FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

 

 

                عظیم بیگ چغتائی

 

حصہ اول

 

جمع و ترتیب: محمد امین، اعجاز عبید

پیشکش: اردو محفل

 

 

http://urduweb.org/mehfil

 

 

 

 

انگوٹھی کی مصیبت

 

                (۱)

 

میں نے شاہدہ سے کہا۔ "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔”

شاہدہ نے کہا۔ "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے ؟ اچھا جا۔”

میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر والے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا۔”جلدی چلو۔”

ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی، اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لئے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔

"وہ دیکھ! وہ دیکھ!، وہ اچھا ہے ” شاہدہ نے کہا۔

"نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ ادھر سے۔” یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہو گی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔

"یہ لے !” شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط۔”

میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ کیا یہ برا ہے ؟”

"کمبخت یہ دوہاجو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجؤ۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجؤ۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے۔ اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آ کر گلا دبائے گی۔”

"تو تو پاگل ہو گئی ہے۔” میں نے کہا۔ "شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔”

شاہدہ ہنستے ہوئے بولی۔ "میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے۔ اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔ دوسری دیکھ۔”

پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کئے گئے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی۔ اور شاہدہ سے پوچھا۔”یہ کیسا ہے ؟”

شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی۔” ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے ؟”

میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا۔”بی۔اے میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔”

شاہدہ نے کہا۔” ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان!” میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا۔” کمبخت میں نے تجھے اس لئے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے ! غور سے دیکھ۔”

غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی "نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔”

میں نے کہا۔” خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔” یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لئے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔

شاہدہ بولی۔” ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہو گا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائے گی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔”

میں نے کہا۔” بی اے میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائے گا۔” "ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجؤ دو تین دفعہ فیل ہو گا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی

اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارے گا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔”

اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔

"آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔” شاہدہ نے ہنس کر کہا۔” دیکھ تو کمبخت کی ڈاڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے !”

میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔

غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی۔ "ایسے کو بھلا کون لڑکی دے گا؟”۔نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔”

یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی۔ ” یہ تو گبرو جوان ہے ؟ اس تو فورا کر لے ” شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی "یہ ہے کون!ذرا دیکھ۔”

میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔

"بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائے گا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔” شاہدہ نے ہنس کر کہا۔ "میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے ”

میں نے ہنس کر کہا۔ "کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے ؟”

"دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے ”

"بھدا سا ہو گا۔” شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا۔”اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔”

میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لئے کہ مجھے یہ ناپسند تھے، بلکہ محض اس لئے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا” ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔”

"سب ٹھیک ہے۔” شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔”

میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔

پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔” شاہدہ نے جل کر کہا۔ :جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔”

ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گئے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔

شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا۔ "یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکتی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔”

ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔

"ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔” شاہدہ نے کہا۔

میں نے کہا”کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟”

"وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔”

میں نے کہا۔ "واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔”

شاہدہ تیزی سے بولی "بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرے گی تو عمر ختم ہو جائے گی اور رجسٹر تیار نہ ہو گا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔”

یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دے کر کہا۔ "یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائے گی۔”

اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا۔ "اخاہ۔”

"مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔” کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔

ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا۔” اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون؟۔۔۔ ”

تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا "یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔”

"اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔” شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا۔ "صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟”

میں نے کہا۔”ابھی کیا چلتی ہو گی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔”

"تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔” شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔” خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائے گا، سینما اور تھیٹر دکھائے گا اور جلسوں میں نچائے گا۔”

میں نے کہا "کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔”

شاہدہ نے چونک کر کہا "اری بات تو سن۔”

میں نے کہا "کیوں۔”

شاہدہ بولی۔ "صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔”

میں نے کہا۔ "مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔”

"ٹھیک ٹھیک۔” شاہدہ نے سر ہلا کر کہا۔ "بس اللہ کا نام لے کر پھانس” میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کو کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی "الا اللہ!” میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ "وہ مارا۔” غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔

شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ "یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔”

پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بے عیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔

میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے، اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔

میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا۔ ” اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔” میں نے کہا "ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔”

شاہدہ نے جھٹک کر کہا۔ "چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر” میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں، اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لئے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو بہت جلد لٹکائی جائے گی۔”

 

                (۲)

 

اس بات کو مہینہ بھر سے زائد گزر چکا تھا۔ کبھی تو ابا جان اور اماں جان کی باتیں چپکے سے سن کر ان کے دل کا حال معلوم کرتی تھی اور کبھی اوپر جا کر الماری سے خطوط نکال کر پڑھتی تھی۔

میں دل ہی دل میں خوش تھی کہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت بھلا کون ہو گی کہ یک لخت معلوم ہوا کہ معاملہ طے ہو کر بگڑ رہا ہے۔

آخری خط سے معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب کے والد صاحب چاہتے ہیں کہ بس فوراً ہی نکاح اور رخصتی سب ہو جائے اور اماں جان کہتی کہ میں پہلے صرف نسبت کی رسم ادا کروں گی اور پھر پورے سال بھر بعد نکاح اور رخصتی کروں گی کیونکہ میرا جہیز وغیرہ کہتی تھیں کہ اطمینان سے تیار کرنا ہے اور پھر کہتی تھیں کہ میری ایک ہی اولاد ہے۔ میں تو دیکھ بھال کے کروں گی۔ اگر لڑکا ٹھیک نہ ہوا تو منگنی توڑ بھی سکوں گی۔ یہ سب باتیں میں چپکے سے سن چکی تھی۔ ادھر تو یہ خیالات، ادھر بیرسٹر صاحب کے والد صاحب کو بے حد جلدی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ جلدی نہیں کر سکتے تو ہم دوسری جگہ کر لیں گے۔ جہاں سب معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ابا جان نے اس کا کیا جواب دیا، اور میں تک میں لگی ہوئی تھی کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ میرا کیا حال ہوا۔ جب ایک روز چپکے سے میں نے ابا جان اور اماں جان کا تصفیہ سن لیا۔ طے ہو کر لکھا جا چکا تھا کی اگر آپ کو ایسی ہی جلدی ہے کہ آپ دوسری جگہ شادی کیئے لیتے ہیں۔ تو بسم اللہ۔ ہم کو لڑکی بھاری نہیں ہے، یہ خط لکھ دیا گیا اور پھر ان کمبخت مجسٹریٹ کی بات ہوئی کہ میں وہاں جھونکی جاؤں گی۔ نہ معلوم یہ آنریری مجسٹریٹ مجھ کو کیوں سخت ناپسند تھے کہ کچھ ان کی عمر بھی ایسی نہ تھی۔ مگر شاہدہ نے کچھ ان کا حلیہ یعنی ڈاڑھی وغیرہ کچھ ایسا بنا بنا کر بیان کیا کہ میرے دل میں ان کے لئے ذرہ بھر جگہ نہ تھی۔ میں گھنٹوں اپنے کمرے میں پڑی سوچتی رہی۔

اس بات کو ہفتہ بھر بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے ایک روز اسی طرح چپکے سے الماری کھول کر بیرسٹر صاحب کے والد کا ایک تازہ خط پڑھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ خط شاید ابا جان کے آخری خط ملنے سے پہلے لکھا تھا کہ بیرسٹر صاحب کو خود کسی دوسری جگہ جانا ہے اور راستہ میں یہاں ہوتے ہوئے جائیں گے اور اگر آپ کو شرائط منظور ہوئیں تو نسبت بھی قرار دے دی جائے گی۔ اسی روز اس خط کا جواب بھی میں نے سن لیا۔ انہوں نے لکھ دیا تھا کہ لڑکے کو تو میں خود بھی دیکھنا چاہتا تھا، خانہ بے تکلف ہے۔ جب جی چاہے بھیج دیجئے مگر اس کا خیال دل سے نکال دیجئے کہ سال بھر سے پہلے شادی کر دی جائے۔ اماں جان نے بھی اس جواب کو پسند کیا اور پھر انہی آنریری مجسٹریٹ صاحب کے تذکرہ سے میرے کانوں کی تواضع کی گئی۔

ان سب باتوں سے میرا ایسا جی گھبرایا کہ اماں جان سے میں نے شاہدہ کے گھر جانے کی اجازت لی اور یہ سوچ کر گئی کہ تین چار روز نہ آؤں گی۔

شاہدہ کے ہاں جو پہنچی تو اس نے دیکھتے ہی معلوم کر لیا کہ کچھ معاملہ دگرگوں ہے۔ کہنے لگی کہ "کیا تیرے بیرسٹر نے کسی اور کو گھر میں ڈال لیا؟”

میں اس کا بھلا کیا جواب دیتی۔ تمام قصہ شروع سے آخیر تک سنا دیا کہ کس طرح وہ جلدی کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد شادی ہو جائے۔ مگر اماں جان راضی نہیں ہوتیں۔ یہ سب سن کر اور مجھ کو رنجیدہ دیکھ کر وہ شریر بولی "خوب! چٹ منگنی پٹ بیاہ بھلا ایسا کون کرے گا۔ مگر ایک بات ہے۔” میں نے کہا۔ "وہ کیا؟”

وہ بولی۔ "وہ تیرے لئے پھڑک رہا ہے اور یہ فال اچھی ہے۔”

میں نے جل کر کہا۔ یہ تو فال نکال رہی ہے اور مذاق کر رہی ہے۔”

"پھر کیا کروں؟” شاہدہ نے کہا۔ (کیونکہ واقعی وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی ہے۔)

میں نے کہا۔ "کوئی مشورہ دو۔ صلاح دو۔ دونوں مل کر سوچیں۔”

"پاگل نہیں تو۔” شاہدہ نے میری بیوقوفی پر کہا۔ "دیوانی ہوئی ہے، میں صلاح کیا دوں؟

اچھا مجھے پتہ بتا دے۔ میں بیرسٹر صاحب کو لکھ بھیجوں کہ ادھر تو اس چھوکری پر نثار ہو رہا ہے اور ادھر یہ تیرے پیچھے دیوانی ہو رہی ہے، آ کے تجھے بھگا لے جائے۔”

"خدا کی مار تیرے اوپر اور تیری صلاح کے اوپر۔” میں نے کہا۔ "کیا میں اسی لئے آئی تھی؟ میں جاتی ہوں۔” یہ کہہ کر میں اٹھنے لگی۔

"تیرے بیرسٹر کی ایسی تیسی۔” شاہدہ نے ہاتھ پکڑ کر کہا۔ "جاتی کہاں ہے شادی نہ بیا، میاں کا رونا روتی ہے۔ تجھے کیا؟ کوئی نہ کوئی ماں کا جایا آ کر تجھے لے ہی جائے گا۔ چل دوسری باتیں کر۔”

یہ کہہ کر شاہدہ نے مجھے بٹھا لیا اور میں بھی ہنسنے لگی۔ دوسری باتیں ہونے لگیں۔ مگر یہاں میرے دل کو لگی ہوئی تھی اور پریشان بھی تھی۔ گھوم پھر کر وہی باتیں ہونے لگیں۔ شاہدہ نے جو کچھ ہمدردی ممکن تھی وہ کی اور دعا مانگی اور پھر آنریری مجسٹریٹ کو خوب کوسا۔ اس کے علاوہ وہ بیچاری کر ہی کیا سکتی تھی۔ خود نماز کے بعد دعا مانگنے کا وعدہ کیا اور مجھ سے بھی کہا کہ نماز کے بعد روزانہ دعا مانگا کر۔ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کر سکتی تھی اور نہ میں۔

میں گھر سے کچھ ایسی بیزار تھی کہ دو مرتبہ آدمی لینے آیا اور نہ گئی۔ چوتھے روز میں نے شاہدہ سے کہا کہ "اب شاید خط کا جواب آ گیا ہو گا اور میں کھانا کھا کے ایسے وقت جاؤں گی کہ سب سوتے ہوں۔ تاکہ بغیر انتظار کئے ہوئے مجھے خط دیکھنے کا موقع مل جائے۔”

چلتے وقت میں ایسے جا رہی تھی جیسے کوئی شخص اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے جا رہا ہو۔میری حالت عجیب امید و بہم کی تھی۔ نہ معلوم اس خط میں بیرسٹر صاحب کے والد نے انکار کیا ہو گا یا منظور کر لیا ہو گا کہ ہم سال بھر بعد شادی پر رضامند ہیں۔ یہ میں بار بار سوچ رہی تھی۔ چلتے وقت میں نے اپنی پیاری سہیلی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر زور سے دبایا۔ نہ معلوم کیوں میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ شاہدہ نے مذاق کو رخصت کرتے ہوئے کہا۔ "بہن خدا تجھے اس موذی سے بجائے۔ تو دعا مانگ اچھا۔” میں نے چپکے سے کہا۔ "اچھا۔”

 

                (۳)

 

شاہدہ کے یہاں سے جو آئی تو حسب توقع گھر میں سناٹا پایا۔ اماں جان سو رہی تھیں۔ اور ابا جان کچہری جا چکے تھے۔ میں نے چپکے سے جھانک کر ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ آہستہ سے دروازہ بند کیا اور دوڑ کر مردانہ زینہ کا دروازہ بھی بند کر دیا اور سیدھی کمرہ میں پہنچی۔ وہاں پہنچی تو ششدر رہ گئی۔

کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بڑا سا چمڑے کا ٹرنک کھلا پڑا ہے اور پاس کی کرسی پر اور ٹرنک میں کپڑوں کے اوپر مختلف چیزوں کی ایک دکان سی لگی ہوئی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ آخر یہ کون ہے، جو اس طرح سامان چھوڑ کر ڈال گیا ہے۔ کیا بتاؤں میرے سامنے کیسی دکان لگی ہوئی اور کیا کیا چیزیں رکھی تھیں کہ میں سب بھول گئی اور انہیں دیکھنے لگی۔ طرح طرح کی ڈبیاں اور ولائتی بکس تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ میں نے سب سے پیشتر جھٹ سے ایک سنہرا گول ڈبہ اٹھا لیا۔ میں اس کو تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔ یہ گنی کے سونے کا ڈبہ تھا اور اس پر سچی سیپ کا نفیس کام ہوا تھا۔ اودی اودی کندن کی جھلک بھی تھی۔ ڈھکنا تو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس میں موتی جڑے ہوئے تھے اور کئی قطاریں ننھے ننھے سمندری گھونگھوں کی اس خوبصورتی سے سونے میں جڑی ہوئی تھیں کہ میں دنگ رہ گئی۔ میں نے اسے کھول کر دیکھا تو ایک چھوٹا سا پوؤڈر لگانے کا پف رکھا ہوا تھا اور اس کے اندر سرخ رنگ کا پاؤڈر رکھا ہوا تھا۔ میں نے پف نکال کر اس کے نرم نرم روئیں دیکھے جن پر غبار کی طرح پاؤڈر کے مہین ذرے گویا ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھنے کے لئے یہ کتنا نرم ہے، میں نے اس کو اپنے گال پر آہستہ آہستہ پھرایا اور پھر اس کو واپس اسی طرح رکھ دیا۔ مجھے خیال بھی نہ آیا کہ مرے گال پر سرخ پاؤڈر جم گیا۔ میں نے ڈبہ کو رکھا ہی تھا کہ میری نظر ایک تھیلی پر پڑی۔ مہ سبز مخمل کی تھیلی تھی۔ جس پر سنہری کام میں مختلف تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کو اٹھایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ دراصل یہ ولایتی ربڑ کی تھیلی تھی، جو مخمل سے بھی زیادہ خوبصورت اور نرم تھی، میں نے غور سے سنہری کام کو دیکھا۔ کھول کر جو دیکھا تو اندر دو چاندی کے بالوں میں کرنے کے برش تھے اور ایک ان ہی کے جوڑ کا کنگھا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا اور چھوٹی خوبصورت ڈبیوں کو دیکھا۔ کسی میں سیفٹی پن تھا، کسی میں خوبصورت سا بروچ تھا اور کسی میں پھول تھا۔ غرض طرح طرح کے بروچ اور بلاؤس پن وغیرہ تھے۔ دو تین ڈبیاں ان میں ایسی تھیں جو عجیب شکل تھیں۔ مثلاً ایک بالکل کتاب کی طرح تھی اور ایک کرکٹ کے بلے کی طرح تھی۔ ان میں بعض ایسی بھی تھیں جو مجھ سے کسی طرح بھی نہ کھلیں۔ علاوہ ان کے سگریٹ کیس، دیا سلائی کا بکس وغیرہ وغیرہ۔ سب ایسی کہ بس ان کو دیکھا ہی کرے۔

میں ان کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک مخمل کے ڈبہ کا کونہ ٹرنک میں ریشمی رومالوں میں مجھے دبا ہوا نظر آیا۔ میں نے اس کو نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اندر بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کاٹنے اور گھسنے کے اوزار رکھے ہوئے تھے اور ڈھکنے میں ایک چھوٹا سا آئینہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو جوں کا توں اسی جگہ رکھا تو میرے ہاتھ ایک اور مخمل کا ڈبہ لگا۔ اس کو جو میں نے نکال کر کھولا تو اس کے اندر سے سبز رنگ کا ایک فاؤنٹین پن نکلا۔ جس پر سونے کی جالی کا خول چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو بھی رکھ دیا۔ ادھر ادھر دیکھنے لگی کہ ایک چھوٹی سے سنہری رنگ کی ڈبیہ پر نظر پڑی۔ اس کو میں نے کھولنا چاہا۔ مگر وہ کمبخت نہ کھلنا تھی نہ کھلی۔ میں اس کو کھول ہی رہی تھی کہ ایک لکڑی کے بکس کا کونہ نظر پڑا۔ میں نے اس کو فوراً ٹرنک سے نکال کر دیکھا۔ یہ ایک بھاری سا خوبصورت بکس تھا۔ اس کو جو میں نے کھولا تو میں دنگ رہ گئی۔ اس کے اندر سے ایک صاف شفاف بلور کا عطردان نکلا جو کوئی بالشت بھر لمبا اور اسی مناسبت سے چوڑا تھا۔ میں نے اس کو نکال کر غور سے دیکھا اور لکڑی کا بکس جس میں یہ بند تھا، الگ رکھ دیا عجیب چیز تھی۔ اس کے اندر کی تمام چیزیں باہر سے نظر آ رہی تھیں۔ اس کے اندر چوبیس چھوٹی چھوٹی عطر کی قلمیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے خوشنما رنگ روشنی میں بلور میں سے گزر کر عجیب بہار دکھا رہے تھے۔ میں اس کو چاروں طرف سے دیکھتی رہی اور پھر کھولنا چاہا۔ جہاں جہاں بھی جو بٹن نظر آئے میں نے دبائے مگر یہ نہ کھلا۔ میں اس کو دیکھ رہی تھی کہ میری نظر کسی تصویر کے کونے پر پڑی جو ٹرنک میں ذرا نیچے کو رکھی تھی۔ میں نے تصویر کو کھینچ کر نکالا کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک مخمل کی ڈبیہ رومالوں اور ٹائیوں میں لڑھکتی ہوئی چلی آئی اور کھل گئی۔

کیا دیکھتی ہوں کہ اس میں ایک خوبصورت انگوٹھی جگ مگ جگمگ کر رہی ہے۔ فوراً تصویر کو چھوڑ کر میں نے اس ڈبیا کو اٹھایا اور انگوٹھی کو نکال کر دیکھا۔ بیچ میں اس کے ایک نیلگوں رنگ تھا اور ارد گرد سفید سفید ہیرے جڑے تھے۔ جن پر نگاہ نہ جمتی تھی۔ میں نے اس خوبصورت انگوٹھی کو غور سے دیکھا اور اپنی انگلیوں میں ڈالنا شروع کیا۔ کسی میں تنگ تھی تو کسی میں ڈھیلی۔ مگر سیدھے ہاتھ کی چھنگلی کے پاس والی انگلی میں میں نے اس کو زور دے کر کسی نہ کسی طرح تمام پہن تو لیا اور پھر ہاتھ اونچا کر کے اس کے نگینوں کی دمک دیکھنے لگی۔ میں اسے دیکھ بھال کر ڈبیا میں رکھنے کے لئے اتارنے لگی تو معلوم ہوا کہ پھنس گئی ہے۔ میرے بائیں ہاتھ میں وہ بلور کا عطر دان بدستور موجود تھا اور میں اس کو رکھنے ہی کو ہوئی تاکہ انگلی میں پھنسی ہوئی انگوٹھی کو اتاروں کہ ایکا ایکی میری نظر اس تصویر پر پڑی جو سامنے رکھی تھی اور جس کو میں سب سے پیشتر دیکھنا چاہتی تھی۔ اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے۔ میں عطردان تو رکھنا بھول گئی اور فوراً ہی سیدھے ہاتھ سے تصویر کو اٹھا لیا اور کاغذ ہٹا کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ سب سامان بیرسٹر صاحب کا ہے کہ یہ انہی کی تصویر تھی۔ یہ کسی ولایتی دکان کی بنی ہوئی تھی اور رنگین تھی۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ اگر یہ صحیح ہے تو واقعی بیرسٹر صاحب غیر معمولی طور پر خوبصورت آدمی ہیں۔ چہرے کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ سیاہ بال تھے اور آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی۔ چہرہ، آنکھ، ناک، غرض ہر چیز اس صفائی سے اپنے رنگ میں موجود تھی کہ میں سوچ رہی تھی کہ میں زیادہ خوبصورت ہوں یا یہ۔ کوٹ کی دھاریاں ہوشیار مصور نے اپنے اصلی رنگ میں اس خوبی سے دکھائی تھیں کہ ہر ایک ڈورا اپنے رنگ میں صاف نظر آ رہا تھا۔

میں اس تصویر کو دیکھنے میں بالکل محو تھی کہ دیکھتے دیکھتے ہوا کی رمق سے وہ کمبخت باریک سا کاغذ دیکھنے میں متحمل ہونے لگا۔ میں نے تصویر کو جھٹک کر الگ کیا۔ کیونکہ بایاں ہاتھ گھرا ہوا تھا۔ اس میں وہی بلور کا عطردان تھا پھر اسی طرح کاغذ اُڑ کر آیا اور تصویر کو ڈھک دیا۔ میں نے جھٹک کر الگ کرنا چاہا۔ مگر وہ چپک سا گیا اور علیحدہ نہ ہوا۔ تو میں نے منہ سے پھونکا اور جب بھی وہ نہ ہٹا تو میں نے "اونھ” کر کے بائیں ہاتھ کی انگلی سے جو کاغذ کو ہٹایا تو وہ بلور کا عطردان بھاری تو تھا ہی ہاتھ سے پھسل کر چھوٹ پڑا اور چھن سے پختہ فرش پر گر کر کھیل کھیل ہو گیا۔

میں دھک سے ہو گئی اور چہرہ فق ہو گیا۔ تصویر کو ایک طرف پھینک کے ایک دم سے شکستہ عطردان کے ٹکڑے اٹھا کر ملانے لگی کہ ایک نرم آواز بالکل قریب سے آئی "تکلیف نہ کیجئے، آپ ہی کا تھا۔” آنکھ اٹھا کر جو دیکھا تو جیتی جاگتی اصلی تصویر بیرسٹر صاحب کی سامنے کھڑی ہے ! تعجب!! اس تعجب نے مجھے سکتہ میں ڈال دیا کہ الہٰی یہ کدھر سے آ گئے۔ دو تین سیکنڈ تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں کہ ایک دم سے میں نے ٹوٹے ہوئے گلدان کے ٹکڑے پھینک دیے اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر جھٹ سے دروازہ کی آر میں ہو گئی۔

 

                (۴)

 

میری حالت بھی اس وقت عجیب قابل رحم تھی۔ بلیوں دل اچھل رہا تھا یہ پہلا موقع تھا جو میں کسی نامحرم اور غیر شخص کے ساتھ اس طرح ایک تنہائی کے مقام پر تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ عین چوری کرتے پکڑی گئی۔ سارا ٹرنک کرید کرید کر پھینک دیا تھا اور پھر عطردان توڑ ڈالا، اور نہایت ہی بے تکلفی سے انگوٹھی پہن رکھی تھی۔

اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے تھی۔ سارے بدن میں ایک سنسنی اور رعشہ سا تھا کہ ذرا ہوش بجا ہوئے تو فوراً انگوٹھی کا خیال آیا۔ جلدی جلدی اسے اتارنے لگی۔ طرح طرح سے گھمایا۔ طرح طرح سے انگلی کو دبایا اور انگوٹھی کو کھینچا۔ مگر جلدی میں وہ اور بھی نہ اتری۔ جتنی دیر لگ رہی تھی، اتنا ہی میں اور گھبرا رہی تھی۔ پل پل بھاری تھا، اور میں کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ہر طرح انگوٹھی اتارنے کو کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ نہ اترتی تھی۔ غصہ میں میں نے انگلی مروڑ ڈالی۔ مگر کیا ہوتا تھا۔ غرض میں بے طرح انگوٹھی اتارنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکر ہے کہ انگوٹھی آپ کو پسند تو آ گئی۔”

یہ سن کر میرے تن بدن میں پسینہ آ گیا اور میں گویا کٹ مری۔ میں نے دل میں کہا کہ میں منہ چھپا کر جو بھاگی تو شاید انگوٹھی انہوں نے دیکھ لی۔ اور واقعہ بھی دراصل یہی تھا۔ اس جملہ نے میرے اوپر گویا ستم ڈھایا۔ میں نے سن کر اور بھی جلدی جلدی اس کو اتارنے کی کوشش کی مگر وہ انگوٹھی کمبخت ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میرا دل انجن کی طرح چل رہا تھا اور میں کٹی جا رہی تھی اور حیران تھی کہ کیونکر اس نامراد انگوٹھی کو اتاروں۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب آڑ سے ہی بولے۔ "اس میں سے اگر اور کوئی چیز پسند ہو تو وہ بھی لے لیجئے۔” میں نے یہ سن کر اپنی انگلی مروڑ تو ڈالی کہ یہ لے تیری یہ سزا ہے، مگر بھلا اس سے کیا ہوتا تھا؟ غرض میں حیران اور زچ ہونے کے علاوہ مارے شرم کے پانی پانی ہوئی جاتی تھی۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب پھر بولے۔ "چونکہ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اپنی منسوبہ بیوی سے باتیں کرنے کا بلکہ ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ہے لہذا یں اس زریں موقع کو کسی طرح ہاتھ سے نہیں کھو سکتا۔”

یہ کہہ کر وہ دروازہ سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے اور میں گویا گھر گئی۔ میں شرم و حیا سے پانی پانی ہو گئی اور میں نے سر جھکا کر اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا کر کونہ میں موڑ لیا۔ کواڑ میں گھسی جاتی تھی۔ میری یہ حالت زار دیکھ کر شاید بیرسٹر صاحب خود شرما گئے اور انہوں نے کہا۔ "میں گستاخی کی معافی چاہتا ہوں مگر۔۔۔ ” یہ کہہ کر سامنے مسہری سے چادر کھینچ کر میرے اوپر ڈال دی اور خود کمرے سے باہر جا کر کہنے لگے۔ "آپ مہربانی فرما کر مسہری پر بیٹھ جائیے اور اطمینان رکھیے کہ میں اندر نہ آؤں گا۔ بشرطیکہ آپ میری چند باتوں کے جواب دیں۔”

میں نے اس کو غنیمت جانا اور مسہری پر چادر لپیٹ کر بیٹھ گئی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ ” آپ میری گستاخی سے خفا تو نہیں ہوئیں؟”

میں بدستور خاموش انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں لگی رہی اور کچھ نہ بولی بلکہ اور تیزی سے کوشش کرنے لگی تاکہ انگوٹھی جلد اتر جائے۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب بولے۔ "بولیے صاحب جلدی بولیے۔” میں پھر خاموش رہی۔ تو انہوں نے کہا۔ "آپ جواب نہیں دیتیں تو پھر میں حاضر ہوتا ہوں۔”

میں گھبرا گئی اور مجبوراً میں نے دبی آواز سے کہا !جی نہیں” میں برابر انگوٹھی اتارنے کی کوشش میں مشغول تھی۔

بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "شکریہ۔ یہ انگوٹھی آپ کو بہت پسند ہے ؟”

"یا اللہ” میں نے تنگ ہو کر کہا۔ "مجھے موت دے۔” یہ سن کر میں دراصل دیوانہ وار انگلی کو نوچنے لگی۔ کیا کہوں ممیرا کیا حال تھا۔ میرا بس نہ تھا کہ انگلی کاٹ کر پھینک دوں۔ میں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا کہ اتنے میں بیرسٹر نے پھر تقاضا کیا۔ میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی اور دل میں کہہ رہی تھی کہ بھلا اس کا کیا جواب دوں۔ اگر کہتی ہوں کہ پسند ہے تو شرم آتی ہے اور اگر ناپسند کہتی ہوں تو بھلا کس منہ سے کہوں۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ یہ نہ کہدیں کہ ناپسند ہے۔ تو پھر پہنی کیوں؟ میں چپ رہی اور پھر کچھ نہ بولی۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔”شکر ہے عطر دان تو آپ کو ایسا پسند آیا کہ آپ نے اس کو برت کر ختم بھی کر دیا۔ اور گویا میری محنت وصول ہو گئی، مگر انگوٹھی کے بارے میں آپ اپنی زبان سے اور کچھ کہہ دیں تاکہ میں سمجھوں کہ اس کے بھی دام وصول ہو گئے۔”

میں یہ سن کر اب مارے غصے اور شرم کے رونے کے قریب ہو گئی تھی اور تمام غصہ انگلی پر اتار رہی تھی، گویا اس نے عطر دان توڑا تھا۔ میں عطر دان توڑنے پر سخت شرمندہ تھی اور میری زبان سے کچھ بھی نہ نکلتا تھا۔

جب میں کچھ نہ بولی تو بیرسٹرصاحب نے کہا۔”آپ جواب نہیں دیتیں لہذا میں حاضر ہوتا ہوں۔”

میں گھبرا گئی کہ کہیں آنہ جائیں اور میں نے جلدی سے کہا۔ "بھلا اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ آپ کا عطر دان۔۔۔ ”

بات کاٹ کر بیرسٹر صاحب نے کہا۔”خوب! وہ عطردان تو آپ کا ہی تھا۔ آپ نے توڑ ڈالا، خوب کیا۔ میرا خیال ہے کہ انگوٹھی بھی آپ کو پسند ہے جو خوش قسمتی سے آپ کی انگلی میں بالکل ٹھیک آئی ہے اور آپ اس کو اب تک از راہ عنایت پہنے ہوئی ہیں۔”

میں اب کیا بتاؤں کہ یہ سن کر میرا کیا حال ہوا۔ میں نے دل میں خوب انگوٹھی ٹھیک آئی اور خوب پہنے ہوئے ہوں۔ انگوٹھی نہ ہوئی گلے کی پھانسی ہو گئی۔ جو ایسی ٹھیک آئی کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ میں نے دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر یہ کمبخت میری انگلی میں نہ پھنس گئی ہوتی تو کاہے کو میں بے حیا بنتی اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملتا کہ آپ پہنے ہوئے ہیں۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس نامراد انگوٹھی کو اتارنے کے لیے کیا کیا جتن کر چکی ہوں، اور برابر کر رہی تھی۔ مگر وہ تو ایسی پھنسی تھی کہ اترنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ میں پھر خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ مگر انگوٹھی اتارنے کی برابر کوشش کر رہی تھی۔

بیرسٹر صاحب نے میری خاموشی پر کہا۔ "آپ پھر جواب سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔ پسند ہے یا ناپسند۔ ان دو جملوں میں سے ایک کہہ دیجیئے۔”

میں نے پھر غصے میں انگلی کو نوچ ڈالا اور قصہ ختم کرنے کے لیے ایک اور ہی لفظ کہہ دیا۔ "اچھی ہے۔”

"جی نہیں۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "اچھی ہے اور آپ کو پسند نہیں تو کس کام کی۔ علاوہ اس کے اچھی تو خود دکاندار نے کہہ کر دی تھی، اور میں یہ پوچھتا بھی نہیں، آپ بتائیے کہ آپ کو پسند ہے یا ناپسند، ورنہ پھر حاضر ہونے کی اجازت دیجیئے۔”

میں نے دل میں کہا یہ قطعی گھس آئیں گے اور پھر جھک مار کر کہنا ہی پڑے گا، لہذا کہہ دیا۔ "پسند ہے۔” یہ کہہ کر میں دانت پیس کر پھر انگلی نوچنے لگی۔

"شکریہ۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔”صد شکریہ۔ اور اب آپ جا سکتی ہیں۔ لیکن ایک عرض ہے اور وہ یہ کہ یہ انگوٹھی تو بے شک آپ کی ہے اور شاید آپ اس کو پہن کر اتارنا بھی نہیں چاہتی ہیں۔ لیکن مجھ کو مجبوراً آپ سے درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ شام کو مجھ کو چونکہ اور چیزوں کے ساتھ اس کو رسماً بھجوانا ہے لہذا اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو اس وقت اس کو یہاں چھوڑتی جائیں۔ میں علیحدہ ہوا جاتا ہوں۔ خدا حافظ۔”

یہ کہہ کر وہ ہٹ گئے۔ اور میں نے ان کے جانے آواز سنی۔ وہ سامنے کے غسل خانے میں چلے گئے۔ دراصل وہ اسی غسل خانے میں کنگھا وغیرہ کر رہے ہوں گے۔ جب میں بے خبری میں آ کر پھنس گئی۔

اب میں سخت چکر میں تھی اور انگلی سے انگوٹھی اتارنے کی سر توڑ کوشش کی گھبراہٹ اور جلدی میں پاگل سی ہو رہی تھی۔ پریشان ہو کر میں نے علاوہ ہاتھ کے، دانتوں سے بھی امداد لی۔ اور انگلی میں کاٹ کاٹ کر کھایا مگر وہ کمبخت انگوٹھی جان لیوا تھی اور نہ اترنا تھی نہ اتری۔ میں نے تنگ آ کر اپنا سر پیٹ لیا اور رو رو کر کہا۔ "ہائے میرے اللہ میں کس مصیبت میں پھنس گئی۔ یہ کمبخت تو میری جان لیے لیتی ہے۔”

بیرسٹر صاحب غسل خانے میں کھڑے کھڑے تھک گئے اور میں وہیں کی وہیں تھی۔ وہ لوٹ آئے اور بولے۔ "معاف کییجیئے نہیں معلوم تھا کہ انگوٹھی اتارنے پر آپ رضامند نہیں اور اس شرط پر جانا بھی نہیں چاہتیں۔ مگر چونکہ اس رسم کا نام ہی انگوٹھی کی رسم ہے، لہذا میں اس کی خالی ڈبیہ رکھ دوں گا۔ اور کہلا دوں گا کہ انگوٹھی آپ کے پاس ہے۔” یہ کہہ کر ذرا رک کر بولے۔”اور تو کسی بات کا خیال نہیں صرف اتنا کہ آپ کے والد اس کو بدقسمتی سے دیکھ چکے ہیں۔”

میں اپنی انگلی توڑ رہی تھی اور یہ سن کر گھبرا گئی۔ یہ تو خیر مذاق تھا کہ وہ کہہ دین گے انگوٹھی میرے پاس ہے۔ مگر میں سوچ رہی تھی کہ جب ابا جان انگوٹھی دیکھ چکے ہیں تو آخر بیرسٹر صاحب ان سے اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔

اتنے میں بیرسٹر صاحب کو شبہ گزرا کہ میں اس وجہ سے نہیں جا رہی ہوں کہ کہیں وہ غسل خانہ میں سے مجھ کو جاتے ہوئے نہ دیکھ لیں۔ لہذا وہ ایک دم سے بولے۔ "اوہو! اب میں سمجھا۔ لیجیے بجائے غسل خانہ کے زینے میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔”

میں بے حد پریشان تھی، مجبور تھی کہ اس غلط فہمی کو جلد از جلد دور کر دوں اور اصل وجہ بتا دوں۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ الہی کیا کرعں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن، تو میرا حال تھا اور بیرسٹر صاحب نہ جانے کیا خیال کر رہے تھے۔ بالاخر جب میں نے دیکھا کہ اب یہ زینے میں روپوش ہونے جا رہے ہیں تو مرتا کیا نہ کرتا، تنگ آ کر نہ معلوم میں نے کس طرح دبی آواز میں کہا۔ "وہ نہیں اترتی۔”

ادھر تو میرا یہ حال تھا اور ادھر بیرسٹر صاحب گویا مارے خوشی کے اچھل پڑے، اور انہوں نے ہنس کر بڑی خوشی کے لہجہ میں جیسے کوئی بے تکلفی سے کہتا ہے۔ کہا۔ "واللہ!یہ معاملہ ہے !! خدا کرے نہ اترے۔”

میں بھلا اس جملے کے بعد کیا بولتی۔ اسی طرح چپ تھی۔ اور اپنی بنتی کوشش کر رہی تھی کہ انگوٹھی اتر آئے۔ لیکن جب دیر ہوئی تو انہوں نے کہا۔”اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو میں اتار دوں۔”

یا اللہ! میں نے اپنے دل میں کہا۔ اب کیا کروں۔ میں تو نہ اترواؤں گی۔ یہ طے کر کے میں پھر کوشش کرنے لگی۔ مگر توبہ کیجیئے وہ بھلا کیوں اترتی۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے کہا۔”وہ آپ سے ہر گز نہ اترے گی۔ کوئی حرج نہیں ہے میں باہر سے اتار دوں گا۔”

میں چونکہ اب تنگ آ گئی تھی اور اس مصیبت سے کسی نہ کسی طرح جان چھڑوانا چاہتی تھی لہذا میں نے مجبوراً ہار کر مسہری پر بیٹھ کر ہاتھ دروازے سے باہر کر دیا۔

بیرسٹر صاحب نے انگلی ہاتھ میں لے کر کہا۔ "شاباش اس انگوٹھی کو! کیوں صاحب تعریف تو آپ بھی کرتی ہوں گی کہ میں کسی ناپ تول کے ٹھیک ٹھیک انگوٹھی لایا ہوں۔ وہ انگوٹھی ہی بھلا کس کام کی جو یہ تماشا نہ دکھائے۔”

میں مجبور تھی اور چار و ناچار سن رہی تھی۔ مگر اس جملے پر مجھ کو اس مصیبت میں ڈال دیا۔ انگلی کو انہوں نے خوب ادھر ادھر سے دیکھ کر اور دبا کر کہا۔ "یہ تو پھنس گئی ہے۔” یہ کہہ کو وہ اتارنے کی کوشش کرنے لگے۔

ایک دم سے بولے۔ "اخاہ! معاف کیجیئے گا۔ آپ بتا سکتی ہیں کہ اس غریب انگلی پر دانت کس نے تیز کیے ہیں۔؟”

میں نے جھٹ شرمندہ ہو کر ہاتھ اندر کر لیا۔

"لائیے۔ لائیے۔”بیرسٹڑ صاحب نے کہا۔ "اب میں کچھ نہ کہوں گا۔”

مجبورا پھر ہاتھ بڑھانا پڑا۔ اور انہوں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کرنا شروع کی۔ انہوں نے خوب خوب کوشش کی۔ خوب دبایا، اور وہ بھی ایسا کہ درد کے مارے میرا حال برا ہو گیا۔ مگر وہ دشمن جان انگوٹھی نہ اترنا تھی نہ اتری۔ لیکن وہ بے چارے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے اتنے میں کسی نے مردانہ زینے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیرسٹر صاحب غسل خانے کی طرف چلے کہ "آج شام نہ سہی کل شام مگر براہ کرم یہ انگوٹھی جچ طرح بھی ممکن ہو میرے پاس ضرور پہنچا دیجیئے گا۔” چلتے چلتے وہ ایک ستم کا فقرہ اور کہہ گئے اور وہ یہ کہ "سرخ پاؤڈر کی آپ کو چنداں ضرورت تو نہ تھی۔”میں کٹ ہی تو گئی۔ کیونکہ کم بختی سے ایک گال پر سرخ پاؤڈر لگائے ہوئے تھی جو انہوں نے دیکھ لیا تھا۔

ادھروہ غسل خانے میں بند ہوئے اور ادھر میں چادر پھینک کر سیدھی بھاگی؛ اور اپنے کمرے میں آ کر دم لیا۔ سب سے پہلے آئینہ جو دیکھا تو ایک طرف کے گال پر سرخ پوڈر رنگ دکھا رہا تھا اپنے کو کستی رہ گئی اور پونچھتی گئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے انگلی پر ایک پٹی باندھی تاکہ انگوٹھی چھپ جائے اور بہانہ کر دوں کہ چوٹ لگی ہے۔

 

                (۵)

 

خیر سے یہ بہانہ کارگر ہوا اور اماں جان نے چوٹ یا زخم تک کی وجہ نہ پوچھی۔ میں نے سر درد کا بہانہ کر دیا اور وہ ملازمہ سے یہ کہہ کر چپ ہو رہیں۔ "رہنے دے اس کو منگیتر آیا ہوا ہے۔ شرم کی وجہ سے نہیں نکل رہی۔” انہیں یا ملازمہ کو بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ کمبخت اس سے ملاقات کر آئی ہے اور صرف ملاقات ہی نہیں بلکہ تمام چیزیں اس کی بگاڑ آئی ہے۔

تیسرے پہر کا وقت تھا اور مجھ کو ہر لمحہ شاہدہ کا انتظار تھا۔ اس کو میں نے بلوایا تو اس نے انکار کر دیا۔ کیونکہ آج ہی تو میں اس کے یہاں سے آئی تھی۔ میں نے پھر اس کو ایک خط لکھا تھا کہ”بہن خدا کے واسطے جس طرح بھی بن پڑے جلد آ، ورنہ میری جان کی خیر نہیں۔” اس خط کے جواب میں اس کا انتظار بڑی بے چینی سے کر رہی تھی۔

میں جانتی تھی کہ وہ ضرور آئے گی۔ چنانچہ وہ آئی۔ میں اس کو لینے بھی نہ گئی۔ اماں جان سے کو معلوم ہوا کہ بیرسٹر صاحب آئے ہوئے ہیں۔ اس کی گھبراہٹ رفع ہو گئی اور ہنستی ہوئی آئی اور آتے ہی اس نے نہ سلام نہ دعا کہا۔ "اری کمبخت باہر جا کے ذرا مل تو آ۔”

"میں تو مل بھی آئی۔” میں نے مسکرا کر کہا۔ "تجھے یقین نہ آئے تو یہ دیکھ۔” یہ کہہ کر میں نے انگلی کھول کر دکھائی۔

میں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ تفصیل سے سنایا تو شاہدہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ بولی۔ "تو نے بڑی مزیدار ملاقات کی۔” یہ کہہ کر وہ چٹکیاں لینے کو آگے بڑھی۔ میں نے کہا۔ "ملاقات تو گئی چولہے میں، اب اس ناہجار انگوٹھی کو کسی طرح اتارو، چاہے انگلی کٹے یا رہے۔ مگر تو اسے اتار دے اور اسی لیے تجھے بلایا ہے۔”

اب میں چکرائی کہ یہ کس طرح جائے گی۔ ایسے جانا چاہیے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے۔ کچھ سوچ کر شاہدہ نے کہا کہ "میں پان میں رکھ کر بھیج دوں گی۔ نوکرانی سے کہلوا دوں گی کہ یہ پان ان کے ہاتھ میں دینا اور کہہ دینا کہ تمہاری سالی نے دیا ہے۔”

یہ تجویز مجھے پسند آئی۔ کیونکہ اماں جان یہی خیال کرتیں کہ پان میں کچھ مذاق ہو گا۔ جو نئی بات نہ تھی۔

جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو شاہدہ نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش شروع کی۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اس کا اترنا آسان کام نہیں ہے، تیل اور صابن کی مالش کی گئی مگر نے کار جب ہر طرح کوشش کر لی تو شاہدہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ انگلی سوج گئی ہے اور یہ خدا ہی جو اتارے۔ غرض گھنٹوں اس میں کوشش اور محنت کی گئی۔ بورا سینے کا بڑا سوا لایا گیا۔ چھوٹی بڑی قینچیاں آئیں۔ موچنا لایا گیا۔ کاک نکالنے کا پیچ اور مشین کا پیچ کس۔ غرض جو بھی اوزار ممکن تھا لایا گیا اور استعمال کیا گیا مگر سب بے کار۔

رات کو اسی فکر میں مجھ سے کھانا بھی نہ کھایا گیا۔ تھک کت میں بیٹھ گئی۔ اور رو رو کر شاہدہ سے کہتی تھی کہ "خدا کے لیے کوئی صورت نکال۔” رات کو گرم پانی میں انگلی ڈبوئی گئی۔ اور طرح طرح سے ڈورے ڈال کو کھینچی گئی مگر کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رہ رہ کر میں پریشان ہوتی تھی اور شاہدہ جب کوشش کر کے تھک جاتی تھی تو یہ کہتی تھی کہ "خدا کے واسطے مجھے اس انگوٹھی کی مصیبت سے نکال۔”

"آخر تو عشق بازی کرنے گئی ہی کیوں تھی؟” شاہدہ نے خود تنگ ہو کر مجھ سے پوچھا۔

"خدا کی مار پڑے تمہاری عشق بازی پر۔ میں تو اس مصیبت میں گرفتار ہوں اور تمہیں یہ مذاق سوجھ رہا ہے۔” میں نے منہ بنا کر کہا۔

"یہ عشق بازی نہیں تو اور کیا ہے ؟ گئیں وہاں اور شوق سے پاؤڈر اور مسی لگاتے لگاتے میاں کے چونچلے میں آکر انگوٹھی پہن لی۔” شاہدہ نے کہا۔ "اب عشق بازی کے مزے بھی چکھو۔ مزے مزے کی باتیں تو کرنے گئیں، اور اب۔۔۔۔”

میں نے اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کر کے کہا۔ "خدا کے لیے ذرا آہستہ بولو۔”

"قینچی سے انگوٹھی کتر دوں۔” نہ بہن کتراؤں گی نہیں۔ نہ معلوم کتنی قیمتی انگوٹھی ہو گی، ایک تو میں شامت کی ماری عطردان توڑ آئی اور اب اسے کاٹ ڈالوں۔”

"بھلا مجال ہے جو وہ چوں بھی کر جائے۔ ابھی کہلوا دوں، میاں راستہ دیکھو، ہماری چھوکری فاضل نہیں، کہیں اور مانگ کھاؤ۔” یہ کہہ کر شاہدہ نے قینچی لی، اور مجھ سے کہا "لاؤ ادھر لاؤ”

"نہیں نہیں” میں نے کہا۔” ایسا نہ کرو۔” پھر وہی کوششیں جاری ہو گئیں۔ غرض انگوٹھی نے رات کو سونا حرام کر دیا۔ رات بھی انگلی طرح طرح سے کھینچی گئی، کبھی میں اپنے آپ کو خوب کوستی تھی اور کبھی انگوٹھی کو برا بھلا کہتی تھی۔ اور کبھی گڑگڑا کر دعا مانگتی تھی کہ خدایا میری مشکل آسان کر دے۔

مجبور ہو کر صبح میں نے شاہدہ سے کہا کہ”اب میری انگلی ویسے بھی درد کے مارے پھٹی جا رہی ہے ؛ تو کاٹ دے۔”

شاہدہ نے قینچی سے کاٹنے کی کوشش کی۔ امید تھی کہ سونا ہے اور آسانی سے کٹ جائے گا مگر وہ گنی کا سخت سونا تھا اور تھوڑی دیر بعد معلوم ہو گیا کہ اس کو کاٹنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ طرح طرح کے اوزار استعمال کیے گئے مگر سب بیکار۔ اب تو میں اور بھی گھبرا گئی اور ایسی حواس باختہ ہوئی کہ شاہدہ سے کہنے لگی کہ مجھے زہر مل جائے تو میں کھا کر اپنا قصہ ختم کر دوں۔

اب شاہدہ بھی متفکر تھی، اور اس نے بہت سوچ سمجھ کر مجھ سے نرمی سے کہا، کہ "اب صرف ایک ترکیب ہے۔”

"وہ کیا؟”

"وہ یہ ہے۔” شاہدہ نے مسکرا کر کہا۔ "وہ یہ کہ تم اوپر جاؤ اور اپنے چہیتے سے نکلواؤ، ورنہ شام تک پکڑی جاؤ گی۔ اور ناک چوٹی کٹے گی۔”

"میں تو کبھی نہ جاؤں گی۔” میں نے کہا۔

"یہ باتیں، اور وہ بھی ہم سے !” شاہدہ نے کہا۔ "ذرا دل سے تو پوچھ” میں نے واقعہ کہا کہ”خدا کی قسم میں کسی طرح بھی جانا پسند نہیں کرتی۔ میں اس وقت بدبخت انگوٹھی کی بدلے جان سے بیزار ہو رہی ہوں۔”

شاہدہ بولی۔ "مذاق نہیں کرتی۔ خواہ پسند کرو یا نہ کرو، جانا ضرور پڑے گا۔ کیونکہ گھر کے کسی اوزار سے بھی ناممکن ہے کہ یم یا تم اسے اتار یا کاٹ سکیں۔”

میں چپ بیٹھی رہی اور سوچتی رہی۔ شاہدہ نے آہستہ آہستی سب اونچ نیچ بتائی کہ کوئی نقصان نہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس قدر شرمیلے اور باحیا ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کوئی چارہ ہی نہ تھا اور مجبوراً میں راضی ہو گئی۔

 

                (۶)

 

جب سناٹا ہو گیا تو اوپر پہنچی اور شاہدہ بھی ساتھ تھی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر میرا قدم نہ اٹھتا تھا۔ شاہدہ نے مجھے ہٹا کر جھانک کر دیکھا۔ کواڑ کی آواز سن کو بیرسٹر صاحب نکل آئے، کیونکہ وہ شاہد منتظر ہی تھے۔ وہ سیدھے غسل خانہ میں بند ہونے چلے۔ وہ جیسے ہی دروازے کے سامنے آئے، اس شریر شاہدہ کی بچی نے مجھے ایک دم سے آگے کر کے دروازہ تیزی سے کھول کع اندر کو زور سے دھکیل دیا وہ اتنے قریب تھے کہ میں سیدھے ان سے لڑ گئی۔ وہ اس نا معقولیت کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ "ارے ؟” کہہ کر انہوں نے مجھے ہاتھوں سے روکا۔ وہ خود بے طرح گھبرا گئے۔ میری حالت پر انہوں نے رحم کھا کر منہ موڑ لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ میرا کیا حال ہوا۔ دروازہ شاہدہ نے بند کر لیا تھا۔ میں سیدھی کمرے میں گھس گئی اور چادر میں کسی اپنے کو لپیٹ کر بیٹھ گئی۔

بیرسٹر صاحب آئے تو سب سے پہلے انہوں نے سلام کر کے ذبردستی اندر گھسنے کی دھمکی دے کر جواب لیا اور پھر مزاج پوچھا۔ اس لے جوان میں میں نے ہاتھ دروازہ سے باہر کر دیا۔

"یہ کیا حالت ہے ؟” بیرسٹر صاحب نے انگلی کو دیکھ کر کہا۔

"معلوم ہوتا ہے کہ انگلی اور انگوٹھی دونوں پر آپ نے عمل جراحی کیا ہے۔”

میں کچھ نہ بولی، اور انہوں نے انگلی کو چاروں طرف سے اچھی طرح دیکھا اور پھر پوچھا۔

"براہ مہربانی پہلے یہ بتا دیجئے کہ یہ کون شریر ہیں جنہوں نے آپ کو میرے اوپر دھکیل دیا۔ آپ کے لگی تو نہیں؟”

میں نے صرف ایک لفظ کہا۔ "شاہدہ۔”

"آپ کی کوئی ہمجولی معلوم ہوتی ہیں۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "ماشاءاللہ ہیں بڑی سیدھی۔”

میں نے دل میں شاہدہ کی شرارت پر ہنسنے لگی۔ کہ دیکھو اس کمبخت نے کیسی شرارت کی۔

"میں صابون لاتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ صابون لینے گئے۔ مجھ سے کہا بھی نہ گیا کہ صابون کی مالش ہو چکی ہے۔ بیرسٹر صاحب نے صابون سے خوب مالش کی۔ اور پھر طرح طرح سے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی گئی مگر سب بے سود ثابت ہوئی۔ جب ہر طرح طرح وہ کوشش کر چکے تو تھک کر انہوں نے کہا۔ "یہ انگوٹھی آپ پہنے رہیے۔ میری قسمت اچھی ہے۔ ورنہ ہزار روپیہ خرچ کرتا جب بھی اس ناپ کی انگوٹھی مجھے نہ ملتی۔”

میں گھبرا گئی اور مجھے شرم آئی۔ بجائے منہ سے بولنے کے میں نے ہاتھ کو جھٹکا کہ گویا اتار دیجیئے۔

"اب نہیں اتر سکتی۔” انہوں نے نہایت لاپروائی سے کہا۔ "پہنے رہیے۔” میں سخت گھبرائی اور شرم و حیا اب رخصت کر کے بولی۔ "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کیجئے۔ اور کوئی تدبیر کیجیئے۔ خواہ انگلی کٹے یا رہے۔”

بیرسٹر صاحب بولے۔ "اتر تو سکتی ہے۔ مگر آپ منظور نہ کریں گی۔”

میں چپ رہی کپ الہٰی کیوں نہ منظور کروں گی بیرسٹر صاحب بھی چپ رہے۔ مجبور ہو کر میں نے پھر بے حیا بن کر کہا۔ "مجھے سب منظور ہے، اتر جائے۔”

مجھے قطعی معلوم نہ تھا کہ اس سے ان کا کیا مطلب ہے۔ وہ یہ سن کر اندر چلے آئے۔ میں چادر میں منہ چھپا کر بالکل سکڑ گئی۔ وہ پلنگ کے سامنے بالکل میرے مقابل ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے دراصل اس میں تین ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ آپ کو منظور ہو تو میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے آہستہ آہستہ صابون لگا کر دباتا ہوں، آپ اپنے ہاتھ سے انگوٹھی اوپر کرنے کی کوشش کریں ورنہ اور کوئی تدبیر نہیں۔

مجبوری سب کچھ کرواتی ہے۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے صابون کی مالش کر کے انگلی دبائی اور میں نے انگوٹھی اتارنے کی کوشش کی۔

میرا سر اور منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ کیونکہ میں سر سے پاؤں تک چادر میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھی اس لیے میں ٹٹول کو انگوٹھی اوپر کر رہی رھی۔ دو مرتبہ انگوٹھی چکر کھا کر انگلی کی گرہ پر سے لوٹ گئی۔ بیرسٹر صاحب نے جب تیسیر مرتبہ دیکھا کہ میں کہیں کی کہیں سرکاتی ہوں تو انہوں نے کہا۔ "آپ کو تو انگوٹھی اتروانے کے لیے سب منظور ہے کیونکہ اس کام میں تین ہاتھوں کے علاوہ دراصل چار آنکھوں کی بھی ضرورت ہے۔ اور بدقسمتی سے یہاں صرف دو ہی کام کر رہی ہیں۔مگر آپ کو سب منظور ہے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ایکھ جھٹکے سے میری چادر اتار لی اور کھینچ کر اس کو الگ پھینک دیا۔ میں سمٹ سی گئی اور میں نے اپنا منہ گود میں چھپا کر چادر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

"یہ کہہ کر وہ واقعی بالکل نیچی نظر کر کے پھر سے کوشش کرنے لگے۔ میں پھر چادر کی طرف بڑھی تو انہوں نے انگلی گھسیٹ کر روکا اور کہا۔ "آپ دوسرا ہاتھ منہ پر رکھے ہیں، کیا میری قسسم کا آپ کو اعتبار نہیں؟ بخدا میں آپ کو ہر گز نہ دیکھوں گا۔”

یہ انہوں نے اسی طرح کہا جیسے کوئی برا مان کر کہتا ہے۔ میں نے مجبوراً ہاتھ ہٹا کر، انگلی کو دبانا شروع کیا۔ مگر کیا کہوں میرا کیا حال تھا۔ حالانکہ وہ میری طرف بالکل نہیں دیکھ رہے تھے اور دیدہ و دانستہ ضرورت سے زیادہ گردن جھکائے تھے مگر پھر بھی میں سمٹی جا رہی تھی، دونوں ہاتھ علیحدہ تھے اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ چہرہ کدھر لے جاؤں۔

لیکن یہ حالت تھوڑی ہی دیر رہی۔ کیونکہ انہوں نے کہا کہ "آپ تو اتارنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لیتی ہیں۔” میں سب گویا بھول کو کوشش کرنے لگی۔

دونوں کی کوششیں جاری تھیں۔ لیکن میں رہ رہ کر اپنی نظریں انگوٹھی پر سے ہٹا کر بیرسٹر صاحب کی کشادہ پیشانی اور صاف شفاف جھکے ہوئے چہرے پر بھی ڈالتی تھی۔ کبھی میں ان کے پپوٹوں کو دیکھتی اور کبھی کبھی لمبی لمبی پلکوں کو دیکھتی تھی۔۔۔ مجھ کو یہ معلوم نہ تھا کہ جب میں ایسا کرتی ہوں تو میرا ہاتھ کام کرنے سے خود بخود رک جاتا ہے اور جو شخص غور سے انگلی اور انگوٹھی کی طرف دیکھ رہا ہے وہ آسانی سے بغیر میرے چہرے کو دیکھے ہوئے معلوم کر سکتا ہے کہ میری آنکھیں اب کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔ چنانچہ ایک مرتبہ میں نے ہمت کر کے بیرسٹر صاحب کے چہرے کو غور سے نظر بھر کر دیکھا، وہاں میرا ہاتھ معطل ہو گیا تو بیرسٹر صاحب نے مجبوراً تنگ آ کر کہا۔ "مجھے آپ بعد میں فرصت میں دیکھ لیجئے گا۔ اس وقت براہ کرم ادھر دیکھیئے۔” یہ کہہ کر انہوں نے میری انگلی کو جھٹکا مجھے اس قدر شرمندگی معلوم ہوئی کہ میں نے جھٹ اپنا منہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے چھپا لیا۔

بیرسٹر صاحب نے کہا: ” اچھا معاف کیجئے۔” اور یہ کہہ کر اسی طرح نیچی نظر کیے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر کام میں لگا دیا۔

پھر میری ہمت نہ پڑی کہ بیرسٹر صاحب کی طرف دیکھوں اور بڑے غور سے میں نے اپنی انگوٹھی اتروانے کی کوشش کی۔ خوب خوب ہم دونوں نے کوشش کی۔ مگر وہ دشمن جان نہ اترنا تھی نہ اتری۔ جب بیرسٹر صاحب زچ آ گئے اور کوئی امید نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا اور اسی طرح نظر نیچی کیے ہوئے بولے۔ "یہ نہیں اتر سکتی، کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ آپ نے یہ کس مقصد سے پہنی تھی؟”

میں جھینپ گئی اور میں نے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپا لیا۔

بیرسٹرصاحب نے کہا۔ "بس ایک سوال کا جواب دے دیجئے، تو ابھی آپ کو خلاصی مل جائے۔ وہ یہ کہ آپ صرف یہ بتا دیں کہ آخر قبل از وقت آپ نے اسے کیوں پہن لیا” ہاتھ کو انہوں نے آہستہ سے جھٹک کر کہا۔ "بولیے۔”

میں کچھ نہ بولی تو انہوں نے کہا۔ "تو پھر آپ جانیں اور آپ کا کام، میں صرف اسی شرط پر مشکل آسان کر سکتا ہوں۔”

میں نے بڑی کوشش سے زبان ہلائی۔ کہا۔ "یونہی۔” میں اپنی آنکھوں کے گوشہ سے کہنی کی آڑ سے بیرسٹر صاحب کے خوبصورت چہرہ کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی۔۔ ان کی لمبی لمبی سیاہ پلکیں بدستور اسی طرح زمین کی طرف جھکی ہوئی تھیں۔

انہوں نے میرا جواب سن کر نہایت ہی سادگی سے کہا۔ "آپ کے والد صاحب قبلہ تو سال بھر کا وقت مانگتے ہیں۔مگر شکر ہے کہ آپ خود۔۔۔ ” انہوں نے شاید میرے اوپر رحم کیا کہ جلد پورا نہ کیا۔ گو کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ایک دم سے بات بدل کر بولے۔ "آپ کے جواب کا شکریہ، اب عرض یہ ہے کہ انگوٹھی کٹ کر اترے گی اور مجھ کو بازار سے جا کر خود ریتی لانا پڑے گی۔”

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگے۔ میں نے موقع کو غنیمت خیال کر کے چادر قبضے میں کر کے اپنے اوپر ڈال لی۔مجھے ایک دم سے خیال آیا کہ ایک چھوٹی سی ریتی میں اس چھوٹے سے بکس میں دیکھی تھی جس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے ناخن کترتے اور گھسنے اوزار رکھے تھے۔ میں بولنے ہی کو تھی کہ بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "میں اس مقام سے واقف نہیں؛ مگر جاتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے ریتی ڈھونڈ کر لاتا ہوں۔ آپ مناسب خیال کریں تو اندر چلی جائیں۔” یہ کہہ کر وہ کھونٹی کی طرف اپنی ٹوپی لینے بڑھے۔

میں نے ہمت کر کے صرف کہا کہ۔۔ "ہے۔”

"کہاں ہے۔” بیرسٹر صاحب نے مڑ کر پوچھا۔

میں نے جواب میں ٹرنک کی طرف انگلی اٹھا دی۔

"میرے ٹرنک میں؟” بیرسٹر صاحب نے متعجب ہو کر پوچھا۔ "میرے ٹرنک میں؟”

"جی” میں نے دبی آواز میں کہا۔

"کم از کم ابھی تک تو مجھے ریتی اور پھاوڑے سوٹ کیس میں رکھنے کی ضرورت پڑی نہیں۔ آئندہ خدا مالک ہے۔ وہ اور بات ہے کہ جب آپ۔۔۔” اتنا کہہ کر رک گئے لیکن میں سمجھ گئی کہ خواہ مخواہ کی چوٹ مجھ پر کستے ہیں۔ بولے کہ۔ ” تو آپ پھر تکلیف کر کے نکال بھی دیں۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ میرے پاس کوئی ریتی یا پھاؤڑہ نہیں ہے۔”

اٹھنا تو پڑتا ہی۔ یہ سوچ کر کہ اس بھلے آدمی کو ذرا قائل ہی کر دوں، میں اٹھی۔ انہوں نے بڑھ کر سوٹ کیس کو کھول دیا۔ میں اِدھر اُدھر دیکھ کر اور چیزیں الٹ پلٹ کر وہ بکس نکال کر ان کے سامنے ڈال دیا۔

” اوہو! بے شک اس میں ضرور ہو گی۔ معاف کیجیے گا۔ آپ نے خود ہی تو میرے ٹرنک کا جائزہ لیا ہے، مگر دیکھ لیجیے، پھاؤڑہ نہیں ہے۔”

ان کی آنکھیں واقعی اسی طرح تھیں کہ میں آزادی سے بار بار دیکھ رہی تھی۔ مگر وہ بے چارے قسم کھانے کو بھی پلک نہ اٹھاتے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ کتنے اچھے اور شرمیلے شخص ہیں۔

بکس میں سے ایک لمبی سی سیپ کے دستہ کی نازک سی ریتی نکلی اور بیرسٹر صاحب نے کہا، "اگر اب تین ہاتھ اور چار آنکھیں کام میں لگیں تو بس پانچ منٹ کا کام ہے۔” چونکہ کافی دیر ہو گئی تھی۔ میں نے بہت دیکھ بھال کے اپنی انگلی اچھی طرح پکڑ لی، اس طرح کہ انگوٹھی نہ ہٹ سکے اور بیرسٹر صاحب نے ایک باریک اور تیز ریتی سے اس ظالم انگوٹھی کو کاٹنا شروع کیا۔ دراصل اس کا ریتنا بھی دشوار ہو رہا تھا کیونکہ اِدھر اُدھر انگلی کا گوشت ابھرا ہوا تھا۔ بیرسٹرصاحب انگوٹھی کاٹنے میں مشغول تھے اور میں کمبخت آنکھ کے گوشے سے ان کی لمبی لمبی پلکیں اور صاف و شفاف پیشانی دیکھ رہی تھی۔ انگوٹھی کو کاٹتے کاٹتے بیرسٹر صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ "آپ نے مجھ کو اچھی طرح دیکھا ہے ؟”

میں نے کچھ جواب نہ دیا تو انہوں نے کہا۔ "تو پھر کام چھوڑے دیتا ہوں ورنہ جواب دیجیے۔” یہ کہہ کر انہوں نے ہاتھ روک لیا۔

مجھ کو جلدی ہو رہی تھی اور میں سمجھی کہ یہ سوال اسی جواب پر ختم ہو جائے گا۔ لہٰذا میں نے کہہ دیا۔ "جی ہاں۔” یہ کہہ کر میں شرما گئی۔

بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "مگر میں نے اب تک آپ کو نہیں دیکھا ہے سوائے ایک جھلک کے۔ اور وہ بھی محض اتفاقاً۔”

دراصل یہ واقعہ تھا کہ مجھے انہوں نے ایک مرتبہ بھی نظر بھر کر نہ دیکھا تھا حالانکہ ان کو میں برابر دیکھتی رہی تھی۔ جس سے انکار ہی نہ کر سکتی تھی۔ میں چپ ہو رہی اور کچھ نہ بولی۔ انگوٹھی ذرا سی رہ گئی تھی اور بیرسٹر صاحب نے ہاتھ روک کر اسی طرح نظر نیچی کئے ہوئے کہا۔ "اتنی محنت میں نے مفت کر دی۔ لیکن اب میں بغیر مزدوری لئے قطعی نہیں کر سکتا۔ وعدہ کیجیے۔ کیونکہ یہ تو بے انصافی ہے کہ آپ مجھ کو دیکھ لیں اور میں نہ دیکھوں۔”

میں چپ رہی اور چادر سے منہ کو اچھی طرح چھپانے لگی کہ انہوں نے انگلی بھی چھوڑ دی۔ مجھ کو سخت جلدی ہو رہی تھی اور میں نے پریشان ہو کر کہا۔ "خدا کے واسطے۔”

"بس۔ بس۔ یہ لیجئے۔” یہ کہہ کر انہوں نے چشم زون میں انگوٹھی کو کاٹ کر نکال دیا اور میری جان میں جان آئی۔

"میری مزدوری۔” بیرسٹر صاحب نے کہا۔

میں نے اور بھی چادر میں منہ چھپا لیا۔

"یہ نہیں ہو سکتا۔” یہ کہہ کر انہوں نے ایک جھٹکے سے چادر کو منہ سے الگ کر دیا۔

سیدھا ہاتھ میرا پکڑے ہوئے تھے۔ میں نے ہاتھ کی کہنہ اپنے منہ پر رکھ لی۔

"یہ کوئی انصاف نہیں ہے۔” بیرسٹر صاحب بولے۔” اگر آپ کو کافی فرصت ہے تو بسم اللہ! اسی طرح بیٹھی رہیں۔”

میں سخت گھبرا رہی تھی اور سر زمین کی طرف جھکائے ہوئے کہنی سے منہ چھپائے بیٹھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیسے جان چھڑاؤں، سیدھا ہاتھ تو وہ پکڑے ہی تھے، انہوں نے کہا۔ "معاف کیجئے گا۔” اور یہ کہہ کر میرا بایاں ہاتھ جس سے منہ چھپائے تھی، میرے منہ سے ہٹا دیا۔ مجبوراً میں نے اپنا منہ کندھوں اور گریبان اور اپنی گود میں چھپانے کی کوشش کی۔ تو انہوں نے ہاتھ چھوڑ کر اپنے ہاتھ سے میری ٹھوڑی اوپر کو کی تو میں نے پھر اپنا ہاتھ آزاد پا کر اس سے چہرہ ڈھک لیا۔ زچ ہو کر بیرسٹر صاحب نے کہا، "کاش کہ میرے تین ہاتھ ہوتے۔” قصہ مختصر وہ میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیتے تو میں گود میں منہ چھپا لیتی اور ہاتھ چھوڑ کر میرا سر اوپر کرتے تو میں ہاتھ سے چھپا لیتی۔

تنگ آ کر بیرسٹر صاحب نے کہا۔ "اب دیر ہو رہی ہے۔ خواہ کچھ ہی ہو آپ کو نجات اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک کہ آپ ایمانداری سے میری مزدوری نہ چکا دیں۔ مجبوراً اپنی جان چھڑانے کے لئے میں نے لمحہ بھر کے لئے آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ چہرے پر نہ لے گئی۔ میں نے آنکھیں کھولی تو ان کو اپنے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے پایا۔ اور دوسرا ہاتھ بھی جھٹک کر میں نے چھڑا لیا اور دونوں ہاتھوں سے منہ چھپا کر چادر کو اکٹھا کر کے جانے کے لئے سرکی۔

میں چلنے ہی کو تھی کہ انہوں نے نرم آواز میں کہا۔ "ٹھہریے۔” میں نے جھانک کر دیکھا تو وہ سوٹ کیس میں سے کوئی چیز نکال رہے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا اور اس میں سے ایک سونے کی گھڑی نکال کر میری کلائی پر باندھی اور کہا۔ "بقیہ چیزیں شام کو۔” اتنا کہہ کر میرا ہاتھ پکڑ کر ذرا جھٹک کر کہا۔ "ہمیں بھولو گی تو نہیں؟”

میں کچھ نہ بولی۔ مگر اپنی کہنی اور چادر کی آڑ سے ان کے خوبصورت چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ کیا کہوں کہ اس جملہ کا میرے دل پر کیسا اثر ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے یہ الفاظ دل سے کہے تھے۔

ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے پھر یہی کہا اور جب میں پھر کچھ نہ بولی تو بائیں ہاتھ سے میری ٹھوڑی اوپر اٹھا کر کہا۔ "خدا کے واسطے بھولو گی تو نہیں۔”

میں نے سر ہلا کر بتایا کہ نہیں بھولوں گی۔ وہ جھکے ہوئے تھے اور میری آنکھیں چادر کے کونے سے چار ہوئیں۔ کیونکہ میں کمبخت پھر جھانک رہی تھی۔ میرا یہ سر ہلانا بس غضب ہی تو ہو گیا۔ ایک ہاتھ تو میری ٹھوڑی پر تھا۔ دوسرے ہاتھ سے بے خبری میں انہوں نے جھٹک کر میرا ہاتھ چہرے سے الگ کر دیا۔ "بھولنا مت بھولنا مت، بھولنا مت۔” خدا کی پناہ! میری آنکھیں بند ہو گئیں اور سانس رک گئی۔

جس طرح بھی بن پڑا میں اس مصیبت سے اپنی جان چھڑا کر بھاگی اور تیر کی طرح دروازے میں گھس گئی۔

"اری یہ کیا؟! یہ کیا؟!” شاہدہ نے مجھے بے ترتیب اور حیران دیکھ کر کہا، یہ کیا؟

میں نے بن کر کہا۔ "کچھ نہیں، ہوتا کیا۔”

شاہدہ بولی۔ "خالہ آئی تھیں اور پوچھتی تھیں۔”

میں سن سی ہو گئی اور گھبرا کر میں نے کہا۔ "پھر تم نے کیا کہہ دیا۔”

شاہدہ نے نہایت سادگی سے کہا۔ "کہتی کیا؟ میں نے کہہ دیا کہ شہد کھا رہی ہے ابھی آتی ہے۔”

"خدا کی مار تیرے اوپر، تو نے مجھے دہلا دیا۔؟”

وہ بولی۔ "ذرا مجھے بتا تو سہی کہ یہ کیا ہو رہا تھا۔؟ کمبخت۔۔۔”

میں نے بات کاٹ کر کہا۔ "ہم نہیں بتاتے ” یہ کہہ کر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ گھسیٹا۔ کمرہ میں آئی اور اسے وہ گھڑی دکھانے لگی۔ جو بیرسٹر صاحب نے تحفتاً پہنا دی تھی۔

شاہدہ نے اس میں کوک بھری اور پھر کان سے لگا کر کہنے لگی۔ اب تو نے بیرسٹر کو پھانس لیا۔ اور وہ سال بھر چھوڑ! دو سال انتظار کرے گا، مگر کرے گا تجھی سے۔”

شام کو تمام دوسری چیزیں مثلاً پوڈر کا ڈبہ اور دوسری ڈبیاں وغیرہ وغیرہ مع انگوٹھی کے آئیں۔ نہ معلوم کس سے اس قدر تھوڑے وقت میں بیرسٹر صاحب نے انگوٹھی کو اس صفائی سے جڑوایا کہ سوائے شاہدہ کے کسی کو پتہ بھی نہ چلا۔ ابا جان کو بیرسٹر صاحب نے پھسلا کر راضی کر لیا اور وہ سال بھر کے بجائے چھ مہینے پر آ گئے۔

بیرسٹر صاحب دو مہینہ بعد پھر آئے۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ وہ ضرور مجھ سے ملنا چاہتے ہوں گے، بلکہ شاید اسی امید پر آئے ہوں گے۔ مگر میں جھانکنے تک نہ گئی۔ کچھ تحفہ وغیرہ بھجوا کر چلے گئے۔

چھ مہینوں میں سے چار مہینے تو گزر گئے ہیں اور دو مہینے باقی ہیں۔ کچھ بھی ہوا، اچھا یا برا، مگر ااس انگوٹھی کی مصیبت کو عمر بھر نہ بھولوں گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

یکہ

 

"دس بجے ہیں۔” لیڈی ہمت قدر نے اپنی موٹی سی نازک کلائی پر نظر ڈالتے ہوئے جماہی لی۔ نواب ہمت قدر نے اپنی خطرناک مونچھوں سے دانت چمکا کر کہا۔ "گیارہ، ساڑھے گیا بجے تک تو ہم ضرور پھو۔۔۔۔ ہونچ۔۔۔۔ بغ۔۔۔۔”

موٹر کو ایک جھٹکا لگا اور تیوری پر بل ڈال کر نواب صاحب نے ایک چھوکرے کے ساتھ موڑ کا پہئے گڑھے سے نکالا۔ اور عجیب لہجہ میں کہا۔ "لاحول ولا قوۃ کچی سڑک۔۔۔۔”

گرد و غبار کا ایک طوفانِ عظیم پہئے کے نیچے سے اٹھا کہ جو ہم نے اپنے موٹر کے پیچھے چھوڑا۔ "کتنے میل اور ہوں گے ؟” لیڈی ہمت قدر نے مسکرا تے ہوئے پوچھا۔

میں نے کچھ سنجیدگی سے جواب دیا۔ "ابھی اٹھائیس میل اور ہیں۔” نواب صاحب نے موٹر کی رفتار اور تیز کر دی۔

"حضور آہستہ آہستہ، حضور راستہ خراب ہے۔” پیچھے سے مودبانہ طریقے سے شوفر نے نواب صاحب کی خدمت میں عرض کی۔ مگر نواب صاحب کو تیز موٹر چلانے کی پرانی عادت تھی اور انہوں نے کہا "ہش” اور شاید موٹر کو اور تیز کر دیا کیونکہ کچی سڑک سے جی گھبرا گیا تھا۔

 

                (۱)

 

موٹر پوری رفتار سے ہچکولے کھاتا چلا رہا تھا۔ اور ہم لوگ موٹر کی عمدہ کمانیوں اور ملائم گدوں پر بجائے ہچکولوں سے تکلیف اٹھانے کے مزے سے جھولتے جا رہے تھے۔

سامنے ایک نالائق یکہ جا رہا تھا۔ دور ہی سے نواب صاحب نے ہارن دینے شروع کر دیے تاکہ یکہ پیشتر ہی سڑک کے ایک طرف ہو جائے اور موٹر کی رفتار کم نہ کرنی پڑے۔ مگر یکے کی تیزی ملاحظہ ہو کہ جب تک وہ ایک طرف ہو موٹر سر پر پہنچا اور مجبوراً رفتار کم کرنا پڑی۔ نواب صاحب نے لال پیلے ہو کر یکے کی طرف منہ کر کے گویا حقارت سے "ہاؤ” کر دیا۔ واللہ عالم یکے والے نے سن بھی لیا اور نہیں۔

چشم زون میں وہ نالائق یکے مع اپنے یکہ والے کے گرد و غبار کے طوفان میں غلطاں و پیچاں ہو کر نہ معلوم کتنی دور رہ گیا۔

لیڈی ہمت قدر نے یکہ کو مڑ کر دیکھنے کی ناکام کوشش کی اور پھر مسکرا کر اپنے قدرتی لہجے میں کہا۔ "آپ نے اس کو دیکھا؟ اس کو، یکہ کو! بخدا کیا سواری ہے۔ قیامت تک منزل مقصور پر پہنچ ہی جائے گا۔ کیا آپ کبھی۔۔۔ معاف کیجئے گا۔۔۔ کبھی یکے پر آپ بیٹھے ہیں؟”

"جی ہاں۔” میں نے ہنس کر کہا۔ "بیٹھا ہوں اور اکثر بیٹھا ہوں۔”

نواب ہمت قدر نے موٹر کی رفتار اور تیز کرے ہوئے کہا۔ "قیں! ہیں اچھا یکے پر!! آپ یکے پر بیٹھے ہیں! خوب! بھئی معاف کرنا بڑی ذلیل اور واہیات سواری ہے۔ ہمارے عالی خاندان کا کوئی فرد کبھی یکے پر نہیں بیٹھا۔”

پھر کچھ لا پرواہی سے نواب صاحب بولے۔ "واللہ اعلم اس پر کیسے سفر کرتے ہیں۔ بڑی واہیات سواری ہے۔” نواب صاحب نے کچھ غرور و تمکنت کے لہجہ میں جملہ ختم کیا۔

"پھر لطف یہ!” لیڈی ہمت بولیں۔” لطف یہ کہ تین تین آدمی ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔” مجھ سے پوچھا۔ "کیوں صاحب آپ تنہا بیٹھے ہیں یا کئی آدمیوں کے ساتھ؟”

میں تنہا بھی بیٹھا ہوں اور ہم کل چار آدمی بھی بیٹھے ہیں اور پانچواں یکہ والا۔

"پانچ آدمی!” لیڈی ہمت قدر چیخ کر بولیں۔ "ایں پانچ آدمی! چر۔۔۔۔ پانچ آدمی۔۔۔۔ آؤ!”

موٹر کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ پشت پر سے شوفر لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گور میں آ گرا۔ نواب صاحب نے اسٹیرنگ وہیل چھوڑ کر کرنٹ کا تماشا کیا۔ یعنی بیٹھے بیٹھے الٹی قلابازی ایسی کھائی کہ گدے پر میرے اوپر گرے اور ساتھ ہی اس گڑبڑ میں ایک بم کا سا گولہ پھٹا۔ لیڈی ہمت قدر کی فلک شگاف چیخ اور موٹر کے ٹائر کی بم باری اور نواب صاحب کا میرے اوپر گرنا اور پھر تمام باتوں کا نتیجہ یعنی بدحواسی۔ موٹر کے اندر ہی اندر قیامت بپا ہو گئی۔ ہوش بجا ہوئے تو معلوم ہوا کہ خیریت گزری۔ محض پھاندا پھوندی رہی۔ میں نے اپنے اوپر نواب صاحب کے گرنے کی خود الٹی ان سے معذرت چاہی۔ شریف آدمی ہیں۔ انہوں نے کچھ خیال نہیں کیا بلکہ مجھ سے پوچھا کہ لگی تو نہیں۔ میرے سینہ میں نواب صاحب کا سر گولے کی طرح آ گر لگا تھا۔ مگر میں نے کہا بالکل نہیں لگی۔ یہ طے کر لیا گیا کہ سب سے زیادہ لیڈی ہمت قدر کے لگی ہے اور سب سے کم شوفر کے اسی مناسبت سے دراصل ہم نے ایک دوسرے کی مزاج پرسی بھی کی تھی۔

بہت جلد دوسرا پہیہ چڑھا لیا گیا۔ لیکن اب جو چلاتے ہیں تو موٹر نہیں چلتا۔ بہت جلد وجہ معلوم ہو گئی۔ پٹرول کی ٹنکی میں ایک سوراخ تھا جس کو کاگ لگا کر بند کیا گیا تھا وہ دھچکے سے اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ واللہ اعلم کچھ دیر پہلے یا اب، کچھ بھی ہو، پٹرول بہہ چکا تھا۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو زمین تر تھی۔ اب کیا ہوا اسٹیشن یہاں سے اٹھائیس میل ہو گا اور پھر کچی سڑک اور جانا اس قدر ضروری۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔

عین اس گھبراہٹ اور یاس کے عالم میں کیا دیکھتے ہیں کہ عین سڑک کی سیدھ میں گویا افق سڑک پر نیر امید طلوع ہوا۔ یعنی اس ٹوٹے پھوٹے یکے کی چھتری چمکی۔ پھر اس کے بعد یکے کا ہیولا نظر آیا۔ جس نے برق رفتاری کے ساتھ یکہ مجسم کی صورت اختیار کر لی۔

ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور کبھی یکے کو حتی کہ قریب پہنچا، برابر آیا، کچھ ہلکا پڑا اور قریب قریب رک سا گیا۔ بلکہ یکے والے کے گر آلود چہرے پر کچھ خوشی کی جھلک کے ساتھ لبوں کو حرکت بھی ہوئی۔ مگر یہاں سب خاموش۔ لیڈی ہمت قدر نے عین اس موقع پر ایک عجیب نظر ڈال کر آنکھوں ہی آنکھوں میں خجالت سے شاید مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے معاً لیڈی ہمت قدر کی طرف دیکھا جنہوں نے کنکھیوں سے یکے کے پہئے کی طرف دیکھ کر اپنی نازک سی چھتری سے زمین کریدنا شروع کی۔ یکہ آگے نکل چکا تھا۔ دراصل مصیبت تو یہ تھی کہ سوائے میرے یہاں کسی کو یکے والے کو پکارنا تک نہیں آتا۔ میں البتہ ماہر تھا۔ مجبوری بری بلا ہے۔ میں نے نواب صاحب اور لیڈی ہمت قدر کی خفت دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔؏

مہربان آپ کی خفت مرے سر آنکھوں پر

اور پھر حلق پھاڑ کی آواز دی۔ "ابے او یکے والے۔”

 

                (۲)

 

اب سوال یہ تھا کہ لیڈی ہمت قدر اس پر کیسے بٹھائی جائیں۔ نواب صاحب نے مجھ سے کہا۔ "آپ ہی کوئی ترکیب نکالئے۔” کیونکہ سوائے میرے اور کون یہاں یکے کا ماہر تھا۔ لیڈی ہمت قدر کا ایک طرف سے میں نے بازو پکڑا اور دوسری طرف سے نواب صاحب نے۔ بیگم صاحبہ نے ایک پیر دھرے پر رکھا اور دوسرا پہیہ کے حال پر اور اس کے بعد شاید اڑنے کی کوشش کی ہال پر سے پیر سرک گیا اور وہ پرکٹی مینا کی طرح میری طرف پھڑ پھڑائیں، کیا کرتا مجبوراً میں نے ان کو لحاظ کے مارے چھوڑ دیا ورنہ وہ میری گود میں ہوتیں۔ انہوں نے ہاتھ پیر بھی آزاد پا کر چلا دیے اور ان کے بوٹ کی اونچی اور نوکیلی ایڑی قابل احترام شوہر کی ناک پر لگی۔ نتیجہ یہ کہ نواب صاحب پہیہ کے پاس دراز۔ میں نے کہا یا علی! نواب صاحب مونچھیں جھاڑتے ہوئے مجھ سے شکایت کرتے ہوئے اٹھے اور بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ اب یہ طے پایا کہ یکے کو موٹر کے پاس کھڑا کیا جائے۔ برابر نواب صاحب بیٹھے اور آگے میں بیٹھا۔ یکے والے نے ٹخ ٹخ کی صدا بلند کی۔ "چوں چرغ چوں۔” اور یکہ چل دیا۔

نواب صاحب اور لیڈی صاحبہ کو معلوم ہوا کہ خود اپنے جوتوں سے اپنے کپڑے میلے ہو رہے ہیں۔ فوراً معاملہ میرے سامنے پیش کی کر کے اس کا علاج مجھ سے پوچھا۔ یکہ والے نے فوراً کہا۔ "آپ دونوں اپنے اپنے جوتے اتار کر ہاتھ میں لے لیجئے۔ تاکہ میں آگے والے گھاس کے ڈبہ میں رکھ دوں۔” اور گھاس کا ڈبہ کھولا تو اس میں دو تین رسیاں، ایک چلم، ایک ہتھوڑی، چند کیلیں وغیرہ تھیں۔ نواب صاحب اب تک خاموش تھے، یکے والے پر سخت خفا ہوئے۔ میں نے نواب صاحب کو سمجھا دیا کہ کپڑے تو جوتے سے میلے ہونا لازمی ہی ہیں۔ پھر اس یکے کی خوبیوں کا تذکرہ کیا کہ جس میں پیر رکھنے کا پائیدان بھی ہوتا ہے۔ وہ ہوتا تو غالباً لیڈی ہمت قدر کو چڑھنے میں یہ دقتیں پیش نہ آتیں۔

یکہ والے نے اپنی پوزیشن اس طرح صاف کی کہ "صاحب پائیدان کمانی دار یکے میں ہوتا ہے اور میں کچی سڑک پر چلاتا ہوں، لہٰذا کمانی دار یکے نہیں رکھتا، ورنہ دو دن میں کمانیاں چور چور ہو جائیں۔” یکہ والا کچھ فلسفیانہ رنگ میں آ کر بولا۔ "حضور یہاں تو ب "کھڑیا” یکہ چلتا ہے۔ کچی سڑک کا یہ بادشاہ ہے۔ نہ لوٹے اور نہ یہ ٹوٹے اور مسافر بھی آرام سے چین کی ہنسی بجاتا ہے۔”

"چپ” نواب صاحب ے بھنا کر یکے والے سے کہا۔

 

                (۳)

 

تھوڑی دیر بعد نواب صاحب نے پینترے بدلنا شروع کئے۔ ان کاگھٹنا میری پیٹھ میں بری طرح گڑ رہا تھا۔ لیڈی ہمت قدر ایک ہاتھ سے اپنی نازک چھتری لگائے تھیں اور دوسرے ہاتھ سے یکے کا ڈنڈا پکڑے تھیں۔ ان کے دونوں ہاتھ کبھی کے دکھ چکے تھے۔ ہر جھٹکے پر وہ اس طرح چیختی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ گر گئیں۔ نواب صاحب کے موذی گھٹنے کے گڑنے کی وجہ سے میں دھیرے دھیرے آگے سرکتا جاتا تھا۔ مگر جتنا میں ہٹتا اتنا شاید نواب صاحب کا گھٹنا اور بڑھ جاتا تھا۔ میری عقل کام نہ کرتی تھی کہ کیا کروں جو اس گھٹنے سے پناہ ملے۔

اتنے میں ایک جھٹکا لگا اور نواب صاحب کی ناک یکہ کے آگے والے ڈنڈے میں لگی۔ عین اس جگہ جہاں میں اس کو ہاتھ سے پکڑے تھا۔ میری چھنگلی کچل گئی۔ "لگی تو نہیں۔” نواب صاحب نے مجھ سے پوچھا۔ "آپ کے تو نہیں لگی۔” میں نے ان کی لال ناک دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں کو زور سے لگی تھی۔ میری چھنگلی میں، ان کی ناک میں مگر دونو ں جھوٹ بولے اور جواب واحد تھا۔ "جی نہیں، بالکل نہیں۔” واقعی جھٹکا ایسا لگا کہ اگر کہیں میری انگلی اس جگہ پر نہ ہوتی تو نواب صاحب کی ناک پچی ہو جگاتی۔

"ذرا ادھر ہٹئے۔” لیڈی ہمت قدر نے نواب صاحب سے روکھے لہجے میں کہا۔ نواب صاحب نے اپنی پیاری بیگم کے کہنے سے کروٹ سی بدل کر کوئی آدھ انچ گھٹنا اور میری پیٹھ میں گھسیڑ دیا۔

میں نے گھٹنے کی نوک تو! ہاں صاحب، نوک کو! جو بری طرح تکلیف دے رہی تھی۔ ذرا سرک کر دوسرے حصہ جسم پر لیا۔

"تیز نہیں چلاتا۔” یکے والے سے نواب صاحب نے حلق پھاڑ کر کہا۔ اس نے سوت کی رسی کی لگام کو جھٹکا دے کر گھوڑے کو ٹٹخارہ دیا اور لگام کے زائد حصہ کو گھما کر دو طرفہ گھوڑے کو جھاڑ دیا اور پھر دوبارہ جو گھما کر سڑاگا دیا تو میری عینک لگام کے ساتھ اڑ چلی اور قبل اس کے کہ میں اپنی ناک پر ہاتھ لے جاؤں کہ کہیں عینک مع ناک کے تو نہیں چلی گئی، عینک مع رسی کے لیڈی ہمت قدر کے بالوں میں جا الجھی۔ لیڈی ہمت قدر نے چیخ نکالی۔ رسی میری ناک کے نیچے سے ہوتی ہوئی گئی تھی۔ گویا ایک دم سے میرے منہ میں لگام دے دی گئی۔ قدرتی امر کہ میرا ہاتھ ساتھ ساتھ اس پر پہنچا اور لیڈی صاحبہ کے میری عینک نے بال کھینچ لئے ! وہ بولیں۔ "چیخ۔۔۔۔ چر۔۔۔ چیں۔”

عینک با احتیاط تمام لیڈی موصوفہ کے بالوں کو سلجھا کر نکالی گئی۔ یکے والا مارے ڈر کے کانپ رہا تھا۔ خوب ڈانٹا گیا بلکہ پٹتے پٹتے بچا۔ پھر سنبھل کر بیٹھے اور اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا ایک آدھ انچ اور میری کمر میں در آیا، مجبوراً میں کچھ اور آگے سرکا۔ مگر وہاں جگہ کہاں؟ میں پیشتر ہی کگر پر آ گیا تھا۔

لیڈی ہمت قدر پر تین طرح کا سایہ تھا۔ ایک تو خود نواب صاحب کا، دوسرے یکے کی چھتری کا اور تیسرے خود ان کی نازک چھتری کا۔ مگر دھوپ تیز تھی۔ یکہ کی چھتری ظاہر ہے کہ اگر کچھ پناہ دھوپ سے دیتی ہے تو وہ بھی ٹھیک بارہ بجے اور بارہ بجنے میں ابھی دیر تھی۔

باوجود ہر طرح کے سایہ کے لیڈی ہمت قدر گرمی سے حیران تھیں۔ سڑک ذرا بہتر آ گئی تھی۔ اور یکہ اب رونی کے ساتھ چلا جا رہا تھا۔ اور ظاہر اور کوئی تکلیف نہ تھی۔ اب ایسے موقع پر گرمی کی تکلیف لامحالہ محسوس ہوئی اور لیڈی ہمت قدر نے کچھ بے چین ہو کر کہا۔ "خدا کی پناہ مری جا رہی ہوں گرمی سے۔۔۔۔”

جملہ پورا نہ ہوا تھا کہ یکہ والے نے اپنی سریلی آواز میں مصرعہ کھنچا۔ "ہم مرے جاتے ہیں۔ تم کہتے ہو حال اچھا ہے۔۔۔”

"ابے نالائق۔” یہ کہہ کر ایک طرف سے نواب صاحب گرجے اور دوسری طرف ایک کہنی اس کی بغل میں مار کر میں برس پڑا۔ "بے ہودہ، نالائق، بدتمیز۔” پھر نواب صاحب اس طرح گڑگڑائے اور بڑبڑائے جیسے کوئی بڑا خالی برتن پانی میں غرق ہوتا ہے۔ اور اس بری طرح ڈپٹا اور ساتھ ساتھ اس ڈپٹ کے کوئی آدھ انچ اور نواب صاحب نے اپنا "باریک” گھٹنا (موٹے تازے تھے ) میری کمر میں بھونک دیا۔

دراصل اس وقت یکے والے کی خطا نہ تھی۔ اگر لمبے راستے کا ایک سست یکے پر آپ کو سفر کرنے کا موقع ملا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یکہ گھوڑے کی طاقت کے مطابق ایک پرسکون اور مستقل رفتار اختیار کر لیتا ہے، جھٹکے منظم ہو جاتے ہیں۔ جھکولوں کا ایک سائیکلک آرڈر (ترجمہ غالباً نظام تسلسل) قائم ہو جاتا ہے۔ پہیہ کی چرخ چوں ایک ٹائمنگ (ترجمہ۔ غالباً تعین وقت) کی پابند ہو جاتی ہے۔ گھوڑے کے قدم نپے تلے پڑتے ہیں۔ مسافروں کے سر مقررہ حدود میں ایک تنظیم کے ماتحت ہلتے ہیں۔ آپس میں سر ٹکرانے کا امکان جاتا رہتا ہے۔ غرض جب ہر چیز منظم ہو کر یکے کو مجسم پوئٹری آپ موشن (ترجمہ غالباً نظم الحرکات) بنا دیتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یکہ چل نہیں رہا ہے بلکہ بہہ رہا ہے اور پھر یکے والے کی طبیعت ایک عجیب پر کیف ہو جاتی ہے۔ خصوصاً جب کہ کرایہ معقول ملا ہو۔ وہ کچھ سینے کے بل جھک کر آنکھیں نیم باز کئے ہوئے نہ معلوم کہاں پہنچتا ہے۔ اس کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ یکے پر کون ہے کون نہیں۔ اور نتیجہ یہ کہ وہ الاپ اٹھتا ہے۔ لہٰذا اگر غور سے دیکھا جائے تو یہاں یکے والے کی کوئی خطا نہ تھی۔

میں نے اس فلسفے کو نواب صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ بیگم صاحبہ آدھے سے زیادہ اس فلسفے کو سمجھ چکی تھیں کہ انہوں نے ایک دم سے چہرہ وحشت زدہ بنا کر ریل کی سی سیٹی دینے کی کوشش کی اور چھتری دو ر پھینکی۔ "ارے روک روک۔” ایک طرف سے نواب صاحب چیخے اور دوسری طرف سے میں چلایا۔ "کمبخت روک”

بیگم صاحبہ کی ریشمی ساڑھی پہیہ میں الجھ کر رہ گئی اور اگر یکہ نہ رکتا تو چونکہ ریشم مضبوط ہوتا ہے، ضرور نیچے آتیں۔ یہاں سے مہارانی دروپدی کا سا قصہ شروع ہوتا ہے۔ ساڑھی کا زریں کام سب خراب ہو گیا تھا۔ نواب صاحب بہادر یکہ بان پر بے حد برافروختہ تھے نہ اس وجہ سے کہ ساڑی قیمتی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ پہیہ نے بیگم صاحب کی لا پرواہی سے فائدہ ناجائز اٹھاتے ہوئے گستاخی کی تھی اور قصور یکہ کا تھا اور یکہ خود یکہ والے کا۔

میں چونکہ یکے پر بیٹھنے کا ماہر تھا، لہٰذا میری طرف نواب صاحب نے سوالیہ صورت بنا کر دیکھا کیونکہ میں نے یکے والے کو ایک لفظ نہ کہا تھا۔ چنانچہ میں نے تصدیق کی بے شک ایسا بھی ہوتا ہے اور اس میں یکے والے کی کوئی خطا نہ تھی۔ بشرطیکہ وہ یکے کو روکنے میں خواہ مخواہ دیر نہ کر لے۔ لیڈی ہمت قدر نے مجھ سے پوچھا۔ "کیوں صاحب، کیا آپ کی بیوی کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہے ؟” میں نے جواب دیا۔ "میری تو خدا کے فضل سے بچی ہی ہیں مگر خود میرے ساتھ کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے، اور اچکن کا دامن اکثر خراب ہو گیا ہے۔”

 

                (۴)

 

"یہ کیل تو مارے ڈالتی ہے۔” نواب صاحب نے کچھ بیکل ہو کر پینترا بدلا اور کیل کی جگہ کو ٹٹول کر میری کمر میں آدھ انچ اور اپنا گھٹنا پیوست کر دیا۔ نواب صاحب بھاری بھرکم آدمی تھے۔ آپ کہیں گے کہ ان کا گھٹنا اور "باریک” تو عرض ہے کہ ایک موٹی چیز بھی جس وقت مستقل طور پر جسم میں پیوست ہونے کی کوشش کرتی ہے اور وہ بھی پھر یکے پر تو اس کی چبھن کسی طرح نوک دار چیز کی چبھن سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتی۔ میں خوش تھا کہ نواب صاحب کی ران میں کیل چبھ رہی ہے اور میرا بدلا لے رہی ہے۔ حالانکہ یکے پر گدی تھی اور اس پر دوہری چادر مگر یکہ نواب صاحب کو بے کل کئے دیتی تھی۔

تھوڑی دیر بعد نواب صاحب اس کیل سے پریشان ہو کر اکڑوں کی قسم کی کروٹ سے بیٹھ گئے۔ ان کا سر عجیب طرح یکے کے جھکولوں کے ساتھ گردش کر رہا تھا یعنی اس طرح کہ اگر ان کی ناک پر پینسل باندھ دی جاتی اور اس کے سامنے کاغذ ہوتا تو ایک گول حلقہ بن جاتا۔ لیڈی ہمت قدر کو ایسے جھٹکے لگ رہے تھے کہ اگر ان کی ناک پر پینسل ہوتی تو آدھا حلقہ تو ٹھیک بنتا مگر پھر پینسل کاغذ میں چبھ جاتی۔ میری ناک شاید لہریا بناتی اور یکے والا چونکہ جھکا ہوا تھا لہٰذا اس کی ناک سطریں کھینچ رہی تھی۔ غرض اس طرح ہم سب اقلیدس کی شکلیں حل کرتے چلے جا رہے تھے۔

ماہرین فلکیات کا ایک عجیب نظریہ ہے۔ اور وہ یہ کہ نظام شمسی کے تمام اجسام مقررہ حدود کے اندر اپنے اپنے قواعد کے مطابق اصطلاح میں کشش رکھتے ہیں اس نظریہ کی رو سے قیامت جب آئے گی جب اس کشش میں فرق پڑے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ تمام اجسام بے قابو ہو کر آپس میں لڑ جائیں گے۔ حسن اتفاق کہ اس نظریہ کی تفسیر یکہ پہ پیش آنا تھی۔ ایک معمولی سے گڑھے پر نہایت ہی معمولی سا جھٹکا لگا۔ مگر یہ جھٹکا تھا جس نے گویا نظام شمسی کو درہم برہم کر دیا۔ آپس میں ہم سب کے سر لڑ گئے اور پھر علیحدہ ہو کر ڈنڈوں میں جا لگے اور کچھ تو اس وقتی ابتری سے ہوا نہیں مگر اس سلسلہ میں نواب صاحب کا گھٹنا میری کمر میں پھر در آیا، میں بالکل کگر پر تھا اور وہ اب قصہ ماضی کی بات تھی جب ان کا گھٹنا آدھ آدھ انچ سرکتا تھا اب تو جگہ ہی نہ تھی اور میں طوطے کی طرح اڈے پر بیٹھا ہوا تھا۔

یکہ کا دباؤ ویسے ہی تھا، یعنی آگے کو مائل تھا۔ قسمت کی خوبی نواب صاحب نے اس نامعقول سی وجہ سے ایک معمولی سے جھٹکے سے بیکل ہو کر ایک دم سے اچھل کر بوجھ آگے ڈال دیا۔ یکے کا ساز کیا تھا۔ بس رسیوں کی جکڑ بندی تھی۔ واللہ عالم جھٹکے سے مگر میں کہتا ہوں کہ شاید قصداً لیڈی ہمت قدر نے ایک چیخ کے ساتھ اپنی چھوٹی سی چھتری میرے سر پر رکھ کر اپنی طرف زور سے گھسیٹی۔ ادھر میں پر کٹے طوطے کی طرح نواب صاحب کے گھٹنے کی بدعتوں کی وجہ سے گویا اڈے پر بیٹھا ہی تھا۔ وہاں سوائے کگر کے رہ ہی کیا گیا تھا۔ ہم جو ایک دم سے زمین پر آ لگے تو میں آگے کو گرا چھتری منہ پر چھڑی تھی، دکھائی کیا دیتا خاک اور پھر دکھائی بھی دیتا تو بے کار۔ جھٹکے سے چھتری تو بعد میں الگ ہو گئی۔ مگر میں عجیب طرح گرا، اور دور تک اپنی ناک زمین سے صرف بالشت بھر اونچی کئے دوڑا ہی چلا گیا اور پھر ہر قدم پر یہ امید تھی کہ بدن قابو میں آ جائے گا اور کھڑا ہو جاؤں گا۔ مگر حضرت یہ امید موہوم نکلی اور اس طرح منقطع ہوئی کہ دس بارہ قدم کی مسافت اسی طرح ناک زمین سے کوئی بالشت بھر اونچی کئے طے کرنے کے بعد میں اپنی ناک سے سڑک کی زمین پر ہل چلا دینے پر مجبور ہو ہی گیا۔

اٹھا اور اپنی ناک ٹٹولی۔ سارا منہ گرد سے سفید ہو گیا تھا۔ آنکھوں نے جب دیکھا کہ ناک ارادہ قطعی ہے تو وہ بند ہو گئی تھیں۔ ورنہ دھول میں پھوٹ ہی جاتیں۔ مگر پھر بھی آنکھوں نے بہت کام کیا تھا اور آخر وقت تک کھلی رہنے کی وجہ سے ان کی مٹی گھس گئی تھی۔ ہاتھوں نے بڑی خدمت کی اور چھل گئے۔ ورنہ شاید میری ناک گھس کر غبار راہ ہو جاتی۔ کیونکہ بلا مبالغہ فٹ بھر کے قریب ناک نے زمین پر ایک گہری سی لکیر کھینچی۔ کچھ بھی ہو یہ سب چشم زدن میں چکا تھا۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو بیگم صاحبہ دونوں ہاتھوں سے ڈنڈے پکڑے مسلسل چیخیں مار رہی تھیں۔ حالانکہ وہ خطرے سے باہر تھیں۔ اور بندریا کی طرح ڈنڈے پر چپکی ہوئی تھیں۔ نواب صاحب یکہ کے بم پر کچھ اس طرح آکر رکھے تھے کہ شبہ ہوتا تھا کہ وہ بچوں وال گیم گھوڑا گھوڑا بم کے ڈنڈے سے کھیل رہے تھے۔ یکے والا غریب البتہ پہیہ کی سیدھ میں چت گرا تھا۔ گھوڑا اس وقتی سبکدوشی کو غنیمت تصور کر کے ایک انداز بے خودی کے ساتھ سڑک کے کنارے کچھ ٹفن اڑا رہا تھا۔

بہت جلد ایک دوسرے کی خیریت اور مزاج پرسی سے فراغت پائی، یکے والے نے یکے کے ساز کی گانٹھا گونٹھی اور باندھا بوندھی کی مگر کچھ ٹھیک نہ بندھا تو نواب صاحب سے اس نے کہا۔

"آپ کے پاس رسی کا کوئی ٹکڑا تو نہیں ہو گا؟”

نواب صاحب نے اس کا جواب دیا۔ ” الو کے پٹھے۔۔۔ ام۔۔۔ بہم۔۔۔ ” (بھنا رہے تھے ) میں نے ڈانٹ کر کہا۔ ” ابے تو بالکل ہی گدھا ہے۔”

یکہ والا گنگنا کر بولا۔ ” میاں میں نے کہا شاید کوئی ٹکڑا وکڑا نکل آئے، پھر اب بتائیے کیا ہو، بغیر رسی کے کام نہیں چلے گا۔”

میرا سوتی رومال اور بیگم صاحبہ اور نواب صاحب کا ریشمی رومال ان تینوں کو ملا کر مضبوطی سے ساز کی بندش کو یکے والے نے سنبھالا۔ جھٹکے دے کر خوب اچھی طرح آزمانے کے بعد اس نے کہا۔ "اب بیٹھ جائیے۔”نواب صاحب چونکہ سب سے زیادہ بھاری تھے، لہٰذا یکے والے نے کہا کہ ذرا پیچھے کو دبے رہیں۔ ہم سب اچھی طرح بیٹھ گئے۔ نواب صاحب پیچھے کو دب کر بیٹھے، ایسے کہ جیسے کہ گاؤ تکیہ لگائے ہوں اور جو کچھ تھا، سو تھا، میں خوش تھا کہ نواب صاحب کے گھٹنے سے میری جان چھوٹی۔

مگر تھوڑی ہی دیر بعد نواب صاحب کی پیٹھ میں یکے کی آرائش چبھنے لگی۔ کیونکہ یہ یکہ ضرورت سے زیادہ موٹے موٹے نیلے پیلے موتیوں سے آراستہ تھا جو مضبوط تار میں پرو کر ڈنڈوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا نواب صاحب کچھ آگے کو مائل ہوئے اور انہوں نے گھٹنا اڑانے کی تمہید اٹھائی۔ اب میں تنگ تھا لہٰذا میں نے نواب صاحب سے کہا کہ ذرا پیچھے ہی رہیئے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ یکہ دباؤ ہو جائے گا۔ لیڈی ہمت قدر اب دباؤ کے نام سے کانپتی تھی۔ انہوں نے بھی نواب صاحب سے کہا کہ پیچھے ہی رہیئے۔ اب یکے کا توازن بہت اچھی طرح قائم تھا۔ ذرا بھی دباؤ ہوتا تو میں نواب صاحب کی توجہ رومالوں کی کمزور بندش کی طرف دلاتا اور نواب صاحب پھر ٹھیک طرح بیٹھ جاتے، ورنہ بیگم صاحبہ غل مچاتیں۔

کوئی قابل ذکر بات نہ تھی کہ ایک معمولی سے جھٹکے پر لیڈی ہمت قدر چیخیں اور ساتھ ہی سڑک پر سے باسی گوبر کا ایک ٹکڑا پہیہ کے ساتھ اڑ کر ان کی آنکھ میں لگا۔ وہ چیخیں تو دراصل اس وجہ سے تھیں کہ ہاتھ میں ڈنڈے کی پھانس لگ گئی تھی کہ یک نہ شد دو شد اور ان کی آنکھ میں گوبر پڑ گیا۔ یکہ روکا گیا۔ پھانس نکالی گئی اور آنکھ صاف کی گئی۔ لیڈی ہمت قدر کے ہاتھ ڈنڈا پکڑے پکڑے سرخ ہو گئے تھے اور وہ کہہ رہی تھیں کہ ” میرا شانہ اکھڑا جا رہا ہے۔” مگر کیا کرتیں لاچار و مجبور تھیں، کوئی چارہ ہی نہ تھا۔

 

                (۵)

 

اسی حالت میں ہم چلے جا رہے تھے۔ سڑک رفتہ رفتہ خراب آتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ایسی آئی کہ ہوشیاری سے بیٹھنا پڑا۔ لیڈی ہمت قدر "دباؤ” یکہ کا خیال کر کر کے کانپ اٹھتی تھیں۔ اور نواب صاحب کو تاکید پر تاکید تھی کہ پیچھے ہٹے رہو۔ یکے والا بھی خوش تھا کہ گھوڑا ہلکا چل رہا ہے۔ مگر یہ شاید لیڈی ہمت قدر کو معلوم نہ تھا کہ یکے پر بیٹھنا دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو "دباؤ” جب آگے کو بوجھ ہو گا، اور پھر "الار” جب پیچھے کو بوجھ ہو گا۔ میں چونکہ آگے کو بیٹھا تھا اور دباؤ یکے کا لطف اٹھا چکا تھا کہ یکہ بان سے لے کر نواب صاحب تک ہر کس و نا کس کی یہ کوشش تھی کہ یکہ "الار” رہے۔

رومالوں کی بندش پر "الار” یکے کا زور بے طرح پڑ رہا تھا اور چونکہ آگے بیٹھنے والے کو "الار” یکہ میں خطرہ ہوتا ہے لہٰذا میں چپ تھا۔ لیڈی ہمت قدر جانتی ہی نہ تھیں کہ "الار” کیا چیز ہوتی ہے۔ نواب صاحب بیگم صاحبہ کی خوشنودی میں منہمک تھے اور یکے والے کے لیے "الار” اور "دباؤ” روزانہ کا مد و جزر ٹھہرا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ ایک غیر معمولی گڑھے پر جھٹکا لگا۔ رومالوں نے تڑاخا بھرا۔ لیڈی ہمت قدر جو اصولاً چیخیں حق بجانب تھیں۔ کیونکہ یکے کے دونوں بم اینٹی ایئر کرافٹ گن (ہوائی جہاز کو گرانے کی توپ) کی نالوں کی طرح اٹھ گئے۔ یکہ اگر آدمی ہوتا تو قطعی چت گرتا۔ عقلمند یکہ بان نے یکے کی پشت پر نیچے ایک طرف یکے کا داہنا بم قصداً آدھ گز بنوایا تھا۔ جس کو ظاہراً بیکار طور پر نکلا ہوا چھوڑ دیا تھا۔ یہ دراصل اگر سچ پوچھئے تو تھیوری آف بیلنس یعنی نظریہ توازن کی تفسیر تھا۔ جس کو اصطلاحاً پورپ کی طرف "الریٹھا” کہتے ہیں۔ یا بالفاظ دیگر "اینٹی الار اپریٹس (آلہ مائع الار) واقعی اگر یہ کہیں نہ ہوتا یکہ مع اپنے اسباب جہالت یعنی ہم لوگوں کے سر کے بل (یعنی چھتری کے بل) چت گرتا۔

مگر پھر بھی باوجود یکے "آلہ نما مائع الار” نے یکہ ایک جھٹکے کے ساتھ روک لیا۔ لیکن دونوں بمیں ہوا میں معلق ہو گئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یکے والا لڑھک کر لیڈی ہمت قدر کی گود میں گرا اور اپنی اس عزت افزائی سے اس قدر گھبرایا کہ میری گردن پر سے ہوتا ہوا نکل کر پہئے کے پاس گرا۔ میں لمبا لمبا یکہ میں لیٹنے پر مجبور ہوا۔ اور یکے بان کے بیٹھنے کی جگہ جو ایک خانہ ہوتا ہے اس کا ڈھکنا کھل جانے کی وجہ سے تمباکو ملی ہوئی ریت پھانکنے کے علاوہ میرے منہ پر ہتھوڑی اور چلم اور دوسری مکروہات گریں مع لگام کے جو یکے بان چھوڑ گیا تھا۔

نواب صاحب نے عجیب حرکت کی تو وہ گڑ گڑا کر پھاندے اور چھپکلی کی طرح پٹ سے پہیہ کے برابر دھول میں گرے اور اس برجستگی کے ساتھ اٹھے کہ بیان سے باہر ہے۔

یکے والے کے پاس کافی عذر موجود تھا۔ مثلاً صاحب یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ (کوئی غیر معمولی بات نہیں) ساز پرانا ہو گیا ہے۔۔۔۔ کہیں رومالوں سے کام چلتا ہے۔۔۔۔ نیا ساز اب کے میلے کی مزدوری سے خریدوں گا۔۔۔۔ گھوڑا چھ سیر دانہ کھاتا ہے، دام ہی بچتے نہیں۔” وغیرہ وغیرہ۔

یکہ میں بھی جگہ جگہ خزانے ہوتے ہیں، نہ معلوم کن کن مقامات کو یکہ والے نے کریدا اور کہاں سے رسی کے متعدد ٹکڑے نکال کر ساز کو پھر گوندھا اور کسا اور خدا خدا کر کے ہم پھر چلے۔ لیڈی ہمت قدر اب سہمی ہوئی تھیں۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کس طرف زور دیں۔ آگے کو جھکیں تو دباؤ کا ڈر اور پیچھے رہیں تو الار کا خطرہ۔ عجیب لہجہ میں انہوں نے کہا۔ ” یکہ بڑی خطرناک سواری ہے۔ کبھی کوئی مر تو نہیں جاتا؟”

یکہ والا بول اٹھا۔ ” صاحب جس کی آتی ہے وہ اس بہانے بھی جاتا ہے۔”

نواب صاحب نے زور سے ڈپٹ کر کہا۔ ” چپ بے۔۔۔۔ ٹراپ۔۔۔۔” (بڑبڑانے لگے )

 

(۶)

 

پکی سڑک! پکی سڑک! یہ نعرہ ہم لوگوں نے پکی سڑک کو دور ہی سے دیکھ کر اس طرح بلند کیا جس طرح کرسٹوفر کولمبس کے ساتھیوں نے زمین کو دیکھ کر زمین! زمین! کا غلغلہ بلند کیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم زور سے پکی سڑک پر کھڑ کھڑاتے جا رہے تھے۔ اب ہمیں معلوم ہوا کہ یکے پر ہم گویا سر کے بل بیٹھے ہیں۔ بے کمانی کے یکے کی کھڑکھڑاہٹ بھی عجیب چیز ہے۔ کچی سڑک کی مٹی اور غبار چشم زدن میں کپڑوں پر سے جھڑ گئی۔ نواب صاحب کی کیل بجائے ان کے ایک جگہ گڑتی ساری ران کے طول و عرض میں چبھ رہی تھی۔ یکے والے کو موقع ملا۔ ” آؤ بیٹا” کر کے اس نے گھوڑے کی رسی کی لگام اچھی طرح جھاڑ دیا اور گھوڑا بھی کچی سڑک کی صعوبت سے خلاصی پا کر اپنے جوہر دکھانے لگا، وہ تیز چلا اور پٹا۔ خوب تیز چلا اور خوب پٹا۔ یکے والے کو اس سے بحث نہیں کہ تیز چل رہا ہے، گھوڑے کو نہ مارنا چاہیے۔ وہاں تو اصول ہے کہ مارے جاؤ گھوڑا بھی کہتا ہو گا کہ الٰہی یہ کیا غضب ہے، جتنا جتنا تیز دوڑتا ہوں، مارا جاتا ہوں۔ قدم ہلکا کرتا ہوں تو مارا جاتا ہوں۔ آخر کو جانور پھر جانور ہے، لے کر بے تحاشہ دوڑآ، اور اسی مناسبت سے مار کھائی۔ "ہائیں ہائیں” میں کرتا ہی رہا اور لیڈی ہمت قدر کی چیخیں الگ کہ اتنے میں خیر سے داہنے پہیہ کی عین اس برق رفتاری کے عالم میں کیل نکل گئی اور پہیے نکل کر یہ جا وہ جا۔

خدا کی پناہ، موٹر کا حادثہ تو کوئی چیز نہیں، گھوڑا بھاگتے میں کروٹ کے بل گرا۔ اور یکے والا آدھا اس کے نیچے۔ میں اڑ کر دور گرا نواب صاحب یکے کے پیچھے گرے۔ اور بیگم صاحبہ خود یکہ کے داہنی طرف، یکے والا چوٹ کی وجہ سے اور لیڈی ہمت قدر صدمہ کی وجہ سے بے ہوش ہو گئیں۔ اور نواب صاحب کا کولہا اتر گیا، اور میری دو پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ سب اپنی اپنی جگہ پڑے تھے۔ گھوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے آنکھیں جھپکا کر دیکھا۔ نواب صاحب لنگڑاتے ہوئے اٹھے اور اپنی بیگم صاحبہ کو سنبھالا۔ ایک عجیب پسپائیت کا عالم تھا۔

خدا رحیم و کریم ہے اس نے دس پندرہ منٹ بعد ہی ایک موٹر بھیج دیا۔ ایک انگریز اس طرف جا رہا تھا، جدھر سے ہم آ رہے تھے۔ اس نے سب کو بین بٹور کر سیدھا ہسپتال پہنچایا۔ یکے والے کا یکہ اور گھوڑا وہیں رہ گیا تھا۔ بعد میں وہ کھو گیا۔ نواب صاحب نے اس کو اپنے موٹر پر جب سے رکھ لیا ہے۔ کبھی کبھی ملتا ہے تو اس کی صورت دیکھ کر نواب صاحب اور میں اور لیڈی ہمت قدر سب کو ہنسی آتی ہے۔

نواب صاحب اور ان کی لیڈی صاحبہ تو پھر کبھی یکے پر نہیں بیٹھیں اور نہ بیٹھیں گی، لیکن میں اب بھی بیٹھتا ہوں۔ سواری ماشاء اللہ خوب ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

الشذری

 

چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں پہلی جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں جماعت میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑی تھی۔ وہ میرے پاس آ کر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔

بی-اے میں چودھری صاحب عازم بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہو جائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔

"ذرا غور تو کیجئے۔” چودھری صاحب بولے۔ ” یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو تعلیم کا حصہ سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیل دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تو اس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔”

ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمہ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

 

                (۱)

 

حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد "الحاج الشذری الہندی” بہت غور و خوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ "چودھری” معرب ہو کر "الشذری” ہو گیا تھا اور یہ ارتقائی نشو و نما چوہدری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے مگر "الشذری” اس سے مجبور تھے اور عربی جبہ و قبہ پسند کرنے لگے تھے لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔ ان کی تمام کوششیں اپنے کو عرب بنانے میں بالکل اسی طرح ضائع جاتی تھیں جس طرح بعض دیسی عیسائی کوٹ پتلون پہن کر غلط اردو دیدہ و دانستہ بولتے ہیں اور غلط انگریزی مجبوراً اور تہ پہ تہ سفید پاؤڈر کی لگاتے ہیں مگر حقیقت نہیں چھپتی اور بالکل یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس کمرہ میں قلعی ہوئی ہے اس میں کسی زمانہ میں ضرور باورچی خانہ تھا۔ نہ یوروپین انٹر میں بیٹھنے سے کام چلتا ہے اور نہ یورپین نرخ پر چائے خریدنے سے۔ غرض یہی حالت چوہدری صاحب کی تھی کہ عرب بننے کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی تھیں۔

میں نے اور انہوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنی کا تو یہ کبھی طے نہ ہو سکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہو گئی تھی اور اس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔

چوہدری صاحب کا اتنا پرانا ساتھ، پھر اتفاق کی بات کہ ساتھ ہی عراق کا سفر درپیش ہوا۔

بغداد کی گلیوں میں دو آدمی۔۔۔ میں اور شذری۔۔۔ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ دونوں میں سے واقعہ دراصل یوں ہے کہ ایک بھی عربی نہیں جانتا۔ شہر کی چیخ و پکار کیا ہے ؟ یقین مانئے کہ گویا چاروں طرف قل ہو اللہ پڑھی جا رہی ہے۔ میں اور چوہدری صاحب دونوں عربی نہیں جانتے۔ لیکن پھر بھی مجھ میں اور چوہدری صاحب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

"تم احمق ہو۔” بھائی شذری نے کہا۔ "ارے میاں عربی بولنا اور سمجھنا اس قدر آسان ہے کہ وہ ہر شخص جو ہماری اور تمہاری طرح اردو جانتا ہے اور فارسی میں بھی قدرے دخل رکھتا ہے بڑی آسانی سے عربی بول اور سمجھ سکتا ہے۔”

میں نے تنگ آ کر کہا۔ "خدا گواہ ہے، آج تیسرا دن ہے کہ بغداد آئے ہیں مگر میری سمجھ میں یہاں کا ایک حرف نہیں آتا۔ طبیعت ہے کہ الٹی جاتی ہے۔ خدا کی پناہ تربوز مانگو تو چھوارے دے رہے ہیں اور روٹی مانگو تو پانی۔ یہاں سے جلدی بھاگنا چاہیے۔ میری عمر تو گزر جائے گی اور یہ عربی سمجھ میں نہ آئے گی۔”

ادھر تو میرا یہ حال اور ادھر بھائی شذری کا یہ خیال کہ کچھ نہیں صرف معمولی اردو میں من۔ ول۔ ال۔ کم وغیرہ لگاؤ بس عربی ہو گئی۔ اسی بنا پر میں چوہدری صاحب کی عربی دانی کا قائل ہی نہ ہوتا تھا۔ اگر سڑک پر دو آدمیوں میں حجت یا لڑائی ہو رہی ہو تو چوہدری صاحب کا فرض ہوتا تھا کہ لڑائی کی وجہ سے مجھے آگاہ کریں اور یہ ظاہر کریں کہ عربی سمجھتے ہیں۔ یا پھر کہیں سائن بورڈ پر نظر جائے تو ناممکن کہ اس کی تفسیر میرے سامنے نہ پیش ہو۔ مجھ کو یہ باتیں ان کی کہاں تک تکلیف نہ دیتیں جبکہ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا کہ یہ حضرت کسی طرح بھی مجھ سے زیادہ عربی سمجھنے کے اہل نہیں تھے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ ہم دونوں مدینے کے قاضی صاحب سے ملنے جا رہے تھے۔ راستے میں چوہدری صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ایک چائے کی دکان پر چڑھ گئے۔ آٹھ درجن فنجان کا آرڈر دیا گیا۔ "میں نے تعجب سے چوہدری صاحب کی طرف دیکھا۔ اول تو مجھ کو اس قسم کی چائے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پھیکی سیٹھی بغیر دودھ کی چائے، بیٹھے شیشے کی فنجانوں میں پی رہے ہیں اور پھر یہاں ایک نہ دو بلکہ آٹھ درجن فنجان چائے جو میں کسی طرح بھی نہ پی سکتا تھا۔ میں نے چوہدری صاحب سے کہا۔ "آخر یہ کیا حماقت ہے ؟” چوہدری صاحب تنک کر بولے۔ "دام ہم دیں گے، تم کیا جانو۔ عربی سمجھتے نہیں، نہ یہاں کے نرخ کا پتہ، دیکھو آج ہم تم کو دکھاتے ہیں کہ کسی ملک میں جانا اور وہاں کی زبان سمجھنا کتنا مفید ہوتا ہے۔” غرض چائے آئی اور خوب پی اور لنڈھائی۔ پھر بھی بچ رہی۔ آخر کہاں تک پیتے مگر چوہدری صاحب نے "زرمی خورم” کر ڈالا۔

جب چائے کا بل پیش ہوا تو چودھری صاحب سٹپٹائے۔ قریب قریب دو ڈیڑھ پیسہ فی فنجان طلب کر رہا تھا اور چودھری صاحب ایک درجن فنجان کے دام ایک یا ڈیڑھ پیسہ کے حساب سے دے رہے تھے۔ کہاں ایک پیسہ فی فنجان اور کہاں ایک پیسہ فی درجن۔ جب غلط سلط عربی سے معاملہ نہ سلجھا تو حضرت شذری نے دکاندار کا ہاتھ پکڑ کر سڑک پر لا کھڑا کیا اور دکاندار کے کھمبے پر جو نرخ لکھا ہوا تھا اس کی طرف دکاندار کی توجہ مبذول کرائی کہ جب کھلم کھلا نرخ لکھ رکھا ہے تب آخر کیوں دام زیادہ مانگتے ہو؟ دکاندار نے اس عبارت کو پڑھا اور کچھ چکرایا۔ ادھر ادھر دیکھا، سارے میں اس سرے سے اس سرے تک تمام دکانوں خواہ وہ چائے کی ہوں یا کھجوروں کی، یا گوشت کی، بڑے بڑے سیاہ حروف میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی۔ جس کا اردو میں ترجمہ ہوتا تھا۔ "ایک پیسہ میں ایک درجن فنجان چائے۔ دکاندار نے کہا : "میں نے یہ نہیں لکھا، کوئی مردود سارے بازار میں یہی لکھتا چلا گیا اور میں اس کا ذمہ دار نہیں۔” مجھے ایک دم سے خیال آیا اور میں نے چودھری صاحب کو ہندوستان کے اسی قسم کے اشتہار یاد دلائے۔” ایک پیسہ ایک درجن چائے کی پیالیاں” یا پھر "گرمیوں میں گرم چائے ٹھنڈک پہنچاتی ہے۔” یہ مرض عراق میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ اس بدعت کی ذمہ دار چائے کی کمپنیاں تھیں نہ کہ کوئی چائے والا۔

میں نے چودھری صاحب کی عربی دانی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چودھری صاحب کا یہ کہنا کہ "آپ کون ہوتے ہیں۔ دام میرے گئے یا آپ کے۔” مجھ کو خاموش کر دینے کے لیے کافی تھا۔

 

                (۲)

 

چائے پی کر ہم حضرت قاضی صاحب کے یہاں گئے۔ بدقسمتی سے وہ نہ ملے اور ہم اپنا ملاقاتی کارڈ چھوڑ کر دریا کے کنارے پہنچے۔

عراق میں ایک ناؤ ایسی بھی ہوتی ہے جیسے گول پیالہ۔ خوش قسمتی سے ایسی ہی ناؤ ملی۔ میں تو چپ کھڑا رہا اور چودھری صاحب نے ہندوستانی عربی یا بالفاظ دیگر عراقی اردو میں بات چیت شروع کی۔ خدا معلوم انہوں نے کیا کہا اور ملاح نے کیا سمجھا مگر نتیجہ اس گفت و شنید کا یہ ہوا کہ ہم دونوں ناؤ میں بیٹھ گئے اور دریا کی سیر ہونے لگی۔ اس ناؤ کی تعریف کے چودھری صاحب نے پل باندھ دیے۔ کہنے لگے کہ "اس ناؤ میں خاص بات یہ ہے کہ بھنور یعنی گرداب میں پڑ کر بھی نہیں ڈوبتی۔”میں نے تعجب ظاہر کیا تو انہوں نے کہا کہ "دیکھو ابھی اسے گرداب میں لے چلیں گے، تاکہ تم خود دیکھ لو۔” میں نے کہا : "خدا کے واسطے رحم کیجئے، مجھ کو ذرہ بھر بھی شک نہیں، آپ سچ کہتے ہیں اور مجھ کو تسلیم ہے کہ کم بخت ناؤ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا مقابلہ کر لے گی۔” مگر وہ نہ مانے پر نہ مانے بیچ دریا کے بہاؤ سے ذرا ہٹ کر بڑے زور و شور سے بھنور پڑ رہا تھا جس کو دیکھنے سے ڈر لگتا تھا۔ چودھری صاحب ملاح سے غلط سلط عراقی اردو بول رہے تھے، چونکہ لفظ عمیق جانتے تھے لہذا تمام تر دریا کی گہرائی پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اب ملاح سے انہوں نے اس خوفناک بھنور کی طرف انگلی اٹھا کر کہا : "لہ غریق کشتی میں الگردابہ۔” لفظ گرداب پر انگلی سے بھنور کی شکل بنائی اور بھنور میں ناؤ لے چلنے کا اشارہ کیا۔ میں نے کہا : "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو” مگر وہ میری سنتے ہی نہ تھے۔ "ٹھہرو جی۔” کہہ کر میرا ہاتھ انہوں نے جھٹک دیا۔ ملاح نے نہ معلوم ان سے کیا کہا جس کو یہ قطعی نہ سمجھے ہوں گے مگر بات چیت بھلا کیسے رک سکتی۔ عربی فارسی اور انگریزی میں تمام الفاظ بولے جاتے خواہ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ان کی بلا سے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ میں چیختا پیٹتا رہ گیا اور ملاح نے تیزی سی کشتی کو لے جا کر گرداب میں ڈال دیا اور کشی نے گھومنا شروع کیا۔ جب کشتی گھومی تو اول تو مجھے ڈر لگا لیکن پھر لطف آیا، ہم دونوں کشتی کا کنارہ پکڑے نیچے پانی کو دیکھنے لگے۔ یہ لطف بہت عارضی تھا اور میرا سر چکرایا۔ میں نے واپس چلنے کو کہا۔ اتنے میں موذی ملانے نے پانی میں پتوار ڈال کر ناؤ کی گردش میں اضافہ کر دیا۔ چودھری صاحب ہنس رہے تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ "خدا کے واسطے بس کرو۔ میرا سر پھٹا۔” میں یہ کہہ ہی رہا تھا کہ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے پانی کی سطح پر الٹا لٹکا ہوا گھوم رہا ہوں۔ اب چودھری صاحب کو بھی چکر آئے۔ وہ دراصل ضبط کر رہے تھے، ورنہ ان کی اور میری حالت یکساں تھی۔ وہ پھر ہنس رہے تھے لیکن میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور زور سے چلایا کہ "خدا کے واسطے ناؤ روکو۔” چودھری صاحب اس خیال میں تھے کہ جب جی چاہے گا رکوا لیں گے۔ چنانچہ اب انہوں نے خود ڈگمگاتے ہوئے ملاح سے کہا : "ایھا الشیخ شد المن الدقص اخرج میں الگرداب۔” بانگڑو ملاح واللہ اعلم سمجھتا بھی ہو گا یا نہیں کہ فارسی میں بھنور کر گرداب کہتے ہیں اور پھر الشذری اور خود اس کے عربی کپڑوں کی پھڑ پھڑاہٹ اور دریا کا شور اور پھر لٹو کی طرح ناؤ کی گردش، سمجھنا تو درکنار ملاح نے سنا بھی کہ نہیں۔ اس نے سنا اور نہ سمجھا اور نہ سننے یا سمجھنے کی کوشش کی اور اللہ کا نام لے کر دانتوں سے اپنے ہونٹ دبا کر۔ "ایاغ۔” کہہ کر زور سے پتوار پانی میں ڈال کر ناؤ کو اور بھی گھن چکر کر دیا۔ میں تو آنکھیں بند کر کے چلا کر سجدے میں گرا اور ادھر الشذری "ایھا الشیخ” کا نعرہ مار کر جو اپنی جگہ سے ہٹے تو میرے سر پر نازل ہوئے۔ اٹھے اور پھر گرے اور لوٹن کبوتر کی طرح لوٹنے لگے۔ ایک طرف اپنے گھٹنے توڑ رہے تھے تو دوسری طرف اپنی داڑھی اور ٹھوڑی سے میری پیٹھ۔ ان کی ٹھوڑی میری پیٹھ میں کس طرح لگ رہی تھی، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ میں ایسے وقت میں بھی پچھتا رہا تھا کہ ناحق میں نے کہہ سن کر ان کی ڈاڑھی کم کرائی۔ میں سجدے میں پڑا۔ "سبحان ربی الاعلی” کہے چلا جا رہا تھا۔ "خدا کے واسطے نکالو۔” ادھر الشذری بوکھلا کر چلائے۔ "شدۃ المن الرقاصہ ابے ایھا الشیخ” خدا کے واسطے اخرج میں الگرداب ارے مرا۔” میں پھر چلایا : "ہائے مرا۔” ادھر اس ناہنجار ملاح نے ایک مرتبہ اور پانی میں پتوار ڈال کر زور سے چکر کی تیزی میں اضافہ کر دیا۔ میری یہ حالت ہو گئی کہ سر پھٹا جا رہا تھا اور یقین ہو گیا کہ سر چکرا کر اب موت واقع ہو رہی ہے۔ چودھری صاحب نے اب دہائی اور تہائی دینا شروع کی اور میں پڑے پڑے ان کی کوششوں کی داد دے رہا تھا، وہ چلا رہے تھے۔ "اے نالائق شیخ۔۔۔ برحمتل کم بخت اشدۃ میں الرقص۔۔۔ ارے اخراج۔۔۔ من الگرداب، ارے موذی ناؤ نکال۔” چکرا کر وہ میرے اوپر پھر گرے۔ میں نے آنکھ کھول کر دیکھا، ساری دنیا گھوم رہی تھی۔ چودھری صاحب نے پھر دھاڑ کر کہا۔ "ایدھا الشیخ ابے الو۔۔۔ ابن الخنزیر۔۔۔ ارے مرے۔۔۔ ابے روک۔۔۔۔ روک۔۔۔ ارے نکال۔۔۔ یا اللہ۔۔۔ ابے ایھا الشیخ من الموذی اخرج من الماء الگرداب۔۔۔ نالائق۔۔۔ بدمعاش۔۔۔ واللہ۔۔۔ بھئی شیخ۔۔۔ ” مگر توبہ کیجئے بھلا ان باتوں سے کہیں ناؤ رکنے والی تھی۔

سر پٹک پٹک کر ہم دونوں بے ہوش ہو گئے۔

نہ معلوم کتنی دیر بعد آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو دریا کے کنارے بے بس پایا۔ مارے درد کے سر پھٹا جا رہا تھا۔ تمام چائے دریا برد ہو چکی تھی۔ نہ طاقت رفتار تھی، نہ طاقت گفتار۔ بڑی دیر تک اس پسپائیت کے عالم میں پڑے رہے۔ بڑی کوششوں کے بعد بھائی شذری نہ معلوم کس طرح اٹھ کھڑے ہوئے کہ چاروں شانے چت گرے اور ادھر وہ نابکار ملاح ہنس رہا تھا اور اپنی مزدوری کا طالب تھا، ادھر الشذری مزدوری نہ دیتے تھے اور اپنی گردابی عربی اس نقاہت میں بول رہے تھے۔

جب ایک فارسی داں حضرت کا ادھر سے گزر ہوا تو معاملہ صاف ہوا۔ ادھر الشذری نے ملاح کی شکایت کی کہ ہم دونوں کو اس ناؤ میں چرخ دے کر ادھ مرا کر دیا اور مزدوری مانگتا ہے اور ادھر ملاح نے کہا کہ "ایسے لوگ بھی کم دیکھنے میں آئے ہوں گے کہ مارے چکر کے مرے جا رہے تھے مگر بار بار یہی کہتے تھے کہ ناؤ کو شدت کے ساتھ رقص کراؤ۔ میرا خود سر چکرا گیا اور دگنی مزدوری واجب ہے۔”

"ارے کم بخت چودھری۔” میں نے مری ہوئی آواز میں کہا : "یہ تمہاری عربی میری جان لے گی۔ یاد رکھو اگر میں مر گیا تو یہ خون تمہاری گردن پر ہو گا۔”

قصہ مختصر ملاح کو مزدوری دینی پڑی اور ہم گدھوں پر لاد کر گھر پہنچائے گے۔ بھیجا ہل گیا تھا اور ہلنا جلنا دوبر تھا۔ رہ رہ کر میں الشذری کو کوستا تھا کہ "ملعون تیری گردابی عربی نے میری جان لے لی۔”

تین چار روز تک دونوں کا حال پتلا رہا۔ معلوم ہوا کہ اکثر لوگ ناؤ کو گرداب میں ڈلوا کر رقص کراتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوا مگر چودھری صاحب نہ قائل ہونا تھے نہ ہوئے۔ وہ بھی یہی کہے گئے کہ "سب شرارت ملاح کی تھی اور اس نے جان بوجھ کر ہماری لسی بنا ڈالی۔” واللہ اعلم۔

اسی ہفتے میں جب ہم دونوں کے دماغوں میں توازن قائم ہو گیا تو مدینہ منورہ کے قاضی صاحب کے یہاں پہنچے۔ قاضی صاحب موصوف کے اب سعود کے حملہ کی وجہ سے وطن چھوڑنا پڑا تو حیدر آباد پہنے، وہاں سرکار نظام سے سو روپیہ ماہوار کی پنشن مقرر ہو گئی، کچھ عرصے تک ہندوستان می سیاحت کی، پھر عراق میں سکونت پذیر ہو گئے۔ انہوں نے اچھی طرح سفر کیا تھا اور ہندستانیوں سے ان کو محبت تھی۔

ایک فارسی دان عراقی کرم فرما نے ہم دونوں کو قاضی صاحب سے ملایا۔ وہ بہت جلد مختصر سا تعارف کرا کے چلے گئے اور ہم دونوں رہ گئے۔ چودھری صاحب نے فوراً حسب عادت غلط سلط عربی بولنا شروع کر دی۔ قاضی صاحب ایک لفظ فارسی کا نہ جانتے تھے اور ٹھیٹ عربی میں باتیں کر رہے تھے۔ اگر کسی جملے کے دو ایک لفظ جو اردو میں رائج ہیں میں سمجھ لیتا تو اندازے سے جملے کا تھوڑا بہت مطلب بھی سمجھ لیتا، ورنہ قاضی صاحب کی گفتگو سمجھنا دشوار تھی، مگر بھائی الشذری شاید مجھ سے دوگنا سمجھ رہے تھے۔ قاضی صاحب حیدر آباد، بمبئی، لاہور، دہلی، آگرہ وغیرہ کی سیر کر چکے تھے۔ اتنا تو پتہ چلتا تھا کہ ان مقامات کا ذکر کر رہے ہیں۔ باقی میری سمجھ میں کچھ آتا نہ تھا لیکن بھائی الشذری بیچ میں بار بار بول اٹھتے تھے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ قاضی صاحب کی گفتگو حرف بحرف سمجھ رہے ہوں۔ میرے بارے میں وہ بہت پہلے ہی قاضی صاحب سے یہ کہہ کر خاموش ہو چکے تھے کہ "لاعلم لسان العربی” یعنی یہ عربی قطعی نہیں جانتے، لہذا اب قاضی صاحب بھائی الشذری کی طرف مخاطب تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ سمجھ رہا ہے حالانکہ میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ اتنا ہین قاضی صاحب کی گفتگو سے بہرہ اندوز ہو رہے تھے جتنا کہ میں۔ آگرہ کے لفظ کے ساتھ ایک ہی جملے میں تاج محل کا نام آیا اور پھر تعریفی الفاظ۔ اس موقع پر الشذری سمجھ رہے تھے کہ تاج محل خود ان کی ملکیت ہے، کیونکہ خود وہ آگرہ کے باشندے تھے۔ اظہار خصوصیت ضروری سمجھا اور قاضی صاحب سے انہوں نے کہا۔ "انا اہل بلدہ آگرہ۔” یعنی میں بھی شہر آگرہ کا رہنے والا ہوں۔ قاضی صاحب سمجھ گئے۔ فوراً ہی انہوں نے کہا : "مگر تم تو علی گڑھ سے آئے ہو۔” میں بھی اندازا مطلب سمجھ گیا اور شذری بھی۔ اس پر الشذری بولے۔۔۔ "انا اہل آگرہ مگر طلب علم من الدار العلوم فی وعلی گڑھ۔” قاضی صاحب باوجود "مگر” کے سمجھ گئے کیونکہ علی گڑھ یونیورسٹی کا نام سن چکے تھے۔ بطور شکایت کے الشذری نے کہنا چاہا کہ آپ آگرہ آئے مگر علی گڑھ نہ آئے۔ لفظ آئے کی عربی تو جانتے نہ تھے، یا یاد نہ تھی، لہذا نازل ہونا استعمال کیا۔ "حضرت نزول فی آگرہ من البمبئی لانازل علی گڑھ۔” قاضی صاحب سمجھ گئے اور تیزی سے وجہ بیان کرنے لگے جو نہ الشذری سمجھے اور نہ میں مگر الشذری سر ہلا رہے تھے اور بولے : "ہنا دارالعلوم علی گڑھ معروفا کچیر المن الہند والدھر۔” یعنی علی گڑھ یونیورسٹی ہندوستان اور دنیا میں مشہور و معروف ہے۔ اس کے بعد ہی قاضی صاحب نے پوچھا کہ بمبئی سے علی گڑھ کتنی دور ہے۔ اب الشذری ذرا چکرائے کیونکہ نہ تو عربی گنتی جانتے تھے اور نہ میل کی عربی۔ میری تجویز کہ الف لیلہ کا الف بمعنی ہزار اور فرسخ بجائے میل کام دے جائے گا۔ انہوں نے "ٹھہرو جی” کہہ کر رد کر دی اور قاضی صاحب سے بولے : "فاصلہ از علی گڑھ من البمبئی یک لیک و یک نہار۔” یک لیل و یک نہار کلمے کی انگلی سے بتا کر جوش کے ساتھ انگلی ہلائی۔ ایسے کہ باوجود کہ قاضی صاحب فارسی نہ جانتے تھے مگر مطلب قطعی سمجھ گئے، ایک دن ایک رات کا سفر ہے۔ میں بھی الشذری کی قابلیت کی داد دینے لگا لیکن قاضی صاحب نے فورا ہی سرسید کا تیزی سے کچھ ذکر کر کے ایک اور ٹیڑھا سوال اٹکا دیا وہ یہ کہ سر سید مرحوم کے کوئی اولاد میں سے ہے بھی کہ نہیں اور ہے تو کیا کرتا ہے۔ مگر الشذری تو عربی زبان کے ماہر ہو چکے تھے۔ میری تجویزوں کو رد کرتے ہوئے بولے کہ "ٹھہرو جی مجھے عربی میں بتانے دو۔” بہت جلد الشذری نے قاضی صاحب کو جواب دیا : "سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود بن سر سید۔” اس پر قاضی صاحب نے پوچھا کہ "سید محمود کیا کرتے ہیں؟” تو میں الشذری سے کہا کہ کہہ دو انا للہ و انا الیہ راجعون مگر الشذری نے میری تجویز رد کر کے کہا۔ رحمۃ اللہ علیہ واقعی مناسب جواب تھا اور قاضی صاحب سمجھ گئے۔ لیکن الشذری نے اور بھی واضح کر دیا اور اپنے جواب کو مکمل کر کے دہرایا۔ "سید راس مسعود بن سید جسٹس محمود رحمۃ اللہ علیہ بن سر سید علیہ الرحمۃ۔” اور پھر اس پر بھی بس نہ کی اور کہا۔ "بحیر تم والتعجب کہ حضرت نزول حیدر آباد ولاتعارف من الراس مسعود صدر محمہ تعلیمات حیدر آباد۔” قاضی صاح سمجھ گئے اور شاید اظہار تاسف کیا۔

تھوڑی دیر بعد ہم دونوں نے قاضی صاحب سے اجازت چاہی تو قاضی صاحب نے ہم دونوں سے جو کچھ بھی کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھائیں۔

واپسی پر چودھری صاحب نے راستے میں اپنی عربی دانی کا سکہ میرے اوپر بٹھانے کی کوشش کی اور میرا ناک میں دم کر دیا۔ انہوں نے عربی قواعد زبان کی رو سے میرے تمام تجویز کردہ جوابات غلط بتائے اور کئی لفظوں کے بارے میں سخت بحث رہی، وہ کہتے تھے کہ عربی ہیں اور میں کہتا تھا کہ فارسی۔ تنگ آ کر اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے تسلیم کر لیا کہ "بیشک آپ کو مترجم کی امداد کی قطعی ضرورت نہیں۔” شاید وہ اور میں دونوں ناؤ والا قصہ بالکل بھول گئے تھے۔

 

                (۳)

 

بعد مغرب ہم دونوں قاضی صاحب کے یہاں پہنچے۔ بد قسمتی سے قاضی صاحب گھر پر نہ تھے۔ حبشی ملازم جس نے ہمیں صبح دیکھا تھا اور جانتا تھا کہ ہم لوگ دعوت کے سلسلہ میں آئے ہیں بڑی بدتمیزی سے پیش آیا اور اس نے لے جا کر ہمیں کمرے میں بٹھایا۔ ہم لوگوں کی بدقسمتی، ہاں بدقسمتی کہ یہ حبشی چلا گیا اور تھوڑی دیر میں ایک دوسرا حبشی ملازم آ گیا۔ یہ اس حبشی ملازم سے زیادہ خطرناک اور زیادہ حبشی تھا۔ مجھے صرف دو چیزوں سے ڈر لگتا ہے۔ ہندوستان میں تو بل ڈاگ سے اور عراق میں حبشی ملازم سے، واللہ اعلم ہندوستانیوں کو دوسرے قسم کے کتے کیوں نہیں ملتے اور عراقیوں کو دوسری قسم کے ملازم۔

جب کافی دیر ہو گئی اور دعوت کے آثار نظر نہ آئے تو میں کہا کہ "چودھری صاحب! یار کہیں غلطی تو نہیں ہوئی اور دعوت کل شب کو تو نہیں ہے۔ واقعہ بھی ہے کہ دعوت کے گھر میں تو خود بخود مہمان کو دعوت کے آثار معلوم ہو جاتے ہیں۔ فرش، روشنی، میز کرسی اور دوسری تمام چیزیں جو گھر میں نظر آتی ہیں یہ کہتی ہیں کہ "اے مہمان، آج تیری دعوت ہے، مگر یہاں تو فضا ہی سرد تھی اور کچھ رنگ و بو کا پتہ نہ تھا۔ جب میں نے شبہ ظاہر کیا تو چودھری صاحب بھی گھبرائے اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ دعوت کے سلسلے میں جو قاضی صاحب سے باتیں ہوئی تھیں ان میں لفظ "رات” اور "کھانا” تو یاد پڑتا تھا مگر "آج” یا کل کا خیال نہیں۔ بہت یاد کیا مگر بیکار، نہ تو "آج” کی عربی معلوم تھی اور نہ "کل” کی۔ اگر قاضی صاحب نے ان الفاظ کا استعمال بھی کیا ہو گا تب بھی یاد نہ رہا۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الشذری نے اس حبشی کو پکارا۔ "ایھا الشیخ ہذا لیل مجمع الطعام۔” یعنی دعوت باطعام کا مجمع آج ہی رات کو ہے۔ اس حبشی نے ہم دونوں کو سر سے پیر تک دیکھا۔ کہا یہ ممکن ہے کہ وہ غور کر رہا تھا کہ ہمارا ظاہر ہماری اصلیت سے مختلف ہے۔ بدقسمتی سے وہ غور سے یہی دیکھ رہا تھا۔ خوب اچھی طرح ہم دونوں کو بار بار تعجب سے دیکھ کر جواب دیا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ چینی زبان بولا یا لاطینی، خاک سمجھ میں نہ آیا تو بھائی شذری بولے۔ "انا الھندی ولالسان العربیہ انت قل عجلت۔” بقول کسے خرابی ہو اس عربی جاننے والے کی جس کے سامنے بھائی شذری اس طرح عربی کی ٹانگ توڑیں۔ مطلب ان کا یہ تھا کہ ہم الہندی ہیں، لسان عربی نہیں جانتے۔ تم عجلت سے بولتے ہو۔ وہ شاید سمجھ گیا اور اس نے بہت رسانیت سے پوچھا، مگر وہ بھی سمجھنا ناممکن تھا لیکن کچھ شبہ ہوا کہ کھانے کو پوچھتا ہے۔ میں چودھری صاحب سے کہا کہ "بھائی خوب اطمینان کر لو، محض اندازے سے کام نہ لو۔” مگر وہ نہ مانے سر ہلا ہلا کر اور کہنے لگے ” ہاں ہاں نعم نعم نعم” اس نے معاملہ سمجھ کر سر ہلا دیا اور اشارہ کیا۔ ہم دونوں کو ایک دوسرے کمرے میں لا کر بٹھایا۔ اس کمرے میں معمولی فرش تھا اور بہت اجڑا سا کمرہ تھا۔ میں نے چودھری صاحب سے پوچھا کہ "آخر ہم یہاں کیوں بیٹھیں؟” اس پر چودھری صاحب نے کہا کہ "اس لیے کہ وہ کہتا ہے کہ دعوت والے یہاں بیٹھیں گے۔ مجھے برا معلوم ہوا کہ چودھری صاحب خواہ مخواہ اپنی عربی دانی کے سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ میں بگڑ کر کہا کہ "تم غلط کہتے ہو، اس نے ہرگز یہ نہیں کہا، تم خاک نہیں سمجھتے۔ خواہ مخواہ مجھ پر رعب جماتے ہو۔” اس پر چودھری صاحب بھی بگڑ گئے اور کہنے لگے کہ "جب عربی نہیں جانتے تو خواہ مخواہ مجھ سے کیوں الجھتے ہو؟” جھائیں جھائیں کر ہی رہے تھے کہ ایک سینی میں کھانا آ گیا۔ میں نے نرمی سے اب چودھری صاحب سے کہا کہ بھئی آخر پوچھو تو کہ یہ معاملہ کیا ہے کہ میزبان خود ندارد۔” کہنے لگے کہ "میں دریافت کرتا ہوں۔” آپ حبشی سے پوچھنے لگے "لا قاضی صاحب۔” یعنی قاضی صاحب نہیں ہیں۔ "فی نزول بیتکم والشرکۃ لنا طعام۔” یعنی یہ کہ اپنے گھر پر کیب آئیں گے اور کیا ہمارے ساتھ طعام میں شرکت نہ کریں گے ؟ دراصل الشذری کی عربی بہ نسبت عربوں کے میں زیادہ سمجھتا تھا۔ واللہ اعلم وہ حبشی کیا سمجھا، کچھ نہ کچھ تو ضرور سمجھا جو اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا "نہیں آئیں گے۔” اور کچھ تیزی سے بول کر ہاتھ کے اشارے سے ہم سے جلدی کھانے کو کہا۔

میں نے الشذری سے کہا۔ "ہمیں ہرگز اس طرح نہ کھانا چاہیے کیونکہ یہ کوئی ڈھنگ نہیں کہ میزبان ندارد، ہم کھانے بیٹھ جائیں۔” اس پر شذری بگڑ کھڑے ہوئے کہ "تم عربی سادگی سے واقف نہیں۔ یہ بھی کوئی ہندوستان ہے کہ لازمی طور پر میزبان نوالہ گننے کے لیے ضرور ہی موجود ہو۔” میں نے پھر الشذری سے کہا کہ ایک مرتبہ حبشی سے کچھ اشاروں ہی سے پوچھو کہ آخر یہ غیر معمولی بات کیوں ہے ؟ ایھا الشیخ کر کے حبشی سے پھر جو شذری نے سوال کیا تو وہ بگڑ کھڑا ہوا اور بدتمیزی سے ہاتھ کو جھٹکے دے کر نہ معلوم کیا بکنے لگا اور پھر غصے ہو کر اشارہ سے کہا کہ کھانا کھاؤ۔ اب الشذری مجھ سے خفا ہونے لگے۔ "جو میں کہتا ہوں وہ تم نہیں سنتے اس طرح بھی دعوتیں ہوتی ہیں۔” پھر حجاز کی اسی قسم کی ایک آدھ دعوت کا تذکرہ کیا جو خود انہوں نے کی تھیں اور میں نے کہا کہ کوئی لفنگا آ کر تمہارے یہاں کھا گیا ہو تو میرے اوپر بے حد گرم ہوئے اور کھانے کو بسم اللہ کہہ کر آگے ہاتھ بڑھایا۔ خوان پوش جو ہٹا تو میری روح پرواز کر گئی، کیونکہ وہاں سوائے آب گوش اور روٹی کے اور کچھ بھی نہ تھا اور یہاں میں گویا بھوک پر دھار رکھ کر آیا تھا۔ یہ آب گوش عجیب کھانا ہے خدا ہر ہندوستانی کو اس سے امن میں رکھے۔ بازاروں میں آپ دیکھ لیجئے کہ بڑی سی دیگ میں گوشت کے ٹکڑے گھلائے جا رہے ہیں۔ کچھ واجبی سا نمک اور روایتاً کہا جاتا ہے کہ از قسم لونگ وغیرہ بھی پڑتا ہے۔ بس اس جوشاندے کے ساتھ روٹی کھائی جاتی ہے۔ بوٹی ہڈی سے کوئی سروکار نہیں۔ جب دیگ کا پانی کم ہو جاتا ہے تو اور ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر شاید ایک دفعہ کے علاوہ پھر نمک تو پڑتا نہیں کیونکہ آب گوش کا پھیکا ہونا لازمی ہے۔ غرض یہ آب گوش تھا۔ جس کا لبالب بھرا ہوا بڑا سا پیالہ بازار سے دو پیسے کو آ سکتا تھا۔ میں نے ناامید ہو کر الشذری سے کہا : "بھئی مجھ سے یہ نہیں چلے گا کیا معلوم تھا ورنہ گھر سے کھانا کھا کر آتے۔”

الشذری نے اس پر ایک مصنوعی قہقہہ لگایا۔ "سبحان اللہ۔” انہوں نے کہا۔ "اور آپ کیا سمجھے تھے کیا بریانی متنجن۔۔۔ جناب یہ تو عرب لوگ ہیں۔ خود حضور سرور کائنات ﷺ کی دعوتوں کا حال پڑھ لو، جو موجود ہوتا تھا پیش کرتے تھے۔”

میں نے کہا : "بھئی تم عجیب آدمی ہو اس بھلے مانس آدمی کو صرف دعوت ہی کے معاملہ میں سنت رسول اللہ کی پیروی کرنا رہ گئی ہے۔ ورنہ یوں ساز و سامان، فرنیچر، جھاڑ فانوس، فرش و فروش سب کچھ ہے، لاحول بھیجو ایسی دعوت پر اور گھر چلو، مگر الشذری اس پر مذہبی رنگ دینے لگے اور اندیشہ ظاہر کیا کہ عجیب نہیں اسی سلسلہ میں ہم دونوں جہنم رسید کر دیے جائیں۔

القصد ہم نے کھانا شروع کیا، مجھ سے دو لقموں سے زائد نہ کھایا گیا۔ وہ عربوں کی سادگی پر لیکچر دے رہے تھے اور میں شوربے کی سادگی پر لیکچر دے رہا تھا جو آب رواں سے بھی زیادہ پتلا تھا۔ میری دانست میں اس سے وضو قطعاً جائز ہو گا۔ غرض میں کھانے کے بجائے کھانے سے کھیلنے لگا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ میں گھر جا کر کھاؤں گا، مگر الشذری گویا ہٹ پر ہٹ لگا رہے تھے۔ آؤٹ ہونے سے پلے ہی دو طویل القامت عرب وارد ہوئے، فوراً ہی بھائی الشذری نے ہاتھ کے اشارے سے ھذا طعام کہہ کر ان کو مدعو کیا۔ اپنے ہندوستان میں قائدہ ہے کہ ایسے موقع پر بھوکے بھی ہوں تو کہہ دیتے ہیں کہ "بسم اللہ کیجئے، خدا زائد دے۔” مگر عراق میں بھوک نہ بھی لگ رہی ہو تب بھی آپ کا آدھا کھانا آپ کے کہنے سے پہلے ہی کھا جائیں گے۔ فوراً یہ دونوں کھانے لگے اور وہ بھی شاید شارٹ ہینڈ میں، کیونکہ بس چار لقموں ہی میں میدان صاف کر دیا۔ اتنے میں حبشی ملازم آیا اور اس سے انہوں نے بلاتکلف کھانے کو کہا۔ بڑی تیزی سے ان دونوں نے باتیں گیں اور پھر ہم دونوں کی طرف گھور کر اس طرح دیکھا کہ بس کھا ہی تو جائیں گے، ادھر دوسری طرف اس نالائق حبشی نے آنکھیں گھمانا شروع کیں۔ میں کچھ گھبرایا اور الشذری بھی چکرائے کہ اتنے میں ایک غریب نے برہم ہو کر الشذری سے کہا : "ہندی مکار اولاد الکلب۔” الشذری تیزی سے خفا ہو کر بولے : "انا اھل السلام۔” اس پر وہ پھٹ پڑا، اور دوسری طرف سے حبشی نے اپنے دانتوں کو چمکا کر گویا مغلظات سنانا شروع کیں۔ بڑی تیزی سے دونوں عرب اور حبشی ہم دونوں کو مغلظات سنا رہے تھے لیکن بھائی شذری بھی کسی سے کم نہ تھے اور وہ اپنی بے تک اڑا رہے تھے۔ "انا حبیب القاضی صاحب انا مدعونی طعام ہذا للیل انت بداخلاق۔ انت توہین متشہیر انا قلت الفساد بالقاضی صاحب۔”

یعنی ہم قاضی صاحب کے دوست ہیں ہمیں آج رات دعوت میں مدعو کیا گیا۔ تم بداخلاق ہو، ہماری توہین و تشہیر کرتے ہو۔ اس فساد کا تذکرہ ہم قاضی صاحب سے کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال تھا کہ اگر کہیں جلدی سے کھانا نہ آتا تو نوبت غل غپارٹ تک پہنچتی اور عجب نہیں جو ہم اور شذری دونوں وہیں جام شہادت نوش کرتے۔ عربوں کی بھی طبیعت عجیب ہے۔ ادھر کھانا آیا اور ادھ خلق مجسم بن گئے، ہم دونوں کو ان دونوں نے جبراً راضی کر کے کھلانا شروع کیا۔ میں نے تو ایک لقمہ لے کر ہاتھ کھینچا مگر بھائی شذری نے اور کھایا۔

اتنے میں قاضی صاحب آ گئے مع تین چار احباب کے۔ ان دونوں عربوں نے دوڑ کر ان سے سلام علیک کی اور فوراً رخصت، قاضی صاحب کے ساتھ ہمارے وہ فارسی داں عراقی کرم فرما تھے۔ جنہوں نے ہمارا قاضی صاحب سے تعارف کرایا تھا۔ جب سب آ کر دوسرے کمرے میں بیٹھے تو بھائی الشذری نے کھانے کے وقت جو بدتمیزیاں ہوئی تھیں ان کی سخت شکایت کی اور بالخصوص حبشی کی۔ وہ سخت متعجب ہوئے کہ "ہائیں تم کھانا کیسے کھا چکے، کھانا تو اب آئے گا۔” اب میں الشذری کی طرف دیکھتا ہوں، اور وہ میری طرف۔

قاضی صاحب حبشی پر آگ بگولا ہو کر گویا برس پڑے۔ اگر کسی نے غضبناک عرب کو دیکھا ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس نے غضبناک شیر دیکھا ہے اور پھر جب کہ عرب کے مہمان کی توہین کی گئی ہو، مگر حبشی نے جو جواب قاضی صاحب کو دیا اس سے وہ صرف خاموش ہی نہیں ہو گئے بلکہ ان کا غصہ بھی رفوچکر ہو گیا اور شرمندہ ہو کر وہ معافی مانگنے لگے۔

قصہ مختصر ان فارسی دان حضرت نے بہت جلد معاملہ صاف کر دیا۔ واقعہ دراصل یوں تھا کہ باہر دوپہر کو قاضی صاحب کو دو سائل ملے اور ان سے قاضی صاحب نے کھانے کو کہا تھا کہ اول وقت آ کر کھانا کھا جانا۔ ادھر اس حبشی سے کہہ دیا تھا کہ شام کو دو سائل آئیں گے، ان کو کھانا کھلا دینا۔” قبل اس کے کہ وہ سائل پہنچیں ہم دونوں جا پہنچے اور پھر بھائی الشذری کی عربی دانی! حبشی نے الشذری سے جب پوچھا کہ "کیا تم وہی دونوں ہو جو بازار میں قاضی صاحب سے ملے تھے اور کھانے کو کہا تھا؟” اس کا جواب الشذری نے محض اس وجہ سے اثبات میں دیا تھا کہ حبشی کی گفتگو میں اگر وہ کوئی لفظ سمجھے تھے تو وہ "طعام” کا تھا۔

جب دونوں سائل آئے اور انہوں نے حبشی سے کھانے کو کہا تو ایک طرف تو حبشی خفا کہ ہم دونوں نے اس کو دھوکہ دیا اور دوسری طرف یہ سائل خفا کہ ہم دونوں کا کھانا یہ دونوں دھوکہ دے کر کھا گئے۔

خمیازہ اس غلط فہمی کا زیادہ تر خود بھائی شذری نے بھگتا جو خوب پیٹ بھر کر کھا چکے تھے، کیونکہ جب دسترخوان لگا اور اس پر بائین قسم کے انواع و اقسام کے کھانے مثلاً انجیر کی کھیر وغیرہ چنے گئے تو میں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور بھائی شذری کو دیکھ رہا تھا کہ ان کی حالت قابل رحم تھی۔

چودھری صاحب اس حادثے کے بعد کچھ دن تو قائل رہے۔ جگہ جگہ میں ان پر فقرے چست کرتا مگر بہت جلد بھول گئے اور پھر وہی عادت کہ سمجھیں نہ سمجھیں مگر عربی بولنے سے باز نہ آتے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ تین عرب دوست ہمارے یہاں آئے۔ ان کو الشذری نے محض عربی بولنے کی نیت سے بلا لیا تھا۔ میں ان سے بہت تنگ تھا کیونکہ یہ تینوں بالکل اجڈ تھے اور جو کچھ بھی پاتے ڈھونڈھ کر کھا جاتے۔

میتھی کا ساگ اور قیمہ جو ہندوستان کا تحفہ ہے اور بہترین پکا ہوا ایک روز کل کا کل کھا گئے اور پھر قدر اس کی یہ کہ اس کو گھاس اور گوشت کہتے۔ غرض میں ان کی بدعتوں سے تنگ تھا۔

یہ تینوں آئے اور الشذری سے دماغ پچی کرنے لگے۔ بھائی شذری کے سر میں سخت درد تھا اور وہ رومال باندھے ہوئے تھے، ان نالائقوں نے الشذری سے کچھ کہا جو کسی طرح ہم دونوں سمجھ گئے وہ کہتے تھے کہ "قریب ہی پڑوس میں ایک حکیم رہتا ہے، وہاں چلو ابھی فورا درد سر جاتا رہے گا۔” اندھا کیا چاہے دو آنکھیں شذری راضی ہو گئے، ہم دونوں مع ان تینوں کے وہاں پہنچے۔ یہ حکیم بھی عجیب احمق صورت اور وضع کا تھا۔ عطائی معلوم ہوتا تھا۔ ایک بڑے سے تخت پر بیٹھا تھا۔ الشذری نے نبض دکھائی اور جس طرح بھی ہو سکا اپنا حال بیان کیا۔ اس نے جو کچھ کہا، نہ میں سمجھا اور نہ الشذری۔ مگر بھائی الشذری نے مجھ سے کہا کہ بھائی تم نہیں سمجھے، یہ دراصل کہہ رہا ہے کہ "دوا ذرا تلخ ہو گی۔ اگر تم منظور کرو تو میں علاج کروں ورنہ نہ کروں” علاج کی تکلیف درد سر کی تکلیف سے بہتر ہے اور پھر ان تینوں عربوں نے کہا کہ دوا پلانے میں یا علاج کرانے میں ہم تم کو پکڑ لیں گے۔” میں اس وقت تو بھائی الشذری کی عربی دانی کا قائل ہو گیا کیونکہ جب دوبارہ دونوں نے کہا تو مجھ کمبخت کی بھی یہی سمجھ میں آیا کہ الشذری ٹھیک سمجھے ہیں۔ اب بھائی شذری کا ما تھا دیکھنے کے لیے ان کو تخت پر لٹا دیا گیا۔ وہ تخت پر چت لیٹ گئے اور میں برابر کھڑا تھا۔ میں نے الشذری سے کہا کہ "یہ کیا معاملہ ہے، تم کو لٹایا کیوں ہے دوا تو بیٹھ کر پی جاتی ہے۔ ذرا پوچھ لو، کہیں غلط فہمی تو نہیں ہوئی؟” اس پر الشذری تیز ہو کر بولے کہ "تم سمجھتے ہو نہیں۔ خدا معلوم ہر بات میں دخل کیوں دیتے ہو؟ وہ پہلے پیشانی دیکھے گا یا کچھ اور دیکھے گا۔” میں چپ ہو رہا۔ اتنے میں گردن زدنی حکیم نے ایک میلا سا چمڑے کا بیگ نکالا۔ اس میں سے ایک بورے سینے کا سا لوہے کا سوا نکالا اور اس کو سنبھال کر اس نے اس طرح چودھری صاحب کا سر پکڑ کر آنکھوں کے سامنے نچایا کہ جیسے ان کی آنکھ پھوڑنا چاہتا تھا۔ میں کم مگر شذری زیادہ گھبرائے مگر معذور تھے۔ جب شذری بے قابو کر دیے گئے تو کشتم کشتا بند ہوئی اور ان کو صرف پیٹھ میں کسی سخت شے کے چبھنے کی شکایت تھی اور مجھ کو بھی اطمینان سا ہو گیا کہ شذری قتل وتل نہیں ہو رہے ہیں کہ اتنے میں وہ چلائے۔ "ارے میری آنکھ پھوٹ جائے گی۔” واہدہ ارے۔۔۔ واہدہ چشم۔۔۔ ” کیا دیکھتا ہوں وہ موذی تو شذری کی جان پر تلے ہوئے ہیں۔ بری طرح گرفت میں تھے اور ایک عجیب کاروائی ہو رہی تھی وہ یہ کہ ان کی پیشانی اسی سوئے سے بری طرح مرغ مسلم کی طرح گودی جا رہی تھی۔ اب وہ اس ڈر کے مارے جنبش بھی نہ کرتے تھے کہ کہیں ہاتھ چوک جائے تو آنکھ نہ پٹ ہو جائے۔ میں نے دل میں کہا یہی غنیمت ہے اور اب میں سمجھ گیا کہ یہ علاج ہو رہا ہے۔ بہت جلد ان کی پیشانی لہولہان ہو گئی۔ بڑی تیزی سے خون پونچھ کر ایک کپڑا بھگو کر باندھا گیا اور الشذری چھوڑ دیئے گئے۔ "ارے کمبختوں تم نے مجھے کس چیز پر چت لٹایا کہ میری پیٹھ میں سوراخ کر دیا۔” یہ کہہ کر کراہتے ہوئے الشذری اٹھے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کرکی قسم کا ایک چھوٹا سا تالا ہے جس میں اس کی کنجی مع دوسری چابیوں کے گچھے کے موجود تھی اور اس پر شذری کو چت لٹا کر تین عرب ان کی چھاتی پر کودوں دلتے رہے تھے۔ غصے میں آ کر بھائی شذری نے اس نامعقول تالے کو مع کنجیوں کے بھنا کر دور پھینکا اور پھر اردو عربی اور فارسی کو ملا کر نہ معلوم ان تینوں عربوں اور حکیم کو کیا کچھ سنا ڈالا۔ ادھر حکیم کھڑا مسکرا رہا تھا اور اپنی کاروائی پر خوش ہو کر نمک پاشی کر رہا تھا۔

بہت جلد معاملہ صاف ہو گیا۔ نہ بیچارے حکیم کی خطا تھی اور نہ ان تینوں عربوں کی۔ اگر خطا اور غلطی تھی تو خود بھائی شذری کی۔ مترجم کی خدمات انجام دینے کے لیے ایک ہندوستانی آ گئے اور معلوم ہوا کہ حکیم بیچارے نے سب کچھ بھائی شذری کو سمجھا دیا تھا کہ کس طرح سوئے سے پیشانی گودی جائے گی اور سخت تکلیف ہو گی درد قطعی جاتا رہے گا، پھر یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ چاروں دوست تم کو پکڑ لیں گے بلکہ حکیم کو شکایت تھی کہ میں نے بجائے علاج میں مدد دینے کے بڑی گڑبڑ کی، کیونکہ میں نے اڑنگا لگا حکیم کو چت گرا دیا تھا۔ ان تمام باتوں کو خوب اچھی طرح حکیم نے سمجھا دیا تھا اور شذری نے رضامندی ظاہر کی تھی پھر اب شکایت کیسی۔

میری ٹانگ میں درد ہو رہا تھا ورنہ میں بری طرح الشذری کی وہیں خبر لیتا۔ حکیم کی فیس ادا کرنی پڑی۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس چپقلش کے بعد بھلا درد سر کا کیا کام، پتہ تک نہ رہا۔ ہاں تخت پر کشتی کرنے کی وجہ سے گھٹنوں میں البتہ سخت چوٹیں آئی تھیں۔ جو پہلے ہی سے ناؤ میں گر کر مضروب تھے مگر یہ چوٹیں ایک طرف اور اس نامراد چھوٹے سے تالے نے جو پیٹھ میں برما چلایا تھا، اس کی تکلیف ایک طرف۔ بس زخم نہیں ہوا تھا۔ ورنہ اس چھوٹے سے تالے کی کنجی گوشت میں پیوست ہو کر رہ گئی تھی اور کہیں اس آپریشن میں تھوڑی دیر اور لگتی تو عجب نہیں کہ گوشت کاٹ کر وہ اندر گھس جاتی۔

وہ دن اور آج کا دن شذری کا عربی بولنے کا شوق ایسا رخصت ہوا کہ پھر کبھی عربی نہیں بولے۔ جتنے دن عراق میں رہے دبے رہے۔ اور اگر کہیں موقع ہوتا تو یہی کہتے کہ بھئی کچھ سمجھے نہیں، بغیر مترجم کے کام نہ چلے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

شاطر کی بیوی

 

                (۱)

 

عمدہ قسم کا سیاہ رنگ کا چمک دار جوتا پہن کر گھر سے باہر نکلنے کا اصل لطف تو جناب جب ہے جب منہ میں پان بھی ہو، تمباکو کے مزے لیتے ہوئے جوتے پر نظر ڈالتے ہوئے بید ہلاتے جا رہے ہیں۔ یہی سوچ کر میں جلدی جلدی چلتے گھر سے دوڑا۔ جلدی میں پان بھی خود بنایا۔ اب دیکھتا ہوں تو چھالیہ ندارد۔ میں نے خانم کو آواز دی کہ چھالیہ لانا اور انہوں نے استانی جی کو پکارا۔ استانی جی واپس مجھے پکارا کہ وہ سامنے طاق میں رکھی ہے۔ میں دوڑا ہوا پہنچا۔ ایک رکابی میں کٹی اور بے کٹی یعنی ثابت چھالیہ رکھی ہوئی تھی۔ سروتا بھی رکھا ہوا تھا اور سبے سے تعجب کی بات یہ کہ شطرنج کا ایک رخص بھی چھالیہ کے ساتھ کٹا رکھا تھا۔ اس کے تین ٹکڑے تھے۔ ایک تو آدھا اور دو پاؤ پاؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ چھالیہ کے دھوکے میں کترا گیا ہے، مگر یہاں کدھر سے آیا۔ غصہ اور رنج تو گمشدگی کا ویسے ہی تھا۔ اب رخ کی حالت زار جو دیکھی تو میرا وہی حال ہوا جو علی بابا کا قاسم کی لاش کو دیکھ کر ہوا تھا۔ خانم کے سامنے جا کر رکابی جوں کی توں رکھ دی۔ خانم نے بھویں چڑھا کر دیکھا اور یک دم ان کے خوبصورت چہرے پر تعجب خیز مسکراہٹ سی آ کر رکھ گئی اور انہوں نے مصنوعی تعجب سے استانی جی کی طرف رکابی کرتے ہوئے دیکھا۔ استانی جی ایک دم سے بھویں چڑھا کر دانتوں تلے زبان داب کے آنکھیں پھاڑ دیں، پھر سنجیدہ ہو کر بولیں :

جب ہی تو میں کہوں یا اللہ اتنی مضبوط اور سخت چھالیہ کہاں سے آ گئی۔ کل رات اندھیرے میں کٹ گیا۔ جب سے رکابی جوں کی توں وہیں رکھی ہے۔”

"اجی یہ یہاں آیا کیسے ؟” میں نے تیز ہو کر کہا۔

استانی جی نے چوروں کی طرح خانم کی طرف دیکھ کے کہا : "خدا جانے کہاں سے آیا۔۔۔ میں۔۔۔ ”

"میں خوب جانتا ہوں۔” یہ کہہ کر غصہ سے میں نے خانم کی طرف دیکھا اور زور سے کہا۔

"ہنسی کیوں ہو؟ میں خوب جانتا ہوں۔۔۔ ان باتوں سے کیا فائدہ؟”

ادھر وہ ہنس پڑیں اور ادھر دروازے سے استانی جی کا لڑکا گھر میں داخل ہوا۔ میری جان ہی تو جل گئی اور میں نے یہ کہہ کر کہ "اسی موذی کی شرارت ہے۔” لڑکے کا کالر پکڑ کر دو تین بید ایسے جمائے کہ مزہ آ گیا۔ یہ بید گویا خانم کے لگے۔ دوڑ کر انہوں نے بید پکڑنے کی کوشش کی اور روکنا چاہا مگر میں نے مارنا بند نہ کیا۔ میں مار رہا تھا اور خانم کہہ رہی تھی۔ "اس کی کوئ خطا نہیں۔” مگر میں غصہ میں دیوانہ ہو رہا تھا اور مارے ہی گیا حتیٰ کہ نوبت بایں جا رسید کہ خانم نے بید پکڑ کر کہا : "تم مجھے مار لو مگر اسے نہ مارو۔” مگر مجھے غصہ ہی بے حد تھا۔ میں نے بید چھڑا لیا اور وہ روتی ہوئی کمرے میں چلی گئیں۔ میں غصہ میں کانپتا ہوا باہر چلا آیا۔

میرا غصہ حق بجانب تھا یا نہیں۔ ناظرین خود انصاف کریں۔ شطرنج کا شوق ہوا تو ہاتھی دانت کے مہر منگائے۔ یہ مہرے نہایت ہی نازک اور خوبصورت تھے اور خان صاحب نے دو ہی دن میں سب کی چوٹیاں توڑ کر ہفتہ بھر کے اندر ہی اندر تمام مہرے برابر کر دیے تھے۔ خان صاحب نہ میز پر کھیلتے تھے اور نہ فرش پر، وہ کہتے تھے کہ شطرنج تخت پر ہوتی ہے۔ تاکہ زور سے مہرے ر مہرے مارنے کی آواز دے۔ اس کے بعد پھر بنارسی مہرے منگائے۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت، نہایت ہی سادہ اور سبک مہرے تھے کہ بس دیکھا کیجئے۔ ہفتہ بھر مشکل سے ان مہروں سے کھیلنے پائے ہوں گے کہ سفید بازی کا ایک پیدل خان صاحب کے سال بھر کے بچے نے کھا لیا۔ بہت کچھ اس کے حلق میں خان صاحب نے انگلیاں گنگھولیں۔ چت لٹایا، جھنجھوڑا، پیٹھ پر دھموکے دیے، مگر وہ ظالم اسے پار ہی کر گیا۔ سفید بازی چونکہ خان صاحب لیتے تھے لیکن اس کے بعد ہی جلد لال بازی کا بادشاہ کھو گیا۔ بہت ڈھونڈا، تلاش کیا مگر بے سود۔ اس کی جگہ دو ایک روز دیا سلائی کا بکس رکھا، پھر ایک روز مناسب عطر کی خالی شیشی مل گئی۔ وہ شاہ شطرنج کا کام دیتی رہی کہ اس کے بعد ہی لال بازی کا فیل اور سفید کا ایک گھوڑا غائب ہو گیا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے اور پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ہو نہ ہو مہرے "آپ کے گھر میں” سے چروائے جاتے ہیں مگر میں یہی کہہ دیتا کہ یہ ناممکن ہے۔ انہیں بھلا اس سے کیا مطلب۔ بہتیرا وہ مجھے یقین دلاتے سر مارتے کہ سوائے ان کے کوئی نہیں، مگر مجھے یقین ہی نہ آتا۔ خان صاحب کہتے تھے "عورتوں کو شطرنج سے بغض ہوتا ہے۔” واقعہ یہ ہے کہ خانم میری شطرنج بازی کے خلاف تو تھیں اور بہت خلاف تھیں، مگر مجھ نہیں معلوم تھا کہ اس طرح مخل ہو سکتی ہیں، غرض ان مہروں کے بعد ہی رام پور سے خان صاحب نے منڈے مہرے امرود کی لکڑی کے منگوا دیے۔ رام پور کے بہتر، عمدہ. خوبصورت اور ساتھ ہی ساتھ مضبوط مہرے ہونا ناممکن ہیں۔ ابھی چار روز بھی آئے نہ ہوئے تھے کہ یہ واقعہ ہوا۔ یعنی استانی جی نے چھالیا کے ساتھ اس نئی شطرنج کا رخ کتر ڈالا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میں نے اس واقعہ کا ذکر سب سے پہلے خان صاحب سے کیا۔ انہوں نے بائیں طرف کی ڈاڑھی کا چھبو جو ذرا نیچے آ گیا تھا خوب اوپر چڑھاتے ہوئے اور آنکھیں جھپکا کر اپنی عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ "میں نہ کہتا تھا کہ مرزا صاحب کہ ہو نہ ہو یہ آپ کے "گھر میں” ہی ہیں۔۔۔ اجی صاحب یہاں اللہ بخشے مرنے والی (پہلی بیوی) سے دن رات جوتی پیزار ہوتی رہتی تھی۔ پھر اس کے بعد اب اس سے بھی دو تین مرتبہ زور کے ساتھ چائیں چائیں ہو چکی ہے اور ہوتی رہتی ہے مگر میں شطرنج کے معاملہ میں ذرا سخت ہوں۔ گھر والی کو سونے کا نوالہ کھلائے، مگر وہ جو کہے کہ شطرنج نہ کھیلو تو بس اسے کھا ہی جائے۔۔۔ جب جا کے کہیں شطرنج کھیلنی ملتی ہے۔ ورنہ یہ سمجھ لیجیے کہ آئے دن کے جھگڑے رہیں گے اور شطرنج کھیلنی دوبھر ہو جائے گی۔ ویسے آپ کا مزاج۔۔۔ میں تو کچھ کہتا نہیں۔”

میں نے سوچا خان صاحب واقعی سچ کہتے ہیں۔۔۔ مگر اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ خان صاحب بولے :

"ابھی کوئی سترہ برس کا ذکر ہے کہ مرنے والی لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ وہ پان نہیں بھیجتی تھی۔ ذرا غور تو کیجیے کہ ہم تو باہر شطرنج کھیل رہے ہیں۔ یہ صاحب بیٹھے ہیں اور پان ندارد! خدا بخشے کسی معاملہ میں نہیں دبتی تھی۔ ہاں تو۔۔۔ کوئی سترہ برس ہوئے وہ لڑنے پر آمادہ ہو گئی۔ خوب چھنی۔ بڑی مشکل سے رام کیا۔”

"وہ کیسے ؟” میں نے پوچھا۔

خان صاحب نے سر ہلا کر ایسا جواب دیا جیسے شاید ڈیوک آف ویلنگٹن نے نپولین کو شکست دے کر وزیر اعظم سے کہا ہو گا۔ "آپ بتائیے۔۔۔ پہلے آپ بتائیے۔ سنئے۔۔۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا۔ بیگم صاحب یہ لو اپنا پانچ روپے کا مہر اور گھر کی راہ لو۔ بندہ تو شطرنج کھیلے گا۔۔۔ پر کھیلے گا۔۔۔ پان بناؤ تو بناؤ، نہیں تو گاڑی بڑھاؤ اور چلتی پھرتی نظر آؤ۔ آخر جھک مار کر بنانا پڑے، اور وہی مثل رہی۔

پانڈے جی پچھتائیں گے

وہی چنے کی کھائیں گے

تو بات یہ ہے۔۔۔ مرزا صاحب بات یہ ہے کہ عورت ذات ذرا شطرنج کے خلاف ہوتی ہے اور ذرا کمزوری دکھائی اور سر پر سوار۔ خان صاحب نے اپنے بائیں ہاتھ کی کلمے کی انگلی پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیوں کو سوار کرتے ہوئے کہا۔ اب میں یہ لیکچر سن کر ترکیب سوچ رہا تھا کہ کہا کروں۔ جو کہوں کہ اپنا راستہ دیکھو تو خانم سیدھی طوفان میل سے گھر پہنچے گی۔ ایک لمحہ نہیں رکے گی۔ گھر پر جی نہیں لگے گا۔ تار الگ دینے پڑیں گے اور ہفتہ بھر کی دوڑ دھوپ کے بعد ہی لانا ہی پڑے گا۔”

خان صاحب نے کہا: "چلی جانے دیجئے۔ جھک مار کر پھر آخر کو خود ہی آئیں گی۔ مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ آخر کتنے دن نہ آئیں گی۔”

میں نے دل میں کہا کہ یہ علت ہے اور خان صاحب سے کہا کہ "مگر مجھے تکلیف ہو جائے گی۔”

"آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔” خان صاحب نے چیں بہ چیں ہو کر کہا۔ "آپ شطرنج نہیں کھیل سکتے۔۔۔ لکھ لیجیے کہ آپ کے "گھر میں” آپ کا شطرنج سولی کر دیں گی۔ آپ نہیں کھیل سکتے۔۔۔”

"آخر کیوں؟”

خان صاحب بولے : "لکھ لیجیے۔۔۔ بندہ خاں کی بات یاد رکھئے گا لکھ لیجئے۔۔۔”

"آخر کیوں لکھ لوں؟ کوئی وجہ؟”

"وجہ یہ!” خان صاحب نے اپنی داہنے ہاتھ کی مٹھی زور سے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر مار کر کہا: "وجہ یہ کہ معاف کیجئے گا آپ زن مرید ہیں۔۔۔ زن مرید۔۔۔! ادھر وہ اجائیں گی اور ادھر آپ۔۔۔ (انگلی گھما کر نقل بناتے ہوئے۔ "ہائے جورو! ہائے جورو!۔۔۔ ایسے کہیں شطرنج کھیلی جاتی ہے۔ لاحول ولا قوۃ”

میں نے طے کر لیا کہ خانم سے اس بارے میں قطعی سخت لڑائی ہو گی۔ میں نہیں دبوں گا۔ یہ میرا شوق ہے، شوق۔ انہیں ماننا پڑے گا۔

 

                (۲)

 

تین چار روز تک خانم سے سخت ترین جنگ رہی، یعنی خاموش جنگ، ادھر وہ چپ ادھر میں چپ۔ خانم کی مددگار استانی اور میرے مددگار خان صاحب۔ پانچویں دن یہ شطرنج دوبھر معلو ہونے لگی۔ میری سپاہ کمزوری دکھا رہی تھی۔ جی تھا کہ الٹا آتا تھا۔ خاموش جنگ سے خدا محفوظ رکھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جیسے گیس کی لڑائی ہو رہی ہے۔ غنیم کا گیس دم گھوٹے دیتا تھا۔ خان صاحب طرح طرح کے حملے تجویز کرتے تھے، مگر جناب اس گیس کی لڑائی میں کوئی تدبیر نہ چلتی تھی۔ خان صاحب ماہر فنون تھے مگر جرمن گیس کا جواب توپ اور بندوق نہیں دے سکتی۔ یہ انہیں معلوم نہ تھا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ پرانے زمانے کی لڑائیاں لڑے ہوئے بیچارے کیا جانیں کہ خاموشی کا گیس کیا بلا ہوتی ہے۔ میری کمزوری پر دانت پیستے تھے، کہتے تھے۔ "نہ ہوا میں۔۔۔۔ دکھا دیتا۔”

خان صاحب اول تو خود جنگی آدمی اور پھر جنرل بھی اچھے، مگر جناب سپاہی ہمت ہار جائے تو جنرل کیا کرے۔ چھ دن گزر گئے اور اب میں جنگ مغلوبہ لڑ رہا تھا۔ بہت ہمت کی، بہت کوشش کی، مگر ہار ہی گیا۔ شرائط صلح بھی بہت خراب تھی۔ شاید معاہدہ ورسیلز جس طرح ترکوں کے لئے ناقابل پذیرائی تھا، اسی طرح میرے لیے بھی شرائط ضرورت سے زیادہ سخت تھیں، مگر بقول "بزور شمشیر و بنوک سنگین” مجھ کو مجبوراً صلح نامہ پر دستخط کرنا پڑے اور صلح نامہ کی سخت شرائط ذرا ملاحظہ ہوں :

 

۱ – خان صاحب سے تمام تعلقات دوستی منقطع کر دوں گا، وہ گھر پر آئیں گے تو کہلوا دوں گا کہ نہیں ہوں۔ ویسے حصہ وغیرہ ان کے یہاں جائے گا اور آئے گا۔

۲ – شطرنج کھیلنا بالکل بند۔ اب کبھی شطرنج نہیں کھیلوں گا۔ خصوصاً رات کو تو کھیلوں گا ہی نہیں۔

۳ – شطرنج کے علاوہ تاش بھی نہیں کھیلوں گا۔ سوائے اتوار کے رات کو وہ بھی نہیں۔

۴ – رات کو دیر کر کے آنا شطرنج کھیلتے رہ جانے کے برابر متصور ہو گا۔ کوئی ثبوت لیے بغیر تصور کر لیا جائے گا کہ شطرنج کھیلی گئی۔ کوئی عذر تسلیم نہ کیا جائے گا۔

پانچویں اور چھٹی شرط میں خود بیان کرنا پسند نہیں کرتا۔

ساتویں شرط یہ تھی کہ اس معاہدہ کی پابندی نہ کی گئی تو "تم اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔”

 

خان صاحب سے میں نے اپنی شکست اور شرائط صلح کا ذکر صاف صاف نہیں کیا مگر اتنا ضرور تسلیم کیا ہے کہ مہرے برابر استانی جی کے لڑکے سے چروائے جاتے رہے۔ پھر صلح کا ذکر کیا اور اس کے بعد کچھ روز کے لیے مصلحتاً شطرنج کھیلنا بند کرنے کا ذکر کا۔ خان صاحب تجربہ کار آدمی تھے۔ دانت نکال کر انہوں نے ران پر ہاتھ مار کر پہلے تو دنیا بھر کی لڑاکا بیویوں کو گالیاں دیں اور پھر کہا :

"میاں لمڈے ہو۔ مجھ سے باتیں بنانے آئے ہو۔ بیوی کی جوتیاں کھا رہے ہو!۔۔۔ شطرنج کھیلیں گے۔۔۔ یہ شطرنج ہے ! ہونہہ۔۔۔ میں نہ کہتا تھا۔۔۔ میری بلا سے۔ تم جانو تمہارا کام، مگر لکھ لو ایک دن سر پکڑ کر روؤ گے۔۔۔ گھر والی کو اتنا سر پر نہیں چڑھاتے۔۔۔ تم جانو تمہارا کام۔۔۔ جب کبھی ملاقات ہوئی علیک سلیک کر لی۔ بس لکھ لو۔۔۔”

خان صاحب کی گفتگو سے کچھ پھریری سی آئی۔ گھر میں آیا تو خانم کو پھول کی طرح کھلا ہوا پایا۔ لاحول ولا قوۃ۔

شطرنج جائے چولھے میں۔ اتنی اچھی بیوی سے شطرنج کے پیچھے لڑنا حماقت ہے۔ کون لڑے۔ گول کرو۔

کسی نے سچ کہا ہے چور چوری سے جائے تو کیا ہیرا پھیری بھی چھوڑ دے۔ لگے ہاتھوں ادھر ادھر کبھی کبھار ایک دو بازیاں جم ہی جاتیں۔ کبھی خان صاحب کے یہاں پہنچ گیا تو کبھی میر صاحب کے یہاں۔ پھر بات چھپی نہیں رہتی۔ خانم کو بھی معلوم ہو گیا کہ کبھی کبھار میں کوئی جرم نہیں۔ خود خانم نے ہی کہا۔ میرا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ قسم کھانے کو بھی نہ کھیلو، کھیلو، شوق سے کھیلو، مگر ایسے کھیلو کہ کبھی کبھار ایک دو بازی وقت پر کھیل لئے کہ یہ کہ جم گئے تو اٹھتے ہی نہیں۔

خانم کو نہیں معلوم کہ "کبھی کبھار” سے اور شطرنج سے باپ مارے کا بیر ہے۔ کبھی کبھار والا بھلا کھیلنے والے کے آگے کیا جمے ؟ جو لوگ مجھ سے آٹھ آٹھ ماتیں کھاتے تھے وہ الٹی مجھے آٹھ آٹھ پلانے لگے۔

دو ایک روز پھر ایسا ہوا کہ قدرے قلیل دیر سے آنا پڑا۔ خانم نے کبھی ناک بھویں سکیڑیں، کبھی ذرا چیں بہ چیں ہوئی، لیکن کبھی چپقلش کی نوبت نہ آئی بس بڑبڑا کر رہ گئیں۔ "پھر وہی شطرنج بازی۔۔۔ خان صاحب کے ساتھ۔۔۔ پھر کھیلنے لگے۔” وغیرہ وغیرہ۔ غرض اسی قسم کے جملوں تک خیریت گزری۔

 

                (۳)

 

ایک روز کا ذکر ہے کہ خانم نے بزاز سے بمبئی کے کام کی عمدہ عمدہ ساڑیاں منگائی تھیں۔ ایک ساڑی بیحد پسند تھی، مگر جیب میں اتنے دام نہیں۔ بار بار بے چین ہو کر وہی پسند آتی، مگر میرے پاس بھلا اتنے دام کہاں۔ کیسی اچھی ہے۔۔۔ رنگ تو دیکھو۔۔۔ بیل!۔۔۔ کیا کام ہو رہا ہے۔۔۔ اور پھر کپڑا۔۔۔ وہ جو میں دلا رہا تھا۔ اس کو طرح طرح سے گھما پھرا کر اس طرح مہنگا ثابت کیا گیا کہ سستا روئے بار بار اور مہنگا روئے ایک بار۔ ایسے موقع پر غریب شوہر کے کلیجہ پر ایک گھونسا لگتا۔ دل پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ "ظالم تجھے کیا خبر میرا بس چلے تو جہان لے دوں مگر کیا کروں۔ بیوی بھی بے بسی کو دیکھتی ہے۔ مجبوری کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ایک سانس لے کر چپ سی ہو جاتی ہے۔ مرد کے لئے شائد اس سے زیادہ کوئی تکلیف دہ چیز نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دفعہ وہ اس تکلیف کو برداشت نہ کرے اور کہیں نہ کہیں سے روپیہ پیدا کرے۔ اپنی چہیتی کا کہنا کر دے مگر وہاں تو یہ حال ہے کہ آج ساڑی کا قصہ ہے تو کل جمپر کا اور یہ چیز ہے تو کل وہ چیز۔ کہاں تک کرے۔ بیوی بیچاری بھی کچھ مجبور نہیں کرتی مگر اس کی آنکھیں مجبور ہیں۔ زبان قابو میں ہے، مگر دل قابو میں نہیں۔ عمر کا تقاضا ہے، کیا اس سے بھی گئی گزری۔

غرض ایسا ہی موقع آیا۔ پسند کردہ ساڑھی نہ لی جا سکتی تھی اور نہ لینے کی طاقت تھی۔ مجبوراً ایک دوسری پسند کی گئی تھی اور دام لے کر میں خود جا رہا تھا کہ کچھ نہیں تو دس پانچ روپیہ اسی میں کم کر دے اور اگر آدھے داموں میں دے دے تو پھر بڑھیا والی ہی لیتا آؤں۔

چلتے وقت خانم نے کہا : "دیکھئے ادھر سے جائیے گا۔ ادھر سے ہو کر۔” انگلی کے اشارہ سے کہا۔ اس سے یہ مطلب تھا کہ دوسری سڑک سے یعنی خان صاحب کے گھر سے بچتے ہوئے کہ شطرنج نہ کھیلنے لگوں۔ میرا ارادہ شطرنج کا نہ تھا۔ میں نے ہنس کر کہا۔ "اب ایسا دیوانہ بھی نہیں کہ کام سے جا رہا ہوں اور چھوڑ چھاڑ شطرنج پر ڈٹ جاؤں۔”

خان صاحب کی بیٹھک کے سامنے سے گزرا تو دیکھوں کہ کچھ بھیڑ بھڑکا ہے۔ جی نہ مانا، رفتار کچھ ہلکی ہی تھی۔ آواز سن کر خان صاحب ننگے پیر چوکھٹ پر کھڑے ہو کر چلائے۔ "اجی مرزا صاحب” اونگھتے کو ٹھیلنے کا بہانہ، سائکل کا انجن روک دیا اور اتر پڑا۔

 

"دور ہی دور سے چلے جاؤ گے۔ ایسا بھی کیا ہے۔” یہ کہہ کر خان صاحب نے ہاتھ پکڑ کر مونڈھے پر بٹھایا۔ ایک نئے شاطر آئے ہوئے تھے۔ دو یا تین ماتیں میر صاحب کو دے چکے تھے۔ اب ایک اور صاحب ڈٹے ہوئے تھے۔ بڑے زور کی بازی ہو رہی تھی۔ دونوں بازیاں برابر کی تھیں۔ گزشہ بازیوں کی خان صاحب نے تفصیل سنائی۔ میر صاحب نے بتایا کہ کس طرح پہلی بازی میں خان صاحب نے ایک غلط چال بتا کر ان کا گھوڑا پٹوا دیا اور پھر کس طرح دھوکہ میں خود انہوں نے اپنا رخ پیدل کے منہ میں رکھ دیا۔ ورنہ وہ بازی میر صاحب ضرور جیت جاتے بلکہ جیت ہی گئے تھے۔ کیونکہ قلعہ دشمن کا توڑ ہی دیا تھا اور بادشاہ زچ بیٹھا تھا۔ بس ایک گھوڑے کی شہ کی دیر تھی کہ غلطی سے پیدل کے منہ میں رخ رکھ دیا۔ ورنہ گھوڑا کم ہونے پر بھی انہوں نے مات کر دی ہوتی۔ نئے شاطر نے کچھ اس کی تردید کی، وہ دراصل کافی دیر کرتے مگر مجبوری تھی اور کھیل میں منہمک تھے۔ دوسری بازی کی تفصیل بھی میر صاحب سنانا چاہتے تھے کہ کن غیر معمولی وجوہات سے اتفاقاً یہ بازی بھی بگڑ گئی” مگر اب موجودہ کھیل زیادہ دلچسپ ہوا جا رہا تھا۔

بازی بہت جلد ختم ہو گئی اور نئے شاطر پھر جیتے۔ میں خان صاحب سے یہ کہتا ہوا ا تھا کہ "ابھی آیا کچھ کپڑا لے آؤں۔” خان صاحب نے بڑے پختہ وعدے لئے جب جا کر چھوڑا۔ کپڑے والے کی دکان پر پہنچا اور ساڑھی خریدی۔ دام نقد ہی دے دیے۔ لالہ صاحب بہت معقول آدمی تھے اور بقول ان کے تمام کپڑے مجھے دام کے دام پہ دے دیتے تھے۔

دکان سے ساڑھی لے کر واپس آیا اور خان صاحب کے یہاں شطرنج دیکھنے لگا۔ بڑے کانٹے کی شطرنج کٹ رہی تھی۔ کیونکہ میر صاحب نے ان نو وارد شاطر کر ایک مات دی تھی اور اب دوسری بازی بھی چڑھی ہوئی تھی۔

میرے بتانے پر نو وارد صاحب نے بھنا کر میری طرف دیکھا اور کہا : "بولنے کی نہیں ہے

صاحب۔” خان صاحب تیز ہو کر بولے۔ "میر صاحب کیا اندھے ہیں؟ کیا انہیں اتنا نہیں دکھائی دیتا کہ مہرہ پٹ رہا ہے۔ کیا وہ ایسے اناڑی ہیں؟”

 

"آپ اور بھی بتائے دیتے ہیں” نو وارد نے کہا۔ ادھر صاحب واقعی اندھے ہو رہے تھے اور اگر خان صاحب نہ بولتے تو گھوڑا مفت پٹ گیا ہوتا۔ وہ گھوڑے کو پٹتا چھوڑ کر رخ چل رہے تھے۔ اب رخ کی چال واپس کر کے انہوں نے گھوڑا پکڑا۔

"چال ہو گئی۔” نووارد نے بگڑ کر کہا۔ "چال کی واپسی نہیں۔”

میر صاحب جل کر بولے : "جھوٹی موٹی تھوڑی ہو رہا ہے۔ شطرنج ہو رہی ہے۔ چال کی واپسی کی برابر نہیں، مگر میں نے چال بھی تو نہیں چلی۔ میں نے رخ کو چھوا اور چال ہو گئی؟ یہ کیا؟۔۔۔ روتے ہو۔۔۔”

"جی نہیں۔” نووارد نے کہا۔ "چال ہو گئی آپ کو رخ وہی رکھنا پڑے گا۔ میں چال واپس نہیں دوں گا۔ یہ کہہ کر رخ اٹھا کر اس جگہ رکھ لیا اور میر صاحب نے پھر واپس رکھ لیا۔ تیز ہو کر نووارد نے جھنجھلا کر کہا۔ "جی نہیں چلنا پڑے گا۔” اور پھر اپنی چال بھی چال دہ۔ یعنی رخ سے میر صاحب کا گھوڑا مار مٹھی میں مضبوط پکڑ لیا۔

میر صاحب نے اور خان صاحب نے ہلڑ سا مچایا۔ میر صاحب کو جو تاؤ آیا تو گھوڑے کو رخ سے مار دیا۔ نووارد نے رخ کو رخ سے مارا تو خان صاحب نے غصہ میں اپنے وزیر سے مخالف کے فیل کو دیدہ و دانستہ مار کر وزیر کو پٹا مہرے بساط پر یہ کہہ کر پٹک دیئے "شطرنج کھیلتے ہو کہ روتے ہو؟ یہ لو میں ایسے اناڑیوں سے نہیں کھیلتا۔”

اب میں بیٹھا، مگر نہ میر صاحب کی زبان قابو میں تھی اور نہ خان صاحب کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میر صاحب میرے مہرے اٹھا اٹھا کر چلنے لگے۔ دو ملاؤں میں مرغی حرام، وہ مضمون اس بازی کا ہوا۔ شیخ جی (نووارد) ویسے بھی اچھی شطرنج کھیلتے تھے، بازی بگڑنے لگی کہ میر صاحب نے پھر ایک چال واپس کی۔ شیخ جی نے ہاتھ پکڑ لیا حالانکہ میر صاحب چال چل چکے تھے، مگر کہنے لگے کہ "ابھی تو مہرہ میرے ہاتھ میں تھا۔” خوب خوب جھائیں جھائیں ہوئی۔ شیخ جی مہرہ پھینک کر بگڑ کھڑے ہوئے، نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ جی بھاگ گئے۔ میں بھی اٹھنے کو ہوا تو میر صاحب نے کہا کہ "آو ایک بازی ہو جائے۔” میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی تو شام ہی تھی، میں نے جلدی جلدی مہرے جمائے کہ لاؤ ایک بازی کھیل لوں۔

میر صاحب روز کے کھیلنے والے، جھٹ پٹ انہوں نے مار کر دیا۔ میں نے جلدی سے دوسری بچھائی۔ وقت کی بات میر صاحب نے وہ بھی مات کیا۔ تیسری بچھائی، یہ دیر تک لڑی۔

میری بازی چڑھی ہوئی اور میں ضرور جیت جاتا کہ میرا وزیر دھوکہ میں پٹ گیا۔ چال واپس کی ٹھہری نہیں تھی۔ یہ بھی میر صاحب جیتے۔ خوش ہو کر کہنے لگے۔ "اب تم سے کیا کھیلیں، ہماری شطرنج خراب ہوتی ہے۔ کوئی برابر والا ہو تو ایک بات تھی۔”

مجھے غصہ آ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ "میر صاحب وہ دن بھول گئے۔ جب چار چار مات دیتا تھا اور ایک نہیں گنتا تھا۔ میری شطرنج چھوٹی ہوئی ہے۔”

میر صاحب نے اور میری جان جلائی کہنے لگے۔ "ہار جاتے ہیں تو سب یوں ہی کہتے ہیں”

غرض پھر ہونے لگی، اب میں جیتا۔ میں کوشش کر رہا تھا کہ تینوں بازیاں اتار دو اور میں نے دو اتار دیں اور تیسری زور سے جمی ہوئی تھی کہ خان صاحب نے سر اٹھا کر باہر جھانکا۔ "کون ہے ؟” انہوں نے کہا اور سارس کی سی گردن اونچی کر کے دیکھا اور کہا :

"لیجیے۔” کچھ طنزاً کہا۔ "لیجئے وہ ایلچی آ گیا۔”

یہ میرا ملازم احمد تھا۔ وہ جا رہا تھا۔ میں نے آواز دے کر بلایا۔

"کیوں کیسے آئے۔”

"کچھ نہیں صاحب۔۔۔ دیکھنے بھیجا تھا۔”

"اور کچھ کہا تھا؟”

"جی نہیں بس یہی کہا تھا کہ دیکھ کے چلے آنا۔۔۔ جلدی سے۔”

"تو دیکھو” میں نے کہا۔ "کہا کہو گے جا کے ؟۔۔۔ یہ کہنا کہ خان صاحب کے یہاں نہیں تھے۔ یوسف صاحب کے یہاں تھے۔۔۔ مگر نہیں۔۔۔ تم سے تو یہی کہا ہے کہ خان صاحب کے یہاں دیکھ لینا۔۔۔ تو بس یہی کہہ دینا نہیں تھے۔۔۔ دیکھو۔۔۔”

"لا حول ولا قوۃ” خان صاحب نے بگڑ کر کہا۔ "ارے میاں تم آدمی ہو کہ پنج شاخہ! بیوی نہ ہوئی نعوذ باللہ وہ گئی۔ نہیں جی۔” خان صاحب نے غصہ سے احمد سے کہا۔ "جاؤ کہنا خان کے یہاں بیٹھے شطرنج کھیل رہے ہیں اور ایسے ہی کھیلیں گے۔”

"نہیں نہیں دیکھو۔۔۔” میں نے کہا مگر خان صاحب نے جملہ کاٹ دیا۔

"جاؤ یہاں سے کہہ دینا شطرنج کھیل رہے ہیں۔”

"مت کہنا۔” میں نے کہا۔ "ابھی آتا ہوں۔”

احمد چلا گیا اور اب خان صاحب نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا۔ بہت سی انہوں نے تجویزیں میرے سامنے پیش کیں، مثلاً یہ کہ "میں ڈوب مروں۔۔۔ دوسری شادی کر لوں۔۔۔ گھر چھوڑ دوں۔۔۔ یہ سب محض اس وجہ سے کہ ایسی زندگی سے کہ بیوی کی سخت گیری کی وجہ سے شطرنج کھیلنا نہ ملے، موت سے بدرجہا بہتر۔

غرض اسی حجت اور بحث میں میرا ایک رخ پٹ گیا اور میری بازی بگڑنے لگی کہ میں نے میر صاحب کا وزیر مار لیا۔

میر صاحب غصہ ہو کر پھاند پڑھ۔ "ادھر لاؤ وزیر۔۔۔ ہاتھ سے وزیر چھینتے ہو۔ ابھی تو میرے ہاتھ میں ہی تھا۔”

"اس کی نہیں ہے۔” میں نے کہا۔ "وزیر واپس نہیں دوں گا۔ ابھی ابھی تم نے مجھ سے گھوڑے والا پیدل زبردستی چلوا لیا تھا اور اب اپنی دفعہ یوں کہتے ہو! میں نہیں دوں گا۔”

خان صاحب بھی میر صاحب کی طرف داری کرنے لگے۔ مگر یہ آخری بازی تھی جس سے میں برابر ہوا جا رہا تھا، لہذا میں نے کہا کہ میں ہرگز ہرگز چال واپس نہ دوں گا۔ خوب خوب حجت ہوئی، گزشتہ پرانی بازیوں کا ذکر کیا گیا۔ مجھے ان سے شکایت تھی کہ پرانی ماتیں جو میں نے ان کو دی تھیں وہ بھول گئے اور یہی شکایت ان کو مجھ سے تھی۔ پرانی ماتوں کا نہ میں نے اقبال کیا اور نہ انہوں نے۔ بالاخر جب یہ طے ہو گیا کہ میں وزیر واپس نہیں دوں گا تو میر صاحب نے مہرے پھینک کر قسم کھائی کہ اب مجھ سے کبھی نہ کھیلیں گے، لعنت ہے اس کے اوپر جو تم سے کبھی کھیلے۔ بے ایمان کہیں کے، تف ہے اس کم بخت پر جو تم سے اب کھیلے۔”

میں نے بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے اور نہایت بدمزگی سے ہم دونوں اٹھنے لگے۔ خان صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا۔ بھئی یہ تو کچھ نہ ہوا برابر برابر ہو گئی۔ ایک کو ہارنا چاہیے۔” اس پر میر صاحب بقولے کہ میں جیتا اور میں بولا کہ یہ غلط کہتے ہیں، برابر ہے، خان صاحب نے کہا کہ اچھا، ایک بازی اور ہو، مگر میر صاحب کہنے لگے : "تو یہ ہے، ارے میاں خان صاحب تم مسلمان ہو اور میرا یقین نہیں کرتے میں قسم کھا چکا، لعنت ہو اس پر جو اب ان سے کھیلے۔”

میں نے میر صاحب سے طنزاً کہا : "میر صاحب قبلہ یہ شطرنج ہے ً اس کو شطرنج کہتے ہیں۔ مذاق نباشد۔ ابھی سیکھئے کچھ دن۔”

"ارے جاؤ۔” میر صاحب بولے۔ "بہت کھلاڑی دیکھے ہیں۔ نہ معلوم تم سے کتنوں کو سکھا کر چھوڑ دیا۔ ابھی کچھ دن اور کھیلو۔” اسی قسم کی باتیں کرتے ہوئے میر صاحب اٹھ کر چلے گئے۔ خان صاحب میرے لیے پان لینے گئے، میں اپنی سائکل کے پاس پہنچا اور بتی جلائی۔ اتنے میں خان صاحب پان لے کر آ گئے اور میں چل دیا۔

بمشکل سامنے کے موڑ پر پہنچا ہوں گا کہ سامنے سے ایک آدمی نے ہاتھ سے مجھے روکا۔ میں رک گیا تو اس نے پیچھے اشارہ کیا۔ مڑ کر دیکھتا ہوں کہ میر صاحب چلاتے بھاگتے آتے ہیں۔ "اچھی مرزا صاحب، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔” میر صاحب ہانپتے ہوئے بولے۔ "واللہ میں نے اچھی طرح حساب کیا کعبہ کے رخ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہوں میری دو بازیاں اس آخری بازی کو چھوڑ کر تمہارے اوپر چڑھی رہیں۔”

میں نے کہا : "بالکل غلط، بلکہ میری ہی آپ پر ہوں گی۔ آپ وہ اس اتوار والی بازی بھی لگاتے ہوں گے، وہ جس میں آپ کا رخ کم تھا۔”

"کیوں نہیں ضرور لگاؤں گا۔” میر صاحب نے کہا۔

"یہ کیسے۔” میں نے کہا۔ "خوب! خان صاحب کی بازی اگر میں دیکھنے لگا اور ایک آدھ چال بتا دی تو وہ مات مجھے کیسے ہوئی۔”

"اچھا وہ بھی جانے دو خیر تو پھر ایک تو رہی۔”

"وہ کون سی؟”

"وہ جو شوکت صاحب کے یہاں ہوئی تھی۔”

"کون سی، کون سی مجھے یاد نہیں۔”

"ہاں ہاں بھلا ایسی باتیں تمہیں کیوں یاد رہنے لگیں، ایسے بچہ ہو نہ ہو۔”

"مجھے تو یاد نہیں میر صاحب۔” میں نے کہا۔ "ہمیشہ آپ کو مات دے کر چھوڑ کر اٹھا ہوں یا اتار کر، ورنہ آپ پر چڑھا کر۔”

"ارے میاں ایک روز سب کو مرنا ہے۔ کیوں اپنی عاقبت ایک بازی شطرنج کے پیچھے خراب کرتے ہو۔ ذرا خدا اور رسولﷺ سے نہیں ڈرتے۔ شرم نہیں آتی، مات پہ مات کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو۔”

"میر صاھب۔” میں نے کہا۔ "آپ تو تین جنم لیں تب بھی مجھے مات دینے کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اور بات ہے کہ بھول چوک میں ایک آدھ بازی پڑی مل جائے۔”

"ارے تم بیچارے کیا کھا کے کھیلو گے۔ گھر والی تو قابو میں آتی نہیں۔ میاں شطرنج کھیلنے چلے ہیں۔ اب دس برس رخ اٹھا کے کھلاؤں۔ کیا بتاؤں قسم کھا چکا ہوں ورنہ ابھی بتا دیتا۔”

"میر صاحب یہ شطرنج ہے۔” میں نے طنزاً کہا۔ "کبھی خوب میں بھی جیتے ہو؟”

"کیا قسم میری تم تڑواؤ گے ؟”

"ابھی شطرنج سیکھئے۔” یہ کہہ کر میں نے پیر مار کے انجن اسٹارٹ کر دیا اور سائیکل کو آگے بڑھایا۔

"تو پھر ایک بازی میر رہی۔” میر صاحب ہینڈل پکڑ کر بولے۔

"غلط بات۔” میں نے کہا۔

لیکن،میر صاحب نے سائیکل کو روک کر کھڑا کر دیا اور بولے۔ "ماننا پڑے گی۔”

میں نے کہا : "نہیں مانتا۔”

میر صاحب پھر بولے۔ "تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آ جاؤ۔۔۔۔ابھی۔۔۔۔قسم تو ٹوٹے ہی گی۔۔۔ خیر لیکن بازی۔”

میں نے کچھ سوچا یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لہٰذا میں نے میر صاحب سے طے کر لیا کہ بس ایک بازی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑ لی۔

خان صاحب کے اخلاق کو دیکھئے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھا کر آئے اور "بھئی واللہ!” کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لئے بہت کچھ معذرت کی۔ مگر بیکار، خان صاحب نے زبردستی کھلایا، اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراً تیار کئے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہے گی، مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔

شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ "اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔” میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا۔ "اب ہم دونوں برابر ہو گئے، اب کوئی ضرورت نہیں۔، خان صاحب ہنس کر بولے کہ ” واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے، برابر رہنا ٹھیک نہیں۔” ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے، جس سے وہ دستبردار ہو گئے تھے، اور کہنے لگے ہیں کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا، ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی جو قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کو میں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا، مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہو گیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہو گئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی، ساڑے بارہ بجے تھے۔

 

                (۴)

 

میں گھبرا کر اٹھا۔ بڑی دیر ہو گئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی، غالباً صبح تک لڑتی رہے گی۔ کیا کیا جائے ؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تدبیر سمجھ میں آ گئی، سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا، رات کو لالہ کو جا کھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ”وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔” لالہ صاحب گھبرائے، کہا۔ "خیر تو ہے ؟” مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کے، مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمدہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کرے اور چپکے سے دروازے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب دروازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹخنی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔

میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ”میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ جاتی ہو تو کیا کر لو گی۔ میرے پاس بڑھیا والی ساڑی ہے۔ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا۔ ” کیوں، کیا جاگتی ہو؟”

وہ بولیں۔ "تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھیلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔”

"تم بھی عجیب عورت ہو!” میں نے ڈانٹ کر کہا۔ "بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔۔”

"پھر؟” خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ "پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟” اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔

"ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔ ”

"ہو گا۔” خانم نے کہا۔”ہوں گے آدمی،پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔”

"یہ لو۔” یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا۔ لیمپ کی روشنی فوراً تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ "وہ مارا اناڑی کو۔” میں نے دل میں کہا۔

بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔

مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔

ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذرہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بیحد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بیحد عزیز ہیں۔ پلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہو گیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میں خانم کو بائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔

یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ ” دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔”

میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا۔ ” شاید اسی طرز و انچاز نے بت پرشتی و شرک کی بنا ڈالی ہے ! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے ؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔

قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے۔ بجو۔۔”

بیتاب ہو کر خانم نے کہا۔”بھیا۔۔” اور بے تحاشہ مجھ سے توڑا کہ بھاگی کہ بھیا خود آ گئے۔ "کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو جیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔

ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا۔ "شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔ شطرنج۔۔”

"کیوں؟””دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ۔۔”

"بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے ؟۔۔۔ برج کھیلا کیجئے۔” بھیا نے کہا۔ ” ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔”

"بڑی خراب چیز ہے بھائی۔” بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔”

"رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔” میں نے کہا۔ "بھیا میرے پاس۔۔۔ ” خانم ذرا چیخ کے بولی۔ "وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔ ”

مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ "وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئے گا۔” چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!

 

                (۵)

 

چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ "ادھر سے جائے گا۔۔ ادھر سے۔۔ "بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ "دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔”

بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہو گی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔

"وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔” یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ ” ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔”

میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہو کر کہا۔”کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔”

"ایسا بھی کیا ہے !” خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا۔ "ذرا بیٹھو۔”

"اماں مرزا صاحب۔۔۔ مرزا جی۔۔۔ ” میر صاحب بیٹھک میں سے بولے۔ "واللہ دیکھو۔۔ تمہیں واللہ۔ اماں سنتے نہیں۔۔۔ ” ہاتھ سے بلا کر بولے۔ "تمہیں واللہ ذرا آ کر تماشا تو دیکھو، کیسا لالہ جی کا وزیر گھیرا ہے۔۔ ارے میاں ذرا۔۔۔ ”

"نہیں تمہیں ہم نہ چھوڑیں گے۔” یہ کہہ کر خان صاحب نے گھسیٹا۔

"بخدا مجھے بڑے ضروری کام سے جانا ہے۔ کل صبح تڑکے ہی موٹر چاہیے۔۔۔ اتوار کا دن ہے۔ ویسے ہی موٹر خالی نہیں ہوتا۔۔۔ ”

"بیر سٹر صاحب کے یہاں جا رہے ہوں گے۔۔ موٹر لینے۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیا کرو گے ؟”

میں نے خان صاحب کو بتایا کہ خانم اور ان کے بھائی دونوں کو کل دن بھر مختلف مقامات کی سیر کرانا ہے۔

"لاحول ولاقوۃ” خان صاحب نے مجھے گھسیٹتے ہوئے کہا۔ "اماں ہم سمجھے کوئی کام ہو گا۔۔۔ واللہ تم نے تو غضب ہی کر دیا۔ ذرا غور کرو۔۔۔ بھئی اندر چلو ذرا۔۔”

"میں رک نہیں سکتا۔”

"بخدا ذرا دیر کو۔۔۔ بس دو منٹ کو۔۔ بس پان کھاتے جاؤ۔”

یہ کہہ کر خان صاحب نے آخر گھسیٹ ہی لیا۔ بیٹھک میں پہنچا تو میر صاحب مارے خوشی کے بے حال تھے۔

"واللہ۔۔۔۔ بھئی مرزا کیا بتاؤں تم نہ آئے۔ دیکھو ان کا وزیر یہاں تھا۔۔۔ میں نے پیدل جو آگے بڑھایا تو۔۔۔ ”

"تو مہرے آپ کیوں جگہ سے ہٹاتے ہیں۔ کھیلنا ہو تو کھیلئے۔۔۔ ”

یہ کہہ کر لالہ صاحب نے میر صاحب کو چپ کیا اور ادھر خان صاحب نے اپنا سلسلہ کلام شروع کیا۔

"تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ آپ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تو بات یہ ہے میاں تم ابھی نا تجربہ کار ہو۔ بھلا عورتوں کو موٹروں کی سیر سے کیا تعلق؟ خدارا کچھ سیکھو، جب ہی تو ہے نا کہ آپ کی "گھر میں” آپ شطرنج بھی نہیں۔۔۔ ”

"نقشہ دیکھو۔۔۔۔۔ ارے رے !” میرے صاحب نے زور سے پکڑ کر خان صاحب کو ہلا ڈالا۔ "و اللہ ! بادشاہ کو گھیرا ہے۔۔۔ اپنا وزیر پٹا کر۔۔۔۔؟ مخالف سے مخاطب ہو کر۔ "مارئیے وزیر، لالہ صاحب۔۔۔۔ وزیر مارنا پڑے گا۔۔۔ مارو تو مات، نہ مارو تو مات۔۔۔۔ یہ لو مہرے اور بنو۔۔۔ بوندیں آ گئیں۔۔۔ اور بنو۔۔۔ ہٹاؤ چرخہ۔۔۔ یہ لو۔”

میر صاحب نے واقعی خوب مات کیا تھا، اور میں اٹھنے لگا۔

"بھئی ہم نہ جانے دیں گے۔۔ بغیر پان کھائے ہوئے۔۔۔ ” ارے پان لانا۔ خان صاحب نے زور سے آواز دی اور پھر کہا۔ ” بھئی کوئی بات بھی ہے۔ عورتوں کو اول تو سیر کرانا ہی منع ہے اور پھر تم دیکھ رہے ہو کہ روز بروز تمہارے گھر کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ آج شطرنج کو منع کرتی ہیں کل کہہ دیں گی کچہری نہ جایا کرو۔۔۔ چھوڑو ان باتوں کو، اور سہی تو ایک بازی میرے صاحب کی دیکھ لو، چلے جانا، جلدی کاہے کی ہے۔”

"میر صاحب کا کھیل میں نے بہت دیکھا ہے۔” میں نے کہا۔ "مجھے جلدی جانا ہے۔”

"میرا کھیل؟” میر صاحب بولے۔ "میرا کھیل دیکھا ہے۔۔۔ یہ کہو مذاق دیکھا ہے، تمہارے ساتھ کھیلتا تھوڑی ہوں۔ مذاق کرتا ہوں۔”

"اس روز زچ ہو گئی۔۔۔ بازی زچ ہو گئی ہو گی۔ ورنہ پیدل ہوتی اور وہ بھی پیدل پسند۔””بازی تو آپ کی خوب چڑھی ہوئی تھی۔” خان صاحب نے تائید کی۔

"جی ہاں۔” میر صاحب بولے۔،ڈھیل دے کر کاٹتا ہوں۔۔۔ "اناڑی کو بڑھا کر مارتا ہوں اور ایک میری اب بھی چڑھی ہوئی ہے۔”

"مر گئے چڑھانے والے۔” میں نے ترش روئی سے کہا۔ "میر صاحب یہ شطرنج ہے۔”

پھر آ جاؤ نا۔۔۔ تمہیں آ جاؤ۔۔۔ ”

بھائی ہو گی۔۔۔ ہو گی۔۔۔ ہٹو تو۔۔۔ ” خان صاحب نے شطرنج میری طرف گھسیٹتے ہوئے کہا۔

ہو گی۔۔۔ بس ایک بازی ہو گی۔”

"نہیں صاحب مجھے جانا ہے۔۔۔ ضروری کام سے۔” میں نے کہا۔

"ہم آدمی بھیج دیں گے۔۔۔ دیکھا جائے گا۔ اماں بیٹھو۔۔ رکھو۔۔ بس، ایک۔”

میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ جماہی لے کر کہا۔ "اچھا لائیے۔ ایک بازی میر صاحب کو مات دے ہی دوں۔ آؤ بس ایک ہو گی۔”

ایک بازی میر صاحب پر نظر کی چوک سے ہو گئی اور بڑی جلدی ہو گئی تو میں اٹھنے لگا۔ لیکن خاں صاحب نے آستین پکڑلی کہ "بھئی یہ اتفاق ہے یہ کچھ نہیں ایک اور کھیل لو۔” میں نے کہا کہ ” خیر اچھا کھیلے لیا ہوں۔” اور بیٹھ گیا۔

مگر اتفاق تو دیکھئے کہ یہ اس سے بھی جلدی چٹ پٹ ہو گئی۔ میر صاحب کا چہرہ فق ہو گیا۔ غضب ہے دس منٹ میں دو بازیاں۔ خان صاحب نے پھر پکڑ لیا اور کہا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ غرض اسی طرح پانچ بازیاں میر صاحب پہ ہو گئیں۔ اب میں بھلا کیسے جا سکتا تھا۔ کیوں نہ ساتھ بازیاں کر کے میر صاحب کی لنگڑی باندھوں اور پھر دو بازیاں اور یعنی پورے نوکر کا ” نوشیرواں” کر دوں۔ ضروری کروں گا، ابھی تو بہت وقت ہے۔

میں نے کہا کہ ” میں جانتا ہوں ورنہ لنگڑی کے لیے رسی منگائے، میر صاحب غصہ میں خود چارپائی کی ادوان کھولنے لگے۔ خان صاحب نے فوراً رسی منگا دی اور اب زور شور سے شطرنج شروع ہو گئی۔

ایک بج گیا اور میں اب گویا چونک سا پڑا۔ بلا مبالغہ سینکڑوں بازیاں ہوئیں مگر مجھے لنگڑی نصیب نہ ہوئی۔

میں شطرنج چھوڑ چھاڑ کر سیدھا گھر بھاگا۔ پھاٹک پہ جب سائیکل روکی ہے تو آدھی رات گزر کر سوا بجے کا عمل تھا۔

"یا اللہ اب کیا کروں؟” میں نے پریشان ہو کر کہا۔ "خانم کیا کہے گی، لاحول ولاقوۃ۔ میں نے بھی کیا حماقت کی۔ بھیا کیا کہے گا؟ بڑی لڑائی ہو گی۔ "شش و پنج میں کھڑا سوچتا رہا، مگر اب تو جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا۔

اسی روز کی طرح بھینس کی ناند پر سے دیوار پار کی۔ استانی جی کے کمرے کے سامنے ہوتا ہوا تیزی سے نکل گیا۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ ٹٹول کر کپڑے اتارے سلیپر بغل میں دابے برابر والے کمرے میں داخل ہوا جس میں بھیا کا پلنگ تھا۔ بڑی ہوشیاری سے چاروں ہاتھ پاؤں پر چلتا ہوا گویا جانور کی طرح جانے کی ٹھہرائی۔ آدھے کمرے میں جو پہنچا تو ماتھے میں میز کا پایہ لگا اوپر سے کوئی چیز اس زور سے گردن پر گری کہ اس اندھیرے میں آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ میں دبک کر بیٹھ گیا۔ میں جانتا ہی تھا کہ بھیا غافل سونے والے ہے، خانم سے بھی نمبر لے گیاہے۔ بغیر یہ دیکھے ہوئے کہ یہ کیا گردن زونی چیز تھی جو میری گردن پر گری، رینگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ اور اٹھ کر اب خانم کے کمرے کے دراشے پر پہنچا۔ خدا کا شکر ہے کہ اندھیرا گھپ تھا۔ اسی طرح پھر چاروں ہاتھ پاؤں کے بل رینگنا شروع کیا، کیونکہ اس روز خانم اٹھ بیٹھی۔ چپکے چپکے پلنگ تک پہنچا اور غڑاپ سے اپنے بچھونے میں لحاف تان کے دم بخود پڑے پڑے سوگیا۔

صبح دیر سے آنکھ کھلی، اٹھا جو سہی تو کیا دیکھتا ہوں کہ خانم مع بسترا غائب۔ ارے ! نکل کر دوڑا تمام معاملہ ہی پلٹ گیا۔ نہ بھیا ہیں نہ خانم، نہ استانی جی! نوکر نے کہا کہ رات کی بارہ بجے کی گاڑی سے سب گئے۔ غضب ہی ہو گیا۔

نہ تو ناشتے میں جی لگا اور نہ کسی اور طرف۔ سخت طبیعت پریشان تھی۔ اندھیرا ہو گیا، جن کمروں میں بھیا اور خانم کی مزیدار باتوں اور قہقوں سے چہل پہل تھی ان میں سناٹا تھا۔ ادھر گھوما، ادھر گوما، گھر ایک اجڑا مقام تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد بادلوں کی طرح گھومنے لگا۔ ایک دم سے غصہ آیا کہ چلو خان صاحب کے یہاں پھر جمے گی۔ کپڑے آدھے پہنے تھے کہ پھر طبیعت پہ خلجان سوار ہو گیا۔

خدا خدا کر کے تین بجے، اب خانم گھر پہنچنے والی ہو گی، لہٰذا تار دیا۔ "جلدی آؤ اور فوراً تار سے جواب دو۔” مگر جواب ندارد۔ وقت گزر گیا۔ دوسرا جوابی تار دیا کہ "جلدی آؤ۔” جواب آیا۔ ” نہیں آتے ” پھر جواب دیا۔ "اب شطرنج کبھی نہیں کھیلیں گے، جواب رات کو آیا۔ ” خوب کھیلو۔”

رات کے بارہ بجے کی گاڑی سے خود روانہ ہو گیا۔

خانم کے گھر پہنچا۔ خانم کی ماں اور باپ دونوں خانم سے بیحد خفا تھے۔ مگر خانم جب چلنے پر راضی ہوئی جب خدا اور رسول اور زمین و آسمان معہ قرآن مجید اور خود خانم کے سر اور بھیا اور خود خانم کی محبت کی قسم کھائی۔ وہ بھی بڑی مشکل سے وہ دن اور آج کا دن، جناب میری شطرنج ایسی چھوٹی ہے کہ بیان سے باہر، مگر سوچ میں رہتا ہوں کہ کون سی تدبیر نکالوں۔ شائد کوئی شاطر بتا سکے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رموز خاموشی

 

 

میں چار بجے کی گاڑی سے گھر واپس آ رہا تھا۔ دس بجے کی گاڑی سے ایک جگہ گیا تھا اور چونکہ اسی روز واپس آنا تھا لہٰذا میرے پاس اسباب وغیرہ کچھ نہ تھا۔ صرف ایک اسٹیشن رہ گیا تھا۔ گاڑی رکی تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب سیکنڈ کلاس کے ڈبے سے اترے۔ ان کا قد بلا مبالغہ چھ فٹ تھا۔ بڑی بڑی مونچھیں رعب دار چہرے پر ہوا سے ہل رہی تھیں۔ نیکر اور قمیض پہنے ہوئے پورے پہلوان معلوم ہوتے تھے۔ یہ کسی کا انتظار کر رہے تھے۔دور سے انہوں نے ایک آدمی کو۔۔۔ جو کہ غالباً ان کا نوکر تھا دیکھا۔ چشم زون میں ان کا چہرہ غضبناک ہو گیا۔ میں برابر والے ڈیوڑھے درجے میں بیٹھا تھا۔ ایک صاحب نے ان خوفناک جوان کو دیکھا اور آپ ہی کہا۔ "یہ خونی معلوم ہوتا ہے۔” میں نے ان کی طرف دیکھا اور پھر ان خوفناک حضرت کے غضب ناک چہرے کو دیکھا اور دل ہی دل میں ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ آپ یقین کریں کہ ان کی آنکھیں شعلہ کی مانند تھیں اور نوکر کے آتے ہی اس زور سے انہوں نے اس کو ایک قدم آگے بڑھا کر ڈپٹا کہ وہ ڈر کر ایک دم سے پیچھے ہٹا اور گارڈ صاحب سے جو اس کے بالکل ہی قریب تھے لڑتے لڑتے بچا۔ گارڈ صاحب سیٹی بجانا ملتوی کر کے ایک طرف کو ہو گئے۔ انہوں نے ایک نگاہ التفات ملازم پر ڈالی اور پھر ان حضرت کی طرف دیکھا۔ دونوں مسکرائے گاڑی چل دی۔

 

                (۱)

 

گاڑی اسٹیشن پر رکی اور میں اترا۔ یہ حضرت بھی اترے۔ آپ یقین مانیں کہ میں سمجھا کہ مجھے کوئی بلا لپٹ گئی جب انہوں نے ایک دم سے مجھے "باؤ” کر کے چپٹا لیا۔ عاصل انہوں نے کہا تھا۔ "تم کہاں۔” اگر ان کی توند کچھ نرم نہ ہوتی تو شاہد میری ایک آدھی پسلی ضرور شکست ہو جاتی۔ چھوٹتے ہی ہاتھ پکڑ لیا اور ہنس کر کہا: "اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔”

یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مجھ کو فضول گوئی سے جتنی نفرت تھی۔۔۔ (اب نہیں ہے )۔۔۔ اتنی کسی چیز سے نہ تھی۔ دیکھتا تھا کہ لوگ باتیں کر رہے ہیں۔ خواہ مخواہ ایک دوسرے کی بات کاٹ رہا ہے اور ہر شخص کی یہ کوشش ہے کہ دم بخود ہو کر میری ہی بات پر سب کان دھریں۔ بسا اوقات میری غیر معمولی خاموشی پر اعتراض ہوتا۔ مجھ سے شکایت کی جاتی کہ میں باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ میں کوئی جواب نہ دیتا اور دل میں چچا سعدی کے اشعار پڑھنے لگتا

چور کار بے فضول من بر آید

مرا روئے سخن گفتن نہ شاید

دگر بینم کہ نابینا و چاہ است

اگر خاموش بشینم گناہ است

ایسی صورت میں کہ میرے شعار یہ ہوں جب انہوں نے مجھ پکڑ کر کہا ” اب تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔” تو ممکن تھا میں خاموشی سے کام لیتا۔ لیکن یہاں تو بغیر بولے کام نہ چل سکتا تھا۔ مگر قبل اس کے کہ میں کہوں کہ حضرت آپ کون صاحب ہیں اور مجھ کو کیوں پکڑا ہے اور آخر مجھ کو کیوں نہ چھوڑیں گے اور کیسے نہ چھوڑیں گے۔ اہوں نے بغیر میرا جواب یا میری بات سننے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا۔

"تم بہت دنوں بعد ملے ہو۔۔۔ کہاں تھے۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔ والد صاحب تو بخیریت ہیں۔۔۔۔ اور لوگ کہاں ہیں۔۔۔ ؟” ابے نالائق۔۔۔ نامعقول۔۔۔ یہ دیکھ۔۔۔ یہ دیکھ! آنکھیں کھول۔۔۔ ارے آنکھیں کھول کر۔”

ملازم پر کھڑے دانت پیس رہے تھے۔ میرا شبہ کہ مجھے تو نہیں کہہ رہے ہیں زائل ہو چکا تھا۔ دراصل نہ انہیں میرے جوابات کی ضرورت تھی اور نہ مجھ میں ہمت بعض واقعی حاضر جواب ہوتے ہیں، کاش میں بھی ایسا ہی ہوتا تو شاید ان کو سوالات کے جواب دے کر مزے سے بیٹھا ہوا گھر کی طر ف جا رہا ہوتا۔ میں اب ذرا اپنے آپ کو سنبھال کر ان کی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہا تھا اور اس میں مجھے کامیابی ہوتی بھی معلوم ہوتی تھی، کیونکہ ” معاف کیجئے گا میں نے پہچانا نہیں۔” تو نہایت مناسب الفاظ تھے جو مجھ کو مل گئے تھے اور میں نے کہنا شروع کیا۔:

"معاف کیجئے گا۔۔۔ ”

مگر انہوں نے بات کاٹ کر فوراً کہا۔ ” جی نہیں۔۔ یہ ناممکن ہے۔” اور پھر اسی سلسلے میں کہاَ "اسباب نہیں ہے ؟” اور بغیر جواب کا انتظار کئے ہوئے پھر خود ہی انہوں نے کہا” "شائد دن بھر کے لیے آئے ہو گئے۔ خیر کوئی ہرج نہیں، اب دو تین دن تمہیں نہ چھوڑوں گا۔” ایک قہقہہ لگایا اور بڑے زور سے کہا۔ "میں نہیں چھوڑوں گا۔ نہیں چھوڑ سکتا۔”

میں نے دل میں سوچا کہ بھاگوں۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر۔ مگر اول تو میری پتلی کلائی گویا پنجہ آہنی میں تھی اور پھر اسٹیشن کی بھیڑ۔ یہ خیال خام تھا۔

 

                (۲)

 

میرا ہاتھ پکڑے مجھ کو لے جا کر انہوں نے اپنے ساتھ گاڑی پر بٹھایا۔ گاڑی پر بیٹھتے وقت میں ذرا رکا کہ کہوں "جناب آپ مجھ کو کیوں اور کہاں لے جاتے ہیں؟” میں نے ذرا گلا صاف کر کے کہنا چاہا کہ انہوں نے گویا جبراً ہاتھ پکڑ کر گاڑی میں بٹھا دیا اور خود بھی بیٹھ گئے اور بیٹھتے بیٹھتے کہا۔

” میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔۔ والد صاحب تو بخیریت ہیں؟”

میں نے کہا: "بخیریت ہیں اور۔۔۔ ”

وہ بات کاٹ کر بول اٹھے۔ "اور سب؟” اور پھر کہا۔ "سب اچھی طرح ہیں؟” ارے میاں یہ کیا واہیات ہے، سنا ہے کہ تمہارے والد نے ایک اور شادی کر لی۔ یہ خبر کہاں تک صحیح ہے ؟”

"الہٰی خیر۔” میں نے دل میں کہا کیونکہ میری والدہ صاحبہ عرصہ ہوا مر چکی تھیں، لیکن پھر بھی بحمد للہ ” دو والدائیں موجود تھیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ والد صاحب قبلہ کی آبادی پسند طبیعت نے۔۔ یا پھر مجھی حال زار پر رحم کرتے ہوئے دو مائیں نزول شفقت مادرانہ کے لیے ناکافی سمجھتے ہوئے ایک کا اور اضافہ فرمایا ہو!!

حضرت کو شاہد میں نے پہچانا نہیں اور ان کی تمام جارحانہ کاروائی حق بجانب تو نہیں؟ آخر کیوں نہ معذرت کر کے دریافت کروں اور آئندہ کے لیے تعارف کر لوں؟ مگر میری کم گوئی۔۔۔ (اب تو باتونی ہوں)۔۔۔ اور سوالات کرنے سے بچنے کی عادت۔۔۔ ( بحمد للہ اب تو فورا سوال کرتا ہوں)۔۔۔ کا خدا بھلا کرے کہ یہ مجھ میں کمزوری تھی۔ میں نے فوراً محسوس کیا کہ یہ تو عجیب بات ہے۔ دست تاسف ملتا تھا اور کچھ کہنا چاہتا تھا مگر یا تو بولا ہی نہ جاتا اور اگر ہمت کر کے بولنے کو ہوتا تو فوراً ہی وہ سوال کر دیتے۔

میں یہی کہتا رہا کہ اب ان سے معاملہ صاف کروں اور اب پوچھوں کہ گاڑی ایک کوٹھی میں داخل ہو گئی۔ مجھے بہانہ ملا اور سوچا کہ اب اطمینان سے ان سے معذرت کروں گا کہ حضرت میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔ گاڑی باغ میں داخل ہوئی اور یہ حضرت بولے۔،پچھلی مرتبہ جو تم آئے تھے تو تم نے وہ انگور کی بیل نہ دیکھی ہو گی۔۔ اس کی جڑ میں تین بندروں کے سرگڑوائے ہیں۔”

میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔ کیونکہ عمر میں پہلی مرتبہ یہاں آیا اور وہ بھی پکڑا ہوا مگر زبان سے لفظ” بندر” نکل گیا۔

انہوں نے کچھ فخریہ لہجے میں شاید اسی نیت سے کہا کہ میں ان سے تعجب سے پوچھوں کہ صاحب بندروں نے کیا خطا کی جو ان کے سر کے ساتھ یہ چنگیزی کارروائی کی گئی۔۔۔۔اور جب وہ کچھ مناسب وجوہ پیش کریں تو ان کی معلومات پر دنگ رہ جاؤں۔ شاید انہوں نے اسی خیال سے کہا۔

"جی ہاںبندر !۔۔۔۔بندروں کے سر۔ "مگر میری خاموشی سے ان کی امید منقطع ہو گئی۔ تو وہ خود ہی بولے۔ ” آپ کو نہیں معلوم۔۔۔ میں دراصل فن باغبانی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بندر کے سر کی کھاد انگور کے لیے لاجواب ہے۔”

میں بھلا کیا کہتا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ آئندہ انگور اگر ملیں تو کھاؤں یا نہ کھاؤں۔ باغبانی کا تذکرہ چھوڑ کر انہوں نے کہا۔

"وہ دیکھو وہ پرسی کی قبر ہے۔” انگلی اٹھا کر انہوں نے ایک چوکھونٹے چبوترے کی طرف مجھے دکھادیا۔

انگریزوں کی قبریں میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ پر سی ہاں اس نام سے بھی واقف تھا۔ جو بھی اخبار پڑھتے رہے ہیں وہ سر پرسی کا کس، ہائی کمشنر عراق کے نام اور ان کے تدبر اور پالیسی سے واف ہیں۔ مگر یہاں ان کی قبر کیسی ؟ ان کے کوئی عزیز ہوں گے۔ میں نے بجائے سوال کرنے کے حسب عادت دل میں یہ کہہ کر اطمینان کر لیا۔ ہم برآمد ے کے پاس پہنچ رہے تھے۔ گاڑی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی، وہ اسی طرح بولے۔

” مجھے پرسی کے مرنے کا بہت افسوس ہوا اور ایک روز میں نے کھانا نہیں کھایا۔”

مجھے قطعی یقین ہو گیا کہ ان کی مسٹر پرسی سے دوستی ہو گی۔ اتنے میں، میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا۔ بنگلہ ابھی بہت دور تھا مگر یہ مالک کے استقبال کو آیا تھا۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کٹ کھنا کہاں تک ہوسکتا ہے کہ وہ بولے :

یہ دیکھئے یہ غریب رہ گیا اور پرسی مر گئی۔ بڑی لا جواب کتیا تھی۔

ادھر میں متعجب تھا اور ادھر وہ تعریف کے لہجہ میں کہنے لگے۔ "آ پ یہ خیال کیجئے کہ اتنی سی کتیا تھی مگر اکیلی بلی کار مار ڈالتی تھی اور پھر تعریف ایک اور بھی تھی، وہ یہ کہ اگر کہیں کوئی اجنبی بنگلے کے احاطہ میں نظر پڑ جائے تو بس اس کی خبر ہی تو لے ڈالتی تھی۔”

میں چوکنا ہوا۔ دل میں، میں نے کہا کہ اچھا ہو اکہ پرسی مر گئی اور آج نہ ہوئی۔ پھر غور کیا کہ یہ کتا بھی تو اسی کے ساتھ ہے ! میں جناب کتوں سے بہت ڈرتا ہوں اور بالخصوص ان نالائق کتوں سے جو حالانکہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر دوڑ پڑتے ہیں اور تمام ہوش و حواس زائل کر کے اکثر گرا دیتے ہیں۔ میں نے پرسی کی قبر کی طرف اطمینان سے نظر ڈالی اور پھر اس کتے کو یعنی پرسی مرحومہ کے شوہر کو دیکھا۔ اتنے میں گاڑی برآمدے سے آ کر لگی اور میں نے دیکھا کہ ایک خوف ناک بل ڈاگ انگڑائی لے کر اٹھا۔ اتنے میں ہم دونوں اتر پڑے۔چھوٹا کتا تو دم ہلا کر مالک کے قدموں میں لوٹ رہا تھا، مگر یہ سنجیدہ بزرگ یعنی بل ڈاگ صاحب میری روح قبض کرنے میں مشغول ہو گئے۔ یعنی برآمدہ سے اتر کر انہوں نے مجھے سونگھا۔ میری سانس رک گئی اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑنے لگیں کہ انہوں نے محسوس کیا اور مسکرا کر کہا۔ "اجی یہ تو وہی پرانا نامی ہے۔ بس صورت ہی ڈراؤنی ہے۔ کاٹتا تو کم بخت جانتا ہی نہیں۔ بہت کیا اس نے اور بڑی بہادر دکھائی تو بس لپٹ جاتا ہے۔۔۔ "انہوں نے میری سراسیمگی پر ایک قہقہہ لگایا۔ کیونکہ میں پھاند کر گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ "لاحول ولاقوة۔ تمہارا کتوں سے ڈرنا نہ گیا۔ یہ تو وہی پرانا نامی ہے۔” یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور مجھے تیزی سے بے تکلف کمرے میں داخل ہونا پڑا۔ خوش قسمتی سے کتوں نے ایک گلہری کو پایا جس کے پیچھے وہ ایسے دوڑ کہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں اطمینان کا سانس لیا۔

 

                (۳)

 

پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی۔ "کھانا لاؤ۔” خدا خیر کرے۔میں نے دل میں کہا کہ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے۔ بہت جلد ہاتھ دھوئے گئے، انکار وہ کا ہے کو مانتے، میں نے بھی کہا

این ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر

کھانے کی میز پر گرم کیا ہوا پلاﺅ، شامی کباب، انڈوں کا قورمہ اور دوسرے کھانے تھے۔ میں رکابی کے ایک طرف کے چاول اٹھا کر دوسری طرف رکھ کر ٹیلا سا بنانے میں مشغول ہوا اور انہوں نے تیزی سے چاول کھانا۔۔۔ نہیں میں نے غلط کہا بلکہ پینا شروع کئے۔ شاید وہ چبانا نہ جانتے تھے یا چاولوں کو چبانے کی چیز نہ خیال کرتے تھے۔ "عارف میاں کہاں ہیں؟” چلا کر ملازم سے انہوں نے کہا کہ”ان کو جلدی بلاﺅ۔” اور میری طرف مسکر کر کہا۔ "تمہارا بھتیجا تو آیا نہیں۔ نہا رہا ہو گا۔ ورنہ وہ ضرور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے۔”

آپ یقین مانیں کہ میں نے ادھر ادھر بھاگنے کی نیت سے دیکھا۔ بھتیجا! یہ لفظ بھتیجا میرے لیے لفظ شیر سے کم نہ تھا۔ جس کے ایک نہ دو بلکہ سگے سوتیلے ملا کر ساڑھے چودہ بھتیجے ہوں، اس سے پوچھئے کہ ایسی دنیا اچھی یا دوزخ؟ و اللہ اعلم گنہگاروں کی ایذارسانی کے لیے وہاں بھتیجے بھی ہوں گے یا نہیں۔ اگر میرے بھتیجے جنت میں گئے تو دوزخ کی زندگی کو بدر جہا پر سکون اور جائے پناہ تصور کروں گا۔ میں یہ کہنے میں مبالغے سے کام نہیں لیتا کیونکہ چودہ پندرہ بھتیجے اور سب ایک جگہ رہتے ہوں تو غریب چچا کا جو حا ل ہو گا اس کا اندازہ خود لگا لیجئے۔ ویسے ہی کیا کم میری جان گھر کے پندرہ بھتیجوں نے مصیبت میں ڈال رکھی تھی جو یہ ایک اور نکلا!!! کوئی خودکشی کرتا تو میں معلوم کرنے کی کوشش کی کوشش کرتا کہ اس کے کتنے بھتیجے ہیں۔ ایک ہو تو ہو ورنہ دو ہونے کی صورت میں مجھ کو خودکشی کرنے کی وجہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ لفظ بھتیجا کے کچھ بھی معنی ہوں مگر میری دانست میں ملک الموت یا جہنم کے سیکرٹری کا نام بھی بھتیجا ہونا چاہیے۔ میں اس فلسفے پر غور کررہا تھا کہ وہ بولے۔ "تمہارے کتنے بچے ہیں۔”

میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ میری شادی ہی نہیں ہوئی ہے لیکن شاید ان کو جواب کی ضرورت ہی نہ تھی، کیونکہ فوراً ہی انہوں نے بغیر میرے جواب کا انتظار کئے ہوئے کہا :

"تمہاری بیوی کہاں ہیں؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟ ” انہوں نے بہت زور دے کر پوچھا۔

"تمہارے بچے ہیں؟”

مجبوراً مجھے واقعہ بیان کرنا پڑا ” ایک بھی نہیں۔”

چاول کا بڑا سا لقمہ جو انہوں نے منہ میں رکھا ہی تھا۔”ارے ” کے ساتھ نگل کر بولے۔ "ارے۔۔۔ دونوں۔۔۔۔دونوں بچارے۔۔۔ یہ آخر کب ؟۔۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ خدا اگر بچے دے تو زندہ رہیں، ورنہ ان کا ہونا اور پھر مر جانا تو۔۔۔۔خدا کی پناہ۔۔۔ ”

وہ شاید مجھ سے ہمدردی کر رہے تھے اور انہوں نے کہا۔۔”تمہاری بیوی کا نہ معلوم کیا حال ہو گا۔”

آپ خود خیال کیجئے کہ مجھے بھلا کیا معلوم کہ وہ لڑکی کس حال میں ہو گی جو آئندہ چل کر میری بیوی ہو گی اور میں خود مجبور تھا تو بھلا ان کو کیا بتاتا کہ اس کا کیا حال ہو گا کہ اسی دوران وہ آ گیا! کون! اجی وہی ملک الموت یا جہنم کا سیکرٹری یعنی میرا منہ بولا بھتیجا عارف۔ میں گھبرایا کیونکہ تیر کی طرح "پاپا! پاپا!!” کا نعرہ مارتا چلا آ رہا تھا۔ میں سنبھل کر بیٹھا اور مدافعت کی صورتوں اور امکانات پر غور کرنے لگا کہ اس کا رخ بدل گیا۔ وہ اپنے پاپا پر گرا اور تیزی سے وہ بھی پلاؤ پینے میں مشغول ہو گیا۔۔۔ ”

والد بزرگوار نے فرزند ارجمند سے کہا : "تم نے چچا کو نہ تو سلام کیا اور نہ ٹاٹا کیا” ٹاٹا۔۔۔ ٹاٹا” کئی مرتبہ پھر تقاضا کیا۔۔” سلام کرو، ٹاٹا کرو۔۔۔ سلام کرو” با الفاظ دیگر مجھ سے تقاضا ہو رہا تھا کہ مگر حضرت مجھ سے یہ ریا کاری ہونا نا ممکن تھی۔ایک تو ویسے ہی خاموش آدمی تھی ( اب نہیں)۔۔۔ اور حتیٰ الامکان بغیر بات چیت کئے کام نکالنا چاہتا تھا اور پھر ویسے بھی بھتیجوں کو دعا دینے کے خلاف، یہ نہ خیال کیجئے گا کہ میں خدا نخواستہ چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں، اجی ہزار برس زندہ رہیں مگر میری دعا سے بے نیاز رہیں تو بہتر۔ بارہا کے تقاضے سے تنگ آ کر آخر بھتیجے صاحب نے میری چھاتی پر مونگ دال ہی ڈالی۔ یعنی اپنا سیدھا ہاتھ جو پلاؤ کے گھی میں تر بتر تھا میرے گھٹنے پر رکھ کر اپنا بایا ہاتھ ٹاٹا کے لیے بڑھا دیا۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اپنے صاف پتلون پر چکنائی کا دھبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک اچھا پتلون تھا جو بھتیجوں کی دستبرد سے اب تک نہ معلوم کس طرح محفوظ تھا۔ ادھر تو میں نے چاول گھٹنے پر سے صاف کئے اور ادھر انہوں نے کہا۔ ” ہائیں الٹے ہاتھ سے۔” کاش کہ وہ حضرت بھتیجے صاحب پیشتر ہی ٹاٹا(مصافحہ )کے لیے داہنا ہاتھ بڑھاتے اور بایاں شوق سے میرے گھٹنے کیا گلے پر رکھ لیتے۔ میں نے جبراً و قہراً ہاتھ ملایا اور دل میں کہا۔”ظالم، تو نے مجھے بے موت مارا۔ میرے پاس ایک ہی پتلون تھا جس کو تو نے یوں خراب کیا۔”

 

                (۴)

 

میں اطمینان کا سانس لیا۔ جب یہ عزیز از جان بھتیجا یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر ایک دم سے بھاگا۔”بلا بلا۔ ” یا تو وہ تیز دوڑتا ہی ہو گا، یا پھر یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ لاحول پڑھنے شیطان بری طرح بھاگتا ہے۔ میں لاحول پڑھ رہا تھا اور اس کے اثر کا دل ہی دل میں قائل ہو رہا تھا۔

"آپ نے ہڈی کی تجارت آخر کیوں چھوڑ دی؟” انہوں نے ایک ہڈی کا گودا نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

قارئین ذرا غور کریں کہ ہڈی کی تجارت کو میں چھوڑتا تو تب جب کہ اگر میں نے کبھی یہ تجارت شروع کی ہوتی۔ کہنے کو ہوا کے کہوں کہ ” حضرت مجھ کو بھلا ہڈی کی تعلق سے کیا تعلق؟ ” مگر توبہ کیجئے وہ اپنے تمام سوالات کا جواب شروع ہی سے خود دے رہے تھے، یا پھر جواب کا بغیر انتظار کئے ہوئے دوسرا سوال کر دیتے تھے۔ مجھے بھلا کوئی زریں موقع کیوں دیتے جو میں خلاصی پاتا۔ قبل اس کے کہ میں نوالہ ختم کر کے کہوں۔ انہوں نے کہا :

” تجارت والا تو تجارت ہی کرتا ہے۔ ہڈی کی نہ سہی پسلی کی سہی۔”

یہ کہہ کر انہوں نے زور سے قہقہہ لگایا میں ان کے حق کی گہرائی پر غور کر رہا تھا کہ وہ ملک الموت آ پہنچا۔۔۔ وہ موذی بلا ہاتھ میں لیے ہوئے چنگھاڑتا ہوا اور کھانا شروع کرنے کے بجائے بلے کی تلوار بنا کر پینترے بدل بدل کر رقص کرنے لگا۔ وہ گویا بنوٹ کے ہاتھ نکال رہا تھا! میرے میزبان یا یو کہئے کہ سیاد وہ چاول پینے کی بجائے اگر کہیں کھانے کے عادی ہوتے تو ہنسی کی وجہ سے ضرور ان کے گلے میں پھندا پڑ جاتا، کیونکہ ان کی دانست میں کھانا کھانے میں ہنسی مخل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ خوب ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے کہ "بخدا اس شریر کو دیکھئے۔” میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ دیک ہی رہا تھا اور جانتا تھا کہ جو دم گزر رہا ہے وہ غنیمت ہے۔ بنوٹ کا قاعدہ ہے کہ سارا کھیل بس نظر کا ہوتا ہے۔ غنیم سے جب تک آنکھ ملی رہے یا غنیم کے حرکات پر جب تک نظر جمی رہے اس وقت تک خیر ہے ورنہ ادھر آنکھ جھپکی اور ادھر پٹائی۔ یہ سنتا ہی تھا مگر آج ثابت ہو گیا۔ دو مرتبہ اس کا بلا میرے سر پر سے ہو کر نکل گیا اور اگر میں سر نہ بچاؤ ں تو سر قلم تھا۔ انہوں نے صرف "ہائیں” کہا۔ میں ٹکٹکی باندھے اس گردنی زدنی بھتیجے کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے مجی میزبان نے میری کم خوری کا گلہ کر کے کہا۔”یہ لیجئے کباب نہیں کھائے۔ ” ادھر میری نظر چوکی اور ادھر اس زور سے میرے منہ پر بلا پرا کہ میری ناک پچی ہو گئی، بلکہ مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ شاید میری ناک عینک کے ساتھ اڑی چلی گئی۔ فوراً پہلے تو میں نے اپنی ناک کو دیکھا اور اس کو موجود پا کر لپک کر میں نے عینک اٹھائی۔ بھتیجے صاحب بھی گر پڑے تھے۔ عینک کا ایک تال ٹوٹ گیا تھا۔ یا علی کہہ کر انہوں نے پٹ باز کو سنبھالا اور میں نے اپنی عینک کو۔ "تم بڑے نالائق ہو۔ ” ڈانٹ کر انہوں نے لڑکے سے کہا۔ مجھ سے معذرت کی اور پھر اس سے کہا کہ معافی مانگو۔ حالانکہ میں خود ان سے معافی اور پناہ مانگ رہا تھا۔ وہ چپ ہوا تو کہا۔ "اچھا اب جاؤ” اور ایک طرف غور سے دیکھ کر بولے اور پھر کہا۔۔۔۔”ارے آتی کیو نہیں۔ بڑی احمق ہو۔ ” یہ کہتے ہوئے اٹھے۔

اب میرے لیے بھاگنے کا بہترین موقع تھا کیونکہ وہ دوسرے کمرے میں گئے۔ میں چاہتا ہی تھا کہ اس زریں موقع سے فائدہ اٹھاؤں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی خوفناک کتا ٹامی مع چھوٹے کتے کے ڈاگ گاڑی کی رفتارسے، اسی طرف چلا آرہا تھا۔ یا اللہ اب میں کیا کروں ! ایک طرف سے کتے آ گئے تھے اور دوسری طرف سے بیگم صاحبہ سے ے مل کر غلط فہمی رفع ہونے والی تھی۔ اگر کتوں نے مجھ کو گھیر نہ لیا ہوتا تو میں بھاگ گیا ہوتا۔میرا دل دھڑک رہا تھا اور انہوں نے آدھی آنکھ سے جھانک کر مجھے دیکھا۔ میں دم بخود تھا۔ گویا میری روح پرواز کر گئی، کیونکہ میں دوڑنے کے امکان پر غور کر رہا تھا اور ان کے حملے سے بچنا۔ ایسے کہ کتوں سے بھی بچت ہو۔ صرف ایک بڑا گملا پھاند کر ممکن تھا۔ میں نے گملے کی اونچائی پر نظر ڈالی۔ میاں بیوی میں تیزی سے کچھ باتیں ہوئیں اور وہ کچھ سنجیدہ صورت بنائے ہوئے نکلے۔میں بھاگنے کے لیے آمادہ ہو کر کھڑا ہوا مگر میرے پیر گویا زمین نے پکڑ لیے۔ وہ میرے قرین پہنچے۔۔۔ میں نے کتوں کی طرف دیکھا اور پھر گملے کی طرف۔۔۔ دل میں سوچا کہ پھاند جاؤں گا اور بائیں طرف سے گھوم کر احاطہ کی دیوار سے نکل جانا ممکن ہے۔۔۔۔ وہ آ گئے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ اگر انہوں نے گھونسا مارا تو میں کلائی سے روکوں گا۔ کلائی ہی ٹوٹ ہی جائے گی مگر منہ بچ جائے گا۔ انہوں نے اپنے جوتے کی چمک کو دیکھا۔ میں نے کمرے کی طرف دیکھا کہ بیگم صاحبہ جھانک رہی ہیں۔ "معاف کیجئے گا۔” میرے میزبان نے نہایت ہی نرمی سے کہا۔ "شاہد غلط فہمی۔۔۔ مجھ کو غلط فہمی ہوئی۔، میں نے سر جھکا کر کہا۔۔۔ "مجھ کو خودافسوس ہے۔” وہ بولے۔” جناب کا اسم گرمی۔” میں نے اپنا نام اور پتہ وغیرہ بتایا۔ وہ ایک دم سے بولے۔ ” آپ کے والد صاحب۔۔۔۔ افوہ!۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ کے والد صاحب سے تو دیرینہ مراسم ہیں۔ آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ” انہوں نے ہاتھ ملا کر کہا۔ ” کس قدر آپ میرے دوست حامد کے ہم شبیہ ہیں! بالکل وہی۔۔۔ ہو بہو وہی! آنکھیں ذرا آپ کی چھوٹی ہیں اور ذرا پیشانی کم کشادہ ہے۔ ورنہ آپ بالکل وہی ہیں اور ہاں وہ عینک نہیں لگاتے اور ذرا ہونٹ ان کے پتلے ہیں ورنہ بالکل آپ کی صورت شکل ہیں۔ بس صرف کچھ آپ کی ناک ان سے زیادہ بڑی ہے اور چوڑی چکی ہے اور۔۔۔ تو وہ عینک کی وجہ سے۔۔۔ آپ کی عینک کیا ہوئی ؟” میں نے بتایا کہ چونکہ اس کا ایک تال ٹوٹ گیا ہے میں نے جیب میں رکھ لی ہے۔ انہوں نے عینک کے ٹوٹنے پر اظہار تاسف کیا، پھر انہوں نے بڑ ے اخلاق سے کہا۔” کوئی حرج نہیں، نہ سہی پہلے ملاقات مگر اب تو ہم آپ کے بہترین دوست ہیں۔” یہ کہہ کر انہوں نے پھر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔

میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے اصرار کیا، مگر میں نہ مانا تو کہنے لگے کہ گاڑی تیار کرائے دیتا ہوں، مگر میری کم بختی میں نہ مانا۔ انہوں نے بہت کچھ کہا مگر میں نہ مانا۔ تھوڑی دور تک باغ کے پہلے موڑ تک وہ مجھ کو رخصت کرنے آئے، اور دوبارہ آنے کا پختہ وعدہ کیا۔ وہ تو واپس ہوئے اور میں تیزی سے پھاٹک کی طرف چلا، مگر حضرت وہ کتے اپنے ساتھ نہ لے گئے اور وہ دم ہلاتے اور کان پھڑ پھڑاتے میرے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔ میرا دل الٹنے لگا اور میں نے اپنی رفتار کچھ تیز کی۔ کتے بھی کم بخت تیز ہوتے، میں اور تیز ہوا اور وہ بھی اور تیز ہوئے۔ مجبور ہو کر میں بھاگا تو وہ بھی بھاگے۔ اب میں ایسا بے تحاشا بھاگ رہا تھا کہ مجھ کو سر پیر کی خبر نہ تھی۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے عینک لگاتا تھا۔ بغیر عینک کے راہ دھندلی نظر آ رہی تھی اور پھر اندھیرا ہو رہا تھا، مگر جناب جس کے پیچھے کتے لگے ہوں اس کو کچھ ویسے بھی دکھلائی نہیں دیکھتا۔ کتوں سے بچنے کے لیے میں نے جان توڑ کوشش کی اور پھاٹک کی راہ چھوڑ کر ایک طرف احاطہ کی دیوار نیچی دیکھ کر اس طرف بھاگا۔ کتے کم بخت اب بھاگ نہیں رہے تھے بلکہ بھونک بھی رہے تھے۔ نرم نرم کوڑے کے انبار پر میں تیزی سے چڑھا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو کر ایسا بے تحاشا بھاگا کہ دیوار کو بغیر دیکھے پھاند گیا۔ گھورے اور کوڑے پر سے لڑھکتا ہوا کوئی پندرہ فٹ کی گہرائی میں گرا، بوکھلا کر اٹھا اور گرا۔ ایک نظر تو دیکھا کہ کتے اوپر ہی رک گئے ہیں اور پھر وہاں سے جس طرح بن پڑا جان بچا کر ایسا بھاگا کہ سڑک پر آرام دم لیا۔ سارا بدن اور کپڑے کوڑے میں اٹ گئے تھے۔ پتلون کا ستیا ناس ہو چکا تھا۔ جھاڑتا پونچھتا ہوا گھر پہنچا۔

وہ دن اور آج کا دن میں نے قسم کھا لی ہے کہ خواہ کوئی کچھ کہے۔ میں باتیں اور وہ بھی فضول باتیں کرنے سے باز نہ رہوں گا، اور اگر ذرا بھی میں کسی کو خاموش پاتا ہوں تو اس کو بولنے پر مجبور کرتا ہوں، اور اپنے سوالوں کا جواب تو ضرور ہی لیتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

وکالت

 

منظور ہے گزارش احوال واقعی

اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

وکالت بھی کیا ہی عمدہ۔۔۔ آزاد پیشہ ہے۔ کیوں؟ سنیے میں بتاتا ہوں۔

 

                (۱)

 

چار سال کا ذکر ہے کہ وہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا کہ صبح کے آٹھ بج گئے تھے مگر بچھو نے سے نکلنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ لحاف میں بیٹھے بیٹھے چائے پی۔ دو مرتبہ خانم نے لحاف گھسیٹا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا۔ غرض چائے پینے کے بعد اسی طرح اوڑھے لپیٹے بیٹھ کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بلی الماری کے پیچھے سے جھانک رہی ہے !

فوراً اٹھا اور دبے پاﺅں دروازہ پر پہنچ کر اس کو بند کر دیا۔ دوسرے دروازہ کو بھی لپک کر بند کیا جب بلی گھر گئی تو حلق پھاڑ کر چلایا۔

"خانم دوڑنا۔۔۔ جلدی آنا۔۔۔۔بلی۔۔۔۔بلی، گھیری ہے۔”

"کیا ہے ؟” خانم نے صحن کے اس پار سے آواز دی۔ ” ابھی آئی۔”

زور سے میں پھر گلا پھاڑ کر چلایا۔ ” بلی گھیری ہے۔۔۔بلی۔۔۔ ارے بلی۔۔۔ بلی۔۔۔ کیا بہری ہو گئی ؟ ”

خانم کو کبوتروں کا بے حد شوق تھا اور یہ کمینی بلی تین کبوتر کھا گئی تھی۔ علاوہ اس کے دو مرغیاں،چار چوزے اور مکھن دودھ وغیرہ علیحدہ۔ خانم تو بوکھلائی ہوئی پہنچی اور کانپتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا: ” کیا بلی ؟”

"پکڑ لی ! پکڑ لی!”

میں نے کہا : "ہاں۔۔۔۔ گھیر لی۔۔۔ بلی بلی!۔۔۔۔جلدی۔۔۔ ” یہ کہہ کر میں نے خانم کو اندر لے کر دروازہ بند کر لیا۔

خانم کی اماں جان نے منع کر دیا ہے کہ بلی کو جان سے مت مارنا ادھر بلی کا یہ حال کہ روئی کے گالے کی مار سے قابو میں نہیں آتی۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور میں نے بھی ایک نئی ترکیب نکالی ہے کہ بلی کی بھی عقل ٹھکانے آ جائے اور خانم کی امان جان بھی ناراض نہ ہوں۔ وہ یہ کہ کمرے کو چاروں طرف سے بند کر کے صرف ایک دروازے کے کواڑ ذرا سے کھول دیجئے، صرف اتنا کہ بلی اس میں سے نکل جائے اور خود دروازے کے پاس ایک کرسی پر کھڑے ہو کر کواڑ پر ہاتھ رکھے اپنی بیوی سے کہئے کہ لکڑی لے کر بلی پر دوڑے اور جب ڈر لگے تو لکڑی کو تاک کر بلی کے ایسے مارے کہ سیدھی لیپ میں جا لگے اور دور ہی سے تکیے، جوتے، گلاس، ضروری مقدموں کی مسلیں، تعزیرات ہند، قانون شہادت، باضابطہ دیوانی اور یا اسی قسم کی دوسری چیزیں بلی کی طرف پھینکے اور پھر بھی جب کہ کچھ نہ لگے اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہے تو سگریٹ کا ڈبہ معہ سگریٹوں کے تاک کے بلے کے مارے۔لازمی ہے کہ ایک سگریٹ تو بلی کے ضرور ہی لگے گا۔ بلی تنگ آ کر خواہ مخواہ اسی دروازے سے بھاگے گی جہاں آپ اس کے منتظر کو اڑ کر پکڑے ہیں۔ جب آدھی بلی دروازہ کے باہر ہو اور آدھی اندر تو زور سے دروازہ کو بند کر دیجئے اور بلی کو دروازے ہی میں داب لیجئے۔ بیوی سے کہئے کہ دروازہ زور سے دبائے رہے اور خود ایک تیز دھار استرے سے بلی کی دم خیار ترکی طرح کاٹ لیجئے۔ پھر جو دم کٹی آپ کے منہ کی طرف رخ بھی کر جائے تو میرا ذمہ۔

چنانچہ میں نے بھی یہی کیا ادھر بلی دروازے کے بیچ میں آئی اور پھر زور سے چلایا ” خانم لیجیو! خانم لیجئیو!”خانم دوڑ کر آئی۔ میں نے کہا کہ ” تم دروازہ دابو مگر زور سے،ورنہ بلی لوٹ کر کھاٹ کھائے گی ” غرض خانم نے زور سے دروازہ دبایا، بلی تڑپ رہی تھی اور عجیب عجیب قسم کی آوازیں نکال رہی تھی ادھر میں استرا لے کر دوڑا بس ایک ہاتھ میں دم کھٹ سے صاف اڑا دی۔

دم تو بالکل صاف اڑ گئی مگر بد قسمتی ملاحظہ ہو دفتر کا وقت تھا اور منشی جی ایک مقدمے والے کو پھانسی لا رہے تھے۔ بلی کو اسی طرح دبا ہوا دیکھ کر سیڑھیوں پر بے طرح لپکے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ میں نے دم کاٹی انتہائی زور لگا کر بلی تڑپ اٹھی اور "غوں فش” کر کے منشی جی پر لگی اور وہ موکلوں پر ! غلغپ!!

خانم کے منہ سے منشی جی کی جھلک دیکھ کر ایک دم سے نکلا۔ ” منشی جی۔” میرے منہ سے نکلا۔”موکل ! مقدمہ۔۔۔ ”

خانم نے پھر کہا۔ ” مقدمہ۔۔۔ ”

اتنے میں منشی جی نے دروازے میں سر ڈال کر اندر دیکھا۔ میرے ایک ہاتھ میں استرہ تھا اور دوسر ے ہاتھ میں بلی کی دم ! خانم برابر کھڑی تھی۔ منشی جی آگ بگولا ہو گئے، اندر آئے غصہ کے مارے ان کی شکل چڑی کے باشاہ کی سی تھی۔

"لاحول ولا قوۃ” مٹھی بینچ کر منشی جی بولے "موکل”۔ اور پھر دانت پیس کر بہت زور لگایا مگر نہایت آہستہ سے کہ موکل جو باہر کھڑا تھا وہ سن نہ لے۔ "موکل”۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ کوئی مقدمہ نہ آئے گا۔۔۔۔ یہ وکالت ہو رہی ہے ؟ منشی جی نے ہاتھ سے کمرہ کی لوٹ پوٹ حالت کو دیکھ کر کہا۔

خام غائب ہو چکی تھی۔

میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔

"یہ وکالت ہو رہی ہے۔” منشی جی نے پھر اسی لجہ میں کہا، ۵۰۰ کا مقدمہ ہے۔ جلدی ہاتھ سے جھنک کر کہا۔

پانچ سو روپے کا نام سن کر میں بھی چونکا۔ روپوں کا خیال آنا تھا کہ استرہ اور بلی کی دم الگ پھینکی اور دوڑ کر دوسری طرف سے دفتر کا دروازہ کھولا۔

منشی جی نے جلدی سے موکلوں کو بٹھایا اور دوڑ کر مجھ سے تاکید کی کہ فوراً آؤ پانچ سو روپے ملنے والے ہو رہے تھے اور جوں توں کر کے جلدی جلدی میں نے کوٹ پتلون پہنا کیونکہ منشی جی پھر آءے اور "چلتے نہیں” کہہ کر میرے آئے ہوش اڑا دیے۔ میں بغیر موزے پہنے سلیپر میں چلا آیا بلکہ یوں کئے کہ منشی جی نے مجھے کھینچ لائے۔ نہایت ہی سنجیدگی سے میں نے موکلوں کے سلام کا جواب دیا۔ ایک بڑی توند والے مارواڑی لالہ تھے اور ان کے ساتھ دو آدمی تھے جو ملازم معلوم ہوتے تھے۔ لالہ جی بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے مقدمہ کی تفصیل سنائی۔

واقعہ دراصل یوں تھا کہ کسی سمجھ دار آدمی نے لالہ جی کو الو کی گالی دی تھی۔ گالی دہرانا خلاف تہذیب ہے ناظرین کی آگاہی کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس گالی کی رو سے لالہ صاحب کی ولدیت الو ہوئی جاتی تھی۔

میں نے لالہ جی سے بہت سے سوالات کیے اور خوب اچھی طرح غور و فکر کے بعد ان سے کہا: "مقدمہ نہیں چل سکتا۔”

کیوں؟ لالہ جی نے اعتراض کیا۔

"اس وجہ سے ” میں نے کہا۔ اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ اول تو آپ کے پاس کوئی گواء نہیں اور پھر دوسرے یہ کے تمام ہائی کورٹ اس بارے میں متفق ہیں کہ اس قسم کے الفاظ روزانہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ بات چیت کے دوران میں آزادی سے استعمال کرتے ہیں اور اس سے توہین نہیں ہوتی۔

لالہ جی کچھ برداشتہ خاطر ہو کر منشی جی سے بولے۔ "واہ جی تم بھی ہمیں کہاں لے آئے ہمیں تو ایسے وکیل کے پاس لے چلو جو مقدمہ چلا دے۔”

میری نظر منشی جی پر پڑی اور ان کی میرے اوپر۔ وہ آگ بگولہ ہو رہے تھے مگر ضبط کر رہے تھے۔ نظر بچا کر انہوں نے جھنجھلا کر میرے اوپر دانت پیسے پھر ایک دم سے سامنے کی الماری پر سے بلا کسی امتیاز دو تین کتابیں جو ساب سے زیادہ موٹی تھیں میرے سامنے ٹیک دیں اور بولے۔

وکیل صاحب، لالہ صاحب اپنے ہی آدمی ہیں ذرا کتابوں کو غور سے دیکھ کر کام شروع کیجئے۔ یہ کہتے ہوئے میرے سامنے ڈکشنری کھول کر رکھ دی کیونکہ اس کتاب کی جلد بھی سب سے موٹی تھی۔

پھر لالہ صاحب کی طرف مسکرا کر منشی جی نے عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوے کہا "لالہ صاحب معاف کیجئے گا یہ بھی دکانداری ہے اور۔۔ پھر۔۔ آپ کا مقدمہ۔۔۔ جی سو میں چلے ہزار میں چلے (یہ مقدمہ بالکل نہ چلا اور میں ہار گیا) پھر میری طرف مخاطب ہو کر منشی جی اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔

سکیل صاحب، یہ لالہ صاحب گھر ہی کے آدمی ہیں۔ میری ان کی ۱۸ برس سے دوستی ہے کوئی آج کی ملاقات تھوڑی ہے۔

اور واقعی لالہ جی کے منشی جی سے نہایت ہی گہرے اور دیرینہ تعلقات تھے اور وہ یہ کہ منشی جی اس سٹرک پر اٹھارہ برس سے چلتے تھے جس پر لالہ صاحب کی دکان تھی۔ چنانچہ لالہ صاحب نے ان دیرینہ تعلقات کی تصدیق کی۔ میں نے اس دوران ڈکشنری کو لاپرواہی سے دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے حروف (بی) کی فہرست تھی۔ معاً لفظ (برڈ) یعنی چڑیا پر میری نظر پڑی اور پھر لالہ جی پر۔ قطی یہ لالہ جی چڑیا تھا کم از کم میرے لیے اور وہ بھی سونے کی۔

ان سے مجھے پانچ سو روپے وصول ہونے والے تھے ! میں نے واقعی بڑی حماقت کی تھی جو ان سے کہہ دیا تھا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا۔ یہ میں نے محسوس کیا۔

مجھے خاموش دیکھ کر لالہ صاحب پژمردہ ہو کر بولے : وکیل صاحب تو کچھ بولتے نہیں۔

"ان کے والد خان بہادر ہیں۔” میں نے منشی جی سے سوال کیا۔

لالہ جی نے کہا یہ ہمارے محلے میں خود ایک رائے بہادر رہتے ہیں۔ لالہ جیے یہ اس طرح فخریہ کہا گویا وہ خود رائے بہادر لڑکے ہیں۔

میں نے موقع پر کہا: لالہ صاحب آپ کے گواہ کوئی نہیں ہیں اس کا تو۔۔۔

منشی جی نے میری بات کاٹ کر کہا: "اس بارے میں سب طے ہو چکا ہے ! چار گواہ بنا لیے جائیں گے۔”

تو پھر کیا ہے میں نے اطمینانیہ لہجہ میں کہا۔

اس کے بعد ہی لالہ جی پر روغن قاز کی خوب ہی مالش کی گئی۔ اس سلسلے میں لالہ جی سے کچھ عجیب ہی طرح کے بڑے گہرے تعلقات قائم ہو گئے کیونکہ لالہ جی مار واڑی تھے اور میں بھی مارواڑی ہوں اور پھر میرے والد صاحب مارواڑ کی اس ریاست میں جہاں لالہ جی لڑکی بیاہی گئی ہے، ملازم ہیں۔

میرے پیر میں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ دو مرتبہ ملازم لڑکے کو آواز دے چکا تھا۔ موزے پلنگ کے پاس کرسی پر پڑے تھے۔ لالہ جی نے منشی جی کی تجویز پر کہا کہ نوکر آپ ہی کا ہے۔ کمرہ بھی برابر ہی تھا مگر وہ مارواڑی ملازم تھا جب وہاں پہنچا تو پکار کر اس نے پوچھا۔” کیا دونوں لاؤں؟”

لاحول ولاقوۃ میں نے اپنے دل میں کہا یہ لالہ جی کا نوکر بھی عجیب احمق ہے مگر میں خود مارواڑی تھا اور جانتا تھا کہ یہ اس ملک کا رہنے والا ہے جہاں اردو ٹھیک نہیں سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اس حماقت پر تو بہت ہی غصہ آیا کیونکہ آپ خود غور کیجئے کہ موزے منگائے اور پوچھتا ہے کہ دونوں لاؤں، پکار کر منشی جی نے کہا۔ "ہاں دونوں۔”

آپ یقین مانیے کہ وہ کمرے سے بجائے موزوں کے دونوں اگالدان لیے چلا آتا ہے، میں اب اس کی صورت کو دیکھتا ہوں کہ ہنسوں یا روؤں، ابھی ابھی یہ طے کرنے نہیں پایا تھا کہ لالہ جی مراد آبادی قلعی کے اگالدان کو شاید گلدان سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ اس کو مٹھی میں اس طرح پکڑتے ہیں جیسے مداری ڈگڈگی کو، یہاں تک بھی غنیمت ہے مگر قسمت تو دیکھئے کہ قبل اس کے کہ منشی جی ان کے ہاتھ سے اگالدان کو لیں اور ملازم کو اس کی غلطی بتائیں لالہ جی نے اس کے اندر جھانک کر دیکھا اور کراہیت مگر نہایت سنجیدگی سے اس کو زمین پر رکھتے ہوئے بولے۔” باسن توگھڑائیں چوکھا ہے مگر کسی "بیٹی رے باپ” نے اس میں تھوک دیا ہے۔”

انا للہ و انا الیہ راجعون! وہ اپنا ہاتھ پاک کرنے کے لیے زمین پر رگڑ رہے تھے اور میں اپنی قسمت کو رو رہا تھا کہ خدا نے پالا ڈالا تو ایسوں سے کیونکہ "گھڑائیں چوکھا” کے معنی ہیں بہت اچھا اور "بیٹی رے باپ” کے معنی ہیں، بیٹی کا باپ، یعنی پرلے درجے کا احمق اور بدتمیز۔ یہ سب کچھ تھا مگر پانچ سو روپے ! مجھے لالہ جی محض انہی روپوں کی وجہ سے پری معلوم ہو رہے تھے اور کیوں نہ ہوں۔

ادھر لالہ جی گئے اور ادھر منشی جی نے عینک کے اوپر سے میرے اوپر نگاہیں ترچھی ترچھی ڈالیں، بڑے لال پیلے ہو کر انہوں نے کہا:

"میں نوکری نہیں کر سکتا۔۔۔ آپ وکالت کر چکے ہیں۔۔۔ کر چکے۔۔۔ بس۔۔۔ بس ہو چکی۔۔۔ دیکھ لیا۔۔۔ ”

"نائی رے نائی کتنے بال؟ جو ہیں صاحب جی سامنے آئے جاتے ہیں۔۔۔ کہیں ایسے ہی وکالت ہوتی ہے ؟۔۔۔ ادھر پھر۔۔۔ ” میں نے تنگ آ کر کہا۔ تو آخر کیا غضب ہو گیا۔

جھلا کر منشی جی بولے :” جی ہاں۔۔۔ مارواڑی کا مقدمہ اور آپ بلی کی دم کاٹ رہے ہیں۔۔۔ اور جو وہ دیکھ لیتا تو؟۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور یہ! آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا؟” منشی جی نے یہ جملہ تیز ہو کر کہا۔

میں:” اس لیے کہ اول تو گواہ ندارد اور پھر دوسرے یہ کہ محض اتنی سی بات پر مقدمہ۔۔۔ ”

منشی جی جھلا کر بولے :” بس بس۔۔۔ ہو چکی وکالت۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم کہ مقدمہ نہیں چلے گا۔ ہونہہ امتحان کیا پاس کیا کہ سمجھے کہ وکیل ہو گئے، ارے میاں یہاں تو یہ حال ہے کہ نہ معلوم کتنے وکیل بنا دے۔۔۔ ہار ہار کہتا ہوں، اور پھر وہی باتیں۔۔۔ مقدمہ نہ بھی چلے گا تو موکل سے تھوڑی کہہ دیا جاتا ہے کہ تیرا مقدمہ نہیں چلے گا۔”

میں قائل ہو رہا تھا واقعی میری غلطی تھی۔ منشی جی بزرگ اور ہمدرد تھے۔ قانون دانی سے کچھ نہیں ہوتا۔ بقول ان کے وکالت کے پیچ سیکھنا چاہئیں، یہ وکالت کے پیچ ہیں! یعنی بالفاظ دیگر "مک۔۔۔ کا۔۔۔ ری”

میں کیا جواب دیتا، قائل تھا، معقول تھا، سر ہلا رہا تھا، ہنسی آ رہی تھی اور دل میں کہہ رہا تھا۔

کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

کم بختی تو دیکھیے کہ خانم شیشہ میں سے جھانک رہی تھی اور منشی جی کی باتیں سن کر اکیلی ہی اکیلی ہنس رہی تھی۔ میری نظر جو پڑی تو مجھے بھی بے اختیار ہنسی آئی اور میں ایک دم سے کمرے سے بھاگا۔ خدا معلوم منشی جی کیا بڑبڑائے اتنا ضرور سنا۔۔۔ بدتمیزی۔۔۔ "وکالت نہیں” منشی جی غصے میں آ کر چل دیے۔

میں کھانا کھا ہی رہا تھا کہ ایک مقدمے والے نے پکارا یہ ایک موکل کا لڑکا تھا جس کا آج مقدمہ تھا اور اس نے مجھ سے کہ، باپ نے تاکید کر کے کہہ دیا ہے کہ موٹی والی کتاب ضرور لیتے آنا۔ مقدمہ دیوانی کا تھا، اور مجھے فوجداری کی ایک کتاب کی آج کچہری میں ضرورت تھی چنانچہ میں تعزیرات ہند دے کر روانہ کیا یہ بھی کرنا پڑتا ہے ورنہ موکل صاحب مقدمہ خلاف ہو جانے کی صورت میں تمام الزام دیتے ہیں کہ کتاب موٹی والی کہہ دینے پر بھی نہ لائے خواہ آپ کو کتاب کی ضرورت ہو یا نہ ہو مگر موکل صاحب فرمائیں تو پھر کیسے نہ لے جائیے گا۔

ضرورت پتلی سی کتاب کی ہو مگر آپ کو موٹی کتاب لے جانا پڑے گی۔

میں اپنی قابلیت پر دل ہی دل میں نازاں تھا اور اس کا سکہ خانم پر بھی بٹھانا چاہتا تھا۔

"کچھ سنتی ہو” میں نے کہا "میرے ساتھیوں میں سے اب تک کسی کو پانچ سو روپیہ کا مقدمہ نہیں ملا” شاید قائل ہو کر خانم اس کے جواب میں مسکرائی اور میں نے اور رعب جمایا۔

"تم خود دیکھو کہ اتنی جلدی پانچ پانچ سو روپے کے مقدمات آنے لگے ہیں، اب بتاؤ نوکری اچھی یا یہ وکالت”

خانم اپنی فکر میں تھیں اور بولیں ” تو اپنی بات سے نہ پھر جانا آج شام کو کچہری سے آؤ بندے ضرور ساتھ ہوں دام طے کر لینا اور چکا کر لانا اور۔۔۔ ” بات کاٹ کر میں نے کہا ” لیتا آؤں گا۔۔۔ میں۔۔۔ اور دیکھو جب ایک مقدمہ بڑا آتا ہے یعنی زیادہ فیس کا تو پھر اس کے ساتھ ساتھ بڑے اچھے مقدمے آتے ہیں اور تار سا بندھ جاتا ہے۔”

خانم نے کہا ” تو ضرور لیتے آنا، کل تک تو وہ دے دے گا آخر مارواڑی مہاجن ہے اس کے لیے پانچ سو روپے کون سی بڑی بات ہے۔”

قاعدے سے تو منشی جی نے اس سے روپیہ وصول کر ہی لیا ہو گا۔ میں نے سوچا کہ بات دراصل جناب یہ ہے کہ میری حیثیت کے نئے وکیل کے پاس اگر پانچ سو روپے کا مقدمہ آ جائے تو اس کو ایسا معلوم دیتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے نہا رہے ہیں، مطلب میرا یہ کہ سانس کچھ اوپر کو کھینچنے لگتی ہے۔ میں نے خانم سے فوراً وعدہ کر لیا تھا کہ کچہری سے واپسی میں ہیرے کے بندے لیتا آؤں گا۔ وہ بندے انہوں نے حال میں بے حد پسند کیے تھے لیکن قاعدے سے اب تک ان کے لیے میری حیثیت کو دیکھتے ہوئے وہ خریدنے کی چیز نہ تھی بلکہ محض دیکھنے کی چیز تھی۔ خانم نے بار بار اصرار سے میں نے کہا۔

"جان کیوں کھائے جاتی ہو کہتا بھی ہوں کہ لیتا آؤں گا ضرور لیتا آؤں گا ضرور بالضرور اور کچہری سے سیدھا بازار جاؤں گا اطمینان رکھو۔”

باوجود اس قدر اطمینان دلانے کے بھی خانم مجھے کمرے کے دروازے تک حسب معمول رخصت کرنے جو آئیں تو چلتے چلتے پھر تاکید کر دی۔

میں کچہری پہنچا۔ راستہ میں جتنے بھی نیم کے درخت ملے ان کی طرف دیکھا تو خانم کی خیالی تصویر ہیرے کے بندے پہنے ہوئے نظر آئی۔ طبعیت آج بے طرح خوش تھی، اپنے کو میں ذرا بڑے وکیلوں میں شمار کر رہا تھا، کچہری پہنچ کر سیدھا منشی جی کے پاس پہنچا، منشی جی نے مجھے دیکھ کر ناک کے نتھنے پھلا لیے، میں نے ذرا ادھر ادھر کی کام کی باتیں پوچھیں تو منہ بنا بنا کر جواب دیے۔ مگر مجھے خانم کے بندوں کی جلدی پڑی تھی اور میں نے منشی جی سے آخر کو پوچھ لیا کہ پانچ سو روپے میں لالہ جی کتنے روپے دیے گئے اور کتنے باقی ہیں، کسی نے کہا ہے،

اے بسا آرزو کہ خاک شد

آپ مشکل سے اندازہ لگا سکیں گے کہ میرا کیا حال ہوا جب معلوم ہوا کہ مقدمہ پانچ سو کا تو بے شک تھا اور ہے مگر پانچ سو روپے کا نہیں ہے بلکہ دفعہ ۵۰۰ کا (تعزیرات ہند) ہے۔

صدمہ کی وجہ سے میری گردن ایک طرف کو ڈھلک گئی اور اس پر منشی جی کا نہایت ہی کرخت اور طنزیہ لہجے میں ریمارک، جی۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ پانچ سو روپے فیس کے مقدمے آپ کے لیے اب میں ہائیکورٹ سے منگواؤں گا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

میرا تمام جوش و خروش رخصت ہو گیا اور ایک عجیب پسپائیت چھا گئی۔ جماہی لے کر سامنے نیم کی طرف دیکھا بجائے خانم کے خیالی تصویر کے دکاندار کی الماری میں بندے مخمل کی ڈبیا میں رکھے اسی طرح چمک رہے تھے۔

گھر پہنچا تو خانم نے چپکے سے آکر پیچھے سے آنکھیں بند کر لیں اور پھر فوراً ہی میری دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈال کر کہا تمہیں قسم ہے کتنے میں ملے۔ اب آگے جانے دیجیے کہ کس طرح میں نے خانم کو غلط فہمی سے نکال کر سمجھایا اور کیا کیا کوفت ہوئی ہے اور یہ سب کچھ اپنی ہی حماقت سے کیونکہ ذرا غور کرنے پر معلوم ہو گیا کہ اس قسم کے خیالات ہی دل میں مجھے نہ لانا چاہیے تھے۔ لاحول ولا قوۃ۔

 

                (۲)

 

دوسرے تیسرے روز کا ذکر ہے کہ ایک پر لطف ایٹ روم تھا کچھ شناسا اور دوست باہر سے بھی اسی تقریب میں آئے تھے جن کا تعلق کالج سے تھا۔ ان میں سے کچھ وکیل بھی تھے۔ یہاں وکیلوں سے بحث ہے۔ ان میں سے کچھ صاحبان ایسے تھے جن سے میری بڑی بے تکلفی تھی۔ مجھ سے دو تین سال پہلے ایل ایل بی کر چکے تھے فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک کا نام "الف” اور دوسرے کا "ب” اور تیسرے کا "ج” تھا۔

مسٹر الف سے صبح ملاقات ہوئی تھی سخت پریشان تھے۔ وکالت قطعی نہ چلتی تھی کہنے لگے ” یار کیا کروں نوکری کی فکر میں ہوں، میں نے کہا "پھر؟” تو بولے ” کوئی نوکری بھی نہیں ملتی۔”

میری حالت پوچھی تو میں نے بھی کہا اور حقیقت بتلا دی کہ ” یار جب تک والد صاحب روپے دیتے جائیں گے میں برابر وکالت کرتا جاؤں گا۔”

اسی طرح "ب” صاحب سے بھی ملاقات ایک اور صاحب کے ہاں ہوئی ان کا پتلا حال تھا بلکہ ان کی جیب سے تو عمدہ عمدہ قسم کے وانٹڈ اشتہارات کی گڈی کی گڈی نکلی چونکہ میرے گہرے دوست تھے دو تین اس میں سے چھانٹ کر مجھے بھی اشتہار دیے اور پھر عرضی کے بارے میں تاکید کی کہ رجسٹری سے بھیجنا۔ آج تک تو عرضیوں میں سے ایک کا بھی جواب نہیں آیا اور خواہ مخواہ رجسٹریوں پر میرے دام گئے۔

"ج” صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کا بھی یہی حال تھا۔ میری ان تینوں حضرات سے بے تکلفی تھی لہذا مجھے اصلی حالات بتانے میں کسی نے تامل نہ کیا۔

شام کو ایٹ ہوم کے پر لطف جلسے میں میری قسم کے بہت سے وکیل اپنے اپنے باپوں کی کمائی سے بنوائے ہوئے قیمتی سوٹ زیب تن کیے کیک اور پھل جھاڑ رہے تھے۔ ہم عمر اور ہم خیال اور پھر ہم پیشہ جمع ہوئے تو یہی سوال پیش ہو گیا کہ کہو بھئی کیسے چلتی ہے۔ میں نہیں عرض کر سکتا کہ یہ سوال کس قدر ٹیڑھا ہے۔ آپ کو پہچان بتاتا ہوں کہ نیا وکیل اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اگر ذرا بھی کھانسے یا ادھر ادھر دیکھے تو جو آمدنی وہ اپنی بتائے اس کو بے دھڑک دس پر تقسیم کر دیں بالکل صحیح جواب نکل آئے گا۔ نئے وکیل اس سوال سے اس قدر گھبراتے ہیں (خصوصاً میں) کہ اگر وہ سسرال جاتے ہوں تو محض اس سوال سے بچنے کے لیے بطور پیش بندی یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ جناب ایک مقدمہ میں جا رہا ہوں۔ آپ ہی بتائیے کہ پھر آخر کیا بتایا جائے۔

غرض یہی سوال کہ "کیسی چلتی ہے ؟” پیش کیا گیا اور مسٹر "ب” کو جواب دینا پڑا۔ مسٹر "ب” نے چہرے کو کسی قدر مٹور کر کے کہا۔” خدا کا شکر ہے اچھا کام چل رہا ہے۔”

کتنا اوسط پڑ جاتا ہے ؟ مسٹر ج نے پوچھا۔

مسٹر ب نے ذرا گلا صاف کر کے کھانستے ہوئے کہا ” کیا اوسط ہوتا ہے۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ نیا کام ہے کچھ بھروسہ نہیں، کسی مہینے میں کم تو کسی میں زیادہ اتنا کہہ کی کچھ سمجھ کر خود ہی کہا۔۔۔ ایک مہینے میں ایسا ہوا کہ صرف بتیس روپے پونے نو آنے آئے۔۔۔ !”

ایک قہقہہ لگا اور ایک صاحب نے زور سے کہا ” پونے نو آنے نہ کم نہ زیادہ۔”

مسٹر ب نے جلدی سے لوگوں کی غلط فہمی سے اس طرح نکالا۔۔۔ ایک میں تو ساڑھے بتیس روپے آئے لیکن دوسرے مہینے میں سترہ روز کے اندر اندر دو سو چھیالیس۔

مسٹر ج نیز اوروں نے غور سے مسٹر ب کی آمدنی کا معائنہ کرتے ہوئے کہا تو اوسط آپ کا دو سو روپیہ ماہوار کا پڑتا تھا۔”

مسٹر ب نے نظر نیچی کیے نارنگی کی پھانک کھاتے ہوئے کہا۔” جی مشکل سے۔۔۔ دو سو سے کم ہی سمجھیے بلکہ ایک کم دو سو کہییے ” اس طرح سوال سے اپنی جان چھڑا کر اب مسٹر ج کو پکڑا اور کہا ” کہو یار تمہارا کیا حال ہے ؟”

اب مسٹر ج کی طرف سب کی آنکھیں اٹھ گئیں ان کی حالت بھی قابل رحم تھی، ان کو بھی کھانسی آئی اور ان کا بھی اوسط دو سو پونے دو سو کے قریب پڑا۔

مسٹر الف کا نمبر آیا تو کم و بیش اتنا ہی ان کا بھی حساب پڑتا تھا مگر چونکہ وہ حساب رکھنے کے عادی نہیں تھے لہذا کچھ زیادہ روشنی ڈالنے سے قاصر رہے۔ سب کی بالا تفاق رائے تھی کہ وکالت نہایت عمدہ اور آزاد پیشہ ہے، قطعی ہے بشرطیکہ گھر سے برابر روپیہ آتا رہے، سال دو سال میں ڈیڑھ دو سو کی آمدنی ہونے لگنا دلیل ہے اس یقینی امر کی کہ دس بارہ سال میں کافی آمدنی ہونے لگے گی یعنی ہزار بارہ سو۔

میرا نمبر آیا تو میں نے مسٹر ب کے عطا کردہ وانٹڈ کے اشتہار نکال کر دکھائے کہ ” بھئی میں تو آج کل یہ دیکھ رہا ہوں۔” ناظرین نے ایک قہقہہ لگا یا اور میں چپکے سے مسٹر ب کی طرف دیکھا وہ کچھ بے چین تھے۔

مسٹر الف و ب و ج کیا بلکہ بڑی حد تک جتنے بھی وہاں وکالت پیشہ تھے انہوں نے خاص دلچسپی کا اظہار کیا اور پھر مسٹر الف و ب و ج نے تو کہا کہ ” جی جمے رہو۔ ہم بھی پہلے گھبرا گئے تھے اور تمہاری طرح کہتے تھے کہ نوکری کر لیں گے مگر خبردار نوکری کا بھول کر بھی نام نہ لینا۔”

واقعی بات بھی ٹھیک تھی، کیوں؟ شاید محض اس وجہ سے کہ وکالت نہایت معزز اور آزاد پیشہ ہے۔

 

                (۳)

 

اسی ایٹ ہوم میں میرے سینئر (Senior)بھی ملے۔ کہنے لگے کہ صبح آنا ایک معمولی سی عذر داری ہے دس بجے کی گاڑی سے چلے جانا شام کی گاڑی سے چلے آنا۔”

یہ ضلع کی ایک تحصیل کی منصفی کا مقدمہ تھا۔ مقدمہ یا فیس کے بارے میں کیفیت پوچھ نہ سکا میرے سینئر پرانے اور کامیاب وکیل ہیں۔ لمبے چوڑے وجہیہ آدمی، قد آور، دبنگ آواز کے وکیلوں میں نمایاں شخصیت رکھنے والے۔

چونکہ تحصیلوں کی منصفی میں نئے وکیل کو خصوصاً ذرا ٹھاٹھ سے جانا چاہیے۔ میں نے بھی رات ہی کو ایک عمدہ سا سوٹ نکال کر رکھا۔ صبح خانم سے کہا کہ ” چائے کے بجائے پراٹھے اور انڈے کھلواؤ۔” ایک کتاب بھی لے جانا طے ہوا حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔

مجھے تو افسوس تھا ہی، خانم سے کہا تو اس کو اور بھی افسوس ہوا کہ جب میں اپنے سینئر کے ہاں سے واپس آیا اور سارا قصہ سناتے ہوئے جلدی جلدی اسٹیشن جانے کی تیاری کی۔ بات افسوس کی دراصل یہ تھی کہ موکل بیس روپے دے گیا تھا۔ سینئر صاحب تو ججی کے ایک اپیل کی وجہ سے نہ جا سکتے تھے لہذا انہوں نے مجھ سے کہا کہ وکالت نامہ موجود ہے اس پر تم بھی دستخط کر دینا اور دس روپے تم لے لینا باقی موکل کو واپس کر دینا۔ میں بھلا ان سے کیسے کہتا کہ جناب یہ آپ کیوں نا حق واپس کرواتے ہیں۔

میرے اور خانم کے دماغ تو دیکھیے میں سوچ رہا تھا کہ جو کام میرے سینئر کرتے آخر بالکل وہی کام میں کروں گا، وہ خود کرتے تو بیس لیتے جو موکل دے ہی گیا تھا اور مجھ سے کام لے رہے ہیں تو آیا ہوا روپیہ واپس کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ مگر مجھے واپس کرنا ہی تھا۔ روپے فیس کے علاوہ کرایہ وغیرہ کے علیحدہ تھے۔ معاملے کو سینئر صاحب سے خوب سمجھ کر آیا تھا اور پھر آخر کچھ معاملہ بھی تو ہوا ذرا غور تو کیجیے کام ہی کیا تھا۔ قصہ دراصل یہ تھا کہ دو بھائی تھے ایک نے قرض لیا، مہاجن قرقی کرانے آیا تو قرض دار بھائی کے پاس کچھ برآمد نہ ہوا تو اس نے دوسرے بھائی کے بیل خواہ مخواہ قرق کرا لیے۔ اگر دیکھا جائے تو اس معاملہ میں دراصل کسی وکیل کی بھی ضرورت نہ تھی۔ کجا ایک بڑے وکیل کی کیونکہ کو آپریٹو بنک کے رجسٹر موجود تھے اور پھر پٹواری کی فرد جس سے یہ ثابت تھا کہ دونوں بھائیوں کی کھیتی باڑی اور تمام کاروبار الگ ہیں اور ایک بھائی کے قرضے میں دوسرے بھائی کے بیل کسی طور بھی قرق نہیں ہو سکتے۔ اس کی بھی پوری شہادت موجود تھی کہ یہ بیل بنک کے قرضے سے خریدے گئے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود بھی بجائے وکیل بالکل نہ کرنے کے یا میرا سا کوئی تھرڈ کلاس کر لینے کے وہ بھلا مانس سیدھا میرے سینئر کے پاس دوڑا آیا۔

میں آپ سے کیا عرض کروں کہ تمام نئے وکیلوں کو (خصوصاً مجھے سب سے زیادہ) کتنی بڑی شکایت ہے کہ اہل معاملہ یعنی مقدمہ لڑنے والے ذرا ذرا سے کاموں کے لیے بڑے بڑے وکیلوں کے پاس دوڑتے ہیں۔ ہم لوگوں کو کوئی مسخرا بھول کر بھی نہیں پوچھتا ورنہ اس سے بہتر کام آدھی سے کم فیس پر دوڑ کر کریں۔ مگر صاحب ہماری کوئی نہیں سنتا جسے دیکھو بڑے وکیلوں کی طرف دوڑا چلا جا رہا ہے، ہم بھی جل کر کہتے ہیں جاؤ ہماری بلا سے تم ایک چھوڑو دس مرتبہ جاؤ دوگنے چوگنے دام بھی دو اور جھڑکیاں کھاؤ وہ علیحدہ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس کے علاوہ اور بھلا ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔

ساڑھے دس بجے کے قریب میں منزل مقصود پر پہنچ گیا اور فوراً اپنے موکل کی تلاش شروع کر دی۔

یہ موکل دراصل میرے سینئر صاحب کا بے حد قائل بلکہ معتقد تھا اور سوچتا تھا کہ خراب مقدمہ بھی وہ درست کر سکتے ہیں، چنانچہ اسی بنا پر وہ ان کے پاس دوڑا آیا تھا، میں نے اس موذی کو کبھی نہ دیکھا تھا ادھر میں اس کی تلاش میں تھا اور ادھر وہ میرے سینئر کا منتظر، اسے کیا معلوم کہ ان کے بجائے میں آیا ہوں اور خود اس کو ڈھونڈتا پھرتا ہوں۔ پیش کار کے پاس جا کر میں نے وکالت نامہ داخل کیا۔ عدالت کے کمرے سے نکلا ہی تھا کہ ایک گنوار نے مجھے سلام کیا، اس طرح کہ جیسے مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہے، اس نے مجھ سے میرے سینئر کے بارے میں پوچھا کہ کیوں صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں آئے ؟” میں نے اس کے جواب میں اس کا نام لے کر پوچھا کہ تمہارا نام یہ ہے، اس نے کہا ہاں، میں خوش ہوا کہ موکل مل گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ ” تمہارے مقدمہ میں، میں آیا ہوں ان کی ججی میں ایک اپیل ہے۔” یہ سن کر اس کمبخت کا گویا دم ہی تو سوکھ گیا نہایت ہی بد دل ہو کر اس نالائق نے دو چار آدمیوں کے سامنے ہی کہہ دیا کہ ” انہوں نے (یعنی میرے سینئر نے ) میرا مقدمہ پٹ کر دیا۔”

آپ خود ہی خیال کیجیے کہ اس گنوار کے اوپر مجھے کیا غصہ نہ آیا ہو گا۔ میں سخت خفیف سا ہوا اور دل میں ہی میں نے کہا کہ اگر ایسے ہی دو چار اور مل گئے تو پھر بقول منشی جی وکالت تو "بس چل چکی۔”

میں نے اپنی خفت مٹانے کو ہنسی میں بات ٹالنا چاہی اور کہا۔” کیا فضول بکتا ہے۔” مجھے خیال آیا کہ دس روپے منجملہ بیس کے اسی وقت واپس کر دوں تاکہ یہ خوش ہو جائے، چنانچہ میں نے دس روپے کا نوٹ نکال کر اس کو دیا اور کہا کہ باقی میری دس فیس کے ہوئے اور یہ تمہیں واپس کیے جاتے ہیں۔

میرا روپیہ واپس کرنا گویا اور بھی سقم ہو گیا، گویا ساری قلعی کھل گئی۔ اس نے نوٹ تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔” مجھے دس پانچ روپے کا ٹوٹا پھوٹا وکیل کرنا ہوتا تو میں ان کے پاس کیوں جاتا؟ یہیں کسی کو نہ کر لیتا۔”

اب تو جناب میں اور بھی گھبرایا، کیا بتاؤں کس قدر اس کم بخت نے مجھے خفیف کیا اور کیسا سب کے سامنے ذلیل کیا۔ مارے غصے کے میں کانپنے لگا مجھے معلوم ہوتا کہ یہ موذی مجھے اس بری طرح بھگو بھگو کر مارے گا تو میں سو روپے فیس پر بھی اس نالائق کے مقدمہ میں نہ آتا، ہائے میں کیوں آیا بس نہ تھا کہ ایک دم سے اڑ کر یہاں سے کسی طرح غائب ہو جاؤں مبادا کہ وہ اسی قسم کے فقرے چست کرے۔ میں اس پیشے کو دل ہی دل میں برا بھلا کہہ رہا تھا اور باہر اس لطیفے پر کچہری کے لوگ ہنس رہے تھے، لا حول ولا قوۃ ایسی بھی میری کبھی کاہی کو ذلت ہوئی ہو گی، اور یہ سب درگت محض دس روپیہ کی بدولت لعنت ہے اس پیشے پر، میں نے اپنے دل میں کہا۔

جب میں نے دیکھا کہ وہ موذی دور چلا گیا تو پھر برآمدہ میں نکلا۔ دور سے ایک درخت کے نیچے میں نے اس کو کھڑا دیکھا، دو چار آدمی اور تھے۔ اتنے میں اس ظالم نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی وہیں سے میری طرف اس نے انگلی اٹھائی۔

آپ کی طرف اگر کوئی دشمن بھری ہوئی بندوق کی نال دکھائے تو آپ کیا کریں گے ؟ یقینی آڑ میں چھپ جائیں گے بس پھر میں نے بھی یہی کیا اور فوراً عدالت کے کمرہ میں گھس گیا کیونکہ وہ ناشدنی انگلی میرے لیے کسی طرح بھی بندوق کی نال سے کم نہ تھی پھر تھوڑی دیر بعد نکلا تو پھر اس نے میری طرف انگلی اٹھائی، اب مجھ میں ضبط کی طاقت نہ تھی اور سیدھا اسی کی طرف گیا۔ مارے غصے کے میرا برا حال تھا پہنچتے ہی اس نے میرے تیور بگڑے دیکھے کچھ جھجکا کہ میں نے ڈانٹ کر کہا چپ رہو بدتمیز کہیں کا ایک تو ہم اتنی دور سے آئے آدھی فیس لی اور اس پر تو بدزبانی کرتا ہے۔

دو ایک عرائض نویسوں نے بھی میری حمایت کی اور اس کو ڈانٹا اور میری قابلیت وغیرہ پر کچھ روشنی ڈالی اور اس کو قائل کیا تو وہ فوراً سیدھا ہو گیا اور پھر معذرت کرنے گا کیونکہ آخر مجھ ہی سے اس کو کام لینا تھا۔ جب وہ راہ راست پر آ گیا تو میں نے اس سے کچھ زبانی بھی باتیں دریافت کیں۔ پٹواری سے بھی بات چیت کی۔ بنک کے منشی سے بھی مل لیا اور سب کو ضروری ہدایت بھی کر دی۔ تھوڑی ہی دیر بعد مقدمہ کی پیشی ہوئی میں کبھی اس پیشی کو نہ بھولوں گا۔

ادھر سے میں وکیل تھا اور ادھر سے ایک موٹے تازے بڑی بڑی مونچھوں والے کالے بجنگ وکیل تھے جن کی گھاٹی اس قدر صاف تھی اور وہ اس تیزی سے بولتے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ کوئی چنے کھا رہا ہے۔ ادھر تو یہ معاملہ اور ادھر میں، سوکھا ساکھا قحط کا مارا معہ مبالغہ مجھ جیسے ان میں سے دس بنتے۔ غل غپاڑہ ویسے تو میں بھی مچا سکتا ہوں، حضرت کہاں ڈفلی اور کہاں ڈھول اور پھر علاوہ اس کے مجھ میں اور ان میں سب سے بڑا ایک اور فرق تھا وہ فرق جو عموماً ہائی کورٹ اور تحصیل کے وکیل میں ہو سکتا ہے۔

جب مقدمہ پیش ہوا تو میں نے کچھ بن کر نہایت ہی قاعدے سے اپنے موکل کی عذر واری پیش کی مگر خدا وکیلوں کی بدتمیزی سے بچائے وکیل مخالف بار بار خلاف قاعدہ دخل در معقولات کرتے تھے، بے وجہ اور بے بات میرے اوپر خلاف قاعدہ اعتراض کرتے تھے، کئی مرتبہ میں نے عدالت کی توجہ بھی اس طرف دلائی کہ ان کا کوئی حق نہیں اور عدالت نے کہا مگر وہ بھلا کاہے کو سنتے تھے، نہ انہیں عدالت کی جھڑکیوں کا ڈر تھا اور نہ اس کا خیال کہ یہ بات بالکل بے قاعدہ ہے کہ میری تقریر کے دوران میں دخل دیں، انہیں تو بس ایک ہی خیال تھا اور وہ یہ کہ مقدمہ تو ہارنا ہی ہے لاؤ اپنے موکل ہی کو خوش کر لوں تاکہ وہ قائل ہو جائے کہ میرے وکیل نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ غرض وہ مرغے کی سی چونچیں لڑ رہے تھے، کبھی مسل سامنے سے لیے لیتے تھے تو کبھی پھاند پھاند کر مجھے روک دیتے تھے۔

جس طرح بھی بن پڑا میں نے اپنی تقریر نہایت ہی عمدہ پیرائے سے خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کی اور اب ان کا نمبر آیا انہوں نے اپنی مونچھیں پونچھ کر ذرا گلا صاف کیا گویا بالفاظ کہا

اب جگر تھام کے بیٹھو مری باری آئی

انہوں نے اپنی جوابی تقریر شروع کی، آنکھیں گھما کر اور پیشانی پر بل ڈال کر ریل گاڑی سی چھوڑ دی، جو منہ میں آیا خواہ تعلق یا بے تعلق سب کہہ ڈالا اور پھر اس تقریر کے دوران میں ان کا گردن کو جھٹکا دے کر ایک عجیب انداز سے آگے کو بڑھنا اور پھر گردن ہلاتے ہوئے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اور ہاتھ نچاتے ہوئے پیچھے ہٹنا اور پھر جھپٹ کر مسل کو لینا اور تیزی سے ورق کو الٹ پلٹ کر کے اس کے ورق اڑانا، یہ سب ایک تماشا تھا کہ اگر مسٹر السٹن یا جسٹس محمود یاداش بہاری گھوش ہوتے تب بھی اس مقدمے میں میرے خلاف ان کی بولنے کی ہمت نہ پڑتی کیونکہ مقدمہ ہی اس طرف سے کمزور تھا مگر وہ حضرت بھلا کاہے کو رکتے۔ ان کی اس بے تکی اور لغو تقریر سے میرے اوپر یا عدالت کے اوپر تو کوئی اثر نہ پڑ سکتا تھا مگر بدقسمتی سے میرے موکل کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ ناشدنی سخت گھبرایا اور یہ سمجھا کہ وکیل مخالف چونکہ بڑے زور و شور سے مقدمہ لڑ رہا ہے لہذا میری کاہلی سے جیت نہ جائے، چنانچہ اس نے میرے کان میں چپکے سے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم کیوں نہیں لڑتے۔ میں نے اس کی اس بے ہودگی کا کچھ جواب نہ دیا، مجھے کیا معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ میرے حق میں برا نکلے گا ورنہ وکیل مخالف کے چپت ہی پڑتا۔

لیکن میرے موکل نے مجھے پھر آگاہ کیا اور جب کئی مرتبہ مجھے بار بار تنگ کیا تو میں نے اسے جھڑک دیا کہ چپ رہ۔

اب میری مصیبت آتی ہے تھوڑی ہی دیر بعد جب وکیل مخالف کی دھواں دھار تقریر پھر زوروں پر آئی تو میرے موکل نے ایک نئی ترکیب نکالی "حضور” کہہ کر، ہاتھ جوڑ کر منصف صاحب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ منصف صاحب نے وکیل مخالف کو روکا اور میرے موکل سے کہا کیوں؟ اور پھر میری طرف مخاطب ہو کر کہا ” یہ کیا کہتا ہے ؟” مجھ سے انہوں نے اس وجہ سے پوچھا کہ عموماً موکل ہر بات پر اپنے وکیل کی معرفت عدالت سے کہتا ہے، میں نے لاعلمی ظاہر کی اور موکل سے پوچھا کہ جو کہنا ہو مجھ سے کہو۔ میری طرف موکل نے بھنا کر دیکھا اور کہا ” تم سے نہیں کہنا ہے مجھے تو حضور سے کہنا ہے۔” یعنی عدالت سے۔ منصف صاحب نے اس سے کہا کہ بول کیا کہتا ہے ” یعنی عدالت سے، منصف صاحب نے اس سے کہا کہ بول کیا کہتا ہے۔ ہاتھ جوڑے تو وہ کھڑا ہی تھا اب گڑگڑا کر کہنے لگا۔

"حضور میرے مقدمہ کی پیشی کی کوئی دوسری تاریخ فرما دی جائے۔” قبل اس کے کہ منصف صاحب کچھ بولیں، اس نے تین چار مرتبہ فریاد کی۔ "حضور میری پیشی بڑھا دی جائے۔ حضور میں مر جاؤں گا۔” وغیرہ وغیرہ اب میں کچھ کھٹکا اور گھبرایا۔

قاعدہ ہے کہ بغیر وجہ مقدمہ ملتوی نہیں ہوتا لہٰذا منصف صاحب نے وجہ دریافت کی اس پر وہ ناشدنی بولا کہ صاحب میں بے موت مر گیا اب کیا کہوں اور کیا وجہ بتاؤں بس کچھ نہ پوچھئے۔ میرے تو کرم پھوٹ گئے جب اس نے بار بار دریافت کرنے پر بھی کچھ نہ بتایا تو منصف صاحب نے ڈانٹ کر کہا کہ "بتانا ہو تو بتاؤ ورنہ عدالت سے باہر نکلوا دوں گا۔”

اس پر وہ موذی بولا اور نہایت ہی برے لہجہ میں کہ حضور میری تقدیر اس وجہ سے پھوٹ گئی اس مقدمہ میں بڑے وکیل صاحب کو بلایا تھا۔ میرے کرم جو پھوٹے تو انہوں نے بھیج دیا ان کو۔ یہ کہہ کر میری طرف انگلی اٹھائی اور میرا چہرہ فق ہو گیا ہاتھ پیر پھول گئے دل دھڑکنے لگا۔ جاڑوں کا موسم تھا۔ مگر پسینہ سا آ گیا۔ غرض میری طرف انگلی اٹھا کر اس نے سلسلہ کلام اسی قابل اعتراض لہجے میں جاری رکھا اور کہا۔۔۔۔”انہوں نے انہیں بھیج دیا اور حضور ان کا حال یہ ہے کہ ان کا چرکورئے کا سا سینہ نہ بخشیں نہ بحثیں۔”

اس پر زور سے قہقہہ لگا مگر منصف صاحب نے ڈانٹ کر کہا کیا بکتا ہے نالائق کہیں کا، مگر ہنسی کے مارے سب کا برا حال تھا۔ اِدھر میرا یہ حال کہ خفت کی ہنسی ہنسنے کی کوشش کی۔ اس سے کام نہ چلا تو جماہی لی منہ رومال سے پوچھا، گھڑی کی طرف دیکھا، قلم کی نب سے کچھ میز کریدی اور وہ ملعون ہے کہ گڑگڑا کر کہے جا رہا ہے کہ حضور میری پیشی بڑھا دی جائے۔ میرے اوپر رحم کیجیے، میں مر جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔

منصف صاحب نے خود ہنسی کو روکا اور سنجیدگی سے وکیل مخالف سے کہا کہ آپ کو تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ فریق مخالف میرا ہرجانہ داخل کر دے۔ یہ سنتے ہی میرے موکل نے وہی دس روپے کا نوٹ جو میں نے اسے واپس کیا تھا عدالت کی میز پر رکھ دیا۔ وکیل مخالف نے فوراً اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھا۔ اب اس نے یعنی میرے موکل نے اطمینان سے وکیل مخالف کی طرف بھی ٹیڑھی نظروں سے دیکھا اور کہا: "آج ٹیں ٹیں کر لو، اب کی مرتبہ جو میرا وکیل آئے گا تو تمہیں بھی بند کر دے گا۔” منصف صاحب نے ایک ڈانٹ اسے بتائی اور کہا اسے نکالو، عدالت سے نکالو وہ کم بخت ہاتھ جوڑتا سلام کرتا منصف صاحب کو ججی کی دعائیں دیتا سر پر پیر رکھ کر بھاگا۔ میں آپ سے کیا عرض کروں کہ میرا کیا حال تھا۔ ہر شخص مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور میں مرا جا رہا تھا، بس نہ چلتا تھا کہ زمین میں سما جاؤں۔ چلتے وقت مصف صاحب نے بھی ایک چھینٹا کسا اور مجھ سے کہا کہ وکیل صاحب ڈنڈ نکالا کیجئے تاکہ سینہ کشادہ ہو جائے۔

غرض جس طرح بن پڑا سیدھا عدالت کے کمرے سے نکل کر اسٹیشن کی طرف بھاگا۔ وہ دن اور آج کا دن پھر کبھی اس تحصیل میں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہی کیا کم ہے کہ وکالت کر رہا ہوں۔ وہ شاید اس وجہ سے کہ وکالت نہایت عمدہ اور ایک آزاد پیشہ ہے۔ قربان جائے اس آزادی کے۔

٭٭٭

 

 

مصری کورٹ شپ

 

 

                (۱)

 

میں نے جو پیرس سے لکھا تھا وہی اب کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر دیکھے بھالے شادی کر لوں، سو اگر آپ میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو مجھ کو اپنی منسوبہ بیوی کو نہ صرف دیکھ لینے دیجئے بلکہ اس سے دو چار منٹ باتیں کر لینے دیجئے۔

یہ الفاظ تھے جو نوری نے اپنی بہن سے پُر زور لہجے میں کہے۔

مگر یہ تو بتاؤ کہ آخر اس سے کیا فائدہ، تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر لڑکی کی صورت شکل اچھی نہ ہوئی تو تم انکار کر دو گے ؟ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، جب سب معاملات طے ہو چکے ہیں اور شادی کرنا ہی ہے تو پھر تم کو دیکھنے سے کیا فائدہ؟ بہن نے یہ تقریر ختم ہی کی تھی کہ ماں صاحبہ بھی آ گئیں اور اب نوری کو بجائے دو سے بحث کرنی پڑی۔!

"معلوم ہوتا ہے کہ تین سال فرانس میں رہ کر تم نے اپنی قومیت اور مذہب کو بھی خیر بار کہہ دیا” یہ الفاظ ماں نے اسی سلسلہ گفتگو میں کہے۔

جی نہیں یہ ناممکن ہے میں پکا مسلمان ہوں اور مصری ہوں۔ نہ میں نے مذہب کو چھوڑا ہے اور نہ قومیت کو، میں تو اپنے حق پہ لڑتا ہوں کہ جس سے میری شادی ہونے والی ہے اس کو میں دیکھ لو۔

"اور اگر ناپسند ہو تو شادی نہ کروں” ماں نے گویا جملہ پورا کیا

"تم کو بھی معلوم ہے کہ تمہاری منسوبہ بیوی کس کی لڑکی ہے ؟ وہ جامعہ ازہر کے نائب الشیخ کی لڑکی ہے اور شرافت اور امارت اور تمول میں وہ لوگ ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ ذرا ان لوگوں کو دیکھو اور اپنے کو دیکھو، گورنمنٹ کے روپے پر یورپ جا کر تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں اور انجنیئر بن گئے ہیں تو ہم کو کسی شمار ہی میں نہیں لاتے۔

"یہ سب کچھ آپ صحیح کہتی ہیں جو مجھ کو لفظ بلفظ تسلیم ہے مگر اس کے تو یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ان وجوہ کی بناء پر اپنا پیدائشی حق کھو بیٹھوں۔”

"مگر میں شادی پختہ کر چکی ہوں اور شادی کے تمام ابتدائی مراحل بھی طے ہو چکے ہیں اور اب میں یہ نسبت نہیں توڑ سکتی۔”

ماں نے نوری سے یہ الفاظ ایک مجبوری کا لہجہ لیئے ہوئے کہے۔

"میں کب کہتا ہوں کہ آپ یہ نسبت توڑ دیں، مجھ کو تو یہ رشتہ خود بسر و چشم منظور ہے۔”

یہ الفاظ سنتے ہی بہن چمک کر بولی "پھر آخر کیوں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو؟ یہی تم نے پیرس سے لکھا تھا ورنہ ہم لوگ کیوں یہ غلطی کرتے۔؟”

غرض اسی قسم کی بحث بہت دیر تک ہوتی رہی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ماں نے بہت کوشش کی کہ نوری اپنی ضد سے باز آئے مگر بے سود اور ادھر نوری نے بے حد کوشش کی کہ ماں اس کی منسوبہ بیوی کے گھر کہلا بھیجے کہ لڑکا لڑکی سے ملنا چاہتا ہے مگر بیکار، ماں کو اپنی بات کا پاس تھا وہ اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہونا گوارا نہ کر سکتی تھی، وہ پرانی رسموں کی قیود کو توڑنا نہیں چاہتی تھی اور یہ ناممکن تھا کہ ایسا ناشائستہ پیغام لڑکی والوں کے یہاں کہلوا بھیجے کہ جس کو وہ ان لوگوں کی کھلی ہوئی توہین خیال کرتی ہو۔

نتیجہ ماں بیٹے کی ضد کا یہ ہوا کہ ماں خفا ہو گئیں، گھنٹوں بیٹھ کر روئی، نوری نے بہت خوشامد کی مگر بیکار، نوری کی ماں کو رنجیدہ کرنے کا بہت افسوس تھا مگر مجبور تھا۔ کھانے کا وقت آیا اور ماں نے کھانا نہ کھایا مگر مصالحت کی کوئی صورت نہ بن پڑی۔

بحث کا سلسلہ چھڑ گیا نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ماں خوب روئی پیٹی مگر سنگدل بیٹے نے اپنے اصول سے جنبش نہ کی اب گھر گویا غم کدہ بنا ہوا تھا، ماں نے کھانا نہ کھایا اور بیٹی اور بیٹے نے بھی کھانا نہ کھایا، یہی صورت دوسری شام تک رہی اور ۲۴ گھنٹے سے زیادہ گزر گئے۔

نوری اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، ماں کی تکلیف کا خیال تھا، ماں کی سیتہ گرہ آخر کار کامیاب ہو گئی اور نوری نے ماں کی شرائط منظور کر لیں تاکہ ماں کھانا کھا لے۔

 

                (۲)

 

یہ بھی دراصل نوری کی چال تھی تاکہ ماں کھانا کھا لے۔ چنانچہ ماں کو اس ے راضی کر لیا لیکن وہ اب سوچ میں تھا کہ کرنا کیا چاہیے۔ صبح کا وقت تھا اور اس واقعے کو دو روز گزر چکے تھے نوری اپنے کمرے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس نے اخبار رکھ دیا اور اٹھ کر الماری سے احادیث کی دو کتابیں اٹھا لایا۔ ان کتابوں کا مطالعہ وہ پیشتر بھی کر چکا تھا اور اکثر کرتا رہتا تھا۔

وہ اسی سوچ میں تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے کہ معاً اس نے دل میں نئی بات ٹھان لی، نوکر کو حکم دیا کہ گاڑی لاؤ کپڑے پہن کر تیار ہوا اور کہا کہ نائب الشیخ کے ہاں چلو۔

گاڑی ایک عالیشان مکان پر رکی۔ مکان کا ظاہری ٹھاٹھ کہہ رہا تھا کہ کسی امیر کبیر کا مکان ہے۔ ایک نوکر دوڑ کر گاڑی کے قریب آیا، نوری نے اپنا کارڈ دیا اور اطلاع کی گئی۔

نائب الشیخ اپنے منسوبہ داماد کی آمد کی خبر سن کر باہر استقبال کے لئے آئے۔ نوری نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور قابل احترام شیخ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، شیخ نے نوری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لا بٹھایا۔

کمرہ مغربی سامان آرائش سے سجا ہوا تھا۔ جگہ جگہ خوبصورت کام ہو رہا تھا اور تمام فرنیچر اور دیگر سامان اعلیٰ قسم کا تھا۔ اس ہال کے ایک حصہ میں بہترین روی غالیچوں کا فرش بھی تھا اور مشرقی فیشن کا بہترین سامان سجا ہوا تھا۔ نیچے نیچے زمین سے ملے ہوئے خوبصورت صوفے پڑے ہوئے تھے جن پر لوگ اطمینان سے پالتی مارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ نائب الشیخ نے نوری کا اپنے ملنے والوں سے تعارف کرایا اور ملنے والوں نے شیخ کو داماد کے انتخاب پر مبارک باد دی۔ تھوڑی دیر بعد قہوہ کا دور چلنے لگا اور شیخ نوری سے بسلسلہ گفتگو فرانس کی باتیں پوچھتے رہے۔ قہوہ کا دور ختم ہوا اور تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب کے دوست اٹھ کر چلے اور نوری اور شیخ رہ گئے۔ بڑی مشکل سے اور بڑی دیر کے سوچ کے بعد نوری نے شیخ سے نہایت مودبانہ طریقہ سے کہا

"میں جناب کی خدمت میں ایک خاص مقصد سے آیا تھا۔”

"وہ کیا؟”

"اگر جناب اجازت دیں تو کچھ عرض کرنے کی جرأت کروں؟”

"بسر و چشم، بسم اللہ کہو کیا کہتے ہو۔”

نوری نے کچھ تامل کیا اور شاید وہ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا کہ اپنا مدعا کن مناسب الفاظ میں ادا کرے کہ شیخ نے پھر کہا، "تم ضرور اپنے دل کی بات کہو کوئی وجہ نہیں کہ تامل کرو۔”

نوری نے ہمت کر کے نیچی نظریں کر کے دبی زبان سے کہا "جناب سے اپنا حق مانگتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اپنی منسوبہ سے پانچ منٹ کے لئے مل لوں؟”

نوری نے نظر اٹھا کر جو دیکھا تو نائب الشیخ کو ہکا بکا پایا، وہ بالکل تیار نہ تھے اور ان کی خود داری کو کچھ اس سے ٹھیس سی لگی تھی۔ شیخ نے اپنے کو عجیب شش و پنچ میں پایا۔ وہ نوری کو بے حد پسند کرتے تھے مگر اس بات سے وہ اس وقت حواس باختہ تھے۔ اپنے کو سنبھال کر شیخ نے کہا، "میں اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہوں۔”

"کیا جناب کو اس بارے میں کسی خاص قسم کا اعتراض ہے ؟”

"بے شک مجھ کو اعتراض ہے۔”

مذہبی نقطہ نظر سے یا دنیاوی نقطہ نظر سے ؟”

شیخ چونکہ پھر شیخ تھے وہ بولے، "مذہبی نقطہ نظر سے اور نیز دنیاوی نقطہ نظر سے کیونکہ ہمارا دین اور دنیا الگ الگ نہیں۔”

نوری نے بھی خوش ہو کر کہا مگر دین کو دنیا پر سبقت ہے، سب سے پہلے ہمارا مذہب ہے اور پھر دنیا۔”

شیخ نے بھی خوش ہو کر کہا۔ "بے شک بے شک تم صحیح کہتے ہو۔”

"پھر جب خداوند تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے قرآن پاک میں کہہ دیا کہ ان عورتوں سے نکاح کرو جو کہ تم کو بھلی معلوم ہوتی ہوں تو پھر کون سا اعتراض رہ گیا۔” یہ کہتے ہوئے نوری نے آیت نکاح پڑھ کر سنائی۔

شیخ صاحب اس رنگ میں بحث کرنے کو خصوصاً نوری کی سی نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان سے قطعی تیار نہ تھے اور نہ اس کی امید تھی، ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہیں مگر جواب دینے کے لئے کہا "ہاں یہ مذہباً جائز تو ہو سکتا ہے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا اور خصوصاً آج کل کے زمانے میں”

نوری نے فوراً شیخ کی کمزوری کو محسوس کیا اور کہا، "آپ کا کیا خیال ہے اگر آج کل ہم لوگ سنت رسول اللہ کی پیروی کریں؟ کیا یہ مستحسن نہیں ہے ؟”

شیخ نے فوراً کہا، "خدا ہم کو رسول اللہؐ کی پیروی کی توفیق دے۔”

نوری نے فوراً جیب میں سے ایک پرچہ نکال کر شیخ کے ہاتھ میں دے دیا، شیخ کی آنکھوں کے سامنے حسب ذیل عبارت تھی:

(۱)    جابر سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے نکاح کا پیغام کسی عورت کی طرف بھیجنا چاہے تو ہو سکے کہ اس کو دیکھ لے، جس سے نکاح کا ارادہ ہو تو پھر نکاح کرے۔ (ابی داؤد)

(۲)    مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے، پیغام دیا میں نے نکاح کا ایک عورت کے ساتھ زمانے میں رسول اللہﷺ کے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے دیکھ بھی لیا ہے اس کو؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا کہ دیکھ لے اس کو، اس سے الفت زیادہ ہو گی تم دونوں میں (نسائی)

(۳)   ابو ہریرہ سے روایت ہے پیغام بھیجا ایک آدمی نے لڑکی والوں کے یہاں فرمایا اس کو رسول اللہؐ نے تو نے اس کو دیکھ بھی لیا ہے یا نہیں۔ اس نے کہا نہیں، آپؐ نے فرمایا اس عورت کو دیکھ لے بینی بغیر دیکھے نکاح کرنا اچھا نہیں۔ (نسائی)

شیخ نے ان احادیث کو پڑھا۔ وہ ان احادیث کو پہلے بھی پڑھ چکے ہوں گے مگر ان کے لئے گویا اس وقت یہ بالکل نئی تھیں۔ وہ خاموش تھے اور کچھ بولنے میں ان کو تامل تھا کہ نوری نے ان سے کہا کہ "کیا آپ مجھے ان احادیث پر عمل نہ کرنے دیں گے ؟ کیا واقعی ہم اس زمانے میں رسول اللہ ص کی نصیحتوں سے بے نیاز ہیں اور وہ ہمارے لئے بے کار ہیں؟”

شیخ نے کہا ” ہر گز نہیں ہر گز نہیں گفتہ رسول اللہ سر آنکھوں پر مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آخر تمہارا اس درخواست سے مطلب کیا ہے ؟ اگر فرض کرو تمہاری منسوبہ تم کو ناپسند ہوئی تو کیا تم اس نسبت کو توڑ دو گے اور نکاح نہ کرو گے ؟”

نوری نے جواب دیا۔ "اس سے شاید آپ بھی اتفاق کریں گے اس صورت میں مجبوری ہو گی کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے خلاف ہو گا۔؟”

"تو اس شرط پر تو تمہاری شادی صرف یورپ ہی میں ہو سکتی ہے ” شیخ نے کچھ یرشرو ہو کر کہا مجھ کو ہر گز گوارا نہیں ہے کہ میری لڑکی سے نسبت کرنے کے لئے لوگ گاہک بن کر آئیں اور ناپسند کر کے چلے جائیں۔ کیا تم نے میری عزت و آبرو کا اندازہ غلط لگایا ہے ؟ کیا تم نہیں خیال کرتے کہ نائب الشیخ کی توہین ہو گی، معاف کیجئے گا میں اس قسم کی گفتگو پسند نہیں کرتا جس میں میری عزت و آبرو کا سوال ہو۔”

نوری بھی پختہ ارادہ کر کے آیا تھا اور اس نے بھی تیز ہو کر کہا "بے شک آپ مصر میں وہ عزت و مقام رکھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں مگر مجھ کو اجازت دیجئے کہ عرض کروں کہ پھر بھی آپ کو وہ عزت حاصل نہیں ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب رض کو مدینے میں حاصل تھی اور آج ساری دنیا میں حاصل ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حفصہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا اور نکاح کی خواہش ظاہر کی اور جب حسب خواپش جواب نہیں ملا تو پھر ان کو حضرت ابو بکر صیق کے سامنے پیش کیا اور وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ کیا ان سے ان کی عزت و آبرو میں خدانخواستہ بٹا لگ گیا۔؟”

شیخ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور وہ لاجواب ہو کر بولے کہ دونوں حضرات تو ان کے دوست تھے۔

"مگر میں بھی آپ کے عزیز ترین دوست مرحوم کی نشانی ہوں۔”

شیخ نے نظریں نیچی کر لیں اور کچھ تامل کے بعد کہا "مجھ کو کوئی انکار نہیں ہے۔” یہ کہتے ہوئے شیخ گھر میں چلے گئے۔

 

                (۳)

 

نوری کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی سیاہ پردہ اٹھایا اور اندر داخل ہوا حالانکہ دن تھا مگر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے بجلی کا لیمپ روشن تھا، سامنے کرسی پر سیاہ گاؤن پہنے ایک سولہ یا سترہ سال کی نہایت حسین و جمیل لڑکی بیٹھی تھی۔!

نوری کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی نوری نے سلام کیا کچھ جواب نہ ملا۔ اس نے دوبارہ سلام کیا تو لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا، لڑکی کی نظریں نیچی تھیں صرف داخل ہوتے وقت اس نے ایک لمحہ کے لئے نظر اٹھا کر نوری کو ضرور دیکھا تھا۔ وہ ساکت کھڑا تھا اور لڑکی نے نوری سے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ نوری اجازت طلب کرتے ہوئے بیٹھ گیا مگر لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا اور کھڑی رہی۔ نوری پھر کھڑا ہو گیا تو کہا کہ بیٹھ جائے۔ نوری نے اپنی کرسی قریب کر لی اور کہا کہ "مجھے فخر ہے کہ میں اس وقت اپنی منسوبہ نازلی خانم کے سامنے بیٹھا ہوں اور ان سے کچھ گفتگو کرنے کا مجھ کو موقع ملا ہے کیا مجھ کو اجازت ہے ؟”

نازلی نے دبی زبان سے کہا "فرمائیے۔”

"آپ میرے نام سے تو واقف ہیں کیا میں دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ کو مجوزہ یہ رشتہ پسند ہے۔؟”

اس کا نازلی نے کوئی جواب نہ دیا اس کے چہرے پر ایک خفیف سا رنگ آیا اور چلا گیا وہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے داہنا ہاتھ کرید رہی تھی۔

انداز سے نوری نے معلوم کر کے کہا میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی سلسلے میں نوری نے پوچھا۔

"کیا آپ میری اس ملاقات کو ناپسند کرتی ہیں۔؟”

"جی نہیں۔”

"تو پھر آپ نے اپنے والد صاحب سے اس بارے میں غیر آمادگی کا اظہار کیوں کیا تھا۔؟”

نازلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آئی لیکن شرم کی وجہ سے شاید کچھ نہ کہہ سکی۔، نوری نے فوراً کہا ” آپ کو اس بات کا جواب ضرور دینا پڑے گا اور میں بے پوچھے نہ مانوں گا۔”

نازلی نے کچھ تامل سے کہا "میں نے یونہی کہہ دیا تھا۔”

نوری نے برجستہ کہا "تو اس سے یہ مطلب میں نکال سکتا ہوں کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔”

نوری نے یہ کہتے ہوئے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر کہا "سچ سچ بتائیے کہ کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؛ میں آپ کے دل کی بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔”

نازلی کی نظریں نیچی تھیں، اس کے سرخ اونی شال پر بجلی کی روشنی چمک رہی تھی جس کا عکس اس کے چہرے پر پڑ کر سیاہ گاؤن کے ساتھ ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ اس نے ذرا تامل سے کہا "میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی، ملنے کا تو مجھ کو خیال بھی نہ آ سکتا تھا۔”

"کیا آپ مجھ کو بتا سکتی ہیں کہ آپ مجھ کو کیوں دیکھنا چاہتی تھیں؟” یہ سوال کرنے سے نوری کو خود ہنسی آ گئی۔

نازلی نے بھی اب ہمت کر کے کہا "پہلے آپ ہی بتائیے کہ آپ آخر کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے، جس لئیے آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے اس لئے میں بھی چاہتی تھی کہ آپ کو دیکھ لوں۔”

نوری نے کہا۔ "میں تو آپ کو اس لیئے دیکھنا چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی میں نے اپنی بہن اور ماں سے آپ کے بارے میں سنا ہے اس کی تصدیق کر لوں مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کیوں مجھ کو دیکھنا چاہتی تھیں۔؟”

نازلی نے اب نظریں اوپر کر لی تجیں اور اب روبرو ہو کر باتیں سن رہی تھی اس کو ان سوالات پر کچھ ہنسی بھی آ رہی تھی اور اس نے جواب دیا کہ "میں تو یونہی آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔”

"مگر میں آپ سے بغیر اس کی وجہ پوچھے نہ مانوں گا”

نازلی نے کہا "مجھ کو معلوم ہی نہیں تو پھر بھلا آپ کو کیا بتاؤں”

نوری کو اس جواب سے اطمینان ہو گیا لیکن اب اس کے دوسرا سوال پیش کر دیا۔

"میں جب پیرس میں بیمار پڑ گیا تھا تو آپ کو یاد ہو گا آپ نے دو مرتبہ اپنے خطوط میں میری بہن کو لکھا تھا کہ تمہارے بھائی اب کیسے ہیں؟ یہ آخر کیوں لکھا تھا؟”

نازلی کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور وہ کہنے لگی "معاف کیجئے گا آپ کیسے سوالات کر رہے ہیں کیا کسی کی خیریت دریافت کرنا گناہ ہے۔؟”

نوری نے کہا "اچھا آپ صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ میری بیماری کا سن کر کچھ متفکر ہوئی تھیں اور کیا آپ کو میرا خیال آیا تھا۔”

نازلی نے سمجھ لیا تھا کہ ایسے سوالوں سے نوری کا مطلب کیا ہے اور اس کو بھی ان سوالات میں دلچسپی آ رہی تھی اس نے بجائے جواب دینے کے ہنستے ہوئے کہا۔ "اچھا پہلے آپ بتائیے کہ اگر اسی زمانہ میں میں بیمار پڑتی اور آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ میری خیریت دریافت کراتے یا کچھ متفکر ہوتے یا آپ کو میرا کچھ خیال آتا؟”

نوری کچھ لاجواب ہو کر ! "میرا خیال ہے کہ ضرور مجھ کو بہت خیال آتا اور فکر بھی ہوتی اور میں خیریت بھی دریافت کراتا۔”

نازلی کامیابی کی خوشی کے لہجے میں تیزی سے بولی۔” آخر کیوں، آخر کیوں، نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا اور نہ آپ نے ہی مجھ کو دیکھا تھا۔”

نوری اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا نازلی کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھوں میں تھا اس نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے عجیب پیرایہ میں کہا "میری جو باتیں خود سمجھ میں نہیں آتی تھی انہیں دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ کی طرف سے جو خیالات میرے دل میں تھے، کیا ویسے ہی میری طرف سے آپ کے دل میں بھی ہیں۔”

"پھر آپ نے کیا پایا؟”

"آپ کی اور اپنی حالت کو یکساں پایا۔ یہ ایک بات ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میں محبت کی بنیاد دراصل اس وقت سے استوار ہو گئی جب ہم دونوں کو اس کا علم ہوا کہ یہ رشتہ قائم ہو گا۔”

اس کا جواب نازلی نے کچھ نہ دیا صرف اس کے نرم ہاتھ کو جنبش سی ہوئی جو نوری کے ہاتھ میں تھا اور یہی جواب تھا جو اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔

نوری نے متاثر ہو کر کہا۔ "ایک سوال اور کروں گا اور اس کا جواب خدا کے واسطے ضرور دینا وہ یہ کہ آپ نے جو اپنے ہاتھ سے ایک جنگل کے سین کی رنگ برنگی تصویر بنا کر میری بہن کو بھیجی تھی، وہ کیوں بھیجی تھی؟”

"وہ میں نے اس لئے بھیجی تھی کہ انہوں نے مجھ کو تصویروں کا ایک البم بھیجا تھا، تبادلہ تحفہ جات تو ایک پرانی رسم ہے۔”

نوری نے بے تاب ہو کر کہا "خدا کے واسطے ذرا اپنے دل کو ٹٹولئے اور اچھی طرح ٹٹولئے ہر معاملہ میں میرا اور آپ کا حال ایک سا نکلتا ہے بخدا مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ تصویر آپ نے میری بہن کے لئے نہیں بلکہ میرے لئے بھیجی تھی تاکہ میں دیکھوں اور خوش ہوں، اس وقت جس وقت تصویر آئی تو میرے دل میں یہی خیال تھا اور اب بھی یہی خیال ہے، سچ مچ کہئے گا کہ آپ جس وقت تصویر بھیج رہی تھیں کیا آپ کے دل میں کچھ میرا خیال آیا تھا۔”

نازلی کچھ حیران سی رہ گئی کیونکہ اس وقت نوری نے اس کے دل کی گہرائی کا اس طرح پتہ لگا لیا کہ اس کو وہم و گمان بھی ہونا ناممکن تھا۔ وہ کچھ جواب نہ دے سکی اور حیرت میں تھی، ساتھ میں حقیقی شرم بھی اس کو بولنے نہ دیتی تھی۔

نوری نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا اور اصرار کے ساتھ کہا "اس بات کا میں آپ سے ضرور جواب لوں گا یہ میرا آخری سوال ہے اور میں اس وقت آپ کے صحیح جواب کا بے تابانہ انتظار کر رہا ہوں بتائیے تو سہی کہ وہ تصویر آپ نے کس کے لئے بھیجی تھی۔”

"آپ کے لئے ” یہ کہہ کر نازلی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔

نوری کی آنکھیں چمکنے لگیں اس کا دل جواب سن کر دھڑکنے لگا اس نے زور سے نازلی کا ہاتھ گویا لاعلمی میں دبایا اور خوش ہو کر اس کے منہ سے نکلا "بخدا؟”

"بخدا” نازلی کی زبان سے بھی نکلا۔

دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے نازلی نیچی نظریں کئے ہوئے بیٹھی، نوری نے گھڑی دیکھی اور چاروں طرف دیکھ کر نازلی کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑ دیا، اپنی جیب سے اس نے ہیرے کی ایک انگوٹھی نکالی جس کی دمک سے بجلی کی روشنی میں آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، نازلی نے آنکھ کے گوشہ سے انگوٹھی کو دیکھا تو اس نے مسکرا کر کہا "یہ آپ کے لئے ہے ” ہاتھ پکڑ کر کہا۔” کیا آپ اجازت دیتی ہیں” اور یہ کہتے ہوئے نازلی کی انگلی میں انگوٹھی پہنا کر اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا کر آہستہ آہستہ سے چھوڑ دیا۔

"خدا حافظ۔ خدا حافظ۔” کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، ایک طویل مصافحہ کیا اور پھر خدا حافظ کہہ کر اجازت چاہی۔ "خدا حافظ” نازلی نے آہستہ سے کہا۔ چلتے چلتے دروازے سے مڑ کر اس نے نازلی کی طرف دیکھا جو خود اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔

٭٭٭

ٹائپنگ: مقدس حیات، شمشاد احمد خان، ذیشان حیدر، ذو القرنین ، وجیہہ، محمد امین، فہیم اسلم اور دوسرے اراکینِ اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید