے دست بردار ہو کر ان کی تخلیقی زندگی کے ایک حصے یعنی غزل سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ویسے تو سردار جعفری نظموں ہی کے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ کیونکہ نظموں کی بہ نسبت غزلوں کی تعداد ان کے یہاں بہت کم ہے۔ لیکن ان کی غزلیں کمیت کے باوجود کیفیت سے مملو ہیں۔ ان کی غزلوں کے مطالعہ سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے غزل کو محض دلبستگی کیلئے اپنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں غزلیہ شاعری کے نئے امکانات کو دریافت کرنے میں پوری طرح نا کام ہیں۔ ویسے بھی غزل کا فن ایجاز و اختصار اور بہت حد تک ابہام کا خوگر ہوتا ہے۔ جب کہ ترقی پسندی کا سارا زور بیانیہ اور خطابت پر صرف ہو رہا تھا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ غزل کا مزاج ترقی پسندی کی ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بات کو اس طرح کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ’’غزل کو اس کی تمام ترفنی خوبیوں کے ساتھ برت کر تحریکی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنے کا جو تخلیقی اور فنی سلیقہ ہوتا ہے وہ ترقی پسند مصنفین کے تمام شاعروں میں یکساں توازن کے ساتھ نہیں پایا جاتا تھا۔
غزل کا اپنا مخصوص مزاج و آہنگ ہے۔ حسن و عشق اور اس سے متعلق عوامل اس کے بنیادی اور روایتی موضوعات ہیں۔ ادب چونکہ زندگی کا عکاس ہوتا ہے ا س لئے اصناف ادب کو بھی زندگی کی تبدیلیوں کا ساتھ دینا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ جو اصناف ادب زندگی کی ہمرکابی میں دم ہار دیتا ہے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ غزل ادب کی وہ صنف ہے جس نے ہر حالت میں زندگی کے حقائق کی ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو غزل کو ہر دل عزیز بنائے ہوئی ہے۔ چنانچہ ترقی پسند عہد میں داخل ہونے کے بعد غزل نے اپنی داخلی سطح سے زیادہ اپنی خارجی سطح کو موثر و معتبر بنانے کی سعی کی اور رمز و کنایہ کی جگہ پر بیانیہ اسلوب اور حزنیہ لہجہ کی بجائے خطیبانہ لہجے کو اپنا کر اپنے تشخص اور تحفظ کا جواز پیدا کر لیا۔ (یہاں اس بات سے کوئی بحث نہیں ہے کہ خارجیت کے اثرات نے غزل کو دل پذیر بنایا یا انتقاص تاثیر سے ہمکنار کیا)
ترقی پسندوں نے اپنے تحریکی مقاصد کی حصولیابی کیلئے بیشتر نظم و نثر کو ہی اظہار کا وسیلہ بنایا۔ کیونکہ موضوعاتی وضاحت و شدّت کیلئے نظم و نثر کا فارم ہی سب سے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اس لئے ترقی پسند تحریک کے عروج کے زمانے میں سب سے زیادہ توجہ نظم و نثر پر ہی دی گئی۔ لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں ہے کہ غزل بے اماں ہو گئی۔ خود فیض کی ’’دست صبا‘‘ اور ’’زنداں نامہ‘‘ نظموں سے زیادہ غزلوں کیلئے مقبول ہے۔
ترقی پسند ادب تنوع کے اعتبار سے بہت زیادہ زرخیز نہیں ہے۔ اس کے بنیادی اور عمومی موضوعات، بھوک، افلاس، غلامی کے خلاف بغاوت، آزادی کی خواہش ، استحصالی نظام کی نفی، جمہوریت اور اشتراکیت کی بحالی اور امن ومساوات تک ہی محدود ہیں۔ سردار جعفری کی شاعری کا خمیر بھی انہیں اجزا سے مرکب ہے۔
بھوکوں کی نگاہ میں ہے بجلی
یہ برق ابھی گرمی نہیں ہے
اس سے ہر طرح تذلیل بشر ہوتی ہے
باعث فخر نہیں مفلسی و ناداری
انقلابی ہو تو ہے فقر بھی توقیر حیات
ورنہ ہے عاجزی و بے کسی و عیاری
تیغ و خنجر کو عطا کرتے ہیں لفظوں کی نیام
ظلم کی کرتے ہیں جب اہل ستم تیاری
ان اشعار کے درو بست میں جذبات کی جو شدت ہے اسے ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔ ان اشعار کی خوبی بس یہ ہے کہ جذبات کو برانگیختہ کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ سردار جعفری کا مقصد بھی یہی ہے۔ ان کی غزلیں ہوں کہ نظمیں اس سے وہ سماجی بیداری ، ظلم و جبر اور افلاس و بھوک مری کے خلاف انقلاب کی تیاری، اور تمام تر استحصالی رویوں کو رد کر کے مساوات کے راہوں کی ہمواری کا کام لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ اور مجھے کہنے دیجئے کہ یہ کامیابی کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ اسی کامیابی کی بنیاد پر ہندوستان کے مستقبل کا دارومدار ہے۔ کامیابی کا اور حب الوطنی کا یہی وہ احساس ہے جو سردارجعفری کو غزلیہ شاعری کی روایت کی طرف متوجہ کرنے کے بجائے مقاصد کے حصول کیلئے اور زیادہ مخلص اور پر جوش بنا دیتا ہے۔ اور اس طرح ان کی غزلوں کے اشعار تحریکی مقاصد کی آگ سے سلگ اٹھتے ہیں۔
ہوا ہے سخت اب اشکوں کے پرچم اڑ نہیں سکتے
لہو کے سرخ پرچم لے کے میدانوں میں آ جاؤ
قافلے شوق کے رکتے نہیں دیواروں سے
سینکڑوں محبس و زنداں کے دیار آتے ہیں
بس اسی کو توڑنا ہے ، یہ جنون نفع خوری
یہی ایک سرد خنجر دل روز گار میں ہے
فروخت ہوتی ہے انسانیت سی جنس گراں
جہاں کو پھونک نہ دے گی یہ گرمی بازار
اس طرح کے شعلہ فشوں جذبات سے پھنکتے رہنا، اور تمام تر تخلیقی قوتوں کو ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف سینہ سپر ہونے میں صرف کر دینا اپنے آپ میں ایک بے نظیر تخلیقی قربانی ہے۔ مگر طریقہ کار دور رس نتائج کا حامل نہ ہو۔ فکر میں عمق کم اور تندی زیادہ ہو۔ اس پر سے ستم یہ کہ حالات اتنے سنگین ہوں کہ آہ و بکا تو کجا چیخ و پکار کا بھی کسی پر کوئی اثر نہ ہوتا ہو تو آدمی حالات کا شکار ہوہی جاتا ہے۔ اور ایک طرح کی شکستگی کا احساس کچوکے لگانے لگتا ہے۔
رونق کاروبار ہستی میں
ہم نے مانا کہ شکستہ حال ہیں ہم
لیکن یہ احساس دیر تک غالب نہیں رہتا ہے۔حوصلہ زندہ رہنے کا بہانہ تلاش لیتا ہے۔
شکست شوق کو تکمیل آرزو کہیے
جو تشنگی ہو تو پیمانہ و سبو کہیے
بہرحال اس احساس شکستگی سے صرف ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال کا ہی پتہ نہیں چلتا ہے بلکہ یہ شکستگی شاعر کے اندرون کی ناتمام خود اظہاریت کا بھی پتہ دیتی ہے۔ شاعر جانتا ہے کہ اس کے اندر بہت اندر جو تڑپ ہے اس کی تکمیل نہیں ہو پا رہی ہے۔ ایسی صورت میں شاعر کو اپنی جبلیاتی اور جمالیاتی کائنات کی سیر پر نکل جانا چاہیے۔ لیکن سردار جعفری نے تو گویا قسم کھا رکھی ہے کہ مقصد کے حصول کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں کریں گے۔ حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ وہ جمالیاتی حسیت کی پرورش کر کے نہ صرف یہ کہ اپنی شکستگی کو شگفتگی سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں بلکہ اپنے شوریدہ سر وجود کے سوختہ گوشوں کو بھی سیراب کرسکتے ہیں۔ نیز اپنے دوسرے ہمعصروں کی طرح غزل کہنے کی عیش کوشی سے بھی محظوظ ہوسکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ایسا کرنا مقصد سے فرار ہونے کے مترادف جانا۔ حالات کی یہی وہ جابرانہ ستم ظریفی تھی جس نے شاعر کے جذبات کو ٹھنڈا کر دیا یوں بھی آدمی ایک ہی سُر میں بھلا کتنی دیر تک چیخ چلاّ سکتا ہے۔
قافلے بھٹکتے ہیں منزل تمنا پر
عشق کیوں ہے سرگرداں حسن بے نشاں کیوں ہے
کچھ کمی نہیں لیکن کوئی کچھ بتلاؤ
عشق اس ستم گر کا شوق کا زیاں کیوں ہے
عشق جو روحانی فرحت و تازگی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ وہ عشق جو بشریاتی فطرت کی نسوں سے رستا ہے اور انسانی وجود کو سرسبز و شاداب کر کے زندگی میں نئی امنگوں کی تخلیق نو کا سبب بنتا ہے وہ اس عہد پر آشوب میں شوق کا زیاں بن کر رہ گیا تھا۔وہ کیسا ستم ظریفانہ اور جابرانہ عہد تھا اس کا صحیح اندازہ کم سے کم وہ لوگ تو قطعی نہیں لگا سکتے جنہوں نے آنکھ کھولتے ہی ہندوستان کو آزاد فضا میں سانس لیتے دیکھا ہے۔ اگر علی سردار جعفری چاہتے تو وہ بھی اپنے بعض رفقاء کار کی طرح تحریکی مقاصد کو پس پشت ڈال کر ایسی شاعری کرسکتے تھے جو انہیں اپنے عہد کے ممتاز غزل گو شعرا کی صف میں کھڑا کر دیتی۔ مگر انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔ یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے جمالیاتی احساسات کو نظر انداز کر کے عوامی مسائل کے حل کیلئے خود کو وقف کر دیا۔ وہ خوب جانتے تھے کہ اس وقت اپنے عہد کے تقاضوں سے دامن کش ہو کر اپنی جبلی یا جمالیاتی احساسات کی ترجمانی کیلئے اپنے اندرون میں سفر کرنا حقائق سے چشم پوشی برتنے کے مترادف ہو گا۔ اس عہد کے تقاضوں کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ جگر مرادآبادی جیسا شاعر جس کی کل کائنات حسن و عشق ہی تھی وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آجکل
اس لئے اگر سردار جعفری کی غزلیں مقصدیت کی گونج سے پر شور ہو گئی ہیں تو اس میں جعفری صاحب کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اس عہد کا تقاضا ہی یہی تھا کہ غزل کہنے کی عیاشی کو بالائے طاق رکھ دیا جائے اور عوامی دھارے سے جُڑ کر قومی سالمیت اشتراکیت اور آزادی کیلئے کوشش کی جائے۔ ان تمام باتوں کے باوجود جعفری صاحب کے یہاں ایسے اشعار بہرحال مل جاتے ہیں جو غزلیہ شاعری کے انتخاب میں جگہ پاسکتے ہیں۔ شاید اسی لئے ’ظ انصاری‘ نے کہا تھا کہ:
’’اپنی نثر اور تقریروں میں غزل پر آنکھیں نکالتے تھے اب خود غزل لکھنے بیٹھ گئے ہیں۔ توسارے غمزے ساتھ لائے ہیں۔
ان کے آنے کو چھپاؤں تو چھپاؤں کیسے
بدلا بدلا سا ہے میرے درودیوار کا رنگ
اور ہے عشق کی نظروں کا نکھارا ہوا روپ
یوں تو شائستہ تھا پہلے بھی رخ یار کا رنگ
یوں تو کہنے کیلئے آتی ہیں صبحیں روز روز
جانے کیوں کٹتی نہیں ہے پھر بھی شامِ انتظار
چوم لینا لب لعلیں کا ہے رندوں کو روا
رسم یہ بادۂ گلگوں سے چلی ہے یارو
شاخ گل کب سے ہے سینے میں چھپائے ہوئے
دیکھیں کب باد صبا حکم چمن کاری دے
ان اشعارسے صاف ظاہر ہے کہ سردار جعفری کے لاکھ گریز کرنے کے باوجود کلاسیکی شعری روایت اور غزل کی فطری روح ان کی تخلیقیت خیزی کا جزو بن ہی گئی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسندی کی تمام تر شوریدگی کو نکال کر بھی جعفری صاحب کی غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو ہم ان کی غزلوں کو نظر انداز کرنے میں کسی بھی طرح حق بجانب نہیں ہوں گے۔ کیونکہ کلاسیکی غزل کی جو روایت رہی ہے وہ کم و بیش سردار جعفری کی غزلوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلوں کا انتخاب کر کے اس کے حسّی پیکر کو ٹٹولا جائے تو ہم پائیں گے کہ انقلاب و بغاوت، جنگ و جدال، آتش و بم، تلوارو خنجر، اور تیر و تفنگ کی باتیں کرنے والے شعلہ فشوں شاعر کے پہلو میں ایک ایسا معصوم اور نرم دل ہے جو محبت کا لمس پاتے ہی بچے کی طرح چہک اٹھتا ہے۔ اور شوریدہ سری کی فضاؤں سے باہر نکل کر نغمہ سرا ہو جاتا ہے۔
مہک رہی ہے غزل ذکر زلف خوباں سے
نسیم صبح کی مانند کو بہ کو کہیے
پھول کے گِرد پھر و باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
ساز سے کوئی نغمہ نکلے دل میں کوئی پھول کھلے
ایک بار تو اپنی زباں سے پوچھ ہمارے دل کا حال
کہیں رہ گئی ہو شاید ترے دل کی دھڑکنوں میں
کبھی سن سکے تو سن لے مری خوں شدہ نوا کو
دیکھنا پھول سے کھلتے ہوئے ہونٹوں میں مرے
غنچۂ دل کے چٹکنے کی صدا ہے کہ نہیں
انسان فطرتاً نرم خو، معصوم، حسن و عشق اور سچائی و ہمدردی کے جذبات کا خوگر ہوتا ہے۔ پھر انسان کی اپنی جبلی ، جمالیاتی اور جدلیاتی قدریں ہوتی ہیں۔ ان قدروں یا یوں کہیں ان خواہشوں اور آرزوؤں پر کسی قدر قابو تو پایا جاسکتا ہے مگر اس کو پوری طرح دبا دینا یا رد کر دینا نہ تو انسان کے بس کی بات ہے اور نہ بشریاتی فطرت کی صداقت وسچائی۔ چنانچہ خاص قسم کے مقصدی دائروں کو توڑ کر اس قسم کے جذبات کا چھلک جانا، یا بشریاتی فطرت کا انسانی ذہنوں سے رس کر صفحہ قرطاس پر پھیل جانا نہ تو آئیڈیولوجی سے منہ موڑنے کے مترادف ہے اور نہ حقائق کے منافی، یہ بات ذہن میں پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ اُلوہی جذبات ہی کے فیضان سے انسانی روح بالیدہ ہوتی ہے۔ اور زندگی حقیقی مسرت و بصیرت سے ہمکنار ہو کر کائناتی صداقت کا اثبات کرتی ہے، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ایک سچے اور ایماندار فنکار کی عملی اور تخلیقی دونوں ہی زندگی اپنے عہد کی عکاس ہوتی ہے۔
یہ ترقی پسند تحریک کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے ہمارے ادب اور ہمارے تخلیقی دھارے کو زندگی سے مربوط کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ اور ہماری زبان اور ہمارے ادب کے ساتھ ساتھ ہم تمام اردو برادری کو وہ سرمایہ فراہم کر دیا جو رہتی دنیا تک ہمارے ادبی سرمائے کو با مقصد بنائے رکھے گا۔ اگر ترقی پسندتحریک اردو زبان و ادب میں اس زور و شور سے پروان نہیں چڑھتی تو شاید آج بعض متعصب لوگوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے میں اردو زبان اتنی سنجیدہ اور بولڈ قطعی نہیں ہوتی۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ حب الوطنی ، قومی سا لمیت ، اور عوامی جذبات کی ترجمانی کا جو کردار اردو نے ادا کیا ہے وہ اب تک ہندوستان کی کوئی زبان نہیں کرسکی ہے۔ اور یہ سب کچھ اتنی خوبی اور مضبوطی سے اس لئے ہونا ممکن ہوا کہ اردو والوں نے ترقی پسندتحریک کو فروغ دینے میں اپنے آپ کو بھلا دیا۔ وقت حالات اور عہد آفریں تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنے فن لطیف کے مزاج و منہاج کو بدلنے کا خطرہ مول لے لیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک نے اردو زبان و ادب کو حقائق کے اظہار کا جوسلیقہ سکھایا ہے۔ اور منفی رویوں کے خلاف حق گوئی کی جو جرأت پیدا کی ہے اس میں بہت کچھ علی سردار جعفری کا بھی حصہ ہے۔ ایسے جیالے جن کی پوری زندگی تحریکی شکل اختیار کر لے اور عوامی بیداری کا سبب بن جائے کسی بھی زبان کے ادب میں بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔ جعفری صاحب نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ:
ایسے دیوانے پھر نہ آئیں گے
دیکھ لو ہم کو کہ بے مثال ہیں ہم
٭٭٭
کیفی اعظمی کی معنویت
کیفی اعظمی ترقی پسند تحریک کے اکابر شعراء میں سے ایک تھے۔ جس طرح وہ عملی زندگی میں ایک خاص طرح کی پہچان رکھتے ہیں اسی طرح ادب میں بھی ان کی ایک خاص طرح کی حیثیت ہے۔ کیفیؔ اعظمی کی شاعری پر بات شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک کے پس منظر پر تھوڑی سی روشنی ڈال لی جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا تبدیلی کے نئے امکانات سے روشناس ہوئی۔ اور دنیا کی کئی حکومتوں نے اشتراکی نظام کو قبول کر لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سائنس و ٹکنالوجی کی برکت سے انسان کے سارے خواب سچ ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ اس وقت ایشیا میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہو چکی تھی۔ لیکن ہندوستان غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ گو کہ آزادی کی جدّوجہد شروع ہو چکی تھی۔ لیکن اب تک کوئی واضح لائحہ عمل مرتب نہیں ہوا تھا۔ یوروپی قربت کی بدولت ہندوستان کے نوجوان دنیا میں برسر پیکار انقلابی تحریکات سے نہ صرف یہ کہ واقف ہو چکے تھے بلکہ ذہنی طور پر ان تحریکات سے قربت بھی محسوس کر رہے تھے۔ لیکن عملی اقدام کا طریقہ ابھی تک متعین نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کوئی راستہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ایسی صورتحال میں گاندھی جی اپنی بے پناہ قائدانہ صلاحیت کے ساتھ ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئے اور انہوں نے اہل وطن کو قومیت کا نعرہ دے کر اپنا آندولن شروع کر دیا۔ گاندھی جی اور ان کے رفقا ء کا ر کی کوشش سے دھیرے دھیرے ہندوستان میں آزادی کی تحریک ایک مثبت سمت میں پیش رفت کرنے لگی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں عام بیداری کی لہر پیدا ہو گئی۔ ادھر ۳۰ کے بعد ایک بار پھر فسطائی قوتوں نے زور پکڑ لیا اور قہر ناکی کا وہ منظر پیش کیا کہ انسانیت درد سے کراہ اٹھی۔ اس وقت دنیا کے گوشے گوشے میں جہاں کہیں بھی امن، مساوات اور آزادی کے متوالے تھے وہ صف آرا ہو گئے۔ اور ثقافت بچاؤ کی مہم شروع ہو گئی۔ یہی وہ مہم تھی جس کی برکت سے دنیا کی تمام زبانوں میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔
جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت ہندوستان آزادی کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا اور اس کی ساری قوّت آزادی کے حصول کی کوشش میں صرف ہو رہی تھی۔ ایسے حالات میں ادب و فن کا ان اثرات سے بچنا ناممکن تھا، چنانچہ اس عہد کا سارا ادب آزادی کی جدوجہد کا آئینہ بردار بن گیا۔ اس عہد کے زیادہ تر فنکار جاگیر دارانہ نظام کے پروردہ تھے اس لیے ان کی شخصیت اور مزاج میں بھی زندگی کی کیف آور رنگینی اور رومانیت رچی بسی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندتحریک کے ابتدائی زمانے کے سارے فنکاروں کے یہاں رومانیت کا غلبہ پایا جاتا ہے۔
اگر ہندوستان میں ترقی پسندتحریک کو اس جوش و خروش اور شوق و اخلاص سے پروان نہیں چڑھایا جاتا تو بہت ممکن تھا کہ اس عہد کے بیشتر فنکار رومانیت کے شکار ہو جاتے اور فراریت کا ایسا نمونہ پیش کرتے کہ خوش آئند زندگی کا خواب خواب ہی رہ جاتا۔ یہ ترقی پسند تحریک کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے جاگیردارانہ نظام کے پروردہ رومانی فنکاروں کو زندگی کے حقیقی دھارے سے جوڑا اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ارضی صداقت سے ہم آہنگ کر کے ملک اور عوام کے مسائل کا ترجمان بنایا۔
یہی رومانی فنکار جو اپنی تخلیقیت خیزی کی ساری قوّت رومانی جذبات کی عکاسی میں صرف کر رہے تھے۔ جب پلٹ کر حب الوطنی کے ساز پر انقلاب و بغاوت کے رجز گانے پر آمادہ ہوئے تو جوشِ عمل کاایسا ولولہ پیدا کر دیا کہ انگریزی سامراجیت کے ایوان لرز اٹھے۔ اور آخر کار انہیں ہندوستان چھوڑنا پڑا۔
کیفی اعظمی جد و جہد آزادی کے نغمہ سراؤں کے آخری سرتاج تھے۔ مخدوم اور سردار جعفری کی طرح کیفی اعظمی بھی ایسے فعال ، نڈر، اور با حوصلہ شاعر تھے جنہوں نے غریب و محنت کش انسانوں کی کسمپرسی اور جدوجہد میں نہ صرف یہ کہ عملی طور پر حصہ لیا بلکہ کئی محاذوں پر قائدانہ رول بھی ادا کیا۔ یہ اسی عملی اقدام کی حوصلہ مندی تھی جس نے انہیں تا حیات استقلال سے اپنے موقف پر جمے رہنے کی قوّت عطا کی۔
کیفی اعظمی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ کلی طور پر ایک عوام دوست شاعر تھے۔ وہ عوام سے اٹھے اور تا عمر عوام ہی کی خدمت گزاریوں میں لگے رہے۔ ان کا اپنا ایک واضح نظریہ تھا۔ وہ تخلیق شعر کے لیے اپنا ایک معیار وضع کر چکے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ خود اپنی وضع کردہ کسوٹی پر ’’آوارہ سجدے‘‘ تک پہنچنے کے بعد ہی کھر ے اترے۔ ان کی تخلیقی سوچ کے سارے سوتے مادیت اور رومانیت کے چشمے سے پھوٹے ہیں۔ لیکن ہم رومانیت کو ان کی تخلیق سے الگ کرنے کے بعد بھی (جسے انہوں نے خود بھی بعد میں الگ کر دیا تھا) یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصوراتی اور رومانی افکار و خیالات سے مادی افکار و خیالات زیادہ مستحسن ہوتے ہیں۔ کیونکہ رومانیت خود تعیشی و خود فریبی اور نا آسودہ احساسات کی جھوٹی تسکین کا سبب بنتی ہے۔ جب کہ مادی افکار سے قوم وسماج کے تمام تر سروکار کو تقویت ملتی ہے۔ اور اس کی برکت سے سماج و معاشرے میں اصلاح و فلاح اور خوشحالی کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ اور تہذیب و ثقافت کی ترقی کے نئے باب کھلتے ہیں۔ ساتھ ہی زندگی خوب سے ہے خوب تر کہاں کی جستجو میں شاد کام ہوتی ہے۔
معین احسن جذبی کا ایک شعر ہے
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے ا س وقت یہ شبنم موتی ہے
اور سچ بھی یہی ہے کہ جہاں افلاس کی ستم کاری ہو، بھوک بیماری اور مہاماری ہو اور بے روزگاری ہو، فرقہ وارانہ منافرت کی آتش باری ہو، استحصالی نظام کی شاطرانہ ریاکاری ہو۔ مفاد پرستوں کی زر خرید سیاست کی مکاری ہو۔ ہر سو ظلم کی چکی میں پستی عوام کی آہ و زاری ہو، یعنی موت آسان اور زندگی بھاری ہو وہاں ہم ایک صحت مند، آسودہ، پرامن، اور مہذب زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ صورتحال تھی جس کی وجہ سے امن، مساوات اور آزادی کے متوالے ترقی پسند فنکاروں نے داخلیت کی سطحی پکاروں پر کان دھرنے سے انکار کر دیا۔ اور اپنی ساری تخلیقی توانائی عوام اور ادب کے رشتے کو اٹوٹ بنانے میں صرف کر دیا۔ ادب اور عوام کا یہی وہ فطری رشتہ تھا جس نے عوام کو حوصلہ مندی کی زمین پر لا کر کھڑا کر دیا جس پر چل کر ہم آج زندگی کے بہترین خواب سنجونے کے قابل ہوئے ہیں۔
کیفی اعظمی ایک زمیندار گھرانہ کے چشم و چراغ تھے۔ زمیندارانہ نظام کے پروردہ ہونے کی وجہ سے ان کے مزاج میں بھی رومانیت رچ بس گئی تھی۔ وہ اپنے ماحول اور عہد کے تناظر میں انیس و دبیر کی مرثیہ گوئی سے متاثر ہو کر جب شاعری کے میدان میں سرگرم عمل ہوئے تو انہیں کے انداز میں خطیبانہ طنطنہ دکھانے لگے۔ اور پھر بہت جلد وہ رومانی شاعری کی نرم و گرم آغوش میں سما گئے۔ ان کی رومانی شاعری بڑی پر تاثیر اور دلکش ہے۔ اس میں بلا کی شعریت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے حسن و عشق کے لوازمات کو اس خوبی اور دلکشی سے شعر میں ڈھالا ہے کہ اس کی اثر انگیزی دوبالا ہو گئی ہے۔ اب تک ان کی شاعری کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’جھنکار‘‘، ’’آخر شب‘‘ اور ’’آوارہ سجدے‘‘۔ ’’جھنکار‘‘ میں جوش کا ساخطیبانہ لہجہ پایا جاتا ہے۔ جو شاعری کی نزاکت اور لطیف احساسات کی نفاست کو دبا کر شوریدگی ، شعلگی اور جذبات کی برانگیختگی کی عکاسی کرتی ہے۔ جب کہ ’’آخر شب‘‘ کی شاعری روایت ، رومانیت اور شعریت کا ایسا دلپذیر اور شیریں آمیزہ ہے کہ پینے والا مدہوش ہو جاتا ہے۔ اس پر ایک خاص قسم کی سرمستی وسرشاری چھا جاتی ہے۔ اس شاعری میں اتنی دلکشی، رعنائی اور غنائیت ہے کہ یہ قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لیے ہم ترقی پسند تحریک کے مقاصد کو بھلا دیں اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کیفی اعظمی کس قبیل اور کس رجحان کے شاعر ہیں تو بلا تکلف ہم ’’آخر شب‘‘ کی شاعری کو ان کی تخلیقی زندگی کا بے بہا سرمایہ مان لیں گے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ترقی پسندی والی شاعری امتداد زمانہ کے سبب مٹ گئی یا از کار رفتہ ہو گئی تو یہی شاعری کیفی اعظمی کو زندہ و جاوید رکھنے کے لیے کافی ہو گی۔ کیونکہ اس قبیل کی شاعری میں ان کے یہاں بعض ایسی خوبصورت نظمیں پائی جاتی ہیں کہ ان کی مثال بھی مشکل ہی سے ملتی ہے۔ ’’نقش و نگار‘‘، ’’تصور‘‘، ’’مجبوری‘‘، ’’احتیاط‘‘، ’’پشیمان‘‘، ’’بوسہ‘‘، ’’اندیشے‘‘، ’’ملاقات‘‘، ’’نرسوں کی محافظ‘‘ ’’تم‘‘ اور اسی طرح کی بعض دوسری نظمیں ان کی رومانی شاعری کی بہترین مثالیں ہیں ، ان نظموں میں جو دلکشی، رعنائی، غنائیت، کیفیت، سراپانگاری، تازگی، اور خوابناکی پائی جاتی ہے۔ وہ انہیں بہترین رومانی نظموں کے انتخاب میں شامل ہونے کا استحقاق فراہم کرتی ہے۔ کچھ نظموں کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔
اے بنت مریم گنگنا اے روح نغمہ گائے جا
جیسے شگوفوں میں سما کر گنگناتی ہے ہوا
جیسے خلا میں رات کو گھونگھرو بجاتی ہے ہوا
(نغمگی)
حلاوتوں کی تمنا ، ملاحتوں کی مراد
غرور کلیوں کا ، پھولوں کا انکسار ہو تم
جسے ترنگ میں فطرت نے گنگنایا ہے
وہ بھیرویں ہو، وہ دیپک ہو، وہ ملہار ہو تم
(تم)
کلی کا روپ پھول کا نکھار لے کے آئی تھی
وہ آج گلِ خزانہ ، بہار لے کے آئی تھی
جبین تابناک میں گھلی ہوئی تھی چاندنی
چاندنی میں عکس لالہ زار لے کے آئی تھی
تمام رات جاگنے کے بعد چشم مست میں
یقیں کا رس امید کا خمار لے کے آئی تھی
گلابی انکھڑیوں کی سحر کاریوں میں خندہ زن
غرور فتح و رنگ اعتبار لے کے آئی تھی
وہ سادہ سادہ عارضوں کی شکریں ملاحتیں
ملاحتوں میں سرخی انار لے کے آئی تھی
(ملاقات)
یہ کس طرح یاد آ رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
کہ جیسے سچ مچ نگاہ کے سامنے کھڑی مسکرا رہی ہو
یہ جسم نازک ، یہ نرم بانہیں ، حسین گردن ، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ ، سلونی رنگت ، گھنیرا جوڑا ، دراز پلکیں
نشیلی آنکھیں ، رسیلی چتون ، دراز پلکیں ، مہین ابرو
تمام شوخی ، تمام بجلی ، تمام مستی ، تمام جادو
ہزاروں جادو جگا رہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
(تصوّر)
بند کمرے میں جو خط میرے جلائے ہوں گے
ایک اک حرف جبیں پہ ابھر آیا ہو گا
میز سے جب مری تصویر ہٹائی ہو گی
ہر طرف مجھ کو تڑپتا ہوا پایا ہو گا
(اندیشے)
یہ تتلیاں جنہیں مٹھی میں بھینچ رکھا ہے
جو اڑنے پائیں تو الجھیں کبھی نہ خاروں سے
تری طرح کہیں یہ بھی نہ بجھ کے رہ جائیں
تپش نچوڑ نہ ان اڑتے ہوئے شراروں سے
(نرسوں کی محافظ)
کیفی اعظمی کی رومانی شاعری سے یہ مثالیں صرف اسی لیے پیش کرنی ضروری نہیں تھی کہ ان کی شاعری کے لحن کی تبدیلی کا انداز لگایا جاسکے بلکہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ حضرات جو انہیں محض کمیٹیڈ شاعر کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بھی اس طرف متوجہ کیا جاسکے۔ بعض ناقدان ادب بڑی بے رحمی سے یہ فرمان سنادیتے ہیں کہ کیفی اعظمی اور اس قبیل کے دوسرے ترقی پسند شاعروں کی شاعری اسی عہد اور ماحول کے لیے موزوں تھی جس میں وہ تخلیق ہوئی تھی۔ اب وہ فضا یکسر بدل چکی ہے اس لیے ان کی شاعری کا جواز بھی ختم ہو گیا ہے۔
میں اس قسم کی فکر رکھنے والے حضرات سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ ادب کو روایتی جمالیاتی حسیات کی عینک کے بغیر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں تب بھی آپ کیفی کی شاعری کو ادب نکالا نہیں دے سکیں گے۔ کیونکہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں خاصی مقدار میں اس قسم کی شاعری کر چکے ہیں۔ جو شعریت کے معیار پر کھری اترتی ہے۔ ان کی متذکرہ بالا نظموں کے ٹکڑوں کے مطالعہ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری میں صنف شاعری کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کی برکت سے شاعری کے رخسار پر جمالیات کا غازہ دمکنے لگتا ہے تواس کے ہونٹوں پر لطف وانبساط اور دلربائی کی یاقوتی سرخی لہریں لینے لگتی ہے۔ نظموں کے ان ٹکڑوں پر توجہ کیجئے اور ان کی لفظیاتی و صوتی حسن و آہنگ کو محسوس کرنے کی کوشش کیجئے تو معلوم ہو گا کہ ان میں شاعرانہ الفاظ کی وہ بہتات ہے کہ اکثر شاعر اس پر رشک کرسکتے ہیں۔
روح نغمہ کا گائے جانا، ہوا کا شگوفوں میں سما کر گنگنانا، گھٹا کا خلا میں رات کو گھونگھرو بجانا۔ حلاوتوں کی تمنا میں ملاحتوں کی مراد کا پالنا، کلیوں کے غرور کا پھولوں کے انکسار میں ظہور پانا، فطرت کا ترنگ میں آ کر اس طرح نغمہ ریز ہونا کہ بھیرویں ، ملہار، اور دیپک کا سلگ اٹھنا، کلی کا روپ اور پھول کا نکھار لے کر گل خزانہ کا سراپا بہار بن کر آنا، جبین تابناک میں چاندنی کا گھلنا، اور پھر اس چاندنی میں عکس لالہ زار کا مسکرانا، تمام رات جاگنے کے بعد بھی چشم مست میں یقین کے رس اور امید کے خمار کا لہریں لینا، گلابی انکھڑیوں کی سحرکاریوں میں محبوب کا خندہ زن ہونا، سادہ سادہ عارضوں کی ملاحتوں میں شکر کی حلاوتوں کا پایا جانا، ملاحتوں میں سرخی انار کا نمایاں ہونا، اور پھر ایک قیامت سراپا محشر خیز حسن و انداز کی تصویر کا اس طرح مجسم ہونا کہ ایک ایک اعضا کا حسن نمایاں ہو جائے۔ اور جزئیات نگاری اس طرح ابلاغ پائے کہ طبیعت شوق دید میں تخیل کے جہان آباد کر لے۔ مثلاً جسم نازک، نرم باہیں ، حسین گردن، سڈول بازو، شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، درازگیسو، نشیلی آنکھیں ، رسیلی چتون، دراز پلکیں ، مہین ابرو، اور ان تمام صفات و خوبی کا یکجا ہو کر محبوب کی صورت میں جلوہ گر ہو کر اپنی شوخی ومستی سے جادو جگانا اور پھر انجام کار عشق ناکام کی صورت میں بند کمرے میں خط کا جلایا جانا، ایک اک حرف کا جبین ناز پر ابھر آنا، میز سے محبوب کی تصویر کا ہٹایا جانا، اور پھر ہر طرف کمرے میں عاشق کے تڑپنے کا منظر، اور اڑتے شراروں سے تپش نچوڑنے کا عمل ، یہ سب کے سب الفاظ اور ان سے تخلیق ہونے والے امیجز کسی بھی شاعر کے کلام کو معتبر بناسکتے ہیں ، یہ تو ہوا کیفی اعظمی کی شاعری کا وہ پہلو جو انہیں ایک کامیاب شاعر بناتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح ان کی شاعری بتدریج ارتقائی مراحل طئے کرتی ہوئی ترقی پسندی کی معراج تک پہنچی۔ کیفی اعظمی جب رومانیت اور شعریت کی دنیا سے نکل کر اشتراکیت اور ارضیت کی پکاروں کی حقیقی دنیا میں داخل ہوئے تو ان کا لہجہ بالکل بدل گیا۔
مرے مطرب نہ لِلّٰہ مجھ کو دعوت نغمہ دے
کہیں ساز غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے
فکر و نظر کی تبدیلی کا یہی وہ موڑ تھا جس نے کیفی کی تخلیقی حسیات سے محبوب کے جمال کی رعنائی کو رخصت کیا۔ اور اس کی تخلیقی روح کو ملک و قوم کی حالت زار کی عکاسی کا درس دیا۔ اور پھر کیفی اعظمی پوری زندگی عوامی بیداری، اشتراکیت کی بحالی، سوشلسٹ سماج کے قیام کے لیے عوامی ذہن کی آبیاری کرنے میں اس طرح جٹ گئے کہ خود کو بھی فراموش کر دیا۔ حدتو یہ ہے کہ وہ افلاس و غلامی کے خلاف بغاوت کی علم برداری کرتے ہوئے ایک شاعر سے ایک جانباز سپاہی بن گئے۔ انہوں نے ’’آوارہ سجدے‘‘ کے دیباچے میں خود ہی لکھا ہے کہ
’’میری شاعری نے جو فاصلہ طے کیا ہے ، اس میں وہ مسلسل بدلتی اور نئی ہوتی رہی ہے۔‘‘ (بہت آہستہ ہی سہی) آج وہ جس موڑ پر ہے۔ اس کا نیا پن بہت واضح ہے۔ یہ رومانیت سے حقیقت پسندی کی طرف کوچ کا موڑ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری میں تبدیلی رفتہ رفتہ آئی ہے۔ ان کے شروع کے حقیقت پسندانہ کلام پر بھی رومانیت کے سائے منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس سے وہ رفتہ رفتہ چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اٹھ میری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
گوشے گوشے میں سلگتی ہے چتا تیرے لیے
فرض کا بھیس بدل لیتی ہے قضا تیرے لیے
قہر ہے تیری ہر ایک نرم ادا تیرے لیے
ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رکنے کا نہیں میں بھی رکنے کا نہیں
اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
عوامی بیداری اور عورت کی زبوں حالی کے پسِ منظر میں لکھی گئی کیفی اعظمی کی یہ نظم جس میں عورت کو بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنی عموماً ترقی پسند نظمیں ہوتی ہیں۔ اس نظم کے لہجہ میں شاعرانہ پن پایا جاتا ہے۔ اس نظم میں شعریت، لطافت اور بہت حد تک نزاکت بھی پائی جاتی ہے۔ مگر ان کا یہ شاعرانہ لہجہ ہر جگہ قائم نہیں رہتا ہے۔ وقت، حالات، اور واقعات و حادثات کے تحت ان کے لہجے میں کرختگی، سختی اور کسی حد تک برہنہ گفتاری پیدا ہو جاتی ہے۔ اور وہ غزلوں کے اشعار میں بھی اپنے جذبات کو نہیں روک پاتے ہیں۔
بیلچے لاؤ کھودو زمیں کی تہیں
میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے
کیفی اعظمی ایک سچے اور ایماندار اشتراکی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے اشتراکی ہونے پر تمام عمر فخر کرتے رہے۔ یہ اشتراکی اور مارکسیت سے محبت ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ کبھی روس کی عظمت کا گیت گانے لگتے تھے تو کبھی اسٹالن کو ہیرو بنا دیتے تھے۔ وہ مارکسیت و اشتراکیت کے متوالوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے اور روس و چین کی اشتراکی حکومت کو مثالی طاقت سمجھتے تھے اسی زمانہ میں چین نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس سے اشتراکیت کے متوالے ہندوستانیوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس زمانہ میں کیفی فلم سے منسلک تھے۔ ان کا گیت
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
اسی زمانہ کی یادگار ہے، جب کمیونسٹ اکائی دو دھروں میں بٹ گئی تو کیفی اعظمی بھی ٹوٹ گئے۔ اور ان کے سجدے آوارہ ہو گئے۔ اسی زمانہ میں انہوں نے ’’آوارہ سجدے‘‘جیسی نظم لکھی ؎
راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جز میرے اور میرا رہنما کوئی نہیں
کیفی اعظمی کمیونسٹ اور اشتراکی نظام کے حامی ایک مخلص، عوام دوست اور محب وطن انسان و شاعر تھے۔ فرقہ پرستی ، تعصب زدگی، مذہبی انتہا پسندی ، اور منافقت انہیں سخت ناپسند تھی، وہ بڑے یقین اور اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ
’’غلام ہندوستان میں پیدا ہوا، آزاد ہندوستان میں بوڑھا ہوا، اور سوشلسٹ ہندوستان میں مر جاؤں گا۔ ‘‘
ان کو پختہ یقین تھا کہ ہندوستان میں اشتراکیت کی شجر کاری جوں جوں بڑھتی جائیگی ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی خوشبو پھیلتی جائے گی اور ایک دن تمام اہل وطن ا س خوشبو سے ایسے مست ہو جائیں گے کہ اشتراکیت اور مساوات کی پر بہار فضا پیدا ہو جائے گی۔
لیکن ان کا یہ خوبصورت خواب ان کی زندگی ہی میں ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مفاد پرست سیاست دانوں کو اشتراکیت پر مذہبیت کو فوقیت دیتے ہوئے دیکھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اشتراکیت کا نوخیز پودا سوکھ گیا۔ اور امن وامان کے خواب سنجونے والی زمین پر فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے۔ ان واقعات و حادثات نے انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچایا۔ اور وہ ’’آوارہ سجدے‘‘ بہروپنی‘‘ اور ’’موت‘‘ جیسی نظمیں لکھنے پر مجبور ہوئے ان کی طویل نظم ’’خانہ جنگی‘‘ ۴۷ کے فساد کی منہ بولتی تصویر ہے۔ جو کیفی کے جذبات واحساسات کی بھرپورعکاسی کرتی ہے۔ یہ نظم آج کے فرقہ وارانہ ماحول کو بھی خوب درشاتی ہے۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سوکھتی ہے پڑوسیوں سے جان
دوستوں پر ہے قاتلوں کا گمان
شہر ویراں ہیں بند ہیں بازار
رینڈتا ہے شہر میں گرم غبار
رہزنی داخل جہاد نہیں
فطرت شرع میں فساد نہیں
کہہ کے تکبیر باندھ کے نیت
ماں بہنوں کی لوٹ لی عزت
گیت گا کر مہاتما جی کے
پیٹ ماؤں کے چاک کر ڈالے
لاش علم و ادب کی حکمت کی
لاش کلچر کی آدمیت کی
اے وطن اس قدر اداس نہ ہو
اس قدر غرق رنج و یاس نہ ہو
کیفی اعظمی کے یہاں قنوطیت نہیں رجائیت پائی جاتی ہے، یہی وہ خوبی ہے جو انہیں منفعل ہونے سے بچاتی ہے۔ تخلیقی سطح پر کیفی اعظمی کا ادب میں یہ المیہ رہا ہے کہ انہیں کسی رجحان کے ناقد نے دل سے قبول نہیں کیا۔ حدتو یہ ہے کہ بعض اوقات ترقی پسندوں نے بھی ان سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ خود تنقیدی برادری کے بہتیرے نقادوں نے اپنی تن آسانی کے لیے ان کی بعض ہنگامی نظموں کا سرسری جائزہ لے کر انہیں کمیٹیڈ کا سرٹیفیکٹ پکڑا کر جان چھڑانے کی عاجلانہ کوشش کی ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ ادبی رویہ تنقید کے کس خانے میں فٹ بیٹھتا ہے۔ ہم جان چکے ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو اپنی ’’آخر شب‘‘ کی شاعری کے ساتھ جی لیتے اور ادب میں وہ مقام پا لیتے جو کسی بھی شاعر کے لیے معیاری اور منفرد ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ملک و قوم کی حالت زار کے پیش نظر اپنے تمام تر رومانی رویے کو یکسر مسترد کر دیا۔ تو کیا ہمیں عوامی ہمدردی اور وقت کی پکاروں کے حامل اس رویہ کی تکذیب کر دینی چاہیے؟ ہمیں کیفی اعظمی کی شاعری سے منہ موڑ لینا چاہیے کہ انہوں نے شعری جمالیات کی رعنائیوں کو عوامی جذبات کے اظہار کے پیش نظر کیوں قربان کر دیا؟ یہاں یہ بات پوری طرح ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ جمالیاتی اور رومانی احساسات سے کہیں زیادہ مشکل اور مفیدسماجی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے سماجی شعور کو تخلیقی احساسات کی تہذیب میں حل کر کے وقت کے تقاضوں کی تکمیل کا حوصلہ مندانہ ثبوت فراہم کیا ہے۔ جو سب کے بس کی بات نہیں ہے، یہ درست ہے کہ ان کی شاعری میں جب مقصدیت اپنی پوری شوریدگی کے ساتھ شامل ہو گئی تو ان کے یہاں سے شعریت، لطافت اور نزاکت رخصت ہو گئی۔
اور ان کی شاعری خطاب اور منشور بن گئی۔ اور ان کی بعض نظمیں سیاسی تھیم کا منظوم ترجمہ معلوم ہونے لگی۔ لیکن قومی دردمندی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر قومی دردمندی کی کوئی اہمیت ہے تو یقیناً ان کی اس قبیل کی شاعری کی بھی اہمیت ہے۔
لٹنے ہی والا ہے دم بھر میں حکومت کا سہاگ
لگنے ہی والی ہے جیلوں ، دفتروں ، تھانوں میں آگ
مٹنے ہی والا ہے خوں آشام دیو زر کا راج
آنے ہی والا ہے ٹھوکر میں الٹ کر سر سے تاج
چھٹنے ہی والی ہے ظلمت ، پھنکنے ہی والا ہے صور
رفتہ رفتہ کیفی اعظمی نے تخلیقی سطح پر سنگلاخ زمینوں پر چلنے کی عادت ڈال لی، وہ رومان پر ور فضا سے باہر آ گئے۔ اب انہیں ہوا کا خلا میں گھونگھرو بجانا اتنا متوجہ نہیں کرتا ہے جتنا زمین پر بسنے والے عوام کی درد انگیز کراہ متوجہ کرتی ہے۔ اب ان کی ساری توجہ اپنے آس پاس کی جیتی جاگتی دنیا اور اس میں آباد انسانوں پر مرکوز ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کی شاعری میں عام لوگوں کا ہجوم ہمیں دور ہی سے نظر آ جاتا ہے۔ اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہجوم کیفی کا دیوانہ ہے۔ جو ان کی معیت میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
الٹ کر ایک ٹھوکر میں ستم کا راج رکھ دیں گے
اٹھا کر اپنی پستی کو سر معراج رکھ دیں گے
وہ اک گل کی حکومت تھی کہ گلشن لٹ گیا سارا
ہم اب کے غنچے غنچے کی جبیں پر تاج رکھ دیں گے
چلو وادیو ، ساحلو ، دلدلو
چلو معدنو ، کھیتیو ، زلزلو
پہاڑوں کا سینہ ہلاتے چلو
بغاوت کا پرچم اڑاتے چلو
نشانات ستم تھرّا رہے ہیں
حکومت کے علم تھرّا رہے ہیں
غلامی کے قدم تھرّا رہے ہیں
غلامی اب وطن سے جا رہی ہے
اٹھو دیکھو وہ آندھی آ رہی ہے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھیں ، میں بھی اٹھوں ، تم بھی اٹھو ، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
سماجی شعور کی یہی بالیدگی اور آزادی کے لیے بغاوت کے لحن میں گایا گیا انقلاب کا یہی رجز، اور حب الوطنی کی یہی سرشاری کیفی کی شاعری کا لہو اور ان کی زندگی کا مقصود و منہاج تھا۔ ان کی طبیعت میں چونکہ شعریت رچ بس گئی تھی اس لیے بہ استثنائے چند جب وہ پارٹی لائن کے لیے خالص مقصدی شاعری کرتے ہیں تب بھی ان کے یہاں شعریت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔ دوسری اہم اور خاص بات یہ ہے کہ دوسرے فنکاروں کی طرح اشتراکیت کیفی کے لیے محض ایک نظریہ نہیں تھا۔ اشتراکیت تو ان کی زندگی کا ماحصل بن گیا تھا۔ اشتراکی نظریہ کا یہی وہ فطری انجذاب تھا جس نے ان کی شاعری کو شعری تہذیب کے دائرہ سے خارج نہیں ہونے دیا۔
کیفی اعظمی نے جس اشتراکی ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ اس پر سے ستم یہ ہوا کہ جس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے انہوں نے اپنا خون جگر جلایا تھا وہ بھی بیکار ہو گیا۔ اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بابری مسجد کے انہدام کی شکل میں فرقہ پرستی کا ننگا ناچ بھی دیکھنا پڑا۔ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت پر جو نظم لکھی ہے وہ بھی ان کی موضوعاتی نظموں میں ایک امتیازی پہچان رکھتی ہے۔
رقص دیوانگی آنگن میں جو دیکھا ہو گا
۶/ دسمبر کو شری رام نے سوچا ہو گا
اتنے دیوانے کہاں سے مرے گھر میں آئے
تم نے بابر کی طرف پھینکے تھے سارے پتھر
ہے میرے سر کی خطا زخم جو سر میں آئے
رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوار سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہ راس مجھے
۶؍ دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے
کیفی اعظمی ایک با عمل ، با کردار، اور سچے فنکار و شاعر تھے۔ وہ اپنی شاعری میں جن باتوں کا اعادہ کرتے تھے ان پر خود بھی عمل پیرا ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اور ان کی زندگی میں گہرا ربط پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حتی المقدور اپنے عہد کی روداد کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ کیفی کے بعض ہمعصروں نے کیفی پر الزام لگایا ہے کہ کیفی بہت ہی موقع پرست اور حریص انسان تھے، ان کا کہنا ہے کہ کیفی اتنے چالاک اور ہوشیار تھے کہ انہوں نے شہرت اور اعزاز و اکرام کے ساتھ ساتھ پیسے کمانے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ اگر ہم اس قسم کی باتوں کو سچ مان لیں تب بھی ان کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو اعزاز و اکرام اور شہرت حاصل کی اس سے عوام ہی کو فائدہ پہنچایا۔ اگر وہ شہرت نہیں حاصل کر پاتے تو ان کا آبائی گاؤں مجوا دھول اور تاریکی سے باہر نکل کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر نہیں آتا۔ اگر ہمارے تمام فنکار و شاعر کیفی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک ایک گاؤں کو گود لے لیتے تو آج ہندوستان کا ماحول بہت کچھ بدل گیا ہوتا۔ یہ کیفی کی شہرت و عظمت ہی کی برکت ہے کہ اس نے مجوا گاؤں میں سڑکیں بنوا دی، بجلی لگوایا، اسپتال اور اسکول تعمیر کروایا۔
رہی دولت کی بات تو کیفی شاید دنیا کے دوسرے اور ہندوستان کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ٹالسٹائی کی طرح اپنی تمام موروثی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کر دی، اگر واقعی کیفی ایک حریص انسان ہوتے تو وہ بمبئی کی جگمگاتی دنیا کو چھوڑ کر مجوا جیسے پچھڑے گاؤں میں نہیں آتے۔ اور نہ اس گاؤں کی ترقی کے لیے تکلیفیں اٹھاتے۔ اور نہ اپنی زمین غریب کسانوں میں تقسیم کرتے۔ کیفی کا عملی اور تخلیقی دونوں کردار کم سے کم اتنا مضبوط تو ہے ہی کہ وہ اس قسم کے اوچھے واروں کو مسترد کر کے اپنی انفرادیت کو قائم و دائم رکھ سکے۔
٭٭٭
’’گل ریز تیری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ ‘‘۔۔ ناصر کاظمی
اردو زبان صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیبی استعارہ بھی ہے۔ جس کی معنویت ہر زمانے کے سیاق و سباق میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ زبان اگر ماحول اور حالات کے خمیر سے پیدا ہوتی ہے تو حسن کے احساس اور عشق کی آگ کے ملاپ سے اپنا پیراہن تیار کرتی ہے اور تخیل و وجدان سے تازگی و طراوت حاصل کر کے اپنی جادوئی قوت میں اضافہ کرتی ہے۔ دراصل یہی چیز کسی بھی زبان کو وسعت اور مقبولیت سے ہمکنار کرتی ہے۔
اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اردو زبان میں یہ ساری خوبی آج بھی پائی جاتی ہے۔
ہندوستان شروع ہی سے متنوع زبان اور مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ ایک مہذب سماج اور ایک متمدن روایت کے حامل ملک میں ایک نئی زبان کا پیدا ہونا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک پر چھا جانا کم حیرت کی بات نہیں ہے۔ گویا اس مہذب سماج اور اس کے حسن کے احساس میں کہیں نہ کہیں ایک آنچ کی کمی تھی جسے اردو زبان کی شکل میں پورا ہونا تھا۔ سو اردو زبان نے اپنی لطافت سے اسے پایہ تکمیل کو پہنچایا اور ’’ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ‘‘کے احساس کو مہمیز کیا تاکہ کمال کے بعد زوال کا آغاز نہ ہو اور صدائے کن دم بہ دم سنائی دیتی رہے۔
یہ اردو زبان کا اختصاصی وصف ہے کہ اس نے ہندوستان کے گوشے گوشے میں بسنے والے لوگوں کے تخیل کو الفاظ کا پیکر عطا کیا۔ جس کی برکت سے لسانی اشتراک و اتحاد کی فضا پیدا ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ زبان شرافت اور تہذیب کی علامت بن گئی اور پھر اسی تہذیب کے بطن سے پیدا ہوئی۔ غزل جس کے حسن و جمال کی رعنائی اور اقوال و افعال کی حلاوت و حیرانی نے ساری دنیا کو متحیر کر دیا اور متحدہ ہندوستان میں بکھرے تہذیبی اور لسانی کرّے کو ایک اکائی میں تبدیل کر دیا۔ پھر نہ تو کوئی سندھی رہا نہ پنجابی، شمالی رہا نہ دکنی، سرحدی رہا نہ بنگالی۔ گویا اس زبان نے نہ صرف یہ کہ لسانی اتحاد کی فضا پیدا کی بلکہ تہذیبی اشتراک کا بھی سلیقہ سکھایا۔ جس طرح غزل کا ہر شعر منفرد ہونے کے باوجود ایک ہی کل کا جزو ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اردو زبان نے ہندوستان کے مختلف خطوں میں بسنے والے اور مختلف بولیاں بولنے والے انسانوں کو ایک لڑی میں پرو دیا جس میں ہر خطہ غزل کے شعر کی طرح اپنی جگہ ایک اکائی ہونے کے باوجود ایک ہی غزل یعنی ہندوستان کا جزو بن گیا اور اس کا حسن اس نئی ترتیب و تنظیم اور تعلق خاطر سے دوبالا ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں جب بھی کوئی واقعہ یا حادثہ ہوا تو اس سے اردو زبان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی۔ گویا اردو زبان ہندوستانی تہذیب کی روح بن گئی کہ جسم کے کسی بھی حصے پر ضرب پڑی تو روح تڑپ اٹھی۔
دنیا کی تمام بڑی زبانوں کی طرح اردو میں بھی ہزاروں فنکار پیدا ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ لیکن اردو زبان کو جن فنکاروں نے روح کے نغمہ کے طور پر برتا ہے اور باطن سے ظاہر کی طرف کو روشن کیا ہے اور ظاہر سے باطن کی آگ میں آب پیدا کیا ہے ان میں میرؔ سے لے کر ناصر کاظمیؔ تک کا نام شامل ہے۔ ناصر کاظمی نے میرؔ پر لکھے اپنے ایک مضمون میں میرؔ کے عہد کو رات سے تعبیر کیا تھا اور کہا تھا کہ میرؔ کے عہد کی رات ہمارے عہد کی رات سے آملی ہے۔ رات کی یہی ہولناک تاریکی ناصر کاظمی کی شاعری کا پس منظر ہے۔ جس میں ناصر کاظمی کو یادوں کے سینکڑوں جگنو گم ہوتے معلوم ہوتے ہیں اور وہ ان کو سمیٹنے میں جٹ جاتے ہیں۔
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
یونہی پھرتے رہو اداس اداس
میں تو بیتے دنوں کی کھوج میں ہوں
تو کہاں تک چلے گا میرے ساتھ
ہر شئے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو
تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کا جل
ناصر کاظمی کی تنہائی اور اس کا اکیلا پن ایسے سناٹے کا احساس دلاتا ہے جس کی ہر سانس سسکی بن چکی ہے اور اس کی ہر آہٹ کراہ معلوم ہوتی ہے۔
بھیڑ میں اکیلا پن اور ٹوٹتی بکھرتی تہذیبی روایت کے تناظر میں ناشناسی کا جو کربناک احساس پیدا ہوتا ہے اس کیفیت کا انجذاب ناصر کاظمی کی شاعری کو ایک خاص طرح کی دلدوزی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ ناصر کاظمی ’’برگ نے‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ:
’’شعر کی ماہیت پر سوچنے والے عموماً شاعر کو بھول جاتے ہیں ، اس شاعر کو جو بھیس بدل بدل کر ہر زمانے میں نئے جلوے اپنے ساتھ لے کر آتا رہا ہے، ہمارے زمانے کا شاعر کئی اعتبار سے اکیلا ہے‘‘
یہ اکیلا پن ناصر کاظمی کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا ہے۔
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے ہیں
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ شاعری شعور سے عبارت ہے، مگر دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ تنہا شعور کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے کہ شعور کی سیرابی کا معاملہ خارجی دنیا سے اسی طرح جڑا ہوا ہے جس طرح باطن کا تزکیۂ نفس یا روحانی بالیدگی کے احساس سے۔ اگر آس پاس کی دنیا ویران ہو جائے تو پھر شعور بھی بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔ شعور نام ہی ہے آس پاس کی دنیا سے واقفیت کا، چیزوں کے آپسی تعلقات کو دریافت کرنے کا، اور ظاہر و باطن کے ادراک کا، اپنے وجود اور اپنے وجود سے باہر کی دنیا سے ربط پیدا کرنے کا، گویا انسانی وجدان کا باطن سے جتنا گہرا رشتہ ہے اتنا ہی خارج سے بھی اس کا تعلق ہے۔ سچا فنکار وہی ہوتا ہے جو باطن کے حوالے سے خارج کے اسرار تک پہنچتا ہے۔ مگر وہ فنکار بھی چھوٹا یا غیر اہم نہیں ہوتا ہے جو خارج سے باطن کی طرف سفر کرتا ہے اور اپنے شعور کو شاعری کے قالب میں ڈھالتا ہے، شاعری سے شعور تک کا سفر ہو یا شعور سے شاعری تک کا سفر کوئی کم اہم نہیں ہے۔ البتہ اس کی اہمیت و افضلیت کا بہت کچھ دارومدار فنکارانہ ہنر مندی پر ہے۔ کہ شاعر نے جس تجربے یا واردات کو الفاظ کا پیکر عطا کیا ہے اس میں کس قدر فنی ہنر مندی سے کام لیا ہے اور یہ کہ یہ ہنر مندی انسانی احساسات و جذبات اور اس کے تخیل کو کس حد تک وسعت بخشنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ہم ناصر کاظمی کی شاعری کے بارے میں سینکڑوں بار دہرائی گئی اس بات کا اعادہ کرسکتے ہیں کہ یہ ٹوٹے ہوئے دل کی شاعری ہے، مگر ایسا کہنا اور کہہ کر چپ ہو جانا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ دکھ بھی کسی نہ کسی واقعہ، حادثہ اور واردات کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔ جس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ، ویسے غور کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس ٹوٹے ہوئے دل کی آنسوؤں میں ڈوبی شاعری میں ایسی تاثیر اور کشش کیوں کر پیدا ہو گئی کہ آج تک لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں ؟
جب کہ ہم دکھے دلوں کی داستانیں سن کر بہت جلد اکتا جاتے ہیں۔ شیلے نے کہا تھا کہ
’’ہمارے شیریں ترین نغمے وہ ہیں جو ہمارے غمگین ترین حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ غم کا اظہار اس طرح کرنا کہ وہ شیریں ترین نغمہ بن جائے جسم و جان کی ہم آہنگی، اور سانسوں کے زیروبم کی لطیف موسیقی کی روح سے واقفیت اور جذبہ و احساس کی شدت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ غم سے بے قابو ہو کر جب آدمی رونے لگتا ہے تو اسے قطعی احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس کا رونا کتنا دلدوز یا بھونڈا ہے۔ دنیا کا عظیم سے عظیم ترین انسان بھی جب تواتر کے ساتھ رونے لگتا ہے تو لوگ بور ہو جاتے ہیں۔ گویا ہم نرمی و گداختگی کے باوجود ایک حد تک ہی رونا دھونا گوارہ کرسکتے ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں ناصر کاظمی کی شاعری اور اس کی مقبولیت پر توجہ کریں تو اور بھی حیرت ہو گی کہ آخر اس کی غم انگیز اور اشک آلود شاعری میں ایسی کیا بات ہے کہ لوگ آج بھی ان کے ’’دیوان‘‘ کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں تو ان کی ’’برگ نے‘‘ کے نغمے گا رہے ہیں۔ اور ان کی ’’پہلی بارش‘‘ میں بھیگنا اور بھیگتے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایک ذرا توجہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ناصر کاظمی کی شاعری صرف ان کے نجی غم و اندوہ کی امین نہیں ہے بلکہ ہمارے اجتماعی کرب کی پاسبان اور ہماری ثقافت کے جسم پر لگنے والے زخموں کی روداد ہے۔ جس سے آج بھی خون رس رہا ہے۔ ۱۸۵۷ء سے لے کر آج تک ہماری تہذیبی روح کو جس طرح پامال کیا جا رہا ہے ہمارے اجتماعی شعور کی تابناکی میں علیٰحدگی پسندی کا زہر گھولا جا رہا ہے۔ اور انسانیت کے حلقوم پر جس طرح چھری پھیری جا رہی ہے وہ دردمندی کے خوگر لوگوں کی آنکھوں کو کسی طور خشک ہونے نہیں دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ میرؔ سے لے کر ناصر کاظمی تک کی شاعری کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔
ایک بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ غم کاذکر بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے اور نہ دکھ ہی کسی فنکار کو اعتبار بخشتا ہے۔ البتہ اس کے برتاؤ کا طریقہ، اظہار کا سلیقہ اور فنکارانہ ہنر مندی اس کے دکھوں کو فن کا پیکر عطا کرتا ہے۔
ناصر کاظمی ’’برگ نے‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
’’نالہ محفلیں برہم نہیں کرتا ہے، نالہ آفریں پر جو کچھ بھی گزری ہو اس کی فریاد فن کے سانچے میں ڈھل کر نغمہ نہیں بن سکتی تو محض چیخ و پکار ہے۔‘‘
گویا نالے کو فن کے سانچے میں ڈھالے بغیر آدمی سینہ کوبی تو کرسکتا ہے مگر نغمہ سرائی نہیں کرسکتا، یہ بڑی اہم بات ہے کہ ناصر کاظمی نے اپنی ہر چیخ کو سُر عطا کر دیا ہے اور اپنی ہر کراہ کو شعریت بخش دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام ایک خاص طرح کی کسک کے ساتھ روح کی غمناک تاریکی میں نغمگی کی روشنی کا احساس پیدا کر دیتا ہے اور گہرے سے گہرے غم کو نغمۂ دل افروز میں تبدیل کر کے زندگی کو گوارہ بنا دیتا ہے۔
یوں تو ناصر کاظمی کی شاعری کا اول تا آخر موضوع غم ہی ہے مگر اس کے دو رخ ہیں ، ایک غم جاناں اور ایک غم دوراں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ ان کا ذاتی غم اجتماعی غم سے اس طرح گھلا ملا ہوا ہے کہ اسے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے جس طرح میرؔ کی شاعری میں میرؔ کا دل اور دلّی ایک ہو جاتے ہیں اسی طرح ناصر کاظمی کا ہجر، فراق ِیار کے ساتھ ساتھ اپنی جڑوں سے کٹنے، ہجرت کا کرب جھیلنے اور روایات اور تہذیبی اقدار کے بکھرنے کے درد سے اس طرح مربوط ہو جاتا ہے کہ اسے الگ الگ شناخت کرنا ناممکن معلوم ہونے لگتا ہے۔
کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
یک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل
گل ریز میری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ
گلچیں کا بس چلے تو یہ فن مجھ سے چھین لے
یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتا تھا کا جل
نشہ تلخی ایام اترتا ہی نہیں
تیری نظروں نے گلابی بہت چھلکائی
کبھی کبھی تو جذب عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی تیرا خیال آ کے رہ گیا
یہ کیا مقام شوق ہے نہ آس ہے نہ یاس ہے
یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا
ان اشعار کو ناصر کاظمی کی غم جاناں والی شاعری کے خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر ان اشعار کے عواقب میں لہراتے غم دوراں کے سائے سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔ چند اشعار دیکھئے۔
انہیں صدیوں نہیں بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
دلی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار
راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ
کیا کہوں اب تمہیں خزاں والوں
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
کیا کہوں کس طرح سر بازار
عصمتوں کے دیئے بجھائے گئے
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی مٹی
میں جن کو ڈھونڈھتا ہوں کہاں ہیں وہ لوگ
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا
ظاہر ہے کہ یہ اشعار جو مناظر پیش کر رہے ہیں وہ بڑے ہولناک ہیں ، یہ ایک دور کے مٹنے کی ایسی تصویر ہے جسے بھولنا آسان نہیں ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر نہیں دیکھے ہیں ، مگر ہمارے اجتماعی شعور نے اسے بڑی شدت سے محسوس کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مناظر اور یہ تصویریں ہمیں انجانی نہیں لگتی ہیں۔ ذرا چشم تصور وا کیجئے تو ۱۸۵۷ء کی دلی کے ساتھ ساتھ تقسیم وطن اور اس کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے نظارے آنکھوں میں پھر جائیں گے۔ دلی کی گلیاں جنہیں اوراق مصور سے تشبیہ دی گئی تھی، کاغذی دھجیوں میں تبدیل کر دی گئی۔ عجوبۂ روزگار اہل حرفہ اور خوش وضع لوگ خاک میں مل گئے، ایک جمی جمائی بساط الٹ گئی۔
اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے
وہ بھی کس طرح دیکھئے ناصر کاظمی کہتے ہیں :
یہاں اک شہر تھا شعرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی
اس نئے دور نے ہماری اس تہذیب کی کوکھ سے جنم نہیں لیا تھا جسے ہندوستانیوں نے آپسی میل جول اور اتحاد و اتفاق کے پریم رس سے سینچا تھا اور اپنی روایت اپنے لوک ورثے، اپنے گیت، سنگیت اور اپنی صنعت و حرفت سے پروان چڑھایا تھا اگر ایسا ہوتا تو ہمیں اپنی اقدار کے مزار پر بیٹھ کر سینہ کوبی نہیں کرنی پڑتی اور نہ اپنی تہذیب کا نوحہ پڑھنا پڑتا اور نہ ہی اپنے ہی ملک میں مہاجرت کی زندگی گزارنی پڑتی۔
غلامی کی نفسیات اور ظالم حکومت کی اخلاقیات نے ایسا ماحول بنا دیا جہاں جانی پہچانی اور جان سے عزیز چیزیں بھی غیر اہم ہو گئیں۔ رشتوں کا احترام نجی مفاد کی بھٹی میں جل کر خاک ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب غلامی کی زنجیریں کٹ گئیں اور ملک آزاد ہو گیا تو تقسیم کے المیے کو ٹالا نہیں جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کی تمام خوشیاں تقسیم کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے فساد کے لہو میں ڈوب گئیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جس نے حساس دل لوگوں کو لہو رلایا، تو زندگی کے حسین خواب سنجونے والے لوگوں کے دلوں کو دہکتے پھوڑے میں تبدیل کر دیا۔ یہی وہ دہکتا ہوا پھوڑا تھا جس نے ناصر کاظمی کو کسی پہلو چین لینے نہیں دیا۔ وہ تا حیات غم کی آنچ میں جلتے رہے۔
ایسے لوگوں کی آج بھی کمی نہیں ہے جو ناصر کاظمی کی شاعری کو افیون کے نشہ سے تعبیر کرتے ہیں لیکن دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ یہی قنوطی اور منفعل شاعر جدید شاعری کا پیش رو بھی سمجھاجاتا ہے۔جبکہ جدید شاعری انفعالیت کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتی ہے۔ ظفر اقبال، عادل منصوری، اور احمد مشتاق وغیرہ اس کی واضح مثال ہیں۔ اس طرح سوال کیا جاسکتا ہے کہ تو پھر ناصر کاظمی کو جدیدیت کے پیش رو کے طور پرکیوں یاد کیا جاتا ہے؟ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ناصر کاظمی کو جدید شاعر بننے یا کہلانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ خود کو میرؔ کی شعری روایت سے نہیں جوڑتے اور صنعتی شہر کے مسائل کو اپنی شاعری میں خصوصی طور پر پیش کرتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ گویا وہ اپنی دنیا میں خوش تھے اور یہ بھی کہ وہ اپنے تجربات ، واردات اور روح کی آواز سے ہٹ کر شاعری کرنا تخلیقی کرب کے منافی سمجھتے تھے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ناصر کاظمی سرتاپا، غم و اندوہ اور انفعالی کیفیت کے شاعر سمجھے جاتے ہیں ، اس کے باوجود ان کے یہاں ایسی شاعری کے نمونے بھی ملتے ہیں جس سے جدید شاعری کا خمیر تیار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی اشعار جدیدیت کی پیش بندی کے طور پر پڑھے جاتے ہیں۔ مثلاً
اس شہر بے چراغ میں جائیگی تو کہاں
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
کبھی کبھی تو جذب عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی تیرا خیال آ کے رہ گیا
اصل بات یہ ہے کہ ناصر کاظمی نے غزل کو نیا لب و لہجہ دیا ہے۔ مگر انہوں نے غالی قسم کے جدیدیوں کی طرح غزل کو اوپر سے بدلنے کی بجائے غزل کو اندر سے بدلنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لفظوں کے توڑ پھوڑ اور بھاری بھرکم علامت و استعارے کی تخلیق کا شعوری رویہ نہیں پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ان کی شاعری نئے پن کااور ہر دم جواں ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
ناصر کاظمی اور میرؔ دونوں کی شاعری کی اساس اگرچہ غم ہے۔ مگر میرؔ اور ناصرؔ کے غم میں بہت فرق ہے۔ ناصر کاظمی کی شاعری میں میرؔ کا سا دھیما پن تو پایا جاتا ہے مگر میرؔ کی شاعری میں جو ایک خاص طرح کی گونج ہے وہ نہیں پائی جاتی ہے۔ میرؔ کی شاعری میں جو گونج ہے وہ شخصیت کے استحکام کا احساس دلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ میر ہزار طرح کے غم کی لہروں میں بھی اپنا توازن نہیں کھوتے ہیں۔ جب کہ ناصر کاظمی غم و اندوہ میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ ان کی شخصیت پانی ہو جاتی ہے اور وہ غم کا آتش سیال بن کر اپنی شاعری کی رگوں میں دوڑ جاتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناصر کاظمی کو محض ٹوٹے ہوئے دل کا شاعر کہہ کر انہیں نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے۔کیوں کہ کوئی بھی فن محض موضوع کے اعتبار سے بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ جہاں تک فنکارانہ ہنر مندی اور خلّاقیت کی بات ہے تو ا س اعتبار سے ناصر کاظمی بہرحال ایسے باکمال شاعر ہیں جن سے آنے والی نسل زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے گی۔
٭٭٭
اختر الایمان ایک مطالعہ
اردو شاعری کی تاریخ پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ اردو شاعری انیسویں صدی تک کم و بیش ایک ہی محور پر گھومتی رہی، یعنی نہ تو اس کے موضوع میں کوئی خاص تنوع پیدا ہوا اور نہ اس کی ہیئت ہی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی، گویا جو کچھ چل رہا تھا ٹھیک تھا، مگر یہ صورتحال زیادہ دنوں تک برقرار نہ رہ سکی، سرسیداحمدخان اور ان کے رفقا باالخصوص حالیؔ اور آزادؔ کی محنت سے اردو شعر و ادب میں تبدیلی کے نئے امکانات پیدا ہوئے، اور غزل کی بہ نسبت نظم پر زیادہ توجہ دی جانے لگی، اس طرح غزلیہ شاعری کے گھٹے ہوئے ماحول میں زندگی کے توانا اور تازہ جھونکے کا احساس پیدا ہوا۔
پابند نظم جسے حالی و آزاد اور جوش نے اعتبار بخشا اپنی تمام تر قوت اور امکانات کے ساتھ علامہ اقبال کے یہاں اوج کمال کو پہنچی اور اردو نظم کی کائنات منور ہو گئی، مگر نظم پھر بھی آزاد فضا میں سانس لینے سے محروم ہی رہی، کیونکہ غزل اور غزلیہ شاعری کا جادو اب بھی سرچڑھ کر بول رہا تھا، شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ پابند نظم بہت حد تک غزل ہی کے آہنگ سے عبارت ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ جس طرح یہ بات تقریباً مان لی گئی تھی کہ غزل پورے امکانات کے ساتھ میرؔ و غالب کے یہاں نمود پاچکی ہے، اس لیے اس میدان میں آگے کا سفر طے کرنا یا نئی منزل سرکرنا آسان نہیں ہے، اسی طرح یہ بات بھی اَن کہے طور پر مان لی گئی کہ پابند نظم کو جہاں تک پہنچنا تھا اقبالؔ کے ہاتھوں پہونچ گئی اب کوئی دوسراشاعراسے آگے کاراستہ نہیں دکھاسکتا ہے۔
یہ ایسی صورتحال تھی جس سے گریز لازمی تھا، کیونکہ ادب اور زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ہے۔
جب کہ ادب اور زندگی میں انحراف و انجذاب کا سلسلہ بھی چلتا ہی رہتا ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض بڑے فنکاروں کا اثر دیر تک قائم رہتا ہے، اور اس کے متوازی اپنی شناخت قائم کرناکسی بھی فنکار کے لیے مشکل ہو جاتا ہے، ویسے حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی بھی بڑا فنکار کبھی بھی سد راہ نہیں بنتا ہے۔وہ تو اپنے تخلیقی وفور و شعور سے آنے والی نسل کو نئی راہ دکھاتا ہے، نئی زندگی کا مژدہ سناتا ہے اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ’’بزرگ آرٹ محرک اور قوت بخش ہوتا ہے، اس سے وجود میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
ویسے دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ تخلیق ایک طرح کی موّاجی ہوتی ہے، اور تخلیقی موّاجی کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی ہے جسے کوئی روک سکے، سو بعد میں جونسل آئی اس نے اپنی تخلیقی موّاجی کا بھر پور ثبوت پیش کیا اور پابند نظم کے متوازی معریٰ اور آزاد نظم کا تجربہ کیا، جو نہ صرف یہ کہ کامیاب رہا بلکہ مقبول بھی ہوا، اس طرح جدید شاعری کی راہ ہموار ہوئی اور ادب میں آزادہ روی کی ہوا چل پڑی۔
جدید شاعری کے حوالے سے ، ن، م، راشد اور میرا جی کا نام بڑی اہمیت رکھتا ہے، انہوں نے جتنا جلد لوگوں کو متوجہ کیا وہ انہیں کا حصہ ہے، البتہ یہ بات درست ہے کہ ان کی شاعری فوری طور پر محض اس لیے توجہ کا مرکز نہیں بن گئی تھی کہ وہ انسانی فطرت سے زیادہ قریب تھی، یہ بات تو بعد میں معلوم ہوئی کہ ان کی شاعری کتنی اہم ہے، اور یہ کہ زندگی کے کتنے گہرے اور نجی تجربے کی حامل ہے، راشد اور میرا جی فوری طور پر اس لیے توجہ کا مرکز بن گئے تھے کہ انہوں نے نظم کو آزاد فضا میں سانس لینے کا ہنرسکھایاتھا، وہ بھی اس وقت جب اقبال کی شاعری ابھی حرز جان بنی ہوئی تھی، اور لوگوں کی سماعت ابھی غزل کے آہنگ سے ہٹ کر کسی اور آہنگ سے روشناس نہیں ہوئی تھی۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہو جانی چاہیے کہ جس نئی شاعری کے حوالے سے راشد اور میراجی کا نام فخر سے لیا جاتا ہے، اسے اعتبار وقار بخشنے میں اختر الایمان کا بہت اہم رول ہے، جہاں تک جدید شاعری کی بات ہے۔تو یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ جدید شعرا نے شاعری کو ہر طرح کی مقصدیت اور آئیڈیولوجی سے دور رکھنے کی شعوری کوشش کی، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی شاعری جماعت اور سماج کے بجائے فرد کے زیادہ اور ہمہ گیر تجربے کی حامل بن گئی جس سے ادب میں فرد کی آزادی کے مسئلے پر گفتگو کا آغاز ہوا اس طرح ادب میں ایک نیا رجحان فروغ پانے لگا جو بعد میں جدیدیت کے نام سے موسوم ہوا۔
جد ید شاعروں کے یہاں ہمیں جو نمایاں رجحان دیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے کھلے طور پر مقررہ قوانین سے انحراف کیا، پابند فکری نظام اور طے شدہ فارمولوں سے اپنے آپ کو بچایا اور ایک ایسے تخلیقی رویے کو فروغ دیاجس میں خارجی اجالوں سے کام لینے کے بجائے باطن کی روشنی پر زیادہ بھروسہ کیا گیا، اس طرح نظم صرف موضوع کے اعتبار سے ہی نہیں ہیئت کے اعتبار سے بھی خود کفیل بن گئی اور ادب کے سرمائے میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ راشد، میراجی اور اختر الایمان جدید شاعری کے ایسے نام ہیں جن کے ذکر کے بغیر جدید شاعری پر کسی بھی طرح کی گفتگو با معنیٰ نہیں ہوسکتی ہے۔
راشد کی شاعری ایک باغی بے باک ، دانشمند انسان کی شاعری معلوم ہوتی ہے جس میں رد عمل کی نفسیات کا سراغ ملتا ہے، جب کہ میرا جی کی شاعری میں آتش اندرون ذات کی تپش صاف طور پر محسوس ہوتی ہے، جس میں یوگ، بھوگ اور بھنگ کا اپنا اپنا مقام ہے، اور اس کی آمیزش سے جو دنیا تعمیر ہوتی ہے اس کی فضا پر ایک طرح کی دھند سی چھائی رہتی ہے، جب کہ اختر الایمان کی شاعری دردمندی کے احساس اور طنز کے تیکھے پن سے ایسے جہان کی تخلیق کرتی ہے جس میں وقت اژدہے کی طرح ہر قیمتی چیز کو نگل جاتا ہے، اور زندگی خالی ٹرین کی طرح انسانی جنگل سے گذرتی محسوس ہوتی ہے۔
راشد اور میراجی کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے پابند نظم کو تقریباً حرام قرار دے دیا تھا، مگر اختر الایمان نے اتنی شدت نہیں برتی، البتہ انہوں نے غزل کو اپنے یہاں سے دیس نکالا دے دیا اور اس روش پر ہمیشہ قائم رہے۔
اردو شعر و ادب میں یہ روایت آج تک کم بیش قائم ہے کہ جو شاعر غزل سے انحراف کرتا ہے اور اس سے اپنی بیزاری کا کھلے عام اظہار کرتا ہے وہ عموماً مقبولیت حاصل نہیں کر پاتا ہے، اور نہ ادب میں کوئی خاص مقام حاصل کر پاتا ہے، عظمت اللہ خان کی مثال سامنے کی ہے، اب اگر اس تناظر میں اختر الایمان کو دیکھا جائے تو ایک گونہ حیرت ہو گی کہ انہوں نے غزل سے کھلے طور پر انحراف کیا اس کے باوجود اپنی شناخت بنائی، وہ بھی اتنی مضبوط اور پیاری کہ غزل کا بڑے سے بڑا پرستار اور طرفدار بھی ان کی شاعری سے انحراف نہیں کرسکا اور نہ اسے نظرانداز کرنے کی وکالت ہی کرسکا۔
اختر الایمان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کمال ہنر مندی سے کام لیتے ہوئے پابند اور معریٰ نظم کے دائرے میں رہتے ہوئے نہ صرف یہ کہ روایتی شعری زبان سے گریز کیا بلکہ ایسا شعری آہنگ پیدا کیاجس میں گفتگو اور مکالمہ بھی نظم کا جزو بن گیا، فاروقی صاحب نے بجا طور پر لکھا ہے کہ:
’’ہمارے یہاں شاعرانہ اور غیر شاعرانہ لفظ، اسلوب، طریق کار وغیرہ کی بحث اب زیادہ نہیں ہوتی ، لیکن اختر الایمان کی نظمیں پھر بھی بعض اوقات اس قدر غیر متوقع طور پر گفتگو اور مکالمے سے قریب آ جاتی ہیں کہ ادب کے اجارہ دارپروفیسر لوگ جو شاعری نہیں بلکہ صرف تنقید پڑھتے ہیں چکر میں پڑ سکتے ہیں کہ یہاں شاعری اور نثر کوکس طرح الگ کیا جائے‘‘
کمبخت گھڑی نے جان لے لی
ٹک ٹک سے عذاب میں ہے جینا
جب دیکھو نظر کے سامنے ہے
احساس زیاں نے چین چھینا
(گھڑی)
عام گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ اور لہجے کی وضاحت فاروقی صاحب نے اور بھی کئی مثالوں سے واضح کی ہے۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ گفتگو کا سا انداز اختر الا یمان کی اور بھی کئی نظموں میں پائی جاتی ہے، ان کی ایک نظم ہے ’’کل کی بات‘‘ یہ نظم تقسیم وطن پر لکھی گئی نظموں میں خاص اہمیت رکھتی ہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اختر الایمان نے بات چیت کے انداز میں اتنے اہم اور غیر معمولی واقعے کو اس طرح بیان کر دیا ہے کہ واقعے کی سنگینی پوری طرح واضح ہو گئی ہے۔نظم دیکھئے:
ایسے بیٹھے تھے ادھر بھیّا تھے دائیں جانب
ان کے نزدیک بڑی آپا شبانہ کو لیے
اپنی سسرال کے کچھ قصّے ، لطیفے ، باتیں
یوں سناتی تھیں ہنسے پڑتے تھے سب
سامنے اماں وہیں کھولے پٹاری اپنی
منہ بھرے پان سے سمدھن کی انہیں باتوں پر
جھنجھلاتی تھیں کبھی طنز سے کچھ کہتی تھیں
ہم کو گھیرے ہوئے بیٹھی تھیں نعیمہ ، شہناز
وقفہ ، وقفہ سے کبھی دونوں میں چشمک ہوتی
حسب معمول سنبھالے ہوئے خانہ داری
منجھلی آپا کبھی آتی تھیں کبھی جاتی تھیں
ہم سے دور ابا اسی کمرے کے اک کونے میں
کاغذات اپنے اراضی کے لیے بیٹھے تھے
یک بہ یک شور ہوا ملک نیا ملک بنا
اور اک آن میں محفل ہوئی درہم برہم
آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ زمین لال ہے سب
تقویت ذہن نے دی ٹھہرو ، نہیں خون نہیں
پان کی پیک ہے یہ اماں نے تھوکی ہو گی
پوری نظم اس لیے نقل کی ہے کہ گفتگو کے انداز کی حامل اس نظم میں واقعے کی صورت گری کی خوبی کا احساس ہو جائے، اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ نظم کے آخری مصرعے میں جو طنز ہے دراصل وہی نظم کی تاثیر کا سبب ہے، یہاں اس بات کی طرف اشارہ کر دینامناسب معلوم ہوتا ہے کہ اختر الایمان کے یہاں بیشتر نظموں میں طنز کی کارفرمائی سے بہت ہی اہم کام لیا گیا ہے، مگر اس پر بعد میں گفتگو ہو گی۔
اختر الایمان کو بجا طور پر اس بات کی شکایت تھی کہ غزل نے ہماری شاعری کے تصّور کو نقصان پہنچایا ہے، یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے یہاں آج بھی شاعری سے عموماً غزل ہی مراد لی جاتی ہے، گویا غزل کی دنیا سے باہر نکل کر جو شاعری کی جاتی رہی ہے یا کی جا رہی ہے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے، دراصل یہی رویہ اختر الا یمان کوپسند نہیں تھا، اس لیے انہوں نے نہ صرف یہ کہ غزل سے انحراف کیا بلکہ غزل کی زبان سے بھی گریزکیا اور اردو میں شاعری کی زبان کا جو عام تصّور تھا اس کو بھی اپنی تخلیقی ہنر مندی اور زبان کے انوکھے برتاؤ سے یکسر تبدیل کر دیا، موضوع کیسا ہی بلند ہو خیال کتنا ہی اہم ہو وہ ہلکے پھلکے کھردرے نثری الفاظ میں اس طرح بیان کر دیتے ہیں کہ لفظوں میں جان سی پڑ جاتی ہے۔
یہی شاخ تم جس کے نیچے کسی کے لیے چشم نم ہو یہاں اب سے کچھ سال پہلے
مجھے ایک چھوٹی سی بچی ملی تھی جسے میں نے آغوش میں لے کے پوچھا تھا، بیٹی!
یہاں کیوں کھڑی رو رہی ہو مجھے اپنے بوسیدہ آنچل میں پھولوں کے گہنے دکھا کر
وہ کہنے لگی میرا ساتھی، ادھر، اس نے انگلی اٹھا کر بتایا، ادھر اس طرف ہی
جدھر اونچے محلوں کے گنبد ، ملوں کی سیہ چمنیاں ، آسماں کی طرف سراٹھائے کھڑی ہیں
یہ کہہ کر گیا ہے کہ میں سونے چاندی کے گہنے ترے واسطے لینے جاتا ہوں رامی
(عہد وفا)
دھرتی میری گور ہے یا گھر، یہ نیلا آکاش جو سرپر
پھیلا، پھیلا ہے اور اس کے سورج چاند ستارے مل کر
میرا دیپ جلا بھی دیں گے یاسب کے سب روپ دکھا کر
ایک ایک کر کے کھو جائیں گے جیسے میرے آنسو اکثر
پلکوں پر تھرّا ، تھرّا کر تاریکی میں کھو جاتے ہیں
جیسے بالک مانگ مانگ کر نئے کھلونے سوجاتے ہیں
اس طرح کی بہت سی مثالیں اختر الایمان کی شاعری سے پیش کی جاسکتی ہیں ، مگر اس کی کو ئی خاص ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ اختر الایمان کی شاعری سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص اس بات سے واقف ہے۔
دنیا کی بہترین شاعری کے لیے عموماً غم کو ضروری قرار دیا جاتا ہے، اور بڑی شاعری کے باطن میں چھپے غم انگیز لہر وں کوکسی نہ کسی طور پر ضرور ہی دریافت کر لیا جاتا ہے، گویا بڑی شاعری دلی درد مندی اور غم کی آنچ کے بغیر وجود میں نہیں آتی ہے، اگر اس تناظر میں اختر الایمان کی شاعری پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ ان کے یہاں بھی غم کا آتش سیال حرف و صوت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے، مگر یہ غم شاعر کی محزونی طبع یا قنوطیت کا حامل نہیں ہے، یہ غم موضوع کی وابستگی اور اس کے اظہار کے طریقے اور سلیقے کا زائیدہ ایسا غم ہے جس کے بغیر موضوع کی ترسیل مؤثر انداز میں نہیں ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں غم ایک قدر کی شکل اختیار کر لیتا ہے جب کہ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ اختر الایمان کے یہاں جو غم کا عنصر پایا جاتا ہے وہ غم ان پر کبھی حاوی نہیں ہوتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان کی شاعری کا آہنگ بسااوقات اتنا حزنیہ اور کسک آمیز ہو جاتا ہے کہ ان کی شاعری کی تہہ میں اترنے میں چوک ہو جاتی ہے اور جلد بازی میں انہیں قنوطی شاعر کہہ دیا جاتا ہے۔
ان کے غم انگیز لہجے اور آہنگ کو ان کی کئی نظموں میں محسوس کیاجاسکتا ہے۔مثلاً:
تجھ سے وابستہ وہ اک عہد وہ پیمان وفا
رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا
خواب انگیز نگاہیں ، وہ لب درد فریب
اک فسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا
میرے دامن میں نہ کلیاں ہیں نہ کانٹے نہ غبار
شام کے سائے میں واماندہ سحر بیٹھ گئی
کارواں لوٹ گیا مل نہ سکی منزل شوق
ایک امید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی
(محرومی)
اف یہ مغموم فضاؤں کا المناک سکوت
میرے سینے میں دبی جاتی ہے آواز مری
تیرگی ، اف یہ دھندلکا مرے نزدیک نہ آ
یہ مرے ہاتھ پہ جلتی ہوئی کیا چیز گری؟
آج اس اشک ندامت کا کوئی مول نہیں
آج احساس کی زنجیر گراں ٹوٹ گئی
اور یہ میری محبت بھی تجھے جو ہے عزیز
کل یہ ماضی کے گھنے بوجھ میں دب جائے گی
(موت)
دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمناؤں کا
آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے
ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوں کا
چند پژمردہ بہاروں کا خیال آیا ہے
پاؤں تھک تھک کے رہے جاتے ہیں مایوسی میں
پر محن راہ گزاروں کا خیال آیا ہے
(جمود)
اور پر سوز دھند لکے سے وہی گول سا چاند
اپنی بے نور شعاعوں کا سفینہ کھیتا
ابھرا نمناک نگاہوں سے مجھے تکتا ہوا
جیسے گھل کر مرے آنسو میں بدل جائے گا
ہاتھ پھیلائے ادھر دیکھ رہی ہے وہ ببول
سوچتی ہو گی کوئی مجھ ساہے یہ بھی تنہا
(تنہائی میں )
کالے ساگر کی موجوں میں ڈوب گئیں دھندلی آشائیں
جلنے دو یہ دیے پرانے خود ہی ٹھنڈے ہو جائیں گے
بہہ جائیں گے آنسو بن کر روتے روتے سو جائیں گے
(نئی صبح)
نظموں کے ان ٹکڑوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ نظمیں نہیں غم کے آنسو ہیں جو آنکھوں سے ٹپک کر صفحہ قرطاس پر منجمد ہو گئے ہیں ، مگر اہل بصیرت جانتے ہیں کہ یہ غم زندگی کا زائیدہ ایسا غم ہے جس سے مفر نہیں ہے، یہ غم کی جذباتیت سے پیدا ہونے والا نوحہ نہیں ہے، اور نہ یہ خود ترحمی کا حامل ایسا غم ہے جو شاعر کو منفعل بنا دے۔باقر مہدی صاحب نے درست لکھا ہے کہ
’’اختر الایمان کی شاعری میں غم کا عنصر زیادہ ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کی زندگی میں غم ایک بہت بڑے حصّے پر چھایا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود ان میں پسپائی اور زندگی سے بیزاری نہیں ہے، وہ اپنے تصّور حیات میں غم کو اس لیے اہمیت دیتے ہیں کہ یہ ایک روشن حقیقت ہے ، اور صرف خیالی نعروں سے اس سے چھٹکارا نہیں مل سکتا ہے۔
ان کی شاعری میں غم کی جذباتیت نہیں ہے بلکہ غم فلسفیانہ وقار اور تحمل کا جذبہ لیے ہوئے ہے۔‘‘
اختر الایمان کی زندگی اور ان کے عہد پر نظر کریں تو معلوم ہو گا کہ ان کے یہاں غم کا جو احساس پایا جاتا ہے وہ زندگی کا زائیدہ ایسا غم ہے جس سے چشم پوشی برتنا ممکن نہیں ہے، مگر انہیں قنوطی شاعر کہنا بھی مناسب نہیں ہے، کیوں کہ ان کا ہر غم کسی نہ کسی خوشی کے ساتھ مربوط ہوتا ہے ، جس کے گذرتے ہی زندگی پر کشش معلوم ہونے لگتی ہے، اور شاعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ:
ہر نئے موڑ پر دنیا ہوئی ثابت وبساط!
جس پر انسان فقط مہرے ہیں الٹے سیدھے
پھر بھی وہ کونسا جادو ہے جو ہر تازہ وفات
یوں بھلا دیتا ہے جی سے کہ نشاں بھی نہ ملے
اختر الایمان کا مجموعہ کلام ’’گرداب‘‘ جب اشاعت پذیر ہو کر منظر عام پر آیا تو اس میں شامل کئی نظموں مثلاً، مسجد، موت، قلوپطرہ، پگڈنڈی، اور تنہائی میں ، وغیرہ کی غم آلود فضا کی وجہ سے بعض لوگوں نے انہیں قنوطی شاعر قرار دے دیا، جس سے انہیں تکلیف ہوئی اور انہوں نے احتجاج کیا اور کہا کہ، یار لوگ مجھے یاس پسند اور قنوطی شاعر قرار دیتے ہیں جو قطعی مناسب نہیں ہے، وہ لکھتے ہیں :
احباب کے ایک حلقے میں یہ غلط فہمی پیدا ہوئی تھی کہ، گرداب، کی شاعری قنوطی، یاس انگیز اور گھٹن لیے ہوئے ہے، اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شاعری کی طرف ہمارے اکثر پڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے، وہ شاعری کو تفنن طبع اور ایک ایسے مشغلے کے طور پراستعمال کرتے ہیں جس کا مقصد صرف وقت گذرانی ہے۔‘‘ (آبجو)
اس سے بھی ان کی تسلّی نہیں ہوئی تو انہوں نے اپنی چند ایک نظموں کی تحریری طور پر وضاحت بھی کر دی اور کسی حد تک تفصیل سے کام لیتے ہوئے بعض نظموں کی تشریح و توضیح بھی کرنے کی کوشش کی چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’گرداب‘‘ کی جن نظموں سے زیادہ غلط فہمی ہوئی وہ ، مسجد، موت، قلوپطرہ، پگڈنڈی، جواری، اور تنہائی میں ، وغیرہ ہیں ، ان نظموں کی تشریح کے سلسلے میں بہت تفصیل میں نہیں جاؤں گا البتہ چند اشارے کیے دیتا ہوں جن سے ان نظموں کے سمجھنے میں آسانی ہو گی ساتھ ہی شاید یہ غلط فہمی بھی دور ہو جائے کہ یہ نظمیں قنوطی ہیں۔‘‘ (چند نظموں کی وضاحت)
اس کے بعد اختر الایمان بتاتے ہیں کہ :
میرا مقصد یہ نظمیں کہنے سے نہ کسی ویران مسجدکا خاکہ کھینچنا تھا، اور نہ کسی دم توڑتے ہوئے انسان کی کہانی لکھنا تھا، یہ دونوں نظمیں علامتی نظمیں ہیں ، جن کا رواج ہماری شاعری میں اٹھارہ سال پہلے بھی بہت نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔
اختر الایمان کا کہنا درست ہے ، مگر ظاہر ہے کہ اپنی شاعری کے بارے میں کسی بھی شاعر کا بیان زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ہے، یوں بھی ان کی نظمیں عموماً علامتی اظہار کے پیرائے کی حامل تو ہوتی ہیں ، مگر گہری علامتی نہیں ہوتی ہیں ، ان کے یہاں عموماً علامتیں ایسی ہوتی ہیں کہ صرف علامت کاالتباس پیدا ہوتا ہے۔ علامت کی تہہ داری اور معنوی ابعاد کا گہرا احساس پیدا نہیں ہوتا ہے، رہی متذکرہ نظموں کی بات تو کہاجاسکتا ہے کہ ان نظموں میں جو تفاعلی اور ڈرامائی رویہ پایا جاتا ہے وہ انہیں قنوطی نظموں کے دائرے سے باہر رکھتا ہے۔ نظموں میں جو غم انگیز فضاپائی جاتی ہے اور اس کا جو حزنیہ لہجہ ہے وہ شاعر کے قنوطی پن یا انفعالی ہونے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ موضوع کی ضرورت، اور ماحول کی فضا بندی کی وجہ سے ہے۔
اگر نظم کے موضوع کو دردمندی کے حامل آہنگ میں نہیں ڈھالا جاتا اور صورت واقعہ کو روشن کرنے کے لیے غم آمیز آہنگ کو نہیں اپنایا جاتا تو سارا واقعہ سپاٹ بیانیہ بن جاتا جس سے نظم کی تخلیقی قوت پر حرف آتا اور شدّت تاثیر مجروح ہو جاتی۔
’’مسجد‘‘ مذہب کی علامت ہے جس کی ویرانی لوگوں کی مذہب بیزاری کو درشاتی ہے ، تو رعشہ زدہ ہاتھ مذہبی اقدار کی آخری ہچکی کا علامیہ ہے، جب کہ ندی وقت کا وہ تند و تیز دھارا ہے جو ہر چیز کو بہا لے جانے پر تلا ہوا ہے۔
اسی طرح نظم ’’موت‘‘ ایک منظوم ڈرامہ معلوم ہوتی ہے ، نظم میں جو آدمی بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے، وہ زندگی کی وہ بیش بہا قدر ہے جس کے بغیر زندگی بے معنی ہو جاتی ہے، محبوبہ جھوٹی تسلّی ہے اور دستک وقت کی آواز ہے، وقت جس کی دستبرد سے کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔
اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ نظم کا حزنیہ آہنگ یاسیت اور قنوطیت کی علامت نہیں ہے بلکہ موضوع کی درد مندی اور فضا سازی کی ضرورت ہے ، ظاہر ہے کہ کسی بھی عزیز کی موت کا ذکر قہقہے لگا کر تو کیا نہیں جاسکتا ہے اس لیے ان نظموں کے تناظر میں اختر الایمان کو قنوطی شاعر کہنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے، ان نظموں میں غم انگیزی کی جو کیفیت ہے اسے بجا طور پر مٹتی ہوئی قدروں کے افسوس اور زندگی کے بدلتے تناظر میں جذبوں کے معدوم ہونے کے ملال سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا اختر الایمان کی شاعری میں وقت کا عمل دخل سب سے زیادہ پایا جاتا ہے، وقت جو طاقتور ہے، وقت جو ظالم ہے ، وقت جو خدا ہے، اختر الایمان کے یہاں وقت مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے، اور اپنی طاقت کا احسا س دلاتا ہے، نظم ’’مسجد‘‘ میں وقت ندی ہے ’’موت‘‘ میں دستک ہے۔’’باز آمد‘‘ میں وقت رمضانی قصائی ہے ، ’’بیداد‘‘ میں وقت خدا ہے، ’’وقت کی کہانی میں ‘‘ وقت گرداب زیست ہے’’ اور کوزہ گر‘‘ میں وقت سامری ہے، ملاحظہ کیجیے۔
ایک میلا سا ، اکیلا سا ، فسردہ سا دیا
روز رعشہ زدہ ہاتھوں سے کہا کرتا ہے
تم جلاتے ہو ، کبھی آ کے بجھاتے بھی نہیں
ایک جلتا ہے مگر ایک بجھا کرتا ہے
تیز ندی کی ہر اک مو ج تلاطم ، بردوش
چیخ اٹھتی ہے وہیں دور سے فانی فانی
کل بہا لوں گی تجھے توڑ کے ساحل کے قیود
اور پھر گنبد و مینار بھی پانی پانی
(مسجد)
یہ سامنے جو عمارت ہے بارہ منزل کی
علم بلند ہے جس پر کسی سفارت کا
یہاں نشاں تھے کبھی خلجیوں کی عظمت کے
اور اس کے بعد تصرف میں تغلقوں کے رہی
یونہی بدلتے گئے ہاتھ یہ امانت تھی
ہر آنے والے زمانے کے پاسبانوں کی
وہ یار کھو گئے گرداب زیست میں آج
ہمارے پہلو میں جو بیٹھے تھے ، جیسے صنم
(وقت کی کہانی)
بھیڑ ہے بچوں کی چھوٹی سی گلی میں دیکھو
ایک نے گیند جو پھینکی تو لگی آ کے مجھے
میں نے جا پکڑا اسے ، دیکھی ہوئی صورت تھی
کس کا ہے میں نے کسی سے پوچھا؟
یہ حبیبہ کا ہے رمضانی قصائی بولا
(باز آمد، ایک منتاج)
کہاں ہے وہ قوّت وہ ہستی جو یوں عصر کی روح بن کر
فضاؤں کو مسموم کرتی ہے لاشوں سے بھر دیتی ہے خندقوں کو
میں للکارتا ہوں اسے وہ اگر اتنا ہی جادوگر ہے
تو سورج کو مشرق کے بدلے نکالے کبھی آ کے مغرب سے اک لمحہ بھر کو
ہواؤں کی تاثیر بدلے پہاڑوں کو لاوے میں تبدیل کر دے
سمندر سکھادے ہر اک جلتے صحرا کو زرخیز میداں بنا دے
اصول مشیت بدل دے، زمیں آسمانوں کے سب سلسلے تو ڑ ڈالے
مگر میں اسے کیسے للکار سکتاہوں ، یہ تو خدا ہے
حیات و نمو کی وہ قوت، تغیر، جو خود سامری ہے
یہ وہ کوزہ گر ہے جو خود مسخ کرتا ہے چہرے بنا کر
(کوزہ گر)
نظموں کی تعبیر و تفصیل میں جانا ممکن نہیں ہے، ویسے نظموں کے ان ٹکڑوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کا مرکزی کردار وقت ہے، نظم ایک لڑکا میں بھی وقت کی چیرہ دستیوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے، اس نظم میں دو کردار ہیں۔ ایک با شعور اور دنیا دار، دوسرا معصوم ، نظم کا با شعور کردار زندہ رہنے کے لیے زندگی سے سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہے، کیوں کہ اس عہد میں بغیرسمجھوتے کے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے، زندگی کی ہنگامہ آرائی، اور بھاگ دوڑ میں ایک موقع پر جب نظم کا بالغ کردار اس معصوم لڑکے سے ملتا ہے تو اسے بچپن کی وہ ساری باتیں یاد آنے لگتی ہیں جو معصوم تھیں ، سچی تھیں اور جس کا زیاں اسے گوارہ نہیں تھا۔
’’ایک لڑکا ‘‘ اختر الا یمان کی ایسی شاہکار نظم ہے جسے بجا طور پر اردو سرمایہ ادب میں اضافہ کہا جانا چاہیے، اختر الایمان کی شاعری پر کوئی بھی گفتگو اس نظم کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور سچ یہ ہے کہ اردو کی نظمیہ شاعری پرکی جانے والی کوئی بھی گفتگو نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کو نظر انداز کر کے نہیں کی جاسکتی ہے، اس نظم کے بارے میں باقر مہدی صاحب نے کہا ہے کہ:
’’میں نے جب بھی اس نظم کو پڑھا ہے نئی امید اور توانائی حاصل کی ہے ، ایسی بہت کم نظمیں ہیں جو روح تک کے ریشوں کو چھو لیں ، اور ایک قسم کی بالیدگی حاصل ہوسکے۔‘‘
اس طرح یہ بات پوری طرح صاف ہو جاتی ہے کہ اختر الایمان کوئی قنوطی اور یاسیت پسند شاعر نہیں ہیں ، وہ تو ایسے توانا اور تازہ کار شاعر ہیں جن کی نظموں سے روح میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اختر الایمان کی شاعری کا مطالعہ زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے۔
اب تک کی گفتگو سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اختر الایمان کے یہاں جو غم آمیز لہجہ پایا جاتا ہے وہ موضوع کی درد مندی کی دین اور وقت کا پروردہ ہے، اس لیے اختر الایمان کا غم وقت کے تناظر میں ایک عہد کا غم بن جاتا ہے۔
اختر الایمان کی شاعری کا مطالعہ کرتے وقت، وقت کی قوت کا بڑا شدید احساس ہوتا ہے، کبھی کبھی یہ وقت خدا سے بڑھ جاتا ہے، کیوں کہ وقت کے بدلتے تناظر میں خود خدا سے متعلق تصّور میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے، مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب شاعر وقت کے آگے خود کو بے دست وپا محسوس نہیں کرتا ہے اور ایک خاص طرح کی توانائی کے ساتھ آدمیت کی عظمت و حرمت برقرار رکھتا ہے۔ نظم ’’ایک لڑکی کے نام‘‘ میں اس کیفیت کو محسوس کیاجاسکتا ہے۔نظم دیکھئے:
ہماری دنیا سے ان کی دنیا
حسین تر سے حسین ہو گی
بہشت کیا جو زمین ہو گی
وہ ان پر سب آشکار ہو گا
وہ ان کی راہ کا غبار ہو گا
ہمارے بچے تمہارے بچے
نہ اجنبی ہوں گے ہم تھے جیسے
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے ، وہ یہ کہ جدید شاعروں میں سے ہم کسی بھی شاعر کو کوئی ایک نام دے کر ان کا حق ادا نہیں کرسکتے ہیں ، جیسا کہ ماقبل کے شاعروں کو ایک نام دے دیا جاتا تھا، مثلاً عوامی شاعر، صوفی شاعر، شاعر انقلاب، اور شاعر اسلام وغیرہ، ممکن ہے کہ کسی بھی شاعر کے لیے اس طرح کا لقب پہلے زمانے میں باعث فخر رہا ہو، کیوں کہ وہ ایک خاص مکتبہ فکر، اور ایک خاص طرح کی آئیڈیالوجی، اور فکری نظام کے تحت شاعری کرتے تھے اور فخریہ اس کا اظہار بھی کرتے تھے، مگر جدید شاعروں کے لیے اس طرح کا لقب باعث فخر نہیں ہے، کیوں کہ وہ کسی مکتبہ فکر کے تحت نہیں اپنے من میں ڈوب کر شعر کہتے ہیں۔اپنے باطن کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں ، اپنے وجدان اور تجربے کی روشنی میں شاعری کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں یک رنگی کے بجائے تنوع پایا جاتا ہے، وہ جس طرح زندگی کو اس کے سموچے پن کے ساتھ دیکھتے ہیں اسی طرح وہ اپنے باطن کو اور اپنے آپ کو کائنات کے تناظر میں کبھی ٹوٹے پھوٹے انسان کے روپ میں تو کبھی ایک مکمّل وجود کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ہر طرح کے جذبات اور تجربات کا اظہار فنکارانہ پیرائے میں ہوتا ہے کسی نظریے سے وابستگی کے جوش میں نہیں جدید شاعروں نے اپنے آپ کو رند، صوفی، فلسفی، قلندر، عاشق اور کامریڈ کے روپ میں نہیں بلکہ انسان کے روپ میں دریافت کیا ہے، ایسے انسان کے روپ میں جو متضاد عناصر سے بنا ہے اور متضاد کیفیتوں سے گذرنا جس کا مقدر ہے۔
اختر الایمان کی شاعری میں بھی یہ ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں ، اختر الایمان کے یہاں درد مندانہ لہجے اور غم انگیز آہنگ کے ساتھ ساتھ زندگی اور توانائی سے بھر پور آواز بھی سنائی دیتی ہے۔مثلاً:
پھر مرا خون مچلتا ہے ارادے بن کر
پھر کوئی منزل دشوار بلاتی ہے مجھے
پھر کہیں دشت و جبل ڈھونڈ رہے ہیں مجھ کو
پھر کہیں دور سے آواز سی آتی ہے مجھے
(وداع)
مجھے ایک لڑکا جیسے تند چشموں کا رواں پانی
نظر آتا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے بلائے جاں
مرا ہمزاد ہے ہر گام پر ہر موڑ پر جولاں
اسے ہمراہ پاتا ہوں یہ سائے کی طرح میرا
تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرور ملزم ہوں
میں اس لڑکے سے کہتا ہوں وہ شعلہ مر چکا جس نے
کبھی چاہا تھا خاشاک دو عالم پھونک ڈالے گا
یہ لڑکا مسکراتا ہے یہ آہستہ سے کہتا ہے
یہ کذب و افترا ہے جھوٹ ہے، دیکھو میں زندہ ہوں
(ایک لڑکا)
میں نے مضمون کے شروع میں کہا تھا کہ اختر الایمان کی شاعری دردمندی کے احساس اور طنز کے تیکھے پن سے ایسے جہان کی تخلیق کرتی ہے جس میں وقت اژدہے کی طرح ہر قیمتی چیز کو نگل جاتا ہے، اب تک کے مطالعے سے واضح ہو گیا کہ ان کی شاعری میں واقعی یہ باتیں پائی جاتی ہیں ، مگر ایک پہلو اب بھی بچ گیا ہے، وہ ہے طنز کا تفاعل ، اب ذرا ان کے طنزیہ تفاعل پر نظر کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہ اپنی شاعری کے باطن میں کس طرح طنز کا تفاعل شامل کر دیتے ہیں ، اور نظم کتنی پر تاثیر بن جاتی ہے، ان کی ایک مشہور نظم ہے، ’’تبدیلی‘‘ جس میں انہوں نے بدلتے معاشرے اور شہری زندگی کا ذکر کیا ہے ، اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج کی بھاگ دوڑ والی زندگی میں انسان کس طرح مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا ہے۔نظم دیکھئے:
اس بھرے شہر میں کوئی ایسا نہیں
جو مجھے راہ چلتے کو پہچان لے
اور آواز دے ، او بے اوسر پھرے
دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر وہیں
گرد و پیش اور ماحول کو بھول کر
گالیاں دیں ، ہنسیں ، ہاتھا پائی کریں
پاس کے پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر
گھنٹوں اک دوسرے کی سنیں اور کہیں
اور اس نیک روحوں کے بازار میں
میری یہ قیمتی بے بہا زندگی
ایک دن کے لیے اپنا رخ موڑ لے
اس نظم میں ’’ قیمتی بے بہا زندگی‘‘، ’’نیک روح‘‘ اور اس کے ساتھ ’’بازار‘‘ کے استعمال نے ایسا طنز پیدا کر دیا ہے کہ نظم شدّت تاثیر کے ساتھ قلب پر وارد ہو جاتی ہے، اور آج کی زندگی کا سارا درد اور المیہ پوری طرح واضح ہو جاتا ہے ، دراصل طنز کے اسی تفاعل نے نظم میں بیان کردہ المیے کو صورت گر کیا ہے۔
اگر اس نظم میں طنز کا پہلو پیدا نہیں ہوتا تو انسانی زندگی کی فطری معصومیت کو نگلتا میڑو شہر کا خاکہ اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ نمایاں نہیں ہوتا۔
اختر الایمان کے یہاں علامتی اور طنزیہ تفاعل کی حامل بہت سی نظمیں پائی جاتی ہیں ، ان کے یہاں طنز اور علامتی اظہار کا طریقۂ کار آپس میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ ان کے اسلوب میں جان سی پڑ جاتی ہے، ان کی نظم ’’نیا شہر‘‘ اس کی عمدہ مثال ہے۔نظم دیکھئے:
جب نئے شہر میں جاتا ہوں ، وہاں کے در و بام
لوگ وارفتہ ، سراسیمہ ، دکانیں ، بازار
بت نئے راہنماؤں کے ، پرانے معبد
حزن آلود شفا خانے مریضوں کی قطار
تار گھر ، ریل کے پل ، بجلی کے کھمبے ، تھیٹر
راہ میں دونوں طرف نیم برہنہ اشجار
اشتہار ایسی دواؤں کے ہر اک جا چسپاں
اچھے ہو جاتے ہیں ہر طرح کے جن سے بیمار
اس نئے شہر کی ہر چیز لبھاتی ہے مجھے
یہ نیا شہر نظر آتا ہے ، خوابوں کا دیار
شاید اس واسطے ایسا ہے کہ اس بستی میں
کوئی ایسا نہیں جس پر ہو مری زیست کا بار
کوئی ایسا نہیں جو جانتا ہو میرے عیوب
آشنا ، ساتھی ، کوئی دشمن جاں ، دوست شعار
نظم کی ساخت میں طنز کی لہر کو برقی رو کی طرح دوڑتا محسوس کیاجاسکتا ہے، نیا شہر جو تمام تر پرانے مسائل سے آلودہ ہے نیا ہونے کے زعم میں مبتلا ہے، اس کے نئے لباس پر بوسیدہ کپڑوں کا پیوند دور ہی سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے، گویا نیا شہر اپنے تمام تر نئے پن کے ساتھ ننگا ہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس ننگے شہر کو اوڑھ کر لوگ اپنا ننگا پن چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں ، جب کہ دوست ، آشنا، دشمن جاں ہر طرح کے رشتے اور جذبے سے ناآشنا یہ نیا شہر خود اپنی کوئی پہچان نہیں رکھتا ہے تو اس میں بسنے والے کو بھلا کوئی کسی بھی روپ میں کیوں کر پہچانے گا۔
یہ ایسی نظم ہے جس میں بیان کیا گیا واقعہ ہی نہیں ہر لفظ طنز بن گیا ہے۔
اختر الایمان کی بعض نظمیں علامت سے پاک سیدھی سادی بیانیہ اسلوب کی معلوم ہوتی ہیں ، مگر ان نظموں میں بھی شدّت احساس نے تاثیر پیدا کر دی ہے، کیوں کہ طنز کی لہر نظم کے ظاہر و باطن میں اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ نظم کی پوری فضا قاری کے ذہن پر چھا جاتی ہے، ان کی نظم عروس البلاد، اس کی اچھی مثال ہے دیکھئے۔
وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے
بسوں کے شور میں ریلوں کی گڑگڑاہٹ میں
چہل پہل میں بھڑوں جیسی بھنبھناہٹ میں
کسی کو پکڑو سر راہ ماردو چاہے
کسی عفیفہ کی عزت اتار دو چاہے
وسیع شہر میں اک چیخ کیا سنائی دے
عظیم شہر بڑے کاموں کے لیے ہیں میاں
یہاں مزار ہیں ان کے بھی جن کے نام نہیں
سنہری شہر کی تسخیر کرنے آئے تھے
انہیں شکم سے بہت دور آگے جانا تھا
وہ اس جہان کی تعمیر کرنے آئے تھے
بڑے دماغ تھے طباع تھے ذہین تھے سب
مگر سیاست دنیا میں کمترین تھے سب
عظیم شہر بڑے کاموں کے لیے ہیں میاں
شکست دل کوئی راکٹ ہے جو دکھائی دے
عظیم شہر میں کوئی چیخ کیا سنائی دے
پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے کہا ہے کہ :
اختر الایمان کے یہاں طنزیہ اسلوب کی بہت سی نظمیں پائی جاتی ہیں ، ان کی کئی نظمیں ایسی بھی ہیں جو پوری طرح طنزیہ نہ ہونے کے باوجود طنزیہ احساسات سے عبارت ہیں ، مثلاً ’’میرا دوست ابو الہول‘‘ ’’شیشے کا آدمی‘‘’’راستہ کا سوال‘‘یادیں ‘‘اور گونگی عورت وغیرہ۔
اس کے علاوہ بھی اختر الایمان کی کئی ایک نظمیں ایسی ہیں جن پر طنزیہ اسلوب کا شبہہ ہوتا ہے، خاص طور سے ’’بچوں کو کھیلنے دو‘‘ اور ’’خمیر‘‘ میں طنز کچھ زہر خند کا سا انداز اختیار کر گیا ہے۔
مدرسے آج بھی تازہ و گرم ہیں
صحن مکتب میں اطفال کا شور ہے
پر وہ استادِ شعلہ بیاں مر گیا
جس نے دیوار مکتب پہ لکھوایا تھا
عام انسان بھیڑیوں کا گلہ ہے
جس کو چرواہے ہر حال میں چاہئیں
خون اور نسل ہی معتبر جنس ہے
اور وہ طفل مکتب ابھی زندہ ہے
جو ٹھٹھرتے ہوئے کتّے کے پلّے کو
پیرہن میں چھپا لایا تھا راہ سے
(بچوں کو کھیلنے دو)
گلاب کیکر پہ کب اُگے گا
کہ خار دونوں میں مشترک ہیں
میں کس طرح سے سوچنے لگا ہوں
مجھے رفیقوں پہ کتنا شک ہے
یہ آدمیت عجب شئے ہے
سرشت میں کون سا نمک ہے
کہ آگ پانی ہوا یہ مٹی
تو ہر بشر کا ہے تانا بانا
کہاں غلط ہو گیا ہے مرکب
نہ ہم ہی سمجھے نہ تم نے جانا
غریب کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں
ہوا تولّد تو شاہزادہ
بلند مسند کے گھر پیادہ
ولی کے گھر میں حرام زادہ
اگر ان نظموں کو اختر الایمان کی نجی زندگی کے تناظر میں ان کے اپنے تجربے پر قیاس کیا جائے تو بہت غلط نہیں ہو گا۔ ہاں نظم کے تیکھے پن کو سمجھنے میں آسانی ضرور پیدا ہو جائے گی۔
اختر الایمان کے اس مطالعے سے اتنی بات تو بہر حال سمجھ میں آ جاتی ہے کہ وہ درد مندانہ احساس کے ایک تیکھے خلاّق اور تجربہ پسند شاعر ہیں ، اور ان کے اسلوب میں جو ندرت اور توانائی پائی جاتی ہے دراصل وہی انہیں امتیازی شناخت بخشتی ہے۔
وہ موضوع ، مواد، اور ماحول کے اعتبار سے اپنے لہجے کو نئے آہنگ سے مربوط کرنے اور تخلیقی تفاعل کو نئی جہت دینے پر پوری طرح قادر ہیں ، ان کی سب سے بڑی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے اسلوب کے خالق بھی ہیں اور خاتم بھی یعنی غالبؔ اور اقبالؔ کی طرح ان کے اسلوب کو بھی اپنا ناآسان کام نہیں ہے، انہوں نے اپنی جدّت و ندرت سے کام لے کر نہ صرف یہ کہ روایتی شاعری کے تصّور کو بدل دیا بلکہ شاعری کی ایک نئی لغت مرتب کر دی اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اپنی جگہ بذات خود اتنی اہم اور بڑی ہے کہ وہ کسی بھی فن کار کی حیات جاوداں کی ضامن بن سکتی ہے۔ میں اپنی بات ابوالکلام قاسمی صاحب کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہوں جس سے اختر الایمان کی انفرادیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ:
اختر الایمان کی شاعری میں احساس زیاں احساس زماں کے ساتھ چلتا ہے، اور یہی جدلیاتی صورتحال ان کی نمائندہ ترین نظموں میں طنزیہ اسلوب کو بھی جنم دیتی ہے، اور علامتی تہہ داری بھی پیدا کرتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنی پختہ کاری کے زمانہ میں ’’نیا آہنگ‘‘ جیسی نظم نہیں کہتے ، جو ان کے مخصوص اسلوب اور فنی رویے کا بہترین ثبوت فراہم کرتی ہے۔
کراماً کاتبین اعمال نامہ لکھ کے لے جائیں
دکھائیں خالق کون و مکاں کو اور سمجھائیں
معانی اور لفظوں میں وہ رشتہ اب نہیں باقی
لغت الفاظ کا اک ڈھیر ہے لفظوں پہ مت جانا
نیا آہنگ ہوتا ہے مرتب لفظ و معنی کا
مرے حق میں ابھی کچھ فیصلہ صادر نہ فرمانا
میں جس دن آؤں گا تازہ لغت ہمراہ لاؤں گا
اختر الایمان نے یقیناً اردو شاعری کا ایک نیا لغت مرتب کر دیا ہے، جس سے آنے والی نسل زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گی۔
٭٭٭
عرفان صدیقی ایک مطالعہ
غزل ہماری تخلیقی قوت مندی اور تہذیبی ثروت مندی کے اظہار کا ایسا آبگینہ ہے جس میں خارجی اور باطنی دونوں زندگی کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزل اپنی ابتدا سے لے کر آج تک لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ یہ ایسی صنف شاعری ہے جس میں فکر و نظر کے نت نئے چراغ روشن کیے جاتے ہیں تو احساسات و جذبات اور تجربات و مشاہدات کے مرقعے بھی خلق کیے جاتے ہیں ، میر تقی میرؔ سے لے کر غالبؔ تک اور غالب ؔسے لے کر اقبالؔ اور پھر اقبالؔ سے لے کر فراقؔ و عرفانؔ صدیقی تک غزلیہ شاعری کی ایسی مربوط و مضبوط اور زرخیز و دلپذیر روایت قائم ہو چکی ہے جو یقیناً آنے والی نسل کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
اگر یہ کہا جائے کہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے جس جدید شاعری کی بنیاد ڈالی تھی وہ شادؔ و حسرتؔ، اصغرؔ و جگرؔ اور اقبالؔ و فانیؔ سے ہوتی ہوئی ناصر کاظمی، منیر نیازی، شکیب جلالی، ظفر اقبال، عادل منصوری، احمد مشتاق، شہریار، اور عرفان صدیقی تک پہنچ کر کمال کو پہنچی تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ اور بات ہے کہ ثروت حسین، محمد اظہار الحق، افضال احمد سیداور اس قبیل کے دوسرے شعرا تک معراج کمال تک پہنچنے کا سفر ابھی جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ موضوع کی اس وسعت پر زیادہ گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے کہ اس وقت مجھے عرفان صدیقی کی شاعری سے متعلق گفتگو کرنی ہے۔ مگر عرفان صدیقی کی شاعری سے متعلق بات شروع کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض پیش رو شعرا کی انفرادیت پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے تاکہ نئی شاعری کے سفر میں پیش آنے والی تبدیلیوں کا کچھ اندازہ ہوسکے۔
فراقؔ گورکھپوری اردو غزل کا ایک اہم نام ہے، ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے حسن و عشق اور ہجر وصال کی ان کیفیتوں کو اپنی شاعری کے اجزا میں شامل کر دیا جس کا اظہار ان سے پہلے انفرادیت کے ساتھ کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے عاشق و معشوق کے انفرادی کردار کو بھی واضح کیا اور ان کے نجی غموں کی تصویر بھی پیش کی۔ جس سے فرد کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا۔ اس طرح فراقؔ نئے طرز اور نئی سوچ کے شاعر کی حیثیت سے پہچانے گئے۔
ناصر کاظمی اپنے درد مندانہ لہجے اور آنسوؤں میں ڈوبی پرسوز شاعری کے حوالے سے مقبول و معروف ہوئے اور غزل کو اندر سے بدلنے کی کوشش و کاوش کے حوالے سے پہچانے گئے۔ ظفر اقبال جدید شاعری کا بڑا نام ہے۔ ان کی شاعری جدید شاعری کے تناظر میں سنگ میل کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے انفعالیت کو یکسر مسترد کر دیا اور ایک خاص طرح کے جارح مردانہ لہجے کی پرورش کی جو انہیں سے مختص ہو کر رہ گئی۔ اور یہی چیز ان کی شناخت بن گئی۔ کچھ یہی حالت عادل منصوری اور احمد مشتاق کی شاعری کا ہے۔ مگر عادل منصوری کے یہاں جارحیت کے بجائے فکری تابناکی اور لفظوں کو نئے ڈھنگ سے برتنے کی ندرت کاری کا احساس پایا جاتا ہے جب کہ احمد مشتاق کے یہاں سنجیدگی اور تفکر کے عمق کے ساتھ دانشوری کا تیکھا پن لہجے کو اجالتا اور اسلوب کو نکھارتا ہوا نظر آتا ہے۔
منیر نیازی کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے ماضی و حال کے اختلاط سے اپنی شاعری کے لیے ایسا ذائقہ دریافت کیا جو اردو شاعری کے لیے بالکل نیا تھا، نئے ذائقے کا یہی احساس ان کی شاعری کی اساس بنی اور وہ اسی حوالے سے پہچانے گئے، شہریار نے شخصیت کی عدم تکمیل ذات کے ٹوٹاؤ اور آرزوؤں کی پائمالی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اسی حوالے سے گفتگو کا موضوع بنے۔ غرض غزلیہ شاعری کا یہ تخلیقی وفور فی زمانہ کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا اور غزل زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھتی رہی۔
اردو زبان و ادب میں کئی بار ایسا ہوا کہ کسی نہ کسی تحریک اور رجحان نے غزل کے مزاج و منہاج اور آہنگ کو بدلنے کی کوشش ضرور کی مگر غزل اپنی حدود میں رہ کر نئے پن کے احساس کے ساتھ اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہی اور تحریک و رجحان کے بادسموم کے گزرتے ہی نئے برگ و بار کے ساتھ اپنے وجود کے استحکام کا احساس دلا دیا۔
ترقی پسندوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے سب سے زیادہ توجہ افسانے اور نظم پر دی تو جدیدیت نے غزل کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور نظمیہ شاعری کے میدان میں نت نئے تجربے کیے جو مقبول بھی ہوئے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جدید فضا میں غزل کا دم گھٹنے لگا اور اس میں بہت کچھ یکسانیت و یک رنگی پیدا ہو گئی۔ مگر یہ کیفیت زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہی۔ ۷۰ ء کے آس پاس بشمول غزل کے تمام اصناف ادب میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہو گئی (جو ۸۰ء کے بعد والی تخلیقی صورتحال کی شکل میں پہچانی گئی) اس تبدیلی کے تحت غزل میں کلاسکی سرمائے اور تاریخی و تہذیبی ورثے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جانے لگی۔ اس نئی تخلیقی صورتحال میں جن شاعروں نے غزل کا مثبت ارتفاع کیا اور اپنی پہچان بنائی ان میں عرفان صدیقی کا نام بہت نمایاں ہے۔
عرفان صدیقی ایک ایسے شاعر کا نام ہے جو اپنی خوبیوں کی وجہ سے پوری اردو دنیا میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کی شاعری بمشکل تمام تیس سالوں پر محیط ہے لیکن یہ ان کی شاعری کی ظاہری عمر ہے، معنوی طور پر ان کی شاعری صدیوں پرانے انسانی احساسات و جذبات اور تہذیب کے بکھراؤ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل، کشمکش اور دکھ کی امین ہے، ان کا لہجہ، ان کا اسلوب، ان کا طرز تخاطب، ان کی فکر، ان کا شعور، اور ان کا تخیل صرف ہمعصروں ہی میں نہیں پیش روؤں میں بھی سب سے انوکھا اور دلپذیر ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’کینواس‘‘ ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا مگر اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔ ایسا شاید اس لیے ہوا کہ اس وقت تک ادب پر جدیدیت کے خاص موضوعات کی پکڑ مضبوط تھی اور ان کے ہمعصر بلراج کومل، عمیق حنفی، کمار پاشی، بانی، اور زبیر رضوی وغیرہ پوری طرح سرگرم عمل تھے، جب کہ ’’کینواس‘‘ کی شاعری بہت حد تک اپنے ہمعصروں کے پسندیدہ موضوعات سے صرف نظر کر رہی تھی، اس کا فکری نظام کھلے طور پر تہذیبی روایت کی طرف مراجعت کرتا محسوس ہو رہا تھا، گویا عرفان صدیقی بھیڑ میں اپنی راہ آپ تلاش کر رہے تھے۔
مظہر امام صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’عرفان صدیقی مزاجاً گوشہ نشیں اور کم آمیز تھے، ہرکس و ناکس کو شعر سنانے کا شوق نہ تھا، شعری محفلوں سے احتراز کرتے تھے۔‘‘ (تنقید نما)
ظاہر ہے کہ جو شاعر بھیڑ میں گم ہونا یا بھیڑ کا حصہ بننا گوارہ نہیں کرتا ہے اور عام مذاق سے ہٹ کر کچھ کہنا چاہتا ہے اسے آسانی سے شہرت اور مقبولیت نہیں ملتی ہے۔ ایسا ہی کچھ عرفان صدیقی کے ساتھ بھی ہوا۔
ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’شب درمیاں ‘‘ ۱۹۸۴ء میں منظر عام پر آیا۔ مگر یہ مجموعہ کلام بھی زیادہ مقبول نہیں ہوسکا، البتہ شاعر کی شخصیت کا احساس دلانے میں کامیاب رہا، اور سنجیدہ حلقے میں ایک اچھے شاعر کی آمد کے امکان پر ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز ہو گیا، لیکن جب ان کا تیسرا مجموعہ کلام ’’سات سماوات‘‘ ۱۹۹۲ میں افق ادب پر نمودار ہوا تو اس نے اپنی تابناکی سے قارئین کو چونکا دیا اور تخلیقی سچائیوں کے پارکھ اور غواص معانی کے خوگر فنکار و ناقد نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرفان صدیقی کو نمایاں کرنے میں شمس الرحمن فاروقی اور محمود ایاز صاحبان کا بڑا ہاتھ ہے، عرفان صدیقی فاروقی صاحب کے حلقہ احباب میں شامل تھے تو محمود ایاز صاحب انہیں اپنا محبوب شاعر بتاتے تھے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر فی الواقع ایسا ہی تھا تو کہنا چاہیے کہ عرفان صدیقی کی شاعری اس وقت بھی بہرحال اس پایہ کی تھی کہ اپنے وقت کا بڑا ناقد اس سے متاثر ہوتا اور اپنے وقت کے سب سے اہم رسالے کا فاضل مدیر اسے اپنا محبوب شاعر گردانتا، گویا عرفان صدیقی کی شاعری میں ابتدا ہی سے وہ خوبی پائی جاتی تھی جس نے بعد میں ان کی شخصیت کو استحکام بخشا۔ مگر عام لوگوں پر ان کی شاعری کی خوبی ’’عشق نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد کھلی۔
عرفان صدیقی کی تخلیقی سنجیدگی اور انہماک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے زمانے کے فیشن کے مطابق نہ تو غزل کے ساتھ کھلواڑ کیا اور نہ سستی شہرت کی طرف توجہ دی، مظہر امام صاحب نے لکھا ہے کہ:
’’حکومت ہند کی انفارمیشن سروس سے وابستہ ہونے کے باعث ان کی پوسٹنگ کئی قسطوں میں دہلی میں بھی اچھے خاصے عرصے تک رہی، لیکن وہ یہاں کے ادبی حلقوں سے دور ہی رہے، ہرچند دہلی میں ان کے قیام کا زمانہ اس وقت کی نئی نسل یعنی جدیدیت سے وابستہ یا متاثر نسل کے عروج اور ہماہمی کا زمانہ بھی تھا۔‘‘
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی تخلیقی قوّت پر بھروسہ رکھنے والے ایک خود آگاہ شاعر تھے، انہیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ وہ کسی طرح کی ہنگامہ آرائی کے ساتھ اپنی پہچان پر اصرار کریں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ رسالوں میں شائع ہونے کے معاملے میں بھی دوسرے شاعروں کی طرح افراط و تفریط کے شکار نہیں ہوئے۔ تخلیقی خوداعتمادی اور شعور کی پختگی کی یہی وہ طاقت تھی جس نے ان سے ایسا شعر کہلوایا۔
ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں
ہم نے لکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا
عرفان صدیقی کے یہاں جدیدیت کی بہترین صفتیں تو ضرور پائی جاتی ہیں مگر وہ بعض شدت پسند جدید شاعروں کی طرح محض، تشکیک ، تنہائی، وجودیت، فردیت، اوردوسرے ٹریڈ مارک موضوعات تک محدود ہو کر نہیں رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں کے اشعار کسی ایسے وجدانی تجربے کا حصہ معلوم ہوتے ہیں جن میں اقدار کے حوالہ سے ماضی کی طرف مراجعت اور روحانی رشتوں کی بازیافت کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے۔
سفر طویل ہے اگلا قدم اٹھاتا ہوں
میں پھر سے گم شدگاں کے علم اٹھاتا ہوں
میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں
کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے
غزل گوئی کی پوری روایت کے پس منظر میں ماضی کی طرف مراجعت اور روحانی سہارے کی اس ضرورت کو ایک طرح کے صوفیانہ رویہ سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ماضی اور روحانیت کی بازیافت کے اس صوفیانہ رویے کی تشکیل میں تاریخ کے وسیلے سے تلمیحات اور مذہبی واقعات کی مدد سے قدروں کی باز آفرینی نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ’’ابوالکلام قاسمی‘‘ عرفان صدیقی نے متذکرہ عوامل سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ اسلوب و انداز کے ساتھ ساتھ الفاظ و تراکیب اوراستعارہ سازی میں بھی اپنی انفرادیت کو قائم رکھا ہے۔ کربلا کا سانحہ ہماری شاعری میں طرح طرح کے استعاراتی معنیٰ و مفاہیم کا شروع ہی سے مخرج رہا ہے۔ اس سانحہ کو بہتیرے فنکاروں نے اپنی صلاحیت کے مطابق استعارہ اور علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ لیکن عرفان صدیقی نے جس خوبی اور کمال فنکاری کے ساتھ اس سانحہ کو اپنی شاعری میں بطور استعارہ کے استعمال کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے کربلائی صورتحال کو پس منظر کے طور پر استعمال کر کے کربلا کے سانحہ کو جس خوبصورتی سے ہزار معنیٰ استعارہ بنا کر اپنی شاعری کے پیکر میں روح کی طرح حل کر دیا ہے۔ وہ بس انہیں کا خا صّہ ہے۔
اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں
اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے
وہ مرحلے ہیں کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
میں چاہتا ہوں کہ سب معرکے یہیں سرہو جائیں
کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں
دیکھئے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں
لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں
دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر
طشت میں رکھتا ہے نیزوں پہ سجاتا ہے مجھے
ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
ان تمام اشعار میں معنویت کا ایک جہان سانس لے رہا ہے۔ علامت واستعارے نے معنویت کا ایک سیل رواں کر دیا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ معنیات کا یہ جہان نو سانحہ کربلا کی لفظیات و تلازمات سے خلق ہوا ہے۔ کربلا سے متعلق الفاظ و تراکیب اور تلازمات ہر شعر کو معنویت کا اپنا تناظر فراہم کرتا ہے۔ لہو، مقتل، سیل خوں ، معرکے، نصرت، لشکر، دولت سر، طشت، نیزہ، کوفہ، خیمہ صبر و رضا، یہ تمام الفاظ و تراکیب کربلا کے استعاراتی تناظر میں زندگی کی سچائیوں سے متعلق معنویت کا ایک سمندآسا جہان خلق کر دیتے ہیں۔ ابوالکلام قاسمی صاحب نے بالکل درست کہا ہے کہ واقعات کربلا کے گرد پسندیدہ طور پر استعارہ سازی کرنے والے شاعر عرفان صدیقی نے وقت کے ساتھ ساتھ حق و باطل کی کشمکش، جذبہ قربانی، اقدار پر اصرار، آزمائشی لمحات کی باز یافت اور مقصد اور عقیدے سے ماخوذ جنون کی حدوں کو چھوتی ہوئی سرشاری جیسے تہذیبی، اختلافی اور انسانی قدروں کو ان کے لوازم کے ساتھ پیش کرنے کی طرف زیادہ توجہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
جدید غزل کے تناظر میں عرفان صدیقی کا نام ایک انفرادی پہچان رکھتا ہے انہوں نے غزلیہ شاعری کو اس کی صحت مند تہذیبی روایت کے دائرے میں رکھ کر ہمعصر زندگی کے تمام تر مسائل کو کربلا کے استعاراتی تناظر میں اس طرح سمیٹ لیا ہے کہ غزل کا محسوساتی نظام ابدیت کی رمزیت کا حامل بن گیا ہے۔ کربلا کے استعارہ کو استعمال کرنے والے فنکاروں میں عرفان صدیقی کا نام سب سے معتبر اس لیے ہے کہ انہوں نے دوسرے فنکاروں کی بنسبت خود کو کربلائی صورتحال اور کربلا کے تہذیبی انسلاکات سے زیادہ قریب محسوس کیا ہے۔ اگر کربلا کے استعارہ کو عرفان صدیقی کی شاعری سے خارج کر دیا جائے تو یقیناً ان کی شاعری انفرادیت اور تنوع سے بہت حد تک محروم ہو جائے گی۔ گویا ان کا پورا تخلیقی اور تفکیری نظام کربلا کے ہزار معنیٰ استعارہ پر قائم ہے۔ یہ ان کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام مسائل ، واقعات، حادثات، سانحات اور جذبات کو اس ایک استعارہ سے اس طرح روشن کر دیا ہے کہ اکتاہٹ کے بجائے ایک طرح کی دلپذیری پیدا ہو گئی ہے۔
یہ کم حیرت کی بات نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کی پوری عمارت ایک استعارہ پر تعمیر کر لی ہے۔ وہ بھی اس خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ کہ یکسانیت اور گھٹن کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔
نوکِ سناں نے بیعت جاں کا کیا سوال
سر نے کہا قبول نظر نے کہا نہیں
خدا کرے صف سرداد گاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
تری تیغ تو میری ہی فتح مندی کا اعلان ہے
یہ بازو کٹتے اگر میرا مشکیزہ بھرتا نہیں
ایک رنگ آخری منظر کے دھنک میں کم ہے
موج خوں اٹھ کے عرصہ شمشیر میں آ
عرفان صدیقی نے نقل مکانی اور ہجرت کے کرب کو بھی بڑی شدّت سے محسوس کیا ہے۔ ہجرت کے اس کرب کو ان کے یہاں کربلا سے بھی جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے اور ہند و پاک کے تقسیم کے تناظر میں بھی اس ہجرت کے کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر کوئی چاہے تو فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجہ میں بے گھر ہونے کے کرب اور روزی روٹی کی تلاش میں وطن سے بے وطن ہو جانے کے درد کو بھی اس تناظر میں محسوس کرسکتا ہے۔
میں اپنی کھوئی ہوئی بستیوں کو پہچانوں
اگر نصیب ہو سیر جہانِ گم شدگاں
دو جگہ رہتے ہیں ہم ، ایک تو یہ شہر ملال
اور اک وہ جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے
سفر طویل ہے اگلا قدم اٹھاتا ہوں
میں پھر سے گم شدگاں کے علم اٹھاتا ہوں
یا پھر ان کا شعر
نہر اس شہر کی بھی بہت مہربان ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہ معتبر یا اخی
عرفان صدیقی کی غزلوں میں صوفیانہ روایت کے حامل اشعار بھی مل جاتے ہیں۔ جب روشن خیالی کی فکر میں ہمارے بیشتر فنکار مغرب سے روشن خیالی کشید کر رہے تھے۔ اور اسی کشید کی گئی روشن خیالی کے زعم میں تہذیبی ورثے سے دور ہوتے جا رہے تھے۔ عرفان صدیقی اپنے تہذیبی سرچشمے سے رشتہ بنائے ہوئے تھے۔ اور اپنی روحانی سرشاری کیلئے اپنے ہی سرمایہ سے سیرابی حاصل کرنے میں طمانیت محسوس کر رہے تھے۔
ورنہ ہم ابدال بھلا کب ترک قناعت کرتے ہیں
اک تقاضا رنج سفر کا خواہش مال و منال میں تھا
یہ درد ہی میرا چارہ ہے تجھے کیا معلوم
ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں
عرفان صدیقی کی شاعری میں روحانی اور وجدانی تجربے کا جو رجحان پایا جاتا ہے اس میں مذہبی تقدیس کی بحالی، ہجرت کا دکھ، اور کربلا کا سانحہ مثلّث بن کر ابھرتا ہے اور عرفان صدیقی کی تخلیقی ثروت مندی کو اعتبار بخش جاتا ہے۔
میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں
کوئی طلسم مجھے چار سو پکارتا ہے
ماضی اور تاریخ کی اس باز گشت کو صرف ماضی کی بازگشت کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے فرار کے تناظر میں بھی اس بازگشت کو نہیں دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ اسے نہ منفعلانہ رویہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے نہ نا سٹلجیا کا نام دیا جاسکتا ہے اور نہ اسے قنوطیت ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ماضی اور تاریخ کے اس سیاق وسباق میں آج کے اس انسان کی روح کا نوحہ گونج رہا ہے جو نقلی دانشوری کا شکار ہو کر اپنے محور سے کٹ چکا ہے۔ وہ اس دور شتر بے مہار میں اپنی شخصیت کی تعمیر سے محروم ہو چکا ہے، اس کا وجود کثافت کی نذر ہو کر اپنی پہچان کھو چکا ہے۔ آج کے دور کا انسان حد سے بڑھی مادیت پرستی کے جال میں پھنس کر ہشت پا مکڑیوں کا نوالہ بنتا جا رہا ہے۔ وہ مادیت کے چکر ویو میں اس طرح پھنس کر رہ گیا ہے کہ اس کے پاس روحانی طمانیت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے۔ اخلاقی بحران کا ایسا منظر نامہ خلق ہو چکا ہے کہ تمام قدریں بے معنیٰ ہو کر رہ گئی ہیں۔
اگر وسعت نہ دیجئے وحشت جاں کے علاقے کو
تو پھر آزادی زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
عرفان صدیقی کی غزلیں شعری کائنات کو تازگی، شگفتگی اور تطہیری فکری نظام سے آشنا کرنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔ ان کی شاعری میں عقیدے کے استحکام کی سعی پیہم کے ساتھ ساتھ عابد و معبود کے رشتوں کی تقدیسی بحالی کے احساسات کانور جگہ جگہ لشکارے مارتا نظر آتا ہے۔
یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں دست دعا نکل آئے
حمد و ثنا ، دعا و التجا، فقر و غنا، اور صبر و رضا میں یقینا ًوہ قوت پنہاں ہے۔ جو عقیدے اور ایقان کے سرے کو مضبوطی سے تھامے رہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ اس شعر میں مذہبی استعاروں کی مدد سے جو روحانی اور وجدانی فضا پیدا کی گئی ہے وہ انسانی تمدن کی مایہ ناز قدروں کی باز یافت کی سعی ہے۔ یہ روحانیت اور تطہیر ذات کا وہی عقیدت مندانہ احساس ہے جس کی عدم موجودگی نے جدید اور ترقی پسند غزل کو مادی رشتوں کی کثافت کا ایسا دیار بنا دیا تھا جہاں روح کی سناٹگی اور اکتاہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں بچ گیا تھا۔ اس طرح یہ بات پوری طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ عرفان صدیقی نے ہماری غزلیہ شاعری کو ایک نیا تناظر فراہم کیا۔ سوچنے سمجھنے کا نیا انداز دیا۔ استعارہ سازی کیلئے اپنے سابقہ سرمایوں کی طرف متوجہ ہونے کا حوصلہ دیا۔ قدیم استعاروں کو جدید مسائل کے تناظر میں ہزار معنیٰ کی خوبیوں سے آگاہ کیا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ غزل کو اس کے تہذیبی لباس میں رکھ کر تمام تر چیلنج کا سامنا کرنے کے قابل بنایا۔
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
عرفان صدیقی کو بیشتر لوگوں نے ’’عشق نامہ‘‘ کے بعد ہی پہچانا اور اسی شاعری کے حوالے سے یاد کیا، یہ بات درست ہے کہ ’’عشق نامہ‘‘ کی شاعری غزلیہ شاعری کے موضوع کا ارتفاع کرتی ہے اور سچے جذبے کی تطہیر کا بہت کچھ حق ادا کر دیتی ہے۔ مگر دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا محض عشقیہ جذبے ہی کے اظہار اور عشق کے ہزار رنگ پہلوؤں کے انعکاس سے ہی غزل عبارت ہے؟ اب تک کی گفتگو سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عرفان صدیقی اپنی ’’عشق نامہ‘‘ کی شاعری کی عدم موجودگی میں بھی ایک انفرادی مقام کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ویسے انہوں نے ’’عشق نامہ‘‘ میں اپنا جو کلام پیش کیا ہے وہ بھی غزل کی روایتی شاعری کا ارتفاع کرتی ہے اور جذبات انسانی کے ان گوشوں کو اجاگر کرتی ہے جہاں تک کوئی تربیت یافتہ صاحب دل ہی پہنچ سکتا ہے۔
یہ عرفان صدیقی کا بڑا کمال ہے کہ انہوں نے عشق کی وارفتگی کے باوجود اظہار کے سلیقے کی ندرت کو برقرار رکھا ہے۔ یہ چند اشعار دیکھئے جو اپنے وقت میں بے حد مشہور ہوئے تھے اور آج بھی اسی وارفتگی سے پڑھے جاتے ہیں۔
تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جان من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ ، شامہ ، ذائقہ ، سامعہ ، باصرہ ، سب مرے راز دانوں میں ہیں
اور کچھ دامن دل کشادہ کر و دوستو! شکر نعمت زیادہ کرو
پیڑ ، دریا ، ہوا ، روشنی ، عورتیں ، خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
لپٹ سی داغ کہن کی طرف سے آتی ہے
جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے
کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منبر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرفان صدیقی کو آخری عمر میں عشق ہو گیا تھا، اسی عشق کی آگ نے ان کی شاعری کو جلا بخشا اور وہ اس مقام پر پہنچ سکے۔ مگر خورشید اکرم صاحب اس خیال سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ویسے اس بات کی ایسی کوئی خاص اہمیت ہے بھی نہیں کہ انہیں فی الواقع کسی سے عشق ہوا تھا کہ نہیں۔ دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ان کی شاعری میں جو تازگی اور توانائی ہے وہ آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ ہوسکتی ہے یا نہیں۔
عرفان صدیقی کے یہاں شاعری کا جو جوہر پایا جاتا ہے وہ داخلی آگ سے روشن تو ہے ہی، مگر اس میں خارجی حالات کا آتش سیال بھی شامل ہے۔
انہیں خوب معلوم تھا کہ شاعری زندگی کا رخ نہیں موڑ سکتی ہے مگر زندگی کے بارے میں سوچنے کا جذبہ ضرور پیدا کرسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں :
رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
فنکار نہ صرف یہ کہ اپنے عہد کی تبدیلی کا ادراک رکھتا ہے بلکہ وقت اور حالات کی ستم ظریفی سے بھی واقف ہوتا ہے۔ دراصل یہی وہ چیز ہوتی ہے جو کسی بھی فنکار کے فن کو اعتبار بخشتی ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری صرف زبان و بیان کی جدت و ندرت ہی کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ موضوع کے نئے پن کے احساس کی وجہ سے بھی قابل توجہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی شاعری کا کھلے ذہن کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور ان کے یہاں تخلیقی قوت مندی کا جو احساس پایا جاتا ہے اسے نمایاں کیا جائے۔ کیوں کہ تخلیقی قوت مندی کا یہی احساس انہیں اپنے ہمعصروں میں اور اس سے زیادہ اپنے پیش روؤں میں ممتاز بناتا ہے۔
٭٭٭
غزلیہ شاعری میں بین السطوری مفاہیم کی جستجو
تخلیقی متن اور غیر تخلیقی متن میں لفظوں کے حسن و توازن اور صوتی آہنگ کے علاوہ معنوی ابعاد کے التزام کا بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ تخلیقی متن چاہے وہ نثر ہو کہ نظم دونوں میں معنوی ابعاد کا ایک تحیّر خیز اور مسرت انگیز جہان چھپا ہوتا ہے۔ جب کہ غیر تخلیقی متن میں حقیقت کا راست بیان ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ غیر تخلیقی متن کا مطالعہ جانکاری میں اضافہ تو کرتا ہے۔ مگر روح میں سرشاری پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ جب کہ تخلیقی متن کا مطالعہ ہمیں بصیرت و بصارت کے اس مقام پر پہنچا دیتا ہے جہاں ہمارا باطن ہم پر منکشف ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ غیر تخلیقی متن کے مطالعہ سے الوہی جذبات کا ارتفاع اور روحانی مسرت کا حصول ناممکن ہوتا ہے۔ جب کہ تخلیقی متن کے مطالعہ سے شوق فراواں اور دل پر خوں کے گلابی پن کے ادراک کے ساتھ ساتھ الوہی جذبات کے ارتفاع اور باطن کی تطہیر کے ساتھ درون خانۂ دل کے انشراح کا امکان بھی روشن ہو جاتا ہے۔ تخلیقی متن کی یہی وہ خوبی ہے جو انسان کو اس قابل بنا دیتی ہے کہ وہ یزدانی تجلیات اور اس کے جمالِ جہاں تاب سے حظ اٹھانے کے قابل بن جاتا ہے۔ اور عالم کی صد رنگی میں جلوۂ یکتائی محبوب کو پہچاننے کے لائق بن جاتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ اگر کوئی چاہے تو تخلیقی متن کے معنوی درو بست یا اس کے بین السطور سے حیات انسانی میں رونما ہونے والے واقعات اور قلب انسانی پر گزرنے والے واردات کا دفتر بھی مرتب کرسکتا ہے۔ جو تاریخ و تہذیب کی کسی بھی کتاب سے زیادہ معنیٰ خیز اور بصیرت افروز ہوسکتا ہے۔
اب آیئے ہم یہاں پر غزلیہ شاعری کے بعض اشعار میں بین السطوری مفہوم کی جستجو کرکے دیکھیں۔
میر تقی میرؔ کا ایک شعر ہے۔
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
اس شعر کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ محبوب لاکھ شوخ و چنچل سہی مگر کمسن ہے۔ کیوں کہ میں نے ابھی تک اس کی زبان سے صبا کا نام نہیں سنا ہے۔
بہ الفاظ دیگر بچپن کی سنہری شام اس کے سر پہ نوجوانی کا تاج رکھ کے ابھی ابھی رخصت ہوئی ہے۔ یعنی محبوب کلی سے غنچہ میں تو تبدیل ہو گیا ہے۔ لیکن اس تبدیلی کی عمر اتنی کم ہے کہ اس نے ابھی تک باد صبح گاہی کے لمس سے آشنا نہیں ہوئی ہے۔
لیکن میر کا شعر بھی معنیٰ کی اتنی ہی جہتیں رکھتا ہو تو میرؔ کو خدائے سخن کون کہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس شعر کے لفظیاتی نظام میں معنیٰ کی ایک پوری کائنات درخشاں ہے۔ اور اس سادہ سے شعر کے لفظی پیرہن سے وارفتگانہ محبت کی کیفیت چھلکی پڑ رہی ہے۔ شعر کی تجسیم جن الفاظ سے ہوئی ہے ا ن کے معنوی انسلاکات پر غور کریں تو جذبات و کیفیات اور حادثات و واقعات کی ایسی دنیا نظر آئیگی جس کی تازگی جسم و جان کو سبزا دے گی۔ تو صورت حال کی سنگینی لرزہ طاری کر دے گی۔ حالات کی یہی سنگینی اس شعر کے بین السطوری مفہوم کو استقامت بخشتی ہے۔ اس شعر میں استعمال ہونے والے الفاظ پر توجہ کیجئے تو چار الفاظ نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ یعنی ’’شوخ‘‘، ’’صبا‘‘، ’’غنچہ‘‘ اور ’’ہنوز‘‘۔ ان الفاظ سے وابستہ معنوی تصورات ایک طرف تو شعر میں جاذبیت پیدا کرتے ہیں۔ تو دوسری طرف پیچیدگی بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ اور یہی اس شعر کا حسن ہے۔
لفظ ’’شوخ‘‘ محبوب کی ایسی صفت کو ظاہر کرتا ہے۔ جو شرم و حیا اور جھجھک سے آگے کی چیز ہے۔ جسے خود شناسی یا پھر روایتی شاعری کی زبان میں چالاکی اور ہوشیاری سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ ایسے محبوب کی زبان سے عاشق نے ابھی تک صبا کا نام نہیں سنا ہے۔ یعنی وہ فی الحقیقت صبا سے ناواقف ہے۔ اور اس کی شوخی کمسنی کا لا ابالی پن ہے۔ یا پھر وہ اتنا چالاک اور زمانہ شناس ہے کہ وہ تمام تر کیفیات، جذبات اور احساسات کو اپنی مصنوعی معصومیت کے پردہ میں چھپانے میں پوری طرح شاد کام ہے۔ ان تمام مفاہیم کا جواز شعر کے الفاظ اور میر کی نجی زندگی سے قائم ہوتا ہے۔ صبا سے آشنائی میں جو معنیٰ پوشیدہ ہیں وہ غزلیہ شاعری کی روایت کا حصہ ہیں۔ ’’صبا‘‘ یعنی قاصد، پیامبر، یا پھر آوارہ، بے وفا، سیماب صفت، گویا صبا آوارہ گرد عاشق کا استعارہ ہے جس کا شیوہ ہوا پرستی ہے۔ یہاں پر صبا عشق جنوں خیز کا بھی استعارہ ہوسکتا ہے۔ جس کا مقدر ہی خود فراموشی ، کرب مسلسل اور اضطراب ہے۔ بہ الفاظ دیگر جس کا نام میر ہے۔
دوسرے مصرع میں غنچہ کا لفظ محبوب کی کمسنی کے ساتھ ساتھ اس کے کھلنے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ ہوا لگنے کا محاورہ پر پُرزہ نکالنے کا معنیٰ بھی دیتا ہے۔ اس طرح اس شعر میں معنوی جہت کے کئی باب روشن ہو جاتے ہیں اور واردات و واقعات کے کئی پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ بین السطور سے جو کہانی نکلتی ہے وہ کہانی در کہانی کا لطف پیدا کر دیتی ہے۔ جس میں ایک مجبور انسان کے عشق کا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ تو دوسری طرف ایک ایسا عاشق پل صراط سے گزرتا ہوا معلوم پڑتا ہے جو احترام عشق میں جان لٹا دینا ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میرؔ فتنہ روزگار بن کر جس ماموں کے یہاں پناہ گزیں ہوئے تھے ان ہی کی صاحبزادی پر عاشق ہو گئے تھے۔ اسی لیے ان کے ماموں نے گھر بدری کی سزا سنائی تھی۔
مختصراً جو روداد کہانی کی شکل اختیار کرتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے۔ چمن میں ایک ایسا غنچہ کھلا جس کی خوبصورتی اور شوخی کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہو گیا۔ میر صاحب چوں کہ پیدائشی عاشق تھے اس لیے وہ اس حشرِ سامانی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ وہ اس طرف محض حقیقت حال کی دریافت کے لیے متوجہ ہوئے تھے لیکن یہ توجہ دل لگی میں بدل گئی اور پھر دل لگی سے دل کی لگی تک کا سفر اتنی وارفتگی سے طے ہوا کہ ’’نوبت بہ ایں جارسید‘‘، ’’ کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے‘‘۔والا معاملہ ہو گیا۔ اور پھر سوال و جواب اور لعن و طعن کا ایسا ماحول پیدا ہو گیا کہ غلو کی انتہا ہو گئی۔ میر صاحب یہ صورتحال دیکھ کر ضبط نہ کرسکے اور بہ زبان شعر یوں گویا ہوئے۔
اس شوخ سے سنا نہیں نام صبا ہنوز
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
گویا ہم نشینوں کے تمام خیالات کا بطلان کر دیا۔ باغبان کے دل کا غبار صاف کر دیا۔ محبوب کی معصومیت اور تقدیس کا ثبوت فراہم کر دیا۔ اور اپنی صفائی بھی پیش کر دی۔ لیکن عشق اور مشک بھی بھلا چھپانے سے چھپتا ہے؟ چنانچہ اس شعر میں بھی لفظ ہنوز ساری قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے۔
میرؔ کا ایک اور شعر ہے۔
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
لفظیاتی توضیح سے گریز کرتے ہوئے شعر کے مفہوم پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ میر صاحب اس محبوب کی محفل سے اٹھ رہے ہیں یا اٹھائے جا رہے ہیں جوساری خلقت کا مرکز نگاہ ہے، گویا یہاں سے اٹھنا یہاں کی سماجی زندگی سے کٹ کر رہ جانے کے مترادف ہے۔
لیکن اس شعر کا حزنیہ لہجہ اتنا یا س انگیز ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ بین السطورمیں میر کی اپنی المناک زندگی کی کہانی مجسّم ہو گئی ہے۔ میرؔ کی پوری زندگی انگاروں پر ننگے پاؤں سفر سے عبارت ہے۔ میرؔ کے لیے کہیں جائے اماں نہیں ہے۔ باپ کا سایہ بچپن میں سر سے اٹھ گیا۔ بھائیوں نے بیگانگی اختیار کی۔ سوتیلے ماموں جو اپنے وقت کے زبردست عالم اورسارے دہلی کے مرکز نگاہ تھے فتنہ روزگار کہہ کر گھر بدر کر دیا۔ طبیعت بلا کی خود دار نکلی۔ تلاش معاش کے لیے ہجرت در ہجرت کا کرب جھیلنا پڑا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عشق ہوا تو اس میں بھی ناکام ہو گئے۔ اس طرح ان کی زندگی جہنم زار بن گئی۔ دنیا میں کوئی جگہ ایسی نہیں بچی اور نہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا بچا جہاں انہیں سکون ملتا، چنانچہ لاچار اسی محبوب کی محفل حشر ساماں یعنی عشق کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ جب عشق کی تپش تنِ سوختہ کو آتشِ سیال کی طرح جلانے لگی اور محبوب نے پلٹ کر حال تک نہیں پوچھا تو عالم کر بنا کی میں درد جنوں خیز سے بے تاب ہو کر اس محفل سے اٹھ جانے کا خیال کیا۔ لیکن چشم زدن میں زندگی کا پورا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے روشن ہو گیا اور دل سے ایک کراہ کی صورت یہ شعر نکل گیا۔ ؎
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
یعنی عشق کی اس دہکتی آگ سے نکل بھی گئے تو جائیں گے کہاں۔ گویا محبوب کی بے وفائی جگر خراش ہی سہی۔ عشق کی آگ آتش شرارجستہ ہی سہی لیکن اسے نہیں چھوڑیں گے۔ اور سچ بھی یہی ہے کہ عشق کا غم دنیا کے تمام غموں کو دھندلا کر دیتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفیؔ نے کیا خوب بات کہی ہے کہ ’’لکڑی جل کر کوئلہ بنتی ہے اور کوئلہ جل کر راکھ۔ مگر کوئلہ کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے زیادہ شدید اور قوت مند ہو تو کوئلہ راکھ نہیں ہیرا بن جاتا ہے‘‘۔ بالکل یہی حالت میرؔ کی ہے۔ اس کی زندگی کی خارجی آگ جتنی شدید تھی اس سے کہیں زیادہ شدید ان کے اندر کی آگ تھی۔ اسی لیے میرؔ راکھ بننے کے بجائے ہیرا بن گئے۔ اور خدائے سخن کہلائے۔ اس سادہ سے شعر کا حزنیہ لہجہ حرماں نصیبی کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے کہ قاری کا دل بھی دہل جاتا ہے۔
میرؔ کے یہ دونوں شعر ان کے اعلیٰ اشعار میں سے نہیں ہیں جنہیں لوگ میر کے بہتّر نشتر سے موسوم کرتے ہیں۔ اسی لیے مجھے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اعلیٰ غیر تخلیقی متن میں بھی وہ قوت نہیں ہوتی ہے جو روح میں ارتعاش پیدا کرسکے۔ جب کہ ایک اوسط درجہ کے تخلیقی متن میں بھی مسرت خیز اور بصیرت افروز موجوں کی لہریں ابھرتی اور ڈوبتی رہتی ہیں۔ اور نہیں کچھ تو کم از کم لفظوں کا توازن اور جذبات کی تہذیب کا ادراک ہی قاری کو اس کی اپنی سطح سے مرتفع کر دیتی ہے۔
جو چیز فنکار کو تخلیق کار بناتی ہے۔ وہ اس کے اندر کی آگ ہوتی ہے۔ جو شعلہ سینائی سے کسی طرح کمتر نہیں ہوتی ہے۔
فن پارہ یا تخلیق پارہ تخلیق کار کی روح کی بھٹی سے تپ کر نکلنے والا وہ جگر پارہ ہوتا ہے۔ جو شہ پارہ بن کر حیاتِ انسانی کی پاکیزہ، فطری اور جبلی تہذیب کا استعارہ بن جاتا ہے۔ جس کی چمک آنے والی نسلوں کو مثبت اقدار حیات سے روشناس کرانے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔
ایک اچھے تخلیقی متن کے مطالعہ سے گزرتے ہوئے قاری اپنے اندر مسرت، بصیرت، شیفتگی، آشفتگی ، دردمندی، دلسوزی اورسرشاری وسرخوشی کے علاوہ بھی بہت کچھ محسوس کرتا ہے۔ لیکن وہ اسے ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کو نہیں دکھا سکتا۔
حسن و عشق انسان کی نسوں سے رسنے والا وہ جذبہ ہے جس کی فرحت اور تازگی سے زندگی گل گلزار بنتی ہے۔ ذہن کی بنجر زمینوں پر آرزوؤں کے گلاب کھلتے ہیں۔ جس کی عطر بیزی انسان کے اندر جوش عمل پیدا کرتی ہے۔ غزل بنیادی طور پر آج بھی حسن و عشق ہی سے عبارت ہے۔ دنیا کا ہر موضوع غزل کے پیکر میں ڈھلتا ہے۔ مگر غزل اپنی تغزلانہ شان سے کبھی دست بردار نہیں ہوتی ہے۔ یہی اس کا نشانِ امتیاز ہے۔ اور یہی اس کی مقبولیت کا راز بھی ہے۔
مصحفی کا ایک مشہور زمانہ شعر ہے (میں اسے معتوب زمانہ شعر کہنے کی گستاخی نہیں کرسکتا)
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے دل میں کیا کیا خیال باندھے
شعر کا ظاہری مفہوم بس اتنا ہے کہ محبوب جب جمنا میں نہا دھو کر گل نو شگفتہ بہار کی طرح کھل اٹھا تو اسے دیکھ کر عاشق کا دل بے قابو ہو گیا اور اس کے دل میں شوق وصال کا چراغ روشن ہو گیا۔
اس مفہوم سے ایسا لگتا ہے کہ عاشق کوئی جوگی ہے جس کی تپسیّا اپنے ابتدائی مرحلہ میں تھی جو محبوب کے جمال جہاں تاب کو دیکھ کر بھنگ ہو گئی ہے۔ لیکن بین السطور سے واقعے کی جو تصویر بنتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ عاشق نرا جوگی ہی نہیں ہے جو الکھ نرنجن کے علاوہ کسی کام کا نہ ہو۔ یعنی ابھی اس میں انسانی جبلت کو صدق دل سے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہے۔ یعنی وہ بھوگی ہے۔ اسی لیے اس کا دل میں خیال باندھنا روزہ نہیں روزی ہے۔ ممکن ہے کہ بین السطوری واقعہ کی طوالت طبع نازک پر بار بن جائے اس لیے اختصار پر ہی اکتفا کرنامناسب رہے گا۔
مطلب یہ ہے کہ محبوب جب تک جمنا میں نہاتا رہا، عاشق کا دل خیال باندھنے کے لئے بے قابو نہیں ہوا۔ یعنی اس کا جوگ برقرار رہا۔ لیکن جیسے ہی محبوب نے اپنے بھیگے تن کی تمام تر حشرسامانیوں کے ساتھ بال باندھا ، عاشق شوق وصال کی آگ سے دہک اٹھا۔ یعنی اس کا جوگ خاکستر ہو گیا اور وہ بھوگ ولاس کے لیے ویاکل ہو گیا۔ خاطر نشان رہے کہ بال کو باندھنے سے پہلے ایک خاص ادائے دلبری وسرمستی سے جھٹکا جاتا ہے۔ پھر بال باندھنے کے لئے ایک خاص انداز اور زاویہ سے ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں۔ عین اسی وقت جسم میں ایک خاص قسم کا لوچ پیدا ہوتا ہے جو بدن کی تمام تر جمالیات کو واضح کر دیتا ہے۔ اس طرح ایک ایسے پُر کیف اور توبہ شکن رقص کا منظر واضح ہو جاتا ہے۔ جو پرستان کی پریوں کو بھی مات دے دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے منظر کی دلفریبی کا شکار ہو کر فرشتوں کے بہک جانے کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے تو پھر بے چارے عاشق کا کیا شمار ہے۔
اس طرح یہ شعر مبتذل نہیں صحت مند عشق کا پھڑکتا ہوا استعارہ بن جاتا ہے۔ اور پھر ایک ذرا رک کر جمنا میں نہانے پر غور کریں تو گنگا جمنی تہذیب کے اس صحت مند اور حسن پرور دھارا کی روانی کا احساس بھی فزوں تر ہو جائے گا۔ جہاں کرشن کی بانسری کی دھن میں اس کی گوپیوں کے علاوہ اجنتا ایلورا کی مورتیں بھی رقص کرتی ہوئی نظر آنے لگیں گی۔
ہمارا تہذیبی المیہ یہ ہے کہ ہم حقیقت سے ہمیشہ چشم پوشی برتنے کی کوشش کرتے ہیں ، جنس ایسی حقیقت ہے جس سے انحراف کرنا کسی بھی صحت مند انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے با وجود ہم اس کے لطیف اظہار کو بھی مبتذلانہ کہہ کر نظرانداز کرنے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ اور سماج و معاشرہ میں طرح طرح کی جنسی کجرویوں کو فروغ دینے کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ محمد حسن عسکریؔ نے اپنے مضمون ’’مزے دار شاعر‘‘ میں جرأت کی عشقیہ شاعری پر لکھتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’اگر اس قسم کے تجربات و جذبات کے اظہار کو لوگ مبتذلانہ کہتے ہیں ، یا اس قسم کے اشعار کو فاسقانہ اور اس طرح کے عشق کو یا محبوب کو فاحشانہ کہتے ہیں تب بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اگر محبوب میں سوقیانہ پن پایا جاتا ہے تب بھی کوئی کراہیت نہیں ہے۔ کیوں کہ جو شاعری اور جو محبت جسمانی خواہشات کی پاکیزگی محسوس نہ کرسکے، وہ قوّت اور عظمت سے بھی پاک ہو گی۔ ‘‘
ان کا یہ دوسرا پیرا گراف بھی توجہ طلب ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
اگر نفسانی خواہش آدمی کو اپنے چاروں طرف دیکھنے پر ابھارسکے تو گندی سے گندی بات بڑی سے بڑی بات بن سکتی ہے۔ جنسی خواہش کے باوجود بلکہ جنسی خواہش کی مدد سے آدمی محبوب کے حسن میں ساری کائنات کا حسن دیکھ سکتا ہے۔
فنکار خلا میں نہیں جیتا ہے اور نہ وہ صرف تخیل کی وادی میں خیالی گھوڑے دوڑاتا ہے، بلکہ وہ بھی سماج کا ایک اہم فرد ہوتا ہے۔ وہ سماج و معاشرے کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے۔ اور اس کے مشاہدے میں وہ سب چیزیں آتی ہیں جو سماج و معاشرہ میں رائج ہوتی ہیں۔ اس لیے فنکار کے فن کو سماج و معاشرہ سے الگ کر کے دیکھنا یا کسی مخصوص مکتبہ فکر کے تناظر میں دیکھ کر اس کے فن پر نکتہ چینی کرنا زیادتی اور تنگ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
داغؔ کا ایک شعر ہے۔
آج کل میں داغ ہوں گے کامیاب
کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے
اس شعر کے بین السطور کو تو جانے دیجئے کہ اس کا کوئی التزام بھی نہیں ہے۔ البتہ الفاظ کا تار تار پیرہن زوال آمادہ تہذیب کو جس طرح اجاگر کررہا ہے۔ اس سے ہم صرفِ نظر نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے اور نہ خطرہ ٹلتا ہے۔داغ کا ایک دوسرا شعر ہے۔
سر اٹھاؤ تو سہی ، آنکھ ملاؤ تو سہی
نشہ مئے بھی نہیں ، نیند کے ماتے بھی نہیں
شعر پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اتفاق سے عاشق اور معشوق کا سامنا ہو گیا ہے۔ عاشق کی اس غیر متوقع قربت سے معشوق مارے شرم کے پانی پانی ہوا جارہا ہے۔ جب کہ عاشق اس قربت کو غنیمت جان کر معشوق کی آنکھوں کے رستے دل میں اتر جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ محبوب کو سراٹھانے اور آنکھ ملانے پر آمادہ کررہا ہے۔ ویسے بھی عاشق کے لیے دنیا کی سب سے حسین چیز محبوب کی آنکھیں ہی ہوتی ہیں۔
بظاہر اس شعر میں بین السطور کا کوئی التزام نظر نہیں آتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعر کے بین السطور میں ایک زوال آمادہ تہذیب کی تمام تر اخلاق باختگی سمٹ آئی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو شعر کو کربناک حد تک طنز کا حامل بنا دیتا ہے۔ شعر میں ایک بھی ایسا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے جس سے حیا کے معنیٰ کوتقویت ملتی ہو۔ عاشق محبوب سے طنزاً پوچھ رہا ہے کہ تم تو بڑے حیادار اور پاک دامن ہو۔ ذرا سر اٹھاؤ اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتاؤ کہ اس وقت کہاں سے آرہے ہو۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک زوال آمادہ تہذیب کے پروردہ عاشق میں یا معشوق میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اور پھر معشوق کس طرح سراٹھائے اور آنکھیں ملائے کہ وہ توغیر کی محفل سے آرہا ہے۔ جہاں اس نے شراب بھی پی ہے اور رات بھر دادِ عیش بھی دیا ہے۔ اور اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں نشہ کا خمار اور رات کی کہانی کا غبار باقی ہے۔
جب کسی تہذیب کی بساط الٹ دی جاتی ہے تو اس کی تمام تر روایتیں اپنی پاکیزگی کھو دیتی ہیں۔ اور پھر ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے کہ اچھے اچھوں کے ہاتھ سے تہذیب کا دامن چھوٹ جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی تو بخیہ گروں ہی کے ہاتھوں تار تار بھی ہو جاتا ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی قوم کے زوال کی آخری حد ہوتی ہے۔ جہاں اخلاقیات اور پاکیزگی کے سارے چراغ بجھ جاتے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ سے پہلے مرزا غالبؔ کے ایک دو شعر کا ذکر زیادہ مناسب تھا۔ مگر کیا کروں کہ اسی قبیل کا حالیؔ کا ایک شعر بار بار ذہن کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
آگے بڑھے نہ قصہ عشق بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم
عاشق نے راز داں سے سب کچھ کہہ بھی دیا اور کھلا بھی نہیں۔ گویا راز داں اب قابل اعتبار نہیں رہا۔ لیکن شعر کا بین السطوری مفہوم۔ ؎
گرے ہوتے الجھ کے آستاں سے
چلے آتے ہو گھبرائے کہاں سے
کی تفسیر معلوم ہوتا ہے۔ راز داں یا قاصد پہلے بھی قابل اعتبار تھا اور آج بھی قابل اعتبار ہے۔ لیکن خود راز داں عاشق کو جس معیار و اخلاق کا انسان سمجھ رہا تھا۔ وہ اس سے بہت پست نکلا۔ دوسری بات یہ کہ حالیؔ کو اب راز داں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ شوق کی انتہائی منزل سے ہو کر آئے ہیں۔ جوش مسرت چہرے سے پھوٹا پڑ رہا ہے۔ راز داں چہرے کے تاثرات سے دل کا بھید جان چکا ہے۔ لیکن عاشق اپنی دھن میں مگن راز داں کو کوئی من گڑھت کہانی سنا کر خوش ہو رہا ہے کہ ع :
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے راز داں سے ہم
حالی کا عشق شریفانہ ہے کہ نہیں یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن مریضانہ ضرور ہے۔ اسی لیے وہ عشق اور وصال کو گناہ کبیرہ کی طرح چھپا رہے ہیں۔ لیکن گناہ ہے کہ سات پردوں سے جھانک رہا ہے۔
گناہ اور عشق میں بنیادی فرق یہی ہوتا ہے۔ گناہ تمام مخفی عیوب کو بھی ظاہر کر دیتا ہے۔ جب کہ عشق تمام عیوب پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ فراق نے کیا خوب کہا ہے۔
کوئی اگر سمجھے تو اک بات کہوں
عشق توفیق ہے گناہ نہیں
مگر یہ سعادت سب کو نصیب نہیں ہوتی ہے جیسا کہ جگر نے کہا ہے۔
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں
مرزا غالب کا ایک شعر ہے۔
سب رقیبوں سے ہوں ناخوش ، پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مرزا غالبؔ ایک جدت پسند شاعر تھے۔ اس شعر میں جدت یہ ہے کہ دنیا کا ہر عاشق اپنے رقیب سے خار کھاتا ہے۔ لیکن زلیخا ایسی عاشق عورت ہے جو اپنی رقیب عورتوں سے خوش ہے۔
اس شعر کی خصوصیت یہ ہے کہ دو مصرعوں میں زلیخا اوریوسفؑ کے عشق کی پوری داستان سمٹ آئی ہے۔ اور بین السطور میں یوسف ؑ کی زندگی کا المیہ جذب ہو کر رہ گیا ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ زلیخا کی شاطرانہ چالاکی کی داستان بھی بین السطور کا حصہ بن گئی ہے۔
ایک ملکہ کا اپنے زر خرید غلام کے عشق میں خراب ہو جانا بڑا ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ مصر کی معزز عورتیں زلیخا کو طعنہ دینے لگیں۔ زلیخا نے ایک دن تمام عورتوں کی دعوت کر دی۔ اور سب کے ہاتھوں میں پھل اور چاقو پکڑا دیا۔ جیسے ہی عورتیں پھل کاٹنے کو ہوئیں زلیخا نے یوسف ؑ کو بلا کر سامنے کر دیا۔ عورتیں حسن یوسف میں ایسی محو ہوئیں کہ سب نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔ اس طرح عورتوں نے زلیخا کے اس عاشقانہ فعل کی تائید کر دی کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اس تناظر میں زلیخا کی فراست اوراس کی شاطریت کا تجزیہ کریں تو کہانی طول طویل ہو جائے گی۔
یہ چند اشارے ہیں۔ ان بین السطوری مفہوم کے خوگر اور معنوی ابعاد کے حامل اشعار سے اگر کوئی چاہے تو ایک مکمل داستان اور پھر عہد بہ عہد بدلتی اور مٹتی تہذیب کی ایک مکمل تاریخ ترتیب دے سکتا ہے۔ جو انسانی فطرت اور تہذیبی تاریخ کا ایک حسین مرقع ہو گا۔ میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ تخلیقی متن میں ایک جہان معنیٰ پوشیدہ ہوتا ہے۔ اور بین السطور میں وہ کہانی یا واردات جذب ہوتی ہے جو ذاتی ہونے کے باوجود کائناتی ہوتی ہے۔
محبوب ہمیشہ گوشت پوست کا ایک عام انسان ہی نہیں ہوتا ہے۔ اسی طرح وصال صرف جسمانی اتصال کا ہی نام نہیں ہوتا ہے۔ عشق اور وصال اکثر و بیشتر تطہیر نفس اور جذب و کیف کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اکثر محبوب کے حریری پیراہن سے یزدانی تجلیات کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ حسن و عشق آپس میں گھل مل کر کبھی کبھی ’’اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے‘‘ کی تفسیر بھی بن جاتا ہے۔
ایک بات اور وہ یہ کہ ایسا نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس طرح کی خوبیاں صرف کلاسک شعرا کے یہاں ہی پائی جاتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نوکلاسک ، جدید اور تازہ کار شعرا کے اچھے کلام میں بھی اس قسم کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ البتہ عہد بہ عہد تبدیلیوں ، نو بہ نو تقاضوں کا احساس بعض چیزوں کو دھندلی تو بعض چیزوں کو روشن کر دیتی ہے۔ چند نئے شاعروں کے اشعار پہ بھی نظر ڈالی جاسکتی ہے۔
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے ہیں
(ناصر کاظمی )
پہنچ گیا ہوں زمان و مکان کے ملبے تک
مری انا ، مجھے الزام نارسائی نہ دے
(مظہر امام)
ہو کوئی بخیہ گرِ شیشۂ دل تو لاؤ
سینہ در سینہ ہیں یاں چاک گریباں ہم بھی
(لطف الرحمن)
ساحل تمام گرد ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی آ کے پیاسا پلٹ گیا
(شکیب جلالی)
شوق ہنگامہ طلب کچھ تجھ کو اندازہ بھی ہے
وہ جو اک پر ہول سنّاٹا ہے آوازوں کے بعد
(احمد مشتاق)
ہجوم دیکھتا ہوں جب تو کانپ اٹھتا ہوں
اگر چہ خوف نہیں اب کسی کے کھونے کا
(شہریار)
نہ جانے کون سا دن قہر ساماں آنے والا ہے
کہ سورج لے رہا ہے جا بجا تصویر پانی کی
(صدیق مجیبی)
کسی اعلیٰ روایت کی بنفشی دھند میں گم
ابھی کچھ شہر اس گہری ندی کے پار ہوں گے
(غلام حسین ساجد)
کوئی پہاڑ نہیں تھا جو ہم نے سر نہ کیا
ملے وہ خواب کہ آرام عمر بھر نہ کیا
(حسن نعیم)
اک حویلی کی حفاظت ہے مقدر میرا
وہ کھنڈر ہوتی ہوئی میں اسے گھر کرتا ہوا
(عین تابش)
میں سمجھتا ہوں کہ اب یہاں پر نئے شاعروں کے ایک آدھ شعر میں بین السطوری مفہوم کی جستجو کر دیکھنا مناسب رہے گا۔ زیب غوری کا ایک مطلع ہے۔
اڑتے ہوئے پتوں کی چمک ہے گرد آلود ہواؤں میں
کس نے دیئے جلا رکھے ہیں ان تاریک فضاؤں میں
شعر پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے کمال فنکاری کا ثبوت دیتے ہوئے خزاں کے ایک منظر کو مجسم کر دیا ہے۔ گرد آلود ہواؤں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ اور درختوں سے ٹوٹے ہوئے پتے ہواؤں میں اڑ رہے ہیں۔ جو سورج کی روشنی کی وجہ سے اس طرح چمک رہے ہیں کہ تاریک فضا میں دیا جلنے کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ شعر اپنے بین السطوری بلکہ علامتی مفہوم کے اعتبار سے نئی اور پرانی قدروں کی تفسیر بن گیا ہے۔ سوکھے پتے پرانی قدروں اور پاکیزہ روایات کی علامت ہیں۔ جب کہ گرد آلود ہوا آج کی آلودہ زندگی کی علامت ہے۔ اور تاریک فضا غیر یقینی مستقبل کی یا پھر مادہ پرستی کے حرص کی تاریکی ہے۔ کل ملا کر آج کے اس دور میں پرانی قدروں کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ لیکن ان میں اب تک اتنی تابناکی ہے کہ وہ مستقبل کی تاریکی کو اپنی چمک سے اجال رہی ہے۔ اور عقل کے اندھوں کو اپنی اوقات اور قدر و قیمت کا احساس دلا رہی ہے۔ عرفان صدیقی کا ایک شعر ہے۔
اگلے دن کیا ہونے والا تھا کہ اب تک یاد ہے
انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا
شعر کا سیدھا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اگلے دن کوئی ایسا خوشگوار یا پھر خوفناک واقعہ ہونے والا تھا جس نے رات بھر گھر والوں کو سونے نہیں دیا۔ اب اگر اس شعر کو قریب ترین خوشگوار واقعہ آزادی کی صبح سے جوڑ دیں تو بھی لطف سے خالی نہیں ہو گا۔ کہ آزادی کا پروانہ رات ڈھلنے کے بعد ملا تھا۔ اور اگر تقسیم ہند کے نتیجہ میں ہونے والے فسادات سے جوڑ کر اس شعر کو پڑھیں تب بھی یہ شعر دور تک ساتھ دے گا۔ اور فساد کی ہولناکی راتوں کی نیند حرام کر دے گی۔ اور اگر شعر میں استعمال ہونے والے لفظ ’’گھر‘‘ سے اہل بیت مراد لے لیں تو کربلا کا سارا منظر روشن ہو جائے گا۔ اور کربلائی رات اس طرح روح پر مسلّط ہو جائے گی کہ آنکھوں کی نیند اڑ جائے گی۔
متذکرہ بالا اشعار کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ غزل کا موڈ اور موضوع بھی تبدیل ہوتا رہا ہے۔ اور لب و لہجہ کے ساتھ اسلوب میں بھی تغیر واقع ہوا ہے۔ الفاظ و تراکیب میں بھی جدت اور ندرت پیدا ہوئی ہے۔ مگر غزل کا داخلی عمل ہر جگہ برقرار ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو غزل یا کسی بھی تخلیقی متن کو تازگی، کشش اور بصیرت افروزی سے ہمکنار کرتی ہے۔ فی زمانہ تخلیقی متن کا رنگ اور روپ بدلتا تو ضرور ہے مگر اپنی معنویت سے دست بردار نہیں ہوتا ہے۔ تخلیقی متن کی سب سے بڑی قوت انسان کی حسیات اور اپنے عہد کی تمازت کو جذب کر لینے میں مضمر ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو روح انسانیت اور روح تہذیب اور روحِ کائنات کی پاکیزگی کو حرف و صوت کا لہو بنا دیتی ہے۔ جو انسان کی بے چین روح کی تسکین کا سبب بن کر اسے پہلے سے بہتر مقام پر پہنچا دیتی ہے۔ دراصل فنون لطیفہ ہی وہ چیز ہے جو زندگی کے تمام فلسفہ کو خوشبو اور حرارت عطا کرتی ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم تخلیقی متن کا احترام کریں تاکہ وہ اپنی بلند تقدیر سے محروم نہ ہو۔
٭٭٭
نیا تخلیقی منظر نامہ
کسی جماعت، تحریک ، یا ازم وآئیڈیالوجی اور رجحانات کے تحت تخلیق ادب کا فریضہ انجام دینا اس معنیٰ میں بڑا سود مند ثابت ہوتا ہے کہ قلمکاروں کو ابتدا ہی میں شہرت مل جاتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ جب رجحاناتی ہنگامہ آرائی کا بازار سرد پڑ جاتا ہے اور رفقائی تعریف و توصیف کی قلعی اتر جاتی ہے تو کتنے ہی چہرے مسخ ہو جاتے ہیں۔ ۸۰ ء کے آس پاس جو فنکار افق اد ب پر نمودار ہوئے انہوں نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ خود کو ہر طرح کے رجحانات کی پابندی سے آزاد قرار دے دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ نظریات و رجحانات کی دھوپ چھاؤں میں پروان چڑھنے والی ذہنیت کے حامل ناقدوں اور دانشوروں نے بھی انہیں نظر اندا ز کر دیا۔اشعر نجمی لکھتے ہیں :
فاروقی کے مطابق ایساتو نہیں ہے کہ ہم لوگ بوڑھے ہو گئے ہیں کیونکہ اس وقت ہمیں لوگ اعتراض کرتے تھے اپنے بزرگوں پر کہ صاحب آپ لوگ بوڑھے ہو گئے ہیں … اور اب آپ لوگوں کو اپنی کرسیاں ہلتی نظر آ رہی ہیں ، اور ویسے بھی پرانے ہونے کی وجہ سے آپ کے نظریے میں وہ لچک نہیں ہے جس سے آپ ہم لوگوں کو پڑھ سکیں۔کیا اس طرح کا اعتراض یا الزام ہم پر بھی عائد ہوسکتا ہے، کہ اب تم بوڑھے ہو گئے ہو لہٰذا تم لوگوں میں یہ کمزوری آ گئی ہے جو تمہارے پیش روؤں میں تھی کہ تم اپنے سامنے کی چیزوں کو نہیں پڑھ سکتے۔ہم لوگ کم از کم میں بوڑھا ہو چکا ہوں اس لیے مجھے اپنے بعد والوں کی تحریریں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔(۱)
اس اقتباس کی روشنی میں اشعر نجمی نے بجا طور پر فاروقی صاحب کی صاف گوئی اور اعتراف پیری کے بڑے پن کو سراہا ہے۔لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ فاروقی صاحب نے بڑی خوبصورتی سے نئی نسل کے وجود کو رد کر دیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس رد میں ایک طرح کی محبت یا ایک طرح کا چیلنج پایا جاتا ہے۔ یعنی کچھ تو ایسا کرو کہ تم اپنے بزرگوں کو نظر آسکو۔ مگر یہ نسل جو اب بڑھاپے کی طرف قدم بڑھا چکی ہے ایسا کوئی ہنگامہ کھڑا کرنے کے موڈ میں نہیں ہے جس سے اس کی خود افکاریت اور شرافت پر حرف آئے۔ وہ خوب جانتی ہے کہ وہ خاص طرح کے لوگوں کو نہ سہی اردو کے عام قارئین کو تو بہر حال صاف صاف دکھ رہی ہے۔
ادب میں نظریات و رجحانات کا آتے جاتے رہنا برا نہیں ہے۔برائی تو تب پیدا ہوتی ہے جب کسی بھی نظریہ اور رجحان کے تحت ادب اور تخلیقی عمل کو میکانکی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
نارنگ صاحب ایک زمانے تک آزادہ روی اور تخلیقی آزادی کے قافلہ سالار بنے رہے۔مگر جب خود مابعد جدیدیت کے بانی کی شکل میں نمودار ہوئے تو خود بھی انہیں عیوب کے شکار ہو گئے جن عیوب کے لیے وہ نظریات و رجحانات کو معتوب ٹھہراتے رہے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب نئی نسل کے فنکاروں نے ہر قسم کی تھیوری کو رد کر دیا اور مابعد جدیدیت سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا۔اشعر نجمی لکھتے ہیں۔
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو آج کل یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ نئے لکھنے والوں نے ہر طرح کی تھیوری سے ہی اپنا پلّہ جھاڑ لیا ہے۔جب کے بقول نارنگ تھیوری کی وجہ سے ہی وسعت نظری پیدا ہوتی ہے۔لیکن شاید یہ جملہ بولتے ہوئے انہیں اپنی بات پر خود یقین نہیں تھا ، لہٰذا دوسری ہی سانس میں انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کر لیا کہ ادب میں صداقتیں اپنے رد سے زندہ ہیں۔ (۲)
اس تناظر میں اگر موجودہ ادبی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ابتدا میں نظریہ و رجحان کے علمبرداروں نے جس آزادہ روی اور تخلیقی آزادی کی بات کہی تھی آج کا ادبی منظرنامہ اسی کا عکاس ہے۔
اس کے باوجود نظریہ و رجحان کے حامیوں اور تھیوری کے پرستاروں کو نئی نسل سے شکایت ہے کہ نئی نسل سنجیدہ نہیں ہے اور یہ کہ یہ نسل سرقہ پر بھروسہ کرتی ہے۔جب کہ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ قول و فعل کے اس تضاد پر نئی نسل کو اپنے بزرگوں سے شکایت ہونی چاہیے تھی اور انہیں کسی حد تک دریدہ دہنی سے بھی کام لینا چاہیے تھا مگر نئی نسل نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
نئی نسل نے سب سے اچھا کام یہ کیا کہ گلے شکوے میں وقت برباد کر نے کے بجائے تخلیق ادب پر توجہ مرکوز رکھی اس طرح کوئی ہنگامہ بھی کھڑا نہیں ہوا اور تخلیقی عمل کا سلسلہ بھی نہیں رکا۔اس کے باوجود بزرگوں نے اسے نظرانداز کرنے کی روش نہیں بدلی۔حد تو یہ ہے کہ کئی ایک بزرگوں نے نئی نسل کی بہترین کاوشوں پر اپنی جماعت کے بے چہرہ فنکاروں کو فوقیت دینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ غالباً وہ ایسا اس لئے کر رہے تھے کہ نئی نسل کو اس کی خود افکاریت کی خاطرخواہ سزادی جا سکے۔ اور وہ گھبرا کر ان کی جماعت میں شامل ہو جائے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ نظریہ اور رجحان اور نت نئی تھیوری کا جنم وقت، حالات، زندگی، اور زندگی کے زائیدہ مسائل کو سمجھنے اور خود اظہاریت کی نئی سبیل دریافت کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ خود اظہاریت و خود افکاریت کو پا بہ سلاسل کرنے کے لیے نہیں۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ تمام چیزوں میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔اور زندگی کا کارواں آگے نکل جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے ذہنی تحفظات و تعصبات کے حامل لوگوں کے لیے صحیح سلامت گذرنا کچھ نا ممکن سا ہو جاتا ہے۔بقول علامہ اقبالؔ۔ منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں ، مگر یہ واقعہ ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد والا تخلیقی کارواں اس مقام سے کسی بھی طرح کے ذہنی فتور کا شکار ہوئے بغیر گذر گیا۔جبکہ نظریہ و رجحان اور تھیوری کے پرستار یہ تک طے نہیں کر پائے کہ انہیں مہالکشمی کے پل کے کس طرف رہنا ہے۔یا یہ کہ پل کے تصور ہی سے نجات حاصل کر لینا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ۱۹۸۰ء کے بعد والے تخلیقی رویے کو رد کرنے کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔یہ ایسا تخلیقی رویہ بن چکا ہے جس میں ان لوگوں کے لئے بھی احترام پایا جاتا ہے جو کسی بھی نظریہ و رجحان کے لیے اچھوت سمجھے جاتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی فرد اس سے اپنی بیزاری اور اکتاہٹ کا اظہار نہیں کر رہا ہے۔
کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’میری تنقید ایک بازدید‘‘ میں آرنلڈ کا قول نقل کیا ہے کہ:
’’ شاعری کا مستقبل بے پایاں ہے، آنے والے زمانوں میں ہماری نسل شاعری سے زیادہ سے زیادہ سہارا پائے گی شرط یہ ہے کہ شاعری اپنی بلند تقدیر کی مستحق ہو۔‘‘
ظاہر ہے کہ شاعری ہو کہ کوئی اور فن پارہ وہ اپنی بلند تقدیر کی مستحق تبھی ہو گی جب اس کی تقدیر کسی تھیوری یا نظریہ و رجحان یا جماعت سے بندھی نہیں ہو گی۔آگے مزید لکھا ہے کہ:
’’کوئی مسلک ایسا نہیں ہے جو متزلزل نہ ہوا ہو، کوئی مقبول عقیدہ ایسا نہیں جو مشتبہ ثابت نہ ہوا ہو، کوئی معتبر روایت ایسی نہیں جس کے شیرازے بکھرنے نہ لگے ہوں ‘‘
اس تناظر میں نئی نسل کی تھیوری بیزاری اور نظریہ و رجحان سے عدم دلچسپی کو بجا طور پر سراہا جاسکتا ہے۔
گویا تازہ کار فنکار شعوری یا لاشعوری طور پر یہ بات جان چکے تھے کہ ادب میں زندگی صرف تخلیقی مسرت و بصیرت ہی سے حاصل ہوسکتی ہے۔اور یہی کاوش زندگی کو معنویت بخش سکتی ہے۔سو انہوں نے اپنی تخلیقی قوت سے ادب میں ایک روشن لکیر کھینچنے کی کو شش کی اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ایسا نہیں ہے کہ نئی نسل کو لوگوں نے گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔مگر اس نے کسی بات پر توجہ نہیں دی۔اور بڑی خود اعتمادی سے اپنے تجربات کی چٹیل زمین پر چلتی رہی یہ اور بات ہے کہ وقت کی گرم دھوپ اور جلتے ریگستان جیسے اس تخلیقی سفر میں نخلستان بھی آئے اور باغ عدن کی خوشبو بھی پھوٹی مگر نئی نسل نے خود کو حصار بند کرنا کسی بھی طور گوارہ نہیں کیا۔یہی وہ چیز ہے جو نئی نسل کو رجحاناتی مطالعات کی قید سے آزاد کرتی ہے۔
پانی کے آئینے میں کیا آنکھ پڑ گئی ہے
دریا میں کیسا کیسا گرداب آ رہا ہے
یہ شہر میں کیسی بھگدڑ ہے ، کیا کوئی نئی بپتا ٹوٹی
سب لوگ کہاں کو جاتے ہیں ، اب کون نگر کی باری ہے
(فرحت احساس)
اپنوں سے جدا ہوکے بھی زندہ ہیں یہاں لوگ
اس شہرِ فسوں کے ہیں کمال اور طرح کے
(فرید پربتی )
تعمیر کر رہا ہوں میں خونِ جگر سے شہر
روشن مری صدا سے ہیں محراب اور فصیل
تعبیر سے جدا ہے ابھی خاکِ آرزو
ہم خوش ہیں پھر بھی خواب فراواں کے دشت میں
اس کی آغوش میں ہر درد کا درماں ہے طرازؔ
رات پھر آئی ہے اک عکس منیری لے کر
رات آخر ہو ستم پیشوں پر ایسا بھی نہیں
وقت رک جائے کہیں آ کے یہ ہوتا بھی نہیں
(راشد طرازؔ)
شگوفوں نے پرندوں کی طرح منقاریں کھولی تھیں
مگر شبنم نہ اتری آسماں کے بام سے کہنا
تمام دشت میں ظلمت کے شامیانے ہیں
نزول صبح ترا قافلہ ہے کتنی دور
(اسعدؔ بدایونی)
مناظر کب بدلتے ہیں جگہ تبدیل ہونے سے
وہی اک کھیل ہے جس کو دوبارہ دیکھتا ہوں
خاک و خوں میں خواب کے خیمے اجڑتے جا رہے تھے
جان کی بازی لگی تھی داؤ پر ایک ایک سر تھا
(ارمان نجمی)
پھر سے وہی حالات ہیں امکاں بھی وہی ہے
ہم بھی ہیں وہی مسئلۂ جاں بھی وہی ہے
ہار کے وہم اور جیت کے منظر میں رہا
ایک مدت مرا دشمن مرے لشکر میں رہا
(شہپر رسول)
سکوتِ بحر میں کس غم کا راز پنہاں تھا
بس ایک موج اٹھی اور آنکھ بھر آئی
مہک سانس میں سبزۂ قبر کی
کنایہ سا جیسے بلانے کا ہے
(عبدالاحد سازؔ)
درختوں پر کوئی موسم نہ آیا اک زمانے سے
پرندے دھیرے دھیرے اڑ رہے ہیں آشیانے سے
کچھ روز سلگتے ہوئے خیموں میں رہیں گے
پھر سب سے جدا سب سے الگ گھر بھی ملے گا
نیا لہجہ غزل کا مصرعۂ ثانی میں رکھا ہے
ہوا کو مٹھیوں میں آگ کو پانی میں رکھا ہے
اب کہاں مصر کا بازار مگر مال تو ہے
بھاگی یوسف کو سرِ شام زلیخا لے کر
(شمیم قاسمی)
ڈوبتے ڈوبتے کیا خوب بچے ہیں آخر
راستہ کاٹ گئی آئی تھی طغیانی بھی
(راشد جمال فاروقی)
زندگی سے ہے تعلق تو نبھا دے اس کو
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
(ارشد کمال)
میری آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا ، کیا اب کے
قریۂ خواب میں یادوں کے نگر جلتے ہیں
(منظور ہاشمی)
بس یہی خاکسترِ جاں مری پہچان ہے
راکھ ہو جانے پر بھی جس کو شرارہ چاہیے
وہ ساعتِ گم گشتہ کہ میں جسم بدر تھا
الہام کی خوشبو کی طرح محو سفر تھا
(شمیم طارق)
آباد اب تلک ہے کوئی گوشۂ وجود
رہ رہ کے ورنہ اٹھتا ہوا یہ دھواں ہے کیا
کوئی در بھی کھلتا ہے کھلتے ہیں دریچے بھی
کوئی مجھ میں رہتا ہے اک مکان میں بھی ہوں
(ابراہیم اشک)
سر جوڑے کیا سوچ رہے ہو
سرد ہے موسم راکھ کریدو
(ساجد حمید)
نئی نسل کے پاس تخلیقی وفور و شعور اور افرادی قوت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ کمی بس اس بات کی ہے کہ لوگ اس نسل کی تخلیقات کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔اور نہ اسے اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہیں ، جبکہ تنقید کا سب سے اہم فریضہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی تخلیقات کی چھان پھٹک کرے اور اس کی اچھائیوں سے لوگوں کو آگا ہ کرے۔
فاروقی صاحب کے حوالہ سے اشعر نجمی نے کولرجؔ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:
تنقید کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ اس زمانے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اس کی اچھائیوں کو واضح کیا جائے ، کیونکہ نئی چیزوں کو برا یا خراب یا غلط کہہ دینا تو بہت آسان ہے ، پرانے پیمانے بھی موجود ہیں جن کو کھینچ تان کر نئی تحریروں کے خلاف پیش کیا جاسکتا ہے…اس کے برخلاف نئی تحریر میں خوبیاں ثابت کرنے کی کوشش ہی مخدوش عمل ہے۔بعض اوقات تو وہ لوگ بھی ناراض ہونے لگتے ہیں جن کی تحریر میں خوبیاں ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔
لہٰذا وہ نقاد جو معاصر ادب کا مطالعہ کرنے سے جی نہیں چراتا بلکہ ہر طرح اس میں مصروف و منہمک ہوتا ہے ہماری تعریف و احترام کا مستحق ہے۔ (۳)
غالباً فاروقی صاحب نے کو لرج کے اس قول کے تناظر میں جدید شاعروں کے مطالعہ کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کی کوشش کی تھی اور خود اس سعی مستحسن کے ماڈل بنے تھے لیکن جب خود فاروقی صاحب کو بشمول دوسرے تمام بزرگ نقادوں کے اپنی نظروں کے سامنے شعور سنبھالنے والی تخلیقی نسل سے واسطہ پڑا تو نئی نسل کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اگر کولرج کے اس قول کے تناظر میں موجودہ ادبی صورت حال پر نظر ڈالیں تو محسوس ہو گا کہ بزرگ ناقدوں نے تنقید کے بڑے فریضے یعنی اس زمانے میں لکھے جانے والے ادب کے مطالعے سے مجرمانہ حد تک غفلت برتی۔ اور اپنے عہد کے تخلیقی رویے اور فن پارے سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود نئی نسل نے ان کا احترام ملحوظ رکھا۔
ہوس اقتدار عموماً گمراہی کا سبب بن جایا کرتا ہے، یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جب ہم کسی ایک چیز کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے تئیں اپنے جوش و خروش کا کھل کر اظہار کرتے ہیں تو اس جیسی سیکڑوں بہترین چیزوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔یہ محرومی کوئی خوش بختی کی بات نہیں ہوتی ہے مگر جب ہماری منتخب شدہ چیز اپنی لطافت افادیت اور اپنی تاثیر سے دوسرے لوگو ں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے تو یہ محرومی ایک خاص طرح کی شادمانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اور ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ واقعی ہم نے ایک بہترین چیز کا انتخاب کیا ہے۔ لیکن وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ جوں جوں اس چیز کی لطافت و اہمیت کم ہوتی جاتی ہے ہم ایک طرح کی احساس کمتری اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ذات کے علاوہ ہر چیز کا انکار کرنے لگتے ہیں۔اس طرح فضا پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ اور نئے تخلیقی ذہن کی آبیاری اور نئے تخلیقی چہرے کی شناخت کا مسٔلہ سنگین بن جاتا ہے۔
ترقی پسند تحریک کے زوال کے بعد ادب کی یہی صورتحال تھی جسے جدیدیت نے ایک نیا رخ دیا اور ادبی جمود کو توڑا۔مگر کچھ سالوں کے بعد جدیدیت بھی جمود کا شکار ہو گئی جسے دور کرنے میں نئی نسل کے فنکاروں نے اہم رول ادا کیا۔مگر نئی نسل کی خدمات کا کسی نے بھی کھلے دل سے اعتراف نہیں کیا۔ترقی پسندوں نے افادی ادب کی وکالت کی تو جدیدیوں نے ادب کی افادیت پر زور دیا۔شمیم حنفی لکھتے ہیں :
میں ادب اور آرٹ کو تاریخ یا کسی مخصوص تہذیبی منطقے کا تابع فرمان نہیں سمجھتا اس لیے مجھے اس خوش گمانی میں بھی شک ہے کہ ادب اور آرٹ تاریخ سازی کا بوجھ اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔یہ خودسرضدی، بے قابو اور بدحواس دنیا صرف لفظوں سے نہیں بدلی جاسکتی۔ تخلیقی اظہار کے وسائل اپنی تاثیر اور کشش کے باوجود اپنی تمام تر طاقت اور توانائی کے باوجود انسانی سماج کو اس حد تک لبھانے میں ناکام رہتے ہیں کہ اس کی سرشت تبدیل ہو جائے۔لیکن ادب اور آرٹ تبدیلی کا احساس اور تبدیلی کی ضرورت کا احساس پیدا کرنے اور اس احساس کو جگائے رکھنے پر قادر ضرور ہوتا ہے۔ (۴)
ہم چاہیں تو افادی ادب اور ادب کی افادیت سے متعلق اس اقتباس کے تناظر میں کوئی نیا نظریہ بھی قائم کرسکتے ہیں۔ ویسے یہ بات صحیح ہے کہ ادب زندگی کا کوئی مسئلہ حل نہیں کرتا ہے۔یہ ادب کے فرائض میں شامل بھی نہیں ہے۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ ہر ادبی تخلیق زندگی ہی سے زندگی حاصل کرتی ہے۔اس لیے ہم ادب کے مطالعہ کے بعد اپنے آپ کو زندگی سے زیادہ قریب محسوس کرنے لگتے ہیں۔
یہی وہ چیز ہے جو آج کے ادب کی اساس ہے، آج کا ادب نہ تو افادیت کا مبلغ ہے اور نہ محض ادبی افادیت کا پرستار ، نہ وہ وجودیت کا منکر ہے اور نہ مقصدیت کا علمبردار وہ بس ادب ہے۔ ایسا ادب جس کے رگ و ریشے میں زندگی کا آتش سیال رواں دواں ہے۔
’’ادب انسانیت ، دردمندی، آزادی، اخوت ، نشاط آفرینی اور شیفتگی و آشفتگی سے عبارت ہے۔ادب نفرت عداوت، کوتاہ بینی و تعصب زدگی اور نظریہ و رجحان کے تنگ دائرے میں نہیں محبت و نشاط لطف وانبساط وسیع المشربی و عوام دوستی اور بلند خیالی کے ماحول میں پروان چڑھتا ہے ، حسن و عشق اور مسرت و بصیرت کے جاوداں اصنام ادب براہِ راست زندگی سے تراشتا ہے نہ کہ کسی نظریہ و رجحان اور ازم وآئیڈیالوجی کے اوزار سے۔‘‘ (۵)
دراصل یہی وہ چیز ہے جو ادب کو دوسرے علوم و فنون اور ہر طرح کے مکتبہ فکر کی حصار بندی سے ممتاز کرتا ہے۔اور آج کا فنکار اس سے پوری طرح اتفاق کرتا ہے۔
عبادی کہتے ہیں :
’’شاعری کی سب سے بڑی خو بی یہ ہے کہ وہ خوراک نہیں بنتی ہے اس لیے میں اس کا مقابلہ دوسرے علوم و فنون کے ساتھ نہیں کرنا چاہتا کہ ان میں صرف غذائیت ہوتی ہے اور شاعری حسب ضرورت ان سے اپنا ’’دوزخ ‘‘بھرتی رہتی ہے، شاعری خود کبھی بھی دوزخ بھرنے کے کام نہیں آتی ، خونِ گر م یوں بھی زندگی بنتا ہے خوراک نہیں۔‘‘ (۶)
شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ اس طرح کی سوچ رکھنے والی خود افکار نسل کسی قسم کے ازم و آئیڈیالوجی اور جماعت کی علمبرداری کرنے کی بات سوچ بھی نہیں سکتی ہے۔
بقول عبدالاحد سازؔ:
میں شاعری کو بہت زیادہ واضح اصطلاحی خانہ بندیوں میں تقسیم کرنے کا حامی نہیں ہوں ، وہ تمام شعری شہ پارے جو خواہ روایتی ، کلاسکی شاعری کی عطا ہو ں یا ترقی پسند یا جدید شاعری کی دین ہوں اگر مجموعی طور پر ہماری احساس و آگہی فنی معروضات اور اسالیب و پیرایہ ہائے اظہار کے سرمائے میں اضافے کا حکم رکھتے ہیں تو بسروچشم لائق احترام ہیں ، انہیں کسی ایک نظریے یاکسی دوسرے رجحان کی بنیاد پر رد کر دینا دیانتداری نہیں ہے۔البتہ اسے سنگ میل گرد انتے ہوئے بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں۔کی شرط بھی مقدم ہے… میں شاعری میں کسی ازم کے پرچار کا بھی قائل نہیں ہوں۔ (۷)
عالم خورشید اپنے تخلیقی رویے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
مختلف حالات اور واقعات نے میرے ذہن و دل پر جو اثرات مرتب کیے اس کا فطری اظہار میری شاعری ہے ، میں نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ میں اپنے احساسات کے اظہار میں کسی نظریے کو رکاوٹ نہ بننے دوں ، بلک صرف حقائق اور سچائی کا دامن تھام کر آزادانہ طور پر جو محسوس کروں وہی لکھوں۔یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی فکر اور اس کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگائی ہے۔میرے لیے کبھی یہ مسلہ نہیں رہا ہے کہ کس موضوع پر لکھنا چاہیے اور کس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے، یاکس طرح لکھنا چاہیے اور کس طرح نہیں لکھنا چاہیے۔ (۸)
اس طرح یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ نئی نسل نے جو اتنا طویل سفرطے کیا ہے وہ کسی بیساکھی کے سہارے نہیں کیا ہے۔بلکہ خود افکاریت کی روشنی میں کیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ان کا تخلیقی آئینہ غبار آلود ہونے کے بجائے روشن ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ اسے کئی سطح پر محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ایک طرف وہ زندگی کے مسائل سے عملی طور پر جوجھ رہی ہے تو دوسری طرف تخلیق ادب کے ساتھ ساتھ ادبی تنقید کا فریضہ بھی انجام دے رہی ہے۔ اس کے باوجود نہ تو تھکان کا شکار ہوئی ہے اور نہ تخلیقی کرب سے محروم ہوئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ بڑے اور ثقہ قسم کے ناقدوں نے نئی نسل کے تازہ کار پیش روؤں یا ہم عصروں پر نہیں لکھا ہے۔خوب لکھا ہے۔بلکہ بیشتر یوں بھی ہوا ہے کہ انہوں نے بے چہرہ اور نا شاعر قسم کے شاعروں پر بھی جم کر لکھا ہے۔ فاروقی صاحب نے بقول اکرام باگ خالد سعید، جبار جمیل، لطیف، حامد اکمل، اور اکرم نقاش جیسے شاعروں کی کسی نہ کسی پہلو سے تعریف کی ہے، (بحوالہ جزیرے پیش لفظ)مابعد جدیدیت کے اکابرین نے بقو ل اشعر نجمی، حصیر نوری، اور فرید پربتی جیسے بے چہرہ شاعروں کو پروموٹ کرنے کی کوشش کی تو وارث علوی جیسا ناقد جس نے احمد فراز کو بھی کو ئی خاص اہمیت نہیں دی، منور رانا پر طویل مضمون لکھا۔ ظاہر ہے کہ یہ فہرست بہت طویل ہے جس کا ذکر یہاں مقصود نہیں ہے، ویسے ذاتی طور پر میں ایسی باتوں سے کوئی اختلاف نہیں رکھتا ہوں کہ کس نے کس پر اور کیوں لکھا میں تو صرف اس بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے اگر منہ نہیں لگایا تو ۸۰ ء کے بعد والے فنکاروں کو، گویا نئی نسل ان کے لیے کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود آج نئی نسل اپنی شناخت قائم کر چکی ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس کے یہاں تخلیقی قوت و ثروت کی کمی نہیں ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب اس کے فن سے متعلق بات چیت کرنے کا ماحول پہلے سے زیادہ سازگار بن گیا ہے۔نئی نسل نے چونکہ اپنی ذات میں گم ہونے کے بجائے کائنات سے جڑ کر تخلیق ادب کا فریضہ انجام دیا ہے۔اس لیے زندگی کے حقائق اور اس کے مسائل کے تناظر میں اس کے فن سے چشم پوشی برتنا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔نئی نسل نے اپنی تخلیقی حسیت میں ظاہر و باطن (داخلیت و خارجیت)کے مسائل کو اس طرح انگیخت کر لیا ہے کہ تفریق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے، نئی نسل نے شاعری کو باطن سے پھوٹنے والی ایسی روشنی کے طور پر قبول کیا ہے جس کی نورانیت زندگی کے ہزار شیوہ جلوے کو منور کر دیتی ہے۔نعمان شوق کہتے ہیں :
شاعری انسان کے باطن سے پھوٹنے والی روشنی کا نام ہے …میں اپنے پیش رو شعرا کی طرح اپنی ذات میں مقید ہونا پسند نہیں کرتا۔ (۹)
اگر شاعری واقعی باطن سے پھوٹنے والی روشنی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ روشنی شاعر کو اپنی ذات میں مقید رہنے بھی نہیں دے گی۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ جو فنکار اپنی ذات میں قید رہنا پسند نہیں کرتے ہیں وہ فنکار ناقدوں کو نظر نہیں آتے ہیں۔مگر جو فنکار اپنی ذات میں محصور رہنا چاہتے ہیں ان کی ذات میں کائنات کا حجم دکھانے کے لیے ناقد حضرات اپنا خون پانی کیے دے رہے ہیں۔
ادب اور ادیب کے لیے براہ راست زندگی سے رشتہ قائم رکھنا یوں بھی ضروری ہے کہ اصل چیز زندگی ہے نہ کہ تھیوری نہ کہ نظریہ اور رجحان ؟ شاید یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ ادب ہی وہ چیز ہے جو دنیا کے تمام علوم کو لطافت اور خوشبو بخشتی ہے۔اور یہی وہ چیز اور احساس ہے جو نئی نسل کو زندگی سے مثبت رشتہ قائم رکھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
ترقی پسندوں کا خیال تھا کہ سائنسی ترقی سے انسان کے سارے سپنے ساکارہ ہو جائیں گے ، سوانہوں نے مادیت پر اتنی توجہ دی کہ روحانیت کا دامن ہی چھوٹ گیا۔اس پر سے ستم یہ ہوا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے ایسی بربریت پھیلائی کہ انسان اپنے مستقبل ہی سے مایوس ہو گیا۔اس صورتحال نے جدیدیوں کو اپنی ذات کی گمشدگی کے غم میں مبتلا کر دیا اور وہ گریۂ جاں میں مصروف ہو گئے۔انہیں لگا کہ آج بجزم شینوں کہ کچھ زندہ نہیں ہے۔اس لیے کسی سے مکالمہ کرنا ہی فضول ہے۔سوان کے یہاں خود کلامی کی روایت مستحکم ہوتی چلی گئی اور نئی نسل بغیر کسی رہنما کے پروان چڑھتی رہی۔یوں بھی جدید روشن خیالی اس بات کی اجازت کہاں دیتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو اپنی جڑوں سے جڑنے اور اپنی ثقافت اور اپنی وراثت پر فخر کرنے کا درس دے سکیں۔نتیجہ جو نکلنا تھا سو نکلا یعنی اردو ادب کا دامن تہذیبی اظہار کے وسیلے اور روحانی تب و تاب سے خالی ہوتا چلا گیا۔
ادھر عالمی سطح پر پرانی قدروں کے قتل عام کا ایسا بازار گرم ہوا کہ زندگی قتل گاہ میں تبدیل ہو گئی۔اور کسی نے اس قتل عام پر احتجاج نہیں کیا، کسی نے خدا کی موت کا اعلان کیا تو کسی نے کسی اور کی موت کا اعلان کیا۔اور بلاآخر ادب کی تجہیز و تکفین کا کام بھی انجام دے دیا گیا۔تاکہ کوئی انسانیت کی دہائی دینے والا نہ بچے۔ہمارے نام نہاد دانشور بھی اپنے آپ کو اپ ٹوڈیٹ ثابت کرنے کے لیے ان میّتوں کی ماتم گذاری میں مصروف ہو گئے۔یہ جانے بغیر کہ ہمارا اپنا معاشرہ تو ابھی اپنے توہمات کو بھی قتل کرنے کے قابل نہیں بنا ہے۔یہی وہ صورتحال تھی جس نے ادب اور زندگی کے درمیان حد فاصل قائم کر دیا۔مگر نئی نسل اس ماحول سے باہر آ گئی ، اس نے نہ تو خدا کی موت کا یقین کیا اور نہ بقول جمال اویسی غیر محکم شخصیت کے ساتھ ایلیٹ بننے کی کوشش کی ، کیونکہ اس کی نظروں کے سامنے اب کسی طرح کا حجاب نہیں رہ گیا تھا۔یوں بھی آج کا عہد کھلے گریبان اور کف درد ہان کا عہد ہے۔ایسے دھماکہ خیز ماحول میں تازہ کار فنکاروں نے جینے کی راہ نکالی ہے۔جب کہ بات بالکل صاف ہے کہ آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا پھر…اس کے باوجود آج کی تخلیقات بے چہرہ نہیں ہیں۔کیونکہ آج کے فنکاروں نے مصلحت کوش دانشمندی کی دھند میں شاعری نہیں کی ہے اور نہ کسی نظریہ و رجحان یا تھیوری کو غلط یا صحیح ثابت کرنے کی پاداش میں شاعری کی سزا کاٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔
اک پل کو ہی چمکیں لیکن بجلی سی لہرائیں
راکھ تلے پائندہ رہنا ہم کو نہیں منظور
جل بجھا ہوں مگر سارا جہاں تاک میں ہے
کوئی تاثیر تو موجود مری خاک میں ہے
لہروں کے جاگنے پر کچھ بھی نہ کام آئی
کیا چیز تھی جو مجھ کو پتوار لگ رہی تھی
(عالم خورشید)
یہ دنیا ایسی بستی ہے جہاں سارے لوگ ہیں دیوانے
جہاں جینے کے لیے بنتے ہیں سب الٹے سیدھے پیمانے
جہاں خاک بسر ہر شخص رہا کرتا ہے کچھ پانے کے لیے
کوئی ہاتھ پسارے مانگتا ہے کوئی ٹھکراتا ہے نذرانے
ہر اک کوچہ نکلتا تھا دور سے ہنستا ہوا
ہر ایک چہرہ سے ظاہر ہزار انسان تھے
(جمال اویسی)
پھول جتنے ہیں ترے نام ہوئے جاتے ہیں
میرے سینے پہ ہے رکھا ہوا پتھر تیرا
تیز بارش ہے بہت سرد ہوا چلتی ہے
آگ روشن ہو کہیں کچھ تو جلایا جائے
یہ سب خوش پوش چہرے ہو چکے ہیں منکشف مجھ پر
میں ان کے درمیاں کیوں جامۂ محشر میں رہتا ہوں
(خورشید اکبر)
کبھی آمادۂ وحشت کبھی مصروفِ سرتابی
قدم بوسی تو وہ کرتا ہے جس کے پاس فرصت ہے
تمہارے راستے میں چشمۂ حیواں بھی آئے گا
ابھی تو قلبِ صحرا میں ہو پانی ڈھونڈنے والو
وہ ہم سے دور ہے جب تک سفر ہے زندگی اپنی
کسی کے دشت و دریا سے ہمارا جی برا کیوں ہو
(خالد عبادی)
ان اشعار میں ذات کی گمشدگی اور خود کلامی سے زیادہ زندگی کے اثبات اور اس سے مکالمہ کا رویہ پایا جاتا ہے یہ اور بات ہے کہ زندگی کا یہ ادراک واحساس ذات کے حوالے سے شاعری کا جزو بنا ہے۔
دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ان اشعار میں زندگی سے متعلق جو رویہ کا ر فرما ہے وہ ترقی پسندی اور جدیدیت سے یکسر مختلف ہے۔یہاں احتجاج ہنگامی صورت اختیار نہیں کرتا ہے اور نہ جبر و قدر کا معاملہ خود کلامی اور نوحہ خوانی کے پیکر میں ڈھلتا ہے۔گو یا نئی نسل کے احتجاج میں بھی ایک طرح کی متانت پائی جاتی ہے۔اس کی مایوسیوں اور ناکامیوں کے احسا س میں بھی امید کی چاندنی کا غبار پایا جاتا ہے۔جب کہ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ ان کے احساسات کی فضا تہذیبی اقدار کی روشنی سے منور ہے۔
آج کا فنکار جب موجودہ مسائل پر اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وہ انسانیت کی اعلیٰ قدروں پر یقین رکھتا ہے۔وہ اپنی ذات تو کیا انسانی تہذیب کی عمدہ قدروں سے بھی مایوس نہیں ہوا ہے۔
جدیدیت اور نئی نسل کے فنکاروں میں یہ بھی ایک واضح فرق ہے کہ وہ خدا ، ثقافتی اقدار اور تاریخ سے بھی جوش، امنگ، امید، اور زندگی کی توانائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، جب کہ نئی نسل کے فنکاروں نے خدا، تاریخ ، اور تہذیبی وراثت کو امیدوں ، امنگوں ، اور زندگی کی مثبت توانائی کے منبع کے طور پر دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
قبول ہونے لگی ہیں عبادتیں میری
لہو کی شاخ پہ کھلنے لگے دعا کے پھول
(راشد انور راشد)
ساحل کے آس پاس بھنور ہے تو کیا ہوا
ایک شمع جل رہی ہے دعا کے حصار میں
(اظفر جمیل)
میں جب بکھرا ہوں اس نے مجھے سمیٹا ہے
طلب میں کیسے کہوں کہ مرا خدا نہیں ہے
وہ ذرہ دیکھنا مہتاب بن جائے گا اک دن
یقینا مہرباں اس پہ بھی رب ہو گا ہی ہو گا
(خورشید طلب)
سو خوف زمانے کے سمٹ آئے ہیں دل میں
بس ایک خدا پاک کا ڈر ہی نہیں آتا
(ارشد عبدالحمید)
یہ سچ کہ راہ میں دشواریوں کا لشکر ہے
ہمارے ساتھ بھی لیکن خدائے برتر ہے
(فاروق انجنیئر)
روح کی پاکیزگی کو عمر بھر اچھا لگا
ذکر تیرا اے خدا شام و سحر اچھا لگا
(شمس رمزی)
خیال و وہم و گماں سے بھی ماوریٰ ہو جائے
اگر وہ چاہے تو پانی میں راستہ ہو جائے
(منظور ہاشمی)
اے خدا میری رگوں میں دوڑ جا
شاخِ دل پر اک ہری پتّی نکال
(فرحت احساس)
یہ جو باغات اور چشمے ہیں
مانگی ہو گی کبھی دعا ہم نے
(خالد عبادی)
خدایا نیند تھوڑی سی مری آنکھوں کو مل جائے
کبھی بستر پہ کانٹے ہیں کبھی کانٹوں پہ بستر ہے
(مشتاق صدف)
اک لفظ کے کوزے میں سما جائے سمندر
یہ اپنی دعا ہے کہ خدا ایسا ہنر دے
(ابراہیم اشک)
پتھر میں بھی کیڑوں کو جو دیتا ہے ہری گھاس
بد خواہوں سے کہہ دو کہ وہی میرا بھی رب ہے
(شمیم طارق)
دولت نہ سہی رزق اَنا تو ہے مرے پاس
دنیا کے خداؤں کو خدا میں نہیں کہتا
(رئیس الدین رئیس)
میں سجدوں کی زمینوں میں دعا کے بیج بوتا ہوں
خطاؤں کی چٹانوں کو نمازوں سے بھگوتا ہوں
(خورشید اکبر)
آج کے فنکاروں نے جہاں جدیدیت اور ترقی پسندی کی مثبت قدروں کو قبول کیا ہے، وہیں مغرب کے نو بہ نو افکار کے شانہ بشانہ اپنے قدیم علمی سرمایے سے بھی روشنی حاصل کی ہے۔انہوں نے سرسید، حالی اور شبلی کو از کار رفتہ سمجھ کر آنکھیں بند کر کے مغربی دانشوروں کا قصیدہ نہیں پڑھا ہے۔بجائے اس کے حالیؔ کی شاعری کے لیے نشاندہی کئی گئی صحت مند اخلاقی قدروں کی پاسداری کی ہے، اور مغربی افکار کو وہیں تک اپنایا ہے جہاں تک مشرقی اقدار نے گوارہ کیا ہے۔
ایک اور بات یہ کہ ۸۰ئ کے بعد والے فنکاروں نے ان موضوعات کو بھی برتا ہے جن کو ان کے تازہ کار پیش روؤں نے یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔بالخصوص حب الوطنی، بے روزگاری، غربت، اور سیاسی وسماجی سروکار کے حامل ان موضوعات کو جنہیں لوگوں نے ترقی پسندوں کی جگالی سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔
اسی کارن یہ رونا ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا
یہ مٹی ہے کہ سونا ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا
(ساجد حمید)
میں اپنے ملک کی مٹی سے پیار کرتا ہوں
اسی میں مجھ کو کسی دن خراب ہونا ہے
(ابراہیم اشک)
وہ جب بناتے ہیں فہرست جاں نثاروں کی
وہ لمحہ … لمحۂ قطع و برید ہوتا ہے
(رؤف خیر)
مری سرزمین بھی پاک تھی ، مری آستیں بھی صاف تھی
تو کہاں سے ناگ وہ آئے تھے ، مری جان و تن کو جو ڈس گئے
(منظور ہاشمی)
مری زمین ترے آسماں سے اچھی ہے
یہ کربلا نہ بنے تو جناں سے اچھی ہے
(خالد عبادی)
مان لیں گے لوگ کیا یک رنگ ہے سب کا لہو
کیا مرا ہندوستاں جنت نشاں ہو جائے گا
(رئیس الدین رئیس)
وہی گلشن ہے مگر وقت کی رفتار تو دیکھو
کوئی طائر نہیں پچھلے برس کے آشیانوں میں
(اظفر جمیل)
ہر گلی کوچے میں رونے کی صدا میری ہے
شہر میں جو بھی ہوا ہے وہ خطا میری ہے
(فرحت احساس)
کن انگلیوں کی زد پہ ہیں سارے دماغ و دل
کن بستیوں کے نام کہانی تمام ہے
(خورشید اکبر)
سبھوں کے لیے چاہیے روزگار
زبوں حال ہر اک کم و بیش ہے
شہری وطن عزیز کا ہوں
لیکن ہے شعار اشک باری
(جمال اویسی)
شکم کی آگ سے بڑھ کر کوئی وبال ہے کیا
ہمیں خبر ہی نہیں ہجر کیا وصال ہے کیا
(عالم خورشید)
میں اپنے گھر میں اکیلا کمانے والا ہوں
مجھے تو سانس بھی آہستگی سے لینا ہے
(شکیل جمالی)
وفائیں ہم سے قائم ہیں وطن ہم سے سلامت ہے
ہمیں سے ہو سلوک ناروا اچھا نہیں لگتا
(شمس رمزی)
نسل کشی کا کیسا تسلسل ہے سرحد کے پار خدا
حشر سے پہلے آخر چاروں سمت بپا ہے محشر کیوں
(شہباز ندیم)
سوا اپنے کسی کو راز دار ہونے نہیں دیتے
وہ آگ ایسی لگاتے ہیں دھواں ہونے نہیں دیتے
(عقیل نعمانی)
آگ ہی آگ ، دھواں ، شور ، مسلسل چیخیں
ایسی صورت میں کریں کیا کوئی ارشاد کرے
(راشد انور راشد)
وہ گردِ کدورت ہے کہ خوشبوئے وطن بھی
تاثیر لئے پھرتی ہے بارود کی بو کی
(شمیم طارق)
ہمیں سے رکھتے ہیں پُرخاش بھی عداوت بھی
ہمیں سے اہلِ جہاں دوستانہ چاہتے ہیں
(اسعد بدایونی)
اٹھا کر سر کبھی چلنے کی ہمت نہیں ہوتی
سیاسی آدمی میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی
(شکیل جمالی)
ایسانہیں ہے کہ کل تک جو خطرے اور بے یقینی کی صورتحال تھی وہ اب نہیں ہے، سچ تو یہ ہے کہ جدید فنکاروں کو جس قسم کے حالات کا سامنا تھا آج کے فنکاروں کو اس سے بھی سنگین صورتحال کا سامناہے۔
کل تک سب سے بڑا خطرہ جوہری جنگ کا تھا جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی سے خوش آئند خواب وابستہ کرنے والے لوگ اس بات سے کافی مطمئن تھے کہ سائنس کی بدولت چند بھیڑوں سے اتنا انسولین حاصل کیاجاسکتا ہے ، جو ساری دنیا کی ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کافی ہو گا۔مگر آج تو یہ خوش گمانی بھی باقی نہیں رہ گئی ہے۔آج کا عہد کارپوریٹ ایڈونچر اور فارماسیوٹیکل دہشت گردی کا عہد ہے کارپوریٹ ایڈونچر کی تازہ ترین مثال تاراج عراق ہے تو فارماسیوٹیکل دہشت گردی کا لازوال تحفہ ، ایڈز، جیسا مہلک مرض ہے ، کل تک ہم سمجھ رہے تھے کہ ایڈز قدرت کا عذاب ہے جب کہ آج سب کچھ روشن اور صاف ہے۔کیا کل تک کوئی سوچ سکتا تھا کہ ’’پینٹاگون‘‘ باالخصوص ’’ناسا‘‘جیسا سائنسی تحقیقاتی ادارہ ایسے گھناؤنے کا م میں ملوث ہو گا۔اس وقت دنیا متحیرہ رہ گئی تھی جب اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ ایچ آئی ویHIV مصنوعی وائرس ہے جسے پینٹاگون اور ’’ناسا ‘‘ نے مشترکہ طور پر بھیڑوں کے مخصوص مرض اور جانوروں کی عام بیماری کے وائرس سے تیار کیا ہے۔ اس کے بعد شاید اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے کہ پھر یہ وائرس انسانوں میں کیونکر منتقل ہوا۔اس سے بھی حیرتناک انکشاف تب ہوا جب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کیری مولس نے یہ کہا کہ ، یہ کہنا کہ ایچ آئی وی سے ایڈز، جیسا مہلک مرض پیدا ہوتا ہے حد درجہ مشکوک ہے۔یہ سارا ہنگامہ ڈسپوزیبل سرینج اور کنڈوم بنانے والی کمپنیوں کا کھڑا کیا ہوّا ہے۔ اس کے علاوہ نہ جانے ابھی کتنے سائنسی شعبدے ہیں جن پر سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔
مادی آسائش اور منافع خوری اور حکمرانی کے جنون نے انسان کو حیوانیت کے کس مقام پر پہونچا دیا ہے۔اس کا انداز ہ کم و بیش ہر انسان کو ہے۔جمہوریت کی بحالی کے نام پر بڑی طاقتوں کی دہشت گردی کا دائرہ دن بہ دن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔سیکولر ڈکٹیٹر شپ کا مسئلہ بھی سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر نسل کشی کا کاروبار بھی جاری ہے۔دفاعی جنگ اور تحفظ ملت کے نام پر قوم کے نونہالوں کو ورغلانے کا فریضہ بھی انجام دیا جا رہا ہے۔امن عالم کے نام پر ملکوں کی تاراجی کاسلسلہ بھی جاری ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور موبائل ہماری روزمرہ زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔کلوننگ سسٹم بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ بچوں کے کھلکھلانے سے لے کر بلبلانے تک کی آواز بریک ٹون کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔زمین کے اس سرے سے اُس سرے تک انسان کا لہو بہہ رہا ہے۔اس کے باوجود آج کا فنکار انسان کی ازلی معصومیت کا منکر نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تازہ پیش روؤں کی بہ نسبت انسانیت کے بکھرتے شیرازے کو اکٹھا کرنے کے جذبے کو بیدار کرنے میں زیادہ سرگرمی دکھا رہا ہے۔آج جب کہ تمام مکتبہ فکر کی عظمت دم توڑ چکی ہے انسان کو بجز خدا کے کسی بھی نام پر متوجہ اور متحد نہیں کیا جاسکتا ہے۔اور نہ اس کی عظمت کا اقرار کیے بغیر اخلاقی اقدار کی ازسر نو تنظیم و تطہیر کی جاسکتی ہے۔لیکن خطرہ تو یہاں بھی ہے کہ سیاسی بازیگروں اور نام نہاد مذہبی نمائندوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔اس کے باوجود آج کا فنکار اجتماعیت کا احترام کرتا ہے۔کیونکہ وہ جان چکا ہے کہ فرد کی آزادی اور انفرادیت کا نعرہ اتنا ہی کھوکھلا ہے جتنا نام نہاد روشن خیالی۔
کو ثر مظہری نے نئی نسل کی خصوصیات کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
اس نئی نسل کے سامنے اپنا دکھ ہے۔اپنے مسائل ہیں اور ان تمام سے نبرد آزما ہونے کو یہ تیار بھی ہے، نہ سایہ دیوار میں تھک ہار کر بیٹھ کر روتی ہے اور نہ تنہائی میں اپنے وجود کو کوستی ہے۔ (۱۰)
اس نئی نسل کے سامنے اپنا دکھ ہے۔کہنے سے مراد شاید یہ ہے کہ اس نسل نے کسی ازم و آئیڈیالوجی یا مکتبہ فکر یا جماعت کے دکھ کو اوڑھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ سایہ دیوار میں تھک کر نہیں بیٹھتی ہے۔یوں بھی مانگے کے اجالے سے گلی کا موڑ تو پار کیاجاسکتا ہے۔زندگی کی مسافت طے نہیں کی جاسکتی ہے، اس نسل نے چونکہ اپنے ضمیر کی آواز کو نہیں دبایا ہے ، اس لیے وہ تنہائی میں اپنے آپ کو کوستی بھی نہیں ہے، اس طرح یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نیا ادبی منظرنامہ ماقبل سے مختلف ہے جس کا احساس نئی نسل کے علاوہ بزرگوں کو بھی ہے۔بقول نامی انصاری
موجود ہ غزل جس ڈگر پر چل رہی ہے وہ جدیدیت کے اماموں کی مرضی و منشا کے مطابق یقیناً نہیں ہے۔ (۱۱)
آئیے چند اشعار بھی دیکھ لیں۔
وہی پیاسی زمیں ہے حلقۂ زنجیر کی صورت
وہی اک آسماں جس کے تلے شبنم میں رہتے ہیں
کسی چراغ کی لَو تیز ہو رہی ہے تو کیا
کمال یوں بھی دکھاتی ہیں آندھیاں اپنا
(مہتاب حیدر نقوی)
اک شور شراروں سا پھیلا میری آنکھوں میں
میں اس کو صدا دے کر حیران ہوا کتنا
اک ہوا آخر اڑا ہی لے گئی گردِ وجود
سوچئے کیا خاک تھے اس کی نگہبانی میں ہم
(احمد محفوظ)
آوارہ خرامی سے بھی پرہیز ہے اس کو
بیزار ہے اتنا کہ وہ گھر بھی نہیں جاتا
تھوڑی پسپائی بھی لازم ہے کہ فتحِ پیہم
میرے پندار کے شعلوں کو ہوا دیتی ہے
(طارق متین)
کہاں ممکن ترے عشرت کدے میں شام کاٹوں
ابھی تو سامنا ہر گام پر افسوس کا ہے
اجڑتے خیموں کی پرچھائیں ساتھ ساتھ رہی
کہیں بھی چین سے دو دن قیام کر نہ سکے
(خورشید طلب)
بڑے گھروں میں رہی ہے بہت زمانے تک
خوشی کا جی نہیں لگتا غریب خانے میں
کوئی تو آواز ابھرے دل کے ویرانے سے اب
چاٹتا جاتا ہے مجھ کو میرے اندر کا سکوت
(نعمان شوق)
شہر کا شہر ہی منافق ہے
بے سبب گونجتی اذان ہوں میں
معبدوں میں لہولہان ہوں میں
کن خداؤں کے درمیان ہوں میں
(عطاء الرحمن طارق)
یہ جو غبار ہے دیوانگی ہے صحرا کی
پہاڑ کاٹ کے بہتی ندی محبت ہے
خاندانی بھی موالی کی طرح لگتا ہے
آدمی شہر میں گالی کی طرح لگتا ہے
(شکیل اعظمی)
ابر رحمت کا یہاں برسے دعائیں مانگو
کل اسی دشت میں تیرا بھی ہے گھر ہونے کا
مرے چراغ سے نادم ہے آج بھی سورج
کہ اس کی دھوپ دریچے سے آ کے ملتی ہے
(عطا عابدی)
بگولہ بن کے اڑتی پھر رہی ہے جو فضاؤں میں
یہ سوچا ہے اسی مٹی سے میں ساغر بناؤں گا
(خواجہ جاوید اختر)
کیا خاک راہ و رسم کسی سے بڑھائیں ہم
جی چاہتا ہے تجھ کو بھی ہم بھول جائیں اب
(عاصم شہنواز شبلی)
پیشانیوں پہ نقش تو سجدے کا بن گیا
لیکن کہیں نشان جبیں کا نہیں رہا
(احمد کمال پروازی)
میں اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں لیکن کئی سورج
مرے آگے تو چلتے ہیں مرے پیچھے بھی آتے ہیں
کہاں کے خواب ہیں سچے ، کہاں کے جھوٹے ہیں
میں دشت گھوم کے آؤں تو فیصلہ ہو جائے
(قاسم امام)
بھٹکنے دو اندھیروں میں نمود صبح صادق تک
کہ پھونکوں سے بجھایا ہے چراغِ شام لوگوں نے
(مشتاق صدف)
کہاں کے گم شدہ ناقہ سوار آتے ہیں
ہماری راہ میں گرد و غبار آتے ہیں
(رونق شہری)
کیا خاک ٹک سکیں گے خریدے ہوئے گواہ
سرکار آپ کیسی گواہی سے خوش ہوئے
(رؤف خیر)
دیکھا جو کوئی نقشِ پا ساحل کی ریت پر
اک دور زندگی کا نظر سے گزر گیا
(سلیم انصاری)
ندی کنارے بیٹھ کے کب تک سوچو گے
زور کہاں کم ہو گا بہتے پانی کا
(حنیف ترین)
میری آنکھوں میں کوئی جزیرہ نہیں
جس کی آغوش میں چاند اترا کرے
(رسول ساقی)
وہ نوحہ گر بھی نہیں جو لہو رلائیں اب
چلو ہم اپنی کہانی تمہیں سنائیں اب
(شاہد اختر)
کسی کی بات کوئی بدگماں نہ سمجھے گا
زمیں کا درد کبھی آسماں نہ سمجھے گا
(امام اعظم)
کبھی سوچوں کہ ہے یہ زندگی کیا
کبھی پوچھوں کہ ہے یہ زندگی کیوں
(سجاد سید)
کل شورِ نشور تھا ہر سو
بلبل اک گلستاں سے گزرا
رات کے پچھلے پہر کون سسک اٹھتا ہے
گردشِ وقت تجھے کچھ بھی بتانے کا نہیں
(کوثر مظہری)
کیوں عکسِ گریزاں سے چمک بجھ گئی دل کی
یہ رات تو مہتاب کے گہنے کی نہیں ہے
(کبیر اجمل)
ہو چکا خاک اگر سب میرے اندر اندر
کیوں مری سانسوں سے جلنے کی مہک جاتی نہیں
سماعت چیختی ہے شب کو سنّاٹے کے پانی میں
کوئی ہے جو ادھر آواز کا پتھر اچھالے گا
جو تجھ کو سوچوں تو روشن نئے نئے امکان
جو تجھ کو لکھوں تو کاغذ بھی جیسے پھیلتا ہے
(سہیل اختر)
جوڑ کے ماضی سے رشتہ چھیڑ کے بچپن کے قصے
وہ بھی بہت مایوس ہوئے ہم بھی بہت پچھتائے کل
خاک اڑتی ہوئی قدموں سے لپٹ جاتی ہے
کوئی صحرا ہے گلابوں کے نگر سے آگے
(شارق ادیب)
کوئی تو پانی کی ویرانی کو سمجھے گا کبھی
دیکھتا رہتا ہوں اب میں بھی سمندر کی طرف
(ریاض لطیف)
کبھی سب کائناتی سلسلے بیکار لگتے ہیں
کبھی اک ہوک اٹھتی ہے نیا عالم بسانا ہے
تم اپنے خواب بچا کر رکھو کہ کل دنیا
تمہاری آنکھوں میں جھانکے تو زندگی دیکھے
(حامد اقبال صدیقی)
سبزہ نہ برگ و بار نہ خوشبو نہ سائے ہیں
ہم لوگ بددعا کے علاقے میں آئے ہیں
اُس موڑ پہ بھی آگ تھی اِس موڑ پہ بھی آگ
لوگوں نے آنسوؤں سے یہ منظر بجھائے ہیں
(شاہد لطیف)
بے روک ٹوک مجھ سے گزرتے ہیں حادثے
اک رہگزار عام ہے شاید یہ زندگی
(جاوید ندیم)
قطرہ سہی زمانے میں پہچان تو رہی
اپنا وجود کھو کے دریا نہیں ہوا
(نوشاد مومن)
پایاب اگر ہے یہ سمندر تو ہوا کیا
کشتیِ جنوں ریت پہ چلنے کے لئے ہے
(نوشاد احمد کریم)
یہ زندگی کہیں سے بھی اپنی نہیں لگتی
میں کون ہوں کیا ہوں یہ کس کا لباس ہے
(محبوب عالم غازی)
اتار پھینکے گی دنیا تکان برسوں کی
ہمارا عہد بھی ایسے مغالطے میں رہا
(رفیق وستا)
دب گئی تھی کسی ملبے میں مری خشت طلب
کتنی دیواریں اٹھائیں تو کہیں گھر نکلا
(عادل حیات)
کل کی رات بہت بارش تھی جل تھل اندر باہر سب
بے آبی سے سیرابی میں جانے پھر کب آئیں ہم
(اکرم نقاش)
دل نیلام میں بکنے والی ایک بڑی جاگیر
اس جاگیر اک اک گوشہ اس چہرے کے نام
(محسن رضا رضوی)
عشق کرنے کا سلیقہ کوئی ہم سے سیکھے
ہم نے چاہا ہے اسے اس کی تمنا کے بغیر
(شہاب الدین ثاقب)
ان اشعار کے مطالعے سے کم از کم یہ بات تو واضح ہوہی جاتی ہے کہ نئی نسل کے یہاں نہ تو تخلیقی وفور و شعور کی کمی ہے اور نہ افرادی قوت کی قلت ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ نئی نسل کے فنکاروں نے بزرگوں کی بے اعتنائی کے باوجود منزل کا راستہ گم ہونے نہیں دیا ہے۔ جب کہ دیکھنے والی بات یہ بھی ہے کہ نئی نسل جدیدیت اور ترقی پسندی دونوں سے اثرپذیر ہونے کے باوجود اپنا لہجہ اور اسلوب دریافت کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔اس کے یہاں نہ تو ترقی پسندی والی نعرہ بازی اور ہنگامہ آرائی پائی جاتی ہے اور نہ جدیدیت والی ابہامیت، تازہ فنکاروں نے جتنا رشتہ اپنے آپ سے رکھا ہے اتنا ہی رشتہ سماج و معاشرے سے بھی رکھا ہے۔انہوں نے زندگی کے عام مسائل کو اتنی ہی شدت سے محسوس کیا ہے جتنی شدت سے اپنی ذات کے کرب کو محسوس کیا ہے۔نئی نسل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس نے صرف دانشورانہ نشتر زنی ہی سے نہیں دل دردمند سے بھی کام لیا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری کا داخلی اور خارجی آہنگ قاری کو اجنبی نہیں لگتا ہے۔
عبدا لا حد ساز نے لکھا ہے کہ :
شاعری صرف دانشورانہ نشتر زنی ہی کا نام نہیں ہے، بلکہ درد مندانہ مرہم پاشی کا بھی کام ہے، اور یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب شاعر اپنے فکر و فن کو انسان، خدا، اور کائنات کے ازلی رشتۂ درد محبت سے ہم آہنگ رکھے۔ (۱۲)
ہم دیکھتے ہیں کہ تازہ کار فنکاروں نے اس ہم آہنگی کو بہر حال قائم رکھا ہے۔اور اسے تقویت پہونچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔
یہ اعتراض کسی حد تک درست ہے کہ تازہ کار شاعروں کے کلام میں ابہام نہیں پایا جاتا ہے۔اور نہ ان میں علامت واستعارہ سازی کا ہی مزاج پایا جاتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ نئی شاعری سادہ بیانیہ اور سپاٹ لب و لہجے کی شاعری ہے۔شاید وہ لوگ یہ بات بھو ل جاتے ہیں کہ نئے فنکاروں نے شعوری طور پر جدیدیت والی تجریدیت اور بعید از فہم علامت واستعارہ سے گریز کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ جس شاعری میں پیچیدگی اور ابہام نہ ہو وہ شاعری شاعرانہ اوصاف سے بھی محروم ہو گی ؟اگر نہیں تو پھر نئی شاعری کو غیر اہم قرار دینے کے لیے کوئی اور حربہ تلاش کرنا پڑے گا۔ویسے نئی شاعری اس وقت اتنی مقبول تو ہوہی چکی ہے کہ اس کا انکار کسی بھی طور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
فضیل جعفری نے احمد فراز کی شاعری پر لکھے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ غزل ایسی صنف شاعری ہے جو اپنے ساتھ وقت گذارنے والے کو دوچار ایسے اشعار ضرور دے دیتی ہے جو اس کی پہچان اور مقبولیت کا سبب بن جائے(یہ میں اپنی یادداشت کے سہارے لکھ رہا ہوں )اس بات سے بہت حد تک اتفاق کیاجاسکتا ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر غیر اہم شاعروں کے یہاں بھی کچھ کام کے اشعار مل جاتے ہیں ، ظاہر ہے کہ گنتی کے چند اشعار کسی بھی فنکار کو انفرادیت اور ابدیت سے ہمکنار نہیں کرسکتے ہیں۔
نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے یہاں آج بھی بھیڑ بھاڑ والی کیفیت پائی جاتی ہے۔افراتفری کا یہ عالم ہے کہ بعض شاعروں کا نام بار بار لیا جاتا ہے۔تو کچھ شاعروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔جب کہ ابھی تک مطلع ہی صاف نہیں ہوا ہے کہ اس بھیڑ میں اپنے لب و لہجے ، اپنے اسلوب، اور اپنے طرز فکر کی توانائی و انفرادیت کی وجہ سے کن لوگوں کو امتیاز حاصل ہے۔یا یہ کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنے محاسن کلام اور شاعرانہ اوصاف کی وجہ سے اپنے ہمعصروں میں اولیت کا حق رکھتے ہیں ؟یہی وجہ ہے کہ جب اس نسل کے فعال ہونے کی تصویر دکھانی ہوتی ہے تو درجنوں نام سامنے آ جاتے ہیں۔اور مضمون ووٹر لسٹ بن جاتا ہے۔میں نے اس بدعت کو اس لیے دہرایا ہے کہ اس نسل کی اجتماعی تخلیقی صورتحال کا کسی حد تک اندازہ لگایاجاسکے۔
ویسے یہاں پر یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی عہد میں جب اتنے سارے فنکار سرگرم عمل ہوں تو پھر یہ کیونکر کہاجاسکتا ہے کہ کسی بھی بڑی تخلیق کا امکان ختم ہو چکا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی یہ فہرست کم از کم ایک درجن ناموں تک اور طویل ہوسکتی ہے۔اگر فنکاروں کی اتنی بڑی تعداد کی موجودگی میں بھی بڑی تخلیق کا کوئی امکان نہیں ہے تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری زبان ، ہماری تہذیب اور ہماری قوم عالم نزع میں ہے، اگر ہم واقعی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں اور اپنے آپ سے خوف زدہ بھی نہیں ہیں تو ہمیں انہیں خذف ریزوں میں ہیرے تلاشنے کی کوشش کرنی پڑے گی۔یا پھر بڑی تخلیق کی تعریف بدلنی پڑے گی۔
ویسے نئی نسل کے فنکار اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ابراہیم اشک اپنے مخصوص انداز میں کہتے ہیں کہ:
درا صل اعلیٰ ادب کے ختم ہو جانے کی باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی نسل اعلیٰ ادب تخلیق کرنے سے قاصر رہی ہے۔مجھے ان کی اس سادہ لوحی پر اس لیے ہنسی آتی ہے کہ وہ آنے والی صدیوں کو بس اپنے ہی نام لکھنے کا بے معنیٰ خواب دیکھ رہے ہیں۔جب کہ ان کے ذہنی رویہ اور ان کی نسل کا ادب دم توڑ چکا ہے۔وقت سے پہلے ہی ان کی دوکان اٹھ چکی ہے اور اب تو ان کی دوکان میں مال بھی نہیں ہے۔ایسے میں خالی دوکان کا مالک یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس کی دوکان سے شاندار کوئی اور دوکان ہوہی نہیں سکتی۔
ابراہیم اشک کی بات میں کسی حد تک سچائی تو ہے۔مگر یہ جواب آں غزل والا معاملہ ہے،
تجزیہ اور تعبیر و تفہیم والا معاملہ نہیں ہے۔مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ نئی نسل کا اپنی انفرادیت اور شناخت پر اصرار کرنا بے جا نہیں ہے۔
٭٭٭
تشکر: مشرف عالم ذوقی جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید