FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

عبٓاس خان سے ادبی مکالمے

 

 

 

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل،  شمارہ ۲۵، عباس خان نمبر، مدیر: ارشد خالد

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

عباس خان سے ادبی مکالمہ ’فنکار اب بھی مستور ہے ‘

 

افتخار امام صدیقی

 

 

س۔ آپ اپنے لئے لکھتے ہیں یا دوسروں کے لئے ؟

ج۔ میں دوسروں کے بارے میں لکھتا ہوں۔ میرے لکھے سے کسی میں تبدیلی آ جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ دوسروں کے لئے بھی ہوتا ہے۔

س۔ کیا آپ کے ذہن میں نئی نسل کی تربیت رہتی ہے ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا آپ فن پارے کی پہلی شکل سے مطمئن ہو جاتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ تو آخری شکل دینے کے لیے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ؟۔

ج۔ اوپر دئیے گئے جواب کی موجودگی میں یہ سوال غیر ضروری ہو گیا ہے۔

س۔ اب تک کی اپنی تخلیقات سے بالکل مطمئن ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا آپ نے کوئی بڑا ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے ؟

ج۔ میں نے تین ناول لکھے ہیں۔ یہ میری رائے میں بڑے ادبی کارنامے ہیں۔

س۔ کیا آپ اپنی سابقہ تخلیقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں ؟

ج۔ میرا ناول ’’ تو اور تو‘‘ ایک ادبی رسالے میں چھپا۔ جب میں کتابی صورت میں چھاپنے لگا تو میں نے اس کے چند فقروں میں رد و بدل کیا۔ علاوہ ازیں چند افسانچوں میں اشاعت کے وقت تبدیلی کی۔ ان سے ہٹ کر میں نے اپنی تحریروں میں نظر ثانی نہیں کی۔

س۔ کیا آپ لکھنے سے پہلے بہت غور خوض کرتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا تخلیقی عمل کے لئے مطالعہ ضروری ہے ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا آپ تجربات و مشاہدات کو فن پاروں میں سموتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ آپ کا کوئی ایسا خیال ہے جسے ابھی تک تخلیق نہ کیا ہو؟

ج۔   گماں مبر کہ بیاباں رسید کارِ مغاں

ہزار بادۂ نا خوردہ دردگ تاک است

س۔ وہ خیالات کیا ہیں ؟

ج۔ ۱۔ اگر عورت مکمل طور پر مرد جتنی آزاد و خود مختار ہو تو یہ دنیا کیسی ہو گی۔

۲۔ اگر عورت بغیر جنسی تبدیلی کے مرد کا مقام لے لے اور مرد عورت کا تو اس دنیا کا کیا روپ ہو گا۔

۳۔ اگر دنیا کے تمام انسان نیک بن جائیں تو سماج کی کیا شکل ہو گی۔ وغیرہ وغیرہ۔

س۔ آپ تنقید پسند کرتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا آپ قارئین و نقاد حضرات سے مایوس ہوتے ہیں ؟

ج۔ قارئین سے نہیں ہوتا۔ دو فی صد کو چھوڑ کر باقی نقادوں کو میں ادبی منڈی میں دلال خیال کرتا ہوں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں ان سے پر امید ہوں یا مایوس۔

سْ کیا آپ نے لغت سے دوستی کی ہے ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کیا آپ ملکی و غیر ملکی زبانوں کا ادب پڑھتے ہیں ؟

ج۔ میسر آ جائے تو پڑھتا ہوں۔

س۔ ملکی زبانوں میں چند اہم ترین نام ؟

ج۔ مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال، مختار مسعود، قدرت اللہ شہاب اور کرشن چندر۔

س۔ غیر ملکی زبانوں کے اہم ترین نام ؟

ج۔ ہومر، شیکسپئر، ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ، کامیو، حافظ اور خیام۔

س۔ کیا آپ بڑی ادبی شخصیت سے مرعوب ہو جاتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں

س۔ کوئی قابلِ ذکر ادبی شخصیت، کتاب، رسالہ ؟

ج۔ شخصیات کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ کتابوں کی فہرست طویل ہے جو کہ بہت ساری جگہ لے لے گی، چنانچہ درج نہیں کرتا۔ رسالوں میں سیپ، اوراق، نقوش، فنون، افکار، ادبِ لطیف، تخلیق، نیا قدم، چہار سو، شاعر، انشاء اور سبق ادب۔

س۔ کیا نثر لکھنا شاعری سے زیادہ مشکل کام ہے ؟

ج۔ شاعری کے مقابلے میں نثر لکھنا آسان ہے۔

س۔ کیا آپ کسی مستعار ادبی تھیوری کو اہم جانتے ہیں ؟

ج۔ نہیں جانتا۔

س۔ کیا کلاسیکی ادب کا مطالعہ ضروری ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ میر، غالب، اقبال، پریم چند، فیض و فراق کے علاوہ اہم نام؟

ج۔ آپ دیگر اہم ناموں کی بات کرتے ہیں۔ میرے نزدیک تو آپ کی دی گئی فہرست میں میر و اقبال کے علاوہ باقی سب غیر اہم ہے۔

س۔ اب تک لکھی گئی ادبی تاریخیں ہماری ادبی تاریخ کی مکمل نمائندہ ہیں ؟

ج۔ میرے نزدیک یہ بد دیانتی کی مکمل نمائندہ ہیں۔ جس طرح محکمہ انسدادِ رشوت ستانی ہوتا ہے۔

اسی طرح ان مورخین اور نقادوں کی بد عنوانی کے انسداد کے لیے بھی محکمہ ہونا چاہیے۔

س۔ کیا پاک و ہند میں اردو کا مستقبل روشن ہے ؟

ج۔ پاکستان میں زیادہ روشن ہے۔

س۔ کیا کسی عالمی ادبی چینل کی ضرورت ہے ؟

ج۔ شدت سے ضرورت ہے۔

س۔ کیا اردو ادب دیگر دنیا کے ادب کے ساتھ فخر سے رکھا جا سکتا ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔ بلکہ دوستو وسکی، کافکا، بادلیئر، ایڈ گرایلن پو، اور جائسس کے مقابلے میں کئی اردو شاعر اور نثر نگار عظیم ہیں۔

س۔ وہ فن پارے کیا ہیں ؟

ج۔ عبدالحلیم شر ر، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا شبلی نعمانی، علامہ اقبال اور کرشن چندر کی تخلیقات۔

س۔ کیا آپ کے بچے اردو پڑھتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا انگریزی کی تعلیم ضروری ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا اردو اختیاری زبان کے طور پر علاقائی زبانوں کے اسکولوں میں رکھی جا سکتی ہے۔ ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا اردو میں خواتین کا کوئی خالص ادبی رسالہ ہے ؟

ج۔ جی ہاں کرن، شعاع، پاکیزہ، بانو، بتول، خواتین ڈائجسٹ خواتین کے ادبی رسالے ہیں۔ یہ اور بات ہے نام نہاد نقاد اور مورخین انہیں اہمیت نہیں دے رہے۔

س۔ نئی نسل کی خواتین میں کوئی اہم نقاد؟

ج۔ کوئی نہیں۔

س۔ کیا الیکٹرک میڈیا پرنٹ میڈیا پر حاوی ہو گیا ہے ؟

ج۔ حاوی ہونا شروع ہوا ہے۔

س۔ کیا آپ عشق پر یقین رکھتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں اور اس حد تک

ہر گز نمیروآں کہ دلش زندہ شُد با عشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

س۔ کیا آپ نے عشق کیا ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا ایک فنکار کو ایوارڈ وغیرہ کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ؟

ج۔ نہیں کرنی چاہیے۔

س۔ کیا اردو کے اساتذہ اپنی زبان کا ادب پڑھتے ہیں ؟

ج۔ تقریباً پانچ فی صد پڑھتے ہیں۔

س۔ کیا وہ اپنے شاگردوں کو تلقین کرتے ہیں ؟

ج۔ تقریباً پانچ فی صد کی حد تک۔

س۔ آپ کے شہر کی اہم ترین لائبریری کا نام کیا ہے ؟

ج۔ گورنمنٹ کالج لائبریری۔

س۔ آپ کے شہر کے اہم ترین کتب فروش کا نام پتہ کیا ہے ؟

ج۔ ۱۔ محمد عمر خان۔ کاروان بک سنٹر صدر ملتان،۔

۲۔ جبار احمد۔ بیکن ہاوس گلگشت کالونی ملتان۔

س۔ کیا اردو کتب فروش اردو کتب و رسائل فروخت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ؟

ج۔ کتابوں کی حد تک رکھتے ہیں۔

س۔ کیا آپ ان کی مدد کرتے ہیں ؟

ج۔ کبھی بھی میری مدد نہیں چاہی گئی۔

س۔ کیا آپ کوئی ادبی رسالہ شائع کرنا چاہتے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا ادب اور مذہب میں رشتہ ہونا چاہیے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا ادب نے مذہب و سیاست کا رخ موڑا ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ اپنی پسندیدہ خوشبو کا نام بتائیے ؟

ج۔ چنبیلی کے پھولوں کی خوشبو۔

س۔ کس طرح کی موسیقی سننا پسند کرتے ہیں ؟

ج۔ ہلکی پھلکی۔

س۔ غزل گائیکی کے زوال کے اسباب کیا ہیں ؟

ج۔ غزل شروع سے خواص کی پسند رہی ہے۔ جتنی اس کو مقبولیت حاصل تھی وہ اب بھی ہے۔ اگر آپ کے خیال میں اس کو زوال آیا ہے تو اس کی وجہ اچھے غزل گانے والوں کا نہ ہونا ہے۔

س۔ آپ کا پسندیدہ رنگ کونسا ہے ؟

ج۔ سفید۔

س۔ کیا آپ خدا پر یقین رکھتے ہے ؟

ج۔ مکمل طور پر۔

س۔ کوئی قابلِ ذکر ادبی واقعہ جو آپ کے ساتھ گزرا؟

ج۔ کوئی نہیں۔

س۔ ماضی کے نظم نگاروں کے تجربے کیوں ماند پڑ گئے ہیں ؟

ج۔ ماند نہیں پڑے۔ اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اسی آب و تاب سے کیوں جاری نہیں تو اس کی وجہ تجریدیت اور آزاد نظم ہے۔

س۔ کیا انگریزی میں غزل تخلیق کرنا ممکن ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا غزل دوسری زبانوں میں بھی تخلیق پا رہی ہے ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا ہندی غزل کا اپنا کوئی معیار بن سکا؟

ج۔ ہندی سے آپ کی کیا مراد ہے۔ اگر اس سے مراد ہندوستانی شعراء کی غزل ہے تو یہ بالکل معیاری ہے اگر اس کا مطلب اس زبان کی غزل ہے جو ہندوستان میں فلموں کی ہے تو بھی یہ بالکل معیاری ہے۔ اگر ہندی سے مراد وہ زبان ہے جو ان سے ہٹ کر ہے تو مجھے اس کو پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔

س۔ کیا کہانی کار سوانح، ناول، داستان، سفرنامہ و انشائیہ وغیرہ آسانی سے لکھ سکتا ہے ؟

ج۔ ضروری نہیں۔

س۔ آپ نے ناول یا افسانے لکھے ہیں ؟

ج۔ دونوں لکھے ہیں

س۔ پیش رو افسانہ نگاروں میں کون کون پسند ہے ؟

ج۔ قدرت اللہ شہاب، اور کرشن چندر۔

س۔ اردو کے کلاسیکی اور معاصر ناول جو آپ کو پسند ہیں ؟

ج۔ یا خدا اور پانچ لوفر۔

س۔ سفر نامے کون کون سے پسند ہیں ؟

ج۔ ابنِ انشاء کے۔

س۔ پسندیدہ مزاح نگار۔

ج۔ اکبر الہ آبادی، راجہ مہدی علی خان اور ضمیر جعفری۔

س۔ پسندیدہ سوانح نگار؟

ج۔ قدرت اللہ شہاب، مہاتما گاندھی، سوئیکارنو اور روسو۔

س۔ پسندیدہ کتب؟

ج۔ فہرست طویل ہے جب کہ لکھنے کی جگہ کم ہے۔ ول ڈیوراں، بر ٹرینڈرسل، سید علی عباس جلال پوری، سی ڈی مہاجن، کرشن چندر، قدرت اللہ شہاب، علامہ اقبال، مولانا شبلی نعمانی، مختار مسعود کی کتابیں ان میں سے کچھ ہیں۔

س۔ پسندیدہ ڈرامہ نگار؟

ج۔ آغا حشر کاشمیری۔

س۔ آئندہ کے ادبی منصوبے ؟

ج۔ درج ذیل کتابیں آ رہی ہیں۔ ان شاء اللہ۔

۱۔ دراز قد بونے۔ ( خاکے )، ۲۔ اپنے نام رام لعل کے خطوط۔ ’’ سلطنت دل سے ‘‘ کے نام سے، ۳۔ افسانچوں کا ایک مجموعہ۔ نام رکھنا باقی ہے،

س۔ اردو کی نئی بستیوں میں اردو کا مستقبل کیا ہے ؟ اردو ذریعۂ تعلیم کے مسائل اور ان کا حل کیا ہے ؟

ج۔ بطور رابطہ کی زبان کے وہاں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ بطور ذریعۂ تعلیم اس کا مستقبل روشن نہیں ہے۔ اردو وہاں کا مستقبل کے سلسلے میں مدد نہیں دیتی۔ اس کے لیے وہاں کی زبان یا انگریزی میں تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کا حل اردو کے محاورے بگلا پکڑنے کے مترادف ہے۔ وہاں پر اردو والوں کی اس قدر اکثریت ہو کہ ان کی زبان کا وہاں کی قومی زبان یا مقامی زبان کے برابر مقام بن جائے۔

س۔ کیا اردو کی نئی بستیوں میں شاعری زیادہ ہو رہی ہے اور تنقیدی و تحقیقی کام برائے نام ہے؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا اردو کی بستیوں میں کمرشل مشاعرے عام ہو گئے ہیں ؟

ج۔ جی ہاں۔

س۔ کیا اردو کی نئی بستیوں میں قارئین کا حلقہ بڑھ رہا ہے ؟

ج۔ اگر اردو بولنے والوں کی آمد وہاں زیادہ ہے تو یقیناً حلقہ بڑھ رہا ہے۔

س۔ غیر منقسم پنجاب اور ۱۹۴۷ء کے بعد منقسم پنجاب کو دیکھیں تو دونوں میں کیا فرق ہے ؟

ج۔ وہی جو پاکستان اور ہندوستان میں ہے۔

س۔ دونوں پنجاب تحقیق کا موضوع بن سکتے ہیں خاص طور پر فلم۔ کیا آپ ’’ پنجاب اور فلمیں ‘‘ کے موضوع پر تحقیقی کام کرنا پسند کریں گے ؟

ج۔ پسند کروں گا بشرطیکہ وقت مل جائے۔

س۔ کیا رسالہ ’’ شاعر‘‘ اردو کا عالمی ادبی جریدہ ہے ؟ اس میں کیا کیا اضافہ ہو سکتا ہے ؟

ج۔ شاعر اردو کا ایک بڑا عالمی رسالہ ہے۔ مندرجات کے لحاظ سے کسی اضافے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اس کو ضخیم کیا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ حنوط شدہ عقاب کی طرح محض ڈرائنگ روم کی زینت بن کر رہ جائے۔ الیکٹرک میڈیا کے ساتھ چونکہ مقابلہ ہے۔ دوسرے ہندوستان میں اردو اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہی ہے لہٰذا اس وقت میں۔

نورا تلخ تری زن چوں ذوقِ نغم کم یابی

خدا را تیز ترمی خواں چوں محمل را گراں بینی

س۔ ادبی رسائل کے قارئین کا حلقہ کس طرح توسیع تر ہو سکتا ہے۔ جب کہ پوری اردو دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں اردو پڑھنے اور بولنے والے موجود ہیں ؟

ج۔ بڑا تخلیق کار عوام کو اپنی سطح پر لاتا ہے۔ نا کہ عوام کی سطح پر اُتر آتا ہے۔ اس صورت میں اس کو مقبولیت کی کمی رہتی ہے۔ عوام کی سطح پر اُترنے سے مقبولیت بڑھ جائے گی۔

س۔ اردو کے فروغ کے لئے ناشرینِ کتب کے کردار میں کوئی تبدیلی ہونی چاہیے ؟

ج۔ جی ہاں۔ کیا تبدیلی ہو؟ انہیں کتابیں سستی کر دینی چاہیے۔ نیز وہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ تیسرے نمبر پر کتابوں کی نمائش عام ہو۔

س۔ نئی نسل کو کیا پیغام دیں گے ؟

ج۔ در دشت جنونِ من جبر ئیل زبوں میدے

یزداں بکمند آور اے ہمتِ مرداناں

( بشکریہ ماہنامہ شاعر بمبئی دسمبر ۲۰۰۷ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

عباس خان سے مکالمہ

 

سید عارف معین

 

سوال۔ آپ کا اصل نام وہی ہے، جس سے آپ ادبی دنیا میں معروف ہیں ؟

جواب۔ اصل نام غلام عباس خان ہے۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو اس وقت ادبی دنیا ہیں غلام عباس خان لکھنے والے ایک صاحب موجود تھے۔ ان سے خود کو علیحدہ ثابت کرنے کے لیے میں نے اپنا قلمی نام عباس خان رکھ لیا۔

سوال۔ خاندانی پس منظر بتائیے ؟

جواب۔ میں بلوچ قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس کی جو شاخ جس کانی کہلاتی ہے، وہ میری ہے۔ جس کانیوں نے پنجاب کے ایک وسیع علاقے پر حکمرانی کی ہے۔ یہ علاقہ موجودہ اضلاع بھکر، لیہ، جھنگ کے مغربی حصے، میانوالی کے جنوبی حصے اور خوشاب کے جنوب مغربی حصے پر مشتمل تھا۔ میا نوالی گزٹیٹر کے مطابق جس کانیوں نے یہاں دو سو سال تک حکومت کی۔ ان کا آخری رئیس فضل حسین خان میرا جد، امجد تھا۔

سوال۔ آپ کے خاندان میں اور لوگ بھی تخلیق کار ہیں یا یہ صرف آپ ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔ ؟

جواب۔ غلام سکندر خان میرے خاندان کے بڑے شاعر تھے۔ سرائیکی زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ان کے کلام کے چھبیس مجموعے منظرِ عام پر آئے ہیں۔ ان کے کلام کا کچھ حصہ بہاول پور یونیورسٹی کے سرائیکی نصاب میں شامل ہے۔ موجودہ بستی سیال میں رہتے تھے، سال وفات صرف معلوم ہو سکا ہے جو کہ ۱۹۰۲ء ہے۔

سوال۔ بچوں کو آپ کا ادبی ورثہ ملا ہے ؟ کتنے بچے ہیں، کیا کر رہے ہیں ؟

جواب۔ میرے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی، ایک بیٹا۔ بیٹی ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کر کے گھر سنبھالتی ہے۔ انشاء اللہ عنقریب ان کی شادی ہو جائے گی۔ ماں کی وفات ہو جانے کی وجہ سے میری محبت زیادہ پا کر بیٹا لاڈلا ہو گیا ہے۔ وہ ابھی تک بی اے کے امتحان میں پھنسا ہوا ہے۔ بیٹی نے مطالعے کی حد تک میرا اثر قبول کیا ہے۔

سوال۔ آپ کے گھر والے آپ کے ادبی کارناموں کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟

جواب۔ ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں۔

سوال۔ پہلا افسانہ لکھنے کا خیال کب اور کیسے آیا؟

جواب۔ ۱۹۶۵ء میں اندرونی ابال کے تحت۔

تابشِ حسن بھی تھی تپشِ دنیا بھی مگر شعلہ جس نے مجھے پھونکا میرے اندر سے اٹھا

سوال۔ پہلا افسانہ کہاں چھپا اور کب؟

جواب۔ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور کے ’’ المیزان‘‘ میں جو کہ سال ۱۹۶۶ء کے لئے تھا۔

سوال۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ادبی دنیا میں غیر معروف شہرت آپ کا مقدر بنے گی ؟

جواب۔ سوچا تھا، اس وقت جب لکھنا شروع کیا۔

سوال۔ آپ کو کون سا موسم اچھا لگتا ہیَ

جواب۔ جوانی تک موسم بہار اچھا لگتا تھا۔ اب گرمیوں کا موسم اچھا نہیں لگتا۔

سوال۔ کس بات پر غصہ آتا ہے ؟

جواب۔ انسانی سرکشی پر۔

سوال۔ غصے کا اظہار کیسے کرتے ہیں ؟ پی جاتے ہیں، چلاتے ہیں یا کوئی اور انداز؟

جواب۔ بات کرتے ہوئے لہجہ سخت ہو جاتا ہے۔

سوال۔ کون سی بات اچھی لگتی ہے ؟

جواب۔ کسی بھی میدان میں کوئی کارنامہ، مخلوق پر مہربانی اور سخاوت۔

سوال۔ کون سی خواہش جو پوری نہیں ہوئی؟

جواب۔ اس دنیا کو بدلنے کی۔

سوال۔ کیا آپ خود کو کامیاب انسان سمجھتے ہیں ؟ نہیں یا ہاں۔ ہر صورت میں سوال یہ ہے کہ کیوں اور کیسے ؟

جواب۔ بالکل سمجھتا ہوں، سعداللہ کا شعر ہے۔

کارِ فرہاد سے یہ کم تو نہیں کہ ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو

میں نے آنکھ سے دل کی طرف پانی موڑنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اس کارنامے کا ثبوت میری تحریریں ہیں۔ اس مقام پر میں آپ کو ایک واقعہ سنا کر اپنی کامیابی کی ایک اور وجہ بتانا چاہتا ہوں۔ اتفاقاً برٹرینڈرسل اور فیلڈ منٹگمری کی ملاقات ایک ہوٹل میں ہو گئی۔ ملتے ہی فیلڈ مارشل منٹگمری نے کہا۔ رسل! صد افسوس کہ آپ نے اپنی زندگی ایک ڈیسک پر کتابوں میں گنوا دی۔ ہمیں دیکھو، ہم نے تاریخ اور جغرافیہ کے رخ موڑ دیئے۔ رسل نے پوچھا کیوں ؟ فیلڈ مارشل منٹگمری نے جواب دیا، اپنے ملک اور قوم کی تہذیب و ثقافت کو بچانے کے لیے۔ اس پر برٹرینڈرسل نے مسکرا کر کہا۔ وہ تہذیب و ثقافت میں ہی تو ہوں۔ فیلڈ مارشل منٹگمری سے آگے بات نہ بن سکی۔ اُس نے اس کے بعد لکھنا شروع کر دیا۔ پڑھنے اور لکھنے کی وجہ سے اپنے ملک و قوم کی تہذیب و ثقافت تک میں خود کو لے گیا ہوں۔

سوال۔ آپ کی زندگی کا سب سے خوش نصیب لمحہ کون سا تھا؟

جواب۔ زمانہ طالب علمی ختم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مقابلے کا امتحان پاس کر کے جب میں جج بنا۔

سوال۔ کس بات پر بے بسی محسوس کرتے ہیں ؟

جواب۔ انسانی فطرت کے سامنے۔

سوال۔ سب سے بڑا دکھ؟

جواب۔ اقرباء کے وفات پا جانے کا۔

سوال۔ آپ کی ذات کی کونسی ایسی کمزوری جسے آپ دور کرنا چاہتے ہیں ؟

جواب۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنا مقرب خاص نہیں بنایا۔

سوال۔ کوئی ایسی خوبی جو معاشرے کی نظر میں خامی بن کر رہ گئی ہو؟

جواب۔ یہ سوال معاشرے اور میرے درمیان کبھی پیدا نہیں ہوا۔

سوال۔ آپ کے افسانوں کے عنوانات کون تجویز کرتا ہے ؟ کیا آپ خود یا کوئی قریبی دوست؟

جواب۔ میرے کچھ افسانچوں کے عنوانات آپ نے تجویز کئے۔ میرے ناولوں، افسانوں اور باقی افسانچوں کے نام خود میرے تجویز کردہ ہیں۔

سوال۔ کون سا رنگ آپ کو اچھا لگتا ہے۔ ؟

جواب۔ سفید۔

سوال۔ کس رویے سے آپ کو نفرت ہے ؟

جواب۔ متکبرانہ۔

سوال۔ محبت کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے ؟

جواب۔ یہ ایک طاقت ہے جو نسلِ انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔

سوال۔ محبت میں آپ توقعات کو کیا اہمیت دیتے ہیں ؟

جواب۔ یہ سارا کھیل ہی توقعات کا ہے۔

سوال۔ زندگی میں کوئی پچھتاوا؟

جواب۔ جس ڈاکٹر کی غفلت اور بلڈ بنک کے اہلکار کی بد دیانتی کی وجہ سے میری والدہ کی وفات ہوئی، میں نے اس کے بازو کیوں نہیں توڑے۔

سوال۔ نئی زندگی ملے تو کیا آپ افسانہ نگار اور جج بننا پسند کریں گے ؟

جواب۔ پسند کروں گا۔

سوال۔ کتاب بینی، کتاب نویسی اور تخلیق کاری کے سوا آپ کے کیا مشاغل ہیں ؟

جواب۔ اللہ تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرنا، کاشتکاری، چند بے حد بے تکلف دوستوں کی محفل میں بیٹھنا، درختوں اور کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والے راستوں پہ چلتے رہنا، راتوں کی خاموشی اور اسرار کو محسوس کرنا اور موسیقی سننا۔

سوال۔ زندگی میں کس بات کی کمی آپ کو اکثر محسوس کرتے ہیں۔ ؟

جواب۔ اس قوت کی جو اپنی کوتاہیوں پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔

سوال۔ ٹی وی پر کس نوعیت کے پروگرام پسند ہیں ؟

جواب۔ اعلیٰ قسم کے طنز و مزاح پر مبنی ڈرامے۔

سوال۔ کون سے پروگرام کا آپ کو انتظار رہتا ہے ؟

جواب۔ کسی پروگرام کا انتظار نہیں رہتا۔

سوال۔ کیا آج کے عہد میں ٹی وی کے بغیر وقت گزارا جا سکتا ہے ؟

جواب۔ بالکل گزارا جا سکتا ہے۔

سوال۔ ستاروں کے بارے میں آپ کا خیال ہے ؟ کیا ستاروں کی چال ہمارے مستقبل اور حال پر اثرانداز ہوتی ہے ؟

جواب۔ احمقوں، ظالموں اور گنہگاروں کی خوش حال دیکھ کر مجھے ستاروں کی طاقت اور اثرات کا یقین ہے۔

سوال۔ اخبارات میں ’’ آج کا دن کیسا گزرے گا‘‘ کیا آپ بھی با قاعدگی سے پڑھتے ہیں ؟

جواب۔   اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اس جہان، غم ناک میں جس کی ترجمانی اخبارات، اس کو اور زیادہ غم ناک بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اگر ’’ آج کا دن کیسا گزرے گا‘‘ میں امید کی کرن کی جستجو کر لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ اسے پڑھتا ہوں۔

سوال۔ کیا ان میں لکھی ہوئی باتوں پر آپ کو یقین ہے ؟

جواب۔ یہ لکھنے والے پر منحصر ہے۔

سوال۔ آپ کی کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ کس نوعیت کی ہیں ؟ تفصیل کے ساتھ بتائیے ؟

جواب۔ تفصیل معہ نوعیت پیشِ خدمت ہے۔

ناول۔ ۱۔ زخم گواہ ہیں ۲۔ تو اور تو ۳۔ میں اور امراؤ جان ادا

افسانوں کے مجموعے ۱۔ دھرتی بنام آکاش ۲۔ تنسیخ انسان ۳۔ قلم کرسی اور وردی

۴۔ اس عدالت میں ۵۔ جسم کا جوہڑ

افسانچوں کے مجموعے ۱۔ ریزہ ریزہ کائنات ۲۔ پل پل

اخباری کالموں کے مجموعے ۱۔ دن میں چراغ

۲۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ Light Within کے نام سے ہوا ہے۔

سوال۔ کتنی کتابیں زیرِ طبع ہیں ؟ اور کس نوعیت کی ہیں ؟

جواب۔ ناول ’’ میں اور امراؤ جان ادا‘‘ کا اگلا ایڈیشن آنے والا ہے۔ درج ذیل کتابیں طباعت کے لئے تیار ہیں۔ ۱۔ دراز قد بونے ( کچھ ادیبوں و دانشوروں اور ایک اخبار کے بارے میں تاثرات۔ )

۲۔ سلطنت دل کی ( یہ رام لعل کے میرے نام لکھے گئے خطوط کا مجموعہ ہے۔ )

۳۔ ستاروں کی بستیاں (افسانچوں کا مجموعہ)

سوال۔ کیا ناقدین آپ کے فن سے انصاف کر سکے ہیں ؟

جواب۔ نہیں

سوال۔ لوگ یا تو دوست نوازی کی وجہ سے کسی کے بارے میں لکھتے ہیں۔ یا کوئی عداوت انہیں تنقید پر مجبور کرتی ہے۔ اس پس منظر میں بتائیے کہ کیا غیر جانبدارانہ تنقید کسی تخلیق کار کی زندگی میں ممکن ہے ؟

جواب۔ مشکل ہے، نا ممکن نہیں۔

سوال۔ کیا آپ نے کبھی شاعری کی ہے ؟

جواب۔ زمانہ طالب علمی میں۔

سوال۔ آپ کے کالم بھی بہت پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ کیا کالم نگاری کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ؟

جواب۔ جاری نہیں ہے۔ آج کل مضامین لکھتا ہوں

سوال۔ کیا کالم نگاری کو بھی ادب کی صنف کا درجہ حاصل ہو چکا ہے ؟

جواب۔ کسی حد تک ادبی کالم نگاری کو۔

سوال۔ جج کا کام بھی دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کرنا ہوتا ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ ادبی دنیا میں تنقید کا راستہ اپنا کر آپ یہ ’’ نا خوش گوار فریضہ‘‘ انجام نہیں دے سکتے ؟

جواب۔ دے سکتا ہوں۔

سوال۔ آپ نقاد بن کر سامنے آئے کیا دوست نوازی آپ کو سچ لکھنے دے گی؟

جواب۔ کسی دوست کی سفارش نہ مان کر ملزم کو سزائے موت دینے سے تنقید لکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

سوال۔ کتابوں کی رونمائی۔۔ ۔ کسی تخلیق کار کے ساتھ شام۔۔ ۔ جیتے جی پذیرائی اور فلیپ نگاری کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے ؟

جواب۔ تخلیق کو متعارف کرانے کے لئے ان طریقوں کو اپنائے جانے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن ان کے ذریعے جو کچھ کہا جاتا ہے یا لکھا جاتا ہے محض مدح سرائی اور دوست نوازی کے ضمن میں آتا ہے۔

سوال۔ دیباچہ، تقریظ، پیش لفظ، یہ سب کیا ہیں ؟ کس لیے ؟ کیا یہ کسی کی آنکھ سے تخلیق کار اور اس کی تخلیق کو دیکھنے کے مترادف نہیں ؟

جواب۔ آپ نے درست کہا۔

سوال۔ اردو میں ناول نگاری کا مستقبل کیا ہے ؟

جواب۔ روشن ہے۔

سوال۔ دنیا بھر میں وقت کی کمی کا مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود تمام بڑی زبانوں میں ناول لکھے جا رہے ہیں پھر اردو میں ناول نگاری کا فن دم توڑتا ہوا کیوں محسوس ہو رہا ہے ؟

جواب۔ بالکل دم نہیں توڑ رہا۔

سوال۔ کیا آپ اپنے جواب کی تائید میں کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں ؟

جواب۔ ادب کی ایک ایسی تعریف، جس پر سارا عالم متفق ہو، میری نظر سے نہیں گزری۔ جو جس کے جی میں آئے ہانک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ناول کی تاریخ کسی کے نزدیک دو ناولوں پر مشتمل ہے اور کسی کے نزدیک محض چار پر۔ نسیم حجازی، ایم اسلم، اے حمید، دت بھارتی، اور اے آر خاتون نے کئی کئی ناول لکھے ہیں۔ آپ کو ان کا ذکر نہیں ملے گا۔ ان جیسے کئی اور لکھنے والے ہیں، لیکن توجہ سے محروم ہے۔ کیوں ؟ ذاتی پسند اور نا پسند، کم علمی، یا کسی بڑے نام نہاد تنقید نگار کی رائے کی پیروی۔ آپ صرف مقبول اکیڈمی لاہور کی جانب سے کتابوں کی فہرست اُٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو ہر سال شائع ہونے والے درجنوں ناولوں کے نام ملیں گے۔

سوال۔ افسانے، کہانی، حکایت۔، داستان، روداد، اور کتھا میں آپ کیا فرق سمجھتے ہیں۔ ؟

جواب۔ کسی جاندار اور غیر جاندار پر گذرے وقت کا تذکرہ یا کسی واقعہ کا بیان کہانی کہلاتی ہے۔ یوں کہانی۔ حکایت، داستان، روداد یا کتھا ایک ہی سطح پر ہیں۔ ان میں اگر کوئی فرق ہے صرف اتنا کہ داستاں طوالت میں ہوتی ہے، حکایت سبق آموزی کے لیے اور روداد اجتماعات و سفروں کے حالات کے اظہار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کہانی لکھنے والا خود آگہی اور جہان شناسی کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو جو کہانی وہ لکھتا ہے وہ افسانہ کہلاتی ہے۔

سوال۔ پاکستان میں آزادیِ اظہار پر پابندی وقتاً فوقتاً مارشل لا کے نفاذ کی وجہ سے رہی۔ ان بنا پر علامت نگاری پروان چڑھی۔ اگر یہ خیال درست ہے تو بھارت میں علامت نگاری کو آپ کیا نام دیں گے۔ ؟

جواب۔ مارشل لا طاقت کا ایک روپ ہے۔ طاقت کے اور بھی کئی روپ ہیں، جیسا کہ بادشاہت، ماضی یا تاریخ، جغرافیہ، معاشرہ اور انسانی خواہشات۔ یوں دیکھا جائے تو ہر انسان کا سامنا مارشل لا جیسے حالات سے رہا ہے، اور ہے، ان کے پیشِ نظر ہر جگہ علامت نگاری اور اشاروں سے کام لیا گیا ہے اور لیا جا رہا ہے۔ بھارت میں علامت نگاری کا یہی جواز ہے۔ دوسرے وہاں فیشن کے طور پر بھی علامت نگاری کو اپنایا گیا ہے۔

سوال۔ مرتضیٰ برلاس افسروں میں شاعر ہیں اور شاعروں میں افسر ہیں کا شکوہ کرتے رہے۔ آپ بتائیے کیا آپ نے بھی ادبی دنیا میں خود کو جج اور عدالت میں خود کو افسانہ نگار یا تخلیق کار پایا؟۔

جواب۔ مرتضیٰ برلاس کا مطلب یہ تھا شاعر انہیں افسر سمجھ کر اہمیت نہیں دیتے اور افسر شاعر جان کر ان کا درجہ کم سمجھتے ہیں۔ ان کی بات درست ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا اور ہو رہا ہے۔ برلاس صاحب، ایسے کئی دوسرے اور میں، استحصالی قوتوں کے کارواں میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ وہی طبقاتی نفرت درمیان میں آ جاتی ہے۔ ادب محروم لوگوں کی میراث سمجھا جاتا ہے۔ تنقید نگاری اور ادبی تاریخ نویسی کا منصب اساتذہ نے سنبھال لیا ہے، ان کو اختیارات سے اپنی محرومی کھٹکتی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ یہ بڑے بڑے منصبوں والے ہیں لیکن معاشرے میں اختیار ایک ٹریفک پولیس جتنا بھی نہیں رکھتے۔ یہ بھی عملاً ادیبوں والی صف میں کھڑے ہیں۔ محرومی ویسے بھی مقبولیت کے لیے لازمی ہے۔ غالب مفلسی اور بے چارگی کا شکار رہا لہٰذا لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر گیا۔ فیض احمد فیض کو دیکھ لیں۔ وہ پنڈی سازش کیس میں قید ہوا تو لوگوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو گئیں۔ ساحر لدھیانوی کو سامنے رکھئے۔ اب ان کے مقابلے میں غلام عباس خان المعروف عباس خان ہے۔ ان کے پاس سرکاری کار ہے، با وردی سرکاری ڈرائیور ہے، سرکاری گھر اور اختیارات ہیں۔ حسد اور نفرت کے لئے یہ کافی ہیں حالانکہ اندر سے وہ خستہ حال ہے۔ تنخواہ تھوڑی ہے لہٰذا بیوی لڑ جھگڑ کر نوکری شروع کر دیتی ہے تاکہ عزت سے زندگی بسر کر سکے۔ کسی قریبی دوست سے اس کے بیٹے کی پیدائش پر مٹھائی کی پلیٹ نہیں لے سکتے کہ رشوت کا الزام نہ لگ جائے۔ سفارش نہیں مانتا تو قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں۔ معاشرتی قیدی ہے کہ کہیں آ جا نہیں سکتا اور کام اتنا زیادہ ہے کہ فشارِ خون، اختلاج قلب اور اندھے پن جیسے امراض حملہ آور ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ اس کو یہ ملازمت چھوڑ دینی چاہیے اور معلمی اختیار کر لینی چاہیے۔ دن میں دو پیریڈ پڑھائے۔ آدھا سال چھٹیاں اور نو خیز لڑکے اور لڑکیوں کا شاگرد کی صورت میں ساتھ۔ بس موجودہ ملازمت سے اس لیے چمٹا ہے کہ عزت و وقار کا تصور اختیارات کی کثرت و طاقت سے لپٹا ہے۔

اس حقیقت کا ایک دوسرا پہلو ہے اور یہ پہلو دونوں کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کا ہے۔ میں نے اپنی افسا نہ و ناول نگاری کو عدالتی کام پر اثر انداز نہ ہونے دیا۔ عدالت میں ہمیشہ دو اور دو چار کہنے کی کوشش کی۔ البتہ ادیب کی حیثیت سے حساس ہونے کی بنا ء پر مقدمات میں مبتلا لوگوں کے دکھوں کو محسوس کر کے میں غم زدہ رہتا تھا اور رہتا ہوں۔ عدالت سے ادب کے لئے میں نے کچھ زیادہ حاصل کیا ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ انسان کے باطن کو میں نے عریاں حالت میں دیکھا۔

سوال۔ ہجرت، مارشل لا، جمہوریت کی بحالی، کیا افسانوی ادب کے موڑ ہیں ؟

جواب۔ مارشل لاء اور جمہوریت کی بحالی افسانوی ادب کے موڑ نہیں بن سکے۔ دونوں سانحے ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ ہجرت نے افسانوی ادب کو بہت متا ثر کیا۔

سوال۔ کیا سانحات، پریشانیاں، دکھ اور مصائب خوبصورت تخلیق کے لیے ضروری ہیں۔ ؟

جواب۔ میں آپ کو آ سکر وائلڈ کا ایک فقرہ سناتا ہوں۔ ’’ اس دنیا کی لذتیں خوبصورت جسم رکھنے والوں کے لئے ہیں جب کہ غم خوبصورت روح رکھنے والوں کے لئے ہوتے ہیں ‘‘ دنیا کے تقریباً ہر ادب میں اس کو اہمیت دی گئی ہے۔ آ سکر وائلڈ کا ہم زبان شیکسپیئر کہتا ہے۔ ’’ غم مدرک حقائق ہے۔ ‘‘

اردو میں میرؔ بڑا شاعر کہلایا تو ایسے اشعار کی بنا پر۔

شام ہی سے بُجھا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

فارسی شاعر حافظ شیرازی کا یہ شعر سنیے،

شب تاریخ و بیم موج گردابے چنیں حائل کجا دانند حال ما سبکسارانِ ساحل ہا

نیو یارک میں ملکہ فرح دیبا سے ایک صحافی نے جا کر پوچھا کہ اب وقت کیسے گزرتا ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ شاہ کی یادوں، ایران سے تعلق اور فارسی شاعری نے سہارا دے رکھا ہے۔ فارسی شاعری پڑھ کر احساس ہوا کہ لوگوں پر اس سے بھی زیادہ غم گزرے ہیں۔ اس انکشاف سے ڈھارس بندھی ہے۔

سوال۔ فارسی شاعری کا کیا مطلب ہے ؟

جواب۔ دریا کی لپیٹ میں ہم ہیں۔ سیاہ رات ہے۔ لہروں کا خوف ہے اور گرداب کا سامنا ہے۔ ناز و انداز سے ساحلوں پر چلنے والے ہماری حالت کا اندازہ کیسے کر سکتے ہیں۔

سوال۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس حوالے سے ہمارا ادیب خود کفیل ہے۔ کیا وہ واقعی بہترین اور خوبصورت ادب تخلیق کر رہا ہے۔ ؟

جواب۔ جی ہاں۔

سوال۔ غالب ایک شعر کے عوض مومن کو پورا دیوان دینے پر آمادہ ہو گئے ْتھے۔ کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ کوئی افسانہ پڑھ کر آپ نے یہ سوچا ہو کہ کاش میں نے یہ تخلیق کیا ہوتا۔ ؟

جواب۔ جی ہاں۔

سوال۔ کوئی ایسا افسانہ جو آپ کے مجموعے میں شامل ہو اور آپ نے یہ سوچا ہو کہ کاش میں نے یہ شامل نہ کیا ہوتا۔ ؟

جواب۔ ایسا کوئی افسانہ نہیں ہے۔

سوال۔ آپ کا کام یقیناً اہم ہے اور ناقدینِ ادب اس کے معترف ہی نہیں، مداح بھی ہیں پھر بھی یہ بتائیے کہ کوئی ایسی تخلیق جس کے بعد آپ سوچتے ہوں کہ میں اس سے بہتر کچھ نہیں دے سکتا؟

جواب۔ یہ تو میرے وجدان اور مجھ پر آمد کے متعلق سوال ہے۔ مجھے کسی بے مثال فن پارے کا وجدان ہو جائے یا اس کی آمد تو یہ ممکن ہے۔ اب وجدان اور آمد پر میرا بس نہیں چلتا۔ آورد کے تحت میں اس کام سے جو میں نے کیا ہے بہتر تخلیق دے سکتا ہوں لیکن اس کے لئے بہت وقت اور محنت درکار ہے۔

سوال۔ کوئی ایسی تخلیق جس پر آپ کو کسی منفرد یا انوکھے انداز میں داد ملی ہو۔ ؟

جواب۔ داد تو ملی لیکن انوکھے انداز میں کوئی داد نہیں ملی۔

سوال۔ کوئی خوبصورت کام جو منظر عام پر آنے کے با وجود ارباب علم و فن کی نظر میں دیر سے آیا ہو۔ اور پھر آپ کو کھل کر داد ملی ہو۔ ؟

جواب۔ ایسا کوئی کام نہیں ہے۔ بس ساتھ ساتھ داد ملتی رہی۔

سوال۔ کوئی ایسا دوست جس نے آپ کی ہر کتاب کی اشاعت پر اپنے تاثرات سے آگاہ کیا ہو۔ ؟

جواب۔ ایسا کوئی دوست نہیں۔

سوال۔ کوئی ایسا ادبی حریف جو آپ کی نئی کتاب کا منتظر رہتا ہو کہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکے ؟

جواب۔ کوئی نہیں۔

سوال۔ کوئی ایسا افسانہ نگار جو آپ کے دل کے قریب ہو؟

جواب۔ لکھنو سے رام لعل تھے وہ وفات پا چکے ہیں۔

سوال۔ کوئی ایسا ادیب جس سے آپ کا قلمی رابطہ ہوا ہو اور ملاقات کبھی نہ ہوئی ہو؟

جواب۔ خورشید ملک مرحوم شاہجہان آباد سے۔ اکثر یہ غم دل کو کھائے رکھتا ہے کہ میں ان کے لئے کچھ نہ کر کر سکا۔

سوال۔ کوئی ایسا افسانہ نگار جس سے آپ ملنے کے خواہش مند ہوں۔ ؟

جواب۔ کوئی نہیں۔

سوال۔ کوئی ایسا انسان جو تخلیق کی وجہ سے آپ کا مداح ہو۔ پاسپورٹ اور ویزہ کی کاروائیوں کی عدم تکمیل یا جھنجھٹ کے باعث ملاقات کی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی ہو۔ ؟

جواب۔ کوئی نہیں۔

سوال۔ ادبی دنیا میں ہمیشہ گرہ بندیاں رہی ہیں۔ آپ ان کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟

جواب۔ میرے ایک رفیق کار نے انجمن خدامِ زوجگان بنائی تھی۔ اس انجمن کے نام کی طرز پر میں انہیں انجمن ہائے مداحین دوستاں کہتا ہوں۔

سوال۔ ادبی جرائد اور خبارات کے بارے میں آپ کیا کہنا پسند کریں گے۔ کیا یہ مخصوص ادبی گرہوں کی پذیرائی کے لئے مخصوص ہیں۔ یا حقیقی معنوں میں ادب کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

جواب۔ کچھ ادبی جرائد حقیقی معنوں میں ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں روزنامہ نوائے وقت پاکستان۔ ماہنامہ فن پارہ، ماہنامہ رابطہ، ماہنامہ ماہِ نو، ماہنامہ مسکراہٹ، وسیب جو کے روزنامہ نوائے وقت کی طرح پاکستان ہی سے نکلتے ہیں۔ ان کے نام جلی حروف سے لکھے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے رسائل شاعر، ادبی شاخیں، اور سبق اردو اور کشمیر سے صدا انٹر نیشنل ہیں۔ باقی کے بارے میں میں ایسا دعویٰ نہیں کرتا۔

سوال۔ بڑے شہروں کی نسبت کیا مضافات میں جوہرِ قابل نہیں۔ آپ اپنا مشاہدہ بتائیے ؟

جواب۔ مضافات میں زیادہ جوہرِ قابل ہیں۔

سوال۔ نئے افسانہ نگاروں میں آپ کیا نیا پن محسوس کیا۔ ؟

جواب۔ نئے زمانے کا ساتھ دینا۔ پاکستان کو چھوڑ کر باقی ملکوں کے لکھنے والے میں فحش نگاری آ گئی ہے۔

سوال۔ آپ کی تخلیق کا کب موسم آتا ہے۔ ؟

جواب۔ جب دل مجروح ہوتا ہے۔

سوال۔ جب چاہتے ہیں لکھ لیتے ہیں یا اندر سے کوئی کونپل پھوٹتی ہے ؟

جواب۔ جب اندر سے یہ کونپل پھوٹتی ہے۔

سوال۔ ادبی محفلیں مشاعروں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ آپ اس بات سے کس حد تک اتفاق کریں گے۔ ؟

جواب۔ مشاعروں کے علاوہ بھی ادبی محفلیں جمتی ہیں۔ رسمی طور پر اور غیر رسمی طور پر،۔ پاکستان و ہندوستان میں کئی ادبی حلقے ہیں جو اپنا اجلاس کرتے رہتے ہیں۔

سوال۔ نئے افسانہ نگاروں کو اپنی پہچان کروانے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ ؟

جواب۔ مطالعہ، گہرا مشاہدہ، اور نصب العین ضروری ہیں۔ مطالعے میں فلسفہ، تاریخ و ادب ضروری ہیں۔ مشاہدے میں انسان مرکز و محور ہو، جب کہ نصب العین کی بلندی مقرر نہیں کی جا سکتی۔ یہ نصب العین رکھنے والے پر منحصر ہے کی اس کو جتنا اونچا لے جائے۔

سوال۔ اردو ادب میں تنقید کے معیار سے آپ مطمئن ہیں ؟

جواب۔ نہیں۔

سوال۔ آپ نے اردو ادب کو کچھ دیا۔ یا فرمائیے کہ ادب نے آپ کو کیا دیا۔ ؟

جواب۔ تسکیں قلب۔

سوال۔ رمزیت یا ایمائیت کسی تخلیق کا حسن ہوتی ہے۔ آپ یہ بتائیے کہ یہ ابلاغ کی راہ میں کبھی کبھار حائل تو نہیں ہو جاتی؟

جواب۔ ہو جاتی ہے۔

سوال۔ میرے والدِ مرحوم سید فخر الدین بلے کا شعر ہے،

دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد

پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے

آپ دراز قد بونے کے نام سے کتاب لکھ رہے ہیں۔ اس میں کیا ہے ؟

جواب۔ کچھ علمی ادبی شخصیات اور ایک اخبار جو دراز قد ہیں لیکن میں نے انہیں پستہ قد پایا۔

سوال۔ کیا کوئی نیا ناول تخلیق کر رہے ہیں ؟

جواب۔ ابھی نہیں۔

سوال۔ ایک افسانہ آپ کتنی نشستوں مکمل کرتے ہیں ؟

جواب۔ دو تین میں۔

سوال۔ کیا آپ اب بھی دن میں چراغ روشن کر رہے ہیں ؟

جواب۔ آپ کا اشارہ میرے کالم ’’ دن میں چراغ‘‘ کی طرف ہے۔ آج کل یہ نہیں لکھ رہا۔

سوال۔ سید اصغر جاوید شیرازی نے اس کا خوبصورت ترجمہ انگریزی میں کیا ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کے کالموں کے مجموعے کا۔ کیا دوسری زبانوں میں ترجمانی ممکن ہے ؟

جواب۔ ممکن ہے۔ کئی مقامات پر ترجمہ اصل کو مات دے گیا ہے۔

سوال۔ آپ کے یہ کالم پڑھ کر ان کے طلسم سے آدمی باہر نہیں آ پاتا۔ کیا یہ انداز بیاں شعوری کوشش کا نتیجہ ہے یا اندر کی آواز؟

جواب۔ شعوری کوشش۔

سوال۔ کیا آپ نے اپنی ادبی کاوشوں کا تنقیدی جائزہ لیا۔ جواب ہاں میں ہے تو کس نتیجے پر پہنچے ہیں ؟

جواب۔ لیا ہے۔ اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں نے ٹھیک لکھا ہے۔

سوال۔ افسانے میں تجریدیت کے حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے ؟

جواب۔ مجھے تجریدیت سے چڑ ہے۔ ایک طرح سے افسانے میں کہانی واپس لانے کا آغاز میں نے کیا۔

سوال۔ الیکٹرانک میڈیا کے فروغ پانے اور ہندی ٹی وی چینلوں کی بہار آنے سے کیا اردو کی شکل تبدیل نہیں ہو رہی۔ ؟

جواب۔ ہو رہی ہے۔

سوال۔ کبھی اردو پر فارسی و عربی کا غلبہ تھا۔ اب انگریزی اور علاقائی لفظوں کی اس میں بھرمار ہے۔ آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

جواب۔ بلا ضرورت۔ جس قدر بھرمار ہے یہ اردو کے قتل کے مترادف ہے۔

سوال۔ آپ کن کلاسیکل ناول و افسانہ نگاروں کو اردو ادب کا مان سمجھتے ہیں ؟

جواب۔ میرے نزدیک کلاسیکل ادب سے مراد وہ تخلیقات ہیں جو ہر زمانے کے لیے ہوں۔ اس تعریف کے مطابق میں دپٹی نذیر احمد، مرزا محمد ہادی رسوا، عبدالحکیم شر ر، پریم چند، کرشن چندر، بیدی، منٹو، قدرت اللہ شہاب کی تحریروں کو اردو ادب کا مان سمجھتا ہوں۔

سوال۔ آپ کا ناول ’’زخم گواہ ہیں ‘‘ ہمارے عدالتی نظام کا پوسٹ مارٹم ہے۔ اس کے بارے میں وکلاء اور جج صاحبان کا کیا تاثر ہے ؟

جواب۔ چونکہ یہ حقائق پر مبنی ہے لہٰذا اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی۔

سوال یہ ناول تخلیق کرنے کا خیال کیسے آیا۔ ؟

جواب۔ میری ملازمت کا آغاز تھا۔ میں ضلع ملتان کی تحصیل لودھراں میں تعینات تھا۔ لودھراں اب خود ضلع بن چکا ہے۔ میری عدالت میں ایک عورت کا مقدمہ چلتا تھا۔ وہ سفید روایتی برقعے میں آ کر عدالت کی پچھلی دیوار کے سا تھ لگ کر بیٹھ جاتی۔ میلے اور بوسیدہ برقعے سے اس کی حالتِ زار کا اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں دیوار کے ناکافی سائے میں اسے بیٹھے دیکھ کر میں بے حد غم زدہ ہوتا۔ میں پھر دیکھتا کہ عدالت کے اہلکاروں اور دوسرے لوگوں کے پاس اس کے سامنے مشروبات اور کھانے کی دوسری اشیاء جا رہی ہیں۔ وہ اس قابل نہیں کہ کچھ خرید سکے۔ میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ مجھ پر اس کی طرف داری کا الزام لگ جانا تھا۔ اس پر اس کے مخالف مقدمہ کو تبدیل کر وا کر کسی اور جگہ لے جاتے۔ یوں وہ مزید دھکے کھاتی۔ اس کا اپنا وکیل حسب دستور وکلاء فیس کے بعد اس کی بات نہیں پوچھتا تھا۔ اس وجہ سے دیگر سینکڑوں مقدموں کی طرح اس کا مقدمہ لٹک گیا تھا۔ شروع کے چھ ماہ کام کرنے کے بعد مجھے پتہ چل گیا تھا کہ گندگی کے ایک ڈھیر میں کرسی ڈال کر بیٹھا ہوں۔ جب اُس عورت کو دیکھا تو مجھے نظامِ عدالت اور اس کے کرداروں سے سخت نفرت ہو گئی تھی۔ اس پس منظر میں یہ ناول لکھا گیا۔

سوال۔ اس ناول کے بہت سے ایسے کردار ہیں جو معاشرے کے زندہ کردار قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ کیا کسی ایسے حقیقی کردار نے آپ سے گلہ کیا کہ آپ نے اس کی تصویر کشی کر کے اُس کی کردار کُشی کی ہے ؟

جواب۔ دو وکلاء صاحبان نے خاص طور پر گلہ کیا۔ ایک نے خط کے ذریعے مجھ پر تنقید کی۔ خط میں اُس نے اپنا پتہ نہ لکھا۔ دوسرے نے مجھ سے ہاتھ ملا کر کہا کہ ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ حصہ دوئم کب آ رہا ہے۔ اس کا مطلب تھا جو کچھ جج کرتے ہیں اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے تھا۔ میں نے کہا حصہ دوئم کے لئے مواد نہیں ہے۔ اس پر وہ مسکرا کر چل دیا۔ وہ مواد، اب مجھے مل گیا ہے۔ یہ میں اپنی کتاب دراز قد بونے حصہ دوئم میں پیش کروں گا۔

سوال۔ اردو ادب میں آپ کی اس کاوش سے ناول نگاری کو نئی زندگی ملی ہے، یہ ایک عام تاثر ہے اور بعض ناقدین نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے ؟

جواب۔ خوشی اور احساس کی کامیابی۔

سوال۔ کتابیں مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ ادیب خوش حال نہیں۔ خرید کر کتاب پڑھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کتاب کا مستقبل آپ کیا دیکھ رہے ہیں ؟

جواب۔ میں پر امید ہوں۔ کپڑا مہنگا ہونے کے باوجود لباس تو ہم پہنتے ہیں۔

سوال۔ وہ ادیب جو آپ کی طرح شہرت یافتہ نہیں اپنی تمام تر پونجی اپنی کتاب کی اشاعت پر خرچ کر دیتے ہیں، ان کی کتاب نہیں بکتی۔ لوگوں کو پتہ تک نہیں چلتا کہ ان کے پڑوس میں اتنا بڑا ادیب رہتا ہے۔ ادیب کیا کریں ؟

جواب۔ ادیب فائدے کے لئے نہیں لکھتے۔ اگر وہ شہرت کی خواہش رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی تحریروں کو پڑھیں تو میں کچھ عملی طریقے بتائے دیتا ہوں۔ میرا جی کی طرح عجیب و غریب حلیہ بنا لیں، عجیب و غریب کپڑے پہنیں اور عجیب و غریب عادتیں اپنا لیں۔ آ سکر وائلڈ ہوٹلوں میں قیام کرتا تھا اور بل ادا کیے بغیر چپکے سے وہاں سے کھسک جاتا تھا۔ ہوٹل والے اس کا گلہ لوگوں کے سامنے کرتے تھے۔ اس کے خلاف اخبارات میں اشتہار دیتے اور کئی ہوٹلوں میں یہ تختی لکھ کر لگا دیتے کہ وہ ان کا بل ادا کیے بغیر بھاگ گیا۔ آ سکر وائلڈ کو دوست اس حرکت سے باز رہنے کا کہتے تو وہ ہنس کر جواب دیتا کہ شہرت حاصل کرنے کا یہ ایک سستا اور کامیاب طریقہ ہے۔ سعادت حسن منٹو ادبی جلسوں میں بن بلائے پہنچ جاتا اور تقریر شروع کر دیتا۔ یہ طریقے بھی آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں اپنے حق میں پراپیگنڈہ کے لئے کچھ ادیب فوج میں بھرتی کر لیے گئے۔ فیض احمد فیض کرنل بھرتی ہوئے۔ وہ مشاعرے پڑھنے جاتے تو وردی پہن کر جاتے تا کہ نمایاں ہو جائیں۔ ن۔ م۔ راشد اپنی کتاب بوری میں بھر کر ساتھ لیے پھرتے۔ یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ ان کی پیروی مشکل تو نہیں۔

سوال۔ ادبی خدمت میں دئیے جانے والے انعامات کی آپ کے نزدیک کیا اہمیت ہے ؟

جواب۔ کوئی اہمیت نہیں اب تو نوبل انعام بھی بے وقعت ہوتا جا رہا ہے۔

سوال۔ کبھی آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ آپ کو صدارتی ایوارڈ ملے ؟

جواب۔ بالکل نہیں۔

سوال۔ طنز و مزاح اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں۔ اس کے باوجود ان کو اکٹھا لیا جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہے ؟

جواب۔ یہ فطری طور پر اکثر یکجا ہو جاتے ہیں۔ پنجاب کے اکثر ہوٹلوں میں بہت چھوٹی پیالیوں میں چائے بکتی ہے۔ ایک ایسے ہوٹل میں ایک پٹھان آیا اور چائے کی فرمائش کی۔ ہوٹل والے نے چائے بنا کر پیالی میں ڈالی اور پیالی اس کے سامنے رکھ دی۔ پٹھان نے اس کو دو گھونٹ میں ختم کر کے ہوٹل والے کو مخاطب کیا۔ ’’ چائے ٹھیک بنی ہے بھجوا دو۔ ‘‘ ہوٹل والا اس کے منہ کی طرف دیکھنے لگ گیا۔ پٹھان کے خیال میں اتنی تو چکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس واقعے میں طنز بھی ہے اور مزاح بھی۔

سوال۔ کن افسانہ نگار خواتین کو آپ ادب کی آبرو سمجھتے ہیں ؟

جواب۔ قرۃالعین حیدر، جیلانی بانو اور بانو قدسیہ۔

سوال۔ کیا ادب کو ٹرین کی طرح زنانہ و مردانہ ڈبوں میں تقسیم کرنا درست ہے ؟

جواب۔ ایک مشاعرے میں ایک شاعر کو دعوتِ کلام دی گئی۔ اس کا نام سیتا رام تھا۔ اس پر ظریف جبل پوری نے یہ شعر کہہ ڈالا۔

نر ہے یا مادہ عجب ترکیب ہے اس نام کی

کچھ حقیقت ہی نہیں کھلتی سیتا رام کی

مجھے شعر اسی طرح یاد رہ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی غلطی ہو آج کل زنانے اور مردانے ادب کی یہی کیفیت ہے۔ فرق ہوتا ہے لیکن اس قدر نہیں۔ یہ تقسیم مناسب نہیں۔

سوال۔ افسانوی ادب کے پیشِ نظر فرمائیے کہ جدے دیت کی حدیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہیں۔ ؟

جواب۔ میرے نزدیک زندگی ارتقا کے راستوں پر گامزن ہے۔ جو کچھ ظہور پذیر ہو رہا ہے وہ گزرے زمانے کے مقابلے میں جدید ہے۔ افسانہ ساتھ ساتھ اس کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ادب میں خاص کر جدے دیت کو یہ سمجھ لیا گیا ہے، یہ جہان اور یہ زندگی بے معنی ہیں۔

سوال۔ الیکٹرونک میڈیا ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے۔ ؟

جواب۔ کوئی خاص کردار ادا نہیں کر رہا۔

سوال۔ کیا افسانوں کی ڈرامائی تشکیل ہو تو افسانوں کے خالقوں اور ناظرین کو بہت کچھ نہیں مل سکتا؟

جواب۔ مل سکتا ہے۔

سوال۔ اس میں کیا امر مانع ہے ؟

جواب۔ ڈرامائی تشکیل پیش کرنے والوں کی مرضی اور موثرسفارش کا نہ ہونا۔

سوال۔ اگر آپ افسانہ نگار نہ ہوتے تو کیا ہوتے ؟

جواب۔ مدر ٹریسا کا نائب۔

سوال۔ آپ کو اپنی کون سی تخلیق پسند ہے۔ ؟

جواب۔ زخم گواہ ہیں۔

سوال۔ آپ کو کون سی تخلیق پر زیادہ پذیرائی ملی۔ ؟

جواب۔ دن میں چراغ پر۔

سوال آپ نے اپنی تخلیقات میں کون سے نئے تجربات کئے۔ ؟

جواب۔ میں نے اپنے ناول ’’ زخم گواہ ہیں ‘‘ میں کچھ ابو اب کے شروع میں ایک مختصر مضمون لکھا تاکہ اس باب میں پیش آنے والے واقعات کو سمجھنے میں مدد ملے اور پیرایہ اظہار میں زور پیدا ہو۔ میں نے اپنے ناولوں میں خاص کر ایسے واقعات لکھے ہیں جو باعث معلومات۔ دلچسپی اور تحریر کی جان ہوتے ہیں۔ مزید براں افسانچوں کی بنیاد مکالمات پر رکھی۔

سوال۔ ادب میں روایات کے انحراف کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ؟

جواب۔ میں روایت کا بہت زیادہ قائل ہوں جہاں انحراف بہت زیادہ ضروری ہو تو جائز ہے۔

سوال۔ آپ کے افسانچے اتنے خوبصورت ہیں کہ ان کی بنیاد پر جوگندر پال کو بھارت کا عباس خان قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے۔ ؟

جواب۔ میں آپ کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے اکثر مقامات پر میری تخلیقات کو سراہا ہے اور اب مجھے جوگندر پال کا مقام دیا ہے۔

سوال۔ آپ کا نظریہ فن کیا ہے۔ ؟

جواب۔ مجھے ڈی ایچ لارنس کی صرف ایک بات اچھی لگتی ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ وہ ادب برائے ادب پر یقین رکھتا ہے۔ یا ادب برائے زندگی پر۔ اس نے جواب دیا کہ وہ دونوں پر یقین نہیں رکھتا۔

وہ ادب برائے خود پر یقین رکھتا ہے۔ وہ وہی لکھتا ہے جو اس کی تسکین پہنچائے۔ میں ادب برائے زندگی پر یقین رکھتا ہوں لیکن اس میں اپنی زندگی شامل کر کے۔

سوال۔ تخلیق آپ کے ذہن میں مکمل منقش ہوتی ہے یا لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس وقت سوچ بچار کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ؟

جواب۔ مرکزی خیال اور تخلیق کا ڈھانچہ ذہن میں مکمل منقش ہوتا ہے۔ لکھتے وقت جزئیات کے بارے میں سوچ بچار کا عمل شروع ہوتا ہے۔

سوال۔ تخلیق میں شعوری کوشش کو کتنا دخل ہوتا ہے۔ ؟

جواب۔ تخلیق کار کی تخلیقی صلاحیت کے حساب سے۔

سوال۔ افسانے نے جو کروٹیں بدلی ہیں آپ انہیں کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ؟

جواب۔ وہ حالات کی پیداوار تھیں۔ مجھے ترقی پسند والی کروٹ اچھی لگتی ہے۔

سوال۔ علم و ادب میں آپ کیا حدِ فاضل قائم کریں گے۔ ؟

جواب۔ وہی جو عقل و عشق میں ہے۔

سوال۔ آپ کی طبیعت میں اتنا انکسار کہاں سے آیا؟

جواب۔ خود آگہی سے۔

سوال۔ تخلیقی عمل کیا ہے۔ ؟

جواب۔ اس جہان کے اثرات کا پیدا کردہ ردِ عمل یا جبلتوں کا اظہار۔

سوال۔ آرٹ اور کرافٹ کہاں جا کر ایک ہوتے ہیں۔ ؟

جواب۔ جہاں عقل اور وجدان آپس میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔

سوال۔ آمد کے ساتھ آور نہ ہو تو کیا کسی فن پارے کی تکمیل ممکن ہے۔ ؟

جواب۔ ممکن ہے لیکن بہت کم حالتوں میں۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ڈاکٹر لوکس پرنسپل ایف سی کالج لاہور نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آپ کے نبیؐ کے دل میں کوئی خیال آتا ہو گا تو وہ متعلقہ اصحابؓ کو لکھوا دیتے ہوں گے۔ یوں قرآن پاک وجود میں آ گیا۔ کیا آپ کو اس رائے سے اختلاف ہے ؟۔ علامہ صاحب نے جواباً کہا ڈاکٹر صاحب میں ان کے جوتوں کے برابر بھی نہیں لیکن مجھ پر من و عن نظم و غزل و دیگر اصناف نازل ہوتی ہیں۔ کیا ایک نبی پر من و عن سورۃ یا آیت نازل نہیں ہو سکتی۔

سوال۔ ابہام آپ کے نزدیک سقم ہے یا حُسن؟

جواب۔ ادبی تخلیق میں سقم ہے۔

سوال۔ توارد اور سرقہ۔ پتہ کیسے چلے ؟

جواب۔ تحقیق سے

سوال۔ غیر ملکی ثقافتی یلغار کا اکثر رونا رویا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے۔ کہ ہماری ثقافتی فصلیں اتنی کمزور کیوں ہیں کہ انہیں غیر ملکی ثقافتی یلغار سے خطرہ رہتا ہے۔ ؟

جواب۔ ہم نہیں، بلکہ ہر انسان لذتوں اور آسائشوں کو پسند کرتا ہے اور رنج و الم و محنت سے دور بھاگتا ہے۔ لذتوں اور آسائشوں کی تر غیب ملے تو کون ادھر نہیں جائے گا۔

سوال۔ ثقافت ٹھہرا ہوا پانی نہیں۔ یہ ایک بہتے دریا کی طرح ہے۔ پھر ہم اس کو بچا کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں ؟

جواب۔ اس لیے کہ اس کا پانی گدلا نہ ہو۔

سوال۔ آپ اپنے فن پر معاشرے کے کون کون سے اثرات محسوس کرتے ہیں ؟

جواب۔ فطرت انسانی کے پیدا کردہ تمام اثرات خاص کر عدم مساوات۔

سوال۔ افسانہ نویسی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

جواب۔ جب میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا جب میں نے پہلا افسانہ آخری شام کے عنوان سے لکھا۔ سال ۱۹۶۶ء تھا۔

سوال۔ دنیا کو کیا پیغام دیں گے۔ ؟

جواب۔ آئن سٹائن کے الفاظ میں پیغام تو وہ دیتے ہیں جنہوں نے خاطر خواہ کچھ نہ کیا ہو۔

( بشکریہ سبق اردو شمارہ ۲۷ جولائی اگست ۲۰۱۱ء)

٭٭٭

 

 

 

عباس خان سے تحریری مصاحبہ

 

معین الدین عثمانی

 

(عباس خان بر صغیر پاک و ہند کا ایک معتبر نام ہے۔ ان کا  ادبی کام بے حد پھیلا ہوا ہے۔ اس کے باوجود بھی ادبی دنیا کے لئے معروف نہیں بن سکے۔ زندگی اور ادب سے متعلق ان کی  اپنے نظریات ہیں، جانب داری سے بھری اس دنیا میں نام و نمود  سے پرے گوشہ نشین رہ کر اپنے کام میں یقین رکھنے والے اس  شخص سے تحریری مصاحبے کے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں۔ )

 

سوال: ۔   اپنے ادبی سفر کے آغاز سے متعلق کچھ بتائیے۔

جواب: ۔   میں نے جب ہوش سنبھالا تو اس دنیا کو جاننے کی خواہش مجھ پر غالب تھی۔ اس خواہش کی تسکین کا آغاز دیکھنے سننے اور پڑھنے سے ہوا۔ دیکھنے میں اس دنیا کے رنگ اور خوبصورتی مجھے اچھی لگتی تھی۔ سننے میں سریلی آوازیں اور پڑھنے میں کہانیاں۔ ان کا مجموعی تاثر جو مجھ پر قائم ہوا وہ غم زدہ کرنے والا اور رومانویت میں مبتلا کر دینے والا تھا۔ غم اور رومانیت کے پس پشت یہ عوامل تھے۔ موت، ظلم، طبقاتی تقسیم اور حسن یہ چاروں کسی طرح بھی قابو میں نہیں آتے تھے اور نہ اب آتے ہیں۔

اس ہوش کی آمد کے ساتھ ہی قاعدوں، کتابوں، کاپیوں، اور سلیٹوں کی آمد شروع ہو گئی۔ ان کے ساتھ ساتھ اس احساس کی آمد شروع ہوئی کہ دنیا کی سب سے بڑی قدر علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے ہر فرد نے یہی رٹ لگا رکھی ہے کہ پڑھائی کی طرف دھیان دو۔

تھوڑا آگے چل کر خود نمائی کا جذبہ حاوی ہونا بھی شروع ہو گیا۔ یہ خود نمائی اپنی شخصیت کی حد تک خو زور تھی۔ ہر طرح سے یہ ثابت ہو کہ میری شخصیت سب سے عمدہ ہے۔ اور آگے چلا تو دیکھا کہ اوصاف کی جنگ جاری ہے۔ وہ لڑکا بہت اوصاف کا مالک ہے جبکہ اس کے ساتھ والا بہت برا ہے۔ اس جنگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ لڑ چکا تو ایک اور جنگ لڑنی پڑی۔ یہ جنگ معاشرے میں مقام حاصل کرنے کے لئے تھی یہ حاصل ہوا تو۔

دل کے غم نے درد جہاں سے مل کے بہت بے چین کیا

پہلے پلکیں پرنم تھیں اب عارض بھی نمناک ہوئے

ہمارے ایک ملکی سر براہ تھے۔ انہیں ملک میں آنے والی ایک تبدیلی کے نتیجے میں گرفتار کر کے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ ان کی بیگم نے ایک صاحب سے التجا کی کہ اس کی ملاقات اس کے خاوند سے کرا دی جائے ان صاحب نے ملاقات کا اہتمام کر دیا۔ جب وہ اپنے خاوند سے ملاقات کرنے جا رہی تھیں تو ان صاحب سے بار بار پوچھتی تھی کہ قید خانے میں قیدیوں کی تعداد کافی ہے کہ نہیں ؟ اس سوال کے بار بار دہرائے جانے پر ان صاحب نے بیگم صاحبہ پر سوال کر ڈالا۔ آپ بار بار قیدیوں کی تعداد کے متعلق کیوں پوچھتی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے جواب دیا۔ میرے خاوند کو تقریر کرنے کی اس قدر عادت ہے کہ جب تک روزانہ وہ چھ گھنٹے ایک مجمعے کے سامنے تقریر نہ کرے اسے نیند آتی ہے نہ بھوک لگتی ہے وہ چنانچہ اس لئے یہ سوال کرتی ہے کہ قید خانے میں قیدیوں کی تعداد اتنی ہے کہ ایک مجمع بن سکے تا کہ ان کے سامنے اس کا خاوند تقریر کر سکے۔

سرون ٹیز سپین کا ایک ادیب تھا۔ وہ طنز نگاری کی طرف مائل تھا۔ اس نے ایک ناول ڈان کوئیک زوٹ کے نام سے لکھا۔ اس ناول کا ہیرو ڈان کوئیک زوٹ ہے۔ یہ صاحب سورماؤں کے متعلق ناول پڑھ پڑھ کر خود سورما سمجھنا شروع کر دیتا ہے آخر ایک دن ایک سور ما کا روپ دھارے گھوڑے پر سوار ہو کر بدی کی قوتوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے باہر نکل جاتا ہے۔ اس سے پھر جو حماقتیں سرزد ہوتی ہیں ان کے بارے میں پڑھ کر قاری بے اختیار ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔

اس سارے جھمکڑ کا جو اوپر بیان ہوا ہے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور یہ ہے ادیب عباس خان۔ کس طرح!اس طرح کہ پہلی جماعت سے لے کر ایم۔ اے تک اور پھر ایل ایل بی کے دوران لکھنے کا سب کام ہاتھ سے کیا۔ جج بنا تو ایک طویل عرصے تک ہاتھ سے لکھنا پڑا۔ اس لکھنے کے عمل نے تقریر کرنے والے کی طرح لکھنے کی وہ عادت ڈال دی جو میری کتابوں کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے کہانیوں کی کتابیں پڑھ پڑھ کر آخر کار میں نے ڈان کوئیک زوٹ کی طرح خود کو کہانی کار سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کے پیچھے جذبۂ خود نمائی بھی کھڑا ہے اور اوصاف کی جنگ بھی جاری ہے۔ میں نے جب عدالت میں انسانی اعمال کا حال جانا تو مجھے لگا کہ تمام انسانی مصائب کاذمہ دار انسان ہی ہے۔ میرے نزدیک مراوصف یہ ہے کہ میں جہاں کو تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی حالت انسان نے ابتر بنا دی ہے۔ میں اس کو تہس نہس کر کے ایک اور جہاں میں تبدیل کر دوں۔ میرا واحد ہتھیارطنز ہے۔

سوال: ۔   آپ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ادب کے لئے صرف کر دیا ہے۔ اس کے باوجود بھی ادبی دنیا میں پوری طرح متعارف نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں۔

جواب: ۔   کمپیوٹر کی مثال لے لیجئے۔ اس کے ذریعے کمائی کو یقینی بنانے کے لئے لاوے کے طور پر اس میں عریاں فلمیں بھردی گئی ہیں۔ اور بھری جا رہی ہے اب ہر ہاتھ میں ایک ایسا فون سیٹ ہے جو جام جمشید کا نظارہ پیش کرتا ہے۔ مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اکثر یہ طریقہ کئی ادیبوں نے اپنایا۔ اس ضمن میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ادیب خواتین نے یہ راہ اختیار کی کچھ ادیبوں نے مذہبی عقائد پر حملے کر کے شہرت حاصل کی کچھ نے اہمیت حاصل کرنے کیلئے اپنی وضع قطع عجیب وغریب بنالی۔ کچھ ادیبوں کی کسمپر سی کی زندگی نے ان کے لئے لوگوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کر دیا۔

فحاشی کے ضمن میں باد لیئر اور منٹو کی مثال دی جا سکتی ہے۔ مذہبی عقائد پر حملہ کر کے مقبولیت حاصل کرنے والوں میں سے رشدی کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ کسمپر سی کے ضمن میں کافکا کی مثال لے لیجئے۔ وہ تپ دق میں مبتلا تھا اور عالم شباب میں وفات پا گیا۔ مجال ہے جو اس کی کسی تحریر کا مقصد سامنے آئے لیکن اس کو ایک عظیم ادیب گردانا گیا۔ واگنر جرمن گائیک زمانہ لباس پہن کر گھوما کرتا تھا۔

کچھ مقدر کا بھی ساتھ ہوتا ہے۔ فیٹز حیرالڈ نے عمر خیام کی رباعیات کا ترجمہ کیا کافی عرصہ یہ گم نامی کی حالت میں رہا۔ ایک دن پھر کیا ہوا کہ کسی کو دینے کے لئے لوگوں کو اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ملتا تھا۔

متعارف ہونے کے لئے لوگوں نے انجمنیں بنا رکھی ہیں، سیاست بازی کرتے ہیں اور تعلقات بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔

آخر میں یہ عرض ہے کہ میں الگ تھلگ رہنے والا انسان ہوں اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ میری تحریروں میں زندہ رہنے کی قوت ہونی چاہیئے۔

سوال: ۔   آپ کے سوانحی کوائف سے لگتا ہے کہ آپ کی زندگی ایک مخصوص دھارے میں گزری ہے۔ تو کیا ادب  کی تخلیق میں بھی آپ نے یہی رویہ روا رکھا تھا،۔

جواب: ۔   حضور!میرے سوانحی کوائف آپ جانتے ہیں جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہے میری اکثر کتابیں بھی آپ نے دیکھی ہیں۔ یہ تو آپ بہتر بتا سکتے ہیں کہ کیا ادب کی تخلیق میں بھی میں نے یہی رویہ اپنایا۔ میرا میرے بارے میں فیصلہ کرنا شاید جانب دارانہ لگے۔ اگر آپ مجھ سے ہی سوال کا جواب چاہتے ہیں تو عرض ہے کہ مخصوص دھارے سے آپ کی مراد میری ملازمت کی زندگی ہے۔ میں نے ملازمت سے متعلق امور کے بارے میں ایک ناول ’’زخم گواہ ہیں ‘‘ لکھا ہے اور افسانوں کا مجموعہ ’’قلم، کرسی اور وردی ‘‘ میری درجن بھر دوسری کتابیں دیگر اہم موضوعات پر ہیں۔ حال ہی میں میری ایک کتاب ’’سچ‘‘ کے نام سے چھپی ہے یہ فلسفیانہ ہے۔

سوال: ۔   زندگی کی گاڑی کبھی سیدھی نہیں چلتی۔ اس میں کئی طرح کے اتار چڑھاؤ آتے ہیں جن کا پر تو ادب میں   بھی آتا ہے کیا آپ کا تخلیق کردہ ادب اس حقیقت کا عکاس ہے۔

جواب: ۔   جہاں تک میری زندگی کی گاڑی کی بات ہے اس میں اتار چڑھاؤ ہیں میں لیکن شروع سے اپنے نظریات پر قائم ہوں۔ میں انسان کو خود غرض خیال کرتا ہوں۔ اور شروع سے کرتا ہوں۔ اسی طرح جہاں کی بناوٹ مجھے اچھی نہیں لگتی اور شروع سے اچھی نہیں لگتی۔ میں چاہتا ہوں کہ انسان اچھا بن جائے اور یہ جہان سماجی انصاف پر مبنی ہو، جہاں تک زمانے کی رفتار میں اتار چڑھاؤ کی بات ہے یہ اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔ میں لیکن اس سے متاثر نہیں ہوتا۔ میں ایسے نصب العین اور نظریات پر قائم رہتا ہوں۔ کائنات کے متعلق اتار چڑھاؤ نے مجھ پر اثر ڈالا ہے لیکن اس نے میرے نظریات کی تصدیق کی ہے۔ میں پکا مسلمان ہوں میرا یقین ہے کہ اللہ پاک نے یہ جہان تمام کائنات سمیت کن کہہ کر بنا ڈالا اب فرانس اور سوئٹرز لینڈ کی سرحد پر سرن کی سرنگ میں بگ بینگ کا جو تجربہ ہوا ہے اس سے میرے عقیدے کی تصدیق ہوئی ہے۔

سوال: ۔   زندگی کے ساتھ دشت ادب کی سیاحی کا آپ کا سفر طویل ترین ہے۔ اس میدان

کار زار میں کامیابی کی حصول یابی سے آپ کس درجہ مطمئن ہیں۔

جواب: ۔   میں بہت مطمئن ہوں۔

سوال: ۔   آج جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، کیا آپ اسے اپنے معیار و مزاج سے ہم آہنگ محسوس کرتے ہیں۔

جواب: ۔   آج کل جو ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ مجھے بہت کم متاثر کرتا ہے۔ عام سی تحریروں سے نقاد حضرات و تجزیہ نگار صاحبان بڑے بڑے معنی نکال رہے ہیں بات تعلقات با اثر سوخ اور مرتبے کی ہے۔

میں تری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا

ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں

سوال: ۔   ادب میں مقبولیت کا مسئلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت آپ اپنے آپ کوکس مقام پر محسوس کرتے ہیں۔

جواب: ۔   مجھے مقبولیت ملی لیکن اس قدر زیادہ نہیں وجہ یہ ہے کہ میں وہ نہیں لکھتا جو عام آدمی چاہتا ہو۔ میں جو   چاہتا ہوں میری آرزو ہے عام آدمی وہاں پہنچے دوسرے مقبولیت عظمت کا معیار نہیں ہوتی، مقبولیت کا اعلی ترین روپ جمہوریت ہے۔ کیا کہیں جمہوریت نے کوئی بڑا لیڈر پیدا کیا ہے، بالکل نہیں۔

سوال: ۔   کیا نقادان ادب نے آپ کے ساتھ انصاف کیا ہے۔

جواب: ۔   میں ان کی عدالت میں کبھی مقدمہ لے کر نہیں گیا لہذا انصاف یا زیادتی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

سوال: ۔   ادب میں یہاں وہاں سب جگہ گردہ بندیاں ہیں کیا آپ بھی کسی گروہ میں شامل ہیں۔

جواب: ۔   نہیں۔

سوال: ۔   کیا آپ بھی کسی گروہ بندی کا شکار ہوئے ہیں۔ کیا گروہ بندی سے ادب کا بھلا ہو رہا ہے۔

جواب: ۔   میں کبھی کسی گروہ بندی کا شکار نہیں ہوا۔ جہاں نظریاتی گروہ بندیاں ہیں وہاں ادب کا بھلا ہو رہا ہے۔

سوال: ۔   آپ نے مختلف اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے ان کے ساتھ انصاف کیا ہے۔

جواب: ۔   بالکل انصاف کیا ہے۔

سوال: ۔   آپ نے ناول نگاری بھی کی ہے۔ کیا آپ کے ناول موجودہ ٹرینڈ سے میل کھاتے ہیں۔

جواب: ۔   آپ اگر موجودہ ٹرینڈ کی وضاحت کر دیتے تو اچھا ہوتا۔ مجھے تو یوں لگتا ہے۔

اب تو پہلے سے بھی اندھیرا ہے

واہ کیا دیدنی سویرا ہے

رہزنوں سے تو بچ کے نکلا تھا

اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے

جدے دیت، مابعد جدے دیت، ساختیات، مسلک لاشعور، رمزیت، تصوف اور جنس پر مبنی عرفان، موجودیت، ترقی پسندی، رومانیت، اور کلاسیکیت میں نے جذبے کو اہم جانا ہے لیکن اس پر عقل کی گرفت ضروری سمجھتا ہوں میرے نزدیک کچھ سچ اٹل ہیں جیسا کہ خیر، صداقت اور حسن ان کے ساتھ ساتھ رہا جائے۔

سوال: ۔   کیا آپ کا کوئی ناول ادبی دنیا میں موضوعِ بحث ہو کر مقبول عام ہوا ہے۔ ؟

جواب: ۔ میرا کوئی ناول مقبول عام نہیں ہوا ان معنوں میں جن معنوں میں رو سو کا ناول نویل ایلواز ہوا۔ جرمن فلا سفر کانٹ وقت کا اتنا پابند تھا کہ اہل محلہ اس کے معمولات سے وقت معلوم کیا کرتے تھے۔ ایک روز اس کے معمولات میں گڑبڑ ہو گئی پتہ چلا کہ وہ یہ ناول پڑھ رہا تھا۔ لیکن آپ دیکھیں کہ دنیا کے کتنے ناول اس معیار پر پورے اترے ہیں۔

سوال: ۔   فکشن کی دنیا میں ناول نگاروں کی فہرست کافی طویل ہے۔۔ اس فہرست میں عام ناول اور ادبی ناول کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں اپنے آپ کو آپ کون سے زمرے میں شامل سمجھتے ہیں۔

جواب: ۔   یہ تو آپ نے پھر سے اپنے متعلق فیصلہ کرنے کی بات کی ہے۔ میں اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنا مناسب نہیں سمجھتا یہ فیصلہ آپ یا آپ جیسے دوسرے صاحبان ادراک کریں۔ اتنا عرض بس کروں گا کہ ادب کی کوئی ایسی تعریف بتائیے جس پر سارا عالم متفق ہو۔ اس کی روشنی میں طے کریں گے کہ ادبی ناول کو لیتا ہے اور عام ناول کو کونسا ہے۔ ؟ اگر کوئی عالمی تعریف نہیں تو جو کوئی جو کچھ کہتا رہے کہتا رہے۔

سوال: ۔   افسانہ نگاروں سے متعلق پاکستان کے کئی نام ادبی دنیا میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر اس فہرست میں آپ کا نام نظر نہیں آتا۔

جواب: ۔   میرے علم میں کوئی ایسا سروے نہیں جس کی رو سے پاکستان کے کچھ افسانے نگار محترم تصور کئے گئے ہوں اور کچھ احترام سے محروم۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آپ کی اطلاع کے مطابق ایسا ہوا ہے تو یہ کس نے کیا ہے۔ اگر میں محترم لوگوں کی فہرست میں نہیں تو مجھے یہ خوشی ہے کہ۔

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لئے

کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف

سوال: ۔   آپ نے افسانچے بھی تحریر کئے ہیں کیا یہ صنف ادب میں مقبولیت کی منزل سے گزر گئی ہے۔

جواب: ۔   یہ صنف بہت مقبول ہے بلکہ یہ زمانہ ہی اسی کا ہے۔ اب لمبی کہانیوں اور ناولوں کی لندھور بن سمدان کی داستان سمجھا جاتا ہے۔

سوال: ۔   ادب میں زندہ رہنے کے لئے اور اپنا وجود منوانے کے لئے لوگ طرح طرح سے حدو جہد کرتے ہیں مختلف اصناف ادب میں آپ کی طبع آزمائی کس بات کا اشاریہ ہے۔

جواب: ۔   آپ نے سوال کا جواب خود ہی دے دیا ہے۔ مجھے آپ سے لیکن اتفاق نہیں۔ میں ناول، افسانے، افسانچے اور اخباری کالم و مضامین لکھتا ہوں۔ ایسا مجبوری کے تحت ہے۔ اندر آگ بھڑکی تو ناول لکھا۔ جوں جوں لوگوں کے پاس وقت کم ہوتا دیکھا ناول مختصر کیا۔ اسی رو میں افسانے سے کام لیا۔ اب یہ عالم ہے کہ حصے میں صرف دور لہجہ جام آتی نظر آتی ہے اپنے اندر کی آگ بجھانے کے لئے افسانچہ لکھتے ہیں کہ راہ چلتے کسی اشتہار کے دیومالیہ لگے بورڈ کی طرح کوئی اسے پڑھ لے۔ اخبارات میں کالم اور مضامین اس لئے لکھے جاتے ہیں کہ موضوع ایسا چاہتا ہے۔ یہ محض اپنا وجود منوانے کی جنگ نہیں۔

سوال: ۔   آپ کی تحریروں میں فکری بالیدگی اور فنی پختگی کے باوجود ایسا لگتا ہے ایک آنچ کی کسر باقی ہے۔ آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے۔

جواب: ۔   میں اپنی تحریروں سے مطمئن ہوں۔

سوال: ۔   آپ کی تحریروں کا کسی ازم یا تحریک سے دو رکا بھی واسطہ نظر نہیں آتا، کیا زمانے سے بے مروتی سرت کر ادبی طور پر زندہ رہنا مناسب ہے۔

جواب: ۔   کیا دوسروں کی پیروی ضروری ہے جبکہ ان کے نظریات میں کشش محسوس نہ ہو۔

سوال: ۔   آئندہ زندگی میں ادب سے متعلق آپ کی پیش بندیاں کیا ہیں۔

جواب: ۔   میں اب فلسفیانہ اور نیم فلسفیانہ کتابیں لکھنے میں لگ گیا ہوں۔

سوال: ۔   ہندو پاک کے تناظر میں پیش رو قلم کاروں میں سے کس نے آپ کو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے۔

جواب: ۔   قدرت اللہ شہاب مختار مسعود، علی عباس جلال پوری سبط حسن، شبلی نعمانی، وی ڈی مہاجن، رام لعل، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی۔

سوال: ۔   ادب کو سرمایہ حیات گردانا جاتا ہے کیا آپ اس سچائی کو تسلیم کرتے ہیں۔

جواب: ۔   حیات کا جوسرمایہ ہے ادب اس کا حصہ ہے

سوال: ۔   مادہ پرستی کے اس دور میں ادب کی کیا وقعت رہ گئی ہے۔

جواب: ۔   مادے کے بالمقابل روح کھڑی ہے۔ میں اس کے بھی ساتھ ہوں اور دوسرے میری طرح بے شمار لوگ ہیں۔ روح کی بیماریوں کا علاج مذہب کر سکتا ہے، علم نفسیات یا پھر ادب۔

سوال: ۔   کیا ادب اور مذہب میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے۔

جواب: ۔   بالکل، مسئلہ وحدت الوجود لے لیجئے یہ مذہب کا حصہ ہے اب ہماری شاعری کا ایک تہائی حصہ اس کے گرد گھومتا ہے اس طرح دوسرے کئی معاملات ہیں۔

سوال: ۔   کہا جاتا ہے کہ اردو ہر جگہ ہے مگر باقاعدہ کہیں بھی نہیں ہیں۔ آپ کے کیا تاثرات ہیں۔

جواب: ۔   اردو باقاعدہ موجود ہے اور پاکستان میں موجود ہے۔

سوال: ۔   ہند و پاک میں اردو کی صورت حال کہاں بہتر ہے۔

جواب: ۔   پاکستان میں۔

سوال: ۔   دونوں ممالک میں تخلیقیت کا معیار کہاں بہت ہے،

جواب: ۔   دونوں ممالک کا معیار بہتر ہے البتہ بھارت میں کام زیادہ ہو رہا ہے۔

سوال: ۔   اردو زبان و ادب کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے۔

جواب: ۔   اردو زبان اور ادب کا مستقبل بہت روشن ہے یہ برقی ذرائع ابلاغ کی زبان بن چکی ہے، تراجم کے لئے اس دامن بہت وسیع، وقت کا ساتھ دینے کے لئے اس میں بہت گنجائش ہے اور بولے جانے کے حساب سے کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔

سوال: ۔   زبان و ادب کو اس کا سابقہ مقام کس طرح دلایا جا سکتا ہے۔

جواب: ۔   اگر بات اردو زبان و ادب کی ہے تو ان کا سابقہ مقام اور موجودہ مقام کا فرق بھارت میں شاید محسوس ہوتا ہو پاکستان میں ایسا نہیں۔ پاکستان میں یہ ارتقا پذیر ہیں۔ بھارت میں اس کو سابقہ مقام دلانا مشکل نہیں بلکہ ارباب اختیار ایسا چاہیں اور اردو بولنے والے ہر قسم کا تعاون کریں۔

جہاں تک کسی بھی زبان و ادب کا تعلق ہے ہم دیکھتے ہیں کہ زبان کو کسی امتحان کا سامنا نہیں اس کے بغیر ہوا، پانی و روشنی وغیرہ کی طرح کوئی چارہ نہیں۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے یہ اس صنعتی دور میں متاثر ہو رہا ہے، ادب کا تعلق روح اور اعلی اقدار سے ہے جبکہ صنعتی دور مادی لذتوں کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ مجھے لیکن یقین ہے کہ انسان کی مسرت روح سے وابستہ ہے اور روح کی بازیافت ایک دن سب سے اہم تصور ہو گی۔

سوال: ۔   اردو دنیا کو آپ کیا خصوصی پیغام دینا چاہیں گے۔

جواب: ۔   میرے نزدیک اردو ادب خاص کر شاعری میں جو شیرینی سے وہ بے مثال ہے۔ اسے آگے بڑھائیے۔

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل