عمر بھر کی جدائی
جون ایلیا کے قطعات
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
اب مجھے آزاد کر دو چھوڑ دو
جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو
جب کوئی منزل نہیں میری تو پھر
رُخ کسی جانب بھی میرا موڑ دو
٭٭
کچھ نہیں تھا کیا حقیقت کا خیال
صرف افسانے تھے ممکن اور محال
اک "عبث” میں خونِ دل تھوکا گیا
کوئی بھی حالت نہیں تھی اور حال
٭٭
نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
٭٭
بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی
٭٭
عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے
٭٭
کیا ہو گئیں اپنی وعدہ گاہیں
ہر چیز بدل گئی یہاں تو
میں شہرِ وفا سے آ رہا ہوں
کوئی بھی نہیں مِلا وہاں تو
٭٭
مت پوچھو کتنا غمگین ہوں گنگا جی اور جمنا جی
میں خود اپنا سوگ نشیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی
بان ندی کے پاس امروہے میں جو لڑکا رہتا تھا
اب وہ کہاں ہے میں تو وہیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی
٭٭
کون سود و زیاں کی دنیا میں
دردِ غربت کا ساتھ دیتا ہے
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
٭٭
لہو روتے نہ اگر ہم دمِ رخصت یاراں
کیا عجب تھا کہ کوئی اور تماشہ کرتے
چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے
وہ جو ہوتا تو اُسے بھی نہ گوارا کرتے
٭٭
یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے میعاد ستم
جز حریفان ستم کس کو پکارا جائے
وقت نے ایک ہی نکتہ تو کیا ہے تعلیم
حاکم وقت کو مسند سے اتارا جائے
٭٭
تم ہو جاناں شباب و حسن کی آگ
آگ کی طرح اپنی آنچ میں گم
پھر مرے بازوؤں پہ جھُک آئیں
لو مجھے اب جلا ہی ڈالو تم
٭٭
آپ کی تلخ نوائی کی ضرورت ہی نہیں
میں تو ہر وقت ہی مایوسِ کرم رہتا ہوں
آپ سے مجھ کو ہے اک نسبتِ احساسِ لطیف
لوگ کہتے ہیں ، مگر میں تو نہیں کہتا ہوں
٭٭
چڑھ گیا سانس جھک گئیں نظریں
رنگ رخسار میں سمٹ آیا
ذکر سن کر مری محبت کا
اتنے بیٹھے تھے ، کون شرمایا ؟
٭٭
تم زمانے سے لڑ نہیں سکتیں
خیر یہ راز آج کھول دیا
دو اجازت کہ جا رہا ہوں میں
تم نے باتوں میں زہر کھول دیا
٭٭
دور نظروں سے خلوتِ دل میں
اس طرح آج اُن کی یاد آئی
ایک بستی کے پار شام کا وقت
جیسے بجتی ہو شہنائی
٭٭
ہیں بے طور یہ لوگ تمام
ان کے سانچے میں نہ ڈھلو
میں بھی یہاں سے بھاگ چلوں
تم بھی یہاں سے بھاگ چلو
٭٭
سالہا سال اور اک لمحہ
اک ذرا سا نہ ان میں بل آیا
خود ہی اک در پہ میں نے دستک دی
خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا
٭٭
پاس رہ کر جدائی کی تجھ سے
دور ہو کر تجھے تلاش کیا
میں نے تیرا نشان گم کر کے
اپنے اندر تجھے تلاش کیا
٭٭
کتنے ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں
توڑ لو پھول پھول چھوڑو مت
باغباں ہم تو اس خیال کے ہیں
دیکھ لو پھول، پھول توڑو مت
٭٭
میری عقل و ہوش کی سب حالتیں
تم نے سانچے میں جنوںکے ڈھال دیں
کر لیا تھا میں نے عہدِ ترکِ عشق
تم نے پھر بانہیںگلے میںڈال دیں
٭٭
ہے ضرورت بہت توجّہ کی
یاد آؤ تو کم نہ یاد آؤ
چاہیے مجھ کو جان و دل کا سکوں
میرے حق میںعذاب بن جاؤ
٭٭
مر چکا ہے دل مگر زندہ ہوں میں
زہر جیسی کچھ دوائیں چاہییں
پوچھتی ہیں آپ، آپ اچھے تو ہیں
جی میں اچھا ہوں، دعائیں چاہییں
٭٭
تیری یادوں کے راستے کی طرف
اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں
دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر
اب ترے خط نہیں پڑھوں گا میں
٭٭
میں نے ہر بار اس سے ملتے وقت
اس سے ملنے کی آرزو کی ہے
اور اس کے جانے کے بعد بھی میں نے
اس کی خوشبو سے گفتگو کی ہے
٭٭
اجنبی شہر ، اجنبی بازار
میری تحویل میں ہیں سمتیں
کوئی رستہ کہیں تو جاتا ہے
چار سُو مہرباں ہے چوراہہ
٭٭
نشۂ ناز نے بے حال کیا ہے تم کو
اپنے ہی زور میں کمزور ہوئی جاتی ہو
میں کوئی آگ نہیں، آنچ نہیں، دھوپ نہیں
کیوں پسینہ میں شرابور ہوئی جاتی ہو
٭٭
بات ہی کب کسی کی مانی ہے
اپنی ہٹ پوری کر کے چھوڑو گی
یہ کلائی یہ جسم اور یہ کمر
تم صراحی ضرور توڑو گی
٭٭
عجب تھا اس کی دلداری کا انداز
وہ برسوں بعد جب مجھ سے مِلا ہے
بَھلا میں پوچھتا اس سے تو کیسے
متاعِ جاں! تمہارا نام کیا ہے
٭٭
کیا ہو گئیں اپنی وعدہ گاہیں
ہر چیز بدل گئی یہاں تو
میں شہرِ وفا سے آ رہا ہوں
کوئی بھی نہیں مِلا وہاں تو
٭٭
جو رعنائی نگاہوں کے لئے فردوسِ جلوہ ہے
لباسِ مفلسی میں کتنی بے قیمت نظر آتی
یہاں تو جاذبیت بھی ہے دولت ہی کی پروردہ
یہ لڑکی فاقہ کش ہوتی تو بدصورت نظر آتی
٭٭
یہ ترے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب خیال
متاعِ جاں ہیں ترے قول اور قسم کی طرح
گذشتہ سال انہیں میں نے گن کے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح
٭٭
ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
کر کے اک دوسرے سے عہدِ وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم
٭٭
شرم ، دہشت ، جھجک ، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
آپ،وہ،جی،مگر ’’یہ سب کیا ہے‘‘
تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں
٭٭
ہر نفس جس کی آرزو تھی مجھے
تھا وہی شخص میرے پہلو میں
اس میں کس کی تلاش تھی مجھ کو
کس کی خوشبو تھی اس کی خوشبو میں؟
٭٭
یوں تو اپنے قاصدانِ دل کے پاس
جانے کس کس کے لیے پیغام ہیں
جو لکھے جاتے رہے اوروں کے نام
میرے وہ خط بھی تمہارے نام ہیں
٭٭
سر میں تکمیل کا تھا اک سودا
ذات میں اپنی تھا ادھورا میں
کیا کہوں تم سے کتنا نادم ہوں
تم سے مل کر ہوا نہ پورا میں
٭٭
تم جب آؤ گی کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
٭٭
عشق سمجھے تھے جس کو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اُس کے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
٭٭
تھی جو وہ اک تمثیلِ ماضی آخری منظر اس کا یہ تھا
پہلے اک سایہ سا نکل کے گھر سے باہر آتا ہے
اس کے بعد کئی سائے سے اس کو رخصت کرتے ہیں
پھر دیواریں ڈھے جاتی ہیں دروازہ گر جاتا ہے
٭٭٭
ٹائپنگ: اردو کی مختلف فورموں کے مختلف ارکان
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید