FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

                   غسل کا بیان

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی عورت کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے پھر کوشش کرے (یعنی جماع کرے ) تو اس پر غسل واجب ہو گیا، اگرچہ منیٰ نہ نکلے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عورت کی چار شاخوں  سے مراد اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ہیں ، یا اس سے مراد عورت کے دونوں پیر اور فرج (شرم گاہ) طرفین ہیں۔ یہ جملہ عورت کے پاس جماع کے لیے جانے اور صحبت کرنے کی بلیغ تعبیر ہے ، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شرم و حیا کے انتہائی بلند مقام پر تھے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صورت مسئلہ کی وضاحت کے لیے الفاظ کے کنایا کا سہارا لیا ہے کھلے طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی تشریح  نہیں فرمائی ہے۔

بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی عورت کے پاس جماع کے لیے گیا اور اس نے جماع کیا تو محض حشفہ داخل کرنے سے اس پر غسل واجب ہو جائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ خلفائے راشدین اور اکثر صحابہ نیز چاروں اماموں کا یہی مسلک ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  پانی پانی سے ہے (یعنی منیٰ نکلنے غسل واجب ہو جاتا ہے ) (صحیح مسلم) اور امام محی السنہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ  پانی پانی سے ہے کا حکم احتلام کے لیے ہے۔ (جامع ترمذی) اور مجھے یہ روایت صحیح البخاری و صحیح مسلم میں نہیں ملی ہے۔

 

تشریح

 

اس ارشاد کے اسلوب پر بھی غور کیجئے تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ایک طرف تو احکام شریعت کی تعلیم کی ذمہ داری ہے اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم شرم و حیا کے انتہائی بلند و بالا مقام پر فائز ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا اسلوب اختیار فرماتے ہیں کہ مسئلہ کی وضاحت بھی ہو جائے اور شرم و حیا کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو کنا یۃ مسئلہ کی وضاحت کر رہے ہیں۔

بہر حال اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک انزال نہ ہو یعنی منیٰ نہ نکلے غسل واجب نہیں ہوتا مگر ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ غسل محض دخول حشفہ سے واجب ہو جائے خواہ انزال ہو یا نہ ہو، اس طرح ان دونوں حدیثوں میں تعارض پیدا ہو گیا ہے۔

چنانچہ اسی تعارض کو دفع کرنے کے لیے حضرت امام محی السنۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ قول مصنف مشکوۃ نقل فرما رہے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہے۔ یعنی یہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت سے منسوخ قرار دیا گیا ہے جس میں منقول ہے کہ یہ آسانی ابتداء اسلام میں تھی (کہ جب تک انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا تھا) پھر بعد میں اس حکم کو منسوخ قرار دیا گیا۔

حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی فرمایا ہے کہ اسی طرح بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہ اقوال منقول ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دے کر یہ حکم نافذ کیا گیا کہ جب مرد کا ذکر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو اور ختنین مل جائیں تو غسل واجب ہو جائے گا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث ایک دوسری توجیہہ بیان فرما رہے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم احتلام کے بارے میں ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس کا ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ محض خواب دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا بلکہ سو کر اٹھنے کے بعد اگر کپڑے وغیرہ پر منیٰ کی تری دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جائے گا۔ گویا حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس توجیہ کے پیش نظر اس حدیث کو منسوخ ماننے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث مطلق ہے یعنی اس حکم کا تعلق احتلام سے بھی تھا اور غیر احتلام سے بھی، مگر یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا۔

 

 

 

٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت ام سلیم (آپ کے نام میں بہت زیادہ اختلاف ہے کچھ علماء نے سلمہ کچھ نے رملہ اور بعض نے ملیکہ لکھا ہے بہر حال حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ محترمہ ہیں۔) نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ، اللہ تعالیٰ حق کے معاملہ میں حیا نہیں کرتا (لہٰذا یہ بتائیے کہ) عورت پر غسل واجب ہے جب کہ اس کو احتلام ہو۔ (یعنی خواب میں مجامعت دیکھے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہاں ! جب کہ وہ پانی (منی) کو دیکھے یہ سن کر ام سلمہ نے اپنا منہ (شرم کی وجہ سے ) ڈھانک لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ (یعنی کیا مرد کی طرح عورت کے بھی منیٰ ہوتی ہے اور نکلتی ہے؟ آپ نے فرمایا  ہاں ! خاک آلودہ ہو تیرا داہنا ہاتھ (اگر ایسا نہ ہوتا تو) پھر اس کا بچہ اس کے مشابہ کیونکر ہو سکتا تھا۔ اور امام مسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا، مرد کی منیٰ گاڑھی سفید ہوتی ہے اور عورت کی منیٰ پتلی زرد ہوتی ہے لہٰذا ان میں جو منیٰ غالب ہو یا سبقت کرے تو (بچہ کی) مشابہت اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔

 

تشریح

 

چونکہ مسئلہ ذرا نازک اور عرفاً خلاف شرم و حیا تھا اس لیے ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پہلے تمہید کے طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ حق کہنے میں حیا نہیں کرتا یعنی اللہ نے اس سے منع کیا ہے کہ حق بات پوچھنے میں شرم و حیا کیا جائے ، پھر اس کے بعد انہوں نے اصل مسئلہ دریافت کیا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب ما مطلب یہ ہے کہ محض مجامعت کا خواب دیکھ لینے سے ہی غسل واجب نہیں ہو جاتا جب تک انزال نہ ہو یا صبح اٹھنے کے بعد اس کی کوئی علامت نہ پائے یعنی سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے یا بدن پر منیٰ دیکھی جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔

خاک آلود ہو تیرا داہنا ہاتھ یہ شدت فقر سے کنایہ ہے گویا یہ ایک قسم کی بدعا ہے۔ لیکن اس کا استعمال حقیقی معنی میں نہیں بلکہ ایک ایسا جملہ ہے جو اہل عرب کے یہاں تعجب کے وقت بولتے ہیں ، اس طرح اس جملہ کے معنی یہ ہوں گے کہ  ام سلمہ! بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہہ رہی ہو؟ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتیں کہ اگر عورت کے منیٰ نہ ہوتی تو پھر اکثر بچے جو اپنی ماں کے مشابہ ہوتے ہیں وہ کس طرح ہوتے؟ مرد کی منیٰ کی طرح عورت کی بھی منیٰ ہوتی ہے اور پھر دونوں کی منیٰ سے بچہ کی تخلیق ہوتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منیٰ کے جو رنگ بیان کئے ہیں وہ اکثر کے اعتبار سے ہے ، یعنی اکثر و تندرست و صحت مند عورت کی منیٰ کے رنگ ایسے ہوتے ہیں ، کیونکہ بعض مردوں کی منیٰ کسی مرض کی بنا پر پتلی یا کثرت مباشرت کی وجہ سے سرخ ہوتی ہے ، اس طرح بعض عورتوں کی منیٰ قوت و طاقت کی زیادتی کی وجہ سے سفید بھی ہوتی ہے۔

حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مباشرت کے وقت اگر مرد اور عورت دونوں کی منیٰ ساتھ ہی گر کر رحم مادہ پر پہنچے تو دونوں میں سے جس کی منیٰ بھی غالب ہو گی یا ان دونوں سے جس کی منیٰ سبقت کرے گی یعنی ایک دوسرے سے پہلے گر کر رحم مادر میں پہنچے گی بچہ اسی کے مشابہ ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم جب غسل جنابت (یعنی ناپاکی کو دور کرنے کے لیے غسل) کا ارادہ فرماتے تو (غسل) اس طرح شروع فرماتے کہ پہلے اپنے دونوں ہاتھ(پہنچوں تک) دھوتے پھر وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے پھر انگلیاں (تر ہونے کے لیے ) پانی میں ڈالتے پھر انہیں نکال کر ان (انگلیوں کی تری) سے اپنے بالوں کی جڑوں میں خلال فرماتے پھر دونوں ہاتھوں سے تین چلو (پانی لے کر) سر پر ڈالتے اور پھرا پنے تمام بدن پر پانی بہاتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل) شروع کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ کو دھوتے اور اس کے بعد وضو کرتے۔

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے غسل کے طریقہ کو بتا رہی ہیں کہ جب آپ ناپاکی دور کرنے کے لیے غسل فرماتے تو اس کا طریقہ کیا ہوتا تھا؟ چنانچہ آپ فرما رہی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل شروع کرتے تو سب سے پہلے پہنچوں تک اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوتے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی طرح وضو فرماتے جیسے کہ نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے ، یعنی اگر آپ کسی ایسی جگہ غسل فرماتے کہ جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہیں ہوتا مثلاً کسی تخت یا پتھر پر کھڑے ہو کر نہاتے تو وہ پورا وضو فرماتے اور اگر کسی ایسی جگہ نہاتے جہاں کوئی گڑھا وغیرہ ہوتا کہ اس کی وجہ سے پاؤں کے پاس پانی جمع رہتا تھا تو اس شکل میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کے وقت پاؤں نہیں دھوتے بلکہ غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے ہٹ کر پیر دھوتے تھے۔ جیسا کہ اس کے بعد آنے والی حدیث سے وضاحت ہو رہی ہے۔ چنانچہ ہدایہ میں بھی لکھا ہے کہ اسی طرح کرنا چاہئے یعنی اگر غسل کے وقت پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو مکمل کرنا چاہیے اور اگر پاؤں کے پاس پانی جمع ہوتا ہو تو پھر اس وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل سے فارغ ہو کر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر پیر دھوئے جائیں۔

اس جگہ نکتہ کے طور پر یہ بھی سن لیجئے کہ طبرانی کی روایت ہے کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو کبھی احتلام نہیں ہوا اور نہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو احتلام ہوا تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ  میں نے سرکار دو عالم کے غسل کے واسطے پانی رکھا اور کپڑا ڈال کر پردہ کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈال کر انہیں دھویا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور شرم گاہ کو دھویا۔ پھر اپنا بایاں ہاتھ جس سے شرم گاہ کو دھویا تھا، زمین پر رگڑا اور اسے دھویا، پھر کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ و ہاتھوں کو (کہنیوں تک) دھویا، پھر اپنے سر پر پانی ڈالا اور تمام بدن پر بہایا پھر (جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل فرمایا تھا) اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے (بدن پونچھنے کے لیے ) کپڑا دیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کپڑا نہیں لیا اور پھر ہاتھ جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم الفاظ صحیح البخاری کے ہیں )

 

تشریح

 

اس حدیث سے اس بات کی وضاحت ہو گئی کہ اگر غسل ایسی جگہ کیا جائے جہاں پاؤں رکھنے کی جگہ پانی جمع ہوتا ہو تو وضو کے وقت پاؤں نہ دھوئے جائیں بلکہ غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پاؤں دھو لیے جائیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کے بعد وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ پر اس لیے دھوئے تھے کہ غسل کے وقت وضو میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پاؤں نہیں دھوئے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کسی پتھر، تخت یا بلند جگہ پر نہیں کیا ہو گا جس کی وجہ سے پیروں میں پانی جمع ہوتا ہو گا۔

غسل کے بعد جب حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بدن پونچھنے کے لیے کپڑا پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لینے سے انکار فرما دیا اس کے کئی احتمال علماء نے لکھے ہیں چنانچہ ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کپڑا لینے سے اس لیے انکار فرما دیا ہو کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن کو نہ پونچھنا ہی افضل تھا یا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی جلدی میں جا رہے ہوں گے ، اس لیے یہ سوچ کر کہ کپڑے سے بدن پونچھنے میں دیر ہو گئی کپڑا نہیں لیا۔ یا یہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت گرمی کا موسم تھا اس لیے نہانے کے بعد پانی کی تری چونکہ اچھی اور بھلی معلوم ہو رہی تھی ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کو بدن سے پونچھنا پسند نہ فرمایا ہو، یا پھر یہ وجہ رہی ہو گی کہ اس کپڑے میں گندگی وغیرہ لگنے کا شبہ ہو گا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے واپس فرما دیا۔

بہر حال جو بھی صورت حال رہی ہو مگر کپڑے کو واپس کرنا کسی عذر اور سبب ہی کی بنا پر تھا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط نہیں کیا جا سکتا کہ غسل وغیرہ کے بعد بدن پر لگے ہوئے پانی کو نہ پونچھنا ہی سنت ہے یا یہ کہ پونچھنا مکروہ ہے۔

ہاتھ جھٹکنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام طور پر طاقتور اور صحت مند و توانا لوگ چلتے ہوئے ہاتھ ہلاتے چلتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے تشریف لے گئے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ (ایک دن) ایک انصاری عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے غسل حیض کے بارے میں پوچھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے غسل کا حکم دیا کہ کس طرح غسل کیا جائے۔  (یعنی پہلی حدیثوں میں غسل کی جو کیفیت گزری ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ بیان فرمائی، اور پھر فرمایا کہ مشک میں (بھگوئے ہوئے کپڑے ) کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ اس نے پھر پوچھا کہ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سبحان اللہ (یعنی اللہ پاک ہے )۔ تم اس سے پاکی حاصل کرو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے انہیں الفاظ کو بار بار سن کر) میں نے اس عورت کو اپنی جانب کھینچ لیا اور اس سے کہا کہ  (تم اس کپڑے کو) خون کی جگہ (یعنی شرم گاہ پر) رکھ لو!۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس قسم کے مسائل جہاں آ رہے ہیں۔ وہاں آپ حدیث کا اسلوب دیکھ رہے ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایسے مسائل کو کس انداز سے بیان فرماتے ہیں ، بات وہی ہے کہ ایک طرف تو مسائل شرعیہ کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کاندھوں پر ہے جس میں شرم و حیا کی وجہ سے کسی اخفاء کی گنجائش نہیں ہے دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم و حیا کے وہ فطری تقاضے ہیں جو خلاف ادب و تہذیب جملوں کی ادائیگی میں حائل ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان مسائل کے بیان میں ایسی راہ اختیار کرتے ہیں جو شرم و حیا کے دائرے سے سرمو متجاوز نہیں ہوتی اور مسائل کی وضاحت بھی حتی الامکان ہو جاتی ہے۔

اب آپ یہیں دیکھئے کہ ایک سائلہ عورتوں کے مسئلے کی وضاحت چاہتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے جواب دیتے ہیں اور پھر اس سلسلے میں نظامت و لطافت کے ایک خاص طریقہ کی طرف اس کی راہنمائی فرمانا چاہتے ہیں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اشاروں اشاروں میں اسے سمجھا رہے ہیں ، سائلہ زیادہ سمجھ کا ثبوت نہیں دیتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دوبارہ اپنے جملوں کو دہراتے ہیں تاکہ وہ سمجھ جائے مگر وہ مزید وضاحت چاہتی ہے تو آپ پھر انتہائی تعجب سے فرماتے ہیں کہ  سبحان اللہ ! تم اس سے پاکی حاصل کرو۔ یعنی تعجب کی بات ہے کہ تم اتنے سیدھے سادھے اور ظاہر مسئلہ کو نہیں سمجھ پا رہی ہو۔ یہ کوئی ایسا باریک مسئلہ نہیں ہے ، کوئی خاص نکتہ نہیں ہے جسے سمجھنے میں اعلیٰ غور و فکر کی ضرورت ہو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس وقت ذکاوت و ذہانت کا بہترین ثبوت دیتی ہیں ، انہوں نے تاڑ لیا کہ ادھر تو عورت آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مقصد اور مطلب تک پہنچ نہیں پا رہی ہے۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم و حیا اس سے آگے بڑھ کر مزید وضاحت کی اجازت نہیں دیئے جا رہی ہے ، چنانچہ آپ اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد وضاحت کے ساتھ سمجھاتی ہیں۔

حدیث کے الفاظ خذی فرصۃ من مسک فتطھری میں لفظ مسک میم کے زیر کے ساتھ ہے جس کے معنی  مشک کے ہیں ، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مشک کا ایک بڑا ٹکڑا یا مشک میں بھیگے ہوئے یا رنگے ہوئے کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔ ایک روایت میں میم کے زبر کے ساتھ بھی آیا ہے جس کے معنی چمڑے کے ہیں۔ لیکن روایت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے میم کے زیر کے ساتھ یعنی مشک کے معنی زیادہ بہتر اور اولیٰ ہیں۔

 

 

٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) !میں ایک عورت ہوں اپنے سر کے بال بہت مضبوط گوندھتی ہوں ، کیا صحبت کے بعد نہانے کے واسطے انہیں کھولا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں ! بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں یہی کافی ہے کہ تین لپٹیں پانی لے کر اپنے سر پر ڈال لیا کرو اور پھر سارے بدن پر پانی بہا لیا کرو، پاک ہو جاؤ گی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث کے سلسلے میں صحیح قول یہ ہے کہ حدیث کا مذکورہ بالا حکم صرف عورتوں کے لیے ہے ، چنانچہ غسل کے وقت اگر بال گندھے ہوئے ہوں اور سر پر پانی اس طرح ڈالا جائے کہ بالوں کی جڑیں بھیگ جائیں تو یہ کافی ہے ، بالوں کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر یہ جانے کے بالوں کو کھولے بغیر جڑیں نہیں بھیگیں گی تو پھر اس صورت میں بالوں کو کھولنا ضروری ہو گیا۔ مردوں کو ہر صورت میں بال کھول لینے چاہئیں۔

 

 

٭٭حضرت انس راوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مد (پانی) وضو فرماتے اور ایک صاع سے پانچ مد تک (پانی سے ) غسل فرما لیتے تھے (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مد ایک پیمانے کا نام ہے جس میں تقریباً ایک سیر اناج آتا ہے اور صاع پیمانہ کا نام ہے جس میں تقریباً چار مد یعنی چار سیر کے قریب اناج آتا ہے۔ یہاں مد اور صاع سے پیمانہ مراد نہیں ہے بلکہ وزن مراد ہے ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تقریباً ایک سیر پانی سے وضو فرماتے تھے اور چار سیر اور زیادہ سے زیادہ پانچ سیر غسل پر صرف فرماتے تھے ، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو اور تقریباً چار سیر پانی سے غسل کیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی کی یہ مقدار اور وزن واجب کے درجہ میں نہیں ہے لیکن یہ سنت ہے کہ وضو اور غسل کے لیے پانی اس مقدار سے کم نہ ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کے پانی کی مقدار بعض روایتوں میں دو تہائی مد اور بعض روایتوں میں آدھا مد منقول ہے لہٰذا اس حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم کا محل یہ قرار دیا جائے گا کہ آپ اکثر و بیشتر ایک ہی مد سے وضو فرماتے تھے مگر کبھی کبھی اس سے کم مقدار پانی میں بھی وضو فرما لیتے تھے ، جیسا کہ ان بعض روایتوں میں منقول ہے۔.

 

 

 

٭٭اور حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھی ں کہ  میں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی برتن جو دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا، نہاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم (پانی لینے میں ) مجھ سے جلدی کرتے تھے تو میں کہا کرتی تھی  میرے لیے تو پانی چھوڑیئے ، میرے لیے بھی تو پانی رہنے دیجئے۔ حضرت معاذہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ دونوں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جنبی (یعنی ناپاکی) کی حالت میں ہوتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

جس برتن سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مشترکہ طور پر غسل فرماتے تھے وہ ایک طشت کی قسم سے تھا جس میں تین صاع تقریباً بارہ سیر پانی سماتا تھا، غسل کے وقت یہ دونوں اس میں ہاتھ ڈال ڈال کر پانی نکالتے اور اس سے نہاتے ، حدیث کے الفاظ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم(پانی لینے میں ) جلدی کرتے تھے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نہانے سے پہلے تھوڑے سے پانی سے نہا لیتے تھے اور بقیہ پانی چھوڑ دیتے تھے ، جس سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نہاتی تھی ں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا برتن دونوں کے درمیان رکھا رہتا تھا اور دونوں اکٹھے اس سے نہاتے تھے۔ حدیث کے آخری جملے  وہ دونوں حالت ناپاکی میں ہوتے تھے کہ تحت ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس پانی میں جنبی ہاتھ ڈالے وہ پانی طاہر و مطہر ہے جنبی خواہ مرد ہو یا عورت۔

امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کرام کا یہ قول ہے کہ اگر محدث (بے وضو) جنبی (جس پر غسل واجب ہو) اور حائض (حیض والی عورت) کے ہاتھ پاک ہوں اور وہ برتن میں چلو بھرنے کے لیے ہاتھ ڈالیں تو پانی مستعمل (یعنی ناقابل استعمال) نہیں ہوتا۔ کیوں کہ برتن سے پانی نکالنے کے لیے وہ اس طریقے کے محتاج ہیں۔ چنانچہ امام موصوف اپنے اس قول کی دلیل میں یہی حدیث پیش کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ  اس کے برخلاف اگر جنبی پانی کے برتن میں اپنا پاؤں یا سر ڈالے تو پھر پانی نا قابل استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اسے کوئی مجبوری نہیں ہے اور نہ اسی طریقہ کی ضرورت ہے۔

 

 

٭٭حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آدمی کے بارے میں سوال کیا گیا جو (سو کر اٹھنے کے بعد کپڑے پر منیٰ کی) تری محسوس کرے اور خواب (احتلام) اسے یاد نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ  نہانا چاہئے ! اور ایسے آدمی کے بارے میں بھی پوچھا گیا جسے (سو کر اٹھنے کے بعد) احتلام تو یاد ہو مگر تری معلوم نہیں ہوتی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس پر غسل واجب نہیں ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا اگر عورت بھی یہی (تری) دیکھے تو اس پر غسل واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہاں عورتیں بھی مردوں ہی کی مثل ہیں۔ (ترمذی ، ابوداؤد اور دارمی و ابن ماجہ نے اس حدیث کو  لا غسل علیہ (اس پر غسل واجب نہیں تک نقل کیا ہے۔)

 

تشریح

 

سوال یہ تھا کہ مثلاً ایک آدمی ہے وہ سو کر اٹھا اس نے کپڑے پر یا بدن پر منیٰ یا مذی لگی ہوئی ہے مگر اسے کوئی ایسا خواب یاد نہیں ہے کہ اس نے نیند میں کسی سے مباشرت کی ہو جس کی وجہ سے یہ احتلام ہوا ہے تو کیا ایسے آدمی پر غسل واجب ہو گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ اسے نہانا چاہئے ! گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ غسل کے وجوب کا دارومدار منیٰ یا مذی کی تری پر ہے خواب کے یاد رہنے نہ رہنے پر نہیں ہے۔

حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ پیدائش اور طبائع کے اعتبار سے عورتیں چونکہ مردوں ہی کی مانند ہیں اس لیے مرد کی طرح اگر عورت بھی جاگنے کے بعد اپنے کپڑے اور بدن پر تری محسوس کرے تو اس پر بھی غسل واجب ہو گا۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ محض تری دیکھ لینے سے غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ اس بات کا یقین نہ ہو کہ منیٰ کود کر نکلی ہے چنانچہ تابعین کی ایک جماعت اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہی منقول ہے۔

اکثر علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ غسل اس وقت تک واجب نہیں ہو گا جب تک یہ جانے کہ کہ منیٰ کود کر نکلی ہے ، اگر یہ جانے کہ منیٰ کود کر نکلی ہے ، تو غسل واجب ہو جائے گا ورنہ بصورت دیگر غسل واجب تو نہ ہو گا مگر احتیاطا غسل کر لینا مستحب ہو گا۔

اس موقع پر ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ مرد و عورت ایک ہی بستر پر اکٹھے سوئے ، جب وہ سو کر اٹھے تو انہوں نے بستر پر منیٰ کی تری محسوس کی۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ یہ کس کی منیٰ کی تری ہے تو اس صورت میں دونوں میں سے کس پر غسل واجب ہو گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس شکل میں یہ دیکھا جائے گا کہ منیٰ کا رنگ کیسا ہے؟ اگر وہ سفید ہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ مرد کی ہے لہٰذا مرد پر غسل واجب ہو گا۔ اور اگر رنگ زرد ہے تو پھر غسل عورت پر واجب ہو گا۔ مگر احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مرد و عورت دونوں ہی غسل کر لیں۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جب مرد کے ختنے کی جگہ عورت کے ختنے کی جگہ تجاوز کر جائے (یعنی حشفہ غائب ہو جائے تو (دونوں پر) غسل واجب ہو جائے گا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

ختان اس جگہ کو کہتے ہیں جسے ختنہ کرتے وقت کاٹتے ہیں جو مرد کے عضو تناسل کے آگے ایک کھال ہوتی ہے اور عورت کی شرم گاہ پر مرغ کی کلغی کی طرح ابھرا ہوا ایک حصہ ہوتا ہے لہٰذا فرمایا جا رہا ہے کہ جب ختنین مل جائیں اور حشفہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے تو غسل واجب ہوتا ہے ، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  ہر بال کے نیچے (جڑ میں ) جنابت ہوتی ہے لہٰذا بالوں کو (خوب) دھویا کرو اور بدن کو پاک کیا کرو۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، ابن ماجۃ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ اس حدیث کا ایک راوی حارث ابن وجیہ ایک بوڑھا آدمی ہے وہ معتبر نہیں (یعنی کبر سنی اور غلبہ نسیان کی وجہ سے ) اس کی روایت قابل اعتماد یعنی قوی نہیں ہے بلکہ ضعیف ہے )

 

تشریح

 

اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ غسل جنابت میں سر کے بالوں کو اچھی طرح دھویا جائے تاکہ پانی بالوں کی جڑ میں پہنچ جائے اس لیے اگر پانی بالوں کی جڑ تک نہیں پہنچے گا تو پاکی حاصل نہیں ہو گی، چنانچہ کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک بال کے نیچے کی بھی جگہ خشک رہ جائے گی تو غسل ادا نہ ہو گا۔

بالوں کے ساتھ ساتھ بدن کو بھی اچھی طرح دھونے کا حکم دیا جا رہا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ نہانے کے وقت بدن کو خوب اچھی طرح مل کر میل وغیرہ کو صاف کرنا چاہئے اور پورے بدن پر پانی اس طرح بہانا چاہئے کہ بدن کا کوئی حصہ بھی خشک نہ رہ جائے کیونکہ اگر بدن پر خشک مٹی، آٹا یا موم وغیرہ لگا رہا اس کے نیچے پانی نہ پہنچا تو ناپاکی دور نہ ہو گی۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جس نے غسل جنابت میں ایک بال کے برابر بھی جگہ (خشک) چھوڑ دی کہ اسے نہ دھویا تو اسے اس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا  حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی (کہ منڈا ڈالا) تین مرتبہ یہی کہا۔  (سنن ابوداؤد، مسند احمد بن حنبل، دارمی) مگر احمد بن حنبل نے یہ الفاظ  اسی وجہ سے میں نے اپنے سر سے دشمنی کی  مکرر ذکر نہیں کئے ہیں۔)

 

تشریح

 

یہ حدیث مزید وضاحت کے ساتھ اوپر کی حدیث کی تائید کر رہی ہے اور غسل جنابت میں بالوں کے سلسلے میں غفلت برتنے والوں کو متنبہ کر رہی ہے چنانچہ  اس طرح یہ تعدد سے کنایہ ہے یعنی ایسے آدمی کو جس نے غسل احتیاط سے نہیں کیا اور بالوں کی جڑوں میں پانی اچھی طرح نہیں پہنچایا کئی قسم کے اور بہت زیادہ عذاب دئیے جائیں گے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی لسان مبارک سے یہ تہدید اور وعید سنی تو اس خوف سے کہ اگر بال رہے تو غسل جنابت کے وقت شاید ان کی جڑیں خشک رہ جائیں اپنے بالوں سے بالکل دشمنوں جیسا معاملہ کیا جس طرح ایک آدمی اپنے دشمن کو اپنے لیے خطرے کا سبب اور باعث سمجھ کر موقع ملتے ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ، ایسے ہی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تہدید اور وعید کی بنا پر ان بالوں کو اپنی عاقبت کی خرابی کا باعث سمجھتے ہوئے ان کا صفایا کر دیا۔

اس حدیث اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ سر کے بال ہمیشہ مڈاتے رہنا جائز ہے مگر اولیٰ اور سنت بالوں کا رکھنا ہی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین اپنے سروں پر بال رکھتے تھے اور صرف حج کے موقع پر منڈواتے تھے۔

جہاں تک حضرت علی کرم اللہ وجہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے ، اس بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اپنے سر کے جو بال منڈاوئے ہیں ، ان کی کوئی دوسری غرض نہیں ہے یعنی اس سے زیبائش اور آرائش یا کسی راحت و آرام کا طلب مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصد وہی ہے جو بیان کیا گیا، اس طرح گویا حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ایک ایسے فعل کے ترک پر عذر بیان کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مداومت کے ساتھ ثابت ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم غسل کرنے کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم غسل سے پہلے جو وضو غسل کے لیے فرماتے تھے غسل کے بعد پھر دوبارہ وضو نہیں فرماتے تھے ، چنانچہ مسئلہ بھی یہی ہے کہ غسل کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے وہ کافی ہوتا ہے غسل کے بعد اگر نماز وغیرہ پڑھی جائے تو دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہے غسل کے وضو سے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ناپاکی کی حالت میں (غسل کے وقت) خطمی سے سر کو دھو لیتے تھے اور اسی پر کفایت کرتے اور دوبارہ سر پر خالص پانی نہ ڈالتے تھے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

جس طرح یہاں آنولہ وغیرہ سے دھونے کا رواج تھا ایسے ہی عرب میں خطمی سے سر دھوئے جاتے تھے ، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کے بارے میں فرما رہی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے سر کے بال خطمی کے پانی سے دھویا کرتے تھے اور اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب سر پر خطمی لگا کر اسے دھونے کے لیے سر پر خطمی ملا ہوا پانی ڈالتے تھے تو پھر دوبارہ پانی بہانے کے وقت سر پر پانی نہیں ڈالتے تھے بلکہ اسی پہلے دھوئے ہوئے کو کافی سمجھتے تھے جیسا کہ عام طور پر نہانے والے یہ کرتے ہیں کہ پہلے سر کو دھوتے ہیں ، اس کے بعد غسل کرتے ہیں اور پھر دوبارہ سر پر بھی پانی ڈالتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا نہیں کرتے تھے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ جس پانی سے سر کو دھویا کرتے تھے اس میں خطمی کے اجزاء کم ہوتے ہوں گے کہ جس سے پانی کی حقیقت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا ہو گا یعنی سیلان باقی رہتا ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت یعلیٰ (یہاں تحقیق سے یہ بات واضح نہیں ہوئی ہے کہ یہ یعلیٰ بن امیہ تمیمی ہیں یا یعلی ابن مرہ ثقفی ہیں بہر حال یہ دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔

فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک آدمی کو میدان میں ننگا نہاتے ہوئے دیکھاچنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (وعظ کے لیے ) منبر پر چڑھے اور پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا اللہ تعالیٰ بہت حیا دار ہے (یعنی اپنے بندوں سے حیا داروں کا سا معاملہ کرتا ہے ، بایں طور کہ انہیں معاف کر دیتا ہے اور بہت پردہ پوش ہے (یعنی اپنے بندوں کے گناہ اور عیوب کو پوشیدہ رکھتا ہے ) وہ حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے لہذا جب تم میں سے کوئی (میدان میں ) نہائے تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ کر لیا کرے۔ (ابوداؤد اور نسائی) اور نسائی کی ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ پردہ پوش ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہانے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کسی چیز سے پردہ کر لیا کرے )

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی اہم اور عظیم مسئلے کو بیان کرنا چاہتے یا کسی خاص چیز سے آگاہ کرنا چاہتے تو منبر پر تشریف لے جاتے اور پہلے اللہ جل شانہ کی حمد و ثنا کرتے اس کے بعد اصل مسئلے کو بیان فرماتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ ایک آدمی کو دیکھا وہ شرم کو بالائے طاق رکھ کر ایک کھلی جگہ (میدان میں ننگا نہا رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جبین شرم و حیا پر بل پڑ گئے ، فوراً مسجد نبوی میں پہنچے منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شرم و حیا کی اہمیت کو بڑے بلیغ اور ناصحانہ انداز میں بیان فرمایا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ رب قدوس کی ذات پاک تمام محاسن و اوصاف کی جامع ہے چنانچہ شرم و حیا اور پردہ پوشی جو بہت بڑے وصف ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کے اوصاف کی نورانی کرنوں سے اپنے دل و دماغ کو روشن کریں ، اس کی جو صفات ہیں ان کو حتی الامکان اپنے اندر پیدا کریں اس لیے وہ پسند کرتا ہے۔ بندے شرم و حیاء کے اصولوں پر کار بند رہیں ، ان عظیم اوصاف سے اپنے دامن کو مالا مال کریں اور پردہ پوشی کو کسی حال میں ترک نہ کریں ، لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شرم اور پردے کے معاملے میں غفلت اور لاپرواہی نہ برتیں۔

 

 

 

٭٭حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  یہ حکم، غسل انزال کے بعد ہی واجب ہوتا ہے ابتدائے اسلام میں آسانی کی وجہ سے تھا، پھر اسے منع فرما دیا گیا (یعنی یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، دارمی)

 

تشریح

 

اس باب کی حدیث نمبر ٢ کی تشریح  میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا ذکر آ چکا ہے ، وہاں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ ابتداء اسلام میں یہ حکم تھا کہ غسل اسی صورت میں واجب ہو گا جب کہ جماع کے وقت انزال بھی ہو یعنی اس وقت بغیر انزال کے محض ادخال ذکر سے ہی غسل واجب نہیں ہوتا تھا، چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی فرما رہے ہیں کہ یہ حکم (جو اس باب کی حدیث ٢ میں گزرا ہے ) پہلے تھا، اب منسوخ ہو گیا ہے اور اب یہ حکم ہو گیا ہے کہ محض جماع (ادخال ذکر) سے غسل واجب ہو جائے گا، خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔

 

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا اور صبح کی نماز پڑھ لی، پھر میں نے دیکھا کہ (بدن پر) ناخن کے برابر جگہ خشک رہ گئی کہ وہاں ) پانی نہیں پہنچا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم (اس جگہ اپنے بھیگے ) ہاتھ سے مسح بھی کر لیتے تو کافی ہو جاتا۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

آپ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم غسل کے وقت اس جگہ جو خشک رہ گئی تھی بھیگا ہوا ہاتھ پھیر لیتے یا اسے معمولی طور پر دھو دیتے تو یہ کافی ہو جاتا اور تمہارا غسل پورا ہو جاتا۔

اور اگر تمہیں اس جگہ خشکی کا احساس کچھ عرصہ کے بعد ہوا تھا تو تمہیں چاہئے تھا کہ اس جگہ کو دھو لیتے خواہ معمولی طور پر ہی کیوں نہ ہوتا اور جو نماز پڑھ لی تھی اس کی قضا ادا کرتا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (پہلے ) پچاس نمازیں فرض ہوئیں تھی ں ، نیز جنابت (ناپاکی) سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب دھونا سات سات مرتبہ (فرض ہوا تھا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم متواتر (اللہ تعالیٰ سے ان میں تخفیف کی دعا مانگتے رہے ، یہاں تک کہ نمازیں تو پانچ فرض رہ گئیں اور جنابت سے نہانا اور کپڑے پر سے پیشاب کا دھونا ایک ایک مرتبہ رہ گیا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب روحانی اور جسمانی بلندیوں کی تمام منازل کو طے فرما کر شب معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا شرف حاصل فرمایا تو اس مقدس اور انسانی زندگی کی سب سے بڑی سعادت و رفعت کی یادگار کے طور پر بارگاہ حق میں جل مجدہ کی طرف سے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے توسط سے بندوں کے لیے  نماز کا تحفہ عنایت فرمایا گیا ہے جسے معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس عظیم سعادت کی مناسبت سے  معراج مومنین کہا گیا ہے۔ نماز چونکہ تمام عبادات الہٰی میں اپنے اجر و ثواب اور اپنی عظمت و اہمیت کے اعتبار سے بندوں کے لیے سعادت و نیک بختی اور رضائے مولیٰ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس لیے کہ اس عظیم اور مقدس فریضہ کے ذریعہ اللہ کے نیک اور اطاعت گزار بندے زیادہ سے زیادہ سعادت نیک بختی کی دولت سے اپنے دامن مالا مال کر سکیں اور دن و رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔

ظاہر ہے کہ پچاس نمازوں کے فریضے کا یہ تحفہ بندوں کی سعادت و نیک بختی کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی اہمیت و عظمت کا حامل کیوں نہ ہو مگر سوال یہ تھا کہ انسان کے قویٰ اور ذہن و فکر اس عظیم فریضے کی ادائیگی کا بار برداشت بھی کر سکیں گے؟ صدقے جائیے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رحمت کے ! کہ انسانی فطرت و مزاج کا یہ سب سے بڑا راز دان اور انسانیت کا یہ عظیم محسن اور عظیم شفیق راہبر (صلی اللہ علیہ و سلم) سمجھ لیتا ہے کہ انسان کے قوائے فکر و عمل اس عظیم بار کو کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور اللہ کے بندے نماز کی اتنی بڑی تعداد کی ادائیگی پر قادر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوچا کہ اگر آج پچاس نمازیں فرض ہو رہی ہیں تو کل پوری مخلوق زبردست اخروی خسران اور روحانی اذیت میں مبتلاء ہو جائے گی کیونکہ پچاس نمازیں ادا ہوں گی نہیں ، جس کا نتیجہ حکم خداوندی کی نا فرمانی کی بنا پر عذاب کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ چنانچہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت پر انتہائی شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں اور بار گاہ خداوندی میں نماز کی اس تعداد میں تخفیف چاہتے ہیں ، پھر ادھر سے بھی اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کی درخواست کو شرف قبولیت بخشا جاتا ہے اور اس میں کمی کر دی جاتی ہے ، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی مطمئن نہیں ہوتے تو مزید تخفیف کی درخواست پیش کرتے ہیں جب کچھ اور تخفیف ہوتی ہے تو آپ اسے بھی زیادہ اور امت کے حق میں مالایطاق سمجھتے ہوئے کمی چاہتے ہیں یہاں تک کہ درخواست اور قبولیت کا یہ سلسلہ پانچ پر آ کر ختم ہو جاتا ہے اور پانچ نمازیں فرض قرار دے دی جاتی ہیں۔

چنانچہ اس حدیث میں اسی طرف اشارہ دیا جا رہا ہے کہ شب معراج میں تو نمازیں پچاس ہی فرض ہوئیں تھی ں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کے حق میں انتہائی شفقت و رحمت کے پیش نظر یہ جان کر کہ امت سے اتنی نمازیں ادا نہیں ہوں گی اس تعداد میں تخفیف کرائی جب بھی آپ تخفیف کی درخواست پیش کرتے پانچ نمازیں کم کر دی جاتیں یہاں تک کہ آخر میں پانچ نمازیں رہ گئیں۔

اسی طرح پہلے ناپاکی دور کرنے کے لیے سات مرتبہ غسل کرنے کا حکم تھا مگر بعد میں اسے بھی منسوخ قرار دے دیا گیا اور صرف ایک مرتبہ غسل واجب کیا گیا یعنی پورے دن پر ایک مرتبہ پانی بہانے سے فرض ادا ہو جاتا ہے مگر مسنون طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ جسم پر پانی بہایا جائے ، صحیح البخاری و صحیح مسلم میں اس سلسلہ میں جو حدیث منقول ہے اس میں صرف نماز کا ذکر ہے ، غسل اور کپڑے سے پیشاب دھونے کا ذکر نہیں ہے مگر یہاں یہ ابوداؤد کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس میں ان دونوں چیزوں کا بھی ذکر ہے چنانچہ اس روایت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔

بہر حال اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کپڑے پر پیشاب اور غلاظت وغیرہ لگ جائے تو اسے صرف ایک بار دھو لینا ہی کافی ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے کہ کپڑا ایک مرتبہ دھو لینے سے پاک ہو جاتا ہے ، لیکن علمائے حنفیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر پیشاب اور غلاظت لگ جائے تو اسے اتنا دھویا جائے کہ اس کی پاکی کا ظن غالب حاصل ہو جائے اور اس کی حد یہ مقرر کی ہے کہ تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ کپڑے کو نچوڑا جائے کیونکہ تین مرتبہ دھو لینے سے پاکی کا ظن غالب حاصل ہوتا ہے۔

اس موقع پر تفصیل بتا دینی مناسب ہے کہ غسل کن کن مواقع پر واجب اور مستحب ہو جاتا ہے۔

(١) غسل اس شکل میں فرض ہوتا ہے کہ منیٰ کود کر نکلے اور ریڑھ کی ہڈی سے جدا ہونے کے وقت شہوت بھی ہو ا گرچہ باہر نکلتے وقت شہوت یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منیٰ نکلی ہے۔

(٢) اگر کوئی آدمی سو کر اٹھے اور اپنے بستر وغیرہ پر منیٰ کی تری پائے خواہ وہ مذی ہی کیوں نہ ہو تو غسل واجب ہوتا ہے اگرچہ ایسا کوئی خواب یاد نہ ہو جس کی وجہ سے منیٰ نکلی ہے۔

(٣) اگر زندہ عورت کے آگے یا پیچھے ستر میں ذکر داخل کیا جائے یا لواطت کی جائے تو دونوں یعنی فاعل و مفعول پر غسل فرض ہو گا خواہ انزال نہ ہو۔

(٤) حیض اور نفاس ختم ہونے کے بعد غسل فرض ہوتا ہے۔

(٥) اگر چو پائے یا مردہ کے آگے یا پیچھے کے حصہ میں ذکر داخل کیا تو اگر انزال ہو گا تو غسل واجب ہو گا ورنہ نہیں۔

(٦) مذی اور ودی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا، اسی طرح اگر محض جواب یاد ہو اور بستر وغیرہ پر منیٰ کی تری یا اس کی کوئی علامت موجود نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا۔

(٧) اگر کوئی غیر مسلم اس حال میں مسلمان ہوا کہ وہ ناپاکی کی حالت میں تھا تو اس پر غسل واجب ہو گا اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہیں تھا تو واجب نہیں ہو گا البتہ مستحب ہو گا۔

(٨) زندوں پر میت کو غسل دینا واجب کفایہ ہے ، یعنی اگر کچھ لوگ نہلا دیں تو سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں ، ورنہ سب گناہ گار ہوتے ہیں۔

(٩) جمعہ عید ین، احرام اور عرفہ کے لیے غسل کرنا سنت ہے۔

(١٠) محدث (بے وضو) کو قرآن کریم چھونا نا جائز ہے ، ہاں اگر قرآن کریم جزدان یا کسی کپڑے میں لپٹا ہوا ہو تو جائز ہے اور اگر قرآن کی جلد پر محض چولی چڑھی ہوئی ہو تو چھونا درست نہیں ہے۔

(١١) اگر کوئی آدمی بے وضو ہے تو اسے کرتے وغیرہ کے آستین یا کسی ایسے کپڑے کے ساتھ جو اس کے بدن پر ہے (مثلاً چادر وغیرہ اوڑھ رکھی ہو تو) قرآن کریم کو پکڑنا اور چھونا مکروہ ہے ، ہاں اگر اس کپڑے کو اپنے بدن سے الگ کر کے پھر اس کی ساتھ قرآن کریم کو پکڑے اور چھوئے تو جائز ہو گا۔

(١٢) بے وضو کو تفسیر اور حدیث کی کتابوں کو چھونا مکروہ ہے لیکن آستین کے ساتھ چھونا متفقہ طور پر جائز ہے۔

(١٣) جس درہم (سکے ) پر قرآن کی کوئی سورۃ لکھی ہو تو بے وضو کے لیے اسے چھونا جائز نہیں ہاں اگر وہ تھی لی وغیرہ میں ہو تو پھر جائز ہے۔

(١٤) جنبی کو مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں ہے ، اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو داخل ہو سکتا ہے اسی طرح اس کے لیے قرآن پڑھنا خواہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے البتہ دعا اور ثنا کے طور پر پڑھ سکتا ہے ، ایسے ہی جنبی کا ذکر کرنا تسبیح پڑھنی اور دعا کرنی جائز ہے ، ان مسائل میں حیض اور نفاس والی عورتوں کا بھی وہی حکم ہے جو جنبی کا ہے۔

 

                   جنبی آدمی سے ملنے جلنے اور جنبی کے لیے جو امور جائز ہیں ان کا بیان

 

اس باب میں دو چیزوں سے متعلق احادیث ذکر کی جا رہی ہیں ، پہلی چیز تو یہ ہے کہ جنبی آدمی (یعنی غسل جس پر واجب ہو) کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کلام کرنا، مصافحہ کرنا اور اس طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں دوسری چیز یہ ہے کہ جنبی آدمی کے لیے کیا چیزیں جائز ہیں کہ وہ انہیں حالت ناپاکی میں کر سکتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے میری ملاقات ہوئی اور میں جنبی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔ جب آپ بیٹھ گئے تو میں چپکے سے نکل کر اپنے مکان آیا اور نہا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے (مجھے دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم کہاں تھے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے (اصل واقعہ) ذکر کیا (کہ میں ناپاک تھا اس لیے چلا گیا تھا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سبحان اللہ ! مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ روایت کے الفاظ صحیح البخاری کے ہیں مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ (انہوں نے کہا) چونکہ میں حالت ناپاکی میں تھا اس لیے یہ مناسب معلوم نہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھوں جب تک کہ نہا نہ لوں۔  اسی طرح صحیح البخاری کی ایک دوسری روایت میں بھی یہ الفاظ منقول ہیں۔

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جنابت نجاست حکمی ہے کہ شریعت نے اس کا حکم کیا ہے اور اس پر غسل کو واجب قرار دیا ہے ، لہٰذا حالت جنابت میں آدمی حقیقۃً نجس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنبی کا نہ تو جھوٹا ناپاک ہوتا ہے اور نہ اس کا پسینہ ہی ناپاک ہے ، اس لیے جنبی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا، مصافحہ کرنا ، کلام کرنا یا اسی طرح اس کے ساتھ دوسرے معاملات کرنا جائز ہیں ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

 

 

٭٭حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے رات کو جنابت ہو جاتی ہے (یعنی احتلام یا جماع سے غسل واجب ہوتا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (اسی وقت) وضو کر کے عضو تناسل کو دھو کر سو جایا کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ وضو کرنا جنبی کے سونے کے لیے طہارت ہے ، یعنی جنبی وضو کر کے سویا تو گویا وہ پاک سویا، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جسے رات کو احتلام ہو جائے یا جماع سے فراغت ہو اور اس کے بعد سونے کا ارادہ یا بوجہ کسی ضرورت بے وقت غسل جنابت میں تاخیر کا خیال ہو تو ایسی شکل میں جنبی کا وضو کر لینا سنت ہے۔

اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ صورت مذکورہ میں وضو کیا جائے اس کے بعد عضو تناسل کو دھویا جائے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ صحیح مسئلہ یہ ہے کہ پہلے عضو تناسل کو دھونا چاہئے اس کے بعد وضو کرنا چاہئے ، اس شکل میں حدیث کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں کہا جائے گا کہ یہاں وضو کرنا اس لیے مقدم کر کے ذکر کیا گیا ہے کہ وضو کا احترام اور اس کی تعظیم کا اظہار پیش نظر تھا۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حالت ناپاکی میں ہوتے اور کھانا کھانے یا سونے کا ارادہ فرماتے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر لیتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے ) اور پھر اس کے پاس آنے کا (یعنی دوبارہ صحبت کرنے کا) ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ دونوں کے درمیان وضو کر لے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی سے دو مرتبہ صحبت کرے اور دونوں مرتبہ کے درمیان وضو کرے تو دو فائدے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس پاکیزگی اور طہارت حاصل ہوتی ہے ، دوسری یہ کہ نشاط اور لذت زیادہ ہو جاتی ہے۔

بہر حال اس حدیث سے اور اس سے پہلی حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جنبی کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ حالت ناپاکی میں اگر سونے اور کھانے پینے کا یا دو بارہ جماع کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عضو تناسل کو دھو کر وضو کر لے۔

بعض علماء کرام یہ فرماتے ہیں کہ جنبی کے کھانے پینے کے سلسلے میں ان احادیث میں جس وضو کا ذکر ہے ، اس سے مراد حقیقۃً وضو نہیں ہے بلکہ اس کا  مقصد یہ ہے کہ ایسے وقت میں ہاتھ دھو لئے جائیں اور یہی رائے جمہور علماء کرام کی ہے کیونکہ سنن نسائی کی روایت میں اس مراد کی صراحت بھی موجود ہے۔

لیکن مذکورہ بالا دونوں روایتوں سے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے ، لہٰذا اب ان روایتوں میں تطبیق پیدا کرنے کے لیے یہی کہا جائے گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم ایسے مواقع پر کبھی کبھی اختصار کے طور پر محض ہاتھ ہی دھو لینے کو کافی سمجھتے تھے۔ مگر اکثر و بیشتر آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکمل وضو فرماتے تھے۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک غسل کے ساتھ اپنی ازواج مطہرات سے صحبت کر لیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک شب میں اپنی تمام ازواج مطہرات سے صحبت کیا کرتے تھے اور غسل ایک ہی مرتبہ آخر میں فرماتے تھے یہ نہیں تھا کہ ایک بیوی سے صحبت کے بعد پہلے غسل کرتے ہوں ، پھر بعد میں دوسری بیوی کے پاس جاتے ہوں۔ ہاں اس کا احتمال ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم درمیان میں وضو فرما لیتے ہوں گے ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیان جواز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کو ترک کر دیا ہو۔ اس موقع پر ایک ہلکا سے اعتراض ہو سکتا ہے وہ یہ کہ قاعدہ شرعی کے مطابق اپنی بیویوں کے درمیان تقسیم کا اقل درجہ ایک رات ہے۔ یعنی اگر کسی آدمی کے پاس چند بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنے کا قاعدہ یہ ہے کہ، ہر ایک بیوی کے یہاں کم از کم ایک پوری شب قیام کیا جائے ، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ہی رات میں تمام ازواج مطہرات کے پاس کس طرح جایا کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے لیے باری مقرر کرنے کا یہ وجوب مختلف فیہ ہے ، چنانچہ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پر باری مقرر کرنا واجب نہیں تھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود راہ احسان باری مقرر فرما رکھی تھی مگر اکثر علماء کا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی باری مقرر کرنا واجب تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس ایک ہی شب میں خود ان کی رضا و خوشی سے جایا کرتے تھے لہٰذا اس پر کوئی اشکال پیدا نہیں ہو سکتا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہر وقت یاد الہٰی میں مصروف رہا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (جو صاحب مصابیح نے اس موقع پر نقل کی ہے ) ہم انشاء اللہ کتاب الا طعمہ میں ذکر کریں گے )

 

تشریح

 

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کسی حالت میں ذکر خداوندی اور یاد الہٰی سے غافل نہیں ہوتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم خواہ حالت ناپاکی میں ہوتے یا بے وضو ہوتے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی حالت میں ہوتے اللہ رب العزت کی یاد میں ہمیشہ مشغول رہتے۔

بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد ذکر قلبی اور قدرت خداوندی کا تفکر ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قلب مبارک ہمہ وقت ذکر الہٰی میں مشغول اور پروردگار کی قدرتوں پر غور و فکر کرنے میں منہمک رہتا تھا۔

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ نے لگن سے (یعنی لگن میں بھرے ہوئے پانی سے ) چلو لے کر غسل کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی (لگن میں بچے ہوئے ) پانی سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو! انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) میں جنبی تھی (اور میں نے اس سے غسل کیا ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پانی تو جنبی نہیں ہوتا۔ (یعنی جنبی کے نہانے سے یا اس کے کسی عضو کے پڑنے سے پانی نا پاک نہیں ہوتا) (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد) اور دارمی نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انہوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مصابیح کے ہم الفاظ روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے تو بصراحت یہ معلوم ہوا کہ عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے لیکن اسی باب کی تیسری فصل میں ایک حدیث (نمبر ٢) آ رہی ہے جس میں منقول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔

لہٰذا ان دونوں روایتوں میں مطابقت کے لیے کہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث تو جواز پر دلالت کرتی ہے اور وہ دوسری حدیث ترک کی اولیت پر دلالت کرتی ہے ، یعنی اگر کوئی مرد عورت کے غسل کے بقیہ پانی سے وضو کرنا چاہئے تو اس حدیث کی رو سے اس کا وضو جائز تو ہو جائے گا لیکن دوسری حدیث کے پیش نظر اس پانی سے وضو نہ کرنا ہی بہتر اور اولیٰ ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم (میرے ساتھ) صحبت سے فراغت کے بعد غسل فرماتے ، پھر میرے نہانے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے نیز شرح السنۃ میں مصابیح کے ہم لفظ روایت منقول ہے )

 

تشریح

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہم بستری سے فارغ ہوتے تو مجھ سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہا لیتے تھے اور چونکہ سرد موسم میں نہانے کی وجہ سے ٹھنڈ محسوس ہوتی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے پاس تشریف لاتے اور اپنے اعضاء مبارک میرے بدن سے چمٹا کر لیٹ جایا کرتے تھے تاکہ گرمی حاصل ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنبی کا بدن پاک ہوتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ مل کر لیٹ جانے میں کچھ حرج نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلاء سے نکل کر وضو سے پہلے ہمیں قرآن کریم پڑھا دیا کرتے تھے اور (اسی وقت) ہمارے ساتھ گوشت کھا لیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن کریم پڑھنے سے سوائے جنابت کے کوئی چیز نہیں روکتی تھی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی) اور ابن ماجہ نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث سے دو مسئلوں کی وضاحت ہوتی ہے۔ اول تو یہ کہ بغیر وضو کے قرآن کریم پڑھنا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ آپ ہاتھوں سے قرآن کریم کو نہ چھوئے کیونکہ بغیر و ضو قرآن کریم کو چھونا نا جائز ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  حائضہ (ایام والی عورت) اور جنبی قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں پڑھیں۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو عورت ایام حیض میں ہو یا جو آدمی حالت ناپاکی میں ہو وہ قرآن شریف بالکل نہ پڑھے یہاں تک کہ ایک آیت سے کم بھی قرآن کے الفاظ کی تلاوت نہ کرے چنانچہ حضرت امام اعظم اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ اور جنبی کو قرآن کریم کی تلاوت بالکل نہ کرنی چاہئے خواہ وہ ایک آیت سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

مگر بعض علماء کرام کے ہاں حائضہ اور جنبی کا ایک آیت یا زیادہ حصہ کی تلاوت تو حرام ہے البتہ ایک آیت سے کم کی تلاوت حرام نہیں ہے۔ اگر حائضہ یا جنبی قرآن کریم کا کوئی حصہ تلاوت کے مقصد سے نہیں بلکہ شکر کے ارادے سے پڑھے تو یہ جائز ہے ، مثلاً کوئی حائضہ یا جنبی کسی ایسے موقع پر جب کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ہو کہے  الحمد اللہ رب العالمین تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 

 

٭٭حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مکانوں کے یہ دروازے مسجد کی طرف سے پھیر دو کیونکہ حائضہ اور جنبی کا مسجد میں داخل ہونا (خواہ وہاں ٹھہرنے کے لیے ہو یا وہاں سے گزرنے کے لیے ) جائز نہیں۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

مسجد اللہ کا گھر ہونے کی وجہ سے ایک مقدس اور محترم جگہ ہے ، اس پاک جگہ کی عظمت و احترام اور اس کے تقدس کا تقاضہ ہے کہ کوئی ایسا آدمی اس میں داخل نہ ہو جو حالت ناپاکی میں ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ مسجد کی طرف (گھروں کو ایسے دروازے جن میں گزرنے کے لیے مسجد سے گزرنا پڑتا ہے ان) کے رخ تبدیل کر دئیے جائیں تاکہ جنبی اور حائضہ جو اپنے مکانوں میں جانے کے لیے مسجد سے گزرنے کے لیے مجبور ہیں اس شکل میں مسجد سے نہ گزر سکیں ، حضرت امام شافعی اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر جنبی اور حائضہ کسی دوسری جگہ جانے کے لیے مسجد سے گزرنا چاہیں تو وہ گزر سکتے ہیں لیکن انہیں مسجد کے اندر بحالت ناپاکی بیٹھنا جائز نہیں ہے۔

مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح جنبی اور حائضہ کو مسجد کے اندر ٹھہرنا نا جائز ہے اسی طرح انہیں مسجد کے اندر سے گزرنا بھی حرام ہے چنانچہ یہ حدیث امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی تائید کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنبی اور حائضہ کو مسجد میں داخل ہونے سے مطلقاً منع فرمایا ہے اس میں گزرنے یا ٹھہرنے کی کوئی قید نہیں ہے۔ لہٰذا اس عموم کا تقاضہ یہ ہے کہ جنبی اور حائضہ کو مطلقاً مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے خواہ وہ گزرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوں یا وہاں ٹھہرنے کے لیے۔

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس گھر میں تصویر یا کتا یا جنبی ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

یہاں فرشتوں سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں یعنی جس مکان میں یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں اس میں وہ فرشتے داخل نہیں ہوتے جو رحمت و برکت لاتے ہیں اور اللہ کا ذکر سننے کو آسمان سے اترتے ہیں۔

تصویر کا مسئلہ یہ ہے کہ تصویر اگر جاندار کی ہو اور بلند جگہ پر ہو مثلاً دیواروں پر آویزاں ہو، یا چھت پر لگی ہوئی ہو یا ایسے ہی پردوں پر تصویر بنی ہوئی ہوں تو اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ ہاں اگر تصویر بچھونے پر ہو یا اسی طرح پاؤں رکھنے کی جگہ پر ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

اگر تصویر غیر جاندار کی ہو مثلاً درخت و پہاڑ کی ہو یا کسی عمارت وغیرہ کی ہو تو ان کو رکھنا جائز ہے یا تصویر تو جاندار کی ہو مگر اس کا سر کٹا ہوا ہو تو یہ بھی جائز ہے اسی طرح جو تصویر ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو مثلاً فرش پر ہو یا تکیہ وغیرہ پر ہو تو وہ بھی مکان میں فرشتوں کے دخول کو مانع نہیں ہے۔ اسی طرح نابالغ لڑکیوں کے لیے گھروں میں گڑیاں رکھنا بھی جائز ہے۔

ایسے سکے جن پر تصویریں بنی ہوئیں ہوں جیسے کہ آج کل سکے یا نوٹ چل رہے ہیں ان کے بارے میں کہا جائے گا کہ اس حدیث کے الفاظ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر یہ گھر میں ہوں تو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مکان میں ان کا رکھنا جائز ہے ، یہاں تک کہ ان کو اپنے پاس رکھنا خواہ پگڑی ہی میں رکھے جائز ہے کیونکہ اگر پچھلے تمام علماء ایسے سکوں کو پاس رکھتے رہے ہیں اور ان کالین دین کرتے رہے ہیں اور کسی عالم نے بھی ان کے رکھنے کو منع نہیں فرمایا ہے۔

کتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مکان میں کتے از راہ شوق و فیشن ہوں گے تو یا جائز نہیں ہو گا ہاں اگر ضرورت اور حاجت کی وجہ سے مثلاً شکار کے لیے ہوں یا کھیتوں اور مویشیوں کی حفاظت کے لیے ہوں تو جائز ہے اور ان کا پالنا درست ہے۔

جنبی سے مراد ہر جنبی نہیں ہے بلکہ وہ جنبی ہے جسے غسل جنابت میں سستی اور کاہلی کی بنا پر تاخیر کرنے کی عادت ہو یعنی وہ غسل کرنے میں اتنی ہی تاخیر کرتا ہو کہ نماز کا وقت بھی نکل جاتا ہو یا پھر وہ جنبی مراد ہے جو وضو نہ کر لیتا ہو۔ (دیکھئے باب کی حدیث نمبر ٢)

 

 

٭٭اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی عمار بن یا سر اور کنیت ابو الیقطان ہے یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کی طرف سبقت کی تھی ، ان کی والدہ سمیہ تھی ں اور وہ پہلی خاتون تھی ں جو اللہ عزو جل کی راہ میں شہید کی گئیں ، یہ اور ان کی والدہ اور ان کے والد سب کے سب پہلے ایمان لانے والوں میں ہیں حضرت عمار کا شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں ہوتا ہے جو اسلام لانے کی وجہ سے ظلم و ستم کی ہر بھٹی میں ڈالے گئے مگر جب وہاں سے نکلے تو کندن ہو کر نکلے۔ حضرت عمار اس وقت اسلام لائے تھے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ارقم کے گھر میں پوشیدہ تھے۔ یہ اور حضرت صہیب بن سنان دونوں ساتھ ہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عمار بن یا سر اللہ کی راہ میں بہت زیادہ ستائے گئے ، یہاں تک کہ جب مشرکین مکہ انہیں مارتے مارتے تھک گئے اور یہ اپنے ایمان سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹتے تو انہیں آگ میں جلایا کرتے تھے اسی ثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ان کی طرف ہوا کرتا تو آپ انہیں آگ میں جلتا ہوا دیکھ کر اپنا دست مبارک ان کے اوپر پھیر کر فرمایا کرتے تھے کہ اے آگ ! تو عمار پر ایسی ہی ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ہوئی تھی۔ جب آپ زخمی ہوئے تو انہوں نے یہ وصیت کی کہ مجھے انہی کپڑوں کے ساتھ دفن کرنا کیونکہ میں انہی کپڑوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جاؤں گا، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان کو ان ہی کپڑوں میں دفن کیا۔ ربیع الاول ٣٧ھ میں ٩٤ برس کی عمر میں جنگ صفین کے دوران آپ نے شہادت پائی۔ اسد الغابہ) راوی ہیں کہ سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ رحمت کے فرشتے ان کے قریب نہیں آتے۔ (١) کافر کا بدن (٢) خلوق کا ملنے والا (٣) جنبی جب تک کہ وضو نہ کرے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

جیفہ سے مراد کافر کا بدن ہے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، ویسے تو اصل میں  جیفہ مردار کو کہتے ہیں ظاہر ہے کہ کافر بھی بمنزلہ مردار کے ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ نجاست مثلاً شراب اور سود وغیرہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے نجس و ناپاک ہوتا ہے۔

خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے بنتی ہے اور چونکہ رنگ دار ہوتی ہے اس لیے عورتوں کی مشابہت کی وجہ سے مردوں کو اس کا لگانا ممنوع ہے صرف عورتیں اسے استعمال کر سکتی ہیں ، اس لیے اگر کوئی مرد اسے لگا لیتا ہے تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہیں جاتے کیونکہ اس میں رعونت پائی جاتی ہے۔ اور عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔

دراصل اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی سنت کے خلاف کام کرتا ہے تو اگرچہ وہ بظاہر با زیب و زینت او خوشبو سے معطر ہوتا ہے نیز لوگوں میں صاحب عزت و احترام بھی ہوتا ہے مگر سنت کے خلاف عمل کی وجہ سے حقیقت میں وہ نجس اور کتے سے بھی زیادہ خسیس ہوتا ہے۔

جنبی کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد و تہدید اور زجر و تو بیخ کے لیے ہے تاکہ جنبی غسل جنابت میں تاخیر نہ کریں کیونکہ اس سے جنبی رہنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبد اللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم (اسم گرامی عمرو بن حزم اور کنیت ابو ضحاک، آپ انصاری ہیں سب سے پہلے غزوہ خندق میں شریک ہوئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں (نواح یمن) میں اہل نجران پر عامل بنا کر بھیجا تھا اس وقت ان کی عمر صرف سترہ سال تھی بمقام مدینہ منورہ ٥١ ھ یا ٥٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) راوی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ہدایت نامہ عمر و بن حزم کے لیے لکھا تھا اس میں یہ (حکم بھی) مرقوم تھا کہ قرآن کریم کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگایا کریں۔ (مالک ، دارقطنی)

 

تشریح

 

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر و بن حزم کو نواح یمن کے کسی شہر کا عامل بنا کر بھیجا تھا اور ایک ہدایت نامہ لکھ کر انہیں دیا تھا جس میں فرائض اور صدقات و دیات وغیرہ کے احکام و مسائل کی تفصیل تحریر کی تھی۔ اسی مکتوب گرامی میں یہ حکم بھی تھا جسے راوی یہاں بیان کر رہے یں۔

 

 

٭٭اور حضرت نافع رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت عبداللہ ابن عمر استنجے کے لیے جا رہے تھے میں بھی ان کے ہمراہ ہو لیا (پہلے تو) انہوں نے استنجاء کیا اور اس کے بعد انہوں نے اس روز یہ حدیث بیان کی کہ ایک آدمی کسی گلی محلہ میں جا رہا تھا اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر تشریف لا رہے تھے اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی اور سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب نہیں دیا جب یہ آدمی (دوسرے ) گلی محلے میں مڑنے لگا تب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (تیمم کے لیے ) اپنے دونوں ہاتھ دیوار پر مار کر منہ پر پھیرے پھر (دوسری مرتبہ) مار کر اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک پھیرے ، اس کے بعد اس آدمی کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا  مجھے تمہارے سلام کا جواب دینے سے کسی چیز نے نہیں روکا تھا فقط یہ بات تھی کہ میں بے وضو تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کے سلام کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ دراصل  سلام  اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام ہے گو کہ عام طور پر ایسے موقع پر سلام کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جاتے بلکہ اس سے سلامت کے معنی مراد ہوتے ہیں ، مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے اصل معنی کا احترام کرتے ہوئے بغیر وضو کے اللہ عزوجل کا نام لینا مناسب نہ سمجھا۔

اسی باب میں پہلے کچھ حدیثیں گزری ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیت الخلاء سے آ کر بغیر وضو کے قرآن پڑھتے اور پڑھاتے تھے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بغیر وضو کے ذکر اللہ کیا کرتے تھے۔ بظاہر وہ احادیث اور یہ حدیث آپس میں متعارض نظر آتی ہیں؟

اس تعارض کا دفعیہ یہ کہہ کر کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا بے وضو قرآن پڑھنا یا ذکر اللہ کرنا جیسے کہ پہلی حدیثوں میں گزرا رخصت (آسانی) پر عمل تھا۔ اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کی تعلیم کے لیے عزیمت (اولیٰ) پر عمل فرمایا ہے۔ یعنی یہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا امت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا جائز تو ہے مگر افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ با وضو ذکر اللہ کیا جائے۔

اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں اوّل تو یہ کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ دوسری یہ کہ اگر کوئی آدمی کسی عذر کی بناء پر سلام کا جواب نہ دے سکے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ اس کے بعد اپنا وہ عذر جس کی وجہ سے وہ سلام کا جواب نہیں دے سکا، سلام کرنے والے کے سامنے بیان کر دے تاکہ اس کی طرف غرور و تکبر کی نسبت نہ کی جا سکے یعنی سلام کرنے والا یہ سوچے کہ اس نے غرور و تکبر کی بنا پر میرے سلام کا جواب نہیں دیا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (حضرت مہاجر بن قنفذ قریشی تیمی ہیں کہا جاتا ہے کہ مہاجر اور قنفذ دونوں لقب ہیں اصل میں ان کا نام عمرو بن خلف ہے۔ آپ فتح مکہ کے دن اسلام لائے ہیں اور ہجرت کے بعد بصرہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا۔ (کے بارے میں مردی ہے کہ یہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پیشاب کر رہے تھے ، انہوں نے سلام عرض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرمایا اور پھر یہ عذر بیان فرمایا کہ  میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں کہ بے وضو اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کروں۔ (ابوداؤد) اور نسائی نے یہ روایت لفظ حتی توضاء (یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرمایا) تک نقل کی ہے اور کہا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو فرما لیا تو سلام کا جواب دیا۔

 

 

تشریح

 

مکروہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بے وضو اللہ کا نام لینا حرام ہے بلکہ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہتر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقدس و مبارک نام با وضو لیا جائے ، اگر کسی نے بغیر وضو اللہ کا نام لیا تو اس پر گناہ نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حالت ناپاکی میں سوجایا کرتے اور پھر جاگتے اور سو جاتے۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

اسی باب کی حدیث نمبر ٣ میں گزر چکا ہے کہ جب آپ حالت جنابت میں سونے کا ارادہ فرماتے تو پہلے وضو فرما لیا کرتے تھے اس کے بعد سویا کرتے تھے ، اس حدیث میں گو اس کی صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حالت جنابت میں سونے سے پہلے وضو فرماتے تھے مگر یہاں بھی مراد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو کرنے کے بعد ہی آرام فرماتے تھے۔

یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی بغیر وضو کے بھی بیان جواز کے لیے سو جایا کرتے تھے تاکہ اس سے یہ معلوم ہو کہ بغیر وضو بھی سو جانا جائز ہے مگر افضل اور بہتر یہی ہے کہ وضو کرنے کے بعد سویا جائے۔

 

 

٭٭حضرت شعبہ راوی ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ناپاکی کا غسل فرماتے تو (پہلے ) اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے پھر اپنی شرم گاہ دھوتے۔ ایک مرتبہ بھول گئے کہ پانی کتنی مرتبہ ڈالا ہے؟ چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا میں نے عرض کیا  مجھے یاد نہیں انہوں نے فرمایا  تمہاری ماں مرے تمہیں یاد رکھنے سے کس نے روک دیا تھا ؟ پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کر کے اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور کہنے لگے کہ  سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس طرح پاک ہوا کرتے تھے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

غسل جنابت کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق ستر دھونے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کے بارے میں اس سے پہلے جو احادیث گزری ہیں یا تو وہ مطلق ہیں یعنی ان میں یہ تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کتنی مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے یا جن میں تعداد ذکر کی گئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک دو مرتبہ دھوئے ہیں یا تین مرتبہ، چنانچہ باب الغسل کی پہلی فصل میں خود حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت (نمبر ٥) گزری ہے جس میں یہ تو منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دست مبارک دھوئے ان کی تعداد ذکر نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ دھوئے؟ لیکن یہاں حضرت شعبہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ عمل نقل فرما رہے ہیں کہ وہ غسل جنابت کے وقت سات مرتبہ پانی ڈال کر ہاتھ دھوتے تھے۔

لہٰذا اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل کسی خاص صورت میں ہو گا یعنی آپ کو کوئی ایسی صورت پیش آئی ہو گئی۔ جس کی بنا پر بہت زیادہ طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ساتھ مرتبہ دھونا ضرور سمجھا ہو گا۔ یا پھر اس کی تاویل یہ ہو گی کہ سات مرتبہ دھونے کے حکم کے منسوخ ہونے کی اطلاع حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں ہوئی ہو گی اس لیے انہوں نے اسی پہلے حکم کے مطابق سات مرتبہ دھویا ہو گا۔

یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ شاگرد کو اپنے شیخ و استاد کے سامنے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ رہنا چاہئے تاکہ شیخ کے ہر ہر قول اور ہر ہر عمل کو ذہن نشین کر کسے۔ نیز شیخ و استاد کو یہ حق ہے کہ وہ شاگرد کی غفلت اور لاپرواہی پر تنبیہ کرے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ایک روز اپنی تمام بیویوں کے پاس آئے (یعنی سب سے جماع کیا) اور ہر ایک بیوی سے (جماع سے فارغ ہو کر علیحدہ علیحدہ) غسل فرمایا۔ ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر میں ایک ہی مرتبہ کیوں نہ غسل کر لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یہ (یعنی ہر جماع کے بعد غسل کرنا، خوب پاک کرتا ہے ، (نفس کے لیے ) بہت خوش آئند ہے اور (جسم کو) خوب صاف کرتا ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٥ سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شب میں تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرما کر آخر میں ایک ہی مرتبہ غسل فرمایا اور یہاں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ آپ نے ایک دن تمام ازواج مطہرات سے ہم بستری فرمائی اور غسل کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ ہر بیوی کے ساتھ جماع سے فراغت کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا تو ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہو گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ پہلا عمل جو اوپر بیان ہوا وہ امت کی آسانی کے لیے تھا یعنی اس بات کا اظہار مقصود تھا تمام بیویوں کے ساتھ ہم بستری سے فراغت کے بعد آخر میں ایک مرتبہ غسل کر لینا کافی ہے لیکن افضل اور بہتر چونکہ یہی ہے کہ ہر جماع کے بعد غسل کیا جائے اس لیے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر جماع کے بعد علیحدہ علیحدہ غسل فرمایا۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب میں ہر مرتبہ غسل کرنے کی جو وجہ بیان فرمائی ہے اس میں تین لفظ استعمال فرمائے ہیں (١) ازکی (٢) اطیب (٣) اطہر۔ ان تینوں الفاظ کے فرق کو ظاہر کرتے ہوئے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ  تطہیر کا استعمال ظاہری مناسبت سے ہے اور تزکیہ و تطیب کا استعمال باطنی مناسبت سے ہے یعنی تطہیر اخلاق بد کے ازالہ کے لیے ہے اور تزکیہ و تطیب اچھی خصلتوں کے حصول کے لیے ہے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس طرح غسل کرنے سے برے اخلاق مثلاً غصہ وغیرہ دور ہوتے ہیں اور اچھے اخلاق یعنی حلم و تقویٰ وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت حکم بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اسم گرامی حکم ابن عمر ہے قبیلہ غفار کی نسبت سے مشہور ہیں آپ صحابی ہیں وفات نبی کے بعد بصرہ چلے گئے ان کے سوتیلے بھائی زیاد نے انہیں خراسان کا حاکم بنایا تھا چنانچہ ان کی وفات بھی خراسان کے مضافات مقام مرو میں پچاس ہجری میں ہوئی۔) فرماتے ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ، عورت کے (وضو کے ) بقیہ پانی سے  نیز (ترمذی) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے )

 

تشریح

 

لفظ سؤر یہاں غسل یا وضو کے  بقیہ پانی کے معنی میں ہے ، اس کے لغوی معنی  جھوٹھا (کسی کا استعمال کیا ہوا) مراد نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ راوی کو فقط لفظ میں شک واقعہ ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یا تو  فضل کہا ہے یا  سور فرمایا ہے۔

اس فصل کی حدیث نمبر ٧ کے فائدے میں اس حدیث کا تذکرہ آ چکا ہے ان دونوں میں جو تعارض واقع ہو رہا ہے اس کی وضاحت وہاں کی جا چکی ہے علامہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث نمبر (٢١) سے عورت کے غسل یا وضو کے بچے ہوئے پانی سے مرد کو وضو کرنے کی جو ممانعت ثابت ہو رہی ہے اس کو  نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے تاکہ اس حدیث اور اس حدیث نمبر (٧) میں جس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کے غسل کے بچے ہوئے پانی سے وضو فرمایا تھا تعارض پیدا نہ ہو سکے اور دونوں حدیثیں اپنی جگہ جگہ قابل عمل رہیں۔

 

 

٭٭حضرت حمید حمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (اسم گرامی حمید بن عبد الرحمن ہے ، قبیلہ حمیر سے تعلق کی وجہ سے حمیر کی نسبت سے مشہور ہیں جلیل القدر تابعی ہیں اپنے علم و فضل کی بنا پر اہل بصرہ کے امام سمجھے جاتے تھے ، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سماعت کا شرف حاصل ہے۔ (فرماتے ہیں کہ میں ایک آدمی سے ملا جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح چار برس سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں رہ چکے تھے انہوں نے کہا کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت مرد (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے یا مرد عورت (کے غسل) کے بچے ہوئے پانی سے نہائے۔ (ایک راوی) مسدد نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ  دونوں اکٹھے ہو کر (علیحدہ علیحدہ) چلو لے کر نہا لیں تو جائز ہے۔  (سنن ابوداؤد، سنن نسائی)  اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کے شروع میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے (بھی) منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی ہر روز کنگھی کرے اور نہانے کی جگہ پیشاب کرے اور ابن ماجہ نے یہ روایت عبداللہ بن سر جس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

روزانہ کنگھی کرنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کا طریقہ ہے جن کا مقصد صرف بناؤ سنگار اور زیب و زینت ہوتا ہے لہٰذا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کنگھی تیسرے روز کی جائے یعنی درمیان میں ایک دن کا ناغہ کرنا چاہئے۔

غسل کرنے کی جگہ پیشاب کرنا اس لیے منع ہے کہ اس سے وسوسے پیدا ہوتے جو عبادت میں حضوری قلب کے لیے سد راہ بنتے ہیں۔

 

                   پانی کے احکام کا بیان

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی آدمی اس ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہنے والا نہ ہو پیشاب نہ کرے کہ پھر اسی میں غسل کرنے لگے (یعنی کسی دانشمند سے یہ بعید ہے کہ وہ پانی میں پیشاب کر لے پھر اسی پانی سے غسل کر لے ) (صحیح البخاری و صحیح مسلم) صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی ناپاکی کی حالت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے (تاکہ پانی ناپاک نہ ہو جائے ) لوگوں نے کہا  ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر کس طرح نہانا چاہئے؟ انہوں نے فرمایا  اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی (چلو سے ) لے کر پانی سے باہر نہانا چاہئے۔

 

تشریح

 

یہاں جس پانی میں پیشاب کرنے اور پھر اس میں نہانے سے روکا جا رہا ہے اس سے ماء قلیل یعنی تھوڑا پانی مراد ہے کیونکہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی ماء جاری یعنی بہنے والے پانی کا حکم رکھتا ہے جو پیشاب وغیرہ سے ناپاک نہیں ہوتا اور پھر اس میں نہانا بھی جائز ہے۔

بعض علماء کرام نے کہا کہ ماء کثیر یعنی زیادہ پانی میں بھی پیشاب کرنا ممنوع ہے اگرچہ وہ پانی پیشاب وغیرہ سے نجس نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر اس میں کوئی آدمی پیشاب کرے گا تو اس کے دیکھا دیکھی دوسرے بھی اس میں پیشاب کرنے لگیں گے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عمومی طور پر سب ہی لوگ اس میں پیشاب کرنے کی عادت میں مبتلا ہو جائیں گے جس کی وجہ سے پانی رفتہ رفتہ متخیر (تبدیل) ہو جائے گا یعنی جب اس میں زیادتی اور کثرت سے پیشاب کیا جائے گا تو پانی کا رنگ مزہ اور بو تینوں چیزیں بدل جائیں گی اور پانی اصل حیثیت کھو کر ناپاک ہو جائے گا۔

لہٰذا اب اس حدیث میں مذکورہ حکم کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ پہلی شکل یعنی پانی کم ہونے کی صورت میں تو یہ نہی حرمت کے لیے ہے کیونکہ کم پانی میں پیشاب کرنے سے پانی ناپاک ہو جاتا ہے۔ دوسری شکل یعنی پانی زیادہ ہونے کی صورت میں کراہت کے لیے ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اصطلاح شریعت میں  کم پانی اور زیادہ پانی کی مقدار اور اس کی تحدید کیا ہے؟ تو اس سلسلے میں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے صفحات میں پوری وضاحت کی جائے گی۔

اسے بھی سمجھ لیجئے کہ حدیث میں پانی کے ساتھ جاری یعنی بہنے والے کی قید کیوں لگائی گئی ہے؟ اس قید کی وجہ یہ ہے کہ اگر پانی جاری یعنی بہنے والا ہو تو خواہ کم ہو یا زیادہ ہو اس میں نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

نیز علماء کرام نے لکھا ہے کہ یہ تمام تفصیلات دن کے لیے ہیں ، رات میں جنابت کے خوف کی وجہ سے مطلقاً اس میں قضائے حاجت مکروہ اور ممنوع ہے کیونکہ جنات رات کو وہیں رہتے ہیں جہاں پانی ہوتا ہے چنانچہ اکثر و بیشتر ندی و نالے اور تالاب جوہڑ اور نہر وغیرہ رات کو جنات کا مسکن ہوتی ہیں۔

حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی جنبی پانی میں ہاتھ نکالنے کے لیے ڈالے تو پانی مستعمل یعنی ناقابل استعمال نہیں ہو گا اور اگر وہ پانی میں ہاتھ اس لیے ڈالے تاکہ اپنے ہاتھوں کو ناپاکی دور کرنے کے لیے اس میں دھوئے تو اس شکل میں اپنی مستعمل یعنی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت سائب بن یزید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  میری خالہ مجھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے گئیں ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! (یہ) میرا بھانجا بیمار ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا پانی پی لیا۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پشت مبارک کے پیچھے کھڑا ہو کر مہر نبوت کو دیکھنے لگا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان تھی اور دلہن کے پلنگ کی گھنڈی کی طرح (چمک رہی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

وضو کے پانی سے یا تو یہ مراد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو فرمانے کے بعد جو پانی برتن میں باقی رہ گیا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے پی لیا یا اس سے مراد یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو فرما رہے تھے تو جو پانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعضاء وضو سے گرتا جاتا تھا حضرت سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حصول برکت و سعادت کے خاطر اسے پیتے جاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت و رسالت کے منصب سے سرفراز فرما کر جب دنیا میں مبعوث کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت و صداقت کی دلیل کے طور پر جہاں اور بہت سی نشانیاں اور معجزے دئیے وہیں ایک بڑی نشانی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھوں کے درمیان  مہر نبوت بھی ثبت فرمائی چنانچہ حضرت سائب اسی مہر نبوت کی مقدار اور اس کی ہیت بیان فرما رہے ہیں کہ وہ چھپر کھٹ کی گھنڈی کی طرح تھی۔

اس نشانی کو  مہر نبوت اس لیے کہا جاتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے کے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو کتابیں نازل کی گئی تھی ں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد اور بعثت کی خبر دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ علامت بتائی گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔ چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو اس مہر نبوت کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہچانے گئے کہ آپ ہی وہی نبی آخر الزماں ہیں جن کی بعثت کی خبر پہلے کتابوں میں دی گئی ہے چنانچہ یہ  مہر نبوت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت و رسالت کی علامت قرار دی گئی اس کے علاوہ علماء کرام نے اس کی وجہ تسمیہ اور بھی لکھی ہیں مگر یہاں طوالت کی وجہ سے سب کو ذکر نہیں کیا جا رہا۔

مہر نبوت کے بارے میں علماء کرام لکھتے ہیں کہا اس کے اندرونی حصہ پر وَحْدَہ لَا شَرِیْکَ کے الفاظ مرقوم تھے اور اندرونی حصے پریہ عبارت لکھی ہوئی تھی تَوَجَّہُ حَیْثَ مَا کُنْتَ فَاِنَّکَ مَنّصُورٌ یعنی جدھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم متوجہ ہوں گے ہماری مدد آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ ہو گی

مہر نبوت کے ظاہر ہونے کے وقت میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ بعض حضرات نے تو یہ کہا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سینہ مبارک شق کر کے سیا گیا تو اس کے بعد یہ نمودار ہوئی بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش کے فوراً بعد یہ مہر ظاہر ہوئی اور بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس مہر سمیت ہی پیدا ہوئے تھے۔ وا اللہ اعلم

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس پانی کا حکم پوچھا گیا جو جنگل میں زمین پر جمع ہوتا ہے اور اکثر و بیشتر چو پائے درندے اس پر آتے جاتے رہتے ہیں (یعنی جانور وغیرہ اس پانی پر آ کر اسے پیتے ہیں اور اس میں پیشاب وغیرہ بھی کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر پانی دو قلوں کے برابر ہو تو وہ ناپاکی کو قبول نہیں کرتا (یعنی نجاست وغیرہ پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا)۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی ، سنن نسائی ، داری، سنن ابن ماجہ اور سنن ابوداؤد کی ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ  وہ پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

 

تشریح

 

قلہ بڑے مٹکے کو کہتے ہیں جس میں اڑھائی مشک پانی آتا ہے  قلتین یعنی دو مٹکوں میں پانچ مشک پانی سماتا ہے دو مشکوں کے پانی کا وزن علماء کرام نے سوا چھ من لکھا ہے اس حدیث کے پیش نظر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی دو مٹکوں کے برابر ہو اور اس میں نجاست و غلاظت گر جائے تو جب تک پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

لیکن جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا بہت زیادہ اختلاف ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ سفر السعادہ کے مصنف جو ایک جلیل القدر محدث ہیں لکھتے ہیں کہ  علماء کرام کی ایک جماعت کاقول تو یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے مگر ایک دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔

علی بن مدینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو جلیل القدر علماء اور ائمہ حدیث کے امام اور حضرت عبداللہ بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے استاد ہیں لکھتا ہے کہ  یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہی نہیں ہے۔

نیز علماء کرام لکھتے ہیں کہ  یہ حدیث اجماع صحابہ کے برخلاف ہے کیونکہ ایک مرتبہ چاہ زمزم میں ایک حبشی گر پڑا تو حضرت بن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ حکم دیا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے اور یہ واقعہ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے ہوا اور کسی نے بھی اس حکم کی مخالفت نہیں کی۔

پھر اس کے علاوہ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ  اس مسئلہ میں پانی کی حد اور مقدار متعین کرنے کے سلسلے میں نہ تو حنفیہ کو اور نہ ہی شوافع کو ایسی کوئی صحیح حدیث ہاتھ لگی ہے جس سے معلوم ہو کہ نجاست پڑنے سے کتنی مقدار کا پانی ناپاک ہو جاتا ہے اور کتنی مقدار کا ناپاک نہیں ہوتا۔

امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو فن حدیث کے ایک جلیل القدر امام اور حنفی مسلک کے تھے فرماتے ہیں کہ  حدیث قلتین (یعنی یہ حدیث) اگرچہ صحیح ہے لیکن اس پر ہمارے عمل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں پانی کی مقدار دو قلے بتائی گئی ہے اور قلے کے کئی معنی آتے ہیں ، چنانچہ قلہ مٹکے کو بھی کہتے ہیں اور مشک کو بھی، نیز پہاڑ کی چوٹی بھی قلہ کہلاتی ہے ، لہٰذا جب یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں حدیث میں قلہ سے کیا مراد ہے تو اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے؟

بہر حال اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ جو علماء صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کرتے ہیں ان کا مسلک تو یہ ہے کہ  نجاست وغیرہ پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ پانی کم ہو یا زیادہ ہو، جاری ہو یا ٹھہرا ہوا ہو، اور خواہ نجاست پڑنے سے پانی کا رنگ مزہ اور بو متغیر ہو یا نہ ہو یہ حضرات دلیل میں اس کے بعد آنے والی حدیث (نمبر٥) کے یہ الفاظ پیش کرتے ہیں کہ الحدیث (اِنَّ لْمَآءَ طُھُورٌّ لَا یُنَجِّسُہٌ شَیْی ءٌ (یعنی پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی) حالانکہ مطلقاً پانی نہیں ہے بلکہ زیادہ پانی ہے۔

ان کے علاوہ تمام علماء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ اگر پانی زیادہ ہو گا تو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہو گا اور اگر پانی کم ہے تو نجاست پڑنے سے ناپاک ہو جائے گا۔

اب اس کے بعد چاروں اماموں کے ہاں  زیادہ اور  کم کی مقدار میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نجاست پڑنے سے جس پانی کا رنگ، مزہ اور بو متغیر نہ ہو وہ ماء کثیر (زیادہ پانی) کہلائے گا اور جو پانی متغیر ہو جائے وہ ماء قلیل (کم پانی) کے حکم میں ہو گا۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک اس حدیث کے پیش نظر یہ ہے جو پانی دو قلوں کے برابر ہو گا اسے ماءِ کیثر کہیں گے اور جو پانی دو قلوں کے برابر نہ ہو گا وہ  ماء قلیل کہلائے گا۔

حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ماننے والے یہ فرماتے ہیں کہ۔ اگر پانی اتنی مقدار میں ہو کہ اس کے ایک کنارے کو ہلانے سے دوسرا کنارہ نہ ہلے تو وہ  ماء کثیر ہے اور اگر دوسرا کنارہ ہلنے لگے تو وہ  ماء قلیل ہے۔

بعد کے بعض حنفی علماء نے  دہ در دہ کو ماء کیثر کہا ہے یعنی اتنا بڑا حوص جو دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا ہو اور اتنا گہرا ہو کہ اگر چلو سے پانی اٹھائیں تو زمیں نہ کھلے ایسے حوض کو دہ در دہ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایسے حوض کے پانی میں جو  دہ در دہ ہو ایسی نجاست پڑ جائے جو پڑ جانے کے بعد دکھلائی نہ دیتی ہو جیسے پیشاب، خون ، شراب وغیرہ تو چاروں طرف وضو کرنا درست ہے جدھر سے چا ہے وضو کر سکتا ہے ، البتہ اگر اتنے بڑے حوض میں اتنی نجاست پڑ جائے کہ پانی کا رنگ یا مزہ بدل جائے یا بد بو آنے لگے تو پانی ناپاک ہو جائے گا اور اگر حوض کی شکل یہ ہو کہ لمبا تو وہ بیس ہاتھ اور چوڑا پانچ ہاتھ ہو یا ایسے ہی لمبا پچیس ہاتھ ہو اور چوڑا چار ہاتھ ہو تو یہ دہ دردہ کی مثل ہی کہلائے گا۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا ہم بضاعہ کے کنویں (کے پانی) سے وضو کر سکتے ہیں؟ (جب کہ) اس کنویں میں حیض کے (خون میں بھرے ہوئے ) کپڑے کتوں کے گوشت اور گندگی ڈالی جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (اس کنویں کا) پانی پاک ہے (جب تک کہ اس کے رنگ، مزہ اور بو میں فرق نہ آئے ) اس کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔  (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، ابوداؤد، سنن نسائی)

 

تشریح

 

بیر بضا عہ مدینہ کے ایک کنویں کا نام ہے وہ ایک ایسی جگہ واقع تھا جہاں نالے کی رو آتی تھی اس نالے میں جو گندگی اور غلاظت ہوتی تھی وہ اس کنویں میں پڑتی تھی مگر کہنے والے نے کچھ اس انداز سے بیان کیا جس سے یہ وہم ہوتا ہے کہ لوگ خود اس میں نجاست ڈالتے تھے ، حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ اس قسم کی گندگی اور غلط چیزوں کا ارتکاب تو عام مسلمان بھی نہیں کر سکتا چہ جائے کہ وہ ایسی غیر شرعی غیر اخلاقی چیز کا ارتکاب کرتے جو افضل المومنین تھے۔

بہر حال! اس کنویں میں بہت زیادہ پانی تھا ور چشمہ دار تھا اس لیے جو گندگی اس میں گرتی تھی بہہ کر نکل جاتی تھی بلکہ علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ اس وقت کنواں جاری تھا اور نہر جاری کی طرح ایک باغ میں بہتا بھی تھا چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کنویں کی اس صفت کی وجہ سے اس کے پانی کے بارے میں وہی حکم فرمایا جو ماء کثیر یا جاری پانی کا ہوتا ہے۔

حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ نجاست پڑنے سے کوئی پانی ناپاک نہیں ہوتا خواہ وہ تھوڑا پانی ہو یا زیادہ پانی بلکہ یہ حکم ماء کثیر یعنی زیادہ پانی کا ہے ماء قلیل یعنی کم پانی کا یہ حکم نہیں ہے۔

حنفیہ کے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چشمہ دار کنواں بھی  جاری پانی کا حکم رکھتا ہے یعنی جو حکم بہنے والے پانی کا ہوتا ہے وہی چشمہ دار کنویں کا ہوتا ہے۔

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  ایک آدمی نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! ہم (کھارے ) دریا میں کشتی کے ذریعہ) سفر کرتے ہیں اور (میٹھا) پانی اپنے ہمراہ تھوڑا سا لے جاتے ہیں اس لیے اگر ہم اس پانی سے وضو کر لیں تو پیاسے رہ جائیں ! تو کیا ہم دریا کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں (یا تیمم کر لیا کریں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دریا کا وہ پانی پاک کرنے والا ہے اس کا مردار حلال ہے۔ (مالک ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

میتہ اس مردار جانور کو کہتے ہیں جو بغیر ذبح کئے ہوئے اپنے آپ مر جائے چنانچہ اس حدیث میں میتۃ (سے مراد مچھلی ہے کیونکہ اسے ذبح نہیں کرتے اس کا شکار کرنا اور اسے پانی سے نکالنا ہی اس کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ البتہ جو مچھلی پانی میں مر جائے وہ حنفیہ کے ہاں حلال نہیں ہے۔

دریائی جانوروں میں مچھلی تمام علماء کرام کے ہاں متفقہ طور پر حلال ہے ، دوسرے جانوروں کے بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے لیلۃ الجن (یعنی جن کی رات) میں ان سے پوچھا کہ تمہارے لوٹے میں کیا ہے ! عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ نبیذ (یعنی کھجوروں کا شربت) ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کھجوریں پاک ہیں اور پانی پاک کرنے والا ہے (ابوداؤد) امام احمد و امام ترمذی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ الفاظ زیادہ نقل کئے ہیں کہ  پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے وضو کیا  نیز امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ  ابو زید کا پتہ نہیں کہ یہ کون ہیں ہاں حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ البتہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح طور پر یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ  لیلۃ الجن کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

لیلۃ الجن اس رات کو فرماتے ہیں جس میں جنات کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ان کے سامنے قرآن کریم پڑھا تھا جس کے بعد وہ جماعت اپنی قوم میں گئی اور اسلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات سے انھیں آگاہ کیا اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ جن میں بھی کیا گیا ہے۔

نبیذ تمر کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھوارے پانی میں ڈال دئیے جاتے ہیں اور انہوں چند روز تک اسی طرح پانی میں رہنے دیا جاتا ہے جس کے بعد دونوں کا شربت سا بن جاتا ہے اور اس میں ایک قسم کی تیزی بھی آ جاتی ہے ، یہ شربت جب تک تیز و تند نہیں ہوتا حلال رہتا ہے چنانچہ منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ نیند تمر بنایا جاتا تھا۔

نبیذ تمر سے وضو کرنا مختلف فیہ ہے ، چنانچہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر وضو کے لیے خاص پانی نہ ملے تو نبیذ تمر سے وضو کیا جا سکتا ہے اس کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس مسلک سے اختلاف کرتے ہیں ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دلیل یہی مذکورہ حدیث ہے یہ حدیث چونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لیے شوافع اس حدیث کو ضعیف ثابت کرتے ہیں چنانچہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی بات کہہ رہے ہیں کہ حدیث کے راوی ابو زید غیر معروف ہیں اس لیے ان کی روایت کردہ حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی، امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دوسری چیز یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیلۃ الجن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھے۔ اس کی شہادت میں وہ حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت پیش کر رہے ہیں جو حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ اس رات میں ہونا ہی ثابت نہیں ہے تو ابو زید کی یہ روایت یقیناً صحیح نہیں ہو سکتی۔

لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک برحق ہے کیونکہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ کہنا ابو زید مجہول راوی ہیں حدیث کی حیثیت پر کچھ اثر انداز نہیں ہوتا اس لیے کہ حدیث کے راویوں کے غیر معروف ہونے کا دعویٰ دوسرے طریقوں سے غلط ثابت ہو جاتا ہے۔

دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نہیں تھے ، بالکل غلط ہے ، کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی دیگر روایتوں سے بھی تحقیق کے ساتھ ثابت ہے چنانچہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس شب میں جنات کو سلام کی دعوت اور قرآن کی تعلیمات بتانے میں مشغول ہوئے تو اپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک جگہ بٹھا دیا اور ان کے اردگرد لکیر کھینچ کر ایک دائرہ بنایا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ اس دائرے سے باہر نہ نکلیں۔

حضرت علقمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں ہے مگر اس کا مطلب حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی کا سرے سے انکار نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جنات سے ہم کلام تھے اس وقت حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر نہ تھے ، یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت جنات کے پاس تشریف لے جا رہے تھے عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس نہیں تھے بلکہ آخر شب میں جا کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کی۔ وا اللہ اعلم

 

 

٭٭حضرت کبشہ بنت کعب بن مالک سے جو حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کی بیوی تھی ں مروی ہے کہ  (ایک روز ان کے سسر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس آئے (کبشہ کہتی ہیں کہ) میں نے ان کے وضو کے لیے (ایک برتن میں ) پانی رکھ دیا، ایک بلی آ کر اس میں سے پانی پینے لگی، حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتن کو اس کی طرف جھکا دیا (تاکہ وہ آسانی سے پانی پی لے ) چنانچہ بلی نے پانی پی لیا  کبشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے دیکھا کہ میں تعجب سے ان کی طرف دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے کہا  میری بھتیجی  کیا تمہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے؟ میں نے کہا  جی ہاں۔ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بلیاں ناپاک نہیں ہیں ، کیونکہ یہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہیں یا یہ فرمایا  آنے جانے والیوں میں سے ہیں۔ (موطا امام مالک، مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی)

 

تشریح

 

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کبشہ کو بھتیجی کہا ہے حالانکہ وہ ان کی بھتیجی نہیں تھی ں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب میں عام طور پر مرد مخاطب کو اگر وہ چھوٹا ہوتا ہے بھتیجا یا چچا کا بیٹا اور عورت مخاطب کو بھتیجی کہہ کر پکارتے ہیں چا ہے حقیقت میں ان کا یہ رشتہ نہ ہو کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہوتا ہے ، اس لیے وہ اسلامی اخوت کے رشتے کے پیش نظر اس کی اولاد کو بھتیجا یا بھتیجی کہتے ہیں۔ روایت میں  طوافین اور طوافات دونوں لفظ استعمال فرمائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بلی اگر نر ہے تو اس کی مناسبت سے  طوافین کا لفظ ہو گا اور اگر بلی مادہ ہے تو اس کی مناسبت سے  طوافات کا لفظ ہو گا۔

یہ دونوں لفظ یہاں  خادم کے معنی میں استعمال فرمائے ہیں اس کا مطب یہ ہے کہ  بلیاں تمہاری خادم ہیں ان کو خادم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بھی انسانوں کی مختلف طریقوں سے خدمت کرتی ہیں اور ان کے آرام و راحت کی بعض چیزوں میں بڑی معاون ہوتی ہیں مثلاً نقصان دہ جانوروں جیسے چوہے وغیرہ کو یہ مارتی ہیں۔ یا ان کو خادم اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ جیسے خادموں کی خبر گیری میں ثواب ملتا ہے اسی طرح بلیوں کی خبر گیری میں بھی ثواب ہوتا ہے اور جس طرح گھروں میں خادم پھرتے رہتے ہیں اس طرح بلیاں بھی گھروں میں پھرتی رہتی ہیں۔

بہر حال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے پاس ہر وقت خادموں کی طرح رہتی ہیں اور گھر کے ہر حصے میں پھرا کرتی ہیں اگر ان کے استعمال کیے کو ناپاک قرار دے دیا جائے تو تم سب بڑی دشواریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اس لیے یہ حکم کیا جاتا ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ پاک ہے۔ گویا یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ بلی کا استعمال کردہ پاک ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلیوں کا استعمال کردہ ناپاک نہیں ہے بلکہ پاک ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ بلی کا استعمال کردہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی نہ مل سکے تو اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اس کی موجودگی میں تیمم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر بلی کے استعمال کردہ پانی کے علاوہ دوسرا پانی موجود ہو اور اس کے باوجود اسی جھوٹے پانی سے وضو کیا جائے گا تو وضو ہو جائے گا لیکن مکروہ ہو گا۔

امام صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس شکل میں اسے مکروہ بھی اس لیے فرماتے ہیں کہ ایک دوسری حدیث میں بلی کو درندہ کہا گیا ہے اور درندہ کے بارے میں بتایا گیا کہ ناپاک ہوتا ہے لیکن یہ حدیث چونکہ اس کے بالکل برعکس ہے اس لیے ان دونوں حدیثوں پر نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا حکم نافذ کیا جانا چاہئے جو دونوں حدیثوں کے مفہوم کے مطابق ہو لہٰذا اب یہی کیا جائے گا کہ جس حدیث میں بلی کو درندہ کہہ کر اس کی نجاست کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس حدیث نے بلی کی نجاست کے حکم کو کراہت میں بدل دیا ہے لہٰذا اس کے استعمال کیے ہوئے کو ناپاک تو نہیں کہیں گے البتہ مکروہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

 

٭٭حضرت داؤد بن صالح بن دینار اپنی والدہ محترمہ سے نقل کرتے ہیں کہ  (ایک روز) انہیں ان کی آزاد کرنے والی مالکہ نے ہریسہ (یعنی حریرہ) دیکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت اقدس میں بھیجا ان کی والدہ فرماتی ہیں کہ  میں نے (وہاں پہنچ کر) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز پڑھتے ہوئے پایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اشارے سے اسے رکھ دینے کے لیے مجھے کہا (چنانچہ میں نے ہریسہ کا برتن رکھ دیا اتنے میں ) ایک بلی آ کر اس میں سے کھانے لگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز سے فارغ ہوئیں تو حریرہ کو بلی نے جس طرف سے کھایا تھا اسی طرف سے انہوں نے بھی کھالیا پھر فرمایا کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ  بلی ناپاک نہیں ہے اور وہ تمہارے پاس آنے جانے والوں میں سے ہے  اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بلی کے استعمال کردہ (پانی) سے وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

داؤد کی والدہ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس حریرہ لے کر پہنچیں تو وہ نماز میں مشغول تھی ں اس لیے انہوں نے اپنے ہاتھ یا سر وغیرہ سے انہیں اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ یہ برتن رکھ دو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس طرح کے معمولی اشارے جائز ہیں کیونکہ یہ عمل کثیر نہیں ہے چنانچہ نماز کو فاسد اور ختم کر دینے والی چیز یا تو گفتگو ہے یا عمل کثیر ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو فرما لیا کرتے تھے۔ لہٰذا جن علماء کا مسلک یہ ہے کہ بلی کے استعمال کردہ پانی سے وضو کرنا مکروہ تنزیہی ہے مثلاً امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو وہ اس کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فعل آسانی و رخصت پر عمل کرنے کے مترادف ہے اور بیان جواز کے لیے ہے۔ البتہ جن علماء کے نزدیک بلی کا استعمال کردہ پاک ہے ان کو اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس سے تو ان ہی کے مسلک کی تائید ہوتی ہے علماء نے لکھا ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بلیوں کو پالنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ کیا ہم اس پانی سے وضو کر سکتے ہیں جس کو گدھوں نے استعمال کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ہاں ! (اس پانی سے وضو کرنا جائز ہے ) اور اس پانی سے بھی (وضو کرنا جائز ہے ) جس کو درندوں نے استعمال کیا ہو۔ (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

اس مسئلے میں کہ گدھوں یا خچروں کا استعمال کردہ پانی پاک ہے یا نہیں؟ کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس مسئلے میں جو احادیث منقول ہیں ان میں تعارض ہے چنانچہ بعض احادیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا استعمال کردہ حرام ہے اور بعض احادیث سے ان کی اباحت کا پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ مرقات میں دونوں قسم کی احادیث جمع کی گئی ہیں لہٰذا ان کے ظاہری تعارض کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور پھر احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اس مسئلے کے بارے میں اختلاف منقول ہے چنانچہ حضرت ابن عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گدھوں اور خچروں کے مستعمل کو ناپاک کہتے تھے مگر حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاک ہونے کے قائل تھے۔

اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ درندوں کا مستعمل پاک ہے جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک درندوں کا استعمال کیا ہوا ناپاک ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب کوئی درندہ پانی وغیرہ کو استعمال کرے گا تو اس میں اس کا لعاب یقیناً پڑے گا اور لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ظاہر کہ درندوں کا گوشت ناپاک ہوتا ہے اس لیے اس کے استعمال کیے ہوئے کو بھی ناپاک کہا جائے گا۔

اب جہاں تک ان حدیثوں کا تعلق ہے جن سے درندوں کے مستعمل کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے ، اس کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کے بارے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی کیونکہ ان احادیث کی صحت ہی میں کلام کیا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صحیح بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جائے گا کہ ان احادیث سے درندوں کے مستعمل پانی کے پاک ہونے کا ثبوت ملتا ہے اس سے وہ پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع ہوتا ہے ، چنانچہ اس کی تصریح آگے آنے والی احادیث سے بھی جو حضرت یحییٰ اور حضرت ابو سعید رحمہما اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہیں ، ہوتی ہے جن میں وضاحت کے ساتھ ثابت ہو رہا ہے کہ اگر درندے نے ایسے پانی کو استعمال کیا جو بہت زیادہ مثلاً کسی بڑے تالاب و غیرہ میں پانی ہے تو پاک ہو گا اگر پانی تھوڑا ہو گا تو وہ درندوں کے استعمال کر دینے سے ناپاک ہو جائے گا۔

پھر اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ان احادیث میں درندے اور پانی علی العموم مراد ہیں کہ پانی خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ وہ درندوں کے استعمال کرنے سے ناپاک نہیں ہوتا تو کیا اس شکل میں یہ لازم نہیں آتا کہ کتوں کے جوٹھے کو بھی پاک کہا جائے حالانکہ کوئی بھی کتے کہ جوٹھے کو پاک نہیں کہتا  لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جن احادیث سے درندوں کے جوٹھے پانی کا پاک ہونا معلوم ہوتا ہے اس سے وہی پانی مراد ہے جو جنگل میں بڑے بڑے تالابوں میں جمع رہتا ہے اور جو بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس موقع پر برسبیل تذکرہ ایک مسئلہ بھی سن لیجئے۔ یہ تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ کتے کا لعاب وغیرہ بھی ناپاک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کتوں کا لعاب وغیرہ کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگ جائے تو اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہوتا ہے مگر اس سلسلے میں اتنی بات یاد رکھئے کہ اگر کسی کتے نے کسی آدمی کے بدن کے کسی حصے کو منہ سے پکڑ لیا یا کسی کپڑے کو منہ میں دبا لیا تو اس کا مسئلہ یہ ہے کہ کتے نے اگر غصے کی حالت میں پکڑا یا دبا ہے تو وہ ناپاک نہیں ہو گا۔ اور اگر غصے کی حالت میں نہیں بلکہ بطور کھیل کود کے اس نے پکڑا اور دبایا ہے تو وہ ناپاک ہو جائے گا اس لیے بدن کے اس حصے کو اور کپڑے کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہو گا۔ اس فرق کی وجہ علماء یہ لکھتے ہیں کہ جب کتا کسی چیز کو غصے کی حالت میں پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے پکڑتا ہے اور اس کے دانت میں کوئی رطوبت نہیں ہوتی اس لیے اس چیز پر ناپاکی کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور جب کسی چیز کو کھیل کے طریقہ پر پکڑتا ہے تو اسے دانتوں سے نہیں پکڑتا بلکہ ہونٹوں سے پکڑتا ہے اور ہونٹ چونکہ لعاب وغیرہ سے تر ہوتے ہیں اس لیے اس کی ناپاکی اس چیز کو بھی ناپاک کر دیتی ہے۔

 

 

٭٭حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا (آپ کا نام فاختہ ہے مگر ام ہانی کنیت سے مشہور ہیں ابو طالب کی صاحبزادی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی حقیقی بہن ہیں۔) راوی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک طشت میں کہ جس میں گندھے ہوئے آٹے کا کچھ حصہ لگا ہوا تھا غسل فرمایا۔ (سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

چونکہ حضرات شوافع کے نزدیک پانی میں تغیر آ جانے سے خواہ تغیر کسی پاک و جائز چیز سے آئے یا ناپاک و نا جائز چیز سے وہ پانی وضو و غسل کے استعمال کے قابل نہیں رہتا اس لیے وہ حضرات اس حدیث کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ طشت میں اتنا آٹا نہیں لگا تھا جس سے پانی متغیر ہو جاتا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس میں غسل کیا۔

مگر حنفیہ کے ہاں چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر پانی کسی پاک و جائز چیز سے متغیر ہو بشرطیکہ پانی گاڑھا ہو جائے تو اس سے وضو اور غسل درست ہے اس لیے انہیں اس حدیث کی کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 

 

٭٭حضرت یحییٰ بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک قافلہ کے ہمراہ کہ جس میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے چلے جب (اہل قافلہ جنگل میں ) ایک تالاب پر پہنچے تو حضرت عمرو بن عاص رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا کہ اے تالاب کے مالک کیا تمہارے اس تالاب پر (پانی پینے کے لیے ) درندے بھی آتے ہیں؟ (یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ  اے تالاب کے مالک یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہم درندوں پر آتے ہیں اور درندے ہم پر آتے ہیں یعنی کبھی تو ہم پانی پر آتے ہیں اور کبھی درندے پانی پر آتے ہیں اور چونکہ تالاب میں پانی زیادہ ہے اس لیے درندوں کے پینے سے ناپاک نہیں ہوتا (مالک) اور رزین نے کہا ہے کہ  بعض راویوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول میں یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں )  میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ  درندے جو اپنے پیٹ میں لے جائیں وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے پینے کے قابل اور پاک کرنے والا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ان تالابوں کے بارے میں پوچھا گیا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہیں اور ان پر (پانی پینے کے لیے ) درندے ، کتے اور گدھے آتے رہتے ہیں کہ آیا اس سے کوئی چیز پاک کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو ان کے پیٹوں میں آ جائے وہ ان کا ہے اور جو باقی رہ جائے وہ ہمارے لیے پاک کرنے والا ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

ان دونوں حدیثوں میں درندوں کے استعمال کردہ پانی کے پاک ہونے کا جو حکم بیان کیا جا رہا ہے وہ مطلقاً پانی کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ حکم اس پانی کے بارے میں ہے جو برے بڑے تالابوں اور حوضوں میں جمع رہتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل نہ کرو کیونکہ یہ برص(یعنی سفیدی کی بیماری) کا سبب ہوتا ہے۔ (دارقطنی)

 

تشریح

 

دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی  کا مطلب بعض علماء نے یہ اخذ کیا ہے کہ اس پانی سے غسل نہ کرنا چاہئے جو قصداً دھوپ میں رکھ کر گرم کیا گیا ہوا لیکن بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے یعنی خواہ پانی کو دھوپ میں قصداً رکھ کر گرم کیا گیا ہو یا پانی کسی جگہ پہلے سے رکھا ہوا ہو اور دھوپ کے آ جانے سے گرم ہو گیا ہو۔

حضرت میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث (یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول) ضعیف ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی حدیث اس سلسلے میں منقول نہیں ہے۔

مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے جس کے راوی ثقہ اور معتمد ہیں لہٰذا اس کی صحت پر کوئی کلام صحیح نہیں ہو گا۔

جہاں تک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کی مراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت عمر کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے پانی میں غسل مستقلاً نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے غسل کرنے کی عادت ڈالی جائے تاکہ برص جیسے موذی مرض میں مبتلا ہونے کا خدشہ نہ رہے۔

ویسے مسئلہ کی بات یہ ہے کہ دھوپ میں گرم کئے ہوئے پانی سے غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چنانچہ حضرت امام اعظم، امام مالک، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ تینوں حضرات کے نزدیک اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک میں کچھ اختلاف ہے لیکن ان کا صحیح قول یہ ہے کہ اس پانی سے غسل کرنا مکروہ ہے البتہ ان کے علماء متاخرین نے بھی تینوں ائمہ کی ہمنوائی کرتے ہوئے یہی مسلک اختیار کیا ہے کہ اس میں کراہت نہیں ہے۔

 

                    نجاستوں کے پاک کرنے کا بیان

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جب تم میں سے کسی کے برتن میں سے کتا پانی پی لے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہئے (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ تم میں سے جس کے برتن سے کتا پانی پی لے اس (برتن) کو پاک کرنے کی صورت یہ ہے اسے سات مرتبہ دھو ڈالے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھوئے مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کو بھی دوسری نجاستوں کے حکم میں شمار کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ اس برتن کو صرف تین مرتبہ بغیر مٹی کے دھو ڈالنا کافی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں سات مرتبہ دھونے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طریقے پر نہیں ہے بلکہ اختیار کے طور پر ہے ، یا پھر یہ کہ سات مرتبہ دھونے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جو بعد میں منسوخ ہو گیا! وا اللہ اعلم۔

 

تشریح

 

اکثر محدثین اور تینوں ائمہ کے مسلک یہ ہیں کہ اگر برتن میں کتا منہ ڈال دے یا کسی برتن سے پانی پی لے اور کھائے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک دن) ایک دیہاتی نے مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر دیا (یہ دیکھ کر) لوگ اس کے پیچھے پڑنے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اسے چھوڑ دو اور ایک ڈول میں پانی اس کے پیشاب پر بہا دو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو تنگی کرنے والے نہیں۔) (الصحیح البخاری)

 

تشریح

 

راوی کو شک ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجلا من ماء فرمایا ہے یا ذنوبا من ماء کے الفاظ فرمائے ہیں اسی لیے انہوں نے دونوں نقل کر دئیے ہیں  سجل اور  ذنوب دونوں کے معنی ڈول ہی کے ہیں لیکن ان کے استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے وہ یہ کہ سجل تو اس ڈول کو کہتے ہیں جس میں پانی ہو خواہ پانی تھوڑا ہو یا زیادہ اور ذنوب پانی سے بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔ اس حدیث سے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی انتہائی شفقت و رحمت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حلم و عفو کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت پر کتنے مہربان اور شفیق تھے چنانچہ نہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس دیہاتی کی غلطی سے در گزر فرماتے ہوئے اس کو کچھ نہ کہا بلکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے برا بھلا کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ تم جس پیغمبر کے رفیق و ساتھی اور جس امت کے فرد ہو اس کی مابہ الامتیاز خصوصیت ہی یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو سختی و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور نہ کسی کی غلطی پر جو عدم واقفیت کی بناء پر سرزد ہو جائے برا بھلا کہا جائے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے امت کے لیے یہ تعلیم مقصود ہے کہ لوگوں کو کسی دشواری اور سختی میں نہ ڈالا جائے اور نہ ایسا کوئی معاملہ کیا جائے جس سے دوسرا آدمی بد دل ہو جائے اور اپنے آپ کو کسی گھٹن اور تنگی میں محسوس کرے۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر زمین پر کوئی نجاست و گندگی پڑی ہوئی ہو تو اس نجاست پر زیادہ مقدار میں پانی ڈالنے یا نجاست کو بہا دینے سے زمین پاک ہو جاتی ہے۔

یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ نجاست کا دھوون اگر متغیر نہ ہو تو پاک ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے کپڑے ، بدن، اور زمین پر یا کسی بوریے وغیرہ سے چھن کر زمین پر گرے تو یہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے مگر مختار اور معتمد قول یہ ہے کہ دھوون اگر نجاست کی جگہ اس وقت گرے جب وہ نجاست کے زائل ہونے کی وجہ سے پاک ہو چکی ہو تو اس شکل میں وہ پاک ہو گا اور وہ دھوون جو نجاست کی جگہ سے پاک ہونے سے پہلے جدا ہوا وہ ناپاک ہو گا اور اگر دھوون متغیر ہو جائے بایں طور کہ پانی کے رنگ، مزے اور بو میں تبدیلی آ جائے تو وہ بالاتفاق ناپاک ہے۔

علامہ طیبی شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر زمین کسی نجاست کی وجہ سے ناپاک ہو جائے تو وہ خشک ہونے سے پاک نہیں ہوتی یعنی وہ جگہ پانی بہا کر نجاست کو زائل کر دینے ہی سے پاک ہو گی اور اس جگہ کو کھرچ ڈالنا یا وہاں سے مٹی کھود کر اٹھا لینا ضروری نہیں ہے۔

مگر امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک خشک ہونے سے زمین پاک ہو جاتی ہے اور اگر کوئی چا ہے کہ خشک ہونے سے پہلے ہی زمین پاک ہو جائے تو وہاں سے مٹی کھرچ کر اٹھا دی جائے تاکہ وہ حصہ پاک ہو جائے۔

علماء حنفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں نے مسجد کی زمین کے اس حصہ کے جہاں خشک ہو جانے سے پہلی جگہ جہاں دیہاتی نے پیشاب کر دیا تھا نماز پڑھ لی گی جس کی بناء پر حکم لگا دیا گیا کہ ناپاک زمین بغیر پانی بہائے ہوئے پاک نہیں ہوتی، جہاں تک سوال پانی ڈالنے کا ہے اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس وقت نجاست کی جگہ پانی بہانے کا حکم اس لیے دیا ہو گا کہ پیشاب کی نجاست میں کچھ کمی ہو جائے اور پیشاب کا رنگ اور اس کی بدبو پانی بہانے کی وجہ سے ختم ہو جائے ، مگر زمین کا وہ حصہ خشک ہونے کے بعد ہی پاک ہوا ہو گا۔ اس سلسلے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مشکوۃ کی شرح مرقات میں اور بہت سی دلیلیں لکھی ہیں جو وہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس سے کہنے لگے کہ ٹھہر جا ! ٹھہر جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اسے پیشاب کرنے سے نہ رو کو بلکہ اسے چھوڑ دو اور پیشاب کرنے دو کیونکہ اگر تمہارے دھمکانے سے اس کا پیشاب رک گیا تو اس کے لیے تکلیف دہ ہو گا پھر اس طرح اس کا پیشاب جو ایک ہی جگہ ہے کئی جگہ پھیل جائے گا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے چھوڑ دیا اور اس دیہاتی نے (جب پورا) پیشاب کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلایا اور (نہایت شفقت و مہربانی سے ) فرمایا کہ  مسجدیں پیشاب و گندگی وغیرہ کے لیے نہیں ہیں بلکہ ذکر الہٰی اور نماز و قرآن پڑھنے کے لیے ہیں  یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی کے مثل فرمایا (یعنی راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعرابی سے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجلس میں سے ایک آدمی کو حکم دیا اس نے ایک ڈول پانی لا کر پیشاب پر بہا دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ بتائیے کہ اگر ہم میں سے کوئی حیض کا خون کپڑے پر لگا ہوا پائے تو کیا کرے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے چاہئے کہ (پہلے ) چٹکیوں سے اسے ملے پھر پانی سے دھو لے اور اسی کپڑے میں (خواہ تر ہی کیوں نہ) ہو نماز پڑھ لے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭حضرت سلیمان بن یسار (اسم گرامی سلیمان ابن یسار اور کنیت ابو ایوب ہے آپ تابعی ہیں آپ کا ١٧ء ھ میں بعمر ٥٣ سال میں انتقال ہوا۔) فرماتے ہیں میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کپڑے پر لگی ہوئی منیٰ کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے سے منیٰ کو دھویا کرتی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم (جب اسی گیلے کپڑے کے ساتھ) نماز کے لیے تشریف لے جاتے تو اس کپڑے پر (منی) کے دھونے کا نشان رہتا تھا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ منیٰ ناپاک ہے اگر منیٰ کسی کپڑے وغیرہ پر لگ جائے تو اسے دھو کر پاک کر لینا چاہئے چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جس طرح سنک (یعنی ناک سے نکلنے والی) رطوبت پاک ہے اسی طرح منیٰ بھی پاک ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت اسود (حضرت اسود بن محاربی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تابعی ہیں ٨٤ ھ میں آپ کا انتقال ہوا ہے۔) و حضرت ہمام (حضرت ہمام ابن حارث تحفی تابعی ہیں اور حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔) راوی ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا  میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑے سے (خشک) منیٰ کھرچ دیا کرتی تھی (صحیح مسلم) اور مسلم نے اس کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت علقمہ اور حضرت اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ہی طرح ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی کپڑے سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

 

تشریح

 

یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مطابق منیٰ کے ناپاک ہونے کو وضاحت کے ساتھ ثابت کر رہی ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوا حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ تر منیٰ کو دھونا چاہئے اور گاڑھی منیٰ کو جو کپڑے کے اندر سرایت نہ کرے خشک ہونے کے بعد کھرچ کر اور رگڑ کر صاف کر دینا چاہئے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ام قیس بنت محصن (حضرت ام قیس محصن کی لڑکی اور عکاشہ کی بہن ہیں ابتداء ہی میں مکہ میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو گئی تھی ں۔) سے مروی ہے کہ  وہ اپنے چھوٹے لڑکے کو بھی جو ابھی کھانا نہ کھاتا تھا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بچے کو اپنی گود میں بٹھا لیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی منگایا اور کپڑوں پر بہا دیا اور خوب مل کر نہیں دھویا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر شیر خوار بچہ جو اناج نہ کھاتا ہو کسی کپڑے وغیرہ پر پیشاب کر دے تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس پر پانی چھڑک دینا کافی ہو جائے گا چنانچہ یہ حدیث بھی بظاہر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے مسلک کی تائید کر رہی ہے مگر حضرت امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ بچے کے پیشاب کو بھی ہر حال میں دھونا ضروری ہے۔ اس حدیث میں  نضح جو لفظ آیا ہے اور جس کے معنی چھڑکنا ہیں اس کے معنی یہ دونوں حضرات  دھونا  ہی فرماتے ہیں۔ پھر حدیث کے آخری الفاظ  لا یغسلہ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پیشاب کو دھویا نہیں ) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خوب مل مل کر نہیں دھویا بلکہ بچے کے پیشاب کے پیش نظر معمولی طور پر اس پر پانی بہا کر دھو ڈالنا ہی کافی سمجھا یہ دونوں حضرات اس حدیث کی یہ مذکورہ تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ دوسری احادیث مثلاً استنز ھو من البول (یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو) سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ ہر ایک پیشاب کو دھونا چاہئے حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں  نضح سے مراد بغیر ملے اور نچوڑے پانی کا بہانا ہے۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں کو دعا و برکت حاصل کرنے کے لیے بزرگوں اور اولیاء اللہ کے پاس لے جانا مستحب ہے ، نیز بچوں کے ساتھ تواضع و نرمی اور محبت و شفقت کا معاملہ کرنا بھی مستحب ہے۔

 

 

 

٭٭حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جب چمڑا دباغت دے دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔ (صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

چمڑے کو ناپاکی وغیرہ سے پاک کرنے کو دباغت کہتے ہیں۔ چمڑے کو دباغت کئی طرح دی جاتی ہے یا تو چمڑے کو چھالوں وغیرہ میں ڈال کر پکایا جاتا ہے یا دھوپ میں رکھ کر اسے خشک کر لیا جاتا ہے اور اگر چمڑا بغیر دھوپ کے خشک کیا جائے تو اس کو دباغت نہیں کہیں گے بہر حال دباغت کے ذریعے چمڑا چاروں ائمہ کرام کے نزدیک پاک کیا جا سکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو سور اور آدمی کے چمڑے کے علاوہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔ مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کتے کا چمڑہ بھی پاک نہیں ہوتا حالانکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرح کا چمڑہ دباغت سے پاک ہو جاتا ہے۔ البتہ آدمی اور سور کا چمڑا مستثنیٰ ہے کیونکہ آدمی کا چمڑا تو انسان کی عظمت و بزرگی کے پیش نظر پاک نہیں ہوتا اور سور کا چمڑا اس لیے پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس عین ہے۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک آزاد کردہ باندی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی (اتفاق سے ) وہ بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس پر گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  تم نے اس کا چمڑا اتار کیوں نہ لیا؟ اس چمڑے کو دباغت دے کر اس سے نفع اٹھا لیتے ! لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا؟ صرف اس کا کھانا حرام ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار (یعنی جانور بغیر ذبح کئے ہوئے مر جائے اور اس کا کھانا حرام ہو تو جو اجزاء ذبح کرنے کی صورت میں کھائے جاتے ہیں مثلاً گوشت وغیرہ وہ تو مرنے کے بعد حرام ہو جاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دوسری چیزوں مثلاً دباغت دئیے ہوئے چمڑے ، دانت، بال اور سینگ وغیرہ سے فائدہ اٹھانا یعنی ان کی خرید و فروخت کرنا اور ان کو دوسری ضرورتوں میں استعمال کرنا جائز ہے۔

 

 

٭٭اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (ام المومنین حضرت سودا زمعہ کی بیٹی ہیں ابتداء اسلام سے مشرف تھی انتقال ٥٤ھ مدینہ میں ہوا۔) فرماتی ہیں کہ  ہماری ایک بکری مر گئی تھی ہم نے اس کی کھال اتار کر دباغت دے لی اور ہمیشہ اسی میں نبید (یعنی پانی اور کھجوروں کا شربت) بناتے رہے یہاں تک کہ وہ پرانی مشک ہو گئی۔ (صحیح البخاری)

 

 

٭٭حضرت لبابہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا (آپ کا نام لبابہ ہے اور حارث کی بیٹی ہیں کنیت ام فضل ہے حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن ہیں۔) فرماتی ہیں کہ حضرت حسین ابن علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی گود میں بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا میں نے عرض کیا کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم (دوسرا) کپڑا پہن کر یہ تہ بند مجھے دے دیجئے تاکہ میں اسے دھو ڈالوں آپ نے فرمایا  لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے  (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور ابوداؤد و سنن نسائی کی ایک روایت میں ابو سمح سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لڑکی کا پیشاب دھویا جاتا ہے اور لڑکے کے پیشاب پر پانی کا چھینٹا دیا جاتا ہے۔

 

تشریح

 

حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہاں  چھینٹا دینے سے مراد تڑ یڑا دینا یعنی پیشاب کی جگہ پر بغیر ملے اور نچوڑے ہوئے پانی کا بہا دینا ہے اور  دھونے سے مراد مبالغے کے ساتھ دھونا ہے چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ ایک لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس پر پانی کا تڑیڑا دو  لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ لڑکے کے پیشاب کو بھی دھونے کا حکم ہے فرق صرف اتنا ہے کہ لڑکے کے پیشاب پر صرف پانی کا تڑیڑا دینا ہی کافی ہے یعنی اس کو ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکوں کا پیشاب سوراخ کی تنگی کی بناء پر زیادہ نہیں پھیلتا اور لڑکیوں کا پیشاب سوراخ کی فراخی کی وجہ سے زیادہ پھیلتا ہے اس لیے لڑکیوں کے پیشاب کو خوب اچھی طرح دھونا چاہئے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی اپنے جوتوں کے ساتھ گندگی پر چلے تو مٹی اس کو پاک کرنے والی ہے (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے بھی اسی کے ہم معنی روایت نقل کی ہے

 

تشریح

 

صورت مسئلہ یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے اتفاق سے کسی جگہ گندگی پڑی ہوئی تھی وہ اس کے جوتوں پر لگ گئی اب پھر وہ جب پاک اور صاف زمین پر چلے گا تو مٹی سے رگڑ کھانے کی وجہ سے اس کا جوتا پاک ہو جائے گا اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے ایک شاگرد حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول یہ ہے کہ اس حدیث میں گندگی سے مراد جو جسم والی اور خشک ہو یعنی اگر کسی راہ چلتے کے جوتے یا موزے میں ایسی گندگی لگ جائے جو جسم والی ہو اور خشک ہو تو پاک زمین پر رگڑ دینے سے وہ جوتا یا موزہ پاک ہو جائے گا اور اگر گندگی خشک نہ ہو تو پھر رگڑ نے سے گندگی زائل نہیں ہو گی۔

حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ایک دوسرے شاگرد رشید حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ یہاں حدیث کی مراد عام ہے یعنی گندگی خواہ خشک ہو یا تر زمین پر رگڑنے سے پاک ہو جائے گی مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ پہلا قول ہے ان کا جدید مسلک یہ ہے کہ اس گندگی کو ہر حال میں پانی سے دھونا چاہئے زمین پر رگڑنے سے پاک نہیں ہو گی۔

فقہ حنفی میں فتویٰ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے قول پر ہے جو کہ جوتے یا موزے پر اگر تن دار نجاست لگ جائے خواہ وہ خشک ہو یا تر ہو تو زمین پر خوب اچھی طرح رگڑ دینے سے موزہ یا جوتا پاک ہو جائے گا۔

یہ سمجھ لیجئے کہ اس مسئلے میں علماء کرام کا یہ اختلاف تن دار نجاست جیسے گوبر وغیرہ ہی کے بارے میں ہے کیونکہ غیر تن دار نجاست مثلاً پیشاب و شراب کے بارے میں سب کا متفقہ طور پر یہ مسلک ہے کہ اسے دھونا ہی واجب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ ان سے ایک عورت نے کہا کہ میرا دامن لمبا ہے اور میں ناپاک جگہ پرچلتی ہوں (یہ خیال ہے کہ دامن کو ناپاکی لگ جاتی ہے ) حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں ) فرمایا تھا کہ  اس کو وہ چیز پاک کرتی ہے جو اس کے بعد ہے (یعنی پاک زمین یا مٹی)۔  (مسند احمد بن حنبل، مالک، جامع ترمذی ، ابوداؤد اور درامی نے کہا ہے کہ (سوال کرنے والی) عورت ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کی ام ولد تھی (جس کا نام حمیدہ تھا)

 

تشریح

 

سوال کرنے والی کا مطلب یہ تھا کہ میرا دامن بہت لمبا ہے جب میں چلتی ہوں تو وہ زمین پر لگتا ہوا چلتا ہے اور جب میں نا پاک جگہ سے گزرتی ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ شاید دامن پر نجاست و گندگی لگ گئی ہو گی اس لیے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس کے جواب میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نقل فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ناپاک جگہ سے گزرتے ہوئے جب دامن میں نجاست لگ جاتی ہے تو بعد میں پاک صاف جگہ چلنے سے وہ نجاست زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے اور کپڑا پاک ہو جاتا ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ حکم خشک نجاست کے بارے میں ہے کہ اگر خشک نجاست کپڑے کو لگ جائے تو پھر پاک و صاف زمین پر چلنے سے وہ زمین پر لگ کر جھڑ جاتی ہے جس سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔

اس حکم کو خشک نجاست کے بارے میں خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام کا اس بات پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اگر کپڑا ناپاک ہو جائے تو وہ بغیر دھوئے پاک نہیں ہوتا، بخلاف جوتے کے (تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جوتا اگر نجاست کے لگ جانے سے ناپاک ہو جائے تو اس کو پاک و صاف زمین پر رگڑ کر پاک کیا جا سکتا ہے خواہ وہ نجاست تر ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ابھی اس سے پہلے حدیث کی تشریح  میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک بیان کیا جا چکا ہے (وا اللہ اعلم)

 

 

٭٭حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کی کھالوں کے پہننے اور ان پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ درندوں مثلاً شیر اور چیتے وغیرہ کی کھال کا لباس بنا کر انہیں پہنا نہ جائے ، اسی طرح ان پر سوار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو بچھا کر اس پر بیٹھنا یا گھوڑے کی زین پر ڈال کر اس پر سوار ہونا مناسب نہیں ہے اس طرح ان کے استعمال سے منع اس لیے فرمایا گیا ہے کہ متکبر لوگوں اور خالص دنیا داروں کی عادت ہے لہٰذا نیک لوگوں کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے اس شکل میں کہا جائے گا کہ یہ نہی تنزیہی ہے لیکن جن حضرات کے ہاں مردار کے بال نجس ہوتے ہیں اور وہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتے ان کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو الملیح بن اسامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عام صلی اللہ علیہ و سلم نے درندوں کی کھال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا (احمد، ابوداؤد و نسائی) اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور دارمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ نقل کیے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ درندوں کی کھالوں کا فرش بنایا جائے )

 

 

٭٭اور حضرت ابو الملیح کے بارے میں منقول ہے کہ  وہ درندوں کی کھالوں کی قیمت کو (بھی) مکروہ سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ درندوں کی کھال کو خریدنا اور بیچنا بھی مناسب نہیں ہے چنانچہ ابن مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی قول ہے اور یہ مسلک ابو الملیح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی ہے فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہوا ہے کہ درندوں کے چمڑے کو دباغت دیے جانے سے پہلے بیچنا باطل ہے مشکوٰۃ کے اصل نسخے میں لفظ راوہ کے بعد جگہ خالی تھی عبارت مذکورہ بعد میں بڑھائی گئی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن عکیم (حضرت عبداللہ بن عکیم جہنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن یہ تحقیق سے ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے شرف ملاقات حاصل کیا یا نہیں۔ (راوی ہیں کہ ہمارے (قبیلے جہینہ کے پاس سر کار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا (جو) مکتوب گرامی آیا (اس میں یہ لکھا تھا) کہ تم مردار کے چمڑے اور اس کے پٹھے سے نفع نہ اٹھاؤ۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس حکم کا تعلق اس چمڑے اور پٹھے سے ہے جو دباغت نہ دیا گیا ہے یعنی دباغت سے پہلے چمڑے اور پٹھے کو استعمال میں لانا جائز نہیں ہے بلکہ چمڑے اور پٹھے کو دباغت دینے کے بعد استعمال کرنا اور ان سے منفعت حاصل کرنا جائز ہے۔ اکثر احادیث سے یہی ثابت ہے اور اکثر علماء کا مسلک بھی یہی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مردار کے چمڑے سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھایا جائے۔ (مالک، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس سے پہلے اسی باب کی حدیث نمبر ٩ کے فائدے میں بتایا جا چکا ہے کہ دباغت کے بعد مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یعنی اس کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی کی جا سکتی ہے البتہ اس مسئلے میں امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی دو روایتیں ہیں مگر ان کا ظاہری قول یہ ہے کہ مردار کا چمڑا دباغت کے بعد پاک ہو تو جاتا ہے لیکن اسے خشک چیز میں اور پانی میں رکھنے کے لیے استعمال کا جا سکتا ہے پانی کے علاوہ دوسری پتلی اور سیال چیزوں کے لیے اسے استعمال نہ کیا جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ قریش کے چند آدمی اپنی ایک مری ہوئی بکری کو گدھے کی طرح کھینچتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گزرے ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ  اے کاش! تم اس کے چمڑے کو اتار لیتے ! (تو یہ کام آ جاتا) انہوں نے عرض کیا کہ  یہ تو مردار ہے (یعنی ذبح کی ہوئی نہیں ہے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اسے کیکر کے پتے اور پانی پاک کر دیتے ہیں (یعنی ان دونوں چیزوں کے ذریعے دباغت سے چمڑا پاک ہو جاتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

دباغت دینے کے کئی طریقے ہیں لیکن کیکر کے پتوں اور پانی سے دباغت کے بعد چمڑا خوب اچھی طرح پاک ہو جاتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور خاص ان دو چیزوں کا ذکر فرمایا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ چمڑے کی دباغت و طہارت ان ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ دوسرے طریقوں مثلاً دھوپ وغیرہ سے دباغت و طہارت ہو جاتی ہے۔ البتہ یہ کہا جائے گا کہ اس حدیث کے پیش نظر کیکر کے پتوں اور پانی سے چمڑے کو دباغت دینا مستحب ہے۔

 

 

٭٭حضرت سلمہ بن محبق رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک کی جنگ کے موقعہ پر ایک آدمی کے گھر تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر ایک لٹکی ہوئی مشک پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی مانگا تو لوگوں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! یہ تو (دباغت دی ہوئی) مردار کی کھال) ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دباغت نے اسے پاک کر دیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، سنن ابوداؤد)

 

 

٭٭بنو عبدالاشہل کی ایک عورت کا بیان ہے کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ رسول اللہ ! مسجد میں آنے کا ہمارا جو راستہ ہے وہ گندہ ہے جب بارش ہو جائے تو ہم کیا کریں؟ وہ کہتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کیا اس راستے کے بعد کوئی پاک صاف راستہ نہیں آتا؟ میں نے عرض کیا  جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  یہ پاک راستہ اس ناپاک راستہ کے بدلے میں ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اسی باب کی حدیث نمبر ١٣ میں اس مسئلہ کی وضاحت کی جا چکی ہے ، یہاں بھی اس ارشاد کا یہ مطلب ہے کہ گندے اور ناپاک راستہ سے جو گندگی لگتی ہے وہ پاک و صاف راستہ پر چلنے کے بعد زمین کی رگڑ سے صاف و پاک ہو جاتی ہے ، نیز یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا تعلق تن دار نجاست سے ہے کہ اگر گوبر وغیرہ قسم کی کوئی نجاست جوتے اور موزوں پر لگ جائے تو وہ اس طریقے سے صاف ہو جاتی ہے کیونکہ اگر پیشاب وغیرہ قسم کی نجاست جوتے موزے کپڑے یا بدن کے کسی حصے پر لگے تو اس کو ہر حال میں دھو کر ہی پاک کیا جائے گا اسی طرح موزے اور جوتے کے علاوہ اگر کپڑے پر تن دار نجاست لگے گی تو بغیر دھوئے کپڑا پاک نہیں ہو گا۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور زمین پر چلنے (کی وجہ سے وضو نہ کرتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ہم نماز پڑھنے کے لیے اپنے اپنے مکان سے وضو کر کے چلتے تھے اور مسجد آتے ہوئے ننگے پاؤں چلنے کی وجہ سے پاؤں پر یا جوتے اور موزوں پر جو نجاست و گندگی لگ جایا کرتی تھی اسے دھویا کرتے تھے۔

اس ارشاد کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ اس کا تعلق خشک نجاست سے ہے ، کہ اگر خشک گندگی مثلاً سوکھا گوبر وغیرہ پیروں پر جوتے و موزے پر لگ جاتا تو اس کو دھونے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ صاف زمین پر چلنے کی وجہ سے وہ پاک ہو جایا کرتا تھا اس سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ مراد ہے کہ راستہ چلتے وقت جو گرد و غبار پاؤں کو لگ جایا کرتی تھی اسے دھوتے تھے۔

تر نجاست مثلاً پیشاب وغیرہ کے بارے میں یہ پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی نجاست و گندگی پاؤں وغیرہ پر لگ جائے تو تمام علماء کے نزدیک یہ متفق علیہ مسلم مسئلہ ہے کہ اسے دھویا جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں مسجد میں کتے آتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے آنے جانے کی وجہ سے کچھ بھی نہ دھوتے تھے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

شروع زمانہ اسلام میں دروازے نہیں ہوتے تھے جس کی وجہ سے مسجد کے اندر کتوں کی آمدورفت رہتی تھی اور چونکہ ان کے پاؤں خشک ہوتے تھے اس لیے کسی چیز کو دھونے کی ضرورت نہ ہوتی تھی جب مسجد میں دروازے لگنے لگے تو اس کی احتیاط ہونے لگی۔

 

 

٭٭اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ  جس چیز کا گوشت کھایا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں۔ اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اس طرح ہے کہ  جس جانور کا گوشت کھا یا جائے اس کے پیشاب میں کچھ حرج نہیں ہے۔ (مسند احمد بن حنبل و دارقطنی)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے حضرت امام مالک، حضرت امام احمد، حضرت امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور بعض شوافع حضرات نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کا پیشاب پاک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام ابو یوسف اور تمام علماء رحمہم اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وہ نجس ہے ، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے مقابلے میں ایک حدیث عام وارد ہے کہ الحدیث (اِسْتَنْزِ ھُوْا مِنَ الْبَوْلِ فَاِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِمِنْہُ) یعنی پیشاب سے پاکی حاصل کرو اس لیے کہ عذاب قبر اکثر اسی سے ہوتا ہے ) لہٰذا اس حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ناپاک و نجس ثابت ہوا اس لیے اس احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ جن جانوروں کے گوشت کھائے جاتے ہیں ان کے پیشاب کو بھی ناپاک کہا جائے۔

 

                    موزوں پر مسح کرنے کا بیان

 

موزوں پر مسح کرنے کا جواز سنت اور آثار مشہورہ سے ثابت ہے بلکہ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں منقول حدیث متواتر ہے اور بعض محدثین نے اس حدیث کے راوی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد بھی نقل کی ہے چنانچہ اسی سے زیادہ صحابہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس حدیث کو روایت کرتے ہیں جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں َ

علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ علمائے سلف میں سے کسی نے اس سے انکار کیا ہو اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر ٧٠ صحابہ کرام کو اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتے ہوئے پایا ہے حضرت امام کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قول ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے کو قبول نہ کرے یعنی اسے جائز نہ سمجھے مجھے اس کے کافر ہو جانے کا خوف ہے کیونکہ اس کے جواز میں جو احادیث منقول ہیں وہ حد تو اتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ  میں موزوں پر مسح کرنے کا قائل اس وقت تک نہیں ہوا جب تک کہ اس کے جواز پر مشتمل احادیث آفتاب کی روشنی کی طرح مجھے نہ پہنچ گئیں۔ ان اقوال اور ارشادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ موزوں پر مسح کرنا جائز ہے ، اس کے جواز میں کوئی شبہ کوئی شک اور کوئی کلام نہیں ہے۔

اب اس کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ موزوں پر مسح کرنا رخصت شریعت اسلامی کے مسائل و جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لیے کتنی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کی ہیں یہ حقیقت ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بے پناہ شفقت و محبت ہی ہے جس نے عالمگیر اور سب سے سچے مذہب کو انسان کی عین فطرت و مزاج بنا دیا ہے قدم قدم پر ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جس میں اسلام اور شارع اسلام نے امت کو بہت زیادہ آسانیاں دی ہیں جن کے بغیر یقیناً مسلمان مشکلات اور تکالیف میں مبتلا ہو جاتے کیونکہ سخت موقعوں پر مثلاً سردی کے موسم میں وضو کرنے کے وقت سب سے زیادہ تکلیف پاؤں کو دھونے ہی میں ہوتی ہے لیکن شریعت نے اس سختی اور تکلیف کے پیش نظر موزوں پر مسح کو جائز قرار دے کر امت پر ایک عظیم احسان کیا ہے۔)

یعنی آسانی ہے اور پاؤں کو دھونا عزیمت یعنی اولیٰ ہے ہدایہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی موزوں پر مسح کرنے پر اعتقاد نہ رکھے وہ بدعتی ہے لیکن جو آدمی اس مسئلہ پر اعتقاد رکھتا ہے مگر عزیمت یعنی اولیٰ ہونے پر عمل کرنے کی وجہ سے موزوں پر مسح نہیں کرتا تو اسے ثواب سے نوازا جاتا ہے۔

مواہب لدنیہ میں منقول ہے کہ علماء کرام کے ہاں اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا موزوں پر مسح کرنا افضل ہے یا اسے اتار کر پاؤں کو دھونا افضل ہے؟ چنانچہ بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنا ہی افضل ہے کیونکہ اس سے اہل بدعت یعنی روافض و خوارج کا رد ہوتا ہے جو اس مسئلہ میں طعن و تشنیع کرتے ہیں ، حضرت امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مختار مسلک یہی ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ ہمارے علماء کرام یعنی حضرات شوافع کا مسلک یہ ہے کہ پاؤں کو دھونا افضل ہے کیونکہ اصل یہی ہے لیکن اس کے ساتھ شرط یہ ہے کہ موزوں پر مسح کرنے کو بالکل ترک نہ کیا جائے۔

صاحب سفر السعادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دونوں میں کوئی تکلف نہیں تھا، یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم موزہ پہنے ہوتے تھے تو پاؤں دھونے کے لیے انھیں اتارتے نہیں تھے اور اگر موزہ پہنے ہوئے نہیں ہوتے تھے تو مسح کرنے کے لیے انھیں پہنتے نہ تھے ، اس بارے میں علماء کرام کے ہاں اختلاف ہے مگر بہتر اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ میں سنت کے موافق ہی عمل کرے یعنی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا جو تعامل ذکر کیا گیا ہے اسی طرح تمام مسلمان بے تکلفی کے ساتھ اس پر عمل کریں۔

 

 

٭٭ حضرت شریح بن ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے مسافر کے لیے تین دن اور تین راتیں اور مقیم کے لیے اک دن اور ایک رات کی مدت مقرر فرمائی ہے۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مسافر کے لیے موزوں پر مسح کرنے کی مدت تین دن تین راتیں ہے یعنی وہ تین دن اور تین راتوں تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت ایک دن اور ایک رات ہے یعنی وہ ایک دن اور ایک رات تک وضو کے وقت اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے اور مقیم کے لیے مسح کی مدت کی ابتداء جمہور علماء کے نزدیک اس وقت ہو گی جب کے وضو ٹوٹ جائے مثلاً ایک مقیم آدمی نے دوپہر کو وضو کرنے کے بعد موزہ پہنا اور شام کو اس کا وضو ٹوٹ گیا تو مسح کی مدت کی ابتداء شام ہی سے ہو گی یعنی وہ اگلے دن شام تک اپنے موزوں پر مسح کر سکتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں شرکت کی چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ (اسی دوران ایک روز) فجر سے پہلے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم پاخانے کے لیے باہر تشریف لے گئے ہیں میں پانی کا لوٹا لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ہو لیا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (پاخانے سے ) واپس تشریف لائے (اور وضو کرنے کے لیے بیٹھے ) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں پر پانی ڈالنا شروع کیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک اونی جبہ پہنے ہوئے تھے اس کی آستینیں چڑھانی چاہیں لیکن آستینیں تنگ تھی ں (اس لیے چڑھ نہ سکیں ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جبے کے اندر سے نکال کر جبے کو کندھوں پر رکھا اور کہنیوں تک دھو کر چوتھائی سر کا اور پگڑی کا مسح کیا پھر (جب) میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے موزے اتارنے کا ارادہ کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پاؤں دھولیں (تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انھیں چھوڑ دو کیونکہ میں نے (پاؤں کی) پاکی کی حالت میں انھیں پہنا تھا (یعنی وضو کرنے کے بعد پہنا تھا) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں موزوں پر مسح کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور میں دونوں سوار ہو کر واپس لوگوں کے پاس آئے تو (فجر کی) نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو گئی تھی اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا بھی چکے تھے جب انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کا احساس ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے (تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم امامت کریں ) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انھیں اشارہ کیا (کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور نماز پڑھائے جاؤ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک رکعت نماز ان کے ساتھ ہی پڑھی (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوسری رکعت حضرت عبدا لرحمن کی اقتداء میں ادا کی) جب انہوں نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو گئے اور میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور جو پہلی رکعت رہ گئی تھی ہم نے اسے پڑھ لیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

راوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وضو کا ذکر کیا ہے مگر کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو راوی کے پیش نظر اختصار تھا اس لیے انھوں نے ان دونوں چیزوں کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھایا یہ کہ راوی اس کا ذکر کرنے کو بھول گئے ہوں گے ، یا پھر اس لیے ذکر نہیں کیا کہ یہ دونوں چیزیں بھی منہ کی حد میں آ جاتی ہیں اس لیے صرف منہ دھونے کا ذکر کافی سمجھا۔

پگڑی پر مسح کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چوتھائی سر پر مسح کرنے کے بعد تمام سر پر مسح کرنے کے بجائے پگڑی پر مسح کر لیا تاکہ تمام سر پر مسح کرنے کی سنت ادا ہو جائے اس کی وضاحت باب الوضو میں بھی کی جا چکی ہے (دیکھے باب سنن الوضو کی حدیث نمبر ٨)

بہر حال اس حدیث سے پانچ چیزیں ثابت ہوتی ہیں

(١) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فجر سے پہلے قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے اس سے یہ ثابت ہوا کہ عبادت مثلاً نماز وغیرہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے اس عبادت کے لیے تیاری کرنا مستحب ہے۔

(٢) حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اعضائے وضو پر پانی ڈالا اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرا آدمی وضو کرائے تو جائز ہے۔

(٣) جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم قضائے حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر تشریف لائے تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے جب انہوں نے بتقاضائے ادب پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ رسول اللہ امامت فرمائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں روک دیا اور خود بھی آخری رکعت انہیں کی اقتداء میں پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ ایک افضل آدمی نماز میں اگر اپنے سے کم درجہ آدمی کی اقتداء کرے تو یہ جائز ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ نماز کے لیے امام کا معصوم (بے گناہ) ہونا شرط نہیں ہے۔ اس سے اس فرقہ امامیہ کا رد ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ امام کا معصوم ہونا شرط ہے۔

(٤) حدیث کے آخری الفاظ سے یہ ثابت ہوا کہ جس آدمی کی کوئی رکعت امام کے ساتھ پڑھنے سے چھوٹ جائے تو اس کی ادائیگی کے لیے اسے اس وقت اٹھنا چاہئے جب کہ امام سلام پھیر لے چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تو چھوٹی ہوئی رکعت کو ادا کرنے کے لیے امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا جائز ہی نہیں اور علمائے حنفیہ کے نزدیک سلام پھیرنے سے پہلے اٹھنا مکر وہ تحریمی ہے۔ مگر اس صورت میں جب کہ یہ خوف ہو کہ اگر امام کے سلام کا انتظار کیا جائے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی تو پہلے بھی اٹھنا جائز ہے مثلاً فجر کی نماز میں امام ایک رکعت پہلے پڑھا چکا تھا ایک آدمی دوسری رکعت میں آ کر شامل ہوا اب اسے ایک رکعت بعد میں ادا کرنی ہے مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر وہ امام کے سلام پھیرنے کا انتظار کرتا ہے تو اسے خوف ہے کہ سورج طلوع ہو جائے گا جس کے نتیجہ میں نماز فاسد ہو جائے گی لہٰذا اس کے لیے جائز یہ ہو گا کہ وہ امام کے سلام پھیرنے سے پہلے اٹھ جائے اور نماز پوری کر لے اس مسئلہ کی وضاحت فقہ کی کتابوں میں خوب اچھی طرح کی گئی ہے اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

(٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت کے وقت اگر امام موجو نہ ہو اور اس کے آنے میں دیر ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کب آئے گا تو یہ مستحب ہے کہ امام کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ کوئی دوسرا آدمی نماز پڑھانی شروع کر دے اور اگر امام کے آنے کا وقت معلوم ہو تو اس صورت میں اس کا انتظار کرنا مستحب ہے اور اگر امام کا مکان قریب مسجد ہو تو اسے جماعت کا وقت ہو جانے پر مطلع کرنا مستحب ہے۔

 

 

٭٭حضرت ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کرنے کی اجازت مسافر کو تین دن اور تین راتوں تک اور مقیم کو ایک دن اور ایک رات تک دی ہے جب کہ انھوں نے موزوں کو وضو کے بعد پہنا ہو۔ (ابن خزیمہ دارقطنی) اور خطابی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اسناد کی رو سے صحیح ہے منتقیٰ میں (بھی جو ابن تیمیہ حنبلی کی کتاب ہے ) اسی طرح منقول ہے۔)

 

 

٭٭اور حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  جب ہم سفر میں ہوتے تھے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ تین دن اور تین راتوں تک (وضو کرنے کے وقت پاؤں کو (دھونے کے لیے ) موزے نہ اتارے جائیں ، نہ پاخانے کی وجہ سے نہ پیشاب کی وجہ سے نہ سونے کی وجہ سے البتہ جنابت کی وجہ سے (یعنی غسل واجب ہونے کی صورت میں نہانے کے لیے اتارے جائیں۔ (جامع ترمذی ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ سو کر اٹھنے یا پیشاب و پاخانے کے بعد وضو کرنے کی صورت میں اس مدت تک جو مسافر یا مقیم کے لیے ہے پاؤں کو دھونے کے لیے موزوں کو اتارنا نہیں چاہئے بلکہ موزوں پر مسح کر لیا جائے اور جنابت کی حالت میں یعنی جب غسل واجب ہو جائے تو نہانے کے لیے موزے اتارنے ضروری ہیں کیونکہ اس حالت میں موزوں پر مسح درست نہیں ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے غزوہ تبوک میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو وضو کرایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں کے نیچے اور اوپر مسح کر لیا۔ (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ) اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث معلول ہے ، نیز میں نے اس حدیث کے بارے میں ابوزرعہ اور محمد یعنی محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو دونوں نے کہا یہ حدیث صحیح نہیں ہے اسی طرح امام ابوداؤد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے )

 

تشریح

 

حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پشت قدم یعنی موزے کے اوپر مسح کرنا واجب ہے اور موزے کے نیچے یعنی تلوے پر مسح کرنا سنت ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا مسلک یہ ہے کہ مسح فقط پشت قدم یعنی موزے کے اوپر کیا جائے یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث جس سے موزے کے دونوں طرف مسح کرنے کا اثبات ہو رہا ہے خود معیار صحت کو پہنچی ہوئی نہیں ہے کیونکہ علماء کرام نے اس کی صحت بارے کلام کیا ہے۔ نیز ایسی احادیث بہت زیادہ منقول ہیں جو اس حدیث کے بالکل برعکس ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح فقط پشت پر کیا جائے لہٰذا عمل اس ہی حدیث پر کیا جائے گا۔ محدثین کی اصطلاح میں  حدیث معلول اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں ایسا سبب پوشیدہ ہو جو اس بات کا مقتضی ہو کہ اس حدیث کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔

اس حدیث کے ضعیف ہونے کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک اس حدیث کی سند کا پہنچنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس کی سند بولاو تک جو مغیرہ کے مولی اور کاتب تھے پہنچتی ہے ، دوسری وجہ ہے کہ اس حدیث کو ثور ابن یزید نے رجاء ابن حیوۃ سے روایت کیا ہے اور رجاء ابن حیوۃ نے حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاتب سے روایت کیا ہے حالانکہ رجاء سے ثور کا سماع ثابت نہیں ہے پھر ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مضمون جو (حدیث نمبر ٢) حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مختلف سندوں کے ساتھ منقول ہے اور جو معیار صحت کو پہنچی ہوئی ہے اس میں مطلقاً اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، اوپر نیچے مسح کرنے کی کوئی وضاحت منقول نہیں ہے پھر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک اور روایت اس کے بعد آ رہی ہے اس میں صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں کے اوپر مسح کیا۔ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے اور یہ وہ اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

موزے پر مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی انگلیاں دائیں پاؤں کے پنجے پر بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں کے پنجے پر رکھی جائیں پھر ان کو کھینچتے ہوئے ٹخنوں کے اوپر تک لایا جائے اس سلسلے میں اس کا خیال رہے کہ انگلیاں کشادہ رکھی جائیں آپس میں ملی ہوئی نہ ہوں۔ موزوں پر مسح کرنے کا مسنون طریقہ تو یہی ہے اور اگر کسی نے انگلی سے تین مرتبہ اس طرح مسح کیا کہ ہرمر تبہ تازہ پانی لیتا رہا اور ہر مرتبہ نئی جگہ پھیرتا رہا تو مسح جائز ہو گا ورنہ نہیں ان کے علاوہ بہت سے طریقے فقہ کی کتابوں میں لکھے ہوئی ہیں تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کیا اور نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا۔ (مسند احمد بن حنبل و جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

قاموس میں لکھا ہے کہ جورب پاؤں کے لفافے کو کہتے ہیں جیسے ہمارے ہاں جراب یا موزہ کہلاتا ہے اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں اس کی تفصیل چلپی میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے یہاں اس کے بعض احکام و مسائل لکھے جاتے ہیں۔

حنفی مسلک میں جوربین یعنی موزوں پر مسح اس وقت درست ہو گا جب کہ وہ مجلد ہوں یعنی ان کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو، منعل ہوں یعنی فقط نیچے ہی چمڑا ہو اور مثخنین ہوں۔ ثخنین اس موزے کو کہتے ہیں جس کو پہن کر ایک فرسخ چلا جا سکے اور وہ بغیر باندھے ہوئے پنڈلی پر رکا رہے نیز اس کے اندر کا کوئی حصہ نہ دکھلائی دے اور نہ اس کے اندر پانی چھن سکتا ہو چلپی کی عبارت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر جوربین منعلین بغیر ثخنین ہوں گے تو اس پر مسح جائز نہیں ہو گا لہٰذا منعلین پر مسح اسی وقت درست ہو گا جب کہ ثخنین بھی ہوں۔

چونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک جورب پر مسح درست نہیں خواہ وہ منحل ہی کیوں نہ ہو اس لیے یہ حدیث حنفیہ کی جانب سے ان پر حجت ہے جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جورب پر مسح فرمایا ہے نیز حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود، حضرت انس ابن مالک اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی منقول ہے کہ ان حضرات نے اس پر مسح کیا ہے۔

آخر حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ  آپ نے نعلین کے ساتھ جوربین پر مسح کیا  تو یہاں نعلین کے مفہوم کے تعین میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ اس سے جوتے مراد ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ربین پر جوتوں کے ساتھ مسح کیا چونکہ عرب میں اس وقت ایسے جوتے استعمال ہوتے تھے جو بالکل چپل کی طرح ہوتے تھے اور ان پر اس طرح تسمہ لگا رہتا تھا کہ انہیں پہننے کے بعد پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رہتا تھا جس کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ یا پھر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان جوربین پر مسح کیا جن کے نیچے چمڑا لگا ہوا تھا

 

 

٭٭حضرت مغیرہ ابن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا (یہ دیکھ کر) میں نے عرض کیا  آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھول گئے ہیں (یعنی موزے اتار کر پاؤں نہیں دھوئے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں ! بلکہ تم بھول گئے ) کہ میری طرف نسیان کی نسبت کر رہے ہو کیونکہ اللہ بزرگ و برتر نے مجھے اسی طرح حکم دیا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد)

 

 

٭٭اور حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ  اگر دین (صرف) رائے اور عقل ہی پر موقوف ہوتا تو واقعی موزوں کے اوپر مسح کرنے سے نیچے مسح کرنا بہتر ہوتا اور میں نے خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو موزوں کے اوپر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (ابوداؤد و دارمی)

 

تشریح

 

حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ناپاکی اور گندگی چونکہ موزوں کے نیچے کی جانب لگ سکتی ہے اس لیے عقل یہی تقاضا کرتی ہے کہ جس طرف ناپاکی اور گندگی لگنے کا شبہ ہو اسی طرف پاکی اور ستھرائی کے لیے مسح بھی کرنا چاہئے مگر چونکہ شرع میں صراحتہ یہ آگیا ہے کہ مسح اوپر کی جانب کرنا چاہئے اس لیے اب عقل کو دخل دینے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ شریعت کے مسائل و احکام میں عقل کو دخل نہیں دینا چاہئے کیونکہ عقل کامل شریعت کے تابع ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ کی حکمتوں اور اس کے مراد و مفہوم معلوم کرنے میں عقل مطلقاً عاجز ہوتی ہے لہٰذا عاقل کو چاہئے کہ وہ پہر نوع شریعت کا تابع و پابند بن کر رہے عقل کا تابع نہ بنے اس لیے کہ کفار اور اکثر فلاسفہ و حکماء اور اہل ہوا و ہوس اپنی عقلوں پر بھروسہ و پندار کرنے کے سبب اور عقلوں کے تابع ہونے ہی کی وجہ سے گمراہی و ضلالت کے غار میں گرے ہیں۔

چونکہ اس باب کی یہ آخری حدیث ہے اس لیے مناسب ہے کہ اس کے ضمن میں مسح سے متعلق چند مسائل ذکر کئے جائیں۔

(١) اگر موزہ کسی جگہ سے پاؤں کی تین چھوٹی انگلیوں کے برابر پھٹ جائے تو اس پر مسح درست نہیں ہوتا، اس طرح اگر ایک موزہ تھوڑا تھوڑا کر کے کئی جگہ سے اتنی مقدار میں پھٹ جائے کہ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس پر بھی مسح درست نہیں ہوتا اور اگر دونوں موزے تھوڑے تھوڑے اتنی مقدار میں پھٹے ہوں کہ اگر انھیں جمع کیا جائے تو وہ تین انگلیوں کے برابر ہو تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ ان پر مسح درست ہو گا۔

(٢) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

(٣) حدث کے بعد موزہ اتارنے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے۔

(٤) مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ سردی کی وجہ سے پاؤں کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہو، یعنی اگر سردی کی شدت اور کسی بیماری کی وجہ سے یہ خوف ہو کہ موزہ اتارنے سے پاؤں ضائع ہو جائے گا تو مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح نہیں ٹوٹے گا جب تک خوف باقی رہے گا مسح بھی باقی رہے گا۔

(٥) اگر موزہ اتارنے یا مدت ختم ہونے کی وجہ سے مسح ٹوٹ جائے اور وضو باقی ہو تو ایسی شکل میں از سر نو وضو کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف پاؤں دھو کر موزہ پہن لینا کافی ہو گا۔

(٦) اگر آدھے سے زیادہ پاؤں موزے سے باہر نکل آئے تو بھی مسح ٹوٹ جاتا ہے۔

(٧) اگر مقیم نے مسح کیا اور ایک رات اور ایک دن گزرنے سے پہلے مسافر ہو گیا وہ مسح کے لیے سفر کی مدت پوری کرے یعنی تین دن اور تین رات تک مسح کرتا رہے ، اسی طرح اگر مسافر نے مسح کیا اور پھر وہ مقیم ہو گیا تو اسے چاہئے کہ ایک دن ایک رات کے بعد موزہ اتار دے کیونکہ اس کی مدت پوری ہو گئی ہے۔

(٨) اگر کوئی معذور مثلاً ظہر کے وقت وضو کر کے موزہ پہنے تو جس عذر کی وجہ سے وہ معذور ہے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز سے اس کا وضو ٹوٹ جائے تو اس کے لیے مسح کی مدت میں موزوں پر مسح کرنا جائز ہو گا اور پھر مسح کی مدت ختم ہو جانے کے بعد مسح ٹوٹ جائے گا۔

 

                   تیمم کا بیان

 

تیمم (تیمم٥ھ میں مشروع ہوا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :آیت (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْداً طَيِّباً فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہ) 5۔ المائدہ:6) (تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کر لیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ اس زمین(کی جنس) پر سے (مار کر) پھیر لیا کرو۔) وضو اور غسل کا قائم مقام ہے۔ لغت میں تیمم کے معنی قصد کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں تیمم سے مراد ہے پاک مٹی کا قصد کرنا یا اس چیز کا قصد کرنا جو مٹی کے قائم مقام ہو جیسے پتھر اور چونا وغیرہ اور طہارت کی نیت کے ساتھ اسے ہاتھ اور منہ پر ملنا۔

اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تیمیم کے لیے دو ضربیں یا ایک ضرب ہے؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام ابو یوسف، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ تیمم کے لیے دو ضربیں ہیں یعنی پاک مٹی یا اس کے قائم مقام مثلاً پاک چونے اور پتھر وغیرہ پر دو دفعہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک ضرب تو منہ کے لیے ہے اور دوسری ضرب کہنیوں تک دونوں ہاتھوں کے لیے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی مختار مسلک یہی ہے اور بعض حنابلہ کا بھی یہی مسلک ہے۔

لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مشہور مسلک اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا قدیم قول یہ ہے کہ تیمم ایک ہی ضرب ہے یعنی تیمم کرنے والے کو چاہئے کہ ایک ہی مرتبہ پاک مٹی وغیرہ پر ہاتھ مار کر اسے منہ اور کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر پھیر لے ، حضرت امام اوزاعی، عطاء اور مکحول رحمہم اللہ تعالیٰ عیہم سے بھی یہی منقول ہے۔ دونوں فریقین کے مذہب و مسلک کی تائید میں احادیث منقول ہیں جو آگے انشاء اللہ آئیں گی اور جن کی حسب موقع فائدہ و توضیح بھی کی جائے گی۔ اس موقعہ پر مناسب ہے کہ تیمم کے کچھ احکام اور وہ صورتیں ذکر کر دی جائیں جن میں تیمم جائز ہے تیمم حسب ذیل صورتوں میں جائز ہوتا ہے۔

(١) اتنا پانی جو وضو اور غسل کے لیے کافی ہو اپنے پاس موجود نہ ہو بلکہ ایک میل یا ایک میل سے زائد فاصلے پر ہو۔

(٢) پانی جو موجود تو ہو مگر کسی کی امانت ہو یا کسی سے غصب کیا ہوا ہو۔

(٣) پانی کے نرخ کا معمول سے زیادہ گراں ہو جانا۔

(٤) پانی کی قیمت کا موجود نہ ہونا خواہ پانی قرض مل سکتا ہو یا نہیں ، قرض لینے کے صورت میں اس پر قادر ہو یا نہ ہو، ہاں اگر اپنی ملکیت میں مال ہو اور ایک مدت معینہ کے وعدے پر قرض مل سکتا ہو تو قرض لے لینا چاہئے۔

(٥) پانی کے استعمال سے کسی مرض کے پیدا ہو جانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو یا یہ خوف ہو کہ اگر پانی استعمال کیا جائے گا تو صحت یابی میں دیر ہو گی۔

(٦) سردی اس قدر شدید ہو کہ پانی کے استعمال سے کسی عضو کے ضائع ہو جانے یا کسی مرض کے پیدا ہو جانے کا خوف ہو اور گرم پانی ملنا ممکن نہ ہو۔

(٧) کسی دشمن یا درندے کا خوف ہو مثلاً پانی ایسی جگہ ہو جہاں درندے وغیرہ آتے ہوں یا موجود ہوں یا راستے میں چوروں کا خوف ہو، یا اپنے اوپر کسی کا قرض ہو، یا کسی سے عداوت اور یہ خیال ہو کہ اگر پانی لینے جاؤں گا تو قرض خواہ مجھ کو پکڑ لے گا، یا کسی قسم کی تکلیف دے گا، یا پانی کسی غنڈے اور فاسق کے پاس ہو اور عورت کو اس کے حاصل کرنے میں اپنی بے حرمتی کا خوف ہو۔

(٨) پانی کھانے پینے کی ضرورت کے لیے رکھا ہو کہ اسے وضو یا غسل میں خرچ کر دیا جائے تو اس ضرورت میں حرج ہو مثلاً آٹا گوندھنے یا گوشت وغیرہ پکانے کے لیے رکھا ہو، یا پانی اس قدر ہو کہ اگر وضو غسل میں صرف کر دیا جائے تو پیاس کا خوف ہو خواہ اپنی پیاس کا یا کسی دوسرے کی پیاس کا، یا اپنے جانوروں کی پیاس کا، بشرطیکہ کوئی ایسی تدبیر نہ ہو سکے کہ مستعمل پانی جانوروں کے کام آ سکے۔

(٩) کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور نہ کوئی کپڑا ہو کہ اسے کنوئیں میں ڈال کر تر کرے اور پھر اس سے نچوڑ کر طہارت حاصل کرے ، یا پانی مٹکے وغیرہ میں ہو اور کوئی چیز پانی نکالنے کے لیے نہ ہو اور نہ مٹکا جھکا کر پانی لے سکتا ہو، نیز ہاتھ نجس ہوں اور کوئی دوسرا ایسا آدمی نہ ہو جو پانی نکال کر دے یا اس کے ہاتھ دھلا دے۔

(١٠) وضو یا غسل کرنے میں ایسی نماز کے چلے جانے کا خوف ہو جس کی قضا نہیں ہے جیسے عیدین یا جنازے کی نماز۔

(١١) پانی کا بھول جانا مثلاً کسی آدمی کے پاس پانی تو ہے مگر وہ اسے بھول گیا ہو اور اس کا خیال ہو کہ میرے پاس پانی نہیں ہے۔

تیمم کرنے کا مسنون و مستحب طریقہ درج ذیل ہے

پہلے بسم اللہ پڑھ کر تیمم کی نیت کی جائے پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو کسی ایسی مٹی پر جس کو نجاست نہ پہنچی ہو یا اس کی نجاست دھو کر زائل کر دی گئی ہو، ہتھیلیوں کی جانب سے کشادہ کر کے مار کر ملے اس کے بعد ہاتھوں کو اٹھا کر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور پھر پورے دونوں ہاتھوں کو اپنے پورے منہ پر ملے اس طرح کہ کوئی جگہ ایسی باقی نہ رہ جائے جہاں ہاتھ نہ پہنچے۔ پھر اسی طرح دونوں ہاتھوں کو مٹی پر مار کر ملے پھر ان کی مٹی جھاڑ ڈالے اور بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں سوائے کلمہ کی انگلی اور انگوٹھے کے ، داہنے ہاتھ کے انگلیوں کے سرے پر پشت کی جانب رکھ کر کہنیوں تک کھینچ لائے اس طرح کہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی بھی لگ جائے اور کہنیوں کا مسح بھی ہو جائے پھر باقی انگلیوں کو اور ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسری جانب رکھ کر انگلیوں تک کھینچا جائے ، اسی طرح بائیں ہاتھ کا بھی مسح کرے۔ وضو اور غسل دونوں کے تیمم کا یہی طریقہ ہے اور ایک ہی تیمم دونوں کے لیے کافی ہے۔ اگر دونوں کی نیت کر لی جائے۔

تیمم کے کچھ احکام و مسائل یہ ہیں۔

یہ تمام مسائل عبدالشکور لکھنوی کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔

(١) تیمّم کے وقت نیت کرنا فرض ہے اور نیت کی شکل یہ ہے کہ جس حدیث کے سبب سے تیمم کیا جائے اس سے طہارت کی نیت کی جائے یا جس چیز کے لیے تیمم کیا جائے اس کی نیت کی جائے مثلاً اگر نماز جنازہ کے لیے تیمم کیا جائے یا قرآن مجید کی تلاوت کے لیے تیمم کیا جائے تو اس کی نیت کی جائے مگر نماز اسی تیمم سے صحیح ہو گی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے یا کسی ایسی عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے نہیں ہو سکتی۔

(٢) تیمم کرتے وقت اعضاء تیمم سے ایسی چیزوں کو دور کر دینا فرض ہے جس کی وجہ سے مٹی جسم تک نہ پہنچ سکے جیسے روغن یا چربی وغیرہ۔

(٣) تنگ انگوٹھی تنگ چھلوں اور چوڑیوں کو اتار ڈالنا واجب ہے۔

(٤) اگر کسی قرینے سے پانی کا قریب ہونا معلوم ہو تو اس کی تلاش میں سو قدم تک خود جانا یا کسی کو بھیجنا واجب ہے۔

(٥) اگر کسی دوسرے آدمی کے پاس پانی موجود ہو اور اس سے ملنے کی امید ہو تو اس سے طلب کرنا واجب ہے۔

(٦) اس ترتیب سے تیمم کرنا سنت ہے جس ترتیب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیمم کیا ہے یعنی پہلے منہ کا مسح پھر دونوں ہاتھوں کا مسح۔

(٧) منہ کے مسح کے بعد داڑھی کا خلال کرنا سنت ہے۔

(٨) جس آدمی کو آخر وقت تک پانی ملنے کا یقین یا گمان غالب ہو تو اس کو نماز کے اخیر وقت تک پانی کا انتظام کرنا مستحب ہے مثلاً کنوئیں سے پانی نکالنے کی کوئی چیز نہ ہو اور یہ یقین یا گمان غالب ہو کہ آخر وقت رسی اور ڈول مل جائیں گے۔ یا کوئی آدمی ریل پر سوار ہو اور یہ بات یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ نماز کے آخر وقت ریل ایسے اسٹیشن پر پہنچ جائے گی جہاں پانی مل سکتا ہے۔

(٩) تیمم نماز کے وقت کے تنگ ہو جانے کی صورت میں واجب ہوتا ہے۔ شروع وقت میں واجب نہیں ہوتا۔

(١٠) نماز کا اس قدر وقت ملے کہ جس میں تیمم کر کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو تو تیمم واجب ہوتا ہے اور اگر وقت نہ ملے تو تیمم واجب نہیں۔

(١١) جن چیزوں کے لیے وضو فرض ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی فرض ہے۔ اور جن چیزوں کے لیے وضو واجب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی واجب ہے اور جن چیزوں کے لیے وضو سنت یا مستحب ہے ان کے لیے وضو کا تیمم بھی سنت اور مستحب ہے ، یہی حال غسل کا بھی ہے۔

(١٢) اگر کوئی آدمی حالت جنابت میں ہو اور مسجد میں جانے کی اسے سخت ضرورت ہو تو اس پر تیمم کرنا واجب ہے۔

(١٣) جن عبادتوں کے لیے حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حدث اصغر (یعنی جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) سے طہارت شرط نہیں ہے۔ جیسے سلام و سلام کا جواب وغیرہ ان کے لیے وضو و غسل دونوں کا تیمم بغیر عذر کے ہو سکتا ہے اور جن عبادتوں میں صرف حدث اصغر سے طہارت شرط نہ ہو جیسے تلاوت قرآن مجید اور اذان وغیرہ ان کے لیے صرف وضو کا تیمم بغیر عذر ہو سکتا ہے۔

(١٤) اگر کسی کے پاس مشکوک پانی ہو جیسے گدھے کا استعمال کردہ پانی تو ایسی حالت میں پہلے اگر وضو کی ضرورت ہو تو وضو، غسل کی ضرورت ہو تو غسل کیا جائے اس کے بعد تیمم کیا جائے۔

(١٥) اگر وہ عذر جس کی وجہ سے تیمم کیا گیا ہے آدمیوں کی طرف سے ہو تو جب وہ عذر جاتا رہے تو جس قدر نمازیں اس تیمم سے پڑھی ہیں سب کو دوبارہ پڑھنا چاہئے۔ مثلاً کوئی آدمی جیل میں ہو اور جیل کے ملازم اس کو پانی نہ دیں یا کوئی آدمی اس سے کہے کہ اگر تو وضو کرے گا تو تجھ کو مار ڈالوں گا۔

(١٦) ایک جگہ سے اور ایک ڈھیلے سے چند آدمی یکے بعد دیگرے تیمم کریں تو درست ہے۔

(١٧) جو آدمی پانی اور مٹی دونوں پر قادر نہ ہو خواہ پانی و مٹی نہ ہونے کی وجہ سے یا بیماری کی وجہ سے تو اس کو چاہئے کہ نماز بلا طہارت پڑھ لے پھر اس نماز کو طہارت سے لوٹا لے مثلاً کوئی آدمی ریل میں سوار ہے اور نماز کا وقت ہو گیا ہے مگر نہ تو پانی موجود ہے کہ وہ وضو کرے اور نہ مٹی یا اس قسم کی کوئی دوسری چیز ہے جس سے وہ تیمم کر سکے ، ادھر نماز کا وقت بھی ختم ہوا جا رہا ہے تو اسے چاہئے کہ ایسی حالت میں بلا طہارت نماز پڑھ لے۔ اسی طرح کوئی آدمی جیل میں ہو اور وہ پاک پانی اور مٹی پر قادر نہ ہو تو وہ بے وضو اور بے تیمم نماز پڑھ لے گا مگر ان دونوں صورتوں میں نماز کا اعادہ ضروری ہو گا۔

 

 

٭٭حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  ہم لوگ (پہلی امتوں کے ) لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دئیے گئے ہیں (١) ہماری صفیں (نماز میں یاجہاد میں ) فرشتوں کی صفوں جیسی (شمار) کی گئی ہیں۔ (٢) ہمارے واسطے تمام زمین مسجد بنا دی گئی ہے (کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں )۔ (٣) جس وقت ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کر دینے والی ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس امت سے پہلے دنیا میں جتنی بھی امتیں پیدا ہوئی ہیں ، یوں تو ان سب کے مقابلہ میں یہ امت گوناگوں خصوصیات اور امتیازات کی بناء پر سب سے زیادہ افضل اور بزرگ ہے۔ عظمت و فضیلت میں کوئی امت اس امت سے مماثل نہیں ہے۔ مگر یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس امت کی بعض امتیازی خصوصیات کی طرف جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس امت پر بے پایاں انعامات و احسانات کا نتیجہ ہیں اشارہ فرما رہے ہیں کہ ان چیزوں کے بناء پر میری امت کو دوسری امتوں پر خاص فضیلت و فوقیت دی گئی ہے۔ چنانچہ پہلی چیز تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرما رہے ہیں کہ (نماز یا جہاد میں ) اس امت کی صفیں فرشتوں کی صفیں جیسی (شمار) کی گئی ہیں یعنی جس طرح فرشتے صف بندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں کہ جس کی بناء پر انہیں مقام قرب میسر ہے اور بے انتہا بزرگی و سعادت حاصل ہوتی ہے اسی طرح اس امت کو بھی جہاد یا نماز میں صف بندی اور جماعت کی بناء پر خداوند قدوس کا مقام قرب حاصل ہوتا ہے اور اس وجہ سے یہ امت سابقہ امتوں کے مقابلے میں افضل ہے کیونکہ سابقہ امتوں میں صف بندی اور جماعت نہیں تھی وہ لوگ جس طرح چاہتے نماز پڑھ لیتے مگر اللہ تعالیٰ نے اس امت کو جماعت کا حکم دے کر گویا سعادت و نیک بختی کے اس عظیم راستہ پر لگا دیا کہ جماعت اور صف بندی کی جتنی زیادہ پابندی کی جائے گی سعادت و نیک بختی اور مقام قرب کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔

دوسری چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری امتوں کے مقابلہ میں اس امت پر یہ بھی بڑا احسان فرمایا اور اس کو فضیلت بخشی کہ اس امت کے لوگوں کے لیے تمام زمین کو سجدہ گاہ قرار دے دیا کہ بندہ زمین کے جس پاک حصے پر خدا کے سامنے جھک جائے اور نماز ادا کرے اس کی نماز قبول کر لی جائے گی برخلاف اس کے کہ پچھلی امتوں کے لئے یہ سہولت اور فضیلت نہیں تھی ان لوگوں کی نماز  کنائس اور  بیع (جو پچھلی امتوں کے عبادت خانوں کے نام ہیں ) اس کے علاوہ اور کہیں جائز نہ ہوتی تھی۔

تیسری چیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمائی ہے کہ اس امت کے لیے تیمم کو جائز کر کے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دوسری امتوں پر عظیم فضیلت عنایت فرمائی ہے یعنی اگر پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو یا پانی کے استعمال سے معذور ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نماز پڑھ لی جائے۔ نماز جائز ہو جائے گی۔

بہر حال۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تین چیزوں میں ہمیں دوسری امتوں کے مقابلہ میں فضیلت و بزرگی ہے کہ  ہمیں جماعت سے نماز پڑھنے کا حکم ہوا اور اس پر بے شمار اجر و انعام اور ثواب کا وعدہ کیا گیا  ساری زمین ہمارے لیے مسجد قرار دی گئی کہ جہاں چاہیں نماز پڑھ لیں ، نماز جائز ہو جائے گی اور جہاں پانی نہ ملے یا پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر کے نمازپڑھ لیں۔

اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تیمم صرف مٹی ہی سے کرنا چاہئے اور کسی چیز سے تیمم کرنا درست نہ ہو گا۔ جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ کا مسلک ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم ہر اس چیز سے درست ہے جو زمین کی جنس سے ہو، زمین کی جنس کا اطلاق ان چیزوں پر ہوتا ہے جو نہ تو آگ میں جلنے سے پگھلیں نہ نرم ہوں اور نہ جل کر راکھ ہوں جیسے مٹی پتھر اور چونا وغیرہ ان حضرات کی دلیل سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح البخاری میں منقول ہے کہ

الحدیث (جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضِ مَسْجِدً اوَّطَھُوْراً۔)

یعنی زمین میرے لیے مسجد اور پاک کرنے والی کر دی گئی ہے۔

اس ارشاد میں لفظ  ارض کا استعمال کیا گیا ہے جو ہر اس چیز کے مفہوم کو ادا کرتا ہے جو زمین کی جنس سے ہو۔

 

 

 

٭٭اور حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (ہم) لوگوں کو نماز پڑھائی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی علیحدہ بیٹھا ہوا ہے اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس نے روک دیا تھا؟ اس نے عرض کیا کہ  مجھے نہانے کی ضرورت ہو گئی ہے اور پانی نہیں ملا  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایسی صورت میں ) تمہیں مٹی سے تیمم کر لینا لازم تھا اور تمہیں وہی کافی تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

 

٭٭اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا کے مجھے نہانے کی ضرورت ہے اور پانی نہیں ملا (تو اب تیمم کروں یا کیا کروں؟) حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بولے کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ میں اور تم سفر میں تھے اور ہم دونوں کو نہانے کی ضرورت ہو گئی تھی ) تو تم نے نماز پڑھی تھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صورت حال ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں اس طرح کر لینا کافی تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ان پر پھونک مار کر (یعنی جھاڑ کر) ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔ (صحیح البخاری) اسی طرح مسلم نے روایت کی ہے (جس کے آخری الفاظ یہ ہیں (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) تمہارے لیے یہ کافی ہے کہ اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارو پھر ان میں پھونک مار کر اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کرو۔

 

تشریح

 

اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے بعض دوسرے طرق سے مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آدمی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ لا تصل یعنی جب تک پانی نہ ملے نماز نہ پڑھو! چنانچہ حضرت عمر کا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہی تھا کہ جنبی کے لیے تیمم جائز نہیں ہے۔

یا یہ ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسئلہ پوچھنے والے کے سوال پر جو سکوت اختیار فرمایا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنبی کے لیے تیمم کا حکم ان کے ذہن میں نہیں رہا تھا۔ چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام واقعہ بیان کیا تاکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں اس سے یہ بات پیدا ہو جائے کہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں جو یہ بتایا کہ انھوں نے غسل کے لیے پانی نہ ہونے کی وجہ سے حالت جنابت میں نماز نہیں پڑھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سوچا ہو گا کہ ہو سکتا ہے کہ نماز کے آخر وقت تک پانی مل جائے اس لیے انھوں نے یہ مناسب سمجھا کہ پانی مل جانے کے بعد غسل کر کے ہی نماز پڑھی جائے یا پھر اس کی وجہ وہی ہو سکتی ہے کہ ان کے ذہن میں بات بیٹھی ہوئی تھی کہ تیمم تو صرف وضو کے قائم مقام ہے غسل کا قائم مقام نہیں ہے۔

ظاہری طور پر یہ وجہ قرین قیاس ہے ان کے اس اعتقاد کا سبب یہ تھا کہ چونکہ انہیں اس مسئلہ کی پوری حقیقت معلوم نہیں تھی پھر یہ کہ انہیں اس مسئلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کبھی سوال کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا اس لئے وہ تو یہی سمجھ رہے تھے کہ کہ تیمم صرف وضو کا قائم مقام ہے غسل کا نہیں ہے حالانکہ متفقہ طور پر سب ہی کے نزدیک تیمم جس طرح وضو کا قائم مقام ہے اسی طرح غسل کا قائم مقام بھی ہے۔

حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بارے میں بتا رہے ہیں اس موقع پر میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یہ کہ میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا اور اس کے بعد نماز پڑھ لی اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ذہن میں بھی یہ مسئلہ پوری وضاحت سے نہیں تھا اس لیے انہوں نے یہ قیاس کر کے جس طرح غسل میں پانی تمام اعضاء پر بہایا جاتا ہے اسی طرح مٹی بھی تمام اعضاء پر پہنچانی چاہئے ، مٹی میں لوٹ گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیمم کا طریقہ بتاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر ہاتھوں پر پھونک مار کر اس پر لگی ہوئی مٹی کو اس لیے جھاڑا تاکہ مٹی منہ پر نہ لگے جس سے منہ کی ہیت بگڑ جائے کہ وہ مثلہ کہ حکم میں ہے جو ممنوع ہے۔ مثلہ اسے کہتے ہیں کہ بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر یا ایسا کوئی طریقہ اختیار کر کے جس سے خلقی طور پر اعضاء میں فرق آ جائے ، اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بگاڑا جائے ، لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ اپنے چہروں پر بھبھوت وغیرہ ملتے ہیں وہ سخت گمراہی میں مبتلا ہیں۔

یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر ایک مرتبہ ہاتھ مارنا کافی ہے جیسا کہ دوسرے حضرات کا یہی مسلک ہے مگر امام اعظم، حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر دو مرتبہ ہاتھ مارنا چاہئے ایک مرتبہ تو منہ پر پھیرنے کے لیے اور دوسری مرتبہ کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیرنے کے لیے اس لیے حضرت شیخ محی الدین نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی توجیہ یہ فرماتے ہیں کہ

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مٹی پر ہاتھ مارنے کی کیفیت و صورت دکھا دیں کہ جنابت کے لیے تیمم اس طرح کر لیا کرو مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد پورے تیمم کی کیفیت بیان کرنا نہیں تھا اس لیے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایت حدیث کے وقت ایک مرتبہ ہاتھ مارنے ہی کو بطور تعلیم ذکر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے علاوہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو روایتیں تیمم کے بارے میں منقول ہیں ان میں صراحت کے ساتھ دو مرتبہ ہی ہاتھ مارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ حدیث میں  کفین سے  ذراعین یعنی کہنیوں تک ہاتھ مراد ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کیا۔

 

 

 

٭٭اور حضرت ابوجہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  (میں ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت پیشاب کر رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہیں دیا۔ اور پیشاب سے فارغ ہو کر) ایک دیوار کے پاس کھڑے ہوئے اور ایک لاٹھی سے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھی کھرچ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر مسح کر کے میرے سلام کا جواب دیا۔ (مشکوٰۃ کے مصنف فرماتے ہیں کہ  مجھے یہ روایت نہ صحیحین میں ملی ہے اور نہ حمیدی کی کتاب میں ہاں محی السنۃ نے اس کو شرح السنۃ میں ذکر کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ حدیث حسن ہے (لہٰذا صاحب مصابیح کو چاہئے تھا کہ اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر نہ کرتے۔)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عصا سے دیوار کی مٹی اس لیے کھرچی کہ اس میں سے غبار اٹھنے لگے کہ اس پر تیمم کرنا افضل ہے اور ثواب کی زیادتی کا باعث ہے۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے ذکر اللہ کے لیے باطہارت ہونا مستحب ہے نیز ہر وقت پاک و صاف اور طاہر رہنا بھی مستحب ہے۔

 

 

٭٭حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے۔ اگرچہ وہ دس برس تک پانی نہ پائے اور جس وقت مل جائے تو بدن دھو لینا چاہئے کیونکہ یہ بہتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)  اور نسائی نے بھی اسی طرح کی روایت عشر سنین تک نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

دس برس کی مدت تحدید کے لیے نہیں ہے بلکہ کثرت کے لیے ہے یعنی اگر اتنے طویل عرصے تک بھی پانی نہ ملے تو غسل یا وضو کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے اور پھر بعد میں جب بھی اتنا پانی مل جائے جو غسل یا وضو کے لیے کافی ہو اور پینے کی ضرورت سے زیادہ ہو نیز اس کے استعمال پر قادر بھی ہو تو غسل کرنا یا وضو کرنا چاہئے کیونکہ اس صورت میں غسل یا وضو واجب ہو گا تیمم جائز نہیں ہو گا۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کا حکم وضو (جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان سے وضو کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے اور جن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے ان سے غسل کا تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔ مزید وضاحت کے لیے  علم الفقہ کا مطالعہ کریں۔) کی طرح ہے کہ جس طرح جب تک وضو نہ ٹوٹے ایک وضو سے جتنے فرض یا نقل چا ہے پڑھ سکتا ہے اسی طرح ایک تیمم سے بھی کئی وقت کی نماز پڑھی جا سکتی ہیں چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک تیمم معذور کے وضو کی طرح ہے کہ جس طرح نماز کا وقت گزر جانے سے معذور کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح نماز کا وقت ختم ہو جانے پر تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  ہم سفر میں جا رہے تھے کہ ہم میں سے ایک آدمی کے پتھر لگا جس نے اس کے سر کو زخمی کر ڈالا (اتفاق سے ) اسے نہانے کی حاجت بھی ہو گئی چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے نزدیک (اس صورت میں ) میرے لیے تیمم کرنا جائز ہے َ انھوں نے کہا  ایسی صورت میں جب کہ تم پانی استعمال کر سکتے ہو، ہم تمہارے لیے تیمم کی کوئی وجہ نہیں پاتے۔ چنانچہ اس آدمی نے غسل کیا (جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ) اس کا انتقال ہو گیا۔ جب ہم (سفر سے واپس ہو کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ واقعہ بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (انتہائی رنج اور تکلیف کے ساتھ) فرمایا  لوگوں نے اسے مار دیا ، اللہ بھی انہیں مارے  پھر فرمایا کہ ان کو جو بات معلوم نہ تھی ، اسے انھوں نے دریافت کیوں نہ کر لیا؟ (کیونکہ) نادانی کی بیماری کا علاج سوال ہے اور اسے تو یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر ایک پٹی باندھ کر اس پر مسح کر لیتا اور پھر اپنا تمام بدن دھو لیتا۔ (ابوداؤد اور ابن ماجہ نے اس روایت کو عطاء ابن رباح سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے نقل کیا ہے۔)

 

تشریح

 

بسا اوقات کم علمی اور کسی مسئلے سے عدم واقفیت پر اندو ہناک واقعہ کا سبب بن جایا کرتی ہے چنانچہ اس موقعہ پر یہی ہوا کہ جب اس زخمی آدمی نے اپنے عذر کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آیا ایسے حال میں کہ جب میرے سر پر زخم ہے اور پانی اس زخم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے تو ناپاکی دور کرنے کے لیے بجائے غسل کے میں تیمم کر سکتا ہوں؟ تو ساتھیوں نے مسئلے سے ناواقفیت اور اپنی کم علمی کی بنا پر یہ سمجھ کر آیت تیمم (فَلَمْ تَجِدُوْا مَاۗءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْداً طَيِّباً فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہ) 5۔ المائدہ:6) کا مطلب یہ ہے کہ تیمم صرف اس شکل میں جائز ہو گا جب کہ پانی موجود نہ ہو اگر پانی موجود ہو تو تیمم جائز نہیں ہو گا۔ اس آدمی سے کہہ دیا کہ تمہارے لیے تیمم جائز ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے؟ حالانکہ انھوں نے یہ نہ سمجھا کہ تیمم جائز نہ ہونے کی شکل یہ ہے کہ پانی موجود ہو اور ساتھ ساتھ اس کے استعمال پر قدرت نیز پانی کے استعمال سے کسی نقصان اور ضرر کا خدشہ بھی نہ ہو۔ اس بیچارے نے ان لوگوں کے علم و فہم پر اعتماد کیا اور اس حالت میں غسل کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانی نے زخم میں شدت پیدا کر دی اور شدت بھی ایسی کہ وہ اللہ کا بندہ اسی وجہ سے اللہ کو پیار ہو گیا۔

بہر حال یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے مواقع پر تیمم بھی کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام بدن کو دھونا بھی چاہئے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے مگر امام اعظم ابوحنیفہ کے رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک دونوں میں سے ایک ہی چیز کافی ہے۔

حنفیہ کی جانب سے شوافع کو جواب دیتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور پھر قیاس کے خلاف بھی ہے کہ اس سے بدل اور مبدل منہ کا جمع لازم آیا ہے۔

الحاصل اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اگر کسی آدمی کو پانی کے استعمال کرنے کی وجہ سے تلف جان کا خوف ہو تو اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہے۔

اور اگر کسی آدمی کو یہ ڈر ہو کہ پانی کے استعمال سے مرض بڑھ جائے گا یا صحت یابی میں تاخیر ہو جائے گی تو ایسی شکل میں بھی حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک اسے تیمم کر کے نماز پڑھ لینی جائز ہے اور بعد میں نماز کی قضا ضروری نہیں ہے حضرات شوافع کے ہاں بھی تقریباً یہ مسلک ہے۔

اگر کسی آدمی کے کسی عضو میں زخم ہو یا پھوڑا ہو اور اس کی پٹی بندھی ہوئی ہو تو اس صورت میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر پٹی اتارنے سے تلف جان کا خطرہ ہو تو اسے چاہئے کہ پٹی پر مسح کرے اور تیمم کرے مگر حضرت امام اعظم اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ جب کسی آدمی کے بدن کا کچھ حصہ زخمی اور کچھ حصہ اچھا ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ زخمی حصہ کتنا ہے اور اچھا حصہ کتنا ہے اگر زیادہ حصہ اچھا ہے تو اسے دھوئیں گے اور زخم پر مسح کریں اور اگر اکثر حصہ زخمی ہو گا تو تیمم کریں گے اور دھونا ساقط ہو جائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو حصہ اچھا ہو ا سے دھویا جائے اور زخم کے لیے تیمم کیا جائے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  دو آدمی سفر کو روانہ ہوئے (اثنأ راہ میں ) نماز کا وقت ہوا مگر ان کے پاس پانی نہیں تھا چنانچہ دونوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھ لی (آگے چل کر انہیں پانی مل گیا اور نماز کا وقت بھی باقی تھا لہٰذا ان میں سے ایک نے وضو کر کے نماز لوٹا لی مگر دوسرے نے نہیں لوٹائی۔ جب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو یہ واقعہ ذکر کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (پورا واقعہ سن کر) اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا تمہارے لیے وہ نماز کافی ہے اور جس آدمی نے وضو کر کے نماز لوٹائی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا  تمہارے لیے دو گنا اجر ہے۔ (ابوداؤد ، دارمی) اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے اور نسائی و ابوداؤد نے عطا ابن یسار سے مرسلا بھی نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

پانی نہ ملنے کی صورت میں اگر نماز پڑھ لی جائے اور پھر پانی مل جائے اور نماز کا وقت بھی باقی ہو تو اس نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی فرمایا کہ تم نے سنت پر عمل کیا یعنی شریعت کا حکم چونکہ یہی ہے اس لیے تم نے شریعت کے حکم کی پابندی کی ہے کہ تیمم سے نماز پڑھ لینے کے بعد پانی ملنے کے باوجود تم نے نماز نہیں لوٹائی۔ دوسرے آدمی کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوہرے ثواب کا مستحق قرار دیا کہ ایک ثواب تو ادائے فرض کا اور دوسرا ثواب ادائے نفل کا۔ اس مسئلے میں علماء کرام کا اتفاق ہے کہ تیمم کرنے والا نماز سے فارغ ہو کر اگر پانی دیکھے اور اسے پانی مل جائے تو اس پر نماز لوٹانا ضروری نہیں ہے خواہ نماز کا وقت باقی کیوں نہ ہو۔

لیکن صورت اگر یہ ہو کہ ایک آدمی تیمم کرنے کے بعد نماز پڑھنی شروع کر دے اور درمیان نماز سے پانی مل جائے تو اب وہ کیا کرے؟ آیا نماز ختم کر کے وضو کر لے اور پھر نماز پڑھے یا اپنی نماز تیمم ہی سے پوری کر لے؟ اس مسئلے پر علماء کرام کا اختلاف ہے؟ چنانچہ جمہور یعنی اکثر علماء کا مسلک تو یہ ہے کہ اس آدمی کو اپنی نماز ختم نہیں کرنی چاہئے بلکہ وہ نماز پوری کر لے ، اس کی نماز صحیح ہو گی۔

مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں اس آدمی کا تیمم باطل ہو جائے گا ، گویا اسے نماز توڑ کر اور پانی سے وضو کر کے دوبارہ نماز شروع کرنی چاہئے۔

 

 

٭٭حضرت ابو جہیم ابن حارث ابن صمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (مدینہ میں ) جمل کے کنوئیں کی طرف سے تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک آدمی (یعنی خود ابی جہیم) ملے اور سلام کیا سرکا دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا اور ایک دیوار کے پاس تشریف لائے چنانچہ (پہلے ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منہ اور ہاتھوں کا مسح کیا (یعنی تیمم کیا) پھر سلام کا جواب دیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عمار ابن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) چند صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ تھے اور (پانی نہ ملنے کی وجہ سے ) فجر کی نماز کے لیے انھوں نے پاک مٹی سے (اس طرح) تیمم کیا (کہ پہلے ) اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے چہروں پر پھیرا اور دوسری مرتبہ اپنے ہاتھوں کو مٹی پر مار کر اپنے پورے ہاتھوں پر یعنی کندھوں تک اور بغلوں کے اندر تک مسح کیا ہاتھوں کے اندر کی طرف سے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جملے من بطون ایدیھم میں لفظ من ابتدا کے لیے ہے یعنی انہوں نے پہلے ہاتھوں کے اندر کے رخ پر ہاتھ پھیرے نہ کہ ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر، جیسا کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ پہلے ہاتھوں کے اوپر کے رخ پر مسح کرنا مستحب ہے۔ یا پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ  انھوں نے  ہتھیلیوں سے تیمم کرنا شروع کیا۔ یہی معنی زیادہ مناسب ہیں۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھوں پر بغلوں اور مونڈھوں تک مسح کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے خیال کیا کہ آیت تیمم میں  ید یعنی ہاتھ کا لفظ مذکور ہے جو مطلق ہے۔ اس آیت سے اور اس لفظ سے یہ بصراحت معلوم نہیں ہوتا کہ ہاتھوں پر مسح کہاں تک کیا جائے لہٰذا اس اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ  ید یعنی ہاتھ جو انگلیوں سے لے کر بغل اور کندھوں تک کے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اس پورے حصے پر مسح کیا جائے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہاتھ کے پورے حصے پر مسح کر ڈالا۔ اب جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو یہ کہا جائے گا کہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اپنا اجتہاد تھا کیونکہ جمہور علماء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تیمم میں ہاتھوں پر کہنیوں تک مسح کرنے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیمم وضو کا قائم مقام ہے اور وضو کے بارے میں قرآن نے صراحت کے ساتھ بتا دیا کہ ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا فرض ہے لہٰذا جس طرح اصل یعنی وضو میں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھویا جاتا ہے۔ وضو کے قائم مقام یعنی تیمم میں بھی ہاتھوں پر مسح وہیں تک کیا جا نا چاہئے۔

پھر اس سے پہلے تیمم کے بارے میں کچھ احکام نقل کئے گئے تھے اس حدیث پر چونکہ باب ختم ہو رہا ہے اس لیے مناسب ہے کہ تیمم کے چھ دوسرے احکام و مسائل جو پہلے نقل نہیں کئے گئے ذکر کر دئیے جائیں۔

پہلے بتایا جا چکا ہے کہ تیمم ان چیزوں سے کرنا چاہئے جو زمین کی جنس سے ہوں چنانچہ مٹی، ریت ، چونا، قلعی، سرمہ، ہڑتال اور پتھر سے تیمم کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح موتی اور مونگے کے علاوہ تمام جواہرات سے بھی تیمم کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی سمجھ لیجئے کہ تیمم کرنے کے لیے ان چیزوں پر جو زمین کی جنس سے ہوں غبار ہونا ضروری نہیں ہے۔ یعنی ان مذکور چیزوں پر غبار نہ ہونے کی صورت میں بھی ان سے تیمم کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر ایسی چیز کے ذریعے تیمم کیا جائے جو زمین کی جنس سے نہ ہو تو اس پر غبار ہونا ضروری ہے ، غبار نہ ہونے کی شکل میں اس کے ذریعے کیا گیا تیمم جائز نہ ہو گا، مثلاً کسی لکڑی، کپڑے یا سونے اور چاندی وغیرہ پر غبار ہو تو اس سے تیمم جائز ہے۔

تیمم کے جواز کے لیے چار شرائط ہیں۔ (١) پانی کے استعمال سے حقیقۃً یا حکماً عاجز ہونا۔ (٢) جس چیز سے تیمم کیا جائے اس کا پاک ہونا۔ (٣) استیعاب یعنی اعضاء تیمم کے ہر ہر حصے پر اس طرح ہاتھ پھیرنا کہ کوئی جگہ مسح سے باقی نہ رہ جائے۔ (٤) نیت اس کے بارے میں پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نماز اسی تیمم سے صحیح ہو گی جس میں حدث سے طہارت کی نیت کی جائے۔ اس سلسلے میں (حدث یا جنابت کی تعیین شرط نہیں ہے ) یا اس سے عبادت مقصودہ کی نیت کی جائے جو بغیر طہارت کے صحیح نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر کافر اسلام قبول کرنے کے لیے تیمم کرے یا کوئی آدمی مسجد میں جانے کے لیے تیمم اور پھر یہ چاہئے کہ اسی تیمم سے نماز پڑھ لے تو نماز اس تیمم سے جائز نہ ہو گی۔ جنبی، محدث، حائضہ اور نفاس والی عورت سب کے لیے تیمم کا ایک ہی طریقہ ہے جو پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔

 

                   غسل مسنون کا بیان

 

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی جمعہ کی نماز پڑھنے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر لے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

مختار مسلک تو یہ ہے کہ غسل جمعہ کی نماز کے لیے ہے کہ اسی طہارت سے جمعہ اداء کرنا چاہئے لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ غسل یوم جمعہ کی تعظیم و تکریم کے لیے ہے۔

بہر حال: تمام علماء کے نزدیک نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک روایت یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔

 

 

٭٭اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر بالغ پر جمعہ کے روز نہانا واجب ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

واجب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی آدمی جمعہ کے روز غسل نہ کرے تو وہ گنہگار ہو گا بلکہ اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ  یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے روز غسل کو ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا ہمارے ہاں عام طور کسی مستحق رعایت کے بارے میں کیا جاتا ہے کہ  فلاں آدمی کی رعایت ہم پر واجب ہے۔

چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ یہاں اور اسی طرح ایسے دوسرے مواقع پر  واجب کا لفظ استعمال فرما نا دراصل استحباب کے حکم کو موکد کرنا ہے ، اور اس کی وجہ خاص طور پر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں مسجدیں بہت تنگ اور چھوٹی ہوتی تھی ں اور مسلمان صوف (موٹا اونی کپڑا) کا استعمال کرتے تھے نیز محنت و مشقت بہت زیادہ کیا کرتے تھے چنانچہ جب ان کو پسینہ آتا تھا تو اس کی بو کی وجہ سے آس پاس کے لوگ تکلیف محسوس کرتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم میں واجب کا لفظ استعمال فرمایا ہے تاکہ لوگ جمعہ کے روز غسل کے اس حکم کو جلدی قبول کر لیں اور اس پر پابندی سے عمل پیرا ہوں

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ہر (عاقل بالغ) مسلمان پر حق ہے (یعنی ثابت اور لازم ہے یا لائق ہے ) کہ ہر ہفتہ میں ایک دن (یعنی جمعہ کو) نہائے اور اپنا سارا بدن دھوئے۔  (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭ حضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس نے جمعہ کے روز وضو ہی کر لیا تو اس نے فرض ادا کیا اور یہ بہت اچھا فرض ہے اور جس آدمی نے (نماز جمعہ کے لیے ) غسل کیا تو یہ بہت اچھا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، ابوداؤدِ، جامع ترمذی ، سنن نسائی، دارمی)

 

تشریح

 

فبھا و نعمت کا مطلب یہ ہے کہ فبھا بفریضہ اخذ ونعمت الفریضہ یعنی (جس آدمی نے نماز کے لیے غسل کیا اس نے فرض ادا کیا اور وہ فرض کیا ہی خوب ہے؟

اس سے پہلے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو معلوم ہوتا تھا کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے مگر یہ حدیث بصراحت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس آدمی نے مردے کو نہلایا ہو اسے خود بھی نہا لینا چاہئے۔ (ابن ماجۃ) اور مسند احمد بن حنبل، ترمذی اور ابوداؤد نے (اس حدیث میں ) مزید نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ) جو آدمی جنازہ کو کندھا دینے کا ارادہ کرے اسے وضو کر لینا چاہئے )

 

تشریح

 

اس حدیث سے دو چیزیں معلوم ہوئیں۔ اول تو یہ کہ جب کوئی آدمی کسی مردے کو نہلائے تو اسے چاہئے کہ غسل میت سے فراغت کے بعد خود بھی نہائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اس کے اوپر چھینٹیں وغیرہ پڑ گئی ہوں لہٰذا پاکی اور صفائی کے لیے نہا لینا مناسب ہے۔ اکثر علماء کرام کے نزدیک غسل میت کے بعد نہانے کا یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے کیونکہ ایک حدیث صحیح میں یہ ارشاد منقول ہے کہ  اگر تم مردے کو نہلاؤ تو تم پر غسل لازم نہیں ہے اس حدیث سے دوسری چیز یہ معلوم ہوئی کہ جب کوئی آدمی جنازے کو اٹھانے کا ارادہ کرے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی آدمی باوضو ہو کر جنازے کو اٹھائے گا تو جب نماز پڑھنے کی جگہ جنازہ رکھا جائے گا اور نماز جنازہ شروع ہو گی تو وہ فوراً نماز میں شریک ہو جائے گا یہ نہیں ہو گا کہ وہ تو جنازہ رکھ کر وضو کرنے چلا جائے اور ادھر نماز بھی ہو جائے۔ اس حکم کے بارے میں بھی متفقہ طور پر سب کی رائے یہی ہے کہ یہ حکم استحباب کے درجے میں ہے یعنی جنازہ اٹھانے سے پہلے وضو کر لینا مستحب ہے ضروری اور واجب نہیں ہے

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم دیا کرتے تھے۔ (١) جنابت یعنی ناپاکی سے (٢) جمعہ کے واسطے (٣) سینگی کھنچوانے سے (٤) مردے کو نہلانے سے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

یغتسل کا اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم ان چار چیزوں کی وجہ سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں چونکہ یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی کسی مردے کو نہلایا ہو اس لیے یغتسل کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان چار چیزوں کی وجہ سے نہانے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔

بہر حال: ان چار چیزوں میں سے جنابت یعنی ناپاکی کا غسل تو فرض ہے باقی سب مستحب ہیں۔ سینگی کھنچوانے یعنی پچھنے لگوانے کے بعد غسل کرنے کا حکم صفائی و ستھرائی کے لیے ہے گویا پچھنے لگوانے کے بعد اس لیے نہا لینا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جو خون وغیرہ لگ گیا ہوا اس سے پاکی و صفائی حاصل ہو جائے

 

٭٭  اور حضرت قیس ابن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ جب اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہائیں۔ (جامع ترمذی ، سنن ابوداؤداور سنن نسائی)

 

تشریح

 

اگر کوئی کافر ایسی حالت میں مسلمان ہو کہ وہ حالت جنابت میں تھا تو اس شکل میں اس پر غسل کرنا واجب ہے۔ ورنہ توا سلام لانے کے بعد نہانا مستحب ہے اور اس سلسلے میں صحیح اور اولیٰ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہونا چا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے کلمہ شہادت پڑے لے اس کے بعد نہائے۔ اس طرح اس کے لیے یہ بھی سنت ہے کہ نہانے سے پہلے سر منڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانی کے ساتھ بیری کے پتوں سے بھی نہانے کا حکم اس لیے دیا تاکہ پاکی اور صفائی پوری طرح حاصل ہو جائے

حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ عراق کے چند آدمی آئے اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کی رائے میں جمعہ کہ دن نہانا واجب ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں !مگر (جمعہ کے دن نہانا) بہت زیادہ صفائی اور ستھرائی ہے اور جو آدمی غسل کر لے اس کے لیے بہتر ہے اور جو آدمی نہ نہائے اس پر واجب بھی نہیں ہے اور میں تم کو بتاتا ہوں کہ جمعہ کے دن غسل کی ابتداء کیوں کر ہوئی؟ (یعنی جمعہ کے روز غسل کس وجہ سے شروع ہوا تو اصل بات یہ تھی کہ اسلام کے شروع زمانہ میں ) بعض نادار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اونی لباس پہنے تھے اور پیٹھ پر (بوجھ اٹھانے کا) کام کرتے تھے ، ان کی مسجد تنگ تھی جس کی چھت نیچی اور کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ایک مر تبہ جمعہ کے دن جب سخت گرمی کی وجہ سے ) اونی لباس کے اندر لوگ پسینہ سے تر ہو گئے ، یہاں تک کہ (پسینہ کی) بدبو پھیلی جس سے لوگ آپس میں تکلیف محسوس کرنے لگے۔ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو بدبو کا احساس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  لوگو! جب جمعہ کا دن ہو تو غسل کر لیا کرو بلکہ تم میں سے جسے تیل یا خوشبو مثلاً عطر وغیرہ میسر ہو وہ استعمال کرے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی کی تو لوگوں نے اونی لباس چھوڑ کر (عمدہ) کپڑے استعمال کرنے شروع کر دیئے محنت و مشقت کے کام بھی چھوٹ گئے ، مسجد بھی وسیع ہو گی اور پسینے کی وجہ سے جو لوگوں کو آپس میں تکلیف ہوتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

شروع میں جب کہ اسلام کا ابتدائی دور تھا مسلمانوں کی زندگی محنت و مشقت اور تنگی و ناداری سے بھر پور تھی ، ایسے بہت کم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جو مال دار اور خوش حال تھے۔ زیادتی اور کثرت ایسے ہی لوگوں کی تھی جو دن بھر محنت و مشقت کرتے اور جنگلوں اور شہروں میں مزدوری کرتے۔ اس طرح وہ حضرات مشکلات و پریشانی کی جکڑ بندیوں میں رہ کر اپنے دین و ایمان کی آبیاری کیا کرتے تھے۔ لیکن تنگی و پریشان حالی کا یہ دور زیادہ عرصہ نہیں رہا جب اسلام کی حقیقت آفریں آواز مکہ اور مدینہ کی گھاٹیوں سے نکل کر عالم کے دوسرے حصوں میں پہنچی اور مسلمانوں کے لشکر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا نام بلند کرنے کے لیے ان تمام سختیوں اور پریشانیوں کو زادہ راہ بناتے ہوئے قیصر و کسری جیسے والیان ملک کی حشمت و سلطنت اور شان و شوکت سے جا ٹکرائے اور جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر اپنی فتح و نصرت کے عَلم گاڑ دئیے تو تنگی و پریشان حالی کا وہ دور خدا نے فراخی و وسعت میں تبدیل کر دیا۔ اب مسلمان نادار اور پریشان حال نہ رہے بلکہ مالدار اور خوش حال ہو گئے اور محنت و مشقت کی جگہ دنیا کی جہانبانی و مسند آرائی نے لے لی اس حدیث میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعہ کے روز غسل کے حکم کی وجہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے ان دونوں ادوار کا ایک ہلکا اور لطیف خاکہ پیش فرمایا ہے کہ پہلے تو مسلمان اتنے نادار اور تنگ دست تھے کہ نہ تو ان کے پاس ڈھنگ سے پہننے کے کپڑے تھے اور نہ معیشت کی دوسری آسانیاں میسر تھی ں بلکہ وہ لوگ دن بھر محنت و مزدوری کر کے سوکھا روکھا کھاتے اور اونی لباس پہنا کرتے تھے جس کہ وجہ سے جب سخت گرمی میں ان کو پسینہ آتا تو مسجد میں بیٹھے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو پسینے کی بو سے تکلیف ہوا کرتی تھی۔ مگر جب بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و زر کے دروازے کھول دئیے تو وہ بغیر کسی کوشش اور محنت کے مال دار اور خوش حال ہو گئے اور اللہ نے ان پر اسباب معیشت کی بے انتہا فراوانی کر دی حدیث کے آخری لفط بَعْضاً مِنَ الْعِرَقِ میں لفظ من بیان کیلئے ہے لفظ بعض کا اور یہاں بعض سے مراد اکثر ہے اس طرح اس جملے کے معنی یہ ہوں گے کہ اکثر لوگوں کے پسینے جو آپس میں لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے خوشحالی اور اسباب معیشت کی فراوانی کی وجہ سے ختم ہو گئے بہر حال حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پسینے کی بدبو کی کثرت کی وجہ سے ابتدائے اسلام میں جمعہ کے روز غسل کرنا واجب تھا مگر جب اسباب معیشت کی فراوانی اور مسلمانوں کی خوشحالی کی وجہ سے یہ چیز کم ہو گئی تو غسل کے وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ سنت کے حکم نے لے لی۔ اس طرح اب جمعہ کے روز غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے

 

                   حیض کا بیان

 

لغت میں  حیض کے معنی  جاری ہونا  ہیں اور اصطلاح شریعت میں حیض اس خون کو کہا جاتا ہے جو عورت کے رحم سے بغیر کسی بیماری اور ولادت کے جاری ہوتا ہے اور جسے عرف عام میں  ماہواری یا ایام بھی کہتے ہیں۔ اسی طرح رحم عورت سے جو خون کسی مرض کی وجہ سے آتا ہے اسے استحاضہ اور جو خون ولادت کے بعد جاری ہوتا ہے اسے  نفاس کہتے ہیں حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے لہٰذا اس مدت میں خون خالص سفیدی کے علاوہ جس رنگ میں بھی آئے وہ حیض کا خون شمار ہو گا یعنی حیض کے خون کا رنگ سرخ بھی ہوتا ہے اور سیاہ و سبز بھی، نیز زرد اور مٹی کے رنگ جیسا بھی حیض کے خون کا رنگ ہوتا ہے۔ ایام حیض میں نماز، روزہ نہ کرنا چاہئے البتہ ایام گزر جانے کے بعد روزے تو قضاء ادا کئے جائیں گے مگر نماز کی قضا نہیں ہو گی مناسب ہے کہ اس موقعہ پر حیض کے کچھ مسائل و احکام (ماخوذ از علم الفقہ) ذکر کر دئیے جائیں (١) اگر کوئی عورت سو کر اٹھنے کے بعد خون دیکھے تو اس کا حیض اسی وقت سے شمار ہو گا جب سے وہ بیدار ہوئی ہے اس سے پہلے نہیں اور اگر کوئی حائضہ عورت سو کر اٹھنے کے بعد اپنے کو طاہر پائے تو جب سے سوئی ہے اسی وقت سے طاہر سمجھی جائے گی(٢) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے ناف اور زانوں کے درمیان کے جسم کو دیکھنا یا اس سے اپنے جسم کو ملانا بشرطیکہ کوئی کپڑا درمیان میں نہ ہو مکروہ تحریمی ہے اور جماع کرنا حرام ہے (٣) حیض والی عورت اگر کسی کو قرآن مجید پڑھاتی ہو تو اس کو ایک ایک لفظ رک رک کر پڑھانے کی غرض سے کہنا جائز ہے۔ ہاں پوری آیت ایک دم پڑھ لینا اس وقت بھی نا جائز ہے (٤) حیض و نفاس کی حالت میں عورت کے بوسے لینا، اس کا استعمال کیا پانی وغیرہ پینا اور اس سے لپٹ کر سونا اور اس کے ناف اور ناف کے اوپر اور زانوں کے نیچے کے جسم سے اپنے جسم کو ملانا اگرچہ کپڑا درمیان میں نہ ہو اور ناف وزانوں کے درمیان کپڑے کے ساتھ ملا نا جائز ہے بلکہ حیض والی عورت سے علیحدہ ہو کر سونا یا اس کے اختلاط سے بچنا مکروہ ہے (٥) جس عورت کا حیض دس دن اور دس راتیں آ کر بند ہوا ہو تو اس سے بغیر غسل کے خون بند ہوتے ہی جماع جائز ہے اور جس عورت کا خون دس دن سے کم آ کر بند ہوا ہو تو اگر اس کی عادت سے بھی کم آ کر بند ہوا ہے تو اس سے جماع جائز نہیں۔ جب تک کہ اس کی عادت نہ گزر جائے اور عادت کے موافق اگر بند ہوا ہے تو جب تک غسل نہ کرے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے جماع جائز نہیں۔ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد بغیر غسل کے بھی جائز ہو گا۔ نماز کے وقت گزر جانے سے یہ مقصود ہے کہ اگر شروع وقت میں خون بند ہوا تو باقی وقت سب گزر جائے اور اگر آخر وقت میں خون بند ہوا تو اس قدر وقت ہونا ضروری ہے کہ جس میں غسل کر کے نماز کی نیت کرنے کی گنجائش ہو اور اگر اس سے بھی کم وقت باقی ہو تو پھر اس کا اعتبار نہیں دوسری نماز کا پورا وقت گزرنا ضروری ہے۔ یہی حکم نفاس کا ہے کہ اگر چالیس دن آ کر بند ہوا ہو تو خون بند ہوتے ہی بغیر غسل کے اور اگر چالیس دن سے کم آ کر بند ہوا ہو اور عادت سے بھی کم ہو تو بعد عادت گزر جانے کے اور اگر عادت کے موافق بند ہوا ہو تو غسل کے بعد یا نماز کا وقت گزر جانے کے بعد جماع وغیرہ جائز ہے۔ ہاں ان کے سب صورتوں میں مستحب ہے کہ بغیر غسل کے جماع نہ کیا جائے (٦) جس عورت کا خون دس دن اور راتوں سے کم آ کر بند ہوا اور عادت مقرر ہو جانے کی شکل میں عادت سے بھی کم ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا واجب ہے اس خیال سے کہ شاید پھر خون آ جائے مثلاً عشاء کے شروع وقت خون بند ہوا ہو تو عشاء کے آخر وقت مستحب یعنی نصف شب کے قریب تک اس کو غسل میں تاخیر کرنا چاہئے اور جس عورت کا حیض دس دن یا عادت مقرر ہونے کی شکل میں عادت کے موافق آ کر بند ہوا ہو تو اس کو نماز کے آخر وقت مستحب تک غسل میں تاخیر کرنا مستحب ہے (٧) اگر کوئی عورت غیر زمانہ حیض میں کوئی ایسی دوا استعمال کرے جس سے خون آ جائے تو وہ حیض نہیں مثلاً کسی عورت کو مہینے میں ایک دفعہ پانچ دن حیض آتا ہو تو اس کے حیض کے پانچ دن کے بعد کسی دوا کے استعمال سے خون آ جائے تو وہ حیض نہیں (٨) اگر کسی عادت والی عورت کو خون جاری ہو جائے اور برابر جاری رہے اور اس کو یہ یاد نہ رہے کہ مجھے کتنے دن حیض آتا تھا یا پھر یہ یاد نہ رہے کہ مہینہ کی کس کس تاریخ سے شروع ہوتا تھا اور کب ختم ہوتا تھا۔ یا دونوں باتیں یاد نہ رہیں تو اس کو چاہئے کہ اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جس زمانے کو وہ حیض کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں حیض کے احکام پر عمل کرے اور جس زمانے کو طہارت کا زمانہ خیال کرے اس زمانے میں طہارت کے احکام پر عمل کرے اور اگر اس کا گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھنی چاہئے اور روزہ بھی رکھے مگر جب اس کا یہ مرض رفع ہو جائے روزہ کی قضاء ادا کرنی ہو گی اور اگر اس کو شک کی کیفیت ہو تو اس میں دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانے کی نسبت یہ شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا تو اس صورت میں ہر نماز کے وقت نیا وضو کر کے نماز پڑھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو کسی زمانہ کی نسبت پر شک ہو کہ یہ زمانہ حیض کا ہے یا طہر کا یا حیض سے خارج ہونے کا تو اس صورت میں وہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھ لے

 

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ یہود میں سے جو کوئی عورت ایام سے ہو جاتی تو وہ لوگ نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کھاتے پیتے نہ تھے بلکہ گھروں میں سونا بیٹھنا تک چھوڑ دیتے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں حکم پوچھا (کہ حائضہ عورتوں کے بارے میں یہودیوں کا تو یہ عمل ہے لیکن ہم کیا کریں؟) جبھی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (وَيَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْض) 2۔ البقرۃ:222) (یعنی یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں الخ  نازل فرمائی (آیت کے نازل ہونے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) تم اپنی عورتوں کے ساتھ جب کہ وہ حائضہ ہوں ) سوائے صحبت کے جو چا ہے کیا کرو جب یہ خبر یہودیوں کو پہنچی تو انہوں نے کہا یہ آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے جس دینی امر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس میں ہماری مخالفت ضرور کرتے ہیں۔ (یہود کی زبانی یہ سن کر دو صحابہ کرام) حضرت اسید ابن حضیر اور حضرت عباد ابن بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہما (دربار رسالت میں ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہودی ایسا ایسا کہہ رہے ہیں (یعنی انھوں نے یہودیوں کا کلام نقل کیا اور پھر یہ کہا کہ) اگر اجازت ہو (یہودیوں کی موافقت کے لیے ) ہم اپنی عورتوں کے پاس (ایام حیض) میں رہنا سہنا چھوڑ دیں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو گیا اور ہمیں یہ گمان ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان دونوں پر خفا ہو گئے ہیں۔ چنانچہ وہ دونوں بھی نکل کر چل دئیے۔ ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس کہیں سے تحفہ میں دودھ آگیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کے پیچھے (کسی آدمی کو بلانے کے لیے ) بھیجا (جب وہ آ گئے تو) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں وہ دودھ پلا دیا (تاکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لطف و کرم کا احساس ہو جائے چنانچہ دودھ پینے کے بعد انہوں نے جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے ناراض نہیں ہیں۔  (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

پوری آیت یہ ہے (وَيَسَْٔلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِيْضِ ۭ قُلْ ھُوَ اَذًى ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَاۗءَ فِي الْمَحِيْضِ ۙ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰى يَطْہرْنَ) 2۔ البقرۃ:222)

اور (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) صحابہ کرام حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں سو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ان سے کہہ دیجئے کہ وہ تو نجاست ہے لہٰذا ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تم وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور ان سے مقاربت نہ کرنے کا حکم دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں جماع نہ کرو، اس کے علاوہ تمام چیزیں جائز ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ کھانا، پینا، گھروں میں رہنا سہنا، لیٹنا ، بیٹھنا یہاں تک کہ عورت کے ناف کے اوپر کے حصے سے اپنا بدن ملانا یا ہاتھ لگانا یہ سب چیزیں جائز ہیں لہٰذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایام حیض میں اگر کوئی آدمی جماع کرے گا تو وہ آدمی گنہ گار ہو گا کیونکہ یہ حرام ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اپنی عورت سے ایام حیض میں یہ سمجھ کر جماع کرے کے یہ حلال اور جائز ہے تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس کا حرام ہونا قرآن سے ثابت ہوتا ہے ، (دونوں صحابہ کرام نے یہود کی باتیں سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں جو معروضہ پیش کیا تھا اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کر لیجئے کہ خدا نخواستہ ان کے ذہن میں اس حکم کی کوئی اہمیت نہ تھی یا یہ کہ ایک اسلامی حکم کے مقابلے میں یہودیوں کی بات کا انہیں زیادہ خیال تھا بلکہ ان کا مطلب تو صرف یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیں تو ہم عورتوں کے ساتھ ایام حیض میں اٹھنا بیٹھنا ترک کر دیں اور ان کے ساتھ کھانا پینا چھوڑ دیں ، تاکہ یہود جو طعن کرتے ہیں وہ نہ کریں اور ہم آپس میں الفت و یک جہتی کے ساتھ رہا کریں

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں جنابت کی حالت میں ایک برتن سے نہا لیا کرتے تھے۔ (اور بعض اوقات) میں ایام سے ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے (تہ بند باندھنے کے واسطے ) ارشاد فرماتے جب میں تہبند باندھ لیتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے (ناف کے اوپر اوپر) اپنے بدن کو لگا کر لیٹ جایا کرتے تھے اور (بعض مرتبہ) آپ اعتکاف میں ہوتے اور اپنا سر مبارک (مسجد سے ) باہر نکال دیتے تو میں اپنے ایام کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دھویا کرتی تھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

عرب کے قاعدے اور معمول کے مطابق ایک بڑا برتن جو طشت کی قسم کا ہوتا تھا پانی سے بھرا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے درمیان رکھا ہوتا اور یہ دونوں اس میں سے چلو بھر بھر کر نہاتے تھے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے جسم کے اس حصے سے فائدہ اٹھانا جو ناف کے نیچے اور زانو کے اوپر ہوتا ہے حرام ہے۔ یعنی وہاں ہاتھ لگانا اور جماع کرنا ممنوع ہے چنانچہ اس کی وضاحت دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے اور یہی مسلک امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ہے امام محمد، امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما اور بعض شوافع حضرات کا مسلک یہ ہے کہ حائضہ عورت سے صرف وطی یعنی شرمگاہ میں دخول کرنا حرام ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حجرہ مسجد سے بالکل ملا ہوا تھا یہاں تک کہ اس کا دروازہ بھی مسجد ہی کی طرف کھلا ہوا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب اعتکاف میں ہوتے تھے تو اپنے سر مبارک اسی دروازے سے حجرے کی طرف نکال دیتے تھے وہاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سر مبارک دھو دیتی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی اعتکاف میں بیٹھا ہو اور اپنے جسم کے کسی حصے کو مسجد سے باہر نکالے تو اس سے اعتکاف باطل نہیں ہوتا

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حالت ایام میں پانی پی کر (وہ برتن) رسول اللہ کو دے دیا کرتی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی جگہ سے جہاں میرا منہ لگا ہوتا تھا منہ لگا کر پی لیتے اور کبھی میں ایام کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچ کر کھاتی پھر وہ ہڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دے دیتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسی جگہ پر منہ رکھ کر گوشت کو نوچتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر نوچا ہوتا تھا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل دو وجہ سے ہوا کرتا تھا اول تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے انتہا محبت تھی دوسری یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہودیوں کی مخالفت منظور ہوتی تھی چنانچہ یہودی تو کہاں حائضہ عورت کے ساتھ گھر میں رہنا اور ان کو ہاتھ لگانا بھی پسند نہ کرتے تھے اور ادھر یہ معمول تھا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایام حیض میں برتن میں جس جگہ سے منہ لگا کر پانی پیا کرتی تھی ں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی جگہ منہ (لگا کر پانی پیتے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس جگہ سے منہ لگا کر ہڈی سے گوشت کو نوچا کرتی تھی ں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی جگہ منہ لگا کر ہڈی سے گوشت نوچا کرتے تھے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ کھانا پینا اور اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جائز ہے نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کے اعضائے بدن نجس و ناپاک نہیں ہوتے

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ میں ایام کی حالت میں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری گود میں سہارا دے کر بیٹھ جاتے اور قرآن کریم پڑھتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث نے بھی اس بات کی وضاحت کر دی کہ حائضہ عورت ظاہری طور پر پاک ہوتی ہے اس کی ناپاکی کا حکم صرف حکماً ہے اس لیے اگر حائضہ عورت ظاہراً پاک نہ ہوتی اور اس کے بدن کے اعضاء نجس ہوتے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود میں سہارا دے کر جب کہ وہ حالت ایام میں ہوا کرتی تھی ں نہ بیٹھتے اور نہ اس طرح بیٹھ کر قرآن کریم پڑھتے

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ مسجد میں سے چھوٹا بوریہ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو (یعنی باہر کھڑی ہو کر اندر ہاتھ ڈال کر بوریا اٹھالاؤ) میں نے عرض کیا کہ میں تو ایام سے ہوں۔ (اس لیے مسجد میں ہاتھ کیسے داخل کر سکتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔  تمہارے ہاتھ میں تو حیض نہیں ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ مسجد سے باہر کھڑی ہو کر مسجد کے اندر سے کوئی چیز اٹھا لے تو جائز ہے۔ کیونکہ ایام والی عورت کو صرف مسجد کے اندر جانا منع ہے نہ کہ مسجد کے اندر ہاتھ داخل کرنا بھی

 

 

٭٭اور ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک ایسی چادر میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے کہ جس کا کچھ حصہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر ہوتا تھا اور کچھ حصہ مجھ پر ہوتا تھا اور میں ایام سے ہوتی تھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اس حدیث نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ حائضہ کا پورا جسم ناپاک نہیں ہوتا بلکہ اس کی شرم گاہ کے علاوہ تمام بدن پاک ہوتا ہے کیونکہ حائضہ کا پورا بدن اگر ناپاک ہوتا ہو تو ایسی چادر میں نماز جائز نہ ہوتی جس کا بعض حصہ تو نمازی پر پڑا ہو اور بعض حصہ نجاست و ناپاکی پر حضرت سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  صاحب تخریج نے لکھا ہے کہ میں نے یہ حدیث یعنی صحیح البخاری و صحیح مسلم میں ان کے الفاظ کے ساتھ نہیں پائی ہے البتہ ان میں نیز ابوداؤد میں اس مضمون کی احادیث مذکور ہیں

 

 

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس آدمی نے ایام والی عورت سے صحبت کی یا عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کی۔ یا کسی کاہن کے پاس (غیب کی باتیں پوچھنے ) گیا تو اس آدمی نے (گویا) محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر نازل کئے گئے دین کا کفر کیا۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ،دارمی) ابن ماجہ اور دارمی کی روایتوں میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ  کاہن کے کہے ہوئے کی اس نے تصدیق بھی کر دی تو وہ کافر ہے۔ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ  ہمیں یہ حدیث معلوم نہیں سوائے اس سند کے کہ اسے حکیم اثرم، ابوتمیمہ سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔

 

تشریح

 

اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حلال اور جائز سمجھ کر کسی حائضہ سے جماع کرے یا کسی عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کرے یا کاہن کے پاس جائے اور کاہن اسے غیب کے متعلق جو چیزیں بتائے انہیں وہ سچ جانے تو وہ کافر ہو جائے گااور اگر یہ شکل ہو کہ کوئی آدمی حائضہ عورت سے جماع یا عورت سے لواطت کرے مگر یہ سمجھتا ہو کہ یہ حلال اور جائز نہیں ہے وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی کاہن کے پاس جائے مگر اس نے جو چزیں بتائی ہیں اس کو سچ نہ جانے تو بھی فاسق ہو گا۔ اس صورت میں اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جس آدمی نے ایسا کیا گویا اس نے کفران نعمت کیا۔

کاہن اس آدمی کو کہتے ہیں جو آئندہ واقعات کی خبر دیتا ہے اور نجومی اسے کہتے ہیں جو ستاروں کی مدد سے خبر دیتا ہے۔ کاہن اور نجومی دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ جس طرح کاہن کے پاس غیب کی خبریں جاننے کے لیے جانا ممنوع ہے اور اس کی دی ہوئی خبر پر یقین کرنا کفر ہے اسی طرح نجومی کے پاس بھی جانا فسق اور اس کی بتائی باتوں کو سچ جاننا کفر ہے اس حدیث میں پیچھے کی طرف بد فعلی کرنے کے سلسلے میں صرف عورت کی جو قید لگائی ہے اور وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد سے اغلام کرنا اس سے بھی زیادہ برا ہے

 

 

٭٭اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! میری بیوی کے ایام کی حالت میں میرے واسطے کیا کیا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  وہ چیز جو تہ بند کے اوپر ہو۔ اور اس سے بھی بچنا بہت ہی بہتر ہے۔ (رزین اور محی السنۃ فرماتے ہیں اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے۔)

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے ایام کی حالت میں اس کی تہ بند کے اوپر ہاتھ وغیرہ لگانا یا تہ بند کے اوپر اختلاط کرنا اور بوس و کنار کرنا جائز ہے۔ مگر ان چیزوں سے بھی پرہیز کرنے کو زیادہ بہتر اور افضل اس لیے کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان امور کی وجہ سے خواہش نفسانی بھڑک اٹھے اور کوئی آدمی جذبات سے مغلوب ہو کر جماع کر بیٹھے اس لیے اس حرام فعل سے بچنے کے لئے مناسب ہے کہ ان امور سے بھی اجتناب کیا جائے جو اس کے لیے ممد اور سبب بنتے ہیں اور جہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کا سوال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے تہ بند کے اوپر اوپر ہاتھ لگاتے تھے اور اختلاط کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے نفس اور جذبات پر قادر تھے۔ اس کے برخلاف دوسرے لوگوں سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح اپنے جذبات اور نفس پر قابو رکھ سکیں گے

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے تو اسے نصف دینار صدقہ کر دینا چاہئے۔ (جامع ترمذی ، ابوداؤد، دارمی، سنن ابن ماجہ، سنن نسائی)

 

تشریح

 

ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا ہے۔ اگر سونا روپے تولہ ہو تو ایک دینار چھ روپے کا ہوا اور آدھا دینار تین روپے کا۔ خطابی نے کہا ہے کہ اکثر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے جماع کر لے تو اس کا کفارہ صرف استغفار ہے چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنفیہ اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ کا یہی مسلک ہے مگر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی نے اپنی حائضہ عورت سے اس وقت جماع کیا جب کہ خون جاری تھا تو اسے ایک دینار صدقہ کرنا مستحب ہے اسی طرح اگر کسی نے انقطاع خون کے بعد صحبت کی تو اسے بھی نصف دینار صدقہ کرنا مستحب ہے حضرت ابن ہمام حنفی حرمہ اللہ تعالیٰ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی اپنی حائضہ بیوی سے یہ سمجھ کر صحبت کرے کہ یہ حلال ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور جس آدمی نے اسے حرام سمجھتے ہوئے کیا تو اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خداوند کریم کی بارگاہ میں اس حرام فعل کے صدور پر شر مسار ہو کر اس سے توبہ و بخشش کا خواست گار ہو اور ایک دینار یا نصف دینار از روئے استحباب صدقہ کر لے محدثین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مرسل ہے یا موقوف ہے کیونکہ اس حدیث کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تک مرفوع متصل ہونا ثابت نہیں ہے

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایام کی حالت میں اگر حیض کا) خون سرخ رنگ کا ہو (اور اس حالت میں کوئی صحبت کرے ) تو ایک پورا دینار اور اگر خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار (صدقہ کرنا لازم ہے )۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ حیض کی حالت میں جماع کرنے سے جو صدقہ دیا جاتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ جماع کے وقت اگر حیض کے خون کا رنگ سرخ ہو تو ایک دینار صدقہ کرنا ضروری ہے اور اگر حیض کے خون کا رنگ زرد ہو تو آدھا دینار صدقہ کرنا چاہئے چنانچہ جو علماء کرام فرماتے ہیں کہ ابتدائے حیض میں صحبت کرنے کی وجہ سے ایک دینار اور حالت انقطاع میں نصف دینار مستحب ہے۔ وہ اسی حدیث سے استدلال ہیں کیونکہ ابتداء میں حیض کے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور آخر میں زرد ہو جاتا ہے

 

 

٭٭حضرت زید ابن اسلم (بھی) فرماتے ہیں کہ  ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ میرے لیے میری بیوی سے جب کہ وہ ایام کی حالت میں ہو تو کیا جائز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اس کے جسم پر اس کا تہ بند خوب مضبوط باندھ لو پھر تہبند کے اوپر تمام کام ہے۔ (یعنی ناف سے اوپر تم کو اختلاط مباح ہے اور ناف کے نیچے حرام ہے۔ (مالک اور دارمی نے اس حدیث کو بطریق ارسال روایت کیا ہے )

 

 

٭٭اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ  جب میں ایام سے ہو جاتی تو بستر سے اتر کر بوریہ پر آ جاتی تھی ، چنانچہ جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جاتی نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے نزدیک آتے تھے اور نہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نزدیک آتی تھی ں۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

بظاہر یہ حدیث ان احادیث کے بالکل برعکس ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواج مطہرات کے ایام کی حالت میں ان کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرتے تھے چنانچہ خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے ایسی احادیث مروی ہیں۔ جن میں انھوں نے بتایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان سے ایام حیض میں اختلاط کرتے تھے لہٰذا اس تعارض کو ختم کرنے کے لیے یہ کہا جائے گا کہ یہ حدیث ان احادیث سے منسوخ ہے۔ یا پھر اس حدیث کی توجیہ یہ کی جائے گی کہ یہاں نزدیک نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایام کی حالت میں جماع کے لیے ایک دوسرے کے قریب نہ آتے تھے جیسا کہ قرآن مجید کی آیت (لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ) 2۔ البقرۃ:222) میں ان کے نزدیک نہ آؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں  کا مطلب یہ کیا جاتا ہے کہ ان سے جماع نہ کرو جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں۔ یہاں حدیث کے الفاظ فلم یَقْرُبْ میں حرف ی زبر کے ساتھ اور حرف ر پیش کے ساتھ ہے اسی طرح لَمْ تدن حتی تطھر دونوں حرف ت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ مشکوٰۃ کے اکثر صحیح نسخوں میں اسی طرح یہ الفاظ مذکور ہیں مگر نسخہ سید جمال الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ صحیح فَلَمْ نَقْرِبْ نون اور حرف ر کے زبر کے ساتھ ہے نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لام کو زبر ہے۔ اسی طرح لم ندن پہلے نون کے زبر اور دوسرے نون کے پیش کے ساتھ ہے اور لفظ نطہر میں بھی نون ہے اور میرک شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ  اصل ابوداؤد میں یہ الفاظ اسی طرح ہیں

 

                   مستحاضہ کا بیان

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ  فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم)! میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر (استحاضہ کا) خون آتا رہتا ہے۔ چنانچہ میں کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں ! یہ تو ایک رگ کا خون ہے ، حیض کا خون نہیں ہے لہٰذا جب تمہیں حیض آنے لگے تو تم نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو  جسم سے خون کو دھو ڈالو (اور نہا کر) نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

اس مسئلے میں کہ اگر کوئی عورت مستحاضہ ہو جائے اور وہ ہر وقت استحاضہ کے خون سے ناپاک رہے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ  اگر وہ ایسی عورت ہو جو معتادہ ہو یعنی اس کے حیض کے ایام مقرر ہوں مثلاً اسے ہر ماہ پانچ روز یا چھ روز خون آتا تھا تو جب وہ مستحاضہ ہو جائے تو اسے چاہئے کہ ان دنوں کو جن میں حیض کا خون آتا تھا ایام حیض قرار دے اور ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور جب وہ دن پورے ہو جائیں تو خون کو دھو کر نہائے اور نماز وغیرہ شروع کر دے اور اگر وہ مبتد یہ ہو یعنی ایسی عورت ہو کہ پہلا ہی حیض آنے کے بعد وہ مستحاضہ ہو گئی جس کے نتیجہ میں استحاضہ کا خون برابر جاری ہو گیا تو اسے چاہئے کہ وہ حیض کی انتہائی مدت یعنی دس دن کو ایام حیض قرار دے کر ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور بعد میں نہا دھو کر نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اس صورت میں دوسرے ائمہ کے نزدیک عمل تمیز پر ہو گا یعنی اگر خون سیاہ رنگ کا ہو تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا اور اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو وہ استحاضہ کا خون کہلائے گا جیسے کہ آگے والی حدیث سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کے بارے میں جو آگے آ رہی ہے اور جو حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دو طرق سے روایت کی گئی ہے ایک تو ان میں سے مرسل ہے اور دوسری مضطرب اور یہ عجیب بات ہے کہ خون کے رنگ میں امتیاز کی بات صرف عروہ کی روایت ہی میں مذکور ہے جس کا حال معلوم ہو چکا کہ ایک طریق سے تو وہ مرسل ہے اور دوسرے طریقے سے مضطرب لہٰذا اس حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد رکھنا گویا اس مسلک کو کمزور کرنا ہے۔ اور یہ حدیث جو اوپر گزری جس میں دنوں کا اعتبار ہے اور جو ہماری دلیل ہے صحیح ہے لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے ، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں حکم دریافت کیا تھا معتادہ تھی ں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کو چاہئے کہ وہ ہر فرض نماز کے لیے اپنی شرم گاہ دھو لیا کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آئے جب ہی اپنی شرم گاہ دھو لے پھر نہ دھوئے اور لنگوٹا باندھ کر جلدی جلدی وضو کر لے اس کے بعد جو خون جاری رہے گا اس میں وہ معذور ہو گی لہٰذا آخر وقت تک وہ جو چا ہے پڑھے

 

 

٭٭حضرت عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) (حضرت عروہ زبیر بن العوام کے صاحبزادے اور عظیم المرتبت تابعی ہیں ٢٢ھ میں پیدا ہوئے۔) حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش سے روایت کرتے ہیں کہ  انہیں استحاضہ کا خون آتا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ جب حیض کا خون آئے جس کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے تو اس وقت تم نماز پڑھنے سے رک جایا کرو اور جب استحاضہ کا خون آنے لگے (یعنی خون سیاہ رنگ کے علاوہ اور کسی رنگ کا ہو) تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو کیوں کہ (یہ حیض کا نہیں بلکہ ایک رگ کا خون ہوتا ہے۔) ابوداؤ د، سنن نسائی)

 

تشریح

 

اس حدیث کے بارے میں اس سے پہلے حدیث کی تشریح  میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث ان ائمہ کی دلیل ہے جو فرماتے ہیں کہ مستحاضہ ایام حیض کے سلسلہ میں تمیز پر عمل کرے کہ اگر خون کا رنگ گاڑھا سیاہ ہو تو اسے حیض کا خون قرار دے کر ان ایام میں نماز وغیرہ ترک کر دے اور اگر رنگ گاڑھا سیاہ نہ ہو تو پھر اسے استحاضہ کا خون سمجھے اور نماز روزہ کرتی رہے چنانچہ اسی جگہ یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ حدیث صحیح درجے کو نہیں پہنچی اس لیے اس کو کسی مسلک کی بنیاد قرار دینا اس مسلک کی کمزوری کو ظاہر کرنے کے مترادف ہے بہر حال۔ یہاں خون کے جو رنگ بتائے گئے ہیں وہ دائمی اور کلی طور پر نہیں ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کے رنگ اکثر کے اعتبار سے بیان فرمائے ہیں کیونکہ کبھی حیض کا خون سرخ وغیرہ رنگ کا بھی ہوتا ہے حضرات حنفیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس حدیث کی وضاحت یہ کرتے ہیں کہ اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا محمول یہ ہو گا کہ  یہ تمیز عادت کے موافق ہو۔ یعنی جس عورت کو استحاضہ لاحق ہو اور حیض میں جب خون کا رنگ سیاہ ہو گا تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا۔ لہٰذا جب اس کی عادت کے دن گزر جائیں اور ان ہی دنوں میں خون کا رنگ سیاہ بمائل سرخی وغیرہ ہو تو اس کے بعد حیض کا خون شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس کی عادت کے موافق خون کا رنگ اب سیاہ نہیں رہا

 

 

٭٭اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا (اور وہ معتادہ تھی ) چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے فتویٰ پوچھا (کہ اس کا کیا حکم ہے؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اسے چاہئے کہ وہ دیکھے کہ اس بیماری کے آنے سے پہلے اسے مہینے میں حیض کا خون کتنے دن رات آتا تھا (جب یہ معلوم ہو جائے تو) ہر مہینے اتنے ہی دنوں کے لئے نماز پڑھنی چھوڑ دے اور جب وہ دن گزر جائیں تو نہا لے اور (پاجامہ کے اندر) کپڑے کی لنگوٹی باندھ کر نماز پڑھ لیا کرے۔ (مالک ابوداؤد، دارمی) اور نسائی نے اس روایت کو بالمعنی نقل کیا ہے۔)

 

تشریح

 

مستحاضہ کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے وہ لنگوٹ اس طرح باندھے کہ خون حتی المقدور رک سکے اگر لنگوٹ باندھنے اور احتیاط کے باوجود بھی خون آئے تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا نماز صحیح ہو جائے گی قضاء ضروری نہیں ہو گی یہ حکم سلسل البول کے مرض کا بھی ہے

 

 

٭٭اور حضرت عدی ابن ثابت سے مروی ہے کہ ان کے والد اپنے والد سے یعنی یحییٰ ابن معین سے جو عدی کے دادا ہیں اور جن کا نام دینار ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مستحاضہ کے بارے میں فرمایا کہ  جن دنوں اسے (عادت کے موافق) حیض آتا تھا اسے چاہئے کہ ان میں نماز چھوڑ دے پھر (ان دنوں کے بعد ایک مرتبہ) نہائے اور ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرے اور روزہ رکھے اور نماز بھی پڑھے۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

یہ حدیث ضعیف ہے نیز ایک دوسری روایت کے یہ الفاظ ہیں فَتَوَضَّا لِوَقْتِ کُلِّ صَلٰوۃٍ یعنی مستحاضہ ہر نماز کے وقت وضو کرے

 

 

٭٭اور حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ مجھے بہت ہی کثرت سے استحاضہ کا خون آتا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی خبر دوں اور اس کا حکم پوچھوں چنانچہ میں اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے ملی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !مجھے استحاضہ کا خون بہت ہی کثرت سے آتا ہے جس نے مجھے نماز روزے سے بھی روک رکھا ہے اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے روئی کو بیان کرتا ہوں کیونکہ وہ خون کو لے جاتی ہے (یعنی خون نکلنے کی جگہ روئی رکھ لو تاکہ وہ باہر نہ نکلے ) حمنہ نے کہا کہ وہ تو (اس سے نہیں رکے گا کیونکہ) بہت زیاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (روئی رکھ کر) اس پر لگام کی طرح کپڑا (یعنی لنگوٹ) باندھ لو۔ انھوں نے کہا کہ  وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ) زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر لنگوٹ کے نیچے ) ایک کپڑا رکھ لو۔ انھوں نے کہا کہ  وہ اس سے (بھی نہیں رکے گا کیونکہ بہت ہی زیادہ ہے یہاں تک کہ خون بارش کی (دھار) کی طرح آتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  پھر تو میں تمہیں دو باتوں کا حکم کرتا ہوں ان میں سے تم جس ایک کو بھی اختیار کر لو گی دوسری کی ضرورت نہیں رہے گی اور اگر تمہارے اندر دونوں (پر عمل کرنے ) کی طاقت ہو گی تو تم خود ہی دانا ہو (یعنی تم اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے جو چاہو کرو) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حمنہ سے کہا کہ  یہ استحاضہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے لہٰذا تم (ہر مہینہ) چھ یا سات روز (کیونکہ غیب کا علم اللہ کو ہے ) حیض کے ایام قرار دو اور پھر (مدت مذکورہ گزر جانے کے بعد) غسل کر لو اور جب تم جان لو کہ میں پاک و صاف ہو گئی ہوں تو تیس دن رات (ایام حیض سات دن قرار دینے کی شکل میں ) یا چوبیس دن رات (ایام حیض چھ دن قرار دینے کی شکل میں ) نماز پڑھتی رہا کرو، اور اسی طرح مہینے رمضان وغیرہ کے ) روزے بھی رکھتی رہا کرو چنانچہ جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت پر ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں تم بھی ہر مہینہ اسی طرح کرتی رہا کرو کہ چھ دن یا سات دن تو حیض کے ایام قرار دو اور بقیہ دن طہر یعنی پاکی کے ایام قرار دو) تمہارے لیے یہ کافی ہو گا۔ اور اگر تمہارے اندر اتنی طاقت ہو کہ ظہر کے وقت میں تاخیر کر کے اس میں نہا لو اور عصر میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکٹھی پڑھ لو اور پھر مغرب کا وقت آخیر کر کے نہا لو اور عشاء میں جلدی کر کے ان دونوں نمازوں کو اکھٹی پڑھ لو اور نماز فجر کے لیے (علیحدہ) نہا لو تو اسی طرح کر لیا کرو (جن دنوں میں نماز پڑھو ان دنوں میں نفل اور فرض جیسے بھی چاہو) روزے رکھ لیا کرو اور اگر تم میں اس کی طاقت ہو تو (اس طرح کرتی رہا کرو) پھر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ان دونوں باتوں میں سے آخری بات مجھے بہت پسند ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ، جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

یوں تو استحاضہ کا خون آنا مرض کی بناء پر ہوتا ہے تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے کہ یہ شیطان کی لاتوں میں سے ایک لات مارنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بہکانے اور عبادت کے اندر خلل ڈالنے کے لیے شیطان کو موقع ملتا ہے چنانچہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکی و صفائی اور نماز وغیرہ میں فساد کا بیج بوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے استحاضہ کی حقیقت بیان فرما کر سائلہ کو دو ایسے حکم دئیے جن پر عمل کرنے سے شیطان اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حکم تو یہ دیا کہ فَتَحَیْضِی سِتَّتِ اَیَّامٍ اَوْسَبْعَۃَ َایَّامٍ یعنی چھ روز یا سات روز حیض کے ایام قرار دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی صورت میں ہر مہینے اپنی اوپر یہی عادت کے مطابق چھ دن یا سات دن تک حیض کے احکام جاری رکھ۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائلہ معتادہ تھی اور وہ حیض کے ایام بھول گئی تھی یعنی اسے یہ یاد نہیں رہا تھا کہ حیض کا خون ہر مہینے چھ دن آتا تھا یا ساتھ دن آتا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا کہ تم اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اگر تمہارا یقین یہ کہتا ہو کہ عادت چھ دن کی تھی تو اس صورت میں چھ دن حیض کے ایام قرار دو اگر اس بات کا گمان غالب ہو کہ عادت سات دن کی تھی تو پھر سات دن حیض کے ایام قرار دو پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فی علم اللہ فرما کر اس بات کا اشارہ کر دیا کہ تم بہر حال اپنے یقین و گمان پر عمل کرو اس بات کا علم بہر صورت اللہ تعالیٰ کو ہے ، کہ تمہاری عادت کیا تھی کیونکہ غیب کی باتوں کا جاننے والا تو وہی ہے۔ یا پھر ستۃ ایام اوسبعۃ ایام او اگر شک کے لیے ہو تو  فی علم اللہ  راوی کا قول ہو گا جو وا اللہ اعلم کے معنی میں ہو گا۔ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ستۃ ایام فرمایا ہے یا سبعہ ایام اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے آپ نے سائلہ سے جو یہ فرمایا کہ  جس طرح عورتیں اپنی اپنی مدت میں ایام سے ہوتی ہیں اور پھر وقت پر پاک ہوتی ہیں۔ تم بھی اسی طرح ہر مہینہ کرتی رہا کرو۔ تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جیسے تمہاری طرح وہ عورتیں جو اپنی عادت کے دن بھول جاتی ہیں اور پھر وہ اپنے ایام ٹھہراتی ہیں تم اسی طرح اپنے ایام قرار دو یعنی اگر ان کے حیض کا وقت اول مہینہ ہے تو ایام حیض اول مہینے کو قرار دو اور اگر ان کے حیض کا وقت مہینے کے درمیان میں ہو تو تم بھی ایام حیض درمیان مہینے کو قرار دو اسی طرح اگر ان کے حیض کا وقت آخر مہینہ میں ہو تو تم آخر مہینے کو ایام حیض قرار دو بہر حال۔ پہلے حکم کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے حیض کی مدت خواہ وہ سات دن ہو یا چھ دن پوری کر کے اس کے بعد نہا ڈالو اور پھر ہر نماز کے لیے غسل کیا کرو دوسرا حکم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیا کہ  دو نمازوں کے درمیان ایسے وقت غسل کر لیا کرو کہ ایک نماز کا انتہائی وقت ہوا اور دوسری نماز کا ابتدائی وقت پھر اس کے بعد دونوں کو اکٹھی پڑھ لیا کرو اس طرح ظہر اور مغرب کو تاخیر کے ساتھ پڑھنے کے لیے جو کہا گیا ہے اس میں دو احتمال ہیں۔ اول تو اس  تاخیر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وقت ختم ہونے کے بعد نماز پڑھی جائے مثلاً ظہر اور عصر دونوں وقت کی نماز عصر ہی کے وقت میں پڑھی جائے۔ اسی طرح مغرب کی اور عشاء کی نماز عشاء کے وقت میں پڑھی جائی جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کہ مطابق مسافر دو نمازوں کو اس طرح جمع کر کے پڑھ سکتا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ ظہر کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عصر کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے ، اسی طرح مغرب کی نماز بالکل آخر وقت میں پڑھی جائے اور عشاء کی نماز بالکل ابتداء میں پڑھی جائے جیسا کہ حنفی مسلک میں مسافر کے لیے جمع بین الصلوتین کی یہی تاویل کی جاتی ہے اور اسے جمع صوری کہتے ہیں۔چنانچہ اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اسی مقصد و مراد کی وضاحت کر رہی ہے۔ پس اس دوسرے حکم کا حاصل یہ ہے کہ  روزانہ ایک غسل تو ظہر و عصر کے لیے کیا جائے اور ایک غسل مغرب و عشاء کے لیے اسی طرح ایک غسل فجر کے لیے کیا جائے یہ بات سمجھ لیجئے کہ پہلے حکم کا خلاصہ کرتے ہوئے جو یہ بتایا گیا ہے کہ  ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے۔ اس کی صراحت حدیث میں تو نہیں ہے لیکن ارشاد گرامی ان قویت علی ان تو خرین الخ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس عبارت سے سائلہ کا ہر نماز کے لیے غسل سے عاجز ہونا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہی مسلک حضرت امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ ابن مسعود اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ کا ہے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسلک یہ ہے کہ دو نمازیں ایک غسل کے ساتھ اکٹھی پڑھی جائیں اور یہی مسلک اس حدیث سے زیادہ قریب اور مطابق ہے کیونکہ اس میں زیادہ آسانی ہے بہ نسبت اس کے کہ ہر نماز کے لیے غسل کیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اسی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا ہے کہ ھذا اعجب الامرین الی یعنی دونوں نمازوں کے لیے غسل کرنا مجھے دوسرے امر یعنی ہر نماز کے لیے غسل سے زیادہ پسند ہے۔ اور اس دوسرے حکم کو پسند کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم امت کے لیے وہی چیز پسند فرماتے تھے جو آسان اور سہل العمل ہو جہاں تک حنفیہ کا تعلق ہے تو ان کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے یا یہ کہ دونوں صورتوں میں غسل کا حکم معالجہ پر معمول ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کا حکم اس لیے دیا ہے تاکہ خون کی کثرت اور اس کی شدت ختم ہو جائے

 

 

٭٭حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو (پہلی مرتبہ) اتنی مدت سے استحاضہ آ رہا ہے اس لیے وہ (یہ خیال کر کے کہ شاید یہ بھی حیض کے حکم میں ہو) نماز نہیں پڑھ رہی۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  سبحان اللہ ! یہ نماز کا چھوڑنا تو شیطانی اثر ہے؟ اسے چاہئے کہ ایک ٹب میں پانی ڈال کر بیٹھ جائے جس وقت پانی پر زردی معلوم ہونے لگے تو ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل کرے اور مغرب و عشاء کے لیے ایک غسل کر لے اور فجر کے لئے علیحدہ ایک غسل کرے (اور جب ضرورت ہو تو عصر اور عشاء کے لیے ) ان کے درمیان وضو کرے۔ (یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ مجاہد نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ  جب فاطمہ بنت ابی حییش کو (ہر نماز کے لیے ) غسل کرنا دشوار معلوم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو (ایک غسل سے ) دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم دیا۔)

 

تشریح

 

جب ظہر کا وقت بالکل آخر ہو جاتا ہے تو آفتاب پر قدرے زردی آ جاتی ہے بلکہ زوال کے بعد تغیر ہونا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹب میں دیکھنے کے لیے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ زردی پانی سے آسانی سے معلوم ہو جاتی ہے وہ زردی بڑھتے بڑھتے مغرب کے قریب پوری ہو جاتی ہے اس وقت نماز پڑھنی مکروہ ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس زردی کے بارے میں فرمایا ہے یہ اس زردی کے علاوہ ہے جو عصر کے بعد ہوتی ہے اور وہ نماز کے لیے کراہت کا وقت ہوتا ہے لغت میں  صلوٰۃ دعا کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں صلوٰۃ چند مخصوص اقوال و افعال کو کہتے ہیں جن کی ابتداء تکبیر سے اور انتہاء سلام پر ہوتی ہے۔ صلوٰۃ کے مادہ اشتقاق کے بارے میں کئی اقوال نقل کئے جاتے ہیں نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ صلوٰۃ کا مادہ اشتقاق  صلوین ہے جو سرین کی دونوں ہڈیوں کو کہتے ہیں چونکہ نماز میں ان دونوں ہڈیوں کی رکوع و سجود کے وقت زیادہ حرکت ہوتی ہے اس لیے اس مناسبت سے نماز کو صلوٰۃ کہا گیا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں صلوٰۃ مصلی سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ٹیڑھی لکڑی کو آگ سے سینک کر سیدھا کرنا چنانچہ نماز کو صلوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان کے مزاج میں نفس امارہ کی وجہ سے ٹیڑھا پن ہے لہٰذا جب کوئی آدمی نماز پڑھتا ہے۔ تو رب قدوس کی عظمت و ہیبت کی گرمی جو اس عبادت میں انتہائی قرب خداوندی کی بناء پر حاصل ہوتی ہے اس کے ٹیڑھے پن کو ختم کر دیتی ہے گویا مصلی یعنی نمازی اس مادہ اشتقاق کی رو سے اپنے نفس امارہ کو عظمت خداوندی اور ہیبت زبانی کی تپش سے سینکنے والا ہوا۔ لہٰذا جو آدمی نماز کی حرارت سے سینکا گیا اور اس کا ٹیڑھا پن نماز کی وجہ سے دور کیا گیا تو اس کو آخرت کی آگ یعنی دوزخ سے سینکنے کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اپنے اس بندے کو جس نے دنیا میں نماز کی پابندی کی اور کوئی ایسا فعل نہ کیا جو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہو تو اسے جہنم کی آگ میں نہ ڈالے گااس اصطلاحی تعریف کے بعد یہ سمجھ لیجئے کہ نماز اسلام کا وہ عظیم رکن اور ستون ہے جس کی اہمیت و عظمت کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ اثر منقول ہے کہ

جب نماز کا وقت آتا تو ان کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہو جاتا۔ لوگوں نے پوچھا کہ، امیر المومنین ! آپ کی یہ کیا حالت ہے؟فرماتے ہیں کہ اب اس امانت (یہ اشارہ ہے اس آیت قرآنی کی طرف: آیت (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہا وَاَشْفَقْنَ مِنْہا وَحَمَلَہا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّہ كَانَ ظَلُوْماً جَہوْلاً) 33۔ الاحزاب:72)

کا وقت آگیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، پہاڑوں اور زمین پر پیش فرمایا تھا اور وہ سب اس امانت کے لینے سے ڈر گئے اور انکار کر دیا۔ (احیاء العلوم)

نماز کی تاکید اور اس کے فضائل سے قرآن مجید کے مبارک صفحات مالا مال ہیں ، نماز کو اداء کرنے اور اس کی پابندی کرنے کے لیے جس سختی سے حکم دیا گیا ہے وہ خود اس عبادت کی اہمیت و فضلیت کی دلیل ہے۔ ایمان کے بعد شریعت نے سب سے زیادہ نماز ہی پر زور دیا ہے چنانچہ قرآن کریم کی یہ چند آیتیں ملاحظہ فرمائے آیت ( اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰباً مَّوْقُوْتاً) 4۔ النساء:103)

بے شک ایمان والوں پر نماز فرض ہے وقت مقرر پر۔

آیت (حٰفِظُوْا عَلَي الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى) 2۔ البقرۃ:238)

نمازوں کی خصوصاً درمیانی نماز (عصر) کی پابندی کرو۔

آیت (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ  ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ) 11۔ہود:114)

بے شک نیکیاں (یعنی نمازیں ) برائیوں کو معاف کرا دیتی ہیں۔

آیت (ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ)  29۔ العنکبوت:45)

بے شک نماز برے اور خراب کاموں سے انسان کو بچاتی ہے۔ اور بے شک اللہ تعالیٰ کے ذکر کا بڑا مرتبہ بڑا ثر ہے۔

بہر حال ! نماز ایک ایسی پسند اور محبوب عبادت ہے جس کی برکتوں اور سعادتوں سے خداوند کریم نے کسی بھی نبی کی شریعت کو محروم نہیں رکھا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزمان سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام رسولوں کی امت پر نماز فرض تھی۔ ہاں نماز کی کیفیت اور تعینات میں ہر امت کے لیے تغیر ہوتا رہا۔ سرکار عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی امت پر ابتدائے رسالت میں دو وقت کی نماز فرض تھی ایک آفتاب کے نکلنے سے قبل اور ایک آفتاب ڈوبنے سے بعد۔ ہجرت سے ڈیڑھ برس پہلے جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج میں ذات حق جل مجدہ کی قربت حقیقی کا عظیم و افضل ترین شرف پایا تو اس مقدس اور با سعادت موقعہ پر پانچ وقت کی نماز کا عظیم و اشرف ترین تحفہ بھی عنایت فرمایا گیا۔ چنانچہ فجر، ظہر، مغرب، عشاء ان پانچ وقتوں کی نماز کا فریضہ صرف اسی امت کی امتیازی خصوصیت ہے اگلی امتوں پر صرف فجر کی نماز فرض تھی نیز کسی پر ظہر کی اور کسی پر عصر کی۔ اسلام کی تمام عبادات میں صرف نماز ہی وہ عبادت ہے جس کو سب سے افضل اور اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ چنانچہ اس پر اتفاق ہے کہ نماز اسلام کا رکن اعظم ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اسلام کا دارومدار اسی عبادت پر ہے تو مبالغہ نہ ہو گا ہر مسلمان عاقل بالغ پر ہر روز پانچ وقت نماز پڑھنا فرض عین ہے امیر ہو یا فقیر، تندرست ہو یا مریض اور مقیم ہو یا مسافر ہر ایک کو پانچوں وقت ان آداب و شرائط اور طریقوں کے ساتھ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے نماز کے سلسلہ میں بتائے ہیں اللہ کے دربار میں حاضری دینا اور رب قدوس کی عظمت و بڑائی اور اپنی بے کسی و لاچاری اور عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے یہاں تک کہ جب میدان کار زار میں جنگ کے شعلے بھرک رہے ہوں اور عورت سب سے زیادہ اور شدید تکلیف درد زہ میں مبتلا ہو تب بھی نماز کو چھوڑنا جائز نہیں ہے بلکہ اس کی ادائیگی میں دیر کر نے کی بھی اجازت نہیں ہے یہاں تک کہ اگر کسی عورت کے بچے کی پیدائش کے وقت بچے کا کوئی جزو نصف سے کم اس کے خاص حصے سے باہر آگیا ہو خواہ خون نکلا ہو یا نہ نکلا ہو اس وقت بھی اس کو نماز پڑھنے کا حکم ہے اور نماز میں توقف کرنا جائز نہیں ہے

جو آدمی نماز کی فرضیت سے انکار کرے وہ کافر ہے اور اس کو ترک کرنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق و فاجر ہے بلکہ بعض جلیل القدر صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے ہیں امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بھی یہی مسلک ہے امام شافعی و امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نماز چھوڑنے کو گردن زنی قرار دیتے ہیں۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اگرچہ اس کے کفر کے قائل نہیں تاہم ان کے نزدیک بھی نماز چھوڑنے والے کے لیے سخت تعزیر ہے مصنف نے یہاں  کتاب الصلوٰۃ کے نام سے جو عنوان قائم فرمایا ہے اس کے تحت نماز سے متعلق وہ تمام احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے نماز کی اہمیت و عظمت اور اس کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے اور نماز کے جو احکام و فضائل ہیں ان کا استنباط ہوتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کوئی آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو پانچوں نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک اس کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں جو ان کے درمیان ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی پابندی کے ساتھ پانچوں وقت کی نماز پڑھے ، جمعہ کی نماز پورے آداب کے ساتھ ادا کرے اور اسی طرح رمضان کے روزے رکھے تو ان کے درمیان جو صغیرہ گناہ صادر ہوئے ہیں سب ختم ہو جاتے ہیں البتہ کبیرہ گناہ نہیں بخشے جاتے ہاں اگر اللہ چا ہے تو وہ کبیرہ گناہ بھی معاف فرما سکتا ہے یہاں ایک ہلکا سا خلجان واقع ہوتا ہے کہ جب ہر روز کی پانچوں وقت کی نمازیں ہی تمام گناہ مٹا دیتی ہیں تو پھر یہ جمعہ وغیرہ کون سے گناہ ختم کرتے ہیں؟ چنانچہ اس خلجان کو رفع کرنے کے لیے ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ان سب میں گناہوں کو مٹانے اور ختم کرنے کی صلاحیت ہے چنانچہ اگر گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو یہ تینوں ان کو مٹا دیتے ہیں ورنہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے بے شمار نیکیاں لکھی جاتی ہیں جس کی وجہ سے درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ تینوں صغیرہ گناہوں کے لیے کفارہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک کسی گناہ کے لیے کفارہ بن سکے تو دوسرا کفارہ ہو جاتا ہے مثلاً نماز میں کسی تقصیر اور نقصان کی وجہ سے اگر وہ نماز گناہوں کے لیے کفارہ نہ ہو سکے تو ان کو جمعہ ختم کر دیتا ہے اور جمعہ میں بھی کسی تقصیر کی وجہ سے کفارہ ہونے کی صلاحیت نہ رہے تو پھر رمضان ان کے لیے کفارہ ہو جاتا ہے اور اگر سب کے سب کفارہ بننے کی صلاحیت رکھیں تو یہ سب مل کر گناہوں کو اچھی طرح مٹا دیتے ہیں اور کفارے کی زیادتی کا باعث ہوتے ہیں چنانچہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کئی چراغوں کی۔ اگر کسی مکان میں ایک چراغ ہو گا تو اندھیرا تو ختم ہو جائے گا مگر روشنی کم ہو گی اور اگر چراغ زیادہ ہوں گے تو نور اور روشنی حیثیت سے زیادتی ہو گی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے ) فرمایا، تم بتاؤ کہ جس کے دروازے کے آگے پانی کی نہر چلتی ہو اور وہ روز اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر میل کا کوئی شائبہ بھی رہے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ نہیں ! میل بالکل باقی نہیں رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (تم سمجھ لو کہ) پانچوں نمازوں کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام (صغیرہ) گناہوں کو ان نمازوں کے سبب سے اسی طرح مٹا دیتا ہے (جس طرح پانی میل کو اتار دیتا ہے )۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

 

٭٭اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی (غیر) عورت کا بوسہ لے لیا پھر (احساس ندامت و شرمندگی کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صورت واقعہ کی خبر دی (اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا حکم پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ وحی کے ذریعہ حکم خداوندی کے منتظر رہے اس اثناء میں اس آدمی نے نماز پڑھی جب ہی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّہارِ وَزُلَفاً مِّنَ الَّيْلِ  ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) اور نماز کو دن کے وقت اول و آخر اور رات کی چند ساعات میں پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں (یعنی نمازیں ) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ آیت کے نازل ہونے کے بعد اس آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ حکم میرے لیے ہے (یا پوری امت کے لیے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (نہیں ! یہ حکم) میری امت کے لیے ہے۔ ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جواب اس طرح مذکور ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) میری امت میں سے جو آدمی اس آیت پر عمل کرے اس کے لیے (یہی حکم ہے ، یعنی جو آدمی بھی برائی کے بعد بھلائی کرے گا اسے یہی سعادت حاصل ہو گی کہ اس بھلائی کے نتیجے میں اس کی برائی ختم ہو جائے گی)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جس صاحب کا یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک غیر عورت کا بوسہ لے لیا تھا ان کا نام ابوالیسر تھا۔ جامع ترمذی نے ان کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ خود راوی ہیں کہ، میرے پاس ایک عورت کھجوریں خریدنے کے لیے آئی میں نے اس سے کہا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ اچھی کھجوریں رکھی ہوئی ہیں (اس لیے تم وہاں چل کر دیکھ لو) چنانچہ وہ میرے ہمراہ مکان میں آگئی (وہاں میں شیطان کے بہکانے میں آگیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر) اس اجنبی عورت سے بوس و کنار کیا۔ اس نے (میرے اس غلط اور نازیبا رویے پر مجھے تنبیہ کرتے ہوئے ) کہا کہ بندہ خدا! اللہ (کے قہر و غضب) سے ڈرو چنانچہ (خوف خدا سے میرا دل تھرا گیا اور) میں نہایت ہی شرمندہ و شرمسار ہو کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ چنانچہ بارگاہ رسالت میں ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا وہی حدیث میں ذکر کیا گیا ہے آیت کریمہ میں طرفی النھار یعنی دن کے اول و آخر سے دن کا ابتدائی حصہ اور انتہائی حصہ مراد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن کے اول یعنی ابتدائی حصہ سے فجر کی نماز اور آخری حصہ سے ظہر و عصر کی نمازیں مراد ہیں اسی طرح زلفا من الیل یعنی رات کی چند ساعتوں سے مغرب و عشاء کا وقت مراد ہے۔ اس طرح اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہو گا  فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کرو، کیونکہ نیکیاں (نمازیں ) برائیوں کو مٹا دیتی ہیں

 

 

٭٭اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ پر حد جاری فرمائیے راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حد کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا اور نماز کا وقت آگیا۔ اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے تو وہ آدمی کھڑا ہوا اور پھر عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! مجھ سے ایک ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جو مستوجب حد ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے بارے میں اللہ کا حکم نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا کہ جی ہاں ! پڑھی ہے ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ نے تمہاری خطاء یا فرمایا کہ تمہاری حد بخش دی ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں یہ نہ سمجھ بیٹھئے کہ اس آدمی کے الفاظ اَصَبْتُ حَدّاً (یعنی مجھ سے ایسا فعل سرزد ہو گیا ہے جس کی وجہ سے مجھ پر حد واجب ہے ) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کسی ایسے کبیرہ گناہ مثلاً چوری وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا جس پر حد واجب ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کی وجہ سے اس کی بخشش کی خوشخبری سنا دی لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کی وجہ سے کبیرہ گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے کوئی ایسا گناہ صغیرہ سرزد ہو گیا تھا جو حقیقت میں تو ایسا نہیں تھا جس پر حد جاری ہوتی لیکن چونکہ وہ آدمی  صحابیت جیسے مرتبہ پر فائز تھے جہاں معمولی سا گناہ بھی خوف خداوندی سے دل کو لرزاں کر دیتا ہے اور ایک ہلکی سی معصیت بھی قلب و دماغ کے ہر گوشہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے اس لیے انہوں نے یہ گمان کر لیا کہ مجھ سے ایک فعل سرزد ہو گیا ہے۔ جس پر از روئے شریعت حد جاری ہو جائے گی لہٰذا انہوں نے بارگاہ رسالت میں آ کر اس طرح ذکر کیا جس سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ ان سے واقعی کوئی ایسا بڑا گناہ سرزد ہو گیا ہے جو سخت ترین سزا یعنی حد کا مستوجب ہے۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ حد سے ان کی مراد تعزیر تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے اس کے گناہ کی حقیقت اس لیے دریافت نہیں فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی معلوم ہو گیا تھا کہ اس آدمی نے کس قسم کا گناہ کیا ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اس گناہ کی بخشش کی جو خوشخبری دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اس کا گناہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر حد جاری کی جائے بلکہ ایسا گناہ ہے جو نماز کے ذریعے معاف ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے یہ خوشخبری سنا دی

 

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  وقت پر نماز پڑھنے (یعنی وقت مکروہ میں نماز نہ پڑھی جائے ) میں نے کہا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  ماں باپ کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا  میں نے عرض کیا کہ پھر کون سا عمل بہتر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ  اللہ کی راہ میں جہاد کرنا  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی باتیں بیان فرمائی تھی ں اگر میں کچھ زیادہ پوچھتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس سے بھی زیادہ بیان فرماتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اتنی بات معلوم ہونی چاہئے کہ بہترین و افضل اعمال کے بارے میں مختلف احادیث منقول ہیں ، چنانچہ اس حدیث سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب اعمال یہ تین ہیں مگر دوسری حدیثوں میں مذکور ہے کہ اسلام کے بہترین و افضل اعمال یہ ہیں کہ (غریبوں مسکینوں کو) کھانا کھلایا جائے۔ اسلام کی تبلیغ کی جائے اور رات کو اس وقت جب کہ لوگ آرام سے بستروں میں پڑے خواب شیریں سے ہمکنار ہوں اللہ کی عبادت کی جائے اور نماز پڑھی جائے اسی طرح بعض احادیث میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے بہترین و افضل عمل یہ ہے کہ لوگ تمہاری زبان اور تمہارے ہاتھ (کی ایذا) سے محفوظ رہیں۔ نیز بعض حدیثوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ افضل ترین عمل اللہ کا ذکر کرنا ہے۔ بہر حال اسی طرح دوسری احادیث میں دیگر اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ اعمال بہترین و افضل ہیں تو۔ اب ان تمام احادیث میں تطبیق اسی طرح ہو گی کہ یہ کہا جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایک کی رضا و رغبت اور اس کے مزاج کے مطابق جواب دیا ہے یعنی جس نے بہترین عمل کے بارے میں سوال کیا اس کو وہی عمل بتایا جسے اس کے لائق سمجھا اور جو اس کی فطرت و مزاج اور اس کے حال کے مناسب معلوم ہوا۔ چنانچہ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم اکثر کسی خاص چیز کے بارے میں کسی وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ فلاں چیز تو سب سے اچھی ہے حالانکہ دل کے اندر اس کی اچھائی و فضیلت کے بارے میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ چیز ہمہ وقت اور ہر حال میں نیز ہر ایک کے لیے سب سے اچھی اور افضل ہو گی بلکہ دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ چیز اس خاص وقت میں اچھی اور بہتر ہے نہ کہ ہمہ وقت مثلاً خاموشی اور سکوت کا معاملہ ہے کہ جہان مناسب ہوتا ہے کہا جاتا ہے کہ سکوت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے یا خاموشی سے افضل کوئی چیز نہیں ہے غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایک عمل کو حال اور مقام کے مناسب افضل فرمایا ہے۔ مثلاً ابتدائے اسلام میں جہاد ہی لوگوں کے حال مناسب تھا اس لیے جہاد کو فرمایا کہ یہ سب سے بہتر عمل ہے یا اسی طرح کسی آدمی کو یا کسی جماعت کو بھوکا ننگا دیکھا تو ان کی امداد و اعانت کی خاطر صدقہ خیرات کی طرف لوگوں کو رغبت دلائی اور فرمایا کہ صدقہ افضل ترین عمل ہے یا نماز کو باری تعالیٰ کے قرب حقیقی کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے سب سے اچھا اور بہتر عمل قرار دیا۔ بہر حال۔ ان میں سے ہر ایک عمل کو افضل ترین عمل کہنے کی وجوہ اور حیثیات مختلف ہیں۔ ہر ایک کی وجہ اور حیثیت اپنی اپنی جگہ دوسرے سے افضل و اعلیٰ ہے اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نماز کا چھوڑنا بندہ مومن اور کفر کے درمیان (کی دیوار کو گرا دیتا) ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

یہاں لفظ بین کا متعلق محذوف ہے یعنی اس حدیث میں یہ عبارت مقدر ہے کہ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ وُصْلَۃٌ بِیْنَ الْعَبْدِ الَمُسْلِمِ وَبَیْنَ الْکُفْرِ جس کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ مومن اور کفر کے درمیان نماز بمنزلہ دیوار کے ہے کہ بندہ اس کی وجہ سے کفر تک نہیں پہنچ سکتا مگر جب نماز ترک کر دی گئی تو گویا درمیان کی دیوار اٹھ گئی لہٰذا نماز چھوڑنا اس بات کا سبب ہو گا کہ نماز چھوڑنے والا مسلمان کفر تک پہنچ جائے گابہر حال۔ اس حدیث میں نماز چھوڑنے والوں کے لیے سخت تہدید ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ نماز کا چھوڑنے والا ممکن ہے کہ کافر ہو جائے کیونکہ جب اس نے اسلام و کفر کے درمیان کی دیوار کو ختم کر دیا گویا وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے اور جب وہ کفر کی حد تک پہنچ گیا تو ہو سکتا ہے کہ یہی ترک نماز اس کو فسق و فجور اور اللہ سے بغاوت و سرکشی میں اس حد تک دلیر کر دے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل ہو جائے یہ شروع میں بتایا جا چکا ہے کہ تارک نماز کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں چنانچہ اصحاب ظواہر تو یہ کہتے ہیں کہ تارک صلوۃ کافر ہو جاتا ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی رحمہما اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز چھوڑنے والا اگرچہ کافر نہیں ہوتا مگر وہ اس سرکشی و طغیانی کے پیش نظر اس قابل ہے کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جو آدمی نماز چھوڑ دے اس کو اس وقت تک جب تک کہ نماز نہ پڑھے مارنا اور قید خانہ میں ڈال دینا واجب ہے حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی نے ان پانچوں نمازوں کے لیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرض کیا ہے (فرائض و مستحبات کی ادائیگی کے ساتھ) اچھی طرح وضو کیا اور ان کو وقت پر پڑھا نیز ان میں رکوع و خشوع کیا (یعنی نمازیں حضوری قلب کے ساتھ پڑھیں ) تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر ذمہ (یعنی اللہ تعالیٰ کا وعدہ) یہ ہے کہ وہ اس کے (صغیرہ) گناہ بخشش دے گا اور جس آدمی نے ایسا نہ کیا (یعنی اس نے مذکورہ بالا طریقے سے یا مطلق نماز نہ پڑھی) تو اللہ تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں ہے چا ہے تو بخش دے چا ہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، مالک، سنن نسائی)

 

تشریح

 

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز چھوڑنے والا کافر نہیں ہوتا بلکہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کے بارے میں بھی یہ سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرتکب کبیرہ کو عذاب دے بلکہ اس کا دارومدار سراسر اس کی مرضی پر ہے کہ اگر وہ چا ہے تو عذاب میں مبتلا کرے اور اگر چا ہے تو اپنے فضل و کرم سے اسے بخشش دے اسی طرح یہ بھی جان لیجئے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ اللہ کے حکم سے اسے جس مدت کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کے بعد وہ اپنی سزا پوری کر کے جنت میں داخل ہونے کا مستحق ہو جائے گا۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت کا یہی مسلک ہے اور حضرت ابی امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (مسلمانو) پانچوں وقت اپنی نمازیں پڑھو اپنے (رمضان کے مہینے ) کے روزے رکھو! اپنے مال کی زکوٰۃ دو! اور اپنے سردار کی (جب تک کہ وہ خلاف شرع چیزوں کا حکم نہ کرے ) اطاعت کرو! (اگر ایسا کرو گے تو) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے (یعنی بہشت میں بلند درجات کے حقدار بنو گے )۔ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی)

 

تشریح

 

سردار سے مراد بادشاہ، امیر اور حاکم ہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بادشاہ اور امراء کے احکام کی تابعداری اور ان کے فرمان کی اطاعت کریں لیکن اس میں ایک شرط ہے کہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ حکم اسی وقت تک رہے گا۔ جب تک کہ ان کا کوئی حکم حدود و شریعت سے باہر اور خداوند کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے خلاف نہ ہو، اگر ایسا ہو کہ امراء اور سلاطین حدود شریعت سے تجاوز کر کے غلط احکام دیں یا ایسے فرمان نافذ کریں جو قرآن و سنت کے خلاف ہوں تو پھر نہ صرف یہ کہ ان کی اطاعت و فرمانبرداری ضروری نہیں ہے بلکہ ایسے سلاطین و امراء کو راہ راست پر لانے اور ان کو قرآن و سنت کو بتائے ہوئے راستوں پر چلنے اور ملک و قوم کو چلانے کے لیے مجبور کیا جائے یا پھر  سردار سے مراد علماء ہیں کہ قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کے علم کے حامل جب مسلمانوں کو کوئی شرعی حکم دیں اور انہیں دین و شریعت کی طرف بلائیں تو ان کی پیروی ہر ایک مسلمان پر ضروری اور لازم ہے اسی طرح  سردار سے ہر وہ آدمی مراد ہو سکتا ہے جو کسی کام کے لیے حاکم اور کار ساز مقرر کیا گیا ہو یعنی اگر کوئی مسلمان کسی آدمی کو اپنے کسی معاملہ میں حاکم اور راہبر مقرر کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حاکم یا راہبر کے مشوروں کو مانے اور وہ جو صحیح حکم دے اس کی پابندی کرے اور حضرت عمرو ابن شعیب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے والد مکرم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تمہارے بچے سات برس کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس برس کے ہو جائیں (تو نماز چھوڑ نے پر) انہیں مارو۔ نیز ان کے بسترے علیحدہ کر دو (ابوداؤد) اسی طرح السنہ میں عمرو سے اور مصابیح میں سبرہ ابن معبد سے یہ روایت نقل کی گئی ہے۔

 

تشریح

 

اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ جب ان کے بچے سات برس کے ہو جائیں تو اسی وقت سے ان کو نماز کی تاکید شروع کر دی جائے تاکہ انہیں نماز کی عادت کم سنی سے ہی ہو جائے اور جب وہ بالغ ہونے کے قریب (یعنی دس سال کی عمر میں ) پہنچ جائیں تو اگر وہ کہنے سننے کے باوجود نماز نہ پڑھیں تو انہیں تاکیداً مار مار کر نماز پڑھانی چاہئے۔ نیز جس طرح ان عمروں میں نماز کی تاکید کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح انہیں نماز کی شرائط وغیرہ بھی سکھانی چاہئے تاکہ انہیں ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو جائے حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب بچے اس عمر میں پہنچ جائیں تو انہیں علیحدہ علیحدہ سلانا چاہئے یعنی اگر دو بھائی بہن یا دو اجنبی لڑکا لڑکی ایک ہی بستر میں سوتے ہوں تو اس عمر میں ان کے بستر الگ کر دینے چاہیں تاکہ وہ اکٹھے نہ سو سکیں اور حضرت بریدہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہمارے اور منافقوں کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جس نے نماز چھوڑی وہ کافر ہو گیا۔ (احمد۔ترمذی نسائی و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور منافقین کے درمیان امن و امان کا جو معاہدہ ہو چکا ہے کہ ہم انہیں قتل نہیں کرتے ، اور اسلام کے احکام ان پر نافذ نہیں کرتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے ، جماعت میں حاضر ہونے اور اسلام کے دوسرے ظاہری احکام کی تابعداری کرنے کے سبب سے مسلمانوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا جس نے نماز کو جو تمام عبادتوں میں سے افضل ترین ہے ترک کر دیا گویا کہ وہ کافر کے برابر ہو گیا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نماز ترک کر کے کفر کو ظاہر نہ کریں۔ اس طرح اس جملے فَقَدْ کَفَرَ کے معنی یہ ہوئے کہ (جس نے نماز چھوڑ دی) اس نے کفر کو ظاہر کر دیا حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت کو گلے لگا کر سوائے صحبت کے اور سب کچھ کر لیا ہے ، (یعنی صحبت تو نہیں کی لیکن بوس و کنار ہو گیا ہے اس لیے ) میں حاضر ہو گیا ہوں جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم چاہیں میرے بارے میں حکم فرمائیں۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے لیے جو سزا بھی تجویز فرمائیں گے مجھے منظور ہو گی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (جو اس وقت مجلس نبوی میں حاضر تھے یہ سن کر) فرمایا اللہ نے تو تمہارے عیب کی پردہ پوشی فرمائی تھی اگر تم بھی اپنے عیب کو چھپا لیتے تو (اچھا تھا) حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اللہ کے حکم کے انتظار میں ) اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ چنانچہ وہ آدمی کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلانے کے لیے ایک آدمی بھیجا جو اسے بلا لایا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ آیت (وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّہارِ وَزُلَفاً مِّنَ الَّيْلِ  ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) دن کے اول و آخر اور رات کی چند ساعتوں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں اور یہ نصیحت، نصیحت ماننے والوں کے لیے ہے۔ لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! کیا یہ حکم خاص طور پر اسی کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہیں :  سب لوگوں کے لیے یہی حکم ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

اسی باب کی پہلی فصل کی تیسری حدیث میں بھی اس آیت کے بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ دن کے اول سے فجر اور آخر سے ظہر و عصر مراد ہیں اسی طرح، رات کی چند ساعتوں سے مراد مغرب و عشاء ہیں حضرت ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ پہلی فصل میں اسی طرح کی جو حدیث نمبر تین گزری ہے وہ تو ایک آدمی (ابوالیسر) کا واقعہ ہے اور یہ حدیث جو یہاں ذکر کی گئی ہے یہ کسی دوسرے صاحب کا واقعہ ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ آیت بھی اس آدمی کے لیے دوسری مرتبہ نازل ہوئی ہو۔ مگر محققین نے لکھا ہے کہ تعدد واقعہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیت بھی مکرر نازل ہوئی ہو اور نہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی آیت جو پہلے آدمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی بطور سند کے اس آدمی کے سامنے بھی تلاوت فرما دی اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جاڑے کے موسم میں جبکہ پت جھڑ کا وقت تھا باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں۔ راوی فرماتے ہیں کہ جس طرح حسب معمول پت جھڑ کے موسم میں کسی شاخ کو ہلانے سے پتے بہت زیادہ گرنے لگتے ہیں اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شاخیں پکڑیں تو ان سے پتے جھڑنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،  ابو ذر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب بندہ مومن خالصاً اللہ کیلئے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ بھی ایسے ہی جھڑتے ہیں ، جس طرح اس درخت سے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

خالصاً اللہ تعالیٰ کیلئے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز کسی کو دکھلانے یا کسی دوسری غرض و مقصد کے لیے نہ پڑھی جائے بلکہ محض اپنے پروردگار کی خوشنودی اور فرمانبرداری اور اس کی رضا کی طلب کے لیے پڑھی جائے اور حضرت زید ابن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے دو رکعت نماز (غافل ہو کر نہیں بلکہ اس درجہ حضوری قلب کے ساتھ) پڑھیں کہ ان میں سہو نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو بخش دے گا۔ (مسند احمد بن حنبل)

اور حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر کیا (یعنی نماز کی فضیلت و اہمیت کو بیان کرنے کا ارادہ فرمایا) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جو آدمی نماز پر محافظت کرتا ہے (یعنی ہمیشہ پابندی سے پڑھتا ہے ) تو اس کے لیے یہ نماز ایمان کے نور (کی زیادتی کا سبب) اور ایمان کے کمال کی واضح دلیل ہو گی، نیز قیامت کے روز مغفرت کا ذریعہ بنے گی اور جو آدمی نماز پر محافظت نہیں کرتا تو اس کے لیے نماز نہ (ایمان کے ) نور (کی زیادتی کا سبب بنے گی، نہ (کمال ایمان کی) دلیل اور نہ (قیامت کے روز) مغفرت کا ذریعہ بنے گی بلکہ ایسا آدمی قیامت کے روز قارون، فرعون ، ہامان اور ابی ابن خلف کے ساتھ (عذاب میں مبتلا) ہو گا۔ (مسند احمد بن حنبل، دارمی، بیہقی)

 

تشریح

 

نماز کی محافظت کا مطلب یہ ہے کہ نماز باقاعدگی اور پوری پابندی سے پڑھی جائے۔ کبھی ناغہ نہ ہو، نیز نماز کے تمام فرائض واجبات سنن اور مستحبات اداء کیے جائیں ، اس طرح جب کوئی نماز پڑھے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے نماز کی محافظت کی اور یہ مذکورہ ثواب کا حقدار ہو گا اور جو آدمی اس کے برعکس عمل اختیار کرے گا کہ نہ تو نماز باقاعدگی اور پابندی کے ساتھ پڑھے اور نہ نماز کے فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرے تو اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ان چیزوں کو ترک کرنے کی وجہ سے مذکورہ عذاب کا مستحق ہو گا لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ نماز کی محافظت اور اس پر دوام اختیار کرنے کی کس قدر تاکید ہے اس لیے اس میں کوتاہی کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اپنی بربادی کو دعوت دینا ہے۔ نیز یہ بھی خیال کرنا چاہئے کہ جب نماز کی محافظت نہ کرنے پر اس قدر و عید ہے کہ ایسے آدمی کا حشر مذکورہ لوگوں جیسے لعین و بد بخت کفار کے ساتھ ہونے کی خبر دی جا رہی ہے تو اس آدمی کا کیا حال ہو گا جو نماز ترک کرتا ہے اور کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوتا قارون و فرعون جیسے مشہور لعین اور بد بختوں کو تو سب ہی جانتے ہیں۔ ہامان فرعون کا وزیر تھا ابی بن خلف وہ مشہور مشرک ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جانی دشمن تھا اور جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ احد میں اپنے دست مبارک سے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم رسید کیا تھا چنانچہ اسی وجہ سے اس لعین کو امت کے بد بختوں میں سے سب سے بڑا بد بخت کہا جاتا ہے آخر میں اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو آدمی محافظت کرے گا یعنی پورے خلوص اور تمام فرائض واجبات اور سنن و مستحبات کے ساتھ نماز ہمیشہ پابندی سے پڑھتا رہے گا تو قیامت کو وہ انبیاء کرام ، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ہمراہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز کی پابندی اور پورے ذوق و شوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب اس سعادت سے بہرہ ور ہو سکیں اور حضرت عبد اللہ شقیق فرماتے ہیں کہ تمام افعال و اعمال میں صرف نماز ہی ایسا عمل تھا جس کے چھوڑنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محترم صحابہ کرام کفر سمجھتے تھے۔ (جامع ترمذی)

 

تشریح

 

یہاں جو حصر کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سوائے نماز کے کسی دوسرے عمل کے چھوڑنے کو کفر نہ سمجھتے تھے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک نہ صرف یہ کہ نماز چھوڑنا بڑے سخت گناہ کی بات تھی بلکہ وہ اسے کفر کے بہت قریب سمجھتے تھے اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے یہ وصیت (فرمائی تھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا خواہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر کے تمہیں جلا کیوں نہ دیا جائے اور جان بوجھ کر فرض نماز نہ چھوڑنا جس نے قصداً نماز چھوڑ دی تو اس سے ذمہ بری ہو گیا نیز کبھی شراب نہ پینا کیونکہ یہ ہر برائی کی کنجی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

 

 

تشریح

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو افضل بات کی تعلیم دی کہ اگر تم ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا بھی دیے جاؤ تو شرک نہ کرنا، ورنہ تو جبر کی حالت میں جب کہ گردن تلوار کی زد میں ہو تو دل میں ایمان و ایقان کی پوری دولت لیے زبان سے کلمہ کفر ادا کر لینا جائز ہے۔  ذمہ کے بری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی نے قصداً نماز ترک کر دی تو گویا اس نے اسلام کے ایک بڑے اور بنیادی قانون و حکم سے بغاوت کی جس کی بناء پر اسلام کا عہد اس سے ختم ہو گیا اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ اس مطلب کی وضاحت کرنے کے بعد کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد از راہ تغلیظ یعنی نماز چھوڑنے والے کے لیے انتہائی تہدید اور تنبیہ ہے یا پھر (اس سے ذمہ بری ہوا) کی مراد یہ ہے کہ ایمان لانے اور اسلام کی اطاعت قبول کرنے کی وجہ سے اسلام نے اس کے جان و مال کی حفاظت کی جو ضمانت لی تھی اور اسلامی اسٹیٹ میں اسے جو امان حاصل تھا اب وہ نماز کے ترک کی وجہ سے اسلام کی امان اور ضمانت سے نکل گیا۔ شراب کو تمام برائیوں کی کنجی اس لے فرمایا گیا ہے کہ شراب بنیادی طور پر انسان کے دل و دماغ اور ذہن و فکر کو بالکل ماؤف کر دیتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شراب پینے والا آدمی جب نشہ کی وجہ سے اپنی عقل سے ہاتھ دھو لیتا ہے تو دنیا بھر کی برائیاں اس سے سرزد ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث کہا گیا ہے