فہرست مضامین
- عہد نامہ قدیم
- کتاب ایوب
- باب: 1
- باب: 2
- باب : 3
- باب: 4
- باب: 5
- باب: 6
- باب: 7
- باب: 8
- باب: 9
- باب: 10
- باب: 11
- باب: 12
- باب: 13
- باب: 14
- باب: 15
- باب: 16
- باب: 17
- باب: 18
- باب: 19
- باب: 20
- باب: 21
- باب: 22
- باب: 23
- باب: 24
- باب: 25
- باب: 26
- باب: 27
- باب: 28
- باب: 29
- باب: 30
- باب: 31
- باب: 32
- باب: 33
- باب: 34
- باب: 35
- باب: 36
- باب: 37
- باب: 38
- باب: 39
- باب: 40
- باب: 41
- باب: 42
عہد نامہ قدیم
۱۸۔ کتاب ایوب
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
کتاب ایوب
باب: 1
1 عُوض نام کے ملک میں ایک شخص رہا کرتا تھا۔ ان کا نام ایّوب تھا۔ ایّوب ایک بے گناہ اور راستباز شخص تھا۔ ایوب خدا کی عبادت کیا کرتے اور بری باتوں سے دور رہا کرتے تھے۔
2 اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔
3 ایوب سات ہزار بھیڑوں تین ہزار اونٹوں پانچ سو جوڑے بیلوں اور پانچ سو گدھیوں کے مالک تھے۔ ان کے پاس بہت سے خادم تھے۔ ایوب مشرق کا سب سے زیادہ دولتمند شخص تھا۔
4 ایوب کے بیٹے اپنے بھا ئیوں کو اپنے گھروں میں باری باری سے ضیافت کے لئے دعوت دیا کرتے تھے۔ وہ اپنے تینوں بہنوں کو بھی دعوت دیا کرتے تھے۔
5 ضیافت کا مرحلہ پورا ہونے پر ایوب صبح سویرے اٹھا کرتے تھے اور اپنے ہر ایک بچوں کے لئے جلانے کا نذرانہ پیش کیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ سوچاکرتے تھے کہ شاید میرے بیٹوں نے کچھ خطا کی ہو اور اپنے دل میں خدا کی تکفیر کی ہو۔ اس لئے ایوب ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے تھے تاکہ ان کے بچوں کی غلطی معاف کر دی جائے۔
6 پھر خدا کے فرشتوں کا خداوند سے ملنے کا دن آیا اور شیطان بھی خدا کے ان فرشتوں کے ساتھ تھا۔
7 خداوند نے شیطان سے پو چھا ” تو کہاں سے آیا ہے ؟ ” شیطان نے جواب دیتے ہوئے خداوند سے کہا ” میں زمین پر اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہوں۔”
8 تب خداوند نے شیطان سے کہا ” کیا تو نے میرے خادم ایوب کو دیکھا ہے ؟ روئے زمین پر ایوب کے جیسا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ وہ بے گناہ اور راستباز ہے۔ وہ خدا کی عبادت کرتا ہے اور بری باتوں سے ہمیشہ دور رہتا ہے۔ ”
9 شیطان نے جواب دیا ” ہاں یہ سچ ہے ! مگر ایوب ایک خاص سبب سے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔
10 تو اس کی اس کے خاندان کی اور اس کے سبھی چیزوں کی حفاظت کرتا ہے۔ تو نے اسے اس کے ہر کام میں جو وہ کرتا ہے کامیاب بنا یا ہے۔ تو نے اس پر کرم کیا ہے۔ وہ اتنا دولت مند ہے کہ اس کے مویشی اور اس کا گِلّہ ساری زمین میں ہے۔
11 لیکن وہ سب کچھ جو اس کے پاس ہے اگر تو برباد کر دے تو میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ وہ تیرے منھ پر ہی تیرے خلاف بولنے لگے گا۔”
12 خداوند نے شیطان کو کہا ” اچھا ٹھیک ہے ایوب کے پاس جو کچھ بھی ہے اس کے ساتھ تیری جو مرضی ہو سو کر مگر اس کو چوٹ نہ پہنچا نا۔” تب شیطان خداوند کے پاس سے چلا گیا۔
13 ایک دِن ایوب کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے سب سے بڑے بھائی کے گھر کھا نا کھا رہے تھے اور مئے نوشی کر رہے تھے۔
14 تبھی ایوب کے پاس ایک قاصد آیا اور بولا ” بیل ہل کھینچ رہے تھے اور گدھے ان کے پاس چر رہے تھے۔
15 تبھی سبا کے لوگوں نے ہم پر حملہ کر دیا اور آپ کے جانوروں کولے گئے ! مجھے چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسرے سبھی نوکروں کو تہہ تیغ کر دیا۔ آپ کو یہ خبر دینے کے لئے صرف میں ہی بچ کر بھاگ نکلا ہوں۔”
16 ابھی وہ قاصد ایوب کو خبر سنا ہی رہا تھا کہ دوسرا قاصد اس سے ملنے وہاں آ پہنچا اور ایک خبر سنائی۔ دوسرے قاصد نے کہا ” آسمان سے بجلی گری اور آپ کی بھیڑوں اور نوکروں کو جلا دیا۔ ایک میں ہی ہوں جو بچ نکلا ہوں اس لئے میں آپ کو یہ خبر دینے آیا۔”
17 ابھی وہ قاصد اپنی خبر سنا ہی رہا تھا کہ تیسرا قاصد وہاں آیا۔ اس تیسرے قاصد نے کہا ” کسدی کے لوگوں نے فوجوں کی تین ٹولیاں بھیجی تھیں اور ہم پر حملہ کیا۔ وہ اونٹوں کولے گئے اور آپ کے نوکروں کو ہلاک کر دیا۔ ایک میں ہی ہوں جو بھاگ نکلا اور اس لئے میں آپ کو یہ خبر دینے آیا۔”
18 وہ ابھی یہ کہہ ہی رہا تھا کہ چو تھا قاصد آ کر کہنے لگا آپ کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے بڑے بھائی کے گھر میں کھا نا کھا رہے تھے اور مئے نوشی کر رہے تھے۔
19 اچانک ریگستان سے ایک آندھی چلی اور گھر کے چاروں کونوں سے ٹکرائی۔ گھر آپ کے بیٹے اور بیٹیوں پر ڈھہ گیا اور وہ سبھی مر گئے۔ ایک میں ہی ہوں جو بچ نکلا اس لئے میں یہ خبر آپ کو دینے آیا ہوں ! ”
20 تب ایوب اٹھ کر اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور سر منڈوائے اور زمین پر گر پڑے اور خدا کی پرستش کی۔
21 اس نے کہا : ” میں جب اس دنیا میں پیدا ہوا تھا تب میں ننگا تھا ” میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں تھا۔ جب میں یہ دنیا چھوڑوں گا تب میں پھر برہنہ ہوں گا اور میرے پاس کچھ بھی نہ ہو گا۔ خداوند ہی دیتا ہے اور خداوند ہی لیتا ہے۔ خداوند کے نام کی تعریف کرو۔”
22 یہ ساری باتیں ہوئی لیکن ایوب نے نہ تو گناہ کئے اور نہ ہی اس نے خدا پر الزام لگائے۔
باب: 2
1 پھر ایک دِن خدا کے فرشتے آئے کہ خداوند کے حضور حاضر ہوں۔ شیطان بھی ان کے ساتھ تھا۔شیطان خداوند سے ملنے آیا تھا۔
2 خداوند نے شیطان سے پو چھا ” تُو کہاں سے آیا ہے ؟ ” شیطان نے جواب دیتے ہوئے خداوند سے کہا ” میں زمین پر اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہوں۔”
3 تب خداوند نے شیطان سے پو چھا "کیا تُو نے میرے خادم ایوب کو دیکھا ہے ؟ روئے زمین پر اس کے جیسا کوئی اور شخص نہیں ہے وہ بے گناہ ہے اور راستباز ہے۔ وہ اب بھی بے گناہ ہے وہ خدا کی عبادت کرتا ہے اور بدی سے دُور رہتا ہے۔ یہاں تک کہ تُو نے مجھ کو اُکسایا کہ بلا وجہ اس کے ہر ایک چیزوں کو تباہ کر دوں۔”
4 شیطان نے خداوند کو جواب دیا "چمڑے کے بدلے چمڑا! لیکن انسان اپنا سب کچھ جو کہ اس کے پاس ہے اپنی جان بچانے کے لئے لُٹا دے گا۔
5 لیکن اگر تم اس کے جسم کو نقصان پہنچاؤ گے تو وہ تیرے منہ لعنت کرے گا۔”
6 تب خداوند نے شیطان سے کہا "اچھا میں ایّوب کو تیرے حوالے کرتا ہوں مگر تجھے اسے مار ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ ”
7 تب شیطان خداوند کے سامنے سے چلا گیا اور ایّوب کے جسم کو سر سے پیر کے تلوے تک دردناک پھوڑوں سے بھر دیا۔
8 تب ایّوب کوڑے کے ڈھیر کے پاس بیٹھ گئے۔ اور ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن کے ایک ٹکڑے سے اپنے پھوڑوں کو کھُر چنے لگے۔
9 ایّوب کی بیوی نے اس سے کہا "کیا تو اب بھی خداوند کا وفادار رہے گا؟ تُو خدا پر لعنت کر اور مر جا! ”
10 ایّوب نے اپنی بیوی کو جواب دیا "تم ایک بیوقوف اور شریر عورت کی طرح بات کر تی ہو! جب خداوند اچھی چیز دیتا ہے ہم انہیں قبول کرتے ہیں۔اسی طرح سے تمہیں تکلیفوں کو بھی بنا شکایت کے ضرور برداشت کرنی چاہئے۔ ” ان ساری باتوں کے باوجود بھی ایوب نے گناہ نہیں کیا۔ وہ خدا کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولے۔
11 ایوّب کے تین دوست تھے : تیمان کا اِلیفاز سُوخ کا بِلدد اور نعمات کا ضو فر۔ان تینوں دوستوں نے ان ساری مصیبتوں کے بارے میں جو اس پر آئی تھی سُنا۔ یہ تینوں دوست اپنا گھر چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے سے ملے۔ انہوں نے ایّوب سے ملنے کا فیصلہ کیا کہ جا کر ان کے ساتھ ہمدردی کریں اور انہیں تسلی دیں۔
12 لیکن جب ان تینوں دوستوں نے ایوب کو دور سے دیکھا تو وہ انہیں پہچان نہیں پائے۔ وہ اتنا الگ دکھائی دیا! وہ چلا کر رونے لگے۔ اپنے غموں کو ظاہر کرنے کے لئے انہوں نے اپنے کپڑوں کو پھاڑ ڈالے اور ہوا میں اور اپنے سروں پر دھول پھینکے۔
13 پھر وہ تینوں دوست ایوب کے ساتھ سات دِن اور سات رات تک زمین پر بیٹھے رہے۔ ایوب سے کسی نے ایک لفظ تک نہیں کہا کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ایّوب بھیانک مصیبت میں مبتلا ہیں۔
باب : 3
1 ایوب نے مُنہ کھولا اور اس دِن پر لعنت کرنے لگا جب وہ پیدا ہوا تھا۔
2 اس نے کہا ” کاش! جس دن میں پیدا ہوا تھا نیست و نابود ہو جا تا۔کاش! وہ رات کبھی نہ آئی ہو تی جب ان لوگوں نے کہا تھا کہ دیکھو بیٹا ہوا ہے۔
3
4 کاش! وہ دِن اندھیرا ہو جا تا۔کاش! خدا اس دن کو بھول جا تا۔کاش! اس دن روشنی نہ چمکی ہو تی۔
5 کاش! وہ دن اندھیرا ہی رہتا اتنا ہی جتنی کہ موت ہے۔ کاش! بادل اس دن کو گھیرے رہتے۔ کاش! جس دن میں پیدا ہوا کالے بادل روشنی کو ڈرا کر بھگا سکتے۔
6 گہری تاریکی کو اس رات کو گھیر لینے دو۔کلینڈر سے اس رات کو ہٹا دو۔اسے کسی مہینے میں شامل نہ کرو۔
7 وہ رات بانجھ ہو جائے۔ کوئی بھی خوشی کی صدا اس رات کو سنائی نہ دے۔
8 کچھ جا دو گر ہمیشہ لبیا تھان ( سمندری دیو ) کو جگانا چاہتے ہیں۔اس لئے انہیں اس دن پر جس دن میں پیدا ہوا تھا لعنت کرنے دے۔
9 صبح کے تارے کو کا لا ہونے دو اس رات کو صبح کا انتظار کرنے دو لیکن وہ روشنی کبھی نہ آئے۔ اسے سورج کی پہلی شعاع دیکھنے مت دو۔
10 کیونکہ اس رات نے مجھے پیدا ہونے سے نہیں روکا۔اس رات نے مجھے مصیبت جھیلنے سے نہ رو کا۔
11 میں اسی دن کیوں نہیں مر گیا جب میں پیدا ہوا تھا؟ جنم کے وقت ہی میں کیوں نہ مر گیا؟
12 کیوں میری ماں نے مجھے گود میں رکھا؟ کیوں میری ماں کی چھاتیوں نے مجھے دودھ پلا یا۔
13 اگر میں تبھی مر گیا ہوتا جب میں پیدا ہوا تھا تو ابھی میں سلامتی سے ہو تا۔کاش! میں سوتا رہتا اور آرام پا تا۔
14 زمین کے بادشاہوں اور عقلمند لوگوں کے ساتھ جنہوں نے اپنے لئے محل بنوائے تھے وہ اب فنا ہو گئے ہیں۔
15 کاش میں ان حکمرانوں کے ساتھ دفنایا جاتا جن کے پاس سونا تھا اور ان حکمرانوں کے ساتھ جنہوں نے اپنے گھروں کو چاندی سے بھر رکھا تھا۔
16 میں ایسا بچہ کیوں نہیں تھا جو پیدائش کے وقت ہی مر گیا اور زمین کے اندر دفنا یا گیا؟ کاش! میں ایک ایسا بچہ ہوتا جس نے کبھی دن کی روشنی کو نہیں دیکھا۔
17 شریر لوگ مصیبت دینا تب چھوڑتے ہیں جب وہ قبر میں ہوتے ہیں۔ اور تھکے ہوئے لوگ قبر میں پورا آرام پاتے ہیں۔
18 یہاس تک کہ قیدی بھی قبر میں تسکین پاتے ہیں کیونکہ وہاں وہ اپنے پہرے داروں کی آواز نہیں سنتے ہیں۔
19 سبھی لوگ چا ہے وہ خاص ہو یا عام قبر میں ہوتے ہیں۔ وہاں ایک غلام بھی اپنے مالک سے آزاد ہوتا ہے۔
20 ” کوئی شخص زیادہ مصیبتوں کے ساتھ زندہ کیوں رہے ؟ ایسے شخص کو جس کا دِل کڑواہٹ سے بھرا رہتا ہے اسے کیوں زندگی دی جا تی ہے ؟
21 وہ شخص مرنا چاہتا ہے لیکن موت نہیں آتی۔ ایسا دُکھی شخص موت کو چھپے ہوئے خزانہ سے بھی زیادہ تلاش کرتے ہیں۔
22 ویسے لوگ بہت زیادہ خوش ہوں گے جب وہ اپنی قبر کو پائیں گے۔ اور وہ اپنے مزار کو پا کر خوشی منائیں گے۔
23 لیکن خدا ان لوگوں کے مستقبل کو پوشیدہ رکھتا ہے اور ان کے چاروں طرف حفاطت کے لئے دیوار بناتا ہے۔
24 کھانے کے وقت میں کراہتا ہوں اور میری شکایت پانی کی طرح جاری ہے۔
25 میں ڈرا ہوا تھا کہ کچھ خوفناک باتیں میرے ساتھ ہوں گی۔ اور وہی ہوا جن باتوں سے میں سب سے زیادہ ڈرا ہوا تھا وہی باتیں میرے ساتھ ہو ئی۔
26 میں چین سے نہیں رہ سکتا مجھے راحت نہیں مل سکتی۔ میں آرام نہیں کر سکتا۔ میں بہت زیادہ مصیبت میں ہوں۔ ”
باب: 4
1 تب تیمان کا الیفاز نے جواب دیا :” مجھے کچھ کہنا ہے اگر میں بولنے کی کوشش کروں تو کیا تُو اس سے ناراض ہو گا؟
2
3 اے ایوب! تو نے بہت سے لوگوں کو تعلیم دی اور کمزور ہاتھوں کو تو نے قوّت دی۔
4 تمہارے الفاظوں نے ان لوگوں کی مدد کی جو گِرنے والے تھے۔ تم نے ان لوگوں کو طاقتور بنایا جو خود سے کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔
5 لیکن اب تم پر مصیبت آ گئی ہے اور تم بے دِل ہو گئے ہو۔مصیبت تم پر پڑی اور تم گھبرا گئے۔
6 تُو خدا کی عبادت کرتا ہے اور اس پر بھروسہ رکھتا ہے۔ تُو ایک بھلا شخص ہے۔ اس لئے اس کو تُو اپنی امید بنا لے۔
7 ایّوب! اس بات کو دھیان میں رکھ کہ معصوم لوگوں کو کبھی بھی برباد نہیں کیا گیا اور نہ ہی راستباز شخص کو کبھی تباہ کیا گیا ہے۔
8 میں نے تو ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو مصیبتیں کھڑی کرتے ہیں اور دوسروں کی زندگی کو ناقابل برداشت بناتے ہیں تو ایسے لوگ ہمیشہ سزا پاتے ہیں۔
9 خدا کی سزا ان لوگوں کو مار ڈالتی ہے۔ اور اس کا قہر انہیں ہلاک کرتا ہے۔
10 وہ لوگ شیروں کی طرح گرجتے اور دھاڑتے ہیں مگر خدا اس طرح کے لوگوں کو خاموش کر دیتا ہے اور اس کے دانتوں کو توڑ دیتا ہے۔
11 بُرے لوگ ان شیروں کی مانند ہوتے ہیں جن کے پاس شِکار کے لئے کچھ بھی نہیں ہو تا۔ وہ مر جائیں گے اور ان کے بچے بکھر جائیں گے۔
12 ” میرے پاس ایک خبر خفیہ طور پر پہنچائی گئی اور میرے کانوں میں اس کی بھِنک پڑی۔
13 رات کے بُرے خواب کی طرح اس نے میری نیند اُڑا دی ہے۔
14 میں خوفزدہ ہوا تھا اور کانپ رہا تھا۔ میری سب ہڈیاں لرز گئیں۔
15 میری آنکھوں کے سامنے سے ایک رُو ح گزری جس سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
16 وہاں رُو ح اب تک کھڑی ہے۔ لیکن میں دیکھنے کے قابل نہیں تھا کہ وہ کیا تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک صورت کھڑی تھی اور وہاں سناٹا تھا۔ تب میں نے ایک بہت ہی پر سکون آواز سنی :
17 اس نے کہا آدمی خدا سے زیادہ صحیح نہیں ہو سکتا۔آدمی اپنے خالق سے زیادہ کبھی بھی پاک نہیں ہو سکتا۔
18 خدا اپنے آسمانی خادموں پر بھی بھروسہ نہیں کرتا ہے۔ خدا اپنے فرشتوں میں بھی حماقت کو ڈھونڈ لیتا ہے۔
19 اس لئے لوگ اور بھی بُرے ہیں ! لوگ کچی مٹی کے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کی بُنیاد دھول پر رکھی گئی ہے۔ ان لوگوں کو پتنگوں سے بھی زیادہ آسانی سے مسل کر مارا جاتا ہے !
20 لوگ صبح سے شام تک ہلاک ہوتے ہیں۔ اور کوئی بھی ان پر دھیان تک نہیں دیتا ہے۔ وہ مر جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔
21 ان کے خیموں کی رسیوں کو کھینچ لی جا تی ہے اور وہاں لوگ بغیر دانائی کے مر جاتے ہیں۔
باب: 5
1 ” ایّوب! اگر تم زور سے پکارنا چاہتے ہو تو تم ایسا کر سکتے ہو لیکن کوئی بھی تمہاری باتوں کا جواب نہیں دے گا۔ تم کسی بھی فرشتے کی جانب مدد کے لئے نہیں مڑ سکتے۔
2 ایک احمق آدمی کا غصہ اسے بر باد کر دے گا۔ احمق کے شدید جذبات اسے بر باد کر دیں گے۔
3 میں نے ایک بے وقوف شخص کو دیکھا جو سوچتا تھا کہ وہ محفوظ ہے مگر وہ اچانک مر گیا۔
4 اس کے بچوں کی مدد کوئی نہیں کیا۔ عدالت میں ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔
5 اس کی فصل کو بھو کے لوگ کھا گئے۔ یہاں تک کہ وہ بھو کے لوگ کانٹوں کی جھاڑ یوں کے بیچ اگے چھوٹے پودوں کو بھی لے گئے۔ جو کچھ بھی اس کے پاس تھا اسے لالچی لوگ اٹھا لے گئے۔
6 برا وقت مٹی سے نہیں نکلتا ہے اور نہ ہی مصیبت میدانوں سے اگتی ہے۔
7 آدمی کا جنم ہی دکھ جھیل نے کے لئے ہوا ہے۔ یہ اتنا ہی یقینی ہے جتنا کہ آ گ سے چنگاری کا اوپر اٹھنا یقینی ہے۔
8 ” لیکن ایّوب اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو میں خدا سے مدد مانگتا اور ان سے اپنا حال کہہ سنا تا۔
9 لوگ ان حیرت انگیز باتوں کو جنہیں خدا کرتا ہے سمجھ نہیں سکتے ہیں ان معجزوں کا جسے خدا کرتا ہے کوئی انتہا نہیں ہے۔
10 خدا زمین پر بارش کو بھیجتا ہے اور وہی کھیتوں کو پانی بھیجا کرتا ہے۔
11 خدا فرماں بردار لوگوں کو اوپر اٹھاتا ہے اور مایوس لوگوں کو شادمانی بخشتا ہے۔
12 خدا چالاک اور برے لوگوں کے منصوبوں کو روک دیتا ہے۔ اس لئے یہ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
13 خدا چالاک لوگوں کو انہی کے جالوں میں پھنساتا ہے۔ اس لئے ان کے منصوبے کامیاب نہیں ہوتے۔
14 وہ چالاک لوگ دن کی تیز روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دو پہر میں بھی وہ اندھیرے میں اپنا راستہ ٹٹولتے ہوئے لوگوں کی مانند کرتے ہیں۔
15 خدا مفلسوں کو موت سے بچاتا ہے اور انہیں زبردست و چالاک لوگوں کی قوت سے بچاتا ہے۔
16 اس لئے مسکینوں کو امید ہے کہ خدا شریر لوگوں کو نیست و نابود کرے گا جو راست نہیں ہیں۔
17 ” وہ آدمی جس کی تربیت خدا کرتا ہے با فضل ہے۔ اس لئے اگر خدا قادر مطلق سزا دے رہا ہے تو اس کی تربیت کو رد نہ کرو۔
18 خدا اس زخم پر پٹی باندھتا ہے جنہیں وہ دیتا ہے : وہ کسی آدمی کو زخمی بھی کر سکتا ہے لیکن اس کا ہاتھ اچھا بھی ہو جاتا ہے۔
19 وہ تجھے چھ مصیبتوں سے بچائے گا۔ ہاں ! اگر تم سات تباہی بھی جھیلو گے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
20 قحط سالی کے وقت خدا تجھے موت سے بچائے گا اور وہ جنگ کے وقت موت سے تجھے بچائے گا۔
21 جب لوگ اپنی سخت زبان سے تجھ سے بات کریں گے تب خدا تیری حفاظت کرے گا۔ جب بری باتیں ہو گی تب تم نہیں ڈرو گے۔
22 ہلاکت اور قحط سالی پر تو ہنسے گا اور تو جنگلی جانوروں سے کبھی خوف زدہ نہ ہو گا۔
23 تیرا معاہدہ خدا کے ساتھ ہے یہاں تک کہ میدانوں کی چٹانیں بھی تیرے معاہدہ میں حصہ لیتی ہیں۔ جنگلی جانور بھی تیرے ساتھ امن رکھتے ہیں۔
24 تو سلامتی سے رہے گا کیوں کہ تیرا خیمہ محفوظ ہے۔ جب تم اپنی جائیداد کی گنتی کرو گے تب تم کوئی چیز غائب نہ پاؤ گے۔
25 تیری بہت اولاد ہوں گی تجھے بہت ساری اولاد ہوں گی اور وہ اتنی زیادہ ہوں گی جتنی کہ گھاس کی پتیاں زمین پر ہیں۔
26 تو اس پکے گیہوں جیسا ہو گا جو کٹائی کے وقت تک پکتا رہتا ہے۔ تو کافی لمبی عمر تک زندہ رہے گا۔
27 ” ایّوب! ہم نے ان باتوں کا مطالعہ کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری باتیں سچی ہیں۔ اس لئے ہم لوگوں کی سنو اور اپنے لئے سیکھو۔”
باب: 6
1 تب ایوب نے جواب دیا :
2 3 تم میرے غموں کو سمجھو گے۔ میرے غم سمندروں کے سبھی ریتوں سے زیادہ بھاری ہوں گے۔ اس لئے میرے الفاظ حماقت آمیز لگتے ہیں۔
4 جیسے خدا قادر مطلق کے تیروں نے میرے جسم کو چھید دیا ہے میری جانا سکے زہر سے متاثر ہو ئی۔ خدا کے بھیانک ہتھیار میرے خِلاف صف بند ہو گئے ہیں۔
5 تیرے الفاظ کہنے کے لئے آسان ہیں جب کچھ بھی بُرا نہیں ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ایک جنگلی گدھا شکایت نہیں کرتا ہے۔ جب اسے گھاس مِل جا تی ہے اور ایک گائے بھی تب تک شکایت نہیں کرتی جب تک اس کے پاس کھانے کے لئے چارہ ہے۔
6 بغیر نمک کا کھانا بے مزہ ہوتا ہے اور انڈے کی سفیدی بھی بے مزہ ہو تی ہے۔
7 میں اس کھانے کو چھونا پسند نہیں کرتا ہوں۔ اس طرح کا کھا نا مجھے بیمار کرتا ہے۔ ( میرے لئے تمہارے الفاظ ٹھیک اسی طرح کے ہیں۔)
8 ” کاش ” وہ مجھے مل پاتا جو میں نے مانگا ہے۔ کاش! خدا مجھے دے دیتا جس کی مجھے خواہش ہے۔
9 کاش! مجھے خدا کچل دیتا وہ اپنے ہاتھ بڑھاتا اور مجھے مار دیتا۔
10 اگر وہ مجھے مار دیتا مجھے ایک چیز کے بارے میں تسلی مل گئی ہو تی مجھے خوشی محسوس ہوتی کہ میں نے ان ساری تکلیفوں کے با وجود کبھی بھی قدوس کے احکاموں کی نافر مانی نہیں کی۔
11 ” میری قوت ختم ہو چکی ہے اس لئے مجھے اور زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ مجھ کو پتہ نہیں کہ آخر میں میرے ساتھ کیا ہو گا؟ اسی طرح میرے پاس صبر کرنے کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے۔
12 میں چٹان کی مانند مضبوط اور سخت نہیں ہوں۔ اور نہ ہی میرا جسم پیتل سے بنا یا گیا ہے۔
13 اب تو مجھ میں اتنی قوت بھی نہیں کہ میں خود کی مدد کروں۔ کیوں کہ مجھ سے کامیابی چھین لی گئی ہے۔
14 ” ایک شخص کے دوست کو رحم دل ہونا چاہئے جب وہ مصیبت میں ہو۔ ایک شخص کو اپنے دوست کا وفا دار ہونا چاہئے اگر وہ خداوند قادر مطلق سے مُڑ بھی جاتا ہے تو بھی۔
15 لیکن میرے بھا ئیو تم وفا دار نہیں رہے ہو۔ میں تم پر انحصار نہیں کر سکتا ہوں۔ تم ایسے جھرنوں کی مانند ہو جو کبھی بہتا ہے اور کبھی نہیں بہتا ہے۔ تم اس جھرنے کی مانند ہو جو امڈ پڑتا ہے۔
16 جب وہ برف سے اور پگھلے ہوئے برف سے بند ہو جاتے ہیں۔
17 اور جب موسم گرم اور سو کھا ہوتا ہے تب پانی بہنا بند ہو جاتا ہے اور جھرنے سوکھ جاتے ہیں۔
18 تاجروں کے قافلے بیا باں میں اپنی راہوں سے بھٹک جاتے ہیں اور وہ فنا ہو جاتے ہیں۔
19 تیما کے تاجروں کے قافلے پانی کو کھوجتے رہے اور سبا کے کارواں امید میں دیکھتے رہے۔
20 انہیں یقین تھا کہ انہیں پانی ملے گا مگر انہیں مایوسی ملی تھی۔
21 اب تم ان جھرنوں کی مانند ہو۔ تم میری مصیبتوں کو دیکھتے ہو اور خوفزدہ ہو۔
22 کیا میں نے تم سے مدد مانگی؟ کیا میں نے تمہیں تمہاری دولت کو اپنی خاطر استعمال کرنے کو کہا؟
23 کیا میں نے تم سے کہا تھا کہ دشمنوں سے مجھے بچاؤ اور مغرور لوگوں سے میری حفاظت کرو۔
24 ” میں خاموش رہوں گا اس لئے مجھے بتاؤ کہ میں نے کیا غلطی کی ہے۔
25 سچّی باتیں طاقتور ہوتی ہیں لیکن تمہارا بحث و مباحثہ کیا ثابت کرے گا۔
26 کیا تم میری تنقید کرنے کا منصوبہ بناتے ہو؟ کیا تم اس سے بھی زیادہ مایوس کن الفاظ بولو گے ؟
27 یہاں تک کہ تم یتیم بچوں کی بھی چیزوں کو قرعہ ڈال کر ہڑپنا چاہتے ہو گے۔ یہاں تک کہ تم اپنے دوست کو بھی بیچ ڈالو گے۔
28 اس لئے ذرا میرے چہرے کو پر کھو تمہاری موجودگی میں میں ہر گز جھوٹ نہ بولوں گا۔
29 اس لئے اب اپنے ذہن کو تبدیل کرو۔ نا انصافی مت کرو پھر سے ذرا سوچو کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔
30 میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں اچھے اور غلط میں فرق کر سکتا ہوں۔”
باب: 7
1 2 آدمی اس غلام کے جیسا ہے جو تپتے ہوئے دن میں سخت محنت کرتا ہے اور اس کے بعد چھاؤں کی خواہش کرتا ہے۔ آدمی اس کِرائے کے مزدور کے جیسا ہے جو اپنی سخت محنت کی مزدوری کا منتظر رہتا ہے۔
3 مایوسی کے مہینے گزر گئے۔ میں نے تکلیفوں کی راتیں جھیلی ہیں۔
4 جب کبھی بھی میں بستر پر لیٹتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں۔ ” ابھی اور کتنی دیر ہے مجھے اٹھنا ہو گا۔” رات گھسیٹتی چلی جا رہی ہے اور دن نکلنے تک میں بستر پر بے چین ہوں۔
5 میرا جسم کیڑوں اور کیچڑ سے ڈھکا ہے۔ میرا چمڑا پھٹ گیا ہے اور بہتے پھوڑا پھنسی سے ڈھک گیا ہے۔
6 ” میرے دن جلا ہے کی پھر کی سے بھی تیز رفتار سے گزرتے ہیں اور میری زندگی بغیر امید کے گزر جا تی ہے۔
7 خدا یاد رکھ میری زندگی محض ایک پھونک ہے۔ میری آنکھیں کبھی بھی کوئی اچھی چیز دوبارہ نہیں دیکھے گی۔
8 تو مجھے پھر سے نہیں دیکھ پائے گا تو مجھ کو ڈھونڈے گا۔ لیکن تب تک میں جا چکا ہوں گا۔
9 جیسا کہ ایک بادل غائب ہو جاتا ہے اس طرح ایک شخص جو مر جاتا اور قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے وہ پھر واپس نہیں آئے گا۔
10 وہ اپنے پرانے گھر کو واپس کبھی نہیں لوٹے گا۔ اس کا گھر اس کو پھر اور کبھی بھی نہیں جانے گا۔
11 "اس لئے میں چُپ نہیں رہوں گا۔ میں سب کچھ کہہ ڈالوں گا۔ میری روح تکلیف زدہ ہے اور میری جان تلخیوں سے بھری ہوئی ہے اسی لئے میں شکایت کروں گا۔
12 اے خدا! تو میری رکھوالی کیوں کرتا ہے ؟ کیا میں ایک سمندر یا سمندری دیو ہوں۔
13 میرے بستر کو چاہئے کہ مجھے آرام دے اور میرے پلنگ کو چاہئے کہ مجھے سکون اور آرام دے۔
14 لیکن اے خدا! تو مجھے خواب میں ڈراتا ہے اور رویاؤں سے مجھے لرزا دیتا ہے۔
15 اس لئے مجھے زندہ رہنے سے موت کو گلے لگا نا زیادہ پسند ہے۔
16 میں اپنی زندگی سے نفرت کرتا ہوں۔ میں اسے چھوڑ دوں گا۔ میں اب جینا نہیں چاہتا مجھے اکیلا چھوڑو! میری زندگی میرے لئے بے معنیٰ ہو گئی ہے۔
17 اے خدا! انسان تیرے لئے کیوں اتنا اہم ہے ؟ تمہیں اس کی تعظیم کیوں کرنی چاہئے ؟ تو نے اس پر توجہ بھی کیوں دیا؟
18 ہر صبح کیوں تو انسان کے پاس آتا ہے اور ہر پل تو کیوں اسے پر کھا کرتا ہے ؟
19 اے خداوند تو مجھے دیکھنے سے کبھی نہیں رکتا ہے۔ تو کبھی ایک سیکنڈ کے لئے بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا۔
20 خدا! تو لوگوں پر نگاہ رکھتا ہے اگر میں نے گناہ کیا تو اب میں کیا کر سکتا ہوں ؟ میں تمہارا نشانہ کیوں بن گیا؟ کیا میں تیرے لئے مسئلہ بن گیا ہوں ؟
21 تو میرے گناہ کو کیوں نہیں معاف کرتا؟ میں جلد ہی مر جاؤں گا اور اپنی قبر میں چلا جاؤں گا۔ جب تو مجھے تلاش کرے گا میں ہمیشہ کے لئے چلا جاؤں گا۔”
باب: 8
1 اس کے بعد سوخ کے بلدد نے جواب دیتے ہوئے کہا
2 ” تو کب تک ایسی باتیں کرتا رہے گا؟ تیرے الفاظ تیز آندھی کی طرح بہہ رہے ہیں۔
3 خدا ہمیشہ انصاف کرتا ہے۔ عدل پر مبنی باتوں کو خدا قادر مطلق کبھی نہیں بدلتا ہے۔
4 اس لئے اگر تیری اولاد نے خدا کے خلاف گناہ کیا ہے تو اس نے انہیں سزا دی ہے۔ اپنے گناہوں کے لئے انہیں بھگتنا پڑا ہے۔
5 لیکن اب یہ وقت تمہیں خدا کو تلاش کرنے اور خدا قادر مطلق کی عبادت کرنے کا ہے۔
6 اگر تو پاک اور راستباز ہے تو وہ جلد ہی تمہاری مدد کرنے آئے گا۔ وہ تمہاری زمین داری کو پھر سے بحال کرے گا جو کہ تمہارا حق ہے۔
7 تب تمہارے پاس اس سے زیادہ ہو گا جتنا کہ تمہارے پاس شروع میں تھا۔
8 ” بزر گ لوگوں سے پو چھو اور سیکھو جو کچھ ان کے آباء و اجداد نے سیکھا تھا۔
9 کیوں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم تو بس کل ہی پیدا ہوئے ہیں ہم لوگ اتنے چھوٹے ہیں کہ کچھ جان نہیں سکتے ہیں۔ اس زمین پر ہم لوگوں کا دن سایہ کی مانند بہت چھوٹا ہے۔
10 یہ ہو سکتا ہے کہ بزر گ لوگ شا ید تجھے کچھ سکھا سکیں۔ ہو سکتا ہے جو انہوں نے سیکھا ہے وہ تجھے سِکھا سکیں۔”
11 بِلدد نے کہا ” کیا پیپرس کا پودا خشک زمین میں اُگ سکتا ہے ؟ کیا سر کنڈا بغیر پانی کے بڑھ سکتا ہے ؟
12 نہیں اگر پانی سوکھ جاتا ہے تو وہ بھی مرجھا جائیں گے۔ وہ اتنا چھوٹا ہو گا کہ اسے کاٹ کر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
13 وہ شخص جو خدا کو بھول جاتا ہے سر کنڈے کی مانند ہوتا ہے۔ وہ شخص جو خدا کو بھول جاتا ہے اس کی کوئی امید نہیں۔
14 اس شخص کے پاس سہارے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور اس کی حفاظت مکڑی کے جال کی مانند ہے۔
15 اگر کوئی شخص مکڑی کے جال پر ٹیک لگاتا ہے تو کیا جال ٹوٹ جائے گا۔ وہ جال کو پکڑتا ہے لیکن جال اس کو سہارا نہیں دے گا۔
16 وہ شخص اس پودے کی مانند ہے جس کے پاس پانی اور سورج کی روشنی بہتات سے ہے۔ اس کی شاخیں باغ میں ہر طرف پھیلتی ہیں۔
17 وہ چٹان کے ڈھیر کے چاروں جانب اپنی جڑیں پھیلاتا ہے اور چٹان کے درمیان اگنے کے لئے کوئی جگہ ڈھونڈتا ہے۔
18 لیکن جب وہ پودا اپنی جگہ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے تو کوئی نہیں جان پاتا کہ وہاں کبھی کوئی پودا تھا۔
19 لیکن وہ پودا خوش تھا اور اب دوسرے پودے وہاں اُگیں گے جہاں پہلے وہ پودا تھا۔
20 لیکن خدا کسی بھی معصوم شخص کو قربان نہیں کرے گا اور وہ برے شخص کو سہارا نہیں دے گا۔
21 خدا ابھی بھی تیرے منھ کو ہنسی سے اور تیرے لبوں کو خوشی کی للکار سے بھر دے گا۔
22 لیکن شرمندگی تمہارے دشمنوں کے کپڑے ہوں گے۔ اور برے لوگوں کے گھر کو تباہ کر دیا جائے گا۔”
باب: 9
1 پھر ایّوب نے جواب دیا :
2 ” ہاں میں جانتا ہوں کہ تُو سچ کہتا ہے۔ مگر انسان خدا کے ساتھ کیسے بحث کر کے جیت سکتا ہے ؟
3 انسان خدا سے بحث نہیں کر سکتا۔خدا انسان سے ہزاروں سوال کر سکتا ہے اور انسان ان میں سے ایک کا بھی جواب نہیں دے سکتا ہے۔
4 خدا بہت عقلمند بہت زور آور ہے۔ ایسا کوئی شخص نہیں جو خدا سے لڑ سکے اور نقصان بھی نہ اٹھائے۔
5 جب خدا غضبناک ہوتا ہے وہ پہاڑوں کو ہٹا دیتا ہے اور وہ اسے پتا بھی نہیں چلتا ہے۔
6 خدا زمین کو ہلانے کے لئے زلزلہ بھیجتا ہے۔ خدا زمین کی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔
7 خدا آفتاب کو حکم دے سکتا ہے اور طُلوع سے روک سکتا ہے۔ وہ تاروں کو چمکنے سے روک سکتا ہے تا کہ وہ چمک نہ سکیں۔
8 صرف خدا نے ہی آسمانوں کو بنا یا ہے۔ وہ سمندر کی لہروں پر چہل قدمی کر سکتا ہے۔
9 ” خدا نے بنات النعش اور جبّار اور ثرّیا اور ان سیاروں کو جو جنوبی آسمانوں کو پار کرتے ہیں بنائے ہیں۔
10 خدا ایسا تعجب خیز کام کر سکتا ہے جنہیں انسان نہیں سمجھ سکتا۔ خدا کے عظیم معجزے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
11 اگر خدا میرے بغل سے گذرتا ہے تو میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔ اگر خدا میرے بغل سے جاتا ہے تو بھی میں اسے نہیں جان سکتا۔
12 اگر خدا کچھ لے لینا چاہتا ہے۔ کوئی بھی اسے روک نہیں سکتا۔ کوئی بھی اس سے کہہ نہیں سکتا کہ تُو کیا کر رہا ہے ؟
13 خدا اپنے قہر کو روکے گا۔ یہاں تک کہ رہب کے حمایتی بھی خدا سے ڈرتے ہیں۔
14 اس لئے میں خدا سے بحث نہیں کر سکتا۔ اسے کیا کہنا چاہئے نہیں جانتا۔
15 میں معصوم ہوں لیکن میں خدا کو جواب دے نہیں سکتا۔ میں اپنے حاکم ( خدا ) سے صرف رحم کی بھیک مانگ سکتا ہوں۔
16 اگر میں پکاروں اور وہ جواب دے تب بھی مجھے یقین نہیں ہو گا کہ وہ سچ مچ میں میری سنے گا۔
17 خدا مجھے کچلنے کے لئے طوفان بھیجے گا اور وہ مجھے بے سبب ہی اور زیادہ زخموں کو دے گا۔
18 خدا مجھے پھر سے سانس نہیں لینے دے گا۔ وہ مجھے اور زیادہ مصیبت دے گا۔
19 میں خدا کو شکست نہیں دے سکتا۔ اس کے پاس عظیم طاقت ہے۔ میں خدا کو عدالت تک نہیں گھسیٹ سکتا اسے اپنے ساتھ منصف رہنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا؟ خدا کو عدالت میں آنے کے لئے کون مجبور کر سکتا ہے ؟
20 میں معصوم ہوں لیکن میں جو باتیں کہتا ہوں وہ مجھے ناکا رہ کر دیتی ہے۔ میں معصوم ہوں لیکن میں اگر بولتا ہوں تو میرا منہ مجھے قصور وار ثابت کرتا ہے۔
21 میں معصوم ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا سوچنا چاہئے۔ میں اپنی زندگی سے نفرت کرتا ہوں۔
22 اس لئے میں کہتا ہوں ‘ایسا ہی سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ معصوم آدمی قصوروار کی طرح مر جاتا ہے خدا سبھوں کو تباہ کر دیتا ہے۔
23 اگر کوئی ایسی بھیانک بات ہو تی ہے جس میں ایک معصوم شخص مارا جاتا ہے تو کیا خدا اس پر یوں ہی ہنستا ہے۔
24 جب زمین بُرے لوگوں کے حوالے کی جا تی ہے تو کیا حاکم کو خدا اندھا کر دیتا ہے ؟ اگر خدا اسے نہیں کرتا ہے تو پھر کس نے اسے کیا ہے ؟
25 "میرے دن دوڑنے وا لوں سے بھی زیادہ تیز گزرتے ہیں۔میرے دن اڑتے ہوئے گزرتے ہیں اور ان میں کوئی خوشی نہیں ہے۔
26 میرے دن کاغذ کی کشتی کی طرح اور اس عُقاب کی مانند جو شکار پر جھپٹتا ہے نکل گئے۔
27 اگر میں کہوں ” میں شکایت نہیں کروں گا۔میں اپنا درد بھول جاؤں گا۔میں خوش ہوؤں گا۔
28 اصل میں اس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑے گا۔ تکلیف مجھے آج بھی خوفزدہ کر تی ہے۔
29 مجھے تو پہلے سے ہی مجرم ٹھہرا یا جا چکا ہے اس لئے میں کیوں جتن کرتا رہوں ؟ اس لئے میں تو کہتا ہوں ” بھول جاؤ اسے ! ”
30 اگر میں اپنے آپ کو برف سے بھی دھولوں اور اپنے ہاتھ صابن سے صاف دھو لوں
31 تب بھی خدا مجھے کیچڑ والے کھائی میں دھکہ دے گا۔ تب وہاں میرے کپڑے بھی مجھ سے نفرت کریں گے۔
32 خدا مجھ جیسا انسان نہیں ہے۔ اس لئے میں اس کو جواب نہیں دے سکتا۔ ہم دونوں عدالت میں ایک دوسرے سے مِل نہیں سکتے۔
33 میری خواہش ہے کہ دونوں طرف کی باتوں کو سننے والا ایک ثالثی ہو تا۔ میری خواہش ہے کہ ہم دونوں کا منصفانہ طریقے سے فیصلہ کرنے والا کوئی ہوتا۔
34 میری خواہش ہے کہ کوئی ہوتا جو خدا کی سزا کی چھڑی کو مجھ سے ہٹا تا۔ تب خدا مجھے اور نہیں ڈرا تا۔
35 تب میں خدا کے خوف کے بغیر وہ سب کہہ سکوں گا جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ مگر افسوس سچ مچ اب میں ویسا نہیں کر سکتا۔
باب: 10
1 میں اپنی زندگی سے نفرت کرتا ہوں میں کھل کر شکایت کروں گا۔ اسے اپنے دل کی تلخی سے بو لوں گا۔
2 میں خدا سے کہوں گا : ” مجھ پر الزام مت لگا۔ مجھے بتا دے میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ میرے خلاف تیرے پاس کیا ہے ؟
3 خدا! کیا تو مجھے پریشان کر کے خوش ہے ؟ ایسا لگتا ہے جیسے تجھے اپنے کئے کی فکر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تو شریروں کے منصوبوں کو جاری رکھنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔
4 اے خدا! کیا تیری آنکھیں انسان کی مانند ہیں ؟ کیا تو چیزوں کو ایسے ہی دیکھتا ہے جیسے انسان کی آنکھیں دیکھا کرتی ہیں ؟
5 کیا تیری زندگی ہم لوگوں کی طرح ہی چھوٹی ہے ؟ کیا تیری زندگی اس آدمی کی طرح چھوٹی ہے ؟ نہیں ! اس لئے تو کیسے جانتا ہے کہ یہ کس کی مانند ہے۔
6 تو میری غلطی کو ڈھونڈتا ہے اور میرے گناہ کو کھو جتا ہے۔
7 تو جانتا ہے کہ میں معصوم ہوں مگر کوئی بھی تیری قوت سے مجھے بچا نہیں سکتا!
8 اے خدا! تو نے مجھ کو بنا یا اور تیرے ہاتھوں نے میرے جسم کو شکل عطا کی لیکن وہ اب مجھے چاروں طرف سے بند کر رہے ہیں مجھے تباہ کرتے ہیں !
9 اے خدا! یاد کر کہ تو نے گوندھی ہوئی مٹی سے مجھے بنا یا۔ لیکن کیا اب تو ہی مجھے پھر سے خاک میں ملائے گا؟
10 تو دودھ کی مانند مجھے انڈیلتا ہے دودھ کی طرح تو مجھے دہی جماتا ہے اور نچوڑتا ہے اور تو مجھے دودھ سے پنیر میں بدلتا ہے۔
11 تو نے مجھے ہڈیوں اور عضلات سے بنا یا اور تو نے مجھ پر چمڑا اور گوشت چڑھا یا۔
12 تو نے مجھے جان بخشی اور مجھ پر رحم و کرم کیا تو نے میری نگہبانی کی اور تو نے میری روح پر نظر رکھی۔
13 لیکن یہ وہ ہے جو تم نے اپنے دل میں چھپا کر رکھا۔ میں اچھی طرح واقف ہوں کہ تو اپنے دل میں ایک خفیہ منصوبہ رکھتا ہے۔ ہاں ! میں جانتا ہوں یہ تمہارے ذہن میں تھا۔
14 اگر میں گناہ کرتا ہوں تو تو مجھے دیکھ رہا ہو گاتا کہ تو مجھے غلط کاموں کے لئے سزا دے۔
15 جب میں گناہ کرتا ہوں تو میں قصور وار ہو جاتا ہوں اور یہ میرے لئے بہت ہی برا ہو گا لیکن اگر میں بے قصور ہوں تو بھی میں اپنا سر نہیں اٹھا سکتا ہوں ! میں بہت شرمندہ اور پریشان ہوں۔
16 اگر میں کامیابی حاصل کروں اور تکبر محسوس کروں تو اس شکاری کی کی طرح میرا پیچھا کرنا جو ایک شیر کا پیچھا کرتا ہے۔ اور میرے خلاف اپنی طاقت دکھا نا۔
17 مجھے غلط ثابت کرنے کے لئے بار بار تو میرے خلاف کسی نہ کسی کو گواہ بناتا ہے۔ تیرا غصہ میرے خلاف بار بار بھڑ کے گا۔ اور میرے خلاف تو ایک کے بعد ایک فوج بھیجے گا۔
18 اس لئے اے خدا! تو نے مجھ کو کیوں پیدا کیا؟ اس سے پہلے کہ کوئی مجھے دیکھتا کاش! میں مر گیا ہوتا۔
19 میری خواہش ہے میں زندہ نہ رہتا! میری خواہش ہے کہ میں ماں کے رحم سے سیدھے قبر میں دفنا یا جاتا۔
20 میری زندگی لگ بھگ ختم ہو چکی ہے اس لئے مجھے اکیلا چھوڑ دے۔ اس سے پہلے کہ میں مر جاؤں میرا تھوڑا سا وقت جو بچا ہے اسے مجھے تھوڑی خوشی سے گزار نے دے۔
21 اس سے پہلے کہ میں وہاں چلا جاؤں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا ہے ایسی جگہ جہاں تاریکی ہے اور موت کا سایہ ہے۔
22 جو تھوڑا وقت بچا ہے مجھے خوشی منانے دے۔ اس سے پہلے کہ میں اس جگہ چلا جاؤں جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ گہری تاریکی سایہ اور گھبراہٹ سے بھری ہے۔ یہ ایسی جگہ ہے جہاں روشنی بھی تاریکی میں بدل جاتی ہے۔ ”
باب: 11
1 تب ضو فر نعماتی نے ایوب کو جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” ان لفظوں کے طوفان کا جواب مجھے ضرور دینا چاہئے کیا یہ سب باتیں بولنا ایوب کو صحیح ٹھہراتا ہے ؟ نہیں !
3 ایوب! کیا تم سوچتے ہو کہ ہمارے پاس تمہارے لئے جواب نہیں ہے ؟ کیا تم سوچتے ہو کہ جب تم خدا پر ہنستے ہو تو کوئی تمہیں انتباہ نہیں کرے گا؟
4 ایّوب! تم خدا سے کہتے رہے کہ میری بحث صحیح ہے اور تو دیکھ سکتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں۔
5 ایوّب! میری یہ خواہش ہے کہ خدا تجھے جواب دے یہ بتاتے ہوئے کہ تو غلط ہے۔
6 کاش! خدا تجھے حکمت کے چھپے اسرار بتا سکتا۔ وہ تم کو بتا سکتا کہ ہر کہانی کے دو رُخ ہوتے ہیں ایّوب میری سُن۔ خدا تجھے اس سے کم سزا دے رہا ہے جتنا کہ اسے دینی چاہئے۔
7 ” ایوّب! کیا تم سوچتے ہو کہ تم خدا کو سچ مچ میں سمجھ سکتے ہو؟ تم خدا قادر مطلق کو سمجھ نہیں سکتے ہو۔
8 تم آسمانی چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے ہو! تم موت کی جگہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہو۔
9 خدا زمین سے عظیم اور سمندر سے بڑا ہے۔
10 ” اگر خدا تجھے قیدی بنائے اور تجھ کو عدالت میں لے جائے تو کوئی بھی شخص اسے روک نہیں سکتا ہے۔
11 یقیناً خدا جانتا ہے کہ کون بے کار ہے خدا جب بدمعاشی پن کو دیکھتا ہے تو اسے یاد رکھتا ہے۔
12 ایک جنگلی گدھا ایک انسان کو جنم نہیں دے سکتا ہے۔ اور ایک بے وقوف شخص کبھی عقلمند نہیں ہو سکتا ہے۔
13 اس لئے اے ایوب "تمہیں اپنے دل کو صرف خدا کی خدمت کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ تمہیں اپنا ہاتھ اس کی عبادت کے لئے اٹھانا چاہئے۔
14 وہ گناہ جو تیرے ہاتھوں سے سرزد ہوئے ہیں اس کو تُو دور کر۔ ناراستی کو اپنے ڈیروں میں نہ رہنے دے۔
15 تب اکیلے تم خدا کی طرف بغیر شرم کے دیکھ سکتے ہو۔ تم بنا کسی ڈر کے مضبوطی سے کھڑے ہو سکتے ہو۔
16 ایّوب! تب تو اپنی مصیبت کو بھول پائے گا۔ تو اپنی خستہ حالی کو بس اس پانی کی طرح یاد کرے گا جو تیرے پاس سے بہہ کر چلا گیا۔
17 تیری زندگی دوپہر کے چمکتے ہوئے سورج سے بھی زیادہ روشن ہو گی۔۔زندگی کے سب سے اندھیرے لمحے ایسے چمکیں گے جیسے صبح سویرے کا سورج۔
18 ایّوب تب تم محفوظ محسوس کرو گے جیسا کہ وہاں امید ہو گی۔ خدا تمہاری صرف حفاظت ہی نہیں بلکہ تم کو آرام بھی دے گا۔
19 تم چین سے سو سکو گے تمہیں کوئی نہیں ڈرائے گا۔ اور بہت سے لوگ تجھ سے مدد مانگنے کے لئے آئیں گے۔
20 ہو سکتا ہے شریر لوگ مدد تلاش کریں گے لیکن وہ اپنی پریشانیوں سے آزاد نہیں ہوں گے۔ موت ہی صرف اس کی امید ہو گی۔
باب: 12
1 تب ایّوب نے جواب دیا :
2 ” مجھے یقین ہے تم سوچتے ہو کہ صرف تم ہی لوگ حِکمت والے ہو تم سوچتے ہو کہ جب تم مرو گے تو تمہارے ساتھ حکمت مر جائے گی۔
3 لیکن میرا دماغ اتنا ہی اچھا ہے جتنا تمہارا۔ میں تم سے کم رتبہ وا لا نہیں ہو ں۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ سچ ہے۔
4 "اب میرے اپنے دوست میری ہنسی اُڑاتے ہیں وہ کہتے ہیں : ہاں اس نے خدا سے دُعا کی اور خدا نے اسے جواب دیا۔ اس لئے یہ سب بُری باتیں اس کے ساتھ ہو رہی ہیں "میں راست اور معصوم آدمی ہوں لیکن وہ میری ہنسی اُڑاتے ہیں۔
5 ایسے لوگ جن پر مصیبت نہیں پڑی مصیبت زدہ لوگوں کی ہنسی اُڑاتے ہیں۔ ایسے لوگ گِرتے ہوئے شخص کو دھّکہ دیا کرتے ہیں۔
6 ڈاکوؤں کے ڈیرے سلامت رہتے ہیں۔ اسی طرح سے ایسے لوگ جو خدا کو غصّہ دلاتے ہیں سلامتی سے رہتے ہیں اور خود اپنی طاقت کو وہ اپنا خدا مانتے ہیں۔
7 ” لیکن تُو حیوانوں سے پو چھ کر دیکھ وہ تجھے سکھائیں گے اور ہوا کے پرندوں سے دریافت کر وہ تجھے بتائیں گے۔
8 یا تُو زمین سے پو چھلے وہ تجھ کو سکھا دے گی یا سمندر کی مچھلیاں تجھ سے اپنی عقلمندی بیاں کریں گی۔
9 ہر کوئی جانتا ہے کہ خدا نے ان سب چیزوں کو بنا یا ہے۔
10 ہر زندہ جانور اور ہر ایک انسان جو سانس لیتا ہے خدا کی قوت کے ماتحت ہے۔
11 جیسے زبان کھانے کا ذائقہ چکھتی ہے ویسے ہی کان باتوں کو پرکھتے ہیں۔
12 ہم کہتے ہیں ” عقلمندی بزر گ لوگوں کے پاس جاتی ہے اور عمر کی درازی سمجھداری عطا کر تی ہے۔
13 عقلمندی اور قوت خدا کی ہے اچھی صلاح اور سمجھ اس کی ہے۔
14 اگر خدا کسی شئے کو ڈھا دیتا ہے تو پھر لوگ اسے نہیں بنا سکتے۔ اگر خدا کسی شخص کو قید کرے تو لوگ اسے آزاد نہیں کر سکتے۔
15 اگر خدا بارش کو روک دے تو زمین سوکھ جائے گی۔ اگر خدا بارش کو برسنے دے تو زمین پر سیلاب آ جائے گا۔
16 خدا کے پاس طاقت اور عقل ہے۔ وہ شخص جسے دھو کہ دیا جاتا ہے اور وہ شخص جو دھو کہ دیتا ہے دونوں خدا کے ماتحت ہیں۔
17 خدا مشیروں کی عقلمندی لے لیتا ہے۔ اور منصفوں کو گھبرا دیتا ہے اور بیوقوفوں کی طرح ان سے حرکت کرواتا ہے۔
18 بادشاہ لوگوں کو قید میں ڈال سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کو خدا آزاد کرتا ہے۔ اور ان کو طاقتور بناتا ہے۔
19 خدا کاہنوں سے ان کی طاقت چھین لیتا ہے اور ان عہدیداروں کو بر خاست کرتا ہے جو سوچتے ہیں کہ وہ اپنی ملازمت میں محفوظ ہیں۔
20 خدا اعتماد والے مشیر کو چپ کر دیتا ہے۔ وہ بزر گوں کی دانائی کو چھین لیتا ہے۔
21 خدا قائدوں پر حقارت بر ساتا ہے اور حکمرانوں سے طاقت چھین لیتا ہے۔
22 خدا سب سے خفیہ رازوں کو بھی جانتا ہے۔ وہ ان جگہوں میں روشنی بھیجتا ہے جو موت کے جیسا اندھیرا ہے۔
23 خدا قوموں کو وسیع اور زبردست ہونے دیتا ہے اور پھر ان کو وہ نیست و نابود کر ڈالتا ہے۔ وہ قوموں کو پھیلا کر زبردست بنا دیتا ہے پھر ان کے لوگوں کو وہ تتّر بِتر کر دیتا ہے۔
24 خدا زمین کے قائدوں کو احمق بنا دیتا ہے اور ان کو بیا بان میں بلا مقصد بھٹکاتا ہے۔
25 وہ قائد اندھیرے میں اپنا راستہ ٹٹولتے ہوئے لوگوں کے مانند ہیں۔ وہ لوگ اس شرابی کی طرح ہیں جو یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کہاں جاتا ہے۔ ”
باب: 13
1 ایّوب نے کہا : ” میری آنکھوں نے یہ سب پہلے دیکھا ہے اور پہلے ہی میں سن چکا ہوں جو کچھ تم کہا کرتے ہو۔ ان سب کی سمجھ بوجھ مجھے ہے۔
2 میں بھی اتنا ہی جانتا ہوں جتنا تو جانتا ہے۔ میں تجھ سے کم نہیں ہوں۔
3 لیکن مجھے آرزو نہیں ہے کہ میں تجھ سے بحث کروں میں خدا قادر مطلق سے بولنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی مصیبت کے بارے میں میں خدا سے بحث کرنا چاہتا ہوں۔
4 لیکن تم تینوں اپنی بے خبری کو جھو ٹ بول کر ڈھکنا چاہتے ہو۔ تم وہ بیکار کے ڈاکٹر ہو جو کسی کو اچھا نہیں کر سکتے۔
5 میری خواہش ہے کہ تم لوگ چپ رہو۔ تمہارے لئے وہ عقلمندی کی بات ہو گی۔
6 ” اب میری بحث سنو۔ مجھے تم سے جو کہنا ہے سنو۔
7 کیا تم خدا کی طرف سے جھوٹ بولو گے ؟ کیا یہ تم کو سچ مچ یقین ہے کہ خدا تم سے جھوٹ بلوانا چاہتا ہے ؟
8 کیا تم میرے خلاف خدا کی طرفداری کرنے کی کو شش کر رہے ہو؟ تم خدا کی طرف ہونا چاہتے ہو صرف اس لئے کہ وہ خدا ہے۔
9 اگر خدا تم کو نہایت غور سے جانچے گا تو کیا وہ دکھائے گا کہ تم صحیح ہو؟ کیا تم سوچتے ہو کہ تم خدا کو بے وقوف بنا سکتے ہو جیسا کہ تم لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو۔
10 تم جانتے ہو کہ خدا تم کو ڈانٹ ڈپٹ کرے گا اگر تم ایک شخص کی عدالت میں صرف اس لئے طرفداری کرتے ہو کیوں کہ وہ اہم شخص تھا۔
11 کیا اس کا جلال تمہیں ڈرا نہیں دے گا؟ کیا تم اس سے نہیں ڈرتے ہو؟
12 تمہاری بحث کا کوئی مول نہیں ہے۔ تمہارے جواب بیکار ہیں۔
13 ” چپ رہو اور مجھ سے کہہ لینے دو۔ جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوتا ہے میں اسے قبول کرتا ہوں۔
14 میں خود کو خطرے میں ڈال رہا ہوں اور میں اپنی زندگی اپنے ہاتھوں میں لے رہا ہوں۔
15 چاہے خدا مجھے قتل کر دے پھر بھی میں اس پر بھروسہ کرتا رہوں گا۔ میں یقیناً اس کے سامنے اپنا بچاؤ کروں گا۔
16 اور اگر خدا مجھے جینے دیتا ہے تو یہ اس لئے کیوں کہ مجھے بولنے کا حوصلہ تھا۔ ایک شریر شخص کبھی بھی خدا کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ہے۔
17 اسے غور سے سن جسے میں کہتا ہوں۔ مجھے بیان کرنے دے۔
18 اب میں اپنا بچاؤ کرنے کو تیار ہوں۔ میں اپنی بحث ہوشیاری سے سامنے رکھوں گا۔ یہ مجھے پتہ ہے کہ مجھ کو صحیح قرار دیا جائے گا۔
19 کوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ میں غلط ہوں۔ اگر کوئی شخص ثابت کر دے تو میں چپ ہو جاؤں گا اور جان دے دوں گا۔
20 ” اے خدا! تو صرف مجھے دو چیز دے تب میں تجھ سے نہیں چھپوں گا۔
21 مجھے سزا دینا چھوڑ دے۔ اور اپنی دہشت سے مجھے ڈرانا چھوڑ دے۔
22 پھر تو مجھے پکار اور میں تجھے جواب دوں گا یا پھر مجھ کو بولنے دے اور تو مجھ کو جواب دے۔
23 میں نے کتنے گناہ کئے ؟ میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ مجھے میرا گناہ اور میری غلطی دکھا۔
24 اے خدا! تو مجھ سے کیوں کنارہ کشی کرتا ہے ؟ اور میرے ساتھ میرے دشمن جیسا سلوک کیوں کرتا ہے ؟
25 کیا مجھ کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہو؟ میں صرف ایک پتّا ہوں جسے ہوا اڑا کر لے جا سکتی ہے ؟ کیا تم پیال کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر حملہ کر رہے ہو؟
26 اے خدا! تو میرے خلاف کڑوی بات بولتا ہے۔ کیا تو مجھے ان گناہوں کی سزا دے رہا ہے جنہیں میں نے بچپن میں کیا ہے ؟
27 تم نے میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دیا ہے۔ اور میری ہر قدم پر نظر رکھتا ہے۔ تو میری ہر ایک حرکت پر نظر رکھتا ہے۔
28 اس لئے میں کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہوں لکڑی کے سڑے ہوئے ٹکڑے کی طرح کیڑوں سے کھائے ہوئے کپڑے کے ٹکڑے کی طرح۔”
باب: 14
1 ایوّب نے کہا آدمی جو عورت سے پیدا ہوتا ہے مصیبت سے بھری ایک چھوٹی زندگی جیتا ہے۔
2 انسان کی زندگی ایک پھول کی مانند ہے جو جلد کھِلتا ہے اور پھر مرجھا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی ایک سایہ کی طرح ہے جو تھوڑی دیر ٹکتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔
3 اے خدا! کیا تُو میرے جیسے شخص کو دیکھے گا؟ کیا تو میرے ساتھ عدالت میں آئے گاتا کہ ہم دونوں اپنے بحث کو سامنے رکھ سکیں۔
4 ” ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے ؟ کوئی نہیں !
5 انسان کی زندگی محدود ہے۔ انسان کے مہینوں کی تعداد خدا نے مقرر کر دی ہے۔ تُو نے انسان کے لئے جو حد باندھی ہے اسے کوئی بھی نہیں بدل سکتا۔
6 اس لئے اے خدا! تُو ہم پر نظر رکھنا چھوڑ دے۔ ہم لوگوں کو اکیلا چھوڑ دے۔ ہمیں اپنی سخت زندگی کا مزہ لینے دے جب تک کہ ہمارا وقت ختم نہیں ہو جا تا۔
7 ” وہاں ایک درخت کے لئے امید ہے۔ اگر اسے کا ٹ کر گِرا دیا جاتا ہے تو وہ پھر سے بڑھ سکتا ہے۔ وہ لگا تار شاخیں باہر نکالتا رہے گا۔
8 چاہے اس کی جڑیں زمین میں پُرانی کیوں نہ ہو جائیں اور اس کا تنا چاہے مٹی میں کیوں نہ مر جائے۔
9 تو بھی پانی ملنے پر وہ پھر سے بڑھنے لگے گا۔ اور نئے پو دے کی طرح شاخیں نکالے گا۔
10 لیکن جب ایک آدمی مر جاتا ہے تو وہ ختم ہو جاتا ہے ! جب آدمی مرتا ہے تو وہ چلا جاتا ہے۔
11 ندی کے سوکھ جانے تک تم سمندر کا سارا پانی نکال سکتے ہو لیکن آدمی مرا ہوا ہی رہے گا۔
12 جب کوئی شخص مر جاتا ہے وہ نیچے لیٹ جاتا ہے وہ پھر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ مرے ہوئے آدمی کے جاگنے تک آسمان غائب ہو جائے گا۔ نہیں لوگ اس نیند سے اُٹھ نہیں سکتے ہیں۔
13 ” کاش! تُو مجھے میری قبر میں چھپا لیتا جب تک تیرا قہر بیٹھ نہ جا تا۔ پھر کوئی وقت میرے لئے مقرر کر کے تُو مجھے یاد کرتا۔
14 اگر کوئی انسان مر جائے تو وہ اپنی زندگی واپس پائے گا؟ میں تب تک انتظار کروں گا جب تک کہ مجھے کرنا چاہئے اور جب تک کہ میں آزاد نہ ہو جاؤں۔
15 اے خدا! تُو مجھے بُلائے گا اور میں تجھے جواب دوں گا۔ اور تب میں جسے تُو نے پیدا کیا ہے تیرے لئے اہم ہو جاؤں گا۔
16 تُو میرے ہر قدم کا جسے میں اٹھاتا ہوں نظر رکھے گا لیکن تو میرے گنا ہوں پر نظر نہیں رکھے گا۔
17 تو میرے گنا ہوں کو ایک تھیلی میں رکھے گا۔اس پر مہر لگا کر اسے دور پھینک دے گا!
18 ” پہاڑ گِرتا ہے اور ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ بڑی بڑی چٹان ٹکڑوں میں ٹوٹ جا تی ہیں اور گِر پڑتی ہیں۔
19 پتھروں کے اوپر سے بہنے وا لا پانی اسے گھِس ڈالتا ہے سیلاب زمین کی کی مٹی کو بہا کر لے جاتا ہے۔ اس طرح خدا! تو انسان کی امید کو بر باد کر دیتا ہے اور پھر تو چلا جاتا ہے۔
20 تو اسے پوری طرح شکست دیتا ہے۔ اور پھر تو چلا جاتا ہے تو اسے مایوس کرتا ہے۔ اور ہمیشہ کے لئے موت کی جگہ میں بھیج دیتا ہے۔
21 اگر اس کے بیٹے کبھی عزت پاتے ہیں تو اسے کبھی اس کا پتہ نہیں چل پاتا ہے۔ اگر اس کے بیٹے کبھی ذلیل ہوتے ہیں تو وہ اسے کبھی نہیں دیکھ پاتا۔
22 وہ شخص اپنے جسم میں درد محسوس کرتا ہے اور وہ صرف اپنے لئے چیخ و پکار کرتا ہے۔
باب: 15
1 تب الیفاز تیمانی نے ایّوب کو جواب دیا :
2 ” ایوّب! اگر تُو سچ مُچ عقلمند ہوتا تو اپنی بیکار کی رائے سے مجھے جواب نہیں دیا ہوتا۔ ایک عقلمند آدمی گرم ہوا سے اتنا بھرا ہوا نہیں ہوتا ہے۔
3 کیا تم سوچتے ہو کہ ایک عقلمند آدمی بیکار باتوں سے اور تقریروں سے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے بحث کرے گا؟
4 ایّوب! اگر ہر چیز و یسی ہو جیسا کہ تم چا ہو تو کوئی بھی خدا سے نہ تو ڈرے گا اور نہ ہی احترام کرے گا اور نہ ہی اس کی عبادت کرے گا۔
5 تیری باتوں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تو نے گناہ کیا ہے۔ ایوّب! تو عیّاری کی باتوں سے اپنے گناہ کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
6 تجھے غلط ثابت کرنے کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ تو خود اپنے منھ سے جو باتیں کہتا ہے وہ ثابت کرتی ہے کہ تو غلط ہے۔
7 ” ایوّب! کیا تُو سوچتا ہے کہ جنم لینے وا لا پہلا شخص تُو ہی ہے اور پہاڑوں کی تخلیق سے بھی پہلے تیرا جنم ہوا۔
8 کیا تُو نے خدا کی پوشیدہ مصلحت سُن لی ہے ؟ کیا تُو سوچاکرتا ہے کہ صرف تو ہی عقلمند ہے ؟
9 ایّوب! ہم تم سے زیادہ جانتے ہیں۔ہم وہ سبھی باتیں سمجھتے ہیں جو تو نہیں سمجھتا ہے۔
10 وہ لوگ جن کے بال سفید ہیں اور بڑے اور بوڑھے ہیں وہ ہماری تائید کرتے ہیں۔ ہاں تیرے باپ سے بھی بہت زیادہ عمر کے لوگ ہمارے طرفدار ہیں۔
11 خدا تجھ کو تسلی دینے کی کو شش کرتا ہے لیکن یہ تیرے لئے کافی نہیں ہے۔ ہم لوگوں نے خدا کا پیغام تجھے نرمی سے سنایا۔
12 ایوّب! تم کیوں نہیں سمجھ سکتے ہو؟ تم سچائی کو کیوں نہیں دیکھ سکتے ہو؟
13 جب تُو ان غصے بھرے کلام کو کہتا ہے تو تُو خدا کے خِلاف ہوتا ہے۔
14 ” سچ مُچ کوئی شخص پاک نہیں ہو سکتا۔ایک شخص خدا سے زیادہ صحیح نہیں ہو سکتا!
15 یہاں تک کہ خدا بھی اپنے فرشتوں پر مکمل اعتماد نہیں کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آسمان بھی خدا کے مقابل میں پاک نہیں ہے۔
16 آدمی تو اور بھی بُرا ہے آدمی ناپاک اور بگڑا ہوا ہے۔ وہ بُرائی کو پانی کی طرح پیتا ہے۔
17 ” ایوّب! میری بات تُو سُن اور میں اس کا بیان تجھ سے کروں گا۔میں وہ سب تجھے بتاؤں گا جو میں جانتا ہوں۔
18 میں تجھ کو وہ باتیں بتاؤں گا جسے عقلمند لوگوں نے مجھ کو بتا یا ہے۔ ان عقلمندوں کے آباء و اجداد نے انہیں یہ باتیں بتائیں ان لوگوں نے کچھ بھی مجھ سے نہیں چھپایا۔
19 صرف انہیں ہی زمین دی گئی تھی۔کوئی غیر ملکی وہاں سے نہیں گذرتے تھے۔
20 یہ عقلمند لوگ کہتے ہیں : ایک شریر شخص اپنی ساری زندگی میں تکلیف جھیلتا ہے۔ ایک ظالم شخص اپنی زندگی کے تمام سالوں میں تکلیفوں سے گزرے گا۔
21 ہر شور و غل اسے ڈراتا ہے۔ جب وہ سوچتا ہے کہ وہ محفوظ ہے تو اسی وقت اس کا دشمن اس پر حملہ کرے گا۔
22 بُرے آدمی محسوس کرتے ہیں کہ اندھیرے سے باہر آنے کے لئے اس کے پاس کوئی امید نہیں ہے۔ کسی جگہ تلوار اس کو مار نے کا انتظار کر رہی ہے۔
23 وہ اِدھر اُدھر بھٹکتا ہے لیکن گدھ اس کے بدن کو اپنی غذا کے طور پر کھالیں گے۔ اس کو پتا ہے کہ اس کی موت بہت قریب ہے۔
24 فکر اور تکلیف اسے ڈرپوک بناتی ہیں اور یہ باتیں اس پر ایسے حملہ کر تی ہیں جیسے کوئی بادشاہ اس کو فنا کر ڈالنے کو تیار ہو۔
25 کیونکہ بُرا شخص خدا کو مانتے سے انکار کرتا ہے وہ خدا قادر مطلق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اسے شکست دینے کی کو شش کرتا ہے۔
26 وہ بُرا شخص بہت ضدّی ہے۔ وہ خدا پر ایک موٹی مضبوط ڈھال سے حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
27 ” ایک شخص شاید امیر اور موٹا ہو سکتا ہے۔
28 لیکن اس کے قصبہ کو مٹا دیا جائے گا۔اس کا گھر برباد کر دیا جائے گا اور اس کا مکان خالی ہو جائے گا۔
29 بُرا شخص زیادہ وقت تک دولتمند نہیں رہے گا۔ اس کی دولت نہیں رہے گی۔اس کی فصلیں زیادہ نہیں اپجیں گی۔
30 بُرا شخص اندھیرے سے نہیں بچ پائے گا۔ وہ اس درخت کی مانند ہو گا جس کی شاخیں آ گ سے جھُلس گئی ہیں اور خدا کی پھونک اس کو دور اُڑا دے گی۔
31 بُرے شخص کو بیکار کی چیزوں کے بھروسے رہ کر اپنے آپ بے وقوف نہیں بننا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ کچھ نہیں پائے گا۔
32 بُرا شخص اپنی عمر کے پوری ہونے سے قبل ہی بوڑھا ہو جائے گا اور سُوکھ جائے گا۔ وہ ایک سوکھی ہوئی ڈالی سا ہو جائے گا جو پھر کبھی بھی ہری نہیں ہو گی۔
33 بُرا شخص اس انگور کی بیل کی مانند ہوتا ہے جس کے پھل پکنے سے پہلے ہی جھڑ جاتے ہیں۔ایسا شخص زیتون کے درخت کے جیسا ہوتا ہے جس کے پھول جھڑ جاتے ہیں۔
34 کیونکہ ان لوگوں کے پاس خدا کے بغیر کچھ نہیں ہے۔ جو کہ پیسوں سے پیار کرتے ہیں ان کے گھروں کو آ گ سے بر باد کر دیا جائے گا۔
35 بُرے شخص ہمیشہ برے منصوبے بناتے ہیں اور مصیبت پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ وہ لوگ ہمیشہ یہ منصوبے بناتے ہیں کہ کیسے لوگوں کو دغا دے سکتے ہیں۔”
باب: 16
1 اس پر ایّوب نے جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” میں نے یہ باتیں سنی ہیں۔ تم تینوں مجھے دُکھ دیتے ہو آرام نہیں۔
3 کب یہ بے معنی باتیں بند ہوں گی؟ تم لگاتار کیوں بحث کرتے ہو؟
4 میں بھی وہی باتیں کہہ سکتا ہوں جو تم کہتے ہو۔ اگر تمہیں میری طرح مصیبت ہو تی تو میں تمہارے خلاف عقلمندی کی باتیں کہہ سکتا تھا اور تم پر اپنا سر ہلا سکتا تھا۔
5 لیکن میں اپنی باتوں سے تمہیں امید دے کر تمہارا حوصلہ بڑھا سکتا ہو ں۔
6 ” لیکن ان ساری باتوں سے جو ختم نہیں ہو گی میں کہتا ہوں اس سے میرا دُکھ ختم نہیں ہو گا۔ لیکن اگر میں کچھ بھی نہ کہوں تو بھی میں اچھا محسوس نہیں کرتا ہوں۔
7 سچ مُچ میں اے خدا! تُو نے میری قوّت کو چھین لی ہے۔ تُو نے میرے سارے گھرانے کو نیست و نابود کر دیا ہے۔
8 تو نے مجھے پتلا اور کمزور بنایا اور یہ لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ میں مجرم ہوں۔
9 ” خدا مجھ پر حملہ کرتا ہے۔ وہ مجھ سے ناراض ہے اور وہ میرے جسم کو پھاڑ کر الگ کر دیتا ہے۔ خدا میرے او پر دانت پیستا ہے۔ مجھے دشمن نفرت بھری نظروں سے گھورتے ہیں۔
10 لوگ میرے چاروں طرف بھیڑ لگاتے ہیں۔ وہ مجھ پر ہنستے ہیں اور میرے چہرے پر پتھر مارتے ہیں۔
11 خدا نے مجھے برے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔ اس نے شریر لوگوں کو اجازت دی ہے کہ مجھے چوٹ پہنچائیں۔
12 میرے ساتھ سب کچھ بہتر تھا اچانک میں خدا کے ذریعہ کچل دیا گیا۔ اس نے مجھے میری گردن سے پکڑا اور میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔ خدا نے اپنے نشانے کی مشق کے لئے مجھے استعمال کیا۔
13 خدا کے تیِر انداز میری چاروں طرف ہیں۔ وہ میرے گردوں سے ہو کر تیروں کو چلاتا ہے۔ وہ رحم نہیں دکھاتا ہے۔ وہ میرے پِت کو زمین پر بہا دیتا ہے۔
14 خدا مجھ پر بار بار وار کرتا ہے۔ وہ مجھ پر ایسے جھپٹتا ہے جیسے کوئی سپاہی جنگ میں جھپٹتا ہے۔
15 "میں بہت ہی دُکھی ہوں اس لئے میں ٹاٹ کے کپڑے پہنتا ہوں۔مٹی اور راکھ پر بیٹھتا ہوں اور شکست خوردہ محسوس کرتا ہوں۔
16 رو رو کر میرا چہرہ لال ہو گیا ہے۔ میری آنکھوں کی چاروں طرف کا لا دائرہ بن گیا ہے۔
17 میں سکی بھی شخص کے لئے کبھی ظالم نہیں تھا۔ لیکن میں بُری طرح سے جھیل رہا ہوں۔میری دعائیں صحیح اور پاک ہیں۔
18 ” اے زمین! تُو کبھی ان بُری چیزوں کو مت چھپانا جو میرے خلاف کئے گئے ہیں۔میرے انصاف کی فریاد کو مت رو کو۔
19 اب بھی آسمان میں کوئی ہے جو میرے لئے بولے گا۔ اوپر کوئی ہے جو میرے لئے ثبوت دے گا۔
20 میرے دوستنے میرے لئے بولنے کے لئے بہانہ کیا جبکہ میری آنکھیں خدا کے لئے آنسوں بہا تی ہیں۔
21 خدا کو اس کے لئے جو اس سے بحث مباحثہ کرتا ہے جائز فیصلہ کرنے دے۔ خدا کو اس آدمی کے لئے جو اپنے دوستوں کے ساتھ بحث کرتا ہے جائز فیصلہ کرنے دے۔
22 ” کچھ ہی سال بعد میں اس جگہ چلا جاؤں گا جہاں سے پھر میں کبھی واپس نہ آؤں گا ( موت )
باب: 17
1 میری روح ٹوٹ چکی ہے۔ میں چھوڑنے ہی وا لا ہوں میری زندگی لگ بھگ ختم ہو چکی ہے قبر میرا انتظار کر رہی ہے۔
2 لوگ مجھے گھیر لیتے ہیں اور مجھ پر ہنستے ہیں۔ میں ان لوگوں پر نظر رکھتا ہوں کیونکہ وہ لوگ میری بے عزتی کرتے ہیں۔
3 "خدا مجھے دکھا کہ سچ مچ میں تو میری مدد کرتا ہے۔ کوئی اور میری حمایت نہیں کرے گا۔
4 میرے دوستوں کا دِل تو نے بند کر دیا اور وہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ برائے مہربانی جیتنے مت دے۔
5 لوگوں کی کہاوت کو تُو جانتا ہے۔ ایک شخص اپنے دوست کی مدد کرنے کے لئے اپنے بچوں کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ لیکن میرے دوست میرے خلاف ہو گئے۔
6 خدا نے مجھے لوگوں کے لئے ضربُ المثل بنا دیا ہے۔ اور میں ایسا ہو گیا کہ لوگ میرے منھ پر تھو کیں۔
7 میری آنکھیں لگ بھگ اندھی ہو چکی ہیں کیونکہ میں دُکھ اور درد میں مبتلا ہوں میرا پو را جسم سایہ کی مانند پتلا ہو گیا ہے۔
8 ایماندار لوگ ہی صرف اس بارے میں پریشان ہیں۔ معصوم لوگ ان لوگوں سے پریشان ہیں جو خدا کا خیال نہیں کرتے۔
9 لیکن اچھے لوگ اپنی زندگی کے طور و طریقہ کو بر قرار رکھتے ہیں۔ معصوم اور زیادہ طاقتور بن جائیں گے۔
10 ” لیکن تم سب یہ دکھانے کی کوشش کرنے کے لئے آؤ کہ یہ پور ی غلطی میری ہے۔ تم لوگوں کے درمیان میں سے کوئی بھی عقلمند نہیں۔
11 میری زندگی گذر رہی ہے۔ میرے منصوبے برباد ہو گئے میرے پاس امید کی ایک کرن بھی نہیں ہے۔
12 لیکن میرے سبھی دوست مل گئے ہیں۔ وہ لوگ رات کو دِن سمجھتے ہیں۔ اندھیرا کے وقت وہ لوگ کہتے ہیں کہ روشنی نزدیک ہے۔
13 ” میں یہ امید کر سکتا ہوں کہ میرا نیا گھر قبر ہے۔ میں اندھیری قبر کے اندر اپنا بستر بنانے کی امید کر سکتا ہوں۔
14 میں قبر سے کہہ سکتا ہوں تو میرا ‘ باپ ‘ ہے اور کیڑے سے کہہ تو میری ‘ ماں ‘ ہے یا تو میری ‘بہن’ ہے۔
15 لیکن اگر صرف یہی میری امید ہے تو میرے پاس کوئی امید نہیں ہے۔ اگر یہی صرف میری امید ہے تو لوگ مجھے بغیر کسی امید کے دیکھ چکے ہیں۔
16 کیا میری امید میرے ساتھ مر جائے گی؟ کیا یہ بھی نیچے موت کی جگہ میں جائے گی؟ کیا ہم ایک ساتھ مٹّی کے اندر جائیں گے ؟ ”
باب: 18
1 تب بِلدد سُوخی نے ایّوب کو جواب دیا :
2 ” ایّوب تم کب بولنا بند کرو گے ؟ چپ رہو اور سننے کی کو شش کرو۔ ہمیں کہنے دو۔
3 تو کیوں یہ سوچتا ہے کہ ہم لوگ گائے کی طرح بے وقوف ہیں ؟
4 ایّوب! تو اپنے غضب سے اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ کیا لوگ زمین صرف تیرے لئے چھوڑ دیں ؟ کیا تو یہ سوچتا ہے کہ صرف تجھے خوش کرنے کے لئے خدا پہاڑوں کو ہلا دے گا؟
5 ” ہاں برے لوگوں کی روشنی گل ہو جائے گی اور اس کی آگ بجھ جائے گی۔
6 ان کے خیمہ میں روشنی تاریکی میں بدل جائے گی۔ اور ان کے سامنے کا چراغ بجھ جائے گا۔
7 اس کے قدم پھر کبھی مضبوط اور تیز نہیں ہوں گے لیکن وہ آہستہ چلے گا اور کمزور ہو جائے گا۔ اس کا اپنا ہی برا منصوبہ اسے گرائے گا۔
8 اس کا اپنا پیر ہی اسے جال میں پھنسائے گا۔ وہ جال میں چلے گا اور اس میں پھنس جائے گا۔
9 جال اس کی ایڑی کو پکڑ لے گا۔ جال اس کو کس کر جکڑ لے گا۔
10 ایک رسّی زمین پر اس کو پھنسا لے گی۔ جال اس کے راستے میں ہے۔
11 دہشت چاروں طرف سے اس کے لئے انتظار کر رہی ہے۔ ڈر اس کے اٹھائے گئے ہر قدم کا پالن کرے گا۔
12 آفت اس کے لئے بھو کی ہے۔ جب وہ گرے گا تو تباہی و بر بادی اسے دبوچنے کے لئے تیار ہے۔
13 مہلک بیماری اس کے چمڑے کو کھا جائے گی۔ یا یہ اس کے بازوؤں اور پیروں کو سڑا دے گی۔
14 برے شخص کو اپنے گھر کی محفوظ جگہ سے دور لے جا یا جائے گا۔ اور اس کو دہشت کے بادشاہ سے مِلانے کے لئے لے جا یا جائے گا۔
15 اس کے گھر میں کچھ بھی نہ بچے گا کیوں کہ؟ اس کے مکان میں جلتی ہوئی گندھک بکھیر دی جائے گی۔
16 نیچے اس کی جڑیں سوکھ جائیں گی اور اوپر اس کی شاخیں مرجھا جائیں گی۔
17 زمین پر کے لوگ اس کو یاد نہیں کریں گے۔ اس کے نام کا ذکر اس زمین پر کبھی نہیں کیا جائے گا۔
18 روشنی سے اس کو باہر ہٹا دیا جائے گا اور وہ اندھیرے میں ڈھکیل دیا جائے گا۔ لوگ اسے اس دنیا سے دور بھگا دیں گے۔
19 اس کو بچے یا پوتا پوتی نواسا نواسی نہیں ہوں گے۔ اس کے خاندان سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔
20 مغرب کے لوگ دہشت زدہ ہو جائیں گے جب وہ سنیں گے کہ برے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ مشرق کے لوگ اس دہشت سے سُن ہو جائیں گے۔
21 سچ مچ برے شخص کے گھر کے ساتھ ایسا ہی ہو گا۔ ایسا ہی ہو گا اس شخص کے ساتھ جو خدا کو نہیں جانتے ہیں۔”
باب: 19
1 تب ایّوب نے جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” کب تک تم مجھے چوٹ پہنچاتے رہو گے اور باتوں سے مجھے کچلتے رہو گے۔
3 دس بار تم نے میری بے عزتی کی ہے تم نے بے شرم ہو کر میرے اوپر حملہ کیا ہے۔
4 اگر میں گناہ بھی کیا ہوں تو یہ میرا معاملہ ہے۔ یہ تمہیں نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔
5 تم صرف اپنے کو مجھ سے اچھا دکھا نا چاہتے ہو۔ تم مجھ پر الزام لگاتے رہتے ہو۔
6 لیکن وہ تو خدا ہے جس نے میرے لئے غلط کیا ہے۔ اس نے مجھے پکڑنے کے لئے پھندا ڈال رکھا ہے۔
7 میں چلاتا ہوں اس نے مجھے چوٹ پہنچائی! لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملتا ہے۔ حالانکہ میں نے پکار لگائی مجھے انصاف نہیں ملا۔
8 میرا راستہ خدا نے روکا ہے اس لئے میں اس کو پکار نہیں سکتا۔ اس نے میری راہ کو تاریکی میں چھپا دیا ہے۔
9 میری عزت و احترام خدا نے چھین لی ہے اس نے میرے سر پر سے تاج اتار لیا ہے۔
10 جب تک میری جان نہیں نکل جاتی خدا مجھ کو ہر طرف سے مارتے رہتا ہے۔ وہ میری امید کو ایسے اکھاڑتا ہے جیسے کوئی پیڑ کو جڑ سے اکھاڑ دے۔
11 میرے خلاف خدا کا غضب بھڑک رہا ہے۔ وہ مجھ سے اپنے دشمن کے جیسا سلوک کرتا ہے۔
12 خدا اپنی فوج مجھ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔ وہ میرے چاروں طرف حملے کا برج بناتا ہے۔ میرے ڈیرے کے چاروں جانب خیمہ زن ہے۔
13 ” میرے بھا ئیوں کو خدا نے مجھ سے نفرت کر وایا۔ اور میں اپنے تمام دوستوں کے لئے اجنبی ہو گیا ہوں۔
14 میرے رشتے داروں نے مجھ کو چھوڑ دیا میرے دوستوں نے مجھ کو بھلا دیا۔
15 میں اپنے مہمانوں اور اپنی لونڈیوں کی نظر میں اجنبی کے جیسا ہوں۔ میں ان کی نگاہ میں پر دیسی ہو گیا ہوں۔
16 میں اپنے نوکر کو بلاتا ہوں لیکن وہ جواب نہیں دیتا ہے۔ یہاں تک کہ میں مدد مانگوں تو بھی میرا نوکر مجھ کو جواب نہیں دیتا۔
17 میری ہی بیوی میری سانس کی بد بو سے نفرت کرتی ہے۔ میرے اپنے ہی بھائی مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔
18 چھوٹے بچے تک میری ہنسی اڑاتے ہیں۔ جب میں ان کے پاس جاتا ہوں تو وہ میرے خلاف باتیں کرتے ہیں۔
19 میرے قریبی دوست مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے اپنے لوگ جس سے میں محبت رکھتا ہوں میرے مخالف بن گئے ہیں۔
20 ” میں اتنا دبلا ہوں کہ میری کھال میری ہڈیوں پر لٹک رہی ہے۔ مجھ میں صرف تھوڑی جان بچ گئی ہے۔
21 ” اے میرے دوستو! مجھ پر رحم کرو رحم کرو مجھ پر! کیوں کہ خدا نے مجھ کو ضرب لگا یا ہے۔
22 کیوں کہ تم خدا کی طرح ستا رہے ہو؟ کیا تم مجھے تکلیف دیتے تھکتے نہیں ہو؟
23 میری یہ آرزو ہے کہ جو میں کہتا ہوں اسے کوئی یاد رکھے اور کسی کتاب میں لکھے۔ میری یہ آرزو ہے کہ کاش! میری باتیں کسی لپٹے ہوئے کاغذ ( طومار ) پر لکھی جاتیں۔
24 میری یہ آرزو ہے کاش! میں جن باتوں کو کہتا ہوں انہیں لو ہے کے اوزار سے سیسے پر چٹان پر کندہ کی جاتی تاکہ وہ ہمیشہ باقی رہتی۔
25 میں جانتا ہوں کہ مجھے بچانے کے لئے وہاں کوئی ہے۔ میں جانتا ہوں وہ رہتا ہے اور آخر میں وہ یہاں زمین پر کھڑا ہو گا۔ اور مجھے بے گناہ ثابت کرے گا۔
26 میرا اپنا جسم چھوڑنے اور میرا چمڑا تباہ ہونے کے بعد بھی میں جانتا ہوں کہ میں خدا کو دیکھوں گا۔
27 میں خدا کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔ میں بیان نہیں کر سکتا ہوں کہ میں کتنا خوشی محسوس کرتا ہوں !
28 ” ہو سکتا ہے تم کہو گے ہم ایوب کو تکلیف دیں گے۔ اس پر الزام لگانے کی ہم کوئی وجہ تلاش کریں گے۔
29 لیکن تمہیں تلوار سے ڈرنا چاہئے کیوں کہ خدا قصور وار کو سزا دیتا ہے۔ خدا تمہیں تلوار سے سزا دے گا۔ تب تم سمجھو گے کہ وہاں انصاف ہے۔
باب: 20
1 تب ضوفر نعماتی نے جواب دیا :
2 ” ایّوب! تیرے خیالات تکلیف دہ ہیں۔ اس لئے میں تجھے ضرور جواب دوں گا۔ جلد ہی کہنا چاہئے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔
3 تم نے اپنے جوابوں سے ہمیں رسوا کیا ہے۔ لیکن میں دانشمند ہوں میں جانتا ہوں کہ تجھے کیسے جواب دوں۔
4 تم جانتے ہو کہ شریر لوگوں کی خوشیاں بہت دنوں تک نہیں ٹکتی ہیں۔ کافی دنوں سے یہ بات سچ ہے اس وقت سے جب آدم اس زمین پر رکھا گیا تھا۔ ایسا شخص جو خدا کا احترام نہیں کرتا ہے وہ صرف تھوڑے ہی وقت کے لئے مسرور ہوتا ہے۔
5
6 اگر چہ اس کا غرور آسمان تک پہنچے اور بادلوں کو چھوئے۔
7 تو بھی وہ اپنے ہی فضلہ کی طرح ہمیشہ کے لئے فنا ہو جائے گا۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا کہیں گے ‘ وہ کہاں ہے ؟ ‘
8 وہ خواب کی مانند اڑ جائے گا۔ اور پھر کبھی پا یا نہیں جائے گا۔ اسے دور بھگا دیا جائے گا اور برے خواب کی طرح بھلا دیا جائے گا۔
9 وہ آنکھ جو اسے دیکھتی تھی پھر کبھی نہیں دیکھے گی۔ اس کا خاندان اس کو اور نہیں دیکھ پائے گا۔
10 برے شخص کے بچے وہ واپس کریں گے جو برے شخص نے غریبوں سے لیا تھا۔ برے شخص کو اپنے ہاتھ سے اپنی دولت واپس لوٹانی چاہئے۔
11 اس کی ہڈیاں جو جوانی کے جوش سے بھری ہوئی ہوتی تھی جلد ہی باقی بچے جسم کی طرح دھول میں مِل جائے گا۔
12 ” شریر کے منھ کو برائی میٹھی لگتی ہے وہ اس کو اپنی زبان کے نیچے اس کا پورا مزہ لینے کے لئے رکھتا ہے۔
13 ایک شریر شخص برائی سے خوشی مناتا ہے۔ وہ اسے چھوڑنے سے نفرت کرتا ہے۔ یہ ایک میٹھا چاکلیٹ کی طرح ہے جسے وہ اپنے منھ کے اندر رکھتا ہے۔
14 لیکن وہ برائی اس کے پیٹ میں زہر میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ اس کے اندر سانپ کے زہر کے موافق تلخ زہر ہو جائے گی۔
15 شریر آدمی جس دولت کو نگل گیا ہے اسے قئے کر کے باہر نکالے گا۔ خدا اسے قئے کروا کے باہر نکلوائے گا۔
16 برے شخص کا مشروب سانپ کے زہر کی مانند ہو گا۔ سانپ کے زہر کا دانت اسے مار ڈالے گا۔
17 وہ شہد اور مکھن سے بہتے ہوئے ندی سے لطف اٹھا نہیں سکیں گے۔
18 اس پر ان کے منافع کو واپس کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے گا۔ ان کو ان چیزوں سے لطف اٹھانے کی اجازت نہیں ہو گی جن چیزوں کے لئے اس نے سخت محنت کی تھی۔
19 کیوں کہ اس نے غریبوں کو دبایا اور ان کے ساتھ بد سلو کی کی۔ اس نے ان لوگوں کا خیال نہیں کیا اور ان کی چیزیں لے لیں۔ اس نے ان گھروں کو قبضہ کر لیا جو اس کے ذریعہ نہیں بنائے گئے تھے۔
20 ” شریر شخص کبھی بھی آسو دہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کی دولت اس کو نہیں بچا سکتی ہے۔
21 جب وہ کھاتا ہے تو کچھ نہیں چھوڑتا ہے اس لئے اس کی کامیابی قائم نہیں رہے گی۔
22 جب شریر آدمی کے پاس بھر پور ہو گا تو بھی مصیبت اس پر آ پڑے گی۔ اس کی مصیبتیں اس پر پوری طاقت کے ساتھ آئیں گی۔
23 جب شریر آدمی وہ سب کچھ کھاتا ہے جسے وہ کھا نا چاہتا ہے۔ تو خدا اس پر اپنا بھڑکتا ہوا غصہ انڈیل دے گا۔ خدا اس شریر شخص پر سزا بر سائے گا۔
24 ممکن ہے کہ وہ شریر لو ہے کی تلوار سے بچ نکلے۔ لیکن پیتل کا تیر اس کے جسم کو چھید کر ڈالے گا۔
25 وہ پیتل کا تیر اس کے جسم کے آر پار ہو گا اور اس کی پیٹھ سے ہو کر باہر نکل جائے گا۔ اس تیر کی چمکتی ہوئی نوک اس کے جگر کو چھید کر ڈالے گی اور وہ دہشت زدہ ہو جائے گا۔
26 اس کے سب خزانے فنا ہو جائیں گے۔ ایک ایسی آ گ جسے کسی انسان نے نہیں جلائی اس کو فنا کرے گی وہ آ گ ہر اس چیز کو جو اس کے گھر میں بچے ہیں بھسم کر ڈالے گی۔
27 آسمان ثابت کرے گا کہ وہ شریر قصور وار ہے۔ زمین اس کے خلاف اٹھ جائے گی۔
28 ہر ایک چیز جو کہ اس کے گھر میں ہے وہ خدا کے غضب کے سیلاب میں بہہ جائے گا۔
29 یہ وہی ہے جسے خدا شریروں کے ساتھ کرنے جا رہا ہے۔ یہ وہی ہے جسے خدا انہیں دینے کا منصوبہ بناتا ہے۔ ”
باب: 21
1 اس پر ایّوب نے جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” میری باتوں کو سُنو! میری تسّلی کے لئے اسے اپنا راستہ ہونے دے۔
3 جب میں بو لوں تو تُو صبر رکھ اور جب میں کہہ ڈالوں تب تُو میری ہنسی اُڑا سکتا ہے۔
4 ” میری شکایت لوگوں کے خلاف نہیں ہے میں کیوں بے صبر ہوں اس کا ایک بہتر سبب ہے۔
5 مجھے دیکھ اور حیران ہو جاؤ اپنا ہاتھ اپنے مُنہ پر رکھو اور مجھے حیرانی سے دیکھو۔
6 جب میں سوچتا ہوں ان سب کو جو کچھ میرے ساتھ ہوا تو مجھ کو ڈر لگتا ہے۔ اور میرا بدن تھر تھر کانپتا ہے۔
7 کیوں شریر لوگ لمبے وقت تک جیتے ہیں ؟ وہ کیوں بوڑھے اور کامیاب ہوتے ہیں ؟
8 وہ لوگ اپنی اولاد کو اپنے ساتھ بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے نواسوں پو توں کو دیکھنے کے لئے زندہ رہا کرتے ہیں۔
9 ان کے گھر محفوظ اور خوف سے خالی ہیں۔خدا شریروں کو سزا دینے کے لئے اپنی اچھی چھڑی کا استعمال نہیں کرتا ہے۔
10 ان کے سانڈ کبھی بھی جنسی ملاپ کرنے میں فیل نہیں ہوتے ہیں ان کی گا ئیوں کو بچھڑے ہوتے ہیں اور ان کے بچھڑے پیدائش کے وقت کبھی نہیں مرتے ہیں۔
11 وہ لوگ اپنے بچوں کو میمنوں کی طرح کھیل نے کے لئے باہر بھیجتے ہیں۔
12 وہ لوگ بربط اور طنبورہ کے تال پر گاتے ہیں۔ وہ بانسری کی آوا ز پر خوش ہوتے ہیں۔
13 بُرے لوگ زندگی بھر کامیابی کی خوشی مناتے ہیں۔ اور سلامتی سے اپنی قبر میں چلے جاتے ہیں۔
14 بُرے لوگ خدا سے کہا کرتے ہیں ہمیں اکیلا چھوڑ دے ہم لوگوں کو اس کی پر واہ نہیں کہ تم ہم سے کیا کروانا چاہتے ہو۔
15 وہ لوگ کہا کرتے ہیں "خدا قادر مطلق کون ہے ؟ یہ ہمارے لئے ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کی خدمت کریں۔ اس کی عبادت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔”
16 ” یہ سچ ہے کہ بُرے لوگوں کی اپنی کامیابی ان کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ میں ان کے مشورے کا پالن نہیں کر سکتا۔
17 لیکن اکثر کتنی بار خدا شریر کے چراغ کو بُجھاتا ہے ؟ کتنی بار بُرے لوگوں پر مصیبتیں آتی ہیں ؟ خدا ان سے کب ناراض ہوتا ہے اور کب انہیں سزا دیتا ہے ؟
18 کیا خدا شریر لوگوں کو ایسے اُڑا لے جاتا ہے جیسے ہوا پیال کو اُڑا لے جا تی ہے آندھی بھوسا اور دانے کے بھو سا کو اُڑا لے جا تی ہے ؟
19 لیکن تُو کہتا ہے : خدا ایک بچے کو اس کے با پم کے گنا ہوں کی سزا دیتا ہے۔ نہیں ! خدا اس شخص کو اس کے اپنے گناہوں کی سزا دیتا ہے تا کہ وہ اسے جانے گا۔
20 گنہگار کو اپنی سزا بھگتنے دے۔ اسے خدا قادر مطلق کے غصّہ کو جھیل نے دے۔
21 جب بُرے شخص کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور وہ مر جاتا ہے تو وہ اپنے اس خاندان کی پرواہ نہیں کرتا جسے وہ پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔
22 ” کیا کوئی خدا کو علم سکھا سکتا ہے یہاں تک کہ خدا سرفرازوں کو بھی پرکھتا ہے۔
23 پوری اور کامیاب زندگی کے جینے کے بعد ایک شخص مرتا ہے اس نے ایک محفوظ اور آسودہ زندگی جیا ہے۔
24 اس کے بدن کو بھر پور غذا ملی تھی اب تک اس کی ہڈیاں تندرست تھی۔
25 لیکن ایک دوسرا شخص تلخ جان کے ساتھ ایک تکلیف دہ زندگی جینے کے بعد مر جاتا ہے۔ اس نے کبھی اچھی خوشی منا ئی۔
26 آخر میں دونوں شخص ایک ساتھ مٹی میں گِر جائیں گے اور کیڑے دونوں کو ڈھانک لیں گے۔
27 ” لیکن میں جانتا ہوں کہ تُو کیا سوچ رہا ہے اور مجھ کو پتا ہے کہ تم مجھے نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔
28 تم کہہ سکتے ہو : اچھے لوگوں کا گھر کہاں ہے۔ اور شریر لوگ کہاں رہیں گے۔
29 ” یقیناً تم نے مسافروں سے بات کی ہے یقیناً تم ان لوگوں کی کہانیوں کو قبول کرو گے۔
30 برے لوگوں کو چھوڑ دیئے جاتے ہیں جب تباہی آتی ہے۔ جب خدا اپنا غصہ دکھاتا ہے تو وہ بچ جاتے ہیں۔
31 کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس کی زندگی کے راستے کے بارے میں اس کے منھ پر کہے۔ کوئی نہیں ہے جو اس کی کی ہوئی چیزوں کے لئے سزا دے۔
32 جب اس برا شخص کو قبر میں لے جایا جاتا ہے تو اس کی قبر کے پاس ایک پہریدار کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
33 یہاں تک کہ گھاٹی کی مٹی بھی اس کے لئے خوشگوار ہو گی۔ اور بے شمار لوگ اس کی قبر کی طرف بڑھیں گے۔
34 ” اس لئے تم مجھے اپنے خالی لفظوں سے تسلی نہیں دے سکتے۔ تمہارے جواب جھو ٹوں سے بھرے پڑے ہیں۔”
باب: 22
1 تب الیفاز تیمانی نے جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” کیا خدا کو ہمارے سہارے کی ضرورت ہے ؟ یہاں تک کہ بہت زیادہ عقلمند شخص بھی خدا کے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
3 کیا تمہارا جینے کا حق خدا کی مدد کرتا ہے ؟ نہیں ! اگر تمہارے راستے بے الزام ہو؟ کیا خدا قادر مطلق کو کچھ ملتا ہے نہیں !
4 ایّوب! تجھ کو کیوں سزا دیتا ہے اور کیوں تجھ پر الزام لگاتا ہے ؟ کیا اس لئے کہ تو اس کی عبادت کرتا ہے ؟
5 نہیں ! یہ اس لئے کہ تو نے بہت سا گناہ کیا ہے۔ ایّوب! تو گناہ سے کبھی نہیں رکا۔
6 یہ ہو سکتا ہے کہ تم نے اپنے بھائی کو کچھ رقم قرض دیئے اور ضمانت کے طور پر اسے کوئی چیز دینے کے لئے مجبور کئے۔ یا یہ ہوسکتا ہے کہ تم نے غریب آدمی کا کپڑا مزید ضمانت کے طور پر قرض کے لئے لے لئے۔ ہو سکتا ہے تم نے ایسی حرکت بغیر کسی وجہ کی۔
7 ہو سکتا ہے تو نے تھکے ماندوں کو پانی نہ پلا یا ہو۔ تو نے بھوکوں کا کھا نا روک لیا ہو۔
8 ایّوب! تیرے پاس بہت ساری کاشتکاری کی زمین ہے اور لوگ تیرا احترام کرتے ہیں۔
9 لیکن ہو سکتا ہے تم نے بیواؤں کو خالی ہاتھ بھیج دیا۔ ایّوب! شاید تم نے یتیموں کو دغا دیا ہو گا۔
10 اس لئے تیرے چاروں طرف جال بچھے ہوئے ہیں اور اچانک مصیبتیں تجھے دہشت زدہ کرتی ہیں۔
11 اس لئے وہاں اتنا زیادہ اندھیرا ہے۔ تم دیکھ نہیں سکتے ہو۔ اور اس لئے پانی کا سیلاب تجھے ڈھانک لیتا ہے۔
12 ” خدا آسمان کے بلند حصّہ میں رہتا ہے۔ تاروں کی بلندی کو دیکھ وہ کتنے اونچے ہیں۔ خدا سب سے اونچے تارے کو دیکھنے کے لئے نیچے دیکھتا ہے۔
13 لیکن اے ایّوب! تم شاید یہ کہہ سکتے ہو ‘ خدا کیا جانتا ہے ؟ کیا وہ اندھیرے بادل سے دیکھ کر ہم لوگوں کو پرکھ سکتا ہے ؟
14 گھنے بادل اس کو ڈھانک لیتے ہیں اس لئے وہ ہم لوگوں کو دیکھ نہیں سکتا ہے کیوں کہ وہ آسمان کے کنارے پر تیزی سے سیر کرتا ہے۔
15 ” ایّوب! اسی پرانی راہ پر چل رہے ہو جن پر شریر لوگ کافی دنوں پہلے چلا کرتے تھے۔
16 وہ لوگ موت کے وقت سے پہلے تباہ کر دیئے گئے تھے۔ وہ لوگ سیلاب سے بہا لے جائے گئے تھے۔
17 وہ لوگ خدا سے کہتے ہیں ” ہمیں اکیلا چھوڑ دو! خدا قادر مطلق ہمارا کچھ نہیں کر سکتا۔
18 لیکن خدا نے ان کے گھروں کو اچھی چیزوں سے بھر دیا۔ نہیں میں شریر لوگوں کی صلاح نہیں مان سکتا۔
19 راستباز ان لوگوں کو دیکھ کر خوشی منائیں گے۔ معصوم لوگ برے لوگوں پر ہنسیں گے۔
20 ہمارے دشمن سچ مچ میں فنا ہو گئے ! آ گ ان کی دولت کو جلا دی ہے۔
21 ایّوب خود کو خدا کے حوالے کر دے اور اس کے ساتھ امن قائم کر اسے کر اور تم خوشحال ہو گے۔
22 اس کی شریعت کو قبول کر۔ اس کے کلاموں پر دھیان دے۔
23 ایّوب! اگر تو پھر خدا قادر مطلق کے پاس لوٹ آئے تو تو پھر سے جیسا ہو جائے گا۔ لیکن تم اپنے گھر سے برائی کو ضرور نکال دو۔
24 اپنے سونے کو کچھ نہیں بلکہ دھول گرد سمجھو۔ اپنے بہترین سونے کو جھرنے کی کنکری جیسا سمجھو۔
25 خدا قادر مطلق کو اپنا سونا سمجھو اور اسے اپنی چاندی کا ڈھیر سمجھو۔
26 تب تم خدا قادر مطلق میں شادمان ہو گے۔ تب تم اپنا چہرہ خدا کے لئے اٹھاؤ گے۔
27 جب تو اس سے دعا مانگے گا تو وہ تیری سنے گا۔ اور تو اپنے عہد کو پو را کر سکے گا۔
28 جو کچھ تو کرے گا اس میں تجھے کامیابی ملے گی اور روشنی تیری راہوں کو روشن کرے گی۔
29 خدا مغرور شخص کو شرمندہ کرواتا ہے۔ لیکن وہ خاکسار لوگوں کو بچائے گا۔
30 تب تم ان لوگوں کی مدد کر سکو گے جو غلطی کرتے ہیں۔ تم خدا سے دعا مانگو گے اور وہ ان لوگوں کو معاف کر دے گا۔ کیوں کہ تم بہت پاکیزہ ہو گے۔ ”
باب: 23
1 تب ایّوب نے جواب دیتے ہوئے کہا :
2 ” میں آج بھی شکایت کر رہا ہوں کیوں کہ میں اب تک جھیل رہا ہوں۔
3 کاش! میں یہ جان پاتا کہ خدا کو کہاں تلاش کروں۔ کاش! میں جان پاتا کہ خدا کے پاس کیسے جاؤں !
4 میں اپنا حال خدا کے سامنے بیان کر تا۔ میرا منھ بحث سے بھرا ہوتا یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ میں معصوم ہوں۔
5 میں یہ جان نے کی خواہش کرتا ہوں کہ خدا مجھے کیا کہتا ہے۔ میں خدا کے جواب کو سمجھنا چاہتا ہوں۔
6 کیا خدا اپنی عظیم قوت کے ساتھ میرے خلاف ہوتا؟ نہیں ! وہ میری سنتا۔
7 میں ایک ایماندار شخص ہوں۔ خدا مجھے اپنی روداد کو کہنے کی اجازت دیتا تب میں اپنے منصف کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جا تا۔
8 ” لیکن اگر میں مشرق کو جاؤں تو خدا وہاں نہیں ہے اور اگر میں مغرب کو جاؤں تو بھی خدا مجھے نہیں نظر آتا ہے۔
9 خدا جب شمال میں مصروف رہتا ہے تو میں اسے دیکھ نہیں پاتا ہوں۔ جب خدا جنوب کو مڑتا ہے تو بھی وہ مجھ کو نظر نہیں آتا ہے۔
10 لیکن خدا مجھے جانتا ہے۔ وہ مجھے جانچتا ہے اور وہ دیکھے گا کہ میں خالص سونے کے جیسا ہوں۔
11 میں ہمیشہ ویسا ہی رہا ہوں جیسا خدا نے چاہا۔ میں کبھی بھی خدا کی راہ پر چلنے سے نہیں رکا۔
12 میں ہمیشہ خدا کے احکامات کا پالن کرتا ہو ں۔ میں خدا کے منھ سے نکلے ہوئے کلام کو اپنے کھانے سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔
13 ” لیکن خدا کبھی نہیں بدلتا۔ کوئی بھی شخص اس کے خلاف کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔ خدا جو بھی چاہتا ہے کرتا ہے۔
14 خدا نے جو بھی منصوبہ میرے لئے بنا یا ہے وہ اسے پورا کرے گا۔ اس کے پاس میرے لئے اور بھی بہت سارے منصوبے ہیں۔
15 اس لئے میں خدا سے ڈرتا ہوں۔ میں ان چیزوں کو سمجھتا ہوں۔ اس لئے میں اس سے خوفزدہ ہوں۔
16 خدا نے میرے دل کو کمزور بنا یا ہے اور میرے حوصلہ کولے لیا ہے۔ خدا قادر مطلق نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے۔
17 وہ بری چیزیں جو کہ میرے لئے ہوئیں میرے چہرے پر گھنے بادل کی طرح ہے۔ لیکن وہ اندھیرا مجھے خاموش نہیں رکھے گا۔
باب: 24
1 ” خدا قادر مطلق کیوں جانتا ہے کہ لوگوں پر بری چیزیں کب ہوں گی۔ لیکن اس کے مان نے والے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ کب اس کے بارے میں کچھ کرنے جا رہا ہے۔ ”
2 ” لوگ اپنی جائیداد کی حدود کے نشان کو اپنے پڑوسی کی زمین کو زیادہ لینے کے لئے کھسکا دیتے ہیں۔ وہ بھیڑوں کے جھنڈ کو چرا لیتے ہیں۔ اور دوسری گھاس کے میدان میں ہانک دیتے ہیں۔
3 یتیم بچّوں کے گدھے کو وہ چرا لے جاتے ہیں۔ بیوہ کی گائے کو وہ کھول کر لے جاتے ہیں۔ جب تک کہ وہ ان کا قرض ادا نہیں کر دیتی ہے۔ شریر لوگ شیر خوار بچے کو اس کی ماں سے چھین لیتے ہیں۔ وہ غریب کے بچے کو قرض کی ضمانت کے طور پرلے جاتے ہیں۔
4 وہ غریبوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ بغیر گھر کے ایک جگہ سے دوسرح جگہ بھٹکتے پھریں۔ غریب لوگوں کو شریر لوگوں سے اپنے آپ کو چھپانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔
5 ” غریب لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بیا بان میں اپنی خوراک کی تلاش میں بھٹکتے ہیں۔ وہ صبح سویرے خوراک کی تلاش میں اٹھتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے بچوں کا کھا نا حاصل کرنے کے لئے دیر شام تک کام کرتے ہیں۔
6 غریب لوگوں کو دیر رات تک فصلوں کو کاٹنے اور پیالوں کو کھیت میں جمع کرنے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ ان کو امیر لوگوں کے لئے کام کرنا ہو گا۔ ان کے تاکستانوں میں انگور اکٹھا کر نا ہو گا۔
7 بنا کپڑوں کے انہوں نے اپنی راتیں بتائی۔ ان کے پاس سردی کے موسم میں خود کو ڈھکنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔
8 وہ پہاڑوں پر بارش سے بھیگ جاتے ہیں اور پناہ کی کمی کی وجہ سے چٹان سے لپٹ جاتے ہیں۔
9
10 کپڑوں کی کمی کی وجہ سے غریب لوگ ننگا بدن کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ وہ شریر لوگوں کے لئے اناجوں کے ڈھیروں کو اٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ اب بھی بھوکے رہتے ہیں۔
11 وہ لوگ زیتون کو تیل نکالنے کے لئے پیستے ہیں۔ وہ اسے مئے کے کو لہو میں روندتے ہیں لیکن پھر بھی پیاسے رہتے ہیں۔
12 مرتے ہوئے لوگ جو آہیں بھرتے ہیں شہر میں سُنائی دیتی ہیں۔ستائے ہوئے لوگ سہا رے کو پکارتے ہیں لیکن خدا نہیں سُنتا ہے۔
13 ” کچھ لوگ روشنی کے خلاف بغاوت کرتے ہیں وہ خدا کے راستوں کو نہیں جانتے ہیں۔ وہ لوگ اس راستہ پر نہیں رہتے ہیں جسے خدا چاہتا ہے۔
14 قاتل صبح ہوتے ہی اٹھتا ہے۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کو ہلاک کرتا ہے اور رات میں چور بن جاتا ہے۔
15 زنا کار رات آنے کا منتظر رہتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھے گا اور تب تک وہ اپنا چہرہ ڈھانک کر رکھتا ہے۔
16 اندھیرے میں شریر لوگ دوسرے لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے ہیں لیکن دن میں خود کو اپنے گھروں میں بند رکھتے ہیں اور روشنی سے بچتے ہیں۔
17 ان جیسے لوگوں کے لئے سب سے اندھیری رات صبح جیسی ہو تی ہے۔ ہاں وہ لوگ اس خطرناک اندھیری رات کی دہشت سے اچھی طرح واقف ہیں۔
18 ” شریر لوگ ایسے بہا دیئے جاتے ہیں جیسے سیلاب سے سامان بہہ جاتا ہے۔ ان کی زمین لعنت سے بھری ہوئی ہے۔ اس لئے وہ اپنے ہی کھیتوں سے انگوروں کو ایک ساتھ اکٹھا نہیں کر پائیں گے۔
19 جیسا کہ خشک سالی اور گرمی ان لوگوں کے پانی کو جو کہ جاڑے کے موسم کے برف سے آیا تھا سکھا دیتی ہے۔ اس لئے قبر بھی ان گنہگاروں کولے جائے گی۔
20 بُرے آدمی کی موت کے بعد اس کی ماں اسے بھول جا تی ہے۔ اس کی لاش کھانے والے کیڑے ہی صرف اس کے پیارے ہیں۔ لوگ اسے یاد نہیں کریں گے۔ وہ بُرا شخص ایک سڑی ہوئی چھڑی کی طرح ٹوٹ جائے گا۔
21 بُرے لوگ بانجھ اور بنا بچے کی عورتوں کو چوٹ پہنچاتے ہیں۔ وہ بیواؤں کی مدد کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
22 بُرے لوگ اپنی طاقت کا استعمال طاقتور آدمی کو فنا کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اگر چہ وہ طاقتور ہو جائیں گے لیکن وہ لوگ اپنی زندگی کے بارے میں بھی پُر یقین نہیں ہو سکتے ہیں۔
23 بُرے لوگ کچھ وقت کے لئے ہو سکتا ہے محفوظ اور بے خطر محسوس کریں۔ ہو سکتا ہے وہ طاقتور ہونا چا ہیں۔
24 وہ لوگ تھوڑے وقت کے لئے کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن آخر میں وہ فنا کر دیئے جاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کی مانند ان لوگوں کو بھی اناج کی بالیوں کی طرح کاٹ دیئے جائیں گے۔
25 میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ باتیں صحیح ہیں ! کون ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے ؟ کون ثابت کر سکتا ہے کہ میری باتیں غلط ہیں ؟ ”
باب: 25
1 تب بِلدد سُو خی نے ایّوب کو جواب دیا :
2 ” خدا حکمران ہے وہ لوگوں کو خوفزدہ کرتا ہے اور اس سے اپنا احترام کرواتا ہے۔ وہ اوپر اپنی سلطنت میں امن و امان قائم کرتا ہے۔
3 کوئی اس کے ستاروں کو گِن نہیں سکتا ہے۔ خدا کا سورج سب پر چمکتا ہے۔
4 خدا کے مقابلہ میں کوئی شخص بہتر نہیں ہے۔ ایک وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے کبھی بھی پاک نہیں ہو سکتا۔
5 یہاں تک کہ خدا کی آنکھوں کے سامنے چاندی بھی چمکیلا نہیں ہے۔ خدا کی نظر میں تارے بھی پاک نہیں ہیں۔
6 لوگ بھی کم پاک ہیں۔ لوگ ایک بیکار کیڑے کی مانند ہیں۔”
باب: 26
1 تب ایّوب نے جواب دیا :
2 ” اے بِلدد ضوفر اور الیفاز! تم سچ مچ میں تھکے ماندے آدمی کے مددگار ہو چکے ہو۔ ارے ہاں ! تم پھر سے میرے کمزور بازوؤں کو حوصلہ مند اور طاقتور بنا چکے ہو۔
3 ہاں ! تم نے اس ایک کو جو عقلمند نہیں ہے تعجب خیز مشورہ دیا ہے۔ اور تم نے دِکھا دیا ہے کہ تم کتنے عقلمند ہو۔
4 ان باتوں کو کہنے میں کس نے تمہاری مدد کی؟ اور کس کی رُوح تیرے ذریعہ بولتی ہے ؟
5 ” لیکن جو لوگ مر گئے ہیں ان کی رُوحیں زمین کے نیچے پانی میں خوف سے کانپتی ہے۔
6 موت کی جگہ خدا کے سامنے کھلی ہے۔ بربادی خدا سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
7 اس نے شمالی آسمان کو خلا کے اوپر پھیلا دیا ہے۔ اس نے زمین کو کسی چیز پر نہیں ٹکا یا ہے۔
8 خدا بادلوں کو پانی سے بھرتا ہے مگر پانی کے وزن سے خدا بادلوں کو پھٹنے نہیں دیتا ہے۔
9 خدا پورے چاند کو اس کے اوپر اپنے بادلوں کو پھیلا کر ڈھانک دیتا ہے۔
10 خدا نے افق کو سمندر کے اوپر دائرہ کے جیسا کھینچا ہے۔ جہاں روشنی اور اندھیرا پن ملتا ہے۔
11 اس کی ڈانٹ سے وہ بنیادیں جو آسمان کو تھا مے ہوئی ہیں خوف سے کانپ اٹھتی ہیں۔
12 اس نے اپنی طاقت سے سمندر کو خاموش کر دیا۔ اپنی عقلمندی سے اس نے رہب دیو کے مدد گاروں کو برباد کر دیا۔
13 اس کی سانس سے آسمان صاف ہو گیا۔ اس کے ہاتھوں نے اس سانپ کو مار ڈالا جس نے بھاگنے کی کو شش کی تھی۔
14 یہ صرف کچھ ہی حیرت انگیز چیز ہے جسے خدا کرتا ہے۔ ہم لوگ خدا کی صرف ہلکی آواز سنتے ہیں۔ کوئی بھی اس کی قوت کی گرج کو نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ”
باب: 27
1 2 ” یقیناً خدا کی حیات کی قسم وہ میرے ساتھ غیر منصف رہا ہے۔ خدا قادر مطلق نے میری زندگی کو تلخ بنا دیا ہے۔
3 جب تک مجھ میں جان ہے اور خدا کی زندگی کی سانس میری ناک میں ہے
4 تب تک میرے ہونٹ بری باتیں نہیں بولیں گے اور میری زبان کبھی جھوٹ نہیں بولے گی۔
5 میں کبھی نہیں کہوں گا کہ تم صحیح ہو۔ میں مرنے کے دن تک یہ کہتا رہوں گا کہ میں بے قصور ہوں۔
6 میں اپنی صداقت پر مضبوطی سے قائم رہوں گا۔ اور میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ جب تک میں زندہ ہوں میرا شعور مجھے تنگ نہیں کرے گا۔
7 ” وہ لوگ میرے خلاف ہو گئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میرے دشمنوں کو اسی طرح سزا دی جاتی جس طرح برے لوگوں کو سزا دینی چاہئے۔
8 ایسے شخص کے لئے مرتے وقت کوئی امید نہیں ہے جو خدا کی پر واہ نہیں کرتا ہے۔ جب خدا اس کی جان لے گا تب تک اس کے لئے کوئی امید نہیں ہے۔
9 کیا خدا برے شخص کی چیخ کو سنتا ہے جب وہ اسے مصیبت کے وقت پکارتا ہے۔
10 اس شخص کو خدا قادر مطلق میں خوشی لینا چاہئے تھا۔ اس کو خدا کی ہر وقت عبادت کرنی چاہئے تھی۔
11 ” میں تم کو خدا کے بر تاؤ کی تعلیم دوں گا۔ میں خدا قادر مطلق کے منصوبے نہیں چھپاؤں گا۔
12 تم سبنے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے۔ پھر تم کیوں اس طرح کی فضل باتیں کرتے ہو؟
13 شریر لوگوں کے لئے خدا نے یہ منصوبہ بنا یا ہے اور یہی ظالم لوگوں کو خدا قادر مطلق سے ملے گا۔
14 برے لوگوں کو چاہے کتنی ہی اولاد ہو لیکن انہیں جنگ میں مار دیا جائے گا۔ برے لوگوں کی اولادوں کو کبھی بھی کھانے کے لئے زیادہ نہیں ملے گا۔
15 ان کے سبھی بچے مر جائیں گے اور اس کی بیوہ غمزدہ نہیں ہو گی۔
16 ایک برا شخص ہو سکتا ہے کہ اتنا زیادہ چاندی جمع کر لے کہ وہ اس کے لئے دھول جیسی ہو اور ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہوں کہ وہ اس کے لئے مٹی کے ڈھیروں کی طرح ہوں۔
17 لیکن ایک جو صادق ہے اپنے کپڑوں کو بانٹے گا اور معصوم ان کے چاندی کو بانٹ لیں گے۔
18 شریر شخص کا بنا یا ہوا گھر زیادہ دنوں تک نہیں رہے گا۔ وہ مکڑی کے جالے کی مانند یا کسی چوکیدار کی جھو پڑی جیسا ہو گا۔
19 ہو سکتا ہے ایک برا شخص جب وہ سونے جاتا ہے تو امیر ہو۔ لیکن جب وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت ان کی ساری دولت جا چکی ہوں گی۔
20 دہشت اسے اچانک سیلاب کی طرح ڈھا نک لے گی اور رات کو اسحے طوفان اڑا لے جائے گا۔
21 مشرقی ہوا اسے اڑا لے جائے گی اور وہ مر جائے گا یہ اس کو اس کے گھر سے باہر اڑا لے جائے گی۔
22 برا شخص ہو سکتا ہے طوفان کی طاقت سے بچنے کی کوشش کرے لیکن طوفان اسے بنا کسی رحم کے تھپیڑا مارے گا۔
23 جب برا شخص بھا گے گا تو لوگ اس پر تالیاں بجائیں گے۔ جب وہ برا شخص اپنے گھر سے بھا گے گا تو لوگ اس پر سیٹیاں بجائیں گے۔
باب: 28
1 ” وہاں چاندی کا کان ہے جہاں لوگ چاندی پاتے ہیں وہاں ایسی جگہ ہے جہاں لوگ سونا پگھلا کر اسے خالص بناتے ہیں۔
2 لو ہا کو زمین سے باہر نکالا گیا ہے۔ اور تانبوں کو چٹانوں سے پگھلا یا گیا۔
3 مزدور لوگ گہری غاروں میں روشنی لے جاتے ہیں۔ گھنے اندھیرے میں معدنیات تلاش کرتے ہیں۔
4 وہ لوگ معدنی پرت کے پیچھے چلتے ہوئے کافی گہرائی تک زمین کو کھودتے ہیں۔ جہاں لوگ رہتے ہیں اس سے بہت دور وہ لوگ گہرائی میں جاتے ہیں جہاں کوئی بھی کبھی نہیں گیا۔ وہ زمین کے نیچے دوسرے لوگوں سے کافی دور رسیوں سے لٹکتے ہیں۔
5 زمین اناج پیدا کر تی ہے۔ لیکن زمین کی سطح کے نیچے ایسا ہے جیسا کہ سبھی چیزیں آ گ سے پگھل گئی ہوں۔
6 زمین کے اندر نیلم ہے اور اس کے دھول میں خالص سونا ہے۔
7 کوئی بھی پرندہ زمین کے نیچے کی را ہیں نہیں جانتا ہے۔ نہ ہی کسی باز نے یہ اندھیرا راستہ دیکھا ہے۔
8 جنگلی جانور اس راہ پر نہیں چڑھتے اور نہ کوئی شیر اس راستے پر چلا ہے۔
9 مزدور بے حد سخت چٹانوں کو کھودتے ہیں اور وہ پہاڑوں کو کھود ڈالتے ہیں اور اسے ننگا کرتے ہیں۔
10 مزدور چٹان کاٹ کر سرنگ بناتے ہیں۔ وہ چٹان کے سبھی خزانوں کو دیکھا کرتے ہیں۔
11 مزدور پانی کو روکنے کے لئے باندھ باندھا کرتے ہیں اور وہ لوگ چھپی ہوئی چیزوں کو اوپر روشنی میں لاتے ہیں۔
12 ” لیکن حکمت کہاں پایا جا سکتا ہے ؟ اور ہم لوگ سمجھداری کو پانے کے لئے کہاں جا سکتے ہیں ؟
13 لوگ نہیں جانتے ہیں کہ حکمت کتنی قیمتی ہے۔ زمین پر رہنے والے لوگ حکمت کو زمین میں کھود کر نہیں پا سکتے ہیں۔
14 سمندر کی گہرائی کہتی ہے "مجھ میں حکمت نہیں ہے۔ ” سمندر کہتا ہے میرے ساتھ وہ حکمت نہیں ہے۔
15 حکمت کو سب سے زیادہ قیمتی سونا سے بھی خریدا نہیں جا سکتا ہے اور نہ دنیا میں اتنی زیادہ چاندی ہے کہ جس سے حکمت کو خریدا جا سکے۔
16 حکمت اوفیر کے سونے سے یا قیمتی سلیمانی پتھر سے یا نیلموں سے خریدی نہیں جا سکتی ہے۔
17 حکمت سونا اور نگینہ سے زیادہ قیمتی ہے۔ قیمتی سونے کے زیورسے حکمت کو خریدا نہیں جا سکتاہے۔
18 حکمت مونگے اور بلّور سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ حکمت یا قوت سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔
19 پکھراج اتنا قیمتی نہیں جتنا حکمت۔خالص سونے سے حکمت نہیں خریدی جا سکتی ہے۔
20 ” تو پھر حکمت کہاں سے آتی ہے ؟ ہم لوگ سمجھداری کو کہاں سے پا سکتے ہیں ؟
21 حکمت ہر ایک جاندار کے آنکھوں سے چھپی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ ہوا کے پرندے بھی حکمت کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
22 موت اور ہلاکت کہتی ہے ” ہم نے حکمت کو نہیں پا یا ہے۔ صرف اس کی افواہ ہمارے کانوں تک پہنچی ہے۔ ”
23 لیکن صرف خدا ہی حکمت تک پہنچنے کی راہ کو جانتا ہے۔ صرف خدا ہی جانتا ہے حکمت کہاں رہتی ہے۔
24 خدا زمین کی انتہا تک دیکھ سکتا ہے۔ اور وہ آسمان کے نیچے سبھی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے۔
25 خدا نے ہوا کو اپنی طاقت دی ہے۔ اس نے طئے کیا کہ سمندر کو کتنا بڑا ہو نا چاہئے۔
26 اور خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے کہاں بارش بھیجنا ہے اور بجلی کی گرج اور طوفان کو کہاں جانا ہے۔
27 اس وقت خدا نے حکمت کو دیکھا اور اس کے بارے میں سوچا۔ خدا نے دیکھا حکمت کتنی قیمتی تھی اور اس نے اسے ثابت کیا۔
28 اور خدا نے لوگوں سے کہا "خداوند کا خوف اور احترام کرو یہی حکمت ہے۔ بُری باتیں نہ کرو یہی سمجھداری ہے۔ ”
باب: 29
1 ایّوب نے اپنی کہانی جاری رکھی اور کہا
2 ” کاش! میری زندگی ویسی ہی ہو تی جیسے کچھ مہینے پہلے تھی جس وقت خدا نے مجھ پر نظر رکھی تھی اور میرا خیال رکھا تھا۔
3 اس وقت خدا کی روشنی میرے سر کے اوپر چمکتی تا کہ میں اندھیرے میں چل سکوں۔ خدا نے مجھے صحیح راستہ دکھا یا۔
4 میں ان دنوں کی آرزو کرتا ہوں جب میری زندگی کامیاب تھی اور خدا میرا قریبی دوست تھا۔ وہ دن تھے جب خدا کی خوشنودی میرے گھر پر تھی۔
5 ایسے وقت کی میں آرزو کرتا ہوں جب خدا قادر مطلق میرے ساتھ تھا اور میرے پاس میرے بچے تھے۔
6 اس وقت میری زندگی بہت اچھی تھی۔ میں اپنے پیروں کو مکھن سے دھوتا تھا اور میرے پاس بہت سارے عمدہ تیل تھے۔
7 ” جب میں شہر کے پھاٹکوں کی طرف جاتا تھا اور شہر کے امراء کے ساتھ عوامی اجلاس کی جگہ پر بیٹھتا تھا
8 وہاں سبھی لوگ میری عزت کیا کرتے تھے۔ نوجوان لوگ جب مجھے دیکھتے تھے تو میری راہ سے ہٹ جا یا کرتے تھے۔ اور عُمر رسیدہ لوگ میرے احترام میں کھڑے ہو جاتے تھے۔
9 لوگوں کے قائدین بولنا بند کر دیتے تھے۔ دوسرے لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے اپنے منہ کو بند کر لیتے تھے۔
10 یہاں تک کہ کئی اہم امراء بھی جب وہ بولتے تھے تو اپنی آواز دھیمی کر لیتے تھے۔ ہاں ! ایسا معلوم پڑتا تھا کہ ان کی زبانیں ان کے تالوں سے چپک گئیں ہوں۔
11 جس کسی نے بھی مجھ کو بولتے سنا میرے بارے میں اچھی بات کہی۔جس کسی نے بھی مجھ کو دیکھا تھا میری تعریف کی تھی۔
12 کیونکہ میں نے غریب آدمی کی مدد کی جب بھی وہ مدد کے لئے پکارتا۔ میں نے یتیموں کی مدد کی جس کے پاس اس کا خیال رکھنے وا لا کوئی نہیں تھا۔
13 مجھ کو مرتے ہوئے شخص کی دُعا ملی۔ میں نے ان بیواؤں کی مدد کی اور ان کو خوش کیا۔
14 میں نے صداقت کو اپنے لباس کے طور پر پہنا۔ انصاف میرا جبہ اور میرے عمامہ کی طرح تھا۔
15 میں اندھے کے لئے آنکھ تھا۔ میں ان کو وہاں لے گیا جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔ میں لنگڑے لوگوں کے لئے پیر تھا۔ میں ان لوگوں کو وہاں لے جاتا جہاں کہیں بھی وہ جانا چاہتے تھے۔
16 غریبوں کے لئے میں باپ کے جیسا تھا۔میں اجنبیوں کی عدالت میں معاملات جیتنے میں بھی مدد کرتا تھا۔
17 میں نے شریر لوگوں کی قوت کو کچل دیا اور معصوم لوگوں کو ان سے بچا یا۔
18 ” میں ہمیشہ سوچتا ہوں میں ایک لمبی زندگی جیوں گا اور اپنے خود کے گھر میں اپنے خاندان کے لوگوں کے بیچ مروں گا۔
19 میں نے سوچا کہ میں ایک ایسا درخت بناؤں گا جس کی جڑیں پانی میں پہنچیں گی اور جس کی شاخیں ہمیشہ شبنم سے بھیگیں گی۔
20 میں سوچتا ہوں کہ ہر نیا دن روشن ہو گا اور نئی اور پُر جوش چیزوں سے بھرا ہوا ہو گا۔
21 پہلے لوگ میری بات سنا کرتے تھے۔ جب وہ میرے مشورے کے لئے انتظار کرتے تو خاموش رہتے تھے۔
22 میرے بولنے کے بعد ان لوگوں کے پاس جو میری بات سنتے تھے کچھ بھی بولنے کے لئے نہیں تھا۔ میرے الفا ظ ان کے کانوں میں آہستہ آہستہ پڑتے۔
23 لوگ جیسے بارش کے منتظر ہوتے ہیں ویسے ہی وہ میرے بولنے کے منتظر رہا کرتے تھے۔ میرے لفظوں کو وہ ایسے پی جا یا کرتے تھے جیسے میرے الفاظ موسم بہار میں بارش ہو ں۔
24 میں ان کے ساتھ ہنستا تھا لیکن وہ لوگ مشکل سے یقین کرتے تھے۔ میری مسکراہٹ کی وجہ سے ان لوگوں نے بہتر محسوس کیا۔
25 میں ان کا قائد ہوتے ہوئے بھی ان لو گوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔ میں چھاؤنی میں ان کے گروہ کے ساتھ ایک بادشاہ کی مانند تھا اور اس کو تسلی دیا کرتا تھا جو غمزدہ تھے۔
باب: 30
1 لیکن اب وہ لوگ جو عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ ان کے آباء و اجداد اتنے نکمّے تھے کہ میں ان لوگوں کو اپنی بھیڑوں کی رکھوا لی کرنے والے کتّوں کے ساتھ بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔
2 ان جوان لوگوں کے باپ اتنے کمزور ہیں کہ وہ میری مدد نہیں کر سکتے۔ ان کی طاقت انہیں چھوڑ دی۔
3 وہ لوگ مرے ہوئے لوگوں کی طرح ہیں۔ وہ لوگ بھو کے مر رہے ہیں کیونکہ کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ وہ ریگستان کی طرف بھا گے وہ لوگ اپنی غذا کے لئے سوکھی جڑوں کو کھود رہے تھے۔
4 وہ ریگستان میں نمکین پو دوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اور جھاڑی دار درختوں کے بے مزہ جڑوں کو کھاتے ہیں۔
5 وہ لوگ دوسرے لو گوں سے بھگائے گئے ہیں۔لوگ ان کے پیچھے ایسے چلاتے ہیں جیسے چور کے پیچھے۔
6 ان لوگوں کو خشک ندی کے تل میں پہاڑی دامن کے غاروں میں اور زمین کے شگافوں میں رہنے کے لئے مجبور کیا۔
7 وہ جھاڑیوں کے بیچ غُراتے ہیں اور کانٹے دار جھاڑیوں کے نیچے ایک ساتھ اکٹھا ہو جاتے ہیں۔
8 وہ بیکار کے لوگوں کا گروہ ہے جن کے نام تک نہیں ہیں۔ ان کو اپنے ملک سے باہر کر دیا گیا تھا۔
9 "اب ان لوگوں کے بیٹے آتے ہیں اور میری ہنسی اُڑانے کے لئے گیت گاتے ہیں۔ میرا نام ان کے لئے بُرا سا لفظ بن گیا ہے۔
10 وہ سب جوان آدمی مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور وہ مجھ سے دور کھڑے رہتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ مجھ سے بہتر ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آتے ہیں اور میرے منھ پر تھوکتے ہیں۔
11 خدا نے میری کمان سے ڈوری کولے لیا ہے اور مجھے کمزور بنا دیا ہے۔ وہ جوان اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھتے ہیں بلکہ اپنے تمام غصّہ کے ساتھ میرے خلاف ہو جاتے ہیں۔
12 وہ میری داہنی طرف سے مجھ پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ میرے پاؤں کے لئے پھندا ڈالتے ہیں۔ میں قبضہ کے اندر آئے ہوئے شہر کے جیسا محسوس کرتا ہوں۔ وہ مجھ پر حملہ کرنے اور بر باد کرنے کے لئے میری دیواروں کے بر خلاف مٹی سے ڈھلوان چبوترے بناتے ہیں۔
13 وہ نو جوان میری راہ پر نظر رکھتے ہیں تا کہ میں بچ کر بھاگنے نہ پاؤں۔ وہ مجھے تباہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ کسی کی مدد نہیں چاہتے ہیں۔
14 وہ لوگ دیوار میں سوراخ کرتے ہیں۔ وہ لوگ اس سے بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور ٹوٹتی ہوئی چٹان مجھ پر گر تی ہے۔
15 مجھ کو خوف جکڑ لیتا ہے۔ جیسے ہوا چیزوں کو اُڑا لے جا تی ہے ویسے ہی وہ نو جوان میری عظمت کو اُڑا دیتے ہیں۔ جیسے بادل غائب ہو جاتا ہے ویسے ہی میرا تحفّظ غائب ہو جاتا ہے۔
16 ” اب میری زندگی لگ بھگ ختم ہو چکی اور میں بہت جلد مر جاؤں گا۔ مصیبتوں کے دنوں نے مجھے جکڑ لیا ہے۔
17 میری تمام ہڈیاں رات کو دُکھتی ہیں اور وہ درد مجھے چبانے سے کبھی نہیں رکتا ہے۔
18 میرے گریبان کو خدا بڑی قوّت سے پکڑتا ہے وہ میرے کپڑوں کا حُلیہ بگاڑ دیتا ہے۔
19 خدا نے مجھے کیچڑ میں پھینک دیا اور میں دھول و راکھ کی طرح ہو گیا۔
20 ” اے خدا! میں نے مدد کے لئے تجھ کو پکا را۔ لیکن تُو کبھی جواب نہیں دیتا ہے۔ میں کھڑا ہوتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں مگر تُو مجھ پر توجہ نہیں دیتا۔
21 اے خدا تو میرے تئیں بہت بے رحم ہے تو اپنی طاقت میرے خلاف استعمال کرتا ہے۔
22 اے خدا! تو مجھے تیز آندھی کے ساتھ اُڑا دیتا ہے۔ تو مجھے طوفان کے بیچ پھینک دیتا ہے۔
23 میں جانتا ہوں کہ تو مجھے میری موت کے پاس بھیج رہا ہے اس جگہ جو سبھی زندہ شخص کے لئے مقرر ہے۔
24 ” لیکن یقیناً کوئی بھی اس شخص کو جو تباہ ہو چکا ہے اور مدد کے لئے پکا رہا ہے۔ نقصان نہیں پہنچائے گا۔
25 اے خدا! تُو تو یہ جانتا ہے کہ میں ان کے لئے رو یا جو مصیبت میں پڑے ہیں۔ تُو تو یہ جانتا ہے کہ میرا دِل غریب لوگوں کے لئے دُکھی رہتا تھا۔
26 لیکن جب میں اچھائی کا منتظر تھا تو اس کے بدلے میں بُری چیزیں آئی۔ جب میں روشنی کے لئے ٹھہرا تھا تو تاریکی آئی۔
27 میں اندرونی بے چینی میں مبتلا ہوں۔ میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔ مصیبتیں کبھی رکتی ہی نہیں ہیں۔ اور مصیبت کے دن بس ابھی ہی شروع ہوئے ہیں۔
28 میں بغیر کسی تسکین کے ہر وقت غمزدہ اور تکلیف میں ہو ں۔ میں مجمع میں کھڑا ہو کر مدد کے لئے دُہائی دیتا ہوں۔
29 میں اکیلا ہی جنگلی کتّے اور ریگستان میں شُتر مرغ جیسا ہوں۔
30 میرا چمڑا کا لا ہو رہا ہے اور جھڑ رہا ہے۔ میرا جسم بخار سے جل رہا ہے۔
31 اسی لئے میرے سِتارسے ماتم اور میری بانسری سے رونے کی آواز نکلتی ہے۔
باب: 31
1 ” میں نے اپنی آنکھوں کے ساتھ کسی کنواری لڑکی پر ہوس کے ساتھ نظر نہ ڈالنے کا معاہدہ کیا ہے۔
2 خدا قادر مطلق لوگوں کے ساتھ کیا کرتا ہے ؟ وہ کیسے اپنے بلند آسمان کے گھر سے ان کے کاموں کا صِلہ دیتا ہے ؟
3 شریر لوگوں کے لئے خدا مصیبت اور تباہی بھیجتا ہے اور جو برا کرتے ہیں ان کے لئے آفت بھیجتا ہے۔
4 میں کچھ جو بھی کرتا ہوں خدا جانتا ہے اور میرے ہر قدم کو وہ دیکھتا ہے۔
5 ” میں نے نہ جھو ٹ بو لا ہے اور نہ ہی لوگوں کو دھو کہ دینے کی کو شش کی ہے۔
6 اگر خدا صحیح ترازو استعمال کرے تب وہ جان جائے گا کہ میں بے قصور ہوں۔
7 اگر میں صحیح راستہ سے اتر گیا تھا اگر میری آنکھیں میرے دل کو برائی کی جانب آمادہ کر تی ہیں یا میرا ہاتھ گناہوں سے گندہ ہو چکا ہے تو خدا جان جائے گا۔
8 تو یہ دوسروں کے لئے صحیح ہو گا کہ جو میں بوؤں وہ اسے کھائے اور جن پودوں کو میں اگاؤں اسے وہ اکھاڑ دے۔
9 ” اگر میرا دل کسی عورت پر آ گیا ہو یا یہ میرے پڑوسی کے دروازہ پر اس کی بیوی کے ساتھ برائی کرنے کے لئے بیٹھا ہوا ہو
10 تو میری بیوی دوسرے آدمی کا کھا نا تیار کرے اور دوسرے آدمی اس کے ساتھ سوئیں۔
11 کیوں کہ جنسی گناہ شرمناک ہے۔ یہ ایسی گناہ ہے۔ جس کی سزا ملنی چاہئے۔
12 جنسی گناہ ایک آ گ کی طرح ہے جو سبھی چیزوں کو جلا کر راکھ کرتی ہے۔ وہ ان سبھی کو برباد کر سکتی ہے۔ جسے میں نے کیا ہے۔
13 ” اگر میں اپنے نوکروں کے لئے منصف ہونے سے انکار کروں تب ان کی میرے خلاف شکایت ہو۔
14 تب میں کیا کروں گا۔ جب مجھے خدا کے سامنے پیش ہونا ہو گا؟ مجھے کیا جواب دینا چاہئے تب وہ میرے کاموں کے بارے میں مجھ سے سوال کرنے لگے گا۔
15 خدا نے مجھے میری ماں کے رحم میں بنا یا۔ اور خدا نے میرے نوکروں کو بھی بنا یا۔ اس نے ہم سبھی کو ہماری ماؤں کے رحم میں صورت دی۔
16 ” میں نے کبھی بھی غریبوں کی مدد کرنے ے انکار نہیں کیا۔ میں نے بیواؤں کو وہ دیا جن کی اسے ضرورت تھی۔
17 میں اپنے کھانے کے ساتھ کبھی بھی خود غرض نہیں رہا۔ میں نے اپنا کھا نا ہمیشہ یتیموں کو دیا ہے۔
18 ” میں اپنی پوری زندگی میں ان یتیموں کے لئے ایک باپ کے جیسا رہا ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں بیواؤں کی دیکھ بھال کی ہے۔
19 جب میں نے کسی کو کپڑے کی کمی کی وجہ سے مصیبت اٹھاتے ہوئے دیکھا یا میں نے کسی غریب کو بغیر کوٹ کے دیکھا
20 تو میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو کپڑے دیئے میں انہیں گرم رکھنے کے لئے اپنے بھیڑوں کے اون کا استعمال کیا اور ان لوگوں نے مجھے دعا دی۔
21 اگر میں نے کسی یتیم پر اس وقت اپنا ہاتھ اٹھا یا ہے جب میں نے اسے اپنے دروازے پر مدد مانگتے دیکھا
22 تو میرا بازو کندھے کے جوڑ سے اکھڑ کر گر جائے۔
23 لیکن میں ایسی چیزیں نہیں کر سکتا کیوں کہ میں خدا کی سزا سے ڈرتا ہوں۔ اس کی جاہ و جلال مجھے ڈراتی ہے۔
24 مجھے کبھی بھی اپنے سونے پر اعتماد نہ تھا۔ ( میں نے مدد کے لئے ہمیشہ خدا پر اعتبار کیا ) اور میں نے کبھی خالص سونے سے نہیں کہا کہ ” تو میری امید ہے۔ ”
25 میرے پاس کافی دولت تھی لیکن اس دولت نے مجھے مغرور نہیں بنا یا! میں نے کافی پیسے کمائے تھے۔ لیکن اس کے سبب سے میں خوش نہیں ہوا۔
26 میں نے کبھی چمکتے سورج کی پرستش نہیں کی یا میں نے خوبصورت چاند کی پرستش نہیں کی۔
27 میں نے کبھی سورج اور چاند کی پرستش کرنے کی بے وقوفی نہیں کی۔
28 وہ بھی ایک گناہ ہے جس کے لئے سزا ضرور دی جانی چاہئے۔ اگر میں نے ان چیزوں کی پرستش کی ہوتی تو میں خدا قادر مطلق کی بے وفائی کی ہوتی۔
29 ” جب میرے دشمن فنا ہوئے تو میں خوش نہیں ہوا جب میرے دشمنوں پر مصیبت پڑی تو میں ان پر نہیں ہنسا۔
30 میں نے اپنے منھ کو اپنے دشمن سے برے لفظ بول کر گناہ نہیں کرنے دیا اور نہ ہی یہ چاہا کہ انہیں موت آ جائے۔
31 میرے گھر کے سبھی لوگ جانتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ اجنبیوں کو کھا نا دیا ہے۔
32 میں نے ہمیشہ اجنبیوں کو اپنے گھر میں دعوت کر کے بلا یا ہے تاکہ ان کو گلیوں میں رات گزارنی نہ پڑے۔
33 دوسرے لوگ اپنے گناہ کو چھپانے کی کو شش کرتے ہیں لیکن میں نے اپنا قصور کبھی نہیں چھپا یا ہے۔
34 میں اس بارے میں کبھی نہیں ڈرا تھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہیں گے۔ اس ڈرنے مجھے باہر جانے سے یا پھر کھل کر بولنے سے نہیں روکا۔ کیوں کہ میں نے ان لوگوں کی نفرت سے اپنے آپ کو ڈرانے نہیں دیا۔
35 ” کاش میرے پاس کوئی ہوتا جو میری سنتا۔ مجھے اپنی بات سمجھانے دو۔ کاش! خدا قادر مطلق مجھے جواب دیتا۔ کاش! میرا مخالف ان باتوں کو لکھتا جسے وہ سوچتا ہے کہ میں نے غلط کیا تھا۔
36 تب یقیناً میں ان نشانیوں کو اپنے گلے کے چاروں طرف پہن لوں گا۔ اور میں اسے تاج کی طرح سر پر رکھ لوں گا۔
37 اگر خدا نے وہ کیا تو میں ہر چیز کو بیان کروں گا جسے میں نے کیا تھا۔ میں خدا کے پاس قائد کی مانند اپنا سر اونچا اٹھا کر آؤں گا۔
38 ” میں نے کسی سے زمین نہیں چرائی۔ کوئی بھی شخص اسے لوٹنے کا مجھ پر الزام نہیں لگا سکتا ہے۔
39 میں نے ہمیشہ اس کھانے کے لئے جسے کہ میں نے کھیت سے حاصل کیا ہے کسانوں کو ادا کیا ہے۔ اور میں نے کبھی بھی زمین کو اس کے مالک سے چھین نے کی کو شش نہیں کی۔
40 ہاں ! اگر ان میں سے کوئی بھی برا کام میں نے کیا ہے۔ تو گیہوں کی جگہ پر کانٹے اور جو کی بجائے کڑوے دانے اُگیں۔” ایّوب کی باتیں ختم ہوئی۔
باب: 32
1 پھر ایّوب کے تینوں دوستوں نے ایوب کو جواب دینے کی کو شش کرنی چھوڑ دی کیوں کہ ایوب اپنی راستبازی میں بہت ہی پُر یقین تھا۔
2 لیکن الیہو نام کا ایک جوان شخص تھا جو برا کیل کا بیٹا تھا۔ براکیل بُوزی نام کے ایک شخص کی نسل سے تھا۔ الیہو رام کے خاندان سے تھا۔ الیہو کو ایوب پر بہت غصہ آیا کیوں کہ ایوب کہہ رہا تھا کہ وہ خدا سے زیادہ راستباز ہے۔
3 الیہو ایوب کے تینوں دوستوں سے بھی ناراض تھا کیوں کہ وہ تینوں ایوب کے سوالوں کا جواب نہیں دے پائے تھے اور وہ لوگ یہ ثابت نہیں کر سکے تھے کہ ایوب غلط تھا۔
4 وہاں جو لوگ موجود تھے ان میں الیہو سب سے چھوٹا تھا۔ اس لئے وہ تب تک خاموش رہا جب تک سب کوئی اپنی اپنی بات پوری نہیں کر لی۔ تب اس نے سوچا کہ اب وہ بولنا شروع کر سکتا ہے۔
5 الیُہو نے جب یہ دیکھا کہ ایوب کے تینوں دوستوں کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے تو اسے بہت غصہ آیا۔
6 اس لئے الیہو نے اپنی بات کہنی شروع کی وہ بولا : ” میں چھوٹا ہوں اور تم لوگ مجھ سے بڑے ہو میں اس لئے تم کو وہ بتانے میں ڈرتا تھا جو میں سوچتا ہوں۔
7 میں نے دل میں سو چا کہ بزر گوں کو پہلے بولنا چاہئے۔ وہ لوگ بہت سالوں سے جیتے آ رہے ہیں اس لئے وہ لوگ بہت سی باتیں سیکھے ہیں۔
8 لیکن خدا کی روح آدمی کو عقلمند بنا تی ہے۔ اور خدا قادر مطلق کی سانس لوگوں کو سمجھداری عطا کرتی ہے۔
9 صرف عمر رسیدہ ہی عقلمند نہیں ہوتے ہیں اور صرف عمر میں بڑے لوگ ہی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کیا صحیح ہے۔
10 ” اس لئے برائے مہر بانی میری بات سنو! اور مجھے اپنی رائے تم سے کہنے دو۔
11 لیکن جب تک تم بولتے رہے میں صبر سے منتظر رہا میں نے ان جوابوں کو سنا جنہیں تم ایوب کو دے رہے تھے۔
12 تم نے جو باتیں کہی ان پر میں نے پوری توجہ دی۔ لیکن تم میں سے کسی نے بھی ایوب نہیں سدھا را۔ اور کسی کے پاس بھی ایوب کے بحث کا جواب نہیں ہے۔
13 تم تین آدمیوں کو کہنا نہیں چاہئے ” ہم لوگوں نے ایوب کی باتوں میں حکمت پا لی ہے۔ اس لئے آدمی کو نہیں بلکہ خُدا کو ایوب کے بحث و مباحثہ کا جواب دینے دو۔
14 لیکن ایوب نے اپنی باتوں کو میرے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس لئے میں اس بحث و مباحثہ کا استعمال نہیں کروں گا۔ جسے تم تین آدمیوں نے استعمال کیا۔
15 ” ایوب یہ سب آدمی نے بحث و مباحثہ کو کھو دیا ہے۔ اور ان کے پاس کہنے کے لئے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرے لئے اور کوئی جواب نہیں۔
16 ایّوب میں نے ان آدمیوں کا تجھے جواب دینے کا انتظار کیا۔ لیکن اب وہ خاموش ہیں۔ انہوں نے تجھ سے بحث کرنی بند کر دی۔
17 اس لئے اب میں تم کو جواب دوں گا۔ تم کو یہ بھی بتاؤں گا کہ میں کیا سوچتا ہوں۔
18 میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے جس کا کہ میں بھانڈا پھوڑنے والا ہوں۔
19 میں اس نئی شراب کی بوتل کی طرح ہوں جو کہ اب تک کھو لی نہیں گئی ہے۔ میں شراب کے نئے مشک کی مانند ہوں جو کہ پھٹنے کے لئے تیار ہے۔
20 اس لئے یقیناً ہی مجھے بولنا چاہئے تبھی مجھے اچھا لگے گا۔ اپنا منھ مجھے کھولنا چاہئے اور مجھے ایوب کی شکایتوں کا جواب دینا چاہئے۔
21 مجھے ایوب کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہئے جیسا کہ میں دوسروں کے ساتھ کرتا ہوں۔ میں اس کو عمدہ باتیں کہنے کی کوشش نہیں کروں گا۔ میں صرف وہی کہوں گا جو مجھے کہنا چاہئے۔
22 میں ایک شخص کے ساتھ دوسرے شخص سے بہتر سلوک نہیں کر سکتا ہوں ! اگر میں ویسا ہی کرتا تو خدا مجھے سزا دیتا!
باب: 33
1 ” لیکن ایّوب اب میری سن۔میری ان باتوں پر دھیان دے جسے میں کہنے جا رہا ہوں۔
2 میں اپنی بات جلد ہی کہنے وا لا ہوں۔ میں اپنی بات کہنے کے لئے تیار ہوں۔
3 میرا دِل سچّا ہے اس لئے میں ایمانداری کی باتیں بو لوں گا۔ان باتوں کے با رے میں جن کو میں جانتا ہوں میں سچائی سے بو لوں گا۔
4 خدا کی رُوح نے مجھے بنائی ہے اور میری زندگی خدا قادر مطلق سے آتی ہے۔
5 ایّوب! میری سُن اور مجھے جواب دے اگر تُو دے سکتا ہے۔ اپنے جوابوں کو تیار رکھتا کہ تُو مجھ سے بحث کر سکے۔
6 خدا کے حضور ہم دونوں ایک جیسے ہیں اور ہم دونوں کو اس نے مٹی سے بنایا ہے۔
7 ایّوب! تُو مجھ سے مت ڈر۔ میں تیرے ساتھ سختی نہیں کروں گا۔
8 لیکن ایوب میں نے سنا ہے کہ تو نے جو کہا ہے۔
9 تو نے کہا ” میں پاک ہوں میں نے کوئی گناہ نہیں کیا میں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے میں قصوروار نہیں ہوں۔
10 میں نے کوئی غلطی نہیں کی لیکن خدا میرے خلاف ہے۔ وہ مجھے اپنا دشمن جیسا سمجھتا ہے۔
11 اس لئے خدا میرے پیروں میں زنجیر ڈالتا ہے میں جو کچھ بھی کرتا ہوں اس پر وہ نظر رکھتا ہے۔
12 لیکن ایوب! تو اس بارے میں غلط ہے۔ اور میں ثابت کروں گا کہ تو غلط ہے۔ کیونکہ خدا ہر شخص سے زیادہ جانتا ہے۔
13 ایّوب! تو خدا سے بحث کرتا ہے ! تو نے سو چا کہ خدا کو ساری باتیں تم سے بیان کرنی چاہئے۔
14 لیکن خدا شاید ہی ہر اس بات کو جس کو وہ کرتا ہے ظاہر کر دیتا ہے۔ خدا شاید اس طریقے سے بولتا ہے جسے لوگ سمجھ نہیں پاتے ہیں۔
15 شاید کہ خدا خواب میں یا رو یا میں لوگوں سے بات کرتا ہے جب وہ لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں۔ پھر جب کبھی بھی وہ لوگ خدا کی تنبیہ سنتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔
16 17 خدا لوگوں کو بُری باتوں کو کرنے سے روکنے کے لئے اور انہیں مغرور بننے سے روکنے کے لئے انتباہ کرتا ہے۔
18 خدا لوگوں کو انتباہ کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کو موت کی جگہ جانے سے بچا سکے۔ خدا لوگوں کی زندگی کو فنا ہونے سے بچانے کے لئے ایسا کرتا ہے۔
19 ” یا کوئی شخص خدا کی آواز تب سن سکتا ہے جب وہ دُکھ بھرا بستر میں پڑا ہو اور خدا کی سزا جھیلتا ہو۔ دراصل خدا اس کو درد سے انتباہ کرتا ہے۔ وہ شخص اتنے گہرے درد میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی ہڈیاں دُکھتی ہیں۔
20 اس لئے ایسا شخص کھانا کھا نہیں سکتا ہے۔ اس کو بہترین غذا سے بھی نفرت ہو تی ہے۔
21 وہ اپنا وزن اس وقت تک کھوتے رہے گا جب تک کہ وہ دُبلا پتلا نہ ہو جائے اور اس کی ہڈیاں نہ دکھائی دینے لگے۔
22 ایسا شخص موت کے گڑھے کے قریب ہوتا ہے اور اس کی زندگی بہت جلد موت کو جھیلے گی۔
23 ” خدا کے پاس ہزاروں ہزار فرشتے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ان فرشتوں میں سے ایک اس شخص کے اوپر نظر رکھتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ فرشتہ اس شخص کے بدلے میں بولے اور اچھی چیزوں کے بارے میں کہے جسے اس نے کیا ہے۔
24 ہو سکتا ہے وہ فرشتہ اس شخص پر رحم کرے۔ وہ فرشتہ خدا سے کہے گا : ” اسے موت سے بچاؤ۔ا سکے گناہ کا بدلہ لینے کے لئے ایک راہ مجھ کو مل گئی ہے۔ ”
25 تب اس کا جسم پھر سے جوان اور مضبوط ہو گا۔ اس شخص کا جسم ایک جوان کی طرح مضبوط اور طاقتور ہو گا۔
26 وہ شخص خدا سے دعا کرے گا اور خدا اس کی دعا کا جواب دے گا۔ وہ خوشی سے چلائے گا اور خدا کی عبادت کرے گا۔ وہ پھر سے ایک اچھی زندگی گذارے گا۔
27 پھر وہ شخص لوگوں کے سامنے اقرار کرے گا۔ اور وہ کہے گا ‘ میں نے گناہ کیا تھا میں نے اچھائی کو بُرائی میں بدل دیا تھا۔ لیکن خدا نے مجھے سزا نہیں دی جیسا کہ میں مستحق تھا۔
28 خدا نے موت کے گڑھے میں گِرنے سے میری رُو ح کو بچا یا۔اب میں ایک بار پھر سے زندگی کا مزہ لوں گا۔
29 "خدا ان چیزوں کو اس شخص کے لئے بار بار کرتا ہے۔
30 کیوں ؟ اسے آ گاہ کر کے اور اس کی جان کو موت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے تا کہ وہ شخص زندگی کی خوشی کو پھر سے حاصل کر سکے۔
31 ” اے ایّوب! توجہ سے میری بات سُن تُو چپ رہ اور مجھے کہنے دے۔
32 لیکن اے ایوب! اگر تم مجھ سے راضی نہیں ہو تو آؤ اور بو لو۔ اپنی بحث کو مجھے سننے دوتا کہ میں تیری اصلاح کر سکوں۔
33 لیکن اے ایوب! اگر تجھے کچھ نہیں کہنا ہے تو تُو چپ رہ اور میری بات سُن۔ مجھے تجھ کو دانائی سکھانے دے۔ ”
باب: 34
1 پھر اِلیہُو نے بات کو جاری رکھا۔ اس نے کہا :
2 ” اے عقلمند لوگو! ساری باتوں کو جو میں کہتا ہوں سنو! اے ہوشیار آدمیو میری باتوں پر دھیان دو۔
3 زبان اس کھانے کا ذائقہ چکھتی ہے جسے یہ چھو تی ہے۔ اور کان تمہاری ہر ان باتوں کو جانچتا ہے جسے یہ سنتا ہے۔
4 اس لئے ہم لوگ بحث کو پرکھیں اور فیصلہ کریں کیا صحیح ہے۔ ہم سیکھیں کہ کیا اچھا ہے۔
5 ایوب نے کہا ‘ میں معصوم ہوں لیکن خدا میرے لئے نا انصاف رہا۔
6 میں معصوم ہوں لیکن مجھے جھوٹا پر کھا گیا ہے۔ میں معصوم ہوں لیکن مجھے بری طرح سے دکھ دیا گیا ہے۔ ‘
7 ” کیا ایوب کے جیسا کوئی اور ہے ؟ ایوب اس کی پرواہ نہیں کرتا ہے اگر تم اس کی بے عزتی کرو۔
8 ایوب برے لوگوں کا ساتھی ہے ایوب کو برے لوگوں کی صحبت پسند ہے۔
9 کیونکہ ایّوب کہتا ہے ‘ اگر کوئی شخص خدا کی خوشنودی کی کو شش کرتا ہے تو اس سے اس شخص کو کچھ بھی فائدہ نہ ہو گا۔’
10 ” اس لئے تم عقلمند لو گو! میری سنو! خدا کوئی چیز برا نہیں کرتا! خدا قادر مطلق غلطی نہیں کرتا ہے۔
11 خدا ایک شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیتا ہے۔ خدا یقیناً لوگوں کو بدلہ دے گا جس کا وہ مستحق ہے۔
12 یہ سچ ہے خدا کوئی غلطی نہیں کرتا ہے۔ خدا قادر مطلق ہمیشہ منصف رہے گا۔
13 کسی شخص نے خدا کو اس روئے زمین کا زیر نگراں نہیں بنا یا۔ کسی بھی شخص نے خدا کو پوری دنیا کا ذمّہ دار نہیں بنا یا۔ اس نے ساری چیزوں کو پیدا کیا اور ہر وقت وہی اختیار رکھتا ہے۔
14 اگر خدا لوگوں سے اس کی زندگی کی روح کو اور سانس کو نکالنے کا فیصلہ کر لیتا
15 تو زمین کے سارے لوگ مر جاتے اور وہ پھر سے مٹی کے ساتھ ایک ہو جاتے۔
16 ” اگر تم عقلمند ہو تو تم اسے سنو گے جسے میں کہتا ہوں۔
17 کوئی ایسا شخص جو انصاف سے نفرت کرتا ہے حکو مت نہیں کر سکتا۔ ایّوب خدا طاقتور اور اچھا ہے۔ کیا تم سوچتے ہو کہ تم اسے قصور وار ٹھہرا سکتے ہو؟
18 صرف خدا ایسا ہے جو بادشاہوں سے کہا کرتا ہے ‘ تم شریر ہو۔ وہ قائدین سے کہتا ہے ‘ تم بُرے ہو۔’
19 خدا شریفوں کے ساتھ دوسرے لوگوں سے زیادہ محبت نہیں کرتا ہے اور امیروں کے ساتھ غریبوں سے زیادہ محبت نہیں کرتا ہے۔ کیوں کہ اس نے خود ہی سبھوں کو پیدا کیا۔
20 ہوسکتا ہے کہ لوگ اچانک ہی رات میں مر جائیں۔ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب سے زیادہ طاقتور لوگ بغیر کسی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
21 انسان جسے کرتا ہے خدا اسے دیکھتا ہے۔ انسان جو بھی قدم اٹھاتا ہے خدا اسے جانتا ہے۔
22 کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں اتنا اندھیرا ہو کہ کوئی بھی شریر شخص اپنے کو خدا سے چھپا سکے۔
23 لوگوں کو اور جانچنے کے لئے خدا کو وقت مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ لوگوں کا فیصلہ کرنے کے لئے اس کے سامنے لایا جائے۔
24 اگر زور آور لوگ بھی برائی کرے تو بھی خدا کو ان لوگوں سے سوال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا یوں ہی ان لوگوں کو بر باد کر دے گا اور دوسروں کو قائد کے لئے چن لے گا۔
25 اس لئے خدا جانتا ہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں۔ اس لئے رات میں خدا بروں کو شکست دے گا اور انہیں فنا کر دے گا۔
26 خدا برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے سبب ہلاک کر دے گا اور برے شخص کی سزا کو سب کو دیکھنے دے گا۔
27 کیوں کہ برے لوگوں نے خدا کی پیروی چھوڑ دی اور برے لوگ پرواہ نہیں کرتے ہیں ان کاموں کو کرنے کی جن کو خدا چاہتا ہے۔
28 وہ برے لوگ غریب کو نقصان پہنچائے اور اسے خدا سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کیا۔ اور اس نے ان کی فریادوں کو سنا۔
29 لیکن اگر خدا غریب کی مدد نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو کوئی شخص خدا کو مجرم نہیں ٹھہرا سکتا ہے۔ اگر خدا اپنے آپ کولو گوں سے چھپاتا ہے تو کوئی بھی اس کو نہیں پا سکتا ہے۔ خدا قوموں اور لوگوں پر حکو مت کرتا ہے۔
30 اور اگر کوئی حکمراں لوگوں سے گناہ کرواتا ہے تو خدا اسے اقتدار سے ہٹا دے گا۔
31 یہ ہو گا جب تک کہ وہ خدا سے نہ کہتا ہو کہ ‘ میں قصور وار ہوں اور اب سے میں کوئی غلطی نہیں کروں گا۔
32 اے خدا اگر چہ میں تجھ کو نہیں دیکھ سکتا پھر بھی تو برائے مہر بانی صحیح راستے پر جینا سکھا۔ اگر میں نے کوئی گناہ کیا ہے تو میں اسے اور نہیں دہراؤں گا۔
33 ” لیکن ایّوب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہیں اجر دے لیکن تم اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے ہو! یہ تمہارا فیصلہ ہے میرا نہیں مجھے کہو تم کیا سوچتے ہو۔
34 ایک عقلمند شخص میری باتوں پر دھیان دے گا۔ ایک عقلمند شخص کہے گا۔
35 ‘ ایّوب ایک جاہل شخص کہ جیسا بولتا ہے۔ ایوب جو کہتا ہے کوئی مطلب کی نہیں ہوتی ہے !
36 میں سوچتا ہوں کہ ایوب کو سب سے زیادہ سزا ملنی چاہئے ! کیوں کہ ایوب ہمیں ایسا جواب دیتا ہے جیسا کہ کوئی برا شخص جواب دیتا ہے۔
37 ایوب نے اپنے گناہوں میں بغاوت کو جوڑتا ہے اور ایوب ہم لوگوں کے سامنے بیٹھتا ہے اور ہم لوگوں کی بے عزتی کرتا ہے اور خدا کا مذاق اڑاتا ہے ! ”
باب: 35
1 الیہو نے کہنا جاری رکھا۔ وہ بولا :
2 ” ایّوب! تمہارا یہ کہنا جائز نہیں ہے ‘میں خدا سے زیادہ بہتر ہوں۔
3 ایّوب! تم خدا سے پو چھو ‘ایک شخص کیا پائے گا اگر وہ خدا کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے ؟ اگر میں گناہ نہیں کرتا ہوں مجھے کیا فائدہ ملے گا؟ ‘
4 ” ایّوب! میں ( الیہو ) تجھ کو اور تیرے دوستوں کو جو یہاں تیرے ساتھ ہیں جواب دینا چاہتا ہوں۔
5 ایّوب! آسمان کی طرف نظر کرو اور بادلوں کی طرف دیکھو جو کہ تیرے اوپر ہے۔
6 ایّوب! اگر تو گناہ کرے تو خدا کا کچھ نہیں بگڑ تا۔ اور اگر تیرے گناہ بہت ہو جائیں تو اس سے خدا کا کچھ نہیں جا تا۔
7 ایّوب! اگر تم اچھے ہو تو تمہاری اچھائی خدا کی مدد کسی بھی طرح سے نہیں کرتا۔خدا تم سے کچھ نہیں پائے گا۔
8 ایّوب اچھی اور بُری چیز جو تم کرتے ہو تو وہ صرف ان لوگوں کو متاثر کر تی ہے جو تمہاری طرح ہیں۔( وہ چیزیں خدا کو نہ تو مدد پہنچا تی ہیں نہ ہی نقصان )
9 ” بُرے لوگ مدد کے لئے پکارتے ہیں جب انہیں نقصان پہنچا یا جاتا ہے۔ وہ زور آور لوگوں سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں۔
10 لیکن وہ خدا سے نہیں مانگتے۔ وہ اب تک یہ نہیں کہتے ہیں کہ کہاں ہے وہ خدا جس نے مجھے پیدا کیا ہے ؟ جو مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتا ہے وہ خدا کہاں ہے ؟
11 وہ یہ نہیں کہا کرتے کہ خدا جس نے چرند و پرند سے زیادہ دانشمند انسان کو بنایا وہ کہاں ہے ؟
12 ” لیکن بُرے لوگ مغرور ہوتے ہیں۔اس لئے اگر وہ خدا کی مدد پانے کو دُہائی دیں تو جواب نہیں ملتا ہے۔
13 یہ سچ ہے کہ خدا ان کی بیکار کی باتوں پر توجہ نہیں دے گا۔ خدا قادر مطلق ان باتوں پر دھیان نہیں دیتا ہے۔
14 اس لئے اے ایّوب! خدا تیری نہیں سنے گا۔ جب تُو یہ کہتا ہے کہ تو اس کو دیکھ نہیں سکتا ہے اور یہ کہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے تم اس سے ملنا پسند کرتے ہو۔
15 ” ایّوب! تم سوچتے ہو کہ خدا بُرے لوگوں کو سزا نہیں دیتا ہے۔ اور وہ گناہ پر دھیان نہیں دیتا ہے۔
16 اس طرح سے ایوب اپنی بے معنی باتیں جاری رکھتا ہے۔ وہ بہت باتیں کرتا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا آ سان ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ”
باب: 36
1 اِلیہُو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا :
2 ” ایّوب! میرے ساتھ تھوری دیر اور صبر کر۔خدا کے پاس کچھ اور باتیں ہیں ( جسے وہ چاہتا ہے کہ میں کہوں )۔
3 میں اپنے علم کو سب میں با نٹنا پسند کرتا ہوں۔ خدا نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں ثابت کروں گا کہ خدا منصف ہے۔
4 اے ایّوب میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں میں بول رہا ہوں۔
5 "خدا بہت زور آور ہے۔ لیکن وہ لوگوں سے نفرت نہیں کرتا ہے۔ خدا بہت زور آور ہے لیکن وہ بہت عقلمند بھی ہے۔
6 خدا شریروں کو جینے نہیں دے گا اور خدا ہمیشہ غریبوں کے لئے منصف ہے۔
7 خداوند ان لوگوں پر نگاہ رکھتا ہے جو سیدھی راہ پر چلتے ہیں۔ وہ اچھے لوگوں کو حکمراں بننے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے اچھے لوگوں کو عزت دیتا ہے۔
8 اس لئے اگر لوگ سزا پاتے ہوں اگر ان کو زنجیروں اور رسیوں سے باندھا جاتا ہے تو یقیناً ان لوگوں نے کچھ غلطی کی تھی۔
9 اور خدا ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کون سا بُرا کام کیا ہے۔ خدا ان کو بتائے گا کہ انہوں نے گناہ کیا ہے اور وہ گھمنڈی ہیں۔
10 خدا ان لوگوں کو اپنی آ گا ہی سننے کے لئے مجبور کرے گا۔ وہ ان لوگوں کو گناہ کرنے سے رکنے کا حکم دے گا۔
11 اگر وہ لوگ خدا کی سنیں گے اور اس کی فرمانبرداری کریں گے تو وہ اسے کامیابی دے گا اور وہ لوگ ایک خوشگوار زندگی گزاریں گے۔
12 لیکن اگر وہ لوگ خدا کی بات سے انکار کریں گے تو وہ بر باد کر دیئے جائیں گے۔ وہ بے وقوفوں کی مانند مریں گے۔
13 ” وہ لوگ جسے خدا کے بارے میں پر واہ نہیں ہے تلخ ہیں۔ یہاں تک کہ جو خدا ان کو سزا دیتا ہے تو بھی وہ خدا سے سہارا پانے کے لئے دعا نہیں کریں گے۔
14 وہ جوانی کی عمر میں ہی مرد طوائفوں کی مانند مر جائے گا۔
15 لیکن خدا خاکسار لوگوں کو ان کی مصیبتوں سے بچائے گا۔ خدا لوگوں کو جگانے کے لئے آفت بھیجے گا تاکہ لوگ اس کی سنیں گے۔
16 ” ایّوب! خدا تیری مدد کرنا چاہتا ہے۔ وہ تم کو مصیبتوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ خدا تیری زندگی کو آسان بناتا ہے اور تیرے دستر خوان پر بہت سارے کھا نا رکھنا چاہتا ہے۔
17 لیکن اے ایّوب تجھ کو قصور وار پایا گیا اس لئے تم کو برے آدمی کی طرح سزا دی گئی۔
18 اے ایوب! امیروں سے بے وقوف مت بنو۔ پیسے سے اپنے ذہن کو بدلنے مت دو۔
19 اب نہ تو تیری اپنی دولت تیری مدد کر سکتی ہے اور نہ ہی طاقتور لوگ تیری مدد کر سکتے ہیں !
20 تو رات کے آنے کی آرزو مت کر جب لوگ رات میں چھپ جانے کی کو شش کرتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ خدا سے چھپ سکتے ہیں۔
21 ایّوب! تم نے بہت زیادہ مصیبتیں جھیلیں۔ لیکن برائی کو مت چنو۔ غلطی نہ کرنے پر ہوشیار رہو۔
22 ” دیکھ! خدا کی قدرت اسے عظیم بنا تی ہے۔ کونسا استاد اس کی مانند ہے ؟
23 خدا کو کیا کرنا ہے کوئی بھی شخص کہہ نہیں سکتا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ کہنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا ہے ‘ اے خدا تو نے غلط کیا ہے۔ ‘
24 ” خدا نے جو کیا ہے اس کے لئے تمہیں اس کی تعریف کرنا نہیں بھولنا چاہئے۔ لوگ اس کی تعریف کرنے کے لئے گیت گاتے ہیں۔
25 خدا نے جو کچھ کیا ہے اسے ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ دور ملکوں کے لوگ اس کے کاموں کو دیکھ سکتے ہیں۔
26 ہاں خدا عظیم ہے لیکن ہم اس کی عظمت کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ خدا کے برسوں کے شمار کو معلوم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
27 ” خدا پانی کو زمین سے اوپر اٹھاتا ہے اور اسے بارش اور کہرے کی صورت میں بدل دیتا ہے۔
28 اس لئے بادل پانی انڈیلتا ہے اور بارش بہت سارے لوگوں پر برستی ہے۔
29 کوئی بھی انسان نہیں جانتا ہے کہ خدا کیسے بادلوں کو بکھیرتا ہے اور کیسے بجلیاں آسمان میں کڑکتی ہیں۔
30 دیکھ! خدا کیسے اپنی بجلی کو آسمان میں چاروں جانب بکھیرتا ہے اور کیسے سمندر کے گہرے حصہ کو ڈھانک دیتا ہے۔
31 خدا ان کا استعمال لوگوں کو قابو میں کرنے اور انہیں بہ کثرت کھا نا مہیا کرانے میں کرتا ہے۔
32 خدا اپنے ہاتھوں سے بجلی کو پکڑ لیتا ہے اور جہاں وہ چاہتا ہے وہاں وہ بجلی کو گرنے کا حکم دیتا ہے۔
33 گرج طوفان کے آنے کی خبر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جانور بھی جانتے ہیں کہ طوفان آ رہا ہے۔
باب: 37
1 ” اے ایّوب! جب ان باتوں کے بارے میں میں سوچتا ہوں تو میرا دل بہت زور سے دھڑکتا ہے۔
2 ہر ایک شخص سنو! خدا کی آواز گرج کی طرح ہے۔ گرجتی ہوئی آواز کو سنو جو کہ اس کے منھ سے آتی ہے۔
3 خدا اپنی بجلی کو سارے آسمان سے ہو کر چمکنے کو بھیجتا ہے۔ وہ ساری زمین کے اوپر چمکا کرتی ہے۔
4 بجلی کے چمکنے کے بعد خدا کی گرجتی ہوئی آواز سنی جا سکتی ہے خدا اپنی عجیب ترین آواز کے ساتھ گرجتا ہے جب بجلی چمکتی ہے تب خدا کی آوا ز گرجتی ہے۔
5 خدا کی گرجتی ہوئی آواز عجیب ہے۔ وہ بڑے بڑے کام کرتا ہے جن کو سمجھ نہیں سکتے۔
6 خدا برف سے کہتا ہے ” تم زمین پر گرو۔ اور خدا بارش سے کہتا ہے ‘ تم زمین پر زور سے برسو۔
7 خدا ایسا اس لئے کرتا ہے کیوں کہ وہ سبھی لوگوں کو معلوم کرانا چاہتا ہے کہ وہ کیا کر سکتا ہے۔ وہ اس کا ثبوت ہے۔
8 جانور اپنے غاروں سے بھا گ جاتے ہیں اور اپنی اپنی ماند میں پڑے رہتے ہیں۔
9 جنوب سے طوفان آتا ہے اور سرد ہوا شمال سے آتی ہے۔
10 خدا کی سانس برف بنا تی ہے اور سمندر کو جما دیتی ہے۔
11 خدا بادلوں کو پانی سے بھرا کرتا ہے اور بجلی والے بادلوں کو بکھیر دیتا ہے۔
12 خدا بادلوں کو زمین کے اوپر چاروں طرف اڑنے کا حکم دیتا ہے۔ اور بادل وہی کرتا ہے جیسا کرنے کا حکم دیتا ہے
13 خدا سیلاب لا کر لوگوں کو سزا دینے یا زمین کو پانی دے کر اپنی شفقت ظاہر کرنے کے لئے بادلوں کو بھیجتا ہے۔
14 ” اے ایّوب! تو پل بھر کے لئے رک اور سن۔ رک جا اور سوچ ان تعجب خیز باتوں کے بارے میں جسے خدا نے کیا ہے۔
15 ایّوب! کیا تو جانتا ہے کہ خدا بادلوں پر کیسے قابو رکھتا ہے ؟ کیا تو جانتا ہے کہ وہ کیسے بجلی چمکاتا ہے ؟
16 کیا تو یہ جانتا ہے کہ آسمان میں بادل کیسے لٹکے رہتے ہیں۔ یہ بادل خدا کی تخلیق کر دہ حیرت انگیز چیزوں کا بس ایک مثال ہے۔ اور خدا ان کے بارے میں ہر ایک تفصیل کو جانتا ہے۔
17 لیکن ایّوب! تو یہ ساری باتیں نہیں جانتا۔ تو صرف اتنا جانتا ہے کہ تجھ کو پسینہ آتا ہے اور تیرے کپڑے تیرے جسم سے چپکے رہتے ہیں اور سب کچھ پر سکون رہتا ہے جب جنوب سے گرم ہوا چلتی ہے۔
18 ایّوب! کیا تو خدا کی مدد آسمان کو پھیلانے میں اور جھلکائے ہوئے آئینہ کی طرح چمکانے میں کر سکتا ہے ؟
19 ” ایوب! ہمیں بتا کہ ہم خدا سے کیا کہیں۔ ہم لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے سوچ نہیں پاتے ہیں کہ ہم لوگوں کو اسے کیا کہنا چاہئے۔
20 میں خدا سے نہیں کہوں گا کہ میں اس کے ساتھ بولنا چاہتا تھا۔ وہ ٹھیک تباہ ہونے کے لئے پوچھنے کی مانند ہے۔
21 دیکھ! کوئی بھی شخص چمکتے ہوئے سورج کو نہیں دیکھ سکتا۔ جب ہوا بادلوں کو اڑا دیتی ہے تو اس کے بعد وہ بہت صاف اور چمکتا ہوا ہوتا ہے۔
22 اور خدا بھی اس کی مانند ہے۔ خدا کی سنہری جلال مقدس پہاڑ سے چمکتی ہے۔ اس کی چاروں طرف چمکیلی روشنی ہے۔
23 خدا قادر مطلق عظیم ہے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ہیں۔ خدا بہت ہی زور آور ہے لیکن وہ ہم لوگوں کے لئے منصف بھی ہے۔ خدا ہم لوگوں کو نقصان پہنچا نا پسند نہیں کرتا ہے۔
24 اس لئے لوگ اس کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں لیکن خدا ان مغرور لوگوں کا احترام نہیں کرتا جو خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔”
باب: 38
1 تب خداوند نے طوفانی ہوا سے جواب دیا۔ خدا نے کہا :
2 ” یہ کون جاہل شخص ہے جو احمقانہ باتیں کر رہا ہے ؟ ”
3 اے ایوب! تیار ہو جاؤ اور سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو میں تم سے پوچھوں تیار ہو جاؤ۔
4 ” ایّوب! بتا تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈالی تھی؟ اگر تو اتنا سمجھدار ہے تو مجھے جواب دے۔
5 کیا تم کو معلوم ہے کس نے اس کی ناپ ٹھہرائی یا کس نے اس پر سوت کھینچا؟
6 کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی بنیاد کس پر رکھی گئی ہے ؟ کیا تم جانتے ہو کہ کس نے پہلے پتھر کو اس کی جگہ پر رکھا ہے ؟
7 جب ایسا کیا گیا تھا تب ستارے مل کر گائے تھے اور سارے فرشتے خوشی سے للکارے تھے !
8 ” ایّوب! جب سمندر زمین کی گہرائی سے پھوٹ پڑا تھا تو کس نے اسے روکنے کے لئے دروازوں کو بند کیا تھا؟
9 اس وقت میں نے بادلوں سے سمندر کو لپیٹ دیا تھا۔ ( جیسے بچہ کو چادر میں لپیٹا جاتا ہے۔ )
10 سمندر کی حدیں میں نے مقرر کی تھی۔ اور اسے تالا لگے ہوئے پھاٹکوں کے پیچھے رکھا تھا۔
11 میں نے سمندر سے کہا ‘ تو یہاں تک آ سکتا ہے لیکن تو اس حد کو پار نہیں کر سکتا ہے۔ تیری مغرور موجیں یہاں پر رک جائیں گی۔’
12 ” ایوب کیا تو کبھی اپنی زندگی میں سویرا ( سورج ) کو حکم دیا کہ طلوع ہو جا یا دن کو کہ آغاز ہو جا؟
13 ایوب! کیا تو نے کبھی صبح کی روشنی کو زمین پر چھا جانے کا حکم دیا ہے اور شریر لوگوں کے چھپنے کی جگہ کو چھوڑنے کے لئے بلا یا ہے۔
14 صبح سویرے کی روشنی پہاڑ یوں اور وادیوں کو ظاہر کر دیتی ہے۔ جب دن کا اجالا زمین کے اوپر پھیلتا ہے تو ان تمام چیزوں کی شکل و صورت کپڑوں کی سلوٹوں کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے۔ وہ چکنی مٹی کو مہر سے دبائی گئی جیسی شکل کو اختیار کرتی ہے۔
15 شریر لوگوں کو دن کی روشنی بھلی نہیں لگتی کیوں کہ جب یہ پھیلتی ہے تب یہ ان کو برے کام کرنے سے رکنے پر مجبور کرتی ہے۔
16 ” ایوب! بتا کیا تو کبھی بھی سمندر کے منبع میں گیا ہے جہاں سے سمندر شروع ہوتا ہے ؟ کیا تو کبھی بھی سمندر کے سطح پر چلا ہے ؟
17 ایوب! کیا تم نے کسی بھی وقت ان پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو موت کی دنیا کی طرف جاتی ہے ؟ کیا تم نے کبھی پھاٹکوں کو دیکھا ہے جو تمہیں موت کے اندھیری جگہ پرلے جاتی ہے۔
18 ایوب! کیا تو سچ مچ میں جانتا ہے کہ یہ زمین کتنی بڑی ہے ؟ اگر تو یہ سب کچھ جانتا ہے تو تو مجھ کو بتا۔
19 ” ایوب! روشنی کہاں سے آتی ہے ؟ اور تاریکی کہاں سے آتی ہے ؟
20 ایّوب! کیا تم روشنی اور اندھیرے کو اس کی ابتداء کی جگہ واپس لے جا سکتے ہو؟ کیا تم اس جگہ کا راستہ جانتے ہو؟
21 ایّوب! یقیناً تم سبھی چیزیں جانتے ہو کیوں کہ تم بہت عمر رسیدہ اور عقلمند شخص ہو۔ جب یہ چیزیں بنائی گئی تھیں تو تم زندہ تھے ؟
22 ” ایوب! کیا تو کبھی ان کو ٹھریوں میں گیا ہے جہاں میں برف اور اولوں کو رکھا کرتا ہوں ؟
23 میں نے برف اور اولوں کو تکلیف کے وقت استعمال کرنے کے لئے لڑائی اور جنگ کے دوران استعمال کرنے کے لئے رکھا ہے۔
24 ایّوب! کیا تُو کبھی ایسی جگہ گیا ہے جہاں سے سورج اُگتا ہے اور جہاں سے مشرقی ہوا ساری زمین پر بہنے کے لئے آتی ہے ؟
25 ایوّب! شدید بارش کے لئے آسمان میں کِسنے نہر بنائی ہے ؟ اور کِسنے بجلی کے طوفان کا راستہ بنایا ہے ؟
26 ایّوب! کس نے وہاں بھی پانی برسایا جہاں کوئی بھی نہیں رہتا؟
27 وہ بارش اس خالی زمین کو بہت سارا پانی مہیا کراتا ہے اور گھاس اُگنا شروع ہو جاتا ہے۔
28 ایّوب! کیا بارش کا کوئی باپ ہے۔ یا شبنم کے قطرے کس نے بنائے ؟
29 ایّوب! برف کی ماں کون ہے ؟ اولوں کو کس نے پیدا کیا؟
30 پانی جب جم جاتا ہے چٹان کی طرح سخت ہو جاتا ہے اور یہاں تک کہ سمندربھی جم جاتا ہے۔
31 ” ایوّب! کیا تو ثریا کو باندھ سکتا ہے ؟ کیا تو جبّار کے بندھن کو کھول سکتا ہے ؟
32 کیا تم کہکشاں کو اس کے مقررہ وقت پر باہر لا سکتے ہو؟ کیا تم بھالو کو اس کے بچوں کے ساتھ باہر نکال سکتے ہو۔
33 کیا تو ان قوانین کو جانتا ہے جو آسمان پر حکمرانی کرتا ہے ؟ کیا تو ان قوانین کو زمین پر لا گو کر سکتا ہے۔
34 ” ایوّب بتا! کیا تو پکار کر بادلوں کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ تمہارے اوپر پانی بر سائے ؟
35 ایّوب! کیا تو بجلی کو حکم دے سکتا ہے ؟ کیا یہ تیرے پاس آ کر کہے گا ‘ہم یہاں ہیں۔ جناب ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ ” کیا یہ وہاں بھی جائے گا جہاں تم اسے بھیجنا چا ہو گے ؟
36 ” ایّوب! لوگوں کو ذہین کون بناتا ہے ؟ ان کے باطن میں حکمت کون رکھتا ہے ؟
37 ایّوب! کون اتنا زیادہ دانشمند ہے جو بادلوں کو گن لے اور ان کو ان کے پانی کو انڈیلنے کے لئے الٹ دے ؟
38 بارش دھول کو کیچڑ بنا دیتی ہے اور چکنی مٹی کے ڈھیلے آپس میں مل جاتے ہیں۔
39 ” ایّوب! کیا تم شیر کا شکار کر سکتے ہو؟ اور کیا تم اس کے بھو کے بچوں کو آ سودہ کر سکتے ہو؟
40 وہ اپنی ماندوں میں پڑے رہتے ہیں یا جھاڑیوں میں گھات لگا کر اپنے شکار پر جھپٹنے کے لئے بیٹھتے ہیں۔
41 ایّوب! پہاڑی کوّے کو خوراک کون دیتا ہے ؟ ان کے بچے خدا سے فریاد کرتے ہیں اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے اِدھر اُدھر جاتے ہیں۔
باب: 39
1 ” ایّوب! کیا تو جانتا ہے پہاڑ کی جنگلی بکری کب بچے دیتی ہے ؟ اس طرح سے جب ہرنی بچہ دیتی ہے تو کیا تو دیکھتا ہے ؟
2 ایّوب! کیا تم جانتے ہو کتنے مہینے بکری اور ہرنی اپنے بچوں کو اپنے رحموں میں رکھتی ہیں ؟ کیا تم جانتے ہو ان کے پیدا ہونے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
3 وہ جانور لیٹ جاتے ہیں اور بچوں کو جنم دیتے ہیں۔ تب ان کا درد ختم ہو جاتا ہے۔
4 ان کے بچے میدان میں موٹے تازے ہوتے ہیں۔ اور بڑھتے ہیں۔ تب وہ اپنی ماؤں کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر کبھی بھی واپس نہیں لوٹتے ہیں۔
5 ” ایّوب! جنگلی گدھوں کو کون آزاد چھوڑ دیتا ہے ؟ کس نے ان کا رسّہ کھو لا اور بندھن سے نجات دی؟
6 یہ میں ہوں (خدا ) جس نے ریگستان کو جنگلی گدھوں کے حوالے اس میں رہنے کے لئے کیا۔ میں نے جنگلی گدھوں کو نمکین زمین رہنے کی جگہ کے طور پر دی۔
7 جنگلی گدھا شہر کے شور و غُل پر ہنستا ہے اور کوئی اسے قابو نہیں کر سکتا ہے۔
8 جنگلی گدھے پہاڑوں پر جہاں تہاں بھٹکتے ہیں۔ جنگلی گدھے وہیں پر گھاس چرتے ہیں جہاں وہ کھانے کی غذا کھو جتے ہیں۔
9 ” ایّوب! بتا کیا کوئی جنگلی سانڈ تیری خدمت پر راضی ہو گا؟ کیا وہ تیری کھلیان میں رات کو رُکے گا؟
10 ایّوب! کیا تم جنگلی سانڈ کو اپنی کھیت جوتنے کے لئے رسیوں سے باندھ سکتے ہو؟
11 جنگلی سانڈ کافی طاقتور ہوتا ہے لیکن کیا تم اپنا کام کے لئے اس پر بھروسہ کر سکتے ہو؟
12 کیا تو اپنا اناج جمع کرنے والے اور اسے اپنی کھلیان تکلے جانے کے لئے اس پر یقین کر سکتا ہے ؟
13 ” شُتر مرغ جب خوش ہوتا ہے تو وہ اپنے پنکھوں کو پھڑپھڑاتا ہے لیکن وہ اُڑ نہیں سکتا۔ اس کے پر اور پنکھ سارس کے جیسے نہیں ہوتے ہیں۔
14 مادہ شتر مرغ زمین پر اپنے انڈوں کو چھوڑ دیتی ہے اور ریت سے ان کو گرمی ملتی ہے۔
15 لیکن شتر مرغ بھول جاتا ہے کہ کوئی اس کے انڈوں پرسے چل کر انہیں کچل سکتا ہے یا کوئی جنگلی جانور ان کو توڑسکتا ہے۔
16 شتر مرغ اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ دیتی ہے۔ وہ ان سے ایسے برتاؤ کر تی ہے جیسے وہ اس کے بچے نہیں ہیں۔ اگر اس کے بچے مر بھی جائیں تو بھی وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی ہے کہ اس کی ساری محنت رائے گاں گئی۔
17 کیوں کہ میں نے ( خدا ) اس شتر مرغ کو حکمت نہیں دی ہے۔ شُتر مرغ بے وقوف ہے اور میں نے ہی اسے ایسا بنا یا ہے۔
18 لیکن جب شتر مرغ دوڑنے کو تیار ہو تی ہے تب وہ گھوڑے اور اس کے سوار پر ہنستی ہے کیوں کہ وہ گھوڑے سے زیادہ تیز بھاگتی ہے۔
19 ” ایّوب! بتا کیا تو نے گھوڑے کو طاقت دی؟ اور کیا اس کی گردن کو لہراتی ایال سے تو نے ملبس کیا؟
20 ایّوب! کیا تم نے گھوڑے کو ٹڈی کی طرح کو دبایا؟ گھوڑا مُہیب آواز میں ہنہناتا ہے اور لوگ ڈر جاتے ہیں۔
21 گھوڑا خوش ہے کہ وہ بہت طاقتور ہے اور اپنے کھُرسے وہ زمین کھودا کرتا ہے۔ اور جنگ میں تیزی سے سر پٹ دوڑتا ہے۔
22 گھوڑے دہشت کا مذاق اُڑاتے ہیں کیوں کہ وہ اس سے بالکل ڈرا ہوا نہیں ہے گھوڑے لڑائی کے دوران نہیں بھاگتے ہیں۔
23 سپاہیوں کا ترکش گھوڑے کے بغل میں ہلتا ہے۔ اس کے بھالے اور ہتھیار دھوپ میں چمکتے ہیں۔
24 گھوڑا بہت پُر جوش ہو جاتا ہے۔ وہ زمین کے اوپر بہت تیز دوڑتا ہے۔ جب گھوڑا بگل کی آواز سنتا ہے تو وہ اور کھڑا نہیں رہ سکتا ہے۔
25 جب جب بگل بجتی ہے وہ ہنہناتا ہے ‘ ہّرے ! ‘ اور لڑائی کو دورسے سونگھ لیتا ہے۔ وہ فو ج کے سپہ سالار کے احکام اور جنگ کے دوسرے الفاظ سن لیتا ہے۔
26 ” ایّوب! کیا باز کو تم نے اپنے پنکھوں کو پھیلانا اور جنوب کی طرف اُڑنا سکھا یا؟
27 کیا تم نے عقاب کو آسمان کی بلندی پر اڑنے کے لئے کہا؟ کیا تم نے اسے پہاڑ کی بلندی پر گھونسلہ بنانے کے لئے کہا؟
28 عقاب چٹان پر رہا کرتا ہے چٹان اس کا قلعہ ہے۔
29 عقاب بلندی پر اپنے قلعہ سے اپنے شکار کو دیکھ لیتا ہے۔ عقاب دور ہی سے اپنی خوراک پہچان لیتا ہے۔
30 عقاب لا شوں کے پاس جمع ہو جاتا ہے۔ ان کے بچے خون چوسا کرتے ہیں۔”
باب: 40
1 خداوند نے ایوب سے کہا :
2 "ایّوب! تو نے خدا قادر مطلق سے بحث کی۔ تو نے برے کام کرنے کا مجھے قصوروار ٹھہرا یا۔ لیکن کیا اب تم مانو گے کہ تم قصوروار ہو؟ کیا تم مجھے جواب دو گے۔ ”
3 اس پر ایوب نے جواب دیتے ہوئے خدا سے کہا :
4 ” میں اتنا اہم نہیں ہوں کہ میں بول سکتا ہوں ؟ میں تجھے کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ میں اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھتا ہوں۔”
5 میں نے ایک بار بولا لیکن میں اب پھر سے نہیں بولوں گا۔ میں نے دوبارہ بولا لیکن اب میں نہیں بولوں گا۔
6 تب خداوند نے ایوب کو طوفانی ہوا سے جواب دیا خداوند نے کہا :
7 ” ایوب! تیار ہو جاؤ اور سوالوں کا جواب دینے کے لئے جو میں تم سے پوچھوں تیار ہو جا۔
8 ” ایوب! کیا تو سوچتا ہے کہ میرا انصاف باطل ہے ؟ کیا تو مجھے برا کام کرنے کا قصور وار مانتا ہے تا کہ تم معصوم ظاہر ہو گے ؟
9 کیا تیری آواز بجلی کی گرج کی طرح اتنی بلند گرج سکتی ہے جتنی کہ خدا کی آواز؟۔
10 اگر تم خدا جیسے ہو تم مغرور ہو سکتے ہو اگر تم خدا جیسے ہو تم جلال اور تعظیم کو کپڑوں کی طرح پہن سکتے ہو۔
11 ایّوب اگر تم خدا جیسے ہو تم اپنا غصہ دکھا سکتے ہو اور مغرور لوگوں کو سزا دے سکتے ہو۔ ان مغرور لوگوں کو خاکسار بناؤ۔
12 ہاں ایوب ان مغرور کو دیکھ اور اسے خاکسار بنا اور شریروں کو جہاں وہ کھڑے ہوں کچل دے۔
13 تمام مغرور لوگوں کو دھول مٹی سے دفنا دے۔ ان کے جسموں کو ڈھانک دے اور ان کو ان کی قبروں میں ڈال دے۔
14 ایوب اگر تم یہ سبھی چیزیں خود ہی اپنی طاقت کے ساتھ کر سکتے ہو تو میں بھی تمہاری تعریف کروں گا۔ میں تمہارے سامنے اعتراف کروں گا کہ تم خود ہی بچا سکتے ہو۔
15 ایوب! تم اس بھیموت کو دیکھو اسے میں نے ( خدا ) بنا یا ہے اور میں نے ہی تجھے بنا یا ہے اور وہ گائے کی طرح گھاس کھاتا ہے۔
16 بھیموت کے جسم میں بہت طاقت ہوتی ہے اور اس کے پیٹ کے پٹھوں میں بہت قوت ہوتی ہے۔
17 وہ اپنی دم کو دیوار کے درخت کی مانند مضبوطی سے کھڑا کرتا ہے۔ اس کے پیر کا گوشت بہت مضبوط ہے۔
18 اس کی ہڈیاں کانسے کے موافق مضبوط ہے۔ اس کے پیر لوہے کے چھڑوں کی مانند ہے۔
19 بھیموت جو کہ سب سے اہم جانور ہے اسے میں نے ہی پیدا کیا۔ مگر میں اس کو ہرا سکتا ہوں۔
20 بھیموت جو گھاس کھاتا ہے وہ پہاڑیوں پر اگتی ہے۔ جہاں جنگلی جانور کھیلتے کودتے ہیں۔
21 وہ کنول کے پودوں کے نیچے پڑا ہوتا ہے۔ اور خود کو دلدل کے سر کنڈے کے بیچ میں چھپاتا ہے۔
22 کنول کے پودے بھیموت کو اپنے سایہ میں چھپاتے ہیں۔ وہ بید کے درختوں جو کہ ندی کے کنارے اگتے ہیں اس کے نیچے رہتا ہے۔
23 اگر ندی میں باڑھ آ جائے تو بھی وہ نہیں بھاگتا ہے۔ اگر یردن ندی بھی اس کے منھ پر تھپیڑے مارے تو بھی وہ ڈرتا نہیں ہے۔
24 اس کی آنکھوں کو کوئی بھی اندھا نہیں کر سکتا ہے۔ یا اسے کوئی بھی جال میں پھانس نہیں سکتا ہے۔
باب: 41
1 ایّوب! بتا کیا تو لبیا تھان ( سمندری عفریت ) کو کسی مچھلی کے کانٹے سے پکڑ سکتا ہے ؟ کیا تو اس کی زبان کو رسی سے باندھ سکتا ہے ؟
2 ایوب! کیا تو اس کی ناک میں رسی ڈال سکتا ہے ؟ یا اس کا جبڑا ہک سے چھید سکتا ہے ؟
3 ایّوب! کیا وہ آزاد ہونے کے لئے تجھ سے منت سماجت کرے گا؟ کیا وہ تجھ سے میٹھی باتیں کرے گا؟
4 کیا وہ تجھ سے معاہدہ کرے گا کہ تو ہمیشہ کے لئے اسے نوکر بنا لے ؟
5 ایّوب! کیا تو اس سے ویسے ہی کھیلے گا جیسے تو کسی چڑیا سے کھیلتا ہے ؟ کیا تو اسے رسی سے باندھے گا جس سے تیری خادمائیں اس سے کھیل سکیں ؟
6 ایّوب کیا مچھیرے اسے تم سے خریدنے کی کوشش کریں گے ؟ کیا وہ لوگا سے ٹکڑوں میں کا ٹیں گے اور تاجروں کو بیچیں گے ؟
7 ایّوب! کیا تو اس کی کھال میں یاسر پر بھالا بھونک سکتا ہے ؟
8 ” ایّوب! اگر تم اپنے ہاتھوں کو ان پر رکھو گے تو تم یہ دوبارہ کبھی اور کرنے کی کوشش نہیں کر و گے کیوں کہ تم ان کے حملوں کو بھول نہیں سکو گے۔
9 اور کیا تو سوچتا ہے کہ تو اس لبیا تھان کو ہرا دے گا؟ ٹھیک ہے تو اسے بھول جا! کیوں کہ اس کی کوئی امید نہیں ہے ! تو تو بس دیکھتے ہی ڈر جائے گا!
10 کوئی اتنا بہا در نہیں ہے جو اسے جگا سکے اور اسے ناراض کر سکے۔ ” اور کوئی بھی ہمت کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی میری مخالفت کر سکتا ہے۔
11 میں ( خدا) کسی بھی شخص کے کسی بھی چیز کا قرضدار نہیں آسمان کے نیچے جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ میرا ہی ہے۔
12 ” ایّوب! میں (خدا ) تجھ کو لبیا تھان کے پاؤں کے بارے میں بتاؤں گا۔ میں اس کی بڑی طاقت اور اس کی خوبصورت ڈیل ڈول شکل کے با رے میں بتاؤں گا۔
13 کوئی بھی شخص اس کی کھال کو بھونک نہیں سکتا۔ اس کی کھال ایک زرہ بکتر کی مانند ہے۔
14 لبیا تھان کو کوئی بھی شخص مُنہ کھولنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے جبڑے کے دانت سبھی کو خوفزدہ کرتے ہیں۔
15 اس کی پیٹھ پر ڈھالوں کی قطاریں ہو تی ہیں جو آپس میں ایک دوسرے سے مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔
16 یہ ڈھالیں ایک دوسرے سے جُٹی ہوئی ہو تی ہیں کہ ان کے درمیان ہوا بھی نہیں آ سکتی۔
17 وہ اتنے مضبوط طریقے سے ایک ساتھ جُڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی انہیں کھینچ کر الگ نہیں کر سکتا ہے۔
18 ( لبیا تھان ) جب چھینکتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بجلی چمک رہی ہو۔ اس کی آنکھیں ایسی چمکتی ہیں جیسے صبح کی روشنی۔
19 اس کے منھ سے جلتی ہوئی مشعلیں نکلتی ہیں۔ اور اس سے آ گ کی چنگاریاں باہر ہو تی ہیں۔
20 لبیا تھان کے نتھنوں سے دھُواں ایسا نکلتا ہے جیسے اُبلتی ہوئی ہانڈی کے نیچے جلتے ہوئے گھاس پھوس۔
21 جب کبھی یہ سانس لیتے ہیں تو اس کے سانس سے کوئلے بھی سُلگ اٹھتے ہیں اور اس کے منہ سے شعلہ با ہر پھوٹ پڑتا ہے۔
22 لبیا تھان کی طاقت اس کی گردن میں رہتی ہے اور لوگ اس سے ڈر کر دور بھاگ جایا کرتے ہیں۔
23 اس کے جسم پر کہیں بھی ملائم جگہ نہیں ہے اور یہ لو ہے کی مانند سخت ہیں۔
24 اس کا دِل چٹان کی طرح ہے اس کو خوف نہیں ہے۔ یہ چکی کے نیچے کے پاٹ کی طرح سخت ہے۔
25 جب وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو زبردست لوگ ڈر جاتے ہیں جب لبیا تھان اپنی دم گھماتا ہے تو وہ لوگ بھاگ جاتے ہیں۔
26 جب بھالے تلوار اور تیروں کا اس پر وار ہوتا ہے تو وہ اچھل جاتا ہے۔ یہ سب ہتھیار اسے بالکل ہی نقصان نہیں پہنچاتا ہے !
27 وہ لوہے کو پیال کی طرح اور پیتل کو گلی ہوئی لکڑی کی طرح توڑ دیتا ہے۔
28 تیر اس کو نہیں بھگا پاتے ہیں۔ اس پر چٹان تنکے کی طرح چھٹک جاتا ہے۔
29 لاٹھیاں جب ان پر پڑتی ہیں تو وہ اسے تنکے کی طرح محسوس کرتا ہے وہ برچھی کے چلنے پر ہنستا ہے۔
30 لبیا تھان کی پیٹ کی کھال ٹوٹے ہوئے برتن کے تیز ٹکڑوں کی مانند ہوتی ہے۔ جو وہ چلتا ہے تو وہ کیچڑ پر کھلیان کے تختوں کی مانند لکیر چھوڑتا ہے۔
31 لبیا تھان پانی کو ابلتی ہوئی ہانڈی کی طرح گھونٹتا ہے اور وہ سمندر میں ہانڈی میں ابلتا ہوا تیل کے جیسا بلبلا پیدا کرتا ہے۔
32 جب لبیا تھان سمندر میں تیرتا ہے تو وہ اپنے پیچھے راستہ چھوڑ جاتا ہے۔ وہ پانی کو گھونٹتا ہے اور اپنے پیچھے سفید جھاگ کا راستہ چھوڑتا چلا جاتا ہے۔
33 لبیا تھان کی مانند کوئی اور جانور زمین پر نہیں ہے۔ وہ ایسا جانور ہے جسے بے خوف بنا یا گیا
34 لبیا تھان ( سمندری دیو)نے سب سے مغرور جانوروں کی طرف حقارت کی نظر سے دیکھا۔ وہ سبھی جنگلی جانوروں پر بادشاہ ہے اور میں خداوند نے لبیا تھان کو بنا یا! ”
باب: 42
1 تب ایوب نے خداوند کو جواب دیا ایوب نے کہا :
2 ” اے خداوند! میں جانتا ہوں کہ تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ تو منصوبے بنا سکتا ہے اور تیرے منصوبوں کو کوئی بھی نہیں بدل سکتا اور نہ ہی اس کو روکا جا سکتا ہے۔
3 اے خداوند! تم نے پو چھا : وہ جاہل شخص کون ہے جو بے وقوفی کی باتیں کر رہا ہے ؟ خداوند میں نے ان چیزوں کے بارے میں بات کی ہے جسے میں نہیں سمجھتا ہوں۔ میں نے ان چیزوں کے بارے میں بات کی جو کہ اتنی حیرت انگیز تھی کہ میں سمجھ نہیں سکتا تھا۔
4 ” اے خداوند! تو نے مجھ سے کہا ‘اے ایوب سن اور میں بولوں گا۔ میں تجھ سے سوال کروں گا اور تو مجھے جواب دے گا۔’
5 اے خداوند بیتے ہوئے دنوں میں میں نے تیرے بارے میں سنا تھا۔ لیکن خود اپنی آنکھوں سے میں نے تجھے دیکھ لیا ہے۔
6 اس لئے اے خداوند میں اپنے میں شرمندہ ہوں۔ اے خداوند مجھے بہت افسوس ہے۔ میں خاک اور راکھ میں بیٹھ کر اپنے دل و دماغ کو بدلنے کا وعدہ کرتا ہوں۔”
7 جب خداوند نے ایوب سے باتیں کرنا بند کر دی خداوند نے تیمان کے الیفاز سے کہا ” میں تم اور تمہارے دوستوں سے خفا ہوں کیوں کہ تم نے میرے بارے میں صحیح باتیں نہیں کہیں۔ لیکن ایوب میرے خادم نے میرے بارے میں صحیح باتیں کہیں۔
8 اس لئے الیفاز میرے خادم ایوب کے پاس سات سانڈوں اور سات مینڈھوں کے ساتھ جاؤ اور انہیں اپنے لئے جلانے کے نذرانے کے طور پر قربان کرو۔ اور میرا خادم ایوب تمہارے لئے دعا کرے گا اور میں اس کی دعا کا جواب دوں گا۔ تب میں تمہیں سزا نہیں دوں گا جس کے تم حق دار ہو۔ تمہیں سزا دی جانی چاہئے تھی کیوں کہ تم بہت بے وقوف تھے تم نے میرے بارے میں صحیح باتیں نہیں کہیں۔ لیکن میرا خادم ایوب نے میرے بارے میں صحیح باتیں کہیں۔”
9 اس لئے الیفاز تیمانی بِلدد سوخی اور ضوفر نعماتی نے خداوند کے حکم کی تعمیل کی اور خداوند نے ایوب کی دعا سن لی۔
10 ایوب نے اپنے دوستوں کے لئے دعا کی۔ اور پھر خداوند نے ایوب کو پھر سے کامیابی دی۔ خدا نے ایوب کو اس کا دو گنا دیا جتنا اس کے پاس پہلے تھا۔
11 ایوب کے سبھی بھائی اور بہنیں اور سبھی لوگ جو پہلے ایوب کو جانتے تھے اس کے گھر آئے۔ ان سبھوں نے اس کے ساتھ کھا نا کھا یا اور ایوب کو تسلی دیئے۔ اور ان ساری مصیبتوں کے بارے میں جسے خداوند نے ایوب پر لایا تھا افسوس ظاہر کیا۔ ہر کسی نے ایوب کو چاندی کا ٹکڑا اور سونے کی انگوٹھی دیئے۔
12 خداوند نے ایوب پر پہلے کے بہ نسبت زیادہ برکت بخشی۔ ایوب کے پاس چودہ ہزار بھیڑ چھ ہزار اونٹ بیلوں کا ایک ہزار جوڑا اور ایک ہزار گدھیاں ہو گئیں۔
13 ایّوب کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں بھی ہوئیں۔
14 ایوب نے اپنی سب سے بڑی بیٹی کا نام یمیمہ رکھا۔ دوسری بیٹی کا نام قصیعاہ رکھا اور تیسری کا نام قرن ہپّوک رکھا۔
15 ساری سرزمین کی
16 اس کے بعد ایوب ایک سو چالیس برس تک اور زندہ رہا۔ وہ اپنے بچوں اپنے پوتوں اپنے پڑ پوتیوں اور پڑ پو توں کی بھی اولادوں کو دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔
17 جب ایوب کی موت ہوئی اس وقت وہ بہت بوڑھا تھا۔ اسے بہت اچھی اور طویل زندگی حاصل ہوئی تھی۔
٭٭٭
ماخذ:
http://gospelgo.com/a/urdu_bible.htm
پروف ریڈنگ: اویس قرنی، اعجاز عبید
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
انتہائی غلط قسم کی باتیں کی گئی، جن کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ ایوب علیہ السلام کے بارے میں بہت کچھ جھوٹ بولا گیا۔
میری زندگی کے یادگار ترین اسباق میں سے ایک۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!