FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مرا کام تو درسِ انسانیت ہے

نہیں  شوق مجھ کو فقط شاعری کا

 

 

 

ISBN: 978 969 7578 665

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

عکاسِ احساس

 

 

 

 

 

 

شبیر ناقدؔ

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

اپنی رفیقۂ حیات کے نام!

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مرے ساتھ ہر دم ہے تیری حمایت

میسر ہے ہر آن تیری رفاقت

 

کروں شکر تیرا میں جتنا بھی کم ہے

کرم ہے ترا تُو نے بخشی نیابت

 

ترا ذکر لازم ہے ہر لمحہ مالک!

ہے مذکور تیرا زباں کی ریاضت

 

تو خالق ہے سب کا تو معبودِ برحق

سو ہر چیز کرتی ہے تیری عبادت

 

کسی اور کو میں نے چاہا نہ ناقِدؔ

مرے من میں ہے موجزن تیری چاہت

 

 

 

 

 

جو تجھ سے سدا میں دعا مانگتا ہوں

دعا میں ہمیشہ وفا مانگتا ہوں

 

زمیں پر اگر بوجھ ہے میری ہستی

مجھے تو اُٹھا لے قضا مانگتا ہوں

 

کرم کی سدا تم سے امید رکھوں

میں تم سے بھلا اور کیا مانگتا ہوں

 

ہوا ہے مری جان جو جرم سرزد

میں اس پاپ کی اب سزا مانگتا ہوں

 

رضا تیری مطلوب ناقِدؔ ہے مجھ کو

نہ میں تجھ سے کوئی جزا مانگتا ہوں

 

 

 

 

مرا شوق یا رب بڑھا دیجیے

مجھے عشق بے انتہا دیجیے

 

جو پیاسے ہوں ان کو پلا دیجیے

جو بھوکے ہیں ان کو کھلا دیجیے

 

مرے رتجگے کرب ٹھہرے مرا

سو کوئی مناسب سزا دیجیے

 

پجاری مرا من نہیں جسم کا

نہ جذبات کو اب ہوا دیجیے

 

مرے حزن کو استقامت ملے

غزل میرؔ کی اک سنا دیجیے

 

مری پیاس ناقِدؔ ہے لا انتہا

مجھے اک سبو بھر کے لا دیجیے

 

 

 

 

کر دیا مجھ کو بے چین حالات نے

بے تحاشا مصائب نے، صدمات نے

 

التجائیں بہت میں نے کی ہیں مگر

کایا پلٹی نہ میری مناجات نے

 

بے کلی بے قراری مرے پاس ہے

پھل دیا تیرے طرفہ سوالات نے

 

بے خودی سی ہے طاری مری ذات پر

کر دیا سیر تیری عنایات نے

 

جب بھی مایوس دنیا سے ناقِدؔ ہوا

اس کو تسکین بخشی عبادات نے

 

 

 

 

 

 

میں نے حالتِ روح رقم کی

میری مایہ پونجی غم کی

 

لوگ تو اور بھی ہیں دنیا میں

بات ہے کیا اس شوخ بلم کی

 

فکر میں ہر دم سوزاں غلطاں

اب کیفیت ہے یہ الم کی

 

کیا ہے اپنی زیست کہانی؟

یہ تفسیر ہے پیچ و خم کی

 

کچھ بھی پاس نہیں ہے لیکن

ناقِدؔ آس ہے ان کے کرم کی

 

 

 

 

 

 

 

جو ہمدم نیا ہے رفاقت نئی ہے

مری زندگی میں حماقت نئی ہے

 

بہت پھونک کر میں قدم رکھ رہا ہوں

بلم جو نیا ہے محبت نئی ہے

 

سفر کے مصائب سے رہتا ہوں خائف

کہ میرے لیے یہ مسافت نئی ہے

 

اداؤں کے تیرے نئے طور دیکھے

تری ہر جفا بھی قیامت نئی ہے

 

کرے زخمی خود، خود ہی مرہم لگائے

مرے ساتھ ناقِدؔ عنایت نئی ہے

 

 

 

 

 

 

ستم سہتے سہتے یہ عادت ہوئی ہے

اذیت کی خوگر طبیعت ہوئی ہے

 

کبھی بھول کر بھی محبت نہ کرنا

رہِ عشق میں یہ نصیحت ہوئی ہے

 

وفاؤں کے بدلے جفائیں ملی ہیں

جو الفت گھنی تھی وہ نفرت ہوئی ہے

 

عدو بھی عداوت نہ کرتا تھا مجھ سے

یہ تیری طرف سے عنایت ہوئی ہے

 

جو ناقِدؔ نے ہے آنکھ تجھ سے لڑائی

یہ اس سے یقیناً حماقت ہوئی ہے

 

 

 

عذاب لایا شباب تیرا

نہ پڑھ سکا میں نصاب تیرا

قیامتوں کا نزول دیکھا

اُٹھا جو رخ سے حجاب تیرا

میں کیسے جلوے کی تاب لاتا؟

ہے مغتنم یہ نقاب تیرا

تری جفا کے کرم بہت ہیں

میں کی اچکاؤں حساب تیرا

مثال تیری نہیں جہاں میں

نہیں ہے کوئی جواب تیرا

مرا مقدر مرا مخالف

گناہ میرا ثواب میرا

ہے زندہ رہنا محال ناقِدؔ

بہت کڑا ہے عتاب تیرا

 

 

 

 

کرم بھی بے حساب ہے

جفا بھی لاجواب ہے

 

جو میرے دل کو خوش کرے

خطا نہیں ثواب ہے

 

پڑھو اسے بھی غور سے

حیات بھی کتاب ہے

 

ہے قہر تیرا ہجر بھی

وصال بھی عتاب ہے

 

ہمیشہ صبر سے رہو

یہ پیار کا نصاب ہے

 

چلو کہ ناقِدِؔ حزیں

یہ زندگی عذاب ہے

 

 

 

 

کان دھرتا ہی نہیں قرآن پر

راج بے دینی کا ہے انسان پر

 

یوں ہوئے ہیں حق سے ہم بھی بے خبر

شک ہمیں ہونے لگا ایمان پر

 

روح بھی کمزور ہے اب جسم میں

ہے یقیں ناقص بہت یزدان پر

 

ایک پل میں بھول جاتا ہے خدا

ہے تعجب تیرے اس نسیان پر

 

جوہرِ ایمان ہے ناقِدؔ یقیں

بس عمل کرتے رہو فرمان پر

 

 

 

 

ازل سے سکوں پاس آیا نہیں ہے

مرے پاس راحت کی مایا نہیں ہے

 

بھلا کیسے ملتا ہمیں سکھ جہاں کا؟

کہ ہم نے یہاں کچھ کمایا نہیں ہے

 

گیا پاس جب بھی میں  درشن کی خاطر

کہا اس نے تم کو بلایا نہیں ہے

 

جلایا سدا زندہ انساں کو ہم نے

کبھی کوئی مردہ جلایا نہیں ہے

 

سدا جس نے مجھ کو ستم سے نوازا

اسے میں نے اب تک بھلایا نہیں ہے

 

وفا جس سے کی عمر بھر ہم نے ناقِدؔ

کبھی مہرباں اس کو پایا نہیں ہے

 

 

 

 

جو لوٹا ہے مجھ کو مرے ہم سفر نے ستم ہے کوئی مہربانی نہیں ہے

جو پل پل اذیت اٹھائی ہے میں نے یہی موت ہے زندگانی نہیں ہے

 

ترے ہجر کی ایک سوغات ہے یہ نہیں اوس اشکوں کی برسات ہے

ہوا نذر بے تابیوں کے جو جیون ترے ہجر کی یہ نشانی نہیں ہے

 

خزانہ مرے پاس ہیروں کا ہے یہ برستا ہوا ابر نیزوں کا ہے

ذرا سا بھی ٹھہراؤ آ جائے جس میں مرے غم میں ایسی روانی نہیں ہے

 

یوں بے چین راہوں میں  الجھا رہا میں  کہ ہر ظلم آوارہ سہتا رہا میں

نہیں گوش مانوس میری فغاں سے یہ بپتا نئی ہے پرانی نہیں ہے

 

محبت سے ہم باز آئے ہیں  ناقِدؔ خرد بھی ملی ہے خوشی بھی ملی ہے

بہت کچھ گنوا کے یہ سوچا ہے ہم نے عبث اپنی ہستی لٹانی نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

 

جلاتی ہے مجھ کو مری آگہی اب

ہے مشعل کی صورت مری زندگی اب

 

گراں بار مجھ پر یہ جیون ہوا ہے

مری ہمسفر ہے مری بے بسی اب

 

سروکار کیا اس سے اہلِ خرد کو

نہیں زیب دیتی مجھے عاشقی اب

 

ودیعت ہوئی مجھ کو بیزاری ایسی

کہ دشوار سی ہو گئی شاعری اب

 

توقع نہیں کچھ زمانے سے ناقِدؔ

بنی میری دمساز ہے بے کسی اب

 

 

 

 

 

 

سکوں مجھ کو آئے بھلا اب کہاں سے

توقع نہیں مجھ کو دونوں جہاں سے

 

مرا لہجہ بھی اس لیے تلخ سا ہے

ستم پائے ہیں مخلص و مہرباں سے

 

میں ہر غم سے اب ماورا ہو گیا ہوں

میں خائف نہیں اب کے سود و زیاں سے

 

مجھے راس آئی ہے کچھ یوں فقیری

ذرا ڈر نہیں ہے خروشِ سگاں سے

 

ہے ناقِدؔ مجھے اب کے افسوس اس کا

ملی تشنگی مجھ کو پیرِ مغاں سے

 

 

 

 

 

نہیں سکھ سکوں مجھ کو ملتا یہاں بھی

سکوں کی توقع نہیں ہے وہاں بھی

جفا کار سارا زمانہ ہوا ہے

وفا کا نہیں کوئی نام و نشاں بھی

یہاں بات کرنا بھی اک جرم ٹھہرا

ہوئی اس لیے گنگ میری زباں بھی

ہوا بے حسی کا یہاں  راج ایسا

ہوئی بے اثر ہر کسی کی فغاں بھی

جوانی نہیں جوش و جذبہ نہیں ہے

نظر آ رہے ہیں  تھکے سے جواں بھی

بھیانک لگے اب کے ماحول ایسا

نہیں کوئی رنگین و دلکش سماں بھی

ہوا تشنگی کی چلی ایسی ناقِدؔ

لگے تشنہ اب تو پیرِ مغاں بھی

 

 

 

 

 

 

بہت کچھ ملا ہے مجھے رتجگوں میں

فراواں مرے غم ہوئے رتجگوں میں

 

زمانے میں وہ سب امر ہو گئے ہیں

فسانے جو میں نے لکھے رتجگوں میں

 

مرے ہم سفر جو جدا ہو گئے تھے

خیالوں میں  آتے رہے رتجگوں میں

 

کلیدِ فتوحات میری یہی ہے

مرے بند سب در کھلے رتجگوں میں

 

جنہیں میں نے خوابوں میں دیکھا تھا ناقِدؔ

وہ سب راز افشا ہوئے رتجگوں میں

 

 

 

 

 

 

بنے زندگانی کی تعزیر سپنے

پریشاں مقدر کی تحریر سپنے

 

اگرچہ میں ان سے گریزاں رہا ہوں

مگر میرے جیون کی تصویر سپنے

 

سمجھنا مجھے کوئی آساں نہیں ہے

کہ ٹھہرے ہیں ہستی کی تفسیر سپنے

 

کوئی اور تو دوش میرا نہیں ہے

مرے واسطے لائے تحقیر سپنے

 

سروکار ان سے نہیں مجھ کو ناقِدؔ

کہ ٹھہرے کہیں میری تقدیر سپنے

 

 

 

 

 

 

ہوئے ہیں ستم اس قدر زندگی پر

جہاں  ہنس رہا ہے مری بے بسی پر

 

مجھے میری غربت نے رسوا کیا ہے

مجھے پھر بھی ہے ناز اس مفلسی پر

 

فزوں صبر مجھ کو ودیعت ہوا ہے

بہاؤں گا آنسو نہ میں بے کسی پر

 

مسرت نہیں چاہیے مجھ کو جاناں

کہ قانع ہوں میں اپنی ہی بے کلی پر

 

مرا قتل میرا نہیں قتل ناقِدؔ

طمانچہ ہے یہ تو رخِ آگہی پر

 

 

 

 

 

 

مری زندگی کرب کی داستاں ہے

مسرت نصیبوں میں میرے کہاں  ہے؟

 

نہیں زندگی سے میں بیزار پھر بھی

سدا سے مگر میرا جذبہ جواں ہے

 

ہے اک نفسا نفسی نے مارا جہاں کو

مرے چار سو بے حسی کا سماں ہے

 

خوشی کا کہیں بھی نشاں  تک نہیں ہے

لگے جیسے رنج و الم کا جہاں ہے

 

مرے ہونٹ ہیں خشک جنموں سے ناقِدؔ

نہ جام و سبو ہے نہ پیرِ مغاں ہے

 

 

 

 

 

 

ہے حد سے بڑھی اب مری بے قراری

اجیرن کٹی ہے مری عمر ساری

 

مرا جسم بے کیف و بے کل رہا ہے

مری روح بھی تو ہے اب غم کی ماری

 

ہوئی تیز تر شرحِ آبادی ایسی

کہ ہر سال ہوتی ہے مردم شماری

 

خدا جانے کیا ہو گیا ہے جہاں کو؟

کہ رکھے ہوئے ہے روا کاروکاری

 

بھروسہ نہیں ہے کسی پر بھی ناقِدؔ

کہ دل والے بھی ہو گئے کاروباری

 

 

 

 

 

سہانے سپنوں میں کھو گیا ہوں

میں اب کے دیوانہ ہو گیا ہوں

 

شجر کی شاخیں ہری رہیں گی

میں بیج کچھ ایسا بو گیا ہوں

 

کہیں بھی میں نے سکوں نہ پایا

میں تیرے گھر میں  بھی تو گیا ہوں

 

میں جاگتا تھا جہاں تھا غافل

جگا کے اس کو میں  سو گیا ہوں

 

رہا نہ دل میں نشان ناقِدؔ

کہ داغ اشکوں سے دھو گیا ہوں

 

 

 

 

 

 

 

کون جیتا ہے کون ہارا؟

دوش اس میں ہے کب تمہارا؟

 

کوئی بھی مخلص نہیں کسی کا

نہ ہم ہیں اپنے نہ وہ ہمارا

 

عمل پہ اپنے رہے بھروسا

کسی کا کوئی نہ لے سہارا

 

سفر جنوں کا نہ ختم ہو گا

نہیں ہے اس کا کوئی کنارا

 

مدد ملی ہے اسی کے در سے

ہے جب بھی ناقِدؔ اسے پکارا

 

 

 

 

 

 

سکوں کا تو نام و نشاں بھی نہیں ہے

یہ جینے کے قابل جہاں  بھی نہیں ہے

 

ہوا بے حسی کا ہے اب راج ایسا

مری با اثر اب فغاں بھی نہیں ہے

 

یہ جیون جہنم ہے جنموں سے میرا

یہاں کوئی دلکش سماں بھی نہیں ہے

 

یہاں جس کو پل پل اذیت ملی تھی

سکوں اس کو شاید وہاں بھی نہیں ہے

 

زمانے کو ناقِدؔ جو اخلاص بخشے

کوئی کارگر اب زباں بھی نہیں ہے

 

 

 

 

 

اگر پاسِ فکر و نظر کچھ نہیں ہے

کسی بات کا پھر اثر کچھ نہیں ہے

 

دیے ہر کسی نے سدا مجھ کو دھوکے

کسی میں بھی دردِ جگر کچھ نہیں ہے

 

کیا ہے مسائل نے اب ایسا غلطاں

زمانے کی مجھ کو خبر کچھ نہیں ہے

 

یہ جیون سزا ہے تو عقبیٰ عقوبت

مرے پاس راہِ مفر کچھ نہیں ہے

 

ہے اک زندہ رہنے کا ناقِدؔ سہارا

مصائب کا گر دل میں ڈر کچھ نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

 

رہا پاس ہر دم مجھے آگہی کا

مجھے غم زمانے کی ہے بے حسی کا

 

ہے الفت مجھے سارے عالم سے ہمدم

عبث ہے فسانہ تری عاشقی کا

 

مرا کام تو درسِ انسانیت ہے

نہیں شوق مجھ کو فقط شاعری کا

 

سدا میرا اخلاص مشکوک ٹھہرا

صلہ یہ ملا ہے مجھے دوستی کا

 

بنا ہوں میں ناقِدؔ ستم کا نشانہ

ملا مجھ کو انعام یوں عاجزی کا

 

 

 

 

 

 

ترا پانا جیسے سکوں ہو گیا ہے

تیرا پیار اب کے جنوں ہو گیا ہے

 

میں غم کے تصور سے نا آشنا ہوں

الم عشق میں اب فزوں ہو گیا ہے

 

یوں تیری جفاؤں نے پاگل کیا ہے

مرا حال اب تو زبوں ہو گیا ہے

 

تری یاد سے کیسے غافل رہوں میں؟

ترا ذکر سوزِ دروں ہو گیا ہے

 

مرے سارے آلام پر بھاری ناقِدؔ

کسی کے برہ کا فسوں ہو گیا ہے

 

 

 

 

 

 

کٹی جاگتے میں مری عمر ساری

مرے رتجگے ہیں مری بے قراری

 

یہاں  سکھ کی دولت کو ترسے ہیں ہم بھی

فقط حاصل زندگی آہ و زاری

 

نشاطِ صباحت ہے حاصل تمہیں اب

سدا مجھ پہ رہتی ہے سکرات طاری

 

ترے تیر نینوں کے نشتر بنے ہیں

تری ضرب کاری ترا زخم کاری

 

سکوں لاؤ ناقِدؔ کہ میں جی سکوں کچھ

رہے زندگی نہ اذیت کی ماری

 

 

 

 

 

 

جو تو مسکرائے سماں مسکرائے

تبسم سے تیرے جہاں  مسکرائے

 

سدا سے یہی میری خواہش رہی ہے

مرے دیس کا ہر جواں مسکرائے

 

ہمیشہ پڑا کرب سے جس کا پالا

جو ہے غم کا مارا کہاں مسکرائے

 

نہیں بادہ خواروں میں الفت کا جذبہ

بھلا کیسے پیرِ مغاں مسکرائے؟

 

مرے یار کا ذکر ہو جس میں ناقِدؔ

وہ چاہت بھری داستاں مسکرائے

 

 

 

 

تمام اپنا عذاب جیون

اذیتوں کا نصاب جیون

 

یقینی اس میں نہیں ہے کچھ بھی

فریب جیون سراب جیون

 

خطا سے معصوم تیری ہستی

ترا سراسر ثواب جیون

 

نظیر تیری نہیں ہے آقا

ترا تو ہے لاجواب جیون

 

مجھے سمجھنا نہیں ہے مشکل

مرا ہے مثل کتاب جیون

 

گلہ نہیں ہے یہ سچ ہے ناقِدؔ

ہے اپنا خانہ خراب جیون

 

 

 

 

میں ترے سوزِ ہجراں میں جلتا رہا شعر کہتا رہا

رنج تنہائی میں آہیں بھرتا رہا شعر کہتا رہا

 

دردِ فرقت سے تو نے نوازا مجھے یہ کرم ہے ترا

میں محبت میں تیری تڑپتا رہا شعر کہتا رہا

 

ہر قدم پر مجھے تیری نفرت ملی اک اذیت ملی

پیار میں اس کے با وصف کرتا رہا شعر کہتا رہا

 

ہاتھ میرے اسی شاخسانے سے گرچہ قلم ہو گئے

ظلمتوں سے سدا پھر بھی لڑتا رہا شعر کہتا رہا

 

میرے ہونٹوں پہ ناقِدؔ مچلتا رہا ایک حرفِ دعا

میں ستم اہلِ دنیا کے سہتا رہا شعر کہتا رہا

 

 

 

 

ستم ڈھا رہے ہیں زمیں آسماں

سمجھ میں نہیں آتا جاؤں کہاں؟

 

مرے ہاتھ میں کوئی پتھر نہیں ہے

مرے ہر طرف ہے خروشِ سگاں

 

کرم کی توقع نہیں  ہے مجھے

ہوئی بے اثر ایسی میری فغاں

 

کوئی میرا غم خوار و مونس نہیں

ہوئی بے حسی اب کے ایسی جواں

 

زمانے میں دل کیسے ناقِدؔ لگے؟

سماں دل لگی کا نہیں ہے یہاں

 

 

 

 

 

مجھے سامنا اب کے ہے بے کلی کا

ثمر یہ ملا ہے مجھے آگہی کا

 

یہاں ظلمتیں ہر قدم پر ملی ہیں

بہت ہی کٹھن تھا سفر روشنی کا

 

میں اظہارِ غم اپنا کرتا ہوں یارو

مجھے زعم ہرگز نہیں  شاعری کا

 

ہے راحت سے عاری مری زندگانی

فسانہ ہے اک یہ مری بے بسی کا

 

مجھے غم یہی ہے سکوں سے ہوں عاری

گلہ میرا ناقِدؔ نہیں مفلسی کا

 

 

 

 

 

 

 

مصائب مجھے دم بہ دم کھا رہے ہیں

زمیں آسماں کیوں ستم ڈھا رہے ہیں؟

 

دکھوں سے ذرا بھی میں خائف نہیں ہوں

اگرچہ سدا سے یہ تڑپا رہے ہیں

 

ستم گر ہمیں دیکھ کر بھاگتے ہو

ذرا ٹھہر جاؤ کہ ہم آ رہے ہیں

 

سو ایماں ہمارا ہے تقدیر پر بھی

جو قسمت نے بخشا وہی پا رہے ہیں

 

سدا سکھ سکوں جن کو بخشا ہے ناقِدؔ

وہی میرے جیون میں غم لا رہے ہیں

 

 

 

 

 

 

بنا ہوں جہاں کے ستم کا نشانہ

مری زندگی کرب کا ہے فسانہ

 

مجھے عشق سے گرچہ رغبت نہیں ہے

مگر میرا انداز ہے عاشقانہ

 

مجھے وصل کی اک گھڑی بخش دو تم

ملن کا کوئی اب بناؤ بہانہ

 

وہ فن بھی امر شاعری بھی امر ہے

رقم جس میں افکار ہوں جاودانہ

 

اذیت میں ہر سانس ناقِدؔ لیا ہے

مجھے راس آیا نہ یہ کارخانہ

 

 

 

 

نہ سمجھو انہیں شاعری کے فسانے

مرے پاس ہیں آگہی کے فسانے

 

زمانے کہاں کھو گئے ہیں  پرانے

امر جن سے تھے دوستی کے فسانے

 

مرا فن امر ذات میری امر ہے

رقم کیوں کروں بے بسی کے فسانے

 

مری زندگی ہے مسرت سے عاری

ودیعت مجھے بے کلی کے فسانے

 

عبث فردِ واحد کی الفت کو جانو

ہیں بے سود سب دل لگی کے فسانے

 

مری داستانیں خرد کی ہیں ناقِدؔ

نہیں  رکھتا میں  عاشقی کے فسانے

 

 

مرے ساتھ اک بے بسی کا ستم ہے

مری بے کلی میری خاطر الم ہے

 

اذیت شرافت محبت قیامت

مری شاعری میں تو سب کچھ رقم ہے

 

میں اک پل بھی جینے کے قابل نہیں تھا

مجھے زندہ رکھا یہ اس کا کرم ہے

 

جو پل پل مصیبت سے مجھ کو نوازے

مشیت نے بخشا یہ کیسا بلم ہے؟

 

جو مد ہوش کر دے جو دیوانہ کر دے

نہ کوئی خوشی ایسی نہ کوئی غم ہے

 

قناعت مروت فراست جسارت

مرے پاس ناقِدؔ یہ سب کچھ بہم ہے

 

 

 

وفاؤں پہ نہ جانے کیوں ہوا دل میرا مائل ہے؟

کسی کا ایک آنسو بھی مری خوشیوں کا قاتل ہے

 

نہیں دیکھی خوشی اس نے سدا دکھ اس نے دیکھے ہیں

یہ دو دن کا نہیں قصہ یہ من صدیوں سے گھائل ہے

 

غمِ غربت میں تڑپے ہیں ہر اک راحت کو ترسے ہیں

دکھوں نے ہم کو مارا ہے خوشی کب کوئی حاصل ہے؟

 

کسی کو میں ستاؤں کیوں؟ کسی کو میں رلاؤں کیوں؟

پجاری ہوں محبت کا مرے سینے میں بھی دل ہے

 

اسے غمگین رہنا ہے یہی تو اس کا گہنا ہے

یہی ناقِدؔ کی قسمت ہے یہی تو اس کی منزل ہے

 

 

 

 

 

 

 

کسی کسی کے نصیب میں ہے جہاں کی فرحت

مرے مقدر میں آ سکی نہ کبھی یہ دولت

 

ہے میرا مذہب مرا عقیدہ خلوص و الفت

میں سب کا حامی کسی سے مجھ کو نہیں عداوت

 

مجھے زمیں پہ ہو چین کیسے سکون کیسے؟

مرے لیے تو تمام عالم ہے اک قیامت

 

بنا نشانہ کدورتوں کا مصیبتوں کا

کسی سے پھر بھی نہ کچھ شکایت نہ کوئی نفرت

 

حیات میری سدا عبارت ہے بے کسی سے

غموں سے ناقِدؔ رہا ہے جیون مرا عبارت

 

 

 

 

 

 

زمانہ مجھے اب مٹانے چلا ہے

مجھے مستقل ہی سلانے چلا ہے

 

میں مخلص رہا ابن آدم سے ہر دم

تو پھر کیوں مجھے یہ ستانے چلا ہے

 

سدا وقف کی زندگی جس کی خاطر

وہی مہرباں اب رلانے چلا ہے

 

لبوں پر مرے ورد ہے نام جس کا

وہی دلربا اب بھلانے چلا ہے

 

وہ بے درد ہر دم جو بے حس رہا ہے

غزل اس کو ناقِدؔ سنانے چلا ہے

 

 

 

 

 

خوشی میں نے دیکھی جہاں میں نہیں ہے

لہٰذا مسرت بیاں میں نہیں ہے

 

وہ فن اپنا مقصد نہیں پا سکے گا

اگر اس کی ندرت زباں میں نہیں ہے

 

ہوا بے حسی کا یہاں  راج ایسا

اثر میری اب کے فغاں  میں نہیں ہے

 

کسی سے نہیں ہے مجھے تو کدورت

سو نفرت مری داستاں میں نہیں ہے

 

اسی کا طلبگار ہوں میں بھی ناقِدؔ

وہ دولت جو سارے جہاں میں نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

 

دشت میں ہوں تو گھر جانے کو جی چاہے اب

تنہائی میں مر جانے کو جی چاہے اب

 

جیون مجھ کو خوب ستائے راس نہ آئے

چھوڑ حیات گزر جانے کو جی چاہے اب

 

جلوہ تیرا حور سے بڑھ کر طور سے بڑھ کر

اس جلوے سے ڈر جانے کو جی چاہے اب

 

میری خاطر ایک قیامت حسن ہے تیرا

تیری ادا پہ مر جانے کو جی چاہے اب

 

یاد رکھے پھر دنیا ساری مجھ کو ناقِدؔ

کام اک ایسا کر جانے کو جی چاہے اب

 

 

 

 

 

 

بہت کچھ مجھے آزمایا گیا ہے

مجھے جیتے جی بھی جلایا گیا ہے

 

مرے صبر کا امتحاں لے رہے تھے

مجھے اس لیے بھی ستایا گیا ہے

 

کیا تھا جسے اپنی غربت نے گھائل

سو مردہ سڑک پر وہ پایا گیا ہے

 

جہاں  پر کشش میری خاطر نہیں تھا

تو کیونکر یہاں مجھ کو لایا گیا ہے

 

اگر اس کے آنے کی خواہش نہیں تھی

تو پھر کیسے ناقِدؔ بلایا گیا ہے؟

 

 

 

 

 

 

 

یہاں نیتوں کا قصور ہے

سو نفس نفس میں غرور ہے

 

ہے حماقتوں کو عروج سا

کہیں عقل ہے نہ شعور ہے

 

یہاں ایسا قحط الرجال ہے

نہ بلال ہے نہ حضور ہے

 

یہاں بے حسی کو فروغ ہے

کوئی شور صبحِ نشور ہے

 

ہیں سرورِ ناقدِ نیم جاں

جہاں  تیرا نور و ظہور ہے

 

 

 

 

مری زندگی صبر سے ہے عبارت

اسے میں نے سمجھا سراپا عبادت

اسی دن سے ہر سانس میری اذیت

مقدر میں جب سے ہے آئی فراست

میں ناکام ٹھہرا میں مجبور ٹھہرا

مرے کام آئی نہ میری ذکاوت

کیے جائیں مصلوب جو اہلِ حق ہیں

یہی فیصلہ اب کرے گی عدالت

سماں زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے

مرا زندہ رہنا ہے میری جسارت

مرا سچ بھی ہے میری کمزوری ٹھہرا

ثمر خوب لائی ہے میری صداقت

فقط بے کلی جرم ٹھہری ہے میرا

نہ رکھے روا کوئی مجھ سے حقارت

زمانے میں بے حد میں رسوا ہوا ہوں

مجھے راس آئی نہ ناقِدؔ شراف

 

 

 

ترا حسن دل میں سمانے لگا ہے

اداؤں پہ اب پیار آنے لگا ہے

 

محبت کا ہوں استعارہ جہاں میں

تو پھر کیوں زمانہ مٹانے لگا ہے؟

 

بہت کھا لیے میں نے الفت میں دھوکے

مرا عشق اب کے ٹھکانے لگا ہے

 

جسے راحتِ جان جانا تھا میں نے

وہی چین میرا چرانے لگا ہے

 

ترا تیر دل نے جو کھایا ہے ناقِدؔ

تو ہر زخمِ دل مسکرانے لگا ہے

 

 

 

 

 

وفا یہ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟

تری یاد کے ہی سہارے جیا ہے

 

جدائی میں سوزاں مرا من رہا ہے

یہ چاکِ گریباں بھی میں نے سیا ہے

 

نہیں بے کلی میں بھی کچھ دوش میرا

مشیت نے غم ہی مجھے دے دیا ہے

 

مرے پاس محفوظ تیری امانت

کیا دان جو حزن وہ مل گیا ہے

 

نہیں مجھ کو اعراض تقدیر سے بھی

جو ناقِدؔ نصیبوں میں تھا، لے لیا ہے

 

 

 

 

 

 

 

جو کیں وفائیں

ہوئیں جفائیں

مری ہیں قاتل

تری ادائیں

کیے ہیں احساں

ملیں سزائیں

جو خوش رہو تم

خوشی منائیں

سماں جواں ہو

جو آپ آئیں

بلائیں ہم کو

تو ہم بھی جائیں

غزل سنو جو

غزل سنائیں

اثر سے عاری

مری دعائیں

ہوئی ہیں ناقِدؔ

خفا ہوائیں

 

 

 

 

 

ستا رہا ہے مجھے زمانہ

بنا رہا ہے مجھے نشانہ

 

ضمیر بیدار اس سے ہوں گے

سنا رہا ہوں جو میں ترانہ

 

تمہارے شکوے سبھی عبث ہیں

نہ اب چلے گا کوئی بہانہ

 

الم کی نگری ہے میرا مسکن

خوشی سے بھی دور ہے ٹھکانہ

 

بڑھے قدم سوئے قبر ناقِدؔ

اُٹھا جو دنیا سے آب و دانہ

 

 

 

 

 

 

 

ادائیں ہیں حسیں تیری تبسم بھی قیامت ہے

سراپا دل نشیں تیرا حیا کو تجھ سے نسبت ہے

 

مجھے دنیا سے لینا کیا مجھے تم سے ہی الفت ہے

ہوں زندہ جس کے باعث میں فقط وہ تیری چاہت ہے

 

ملی درویشی قدرت سے کہ جس میں جرم نفرت ہے

مری الفت ہے آفاقی اسی میں میری راحت ہے

 

عدو سے پیار کرتا ہوں یہی میری مروت ہے

مرا اخلاص سب کچھ ہے یہی میری ضرورت ہے

 

فقط اللہ سے ڈرتا ہوں یہی ناقِدؔ حقیقت ہے

سدا خوش کام رہتا ہوں یہ سب مالک کی رحمت ہے

 

 

 

 

 

 

نہ سن پاؤ گے تم الم کی کہانی

رہی ہے ستم گر سدا زندگانی

 

اذیت سے منسوب بچپن تھا میرا

دکھوں سے عبارت ہے میری جوانی

 

مرے اشک آنکھوں سے تھمتے نہیں اب

مقدر سے پائی ہے ایسی روانی

 

حقائق سے محروم دعوے ہیں تیرے

ہے الفت کا اقرار تیرا زبانی

 

مرا من سکوں کو ترستا ہے ناقِدؔ

سدا مجھ پہ رہتی ہے طاری گرانی

 

 

 

 

 

 

 

ترا حسن بھی ہے قیامت پری رو

مجھے ہو گئی تجھ سے الفت پری رو

مجھے ایک پل چین حاصل نہیں ہے

یہ کیسی ہے تیری محبت پری رو

ترا ہجر کیا ہے مسلسل الم ہے

مجھے چاہیے تیری قربت پری رو

ترے پئیار کے ہی سہارے جیا ہوں

تری یاد ہے میری راحت پری رو

ہے مرغوب صورت توسیرت حسیں ہے

تری بھا گئی ہے شرافت پری رو

کسی اور سے کیوں بھلا لو لگاؤں؟

ہے دولت مری تیری چاہت پری رو

مجھے ہجر کے سوز نے ہے جلایا

جدائی بھی ہے اک مصیبت پری رو

زمانے کے ہر سکھ سے میں ماورا ہوں

ترا عشق لایا اذیت پری رو

ملے کاش ناقِدؔ محبت کی منزل

یہی میرے من میں ہے حسرت پری رو

 

 

 

 

 

 

 

رہِ شوق میں طورِ تکرار کیسا؟

اگر یہ روا ہو تو پھر پیار کیسا؟

 

اگر دل کو دل سے محبت ہوئی ہے

زباں سے ہے پھر اس کا اظہار کیسا؟

 

من و تو میں جب کچھ تفاوت نہیں ہے

مری جان پھر سے یہ اصرار کیسا؟

 

مرے زخم دل کے ہرے کر دیے ہیں

کیا تو نے الفت کا اقرار کیسا؟

 

کرے گا فدا تجھ پہ ہر چیز ناقِدؔ

ہوا حکم تیرا تو انکار کیسا؟

 

 

 

 

مجھے عشق میں یوں نہ رسوا کرو اب

ہوں پہلے ہی بے کل نہ تنہا کرو اب

 

تمہارے سوا کوئی ہمدم نہیں ہے

خدارا نہ مجھ کو اکیلا کرو اب

 

بلاتا ہوں کتنی محبت سے تم کو

سو آواز میری پہ ٹھہرا کرو اب

 

تمہارے سہارے ہے بس میرا جیون

یہی بات خاطر میں رکھا کرو اب

 

رواں جس کے باعث ہے سانسوں کا ساگر

زباں سے اسی کا ہی چرچا کرو اب

 

وہ منعم ہے احسان مجھ پہ ہیں اس کے

سو ناقِدؔ اسی کی ہی پوجا کرو اب

 

 

 

 

ہیں عارضی سے یہ سب سہارے

ہوئے ہیں وہ میت کب ہمارے؟

 

نہیں ہے پل کا کوئی بھروسا

یہ زندگی کے ہیں دن اُدھارے

 

خوشی تو کب سے ہوئی ہے رخصت

نظر کو مطلوب ہیں نظارے

 

امید کیسی ہو خواب کیسے؟

ہے عمر نیا لگی کنارے

 

تمہیں ہمارے نہیں ہو ناقِدؔ

ہوئے ازل سے ہیں ہم تمہارے

 

 

 

 

 

 

جوانی کا تقاضا ہے کسی سے ہو تمہیںا لفت

طبیعت جب ہو جوبن پر مزہ دیتی ہے یہ نعمت

 

ہمارا غم مقدر ہیں مبارک ہوں تمہیں خوشیاں

ہمیں دکھ بھی نہیں اس کا کہ جیون میں نہیں فرحت

 

کسی سے کچھ نہیں لینا دعاؤں کے سوا میں نے

نظر میری میں اس سے بڑھ کے کوئی بھی نہیں دولت

 

مجھے کچھ اور جینا ہے مجھے کچھ بخش دو سانسیں

ادب کی میں نے کرنی ہے ذرا سی اور بھی خدمت

 

میں رسیا ہوں اذیت کا مصائب کا مسائل کا

مجھے ناقِدؔ نہیں ہوتی کسی آفت سے اب وحشت

 

 

 

 

مجھے بھی تجھ سے الفت ہے تری چاہت بھی سچی ہے

کسی سے کیا غرض مجھ کو مجھے تو اچھی لگتی ہے

 

تجھے جب بھی بلایا ہے تو فوراً پاس آئی ہے

تو میرے ساتھ بولی ہے تو میرے ساتھ بیٹھی ہے

 

یہ کیسے مان لوں اس نے مجھے قربت نہیں بخشی

عنایت یہ بھی کی اس نے کئی راتیں وہ ٹھہری ہے

 

کٹی راتیں گزاریں اس نے خلوت میں فقط رو کر

رہا ہوں یاد اس کو میں  مری فرقت میں جاگی ہے

 

مجھے کیسے کوئی جانے مرے وصفوں کو پہچانے

فقط بیوی، مری طرفہ طبیعت کو سمجھتی ہے

 

وفا بھی اس نے کی مجھ سے جفا بھی اس نے کی ناقِدؔ

مری یادوں میں جاگی ہے مرے خوابوں میں سوئی ہے

 

 

 

مرے ساتھ مت دوستانہ کرو

سو رخصت کرو بس روانہ کرو

 

نہ بن جائیں یادیں قیامت مری

طبیعت کو نہ عاشقانہ کرو

 

بہت سے ہمیں بھول بیٹھے ہیں لوگ

سو تم بھی مناسب بہانہ کرو

 

مری آتما کو جو گھائل کرے

کوئی بات ایسی کہا نہ کرو

 

کوئی ظلم اب کے گوارا نہیں

ستم اور ناقِدؔ سہا نہ کرو

 

 

 

 

 

 

 

مجھے چاہیے تیرے درشن کی دولت

ترا حسن ہے میرے درپن کی دولت

 

بسایا تجھے اپنی سانسوں میں میں نے

کہ ٹھہرا ہے جو میری دھڑکن کی دولت

 

مری زندگی تیری قربت سے قائم

ہے ہستی مری تیرے درشن کی دولت

 

زمانے کے ہر غم سے میں ماورا ہوں

یہی ایک ہی تھی لڑکپن کی دولت

 

ادھاری ہے ناقِدؔ یہ سانسوں کی ڈوری

دوامی نہیں ہے یہ دھڑکن کی دولت

 

 

 

 

 

جہاں میں ہے چھائی ہوئی بے حیائی

اسی کے ہی باعث ہے راحت گنوائی

مرا کرب اب کے مسلسل بڑھا ہے

اگرچہ میں دیتا رہا ہوں دہائی

نہ جانے جہاں کیوں گریزاں ہے مجھ سے

مرا جرم تو ہے فقط لب کشائی

مجھے سادگی راس آئی نہیں ہے

شرافت بنی ہے مری جگ ہنسائی

مرا لاشا ہو گا قیامت کا منظر

جنازے پہ میرے اگر وہ نہ آئی

کسی کا کروں کیسے میں اب بھروسا

وہ کل تک تو میری تھی اب ہے پرائی

بنایا تمہیں میں نے ہم راز ناقِدؔ

ہے دل کی تمہیں بات ہر اک بتائی

 

 

 

 

جہاں نے مجھ کو ٹھکرایا

زمانے سے الم پایا

 

ملا ہے کیا محبت میں؟

سدا میں نے ہے غم پایا

 

وفائیں جس نے کرنی تھیں

وہ تحفے میں ہے سنگ لایا

 

جسے دنیا سمجھتی ہے

وہ نغمہ میں نے ہے گایا

 

مجھے ناقِدؔ توقع ہے

وہ پلٹے گا مری کایا

 

 

 

 

 

 

 

خرد کی سدا میں نے کی پاسداری

رہی ہے ہمیشہ جنوں سے بھی یاری

 

سخن میرا ہے سوز کا اک فسانہ

نہ سمجھو اسے تم فقط آہ و زاری

 

نہیں میری قسمت میں خوش کام رہنا

امر اس لیے ہو گئی بے قراری

 

کوئی اور تو میری خواہش نہیں تھی

ترے شوق میں عمر ساری گزاری

 

نہیں اس کی پروا تو مانے نہ مانے

مگر زندگی تیری ناقِدؔ سنواری

 

 

 

 

 

 

 

جو تجھ سے مری بات ہوتی رہے گی

کہوں گا وہی میں بھی جو تو کہے گی

 

تری گفتگو بھی میں سنتا رہوں گا

مری بات بھی تو یقیناً سنے گی

 

سبھی کچھ ملے گا تجھے اس جہاں کا

اگر زندگی میں مجھے تو ملے گی

 

بھٹکنے نہ پائے گا کوئی بھی غم پھر

اگر جانِ جاں ساتھ میرے رہے گی

 

مرا قرب ناقِدؔ جو آیا میسر

تو خوشیوں کے تازے فسانے بُنے گی

 

 

 

 

یہ فکر و سخن بے سبب تو نہیں ہے

غلط کاوشِ روز و شب تو نہیں ہے

 

نہ ہو جائے جیون اجیرن کہانی

یہ سانسوں کی مالا غضب تو نہیں ہے

 

ترے نام کے جس سے نکلیں نہ معنی

کوئی ایسا میرا لقب تو نہیں ہے

 

مری بات پر محوِ حیرت ہو کیوں تم؟

کہ میری حکایت عجب تو نہیں ہے

 

شرف جس کو رب نے نہ بخشا ہو ناقِدؔ

کوئی ایسا جگ میں نسب تو نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

تمہیں ہم بھی اپنا بنائیں گے اک دن

سو دل کا جہاں بھی سجائیں گے اک دن

 

اسی آس میں منتظر ہم رہے ہیں

ہمیں پیار سے وہ بلائیں گے اک دن

 

اس امید میں آج تک میں ہوں زندہ

مرے رتجگے رنگ لائیں گے اک دن

 

تمہیں بھول جائیں گے پھر میر ؔ و مرؔزا

غزل تم کو ایسی سنائیں گے اک دن

 

کسی نے بھی ناقِدؔ بتائی نہ ہو گی

تمہیں بات ایسی بتائیں گے اک دن

 

 

 

 

 

 

ہے دائمی جو ملال میرا

سو معتبر ہے خیال میرا

 

ہے غم سے وابستہ میری عظمت

اسے نہ سمجھو زوال میرا

 

مرے الم میں تو آگہی ہے

نہاں ہے اس میں کمال میرا

 

مجھے گرانی ملی ہے کیونکر؟

یہی ہے طرفہ سوال میرا

 

رواں ہیں نینوں سے نیر دریا

ہوا ہے ناقِدؔ یہ حال میرا

 

 

 

 

 

 

 

نظر میں کوئی دل نشیں سا نہیں ہے

سو کوئی بھی منظر حسیں سا نہیں ہے

 

میں کیسے کروں اب کسی سے محبت؟

یہاں  کوئی بھی مہ جبیں سا نہیں ہے

 

ہوں دل کش بھلا کیا ادائیں کسی کی

کوئی بھی یہاں نازنیں سا نہیں ہے

 

یہاں  لوگ ہیں غم کی دولت سے عاری

کوئی شخص بھی اب حزیں سا نہیں ہے

 

وہ رہتا ہے دل کے مکاں میں بھی ناقِدؔ

مگر پھر بھی ہرگز مکیں سا نہیں ہے

 

 

 

 

 

 

رلاتا ہے مجھ کو ستم بے بسی کا

ستاتا ہے پیہم یہ غم بے کسی کا

 

ہے تیری جفاؤں سے بھی پیار مجھ کو

یہ عنواں رہا ہے مری شاعری کا

 

ملیں گے تجھے کم ہی قصے جنوں کے

سخن ہے فسانہ فقط آگہی کا

 

کوئی اور فکرِ جہاں بھی نہیں ہے

الم ہے اگر تو وہ ہے بے حسی کا

 

مجھے تیرگی سے تو نفرت ہے ناقِدؔ

طلبگار ٹھہرا ہوں میں روشنی کا

 

 

 

 

 

 

ترا پیار مجھ کو فسانہ لگا ہے

سمجھنے میں جس کو زمانہ لگا ہے

 

خرد سے عبارت سخن اس کا ٹھہرا

مگر دیکھنے میں دیوانہ لگا ہے

 

ودیعت تمہیں بھی ہے چاہت کی دولت

سو انداز بھی عاشقانہ لگا ہے

 

ہیں بے سود دعوے خلوص و کرم کے

ترا طور تو ظالمانہ لگا ہے

 

ترا عذر ناقِدؔ کہاں معتبر ہے؟

ہمیں تو یہ جھوٹا بہانہ لگا ہے

 

 

 

 

 

 

ستم جو ہم رکاب ہیں

یہ زیست کا نصاب ہیں

جو فرقتیں ہیں سنگ سنگ

یہی مرا عذاب ہیں

پڑھوں میں تیرے خال و خد

یہ دل نشیں کتاب ہیں

ہو مجھ سے دور دور کیوں؟

یہ پیار کے جواب ہیں

ہیں باعثِ نجات جو

گنہ نہیں، ثواب ہیں

ہو دوسروں پہ جلوہ گر

مرے لیے نقاب ہیں

تمہارے ناقدؔ عمل

نقیب انقلاب ہیں

 

 

 

تری ہر ادا مجھ کو پیاری رہے گی

محبت کی یہ جنگ جاری رہے گی

رہی ہے جفا تیری منسوب ہم سے

ہماری ہے جو شئے ہماری رہے گی

ترا ہجر ہر دم مرا ہم سفر ہے

یہ پہلو میں چلتی کٹاری رہے گی

ودیعت ہوا ہے مجھے سوزِ پیہم

جواں یہ مری بے قراری رہے گی

کوئی غم بھی مجھ کو نہ محسوس ہو گا

تری ساتھ گر غم گساری رہے گی

اگر نہ ملے گی مجھے میری منزل

گرانی طبیعت پہ طاری رہے گی

کسی دن زمانہ بھی بیزار ہو گا

اگر یہ مری آہ و زاری رہے گی

مری ذات پر راج ناقِدؔ تمہارا

تمہاری ہے یہ جاں تمہاری رہے گی

 

 

ہوا ہوں جہاں سے میں یوں بے خبر

کہ ہے فکر ہر حال میں ہم سفر

 

ہوا جوش و جذبے سے جیون بسر

کہ ممکن نہ تھا زندگی سے مفر

 

مرے اشک آنکھوں سے پیہم رواں ہیں

ملی جب سے ہے میری تجھ سے نظر

 

سخن وہ نہ زندہ رہے گا کبھی بھی

بیاں میں اگر نہ ہو کچھ بھی اثر

 

تمہیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہے

لٹا ہے محبت میں من کا نگر

 

مسیحا جسے میں سمجھتا رہا

نہ بن پایا ناقِدؔ کبھی چارہ گر

 

 

مجھے درد کی بھی دوا چاہیے

فقط ہم سفر با وفا چاہیے

 

غرض کوئی بھی اور میری نہیں

مجھے تو تری بس دعا چاہیے

 

ملی ہیں جہاں  بھر کی خوشیاں تمہیں

بتاؤ تمہیں اور کیا چاہیے؟

 

جو ساتھی بنے میرا ہر حال میں

مجھے ایسا اک ہم نوا چاہیے

 

دعا ہے شب و روز میری یہی

مجھے تو مرا دلربا چاہیے

 

زمانے سے ناقِدؔ ہے کی التجا

مجھے امن کی بس فضا چاہیے

 

 

 

جہاں سے چلا پیار کے لے کے ارماں

نہ کچھ بھی ہوا درد کا میرے درماں

 

کسی نے مرے فلسفے کو نہ سمجھا

رہا اس لیے ہوں سدا میں پریشاں

 

تڑپتے ہوئے عمر ساری گزاری

رہی سوز میں ہے ہمیشہ مری جاں

 

ہے محزون سب میں نے جیون بتایا

خوشی کا تو کچھ بھی نہ ہو پایا ساماں

 

کبھی اس نے احسان میرا نہ جانا

ہے ناقِدؔ کیا جس پہ جیون کو قرباں

 

 

 

 

 

 

ہے میرے غموں کو ہزاروں سے نسبت

مصائب کو میرے قطاروں سے نسبت

 

خزاں ہی سدا جس کا مقسوم ٹھہرے

بھلا ہو اسے کیا بہاروں سے نسبت

 

مرے جسم کی ناتوانی بڑھی ہے

کہ طاقت کو بھی ہے حراروں سے نسبت

 

ستم تو نے فرمائے ہیں مجھ پہ ہر دم

الم کو ہے تیرے اشاروں سے نسبت

 

ترے حسن کا ہو بیاں کیسے ناقِدؔ؟

کہ رکھتا ہے یہ چاند تاروں سے نسبت

 

 

 

 

 

تم ٹھہرے بے حد ہرجائی

کرتے ہو میری رسوائی

 

چین سکوں کا پاس نہیں ہے

تم نے میری نیند چرائی

 

جس نے ظلم کا ساتھ دیا ہے

سمجھو اس کی شامت آئی

 

کون ہے میرا مخلص مونس؟

سب کے سب سوتیلے بھئی

 

ناقِدؔ جاں تنور کی صورت

ہجر نے ہے آتش بھڑکائی

 

 

 

 

 

 

 

یہ دل جلا کرے پھر

غزلیں کہا کرے پھر

 

کوئی اگر ہے مخلص

دل کی دوا کرے پھر

 

اس کو اگر ہے دعویٰ

میرا ہوا کرے پھر

 

اس میں اگر وہ خوش ہے

رسوا کیا کرے پھر

 

ناقِدؔ اگر ہے نالاں

تنہا رہا کرے پھر

 

 

 

 

 

 

 

مجھے غم فقط اپنی تنہائی کا ہے

تجھے خوف اپنی ہی رسوائی کا ہے

 

مسلسل ستم اس نے مجھ پر کیے ہیں

یہی مجھ پہ احسان ہرجائی کا ہے

 

نہیں فکر تجھ کو مری دوستی کی

مگر پاس مجھ کو شناسائی ہے

 

سخن میں مرے ہے تصوف سمایا

مری جاں فسانہ یہ مولائی کا ہے

 

پریشاں کیا حبس نے مجھ کو ناقِدؔ

کروں کیا مہینہ یہ جولائی کا ہے

 

 

 

 

کوئی کیسے میری اذیت کو سمجھے

مری مضطرب سی طبیعت کو سمجھے

 

نہ سمجھا تھا جب جلوۂ طور موسیٰ

کوئی کیسے تیری صباحت کو سمجھے

 

کسی نے نہیں طور تیرے کو جانا

فقط ہم ہیں تیری رفاقت کو سمجھے

 

زمانے کو ہے کج روی سے ہی نسبت

بھلا کیسے کوئی شرافت کو سمجھے

 

مری سوز میں زندگانی کٹی ہے

سخن سے کوئی اس حقیقت کو سمجھے

 

جہاں جس نے ہے مثل فردوس پایا

وہ ناقِدؔ بھلا کیا قیامت کو سمجھے؟

 

 

جہاں کیا ہماری فراست کو سمجھے؟

نہ احباب پنہاں ذہانت کو سمجھے

 

کدورت رہی جس کے پہلو میں ہر دم

بھلا کیا وہ رازِ اخوت کو سمجھے؟

 

سروکار جس کو جفا سے رہا ہو

وہ کیسے کسی کی محبت کو سمجھے؟

 

خرد سے نہیں جس کو کوئی بھی نسبت

وہ کیسے کسی بھی کرامت کو سمجھے؟

 

وفا کا دیا جس نے بدلہ جفا میں

بھلا کیا وہ میری عنایت کو سمجھے؟

 

رہے جو گناہوں میں مشغول ناقِدؔ

بھلا کیا وہ لطفِ عبادت کو سمجھے؟

 

 

 

سخن مداوا ہے خلوتوں کا

یہی طریقہ ہے شاعروں کا

 

کوئی کسی کو نہ دے اذیت

یہ ہے تقاضا نزاکتوں کا

 

بھلے لگے تجھ کو شعر میرے

ہے حسن تیری سماعتوں کا

 

ملی ہے پیہم جو سرگرانی

ہے شاخسانہ رقابتوں کا

 

ملا ہے مجھ کو خلوص ناقِدؔ

ثبوت ہے یہ محبتوں کا

 

 

 

 

 

ہے مصروف بے حد مری زندگانی

کٹی ہے اس رنگ میں ہی جوانی

 

میں کوئی مکاں بھی تو رکھتا نہیں ہوں

سو احساس مجھ میں بھی ہے لامکانی

 

لہو تو بہت دور کی بات ہے اب

بدن میں مرے اب ہے معدوم پانی

 

تمہیں یاد آئے گی ساون کی برکھا

جو آنکھوں میں اشکوں کی دیکھی روانی

 

بھلا کیسے اعراض ناقِدؔ کروں میں؟

ترا ہجر ہے پیار کی اک نشانی

 

 

 

 

 

 

 

کہاں کھو گئے ہو سکونِ جگر؟

نہیں کافی عرصے سے آئے نظر

 

تری دوستی پہ بہت فخر تھا

کیا تو نے کیوں اس سے ہے اب مفر؟

 

یہ کیوں پیار کے تو نے وعدے کیے؟

نبھانا نہیں تھا مرا ساتھ اگر

 

ہوں میں تیری یادوں میں  کھویا ہوا

نہیں لی مگر تو نے میری خبر

 

یہ سچ ہے کہ تم بھول بیٹھے مجھے

تمہیں یاد رکھا ہے ناقِدؔ مگر

 

 

 

 

 

مری دسترس میں بہت مہ جبیں ہیں

جو اک دوسرے سے بھی بڑھ کر حسیں ہیں

مری آتما کو جو تسکین بخشیں

مقدر میں میرے وہ لمحے نہیں ہیں

کیا کرتے تھے مجھ پہ قرباں جو تن من

نہ وہ دلربا ہیں نہ وہ دلنشیں ہیں

سدا جن کی ہیبت سے لرزاں تھی دنیا

نشاں ان کی ہیبت کے کیا اب کہیں ہیں؟

جنہیں فخر حاصل تھا اپنی انا کا

جہاں سے مٹے ہیں وہ زیرِ زمیں ہیں

جو تو ہم سفر تھا سفر بھی تھا جاری

جہاں تم نے چھوڑا تھا ہم بھی وہیں ہیں

جنہیں ساری دنیا ہے انمول کہتی

مرے لعل مخزن میں ایسے مکیں ہیں

کبھی دل کی دنیا تھی آباد ناقِدؔ

نہ اب وہ مکاں ہے نہ اب وہ مکیں ہیں

 

 

ہے جیون تو سود و زیاں سے عبارت

نہ سمجھے کوئی تو ہے اس کی حماقت

 

مری جان جذبہ مقدس ہے الفت

سو سمجھوں اسے تم نہ ہرگز شرارت

 

تمہیں گر ودیعت ہوئی ہے صباحت

مرے پاس بھی تو ہے نقدِ فراست

 

کرو سب میں تقسیم مہر و محبت

سمجھنا اسے تم سراسر عبادت

 

ہے تیری جفاؤں نے بخشی اذیت

بنا اس لیے میرا جیون قیامت

 

مجھے راس آئی نہیں تیری چاہت

اسی میں گنوائی ہے ناقِدؔ سکینت

 

 

 

مجھے زیست بخشی گئی شاعرانہ

ہوں میں منفرد، طور بھی ہے یگانہ

 

رقم کر چکا ہوں میں ایسا فسانہ

سدا جس پہ عش عش کرے گا زمانہ

 

جہاں سے پلٹنے کا امکاں نہیں ہے

میں اس رہ گزر پر ہوا ہوں روانہ

 

کیا ہم نے تسلیم ہر حکم تیرا

کبھی کچھ بھی تیرے کہے پہ کہا نہ

 

ملی ہے مجھے دسترس فن پہ ناقِدؔ

سخن کے لیے چاہیے اک بہانہ

 

 

 

 

 

 

وفا نام سانسوں کی قیمت کا ہے

شب و روز کی اس اذیت کا ہے

 

مجھے فکر دنیا کی بالکل نہیں

فقط غم مجھے تیری فرقت کا ہے

 

کسی کی نہ میں پاسداری کروں

مجھے پاس تیری ہی چاہت کا ہے

 

ہے مارا مجھے عالمِ ہجر نے

سو اس میں بھی احساس غربت کا ہے

 

زمانے سے ناقِدؔ میں خائف نہیں

کہ حاصل تحفظ فراست کا ہے

 

 

 

 

 

 

 

مری زندگی داستاں ہو گئی ہے

مری خامشی اب زباں ہو گئی ہے

 

مجھے سوز قدرت نے بخشا ہے ایسا

امر میری اب کے فغاں ہو گئی ہے

 

مجھے جس نے رکھا ہے بے چین ہر دم

کوئی ایسی لغزش کہاں ہو گئی ہے

 

کسی پر تجھے رحم آتا نہیں ہے

تری بے حسی اب جواں ہو گئی ہے

 

ستم مجھ پہ ناقِدؔ جہاں نے کیے ہیں

مری بے بسی جو عیاں ہو گئی ہے

 

 

 

 

جی بھر کے مجھے جام صباحت کا پلاتے

مد ہوش میں ہوتا تو مجھے ہوش میں لاتے

 

میں تم سے اگردور بھی ہوتا میرے محبوب

تم اپنی صداؤں سے مجھے پاس بلاتے

 

بھولے سے اگر تم سے میں ناراض بھی ہوتا

الفت بھرے لہجے میں مجھے آ کے مناتے

 

جو دل پہ گزرتی عیاں مجھ پہ وہ کرتے

اسرار نہ تم اپنے کبھی مجھ سے چھپاتے

 

ہم تیرے ستم کا نہ نشانہ کبھی بنتے

اے کاش کہ باہر کبھی آپے سے نہ آتے

 

اتنی سی گزارش ہے مری یار سے ناقِدؔ

آتے ہو خیالوں میں تو خوابوں میں بھی آتے

 

 

 

متاعِ ہستی ہے بے کلی اب

کہ یاس ٹھہری ہے بے بسی اب

 

یہ لوگ مردے کو رو رہے ہیں

مجھے رلاتی ہے زندگی اب

 

مرا فسانہ ہے آگہی کا

جہاں میں چھائی ہے بے حسی اب

 

ہوں میں مروت کا استعارہ

سو پاس کیسے ہو کج روی اب

 

گھرا ہوں میں حسرتوں میں ناقِدؔ

کہ میری مونس ہے مفلسی اب

 

 

 

 

 

 

 

مری کفالت میں غم رہے ہیں

سو ہاتھ میرے قلم رہے ہیں

 

جنہوں نے بے حد ستم کیے ہیں

وہی تو میرے بلم رہے ہیں

 

خوشی کے لمحوں کا کیا تصور؟

کہ پاس میرے الم رہے ہیں

 

نہ بھول پایا تری جفائیں

کہ یاد تیرے ستم رہے ہیں

 

ہیں گویا اعداء کے میت ناقِدؔ

وہ پاس میرے تو کم رہے ہیں

 

 

 

 

مرے ساتھ ہر دم رہے رتجگے ہیں

مرا تو مقدر بنے رتجگے ہیں

 

یہ انعام ہے میرے منعم کا مجھ پر

مشیت سے مجھ کو ملے رتجگے ہیں

 

میں قسمت کی ریکھا کو کیسے مٹاؤں

کہ قدرت نے اس میں لکھے رتجگے ہیں

 

بھلا کیسے برتوں میں اعراض ان سے؟

عطا دلربا نے کیے رتجگے ہیں

 

مری ان سے اب دوستی ہو گئی ہے

کہ سونے سے بہتر لگے رتجگے ہیں

 

ملی ہے مجھے سوز کی ان سے دولت

کہ دمساز ناقِدؔ مرے رتجگے ہیں

 

 

راستے الجھتے ہیں

سیل پھر امڈتے ہیں

 

گردشوں میں رہتے ہیں

ہم کہاں ٹھہرتے ہیں

 

جب جواں محبت ہو

گیت بھی مچلتے ہیں

 

ہے خفا وہ محفل بھی

لو جی ہم نکلتے ہیں

 

کہاں ملیں گے وہ ناقِدؔ

جو نظر بدلتے ہیں

 

 

 

 

 

 

 

دل مرا اداس سے

نہ ہوش نہ حواس ہے

 

نہ مجھ پہ رکھ ستم روا

یہ میرا التماس ہے

 

ہیں محو ہم تلاش میں

نہ بھوک ہے نہ پیاس ہے

 

سدا رہا ہوں مضطرب

کہاں سکون پاس ہے

 

کبھی تو پوری ہو سکے

جو ناقِدؔ ایک آس ہے

 

 

 

 

سکھ کے لمحے لوٹ نہ آئے

پل پل جیون روگ رلائے

 

کیسا ہے دستور جہاں کا؟

جو سکھ بخشے وہ دکھ پائے

 

من کی نیا ڈول رہی ہے

قسمت نے وہ رنگ دکھائے

 

نفسا نفسی کا ہے عالم

کون کسی کے درد بٹائے

 

دل دنیا کا ایک ہے موسم

کوئی آئے کوئی جائے

 

ناقِدؔ مطلب کی ہے دنیا

کون کسی کا بوجھ اٹھائے

 

 

 

مجھے عاشقی نے ثمر یہ دیا ہے

فسانہ مرا اب امر ہو گیا ہے

 

نہ ہو پایا ہم سے کوئی کام اپنا

نہ چاک گریباں کو ہم نے سیا ہے

 

نہیں چین سے بیٹھنے دیتا ہم کو

مشیت سے غم ہم نے ایسا لیا ہے

 

نہیں زندگی بھر ہمیں ہوش آیا

ترے ہاتھ سے جام ایسا پیا ہے

 

سکوں کے تصور سے عاری ہے ناقِدؔ

یہ جی جی مرا ہے یہ مر مر جیا ہے

 

 

 

 

 

 

عجب زندگی کی ادا ہو گئی ہے

مری آگہی بھی سزا ہو گئی ہے

 

سدا بے کلی میں گزارا ہے جیون

مری زیست میری قضا ہو گئی ہے

 

مثالی ہے کردار تیرا جہاں میں

تری بے گناہی سزا ہو گئی ہے

 

تری ہر ادا پہ میں قربان جاؤں

جفا بھی تری اب وفا ہو گئی ہے

 

گراں ہیں مری جان جیون کے لمحے

خطا تیرے ناقِدؔ سے کیا ہو گئی ہے؟

 

 

 

 

 

 

 

کوئی اس جفا کا حساب ہے؟

مری زندگانی عذاب ہے

 

ہے پیے بغیر خمار سا

غمِ عشق مثل شراب ہے

 

ہیں نصیب نے وہ ستم کیے

کہ گناہ رشکِ ثواب ہے

 

ترا پیار میری ہے زندگی

تجھے پھر بھی مجھ سے حجاب ہے

 

وہ سخن ہے ناقِدِؔ نیم جاں

نہ سوال ہے نہ جواب ہے

 

 

 

 

 

عجب زندگی کی ہے تصویر یارو

بنی آگہی میری تحقیر یارو

 

ملا میری ہستی کو اب موڑ ایسا

نہیں کارگر میری تدبیر یارو

 

بہت بے حسی اب یہاں چھا گئی ہے

موثر نہیں کوئی تقریر یارو

 

تفکر اذیت گراں ہے طبیعت

ملی زندگی مثل تعزیر یارو

 

پشیمان و بے کل پریشان و مضطر

ہے ناقِدؔ کے جیون کی تفسیر یارو

 

 

 

 

 

 

مخالف رہا ہے سدا سے زمانہ

مری ذات ہے بے بسی کا فسانہ

 

مگر اک مشیت کا احسان یہ ہے

کہ افکار بخشے مجھے جاودانہ

 

ہوں دنیا سے تنگ اور عقبیٰ سے خائف

نہیں میرا دونوں جہاں میں ٹھکانہ

 

زمانے کی تقلید سے ماورا ہوں

کہ انداز ٹھہرا ہے میرا یگانہ

 

رہوں کیسے ناقِدؔ میں  فرحاں و شاداں؟

نہیں پاس معقول کوئی بہانہ

 

 

 

 

 

 

ودیعت ہوئی ہے ہمیں بے قراری

خوشی سے مزین ہے قسمت ہماری

مشیت نے بخشا ہمیں سوز ایسا

کہ مقبول ٹھہری ہے بپتا ہماری

تصور نہیں ایک پل بھی سکوں کا

کہ سانسوں کی ڈوری بنی ہے کٹاری

کسی کو یہاں روح سے کیا غرض ہے

ہیں باسی یہاں کے بدن کے پجاری

ہمیں زندگی نے سبق یہ سکھایا

کریں گے نہ ہم بھی کبھی آہ و زاری

سنائیں تمہیں حال و احوال کیا ہم؟

کہ روتے ہوئے زندگی ہے گزاری

ہوا جس کا گھر نذرِ آفات ناقِدؔ

سدا روتی رہتی ہے وہ غم کی ماری

 

 

 

 

 

راس آیا نہ زندگی کرنا

درد و حرماں سے دوستی کرنا

 

ہے شب و روز مشغلہ اپنا

تیری یادوں میں شاعری کرنا

 

کام سارے تمام کر بیٹھا

آ کے تم ختم بے کلی کرنا

 

تیرگی میں حیات گزری ہے

ہم کو آیا نہ روشنی کرنا

 

مات میری خرد کی ہے ناقِدؔ

اس بڑھاپے میں عاشقی کرنا

 

 

 

 

 

رہتے ہیں سدا درد بھرے گیت ہی گاتے

تھک جاتے ہیں نالے کوئی رستہ نہیں پاتے

 

رندوں کو نہ دھتکاریے مے خانے سے ساقی

ہوتا جو انہیں ہوش تو وہ لوٹ نہ جاتے

 

جو نورِ نظر بن کے رہا ساتھ ہمارے

ہم ایک نظر بھی اسے اب کے نہیں بھاتے

 

یادوں کے بھی احسان مری جاں پہ عجب ہیں

دیتے ہیں سدا دکھ کوئی سکھ نہیں لاتے

 

یہ ان کی عنایات کا فیضان ہے ناقِدؔ

وہ جانِ جہاں چل کے مرے پاس ہیں آتے

 

 

 

 

 

 

کبھی تو نے میری پریشانیوں کا سبب بھی نہ پوچھا

سدا تو نے ماتھے پہ خفگی سجائی رہا مجھ سے روٹھا

 

کرم تیرا اوروں کی خاطر رہا ہے یہ میرا گلہ ہے

خوشی عمر بھر تو نے مجھ کو نہ بخشی مجھے غم ہے بخشا

 

ترے ہجر میں زندگانی گزاری رہی بے قراری

صلہ یہ دیا ہے مجھے جانِ جاناں کیا مجھ کو رسوا

 

نہ قسمت نے بخشا ترا قرب مجھ کو ترا پیار مجھ کو

نہ پائے نصیبوں سے قربت کے لمحے رہا ہوں اکیلا

 

سدا ٹھوکروں میں  یہ ناقِدؔ رہا ہے ستم ہر سہا ہے

ملا صبر اس کو یہ راضی ہے تیری مشیت پہ مولا

 

 

 

 

 

 

 

کسی کا دل دکھانا بھی مجھے اچھا نہیں لگتا

کسی کو آزمانا بھی مجھے اچھا نہیں لگتا

 

مجھے احساس ہے یہ بھی کہ دل مسکن خدا کا ہے

کسی دل کو جلانا بھی مجھے اچھا نہیں  لگتا

 

میں خود بھوکا اگرچہ ہوں بہت سے لوگ بھوکے ہیں

بہ ایں احوال کھانا بھی مجھے اچھا نہیں لگتا

 

تری یادِ حسیں یوں تو مری نیندیں اڑاتی ہے

تجھے لیکن بھلانا بھی مجھے اچھا نہیں لگتا

 

سدا ناقِدؔ میں رویا ہوں سکوں کو بھی میں ترسا ہوں

کسی کو اب رلانا بھی مجھے اچھا نہیں لگتا

 

 

 

 

سکوں سے مری جنگ جاری رہے گی

گرانی سی اک مجھ پہ طاری رہے گی

 

ترے پاس رقصیدہ راحت رہے گی

مگر میرے ہاں آہ و زاری رہے گی

 

مجھے زندگی سے نہیں کوئی الفت

کہ یہ خواہشوں کی پجاری رہے گی

 

لگاتی رہے گی مجھے گھاؤ پل پل

تری یاد بن کر کٹاری رہے گی

 

تمہیں پیار کرتے رہیں زندگی بھر

یہ خواہش مسلسل ہماری رہے گی

 

رہے بے قرار و المناک ناقِدؔ

مری جان کوشش تمہاری رہے گی

 

 

 

 

مری محنتوں کا ثمر مل گیا ہے

مجھے اک حسیں ہم سفر مل گیا ہے

کرے گا سدا جو مری چارہ سازی

مجھے با وفا چارہ گر مل گیا ہے

مری چشم روشن ہے دل بھی ہے شاداں

مجھے ایسا نورِ نظر مل گیا ہے

تڑپ کر ملن کی دعائیں تھیں مانگی

دعاؤں کو میری اثر مل گیا ہے

تصور میں جو گھر تھا میں نے بسایا

وہی پرسکوں مجھ کو گھر مل گیا ہے

اسے میں نے کھونا نہیں زندگی بھر

مقدر سے دلبر اگر مل گیا ہے

گزاری ہے اک عمر آوارہ ناقِدؔ

یہ کیا کم ہے ساجن کا در مل گیا ہے

 

 

 

 

مجھے مفلسی نے کیا ہے ہراساں

سدا اس کے باعث رہا ہوں پریشاں

 

مرے ہونٹ جنموں کے پیاسے ہیں جاناں

کبھی ان کی تسکین کا بھی ہو ساماں

 

نہ تھی میری قسمت میں قربت کی دولت

رہا بے کلی میں سدا یونہی غلطاں

 

مشیت نے بخشی ہیں محرومیاں بھی

رہا بے بسی میں مرا تنگ داماں

 

میں قربان تیری جفاؤں پہ ناقِدؔ

نہ ہونا کبھی مجھ سے ناراض و نالاں

 

 

 

 

 

 

نیا طور دیکھا ہے تیری جفا کا

دیا نام تو نے مجھے بے وفا کا

 

کسی سے کرے گا وہ کیسے عداوت؟

جسے ڈر ہو لاحق ہمیشہ قضا کا

 

برائی سے در اصل نفرت ہے فطری

محرک نہیں اس کا خطرہ سزا کا

 

مجھے چاہیے ایسا اک بامروت

ذرا پاس ہو جس کو میری وفا کا

 

میں ناقِدؔ تری ذات پر مر مٹا ہوں

ہے اک معجزہ یہ بھی تیری ادا کا

 

 

 

 

 

 

محبت جو بھرپور تم نے عطا کی

تو میں نے بھی تم سے مری جاں وفا کی

 

وفا کرتا آیا ہوں اس شوخ سے بھی

مرے ساتھ جس نے ہمیشہ جفا کی

 

فقط عشق ہے مجھ کو تجھ سے ہی جاناں

قسم لے لو مجھ سے تم اپنی ادا کی

 

مرے پاس دنیا کی ثروت نہیں ہے

مرے پاس دولت ہے صدق و صفا کی

 

سخن اپنا منسوب ہے ان سے ناقِدؔ

سدا اسمِ اعظم سے ہی ابتدا کی

 

 

 

 

 

 

مروت ملی ہے بہت کچھ ملا ہے

یہ سب کچھ مری جاں تری ہی عطا ہے

 

ہوئے ختم رشتے مرے اس جہاں سے

فقط میں ہوں اور ساتھ میرے خدا ہے

 

جفا مجھ پہ ہر دم جو کرتے رہے ہیں

لبوں پہ مرے ان کی خاطر دعا ہے

 

کسی بھی نہ دشمن کو درپیش ہو وہ

کہ جو حادثہ ساتھ میرے ہوا ہے

 

مروت رہے ساری دنیا سے ناقِدؔ

مشیت سے یہ درس مجھ کو ملا ہے

 

 

 

 

 

 

نہ گھر ہے نہ کوئی ٹھکانہ ہے میرا

کہ مامن ترا آستانہ ہے میرا

 

عجب روح فرسا ہے میری کہانی

ہے بپتا کوئی یا فسانہ ہے میرا

 

مجھے زندگی سے نہیں کوئی رغبت

یہ جینا بھی گویا بہانہ ہے میرا

 

نہ کیوں مجھ سے مانوس ہوں اہلِ دنیا

رویہ سدا شاعرانہ ہے میرا

 

میں صیاد ہوں اور خود صید بھی ہوں

خطرناک ناقِدؔ نشانہ ہے میرا

 

 

 

 

 

 

میں مرد انا کا ہوں

بندہ بھی وفا کا ہوں

 

جب غصے میں آ جاؤں

اک خوف بلا کا ہوں

 

تخلیق خدا کی ہوں

نائب میں خدا کا ہوں

 

ہستی کا بھروسا کیا

اک جھونکا ہوا کا ہوں

 

دشمن کے لیے ناقِدؔ

میں  قہر قضا کا ہوں

 

 

 

 

 

سکوں نہیں جنوں تو ہے

سو حال بھی زبوں تو ہے

 

اگر نہیں ہے پاس کچھ

یہ پیار کا فسوں تو ہے

 

قریب گو رہا نہیں

وہ رونقِ دروں تو ہے

 

ستم کی کوئی حد نہیں

یہ بات میں کہوں تو ہے

 

کرم ہے ناقدِ حزیں

کسی کا غم فزوں تو ہے

 

 

 

 

 

 

 

ستم اس جہاں کا گوارا نہیں ہے

سو اب صبر کا مجھ میں یارا نہیں ہے

ہوئی زندگی نذر مہرو وفا کی

کہ چاہت کو کوئی کنارا نہیں ہے

فقط ہم کو مارا مقدر نے یارو

کسی اور نے ہم کو مارا نہیں ہے

سماں  سارا لگتا ہے اب دشت و بن کا

یہاں کوئی دلکش نظارا نہیں ہے

سدا جبر ہستی کا سہنا پڑے گا

مرے پاس اب کوئی چارا نہیں ہے

ہے من میں بسی شکل من موہنی سی

کوئی اور بھی مجھ کو پیارا نہیں ہے

مرا نام آیا نہیں ان لبوں  پر

مجھے اس نے ناقِدؔ پکارا نہیں ہے

 

 

 

 

 

مشیت سے پائی ہے ایسی طبیعت

سدا مجھ میں ہے موجزن عسکریت

 

ہوا بے حسی کا یہاں راج ایسا

نہیں کارگر کوئی بھی اب نصیحت

 

مسرت کا کوئی تصور نہیں ہے

ہوئی دان مجھ کو ہے پیہم اذیت

 

پس مرگ مجھ سے یہ نفرت ہے کیسی

نہیں ہے یہ آسیب ہے میری میت

 

بنی استعارہ مری ذات کا ہے

ہوئی مفلسی مجھ کو ناقِدؔ ودیعت

 

 

 

 

 

 

یہ غم آگہی کا ہے انجام ٹھہرا

میں سب کچھ سمجھ کر بھی ناکام ٹھہرا

ملا ہے الم فکر کے اس سفر میں

یہی اک تفکر کا انعام ٹھہرا

غموں سے ہے میری رفاقت پرانی

سدا مستقل میرا کہرام ٹھہرا

تری یاد رکھوں مسلسل ادائیں

یہی ہے فقط اب مرا کام ٹھہرا

مشیت کا احسان مجھ پر ہوا ہے

مقدر مرا ہے یہ اکرام ٹھہرا

اگرچہ تو ہر عیب سے ماورا ہے

مگر بے وفائی کا الزام ٹھہرا

اسی کے قدم چومتی ہے ظفر بھی

یہاں شخص جو بھی ہے خوش کام ٹھہرا

برائی کی جس نے ہے کی پاسداری

وہی پھر ہے حق دارِ دشنام ٹھہرا

بھلا بیٹھا ہوں سارے اذکار ناقِدؔ

زباں پر ہے الفت کا پیغام ٹھہرا

 

 

 

 

 

 

 

مری آگہی میری تحقیر ٹھہری

مری بے کسی کی یہ تفسیر ٹھہری

 

میں تنگ آ گیا ہوں جہاں کے ستم سے

کہ ہستی مری غم کی تصویر ٹھہری

 

بصد سعی بھی اپنی قسمت نہ بدلی

نہیں کارگر میری تدبیر ٹھہری

 

سخن بھی صداقت کا ہے استعارہ

بہت معتبر میری تقریر ٹھہری

 

جہاں معترف میرے فن کا ہے ناقِدؔ

امر میری ہر ایک تحریر ٹھہری

 

 

 

 

ملے ہیں بہت زندگی میں خسارے

سدا سے مقدر بنے غم ہمارے

 

جہاں کا ستم ہے لبوں پر فغاں ہے

ہمیں تم نہ چھیڑو دکھوں کے ہیں مارے

 

بہت ہی حسیں تیری قربت کے دن تھے

نظر ڈھونڈتی ہے پرانے نظارے

 

کسی کا یہاں پر کوئی بھی نہیں ہے

نہ تم ہو ہمارے نہ ہم ہیں تمہارے

 

تعلق نہیں ان کا اہلِ زمیں سے

چمکتے ہیں جو آسماں پر ستارے

 

کسی سے نہیں ہم کو شکوہ بھی ناقِدؔ

مقدر جو ہارے ہیں سو ہم بھی ہارے

 

 

 

 

تجھے مہرباں گرچہ پایا نہیں ہے

ترا پیار پھر بھی بھلایا نہیں ہے

 

زمانہ مجھے آزماتا رہا ہے

اسے میں نے گو آزمایا نہیں  ہے

 

بہم سب کو سکھ چین پہنچایا میں نے

کسی کو بھی میں نے ستایا نہیں ہے

 

مرے اشک آنکھوں سے تھمتے نہیں ہیں

میں رویا، کسی کو رلایا نہیں ہے

 

ترے پیار ہی میں مٹا ہوں میں ناقِدؔ

کوئی اور جیون میں آیا نہیں  ہے

 

 

 

 

 

 

من دھرتی میں سوز جواں ہے

بے کل ہوں میں چین کہاں ہے؟

 

دنیا نے ٹھکرایا مجھ کو

لب پر ہر پل آہ و فغاں ہے

 

فن کی یہ معراج ہے ٹھہری

سب سے نرالی میری زباں ہے

 

مطلب کی ہے دنیا ساری

میں نے پایا کیسا جہاں ہے؟

 

میری ہستی برزخ ناقِدؔ

کیا دل کا بے کیف سماں ہے

 

 

 

 

 

 

نہ مجھ سے ہو سکے بیاں

اذیتوں کی داستاں

نہ پہلے سی ہیں شوخیاں

ہوئی ہیں ختم مستیاں

ہے بے حسی کا راج اب

سو بے اثر مری فغاں

خوشی مجھے نہ مل سکی

ملے ہیں مجھ کو غم یہاں

سبق دیا خلوص کا

سمجھ سکے نہ وہ زباں

نہ میں کسی کا ہم نوا

نہ میرا کوئی راز داں

نہ تنگ ہو جہان سے

اے ناقِدِؔ نحیف جاں

 

 

 

 

کٹا زندگی کا سفر پابجولاں

نہ تھا سانس لینا یہاں کوئی آساں

 

مسرت لبوں پر رہی تیرے رقصاں

ملے مجھ کو لمحے ہیں پیہم پریشاں

 

مری آگہی مجھ کو یہ کہہ رہی ہے

رہے گا مسلسل تو سوزاں و غلطاں

 

خوشی کا کوئی اب تو پہلو نہیں ہے

رہوں ایسے میں کیسے شاداں و فرحاں؟

 

سدا سے یہ ناقِدؔ کی کوشش رہی ہے

رہے شخص کوئی بھی اس سے نہ نالاں

 

 

 

 

بنا جگ ہنسائی کا میں یوں نشانہ

ہنسا خوب مجھ پر ہے سارا زمانہ

 

کوئی بھی یہاں پر کسی کا نہیں ہے

چلایا ہے تو نے عجب کارخانہ

 

نہیں پاس کوئی جوازِ اذیت

نہیں معتبر تیرا کوئی بہانہ

 

میں ہر وقت سوزاں و پیچاں رہا ہوں

تمہاری جفا کا ہے سب شاخسانہ

 

ستم جس قدر تیرے بڑھتے رہے ہیں

زباں سے مگر میں نے کچھ بھی کہا نہ

 

جہاں سے ہے ناخوش جہاں اس سے ناخوش

ہے ناقِدؔ کی ہستی کا طرفہ فسانہ

 

 

مقدر مرا ہے جفاؤں کا خوگر

ہوئے ہیں مرے اس سے حالات ابتر

 

تمہیں بھول جانا بھی ممکن نہیں ہے

ہے نقصان اس میں ہی میرا سراسر

 

مرا من اذیت کی ہے راجدھانی

نہ ہو گی کبھی دل کی حالت یہ بہتر

 

وفا اس جہاں میں بھی نایاب ہے اب

جسے دیکھیے بن گیا ہے ستم گر

 

فقط تجھ سے ناقِدؔ گلہ ہی نہیں ہے

جہاں کے ستم بھی ہیں مجھ پہ فزوں تر

 

 

 

 

 

 

 

مری مفلسی اب جواں ہو گئی ہے

مری ذات نذرِ زیاں ہو گئی ہے

 

سدا جس کی پاداش میں دکھ ملے ہیں

وہ غلطی نہ جانے کہاں  ہو گئی ہے

 

جہاں کے لیے باعثِ فکر ہو گی

رقم ایسی اک داستاں ہو گئی ہے

 

سمجھنے لگے ہیں جہاں والے مجھ کو

مری آگہی جو عیاں ہو گئی ہے

 

لکھے ہیں سدا غم بھرے گیت ناقِدؔ

اثر آفریں یوں زباں ہو گئی ہے

 

 

 

 

 

 

سدا کیجئے علم و حکمت کی باتیں

خلوص و وفا کی صداقت کی باتیں

 

ہے تاریخ میں نام روشن انہی کا

جو کرتے ہیں اکثر ہدایت کی باتیں

 

چلن بے حیائی کا ہے عام ہر سو

کہاں سے سنیں اب شرافت کی باتیں؟

 

زمانے نے کر دی طبیعت مکدر

کروں کیسے اب میں لطافت کی باتیں؟

 

یہاں سانس لینا بھی ہے اک سیاست

نہ ہوں کیسے ناقِدؔ سیاست کی باتیں

 

 

 

 

 

 

جو ہیں حسیں رفاقتیں

ہیں اصل میں لطافتیں

 

جوان دل جو ہے مرا

سو ہیں جواں محبتیں

 

حیات ہے حسیں مری

ملیں جو ان کی قربتیں

 

ہے با ثواب زندگی

اگر ہوں نیک صحبتیں

 

اگرچہ خوب رو ہے تو

مگر ہیں کچھ حماقتیں

 

اسے ہو خوفِ حشر کیا؟

جو دیکھ لے قیامتیں

 

اگر تو سنگ سنگ ہے

حسین ہیں مسافتیں

 

خلوص ہے وفا بھی ہے

یہی مری عبادتیں

 

ادب کی راہ میں بہت

اُٹھائی ہیں مصیبتیں

 

نہیں ہیں دستگاہ میں

جہان کی مسرتیں

 

میں اپنے آپ سے ملوں

ملیں اگر فراغتیں

 

مجھے تو شوق یہ نہیں

نہ دو مجھے ضیافتیں

 

سفر تو ہے حسیں مگر

ملی ہیں کچھ صعوبتیں

 

وبال زندگی لگے

اگر نہ ہوں مروتیں

 

گلہ ہمیں یہی رہا

ملی نہیں ہیں راحتیں

 

رہے سکوں کا ساتھ بھی

کرو جو تم عنایتیں

 

کبھی تو سن لیا کرو

یہ واقعی گزارشیں

 

میں اس لیے ہوں کرب میں

جہاں میں ہیں جہالتیں

 

قبولِ عام پائیں گی

جو ہیں مری گزارشیں

 

ہے مفلسی مہیب تر

کروں میں کیا کفالتیں

 

مرا تو حزن ہے یہی

جہاں میں ہیں کدورتیں

 

ستم کا اک رواج ہے

ہیں نفرتیں ہی نفرتیں

 

کوئی تو کارِ خیر ہو

کرو مجھے نصیحتیں

 

رہیں گی یاد عمر بھر

ملی ہیں وہ اذیتیں

 

میں چاہوں ناقِدِؔ حزیں

نہ جس میں ہوں قباحتیں

 

 

 

 

 

 

ملی ہے مجھے پیار میں اتنی نفرت

گریزاں ہے الفت سے میری طبیعت

 

وفا کو کرے دان جو استقامت

سناؤ کوئی مجھ کو ایسی حکایت

 

انہیں چاہیے ہے خراجِ صباحت

ملے گی ہمیں بعد میں ان کی چاہت

 

مری زندگی ہے سراپا مشقت

ہوئیں میری سانسیں مسلسل اذیت

ہے ہستی مری کرب سے ہی عبارت

کسی کی بھی حاصل نہیں ہے حمایت

 

ملی ہے فراواں مجھے جو مروت

نہیں اس سے بڑھ کر کوئی بھی عبادت

 

سخن میں مرے جلوہ گر ہے فصاحت

سو بے سود میری نہیں ہے ریاضت

 

ہوئی ہے عطا مجھ کو نصرت کی دولت

مرے کام کرتی ہے اکثر مشیت

 

مرے پاس تو ہے بلا کی فراست

شب و روز کرتی ہے میری حفاظت

 

دے انصاف کی جو مکمل ضمانت

مرے ملک میں بھی ہو ایسی حکومت

 

سدا کرتی ہے بے بسوں کو ہی غارت

ہے رائج یہاں پہ وہ ناقِدؔ سیاست

 

 

 

 

 

 

 

 

ہے آوارگی سے مرا دوستانہ

نہ آباد ہو پایا ویران خانہ

سدا بجلیاں جس کی قسمت رہی ہیں

وہی ہے مری جاں مرا آشیانہ

مرض میرا ٹھہرے گا چھٹکارا میرا

وفا نہ جفا نہ دعا نہ دوا نہ

بہت اس کو دنیا نے رسوا کیا تھا

پس مرگ ثابت ہوا جو یگانہ

مجھے اس نے پل بھر میں غارت کیا ہے

جسے جستجو میں لگا تھا زمانہ

یہ دشنام تیرے بھی دولت ہیں میری

تری تلخ باتوں پہ کچھ بھی کہا نہ

ترے عشوے غمزے نہیں میری خاطر

کہ میری طبیعت نہیں عاشقانہ

سمجھ مجھ کو آئی نہیں زندگی بھر

کہ وہ میرا اپنا ہے یا ہے بیگانہ

کیا میں نے منسوب دیوان جس سے

کبھی شعر میری زباں میں سنا نہ

ترے پیار میں تو ہے رسوائی میری

نیا ڈھونڈ لائے ہیں وہ یہ بہانہ

یہاں کا جو تھا وہ یہاں رہ گیا ہے

ہوئے ہاتھ خالی جہاں سے روانہ

وہ مقبول ہو گا مرے بعد ناقِدؔ

رقم کر چکا ہوں میں ایسا فسانہ

 

 

 

 

 

تفکر سے بدلا نہ میرا مقدر

رہا میری خاطر سدا سے ستم گر

بھنور میں ہے اس وقت میرا سفینہ

مرے ناخدا اب تو مجھ پہ کرم کر

عجب تو نے الفت میں سوغات بخشی

ملے مجھ کو تجھ سے ہیں تحفے میں پتھر

مری مفلسی میرا اقلیم ٹھہری

نہ میں کوئی دارا نہ میں ہوں سکندر

مرا سامنا کوئی آساں نہیں ہے

عدو بھی رہے اب کے میداں میں ڈٹ کر

تخیل کی دنیا میں طوفان برپا

خرد میری بھی تو ہے مثل سمندر

میں باطل کی شورش سے خائف نہیں ہوں

قدم میں نے رکھا ہے میداں میں ڈٹ کر

رہے کارِ عصیاں ہیں منسوب مجھ سے

نہ منصور ہوں میں نہ ہوں میں قلندر

فقط میرا مقصد رہا ہے شہادت

رہا کربلا میں مَیں شبیر بن کر

نرالی ہے قدرت کی تقسیم ناقِدؔ

رہا کوئی مفلس تو کوئی تونگر

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل