FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دوسرے مذاہب کے شعراء کی عقیدتیں

 

 

 

انتخاب: ارشد خالد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، شمارہ ۲۴

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

 

 

 

 

 

سردار سندر سنگھ پکھوال

 

کر دو بیڑا پار علیؑ جی

 

بیڑی ہے منجدھار علیؑ جی!

نیّا کر دو پار علیؑ جی!

میں ہوں پاپی اور گنہگار

تم ہو بخشن ہار علیؑ جی!

مجھ پاپی کے گرو تمہی ہو

میری سنو پکار علیؑ جی!

تم بن کس نے اجگر مارا

تم حیدر کرار علیؑ جی!

نرگ سورگ ہیں ہاتھ تمہارے

دو جگ کے سردار علیؑ جی!

بھیا ہو تم پاک نبیؐ کے

اس کے راج کمار علیؑ جی!

نبیؐ نے تم کو بیٹی بخشی

ایشور کے تلوار علیؑ جی!

ہاتھ پکڑ لو مجھ پاپی کا

کر دو بیڑا پار علیؑ جی!

٭٭٭

 

 

 

پنڈت اچاریہ پر مود کرشنم

 

علیؑ اتنے ہمارے ہیں

 

میرے سینے کی دھڑکن ہے

میری آنکھوں کے تارے ہیں

سہارا بے سہاروں کا

نبیؐ کے وہ دُلارے ہیں

سمجھ کر تم فقط اپنا

انہیں تقسیم نہ کرنا

علیؑ جتنے تمہارے ہیں

علیؑ اتنے ہمارے ہیں

٭٭٭

 

 

پروین کمار اشک

 

قطعات

 

 

رہِ حق کے ہم مسافر یوں نہ دھوپ میں جھلستے

جو حسینؑ جیسا برگد کوئی سایہ دار ہوتا !

ترے بعد ترے زخمی اب تک تڑپ رہے ہیں

’’کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا‘‘

٭

 

 

 

جو زخم دیا تو نے دکھایا نہیں جاتا

جو حال ہمارا ہے سنایا نہیں جاتا

ہم دل پہ اُٹھا لیتے ہیں غم دونوں جہاں کے

اک شاہا ترا غم کہ اُٹھایا نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

کیا خواب دیکھتا ہے دیوانہ حسینؑ کا

چادر حسینؑ کی ہے، سرہانہ حسینؑ کا

پھولوں کو موت آ گئی اس حادثہ کے بعد

خوشبو سا اُڑنا مُڑ کے نہ آنا حسینؑ کا

کیا دور ہے یزید بھی مانگے ہے یہ دعا

لوٹا دے اے خدا وہ زمانہ حسینؑ کا

٭

جھانکو کسی غریب کے اشکوں میں غور سے

اس کے سوا کہاں ہے ٹھکانہ حسینؑ کا

باطل کا سینہ چیر کے رکھ دے ہے اس کا تیر

چوکا کبھی نہیں ہے نشانہ حسینؑ کا

زخموں سے جس کو عشق ہے اور آنسوؤں سے پیار

اس کو ملے گا اشکؔ خزانہ حسینؑ کا

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

وہ شخص ترے در سے جسے پیار نہیں ہے

ہاں ! اس سے بڑا کوئی گنہگار نہیں ہے

تُو میری طرف ہے تو مجھے غم نہیں اس کا

یہ دنیا اگر مری طرفدار نہیں ہے

سیدھی چلی جاتی ہے حسینؑ آپ کے در تک

حق راہ میں سچ مچ کوئی دیوار نہیں ہے

وہ سر ترے قدموں کو کبھی چھو نہیں سکتا

جس سر پہ ترے عشق کی دستار نہیں ہے

اب لوگ زمینوں میں محبت نہیں بوتے

اس جنس کا کہتے ہیں خریدار نہیں ہے

اِس شہر کو بھی صاحبِ کردار بنا دے

اس شہر کی مخلوق کا کردار نہیں ہے

جو ڈوبے وہی پائے ترا وصل کنارہ

ورنہ ترے ساگر کا کوئی پار نہیں ہے

سر کاٹ تو سکتا ہے یزیدوں کے ترا اشکؔ

پر ہاتھ میں اُس کے تری تلوار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پرتپال سنگھ بیتابؔ

 

یادِ شہیدانِ کربلا

 

حق ہی خدائے پاک ہے پروردگار ہے

باطل ہر ایک دور میں رسُوا و خوار ہے

بادِ صبا بھی خاطر ہر گل پر بار ہے

کیا بات ہے کہ آج چمن سوگوار ہے

گل چین کی دست برُد کا شاید ہے یہ اثر

دامن ہر ایک پھول کا جو تار تار ہے

شاید یہی ہے یادِ ستم ہائے کربلا

شہر نفس میں عالم گردو غبار ہے

مر مٹنا جانتے ہیں جو اپنے اصولوں پر

ذلت کی زیست ان کے لئے ناگوار ہے

تازہ ہے پھر سے یادِ شہیدانِ کربلا

آنکھیں چھلک رہی ہیں تو دل سوگوار ہے

میدان کربلا کے شہیدوں کی یادگار

اک انقلاب وقت کی آئینہ دار ہے

بیتابؔ کیوں نثار نہ ہو نام پاک پر

محبوب کردگار شہہ نامدارؑ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر امر جیت ساگرؔ

 

خطبۂ زینبؑ

 

جس غم سے بقا پائیں خوشیوں سے وہ بہتر ہے

خوشیاں ہیں مئے دنیا، یہ غم مئے کوثر ہے

دنیا تو ہے دو دن کی عقبیٰ کی ذرا سوچو

اشکوں کے سمندر میں سرمایۂ محشر ہے

اُترے گی جو سر سے چھا جائے گی دنیا پر

اسلام کی کشتی کا لنگر یہی چادر ہے

یہ کس کی صدا گونجی دربار لرز اُٹھا

یہ خطبۂ زینب ہے یا خطبۂ حیدرؑ ہے ؟

اسلام بچانا ہی مقصد ہے جہاں سب کا

شبیرؑ کا لشکر بھی اللہ کا لشکر ہے

پاکیزہ محبت ہے یوں اس کی امنگوں میں

دنیا کی کثافت سے یہ دُور سمندر ہے

حق بات سے مر مٹنا سیکھا ہے شہہ دیںؑ  سے

انسان کے کام آنا اب فطرتِ ساگر ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

سردار پنچھی

 

زینبؑ

 

 

ایسے ہوئیں مخاطب زینبؑ عوام سے

شروعاتِ انقلاب ہوئی ملکِ شام سے

ایسے ملی حمایت ہر خاص عام سے

دیں کا خزانہ بھر گیا اِک اِک سلام سے

خطبے کے لفظ لفظ سے پرچم ہوا بلند

اسلام سرخرو ہوا زینبؑ کے کام سے

’’انصاف کی امید ہی رکھنا فضول ہے

انصاف ملتا ہی نہیں ہے بد نظام سے

انسانیت کا وصف بھی رہتا ہے دور دور

ہوتی ہے بود و باش جب رزقِ حرام سے

ہر مسئلے کا حل ہے رواداری اور خلوص

مٹتی نہیں دشمنی کبھی انتقام سے ‘‘

بولا یہ چاندنی رخِ زینبؑ کا نور ہے

پوچھا تھا میں نے اتنا ہی ماہِ تمام سے

یہ بھی خدا کی بندگی کا ایک روپ ہے

زینبؑ کا نام لیجئے بس احترام سے

اس قدر دل نشیں تھیں سکینہؑ کی سسکیاں

اُٹھنے لگے تھے شعلے یزیدی نظام سے

میں خوش ہوا اے زینبؑ! محفل میں سامعین

سنتے ہیں تیری منقبت تیرے غلام سے

صدیوں کی بھوک پنچھی ؔ کی پل بھر میں مٹ گئی

اک دانہ مل گیا ہے جو زینبؑ کے بام سے

٭٭٭

 

 

 

سردار پنچھی

 

قطعات

 

ایک بار پھر سے صاحبِ ایمان ہو گئے

افسانۂ حیات کا عنوان ہو گئے

کچھ لوگ کلمہ پڑھ کے بھی کافر رہے اور ہم

حیدر کا نام لے کے مسلمان ہو گئے

٭٭٭

 

اشکوں سے وضو

 

ہم تو زینب کی زباں میں گفتگو کرتے رہے

اپنے دل کا درد سب کے روبرو کرتے رہے

نوحہ خوانی ہے عقیدت اور عبادت ہی کا روپ

اس لئے ہم اپنے اشکوں سے وضو کرتے رہے

٭٭٭

 

کاتبِ تقدیر کا لکھا

 

محو خیال و فکر میں تدبیر کیا لکھے

پھر سے حسین خواب کی تعبیر کیا لکھے

مالک نے جس قلم سے لکھا تھا نصیبِ حُر

اب اُس قلم سے کاتب تقدیر کیا لکھے

٭٭٭

 

 

 

 

برج ناتھ مخمورؔ لکھنوی کی عقیدتیں

 

قطعات

 

دھرم اور ذات کی بندش سے تو مجبور ہیں

پھر بھی اے سبطِ نبیؐ تجھ سے نہیں دور ہیں

وہ ترا غم ہو کہ ہو تری محبت ہم

تیرے بخشے ہوئے ہر جام سے مخمورؔ ہیں

٭

 

غمِ حسین میں آنسو چھپا نہیں سکتے

عقیدتوں کے دیئے ہم بجھا نہیں سکتے

ہزار آندھیاں آتی رہیں تو کیا مخمورؔ

یہ وہ چراغ ہیں جھلملا نہیں سکتے

٭

 

رات دن دل کے داغ جلتے ہیں

آنسوؤں کے ایاغ جلتے ہیں

میرے دل کے امام باڑے میں

کربلا کے چراغ جلتے ہیں

٭

 

خیر سے پہنچے جو منزل تک تو راہیں کھو گئیں

ایک حسرت جاگی باقی حسرتیں سب سو گئیں

اس قدر آنسو بہائے ہیں غمِ شبیرؑ میں

ہم تو ہندو ہی رہے آنکھیں حسینی ہو گئیں

٭

 

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دولت ہے بڑی چیز

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں طاقت ہے بڑی چیز

شبیرؑ ترے فیضِ شہادت نے بتایا

دنیا پہ نہیں دل پہ حکومت ہے بڑی چیز

٭

 

ہم اپنا نام اور اپنی حقیقت کو بتا دیں گے

جو پردہ ظاہری دنیا سمجھتی ہے اُٹھا دیں گے

ہمیں جنت میں جانے سے اگر رضوان روکے گا

تو سینے پر نشانِ ماتم شبیرؑ دکھا دیں گے

٭

 

مٹ نہیں سکتا کبھی مخمورؔ غم عباسؑ کا

نقشِ سجدہ بن چکا ہے ہر قدم عباسؑ کا

گر جہاں والوں میں دیکھیں گے عقیدت کی کمی

ہو کے ہندو ہم اٹھائیں گے علم عباسؑ کا

٭

 

آنکھیں کہتی ہیں کہ تیرے نور کو دکھا کریں

ہونٹ کہتے ہیں تیرے نقشِ پا چوما کریں

من کے مندر میں بٹھا کر تجھ کو اے سبطِ نبیؐ

دل یہ کہتا ہے کہ تیری عمر بھر پوجا کریں

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

کیوں بھلا وہ دیکھتا مڑ کر کبھی سوئے فرات

جس کے چلو میں سمٹ کر خود سمندر آئے ہیں

بحر و بر اور سارا عالم جس کو کہتا ہے حسینؑ

ہاں وہی میرے تصور میں بھی اکثر آئے ہیں

اب حسینؑ ابنِ علیؑ سے کوئی بھی دوری نہیں

دھرم کی ہم ساری دیواریں گرا کر آئے ہیں

راہ چلتے بھی سنا مخمورؔ گر نامِ حسینؑ

اشک آنکھوں میں ہماری خود بخود بھر آئے ہیں

٭٭٭

 

سلام

 

نمایاں جس جگہ نورِ خدا ہے

وہی تو سر زمینِ کربلا ہے

کماں میں تیر، اصغرؑ کا گلا ہے

نہ جانے کیا مشیّت کی رضا ہے

فروزاں اس جگہ شمعِ وفا ہے

جہاں عباسؑ تیرا نقشِ پا ہے

یہاں انوار ایماں کا ہے سایا

یہی تو قتل گاہِ کربلا ہے

ا ہے پیاسا جو ہو کوثر کا مالک

یہی مخمورؔ خالق کی رضا ہے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

کوئی زمین نہیں ایسی با خدا تنہا

مقابلے میں ہے جنت کے کربلا تنہا

علم سنبھالے کہ مشکیزہ میں بھرے پانی

بتاؤ کیا کرے عباسؑ با وفا تنہا

زمین کانپ رہی ہے فلک بھی لرزاں ہے

عدو کی فوج ہے اور سبطِ مصطفیٰؐ تنہا

تڑپ کے لاشۂ قاسمؑ سے کہتی ہے بیوہ

کٹے گا زیست کا اب کیسے راستا تنہا

ہلا دیا ہے زمانے کو تم نے اے اصغرؑ

کیا ہے تیر سے ایسا مقابلہ تنہا

اسیر ہو کر کریں پردا کس طرح زینبؑ

وہ چھن گئی کہ جو باقی تھی اک ردا تنہا

حسینؑ آئے تھے کرب و بلا میں کیوں مخمورؔ

یہ راز جانتا ہے صرف کبریا تنہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

سلام

 

ظلم کا زہر تو ڈستا رہا ناگن کی طرح

پھر بھی کردار تھا شبیرؑ کا چندن کی طرح

جب گھٹا چھاتی ہے شبیرؑ کے غم کی دل پر

اشک آنکھوں سے برس پڑتے ہیں ساون کی طرح

ان کو ہی جلوۂ شبیرؑ نظر آتا ہے

دل کو جو اپنے بنا لیتے ہیں درپن کی طرح

بھیک لینے کے لئے تجھ سے وفا کی عباسؑ

زندگی دوار پہ آئی ہے بھیکارن کی طرح

یہ الگ بات مرا دھرم ہے ہندو لیکن

دل میں شبیرؑ بسے رہتے ہیں دھڑکن کی طرح

جس نے کاٹا ہے گلا سبطِ نبیؐ کا مخمورؔ

اس کو جھونکے گا خدا آگ میں ایندھن کی طرح

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

پوچھتے ہو کربلا میں جا کر کیا دیکھیں گے ہم

نورِ ایماں، نورِ حق، نورِ خدا دیکھیں گے ہم

مقتلِ کرب و بلا پر جب نظر ڈالیں گے ہم

جا بجا قرآن کو بکھرا ہوا دیکھیں گے ہم

ظلم کی تاریکیوں میں روشنی کے واسطے

ہر طرف جلتی ہوئی شمعِ وفا دیکھیں گے ہم

جس پہ چل کر حُر نے پائی ہے حیاتِ جاوداں

کربلا میں ڈھونڈ کر وہ راستہ دیکھیں گے ہم

کہہ رہی ہے ہر اُبھرتی موجِ دریائے فرات

حضرتِ عباسؑ کا نقش وفا دیکھیں گے ہم

ہے ابھی مخمورؔ ڈھارس کربلا کے ذکر سے

وہ بھی دن آئے گا جس دن کربلا دیکھیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

 

کیا نظر آئے گا اس کو حق کا جلوہ اے حسینؑ

جس کے دل پر پڑ چکا باطل کا پردا اے حسینؑ

کیا سمجھ سکتی ہے دنیا تیرا رتبہ اے حسینؑ

تو علیؑ و مصطفیٰ کی ہے تمنا اے حسینؑ

وہ کسی بھی شہر میں ہو یا کسی بھی ملک میں

ہر زباں پر رہتا ہے تیرا ہی چرچا اے حسینؑ

قصرِ باطل کا نشاں تک اب کہیں ملتا نہیں

تیرے در پر آج بھی جھکتی ہے دنیا اے حسینؑ

بچہ بچہ کربلا والوں کا پیاسا رہ گیا

کہہ رہی آج بھی ہر موجِ دریا اے حسینؑ

کیا گزرتی ہو گی دل پر مادرِ بے شیر کے

دیکھ کر اجڑے ہوئے خیمے میں جھولا اے حسینؑ

ہم تو ہندو ہیں مگر پھر بھی سمجھتے ہیں یہی

باعث رحمت ہے تیرے در کا سجدہ اے حسینؑ

طالبِ دیدار ہیں آنکھیں ترے مخمورؔ کی

اس کو بھی دکھلا دے اک دن اپنا روضہ اے حسینؑ

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

غمِ حسینؑ سے دل کو لگاؤ ایسا تھا

جو بھر سکا نہ دوا سے یہ گھاؤ ایسا تھا

بجھائی اپنے ہی دشمن کی پیاس رستے میں

حسینؑ ابنِ علیؑ کا سبھاؤ ایسا تھا

اکیلے چھائے تھے دشمن کی فوج پر عباسؑ

رگوں میں خونِ علیؑ کا بہاؤ ایسا تھا

فرات چھوڑ کے بھاگیں یزید کی فوجیں

علیؑ کے شیر کا ان پر دباؤ ایسا تھا

سمجھ سکے نہ یزیدی کبھی حقیقت کو

مجاز کی طرف ان کا جھکاؤ ایسا تھا

کٹا کے سر کو بچایا حسینؑ نے اسلام

نبیؐ کے دین سے ان کو لگاؤ ایسا تھا

گرے پلک سے تو دامن پہ بن گئے موتی

ہمارے اشکوں میں غم کا رچاؤ ایسا تھا

پھرا کے خشک لبوں پر زباں علی اصغرؑ

شہید ہو گئے ناوک کا گھاؤ ایسا تھا

شہید ہوتے تھے سرور تڑپتی تھی زینبؑ

لہو کا بہن بھائی میں لگاؤ ایسا تھا

ہمارا دھرم تو ہندو ہے ہم حسینی ہیں

ہمارا حق کی طرف چناؤ ایسا تھا

تصورات میں جلتے رہے لہو کے چراغ

ہمارے ذہنِ رسا کا لگاؤ ایسا تھا

ہر ایک شعلے پہ لکھا ہوا تھا نامِ حسینؑ

ہماری جلتی چتا کا الاؤ ایسا تھا

نظر تک آ گیا مخمورؔ جلوۂ شبیرؑ

بلند فکر و نظر کا رچاؤ ایسا تھا

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر ستنام سنگھ خمارؔ کی عقیدتیں

 

سلام

 

وقار و عزم پہ جانیں نثار کرتے ہیں

حسینؑ والے سلیقے سے وار کرتے ہیں

نہ گذرے رات ہماری نہ دن ڈھلے مولاؑ

سلگتے اشک بہت بے قرار کرتے ہیں

کریں جو غور تو خود ہی سمجھ میں آ جائے

درِ حسینؑ سے کیوں لوگ پیار کرتے ہیں

یہ شہر عشق ہے اس کی گلی گلی آنسو

سب اس میں موتیوں کا کاروبار کرتے ہیں

کچھ ایسے پھول بھی کھلتے ہیں صحن گلشن میں

نگاہِ غیر کو جو شرمسار کرتے ہیں

جو کام اُن کے جوانوں سے بھی نہ ہو پائے

وہ مسکرا کے یہاں شیر خوار کرتے ہیں

بچا لیں آبرو اپنی ستم شعاروں سے

حسینؑ اب بھی ہمیں ہوشیار کرتے ہیں

جو موڑ لیتے ہیں منہ کو پہنچ کے دریا پر

وہ اپنی پیاس کا اونچا وقار کرتے ہیں

وہ تشنہ کام نہیں تھے خود ایک دریا تھے

ہم ان کو تشنہ لبوں میں شمار کرتے ہیں

خمارؔ اپنے مسائل کا حل ہے کرب و بلا

غمِ حسینؑ پہ ہم انحصار کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

لکھا ہے کاٹ کاٹ کے تحریر دیکھئے

کاغذ پہ لاشعور کی تصویر دیکھئے

روشن جبیں کے لمس کی تاثیر دیکھئے

صحرا کی خاک بن گئی اکسیر دیکھئے

قربانی، حسینؑ کے قدموں میں آ گِرا

تاجِ غرورِ حاکمِ بے پیر دیکھئے

خیمے جلے تو بن گیا قصرِ حسینیتؑ

تشنہ لبوں کا جذبۂ تعمیر دیکھئے

سارے جہاں کی نعمتیں رکھی تھیں اک طرف

اور اک طرف مقصدِ شبیرؑ دیکھئے

گِر کر درِ حسینؑ پہ حُر کے شعور نے

جنت کی ساری لوٹ لی جاگیر دیکھئے

مظلومیت کی قید میں ظالم ہے آج تک

چاروں طرف ہے صورت بے شیر دیکھئے

کس اہتمام سے علی اکبرؑ نے دی اذان

باقی ہے اب بھی نعرۂ تکبیر دیکھئے

بعد حسینؑ حضرتِ زینبؑ نے اوڑھ کر

کیسے بچائی چادرِ تطہیر دیکھئے

کرب و بلا کے دشت سے کوفہ و شام تک

قدموں کو چومتی گئی زنجیر دیکھئے

چشمِ شعورِ دوستی کے ہوتے ہوئے خمارؔ

دیکھا نہ اُن کو شومیِ تقدیر دیکھئے

٭٭٭

 

 

 

 

فکر حسینیؑ

 

کاسہ ظالم لہو سے بھر چلے

تم نہیں سمجھو گے ہم کیا کر چلے

کربلا کی آنکھ میں اہلِ وفا

کیسے کیسے چھوڑ کے منظر چلے

تشنگی کی راہ میں اہلِ نظر

ہر فریبِ موج سے بچ کر چلے

تیر جب چھوٹے حسینی فکر سے

چھوڑ کر میدان کو اہلِ شر چلے

روئیں کیا حکمت سے آنکھیں ایک بار

آج تک دنیا کے چشمِ تر چلے

تیز تھا اتنا حسینی کاروان

دشمنوں کے تیر تک اصغرؑ چلے

وقتِ رخصت آنسوؤں کے قافلے

رکھ کے پتھر اپنی چھاتی پر چلے

آنکھ وہ تیرے غم سے نم ہوئی

ہر خوشی کو مار کے ٹھوکر چلے

جانبِ مقتل چلے سر فروش

سب سے آگے ثانیِِ حیدر چلے

ظالموں پر بعد جنگِ کربلا

ہر طرف سے بغض کے پتھر چلے

ہم ہیں اُن عزت مآبوں کے خمارؔ

جو زمانے میں اُٹھا کے سر چلے

٭٭٭

 

سلام

 

بیمار مسیحا نے ذہنوں کو شفا دی ہے

کس پیار سے نفرت کی دیوار گرا دی ہے

مظلوم کے چھالوں نے ٹپکا کے لہو اپنا

تصویر شکیبائی رنگین بنا دی ہے

سجادؑ کے ہونٹوں پہ آزاد تبسم ہے

حالات نے پاؤں میں زنجیر سجا دی ہے

اک پیکرِ ہمت نے باندھے ہوئے ہاتھوں سے

ہر قصرِ یزیدی کی بنیاد ہلا دی ہے

جینے کی ضرورت ہے تو اس پہ چلو یارو

بیمار کے قدموں نے جو راہ دکھا دی ہے

اشعار کے عارض پر افکار کے آنسو ہیں

یادوں نے ترے غم کی بزم سجا دی ہے

اِک ٹوٹے ہوئے دل کے جذبات کی آندھی نے

بجھتے ہوئے شعلوں کو دامن کی ہوا دی ہے

ہر جرم خمارؔ اس کا بخشا مرے مولا نے

ظالم کو گناہوں کی کس طور سزا دی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

 

پیاس کا پودا لگایا حکمتِ شبیرؑ نے

اپنی آنکھوں سے دیا پانی اُسے ہمشیر نے

سیّدہؑ کی گود میں جب مسکرایا آفتاب

اک نیا پیکر دیا اسلام کو تنویر نے

لے کر آیا تھا بڑا لشکر تکبر شمر کا

کر دیا گھائل حسینیؑ فکر کی شمشیر نے

کربلا میں سب نے دِکھلایا ہنر اپنا مگر

جنگ جیتی مسکرا کر فطرتِ بے شیر نے

ظلمتِ شب کی اُداسی میں درِ شبیرؑ کا

راستہ حُر کو دکھایا مشعلِ تقدیر نے

لفظ کے اعجاز سے تھے آشنا اہلِ زبان

کام جملوں سے لیا تلوار کا تقریر نے

موت کو بھی مسکرا کر اپنی باہوں میں لیا

صبر و شکر و عزم کی منہ بولتی تصویر نے

غم کی آتش میں سلگتی زندگی کو اے خمارؔ

عشق کا نغمہ دیا بیمار کی زنجیر نے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

تپتے میدان میں جب آگ کے لشکر آئے

اُن سے ملنے کے لئے پھول بہتّر آئے

جس کی دہلیز سے خالی نہ گئے دشمن بھی

کوئی دنیا میں سخی ایسا تو بن کر آئے

ایسے پیاسے کو ذرا سوچ کر کہئے پیاسا

جس کے قدموں میں اشارے سے سمندر آئے

اُن کو جھلسا نہ سکی گرم ہوا صحرا کی

اوڑھ کر تن پر جو تطہیر کی چادر آئے

جانے کس خوف سے گھبرائی ہوئی سہمی سی

بار بار اک نظر خیمے سے باہر آئے

ظلمتیں اپنی حدوں سے جو گزر جاتی ہیں

یہ ضروری ہے کہ کوئی نور کا پیکر آئے

دل کے دامن ہے تہی اُس میں اجالا بھر دے

ہم بڑی دور سے سرکار کے در پر آئے

اے خمارؔ اُن کو مظالم سے ہوا کیا حاصل

ہاتھ خالی ہی گئے جتنے سکندر آئے

٭٭٭

 

 

 

 

سلام

 

 

لکھا ہے آسماں پر فسانہ حسینؑ کا

سب کا حسینؑ، سارا زمانہ حسینؑ کا

کوئی امامؑ، کوئی پیمبرؐ، کوئی ولی

کتنا ہے سر بلند گھرانہ حسینؑ کا

ہو گی کوئی تو بات صدیوں کے بعد بھی

جس دل کو دیکھئے ہے دیوانہ حسینؑ کا

میں حُر ہوں چاہئے مجھے تھوری سی خاکِ پا

کوئی مجھے بتا دے ٹھکانہ حسینؑ کا

آنکھیں ہوں اشکبار تو لعل و گہر ملیں

ان میں چھپا ہے کوئی خزانہ حسینؑ کا

گل کے گداز پر پڑے یا نوکِ خار پر

ایک اک قدم ہے کیا سہانا حسینؑ کا

غم کا سفر ہے نور کے اُگنے سے شام تک

ہم سے بیاں نہ ہو گا فسانہ حسینؑ کا

مقصود تھا جگانا حقیقت کو خواب سے

دشوار کس قدر تھا نشانہ حسینؑ کا

آزادیِ خیال کی تحریک ہی تو ہے

عاشور کو چراغ بجھانا حسینؑ کا

مظلومیت کے وار سے ظالم نہ بچ سکا

آخر ہدف پہ بیٹھا نشانہ حسینؑ کا

اب بھی زبانیں خشک ہیں پہرے فرات پر

دہرا رہا ہے خود کو زمانہ حسینؑ کا

کب سے چکا رہا ہوں قصیدوں میں اے خمارؔ

مجھ پر ہے کوئی قرض پرانا حسینؑ کا

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

نظر نظر سے عیاں لطفِ عام ہے تیرا

چھلک رہا ہے جو ہاتھوں میں جام ہے تیرا

دلوں کے شہر ہوں یا بستیاں نگاہوں کی

ہر اک جگہ پہ مکمل نظام ہے تیرا

نہ کوئی پیاسا رہا تیرے ابرِ رحمت سے

جو بوند بوند پہ لکھا ہے نام ہے تیرا

ہر ایک جنبشِ خامہ پہ برکتیں تیری

میں لکھ رہا ہوں جو مولا پیام ہے تیرا

تیرے قریب پہنچنا کسی کے بس کا نہیں

شعور و فکر سے اونچا مقام ہے تیرا

حسینی نور کو اے آفتاب سجدہ کر

تجھے یہ کرتا ہے روشن امام ہے تیرا

بس ایک رات میں پا جائے منزلِ مقصود

حسینؑ قافلہ کیا تیز گام ہے تیرا

یہ اور بات ہے تو نے نہ منہ لگایا اُسے

ندی کا پانی تو اب تک غلام ہے تیرا

خمارؔ شانِ کریمی کی تجھ پہ بخشش ہے

عقیدتوں سے مرصع کلام ہے تیرا

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

کمالِ فن کے منظر دکھا دئے تو نے

جو تھے دماغ وہ سب دل بنا دئے تو نے

حسین رتوں کے محافظ حسین ابنِ علیؑ

گلوں کے نور پہ پہرے بٹھا دئے تو نے

لبوں کے شعلے تبسم میں ڈھل گئے آ خر

حقیقتوں کے فسانے بنا دئے تو نے

یزیدیت کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکا

بِنائے ظلم کے پتھر ہلا دئے تو نے

نظر نظر کو دئے آسمان محبت کے

پلک پلک پہ ستارے سجا دئے تو نے

نہ حو صلے کی مثالیں نہ فیصلے کا جواب

سیاہ شر سے بہتّر لڑا دئے تو نے

جب آیا تُو تو چکا چوند ہو گئی آنکھیں

جدا ہوا تُو زمانے رلا دئے تو نے

ترس رہے ہیں جبیں میں عقیدتوں کے سجود

سلگتی مٹی کو وہ نقشِ پا دئے تو نے

حسینؑ حکمتِ تشنہ لبی کے شعلوں سے

بپھرے پانی کے دریا جلا دئے تا نے

سبیلیں خون کی سجائیں ستم گروں نے

سخاوتوں کے خزانے لٹا دئے تو نے

نوازشوں کے کرم کئے خلوص و رحمت کے

دلِ خمار پہ ساغر لنڈھا دئے تو نے

٭٭٭

 

 

 

سلام

 

عظمت پہ تیری اس کو بھی انکار نہیں ہے

وہ شخص جو بظاہر طرفدار نہیں ہے

کردار حسینی کی مہک اُٹھتی ہے جس سے

آں دشتِ مغیلاں ہے چمن زار نہیں ہے

شبیر کے محلوں میں وفاؤں کی چھتیں ہیں

اس گھر میں کہیں بیچ کی دیوار نہیں ہے

اب تک نہ کوئی ایک بھی ایسا نظر آیا!

خوشبوئے حسینیؑ کا جو بیمار نہیں ہے

اے موج رواں پیاس کی بستی سے گذر جا

کوئی بھی یہاں تیرا خریدار نہیں ہے

فردا کے لئے عزم حسینیؑ کی صدا ہے

للکار ہے زنجیر کی جھنکار نہیں ہے

مولا نے کہا سب سے چلے جائیے لیکن!

جینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے

کتنے ہی نکلے ہیں تیری فکر کے گوشے

تو ایک قبیلے ہی کا سردار نہیں ہے

خود سے بھی ظفر یاب ہوا شر سے بھی جیتا

حُر جیسا کوئی صاحبِ کردار نہیں ہے

روتا ہے خمارؔ اِس کے لئے سارا زمانہ

پلکوں پہ مگر رونقِ اظہار نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

اعلانِ سحر

 

وہی تو با شعور و باخبر ہے

حسینیؑ راہ پر جس کی نظر ہے

نئی منزل سے آغازِ سفر ہے

اذاں اکبرؑ کی اعلانِ سحر ہے

کہیں آنسو، کہیں پاؤں میں چھالے

بڑی روشن سلگتی رہگزر ہے

کھنچا جاتا ہے سوئے کربلا دل

تصور میں ترا جادو اثر ہے

منافق بھی ہوئے اندر سے قائل

تری آواز کتنی معتبر ہے

کسے ہمت کہ شہزادے کو چھووے

مہ خورشید کا لختِ جگر ہے

بہت بیتاب ہے منزل جنوں کی

اُٹھو اب ساتھیو وقتِ سحر ہے

وفاؤں کے مزاجوں سے معطر

علیؑ کا گھر تو خوشبوؤں کا گھر ہے

خمارؔ اک عشق ہے آلِ نبیؐ سے

ہے ان کا آستاں اور میرا گھر ہے

٭٭٭

 

 

 

قطعات

 

کوئی ہو سامنے تو یاعلیؑ کہئے

نظر سے دور ہو یاعلیؑ کہئے

سمندر کے مسافر اگر یہ خواہش ہے

کہ موج موج ہو ساحل تا یاعلیؑ کہئے

٭٭٭

 

اشکوں کے چراغوں سے غم خانے سجائے ہیں

زخموں کے تبسم سے جذبات جگائے ہیں

زینبؑ ہی نے دانش کی باریک نگاہوں سے

تظہیر کی چادر میں پیوند لگائے ہیں

٭٭٭

 

اندھیری رات کی مشعل حسینؑ ہے

ہسنی لبی کے مسئلہ کا حل حسینؑ ہے

ہوئی ہے اُس کے پیار کی بارش سدا خمارؔ

ہم کربلا کی ریت ہیں بادل حسینؑ ہے

٭٭٭

 

وہ پیاس جس کے پاؤں میں نہرِ فرات ہے

پانی سے منہ کو موڑے کوئی تو بات ہے

اُن منزلوں کا راستہ پوچھو حسینؑ سے

جینا جہاں پر موت ہے مرنا حیات ہے

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل