عرصۂ خیال ۔۔۔ اسلم عمادی
شاعر
اسلم عمادی
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
گریز
ہو سکتا ہے
جس کو روشن تارہ اَب تک ہم سمجھے
اُس کی روح اندھیری ہو
ہو سکتا ہے
جس اندھیارے دشت میں جانے سے خائف تھے
اُس کے عقب میں ایک انوکھی بستی ہو
لیکن ہم یہ سب کیوں تسلیم کریں
ہم تو آنکھوں کے حامی ہیں
آنکھوں کی ہی سنتے ہیں
ہو سکتا امکان کا اک مدھم بے رنگ دھندلکا ہو
اب یہ جو چلنے کی، ڈھونڈنے کی، پہچاننے کی
ساری ترکیبیں ہیں
وہ تو
سامنے دور درختوں کے بیچ، ایک دیے
کی طرح اُسی کی سمت
خلوصِ نیت سے
یا یوں کہیے
اِک مفروضہ سے یہ کہتی ہیں
چلیے بہت قریب ہی وہ بستی ہے، جس میں
راحت ہو گی روشنی ہوتی
… اور حیات کے مطلب ہوں گے!
ہم کو دور ستارے سے دشت سے کیسی اب اُمید؟
جو بالکل نزدیک، بہت آسان
سی منزل ہے
خواہ، وہ لا حاصل ہی کیوں نہ رہے؟
خواہ، وہ ناکامل ہی کیوں نہ رہے!
ہمیں تو اُس کی سمت ہی چلنا ہے
جس کو جانا ہے، وہ جائے۔ لیکن اپنی خوشی سے
ہو سکتا ہے
روشن تارہ روشن ہی ہو
ہو سکتا ہے
دشت کے آگے
دشت ہی دشت ہو
بے معنی، بے فائدہ، لا محدود!
٭٭
ایک نظم
یہ سوال چشمِ عجب میں ہے
کہ اَندھیرا کتنا بچا ہوا
اَبھی شب میں ہے …؟
کہ ستارے چند سیاہ نقطے
چھپا کے … کانپتے
گرد و باد میں کھو گئے
اُفق میں ڈوب گئے کہیں
یہ کچھ ایسی رات تھی، جس میں چاند
کھلا نہیں۔ وہی جس میں راہ فرار ہے
نہ سفر کوئی … نہ قرار ہے
تو سب اہلِ نور یہی کریں
کہ بدن پہ کالے لباس سر سے
قدم تلک یوں پہن لیں جیسے
سیاہیوں کا سب عکس ہوں
کوئی آسمان سے جھانک کر
ہمیں ڈھونڈنے کا کسی طرح
کرے حوصلہ، تو اِسی اندھیرے میں
ڈھونڈ لے … یہ جو آنکھیں ہیں
وہ چمک رہی ہیں … یہی شاید اُن کو
دکھائی دیں … کہ یہی تو اپنی
شناخت ہیں، وہ اُنہی کی کھوج سے (ہو اگر) ہمیں پا سکے
٭٭
اِنتباہ
ٹھہر جاؤ
ابھی اندر نہ آنا۔۔ ۔ !
ابھی تو مرے شہر کا ہر مکیں خواب میں ہے،
بہت تھک کے سوئے ہیں سب۔۔ ۔
۔۔ ۔ کوئی ہجرت کے رت جگے کے سبب،
۔۔ ۔ کوئی دن کی مصروفیت کا نچوڑا ہوا، شور و غل کے تماشوں کا مارا
تہی دست، حیراں گر سنہ صفت
کوئی اس کے برعکس راحت میں غرق،
بے حسی کے کنویں میں گرا
مگر یہ حقیقت بھی ہے۔۔ ۔ کوئی صبح کا منتظر ہی نہیں
سبھی اپنی اپنی طرح کی گھنی نیند میں ہیں پھنسے
کسی میں بھی بیدار ہونے کی خواہش نہیں
اسی میں بڑی عافیت ہے
ٹھہر جاؤ
اندر نہ آنا
اے سورج کی کرنو۔۔ ۔،
ابھی یاں تمھاری ضرورت نہیں
٭٭
کٹے پروں کے پرندے بھی اُڑنا چاہتے ہیں
ہم اُس حصار سے باہر کا رستہ چاہتے ہیں
اگر چہ صبح نے دن کی خبر ہے پھیلا دی
خمارِ شب ہے ابھی، لوگ سونا چاہتے ہیں
اگر چہ نام ہماری خبر سناتا ہے …
ہم اپنے نام کے معنی بدلنا چاہتے ہیں
یہ آسماں پہ دھوئیں جیسے اَبر کے ٹکڑے
سنا ہے شہر کا موسم بدلنا چاہتے ہیں
مچل رہے ہیں درختوں پہ بے نوا پتّے
جو سخت دھوپ سے بچنے کا حیلہ چاہتے ہیں
وہ سوچتے ہیں سخن اُن کی مدح میں ہو گا
سو اسلمؔ اِس لیے اَشعار سننا چاہتے ہیں
٭٭
محیط شب سے ابھی تک سحر نہیں نکلی
مگر ہماری طرف یہ خبر نہیں نکلی
کس اِنکسار سے کس عاجزی سے مانگی تھی
دُعائے دید مگر با اَثر نہیں نکلی
عجیب چیخ سی تھی اُس نگاہ میں پنہاں
تو کیوں ہماری نظر کارگر نہیں نکلی
مثالِ خواب تھی آنکھوں میں حسرتِ دیدار
جسے کہ صورتِ عکس و نظر نہیں نکلی
وہ جانتی تھی کہ ہم آنے والے ہیں اُس سمت
تری گلی کی فضاء بے خبر نہیں نکلی
گزر گئی ہے دبے پاؤں زندگی میری
یہ ڈھونگ کر کے بصد شور و شر نہیں نکلی
تھے جس مژہ کے لیے سب ہلال کے مشتاق
وہ اسلمؔ آج مگر بام پر نہیں نکلی
٭٭
شکستِ جام کی شاید گھڑی نہیں آئی
پیو، پیو، کہ ابھی بے خودی نہیں آئی
پھنسے ہوئے تھے کسی کارِ نامناسب میں
کہ ہم کو یار کی آواز ہی نہیں آئی
یہ حُسن تجھ کو ملا ہے خزانۂ رب سے
ترے ہنر سے تو یہ مہوشی نہیں آئی
یہ اُس کا حسن، یہ اُس کا جمال، اُس کی اَدا
کسی چراغ سے یہ روشنی نہیں آئی
یہ سچ ہے، اَب بھی سرِ رہ گذار باقی ہے
ہوا کو ضبط کی سنجیدگی نہیں آئی
اَندھیرے گھر ہیں، اندھیرے ہیں راستے، بازار
کئی دنوں سے اُدھر روشنی نہیں آئی
اِسی طرح سے رہا، اُس کا منتظر حیراں
گئی تو لوٹ کے پھر وہ پری نہیں آئی
یہ تیری جلوہ گری کی نہیں ہے ساعتِ خاص
کہ شائقوں کی ابھی بھیڑ بھی نہیں آئی
نہ کوئی زلف ہی بکھری، نہ جلوہ ختم ہوا
مرے گماں میں ابھی رات ہی نہیں آئی
عجیب جسم ہے جس میں چھپی ہیں تشبیہیں
کہ استعاروں میں وہ دلبری نہیں آئی
یہ سوچتے ہیں چلو اُس کو اپنے شعر سنائیں
پر اسلمؔ آج بھی ایسی گھڑی نہیں آئی
٭٭
رات بھر جاگ کے، سونے کی دُعا مانگتا ہوں
ختم ہو ذہن میں سب شور و وغا مانگتا ہوں
مجھ کو بھی جانا ہے قاتل کی گلی میں کسی طور
یعنی خود اپنی شہادت کا پتہ مانگتا ہوں
اِک تبسم ہی سہی، گر نہیں منظورِ کلام
میں مروت نہیں، بس اَجرِ وفا مانگتا ہوں
جس سے آواز میں ہو، سامعہ چھونے کی للک
اے مرے رب میں کوئی ایسی نوا مانگتا ہوں
یہ بکھرتے ہوئے گیسو، یہ دمکتا ہوا رُخ
دھوپ اور چھاؤں کا یہ رنگ سجا مانگتا ہوں
یہ اُبھرتی ہوئی آہٹ سے بکھرتی خوشبو
ہے خبر کس کی یہی راز کھلا مانگتا ہوں
٭٭
ہوئے ہیں جمع سبھی خواب دیکھنے والے
تری گلی میں یہ مہتاب دیکھنے والے
وہ تیرا کوچہ تھا یا شوق کا سمندر تھا
کہ جس میں غرق تھے گرداب دیکھنے والے
ہمیں شباب میں کچھ ایسا زعم تھا خود پر
کہ ہر ندی کو تھے پایاب دیکھنے والے
عبادتوں کے لیے ہر جگہ قبول ہمیں
کجا وہ منبر و محراب دیکھنے والے …!
عجیب بات نئی بستیوں سے حیراں ہیں
ہم ایسے وادیِ شاداب دیکھنے والے
جو بہہ گئے … اُنھیں اُس کی خبر نہیں اسلمؔ
کہ آئے تھے … کئی سیلاب دیکھنے والے
٭٭
اَب نہیں جینا ہمیں اِن وحشتوں کے درمیاں
ٹوٹتی، مٹتی، بکھرتی الفتوں کے درمیاں
راستہ ٹوٹے مکانوں کے کھنڈر کے بیچ ہے
یعنی ماضی کی بکھرتی وسعتوں کے درمیاں
ہم کو رہنا ہے ترے کوچہ کے اِس ماحول میں
بس اُنھیں مانوس حیراں صورتوں کے درمیاں
عشق ہے میرا جنوں لیکن خرد کا پاسدار
جس کی کیفیت نئی کیفیتوں کے درمیاں
روز اُٹھنا اور چل پڑنا یونہی مقتل کی سمت
اِک طلب، اِک نشہ اِن سب دہشتوں کے درمیاں
یاد کا سکھ ہی غنیمت ہے کہ یہ حاصل تو ہے
عشق کب ہوتا ہے اسلمؔ راحتوں کے درمیاں
٭٭
کسی طرح یہ سیہ سست شب گزر جائے
شکستہ خوابوں کا سیلاب تو اُتر جائے
ہمارے شہر میں ہیں راستوں کے جال بچھے
جسے ہو راست گزرنا، وہ اَب کدھر جائے …؟
مری نوا میں عجب روشنی سی درد کی ہے …
فضا میں جس کے اُبھرنے سے نور بھر جائے
غضب کا شور ہو اُس کوچۂ تمنا میں
خموش آنکھوں کا لہجہ اگر اُبھر جائے
بتائیے کہ ہم اُس دلربا کو کیا سمجھیں
وہی جو وعدہ کرے اور پھر مُکر جائے
خیال و خواب کی سب کھڑکیوں کو بند رکھو
نہ اُن میں شہر کا دود و غبار بھر جائے
تو مان لیں گے کہ ہے وقت منجمد اسلمؔ
شبِ فراق اگر آج مختصر جائے
٭٭
یہ فیصلہ نہ کر سکے یاں اَپنا کون تھا
تھا سارا شہر وہم و گماں اَپنا کون تھا
جس سے ملے وہ ٹوٹ کے بے ساختہ ملا
لیکن شریکِ درد یہاں اَپنا کون تھا
پھیلی تھی چاندنی بھی عجب واہمہ کی طرح
وہ اجنبی سا چاند رواں اَپنا کون تھا
اِک بزم قصہ گویاں تھی اَحباب جب ملے
سب اپنی کر رہے تھے بیاں اَپنا کون تھا
اِک آئینہ سا چہرہ تھا، وہ بھی خفا لگا
اَب عکس گر ہمارا یہاں اَپنا کون تھا
عنقا سی ہو کے رہ گئی بے لوث دوستی
سب کو تھی فکرِ سود و زیاں … اَپنا کون تھا
اِک شہرِ اَجنبی میں یہی ڈھونڈتے رہے
ملتی تھی کس سے اپنی زباں اَپنا کون تھا
یوسف کی طرح ہم بھی تھے بازار میں مگر
قیمت لگانے والا یہاں اَپنا کون تھا
اسلمؔ سمجھتا کون ہمارے جنوں کا حال
کس پر تھا راز شوق عیاں اَپنا کون تھا
٭٭
ہمارے شکوہ کو صاحب برا نہ مانیے گا
مگر کبھی بھی ہمیں بے نوا نہ مانیے گا
یہ سچ ہے آپ کے ہاتھوں میں ہے زمام اس وقت
مگر زمانے کا خود کو خدا نہ مانیے گا
ہے کچھ جو کانپ رہے ہیں شجر، در و دیوار
یہ ایک آندھی ہے بادِ صبا نہ مانیے گا
ابھی ہے پہلا قدم خار زارِ وحشت میں
سو پہلے تجربہ کا انتہا نہ مانیے گا
یہ مانا دھوپ کو برداشت کر لیا سب نے
تمازت اب بھی ہے سب کو روا نہ مانیے گا
یہ مانا زخم کئی مندمل ہوئے اب تک
جراحتوں کو رہین دوا نہ مانیے گا
یہاں بھی سانسیں ہیں اور جاگتی ہوئی آنکھیں
خلا کچھ اسی ہے۔ اس کو خلا نہ مانیے گا
ہر ایک حرف کسی سمت اشارہ کرتا ہے
اب اشتہار کو رسمِ زمانہ مانیے گا
ہمارے دل سے جو اسلمؔ اُٹھی ہے ایک کرن
یہ ایک شعلہ ہے اس کو ہوا نہ مانیے گا
٭٭