فہرست مضامین
مزارِ بے مردہ
طنزیہ و مزاحیہ افسانے
رؤف خیر
بھیک
’’ہلو۔بھیکو۔میں یہاں غوثیہ مسجد کے پا س سے بول رہی ہوں۔تو کہاں ہے ؟‘‘
’’ہاں۔منگی۔میں یہاں وہابیوں کی مسجدِ حمد قلعہ کے پاس ہوں۔یہ لوگ سورج ڈوبتے ہی فوراً روزہ کھول دیتے ہیں۔افطار میں بہت جلدی کرتے ہیں۔ان کے ہاں سائرن نہیں بجتا۔افطار کے وقت اذاں ہوتی ہے۔ان کی تو نماز بھی ہوتی رہتی ہے تب کہیں دوسری مسجدوں سے سائرن کی آوازیں آنا شروع ہوتی ہیں۔‘‘
’’اپنے کو بھی بھیک کی جلدی ہے۔میں یہاں بھیک مانگ کر تیری مسجد کے پاس پہنچ جاؤں گی۔ وہاں لوگ اطمینان سے روزہ کھول کے اطمینان سے اذاں دیں گے۔تب کہیں نماز ہو گی۔تب تک میں پہنچ جاؤں گی۔ تو وہیں غوثیہ مسجد کے پاس ٹھہر۔میں آ رہی ہوں۔میں زیادہ دور نہیں ہوں۔وہاں سے اپن دونوں مل کر عباسی مسجد کو جائیں گے۔وہاں روزہ بہت دیر سے کھولا جاتا ہے ‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔تیرے آنے تک میں فون ری چارج Rechargeکروا لیتی ہوں۔بڑی بچی کو مکہ کا ویزا فقیرے نے دلا دیا ہے۔رمضان میں وہاں خوب آمدنی ہوتی ہے۔اب کے عید اچھی گزر ے گی۔ اس کا منگیتر جہیز خوب مانگ رہا ہے۔مانگ پوری کرنا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔باقی باتیں مل کر ہوں گی۔بھیک شروع ہو گئی ہے ‘‘
٭٭٭
استغفراللہ
یہ مضمون ’’ نروان‘‘ کے عنوان سے ’’بزم ادب‘‘ شمارہ 10کشمیر میں شائع ہو چکا ہے۔
(ادبی چاشنی سے بھر پور اس طنزیہ مضمون کے بنیادی کردار فرضی ہیں۔کسی سے مماثلت نکل آئے تو اتفاقی سمجھی جائے۔کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔خیرؔ)
کنور (ایشر سنگھ ) نے وصیت فرمائی کہ ان کے کفن میں تاش کے پتوں کی دوچار گڈیاں رکھ دی جائیں تاکہ عالم برزخ میں مشغولیت رہے۔حشر تک ٹائم پاس کرنے کے لیے کم از کم تاش ضروری ہے۔
معلوم ہوا کلب میں کنور ’’دادِ جوا‘‘ دے رہے تھے کہ جوکر کی جگہ یم راج آ گئے۔کنور نے لاکھ کہا کہ ’’بھائی بس اب رمی بننے ہی والی ہے، سیکوئینس SEQUENCEمیں لگ جانے والا صرف ایک پتہ درکار ہے مگر یم راج نے مہلت ہی نہ دی۔ہاتھ میں پتے یوں ہی دھرے رہ گئے اور ’’وہ ہاتھ سو گیا ہے سرھانے دھرے دھرے‘‘ والا معاملہ ہو گیا۔
حال ہی میں انھیں ان کے مجموعی ادبی و فلمی نغموں کے صلے میں ملک کا سب سے باوقار ’’خاص کر ایوارڈ ‘‘ ملا تھا۔سات لاکھ روپے اور صداقت نامۂ قلم کاری بھی ملا تھا۔یہ انعام ’’آسکرایوارڈ ‘‘ سے کچھ کم نہ تھا۔
کنور ایشر سنگھ کی زندگی چونکہ پتے پھینٹنے ہی میں گزر رہتی تھی اور وہ ’’پتہ پھینکنے‘‘ پر آمادہ ہی نہیں ہوتے تھے تو سونیا نجونت کور نے ایشر سنگھ کا گوشت ٹھنڈا کرنے کے بجائے اپنا دماغ ٹھنڈا رکھا اور کلب کے بالمقابل دوسرا رخ اختیار کر کے چپکے سے ان کی زندگی ہی سے نگل گئیں۔دراصل دونوں کی عمروں میں تفاوت بھی بہت تھا۔ آخر کار کنور اپنے ہم سنوں میں مشغول تھے تو نجونت کور کم سنوں میں مسرور تھیں۔ کنور تاش کی بیگموں میں اتنے مصروف تھے کہ اپنی بیگم سے بچھڑ جانے کا خیال بھی نہ کیا بعد میں ملال نے ان کو بلانوش بنا دیا۔پیتے تو وہ پہلے بھی تھے مگر بلا جھجک اب زیادہ شوق فرمانے لگے تھے۔ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ پینا ہو تو جینا چھوڑنا پڑے گا اور جینا ہو تو پینا چھوڑنا ہو گا۔چنانچہ کنور نے مجبوراً جام و مینا سے ہاتھ اٹھا لیا البتہ پتے پھینٹنے میں لگے رہے۔ اب جو سات آٹھ لاکھ روپیئے مل گئے تو ان کا آخر کرتے کیا۔رمی کی شرط STAKEمیں اضافہ ہو گیا۔ خوب جم کر کھیلنے لگے۔مالِ مفت دلِ بے رحم دو دو دن مسلسل رمی کی محفل جمتی تو پیروں پر ورم آ جاتا تھا۔ بسکٹ، سمو سے، مرچیاں کھاتے کھاتے معدہ بھی خراب ہو گیا تھا۔جب سے سونیا نجونت کور کا ساتھ چھوٹا تھا کنور ایشر سنگھ ہوٹل کا کھانا ہی کھا رہے تھے۔شوگر بڑھ گئی تھی بلڈ پریشر گھٹ گیا تھا۔
کنور کے کفن سے تاش کے پتوں کی گڈیاں بر آمد دیکھ کر ایک مراد آبادی شاعر پھڑک گئے۔وہ خود رمی کے بڑے شوقین تھے۔ہر چند کہ آخری عمر میں توبہ کر لی تھی مگر چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔عالم برزخ میں ان کا کھلے دل سے استقبال کیا۔بولے:
’’یہاں کھیلتے کھیلتے پتے اتنے گھس گئے تھے کہ پیچھے ہی سے پہچان لیے جا رہے تھے۔اچھا ہوا تم نئے تاش لے کر آ گئے آؤ میں تم کو یہاں اپنے مخمور دوستوں سے ملاؤں ‘‘
کچھ ممبئی کے قلم کار تھے، کچھ دہلی کے پتر کار تھے کچھ بھوپالی جان نثار تھے جو ’’دار الکہلاء ‘‘ کے تربیت یافتہ تھے۔اور یہ سب کنور کے لیے اجنبی نہ تھے۔سب ننگ دھڑنگ بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ سب کے کفن کب کے گل چکے تھے۔یوں بھی بے لباسی کا ہوش کسے تھے۔بھوپال میں قائم کردہ دار الکہلا کی روایت تھی کہ سارے کاہل ادیب و شاعر اپنے اپنے گاؤ تکیے کے ساتھ کمرے میں جمع ہوں۔
تاش کھیلتے کھیلتے تھک جاتے تو آزو بازو کی قبروں میں تانک جھانک لیا کرتے تھے۔کچھ ایسی فراخ دل خواتین کی قبریں بھی آس پاس ہی تھیں جنھوں نے اپنا ’’لحاف‘‘ اور ’’اترن‘‘ خیرات کر رکھا تھا۔ صرف ’’انگارے‘‘ ساتھ لائی تھیں ایسی ہم مذاق، خوش اندام و ’’انگارہ ‘‘ بدن خواتین کی اجازت سے یہ لوگ اپنی اپنی آنکھیں سینک لیا کرتے تھے۔ان میں سے دو ایک شاعرات، افسانہ نگار و ڈرامہ نگار خواتین نے کنور کو گھیر کر شکایت بھی کی کہ اپنے لیے تو تم نے تاش کی گڈیاں ساتھ رکھ لیں مگر ہمارے لیے ہمارے برانڈ کے سگریٹ بھی ساتھ لا لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔مرد ہمیشہ خود غرض واقع ہوئے ہیں۔چلو رمی میں ہم بھی تمہارے ساتھ شریک ہو جاتی ہیں کہ ہم بھی یہاں اکیلے پڑے پڑے بور ہو گئی ہیں۔یوں بھی آدم و حوا کا ساتھ تو ازل تا ابد ہے۔
کچھ شوقین رمی کے بجائے تین پتوں کے کھیل میں یقین رکھتے تھے تاکہ دوقئے دو دست ہی میں قصہ تمام ہو جائے۔چنانچہ انھیں تاش کی ایک گڈی دے دی گئی کہ وہ اس سے اپنا شوق پورا کر لیں۔برج کے شوقین برج کھیلنے لگے۔شرط STAKEکے لیے نیکی بدی کو ’’سکۂ رائج البرزخ‘‘ قرار دے لیا گیا۔سنڈیکیٹ SYNDICATEکھیلنے والے دس دس نیکیاں داؤ پر لگا تے۔نیکیاں ختم ہو جاتیں تو جیتنے والے کی برائیاں ہارنے والے کے کھاتے میں ڈال دی جاتیں اور طئے پایا کہ بروز قیامت یہ پورا اکاؤنٹ (حساب کتاب )پیش کر دیا جائے گا۔داور حشر سے گزارش کی جائے گی کہ جب ایصال ثواب جائز ہے تو پھر ایصالِ عذاب کو بھی قبول کر لیا جائے اور بوقت حساب یہ اکاؤنٹ بھی پیشِ نظر رہے۔پھر یہ تو حقوق العباد کا معاملہ ہے۔اللہ تعالیٰ کو ان شاء اللہ کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
ایک پروفیسر صاحب نے بڑی تمکنت سے تبسم فرماتے ہوئے آخری وقت میں اپنے ہم مشربوں سے کہا کہ حضرات تھوڑی سی پلا کر عطر وم عبیر و عود کا فور کی جگہ وسکی و برانڈی کی دو دو بوتلیں پائنتی اور سرھانے رکھ دیں تاکہ منکر نکیر سوال و جواب کے لیے آئیں تو بقول غالب :
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں منہ سے اگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
جیسے ہی چار چار بوتلوں کے ساتھ یہ واردِ برزخ ہوئے، غالب، مجاز، عدم دشینت کمار، نریش کمار شاد، اختر شیرانی وغیرہ نے تمکنت کے ساتھ ان کا رندانہ استقبال کیا۔ برسوں کے تر سے ہوئے لبوں پر تبسم آیا۔ غالب تو اوک سے پینے پر آمادہ تھے لیکن ساغرو جام کی عدم موجودگی کی وجہ سے بوتلوں کے ڈھکنوں CAPSسے CUPS (پیالوں ) کا کام لیا گیا۔ایک ایک ڈھکن سے پیاسوں کی تواضع کی گئی۔سب بلا نوشوں نے قناعت کا مظاہرہ کیا۔پیر مغاں جوش تو یوں بھی اصول پسندی میں گھڑے سے زیادہ گھڑی کی اہمیت سمجھتے تھے۔اس نازک گھڑی میں بھی ان کی وضع داری و قناعت پسندی نے سب کو شیوۂ تسلیم و رضا اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
جوش نے کہا پتہ نہیں کب تک اسی برزخ میں گزارنا ہو گا۔اس لیے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پرہی اکتفا کرنا ہو گا۔مگر فراق کا ’’روپ ‘‘ دیکھنے کے لائق تھا۔وہ بڑی بڑی آنکھیں گھما کر اس فیصلے پر چیں بہ جبیں دکھائی دیتے تھے۔بہ ہر کیفؔ خفا خفا سے تھے۔مجبوری تھی۔بقول شاعر
آج اتنی بھی میسر نہیں مئے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
ایک GAY POETامریکہ سے تشریف لائے تھے۔انھوں نے بھیانک چہروں والے منکر نکیر کو دیکھا تو پوچھا ’’کون؟‘‘ منکر نکیر نے کہا ’’تم ہم سے پوچھ رہے ہو کہ ہم کون ہیں ؟ ہم تو تم سے تین سوال پوچھنے کے لیے آئے ہیں۔جواب اگر غلط ہوا تو ہم تمہاری ٹھکائی کریں گے ‘‘ شاعر نے کہا ’’یار۔میں وقتِ واحد میں ایک ہی کو موقع دیتا رہا ہوں۔وہ سردار ہو کہ مردار۔آخر GAYISMکے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔یہ دوسرے صاحب سے کہیئے کہ باہر جائیں اور پھر کبھی تشریف لائیں ‘‘
ان کی نکیر پر نکرین اپنا فیصلہ آپس میں قرعہ اندازی سے کرنے سے تو رہے۔انھوں نے شاعر کو ڈانٹا کہ فرشتوں سے مذاق کی جرات کیسے ہوئی۔ہم افٹی ؔ کی ففٹی ففٹی نہیں کرسکتے۔
منکر نکیر کے مراحل سے گزر کر GAY POET عالم برزخ کی سیر کو نکلے تو جوش و فراق کی نظر ان پر پڑ گئی۔دونوں ان کے پیچھے پڑ گئے۔افٹی نے کہا:
’’ اللہ میاں نے مجھ پر آگے کا راستہ بند کر دیا تھا تو میں نے پچھلا دروازہ کھول دیا تھا۔مگر اب تومیں توبہ کر چکا ہوں۔میرا ’’نروان ‘‘ ہو چکا ہے۔اے لوطیو۔تم لوگ کسی اور کے دروازے پر دستک دے لو‘‘۔
جوش نے کہا : ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔
فراق نے کہا: ہائے اب کیا کریں کدھر جائیں۔ ’’لہر لہر ندیا گہری ‘‘ کا کب تک انتظار کریں۔تاہم وہ ایک ایک ڈھکن بادۂ پس خوردہ پیش کر کے افٹی کو منانے کے جتن کرتے رہے۔
بالآخر ہم توبہ و استغفار کرتے ہوئے اٹھ بیٹھے کہ کیسے کیسے برے خواب آنے لگے۔ استغفراللہ۔
٭٭٭
کند ہم جنس باہم جنس۔۔۔
حسن پرست Womanisersہم جنسی کو غیر فطری قرار دیتے ہیں یہ بھی انتہا پسند قسم ہی کے لوگ ہیں جو اپنی پسند نا پسند میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ عدالت نے تو ہم جنس پرستوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان پر لذت کوشی کا ’’پچھلا دروازہ ‘‘ کھول دیا۔چاہیں تو لوگ اسے ’’نامنظور ‘‘ کر دیں مگر ناظر اور منظور نظر کے بہرکیف ایک ہونے کا بڑا ’’امکان ‘‘ ہے ہر چند کہ یہ ’’جادہ بے زادہ ‘‘ ہے۔میزان عدالت نے بڑی آسانی سے اس قسم کا شر انگیز شوق فرمانے والوں کو قانونی گرفت سے آزاد تو رکھا مگر عوام و خواص نے اس میں پاسنگ کے ’’امکان ‘‘ کی نشاندہی کی۔
ہمارا ملک چونکہ ایک سیکولر ملک ہے اس لیے یہاں ہر شخص کو ہرقسم کی آزادی حاصل ہے۔کسی کو کسی کے ذاتی معاملات میں دخول اندازی(میرا مطلب ہے دخل اندازی)کی اجازت نہیں تاو قتیکہ وہ نتائج و ’’عواقب‘‘ سے نابلد خود ہی ’’دعوت صحبت ‘‘ نہ دے۔
مغرب میں اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے کہ دو مرد یا دو عورتیں آپس میں میاں بیوی کی طرح متعہ کر کے رہیں۔تجدید معاہدہ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔اور پھر وہاں تحریری معاہد ے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی کہ معاملہ ’’ORAL‘‘ بھی تو ہو سکتا ہے۔مغرب میں عموماً مرد اور عورت بھی بغیر نکاح رہتے ہی ہیں یہ توآپسی ہم جنسی کا معاملہ ہے اس میں فراخ دستی کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور جو تنگ دست ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے حال ہی میں مست رہتے ہیں۔
مشرق میں جب اسے پشت پناہی مل ہی گئی تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایسی فوج ظفر موج کو ملنے کا امکان ہے جس کے جوان برسوں تنہا مقام پر گل انداموں سے دور ’’دستِ خود و دہان خود‘‘ جیسے دن گزارنے پر مامور و مجبور ہوتے ہیں۔انھیں چھٹی بھی یک ’’مشت‘‘ ہی ملتی ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ باہم غم بانٹنے میں ’’آگے پیچھے ‘‘ ہوں گے۔مشہور مقولہ ہے کہ کبھی گھاڑی کے آگے گھوڑا تو کبھی گھوڑے کے آگے گاڑی۔ظاہر ہے صورتِ راکب و مرکب بدلتی رہتی ہے مگر ع اصل فعول و فاعل و مفعول ایک ہے۔چارہ کا ر ایسے جوان اب دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے کے بجائے کہیں ’’پیٹھ ‘‘ دکھانے نہ لگ جائیں بلکہ کیا عجب ہے کہ حزبِ مخالف کو خود ہی ’’تعاقب‘‘ کی دعوت دے ڈالیں۔یہ آگے آگے وہ پیچھے پیچھے حتیٰ کہ زیرو زبر کی صورتِ حال درپیش ہو۔
ایڈز کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیں مگر یہ مرض پچھلے دروازے سے عود کر آ رہا ہے۔اس سے بچنے کی تدابیر کے طور پر غیر عورت یا غیر مرد سے دور رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔غالباً ایک ہی ’’لحاف‘‘ کے اندر اگر دو ’’بے عصمت ‘‘ عورتیں ہوں تو یہ ہم آہنگی زیادہ خطرناک نہ ہو گی پھر بھی اس سلسلے میں ’’شبانہؔ روز ‘‘ تحقیق ضروری ہے کہ یہ کس حد تک ’’قابل لحاف‘‘ ہے۔ البتہ جب دو بے کردار مرد ایک دوسرے کا پردۂ دبارت (دبر سے دبارت کا لفظ coinکیا گیا ہے ) چاک کرنے کے مشن میں لگے رہتے ہیں تو شاید زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اس معاملے میں بھی بادِ نسیم ؔسے رجوع ہونا افضل ہے اس میں سے متقی کا ’’م‘‘ بھی نکل جا سکتا ہے
بیشتر لوگ عورت بیزار ہوتے ہیں یا بیشتر عورتیں مردوں سے بیزار ہوتی ہیں ایسے میں دونوں اپنے اپنے طور پر LESS EVILکمتر خرابی میں آلودہ ہو جائیں تو زمانے کو برا کیوں لگنے لگتا ہے۔سیکولر ملک میں خرابی کا اتنا اختیار تو خوب ملنا چاہئیے کہ
کند ہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز
آبادی کی کثرت پر بندھ باندھنے (POPULATION CHECK)کے لیے مالتھس کی تھیوری MALTHUSIAN THEORYکے علاوہ یہ بھی ایک اضافی صورتِ حال ہوسکتی ہے۔مالتھس نے سیلاب، وبا اور زلزلوں کو آبادی کو روکنے کے فطری ذرائع قرار دیا تھا جیسے سمندر کی سونامی لہریں ہوں کہ ایرانی زلزلے یا پھر پلیگ وغیرہ کی طرح کی کوئی وبا، ایڈز بھی تو انہی کا ایک حصہ ہے۔اہل حق اسے باطل ہی سمجھتے ہیں۔
ایرانی زلزلے پر یاد آیا کہ ہم جنسی کو ایرانی ذوق بھی کہا جاتا ہے۔ یا ہوسکتا ہے کسی لعنت اللہ کمینے نے یہ افواہ پھیلا ئی ہو مگر اس سے صرفِ نظر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چیز کے مردم نگویند چیز ہا۔واقعہ یہ ہے کہ فارسی شاعری میں محبوب مذکر ہی ہوتا ہے۔ ایرانی شاعری کا محبوب کم سن لڑکا ہوتا ہے جس کی مسیں بھیگ رہی ہوتی ہیں جسے دیکھ دیکھ کر فارسی شاعر ریشہ خطمی ہوا جاتا ہے۔پھر ایرانی ’’درے‘‘ سے ہوتا ہوا یہ ’’عقب ناک‘‘ ذوق ہندوستان میں بھی پھیلا۔آریائی اور ایرانی نسلیں جڑواں خصوصی حیثیت کی سمجھی جاتی ہیں چنانچہ خوبصورت برہمن زادوں پر یہاں کے شعراء مر مٹنے لگے۔کئی مثنویاں اس کی گواہ ہیں۔یہ افلاطونی ذوق بھی کہلا تا ہے۔
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
شمس الرحمن فاروقی نے ’’شعر غیر شعر اور نثر‘‘ میں بھی اس ذوق کے ڈیرہ داروں کی نشاندہی کی ہے
کسی دن منہ اندھیرے یا سویرے
گئے تھے ہم سلام اللہ کے ڈیرے
وہاں دیکھے پری رو، ایک سے ایک
ارے رے رے ارے رے رے ارے رے
اور یہ ’’پری رو ‘‘ ظاہر ہے کم سن لڑکے رہے ہیں جو سلام اللہ کی سلامتی کے درپے تھے۔محمد حسین آزاد نے ’’آب حیات‘‘ میں تاباں کے حسن زہرابی کے بارے میں لکھا کہ کئی خوش ذوق ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے اور وہ کسی کسی کے ہاتھ بڑی مشکل سے آتے تھے۔دور کیوں جایئے۔ ’’یادوں کی برات‘‘ اٹھایئے تو پتہ چلے گا کہ ملیح آبادی جوش شباب کا اولین نشانہ ایک شاہد نوخیز رہا ہے۔ماضی قریب کے ایک گور کھپوری شاعر کے بارے میں علم سینہ بہ سینہ کی طرح مشہور ہے کہ وہ کسی نہ کسی راستے سے کچھ نہ کچھ پیٹ میں جانے کے قائل تھے۔اسی ذوق خانہ خراب کے شاخسانے کے طور پر ان کا نوجوان بیٹا ہتھے چڑھ گیا۔حیدرآباد کے ایک شاعر کے بارے میں یہ روایتِ نا سعد بھی ملتی ہے کہ برق ان کے آشیانے کے پچھواڑے گرا کرتی تھی۔بلکہ بقول غالبؔ: برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم۔
ایک GAYشاعر ایک سردارجی سے تعارف کرتے ہوئے بڑے افتخار سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے شریک حیات ہیں۔ایک خور شید بکف خاور بدوش شاعر ہندو پاک کے رسائل میں اپنی انوکھی تخلیقات کی روشنی بکھیرتے تھے، مشاعروں میں کبھی نہیں جاتے تھے البتہ وہ متشاعر امیر زادوں کو اپنا کلام معقول معاوضہ لے کر دے دیا کرتے تھے جسے امیر زادے مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھ کر خوب داد بٹورتے تھے۔ان نام نہاد شہزادوں کے ہاں ناچ گانے اور ناؤ نوش کی محفلیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ایک قتالہ ان کے گلے میں با نہیں ڈالنے لگی تو انھوں نے فوری اسے جھٹک دیا اور کہنے لگے کہ یہ جو سامنے بیٹھے ہوئے۔۔۔ہیں وہی سامنے کی چیزوں کے رسیا ہیں، ہم تو ’’پس پشت‘‘ بیٹھنے ہی کو پسند کرتے ہیں۔
شادی شدہ مرد اگر بیوی کے رہتے ہوئے بھی پچھلے پہر پچھواڑے سے بلا کرکسی (مرد) دوست کو ہمدمی کا شرف بخشے تو بے چاری بیوی ایسے نام نہاد شخص کو (جنسی رقابت کے تحت)اپنا ’’مرد سوکن ‘‘ سمجھنے پر مجبور ہو جائے گی یوں ایک نئے رشتے کی دا غ بیل پڑ جائے گی اور اگر بیوی اپنی کسی سہیلی کو چیت مارتی ہے تواس کا شوہر اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے اور ایسا شوہر بڑے مزے میں ہوتا ہے یعنی ایک پنت دو کاج۔ازدواجی زندگی میں ایسے اضافی کردار کے خلاف کیا قانونی چارہ جوئی کی جا سکے گی؟ یا فریقین کے صواب د ید پراس کا انحصار ہو گا؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ آپس میں ہم جنسی کی قانونی زندگی گزار تے ہوئے دو مرد الگ ہونا چاہیں تو کیا۔ علاحدگی Separationکا مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے اور ایسی صورت میں دوسرا مرد تجدید تعلق Restitution of Conjugal Rightsکے تحت اس کا ’’پیچھا ‘‘ کرسکتا ہے۔یہی سوال عورت کے معاملے میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔کیا ایک سہیلی دوسری سہیلی کے ساتھ اپنا ہم جنسی کا معاہدہ ختم کرسکتی ہے اور کسی مرد کے حوالے اپنے آپ کو کرنا چاہے تو کیا وہ ایسا کرنے کا حق رکھ سکتی ہے؟ اور دوسری عورت اپنی اس سہیلی سے دست برداری پر آمادہ نہ ہو تو وہ قانوناً کیا اسے اپنے لیے روک سکتی ہے ؟ دعویِ حق زوجیت میں وہ کہاں تک حق بجانب سمجھی جائے گی ؟
ہم جنسی میں ملوث مرد اگر نام نہاد مسلمان ہے تو کیا اسے چار نا مردوں تک چھوٹ رہے گی ؟
لغات میں ہم جنسی کو ’’علتِ مشائخ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔گویا ہزاروں سال پہلے پیغمبر لوط علیہ السلام کی امت سے لے کر دورِ حاضر کے لوطیوں تک یہ مرض پھیلا ہوا ہے۔یہ کوئی نیا مرض نہیں ہے البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اس کو قانونی جواز دینا کہاں تک سماج کے حق میں مفید ہوسکتا ہے ؟ کیا آبادی کی روک تھام کے لیے یہ عقبی دروازہ کھولا گیا ہے ؟ تاکہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔! یعنی شرحِ اموات تو بڑھ جائے لیکن شرحِ پیدائش کا دروازہ بند رہے۔غالباً بڑی ’’ عاقبت اندیشی‘‘ سے کام لیا گیا ہے۔
بہر حال یہ ایک نازک مسئلہ ہے جس پر سختی کی گنجائش نہیں کیونکہ اکثر نوجوان کانوں میں بالیاں، ہاتھوں میں چوڑیاں، گلے میں زیور ڈالے لمبے لمبے بال رکھے نظر آتے ہیں۔ایسے نوجوانوں کی اکثریت ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔جمہوریت میں اکثریت کی رائے قانون کا درجہ پا لیتی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو ہم جنسی کے ’’یارِ نار‘‘ ہیلمیٹ Hell-Mateکا لزوم حسن پرستوں کو بھی لے ڈوبے اور ان کا حور شمائل حسیناؤں سے تعلقات رکھنا ہی جرم ٹھیرے۔
٭٭٭
مزارِ بے مردہ
بشیر بھائی بہت زندہ دل آدمی تھے۔ ہمیشہ رکوع میں دکھائی دیتے تھے۔ کمر نے جواب دے دیا تھا۔ وہ زیادہ تر اپنے گھر کے دروازے کے قریب بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھے آنے جانے والوں سے سلام و دعا بھی کر لیتے تھے اور بے تکلف ہم سِن دوستوں سے گالیوں کا تبادلہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ ان کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کوئی گائے بھینس گوبر کر دیتی تو بشیر بھائی کہتے تھے ’’ یہ گائے بھینس کے بٹوے کو بھی یہیں کھلنا تھا !‘‘
ایک دن وہ ہم سے اپنے بچوں کے بار ے میں کہہ رہے تھے کہ ’’ سالے بڑے نا خلف ہیں ‘‘ کبھی بہت زیادہ خفا ہوتے تو انھیں ’’ سالا ‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ دراصل بشیر بھائی محکمہ پولیس سے وابستہ تھے مگر سب انسپکٹر بننے سے پہلے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔ شاید گالیاں ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہی ہو گا کہ اپنے حلیئے سے شریف دکھائی دینے والے ایک مولانا پولیس میں بھرتی ہونے کے لیے گئے۔انٹرویو لینے والے انسپکٹر نے ان کی صورت دیکھ کر کہا کہ مولانا آپ کہاں آ گئے یہ محکمہ آپ جیسے لوگوں کے لیے نامناسب ہے۔ یہاں دن رات گالی بکنی ہوتی ہے۔ بغیر گالی کے کام ہی نہیں چلتا۔پھر اس نے ان سے پوچھا آپ کو گالی دینا آتا ہے ؟ موصوف نے کہا ہاں۔ تو انسپکٹر نے کہا اچھا دوچار گالیاں دے کر دکھائیے تو سہی اب مولانا شروع ہو گئے تیری ماں کی۔۔۔ تیری بہن کی۔۔۔ انسپکٹر نے حیران ہو کر کہا بس بس۔۔۔ مولانا نے کہا بس بول رہا ہے ماں کے۔۔۔ چنانچہ ان کا تقرر ہو گیا۔
بشیر بھائی بھی اسی عادت سے مجبور تھے گھر اور باہر میں کوئی تمیز نہیں کرتے تھے وہ اکثر کہتے تھے کہ ان کی اولاد نا خلف ہے ان کی بات سنتی ہی نہیں۔زندگی ہی میں یہ حال ہے تو مرنے کے بعد کیا یاد رکھیں گے۔اس پر ہم نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بچوں کو ان کی بزرگی کا لحاظ کرنا چاہئیے۔ پھر ہم نے انھیں ایک نیک مشورہ دیا کہ ’’ زندگی ہی میں آپ اپنا چہلم کر دیں ‘‘ بولے کیا جیتے جی چہلم ؟ ہم نے کہا اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دیکھتے نہیں گنبدانِ شاہی! بادشاہوں نے جیتے جی ہی تو تعمیر کروا لئیے تھے۔ اور ہم نے انھیں یقین دلایا کہ انشاء اللہ ہم ایک دردناک تعزیتی نظم کہیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کے آخری مصرعے سے تاریخ وفات بھی بر آمد ہو۔اگراس سال وہ تاریخ وفات غلط ثابت ہو جائے تو اگلے سال اس میں ایک الف کا اضافہ کر دیں گے اور تب بھی وہ تاریخ ٹل جائے تو کوئی فکر کی بات نہیں ہمیں نئی تاریخ کہنے میں کوئی دشواری نہ ہو گی جیتے جی چہلم کر لینے کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ کون آپ کا سچا دوست ہے اور کون بے فا، منہ دیکھے کی بات کرنے والا۔اپنے احباب کو آزمانے کا یہ بہانہ ہو گا۔
ہم نے ان کی تسلی کے لیے ایک شاعر کا واقعہ بھی سنا یا جس نے بصد شوق اپنے لیے دو گز زمین اپنی پسندیدہ جگہ یعنی درگاہ شریفین‘‘ میں مہنگے داموں خرید رکھی ہے۔ وہ ہر ہفتہ وہاں جایا کرتے ہیں۔سجادہ نشین نے ان کی مسلسل حاضری سے خوش ہو کر بازار کے دام سے کم یعنی صرف پچاس ہزار روپے میں انھیں دو گز زمین، مزار مبارک کے بالکل سامنے دے دی۔جس کے شمال میں داغ دہلوی تو جنوب میں امیر مینائی اور مشرق میں شاذ تمکنت آسودۂ خاک ہیں اور مغرب میں صاحبِ مزار ہی ہیں۔ شاعر موصوف نے اس زمین پر اپنی آخری آرا م گاہ تیار بھی کروا لی ہے۔ اس پر پھولوں کی ڈالی بھی لگا رکھی ہے۔ گذشتہ کئی سال سے وہ ہر ہفتہ بڑے شوق سے اپنے ہی مزار پر فاتحہ بھی پڑھ لیا کرتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے عزیز و اقارب سے کوئی توقع نہیں کہ انھیں سال چھے مہینے میں سہی کبھی یاد کر لیا کریں گے۔ معاصرین شعرائے کرام سے بھی وہ بالکل مایوس ہیں معاصرانہ چشمک کی وجہ سے وہ ان کی کوئی یاد گار قائم کرنے والے تو ہیں نہیں۔
قبرستان میں شاعر موصوف نے ایک خوب صورت کتبہ لگا رکھا ہے جس پر لکھا ہے:
دکن کے شہرہ آفاق شاعر ذوق حیدرآبادی ولد فوق اورنگ آبادی‘‘۔اور نیچے گزارش بھی ہے:
ابھی مزار پہ احباب فاتحہ پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشاں رہے نہ رہے
ہم نے خود اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ اپنی لحد پر آنکھ بند کیئے ہوئے اور ہاتھ اٹھائے اپنی مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔ پھر جیب سے پھولوں کی پڑیا نکال کر تعویذ پر ڈال دیتے ہیں۔ جب وہ پیٹھ پھیر کر مکروہاتِ دنیا کی طرف لوٹنے لگتے ہیں تو قبرِ شریف انھیں حسرت سے تکتی رہتی ہے اور زبانِ ز حال سے گویا کہہ رہی ہو
کون سی رات آن ملیئے گا
دن بہت انتظار میں گزرے
وہ زندگی تو کرائے کے سرائے یا کسی چھاؤنی میں مسافرانہ و مہاجرانہ گزار رہے ہیں مگر پچاس ہزار روپے میں یہ دو گز زمین کا پلاٹ اس نیت سے خرید رکھا ہے کہ مرشد کے زیر سایہ نجات مل جائے گی، منکر نکیر رعایت کریں گے اور امید ہے کہ عاقبت سنور جائے گی حساب کتاب کا چکر نہ ہو گا۔
انہوں نے یہ دو گز کا پلاٹ اس زمانے میں خرید لیا تھا جب اسی قیمت میں ایک سفالی مکان کسی نواح میں آسانی سے مل سکتا تھا اور وہ یہ کہنے کے موقوف میں آ جاتے۔بقول خیرؔ۔
کسی طرح تو کرائے کی عِلّتوں سے بچے
نواحِ شہر میں اک گھر تو خیر ؔ ذاتی ہے
مگر انہوں نے دنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دی۔شاعر صاحب بتا رہے تھے کہ یہ دو گز کا پلاٹ بھی آخری پلاٹ رہ گیا تھا۔ اب تو پورے احاطے میں کہیں کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ مگر بشیر بھائی آپ فکر نہ کریں۔ اپنے محلے میں جگہ کی کوئی قلت نہیں ہے اور نہ مہنگائی اتنی بڑھی ہے اور پھر یہاں رعایت سبسڈی (SUBSIDY) مل رہی ہے اور پھر آپ سے کیا عرض کریں بشیر بھائی کچھ دن پہلے اس ذوق حیدرآبادی کے ’’مزارِ بے مردہ ‘‘ پر ہمارا گزر ہوا۔ اس پر کسی اور نام کی تختی لگی ہوئی دیکھی یعنی کتبہ بدل گیا تھا۔ ہم نے فوراً ذوق صاحب سے فون پر رابطہ پیدا کیا۔ گھنٹی بہت دیر بجتی رہی۔ بڑی دیر بعد انہوں نے فون کا جواب دیا۔ ہم نے بعد سلام عرض کیا کہ حضور آپ کے مزارِ مبارک پر ناجائز قبضہ ہو گیا ہے۔ آج ہمارا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے نام کی جگہ کسی اور کا نام وہاں کندہ ہے۔ حصار بندی بھی ہو گئی ہے بولے ہاں مجھے معلوم ہے۔ ریٹ RATE اچھا مِل گیا تو مزار میں نے ہی نکال دیا۔
٭٭٭
ضرورتِ رشتہ
ہر اخبار میں ضرورتِ رشتہ کا اشتہار اخبار کے ایک اہم حصے کی طرح شامل رہتا ہے، جس میں لڑکے کی آمدنی اور لڑکی کے حسن سے متعلق مبالغے سے کام لیا جاتا ہے۔ لڑکے کے قدو قامت کا ذکر کم کم ہی ہوتا ہے البتہ لڑکی انچوں کے حساب سے طلب کی جاتی ہے۔ہمارے ایک دوست کے لڑکے کو اچھا رشتہ درکار ہے۔اس کے لیے حسب ذیل تفصیلی تعارف دیا جاتا ہے۔شرائط پر پوری اترنے والی لڑکی از خود بھی رابطہ پیدا کر سکتی ہے کیوں کہ ہم نے دیکھا ہے شادی بیاہ کے معاملات میں لڑکیاں بھی ماں باپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتیں۔موبائل فون نمبر 9000420420پر لڑکا چوبیس گھنٹے دستیاب رہے گا۔
حسب ذیل اشتہار بجائے خود لڑکے کا مکمل تعارف (BIO DATA)ہے:
لڑکا اپنے پانچ بھائیوں اور پانچ بہنوں کو واقعی ایک آنکھ سے دیکھتا ہے۔یعنی ایک آنکھ گل ہے۔خاندانی پس منظر یہ ہے کہ لڑکا خاندان تیمور لنگ سے تعلق رکھتا ہے۔یعنی لنگڑا ہے۔سرکاری ملازموں کی باضابطہ مقررہ آمدنی کی طرح لڑکے کی کوئی مستقل بندھی ٹکی آمدنی نہیں ہے۔وہ ایک ہی دن میں سینکڑوں روپئے کما بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔چونکہ لڑکا قناعت پسندی کا قائل ہے اس لیے وہ دولت کے پیچھے نہیں بھاگتا، چنانچہ دولت بھی اس سے پیچھا چھڑاتی رہتی ہے۔اسی لیے لڑکا گھر دامادی کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔لڑکے کے والدین بھی کافی سمجھدار ہیں۔بڑے بڑے پڑھے لکھے لڑکوں کو روزگار کی تلاش میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے دیکھ کر انہوں نے اپنے لڑکے کو تعلیم سے دور ہی رکھا حتیٰ کہ وہ اخبار بھی نہیں پڑھ سکتا۔یوں بھی اخبار ات میں کونسی اچھی خبریں شائع ہوتی ہیں۔مار دھاڑ، دہشت گردی اور جرائم کی تفصیلات جان کر قارئین کو حوصلے ملنے لگتے ہیں، اسی لیے لڑکا اپنی بے خبری میں مست ہے۔لڑکا رات دن ٹی وی ضرور دیکھتا ہے لیکن کسی نیوز چینل کو زحمت نہیں دیتا، مباد ا کوئی خبر ا س کی بے خبری پر بجلی بن کر گرے۔
صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی ہر گز نہیں چاہیے، لڑکا صوم صلوٰۃ سے قطعی دلچسپی نہیں رکھتا۔رات میں دیر تک ٹی وی سیرئیلس، گانے، فلمیں، میچ وغیرہ دیکھنے کی وجہ سے ظاہر ہے صبح آنکھ دس گیارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتی۔گھر بھر کا یہی حال ہے۔البتہ کرکٹ میچ شروع ہونے والا ہو تو الارم رکھ کر ساڑھے نو بجے بھی اٹھ سکتا ہے۔صوم و صلوٰۃ کی پابند لڑکی گھر بھر کے لیے مسائل کھڑے کر دے گی۔نہ صرف وہ بار بار نماز پڑھتی جائے گی بلکہ دیگر افراد کو بھی نماز کی تلقین کر کر کے ناک میں دم کر دیے گی، ایسی لڑکی سے نقض امن کا خطرہ ہوتا ہے۔آس پاس کے بلکہ دور دور کے محلوں سے آنے والی اذانوں کی آوازیں پہلے ہی بہت ڈسٹرب کرتی ہیں (خاص طور پر فجر کے وقت )اب گھر کی بہو بھی نماز کے لیے سر ہو جائے تو صحت و عافیت کا اللہ ہی حافظ ہے۔لڑکی کا فیشن ایبل ہونا ضروری ہے۔پردہ دار دقیانوسی لڑکی کے والدین زحمت نہ فرمائیں۔
نماز کے علاوہ روزے سے بھی لڑکے کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کیوں کہ وہ گٹکھا کھانے کا عادی ہے۔ہر آدھے گھنٹے کے وقفے سے گٹکھا نہ کھائے تو صحت کے متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔رعشہ شروع ہو جاتا ہے اور سگریٹ پینے میں تاخیر ہو جائے تو بھول چوک شروع ہوتی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یہی بھول جائے کہ وہ ایک عدد عورت کا شوہر بھی ہے۔پینے کھانے میں بدنامی کا اندیشہ ہے اس لیے لڑکا گٹکھے پر گزارہ کر رہا ہے کہ یہ نشہ بازی کا سستا اور شریفانہ طریقہ ہے۔
کمانے والی لڑکی کو اولین ترجیح دی جائے گی تاکہ لڑکے کے نکھٹوپن کا کچھ تو ازالہ ہو۔لڑکی جتنی دیر کمانے جائے گی گھر میں سکون رہے گا۔آج کل شادی سے پہلے طبی معائنہ کے لیے حکومتی سطح پر زور دیا جا رہا ہے۔اس کے لیے لڑکا راضی نہ ہو گا مبادا طبی معائنے میں اس کی پول کھل جائے۔ایک بار شادی ہو جائے تو عزت کے مارے لڑکی والے خود ہر سطح پر خموشی اختیار کر لیں گے ورنہ لڑکے کو اپنی عزت کا پاس کم ہی ہے وہ ہر صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار رہتا ہے۔لڑکا ٹووہیلر، تھری وہیلر، فور وہیلر چلانا جانتا ہے۔جہیز میں تھری وہیلر ہی مل جائے تو بہتر رہے گا تاکہ ماں باپ سے ملانے کے لیے لڑکی کو وہ آرام سے لا سکے گا۔ضرورت پڑنے پر تھری وہیلر سے استفادہ بھی کیا جا سکے گا۔وہ روزی روٹی کا ذریعہ بنا رہے گا۔
لڑکے کا پاسپورٹ تیار ہے، کئی دفعہ باہر جانے کی کوشش بھی کی۔ہیلپر یا سوئیپر کی ملازمت بھی مل جائے تو سر کے بل جانے پر راضی ہے۔ملک سے باہر بھجوانے والے صاحب سے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔لڑکے کو شادی کے فوری بعد سعودی عرب بھجوا دیں اور لڑکی کو اپنے گھر میں رکھ لیں تاکہ ساس، بہو کی جھنجھٹ ہی نہ رہے۔
لڑکا ایک کرائے کے گھر میں پیدا ہوا، جوان ہوا اور آثار ایسے ہیں کہ ان شاء اللہ کرائے کے گھر ہی میں اس دار فانی سے کوچ کرے گا، البتہ کوئی صاحب جائیداد شخص جہیز میں مکان بھی دے دے تو یہ ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔
لڑکا کرائے کا مکان بدلتا رہتا ہے، مکان بدلتے رہنے میں بڑی سہولتیں ہیں۔دو تین مہینے کا کرایہ ہڑپ کر بلکہ مکان دار سے کچھ لے کر مکان کا تخلیہ کیا جاتا ہے۔اگر کوئی مکا ن دار کرایہ ادا نہ کرنے پر نل لائٹ کٹوا بھی دے تو غیر قانونی کنکشن جاری رہتا ہے۔علاقے کے ارباب مجاز سے اندرونی معاملت (UNDER HAND DEALING)کا ہنر اسے خوب آتا ہے۔اس نے بعض مکانات پر ناجائز قبضے کی ناکام کوششیں بھی کیں مگر قسمت نے یاوری نہ کی۔اسی خیال سے گھر کے پتے کے بجائے فون نمبر پر رابطے کی گزارش کی جا رہی ہے۔یہ فون بھی صرف ان کمنگ ہے۔زیادہ سے زیادہ لڑکے کی طرف سے مس کال MISS CALLدی جا سکتی ہے۔
لڑکے کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع ہے، وہ نا چنا گانا خوب جانتے ہیں۔اس لیے شادی میں باجا ضرور ہو گا تاکہ دوستوں کو ہاتھ پاؤں کو حرکت دینے کی سہولت حاصل رہے۔اس تھرکنے کو ناچ سمجھا جائے، مشرقی یا مغربی ناچ کی اصطلاح میں نہ سو چا جائے۔
لڑکے کے چہرے پر ایک نظر ڈالنے والے دوسری نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتے۔اس میں مصور کائنات کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔لڑکے نے اپنے چہرے کو آپ بگاڑ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اس لیے شادی کے موقع پر سہرا ضرور رہے گا تاکہ بارات کم از کم عقد ہونے تک تو تجسس میں رہے۔
عقد میں تناول طعام کا انتظار ضرور ی ہے ورنہ صرف ’’شرکت باعث مسرت ‘‘ قسم کی دعوتوں میں دعوتیوں کے آنے کی کم ہی توقع رہتی ہے۔دولہے کی بارات میں لوگ بالکل کم ہوں تو کئی شکوک و شبہات جنم لے سکتے ہیں۔
اپنے رشتے داروں سے لڑکے کے تعلقات کشیدہ ہیں۔محلے والے بھی خوش نہیں ہیں۔کوئی لڑکی دینے پر آمادہ ہی نہیں، اسی لیے لڑکے نے بھی طے کیا ہے کہ وہ خاندان اور محلے سے باہر شادی کرے گا۔اسی لیے یہ ضرورت رشتہ کا تفصیلی اشتہار اخبار میں دیا جا رہا ہے۔رنگ، نسل، مذہب، مسلک کی کوئی قید نہیں۔لڑکی کا قبول صورت اور کماؤ ہونا کافی ہے۔ قد و قامت کی بھی پابندی نہیں، اس کی بھی پروا نہیں کہ لڑکی کے دانت اور بال اصلی ہیں کہ نقلی ! شرط بس اتنی ہے کہ کھاتے پیتے گھرانے کی ہو، اچھا خاصہ جہیز لا سکتی ہو۔ایسی کماؤ لڑکی سے لڑکا کہیں بھی کسی بھی وقت شادی کرنے کے لیے تیار ہے۔
نوٹ : لڑکا چونکہ کرائے کے گھر میں رہتا ہے، اس لیے جہیز میں الابلا سامان کی جگہ نقد رقم ہی دی جائے تو خرچ کرنے میں سہولت رہے گی ورنہ اسباب اونے پونے بیچنے میں نقصان کا اندیشہ ہے۔ کیوں کہ گھر میں سامان رکھنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔لڑکے نے اپنے بارے میں نہایت صاف گوئی سے کا م لیا ہے، ورنہ یہ صورت حال تو بیشتر گھروں کی ہے۔ ٭٭ے تعلق رکھتا تھا۔مختلف قبائیل
٭٭٭
۔۔۔ بلی حج کو چلی
صبح صبح ہم دودھ لانے کے لیے جاتے ہیں تو راستے میں اکثر ایک صاحب ٹوپی پہنے ہمیں ملتے ہیں سلام علیک ہوتی رہتی ہے۔اگر چہ کہ نہ وہ ہم سے واقف نہ ہم ان کو جانتے ہیں۔ایک صبح سلام کے بعد انہوں نے ہم سے گزارش کی کہ ہم ان کے لیے دعا کریں۔ہم نے کہا کیسی دعا۔بولے حج کا فارم لے کے آیا ہوں۔کل داخل کروں گا۔دعا کرو کہ فارم قبول ہو جائے۔
ایک صاحب سے دو پہر میں ملاقات ہوئی۔پوچھا۔کہاں سے آرہے ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا بھئی فارم لانے گیا تھا۔بڑا ہجوم ہے بڑی مشکل سے فارم ہاتھ لگا۔ہم نے پوچھا کیسا فارم کیا ہاؤزنگ بورڈ یا حڈا والے مکانات الاٹ کررہے ہیں بولے ارے نہیں بھئی حج کا فارم۔دعا کرو اس بار قرعہ اندازی میں نام نکل آئے۔
ایک اور کرم فرمانے بتایا کہ ان کے کسی کرم فرما کی ساس بیمار ہے۔ہم نے پوچھا۔تو پھر ؟ کہنے لگے وہ اپنی ساس کے لیے حجِ بدل کروا رہے ہیں۔ہم نے کہا اچھا اچھا چلئے مبارک دعاؤں میں یاد رکھیئے۔
ایک محترم ٹوٹی والا لوٹا خرید کر لا رہے تھے۔ہم نے سلام کیا۔جواب میں فرمانے لگے حج کے سفر کے دوران لوٹے کی ضرورت پڑے گی اس لیے خرید کر لا رہا ہوں۔حالانکہ ہم نے لوٹے کے بارے میں کچھ پوچھا ہی نہ تھا۔
ایک دوست کی ڈاڑھی بے ترتیب بڑھ گئی تھی۔ہم سمجھے شاید انھیں اصلاح یعنی شیو کی فرصت ہی نہیں مل رہی ہو گی۔ہم سے دورانِ گفتگو کہنے لگے۔ڈاڑھی چھوڑ رہا ہوں۔ہم نے کہا خیر تو ہے ؟ بولے دراصل حج کے لیے نکل رہا ہوں نا۔اسی لیے شیو کرنا فی الحال ترک کر رکھا ہے۔
ایک اور صاحب جن سے واجبی سی صاحب سلامت تھی، ایک دن بڑے تپاک سے ملے۔ہاتھ ملایا۔گلے لگایا اور کہنے لگے۔بولا چالا (کہا سنا) معاف کر دیجئے۔ہم ابھی اپنی حیرانی کا مظاہرہ ہی کر رہے تھے کہ کہنے لگے حج کو جا رہا ہوں۔پتہ نہیں واپس لوٹنا ہوتا بھی ہے کہ نہیں۔ہم نے انھیں تسلی دی کہ پانی کے جہازوں کا زمانہ گیا اب تو دِنوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے۔بولے۔پھر بھی دعا کرو کہ صحیح سلامت گھر لوٹوں۔
دور کے بلکہ بہت دور کے ایک رشتہ دار جن سے برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی، اچانک ایک دن گھر آ گئے۔کہنے لگے بڑی مشکل سے آپ کا گھر ملا ہے۔ہم نے کہا بڑی زحمت کی۔سب خیریت تو ہے۔بولے۔ہاں سب ٹھیک ہے۔دعا فرمائیے۔میں اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کے لیے روانہ ہونے والا ہوں۔سوچا سب سے مل لوں۔اسی لیے حاضر ہوا تھا۔ہم نے پوچھا کیا اہلیہ بھی ساتھ آئی ہیں۔بولے۔ نہیں وہ اپنی سہیلیوں سے ملنے گئی ہوئی ہیں۔
ایک ملاقاتی پوچھنے لگے۔چمڑے کا بیلٹ کہاں مل جائے گا۔ہم سمجھے گردن میں درد ہے۔ہم نے پوچھا کیا گردن میں باندھنے کے لیے ؟ بولے۔نہیں بھئی۔پاسپورٹ وغیرہ رکھنے کے لیے بڑا سا بیلٹ چاہیئے۔حج کے لیے نکل رہا ہوں نا !
جان پہچان والے ایک صاحب گزارش کرنے لگے کہ ہم ان کے لیے دعا کریں تاکہ ان کا حج فارم اس سال بھی قبول ہو جائے۔ہر چند وہ گذشتہ سال بھی حج کر آئے تھے۔ہم نے کہا دوسروں کو بھی موقع ملنا چاہیئے۔بولے۔ثواب کے معاملے میں کوئی مصالحت نہیں۔میں نماز بھی اول وقت جماعت سے پڑھنے کا قائل ہوں۔زکوٰۃ بھی میں شروع رمضان ہی میں نکال دیتا ہوں۔میں تو ستہ شوال کے روزے بھی نہیں چھوڑتا اور حج ہر سال کرنے کا ارادہ ہے۔دعا فرمائیے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں۔سنا ہے نئے قواعد کے تحت ایک دفعہ حج کرنے والے کو پانچ سال تک موقع نہیں دیا جائے گا۔دعا فرمائیے۔ فارم داخل کر چکا ہوں اب کی بار بیوی ساتھ ہے۔محرم تو ضروری ہے نا! فارم کیسے رد ہوسکتا ہے۔پھر بھی دعا فرمائیے۔
ایک سادہ لوح پوچھنے لگے۔یہ امام ضامن کے بندھن کہاں دستیاب ہوتے ہیں۔ہم نے پوچھا کیوں ؟ کہنے لگے۔میں اس سال مع محل حج کو جا رہا ہوں۔تو پھر ؟۔بارہ امام کی ضمانت میں اکثر لوگ جاتے ہی ہیں ہم بھی جائیں گے۔ہم نے انھیں سمجھا یا کہ اللہ کے گھر کو کیا غیراللہ کی ضمانت میں جاؤ گے ؟ وہ سوچ میں پڑ گئے۔ہم نے مزید کہا جس اللہ کے گھر کے لیے سفر کر رہے ہو وہی سب سے بڑا ضامن ہے۔
ایک پرانے دوست مخالف سمت سے ایک تیز رفتار گاڑی پر آرہے تھے۔ہم اپنی گاڑی پر حسبِ معمول بڑے اعتدال کے ساتھ جا رہے تھے۔انھوں نے ٹرافک کے باوجود اپنی گاڑی روکی۔ہمیں بھی اپنی گاڑی روکنی پڑی۔پلٹ کر قریب آئے اور گلے ملنے لگے۔ہم بولے مبارک۔کہنے لگے اچھا آپ سمجھ گئے کہ ہم اس بار حج پر روانہ ہو رہے ہیں۔ دعا فرمائیے۔اللہ قبول کرے۔
جیسے جیسے حج کے لیے روانگی شرو ع ہوتی ہے۔تمام اخبارات میں تصاویر کے ساتھ اشتہارات شائع ہونے لگتے ہیں جن میں موصوف کے لیے دعاؤں کی درخواست کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کسی کا کچھ قرض وغیرہ باقی ہو تو وہ وصول کر لے کہ موصوف حج کے لیے فلاں تاریخ کو ملک چھوڑ رہے ہیں۔چلئیے کسی بہانے قرض لوٹانے کا خیال تو آیا۔
حج کے لیے جانے والے ایک صاحب نے بھی جب دعاؤں کی درخواست کی تو ہم ذرا چونکے کیونکہ وہ بدنام زمانہ محکمے (DEPARTMENT)سے تعلق رکھتے تھے۔جہاں وزن رکھے بغیر کوئی فائل آگے نہیں بڑھتی تھی۔وہ صاحب بھانپ گئے اور کہنے لگے۔میں نے گذشتہ ایک سال سے رشوت لینا ہی چھوڑ دیا ہے۔کسی قسم کا کوئی مطالبہ نہیں کرتا البتہ کوئی خوشی سے کچھ دیتا ہے تو دل نہیں توڑتا۔
ایک دن بیگم نے کہا کہ ایک پھول کا ہار اور ایک مٹھائی کا ڈبہ لیتے آئیے۔ہم نے پوچھا کس لیے ؟ کہنے لگیں۔بھول گئے ؟ کل چھوٹے ماموں حج کے لیے نکل رہے ہیں اور آج انھوں نے اپنے گھر پر دعوت کی ہے۔
ایک ڈاکٹر کے کلنک پر ایک بڑا سا بورڈ لگا دیا گیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب حج کے لیے تشریف لے جا چکے ہیں۔زندگی باقی رہی(یعنی مریضوں کی زندگی باقی رہی)تو چالیس دن بعد دوبارہ علاج شروع کر دیں گے۔
حاجی صاحب حج سے لوٹنے لگتے ہیں تو بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں، پوتوں نواسوں کی طرف سے ایک اشتہار کے ذریعے حاجی صاحب کی خدمت میں مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔
کھانے میں مرچ قدرے تیز تھی۔ہم ہو ہا کر رہے تھے کہ بیگم نے کھجور پیش کیئے۔ہم نے پوچھا یہ کہاں سے آ گئے ؟ کہنے لگیں ہمسائے نے بھجوائے ہیں۔آبِ زم زم اور ایک ٹوپی بھی دی ہے۔وہ حج کر کے جو آئے ہیں۔
تو پھر یوں ہوا کہ ہمیں آبِ زم زم، کھجور، ٹوپیوں، تسبیحوں، جائے نمازوں وغیرہ کے تحفے جانے انجانے لوگوں کی طرف سے ملنے شروع ہو گئے۔ایسے ایسے لوگ ٹوپی اور کھجور بھیجتے ہیں جنھوں نے چائے کی ایک پیالی کبھی نہیں پلائی۔(مخفی مباد کہ ہم کھجور بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور اس نر غذا کو مؤنث نہیں سمجھتے )۔
ایک ڈاکٹر کا اشتہار چھپا کہ ڈاکٹر صاحب حج سے واپس آ چکے ہیں اور مطب (CLINIC) حسبِ معمول کام کرنے لگا ہے۔ضرورت مندوں کے لیے آبِ زم زم میں بھگوئے ہوئے کفن کا انتظام بھی ہے۔
ایک وکیل کی طرف سے ایک نوٹس شائع ہوئی کہ حج کے بعد جھوٹے مقدمات کی پیروی سے انہوں نے توبہ کر لی ہے۔سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ توبہ تو اللہ میاں قبول کرنے والے ہیں مگر وکیل صاحب نے ناجائز طریقے سے جن مکانات کا قبضہ قانونی داؤ پیچ سے دلایا اور جن دوکانات کو خالی کروا دیا ان کا کیا ہو گا۔جن مجرموں کو پھانسی کے پھندے اور جیل سے بچا لیا وہ تو دعا دیں گے اور جس کی وجہ سے حج کا سفر آسان بھی ہوا۔مگر ان بے گنا ہوں کا کیا ہو گا جنھیں وکیل صاحب نے ناحق جیل بھجوا دیا تھا۔
بعد نماز ایک صاحب تمام مصلیوں سے گلے مل رہے تھے۔معلوم ہوا گز شتہ آٹھ دن سے الگ الگ مسجد میں ہر نماز کے بعد وہ یہ عمل فرما رہے ہیں۔سبب یہ ہے کہ وہ حج کر کے لوٹے ہیں اور جبری مبارکباد وصول کر رہے ہیں۔حج کو جانے سے پہلے بھی موصوف یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔
ایک قریبی عزیز ہماری بچی کی شادی میں تشریف نہیں لائے۔خفگی کا سبب معلوم ہوا کہ ہم نے دعوت نامے میں ان کے نام کے ساتھ حاجی نہیں لکھا تھا۔
ہمیں دیر رات ایک فون آیا۔فرمانے لگے ارے بھئی میں رشتے میں آپ کا ساڑھو(ہم زلف) لگتا ہوں۔آتے ہوئے آپ سے مل کر نہیں آیا معذرت چاہتا ہوں دعا فرمائیے۔اس وقت صفا و مروہ کے درمیان سعی کر کے باہر آیا ہوں۔ہم سوچنے لگے دعا تو ان کو کرنی ہے۔ہم کیا دعا کریں۔دعائے خیر کے سوائے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید