FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

مجھے یاد آیا

ضیاء الحق قاسمی کی یادداشتیں

               ضیاء الحق قاسمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

               پولیس کے مشاعرہ میں پولیس کے خلاف نظم

کراچی پولیس نے ایک کل پاکستان مشاعرہ طنز و مزاح کا اہتمام ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں کیا۔ مشاعرے کی صدارت آئی جی سندھ، جی معین الدین نے کی۔ مشاعرے میں تمام پولیس افسران موجود تھے۔ بابا عبیر ابوذری نے پنجابی کی ایک نظم ان کے سامنے پڑھ ڈالی

پولیس نوں ایویں آکھاں چور تے فیدہ کی

بُوتھی ہو جائے ہوردی ہور تے فیدہ کی

پچھوں کرداں پھراں ٹکورتے فیدہ کی

(پولیس کو چور کہنے کا کیا فائدہ۔ بعد میں میرا منہ سوج جائے گا سکائی کرنی پڑے گی )

آئی جی صاحب اور دیگر افسران نے اس کا بہت برا مانا اور مجھ سے کہا کہ یہ آپ کی ذمہ داری تھی کہ سوچ سمجھ کر شعراء کو بلاتے۔

               مشاعرے میں ایک قادیانی ناراض ہو گیا

 

یوم تکبیر کے سلسلے میں ہاؤس بلڈنگ فائنانس کارپوریشن کی جانب سے صدیق الفاروق منیجنگ ڈائریکٹر نے ہوٹل پرل کانٹی نینٹل میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا۔ میں نے نظامت کے دوران ایک واقعہ سنایا تو ایچ بی ایف سی کے ایک ڈائریکٹر جو قادیانی تھے۔ مجھ سے ناراض ہو گئے اور مشاعرے سے واک آؤٹ کر گئے۔ واقعہ یہ تھا۔ مولانا ظفر علی خان سے ایک شخص نے پوچھا کہ میں ایک اخبار نکالنا چاہتا ہوں آپ کا کیا مشورہ ہے۔ مولانا نے اسے منع کیا کہ یہ کام نہ کر و اخبار نکالنا اتنا مشکل ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت چل پڑی مگر ان کا اخبار الفضل نہ چل سکا۔

               اے صدر مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

امریکہ کے شہر لانگ آئی لینڈ میں شبِ قہقہہ کا اہتمام کیا گیا۔ صدارت میری تھی اور مہمان خصوصی خالد عرفان تھے۔ ڈاکٹر عبدالرحمن عبد نظامت کے دوران خالد عرفان کو مہمان خصوصی کہنا بھول گئے۔خالد عرفان نے میری طرف مخاطب ہو کر کہا۔

اے صدر مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے مہمان خصوصی کا بدن ٹوٹ رہا ہے

               امریکہ میں ناظم مشاعرہ بھاگ گیا

امریکہ کے سان فرانسسکو کے وڈ سائید جنگل میں بڑے بڑے رؤسا اپنے محلات بنا کر رہتے ہیں۔ قریشی صاحب کا محل 122ایکٹر پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔مشاعرے کے اختتام پر وہ ۴۵کمروں کے عظیم الشان مکان میں گم ہو گئے تاکہ شعراء کو معاوضہ نہ دینا پڑے حالانکہ ان سے معاوضہ طے پا گیا تھا۔ انہوں نے کھانا بھی بازار سے منگوایا اور اسے بھی ادائیگی نہ کی۔ ڈاکٹر بشیر بدر نے کہا آپ لوگ جائیں میں ان سے پیمنٹ لے لوں گا۔اگلے روز صبح ہماری دوسرے شہر کی فلائٹ تھی ہم ڈاکٹر بشیر بدر کو لینے آئے تو قریشی صاحب پھر بھی نہ ملے۔ بشیر بدر وہاں سے ایک ہزار ڈالر وصول کر چکے تھے۔

               شادی کے لیے دھوکہ

ہمارے بزرگ دوست نے ہم سے کہا کہ ان کی بیٹی کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔ آپ اگر لڑکے کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں تو آسانی سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس لڑکے کا دعوی تھا کہ وہ اپنے محکمہ میں انجینئر اور کنوارہ ہے۔ میں نے اس محکمہ کے جنرل مینجر سے فون پر کہا کہ آپ اس لڑکے کے بارے میں کچھ بتائیں تو انہوں نے مکمل معلومات حاصل کیں اور مجھے بتایا کہ وہ شخص انجینئر نہیں، لائن مین ہے شادی شدہ ہے اور ۷ بچوں کا باپ ہے۔ ہمارے بزرگ دوست یہ سن کر سکتے میں آ گئے اور وہ حیران تھے کہ لوگ ا تنا جھوٹ کیوں بولتے ہیں۔

               ڈاکٹر انعام احسن حریف زندہ در گور

ڈاکٹر انعام احسن حریف اچھے مزاح گو شاعر تھے۔انتہائی خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ مگر ہکلاتے تھے۔ آنکھوں کے معالج تھے اپنے زمانے کے مزاحیہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کر تے تھے۔ میری رہائش حیدر آباد میں تھی۔ اور ان کی کراچی میں، ظرافت میں ان کا کلام شائع کر نے کے لیے ان سے رابطہ کر نے کی کوشش کی۔ کراچی آ کر ان کے احباب شعراء اور عزیز و اقارب سے ان کا پتہ پوچھا مگر سب گول کر گئے۔ یہ صورت احوال دیکھ کر ہماری جستجواور بڑھی۔ ۵ سال بعد ہم کراچی شفٹ ہو گئے۔ ایک روز طارق روڈ پی ای سی ایچ ایس پر واقع ایک مکینک سے ہم اپنی گاڑی ٹھیک کرانے گئے تو سامنے والے مکان پر ڈاکٹر صاحب کی نیم پلیٹ نظر آئی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ڈاکٹر علالت کے باعث کہیں اور شفٹ ہو گئے ہیں۔ ان کی بیگم اور بیٹی یہاں ہیں۔ ہم نے ان کو کئی خطوط لکھے کہ ڈاکٹر صاحب اگر بیمار ہیں تو ان کا کلام ہی ہمیں دے دیجئے مگر کوئی جواب نہ آیا ایک روز پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب واپس اسی مکان میں آ گئے ہیں مگر بول چال کے لائق نہیں ہیں۔ ان کی بیگم صاحبہ نے میری ان سے ملاقات کرا دی مگر وہ پوری طرح ہوش میں نہ تھے۔ میں نے بیگم صاحبہ سے گلہ کیا کہ آپ نے میرے خط کا جواب بھی نہ دیا کہنے لگیں کہ اتنا وقت ہی کہا ں ملتا ہے چند روز بعد ڈاکٹر صاحب انتقال کر گئے۔

               بھارت کے مسلمان کی حب الوطنی

دہلی کے مشاعرے میں شرکت کے لیے بھارت جانا ہوا تو دہلی کی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے سامنے ایک مسلمان سگرٹ فروش سے جا کر کہا مجھ سے ۵۵۵ برانڈ کے سگرٹ لے لو اور پاکستانی گولڈ لیف دے دو۔ حالانکہ ۵۵۵ مہنگا اور گولڈ لیف سستا تھا۔ دکاندار نے پوچھا کہ گولڈ لیف ہی کیوں ؟میں نے کہا یہ پاکستان میں بنتا ہے۔ اور مجھے سوٹ کرتا ہے۔ یہ سن کر وہ غصے میں آ گیا اور کہنے لگا آپ پاکستانیوں کی یہ عادت سی بن گئی ہے کہ اپنے ملک کی مصنوعات کی تعریف کر تے ہیں اور دوسروں کی تنقیص۔ میں نے کہا میں نے تو کسی کی برائی نہیں کی۔ مگر اس کا پارہ چڑھتا ہی چلا گیا جیسے میں نے اس کی کوئی خاص رگ دبا دی ہو۔ بس اگر میں وہاں سے کھسک نہ لیتا تو شاید وہ میری پٹائی کر تا۔

               بھارت کے شعراء کی وطن دوستی

دبئی کے عالمی مشاعرے میں سید ضمیر جعفری نے اپنے صدارتی خطبے میں کہیں کشمیر کا ذکر کر دیا اور یہ ذکر صرف حوالے کے طور پر تھا۔ کسی مناقشے کی شکل میں نہیں۔ اسی تقریر کے دوران بھارت کے دس بارہ مسلمان شعراء مشاعرہ گاہ سے احتجاجاً اٹھ کر چلے گئے اور بھارت کے سفیر بھی ان کے ساتھ ہی نکل گئے۔ دوسرے روز پاکستانی سفیر نے تمام شعراء کے اعزاز میں لنچ کا اہتمام کیا مگر ان شعراء نے اس دعوت کا بھی بائیکاٹ کر دیا۔ یہ حب الوطنی ہے یا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری۔

               انبالہ کے مشاعرے میں ناظمین کی بدعہدی

راجندر ملہوترہ کے انبالہ کے مشاعرے میں شرکت کے لیے بھارت جانا ہوا۔ پاکستانی شعراء کی تعداد ۸۔۱۰تھی۔ مشاعرے کے اختتام پر ملہوترہ صاحب ہماری رہائش گاہ پر دو روز تک نہیں آئے۔ ہمیں تشویش ہوئی کیونکہ ہمیں دہلی کے مشاعرے میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ وہ ایک روز آئے مگر باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ شعراء کو نذرانہ نہیں دیں گے۔ میں نے اپنے شعراء سے یہ بات کر لی تھی کہ اگر ایسا ہوا تو آگے ہو کر یہ لڑائی میں لڑوں گا آپ صرف اخلاقاً میرے ساتھ رہیں گے۔ ملہوترہ صاحب نے سب کو نذرانہ دیا مگر نہ ہونے کے برابر۔ میں نے سب شعراء سے لفافے واپس لے کر ملہوترہ صاحب کو دے دیے کہ یہ ہماری طرف سے آپ کے شام بہار ٹرسٹ کے لیے چندہ ہے۔ ملہوترہ صاحب نے وہ لفافے بھی رکھ لیے مگر بعد میں ہمارے تمام شعرا ان سے جا کر ملے اور کہا آپ کی محبت ہی کافی ہے آپ مشاعرے میں بلا لیتے ہیں کیا یہ کم ہے۔ ان شعراء نے اسی رقم پر قناعت کر لی مگر میں نے طے شدہ پورا نذرانہ کرایہ وصول کیا۔

               رات کے وقت درختوں میں سے آوازیں

۱۹۴۸ء میں ہمارا قیام راولپنڈی میں بھی ہوا۔ ایک شام کو ہم سب دوست مل کر ایک پارک میں گئے کئی گھنٹے وہاں گزارے۔ خوب غل غڑاپہ کیا۔جب رات ہو گئی تو ایک درخت میں سے آواز آئی تم یہاں سے جاؤ گے نہیں۔ ہم نے زیادہ توجہ نہ دی تو آواز تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔ اور ہم سب کے نام لے لے کے چلے جانے کو کہتی رہی۔ ہم اتنا ڈر گئے کہ وہاں سے بھاگے اور گھر آ کر دم لیا۔

               سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت

۱۹۵۳ء میں تحریک ختم نبوت کے دوران بڑے بڑے جلوس اور جلسے لاہور میں منعقد ہوتے تھے۔ میں شاہ صاحب کی تقریر سننے کے لیے سب سے پہلے پہنچ کر اسٹیج کے قریب بیٹھ جاتا تھا۔شاہ صاحب کے ہاتھ میں کلہاڑی ہوتی تھی۔ جس کے دو منہ ہوتے۔ سر پر چوڑی ٹوپی جس پر ختم نبوت کا بیج لگا ہوتا۔ اسٹیج پر میز رکھ کر اس پر بیٹھ کر وہ تقریر کر تے تھے۔ یہ تقریر عشاء کی نماز سے لے کر صبح کی اذان تک ہوتی۔ لاہور کے لکشمی چوک میں ختم نبوت کے جلسے میں انہوں نے تقریر کے دوران خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کو مخاطب کر تے ہوئے کہا خواجہ صاحب ! یہ میری ٹوپی کسی بادشاہ کے سامنے نہیں جھکی آج میں یہ آپ کے قدموں میں رکھ کر درخواست کرتا ہوں کہ میرے سائیں (رسول ﷺ) کی عزت بچا لیں میں آپ کے سؤر پالا کروں گا۔ میں آپ کے کتوں کو نہلا دیا کروں گا میں ان کو دودھ پلا یا کروں گا۔ خواجہ میرے سائیں کی عزت بچالے۔ شاہ صاحب کی تقریر کے دوران یہ جملے سن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک جلسے میں قائد اعظم کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا۔ اے قائد میں نے پاکستان کا نقشہ دیکھا ہے جو دو حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل ہے۔ بیچ میں ایک ہزار میل کا فاصلہ ہے۔ یہ ہند و بنیا ہم دونوں کو نہیں ملنے دے گا۔ تھوڑی سی تگ دو اور کی جائے تو یہ نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے

               مو لانا مودودی کی تقریر کے دوران فائرنگ

صدر ایوب خان کے زمانے میں جماعت اسلامی نے موچی دروازے کی بجائے بھاٹی دروازے کے باہر کے ایک باغ میں جلسہ کر نے کی اجازت لی۔ لاؤڈ اسپیکر کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ لہٰذا مولانا کی تقریر دور دور تک بیٹھے سامعین تک پہنچانے کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر میز رکھے گئے تھے جن پر چڑھ کر جماعت کے کار کنان مولانا کی تقریر کے جملے دہراتے تھے۔ مولانا کی تقریر کے دوران ایک شخص نے مولانا پر گولیاں برسائیں۔ مولانا بدستور کھڑے رہے لوگوں نے انہیں بٹھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے فرمایا آج اگر میں بیٹھ گیا توسب بیٹھ جائیں گے۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی دوران جماعت کا ایک کارکن جس کا نام شاید اللہ بخش تھا۔ مولانا کو بچانے ان کے سامنے ڈھال بن گیا۔ اور گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ جلسہ بکھر گیا۔ جماعت اسلامی کے شامیانے اور کیمپ اکھاڑ دئیے گئے اور ان میں آگ لگا دی گئی۔

               مشاعرہ الٹ دیا گیا

 

فیڈرل بی ایریا کراچی کے ایک پارک میں پاک و ہند مشاعرہ منعقد ہوا۔ میں نظامت کے فرائض انجام دے رہا تھا کہ مشاعرہ گاہ میں پولیس داخل ہوئی اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر ایس ایس پی کے دفتر میں لے گئی۔ ایس ایس پی نے مجھے بتایا کہ منتظمین مشاعرہ کو مخالفین نے دھمکی دی ہے کہ اگر مشاعرہ روکا نہ گیا تو وہ خود اسے روک لیں گے۔ لہٰذا آپ لوگوں کو سمجھا بجھا کر مشاعرے کے اختتام کا اعلان کر دیں۔ میں نے واپس اسٹیج پر آ کر یہ اعلان کر ڈالا کہ امن و امان کی حالت ٹھیک نہیں ہے لہٰذا مشاعرہ ملتوی کیا جاتا ہے۔

               انور شعور نے مشاعرہ بگاڑ دیا

فیڈرل بی ایریا کراچی کے میونسپل پارک میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایک شان دار مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ جماعت کے کئی رہنما اسٹیج پر موجود تھے۔ انور شعور کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ وہ مائیک پر آئے مگر اپنا کلام نہ پڑھ سکے بلکہ بڑ بڑاہٹ کے انداز میں سامعین سے مخاطب ہوتے رہے۔ نہ جانے وہ کس کیفیت میں تھے۔ناظمین مشاعرہ اور جماعت کے رہنماؤں نے انہیں بہت سمجھایا کہ مشاعرہ خراب نہ کریں وہ جواباً رہنماؤں کو گالیاں دینے لگے۔ آخر ان کو وہاں سے اٹھا کر مشاعرہ گاہ سے رخصت کر دیا گیا۔

               جلسہ گاہ میں ٹرک اور بسیں داخل کر دیں

لطیف آباد۔ ۲ حیدر آباد کے ایک بڑے سیاسی جلسے میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما موجود تھے۔جلسے میں ہزاروں سامعین موجود تھے کہ اچانک بجلی کا ٹ دی گئی۔ اندھیرا گھپ ہو گیا۔ لاؤڈ اسپیکر خاموش ہو گیا۔ جلسہ گاہ میں کئی ٹرک اور بسیں داخل کر دی گئیں۔ لوگ ان سے بچنے کے لیے جلسہ گاہ سے بھاگے۔ اسٹیج پر حملہ کر دیا گیا۔ میں نے سیاسی رہنماؤں کو جوتے چھوڑ کر وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔

               مسجد وزیر خان۔۔۔ شہیدوں کی لاشیں

تحریک ختم نبوت کے دوران نوجوان لڑکے شوق شہادت میں مسجد وزیر خان کے باہر شاہی دروازے کے سامنے اکھٹے ہو کر ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتے تو فوجی ان پر گولیاں برساتے۔ ان شہیدوں کی لاشیں جنازے کی صورت میں بازاروں سے گزراتے تو عورتیں اپنے دو پٹے باندھ کر ان پر ڈالتیں اور پھر دوپٹوں کو اپنی آنکھوں سے لگاتیں۔نوجوانوں کی خون سے تر بتر میتّیں دیکھ کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے۔ تمام لڑکے اپنے بازوؤں پر پٹیاں باندھ کر رکھتے جن پر ان کا نام اور پتہ درج ہوتا کہ شہادت کے بعد ان کی لاش ان کے گھر پہنچ سکے۔

               سید ضمیر جعفری کی لندن پھر امریکہ روانگی

سید ضمیر جعفری کے صاحبزادے فوج کی اعلی ٹریننگ کے لیے لندن گئے تو سید صاحب کو بھی ساتھ لے گئے۔ لندن میں کچھ روز رہنے کے بعد ضمیر صاحب کا ارادہ تھا کہ اپنے دوسرے صاحبزادے کے پاس امریکہ میں جا کر رہیں گے۔ میں نے ان کو فون کیا اور کہا کہ میں آپ کو ائیر پورٹ پر الوداع کہنے آؤں گا فرمایا تم سارادن میرے ساتھ رہے ہو تھک گئے ہو گے اب آرام کرو۔ صبح ۴ بجے کی فلائٹ پر تمہارا پہنچنا مشکل ہو گا۔ میں نے فوراً ایک قطعہ کہا اور ان کو سنایا۔ ضمیر صاحب نے یہ قطعہ سن کر مجھے دعائیں دیں۔

طنز و مزاح آج بھی کتنا اداس ہے

سید ضمیر جعفری لندن چلے گئے

وہ کیا گئے کہ بزم طرب ہی بکھر گئی

 جیسے واشنگٹن سے کلنٹن چلے گئے

               بڑھاپا عمر سے نہیں ارادے سے آتا ہے

کراچی یونیورسٹی کے مشاعرے میں صدارتی خطبے میں سید ضمیر جعفری نے کہا۔ طنز و مزاح قوموں کو پاس کر نے کے لیے ہے۔ مالش کرنے کے لیے نہیں۔ انہوں نے کہا بڑھاپا عمر سے نہیں آتا، ارادے سے آتا ہے اور ابھی میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ میں نظامت کے فرائض انجام دے رہا تھا میں نے کہا آپ ابھی جوان ہیں بلکہ نوجوان ہیں۔

               شیخ بھی خوش رہے شیطان بھی بیزار نہ ہو

امریکہ میں ایک پاکستانی نے اپنے والد کے چالیسویں کے ختم میں مجھے شرکت کی دعوت دی۔ ختم شریف کے بعد وہ شخص مجھے اپنی دکان دکھانے لے گیا۔ وہ اس دکان پر گندی فلمیں اور فحش رسالے فروخت کر تا تھا۔ دیواروں پر قرآنی آیات کے خوبصورت فریم آویزاں تھے۔ میں نے اسے کہا کہ اگر یہی کاروبار کر نا ہے تو قرآنی آیات یہاں سے ہٹا دو۔ اس نے کہا یہ کاروبار میں برکت کے لیے کرتا ہوں۔ انا للہ انا الیہ راجعون۔

               میرے حلق میں دھاگہ پھنس گیا

ڈاکٹر ایف یو بقائی نے حکیم محمد سعید کی صدارت میں فہمی سینٹر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا بعد ازاں طعام کا بھی انتظام کیا گیا مگر میرے دوست ریاض صاحب اور ان کی بیگم نے کہا گلبرگ چلتے ہیں اور وہاں کے مشہور گولہ کباب سے لطف اٹھاتے ہیں۔ میں نے ابھی پہلا ہی لقمہ لیا تھا کہ حلق میں کوئی چیز اٹکی ہوئی محسوس ہوئی۔ ریاض صاحب نے میرے حلق میں جھانک کر دیکھا تو کباب پر لپٹا دھا گہ نظر آیا۔ پکڑ کر کھینچا تو یوں لگا جیسے حلق باہر آ جائے گا۔ فورا ایک ہسپتال میں جا کر دکھایا تو انہوں نے کہا ہمارے ہاں اس وقت کوئی ای این ٹی ڈاکٹر موجود نہیں۔ دوسرے ہسپتال گئے وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ وہاں سے نکل کر ڈاکٹر بقائی کے پاس پہنچے تو ڈاکٹر صاحب حکیم محمد سعید اور سامعین و شعراء کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ حکیم صاحب اور ڈاکٹر صاحب میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے رات کا ایک بج چکا تھا۔انہوں نے اپنے ہسپتال کے ایک سرجن کو فون کر کے جگایا اور کہا کہ آپ جلدی ہسپتال پہنچیں قاسمی صاحب بڑی تکلیف میں ہیں۔ سرجن صاحب مجھے آپریشن تھیٹر میں لے گئے۔ دھاگہ کاٹتے وقت خطرہ یہ تھا کہ کہیں اس کے ساتھ گوشت نہ کٹ جائے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے بڑی مہارت سے یہ مرحلہ آسان کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ اس سے پہلے ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا۔

               مشفق خواجہ کی فوٹو گرافی

ممتاز محقق، کالم نگار اور شاعر جناب مشفق خواجہ نے راقم الحروف کو ایک تصویر دکھائی جس میں وہ تاج محل آگرہ کے صحن میں کھڑے ہیں اور ہاتھ کی انگلی گنبد کے اوپر رکھی ہے۔ یہ ٹیکنیک دیکھ کر میں حیران رہ گیا خواجہ صاحب نے بتایا کہ انہوں نے یہ تصویر اپنے آٹو میٹک کیمرے میں خود ہی ایک مخصوص زاویے اور ٹیکنیک سے کھینچی ہے۔ چند روز بعد ایسی ہی ایک تصویر مجھے میرے دوست نے دکھائی۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیسے تو انہوں نے بتایا کہ تاج محل آگرہ میں پیشہ ور فوٹو گرافرز چند روپوں میں ایسے مختلف پوز بنا دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے خواجہ صاحب نے یہ ٹیکنیک ان ہی فوٹو گرافر سے سیکھی ہو۔

               مجھے کمبل لپیٹ کر جیل میں لے گئے

راقم الحروف ابھی والدہ کی گود میں پرورش پار ہا تھا کہ ابا جی پس دیوار زنداں چلے گئے۔ انگریز کی حکومت تھی سیاسی قیدیوں خاص طو ر پر لیڈروں کے ساتھ جیل میں اچھا برتاؤ ہوتا تھا۔ کسی لیڈر کو گرفتار کر تے وقت بھی عزت و احترام کا سلوک کیا جاتا۔ ابا جی کی گرفتاری بھی پورے پرو ٹوکول کے ساتھ ہوئی۔ ابا جی میرے بغیر جیل میں اداس ہو گئے تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ ملاقات کر نے کو آؤ تو ضیاء کو ساتھ لے کر آنا۔ سرد ی کا موسم تھا لہٰذا مجھے کمبل میں لپیٹ کر جیل میں اباجی کے پاس لے جایا گیا۔

               وڈیرے کا بیٹا چور نکلا

ملتان کے ایک رئیس کا بیٹا لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا وہ اکثر اباجی سے ملنے آتا اور ان کے مطالعے کے کمرے میں ان کے ساتھ بیٹھا رہتا۔ اباجی بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک روز اس نے اباجی کی الماری کھول کر وہاں رکھی ساری رقم چوری کر لی اور فرار ہو گیا۔ مگر چند روز بعد پکڑا گیا۔ پولیس اسے ہتھکڑی لگا کر ہمارے گھر لے آئی۔ ہماری امی جان نے جب اس عمر کے لڑکے کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھی تو رو پڑیں اور پولیس سے کہا کہ اسے چھوڑ دو۔ پولیس نے کہا ہم نہیں چھوڑ سکتے یہ کام عدالت کا ہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد بھی ہماری امی روتی رہیں اور ابا جی سے کہا اس بچے کو رہا کر وا دیں

               مشاعرے میں شعراء گر پڑے

 

بہاولپور کے کل پاکستان مشاعرے میں بہت بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ جس پر فوم کے گدے بچھائے گئے تھے۔ موٹے موٹے گدوں پر اٹھ کر چلنا ہر ایک کے لیے مشکل تھا خصوصاً عمر رسیدہ شعراء کے لیے۔مائیک تک آتے آتے جب کوئی شاعر گرتا پڑتا لڑکھڑاتا تو سامعین آواز نکالتے۔ کوئی کہتا یہ وہیں سے ہو کر آیا ہے کوئی کہتا یہ ٹن ہے۔ محترم جناب ندیم قاسمی کئی بار لڑکھڑائے مگر سنبھل گئے بعد ازاں ان کی طبیعت کافی بگڑ گئی۔

               شاعر گٹر میں گر گیا

کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے ایک شاعر ہندوستان سے آئے ہوئے تھے۔ وہ مشاعرہ گاہ تک جانے کے لیے نکلے تو اپنی بیاض سمیت ایک گٹر میں گر گئے۔ ان کو معمولی زخم آئے۔ میں نے فوراً اس حادثے پر ایک قطعہ کہا۔

رستے میں چلتے چلتے برآمد ہوئے تھے شعر

آمد یہ ہوتے ہوتے ہی آورد ہو گئی

شاعر گٹر میں گرنے سے صد شکر بچ گیا

اچھا ہوا بیاض گٹر برد ہو گئی

               بیگم کی ٹانگ ٹوٹ گئی

میری بیگم کا پاؤں سلپ ہو جانے سے ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ میرے دوست سرجن نظام الدین جمیلی نے ان کا علاج کیا۔ ان کے دفتر میں بیٹھ کر میں نے یہ چار مصرعے کہے۔

نظام الدین سرجن کی مسیحائی کا کیا کہنا

کمال فن سے ہڈی میری بیگم کی جو جوڑی تھی

کہا مجھ سے ضیاء جی تم بھی سرجن ہو مگر آدھے

وہی تو میں نے جوڑی ہے جو ہڈی تم نے توڑی تھی

٭٭٭

ماخذ:

فیس بک، طنز و مزاح گروپ کی فائلوں سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: : اعجاز عبید