FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

 

 

                عظیم بیگ چغتائی

 

حصہ دوم

جمع و ترتیب: محمد امین، اعجاز عبید

پیشکش: اردو محفل

http://urduweb.org/mehfil

 

 

 

 

 

 

 

 

 

مہارانی کا خواب

 

میری عمر جب دو برس کی تھی تو کئی جگہ سے میری شادی کے پیغام آئے۔ منجملہ ان کے صرف ایک ایسا تھا جو ہم پلہ والی ریاست کے یہاں سے آیا تھا۔ لیکن لڑکی بہت بڑی تھی۔ دراصل اس کی عمر پندرہ سولہ سال تھی اور میں صرف دو سال کا بچہ تھا۔ چونکہ پیغام ایک ہم پلہ مہاراجہ کی راجکماری کا تھا اس لیے پتا جی مہاراجہ نے انکار تو نہیں کیا لیکن خاموش ہو گئے۔

جب میری عمر پانچ برس کی ہوئی تو اسی ریاست کے پاٹھوی کنور یعنی ولی عہد کی لڑکی کے لیے پتا جی مہاراجہ نے سلسلہ جنبانی کی۔ انہوں نے تو اپنی لڑکی کا پیغام دیا تھا اور یہاں سے ان کی پوتی کے لیے پیغام گیا۔ بہت گفت و شنید کے بعد انہوں نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے لڑکی سے شادی کر لو، جب پوتی جوان ہو جائے گی تب اس کو بھی بیاہ دیں گے۔ گویا پوتی سے شادی کرنے کی شرط ہی یہ ٹھہری۔ چونکہ پتا جی مہاراجہ پوتی سے شادی ضروری خیال کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے اس کو منظور کر لیا اور میری نسبت لڑکی اور پوتی یعنی پھوپی اور بھتیجی دونوں سے شادی پختہ کر لی، کیونکہ یہ امر راجپوتوں میں کوئی معیوب نہیں۔

میری شادی سے پہلے ہی پتا جی مہاراجہ سورگباش ہو گئے۔ ان کی برسی کے بعد جب میں آٹھ برس کا تھا تو میری شادی ہوئی۔ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نہ میری کوئی بہن تھی اور نہ بھائی۔ باپ کی موت کے بعد گدی کا مالک ہوا۔ میں چونکہ نابالغ تھا، ریاست کا انتظام کانسل اور ایجنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ میری شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں ریاستوں کی طرف سے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا گیا اور میں مہارانی کو بیاہ لایا۔ اس وقت میری عمر آٹھ برس کی تھی، اور میری مہارانی کی عمر کوئی اکیس یا بائیس برس کی ہو گی۔

میں اودے رنگ کی بنارسی اچکن پہنے ہوا تھا، اور شربتی رنگ کی کمخواب کا پاجامہ۔ پیازی رنگ کا صافہ تھا جس پر کلغی لگی ہوئی تھی اور چاروں طرف بیش قیمت جواہرات ٹکے تھے۔ جوڑ جوڑ پر میرے ہیرے اور جواہرات کے زیور تھے اور گلے میں پچھتر لاکھ کی قیمت کا وہ مشہور سچے موتیوں کا ست لڑا ہار تھا جو شہنشاہ جہانگیر نے میرے پردادا کو دیا تھا۔ یہ ہار میرے گھٹنے تک آتا تھا اور آج کل کے زمانے میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔

میں مہارانی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا، مہارانی گلابی رنگ کے کپڑے پہنے تھیں اور گلابی ہی شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ بجلی کی روشنی میں سارا کمرہ جگمگا رہا تھا۔ جتنے جھاڑ فانوس تھے سب روشن تھے اور دن سا ہو رہا تھا۔ میں چپکا بیٹھا اپنے بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ کی انگلی سے کرید رہا تھا۔ کبھی کبھی نظر اٹھا کر مہارانی کی طرف دیکھ لیتا تھا جو گلابی کپڑوں میں اس طرح لپٹی بیٹھی تھیں کہ سوائے ان کے ہاتھ کی انگلیوں کے کچھ بھی نہ دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف کمرے کی گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی۔ مجھ کو نیند سی معلوم ہو رہی تھی کہ گھڑی نے بارہ بجائے۔ مہارانی جیسے کچھ چونک پڑیں۔ میں نے بھی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر مہارانی کی طرف۔ انہوں نے اپنا دوشالہ اتار کر علیحدہ رکھ دیا۔ اپنا گھونگھٹ ذرا اوپر سرکایا۔ میں نے ایک جھلک ہی ان کے خوبصورت چہرہ کی دیکھی کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرے پاؤں چھو کر اپنا ہاتھ تین مرتبہ ماتھے پر لگایا اور محبت سے ہاتھ پکڑ کر مسہری پر بٹھایا۔ صراحی سے شراب کا جام انڈیل کر میرے سامنے پیش کیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھا، پھر جام کی طرف۔ میں چپ تھا "پی لو” انہوں نے آہستہ سے کہا: "پی لو یہ رسم ہے، تم کو پینا ہے۔” یہ کہہ کر میرے پاس آ کر ہاتھ سے شراب کا جام میرے منھ سے لگا دیا۔دو ایک گھونٹ پئے، مجھ کو شراب سے بے حد نفرت تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ میں نہیں پیتا تو پھر کہا: "پی لو۔” میں پی گیا تو انہوں نے کہا "اب ایک جام مجھے دو۔” خود بھر کر انہوں نے میرے ہاتھ میں دیا اور کہا: "یہ مجھے دو۔” میں نے ان کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھیں، اور میں الو، کاٹھ کا الو! بنا بیٹھا تھا۔ میں نے ہاتھ میں لے کر ان کی طرف بڑھایا تک نہیں۔ انہوں نے میرے پیر چھو کر خود ہاتھ سے لے لیا اور پی کر میرے پیر چھوئے اور جام رکھ دیا۔ میں نے نظر اٹھا کر پھر ان کو دیکھا۔ اب وہ بے حد گستاخی سے مسکرا رہی تھیں۔

"تم چپ کیوں ہو؟” مہارانی نے ہنس کر کہا” "میں تمہاری کون ہوں؟” تم جانتے ہو؟”انہوں نے اسی طرح ہنستے ہوئے کہا: "بولو چپ کیوں ہو؟ جانتے ہو میں کون ہوں؟”

جب انہوں نے بہت مجھے بلایا تو میں نے سر کے اشارے سے کہا ہاں جانتا ہوں۔

"پھر منھ سے بولو۔ بتاؤ کون ہوں۔۔۔ تمہاری مہارانی ہوں۔ کہو۔” "مہارانی” میں نے آہستہ سے کہا۔

اب ان سے ضبط نہ ہو سکا اور ہنس پڑیں۔ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا: "تمہیں نیند آ رہی ہے۔ سو رہو۔” کہ کہہ کر میرے زیورات ایک ایک کر کے اتارے اور اچکن وغیرہ اتار کر مجھ کس مسہری پر لٹا دیا۔ میں مسہری پر لیٹا تو مجھے چت لٹا کر ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں۔ "تم شرماتے کیوں ہو۔ میں تم کو گدگداتی ہوں۔۔۔” گدگدی سے مجھے ہنسنا پڑا۔ میری شرم انہوں نے اس طرح رخصت کر دی، اور پھر ہم دونوں دو بجے تک باتیں کرتے رہے۔ "کیا پڑھتے ہو؟ کس سے پڑھتے ہو؟ کیا کھیلتے ہو اور کس کے ساتھ کھیلتے ہو؟ کھانا کس وقت کھاتے ہو۔” وغیرہ وغیرہ اور پھر نصیحتیں شروع ہوئیں کہ کیا کرنا چاہیے، پھر میں نے قصہ سنایا کہ کس طرح شادی سے پہلے میں نے اپنی ہوائی بندوق سے فاختہ ماری، اور پھر میں نے اپنے ولایتی کھلونوں کا ذکر کیا اور اگر وہ منع نہ کر دیتیں تو میں ان کو ساتھ لے جا کر اپنی بندوق اور دوسری تمام چیزیں اسی وقت دکھا دیتا۔ انہوں نے کہا صبح دیکھیں گے۔

 

                (۲)

 

 

بہت جلد مہارانی سے بے تکلیف اور انتہائی دوستی ہو گئی۔ وہ میرے تمام کھیلوں میں شریک ہوتیں۔ رئیسوں اور جاگیرداروں کے ہم عمر لڑکوں کی فوج کی فوج تھی اور مہارانی کے ساتھ عورتوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ قلعہ میں دن رات آنکھ مچولی کھیلی جاتی۔ خوب خوب سوانگ بھرے جاتے اور خوب کھیل تماشے ہوتے۔ مہارانی راجہ بنتی اور میں مہارانی بنتا، قلعے کے اندر ہی اندر تیر کمان کی جھوٹی لڑائیاں ہوتیں، فوج کشی ہوتی، قلعے فتح ہوتے۔ غرض مہارانی میرے تمام بچپنے کے کھیلوں میں وہ دلچشپی لیتیں کہ اب میں جو غور کرتا ہوں تو عقل کام نہیں کرتی کہ کس طرح ان لغویات میں ان کا جی لگتا ہو گا۔

مجھ کو مہارانی سے بہت جلد محبت ہو گی۔ میں دوڑا دوڑا آتا تو ان پر پھاند پڑتا اور وہ مجھے گود میں اٹھا کر گھما کر چکر دے دیتیں، اور میں چلاتا کہ چھوڑو۔ وہ چھوڑ کر گدگدا کر مجھ کو بے حال کر دیتیں۔ غرض میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس زمانے میں میرے ساتھ ان کے کیسے دلچسپ تعلقات تھے۔ بہت جلد قلعے سے باہر عالی شان محلوں میں وہ لے گئیں اور ہم دونوں تمام خاندان سے الگ رہنے لگے۔ اگر مجھ کو کوئی ضرورت ہوتی تو مہارانی سے کہتا۔ اگر کوئی شکایت یا تکلیف ہوتی تو مہارانی سے کہتا ریاست کے منتظموں کو وہ بلا کر میرے بارے میں خاص ہدایت کرتیں، اور میرے تمام ذاتی معاملات کے بارے میں دخل دے کر احکام نافذ کرتیں۔

قصہ مختصر وہ میری مہارانی اور میری گارجین یعنی نگہبان دونوں تھیں۔ مجھ کو بیحد چاہتی تھیں، اور میرے دل میں بھی ان کی محبت ایسی بیٹھ گئی کہ بیان نہیں کر سکتا کہ کس طرح وہ میرا ہر دم خیال کرتی تھیں۔ جب میں باہر سے آتا تو چونک سی پڑتیں۔ مارے خوشی کے ان کا خوبصورت چہرہ دمک اٹھتا اور پھول کی طرح کھل جاتیں۔ اگر ذرا دیر کے لیے بھی باہر جا کر واپس آؤں تو مہارانی کو اپنے لیے بے قرار و بے چین پاتا تھا۔ بڑی خندہ پیشانی سے جب وہ کنول کے پھول کی طرح شگفتہ ہو کر میرے استقبال کو بڑھتیں تو اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں وہ ایسی معلوم ہوتیں کہ جیسے چاند ہے اور اس کے ارد گرد تارے چمک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا قد اونچا تھا۔ عورتوں میں وہ کشیدہ قامت بلکہ قدرے بلند قامت تھیں، ان کے اعضاء ہاتھ پیر نہایت متناسب تھے۔ نزاکت کے بجائے ان میں تمام زنانہ حسن کے ساتھ قوت اور طاقت تھی۔ کیونکہ اونچے قد کے ساتھ خدا نے جہاں ان کو حسن دیا تھا وہاں مضبوط اور متناسب اعضاء بھی دیے تھے۔ غرض راجپوتی حسن و تندرستی کا وہ بہترین نمونہ تھیں۔ ان کا صاف و شفاف اور حسین چہرہ چاند کی مانند ہمیشہ پر نور رہتا تھا۔ ان کا رنگ و روپ نہایت ہی گورا چٹا اور بے داغ تھا۔ ان کے بالوں پر ہمیشہ افشاں چھڑکی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔ اکثر گر کر ان کے چہرے پر آ جاتی اور غازہ کے ساتھ مل کر دھوپ میں ان کے سرخ و سپید چہرے پر آگ سی لگا دیتی اور وہ شعلہ حسن معلوم دیتیں۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی میری اور ان کی دوستی اور محبت زیادہ دلچسپ اور زیادہ دل پذیر ہوتی گئی۔ ان کا حسن زیادہ دلکش ہو گیا۔ میرے لیے ان کی جوانی زیادہ پر کیف ہو گئی۔ ان کی مقناطیسی کشش مجھ کو اپنی طرف زیادہ قوت سے کھینچنے لگی۔ ان کی آنکھوں کی چمک جو میرے لیے پہلے معمولی بات تھی اب کچھ اور ہی چیز تھی۔ میں ان کو دیکھ کر مخمور سا ہو جاتا۔ وہ گویا مجھ میں سما جاتیں اور اس کیف و سرور کے عالم میں میں ایک طلسم ہوش ربا کے لاینحل مرحلوں میں الجھ کر رہ جاتا۔ جس کی لوح مجھ کو ڈھونڈے نہ ملتی!

میری عمر پندرہ سولہ برس اور مہارانی کی عمر تیس سال کے قریب تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ میں مہارانی کے عشق اور محبت میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ اگر کوئی میری تمام دولت و حشمت اور ریاست مانگتا تو میں دے دیتا اور فقیر ہونا پسند کرتا، مگر مہارانی کا دل دکھانا پسند نہ کرتا۔ میری زندگی کا واحد مقصد اور مقصود وہی تھیں۔ میں ان کے ساتھ جس عیش و عشرت سے زندگی گزار رہا تھا اس کا اندازہ لگانہ ناممکن ہے۔ دن رات عیش سے گزرتے تھے۔ مہارانی کا گانا خدا کی پناہ، میرا کیا حال ہو جاتا تھا۔ مہارانی گانے میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ چاندنی رات جھیل کے کنارے سنگ مرمر کے عالی شان چبوترے پر گانے بجانے کی محفلیں ہوتیں۔ مہارانی خوب خوب گاتیں۔ وہ گاتے گاتے جھومنے لگتیں اور میں بے تاب ہو جاتا، تڑپنے لگتا اور خواصیں بھر بھر کر جام پیش کرتیں، اور مہارانی مجھے اپنے ہاتھ سے جام پہ جام پلاتیں۔ تازہ دم ہو کر وہ پھر نئے سرے سے کوئی نیا راگ گاتیں۔ ان کی پاٹ دار آواز جھیل کے آس پاس کی پہاڑیوں میں گنگناتی اور گونجتی چلی جاتی۔ رات کے بارہ بجے پھر سجی ہوئی کشتیوں میں بیٹھتے۔ کشتیاں چاندنی رات میں پانی کی سطح پر گانے اور ساز کے ساتھ ہلکوری لیتی ہوتیں اور مہارانی کی راگنی اور ان کی بلند اور سریلی آواز پانی کے ساتھ جھنجھناتی معلوم دیتی اور چشم زدن میں ساری جھیل کو نغموں سے معمور کر کے متلاطم کر دیتی۔ ایک تو نشہ جوانی اور پھر سر پر عشق اور پھر دو آتشہ۔ یہ راگ اور یہ سماں اور پھر دل لگا ہوا میرا مہارانی سے اور مہارانی کو مجھ سے۔ بار بار میں چونک پڑتا کہ میں کہاں ہوں، اور میرے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے۔ کیا جنت اسی کو نہیں کہتے۔ خوشگوار زندگی ایک عالم خواب معلوم ہوتی تھی۔ میری اور مہارانی دونوں کی محبت اور عشق کا زمانہ شباب پر تھا۔ فکر و رنج تو بڑی چیزیں ہیں، ان کا خیال تک نہ تھا کہ مہارانی کی بھتیجی سے میری شادی کا زمانہ قریب آ گیا۔ اتنا قریب کہ ہم دونوں چونک پڑے۔ جیسے کوئی ایک دم خواب سے چونک پڑتا ہے۔ دنیا کو دیکھئے کہ سب کو یہی معلوم ہوتا تھا کہ اس شادی کا موقع اس سے بہتر کوئی نہیں۔ حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو اس سے زیادہ بے موقع بات ہی ہونا ناممکن تھی اور پھر اگر سسرال والے یہ سوچتے اور کہتے تب بھی غنیمت تھا، مگر وہاں تو ریذیٹنٹ سے لے کر ریاست کے ادنیٰ خدمت گزار تک سبھی کی زبان پر تھا کہ ماشاء اللہ مہاراجہ صاحب بہادر جوان ہو گئے اور جونیئر مہارانی کو جلد بیاہ لانا چاہیے۔

جب شادی کا زمانہ قریب آیا تو اس کے ناگوار تذکرے سے بھی کان آشنا ہونے لگے۔ مہارانی سے میرے عشق کا یہ عالم تھا کہ بس یک جان دو قالب تھے۔ اس کا نام ہی دل میں خلش پیدا کرتا تھا۔ مہارانی کا ایک ہی بھائی تھا، ایک ہی اس کی یہ لڑکی تھی۔ کسی نے کہا ہے پھوپھی بھتیجی ایک ذات، چنانچہ مہارانی کو بھی اپنی بھتیجی سے بے حد محبت تھی۔ وہ خود اس ناگوار تذکرے کو چھیڑ کر میرے پہلو میں ایک خنجر سا بھونک دیتی تھیں۔

 

                (۳)

 

ایک روز کا ذکر ہے کہ جھیل کے کنارے گانے بجانے کا پر لطف جلسہ ہو رہا تھا، خواصین زریں ٹوپیاں پہنے گھومر کا ناچ ناچ رہی تھیں۔ مہارانی تال دیتی جاتی تھیں اور مسکرا مسکرا کر تالی کے ساتھ میرے طرف دیکھتی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ناچ کے جھماکے کے ساتھ میری نظر گھومر کے ناچ کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ ورنہ میں تو کہیں اس سے بہتر ناچ دیکھنے میں مشغول تھا۔ میں مہارانی کی آنکھوں کا رقص دیکھ رہا تھا، پھر اس محبت کا جو ان کے چہرے پر رقص کر رہی تھی اس جس سے ان کے لبوں پر اس طرح لرزش پیدا ہوتی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ مسکراہت ان کے سارے چہرے پر رقص کر رہی ہے۔ گانے میں ناچ کے جھماکے کے ساتھ میں خود بھی تال دینے لگتا تھا۔ غرض ایک عجیب ہی رنگین عالم تھا۔ طبیعت پر کیف و سرور تھی کہ اس وجد کے عالم میں میری شادی کا تذکرہ چھڑ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ محفل اس طرح درہم و برہم ہو جائے گی۔ اس بے محل تذکرے کی شروعات ایک سہرے سے ہوئی جو گایا جا رہا تھا۔ فوراً ہی سہرے کا ایک مصرع مجھ پر چسپاں کیا جانے لگا۔ نوبت بات چیت تک پہنچی۔

"تم کیا چاہتی ہو؟” میں نے کہا۔

"میں کیا چاہتی ہوں! میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بھتیجی کو تم جلد بیاہ لاؤ۔” مہارانی نے بڑی خوشی سے کہا۔

میں ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر ان کے دل کو ٹٹولنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناچ برابر ہو رہا تھا اور خواصیں تیتریوں کی طرح نشہ میں مست اسی طرح پھرپھرا رہی تھیں اور ہم دونوں یہ باتیں کر رہے تھے۔ مجھ کو یہ شبہ ہوا کہ مہارانی کہیں میری محبت کا امتحان تو نہیں لے رہی ہیں۔ میں نے ان کے چہرے اور بشرے سے ان کے دل کے حالات معلوم کرنے کی بیکار کوشش کرنے کے بعد کہا: "میں تو اب تمہارا ہو چکا اور تمہاری بھتیجی یہاں آ کر خوش نہیں رہے گی۔”

مہارانی نے کہا: "یہ تمہارا خیال ہے۔ وہ تمہاری ہم عمر ہے، مجھ سے یادہ، مجھ سے کہیں زیادہ حسین اور خوبصورت ہے۔ تمہارا اس کا جوڑ۔۔۔ بس یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم دونوں کو خدا نے ایک دوسرے کے لیے پیدا کیا ہے۔دراصل میرا تمہارا جوڑ نہیں۔ دنیا یہی کہتی ہے اور ٹھیک بھی کہتی ہے کیوں کہ تم مجھ سے عمر میں بہت۔۔۔ بہت چھوٹے ہو۔” میں پھر مہارانی کو گھورنے لگا کہ کہیں اپنے ان قدرتی جذبات کو جو ان کی بھتیجی کے خلاف ان کے دل میں ہیں یا ہونا چاہییں ان الفاظ میں چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہی ہیں۔ مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ میں نے چور پکڑ لیا، کیونکہ ایک جھپکی کی طرح ان کے روشن اور منور چہرے پر چشم زدن کے لیے ایک سایہ سا آیا اور چلا گیا۔ جیسے کہ شاید غم کی بدلی کا سایہ تھا کہ ان کے دمکتے ہوئے چہرے پر جھپکی سی دے گیا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کر مہارانی سے کہا: "میرے دل میں کسی اور کے لیے قطعی جگہ نہیں، مجھ کو تم سے بے حد۔۔۔”

"میں جانتی ہوں۔” مہارانی نے بات کاٹ کر کہا: "میں جانتی ہوں کہ تمہیں مجھ سے بے حد محبت ہے اور مجھ کو تم سے بے حد محبت ہے۔ مگر مجھ میں اور تم میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرے دل میں بس ایک جگہ ہے۔ میں سینئر مہارانی ہوں اور تم مہاراجہ ہو اور تم کو دوسری شادی تو کرنا ہی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی جتنی چاہو کر سکتے ہو۔”

"میں نہیں کروں گا۔” میں نے تیز ہو کر کہا: "فرض کرو میں تمہاری بھتیجی سے شادی کرنے سے انکار کر دوں۔”

ناچتی کودتی خواصیں ناچتی ناچتی دوسری ناؤ پر پہنچی تھیں۔ انہوں نے شاید دیکھ لیا تھا کہ تخلئے کی ضرورت ہے، کیونکہ ساز والیاں پیشتر ہی سے اشارہ کر کے اٹھ چکی تھیں، ہم دونوں اب اکیلے تھے۔

پوری راجپوتی آن بان سے مہارانی نے تن کر ذرا چیں بہ چیں ہو کر کہا: "تم راجپوت ہو، تم خود مختار والی ریاست ہو، تم راجپوت ہو۔ تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتے اور پھر۔۔۔ اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں کہ میں تمہارے گھر میں ہوں میں، تمہاری چہیتی مہارانی ہوں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔”

"مجھ کو سوائے تمہارے کسی سے محبت نہیں ہو سکتی۔” میں نے کہا۔

مہارانی نے میرے پیر چھو کر پیشانی میں لگاتے ہوئے گویا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: "تو کیا مضائقہ ہے۔ راجپوت مہاراجوں کو راجکماریاں ریاست کے تخت و تاج کا زیور ہوتی ہیں۔ ایک والی ریاست کی بیٹی یا ایک مہاراجہ کی بیٹی کو مہاراجہ ہی کے گھر جانا چاہیے۔ مہاراجہ گنے چنے ہیں اور راجکماریاں بہت زیادہ ہیں۔ میرے بھائی کی بیٹی کسی ایسے ویسے کو نہیں جا سکتی۔ محبت اور چیز ہے اور شادی اور چیز۔ تم کو اگر میری بھتیجی سے محبت نہیں تو نہ ہو، مجھ سے تو ہے۔ بس یہی محبت اس کی ضامن ہے کہ تم شادی ضرور کرو گے۔ تم کو کرنا پڑے گی تم قول ہارے ہو، تم غضب کرتے ہو! بھلا غور تو کرو کہ میری بھتیجی، ایک والی ریاست کی پوتی اور ایک والی ریاست کی لڑکی ایک والی ریاست کو نہ بیاہی جائے، اور وہ بھی میری وجہ سے ! ناممکن۔”

میں نے اس لیکچر کو سنا اور سن کر مہارانی کو سر سے پیر تک دیکھ کر کہا:

"تو کیا واقعی تم دل سے چاہتی ہو کہ میں تمہارے اوپر تمہاری بھتیجی کو سوت بنا کر لے آؤں؟ کیا واقعی تم یہ دل سے چاہتی ہو؟”

مہارانی نے کچھ عجیب ہی پیرائے میں کہا: "بیشک میں دل سے چاہتی ہوں اور کیوں نہ چاہوں، میرا ایک ہی بھائی ہے اور ایک ہی بھتیجی ہے۔”

"مگر مجھ کو ذرا بھر اس سے محبت نہ ہو گی۔”

مسکرا کر مہارانی بولیں: "تم ابھی بچہ ہو۔ بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ جب دو دل ملیں گے تو آخر کیوں نہ محبت ہو گی۔ خدا نخواستہ تم عورت تھوڑی ہو۔”

میں نے برا مان کر جھنجھلا کر کہا: "تم میری محبت کو ٹھکراتی ہو، کیا میں جھوٹا ہوں؟ کیا میں تم سے نقلی محبت کرتا ہوں؟”

مہارانی نے دو مرتبہ میرے پیر چھو کر ہاتھ اپنی آنکھوں اور ماتھے پر لگایا، اور دانتوں تلے زبان داب کر کہا: "ہرگز نہیں ہرگز نہیں، تم دراصل سمجھتے نہیں۔ تمہاری محبت مجھ سے لڑکپن کی محبت ہے، تم نے تو مجھ سے محبت کا سبق سیکھا ہے۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت کو ایک نو عمر لڑکے ساتھ تو اول و آخر محبت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک لڑکے کا بھی یہی حال ہو اور پھر وہ والی ریاست مہاراجہ جو ویسے بھی ایک دل نہیں رکھتے، ان کے دلوں میں؟”

مہارانی نے عجیب انداز سے مسکراتے ہوئے کہا: "ان کے دلوں میں تو کبوتر کی کابک کے سے خانے ہوتے ہیں۔”

مہارانی نے تو یہ مسکرا کر کہا اور ادھر میں تمام قصے چھوڑ کر ان کے حسین چہرے پر غازہ اور افشاں کی بھڑک کو دیکھ رہا تھا۔ ان کی مسکراہٹ نہ معلوم میرے لیے کیا تھی! ان کے چہرے کی دمک اور پھر ان کی غیر معمولی چمک ان کی بری بڑی پلکوں سے گویا چمک کے شرارے نکل رہے تھے۔ یہ سب سحر آفرینی! اور پھر یہ باتیں! میں بے تاب سا ہو گیا اور میں نے ان کا خوبصورت ہاتھ اٹھا کر بے ساختہ چوم لیا اور اس کو اپنے دل پر رکھ کر شکایت کے لہجے میں کہا: "اس دل میں تو بس ایک خانہ ہے اور اس میں صرف تم ہو۔”

"صرف میں؟” دبی ہوئی آواز سے مہارانی پلکیں جھپکا کر کہا:

"تم۔۔۔ تم۔۔۔” آہستہ سے میں نے لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا: "۔۔۔ میری مہارانی۔۔۔ میرے دل۔۔۔ دل کی ملکہ۔۔۔ دل کی مہارانی۔”

وہ آہستہ آہستہ میری طرف بے بس ہو کر جھکی چلی آئیں۔۔۔ نشہء محبت میں ہم دونوں چور تھے۔ ان کو مجھ سے اور مجھ کو ان سے عشق تھا۔ میں نے ان کے خوبصورت بالوں کو انگلی سے چھیڑا کہ سنہری افشاں کی ان کے چہرے پر بارش سی ہو گئی، وہ مسکرا رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ ایک جلسہ اور ہو پھر سوئیں۔ مہارانی کی ایک ہنسی کی آواز سے ایک زندگی سی پیدا ہو گئی۔ چھما چھم اور جھنا جھن کی آواز ان کی تالی بجتے ہی ہونے لگی اور خواصوں کا گھومر ناچ پھر شروع ہو گیا۔

بہت جلد ناچ ختم کر کے مہارانی نے تنہا گانا شروع کیا۔ پہلی ہی لے پر مجھے ایک پھریری سی آئی، پھر جو انہوں نے تان کھینچی اور جو عشقیہ گیت گائے تو مجھے ایسا معلوم ہونے لگا کہ جیسے ان کی پاٹ دار آواز ایک بڑا لکڑی چیرنے کا آرا ہے جو میرے دل کو چیرے ڈال رہا ہے۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سوز اور ایک عجیب درد تھا۔ میں پھریری پر پھریری لے رہا تھا اور میری اس کیفیت کو دیکھ کر ان کی آواز کا جھناکا اور بھی زیادہ رقت آمیز ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ایسا گیت گا رہی تھیں جو دل پگھلائے دیتا تھا۔ ایک عورت اپنے شوہر کے ہجر میں بے کل تھی۔ میں خاموش ہو گیا اور سر پکڑ کر آنکھیں بند کر کے سننے لگا، ان کی آواز اور بھی رقت آمیز ہو گئی اور میرا دل نہ معلوم کیوں ایسا گھبرایا اور ایسی وحشت طاری ہوئی کہ ایک دم سے گھبرا کر میں نے ہاتھ سے ساز کو روک دیا۔ مہارانی بھی رک گئیں۔ میں نے اشارہ کیا اور تمام خواصیں سایہ کی طرح غائب ہو گئیں۔ میں نے مہارانی کی طرف دیکھا ان کی پلکوں میں دو آنسو تھے۔ میرا دل مسل گیا اور میں نے کہا: "یہ کیا؟” "کچھ نہیں۔” مہارانی نے کہا۔ "کچھ گیت ہی ایسا تھا۔”

"ہاں” میں نے کہا۔ "میں بھی پریشان ہو گیا، اور میرا دل گھبرا گیا۔ اب آرام کرو۔” میں نے انگڑائی لے کر جھیل کے چاروں طرف نظر ڈالی۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ دور تک ہیبت ناک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ایک عجیب سناٹے کا عالم تھا۔ مجھ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ساری جھیل اور پہاڑ گویا سارا سماں رونے کی آوازوں سے معمور تھا جو ابھی ابھی خاموش ہوئی تھیں۔ میں نے دل میں تعجب کیا کہ گانا بھی عجیب جادو ہے۔ درد انگیز اور رقت آمیز گیت نے سارے سماں کو متاثر کر دیا۔

 

                (۴)

 

 

مہارانی بڑی گرما گرمی سے اپنی بھتیجی کی شادی کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ تمام انتظام اور تمام احکام ان ہی کی مرضی کے مطابق جاری ہو رہے تھے۔ لاکھوں روپے کے زیورات اور کپڑے خریدے گئے، اور لاکھوں روپے کا دوسرا سامان خریدا گیا، اور محل کا ایک خاص حصہ سجایا گیا۔ غرض وہ اپنی بھتیجی کی شادی میں اس طرح منہمک تھیں کہ جیسے ایک پھوپھی کو ہونا چاہیے تھا۔ میں ان انتظامات کو دیکھ کر رنجیدہ سا ہو جاتا۔ ان کے اس انہماک سے میرے دل میں چھوٹ سی لگتی تھی۔ میں دراصل ان کی بھتیجی کی طرف سے اپنے دل میں مخالفت پاتا تھا، کیونکہ یہ مجھے گوارا نہ تھا کہ مہارانی کی محبت کا حصہ کسی دوسرے کو بھی ملے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ وہ میرے محبت کی وجہ سے اپنی بھتیجی سے جلنے لگیں۔ کس قدر یہ احمقانہ خیال تھا، مگر اپنے دل کو کیا کروں۔ ان کا اس درجہ شادی میں حصہ لینا میرے لیے مصیبت تھا۔ میں ان سے کہتا تھا کہ "اگر تم بھی مجھ سے میری ہی سی محبت ہے تو تم کو اپنی بھتیجی سے جلنا چاہیے۔”

وہ اس پر مسکراتیں اور کہتیں۔ "سچ کہتے ہو، تمہاری سی محبت مجھے نہیں، کیونکہ جتنا تم مجھ سے محبت کرتے ہو اس سے میں زیادہ کرتی ہوں۔” اور پھر وہ عجیب انداز سے مجھ کو دیکھتیں کہ جیسے ان کو میرے حال پر رحم آ رہا ہے اور وہ میرے ساتھ ہمدردی رکھتی ہیں۔ وہ ہنس کر کہہ دیتیں کہ "ابھی تم ناسمجھ ہو، تم کو اگر مجھ سے محبت ہے، تو میری بھتیجی سے کیوں ڈرتے ہو؟”

ایک روز کا ذکر ہے کہ رات کو کسی غیر معمولی سرسراہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ایک سایہ تھا جو جاگنے کے بعد مگر آنکھ کھلنے سے پیشتر آنکھوں کے سامنے آیا اور چلا گیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہ تھا۔ مہارانی غافل سو رہی تھیں۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوتا اور تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ غرض اکثر ایسا ہوتا اور پھر گھڑی پر نظر پڑتی تو وقت بھی پچھلے پہر کا ہوتا۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو میں نے مہارانی سے کہا، مگر انہوں نے ٹال دیا کہ یونہی وہم ہو گیا ہے۔ میں سوچ میں تھا کہ آخر یہ معما از خود حل ہو گیا۔ رات کو ایک روز ایسا ہی ہوا، اور میرے چہرے پر گرم گرم دو آنسو گرے۔ کیونکہ مہارانی میرے چہرے کو بڑے غور سے سر جھکائے دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور میری طرف سے منھ موڑ لیا اور اپنی مسہری پر لیٹ گئیں۔ میں نے فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا "کیوں؟” میں نے گھسیٹ کر ان کو اپنے پاس بٹھا لیا،کیونکہ میری طرف منھ کرنے سے گریز کر رہی تھیں۔ میں نے ان کا روتا چہرہ دیکھا۔ میرا دل کٹ گیا اور بے تاب ہو کر میں نے کہا۔ "میری جان” میں نے ان کو سینے سے لگا کر پوچھا۔ "کیوں روتی ہو؟ کیا ہوا؟” مگر وہ کچھ نہ بولیں اور رونے لگیں۔ میں حیران ہو گیا اور جوں جوں ان سے دریافت کرتا اور وہ اور بھی بے قابو ہو جاتیں۔ حتی کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور مجھے ان کا سنبھالنا دشوار ہو گیا۔ میں ان سے بے حد اور بے انتہا محبت کرتا تھا اور میں ان کو کبھی روتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ ان کی حالت زار کو دیکھ کر میں خود ضبط نہ کر سکا اور ان کو کلیجے سے لگا کر اس طرح رویا کہ بے حال ہو گیا۔ جب دونوں نے خوب آنسو بہا لیے تو کم از کم مجھے تو معلوم ہی ہو گیا کہ ہم دونوں کیوں روئے ہیں، یعنی شادی کی وجہ سے۔ میں اب رو دھو کر خوش تھا کہ ان کو بھی میری طرح رنج ہے، مگر جب میں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے تعجب سے کہا کہ "تمہارا خیال غلط ہے۔ کیا میں نہیں کہہ چکی کہ میری خوشی اسی میں ہے کہ میری بھتیجی کی شادی تم سے ہو جائے۔” میں سخت چکرایا اور پھر میں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ تو معلوم ہوا کہ ان کا رونا کسی خواب کی وجہ سے ہے۔ جب میں نے اصراس کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ ایک وحشت انگیز اور پرسرار خواب دیکھتی ہوں۔ اس کے بعد تمہارے چہرے کو دیر تک دیکھتی ہوں۔ جس سے کچھ اطمینان سا ہو جاتا ہے۔ یہ خواب جو آج کل وہ دیکھ رہی تھیں۔ پہلی مرتبہ انہوں نے جب دیکھا تھا جب میں پانچ برس کا تھا اور میرے ساتھ ان کی شادی کی نسبت ہوئی تھی۔ اس کے بعد پھر سال میں دو تین مرتبہ یہی خواب دیکھا۔ پھر ہر مہینہ دکھائی دینے لگا اور پھر رفتہ رفتہ اب یہ نوبت پہنچی تھی کہ ہفتے میں پانچ دن یا تو پورا خواب، ورنہ اس کا کچھ حصہ ضرور دیکھنے میں آتا تھا۔ جب میں نے کہا کہ آخر وہ خواب کیا ہے، مجھے بتاؤ تو انہوں نے کہا۔ "بس اس کو نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں اپنی زبان سے کو نہیں دہرا سکتی۔”انہوں نے پھریری لے کر کہا۔”جو میں اس خواب میں دیکھتی ہوں وہ بیان کرنے کا نہیں، اور میری زبان سے نہیں نکل سکتا۔” مگر میں نے بے حد اصرار کیا اور ان کو اپنی جان کی اور اپنی محبت کی قسم دلائی تو انہوں نے کہا اچھا بتاتی ہوں، مگر پھر یہی کیا کہ دیکھو نہ پوچھو۔ بہتری اسی میں ہے کہ مت پوچھو مگر میں نہ مانا اور ان کو بے حد مجبور کیا تو انہوں نے اس طرح بیان کیا:

"میں خواب میں دیکھتی ہوں کہ جیسے کوئی تہوار کا دن ہے، اور میں درباری لباس پہنے بڑے تزک و احتشام سے زنانہ دربار والے کمرے میں بیٹھی ہوں۔ تمام زیورات سے لدی ہوں۔ خواصیں اور باندیاں جواہر نگار کرسی کے اردگرد مورچھل جھل رہی ہیں۔ مجھ کو اپنے سنگار کا خاص خیال ہے، اور مشاطہ آئینہ دکھاتی ہے، اگر کپڑے کا انداز بدلتا ہے تو مشاطہ درست کر دیتی ہے۔ میں بہت خوش ہوں اور تمہارے خیال میں دل ڈوبا ہوا ہے۔ ہر لمحہ تمہارا انتظار ہے اور تم آنے والے ہو رہے ہو۔ اگر کسی کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے تو تمہارا شبہ ہو کر مارے خوشی سے دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر کہ میں تمہارے لیے سراپا شوق اور انتظار بنی ہوں، ایک عجیب ہنگامی برپا ہے۔”

مہارانی اتنا کہہ کر کچھ رک گئیں۔ ان کے چہرے پر کچھ وحشت سی تھی۔ وہ ایک پراسرار طریقہ اور نہایت ہی معصومانہ انداز میں مجھے دیکھنے لگیں۔ میری طرف اور سرک آئیں۔ میں نے کہا۔ "پھر کیا ہوا؟” انہوں نے اپنے لبوں کو اپنی زبان سے تر کیا۔ وہ متوحش سی تھیں، اور ان کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ "عین اسی انتظار میں کہ ایک خادمہ کے دور سے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں۔ ایسی کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ میں دریافت کروں کہ یہ کیا معاملہ ہے، ایک دم سے وہ ملازمہ چیختی چلاتی حواس باختہ دوڑی آتی ہے۔ اس کے گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں، ننھے سر، بال پریشان، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ آنکھیں مارے خوف کے نکلی پڑتی ہیں۔ اس طرح بدحواس ہو کر کہ وہ کمرے میں چیختی چلاتی آتی ہے کہ میں ایک دم پریشان ہو جاتی ہوں۔ کمرے میں اس کی آمد ایک ہلچل مچا دیتی ہے۔ وہ ایک دم سے میرے سامنے آ کر گھٹنے ٹیک کر گڑگڑاتی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے، مگر مارے ڈر کے کانپ رہی ہے اور اس کی زبان سے کچھ الفاظ نہیں نکلتے بڑی مشکل سے اس نے جدھر سے وہ آ رہی تھی، ادھر منھ موڑ کر کہا "وہ۔۔۔۔۔و۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔و۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ آ رہی ہے۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔ ” میں پریشان ہو کر اس سے پوچھتی ہوں۔ "اری کمبخت کون!” مگر اس کی زبان سے سوائے وہ۔۔۔۔وہ وہ کے کچھ نکلتا ہی نہیں۔ رہ رہ کر وہ جدھر سے آئی ہے دیکھتی ہے۔ اور "وہ وہ” سے زیادہ کہہ نہیں سکتی۔ قبل اس کے کہ میں اس سے پوچھ سکوں باہر سے چیخوں کی آوازیں آتی ہیں کہ مارے خوف کے سب دہل جاتے ہیں۔ ایک شور عظیم برپا ہوتا ہے، چیخنے چلانے رونے پیٹنے اور دوڑنے بھاگنے ک آواز سے سارا محل گونج اٹھتا ہے۔ ایک چشم زون میں قیامت کے سیلاب کی طرح چیختی چلاتی روتی پیٹتی سارے محل کی عورتیں، باندیاں، خواصیں وغیرہ پریشان حال بھگڈر کی طرح ایک کے اوپر ایک گرتی پڑتی اس کمرہ میں داخل ہوتی ہیں کہ ایک دم سے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ سارا اجلاس برہم ہو کر کمرے میں ابتری پھیل جاتی ہے۔ میں بدحواس ہو کر کھڑی ہو جاتی ہوں اور چیختی ہوں کہ تمہیں کوئی خبر کرے اور فوج بلوائی جائے۔ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی بلا اس کمرے کی طرف چلی آ رہی ہے۔ کیونکہ اس شور و شغب کا بھی یہی مفہوم ہے کہ "وہ آ رہی ہے۔” اس شور و پکار میں کوئی میری نہیں سنتا کیونکہ سب کے حواس زائل ہیں، کہ اسی دوران میں ایک خوفناک۔۔۔۔۔۔ ”

مہارانی اتنا کہہ کر کچھ سہم گئیں، اس نا چہرہ کو ہمیشہ پر نور رہتا تھا مٹی کی سے رنگ کا ہو گیا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ قریب ہو گئیں۔ میں نے ان کو اپنے اور قریب کر کے کہا: "گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں۔” انہوں نے پھر کچھ دیر دم لے کر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا۔

"اسی دوران میں ایک خوفناک، نہایت ہی خوفناک! مگر مکروہ قہقہے کی دل ہلا سینے والی نفرت انگیز آواز اس زور سے گونجتی ہوئی آئی کہ سب اپنی اپنی جگہ سمٹ کر رہ گئے۔ مجھے خود کو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے میرا خون میرے جسم میں ایک دم سے جم گیا۔ جو ابھی ابھی اس ہنگامے کے جوش و خروش کی وجہ سے گرم گرم سیسے کی طرح میری رگوں میں دوڑ رہا تھا کہ رگوں کو توڑ کر کسی طرف نکل جائے گا۔ خوف۔۔۔ انتہائی خوف کی وجہ سے لرزنے کے ساتھ پھریری سی آئی۔ آنے والی بلا قریب تھی!۔۔۔۔۔ آہٹ سب کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کہاں تو سارا کمرہ شور و غل سے اڑا جا رہا تھا۔ کہاں یہ حال ہوا کہ ایک ناقابل بیان سناٹا چھا گیا۔ ایسی خاموشی کہ اگر سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز سنائی سی جاتی، اب یہ حال تھا کہنہ دروازے کی طرف دیکھا جاتا تھا کہ جدھر سے یہ بلا آ رہی تھی، اور نہ ادھر سے نظر ہٹاتے بنتی تھی۔ اتنے میں ایک پھنکار سی آئی اور دروازے پر سیاہی چھا گئی۔ وہ۔۔۔۔بلا آ گئی، میرے سامنے آ گئی۔”

مہارانی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا۔ حلق میں کانٹا سا پڑ گیا اور وہ میری طرف اس طرح متوحش ہو کر گھسیں کہ میں گھبرا گیا، میں نے انہیں کلیجے سے لگا لیا۔۔ "ڈرو نہیں، ڈرو نہیں، تم کیوں ڈرتی ہو؟” مہارانی آنکھیں بند کیے میری گود میں پڑی ہانپ رہی تھیں۔ میں نے دلاسا دیا اور پھر پوچھا۔”آخر وہ کیسی بلا تھی، مجھے تو بتاؤ۔۔کیا تھی، کیسی شکل تھی؟”

مہارانی نے وحشت زدہ لہجہ میں کہا: "نہیں!نہیں! مجھ سے بیان نہیں کیا جاتا۔۔۔ مجھے بچاؤ۔” یہ کہہ کر وہ مارے خوف کے ایک دم سے مجھ سے لپٹ گئیں۔

میں نے تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال کر کہا: "ڈرو نہیں، ڈرو نہیں، تمہارے دشمن کے لیے ایک گولی ہی کافی ہے۔ کیا فوج بلا لوں، ٹیلی فون کر کے توپ خانہ بلوا لوں۔”

"نہیں،نہیں۔۔۔ میں صبح کہوں گی۔”

میں نے گھڑی دیکھ کر کہا: "اب صبح میں کیا دیر ہے۔” میرے کہتے ہی کسی دور سے مسجد کی اذان کی آواز آئی۔ "لو صبح ہو گئی!” میں نے کہا: "دیکھو! اذان ہو رہی ہے، صبح ہے۔” یہ کہہ کر میں نے گھنٹی کا بٹن دبا دیا، جو مسہری کے سرہانے لگا تھا۔ فوراً ایک خادمہ دوڑی آئی اور میں نے کہا کہ”دیکھو کسی سوار کو جلد دوڑاؤ کہ اس شخص کو جو اذان دے رہا ہے آج دس بجے دن کے ہمارے سامنے حاضر کرے۔”

"اس کو کیوں بلاتے ہو؟” مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔

دراصل اس آواز سے میں عرصے سے آشنا تھا، خوب اس آواز کو پہچانتا تھا۔ نہ معلوم کیوں، اکثر خیال ہوتا تھا کہ اس آواز سے اتنا پرانا تعلق ہے لاؤ اس آدمی کو تو دیکھوں، کئی مرتبہ ارادہ کر چکا تھا،گر رہ جاتا تھا۔ مہارانی سے میں نے وجہ بیان کی اور کہا کہ تم اپنا خواب بیان کرو۔

مہارانی کا ڈر جاتا رہا تھا، انہوں نے قدرے اطمینان سے سلسلہ جاری کیا:

"۔۔۔۔۔ اس کی شکل۔۔۔ اس بلا کی شکل بہت خراب، خوفناک اور گھناؤنی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل سیاہ تھا، اور سارے منھ پہ پھنسیاں اور مہاسے تھے۔ یہ مہاسے نہایت ہی گندے اور گھناؤنے تھے۔ کوئی ان میں سے سرخ تھا اور کوئی زرد، بہت ہی قوی الجثہ مگر کچھ ٹھگنی عور تھی۔ ایک مختصر سی دھوتی باندھے تھی۔ اس کی شانوں پر بکھرے بال تھے۔ بلا مبالغہ ببر شیرنی کی طرح اس کی گردن تھی، اور ویسا ہی اس کا سر تھا مگر اس کا سارا چہرہ نے حد غلیظ بے حد بھیانک بے حد قابل نفرت، اس کی بڑی بڑی آنکھیں نارنگی کی طرح گول گول تھیں جو نکلی پڑی تھیں اور ان میں بجائے سفیدی یا سیاہی کئ زردی تھی جن میں سے زرد شعاعیں نکلتی معلوم ہوتی تھیں۔ نہایت ہی منحوس اور بھاینک منھ تھا، اور بری بد صورت ناک، اور ناک اور منھ دونوں سے گندگی بہہ رہی تھی۔ اس کی تھوڑی اس طرح متحرک تھی کہ جیسے جانور جگالی کرتا ہے، اس کے گلے کی موٹی موٹی رگیں اس کے چہرے کو اور بھی خوفناک کئے دیتی تھیں۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک پھنکار ماری۔ یہ اس کی تمسخر آمیز مسکراہٹ تھی اور میں نے سیکھا کہ اس کا جبڑا جیسے اس کے کانوں تک پھیل گیا۔ اس کے خوفناک دانت جو بڑے بڑے تھے مع گندگی اور غلیظ داڑھوں کے دکھائی دیے۔ اس نے داخل ہوتے ہی اپنی لکڑی زمین پر زور سے ٹپ کر کہا: "مہارانی راماوتی کہاں ہے ؟” میری طرف یہ کہہ کر دیکھا اور پھر تمسخرانہ سے کہا۔۔”راماوتی راماوتی!”

مہارانی رک کر میری طرف دیکھنے لگیں۔

میں نے کہا: "کیوں،کیا ہوا؟ کہو۔۔۔۔”

"میں نہیں کہہ سکتی۔۔”

"کیوں کہتی کیوں نہیں۔ کہو کوئی مضائقہ نہیں۔ آ کر ایسی کونسی بات ہے، جو تم نہیں کہتیں۔” میں سمجھ گیا اور بڑے اصرار سے میں نے کہا۔”یہ تو خواب ہے تم کہو، ضرور کہو۔”

مہارانی نے رک رک کر کہا: "اس نے کہا مہارانی تو۔۔۔۔”

مہارانی پھر رکیں تو میں نے پھر کہا: "کہو۔۔۔ ”

"۔۔۔۔۔ تو رانڈ ہو گئی۔” مہارانی نے کہا۔۔” اس نے مجھ سے کہا۔”

"چتا میں بیٹھ تو رانڈ ہو گئی!” یہ سنتے ہی میرا کلیجہ دھک سے ہو گیا اور چہرہ فق ہو گیا۔ اس ن میر طرف اسی انداز سے دیکھ کر یہی منحوس الفاظ دہرائے اور اب میں نے دیکھا کہ اس کے گندے ہاتھ پنجے کی طرح تھے۔ اس کے ناخن چیل کے پنجوں کی طرح تیز تھے۔”

"اتنے میں رم کو میں نے دور سے آتے دیکھا۔ تم وہ کپڑے پہنے ہو جو پہن کر تم نے ابھی حال میں اپنی بڑی رنگین تصویر بنوائی ہے اور۔۔۔۔”

میں نے بات کاٹ کر کہا: "یہ خواب تو تم نے میرے ان کپڑوں کے تیار ہونے سے پہلے سے دیکھ رہی ہو۔ کیا ہمیشہ وہی کپڑے دیکھ رہی ہو؟”

مہارانی نے کہا: "ہاں رنگ وہی دیکھتی ہوں۔ سنہرے بوٹے بھی ہیں اور زیور اور ہیرے جواہرات بھی وہی۔ غرض سب وہی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ممکن ہے کہ اچکن کے پھول اور بوٹے مجھے یاد نہ رہے ہوں، اور میں نے غور نہ کیا ہو، مگر جہاں تک میرا خیال ہے بوٹے بھی مجھ کو یاد ہیں اور پھر جب سے تصویر بن کر آئی ہے اور وہ کپڑے دیکھ لیئے ہیں تب سے تو میں بالکل وہی دیکھتی ہوں۔”

میں نے کہا: "اچھا تم اپنا قصہ پورا کرو۔”

مہارانی نے سلسلہ شروع کیا”۔۔۔۔ تم مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔۔ تم بے حد خوبصورت معلوم ہو رہے تھے۔ تمہیں دیکھتے ہی میری ڈھارس بندھ گئی لیکن میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی؛ جب میں نے دیکھا کہ تم اس منحوس بلا سے بجائے لڑنے جھگڑنے کے اس سے باتیں کرنے لگے۔ دوسرا اور تھوڑی ہلا ہلا کر تم سے چپکے چپکے کچھ باتیں کر کے سر ہلا ہلا کر مسکرا رہی تھی۔ تم نے میر طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر مجھ سے کہنے لگے : "تو بیوہ ہو گئی۔۔۔ تو رانڈ ہو گئی اور اب تجھ کو ستی ہونا چاہیے۔”

میں تمہاری طرف متوجہ ہو کر جواب دیکھتی ہوں تو وہ بلا غائب! مگر تم نے پھر مجھ سے کہا کہ”تو بیوہ ہو گئی اور جلدی ستی ہو جا۔” اب میری حالت بھی عجیب ہے۔ بجائے اس کے ہوں کہوں کہ تم میرے سر پر موجود ہو اور خدا تم کو ہزاری عمر دے، میں سہاگن ہو، سری کیوں ہوں۔ میں کچھ نہیں کہتی بلکہ تمہارے کہنے پر یقین کر لیتی ہوں۔ تم مجھ کو جلدی کی تاکید کر کے کمرے سے جاتے ہو۔ اس طرح خواب کا پہلا سین ختم ہو جاتا ہے۔ جو کبھی تو مجھ کو پورا کا پورا دکھائی دیتا ہے، اور کبھی مع بقیہ حصے کے اور کبھی کبھی اس کا کوئی خاص ٹکڑا۔”

"دوسرا حصہ بھی اس خواب کا بتاؤ۔” میں نے مہارانی سے کہا۔ "تمہارا خواب بھی عجیب ہے۔”

مہارانی نے پھر اپنے خواب کا سلسلہ جاری کیا۔ "اس کے بعد میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جنازہ تیار ہے۔ میں کپڑا ہٹا کر جو دیکھتی ہوں تو میں پیٹ لیتی ہوں؛ کیونکہ واقعی۔۔۔۔ واقعی میرے منھ میں خاک تمہاری ہی لاش ہے ! تم وہی کپڑے پہنے ہو۔ میں اس کو ڈھک دیتی ہوں کہ اتنے میں تم آ جاتے ہو۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ تم کو دیکھتی یوں اور پھر بھی نہیں کہتی کہ یہ معما کیا ہے۔ تم خود اس لاسشے پر سے کپڑا ہٹا کر دیکھتے ہو۔ میں لاش کو دیکھتی ہوں اور پھر تم کو اور ذرہ بھر فرق نہیں پاتی۔ وہی صورت، وہی شکل، وہی زیورات، وہی ہیرے اور وہی موتی! ہو بہو وہی ذرہ فرق نہیں۔ تم پھر جنازہ ڈھک دیتے ہو۔ اس طرح دوسرا سین ختم ہو جاتا ہے۔

"پھر تیسرا اور آخری سین اس منحوس خواب کا عجیب طرح شروع ہوتا ہے۔ ساون بھادوں والے بڑے کمرے میں جس کی چھت اس طرح کھلی ہوئی ہے کہ روشنی اور ہوا تو آتی ہے مگر پانی نہیں آتا۔ وہی بڑا کمرہ جو بارہ دری کے طرز پر بنا ہوا ہے، اس کمرے میں لکڑیوں کی ایک چھوٹی سی چتا بنی ہوئی ہے اور اس پر اسی طرح سنگار کیے بیٹھی ہوں۔ لاشہ میری گود میں ہے۔ تعجب یہ کہ تم میرے سامنے کھڑے مجھے اس حال میں دیکھ رہے ہو اور مسکرا رہے ہو۔ تمہاری نظریں اور تمہارا بانک پن میرے کلیجے کو چھلنی کر دیتا ہے۔ میں اس لاشے کو سینے سے لگائے تمہاری طرف اسی محبت سے دیکھ رہی ہوں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے فنا ہو جاؤں گی، دیکھتے دیکھتے، تم کو اپنی محبت کے جذبے سے بے قابو سی ہو جاتی ہوں۔ طبعیت میں ایک دم سے عجیب انتشاری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تمام جذبات سمٹ کر سینے میں ایک مرکز پر آ جاتے ہیں، اور میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھ میں اب ضبط کی طاقت نہیں اور میرا سینہ جوش محبت اور جذبات کی ہیجانی کیفیت کے تلاطم سے پھٹا جاتا ہے کہ ایک دم سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرا دل پھٹ گیا۔ ایک چمک کے ساتھ میرے "ست” کے زور سے میرے سینے سے ایک آگ کا شعلہ خودبخود بھڑک کر اس زور سے نکلتا ہے کہ کس کی چمک مجھے خواب سے ایک دم بیدار کر دیتی ہے، اپنے کو بے دم پاتی ہوں اور تن بند پسینے میں شرابور اس وقت انتہائی درجے کی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ دیر تک پڑی رہتی ہوں اور تمہاری محبت کا خیال دل پگھلائے دیتا ہے اور آہستہ سے اٹھتی ہوں کہیں تم جاگ نہ اٹھو اور تمہارے خوبصورت چہرے کو دیکتی ہوں اور دیکھتے ہی دیکھتے جب تم کلبلاتے ہو، جھٹ سے اپنے پلنگ کر لیٹ جاتی ہوً کہ آہٹ تک نہیں ہوتی۔ آج تمہاری صورت دیکھتے دیکھتے بے اختیاری کے عالم میں دو آنسو تمہارے رخسار پر ٹپک پڑے اور تم جاگ اٹھے۔

میں اس خواب سے متاثر ہوا مگر میں نے ہنس کر مہارانی سے کہا:

"تم بھی وہی ہو۔ ایسے ایسے نہ معلوم کتنے خواب آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ بری توہم پرست ہو۔”

"مگر ایک ہی خواب! اور وہ بھی اس طرح دکھائی دے ؛ تو طبعیت کیسے نہ پریشان ہو اور ایک بات سنو۔ آخر یہ کیا وجہ کہ تم جب کبھی بھی دکھائی دیے یعنی شادی سے پیشتر جب تک تم بچہ تھے، جب بھی اس لباس میں دکھائی دے۔ شکل کا تو اچھی طرح خیال نہیں مگر ہاں عمر تمہاری اتنی ہی دکھائی دی۔ اس خواب میں ضرور کوئی بھید ہے "،ؤ مہارانی نے متفکر ہو کر یہ الفاظ کہے۔

میں نے کہا: "تو دیوانی ہوئی ہے۔ لا میں تیرے خواب کی تعبیر کروں۔”

مہارانی نے کہا: "بتاؤ!”

میں نے ا کہا: "یہ کہ تم خوب ہنسو گی۔”

"تم ہر بات میں مذاق کو دخل دیتے ہو۔”

"میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہی ہے کہ تم ہنسو گی، میں سچا ہوں۔” یہ کہہ کر جو میں نے مہارانی کو پکڑ کر گدگدانا شروع کیا تو چونکہ ان کو گدگدی بہت محسوس ہوتی تھی، وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگیں اور میں ان کو ہنساتے ہنساتے بے حال ہو گیا۔

دن کے دس بجے موذن حاضر کیا گیا۔ غریب آدمی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک اذان رات کے دو بجے دے دیا کرے میں تنخواہ دوں گا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر میں نے کہا کہ اول وقت جس قدر جلد ممکن ہو اذان دیا کرو۔ وہ کہنے لگا کہ میں تو اول وقت ہی دیتا ہوں۔ میں نے اس کو وقت دیکھنے کے لیے ایک گھڑی دی اور پچاس روپیہ انعام سے کر رخصت کیا۔ دراصل اذان صبح کا پیغام ہوتا ہے اور اس اذان سے مہارانی کے دل کو عجیب تقویت سی پہنچی تھی۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ اذان جلدی ہو جائے تو بہتر ہے۔

موذن چلا گیا اور کا خیال بھی نہ رہا۔ سوائے اس روز کے جس روز مہارانی خواب دیکھتیں تو سختی سے ان کو اور مجھ کو اذان کا انتظار رہتا۔

مہارانی کوئی چار مرتبہ یہ خواب ایک ماہ کے عرصے میں اور دیکھ چکی تھیں کہ ایک روز رات کو خواب کے وقت گھبرا کر اٹھیں اور مجھے ایکدم سے جگا کر کہا: "یہ تم نے کیا غضب کیا!”

میں نے ان کے متوحش چہرہ کو دیکھا، اور مسکرا کر کہا: "پاگل ہو گئی ہو، کیا غضب کیا اور کیسا غضب؟”

"تم نے موذن کو مروا ڈالا!”

میں نے کہا: "نہ معلوم تم کیا بکتی ہو۔ آخر بتاؤ تو سہی آج کیا تماشا دیکھا۔” اس پر انہوں نے آج نرالا خواب سنایا۔ وہ یہ کہ "اسی خواب والئ بلا نے موذن کی تم سے شکایت کی اور تم نے اس موذی بلا سے کہا کہ اچھا جا کر اس کو مار ڈالو۔”

میں نے ایک قہقہ لگایا اور مہارانی سے کہا کہ "آخر تم کو یہ کیا ہو گیا ہے۔” اس پر انہوں نے عجیب انداز سے کہا کہ”میں جھوٹ نہیں کہتی۔ یہ سب خواب۔۔۔ میں سچ کہتی ہوں یہ خواب ضرور سچا ہے۔ تم دیکھ لینا آج اذان کی آواز نہ آئے گی۔”

صبح تک مجھ کو اور مہارانی کو اذان کا انتظار رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا مہارانی کی پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب دن نکل آیا اور اذان ندارد! میں نے دن نکلتے ہی سوار دوڑائے ا کہ معلوم کرے کیوں آج موذن نے اذان نہ دی۔ معلوم ہوا کہ وہ رات کو مر گیا۔ اس کی موت اس وقت واقع ہوئی جب مہارانی نے مجھ سے کہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ پریشان ہو کر اٹھا۔ اپنی بیوی کو بلایا اور بہت جلد کسی نامعلوم تکلیف کی وجہ سے مر گیا۔ اب میں عجیب چکر میں تھا اور میں نے فوراً سول سرجن کو بلا کر حکم دیا کہ اس کی لاش کا معائنہ کر کے بتائے کہ موت کیسے واقع ہوئی۔ سول سرجن نے رپورٹ دی کہ موت دل کی حرکت بند ہو جانے سے واقع ہوئی۔ سو روپے میں نے اس کو کفن دفن کے دیئے۔ میری متفکر اور پریشان صورت دیکھ کر مہارانی کا چہرہ اور فق ہو گیا، اور وہ جان گئیں کہ واقعی موذن مر گیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے کہا: "میں نہ کہتی تھی کہ میرا خواب سچا ہے۔ تم نے اسے مروا دالا۔” میں نے یہ الفاظ سنے اور بت کی طرح کھرا مہارانی کو دیکھتا رہا۔ مجھ کو ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا میں نے موذن کو واقعی مروا ڈالا۔ اس کے گھر آدمی بھیج کر اطلاع کروا دی کہ اس کی بیوہ کو دس روپے ماہوار تا حیات ملے گا اور بچے جب بڑے ہوں گے تو ان کو پڑھنے کے لیے وظیفہ علاحدہ۔

اب بجائے مہارانی کے ہم دونوں پریشان تھے۔ مہارانی نے بہت سی خیرات کی۔ اپنے میکے سے کئی پنڈت اور مولوی بلائے اور دوسری جگہ سے بھی بلوائے اور ان سے عمل، تعویذ اور گنڈے لیے۔ میں خود اد ڈھکوسلوں کا قائل نہ ہوں ا ور نہ تھا؛ مگر اس وقت کی کیفیت ہی اور تھی۔ علاوہ اس کے یہ انتظام کیا گیا کہ گیارہ بارہ بجے یا یک بجے سونے کے سرشام ہی سے سونے کی کوشش کرتے اور ایک بجے اٹھ کر راگ کی محفلیں کرتے۔ سب سے زیادہ فائدہ اس تدبیر سے ہوا مگر جان لیوا خواب ایسا لگتا تھا کہ کسی نہ کسی وقت تھوڑا بہت کبھی کبھی ضرور ہی دکھائی دے جاتا۔ غرض رات کے بدلے دن کو سوتے۔ خواب میں بہت کمی ہو گئی تھی اور پھر چونکہ میری شادی قریب آ گئی تھی، لہذا مہارانی کی توجہ کچھ اس طرح مبذول ہو گئی کہ اگر خواب دیکھتی بھی تھیں تو اس کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتی تھیں۔

 

                (۵)

 

جونئیر مہارانی کو آخر بیاہ لانا پڑا۔ بیاہ کی رسوم میں، میں نے نہ تو ان کو دیکھا تھا اور نہ دیکھنا تھا اور نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ سئینر مہارانی نے اپنی بھتیجی کے لیے محل کا ایک خاص حصہ سجایا تھا کہ جس میں لا کر جونئیر مہارانی اتاری گئیں۔ میں شروع ہی سے اس محل کے حصے میں قصداً کترا کر نکل جاتا۔ کیونکہ اس میں وہ لڑکی آنے والی تھی جو میرے اور مہارانی کی محبت میں مخل ہونے والی تھی۔ مجھ کو اس خیال سے ہی منافرت تھی،

رات گئے جب سینئر مہارانی نے تمام رسوم سے فراغت حاصل کر لے جونئیر مہارانی کو ان کی خواب گاہ میں بھجوایا تو میری تلاش کی فکر ہوئی، معلوم ہوا باہر ہوں۔ وہاں دریافت کرنے پر معلوم ہو کہ اندر ہوں، لحاف اور بچھونے ٹٹولے گئے، میں وہاں کہاں ملتا۔ میں سینئر مہارانی کی خواب گاہ میں پڑا بے خبر سو رہا تھا۔ سوتے میں میری گردن میں سینئر مہارانی نے ایک بوسہ لے کر مجھے ہوشیار کیا۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا مہارانی کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ ہنس کر انہوں نے کہا : "یہاں کہاں؟” میں نے ان کو گلے سے لگا کر کہا: "میں وہاں جہاں مجھ کو ہونا چاہیے، یعنی اپنی جان کے پاس، اپنی پیاری مہارانی کے پاس۔” انہوں نے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر اٹھایا، اس کے بعد ہی ایک حجت اور بحث کا باب کھل گیا۔ میری طرف سے ضد تھی کہ میں ہر گز جونئیر مہارانی کے پاس نہ جاؤں گا، اور ان کی ضد تھی کہ جانا پڑے گا۔ دونوں کی ضد نے طرح طرح کے پہلو اختیار کیے جس کی شروعات ایک دلچسپ مذاق سے ہوئی؛ اور اختتام اس پر کہ دونوں خوب روئے، مگر اس کے بعد بھی "تریاہٹ” قائم تھی۔ دھکے دے کر گویا میں اس خواب گاہ سے جبراً نکالا گیا۔ میں روتا جاتا تھا اور مہارانی مجھے بہلاتی، پھسلاتی جاتی تھیں۔ طرح طرح کی باتیں کر کے چمکارتی جاتی تھیں۔ مجھے بہلاتی، پھسلاتی، کھینچتی، گھسیٹتی وہ جونئیر مہارانی کی خواب گاہ تک مجھ کو لے گئیں۔ یہاں پہنچ کر میں اڑ گیا۔ مجھ کو دروازے پر چھوڑ کر وہ اپنی بھتیجی کو کچھ سکھانے پڑھانے خواب گاہ میں داخل ہوئیں۔ ادھر میں بھاگا اور پھر اپنے گھونسلے میں یعنی اس جگہ جہاں سے کشاں کشاں لایا گیا تھا مگر یہ سب کچھ بیکار تھا۔ میرے حال زار پر ان کو کچھ رحم نہ آیا اور وہ مجھ کو پھر تھوڑی دیر بعد پکڑ لائیں اور زبردستی خواب گاہ میں دھکا سے کر باہر سے دروازہ بند کر دیا۔

میں نے اس کمرے کو جیسا کہ کہہ چکا ہوں بالکل نہ دیکھا تھا۔ میں نے اس کو اب دیکھا۔

سارے کمرے میں بجلی کی سبز روشنی ہو رہی تھی، طرح طرح کے جھاڑ فانوس اور بجلی کی سبز قندیلیں روشن تھیں۔ کمرے کی چھت سبز بانات کی تھی، جس پر طرح طرح کے زریں کام بنے ہوئے تھے۔ ہر چیز مجھ کو سبز نظر آ رہی تھی، حتی کہ قالین بالکل سبز رنگ کا تھا، تمام دیواریں سبز تھیں۔ دیوار کو سبز رنگ کے ولایتی کاغذ سے منڈھ دیا گیا تھا اور اس سبز کاغذ پر طرح طرح کے رنگین نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ کمرے میں ہر طرح کا سامان آرائش سجا ہوا تھا؛ مگر سب سبز رنگ کا تھا۔ کمرے کے بیچوں بیچ خالص سونے دو سبز مسہریاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے ارد گرد دیوار کی طرح ایک آب رواں سبز ریشمی پردہ اس طرح آویزاں تھا کہ چھت سے لے کر زمین تک ایک دیوار سی چاروں طرف قائم تھی۔ یہ پردہ اس قدر باریک اور اس قدر نفیس تھا کہ اس کی چاروں تہوں میں سے بھی آر پار دکھائی دے سکتا تھا۔ اس پردہ یں طرح طرح کے سبز رنگ اور زمرد کے آویزے اور موتی لٹک رہے تھے جو سبز رنگ کی روشنی میں ناچتے معلوم ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک مسہری پر جونئیر مہارانی یعنی راجکماری لیلاوتی بیٹھی تھیں جیسے کہ ایک سبز رنگ کی گٹھری رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ میں نے ایک نظر بھر میں دیکھا کہ پھر فوراً ہی سئینر مہارانی کی محبت کا خیال کر کے دل رونے لگا۔ جونئیر مہارانی کی طرف میں نے پشت کر لی اور مخمل کے سبز پردے میں منھ لپیٹ کر چپکے چپکے خوب رویا اور خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ خوب رونے سے ذرا طبعیت ہلکی ہو گئی۔ اگر اور طرح طرح کی خوشبوؤں سے کمرہ ویسے ہی مہک رہا تھا کہ ایک دم سے شمامۃ العنبر کی تیز اور مست کر دینے والی خوشبو کا ایک بھبکا میرے دماغ میں اس طرح پہنچا کہ میں نے گھبرا کر منھ کھول دیا۔ مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو جونئیر مہارانی ہیں کو عطر میں بسی ہوئی تھیں۔ سبز رنگ کا رومی قالین تھا جس پر اتنا بڑا رواں تھا کہ ٹخنوں ٹخنوں پیر اس میں گھس جاتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے آنے کی ذرا بھر آہٹ نہ ہوئی۔ میرے دیکھتے ہی انہوں نے جھک کر میر قدم لیے۔ میرے پیر چوم کع انہوں نے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ جوڑ کر جھک کر ماتھے پر رکھے اور ذرا ہٹ کر اسی طرح ہاتھ جوڑے نظر نیچے کر کے کھڑی ہو گئیں۔ میں نے اس شعلہ حسن کو گویا اب پہلی مرتبہ سر سے پیر تک دیکھا۔ کامنی صورت،نازک بدن، میدہ اور شہاب سا رنگ تھا۔ جو اوصاف بلور کی مانند سبز روشنی میں گویا جگمگا رہا تھا۔ جس پر سنہری افشاں چمک رہی تھی۔ صرف تھوڑی سی پیشانی رسمی گھونگھٹ سے چھپی ہوئی تھی۔ ناک نقشہ اس قدر سبک اور موزوں اور حسین کہ میری نظر سے کبھی نہ گزرا تھا۔ میں نے ایک نظر دیکھا ور پھر دیکھا۔ میں ساکت تھا اور وہ اسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑی تھیں اور میں پردہ پکڑے کھڑا تھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر دو زانو ہو کر پھر سے میرے پاؤں چھوئے اور پھر اسی طرح الگ ہٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ میں ویسے ہی کھڑا اس قواعد کو دیکھتا رہا کہ وہ پھر تیسری مرتبہ جھکیں۔ انہوں نے میرے پیر اسی طرح چھو کر اپنے لبوں اور آنکھوں سے لگائے، مگر اس مرتبہ بجائے اٹھ کر الگ جا کھڑا ہونے کے انہوں نے منھ اوپر کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھ کو دل سے کہنا پڑا: "خدا نے تجھ کو غضب کا حسن عطا کیا! مگر۔۔۔۔۔” وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں، اور دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھیں۔ ان کے لبوں ہر کچھ حرکت سی تھی، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں، کہ انہوں نے آہستہ سے اپنا داہنا ہاتھ میرے باہیں ہاتھ کی طرف بڑھایا۔ ان کا سبز رنگ کا کشمیری شال ان کے سر اور کاندھے پر سے سرک کر گر گیا، مگر انہیں شاید خبر نہ ہوئی۔ ہاتھ بڑھا کر جیسے جیسے ڈرتے ڈرتے انہوں نے میرا بایاں ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو آنکھوں سے لگایا اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہا: "پتی مہاراجہ!” میری طرف انہوں نے لجاجت آمیز نگاہیں ڈالیں۔ جیسے کہ وہ مجھ سے رحم یا عفو تقصیر کی طالب تھیں۔ آہستہ آہستہ اٹھیں اور قبل اس کے کہ مجھے خبر ہو کہ کیا ہوا انہوں نے مجھے مسہری پر لا بٹھایا اور سامنے ہاتھ جوڑ کر کھری ہو گئیں۔ ساری مسہری عطر میں بالکل بسی ہوئی تھی۔ میں اس پر بیٹھ ہوا جونئیر مہارانی کو دیکھ رہا تھا، جو سب رنگ کی آب رواں (جارجٹ) کی ساڑھی باندھے ہوئے میرے سامنے کھڑی میری پرستش کر رہی تھیں، دسمنر کا سخت جاڑا تھا، مگر میرے کمرے کے اندر نہایت ہی خوشگوار موسم تھا۔ کیونکہ جگہ جگہ بجلی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔

میں نے ان سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرے پیر چھو کر بیٹھ گئیں۔ فوراً انہوں نے ایک سبز رنگ کی صراحی سے دو آتشہ کا جام بھر کر مجھے دیا جو میں نے پی لیا اور ایک جام ان کو دے کر اس رسم کو پورا کیا۔

بہت جلد دو چار باتیں ہوئیں کہ سلسہ کلام چھڑ گیا اور جونئیر مہارانی نے اپنی سحرکاریوں کے جال میرے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ اپنی طبعیت کو کیا کروں میں جھلا سا گیا اور ان کو شاید برا معلوم دیا۔ جب سینئر مہارانی کا مجھ کو خیال آیا اور میں نے بات کاٹ کر کہا: "سوجاؤ۔” اور یہ کہہ کر اپنی مسہری پر دراز ہو کر جو سویا تو صبح ہی خبر لایا۔ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے جب سینئر مہارانی نے مجھے اٹھایا اور فوراً لڑائی شروع کر دی۔ میں خوب خوب رویا اور وہ بھی خوب خوب روئیں۔ میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی مجبور تھیں۔ دراصل بھتیجی نے میری سردمہری کی شکایت کی تھی اور پھوپھی اپنی بھتیجی کی طرف سے وکیل ہو کر مشترکہ شوہر سے لڑنے آئی تھیں۔ غرض خون سینئر مہارانی سے لڑائی ہوئی۔

کسی نے کہا ہے اور ٹھیک کہا ہے

"ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو”

جونئیر مہارانی کا حسن لاثانی اور پھر پھوپھی بھتیجی دونوں کی کوشش خواہ مخواہ میں جونئیر مہارانی سے گھل مل گیا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ گھلنا ملنا کچھ سے کچھ کر دے گا اور وہ بھی اس قدر جلد۔

پھوپھی تو جیسا گاتی تھی گاتی تھی ہی لیکن بھتیجی نے تو گانے میں ستم کی مہارت پہنچائی تھی۔ اتنی حسین اور دلچسپ لڑکی، نئی نئی جوانی اور پھر نئی شادی، میرا اس کی طرف کھینچاؤ اور اس کا میری طرف رجحان بڑھتا گیا۔ مجھ سے مل کر وہ عشق مجسم اور محبت کی پتلی بن گئی۔ ایک عجیب عالم میں تھیں، اور مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچے لیے جا رہی تھیں۔ ان کا بس نہ تھا کہ مجھے اپنے دل میں چھپا لیتیں۔ یہی جذبات آخر سینئر مہارانی میں تھے اور عورتوں میں ہوتے ہی ہیں، مگر جونئیر مہارانی میں نہ تو اتنی سمجھ کہ یہ جذبات کیا ہیں اور نہ عقل۔ وہ مجھے دیکھتیں، تو ان کی آنکھیں غمازی کرتیں۔ ان کی حرکات و سکنات، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، کھانا، پینا، ہنسنا، گانا، ملنا، جلنا غرض ان کے تمام افعال سب کے سب ایک جذبہ کے تحت میں تھے اور ہر قدم پر دل کے چور کا راز افشا کرتے تھے۔ بس گویا جونئیر مہارانی کیا تھیں کہ سیماب بر آتش تھیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایک دہکتا ہوا آگ کا انگارہ! بہت جلد انہوں نے میری ہستی کو کچھ سے کچھ کر دیا۔ وہ خود بھی مٹ گئیں اور مجھ کو بھی مٹا دیا۔ بالفاظ دیگر خود وارفتہ ہو کر مجھ کو بھی دیوانہ کر دیا۔ یہ سب باتیں اور ذرا غور کیجیئے کہ سینئر مہارانی اپنی بھتیجی کی زندہ دلی کو دیکھتیں اور باغ باغ ہوتیں اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنی بھتیجی کے عیش میں مخل نہ ہوتیں۔

وہی ناچ رنگ کی محفلیں اور وہی رنگ رلیاں! جونئیر مہارانی اور سینئر مہارانی دونوں میرے ساتھ ہوتیں۔ پھوپھی اور بھتیجی دونوں مل کر خوب گاتیں، جشن میں دونوں شریک، طرح طرح کے ڈرامے کیے جاتے، سوانگ بنائے جاتے، سینئر مہارانی راجہ بنتیں، جونئیر مہارانی راجکمار بنتیں، میں راجکماری بنا دیا جاتا۔ میرے ساتھ شادی ہوتی۔ خوب خوب الٹی گنگا بہائی جاتی، مگر یہ حال سینئر مہارانی کا زیادہ عرصہ تک نہیں رہا۔ ویسے بھی وہ اپنی بھتیجی پر اپنا عیش قدم قدم پر خود قربان کرتیں تھیں، کبھی طبعیت کی کسلمندی، کبھی نیند کی خواہش، کبھی دلچسپی کا فقدان۔ غرض کوئی نہ کوئی پہانہ ان کو محفل سے بہت جلد اٹھا لے جاتا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ناغہ کرنا شروع کیا۔ دراصل ان کی طبعیت کا رجحان کچھ پوجا پاٹ کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ میں سمجھا شاید اسی کی وجہ ہو۔

ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہو گا۔ دفتر بے معنی ہو کر میں جونئیر مہارانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ سینئر مہارانی سے سچ کہا تھا کہ جونئیر مہارانی میرے جوڑ کی ہیں۔

میری عمر سولہ اور سترہ سال کے درمیان تھی اور جونئیر مہارانی کی عمر پندرہ اور چودہ کے درمیان تھی۔ بہت جلد مجھ جو بجائے سینئر مہارانی کے جونئیر مہارانی کا جنون شروع ہو گیا۔ ہر دم وہی تصویر سامنے رہی، اندر ہوں خواہ باہر، سوتے جاگتے ان ہی کی یاد رہتی۔رفتہ رفتہ وہ عبرت ناک حالت آ پہنچی کہ سینئر مہارانی کی موجودگی اور غیر موجودگی یکساں ہو گئی اور پھر اس پر بس نہیں بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور سینئر مہارانی کی موجودگی غیر دلچسپ معلوم ہر کر کچھ کچھ شاق گزرنے لگی، ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہ تو کوئی بزرگ ہیں، وہ خود کھنچی کھنچی دیدہ و دانستہ رہتیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ناچ رنگ کی رونق صرف جونئیر مہارانی رہ گئیں۔ وہی جھیل کا کنارہ،وہی مرمریں چبوترہ، وہی پرسکون چاندنی اور وہی عیش و طرب! لیکن پرانا محبوب اب مجلسوں سے غیر حاضر رہتا۔ میرے صنم کدہ میں اب دوسرا بت تھا جس کی جدائی نے وحدانیت کا ڈنکا بجوا دیا۔ کبھی کبھی میرا دل میرے اوپر ملامت کرتا اور سینئر مہارانی کے یہاں اس نیت سے جاؤں کہ رات کو ان کے یہاں ہی رہوں، اور وہیں جلسہ ہو، تو اول تو وہ مجھے ٹکنے نہ دیتیں اور ہنس ہنس کر لڑتیں، اور دھکے دے کر نکالتیں اور جب بڑی مشکل سے راضی بھی ہوتیں تو بہت جلد کہتیں کہ "لیلا دتی کو بلا لو۔”جونئیر مہارانی فورا آ جاتی۔ دراصل ان کی مجال نہ تھی کہ انکار کریں۔ ان کے آتے ہی خود ان کے سر میں درد ہونے لگتا اور نتیجہ یہ ہوتا کہ سینئر مہارانی کے محل میں خود ان کی غیر موجودگی ہو جاتی اور جونئیر مہارانی رہ جاتیں، مگر جونئیر مہارانی کے جنون کے ہوتے ہوئے بھی مجھ کو ایسا معلوم ہوتا کہ سئینر مہارانی کی محبت ایک لازوال شئے ہے۔ میرے دل میں ان کی بے حد محبت اب بھی تھی، مگر اس کی صورت بھی ایک عجیب ہو کر رہ گئی تھی۔ جبکہ کبھی ان کو سینے سے لگاتا یا ان کی پیشانی چومتا تو ان کے آنسو نکل پڑتے اور بہت جلد حالت بگڑ جاتی کہ سنبھالنا دشوار ہو جاتا۔ ان سے اگر کبھی اس پریشان خواب کا حال پوچھتا تو وہ بڑے اطمینان کا اظہار کرتیں۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ خود مجھ سے کہتیں تھیں کہ محض وہم ہے، دوسری باتیں کرو۔ میں رہ رہ کر یہ بھی سوچتا کہ آخر یہ محبت کی کونسی قسم ہے جو مجھ کو سئینر مہارانی سے ہے۔ کیونکہ جونئیر مہارانی کی محبت اگر ایک طرف وبال جان تھی تو دوسری طرف سئینر مہارانی کے لیے دل پاش ہوتا تھا، اور ان کی بھولی بھولی نظریں تیر کی طرح دل میں ترازو ہو کر رہ جاتی تھیں۔ دراصل میرا جی چاہتا تھا کہ سئینر مہا رانی پر اپنی جان چھڑکتا رہوں!

رفتہ رفتہ، بتدریج، سئینر مہارانی کی حالت میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو رہا تھا، وہ زیادہ تر ساکت رہتی تھی۔ معلوم ہوا کہ راتوں کو اٹھ کر ٹہلتی ہیں۔ ان کے چہرے کی وہ غیر معمولی دمک اب معدوم تھی، مگر چہرے پر ایک ناقابل بیان نور مسلط رہتا تھا۔ اب ان کے بالوں میں وہ افشاں بھی نہ ہوتی تھی جس کی بارش ان کے حسین چہرے پر ہوتی رہتی تھی۔ ان کی تندرستی انحطاط پذیر معلوم ہو رہی تھی، اور وہ دبلی ہو گئی تھیں۔

 

                (۶)

 

دراصل انسان عیش کا بندہ ہے، خواہ غریب ہو یا امیر،پھر عیش و عشرت کی بھی کوئی حد نہیں، ہم سب لوگ خواہ کتنے ہی عیش کیوں نہ کریں یہی سمجھتے ہین کہ کافی نہیں۔ میری اور جونئیر مہارانی کی پرسرور پر کیف زندگی لے دن لمحوں کی طرح گزرتے معلوم ہوتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم دونوں ایک خوشگوار ہوا میں دنیا کی رنگینی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی اس سے بھی اچھے مقام پر جا رہے ہیں دوسرا سال میری شادی کو شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جونئیر مہارانی گویا کل ہی آئی ہیں۔ جوں جوں جوانی آتی جاتی تھی، نشہ عشق و محبت اور بھی بڑھتا جاتا تھا۔ دراصل میں ایک عجیب نشے میں چور تھا، اور یہی حالت جونئیر مہارانی کی تھی۔

برساتھ کا زمانہ آیا۔ کالے کالے بادل اور دل خوش کن ہوائیں، جھیل کا منظر اور مے نوشی اور اس پر عشق و محبت کی گڑک! دن رات کھیل تماشے میں گزرتے تھے اور دن رات طرح طرح کے ناچ، کھیل اور رنگ رلیاں طرح طرح سے منائی جاتی تھیں، نت نئی تجویز اور اس کی تکمیل۔ بس مقصد حیات ہی یہی تھا۔جونئیر مہارانی نے تجویز کیا کہ جھیل کے پیچوں بیچ میں کشتیاں جوڑ کر دوسری طرح کا ایک جزیرہ بنایا جائے اور اس پر ایک بارہ دری قائم ہو اور وہاں، ہفتہ بھر برابر جلسہ رہے۔ دن رات وہیں رہیں،تجویز واقعی بہت دلچسپ تھی۔ حکم کی دیر تھی کہ سینکڑوں آدمی لگ گئے، دن رات کام ہونے لگا اور پندرہ بیس روز کے بعد یہ عارضی محل بن کر تیار ہو گیا۔ پہلے ہی جلسے کے روز چاروں طرف جھیل کے جھما جھم پانی برس رہا تھا اور یہاں مہارانی کا یہ حال تھا کہ اپنی مست کر دینے والی آواز سے جھوم جھوم کر روم جھوم گا رہی تھیں۔خوب مال پوئے کھائے اور شرابیں طرح طرح کی لنڈھائیں۔ دن کو سوتے اور رات بھر رنگ رلیاں مچائی جاتیں۔ طرح طرح کے ناچ ہوتے اور طرح طرح کے ڈرامے کئے جاتے،پھر کبھی مینھ میں نہاتے اور جبھی جھیل میں۔ غرض خوب دھما چوکڑی رہتی۔ اس عیش و طرب کے جلسے میں باوجود ہر طرح کے اصرار کے سینئر مہارانی نہیں آئیں۔ "تم جاؤ!” انہوں نے کہا۔

لیلا وتی ہے تو! اس کے جواب میں، میں نے انہیں سینے سے لگا لیا، اور کہا: ” نہیں تم کو ضرور لے چلوں گا۔” بس یہ کہنا تھا کہ گویا بکھر گئیں۔ خوب روئیں اور مجھے بھی رلایا۔ مجبوراً چلا آیا۔ اب اس جلسے میں ان کی موجودگی کا خیال تک نہ تھا۔ دراصل فرصت کہاں تھی۔

ناچ کود سے بھی چار چھ روز تنگ سے آ گئے کہ آخری دن آٰا کہبس آج کا جلسہ اور ہو کل ختم۔ حسن اتفاق کہ بادل بھی جھوم کر امنڈ آیا کہ آسمان اور پہاڑ ایک ہو گیا اور پھر بارش بھی خوب خوب ہوئی۔ بجلی کی طرح طرح روشنی سے دن ہو رہا تھا۔ پر کیف اور روح پرور ہواؤں کے جھونکے آرہے تھے اور گھومر کا دل پسند ناچ عجیب انداز ہو رہا تھا۔ خوبصورت اور چلبلی خواصیں نشہ کی ترنگ میں بدمست ہو کر اپنی سریلی آواز مل کو پھولوں کے ہار پہنے اور ہاتھوں میں مور پنکھڑی کی سبز شاخیں لیے بل کھا کھا کر ساز کی تھاپ پر جھماکے کے ساتھ قدم ملا ملا کر ناچ رہی تھیں۔ جونئیر مہارانی تال پر تال دے رہی تھی۔ خدا نے انہیں بلا کا حسن دیا ہے۔ ان کے زرنگار کپڑے اور اس پر مرصع کلغی دار ٹوپی جو ہیروں سے جگمگا رہی تھی۔ میرا دل چھینے لیتی تھی۔ خوشی اور مسرت سے ان کا حسین چہرہ چمک رہا تھا اور اس پر وہ لمبی لمبی دل کھینچنے والی تانیں اور پھر روم جھوم کے گیت پر ان کا خود جھومنا اور پھر گھومر کے ناچ کا نپا تلا جھماکا جس کے ساتھ ساتھ ان کے سر کے جھٹکے سے ان کے حسین چہرے پر افشاں کی بارش ہوتی تھی۔ آج آخری رات کا جلسہ تھا اور کنٹر کے کنٹر شراب کے خالی ہو رہے تھے۔ !اور پیو!” اور پیو!” گانے بجانے والیاں، اور خواصیں سب دو آتشہ میں چور تھیں۔ جام پہ جام خالی ہو رہا تھا ور لاؤ کم نہ ہوتی تھی۔ میں بھی اسی سیلاب میں بہا چلا جا رہا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر کسی نے اتنی پی کر عقل و ہوش رخصت، بہت جلد محفل کی ترتیب درہم برہم ہو گئی۔ کسی نے کسی کی چوٹی پکڑی، کسی نے کسی کو گھسیٹا۔ میں نے خود انتہائی کوشش کی کہ سنبھلوں اور جلسے کی برہمی کو سنبھالوں، مگر وہاں تو ہر خواص اپنے کو مہارانی سمجھ رہی تھی۔ کوئی ادھر گرا، کوئی ادھر گرا۔ رات کے دو ویسے ہی بج گئے چکے تھے۔ ہفتہ بھر کی کود پھاند اور پھر نشہ اور اس پر جوانی کی نیند۔۔ تھوڑی ہی دیر میں مری پھیل گئی۔ جو جہاں وہیں غیں ہو کر رہ گیا۔ نشہ اور نیند نے ایسا دایا کہ سب غافل ہو گئے۔

نیند اور نشہ کے عالم میں، میں نے ایک خواب دیکھا، وہی خواب جو سئینر مہارانی کو دکھائی دیا کرتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں دربار والے کمرے کی طرف جا رہا ہوں، وہاں پہنچا تو سین حرف بحرف سامنے موجود تھا۔ وہی مہارانی اور وہی کمرہ۔ غرض جو کچھ بھی انہوں نے دیکھا، وہیں وہ بنی سجی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔ صرف فرق اتنا تھا کہ وہاں وہ بلا نہیں تھی جس میں مہارانی نے دیکھا، بلکہ وہاں تو میرے پیاری جونئیر مہارانی تھی۔ جو تمسخرانہ لہجے میں سئینر مہارانی سے کہہ رہی تھی کہ "تو بیوہ ہو گئی، چتا میں بیٹھ۔” کہ اتنے میں، میں پہنچا۔ میں نے جونئیر مہارانی سے پوچھا کہ بات کیا ہے ؟ اس نے مجھ سے مسکرا کر کہا کہ سینئر مہارانی بیوہ ہو گئیں۔ میں نے جونئیر مہارانی کو دیکھا اور پھر اور پھر سینئر مہارانی کو دیکھا اور کہا کہ "تو بیوہ ہو گئی، اب ستی ہو جا۔” اتنے میں دیکھتا ہوں کہ جونئیر مہارانی غائب، پھر خواب کا دوسرا سین دیکھا کہ سئینر مہارانی میرا جنازہ دیکھ رہی ہیں، اور میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں نے جنازے پر سے کپڑا ہٹا کر خود اپنی لاش کو دیکھا اور ذرہ بھر تعجب نہ کیا۔ غرض خواب کا دوسرا سین بھی لفظ بہ لفظ اور حرف بہ حرف پروا ہوا۔

پھر اس کے بعد تیسرا سین دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساون بھادوں والے محل کے بڑے کمرے میں کھڑا ہوں۔ سامنے سینئر مہارانی میری لاش کو گود میں لیے ساتوں سناگار کئے ہوئے ستی ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں، اور میں ان کی طرف، وہ محبت سے مجھ کو اپنی طرف گویا نظروں ہی نظروں میں کھینچے لے رہی تھیں، اور میرے دل میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ محبت کے انتہائی جذبات ان کے سینے میں گھٹ رہے ہیں۔ اسی طرح دیکھتے دیکھتے ان کی حالت انتہائی جذبات کی وجہ سے بے قابو ہو گئی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے "ست” کے زور سے ان کے سینے سے ایک ذبردست شعلہ بھڑک کر اس زور سے نکلا کہ ساری چتا کو مع مہارانی کے اس نے لپیٹ لیا۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں اور چشم زون میں اس زور سے کڑکا ہوا کہ بادل کی گرج کے ساتھ ساتھ میں بھی کرنے کو ہوا کہ میرے پہلو سے چیخ کی آواز آئی اور جونئیر مہارانی مجھ سے آکر چپٹ گئیں ہم دونوں بدل کی گرج کے ساتھ گرے۔

"تم یہاں کہاں؟” جونئیر مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔

"کہاں؟” میں نے گھبرا کر چاروں طرف آنکھیں مل کر کہا۔

"ارے !” یہ کہہ کر مہارانی نے ایک چیخ ماری اور ساتھ ہی میں نے اپنے ہوش و حواس میں دیکھا کہ میرا خواب بالکل سچا ے۔ سئینر مہارانی سامنے بے جان پڑی ہیں۔ ان پر بجلی گری تھی اور ان کے سینے اور بالوں پر شعلے کا جھلسا موجود تھا۔ ان کی گود میں میری وہی رنگین تصویر تھی۔ جونئیر مہارانی بے ہوش ہو کر گر گئیں اور میں نے دیکھا بھی نہ تھا۔

ملاح کہتا ہے کہ رات کو وہ میرے حکم سے مجھ کو جھیل کے عارضی جزیرے پر سے چپوترے تک لایا۔ توشہ خانے والا کہتا ہے کہ حضور نے اپنے درباری کپڑے مجھس ے رات کو طلب کئے اور میں نے تمام درباری کپڑے اور زیورات خود پہنائے پھر دوسرے ملازم کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے حکم سے ہم سے لکڑی کی چتا بنوائی۔ سب یہی کہتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کب آیا اور کس طرح آیا۔

مہارانی راماوتی ایک شیریں خواب تھیں اور آنکھ جو کھلی تو کچھ نہ تھا، یا پھر یوں کہیے کہ ایک رنگین حباب جس کی مختصر زندگی ایک ہلکورے سے ختم ہو گئی۔ ایک پروائی تھی جو تھوڑی دیر شمع سے کھیلنے کے بعد اس پر نثار ہو گئی۔

تھوڑے سن تو سر پیٹتا اور خاک اڑاتا رہا اور جونئیر مہارانی کا بھی اپنی پھوپھی کے غم میں یہی حال رہا۔ راتوں کو مجھے خواب میں دکھائی دیتیں اور ہائے راماوتی کہہ کر چیخ اٹھتا، مگر زمانہ گزرنے لگا اور گزرتا گیا۔ وہی محل اور وہی جھیل اور وہی جونئیر مہارانی اور وہی رنگ رلیاں ہیں اور سئینر مہارانی کی یاد ایک قصہ ماضی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

ممتحن کا پان

 

 

ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کر لیتے ہیں، مگر جناب میں غیر جنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو۔ اب تو نہیں لیکن پہلے میرا یہ حال تھا کہ پان کھانے والے مسافر سے لڑائی تک لڑنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ اگر جیت گیا تو خیر ورنہ شکست کی صورت میں خود وہاں سے ہٹ جاتا تھا۔ میں ایک بڑے ضروری کام سے دہلی سے آگرہ جا رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک بہت دلچسپ ساتھی غازی آباد سے مل گئے۔ یہ ایک ہندو بیرسٹر کے لڑکے تھے اور ایم – ایس – سی میں پڑھتے تھے۔ خورجہ کے اسٹیشن پر ایک صاحب اور وارد ہوئے۔ یہ بھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہماری ہی بنچ پر آئے اور بھی بہت سے لوگ آ گئے اور منجملہ ان لوگوں کے میں نے نہایت بے کلی سے دیکھا کہ ان میں ایک صاحب پان کھانے والے ہیں۔ ان حضرت نے ہماری ہی طرف رخ کیا اور ادھر میں گھبرایا۔ انہوں نے میری بنچ پر بیٹھنے کی نیت سے قلی سے اسباب میری طرف رکھوانا چاہا۔

"آپ اس طرف نہایت آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔” میں نے ایک کھچا کھچ اسباب اور سامان سے بھری ہوئی بنچ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

انہوں نے شاید اس کو بدتمیزی خیال کر کے برا مانتے ہوئے کہا: "جناب، خود تکلیف کریں۔”

"یہ جگہ گھری ہوئی ہے۔” میں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کج خلقی سے کہا۔ مگر وہ اتنے میں اسباب رکھوا کر بیٹھ بھی چکے تھے۔ میری طرف انہوں نے غور سے دیکھا۔۔۔ میں ان کی طرف نفرت سے نہیں بلکہ غصے سے دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے پان کھانے والے سے اتنی نفرت نہیں ہوتی جتنا کہ اس پر غصہ آتا تھا (اب بالکل نہیں آتا)۔

یہ حضرت فاختی رنگ کی شیروانی پہنے ہوئے تھے، ترکی ٹوپی تھی، شاید چالیس یا پینتالیس برس کی عمر تھی۔ کپڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے۔

ریل چلی تو میں اس فکر میں تھا اب ضرور یہ اپنی ڈبیہ میں سے نکال کر پان کھائیں گے، کیونکہ ان کے منہ کی رفتار سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پان اب ختم ہونے والا ہے۔ اتنے میں میری نظر ان کے ہینڈ بیگ پر پڑی۔ جس سے میں نے فورا معلوم کر لیا کہ یہ حضرت کسی بیرسٹر صاحب کے منشی ہیں، کیونکہ اس پر لکھا تھا : "ٹی ایچ۔ بار ایٹ لا۔”

میں نہ اب بد اخلاق یا کج خلق ہوں اور نہ پہلے کبھی تھا، مگر پان کھانے والے مسافروں سے مجھے چونکہ بغض تھا لہذا میں اب سوچ رہا تھا کہ ان کو یہاں سے کس طرح ہٹاؤں، مگر تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ساتھیوں سے باتوں میں مشغول ہو گیا۔ زیادہ دیر باتیں کرتے نہ گزری تھی کہ کھٹکا ہوا۔ سگریٹ کیس کے کھٹکے اور پان کی ڈبیا کے کھٹکے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حالانکہ ان کی طرف میری پشت تھی مگر میں جان گیا اور پان کی ڈبیا کا گیلا گیلا سرخ کپڑا میری نظر کے سامنے بغیر دیکھے ہی آ گیا۔ مڑ کر دیکھا تو ان کے ہاتھ میں پان کا ایک ٹکڑا ہے۔ اخلاقاً انہوں نے میرے سامنے پیش کیا، یہ گویا تازیانہ ہو گیا۔ میں نے جل کر کہا : "مجھے اس حماقت سے معاف کیجیے۔”

میں نے دیکھا کہ اس جملے نے کیا کام کیا مگر انہوں نے سوائے سر کی ایک جنبش کے زبان سے کچھ نہ کہا۔ نہ تو میں شرمندہ تھا نہ مجھے افسوس تھا۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ انہوں نے کھڑکی کے باہر سر ڈال کر تھوکا۔ میں نے مڑ کر برجستہ کہا : "قبلہ اگر یہ دھندا کرنا ہے تو براہ کرم دوسری جگہ تلاش کیجیے۔”

"کیا فرمایا جناب نے ؟”

"میں نے یہ فرمایا کہ جناب یہ لال پچکاریاں کسی دوسری جگہ چھوڑیں۔”

انہوں نے نہایت ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا: "معاف کیجیے گا میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں۔”

"اگر جناب اس قسم کی گفتگو کے عادی نہیں تو میں بھی اس کا عادی نہیں کہ میرے پاس بیٹھ کر گندگی پھیلائیں۔۔۔”

"جناب آپ ذرا۔۔۔”

"لا حول ولا قوۃ” میں نے بھی بات کاٹتے ہوئے کہا :

"ذرا غور تو کیجیے کہ بکری کی طرح پتے چبانا۔۔۔ قسم خدا کی۔” میں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا: "یہ چھالیا بھی خوب ہے، گویا ایندھن یا لکڑی چبا رہے ہیں۔”

مارے غصے کے ان حضرت کا منہ لال ہو گیا مگر نہایت ہی تحمل سے انہوں نے بالکل خاموش ہو کر میری طرف سے منہ موڑ لیا اور سنی ان سنی ایک کر دی۔

"آپ کو یہ نہیں چاہیے تھا۔” میرے ساتھی نے میری بد اخلاقی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو پان سے کتنی نفرت ہے۔”

 

                (۲)

 

ہمارے نئے ساتھی جو غازی آباد سے بیٹھے تھے عجب کہ کلاس فیلو نکلے۔ انہوں نے بھی ایل ایل بی، فائنل کا امتحان علی گڑھ سے دیا تھا اور میں نے بھی دیا تھا۔ ایک دوسرے کو قطعی نہ جانتے تھے کیونکہ جماعت میں پونے دو سو لڑکے تھے اور رات کو لیکچر ہوتے تھے۔ اتفاق کی بات نظر ایک دوسرے پر نہ پڑی تھی، یا اگر کبھی پڑی ہو گی تو خیال نہ رہا ہو گا۔ دوسرے صاحب کو اس پر تعجب ہوا۔ امتحان کا نتیجہ ابھی شایع نہ ہوا تھا، صرف پچیس دن امتحان کو گزرے تھے۔ لا محالہ امتحان کا ذکر ہونے لگا۔ ان سب کے پرچے اچھے ہوئے تھے اور میرے بھی سب پرچے اچھے ہوئے تھے۔ گزشتہ سال وہ سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے اور میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔ اپنے پاس ہونے کا مجھ کو قطعی یقین تھا اور وہ حضرت کہنے لگے کہ : "جناب سیکنڈ ڈویژن تو آپ کی کہیں گئی ہی نہیں۔۔۔” یہ جملہ میرے لیے کس قدر خوشگوار تھا، دل سے خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ تعلیم کی آخری منزل بھی ختم ہوئی کیونکہ مجھ کو اپنے پاس ہونے کا قطعی یقین تھا۔ اس میں شبے کی گنجائش تک نہ تھی تا وقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ رجسٹرار یونیورسٹی کے دفتر میں پیش نہ آ جائے۔ ہر پرچے کا ذکر گیا گیا اور ہر پرچے میں کتنے نمبر ملنے کی امید تھی اس کا اندازہ لگایا گیا اور کم از کم جو اندازہ لگایا وہ یہ تھا کہ سیکنڈ ڈویژن تو کہیں گئی نہیں ہے۔ کس جگہ وکالت شروع کی جائے گی، کچھ اس پر بحث ہوتی رہی، پھر وکالت نہ چلنے کے امکان پر گفتگو اس پہلو سے کی گئی کہ دونوں طرف سے اس کی خوب تردید ہوئی۔

علی گڑھ کا اسٹیشن آیا اور وہ صاحب جو خورجہ سے بیٹھے تھے، اتر گئے۔ اترتے وقت ہم نے ایک دوسرے کے رول نمبر مع نام و پتہ لکھ لیے اور خط و کتابت کا وعدہ بھی کیا۔۔۔ (ابھی تک نہ انہوں نے مجھے خط لکھا اور نہ میں نے انہیں۔)

علی گڑھ سے گاڑی چلی۔ ایک بات میں نے عجیب نوٹ کی۔ اب تک تو وہ پان کھانے والے حضرت کچھ رنجیدہ و کبیدہ تھے مگر اب وہ میری طرف بڑی دیر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے سے تمام غصہ رفو چکر ہو چکا تھا۔ شاید وہ صاف دل تھے اور میری بد اخلاقی کو بھول چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا : "آپ نے امسال ایل ایل بی فائنل کا امتحان دیا ہے ؟” یہ کہتے ہوئے ڈبیا کھولی اور میں نے بمشکل "جی ہاں” کہا تھا کہ انہوں نے ایک پان مجھے پھر پیش کیا۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا: "آپ کو پان سے نفرت ہے مگر آپ اس کو کھا کر دیکھیں۔”

میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ کیا یہ ممکن تھا کہ وہ تمام سنجیدگی کو رخصت کر کے مجھ کو چڑا رہے تھے تاکہ بدلہ لیں۔۔۔ قطعی یہی ہے۔۔۔ یہ خیال کرتے ہی مجھ کو سخت غصہ آیا۔۔۔

ان کے چہرے سے واقعی یہ ظاہر ہوتا تھا کیونکہ ان کے چہرے پر ایک شرارت آمیز تبسم تھا۔ انہوں نے پان اور آگے بڑھایا اور میں نے اس کا جواب یہ بہتر سمجھا کہ تسلیم کر کے ان سے لے کر کھڑکی میں سے باہر پھینک دیا۔ مجھے یقین ہوا کہ میں کامیاب رہا مگر وہ حضرت بجائے خفا ہونے کے اب شاید مجھے تختہ مشق بنانے پر تلے ہوئے تھے، دوسرا پان پیش کر کے بولے : "اگر اب اس کو بھی آپ نے پھینک دیا تو عمر بھر پچھتانا پڑے گا۔”

میں بدتمیز و بد گو یا زبان دراز نہیں، مگر منہ سے کچھ سخت جملہ نکلتے نکلتے رہ گیا۔ لیکن پھر بھی بجائے ان کے برا کہنے کے پان کی مذمت کرنے لگا اور بوجہ پان کے گندہ ہونے کے اس کے چھونے سے مجبوری ظاہر کی۔

"معاف کیجیے گا” انہوں نے پان کھا کر کہا۔ "آپ میں تہذیب نہیں ہے۔” یہ الفاظ انہوں نے رویہ بدل کر کچھ سنجیدگی سے کہے۔

میں نے کہا : "جی ہاں، آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن مجھ کو اس پر فخر ہے کہ پان کھانے والوں کی بد تہذیبی کا جواب بد تہذیبی سے دوں۔

ماشاء اللہ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنا سوٹ کیس کھولنے لگے۔ میں اپنے ساتھی سے جو غازی آباد سے میرے ساتھ بیٹھے بیٹھے باتیں کرنے لگا کہ اتنے میں انہوں نے میرا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کر کے ایک کاپی میرے سامنے کر کے کہا : "آپ اس خط کو پہچانتے ہیں؟”

میں کچھ سٹ پٹا سا گیا اور کچھ عقل نے کام نہ کیا۔ میں نے ان حضرت کے چہرے کی طرف دیکھا جو میرے سٹ پٹا جانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ میں علاوہ گھبرانے کے سخت خفیف سا ہو رہا تھا۔۔۔ یہ واقعہ تھا کہ میرے سامنے محمڈن لا (قانون محمدی) کے امتحان کی کاپی تھی۔ اس پر سرخ رنگ سے اس طرح نمبر دیے ہوئے تھے ۶۵ جمع ۱۰ گویا میں نے سو نمبروں میں سے پچھتر نمبر پائے تھے۔ نمبروں کو دیکھ کر خوشی سی ہوئی تھی کہ وہ بولے : "آپ نے پرچہ بہت اچھا کیا تھا اور آپ نے ۶۵ نمبر حاصل کیے تھے لیکن چونکہ آپ نے قانون کے حوالے کے علاوہ تمام ان احادیث کا بھی حوالہ دیا تھا جن پر قانون کی دفعات اور سوالات اور جوابات کا دار و مدار تھا لہذا میں نے آپ کو دس نمبر اور دئے تھے لیکن اب مجھ کو معلوم ہوا کہ آپ اسلامی قانون تو بڑی چیز ہے، اسلامی تہذیب سے بھی نا واقف ہیں لہذا میری دانست میں تو آپ کو کل دس نمبر سے زائد نہ ملنا چاہییں۔” یہ کہہ کر انہوں نے میرے اور میرے ساتھی کے سامنے سرخ پنسل جیب سے نکال کر ۶۵ نمبر کو سرخی سے کاٹ دیا اور اپنے وہاں دستخط بھی کر دئے۔ اب مجھ کو ان حروف کے معنی بھی معلوم ہو گئے تھے، جو میں نے ان کے ہینڈ بیگ پر لکھے تھے۔

یہ حضرت میرے ممتحن تھے۔۔۔ میری حالت جو تھی وہ تھی مگر میرے ساتھی جو خود طالب تھے سخت متعجب اور متاثر تھے۔ دراصل ہم دونوں ہی ہکا بکا تھے۔

میری کاپی وہ اطمینان سے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے بولے۔ "کم از کم تین سال تک تو آپ پاس ہونے کا خیال ہی ترک فرما دیں کیونکہ میں ممتحن ضرور ہوں گا اور آپ کو فیل کروں گا کیونکہ میرا خیال ہے کہ ایک بدتہذیب شخص اس سے کم عرصہ میں تہذیب نہیں سیکھ سکتا۔”

میں اس کا جواب سختی سے بھلا کیسے دیتا، میرے تو ہوش ہی بجا نہ تھے۔ وہ غیر متعلق ہو کر اپنا چہرہ اخبار سے چھپائے ہوئے دوسری بنچ پر جا بیٹھے۔ تھوڑی دیر میں جب ذرا دل کی دھڑکن کم ہوئی تو میرے ساتھی نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرنا شروع کی۔ خوشامد کا تو خیال ہی نہیں تھا، کہنے لگے کہ "میں گواہ ہوں آپ ان پر دعویٰ کر دیجیے گا۔” انہوں نے شاید یہ سن لیا جو اخبار پھینک کر بولے : "شاید آپ دونوں صاحبان سے قانون میں زیادہ جانتا ہوں، جناب من اگر یہ ممکن ہوتا تو ہر ممتحن پر طالب علم ایک گواہ تلاش کر کے مقدمہ کر دیتے، خواہ واقعہ ہو یا نہ ہو۔ میں آپ دونوں صاحبان کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا فیصلہ اٹل ہے، آپ شوق سے دعویٰ کریں۔”

میں تو چپ تھا مگر میرے ساتھی نے ان سے بحث کرنا شروع کی مگر تھوڑی دیر میں مجبوراً مجھے ان کا منہ بند کرنا پڑا کیونکہ ممتحن صاحب غصہ ہوئے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد میرے ہمدرد ساتھی پھر ممتحن صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور نرمی کی تلقین کر رہے تھے۔ میں چپ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا کہ خدا کرے یہ راضی ہو جائیں، مگر توبہ کیجیے "میری جان مت کھائیے۔” یہ کہہ کر وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔

 

                (۳)

 

ہاتھرس کا اسٹیشن قریب آ رہا تھا اور میرے ساتھی اترنے والے تھے۔ ممتحن صاحب اپنی پان کی ڈبیا لینے اٹھے۔انہوں نے ڈبیا کھول کر ایک پان نکالا اور میرے سامنے پیش کیا۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ میں نے معصومیت سے رنجیدہ صورت بنائے ہوئے ان کی طرف دیکھا، میرا ہاتھ خودبخود بڑھ گیا۔۔۔ آپ یقین کریں کہ میں پان کھا رہا تھا۔

"چھالیا تو لیجیے !” ممتحن صاحب نے بٹوا سامنے کرتے ہوئے کہا کیونکہ میں بغیر چھالیا کے پان کھا رہا تھا اور وہ قریب الختم تھا، انکار کرتے ڈر لگا لہذا لے کر منہ میں ڈال لی۔ وہ اپنی جگہ پھر جا بیٹھے اور یہاں چھالیا ایسی معلوم ہو رہی تھی جیسے منہ کو کوئی چھیل رہا ہے، حالانکہ ممتحن صاحب میری طرف دیکھ نہیں رہے تھے مگر پھر بھی میں نے تھوکنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں دیکھ نہ لیں۔ چونکہ قطعی عادت نہ تھی، مجھے چھالیا مصیبت معلوم ہونے لگی۔ لیکن میں نے چبا چبا کر اس کو سرمہ کر ڈالا۔ پان کھانے کے قواعد کی رُو سے اس منزل پر پہنچ کر پان کھانے والا تھوک سکتا ہے مگر مجھ کو شاید معلوم نہ تھا۔ گو دیکھا تو تھا کہ لوگ اگال کر تھوک دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں چھالیا کا پھول رہ گیا۔ چونکہ ضرورت سے زیادہ کھا لی تھی لہذا اتنی مقدار نگل بھی نہ سکتا تھا۔ بڑی دیر تک منہ میں پھراتا رہا پھر تھوکنے کے لیے بیت الخلا کو بہتر سمجھا تا کہ ممتحن صاحب نہ دیکھ سکیں۔ وہاں جو چھالیا تھوک کر نکلا تو ممتحن صاحب کچھ تحکمانہ لہجہ میں بولے : "کیا آپ نے پان تھوک دیا؟”

میں سن سا ہو گیا، اور جھوٹ بولا: "جی نہیں !” مگر نہایت ہی مردہ آواز سے کہا۔

اس دوران میرے ساتھی، گو ایم – ایس – سی کے طالب علم تھے، مگر میرے چہرے کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہے تھے۔ میرا چہرہ واقعی ہو گا بھی اس لائق کیونکہ خفت، حماقت، رنج، تکلیف وغیرہ وغیرہ علاوہ گھبراہٹ اور پریشانی کے ضرور میرے چہرہ سے عیاں ہو رہی ہو گی۔ ہاتھرس کا اسٹیشن آیا اور وہ اتر گئے۔

 

                (۴)

 

میرے ساتھی کے چلے جانے کے بعد اب میں نہ معلوم کن کن خیالات میں غرق تھا۔۔۔ خوشامد کرو۔۔۔ کبھی کی نہیں۔۔۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آتی ہی نہیں۔۔۔ مگر ہاتھ جوڑنے سے کام بن جائے گا۔ اگر نہ مانیں تو قدموں پر سر رکھ دینا چاہیے، پھر خیال آیا، لا حول ولا قوۃ۔ آئندہ سال دیکھا جائے گا ورنہ پھر نوکری کر لیں گے۔ ایسی خوشامد سے تو موت بہتر ہے۔

ٹونڈلہ کا اسٹیشن آیا، میں آگرہ جا رہا تھا کیونکہ سخت ضروری کام تھا، میں چونک سا پڑا۔۔۔ اب کیا کروں؟ یہ سوال تھا۔ واللہ اعلم ممتحن صاحب کہاں جا رہے ہیں۔ خیر کم از کم کانپور کا تو ٹکٹ لے لینا چاہیے، چنانچہ یہی کیا۔ ٹکٹ لے کر واپس آیا تو ممتحن صاحب بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ شاید ان کے ملاقاتی ہیں، میں نے دل میں کہا۔ میں بیٹھ گیا۔ ممتحن صاحب نے پان کی ڈبیا نکالی۔۔۔ میں گھرایا مگر مجبوری۔۔۔ انہوں نے پیش کیا اور مجھے خوش ہو کر کھانا پڑا۔

"کیوں جناب، پان بھی خوب چیز ہے۔” ممتحن صاحب نے اپنے دوست سے کہا۔

انہوں نے جواب دیا : "جی ہاں، مجھے تو بغیر پان کے سفر دو بھر ہو جاتا ہے۔”

"یہی میرا حال ہے۔” ممتحن صاحب بولے، اور پھر میری طرف مخاطب ہو کر پوچھا : "کیوں جناب آپ کی کیا رائے ہے ؟”

میری حالت کا اندازہ لگانا آسان ہے ممتحن صاحب کے چہرے سے فتح کی مسرت عیاں تھی، میں بت کی طرح شکست خوردہ تھا، گلا صاف کر کے کہا : "جی ہاں!”

"اوہو آپ تو بڑی تیزی سے پان کھاتے ہیں، ختم ہو گیا، اور لیجیے۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔

حالانکہ ختم نہ ہوا تھا مگر کیسے کہتا کہ ختم نہیں ہوا اور دوسرا نہیں لوں گا سو لیا اور کھایا۔ میں خاموش تھا اور ایک گونہ خوشی تھی کہ بیرسٹر صاحب اپنے دوست سے باتیں کرنے میں مشغول ہیں۔ تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے، میں سنتا رہا، مجھے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اب مجھے کہاں جانا ہے۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب نے شاید میری مصیبت کا اندازہ لگا لیا اور شش و پنچ میں پا کر کہا "اب تھوک دیجیے آپ تو چھالیا کھا رہے ہیں۔” میں نے تھوک کر خلاصی پائی۔ شکر ہے کہ انہوں نے پھر پان نہیں دیا۔

 

                (۵)

 

کانپور کے اسٹیشن پر میں نے بیرسٹر صاحب کی خدمت میں التجا کی۔ وہ کیا التجا تھی، میں خود نہیں کہہ سکتا کیونکہ نہ میں نے کچھ کہا اور نہ وہ سن سکے۔ مجبورا انہوں نے کہا : "فرمائیے۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔” بقول کے یہاں صورت سوال تھی بڑی مشکل سے میں نے کہا : "میری زندگی تباہ ہو جائے گی۔۔۔ میں کہیں کا نہ رہوں گا۔۔۔ ” وغیرہ وغیرہ۔۔۔

ان باتوں کا مختصر جواب یہ تھا "معاف کیجیے میں ایک مرتبہ کوئی کام کر چکتا ہوں تو مشکل سے رائے تبدیل کر سکتا ہوں۔” یہ کہہ کر انہوں نے لکھنو والی گاڑی کا رُخ کیا۔ میں نے بھی دل میں کہا کہ نہ چھوڑوں گا۔

میں نے بیرسٹر صاحب کو نہ چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔ خدا کی پناہ، ضلع جونپور کے ایک غیر معروف گاؤں میں آنا تھا۔ راستہ میں نہ میں نے ایک لفظ بیرسٹر صاحب سے کہا اور نہ انہوں نے۔ میں بے تعلق دور بیٹھا تھا، نہ انہوں نے پان دیا او نہ بات کی۔ اتنا ضرور تھا کہ وہ مجھے کبھی کبھی غور سے ضرور دیکھ لیتے تھے۔ ضلع جونپور کے ایک غیر معروف اسٹیشن پر شاید بیرسٹر صاحب اور میں یہ دو ہی اترنے والے تھے۔ بیرسٹر صاحب نے شاید مجھ کو عمداً دیکھا تک نہیں۔ ایک چھوٹی سی بیلوں کی گاڑی پر ان کا مختصر اسباب رکھ دیا گیا اور میں نے دیکھا کہ گرد و غبار میں بیل تیزی سے جا رہے ہیں۔ دن کے دس بجے ہوں گے۔ ناشتہ نہ میں نے کیا تھا اور نہ بھوک ہی تھی۔ گاڑی کو دیر تک کھڑا دیکھتا رہا کہ ایک دم سے چونک پڑا۔ میں نے یہ بھی معلوم نہ کیا تھا کہ وہ کون سا گاؤں ہے جہاں بیرسٹر صاحب گئے ہیں۔ مگر ایک دہقانی نے از راہ عنایت مجھے یہ پتہ دے دیا کہ فلاں فلاں گاؤں کے زمیندار صاحب کی گاڑی تھی۔۔ میں نے مزدور تلاش کیا اور اس کے سر پر اسباب لدوا کر چل دیا۔

شام کے چار بجے میں اس گاؤں میں پہنچا۔ زمیندار کا پتہ لگنا کیا مشکل تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے عالیشان قلعہ کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ مزدور کے ساتھ اسباب باہر چھوڑا اور اندر داخل ہو گیا۔ سامنے چبوترے پر بیرسٹر صاحب پنکھے کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ دو آدمی اور بھی کرسیوں پر لیٹے تھے۔ کچھ باتیں ہو رہی تھیں کچھ ٹھٹکا مگر آگے بڑھا، اور جیسے نو وارد پہنچا۔ بیرسٹر صاحب نے سلام کا جواب دیا، اٹھ کھڑے ہوئے، خندہ پیشانی سے ملے۔ دریافت کیا کہ اسباب کہاں ہے، نوکر سے اسباب منگایا۔ ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ جا کر غسل کر لیجیے اور کپڑے اتاریے۔ میں بھی بے تکلفی سے سیدھا چلا گیا۔ نہا دھو کر نکلا تو کمرے ہی میں دودھ کا دیہاتی مقدار میں شربت موجود تھا۔ بیرسٹر صاحب نے صورت سے معلوم کر لیا ہو گا کہ بھوکا ہے۔ کمرے سے نکل کر باہر آ بیٹھا۔ حتیٰ کہ دونوں آدمی اٹھ کر چلے گئے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ جائیں مجھ کو بیرسٹر صاحب چار پان کھلا چکے تھے۔ وہ شاید غور سے دیکھتے رہتے تھے اور پان ختم ہوتے ہی مجھے دوسرا پان دے دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد آپ سے کیا کہوں کہ پان کھاتے کھاتے میرا کیا حال ہو گیا۔ دو تین پانوں تک تو اس کا احساس بھی رہا کہ چونا منہ میں لگ رہا ہے، مگر شام تک تو منہ کی حالت ہی اور ہو گئی۔

یہ بیرسٹر صاحب کی سسرال تھی اور شام کو ان کے خسر صاحب نکلے۔ میرا تعارف کرایا گیا کہ میں ایک کرم فرما ہوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہوں۔ رات کے آٹھ بجے تک داماد اور خسر اور کرم فرما بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ مگر جو حال کرم فرما کا پان کھاتے کھاتے ہو گیا اس کو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کھانا کھایا گیا تو میرا منہ نہ چلتا تھا کیونکہ پانوں نے سارا منہ اندر سے زخمی کر دیا تھا اور اس پر چھالیا گویا نمک پاشی کرتی تھی۔

"پان بھی خوب چیز ہے۔” بیرسٹر نے کھانا کھانے کے بعد مجھے پان پیش کرتے ہوئے کہا۔

"جواب نہیں رکھتا۔” مجھے کہنا پڑا۔

"کھانے کو ہضم کرتا ہے اور منہ کی گندگی کو دور کرتا ہے اور مفرح ہے۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔

"مفرح بھی ہے۔” میں نے ازراہ تعجب دریافت کیا۔

"بہت عمدہ چیز ہے۔” خسر صاحب بولے۔ "لیکن اعتدال کے ساتھ۔”

صبح کو مجھے موقع ملا کہ خسر صاحب سے اپنی مصیبت کا حال بیان کروں۔ صرف میں اور وہ

ہی تھے اور بہترین موقع تھا کیونکہ انہوں نے خودبخود بہ سلسلہ گفتگو میری آئندہ زندگی کے بارے میں سوالات کیے تھے۔

انہوں نے میری داستان تعجب سے سنی لیکن ہنسے بھی اور مجھ سے وعدہ سفارش بھی کیا۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب بھی آ گئے۔ میں نہیں بیان کرنا چاہتا کہ کیا گفتگو ہوئی اور کیا ہوا۔ قصہ مختصر، یہ طے ہوا کہ میں چار دن اور ٹھہروں اور رات دن پان کھاؤں۔

ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر

ان چار دنوں میں کیا بتاؤں کہ کتنے پان کھانے پڑے۔ منہ کا برا حال تھا مگر پان پر پان کھاتا تھا اور اف تک نہ کرتا تھا۔ چلتے وقت بیرسٹر صاحب نے کہا کہ : "میرا پان اب آپ کبھی نہ بھولیں گے۔” اور بے شک حالانکہ سال بھر سے زائد گزر گیا ہے مگر ہنوز یاد تازہ ہے جو شاید کبھی نہ بھولے۔

نتیجہ : اب خوب پان کھاتا ہوں !

٭٭٭

بلا عنوان

 

(اس افسانے کا عنوان دستیاب نہیں ہو اکا، قارئین کو علم ہو تو مطلع کریں)

 

                (۱)

 

 

امتحان میں ہم تیسری مرتبہ شریک ہوئے تھے۔ آپ خود اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ہونے کا کہاں تک یقین تھا کہ امتحان کی تیاری کے سلسلے میں پیٹتے پیٹتے منشی جی نے ہمارا نقشہ بگاڑ دیا تھا اور ہم سے پختہ وعدہ کیا تھا کہ اگر کہیں تو فیل ہو گیا تو میں تجھے قتل کر دوں گا۔ ڈر لے مارے ہمارا یہ حال تھا کہ ہم خود کہتے تھے کہ اگر زندگی ہے تو پاس ہی ہوں گے۔ قصہ مختصر منشی جی کو اور ہمارے والد صاحب کو ہمارے پاس ہونے کی بہت کچھ امید تھی۔

امتحان کے نتیجہ کا دن آیا تو ہمارے دل میں ایک عجیب امنگ اور گدگدی تھی، ہم محو خیال تھے اور خود اپنے کو دولہا بنا ہوا دیکھتے اور کبھی یہ سوچتے کہ جب ہمارے والد صاحب کے ملنے والے ہمیں مبارک باد دے کر ہماری قابلیت کی تعریف کریں گت تو مارے شرم کے ہم کیا جواب دیں گے۔ غرض خیال ہم کو کہیں سے کہیں لیے جا رہا تھا۔

خدا خدا کر کے گزٹ ہاتھ میں آیا اور ہم نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کو کھولا۔ ہمارے اسکول کا نام ہماری نظر کے سامنے تھا اور ہم تیزی سے اپنا نام کامیاب طلبا کی فہرست میں تلاش کر رہے تھے۔ ہمارے والد صاحب قبلہ ہمارے کاندھے پر کھڑے تھے اور چونکہ ان کو ہماری کامیابی کی پوری توقع تھی، لہذا ان کی باچھیں ابھی سے کھلی ہوئی تھیں۔

ہم نے دل میں کہا: "ہائے ” ہمارا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ جلدی سے آنکھوں کو ملا اور خوب غور سے اپنے نام کو دیکھا مگر وہ وہاں بھلا کہاں، بدن میں رعشہ سا آ گیا۔ ہاتھ کانپنے لگے اور گزٹ ہاتھ سے چھوٹ پڑا۔ ہمارے والد صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا : "ارے، کیا تو پھر فیل ہو گیا؟” ہم بھلا اس کا کیا جواب دیتے، چپ رہے، مگر ہمارے والد صاحب قبلہ پھٹ پڑے۔ مارے غصے کے ان کا برا حال ہو گیا اور انہوں نے جوتا لے کر ہماری مرمت کرنا شروع کی تو ہمیں بچھا بچھا کر اور لٹا لٹا دیا اور اس کے بعد ہمیں بیلوں کے چارہ کی کوٹھری میں بند کر دیا۔ ہم کوٹھری میں بے آبو دانہ پڑے رہے اور دن بھر آنے جانے والے ہمارے اوپر تبرا بھیجا گئے۔ رات گئے والدہ صاحبہ نے ہمیں اس قید خانہ سے رہا کیا۔ جب جا کر کہیں کھانا ملا۔

آٹھ دس سن تک ہمارے اوپر چاروں طرف سے لعنت و پھٹکار برسا کی۔ حالانکہ ہم کو ایسی فضول باتوں کی زیادہ پرواہ نہ تھی، مگر منشی رام سائے جا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ وہ کیا کہیں گے۔ منشی جی سے ہمارے والد اور چچا بھی ڈرتے تھے کیونکہ یہ ان کے بھی استاد رہ چکے تھی، اور بہت مارا تھا۔

ہم دل میں سوچ رہے تھے کہ منشی جی کی بلا ٹل گئی اور وہ اب نہیں آئیں گے کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ صبح آٹھ بجے ہوں گے اور ہم باہر بیٹھے منھ دھو رہے تھے، کہ ایک دن سے ایک یکہ آ کر رکا۔ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا اور ملک الموت کو دیکھ کر گویا ہمارے دیوتا کوچ کر گئے۔ منشی رام سہائے نجائے اس کے کہ اپنا لوٹا یکہ پر سے اترواتے یا ہمارے والد کے سلام کا جواب سیتے بس چیل کی طرح ہمارے اوپر جھپٹے۔ "منشی جی” روتے ہوئے ہمارے منھ سے نکلا اور ہم ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے، مگر وہاں بھلا رحم کہاں۔ منشی جی نے ایک لکڑی سے ہماری مرمت شروع کی۔ "پھر فیل ہو گا، پھر فیل ہو گا۔ ” کی صدا پر ہم کو دھنکے جا رہے تھے اور پم تڑپے تڑپے پھرتے تھے، مگر منشی جی مارنا بند نہ کرتے تھے۔ جب ہمارا پٹتے پٹتے برا حال ہو گیا تو منشی جی نے ہاتھ روکا اور لکڑی لیے سیدھے ہمارے والد صاحب کی طرف ان کو "الو اور گدھا” کہے ئ ہوئے اس طرف بڑھے کہ ہمیں اس مصیبت کے وقت میں بھی ایک خوشی اور امید کی جھلک نظر آنے لگی۔ مگر ان کے ساتھ انہوں نے رعایت کی اور ان کو مارا نہیں، مگر کہنے کے معاملے میں کوئی بات نہ اٹھا رکھی۔ قصہ مختصر ہمارے والد صاحب کو انہوں نے پیٹتے پیٹتے چھوڑا۔ دراصل وہ بال بال بچے کیونکہ منشی جی ہمارے فیل ہونے کا سارا الزام انہیں کے سر تھوپ رہے تھے۔ والد صاحب کے بعد والدہ صاحبہ کا نمبر آیا، اور ان کو بھی منشی جی نے خوب برا بھلا کہا۔

دو تین روز منشی جی ہماری چھاتی پر کودوں دلا کئے، اور اس دوران قیان میں کبھی چانٹا اور کبھی تھپڑ اور کبھی جوتا ہمارے اوپر پڑتا رہا۔ جب منشی جی کی واپسی کے لیے یکہ آیا تب جا کر ہماری جان میں جان آئی۔ چلتے وقت ہم نے اپنے ظالم استاد کے قدم چومے اور وہ روانہ ہوئے۔ یہ حضرت دراصل عجیب آدمی تھے۔ نتیجہ شائع ہونے کے بعد تمام طالب علموں کے ہاں دورہ کر کے فیل ہونے والوں کا یہی حال کیا کرتے تھے۔ غرض صرف ہمیں مارنے لے لیے آئے تھے۔

 

                (۲)

 

ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا کہ آخر ہم کیا ترکیب کریں جو پاس ہوں۔ اب چوتھی مرتبہ امتحان کی تیاری کرنا تھی۔ وہی مضامین اور وہی کتابیں، رہ رہ کر سوچتے تھے کہ الہٰی ہم کیا تدبیر کریں جو پاس ہوں۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ ہم اس خلجان میں پڑے ہوئے اپنی قسمت پر رو رہے تھے کہ ہمارے گھر کی اور پروس کی تمام عورتیں کسی دوسری جگہ ایک موت میں گئیں۔ ہم چھت پر چڑھ گئے اور اپنی دیوار پر چڑھ کر دوسرے مکان کی چھت پر آہستی سے کودے۔ چپکے چپکے رینگتے ہوئے سامنے دیوار کے پاس پہنچے۔ اسے پار کر لے اپنی سسرال کی چھت پر پہنچے۔ جھکے جھکے چھجے کے پاس پہنچ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ ایک لڑکی برآمدے میں بیٹھی کچھ سی رہی تھی، ہم محو دیدار تھے۔ کیونکہ یہی ہماری منگیتر یا منسوبی بیوی تھی۔ ہم نے آہستہ سے سیٹی بجا کر اس کو اپنی طرف مخاطب کیا۔ اس نے ہم کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا اور دوڑ کر دروازے کی کنڈی لگا دیا۔ ہم جھٹ سے نیچے اتر آئے اور بے اختیاری کے عالم میں اس کے ہاتھوں میں اپنا منھ چھپا کر رونے لگے۔ سب سے پہلے تو اس نے ہمارے پٹنے پر اظہار غم کیا اور پھر ہمدردی کی اور پھر اس کے بعد ہماری ہمت بڑھائی اور اطمینان دلایا کہ اب کی بار ضرور پاس ہو جاؤ گے۔ ہم نے کہا کہ اب ہمارے بس کی بات نہیں کہ جو ہم اس مہم کو سر کر سکیں، یا اس بار گراں کا ذمہ لے سکیں۔ بڑی بڑی تدبیریں سوچیں؛ مگر امتحان سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی، مگر کسی نے کہا ہے

دو دل یک شود بشکنہ کوہ را

دو دماغ لڑیں اور کوئی تدبیر نہ نکلے یہ ناممکن ہے، سوچتے سوچتے ہماری منسوبہ کو خیال آیا اور اس نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ یہ واقعہ تھا کہ شہر کے بڑے شاہ صاحب نے اس کی ماں کو ایک ایسا وظیفہ بتایا تھا کہ وہ ہارا ہوا مقدمہ جیت گئی تھیں۔ ہم نے شاہ صاحب کا پورا نام و پتہ معلوم کیا، اور دل میں ٹھان لی کہ ضرور ان شاہ صاحب سے رجوع کریں گے۔ اس کا اور ہمارا دونوں کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کے محض ایک وظیفے میں یہ امتحان کی مشکل حل ہو جائے گی۔ تھوڑی دیر بعد ہم خوش خوش رخصت ہوئے۔ کامیابی کی امید دل میں ایک امنگ پیدا کر رہی تھی۔

 

                (۳)

 

شاہ صاحب نے سب سے پہلے تو ہمیں مرید کیا اور اس بکھیڑے میں ہمارے پانچ روپے خرچ ہوئے، جو ہمیں چلتے وقت ہماری منگیتر نے دیے تھے، کیونکہ وہ رئیس کی بیٹھی تھی اور ہمارے پاس کوڑی نہ تھی۔ جب ہم نے شاہ صاحب سے اپنی مشکل بیان کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا: "ابھی کیا جلدی ہے، جب امتحان قریب آئے تو ہمارے پاس آنا۔ ”

سال بھر ہمارا بری طرح گزرا۔ منشی جی بات بات پہ ہمیں مارتے تھے، اور ہڈی پسلی ایک کیے دیتے تھے۔ چونکہ شاہ صاحب کے پاس ہم جب کبھی جاتے اپنی کامیابی کا اور بھی پختہ یقین ہو جاتا۔ لہذا قدرتاً پڑھنے کی طرف کم توجہ ہوتی اور نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ اور بھی پٹتے۔ اس سال ہم ضرورت سے زیادہ پٹ رہے تھے۔ حتیٰ کہ تنگ آ کر ہمیں شاہ صاحب سے پٹنے سے بچنے کا تعویذ لینا پڑا۔ اس تعویذ نے ہمیں اور بھی پڑھنے سے باز رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے پٹنے لگے کہ ہم سمجھے کہ تعویذ شاہ صاحب نئ کہیں غلطی سے الٹا تو نہیں دے دیا۔ چنانچہ ہم نے تعویذ کھول کر الگ رکھا اور ذرا پڑھنے کی طرف توجہ کی۔ تب جا کر کہیں مار پڑنا کم ہوئی۔ دراصل ہم پٹتے وقت دل میں کہا کرتے کہ خیر مار لو، اب آئندہ سال تو ہم پاس ہو ہی جائیں گے۔

جب ہمارے امتحان کے دو مہینے رہ گئے، تو ہم شاہ صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ تم چالیس روز کا جلالی چلا کھینچو، پوری تفصیل چلے ہمیں تلقین کی گئی، یہ چلہ ایک تنہا مکان میں کھینچا جانا تھا اور اس لیے ہمیں بیس روپے کی ضرورت ہوئی، جو ہم نے اپنی منسوبہ سے لیے۔

ہم گھر سے ایک دم ایسے غائب ہوئے کہ گاؤں بھر میں سوائے ہماری منسوبہ کے کسی کو پتا نہ چلا کہ آخر ہم کیا ہوئے۔ ہم نے شہر میں جا کر سر گھٹایا۔ ایک مکان چھوٹا سا سنسان سی گلی میں کرایہ پر لیا اور چالیس دن کی خوراک کے لیے جو پسوا کر ساتھ لیے۔ ایندھن بھی کافی رکھ لیا۔ چالیس دن تک ہم سوائے جو کی روٹی کے کچھ نہ کھا سکتے تھے۔ ایک بہشتی کو ہم نے لگا لیا اور ہم نے اس سے طے کر لیا کہ وہ تیسرے دن پانی بھر جایا کرے، اور جمعے کے جمعے نائی بلا لیا کرے، کیونکہ سر گھٹانا اس میں سخت ضروری تھا۔ ہم چلہ شروع کرنے سے قبل شاہ صاحب سے ایک مرتبہ اور ملے اور انہوں نے ہمیں سب ترکیبیں دوبارہ تلقین کرنے کے بعد کچھ جنات کا بھی حال سنایا۔

 

                (۴)

 

ہم بسم اللہ کر کے مکان میں داخل ہوئے اور ہم اپنے ہم راز بہشتی کو تالا اور کنجی دی کہ مکان میں باہر سے تالا ڈال دے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو اور لوگ بھی سمجھیں کہ ما مکان خالی ہے۔ اندر پہنچ کر ہم نے زمین صاف اور اس کو لیپا پوتا، پھر صاف چونے سے تین حصار بنائے یعنی کنڈلیاں یا حلقے جن کو اصطلاح میں حصار کہتے ہیں۔ ایک سب سے بڑا اور اس کے اندر ایک اس سے چھوٹا اور اس کے اندر ایک سب سے چھوٹا اس طرح بنایا جو سب سے چھوٹا تھا اس کے اندر ہم نہا دھو وضو کر کے سر جھکا کر بیٹھ گئے اور "یا بدھو” کا جلالی وظیفہ شروع کیا۔

ہمارا وظیفہ بڑے مزے سے جاری تھا۔ تین دن کی روٹی ہم ایک روز پکا لیتے۔ دن اور رات ہماری وظیفے میں گزرتا۔ جب نیند آتی تو حصار کے اندر ہی سو جاتے، ہر وقت با وضو رہتے۔ سوائے اوقات مقررہ اور ضروریات کے حصار سے باہر نہ نکلتے تھے۔ بہشتی آتا اور چپ چاپ پانی بھر کر چلا جاتا اور نائی بھی اسی طرح سر مونڈ کر چلا جاتا۔ بات چیت کی سخت ممانعت تھی اور ہم اشاروں ہی سے کام لیتے تھے۔ دنوں کے شمار کے لیے روزانہ اٹھ کر دیوار پر کوئلہ کا ایک نشان بنا دیتے تھے ÷

جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے، ہمارا قلب روشن اور منور ہوتا جاتا تھا۔ دو تین دن شروع شروع میں رات کو تو ہمیں کچھ ڈر بھی لگا، کیونکہ چاروں طرف سناٹے کا عالم تھا۔ اور ہم تن تنہا کڑوے تیل کے چراغ کی دھیمی روشنی میں اپنا جلالی وظیفہ پڑھتے ہوتے تھے لیکن اب ڈر مطلق نہ لگتا تھا بلکہ رات کا سناٹا دل کو اور قوت روحانی پہنچاتا معلوم ہوتا تھا۔

ابھی تک ہم کو جنات وغیرہ سے سابقہ نہ پڑا تھا۔ لیکن ہم ان کے لیے بھی تیار تھے۔ ایک روز ایک چھپکلی اس گستاخی سے ہمارے پاس آئی کہ ہمیں شبہ سا ہوا۔ چونکہ شاہ صاحب نے ہم سے کہہ دیا تھا کہ جنات جانوروں کی شکل میں بھی ممکن ہے کہ آئیں لہذا ہم نے جونہی ایک عمل پڑھ کر اس کی طرف دم کیا تو اس چھپکلی کو بھاگتے ہی بن پڑا۔

 

                (۵)

 

ناظرین کو معلوم ہی ہے کہ ہم گھر سے اس طرح غائب ہوئے تھے کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہمارے غائب ہو جانے پر ہمارے والد صاحب اور چچا اور منشی جی نے بہت کچھ ڈھونڈا مگر نہ پایا۔ منشی جی کا خیال تھا کہ جب امتحان کے دو مہینے رہ جائیں گے تو ہمارے اوپر خاص محنت اور توجہ کی جائے گی۔ اب حضرات کی توجہ اور محنت سے خدا ہر طالب علم کو بچائے۔ کیونکہ ان کی توجہ کے معنی یہ تھے کہ لڑکے کو گھر پر رکھ کر دن رات مار مار کر ایسا پڑھاتے تھے کہ اس کو دنیا اندھیر معلوم ہونے لگتی تھی۔ اب کی مرتبہ یہ نوبت ہمارے ساتھ ہونے والی تھی۔ ہماری والدہ کا ہفتہ بھر کے بعد ہی برا حال ہو گیا اور انہیں یقین کامل ہو گیا کہ منشی جی کی سخت گیری سے تنگ آ کر ہم نے موت کو لبیک کہہ ڈالا، لہذا انہوں نے وہ واویلا مچائی کہ گھر سر پر اٹھا لیا۔ منشی جی کو ہماری اماں جان کی واویلا کی تو خاک بھی پرواہ نہ ہوئی ہو گی۔ ان کو تو محض یہ فکر تھی کہ ہم کسی طرح ہاتھ آ جائیں تو امتحان قریب ہے ذرا مرمت اور پڑھائی سخت کی جائے، مگر ہم ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ پولیس میں رپٹ لکھانے کا بھی کچھ نتیجہ نہ نکلا۔

ہم سے شاہ جی نے کہا تھا کہ ممکن ہے تم کو دوران چلہ کشی میں جنات ستائیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنات دن میں بھی آ سکتے ہیں اور رات کو بھی۔ کبھی جانوروں کی شکل میں آتے ہیں اور کبھی دوستوں یا عزیزوں کا بھیس بدل کر آتے ہیں اور طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ وظیفہ خراب کر دیں۔ کبھی تو وہ دھمکیاں دیتے ہیں، اور کبھی ڈراتے ہیں، مگر نقصان کسی طرح بھی اس وقت تک نہیں پہنچا سکتے جب تک حصار کھینچے ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جنات کئی طرح کے ہوتے ہیں جو زیادہ خبیث ہوتے ہیں اور بری بری ڈراؤنی شکلیں بناتے ہیں وہ تو تین حصاروں میں سے ایک کے اندر بھی نہیں آ سکتے۔ آنا تو درکنار اگر کہیں لکیر پر بھی پیر پڑ جائے تو جل کر راکھ ہو جائیں۔ دوسری قسم جنات کی وہ ہے جو پہلے اور دوسرے حصار کے اندر آ سکتے ہیں مگر تیسرے حصار میں نہیں آ سکتے۔ لیکن تیسیر قسم جنات کی وہ ہے کہ جو عزیزوں اور دوستوں کی شکل میں آتے ہیں اور گو سب نہیں، لیکن بعض، چونکہ ان میں سے خود عاقل اور چلہ کش ہوتے ہیں، لہذا تیسرے حصار میں بھی بسا اوقات قدم رکھ دیتے ہیں اور ایسی صورت میں شاہ صاحب نے ہمیں ایک علیحدہ عمل بتایا تھا کہ جب ایسا ہو تو جلدی سے تیسرے حصار کے اندر اپنے گرد ایک چوتھا حصار انگلی سے کھینچ کر عمل پڑھ کر جنات کی طرف پھونک دینا اور وہ دفع ہو جائیں گے۔

 

                (۶)

 

ہمارا وظیفہ اب قریب الختم تھا اور مہینہ بھر سے زائد ہو چکا تھا۔ سوائے اس جن کے جو ہمارے پاس چھپکی کی شکل میں آیا تھا اور کوئی جن یا بھوت نہیں آیا۔

جمعہ کا متبرک دن تھا، اور ہم نے اٹھ کر دیوار پر انتالیسیویں لکیر کھینچی۔ کل چالیسواں دن چلے کے ختم کا اور دعا کا تھا کہ چلے سے فارغ ہو کر جو دعا بھی ہم مانگیں گے وہ قبول ہو گئی۔ علاوہ پاس ہونے کے اب ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کیوں نہ کوئی دعا بھی اس میں شامل کر لیں مگر پھر یہ خیال آیا کہ شاہ صاحب نے کہا تھا کہ محض ایک دعا کے لیے چلہ کھینچا جاتا ہے اور گو کہ کئی دعائیں ایک ساتھ ملانے میں مضائقہ نہیں، مگر اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔ کیوں کہ دعا صرف ایک ہی قبول ہوتی ہے۔ بہت پس و پیش کے بعد ہم نے یہ طے کیا کہ ہم دو دعائیں مانگیں گے۔ ایک تو پاس ہونے کی اور دوسری اپنی منگیتر سے نکاح کی۔ خواہ کوئی بھی قبول ہو بات ایک ہی تھی۔

غرض ہم اس جمعہ کے دن سر گھٹوایا اور نہائے دھوئے اور خوش خوش اپنا وظیفہ شروع کر دیا۔ اب گویا سارے بند کی سوئیاں نکل گئیں تھیں اور صرف آنکھوں کی باقی رہ گئی تھیں۔

جلال کا وقت تھا یعنی دن چڑھ رہا تھا اور دراصل تمام جلالی وظیفوں میں اسی مخصوص وقت میں نزول جلال ہوتا ہے اور وظیفہ بھی زوروں پر ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ جلال کا وقت تھا۔ جب دوپہر کا وقت قریب پہنچا اور ہم اپنے وظیفے میں ایسے محو تھے کہ تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ اس سناٹے کے عالم میں ایک دم سے ہمارے کانوں میں آواز آئی۔ "کیں بے ! یہ کیا ڈھکوسلہ ہے ؟” ہم نے چھت کی طرف دیکھا اور کچھ نہ پایا تو ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ جن آ گئے، ہم نے دل میں کہا، پھر آواز آئی اور ہم کیا دیکھتے ہیں کہ منشی رام سہائے سامنے مکان کی دیوار پر کھڑے ہیں۔ ہم جان گئے کہ جن آ گئے اور ہم نے اپنی تسبیح کو ذرا تیزی سے گھمانا شروع کیا اور بجائے جواب دینے کے ہم دیوار کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ والد صاحب بھی دیوار پر آ موجود ہوئے۔ ہم برابر وظیفہ پڑھ رہے تھے، مگر دل میں ضرور ہنسے کہ جنات ہمیں الو بناتے ہیں۔ بھلا ہمارا کر ہی کیا سکتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ جنات تیسری قسم کے ہیں، جو عجب نہیں کہ ہمارے حصار میں گھس آئیں۔ منشی رام سہائے ضعیف آدمی تھے اور جب انہوں نے دو تین اور ڈانٹیں دیں اور ہم نے کچھ نہ سنا تو وہ دیوار پر چل کر پاخانے کے پاس پہنچے اور وہاں سے اترنے لگے۔ ہم نے دل میں کہا کہ منشی رام سہائے کا بھیس تو بیشک اس جن نے لاجواب بدلا ہے کہ آواز تک ہو بہو ملا دی ہے، مگر اس نے یہ نہ سوچا کہ بھلا ایک ضعیف آدمی کیونکر اس طرح دیواروں پر تیزی سے چل سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ دونوں جنات جو منشی رام سہائے اور ہمارے والد کا بھیس بدلے ہوئے تھے پاخانے سے اتر کر ہمارے قریب آ کھڑے ہوئے، مگر ہم اسی طرح برابر وظیفہ کرنے میں مشغول تھے۔ ہم بڑے غور سے منشی رام سہائے والے جن کو دیکھ رہے تھے۔ جو کوئی شرارت کا پہلو نکالنے کی تیاری کرتے ہوئے دوسرے جن کو دیکھ کر ہنس رہا تھا، مگر ہم دل میں کہہ رہے تھے کہ حضرت ہم بھی تیار ہیں۔

ہمارے دیکھتے دیکھتے منشی جی کی شکل والے جن نے ایک دم ہنسنا بند کیا اور زور سے ڈپٹ کر کہا: "نالائق” اور یہ کہہ کر "ابے پاجی” کہتے ہوئے حصار میں قدم رکھ دیا۔ وہ چشم زون میں دوسرے حصار کو پار کر کے تیسرے میں قدم رکھا ہی تھا؛ ہم جان گئے کہ یہ قطعی تیسری قسم کا چلہ کش جن ہے، اور چھوٹے حصار میں گھس آئے گا۔ ہم نے پھرتی سے انگلی سے خاص چوتھا حصار بنایا اور عمل شریف پڑھ کر اس گستاخ کی طرح جو منھ بڑھا کر پھونکا تو ہمارے بائیں گال پر اس زور سے سے کوئی ۸۰ نمبر کا چانٹا پڑا کہ ہمارا منھ پھر گیا۔ ہم کچھ سوچنے بھی نہ پائے تھے کہ ہمارا کان اس خطرناک جن کے ہاتھ میں تھا اور ہماری تازہ گھٹی ہوئی کھوپڑی پر منشی رام سہائے کا جوتا بج رہا تھا۔ تڑا تڑ۔ تڑا تڑ۔ دو تین جوتوں تک تو ہم یہی سمجھے کہ جن مار رہا ہے، یہ سلسلہ دیر تک بند نہیں ہوا، مگر جوتا اس زور سے پڑ رہا تھا کہ فوراً حقیقت آشکار ہو گئی۔ یعنی بڑی بری طرح اصلی رام سہائے ہماری تاج پوشی کر رہے تھے اور برابر یہ کہہ رہے تھے کہ تو نے مجھے بدنام کیا۔ امتحان کے زمانے میں بھاگ آیا۔ یہ سب تیرے نالائق باپ کی خطا ہے۔ "آج تجھ کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔ ۔ ۔ ۔ آخر یہ تو کیا کر رہا تھا۔ ۔ "وغیرہ وغیرہ۔ قصہ مختصر منشی رام سہائے نے تھوڑی دیر میں وہ حال کر دیا جو بیان سے باہر۔ ۔ ۔ جب انہوں نے خوب جی بھر کر پیٹ لیا اور ہمیں مارتے مارتے پیٹتے پیٹتے پڑا کو دیا جب جا کر کہیں چھوڑا۔ ہم کھڑے ہاتھ جوڑے رو رہے تھے اور اکا دکا چانٹا پڑ جاتا تھا اور سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

ہمیں بہشتی کا نام اور پتہ بتانا پڑا، جس کے پاس کنجی تھی۔ دروازے پر یکے والا موجود تھا۔ جو کواڑ کی دراڑ میں جشن تاجپوشی دیکھ رہا تھا۔ وہ بہشتی کے پاس سے کنجی لایا اور ہم یکہ پر بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے۔ جب مار کا درد کچھ کم ہوا تو ہم کو ذرا فرصت ملی کہ اپنی تیرہ بختی کے اوپر غور کریں۔ یہ تو منشی جی کو بتا ہی چکے تھے کہ وظیفہ امتحان میں پاس کرنے کے لیے تھا۔ اب ہم دل میں سوچ رہے تھے کہ ہم سے زیادہ بدقسمت بھلا کون ہو گا کہ جب صرف ایک روز رہ گیا تو منشی جی نے آ کر یہ ستم ڈھایا۔ چلہ ہمارا شکست ہو چکا تھا اور اب ہم کو ڈر تھا تو یہ کہیں ہمارا جلالی وظیفہ نامکمل رہ جانے کی وجہ سے ہمارے اوپر علاوہ اس مار کے جو پڑ چکی تھی اور کوئی مصیبت نہ لائے، کیونکہ ہم سے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ وظیفہ نامکمل رہ جاتا ہے تو اکثر لوٹ پڑتا ہے اور پھر طرح طرح کی مصیبت لاتا ہے۔

ہم گھر پہنچے تو ہماری والدہ صاحبہ نے ہمیں گلے سے لگایا اور خوب روئیں، انہوں نے سب قصہ سن کر کہا تو نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ تیرے لیے اس سے بڑھ کر وظیفہ کسی سیانے سے پڑھوا دیتی۔

مگر منشی جی کا یہ حال تھا کہ دانت پیس پیس کر ہمارے اوپر دوڑتے تھے اور مارتے تھے۔ اب امتحان کے صرف تین دن رہ گئے تھے اور ان تین دونوں میں منشی جی نے ہمارے اوپر وہ ظلم توڑے کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ ضرور بالضرور یہ جلالی وظیفہ لوٹا پڑا اور ہماری خیر نہیں۔ غرض جو کچھ بھی اس قلیل عرصہ میں ممکن تھا منشی جی نے کیا اور ہم سے امتحان دلوایا۔ نتیجہ شائع ہوا۔ اب تک ہم صرف ایک ہی مضمون ریاضی میں فیل ہوتے تھے، مگر اب کی بار ہم اضافی پرچے میں بھی فیل ہوئے۔

منشی رام سہائے کا یکہ آن پہنچا اور انہوں نے حسب دستور مارتے مارتے ہمیں بے جان کر دیا، پھر اس کے بعد خود بھی بیٹھ کر رونے لگے۔ ہمارے والد صاحب بے جب اپنے شفیق استاد کو روتے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون ہی اتر آیا۔ "آج تجھے مار ڈالوں گا۔ ” یہ کہہ کر وہ ہمارے اوپر پل پڑے اور مارتے مارتے بے ہوش کر دیا۔ ہمیں ہوش آیا تو ہماری دادی اور والدہ صاحبہ ہماری تیمار داری کر رہی تھی اور منشی جی اور والد صاحب کو برا بھلا کہہ رہی تھیں۔

دوسرے ہی روز سے ہمیں گھی شکر ملنے لگا اور ہم اور بھی ڈھونگ رچائے۔ جھوٹ موٹ کمزور بنے رہے۔ غرض کئی روز ہم گھر سے باہر نہیں نکلے۔ کیونکہ وہ فرشتہ اجل یعنی منشی جی موجود تھے۔

جب ہم ٹھیک ہو گئے تو باہر بلائے گئے اور منشی جی نے ہم سے کہا کہ”تو نے جو چلی کھینچا تھا وہ تو غلط نکلا۔ اب میرا بتایا ہوا چلہ کھینچ۔ "ہم سمجھے کہ واقعی کوئی چلہ ہو گا چنانچہ راضی ہو گئے۔ منشی جی نے کہا "میرا چلہ بڑا کٹھن ہے۔ عمدہ کھانا۔ عمدہ کپڑا#دل لگا کر پڑھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاس تو قطعی ہو جائے گا۔ ” منشی جی نے ہماری پیٹھ ٹھونکی اور کہا کہ "کل سے چلہ شروع ہے۔ ”

دوسرے روز منشی نے اپنا کٹھن چلہ شروع کر دیا۔ صبح سے شام تک انہوں نے ہمیں کوٹ کوٹ پڑھایا اور کھانے کو صرف ابلی ہوئی دال دلوائی۔ یہی ان کا چلہ تھا۔ معلوم ہوا کہ منشی جی اس وقت تک یہیں رہیں گے جب تک گرمیوں کی تعطیل ختم ہو کر اسکول نہ کھلے گا۔ غرض ہم ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ دن رات منشی جی ہمیں باہر رکھتے اور مار مار کر پڑھاتے اور پھر ظلم یہ کہ کھانے کو بہت برا دلواتے۔ ہم چھٹی کو ترس گئے، کیونکہ منشی جی ہمیں کسی وقت بھی نہ چھوڑتے تھے۔ رات کو بھی چار پائی سے چارپائی ملا کر سوتے اور لیٹے لیٹے زبانی سوالات سے تنگ کرتے اور جواب نہ ملنے پر فوراً چھڑی رسید کرتے، بار بار یہی کہتے کہ میری وظیفے کی شرط یہی ہے۔

جب اسکول کھلا ہمیں معلوم ہوا کہ اب نئی مصیبت آنے والی ہے، یعنی ہم بجائے گھر پر پڑھنے کے منشی جی کے گھر پر رکھے جائیں گئ۔ ہمارا دم ہی نکل گیا۔ قصہ مختصر ہم منشی جی کے گھر پہنچے جہاں بڑی شدت سے ہمارے اوپر دن رات مار پرتی اور پڑھائے جاتے۔

مصیبت پر مصیبت یہ تھی کہ سوائے دال کے کچھ کھانا نہ ملتا تھا کیونکہ چلہ کشی میں یہ منع تھا۔ اگر ہمارے گھر سے کوئی عمدہ چیز آتی تو والد صاحب الو گدھے بنائے جاتے اور وہ چیز کتے کو ڈال دی جاتی مگر ہمیں نہ دی جاتی۔ ، کیونکہ منشی جی کہتے تھے کہ "اگر کوئی چیز بھی تو نے کھا لی تو وظیفہ بگڑ جائے گا۔ ”

گھر پر ہم روزے نہ رکھتے تھے، مگر منشی جی نے مار مار کر ہمیں زبردستی سب روزے رکھائے۔ خدا خدا کر کے عید کے روز ہمیں گھر جانے کی اجازت ملی۔ ہماری شامت جو آئی تو ہماری اماں جان نے ہمیں عید کے بجائے ایک روز کے دو روز روک لیا۔ ہم جانتے تھے کہ ظالم سے سابقہ ہے اور ہم راضی نہ ہوتے تھے لیکن جب ہمارے والد صاحب نے کہا کہ ہم منشی جی کو خط لکھ دیں گے، تم ڈرو نہیں، تو ہم بھی مان گئے۔ ہمارا رکنا تو بس ستم ہی تو ہو گیا حالانکہ ہمارے واپس ہونے پر والد صاحب کا سفارشی خط بھی موجود تھا مگر توبہ کیجیئے۔ خط دکھانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ہم "خط۔ خط” کہتے ہی رہ گئے اور ادھیڑ کر ڈال دیئے گے۔ خوب مارے جانے کے بعد منشی جی نے خط پڑھا۔ اول تو ہمارے والد صاحب کو خوب برا بھلا کہا اور پھر میرے اوپر یہ کہہ کر پل پڑے کہ”سفارشیں لایا ہے۔ ” اور جتنا مارا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ مارا۔ دراصل ہم مار کھانے کے عادی تھے اور کبھی کے بھاگ کر اپنی جان دے چکے ہوتے اگر کہیں ہماری شادی کا سوال بیچ میں نہ ہوتا۔ دراصل ہماری محبوبہ کا خیال ہی تھا جو ہمیشہ کڑی منزلیں ثابت قدمی سے جھیل رہے تھ ورنہ ہم سچ کہتے ہیں کہ اگر کہیں مجنوں کا بھی منشی جی کے مدرسے میں نام لکھا دیا جاتا تو وہ بھی لیلی کو بھول جاتا۔

منشی جی نے ریاضی کی ایک ایک کتان ہمیں دس دس مرتبہ پوری کی پوری حل کرا دی تھی مگر پھر بھی چین نہ لیتے تھے۔ یہی حال اور مضامین کا بھی تھا کہ بیسوں نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ یاد کرا کر دہرا چکے تھے مگر اس ظالم کی سیری نہ ہوتی تھی اور برابر اسی مستقل مزاجی سے بار بار پڑھاتے تھے کہ کہسے آج ہی پڑھانا شروع کرایا ہے۔ قصہ مختصر ہم سال بھی کی سخت پڑھائی اور پٹائی سے دبلے ہو گئے۔

 

                (۷)

 

سال بھر کی مسلسل پڑھائی اور پٹائی کے بعد امتحان ہوا اور ہم نہ صرف اول نمبر پر آئے بلکہ سارے صوبہ میں اول رہے۔ ہمارے پاس ہونے کی خونی میں منشی جی آئے اور ایک سخت چانٹا مار کر کہا کہ اگر اب کی بار تو فیل ہو جاتا تو تجھے مار ڈالتا اور خود بھی مر جاتا۔ غرض خوب ہمارے پاس ہونے کی خوشیاں کی گئیں اور خوب مٹھائی تقسیم ہوئی اور منشی کی خدمت میں جوڑا اور روپے پیش کیے گئے۔

ہماری اس شاندار فتح کا تمام گاؤں میں ڈنکا بج گیا اور ہر شخص ہماری جواں مردی کا قائل ہو گیا اور خصوصاً ہمارے خسر صاحب۔ ۔ جلد تر ہماری شادی کی گئی اور منشی جی نے بھی شرکت کی۔ ہم نے دراصل شادی کے دن اطمینان کا سانس لیا۔ منشی جی ہمیں گلے سے لگا کر وعدہ پختہ کیا کہ اب تجھے کبھی نہیں ماروں گا۔

ہم نے بعد شادی اپنی بیوی سے سخت شکایت کی کہ تو نے اور تیرے شاہ صاحب نے ہمیں ایسی اصلاح دی کہ پورا سال ہمارا پٹتے گزرا۔

کچھ بھی ہو ہماری صلاح ہے کہ اگر کوئی صاحب جلالی چلہ کھینچیں تو خدا کے واسطے جنات اگر آئیں تو کم از کم عمل پڑھ کر پھونکتے وقت اپنا منھ ذرا فاصلے ہی پر رکھیں، ورنہ اس زور کا چانٹا پڑنے کا اندیشہ ہے کہ جس کا اثر قیامت تک رہے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

پٹی

 

پٹیاں ایک تو وہ ہوتی ہیں جو چارپائیوں میں لگائی جاتی ہیں اور ایک وہ جو سپاہیوں کے پیروں پر باندھی جاتی ہیں، پھر اور بہت قسم کی پٹیاں بھی ہیں، لیکن میرا مطلب یہاں اس پٹی سے ہے جو پھوڑا پھنسی یا اسی قسم کی مصیبتوں کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے یہاں باندھی جاتی ہیں۔

میری بیوی کے ملنے والیوں میں ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں۔ ۔ میں چھٹیوں میں سسرال جانے والا تھا اور مس اروما نے مجھ سے کہہ دیا کہ جس روز تم جاؤ مجھ سے ضرور مل جاؤ، چنانچہ میں صبح تڑکے ہی مس صاحبہ کے بنگلے پر جا پہنچا۔

قبل اس کے میں بتاؤں کہ بنگلہ پر کیا ہوا، ایک دو تین باتیں کچھ کتوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ چھوٹے چھوٹے کتے جو خوبصورت کہے جاتے ہیں اور بنگلوں میں رہنے والے لامحالہ پالتے ہیں، یہ نالائق کتے خواہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر ادھر آپ بنگلے میں داخل ہوئے اور ادھر یہ سیدھے آپ کے اوپر۔ ۔ ۔ ظاہر اطوار پر کاٹ کھانے کے لیے، مگر دراصل آپ کو دوڑا کر اور رپٹا کر چت کرنے کی نیت سے۔ چنانچہ آپ یقین مانیں کہ یہی ہوا۔ مس اروما کے تین چھوٹے چھوٹے کتے اس بری طرح میرے اوپر حملہ آور ہوئے کہ میرے ہوش جاتے رہے۔ گلاب کے ایک بھرے کانٹوں کے درخت پر میں نے ایسے پیر رکھ دیا جیسے کوئی ریشمی گدوں پر رکھتا ہے۔ وہاں سے پھنس کر بدحواسی کے ساتھ گملے پھاندا، ایک پھاندنا پڑے۔ وہ پھاند گیا، دو پھاند گیا، تیسرے میں پیر ایسا لگا کہ منھ کے بل گرا اور ساتھ ہی کتے سر پر! جناب! کیا بتاؤں کس طرح بے تحاشا پھر اٹھا کہ کتوں نے ایسی ٹانگ کی کہ ایک کتے پر پیر پڑ گیا اور اب کے سڑک پر گرا۔ وہاں سے گھبرا کر سیدھا اٹھ کر برآمدے میں آیا۔ کتے پیچھے تھے۔ چق اٹھانے کی کسے مہلت تھی، مع چق کے توپ گولے کی طرح زور سے کمرے میں داخل ہوا! ادھر سے مس صاحبہ بدحواس چیختی آ رہی تھیں۔ میں اس بری طرح مس صاحبہ سے جا ٹکرایا کہ وہ کرسی پو چیخ مار کر گریں۔ میں نے سہارا دے کر جلدی سے اٹھایا۔ کتے کھڑے اب دم ہلا رہے تھے۔ وہی موذی جو لمحہ بھر پہلے میری جان لینے کو تیار تھے۔

 

                (۲)

 

جب ذرا ہوش درست ہوئے تو ہم دونوں نے باتیں کرنا شروع کیں۔ مس صاحبہ نے اپنی سہیلی سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا کچھ اور فضول باتیں کیں، اتنے میں ان کی نگاہ میرے پاتھ پر پڑ گئی جو انگوٹھے کی جڑ کے پاس ست سڑک پر گرنے سے رگڑ کھا کر کچھ چھل گیا تھا۔

"اوہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ کیا!” یہ کہہ کر آپ نے اسی نام نہاد زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا: "اجی رہنے دیجیئے کوئی بات بھی ہو۔ ”

پریشان صورت بنا کر مس صاحبہ بولیں: "مرزا صاحب یہ معمولی بات نہیں، اس کو فوراً دریس کروانا چاہیے۔ ورنہ کہیں۔ ۔ ۔ ”

"ورنہ کہیں؟”میں نے سوال کیا۔ "ورنہ کیا؟”

بھویں چڑھا کر کچھ خوف زدہ صورت بنا کر مس اروما نے کہا: ہوئٹ اور "ٹیٹس۔ ”

"ٹیٹس” یہ میرے لیے بالکل نیا لفظ تھا۔ معاً خیال گزرا کہ یہ شیکسپئیر کی ٹٹانیا کے کہیں کے کہیں بھائی بند تو نہیں، چنانچہ میں نے تفصیل پوچھی۔ یہ ایک مرض ہے از قسم زہر باد۔ سڑکی کی معمولی رگڑ سے ممکن ہے کہ خراش میں ذرا سوزش ہو اور رات ہی رات میں ہاتھ سوج کر دنبل ہو جائے اور صبح ہوتے ہی زہر باد شروع ہو جائے اور پھر۔ ۔ ۔ ۔ !

میں کچھ سہم سا گیا۔ اس خوفناک مرض کے پریشان کن حالات سنتا جاتا تھا اور مس اروما کی نازک انگلیوں سے پٹی بندھواتا جاتا تھا۔ بنگلے سے جو نکلا ہوں تو حلیہ یہ تھا کہ گلے میں جھولا پڑا ہے اور اس میں جکڑ بند کیا ہوا ہاتھ۔ یہ کہ پہلے تانگے پہ آیا تھا ورنہ سائیکل پر ہوتا تو اور قیامت تھی۔

 

                (۳)

 

راستہ میں ایک جان پہچان کے ملے۔ سلام علیک کے ساتھ ہی انہوں نے تانگہ رکوایا۔

"ارے میاں! یہ کیا؛ خیر تو ہے ؟” انہوں نے کہا۔ میں نے اس جواب میں قصہ سنایا کہ جناب سڑک پر رگڑ لگ گئی اور اس ڈر سے کہ ٹیٹس نہ ہو جائے، یہ کاروائی عمل میں آئی۔

"لاحول ولاقوۃ” انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا اور ٹیٹس اور اس کے امکان پر لعنت بھیجی، اور کہا کہ "کھول کھال کے پٹی پھینک دو اور اس کی جگہ سیندور اور تیل رگڑ کر لگا لو۔ ”

اس کے بعد ایک صاحب اور ملے، انہوں نے بھی روکا۔ وہی بات چیت اور انہوں نے بھی ٹیٹس پر لعنت بھیجی۔ خوب ہنسے اور مذاق اڑایا۔ "قصہ مختصر راستے میں چار آدمی اور ملے۔ سب کے سب "ٹیٹنس” پر لعنت بھیجتے اور مجھ پر ہنستے۔ کسی نے کالی مرچیں بتائیں، کسی نے صندل بتایا۔ کسی نے کہا کہ کچھ نہ باندھ یونہی سوکھ جائے گا۔

گھر پہنچا تو والد صاحب قبلہ نے پٹی کی تفصیل پوچھی۔ والدہ صاحبہ نے پوچھی۔ بھائی بہنوں نے پوچھی۔ غرض سب کو حال بتانا پڑا۔ پھر نوکروں کی باری آئی۔ گھر کی بوڑھی ملازمہ نے ہمدردی سے سنے سنائے کی تفصیل پوچھی کہ بیٹا یہ "ٹن ٹس” کیا ہے جو تمہارے دشمنوں کو ہونے کا ڈر ہے۔ بڑی بی نے جب لڑکوں سے سنا تو ٹیٹنس کو شاید ترکاری وغیرہ کی قسم کی کوئی چیز سمجھی تھیں۔ جس طرح ہو سکا ان کو میں نے سمجھایا۔

اتنے میں باہر ایک ملنے والے آ گئے۔ ان سے کسی نے سنی سنائی اڑا دی تھی۔ وہ بہت پریشان اور ہمدردانہ لہجہ میں انہوں نے تمام تفصیل پوچھی جو بتانا پڑی، یہ چلے گئے اور خربوزے والا آیا۔ روز آتا تھا بھلا کیسے بے پوچھے رہ جاتا۔ میں نے کہہ کر ٹالنا چاہا کہ چوٹ لگ گئی ہے کہ ملازم کا لڑکا بول اٹھا "ٹیں ٹس” ہو گیا۔ ادھر میں نے لونڈے کی طرف گھور کر دیکھا ادھر خربوزے والا چکرا کر بولا: "میاں یہ ٹیں ٹس کیا؟ کیا کوئی پھڑیا کا نام ڈاکٹروں نے رکھا ہے۔ ” میں نے جل کر کہا "مت بیہودہ بکو۔ ”

اس سے فرصت پائی تھی کہ اندر گیا، تو والدہ صاحبہ کو دیکھا کہ وہ دو چار عورتوں کو ٹیٹنس پر لیکچر دے رہی ہیں۔ میں پہنچا تو مجھ سے بھی استدعا کی گئی کہ کچھ روشنی ڈالوں۔ اب میں تنگ تھا اور ٹیٹنس کے نام سے غصہ آتا تھا۔ جوں توں کر کے بلا ٹالی۔

 

                (۴)

 

شام کے چار بجے کی گاڑی سے روانہ ہونے والا تھا۔ سے دوران میں لوگوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ اب میں صرف یہ کہہ کر ٹالنا چاہتا تھا کہ چوٹ لگ گی ہے، مگر جناب پوچھنے والا بغیر ٹیٹنس کی بات چیت کے بھلا کا ہی کو مانتا۔ وہ فوراً کہتا کہ فلاں صاحب سے سنا۔ وہ بتاتے تھے کہ ٹیٹنس کا اندیشہ ہے۔ مجبوراً جس طرح بن پڑتا جان چھڑاتا۔

تانگہ آیا، اسباب لادا تو تانگے والے نے بھی پوچھا کہ "میاں ہاتھ میں پٹ کیسی ہے ؟” میں بھنا کر رہ گیا۔ اسٹیشب پر البتہ میرا ناک میں دم آ گیا۔ بہتوں کو یہ کہہ کر تالا کہ چوٹ لگ گئی ہے اور بہتوں کو کچھ نہ کچھ مجبوراً ٹیٹنس کا حال بتانا پڑا۔

گاڑی چھوٹنے سے پلے ہی ایک حضرت سے اسی بنا پر بدمزگی ہو گئی۔

"ارے میاں ہاتھ میں چوٹ کیسی ہے ؟” انہوں نے پوچھا۔

"معمولی چوٹ لگ گئی ہے۔ ”

"کیسے لگ گئی؟”

"کوئی بات بھی تو نہیں؟”

"کوئی بات نہیں؟”

"مگر عبد الحمید ملے تھے وہ کہتے تھے کہ خداںخواستہ ٹیٹنس و جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ ٹیٹنس کیا ہوتا ہے۔ ”

اب مجھے ایسا غصہ آیا کہ ان کا منھ نوچ لوں کیوں کہ محض مجھے تنگ کر رہے تھے۔ اول تو آپ غور کریں کہ انہوں نے خواہ مخواہ پوی تفصیل شروع سے پوچھی۔ حالانکہ عبدالحمید کا یہ اچھی طرح مغز کھا چکے تھے اور پھر ٹیٹس کو پوچھتے ہیں کیا ہوتا ہے حالانکہ خوب اچھی طرح پوچھ چکے تھے۔

میں نے جل کر کہا: "ٹیٹنس ایک قسم کا بخار ہوتا ہے جس میں چھینکیں آتی ہیں۔ ”

"ہیں!” وہ بولے۔ حمید صاحب تو کہتے تھے کہ زہر باد ہوتا ہے۔ ”

"معاف کیجیئے گا۔ ” میں نے کہا۔ "تو پھر آپ جانتے ہیں کہ ٹیٹنس کیا بلا ہے تو میرا دماغ چاٹنے سے حاصل؟”

ظاہر ہے کہ اس قسم کی گفتگو کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ وہ برا مانے، میں اور بھی برا مانا۔ جس سے وہ اور بھی برا مانے۔

 

                (۵)

 

میرے ڈبے میں ویسے تو کئی آدمی تھے، مگر بالکل ہی پاس بیٹھنے والے تو ایک زمیندار صورت لکھنو کے اطراف کے مسلمان تھے ایک اور صاحب کچھ فوجی نما معلوم ہو رہے تھے۔ خاکی قمیض اور نیکر پہنے تھے۔ ان کے پاس ہی ایک میرے ہم وطن یعنی مارواڑی مہاجر تھے۔ ان کے علاوہ دو ایک اور احباب بھی تھے۔ گاڑی چلی اور دو ایک ادھر ادھر کی زبردستی باتیں پوچھ کر ان فوجی حضرات نے آخر کو پوچھ ہی لیا کہ:

"آپ کے ہاتھ میں یہ پٹی کیسی بندھی ہے ؟”

میں اس قسم کے سوالوں سے عاجز آ چکا تھا، فوراً کہہ دیا: "زخم ہو گیا ہے۔ ”

"کیسے ” انہوں نے کہا۔

مارے غصے کے میں نے کہا : "بات دراصل یہ ہے کہ مگر نے کاٹ کھایا ہے۔ ”

"مگر نے !مگر نے !۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نے کاٹ کھایا؟”

"جیا ہاں” میں نے لاپرواہی سے کہا۔

"کیسے ؟” انہوں نے نہایت اشتیاق کے ساتھ اب تفصیل پوچھنا چاہی کہ میں بیان کروں کہ کس طرح پانی یا دلدل میں مگر سے میرا سابقہ پڑا، مگر میں نے اب تنگ آ کر دوسری ترکیب سوچی تھی۔

"منھ سے ” میں نے کہا۔ "منھ سے کاٹ کھایا۔ ”

"جی ہاں۔ ” انہوں نے کچھ سر کو جنبش دے کر کہا: "منھ سے تو کاٹا ہی ہو گا، مگر کہاں پر آخر۔ ۔ ۔ ۔ ”

جہاں چوٹ لگی تھی اور پٹی بندھی تھی میں نے وہ حصہ دوسرے ہاتھ سے پکڑ کر کہا: "یہاں پر کاٹ کھایا اور منھ دبا کر کاٹ کھایا۔ ” (منھ دبانے کی ہاتھ سے نقل بناتے ہوئے میں نے کہا-)

"نہیں صاحب!” وہ دوسرے زمیندار صاحب بولے۔ "ان کا مطلب یہ ہے کہ آخر وہ کون سا مقام تھا، جہاں مگر نے کاٹ کھایا۔ کیا واقعہ ہوا تھا۔ ”

میں نے اسی طرح روکھے منھ سے کہا: "عرض کیا نا۔ اسی مقام پر ہتھیلی کے پاس۔ ” میں نے پھر دوبارہ جگہ کو پکڑ کر کہا۔ "اسی مقام پر موذی نے کاٹ کھایا اور کوئی واقعہ تو ہوا تھا۔ ”

کچھ چڑچڑا کر وہ بولے ” "جی حضرت قصہ سنائیے، کس طرح کون سے دریا میں یا تال میں کیا معاملہ پیش آیا جو مگر نے آپ کی ہتھیلی میں کاٹ کھایا۔ ”

"اب میں سمجھا کہ آپ کا کیا مطلب ہے۔ ” میں نے کہا۔ "سنیے۔ واقعہ دراصل یہ ہوا کہ ہمارے پڑوس میں ایک دریا ہے، وہاں ایک بڑا سا مگر رہتا تھا۔ ایک روز میں نے بڑا زبردست مچھلی کا سا کانٹا کوئی دس سیر وزن کا بنوایا۔ اسے ایک موٹے سے تار کے رسے میں باندھ کر درخت سے باندھ دیا اور کانٹے پر گوشت لگا کر دریا میں ڈال دیا۔ اس میں مگر رات کے آٹھ بج کر تین منٹ پر پھنس گیا۔ ”

اس مختصر بیان کو بھلا لوگ کاہے کو پسند کرتے۔ چاروں طرف سے سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔

کسی نے پوچھا صاحب کانٹا کیسی نوک تکا تھا۔ کسی نے کہا، کیا وہ نگل گیا؟ غرض طرح طرح کے سوال پیدا ہو گئے اور مجبوراً مجھ کو کچھ قصے مگر کے شکار کے اور سنانے پڑے۔ اس کے بعد میں نے جس طرح بھی ممکن تھا قصے کو افسانے کا رنگ دے کر بیان کرنا شروع کیا اور اس موقع پر پہنچا تھا کہ دس بارہ آدمیوں نے رسا کھینچا ہے اور زور سے تڑپ کر مگر نے پلٹا کھایا ہی ہے کہ دوسرا اسٹیشن آ گیا۔ اسٹیشن آنے سے میرا قصہ بھلا کی رکتا، مگر یہاں مصیبت آئی کہ ایک صاحب بلا مبالغہ کوئی چھکڑا بھر اسباب کے ساتھ اسی ڈبے پر حملہ آور ہوئے۔ اس گہما گہمی کے ساتھ انہیں نے اور ان کے ملازموں نے اساب کی پھینکا پھینک اور ٹھونسا ٹھونس کی ہے کہ سب کو اپنے اپنے بوریئے بستر اور جگہ کی پڑ گئی۔ یہ حضرت غالباً سب انسپکٹر پولیس تھے اور کسی دوسرے تھانے پر تبادلے کے سلسلے میں لد رہے تھے۔ قوی ہیکل جوان تھے اور ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔

سامنے ہی دوسروں کی جگہ پر قبضہ کر کے ادھر ادھر سرک کر بیٹھ گئے اور فوراً مجھے پان پیش کیا۔ میری کم بختی کہ میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے موسم کی شکایت کی۔ میں جانتا ہی تھا کہ اب یہ مجھے چھیٹیں کے چنانچہ اس کے بعد ہی انہوں نے بھی آخر کو گولہ دے مارا۔

"کیوں جناب یہ آپ کے ہاتھ میں پٹی کیسی ہے ؟”

سوکھے منھ سے میں نے کہا: "پرسوں کالے سانپ نے کاٹ کھایا۔ ”

"ارے کالا سانپ!”

میں نے کہا: "جی، کالا۔ ” یہ کہہ کر میں نے ادھر ادھر لوگوں پر نظر ڈالی جن کو میں مگر والا قصہ سنا رہا تھا اور جو شاید اب بقیہ قصہ کی تکمیل کی فرمائش کرنے ہی والے تھے۔ کسی کے چہرے پر متانت تھی تو کسی نے چہرے پر مسکراہٹ۔

"کہاں؟ کیسے ؟ کہاں کاٹ کھایا؟ کیسے کاٹ کھایا؟ کب؟”

"میں نے عرض کیا نا پرسوں کاٹ کھایا۔ ”

"کہاں؟” میں نے پٹی پر ہاتھ سے بتا کر کہا۔ یہاں کاٹ کھایا۔ میں کھانا کھا رہا تھا۔

"تو پھر کیا ہوا؟”

"پھر سانپ نے کاٹ کھایا۔ ” میں نے سادگی سے جواب دیا۔

"کیسے۔ ”

"ایسے۔ ” میں نے انگلی سے چٹکی لے کر سانپ کے کاٹنے کی نقل بناتے ہوئے کہا۔

"ایسے کاٹ کھایا۔ ”

"اجی ساحب یہ مطلب نہیں۔ آخر ہوا کیا تھا۔ سانپ کیسے آیا اور واقعہ پورا پورا کیا ہے۔ ”

اس کے بعد میں نے اپنے سانپ کاٹنے کا قصہ بیان کرنا شروع کیا، جو بد قسمتی سے اس وقت مجھے یاد نہیں، مگر خوب اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اپنا قصہ نہایت ہی خوش اسلوبی سے ختم کیا۔ جو لوگ مگر کا قصہ قصہ سن چکے تھے ان کے استفسارات کا میں نے نہایت ہی سادگی سے جواب دیا۔ میں نے کہا: "مگر بھلا کس طرح کاٹ سکتا ہے ! مجھے مگر نے کبھی نہیں کاٹا۔ ” میری سنجیدگی پر پہلے تو وہ کچھ مسکرائے، پھر کچھ تشویش کا اظہار ان کے چہروں سے ہوا۔ مگر میں بظاہر سنجیدہ تھا۔ میرے دل کو راحت پہنچ رہی تھی اور تمام دن کے صحیح جوابات سے جو کوفت پیدا ہوئی تھی وہ زائل ہو چکی تھی۔

بہ نسبت پہلے کے اب میں خوش تھا۔ ایک اندازِ بے نیازی کے ساتھ میں اخبار پڑھ نے میں مصروف ہو گیا۔

کئی اسٹیشن گزر گئے اور کوئی نو وارد ایسا نہ آیا جو میری پٹی کا حال پوچھتا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ "کبھی ناؤ گاڑی پر، اور کبھی گاڑی ناؤ پر۔ ” اب میرا نمبر تھا اور میں منتظر تھا کہ کوئی مجھ سے پوچھے تو۔ مگر کسی نے نہ پوچھا حتیٰ کہ میں گھر یعنی سسرال پہنچ گیا۔

 

                (۶)

 

رات کے ساڑھے گیارہ بجے ہوں گے۔ خوش دامن صاحبہ کے سامنے فرش پر جا کر مؤدبانہ بیٹھ گیا۔ سلام و دعا کے بعد پہلا سوا ل جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا:

"یہ تمہارے پٹی کیسی بندھی ہے ؟”

"گولی لگ گئی۔ ” میں نے جل کر کہا۔

"یا علی! گولی!” چونک کے وہ بولیں۔ "گولی خدا خیر کرے کیسے لگ گئی؟”

"بندوق کی نال سے ” میں نے کہا۔

"بیٹا آخر ہوا کیا تھا، کیسے بندوق چل گئی؟”

میں کیا عرض کروں مجھے اس سوال سے اب کیسی کوفت ہو رہی تھی اور اب معلوم ہوا کہ کسی نے سچ کہا ہے

نہ ہر جائے مرکب تواں ناختن

مجھے کوفت ہو رہی تھی کیوں کہ چھت والے کمرے میں بجلی کی روشنی غائب تھی، یعنی یہ کہ کمرے والی غالباً نہیں بلکہ قطعی غیر حاضر تھیں۔ چنانچہ بجائے جواب دینے کے میں نے دل میں سوچا کہ شاید اپنے ماموں کے یہاں گئی ہوں گی۔

اسی دوران میں چھوٹی سالی صاحبہ بل کھا کر لجاتی ہوئی آئیں۔ میں اس وقت بیان نہیں کر سکتا کہ کیسی الجھن میں تھا۔ خوش دامن دنیا بھر کی باتیں تو کر رہی تھیں، مگر یہ نہ بتاتی تھیں کہ ہماری بیوی صاحبہ کہاں ہیں۔ ماموں کے یہاں یا گھر میں۔ شکر ہے خدا کا چھوٹی سالی کے سلسلے میں اتنا تو معلوم ہو گیا کہ خیر سے گھر پر نہیں ہیں۔ بڑی بی بولیں۔ ۔ ۔ "دونوں گئی تھیں، یہ تو سرِ شام لوٹ آئی اور اس کے کھانا کھا کر آنے کو کہا تھا، مگر رہ گئی۔ بہن نے پکڑ لیا ہو گا، اللہ رکھے دونوں میں بڑی محبت ہے، اکثر بلا بھیجتی ہے۔ ”

یہ کہہ کر بڑی بی نے تو ماموں زاد بہن کی محبت کا سمع خراش قصہ بیان کرنا شروع کیا اور ادھر میں نے منھ بنایا اور لا پروائی سے جمائیاں لینی شروع کیں۔ کیوں کہ بیوی سے اس قسم کی محبت کرنے والوں سے مجھے سخت نفرت ہے۔ شکر ہے کہ میرا مطلب بڑی بی سمجھ گئیں، اور کہنے لگیں:” لو اب تم سو رہو۔ ”

میں تھکے ہوئے پیروں سے اندھیرے میں غیر دلچسپی کے ساتھ زینہ پر چڑھا۔ چھت پر پہنچتے ہی بتی روشن کی۔ ملازمہ کمبخت نے میرا بستر جوں کا توں پلنگ پر رکھ دیا تھا۔ میں نے کھول کر بچھاتا۔ بتی گل کر دی اور لیٹ رہا۔ بہت جلدسوگیا۔

آخری شب کا پہلا حصہ اور گرمیوں کی ٹھنڈی ہوا میں متوالی نیند! لیکن کچھ آہٹ، کچھ گرمی اور کچھ خوشبو اس نیند تو بھی غائب کر سکتی ہے۔ میں بجلی کی روشنی میں کھڑبڑا کر اٹھا "کون؟” میرے منھ سے نکلا۔ جواب دینے والی مسکرا رہی تھی۔ وہ میری موجودگی پر اور میں اس کی موجودگی۔ غلطی میری تھی، کمرے کے دوسرے بازو کے سامنے ہی تو چارپائی پڑی تھی۔ میں نے نہ دیکھی۔ نہ سلام نہ دعا۔ "یہ ہاتھ میں آپ کے کیا ہوا، پٹی کیسی بندھی ہے ؟”

انا للہ و انا الیہ راجعون، بھلا کیا جواب دیتا۔ سوائے اس کے کہ میں نے کہا

بحیر تم کہ عجب تیرِ بے کماں زوئی

اور اسی وقت سے طے کر لیا ہے کہ اب کبھی پٹی نہ باندھوں گا۔ خدا اس ارادے کی شرم رکھے۔

٭٭٭

 

 

 

میں نے پڑھا ہے

 

میں جنت میں تھا! ہاں بے شک میں جنت میں تھا۔ اس ارضی جنت میں کس کی پر کید گھڑیاں روح کو ابدی زندگی کا پیغام دیتی ہیں اور انسان کو جنت الفردوس کا نمونہ دکھاتی ہیں۔

کتب خانے کی پر سکون فضا میں جو مختصر لمحے گزرتے ہیں میرے لیے وہ نپولین اور سکندرِ اعظم کی تمنائے زندگی کی صدیوں سے زیادہ پیش بہا اور قابلِ قدر ہیں۔ دائیں بائیں آگے پیچھے اور ارد گرد مجلد اور منقش خزانہ انبار در انبار چنا ہوتا ہے۔ اس پر کتب خانے کا سکوت، نیم شبی، سناٹے کو مات کرتا ہے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ الی دین کے غار میں ہوں اور ہر چہار طرف زر و جواہر کے انبار ہیں، سب میرے اور صرف میرے ذات تصرف لے لیے۔ بجلی کے پنکھے کی مسلسل گونج عالمِ محویت میں ناقابلِ سماعت سرراہٹ لائبریری کی فضا میں ایک خوشگوار تموج پیدا کر دیتی ہے، اور اکا دکا ورق اک جمود اور خموشی کے عالم میں کپکپا کر اٹھتا ہے اور نہایت ہی نازک کڑاکے کے ساتھ کان کے پردے پر ایک خوشگوار تاثر پیدا کر کے روح کو جگا دیتا ہے، یا پھر گھڑی کی مسلسل "ٹک ٹک” جو کمرے کے سکوت اور اپنے تسلسل میں خود ہی جذب ہو کر ایسی ہو جاتی ہے کہ خاموشی کے طلسم کو تو نہیں توڑتی مگر ہاں اس میں آثارِ زندگی پیدا کر دیتی ہے۔

 

                (۲)

 

میں ایک دلچسپ کتاب ہاتھ میں لیے دنیا و ما فیہا کے تفکرات سے بے نیاز ہو کر گویا جنت الفردوس میں تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے اس تاریک دنیا میں خود میں ایک لطیف نور ہوں۔ یہ انہماک! یہ روح پرور فضا اور یہ عالمِ جذب و تخیل! بس یہی معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے زندگی ایک دلچسپ اور شیریں خواب ہے کہ اتنے میں کسی نے اس زور سے میرے سر پر ایک لٹھ دیا۔ ۔ ۔ "کوئی ہے ؟”

کسی صاحب نے دھماکے کے ساتھ اپنا منحوس قدم دروازے میں دھمک کر کہا: ” کوئی ہے ؟”

میرے سر میں برچھی سی لگی۔ میں نے ایک دم سے اپنا سر پکڑ لیا اور کتاب میرے ہاتھ سے چھوٹ پڑی۔

"کوئی اخبار وخبار نہیں ہے۔ ۔ ۔ ہم۔ ۔ ۔ ن۔ ۔ ۔ ن۔ ۔ ۔ ” اتنا کہہ کر لپک کر انہوں نے میز پر اپنی انگریزی ٹوپی پٹک دی، اور اس زور سے کرسی کھینچی کہ دوسری کرسی کو لوٹ دیا۔ "لاحول و لا قوۃ۔ ۔ ۔ یہ کرسیاں” یہ کہہ کر انہوں نے کرسی کو سیدھا کیا اور پھر عجیب کھڑ بڑ شروع کی۔ ۔ لمبی چوڑی میز پر نظر دوڑا کر ایک دم سے اخباروں کو اٹھا اٹھا کر پٹکنا اور پھینکا شروع کیا۔ اس قدر تیزی سے ورق لوٹنا شروع کیے کہ ایک شورِ بے ہنگام بپا ہو گیا۔ کھڑبڑ برابر ہو رہی تھی۔ ہزاروں ورق چار چار کر کے لوٹ رہے تھے اور اخبار اور رسالے گھسیٹ گھسیٹ کر پٹخ رہے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ان کی یہ اخبار بینی جاری رہی۔ اتنے میں لائبریرین صاحب آ گئے۔ تو یہ بولے : "کوئی نیا اخبار نہیں آیا؟”

"سب تو تازہ اخبار سامنے آپ کے چنے ہوئے ہیں۔ ” لائبریرین نے کہا۔ "فہرست بھی آپ کے سامنے آویزاں ہے کہ کون کون سے اخبار موجود ہیں۔ آپ نے دیکھی نہیں۔ ”

"اچھا” انہوں نے کہا اور فہرست جو دیوار پر آویزاں تھی اس کو غور سے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔

"اچھا! تو یہ سب اخبات موجود ہیں۔ ” یہ کہتے ہوئے پھر میز پر بڑھے اور اب تصدیق کی "کیا واہیات!” لائبریرین صاحب کو مخاطب کر کے بولے۔ "لائبریری کی یہ بد تمیزی نہیں گئی کہ تمام اخبارات پھینٹ کر رکھ دیے جاتے ہیں۔ یہ دیکھیے کوئی احمق "لیڈر” کے صفحے "پانیر” میں ملا گیا ہے۔ یہ دیکھیے، پھر پرانے اخبارات کی موجودگی، میز پر کچھ سمجھ میں نہیں آتی، خواہ مخواہ پڑھنے والوں کو پریشان کرنے لے لیے۔ ”

لائبریرین نے مؤدبانہ عرض کی:” جناب صرف ایک روز قبل کے پرانے اخبار لازمی رکھے جاتے ہیں۔ وہ دوسری لائن میں ہوتے ہیں، مگر میں کیا کروں صاحب کہ کوئی بد تمیز آیا اور تمام میز کرید کر ڈال گیا۔ اچھی اچھی تو میں قرینے سے جما کر گیا ہوں۔ ”

شاید ان کو اب پتا چلا یہ "بد تمیز” وہ خود ہیں اور سر کھجا کر انہوں نے میری طرف دیکھا کہ واللہ میں گواہ تھا کہ وہ بد تمیز شخص جو اس بدعت کا ذمہ دار تھا سوائے ان کے کوئی دوسرا نہ تھا۔

اخباروں پر سرسری نظر ڈال کر اور دو ایک کو جو خود انہوں نے تتر بتر کر دئے تھے، قرینے سے جما کر لائبریرین سے بولے :” کوئی عمدہ کتاب نکلوا دیجیے۔ ” گویا اخبار بینی کر چکے۔

"بہت بہتر۔ ” یہ کہہ کر لائبریرین نے پوچھا۔ "فرمائیے کون سی؟”

"کوئی اردو کی ہو۔ نہیں، انگریزی کی سہی۔ ”

لائبریرین نے انگریزی کتابوں کی فہرست سامنے کر دی اور یہ حضرت کتاب پسند کرنے میں مشغول ہو گئے۔

 

                (۳)

 

میرے پراگندہ دماغ کو قدرے سکون ملا جب یہ حضرت لائبریری سے کتاب لینے دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے کتاب دوبارہ اٹھائی عبارت تلاش کی۔ دماغ میں سلسلۂ مضامین دوبارہ قائم کیا۔ اطمینان سے اس طرف دیکھا جدھر یہ حضرت گئے تھے کہ اب آئیں کے تو شکر ہے کہ خود کتاب پڑھنے میں مشغول ہو جائیں گے۔ نہایت ہی اطمینان سے خیالات کو ایک مرکز پر لا کر میں پھر کتاب پڑھنے میں مشغول ہو گیا۔

وہ حضرت آئے اور مجھ سے کوئی پانچ قدم پل ایک صوفے پر تکیہ لگا کر میری طرف پشت کر کے بیٹھ گئے اور ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر پڑھنے میں مشغول ہو گئے، مگر یہ حضرت نہایت ہی خلیق اور ملنسار آدمی معلوم ہوتے تھے۔ کوئی بیس منٹ تک تو اخبات پڑھتے رہے، پھر کھنکار کر زور سے میری طرف دیکھا۔ نظر چار ہوتے ہی عجیب حیرت و استعجاب سے بولے :

"کمال کر دیا ہے !”

میں نے ان کی بات میں کوئی دلچسپی نہ لی اور کچھ نہ بولا تو بولے :

"تاج محل عجیب و غریب عمارت ہے ! استاد عیسیٰ نے بنایا ہے۔ واللہ اب تک میں یہی جانتا تھا کہ نقشہ اس کا ایک اٹلی کے رہنے والے نے بنایا ہے۔ ”

"جی ہاں!” میں نے کہا اور گفتگو کو ختم کر نے کی بیت سے فوراً ہی اپنی کتاب پر نظر جما لی۔ کیونکہ میں کتاب کے قصے کی جس نوبت پر پہنچا تھا وہ ضرورت سے زیادہ دلچسپ تھی اور کسی کا مخل ہونا مجھے ذرہ بھر گوارا نہ تھا۔

مگر وہ کیوں چپ ہوتے، بولے : "مصنف نے مستند حوالہ جات سے ثابت کر دیا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"جی ہاں” جواب پر مجبور ہو کر میں نے کہا:” میں نے کہیں پڑھا ہے۔ ”

"یہ اول نمبر کے بد معاش ہیں۔ ” وہ بولے۔ "اول نمبر کے بد معاش! یہ یورپی مصنف۔ ۔ ۔ ” گھونسا تان کر انہوں نے کہا۔

میں چپ ہو کر اپنی کتاب میں پھر مشغول ہو گیا۔ شکر ہے کہ وہ بھی مشغول ہو گئے، مگر پانچ منٹ بعد ہی وہ اچک کر بولے یہ دیکھیے، "خود دوسرے مصنف مزاج مورخوں کے اقوال سے مصنف ثابت کرتا اور۔ ۔ ۔ ”

"جی ہاں۔ ” میں نے کہا۔ "میں نے پڑھا ہے۔ ۔ ۔ پوری میں نے پڑھی ہے۔ ” وہ پھر پڑھنے میں مشغول ہو گئے اور میں بھی مشغول ہو گیا لیکن دس منٹ بعد ہی پھر وہ پڑھتے پڑھتے اچھل پڑے،” کیا کہنا ہے مصنف کی قابلیت کا! چودہ مستند حوالے۔ ذرا غور تو کیجیے۔ ۔ ۔ ۔ ”      ” میں نے پڑھا ہے۔ ” میں نے تنگ آ کر کہا۔

"مگر یہ سب۔ ۔ ۔ ۔ ”

"میں نے پڑھا ہے۔ میں نے کل کتاب پڑھے ہے۔ ” یہ کہہ کر میں اندازِ بے نیازی کے ساتھ پھر مشغول ہو گیا، مگر مشکل سے دس منٹ گزرے ہوں گے کہ انہوں نے اپنی رانیں پیٹ ڈالیں، اور بے تاب ہو کر پھر مجھ سے کہا۔ "یعنی دیکھیے کہ۔ ۔ ۔ ”

میں نے کچھ جل کر بات کاٹتے ہوئے جواب دیا:” میں نے پڑھا ہے۔ ”

"آپ یہ دیکھیے کہ یہ حضرت۔ ۔ ۔ ۔ ”

"میں نے پڑھا ہے۔ ” ذرا زور دے کر میں نے کہا۔ "میں نے کل کتاب دو دفعہ پڑھے ہے اور۔ ۔ ۔ ”

"تو پھر۔ ۔ ۔ ” وہ بیچ میں بات کاٹ کر بولے :” تو پھر آپ نے خود دیکھ لیا ہو گا کہ مصنف نے غضب کی کر دیا ہے۔ کہاں کہاں سے مواد جمع۔ ۔ ۔ ۔ ”

"ارے صاحب میں نے پڑھا ہے۔ ” اب رو کر میں نے کہا۔ ” میں نے سب پڑھ لیا ہے۔ ”

اس پر وہ حضرت کچھ گنگنا کر پڑھنے لگے اور انگلی نچا کر زور دے کر خود ہی لطف اندوز ہونے لگے۔

میں اب دق ہو گیا تھا کہ الٰہی اب کیا کروں۔ کہاں بھاگ جاؤں۔ میری کتاب اس وقت میرے لیے اس قدر دلچسپی کا سامان پیدا کر رہی تھی کہ بیان سے باہر، اور یہ دیوانہ پن ان کا میرے لیے جہنم تھا۔ جوں توں کر کے میں نے اپنے رنج و غم کو فرو کیا اور پراگندہ دماغ کو پھر کتاب کی طرف متوجہ کیا۔ اب میں کتاب کے انتہائی دلچسپی کے حصے میں پہنچ دیا تھا اور خوش قسمتی سے یہ حضرت بھی منہمک تھے مگر بد قسمتی۔ ۔ ۔ ہاں میری بد قسمتی کہ یہ حضرت ایک دفعہ پھر پھاند پڑے۔

"خوب! یہ بھی آپ نے دیکھا ہے !” گویا مجھے مخاطب کر کے پھر بولے :

"اجی حضرت، یہ بھی آپ نے دیکھا ہے کہ مصنف نے خود۔ ۔ ۔ ”

"میں نے، دے۔ ۔ ۔ ۔ کھا ہے اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مگر انہوں نے میری بات کاٹ دی اور کہا: "مصنف نے خود اپنی طرف سے کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ”

"میں نے پڑھا ہے۔ ” اب رو کر میں نے عجیب لہجے میں کہا: "میں نے سب پڑھا۔ ۔ ۔ ”

مگر وہ تو گویا میری کوئی سنتے ہی نہ تھے۔ چپ نہ ہوئے بلکہ بولے :”۔ ۔ ۔ کوئی بات بھی نہیں چھوڑی۔ ۔ ۔ ؟”

اب گویا میں اور وہ دونوں ساتھ ساتھ بول رہے تھے، میں اپنے نا تمام جملے کو پورا کرنے میں اور وہ اپنے نا تمام جملے کی تکمیل کی فکر میں۔ چنانچہ میں نے کہا: "میں نے پڑھا ہے، سب کچھ پڑھا ہے۔ ” میں رو رو کر گویا کہہ رہا تھا مگر وہ اب خون کرنے پر آمادہ تھے۔ اپنی دھن میں پھر بولے۔ "ذرہ بھر مصنف نے کسی طرف سے۔ ۔ ۔ ”

"میں نے پڑھا ہے۔ ” اب بڑی لجاجت سے میں نے سمجھا کر ان سے کہا: "حضرت میں نے سب پڑھا ہے۔ ” شکر ہے کہ اب وہ پھر اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مگر میرا مشغول ہونا ذرا دشوار تھا۔ دبلا پتلا آدمی۔ مارے غصے کے خون کھول رہا تھا۔ مشکل سے غصہ رفع ہونے پایا تھا کہ وہ اب کی مرتبہ مجھے قبل کرنے ہی کی نیت کر بیٹھے۔

وہ: "اوہو۔ ۔ ۔ ہو! جنابِ من۔ ۔ ۔ ” (وہ میری طرف پشت کیے ہوئے اور سر کتاب پر۔ )

میں: "میں نے پڑھا ہے۔ ” پھر رو کر اور کچھ بر افروختہ ہو کر۔

وہ: "اوہو ذرا۔ ۔ ۔ ۔ ”

میں: "میں نے پڑھا ہے۔ ” رونے اور بر افروختہ ہونے کے علاوہ زور دے کر بھی۔

وہ: "اس صفحہ پر۔ ۔ ۔ ”

میں: "میں نے پڑھا ہے۔ ” (بالکل رو کر اور تنگ آ کر۔ گویا زندگی سے ہاتھ دھو کر)

وہ: "میں آپ کو عبارت ہی سنائے دیتا ہوں۔ ”

میں: "میں نے پڑھا ہے۔ ” موت کی تکلیف اٹھاتے ہوئے میں نے کہا، لیکن وہ بھلا میری کب سنتے۔ مست ہو کر انگلی ہوا میں مار مار کر با آوازِ بلند پڑھ کر انہوں نے مجھے سنانا شروع کر ہی دیا۔ ان کی پشت میری طرف تھی۔ کتاب ان کے سامنے، اور انگلی کا جھٹکا میری طرف۔ انہوں نے پڑھنا شروع کر دیا تھا۔

"۔ ۔ ۔ ۔ تمام دنیا کے مؤرخین اس بات کر متفق۔ ۔ ۔ ۔ ”

بات کو نا تمام چھوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ حضرت نہ میں پہلے بد تمیز تھا اور نہ اب ہوں، نہ پہلے کبھی وحشی تھا اور نہ اب، نہ پہلے کبھی درندہ تھا نہ اب، نہ پہلے کبھی بیل تھا اور نہ اب۔ بہت کم گو، بہت مسکین، صلحِ کل، خاموش طینت، کمزور، بزدل صفت، کتابوں کا کیڑا، مگر انسان اور انسان پھر انسان ہے۔

کسی نے سچ کہا ہے :” تنگ آمد بجنگ آمد” ان حضرت کی ضد، بد تمیزی اور جارحانہ کارروائی نے میرے لیے موت اور زیست کا سوال پیش کر دیا تھا۔ غصہ، انتہائی جلال اور کمزور آدمی۔ پاگل ہو گیا۔ دیوانہ ہو گیا، وحشی ہو گیا۔ نہایت شرم کے ساتھ مجھ کو قبول ہے کہ "اسفل السافلین” کی تفسیر بن کر غیظ و غضب میں عقل و ہوش سب کھو بیٹھا۔ اب صرف ایک ہی علاج تھا، میں کر گزرا۔ ۔ ۔ ۔ ان کا جملہ تھا۔ ۔ ۔ دنیا کے مؤرخین اس بات پر متفق۔ ۔ ۔ ” ان کے آخری لفظ "متفق” کے آخری ٹکڑے "فق” کے ساتھ ہی میں نے مجبوراً گویا حفاظتِ خود اختیاری میں اپنی کرسی کا بڑا گدا گھسیٹ کر پوری قوت سے "آ۔ ۔ ۔ ہم” کر کے بے خبری میں ان کے سر پر اس زور سے گھما کر دے مارا ہے کہ متفق کے بجائے "ق ع ق ع” اس زور سے برپا ہوا کہ ساری لائبریری میں واللہ ق ع ق ع قع اعلم کس طرح "ق” اور "ع” (ملے ہوئے ) ان کے گلے سے چھینٹوں کی طرح اڑ کر جیسے بکھر گئے اور میں کرسی پھاند کر بد حواسی میں سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔

چشمِ زدن میں لائبریری کے احاطہ کی دیوار پھاند کر کھیتوں کھیت ڈاک گاڑی کی رفتار سے (بہت تیز دوڑتا ہوں) اڑا جا رہا تھا۔ نہ دیکھوں خندق نہ کھائی، سامنے ایک باڑھ نظر آئی۔ ۔ ۔ کترا کر نکل جاؤں مگر حضرت وقت کہاں لہٰذا اس ارہر کے جھانکروں کی باڑھ پر سے اترنے کی کوشش جو کہ تو الجھ کر گرا۔ بوکھلا کر اٹھا۔ مڑ کر لائبریری کے برآمدہ کی طرف نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ بے اختیاری کے عالم میں ان کے ہاتھ میں کتاب دیکھتے ہی زور سے پکار کر میں نے وہیں سے ہاتھ اٹھا کر کہا:

"میں نے پڑھا ہے۔ ”

٭٭٭

 

 

 

 

ٹیلی فون

 

بیسویں صدی کی بہترین ایجاد، کیا بلحاظ فوائد بنی نوع انسان اور کیا بلحاظ آرام و آسائش، اگر ہے تو ٹیلی فون ہے۔

 

                (۱)

 

مندرجہ بالا اقتباس میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ میں نے نہایت ہی اطمینان سے اپنی میز پر نظر ڈالی اور کیوں نہ ڈالتا کہ میں بھی ایک ٹیلی فون کے سیٹ کا مالک تھا۔ میرے گھر میں بھی ٹیلی فون تھا۔

قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کروں گزارش ہے کہ حضرت نہ تو میں کوئی وبال ہوں اور نہ قہر خدا ہوں اور نہ موذی ہوں اور نہ خلق خدا کی آسائش کا دشمن ہوں، بلکہ ایک ادنیٰ اور نہایت ہی ادنیٰ پبلک کا خادم ہوں۔ مگر ساتھ ہی یہ ایک مجسم حقیقت ہے کہ بلا شرکت غیرے ایک ٹیلی فون کے سیٹ کا مالک بھی ہوں اور خداوند تعالیٰ نے وہ فوائد اور تمام وہ آسائشیں میری تقدیر میں لکھ دی ہیں جو ٹیلی فون کے سیٹ رکھنے والے کا حصہ ہیں۔

تو میں پھر عرض کرتا ہوں کہ حضرت نہ تو میرا دماغ خراب ہو گیا ہے اور نہ میں موذی ہوں، بلکہ پبلک کا ایک ادنیٰ خادم ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ میرے گھر میں ٹیلی فون ہے، میں اس کے فوائد کا حقدار ہوں۔ سو کچھ اس وقت بھی گھبرا رہا تھا۔ چنانچہ میں نے ٹیلی فون کے پاس نہایت ہی اطمینان سے کرسی پر بیٹھ کر آلہ اٹھا کہ کان اور منہ سے بیک وقت لگا لیا۔

ایکسچینج نے کہا: "نمبر پلیز، کون سا نمبر مانگتے ہیں آپ؟”

چونکہ مجھے دراصل کسی نمبر کی بھی ضرورت نہ تھی، لہٰذا میں نے بلا تامل کہہ دیا: "نمبر ۱۲ سے ملا دیجئے۔ ”

نمبر ۱۲ کو اطلاع اور اب وہ آئے اور بولے۔

"جی۔ آپ کہاں سے بولتے ہیں؟”

"میں نے بھی یہی سوال کر دیا اور کہا: "آپ کون صاحب ہیں؟”

"دیکھئے جناب۔ ” میں نے کہا۔ "ہم گورنمنٹ ٹھیکیدار ہیں۔ احمد حسین محمد حسین اور دہلی نمبر ۴۸ سے باتیں کرتے ہیں۔ دراصل ہمیں دو ہزار سیاہ رنگ کے گورا شاہی فوجی بوٹ درکار ہیں۔ براہ مہربانی فرمائے کہ کیا دام ہوں گے اور کتنے دنوں میں آپ دے سکیں گے ؟”

بہت خوش ہو کر اس طرف سے وہ بولے : "ہم ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر مال دے سکتے ہیں، اور قیمت کے بارے میں عرض ہے کہ بارہ روپیہ فی جوڑا ہو گا۔ ”

قدرتاً میں نے کہا۔ "یہ بہت زیادہ ہے۔ ”

اس کے بعد انہوں ے کچھ چمڑے وغیرہ کے بارے میں تفصیلی بحث کی اور نتیجہ اس کا یہ رہا کہ جب میں نے قیمت نا منظور کر دی تو انہوں نے کہا کہ ہم خود تھوڑی دیر بعد مفصل تخمینہ بنا کر مطلع کر دیں گے۔

 

                (۲)

 

ایک دوسرے صاحب سے سلسلہ ملایا۔ بعد "آپ کون اور آپ کون” کے انہوں نے کہا۔ "ہم ہڈی پیستے ہیں، ہڈی پیسنے کا کارخانہ ہے۔ ”

اوہو! میں نے دل میں کہا، یہی وہ لوگ ہیں جو شکر میں ہڈی ملا ملا کر سینکڑوں ہندو مسلمانوں کو عیسائی بنا چکے۔ خیر۔ ۔ ۔ مگر اس وقت میں نے مجبوراً ان سے کہا: "ہم ہڈی فروخت کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ تاجر ہیں ہڈی کے، آپ لیں گے ؟”

"جی ہاں۔ ” انہوں نے کہا۔ "اپنا نرخ بتائے اور پھر کس قسم کی ہڈی ہو گئی۔ ”

اب میری سمجھ میں نہ آیا کہ تولے کے حساب سے نرخ دوں یا من کے حساب سے غلطی سے بیچنے کی نیت سے میں نے کہا: "آپ جس بھاؤ دوسرے ٹھیکیداروں سے لیتے ہیں اسی پر ہم سے لے لیجئے۔ ”

"ہم ساٹھ روپے فی ویگن لیتے ہیں اور ثابت ہڈی لیتے ہیں۔ آپ کتنی دے سکیں گے ؟”

اب میں نے سوچا کہ انہیں بہترین مال دینا چاہیے اور پھر ان پر اپنی تجارت کا رعب جما دینا چاہیے، چنانچہ میں نے جواب دیا:

"ہمارے پاس چالیس ہزار مسلم ڈھانچے موجود ہیں۔ ہم ویگن کے حساب سے نہیں دے سکتے، کیونکہ ہمیں مسلم ڈھانچے توڑنے پڑیں گے۔ بہتر ہے کہ آپ فی ڈھانچہ ہم سے نرخ طے کر لیں۔ ”

"ہیں!” انہوں نے سخت تعجب سے کہا: "چالیس ہزار ڈھانچہ۔ ۔ ۔ مسلم۔ ”

"جی۔ ” میں نے جواب دیا۔ "بیشک اور پھر چھوٹے عدد بھی موجود ہیں۔ ”

"وہ کیا؟”

خرگوش کے ڈھانچے۔ ”

"مت بکو۔ ” انہوں نے کہا۔

میں نے کہا: "ہشت” ختم سلسلہ۔

 

                (۳)

 

اس کے بعد شہر کے مشہور سیٹھ صاحب کی نل اور پائپ کی دکان سے سلسلہ جنبانی کر کے بعد تبادلہ "آپ کون!” کے مودبانہ طریقہ سے میں نے عرض کیا کہ "ہم گورنمنٹ ٹھیکیدار ہیں اور دہلی نمبر ۵۳ سے بولتے ہیں۔ ”

وہ بولے : "کیا چاہیے ؟”

میں نے کہا: "ہم انجنیئر لوگ ہیں اور دریائے چنبل کا صاف پانی نئی دہلی میں لانے کا گورنمنٹ سے ہم نے ٹھیکہ لے لیا ہے اور اس کے واسطے ہمیں بہت لمبا چوڑا پائپ درکار ہے۔ ”

"کتنا چوڑا؟” انہوں نے کہا۔ "لمبائی بھی بتائے گا۔ ”

میں نے جواب دیا کہ "بہت چوڑا۔ ”

"آخر کتنا؟”

"بہت چوڑا”

"پھر بھی؟” انہوں نے کہا۔ "اور لمبائی؟”

"یہی کوئی آٹھ فٹ چوڑا چاہیے۔ لمبائی تین چار میل ہو گی۔ ”

"آٹھ فٹ چوڑا!” تعجب سے انہوں نے کہا۔

"جی۔ ”

"اور پھر تین سو میل میں آپ ٹکڑے کتنے چاہتے ہیں؟”

"بس ایک ٹکڑا چاہیے۔ ”

"ہیں۔ ” انہوں نے کہا۔ "آپ مذاق کرتے ہیں۔ ”

"آپ کی جان عزیز کی قسم۔ ” میں نے کہا۔ "مذاق سے مجھے کیا سروکار۔ ”

"ضرور بالضرور، یہ مجھ سے زیادہ بے وقف تھے، کہنے لگے۔ "ہم دس دس فٹ کے ٹکڑے دے سکتے ہیں، مگر نرخ بعد میں بتائیں گے۔ ”

میں نے کہا: "بہتر ہے، مگر دیکھئے کہ اگر نل ٹپکایا ٹوٹا تو دام نہ دیں گے۔ ”

وہ راضی ہو گئے اور لطف تو دیکھئے کہ انہوں نے سچ مچ حساب بٹھا کر کچھ عرصہ بعد دہلی نمبر ۵۳ سے کچھ اس کے بارے میں کہا۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، انہوں نے جو یہ لغویات وغیرہ سنیں تو کہا کہ جلد آپ سلسلہ منقطع کریں ورنہ ابھی کرتا ہوں میں آگرے کے پاگل خانے کو ٹیلی فون۔ یہ بعد میں معلوم ہوا۔

 

                (۴)

 

اس کے بعد ہی میں ایک تیل پیٹنے کے کارخانے سے واقعی معاملے کی گفت و شنید کر رہا تھا۔ چونکہ دوپہر کے وقت مالکان کارخانہ لازمی طور پر آرام فرماتے ہیں اور ٹیلی فون پر منیب جی ہوتے ہیں۔ لہٰذا سلسلہ گفتگو شروع ہوتے ہی میں نے قیاس دوڑایا:

"منیب جی ہیں؟”

وہ بولے : "جی ہاں!”

میں نے کہا: "نمستے۔ ذرا لالہ جی کو بلائیے۔ ” (میں جانتا تھا کہ لالہ صاحب سو رہے ہوں گے۔ )

منیب جی بولے : "وہ سو رہے ہیں اور تاکید کر دی تھی کہ "مت جگانا۔ "”

"مگر تم انہیں جگا دو، کہنا کہ احمد بھائی بلاتا ہے، سخت ضروری کام ہے۔ ”

مجبوراً لالہ صاحب آئے، بعد نمستے میں نے عرض کیا۔ "ہمیں دو لاکھ من سرسوں کا تیل پلوانا ہے، کیا نرخ ہو گا؟”

لالہ صاحب بولے : "کیا اسی لیے ہمیں جگایا۔ منیب جی سے نہ پوچھ لیا۔ ”

میں نے عرض کی۔ "میں روپیہ پیشگی منیب جی کو نہیں دے سکتا تھا، آپ کو دوں گا۔ ” اس کا جواب لالہ صاحب نے دیا۔ ہم "باہری” سرسوں نہیں پیلتے ہیں۔ ”

میں نے عرض کیا: "مگر یہ تو "اندی” ہے۔ سودیشی سرسوں۔ ”

"ہمیں اپنی سرسوں سے فرصت نہیں، اپنے کام سے مہلت نہیں ہے۔ ”

بہت کچھ اونچ نیچ سمجھا کر اور نقد پیشگی کی دھمکیاں دے کر جو میں نے نرخ پوچھا تو لالہ جی نے تین روپے من مانگا۔ بڑی مشکل سے ڈھائی روپے من طے ہوا۔ بشرطیکہ میں پچاس ہزار کا چیک پیشگی دے دوں۔ مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا۔ مگر میں نے اب کچھ مزید تشریح کی۔ ظاہر ہے کہ سرسوں پیلی جائے گی تو کھلی بھی ہو گی۔ تیل کو تو کام میں لے آؤں گا مگر آپ غور کریں کہ آخر کھلی کا اتنی میں کیا کروں گا۔ چنانچہ میں نے لالہ صاحب سے کہا: "مگر یہ تو بتائیے کہ کھلی آپ کیا بھاؤ لیں گے ؟”

لالہ جی نے کہا: "ہم کھلی نہیں لیں گے۔ ”

"کھلی تو آپ کو لینا پڑے گی۔ ” میں نے صاف صاف کہہ دیا۔

"ہم کھلی ولی نہیں لیں گے۔ ” کچھ چیں بہ جبیں ہو کر۔

"کھلی تو آپ کو لینا پڑے گی۔ ” زور دے کر میں نے کہا۔ "مذاق نباشد، مجبوراً لینی ہو گی۔ ”

"ہم نہیں لیتے، یہ کون سا قاعدہ ہے۔ ”

میں نے کہا: "ہم قاعدہ واعدہ کچھ نہیں جانتے۔ کان کھول کر سن لیجئے، کھلی آپ کو جبراً لینا ہو گی، ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"ہم سرسوں نہیں پیلتے۔ ”

"پیلنا پڑے گی۔ ” میں نے خفا ہو کر کہا، مگر وہ ٹیلی فون چھوڑ چکے تھے۔

 

                (۵)

 

اس کے بعد ایک حاجی صاحب سے سلسلہ ملایا: "بخدا کس قدر تلخ اور کس قدر درشتی سے انہوں نے میرے کان میں جیسے پاوڑا مارا ہے "کون۔ کون ہو۔ و۔ ۔ ۔ ۔ و۔ ۔ ۔ ۔ ”

بر جستہ میں نے بھی کہا۔ ۔ ۔ ۔ "ملک الموت۔ چلو جہنم کی طرف۔ ”

"مردود!” انہوں نے تڑپ کر کہا۔

"گھوڑے !” میں نے ڈپٹ کر کہا۔ (سلسلہ ختم)

 

                (۶)

 

اس کے بعد ایک اور صاحب سے سلسلہ ملایا۔ "کون ہے ؟” انہوں نے ایسی آواز میں کہا جیسے ان کے ڈاڑھی ہے اور قبل اس کے کہ میں بولوں خود ہی جواب دیا۔ "حسرت۔ ۔ ۔ ۔ او حسرت۔ ۔ ۔ ۔ حسرت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارے حسرت۔ ”

مجبوراً مجھے کہنا پڑا "جی۔ ”

وہ بولے گالی دے کر۔ "کیا مر گیا تھا؟”

میں نے عرض کیا۔ "جی ہاں ابھی قبرستان سے آ رہا ہوں۔ ”

اس پر انہوں نے وہ گالی دی ہے کہ میں نے خود سلسلہ توڑ دیا۔

 

                (۷)

 

اس کے بعد ایک نوجوان گریجویٹ سے سلسلہ ملا۔ نہایت ہی ہونہار اور قابل واقع ہوئے تھے اور حال ہی میں ایک مضمون حمایت نسواں پر بڑے معرکہ کا پانیر میں دے چکے تھے۔

جب انہوں نے اپنا نا م بتایا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ وہ حضرت ہیں۔ چنانچہ میں نے مضمون کا ذکر کر کے مبارک باد پیش کی۔

"شکریہ۔ ” انہوں نے کہا۔ "آپ نے وہ میرا مضمون پڑھا تھا؟” خوش ہو کر انہوں نے پوچھا۔

"جی ہاں۔ ” میں نے بڑے شوق سے اسے پڑھا تھا۔ ” میں نے کہا۔

"میں نے بڑی محنت سے اسے لکھا تھا۔ آپ کو کچھ پسند بھی آیا؟”

آپ خود خیال فرمایے کہ اب میری خطا تھی یا خود ان کی مضمون کی میں تعریف کر چکا، مبارکباد عرض کر چکا، پھر بار بار پوچھتے ہیں کہ پڑھا بھی تھا، اور اب کہتے ہیں کہ آ بیل مجھے مار! میں نے سوچا دل میں کہ یہ یوں نہ مانیں گے، لہٰذا میں نے جواب دیا:

"جی ہاں۔ ” میں نے کہا۔ "مجھے بے حد پسند آیا مگر ایک بات تو بتائیے۔ ”

"وہ کیا؟” انہوں نے خوش ہو کر پوچھا۔ "فرمائیے۔ ”

"آپ نے اسے کہاں سے نقل کیا تھا؟” میں نے سادگی سے پوچھا۔

جیسے بھنا کر انہوں نے کہا:

"یہ تو بتائیے جناب کرتے کیا ہیں؟”

"میں چلتا ہوں، کھاتا ہوں، پہنتا ہوں۔ ” کہ اتنے میں برابر کی میز پر گھڑی کا الارم بولا تو میں نے وہی اٹھا کر ٹیلی فون کے آلے پر لگا دیا۔

 

                (۸)

 

دوسری جگہ ملایا۔

وہ۔ "آپ کس نمبر سے بولتے ہیں؟”

میں۔ "آپ کس نمبر سے بولتے ہیں؟”

وہ۔ "آپ کون صاحب ہیں؟”

میں۔ آپ کون صاحب ہیں؟”

وہ۔ "میرا نام کلب علی خان اور آپ کا نام؟”

میں۔ "شتر محمد خاں۔ ” (گھڑی کا الارم لگا دیا)

 

                (۹)

 

شاید کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا اتفاق ہوا ہو کہ غلطی سے بجائے کسی دوسرے نمبر کے کسی کا سلسلہ آپ سے مل گیا ہو اور آپ نے غلطی محسوس کر کے ذرا بھی غلطی کو نبھانے کی کوشش نہ کی ہو۔ اکثر کوئی اس طرح بات پوچھے تو آپ فوراً کہہ دیں گے کہ معاف کیجیئے گا، معلوم ہوتا ہے غلط نمبر مل گیا ہے۔ میری دانست میں ایسا کرنا خدائی نا شکری اور خود ٹیلی فون کے موجد کی جدت طبع کی توہین ہے۔

اس مختصر تمہید کے بعد عرض ہے کہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب کس نمبر سے ملاؤں کہ خود کسی نے مجھے گھنٹی دی۔

زہے قسمت کہہ کر میں نے آلہ اٹھایا۔

اس طرف سے کسی نے کہا: "نمستے۔ ”

"نمستے۔ ”

"کہئے ٹھاکر صاحب کیسے ہیں؟ کوئی تار کا جواب آیا؟”

فوراً میں نے جواب دیا: "ٹھاکر صاحب تو مر گئے۔ ”

قاعدہ ہے کہ اگر آپ جواب دینے میں ذرا بھی تساہل کریں گے تو میری دانست میں شاید ٹیلی فون کے موجد کی دماغ سوزی کی داد دینے سے آپ قاصر رہیں گے۔ ایسے موقعوں پر چاہیے کہ برجستگی سے کام لیا جائے جیسا کہ میں نے کہا۔ دراصل ہر وہ شخص جس کے یہاں ٹیلی فون ہے بہت آسانی سے اس مخصوص فائدہ سے بہرہ اندوز ہونے کی بڑی آسانی سے صلاحیت پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ مجبور ہے تو اس کی تیرہ بختی۔

جب میں نے یہ روح فرسا پیغام ادھر پہنچایا تو وہ حضرت تو "ارے ” کہہ کر ہٹ گئے اور دوسرے صاحب آئے اور خدا ان کا بھلا کرے کہ انہوں نے مجھے میرا نام بتایا، کہنے لگے۔ "دیکھو شام جی ذرا بڑھے بابو جی کو بھیج دو۔ ”

میں نے کہا: "بہت اچھا۔ ” تو وہ بولے کہ "جلدی کرو” میں نے بھی کہا جلدی ہی لو۔ چنانچہ بہت جلد مجھے بڑے بابو جی کی حیثیت سے گفتگو کرنے کا فخر حاصل ہوا۔ میں نے ضرورتاً نہیں بلکہ احتیاطاً کچھ آواز بھی بدل دی۔ جب انہوں نے معلوم کر لیا کہ بڑے بابو جی آ گئے تو وہ حضرت مجھ سے بولے :

"بڑے بابو جی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہاں تو دیکھئے وہ بلٹی تو آپ نے واپس نہیں کی ہے نا۔ ”

واللہ اعلم یہ کیسی بلٹی تھی اور میں صحیح اندازہ لگانے سے قاصر رہا کہ کیا جواب مناسب ہو گا، لہٰذا میں نے بھی ذرا گول جواب دیا۔ "واپس تو ابھی نہیں کی ہے مگر کر رہے ہیں۔ ”

وہ گھبرا کر بولے : "ارے ! واہ صاحب! یہ آخر کیوں؟”

میں چوں کہ کوئی مناسب وجہ نہ بتا سکتا تھا لہٰذا مجبوراً میں نے اور ہی رویہ اختیار کیا۔ ذرا کرختگی سے میں نے کہا: "ہماری مرضی۔ ”

"ہم نے پیشگی روپیہ دے دیا ہے تب بھی آپ واپس کر دیں گے۔ ”

میں نے کہا: "ہاں۔ ”

"یہ کیوں؟” انہوں نے تیز ہو کر کہا۔ "ہم پیشگی روپیہ دے چکے ہیں اور اب۔ ۔ ۔ ۔ ” بات کاٹ کر میں نے بھی ڈپٹ کر کہا۔ "ہم پیشگی ویشگی کچھ نہیں جانتے۔ ہم بلٹی واپس کر رہے ہیں۔ ”

"غضب ہو جائے گا۔ ” وہ گھبرا کر بولے : "ہزاروں کا نقصان ہو جائے گا، آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ”

"ہم تمہاری غلطیوں کے ذمہ دار نہیں۔ ” تیز ہو کر میں نے کہا۔

اتنے میں کسی دوسرے نے ادھر سے ٹیلی فون لیا۔ جو غالباً ان کے پاس ہی کھڑا سب سن رہا تھا اور اس نے تیز ہو کر کہا: "آپ کس قاعدے سے بلٹی واپس کر رہے ہیں؟”

میں نے کہا: "ہم کوئی قاعدہ واعدہ نہیں جانتے۔ ”

وہ بولے : "آپ کی تحریر اور وعدہ موجود ہے کہ تین روز تک بلٹی واپس نہیں کریں گے اور اب آپ یہ کہہ رہے ہیں۔ ”

"ہم نہیں جانتے۔ ” میں نے ڈانٹ کر کہا۔ "ہم تو اب بغیر بلٹی واپس کیے ہرگز نہ مانیں گے۔ ” جب انہوں نے حجت اور بحث کی تو میں نے سلسلہ منقطع کر دیا۔

 

                (۱۰)

 

اب ایک نیا لطیفہ سنئے۔ وہ نمبر ۱۲ جوتے والے جن سے میں نے سب سے پہلے بات چیت کی تھی اور جوتوں کا نرخ پوچھا تھا وہ اتفاقاً اس دہلی کے فرضی نمبر کو بھول گئے جو میں نے انہیں بتایا تھا۔ مجبوراً انہوں نے ایکسچینج سے کہا کہ ہم دہلی کے اس نمبر سے بات کرنا چاہتے ہیں جس نمبر نے خود ہم سے گھنٹہ دو گھنٹہ ہوئے بات کی تھی۔ ایکسچینج نے کہا کہ حضرت آپ سے تو کیا دہلی سے تو آج کسی سے بھی شہر میں سلسلہ نہیں ملا۔ ہاں نمبر ۴۲ (میرا نمبر) نے البتہ آپ سے سلسلہ ملایا تھا۔ اس پر جب انہوں نے اطمینان پورا پورا کر لیا کہ محض مذاق تھا تو ایکسچینج سے کہا کہ خیر کچھ بھی ہو ہمیں تو تم اس نمبر سے ملا دو جس نے ہم سے بات کی تھی۔ خواہ وہ دہلی کے ہوں یا شہر کے چنانچہ اس نے مجھ سے سلسلہ ملا دیا اور انہوں نے اس خادم کو گھنٹی دی۔

"آپ نمبر ۴۲ سے بولتے ہیں؟” انہوں نے بغیر میرا جواب لیے ہوئے کہا: "اور میں نمبر ۱۲ جوتوں کی دکان سے بولتا ہوں۔ بھلا اس قسم کے مذاق سے کیا فائدہ۔ ”

میں نے کہا: "آپ جوتوں کی دکان سے بولتے ہیں؟”

وہ بولے : "ہاں۔ ”

میں نے کہا: "پھر جناب اس میں مذاق اور بحث کی کیا گنجائش، بتائے جلدی سے جوتوں کا نرخ ورنہ ہم دوسری جگہ سے سودا کر لیں گے۔ ”

وہ اس پر کچھ عامیانہ مذاق فرمانے لگے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہوئیں کہ جنت میں ایک ایک کے عوض ستر ملیں گے۔ نتیجہ یہ کہ میں نے مجبوراً گھڑی کا الارم لگا دیا اور یوں سلسلے کو ختم کیا۔

اب میں نے سوچا کہ اس کو کیا حق حاصل تھا کہ مجھ سے جواب طلب کرے، شاید اس کو نہیں معلوم کہ مجھے بھی فرصت ہے، چنانچہ میں نے پھر کوئی دس منٹ بعد ہی ان کو پکارا اور کہا: "حضرت وہ جوتوں کا نرخ آپ نے نہ بتایا، ہم دہلی سے بولتے ہیں اور کاروباری آدمی ہیں، نقصان ہو رہا ہے ہمارا۔ ”

اس پر وہ ہنسنے لگے اور لگے برجستگی دکھانے۔ سلسلہ ختم ہو گیا۔

لیکن اب میں ٹیلی فون سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ گھڑی لے کر بیٹھ گیا اور ادھر دس منٹ گزرے اور میں نے انہیں گھنٹی دی اور بس یہی سوال کہ "ہم دلی کے سوداگر ہیں، براہ کرم جوتوں کا نرخ بتائیے۔ ”

تھوڑی دیر کے بعد مذاق سے اتر کر یہ حضرت گالی گلوچ پر اتر آئے اور ادھر میں نے خریداری کا تقاضا ذرا اور سخت کیا۔ یعنی بجائے ہر دس منٹ کی حاضری کے پانچ منٹ کی قید لگا دی۔

آپ کہیں گے کہ ان کی حماقت تھی، آخر چپ کیوں نہ ہو رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت آپ خود ٹیلی فون لگا کر جوتے کی دکان کھولیں تو اس کا اندازہ ہو۔ دکان دار کو ہر ٹیلی فون کی گھنٹی پر شملہ اور نینی تال کا فوجی آرڈر سنائی دیتا ہے۔ اگر ایک گھنٹی خالی گئی تو ممکن ہے ہزاروں روپے پر پانی پھر جائے۔

قصہ مختصر ہر مرتبہ ان کا آنا پڑتا اور نتیجہ یہ نکلتا کہ گالی گلوچ کچھ دیر بعد ہی جب انہوں نے دیکھا کہ یہ عجیب و غریب خریدار پیچھا ہی نہیں چھوڑتا تو ایکسچینج سے شکایت کر دی کہ خبردار جو اس نمبر سے ہمارا نمبر ملایا۔

اب جو میں نے ایکسچینج سے نمبر ۱۲ مانگا تو جواب دیا کہ "آپ ان کو دق کر رہے ہیں، یہ جرم ہے۔ ” دیکھا آپ نے لاچاری اس کا نام ہے۔ مجبوراً قہر درویش بجان درویش” چھوڑ چھاڑ کر میں پھر ٹیلی فون سے سیر ہو کر الگ ہوا۔

مجھے اب ٹیلی فون کے موجد پر غصہ آ رہا تھا کہ کیوں نہ اس بات کا اس نے کوئی تدارک کیا۔ بڑی دیر تک سوچتا رہا۔ کچھ عقل نے کام نہ کیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ ٹیلی فون میں یہ بڑی خامی ہے۔ لیکن دماغ لڑاتا ہی رہا۔

کوئی دو گھنٹے بعد وہ دور کی کوڑی لایا ہوں کہ دوڑا ٹیلی فون کی طرف، پورا فائدہ ٹیلی فون سے اٹھانے۔

"ایکسچینج، ایکسچینج” میں نے زور سے پکارا۔ "دیکھئے، کیا میرے یہاں سے کسی نے آج نمبر ۱۲ کو پریشان کیا۔ ”

ص۔ ۱۷۹

ایکسچینج نے کہا: "جناب من نمبر ۱۲ کو آپ کے یہاں سے سخت شکایت ہے۔ ان کو تو آج آپ کے یہاں سے کسی نے بہت دق کیا۔ ”

"دیکھئے ” میں نے زور سے کہا۔ "دیکھئے، میری طرف سے ان سے معافی مانگئے گا اور عرض کیجئے گا کہ میں شکار کو گیا تھا، آج کمرہ کھلا رہ گیا۔ بچوں نے سخت نالائقی کی اور میں بے حد شرمندہ ہوں۔ بلکہ میں خود ان سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ آپ ملا تو دیجئے۔ ”

"مگر انہوں نے منع کر دیا ہے۔ ” ایکسچینج نے جواب دیا۔

"آپ ان سے دریافت کر لیں۔ ” میں نے کہا۔

بہت جلد ہی گھنٹی آئی، واہ رے ٹیلی فون کے موجد، میں نے دل میں کہا، کیا ایجاد ہے۔ سلسلہ نمبر ۱۲ سے پھر مل گیا۔

نہایت ہی تپاک سے میں نے نمبر ۱۲ سے کہا: "معاف کیجئے گا۔ جناب کو آج میری ذرا سی لا پرواہی سے بڑی زحمت ہوئی۔ نوکر نے مجھ سے کہا کہ "نمبر ۱۲” آج لڑکے پکار رہے تھے اور سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دو بچوں کو تو میں نے ادھیڑ کر ڈال دیا، سسک رہے ہیں، اور تیسرے کو ملازم پکڑنے گیا ہے۔ ”

"واللہ آپ یہ کیا غضب کرتے ہیں؟” انہوں نے پریشان ہو کر کہا۔ ” آپ کو میرے سر کی قسم جو بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے۔ کوئی مضائقہ نہیں، بچے تو شریر ہوتے ہی ہیں۔ ”

"مگر میں تو بغیر سزا دیئے نہ مانوں گا۔ ” میں نے کہا۔

وہ بولے۔ "بخدا آپ میرے اوپر ظلم کریں گے جو بچے کو مارا اور جن بچوں کو آپ نے مارا ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ میرے اوپر ظلم کیا۔ میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں جو آپ نے بچے کو ہاتھ بھی لگایا۔ ”

"مگر مجھے آپ سے جو سخت شرمندگی ہے۔ ”

"آپ کچھ پرواہ نہ کریں۔ ”

"مگر مجھے سخت ندامت ہی نہیں بلکہ صدمہ ہوا کہ آپ کو پریشانی ہوئی۔ ”

وہ بولے۔ "آپ تو کمال کرتے ہیں۔ کوئی بات بھی ہو آخر۔ ”

میں نے کہا۔ "اچھا تو پھر آپ بتائیے کہ دل سے آپ نے معاف کیا۔ ”

"واللہ۔ ” وہ بولے۔ "آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ ذرہ بھر مجھے خیال نہیں۔ ”

میں نے کہا: "آپ کی عنایت کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں، مگر ایک عرض ہے، اگر اجازت ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ”

وہ بولے : "اجی حضرت ایک نہیں دو فرمایے۔ ارشاد۔ ”

میں نے کہا۔ ۔ ۔ ۔ "براہ کرم ان جوتوں کا تو نرخ بتا ہی دیجئے۔ ”

اب میں آپ سے کیا عرض کروں کہ انہوں نے کیا کہا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ گویا بارود میں آگ لگ گئی۔ ادھر انہوں نے مغلظات شروع کی ہیں اور ادھر میں نے گھڑی کا الارم لگا دیا۔

عرض یہ ہے کہ اس خادم کے یہاں ٹیلی فون ہے اور دو چار دوستوں کے یہاں بھی یہ مفید سلسلہ جاری ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ مجھے ٹیلی فون سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھانے دیا جائے گا اور مجھے اب نمبر ۱۲ سے شرف سلسلہ حاصل نہ ہو سکے گا تو مجبوراً میں نے بذریعہ ٹیلی فون دو تین اور احباب کو اس راز سے آگاہ کیا۔ انہوں نے جو اس میں خوبیاں اور فوائد دیکھے تو وہ ہاتھ دھو کر نمبر ۱۲ کی جان کے پیچھے پڑ گئے اور ایک لا متناہی سلسلہ چھیڑ دیا کہ نرخ جوتوں کا بتاؤ ہم دہلی سے بولتے ہیں۔

پھر بد قسمتی سے میرے ان دوستوں نے اپنے اپنے دوستوں کو خبر کی اور ان لوگوں نے اپنے اور دوستوں کے دوستوں کو آگاہ کیا۔ نتیجہ ظاہر ہے، یک انار و صد بیمار، ایکس چینج والا خود ایک بلا میں گرفتار ہو گیا اور جسے دیکھئے وہ نمبر ۱۲ سے بات کرنے کا خواہاں ہے۔

جس روز کا یہ ذکر ہے اس رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میرے پاس دم دم پہ رپوٹیں بذریعہ ٹیلی فون آتی تھیں۔ مجھے کیوں نہ فخر ہو۔ اگر ٹیلی فون کے موجد کی ذہانت قابل داد ہے تو ٹیلی فون سے پورا پورا فائدہ حاصل کرنا میں جانتا ہوں۔

شام کو جو رپورٹ میرے پاس آئی، اس سے معلوم ہوا کہ نمبر ۱۲ "عجیب پسائیت کے عالم” میں ہے۔ وہ تیزی اور وہ حرارت کافور ہو گئی۔ جو شروع میں تھی اور اب تو بڑی حسرت سے کہتے ہیں اور وہ بھی بڑے پر درد لہجہ میں۔ "ابے موذی کیوں میری جان کے پیچھے پڑا ہے۔ شام کا وقت ہے۔ گاہک چھوڑ چھوڑ کر آتا ہوں۔ خدا کے واسطے میری جان چھوڑ۔ ”

دوسرے روز دکان نمبر ۱۲ کے مالک مجھ سے ملنے آئے۔ میں باہر برآمدے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ مجھے انہوں نے مفصل قصہ سنایا۔ میں نے سب سے پہلے تو حیرت و استعجاب کا اظہار کیا بلکہ یقین کرنے سے انکار کیا، پھر بڑی مشکل سے یقین کیا۔

"میرے یاں سے ! میرے یہاں سے !۔ ۔ ۔ ۔ آپ کو۔ ۔ ۔ ۔ ناممکن! ہر وقت ٹیلی فون کے کمرے میں تالا پڑا رہتا ہے۔ مجال نہیں کسی کی جو کوئی چھو بھی سکے۔ میں کل متھرا گیا تھا تو تالا ڈال کر گیا۔ ۔ ۔ ۔ آج ہی رات تو کمرہ کھولا ہے۔ ۔ ۔ ۔ (مسکرا کر) ہوئی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ کوئی اور نمبر ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اس کے بعد) ممکن ہے کوئی اور صاحب! میں عرض نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ میری تو عقل کام نہیں کرتی۔ ۔ ۔ ۔ کچھ سمجھ میں آتا۔ ۔ ۔ ۔ میں کیا تدبیر بتاؤں۔ ۔ ۔ ۔ میں اول اس معمے کو ہی سمجھوں کہ میرے یہاں سے کسی نے کیسے بات کی تب کہیں دماغ بھی لڑاؤں۔ ۔ ۔ ۔ (پھر اس کے بعد) بڑے افسوس کی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ لا حول ولا قوۃ۔ ۔ ۔ ۔ سخت ذلیل حرکت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہیں تاہم لوگ آخر کو ہندوستانی۔ ۔ ۔ ۔ بھلا ایسا یورپ میں ہو تو کاہے کو دنیا کا کام چلے۔ ۔ ۔ ۔ آپ سٹی مجسٹریٹ کو رپورٹ کریں۔ ۔ ۔ ۔ ایکس چینج والے کلرک پر دعویٰ کریں۔ ہو نہ ہو اسی کی بدمعاشی ہے وغیرہ وغیرہ، غرض اسی قسم کی باتیں کر کے انہیں رخصت کیا۔

دو تین ہی دن میں عجیب حال ہو گیا۔ ایک آنریری مجسٹریٹ بڈھے سے انہوں نے اول روز جب سنا تو اپنے نواسوں کو مارا، لیکن تیسرے روز سنا تو کچھ مسکرا کر بولے کہ "آج ہم نے بھی سوچا کہ لاؤ دیکھیں کہ یہ نمبر ۱۲ والا کیا کہتا ہے تو وہ تو بڑا بدمعاش۔ بڑی گالیاں دیتا ہے۔ ”

ظاہر ہے کہ کون بھلا مانس ہو گا جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھو لیا ہو گا۔

 

                (۱۱)

 

پانچویں روز ہی سب معاملہ سرد ہونا شروع ہوا۔ نمبر ۱۲ نے اب عقلمندی سے کام لیا۔ ٹیلی فون پر آتے، کان سے آلہ لگاتے مگر بندہ خدا بات نہ کرتے۔ یعنی جواب ہی نہ دیتے۔ لوگوں نے جب دیکھا تو مایوس ہو کر بیٹھنا شروع ہوئے۔ اب نمبر بارہ کو بڑی کامیابی ہوئی اور قریب قریب معاملہ سرد پڑ گیا تھا کہ میں ایک صاحب کے یہاں پہنچا۔ کسی قدر کبیدہ خاطر اور مغموم ہو کر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر نمبر ۱۲ کی خاموشی کی مجھ سے شکایت کی کہ میرا دل لرز گیا۔ میں نے انہوں اطمینان دلایا کہ خدا کارساز حقیقی ہے۔ وہ مجیب الدعوات ہے۔ ذرا ٹیلی فون کا آلہ ادھر تو لاؤ۔ وہ لے آئے۔ میں نے سلسلہ کلام شروع کیا۔

"ایکسچینج۔ ۔ ۔ ۔ ۱۲”

سلسلہ نمبر ۱۲ سے مل گیا، اور اب مجھے معلوم تھا کہ اگر جوتوں کا نرخ پوچھوں گا تو یہ حضرت چپ چاپ آلہ رکھ کر گاؤ تکیہ پر جا بیٹھیں گے۔ لہٰذا میں نے کہا:

"دیکھئے۔ ۔ ۔ ۔ دروغہ جی ہیں؟”

نمبر ۱۲ کو مجبوراً بولنا پڑا۔ "کون دروغہ؟”

"کوتوالی سے بولتے ہیں نا آپ؟” میں نے کہا "ذرا چھوٹے تھانیدار صاحب کو بھیج دیجئے ٹیلی فون پر۔ ۔ ۔ ۔ ”

نمبر ۱۲ نے کہا: "یہ کوتوالی نہیں ہے !”

میں۔ "پھر؟”

نمبر ۱۲ یہ تو نمبر ۱۳ جوتوں کی دکان ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ”

میں "جوتوں کی دکان ہے !”

نمبر ۱۳۔ "جی ہاں۔ ”

میں۔ "اچھا تو پھر جوتوں کا نرخ ذرا بتا دیجئے گا۔ ”

کیا عرض کروں کہ کیا کچھ ان کانوں نے سنا، وہ وہ مغلظات سننے میں آئی ہیں کہ بیان سے باہر۔

اس نسخے کو دریافت ہونا تھا کہ ایک نیا سلسلہ چھڑ گیا۔ نمبر ۱۳ سے سلسلہ ملوا کر کوئی تو حکیم جی کو پوچھتا ہے تو کوئی پیر جی کو، اور کوئی شیخ جی کو پوچھتا ہے، تو کوئی پنڈت جی کو اور پھر اس میں لوگوں نے وہ وہ اختراعیں کی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ کوئی کہتا ہے کہ "میں گھڑی شام کو بھیج دوں گا۔ ” نمبر ۱۳ کہتے ہیں کیسی گھڑی۔ آپ کو غلطی ہوئی ہے۔ وہ بات کرنے والا اپنی غلطی معلوم کرتے ہی جوتوں کا نرخ پوچھتا ہے۔

ایک صاحب نے تو حد ہی کر دی۔ بڑی لمبی چوڑی تمہید اٹھانے کے بعد بڑی دیر میں جوتوں کا نرخ اس قدر گھما پھرا کر پوچھا ہے کہ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ نہ معلوم انہوں نے کس طرح بہلا پھسلا کر نمبر ۱۳ سے کسی صاحب کے مکان یا محلے کا راستہ ٹیلی فون پر پوچھنا شروع کر دیا اور جب وہ بتا چکے تو اس کے بعد شکریہ ادا کر کے جوتوں کا نرخ پوچھا۔

نتیجہ اس کا ظاہر ہے۔ اسی مہینے میں نمبر ۱۳ نے تیلی فون اپنے یہاں سے اٹھوا دیا۔ یہ تو خیر ہونا ہی تھا مگر بیسویں صدی کی اس بہترین ایجاد سے اصل فائدہ کسی اور نے اٹھایا۔ کسی ڈاکٹر صاحب نے تیلی فون لیا۔ نمبر ۱۳ خالی تھ لہذا قاعدہ کے مطابق ان کو نمبر ۱۳ دیا گیا۔ لوگوں کو یہ کیا پتہ کہ نمبر ۱۳ پر اب کون ہے۔ لگے سب کے سب ڈاکٹر صاحب کی "کاری” کرنے۔ ڈاکٹر صاحب نے جب دیکھا کہ یہ کیا مصیبت آئی کہ نہ لڑنے سے کام چلتا ہے نہ جھگڑنے سے نجات ملتی ہے تو بوکھلا کر انہوں نے اپنا نمبر بدلوایا۔ محکمے کو مجبوراً نمبر ۱۳ ایک عرصے تک خالی رکھنا پڑا۔ جب جا کر اس مصیبت کا خاتمہ ہوا۔

یہ ہے ان فوائد کا تھوڑا سا ذکر جن کی وجہ سے ٹیلی فون کو بیسویں صدی کی بہترین ایجاد تسلیم کرنا پڑتا۔ لیکن میں پھر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ نہ نو میں موذی ہوں نہ کوئی بلا ہوں۔ ہاں تیلی فون کے ایک سیٹ کا البتہ مالک ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

خواب بیداری

 

                پہلا حملہ

 

والد صاحب قبلہ کے حقے کی گڑگڑاہٹ اور والدہ صاحبہ کی چھالیہ کترنے کی آواز بند ہو چکی تھی۔ ۔ ۔ لالٹین تو پہلے ہی گل کر دی گئی تھی۔ ۔ ۔

رات اندھیری اور غمناک سی تھی۔ چاروں طرف گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ اور ہوا ایک تیزی مگر روانی کے ساتھ چل رہی تھی۔ آسمان پر تاریکی کا دل بادل چھایا ہوا تھا۔ ہوا کی جنبش اور سرسراہٹ کے ساتھ آسمان کی چادروں پر سیاہی کی چادریں پھیلتی معلوم ہوتی تھیں۔ نہایت ہی "سیاہ” اور بھیانک رات تھی۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ لیکن میں جاگ رہا تھا۔

چھت پر سے سامنے کا منظر!

دور تک ویران اور خشک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ جو رات کی تاریکی میں ڈوب کر رہ گیا تھا اور اس وقت اندھیرے میں ایک سیاہ اور خوفناک اجگر کا تخیل معلوم ہوتا تھا۔

میں نے غور سے پہاڑ کی طرف دیکھا۔ سیاہی اور تاریکی! ہوا کی۔ ۔ ۔ لرزش اور پیچ در پیچ تاریکی کے دھوئیں میں آنکھوں نے قدیم مقبرے کے بلند مینار کو ڈھونڈ لیا جو کہ تاریکی کے خون آشام دیو کی منحوس اور خاموش انگلی کی طرح پہاڑیوں کی فضا کی متزلزل تاریکی میں ہوا کی جنبش کے ساتھ بل کھاتا معلوم دیتا تھا۔

مجھے ایک پھریری سی آئی۔ اس اندھیر رات میں مسجد سے ملحق مقبرہ اور عمارتوں کے کھنڈروں کا نقشہ اپنی تمام ویرانگی اور نحوست کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ تاریکی۔ نحوست۔ کھنڈر۔ ویرانہ۔

شیر شاہ سوری کے زمانہ کی عمارتوں کے کھنڈر اس پہاڑی پر یاد رفتگان بنے ہوئے کھڑے تھے۔ کسی زمانہ میں یہاں ایک مغرور راجپوت کا قلعہ تھا جس کی شکستہ فصیلیں اور بوسیدہ دیواریں اب بھی جگہ بہ جگہ کھڑی رہ گئی تھیں۔ قلعے کے دروازے کے نشانات کے سامنے ستی کی چھتری سی بنی ہوئی تھی اور دور تک ڈھلوان زمین چلی گئی تھی کہ جس کے اختتام پر شاہی مسجد اور کھنڈروں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ان کھنڈروں میں خاص چیزیں دو تھیں۔ ایک تو سیاہ باؤلی اور دوسری تاریک سرنگ۔ سرنگ کے بارے میں طے تھا کہ جو اس میں گیا واپس نہ آیا۔ اور باؤلی کے بارے میں طرح طرح کی روایات مشہور تھیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ محبت کی ماری ستی اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ جل مرنے کے بعد اب اسی سیاہ باؤلی میں رہتی تھی اور اسی کی مناسبت سے یہ خوفناک باؤلی ستی کی باؤلی کہلاتی تھی۔

جہاں دن کو جاتے دہشت معلوم دے وہاں اس وقت کیا عالم ہو گا! میں سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ رات کی اندھیری تھی۔ ۔ ۔ تاریکی کے ہیبت ناک دیوتا کا راج تھا۔ ۔ ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی پروائی ہوا ایک نظام کے ماتحت گویا بہہ رہی تھی۔ ۔ ۔ عالم کائنات ایک متزلزل اور تاریک سا خوب۔ ۔ ۔ ستی کی باؤلی۔ ۔ ۔ کھنڈر۔ ۔ ۔ دہشت۔ ۔ ۔ ستی۔ ۔ ۔ باؤلی۔ ۔ ۔ محبت۔ ۔ ۔ مگر جنت۔

رات ڈھل چکی تھی۔ ۔ ۔ تاریکی۔ ۔ ۔ خوفناک تاریکی میں بل کھا کر ایک نور کی سی لرزش پیدا ہوئی۔ ایک مختصر تلاطم۔ ۔ ۔ کشمکش۔ ۔ ۔ فضا کچھ متزلزل سی ہوئی۔ تاریکی کی خوفناک اور سیاہ چادروں کو لرزش سی ہوئی۔ ۔ ۔ ایک دلربا ترنم کے ساتھ فضا میں حرکت سی ہوئی۔ ۔ ۔ آواز آئی۔ ۔ ۔ پیچ در پیچ دھوئیں کو آہستہ سے چیر کر ایک مسکراتا ہوا نورانی چہرہ نکلا! دھوئیں کے ہیولے میں رقصاں و لرزاں! چاند کی طرح سیاہ بدلیوں سے آنکھ مچولی۔ ۔ ۔ چشم زدن میں اس پاکیزہ اور معصوم چہرہ کے ارد گرد ایک عجیب و غریب دھواں سے پھیلتا ہوا معلوم ہوا۔ ۔ ۔

میرے منہ سے دفعتہً نکلا "جنت”، دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا۔ میں نے پھر کہا "جنت” اور اٹھ بیٹھا۔ ۔ ۔ چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔ ۔ ۔ ایک خاموش طلسم تھا کہ چہرے کی سنجیدگی میں آنکھیں نین باز تھیں۔

میں نے پھر کہا۔ "جنت۔ ۔ ۔ کھیلو گی نہیں۔ ”

بجائے جواب ملنے کے چہرے کو حرکت ہوئی جیسے پانی پر ناؤ کو اس وقت حرکت ہوتی ہے جب وہ کنارہ سے روانہ ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا کہ جنت کا چہرہ بالکل اسی خاموشی اور اسی سکون کے ساتھ گویا کہ تاریکی میں آہستہ آہستہ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ بہا جا رہا ہے۔

"کدھر؟” میرے منہ سے عالم بے اختیاری میں نکلا۔ اور ساتھ ہی میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ ۔ ۔ بستر سے اٹھا۔ ۔ ۔ جنت کے خوبصورت اور نورانی چہرہ کے تعاقب میں۔ ۔ ۔ چھت پر سے نیچے آیا۔ ۔ ۔ کنڈی کھولی۔ ۔ ۔ دروازہ سے باہر نکلا۔ ۔ ۔ جنت کا معصوم چہرہ آگے اور میں پیچھے !

سنسان گلیاں منٹوں میں طے ہوئیں۔ اب جنت کا چہرہ آگے اور میں پیچھے۔ ۔ ۔ ستی کی باؤلی کی طرف چلا جا رہا تھا! جنت کا چہرہ میری رہنمائی کر رہا تھا وہ بہا چلا جا رہا تھا۔ اور میں اس کے پیچھے۔

بقول کے جنگل بیابان۔ ہو کا میدان۔ نہ آدم، نہ آدم زاد۔ سوتا سنسار جاگتا پروردگار۔ ۔ ۔ اس ہولناک تاریکی میں سیدھا میں ستی کی باؤلی کی طرف جا رہا تھا۔ ناہموار راستہ اور یہ تاریکی! لیکن نہیں میرے لئے راستہ اول تو نیا نہ تھا اور پھر اندھا تھوڑا ہی ہوں۔

دشت و جبل میں اس وقت خوفناک عناصر کا راج تھا۔ اس بلا کی تاریکی میں تیز ہوا دندناتی آتی تھی۔ پہاڑوں کے رخساروں پر طمانچے مارتی ہوئی چیختی چنگھاڑتی اور غصے میں درختوں کے جھونٹے کھسوٹتی ہوئی سنسناتی اور بولتی چلی جاتی تھی! ایک دم سے معلوم ہوتا تھا کہ اندھیرے کا خون آشام دیوتا سانس لے رہا ہے۔ دردناک صدائیں اٹھتی تھیں اور دور تک اندھیرے میں سنسناتی اور تیرتی چلی جاتی تھیں۔ ان کی صدائے بازگشت پہاڑوں اور کھنڈروں میں دیر تک ٹکراتی تھی اور پھر کم ہوتی جاتی تھی کہ پھر اسی رفتار سے ہوا آتی تھی۔ اور صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ فضا میں ایک ہیجان سا برپا ہوتا تھا اور پھر اسی طرح کمی ہوتی جاتی تھی۔ یہ خوفناک مد و جزر جاری تھا اور میں جنت کے خوبصورت چہرے کے پیچھے چلا جا رہا تھا۔

میں اسی طرح چلا جا رہا تھا۔ سنسان اور ویران کھنڈروں میں ہوتا ہوا۔ جہاں کوئی جوان آدمی اگر تنہا جائے تو دن کو بھی مارے دہشت کے کلیجہ ہل جائے۔ اور میں خود اگر اکیلا دن کو آتا تو مارے ڈر کے مر جاتا۔

دریچوں میں سے ہوتا ہوا۔ شکستہ دیواروں کو پھاندتا ہوا۔ چبوتروں اور کمروں سے ہوتا ہوا سیدھا میں ستی کی باؤلی کے خوفناک دھانے پر پہنچا۔ جنت کا خوبصورت چہرہ اس داخل ہوا اور اس کے پیچھے میں۔

ایک سیاہ اور تاریک دروازہ تھا۔ جہاں دن کو بھی انتہا درجے کی تاریکی ہوتی تھی۔ میں اس میں داخل ہوا۔ اندر کی فضا متعفن اور نم تھی۔ چمگادڑوں کی بدبو سے دماغ پراگندہ ہوا جا رہا تھا۔ عام باؤلیوں کی طرح اس میں سیڑھیاں نہیں تھیں۔ اس باؤلی پر ایک گنبد تھا۔ دروازے سے داخل ہو کر دو سیڑھیاں تو اترا اور پھر نینی تال کا سا ڈھال چلا گیا تھا۔ چکر کھاتا ہوا۔ گھومتا ہوا۔ رفتہ رفتہ یہ ڈھال بڑھتا گیا تھا۔ مگر میں تو جنت کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ اور جنت کے چہرے نے آہستہ آہستہ اس انتہا سے زیادہ خوفناک تاریک راستہ کے طے کرنا شروع کیا۔ میں اس کے پیچھے۔ ایک چاند تھا کہ خوفناک باؤلی کی خوفناک گہرائی میں اتر رہا تھا! راستہ ختم ہوا۔ جنت کا چہرہ آگے اور میں پیچھے۔ ہم دونوں گویا سطح زمین کے پچاس ہاتھ نیچے پہنچے۔ دشت و جبل ہمارے سر پر تھا کہ جہاں ہم تیز ہوا کو چیخیں مارتے چھوڑ کر آئے تھے۔ یہاں تو ایک ناقابل بیان سکوت نیم شبی تھا۔ جنت کا چہرہ اسی طرح گویا بہتا ہوا باؤلی کے گندے اور خوفناک مگر عمیق پانی پر پہنچا۔ کنارے پر میں کھڑا تھا اور وہیں سامنے میں نے خوب آنکھیں پھاڑ کر دیکھا کہ جنت کا چہرہ کنارے ہی پر پانی میں تیر رہا ہے ہ۔ میں غور سے دیکھنے کو وہیں کنارے پر بیٹھ گیا۔ مگر جنت کا چہرہ تو معلوم ہوا کہ اور دور ہے، میں اور جھکا اور دور معلوم ہوا۔ میں اور جھکا اور جھکا۔ اور جھکا حتیٰ کہ میں نے گھٹنے وہیں نم اور متعفن زمین پر ٹیک دیئے اور دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر پانی پر جھکا۔ اور جھکا اور جھکا۔ حتیٰ کہ میری ناک سطح آب سے لگی۔ پلکوں میں غلیظ پانی کی کائی چمٹتی معلوم دی اور ناک سے غلیظ پانی بو دماغ میں پہنچی لیکن باوجود اس کے جنت کا چہرہ دور ہی ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اس خوفناک باؤلی کی گہرائیوں میں پہلے تو ایک نور کا نقطہ سا معلوم ہوا اور پھر وہ بھی معدوم ہو گیا۔ میں نے اپنا سر اونچا کیا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جس راہ سے آیا تھا۔ اس راہ واپس ہوا۔

پھر وہی خوفناک راستے طے کئے۔ ہوا بدستور دشت و جبل میں چنگھاڑ رہی تھی۔ وہی خوفناک منظر تھا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کس طرح ان تمام چیزوں سے گونہ بے نیازی کے ساتھ میں اپنی دھن میں گھر کی طرف واپس چلا آ رہا تھا۔

بغیر کہیں رکے ہوئے گھر پر پہنچا۔ ایک عجیب دھن سوار تھی۔ زینے پر چڑھا اور اپنے بستر پر پھر اسی طرح پڑ رہا۔

صبح آنکھ کھلی تو میں نے بوکھلا کر چاروں طرف دیکھا۔ رات کے عجیب و غریب خواب پر غور کرنے لگا۔ عجیب شش و پنج میں پڑ گیا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ خواب تھا یا سچ مچ میں ستی کی باؤلی کی سیر کر آیا۔ کبھی معلوم ہوتا کہ خواب نہیں تھا۔ لیکن ناممکن ہونے کی وجہ سے پھر کہنا پڑتا کہ خواب ہے۔ میں شاید کچھ اور بیٹھا سوچتا رہتا کہ نیچے گھر میں والدہ صاحبہ، والد صاحب اور ملازمہ کے تیزی سے بولنے کی آوازیں آئیں۔ ایسی کہ میں تیزی دے نیچے پہنچا۔

گھر میں اس وقت ایک تہلکہ برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ جس کی وجہ سے میں اور بھی حیران ہوا۔ وہ یہ کہ والدہ مصر تھیں کہ انہوں نے رات کو دروازہ بند کر دیا تھا اور والد صاحب فرما رہے تھے کہ یہ قطعی غلط بات ہے اور ہو نہ ہو والدہ صاحبہ نے طے کر لیا ہے کہ اپنی لاپروائی سے جب تک چوروں کو گھر میں نہ گھسا لیں گی اور گھر نہ لٹ جائے گا اس وقت تک چین نہ لیں گی۔ اب بتائیے کہ میں اس دلچسپ اور غیر دلچسپ گتھی کو سلجھاتا اور غالباً مارا جاتا یا پھر اپنی حیرانی دفع کرتا۔

"ہوش میں نہیں ہے لڑکے ! ابھی مٹی اور کیچڑ میں گھٹنوں چلنا بند نہیں کیا۔ ”

میں صحیح عرض کرتا ہوں کہ میں اور بھی حیران رہ گیا۔ یہ واقعہ تھا کہ میرے گھٹنوں پر مٹی اور کائی لگی ہوئی تھی۔ اب میں نے ہاتھوں کو بھی دیکھا۔ نہ صرف مٹی اور کائی لگی ہوئی تھی بلکہ ستی کی باؤلی کی تعفن تک ہاتھ میں موجود تھی۔

جب والدہ صاحبہ نے ہاتھوں کو بھی دیکھا اور ناک پر بھی مٹی نظر پڑی اور میں نے دیکھا کہ اب انہوں نے مجھے پیٹنے کی تمہید اٹھائی تو گھبرا کر میں نے رات کے عجیب و غریب خواب کا ذکر کیا۔

میرا عجیب و غریب قصہ غور سے سنا گیا۔ رات کو دروازہ کھلا رہ جانے کا معمہ بھی حل ہو گیا۔ والدہ صاحب متفکر اور والد صاحب متوحش سے معلوم ہوئے۔ یقین نہ کرتے اگر میں یہ نہ کہتا کہ میں ضرور ستی کی باؤلی میں گیا ہوں اور اگر یقین نہ ہو تو دیکھ لیجئے وہاں میرے ہاتھوں اور پیروں کے نشانات ضرور بے ہوں گے۔

والد صاحب کے لئے کیا بلکہ ہرکس و ناکس کے لئے یہ بات نہ صرف ناقابل اعتبار اور جھوٹی تھی بلکہ ناممکن۔ والد صاحب نے محلہ کے دو ایک دوستوں سے قصہ بیان کیا۔ کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ کہا۔ اور طے یہ ہوا کہ چونکہ میرے بیان میں ایک عجیب قسم کی صداقت ہے لہذا کیوں نہ اس کی تصدیق کر لی جائے۔ گھر کی ملازمہ نے اور دوسری عورتوں نے یہ تجویز کیا کہ ضرور بالضرور جنت کے بھیس میں باؤلی والی ستی آئی تھی جو مجھے وہاں رات کو کھینچ لے گئی۔

قصے کو طول دینا نہیں چاہتا۔ مختصر عرض کرتا ہوں۔ مجھے والد صاحب نے ساتھ لیا۔ ان کے دو چار دوست اور کوئی درجن بھر دوسرے بہادر اور محلے کے بیکار لوگ لٹھوں سے مسلح ہو کر اور لالٹینیں اور دیا سلائیاں لے کر موقع پر پہنچے۔ لالٹینیں روشن کی گئی۔ قل ہو واللہ وغیرہ پڑھی گئی اور بہت احتیاط سے سب کے سب باؤلی کے اندر داخل ہوئے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ میرے پیر کے نشانات ملے۔ واپسی میں جوتے میں باؤلی کی کیچڑ لگ گئی تھی اور کیونکہ میرے جوتے میں لوہے کے اسٹار لگے تھے۔ وہ فوراً شناخت کر لئے گئے۔ آہستہ آہستہ اور قرآنی آیات پڑھتے ہوئے سب لوگ اور اندر اترے۔ قدم قدم پر میں کچھ نہ کچھ بتاتا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ باؤلی کا سیاہ اور خوفناک پانی لالٹینوں کی روشنی میں عجیب منظر پیش کرنے لگا۔ کنارے پر میرے ہاتھوں اور پیروں کے صاف نشانات موجود تھے، صاف ثابت تھا کہ میں سچ مچ عالم خواب میں ایسی اندھیری اور خوفناک رات میں یہاں آیا۔ میں خود انتہا سے زیادہ پریشان اور خوفزدہ تھا۔ میری عمر ہی کیا تھا، بمشکل بارہ برس۔

اب بتائیے کہ اس معمے کا حل سوائے اس کے اور کیا تھا کہ ہو نہ ہو یہ باؤلی والی ستی جنت کے بھیس میں ہمارے ہاں آئی اور عرصے تک رہ کر جس طرح آئی تھی اسی طرح چلی گئی۔ اور اب بقول والدہ صاحبہ "بچے ” کی جان کے لالے پڑ گئے !

اب سنئے کہ یہ جنت کون تھی۔ کوئی دو سال پیشتر ہمارے محلے کی ایک مسجد میں صبح تڑکے کسی بچے کے رونے کی آوازیں آئیں۔ لوگوں نے دیکھا تو ایک چار پانچ سال کی لڑکی کو ایک فقیر کی لاش کے پاس روتا ہوا پایا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فقیر معہ لڑکی کے رات کو مسجد میں سویا اور رات ہی کو مر گیا۔ لڑکی دیکھنے سے شریف زادی معلوم ہوتی تھی۔ لیکن سوائے رونے کے اور لفظ "اماں” یا "ابا” یا "گھر” کے اور کچھ بھی نہ بتا سکی۔ لڑکی ہمارے یہاں لائی گئی اور والدہ صاحبہ کو وہ اتنی اچھی معلوم ہوئی کہ انہوں نے والد صاحب سے کہا۔ والد صاحب نے پولیس والوں سے لڑکی کو اس شرط پر گود لے لیا کہ ہم پرورش کریں گے اور جو کوئی اس کا والی وارث پیدا ہو گیا تو واپس کر دیں گے۔

والدہ صاحبہ نے اس لڑکی کو بڑی محبت سے اپنی اولاد کی طرح رکھا، تین ساڑھے تین سال تک وہ ہمارے یہاں رہی۔ پھر ایک دن پولیس والے آئے اور اس کو حسب وعدہ واپس لے گئے۔ اس کے جانے کے بعد والدہ صاحب کو جو کچھ ہوا وہ اس سے ظاہر ہے کہ وہ خوب رویں۔ میں رویا تو قطعی نہیں، ہاں دل ہی دل میں اس کے چلے جانے پر بے حد کڑھا۔ وہ چلی گئی اور سچ پوچھئے تو اپنی یاد میرے دل میں اس طرح چھوڑ گئی کہ دو روز میں نے سیر ہو کر کھانا نہ کھایا۔ وہ مجھ سے بے حد مانوس ہو گئی تھی اور میں اس سے مانوس ہو گیا تھا۔ قصہ مختصر وہ چلی گئی اور اپنی یاد میرے دل میں چھوڑ گئی۔ اس کا بھولا بھالا اور معصوم چہرہ کئی دن تک ہر دم میرے سامنے رہا۔ اس کی شوخ اور متبسم آنکھیں ہر دم گویا میرے سامنے تھیں۔ تنہائی میں تو بعض اوقات میں اس کا نام لے کر پکار اٹھنے کو ہوتا کہ حقیقت کا خیال آ کر چپ کا چپ رہ جاتا۔ جس روز یہ واقعہ پیش آیا وہ اس کے گئے ہوئے تیسرا دن تھا۔ والدہ صاحبہ نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ جنت کا خیال بھی دل میں نہ لاؤں اور سمجھا دیا کہ وہ ایک خطرناک چڑیل تھی۔ میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ جی ہاں میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں۔ لیکن ایک اندرونی آواز ہے جو مجھ سے فوراً پکار کر کہتی ہے کہ "غلط۔ ”

 

                دوسرا حملہ

 

چاندنی چھٹکی ہوئی تھی اور چاروں طرف نور سا چھنتا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ میری نظر چھت پر سے اسی طرف گئی۔ ستی کی باؤلی!۔ ۔ ۔ کھنڈر۔ ۔ ۔ منارہ! ایک نور کا عالم تھا۔ مگر چاند کی مدھم روشنی اس طرف کی سیاہی سے جھگڑتی معلوم ہوتی تھی۔ ۔ ۔ ایک دھندلکا سا چھایا ہوا تھا۔ میں دیکھتے ہی کچھ سہم سا گیا۔ کوئی چیز مجھے آج پھر اس طرف کھینچ رہی تھی۔

پیشتر کی طرح قریب ڈیڑھ بجے کے پھر میں بیہوش اور خواب کے عالم میں اٹھا۔ دروازہ چپکے سے کھولا اور چل دیا۔

جب اس موقع پر پہنچا ہوں کہ سڑک چھوڑ کر بائیں ہاتھ کو پہاڑی اور کھنڈر کی طرف مڑوں تو میں جاگ اٹھا! جی ہاں جاگ اٹھا! بیدار ہو گیا! ایک گولی سی لگی!۔ ۔ ۔ ایک انتہا سے زیادہ خوفناک اور دلدوز چیخ تھی جو چاندنی رات کی نورانی فضا میں سنسناتی ہوئی آئی اور گولی کی طرح لگی۔ جس سے میں چونک پرا اور جاگ اٹھا۔ ۔ ۔ !

ہوش میں آیا ہوں تو بدن میں ایک سنسنی سی تھی۔ رونگٹے کھڑے ہوئے تھے۔ سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑک سامنے دور تک چاندنی میں چمکتی چلی گئی تھی۔ داہنے ہاتھ کو ایک عظیم الشان برگد کا درخت تھا اور بائیں ہاتھ کو کھنڈر۔ ۔ ۔ پہاڑی کا سلسلہ۔ ۔ ۔ باؤلی۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک سناٹا چھایا ہوا تھا اور اسی سناٹے میں سیدھی باؤلی والی سمت سے ایک دلدوز چیخ کی آواز آئی تھی۔ جس نے مجھے جگا دیا۔ میری عمر ہی کیا تھی۔ ایک دم سے دہل کر رہ گیا۔ پہلی آواز کیا کم تھی کہ پھر آواز آئی۔ کس قدر دردناک لہجہ میں ڈوبی ہوئی کسی عورت کے کراہنے کی آواز تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو اس کو کوئی انتہائی اذیت دے رہا ہے۔ پھر آواز آئی اور فضا میں ڈوبتی چلی گئی۔ لیکن اس دفعہ کسی ظالم کے قہقہے کی آواز سے ایک دم سے دشت و جبل ہلتا معلوم ہوا جو اس مظلوم عورت کی درد بھری آواز کی ہنسی اڑا رہا تھا۔

ایک دم سے عورت کے کراہنے کی آواز کہا تو فاصلے سے بائیں طرف سے آ رہی تھی کہ ایک دم سے بالکل ہی قریب داہنی طرف سے آئی! اتنے قریب کہ میں اچھل پڑا۔ یا میرے اللہ! کیا کوئی بلا میری طرف نہیں آ رہی تھی۔

آواز اور بھی قریب سے آئی۔ بہت زیادہ دردناک تھی۔ اور اس آواز کا تمسخر اڑانے والی قہقہے کی آواز قریب کے عظیم الشان برگد پر سے آئی۔ قہقہے کی آواز میرے دل پر گھونسے کی طرح لگتی معلوم دی۔ مارے ہیبت اور دھڑکے کے میرا خون جمتا سا معلوم دیا۔ دل بیٹھنے لگا، چلانا چاہا تو آواز نہ نکلی۔ سہم کر میں مٹھیاں بھینچ کر بیٹھ گیا اور بیہوش ہو گیا۔

مجھے ہوش آیا تو میں اپنے کو بستر میں پڑا پایا۔ ابھی رات ہی تھی۔ میں اپنے گھر میں تھا۔ سامنے ایک کرسی پر ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور محلہ کے تین چار آدمی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے ہوش میں دیکھ کر فوراً دوا دی۔ مجھے اطمینان دلایا۔ بات چیت سے پتہ چلا کہ والد صاحب کی اتفاق سے آنکھ کھلی، مجھے بستر سے غائب پا کر دو ایک ساتھیوں کو لے کر چلے اور مجھے بے ہوش پڑا پایا۔

تھوڑی ہی دیر بعد میں چاق و چوبند ہو گیا مگر ڈر کا صدمہ اب بھی مجھے بے حال کئے ہوئے تھا۔ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب نے تشخیص مرض کے سلسہ میں مجھ سے سوالات کرنا شروع کر دیئے۔ میں نے سارا قصہ شروع سے لے کر اخیر تک کہہ سنایا۔ ایک پڑوسی فوراً اچھل پڑے۔ کہنے لگے لاحول ولا قوۃ۔ پھر اس کے بعد اپنا تجربہ سنایا کہ کس طرح بعینہ یہی واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا تھا کہ کسی کے کراہنے کی آواز آتی تھی۔ کبھی ایک طرف سے اور کبھی دوسری طرف سے۔ اور پھر کسی کے قہقہے کی آواز۔ حقیقت دراصل یہ تھی کہ الو بولتا ہے۔ سینکڑوں قسم کی بولیاں بولتا ہے۔ طرح طرح کی بولیاں بولتا ہے۔ وہ خود ڈر گئے تھے اور محلے والے بھی ڈر گئے تھے۔ بہت دیر تک الو کی بولیوں کی باتیں ہوتی رہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی وہی پیش آیا تھا جو میرے ساتھ۔ قصہ مختصر کہ آواز والا معمہ حل ہو گیا اور اس کے بعد میری بیماری کا قصہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے تشخیص کی کہ مجھے سومنوہولزم ہے۔ جنت وغیرہ سب وہم ہیں۔ اصل میں اس مرض میں مریض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ سوتے میں چلتا پھرتا ہے۔ آنکھیں بند رہتی ہیں۔ مگر چلتے میں اسے سب دکھائی دیتا ہے۔ سخت خطرناک مرض ہے اور جم کر علاج کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر یہی حالت رہی تو رات کو عجب نہیں کسی دن کوئی خوفناک حادثہ رونما ہو جائے۔

ڈاکٹر صاحب تو یہ رائے دے کر اور دوائیں وغیرہ تجویز کر کے چلے گئے لیکن والدہ صاحبہ نے جو تمام کیفیت معلوم کی تو الو والی روایت ہی ایک سرے سے رد کر دی اور اعلان کر دیا کہ علاج سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بعد بحث مباحثے کے یہ طے ہوا کہ ڈاکٹری اور روحانی علاج دونوں ہوں گے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ان دونوں علاجوں سے جو کچھ بھی فائدہ ہوا وہ اس سے ظاہر ہے کہ ایک روز رات کو اٹھ کر میں نعمت خانہ میں جتنا حلوا رکھا ہوا تھا خواب ہی کی حالت میں کھا گیا۔ والدہ صاحبہ سے مانگا تو انہوں نے تھوڑا سا دیا۔ دوبارہ مانگا تو نہ دیا۔ صبح اٹھ کر میں غور کر رہا تھا کہ سچ مچ میں نے رات کو حلوا کھایا یا محض خواب تھا کہ اتنے میں والدہ صاحبہ نے حلوہ کی چوری کا الزام ملازمہ کے سر دھر کر اسے ڈانٹنا شروع کیا۔ تب جا کر مجھے یقین ہوا۔

وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ میرے مرض میں از خود کمی ہوتی گئی۔ جنت کا خیال بھی رفتہ رفتہ دل سے محو ہو گیا۔ کبھی کبھار مرض کا ہلکا سا حملہ ہو جاتا تھا۔ کبھی جنت کا چہرہ خواب میں دکھائی دیتا۔ میں اٹھتا بھی لیکن وہ بہت جلد گھوم گھام کر غائب ہو جاتا۔

سال ڈیڑھ سال میں مرض کا نشان تک نہ رہا اور جنت کا خیال بھی قطع جاتا رہا۔ ایسا کہ کبھی بھول کر بھی اس کا خیال نہ آیا۔

 

                تیسرا حملہ

 

لڑکپن گیا اور جوانی آئی اور کبھی بھول کر بھی نہ تو مجھے جنت کا خیال آیا اور نہ کبھی مرض کا حملہ ہوا۔ خدا نے وہ دن دکھایا کہ میری شادی طے ہوئی اور میری والدہ صاحب منگنی کی رسم ادا کرنے گئیں۔ میری ہونے والی بیوی کو بھی دیکھ آئیں۔ میری شادی کے دن قریب آئے اور وہ وقت آیا کہ عزیز و اقارب جمع ہو کر برات کی صورت اختیار کر کے روانہ ہوں۔

رات بھر اور آدھا دن چل کر ایک دوسرے شہر میں برات پہنچی۔ دلہن والوں نے ہم لوگوں کو ایک عالیشان مکان میں ٹھہرایا۔ براتی لوگ زیادہ تر نیچے ٹھہرے۔ میں چونکہ دولہا تھا اور میرے دو دوست بھی ساتھ تھے لہذا ہم تینوں اوپر ایک کمرے میں ٹھہرے۔ کمرے کے سامنے بڑا صحن تھا اور دیوار سے لگا ہوا ایک فٹ بھر چوڑا لمبا سا لکڑی کا تختہ پڑا ہوا تھا۔ قد آدم دیوار تھی اور پچھواڑے پتلی سی گلی تھی جس کے اس طرف کسی رئیس کا ایک عالیشان مکان تھا۔

ہم لوگ سفر کے تھکے ہارے ہوئے تھے۔ بالخصوص میں بہت تھکا ہوا تھا اور بہت جلد سو گیا۔ رات کو ایک عجیب و غریب خواب دیکھا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ جنت کا خوبصورت چہرہ سامنے ہے۔ میں نے فوراً پہچان لیا۔ چہرہ وہی تھا۔ لیک اب کچھ اور ہی بات تھی۔ چہرے پر جوانی کا نکھار تھا۔ وہ ملکوتی حسن کہ میں دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ بالکل اسی شان سے لرزاں و رقصاں نظر آیا جس طرح میں نے سب سے پہلے خواب میں دیکھا تھا۔ میں بے تاب ہو کر اٹھا۔ "جنت” گویا میرے دل سے نکلا اور ایک عالم بے اختیاری میں میں اس کے پیچھے چلا۔ وہ آگے اور میں پیچھے۔ دیوار کے پاس آ کر وہ بلند ہوا۔ میں دیوار کے اس پار پہنچا اور میں نے دیکھا کہآاہستہ آہستہ ایک روانی کے ساتھ گلی کے اس پار پہنچا اور سامنے والے مکان کی کھڑکی میں داخل ہوا۔ میں دیوار کے اس طرف رہ گیا۔ خدا کی پناہ کیا بیتابی تھی۔ ایک مقناطیس تھا جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ میں مجبور تھا۔ دیوار پر سے میں نے دیکھا۔ ایک ہلکورے کے ساتھ کھڑکی سے چہرہ پھر باہر آیا۔ خدا کی پناہ! ایک شعلہ حسن تھا جس سے محبت اور کشش کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ میں مچھلی کی طرح ادھر بیتاب تھا۔ دفعتاً مجھے خیال آیا اور میں وہی لکڑی کا تختہ اٹھایا۔ جو سامنے پڑا ہوا تھا۔ دیوار پر سے اس کو اٹھا کر آگے بڑھایا اور سنبھال کر اس پار مکان کی کھڑکی پر اس کا سرا رکھا اور دوسرا دیوار پر اور اس طرح عارضی پل بنا کر میں جنت کے خوبصورت چہرے کی طرف چلا جو اب بھی کھڑکی کے پاس ہلکورے لے رہا تھا۔ احتیاط سے سنبھل کر میں کھڑکی پر پہنچا تو چہرہ کمرے میں تھا۔ میں بھی کمرے میں آ گیا۔ جنت کا چہرہ اسی طرح آہستہ آہستہ بہتا ہوا کمرے کی تاریکی میں ذرا دیر گھوما اور پھر فوراً تاریکی ہی میں ایسا ڈوبتا معلوم ہوا جیسے میں نے پہلی مرتبہ اسے باؤلی میں دیکھا تھا۔ دیکھتے دیکھتے میری آنکھیں تھک گئیں حتیٰ کہ وہ غائب ہو گیا۔ میں ایک لمحے بھر تو وہاں ٹھہرا اور پھر جس طرح گیا تھا اسی طرح واپس آ گیا۔ تختہ اٹھا کر جگہ پر رکھ دیا اور آ کر بدستور اپنے بستر میں اسی طرح پڑ رہا۔

جب صبح آنکھ کھلی تو میں عجیب چکر میں تھا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ واقعتاً میں نے صرف خواب دیکھا ہے یا سچ مچ اس کھڑکی میں گیا۔ تختہ کو آ کر بغور دیکھا مگر اس کی پیشتر والی کروٹ کا خیال ہی نہ تھا جو دیکھتا کہ دوسری کروٹ تو نہیں رکھا ہے یا جگہ سے تو نہیں سرکا ہے۔ ہاتھوں کو دیکھا۔ کپڑوں کو دیکھا لیکن کسی قسم کا کوئی نشان یا ثبوت اس امر کا نہ مل سکا جس سے میں شبہ کرتا کہ میں سچ مچ گلی کے اس پار کھڑکی میں ہو کر مکان میں پہنچا تھا۔ دیوار پر بھی چڑھنے کا کوئی نشان نہ ملا۔ قصہ مختصر بہت دیکھ بھال کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی ایک خواب تھا۔

 

                علاج

 

رات کو میرا نکاح ہونے والا تھا۔ دن بھر شادی کی حماقتوں میں گزرا۔ شام کو جبکہ مجھے مرغ زریں بنایا جا چکا تھا ایک عجیب شگوفہ کھلا۔ وہ یہ کہ مہر کے معاملہ پر طرفین میں اختلاف ہو گیا۔ وہ تیس ہزار کہتے تھے اور ادھر سے دس ہزار پر اصرار تھا۔ اسی بحث میں تلخیاں بڑھ گئیں اور بات اتنی بڑھی کہ یہ طے ہوا کہ جب تک یہ معاملہ طے نہ ہو جائے برات کے جائے قیام سے دلہن کے یہاں روانہ ہونا ہی فضول ہے۔ دیر تک ادھر سے ادھر قاصد دوڑا کئے مگر نتیجہ کچھ برآمد نہ ہوا۔ برات فی الحال توڑ دی گئی اور میں بھی اطمینان سے بیٹھ گیا۔ واللہ اعلم نیچے کیا کیا مباحثے اور تجویزیں ہوتی رہیں مجھے کچھ خبر نہیں میں تو کھانا کھا کر دوستوں کے ساتھ پڑ رہا اور جلد سو گیا۔ سوتے میں پھر وہی خواب دیکھا۔

بستر سے اٹھا۔ تختہ کھڑکی سے لگا کر دوسرے مکان میں جانے کا پل بنایا۔ اس پر ہو کر مکان کی کھڑکی میں داخل ہوا۔ بس داخل ہونا تھا کہ زلزلہ آ گیا! خدا کی پناہ! اس زور سے گھما کر کسی نا چانٹا رسید کیا کہ میرا منہ پھر گیا اور سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ میرے دونوں کان دو مضبوط ہاتھوں سے پکڑ کر اس زور سے جھٹکے گئے کہ میں منہ کے بل گرا اور اٹھتے اٹھتے میری چاند پر تڑاتڑ جوتوں کی بارش ہو گئی! خواب تھا کہ حقیقت؟ اجی لاحول ولا قوۃ۔ کہاں کا خواب۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت تھی کہ ایک نہایت ہی دیو ہیکل مضبوط پہلوان میری تاجپوشی کر رہا تھا اور ایک دوسرے حضرت کھڑے مجھے پٹوا رہے تھے۔ جب میں دیکھا کہ میں جان نہیں بچا سکتا تو میں نے مقابلے کا ارادہ کیا تو اس موذی نے میرا گلا زور سے پکڑ کر مجھے دے مارا اور میری چھاتی پر چڑھ کر میرے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔ دوسرے صاحب نے مجھے باندھنے میں مدد دی اور چشمِ زدن میں میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے اور مشکیں کس دی گئیں اور پھر اس کے بعد جو مجھے ان دونوں نے حسب توفیق مارنا شروع کیا تو بس کچھ نہ پوچھئے۔ جوتے، لاتیں، گھونسے، تھپڑ، غرض جس طرح بھی ممکن تھا مجھے مارا جا رہا تھا۔ ادھر میری حالت کا اندازہ آسان نہیں۔ ظالموں نے ایسا بے بس کیا تھا کہ یہ بھی نہ پوچھ سکتا تھا کہ ذرا سی خطا پر اتنی مرمت کیوں ہو رہی ہے۔

جب مارتے مارتے دونوں تھک گئے تو پہلوان نے اب ایک اور تمہید اٹھائی۔ برابر کی میز پر سے ایک استرا اٹھایا۔ آستینیں چڑھا کر اس کی دھار دیکھتے ہوئے مجھے مطلع کیا کہ اب میری ناک کاٹی جائے گی۔ دونوں کی آنکھوں سے خون برس رہا تھا اور دونوں اس قدر غضبناک تھے کہ خدا کی پناہ۔ چشم زدن میں پہلوان میری چھاتی پر چڑھ بیٹھا۔ میں نے ادھر ادھر سر جو ہلایا تو دوسرے صاحب نے مضبوطی سے سر پکڑ لیا۔ پہلوان نے اس زور سے بائیں ہاتھ سے میری ناک پکڑی کہ خدا یاد آ گیا۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں اور ناک سے ہاتھ دھو بیٹھا کہ ایک دم سے خدا نے رحمت کے فرشتے کو بھیجا۔ ایک اور صاحب تیزی سے کمرہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے گھبرا کر پہلوان کو ناک کاٹنے سے روکا۔ ان کی عمر کوئی پچاس پچپن برس کی ہو گی۔ دوسرے صاحب کو انہوں نے ہاتھ پکڑ کر علیحدہ کیا اور یہ دونوں پہلوان کو ٹھہرنے کا اشارہ کر کے برابر والے کمرے میں چلے گئے۔ پہلوان نے غالباً اس خیال سے کہ وقت ضائع نہ ہو جائے مجھے موٹی موٹی گالیاں دینا شروع کیں اور میری ناک اور کان اور گلا کاٹنے کے دل خوش کن پروگرام کی دلچسپ تفصیل سے میری تواضع کرنا شروع کی۔ میرے اشارہ کرنے کی کوشش کی طرف وہ بندہ خدا دھیان بھی نہ دیتا تھا۔ اسے اس سے کچھ بحث ہی نہ تھی کہ میں کچھ عذر کرنا چاہتا ہوں۔

تھوڑی دیر بعد وہ حضرت آئے جو نیکی کا فرشتہ ثابت ہوئے تھے۔ نہایت پاکیزہ صورت تھی۔ شرافت اور امارت چہرہ سے ٹپک رہی تھی۔ صورت شکل اور وضع قطع سے ان کے بھائی معلوم ہوتے تھے جو میری ناک کٹوا رہے تھے۔ انہوں نے آتے ہی پہلوان سے مجھے کھولنے کو کہا۔ پہلوان صاحب غالباً اس حکم کے منتظر تھے کہ ناک کاٹنے کو کہیں گے لہذا وہ کچھ مایوس ہوئے۔ لیکن مجبور تھے اور میرے ہاتھ پیر انہیں کھولنا پڑے۔ انہوں نے پہلوان کو اشارہ کیا اور وہ موذی کمرے سے باہر چلا گیا۔ اب ہم دونوں تنہا تھے۔ ان رحمدل بزرگ نے میرے منہ سے کپڑا نکالا اور نہایت ہی سنجیدگی سے بولے :

"اب تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ جو میں کہوں غور سے سنو۔ ورنہ یاد رکھو تمہارے ٹکڑے کر دیئے جائیں گے۔ جتنی بات میں پوچھوں اتنا جواب دو۔ زیادہ اگر فضول باتیں کیں تو تم جانو گے۔ ”

یہ کہہ کر انہوں نے میرا اور والد کا نام اور پتہ پوچھا اور پوچھنے کے بعد لاپروائی سے اس سے بیزاری بھی ظاہر کی۔ "خیر اس سے ہمیں کچھ بحث نہیں۔ ” نہایت ہی تلخی سے یہ کہہ کر پھر وہ بولے :

"تجویز تو یہ تھی کہ تمہیں اور خود اس ننگ خاندان دونوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور بوٹی بوٹی کر دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ”

میں فوراً بول ا تھا۔ "کون ننگ خاندان؟”

خدا کی پناہ! میرا یہ کہنا تھا کہ وہ پھٹ پڑے۔ "بدمعاش۔ بدتمیز۔ گردن زنی! کیا تیری موت آئی ہے ؟”

میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا "خدا کے واسطے مجھے کچھ تو بتائیے۔ ۔ ۔ ”

"حرامزادے ناشدنی، بتاؤں تجھے۔ پھر بلاؤں پہلوان کو۔ چپ بدتمیز ناہنجار، عذر گناہ بدتر از گناہ۔ تو یہ سمجھتا ہے کہ تیرے سیاہ اعمالنامے سے کوئی واقف ہی نہیں ہے۔ عذر کرتا ہے ! اپنی بدمعاشی پر بجائے ندامت کے پاجی پن کرتا ہے۔ تو نے ایسی خطا کی ہے کہ تجھے جیتا نہ چھوڑا جائے اور۔ ۔ ۔ ”

میں تنگ آ گیا اور گھبرا کر میں نے کہا۔ "میں بالکل بے قصور ہوں۔ بے گناہ ہوں۔ مجھے معلوم تو ہو کہ میں نے کیا خطا کی ہے۔ ”

جواب میں غضب ناک ہو کر انہوں نے مجھے چانٹے اور تھپڑ مارنے شروع کئے اور بے حد غصہ ہو کر بولے۔ "ازلی۔ اگر ایک حرف تو نے منہ سے نکالا تو سمجھ لے کہ تیری موت ہے۔ تو نے ہماری عزت لی۔ آبرو لی۔ تو سمجھتا ہے کہ ہم بے وقوف ہیں کچھ جانتے ہی نہیں کل رات کو میرے بھائی نے جب وہ رات کو سینما دیکھ کر واپس آ رہا تھا خود اپنی آنکھوں سے تجھے دیکھا۔ جب تو تختہ پر ہو کر اپنے مکان نیں جا رہا تھا اور تو ہے کہ ہمیں بیوقوف بناتا ہے۔ پھر اس سے پہلے کی حرکتیں بھی سب آشکارا ہو چکی ہیں۔ بس۔ اب چپ رہ۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تو نے ہماری عزت میں بٹہ لگایا۔ ہم طے کر چکے تھے کہ تجھے اور تیرے ساتھ اس ناشاد و نامراد ننگ خاندان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ یہ سب کچھ طے ہو چکا تھا۔ لیکن نہیں اب ہم ایسا نہ کریں گے۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ اب اس ننگ خاندان کو شرع کے مطابق تیرے ہی سر تھوپیں۔ بس یہی علاج ہے کہ ابھی ابھی تیرا اس کے ساتھ نکاح کر دیں اور دونوں کو گھر سے نکال دیں۔ جاؤ کم بختو جہنم میں۔ ہمیں صورت نہ دکھانا۔ بولو کیا جواب دیتے ہو۔ اگر یہ بات منظور ہے تو خیر ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔ ”

میں نے کہا، "حضرت۔ ۔ ۔ ”

"بہ۔ بہ بس بس۔ ” سر ہلا کر وہ بولے۔ "میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ مرے پہ درے۔ تو وہ مضمون کرنا چاہتا ہے۔ بدمعاش۔ ازلی۔ موذی۔ بدکردار۔ ناہنجار۔ فاسق۔ مردود۔ ”

آپ خود غور فرمائیں کہ میں کس مخمصے میں تھا۔ کیا معاملہ ہے اور یہ کون لڑکی ہے اور یہ مصیبت کیا ہے۔ پوچھتا ہوں تو بتاتے نہیں۔ مارنے کو دوڑتے ہیں۔ عذر کرتا ہوں تو کاٹے کھاتے ہیں۔ بولنے نہیں دیتے۔ مرتا کیا نہ کرتا "بیچارگی” والا مضمون تھا۔ میں عذر کرنے پر اور اپنا خواب والا قصہ سنانے پر تلا ہوا تھا اور وہ اس پر تلے ہوئے تھے کہ میں جلدی سے ہاں کہوں۔ نوبت بہ این جا رسید کہ انہوں نے پہلوان کو آواز جو دی تو میں نے ان کے پیروں پر سر رکھ دیا کہ جو حضور کہیں مجھے سب منظور ہے۔ واقعی میں سخت خطاوار ہوں۔ پاجی ہوں، کمینہ ہوں۔ ناشدنی اور ناہنجار وغیرہ وغیرہ سب ہوں اور اس لائق ہوں کہ میری بوٹی بوٹی کر دی جائے۔ چنانچہ جب میں نے یہ رویہ اختیار کیا اور مردہ بدست زندہ ہونا قبول کیا تو وہ حضرت ذرا انسانیت پر آئے۔ اس خونی پہلوان کی نگرانی میں مجھے سپرد کر کے چلے گئے لیکن بہت جلد وہ واپس آئے اور مجھے اب لے جا کر دوسرے کمرہ میں بٹھایا۔ کوئی پندرہ بیس منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ ایک اجڑے سے قاضی صاحب آئے۔ ان کے سوال و جواب پر مجھے ایک نامعلوم خاتون حمید جہاں بنت احمد اللہ خاں صاحب مرحوم کو بعوض پندرہ ہزار روپے مہر کے اپنے نکاح میں برضا و رغبت لینا پڑا۔ میرے صیاد خود اس معاہدہ کے گواہ و شاہد تھے۔ بات چیت کا ذکر تک نہ ہوا۔ ایک خاموشی تھی۔ نکاح کے بعد ہی کوئی پندرہ منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ مجھ سے نیچے چلنے کو کہا گیا۔ مکان کے دروازے پر آیا تو ایک بند گاڑی کھڑی تھی اور اس میں کوئی برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک چھوٹا سا ٹرنک اور ایک بستر اور ایک لوٹا تھا۔ ان ہی بڑے میاں نے چلتے وقت مجھے آگاہ کیا کہ اگر کہیں پھر میں اس شہر کے گرد و نواح میں بھی نظر پڑ گیا تو میری جان کی خیر نہیں۔ پہلوان صاحب میرے ستھ گئے کہ اپنے سامنے ہم دونوں کو کہیں دور کا ٹکٹ دلا کر دفان کر دیں۔ میں گاڑی میں برقعہ پوش کے سامنے بیٹھ گیا۔ پہلوان صاحب گاڑی کے اوپر بیٹھ گئے اور گاڑی چل دی۔ مگر گاڑی بمشکل دس قدم ہی چلی ہو گی کہ اس کا پٹ کھل گیا۔ بجلی کی طرح تڑپ کر پہلوان صاحب کود کر نیچے آئے۔ گاڑی رکی اور پہلوان نے آنکھیں نکال کر مجھے چاقو دکھایا اور کہا کہ مار ڈالوں گا اگر بھاگنے کی کوشش کی۔ میں نے نہایت نرمی سے کہا کہ میں ہرگز کہیں نہیں بھاگتا۔ دروازہ از خود کھل گیا۔ پہلوان نے اس کے جواب میں بہ نظر احتیاط دروازہ بند کیا اور میری طرف کی کھڑکی کھول کر پائیدان پر کھڑے ہو گئے اور اسی صورت میں گاری روانہ ہوئی۔

قصے کواس طرح مختصر سمجھئے کہ اسٹیشن آیا۔ نہ تو میرے پاس ٹوپی تھی اور نہ جوتا تھا اور نہ کوڑی پاس تھی۔ مگر میری نادیدہ زوجہ محترمہ نے ٹرنک میں سے ایک بھاری گڈی نوٹوں کی نکال کر دی۔ میں ایک سو کا نوٹ نکالا۔ میری بیگم صاحبہ نے علیحدہ زنانہ درجہ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور واقعہ ہے کہ میں انہیں چھوڑ کر بھاگ جانے کے خطرناک مسئلہ پر غور کر رہا تھا اور وہ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ کر شاید میرے دل کا حال جان گئی تھیں۔ چنانچہ سیکنڈ کلاس کے دو ٹکٹ لئے گئے۔ ہم دونوں بیٹھے ہی تھے کہ دو مسافر اور آئے تو بیگم صاحبہ پھر اٹھ کھڑی ہوئیں۔

میں نے وجہ پوچھی تو میرے کان میں انہوں نے کہا "فرسٹ کلاس۔ ” قصہ مختصر یہاں سے اتر کر میں نے فرسٹ کلاس میں انہیں بٹھایا۔ پہلوان صاحب نے دوڑ کر ٹکٹ بدلوائے۔ یہاں تنہائی تھی۔ میں نے اسٹیشن سے ایک گاندھی کیپ خریدی اور ایک چپل لی۔ جوتا ملا نہیں۔ گاڑی نے سیٹی دی۔ میں آ کر بیٹھ گیا۔ گاڑی چل دی۔

گاڑی اسٹیشن کے باہر بھی نہ ہوئی تھی کہ میری بیوی صاحبہ نے قدرے بدتمیزی اور بے باکی سے اپنا نقاب الٹ کر روئے روشن دکھاتے ہوئے کہا "یہ تم ہو” اور میرے منہ سے حیرت اور استعجاب کے عالم میں نکلا۔ "جنت!”۔ ۔ ۔

اب سوال یہ تھا کہ جنت نے مجھے سومنو مبولزم کے ذریعہ زیادہ دق کیا یا میں نے اسے زیادہ دق کیا۔ جوان بھتیجی کو ایک نہیں دس دفعہ چچی نے راتوں کو تنہائی میں مکان کی ویران چھتوں پر گھومتے دیکھا اور پکڑا مگر معمہ حل نہ ہوا۔ بالآخر چچا نے مجھے تختے سے واپس آتے دیکھا اور ادھر جنت کو چھت پر سے اترتے دیکھا۔ دوسرے ہی روز مجھے گھات لگا کر پکڑ لیا۔ چھوٹے چچا میری اور جنت کی جان لینے کو تیار تھے۔ بڑے چچا نے کہا۔ "نہیں بد چلن لڑکی کا کوئی اور علاج نہیں۔ ” اور یہ علاج آپ نے دیکھ لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

جنم قیدی

 

اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں

شام کا سہانا وقت تھا۔ خوبصورت گدھے ریشمی کھیتوں میں کلیلیں کر رہے تھے۔ ان کی سریلی آوازوں کا پر کیف نغمہ ہوا میں ایک ارتعاش اور ترنم پیدا کر رہا تھا۔ گوبر اور سڑے ہوئے پتوں کی بھینی بھینی بدبو سے ہوا میں گرمی سی تھے۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا۔ ادھر کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں۔ ادھر گوبر کے اونچے اونچے ٹیلے پہاڑوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سامنے کچھ خوبصورت بھینسیں کیچڑ کے ملائم اوور کوٹ پہنے ٹہل رہی ہیں۔ ان کے بچے بھی کیچڑ کی خوبصورت جاکٹیں اور شلواریں پہنے ٹہل رہے ہیں۔ کیا ہی پر فضا اور روح پرور سماں ہے۔

سامنے ارہر کے سرسبز کھیت تھے۔ میری گاڑی کے پہئے کی سی خوبصورت آنکھیں اس مخملی کیچڑ کی طرف متوجہ تھیں جو میں اپنی نازک انگلیوں سے، ہاں نازک انگلیوں سے، یعنی ان انگلیوں سے جن پر چکی کے ملائم دسٹے کی رگڑ سے گٹے پڑ گئے ہیں وہ انگلیاں جن پر ناخن کا گول تاج ہے، وہ ناخن جن کے کناروں میں گائے کا گوبر ٹھنس کر اس طرح وہیں کا وہیں رہ گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناخن کے تاج پر سینگ کی گوٹ لگی ہے، ہاں تو میں اپنی انہیں حسین انگلیوں سے تال میں سے مخملی کیچڑ نکال نکال کر ایک ٹوکری میں رکھ رہی تھی کہ میری نظر ارہر کے کھیت کی طرف کسی سرسراہٹ کی وجہ سے متوجہ ہوئی۔ کچھ شبہ سا ہوا کہ کوئی گائے یا بھینس یا کتا ہے مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔

میں پھر اپنے دلچسپ کام کی طرف متوجہ ہو گئی۔ ایک دم سے میری کمر پر کوئی تین پاؤ وزنی مٹی کا ڈھیلا اس زور سے آ کر لگا کہ ٹوٹ کر کھیل کھیل ہو گیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ غور سے دیکھا کہ کون ہے ؟ موٹی موٹی اٹھارہ انیس گالیاں دیں نامعلوم ڈھیلا پھینکنے والے کو نہایت ہی کھری کھری سنائیں مگر وہاں تو کوئی نہ تھا۔ میں پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔

لیکن تھوڑی ہی دیر بعد کنوئیں کے رہٹ چلانے کا موٹا سا ڈنڈا میری اس نازک کمر پر آ کر لگا جس کی امداد سے میں ڈیڑھ من کی گٹھڑی اٹھا لیتی ہوں۔ میں نے جل کر موٹی موٹی گالیاں دیں اور کھڑی جو ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں تو کوئی اور ہی ہے ! وہ جو مجھے اپنی بھینس اور تمام بیلوں سے زیادہ عزیز ہے، وہ جو اگر آج مجھ سے کہے کہ تو اپنے وہ تمام اپلے لٹا دوں جو میں نے سال بھر میں سکھا کر رکھے ہیں وہ جس کو کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ناشتے کیلئے ڈھائی پاؤ مکی کی روٹی پیاز کی دو گٹھیوں سے ساتھ روز کھلاؤں۔ وہ جس کو کہ میرا جی چاہتا ہے کہ بھر بھر کر کلہیاں روز شیرہ پلاؤں …… وہاں تو وہ کھڑا ہے جو مجھے بیل سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کھرپے سے بھی زیادہ پیارا   ہے۔ ہنسیا سے بھی زیادہ بانکا ہے۔ قصہ مختصر وہاں تو سیاں تھے جو ارہر میں سے جھانک رہے تھے !!

بس ان کے دیکھتے ہی میری حالت ہی عجیب ہو گئی۔ میری نازک جبین پر جو بھینس کے ماتھے کی طرح خوبصورت اور سجل سے شرم و حیا کی سراون چل گئی۔ میں نے سیاں کے چہرہ کو نظر بھر کر دیکھا۔ وہ خوبصورت چہرہ جو گول کدو کی طرح ہے اور جوانی اور محبت کے روپ سے نئے کھرپے کی طرح چمکتا ہے۔

وہ بیل کی سی بڑی بڑی آنکھیں جیسے معلوم ہو کہ اپلے تھا پنے والی ناند میں آج نیا پانی بھرا ہے۔ اسے خوبصورت چہرے پر کھدر کی دوہری چادر کا پگڑ کیا بہار دے رہا تھا !! گھڑے کے برابر پگڑ ! وہ خوبصورت پگڑ جس کی وجہ سے زمیندار کا جوتا روئی کا گالہ بن کر سیاں کے سر کو ضرب پہنچانے کے بجائے گویا سہلاتا ہے۔ وہ پگڑ جس کی بدولت سیاں جب خان صاحب کے یہاں پٹنے جاتے ہیں تو لگان کا روپیہ جوں کا توں باوجود مار کھانے کے واپس لے آتے ہیں۔      میں نے کیچڑ اپنے داہنے ہاتھ میں اٹھائی کہ جیسے ماروں گی۔ ایک مسکراہٹ سیاں کے چہرہ پر نمودار ہوئی جو چشم زدن میں پھیل کہ دونوں کانوں تک پہنچی۔ انہوں نے اپنی آنکھیں کچھ مرکھنے بیل کی طرح مگر شرارتا جھپکائیں کہ میں پاربتی کی طرف دیکھ کر چلائی۔

اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں

پاربتی اپلے تھا پ رہے تھی۔ اس نے کھیت کے کنارے سے مڑ کے مجھے دیکھا۔ سیاں میری طرف لپکے …….. اور ادھر سے پاربتی نہایت ہی ملائم بغیر بنے ہوئے اپلے کو گولا لے کر دوڑی۔       سیاں کو میں نے کیچڑ کی بارش سے روکا۔ مگر جو شخص اتنا بہادر ہو کہ زمیندار کے جوتوں سے نہ رک سکتا ہو وہ کیچڑ کب شما ر میں لاتا۔ انہوں نے دوڑ کر سب سے پہلے میری پیٹھ پر بڑے زور سے گھونسا مارا کہ اس گڑ کی بھیلی کی مٹھاس میرے دل و جگر میں بیٹھ گئی اور   پھر میری سیاہ بھینس کے بچے کی سی خوبصورت کلائی کو پکڑ کر اس زور سے مروڑا ہے کہ میں درد کی تکلیف کی وجہ سے چیخ کر بیٹھ گئی۔ وہ درد جس کی لذت جب تک رہی جب تک بازو درد کرتا رہا۔

اتنے میں پاربتی گوبر کا پورا گولا لئے میری امداد کو پہنچی۔ سیاں ہنس تو رہی ہی تھے بولنے کے لئے جو منہ کھولا ہے تو پاربتی نے گوبر کا پورا گولا سیاں کے چہرہ پر اس زور سے مارا کہ آدھے گوبر سے تو آنکھیں بند ہو گئیں اور آدھا ان کے حلق کے پار اتر گیا۔    میرا ہاتھ چھوٹ گیا۔ پاربتی اور میں ………. ہم دونوں بھاگیں ………. دور سے ہم دونوں سکھیاں کا رہی تھیں :

اے  ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں

اور سیاں تال کے میلے پانی سے کلیاں کر رہے تھے۔ برسورام کے جھڑاکے سے    برسات کا موسم یعنی دھان بونے کا موسم۔ یہ موسم بھی کس قدر خوشگوار اور بہار ہوتا ہے اور بالخصوص دیہات میں۔   وہ دیکھئے۔ کھیتوں میں کام ہو رہا ہے۔ لیڈیز اور جنٹلمین اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جنٹلمین گاڑھے کی موٹی موٹی دھوتیوں میں پھولے نہیں سماتے۔ سب کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے کہ کام تو کم مگر محنت زیادہ ہو۔ یہ محنتی ہیں۔ کالی کالی سیں روپہلے کھرپے لئے جنٹلمینوں کے ہم دوش مصروف کار ہیں۔ کارخانہ سا جاری ہے کام ٹھیٹ گاندھی جی والی سودیشی ترکیب پر ہو رہا ہے۔ غل و شور بہت۔ محنت چوگنی، کام ادھورا۔ اور بیچ میں بھیانک بابا لوگ۔ جرمنی برینہ کلب کے ممبر کھڑے مکئی اور باجرے کی ٹوسٹ کھا رہے ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد ایک بابا لوگ ضرور پٹ جاتا ہے۔ بادل جھوم جھوم کر آ رہا ہے۔ بڑی بڑی رفتاری سے کام ہو رہا ہے کہ پانی برسنے سے پہلے کھیت تیار ہو۔ ” اے تو میں آنارگھونس دوں ……….” اپنے بیل کی دم مروڑ کر ایک جنٹلمین نے کہا اور ہل کی دھار زمین میں تیرتی چلی گئی اور بیل کی دم کی ہڈی ٹوٹنے کی قریب پہنچی۔ بیل نے پھنکار مار کا بدلا جو پینترا تو ” ارے توئے کسائی کاٹے ” کہ کر جنٹلمین صاحب مع ہل کے سازو سامان کے جھٹکا کھا کر ترچھے ہو کر رہ گئے اور بیل ہل کے جوئے کو کھینچ کر آپس میں لگے رسا کشی کرنے۔ ہل ٹوٹ گیا۔ سب ہی کے ہاتھ دھیلے پڑ گئے۔ سیوا چمار، رام دین اہیر وغیرہ سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر آ گئے۔ بیچ میں ٹوٹا ہوا ہل پڑا ہے جس کی مرمت کی تلاش کے لئے ببول کے درخت کی طرف بار بار دیکھا جا رہا ہے کہ اتنے میں آ گئی بارش۔     چشم زدن میں ہوا تیز ہو گئی۔ بوندیں بڑھ گئیں۔ کوئی کہیں چھپا کوئی کہیں۔ جنگل کی ہوا اور اس پر مینہ کا زور شور۔ اہاہاہا۔ ۲۰۰ بیل اپنے الگ چر رہے ہیں۔ لڑکے غل مچا رہے ہیں۔ سیاں ٹھیرا پی کر ناچ رہے ہیں بارش میں اور ہم …… ہم سکھیاں سیاں کو دیکھتی ہیں اور گا رہی ہیں۔

برسو رام جھڑاکے سے

برسو رام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

متھرا کے پیڑے کھلاؤں گی

صبح کا وقت تھا اور ماں اندر بیٹھی تھی۔ میں باہر تھی ہریا نے مجھ سے پھر وہی بدتمیزی کی میں نے پکار کر کہا۔ "اوری ماں دیکھ یہ ہریا نہیں مائے۔ مجھے دق کرے ہے۔ ”

نکلی گھر سے ماں جوش کھاتی اور ایک سانس میں ہزار گالیاں ہریا کو دے ڈالیں "بھاگ یہاں سے۔ ” ماں بولی۔ ” میں تجھے اپنی چھوری نہیں دوں گی نکل یہاں سے۔ ہزار دفعہ کہہ چکی۔ ”

مگر ہریا اس وقت ہر دیال سنگھ تھا۔ خان صاحب نے ہمیں بیگار میں بلوایا تھا گڈے کی دیوار لیپنے کو۔ زمیندار کی بیگار سرکاری کام ہے۔ ہریا نے ہم دونوں کو ڈانٹا اور اتنے میں سرکاری سپاہی لمبا سا برچھا لئے آ پہنچا۔ دراصل آدھے سے زیادہ چمار بیگار پر جا رہے تھے۔ ہم کیسے انکار کرتے۔

گڈے میں پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سیاں کا منہ اس طرف، مرغا بنے ہوئے ہیں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان سے انہوں نے مجھے آتے دیکھا۔ باچھیں کھل کر گز گز بھر پھیل گئیں۔ مجھے بے حد ہنسی آئی اور سیان بھی ہنسے۔ ہم سب اپنے کام پر لگ گئے۔ سب ہی سکھیاں کام کر رہی تھیں اور ہریا گھومتا پھرتا میرے پاس آیا۔ پھر وہی بدتمیزی۔ زمیندار کی نوکری کا گھمنڈ برا ہوتا ہے۔ میں نے ہریا سے کہا۔ "اب کے جو تو نے چھیڑا تو خیر نہیں۔ ” مگر بھلا ہریا مانتا ہے۔ میرے ہاتھ پکڑ کر اس نے گالی دیا کہ ایک دم سے برابر کی دیوار سے دھماکا ہوا۔ سیاں نے کود کر ہریا کے سر پر ایک گدا دیا کہ کہ ہریا کا صافہ گردن میں اتر آیا۔ میرا ہاتھ چھوٹ گیا۔ شور و غل ہوا۔ سیاں کی چاند پر جوتے پڑے تڑا تڑ اور مرغا بنے۔ دیوار کی مرمت کے لئے مرغا بننے سے چھٹکارا ملا تھا۔ مگر وہ تو دیوار سے کود کر یہ کر گذرے۔

شام کو سب سکھیاں بیگار سے فارغ ہو کر گڈہ سے تال پر ہاتھ دھونے پہنچیں۔ وہاں سے ہم سب آ رہی تھیں کہ نہ معلوم کدھر سے ایک طرف سے سیاں پہنچے۔ کاغذ میں لپٹا ایک پاؤ بھر گڑ کا ڈھیلا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پڑیا دی اور تیزی سے چلے گئے۔ ہم سب سکھیاں ہنس رہی تھیں۔ گڑ کی ڈلیاں منہ میں اور گا رہی تھیں :

"تو لے چل جمنا پار۔ تجھے متھرا کے پیڑے کھلا دوں گی ”

میری سوت کا رجوا رنڈوارے

سیاں کو اپنی پہلی بیوی روپلی سے بڑی محبت تھی۔ قریب قریب روز اسے مارتے تھے۔ وہ غصہ میں چوڑیاں توڑ ڈالتی اور اپنی مار کا بدلا ساس سے لیتی۔ ادھر سیاں اسے ٹھونک بجا کر گئے نہیں کہ لی اس نے سیاں کی ماں کی خبر۔ ساس بہو میں دن رات لڑائی ہوتی اور سیاں ہر قصے کو روپلی کی مار پر ختم کرتے۔ ساس روزانہ بہو کو پٹواتی کہتی نکل جو میرے گھر سے مگر روپلی کا چار دن کو میکے جانا قسم تھا۔ جاتی بھی تو دن کے دن بھاگ آتی۔ سیاں کے گھر رہتی مار کھاتی اور روتی۔ خوب خوب پٹتی مگر سیاں کے قابو میں نہ آتی گالیاں دیتی مار کھاتی، روتی، پیٹتی اور غل مچاتی مگر شام کو جب سکھیاں مل کے ڈھولک بجاتیں تو سب سے لڑتی کہ پہلے میرے سیاں کا گیت گاؤ۔ غرض مار بھی کھاتی اور گیت بھی انہی کے گاتی۔ جب دیکھو رات کو ڈھولک پٹ رہی ہے :

"مچیا پہ بیٹھن میکا نیک ناہیں لاگت موڑ   پہ   میکا   بٹھاؤ   مورے  سیاں ! ”

ایک روز کا ذکر ہے کہ سیاں نے روپلی کو خوب ٹھونکا اور کہا کہ تجھے مار ڈالوں گا۔ روپلی نے کہا میں ساس کو مار ڈالوں گی۔ اس پر جب اور پٹی تو ساس کے گلے میں چمٹ گئی پھر اور بھی زیادہ پٹی۔

اس کے دوسرے دن کا ذکر ہے کہ روپلی کنوئیں کے پاس کام کر رہی تھی۔ اتفاقا کنوئیں میں گر گئی۔ سیاں کے ہاتھ میں پھاؤڑہ تھا۔ وہ بھی "ہائے میری رانی ” کہ کر مع پگڑی اور پھاؤڑہ کے کنوئیں میں کود پڑے۔ نتیجہ برا نکلا۔

لوگ جمع ہو گئے۔ دونوں کنوئیں میں نکالے گئے۔ روپلی مر چکی تھی۔ ہریا اور چوکیدار اور دو چار اور آدمی سیاں کو پکڑ کر جوتے مارتے مارتے خان صاحب کے پاس گڈے میں لے گئے کہ اس نے اپنی بیوی کو مار ڈالا۔ وہاں سیاں کا یہ حال کہ زخم پہ زخم۔ ایک تو روپلی گئی دوسرے مار۔

خان صاحب نے کہا ” ادھر گھسیٹ لاؤ بدمعاش کو۔ ” لوگوں کو گھسیٹا۔ مگر سیاں اس طرح ” ہائے دادا رہے میری رانی ” کہ کر بھوں بھوں روئے ہیں کہ سب نے تصدیق کر دی کہ مرگ اتفاقیہ تھی۔ خاں صاحب نے کہا۔ "اس بدمعاش کو چھوڑ دو۔ بیچارہ بیوی کے گم میں مرا جا رہا ہے۔ ”

سیاں کی ماں بھی "ہائے میری بہو رانی” کہہ کہہ کر رات بھر روتی پیٹتی رہیں۔ اور اب تک گاؤں میں دیکھ ا لو اپنی مرحومہ بہو کی سعادت مندی اور نیک بختی کا جب ذکر کرتی ہیں تو ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ آنکھیں تر ہو جاتی ہیں۔     جب سیاں مجھے بیاہنے آئے تو اول تو سکھیوں نے ان کو کوب مارا، پھر ہم سب نے مل کر خوب گیت گائے۔ سیان ٹھرے کے نشہ میں دھت مار کھا رہے تھے اور ہم سکھیاں گا رہیں تھیں :              "میری سوت کا رجوا رنڈوارے ” گاندھی سنن سنن سنا دے جیسے انگریجی کا تار   میری شادی ہوئے تین چار ہی مہینے ہوئے ہوں گے کہ ہولی آئی۔ ہریا سے ہماری دشمنی تھی۔ وہ بد معاش تھا اور مجھے برابر چھیڑ تا رہتا تھا۔ میں نے سیاں سے کہا تو انہوں نے ہریا کے پیت میں ہنسیا گھنگو لنے کو کہا۔ میں نے کہا پھانسی ہو جائے گی تو بولے کہ تجھے لے کر پردیس بھاگ جاؤ ں گا اور پولیس کے ہاتھ نہ آؤں گا۔ وہ اکثر سیاں کو خان صاحب سے پٹواتا رہا اور بارہا سیاں کو گڈے کے سپاہی پکڑ کے لے گئے۔

ہولی کے دو روز بعد کا ذکر ہے کہ سیاں رنگ اور کیچڑ میں نہائے تاری کی ترنگ میں جھوم رہے تھے اور ڈھولک لئے گاندھی جی کے گیت گا رہے تھے کہ ہریا آ پہنچا اور لگا ساں کو گالیاں دینے کہ گاندھی جی کے گیت مت گاؤ۔ سیاں بولے کہ ہم اس وقت خود راجہ ہیں اور ڈھول کو ڈنڈے سے پیٹتے پیٹتے ہریا کی خبر لی۔ اس کے پاس بھی لٹھ تھا اور دونوں میں خوب لڑائی ہوئی اور دونوں کے سخت چوٹیں لگیں۔ دونوں کا سرپھوٹ گیا اور خوب خون میں ہولی کھیلی دوسرے آدمیوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ ہریا گالی دیتا کراہتا چلا گیا۔ سیاں نے کس کس کر ڈھولک پیٹی اور ناچے اور ہم سب سکھیاں گا رہی تھیں :

"گاندھی سنن سنن سنا دے جیسے انگریجی کا تار”

ہولی کے دو مہینے بعد کا ذکر ہے کہ سیاں نے مجھے ایک دن خوب پیٹا اتنا پیٹا کہ میں کبھی اتنا نہ پٹی تھی۔ میں نے غصہ میں چوڑیاں اپی پھوڑ ڈالیں، کھانا اپنا بیل کو کھلا دیا اور روٹھ کر بھوکی پڑ رہی اور خوب روئی۔  ۲۰۳ دوسرے روز سیاں نے مجھے منا لیا تو میں نے شرط رکھی کہ سنیچر کے بازار مجھے سیر کرانے لے چلو۔ دس میل کے فاصلے پر گاؤں تھا۔ اس میں ہر سنیچر کو بازار لگتا تھا سیاں راضی ہو گئے اور میں بھی خوش ہو گئی۔

مارے خوشی کے مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ صبح اندھیرے اٹھ کر میں نے جلدی جلدی باجرے کی موٹی موٹی روٹیاں ساتھ لینے کو پکائیں۔ مانگ میں سیندور بھر کو ٹیکا لگایا اور آنکھوں میں کاجل بھر کے کپڑے پہنے۔ سیاں کا صافہ رنگ دیا تھا اور ہم دونوں ہنسی خوشی باتیں کرتے چل دیئے۔

سیاں نے مجھے بازار خرچ کے لئے دو آنہ دیئے تھے۔ دن بھر ہم نے خوب بازار کی سیر کی۔ سیندور اور کاجل کی میں نے ڈبیا لی چھوٹا سا گول آئینہ لیا۔ دو پیسے کا چمکتا ہوا گلے کا موتیوں کا کتھا لیا۔ وہ سیاہ رنگ کی پھولدار چوٹیاں لیں۔ دراصل سیاں نے کہ دیا تھا کہ "لیلٰی تیرا جو جی چاہے خرید لے چاہے سارا بازار۔ ” اور واقعہ تھا کہ بازار کی سیر کا مزہ جب ہی ہے جب پیسہ کافی ہو سیاں پورا چمکتا ہوا روپیہ لے کر چلے تھے اور میں نے بھی دل کھول کر خرچ کیا۔ چلتے چلتے تین پیسے کی لکڑی کی ایک کنگھی پر مچل کر رہ گئی اور سیاں کو دلانا پڑی۔

دن بھر ہنسی خوشی سے گذرا۔ شام ہوئے ہم دونوں ہنسی خوشی گھر کی طرف لوٹے۔

مگر راستہ قریب کا جنگل میں تھا۔ تاک میں ہریا مع اپنے دوستوں کے لگا ہوا تھا اور جب سنسان جگہ آئی ایک دم سے نعرہ مار کا ہریا مع اپنے ساتھیوں کے سیاں پر ٹوٹ پڑا۔ میرے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ سنبھلتے سنبھلتے ہریا نے سیاں کے سر پر ایک زبردست لاٹھی کا ہاتھ دیا اور تین آدمیوں کی لاٹھیاں جو پڑیں تو سیاں زمیں پر گرے۔ مجھے دو آدمیوں نے پکڑ لیا۔ میں نے ان کو کاٹ کھایا اور خوب لڑی۔ مگر کہاں ایک کمزور عورت اور کہا ں تین ظالم۔ سیاں کو ٹانگ پکڑ کر ایک اندھے کنوئیں میں ڈال دیا اور مجھے لے چلے جنگل میں گھسیٹ کر۔ میرے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہو ا تھا۔       مگر تھوڑی ہی دور ہم گئے ہوں گئے کہ بازار سے لوٹنے والوں کا ایک گروہ اسی طرف آیا۔ کوئی چارہ نہ تھا سوا اس کے کہ بدمعاش ہریا اور اس کے ساتھی مجھے چھوڑ کر بھاگیں۔ میری جان چھوٹی۔ میرے منہ کا کپڑا ہٹا اور میں کراہ کر بیٹھ گئی۔

"ہائے میرے رام۔ ”

پھر میں نے حال بتایا۔ سب لوگ کنوئیں پر پہنچے۔ پولیس کو اطلاع ہوئی۔ کنواں اندھا تھا۔ سیاں نکالے گئے۔ میں غم کے مارے دیوانی ہو گئی مگر سیاں کی سانس چل رہی تھی۔ سب لوگ اٹھا کر گاؤں لائے۔ وہاں رات بھر دوا دارو ہوئی صبح آنکھ کھیل سیاں کی پھر بند ہو گئی۔ پولیس نے اسی دن صدر ہسپتال میں پہنچا دیا۔

تین مہینے میں سیاں ٹھیک ہوئے۔ ہریا پر مقدمہ بھی نہ چل سکا۔ اس نے کہا کہ میری دشمنی ہے اور میں گڈے میں حاضر تھے پولیس نے گڈے کے کاغذ دیکھے اور ہریا کو چھوڑ دیا۔

سیاں جس روز اچھے ہو کر گھر آئے اس روز ہم نے خوب ڈھول بجایا۔ سیاں بھی ناچے اور ہم سب سکھیاں بھی خوب ناچیں مگر رات کو سیاں بوتل کی بوتل ٹھر کی پی گئے۔ ناچتے ناچتے بگڑ کھڑے ہوئے۔ ڈھولک پھاڑ ڈالی سکھیوں کو گھسیٹ پھینکا اور مجھے جوتیوں سے جو مارنا شروع کیا ہے تو اپنی مان کی بھی نہ سنی۔ رات کے ایک بجے تک بیٹھے گالیاں دیتے رہے۔ مگر میں تو باغ باغ تھی۔ کیا ہی خوشی کا دن تھا۔         اس کے بعد ہریا نے دو روز سیاں کو بقایا وصولی کے لئے گڈے میں قید رکھا اور مجھے اور میری بڑھیا ساس کو تنہا پا کر اس نے مجھے آٹھ آٹھ آنسو رلایا۔ تیسرے روز میں نے اپنا سب زیور مہاجن کے پاس رکھ کر سیاں کو چھڑا لائی۔

مگر سیاں جب گھر پہنچے اور ان کو معلوم ہوا کہ میں نے زیور رہن رکھ کر چھڑایا ہے تو مجھے خوب ہی پیٹا دراصل ان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ خان صاحب دو ایک روز اور پٹواتے پھر چھوڑ دیتے اور اس کے لئے سیاں کبھی کمزور نہ تھے، زیور مفت میں گیا۔ لہذا اس خطا پر میں خوب پٹی۔ یہ کار بھی میری محبت ہی میں تھی مگر میں کیا کروں مجھ سے نہ دیکھا گیا پٹنا اور ہریا کی چھیڑ چھاڑ۔ سیاں کہہ رہے تھے کہ اب ہریا کی موت آئی ہے۔

اس کے دو مہینے بعد کا ذکر ہے۔ سیاں بیلو ں کی جوڑی بیچنے دور ایک گاؤں کے میلے پر جانے والے تھے۔ میں نے کہا میں بھی چلوں گی۔ پنڈت جی سے پوچھا تو وہ بولے دکھن کی سمت عورت لے کر گئے تو بیل نہ بکیں گے اور بکے تو اچھے دام نہ آئیں گے لہذا میں تلملاتی رہ گئی۔ دونوں بیلوں کی میں نے خوب صفائی کی ان کی دم کے بال برابر کر کے کاٹے اور توے میں تیل دال کر دم کے بالوں میں خوب لگایا۔ اس طرح دونوں بیلو کے سموں اور سینگوں پر سیاہی اور تیل کی مالش کی۔ نظر کا ٹیکا ماتھے پر لگایا اور گلے کی گھنٹیاں مانجھ کر چمکا دیں اور خوب بہت سی موٹی موٹی روٹیاں تین دن کے لئے سیاں کے ساتھ کیں۔ بیل بکنے کی صورت میں سیاں نے تحفوں کا ڈھیر لگا دینے کو کہا۔ تڑکے سیاں بیلوں کو لے کر روانہ ہو گئے۔

رات کے کوئی گیارہ یا بارہ بجے ہوں گے کہ ہمارے گھر میں ہریا چپکے سے تین آدمیوں کو لے کر گھس آیا۔ بڑھیا ساس کو چارپائی سے باندھ کر منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور مجھے دو آدمیوں نے دبا لیا۔ اور میر ابھی گلا اور منہ دبا دیا۔ میں بے قابو ہو گئی اور میں تو سمجھی آج میرا خاتمہ ہوا کہ ایک دم سے پرمیشور نے میری سن لی۔ دروازے پر جو آدمی تھا وہ چلا کر بھاگ گیا۔ چشم زدن میں ہریا کے سر پر گنڈاسوں کی بارش ہونے لگی۔ تین گنڈاسون میں وہ ڈھیر ہو گیا۔ ہوش میں جو آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سیاں دشمن کے خون میں نہائے کھڑے ہیں۔ میں دوڑ کے چمٹ گئی اور سارا حال سنایا انہوں نے اپنا حال سنایا۔ راستے ہی میں ایک پڑوس کے زمیندار سے بیلوں کا سودا ہو گیا اور وہ بیل اس کے گاؤں پہنچا کر آرہے تھے۔       سوال یہ تھا کہ اب لاش کہاں پھینکی جائے۔ ہم دونوں نے لاش اٹھا کر چپکے سے لے جا کر پچھواڑے کھیت میں ڈال دی اور سیاں سے میں نے کہا کہ تم بھاگ جاؤ۔ سیاں بھاگے تو نہیں مگر تیار رہے۔ دروازہ اندر سے بند کر لیا۔

کوئی گھنٹہ بھر بعد ہی کھٹکا ہوا تو سیاں کو ہوش آیا۔ میں بھی گھبرائی بھاگنے کے لئے پیچھے دیکھا تو ہر طرف سے مکان گھیر لیا تھا۔ میں نے سیاں کو اناج کی کوٹی میں چھپنے کی رائے دی۔ اس ڈھکن کھول کر ان کو اندر بند کر دیا۔ اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ دو پولیس کے کانسٹبل تھے اور انہوں نے آتے ہی سیاں کو پوچھا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں پوچھتے ہو کیا ضرورت ہے ہمارے گھر میں آنے کی تم جاؤ۔ اور جب انہوں نے وجہ بتائی تو میں نے کہا ہریا کو تو میں نے مارا ہے مجھے پکڑ لو میں گنڈاسی دکھائی۔

مگر پولیس والے نہ مانے۔ انہوں نے گھر میں دیکھ بھال کر انان کی کوٹھی دیکھا چاہی میں نے کہا اس میں میرا اناج بھرا ہے اسے مت دیکھو۔ وہ نہ مانے اور لگے اس پر چڑھنے میں نے پکڑ کر کہا تم وہاں نہ جاؤ میں کھولے دیتی ہوں۔

میں کوٹھی کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ قریب ہی موسل رکھا تھا میں نے ہاتھ میں موسل لیا اور سپاہیوں سے کہا ” تم جاؤ یہاں سے ورنہ میں موسل ماروں گی۔ ”

مگر کہا میں تنہا اور کہاں سپاہی اور گاؤں والے میں نے بہت کچھ مارا کوٹا۔ موسل چلا دیا۔ مگر آخرش مجھے لوگوں نے گرا لیا۔ میں نے غل مچایا۔ دہائی کھینچی۔ خوب چلائی اور سر پیٹ پیٹ کر کہا کہ ہریا کو میں نے مارا ہے میرے سیاں نے نہیں مارا مگر کوئی نہ مانا سیاں کو پکڑ لیا گیا اور میری کسی نے نہ سنی۔

جب سپاہی سیاں کو پکڑ کر لے جانے لگے تو میں چھڑانے کی انتہائی کوشش کی لڑی بھی جھگڑی بھی روئی بھی اور غل بھی مچایا۔ ہار رک اینٹ پتھر بھی مارے اور ساتھ ساتھ تھانہ گئی۔      تھا نہ پہنچ کر میرے اور سیاں کے بیان لئے گئے۔ میں نے لکھا یا کہ ہریا کو میں نے اپنی عزت و آبرو بچانے کو مارا ہے اور سرکا ر کی چور میں ہوں۔ اور سیاں نے سچ سچ بیان دیا کہ سرکار کا چور میں ہوں۔ میں نے ہرپا مارا ہے اور اپنی گھر والی کی عزت بچانے کو مارا ہے کوئی دوسری عینی شہادت نہ تھی۔

مقدمہ چلا۔ عدالت میں بھی میں نے وہی بیان دیئے اور سیاں نے بھی وہی بیان دئے۔ طول و طویل بحث کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا اور سیاں کو سزا دی گئی۔ حبس دوام بہ عبور دریائے شور۔ جب سے قید بھگت رہے ہیں۔ افسوس۔

شہر کے غریب ترین مزدور پیشہ لوگ جہاں رہتے ہیں وہاں ایک مزدور بیوہ کے ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں ایک عورت رہتی ہے اس کے کپڑے چیتھڑے ہو رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی ایسا دکھ نہیں جو اسے نہ پہنچا ہو۔

انتہا سے زیادہ عسرت اور فاقہ کشی نے قبل از وقت اسے توڑ دیا ہے اور زمانے کے بے رحم ہاتھ اس کو سرعت کے ساتھ بڑھاپے کی طرف لئے جا رہے ہیں۔ یہ جنم قیدی کی بیوی ہے۔

اپنا گاؤ ں چھور کر عزیز و اقارب کو چھوڑ کر شہر میں چلی آئی ہے۔ شہر میں جہاں سنٹرل جیل میں اس کا شوہر قید با مشقت کی کڑیاں جھیل رہا ہے۔ اور جھیلتا رہے گا۔ اپنی جوانی اسے نے سخت محنت اور مشقت کی مزدوری میں صرف کر دی معمولی عورت اگر دو پیسہ یومیہ کماتی تو اس نے چارے پیسے کمائے۔ دن بھر کی محنت کی کمائی جیل کے سپاہیوں کے ہاتھ پر لے جا کر دھرتی ہے۔ یہ لوگ بے حد ایماندار ہیں۔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ روپے سے بارہ آنے ہمارے اور چار آنے کی جو چیز کہو تمہارے قیدی کو جیل میں پہنچا دیں۔ مٹھائی کھٹائی ، سگرٹ بیڑی جو چیز اس کے رشتے دار چاہیں قیدی کو اس نرخ پر مل سکتی ہے۔

سال گذرتے گئے اور گذرتے جا رہے ہیں اور یہ محنتی عورت روکھی روٹی کھا کر زندگی کے دن تیر کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور برابر اپنے عزیز از جان سیاں کو حتی الوسع جیل میں جو کچھ بھی آرام پہنچا سکتی ہے پہنچاتی رہی ہے اور پہنچاتی رہے گی تا وقتیکہ دونوں ایک دوسرے سے مل نہ جائیں یا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا نہ ہو جائیں۔     اس میلی اور گندی عورت کو آپ اتوار کے دن دیکھئے۔ یہی وہی عورت ہے جو کل کس لباس میں تھی اور آج دیکھئے کتنا اچھا اور رنگیں لباس ہے میلے اور بازار جانے کا لباس۔ وہی مانگ چوٹی۔ ہر تین مہینے بعد ایک اتوار کا دن آتا ہے جب قیدی اپنے رشتہ داروں سے مل سکتا ہے تب یہ بھی جاتی ہے۔

بیچ میں جیل کے سلاخچے ہیں اس طرح یہ محبت کی ماری غریب عورت اور اس خمر کا اس کا سیاں ہاتھ میں ہاتھ دیئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دونوں بیٹھے ہیں۔ باتیں کم کرتے ہیں دیکھتے زیادہ ہیں۔ اسی طرح بیٹھے رہیں گے باتیں کئے جائیں گے، لازوال عشق و محبت کی کبھی ختم نہ ہونے والی باتیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ محبت کے جذبات سے مجبور ہو کر دباتے ہیں اور نظر بھر کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور پھر خاموش۔ یہ حالت محویت ہوتی ہے کہ ایک دم سے جیل کا گھنٹہ بجتا ہے۔ سنتری کہتا ہے بس باتیں ختم کرو۔ ایک خواب تھا کہ چونک پڑے۔ اب ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے رخصت۔ عورت وہاں سے نہیں ملتی جب تک قیدی سامنے رہتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ چلی جاری ہے مڑ مڑ کر اسی طرف پھر دیکھتی اور برابر دیکھتی رہتی ہے۔ جب تک سڑک کا موڑ نہیں آ جاتا اور جیل آنکھ سے اوجھل ہو جاتی ہے اور پھر تین ماہ کا طویل انتظار ہوتا ہے۔

دنیا ہر چہار طرف خوشی کی چیل پہل میں مصروف ہے اور رہے گی مگر معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے قوانین کب تک دو دلوں کے درمیان آہنی سلاخیں رکھیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

جہالت مکسچر

 

ملازم نے ڈاک خانے دے ڈاک لا کر حامد کی میز پر رکھ دی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر وہ برآمدے میں آیا۔ خطوں کو دیکھا۔ ایک لفافے پر کلکتے کی مہر تھی۔ وہ اس کو دیکھ کر مسکرایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے۔ یہ خط ایک نجومی کے پاس سے آیا تھا۔ پچیس روپیہ فیس دے کر حامد نے محض اپنے ایک دوست کے کہنے سے اور وہ بھی محض دلچسپی کے لئے یہ حماقت کی تھی کہ کلکتے کے ایک بڑے نجومی سے اپنی زندگی کے گذشتہ اور آئندہ واقعات معلوم کرائے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ یہ محض حماقت ہے اور ڈھکو سلہ بازی ہے۔ مگر دلچسپ مذاق ضرور ہے۔ اس لفافے کو غور سے دیکھا۔ ایک لمبا سا لفافہ تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے اندر پورا دفتر ہے۔   لفافے کو اس نے چاک کیا اور خط نکالا۔ انگیزی میں ٹائپ شدہ بیش پچیس صفحے تھے۔ اس نے پڑھنا شروع کیا۔ وہ دلچسپی سے بڑھ رہ ا تھا اور پڑھتے پڑھتے اس کی حالت میں تغیر شروع ہوا ہے وہ خفیف سی مسکراہٹ جو موجود تھی جاتی رہی۔ آنکھوں سے سنجیدگی عیاں ہونے لگی۔ پڑھ چکنے کے بعد اس کی حالت ہی نہ تھا۔ وہ تعلیم یافتہ اور نئی تہذیب کا دلدادہ ایسے سیے پنڈتوں کی جہالت آمیز باتوں کا قائل ہی نہ تھا۔ لیکن یہاں معاملہ ہی اور تھا۔ اس کی تمام زندگی کے گذشتہ حالت مع موجودہ کے یہاں درج تھے جو حرف بحرف صحیح تھے !! اس کے بعد پھر اس کی آئندہ زندگی کے حالات تھے جن پر اس کو مجبوراً یقین کرنا پڑ رہا تھا کہ ضرور صحیح ہوں گے کیونکہ۔ جو شخص ماضی کے بارے میں اس قدر صحیح حالات پیش کر سکتا ہے۔ وہ ضرور مستقبل کے بارے میں بھی پیشن گوئی کر سکتا ہے۔ سب سے زیادہ قابل غور یہ حصہ تھا جو اس کی محبوب بیوی کے بارے میں تھا۔ اس نے اس کو پھر پڑھا۔ سوچا اور پھر پڑھا۔ وہ حسب ذیل تھا : تمہاری بیوی ناگن ہے "….. بیوی کی طرف سے تم بد قسمت ہو۔ تمہاری بیوی حسین اور خوبصورت ہے اور تم کو  اس سے اور اس کو تم سے بے حد محبت ہے مگر پھر بھی تم اس سے باوجود اس محبت کے خوش نہیں۔ تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیوی تعلیم یافتہ ہو۔ فیشن ایبل ہو اور چمکیلی ہو۔ انگریزی بولتی ہو۔ ولایتی اخبار پڑھتی ہو۔ تمہارے دوسرے دوستوں کی بیویوں کی طرح روشن خیالی اور نئی تہذیب کی دلدادہ ہو۔ تم کو جہالت سے سخت نفرت ہے اور بیوی کی جہالت تمہارے لئے دوزخ سے کم نہیں۔ تمہاری بیوی میں جہالت اور ضد اور محبت یہ تینوں چیزیں ہیں۔ وہ طبیعت کی اچھی ہے۔ مگر اس کی ضد اور جہالت پر لے درجہ کی جہالت ! تمہاری زندگی تلخ کر دے گی….پچھلے جنم میں تمہاری بیوی ناگن تھی جس نے اپنے پتی ناگ کے مارنے والے کو ڈس لیا تھا۔ اس وجہ سے اس کو اب کے عورت کا جنم ملا وہ اچھی نہیں ہے ….. تمہارا سنجوگ دراصل کسی دوسری کے ساتھ ہے۔ وہ پچھم کی طرف کے سنہرے بالوں والی ہو گی یعنی تمہارے ملک ہندوستان کے یا تو انتہائی مغربی حصے کی ہو گی یا مغرب کی سمت کے کسی دوسرے ملک کی ہو گی۔ اس کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور رنگ خوب گورا ہو گا۔ اس کے بال سنہری ہوں گے۔ بلکہ سرح کہنا چاہیئے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تعلیم یافتہ ہو گی یا نہیں مگر تم تعلیم یافتہ ہو اور بیوی کی جہالت سے تنگ ہو۔ لہذا اندازہ یہی کہتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو گی۔ کچھ بھی ہو، تمہارا جوڑ اسی سے ملے گا۔ اور تم خوش ہو گے ………” وغیرہ وغیرہ۔ حامد کو ایک عجیب الجھن سی تھی۔ مندرجہ باتیں بالکل صحیح تھیں۔ اس کی بیوی بے حد حسین و خوبصورت تھی۔ وہ اس کو بہت چاہتا تھا۔ مگر وہ جاہل تھی۔ ایسی کہ جس کو اصلی معنی میں کندہ نا تراش کہا جائے۔ وہ اسی فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ بائیں طرف سے آواز آئی۔ "کیا میں آسکتی ہوں ؟ ” "…..ضرور…. بے شک …..تشریف لائیے ” یہ کہتے ہوئے حامد اٹھ کھڑا ہوا اور آنے والی کو اس نے سلام کیا اور مصافحہ کر کے کرسی پر بٹھایا۔    "مسٹر حامد مس ینگ نے کہا۔ "مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگم صاحبہ میرے کام سے بالکل دلچسپی نہیں لیتی ہیں۔ میری خواہش تھی کہ ان کو انگریزی کے ساتھ ساتھ تھوڑی تھوڑی اور چیزیں بھی سکھا دوں اور آپ نے بھی کہا تھا۔ ”

حامد نے کہا "تو پھر کیا ہوا ؟ آپ جغرافیہ کہتی تھیں کہ کچھ زبانی بھی بتا دیں گی کہ دنیا کیا ہوتی ہے۔ ملک کیا ہوتا ہے جرمنی کیا ہے انگلستان کیا ہے وغیرہ۔ ”    "جی ہاں مگر وہ تو ….. معاف کیجئے گا مجھ سے لڑتی ہیں۔ وہ آج اس پر خفا ہو گئیں کہ میں نے ان سے کہا کہ دنیا نارنگی کی طرح گول ہے۔ وہ کہنے لگیں کہ میں خوب جانتی ہوں یہ سب عیسائی کرنے کی ترکیبیں ہیں۔ غرض وہ قطعی نہیں پڑھ سکتیں۔ مجھے دو مہینے سے زائد ہو گئے اور انہوں نے ابھی انگریزی حروف تک پہچاننا نہیں سیکھے۔ ” مس ینگ کو حامد نے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار اور کھانے پر اپنی بیوی کی انگریزی تعلیم کے لئے رکھا تھا۔      حامد غور کر رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں اس کے نجومی کی پیش گوئی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے وہ اپنی پیشانی پکڑے تھا۔ "میں ابھی آیا” یہ کہ کر حامد گھر میں چلا گیا۔ اس نے اپنی بیوی کو دیکھا۔ وہ صحن میں چبوترے پر کھڑی تھی اس کا چہرہ دھوپ میں چمک رہا تھا۔ سورج کی کرنوں کی چمک سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ قبل اس کے کہ حامد کچھ کہے اس کی بیوی نے کہا۔ ” اور کچھ بھی تم نے سنا۔ یہ فرنگن مجھ کو عیسائی بنانا چاہتی ہے، قرآن شریف میں آیا ہے "والی الارض کیف سطحت ” اور یہ کم بخت کہتی ہے کہ زمین گول ہے۔ میں نے اردو پڑھی ہے فارسی پڑھی تھی وہ بھول گئی، قرآن شریف پڑھا ہے لیکن تمہارے لئے جاہل ہی ہوں۔ ”

جل کر حامد نے کہا ” تم بالکل جاہل ہو۔ کیسی الٹی سیدھی باتیں کر تی ہو۔ اگر تمہاری سمجھ میں نہیں آیا کہ زمین گول ہے تو اس سے کہا تو ہوتا کہ کیسے گول ہے ثابت کرو۔ ”

"اس سے بحث کرنا بیکار ہے۔ ”

"کیوں ؟”

"اس لئے کہ وہ کم بخت خود جاہل ہے۔ تم خود غور کرو کہ اگر زمین گول ہوتی اور وہ بھی نارنگی کی طرح تو لوگ لڑھکتے ہوئے سمندر میں جا گرتے۔ تمام پانی سمندروں اور دریاؤں کا گھروں میں گھس آتا۔ ”         حامد کو بے اختیار ہنسی آ گئی۔ اس نے کہا ” بھی تم تو بڑی احمق ہو۔ آخر اس ضد اور جہالت سے کیا فائدہ ہے۔ ”        ” ضد تو تمہیں ہے مجھے تو نہیں۔ یہ تو تم ہی ہو جو کہتے ہو ناخونوں میں کیڑے ہیں پانی میں کیڑے ہیں ہر چیز میں کیڑے ہیں اور پھر ہار کر خود پیتے ہو۔ ہاں …….یہ مس ینگ بھی یہی کہتی ہے۔ ”         "ہیں ہی جو۔ تمام چیزوں میں جراثیم ہیں۔ ”

"خیر تمہارے لئے ہوں گے۔ میرے لئے تو نہیں۔ تمہیں حکیم چاچا کا خط بھی دکھا دی جب بھی نہ مانو تو کیا کروں۔ ”

” حکیم بیچارے کیا جانیں کہ جراثیم گیا ہیں۔ اس قصے کو جانے دو۔ اب یہ بتاؤ کہ تم پڑھنے کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتی ہو۔ ”

” میں تم سے کہ چکی کہ مس ینگ بڑی بد دما غ ہے اور پھر …..پھر ……آوارہ ہے ….مجھ کو اس کے چلن پسند نہیں۔ یہ میں تم سے پیشتر بھی کہ چکی ہوں۔ ”

” لاحول ولا قوۃ پھر تم نے وہی ناشائستہ باتیں کرنا شروع کیں۔ میں اس قسم کی باتوں کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ ” تیز ہو کر حامد نے کہا۔

"تم ناحق خفا ہوتے ہو۔ خدانخواستہ تمہیں الزام نہیں دیتی مگر جس طرح وہ تم سے ہنستی بولتی ہے آزادی اور بد تمیزی سے ملتی ہے مجھے گوارا نہیں۔ ”

” تم تو احمق ہو وہ نہایت ہی تہذیب یافتہ لڑکی ہے۔ انگریزی تہذیب کے مطابق وہ مجھ سے ملتی جلتی ہے …..”

” اور انگریزی تہذیب میں بد چلنی ہے میں تو ایسی انگریزی تہذیب سے باز آئی۔ ”

” تو پھر مت پڑھو۔ اسے نکال دو۔ ”

” تم تو ایسے کہ رہے ہو جیسے کہ اس کم بخت کو میں نے رکھا ہے۔ کتنی مرتبہ کہہ چکی ہوں مگر تم نے خود رکھ چھوڑا ہے۔ ”

” تو تم انگریزی نہیں پڑھنا چاہتیں؟”

"میں نہیں پڑھنا چاہتی۔ ”

"تو پھر مس ینگ بھی نہیں نکلے گی۔ اس ضد کا یہی علاج ہے۔ ”

” تمہیں بھی قسم ہے نہ پڑھنا۔ ” یہ حامد نے خوب تیز ہو کر کہا اور جواب کا بھی انتظار نہ کیا اور بڑبڑاتا ہوا باہر چلا گیا۔

وہ جلا بھنا باہر سے واپس آیا اور تیزی سے آیا کہ مس ینگ اس کے آنے سے قبل نجومی کا خط نہ رکھ سکی جو وہ پڑھ رہی تھی۔ دونوں کی نظر ملی۔ چوروں کی طرح مس ینگ نے اس نا مبارک صحیفے کو میز پر رکھ دیا۔ ایک عجیب خفت آمیز نظر حامد کی طرف ڈالی اور پھر نیچی کر لی۔ اس نے ایک اخلاقی جرم کیا تھا اور اس کو یہ خط نہ پڑھنا چاہئے تھا۔ حامد خود ذرا بے چین سا ہو رہا تھا۔ کیونکہ اس نے مس ینگ کے ” سرخی مائل سنہری بال ” گویا آج اور اب دیکھے۔ معاً اس کی نیلی مگر سرمگیں آنکھیں دیکھیں اور پھر بال دیکھے۔ مشکل سے سلسلہ کلام شروع ہوا۔ حامد مس ینگ سے جو کہنا چاہتا تھا نہ کہہ سکا۔ وہ دراصل اپنی بیوی کی جہالت کا تذکرہ کر کے پھر کہتا کہ میں آپ کو ضرور رکھوں گا کیونکہ سال بھر کیلئے آپ کو بلایا ہے۔ مگر بیوی کی تعلیم فی الحال بند رہے گی۔   اس نے اپنی بیوی کی جہالت کا قطعی تذکرہ نہ کیا صرف اتنا کہا کہ فی الحال کچھ روز کے لئے آپ اپنے شاگرد سے نہ ملین اور نہ پڑھائیں۔ خدا معلوم مس ینگ نے نجومی کو خط پڑھ کر کیا رائے قائم کی ہو گی۔ ایک نجومی کا اس طرح پیش گوئی کرنا کہ اس کا خود حلیہ درج ہو۔ اور بیوی کی جہالت اظہر من الشمس ہو ظاہر ہے کہ کیا اثر رکھ سکتا ہے۔

ہفتہ بھر سے زائد گذر چکا تھا اور حامد گھر میں نہ گیا تھا۔ دونوں میاں بیوی نو عمر تھے اور دونوں ضدی بھی تھے۔ لڑ بھڑ کر خود ہی پھر مل جاتے تھے اور بڑا مزا اس ملاپ میں ہے جو صلح ہو جائے جنگ ہو کر اس قسم کی لڑائیاں آپس کی الفت اور محبت کو اور زیادہ دلچسپ بنا دیتی ہیں۔ جنگ سے پہلے میاں بیوی دونوں اور مس ینگ سب مل کر ایک جگہ ناشتہ کرتے تھے اور اب حامد اور مس ینگ ایک ساتھ باہر ناشتہ کرتے تھے۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ رات حامد کی ایک جلسے میں کٹی۔ وہ ہمیشہ ایسے جلسوں سے بھاگتا تھا۔ مگر صبح چار بجے آیا تو ایسا پڑ کر سویا کہ نو بجے آنکھ کھلی۔ نہا دھو کر آیا اور ناشتہ کیا تو معلوم ہوا کہ نیند پوری نہیں ہوئی۔ آنکھوں میں کچھ خمار سا تھا۔ مس ینگ جب ناشتہ کرنے آئی تو اخبار لے گئی تھی۔ ملازم کو آواز دے کر حامد نے کہا جاؤ مس صاحب سے ہمارا سلام بولو (یعنی کہو کہ بلاتے ہیں)۔ ملازم نے واپس آ کر کہا کہ آتی ہیں۔ دیر تک وہ انتظار کرتا رہا۔ نوکر سے پھر پوچھا تو اس نے کہا غسل خانے میں تھیں آتی ہوں گی، وہ آرام کرسی پر بیٹھا ہوا سگرٹ پی رہا تھا۔ نہ معلوم کیا کیا خیالات دماغ میں آ رہے تھے کہ اسی سوچ میں اخبار اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔ وہ چونک سے پڑا۔ اونگھ گیا تھا۔ مس ینگ اب بھی نہ آئی تھی۔ اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اور اس عارضی جھپک سے آنکھوں میں اور بھی خماری کیفیت پیدا ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پھر اسی طرح اخبار پڑھنے لگا۔ یو یوں کہئے کہ اخبار پڑھنے کی کوشش کرنے لگا کہ پھر آنکھوں کے آگے نیند کے تارے نظر آنے لگے کہ۔ ۔ ۔ وہ مس ینگ آ گئی۔ وہ مسکراتی ہوئی برآمدہ میں داخل ہوئی۔ حامد نے خندہ پیشانی سے اٹھ کر مصافحہ کیا اور کرسی پر بٹھایا۔ وہ اس کے سرخی مائل سنہری بالوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے بال بھی کس قدر حسین تھے۔ کس قدر باریک تھے !اور دیکھنے سے کس قدر ملائم معلوم ہوتے تھے ! گویا ریشم کے سے لچھے تھے،مگر ان میں ایک دلکش۔ ۔ ۔ عجیب ہی دلکش خم تھا۔ اس کے سر کی جنبش کے ساتھ ہوا کی معمولی رمق سے اس کے سنہری بالوں کے چھلے کھل کھل کر پھر الجھ جاتے تھے۔ وہ آ کر بیٹھ گئی، اس کے لبوں پر ایک سحر آفریں مسکراہٹ تھی۔ اس کی چمکیلی نیلگوں آنکھوں میں ایک عجیب تڑپ تھی۔ اس نے ذرا بے حجابانہ بے تکلفی سے کہا "مسٹر حامد میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔ ” "شوق سے کہئے۔ فرمائیے۔ ” مس ینگ نے عجیب معشوقانہ ستم گری سے کہا "میں آپ سے اس بارے میں معافی کی خوستگار ہوں۔ ” "کس بارے میں؟”

"آپ مردانہ حسن کا جہاں بہترین نمونہ ہیں وہاں آپ اس خوبی سے بھی متصف ہیں کہ نوجوان لڑکیوں کے دل لوٹ لیں۔ ” مس ینگ نے بے ساختگی سے کہا۔ "میں آپ کا مطلب سمجھے سے قاصر ہوں۔ ” حامد نے دل میں قدرتاً محظوظ ہو کر کہا "مگر آپ۔ ۔ ۔ وہ کس بارے میں ابھی آپ معافی۔ ۔ ۔ کے بارے میں۔ ۔ ۔ ” "جی ہاں۔ یہ اسی کی تمہید تھی جس کے سمجھنے سے آپ قاصر ہیں، مجھ کو افسوس ہے کہ میں نے آپ کی بغیر اجازت کے وہ آپ کا نجومی والا خط پڑھ لیا۔ مگر ایک بات ہے اور وہ یہ کہ اس خط سے چونکہ میرا بھی براہ راست نہ سہی بالواسطہ تعلق ہے لہذا اگر میں نے چوری سے اس کو دیکھ بھی لیا تو کیا مضائقہ ہے۔ مجھے تو اس کے دیکھنے کا حق حاصل تھا۔ ” مس ینگ مسکرا رہی تھی اور حامد کچھ مجبوب سا ہو کر اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا۔ ہنس کر مس ینگ نے پھر کہا "آپ کو تسلیم ہے، خیر شکر ہے کہ آپ کو تسلیم ہے۔ کیا میں مغرب کی رہنے والی گوری چٹی لڑکی نہیں ہوں؟ کیا میری آنکھیں۔ ۔ ۔ ” سحر آفرینی سے مس ینگ نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا "کیا میری آنکھیں نیلگوں نہیں اور پھر میرے بال۔ ۔ ۔ ” کنپٹی پر سے اس نے گھونگرو والے ریشمی بالوں کو انگلی سے کھینچتے ہوئے کہا "۔ ۔ ۔ کیا یہ سنہری بال نہیں ہیں۔ کیا ان سنہری بالوں میں سرخی نہیں ہے ؟ بلکہ سرخ نہیں ہیں؟” "بیشک یہ سب باتیں ہیں۔ ” حامد نے کہا۔ "پھر آخر وہ لڑکی سوا میرے اور کون ہے جس کے ساتھ تمہاری زندگی عیش و آرام سے گزرے گی۔ منجم کی پیشین گوئی کی میں مجسم تکمیل تمہارے سامنے ہوں۔ تمہاری بیوی جاہل ناگن۔ ۔ ۔ ناگن۔ ۔ ۔ وہ ایک روز تم کو ضرور ڈس لے گی۔ دیکھو تم کیسے مضمحل اور لاغر ہو رہے ہو۔ سانپ کی گرمی! خدا کی پناہ! تمہارا بدن پیلا ہے۔ ۔ ۔ تمہارا چہرہ زرد ہے ! مردنی چھائی ہوئی ہے، انسان انسان سے محبت کرتا ہے نہ کہ حشرات الارض سے !” "مگر میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ ” حامد نے سنجیدگی سے کہا۔ "تمہیں کرنی پڑے گی۔ ” مس ینگ نے دبنگ آواز سے کہا "نوشتہ تقدیر مٹ نہیں سکتا۔ پہچانو یا نہ پہچانو۔ میں وہی لڑکی ہوں جس کا نجومی نے ذکر کیا ہے۔ میرا دل بول رہا ہے میں وہی ہوں۔ میں خود ان گھکوسلوں کی قطعی قائل نہ تھی مگر یہاں تو واقعات قائل کر رہے ہیں۔ دلیل اور حجت کی گنجائس نہیں۔ ” "مجھ کو میری بیوی۔ ۔ ۔ میری عارفہ بہت محبوب۔ ۔ ۔ ” "مگر یہ محبت عارضی ہے۔ کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ تمہارا اس کا جوڑ نہیں وہ جاہل ہے، وہ ضدی ہے۔ وہ زہریلی ناگن ہے۔ ۔ ۔ ”

"بس خاموش رہو۔ ۔ ۔ ” "مجھ سے تم نہیں لڑ سکتے۔ ” اکڑ کر مس ینگ نے کہا "تم میرے غلام ہو۔ ۔ ۔ نوشتہ تقدیر۔ ۔ ۔ کسی کے مٹائے نہیں مٹتا۔ ” "میں اس قسم کی باتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ” "تم کو ہونا پڑے گا ورنہ یہ رول”۔ ۔ ۔ اس نے رول اٹھا کر کہا”۔ ۔ ۔ تمہاری ناک پچکا دے گا۔ ” "ہرگز نہیں۔ کم بخت۔ ۔ ۔ بد زبان۔ ” "قطعی!” مس ینگ نے ترش رو ہو کر کہا "قطعی!”۔ ۔ ۔ "تم کو میرے ساتھ شادی کرنی پڑے گی اور میں تم کو بندر کی طرح نچاؤں گی۔ تم بندر بن جاؤ گے۔ ۔ ۔ تم بندر ہو۔ ” مس ینگ کے چہرہ پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی اور وہ رول گھما رہی تھی۔ "بندریا دور ہو۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر حامد نے غصہ میں چاہا کہ ہاتھ پکڑ کر مس ینگ کو کرسی سے اٹھا دے کہ اتنے میں اس کے سگرٹ کا، جو سُلگتے سُلگتے مشکل سے آدھ انچ لمبا رہ گیا تھا، اس کی انگلیوں میں چرکا لگا اور وہ ایک دم سے ہاتھ پٹخ کر کرسی ہی پر گویا اچھل پڑا۔ ۔ ۔ ایک دم سے ہڑبڑا کر چونکا۔ ۔ ۔ وہ سو گیا تھا اور یہ خواب تھا۔ آنکھیں پھاڑ کر گویا ہوش میں آیا۔ سامنے کیا دیکھتا ہے کہ بڑے ناز و انداز سے خراماں خراماں مس ینگ چلی آ رہی ہے۔ اس نے دل میں اس معمولی مگر مختصر خواب پر لاحول بھیجی اور بڑھ کر مس ینگ سے ہاتھ ملایا اور کرسی پر لا بٹھایا۔ قبل اس کے کہ کچھ بات چیت ہو وہ مس ینگ کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگا۔ ادھر ادھر کی دلچسپت باتیں ہونے لگیں۔ حامد بار بار مس ینگ کے سرخی مائل بال غور سے دیکھ رہا تھا۔ مس ینگ کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے۔ ہر پھر کر حامد کی بیوی کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ بہت گفت و شنید کے بعد جب حامد نے اچھی طرح اپنی بیوی کی جہالت کا رونا رو لیا تو مس ینگ نے آخر کو کہلوا ہی لیا۔ مس ینگ نے بہت رکتے رکتے لڑکھڑاتی زبان سے کہا کیونکہ وہ نجومی کا خط پورا پورا پڑھ چکی تھی۔ اس نے کہا "جی ہاں۔ ۔ ۔ آپ کا خیال صحیح۔ ۔ ۔ واقعی بات تہ یہ ہے کہ آپ بیوی کے معاملہ میں بدقسمت ہیں۔ ” "کیا آپ کو مجھ سے واقعی ہمدردی ہے ؟” حامد نے پوچھا۔ مس ینگ نے اپنی پلکیں اوپر کو کر کے کہا "مجھ کو آپ سے ہمدردی ہے۔ ” "پھر اس کا کیا علاج۔ کوئی علاج بتائیے۔ ” حامد نے کہا۔ "میں اس کا بھلا کیا علاج بتاؤں۔ یہی کہ ان کی تربیت کی فکر کیجئے تعلیم دلوائیے۔ ” "آپ علاج بتا سکتی ہیں۔ ” حامد نے دبی اور کپکپاتی آواز میں کہا "کیونکہ آپ کے بال سرخ ہیں۔ ” مس ینگ کٹ کر رہ گئی اور اس نے اوپر کو دیکھا اور بڑی مشکل سے کہا۔ "میں نے غلطی کی میں آپ سے معافی چاہتی ہوں کہ میں بغیر آپ کی اجازت کے۔ ۔ ۔ ” "تم نے اچھا کیا کہ خط پڑھ لیا۔ ” حامد نے کہا "تم وہی ہو۔ وہی سرخ بالوں والی نیلی آنکھوں والی ہو۔ ” مس ینگ کا ہاتھ پکڑ کر حامد نے کہا "میں تمہارا ہوں۔ تم وہی سرخ بالوں والی لڑکی ہو۔ تم مجبور ہو۔ تم کو میری زندگی شیریں اور پر کیف بنانا پڑے گی۔ ” مس ینگ کی خاموشی سو جواب تھی!! اس واقعہ کے چوتھے روز حامد کی بیوی اپنے گھر چلی گئی۔ یا یوں کہئے کہ حامد نے اس کو نکال دیا۔ عارفہ نے پہلے تو تیزی دکھائی لیکن پھر شکست کھا گئی اور چاہا کہ شوہر کو راضی کر لے۔ وہ ایسا بگڑا تھا کہ کبھی یہ حال عارفہ نے نہ دیکھا تھا۔ لیکن جوں جوں وہ خوشامد کرتی حامد کا جن اور چڑھتا جاتا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پھر عارفہ کو بھی غصہ آ گیا اور وہ بھی کوسنے پیٹنے لگی لیکن پھر ہاری اور پھر خوشامد کی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ اب سکت و سُست الفاظ کی تاب نہیں رکھتی تو اس کو بھی جنون چڑھ آیا اور جو کچھ اس کے منہ میں آیا اس نے کہہ ڈالا۔ ادھر حامد نے کم بخت۔ بدبخت۔ جاہل۔ ناگن۔ ڈائن کہہ کر اس سے کہا نکل جا گھر سے ابھی نکل جا اور ادھر اس نے قسمیں کھائیں کہ بھول کر تیرے گھر کا رخ نہ کروں گی۔ اگر بھاری مہر میں حامد نہ بندھا ہوتا تو شاید بیوی کو طلاق ہی دے کر نکالتا۔ اس جنگ کے بعد ہی دونوں طرف کے عزیز و اقارب دوڑ پڑے۔ حامد کے بزرگوں میں سے اول تو کوئی قریبی عزیز تھا نہیں اور جو تھے ان کو حامد شمار میں نہ لاتا تھا۔ پھر بھی دونوں نے خوب کوشش کی مگر بے سود۔ کیونکہ ادھر تو حامد اکڑا ہوا تھا اور ادھر عارفہ۔ وہ کہتی تھی کہ اس موڈی کا منہ دیکھنا بھی مجھ کو گوارا نہیں۔ ایک ایک لفظ حامد کا اس کو یاد آتا تھا اور اس کے دل میں حامد کی طرف سے اب نفرت اور انتقام کے جذبات مشتعل تھے۔ محبت کا تو پتہ تک نہ تھا۔ وہ حامد کے سنگ دلانہ بلکہ وحشیانہ برتاؤ کو کبھی بھول نہیں سکتی تھی۔ نفرت بڑھتی گئی اور وہ بھی اس قدر کہ مس ینگ کی موجودگی اس کے سینہ میں بجائے رقابت کی آگ بھڑکانے کے منافرت کی آنچ مشتعل کرتی تھی اور یہی دراصل میاں اور بیوی کی لڑائی کی انتہا ہے۔ عارفہ کے چلے آنے کے بعد مس ینگ حامد کی توجہات کا مرکز بن گئی۔ تاجر قوم کی تاجر خیالات کی لڑکی نے ہندوستانی سے اگر محبت بھی کی تو تاجرانہ اصول پر۔ نکاح کرنے سے اس نے قطعی انکار کر دیا کیونکہ حامد نے عارفہ کو بوجہ ادائے مہر طلاق دینے سے انکار کر دیا تھا۔ مس ینگ بھی حامد کو خوب ملی۔ دن رات حامد اسی فکر میں رہتا تھا کہ کس طرح مس ینگ کو جائز بیوی بنا لے۔ در پردہ وہ عارفہ کو طلاق دینے کا بھی انتظام کر رہا تھا۔ ادھر عارفہ اس بات کی منتظر تھی کہ حامد مس ینگ سے شادی کرے تو میں مہر کا دعویٰ کر دوں۔ مس ینگ حامد کو قبضے میں کر کے سچ مچ بندر کی طرح نچا رہی تھی۔ حامد کی کوشش تھی کہ عارفہ کے مہر کا روپیہ جمع کروں اور عارفہ سے پیچھا چھڑا کر مس ینگ کو زوجیت میں لے لوں اور ادھر مس ینگ کا یہ ارادہ کہ جب تک بھی دھوپ ہے تاپوں اور پھر کوئی اور میدان دیکھوں۔ وہ بھلا کاہے کو روپیہ جمع ہونے دیتی۔ آج کلکتہ، کل بمبئی، پرسوں نینی تال۔ آج پونا کی دوڑ دیکھی جا رہی ہے تو کل کلکتے کی دوڑ۔ ہزاروں روپے کے جواہرات خرید ڈالے۔ غرض مس ینگ کی حامد ہر جا و بجا خواہش منظور کرتا اور اس کے ساتھ مزے سے زندگی گزار رہا تھا۔ عارفہ کا کبھی اس کو بھول کر بھی خیال نہ آتا۔ دن عید رات شب برات غرض دونوں کی مزے سے کٹ رہی تھی۔ عارفہ کی طبیعت میں اگر کہیں غصہ نہ ہوتا تو شاید وہ یہ صدمہ برداشت ہی نہ کر سکتی۔ بیشک غصہ کا نشہ آدمی کو طاقت بھی دیتا ہے اور گھلا کر مار بھی ڈالتا ہے۔ مگر غصہ اصلی محبت اور صدمے کے جذبے کو ضرور مارتا ہے اور یہ دونوں اپنی نوعیت کے لحاظ سے بہ نسبت غصے کے کہیں زیادہ مہلک ہیں۔ پھر ایک بات اور بھی تھی وہ یہ کہ عارفہ جاہل تھی اور مس ینگ کو بد چلن اور آوارہ سمجھتی تھی اور حامد کے منہ پر کہہ کر آئی تھی یہ یہ فرنگن کسی کے ساتھ بھاگ جائے گی تب خود جھک مار کر میری خوشامد کرو گے۔ یہ خام خیال اس کے لئے باعث تقویت تھا۔ مگر حامد سے تو اس کو ایسی نفرت سی ہو گئی تھی کہ مس ینگ کے بھاگ جانے کے بعد بھی وہ اس وحشی مزاج حامد کی صورت تک دیکھنا گوارا نہ کر سکتی تھی۔ اس کو حامد سے نفرت تھی جو کسی طرح کم ہونے میں نہ آتی تھی۔ گھر پر عارفہ کی دلچسپی کے لئے بن ماں کے بچے موجود تھے جن سے وہ دل بہلایا کرتی تھی۔ بھائی کی اکیلی بہن تھی۔ لہذا بھائی بھی بہن کو بے حد چاہتا تھا۔ دن ایسے گزر جاتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ عارفہ کو پورے تین سال ہو گئے کہ وہ میاں سے الگ ہوئی تھی۔ اس دوران میں جب کبھی بھی مصالحت کی کوشش کی گئی ناکام رہی بلکہ نتیجہ یہ کہ حامد کی طرف سے وہ وہ باتیں پیش آئیں کہ عارفہ جو دل سے شاید مصالحت بھی چاہتی ہوتی تو اور بگڑ جاتی۔ کوئی بھی عورت میاں کی وہ باتیں نہیں سن سکتی جو وہ اس نیت سے کرتا ہے کہ میں اس عورت سے رہا سہا بھی تعلق چھڑا لوں۔ قصہ مختصر صورت حال بد سے بدتر ہو گئی اور اگر عارفہ کے نام سے حامد کو چڑ تھی تو عارفہ بھی حامد کے نام سے متنفر۔ عارفہ سے علیحدہ ہوئے حامد کو ساڑھے تین سال کے قریب گزر گئے تھے۔

تین مہینے سے حامد دہلی کے بڑے ہسپتال کے یورپین وارڈ میں پڑا ہوا تھا۔ اس کو مسلسل بخار کی شکایت رہی۔ پھر زکام اور کھانسی کی عرصے تک شکایت رہی۔ مس ینگ نے کچھ دنوں تک تو بیمار کی طرف توجہ کی پھر اس نے معمول باندھ لیا کہ سینما دیکھنے جو جاتی تو رات کے بارہ ایک بجے تک آتی۔ مس ینگ کو حامد بے حد چاہتا تھا، اور بے دریغ اس کو خرچ کرنے کو روپیہ دیتا تھا۔ وہ دہلی کی اعلٰی ترین یورپین سوسائٹی میں شامل تھی اور ایک دو نہیں بلکہ دس پانچ نوجوانوں سے اس کی گہری دوستی تھی۔ ڈاکٹروں نے تجویز کی کہ حامد کے بلغم کا معائنہ کیا جائے کیونکہ کھانسی عرصے سے تھی۔ معائنہ کے وقت مس ینگ بھی موجود تھی۔ ڈاکٹر نے خوردبین سے دیکھ کر ایک کاغذ پر گویا فتویٰ موت صادر کیا "ٹی۔ بی پریزنٹ ان لارج نمبر” یعنی "دق کے جراثیم (بلغم میں) کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ” مس ینگ نے کاغذ کو دیکھا پھر ڈاکٹر کو اور پھر حامد کی طرف۔ مس ینگ سے اجازت لے کر ڈاکٹر نے حامد کو بھی کاغذ دکھا دیا۔ حامد نے مسکرانے کی کوشش کی جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں مگر اس کا چہرہ بھیانک تھا۔ فوراً حامد کو ٹی۔ بی وارڈ (دق وارڈ) میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں حامد نے دیکھا کہ نرسیں اور ڈاکٹر سب منہ اور ناک پر خاص قسم کا خول لگائے گھوم رہے ہیں جس میں آگے باریک کپڑا لگا ہوا ہے۔ یہ کپڑا جراثیم مار ڈالنے والی دوائی سے تر رہتا تھا۔ مس ینگ ڈاکٹر کی خوفناک باتیں سن رہی تھی۔ ڈاکٹر نے اس کو بتایا کہ دق کے مریض کے ساتھ رہنا زیادہ خطرناک ہے بہ نسبت اس کے کہ آدمی گولہ اور گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑا رہے۔ دق کے کیڑے نہ دھوپ میں مرتے ہیں اور نہ پانی میں جوش دینے سے مرتے ہیں۔ گرد و غبار میں آویزاں رہتے ہیں اور سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں داخل ہو کر مریض کو مار ڈالتے ہیں۔ دق کا مرض سخت موذی مرض ہے۔ اس کا کائی علاج نہیں اس سے دور بھاگو۔

مس ینگ یہ لیکچر سن کر اور منہ پر خول چڑھا کر حامد کے پاس آئی۔ حامد نے اس کو محبت سے ہاتھ بڑھا کر پاس بٹھانا چاہا۔ مگر مس ینگ پر تو خوف غالب تھا۔ وہ سکڑ کر الگ ہو گئی۔ پورا کا پورا لیکچر ڈاکٹر کا مس ینگ نے حامد کے سامنے دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ اب اس کو علیحدہ رہنا چاہیے۔ دور سے بات کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ حامد کی جو حالت ہو گی اس کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ وہ موت کے چنگل میں گرفتار تھا۔ وہ خود جانتا تھا کہ مس ینگ کا علیحدہ ہی رہنا مناسب ہے۔ طے ہو گیا کہ مس ینگ ایک ہوٹل میں مستقل کمرہ لے لے۔ دق کا مریض۔ خدا کی پناہ۔ دن بھر تنہا پڑے رہنا گویا موت کی گھڑیاں گننا ہیں۔ مس ینگ آتی تو دور منہ پر خول چڑھائے بیٹھی رہتی اور حتی الامکان کوئی چیز تک نہ چھوتی۔ یہ سب کچھ حامد دیکھتا اور محسوس کرتا مگر کیا کہہ سکتا۔ ڈاکٹر اور نرسیں سب اس کے ساتھ احتیاط برتتے تھے۔ اس کی چھوئی ہوئی چیز گویا زہر تھی۔ وہ پڑا پڑا سوچتا کہ افسوس میرا کوئی ہمدرد اور کوئی ساتھی نہیں۔ مس ینگ دن میں ایک پھیرا کر جاتی کیونکہ اس کو ناچ رنگ سے ہی اب فرصت کہاں تھی۔ حامد کے یار دوست اور احباب جن سے ان کو بڑی امیدیں تھیں آئے لیکن کوئی اس کا ساتھی نہ تھا۔ سب اس کی ہوا سے دور ہی رہتے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ مجھ کو مہلک بیماری ہے۔ اس کو موت کی فکر اور پھر ایک دنیا کی بے رخی مارے ڈالتی تھی۔ وہ دق سے نہیں مر رہا تھا۔ روپیہ پیسہ سب کچھ تھا مگر نہ تھا تو کوئی یار غم گسار یا مونس و تیمار دار۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کو اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ ہر شخص اس کو چند روزہ سمجھتا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کے دل بہلانے کا سامان مہیا کیا تھا۔ سیر بینیں، گورکھ دھندے، دلچسپ تصویریں۔ طرح طرح کے پھول۔ رنگین کاغذ اور قینچی بھی رکھی رہتی تھی کہ وہ پھول کاٹ کر اپنا دل بہلاتا رہے۔ بہت جلد وہ ہسپتال کی تنہائی سے تنگ آ کر شہر کے باہر ایک بنگلے میں اٹھ آیا۔ مس ینگ سے جب اس نے کہا کہ تم بھی بنگلے میں آ جاؤ مگر بالکل الگ رہو تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ یہ ناممکن ہے۔ تم تو سمجھدار آدمی ہو اور پھر مجھ سے یہ کہتے ہو۔ دو مہینے کے اندر ہی اندر حامد کی حالت بد سے بدتر ہو گئی۔ مس ینگ دو دو دن اور تین تین دن نہ آتی۔ روپیہ کی ضرورت ہی اس کو کھینچ لاتی تھی۔ حامد اسی کو غنیمت خیال کرتا وہ اس کے آگے روتا اور کہتا کہ تھوڑی دیر تو اور بیٹھو۔ مجھ سے کچھ دور رہو۔ مگر کچھ دیر تو مجھ سے باتیں کرو مگر وہ نہ بیٹھتی اور صاف کہہ دیتی کہ چہرے پر خول چڑھا کر بھی زیادہ دیر تک تمہارے کمرے میں رہنا یا ٹھہرنا ڈاکٹر مضر بتاتا ہے۔ غرض حامد کو روتا اور پریشان چھوڑ کر وہ چلی جاتی۔ حامد نوکروں کو بلاتا اور انہی سے باتیں کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ کہتا تھا کاش کے میرا کوئی عزیز ہی ہوتا جو میری تیمار داری کرتا۔ مگر سب کا امتحان ہو چکا تھا۔ عارفہ نے جب سے سنا تھا کہ حامد کو دق ہو گئی ہے تب سے اس کی آنکھوں میں نہ معلوم کیوں نمی آ جاتی تھی۔ وہ حامد سے سخت نفرت کرتی تھی اس کو اس کی ایک ایک بات یاد تھی اور ہر بات تیر کی طرح دل میں اب تک کھٹک رہی تھی۔ اس کو حامد سے ملنے کا خیال تک نہ تھا کیونکہ اس نے ساتھ ہی یہ بھی سُنا تھا کہ مس ینگ کو اب بھی نہیں چھوڑا ہے۔

ہوتے ہوتے اس کو یہ خبر پہنچی کہ حامد کا حال خراب ہے۔ اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ مجھ کو پہنچا دو، میں ایک مرتبہ دیکھ لوں۔ بھائی کو حامد سے سخت نفرت تھی اور اس نے صاف کہہ دیا کہ میں نہیں جاؤں گا میرے دل میں گنجائش نہیں، یہ تمہارے دل میں گنجائش کہاں سے نکل آئی۔ بس یہ کہنا تھا کہ عارفہ پھوٹ پڑی۔ اس کو تسلیم تھا کہ خود اس کے دل میں حامد کی طرف سے ذرہ بھر گنجائش نہیں۔ ہاں وہ اب بھی اس کی تمام باتوں سے اسی طرح متنفر ہے مگر پھر بھی وہ چاہتی ہے کہ کم از کم ایک مرتبہ حامد کو دیکھ لے۔ اس کی تمام قسمیں کہ مرتے مر جاؤں مگر صورت نہ دیکھوں گی، نہ معلوم کہاں گئیں۔ بھائی نے کہا میں نہیں جاؤں گا۔ لہذا وہ ایک ملازم اور ایک ملازمہ لے کر دہلی چل دی۔

رات کے بارہ بجے ہوں گے سردی کا زمانہ تھا۔ حامد ایک کھڑکی کھولے ہوئے کمرے میں پڑا سو رہا تھا۔ نرس برابر والے کمرہ میں تھی کہ اس کو ملازم نے جگایا۔ بہت اصرار کے بعد نرس نے کہا کہ تم مریض کو صرف دروازہ پر دیکھ سکتی ہو۔ مریض سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں وہ اب ہمارے قبضہ میں ہے اور میں اس کی تیمار دار اور ذمہ دار ہوں۔ دروازے کے پاس کھڑے ہو کر عارفہ نے نحیف و ناتواں مریض کو دیکھا۔ اس کا چہرہ زرد تھا اور اس پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ عارفہ کو نہیں معلوم تھا کہ باوجود سکت نفرت کرنے کے بھی اس کا دل بیمار شوہر کو اس حالت میں دیکھ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ حامد ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور اس کی آنکھیں بند تھیں۔ وہ آگے بڑھی تو نرس نے ہاتھ پکڑا جو اس جھٹک کر چھڑایا۔ نرس مجبور تھی کہ زبردستی روکنے میں کہیں مریض نہ جاگ اٹھے۔ حامد کی چارپائی کے پاس وہ جا کر کھڑی ہو گئی اور اس کو غور سے دیکھنے لگی۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے حامد کے پپوٹوں کا جنبش ہوئی اور اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ عارفہ کو دیکھا جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی گویا ایک بجلی سی مریض کے بدن میں دوڑ گئی جس کا اثر چہرہ پر نمودار ہوا مگر حامد سے جنبش ہی نہ کی گئی اور وہ ٹکٹکی باندھے عارفہ کو دیکھ رہا تھا اور عارفہ اس کو دیکھ رہی تھی۔

دیکھتے دیکھتے حامد کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ آہستہ آہستہ آنسو ڈھلک کر اس کے تکیے پر گرنے لگے اور سنگ دل عارفہ کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ "میں تمہیں دیکھنے آئی تھی اور اب جاتی ہوں۔ ” عارفہ نے نہ معلوم کہاں سے دل مار کر یہ سخت جملہ کہا۔ "عارفہ۔ عارفہ” ہاتھ اٹھا کر حامد نے کہا۔ اس کا ہاتھ مردوں کا سا بے گوشت و پوست معلوم ہوتا تھا اور ہاتھ دیکھ کر عارفہ کا پھر دل پسیج گیا مگر اس نے ضبط کیا اور مڑ کر حامد کر طرف دیکھا۔ دونوں ہاتھ بڑھا کر حامد نے کہا۔ "عارفہ۔ ۔ ۔ میں مر رہا ہوں مجھے معاف کر دو۔ ” عارفہ تو گویا پارٹ سا کر رہی تھی نہ معلوم وہ اپنے کو کیسے اور کس طرح سنبھالے ہوئے تھی۔ پیمانہ ویسے ہی لبریز ہو چکا تھا اور جذبات کی ماری عارفہ گویا قدرتاً بے اختیار ہو کر "میں نہیں آتی میں نہیں آتی” تو کہہ رہی تھی مگر ایک عجیب کشش سے حامد کے ہاتھوں میں کھینچ کر چلی آئی اور بالکل ہی بے بس ہو کر اس نے حامد کے سینہ پر سر رکھ دیا۔ حامد نے سینہ سے لگایا اور دونوں کی آنکھوں سے آنسو کے دریا بہہ گئے۔

یہ آج پہلا دن تھا کہ حامد کے ساتھ ایک عزیزہ نے چھوت چھات نہیں برتی اور منہ کا سانس منہ پر لیا۔ رات بھر وہ حامد کے سرہانے بیٹھی رہی۔ دق کے مریضوں والی تھوکنے کی ڈبیا عارفہ نے اگالدان میں ڈال دی اور جب کھانسی اٹھی تب عارفہ نے تھوک کپڑے میں لیا۔ صبح دن چڑھے مس ینگ آئی اور عارفہ کو دیکھ کر بھونچکی سی رہ گئی۔ عارفہ نے حامد کی طرف دیکھا اور پھر مس ینگ کی طرف اور اسی طرح حامد نے مس ینگ کی طرف دیکھا اور پھر عارفہ کی طرف۔ حامد پانی پی رہا تھا، پی کر گلاس عارفہ کے ہاتھ میں دیا اور مس ینگ سے بیٹھے کو کہا۔ عارفہ بچا ہوا پانی حامد کا پیتی جاتی تھی اور مس ینگ کو جو اس کی طرف تعجب سے دیکھ رہی تھی آنکھوں ہی آنکھوں میں کھائے جاتی تھی۔ "یہ تم منہ پر توبڑا کیسا چڑھائے ہوئے ہو؟” عارفہ نے مس ینگ سے پوچھا جس کے منہ پر دوا میں بھیگا خول چڑھا تھا۔ مس ینگ نے کچھ خفیف ہو کر کہا "اس لئے کہ دق کے جراثیم میرے بدن میں نہ پہنچ جائیں۔ ” ایک دم سے عارفہ پھٹ پڑی اور جہالت پر اتر آئی "نکل چڑیل یہاں سے جراثیم کی نانی آئی” یہ کہہ کر اس نے حربہ جہالت یعنی جوتا سنبھالا۔ مس ینگ جانتی تھی کہ عارفہ دیہات کی رہنے والی ہے اور اگر چمٹ گئی تو بغیر جہالت کا سبق دیئے نہ مانے گی۔ مس ینگ نے منہ سے چیخ نکالی "مسٹر حامد” مگر حامد صاحب خود نقش جہالت بے پڑے تھے۔ تیزی سے مس ینگ باہر نکلی چلی گئی۔ اتنے میں یہ ہڑبونگ سن کر نرس بھی منہ پر توبڑا کسے ہوئے آئی اور اس کو بھی عارفہ نے آڑے ہاتھوں لیا۔ "نکلو یہاں سے۔ ” اس نے نرس سے کہا۔ "میں تیمار داری مریض کی کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا حکم ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ” "چولہے میں گئے ڈاکٹر صاحب اور بھاڑ میں گئیں تم۔ نکلو یہاں سے۔ ”

"میری فیس۔ ”

"تمہارے گھر بھجوا دی جائے گی۔ یہاں سے تم بھاگو جلدی جاؤ۔ ”

حامد کے پاس عارفہ جو ان بلاؤں کو دفع کر کے آئی تو اس کے کمزور چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ "کیا تم میرا علاج نہ کراؤ گی۔ ” حامد نے پوچھا۔ "ڈاکٹر صاحب اب کیا کہیں گے۔ ”

"ڈاکٹر گئے بھاڑ میں، تم گھر چلو وہاں حکیم چچا کا علاج ہو گا۔ تم جراثیم کے وہم میں گرفتار ہو۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی ورنہ تم دن رات وہم میں گھل کر اپنی جان ہلکان کرو گے۔ تمہیں خدا نہ کرے دق ہو۔ تمہارے دشمنوں کو ہو۔ زکام بگڑ گیا ہے۔ ”

حامد نے بھی سوچا کہ مرنا تو ہے۔ علاج سے فائدہ ویسے نہیں ہو رہا ہے۔ پھر کیوں نہ آخری وقت میں بیوی کی خدمت اور محبت کا آرام اٹھائے۔ اس نے اپنے آپ کو خدا پر چھوڑ دیا۔ حامد کو عارفہ اپنے گھر دیہات میں لے آئی۔ باغ میں بڑا سا بنگلہ تھا اس نے حامد کے کہنے سے وہاں لے جا کر رکھا۔ حکیم چچا خطمی اور خبازی اور جوشاندے پلانے لگے۔ دن رات اسی پر بحث ہوئی کہ جراثیم کوئی چیز نہیں یہ سب حماقت ہے۔ دراصل خورد بینوں کی خرابی ہے یا پھر ڈاکٹروں کی عقل خراب ہو گئی ہے۔

رفتہ رفتہ خدا کی شان کہ عارفہ کی تیمار داری اور محنت سے فائدہ ہونا شروع ہوا۔ دن بھر اور رات بھری عارفہ چارپائی سے لگی بیٹھی رہتی۔ دن رات اس کا دل بہلاتی اور چوسر اور پچیسی کھلاتی۔ ایک لمحہ سوچنے کا موقعہ حامد کو نہ دیتی جو وہ سوچے کہ مجھے دق ہے۔ مہینہ ہی بھر میں اس کی حالت بدل گئی۔ گرمیوں کا موسم آ رہا تھا حکیم چچا پہاڑ پر لے گئے اور وہاں دو مہینہ گزار کر جو حامد آیا تو تندرست تھا۔ اس نے دہلی جا کر ڈاکٹر صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے سر سے پیر تک اس کو دیکھا۔ اس کے تھوک کا معائنہ کر کے کہا کہ دق کے جراثیم اب نہیں ہیں۔ کیا علاج کیا؟ مسکرا کر حامد نے کہا کہ ایک حکیم کا علاج کیا اور جہات سے کام لیا۔ یعنی یہ کہ میرا عقیدہ اب ہو گیا ہے کہ جراثیم کوئی چیز نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کھڑے باتیں ہی کر رہے تھے کہ دوسرے ڈاکٹر آئے اور انہوں نے حامد کو دیکھتے ہی کہا "اچھا آپ ہیں! اب تو آپ اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ ”

"جی ہاں” حامد نے کہا "مجھ کو دق تھی یا نہ تھی مگر وہم ضرور تھا۔ اب نہ میں دق کا قائل ہوں اور نہ آپ کے جراثیم کا۔ ”

"جراثیم تو ہیں” ڈاکٹر صاحب بولے "آپ انکار ہی نہیں کر سکتے۔ ”

"اگر ہیں بھی تو آخر میں کیا کروں۔ اب تو انہیں میں نے مار ڈالا۔ کیا یہ ممکن نہیں۔ ”

"بے شک ضرور ممکن ہے اور ایسا ہی ہوا ہے۔ ” دونوں ڈاکٹروں نے کہا "کوئی بہت عمدہ دوا آپ نے کھائی ہے۔ ”

"جی ہاں۔ ”

"کیا دوا تھی؟” حامد نے کہا "جہالت مکسچر۔ ”

٭٭٭

 

 

 

 

بڑے شرم کی بات

 

اماں جان نے خوشخبری سنائی کہ "افضل آ رہا ہے۔ ۔ ۔ ”

"ارے !” میرے منہ سے نکلا مگر میں چپ ہو کر سیدھی اٹھی اور چلی گئی۔

یہ واقعہ تھا کہ بھائی افضل آ رہے تھے۔ کون بھائی افضل؟ بس نہ پوچھئے۔ جب کا ذکر ہے کہ بھائی افضل ہمارے ہاں رہتے تھے۔ بخدا کیا زمانہ تھا۔ بھائی افضل توتلے ہیں۔ ایک علیحدہ صاف ستھری کوٹھڑی تھی۔ جس میں وہ رہتے تھے۔ دلہن کی طرح سجی رکھتی اور اس کو "تمرہ” یعنی کمرہ کہتے اور کوٹھڑی کوئی کہے تو خفا ہوتے۔ طبیعت میں غصہ بے حد تھا اور ان کو ہم سب بہنیں اور بھائی اپنی شرارتوں کا مرکز بنا لیتے اور خوب پٹتے بھی تھے۔ کیا مزہ رہا جب افضل بھائی فیل ہوئے ہیں۔ میں سو رہی تھی کہ رفیق آئی، مارے خوشی کے اس نے دو ہتڑ مار کر کہا۔ "ارے مردی افضل بھائی فیل ہو گئے۔ ۔ ۔ ” معلوم ہوا کہ خاتون جو ہنسی تو وہ پٹ گئی اور کانساماں کا لڑکا بھی پٹ گیا اور حامد خاں بھی پٹ گئے۔ بقیہ بچے بھاگ گئے۔ یہ خبر ملنی تھی کہ میں بھی بے تحاشا دوڑی۔ دور سے ایک دروازے سے ہم نے جھانک کر دیکھا۔ مگر اتنے میں افضل بھائی دوسری طرف سے آ گئے اور اپنے عجیب و غریب انداز میں بولے : "تون۔ ۔ ۔ !” (کون) ہم سب نے ان کی طرف دیکھا۔ بولے "چڑیلوں۔ رونے تا متام ہے۔ ۔ ۔ اور توئی ہنسا تو تھوب سمجھ لو۔ ۔ ۔ (ہاتھ اٹھا کر بولے ) ایتوں ایت تو تتل (قتل) تر دوں دا!” اور ہمارا یہ حال کہ ادھر انہوں نے "تتل” کرنے کو کہا ہے اور مارے ہنسی کے بے تاب ہو کر ہم سب کی سب بھاگیں اور افضل بھائی لپکے کہ "پترو” (پکڑو)۔ والدہ صاحبہ سے شکایت کی تو وہ ہم سب پر خفا ہوئیں اور انہوں نے جتا دیا کہ "اگر تم ہنسیں تو رہ رنجیدہ ہے اور تم سب کو مارے گا۔ ”

مگر باوجود اس کے بھلا کون سنتا ہے۔ دوپہر کو جب افضل بھائی غم میں چور پڑے سو رہے تھے تو ہم نے کوئلوں سے ان کے کمرے کے باہر دیواروں پر لکھ دیا "افضل بھائی فیل شد۔ خوب شد۔ ۔ ۔ افضل بھائی فیل شد خوب شد۔ ” اس خوب شد کے موجد بھی خود افضل بھائی تھی۔ ہم لوگوں میں سے کوئی مارا جائے، کسی کا کوئی نقصان ہو تو بقیہ بچوں کو سکھاتے کہ خوب شد کا ورد کر کے دق کرو۔ چنانچہ یہ خوب شد ان کی ایجاد تھی۔ اب مزہ تو جب آیا ہے کہ افضل بھائی سو کر اٹھے اور "فیل شد خوب شد” پڑھا، سارے گھر میں مارے غصے کے ناچے ناچے پھرے۔ پھر ہم سب کو گرفتار کر کے اپنے کمرہ میں لائے۔ ایک بڑا سا چاقو نکالا۔ کہنے لگے "ایتوں ایت تو تتل تر دوں دا۔ ۔ ۔ یہ لتھا تسنے ؟۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ہم سب نے لاعلمی ظاہر کی تو قسم کو کہا اور ہم نے قسمیں کھائیں تو کہنے لگے۔ "یوں نہیں۔ ۔ ۔ لاؤ ترآن (قرآن) تھاؤ قسم۔ ” ویسے جھوٹی قسم تو نہ کھانا چاہیے تھی مگر پھر کرتے بھی کیا۔ سب نے قرآن اٹھا لیا کہ ہم نے نہیں لکھا۔ افضل بھائی جل کر رہ گئے اور کہہ کر نکال دیا۔ "چڑیلوں۔ ۔ ۔ نتلو یہاں سے۔ تمہارے سب تے اوپر بجلی درے دی۔ ۔ ۔ ترآن تی مار پرے دی۔ ۔ ۔ ” یہ نہیں معلوم کہ قرآن کی مار کی بہ نسبت ان کی مار کا زیادہ خوف تھا۔ نہ ہمارے طبیعت بدلی اور نہ بھائی افضل کی طبیعت بدلی۔

سب بہن بھائی رشتہ دار سہیلیاں ساتھ کی کھیلنے والیاں افضل بھائی کو اپنا سمجھتیں، حتیٰ کہ بعض کی شادی ہو گئی پر افضل بھائی نہ چھوٹے۔ عزیز رشتہ داروں کا ذکر نہیں افضل بھائی سب کے بھائی تھے اور افضل بھائی کی طبیعت بھی کم و بیش وہی رہی۔ وہی ہم تھے اور وہی افضل بھائی تھے۔ اب وہ کوئی تین سال بعد آ رہے تھے۔ اب وہ بالفاظ کود اپنے "داؤں” (گاؤں) میں رہتے تھے۔

دوسرے روز کا ذکر ہے۔ بڑے کمرہ میں بیٹھے سچ مچ بھائی افضل کے ساتھ چائے پی رہے تھے۔ بھائی افضل بہنوں سے مل کر بے حد خوش تھے۔ کتنی بھولی اور مزیدار باتیں تھیں۔ کسی کو بھولے نہیں تھے۔ کسی کا نام بھول گئے تو صورت یاد اور کسی کی صورت اور نام بھول گئے تو شرارت یاد۔ کیا مزے میں سوال کر رہے تھے۔ "تس تس تی سادی ہووئی؟۔ ۔ ۔ اور وہ تہاں دئی؟۔ ۔ ۔ وہ لمبی نات والی؟۔ ۔ ۔ اور وہ تہاں ہے ؟۔ ۔ ۔ لاحول بلا تب بت۔ ۔ ۔ اجی۔ ۔ ۔ صدار!۔ ۔ ۔ ارے ! سادی ہووئی!۔ ۔ ۔ تب؟۔ ۔ ۔ تے بے ہیں؟۔ ۔ ۔ لرتا ہے تے لرتی؟۔ ۔ ۔ تھوب! ابھی تل تی بات ہے بادی پھرتی تھی!۔ ۔ ۔ وہ تہاں ہے جس نے میری لتری چرائی تھی۔ ۔ ۔ ” وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے سوال کر رہے تھے کہ سامنے کے دروازے سے رفیق شیشے میں سے جھانکی۔ افضل بھائی نے دیکھ پاما۔ آہستہ سے اس طرف آنکھ کا اشارہ کر کے ہم سے پوچھا : "تون ہے یہ؟۔ ۔ ۔ یہ جھانت تون رہا ہے ؟۔ ۔ ۔ ”

میں نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر بولی۔ "رفیق ہے۔ ۔ ۔ (اور پکاری)۔ ۔ ۔ آؤ نا۔ کم بخت۔ ۔ ۔ ” "ارے !” افضل بھائی احتجاج کے طور پر بولے۔ "پترو اسے دریل تو!۔ ۔ پردہ ترے دی یہ!۔ ۔ ۔ مجھ سے ! نالایت تہیں تی۔ ۔ ۔ ارے پتر۔ ۔ ۔ ” مارے ہنسی کے ہمارا برا حال ہو گیا۔ پر رفیق کو ذرا جھجک معلوم ہو رہی تھی۔ میں نے اور حشمت نے اسے گھسیٹ کر اور گرفتار کر کے افضل بھائی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ "چریل۔ ۔ ۔ ” افضل بھائی نے کہا۔ "تسم تھدا تی!۔ ۔ ۔ ” رفیق نے اطمینان کر دیا کہ پردہ کا ارادہ نہیں تھا اور افضل بھائی مطمئن ہوئے۔ ہم دونوں بہنیں صوفے پر بیٹھی تھیں، پاس ہی رفیق کو بٹھایا۔ اتنے میں نہ معلوم کس نے برآمدے سے آواز دی کہ افضل بھائی بولے۔ "تون؟۔ ۔ ۔ ” جب کوئی نہ بولا تو بولے۔ "اونہہ! تدہر سے آن مرا؟ نہ معلون تون الو ہے یہ۔ ۔ ۔ دوھا نہیں تو۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر اٹھے اور باہر گئے۔

یہاں جلدی جلدی ہم تینوں بہنیں تجویز کرنے لگیں کہ کوئی حرکت ایسی افضل بھائی کے ساتھ کی جائے جو پرانی باتیں یاد آ جائیں۔ ہم تینوں باتوں ہی میں لگے تھے اور مجھے تو خبر نہیں کون آتا ہے کہ پاؤں کی آہٹ فرش پر معلوم نہ دی تاوقتیکہ افضل بھائی نے کرسی گھسیٹ کر یہ نہ کیا۔ "ارے بیٹھ بھی۔ ۔ ۔ ” اور میں جو مڑ کر دیکھتی ہوں تو حامد خاں! آنکھیں چار ہوئی تھیں کہ جھک گئیں اور منہ موڑ کر آہستہ سے اٹھتی جو ہوں تو دوپٹے کا آنچل رفیق کے نیچے دبا اور اس کمبخت نے اور بھی زور سے دبا لیا اور میرا دامن الگ پکڑ لیا۔ وہ بھی اس زور سے کہ چھڑائے نہ چھوٹے۔ میں کیا عرض کروں کیسی گھبرائی۔ گھبرا کر اور گھٹ کر بیٹھ گئی اور کم بختی اور شرارت دیکھئے کہ گدگدایا اس بدتمیز نے۔ مگر میرے اوپر شرم کا اس قدر غلبہ تھا کہ ہنسی کہاں۔ رہ گیا غصہ تو وہاں پروا کسے اور یہ ممکن نہیں کہ زور لگا کر میں دوپٹہ چھوڑ کر چلی جاؤں۔

داہنی طرف علیحدہ کو حامد خاں بیٹھے تھے، میری طرف انہوں نے نہیں دیکھا۔ ان کا دل جانتا ہو گا۔ اور افضل بھائی نے ان سے باتیں شروع کر دیں۔ یہ حامد خاں کون تھے ؟ میں کیا عرض کروں۔ ذرا سوچئے۔ ساتھ کھیلے۔ پلے۔ بڑھے۔ ساتھ ہی پٹے۔ خود انہی افضل بھائی کے ہاتھوں مگر وقت گزرنے جو لگا تو پہلے بے تکلفی، بتقاضائے عمر، جوانی دور ہوئی پھر باتوں میں خاموشی اور تکلف پیدا ہوا۔ پھر والدہ صاحبہ کے سامنے سوائے علیک سلیک کے کچھ نہ رہ گیا۔ نظریں ملتیں تو خود بخود جھک جاتیں۔ پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنا مارے شرم کے دل میں جرم معلوم ہونے لگا۔ حتیٰ کہ اب یہ تھا کہ ادھر حامد خاں کی آواز سنتی کہ میں آہستہ سے سائے کی طرح اٹھ کر چلی گئی۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ والدہ صاحبہ نے یا والد صاحب نے کہا کہ آؤ، یا اب کی طرح آنے کا پتہ نہ چلا، تو فوراً ہی آہستہ سے اٹھ کر چلی گئی۔ اسے پردہ کہہ لیجئے۔ یہ سب جب سے ہوا جب سے طے ہو گیا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے ہیں۔ حامد خاں سے ہمارا کچھ بھی رشتہ نہ تھا۔ رفیق کے چچا کے بیٹے بھائی تھے اور والد صاحب اور ان کے مرحوم سب ایک جدی تھے اور اس نسبت سے دونوں قریبی تھے۔ مرتے وقت ان کے والد نے والد کے سپرد کیا اور قریبی رشتہ دار نہ ہونے کے باوجود ہماری ان کی جائیداد ایک مورث اعلٰی ہونے کی وجہ سے ایک ہی تھی۔ حامد خاں کی والدہ بھی مر چکی تھیں اور کوئی بھائی بہن نہ تھا اور وہ اپنے باپ کی جائیداد کے تنہا وارث تھے۔ کچھ عرصے سے علیحدہ ہوئے تھے ورنہ ہمارے یہاں رہتے تھے، لیکن جب پڑھنے کا سلسلہ ہوا باہر رہنے لگے۔ صرف چھٹیوں میں آتے اور زیادہ وقت چھٹیوں کا بھی باہر دوست احباب میں گزارتے یا سیر و شکار میں۔ ایسے کہ عرصے سے ہمارے یہاں سے علیحدہ تھے۔

اب افضل کو دیکھئے، کر رہے ہیں چو طرفہ باتیں۔ بھلا حامد خاں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ فلاں کی شادی ہو گئی اور فلاں کی نہیں ہوئی۔ ان کو معلوم ہی تھا سب۔ پھر میری وجہ سے وہ بھی خاموش تھے۔ میں قدرے مڑی ہوئی بیٹھی تھی اور رفیق نے کہہ دیا کہ "اگر ذرا بھی اٹھی تو بس خیریت نہیں۔ ۔ ۔ ” میں جانتی تھی لہذا چپ۔ اور ادھر بھائی افضل نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں کہ خواہ مخواہ ہنسی آئے۔ انتہا یہ کہ حامد خاں کے لئے پیالی میں چائے ڈلوا رہے ہیں رفیق سے اور واللہ اعلم دماغ کہاں ہے۔ اب دماغی کیفیت بھائی افضل کی ملاحظہ ہو کہ رفیق سے پوچھتے ہیں۔ "اور۔ ۔ ۔ تیا نام تے۔ ۔ ۔ تیرا میاں ترتا تیا ہے ؟۔ ۔ ۔ نوتر ہے نہیں۔ ” یہ کم بخت بغیر اٹھے ہوئے میرے دوپٹے کو دبائے چائے دانی سے چائے پیالی میں انڈیل رہی تھیں کہ افضل بھائی کا یہ دلچسپ سوال ہوا۔ حالانکہ اس کی شادی چھوڑ منگنی بھی نہیں ہوئی۔ اسے خود کو جو ہنسی آئی تو چائے پیالی کے بجائے پرچ میں آئی اور چونک کے آپ فرماتے ہیں۔ "ارے۔ ۔ ۔ اندھی۔ ۔ ۔ ” آپا حشمت کے حلق میں چائے کا پھندا پڑا۔ میرے منہ سے دبی زبان سے نکل گیا "گھاس کھودتا ہے۔ ۔ ۔ ” مارے ہنسی کے برا حال تھا کہ آپ گھاس کو سمجھے گارڈ۔ ۔ ۔ کہنے لگے۔ "دارو ہے۔ ۔ ۔ ” بہن حشمت بولیں۔ "افضل بھائی تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ ” مگر میری جان چھوٹی۔

خود رفیق گھبرا کر ہنسی کو ضبط کر کے چلی اور میں اس کے پیچھے اور لپک کے ہم دونوں برابر کے کمرے میں۔ اور وہاں پہنچ کر جو ہم دونوں پر ہنسی کا دورا پڑا ہے تو الامان۔ گھنٹہ بھر تک یہ حالت رہی کہ بھائی افضل کی طرف دیکھا تک نہیں جاتا تھا۔ ایک ہنسی کا سیلاب ہے کہ چلا آتا ہے۔ حتیٰ کہ شام کی تفریح کا پروگرام بگڑ گیا۔ خود افضل بھائی کہنے لگے۔ "تیا کرتیاں ہیں۔ تھد تو تتی ہیں ایت بات۔ ۔ پھر کوئی بات بھی ہو۔ اتی بری ہو دئیں مدر عقل ندارد!۔ ۔ ۔ تبھی تچھ تبھی تچھ!”

اسی روز رات کا ذکر ہے کہ معلوم ہوا کہ حامد خاں اپنی جائیداد کے جھگڑے میں آئے تھے اور آج والد صاحب سے کچھ ایسی باتیں ہوئیں کہ بدمزگی ہو گئی۔ جائیداد میں ان کا سوا پانچ آنہ حصہ ہوتا تھا۔ میرے ساتھ نسبت ہونے سے قبل وہ اپنا حصہ علیحدہ کر کے کھیت دار بٹوارہ اور اس پر قبضہ چاہتے تھے کہ یہ رشتہ قرار پایا اور کم بختی میری ملاحظہ ہو کہ ایک دفعہ جو یونہی ذکر آیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ میں جو ہوتی حامد خاں کی جگہ تو اپنا حصہ الگ کر کے علیحدہ رہتی۔ رفیق نے جا کر حامد خاں سے کہہ دیا۔ حامد خاں نے بھی سوچا کہ ہے تو ٹھیک اور انہوں نے سوچا کہ شادی سے پہلے ہی اپنی جائیداد کے مالک و مختار ہو کر علیحدہ ہو جانا ٹھیک ہے اور پھر اس کو وہ میری طرف سے اشارہ بھی سمجھے۔ درحالیکہ میرا کچھ مطلب نہ تھا۔

لیکن مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ رفیق نے ان سے جا کر یہ کہہ دیا اور اب وہ اس میں میری خوشنودی کے متلاشی ہیں۔ لیکن واقعہ یہ بھی ہے کہ والد صاحب ان پر ضرورت سے زیادہ نگرانی رکھتے تھے۔ یہ نہیں چاہتے تھے کہ جائیداد کے معاملہ میں ذرہ بھر بھی وہ دخل دیں۔ اکثر کاشتکار اور کرایہ دار حامد خاں سے بے جا طور پر شکایت کرتے مگر وہ کچھ دخل نہ دے سکتے۔ گویا ویسے بھی حامد خاں علیحدگی ہی چاہتے تھے۔ پھر کارندوں اور کار پردازوں کے بے جا مظالم یا سختیوں کے حامد خاں خلاف تھے اور ان کی بے ضابطہ حرکتوں سے نالاں تھے اور یہ کارندے حامد خاں کی مطلق پروا نہ کرتے تھے۔ والد صاحب کی جی چاہا جتنا روپیہ ہاتھ اٹھا کر دے دیا۔ اگر کسی کارندے کا جی چاہا اس نے کہہ دیا کہ روپیہ نہیں ہے۔ کیا کسی کی مجال کہ کاغذ دیکھ سکیں۔ ظاہر ہے کہ حامد خاں سے زیادہ ان کو کون عزیز تھا۔ بیٹے کی طرح وہ ان کی نگرانی فرض سمجھتے اور چاہتے یہ تھے کہ بیٹے ہی کی طرح شادی کے بعد بھی گھر پر ہی رہیں اور یہ تمنا کچھ بیجا نہ تھی۔ مگر صورت حال اب دوسری تھی۔ ابتدا یا انتہا اس کی یہ سمجھئے کہ حامد خاں کب سے مجھ سے اکیلے میں ملنے کا موقعہ ڈھونڈ رہے تھے اور جیب میں کوٹھی کا نقشہ لئے پھرتے تھے۔ ادھر مجھ کم بخت کو معلوم تک نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔

افضل بھائی کے آنے سے ان کو موقع مل گیا اور تیسرے روز وہ موقعہ پا کر سیدھے باغ میں چلے آئے جہاں افضل بھائی بیڈ منٹن فرما کر ہم لوگوں کا ہنسی کے مارے برا حال کئے دے رہے تھے۔ میں ایک لمبی سی بنچ پر ایک ہاتھ باہر کی طرف رکھے بیٹھی تھی۔ پاس ہی بہن حشمت بیٹھی تھیں کہ پیچھے سے حامد آئے۔ یہ باغ کا وسیع احاطہ زنان خانے ہی میں تھا مگر دوسرا دروازہ باہر بھی تھا جو کھلا رہتا تھا۔ مگر کوئی یہاں نہیں آتا تھا۔ حامد خاں ادھر سے آ گئے۔ میرا داہنا ہاتھ بنچ کے تکیہ پر اس طرح تھا کہ میں کروٹ سے بیٹھی تھی۔ پیچھے سے حامد خاں آئے اور کھڑے ہی کھڑے انہوں نے ایک رقعہ میرے ہاتھ میں چپکے سے دیا ایسے کہ میں چونک پڑی۔ ایک دم سے مڑ کر جو دیکھتی ہوں تو حامد خاں! حشمت آپا نے بھی مڑ کر دیکھا۔ میں نے گھبرا کر جھٹ سے رقعہ مٹھی میں بند کر لیا۔

حشمت آپا نے کہا۔ "آؤ۔ ۔ ۔ ”

"نہیں نہیں۔ ۔ ۔ میں جا رہا ہوں۔ ” کہہ کر حامد خاں چلائے

"میں تو افضل بھائی سے ملنے آیا تھا۔ ۔ ۔ ” افضل بھائی چیختے رہ گئے۔ مگر حامد خاں نے کہا کہ "ابھی آتا ہوں”

مگر وہ پھر نہ آئے۔ میں نے یہ رقعہ چھپا لیا۔ حامد خاں کا یہ پہلا خط تھا۔ میں نے پڑھا نہیں لیکن پڑھنے کے لئے بیتاب تھی۔ کچھ عجیب ہی طرح کا احساس تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں اٹھ کر چل دی یہ کہہ کر کہ ابھی آئی۔ دوڑی ہوا کی طرح اور اپنے کمرے پر پہنچی۔ رقعے کو کھولا۔ بہت مختصر تھا۔ انگریزی میں تھا :

مائی ڈیئر سلیم۔

کل شب کھانے سے قبل مجھ سے تم اسی جگہ ضرور مل لو۔ مجھے تم سے بے حد ضروری کام ہے۔ مجھے امید ہے کہ ناامید نہ کرو گی۔

تمہارا حامد

میں نے فوراً طے کر لیا کہ ملوں گی اور ضرور ملوں گی۔ کیوں نہ ملوں۔ شام کی تفریح کے بعد اور کھانے سے قبل افضل بھائی والدہ صاحبہ کے پاس ہوتے ہیں یا اپنے کمرے میں اور میں اپنی طرف۔ یہی موقعہ ہو سکتا ہے۔ اس خط کو میں نے بار بار پڑھا۔ کسی قدر سادہ اور دلکش تھا۔ ایک چچا ہیں۔ جب میں چھوٹی سی تھی تو انہوں نے مجھے چھیڑنے کو میرا نام سلمیٰ سے سلیم رکھ دیا۔ میں نے کہا میرا نام سلیم نہیں ہے مگر وہ مجھے سلیم کہتے تھے۔ یہ بات بالکل عارضی تھی مگر حامد خاں کو یاد تھی۔ جو انہوں نے سلیم لکھا۔ دراصل یہ بھی میرے گواہوں میں تھے کہ سلیم نہیں ہوں۔ مگر اس وقت انہوں نے خود سلیم لکھا تھا۔ کیا اس لفظ میں کچھ جذبات بھی پوشیدہ تھے ؟ میں نہیں کہہ سکتی۔ لیکن میرے لئے اس ایک لفظ میں دفتر تھا۔ ایسا کہ میں دیر تک نہیں بلکہ رات گئے تک اور دن بھر اسی لفظ کے تخیل میں ڈوبی رہی۔ سوچتی اور دل ہی دل میں لفظ دہراتی "سلیم!” معلوم ہوتا کہ لبوں نے بھی اس لفظ کو دہرایا ہے۔ اس خط میں کچھ بھی نہ تھا۔ اگر تھا تو یہی لفظ سلیم جس نے اسے میرے لئے ایک دلچسپ خط بنا دیا۔

کھانے سے کوئی آدھ گھنٹہ قبل۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا افضل بھائی والدہ صاحبہ کے ساتھ باتوں میں مشغول تھے اور مہمان کوئی تھا نہیں، میں تیزی سے اتر کر باغ میں چلی گئی۔ بیڈمنٹن کورٹ کے پاس لکڑی کی بنچ تھی۔ میں جا کر اس پر بیٹھ گئی، وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ باغ میں اندھیرا تھا مگر سڑک کی روشنی اور گھر کی بلند روشنی کی شعاعیں ایک عجیب نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ میں دو منٹ ہی بیٹھی ہوں گی اور دل میں قدرے گھبراہٹ سی تھی، لمحے گھنٹہ معلوم ہوئے اور میں حیرت سے دروازے والی سمت کی روش پر نظر جمائے بیٹھی تھی کہ پشت کی طرف سے آہستہ سے دلکش لہجہ میں آواز آئی۔

"سلیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” میں اندھیرے میں کھڑی ہو گئی۔ یہ آواز تیرتی ہوئی روح میں گرمی سی پیدا کرتی چلی گئی۔

"سلام علیکم” قریب آ کر آہستہ سے کہا۔ میں کچھ نہ بولی تو پھر کہا۔

میں نے جواب دیا "وعلیکم السلام۔ ”

میں قطعی نہیں سمجھی تھی کہ میں اس قدر پریشان ہو جاؤں گی۔ شرم کے مارے ایسی حالت ہو جائے گی۔ نہ میں مصافحہ کر سکی، نہ باوجود اندھیرے کے سر اٹھا سکی۔

"لاحول ولا قوہ” حامد خاں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ پکڑ کر جھٹک کر کہا "خدا کی قسم یہ کیا حماقت ہے۔ ” مجھےَ اتنی شرم آئی کہ بائیں ہاتھ سے میں نے آنکھ ملتے ہوئے ذرا مڑتے ہوئے کہا "مجھے جانے دیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ” اب ذرا صورت حال کی نزاکت پر غور کیجئے اور افضل بھائی کی "سیر کہسار” اور زندہ دلی پر ایک نہایت ہی سریلی آواز آتی ہے قریب ہی سے۔

"اور ہم بادبان ہو۔ ۔ ۔ و۔ و۔ و تے۔ ۔ ۔ ۔ اے۔ ۔ ۔ اے تو دل۔ ۔ ۔ ۔ سن تو لتا دے۔ ۔ ۔ تے ” (اگر ہم باغباں ہوتے تو گلشن کو لٹا دیتے )۔ (کسی کی آہٹ سن کر) "تون؟”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خاموشی۔

حامد خاں تو اس دخل در معقولات سے گھبرائے لیکن میرے لیے ہنسی کا ضبط کرنا دشوار ہو گیا۔ افضل بھائی کو شبہ تھا کہ کوئی ہے۔ اس لیے اپنا مخصوص تحقیقاتی لفظ "تون” فرمایا تھا۔ ۔ ۔ مگر شبہ جاتا رہا اور فوراً الاپے۔ "اور ہم بادباں ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ” اندھیرے میں قریب ہی کسی جھاڑی میں سے رفیق نے جملہ پورا کیا۔ ۔ ۔ ۔ "تو کشتی میں بندھے ہوتے۔ ”

افضل بھائی کے منہ سے ایک عظیم الشان "تون” نکلا اور اندھیرے میں رفیق کی ہنسی کی آواز۔ میں بھی ضبط نہ کر سکی۔ چھڑا کر بھاگی اور ادھر حامد خاں جل بھن کر کوئلہ ہو کو لاحول بھیجتے ہوئے بھاگے کیونکہ ہنسی کے سبب ہنگامہ ہونے لگا۔ میں اسی چپقلش میں چاہتی ہی تھی کہ چپکے سے نکل جاؤں مگر بھائی افضل نے برآمدے میں داخل ہوتے مجھے دیکھ لیا۔ کہنے لگے "معلوم ہو سیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تون ہے۔ ”

دوسرے روز صبح کا ذکر ہے۔ ناشتہ ہم دونوں بہنوں نے اپنے کمرے میں کیا۔ رفیق والدہ صاحبہ پاس چلی گئی، میں تنہا بیٹھی تھی کہ کمرے کا پردہ اٹھا اور بھائی افضل آ گئے۔

میں نے ہنس کر کہا۔ "آئیے آئیے۔ بھائی آئیے۔ ” افضل بھائی نے محبت سے ہاتھ بڑھایا۔

میں نے گرمجوشی سے ہاتھ میں ہاتھ لے کر ان کو اصرار کر کے ایک نیچی سی گدی دار کرسی پر بٹھایا۔

افضل بھائی نے اپنے دلچسپ انداز میں باتیں شروع کر دیں اور بہت جلد رات والے "بادبان” والے قصے کو شروع کر کے مجھے شوخ شریر چلبلی وغیرہ وغیرہ کہہ کر اول تو بڑی محبت سے مارنے کو کہہ کر میری گردن دبائی اور جب میں نے ہنس کر کہا کہ "افضل بھائی اب نہیں چھیڑوں گی”تو میری گردن چھوڑ کر ہلکے سے میری گال پہ محبت سے طمانچہ مارا۔ میں نے کندھے سے بچانے کی کوشش کی تو کہنے لگے۔ "تیرا بدن درم ہے ” یہ کہہ کر میری پریشانی پر ہاتھ رکھا۔ میں نے سوکھا منہ بنا کر کہا۔ "بخار ہے ” اور ہاتھ پیش کیا۔ افضل بھائی نے میری نبض دیکھی۔ بولے "چل جھوتی۔ ” یہ کہہ کر پھر میرے ماتھے کو دیکھا۔

میں نے ہنس کر کہا۔ "افضل بھائی مجھے ٹھنڈا بخار ہے۔ ”

"تھندا بتھار!” تعجب کے لہجے میں افضل بھائی نے کہا۔ مجھ سے ہنسی ضبط نہ ہوئی تو آپ نے پھر میرے گال پر طمانچہ مارا۔ میں نے افضل بھائی کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور ان کا چہرہ دیکھ کر میرے تعجب کی انتہا نہ رہی!

مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ بیان نہیں کر سکتی۔ کچھ پریشان سی ہو گئی اور بیٹھ گئی۔ افضل بھائی نے آہستہ سے کہا "سلمی۔ ۔ ۔ ۔ ”

میرا ہاتھ گرمجوشی سے اپنے ہاتھ میں لیا اور۔ ۔ ۔ خدا کی پناہ! یہ واقعہ تھا کہ انہوں نے ایک زریں تجویز پیش کر دی یعنی یہ کہ ان کو مجھ سے محبت ہے، بقول ان کے سچی محبت ہے۔ ۔ ۔ میرے ہوش جاتے رہے۔ افضل بھائی مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

پہلے تو میں صدمے کے سبب کچل کر رہ گئی، ذرا امکان پر جو غور کیا تو ایک زریں پہلو نظر آیا تو عرض نہیں کر سکتی کہ کس قدر صدمہ جاتا رہا۔ خوش قسمت ہو گئی وہ لڑکی جس سے افضل بھائی کی شادی ہو۔ بھلا ایسا مشغلہ کبھی ہاتھ آتا ہے۔ اس تجویز کی نوعیت اور حماقت پر غور نہ کرنا ہی ستم ہو گیا۔ سب شرم و حجاب جاتا رہا۔ ہنسی کی سوجھی۔ میں نے کہا۔

"افضل بھائی آپ مجھ سے شادی کریں گے ! مجھے منظور ہے مگر ایک شرط پر۔ ”

یہ کہا ہی تھا کہ رفیق نے پردہ اٹھا کر جھانکا۔ افضل بھائی فوراً بولے۔ "تون” اور میں نے جملہ پورا کیا۔ ۔ ۔ ۔ "وہ شرط یہ کہ اس مردی سے بھی کرنا ہوگا۔ ” میں نے رفیق کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ رفیق اندر آئی اس نے کہا۔ "اور کیا۔ ۔ ۔ ؟” اب نہ پوچھیے افضل بھائی کا حال۔ سخت گھبرائے۔ پھر میں بھلا ماننے والی تھی۔ میں نے کہا۔ "کم بخت۔ افضل بھائی سے شادی کرتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ؟” رفیق نے واقعی بگڑ کر کہا۔ "کیا بدتمیزی ہے۔ ۔ ۔ ” افضل بھائی پھٹ پڑے۔ "چپ۔ چپ۔ ۔ ۔ تھبردار۔ ۔ ۔ اچھا تو میں جاتا ہوں۔ ۔ ۔ بات سنو۔ ” میں نے یہ بات سنی کہ مجھے خاموش رہنا چاہیے۔ میں نے کہا "میں خاوش تو رہوں گی مگر۔ ۔ ۔ ۔ ”

اتنا ہی کہا تھا کہ افضل بھائی بھاگ گئے۔ میں نے رفیق سے کہا تو اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئیں۔ پہلے تو یقین نہ کیا۔ لیکن جب پوری بات سنی تو اس نے کہا۔ "مرنے جوگنی۔ اس خبر کو اپنے ہی تک رکھیو نہیں یاد رکھنا ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہو جائے گا۔ تجھ میں کیا لال لگے ہیں۔ ”

اس کے بعد غور کیا تو واقعی ہم دونوں کو بہت رنج پہنچا، افضل بھائی سے ہمیں ایسی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ایسی بدتمیزی اور بیہودگی کی ہے جس کو ہمارے لیے برداشت کرنا دشوار تھا، اس سے ہمیں روحانی تکلیف پہنچی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی اپنا پیارا مر گیا۔ سوال یہ تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ بہت سوچا۔ ایک سے ایک بڑھ کر تدبیر سوچی۔ بالآخر ایک نہایت ہی قابل اعتراض تدبیر ذہن میں آئی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ لڑکیوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے اور انتہا سے زیادہ بے شرمی اور بے حیائی ہو گی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ ہم تو یہ چاہتے تھے کہ افضل بھائی ہمارے بارے میں سوا اس کے کوئی دوسری رائے قائم نہ کریں۔ لہذا ہم دونوں نے سوچ لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم دونوں چل کر افضل بھائی سے کیوں نہ کہیں کہ شادی ہم سے کرنا پڑے گی ہمارے حقوق آپ پر زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ سوچنے اور کرنے میں فرق ہے۔ مگر نہیں۔ ہمیں کرنا تھا۔

چنانچہ ہم دونوں نے پہنچ کر افضل بھائی کو گھیر کر ان کو جتا دیا۔ رفیق نے کہا کہ”پہلا حق میرا ہے اور مجھ سے شادی کرنا پڑے گی اور اس چڑیل سے مت کیجیئے گا۔ ” میں نے کہا "اس مردی سے بھول کر شادی نہ کیجیئے گا۔ روٹی پکانا یہ نہیں جانتی۔ کام چور الگ ہے اور کیا فائدہ جو ناک چوٹی کاٹ کراسے نکالنا پڑا۔ ” اور پھر میں نے زور دے کر کہا: "میں آپ کو روزانہ میٹھے ٹکڑے پکا کر کھلاؤں گی۔ ”

رفیق نے کہا "جھوٹی چڑیل کہیں کی سب خود کھا جائے گی۔ ۔ ۔ آپ اس کی باتوں میں نہ آئیے گا۔ ”

افضل بھائی کے ہوش اڑ گئے۔ رفیق نے وہ ملامت کی ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ "میں نہیں سمجھتی تھی کہ آپ مجھے اس لائق نہ سمجیھں گے اور اس مردی پر عاشق ہو جائیں گے۔ صورت نہ شکل۔ بھاڑ میں ستے نکل۔ پھوہڑیا کہیں کی۔ جہاں جائے گی مار جوتیاں نکالی جائے گی، بڑی آئی وہاں سے۔ ”

افضل بھائی بچے نہ تھے۔ ان کے ہوش جاتے رہے۔ اٹھ کر بھاگنے جو لگے تو میں نے ہاتھ پکڑا لیکن اماں جان کی جو آواز آئی تو ہم نے چھوڑ دیا۔ ہم دونوں اپنے کمرے میں آئے۔ ہنسنے کی کوشش کی مگر بجائے ہنسی کے غصہ اور رنج تھا، رفیق اپنے گھر جانے والی تھی۔ مگر اس وقت رک گئی اور ہم دونوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ اس بیہودہ افضل بھائی سے اب نہیں ملیں گے۔

شام کو رفیق چلی گئی۔ شام کا ذکر تھا کہ گھر میں ایک اضطراب و ہیجان کی صورت پیش ہو گئی۔ والد صاحب بار بار کہہ رہے تھے۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔ ” عجلت اور پریشانی سے ٹہل رہے تھے۔ میں کچھ نہ سمجھ سکی سوا اس کے کہ حامد خاں کا معاملہ ہے، اس وجہ سے میں چپ رہی۔

مگر میرے دل کو فکر لگ گئی۔ ابا جان امی جان کو لے کر علیحدہ باغ کی طرف والے برآمدے میں گئے۔ افضل بھائی اپنے کمرے میں بند تھے اور میں چپکے سے غسل خانے میں پہنچ کر لگی کان لگا کر باتیں سننے۔ جو کچھ بھی میں نے سنا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ”بڑی شرم کی بات ہے !” کیونکہ حامد خاں دو دن سے تقیسم جائیداد کے لیے جھگڑ رہے تھے جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان کے وکیل کا نوٹس آیا ہے کہ تین یوم کے اندر اندر حساب فہمی کر کے چپے چپے کا بٹوارہ کر دو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ ایک شخص بیٹے کی طرح ایک لڑکے کی پرورش کرتا ہے۔ اس کی جائیداد اپنی جائیداد سمجھ کر دیکھتا بھالتا ہے۔ حد یہ کہ اپنی بیٹی دینا منظور کر لیتا ہے اور لڑکے کی بدتمیزی ملاحظہ ہو کہ اس محسن کے احسانات کو تسلیم کرتے ہوئے کہتا ہے کہ "اکبر کے ساتھ جو بیرم خان نے کیا۔ اس سے انکار نہیں مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ بجائے اکبر کے دلی کے تحت کے مالک خانخاناں رہیں۔

” غضب خدا کا۔ "والد صاحب نے کہا۔ "اس بدتمیز چھوکرے نے میرا نام بیرم خاں رکھ دیا۔ لوگوں سے کہتا ہے کہ میں بیرم خاں ہوں!”

نتیجہ ظاہر ہے۔ "ہم اپنی لڑکی ایسے سرکش کو کیوں دیں؟”

یہ الفاظ کتنے تکلیف دہ تھے، وہ مجھے تسلیم ہے کہ حامد خاں نے بدتمیزی کی۔ مگر۔ ۔ ۔ ۔ میں کیا کہہ سکتی تھی کیونکہ "واقعی بڑے شرم کی بات تھی۔ ” سوال اب یہ تھا کہ ہم اپنی لڑکی کیوں دیں؟ ظاہراً کوئی وجہ نہیں تھی اور والد صاحب نے بھی پوری زمیندارانہ شان کے ساتھ طے کر لیا کہ حامد خاں کو اس محسن کشی کا صلہ اچھی طرح دیں گے۔ زمینداروں کی آپس کی لڑائی اور مقدمہ بازی کے نتیجوں سے میں خوب واقف تھی۔ زیادتی تھوڑی بہت والد صاحب کی بھی تھی۔ کوئی وجہ نہیں کہ بنک کا روپیہ جو حامد خاں کی امانت ہے کیوں نہ حامد خاں کے حوالے ہو۔ ایک خود مختار نوجوان پیسے پیسے کے لیے ہاتھ پھیلائے۔ مقررہ مہینے تک یکمشت نہ ملے۔ ضرورت اب ہے اور بنک سے نکال کر دینے کے بجائے انتظار ہے کہ گاوں سے رقم آئے، جب ملے۔ کارندوں کے پاس رقعہ لیے دوڑ رہے ہیں اور روپیہ نہیں ملتا۔ حد ہو گئی۔ حامد خاں کہتے ہیں کہ مجھے مقررہ رقم مہینے کے مہینے دیجیئے مگر ناممکن۔ ۔ ۔ ۔ قسطیں کر کے ملتی ہے۔ ۔ یہ سب کیوں؟ محض حامد خاں کے فائدے کے لیے۔ ۔

میں سن کر جلدی سے اپنے کمرہ میں چلی آئی اور گھنٹوں اسی فکر میں رہی۔ افضل بھائی دوسرے ہی روز چلے گئے۔ اپنی شادی کا میرے ساتھ طے کر کے اس شرط پر کہ اپنی کل جائیداد مہر میں دے دیں گے۔ مگر اس کا کسی کو علم نہ ہوا۔

اب قصے کو بیچ سے چھوڑ کر مختصر کرتی ہوں۔ مقدمہ بازی شباب پر پہنچی ادھر ابا جان نے روپیہ بند کر دیا اور ادھر کاشتکاروں نے انکار کر دیا۔ دوران مقدمہ خرچہ ملنے کے معاملے کو وکیلوں نے دھکیل دھکیل کر التوا میں ڈالا۔ نتیجہ یہ کہ حامد خان جل کر دیہات پہنچے، وہاں کاشتکاروں نے گستاخی کی۔ حامد خان نے مارا تو ابا جان نے فوجداری کا مقدمہ کاشتکاروں سے چلوا دیا اور مقدموں سے مقدمے پیدا ہونے کی ریت پڑی۔ حامد خاں نے بھلا یہ زکیں کب اٹھائی تھیں۔ مارے غصے کے دیوانے ہو گئے اور اسی دوران میں ان کو اور ان کو کیا سب کو یہ معلوم ہوا کہ میری شادی افضل بھائی سے ہو گی۔ میرے اوپر تو گویا بجلی گری، افضل بھائی نہ تو غریب تھے، نہ بدصورت مگر بخدا افضل بھائی تھے۔ میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے، ماں باپ کی اکلوتی لڑکی۔ جس کے ساتھ شادی ٹھہری وہ بھی اکیلا۔ دونوں مل کر رئیسوں رئیس ہو جائیں، ساتھ کے ساتھ کھیلے ہوئے، ایک دوسرے سے واقف۔ یہ تو ستم سا معلوم ہوا۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی، دیوانی ہو ئی جاتی تھی جب ان جھگڑوں پر غور کرتی تھی۔ کئی دفعہ سوچا کہ حامد خاں کو خط لکھوں۔ مگر کیا لکھوں؟ بارہا کوشش کی مگر بیکار۔ حتی کہ ادھر تو یہ خبر آئی کہ حامد خاں ایک آزاد خیال عیسائی افسر کی لڑکی کے ساتھ موٹروں پر دوڑے پھرتے ہیں اور عجب نہیں کہ نکاح کر لیں اور ادھر افضل بھائی کے یہاں سے منگنی کے تحائف وغیرہ بھی آ گئے اور اعلان بھی کر دیا گیا۔ طے یہ پایا کہ ڈیڑھ مہینے بعد شادی! کیا یہ ممکن تھا۔

میں بغاوت پر آمادہ ہو گئی مگر کیا کر سکتی تھی۔ شریف گھرانے کی لڑکی تھی "بڑے شرم کی بات” ہوتی۔ اب والدین بیچاروں کی کیا خطا۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ افضل ایسا لڑکا ہے کہ کسی لڑکی کو ناپسند ہی نہیں ہو سکتا۔ سب پسند کرتی ہیں، وہ ہے ہی ایسا۔ بڑا بھولا (یعنی احمق؟) لڑکیاں تو اس پر سب فدا ہیں۔ جب میں نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ نہیں تو میں نے ہمت کر کے ایک خط حامد خاں کو لکھا:

جناب خان صاحب۔ السلام علیکم۔

"بڑے شرم کی بات ہے ” کہ آپ نے نہ تو ابا جان کا خیال کیا اور نہ میرا۔ میں آپ کے ساتھ کھیلی ہوئی تھی اور کچھ نہیں تو ساتھ کھیلے کے پاس کے سبب میرا بھی کچھ آپ پر حق تھا، مگر "بڑے شرم کی بات ہے ” کہ نہ تو آپ کو اپنی بات کا پاس ہے اور نہ میری بات کا پاس ہے۔ کیا یہ آپ کی مقدمہ بازی کسی طرح بھی میرے لیے مفید ہو سکتی ہے؟

آپ کی سلمی
اس کا جواب آیا:

ڈئیر سلیم۔ تمہارا خط ملا۔ بہتر ہے کہ زخموں کو یونہی رہنے دو۔ چچا صاحب سے میری صلح ناممکن۔ خواہ مر جاؤَں مگر صلح ناممکن۔ تم مجھے بدستور عزیز ہو اور مجھے الزام دینا بیکار ہے۔ خطا میری مگر غلطی چچا صاحب کی ہے۔ مگر کیا ہوا۔ بقول کسی کے خدا کی مصلحت سے کون واقف ہے۔ اس میں بھی کوئی بہتری تھی اور ہے۔ خدا مبارک کرے۔ ۔ ۔ ۔

تمہارا بہی خواہ

حامد

میں نے یہ خط دیکھا تو عرض نہیں کر سکتی جان ہی تو میری جل گئی۔ صدمہ کم اور غصہ زیادہ آیا۔ میں نے بھی حسب ذیل خط لکھ مارا۔

جناب من! آپ کا گرامی نامہ ملا۔ "بڑے شرم کی بات ہے ” کہ آپ ایسی ناشائستہ بات ایک بیچاری لڑکی کو لکھتے ہیں۔ معاف کیجیے گا میری بے شرمی کو، کیا نوجوانوں کا یہی شیوہ ہے۔ آپ کو شرم نہ آئی لکھتے کسی کو؟ اپنی ساتھ کی کھیلی اور اپنی منسوبہ کو یہ لکھتے ہیں کہ مبارک ہو۔ کاش آپ زندہ نہ ہوتے۔ کوئی غیور نوجوان اس بات کو گوارا کر سکتا ہے۔ کیا اس ذلت کو گوارا کر سکتا ہے ! جس کے آپ اہل ثابت ہوئے۔ کاش کہ مجھے موت آ جاتی۔ قبل اس کے کہ میں اس شخص کا دل آزار خط پڑھوں جو میرے خیالات کا مرکز رہ چکا ہو۔ مجھے سے زیادہ بدقسمت لڑکی غالباً کوئی نہیں ہو گی۔ مجھے سرد مہری کی شکایت اتنی نہیں معلوم ہوتی جتنی یہ معلوم کر کے کہ آپ کی محبت کیا ہوئی۔ کاش کہ مجھ کو موت آ جائے۔

آپ کی خیراندیش

اس کا جواب ایک پھٹے ہوئے کاغذ پر بغیر آداب و القاب کے آیا:

"یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر میں کر ہی کیا سکتا ہوں۔ مجھے خود افسوس ہے۔ کسی کی جان تو لینے سے رہا۔ فولاد جھک نہیں سکتا۔ میں خود عاجز ہوں۔

میں نے اس کا جواب دیا:

خان صاحب! السلام علیکم۔ فولاد نہ جھکے۔ مگر ٹوٹ سکتا ہے اور وہ رہ گئے لاچار اور بیچارے کو کچھ نہیں کر سکتے بہتر ہے کہ وہ نوجوان لڑکیوں کے خیالوں کی بستی کو ویران رہنے دیں۔ "بڑے شرم کی بات ہے ” حیف ہے کہ ایک غیور نوجوان عذر خواہیاں اچھی جانتا ہے۔ کاش میں تمہاری جگہ ہوتی اور تم میری جگہ۔ تب غالباً کچھ بتا سکتی۔ خیر غالباً میری موت کی خبر تسکین قلب کا باعث ہو گی۔ غلطی ہوئی، اب نہ لکھوں گی، خدا حافظ۔ خاکسار سلمی

اس خط کو لکھنے کے بعد ہر صورت سے میں نے اپنی رضامندی کا اظہار والدین سے کروا دیا تھا۔ مگر اس کی کیا اہمیت تھی میں خاموش تھی۔ کیا غل مچانے لگتی۔ میں عجیب مایوسی کے عالم میں تھی کہ میں ان کی جگہ ہوتی تو کہہ نہیں سکتی کیا کرتی۔ مگر یہ طے ہے کہ یہ صورت ہر گز پیش نہ آتی۔ خواہ کچھ ہو جاتا۔ میں اسی شش و پنج میں تھی کہ حامد خاں کا پھر ایک مختصر سا پرزہ آیا: "آپ نے اپنے ایک گذشتہ خط میں لکھا تھا کہ آپ کے خیالات کا مرکز "رہ چکا ہوں۔ ” براہ کرم مطلع فرمائیں اب کون ہے ؟” میری زبان سے یہ جملہ پڑھتے ہی نکل گیا "تم۔ ” اور یہی میں نے خط کے حاشیہ پر لکھ دیا اور واقعہ بھی یہی تھا۔ یہ خط و کتابت اس طرح ہوتی تھی کہ پہلا خط جو میں نے بھیجا تھا اس کا جواب باغ کی دیوار پر اینٹ سے دبا دینا اور اسی جگہ میں خط رکھ دیتی تھی۔ اس کا جواب آیا: مائی ڈئیر سلیم۔ تم میری ہو اور اب دیکھنا ہے کہ کس میں ہمت ہے۔ جو مجھے روک سکے۔ میں کل ہی چچا صاحب کو الٹی میٹم دیتا ہوں۔ اگر نامنظور ہوا تو بہتر ہے کہ رات کو باغ کے کمپاوَنڈ والا دروازہ کھول دینا اور باغ کی طرف غسل خانے کا دروازہ بھی کھول دینا، بولو کھول دو گی ؟ اگر ہاں تو ابھی جواب لکھ دو۔ ۔ فقط۔

میں نے اسی خط کے حاشیہ پر لکھ دیا۔ "دروازہ کھول دوں گی مگر یہ تو بتاؤ کہ کہاں ملو گے ؟ جواب جلد دیجئے۔ ” صرف آپ کی سلمی

دوسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں نے اپنے وکیل کو اور دو دوستوں کو بھیجا کہ شادی کی تاریخ مقرر کریں۔ نیز یہ کہ میری شادی دوسری جگہ ناممکن ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے۔ یعنی والد صاحب نے ان پیغامبروں کو بغیر پٹوائے نکالا! میں نے حسب وعدہ رات کو کھانا کھانے کے بعد باغ کا دروازہ کھول دیا اور غسل خانے کا دروازہ کھول دیا۔ رات گئے ایک بجے تک نظر جمائے دیکھتی رہی۔ مگر کچھ پتا نہ چلا نہ جواب آیا۔ رات ایک بجے بعد میں سو گئی۔ سردی کا زمانہ تھا۔ ایک چھوٹا سا لیمپ میرے کمرہ میں جل رہا تھا اور میں غافل پڑی سو رہی تھی۔ کروٹ سے سوتی تھی کہ میری آنکھ کھلی۔ حامد نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر میرا منہ چوم لیا اور میں اٹھ بیٹھی۔ میرے حواس باختہ ہو گئے۔ جلدی سے میں ے دوپٹہ اوڑھا، "یہ کیا؟” میں نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "بڑے شرم کی بات ہے۔ "میں نے تیورہ پر بل ڈال کر سختی سے کہا۔ "جلدی چلو۔ ” حامد خان نے کہا۔ "کہاں؟” میں نے پوچھا۔ وہ بولے۔ "موٹر پر۔ موٹر تیار ہے۔ ” میں نے کہا۔ "بڑے شرم کی بات ہے غالباً آپ شریف ہیں۔ ” حامد خاں نے کہا۔ "غالباً آپ کو چلنا پڑے گا۔ ” میں نے کہا۔ "ناممکن۔ بہتر ہے کہ آپ چلے جائیں۔ ” حامد خاں نے کہا۔ "بہتر ہے آپ چلی چلیں۔ ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "میں نے کہا۔ "ورنہ کیا؟۔ ۔ ۔ ۔ ” حامد خان نے کہا۔ "پھر تم نے غلط لکھ دیا۔ تمہارے خیالوں کا مرکز کون۔ ۔ ۔ ” میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔ حامد خاں نے ہاتھ جھٹک کر کہا۔ "بولو۔ بولو۔ ۔ ۔ ۔ ” میں نے کہا دبی آواز سے۔ "تم۔ ۔ ۔ ” حامد خاں نے کہا۔ "بخدا میں تم کو ابھی لے جاؤں گا۔ چلو۔ ۔ ۔ ” میں نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔ ۔ "خدا کے واسطے جائیے۔ بڑے شرم کی بات ہے۔ ۔ ۔ ” حامد خاں نے جملہ پورا کیا کہ "میری پیاری بیوی کو کوئی اور لے جائے ! ناممکن” یہ کہہ کر مجھے پھول کی طرح اٹھا لیا کہ ملازمہ کی آواز دالان سے آئی۔ "کون” میرے منہ سے چیخ نکل گئی! خدا کی پناہ! ملازمہ نے گھر سر پر اٹھا لیا تو چل میں چل۔ مگر حامد خاں کے ساتھ تیرہ چودہ مسلح آدمی تھے۔ دم کے دم بھاگڑ مچ گئی، چیخوں سے حویلی گونج اٹھی۔ دو فیر ہوئے سب کے سب ڈر گئے۔ والد صاحب کے کمرے میں اور جگہ جگہ نوکروں کے سر پر پستول لیے ساتھی کھڑے تھے۔ پستول کی آواز جو آئی تو نوکروں نے اپنی اپنی کوٹھریوں کو بند کر کے چیخنا شروع کیا۔ اس دوران میں حامد خاں مجھے لے اڑے۔ باوجودیکہ میں خوب چیخی۔ تڑپی۔ چلائی۔ مگر توبہ کیجئے کون چھوڑتا تھا۔ چشم زون میں موٹر میں ڈال کر جو لے کے مجھے چلے ہیں تو اپنے ایک دوست کے یہاں بارہ میل پر پہنچے۔ یہ ایک قصبہ اور ریلوے اسٹیشن تھا۔ یہاں قاضی وغیرہ سب موجود تھے۔ صبح چار بجے تھے۔ میں روتی جاتی تھی اور کہتی تھی "بڑے شرم کی بات ہے۔ ” مگر نکاح تو ہونا ہی تھا۔ نکاح کا رجسٹر آیا تو میں نے دستخطوں سے انکار کر دیا۔ جب حامد خاں نے میرے پیر پکڑ لیے اور کہا۔ "ظالم۔ کیا بغیر نکاح کے رہنا ہے۔ ” میں نے دستخط کر دیئے۔ حامد خاں اسی وقت مجھے واپس اپنے گھر لے آئے۔ شہر میں تہلکہ بپا تھا۔ میں رو رہی تھی۔ "بڑے شرم کی بات ہے کہ مجھے حامد خاں اس طرح پکڑ لائے۔ ” کوئی بارہ بجے گھر پر مجسٹریٹ اور مسلح سپاہی اور ابا جان آ گئے۔ حامد خاں نے کہا کہ میں برضا ا و رغبت آئی ہوں، مجسٹریٹ نے بیانات لینے کو کہا۔ ایک بند کمرہ میں مجسٹریٹ نے بیان لیے۔ والد صاحب موجود تھے۔ خود سوچئے۔ میں کیا بیان دیتی۔ میں نے سچ سچ بیان دے دئیے، وہ یہ کہ حامد خاں مجھے جبراً گھر سے اٹھا لائے زبردستی مجھ سے نکاح کر لیا۔ مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ میں والد صاحب کے ساتھ جا سکتی ہوں۔ والد صاحب نے مجھے ساتھ لیا اور ادھر حامد خاں پولیس کی حراست میں آ گئے۔ گھر پر والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے ساری کیفیت پوچھی۔ میں نے سب بتا دیا رو رو کر۔

یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ دروازے کس نے کھولے۔ پولیس والوں نے ملازموں کو شبے میں کھینچا مگر بیکار تھا۔ لہذا پھر رہنے دیا۔ قصہ کو مختصر کرتی ہوں۔ حامد خاں کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ میں نہیں بیان کر سکتی کہ میرے لیے کیا مصیبت تھی۔ والد صاحب حامد خاں کی تباہی کے درپے تھے۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں۔ حامد خاں کا عذر یہ تھا کہ وہ مجھے برضا و رغبت لائے۔ مقدمے میں عمر کا سوال اٹھایا گیا۔ والد صاحب نے حتی الوسع کوشش کی کہ میری عمر سولہ سال سے کم قرار دی جائے مگر سترہ سے اوپر قرار دی گئی اور اب یہ سوال محض اس کا رہا کہ آیا مجھے زبردستی لے گئے یا برضا و رغبت گئی۔

والد صاحب کو حقیقت نہیں معلوم تھی۔ ورنہ وہ مقدمے میں اس قدر انہماک نہ لیتے۔ ان کو نہیں معلوم تھا کہ حامد خاں کے قبضے میں میرے ایسے خطوط ہیں جن سے بخوبی ثابت ہو سکتا ہے کہ میں راضی خوشی گئی، اور ادھر میرا یہ حال کہ مقدمے کے خیال سے روح کانپتی تھی۔ یہی خیال آیا کہ الہٰی جب میرے خطوط پیش ہوں گے تب کیا ہو گا۔ والدین اور دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گی۔ اور پھر یہ کہ اس مقدمے بازی کا کیا نتیجہ ہو گا۔ والد صاحب مقدمے میں ایسی دلچسپی لیتے تھے کہ اندازہ لگا ناممکن ہے۔ وکیلوں کو لا کر میرے بیان سنوائے گئے، قلمبند کیے گئے، اور پھر مجھ سے جرح کے سوال کر کر کے پختہ کیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ مخالف وکیل جب میں یہ کہوں گی تب کیا سوال کرے گا اور مجھے کیا جواب دینا چاہیے۔

آخرش وہ تاریخ آئی کہ میرے بیانات قلمبند ہوں۔ میں نے حامد خاں کو خط لکھنے کا کئی مرتبہ ارادہ کیا مگر ہمت نہ پڑی۔ حتیٰ کہ تاریخ آ گئی اور وقت آ گیا۔ والد صاحب نے بڑے اعلی پیمانے پر مجسٹریٹ اور وکلا کے لیے پان شربت کا انتظام کیا اور مجھے بیانات کے لیے پختہ کر دیا۔ کوئی ایک بجے حاکم اور وکیل آ گئے، مجسٹریٹ کی کرسی کے قریب ہی کرمچ کا پردہ رکھوا دیا اور ایک کرسی ڈال دی گئی۔ میں اس پر آ کر بیٹھی۔ آزمائش سخت تھی۔ حامد خاں اور ان کا وکیل آگے بڑھا، میں نے حامد خاں کو دیکھ کر نظر نیچی کر لی۔ مجسٹریٹ نے مجھے حلف دیا اور نام پوچھا۔ نام میں جب یہ سوال آیا کہ بنت لکھا جائے تو حامد خاں کے وکیل نے زوجیت کا سوال اٹھا دیا کہ مجھے زوجہ حامد خاں لکھا جائے۔ اس پر وکیلوں میں خوب بحث اور رد و قدح ہوئی۔ آخر یہ بھی سوال رد کر دیا گیا۔ میرے بیان ہوئے اور میں نے من و عن جیسے بیان بتائے گئے تھے، دے دئیے، یعنی یہ کہ مجھے حامد خاں زبردستی اور مرضی کے خلاف پکڑ کر لے گئے۔ زبردستی اور دھمکیاں دے کر مجھ سے نکاح کے رجسٹر پر دستخط کرائے۔ میں نے ڈر کے سبب بوقت نکاح گواہوں اور قاضی سے رضامندی ظاہر کی وغیرہ وغیرہ۔

اس کے بعد حامد خان کا وکیل جرح کے لیے آگے بڑھا۔ اس نے پوچھا اور میں نے جواب دے دئیے کہ میں نے حامد خاں کو کبھی کوئی خط نہیں لکھے۔ میں کسی طرح نہیں لکھ سکتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ مجھے حامد خاں زبردستی لے جائیں۔ نہ میں نے کبھی ایسا لکھا۔ میں نے دروازہ کبھی نہیں کھولا۔ میں نے حامد خاں کا کبھی نہیں بلایا کہ مجھے لے جائیں۔

اس کے بعد ہی حامد خاں نے میرے خطوط کا پلندہ اپنی جیب سے نکالا۔ میں دیکھ کر لرز گئی۔ وکیل نے بڑھ کر میرے ہاتھ میں ایک رقعہ دے دیا۔ والد صاحب نے بڑھ کر دیکھنا چاہا تو حامد خاں کے وکیل نے اعتراض کر دیا اور والد صاحب روک دئیے گئے۔ میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے رقعہ لیا۔ یہ وہ خط تھا جس میں حامد خان نے مجھ سے پوچھا تھا کہ "تمہارے خیالوں کا مرکز کون؟” اور میں نے جواب دیا تھا کہ”تم۔ ”

حامد خاں کے وکیل نے کہا۔ "دیکھیئے۔ جتنا سوال پوچھا جائے اتنا ہی جواب دیجیئے گا۔ جب تک نام نہ پوچھا جائے۔ مت بتائیے گا اور یہ کاغذ کا ٹکڑا مجھے ہی واپس دیجیئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ” میرے لیے وقت سخت تھا اور حامد خاں کی اور میری نظریں چار ہوئیں تو میں نے نظر بچا کر ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔

حامد خاں پر ایک بجلی سی گری ایسی کہ وہ ہل گئے۔ اپنے وکیل کے ہاتھ سے خط لے لیے۔ بغیر عدالت کے پوچھے آہستہ سے میری طرف بڑھے اور رقعہ واپس مانگتے ہوئے بھوؤں کی جنبش سے رقعے کی طرف اشارہ کر کے آہستہ سے کہا۔ ۔ ۔ "۔ ۔ ۔ ۔ کون؟” یعنی تمہارے خیالوں کا مرکز اب کون ہے ؟ میں نے ا یک نظر بھر ان کو دیکھا۔ گردن نیچی کر لی اور میرے لبوں کو جنبش ہوئی "تم۔ ” حامد خان نے خطوط اپنی جیب میں رکھے اور اپنے وکیل کو اشارہ کیا۔

وکیل نے عدالت سے کہا۔ "مقدمہ ختم کیجئے۔ ملزم اقبال جرم قلمبند کروانا چاہتا ہے۔ ”

جس نے سنا۔ مارے حیرت کے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ شروع سے آخر تک انہوں نے میرے بیان کی تائید کر دی اور اقبال جرم کر لیا کہ میں خلاف مرضی اس کو جبرا پکڑ کر لے گیا اور میں نے جرم کیا ہے۔ فوراً کا فوراً مقدمہ ختم ہوا اور کچھ لکھا پڑھی ہو کر دوسرے دن پر فیصلہ رکھا گیا۔

والد صاحب نے مجھے کرید کرید کر ان خطوط کے بارے میں پوچھا میں لاعلمی ظاہر کی۔ اس خط کے بارہ میں پوچھا کہ کیا لکھا تھا جو میرے ہاتھ میں دیا تو میں نے کہا کہ پڑھا نہ گیا۔ نہ معلوم کیا لکھا تھا اور کس کے ہاتھ کا تھا۔ حامد خاں کے غیر معمولی رویے کے بارے میں پوچھا تو اس سے بھی میں نے لاعلمی ظاہر کی۔ والد صاحب حامد خاں کی سزا کا خیال کر کے خوش ہو رہے تھے، انہوں نے پوری زمیندارانہ شان کے ساتھ مقدمہ بازی کی تھی،جیل والوں سے یہ انتظام کیا کہ جیل لے جائیں تو ہماری کوٹھی کے سامنے سے ہو کر۔

میں عجیب سناٹے میں تھی۔ معلوم نہ تھا کیا ہو گا۔ حتی کہ والد صاحب خوشی خوشی گھر میں داخل ہوئے اور پکار کر انہوں نے والدہ صاحبہ سے کہا۔ "لو مبارک ہو ڈھائی سال کی قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ ” میں دم بخود رہ گئی۔ ۔ ۔ کوئی آدھ گھنٹہ بعد میں نے دیکھا، اپنی آنکھوں سے،اپنے خیالوں کے اصلی مرکز کو، ہتھکڑیاں پڑی ہوئی سامنے سڑک سے گزرتے۔ والد صاحب اور ان کے دوست احباب یہ نظارہ دیکھ کر خوش ہوئے۔ حامد خاں نے سر اٹھا کر نہ دیکھا۔ میرا سکتہ سا عالم تھا۔

اس کے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ حامد خاں کے وکیل نے دعوی کر دیا کہ قرار دیا جائے کہ سلمی میری جائز منکوحہ بیوی ہے اور جو نکاح کیا گیا وہ برضا و رغبت تھا، علاوہ اس کے انہوں نے سزا کے خلاف اپیل کی۔ اپیل میں جرمانہ بحال رہا مگر سزا چھ ماہ کی رہ گئی، اور اب والد صاحب نے آگے اپیل کر دی۔ دیوانی دعوی نے افضل بھائی کے ساتھ جو شادی کی تاریخ مقرر ہوئی تھی اس میں بڑبڑ ڈال دی۔ حامد خاں جیل کاٹ کر واپس آئے۔ والد صاحب سزا بڑھوانے میں ناکام رہے تھے اور دیوانی مقدمہ اس نوبت پر پہنچا کہ میرے بیان قلمبند ہوں۔ حامد خاں اپنے موٹر پر مع اپنے دوستوں کے آئے۔ کمرے میں منصف صاحب بیان لینے آئے۔ لیکن قبل اس کے کہ بیان قلمبند ہوں حامد خان نے جھپٹ کر مجھے کرسی سے اٹھا لیا۔ ان کے تین دوست دن دہاڑے پستول نکال کر والد صاحب کو روک کر کھڑے ہو گئے۔ میں چیختی کی چیختی رہ گئی مگر زور قطعی نہ لگایا کہ کچھ تو تلافی کر دوں۔ موٹر میں لا کر مجھے لے اڑے۔ گھر پر پہنچے ہی تھے کہ والد صاحب پولیس کا دستہ مع مجسٹریٹ کے لے کر آ گئے، میں رو رہی تھی، مجسٹریٹ لینے آئے تو حامد خاں نے والد صاحب کو علیحدہ کروا دیا۔ مجسٹریٹ نے مجھ سے سوالات کیے۔ میں نے جواب دیا کہ "خود آئی ہوں۔ منکوحہ بیوی ہوں۔ پہلے بھی خود ہی گئی تھی۔ نکاح راضی خوشی ہوا تھا۔ میں اپنے شوہر کے پاس رہنا چاہتی ہوں۔ باپ کے پاس نہیں رہنا چاہتی۔ اگر میرے شوہر کے پاس پستول نہ ہوتے تو میں حبس بیجا سے آزاد نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھے بچانے اور میری حفاظت کے لیے ایسا کیا گیا۔ اس سے پہلے مقدمے میں جو بیان میں نے دئیے وہ غلط اور جھوٹے تھے اور دباؤ سے دیے تھے ”

۔ ۔ ۔ ۔ والد صاحب باہر ہی تھے اور مجسٹریٹ نے والد صاحب سے جو یہ کہا تو وہ سناٹے میں آ گئے۔ جس طرح میں نے حامد خان کو شکست خوردہ ہتھکڑی پہنے جاتے دیکھا تھا تو رنج کے سبب سکتہ کا سا عالم ہو گیا تھا۔ اسی طرح میں نے اپنے عزیز اور پیارے باپ کو دیکھا۔ حامد خاں سے زیادہ قابل رحم حالت تھی۔ میں مقدمے سے نڈھال ہو رہی تھی۔ حامد خان کے دوست احباب فقرہ چست رہے تھے۔ تیسرے دن معلوم ہوا کہ دیوانی مقدمہ جو حامد خان نے میرے اوپر چلایا تھا، وہ حامد خاں کے وکیل کی عدم حاضری کے سبب ہار گیا۔ میرا اور والد صاحب کا وکیل موجود تھا۔ چنانچہ میں جیت گئی اور حامد خاں کا مقدمہ مع خرچ خارج ہو گیا۔ وہ تو سب کچھ ہو گیا مگر میں سخت پریشان تھی۔ اس سے زیادہ اور کیا شرم کی بات ہو سکتی تھی کہ دن دہاڑے ایک شخص ایک لڑکی کو حاکم کی ناک کے تلے سے پکڑ لے جائے اور وہ لڑکی خود باپ کے خلاف بیان دے دے۔ میں نے پریشان ہو کر حامد خاں سے کہا۔ ۔ "خان صاحب میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتی۔ ” حامد خاں نے کہا۔ "اول نمبر کی مکارہ ہو تم۔ ” میں نے کہا "کیوں؟” وہ بولے۔ "تم نے مجھے جیل کرائی اور کتنی مشکلوں میں ڈالا۔ ” میں نے کہا "اور تم سمجھے کہ چاہنے والی بیوی یونہی مل جاتی ہو گی۔ کچھ بھی ہو۔ ۔ سن کو کان کھول کر۔ ۔ ۔ تم مجھے زبردستی پکڑ کر لائے۔ ۔ میں تو گھر جاتی ہوں۔ ۔ پھر بڑے شرم کی بات ہے کہ میں باپ کے خلاف مجسٹریٹ کے سامنے بیان دوں۔ ”

حامد خاں نے کہا۔ "پھر کیوں دئیے۔ ”

میں نے کہا "کچھ راضی خوشی دئیے ؟”

"پھر؟” میں نے کہا”ڈر کے مارے دئیے۔ ” کہنے لگے "شاید کہ تمہاری شامت پھر آئے۔ ” میں نے کہا ” نہ شامت نہ آمت۔ بندی تو جاتی ہے۔ نکٹی ہو کر جینے سے رہی۔ ”

وہ بولے۔ "اور جو پھر بات آگے بڑھی۔ ” میں نے کہا، "میں نہیں جانتی، ایسا ہی ہے تو پھر تم مجھے پکڑ لانا، مگر میں نکٹی ہو کر نہیں جی سکتی۔ ”

حامد خان بولے۔ "اب جو تم اپنی ناک جوڑنے کی فکر میں پڑیں تو اچھی طرح سمجھ لو۔ میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ ” میں نے کہہ دیا کہ دیوانگی کا تو سوال فضول ہے۔ رہ گئی میری ناک تو وہ بے جڑے نہیں رہ سکتی۔ بد قسمتی سے حامد خاں مذاق ہی سمجھا کئے اور میں جیسا کہہ چکی تھی چپکے سے دوسرے روز شام کو ایک تانگہ منگا کر سیدھی گھر پہنچی۔ ایک خط لکھ کر رکھتی گئی کہ جھگڑا نہ کھڑا کرنا بلکہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔

گھر پہنچی تو جھٹپٹا کا وقت تھا، تانگے سے اتر کر سیدھی اپنے کمرہ میں چلی گئی۔ گھر میں کھلبلی مچ گئی۔ والدہ صاحبہ آئیں تو ان سے گلے مل کر میں خوب روئی۔ ابا جان کی شکایت کی کہ مجھے بے بسی میں چھوڑ آئے مجھے مار ڈالنے کی دھمکی دی گئی اور ڈر کے مار مجھے بیان دینا پڑے۔ غضب ہے خدا کا کہ مجھے کوئی بچانے والا نہیں۔ میں نے وہ فیل مچائے کہ ہر کس و نا کس کو مجھ سے ہمدردی ہو گئی۔ والد صاحب کہیں باہر تھے ، انہیں بلانے آدمی دوڑایا اور رشتے کنبے میں جلد تر خبر کی گئی۔ والد صاحب آئے اور جب انہوں نے سنا کہ میں چپکے سے بھاگ آئی اور یہ کہ مجھ سے زبردستی بیان لیے گئے تھے تو باغ باغ ہو گئے۔ مجھے سینہ سے لگا لیا اور مارے محبت کے بیچارے رونے لگے اور پھر جو خیال آیا تو فوراً عدالت کی سوھجی۔ تو چل اور میں چل۔ پولیس اور مجسٹریٹی میں موٹر دوڑنے لگی۔ آناً فاناً میں استغاثہ تیار ہو گیا۔ وکیل آ گئے۔ پولیس میں رپورٹ لکھا دی گئی۔ دوسرے دن مجسٹریٹ کے سامنے استغاثہ پیش ہو گیا۔ مجسٹریٹ نے گھر آ کر بیان لیے۔ میں نے بیان دیئے کہ مجھے جبراً پکڑ کر لے گئے۔ زبردستی بیان دلوائے۔ وہ بیان جھوٹے تھے اور دباؤ سے دیئے تھے۔ دیوانی مقدمے کے فیصلے کی نقل پیش کی گئی اور فوراً ثابت کر دیا گیا کہ میں حامد خاں کی بیوی نہیں ہوں۔ مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ "مجھے پتہ نہیں۔ ” مجسٹریٹ بیان لے کر چلا گیا۔ والد صاحب بے حد خوش تھے مگر دوسرے روز تمام خوشیاں خاک میں مل گئی۔ مجسٹریٹ نے میرا استغاثہ خارج کر دیا اور تمام واقعات پر سرسری طور پر تبصرہ کرتے ہوئے فیصلہ میں یہ رائے ظاہر کی کہ میں جھوٹی ہوں اور ساری شرارت میری ہی ہے۔ کبھی کچھ بیان دیتی ہوں اور کبھی کچھ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا "تو یہ لڑکی اپنے ہر گذشتہ بیان کی تکذیب کرتی رہے گی۔ لہذا یہ مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔ ”

والد صاحب آگ بگولا ہو گئے اور طے ہوا کہ اس فیصلہ کے خلاف اپیل کریں گے۔ ۔

یہ تو سب کچھ ہوا۔ لیکن ان ٹھوس حقیقت بھی سامنے تھی۔ سب رشتہ دار اور کنبے دار جمع ہوئے اور معاملات پر غور کیا۔ تو بوڑھیاں سر ہلانے لگیں۔ ذرا دیر تو چپ رہیں پھر دو ایک پھٹ پڑیں۔ بولیں۔ ۔ "نا بابا۔ بیوی تو یہ حامد کی ہے۔ اور کہیں اس کی دوسری شادی ہو تو ہم شریک نہیں۔ ”

والد صاحب نے جو سنا تو پھر وہی عدالت اور کچہری۔ کسی طرح قابو میں نہ آئے۔ سب رشتہ داروں اور کنبے والوں نے صلاح مشورہ کیا کہ حامد معافی مانگیں۔ مگر والد صاحب رضامند نہ ہوئے۔ جب کسی طرح راضی نہ ہوئے تو لوگوں نے کیا کیا کہ حامد خاں کے ہاتھ باندھ ابا جان کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اور ان کے پیروں پر گرا دیا۔ ایسا کہ ابا جان کو چار و ناچار حامد خاں کو گلے لگانا پڑا۔ کرتے بھی کیا۔ اور اسی ہفتے باضابطہ شادی اور رخصت بھی کر دی۔ گویا عید پیچھے ٹر، نکاح وہی قائم رکھا گیا۔ اس طرح جا کر یہ جھگڑا بخیر و خوبی ختم ہو گیا اور اللہ نے میری آبرو اور شرم رکھ لی۔ ورنہ آپ خود غور کریں کہ "بڑے شرم کی بات تھی۔ ” اس چپقلش میں افضل بھائی ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رسا کشی

 

میں اپنے اس افسانے کو ایک موٹے سے رسے کے نام نامی پر معنون کرتا ہوں جو بڑے زور و شور سے کھینچا جا رہا ہے۔ ؂

                (۱)

 

عرصہ کئی سال کا ہوا ہم دو دوست دسمبر کی چھٹیوں میں اپنے وطن لاہور سے کلکتے گئے۔ وہاں سے واپسی کا ذکر ہے کہ میرے دوست تو وہیں رہ گئے اور میں کلکتے سے سیدھا وطن روانہ ہوا۔ راستے کا ذکر ہے۔ ایک انتہا سے زیادہ ہیبت ناک خان صاحب کا سفر میرے ساتھ ہوا۔ ان کے ساتھ ایک نو عمر برقعہ پوش خاتون بھی تھیں اور بہت جلد معلوم ہو گیا کہ باپ بیٹی ہیں۔ ان خان صاحب کی بڑی زبردست مونچھیں تھیں۔ تمول اور آرام نے چہرہ انار کی طرح سرخ کر دیا تھا۔ سفید شلوار پر ایک کوٹ پہنے تھے اور قومی لباس زیب تن کئے رئیسانہ انداز کے ساتھ افغانی جلال کی بولتی ہوئی تصویر تھے۔ ہم سیکنڈ کلاس میں سفر کر رہے تھے اور ایک جگہ جب ہم صرف تین مسافر درجے میں رہ گئے تو مجھ سے ان کی گفتگو ہوئی۔ صاحبزادی صاحبہ چہرے سے نقاب الٹ کر باہر کی طرف منہ کئے بیٹھی تھیں اور ظلم تو دیکھئے کہ ان کو تو اجازت کہ مجھے دیکھیں اور ادھر میرا یہ حال کہ ادھر نظر نہیں کر سکتا کیونکہ بدقسمتی سے خان صاحب کے پاس علاوہ مونچھوں کے کمر پیٹی میں ایک چاندی کے دستہ کا خوشنما خنجر بھی تھا۔ اور اس امر کی تحقیقات کی مجھے قطعی ضرورت نہ تھی کہ خان صاحب اس کا استعمال موقعوں پر کرتے ہیں یا کبھی بے موقعہ بھی۔ جب صاحبزادی صاحبہ نے یہ محسوس کر لیا کہ میں سر بھی نہیں اٹھا سکتا تو ان کو اور بھی آزادی حاصل ہو گئی۔

لیکن غور فرمائیے کہ ان کو نہ کیسے دیکھتا۔ نہایت ہی صاف شفاف بلور کا سا رنگ تھا۔ اور چہرہ نوجوانی کے نور کے سبب ریشم کے برقعے میں جگمگا رہا تھا۔ یہ مجھے تسلیم ہے کہ ناک نقشے پر غور کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ دراصل ایک جھپکی سے زائد دیکھنا اپنی جوانی سے ہاتھ دھونا تھا۔

خان صاحب بیٹی سے کبھی کبھار پشتو میں ‘‘دغد غائے۔ ’’ پھر میرے اوپر بھی عنایت ہوئی۔ یعنی (ص۔ ۲۴۳) موسم کی شکایت۔ ریل کے محکمے کی نا لائقی پر مجھے ان کی صائب رائے سے اتفاق کرنا پڑا۔ اس کے بعد ہی کچھ سیاست کے بارے میں بات چیت ہوئی اور وہ بھی کچھ اس طرح کہ انہوں نے جو میرا نام پوچھا تو میں نے یہی سمجھا کہ اگر میں نے اصلی نام بتا دیا اور ان کو یہ معلوم ہو گیا کہ میں ہندو ہوں تو محض اس بنا پر یہ مجھے قتل تو خیر نہیں کریں گے مگر سفر ضرور ‘‘میلا’’ ہو جائے گا۔ باپ اور بیٹی دونوں مجھے قطعی دوسری نظروں سے دیکھیں گے۔ لہٰذا کیا فائدہ سچ بولنے سے۔ چنانچہ میں نے اپنا نام نور محمد بتا دیا اور یہ کہ کلکتے میں تجارت کرتا ہوں۔ خان صاحب بھی تجارت کرتے تھے اور ایکس پور میں رہتے تھے ، وہیں جا رہے تھے۔ اور میری خوش مزاجی کی داد دیجئے کہ میں نے کہا ‘‘اوہو ایکس پور تو میں خود دو روز کے لئے اتروں گا۔ ’’

یہ سنتے ہی خان صاحب افغانی اخلاق کا نمونہ بن گئے۔ کہنے لگے ‘‘میرے یہاں ٹھہرنا پڑے گا۔ ’’ میں نے تھوڑے سے اصرار پر منظور کر لیا۔ مگر یہ پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ میرا اترنا وہاں مشروط ہے۔ اسٹیشن پر مجھے تار موجود ملے گا اور میرا اترنا یا نہ اترنا مشروط ہے۔

اس کے بعد میں عرض نہیں کر سکتا کہ خان صاحب کے اخلاق کا کیا عالم ہو گیا۔ وہی خوفناک چہرہ اب اخلاق و محبت کا آئینہ ہو گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ صاحبزادی صاحبہ کے برقعے کے نقاب کا نہ صرف زاویہ مختلف ہو گیا بلکہ آنکھ کے قریب پیشانی مع دو ایک سنہری لٹوں کے کھولنے میں اندیشہ نہیں رہا۔ اور پھر سفر تو سفر ہے۔ میں ان کے وجود سے اس قدر خائف ہو چکا تھا کہ اس طرف سے لوٹا بھی نہ اٹھا سکتا تھا، خان صاحب نے فوراً نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اس کو اسلامی شعار اور پردے کی بیجا سختی قرار دیا تھا۔

 

                (۲)

 

میں نے ابھی تک سوا اس کے کچھ بھی نہ کیا تھا کہ خان صاحب کے ساتھ سفر دلچسپی سے گذرے ، لیکن اب سوا اس کے چارہ ہی نہ تھا کہ خان صاحب کے گھر مہمان ہوں۔ بات یہ ہوئی کہ ایک اسٹیشن پر خان صاحب اتر کر گھومنے لگے صافہ اور کوٹ ان کا ان کی جگہ پر ہی تھا۔ گھومتے گھومتے وہ حضرت ذرا دور نکل گئے اور وہ بھی ایسے کہ گاڑی چھوٹ گئی اور ان کو مجبوراً ایک انٹر کلاس میں بیٹھنا پڑا۔ مگر ستم ہو گیا۔ صاحبزادی صاحبہ نہ صرف گھبرا گئیں بلکہ گھبرا کر گاڑی چلتے ہی اپنے والد بزرگوار کے بارے میں چلائیں۔ مطلب یہ کہ میں دیکھوں۔ میں نے دیکھا بھی اور کہا کہ ‘‘آپ گھبرائیں نہیں وہ دوسری جگہ بیٹھ گئے ہوں گے۔ ’’ انہوں نے انتہائی گھبراہٹ میں بالمشافہ سوال کئے اور میں نے انتہائی احترام اور تمیز سے ان کو ہر طرح اطمینان دلا دیا۔ لیکن ان کو چین کہاں۔ کہنے لگیں ‘‘خدا کرے وہ بیٹھ گئے ہوں۔ ’’

میں نے کہا۔ ‘‘محترم آپ گھبرائیں نہیں۔ ’’

وہ بولیں۔ ‘‘میں انتہا سے زیادہ پریشان ہوں کیونکہ وہ چلتی گاڑی میں کبھی نہیں بیٹھ سکتے۔ ’’

میں نے بیٹی کے منہ سے باپ کی نا قابل تردید ضخامت کے قصیدے کی تشبیب پر غور کیا رکھا۔

‘‘مگر گاڑی چلتے ہی بیٹھ گئے ہوں گے۔ ’’

‘‘مگر بھیڑ بھی تو کتنی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ’’

میں نے کہا۔ ‘‘محترمہ آپ مطمئن رہیں۔ گھبرائیں نہیں۔ ’’

وہ چپ ہو گئیں۔ برقعے کا نقاب ان کے سر پرتھا مگر داہنی طرف کے کپڑے سے وہ اپنا آدھا چہرہ اب بھی چھپائے تھیں۔ اب انہوں نے اس کو اپنے خوبصورت دانتوں میں دبا لیا۔ حیرت اور گونہ پریشانی چہرے پر تھی۔ میری طرف حیران پریشان دیکھ رہی تھی۔ ‘‘اگلا اسٹیشن کب آئے گا؟’’

میں نے بتا دیا۔

‘‘میں بڑی ممنون ہوں گی اگر آپ گاڑی رکتے ہی۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘محترمہ آپ مطمئن رہیں۔ میں گاڑی رکتے ہی اتر پڑوں گا آپ کے گھبرانے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ’’

‘‘شکریہ۔ صد شکریہ آپ کا۔ میں مجبور ہوں۔ معاف کیجئے گا آپ کو بہت تکلیف دی۔ ’’

میں نے کہا ‘‘کوئی مضائقہ نہیں۔ میں ہر خدمت کیلئے حاضر ہوں۔ ’’

مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے ان کے خوبصورت اور دلکش چہرے اور ناک نقشے کو خوب غور سے دیکھ لیا تھا اور پھر اس پر ان کا انگریزی لب و لہجہ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا:

‘‘اگر ناگوار خاطر نہ ہو اور میں قابل معافی سمجھا جاؤں تو کیا میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ مگر نہیں غالباً۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘آپ شوق سے پوچھ سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘مگر شائستگی کے خیال سے۔ ۔ ۔ ۔ دراصل۔ ۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ ۔ معاف کیجئے گا۔ ۔ ۔ ۔ محترمہ۔ ۔ ۔ ۔ ممکن ہے آپ کے والد صاحب قبلہ نا پسند فرمائیں۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی انگریزی گفتگو کا لب و لہجہ کس قدر انگریزی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘میری والدہ انگریز تھیں۔ ۔ ۔ ۔ کرنل اوسرم کی لڑکی۔ ’’

‘‘اچھا۔ ’’ میں نے مطمئن ہو کر کہا۔ ‘‘معاف کیجئے گا۔ مجھے حق تو نہ تھا اس قسم کے سوال کا بالخصوص خان صاحب کی وجہ سے۔ مگر سخت متحیر تھا۔ ۔ ۔ ۔ ’’

وہ بڑے فخر کے ساتھ بولیں۔ ایسے کہ گویا ضرورتاً ‘‘مگر آپ کو سخت تعجب ہو گا کہ ساری (ص۔ ۲۴۵) عمر انہوں نے نہ پھر کبھی انگریزی لباس پہنا اور نہ پردے سے باہر نکلیں اور روزہ نماز کی سخت پابند تھیں۔ سخت پردہ کرتی تھیں۔ ’’

اب پردے اور روزے کا سوال رہا الگ، نماز کا نام سن کر میں سخت چکرایا کہیں پوچھ بیٹھے کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں۔ کلمہ تو یاد تھا۔ مگر نماز سے قطعی نا واقف تھا۔ حالانکہ ہزاروں مرتبہ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ مگر اب جو غور کرتا ہوں تو کچھ یاد نہیں پڑتا۔ سوا سجدہ اور روع اور اللہ اکبر کے۔ اور وہ بھی رکوع کا نام رکوع تو اب معلوم ہوا آدھا جھکنا کہہ سکتا تھا۔ ہاں سجدے کا نام یاد تھا۔ خیر میں نے دل میں کہا۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ مسلمان نوجوان آج کل نماز نہیں پڑھتے۔ ہم بھی انہی میں سے سہی۔ کپڑے سب انگریزی ٹھہرے ، دیکھا جائے گا اور پھر یہ بھی خیال کہ کون ہمیں ان دلربا خاتون سے شادی کرنا ہے جو اس مخمصے میں پڑیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ایسے انگریزی میں ڈوبے ہوئے مسلمان نوجوان تصور کر لئے جائیں گے جو کلمے سے آگے کچھ نہیں جانتے۔

 

                (۳)

 

جب اگلا اسٹیشن آیا تو پہلا کام میں نے یہ کیا کہ گاڑی ہلکی ہوتے ہی قبل رکنے کے کود پڑا۔ اس تندہی اور زور کے ساتھ کہ معلوم ہو کہ اگر میں نہ گیا تو گویا خان صاحب ملیں گے ہی نہیں۔ چشم رون میں خان صاحب کو لے آیا اور میں نے دونوں کو خوش کرنے کے لئے کہا۔

‘‘خان صاحب۔ معاف کیجئے گا۔ باپ بیٹی میں ایسی محبت کم از کم میں نے آج تک نہیں دیکھی’’ اور یہ کہہ کر میں نے تمام حیرانیوں کو دس سے ضرب دے کر جو بیان کیا ہے تو یہ حال کہ باپ اور بیٹی دونوں ایسے خوش کہ بیان نہیں کر سکتا۔

اس اسٹیشن کے بعد ہمارے ‘‘مسافری’’ برتاؤ ترقی کر کے کہیں سے کہیں پہنچے۔ حتیٰ کہ ایکس پور کا اسٹیشن آنے سے پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ میں ضرور ہی اتروں گا۔ خواہ تار آئے یا نہ آئے۔ چنانچہ میں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی۔

پہلے تو سنتا ہی تھا۔ اب تجربے نے ثابت کر دیا کہ افغانی خلوص کیا ہے ؟ خان صاحب کی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ یہ لڑکی سب سے بڑی تھی اور اس کا نام عالم تھا۔

مجھے یہاں رسا کشی کے مسئلہ کو پیش کرنا ہے اور اخلاقیات پر بحث نہیں ہے۔ لہٰذا میں قدرے آزادی سے کام لے کر ناظرین سے کوئی امر پوشیدہ نہ رکھوں گا۔

خان صاحب کا بڑا کاروبار تھا اور بہت سے فوجی ٹھیکہ تھے اس کاروبار سے قطع نظر کر کے مجھے تو اپنے کام سے کام تھا۔ میں اب دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ عالم سے شادی ہو جائے۔ جہاں تک مذہب کا سوال ہے میں ذات کا کھتری، ہندو کا بچہ۔ مگر ہندو اس لئے کہ ہندو کے گھر میں پیدا ہوا۔ رہ گئی مذہبیت تو سچ پوچھئے نہ میں رام کا دلدادہ اور نہ اللہ میاں کا شوقین۔ سوال یہ تھا کہ کیوں نہ میں اس لڑکی سے شادی کی کوشش کروں۔ کہاں لاہور، کہاں ‘‘ایکس پور’’ انہیں کبھی پتہ نہیں چل سکے گا۔ اور پتہ چل بھی گیا تو جھگڑا ختم۔ مسلمان ہو کر نماز وغیرہ سیکھ لوں گا۔ لیکن ایک بات ضرور تھی۔ میری موجودہ بیوی کیا کہے گی۔ مجھے اپنی پیاری بیوی کتنی عزیز ہے اور تھی میں عرض نہیں کر سکتا۔ صورت شکل اور محبت کا جہاں تک تعلق ہے مجھے اپنی پیاری بیوی بے حد عزیز تھی۔ خیال آیا اور چلا گیا۔ اسے کیا پتہ چلے گا اور بالفرض پتہ چل بھی گیا تو خفا ہو جائے گی نا۔ راضی کر لیں گے۔ ویسے ہی دیوانی ہے محبت میں۔ راضی کر لوں گا۔ ان امور کو دل میں طے کر کے میں ترکیب سوچنے لگا کہ کیا کرنا چاہیے۔ یہ تو کہہ ہی چکا تھا کہ ماں باپ نہیں۔ بہن بھائی نہیں۔ شادی ابھی ہوئی نہیں ہے۔ صرف تجویز کرنا باقی تھا۔ ضرورت یہ محسوس ہوئی کہ خان صاحب کا باپ کی طرح احترام کیا جائے۔ مثلاً دوڑ کر پانی پلا دیا۔ چیز اٹھا دی، حتیٰ کہ جوتا اٹھا دیا۔ اس آخری ترپ نے بازی جیت لی اور پھر رخصت ہوتے وقت کوئی سو روپیہ کے تحائف وغیرہ سے میں نے خان صاحب کے بچوں کی خاطر کی۔ اب بتائیے کہ مجھ سے بہتر اور کوئی نوجوان ممکن تھا! ہاں یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اگر افغانیوں سے صورت شکل ہاتھ پیر میں بہتر نہیں تو بیٹا نہیں ہوں۔ اب رہا روپیہ تو خان صاحب سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہ ہو گا۔ کم و بیش دو ہزار روپیہ مہینے کی سکنی جائیداد کی آمدنی تھی۔

لاہور پہنچ کر میں نے اور تحفے بھیجے۔ اور لکھا کہ کلکتے واپس جا رہا ہوں۔ خان صاحب نے پہلی ہی دفعہ میں اپنے کئی دوست احباب سے ملاقات کر دی تھی۔ کلکتے جاتے میں میں پھر ‘‘ایکس پور’’ آیا اور اب کی دفعہ خان صاحب کے خاص خاص دوستوں کے لئے لاہور سے پھل وغیرہ لایا۔ سب کے سب مجھ سے اتنا خوش ہوئے ہیں کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اور اسی طرح میں دو چار دفعہ جو ‘‘ایکس پور’’ پہنچا تو زمین ہموار تھی۔ خان صاحب کے ایک گہرے دوست کے ذریعے عندیہ جو لیا تو خان صاحب کو تیار پایا۔ پھر کیا تھا دس ہزار روپیہ میں نے اس حماقت کے لئے علیحدہ نکالا اور عالم کے لئے وہ زیورات اور کپڑے تیار کرائے کہ خان صاحب بھی دنگ رہ گئے۔ اب یہ سوال کہ خان صاحب نے قبل شادی کسی کے ذریعے لاہو ر میں تحقیقات کروا لی اور کیا اطمینان ممکن تھا کہ خود پیغام میرے چچا یعنی لاہور کے ایک ایسے رئیس نے دیا تھا جن کے مسلمان ہونے میں تو شک تھا ہی نہیں۔ دو ایک جاننے والے خود ‘‘ایکس پور’’ میں موجود تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا بھتیجا میرا دوست نور محمد تھا جو وقت بگڑے پر بھی کام آنے والا دوست تھا۔

قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ اپنی نور نظر عالم کو خان صاحب نے میری نور نظر بنا دیا۔ میں نے اپنی جدید بیوی کو کیسا پایا؟ کچھ عرض نہیں کر سکتا۔ سچ کہتا ہوں کہ محبت میں اس نے پہلی بیوی کو بھلا دیا۔ ایسا کہ میں خود فنا ہو کر رہ گیا۔ اپنے ساتھ کلکتے لے گیا اور ایک معقول مکان کرائے پر لے کر ٹھاٹ سے رہنے لگا۔

 

                (۴)

 

ہم دونوں میاں بیوی بے طرح خوش تھے لیکن بہت جلد عالم کو میرے تجارتی معاملات کی طرف سے شبہ ہوا۔ میں نے کہہ دیا کہ کاروبار سست ہے مگر عرض ہے کہ چست اور سست کیسا بھی کاروبار ہو اس کا وجود تو نہیں چھپتا۔ چنانچہ اقبال کرنا پڑا کہ کاروبار بند ہے اور یہ ترکیب چلا کہ ساجھے میں ہے۔ اور اصل پوچھئے تو عالم کو بھی سیر و تفریح سے اور عشق و محبت سے کہاں فرصت جو اس تحقیقات میں سر کھپائیں۔ میری طرف سے اجازت تھی کہ جو چاہیں خرچ کریں اور جی چاہے باپ کے پاس جائیں۔

اس دوران میں لاہور بھی جانا پڑا۔ وہاں محبت کی ماری سرلا دیوی حیران کہ مجھے ایکا ایکی یہ کیا ہوا کہ ادھر ادھر غائب ہوں۔ اس سے تو یہ کہہ سکتا تھا کہ تجارت کرتا ہوں۔ اس کی محبت اور الفت بدستور تھی اور میں کہتا ہوں مجھے اس کی دلربا اور معصوم صورت مسکراتی پھول کی طرح کھلی دیکھ کر رحم آیا۔ وہ ہرگز اس کی مستحق نہ تھی کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی حور کو بھی جگہ دی جائے۔

بہت جلد میں نے محسوس کیا کہ میں رسا ہوں بلکہ رسا کشی شروع ہو چکی تھی۔ مجھے دو طرف جوابدہی کرنی پڑ رہی تھی۔ لاہور سے زیادہ دن تک غائب رہنے کے وجوہات کلکتے میں پیش کروں اور کاروبار اور گھر کلکتے میں ہوتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کے نہ ہوتے ہوئے لاہور میں رہنے کا عذر معقول پیش کروں۔ دراصل مجھ سے غلطی ہوئی مجھے ، یہ کہنا چاہئے تھا کہ کاروبار کی ایک شاخ لاہور میں ہے۔ یہ رسا کشی اس قسم کی تھی کہ دونوں طرف کی محبت اور معاملات مجھے اپنی اپنی طرف اس طرح کھینچتے تھے کہ از خور دوڑنا پڑتا تھا تب جا کر بمشکل رسی ڈھیلی ہوتی تھی۔

چند مہینے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ لاہور کی ٹیم نے زور لگانا شروع کیا۔ سرلا نے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ جہاں چلو، مجھے بھی لے چلو اور کیوں نہ کہتی، مہارانی شری سیتاجی کی پرستار تھی۔ اب میں اس سے یہ کیونکر کہتا کہ نیک بخت وہاں راستے ہی میں ایک زبردست مونچھوں والا ہیبت ناک خان ایسا رہتا ہے کہ جس کو دیکھتے ہی تمہارے دیوتا کوچ کر جائیں گے۔

 

                (۵)

 

عید کے موقعہ پر ‘‘ایکس پور’’ آیا ہوا تھا۔ بعد عید دوست احباب کے یہاں اپنے خسر صاحب کے ساتھ ملنے گیا۔ ایک سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات تھے ان سے بھی ملنا تھا۔ خان صاحب نے کہا کہ تم بچوں کو لے کر چلو میں آتا ہوں۔ اب یقین مانئے کہ میں جو سالوں کو لے کر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے پرانے دوست احمد علی بیٹھے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی چلائے۔ ‘‘ارے یار تو کہاں؟’’

اب میں کیا عرض کروں! کاٹو تو لہو نہیں بدن میں! یہ سوال نہیں کہ اس موقعے پر مجھے کیا کرنا چاہئے تھا۔ یہ پوچھئے میں نے کیا کیا۔ یہ کہ تعجب سے انہیں دیکھنے لگا۔ میں نے کہا۔ ‘‘معاف کیجئے گا۔ میں نے جناب کو پہچانا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ خوب۔ ۔ ۔ ۔ جی نہیں۔ میں تو کبھی جناب کے ساتھ نہیں پڑھا۔ ۔ ۔ ۔ ’’

‘‘ارے !۔ ۔ ۔ ۔ ’’ گھبرا کر احمد علی نے کہا۔ ‘‘باؤلا ہوا ہے !۔ ۔ ۔ ۔ ’’

میں نے کہا۔ ‘‘مجھے سخت افسوس ہے کہ جناب ایک قطعی انجان ہو کر میری سخت توہین کر رہے ہیں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اب اگر جناب نے زیادتی کی تو مجھے کیا کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ’’

سپرنٹنڈنٹ صاحب فوراً بیچ میں پڑ گئے۔ انہوں نے احمد علی صاحب کو ڈانٹا اور روکا اور ان سے کہا غلط فہمی ہوئی ہے۔ مگر توبہ کیجئے وہ بھلا مانس ماننے والا تھا۔ میرے رخسار پر ایک کھرونچہ تھا جو بچپن میں انہی حضرت احمد علی کے تیز ناخن سے لگا تھا۔ چنانچہ احمد علی نے اب اس کا حوالہ دیا۔ میں کیا کرتا مجبوراً بد مزگی کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو کر ہانپتا کانپتا گھر پہنچا۔ خسر صاحب کا انتظار کیا مگر وہ نہ آئے۔

اب میں بڑے سوچ میں پڑ گیا کہ معاملہ بگڑ گیا۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ احمد علی آج ہی چلا جائے گا۔ خان صاحب گھر پر آئے تو معلوم ہوا کہ سپرنٹنڈنٹ صاحب کے یہاں نہیں گئے۔ درحا لیکہ نہ صرف وہاں ہو کر آئے تھے بلکہ حقیقت معلوم کر کے ایک آدمی کو دریافت حال کے لئے تعینات کر کے آئے تھے۔ مگر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر ان میں کوئی تغیر ہی نہ دیکھا۔ مگر دوسرے روز میں سپرنٹنڈنٹ صاحب کے پاس خود گیا تاکہ معلوم کروں کہ وہاں معاملات کی صورت کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ احمد علی نے ساری حقیقت بیان کر دی ہے۔ مگر معاملہ غلط فہمی کے عذر کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ انہوں نے بھی اصلیت چھپائی۔ چنانچہ وہاں سے واپس آ کر میں نے خود اپنے خسر صاحب سے اس ‘‘دلچسپ’’ غلط فہمی کا واقعہ ہنس ہنس کر بیان کیا۔ عالم نے بھی اسے دلچسپی سے سنا اور احمد علی کی حماقت کا خوب مذاق اڑایا گیا۔ قصہ مختصر میرے خسر صاحب خود مشکوک ہو چکے تھے مگر انہوں نے اس امر کو ایسے پوشیدہ رکھا کہ میں معلوم نہ کر سکا اور میں بے خبری میں تھا کہ ایک دم سے طوفان پھٹ پڑا۔

عید کے چوتھے روز کا ذکر ہے کہ عالم نے کلکتے چلنے کو کہا اور میرا ارادہ ہوا کہ لاہور جاؤں کیونکہ لاہور کا رسا بڑے زور سے کھینچ رہا تھا۔ لیکن اس لاہور اور کلکتے کے سوال کو میرے خسر صاحب نے یہ کہہ کر طے کر دیا کہ ابھی ہفتہ بھر اور ٹھہرنا چاہیے۔ میں رک گیا اور اصل میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھے کیوں روک رہے ہیں۔

اس کے تیسرے دن کا ذکر ہے۔ کوئی نو بجے ہوں گے۔ میں باہر برآمدے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ خسر صاحب کا موٹر آ کر رکا۔ کہیں باہر سے آئے تھے۔ موٹر سے اتر کر وہ برآمدے میں آئے۔ میں کھڑا ہوا ہوں کہ بجلی کی طرح خان صاحب نے خنجر سے میرے اوپر حملہ کر کے غضب ناک شیر کی طرح گرج کر کہا۔ ‘‘کافر!’’ میں قطعی اس کے لئے تیار نہ تھا اور اگر اخبار والا ہاتھ موقعہ پر نہ پہنچ جاتا تو خنجر میرے سینے میں پیوست ہو گیا تھا۔ خنجر کو اخبار نے روکا اور میرا ہاتھ زخمی ہوا۔ میں چیخ کر قریب کی کرسی گھسیٹ کے تڑپ کر بھاگا اور خان صاحب شیر غراں کی طرح پشتو میں گالیاں اور لفظ ‘‘کافر’’ کا نعرہ مارتے میرے پیچھے۔ میں چیختا، خدا کے واسطے دیتا، کلمہ پڑھتا گھر میں گھسا۔ میں کہاں پناہ ڈھونڈ سکتا تھا؟ عالم کے سوا اور مجھے کون بچا سکتا تھا؟۔ ۔ ۔ ۔ تیر کی طرح جھپٹ کر میں عالم کے کمرے میں پہنچا۔ وہ صوفے پر بیٹھی کسی کام میں مشغول تھی مگر اس بلوے کی گڑبڑ سن کر کھڑی ہوئی کہ میں پہنچا۔ دوڑ کر میں نے اس کے پیر پکڑ لیے۔ ‘‘خدا کے واسطے مجھے بچا۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تڑپ کر میں اس کی پشت پر پہنچا۔ کیونکہ غضب ناک شیر آ پہنچا تھا۔ میں چیختا جا رہا تھا۔ سن تو لیجئے۔ بلند آواز سے کلمہ پڑھتا ہوں۔ مگر کون سنتا ہے۔ لیکن بیوی پھر بیوی ہے۔ عالم نے سینہ سپر ہو کر دیوانہ وار روتے ہوئے اپنے کو درمیان میں ڈال دیا۔ خان صاحب کی خون فشان آنکھوں سے غیظ و غضب کی چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ ‘‘کافر بچہ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ انہوں نے گرج کر کہا ‘‘مار ڈالوں گا’’ اور لڑکی کو جھٹکا دے کر پھر حملہ آور ہوئے کہ میری سالی بھی روتی ہوئی آ گئی تھی اور اب دونوں بہنیں باپ سے لپٹ پڑیں اور روک لیا۔ عالم اپنے باپ کے ہاتھ میں لپٹ گئیں اور دونوں بیٹیاں ایسی روئیں اور ادھر میں نے کلمہ پڑھ پڑھ کے دہائی دے کہ قبل اپنے قتل ہونے کے دو منٹ مانگے تو خان صاحب کو رکنا پڑا۔ خنجر علیحدہ رکھنا پڑا اور ٹھنڈے دل سے تو خیر نا ممکن تھا۔ یوں سمجھئے "گرم دل” سے میری بات سننے پر راضی ہوئے۔

میں نے دو لفظوں میں پانی براءت پیش کی۔ وہ یہ کہ میں ہندو بے شک تھا مگر عرصہ ہوا مسلمان ہو گیا اور مسلمان ہوں۔ رہ گئی ہندو بیوی تو مذہب بدلنے کے بعد سے مجھ سے اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے اسلام لانے کا ثبوت دے سکتا ہوں۔ اور پھر قصہ ہی کیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہو چکا اور ہوں اور بالفرض پہلے نہیں تو اب ہوں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔

جو میرے اسلام میں شک کرے وہ بقول علماء خود کافر۔ چلئے چھٹی ہوئی۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ میں نے یہ بات پہلے سے کیوں نہ کھول دی۔ بے شک میری خطا ہوئی اور موجود ہوں، جو سزا چاہیں دے لیجئے۔

"تو نے دھوکا دیا ہمیں۔ ۔ ۔ ” خان صاحب نے پھر گرم ہو کر کہا "ہندو بچہ کہیں کا۔ ”

میں نے کہا "قبلہ عالم مجھے اپنی خطا تسلیم ہے۔ جو کچھ بھی کہئے دھوکا کہہ لیجئے خواہ فریب۔ ” جھگڑا یوں طے ہونا قرار پایا کہ ہندوستان بھر کے مشہور علماء کو تار دے کر پوچھا جائے کہ ایسا ایسا معاملہ ہے ، آپ کیا فتویٰ دیتے ہیں۔ اور اگر کہیں میرے خلاف فتویٰ آئے کہ کافر نے دھوکہ دے کر لڑکی خراب کی تو میں قتل کر دیا جاؤں گا اور فی الحال زیر حراست سمجھا گیا۔ اپنی بیوی اور سالی کی حراست میں رہا۔

اس حادثہ فاجعہ کی خبر سن کر خان صاحب کے جملہ ہمدرد اور دوست دوڑ پڑے۔ لیکن جو بھی مجھ سے ملا اس نے یہی فیصلہ دیا کہ خطا ضرور میری ہے۔ مگر اب قصہ یوں ختم ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ چنانچہ طور و طویل تار ہندوستان کے جملہ کفر سازی کے کارخانوں کے مشہور منیجروں کو دیئے گئے اور ان سب مولویوں نے یہی لکھا کہ شادی کالعدم نہیں ہوئی اور اگر ایسی صورت میں کوئی اپنے اسلام لانے کا پورا ثبوت بہم پہنچا سکے تو مضائقہ نہیں ہے ، یہی کافی ہے کہ نکاح کے وقت اس نے اسلام کا اقرار کیا اور اب بھی مسلمان ہے اور اس کا یہ کہہ دینا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں قطعی کافی ہے اور بمنزلہ تکرار کے ہے۔

جب ہر طرح کا مذہبی اطمینان ہو گیا تو اب خان صاحب نے یہ فرمایا کہ تم دھوکہ باز ہو۔ مجھے یقین نہیں کہ اپنی ہندو بیوی کو چھوڑ چکے۔ لہذا مجھ سے اب ایک تحریر اسٹامپ پر لکھ کر رجسٹری کرائی گئی اور اس میں میں نے یہ لکھ دیا کہ میں عرصہ ہوا مسلمان ہو چکا ہوں اور میری پہلی بیوی سرلا دیوی جو ہندو ہے ، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ میں اس کا شوہر اور نہ وہ میری بیوی۔ اب غور فرمائیے کہ یہاں تو یہ تحریر اور وہاں وہ غریب بے خبر گھر کی مالکہ بنی بیٹھی ہے۔ آپ کہیں گے کہ میں نے ایسی تحریر کیوں لکھی جواب یہ کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر! نہ کیسے لکھتا۔ علاوہ اس تحریر کے ساتھ ہی یہ تحریر بھی مجھ سے لکھوا لی کہ میں نے دھوکا دے کر شادی کر لی اور میں گنہگار اور خطاوار اور قابل سزا ہوں اور آپ کو اختیار ہے کہ اس دھوکہ دہی پر مجھے سزا دلوا دیں۔ میں نے یہ بھی بذریعہ اس تحریر کے تسلیم کر لیا کہ فلاں فلاں میں فلاں بات میں نے جھوٹ اور دھوکے سے لکھی اور یہ دھوکا دہی محض عالم کے ساتھ نکاح کرنے کی غرض سے تھی۔ یہ بھی تسلیم کر لیا کہ محض فریب اور دھوکا دینے کی نیت سے میں نے اپنی اصلیت چھپائی اور اپنے دوسرے فرضی عزیزوں کو مسلمان بنایا اور یہ سب فریب دہی میں نے محض عالم کے ساتھ نکاح کرنے کے لئے کی اور میں خطاوار اور قصور وار ہوں، نیز توہین اور خرچہ اور نقصان و ایذا رسانی کی تلافی بھی میرے ذمے ہے اور عالم اور ان کے والد کو اختیار ہے کہ جب چاہیں مجھے سزا دلا سکتے ہیں اور تلافی پر بھی مجبور کر سکتے ہیں۔

اور اس تحریر کے بعد ایک دوسری رجسٹری دستاویز کے ذریعہ اپنی جائیداد سکنی لاہور قیمتی پندرہ ہزار بعوض مہر اپنی زوجہ عالم کے حق میں مکفول کی اور وعدہ کیا کہ قبضہ لاہور چل کر دلا دوں گا۔

ایک دوسری دستاویز کے ذریعہ اپنی زوجہ عالم کے حق میں بطور گزر خرچ پانچ سو روپیہ ماہوار لکھے اور اس کی ادائی کی سبیل میں بقیہ جائیداد کو مکفول کیا اور قبضہ اپنی زوجہ عالم کو لاہور چل کر دلا دینے کو کہا۔

تیسری دستاویز کے ذریعہ اپنے خسر صاحب کو اپنا مختار عام مقرر کیا اور اپنی ساری جائیداد منقولہ و غیر منقولہ پر کامل اختیار اور انتظام دے دیا۔

اور اب یہ تمام دستاویزیں لکھ لکھ کر خسر صاحب میرے ساتھ لاہور چلنے کو ہوئے تا کہ میری پہلی بیوی کی مکمل علیحدگی اور جائیداد پر قبضہ کر کے قصہ ختم کر سکیں۔

جیسا کہ میں عرض کر چکا، اس دستاویزات کو لکھ کر میں قتل ہونے سے بچا۔ دیکھا جائے تو میں نے بھی ستم کیا تھا۔ آگ سے کھیل رہا تھا۔ خان صاحب تو ان دستاویزات کے لکھ دینے سے مجھ سے تو راضی کیا ہوتے لیکن مجھے قتل نہ کرنے پر راضی ہو گئے مگر عالم کا اطمینان بھی تو کرنا تھا۔ انگلش خون میں افغانی آمیزش! اور ادھر پوچھئے تو میں پھر ایک لالہ ٹھیرا۔ مجھے عالم ہی نے بچایا تھا اور سچ پوچھئے تو مجھے عالم ایسی عزیز اور پیاری تھی کہ میں اسے چھوڑنے کا یا اسے رنج پہنچانے کا خیال بھی نہ کر سکتا۔ ایسی غیور اور جانباز۔ لڑکی اور ایسی محبت کرنے والی اور ایسی خوبصورت عورت سے کیسے نہ محبت ہو۔ پھر عالم کی یہ کیفیت کہ سچ پوچھئے تو وہ نہ میری جائیداد چاہتی تھی نہ دستاویزات۔ وہ تو مجھے چاہتی تھی اور اپنے مذہب کو۔ میرا ہندو ہو جانا یا مسلمان نہ ہونا اس کے لئے ایسا تھا کہ دنیا میں کوئی شے اس کی تلافی نہ کر سکتی تھی۔ لہذا عالم کو راضی کرنا دو طرح مجھ سے فرض آیا۔ ایک تو محبت کے لئے اور دوسرے اپنی جان کی حفاظت کے لئے۔

ایک محبت کرنے والی سچی اور پاکباز بیوی کو رضامند کر لینا ایک چھوٹے شوہر کے لئے بہت آسان ہے۔ چنانچہ میں نے عالم کو نہ صرف راضی کر لیا بلکہ اس نے ٹھیکہ لے لیا کہ بشرطیکہ میں ہندو نہ ہو جاؤں یعنی بدستور مسلمان رہوں، میری جان قطعی محفوظ رہے گی۔

اس حادثے کے تیسرے ہی روز لاہور جانا پڑا۔ میری پوزیشن کی نزاکت کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ مگر نہیں واقعات ہی سن لیجئے۔

خان صاحب مع اپنے دو خطرناک دوستوں کے مع خنجر اور ریوالور کے میرے ساتھ تھے۔ ہم سب مل کر بھر پہنچے۔ یہاں پہنچے جو سہی تو خان صاحب کا پارہ چڑھ گیا۔ کہیں ہندو کا گھر چھپائے چھپتا ہے۔ اور پھر جب میں مسلمان ہو چکا تو یہاں پر "ہندو راج” چہ معنی دارد۔ نوکروں کی دھوتیاں اور گول لوٹے ہی دیکھ کر خان صاحب چمک گئے پھر یہ کیا معاملہ؟ بیوی گھر میں ہے مگر جواب کون دے۔ میں گھر میں جو گیا تو اپنی دل کی کلی یعنی رساکش نمبر ۱ کو پھول کی طرح کھلا پایا۔ مگر مجھے محبت جتانے کی فرصت کہاں۔ میں نے دو لفظوں میں مصیبت بیان کی۔ ایک غلطی ہو گئی ہے اور جان جوکھم میں پڑ گئی تو ایسا ایسا کرنا پڑا۔ بڑے خونی سے سابقہ پڑا ہے ، اب بہتر ہے کہ مجھے بچاؤ۔ یعنی اس وقت چوں نہ کرو اور عارضی طور پر اپنے میکے چلی جاؤ۔ ہندو بیوی بھی کتنی غریب اور بے کس ہوتی ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں کہ سرلا مجھ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہاں یہ ضرورت نہیں کہ یہ بتاؤں کہ اس کا یہ سن کر حال کیا ہوا۔ اس نے خود گھبرا کر مجھے لعن طعن کی۔ مگر فوراً ہی میری تجویز کے سامنے کس انداز سے سر تسلیم خم کیا ہے کہ میں نے اس کا سر چوم لیا۔ بیچاری حواس باختہ ہو کر گھبرا کر بولی۔ "جائیداد روپیہ سب تمہارا ہے تم نے دے دیا۔ خوب کیا۔ سب دے دو مگر جان چھڑاؤ۔ اب رہ گئے تم۔ تو تم میرے ہو اور میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔ ” یہ کہہ کر اس نے لپک کر میرا کوٹ پکڑ لیا۔ "میں نہیں جانے دوں گی۔ ۔ ۔ نہ جاؤ اس خوفناک پٹھان کے پاس۔ ۔ ۔ وہ تمہیں مار ڈالے گا۔ ۔ ۔ میں نہیں جانے دوں گی۔ ۔ ۔ منیم جی کو بلا لو اور جائیداد وغیرہ کے بارے میں جو جی چاہے کرو۔ کہہ دو ان سے کہ تم جاؤ۔ ۔ ۔ ” یہ کہہ کر رونا شروع کیا۔

اب باہر عجیب معاملہ۔ منیب جی احمق نے گویا خان صاحب کے غصے پر دھار رکھ دی۔ قصہ کو یوں مختصر کرتا ہوں کہ سرلا لپٹ تجی اور اس نے نہ چھوڑا۔ ادھر خان صاحب بگڑ کھڑے ہوئے۔ نوکروں کی کس کی مجال تھی جو ان کی خونی آنکھوں سے آنکھ ملا سکتا۔ گڑبڑ بڑھی سرلا جان پر کھیل کر لپکی خان صاحب کی طرف ایک لکڑی لے کر جو منہ میں آیا سناتی ہوئی۔ "ٹھیر تو جا کم بخت۔ ۔ ۔ آ مجھے مار۔ ۔ ۔ ” اور پہنچے پہنچتے لکڑی جو سنجھبالی ہے تو وہ ایسے بدحواس ہو کر بھاگے ہیں کہ گرتے گرتے بچے۔ مگر اس کے یہ معنی تھوڑی تھے کہ خان صاحب دب گئے ، وہ ایک کمزور عورت کے سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے جھٹ میرے لئے ریوالور نکال لیا مجھے مارنے کو اور میں خیریت اسی میں سمجھی کہ سرلا کو جھٹک کر خان صاحب کے پیر پکڑ لوں۔ چیل کی طرح جھپٹ کر خان صاحب مجھے باہر لے گئے میرے سالے صاحب بھی آ گئے اور اب "رسا کشی” شباب پر پہنچی مگر خان صاحب کی جیت رہی، مجھ گرفتار کر کے لے گئے۔ غلطی خود ان کی تھی، میں منع کرتا تھا کہ گھر نہ چلئے۔ ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ نہ مانے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں اب بھی قتل نہیں ہوا!

قصے کو مختصر کرتا ہوں۔ خان صاحب نے ایک دعویٰ میری طرف سے سرلا کے خلاف دائر کرایا۔ بابت استقرار حق بدیں امر کہ میں مسمی نور محمد مسلمان ہوں اور سرلا دیوی اب میری بیوی نہیں رہی اور میرا اس سے اب کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ میں اس کی کفالت کا ذمہ دار ہوں۔

اس کے جواب میں سرلا نے بھی دعویٰ استقرار حق بدیں امر کہ مسمی شنکر لال حال نور محمد از روئے ہندو دھرم شاستر میرا جائز شوہر ہے۔ مجھے خرچ وغیرہ دینے سے منکر ہے اور مجھے زوجیت سے اپنی خارج کہتا ہے۔ لہذا ہزار روپیہ ماہوار خرچ گزارہ اور رہائش کو مکان دلایا جائے اور حکم امتناعی دوامی اس امر کا صادر ہو کہ مجھے اپنی زوجیت سے خارج نہ کرے۔

یہ دونوں دعوے سرگرمی سے دائر کر دیئے گئے اور رسا کشی زوروں میں شروع ہو گئی۔ تمام دستاویزات جو "ایکس پور” میں بحق عالم رجسٹری کرائی گئی تھیں، ان کی ازسرنو لاہور میں پھر رجسٹری ہوئی اور جملہ جائیداد غیر منقولہ کے کاغذات اور قبضہ خان صاحب بہ نوک خنجر مجھ سے لے لیا۔ اور دونوں طرف سے مقدمہ کی سر گرمی سے پیروی ہونے لگی۔

آپ کہیں گے کہ میں نے سرلا کے ساتھ ظلم کیا۔ ظلم بے شک کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قتل ہو جاتا؟ یا عالم کے ساتھ ظلم کرتا۔ آخر کرتا کیا؟

مگر اب میری عقلمندی کی تعریف کیجئے کہ ایک طرف تو یہ رسا کشی ہو رہی ہے اور دوسری طرف میں سرلا سے بھی ملتا ہوں اور کیسے کیسے غریب کو سمجھاتا ہوں کہ خدا کی بندی صبر کر، مت گھبرا، میں اول تیرا اور آخر تیرا۔ میں مسلمان نہیں ہوں۔ تو گھبرا مت اطمینان رکھ۔ مگر وہ بیچاری کیا کرے۔ مسلمانوں کو اور پٹھانوں کو سینکڑوں کوسنے دیتی ہے اور روتی ہے اور ہار کر غریب آخر یہی کہتی ہے کہ میں تمہاری لونڈی ہوں مجھے چھوڑنا مت۔ اور میں جواب میں کہتا ہوں کہ نیک بخت تو میری اور میں تیرا۔ ان مقدموں اور جائیداد کے جھگڑوں کو ہونے دے۔ بس میری جان کی خیر منا جو اس خان سے جان بچی تو تیرا ہی ہوں۔

ادھر تو یہ حال اور ادھر والوں کو کچھ اطمینان تو ہوا تھا مگر بہت جلد پتہ چل گیا کہ میں چھپ چھپ کر سرلا سے ملتا ہوں۔ کوئی ثبوت ان کے پاس نہ تھا، لہذا میں انکار کر جاتا۔ اور جانا ثابت ہوتا بھی بہانہ کر دیتا۔ خان صاحب نے اب یہ ترکیب کی تھی کہ مقدمے کی پیشی کے دن مجھے اپنے ساتھ لاہور لاتے تھے ورنہ "ایکس پور” میں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور وہ بھی گویا زیرِ حوالات۔ لیکن میں نے کئی مرتبہ یہ کیا کہ کلکتے اور دوسری جگہ کا بہانہ کر کے لاہور سرلا کی دلجوئی کے کے سہارا دے کر لوٹ آیا۔ لیکن بات چھپ نہ سکتی تھی اور ایک دفعہ پکڑا گیا۔ خان صاحب نے تو خنجر دکھائے مگر عالم کا مارے رنج و غم کے برا حال ہو گیا۔ خان صاحب نے مجھ سے توبہ نامے اور اقرار نامے لکھائے کہ اب سرلا سے ملنے نہ جاؤں گا اور اگر جاؤں تو جو سزا چاہیں دیں اور جو تاوان چاہیں لیں۔ اور لطف یہ کہ میں نے پھر اقرار ناموں کو توڑ دیا اور پھر نئے لکھے اور پھر انہیں بھی توڑ دیا۔ ہر دفعہ خطا قبول کر کے عالم اور ان کے باپ کے آگے سر جھکا دیتا کہ حاضر ہوں۔ جو سزا چاہیں دے لیں۔ سچ من سر خان صاحب کے پیروں میں رکھ رکھ دیتا۔ ان کے ملنے والوں کے آگے ہر دفعہ ہاتھ جوڑتا اور ہر دفعہ وعدے کرتا اور پھر توڑ دیتا۔ دراصل ناممکن تھا کہ میں رساکش نمبر ۱ کو بالکل ہی چھوڑ دوں۔ ارادہ کرتا، پھر ایک غیبی طاقت سے مجبور ہو جاتا۔ وہ بے قصور تھی۔ وہ بڑی زور و شور سے کھینچنے والی "رساکش” تھی جس نے رسا پہلے پکڑا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میرے پیچھے تج دی تھی۔ خطا میری اور وہ معافی مانگتی! بھلا بتائیے تو میں اس فرشتہ سیرت بیوی کو کیسے چھوڑ دیتا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کبھی کبھار بی اس سے نہ ملوں اور ادھر خان صاحب اور عالم کا یہ خیال کہ ذرا ڈھیل ڈالی نہیں کہ میں پھر ہندو ہوا۔ بلکہ خان صاب تو کہتے تھے کہ میں مسلمان ہی نہیں۔ اپنے کو کہتے تھے کہ مولویوں کے فتاوے سے مجبور ہوں ورنہ کب کا قتل کر کے قصہ پاک کرتا۔ ایک دفعہ جب میں کئی بار وعدہ خلافی کر چکا تو خان صاحب نے یہ ارادہ کیا کہ طلاق لے لیں۔ مگر یہ سنتے ہی عالم کو غش پر غش آنے لگے اور چھوٹی سالی نے ال رو رو کر برا حال کر لیا۔ دراصل عالم مجھے نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ لہذا یہ خیال ہی ترک کرنا پڑا۔ حالانکہ اگر ایسا کرتے تو میری سب جائیداد مہر اور اقرار ناموں اور تاوان وغیرہ میں ان کو مل سکتی تھی۔ قصہ مختصر جہاں تک میری ذات کا تعلق تھا میں نے سرلا سے ملنا بند نہ کیا اور ہر وعدہ خلافی پر کوئی نہ کوئی نئی تحریر، نئی دستاویز مرتب ہوتی تھی۔ مگر میں تو عہد نامہ توڑنے ہی کے لئے لکھتا تھا۔

اب کچھ مقدمے کا حال سنئے۔ سرلا نے بیان دیئے کہ وہ میری بیوی ہے اور دھرم شاستر کی رو سے شادی شدہ ہے اور مجھے نہیں چھوڑنا چاہتی۔ میں نے یہ بیان دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں اور اب یہ میری زوجہ نہیں رہی۔

دونوں مقدمے میں ہارا۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ہندو قانون کی رو سے میاں اور بیوی میں طلاق نہیں ہو سکتی۔ خواہ میاں اپنا مذہب چھوڑ دے یا بیوی اپنا مذہب چھوڑ دے۔ ہندو دھرم شادی کو معاہدہ نہیں مانتا بلکہ فریقین کا تعلق عمر بھر کے لئے مذہب کی بنیاد پر قائم کرتا ہے جو کسی طرح بھی نہیں ٹوٹ سکتا لہذا ہم فیصلہ دیتے ہیں مسماۃ سرلا دیوی مسمی نور محمد سابق سیٹھ شنکر لال کی جائز بیوی ہے اور رہے گی اور گزارہ اور رہائش کے لئے مکان پانے کی مستحق ہے۔ گزارہ ہم پانچ سو روپیہ ماہوار مقرر کرتے ہیں اور جس مکان میں وہ رہتی ہے ، اس پر تا حیات قابض رہے گی۔ رہ گیا یہ امر کہ ہم نور محمد کو حکم دیں کہ وہ سرلا دیوی کو بطور اپنی زوجہ کے رکھے تو بوجہ تبدیل مذہب ہو جانے کے ہم اس بارے میں کوئی خاص حکم صادر نہیں کرتے اور فریقین کو ان کی مرضی پر چھوڑتے ہیں۔

جو دعویٰ میری طرف سے ہوا تھا وہ مع خرچہ خارج ہوا اور اس میں یہ طے ہوا کہ اس معاملے میں شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون ایک مسلمان شوہر ایک ہندو بیوی کا جائز شوہر نہیں ہو سکتا، ناقابل نفاذ ہے۔ لہذا حکم ہوا کہ مسمی نور محمد کی بیوی سرلا دیوی ہے اور بدستور رہے گی۔

ان دونوں مقدمات کی ہم نے ہائیکورٹ تک اپیل کی اور ہار گئے اور معلوم ہوا کہ ہندوستان کے تمام ہائیکورٹوں کا متفق فیصلہ یہی ہے۔

یہ تھا وہ اٹل فیصلہ جس نے طے کر دیا کہ "رسا کشی” زور میں جاری ہے۔ خان صاحب پچھڑ کر رہ گئے۔ عالم پست ہو کر رہ گئیں اور سرلا دیوی اکڑ کر رہ گئیں۔

رو گیا میں، تو حضرت ایک "رسا کسی” کے مضبوط رسے کی طرح تن کر رہ گیا اور دونوں طرف کے "رسا کش” اب لگا رہے ہیں زور ڈٹ ڈٹ کے۔

خان صاحب نے بدحواس ہو کر دو تین دستاویزات لکھوائیں مجھے بھلا کیا انکار ہو سکتا تھا فوراً لکھ دیں۔ یہ تمام دستاویزات ایسی ہیں کہ ان کی خلاف ورزی کر کے میں ایک منٹ جیل سے باہر نہیں رہ سکتا۔ مگر سوال یہ ہے کہ میں جیل جانے کو تیار ہوں اور خان صاحب مجھے کب کا جیل پہنچا چکے ہوتے جو کہیں عالم بچانے والی بیچ میں نہ ہوتی۔

اب اس کے بعد نوبت یہ پہنچی کہ عالم بھی جزبز رہنے لگیں اور تازہ ترین دستاویزیں ایسی خطرناک تھیں اور خان صاحب کا غصہ اور عالم کی نظریں ایسی ترچھی ہوئی کہ میں نے سرلا سے ہر طرح قطع تعلق کر لیا۔ ایسا کہ خان صاحب اور عالم دونوں راضی ہو گئے اور تمام شبہات رفع ہو گئے اور خود غور کیجئے کہ میں بقول خود خانصاحب کہاں تک وعدہ خلافی کرتا۔ آخرش عالم کی محبت اور خان صاحب خوفناک آنکھ کی چشم پوشی سے شرمندہ ہو کر مسخر ہو گیا اور حلف جو اٹھایا تھا کہ اب کبھی سرلا کی طرف رخ بھی نہ کروں گا۔ اس کا پاس ایسا کیا کہ خود خان صاحب قائل ہو گئے۔ اب میری نگرانی کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔

عرض ہے کہ جب معاملات خوشگواری کے اس اطمینان کے درجہ کو پہنچے تو اللہ نے کرم کیا۔ خان صاحب کو خدا نے چاند سا نواسہ عطا فرمایا اور اس بچہ کے چھٹے دن عقیقہ ہوا یعنی سر گھوٹا گیا۔ مگر غور کیجئے کہ سر تو بیٹے کا گھٹے اور اولے پڑیں باپ کے سر پر، یعنی اسی دن شام کو یہ خبر پہنچی کہ میری جان سے پیاری سرلا دیوی جی نے بھی کرم فرمایا ہے اور وہ مضمون کو یک نہ شد دو شد اللہ نے ایک چھوڑ دو بیٹے ایک دم سے جو عنایت کئے ہیں تو بدہضمی تو آپ سمجھیں ویسے ہی بری ہوتی ہے اور پھر خوشی کی، نتینہ یہ کہ غنیمت سمجھے جو خان صاحب نے نواسے کو یتیم نہیں کر دیا اور میں بچ گیا اور پھر وہی رسا کشی!

اور اس اب رسا کشی کا کیا حال ہے۔ اس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ سرلا کے پاس جاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ تم تو مسلمان ہو، ہرگز ہندو نہیں ہو، اور عالم سے لاکھ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں خدارا یقین کر مگر وہ نہیں مانتی۔ آپ جانیں عورت ذات چیز ہی ایسی ہے۔ چنانچہ اب تو یہ مضمون ہے۔

عالمِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اور سرلا یہ سمجھتی ہے مسلماں ہوں میں

اور میں دل میں ہنستا ہوں اور پریشان ہو کر دل میں کہتا ہوں

چہ تدبیر اے مسلمانان کہ من خود را نمی دائم

نہ ترساؤ یہودی ام نہ گبرم نے مسلمانم

قصہ مختصر رسا کشی جاری ہے۔

٭٭٭

ٹائپنگ: مقدس حیات، شمشاد احمد خان، ذیشان حیدر، ذو القرنین ، وجیہہ، محمد امین، فہیم اسلم اور دوسرے اراکینِ اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید