FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

               نماز کے اوقات کا بیان

 

حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ظہر کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے اور اس کا آخری وقت جب تک ہے کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر ہو جائے عصر کے آنے کے وقت تک۔ اور عصر کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہو جائے اور مغرب کی نماز کا وقت اس وقت تک ہے جب تک شفق غائب نہ ہو جائے اور نماز عشاء کا وقت ٹھیک آدھی رات تک ہے اور نماز فجر کا وقت طلوع فجر سے اس وقت تک ہے جب تک سورج نہ نکل آئے اور جب سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس سے پہلے کہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے نماز کے اوقات کے بارے میں عرض کیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اصطلاحی الفاظ کے معنی بیان کر دے جائیں جن کو سمجھنے کے بعد مقصد تک پہنچے میں بڑی آسانی ہو جائے گیزوال۔۔۔ آفتاب کے ڈھلنے کو کہتے جسے ہماری عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے سایہ اصلی۔۔۔ اس سایہ کو کہتے ہیں جو زوال کے وقت باقی رہتا ہے۔ یہ سایہ ہر شہر کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی جگہ بڑا ہوتا ہے ، کسی جگہ چھوٹا ہوتا ہے اور کہیں بالکل نہیں ہوتا ، جیسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں زوال اور سایہ اصلی کے پہچاننے کی آسان ترکیب یہ ہے کہ ایک سیدھی لکڑی ہموار زمین پر گاڑی جائے اور جہاں تک اس کا سایہ پہنچے اس مقام پر ایک نشان بنا دیا جائے پھر دیکھا جائے کہ وہ سایہ اس نشان کے آگے بڑھتا ہے یا پیچھے ہٹتا ہے۔ اگر آگے بڑھتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی زوال نہیں ہو اور اگر پیچھے ہٹے تو زوال ہو گیا۔ اگر یکساں رہے نہ پیچھے ہٹے نہ آگے بڑھے تو ٹھیک دوپہر کا وقت ہے اس کو استواء کہتے ہیں ایک مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو جائے دو مثل۔۔۔ سایہ اصلی کے سوا جب ہر چیز کا سایہ اس سے دو گنا ہو جائے ان اصطلاحی تعریفات کو سمجھنے کے بعد اب حدیث کی طرف آئیے : سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اوقات نماز کے سلسلے میں سب سے پہلے ظہر کا ذکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وقت نماز کی تعلیم کے سلسلے میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہی نماز پڑھائی تھی ، یہی وجہ ہے کہ نماز ظہر کی نماز کو پیشین کہا جاتا ہے نماز ظہر کا اول وقت اسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب کہ آسمان کہ درمیان آفتاب مغرب کی طرف تھوڑا سا مائل ہوتا ہے جس کو زوال کہتے ہیں اور اس کا آخری وقت وہ ہوتا ہے جب کہ آدمی کا سایہ اس کے طول کے برابر علاوہ سایہ اصلی کے ہو جاتا ہے۔ سایہ اصلی کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ وہ سایہ ہوتا ہے جو زوال کے وقت ہوتا ہے یعنی اکثر مقامات پر جب کہ آفتاب سمت راس پر نہیں آتا وہاں ٹھیک دوپہر کے وقت ہر چیز کا تھوڑا سا سایہ ہوتا ہے اس سائے کو چھوڑ کر جب تک کسی چیز کے طول کے برابر سایہ رہے گا ظہر کا وقت باقی رہے گامالم یحضر العصر (عصر کا وقت آنے تک) یہ جملہ دراصل پہلے جملہ کی تاکید ہے کیونکہ جب ایک مثل تک سایہ پہنچ گیا تو وقت ظہر ختم ہو گیا۔ اور عصر کا وقت شروع ہو گیا چونکہ اس جملے کا مطلب پہلے ہی جملے سے ادا ہو گیا تھا اس لیے یہی کہا جائے گا کہ یہ جملہ پہلے جملے کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے ہاں اتنی بات اور کہی جا سکتی ہے کہ یہ جملہ اس چیز کی دلیل ہے کہ ظہر اور عصر کے درمیان وقت مشترک نہیں ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے۔ عصر کے وقت کی ابتداء تو معلوم ہو گئی کہ جب ظہر کا وقت ختم ہو جائے گا عصر کا وقت شروع ہو جائے گا۔ آخری وقت کی بات یہ ہے کہ جب تک آفتاب زرد نہیں ہو جاتا عصر کا وقت بلا کراہیت باقی رہتا ہے چنانچہ حدیث میں اسی طرف اشارہ ہے۔ البتہ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک وقت جو از باقی رہتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آفتاب کی زردی سے کیا مراد ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں کہ آفتاب کے زرد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اتنا بدل جائے کہ اس کی طرف نظر اٹھانے سے آنکھوں میں خیرگی نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کی جو شعاعیں دیوار وغیرہ پڑتی ہیں اس میں تغیر ہو جائے لگے ہاتھوں اتنی بات اور جانتے چلئے کہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم نیز حضرت امام زفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت ایک مثل تک باقی رہتا ہے اس کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے چنانچہ ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ظہر کا آخری وقت ایک مثل تک رہتا ہے جہاں تک امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تعلق ہے تو ایک روایت کے مطابق ان کا بھی وہی مسلک ہے جو جمہور علماء کا ہے بلکہ بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ امام اعظم کا فتویٰ بھی اسی مسلک پر ہے۔ چنانچہ درمختار میں بہت سی کتابوں کے حوالوں سے اسی مسلک کو ترجیح دی گئی ہے۔ مگر ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ان کے دلائل ہدایہ وغیر میں مذکور ہیں بہر حال علماء نے اس سلسلہ میں ایک صاف اور سیدھی راہ نکالی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ ظہر کی نماز تو ایک مثل کے اندر اندر پڑھ لی جائے اور عصر کی نماز دو مثل کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہو جائیں مغرب کا وقت آفتاب چھپنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور شفق غائب ہو جانے کے وقت ختم ہو جاتا ہے۔ اکثر ائمہ کے نزدیک شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو آفتاب چھپنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے چنانچہ اہل لغت کا کہنا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم اور علماء کی ایک دوسری جماعت کا قول یہ ہے کہ شفق اس سفیدی کا نام ہے جو سرخی ختم ہونے کے بعد نمودار ہوتی ہے اہل لغت و دیگر ائمہ کے قول کے مطابق حضرت امام اعظم کا بھی ایک قول یہ ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے چنانچہ شرح وقایہ میں فتویٰ اسی قول پر مذکور ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مغرب کی نماز تو سرخی غائب ہونے سے پہلے پڑھی جائے اور عشاء کی نماز سفیدی غائب ہونے کے بعد پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازیں بلا اختلاف ادا ہوں عشاء کے بارے میں مختار مسلک اور فیصلہ یہ ہے کہ اس کا وقت شفق غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ٹھیک آدھی رات تک بلا کراہت باقی رہتا ہے البتہ وقت جو طلوع فجر سے پہلے تک رہتا ہے فجر کا وقت طلوع صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور طلوع آفتاب پر ختم ہو جاتا ہے۔ بظاہر تو حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلوع صبح صادق کے بعد سے طلوع آفتاب تک تمام وقت نماز فجر کے لیے مختار ہے مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ فجر کی نماز کا وقت مختار اسفار تک ہے اس کے بعد وقت جواز رہتا ہے نماز کے اوقات کی تفصیل جان لینے کے بعد اب حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بھی سمجھ لیجئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ  جب کہ سورج نکل آئے تو نماز سے باز رہو کیونکہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج نکلنے کی جگہ شیطان کے دونوں سینگ ہیں کہ سورج اس کے اندر سے طلوع ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب خود ایک روایت نے بتا دیا ہے کہ طلوع آفتاب کے وقت شیطان آفتاب کے سامنے آ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سر آفتاب کے نزدیک کر لیتا ہے اسی طرح غروب آفتاب کے وقت کرتا ہے اس کے اس طرزِ عمل کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ان کفار کے اس طرز عمل کے ذریعہ وہ اپنا گمان یہ رکھتا ہے کہ لوگ میری عبادت کر رہے ہیں اسی طرح وہ اپنے تابعداروں کے ذہن میں یہ بات بٹھاتا ہے کہ یہ لوگ آفتاب کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہیں بلکہ درحقیقت میری عبادت کر رہے ہیں اور میرے سامنے ماتھے ٹیکتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ ان اوقات میں نماز نہ پڑھا کریں تاکہ مسلمانوں کی عبادت شیطان کو پوجنے والوں کی عبادت کے اوقات میں نہ ہو

 

 

٭٭  اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نماز کا وقت دریافت کیا (کہ نماز کا اوّل و آخر وقت کیا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ دنوں میں تم ہمارے ساتھ نماز پڑھو (تاکہ میں تمہیں نماز کے اوقات دکھا دوں ) چنانچہ جب سورج ڈھل گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اذان کا) حکم دیا ، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں (تکبیر کہنے کا، حکم دیا، انہوں نے ظہر کی تکبیر کہی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کی نماز پڑھائی) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عصر کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج بلند اور سفید و صاف تھا (اور عصر کی نماز پڑھائی ، پھر مغرب کی اقامت کا حکم دیا جب کہ سورج غروب ہی ہوا تھا ، (اور مغرب کی نماز پڑھائی) پھر عشاء کی اقامت کا حکم دیا جب کہ شفق غائب ہوئی تھی اور عشاء کی نماز پڑھائی) پھر فجر نمودار ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام نمازیں اوّل وقت پڑھا کر دکھا دیں کہ نمازوں کا اول وقت یہ ہے ) پھر جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظہر کو ٹھنڈا کر کے اذان دینے کا حکم دیا اور خوب ٹھنڈا کر کہ ظہر کی نماز کو پڑھایا اور عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سورج بلند تھا لیکن کل کے وقت سے دیر کر کے نماز پڑھائی اور مغرب کی نماز شفق غائب ہونے سے پہلے (یعنی شفق غائب ہونے کے قریب) پڑھائی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزر جانے پر پڑھائی اور فجر کی نماز خوب روشنی ہو جانے پر پڑھائی اور اس کے بعد فرمایا نماز کے اوقات دریافت کرنے والا آدمی کہاں ہے؟ اس آدمی نے سامنے (آ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تمہاری نماز کے اوقات ان اوقات کے درمیان ہیں جو تم ان دنوں میں ) دیکھ چکے ہو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سائل کا مطلب یہ تھا کہ نمازوں کے اوقات کے سلسلہ میں یہ بتا دیا جائے کہ نماز کا اوّل وقت کیا ہوتا ہے اور آخر وقت کون سا ہوتا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے نمازوں کے اوقات کو زبانی سمجھانے سے زیادہ بہتر یہ سمجھا کہ اسے عملی طور پر دیکھا جائے تاکہ اوقات اس کے ذہن نشین ہو سکیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے نماز کا اوّل و آخر دونوں وقت بتانے کے لیے پہلے دن تو نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھیں حدیث میں پہلے ظہر کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے اذان دی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اقامت کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی۔ اس کے بعد عصر کا ذکر کیا گیا ہے لیکن نہ تو عصر کی نماز کا وقت ذکر کیا گیا ہے اور نہ عصر ہی اور نہ اس کے بعد کی اذانوں کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معروف ہے دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا یعنی پہلے روز کے مقابلے میں دوسرے دن ظہر کی نماز اتنی تاخیر سے پڑھی کہ گرمی کی شدت اور تپش کی سختی جاتی رہی تھی عصر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے روز کی تاخیر کے مقابلے میں زیادہ تاخیر سے یعنی دو مثلین کے بعد پڑھائی لیکن پہلے روز کی تاخیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عصر کی نماز میں پہلے روز تاخیر کی گئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز ظہر سے تاخیر کی گئی تھی دوسرے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام نمازوں کو تاخیر سے یعنی ان کے آخری اوقات میں ادا کیا جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کو آخر وقت تک موخر نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کو اس کے آخر وقت مختار یعنی آدھی رات تک موخر کرتے تو اس سے لوگوں کو دیر تک جاگنے کی وجہ سے تکلیف اور پریشانی ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء سے پہلے سو رہتے تو مناسب نہ ہوتا کیونکہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا مکروہ ہے حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ان دو دنوں میں ہمارے ساتھ نماز پڑھ کر یہ دیکھ لیا ہے کہ نمازوں کا اوّل وقت کیا ہے اور آخری وقت کیا ہے لہٰذا شروع سے لے کر آخر تک اوّل وقت بھی ہے اور اوسط بھی اور آخر وقت بھی ہے لہٰذا اس کے درمیان تم جب چاہو نماز پڑھ سکتے ہو۔ آخر وقت سے مراد وقت مختار ہے نہ کہ وقت جواز۔ اس لیے کہ نمازوں کے جو آخری وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائے ہیں۔ ان کے بعد بھی نماز کا وقت باقی رہتا ہے تاہم وہ وقت جواز ہوتا ہے وقت مختار نہیں ہوتا

 

 

 

٭٭  حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے ، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے (نماز کی کیفیت اور اوقات بتانے کے لیے ) امام بن کر خانہ کعبہ کے نزدیک مجھے دو مرتبہ (دو روز) نماز پڑھائی چنانچہ (پہلے روز جس وقت سورج ڈھل گیا اور سایہ تسمے کے مانند تھا تو مجھے ظہر کی نماز پڑھائی اور جب ہر چیز کا سایہ (علاوہ سایہ اصلی کے ) اس کے برابر ہو گیا تو مجھے عصر کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار روز افطار کرتا ہے (یعنی سورج چھپنے کے بعد) تو مجھے مغرب کی نماز پڑھائی اور شفق غائب ہونے کے وقت مجھے عشاء کی نماز پڑھائی اور جس وقت روزہ دار کے لیے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے (یعنی صبح صادق کے بعد) تو مجھے فجر کی نماز پڑھائی۔ اور جب اگلا روز ہوا تو انہوں نے مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ سایہ ایک مثل(کے قریب ہو گیا اور مجھے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو مثل ہو جاتا ہے اور مجھے مغرب کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ روزہ دار افطار کرتا ہے اور مجھے عشاء کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ تہائی رات ہو گئی تھی اور مجھے فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب کہ خوب روشنی ہو گئی اور پھر (جبریل علیہ السلام نے ) میری طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ! یہ وقت آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے پہلے کے نبیوں (کی نماز) کا ہے اور نماز انہیں دو وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداؤد ، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

جگہ اور وقت کے اعتبار سے سایہ اصلی مختلف ہوتا ہے چنانچہ بعض جگہ تو سایہ زیادہ ہوتا ہے اور بعض جگہ کم ہوتا ہے اور بعض وقت سایہ اصلی ہوتا ہی نہیں جیسا کہ مکہ معظمہ میں انیسویں سرطان کو سایہ اصلی نہیں ہوتا۔ اس لیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے روز کی نماز طہر کی وقت کے بارے میں فرمایا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے دن مجھے ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ان دنوں میں مکہ معظمہ میں سایۂ اصلی جوتوں کے تسموں کی چوڑائی کے برابر تھا گویا وہ ظہر کا اوّل وقت تھا

 

 

 

٭٭  حضرت ابن شہاب (اسم گرامی محمد بن عبداللہ بن شہاب ہے زہری کی نسبت سے مشہور ہیں۔ آپ کی وفات ماہ رمضان ١٢٤ھ میں ہوئی آپ جلیل القدر تابعی تھے۔) راوی ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے (ایک روز) عصر کی نماز (وقت مختار سے کچھ) تاخیر کر کے پڑھی حضرت عروہ نے (جب یہ دیکھا تو) کہا کہ سمجھ لیجئے !حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھڑے ہو کر (اوّل وقت) نماز پڑھائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، عروہ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو؟ عروہ نے کہا، میں نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت بشیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آ کر میرے امام بنے اور میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، (راوی فرماتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانچ نمازیں انگلیوں پر گن کر بتائیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عروہ کا یہ مقصد تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو یہ یاد دلائیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی امامت کے بارے میں جو حدیث وارد ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پہلے دن اول وقت نمازیں پڑھائی تھی ں تو اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں کو اوّل وقت پڑھنا افضل ہے اس لیے آپ علیہ الرحمۃ نے اس وقت نماز میں تاخیر کر کے (اگرچہ یہ تاخیر زیادہ نہیں تھی ) فضیلت کی سعادت کو کیوں ترک کیا؟حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں جو یہ کہا کہ، عروہ! ذرا سوچ سمجھ کر کہو کیا کہتے ہو؟ اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کو بیان کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ اہم اور عظیم چیز ہے حدیث کو بیان کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز حدیث کو بغیر سند کے بیان نہ کرنا چاہئے اس لیے سوچ سمجھ کر حدیث بیان کرو اور اس کی سند کے ساتھ بیان کرو حضرت عروہ کی جلالت شان اور رفعت علم و فضل کا گو تقاضا تو یہ تھا کہ ان سے اس قسم کی بات نہ کہی جاتی مگر چونکہ روایت حدیث کی عظمت شان پیش نظر تھی اس لیے انہیں اس طرف توجہ دلائی گئی اور پھر عروہ نے بھی روایت حدیث کی اسی عظمت کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توجہ دلانے کو نہ صرف یہ کہ اپنے علم و فضل کے منافی نہ سمجھا بلکہ اسے خیر و برکت کا باعث جان کر اس پر متنبہ ہوئے اور حدیث کی پوری سند یوں بیان کر کے اپنی قوت حفظ و ذہانت کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ میں جو بات کہہ رہا ہوں وہ کوئی معمولی درجہ کی نہیں ہے بلکہ اس کی صداقت کا میں یقینی علم رکھتا ہوں کیونکہ یہ وہ روایت ہے جس کو میں نے بشیر سے سنا ہے اور انہوں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا اور انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مقدس سے سنا ہے اس حدیث میں راوی نے نماز کے اوقات تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مخاطب کو چونکہ اوقات کی پوری تفصیل معلوم تھی اس لیے یہاں تو صرف صورت واقعہ بیان کئے گئے ہیں ہاں دوسری روایات میں اوقات کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے

 

 

٭٭  اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنے عاملوں (یعنی اسلامی سلطنت کے حکام) کے پاس یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ تمہارے سب کاموں میں مہتم بالشان کام میرے نزدیک نماز کا پڑھنا ہے لہٰذا جس نے اس کی محافظت کی (یعنی ارکان و شرائط کے ساتھ نماز پڑھی، اور اس پر نگہبانی رکھی (یعنی اسے ہمیشہ اداء کرتا رہا اور ریاء و نمائش کے سبب اسے باطل نہ کیا) تو گویا اس نے اپنے دین (کے بقیہ امور کی نگہبانی و محافظت کی اور جس نے اسے ضائع کر دیا تو وہ اس چیز کو جو نماز کے علاوہ ہے بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔ پھر یہ لکھا کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے سے لے کر ایک مثل سایہ تک (علاوہ سایہ اصلی کے ) پڑھا کرو اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھا کرو کہ سورج اونچا اور سفید رہے اور سورج ڈوبنے میں ) اتنا وقت رہے کہ کوئی سوار سورج ڈوبنے سے پہلے دو یا تین میل کا سفر طے کر سکے اور مغرب کی نماز سورج ڈوبنے کے بعد پڑھا کرو اور عشاء کی نماز شفق غائب ہونے کے وقت سے تہائی رات تک پڑھا کرو اور جو آدمی (عشاء سے پہلے ) سو جائے (تو اللہ کرے ) ان کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ ہو (تین مرتبہ یہ دعا کی اور لکھا ہے کہ) صبح کی نماز ایسے وقت پڑھو جب کہ ستارے گنجان چمکتے ہوئے ہوں (یعنی تاریکی میں پڑھو۔ (مالک)

 

تشریح

 

چونکہ نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے نیز یہی وہ عبادت ہے جو برائیوں سے روکتی اور بھلائی و سعادت کے راستہ پر لگاتی ہے اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس نے نماز کی محافظت کی گویا اس نے دین کے تمام امور کی محافظت کی۔ اسی طرح فرمایا کہ جس نے نماز کو ضائع کیا یعنی نماز یا تو بالکل پڑھی ہی نہیں اور اگر پڑھی تو شرائط و واجبات کا قطعاً لحاظ نہ کیا تو وہ نماز کے علاوہ دیگر واجبات و مستحبات اور دینی امور کو بہت زیادہ ضائع کرنے والا ہے کیونکہ نماز ہی عبادات کی اصل ہے جب اس نے اسی کا خیال نہ رکھا تو اس سے دوسرے امور دین کے خیال رکھنے اور ان پر عمل کرنے کی کیا امید کی جا سکتی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم کہ ظہر کی نماز ایک گز سایہ زوال ہونے کے وقت یعنی اس کے فوراً بعد (کہ وہ ظہر کا اول وقت ہو گا) پڑھو۔ ان مقامات کے لیے ہے جہاں سایہ اصلی اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سایہ اصلی مقامات اور وقت کے اعتبار سے ہوتا ہے کہ کہیں تو زیادہ ہوتا ہے اور کہیں کم ہوتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عشاء سے پہلے سونے والے کے بارے میں تین مرتبہ بد دعا تاکید و تہدید کے لیے فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عشاء سے پہلے نماز پڑھے بغیر جو آدمی سو جائے اللہ اس کی آنکھوں کو سونا نصیب نہ کرے وہ بے آرامی و بے قراری میں مبتلا رہے چنانچہ حضرت ابن حجر شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز سے پہلے سونا حرام ہے مگر حنفیہ کے نزدیک یہ حکم تفصیل پر محمول ہے یعنی اگر کوئی نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے سوئے اور اسے اس بات کا گمان بھی ہو کہ میں نماز کے آخر وقت تک سوتا ہی رہوں گا تو اس کے لیے یہ سونا جائز نہ ہو گا۔ اور اگر اسے اپنے اوپر کامل اعتماد ہو کہ میں بغیر جگائے ایسے وقت اٹھ جاؤں گا کہ وقت کے اندر اندر پوری نماز پڑھ لوں گا تو اس کے لیے سونا جائز ہو گا مذکورہ بالا حکم وقت شروع ہو جانے کے بعد سونے کے سلسلہ میں ہے لیکن وقت شروع ہونے سے پہلے سونے کے بارے میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، چنانچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس بارے میں بھی وہی پہلی تفصیل کی جائے گی۔ اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ وقت شروع ہونے سے پہلے سو جانا مطلق حرام نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی آدمی وقت شروع ہونے سے پہلے نماز کے لیے مکلف نہیں ہوتا

 

 

٭٭  اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ظہر کا اندازہ گرمیوں میں تین قدم سے پانچ قدم تک اور جاڑوں میں پانچ قدم سے سات قدم تک تھا۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

دونوں موسم میں اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ سردی کے موسم میں سایہ اصلی زیادہ ہوتا ہے اور گرمی کے موسم میں سایہ اصلی کم ہوتا ہے خصوصاً حرمین میں ورنہ یہ دونوں وقت برابر ہیں

یہ حدیث بہر صورت زوال کے بعد ظہر کی نماز کو تاخیر کرنے پر دلالت کرتی ہے قدم سے مراد ہر آدمی کے قد کا ساتواں حصہ ہے چنانچہ اس اعتبار سے کہ ہر آدمی کے قد کا طول اس کے سات قدم (یعنی سات پاؤں ) کے برابر ہوتا ہے ہر چیز کا طول سات قدم مقرر ہے

ارشاد ربانی ہے : آیت (فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰت)  2۔ البقرۃ:148) یعنی بھلائیوں میں جلدی کرو۔

آیت سے معلوم ہوا کہ نماز کے بارے میں اصل یہی ہے کہ اسے جلدی یعنی اوّل وقت ادا کر لیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ آیت کا مفہوم تو یہی ہے کہ بھلائی کے تمام کاموں کو جن میں نماز بھی شامل ہے جلدی کر ڈالنا بہتر اور مناسب ہے مگر جن مواقع کے لیے شارع علیہ السلام نے تاخیر کا حکم فرمایا ہے وہاں تاخیر کرنا اولیٰ و افضل ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تمام نمازوں کو ان کے اوّل وقت میں ادا کرنا مطلقاً مستحب ہے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے ہاں کچھ تفصیل ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ سردی کے موسم میں تو ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھ لینی چاہئے مگر گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح فجر کی نماز ہر موسم میں اجالے میں پڑھنی چاہئے اور عشاء کی نماز تاخیر کے ساتھ پڑھنی چاہئے نیز عصر کی نماز بھی تاخیر کر کے پڑھنی چاہئے مگر اس میں اتنی تاخیر نہ ہو کہ آفتاب متغیر ہو جائے نمازوں کو جلدی پڑھنے کی حد یہ ہے کہ ان کے اوّل وقت کے پہلے نصف حصہ میں ادا کی جائیں

 

 

 

٭٭ حضرت سیار ابن سلامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد (ہم دونوں ) حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرض نمازیں کس طرح (یعنی کس کس وقت) پڑھتے تھے ، انہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز جسے پہلی نماز کہا جاتا ہے سورج ڈھلنے کے وقت پڑھتے تھے اور عصر کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ ہم میں سے کوئی نماز پڑھ کر مدینہ کے کنارے اپنے مکان پر جا کر سورج روشن ہوتے ہوئے (یعنی اس کے متغیر ہونے سے پہلے ) واپس آ جاتا تھا۔ سیار فرماتے ہیں کہ مغرب کے بارے میں ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ میں بھول گیا اور (ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ عشاء کی نماز جسے تم عتمہ کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تاخیر سے پڑھنے کو بہتر سمجھتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد (دنیاوی) باتیں کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکروہ سمجھتے تھے اور صبح کو نماز ایسے وقت پڑھ (کر فارغ ہو) لیتے تھے کہ ہر آدمی اپنے پاس بیٹھنے والے کو پہچان لیتا تھا اور (نماز میں ) ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھ لیا کرتے تھے ، ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تہائی رات تک عشاء میں دیر کرنے میں تامل نہ فرماتے تھے اور عشاء کی نماز سے پہلے سونے اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں ظہر کے بارے میں جو وقت ذکر گیا ہے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سردی کے موسم میں ظہر کی نماز اوّل وقت پڑھتے ہوں گے کیونکہ یہ قولاً اور فعلاً ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے

عتمہ اس تاریکی کو کہتے ہیں جو شفق غائب ہونے کے بعد ہوتی ہے چنانچہ پہلے عرب میں عتمہ عشاء کو کہتے تھے مگر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو منع کر دیا کہ عشاء کو عتمہ نہ کہا جائے۔ یہاں تاخیر سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کی نماز تہائی رات تک تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کی نماز کے بعد دنیا کی باتیں کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اعمال کا خاتمہ عبادت اور ذکر اللہ پر ہونا چاہئے کیونکہ نیند بمنزلہ موت ہے شرح السنۃ میں منقول ہے کہ عشاء سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے اور بعض حضرات نے سونے کی اجازت دی ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عشاء سے پہلے سوتے اور بعض علماء کے نزدیک صرف رمضان میں عشاء سے پہلے سونا جائز ہے۔ حضرت امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر نیند کا غلبہ ہو اور یہ خوف نہ ہو کہ عشاء کی نماز کا وقت سونے کی نذر ہو جائے گا تو سونا مکروہ نہیں ہے عشاء کے بعد باتوں میں مشغول ہونے کو علماء کی ایک جماعت نے مکروہ کہا ہے چنانچہ حضرت سعید ابن مسیب کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میرے نزدیک بغیر عشاء کی نماز پڑھے سو رہنا اس سے بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد کوئی آدمی لغو کلام اور دنیاوی باتوں میں مشغول ہو بعض علماء نے عشاء کے بعد علم کی باتیں کرنے کی اجازت دی ہے اسی طرح ضرورت اور حاجت کے سلسلے میں یا گھر والوں اور مہمان کے ساتھ باتیں کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (ملا علی قاری)

حضرت شٰخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ دونوں چیزیں جائز ہیں ، یعنی اگر کوئی آدمی عشاء کی نماز سے پہلے سستی اور کاہلی کو دور کرنے اور نشاط و تازگی حاصل کرنے کے لیے سونا چا ہے تو اس کے لیے سونا جائز ہے ، اسی طرح عشاء کی نماز کے بعد ایسی باتیں کرنا جو ضروری ہوں اور بے معنی نہ ہوں جائز ہے

 

 

 

٭٭  اور حضرت محمد بن ابن عمرو ابن حسن ابن علی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر کی نماز دوپہر ڈھلے پڑھتے تھے اور عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج زنار (یعنی روشن) ہوتا تھا اور مغرب کی نماز آفتاب غروب ہونے کے بعد پڑھتے تھے اور عشاء کی نماز میں جب لوگ زیادہ آ جاتے تو جلدی ہی پڑھ لیتے تھے اور جب لوگ کم ہوتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عشاء کی نماز کے بارے میں یہاں وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر لوگ زیادہ آ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز جلدی پڑھ لیتے اور اگر کم آتے تو تاخیر کر کے پڑھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعت کی کثرت کی پیش نظر نماز کو اوّل وقت سے تاخیر کر کے پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین نے اوّل وقت نماز پڑھنے کا التزام اسی لیے نہیں کیا ہے کہ تاخیر سے نماز پڑھنے میں جماعت میں کثرت ہو جاتی ہے نہ یہ کہ ان حضرات کے نزدیک اوّل وقت افضل نہیں ہے۔ اوّل وقت تو بہر صورت افضل ہے لیکن بعض خارجی عوارض جیسے جماعت کی کثرت وغیرہ کی بناء پر تاخیر ہی اولیٰ ہوتی ہے صبح کی نماز تاریکی میں پڑھنے کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ صحابہ کرام رات بھر سونے کے بجائے ذکر و عبادت میں مشغول رہنے کی وجہ سے صبح سویرے ہی مسجد میں موجود رہتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم جماعت کی کثرت کے پیش نظر جلدی پڑھ لیتے تھے آخر میں اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مستقلاً تاریکی ہی میں فجر کی نماز پڑھتے تھے اور اگر بفرض محال اسے مان بھی لیا جائے تو یہ ثابت ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی نماز روشنی میں پڑھنے کا حکم دیا ہے اور حنفیہ کے نزدیک فعل کے مقابلے میں امر (یعنی حکم) کو ترجیح دی جاتی ہے

 

 

 

٭٭  اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کر لیا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

حنفیہ کے نزدیک چونکہ نمازی اپنے پہنے ہوئے کپڑے پرسجدہ کر سکتا ہے اس لیے یہ حضرات اس حدیث کو اپنے مسلک کی دلیل میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کے لئے پہنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا درست ہے۔ حضرات شوافع کے نزدیک چونکہ ایسے کپڑے پر جو نمازی کے ہلنے سے حرکت کرتے ہوں سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے وہ ان کے بدن پر نہیں ہوتے تھے بلکہ گرمی سے بچاؤ کی خاطر انہیں علیحدہ فرش پر بچھائے رکھتے تھے اس حدیث کو مصنف مشکوٰۃ نے باب تعجیل الصلوٰۃ میں نقل کیا ہے تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ زمین پر گرمی کی تپش اوّل وقت ہی رہتی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گرمی کے موسم میں بھی ظہر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ بات اس حدیث سے معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بسا اوقات (بلکہ زیادہ گرمی کے موسم میں ) اوّل وقت کی بہ نسبت بعد میں زیادہ گرمی ہو جاتی ہے

 

 

 

٭٭  اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب گرمی کی شدت ہو تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں ابو سعید سے منقول ہے کہ ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت پڑھا کرو (یعنی ابوہریرہ کی روایت میں تو بالصلوٰۃ کا لفظ آیا ہے اور ابو سعید کی روایت میں بالظہر کا لفظ آیا ہے نیز اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ) کیونکہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے اور (دوزخ کی) آگ نے اپنے رب سے شکایۃً عرض کیا کہ میرے پروردگا! میرے بعض (شعلے ) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی ہے۔ اب وہ ایک سانس جاڑے میں لیتی ہے اور ایک سانس گرمی میں۔ گرمی میں جس وقت تمہیں زیادہ گرمی معلوم ہوتی ہے اور جاڑے میں جس وقت تمہیں زیادہ سردی معلوم ہوتی ہے (تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ وہ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں لیتی ہے۔) (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جس وقت تم گرمی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا گرم سانس ہوتا ہے اور جس وقت تم سردی کی شدت محسوس کرتے ہو تو اس کا سبب دوزخ کا ٹھنڈا سانس ہوتا ہے۔

 

تشریح

 

پروردگار سے دوزخ کی آگ کی نے یہ شکایت کی کہ، میرے بعض (شعلے ) بعض کو کھائے لیتے ہیں۔ کنایہ ہے اجزاء آگ کی کثرت سے اور آپس کے اختلاط سے یعنی آگے کے شعلے اتنے زیادہ ہوتے ہیں اور اس شدت سے بھڑکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ دوسرے شعلے کو فنا کر گھاٹ اتار کر اس کی جگہ بھی خود لے لے۔ چنانچہ پروردگار نے اسے سانس لینے کی اجازت دے دی یعنی سانس سے مراد شعلے کو دبانا اور اس کا دوزخ سے باہر نکلنا ہے۔ جس طرح کہ جاندار سانس لیتا ہے تو ہوا باہر نکلتی ہے بہر حال ایسے وقت باوجود یہ کہ مشقت بہت ہوتی ہے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسے سخت وقت میں جب کہ گرمی اپنی شدت پر ہوتی ہے دل و دماغ تپش کی وجہ سے بے چین ہوتے ہیں نیز خشوع اور سکون وا طمینان حاصل نہیں ہوتا جو نماز کی روح ہیں اس موقع پر عقلی طور پر چند اشکال پیدا ہوتے ہیں ان کی وضاحت کر دینی ضروری ہے پہلا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ گرمی اور سردی کی شدت زمین کی حرکت، عرض البلد اور آفتاب کی وجہ سے ہوتی ہے اس لیے یہاں یہ کیسے کہا گیا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے ہوتی ہے؟

اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہاں دوزخ کی بھاپ کو گرمی کی شدت کا سبب بتایا گیا ہے نہ کہ اصل گرمی کا۔ اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ گرمی اور سردی کی شدت بھی آفتاب کے قرب و بعد کی بناء پر ہوتی ہے کیونکہ اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ دوزخ کا سانس اس میں مزید شدت پیدا کرتا ہو لہٰذا اس کا انکار مخبر صادق کی خبر کے ہوتے ہوئے طریقہ اسلام کے منافی ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ اتنی بات تو طے ہے کہ زمین میں حرارت کی علت سورج کا مقابلہ اور اس کی شعاعیں پڑنا ہے اور یہ کہیں ثابت نہیں ہوا ہے کہ سورج دوزخ نہیں ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ہمارے نظام کی دوزخ یہی ہو جسے ہم سورج کہتے ہیں کیونکہ سورج میں ناریت کا تموج اور اشتعال اس قدر ہے کہ دوزخ کی تمام صفات اس پر منطبق ہوتی ہیں اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے کہ سورج دوزخ نہیں ہے تو یہ بالکل بعید اور نا ممکن نہیں ہے کہ دوزخ علیحدہ ہو اور اس کی گرمی کا اثر زمین پر پڑتا ہو دوسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ نے شکایت کیسے کی کیونکہ دوزخ بے زبان ہے اور بے زبان اظہار مدعا کیسے کر سکتا ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح زبان کے لیے تلفظ ضروری نہیں ہے اسی طرح تلفظ کے لیے زبان بھی ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ اکثر جانوروں کی زبان ہوتی ہے مگر وہ تلفظ نہیں کرتے ایسے ہی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے زبان نہیں ہوتی مگر وہ بات کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ اشکال پیدا کرنا کہ بغیر زبان کے بات کرنا نا ممکن ہے کم فہمی کی بات ہے۔ کیونکہ اگر کوئی یہ پوچھنے بیٹھ جائے کہ زبان سے بات کیوں کی جاتی ہے اس سے سننے کا کام کیوں نہیں لیا جاتا؟ آنکھ سے دیکھتے اور کان سے سنتے کیوں ہو ان سے بات کیوں نہیں کرتے جب کہ یہ سب اعضاء بظاہر ایک ہی مادہ سے بنتے ہیں جو نطفہ ہے تو ہر ایک قوت کی تخصیص کی وجہ ایک خاص چیز سے کیا ہے؟

تو اس کا جواب یہی دیا جائے گا کہ یہ صانع مطلق کی قدرت ہے کہ بولنا زبان سے مختص کیا، دیکھنا آنکھ سے اور سننا کان سے ورنہ یہ سب اعضاء گوشت کا ایک حصہ ہونے میں برابر ہیں۔ ٹھیک اسی طرح یہاں بھی یہی کہا جائے گا کہ کیا صانع مطلق کی یہ قدرت نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنی ایک مخلوق کو گویائی کی قوت دے دے اور جب کہ حکماء کی ایک جماعت تو یہ بھی کہتی ہے کہ اجرام فلکیہ میں نفوس ہیں اور ان میں احساس و ادراک کی قوت ہے تو اس صورت میں بولنا بعید ہے؟تیسرا اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوزخ جاندار نہیں ہے وہ سانس کیسے لیتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخ میں نفس ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے اور جب مذکورہ بالا بحث کی رو سے اس سے تکلم ثابت ہو سکتا ہے تو سانس لینے میں کیا اشکال باقی رہ جائے گا!چوتھا اشکال یہ ہے کہ آگ کے ٹھنڈا سانس لینے کے کیا معنی؟اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ آگ سے مراد اس کی جگہ یعنی دوزخ ہے اور اس میں ایک طبقہ زمہریر بھی ہے پانجواں اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کے مفہوم کے مطابق تو یہ چاہئے تھا کہ سخت سردی کے موسم میں فجر کو بھی تاخیر سے پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سردی میں صبح کو سورج نکلتے تک اسی شدت کے ساتھ رہتی ہے اگر طلوع آفتاب تک نماز میں تاخیر کی جاتی ہے تو وہاں سرے سے وقت ہی جاتا رہتا بہر حال۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود صحابہ بھی گرمی کے موسم میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے۔ چنانچہ صحیح البخاری کی ایک روایت میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز (تاخیر سے ) ٹھنڈا کر کے پڑھتے تھے یہاں تک کہ ٹیلوں کے سائے زمین پر پڑنے لگتے تھے۔ اور یہ سب ہی جانتے ہیں کہ ٹیلے چونکہ پھیلے ہوئے ہوتے ہیں اس لیے ان کے سائے زمین پر بہت دیر کے بعد پڑتے ہیں بخلاف دراز چیزوں مثلاً مینار وغیرہ کے ان کے سائے جلدی ہی پڑنے لگتے ہیں بعض روایتوں میں منقول ہے کہ صحابہ ظہر کی نماز کے لیے دیواروں کے سائے میں ہو کر جاتے تھے۔ اور دیواروں کے بارے میں تحقیق ہو چکی ہے کہ اس وقت دیواریں عام طور پر سات سات گز کی ہوتی تھی۔ لہٰذا ان کے سائے میں چلنا اس وقت کار آمد ہوتا ہو گا جب کہ سورج کافی نیچے ہوتا ہو۔ بعض حضرات نے تاخیر کی حد آدھا وقت مقرر کی ہے یعنی کچھ علماء یہ فرماتے ہیں کہ گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز آدھے وقت تک مؤخر کر کے پڑھنی چاہئے۔ بعض شوافع حضرات حدیث سے ثابت شدہ ابراد (یعنی نماز کو ٹھنڈا کر کے ) کا محمول وقت زوال کو بتاتے ہیں یعنی ان کا کہنا یہ ہے کہ اس ابراد کا مقصد نماز ظہر میں اتنی تاخیر نہیں ہے جو حنفیہ بتاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت استواء کی شدید گرمی سے بچنے کے لیے زوال کی وقت ظہر کی نماز پڑھنی چاہئے ان حضرت کی یہ تاویل نہ صرف یہ کہ بعیداز مفہوم ہے بلکہ خلاف مشاہدہ بھی ہے کیونکہ وقت استواء کے مقابلہ میں زوال کے وقت گرمی کی شدت میں کمی آ جانے کا خیال تجربہ و مشاہدہ ہے ہدایہ میں مذکور ہے کہ جن شہروں میں گرمی کی شدت آفتاب کے ایک مثل سایہ پہنچنے کے وقت ہوتی ہے وہاں تو ابراد کا مقصد اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ نماز ایک مثل سایہ ہونے کے بعد پڑھی جائے الحاصل۔ ظہر کی نماز کو ابراد میں یعنی ٹھنڈا کر کے پڑھنے کے بارے میں بہت زیادہ حد یثیں وارد ہیں جن سے متفقہ طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کر کے پڑھنا ہی افضل و اولیٰ ہے۔ جہاں تک حدیث حباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق ہے جس میں مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے گرمی کے موسم میں دوپہر کی شدت کے بارے میں شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہماری درخواست قبول نہیں کی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے گرمی کے موسم میں ظہر کی نماز کو پورے وقت تک موخر کرنے کی درخواست کی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے قبول نہیں فرمائی کہ اگر اتنی تاخیر کی جائے گی تو نماز کا وقت بھی نکل جائے گا حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراد رخصت ہے اور وہ بھی سب کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو جماعت کے لیے مسجدوں میں جانے کے لیے مشقت و محنت کا سامنا کرتے ہیں۔ جو لوگ تنہا نماز پڑھتے ہوں یا اپنے پڑوس و محلہ کی مسجد میں نماز کے لیے آتے ہوں ان کے لیے میرے نزدیک یہ پسندیدہ ہے کہ وہ اول وقت سے تاخیر نہ کریں ، یہ قول ظاہر حدیث کے خلاف ہے اس لیے اس کی اتباع نہیں کی جا سکتی حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک حدیث نقل کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر میں بھی باوجود یہ کہ سب یکجا رہتے تھے ابراء کا حکم فرمایا کرتے تھے ، نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جو آدمی گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے ظہر کی نماز کو تاخیر سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے اس مسلک کی اتباع سنت کی وجہ سے اولیٰ و افضل ہے

 

 

 

٭٭  اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ سورج اونچا اور زندہ (یعنی روشن) ہوتا تھا اور کوئی جانے والا عوالی جا کر واپس آ جایا کرتا تھا اور سورج اونچا ہی رہتا تھا اور بعض عوالی مدینہ سے چار میل تقریباً چار میل کے فاصلے پر ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عوالی عالیہ کی جمع ہے ، مدینہ شہر کے باہر بلندی پر جو بستیاں ہیں انہیں عوالی کہا جاتا ہے۔ مسجد بنی قریظہ بھی اسی طرف ہے

 

 

 

٭٭  اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ (عصر کی نماز جو آخر وقت میں پڑھی جاتی ہے ) منافق کی نماز ہے وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے جب سورج زرد ہو کر شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان (چھپنے کے قریب) ہو جاتا ہے تو جلدی سے اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا ذکر بھی اس نماز میں قدرے کم ہی کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ٹھونگیں مارنے کا مطلب یہ ہے وہ بغیر طمانیت و سکون کے اس طرح جلدی جلدی سجدے کرتا ہے جیسے جانور دانہ چگتا ہے عصر کی نماز میں سجدے آٹھ ہوتے ہیں مگر یہاں چار اس لیے فرمائے ہیں کہ جب اس نے پہلا سجدہ کر کے اچھی طرح سر نہیں اٹھایا تو گویا دونوں سجدے ایک سجدہ کے حکم میں آ گئے یا دونوں سجدوں کو ایک ہی رکن مانتے (سمجھتے ) ہوئے بجائے آٹھ کے چار کا ذکر فرمایا ہے یہاں صرف عصر کی نماز کا ذکر کیا گیا ہے دوسری نمازوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اور یوں تو سب ہی نمازوں میں ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بری بات ہے مگر دوسری نمازوں کی بہ نسبت اس نماز کو دل جمعی اور سکون خاطر کے ساتھ نہ پڑھنا اور اس کے ارکان و آداب کا لحاظ نہ کرنا بہت ہی بری بات ہے مولانا مظہر فرماتے ہیں کہ جس آدمی نے عصر کی نماز کو سورج کے زرد ہونے تک موخر کیا تو اس نے اپنے آپ کو منافقین کے مشابہ ظاہر کیا کیونکہ منافق نماز کی صحت و تکمیل کا کوئی خیال نہیں کرتا وہ تو صرف ظاہری طور پر مسلمان بن کر تلوار سے بچنے کے لیے نماز پڑھتا ہے اور اسے نماز میں اتنی زیادہ تاخیر کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ اسے اجر و ثواب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ منافقین کی عملاً و فعلاً مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز کو وقت مختار میں پڑھ لیا کریں

 

 

٭٭   اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کی نماز عصر قضا ہو گئی تو گویا کہ مال اس کے اہل و عیال سب لٹ گئے

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کی عصر کی نماز قضا ہو جائے تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس کا گھر بار اور مال و اولاد سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ یا ان میں کمی واقع ہو جائے لہذا جس طرح کوئی آدمی اپنے اہل و عیال کی تباہی و بربادی سے ڈرتا رہتا ہے جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔ یہاں بھی صرف نماز عصر کے ذکر کی وجہ سے یہ ہے کہ یہ نماز وسطی ہے اس کو چھوڑنا دوسری نمازوں کو چھوڑنے کے مقابلے میں زیادہ سخت گناہ ہے

 

 

٭٭  اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی (گویا) اس کے تمام (نیک) اعمال برباد ہو گئے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس آدمی نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ تمام اعمال کے برباد ہو جانے کی بد بختی تو صرف اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو مرتد مرتا ہے لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے عصر کی نماز چھوڑ دی تو اس نماز کی وجہ سے اسے جو اجر و ثواب ملتا اور اس کی نیکیوں میں جو زیادتی ہوتی ہے وہ اس سے محروم رہا یا یہ کہ اس دن کے اعمال میں جو کمال اسے نماز عصر کی بناء پر حاصل ہوتا وہ ضائع ہو گیا جس سے اس کے اعمال میں کمی واقع ہو گئی حنفیہ کے نزدیک صرف مرتد ہو جانے سے تمام اعمال باطل ہو جاتے ہیں ان کے نزدیک موت کی قید نہیں ہے حتی کہ اگر کسی آدمی پر حج واجب تھا اور وہ حج کرنے کے بعد (نعوذ با اللہ) مرتد ہو گیا پھر بعد میں خدا نے اسے ہدایت بخشی اور وہ اسلام میں داخل ہو گیا تو اسے حج دوبارہ کرنا ہو گا معتزلہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کے صدور سے بھی اعمال باطل ہو جاتے ہیں۔ وا اللہ اعلم

 

 

٭٭  اور حضرت رافع ابن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مغرب کی نماز (ایسے وقت) پڑھتے تھے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کوئی اپنے تیر کے گرنے کی جگہ دیکھ سکتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مغرب کی نماز ایسے (اول) وقت پڑھ لیتے تھے کہ نماز پڑھ کر واپس آنے کے بعد اگر کوئی آدمی تیر پھینکتا تو وہ یہ دیکھ لیتا تھا کہ وہ تیر جا کر کہاں گرا ہے۔ بہر حال۔ تمام علماء کے نزدیک بالاتفاق مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا مستحب ہے

 

 

٭٭  اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عشاء کی نماز شفق کے غائب ہونے کے بعد سے اول تہائی رات تک پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پہلے عرب میں لوگ عشاء کو عتمہ کہتے تھے مگر آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کر دیا تو یہ نام ترک کر دیا گیا، مگر یہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عشاء کو عتمہ ہی کہا ہے تو اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ معلوم نہیں ہوا ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاء کو عتمہ کہنے سے منع کر دیا ہے عشاء کے وقت کے سلسلے میں بھی پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تہائی رات تک تو وقت مختار ہے اور طلوع صبح سے پہلے پہلے تک وقت جواز رہتا ہے

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (جب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوتے تھے تو (وہ) عورتیں (جو آپ کے ہمراہ نماز پڑھتی تھی ں ) چادروں میں لپٹی ہوئی واپس چلی جاتی تھی ں اور اندھیرے کی وجہ سے انہیں کوئی شناخت نہیں کر سکتا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (روزہ رکھنے کے لیے ) سحری کھائی۔ سحری سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور نماز پڑھی (قتادہ فرماتے ہیں کہ) ہم نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ان دونوں کے سحری سے فارغ ہونے اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنے وقت کا وقفہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  اتنے وقت کا وقفہ تھا کہ ایک آدمی پچاس (متوسط) آیتیں پڑھ لے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں وقت کا جو اندازہ بیان کیا گیا ہے اس پر عام مسلمان کو عمل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل براہ راست بارگاہ الوہیت سے مطلع ہو جانے کے بعد تھا۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تو دین کے معاملہ میں معصوم عن الخطا تھے کہ آپ سے کسی دینی معمولی لغزش کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ ہر ایک کو کہاں نصیب!

 

 

٭٭اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تمہارے امراء (احکام) نماز کو وقت مختار سے ٹال کر، یا وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھیں گے۔ میں نے عرض کیا، ایسے وقت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اس وقت تم اپنی نماز کو وقت پر پڑھ لو پھر اگر ان کے ساتھ بھی نماز مل جائے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، یہ نماز تمہارے لیے نفل ہو جائے گی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ (او کانوا یوخرون عن وقتھا) لفظ او راوی کا شک ہے یعنی حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا ہے کہ اس سے پہلے کے راوی نے لفظ یمیتون کہا ہے یا یو خرون۔ ویسے معنی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے اس وقت تم کیا کرو گے جب کہ تم یہ دیکھو گے کہ وہ آدمی جو تمہارا حاکم و سردار ہو گا نماز میں سستی و کاہلی کرے گا نماز کو اس کے اول وقت میں نہ پڑھے گا بلکہ غیر مختار طور پر مؤخر کرے گا اور چونکہ وہ تمہارا حاکم ہو گا اس لیے اس پر قادر نہیں ہو سکو گے کہ اس کی مخالفت کر کے اسے سیدھی راہ پر لگا دو تمہیں یہ خوف ہو گا کہ اگر نماز اس کے ہمراہ پڑھتے ہو تو اول وقت نماز پڑھنے کی فضیلت ہاتھ سے جاتی ہے اور اگر اس کی مخالفت کرتے ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کی طرف سے تکلیف و ایذاء پہنچنے کا بلکہ جماعت کی فضیلت سے محروم ہونے کا بھی خدشہ رہے گا۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لگے ہاتھوں ایسے موقع کے لیے حکم بھی پوچھ لیا کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو مجھے کیا طریقہ عمل اختیار کرنا چاہئے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ سیدھا راستہ بتا دیا کہ جب بھی ایسا موقع ہو تو کم سے کم تم اپنی نماز تو صحیح وقت پر ادا کر ہی لینا پھر اس کے بعد اگر تمہیں اتفاق سے ان کی نماز میں بھی شامل ہو جانے کا موقع مل جائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لینا تمہاری یہ نماز نفل ہو جائے گی، اس طرح تمہیں دوہرا ثواب مل جائے گا چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی امام نماز میں تاخیر کرے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ وہ اول وقت اپنی نماز ادا کر لیں پھر بعد میں امام کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیں تاکہ اس طرح وقت اور جماعت دونوں کی فضیلت پا سکیں لیکن یہ جان لینا چاہئے کہ یہ حکم صرف ظہر اور عشاء کے بارے میں ہے۔ کیونکہ فجر اور عصر میں تو فرض ادا کر لینے کے بعد نفل نماز پڑھنی مکروہ ہے اور مغرب کی چونکہ تین رکعت فرض ہیں اور تین رکعت نفل مشروع نہیں ہے اس لیے مغرب میں بھی یہ طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا جہاں تک حدیث کے اطلاق کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہ ضرورت کی بناء پر ہے کہ امراء و حکام کے ہمراہ چونکہ نماز نہ پڑھنے اور ان کے خلاف کرنے کی وجہ سے فتنے و فساد میں مبتلا ہونے کا خدشہ تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عشاء کی قید نہیں لگائی کہ مکروہات کا ارتکاب اس سے بہتر ہے کہ فتنہ و فساد کو جنم دیا جائے پھر یہ کہ اسے مواقع پر مکروہات بھی مباح ہو جاتے ہیں آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو یہ فرمایا تھا وہ محض پیش بندی کے طور پر نہیں فرمایا تھا بلکہ در اصل آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معجزے کے طور پر آئندہ پیش آنے والے یقینی حالات کی پیشین گوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بنی امیہ کے دور میں یہ پیشین گوئی پوری صداقت کے ساتھ صحیح ہوئی کہ اس زمانے کے امراء و حکام نماز میں انتہائی سستی و کاہلی کرتے تھے اور نماز کو وقت مختار سے مؤخر کر کے پڑھا کرتے

 

 

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے آفتاب طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو اس نے صبح کی نماز کو پا لیا اور جس نے آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے عصر کی نماز کو پا لیا (یعنی اس کی نماز ضائع نہیں ہو گی لہٰذا اسے چاہئے کہ بقیہ رکعتیں پڑھ کر نماز پوری کر لے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی عصر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا، ابھی اس نے ایک ہی رکعت نماز پڑھ پائی تھی۔ کہ سورج ڈوب گیا اسی طرح ایک آدمی فجر کی نماز بالکل آخری وقت میں پڑھنے کھڑا ہوا حتی کہ ایک رکعت پڑھنے کے بعد سورج نکل آیا تو اس حدیث کی رو سے دونوں کی نمازیں صحیح ہو جائیں گی۔

مگر اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ اکثر علماء کے نزدیک اس حدیث کے مطابق آفتاب کے طلوع و غروب کی بناء پر فجر، عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے متبعین فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز میں تو یہ شکل صحیح ہے کہ غروب آفتاب کی بناء پر عصر کی نماز باطل نہیں ہوتی لیکن فجر کے بارے میں معاملہ بالکل مختلف ہو گا بایں طور کہ طلوع آفتاب کے بعد فجر کی نماز باطل ہو جائے گی۔ اس طرح یہ حدیث چونکہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف ہو گی اس لیے اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس حدیث اور ان احادیث میں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت نماز خواہ نفل ہوں یا فرض پڑھنا ممنوع ہے۔ تعارض واقع ہو رہا ہے اس لیے ہم نے اصول فقہ کے اس قاعدے کے مطابق کہ جب دو آیتوں میں تعارض ہو تو حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور جب دو حدیثوں میں تعارض ہو تو قیاس کا سہارا لینا چاہئے ، قیاس پر عمل کیا ہے چنانچہ قیاس نے اس حدیث کے حکم کو تو نماز عصر میں ترجیح دی اور احادیث نہی کو فجر کی نماز میں ترجیح دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فجر میں طلوع آفتاب تک پورا وقت کامل ہو تا ہے لہٰذا طلوع آفتاب سے پہلے پہلے جب نماز شروع کی جاتی ہے تو وہ اسی صفت کمال کے ساتھ واجب ہوتی ہے جس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ابتداء صفت کمال سے ہوئی ہے اسی طرح اختتام بھی صفت کمال کے ساتھ یعنی وقت کے اندر اندر ہو۔ مگر جب ایک رکعت کے بعد آفتاب طلوع ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وقت ختم ہو جانے کی وجہ سے نماز میں نقصان پیدا ہو گیا لہٰذا یہ نماز جس طرح صفت کمال کے ساتھ واجب ہوئی تھی اس طرح اداء نہیں ہوئی اور جب صفت کمال کے ساتھ ادا نہیں ہوئی تو گویا پوری نماز باطل ہو گئی۔

اس کے برعکس عصر میں دوسری شکل ہے وہ یہ کہ عصر میں غروب آفتاب تک پورا وقت کامل نہیں ہوتا یعنی جب تک کہ آفتاب زرد نہ ہو جائے اس وقت تک تو وقت مختار یا وقت کامل رہتا ہے مگر آفتاب کے زرد ہو جانے کے بعد آخر میں وقت مکروہ ہو جاتا ہے لہٰذا عصر کی نماز جب بالکل وقت آخر یعنی ناقص میں شروع کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی ابتداء چونکہ وقت ناقص میں ہوئی اس لیے اس کا وجوب بھی صفت نقصان کے ساتھ ہو لہٰذا اس کا اختتام جب غروب آفتاب پر ہو گا تو کہا جائے گا کہ غروب آفتاب سے نماز میں نقصان پیدا ہو جانے کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوئی۔ کیونکہ جس طرح اس کی ابتداء وقت ناقص میں ہوئی تھی اسی طرح اس کی انتہاء بھی وقت ناقص میں ہوئی گویا جس صفت کے ساتھ نماز واجب ہوئی تھی اسی صفت کے ساتھ (یعنی ناقص سے) ادا ہوئی۔

جن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ طلوع آفتاب اور نصف النہار کے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ان کے بارے میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تعلق نوافل کے ساتھ ہے یعنی اگر کوئی آدمی ان تینوں اوقات میں نفل نماز پڑھنا چاہئے تو اس کے لیے یہ جائز نہ ہو گا البتہ فرض نمازیں ان تینوں اوقات میں بھی جائز ہوں گی لیکن احادیث کے الفاظ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید نہیں کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں فرض و نفل کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی بلکہ عمومی طور پر تمام نمازوں کے بارے میں کہا گیا ہے۔ لہٰذا اگر اس بارے میں کسی نماز کی تخصیص کی جاتی ہے تو یہی کہنا پڑے گا کہ یہ حدیث کے ظاہری منشاء اور مفہوم کے سراسر خلاف ہے۔

ابن ملک فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے طلوع آفتاب سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی تو بے شک اس نے نماز کا وقت پا لیا اگرچہ وہ وقت نماز کے مناسب نہیں تھا لیکن پھر وہ وقت نماز کے مناسب اس لیے ہو گیا کہ ایک رکعت کی مقدار وقت بہر حال باقی رہا تھا لہٰذا وہ نماز اس آدمی کے لیے لازم ہو گی۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی آدمی آفتاب غروب ہونے سے پہلے عصر کی نماز کی ایک رکعت پا لے تو اسے نماز پوری کر لینی چاہئے اور اگر آفتاب نکلنے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت پائے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اسے چاہئے کہ وہ اپنی نماز پوری پڑھے۔ حنفیہ تو اس جملے کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی نماز کا اعادہ کرے یعنی اس کی قضاء پڑھے اور شوافع کے نزدیک وہی معنی ہیں جو اس سے پہلی حدیث میں ذکر کئے گئے ہیںَ

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر) سو جائے (اور وہ نماز رہ جائے) تو اس کا بدل یہی ہے کہ جس وقت یاد آئے پڑھ لے ، اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نماز کے پڑھ لینے کے سوا اس کا اور کوئی بدل نہیں ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اگر کوئی آدمی نماز پڑھنی بھول جائے یا نماز کے وقت ایسا غافل ہو کر سو جائے کہ نماز کا وقت نکل جائے اور نماز نہ پڑھ سکے تو اس کا کفارہ صرف یہی ہے کہ اسے جب بھی یاد آ جائے یا جب بھی سو کر اٹھے نماز قضاء پڑھ لے۔ یہ نہیں کہ جس طرح بغیر عذر کے رمضان کے روزے چھوڑنے کا کفارہ صدقہ وغیرہ ہوتا ہے نماز کے ترک کرنے پر بھی کفارہ کے طور پر کئی پڑھنی پڑیں گی یا صدقہ وغیرہ دینا ہو گا۔ ابن ملک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ۔ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو نماز پڑھنے سے رہ گئی ہو وہ جب بھی یاد آئے اس کے پڑھنے میں تاخیر وغیرہ کرنی چاہئے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، سوتے میں نماز کا رہ جانا قصور میں شمار نہیں بلکہ قصور تو جاگتے میں (شمار) ہوتا ہے (کہ وہ اس طرح سویا) لہٰذا جب تم میں سے کوئی پڑھنے سے رہ جائے یا نماز کے وقت (غافل ہو کر) سو جائے تو جس وقت بھی یاد آئے پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت ( وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ) 20۔طہ:14) (مجھے یاد کرنے کے وقت نماز پڑھ لیا کرو۔) (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز سے پہلے غافل ہو کر سو جائے تو اس حالت میں نماز کی تاخیر کے قصور کی نسبت سونے والے کی طرف نہیں ہوتی کیونکہ وہ سونے کی حالت میں مکلف نہیں ہے بلکہ مجبور ہے البتہ اس کی طرف قصور کی نسبت جاگنے کی حالت میں ہو گی کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھے بغیر سو گیا مثلاً وقت سے پہلے سو گیا تو اس میں اس کی خطا ہے ایسے ہی اس نے ایسے کام کئے جو نیند کا سبب ہیں مثلاً لیٹ گیا یا شطرنج کے کھیل یا ایسے دوسرے کاموں میں مشغول رہا جو نسیان و بھول کا باعث ہوتے ہیں تو اس میں اس کا قصور ہے۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز کا یاد کرنا بمنزلہ اللہ کے یاد کرنے کے ہے اس لیے نماز یاد کرنے کو اللہ نے اپنا یاد کرنا قرار دے کر فرمایا کہ جب مجھے یاد کرو یعنی نماز جب تمہیں یاد آئے کہ وہ میرے یاد کرنے کا سبب ہے تو پڑھ لیا کرو۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ لذکری کے معنی یہ ہیں کہ میں جب تمہیں نماز یاد دلا دوں اور اس وقت نماز پڑھ لیا کرو تمہارا کچھ قصور نہیں۔

 

 

٭٭حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، علی ! تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرنا۔ ایک تو نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے ، دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسری بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو (یعنی ہم قوم مرد) مل جائے۔  (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

لسان نبوت سے حضرت علی المرتضیٰ کو تین کاموں میں تاخیر نہ کرنے کی نصیحت فرمائی جا رہی ہے۔ پہلے تو نماز کے بارے میں فرمایا کہ جب نماز کا وقت مختار ہو جائے تو اس میں تاخیر نہ کرنی چاہئے بلکہ سب سے پہلے نماز پڑھو اس کے بعد کوئی دوسرا کام کرو۔

دوسرے نمبر پر جنازے کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس وقت جنازہ تیار ہو جائے تو اس کی نماز اور تدفین میں قطعاً تاخیر نہ کرنی چاہئے۔ علامہ اشرف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول علامہ طیبی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نقل کرتے ہیں کہ، اس سے یہ معلوم ہوا کہ جنازے کی نماز اوقات مکروہہ (یعنی آفتاب نکلنے ڈوبنے کے وقت اور نصف الہنار کے وقت) میں پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ جنازہ ان اوقات سے پہلے آ جائے تو پھر ان اوقات میں نماز پڑھنی مکروہ ہو گی۔ یہی سجدہ تلاوت کا حکم ہے بہر حال ان تینوں اوقات مکروہہ کے علاوہ تمام اوقات میں حتی کہ فجر کی نماز سے پہلے و بعد میں اور عصر کی نماز کے بعد بھی یہ دونوں چیزیں یعنی نماز جنازہ اور سجدہ تلاوت مطلقاً مکروہ نہیں ہیں۔

تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی کہ بے خاوند عورت کا کفو یعنی ہم قوم مرد جب بھی مل جائے اس کے نکاح میں تاخیر نہ کرنی چاہئے۔

ایم بے خاوند عورت کو کہتے ہیں خواہ وہ کنواری ہو یا مطلقہ، بیوہ ہو مگر علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  ایم اس کو فرماتے ہیں جس کا زوج (یعنی جوڑہ) نہ ہو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور عورت خواہ ثیبہ ہو یا باکرہ!۔

کفو کا مطلب یہ ہے کہ مرد ان جملہ اوصاف میں عورت کے ہم پلہ و برابر ہو۔ (١) نسب۔ (٢) اسلام (٣) حریت۔ (٤) دیانت۔ (٥) مال۔ (٦) پیشہ۔

اس موقعہ پر حدیث کی مناسبت سے ایک تکلیف دہ صورت حال کی طرف مسلمانوں کی توجہ دلا دینا ضروری ہے۔ آج کل یہ عام رواج سا ہوتا جا رہا ہے کہ لڑکیوں کی شادی میں بہت تاخیر کی جاتی ہے اکثر تاخیر تو تہذیب جدید کی اتباع اور رسم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم و فرمان کے سراسر خلاف ہے لڑکیوں کی فطرت اور ان کے جذبات کا گلا گھونٹ کر ان پر ظلم کے مترادف بھی ہے چنانچہ اس کے نتائج آج کل جس انداز سے سامنے آ رہے ہیں اسے ہر آدمی جانتا ہے کہ زنا کی لعنت عام ہو گئی ہے ، بے حیائی و بے غیرتی کا دور دورہ ہے اور اخلاق و کردار انتہائی پستیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔

پھر نہ صرف یہ کہ کنواری لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے بلکہ اگر کوئی عورت شوہر کے انتقال یا طلاق کی وجہ سے بیوہ ہو جاتی ہے تو اس کے دوبارہ نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس طرح اس بے چاری کے تمام جذبات و خواہشات کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی پوری زندگی کو حرمان و یاس، رنج و الم اور حسرت و بے کیفی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں کہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ طور پر یہ عقیدہ ہے کہ جو آدمی کسی معمولی سنت کا بھی انکار کرے یا اس کی تحقیر کرے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ سبھی لوگ جانتے ہی کہ عورت کا نکاح کرنا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ عظیم و مشہور سنت ہے جس کی تاکید بے شمار احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن۔ افسوس ہے کہ مسلمان جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس سے محبت کا اقرار کرتے ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سنت پر پابندی کے ساتھ عمل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ کوئی آدمی تو اپنی مجبوریوں کی آڑ لے کر لڑکیوں کی شادی میں تاخیر کرتا ہے ، کوئی تہذیب جدید اور فیشن کا دلدادہ ہو کر اس سعادت سے محروم رہتا ہے اور کوئی آدمی طعن و تشنیع کے خوف سے بیوہ کی شادی کرنے سے معذوری ظاہر کرتا ہے گویا وہ لوگوں کے طعن و تشنیع کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر ترجیح دیتا ہے حالانکہ دانش مندی کا تقاضتا تو یہ ہے گویا وہ لوگوں کے اس طعن و تشنیع کو اپنے لیے باعث سعادت اور قابل فخر جانے کہ انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے نیک بندوں کے اچھے کاموں پر ہمیشہ ہی لوگوں نے طعن و تشنیع کی ہے مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کی اطاعت و فرمانبرداری اور نیک کاموں میں کبھی کوتاہی یا قصور نہیں کیا۔

اس موقعہ پر ایک بزرگ کی دلچسپ حکایت سن لیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بزرگ نے اپنی لڑکی کا نکاح اپنے ایک مرید سے جو اس لڑکی کے مناسب و لائق تھا کر دیا اور اس کی خبر کو کسی نہ کسی طرح اپنی بیوی سے بھی پوشیدہ رکھا۔ بعد میں جب ان کی بیوی کو یہ معلوم ہوا تو جز بر ہوئی اور ان سے کہنے لگی کہ، آپ نے اس کا بھی خیال کیا کہ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کی ناک کٹ گئی، اور پھر جیسا کہ ان ناقص العقل والدین عورتوں کی عادت ہے اس بے چارے بزرگ کو لاکھ صلواتیں سنائیں۔ وہ بزرگ یہ سمجھ کر کہ عورتوں کے منہ لگنا خواہ مخواہ اپنی عقل خراب کرنا ہے۔ خاموش ہو گئے پھر باہر آ کر انہوں نے مریدوں سے پوچھا کہ کیوں بھائیو میرے منہ پر ناک بھی ہے یا نہیں؟ انہوں نے تعجب سے کہا کہ ہاں کیوں نہیں ہے ! وہ کہنے لگے کہ میری بیوی تو کہتی ہے کہ میری ناک کٹ گئی

١ . وہ عورت جس کا نکاح ہوا، مگر یا تو خاوند مر گیا یا خاوند نے طلاق دے دی ہو۔

اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ آدمی کو چاہئے کہ نیک کام کرنے میں کسی طعن و تشنیع کا خیال نہ کرے کیونکہ حقیقت میں جو بات بری نہیں ہوتی وہ کسی کے کہہ دینے سے بری نہیں ہو جاتی اور نہ اس کام کو کرنے والے کی ذات و آدمییت کو کوئی بٹہ لگتا ہے۔

حضرت مولانا الشاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آیت (وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ) 24۔ النور:32)  کے ضمن میں اس حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، علی ! تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ (١) فرض نماز کی ادائیگی میں جب کہ اس کا وقت ہو جائے۔ (٢) جنازے میں جب کہ موجود ہو۔ (٣) بیوہ عورت (کے نکاح میں) جب کہ اس کی ذات (و مرتبہ) کا مرد مل جائے۔ جو شخص (بیوہ کو) دوسرا خاوند کرنے میں عیب لگائے (تو سمجھو کہ) اس کا ایمان سلامت نہیں ہے اور جو لونڈی و غلام نیک ہوں (یعنی شادی کر دینے کے بعد ان کے مفرور ہو جانے کا خوف نہ ہو اور تمہیں اعتماد ہو کہ یہ نیک بخت ہیں شادی کے بعد ہمارا کام نہیں چھوڑیں گے) تو ان کا بھی نکاح کر دو۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، نماز کو اول وقت ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہے اور آخر وقت میں ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی معافی کا سبب ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اول وقت سے مراد اول وقت مختار ہے اور اس کی قید لگانے کی ضرورت یوں ہوئی کہ حنفیہ کے نزدیک بعض نمازوں میں تاخیر کی جاتی ہے جیسے فجر کی نماز میں اور گرمی میں ظہر کو مؤخر کر کے پڑھنا ہی مستحب ہے لہٰذا یہ نمازیں مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کا اول وقت مختار نہیں ہے بلکہ ان میں تاخیر ہی مختار ہے۔

آخر وقت سے مراد وقت مکروہ ہے مثلاً عصر کی نماز میں سورج کا متغیر ہو جانا یا عشاء کی نماز میں وقت کا آدھی رات سے زیادہ گزر جانا۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آخر وقت میں نماز کی فرضیت تو بہر حال ادا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت نماز پڑھنے والا ترک نماز کے گناہ سے تو بچ ہی جاتا ہے کہ اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔

 

                    مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان

 

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی کہ اس بدبو دار درخت (یعنی پیاز، لہسن وغیرہ) میں سے کچھ کھائے تو ہماری مسجد کے قریب بھی نہ آئے کیونکہ جس (بدبو) سے انسان کو تکلیف ہوتی ہے اس سے فرشتوں کو بھی تکلیف پہنچتی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جس طرح بدبو دار چیزوں سے انسانوں کو تکلیف پہنچتی ہے اسی طرح فرشتے بھی ان سے تکلیف محسوس کرتے ہیں لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ پیاز و لہسن وغیرہ کھا کر مسجدوں میں نہ آئیں کیونکہ مسجد میں فرشتوں کے حاضر ہونے کی جگہیں ہیں اس لیے انہیں تکلیف ہو گی اس حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جو بدبو دار ہو اس کا تعلق خواہ کھانے پینے سے ہو یا رہن سہن سے مثلاً منہ غلاظت و بدبو، بغل وغیرہ کی گندگی و تعفن وغیرہ وغیرہ۔ پھر مسجد ہی کی طرح ان دوسری جگہوں کا بھی یہی حکم ہے جہاں مجالس عبادت و وعظ منعقد ہوتی ہوں یا جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم ہوتی ہو یا جہاں ذکر و تسبیح کے حلقے ہوتے ہوں کہ ان مقامات پر بھی بد بو دار چیزوں کے ہمراہ نہ جانا چاہئے۔

 

٭٭ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مسجد نبوی میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین میں دبا دیا جائے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مسجد کے تقدس و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں تھوک کر گندگی و غلاظت نہ پھیلائی جائے اور اگر اتفاقاً ایسا غلطی کا ارتکاب ہو جائے تو اس گناہ کے دفعیہ کا طریقہ یہ ہے کہ اس تھوک کو زمین دوز کر کے اسے دور کر دیا جائے۔

 

٭٭ اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے ہیں میں نے اس کے نیک اعمال میں تو راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو دور کر دینا پایا اور برے اعمال میں مسجد کے اندر تھوکنا دیکھا جس کو دبایا نہ گیا ہو۔  (صحیح مسلم)

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے اس لیے کہ وہ جب تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں طرف بھی نہیں تھوکنا چاہیے کیونکہ دائیں طرف ایک فرشتہ ہوتا ہے ہاں بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے اور پھر اسے زمین میں دبا دے۔ ابو سعید کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بلکہ اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں نمازی کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے سر گوشی کرتا ہے لہٰذا جس طرح اس موقع پر وہ آدمی اپنے مالک کی عزت احترام کے تمام آداب کو ملحوظ رکھتا ہے اسی طرح نمازی کے لیے بھی واجب ہے کہ جب وہ اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے نماز کے لیے کھڑا ہو تو حضوری کے تمام شرائط و آداب کو پورار پورا خیال رکھے۔ اور اس سلسلے میں ایک اہم ادب یہ ہے کہ اپنے سامنے نہ تھوکے ، گو رب قدوس کی ذات پاک جہت و سمت کی قیود سے پاک ہے تاہم سامنے نہ تھوکنے کی قید لگا کر آداب حضوری کے راستے سے روشناس کرایا جا رہا ہے کہ پروردگار عالم کے دربار میں حاضری کے وقت ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ جو رب ذوالجلال کی شان و عظمت و کبریائی کی منافی ہو۔

فرشتے سے مراد یا کراما کا تبین کے علاوہ وہ فرشتہ ہے جو خاص طور پر نماز کے وقت نمازی کی تائید اور اس کی رہبری اور اس کی دعا پر آمین کہنے کے لیے حاضر ہوتا ہے لہٰذا نمازی پر واجب ہے کہ اس فرشتے کی مہمانی کا خیال کرتے ہوئے کراماکا تبین سے زیادہ اس کا اکرام و احترام کرے کیونکہ کراما کا تبین تو ہر وقت ہی ساتھ رہتے ہیں اور اس کے اکرام و احترام کی شکل یہی ہو سکتی ہے کہ دوران نماز اپنی دائیں طرف نہ تھوکے کہ یہ فرشتہ اسی سمت رہتا ہے۔

یا پھر فرشتے سے مراد کراماً کا تبین ہے کہ اس صورت میں کہ کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف دائیں طرف تھوکنے سے اس لیے منع فرمایا تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ دائیں طرف کا فرشتہ جو بندے کے نیک اعمال لکھنے پر مقرر ہے بائیں طرف کے فرشتے سے جو بندہ کے برے اعمال لکھنے پر متعین ہے رتبے کے اعتبار سے زیادہ افضل ہے جس طرح کہ دائیں سمت بائیں سمت سے افضل ہوتی ہے یا رحمت کا فرشتے عذاب کے فرشتہ سے زیادہ افضل ہوتا ہے۔

 

٭٭ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بیماری میں جس سے اٹھ نہ سکے (یعنی مرض وفات میں) فرمایا۔ عیسائیوں اور یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انیباء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا رکھا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا پیمانہ حیات جب لبریز ہونے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یقین ہو گیا کہ اب اس دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس خوف سے کہ مبادا میری امت کے لوگ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائیں اس فعل شنیع کی ممانعت کا اظہار یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا کیونکہ ان امتوں کے لوگ اپنے انبیاء کی کرام قبروں پر سجدہ کیا کرتے ہیں۔

قبروں کو سجدہ گاہ بنانا دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو یہ کہ صاحب قبر یا محض اپنی قبر کی عبادت و پرستش کے مقصد سے قبروں پر سجدہ کیا جائے جیسا کہ بت پرست بتوں کو پوجتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سجدہ تو قبر کو کیا جائے مگر اس سے مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت و پرستش ہو اور یہ اعتقاد ہو کہ اس طرح قبر کی طرف نماز پڑھنا اور سجدہ کرنا درحقیقت پروردگار حقیقی کی عبادت کرنا ہے اور یہ کہ اس طریقے سے پروردگار کی رضا و خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اس کا قرب میسر ہوتا ہے۔ یہ دونوں طریقے غیر مشروع اور خدا و رسول کی نظر میں نا پسندیدہ ہیں۔ پہلا طریقہ تو صریحا کفر و شرک ہے۔ دوسرا طریقہ بھی حرام ہے کیونکہ اس میں اللہ کی پرستش و عبادت میں دوسرے کو شریک کرنا لازم آتا ہے اگرچہ شرک خفی ہے یہ دونوں طریقے اللہ کی لعنت کا سبب ہیں۔

یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ نبی کی قبر یا کسی بزرگ و ولی کی قبر کی طرف از راہ بزرگ و تعظیم نماز پڑھنا حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ آگاہ رہو! تم سے پہلے (یعنی دوسری امتوں کے) لوگوں نے اپنے انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔ لہٰذا خبردار ! تم لوگ قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔  (صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تم کچھ نمازیں اپنے گھروں میں بھی پڑھ لیا کرو اور گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

گھروں کو قبریں نہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں قبریں نہ بناؤ اور اپنے کسی مردے کو گھر کے اندر دفن نہ کر دیا کرو اس سے یہ مراد ہے کہ قبروں کو گھروں کی مانند نہ سمجھو یعنی جس طرح کسی حاجت و ضرورت کے وقت لوگ اپنے گھروں ہی کا رخ کرتے ہیں تاکہ اس حاجت و ضرورت کو پوری کر سکیں۔ اسی طرح اگر کسی کو کوئی حاجت و ضرورت پیش ہو تو وہ قبروں پر دوڑا ہوا نہ چلا جائے اور صاحب قبر سے مرادیں نہ مانگنے لگے بلکہ جب کوئی حاجت و ضرورت پیش ہو تو اللہ ہی سے مانگے اور اسی کے سامنے دست سوال دراز کرے کہ سب اسی کے محتاج ہیں یہاں تک کہ جس پیر و صاحب کو حاجت روا اور مرادیں پوری کرنے والا سمجھا جاتا ہے وہ بھی اللہ ہی کے رحم و کرم اور اس کے فضل کا محتاج ہے۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ جس طرح مقبروں میں نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح اپنے گھروں کو بھی بے ذکر الہٰی نہ چھوڑو بلکہ اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو تاکہ نماز اور ذکر الہٰی کی برکت سے گھر میں رحمت خداوندی کا نزول ہو۔ اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ سوائے فرض نماز کے سنت و نوافل وغیرہ مسجد کی بہ نسبت گھروں میں پڑھنا زیادہ افضل ہے۔

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث کا تعلق مدینہ منورہ کے باشندوں سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ سے قبلہ جانب جنوب واقع ہے نیز اس حدیث کا تعلق ان اطراف کے لوگوں سے بھی ہے جن کا قبلہ مدینہ کے موافق جانب جنوب واقع ہے لہٰذا اس اعتبار سے ان لوگوں کا قبلہ مشرق و مغرب کے درمیان ہوا۔

 

٭٭ اور حضرت طلق ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کی شکل میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اسلام کی) بیعت کر کے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی اور پھر یہ بھی عرض کر دیا کہ ہماری سر زمین پر ہمارا ایک گرجا بنا ہوا ہے (اس کو کیا کریں) اس کے بعد ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا بچا ہوا پانی مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا اور (وضو کے بعد بقیہ پانی سے) کلی کی اور اس کلی کا پانی ہماری چھاگل میں ڈال دیا اور فرمایا کہ جاؤ ! جب تم اپنے ملک میں پہنچو تو اس گرجے کو توڑ کر اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا (تاکہ دین و اسلام کے انوار و برکات وہاں پھیل جائیں) اور پھر وہاں مسجد بنا لینا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہمارا شہر تو بہت دور ہے اور گرمی سخت ہے لہٰذا یہ پانی (وہاں پہنچتے پہنچتے) خشک ہو جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس میں اور پانی ملا لینا اس سے اس کی پاکیزگی و برکت ہی میں اضافہ ہو گا۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

(بیعۃ) نصاریٰ کے عبادت خانے کو کہتے ہیں جسے ہمارے ہاں گرجا کہا جاتا ہے۔ یہ حضرات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے تھے نصاریٰ قوم سے تھے چنانچہ جب یہ لوگ ایمان و اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہو گئے تو ان کی خواہش ہوئی کہ اپنے گرجے کو جو پہلے مذہب کی یادگار عبادت گاہ ہے توڑ ڈالیں اور اس جگہ برکت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا بچا ہوا دھان مقدس سے نکلا ہوا متبرک پانی چھڑک ڈالیں تاکہ اس جگہ ایک دوسرے مذہب کی عبادت گاہ ہونے کی وجہ سے وہاں کفر و شرک کے جو جراثیم پیدا ہو گئے ہیں وہ اس پانی کی برکت سے ختم ہو جائیں اور وہاں دین اسلام کے فیوض و برکات پھیل جائیں۔ چنانچہ لفظ فاستوہبناہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر دھوپ و گرمی کی شدت اور طویل مسافت کی وجہ سے یہ پانی خشک ہونے لگے اور تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ منزل مقصود تک پہنچے پہنچتے یہ پانی بالکل ہی خشک ہو جائے گا تو اس پانی میں دوسرا پانی ملا لینا لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اور پانی ملا لینے سے اس پانی کی برکت و فضیلت ختم ہو گئی ہے یا کم ہو گئی ہے بلکہ یہ تو پہلا پانی جو چھاگل میں تھا بعد میں ڈالے جانے والے اس پانی میں خیر و برکت کی زیادتی کرے گا یا پھر بعد میں ڈالے جانے والے اس دوسرے پانی میں منجاب اللہ یہ شرف و فضیلت پیدا ہو جائے گی کہ اس پانی کی وجہ سے چھاگل میں موجود پہلے پانی میں مزید خیر و برکت ہو جائے گی اور حاصل یہ کہ مزید پانی ملا لینے سے خیر و برکت زیادہ ہی ہو گی کم نہ ہو گی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آب زم زم کو باعث خیر و برکت جاننا اور پھر اسے بطور تبرک دوسری جگہ لے جانا جائز ہے۔

نیز اس پر قیاس کیا جاتا ہے کہ علماء و مشائخ اور اولیاء اللہ کے استعمال کردہ کھانے اور پانی یا ان کے بدن کے اترے ہوئے کپڑوں کو خیر و برکت کا باعث جاننا اور انہیں متبرک سمجھ کر استعمال کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں حدود شرع سے تجاوز نہ ہو یعنی ان چیزوں کو متبرک و مقدس سمجھ کر ان کی حدیث سے زیادہ تعظیم و تکریم یا نعوذ باللہ ان کی پرستش نہ ہونے لگے۔

 

٭٭ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے محلوں میں مسجد بنانے کا حکم فرمایا ہے اور یہ کہ (وہ مسجدیں) پاک و صاف رکھی جائیں اور ان میں خوشبوئیں رکھی جائیں۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محلوں میں مسجدیں بنانا اشد ضروری ہیں کیونکہ مسجدوں کا قیام نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی دینی و مذہبی حمیت اور قوی و ملی بیداری کا ثبوت ہے بلکہ ان کی وجہ سے اہل محلہ پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ مسجدوں کو محض بنا ڈالنا ہی ایمانی حرارت اور دینی و مذہبی بیداری کا ثبوت نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ مسجدوں کو آباد بھی رکھا جائے۔ وہاں کسی قسم کی کوئی غلاظت و گندگی نہ ڈالی جائے اور نہ وہاں رہنے دی جائے اور اگر بتی وغیرہ اور خوشبوؤں کے ذریعے انہیں معطر رکھا جائے۔ اور اگر ان چیزوں کے کرنے کے وقت اس مقدس و محترم جگہ کی تعظیم و تکریم کی نیت کی جائے اور یہ نیت بھی کی جائے کہ پاکی و صفائی اور خوشبو کی وجہ سے مسجد میں آنے والے فرشتے اور مسلمان بھائی خوش ہوں گے تو ثواب میں بہت زیادتی ہو گی۔

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مجھ کو مسجدوں کے بلند کرنے او آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جس طرح یہود و نصاریٰ (اپنے عبادت خانوں کی) زینت کرتے ہیں اسی طرح تم بھی (مساجد) کی زینت کرو گے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

زخرف کہتے ہیں علماء کو اور کسی چیز کی کمال خوبی کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مسجدوں میں نقش و نگار کریں گے اور ان کے در و دیوار پر سونا چڑھائیں گے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حسب عادت، انسانی لوگوں کے افعال کی خبر دینے کے مترادف ہے یعنی آئندہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مسجدوں کو منقش و مزین کریں گے ، اور ان کے در و دیوار پر سونا چڑھائیں گے حالانکہ ان کا یہ طریقہ خلاف سنت ہو گا کیونکہ اسلام کی سادگی پسند فطرت اس قسم کی چیزوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مزید یہ کہ اس طریقے سے یہود و نصاریٰ کی مشابہت ہوتی ہے۔

متاخرین علماء نے مساجد کی زیب و زینت اور ان میں نقش و نگار کی اجازت دی ہے اور کہا کہ لوگ اپنے مکانوں کو بلند و مطلا بناتے ہیں اور انہیں منقش و مزین کرتے ہیں اگر مسلمان اپنی مسجدوں کو لکڑی و مٹی سے بالکل سادہ بنائیں تو ہو سکتا ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کی وقعت و عظمت نہ ہو اس لیے مسجدوں کو ایسے ڈھنگ سے بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے جو موجودہ زمانے کے معیار پر وقیع و محترم سمجھی جائیں۔

مسجد نبوی زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں بالکل سادہ اور کچی تھی دیواریں اینٹوں کی اور چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے ، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دوبارہ بنوایا تو انہوں نے بھی اسی طرح مسجد کو سادہ رکھا۔ اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس مسجد کو از سر نو نئے طرز پر تعمیر کروایا چنانچہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مسجد کو وسیع تر بنا دیا بلکہ اس کی دیواروں میں منقش پتھر اور چھت میں سال استعمال کیا اس طرح مسجد نبوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے مقابلے میں بہت بڑی اور خوبصورت ہو گئی۔

 

٭٭ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لوگ مساجد کے بارے میں فخر کیا کریں گے۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، دارمی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قرب قیامت لوگ بڑی بڑی مسجدیں بنائیں گے اور انہیں آراستہ کریں گے اور اس سے ان لوگوں کا مقصد اللہ کی رضا و خوشنودی اور ان کی نیت خالصۃ اللہ کیلئے نہیں ہو گی بلکہ ان کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ بڑے فخر و مباہات کے ساتھ اپنے اس کار نامے کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں اور دنیا والے ان کی تعریف و بڑائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیں۔

 

٭٭ اور حضرت انس راوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کئے گئے۔ یہاں تک کہ اس کوڑے اور خاک کا ثواب بھی (پیش کیا گیا) جسے کسی آدمی نے مسجد سے (جھاڑو دے کر) نکالا ہو، نیز میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کئے گئے۔ ان گناہوں میں مجھ کو اس سے بڑا کوئی گناہ نظر نہیں آیا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر اس نے اس کو بھلا دیا ہو۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

کسی کو قرآن کی سورت یا آیت کا یاد ہو جانا اللہ کی بڑی نعمت ہے اور جس نے یاد کر کے اسے بھلا دیا گویا اس آدمی نے اس نعمت کی سخت بے قدری و ناشکری کی اور اس کی قدر نہ جانی لہٰذا ایسا آدمی سخت گناہ گار ہو گا۔

 

٭٭ اور حضرت حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں کی طرف جاتے ہیں انہیں یہ خوشخبری پہنچا دو کہ قیامت کے دن (اس کے سبب سے) ان کو کامل روشنی نصیب ہو گی۔ (جامع ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس ارشاد میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔

آیت (نُوْرُہمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْہمْ وَبِاَيْمَانِہمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا) 66۔ التحریم:8)

ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے دوڑتا ہو گا (اور) یوں دعا کرتے ہوں گے اے ہمارے رب ہمارے لیے اس نور کو اخیر تک رکھیے۔

 

٭٭ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم کسی آدمی کو مسجد کی خبر گیری کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت (اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ) 9۔ التوبہ:18) اللہ کی مسجدوں کو وہی آدمی آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ تم اگر کسی ایسے آدمی کو دیکھو جو اللہ کے گھر کی خبر گیری کرتا ہو یعنی اس کی حفاظت و مرمت کرتا ہے اس میں جھاڑو وغیرہ دے کر اس کی صفائی و ستھرائی رکھتا ہے اس میں نماز پڑھتا ہے اور عبادت کرتا ہے اور اس میں دینی علوم کے درس و تدریس میں مشغول رہتا ہے تو تم اس کے حق میں گواہی دو کہ وہ مرد مومن اور اللہ و رسول کا اطاعت گذار و فرمانبردار بندہ ہے۔

 

٭٭ اور حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عثمان بن مظعون اور کنیت ابو سائب ہے۔ جلیل القدر صحابی اور چودھویں مرد مسلمان ہیں۔ ہجرت حبشہ میں وہ اور ان کے صاحبزادے سائب شامل تھے اور ہجرت مدینہ میں شریک ہوئے مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں ٢ھ میں وفات پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ کی نعش کو بوسہ دیا تھا۔) کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! مجھ کو خصی (نامرد) ہونے کی اجازت دیجئے (تاکہ زنا میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ وہ آدمی ہم میں سے نہیں ہے (یعنی ہماری سنت کے راستے سے ہٹا ہوا ہے) جو کسی کو خصی کرے یا خود خصی ہو جائے (بلکہ) میری امت کے لیے خصی ہونا روزہ رکھنا ہے (کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت جاتی رہتی ہے) حضرت عثمان نے عرض کیا کہ پھر مجھے سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کی سیاحی یہ ہے کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اچھا تو پھر مجھے راہب بننے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت کا راہب بننا یہی ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے۔  (شرح النسۃ)

 

تشریح

 

حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش یہ تھی کہ وہ ایسے طریقے اختیار کریں کہ جس سے دنیا کی لذتوں، نفسانی خواہشات اور شیطانی حرکات میں نہ مبتلا ہو سکیں تاکہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو، چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ اپنی قوت مردانگی کو ختم کر کے بالکل نامرد بن جائیں تاکہ زنا جیسے بڑے گناہ میں ملوث ہونے کا خدشہ نہ رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس خواہش کو انسانی فطرت اور اسلامی روح کے منافی سمجھتے ہوئے انہیں اس فعل سے باز رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اگر تم یہی چاہتے ہو کہ نفسانی خواہشات ختم ہو جائیں اور روحانی و عرفانی جذبات غالب رہیں تو اس کا آسان علاج یہ ہے کہ روزہ رکھا کرو کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے اور تعلق مع اللہ کے جذبات کو جلا بخشتا ہے۔ پھر انہوں نے سیر و سیاحت کی اجازت طلب کی تاکہ اس مشغلے سے نفسانی خواہشات میں کمی آ جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بھی منع فرمایا کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا صرف جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے ، محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے راہب بن جانے کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ اہل کتاب میں وہ لوگ جو دیندار اور مذہبی قسم کے ہوتے ہیں دنیاوی علائق سے گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں اور مشغولیات کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ نہ عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور نہ دوسرے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس خواہش کو بھی رد کر دیا کیونکہ رہبانیت اہل کتاب کا شیوہ ہے یہ اسلام کی تعلیمات اور اسلام کی فطرت کے بالکل منافی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہماری امت میں رہبانیت صرف اسی قدر ہے کہ مسجدوں میں نمازوں کے انتظار میں بیٹھا جائے کیونکہ اس طرح تمام لوگوں اور دنیا کی تمام چیزوں سے منہ پھیر کر پروردگار کی طرف توجہ ہوتی ہے اور اس پر بے شمار اجر و انعام ملتے ہیں اس کے مقابلے میں اہل کتاب کی جو رہبانیت ہے وہ بالکل بے فائدہ اور بے کار محض ہے کہ اس کا انجام دینی اور دنیوی اعتبار سے اچھا نہیں ہوتا۔

 

٭٭ اور حضرت عبدالرحمن بن عائش رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو (خواب میں) بہت ہی اچھی صورت میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا کہ مقربین فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کی پروردگار ! تو ہی بہتر جانتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ (یہ سن کر) اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا جس کے ٹھنڈک مجھے اپنے سینہ پر محسوس ہوئی (اور اس کی وجہ سے) میں زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو جان گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰہيْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ) 6۔ الانعام:75) ترجمہ اور اس طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمانوں کا تصرف دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والے لوگوں میں شامل ہو جائے۔ (دارمی مرسلا) اور ترمذی نے یہ بھی روایت بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ عبدالرحمن بن عائش، عبداللہ ابن عباس اور معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے نقل کی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (یعنی آپ کو زمین و آسمانوں کا علم دینے کے بعد سوال فرمایا، کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ کو معلوم ہے کہ مقربین فرشتے کس معاملے میں بحث کر رہے ہیں؟ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ) میں نے عرض کیا، ہاں ! میں جانتا ہوں کفارات (یعنی گناہوں کو ختم کرنے والی چیزوں) کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں اور وہ کفارات (یہ) ہیں کہ نمازوں کے بعد مسجدوں میں (دوسرے وقت کی نماز کے انتظار میں یا ذکر و تسبیح کے لیے) بیٹھا جائے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے پیدل چلا جائے اور سختی کے وقت (مثلاً بیماری یا سردی میں اعضائے وضو پر) وضو کا پانی اچھی طرح پہنچا یا جائے (لہٰذا) جس نے یہ کیا (یعنی مذکورہ اعمال کئے) وہ بھلائی پر زندہ رہے گا اور بھلائی ہی پر مرے گا اور گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا گویا اس کی ماں نے آج ہی اس کو جنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے محمد ! جب آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نماز سے فارغ ہو لیں تو یہ دعا پڑھ لیا کیجئے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِی اَسْئَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرَکَ الْمُنْکَرَاتِ وَ حُبَّ الْمَسَاکِیْنِ فَاِذَا اَرْدْتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ یعنی اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے اور برائیوں کے چھوڑنے اور مسکینوں کی دوستی کا سوال کرتا ہوں اور جب تو بندوں میں گمراہی ڈالنے (یا انہیں سزا دینے) کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھا لیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم میں زیادتی کے لیے) فرماتا ہے (یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں) کہ درجات (یعنی وہ اعمال جن سے بندے کے درجات بارگاہ حق میں بلند ہوتے ہیں) یہ ہیں کہ (ہر مسلمان کو خواہ وہ آشنا ہو یا نا آشنا) سلام کیا جائے۔ (اللہ کی راہ میں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھی جائے۔ (صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں) کہ میں نے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ جیسا کہ مصابیح میں عبدالرحمن سے منقول ہے سوائے شرح السنۃ کے اور کسی کتاب میں نہیں دیکھی۔

 

تشریح

 

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا جیسا کہ ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ تو اس میں کچھ اشکال نہیں ہے کیونکہ انسان خواب میں بسا اوقات شکل دار چیز کو بغیر شکل دیکھتا ہے اور کبھی غیر شکل دار کو شکل دار صورت میں دیکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عالم بیداری میں دیکھا تھا تو پھر اس کی تاویل کرنا ضروری ہو گی۔ اور تاویل یہ ہو گی کہ صورت سے مراد صفت ہے کہ حق تعالیٰ جل مجدہ نے صفت جمال اور لطف و کرم کے ساتھ تجلی فرمائی۔ یہ تاویل حقیقت و محاورہ سے بالکل قریب ہے کیونکہ اکثر و بیشتر صورت کا اطلاق صفت پر ہوتا ہے جیسا کہ روز مرہ کی بول چال میں کسی چیز کی حقیقت و کیفیت کے بیان کے وقت کہا جاتا ہے کہ  صورت حال یہ ہے یا اس مسئلے کی صورت یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی بہتر ہے کہ  صورت  کے معنی کا محمول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس ہی کو قرار دیا جائے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے اپنے  رب کو دیکھا اور اس وقت میں اچھی صورت میں تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ تعالیٰ کے سوال کا مطلب یہ تھا کہ مقربین فرشتے کون سے اعمال کی فضیلت و عظمت کے بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ یا یہ کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کو مقام قبولیت تک پہنچانے میں فرشتے آپس میں تنازعہ کر رہے ہیں۔ بایں طور کہ ایک فرشتہ تو کہتا ہے کہ اس عمل کو مقام قبولیت تک پہلے میں پہنچاؤں اور دوسرا کہتا ہے کہ پہلے میں لے کر جاؤں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا ہاتھ رکھنا حقیقی معنی میں نہیں ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان رکھا تھا کیونکہ ذات خداوندی ظاہری اجسام کی ثقالت سے پاک و صاف ہے بلکہ دراصل یہ اس چیز سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے فضل و کرم اور جزاء و انعام کی زیادتی و کثرت کے ساتھ خاص کیا جیسا کہ دنیاوی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر اپنے کسی خاص خادم پر بہت زیادہ مہربان ہوتا ہے اور اس سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے تو وہ اس خادم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہے اس کی گردن میں باہیں ڈال دیتا ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اس خادم سے بہت زیادہ خوش ہے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش کرنے والا ہے۔

سینے میں سردی محسوس ہونا فیض ربانی کا اثر پہنچے سے کنایہ ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جب فیض ربانی سینہ میں پہنچا تو زمین و آسمان کے تمام پر دے اٹھ گئے اور تمام چیزوں کا علم مجھے حاصل ہو گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقعہ و حال کی مناسبت اور اس کے امکان پر گواہی دینے کے ارادہ سے مذکورہ آیت پڑھی جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) جس طرح ہم نے آپ کے سامنے زمین و آسمانوں کے پردے اٹھا دیے جس کے نتیجے میں آپ کو تمام چیزوں کا علم حاصل ہو گیا ہے اسی طرح ہم نے اپنے جلیل القدر پیغمبر و خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی دو عالم ربوبیت و الوہیئت کی حقیقتوں کو واشگاف کر دیا تھا اور انہیں زمین و آسمانوں کی تمام چیزوں کا مشاہدہ کرا دیا تھا تاکہ وہ خدا کی ربوبیت و الوہیئت پر یقین کامل کرنے والوں میں سے ہو جائیں اس طرح آیت کے آخری الفاظ ولیکون من الموقنین کا معطوف علیہ محذوف ہو گا اور پوری عبارت یوں ہو گی کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو عالم ربوبیت و الوہیئت دکھلا دیے تھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ ہماری ذات کے وجود کے بارہ میں دلیل پکڑ سکے  اور یقین کرنے والوں سے ہو جائے۔

حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ غرور و تکبر کی بری عادتوں سے یکسر ہٹ کر اپنے اندر تواضع و انکساری جود و بخشش اور عبادت و ریاضت کے جذبات و اوصاف پیدا کرے اور ان عرفانی اصولوں کی روشنی سے پہلے دل و دماغ کو منور کر کے نہ صرف یہ کہ خدا کا حقیقی بندہ بن جائے بلکہ پوری انسانیت کے لیے باعث رحمت و راحت ہو جائے۔

شرف مردے جو دست و کرامت بسجود

ہرکہ ایں ہر دو ندارد عدمش بہ ز وجود

 

 

٭٭ اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین شخص ایسے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ دنیا و آخرت کی آفات و مصیبتوں سے محفوظ رکھے گا۔ ایک تو وہ شخص جو خدا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے چنانچہ وہ خدا کی ذمہ داریوں میں ہے کہ یا تو اسے موت یعنی شہادت کا درجہ دے کر جنت میں پہنچا دے یا اس کو ثواب و مال غنیمت دے کر گھر واپس پہنچا دے پہلی اور دوسری صورت یعنی شہادت و ثواب میں تو اسے دین کی سعادت حاصل ہوتی ہے اور تیسری یعنی مال غنیمت میں دنیا کی سعادت و بھلائی ملتی ہے اور وہ دوسرا شخص ہے جو مسجد جائے تو اللہ اس کا بھی ضامن ہے کہ عبادت کے لیے اس کی کوشش اور اس کا ثواب ضائع نہ کرے گا۔ اور تیسرا وہ شخص ہے جو اپنے گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو تو وہ بھی اللہ کی ذمہ داری میں ہے۔ (ابوداؤد)۔

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ پر پہلے شخص کے لیے جو ذمہ ہے اسے تو بیان کر دیا گیا کہ اسے دین و دنیا دونوں جگہ کیا کیا انعامات ملیں گے لیکن دوسرے اور تیسرے شخص کے لیے جو ذمہ ہے اللہ تعالیٰ پر ہے چونکہ وہ ظاہر تھا اس لیے اس کو بیان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی گھر میں سلام کرتا ہوا داخل ہو اس کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ گھر میں داخل ہو سلام کرتا ہوا چنانچہ اس صورت میں اس کے لیے اللہ پر ذمہ ہے کہ اس کو اور اس کے گھر والوں کو خیر و برکت سے نوازے گا اور ان پر اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے دروازے کھول دے گا دوسرے معنی یہ ہیں کہ جب گھر میں داخل ہو جائے تو لوگوں کی صحبت سے امن و سلامتی حاصل کرنے کے لیے گھر ہی میں رہنا اپنے اوپر لازم کر لے اور گھر سے باہر نہ نکلے چنانچہ اس صورت میں اس کے لیے اللہ پریہ ذمہ ہے کہ وہ اسے مصائب و آفات سے محفوظ و سلامت رکھے گا۔

 

٭٭ اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص وضو کر کے گھر سے نکلے گا اور فرض نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جائے تو اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا احرام باندھ کر حج کرنے والے کو ملتا ہے اور جو شخص چاشت کی نفل نماز ہی کے لیے تکلیف اٹھا کر گھر سے نکلے یعنی بغیر کسی غرض اور ریا کے محض چاشت کی نماز پڑھنے کے قصہ سے گھر سے نکلے۔ تو اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کے برابر ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز پڑھنا اور ان دونوں نمازوں کے درمیانی وقت لغو بیہودہ باتیں نہ کرنا ایسا عمل ہے جو علیین میں لکھا جاتا ہے۔ (احمد، ابودادؤد)۔

 

تشریح

 

اس حدیث میں وضو کو احرام سے اور نماز کو حج سے مشابہت دی گئی ہے اور وہ دونوں میں تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح حاجی حج کے ارادہ سے گھر سے نکلتا ہے اور احرام باندھتا ہے تواسی وقت سے اسے ثواب ملنا شروع ہو جاتا ہے اور اس کے ثواب کا سلسلہ اس کے واپس آ جانے تک جاری رہتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص محض نماز کے ارادہ سے نکلتا ہے تو وہ جس وقت گھر سے نکلتا ہے اسے بھی اسی وقت سے ثواب ملنا شروع ہو جاتا ہے اور جب تک وہ نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر گھر واپس نہیں آ جاتا اس کو ثواب برابر ملتا رہتا ہے لیکن اتنی بات بھی سمجھ لیجیے کہ نمازی اور حاجی کے ثواب میں یہ برابری بہمہ وجوہ نہیں ہے ورنہ تو حج کرنے کے کوئی معنی نہیں رہ جائیں گے یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ثواب دونوں بالکل برابر ہیں کیونکہ حاجی کا ثواب نمازی کے ثواب سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ حج کی نسبت عمرہ کو وہی حیثیت حاصل ہے جو فرض نماز کی بہ نسبت نفل نماز کو حاصل ہے کتاب فی علیین سے حدیث کے آخری جزو کا مطلب کنایتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص نماز کی مداومت و محافظت کرے یعنی تمام نمازوں کو پابندی سے ادا کرتا رہے اور نماز کو اس کی تمام شرائط و آداب کا لحاظ کرتے ہوئے اس طرح پڑھتا رہے کہ اس کے اس عمل اور نیت میں نماز کے منافی کسی چیز کا دخل نہ ہو تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے اعلی اور بہتر کوئی عمل نہیں ہے۔ جو فرشتے نیکیاں لکھنے پر مامور ہیں انکے دفتر کا نام علیین ہے کہ تمام نیک اعمال وہیں جمع ہوتے ہیں۔

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں میں جایا کرو تو وہاں میوہ کھایا کرو آپ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں جنت کے باغ کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا مسجدیں۔ پھر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ میوہ کھانا کیا ہے آپ نے فرمایا سبحان اللہ و الحمد للہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر۔ مسجدوں میں ان کلمات کا ورد میوہ کھانا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مساجد کو جنت کے باغ اس لیے کہا گیا ہے کہ ان میں عبادت کرنا اور نماز پڑھنا جنت کے باغوں کے حاصل ہونے کا سبب ہے۔ رتع دراصل اسے کہتے ہیں کہ باغ میں جا کر اچھی طرح میوے اور لذیذ چیزیں کھائی جائیں اور نہر وغیرہ کی سیر کی جائے جیسا کہ باغوں میں جانے والے لوگ یہ کیا کرتے ہیں پھر یہ لفظ ثواب عظیم کے مرتبہ پر پہنچنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

بہرحال اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جب تم مسجدوں میں جاؤ تو مذکورہ تسبیحات پڑھا کرو کیونکہ اس سے بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے۔

 

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص دنیا یا دین کے جس کام کے لیے مسجد میں آئے گا اسے اسی میں سے حصہ ملے گا۔ (ابودؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں جس غرض سے آئے گا وہی اس کا نصیب ہو گا۔ یعنی اگر عبادت کے لیے آئے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر کسی دنیوی زندگی کی غرض سے آئے گا تو گرفتار وبال ہو گا۔ گویا یہ حدیث مضمون کے اعتبار سے نیت کی مشہور حدیث انما الا عمال بالنیات کا ایک جزو ہے۔

 

٭٭ اور حضرت فاطمہ بنت حسین ابن علی المرتضیٰ اپنی دادی فاطمہ کبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (زہرا) سے روایت کرتی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں تشریف لاتے تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیجتے ، یعنی یہ الفاظ فرماتے صلی اللہ علی محمد یا فرماتے اَللَّھُمَّ عَلٰی مُحَمَّدٍ و سلم اور پھر یہ دعا پڑھتے رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ یعنی اے میرے پروردگار، میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے باہر آتے تو پھر محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر درود و سلام بھیج کر یہ دعا پڑھتے۔ رَبِّ اغْفَرْلِیْ ذَنُوْبِیْ وَاَفْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ فَضْلِکَ یعنی اے میرے پروردگار! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ یہ روایت ترمذی ، احمد ، ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور احمد بن حنبل و ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (حضرت فاطمہ فرماتی ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مسجد میں داخل ہوتے اور اسی طرح جب باہر نکلتے تو صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ و سلم کے بجائے یہ الفاظ فرماتے بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ یعنی میں اللہ کے نام کے ساتھ داخل ہوتا ہوں اور نکلتا ہوں اور سلامتی ہو رسول پر۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دختر فاطمہ رحمہا اللہ تعالیٰ علیہا نے حضرت فاطمہ کبری بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ نہیں پایا اور ان سے نہیں ملی۔

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درود و سلام وغیرہ کے الفاظ اس طرح نہیں فرمائے کہ اللَّھُمَّ صِلِّ عَلٰی یَا اَغْفِرْلَمُحَمَّدٍ کیونکہ درود و سلام کے ساتھ اسم شریف کو مناسبت ہے اسی طرح رَبِّ اغْفِرْلِیْ ارشاد فرمانے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے یا پھر کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ امت کی تعلیم کے لیے فرمائے تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ درود و سلام کن الفاظ کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔

فاطمہ صغری جو اس حدیث کی راوی اور حضرت امام حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنی دادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ نہیں پایا کیونکہ انکے وقت میں حضرت امام حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر صرف آٹھ سال کی تھی لہٰذا اس حدیث کی سند متصل نہیں ہوئی کیونکہ درمیان کا ایک راوی متروک ہے۔

 

٭٭ اور حضرت عمرو ابن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ، سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم مسجد میں اشعار پڑھنے ، خرید و فروخت کرنے اور جمعہ کے روز نماز سے پہلے لوگوں کو حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے (خواہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا مذاکرہ علم اور ذکر و تسبیح کے لیے کیوں نہ ہو) منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اشعار سے مراد ایسے اشعار ہیں جن میں جھوٹ اور لغو باتیں ذکر کی گئی ہوں کیونکہ مسجد اللہ کی عبادت کرنے کی جگہ ہے وہاں خلاف شرع اور جھوٹ و لغو باتوں کو بیان کرنا نا جائز ہے البتہ ایسے اشعار جن میں اللہ کی توحید و مناجات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخلص متبعین اور فرمانبردار امتیوں کی تعریف و توصیف، دین و مذہب اور اخلاق و کردار کو بخشنے والی باتوں کا ذکر ہو تو ان کا پڑھنا ہر جگہ جائز اور مستحسن ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شاعر اسلام حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے جو اپنے اشعار کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت اور کفار کی ہجو بیان کیا کرتے تھے مسجد نبوی میں منبر بچھواتے تھے اور حضرت حسان اس منبر پر کھڑے ہو کر اس قسم کے پاکیزہ اشعار پڑھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تائید کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی جانب سے کفار سے مقابلہ کرتے ہیں۔

مسجد میں جس طرح خرید و فروخت ممنوع ہے اسی طرح وہاں دنیا کے دوسرے معاملات طے کرنا منع ہیں۔

جمعہ کے روز نماز پڑھنے سے پہلے مسجد میں حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو منع فرمایا ہے علماء اس کی مختلف وجوہ بیان کرتے ہیں چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا نمازیوں کی ہیئت اجتماعی کے خلاف ہے نیز یہ کہ جمعہ کے روز نماز جمعہ کے لیے مسجد میں جمع ہونا خود ایک مستقل اور عظیم الشان کام ہے جب تک اس کام یعنی نماز جمعہ سے فارغ نہ ہو لیں، دوسرے کام میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے۔ نیز یہ کہ حلقہ باندھ کر بیٹھنا غفلت کا سبب ہے۔ ان دونوں صورتوں میں اس نہی کا تعلق خاص طور پر خطبے کے وقت سے نہیں ہو گا۔

تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ وقت خاموش اور چپ رہنے کا ہے اور نہایت توجہ کے ساتھ امام کا خطبہ سننے کا ہے ، اور چونکہ حلقہ باندھ کر بیٹھنے سے امام کے خطبے کی طرف توجہ کم ہو جاتی ہے لہٰذا یہ درست نہیں ہے۔ اس صورت میں اس ممانعت کا تعلق صرف خطبہ کے وقت سے ہو گا۔ لہٰذا پہلی اور دوسری توجیہ کی صورت میں یہ نہی تنزیہی ہو گی اور تیسری توجیہ کی صورت میں نہی تحریمی ہو گی۔

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم مسجد میں کسی آدمی کو خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ کرے تیری سوداگری میں نفع نہ ہو اور جب تم (مسجد میں) کسی آدمی کو بلند آواز سے گمشدہ چیز ڈھونڈھتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ  اللہ کرے تیری چیز نہ ملے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)

 

٭٭ اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد میں قصاص لینے (یعنی قاتل کا خون بہانے) اور اشعار پڑھنے اور (زنا کرنے ، شراب پینے وغیرہ کی) حدود قائم کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد) اور اس روایت کو صاحب جامع الاصول نے (اپنی کتاب) جامع الاصول میں حکیم سے (یعنی بغیر لفظ ابن حزام) روایت کیا ہے۔ نیز یہ روایت مصابیح میں جابر سے منقول ہے (اور یہ اصول میں موجود نہیں ہے)۔

 

٭٭ اور حضرت معاویہ ابن قرۃ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے دو درختوں یعنی پیاز، لہسن کے کھانے) سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ جو آدمی ان کو کھائے وہ ہماری (مسلمانوں کی) مسجدوں کے قریب نہ آئے نیز فرمایا کہ اگر تم انہیں کھانا ضروری ہی سمجھو تو انہیں پکا کر ان کی بدبو دور کر دو (اور کھالو)۔  (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جملہ مَنْ اَکَلَھُمَا پہلے جملے کا بیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ جو آدمی ان کو کھائے۔ وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے۔ پیاز و لہسن کھا کر مسجد میں داخلے کی ممانعت کو مبالغے کے طور پر بیان کرنا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی ان بد بو دار چیزوں کو کھائے اسے چاہئے کہ وہ مسجد کی عظمت و احترام کے پیش نظر مسجد کے نزدیک بھی نہ آئے چہ جائیکہ مسجد میں داخل ہو۔ یا پھر قریب نہ آئے ، کنایہ ہے مسجد میں داخل نہ ہونے سے کہ جو آدمی پیاز و لہسن کھائے ہوئے ہو وہ مسجد میں داخل نہ ہو۔

 

٭٭ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، مقبرہ اور حمام کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے ، کہ (ہر جگہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (جامع ترمذی ، دارمی)

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (١) جہاں ناپاک چیزیں ڈالی جاتی ہوں۔ (یعنی کوڑی)۔ (٢) جہاں جانور ذبح کئے جاتے ہوںَ(٣) راستے کے درمیان۔ (٤) مقبرے میں۔ (٥) حمام کے اندر۔ (٦) اونٹوں کے بندھنے کی جگہ پر۔ (٧) اور خانہ کعبہ (کعبۃ اللہ کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے البتہ ضرورت کے لیے چھت پر چڑھنا جائز ہے ١٣۔) کی چھت پر۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

بعض علماء سلف تو حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے یہی فرماتے ہیں کہ مقبرے کے اندر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور بعض علماء کے نزدیک مقبرہ میں نماز پڑھنا جائز ہے لیکن قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا متفقہ طور پر علماء کے نزدیک حرام ہے مزبلہ اور مجزرہ (یعنی کوڑی اور مذبح) میں نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ ان دونوں جگہوں میں نجاست و گندگی پھیلی رہتی ہے۔ چنانچہ ان مقامات میں اگر کسی ایسی جگہ نماز پڑھی جائے جو صاف ہو مگر اس کے قریب ہی نجاست بھی پڑی ہو یا نجاست ہی پر مصلی بچھا کر نماز پڑھی جائے۔ یہ مکروہ ہے اس سے دین کی حقارت و بے وقعتی ظاہر ہوتی ہے اور نماز کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے بالکل پاک و صاف جگہ ادا کیا جائے نہ کہ ایسی جگہ جہاں گندگی و نجاست پھیلی ہوئی ہو۔

راستہ کے درمیان نماز پڑھنا اس لئے ممنوع ہے کہ وہاں لوگوں کے آنے جانے کی وجہ سے دھیان بٹتا ہے اور یکسوئی حاصل نہیں ہوتی نیز اس سے لوگوں کو آنے جانے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ عام گزر گاہ ہونے کی وجہ سے اگر لوگ مجبوری کی بناء پر نمازی کے آگے سے گزریں گے تو ان کے گزرنے سے نمازی گناہگار ہو گا اور اگر لوگ بے ضرورت ہی گزریں گے۔ تو وہ گناہگار ہوں گے۔ حمام میں نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ وہ ستر کھلنے اور شیطان کے رہنے کی جگہ ہے کعبہ کی چھت پر بھی نماز پڑھنا اس لیے مکروہ ہے کہ اس سے کعبۃ اللہ کے بے ادبی ہوتی ہے۔ اب علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان ساتوں جگہوں پر نماز پڑھنے کو مکروہ کہا گیا ہے تو آیا یہ مکروہ تنزیہی ہے یا مکروہ تحریمی؟ چنانچہ بعض علماء کے نزدیک تو ان ساتوں جگہ نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ مکروہ تحریمی ہیں۔

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ بکریوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھو، البتہ اونٹوں کے بندھنے کی جگہ مت پڑھو۔ (جامع ترمذی)

 

 

تشریح

 

اونٹوں کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ اونٹوں کے پاس نماز پڑھنے میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ کھل کر نمازی کو لات وغیرہ نہ مار دیں اس سے نہ صرف یہ کہ نمازی کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ اس طرح نماز دلجمعی اور سکون خاطر سے ادا نہیں ہو سکتی البتہ بکریوں سے چونکہ اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا اس لیے ان کے بندھنے کی جگہ نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

 

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں کو مسجد بنا لینے یعنی قبروں پر سجدہ کرنے والوں) اور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (ابوداؤد ، جامع ترمذی، سنن نسائی)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا پھر بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی اجازت دے دی تھی، چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کے حق میں تھی لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی مگر اب اس عام اجازت کے پیش نظر درست و جائز ہے۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں کے حق میں وہ نہی اب بھی باقی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چونکہ کمزور دل اور غیر صابر ہوتی نیز ان کے اندر جزع و فزغ کی عادت ہوتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بے جا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ البتہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ اگر قبر کے پاس کوئی گزر گاہ ہو تو راہ گیروں کی آسانی کے لیے چراغ جلانا یا وہاں روشنی میں کوئی کام کرنے کے لیے چراغ جلانا جائز ہے کیونکہ اس سے قبر پر چراغ جلانا مقصود نہیں ہو گا بلکہ دوسری ضرورت و حاجت پیش نظر ہو گی۔

مولانا محمد اسحٰق محدث دہلوی کی تحقیق یہ ہے کہ صحیح اور معتمد قول کے مطابق عورتوں کو قبر کی زیارت کرنا مکروہ تحریمی ہے چنانچہ مستملی میں لکھا ہوا ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لیے مستحب ہے اور عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔

کتاب مجالس و اعظیہ میں مذکور ہے کہ عورتوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لعن ذوارات القبور یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔

نصاب الاحتساب میں منقول ہے کہ عورتوں کے قبروں پر جانے کے جواز اور اس کی خرابی و قباحت کے بارے میں قاضی سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کا جواز اور اس کا فساد نہ پوچھو بلکہ یہ پوچھو کہ اس پر جو لعنت و پھٹکار برستی ہے اس کی مقدار کیا ہے؟چنانچہ جان لو! کہ جب عورت قبر پر جانے کا ارادہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی لعنت میں گرفتار ہو جاتی ہے اور جب وہ قبر پر جانے لگتی ہے تو اس کو ہر طرف سے شیاطین چمٹ جاتے ہیں اور جب قبر پر پہنچ جاتی ہے تو مردے کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے اور جب قبر سے واپس ہوتی ہے۔تو اللہ تعالیٰ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہے۔

حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت مقبرے پر جاتی ہے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ کی لعنت میں مقبرہ کا راستہ طے کرتی ہے اور جو عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر میت کے لیے دعائے خیر کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو حج اور عمرہ کا ثواب دیتا ہے۔

حضرت سلمان اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ایک روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد سے نکل کر اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ (باہر سے) حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آر ہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت کا انتقال ہو گیا ہے اس کے مکان پر گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا تم اس کی قبر پر بھی گئی تھیں؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا معاذ اللہ ! کیا میں اس عمل کو کر سکتی ہوں جس (کی ممانعت) کے بارہ میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے میں سن چکی ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تم نے یہ اچھا ہی کیا کہ اس کی قبر پر نہ گئیں کیونکہ اگر تم اس کی قبر پر چلی جاتیں تو تمہیں جنت کی بو (بھی) میسر نہ ہوتی۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پنی نے اپنی کتاب مالا بد منہ میں لکھا ہے کہ  زیارت قبور مرداں را جائز است نہ زناں را  یعنی قبروں کی زیارت مردوں کے لیے تو جائز ہے عورتوں کے لیے نہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ایک یہودی عالم نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ بہترین جگہ کون سی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے جواب میں خاموش رہے اور فرمایا کہ جب تک جبرائیل علیہ السلام نہیں آ جائیں گے میں خاموش رہوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے۔ جب حضرت جبرائیل آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے (یہودی عالم کے سوال کا جواب) پوچھا حضرت جبرائیل نے کہا کہ ، اس معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ میں بھی نہیں جانتا، البتہ میں اپنے پروردگار بزرگ و برتر سے اس کے بارے میں پوچھوں گا (چنانچہ) پھر حضرت جبرائیل (نے آ کر) فرمایا، اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ! آج میں اللہ تعالیٰ سے اس قدر قریب ہو گیا تھا کہ کبھی بھی اتنا قریب نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے جبرائیل کس قدر (فاصلہ دونوں کے درمیان رہ گیا تھا) حضرت جبرائیل نے فرمایا میرے اور اللہ کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے باقی رہ گئے تھے ، اور اللہ تعالیٰ نے (اس سوال کے جواب میں) فرمایا، کہ بد ترین مقامات بازار ہیں اور بہترین مقامات مساجد ہیں۔ (یہ روایت ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

یہ  پردے مخلوق کی نسبت سے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ کی نسبت سے نہیں ہیں کیونکہ خدا وند قدوس پردے میں نہیں ہے بلکہ اللہ کی مخلوق پردے میں ہے اور جسمانی و نفسانی پردے ہیں اس کی مثال کسی اندھے کے لیے پردہ آفتاب کی سی ہے کہ جس طرح آفتاب پردے میں نہیں ہوتا بلکہ خود اندھے پر پردہ پڑا ہوا ہوتا ہے کہ وہ آفتاب کو نہیں دیکھ سکتا اور آفتاب اس کو دیکھتا ہے یعنی اس پر اپنی روشنی ڈالتا ہے۔

سائل نے تو صرف  بہتر جگہ کے بارہ میں سوال کیا تھا لیکن جواب میں مقابلے کے طور بہترین اور بدترین دونوں مقامات کو بتلا دیا گیا تاکہ رحمان اور شیطان دونوں کے گھر معلوم ہو جائیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی سے کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا گیا جو اسے پوری طرح معلوم نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ جواب دینے میں جلدی نہ کرے بلکہ جس کے بارے میں جانتا ہو کہ وہ اس سوال کا جواب اچھی طرح جانتا ہے اس سے پوچھ لے اور اپنے سے زیادہ علم والے سے پوچھنے میں کوئی شرم محسوس نہ کرے کوینکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی سنت ہے۔ مشکوٰۃ کے اصل نسخہ میں لفظ رواہ کے بعد جگہ خالی ہے کیونکہ مصنف مشکوٰۃ کو اس کتاب کا نام معلوم نہیں تھا جس سے یہ روایت نقل کی گئی ہے بعد میں بعض علماء نے کتاب کا مذکورہ نام لکھا دیا ہے۔

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی میری اس مسجد میں محض اس غرض سے آئے کہ نیک کام سیکھے اور سکھلائے تو وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے ہم رتبہ ہے اور جو آدمی اس غرض سے نہ آئے (یعنی کسی برے کام مثلاً لہو و لعب کی نیت سے آئے) تو وہ اس آدمی کی مانند ہے جو دوسرے کے اسباب (کو حسرت کی نگاہوں) سے دیکھتا ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی مسجد یعنی مسجد نبوی کی تخصیص کر کے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ چونکہ میری مسجد اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ و ارفع ہے اور دوسری مسجدیں چونکہ اس کے تابع ہیں اس لیے مذکورہ حکم تمام مساجد کے لیے یکساں ہے۔ نیک کام کو سیکھنے اور سکھلانے کی تخصیص صرف ان کی فضیلت و اہمیت کے اظہار کے طور پر ہے ورنہ تو نماز، اعتکاف اور تلاوت و ذکر سب کا یہی حکم ہے۔

حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں نیک مقصد کے تحت نہیں آئے گا اس کی مثال اس آدمی جیسی ہے جس کے پاس کوئی چیز نہ تو وہ اس چیز کو کسی دوسرے کے پاس دیکھ کر حسرت و افسوس کا اظہار کرتا ہے چنانچہ یہ آدمی بھی جب آخرت میں اس آدمی کے ثواب کو جو نیک مقصد اور نیک نیت کے ساتھ مسجد آیا تھا دیکھے گا اور اسے معلوم ہو جائے گا کہ مسجد تو سعادت و بھلائی کے حصول کی جگہ تھی تو وہ انتہائی رنج و حسرت میں مبتلا ہو جائے گا کہ میں کیوں اس دولت سے محروم رہا۔

یا پھر اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح کسی غیر آدمی کے پاس کوئی چیز دیکھ کر اسے بری نگاہ سے (یعنی اچک لینے کی نیت سے) دیکھنا منع ہے اس طرح مسجد میں بغیر نیک کام کی نیت آنا بھی منع ہے۔

 

٭٭ اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مرسلاً روایت ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، لوگوں پر عنقریب ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ اپنی دنیا داری کی باتیں مسجدوں میں کیا کریں گے لہٰذا تم ان کے پاس بھی نہ بیٹھنا (تم ان کی گفتگو میں شریک نہ ہونا کہ ان کے شریک کہلاؤ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے بیزار ہے اور وہ اللہ کی پناہ اور اس کی رحمت سے خارج ہیں۔ نیز اس بات سے بھی کنایہ ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کی اطاعت و عبادت قبولیت کا درجہ نہیں پائے گا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسجد میں دنیاوی امور کی باتیں کرنا مکروہ ہے چنانچہ اور بہت سی احادیث میں بھی مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور دنیاوی باتوں سے مراد ایسی باتیں ہیں جو عبث، بے فائدہ اور حد سے زیادہ ہوں اور اگر دنیاوی باتیں صرف ایک دو کلمہ تک رہیں یا اس درجے کی نہ ہوں تو وہ اس حکم میں داخل نہیں۔

 

٭٭ اور حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) مسجد میں پڑا سو رہا تھا کہ کسی آدمی نے میرے کنکر ماری میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ، تم جا کر ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جو مسجد میں بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے) میں ان کو بلا لایا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تم کون ہو؟ یا فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ، اگر تم لوگ مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (یعنی مارتا۔ لیکن چونکہ تم لوگ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو اور آداب مسجد سے واقف نہیں ہو یا یہ کہ مسافر ہو اس لیے عفو و شفقت کے مستحق ہو اور فرمایا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں زور زور سے باتیں کر رہے ہو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

جملہ اَوْمِنْ اَیْنَ اَنْتُمَا میں لفظ اَوْ شک کے لیے ہے یعنی راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فرمایا کہ  تم کون ہو؟ یا یہ فرمایا کہ  تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ بہر حال مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا مکروہ ہے اگرچہ موضوع سخن علم ہی کیوں نہ ہو۔

 

٭٭ اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بنوا دیا تھا جس کا نام بطیحا تھا اور لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ جو آدمی لغو باتیں کرنا چاہئے یا اشعار پڑھنا چا ہے یا (کسی وجہ سے) بلند آواز (سے باتیں) کرنا چاہئے تو اسے چاہئے کہ وہ (مسجد سے نکل کر) اس چبوترہ پر آ جائے۔ (موطا)

 

٭٭ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (مسجد میں) قبلے کی طرف رینٹھ پڑا ہوا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت ناگوار گزرا یہاں تک کہ اس ناگواری کا اثر آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اسے خود اپنے دست مبارک سے کھرچ کر پھینکا اور فرمایا کہ ، تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے سر گوشی کرتا ہے اور اس وقت اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ قبلے کی طرف ہرگز نہ تھوکے بلکہ اپنے بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوک لے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر مبارک کا ایک کونہ لیا اور اس میں کچھ تھوکا اور پھر کپڑے کو آپس میں رگڑ کر فرمایا کہ  اس طرح کر لیا کرو۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے۔ کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ قبلے کی طرف متوجہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے اور اس کے قریب ہونے کا ارادہ کرتا ہے لہٰذا چونکہ اس کا مطلوب اور مقصود اس کے اور قبلے کے درمیان ہے اس لیے یہ حکم دیا گیا ہے کہ قبلے کی سمت کو تھوک سے بچایا جائے۔

بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے جب کہ کوئی آدمی مسجد میں نماز نہ پڑھ رہا ہو۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی صورت میں بائیں طرف اور قدموں کے نیچے بھی تھوکنا نہیں چاہئے کہ اس سے مسجد کے آداب و احترام میں فرق آتا ہے بلکہ اس صورت میں اگر تھوکنے کی ضرورت محسوس ہو تو کسی کپڑے میں تھوک لیا جائے پھر اسے رگڑ کر صاف کر لیا جائے۔

 

                   سواری کے جانور اور کجاوے کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر نماز پڑھنا

 

اور حضرت نافع حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سواری کا اونٹ سامنے بٹھا کر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور بخاری نے یہ مزید نقل کیا ہے (نافع فرماتے ہیں کہ) میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر سے پوچھا کہ جب اونٹ چرنے اور پانی پینے چلے جاتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا کرتے تھے (یعنی ایسی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سترہ کس چیز کو قرار دیتے تھے؟) عبداللہ ابن عمر نے فرمایا (ایسے موقع پر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم کجاوہ کو ٹھیک کر کے سامنے رکھ لیتے تھے اور اس کی پچھلی لکڑی کی طرف (جو بلند ہونے کی وجہ سے سترے کا کام دیتی تھی) منہ کر کے نماز پڑھ لیتے تھے۔

 

 

اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی مانند (کسی چیز کو) سترہ بنا کر رکھ لے تو اسے چاہئے کہ وہ نماز پڑھ لے اور اس (سترے) کے سامنے سے کوئی گزرے تو اس کی پرواہ نہ کرے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب نمازی سترے کے قابل کسی چیز کو اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھے اور سترہ کے سامنے سے کوئی گزرے تو اس کا خیال نہ کرے کیونکہ سترے کی موجودگی میں سامنے سے کسی کا گزرنا نماز کے خشوع و خضوع پر اثر انداز نہیں ہو گا۔  یا پرواہ نہ کرے کا تعلق گزرنے والے سے ہو گا۔ یعنی اگر نمازی کے آگے سترہ ہو تو اس کے سامنے گزرنے والا آدمی کچھ پرواہ نہ کرے کیونکہ سترے کی موجودگی میں نمازی کے سامنے سے گزرنے کی وجہ سے وہ گنہ گار نہیں ہو گا۔

 

                   نمازی کے آگے سے گزر جانا بہت بڑا گناہ ہے

 

اور حضرت ابوجہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حضرت ابو نضر فرماتے ہیں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا گیا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت امام طحاوی نے  مشکل الآثار میں فرمایا ہے کہ ، یہاں چالیس سال مراد ہے نہ کہ چایس مہینے یا چالیس دن۔ اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ آدمی جو اپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے (یعنی نماز پڑھتا ہے) اور وہ (اس کا گناہ) جان لے تو اس کے لیے اپنی جگہ پر ایک سو برس تک کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجہے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔

بہر حال ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی اہمیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا کنتی سخت ہے تو وہ چالیس برس یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک سو برس تک اپنی جگہ پر مستقلاً کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔

 

                   سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنے والے کو زبردستی روکنے کا حکم

 

اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی کسی ایسی چیز (یعنی سترے) کی طرف نماز پڑھے جو اس کے اور لوگوں درمیان حائل رہے اور کوئی آدمی اس کے آگے سے (یعنی نمازی اور سترے کے درمیان) سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے روک دینا چاہئے اگر وہ نہ مانے تو اسے قتل کر دینا چاہئے کیونکہ وہ (ایسی صورت میں) شیطان ہے۔ (حدیث کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں اور مسلم نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے)۔

 

تشریح

 

قتل کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حقیقۃً ایسے آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دینا چاہئے بلکہ قتل سے مراد یہ ہے کہ چونکہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت برا ہے اس لیے اگر کوئی آدمی نمازی کے آگے سے گزرنا چا ہے تو اسے پوری طاقت و قوت کے ساتھ گزرنے سے روک کر اسے اتنی بڑی غلطی کے ارتکاب سے بچایا جائے۔

قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ ایسے آدمی کو کسی ایسی چیز کے ذریعے روکا جائے جس کا استعمال اس روکنے کے سلسلے میں جائز ہو اور اس روک تھام میں اگر گزرنے ولا آدمی مر جائے تو علماء کے نزدیک متفقہ طور پر اس کا قصاص نہیں ہو گا۔ ہاں دیت کے واجب ہونے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چنانچہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ ایسی شکل میں دیت واجب ہو گی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ واجب نہیں ہو گی۔

حدیث میں ایسے آدمی کو شیطان کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے چونکہ اس آدمی کو بہکا کر اس غلط کام کو کرنے پر مجبور کیا لہٰذا وہ آدمی اس شیطانی کام کر نے کی بناء پر بمنزلہ شیطان کے ہوا۔

یا اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا غلط کام کرنے والا آدمی انسانوں کا شیطان ہے اس لیے کہ شیطان کے معنی سر کش کے ہیں خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنات میں سے ہو اسی لیے شریر النفس آدمی کو شیطان انس کہا جاتا ہے۔

 

                   سترہ نماز کی محافظت کرتا ہے

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نا مدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، عورت، گدھا اور کتا (نمازی کے آگے سے گزرنے کی صورت میں) نماز کو باطل کر دیتے ہیں اور کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی مانند کسی چیز کو (نمازی کے آگے سترہ بنا کر) رکھ لینا (نماز کے) اس باطل کر دینے کو بچا لیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

نمازی کے آگے سے گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا : جمہور علمائے صحابہ وغیرہم کا یہ مذہب ہے کہ کوئی چیز یا کوئی آدمی اگر نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز باطل نہیں ہوتی خواہ مذکورہ بالا تینوں چیزیں ہوں یا ان کے علاوہ کچھ اور ہوں۔ جہاں تک اس حدیث یا اسی طرح کی دوسری احادیث کا تعلق ہے سب دراصل نمازی کے سامنے سترہ کھڑا کرنے کی اہمیت اور تاکید بیان کرنے میں مبالغے کے طریقے پر ہیں۔ یا اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو اگر نمازی کے آگے سے گزریں تو نماز میں خشوع و خضوع اور حضوری قلب کو کھو دیتی ہیں جو درحقیقت نماز کی اصل اور روح ہیں۔ یا پھر اس سے یہ مراد بھی لی جا سکتی ہے کہ نمازی کے آگے سے ان چیزوں کے گزرنے سے چونکہ نمازی کا دل ان کی طرف ہٹ جاتا ہے اور اس کا دل ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اس لیے نماز بھی بطلان کے قریب پہنچ جاتی ہے۔

عورت، گدھے اور کتے کی تخصیص کی وجہ: حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے آگے سے صرف ان تین چیزوں کے گزر جانے سے نماز پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ان کے علاوہ دیگر چیزوں کے گزرنے سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ان مذکورہ تین چیزوں کی تخصیص اسی لیے کی گئی ہے کہ ان کی طرف دل بہت زیادہ متوجہ ہو جاتا ہے چنانچہ عورت کی حیثیت تو ظاہری ہے گدھے کا معاملہ بھی یہ ہے کہ گدھے کے ساتھ چونکہ اکثر و بیشتر شیاطین رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کے چیخنے کے وقت اعوذ پڑھنا مستحب ہے اس لیے جب گدھا نمازی کے آگے سے گزرے گا تو نمازی کا دل اس احساس کی بناء پر کہ اس کے ہمراہ شیاطین ہوں گے گدھے کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ یا ایسے ہی کتا نہ صرف یہ کہ نجس عین ہوتا ہے بلکہ اس سے تکلیف پہنچنے کا بھی خطرہ رہتا ہے اس لیے اس کے گزرنے کی صورت میں بھی ذہن پوری تیزی کے ساتھ اس کی طرف بھٹک جاتا ہے۔

 

                   نمازی کے آگے عورت کے آ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی

 

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم رات کی نماز پڑھتے رہتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور قبلے کے درمیان (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے) اس طرح پڑی رہتی تھی۔ جیسے جنازہ نمازیوں کے آگے رکھا ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جنازے کی مثال دے کر اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں مشغول ہوتے تھے میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی گوشے وغیرہ میں نہیں پڑی رہتی تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پوری طرح لیٹی رہتی تھی اور اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے رہتے تھے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں نمازی کے آگے عورت کے آ جانے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔

 

                   نمازی کے آگے سے گدھی وغیرہ کا گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن جب کہ میں بالغ ہونے کے قریب تھا گدھی پر بیٹھا ہوا آیا اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم منیٰ میں لوگوں کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے اور (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے) آگے کوئی دیوار نہیں تھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی سترہ نہیں کھڑا کر رکھا تھا، میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا، پھر گدھی سے اتر کر اسے چھوڑ دیا وہ چرنے لگی اور میں صف میں داخل ہو گیا اور مجھے کسی نے کچھ نہیں کہا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس واقعہ کو بیان کرنے سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بتانا مقصود ہے کہ نمازیوں کے آگے سے گدھی کے گزر جانے سے نماز باطل نہیں ہوئی۔ اس وقت حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ بالغ نہیں تھے اس لیے جب وہ نمازیوں آگے سے گزرے تو انہیں کسی نے روکا نہیں۔

 

                   عصا کو سترے کے طور پر گاڑنے کے بجائے سامنے رکھ لینے میں علماء کا اختلاف

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھنا چا ہے تو اپنے منہ کے سامنے کچھ (مثلاً دیوار و ستون وغیرہ) کر لے اور اگر کچھ نہ ملے تو اپنا عصا (ہی) کھڑا کر لیا کرے اور اگر اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو ایک لکیر ہی کھینچ لیا کرے پھر اس کے آگے سے کوئی گزر جائے تو کچھ نقصان نہ ہو گا (یعنی خشوع و خضوع میں خلل نہیں پڑے گا۔  (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو کوئی ایسی چیز دستیاب نہ ہو جو سترے کے طور پر کام دے سکے تو وہ اپنے عصا کو اپنے سامنے سترہ بنا کر کھڑا کر لے۔ اب اس سلسلہ میں اتنی اور سہولت دی گئی ہے کہ اگر زمین نرم ہو تو عصا کو زمین میں گاڑ دیا جائے اور اگر زمین سخت ہو کہ عصا کو گاڑنا مشکل ہو تو پھر اس شکل میں عصا کو گاڑنے کی بجائے اپنے سامنے طولاً رکھ لیا جائے تاکہ گاڑنے کی مشابہت حاصل ہو جائے۔

فقہ کی کتاب شرح منبہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی اپنے عصا کو سترے کے طور پر بجائے زمین میں گاڑنے کے اپنے سامنے رکھ لے تو بعض علماء کے نزدیک تو اس کے لیے یہ سترے کے طور پر کافی ہو جائے گا۔ یعنی سترے کا حکم پورا ہو جائے گا مگر بعض علماء کے نزدیک یہ سترے کے طور پر کافی نہیں ہو گا۔

کفایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی نمازی سترے کے طور پر عصا کو بجائے گاڑنے کے سامنے رکھنا چاہئے تو اسے عصا کو طولاً رکھنا چاہئے نہ کہ عر ضاً۔

 

 

                   سترے کے لیے کوئی بھی چیز موجود نہ ہونے کی شکل میں سامنے صرف لکیر کھینچ لینے میں علماء کا اختلاف

 

اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہو رہی ہے کہ اگر کسی نمازی کو سترہ بنانے کے لیے کوئی چیز نہ ملے یہاں تک کہ اس کے پاس عصا بھی نہ ہو تو وہ اپنے سامنے صرف لکیر کھینچ کر نماز پڑھ لے اس کے لیے یہی لکیر سترہ بن جائے گی۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول قدیم اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے بلکہ حنفیہ میں بھی بعد کے بعض علماء نے اس قول کو اختیار کیا ہے۔

حنفیہ کے اکثر علماء اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے قائل نہیں ہیں کیونکہ ان کے نزدیک لکیر کھینچ لینا معتبر نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی قول جدید میں اپنے پہلے مسلک کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں جو حدیث وارد ہے وہ ضعیف اور مضطرب ہے۔ نیز یہ کہ نمازی اور سامنے سے گزرنے والے کے درمیان سترے کے طور پر صرف لکیر کا حائل ہونا نہ صرف یہ کہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا بلکہ دور سے معلوم و ممیز بھی نہیں ہوتا۔ صاحب ہدایہ (رحمۃ اللہ) علیہ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ حضرت شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کا مفہوم بھی یہی ہے کہ لکیر کھینچنے کے بجائے سترہ کھڑا کرنا ہی اتباع سنت کی بناء پر اولیٰ اور بہتر ہے کیونکہ سامنے کھڑا ہوا سترہ پوری طرح ظاہر ہونے کی وجہ سے امتیاز بھی رکھتا ہے اور نمازی کے دل کو شک و شبہات سے نکال کر سکون خاطر اور اطمینان قلب کا باعث ہوتا ہے۔

اس کے بعد علماء نے وصف خط میں بھی اختلاف کیا ہے کہ لکیر کس طرح کھینچی جائے چنانچہ بعض علماء کے نزدیک لکیر بشکل ہلال کھینچنی چاہئے اور بعض حضرات نے جانب قبلہ طولاً کھینچنے کو لکھا ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ لکیر عرضاً دائیں طرف سے بائیں طرف کو کھینچی جائے اور مختار طولاً ہی کھینچنا ہے۔

 

                   سترے کو قریب کھڑا کرنا چاہئے

 

اور حضرت سہل ابن حثمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی آدمی سترے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تو اسے چاہئے کہ وہ سترے کے قریب رہے تاکہ شیطان اس کی نماز نہ توڑے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

سترے کے قریب رہنے کا مطلب یہ ہے کہ سترا اتنا نزدیک کھڑا کیا جائے کہ سجدہ اس کے پاس ہو سکے تاکہ شیطان اس کی نماز میں کوئی خلل نہ ڈال سکے کیونکہ نمازی اگر سترے سے دور کھڑا ہو گا تو اس کے سامنے سے کسی کے گزرنے کا احتمال ہو گا۔ چنانچہ شیطان ایسی صورت میں اس کے دل میں وسواس و شبہات کے بیچ بوئے گا جس سے حضوری قلب میں فرق آ جائے گا۔ اور نماز میں حضوریِ  قلب کی دولت میسر نہیں رہی تو گویا اس کی نماز ٹوٹ گئی اس لیے کہ نماز کا کمال اور ثواب بغیر حضوری قلب کے حاصل نہیں ہوتا لہٰذا سترے کے قریب کھڑا ہونے کی وجہ سے اس آفت سے حفاظت حاصل ہو گی۔

 

                   سترہ پیشانی کے عین سامنے کھڑا نہیں کرنا چاہئے

 

اور حضرت مقداد ابن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لکڑی، ستون یا درخت کی طرف (منہ کر کے) نماز پڑھتے ہوں اور یہ چیزیں ٹھیک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھڑی ہوں بلکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی داہنی یا بائیں بھووں (ابروں کے سامنے ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی سیدھ کا قصد نہ کرتے تھے۔  (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سترہ کھڑا کرتے تھے تو اس بات کا بطور خاص خیال رکھتے تھے کہ سترہ پیشانی کے عین سامنے نہ ہو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سترے کو دائیں یا بائیں بھوؤں کے سامنے کھڑا کرتے تھے اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ بت پرستی کی مشابہت نہ ہو۔

 

                   نمازی کے سامنے سے کتے اور گدھے وغیرہ کا گزرنا نماز کو باطل نہیں کرتا

 

اور فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم (ایک دن) ہمارے پاس تشریف لائے جب کہ ہم اپنے جنگل میں (خیمہ زن) تھے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگل میں نماز (اس طرح) پڑھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سترہ نہیں تھا۔ ہماری گدھی اور کتیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کھیل رہی تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی کچھ پرواہ نہیں کی۔  (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اہل عرب کا دستور تھا کہ وہ لوگ چند دنوں کے لیے جنگل میں خیمہ زن ہو کر جایا کرتے تھے اور وہاں رہا کرتے تھے۔ ہر جماعت کا اپنا اپنا متعین جنگل ہوتا تھا چنانچہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک جنگل تھا۔ جن ایام میں وہ اپنے جنگل میں خیمہ زن تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے راوی وہی واقعہ کا بیان کر رہے ہیں۔

اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازی کے سامنے سے اگر گدھے اور کتے وغیرہ گزر جائیں تو نماز باطل نہیں ہوتی، وہیں یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ گزر گاہ پر نماز پڑھنے کی شکل میں نمازی کو اپنے آگے سترہ کھڑا کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

 

                   نمازی کے سامنے سے کسی کے گزرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی

 

اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی چیز نماز کو نہیں توڑتی (تاہم اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزرے تو نماز میں خشوع و خضوع برقرار رکھنے کی خاطر، تم حتی الامکان اسے روکو کیونکہ وہ گزرنے والا شیطان ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث نے بھی بصراحت اس کو واضح کر دیا کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والی کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی چا ہے عورت، کتا اور گدھا ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٧)۔

 

 

٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے (اس طرح سوئی رہتی تھی کہ) میرے دونوں پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قبلے کی طرف (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کرنے کی جگہ) ہوتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ کرتے تھے تو میرے (پاؤں کو) دبا دیتے تھے میں پاؤں کو سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو جاتے تھے تو میں پھر پاؤں پھیلا دیتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ان دنوں میں گھر کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری ، صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملہ سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنا یہ عذر بیان کرنا چاہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سجدہ کرنے کی جگہ پاؤں اس لیے پھیلائے رکھتی تھی کہ چراغ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ معلوم نہ ہوتا تھا۔ جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس عمل کا تعلق ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا پاؤں دبا دیتے تھے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتی تھیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو جاتے تھے تو وہ اپنے پاؤں پھیلا دیتی تھیں تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقریر یعنی ان کے اس عمل پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے نکیر نہ ہونے کی بناء پر تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر تم میں سے کوئی یہ جان لے کہ اپنے مسلمان بھائی کے سامنے سے جب کہ وہ نماز پڑھ رہا ہو عرضا گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے لیے سو برس تک کھرے رہنا ایک قدم آگے بڑھانے سے بہتر معلوم ہو۔ (سنن ابن ماجہ)

 

 

٭٭اور حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ (اس کے جرم کی) سزا کیا ہے تو اس کو اپنا زمین میں دھنسنا یا جانا نمازی کے آگے سے گزرنے سے زیادہ بہتر معلوم ہو۔ اور ایک روایت میں بجائے بہتر کے زیادہ آسان کا لفظ ہے۔ (مالک)

 

                   نمازی کے آگے سے کتنی دوری پر گزرنا چاہئے

 

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو آدمی بغیر سترے کے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز اس کے سامنے سے گدھے ، خنزیر، یہودی ، مجوسی اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی ہاں اگر یہ ایک پتھر پھینکنے کی مسافت کے فاصلے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ پھینکنے کے بعد پتھر جتنی دور جا کر گرتا ہے اتنے فاصلے کے بعد سے یہ مذکورہ چیزیں اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزریں تو کچھ حرج نہیں ہے یعنی نماز میں کوئی خلل و قصور نہیں آتا۔

علماء نے لکھا ہے کہ پھتر پھینکنے سے مراد حج میں رمی جمار ہے یعنی حج میں میناروں پر جو کنکر اور جس فاصلے سے مارے جاتے ہیں اور جس کی مقدار تین ہاتھ لکھی ہے وہی یہاں مراد ہے۔

اس حدیث کی تاویل بھی وہی ہو گی جو اسی باب کی حدیث نمبر سات کی تشریح  کے ضمن میں کی جا چکی ہے کہ نماز ٹوٹنے سے کیا مراد ہے؟۔

 

               نماز کی صفت

 

اس باب کے ذیل میں وہ احادیث نقل کی جا رہی ہیں جن میں نماز پڑھنے کی ترکیب معلوم ہو گی کہ نماز کس طرح پڑھی جائے؟  اور نماز کے ارکان و اجزاء کیا ہیں؟

 

                   نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ (پہلے) اس نے نماز پڑھی، اس طرح کہ تعدیل ارکان اور قومہ و جلسہ کی رعایت نہیں کی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا  جاؤ اور پھر نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی وہ چلا گیا اور جس طرح پہلے نماز پڑھی تھی اسی طرح پھر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آ کر سلام عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب دے کر پھر اس سے فرمایا کہ  جاؤ نماز پڑھو اس لیے کہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں (اس طرح تین مرتبہ ہوا) تیسری مرتبہ یا چوتھی مرتبہ اس آدمی نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! مجھے سکھلا دیجئے (کہ نماز کس طرح پڑھوں) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو (پہلے) اچھی طرح وضو کر لو۔ پھر قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو کر تکبیر کہو پھر قرآن کی جو (سورت وغیرہ) تمہیں آسان معلوم ہو اسے پڑھو پھر سکون کے ساتھ رکوع کرو پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر اطمینان کے ساتھ (دوسرا) سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ اور سکون کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ  پھر سر اٹھاؤ اور سیدھے کھڑے ہو جاؤ(اس روایت میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں) پھر اپنی تمام نماز اسی طرح ادا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

طمانیت کا مطلب یہ ہے کہ رکوع یا سجود وغیرہ میں اس طرح پوری دلجمعی اور سکون خاطر کے ساتھ ٹھہرا جائے کہ بدن کے تمام جوڑ اپنی جگہ اختیار کر لیں اور ان ارکان میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں وہ پورے اطمینان کے ساتھ پڑھی جائیں۔

رکوع و سجود وغیرہ میں طمانیت فرض ہے یا واجب؟: حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد اور حضرت امام ابو یوسف رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اس حدیث کے پیش نظر رکوع ، سجود، قومہ اور جلسہ میں طمانیت کی فرضیت کے قائل ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اطمینان کے فقدان کی بناء پر نماز کی نفی فرمائی ہے اور یہ چیز فرضیت کی علامت ہے کہ ایک فعل اس کے نہ ہونے سے منتفی اور باطل ہو جائے لہٰذا یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے ارکان میں آرام و سکون کو اختیار نہ کیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی جس کا اعادہ ضروری ہو گا۔

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رکوع و سجود میں طمانیت واجب ہے اور قومہ و جلسہ میں سنت ہے یہ حضرات اس حدیث کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ یہاں نماز کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ نماز کے کمال کی نفی مراد ہے کیونکہ اس حدیث کے آخری الفاظ جو ابوداؤد، جامع ترمذی اور سنن نسائی میں منقول ہیں یہ ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے فرمایا کہ  اگر تم نے اسے (یعنی طمانیت کو) پورا کیا تو تمہاری نماز مکمل ہوئی اور اس میں سے تم نے جو کچھ کم کیا تو تم نے اپنی نماز ناقص کی۔ لہٰذا اس طرح کا حکم وجوب اور سنت کی علامت ہے کہ اس کے بغیر فعل ناقص و ناتمام ہوتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کو نماز کا اعادہ کرنے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ اس کی نماز سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی بلکہ اس اعادہ کے حکم کا مطلب یہ تھا کہ نماز پورے کمال اور بغیر کسی کراہیئت و نقصان کے ادا ہونی چاہئے۔ اور اگر طمانیت فرض ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو شروع ہی میں منع کر کے نماز پڑھنے سے روک دیتے اور اس کو بغیر فرائض کے نماز نہ پڑھنے دیتے۔

اس حدیث سے چند باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے پہلی چیز تو یہ کہ عالم اور ناصح کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ کسی جاہل اور غلط کام کرنے والے کو نہایت نرمی اور اخلاق کے ساتھ سمجھائے اور اس کے ساتھ نصیحت کا ایسا نرم معاملہ کرے کہ وہ آدمی اس کی بات کو ماننے اور اس پر عمل پیرا ہونے پرخود مجبور ہو جائے کیونکہ بسا اوقات نصیحت کے معاملے میں بد اخلاقی و ترش روئی اصلاح و سدھار پیدا کرنے کی بجائے اور زیادہ ضد و ہٹ دھرمی اور گمراہی کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ ملاقات اگرچہ مکرر اور تھوڑی دیر کے بعد ہی ہو سلام کرنا مستحب ہے۔ تیسری چیز یہ ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی نماز کے واجبات میں کچھ خلل و نقصان پیدا کرے تو اس کی نماز صحیح ادا نہیں ہوتی اور وہ حقیقی معنی میں نمازی نہیں کہلاتا بلکہ اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اس آدمی نے نماز نہیں پڑھی۔ پہلی روایت میں جلسہ استراحت یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے سے اٹھ کر بیٹھنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت نہیں ہے اس کی مفصل تحقیق (انشاء اللہ) آ گے آئے گی۔

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کا طریقہ

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نماز تو تکبیر سے اور قرأت الحمد اللہ رب العالمین سے شروع کرتے اور آپ جب رکوع کرتے تھے تو اپنا سر مبارک نہ تو (بہت زیادہ) بلند کرتے تھے اور نہ (بہت زیادہ) پست بلکہ درمیان درمیان رکھتے تھے (یعنی پیٹھ اور گردن برابر رکھتے تھے) اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا کھڑے ہوئے سجدے میں نہ جاتے تھے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو بغیر سیدھا بیٹھے ہوئے (دوسرے) سجدہ میں نہ جاتے تھے اور ہر دور رکعتوں کے بعد التحیات پڑھتے تھے اور (اور بیٹھنے کے لیے) اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے اور آپ عقبہ شیطان (یعنی شیطان کی بیٹھک) سے منع فرماتے تھے اور مرد کو دونوں ہاتھ سجدے میں اس طرح بچھانے سے بھی منع کرتے تھے جس طرح درندے بچھا لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کو سلام پر ختم فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز تو تکبیر سے شروع فرماتے تھے اور قرأت کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بسم اللہ آہستہ سے پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔

 

                   قعدے میں بیٹھنے کا طریقہ اور اس میں ائمہ کا اختلاف

 

وکان یفرش رجلہ ایسر وینصب رجلہ الیمنی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھنے کے لیے اپنا بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے تھے) اس عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھتے تھے چنانچہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے کہ دونوں قعدوں میں اسی طرح بیٹھنا چاہئے۔

آئندہ آنے والی حدیث جو حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے قعدے میں افتراش (یعنی پاؤں بچھانا ہی اختیار کرتے تھے مگر دوسرے قعدے میں تورک یعنی (کولہوں پر بیٹھنا) اختیار فرماتے تھے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ پہلے قعدے میں تو افتراش ہونا چاہئے اور دوسرے قعدے میں تورک۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں قعدوں میں تورک ہی ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس نماز میں دو تشہد ہوں اس کے آخری تشہد میں تورک ہونا چاہئے اور جس نماز میں ایک ہی تشہد ہے اس میں افتراش ہونا چاہئے۔

 

امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل

بنیادی طور پر حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے نہ صرف یہی حدیث بلکہ اور بہت سی احادیث وارد ہیں جن میں مطلقاً پاؤں کے بچھانے کا ذکر ہے۔ نیز یہ بھی وارد ہے کہ تشہد میں سنت یہی ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر پہلے اور دوسرے قعدے کی قید کے تشہد میں اسی طرح بیٹھا کرتے تھے۔ پھر دوسری چیز یہ بھی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کا جو طریقہ امام اعظم نے اختیار کیا ہے وہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ بامشقت اور مشکل ہے اور احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ اعمال میں زیادہ افضل و اعلیٰ عمل وہی ہے جس کے کرنے میں مشقت اور مشکل ہے۔

جن احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے قعدے میں کولہوں پر بیٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک ہے وہ اس بات پر محمول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حالت ضعف اور کبر سنی میں اس طرح بیٹھتے تھے کیونکہ دوسرے قعدے میں زیادہ دیر تک بیٹھنا ہوتا ہے اور کولہوں پر بیٹھنا زیادہ آسان ہے۔

 

عقبہ شیطان کا مطلب

عقبہ شیطان دراصل ایک خاص طریقے سے بیٹھنے کا نام ہے جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ دونوں کولہے زمین پر ٹیک کر دونوں پنڈلیاں کھڑی کر لی جائیں پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر بیٹھا جائے جس طرح کے کتے بیٹھا کرتے ہیں۔قعدے میں بیٹھنے کا یہ طریقہ اختیار کرنا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک مکروہ ہے۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ عقبہ شیطان کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کو لہے دونوں ایڑیوں پر رکھے جائیں۔ یہ معنی لفظ عقبہ کی رعایت سے زیادہ مناسب ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ سجدہ کی حالت میں زمین پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح بچھائے جس طرح درندے یعنی کتے وغیرہ بچھاتے ہیں اس سلسلے میں مرد کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ کے وقت عورتوں کو اس طرح ہی دونوں ہاتھ بچھانے چاہیں کیونکہ اس طرح عورت کے جسم کی نمائش نہیں ہوتی۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کا اختتام سلام پر فرماتے تھے۔ مگر اتنی بات سن لیجئے کہ نماز میں سلام پھیرنا حنفیہ کے نزدیک تو واجب ہے مگر حضرت شوافع کے نزدیک فرض ہے۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اٹھایا جائے؟

 

اور حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی ایک جماعت میں فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر کہتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع میں جاتے تھے تو اپنے دونوں زانو ہاتھوں سے مضبوط پکڑتے تھے اور اپنی پیٹھ جھکا دیتے تھے (تاکہ گردن کے برابر ہو جائے) اور جب اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ سارے جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آ جاتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو دونوں ہاتھ زمین پر (منہ کے بل) رکھ دیتے تھے اور انہیں نہ پھیلاتے تھے اور نہ (پہلو کی طرف) بیٹھتے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلے کی طرف سامنے رکھتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے اور جب آخری رکعت پڑھ کہ بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں کو آگے نکال دیتے اور دوسرے (یعنی دائیں) پاؤں کو کھڑا کر کے کولھے پر بیٹھ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب تکبیر کہتے تھے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں کی لو کے مقابل تک اٹھانا چاہئے کیونکہ دیگر احادیث میں اسی طرح مروی ہے اور چونکہ بعض روایات میں ان دونوں سے الگ ایک تیسرا طریقہ یعنی ہاتھوں کو کانوں کی اوپر کی جانب تک اٹھانا بھی آیا ہے۔ اس لیے امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نہ تو کانوں کے نیچے یعنی کندھوں تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا اور نہ کانوں کے اوپر کی جانب تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ان روایات کی تطبیق کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں تو کاندھوں کے مقابل رہیں انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل اور انگلیوں کے سرے کان کے اوپر کے حصے پر رکھے جائیں تاکہ اس طریقے سے تمام احادیث میں عمل ممکن ہو جائے اور روایتوں میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے اور ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ احادیث مختلف اوقات سے متعلق ہیں یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہوں گے اور کبھی اس طرح۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے رکوع کا طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ہاتھوں سے دونوں زانو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور انگلیوں کو کشادہ رکھتے تھے اور پھر گردن مبارک کو جھکا کر بالکل پیٹھ کر برابر کر دیتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ رکوع میں تو انگلیاں کشادہ رکھنی چاہئیں اور سجدے میں ملی ہوں نیز تکبیر تحریمہ اور تشہد میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔

سجدے میں زمین پر ہاتھ رکھنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں انگلیاں اور ہتھلیاں زمین پر پھیلا دینی چاہئیں اور پہنچے اٹھے ہوئے اور پہلو اس طرح الگ رکھنے چاہئیں کہ اگر بکری کا بچہ چا ہے تو نیچے سے گزر جائے۔

اس حدیث میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ قومہ سے سجدہ میں جانے کے وقت زمیں پر پہلے زانو رکھے جائیں یا ہاتھ تو اس سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ درست تو دونوں طریقے ہیں لیکن اکثر آئمہ کے نزدیک افضل اور مختار یہی ہے کہ زمین پر پہلے زانو رکھے۔

 

                   رفع بدین

 

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کر تے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے نیز جب رکوع سے سر ا ٹھاتے تو تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے اور (رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے) کہتے سمع اللہ لمن حمدہ۔ ربنالک الحمد (ا اللہ نے اس آدمی کو سن لیا (یعنی اس کی تعریف قبول کر لی) جس نے اس کی حمد بیان کی۔ اے ہمارے پروردگار ! تعریف تو تیرے ہی لیے ہے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کا مطلب یہ کہ اے پروردگار ! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی کسی آدمی کی تعریف کرتا ہے تو وہ درحقیقت تیری ہی تعریف کرتا ہے کیونکہ سب کو پیدا کرنے والا تو ہی تو ہے اس لیے مصنوع کی تعریف دراصل صانع ہی کی تعریف ہوتی ہے۔

حدیث کے اس جزو سے معلوم ہوا کہ ہر نماز پڑھنے والے کو سمع اللہ لم حمدہ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں مگر جماعت کی صورت میں امام صرف سمع اللہ لم حمدہ کہے اور مقتدی  ربنالک الحمد کہیں۔ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ امام کو دونوں کلمات کہنے چاہئیں اسی قول کو امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔ بلکہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی ایک روایت اسی قول کی تائید میں منقول ہے مقتدی کے بارے میں ان کی رائے بھی یہی ہے کہ وہ صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔

وکان لا یفعل ذلک فی السجود (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تکبیر تحریمہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس طرح جب سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرات شوافع کا مختار مسلک یہی ہے کہ ان اوقات میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے۔ ان حضرات کے نزدیک رفع یدین کی جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع میں جانے کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت کرنا چاہئے۔ ان تینوں موقعوں کے علاوہ اور کسی موقعہ پر رفع یدین کو یہ حضرات صحیح نہیں مانتے۔

 

 

٭٭اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع میں جاتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھتے تب بھی دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی ہوئی نقل کرتے تھے (یعنی وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسی طرح کیا ہے۔) (صحیح البخاری)

 

رفع یدین کے مسئلے حنفیہ کی مستدل احادیث و آثار

٭٭  اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے کہ انہیں کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر اسی طرح کرتے تھے (یعنی دونوں ہاتھ کانوں کی سیدھ تک لے جاتے تھے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ دونوں کو اپنے کانوں کے اوپر کی جانب لے جاتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین یعنی ہاتھوں کے اٹھانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ تمام علماء و ائمہ اس بات پر متفق ہیں۔ کہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے۔ تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع پر رفع یدین کا مسئلہ حنفیہ و شوافع کے درمیان ایک معرکۃ الآراء مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا چاہئے اور شوافع کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔

حق تو یہ ہے کہ دونوں طرف دلائل کے انبار ہیں اور احادیث و آثار کے ذخائز ہیں جن کی بنیادوں پر طرفین اپنے اپنے مسلک کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے تمام احادیث میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ان حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی تو رفع یدین کرتے ہوں اور کبھی نہ کرتے ہوں، یا یہ کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دوسرے مواقع کے لیے رفع یدین کو منسوخ قرار دے دیا گیا۔

حنفیہ کے پاس اپنے مسلک کی تائید میں بہت زیادہ احادیث و آثار ہیں انہیں یہاں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حنفی مسلک پوری طرف واضح ہو جائے۔

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ترمذی میں دو باب قائم کئے ہیں۔ پہلا باب تو رکوع کے وقت رفع یدین کا ہے۔ اس کے ضمن میں امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث نقل کی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔ دوسرا باب یہ ہے کہ  ہاتھ اٹھانا صرف نماز کی ابتداء کے وقت دیکھا گیا ہے اس باب کے ضمن میں امام جامع ترمذی نے حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ حدیث جو عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ  حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے رفقاء سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز ادا کرتا ہوں چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز ادا کی اور انہوں نے صرف پہلی مرتبہ ہی (یعنی تکبر تحریمہ کے وقت) ہاتھ اٹھائے۔ اسی باب میں امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز امام موصوف نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اور صحابہ و تابعین میں سے اکثر اہل علم اس کے قائل ہیں اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ و اہل کوفہ کا قول بھی یہی ہے۔

جامع الاصول میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو ابوداؤد و سنن نسائی کے حوالے سے اور براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو بھی ابوداؤد کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ  حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز شروع فرماتے تھے تو (تکبیر تحریمہ کے وقت) دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے قریب تک اٹھاتے تھے اور ایسا دوبارہ نہیں کرتے تھے۔ اور ایک دوسری روایت میں یوں کہ  پھر دوبارہ ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو جاتے تھے۔

اس موقع پر اتنی سی بات اور سنتے چلیے کہ اس حدیث کے بارے میں ابوداؤد نے جو یہ کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ تو ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک صحیح ہونے سے مراد یہ ہو کہ اس خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہیں لہٰذا ایک خاص سند و طریق سے صحیح ثابت نہ ہونا اصل حدیث کی صحت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یا پھر یہ احتمال ہے کہ ابوداؤد کا مقصد اس حدیث کو حسن ثابت کرنا ہو جیسا کہ ترمذی نے کہا ہے لہٰذا اس صورت میں کہا جائے گا تمام ائمہ و محدثین کے نزدیک حدیث حسن قابل استدلال ہوتی ہے۔

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب موطا  میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کو جس سے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین ثابت ہوتا ہے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔ یہ سنت ہے کہ ہر مرتبہ جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر کہی جائے لیکن رفع یدین سوائے ایک مرتبہ (یعنی تحریمہ کے وقت) کے دوسرے مواقع پر نہ ہو اور یہ قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے اور اس سلسلے میں بہت زیادہ آثار وارد ہیں۔ چنانچہ اس کے بعد عاصم ابن کلیب خرمی کی ایک روایت جسے عاصم نے اپنے والد مکرم سے جو حضرت علی المرتضیٰ کے تابعین میں سے ہیں روایت نقل کی ہے کہ  حضرت علی کرم اللہ وجہ سوائے تکبیر اولیٰ کے رفع یدین نہیں کرتے تھے۔

عبدالعزیز ابن حکم کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ  میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ ابتداء نماز میں پہلی تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے علاوہ اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کر تے تھے۔

مجاہد کی روایت نقل کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے چنانچہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ اسود سے منقول ہے کہ  میں نے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ صرف تکبیر اولیٰ کے موقع پر رفع یدین کرتے تھے۔

لہٰذا۔ جب حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ کرام جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہایت قرب رکھتے تھے ترک رفع یدین پر عمل کرتے تھے تو وہ عمل جو اس کے برخلاف ہے قبول کرنے کے سلسلے میں اولیٰ اور بہتر نہیں ہو گا۔

شرح ابن ہمام میں ایک روایت دار قطنی اور ابن عدی سے نقل کی گئی ہے جسے انہوں نے محمد ابن جابر سے انہوں نے حماد ابن سلیمان سے انہوں نے ابراہیم سے انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہمراہ نماز پڑھی ہے چنانچہ انہوں نے سوائے تکبیر اولیٰ کے اور کسی موقع پر رفع یدین نہیں کیا۔

منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما مکہ کے دارالخیاطین میں جمع ہوئے۔ امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا کہ آپ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام صاحب نے جواب دیا اس لیے کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ میں کچھ صحت کے ساتھ ثابت نہیں ہے ! امام اوزاعی نے فرمایا کہ، مجھے زہری نے حضرت سالم کی یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر اولیٰ کے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ مجھ سے حماد نے ان سے ابراہیم نے اور ان سے علقمہ اور اسود نے اور ان دونوں نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صرف ابتداء نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور دوبارہ ایسا نہیں کرتے تھے۔ یہ روایت سن کر امام اوزاعی نے کہا کہ میں نے تو زہری سے نقل کیا اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے اور آپ اس کے مقابلے میں حماد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے عقلمہ سے نقل کیا ہے یعنی میری بیان کردہ سند آپ کی بیان کردہ سند سے عالی اور افضل ہے۔

حضرت امام اعظم نے فرمایا کہ  اگر یہی بات ہے تو پھر سنو کہ حماد، زہری سے زیادہ فقیہ ہیں اور ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اسی طرح علقمہ بھی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلہ میں فقہ میں کم نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و صحابیت کا شرف حاصل ہے۔ نیز اسود کو بھی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے۔ اور عبداللہ تو خود عبداللہ ہیں۔ یعنی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف و توصیف کیا کی جائے کہ علم فقہ میں اپنی عظمت شان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت و صحبت کی سعادت و شرف کی وجہ سے مشہور ہیں۔

گویا امام اوزاعی نے تو اسناد کے عالی ہونے کی حیثیت سے حدیث کو ترجیح دی اور حضرت امام اعظم نے راویان حدیث کے فقیہ ہونے کے اعتبار سے حدیث کو ترجیح دی۔ چنانچہ حضرت امام اعظم کا اصول یہی ہے کہ وہ فقیہ راوی کو غیر راویوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مذکور ہے۔

نہایہ شرح ہدایہ میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کر رہا تھا، انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ایسا مت کرو کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے اختیار کیا تھا اور بعد میں اسے ترک کر دیا یعنی ان مواقع پر رفع یدین کا حکم پہلے تھا اب منسوخ ہو گیا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رفع یدین کیا تو ہم نے بھی رفع یدین کیا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے ترک کر دیا تو ہم نے بھی ترک کر دیا۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  عشرہ مبشرہ (یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی زندگی ہی میں جنتی ہونے کی خوشخبری دی تھی) صرف ابتداء نماز ہی میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔

حضرت مجاہد حضرت عبداللہ ابن عمر کا معمول نقل کرتے ہیں کہ  میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر کے پیچھے سالہا سال نماز ادا کی ہے مگر میں نے اس کو سوائے ابتداء نماز کے اور کسی موقع پر رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت گزر چکی ہے۔ جس سے تینوں مواقع پر رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے اور جو شوافع کی سب سے اہم دلیل ہے۔ لہٰذا اصول حدیث کا چونکہ قاعد ہے کہ راوی کا عمل اگر خود اس کی روایت کے خلاف ہو تو روایت پر عمل نہیں کیا جاتا اس لیے حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت ساقط العمل قرار دی جائے گی۔

بہر حال۔ ان روایات و آثار سے معلوم ہوا کہ رفع یدین دونوں کے اثبات میں احادیث و آثار وارد ہیں اور صحابہ کی ایک جماعت خصوصاً حضرت عبداللہ مسعود اور ان کے تابعین رفع یدین نہ کرنے ہی کے حق میں ہیں۔ لہٰذا۔ ان تمام موافق و مخالف احادیث کا محمول یہی ہو سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اوقات مختلفہ میں دونوں طریقے وجود میں آئے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ کے علم فقہ اور ان کی اسناد کا نقطہ منتہا حضرت عبداللہ ابن مسعود اور ان کے تابعین کی ذات گرامی ہے اور چونکہ ان کا رجحان عدم رفع یدین کی طرف ہے اس لیے امام اعظم ابوحنیفہ کے ترک رفع یدین کے مسلک ہی کو اختیار کیا ہے اور اب تمام حنفیہ اسی مسلک کے حامی اور اس مسلک پر عامل ہیں۔

علمائے حنفیہ صرف اسی قدر نہیں کہتے بلکہ ان حضرات کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کا حکم منسوخ ہے کیونکہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر کے بارے میں یہ ثابت ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد یہ ترک رفع یدین ہی اختیار کرتے تھے باوجود اس کے کہ رفع یدین کی حدیث کے راوی یہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو رفع یدین کا حکم رہا ہو گا مگر بعد میں یہ حکم با وجود کثرت احادیث و آثار کے منسوخ ہے۔

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مسئلے کی پوری تفصیل اپنی کتاب شرح سفر السعادۃ میں نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہاں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ان کے نزدیک رفع یدین اور عدم رفع یدین دونوں ہی سنت ہیں مگر رفع یدین نہ کرنا ہی اولیٰ اور راجح ہے البتہ دیگر علماء حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رفع یدین کا حکم اور طریقہ منسوخ ہے۔ وا اللہ اعلم۔

 

                   جلسہ استراحت کا مسئلہ

 

اور حضرت مالک ابن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار کو نماز پڑھتے دیکھا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنی نماز کی طاق رکعت (یعنی پہلی یا تیسری) میں ہوتے تو جب تک سیدھے بیٹھ نہ لیتے اٹھتے نہ تھے۔ (صحیح البخاری)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے اور پہلی یا تیسری رکعت میں دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو پہلے بیٹھتے تھے اس کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھتے تھے اسی کو جلسہ استراحت کہا جاتا ہے۔

جلسہ استراحت سنت ہے یا نہیں؟: حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جلسہ استراحت سنت ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو پہلے قعدہ میں بیٹھنے کا ہے۔ نیز یہ کہ بیٹھنے کے بعد دونوں ہاتھوں سے زمین کا سہارا لے کر اٹھنا چاہئے۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مختار قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جلسہ استراحت کرنا چونکہ کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے تھا اس لیے جس آدمی کو جلسہ استراحت کی حاجت نہ ہو اس کے لیے یہ سنت نہیں ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مستدل یہی حدیث ہے اور حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس کو ترمذی نے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے) پشت قدم پر یعنی بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے اگرچہ اس حدیث کے بعض طرق ضعیف ہیں لیکن حدیث صحیح الاصل ہے۔

حضرت ابن ابی شیبہ، حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ  وہ اپنے پشت قدم پر بغیر بیٹھے ہوئے اٹھتے تھے نیز انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عمر، حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابن زیبر رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ اور حضرت نعمان ابن ابی عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ  میں نے بہت سے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ جب پہلی اور تیسری رکعت میں سجدے سے سر اٹھاتے تھے تو جس حالت میں ہوتے تھے اسی حالت میں بغیر بیٹھے ہوئے اٹھ جاتے تھے۔

بہر حال۔ اس سلسلے میں بہت زیادہ احادیث و آثار وارد ہیں اور جو احادیث اس کے برعکس وارد ہیں ان کا محمول کبر سنی اور ضعف ہے جیسا کہ اس حدیث کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کبر سنی اور ضعف کی وجہ سے جلسہ استراحت اختیار فرماتے تھے۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں

 

اور حضرت وائل ابن حجر (حضرت وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ حضر موت کے شمار کردہ رئیسوں میں سے ہیں۔ جب یہ اپنے قبیلے کی طرف سے ایلچی بن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تو آپ نے اپنی چارد مبارک زمین پر بچھا دی اور ان کو اس پر بٹھایا۔ پھر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ علقمہ اور عبدالجبار ان کے صاحبزادے ہیں۔) کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز شروع کرتے وقت دونوں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہی پھر ہاتھ کپڑے کے اندر کر لیے اور داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو دونوں ہاتھ کپڑے سے نکال کر ان کو اٹھایا اور تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے اور جب (رکوع سے اٹھتے وقت) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو (اس وقت بھی) ہاتھوں کو اٹھایا پھر جب سجدہ کیا تو دونوں ہاتھوں کے درمیان کیا (یعنی اپنا سر مبارک دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تکبیر تحریمہ کے بعد اپنے دونوں دست مبارک چادر میں ڈھانک لیے اور نیت باندھ لی مگر بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چادر میں ہاتھ نہیں ڈھانکے بلکہ اپنی آستینوں میں چھپا لیے۔ بہر حال علماء لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ کپڑوں میں جو چھپائے تھے تو اس کی وجہ غالباً سردی کی شدت ہو گی۔

تکبیر تحریمہ کے بعد داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا یوں تو تمام ائمہ کے نزدیک ایک مسئلہ ہے لیکن حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک چھوڑنے رکھنا اولیٰ ہے اور باندھنا بھی جائز ہے۔

اس بارہ میں آئمہ کے ہاں اختلاف ہے کہ ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ امام اعظم ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا چاہئے اور حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ سینے کے قریب یعنی ناف کے اوپر باندھنے چاہئیں۔ دونوں حضرات کے مطابق حدیثیں وارد ہیں چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں حکم یہی ہے کہ جہاں چا ہے ہاتھ باندھ لے درست ہو گا لیکن اتنی بات جان لینی چاہئے کہ اس مسئلے میں کوئی خاص طریقہ چونکہ احادیث کے ذریعے چونکہ مستحسن نہیں تھا یعنی نہ تو ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا طریقہ خاص طور پر ثابت ہے نہ ناف کے نیچے بلکہ دونوں طریقے احادیث کے ذریعہ ثابت ہیں تو حضرت امام اعظم نے ان دونوں صورتوں میں اس صورت کو اختیار کیا جو ادب اور تعظیم کے سلسلہ میں مقرر و متعارف ہے اور وہ ناف کے نیچے باندھنا ہے کیونکہ انتہائی تعظیم و تکریم اور ادب و احترام کے موقع پر ہاتھ ناف کے نیچے ہی باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے بعد دونوں ہاتھ کہاں اور کس طرح رکھنے چاہئیں

 

اور حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  لوگوں کو حکم کیا جاتا تھا کہ نمازی کو نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو اوپر رکھنا چاہئے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث سے اس طرح اشارہ مقصود ہے کہ احکم الحاکمین اور پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہونے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ ادب و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے بلکہ انتہائی ادب و احترام کے ساتھ کھڑا رہے جس کا طریقہ یہ ہو کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ناف کے نیچے رکھا رہے اور جیسا کہ بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہونے کے وقت تکبیر کہتے پھر رکوع میں جانے کے وقت تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنی پشت اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے پھر کھڑے ہی کھڑے  ربنا لک الحمد کہتے پھر جب (سجدے کے لیے) جھکتے تو تکبیر کہتے اور (سجدے سے) سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر نماز پوری کرنے تک ساری نماز میں یہی کرتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد اٹھتے تو تکبر کہتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث میں تکبیر تحریمہ اور رکوع و سجود کے مواقع پر صرف تکبیرات کا ذکر کیا گیا ہے ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

 

                   افضل نماز کون سی ہے؟

 

اور حضرت جابر راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے بہتر نماز وہ ہے جس میں قیام طویل (لمبا) ہو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں طویل قیام کرنا یعنی زیادہ دیر تک کھڑے رہنا اور لمبی سورتیں پڑھنا افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مشقت و محنت زیادہ ہوتی ہے اور جذبہ خدمت اور اطاعت کا اظہار ہوتا ہے جو عبادت کی روح ہے۔

نماز میں قیام افضل ہے یا سجود؟: علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ نماز میں آیا قیام افضل ہے یاسجود؟ چنانچہ بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ نماز میں سجود افضل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ قیام افضل ہے ان حضرات کی دلیل یہی حدیث ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قیام میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور سجدے میں تسبیح پڑھی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ قرآن تسبیح سے افضل ہے۔ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے۔

 

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کا طریقہ

 

حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کے دس صحابہ کی جماعت سے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز(کے طریقے) کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں صحابہ کی جماعت نے کہا کہ اچھا بیان کیجئے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر کندھوں کے برابر لے جاتے اور تکبیر کہتے پھر قرأت کرتے۔ اس کے بعد تکبیر کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع میں جا کر دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنے پر رکھتے اور کمر سیدھی کر لیتے اور سر کو نہ نیچا کرتے تھے اور نہ بلند کرتے تھے (یعنی پیٹھ اور سر برابر رکھتے تھے) پھر سر اٹھاتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے پاؤں کی انگلیوں کو موڑ کر (ان کے رخ قبلے کی طرف) رکھتے تھے پھر سجدے سے سر اٹھاتے اور بایاں پاؤں موڑ کر (یعنی بچھا کر) اس پر سیدھے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر برابر آ جاتا تھا۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے (دوسرے) سجدے میں چلے جاتے اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے (سجدے سے) اٹھتے اور بایاں پاؤں موڑ کر اس اطمینان سے بیٹھتے (یعنی جلسہ استراحت کرتے) یہاں تک کہ بدن کا ہر عضو اپنی جگہ پر آ جاتا تھا پھر دوسری رکعت میں بھی (سوائے ابتدائے رکعت میں سبحانک اللھم اور اعوذ باللہ) پڑھنے کے اسی طرح کرتے تھے اور جب وہ دو رکعت پڑھتے (یعنی تشہد) کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے جیسے کہ نماز کو شروع کرنے کے وقت تکبیر کہتے تھے پھر باقی نماز اسی طرح پڑھتے تھے اور جب وہ سجدہ (یعنی آخری رکعت کا دوسرا سجدہ) کر چکتے جس کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے تو اپنا بایاں پاؤں باہر نکالتے اور بائیں طرف کولھے پر بیٹھ جاتے اور پھر (تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد) سلام پھیرتے تھے۔ (یہ سن کر) وہ سب صحابہ بولے کہ  بے شک تم نے سچ کہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے (ابوداؤد و دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ابوداؤد کی ایک روایت میں جو ابوحمید سے مروی ہے۔ یہ الفاظ ہیں  پھر رکوع میں جا کر دونوں ہاتھ زانو پر اس طرح رکھے جیسے انہیں مضبوطی سے پکڑا ہو اور اپنے ہاتھوں کو (کمان کے) چلے کی طرح رکھا اور کہنیوں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے دور رکھا (گویا) کہ کہنیاں چلے کے مشابہ تھیں اور پہلو کمان کے مشابہ اور راوی فرماتے ہیں کہ  پھر سجدے میں گئے تو اپنی ناک اور پیشانی کو زمین پر رکھا اور ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھا اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں کی سیدھ میں اور دونوں رانوں کو کشادہ رکھا اور اپنے پیٹ کو دونوں سے الگ رکھا یہاں تک کہ سجدے سے فارغ ہوئے اور پھر اس طرح بیٹھے کہ بایاں پیر تو بچھا لیا اور داہنے پاؤں کی پشت قبلے کی طرف کی اور داہنا ہاتھ دائیں گھٹنے پر اور بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھ لیا اور (اشھد ان لا الہ الا اللہ کہنے کے وقت) اپنی انگلی یعنی سبابہ سے اشارہ کیا۔ (اور ابوداؤد ہی کی ایک اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ  جب دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پاؤں کے تلوے پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کر لیتے تھے اور جب چوتھی رکعت پڑھ کے بیٹھتے تو بائیں کولھے کو زمیں سے ملاتے اور دونوں پاؤں کو ایک طرف نکال دیتے تھے۔

 

تشریح

 

انا اعلمکم بصلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم(یعنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کے طریقہ کو تم سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں) ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی خاص مصلحت و ضرورت کی بناء پر بغیر کسی غرور و تکبر اور نفسانیت کے اظہار کے طور پر اپنے علم کی زیادتی کا دعوی کرے تو جائز ہے۔

 

                   تکبیر تحریمہ سے پہلے ہاتھ اٹھانے چاہئیں

 

حدیث کے الفاظ رفع یدیہ حتی یحاذی بھما منکبیہ ثم یکبر سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے رفع یدین کرتے اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے چنانچہ امام اعظم کا مسلک بھی یہی ہے کہ پہلے ہاتھ اٹھائے جائیں اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہی جائے۔

 

                   سجدے کی تکمیل زمین پر ناک اور پیشانی دونوں رکھنے سے ہوتی ہے

 

فامکن انفہ وجبھتہ الارض سے معلوم ہوا کہ سجدہ پیشانی اور ناک دونوں کو زمین پر رکھ کر کرنا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مستقل طور پر سجدہ اسی طرح کرتے تھے اور احادیث بھی اس کے موافق وارد ہیں لہٰذا سجدہ مکمل تو جب ہی ہوتا ہے کہ ناک اور پیشانی دونوں کو زمین پر رکھا جائے۔ اگر کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر سجدے میں ان دونوں میں سے کسی ایک کو زمین پر نہیں رکھا تو مکروہ نہیں ہے۔ اور اگر بغیر کسی عذر اور مجبوری کے ایسا کیا تو اس میں یہ صورت ہو گی کہ اگر زمین پر پیشانی رکھی ہے ناک نہیں رکھی تو یہ متفقہ طور پر جائز ہو گا البتہ سجدہ مکروہ ہو گا اور اگر پیشانی نہیں رکھی بلکہ ناک رکھی تو امام اعظم کے نزدیک یہ بھی بکراہت جائز ہے مگر حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک جائز نہیں ہے اور اسی پر فتوی ہے۔

 

سبابہ کی تحقیق

سبابہ شہادت کی انگلی کو کہتے ہیں۔ سب کے لغوی معنی گالی کے ہیں ایام جاہلیت میں اہل عرب جب کسی کو گالی دیتے تھے اس انگلی کو اٹھاتے تھے اس مناسب سے اس انگلی کا نام اسی وقت سے سبابہ رائج ہو گیا پھر بعد میں اس انگلی کا اسلامی نام مسبحہ اور سباحہ ہو گیا کیونکہ تسبیح و توحید کے وقت اس انگلی کو اٹھاتے ہیں۔

بہر حال۔ حدیث کے الفاط کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے التحیات میں کلمہ شہادت پڑھتے وقت اس انگلی سے اس طرح اشارہ کیا کہ نفی یعنی اشھد ان لا الہ کہتے وقت انگلی اتھائی اور اثبات یعنی الا اللہ کہتے وقت انگلی رکھی دی

 

                   تکبیر تحریمہ اور ہاتھ اٹھانے کا طریقہ

 

اور حضرت وائل ابن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو اپنے دونوں ہاتھ اتنے اٹھائے کہ کندھوں کے برابر پہنچ گئے اور دونوں انگوٹھوں کو کانوں تک لے گئے پھر تکبیر کہی۔ (سنن ابوداؤد) اور سنن ابوداؤد ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم انگوٹھوں کو کانوں تک اٹھاتے تھے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم کے مسلک کی تائید کر رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہاتھ اٹھانے کے بعد تکبیر کہتے تھے اور انگوٹھوں کو کانوں کی لو تک اٹھاتے تھے۔

 

                   ہاتھ باندھنے کا طریقہ

 

اور حضرت قبیصہ ابن ہلب اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم ہم لوگوں کو نماز پڑھاتے تو (قیام میں) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

                   تعدیل ارکان کی تعلیم

 

اور حضرت رفاعہ ابن رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز پڑھی، پھر آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (سلام کا جواب دے کر) فرمایا کہ۔  اپنی نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی اس آدمی نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دیجئے کہ نماز کس طرح پڑھوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جب تم قبلے کی طرف متوجہ ہو تو اللہ اکبر (یعنی تکبیر تحریمہ) کہو پھر سورہ فاتحہ اور جو کچھ اللہ چا ہے پڑھو (یعنی سورۃ فاتحہ کے ساتھ جو سورت چاہو پڑھو) اور جب تم رکوع میں جاؤ تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے زانوؤں پر رکھو رکوع میں (اطمینان سے) قائم رہو اور اپنی پشت کو ہموار رکھو اور جب تم (رکوع سے) سر اٹھاؤ تو اپنی پشت کو سیدھا کرو اور سر اٹھاؤ(یعنی بالکل سیدھ ہو جاؤ) یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آ جائیں اور جب سجدہ کرو تو اچھی طرح سجدہ کرو اور جب تم سجدے سے سر اٹھاؤ تو اپنی بائیں ران پر بیٹھ جاؤ پھر اسی طرح ہر ایک رکوع و سجدے میں کرو، یہاں تک کہ رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ) گویا ہر ایک رکن کی صحیح ادائیگی پر تمہیں اطمینان ہو جائے۔ حدیث کے یہ الفاظ مصابیح کے ہیں اور ابوداؤد نے اسے تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ نقل کیا ہے نیز ترمذی اور نسائی نے بھی اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے اور ترمذی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ  جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اس طرح وضو کرو جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے پھر کلمہ شہادت پڑھو (جیسا کہ وارد ہے کہ وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا ہی فضیلت کی بات ہے یا یہ کہ کلمہ شہادت سے مراد اذان ہے) پھر اچھی طرح نماز ادا کرو (یا فاقم کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر کہو) اور قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہو اس کو پڑھو اور کچھ یاد نہ تو الحمد اللہ، اللہ اکبر اور لا الہ لا اللہ کہو۔ پھر رکوع کرو۔

 

 

تشریح

 

حدیث کے آخری الفاظ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جس آدمی کو قرآن کی کوئی سورۃ و آیت یاد نہ ہو تو اسے چاہئے کہ وہ قرأت کی جگہ سبحان اللہ و الحمد اللہ ولا الہ الا اللہ وا اللہ اکبر پڑھ لیا کرے۔ چنانچہ یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت آنے تک قرآن کی کم سے کم اتنی آیتیں جتنی آیات کا پڑھنا نماز میں فرض ہے یاد کر لے۔ اگر اس عرصہ میں اسے کچھ بھی یاد نہ ہو سکے تو وہ قرأت کی جگہ ذکر اور تسبیح و تہلیل کر لیا کرے اس کی نماز ادا ہو جائے گی۔

 

                   نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے

 

اور حضرت فضل ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (نفل) نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت میں التحیات ہے اور (نماز کی روح) خشوع، عاجزی اور اظہار غریبی ہے پھر (نماز پڑھنے کے بعد) اپنے پروردگار کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاؤ، (حضرت فضل فرماتے ہیں کہ ثم تقنع یدیک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد تم) اپنے پروردگار کی طرف اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاؤ کہ ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی جانب ہوں (جو دعا کا طریقہ ہے) اور یہ کہو کہ  اے میرے رب ! اے میرے رب ! اور جو آدمی ایسا نہ کرے (یعنی مذکورہ بالا طریقے پر عمل نہ کرے اور دعا نہ مانگے) تو اس کی نماز ایسی ہے ، ویسی ہے (یعنی ناقص ہے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ، اس کی نماز ناقص ہے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس حدیث سے تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی پہلی چیز تو یہ ہے کہ نفل نماز دو رکعت پڑھی جائے خواہ دن ہو یا رات۔ یعنی ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے چار رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرا جائے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نفل نماز دو رکعت کر کے ہی پڑھنا افضل ہے۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ چا ہے رات ہو چاہے دن، نفل نماز چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا ہی افضل ہے ، حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رات کو دو دو اور دن کو چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا افضل ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل تو یہی حدیث ہے۔ حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے تراویح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بات صحیح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عشاء کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے ، نیز ظہر کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ چار چار رکعت پڑھنے میں تحریمہ کے اندر زیادہ دیر تک رہنے کی وجہ سے زیادہ مشقت و محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے وہ افضل ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد (الصلوٰۃ مثنی مثنی) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ نفل نماز طاق نہیں ہے بلکہ اولیٰ درجہ دو رکعتیں ہیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ نماز کی روح اور نماز کی معراج خشوع و خصوع اور اظہار عاجزی ہے ، بندہ نماز کے اندر جس قدر خشوع کرے گا خضوع سے کام لے گا اور پروردگار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی بڑائی و عظمت اور اپنی انتہائی بے چارگی و محتاجگی کا اظہار کرے گا نماز اسی قدر مقبولیت کے درجات کو پہنچے گی۔ خشوع کا مطلب یہ ہے کہ باطن میں بندہ اپنے عجز کا احساس کرے ، اپنے نفس کو عاجزی و انکساری کے راستے پر لگائے رہے گویا خشوع عجز باطنی کا نام ہے اور خضوع کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ظاہری طور پر اپنے ہر عمل اور ہر زاویے سے اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرے گو یا خضوع عجز ظاہری کا نام ہے۔

تیسری چیز یہ کہ نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دربار میں حاضری دے اور نماز پڑھ کر اپنی عبودیت و فرمانبرداری کا اظہار کر دے تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نماز کے بعد اللہ کی درگاہ میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا دے اور اپنی محتاجگی ولا چارگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی دینی دنیوی بھلائی میں اللہ کی مدد و نصرت کا طلب گار ہو۔

 

                   امام تکبیرات بآواز بلند کہے

 

اور حضرت سعید ابن حارث ابن معلی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی چنانچہ جب انہوں نے سجدے سے اپنا سر اٹھایا اور جب سجدے میں گئے نیز جب دو رکعتیں پڑھ کر اٹھے تو بلند آواز سے اللہ اکبر کہا اور فرمایا میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو اسی طرح (بآواز بلند تکبیرات کہتے) دیکھا ہے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امام کو چاہئے کہ وہ درمیان نماز تمام تکبیرات بآواز بلند کہے۔ یہاں صرف ان تین موقعوں کی تکبیرات کا ذکر یا تو اتفاقا کیا گیا ہے یا پھر کچھ لوگوں نے ان اوقات کی تکبیرات کا انکار کیا ہو گا اس لیے راوی نے صرف انہیں تکبیرات کو ذکر کیا۔ ویسے اسمٰعیل کی روایت میں بقیہ تکبیرات کا ذکر بھی موجود ہے چنانچہ ان کی روایت کے ابتداء میں یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے تھے یا کہیں چلے گئے تھے تو (ان کی عدم موجودگی میں) حضرت ابو سعید نے نماز پڑھائی چنانچہ انہوں نے نماز شروع ہونے اور رکوع میں جانے کے وقت تکبیرات بآواز بلند کہیں اس کے بعد بقیہ حدیث بیان کی گئی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عکرمہ (آپ عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام تھے نام عکرمہ اور کنیت ابوعبدا اللہ تھی ١٠٥ھ بمعر ٨٠ سال آپ کا انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ایک بوڑھے آدمی (یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے پیچھے نماز پڑھی انہوں نے نماز میں بائیس (مرتبہ) تکبیرات کہیں چنانچہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ (معلوم ایسا ہوتا ہے) کہ یہ آدمی احمق ہے (جو اتنی زیادہ تکبیریں کہتا ہے) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا  تیری ماں تجھے روئے یہ طریقہ تو حضرت ابو القاسم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

چار رکعتوں میں مع تکبیر تحریمہ کے بائیس تکبیرات ہوتی ہیں۔ چونکہ اس زمانہ میں مروان اور بنی امیہ نے نماز میں تکبیریں بآواز بلند کہنی چھوڑ دی تھیں اس لیے جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تکبیرات بآواز بلند کہیں تو حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت تعجب ہوا۔

 

 

٭٭اور حضرت علی بن حسین ابن علی بطریق مرسل روایت فرماتے ہیں کہ۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے (یعنی رکوع و سجود میں جاتے) اور جب (قومہ، جلسہ اور قیام کے وقت) اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ملاقات فرمائی (یعنی وفات پائی)۔ (مالک)

 

                   رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے

 

اور حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کی سی نماز نہ پڑھاؤں؟ چنانچہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے کے مطابق) نماز پڑھائی اور صرف تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ (جامع ترمذی و ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابوداؤد نے کہا کہ یہ حدیث اس طرح صحیح نہیں ہے۔

 

تشریح

 

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب میں رفع یدین کے مسئلہ سے متعلق دو باب قائم کئے ہیں۔ ایک باب تو رفع یدین کے اثبات میں اور دوسرا باب عدم رفع یدین کے اثبات میں۔ اسی دوسرے باب میں امام موصوف نے یہ حدیث نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلے میں براء ابن عازب سے بھی حدیث منقول ہے اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اس کے تابع صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت ہے۔ نیز سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا مسلک بھی اسی حدیث کے مطابق ہے۔

البتہ امام موصوف نے پہلے باب میں عبداللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ رفع یدین کی حدیث ثابت ہے اور عدم رفع یدین کے سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث جو حنفیہ کی مستدل ہے ثابت نہیں ہے۔

بہر حال اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے کہ حنفیہ کے مسلک عدم رفع یدین کے اثبات میں اس حدیث کے علاوہ اور بہت سی احادیث و آثار وارد ہیں جن کو پہلے ذکر بھی کیا جا چکا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو (پہلے) قبلے کی طرف متوجہ ہوتے (پھر) دونوں ہاتھ اٹھاتے اور (اس کے بعد) اللہ اکبر فرماتے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے پیچھے کی چیزوں کا معجزہ کے طور پر دیکھنا

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم نے (ایک مرتبہ) ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔ آخر صف میں ایک آدمی کھڑا تھا جس نے ٹھیک طرح نماز نہیں پڑھی۔ جب اس آدمی نے سلام پھرا (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے آواز دے کر فرمایا کہ اے فلاں ! کیا تم اللہ بزرگ و برتر سے نہیں ڈرتے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے نماز کس طرح پڑھی ہے؟ تم تو یہ جانتے ہو ہو کہ جو کچھ تم کرتے ہو مجھے معلوم نہیں ہوتا حالانکہ اللہ کی قسم جس طرح میں اپنے سامنے کی چیزیں دیکھتا ہوں اسی طرح اپنے پیچھے کی چیزیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو اس دنیا میں شریعت حق دے کر مبعوث فرمایا تو جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت و نبوت کے دلائل و شواہد میں بہت ساری چیزیں دیں وہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کچھ معجزات بھی عنایت فرمائے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کے ذہن و فکر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و برتری اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سچائی و صداقت عیاں ہو سکے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس طرح اپنے سامنے اور آگے چیزوں کو دیکھ لیتے تھے ایسے ہی اپنے پیچھے کی چیزوں کو بھی دیکھنے پر قادر تھے اور یہ دیکھنا خرق عادت یعنی معجزہ کے طور پر ہوتا تھا جس کی راہنمائی الہام کے ذریعے ہوتی تھی۔

مگر اتنی بات یاد رکھ لیجئے کہ اس معجزے سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب حاصل تھا کیونکہ اول تو یہ بتایا جا چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خصوصیت صرف معجزے کے طور پر حاصل تھی۔ نیزیہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وصف پر از خود قادر نہ تھے بلکہ اس سلسلے میں وحی الہام کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رہنمائی کی جاتی تھی۔ پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ وصف ہمیشہ حاصل نہیں رہتا تھا بلکہ کبھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم غیب حاصل ہوتا تو نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وحی الہام کی راہنمائی کے بغیر از خود اس وصف پر قاد ہوتے بلکہ یہ وصف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہمیشہ ہمیشہ حاصل ہوتا چنانچہ اس کی تائید خود ایک روایت سے ہوتی ہے کہ

غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کہیں غائب ہو گئی، جب بہت زیادہ تلاش کے بعد بھی اس کا کہیں پتہ نہ چلا تو منافقین نے کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) تو یہ فرماتے ہیں کہ میں آسمان کی باتیں تم تک پہنچاتا ہوں تو کیا وہ اتنا بھی نہیں جان سکتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ کی قسم ! میں تو صرف انہیں چیزوں کو جان سکتا ہوں جن کے بارے میں میرا اللہ مجھے علم دے ! اور اب میرے اللہ نے مجھے (بتا دیا اور) دکھا دیا ہے کہ میری اونٹنی فلاں جگہ ہے اور اس کی مہار ایک درخت کی شاخ میں اٹکی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد منقول ہے کہ  میں انسان ہوں، میں تو (ا اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر) یہ بھی نہیں جانتا کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے؟

شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حقیقت کی ترجمانی اس طرح کی ہے

گہے برطارم اعلی نشینم

گہے برپشت پائے خود نہ بینم

بہر حال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت نماز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دوسری حالتوں کے مقابلے میں زیادہ افضل و اعلیٰ ہوتی تھی اس لیے دوسرے مواقع کی بہ نسبت آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر حالت نماز میں کائنات کی چیزوں کی حقیقت و معرفت کامل طور پر واضح و ظاہر ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز میں اللہ کے سامنے حاضر ہونا اور متوجہ الی اللہ ہونے کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کائنات سے بے خبر ہو جاتے تھے بلکہ نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم اشیاء کائنات سے پوری پوری طرح باخبر رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا احساس و شعور پوری قوت سے اشیائے عالم کا ادراک کرتا تھا، چنانچہ اللہ کے وہ نیک و فرمانبردار بندے بھی جو ریاضیت و مجاہدہ اور تعلق مع اللہ کی بناء پر کاملین کے درجے میں ہوتے ہیں حالت نماز میں کائنات کی اشیاء سے باخبر رہتے ہیں۔ اگر ایک طرف ان کے قلوب بارگاہ خداوندی میں پوری طرح حاضر رہتے ہیں تو دوسری طرف ان کے احساس و شعور دنیا کی چیزوں سے بھی مطلع رہتے ہیں اسی وجہ سے مشائخ فرماتے ہیں کہ نماز مقام کشف و حضور ہے نہ کہ محل غیبت اور استغراق!۔

بعض حضرات نے ان تمام مباحث سے ہٹ کر یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں کندھوں کے درمیان دو سوراخ تھے جن کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیچھے کی جانب دیکھتے تھے۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی ثبوت ہے بلکہ کسی ذہن کی افتراع محض ہے۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھی جانے والی چیزوں کا بیان

 

نماز کے شروع میں جن دعاؤں اور اذکار کا پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً انی وجھت الخ یا سبحانک اللھم الخ یا ان کے علاوہ دیگر دعائیں ان سب کو یا بعض کو فرائض و نوافل میں پڑھنا امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے ، امام اعظم، امام مالک، اور امام احمد فرماتے ہیں کہ صرف سبحانک اللہم الح پڑھا جائے اور اس کے علاوہ جو دعائیں ثابت ہیں وہ سب نوافل پر محمول ہیں یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان دعاؤں کو نفلوں میں پڑھا کرتے تھے۔

حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک سبحانک اللہم الخ اور انی وجہت الخ دونوں دعاؤں کو پڑھنا چاہئے۔ امام طحاوی نے بھی اس کو اختیار کیا ہے ان دونوں دعاؤں کی ترتیب میں نمازی کو اختیار ہے خواہ وہ پہلے سبحانک اللہم پڑھے یا انی وجہت کو پہلے پڑھ لے ویسے مشہور یہی ہے کہ انی وجہت، سبحانک اللہم کے بعد پڑھا جائے۔

 

                   تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان مکمل خاموشی اختیار کرتے تھے (یعنی بآواز بلند نہ پڑھتے تھے) چنانچہ میں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان خاموش ہوئے کیا پڑھا کرتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا  میں یہ (دعا) پڑھا کرتا ہوں۔ اَللّٰھُمَّ بَاعِدْبَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَا یَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ اَللّٰھُمَّ نَقِّنِیْ مِنَ الْخَطَایَا کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَ بْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰھُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ  اے اللہ ! مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنا فاصلہ پیدا کر دے جیسا کہ تو نے مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ پیدا کر رکھا ہے (یعنی میرے گناہوں کو کمال بخشش عطا کر) اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑے سے میل دور کیا جاتا ہے (یعنی مجھے گناہوں سے کمال پاکی عطا کر) اے اللہ ! میرے گناہ پانی ، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

دعا کے آخر جملہ (اے اللہ میرے گناہ پانی، برف اور دلوں سے دھو ڈال) سے یہ مراد ہے کہ الہ العالمین! میرے گناہوں کو اپنے فضل و کرم کے مختلف طریقوں سے بخش دے۔  گویا یہاں بخشش میں مبالغہ مقصود ہے نہ کہ حقیقۃً ان چیزوں سے گناہوں کو دھونا۔

 

                   تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کس کس موقع پر کون کون سی دعائیں پڑھتے تھے

 

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز پڑھنے کھڑے ہوتے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ، جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر (تحریمہ) کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے۔

(انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلا تی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللھم انت الملک لا الہ الا انت انت ربی وانا عبدک ظلمت نفسی و اعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی جمیعا انہ لا یغفر الذنوب الا انت واھدنی لا حسن الاخلاق لا یھدی لا حسنھا الا انت واصرف عنی سیھا لا یصرف عنی سیھا الا انت لبیک وسعدیک والخیر کلہ فی یدیک و الشر لیس الیک انا بک والیک تبارکت و تعالیبت استغفرک واتوب الیک)

ترجمہ: میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے در حالیکہ میں حق کی طرف متوجہ ہونے والا اور دین باطل سے بیزار ہوں اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو شرک کرتے ہیں، میری نماز، میری عبادت میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم کیا گیا ہے اور میں مسلمانوں (یعنی فرمانبرداروں) میں سے ہوں۔ اے اللہ ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، تو ہی میرا رب ہے اور میں تیرا ہی بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں (چونکہ تو نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اپنے گناہوں کا اعتراف و اقرار کرتا ہوا میری بارگاہ میں آئے میں اسے بخش دوں گا) لہٰذا تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں بخش سکتا اور بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں اور تیرا حکم بجا لانے پر تیار ہوں۔ تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور برائی تیری جانب منسوب نہیں کی جاتی، میں تیرے ہی سبب سے ہوں اور تیرا حکم ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں تو بابرکت ہے اور اس بات سے بلند ہے (کہ تیری ذات و صفات کی حقیقت و کنہ تک کسی عقل کی رسائی ہو سکے) میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیرے ہی سامنے توبہ کرتا ہوں۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رکوع میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ (اللھم لک رکعت وبک امنت ولک اسلمت خشع لک سمعی وبصری ومخی وعظمی وعصبی)

ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے ہی لی رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لیے اسلام لایا اور میری سماعت، میری بینائی ، میرا ذہن میری ہڈی اور میرے پٹھے جھکے ہوئے ہیں۔ اور جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم ربنا لک الحمد ملا السموت والارض وما بینھما دملا ما شت من شی بعد  اے اللہ ! رب ہمارے ! تیرے ہی لیے حمد ہے آسمانوں اور زمینوں کے برابر اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کے برابر اور اس چیز کے برابر جو بعد میں تو پیدا کرے یعنی آسمانوں اور زمین وغیرہ کے بعد اور جو معدوم چیزیں پیدا کرنا چاہئے۔ اور جب سجدہ میں جاتے تو یہ (دعا) پڑھتے۔ اللھم لک سجدت وبک امنت ولک اسلمت سجد وجھی للذی خلقہ وصورہ وشق سمعہ وبْصرۃ تبارک اللہ احسن الخالقین اے اللہ ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرے ہی لیے اسلام سے بہرہ ور ہوا، میرے منہ نے اسی ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کو پیدا کیا اس کو صورت دی، اس کے کان کھولے اور اس کی آنکھ کھولی۔ اللہ بہت بابرکت اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔  اور پھر سب سے آخری دعا جو التحیات اور سلام پھیرنے کے درمیان ہوتی یہ ہے۔ اللھم اغفرلی ما قدمت وما اخرت وما اسررت وما اعلنت وما اسرفت وما انت اعلم بہ منیٰ انت المقدم وانت الموخر لا الہ الا انت اے اللہ ! میرے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دے اور ان گناہوں کو بخش دے جو میں نے پوشیدہ اور اعلانیہ کئے ہیں اور (اس) زیادتی کو بخش دے (جو میں نے اعمال اور مال خرچ کرنے میں کی ہے) اور ان گناہوں کو بھی بخش دے جن کا علم مجھ سے زیادہ تجھ کو ہے اور تو اپنے بندوں میں سے جس کو چا ہے عزت و مرتبہ میں آگے کرنے والا اور جس کو چا ہے پیچھے ڈالنے والا ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) اور امام شافعی کی روایت میں (پہلی دعا میں یدیک) کے بعد یہ الفاظ ہیں۔ والشر لیس الیک والمہدی من ھدیت انا بک والیک لا منجا منک ولا ملجا الا الیک تبارکت  یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے اور ہدایت یافتہ وہی ہے جس کو تو نے ہدایت بخشی اور میں تیری ہی قوت کے ذریعے ہوں اور تیری طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ نہیں ہے نجات (اور بے پروائی) تیری ذات سے اور نہیں ہے پناہ مگر تیری طرف اور تو ہی بابرکت ہے۔

 

تشریح

 

والشر لیس الیک (یعنی برائی تیری طرف منسوب نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ از راہ ادب و تعظیم برائی کی نسبت تیری طرف نہیں کی جاتی اگرچہ برائی و بھلائی کا خالق تو ہی ہے اگر تو نے ایک طرف بھلائی کو پیدا کیا ہے تو دوسری طرف برائی کی بھی تخلیق کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر حق تعالیٰ نے برائی کو پیدا کیا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر کوئی قباحت و برائی ہے تو وہ بندہ کے ارتکاب میں ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ من شر ماخلق یعنی میں مخلوق کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ والشر لیس الیک کے معنی یہ ہیں کہ برائی وہ چیز ہے جو تیرے تقرب اور تیری خوشنودی کے حصول کا ذریعہ نہیں ہے یا یہ کہ برائی تیری طرف صعود نہیں کرتی تیری بارگاہ میں قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ بھلائی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ الیہ یصعد الکلم الطیب یعنی (اس پروردگار) کی طرف نیک و پاکیزہ باتیں صعود کرتی ہیں یعنی مقبولیت کا درجہ پاتی ہیں)۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ایک آدمی آیا اور نماز کی صف میں شامل ہو گیا۔ اس کا سانس چڑھا ہوا تھا اس نے کہا اللہ اکبر، الحمد اللہ حمد طیبا مبارکا فیہ (یعنی اللہ بہت بڑا ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ایسی تعریفیں جو بہت زیادہ پاکیزہ اور بابرکت ہیں) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھ چکے تو پوچھا کہ تم میں سے یہ کلمات کس نے کہے تھے؟ سب لوگ (جو نماز میں حاضر تھے اس خوف سے کہ شاید ہم سے کوئی خطا سرزد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار ہے) خاموش رہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے؟ پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر (تیسری مرتبہ) فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ کلمات کہے تھے (اور خوف نہ کرو کیونکہ) جس نے یہ کلمات کہے تھے اس نے کوئی بری بات نہیں کی ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے جلدی کر رہے تھے کہ ان کلموں کو (پروردگار کی بارگاہ میں) پہلے کون لے جائے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے استفسار پر جو یہ کہا کہ جب میں آیا تو میرا سانس چڑھا ہوا تھا اور میں نے یہ کلمات کہے تھے تو اس کا یہ کہنا بیان حقیقت اور اظہار واقعہ کے طور پر تھا۔ ان کلمات کے کہنے کے سلسلہ میں کسی عذر کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔

 

                   تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو (تکبیر تحریمہ کے بعد) یہ پڑھا کرتے تھے۔ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَ تَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکْ اللہ تو پاک ہے اور ہم تیری پاکی تیری تعریف کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔تیرا نام بابرکت ہے ، تیری شان بلند و برتر ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کی ہے نیز ابن ماجہ نے (بھی) اس روایت کو ابو سعید سے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم سوائے (بواسطہ) حارثہ راوی کے نہیں جانتے اور اس میں قوت حافظہ کے فقدان کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے۔

 

تشریح

 

علامہ طیبی شافعی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث حسن مشہور ہے اور اس حدیث پر خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمل کیا ہے نیز یہ حدیث مسلم میں بھی منقول ہے۔ اس موقعہ پر علامہ موصوف نے اس حدیث کی تقویت کے بارے میں بہت لمبی چوڑی بحث کی ہے جسے اہل علم و نظر ان کی کتاب میں دیکھ سکتے ہیں۔

 

 

 

٭٭اور حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے چنانچہ آپ (تکبیر تحریمہ کے بعد، کہتے تھے اَﷲ اَکْبَرُ کَبِیْراً اَﷲ اَکْبَرُ کَبِیْراً اللہ اَکْبَرُ کَبِیْراً وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ اﷲ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا (یعنی اللہ بہت بڑا و برتر ہے اللہ بہت بڑا و برتر ہے ، اللہ بہت بڑا و برتر ہے ، اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے۔ اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے میں اور پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی صبح و شام، تین مرتبہ پہلے کلمات کی طرح وَسُبْحَانَ اﷲ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا کو بھی تین مرتبہ کہتے تھے اور پھر اس کے بعد یہ کہتے تھے) اَعُوْذُ بِاﷲ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہٖ وَنَفَثِہٖ وَھَمَزِہٖ (یعنی شیطان کے تکبر، اس کے شعروں اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں، اس حدیث کو ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ نے نقل کیا ہے البتہ ابن ماجہ نے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا ذکر نہیں کیا ہے اور آخر میں مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ذکر کیا ہے۔

نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے کہ شیطان کے نفخ سے تکبر، اس کے نفث سے شعر اور اس کے ہمز سے جنون مراد ہے۔

 

 

تشریح

 

نفح شیطان سے مراد تکبر و خود پسندی ہے جس میں شیطان آدمی کو اس طرح پھنساتا ہے کہ اس کو خود اس کی نظر میں اس حیثیت سے دکھاتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اچھا اور اعلیٰ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اس طرح شیطان آدمی سے تکبر کا ارتکاب کراتا ہے۔ گویا نفح شیطان کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان آدمی میں تکبر کی لہر پھونک دیتا ہے۔

نفث سے جس کے معنی دم کرنے یعنی پھونکنے کے ہیں سحر مراد لیا گیا ہے جو شیطان آدمی پر کرتا ہے یا آدمی سے کسی دوسرے پہ کراتا ہے یہ معنی ارشاد ربانی آیت (وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ)  سورۃ الناس) کی مناسبت سے زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نَفّٰثٰتِ سے مراد سحر کرنے والی عورتیں ہیں۔

بعض حضرات نے کہا ہے کہ  نفثت سے مراد غیر سنجیدہ اور برے مضمون کے اشعار ہیں جنہیں شیطان آدمی کے تخیل میں ڈالتا ہے اور پھر انہیں اس کی زبان سے صادر کراتا ہے جیسے برے منتر یا وہ غلط اشعار جن میں مسلمانوں کی ہجو اور کفر و فسق کے الفاظ ہوتے ہیں۔  ھمز سے مراد غیبت کرنا اور لعن و طعن کرنا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہمز شیطان سے اس کا وسوسہ مراد ہے جیسا کہ اس آیت (وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ ہمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ) 23۔ المومنون: 67) میں ہمزات سے مراد شیطان کے وسوسے لیے گئے ہیں۔

بہر حال یہ معانی اسی وقت مراد لیے جائیں گے جب کہ یہ ثابت ہو جائے کہ حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان تینوں الفاظ کی جو توضیح نقل کی گئی ہے وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اگر یہ توضیح صحیح طور پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہو تو پھر وہی معنی مراد ہوں جو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے معنی مراد نہیں لیے جائیں گے۔

 

 

                   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں دو جگہ خاموشی اختیار کرتے تھے

 

اور حضرت سمرۃ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے دو سکتے (یعنی چپ رہنا) یاد رکھے ہیں۔ ایک سکتہ تو تکبیر تحریمہ کہہ لینے کے بعد اور ایک سکتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت کرتے تھے جب آیت (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ) پڑھ کر فارغ ہوتے تھے۔ حضرت ابی ابن کعب نے (بھی سمرہ کے) اس قول کی تصدیق کی ہے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

تکبیر تحریمہ کے بعد خاموشی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت بآواز بلند نہیں پڑھتے تھے چنانچہ اس موقعہ پر دعائے استفتاح (یعنی سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ الخ) پڑھنے کے لیے خاموشی اختیار کرنا تمام آئمہ کے نزدیک متفق علیہ مسئلہ ہے۔ دوسری جگہ یعنی سورہ فاتحہ ختم کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک سنت ہے تاکہ مقتدی اس عرصے میں سورہ فاتحہ پڑھ لیں اور امام کے ساتھ منازعت لازم نہ آئے جو ممنوع ہے حنفیہ اور مالکیہ مسلک میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموشی اختیار کرنا مکروہ ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب دوسری رکعت پڑھنے کے بعد اٹھتے تو الحمد اللہ رب العالمین شروع کر دیتے تھے اور خاموش نہ رہتے تھے (صحیح مسلم) اس روایت کو حمیدی نے اپنی کتاب افراد میں ذکر کیا ہے۔ نیز صاحب جامع الاصول نے بھی اس روایت کو مسلم سے نقل کیا ہے۔

 

 

تشریح

 

چونکہ یہ وہم ہو سکتا تھا کہ دوسری رکعت کے بعد دوسرا شفعہ شروع ہونے کے وقت شاید سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ پڑھنے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہوں اس لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوسری رکعت کے بعد دوسرے شفعہ کے لیے اٹھتے تھے تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ نہیں پڑھتے تھے بلکہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ شروع کر دیتے تھے۔ یہ بھی محتمل ہے کہ اس کے معنی یہ ہوں کہ جب آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ کر دیتے تھے۔ و اللہ اعلم۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز شروع کرتے تو (پہلے) تکبیر تحریمہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے پھر یہ دعا پڑھتے اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہ، وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَ عْمَالِ وَاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَا یَھْدِیْ لِاَ حْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَقِنِیْ سَیِّئَ الْاَعْمَالِ وَسَیِّئَ الْاَ خْلَاقِ لَا یَقِیْ سَیِّئَھَا اِلاَّ اَنْتَ میری نماز میری عبادت میری زندگی اور میری موت (سب کچھ) پروردگار عالم ہی کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان (یعنی فرمانبردار) ہوں۔ اے اللہ ! نیک اعمال اور حسن اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ بہترین اعمال و اخلاق کی طرف تو ہی رہنمائی کر سکتا ہے اور مجھے برے اعمال و بد اخلاقی سے بچا کیونکہ برے اعمال و اخلاق سے تو ہی بچا سکتا ہے۔ (سنن نسائی)

 

تشریح

 

اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ (یعنی میں سب سے پہلا مسلمان ہوں) کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ خصوصیت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی حاصل ہے کہ سب سے پہلا اسلام آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے کیونکہ پیغمبر اپنی امت میں سب سے پہلا مسلمان ہوتا ہے چونکہ قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے یہ بات کہ وہ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنْ کہنا درست نہیں ہے بلکہ ایک قسم کو جھوٹ ہو گا چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اگر کوئی آدمی نماز میں اس طرح کہے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں صحیح یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو آیت قرآن کی تلاوت کی نیت سے نہ کہ اپنی حالت کی خبر دینے کی نیت سے ادا کرے تو نماز فاسد نہیں ہو گی۔

اس مسئلے میں ایک خیال یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی اس جملے کو  خبر قرار نہ دے بلکہ اس کا مقصد تجدید ایمان و اسلام کی انشاء اور اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ امراء و سلاطین کے تابعدار لوگ کسی حکم کے صادر ہونے کے وقت کہتے ہیں کہ  جو بھی حکم ہو اس کی اطاعت پہلے جو کرے گا وہ میں ہوں گا۔ گویا اس طرح اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ و سلم جب نماز نفل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ کہتے اﷲ اَکْبَرُ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ترجمہ: اللہ بہت بڑا ہے۔ میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے در حالیکہ میں توحید کو ماننے والا ہوں اور مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ (اس کے بعد راوی نے) حضرت جابر (کی مذکورہ بالا حدیث) کی مانند حدیث بیان کی ہے لیکن محمد نے (وَ اَنَا اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ کی جگہ) وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کے الفاظ ذکر کئے ہیں۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الْمٰلِکُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ اے اللہ ! تو ہی بادشاہ ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے اور تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ اس کے بعد (تعوذ و بسملہ پڑھ کر) قرأت کرتے تھے۔ (سنن نسائی)