FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

عبد اللہ جاوید  کے کچھ ادبی مضامین

 

 

 

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

 

ماخذ: عکاس انٹر نیشنل، شمارہ ۲۷، عبد اللہ جاوید نمبر

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

زمینداری نظام کی جڑیں جیسے جیسے کمزور ہوتی گئیں، سب کے درمیان رہنے کی اہمیت بھی کم ہونے لگی۔ زمیندار، کسان، زمین، اور حاکم کے رشتے واضح اور بندھے ٹکے تھے اور نظام حیات میں ہر فرد ایک مخصوص اور متعین مقام کا حامل تھا۔ چنانچہ فرد اور سماج میں کسی قسم کے ٹکراؤ اور تصادم کی گنجائش کم ہی نکلتی تھی۔ اگر کوئی فنکار زندگی کے متعین راستوں سے انحراف کرتا تو وہ باغی قرار پاتا اور اپنی انفرادیت کے ہاتھوں خود ہی برباد ہو کر رہ جاتا۔ زمیندارہ نظام نے جیسے جیسے صنعتی دور کو راہ دی، فرد اور سماج کا تصادم شدت اختیار کرتا گیا۔ اور اب جب کہ صنعتی دور جوہری قوت کے بل بوتے پر ساری دنیا میں وسعت پا رہا ہے تو یہ تصادم اپنی شدت کے نقطۂ عروج پر پہنچنے کی جانب مائل ہے۔

ان حالات میں ادب کے ان نظریات کو کچھ نہ کچھ تقویت ملنی لازمی ہے۔ جو ادیب کی انفرادی شخصیت کو اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ اجتماعی محرکات کو نظر انداز کرتے ہیں یاغیر اہم قرار دیتے ہیں۔ ’ ادب اور قومی مسائل ‘کے بارے میں اگر یہ اندازِ فکر اپنا لیا جائے کہ ادیب یا شاعر اور فنکار فرد ہوتا ہے اور وہ تخلیقات میں انفرادی شخصیت کا اظہار کرتا ہے یا اس سے آگے بڑھ کر ادب کو اظہار اور ابلاغ کے تکلف سے ہی آزاد کر دیا جائے اس خیال کے ساتھ کہ تخلیقِ ادب کا مقصد محض اپنی شخصیت کی تکمیل ہے یا اس ذہنی اور روحانی کرب کو آسودگی عطا کرنا مقصود ہے جو ہر تخلیقی عمل کی اساس ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں قوم اور قومی مسائل کا مسئلہ ہی نہیں پیدا

ہو تا۔ دوسرے الفاظ میں ادیب ایک ایسی بھول بھلیاں میں گم ہو جاتا ہے کہ قاری تو قاری خود اسے بھی اس کا پتہ نہیں ملتا۔ کچھ مفکرین نے ادب کو سماج اور قوم سے وابستہ تو کیا لیکن ادب کی ماہیت کے بارے میں یہ نظریہ پیش کیا کہ ادب کا مقصد ذہنی تفریح مہیا کرنا ہے اور اسی طرح قومی مسائل کی الجھنوں سے آزادی اختیار کر لی۔ مندرجہ بالا صورتوں میں بیشتر زندگی کی کشاکش اور اس کے حقائق سے انحراف، رو گردانی یا واضح فرار کے ضمن میں آتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تخلیق کا عمل بڑی حد تک ادیب کی داخلی شخصیت کے مہمان خانے سے متعلق ہے۔ لیکن جب ہم اس داخلی شخصیت کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ دریافت کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ اس نام نہاد داخلی شخصیت پر بھی خارجی محرکات اور حقائق کا اثر لازمی ہے۔ جس کو ہم فرد کی داخلی شخصیت کہتے ہیں وہ فرد سے علیحدہ کوئی وجود نہیں رکھتی۔ وہ فرد کے ساتھ مختلف مدارج سے گزرتی ہے۔ اس میں ارتقا یا زوال بھی ہوتا ہے۔ اس کی تشکیل بھی ہوتی ہے اور وہ شکست و ریخت کی زد میں بھی آتا ہے۔ اسی طرح لا شعور میں بھی جو کچھ ہے وہ بھی خارجی حادثات اور محرکات کا مرہونِ منت ہے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ لا شعور کی دنیا انسان کی ان تمناؤں اور احساسات کی آماجگاہ ہے جو شعوری دنیا میں نا پسندیدہ عناصر میں شمار ہوتے ہیں تو دوسرے الفاظ میں ان تمناؤں اور احساسات کو خارج کی دنیا سے منفی طور پرہی سہی متعلق ضرور کر دیتے ہیں۔ فرد کے تخلیقی کرب سے ہمیں انکار نہیں۔ اس شدتِ احساس کی انفردیت کو بھی ہم تسلیم کرتے ہیں جو تخلیقی ادب کے سلسلے میں اہم کارنامے انجام دیتا ہے۔ ہم یہ بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں کہ ادب کی تاثیر کا بڑی حد تک اس تخلیقی کرب اور شدتِ احساس سے تعلق ہے، لیکن ہم یہ کس طرح تسلیم کریں کہ ادب کی تخلیق کرنے والا ریشم کے کیڑے کی طرح ایک خول میں ملفوف ہو جاتا ہے اور خارجی دنیا، سماج اور قوم سے اس کا تعلق ہی نہیں ہوتا۔

اگر ہم قومیت کے تصور کا تجزیہ کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قوم کی تشکیل کے سلسلے میں نسل، جبلت، زبان، مذہب، جغرافیائی حدود اور ریاستی نظم و ضبط اہم محرکات کے طور پر کار فرما رہتے ہیں۔ ایک ادیب خواہ عرفانِ ذات میں مصروف ہو کہ اظہارِ ذات میں، اپنی شخصیت کی تکمیل اس کا مقصد ہو یا دوسروں کی تفریح لیکن کسی نہ کسی طور پر ان محرکات میں اگر سب نہیں تو ایک آدھ سے ضرور وابستہ ہو گا۔ کوئی پناہ گاہ، کوئی خول، کوئی نعرہ، کوئی عقیدہ اس کو اس رشتے سے منقطع نہیں کر سکتا۔ اگر ہم ریناںؔ  (Renan ) کے قول پر دھیان دیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ قومیت کا تعلق متذکرہ بالا محرکات سے فرداً فرداً کم اور مجموعی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ جب ہم ان محرکات کو آپس میں مربوط کرتے ہیں تو روایت حاصل ہوتی ہے۔ نسل، زبان، مذہب اور جغرافیائی حدود کا اشتراک اس وقت تک کوئی معانی کا حامل نہیں ہوتا جب تک کہ ہم ایک مشترکہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کی بات نہ کریں۔ ریناںؔ  کا خیال ہے کہ قوم ایک روح یا روحانی اصول ہے۔ اس روح یا روحانی ہیئیت میں دو محرکات جو آپس میں جدا جدا نہیں ہیں، کار فرما رہتے ہیں۔ ایک ماضی اور دوسرا حال، ایک کا تعلق ثقافتی ورثے یا اسلاف کی تاریخ سے ہے، دوسرے کا تعلق اس جذبہ سے ہے کہ جس کے تحت ایک قوم کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں۔

اردو زبان و ادب میں قومی مسائل کا شعوری دخل سر سید کی تحریک کے ساتھ زیادہ واضح صورت اختیار کرتا ہے۔ حالیؔ کو بلاشبہ پہلا قومی شاعر کہا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی قومی شاعری میں قوت اور جذبے کی کمی بھی کھٹکتی ہے۔ اس کے بر عکس اکبر،ؔ  سر سید کی تحریک اور مغربیت کے خلاف ردِ عمل کے انداز میں قومی شاعری کے ایک ایسے پہلو کی عکاسی کرتے ہیں جو طنز اور ہجو کی قوتوں کا حامل ہے۔ اقبالؔ کے ہاں قومی شاعری کا جو انداز ہمیں ملتا ہے وہ ضربِ کلیمی ہے۔ اقبالؔ کے ہاں سیاست، وطن سے علیحدہ ہو کر مذہب اور تمدن سے وابستہ ہو جاتی ہے۔ در حقیقت سر سید تحریک کے ڈانڈے مسلم لیگ کی تحریک سے مربوط ہو جاتے ہیں اور اس زنجیر سے ہمارا ادب ( قومی مسائل کی عکاسی کی حد تک ) چند اہم کڑیوں کی شکل میں ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں چند اہم پیچیدگیاں بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ جب ہم ادب اور قوم کے سمبندھ کو پاکستان سے متعلق کر کے دیکھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کی تشکیل کے عقب میں مذہب کے محرک کا کیا مقام ہے۔ کچھ حلقوں سے یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ اقبال کی شاعری قومی شاعری نہیں ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کے شاعر تھے۔ جس میں پاکستان، ایران، افغانستان، ترک، عرب، انڈونیشیا، ملیشیا اور افریقہ کی اقوام یہاں تک کہ روسی مسلمان کی قوم بھی شامل ہے۔ اسلام میں وطنیت اور اس نظریہ قومیت کی بہت کم گنجائش رہتی ہے جو پاکستان کو ایک علیحدہ مملکت اور پاکستانی قوم کو ایک علیحدہ قومی وحدت تصور کرتا ہے۔

یہاں ہم ایک اہم مسئلے سے دوچار ہو رہے ہیں وہ ہماری اپنی قومیت کا مسئلہ ہے۔ یہ تسلیم ہے کہ ہم نے پاکستان کے مطالبے کے ساتھ ’ ’ دو قومی نظریہ ‘‘ کا نعرہ بھی لگایا تھا لیکن آج ہم بالکل غیر جذباتی انداز میں یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہماری قوم ہے کیا؟۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ معاہدوں کے ذریعے ہم ایران اور ترکی سے ایک خاص حد تک منسلک ہو گئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایرانی قومیت اور ترک قومیت نے اپنے محدود قومی نظریات میں اتنی لچک پیداکر لی ہے کہ پاکستانی قومیت کو کوئی مقام مل سکے۔ یہ ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے کہ ایرانی قومیت نے عربوں کو اسلام کے رشتے کے باوجود ہمیشہ اپنے سے علیحدہ قوم کے طور پر دیکھا، اس لئے ان کے اثر کے کمزور پڑتے ہی عرب کے مسلمانوں سے علیحدگی کا سلسلہ چل پڑا جو ہنوز جاری ہے۔ یہاں تک کہ زبان کے معاملے میں بھی قرآنِ حکیم کی زبان سے قطع نظر کر کے ایرانی زبان سے عربی الفاظ کو بھی لغت بدر کر دیا گیا۔ اس اٹل تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا البتہ پاکستانی قومیت اور مذہب کے مابین رشتے ناطے کو غیر جذباتی انداز سے جانچا جا سکتا ہے۔ یہ جانچ پڑتال صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ہم تخلیقِ پاکستان اور تصور پاکستان کا سہرا اقبال کے سر باندھنے پر اصرار ختم کر دیں۔ پاکستانی قوم کو اقبال کی شاعری کے ذریعہ سمجھنے اور سمجھانے والے در اصل احمقوں کی جنت میں بسنے والی مخلوق ہیں۔ ملت اسلامیہ اور پاکستانی قوم کے مابین کوئی تضاد اور تصادم ہو یا نہ ہو لیکن تفاوت ضرور ہے۔ ملت اسلامیہ ایک آدرش اور ایک خواب ہے جس کی تعبیریں ہنوز مختلف اور متنوع ہیں۔

ایک جانب ’ پاکستانی قوم‘ کو ملتِ اسلامیہ کے مترادف تصور کرنے کی جذباتی خام خیالی ہے تو دوسری جانب ’ ’ لا دینی جمہوریت‘‘ اور جغرافیائی اور لسانی تنگ نظریوں کی اساس پر تشکیل پانے والی ’ ’ ڈیڑھ اینٹی قومیتیں ‘‘ اور درمیان میں پاکستانی شہری جن کی وابستگیاں آمرانہ تسلط کے زیر اثر ہمیشہ سے جذباتی، دائمی طور پر تغیر پذیر اور مفلوج ذہنوں کی مرہونِ منت رہی ہیں۔

جہاں تک مذہب کا تعلق ہے مشرقی پاکستان کا مسلمان مغربی پاکستان کے مسلمان کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی مذہبی رہا ہے لیکن اس کے اسلام پر ویدانت کے فلسفے کی چھاپ زیادہ گہری ہے۔ ( اسلام میں تصوف کے متنوع نظریات کی موجودگی میں، ویدانت سے کچھ خطرہ نہیں ) اور اس کی ثقافت اور اس کی زبان پر انگریزوں اور ہندوؤں کی مساعی کے زیر اثر ہندو اثرات حاوی ہیں۔ ( موجودہ بنگالی رسم الخط انگریزوں کے سازشی ذہن کی پیداوار ہے جس کا مقصد بنگالی مسلمانوں کو برصغیر کے مسلمانوں سے کاٹ دینا تھا۔ کچھ ایسے ہی مقاصد سے سندھی رسم الخط سے عربی رسم الخط کے اثرات کو ہٹا کر موجودہ سندھی رسم الخط کی تشکیل دی گئی تھی۔ ) مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین جو کشا کش ہے وہ صرف معاشی استحصال اور غیر صحت مندانہ سیاسی تسلط ہی تک محدود نہیں بلکہ اساسی طور پر اس کی حیثیت ایک طرح سے نظریاتی تصادم کی سی ہے۔ مشرقی پاکستان میں مذہب کا پلیٹ فارم جماعت اسلامی والوں نے ہتھیا رکھا ہے۔ اگر وہ اس نظریاتی آویزش سے واقف اور خائف ہیں تو اس کا تدارک انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کر کے ’ ’ بنگالی قوت‘‘ کے نظریئے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں، لیکن حکمرانوں کی منطق خالص ’ ’ خود غرضی ‘‘منطق ہے۔ ان میں نظریاتی تصادم کی سنگین نوعیت کا احساس بھی مفقود ہے۔ مشرقی پاکستان کی صورتِ حال ایک دھماکی کی منتظر معلوم ہوتی ہے۔ اور وقوع پذیر ہونے کے بعد یہ دھماکہ ممکن ہے کئی اور دھماکوں کا پیش رو ثابت ہو۔ ادب کو پاکستان میں قومی مسائل سے متعلق کرتے ہوئے ہمیں ’ پاکستانی قوم‘ سے باخبر ہونا پڑے گا۔

’ جو وہاں ہے جہاں سے اس کو بھی

کچھ اسی کی خبر نہیں آتی۔ ‘

ہمارے ادیبوں، شاعروں اور ادب سے متعلق دوسرے لوگوں میں اہلِ نظر اور اہل بصیرت کم ہیں۔ ان کی تعداد زیادہ ہے جو حقائق کے آفتابوں کو چشم خفاش سے دیکھتے آئے ہیں اور خفاش کے اس غول میں روشنی کا اثبات کرنے والوں کو فروعات سے قطع نظر کر کے اس پر غور کرنا پڑے گا اور جب ہم اساس پر غور کرتے ہیں تو پاکستان کے ادب میں قومی مسائل کی بات کرنے پر خود ہمیں ہنسی آتی ہے۔ پہلے قوم لاؤ اور پھر قومی مسائل کی بات کرو۔ فی الوقت قومیتیں پھن پھیلائے ہوئے سانپوں کی طرح ہم کو ’ ’ ہپناٹائز‘‘ کر رہی ہیں اور ہم جس مسئلہ پر سے نقاب اٹھاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نام نہاد قومی مسئلے کے عقب میں قومیت کا کوئی مسئلہ اپنا پھن پھیلا کر ہلا رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

عصر جدید، فکرِ جدید اور ہمارا ادب

 

وقت ایک رودِ رواں ہے۔ زندگی بھی ایک رودِ رواں ہے۔ وقت اور زندگی میں ازلی اور ادبی سمبندھ ہے۔ وہ زمانہ جس کو ہم زمانہ حال کہتے ہیں در حقیقت کسی حقیقت کا حامل نہیں۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کئے جا سکتے۔ خاتمہ کہیں نہیں ہے۔ کوئی کام اگر وقت کے کسی خاص لمحے میں ختم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ اس کے اثرات بھی اس کے ساتھ ختم ہو گئے ایک بہت بڑی غلطی ہو گی۔ اس کے اثرات حال میں شامل ہو کر ’ آگے بڑھتے ہوئے ‘ مستقبل میں دور تک چلے جاتے ہیں۔ گویا حال میں ماضی کے ما بعدی اثرات اور نتائج کے وہ محرکات بھی شامل ہوتے ہیں جو مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ یہ سارے اثرات، نتائج اور محرکات، آزاد اور پابند اعمال، علیحدہ علیحدہ منفرد اور ممیز اکائیوں کے طور پر موجود ہوتے ہیں بلکہ آپس میں مربوط و منسلک ہوتے ہیں، اس طرح کہ نہ تو ماضی، ماضی رہتا ہے، نہ حال، حال اور نہ مستقبل، مستقبل۔ ان حالات میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حال کی سب سے اہم خصوصیت اس کی سیا لیت ہے۔ موجودہ دور میں جدید سائنسی تحقیقات اور خاص طور پر نظریۂ اضافیت نے انسان کو اس سیالیت کا شدید احساس عطا کیا ہے۔ حال کی یہ سیا لیت تو ازل سے قائم ہے، لیکن ہم سے قبل گزرنے والی نسلوں کو اجتماعی طور پر اس کا شعوری احساس نہیں تھا۔ اگلے وقتوں کے وہ لوگ ماسوائے چند فلسفیانہ مزاج کے لوگوں کے ہم سے زیادہ سکون اور اطمینان ( یہاں ذہنی سکون اور اطمینان مراد ہے ) کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے ہاں چند ٹھوس عقائد ہوتے تھے۔ ان عقائد پر ان کے نظریات کی تشکیل ہوتی تھی۔ اشیاء کی واضح اور متعین شکلیں تھیں۔ انھیں اپنے اطراف و جوانب کی جن اشیائ، جن حقائق اور کوائفِ حیات کا علم حاصل تھا، وہ بڑی حد تک واضح تھا۔ وہ کم اشیاء کے بارے میں جانتے تھے، لیکن جو کچھ جانتے تھے اس یقینی حد تک جانتے تھے کہ مشاہدہ، علم، عقیدے کی صورت اختیار کر جاتا تھا۔ سائینس جو جدید دور میں بیشتر روایات اور عقائد کے خلاف ضربِ کاری میں مصروف ہے۔

قدیم زمانے میں سائنس اکثر و بیشتر اہم عقائد کے ساتھ صلح جویانہ رویے کی حامل تھی۔ اگر ہم اس بات کو تسلیم کر لیں کہ جدید سائنس کی بنیاد اس انقلاب پر قائم ہے جو منطق کے میدان میں ظہور پذیر ہوا تو ہم اس فکری انقلاب کے قریب تر ہو جائیں گے، جس کو فکرِ جدید کا نام دیا جاتا ہے۔ Deductive سے Inductive Logic تک پہنچنے میں انسانی فکر نے صدیوں کا وقت لیا۔ منطق کے اس انقلاب سے قبل ایک حقیقت کو بنیاد مان کر اس سے بے شمار حقائق اخذ کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد بے شمار حقائق کو پیشِ نظر رکھ کر ایک حقیقت کا انکشاف عمل میں آنے لگا۔ یہاں ہمارا مقصد اس حقیقت سے انحراف کرنا نہیں ہے کہ دونوں طریقۂ استدلال کے مابین بڑی حد تک ایک قریبی رشتہ ہے۔ انسانی فکر کو دونوں طریقے استعمال میں لانے پڑتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راجرؔ بیکن نے جدید سائنس کو نظریاتی بھول بھلیوں سے نکال کر عملی تجربات کی روشن شاہراہوں پر پہنچا دیا ہے۔ اس انقلاب نے انسان کو واضح طور پر اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ زیادہ سے زیادہ حقائق کے تقابلی مطالعہ سے ہم کسی ایک سچائی کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں لیکن یہ سچائی ایک مطلق سچائی نہیں ہو گی بلکہ جتنے زیادہ حقائق کا مشاہدہ اس کے عقب میں کار فرما ہو گا وہ اتنی ہی زیادہ سچ کے قریب ہو گی۔ اس آگاہی نے آہستہ آہستہ اپنا دائرۂ عمل وسیع کیا اور انسان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی۔ معاشرے کی بنیادیں کمزور پڑ گئیں۔ مذہب، اخلاق اور فلسفے کے بیشتر بنیادی نظریوں کے مضبوط قلعے مسمار ہو گئے۔ مستقل اقدار کی دیوارِ چین جگہ جگہ سے شکستہ ہو گئی۔ ہمارے آباء و اجداد کے عہد میں یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن آہستہ آہستہ اور کافی غیر محسوس انداز میں میرؔ اور غالبؔ کے کلام میں تصوف اور فلسفیانہ موشگا فیوں کے نام پر جو خاص موضوع ملتے ہیں وہ اس شکست و ریخت کے نمائندہ ہیں جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اگر ہم ان شعراء کے کلام کو بر صغیر کے سیاسی حالات کا نتیجہ قرار دیں اور ایک زوال پذیر سماج کو ان عناصر کا ذمہ دار ٹھہرائیں تو انگریز شاعر ٹینی سنؔ کے کلام کے بارے میں ہمارے استدلال کا کیا انداز ہو گا؟۔ وہ تو سرکارِ عظمت مدار برطانیہ کے سیاسی عروج کے انتہائی نقطۂ ارتقا کا نمائندہ تھا۔ اس کی شاعری میں جگہ جگہ یہ شعور کیوں رچا بسا نظر آتا ہے کہ ایک دنیا مر چکی ہے اور دوسری دنیا اس کی جگہ لینے نہیں پائی ہے یا پیدا نہیں ہو سکی ہے ؟۔

در اصل عصرِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ پرانی دنیا کی موت واقع ہو چکی ہے لیکن اس کی تدفین کا کام ہنوز جاری ہے۔ نئی دنیا کی تخلیق مکمل نہیں ہو پائی ہے۔ عصرِ حاضر کی سیا لیت کا یہ عالم ہے کہ ہر لمحہ اشیاء کی صورتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، سچائی کے چہرہ سے ہر لحظہ ایک نقاب کھینچ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس طرح کہ جو صورت ظاہر ہوتی ہے وہ قطعی اجنبی لگتی ہے۔ اس کے بعد اتنا وقفہ بھی گزرنے نہیں پاتا کہ آنکھیں اس صورت سے مانوس ہو جائیں کہ تحقیق کے بے رحم ہاتھ دوبارہ اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے دوبارہ ایک اور نقاب اتارا گیا اور ایک بار پھر سچ کی صورت اجنبی لگنے لگی۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آنکھیں ششدر رہتی ہیں، حواس حیران اور ادراک مایوس و پریشان!۔ سائنس، ریاضی معاشیات، تاریخ، عمرانیات اور دوسرے علوم میں اس سیالیت نے ایسی افرا تفری مچائی ہے کہ کوئی چیز قطعیت کے دائرے میں نہ رہ سکی۔ اقدار کا تعین نا ممکن العمل ہو کر رہ گیا۔ سب سے بڑی مشکل اس بات سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اس ادراک سے بھی محروم ہو گیا کہ کائنات میں اس کا اپنا مقام کیا ہے ؟۔ گذشتہ نسلوں کے آدمی کو بھی یہ ادراک حاصل نہ تھا لیکن اس کی دنیا چونکہ ایک واضح اور متعین شکل کی حامل تھی اور اس دنیا میں اشیاء کی ماہیت واضح تھی، ان کی شکلیں متعین تھیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ مستقل قدروں کا اٹل تصور تھا۔ اس لئے اس دنیا کے انسان کو اجتماعی طور پر یہ شعور حاصل تھا کہ اس دنیا میں اس کا بھی ایک خاص مقام ہے۔ اگرچہ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ مقام کیا ہے ؟۔ عصرِ جدید کا انسان تواس احساس سے بھی بہرہ مند ہے کہ اس کی دنیا کیا ہے ؟۔ ایک سیال شے اپنی مستقل شکل تو نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں اس سیالیت کے دور میں دنیا کس طرح کوئی خاص شکل اختیار کر سکتی ہے ؟۔

جو کچھ فکر کے میدان میں وقوع پذیر ہوتا رہا ہے اس سے قطع نظر دو عظیم جنگوں کے میدانوں میں جو کچھ ہوا وہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان جنگوں کے اثرات مثبت اور منفی دونوں اقسام کے اقدار کے حامی تھے، اس کے باوجود یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان عظیم جنگوں نے انسانیت پر، انسان کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔ اس کے علاوہ، اس کے بعد انسان ایک طویل نہ ختم ہونے والی سرد جنگ سے بھی دوچار ہو کر رہ گیا۔ اس سرد جنگ نے انسان کی مادی اور روحانی زندگی کو اپنے دائرہ عمل میں محصور کر لیا ہے۔ یہ تاریخ میں پہلی چیز ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عصرِ نو کے انسان کی ساری جد و جہد اور مساعی کے پس منظر میں اس سرد جنگ کے محرکات کار فرما نظر آتے ہیں۔

عصر جدید کے انسان کے بے شمار روپ ہیں۔ ایک جانب تو وہ کالی داسؔ کی مانند کلہاڑی ہاتھ میں لئے شجرِحیات کی اسی شاخ کو کاٹنے میں مصروف ہے جس پر وہ خود بیٹھا ہے، دوسری جانب خلاؤں میں پرواز کر رہا ہے تا کہ دوسری دنیاؤں کو دریافت کر سکے جہاں اپنی دنیا کی مکمل تخریب کے بعد نئی دنیا کی تعمیر کی جائے۔ اس انسان کے سر پر مشہور ماہر معاشیات مالتھسؔ کا بھوت منڈلا رہا ہے۔ اس مالتھسؔ کا جس نے سب سے پہلے اس بات کا ادراک کیا کہ انسانوں کی پیدائش میں جو اضافہ ہو رہا ہے وہ زمین کی زرخیزی اور انسان کے لئے اغذیہ کی پیداوار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے کہ انسانی آبادی اس حد تک بڑھ جائے زمین اور زمین کی حیات بخش اشیاء اس کے لئے ناکافی ثابت ہوں۔ اس انسان کے نہ تو کوئی عقائد ہیں، نہ مذہب اور نہ ہی کوئی اخلاق کے اصول۔ یوں تو وہ اپنے کمزور شانوں پر امکانات کا بھی بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے لیکن کیا صرف امکانات ان عقائد اور اصولوں کا نعم البدل ہو سکتے ہیں جن سے وہ محروم ہو گیا ہے۔ اس انسان کو یہ تو احساس ہے کہ اشیاء اور سارے عوامل اور محرکات باہم متعلق ہیں لیکن وہ ان کے باہمی ربط اور رشتوں سے نا واقف ہے۔ (کیا یہ مضحکہ خیز ہے ؟)۔ فرد اور قوم، ملک اور ملت رنگ و نسل، حاکم و محکوم، نیک و بد، سیاہ و سفید اور نہ جانے کتنے ایسے رشتے ہیں جو عصرِ حاضر کے انسان کے لئے مستقل مسائل کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کے بارے میں وہ بہت کچھ سوچتا ہے۔ بہت کچھ کہتا ہے لیکن در حقیقت کچھ نہیں جانتا۔

ان حالات میں ان فنون کی حالت تو اور بھی دگر گوں ہے جن کو ہم تخلیقی فنون کا نام دیتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کی قوتِ متخیلہ اور خلاقانہ صلاحیت پر عصرِ جدید کے بیشتر عوامل کا اہم اثر مرتب ہوا ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر کہیں باقاعدہ اور کہیں غیر محسوس طور پر ایک انقلاب ظہور پذیر ہوا ہے۔ روایات خواہ مصوری اور ثقافت کی ہوں، خواہ موسیقی اور شعر و ادب کی، یا تو قطعی طور پر ختم ہو گئیں یا اپنا وزن اور اعتبار کھو بیٹھیں۔ روایات کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہوا، اس کو پر کرنے کے لئے تجربات جاری رہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ کہنہ روایات کی جگہ نئی روایات کی تشکیل ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عصرِ حاضر کی سیا لیت نے کسی بھی تجربے کو پختگی کا موقع نہیں دیا کہ وہ روایات کی شکل اختیار کرتا۔ ایک تجربہ دوسرے تجربے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اس سے تجربات اور محض تجربات کا دور دورہ ہو گیا۔ اس سیالیت اور تجرباتی کیفیت کے خلاف طرح طرح کے ردِ عمل ہوتے رہے ہیں۔ ان میں تین قسم کے ردِ عمل زیادہ اہم ہیں۔ ایک فنون سے عام بیزاری کی صورت میں ظاہر ہوا، دوسرا خالص کلاسیکل اور قدیم روایات کی جانب رجعت کی شکل میں اور تیسرا عامیانہ اور سوقیانہ ذوق کی تشکیل کے ذریعوں کی فراوانی کا باعث بن گیا۔ ان کے علاوہ اور بھی نوع نوع کے ردِ عمل ہوتے رہے لیکن ان سب کا احاطۂ تحریر میں لانا غیر ضروری تفاصیل میں الجھ کر رہ جانے کے مصداق ہو گا۔ ردِ عمل کی پہلی صورت کے نتیجے کے طور پر کتنے ہی فارم اور اصنافِ سخن کسم پرسی کا شکار ہو کر معدوم ہو گئے۔ نہ صرف فارم بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کے مشمولات ( contents ) موضوعات اور مواد کا بھی اکثر اوقات بُرا حشر ہوا۔ ردِ عمل کی دوسری صورت بظاہر تو لائق ستائش ٹھہرائی گئی لیکن کلاسیکل روایات کے احیاء کی یہ مساعی منطقی حدود سے تجاوز کر کے اکثر وہ نوعیت اختیار کر گئی جس کو ہم محکمۂ آثار قدیمہ کے فرائض کے مماثل قراد دے سکتے ہیں۔ رجعت پسندی بہر حال رجعت پسندی ہی ہے۔ اس حقیقت کی تکذیب نا ممکن ہے کہ بیشتر کلاسیکل روایات کا مقام میوزیم کے علاوہ اور کہیں نہیں ہے۔ تیسرا ردِ عمل فن میں ابتذال سوقیت، فحاشی اور کاروباری منفعت کے اصولوں کے عمل دخل کی صورت میں ظاہر ہوا۔ فنکار اور اس کے پرستاروں کے مابین ایک تیسرا طبقہ پیدا ہوا جس کو ہم کاروباری ایجنٹوں کا طبقہ کہتے ہیں۔ ادب میں ناشر، مصوری میں سیل ایجنٹ، موسیقی، رقص اور ڈرامے میں ریڈیو، ٹیلی وژن، سینما، ریکارڈ کمپنیوں کے مالک۔ اسی طرح ہر فن میں ایسے لوگوں کا عمل دخل ہوا جو ایک جانب تو فنکار کو اور دوسری جانب اس کے پرستاروں کو لُوٹ کر خود دولت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے۔ چونکہ اس تاجرانہ ذہنیت کے افراد کو فن اور اس کے معیار، اور معیار کی بلندی و پستی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اس لئے وہ صرف اس بات پر اپنی توجہ ملحوظ رکھتے ہیں کہ فن کو بھی دوسری اشیاء تجارت کا درجہ حاصل ہو جائے، اور فنی تخلیقات کی کھپت کے لئے تجارتی منڈیوں کی تشکیل ہو سکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فنکار اور اس کے پرستاروں کے درمیان کام کرنے والا یہ حلقہ زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوتا گیا۔ تخلیقات کی کھپت کے لئے تھوک اور خوردہ بیوپاری پیدا ہوتے گئے۔ فن کی تجارت نے زور پکڑا۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی منڈیاں بن گئیں۔ کہیں کہیں باقاعدہ طور پر درآمد اور برآمد کی جانے لگی۔ بظاہر تو فنی تخلیقات کی یہ تجارت کافی دل خوش کن لگتی ہے لیکن جب فن خالص بیوپار بنا تو بیوپاریوں اور دلالوں نے اس کو رسوا کرنے میں اپنا فائدہ دیکھا۔ جن کے پرستاروں کے ذوق کو بگاڑنے میں ان کو زیادہ سہولت نظر آئی۔ ذوق کے اعلیٰ معیار کی تھوک طریقے سے تسکین آسان نہ تھی اس لئے اس میں افادیت زیادہ دکھائی دی۔ فن کے پرستاروں کے ذوق کو بگاڑنے کا یہ کام خالص تجارتی اصولوں پر کیا گیا اس لئے بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فن کو تجارت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا گیا اور فن کار سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہ کر سکا۔ جن فنکاروں نے اس کے خلاف زبان کھولی ان کی آواز نقار خانے میں چند طوطیوں کی آوازوں کی مانند گم ہو کر رہ گئی۔ شاید ان ہی حالات کے زیر اثر جب ایک ادیب نے ہنری جیمسؔ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک اعلیٰ معیار کا تخلیقی کام کرنا چاہتا ہے تو ہنری جیمسؔ نے اس کو مشورہ دیا کہ اسے اپنے جھنڈے پر ایک لفظ لکھ کر رکھنا ہو گا۔ وہ لفظ تھا ’ ’ تنہائی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج سے بہت پہلے کچھ فنکاروں کو اس بات کا شعور ہو گیا تھا کہ خارجی اور داخلی اسباب کی بناء پر فن کا معیار زوال پذیر ہو گیا ہے۔

ان حالات سے اردو زبان اور ادب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ ہر زندہ زبان کی طرح اردو بھی عصرِ حاضر کی سیالیت کو اپنانے پر مجبور ہو گئی۔ حالیؔ نے جب یہ اعلان کیا۔

؎ ’ ’ حالیؔ اب آؤ پیرویِ مغربی کریں ‘‘

تو گویا اس راستے کی ہمواری کے لیے مساعی شروع کیں جس کے ذریعے عصرِ حاضر کے رجحانات اردو شعر ادب کی حدود میں داخل ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حالیؔ، آزاد،ؔ  سر سیدؔ احمد خاں اور اس کے رفقاء کی عدم موجودگی میں عصرِ حاضر کے رجحانات اردو زبان و ادب کو متاثر نہ کرتے۔ در حقیقت عصری افکار متعدی امراض کی مانند اپنے اثرو رسوخ کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ان کے خلاف شدید سے شدید ردِ عمل بے نتیجہ ثابت ہوتا ہے۔ سر سیدؔ، حالیؔ اور آزادؔ نے تو عصری شعور کے تحت کام کیا تھا لیکن حقیقت تو یہ ہے اردو شعر و ادب میں جو انقلاب رو نما ہوا اس کی ابتدا کا بڑی حد تک غالبؔ سے تعلق ہے۔ ان کی شاعری ایک جستجو کی آئینہ دار ہے۔ انھوں نے پہلے غزل کی تنگ دامانی کو شعوری طور پر محسوس کیا اور غزل مسلسل کے انداز کی غزلیں کہہ کر غزل سے نظم کی جانب سفر کا کامیابی سے آغاز کیا۔ دوسری جانب اردو نثر کو ایک نیا لہجہ عطا کر کے اس کو اس لائق کرنے کی کوشش کی کہ عصر جدید کے مطالبات کو پورا کر سکے۔

غالبؔ کے بعد حالیؔ اگر چاہتے تو بغیر پیرویِ مغرب کے خالص مشرقی روایات کو لے کر آگے بڑھتے اور ان میں عصرِ حاضر کے مطابق تبدیلی اور تغیر پیدا کرتے۔ لیکن انھوں نے سر سید کے زیرِ اثر مغرب کی پیروی کو اپنا شعار بنایا۔ پیرویِ مغرب کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور جو گُل اس نے کھلائے ہیں اس کی تفصیل بڑی طوالت طلب ہے۔ سر سید کی تحریک کے بعد سب سے بڑی تحریک جس نے اردو شعر و ادب کو بڑی حد تک متاثر کیا، وہ ترقی پسند تحریک تھی۔ اس برِ صغیر میں ترقی پسند تحریک تین اہم محرکات کی حامل رہی۔ مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ایک جانب تو اشتراکی عقائد، دوسری جانب فرائڈؔ کے جنسی نظریات اور تیسری جانب آزادیِ وطن کے جذبات، ترقی پسند تحریک کو ایک مخصوص شکل دے رہے تھے۔ خاص طور پر انگریز سامراج کے خلاف ذہنی اور جذباتی ردِ عمل نے ترقی پسند تحریک کو نہ صرف اردو بلکہ برِ صغیر کی تمام زبانوں اور بولیوں میں مقبول بنا دیا تھا۔ ترقی پسند تحریک کے علم بردار ادب کے افادی پہلو پر زیادہ نظر رکھتے تھے اس لئے آہستہ آہستہ یہ تحریک اشتراکی عقائد کے پرچار کا ذریعہ بن گئی۔ چونکہ اس تحریک کا عمل دخل دنیا کے اکثر ممالک میں ہوا اور اس طرح برِصغیر کی ادبی تحریکیں دنیا کے دوسرے ممالک کی ادبی تحریکوں سے مربوط اور متعلق ہونے لگیں۔

جب تک انگریز سامراج کے خلاف جنگِ آزادی جاری رہی تب تک ہمارے ادیب اور شاعر کے سامنے ایک واضح لائحہ عمل رہا۔ ترقی پسند تحریک کے موافق اور مخالف دونوں مکتبۂ فکر کے اہل قلم اس لائحہ عمل سے روشنی مستعار لیتے رہے۔ اس کے بعد تقسیم ہند کا اہم واقعہ رونما ہوا اور پھر پاکستان اور ہندوستان کے لوگ نئے ملکوں کے فطری مسائل میں مصروف ہو گئے۔ اسی دوران فسادات کا سانحہ پیش آیا۔ اس سانحے کو کم از کم ادب کی تاریخ میں مخصوص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے بعد وہ دور شروع ہوا جس کو ہم جمود کا نام دیتے ہیں۔ اس جمود کا بڑا سبب فسادات کی وہ شدید ضرب ہے جس نے ادبی اقدار کو کیا اخلاقی اور انسانی اقدار کو بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ تخلیقی قوتوں میں کمی اور فن میں جمود کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟۔ بالا آخر جمود ہی کے شعوری احساس نے تخلیقی قوتوں کو جھنجھوڑا اور دوبارہ تخلیقی کارناموں کی ابتدا ہوئی۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ جمود کو توڑنے والے ان فنکاروں میں اجتماعی کام کا رجحان مفقود تھا۔ در اصل اب ایسا کوئی محرک ہی موجود نہ تھا جو فنکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر سکتا۔ ایک جانب تو ساری دنیا میں عصرِ حاضر کی سیالیت اپنا کام کر رہی تھی جس سے اردو زبان و ادب بھی متاثر ہونے پر مجبور تھے۔ دوسری جانب اجتماعی جد و جہد کا شعور ختم ہو چکا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر چھوٹے بڑے فنکار نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کر لی۔ روایات کمزور سے کمزور تر ہو گئیں اور طرح طرح کے تجربات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نثر کے میدان میں کچھ مصنفوں نے زیادہ ثابت قدمی دکھائی۔ افسانے اور ناول کے فارم میں بھی مغربی فن کے اثرات نے نمایاں تغیرات پیدا کئے۔ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ناول کے فارم میں تجربات کی نوعیت زیادہ گہرائی اور گیرائی کی حامل ثابت ہوئی۔ پریم چند سے قراۃالعین حیدر تک ناول کے فن نے ایک طویل اور مہمات سے بھر پور سفر کافی کم وقت میں طے کیا۔ ایک اور دلچسپ بات جو اس سلسلے میں قابلِ غور ہے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح ’ ’ گؤدان‘‘ کے بعد بڑی مدت تک ناول نگاری اس منزل سے آگے نہ بڑھ سکی اسی طرح ’ ’ آگ کا دریا‘‘ کے بعد شاید کافی عرصہ تک ہر ناول کسی نہ کسی انداز میں اس عظیم ناول کے تاثرات کا گہرا نقش لئے آئے گا۔

اردو کے شعری ادب کے ضمن میں فکرِ جدید کا سب سے بڑا مسئلہ اجتماعیت کے اس فقدان سے متعلق ہے جس کی جانب اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اقبال نے تو اپنا شاعرانہ مسلک ہی ایسا وضع کیا تھا کہ انھیں شاعر کی حیثیت سے تنہا کام کرنا پڑا تھا۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی کو کیا کہئے کہ جوشؔ جو نوجوان ترقی پسند شعراکے مربی کے طور پر ان سے منسلک تھے۔ بالآخر ان کی محفل سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دئیے گئے۔ فیض احمد فیض یوں تو خاصے اجتماعی شعور کے نمائندہ دکھائی دیتے ہیں لیکن جب ان کے رفقاء کار اپنی انفرادیت کے طلسم میں گم ہو گئے تو ان کو بھی تنہائی کی سزا یا جزا نصیب ہوئی۔ پابند نظموں اور غزلوں سے قطع نظر کر کے اگر ہم صرف بلینک ورس کے فارم پر ہی غور کریں تو ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ روایات سے قطع تعلق کرنے کے بعد اگر اجتماعیت کے شعور کا سہارا بھی نہ ملے تو عظیم سے عظیم فنکار کی حالت کٹے ہوئے پتنگ جیسی ہو کر رہ جاتی ہے۔ ن۔ م۔ راشدؔ کی ’ ’ ماورائ‘‘ اور ’ ’ ایران میں اجنبی‘‘ کے درمیان سب سے بڑا فرق جو محسوس ہوتا ہے یہ ہے کہ ’ ’ ماورائ‘‘ کا شاعر ایک ایسی شاہراہ پر گامزن ہے جس پر اس کے بہت سے ہم نوا چل رہے ہیں لیکن ’ ’ ایران میں اجنبی ‘‘ کا شاعر اس احساس سے محروم ہے۔ راشدؔ کو خاموشی اور سناٹے کا ایسا ادراک ہوا ہے کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے۔

؎ ایسا سناٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں

فیضؔ محرومی کا اعتراف تو نہیں کرتے بار بار لہجہ بدل بدل کر اپنے رفیقوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔ کبھی یوں نعرہ زن ہوتے ہیں۔

؎ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے !

اور کبھی دھیمے لہجے میں التجا کرتے ہیں۔

؎ قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو !

جب تک ہم کسی تیز و تند دھارے کی زد میں بہتے ہیں، ہماری رفتار تیز اور ہماری سمت متعین رہتی ہے۔ لیکن جب ہم دھارے سے کٹ جاتے ہیں تو نہ ہی ہماری سمت مستقل طور پر قائم رہتی ہے اور نہ بہاؤ کا زور اور رفتار کی تیزی۔۔ ۔ یوں بھی تجربات کا لا متناہی سلسلہ کوئی صحت مند رجحان نہیں ہے۔ تجربہ پختگی کے التزام کے بغیر اطفال کی بازی گری سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جہاں تک تجربے کی افادیت کا تعلق ہے اس سے انکار کی گنجائش کم ہے لیکن تجربہ تو صرف تلاش کا مظہر ہے۔ تجربہ خود مقصد نہیں ہے بلکہ کسی عظیم تر مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ تجربہ برائے تجربہ اور تلاش برائے تلاش ایک فعلِ عبث کے سوا کچھ نہیں۔

٭٭

’ ’عصرِ جدید، فکرِ جدید‘‘۔۔ ۔ نئی قدریں۔ حیدرآباد۔ سندھ

٭٭٭

 

 

 

 

آج کی دنیا میں مطالعہ شعر و ادب

 

آج کی دنیا کو ہم سائنس اور ٹیکنا لو جی کی دنیا تو کہہ سکتے ہیں لیکن صورتِ حال اتنی سادہ نہیں ہے۔ سائنس اور ٹیکنالو جی کسی نہ کسی شکل میں روز اول سے ہے البتہ آج کے دور میں انسان نے اس میدان میں اتنی زیادہ اور اتنی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے کہ انسانی زندگی کا سارا منظر ( سناریو) اس کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔ در حقیقت آج کی دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ چھوٹے بڑے بے شمار عوامل کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ یہ سب مل کر اس کو اتنا پیچیدہ Complex بنا رہے ہیں کہ اس کی مجموعی تصویر کا ادراک نا ممکن اور ابلاغ خارج از گمان ہے۔ جدید سائنس اور ٹیکنالو جی کی سوغات ’ ’ کمپیوٹر ‘‘ اپنی اعلیٰ ترین شکل میں بھی نہ تو اس کو گرفت میں لے سکتا ہے اور نہ ہی پیش کر سکتا ہے۔ ان عوامل کی نشاندہی، ان کا تذکرہ اور شمار مختصر سے مختصر طور پر بھی وقت طلب ہے، تاہم چند ایک اہم عوامل کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے، جب آج کی دنیا کو ہم اپنے ادراک کے احاطے میں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں توسائنس اور ٹیکنالوجی معمولاتِ زندگی میں شامل ہونے کی بنا پر قریب قریب غیر محسوس ہو کر ہمارے مشاہدے کے اکناف میں رو پوش ہو جاتے ہیں۔ یوں بھی شعر و ادب اور سائنس کے مابین کھلا تصادم کسی بھی عہد میں نہیں دیکھا گیا۔ خاص طور پر وہ آ ویزش جو سائنس اور مذہب کے مابین دیکھنے میں آئی، سائنس اور شعر و ادب کے معاملے میں بہت کم دیکھنے میں آئی۔ اہل کلیسا نے توسائنس دانوں کو مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا تھا۔ ادیان سے تشکیل پانے والے معاشرے نے اپنے جبر کے دروازے سائنس دانوں اور سائنس پر وا کئے۔ فلسفے کا معاملہ اس کے بر عکس رہا۔ منطق کے اصول بدلے محض ڈیڈکشن Deduction کو رد کر کے اِنڈکشن Induction کی جانب رجوع نے ایک جانب سائنس کو اساس فراہم کی اور تجرباتی سائنس کی راہیں کھول دیں تو دوسری جانب فلسفے اور فلسفیانہ فکر کی پرانی بنیادوں کو ڈھا کر منطقی فکر اور تجزیاتی سوچ کی اساس پر استوار کر دیا۔ انسان نے پہلی بار مادے کی ماہیت کا ادراک پا لیا۔ شعر و ادب اور سائنس کے درمیان جو رشتہ استوار ہوا وہ ہمہ جہتی اور قدرے پیچیدہ رہا۔ سادہ انداز میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعر و ادب میں تخیلاتی اڑان کے طور پر جو چیزیں داخل ہوئیں ان کو سائنس نے اپنی ایجاداتی سر گرمیوں سے حقیقی روپ عطا کر دیا۔ اُڑن کھٹولے، اڑنے والے گھوڑے اور قالین آج حقیقی دنیا میں آ موجود ہوئے، سائنس نے شعر و ادب کو اس طرح سے انسانی سماج میں اعتبار کا درجہ دلا دیا۔ آج کا شاعر اور ادیب واقعیت سے ہٹی ہوئی یہاں تک کہ ماورائی اور خالص تخیلاتی تخلیقات پیش کرنے سے بھی نہیں ہچکچا تا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے قاری اس ایقان سے بہرہ ور ہو چکے ہیں کہ سائنس نے اپنی نت نئی ایجادات سے شعر و ادب کے مطالعے کو زیادہ سہل اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ آج شعر و ادب کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ان کے کیسٹ بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔ ٹیپ بھی ملتے ہیں۔ انٹر نیٹ کی مدد سے بھی شعر و ادب کا مطالعہ ممکن ہو گیا ہے۔ ریڈیائی اور برقی ذرائع ابلاغ بھی شعر و ادب پیش کرنے میں پیش پیش ہیں۔ کتابوں کی طباعت آسان سے آسان اور تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ اب رہی قاری کے مزاج کی تبدیلی۔ مثال کے طور پر یہ سوچنا کہ سائنسی اساس پر تشکیل پائے ہوئے سماج میں مطالعہ ادب کی کتنی گنجائش ہے، تو اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ سائنس خود بھی جس سماجی زندگی کی جانب آدمی کو لے جاتی ہے وہ توازن کا طالب ہوتا ہے۔ اس صدی ہی کا نہیں بلکہ اس ہزارویں کا سب سے عظیم سائنس دان آئن اسٹائن کلاسیکی موسیقی کا دلدادہ تھا اور خود بھی ساز بجا لیتا تھا۔ ہمارے بیشتر قاری اس بات سے واقف ہوں گے کہ وہ مجلسی زندگی سے بیزار اور اس حد تک عزلت گزیں تھا کہ لوگ اسے غار میں رہنے والا کہا کرتے تھے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سائنس کے ساتھ ادب و فنون کی تعلیم کو ثانوی مدارس کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی سے شعر و ادب کی ترویج پر قدغن نہیں لگی بلکہ اس ضمن میں ذمے داری آج کے افادیت پسند سماج Utilitarian Society پر ڈالی جا سکتی ہے۔ آج کے آدمی کو ہر عمل کا مادی بدل چاہیے۔ کوئی ایسا عمل جو بعد میں جا کر ڈالر یا روپے میں تبدیل نہیں ہوتا آج کے آدمی کے لئے نا قابلِ قبول ہے۔ ہر عمل، ہر کام، ہر محنت کے لئے لازم ہے کہ وہ پیداواری Productive ہو اور واضح طور پر پیدا واری ہو۔

شعر و ادب بھی اور دوسرے فنون بھی کبھی کبھار خاصے پیداواری ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن لازمی طور پر اور واضح طور پر ایسے نہیں ہوتے۔ مجموعی صورتِ حال شعر و ادب کو غیر پیداواری مشقتNon Productive Labour کے طور پر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ احسان دانشؔ اپنے آخری ایام میں بیگم کو یہ لکھ کر تسلّی دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس مشاعرے سے جو پیسے ملیں گے ان سے میرے کفن دفن کا انتظام کر لینا۔

آج کے معاشرے کی کسوٹی پر شعر و ادب بے فائدہ مصروفیت اور مشقت ہے۔ یہ معاشرہ شعر و ادب کو اس حد تک گوارا کرنے پر تیار ہے جس حد تک وہ اس معاشرے کو تفریح اور زندگی کی تلخیوں سے فرار کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ یوں تو شعر و ادب پر کڑا وقت پہلے بھی آ چکا ہے۔ افلاطون نے اپنی مثالی ریاست سے ان کو دیس نکالا دیا تھا۔ یہ فلسفے کی ایک نوع کی انتہا پسندی تھی تو دوسری جانب مذہب کیء انتہا پسندی کٹر ( پیورٹین Puritan ) بنیاد پر لندن میں ڈرامہ تھیٹر کی بندش تک جا پہنچی تھی۔ اشتراکی سماجوں میں بھی شعر و ادب کو پرولتاری افادیت کی بنیادوں پر پسندیدہ اور نا پسندیدہ گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آج جو وقت شعر و ادب پر آن پڑا ہے وہ کچھ زیادہ ہی کڑا ہے۔ شعر و ادب کو ایک کموڈیٹی کے طور پر دیکھنا ایک خطرناک رجحان ہے اس طرح ہم ان کو طلب و رسد کے قوانین کے تحت لے جا رہے ہیں۔ شعر و ادب اپنے اعلیٰ معیار کے ذریعے قاری کے ذوق کو محض تسکین ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ اس کی تہذیب و تدوین بھی کرتا ہے۔ طلب و رسد کے قانون کے تحت شعر و ادب کا مطالعہ اس پر مشروط ہو جاتا ہے کہ معاشرے کی طلب کے مطابق اگر شعر و ادب کی رسد ہے تو وہ قابلِ قبول ہے، اس طرح کا ’ ’ قابلِ قبول ‘‘ ادب، ادبِ حالیہ تو ہو سکتا ہے لیکن ادب عالیہ نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ان دنوں کامیڈی کا بڑا شور ہے لیکن معیار، معیار بالکل پست نہ بھی ہو تو اعلیٰ نہیں۔ مجموعی طور پر شعر و ادب میں آج کے رواجی موضوعات جنگ، جنس اور تشدد ہیں۔ اگر ان میں دہشت گردی کا اضافہ کر دیا جائے تو یہ فہرست زیادہ قریبی update ہو جائے گی۔ ان موضوعات میں مزاحمتی ادب کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، یہ موضوعات جو آج کے عالمی شعر و ادب کا مزاج تشکیل دے رہے ہیں۔ قدراً سطحی ہے کیونکہ آج کا معاشرہ بھی مزاجاً سطحی ہے۔ اس معاشرے میں جو کچھ لمحاتی، گزراں اور تیز رفتار ہے۔ اس معاشرے کے شعر و ادب کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، لمحاتی، گزاراں، رواں اور سطحی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 اردو شاعری کی بند گلی

 

 (۱)

 

اردو شاعری کا جب ہم مغربی شاعری، امریکی شاعری یا ہندوستان کی بعض مقامی زبانوں کی شاعری سے تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو شاعری یا تو ایک مقام پر کھڑی ہو گئی ہے یا اگر چل رہی ہے تو اس کی رفتار اس گھونگے (SNAIL ) کی مانند ہے جو اپنے گھر کو پشت پر اٹھائے رینگتا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ اب تک اردو شاعری میں تین بڑے شاعر ہو گزرے ہیں۔ ان کے نام بھی آپ کی زبان پر ہوں گے۔ میر، غالب اور اقبال۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ غالبؔ کی شاعری کا چھوٹا سا لیکن خاصا گنجلک اور بھرپور دائرہ بھی، میرؔ کی شاعری کے بڑے دائرے میں سما جاتا ہے تو اس صورت میں دو ہی شاعر رہ جاتے ہیں۔ میرؔ اور اقبالؔ۔ میر اور اقبال کے بعد ہمیں کوئی قابل ذکر شاعر نظر نہیں آتا البتہ چند آوازیں ملتی ہیں جو میر اور اقبال سے قدرے مختلف ہیں لیکن یہ آوازیں دبی دبی سی ہیں۔ جہاں تک تحریکات کا تعلق ہے ان کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن سر سید کی تحریک نے اردو شاعری کو آزادؔ اور حالیؔ  دیئے جن کے بطن سے اقبالؔ  پیدا ہوئے۔ ترقی پسند ادب کی تحریک نے فیضؔ کو کھڑا کیا لیکن ان میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ اقبالؔ  کے آگے شاعر کے طور پر آتے، اپنی انفرادیت کے ساتھ، تھوڑی بہت مقبولیت ان کے حصے میں ضرور آئی۔ وہ تو قدرت کی دین ہے۔ ان کے انقلاب کے نظریے میں رومان کا رنگ تھا اور ان کے لہجے میں میرؔ و سوداؔ کے لہجے میں میر اور سوداؔ کے لہجوں کا جادوئی امتزاج تھا جو کام دکھا گیا۔ ن۔ م۔ راشدؔ نے نظم کی شاعری کی جو اردو شاعری میں صحیح معنوں میں موجود نہیں تھی، لیکن وہ بھی محض آواز ہی ہو رہے۔ آج کی اردو شاعری فیضؔ اور راشدؔ یا میرا جیؔ ، یا مجید امجد کی آوازوں سے آواز ملا رہی ہے۔

اس صورتِ حال میں اس شاعری کو ہم کس طرح زندہ، متحرک اور فعال کہہ سکتے ہیں۔ ؟ اردو شاعری کی اس سست روی اور انجماد کی ذمہ داری کم از کم میں اردو شاعروں پر لادنا نہیں چاہتا۔ ادب شعر و فن سماج کی مٹی میں اگتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ ہر ادیب شاعر اور فنکار سے ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ سماج او سماجی قدروں سے ٹکر لے اور ان کا رخ موڑ دے۔ ایسی توقع بے جا ہو گی۔ اردو شاعری جس سماج کی پیداوار ہے وہ ایک جانب قبائلی اقدار میں جکڑا ہوا ہے تو دوسری جانب وڈیروں، جاگیرداروں، خانوں، راجاؤں، رئیسوں اور مقتدرِ اعلیٰ طبقے ( جس میں حکمران شامل ہیں ) کے استحصالی ہتھکنڈوں کے حصار میں ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو شاعری میں کچھ نیا سوچنے اور نیا تخلیق کرنے کی گنجائش نہیں ملتی۔ عوام کے استحصال پر قائم و دائم اس سماج میں صرف وہی قابلِ قبول ہے جو آزمودہ ہے، فرسودہ ہے، لگا بندھا ہے، لکیر کا فقیر ہے۔ یہ سماج نئی سوچوں اور نئی حسیات سے خائف ہے۔ اردو شاعری کے مقابلے میں مغربی ممالک کی شاعری، امریکی شاعری اور ہندوستان کی بعض مقامی زبانوں کی شاعری کو وہ آزادی میسر ہے جو شعر، ادب، اور فن کی ثقافتی اقدار کی پرورش میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ شعر، ادب اور فن کے تخلیقی سوتے کھلے رہے۔ شعر، ادب اور فن کے اشاعتی اور تشہیری وسائل نے بھی تخلیقی پیداوار پر کم سے کم قدغن لگائے۔ چھوٹے ذہنوں نے بڑے ذہنوں کی تخلیقی اڑانوں کے لئے برداشت پیدا کی۔ اظہار رائے کی آزادی نے اختلاف رائے کو احترام بخشا اور اس احترام نے منافقت کے لئے جواز باقی نہ رکھا۔ سچ سامنے آنے لگا۔ تخلیق کار نے تخلیق کے ساتھ انصاف کیا۔ تخلیق کار کو یہ سوچنا نہیں پڑا کہ اس کی تخلیق، اس کی سوچ اور اس کی حسیّت کو قبول کیا جائے گا یا رد، کیونکہ وہ دونوں صورتوں کے لئے تیار رہتا ہے۔ تخلیقی قوتوں کو کام کرنے کے لئے سازگار ماحول کا ملنا بڑی بات ہے اور سب سے بڑی بات تخلیق کار کے ذہن میں تخلیق کے علاوہ کسی اور خیال کا نہ ہونا۔

امریکی شاعری کے کسی انتخاب پر ایک نظر ڈالنے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ تخلیقی شاعری کے انتخاب میں تخلیقی توانائی اور ہمہ جہتیت کو پیشں نظر ہی نہیں رکھا گیا ہے بلکہ ان کو اوّلیت بھی دی گئی ہے۔ اس ضمن میں آپ ہر سال ہونے والے مختلف انتخاب میں کسی انتخاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ کسی خاص انتخاب کی تخصیص نہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت میرے سامنے امریکی معاصر شاعری کا ایک انتخاب پوئٹری180 ( ذیلی سرخی ’ ’ شاعری کی طرف واپسی ‘‘ ) ہے۔ امریکہ کے ملک الشعرائ ( Poet laureate) بلیؔ کولنس ( Billy Collins ) نے ان نظموں کا انتخاب ہائی اسکول کے طلبہ کے لئے کیا ہے۔ ہر روز ایک نظم کے حساب سے 180 نظمیں کتاب میں درج اور ویب سائٹ پر پڑھی گئی ہیں۔ بلی کولنس کا خیال یا ان کی آرزو یہ ہے کہ اس طرح وہ نئی نسل کو شاعری کی جانب رجوع کرانے میں کامیاب ہوں گے۔ اگرچہ نظموں کا یہ انتخاب اعلیٰ شاعری کے معیار پر نہیں ہے کیونکہ ہائی اسکول کے لیول کے مطابق ہے لیکن ان نظموں کے موضوعات اور اسالیب میں اس قدر تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔ اس میں شامل ایک سو اسی نظموں میں ہر نظم دوسری نظموں سے مختلف ہے۔ یکسانیت کا نام نہیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا۔ ؟ جب میں یہ سوچتا ہوں تو اس سوال کا ایک ہی جواب ملتا ہے اور وہ جواب یہی ہے کہ انتخاب کرنے والے نے کھلے ذہن کے ساتھ انتخاب کیا اور تخلیقی ذہن کی مختلف الجہتی کو وقعت دی۔ اس انتخاب میں بلی کولنس نے ہائی اسکول کو ذہن میں رکھا ہے اور اس کے خیال میں ہائی اسکول ہی وہ مقام ہے جہاں شاعری کی موت واقع ہوتی ہے۔ ہائی اسکول کی عمر، کچی عمر، نوجوانی کی عمر (adolescence ) جلد بازی کی عمر ہوتی ہے جس میں تیز روی ہی سب کچھ محسوس ہوتی ہے۔ نبض کی ایک ضرب کے دوران صفر سے ساٹھ تک پہنچنا ہوتا ہے۔ دوسری جانب شاعری دھیرج اور نرم روی کی طالب ہے۔ چنانچہ ہائی اسکول کا طالب علم شاعری ’ ’ بور ‘‘ گردانتا ہے۔ ہائی اسکول میں شاعری کا کچھ اس طرح مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ؎

میں انگریزی سمجھتا ہوں

یہ نظم انگریزی زبان میں ہے

مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ

نظم کیا کہہ رہی ہے۔

جہاں تک نظم کے کچھ کہنے کا تعلق ہے بلی کولنسؔ انتخاب کے پیش لفظ میں ایک مقام پر یہ بھی کہہ چکا ہے، ’ ’ یہ جو کلاس روم میں اس پر زور دیا جاتا ہے کہ کسی نظم کا مطلب کیا ہے شاعری کی روح کو قتل کرنے میں کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘ آگے جا کر وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ مطلب یا مفہوم سمجھنا بھی باعثِ لطف ہے لیکن ساتھ ہی وہ واضح کر دینا چاہتا ہے کہ اس کے چکر میں شاعری کے بے شمار دیگر مزوں سے بے بہرہ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ ان دیگر مزوں میں چند کا تعلق بحر، آہنگِ استعارے اور تخیل کی اڑان سے ہے۔ بلیؔ کولنس نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اس کا مقصد ہائی اسکول کے طلبہ کو عصری شاعری کی نئی آوازوں سے روشناس کرانا ہے۔ اس نے اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی ہے کہ اکثر شعری انتخابوں میں مرحوم اور زندہ شاعروں کا تناسب (9: 1 ) ہوتا ہے۔ اس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ نظموں کے انتخاب میں اس نے ہائی اسکول کے طلبہ کے پسند کے موضوعات کو بھی نظر میں رکھا ہے۔ مارک ہیلی ڈی اورجم ڈائینل کی نظموں کا موضوع ’ کاروں ‘ سے متعلق ہے۔ نِک فلینؔ کی نظم کارٹون سے تعلق رکھتی ہے۔ ایڈورڈ ہرشؔ باسکٹ بال اور لوئی جنکن کی نظم فٹ بال پر ہے۔ ماؤں اور بیٹوں، باپوں اور بیٹیوں پر نظمیں شامل ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ انتخاب ہائی اسکول کے طلبہ کے علاوہ دیگر پڑھنے والوں کے لئے بھی ہے، ان کے لئے بھی جنہوں نے ہائی اسکول میں نہیں پڑھا۔ مثال کے طور پر اس انتخاب میں نومی شہابؔ نائی کی نظم ’ ’ محمد زید عمری ‘‘ شامل ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ بلی کولنس نے اپنے پیش لفظ میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ رچرڈؔ جونس کی مختصر نظم بھی میں نے اس انتخاب میں دیکھی ہے۔ جس کا عنوان ہے ’ ’ سپید تولئے ‘‘ اس میں تنہائی اور اکیلے پن کے فرق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس نظم میں تولئے اولاد کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ ٹڈ کو سرؔ کی نظم ’ ’ قاری کا انتخاب ‘‘ تنگدستی کے موضوع پر ایک خوبصورت مگر دل خراش نظم ہے۔

ایک مرتبہ پھر میں اپنے پڑھنے والوں کو اس مسئلے کی جانب رجوع کرانا چاہتا ہوں کہ اردو شاعری کی تخلیقی قوتوں کو ایک تنگ گلی میں مسدود کر دیا گیا ہے۔ جبکہ امریکی شاعری کو فنی اور تخیلی پرواز کے لیے فضائے بسیط میسر ہے۔

 

(۲)

 

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اردو شاعری بندشوں میں جکڑی ہوئی اور اس کے مقابلے میں امریکی شاعری، مغرب کی شاعری حتیٰ کہ ہندوستان کی چند دیگر مقامی زبانوں کی شاعری زیادہ آزاد ہے تو ہماری یہ مراد نہیں ہوتی کہ ان پر معیار اور قدر کی ضروری پابندیاں عائد نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے اور اس طرح کی توقع کی بھی نہیں جا سکتی۔ اس سے قبل ہم ایک شعری انتخاب پر بات کر رہے تھے۔ اُس وقت ہمارے پیشِ نظر امریکہ کے ملک الشعراء بلی کولنسؔ کا ایک انتخاب تھا۔ وہ انتخاب ہائی اسکول کے طلباء کے لیے کیا گیا تھا، اگرچہ کولنسؔ نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ اس میں شامل نظمیں ان کے لیے بھی ہیں جنہوں نے ہائی اسکول نہیں پڑھا ہو۔۔ ۔ 2006 میں بلی کولنسؔ کا ایسا انتخاب شائع ہوا جو اس سال کی بہترین امریکی شاعری کا نمائندہ تھا۔

اس انتخاب کے پیش لفظ میں بلی کولنسؔ اپنے ایک دوست کی اس رائے سے اتفاق کرتا نظر آتا ہے کہ عصری شاعری ( امریکی ) کا 83 فی صد پڑھنے کے لائق نہیں ہوتا لیکن فوراً ہی وہ اعتراف کرتا ہے باقی کی 17 فی صد شاعری ایسی ہے جس کے بغیر ہم مفلس رہ جائیں۔ 2006 کے انتخاب کے ضمن میں وہ یہ بتاتا ہے کہ اس نے ایک ہزار سات سو چون ادبی مجلّوں سے نظمیں لیں اور ان کے علاوہ ریڈیو سے بھی نظمیں حاصل کیں۔ اس پہلے مرحلے میں انتخاب نہیں کیا۔ جو کچھ چھپا اور جو کچھ نشر ہوا وہ سارا کا سارا جمع کیا۔ ( اردو شاعری میں پہلے مرحلے کا یہ کام اس طرح نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نمایاں فرق ہے )، پہلے دیانت داری اور محنت سے اس سال کی نظموں کا ایک انبار لگا کر۔۔ اس میں سے پچھتر (75 ) سوئیاں ( نظمیں ) الگ کیں اور اپنے انتخاب میں درج کیں۔ اس کام کو انجام دینے کے طریقہ کار کو بھی وہ دیانت داری سے بیان کرتا ہے۔ ’ ’ اس بڑے انبار سے ان نظموں کو ایک علاحدہ ڈھیری میں ڈالتا گیا جن کو میں شروع سے آخر تک نہ پڑھ سکا۔ اس طرح بڑی اور ایک خاصی چھوٹی ڈھیری نظموں کی حاصل ہوئیں۔ چھوٹی ڈھیری میں وہ نظمیں تھیں جنہوں نے اپنے آپ کو پورا پڑھایا تھا، یا یوں کہئے پڑھنے پر مجبور کیا تھا۔ اس دوسری یعنی چھوٹی ڈھیری سے صرف ان نظموں کو لیا گیا جو دوسری مرتبہ پڑھنے کے لائق لگیں۔ خاص طور پر وہ جو ایک بار پھر پہلی لائن سے اپنے آپ کو پڑھوا رہی تھیں۔ ‘‘ ذاتی پسند اور ذاتی نا پسند کے مسئلے پر زیادہ بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے وہ اپنی نیت کو واضح کر دیتا ہے جب وہ یہ کہتا ہے۔

’ ’ مجھے ہمیشہ یہ توقع رہی کہ میں کافی تعداد میں بہت اچھی نظمیں ڈھونڈ نکالوں گا، ایک ایسی اشاعت کے لئے جو آج امریکہ میں لکھی جانے والی شاعری کی توانائی Strength اور تخیّلی تنوعImagination diversity کو دکھا سکے۔ ‘‘

پاکستان میں اور خاص طور پر اردو شاعری ( آج کی ) پر بات کرتے ہوئے کوئی مائی کا لعل ثانی الذکر کو عزت دے گا۔

آپ نے دیکھا بلی کولنسؔ نے مجموعی اعتبار سے شاعری میں قوت، طاقت اور توانائی کے علاوہ تخیل اور تخیل کی صد رنگی کو زیادہ اہمیت دی۔ ان کے بعد وہ فارم Formکو بے حد ضروری خیال کرتا ہے لیکن فارم سے وہ کیا مراد لیتا ہے، اس کا سمجھنا دشوار ہے۔ جو کچھ میری سمجھ میں آیا وہ فارم نہیں بلکہ فارم کا احساس ہے۔ اگر شاعر اپنی نظم میں پڑھنے والے کو ایسا احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ نظم اسے لے کر چل رہی ہے او کہیں نہ کہیں پہچانے والی ہے تو گویا وہ اپنی نظم کو ایک فارم دے رہا ہے۔ قافیئے اور بحور کی پابندی کو والٹ وٹ میں کی بغاوت یا جدت پسندی نے بڑی حد تک نکال باہر کیا تو اس کی جگہ صوتی فضا اور آہنگ نے لے لی۔ ایک اچھی نظم ایک مخصوص آہنگ کے توازن کو برقرار رکھتی ہے۔ اصلی Authentic لفظ اور نقلی False لفظ اپنی آواز ہی سے پہچانا جاتا ہے۔ پڑھنے والے کے کان اُس کو سن لیتے ہیں۔

اس انتخاب میں شامل نظموں کے بارے میں ان شاعروں کی اپنی وضاحتیں بھی علاحدہ درج کی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں بلی کولنس لکھتا ہے۔

’ ’ شاعر اپنی نظموں پر جو تبصرہ کرتے ہیں وہ لائق اعتماد نہیں ہوتا۔ ‘‘ لیکن میں نے ان تبصروں کو اکثر اوقات دلچسپ، پر لطف اور مفید پایا۔

مثال کے طور پر نیو یارک میں 1939 میں پیدا ہونے والا لنک ٹی کٹ کی ایک جھیل ( تھرش ووڈ) کے قریب ایک جھونپڑی کے کاٹیج میں قریباً بارہ ہزار کتابوں، گوتم بدھ کے بے شمار مجسموں اور اپنی شاعر بیوی ایل این ایلن کی رفاقت میں زندگی بسر کرنے والا نیم بدھی اور نیم عیسائی شاعر ڈک ایلن Dick Allen اپنی نظم ’ ’ اہرام کو نیل کے کنارے دیکھو ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔

’ ’ بیشتر دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اکثر نظموں اور گیتوں کے فقرے اپنے سر میں لے کر بیدار ہوتا ہوں۔ موت حسن کی ماں ہے، Death is the mother of beauty۔ زمیں محبت کرنے کے لئے صحیح جگہ ہے۔ Earth the right place of love، اسی طرح ایک صبح گیت ’ تم میرے ہو‘ You belong to me کا ایک مصرع see the pyraminds along thw Nile لے کر اٹھا۔ سارا دن یہ فقرہ میرے سر میں آتا جاتا رہا۔ آخر میں یہ سمجھنے پر مجبور ہو گیا کہ مجھ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ میری سیاحت جلد ختم ہونے جا رہی ہے۔ میں اب کبھی شخصی طور پر دریائے نیل کے ساتھ اہرام نہ دیکھ پاؤں گا۔ جیسے ہی نظم آغاز ہوتی ہے میں دروازوں کے بند ہونے کے تلخ و شیریں bittersweet احساس کو گرفت میں لانے میں مصروف ہوتا ہوں یا ابتدائے عمر کے ان برسوں کو جب زندگی بس سبزہ زاروں اور نیلے آسمانوں پر مشتمل لگتی تھی یاد کرنے میں ( بغیر جذباتی ہوئے کیونکہ ایسی نظموں سے جذباتیت کو نکال باہر کرنا ہوتا ہے )۔ نظم کے اختتام پر بولنے والاSpeaker اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے جس کو ہم اکثر یاد رکھتے ہیں اور بھولتے ہیں کہ زندگی ہمیں کروڑوں اتفاقات، مواقع اور انتخابات کے مقابل کرتی ہے جن میں سے اگر ہم کسی اور کو اختیار کرتے تو ہم کسی اور سے شادی کرتے، کسی اور جگہ رہتے اور کوئی اور بن جاتے۔۔ ‘‘ آپ نے ملاحظہ فرمایا ڈک ایلنؔ نے نظم کے شانِ نزول، آغاز اور انجام کے بارے میں کیا کہا۔ مجھے یقین ہے آپ کو اس کی باتیں دلچسپ اور حقیقت پر مبنی لگیں۔

اس مرحلے پر میں آپ کی توجہ اردو شاعری کو درپیش مشکلات کی جانب مبذول کروں گا۔ مجھے ننانوے فی صد یقین ہے کہ اگر کوئی اردو شاعر اس نظم کو اشاعت کے لیے بھیجتا تو وہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی۔ مغربی تنقید آج سے بہت پہلے اس پر متفق ہو چکی ہے کہ ہر بڑی شاعری سابقہ بری شاعری کو ریفر بیک refer back یا اس کی بازیافت کرتی ہے ( خواہ شاعر اپنی ہی کسی سابقہ نظم کے ساتھ ایسا کرے )۔ اردو تنقید اپنی تذکروں والی روش ترک کرنے پر ہنوز راضی معلوم نہیں ہوتی۔ ایسے بیشتر معاملات میں آنکھ بند کر کے سرقہ کا گمان کر لیا جاتا ہے۔ اور تو اور غالبؔ پر تو مستقل سرقے کے الزامات لگتے ہی رہتے ہیں۔ اگر کوئی شاعر بیان حلفی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے ارادی طور پر ایسا نہیں کیا تو اس کو ’ توارد ‘ کی دفعہ کے تحت با عزت بری کر دیا جاتا ہے۔ اگر شاعر خود اقرار کرتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنے پر مامور یا مجبور کیا جاتا ہے کہ اس نے سابقہ مضمون یا پیرائے کو ترقی دی ہے۔ یہاں مجھ سے کم فہم یا کج فہم یہ سوچتے ہی رہ جائیں کہ سرقہ، توارد، یا ترقی کے معاملات کا مقدمہ لے کر کس عدالت کا دروازہ کھٹ کھٹایا جائے۔ ؟ کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ ؟

ایک مرتبہ پھر ڈک ایلنؔ  کی نظم پر لوٹتے ہوئے میں یہ بتانا چاہوں گا۔ اس کی مذکورہ نظم جملہ بیس مصرعوں ( لائنوں ) پر مشتمل ہے۔ ان بیس لائنوں میں ایلنؔ گزرے برسوں کا ذکر کرتا ہے جو غائب ہو چکے ہیں۔ اپنی سیاحتوں اور مہمات کی جانب حوالے دیتا ہے۔ جھیل کنارے اپنی کا ٹیج کی زندگی، بوسیدہ کتابوں کی بات کرتے ہوئے اس سکوت کو توڑتے ہوئے خفیف برہمی ظاہر کرتا ہے جو پڑوسی کا آرا پیدا کر رہا ہے کسی غیر ضروری چیز بنانے میں۔ وہ سیاحتوں اور مہموں کی تحسین کرتا ہے جو مجسموں اور موویز میں ڈھل جاتی ہیں۔ نظم اچھی شاعری پر مشتمل ہے اور شاید سچی بھی لیکن پھر وہی بات اگر وہ اردو نظم ہوتی تو شائع ہونے سے رہ جاتی۔

امریکی شاعری کے حالیہ انتخاب میں جگہ پانے والی پہلی نظم ’ ’Divine ‘‘ ’ ڈِواین ‘ کی خالق کم اڈونیزیو ( Kim Addonizio ) اپنی نظم کے بارے میں واضح الفاظ میں یہ کہتی ہے کہ اس نے اس نظم میں دانتے Dante، افلاطون Plato، بائبل Bible، الف لیلیٰ Fairy tales، پرانی وامپائر موویز Old vampire movies، اور آسٹریلیا کے نباتیاتی باغ کی چمگادڑوں سے استفادہ اور خوشہ چینی کی ہے۔ ( جدید شاعری میں یہ رویہ جائز ہے ) نظم کا عنوان ’ ’ڈِواین‘‘ پڑھنے والوں کو یہ اشارہ دیتا ہے کہ نظم کا موضوع الٰہیات، سماوات، عالمِ ملکوت سے متعلق ہونا چاہیے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ نظم کا آغاز جن لائنوں سے ہوتا ہے وہ جہنم کی جانب اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آپ سوچئے جس طرح میں سوچ رہا ہوں۔ آیا خوشہ چینی اور استفادہ کے اس اعتراف کے بعد اور نظم کے اس خلافِ توقع آغاز اور غیر متوقع انجام کی جانب سفر کو دیکھ کر اردو کے کسی بھی مجلے میں اس کا شائع ہونا ممکن ہو گا۔ ؟ مجھے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا، آپ کو۔

ادبی جرائد میں شاعری کی اشاعت کے معاملے کو میں نے ایک بند گلی میں محصور دیکھا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جانا چاہیے۔ ایک جانب اردو شاعری کی ایک زندہ صنف ’ ’ غزل ‘‘ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے ’ ’ کلیشے ‘‘ کا رونا روتے ہیں تو دوسری جانب ادبی مجلوں میں اشاعت کے لیے کسی ’ ’ نئی‘‘ لگنے والی غزل یا نظم پر قدغن لگاتے ہیں۔ اردو کے نقادوں کو بھی وہی چاہئے جس سے وہ آشنا ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں اردو شاعری کو بند گلی سے کبھی رہائی نصیب ہو گی۔ درست رویہ جو سامنے موجود ہے وہ دکھائی نہیں دیتا اور وہ صرف یہ رویہ ہے کہ کسی ’ مشکوک‘ یا ’مشکوک‘ نظر آنے والی تخلیق کو شائع ہونے دیا جائے۔ جس قاری یا نقاد کو اس پر اعتراض ہو وہ کھل کر اس پر اعتراض شائع کروائے اور جس قاری یا نقاد کو وہ درست لگے وہ اعتراضات کو رد کرے تاکہ اردو شاعری آزادی کے ساتھ اپنے اگلے سفر پر روانہ ہو سکے۔

٭٭٭

 

 

 

مختصر افسانے کی عصری صورتِ حال

 

 

دنیا چھوٹی ہو گئی ہے یا رسل و رسائل کے وسائل کے پرانے پرندوں نے اپنے پرانے پر جھاڑ کر تیز تر اڑنے والے پر اُگا لیے ہیں۔ دوسری جانب سائنس دانوں اور موجدوں نے ایسے نئے وسائل بہم کر دئے ہیں جن کے پرندے پلک جھپکتے میں دنیا کے ایک سِرے سے دوسرے سرے تک پرواز کر لیتے ہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کے سارے ممالک ایک سرے کے قریب تر آ گئے ہیں۔ ان ملکوں میں بسنے والے لوگ اپنی ثقافتوں کے ساتھ باہم دیگر ثقافتوں کی آویزش و آمیزش کے مرحلوں سے گزر رہے ہیں۔ تجارتی، اقتصادی اور معاشرتی لین دین کے ساتھ ثقافتی لین دین میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ دنیا کا جغرافیہ بھی قدرے تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ امریکی امپریلزم نے یورپی سامراجیت کو جنم دیا تھا اور اب یہ نو سامراجی بچہ جوان ہو کر کبھی کبھی امریکی سامراجیت کے شانہ بشانہ غیر امریکی اور امریکی حمایت سے محروم ملکوں کے استحصال میں مصروف ہوتا ہے تو کبھی لیکن شاذ شاذ امریکی سامراجیت کے آڑے آتا ہے یا مقابل بھی ہوتا ہے۔ یہ واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری دنیا میں واقعی کوئی ایسا کھیل ہو رہا ہے جس پر ’ ’ گلوبل ویلج ‘‘ کا لیبل چسپاں کیا جا سکے یا کمزور ملکوں اور قوموں کے استحصال کے قدیمی سیریل ڈرامے کا کوئی نیا ایپی سوڈ ہمارے پیشِ نظر ہے۔ افسوس کہ ہم نے اپنے موضوع پر بات چیت کا آغاز جملۂ معترضہ سے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پیراگرافِ معترضہ سے شروع کیا ہے۔ یہاں مجھ سے ایک غلطی مزید سر زد ہو گئی ہے کہ میں نے ’ ہم ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ امریکی اندازِ اظہار نے دنیا کو یہ درس دیا ہے کہ ’ میں ‘ ہوں تو ’ میں ‘ ہی ہوں۔ انکساری میں آ کر ہم نہ بنو اس سے قبل میں نے یہی سیکھ رکھا ہے۔ اس کے علاوہ میرے ذہن میں یہ خیال بھی موجود رہتا تھا کہ ’ میں انانیت کا استعارہ ہے۔ یہ بھی سنا یا پڑھا ہے کہ عصرِ حاضر کے کا سن سے بدنام فسطائی، ہٹلر

( اگرچہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر جوہری بم گرانے والوں میں وہ شامل اور شریک نہیں تھا) اپنی تقاریر میں لفظ ’ میں ‘ کا بہت زیادہ استعمال کرتا تھا۔ تو صاحب مجھے کہنے دیجئے کہ میں نے تو بظاہر موضوع سے ہٹ کر جو کچھ کہا ہے اس کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ادب، شعر، فن اور کسی بھی ثقافتی موضوع پر بات کرتے سمے عصری دنیا کو پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ تخلیقات کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے سہی آج کی دنیا سے ضرور ہوتا ہے۔ خواہ کم خواہ زیادہ، ہر تخلیق اپنے خالق مقام تخلیق سے، اور زمانہ تخلیق سے جڑی ہوتی ہے۔ اب اگر اس تخلیق کے خالق کا وزن اتنا وسیع ہے کہ اس کا دائرہ دنیا سے نکل کر کائنات اور خلاؤں پر اور وقت موجود کا حصار پار کر کے ازل اور ابد پر محیط ہے تو معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ آج کے افسانے میں یا اس کے عقب میں آج کی دنیا، آج کا عصر ملتا ہے جس کا ہلکا تاثر میں نے اپنے پڑھنے والوں کے ذہنوں تک پہچانے کی کوشش کی ہے۔ اب میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ آپ سے صاف لفظوں میں یہ کہہ سکوں کہ آج کے افسانے کے خاص موضوعات سیاست، تشدد اور جنس پر مشتمل ہیں کیونکہ آج کی دنیا کا یہ ہمہ وقت چکر لگانے والا لٹو قریب قریب ان ہی تین نکات کے گرد چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس وقت عالمی شعر و ادب اور فکشن کی بات کر رہا ہوں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک ملک کا شعر و ادب اور بطورِ خاص فکشن مقامی موضوعات کے شمول سے متذکرہ موضوعات کے علاوہ منفرد اضافی موضوعات کا حامل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پس ماندہ ممالک کے اضافی موضوعات میں انتقالِ آبادی، ہجرت، بھوک، افلاس، جہالت، طبقاتی استحصال کے موضوعات ترجیحی اہمیت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نسل کشی، دہشت گردی، ریاستی دہشت گردی، غیر ملکی سامراجی دخل اندازی، کمزور ملکوں پر طاقتور ملکوں کا فوجی تسلط، انسانی حقوق اور خاص طور پر نسوانی حقوق کی پامالی اور ان گنت موضوعات شعر و ادب اور خاص طور پر فکشن میں اظہارو ابلاغ کے پیرائے اختیار کر لیتے ہیں۔ آج سے بہت پہلے موپساںؔ  نے یہ کہا تھا کہ ایک رسی کے ٹکڑے سے لے کر خدا تک کسی بھی موضوع پر افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔ رسی کے ٹکڑے پر تو خود اس کا ایک کامیاب افسانہ موجود ہے۔ بات شاید چاک کے ٹکڑے کی تھی۔ موضوعات پر بات تو اس لئے کی جاتی ہے کہ عصری رجحانات کو سامنے لایا جا سکے۔ یوں بھی مختصر افسانے میں موضوع اور مرکزی خیال، نقطۂ نظر افسانے کے اندر اس طرح ضم رہتے ہیں کہ افسانہ ختم کرنے کے بھی کچھ دیر بعد خیال میں آتا ہے۔

اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ افسانہ پیدا کس طرح ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہر افسانے کے عقب میں کوئی نہ کوئی تحریک موجود ہوتی ہے۔ اس تحریک کا باعث کوئی ذاتی مشاہدہ یا تجربہ ہو سکتا ہے۔ کوئی واقعہ ہو سکتا ہے، کوئی اطلاع یا خبر ہو سکتی ہے، کوئی حاصلِ مطالعہ نوع کی تحریر ہو سکتی ہے۔ کوئی فقرہ، کوئی منظر، یہاں تک کہ کوئی تصویر، کوئی افسانہ، کوئی مووی، کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی خواب۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی کوئی تخصیص نہیں کہ افسانہ نگار نے یہ تحریک ذہنی طور پر محسوس کی یا جذباتی طور پر۔ کیرنؔ براؤن سے جب اس کی کہانی انکشن Unction کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا۔

’ ’ میں نے، جب ٹین ایجر تھی تو ایک گرم موسم میں ’جوب‘ کے طور پر جلد بندی کی مشین شاپ میں کام کیا۔ گرمی سے معمور بورڈم، تیل میں نہاتے ہوئے پرزوں کی بو، یہ سب میرے پاس لوٹ آیا اور کہانی میں سما گیا ‘‘   ( دی او ہنری پرائز اسٹوریز، صفحہ نمبر ۳۱۵)

کیرنؔ براؤن ایک ایسی افسانہ نگار ہے جو کسی مقام سے تحریک حاصل کرتی ہے۔ اور کسی جگہ، اس کی فضا، اس کا محول اس کے افسانے کا سبب بنتے ہیں۔ ڈیوڈ مینس David Means اپنی ایک کہانی ’ ’ سالٹ اسٹی میری ‘‘ Sault ste Marie کے بارے میں یہ اعتراف کرتا ہے کہ اس مقام کا امیج اسے لڑکپن سے گھیرے ہوئے تھا۔ ڈیوڈ لارنس نے روس کے ایک لوک آرٹ میوزیم میں لکڑی سے تراشے ہوئے ایک منظر کو دیکھا جس میں مچھلی کی پشت پر گاؤں دکھایا گیا تھا۔ وہ اس کے ذہن میں لوٹ لوٹ کر آتا رہا تا آنکہ اس نے اس پر اپنا مشہور افسانہ ’ ’ کنسیوڈ ‘‘ conceived تخلیق کیا۔ ہمارے دور کی چینی+ انڈونیشیائی+ ہانگ کانگی ادیبہ Xuxi نے اپنے افسانے قحط Famine پر بات کرتے ہوئے ایک جانب تو یہ حیرت انگیز فقرہ لکھا ہے۔ ’ ’ جیسے جیسے میں کہانی میں آگے بڑھتی گئی مجھے اس کا احساس ہوا کہ میں جن کے بارے میں لکھ رہی ہوں وہ جتنا بھی چاہیں کھائیں رہیں گے بھوکے کیونکہ وہ جو کھا رہے ہیں وہ ان کو ضروری تغذیہ مہیا نہیں کرتا۔ ‘‘ ظاہر ہے کہ وہ قحط کو انڈو نیشیا، اور ہانگ کانگ سے آگے ماؤؔ کے چین تک پھیلا ہوا دیکھتی تھی۔ چیر میں ماؤزے تنگ کے اجتماعی زراعت کے طریقے کی کامیابی کے ڈھنڈورے کے باوجود لاکھوں افراد فاقوں سے مر گئے۔ ایکسو ایکسائی (XUXI ) نے دوسری جانب قحط کو آدمی کی زندگی سے جوڑتے ہوئے اس دُہری زندگی کی طرف توجہ دلائی ہے جس کو اس نے اپنی جوانی میں گزارا اور اس زمانے کے لکھے ہوئے اپنے ذاتی جرنلز میں تحریر کیا۔ ایک زندگی کو وہ بالائی زندگی (Above life ) کا نام دیتی ہے۔ دوسری طرز کی زندگی کو زیریں زندگی ( Under life ) کہتی ہے۔ بالائی زندگی سے مراد وہ زندگی ہے۔ جو وہ اپنے گھر میں، سوسائٹی میں اپنے اہلِ خانہ، اپنے دوستوں، اپنے ساتھ کام کرنے والوں وغیرہم کے ساتھ گزارتی ہے۔ زیریں زندگی وہ زندگی ہے جو اس کی اپنی ذاتی زندگی ہے جو وہ اپنے آپ کے ساتھ گزارتی ہے اپنی خواہشوں، اپنے خوابوں کی رفاقت میں سب سے خفیہ۔ نیلاواؔسوانی نے اپنے افسانے ’ ڈی پلوس سیریز ( The Pelvis Serie) کسی دانتوں کے کلینک میں افریقی چمپا نیزیوں پر ایک مضمون پڑھ کر لکھا تھا۔ مضمون میں چمپانیزیوں کے ہاتھوں سے بنی ہوئی ’ ایش ٹروں ‘ کی تجارت کا ذکر تھا جس کی وجہ سے ان کی نسل ختم ہو رہی تھی۔ اس کے علاوہ دوسرے عوامل کا بھی اور ساتھ ساتھ اس حقیقت کا بھی چمپانیزی انسانوں سے کس قدر مماثل ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ زندگی کس کس انداز سے اپنے آپ کو افسانوں کے آئینوں میں جھلکاتی ہے۔ جس طرح زندگی مختلف الجہات ہے اسی طرح افسانہ بھی مختلف الجہات ہے۔ خواہ ڈی ایچ لارنس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کریں خواہ سعادت حسن منٹوؔ کو عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔ ان دونوں کا اور ان کی قبیل کے تمام تخلیق کاروں کا کچھ ایسا ہی جواب ہو گا جیسا جوشؔ نے اپنی اہلیہ کو ( اگرچہ کسی اور پس منظر میں ) دیا تھا۔ ؎ چھوڑ کر چہرے کے دھبے آئینہ دھوتی ہے تو۔۔ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ تخلیق کار جو کچھ اپنی داخلی شخصیت سے باہر نکال کر اپنی تخلیق میں پیش کرتا ہے وہ بھی اس کے اندر خارج سے آتا ہے اور اس کے لئے بھی خارج ہی ذمے دار ہے۔ فکشن میں ناول اور ڈرامے کی اصناف پر بات کرتے ہوئے میں یہ نہیں کہہ سکتا البتہ مختصر افسانے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ افسانہ خود ہی اپنے آپ کو لکھواتا ہے، بلکہ بعض اوقات وہ افسانہ نگار کی جان کے پیچھے پڑ جاتا ہے۔ برسوں اس کو دق کئے رہتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اس کو خلق نہ کر لیا جائے۔ یہ بھی رکارڈ پر موجود ہے کہ افسانہ نگار ایک مخصوص حسی کیفیت کی گرفت میں رہ کر افسانہ تخلیق کرتا ہے۔ ایسی کیفیت جو ناصر کاظمی سے شعر تر موزوں کرواتی تھی ؎

پہروں آنکھیں نم رہیں دل خوں ہوا

جب کہیں اک شعر تر موزوں ہوا

عالمی تناظر میں آج کے مختصر افسانے کو دیکھا جائے تو موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ ٹیکنیک اور برتاؤ کے تنوع کا بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا ہندی اردو افسانہ بھی اس معاملے میں بہت زیادہ پیچھے نہیں ہے۔ معمولی سا فرق جو دیکھنے میں آتا ہے وہ افسانہ نگاروں کی نفسیات کا ہے۔ ہمارا افسانہ نگار اور خاص طور پر پاکستان کا افسانہ نگار کھلے دل و ذہن اور بے باک قلم سے کام نہیں لیتا۔ سب افسانہ نگار ایسے نہیں ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جو محتاط ہونے کی حد تک بزدل اور بزدل ہونے کی حد تک محتاط ہیں۔ میں نام نہیں لوں گا لیکن ان کے اس رویے نے ہمارے مختصر افسانے کی عمومی صورتِ حال کو عالمی صورتِ حال سے خاصا پیچھے ڈال دیا ہے۔ اس کے عقب میں جو عوامل کارفرما ہیں ان میں اولیّت سما جی صورت حال کو حاصل ہے۔ در حقیقت پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں میں سماجی تشکیل پذیری کا عمل مکمل ہو کر نہیں دے رہا ہے۔ ادیب، شاعر اور فکشن لکھنے والا زمین پر قدم جمائے تو کس طرح، زمین پر تو سب کچھ اتھل پتھل ہے، سیال ہی سیال ہے۔ سماج کے نام نہاد نمائندہ اور طاقتور طبقات اور افراد تخلیق کاروں اور فنکاروں سے یہ توقع کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ہر تخلیق اور ہر پیش کش سے پہلے ان سے او کے سگنل یا آشیرباد حاصل کریں۔ میں نے اس تصویر کو قدرے سادگی سے مصور کر دیا۔ میں جانتا ہوں کہ کسی بھی معاملے کو اوور سمپلی فائی ( Over simplify ) کرنا مناسب نہیں، لیکن صورت حال اس قدر پیچیدہ (complex) ہے کہ مجھے ایسا کرنا پڑا۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ ہر تخلیق کار کی کچھ ذاتی حد بندیاں اور ٹیبوز ہوتی ہیں لیکن خارجی عوامل میں سب سے زیادہ تکلیف دہ اس کو محسوس کرتا ہوں، جب تخلیق کار ہر تخلیق سے قبل دل ہی دل میں کسی سے یہ پوچھنے پر مجبور ہو۔ ’ ’ بتا ! تیری رضا کیا ہے ؟ ‘‘۔ یہ خارجی شخصیت حاملانِ جبہ و دستار میں سے ہو سکتی ہے، عاملانِ ریاست میں سے ہو سکتی ہے، تنگ نظرانِ سیاست و تعصب میں سے ہو سکتی ہے۔ ان لوگوں میں سے ہو سکتی ہے جو اپنے نظریات و عقائد کو بزور دوسروں پر مسلط کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور تخلیق کار کا کوئی پیارا، کوئی اپنا یا کوئی محرم فرد بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک اور قسم کے خارجی جبر کا ذکر بھی ضروری ہو جاتا ہے اور وہ ہے تخلیق کار کی تخلیقات کو شایع کرنے والا ادارہ یا فرد۔ افسانہ نگار ہی کو لیجئے۔ وہ اپنا افسانہ دوسروں تک پہچانا بھی تو چاہے گا۔ اگر افسانہ تخلیق ہونے کے بعد اشاعت نہ پائے تو اس کی تخلیق و عدم تخلیق یکساں ہو جائے گی۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ افسانے کو کوئی اشاعتی ادارہ یا مدیرِ جریدہ قابلِ اشاعت تسلیم کرے اور اس کی اشاعت کے لیے عملی اقدام اٹھائے۔ اس مرحلے پر اشاعتی ادارہ یا مدیر مجلہ اس افسانے کو اپنے طور پر جانچے گا۔ لازمی طور پر گویا افسانہ نگار کی نظروں میں اس ’ کسوٹی ‘ کا قیاس ضرور ہو گا جو ایسے کسی اشاعتی ادارے یا مدیر کے زیر استعمال ہو گی۔ جہاں جانچنے اور پرکھنے کا کام ہو گا وہاں کسوٹی بھی ہو گی۔ اگر میں یہ کہوں کہ ہمارا مختصر افسانہ باقی دنیا کے مختصر افسانے سے قدرے دبتا ہوا ہے تو اس کا بڑا سبب وہ عوامل ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔

ہمارا افسانہ نگار قدرے زیادہ محتاط ہے، بزدل ہے، مصلحت پسند ہے ورنہ ہمارے افسانے کو مغربی ممالک کے افسانے کے مدِ مقابل کھڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں میں یہ محسوس کرنے لگا ہوں کہ صورتِ حال کی تھوڑی سی وضاحت اور کروں۔ اصل بات یہ ہے کہ آج کا افسانہ واقعات پر انحصار کرنے کی جگہ خیال پر انحصار کرتا ہے۔ خیال پر انحصار کے لئے ضروری ہے کہ ہمارا ماحول اور ہماری خارجی فضا، ’ خیال ‘ پر قدغن لگانے والی نہ ہو، افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ آج کے افسانے کو اظہار کی آزادی چاہئے۔ اگر اس ضمن میں آپ یہ فرمائیں کہ آج کا افسانہ اظہار کے اسلوب پر انحصار ہی کب کرتا ہے ؟ تو میں آپ کے اس احتجاج کو سر آنکھوں پر رکھتا ہوں، لیکن کہتا وہی ہوں کہ آج کا افسانہ کسی نوع کی بندش اور احتساب کا روا دار نہیں ہو سکتا ورنہ وہ افسانہ پن سے محروم ہو کر ایک چیستاں کی شکل اختیار کر لے گا۔ احتساب سے محفوظ رہنے کے لئے اشاریت اور رمزیت کا سہارا لینا اور بات ہے، اپنے افسانے کو شعریت اور تہہ دار معنویت کا حسن اور نکھار دینے کے لئے ایسا کرنا قطعی دوسری بات ہے۔

آج کے افسانے نے جدید سے جدید شعری و ادبی تحریک سے بہت کچھ لیا ہے اور بہت کچھ رد بھی کیا ہے۔ شعر و ادب کے علاوہ مصوری اور موسیقی کی تحریکات سے بھی استفادہ کرنے میں پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ اس وسیع المشربی اور روشن خیالی سے آج کے افسانے کو ایک نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ وہ ہر تحریک کو لے کر چلنے کی کوشش کرتا رہا اور ابھی تک ایسا کرنے میں مصروف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے تسلیم شدہ سانچے سے بہت دور ہو گیا ہے یا یہ ہوا کہ اس کے بے شمار سانچے ظہور پذیر ہو گئے ہیں۔ آج کا افسانہ بہ یک وقت بیانیہ بھی ہو سکتا ہے اور علامتی بھی۔ اس میں تجریدیت کے عناصر بھی در آ سکتے ہیں۔ جب پہلے پہل ’ انٹی سٹوری ‘ کا شوشہ اٹھا تو لگا کہ افسانے کو کوئی شدید دھچکا لگنے لگا ہے لیکن اس نے بھی مختصر افسانے کو چند نئے اور توانا امکانات سے لیس کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ افسانہ پڑھنے کا رجحان کم ہوتے ہوتے معدوم ہو جائے گا، لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ آج بھی شہروں شہروں مقبولِ عام افسانہ نگاروں سے ادبی حلقوں میں افسانے سنے جا رہے ہیں۔ لوگ مغربی ممالک میں ایسے حلقوں میں ٹکٹ خرید کر جاتے ہیں اور اپنے پسندیدہ افسانہ نگاروں کو افسانے پڑھتے ہوئے سنتے ہیں۔ یہ سب ایسے سماج میں ہو رہا ہے جس کی اساس یوٹی لی تیرین فکر پر استوار ہے۔

یہ کہنا کہ اردو اور ہندی مختصر افسانہ جمود کا شکار ہے محض رسمی فقرہ بازی ہے۔ میں نے نام گنوانے سے گریز کیا ہے کیونکہ بہت سارے نام ہیں جو آج کے مختصر افسانے کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ میں کوئی قابلِ ذکر نام لینے سے رہ جاؤں اور کسی اچھے افسانہ نگار کی دل آزاری کا باعث بنوں۔ عصرِ حاضر میں مختصر افسانہ نہ تو بیمار پڑ گیا ہے اور نہ ہی جمود کا شکار ہے، ماشا اللہ چنگا بھلا، تازہ و توانا ہے۔ خوب ہاتھ پیر چلا رہا ہے۔ ہر جہت میں سفر کر رہا ہے۔ ہر مزاج کے قاری کی تشفی کے سامان بہم پہنچا رہا ہے۔ اردو اور ہندی دونوں لسانی وسیلوں سے کام لے رہا ہے۔ پاکستان، ہندوستان، آسٹریلیا، امریکا، کینیڈا اور یورپ میں تخلیق کیا جا رہا ہے۔ ان ملکوں کے علاوہ دنیا کے کونے کونے سے لکھا جا رہا ہے۔ جن افسانہ نگاروں کے نام ہمارے آج کے تنقید و تبصرہ نگار اپنی تحریروں میں لے رہے ہیں اور جن افسانہ نگاروں کے نام ان کے تذکروں میں شامل نہیں ہیں اچھے اچھے افسانے لکھ رہے ہیں۔ ایسے افسانے جو ہمارے افسانے کو اعتبار بخش رہے ہیں۔ ہر روز نیا افسانہ جنم لے رہا ہے اور ہر روز نئے افسانہ نگار پیدا ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں چند ایسے شاعر ادیب بھی افسانہ نگاری میں مصروف ہوئے ہیں جنہوں نے اس سے قبل افسانے نہیں لکھے۔ جہاں تک میری نظریں جاتی ہیں افسانہ نگاری کے میدان میں بڑی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل یہ گلے شکوے عام تھے کہ جدید افسانہ اپنا کہانی پن کھو چکا ہے۔ آج کے مختصر افسانے میں کہانی بھی آ موجود ہوئی ہے۔ کہانی کے عنصر کی کمی دور ہونے سے یہ توقع بڑھ گئی ہے کہ مختصر افسانے کے قارئین کی تعداد ضرور بڑھے گی۔ صنف افسانہ کو اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ دورں بینی ( کرداروں کی ) اور بروں بینی کے مابین ایک توازن پیدا ہو گا۔ اس سے خارجی دنیا اور خارجی زندگی کا شمول بھی بڑھے گا۔ فکری مشمولات کی بھرمار بلکہ مارا مار جس نے بعض افسانوں کو بوجھل بنا دیا تھا مناسب حد تک آنے لگے گی اور افسانے کے عام قاری کو ایک مرتبہ پھر افسانے کی جانب لوٹا دے گی، تجریدیت یوں بھی افسانے کے اندر خاصے کی چیز ہے، افسانہ نگاروں کے میلان طبعی پر منحصر رہتی ہے۔ اساطیریت، تمثالیت، رمزیت، اشاریت ایسے عناصر ہیں جن کو افسانہ نگار کبھی نظریۂ ضرورت تو اکثر و بیشتر معانی مفاہیم اور متن میں اضافے اور وسعت کی خاطر استعمال میں لاتا ہے۔ کسی بھی ملک اور کسی بھی زبان کے افسانے میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اتھل پتھل کا مرحلہ توازن کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ بڑی طمانیت کی بات ہے کہ اردو، ہندی مختصر افسانہ بھی توازن کے مرحلے تک آ پہنچا ہے۔ اس میں پختگی آ چکی ہے۔ اس دوران مختصر افسانے کے قاریوں کو بھی عجیب عجیب تجربات سے گزرنا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ اس صنف میں ہونے والی تبدیلیوں سے آشنا ہی نہیں، آگاہ بھی ہوتے چلے گئے۔ رد کرنے کی حد تک بیزاری کا مرحلہ پار کر کے وہ اس سے لطف اندوز ہونے کے مرحلے تک آ پہنچے ہیں۔ غیر محسوس طور پر ان کی تربیت ہو چکی ہے۔ آج کا افسانہ جانے انجانے کا دوست بن چکا ہے۔ آج کے افسانے کا قاری گزرے ہوئے کل کے افسانے کو پڑھ کر ابلاغ کی ان سطحوں کو چھونے کے قابل ہو گیا ہے جو ان افسانوں کے عہد کے قاری کی ادراک سے قطعی باہر ہے۔ پریم چند کے کلاسک افسانے آج کے قاری کی نظروں میں اضافی قدر کے حامل ہو چکے ہیں۔ منٹوؔ کے بعض کرداروں کی بازیافت ہو رہی ہے۔ آج کے قاری کے وژن میں گہرائی اور گیرائی آئی ہے تو قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آج کے ناقدانِ افسانہ کا کیا حال ہو گا۔ شاعری کی تنقید آج جتنی جامد اور کمزور پڑ چکی ہے افسانے کی تنقید اتنی زندہ اور توانا ہوئی ہے۔

مختصر افسانہ اپنے سفر پر رواں دواں ہے۔ دورانِ سفر وہ مسلسل تبدیلیوں سے دوچار ہو رہا ہے۔ ان ہی تبدیلیوں میں اس کی زندگی کا راز مضمر ہے۔ ان تبدیلیوں کے با وصف وہ پختگی بھی حاصل کرتا جاتا ہے۔ ہمہ وقت متغیر چیز پختگی کیسے حاصل کر سکتی ہے ؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھر آیا ہے تو اس کا جواب خود آپ کے اندر بھی موجود ہے۔ ذرا سوچئے آپ جو اپنی زندگی کا سفر طے کر رہے ہیں اور اس سفر کے دوران مستقل تبدیلیوں سے دوچار ہو رہے ہیں تو کیا آپ روز بروز پختگی سے ہم کنار نہیں ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے آپ ہیں ویسے ہی مختصر افسانہ ہے۔ اپنی اس مختصر گفتگو کی بساط سمیٹنے سے قبل میں آپ کو ایک پٹے پٹائے فقرے کی جانب رجوع کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ وہ فقرہ ہے۔ ’ ’ زندگی مٹھی میں بھری ہوئی ریت کی مانند پھسلتی جا تی ہے ‘‘۔ آپ شاید یہ سوچتے ہوں گے کہ میں اس فقرے کی واقفیت سے انکار کرنے والا ہوں۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ درخواست کروں گا کہ آپ کسی افسانہ نگار کی مٹھی کھول کر دیکھیں۔ اس مٹھی میں بھی زندگی ہے۔ ریت کے ننھے منے ذروں کی جگہ مختصر مختصر افسانوں کی شکل میں۔ فرمائیے آپ کس کی مٹھی کھولیں گے۔ کسی ٹالسٹائی، کسی کافکاؔ، کسی او۔ ہنریؔ۔ کسی پریم چند کی، کسی بیدیؔ، کسی منٹوؔ۔ یا پھر آپ مٹھیاں کھولتے ہی چلے جائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غالب شناسی کی روایت ( ایک تجزیاتی مطالعہ)

 

غالب اردو کے عظیم شاعر اور نثر نگار کی حیثیت سے اردو شعر و ادب کی تاریخ میں زندہ جاوید ہو چکے ہیں۔ آہستہ آ ہستہ ادبیات عالم میں بھی ان کو صحیح مقام ملنے کے امکانات روشن تر ہوتے جا تے ہیں۔ فارسی شعر و ادب کے ایرانی نقادوں کی بے جا عصبیّت اور بے توجہی کے باوجود ان کا فارسی کلام بھی اردو کلام کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کے شائقینِ شعر و ادب کا دامن کش ہونے لگا ہے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ غالبؔ ان شاعروں ادیبوں میں شامل نہیں ہیں جن پر صرف محققین ادب اور ناقدانِ ادب قدیم کرم فرما ہیں اور جن کو صرف تاریخی نوعیت کی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ غالبؔ کا ادبی اور شعری کارنامہ ایک ابدی اور آفاقی کار نامہ ہے۔

یہ اردو زبان کی بد قسمتی ہے کہ اردو شعر و ادب کے اکابرین پر بھی تحقیقی اور تنقیدی کام بہت کم ہوا ہے، اور ہو رہا ہے، اور تو اور مردہ پرستی کی روایت عام ہونے کے باوجود متعدد ادیب اور شاعر مرنے کے بعد بھی کسمپرسی کا شکار رہتے ہیں۔ یہ غالبؔ کی خوش قسمتی ہے کہ اقبال کے بعد وہ اردو کے منفرد شاعر ہیں جن پر تحقیقی اور تنقیدی کام بہت ہوا ہے۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ غالبؔ کو اس کے دور میں سمجھا نہیں گیا اور وہ نکتہ چینی، مخالفانہ تنقید یہاں تک کہ تمسخر اور ہجو کا شکار رہے۔ حقیقتِ حال یہ ہے غالبؔ عوامی شاعر تو نہیں تھے کہ کوچے کوچے لوگ ان کی غزلیں گاتے پھرتے، نظیر اکبر آبادی جیسا عوامی شاعر بھی جب غزلیں کہتا ہے تو اس کا رشتہ اس دور کے عوام سے منقطع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غالب کے ہاں وہ عناصر ہی کہاں تھے جن کی بنا پر میر کہتے ہیں،

؎ شعر میرے ہیں گو خواص پسند پر مجھے گفتگو عوام سے ہے

غالب اور ان کے سارے ہم عصر خواص پسند پر اکتفا کرتے ہیں۔ عوام سے انہیں کوئی واسطہ نہ ہوتا تھا۔ اس دور کے کلام میں اگر کسی شاعر کا کلام تھوڑے بہت عوام پسند عناصر کا حامل نظر آتا ہے تو وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ہیں۔ اس بظاہر ناقابلِ فہم اور حیران کن حقیقت کے عقب میں بہادر شاہ ظفر کی انفرادیت سے زیادہ مغلوں کا زوال کار فرما ہے۔ جہاں تک خواص کا تعلق ہے، غالبؔ پر خاصی توجہ دی گئی تھی۔ وہ دلّی کے تین سر برآوردہ شعراء میں شمار ہوتے تھے۔ شہرت کا یہ عالم تھا کہ خطوط پر پتے میں نام کے ساتھ دلی لکھنا کافی ہوتا تھا۔ علمی اور ادبی استفسار اور اصلاح شعر کے ضمن میں دور دور سے معروضیات و مکتوبات کا تانتا لگا رہتا۔ ذوقؔ  کی وفات کے بعد ان کو استاد شاہ کا اعزاز بھی ملا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ اعزاز پہلے ہی ذوقؔ کی جگہ ان کو نصیب ہوتا۔ لیکن ان کی بد قسمتی یا خوش قسمتی سے انہوں نے بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کے امکانات کو نظر انداز کرتے ہوئے ظفرؔ کے محلاتی مخا لفین سے ناتا جوڑا تھا۔ اور شہزادوں میں سے ایک شہزادے کو اپنا شاگرد بنایا جو ان کے خیال میں مغل تخت کا آئندہ وارث تھا۔ غالبؔ کے مقابلے میں ذوقؔ کو سرکاری اور درباری ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ وہ اس اعزاز کے حق دار بھی تھے۔ قصیدہ گوئی میں غالبؔ کا اور ان کا مقابلہ ہی نہ تھا۔ مدح کے اشعار کی کمی اور تشبیب کے اشعار کی بہتات کے بارے میں غالبؔ کی توجیہات، توجیہات محض تھیں۔ در اصل مدحیہ اشعار کی تخلیق ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ اس کے علاوہ ذوقؔ ہر لحاظ سے استاد قسم کے شاعر تھے۔ اور استاد شاہ کا عہدہ غالبؔ کے مقابلے میں ان پر ہی سجتا تھا۔ لیکن ذوقؔ کے اس اعزاز سے یہ قیاس کرنا کہ غالب کی قدر نہیں تھی مناسب نہیں ہے۔ بادشاہ کی جانب سے نجم الدولہ دبیرالملک، نظام جنگ کے خطابات پانا اور شاہی مورخ کے عہدے پر مقرر ہونا، ان کی قدر افزائی کا شاہد ہے۔ ذوقؔ کی وفات کے بعد ان کا استاد شاہ کے طور پر منتخب ہونا بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عام نا قدری کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ یہ خیال کہ مغلیہ خاندان کی تاریخ نویسی کا کام بعد میں اس وجہ سے رکوا دیا گیا تھا کہ غالبؔ انتہائی مشکل اور بعید از فہم اسلوب نگارش کے حامل تھے قطعی بے بنیاد ہے۔ غالبؔ نے اس کتاب کا ایک حصہ ’ ’ مہر نیم روز‘‘ مکمل کر لیا تھا اور وہ زیورِ طبع سے آراستہ بھی ہوئی لیکن بعد میں جب ان کو استاد شاہ کا لقب عطا کیا گیا تو خود انہوں نے تاریخ نویسی کا کام ترک کر دیا۔ ان کے خیال میں وہ پچاس روپے ماہوار پر تاریخ نویسی اور باشاہ کے کلام کی اصلاح دونوں فرایض انجام دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ دوسرے رئیسوں، امیروں اور کبیروں نے بھی غالبؔ کی بڑی قدر کی تھی۔ نواب رام پور غالبؔ کے شاگردوں میں سے تھے۔ شہر کے افسرانِ اعلیٰ میں سے بیشتر اہلِ ذوق غالبؔ کے قدر دانوں میں سے تھے۔ انگریز افسران میں بھی کچھ اعلیٰ افسران کے قدر دانوں میں شامل تھے۔ غالبؔ کے ممدوحین کی فہرست خاصی طویل ہے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خود غالب کو اپنی قدر دانی کا واضح شعور تھا۔ اور اس قدر دانی سے وہ مادی منفعت حاصل کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ دلّی کے باہر لکھنو میں بھی ان کی کافی قدر افزائی ہوئی تھی۔ کلکتے میں انگریز افسروں تک غالب کو کافی رسوخ حاصل ہو گیا تھا۔ اور وہاں اس طبقے میں ان کو چند بڑے قدر دان میسر آ گئے تھے۔ اس کے علاوہ وہاں کے ادبی حلقوں میں غالب کی بڑی قدر ہوئی تھی۔ جہاں تک کلکتے میں ان کی مخالفت کا سوال ہے اس سلسلے میں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ادبی اختلاف اور نزاع نا قدری کا ثبوت نہیں ہوتا، اور غالبؔ کے معاملے میں توان اختلافات کا سبب خود غالبؔ کی طبعی غیر ذمہ دارانہ، انتہا پسندانہ تلخ گوئی تھی۔ کلکتے کے ادبی حلقوں میں قتیلؔ بے حد محترم تھے اور ان کوفارسی زبان میں استناد کا درجہ حاصل تھا۔ غالب،ؔ  قتیلؔ اور دوسرے ہندوستانی فارسی دانوں اور فارسی گویوں کو قطعی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اور خاص طور پر قتیلؔ کے خلاف وہ بے حد تحقیر کے جذبات کا اظہار کرنے کے عادی تھے۔ ایسی صورتِ حال میں جب کلکتے کے اہلِ ذوق نے غالب کے ایک شعر میں ’ ’ عالم‘‘ کے ساتھ ’ ’ہمہ‘‘ کے استعمال پر اعتراض کیا اور قتیلؔ نے سند پیش کی تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غالبؔ کس قدر چراغ پا نہ ہوئے ہوں گے۔ اور ان کے انداز گل افشانی کا کیا عالم ہو گا۔ اور متبعین قتیلؔ کے ردِ عمل کا کیا طور ہو گا۔ اگرچہ غالب کے خلاف اعتراض غلط تھا اور حافظؔ جیسے مستند اہلِ زبان نے ’ ’ ہمہ عالم‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ لیکن شاید غالب نے خود ہی یہ محسوس کر لیا کہ قتیلؔ کے خلاف نا مناسب زبان میں تنقید کر کے انہوں نے بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے اور شاید اسی خیال سے ان کو مصالحانہ روّیہ اختیار کرنے کی سوجھی اور ان کی مثنوی ’ ’ باد مخالف‘‘ ایک طرح کی منظوم معذرت ہے۔ کلکتے میں غالبؔ کو ایک ایسے قدر شناس رفیق سے تعلق پیدا ہوا ( مولوی سراج الدین احمد ) جس کی خاطر انہوں نے اپنا ایک دیوان ’ ’گلِ رعنا‘‘ ترتیب دے کر دلّی سے روانہ کیا تھا۔ ان حالات سے یہ بات بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ غالب کی کلکتے میں قدر نہیں ہوئی۔ جہاں تک ’ ’برہان قاطع یا قاطع برہان اور قاطع قاطع‘‘ وغیرہ وغیرہ کا قضیہ ہے، یہ قیاس کرنا غلط ہے کہ یہ اختلاف ان کی اس ناقدری کا ثبوت ہے۔ اگر غیر جذباتی اور دیانتدارانہ انداز سے سوچا جائے تو اس طوفان کے عقب میں غالب کی اپنی طبعی کمزوری کار فرما تھی کہ وہ ہندوستان کے فارسی گو شعراء اور فارسی دان اہلِ قلم کے خلاف نا مناسب کلمات ادا کرنے میں خاص طمانیت محسوس کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اس تمام علمی اور ادبی اکھاڑ پچھاڑ میں غالب کے حمائیتیوں اور طرف داروں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ یہ بات کہ ہتکِ عزت کے دعویٰ میں غالبؔ کے اپنے گواہوں نے ان کے خلاف گواہی دی۔ غالبؔ کی ناقدری کا ثبوت نہیں ہے، کیونکہ فریقِ مخالف نے فقروں اور الفاظ کے تحت لفظی اور استعارائی معانی کا سوال اٹھایا تو یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس سلسلے میں غالبؔ کی پیروی کر رہا ہے۔ چنانچہ ’ ’ بومے از اکبر آباد‘‘ کے معٰنی اکبر آباد کی زمین کے ہو گئے۔ ’ ’ میخ در سوراخ‘‘ سے کان کے سوراخ بند کرنے کا مفہوم نکالا گیا۔ ’ ’ کلال‘‘ کے معنی کاہل لئے گئے ’ ’ خایہ ‘‘ کا مفہوم بیضۂ مرغ سے مترادف ہے۔ ’ ’ ازار‘‘ چادر میں بدل گیا۔ ’ ’ میانِ خون حیض غوطہ خورد‘‘ کے معنی کیونکر گنہگار ہوتے گئے۔ غرض کہ غالب کے دیکھتے دیکھتے لٖفظوں کی ماہئیت قلب ہو گئی اور مقدمے کا توازن بگڑ کر رہ گیا۔ غالبؔ سے جب ان کے اپنے گواہوں کے انحراف کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا۔ ؎

ہر انچہ در نگری جز بہ جنس مائل نیست عیار بے کسئی ما شرافت نسبیست

لیکن سچ تو یہ ہے اس فارسی زبان نے ان کے مقدمے کو الجھا دیا جس پر قدرتِ کاملہ کا انہیں دعویٰ تھا۔ اور بالآخر ان کو مصالحت کر کے اپنے دعوے سے دست بردار ہونا پڑا۔

حکیم مرزا آغا جان عیش کے زبان میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے، والے معاملے کو اکثر اوقات بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس قسم کی نکتہ چینیاں ہر دور میں قریب قریب ہر لائقِ ذکر ادیب اور شاعر کے خلاف سر اُٹھاتی رہی ہیں۔ اور جہاں تک غالب کے ابتدائی کلام میں طرزِ بیدل کی غلط پیروی سے چیستانی عناصر کی موجودگی کا تعلق ہے، ایسی نکتہ چینیوں کا سر اٹھانا بڑی حد تک قرینِ قیاس بھی ہے۔ اس کے بعد ’ ’ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل‘‘ والا مسئلہ ہے۔ تو اس سلسلے میں یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ ابتدا میں پہلے مصرعے میں ’ ’ سخن ورانِ کامل‘‘ کے بجائے جاہل کہا گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب غالب اکبر آباد سکونت گزیں تھے۔

نثر میں غالب نے نہ صرف اردو میں خطوط نویسی کا آغاز کر کے روایت شکنی کی بلکہ ساتھ ہی ساتھ القاب و آداب ترک کر کے تہذیبی، اخلاقی اور ثقافتی اجتہاد کی جرأت کی۔ اس کے باوجود ان کی بدعت ( اجتہاد) کو ہر طرف سے سراہا گیا۔ یہاں تک کہ جلد ہی ان کی ترتیب اور طباعت کے مراحل کا آغاز ہو گیا۔ جہاں تک ان کے فارسی کلام کا تعلق ہے ایسی شہادتیں مہیا ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ ذوق اس سلسلے میں غالب کی عظمت کو ہر شک و شبہ سے بالاتر سمجھتے تھے۔ اس دور میں تنقیدی ادب کی جتنی صورتیں بھی مروّج تھیں ان کا تجزیہ اس عام خیال کے خلاف جاتا ہے کہ غالبؔ اپنے دور کے شاعر نہیں تھے۔ اور انہیں ان کے عہد میں پہچانا نہیں گیا۔ اس دور کے مخطوطات اور دوسری دستاویزی شہادتیں شواہد سے معمور ہیں کہ غالبؔ کی خاطر خواہ قدر افزائی ہوتی تھی۔ اس طرح تذکروں میں بھی ان کو امتیازی اہمیت دی گئی۔ جہاں تک ’ ’ آبِ حیات‘‘ کا تعلق ہے آزادؔ نے یوں بھی حقائق کی پیش کش سے زیادہ انشاء پردازی پر توجہ دی ہے۔ اور استاد نوازی تو خیر انسان کی فطرت ہی ٹھہری۔ اس کے باوجود غالب کو مغلوب بالکل ہی نہیں دکھایا گیا۔ اگرچہ خود غالب کا یہ اشارہ ہے۔

ہر کجا غالب تخلص در غزل بینی مرا

می تراش آنرا و مغلوبی بجا یش می نویس

غالب کی قدر افزائی کے معاملے پر سوچتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ کچھ عرصہ بعد ہی حالیؔ  نے مقدمہ شعر و شاعری میں اس خوف کا بھی اظہار کیا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں شاعری کو کوئی سماجی وقعت ہی نہ حاصل رہے۔ ایسے زمانے میں غالبؔ کی جتنی قدر کی گئی وہ کم نہ تھی۔ اردو شعر و ادب کی تاریخ شاہد ہے کہ غالبؔ اردو شاعری کے اس موڑ پر ایستادہ ہیں کہ جہاں پہلی بار اردو غزل کے خلاف شعوری ردِ عمل کی ابتدا ہوتی ہے۔ حا لات یوں پلٹا کھاتے ہیں کہ طرحی مشاعروں کی جگہ موضوعی مناظموں کا جنم ہوتا ہے۔ غزل کی اصلاح کا سوال اٹھتا ہے، لیکن اس دور میں بھی حالیؔ اردو کی اوّلین سوانح حیات کے ضمن میں فارسی کے عظیم شاعر سعدیؔ کے ساتھ اردو و فارسی کے جس ہندوستانی شاعر کو اپنا موضوع بناتے ہیں وہ غالب ہیں۔

’ ’ یادگارِ غالب‘‘ سے غالب شناسی کی روایت کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کی حیات اور شعری و ادبی کارناموں پر اہلِ ذوق کی توجہ مرکوز ہونے لگتی ہے۔ اگر کلیم الدین احمد کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے ہم تذکروں کو تنقید کی حدودِ شرعیہ سے خارج بھی کر دیں اور حالی کے مقدمۂ شعرو شاعری سے اردو تنقید کی ابتدا تسلیم کریں تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو میں غالبؔ شناسی کا آغاز تنقید کے آغاز کے ساتھ ہوتا ہے۔ جتنی عمر اردو تنقید کی ہے اتنی عمر غالب شناسی کی روایت کی ہے۔ غالب شناسی کی روایت کیونکہ غالبؔ کے ہاتھوں پڑی اس لئے ابتدا میں یہ روایت ہر نوع کی ہنگامہ پروری سے تہی رہی۔ حالیؔ کی طبیعت کا ٹھہراؤ اس روایت کو اپنی گھمبیر تا میں سمیٹے رہا۔ اور خاص طور پر اس لئے بھی یہ سمندر ساکت و صامت رہا کہ حالیؔ اور ان کے رفقا ’ ’ پیرویِ مغربی کریں ‘‘ کے ہدایت نامے پر عامل رہے۔ لیکن اس دور میں غالبؔ کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا۔ شعرأنہ ہوئے نثر نگار ہوئے۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ، غالبؔ کے خطوط کی نثر اردو نثر کے اس عظیم دور کے سارے عظیم نثر نگاروں کو علیحدہ علیحدہ متاثر کرتی ہے۔ علمی، ادبی، افسانوی یہاں تک کہ دفتری اور کاروباری زبانوں کے مختلف روپ جو اُس زمانے میں جنم لے کر ہمارے زمانے تک عہد در عہد چلے آئے ہیں، ان کا اصل مخزن غالبؔ کے خطوط پر ہی مشتمل ہے۔ ابتدا میں غالب شناسی کی روایت کے دھیمے پن کے باعث مغربی ادبیات اور ہندوستانی ثقافت کے بارے میں احساسِ کمتری کی روایت رہی ہے۔ اس احساسِ کمتری کی تشکیل میں جہاں سر سید اور ان کے رفقاء اور سرسید تحریک نے حصہ لیا ہے، وہاں خود غالبؔ بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ چنانچہ سر سید کی تصنیف ’ ’ آئینِ اکبری‘‘ کی جو تقریظ غالبؔ نے لکھی ہے وہ ان کے احساس کمتری کی آئینہ دار ہے۔ جیسے ہی احساسِ کمتری کی اس روایت کے خلاف اکبرؔ اور ان کے ہمنواؤں کی ضرب کلیمی کا پلّہ بھاری ہوتا ہے۔ غالب شناسی کی روایت ’ ’ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری کے ہاتھوں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ ’ ’ دیوانِ غالب‘‘ الہامی کتاب ٹھہرتا ہے۔ ’ ’ بیدار‘‘ کے علاوہ ’ ’ خوابیدہ‘‘ نغموں کی جانب نگاہ توجہ بلند ہونے لگتی ہے۔ انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں غالب کا موازنہ ان شعراء سے ہونے لگتا ہے جن سے ان کا تقابل کسی صورت مناسب نہیں۔ غالب شناسی کی روایت اپنی گھمبیرتا، ٹھہراؤ اور دھیمے پن سے محروم ہو کر اس مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے جہاں غالبؔ کو شاعر و ادیب کی بجائے ایک قومی ہیرو کا درجہ دیا جانا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر و ادیب ہی نہیں بلکہ افسانوی شخصیت، ایک ہیرو اور ایک بت، ٹھہرائے جاتے ہیں اور یوں تنقیدی مدو جزر کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ غالب کے طرف داروں اور سخن فہموں میں ایک نہ ختم ہونے والے ادبی تنازعے کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن اردو تنقید کی ابتداء سے غالب شناسی کی جو روایت شروع ہوئی ہے وہ تنقید کے ساتھ ساتھ مرحلہ در مرحلہ آگے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ نکتہ چینی ہو کہ مغرب کے مختلف النوع مکتبہ ہائے تنقید، غالب شناسی کی روایت جملہ اسالیب تنقید کو اپنی جانب مائل کئے بغیر نہیں رہتی۔ اب تک تاثراتی، جمالیاتی، نفسیاتی، تاریخی، عمرانی، تہذیبی، ثقافتی، اخلاقی یہاں تک کہ مذہبی اور ما بعد الطبیعاتی نقطہ ہائے نظر سے غالبؔ  کا جائزہ لیا جا چکا ہے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک سے بھی اپنے ابتدائی زمانے میں جب کہ بعض خام خیال نوجوانوں نے بغاوت کے نام پر کلاسیکی سرمایہ ادب سے چشم پوشی کو لازمی قرار دیا تھا۔ غالب شناسی کی روایت سے چشم پوشی ممکن نہ ہو سکی۔ اس طرح جدید شعر و ادب سے جدید ترین شعر و ادب کے دور تک ہم اس روایت کو زندہ و پائندہ دیکھتے ہیں۔ یہ صورتِ حال بڑی خوش آئند ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ غالب شناسی کی لائق صد تحسین روایت کو غالبؔ  کے طرفداروں اور سخن فہموں کی انتہا پسندی نے بہت زیادہ مجروح کیا ہے۔ یوں تو حا لیؔ کو بھی طرفداروں کی صف میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی طرفداری قطعی طور پر جانبداری میں نہ ڈھل سکی اور بظاہر ان کی ’ ’ یاد گار غالب‘‘ میں بڑا توازن ملتا ہے۔ لیکن بحیثیت سوانح نگار ان سے ایک عظیم کوتاہی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے غالب کی زندگی کے بے شمار واقعات اور تفاصیل کو مشرقی ذہن کے بے جا احتیاط اور معلم اخلاق کی تنگ نظری کے تحت اپنی تصنیف میں شریک نہیں کیا اور ضائع ہونے دیا۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر دفاعی انداز اختیار کیا اور بے ضرورت کیا۔ حقیقتِ حال یہ تھی کہ حالیؔ ایک معمولی ذہن کے آدمی تھے اور غالب کے غیر معمولی ذہن اور شخصیت کا عرفان ان کے امکانات سے باہر تھا۔ اس طرح توازن کے باوجود غالبؔ شناسی کی روایت میں انتہا پسندی کے عناصر حالیؔ کے وقت سے ہی در آنے لگے تھے۔ اس کے باوجود غالبؔ کے خلاف انتہا پسندانہ ردِ عمل کی ذمہ داری حالیؔ اور ان کی تصنیف ’ ’ یادگارِ غالب‘‘ پر عائد نہیں ہوتی۔ اس ردِ عمل کی ابتدا غالب کے زمانے سے ہی شروع ہو گئی تھی، جس کا سبب غالبؔ کی وہ تلخ گوئی تھی جو انہوں نے جا وبے جا ہندوستان کے فارسی دانوں اور فارسی گویوں کے خلاف روا رکھی۔ جس کا ذکر پہلے بھی آ چکا ہے۔ جب غالب نے ’ ’ برہانِ قاطع‘‘ کے ردِ عمل کے طور پر ’ ’قاطع برہان ‘‘ لکھی تو یہ ردِ عمل شدت اختیار کر گیا۔ اس سلسلے میں ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ کہ غالبؔ پہلے آدمی تھے جنھوں نے ’ ’ برہان قاطع ‘‘ کے خلاف قلم اٹھایا۔ حالانکہ غالبؔ سے پہلے دو تین کتابچے ’ ’ برہان قاطع ‘‘ کی رد میں لکھےجا چکے تھے۔

غالب کے خلاف ردّ عمل کی ایک نوعیت خالص شخصی اور ذاتی تھی۔ وہ یہ کہ نواب شمس الدین کی پھانسی کے سلسلے میں ان کے خلاف انگریزوں سے مخبری کے شبہات عام ہو چکے تھے۔ خاص طور پر اس سبب سے بھی کہ ان دنوں غالب ایک ڈگری کے اجراء کی وجہ سے دن میں باہر نہیں نکلتے تھے اور راتوں میں ایک انگریز حاکم سے طویل طویل ملاقاتیں کرتے تھے۔ ممکن تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غالبؔ کے خلاف ردّ عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا اور ’ ’ یادگار غالب‘‘ کی اشاعت کے بعد حالات یہی صورت اختیار کرنے لگے تھے، لیکن ڈاکٹر بجنوریؔ  کی انتہا اور خالص تاثراتی نوعیت کی نگارشات نے در حقیقت غالبؔ کے خلاف شدید انتہا پسندانہ ردّ عمل کے لئے راہ ہموار کی، جس کا مشاہدہ انگریزی میں ڈاکٹر لطیف کی تصنیف اور اردو میں ’ ’ یگانہ ‘‘ کی نگارشات سے ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر لطیف کی تصنیف خوفناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہوتی ہے۔ موصوف نے غالب کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ بڑی حد تک حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے لیکن غالبؔ کے ادبی کارنامے کی جانچ پڑتال کے لئے جو کسوٹی استعمال کی ہے وہ مغرب سے مستعار لی ہوئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ان کی اس کسوٹی کے استعمال کا بھی ملکہ نہ تھا۔ دوسری زبانوں میں اپنے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں پر قلم اٹھاتے ہوئے ہمیں ذمہ داری کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ ہماری انتہا پسندانہ روش نہ صرف ہمارے ایک ادیب، شاعر، اور فنکار کو دنیائے ادب میں کم تر مقام دلانے کا باعث بن سکتی ہے۔ بلکہ ہمارے ادب کو پستیوں میں دھکیل کر مستقبل کے قلمکاروں اور فنکاروں کو دوامی طور پر احساسِ کمتری میں مبتلا کر سکتی ہے۔

غالب شناسی کے ضمن میں تنقید کے مد و جزر سے قطعِ نظر کر کے جب ہم تحقیق کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سلسلے میں خاصی بے توجہی سے کام لیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی کوتاہی تو حالیؔ سے ہوئی جس کا ذکر پیشتر آ چکا ہے۔ ان کے بعد محققین بھی طرفداروں اور سخن فہموں کی کوتاہ اندیشیوں کا شکار ہونے سے نہ بچ سکے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم غالبؔ کی زندگی کے بارے میں بظاہر بہت کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہ جان سکے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم غالبؔ کی زندگی کے بارے میں بہت کچھ زندگی کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بے توجہی روا رکھتے ہیں۔ کچھ قیاسات کا مسلسل اعادہ کیا جاتا ہے۔ چند غلط بیانیوں کی تکرار سے ان پر صداقت کی مہر چسپاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چند اہم حقائق سے چشم پوشی کی جاتی ہے اور مشرقی مروّت اور پردہ پوشی کی روایت کو کام میں لاتے ہوئے غالبؔ کی تصویر کو ایک مثالی انداز دینے کی سعی کی جاتی ہے۔ ( اس سلسلے میں اقبالؔ کے ساتھ بھی یہی کرم فرمائیاں جاری ہیں )۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کوثر چاند پوری جیسے غالب شناس نے جو افراط و تفریط سے گریز کے دعویدار ہیں، ڈاکٹر بجنوریؔ کی ان کوششوں کو مطعون گردانا ہے جس کے باعث ’ ’ دیوان غالب ‘‘ نسخۂ حمیدیہ کی اشاعت عمل میں آئی۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس نسخے کی اشاعت سے غالبؔ کی فنکارانہ حیثیت کو گزند پہنچا اور ناظرین کو بے شمار ایسے اشعار پڑھنے کا موقع مل گیا، جن کو دیوان کے مرتبین نے خارج از دیوان کر دیا تھا۔

اس نوع کی چشم پوشیوں اور پردہ داریوں کی وجہ سے غالبؔ کی زندگی کے بعض پہلو بڑی حد تک تشنہ رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی خانگی زندگی خاص طور پر تعلقات زن و شوہر کے بارے میں عجیب عجیب قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ عام خیال یہ ہو گیا ہے کہ غالب بہت کم زنان خانے میں جاتے تھے۔ اپنی بیگم سے خوش نہ تھے۔ تساہلانہ زندگی کو طوق و بند سلاسل گردانتے تھے۔ میاں بیوی میں طبائع کا شدید اختلاف تھا۔ حالانکہ معمولی توجہ سے تین اہم باتیں ہمیں متوجہ کرتی ہیں۔ پہلی یہ کہ غالبؔ پیرانہ سالی کے زمانے میں بھی دن میں ایک بار ضرور زنان خانے میں جاتے تھے اور بیگم سے باتیں کرتے تھے۔ دوسری یہ کہ جب کہیں باہر جاتے تو بیگم کو یا تو خط بھجواتے یا زبانی پیغام بھجواتے۔ تیسری بات یہ کہ آخری عمر میں انہوں نے نواب رام پور کو کئی معروضات روانہ کئے تھے تا کہ کم از کم یہ اطمینان نصیب ہو جائے کہ ان کے بعد ان کے اہل و عیال معاش کے لئے سر گرداں نہ رہیں۔ جہاں تک خاندانی زندگی کی ذمہ داریوں اور بیزاریوں اور فرار کا تعلق ہے تو اس ضمن میں اس حقیقت کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے آخری عمر کی پریشانیوں کے باوجود اپنی بیگم کے اعزاء ایک دو لڑکیوں اور لڑکوں کو مستقل اپنے گھر رکھا اور ان کی کفالت کی۔ حسین علی خاں کی شادی کے سلسلے میں ان کے خطوط اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ وہ ذمہ داریوں سے فرار نہیں کرتے تھے۔ بلکہ غیر ضروری ذمہ داریاں اپنے اوپر عائد کر لیتے تھے۔ اس طرح نواب شمس الدولہ والا معاملہ بھی تحقیق طلب ہے، اور محققین کی توجہ کا محتاج ہے۔ غالب کی تعلیم و تربیت کی تفاصیل اور جزئیات ہنوز تاریکی میں ہیں۔ اور ان کے معاشقے یا معاشقوں کی مزید وضاحت ضروری ہے۔ تاکہ انتہا پسند غالب شناس ان کے لئے عجیب و غریب ضابطۂ رومان اختراع کرنے سے باز رہیں۔ اور تو اور ان کی جائداد اور منصب کے قضیئے کے ضمن میں جائداد کی تقسیم کے سلسلے میں اصل شقے کی جگہ جعلی شقے کا استعمال بھی تحقیق طلب ہے۔ کیونکہ یہی وہ قضیۂ ہے جس کا سلسلہ غالبؔ کے خلاف نواب شمس الدین کی مخبری کرنے اور انہیں پھانسی دلوانے کے الزام تک جاپہنچتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غالب کی شخصیت ہنوز پردۂ راز میں ہے۔ جو اصحاب ان کے اشعار سے ان کی شخصیت کی بازیافت کے دعویدار ہیں وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہت کم شاعر اور خاص طور پر بہت کم عظیم شاعر اپنے اشعار میں اپنی شخصیت کا واضح ابلاغ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اردو شاعری خاص طور پر غزل کے مخصوص مزاج اور مشرقی طبائع کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غالب کے اردو، فارسی دونوں کلاموں میں بے شمار اشعار مل جاتے ہیں جو دوسرے شعراء سے تاثر پذیری کا نتیجہ ہیں اور ظاہر ہے کہ ان اشعار میں غالبؔ کا چہرہ دیکھنے اور دکھانے والے ان کو غیر حقیقی روپ عطا کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ رہا غالبؔ کے خطوط کا مطالعہ تو اس سلسلے میں اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا پڑے گا کہ غالب کے وہ خطوط جو انہوں نے اپنی زندگی کے اس مرحلے کے بعد لکھے جب انہیں علم ہو گیا کہ ان کے خطوط کی اشاعت مجوزہ ہے۔ ان کی شخصیت کے مطالعے میں زیادہ قابلِ اعتماد نہیں ٹھہرتے۔ اس کے علاوہ خطوط میں سادگی کے باوجود پیرایۂ اظہار علامتی ہو جاتا ہے، اور پتہ چلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اصل صورتِ حال کیا ہے۔ اس کے علاوہ غالبؔ کا مخصوص مزاج بھی حقائق کی قلب ماہیّت کا باعث بن جاتا ہے۔ چنانچہ اشعار تو اشعار خطوط بھی غالب کی شخصیت کے صحیح عرفان میں ہماری رہبری نہیں کرتے۔ آج جس مجموعہ اضدادِ غالبؔ کی تصویر ہمارے پیشِ نظر ہے وہ ایک جانب خوددار، وضعدار، حمیت پسند، منکسرالمزاج، ایثار پسند، درد مند، مخلص، صادق القول، صادق الکلام، نیک، مذہب پسند، آزاد منش، صوفی اور طباع ہیں تو دوسری جانب عزتِ نفس سے عاری، خوشامدی، کاسہ لیس، بے حمیت، گھمنڈی، بے مروت، خود غرض، غیر ذمہ دار، ڈھیٹ، اذیت رساں، دروغ گو، بیدرد، قرض کی پیتے تھے مے کا دعویدار، نسل پرست، طبقہ پرست، نام و نمود کا رسیا، کاہل، آرام طلب اور موقع پرست ہیں۔ ان متضاد اور متنوع صفات بلکہ مزید بے شمار صفات کے ثبوت میں غالبؔ شناسوں کی نگارشات کے علاوہ غالب کے خطوط، اشعار اور دوسرے مواد سے کافی حوالے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اس لئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ غالب شناسی کی دیرینہ روایت اور بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود غالبؔ کی شخصیت کے بارے میں ہماری معلومات اتنی کم ہیں کہ بے شمار جزئیات کی کڑیاں آپس میں مربوط نہیں ہوتیں اور جب محض قیاس کے ذریعہ ان کڑیوں کو جوڑ کر کوئی مرقع ترتیب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو غالبؔ کی شخصیت یا تو مسخ ہو جاتی ہے یا دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ کرنے کے سامان بہم ہونے لگتے ہیں۔

غالبؔ کی شخصیت کے بارے میں معلومات کے فقدان اور مہیا شدہ واقعات میں منطقی بے ربطی کے باوجود ہمارے بیشتر تنقید نگار ان کی شخصی عظمت کا بکھیڑا لے بیٹھتے ہیں اور اس طرح وہ اپنے قیاس کی مدد سے ایک بت تراشتے ہیں، اور پرستاروں کا ایک گروہ بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح کی بت تراشی اور بت پرستی اپنے منطقی انجام بت شکنی کی منزل تک ناگزیر طور پر پہنچ کر رہتی ہے۔

چند نقادوں نے غالب کے اجتماعی شعور کی بات بھی چھیڑ رکھی ہے۔ غالبؔ میں اجتماعی شعور کا فقدان تھا۔ چند شعر ضرور ایسے مل جاتے ہیں جن میں اجتماعی شعور کی جھلکیاں ہیں، لیکن ان اشعار کے بر خلاف ایسے اشعار کی کثرت ہے جو اس شعور کے فقدان کے عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے خطوط سے بھی اجتماعی شعور کی شدید کمی معلوم ہوتی ہے۔ اجتماعی شعور کی بات تو علیحدہ ہے غالبؔ کی شخصیت میں ان کی اپنی ذات بحیثیت فرد کے مختلف اجزا غیر مربوط دکھائی دیتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے ان کی شخصیت ٹوٹ کر اجزا میں بکھر گئی ہے۔ یہ تنہا غالبؔ کا المیہ نہیں بلکہ اس عہد کے بیشتر انسانوں کے ساتھ یہی المیہ درپیش ہے۔ یہ اس عہد کی کرامت ہے۔ مغلیہ تہذیب اور ثقافت کے زیر سایہ نمود پائے ہوئے سماج کی عمارت تو غالب سے بہت پہلے متزلزل ہو گئی تھی، لیکن غالبؔ کے عہد میں وہ زمیں بوس ہو گئی اور اس کی جگہ دوسری عمارت کی نیو بھی نہیں پڑی تھی۔ غالبؔ کا عہد وہ ہے جس میں پرانی دنیا مر چکی تھی اور نئی دنیا ہنوز پیدا نہ ہو سکی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تخریب کا سلسلہ جاری تھا، تعمیر کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس انتشار، تخریب اور عام بیخ کنی کے زمانے میں شخصیتوں کے ارتکاز کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتاچنانچہ غالبؔ کی انفرادیت ہی واضح طور پر مشکل نہیں دکھائی دیتی۔ یہ تصور کرنا کہ غالب نے بدلے ہوئے حالات میں اپنے آپ کو استوار کر لیا تھا ایک خام خیال ہے۔ وہ موقع پرست اور ابن الوقت بھی تھے تو یہ نہ ممکن تھا کیونکہ کوئی ایک سانچہ ہو تو آدمی اس میں ڈھل جائے۔ وہاں تو ہر لمحہ ایک نیا سانچہ تشکیل پاتا تھا اور ہر لحظہ حالات ایک نئی کروٹ لیتے تھے۔ البتہ اپنے عہد سے متعلق ان کے روّیے اور ردِ عمل کے بارے میں ایک دو باتیں کافی واضح ملتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ انگریز پرست تھے اور جنگِ آزادی کو نہ صرف رست خیز، بے جا خیال کرتے بلکہ اپنے ہم وطنوں کو رو سیاہ کالوں کا نام دیتے تھے۔ ان کا یہ روّیہ اتنا واضح تھا کہ جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد وہ گھر سے ہجرت کرنے کے خلاف محض اس اعتماد کے سبب تھے کہ انگریز انہیں کوئی گزند ہی نہیں پہنچائیں گے بلکہ الٹا انہیں انگریزوں سے کچھ خوش آئند توقعات بھی تھیں۔ یہ تصور کہ وہ ترقی پسند طبع کے مالک تھے اور انگریزوں کی معیت میں آئی ہوئی عقلیت اور مادیت کی رو کے مثبت پہلوؤں پر ان کی نگاہ تھی محض تصور ہی معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کو اپنے عہد کے تغیرات کا حقیقی شعور نہ ہو سکا تھا۔ جب ہم غالب کو ان کے اپنے عہد کے آئینے میں منعکس دیکھتے ہیں تو ہم اس بات پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ چند اکابرین ادب کے اس روّیے کے خلاف احتجاج کریں جو انہوں نے غالبؔ شناسی کی روایت کو تہذیب کی قدروں سے گڈ مڈ کر کے ان کو مغلوں کے آخری دور کی تہذیب کا نمائندہ اور یہاں تک کہ اسلامی تہذیب کا نشان یا علامت کے طور پر پیش کرنے کے لئے اختیار کر رکھا ہے۔ جس تہذیب کی موت پر غالبؔ نے خلوصِ دل سے کچھ نہ محسوس کیا۔ اس کے نمائندہ، نشان یا علامت کس طرح ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شخصیت کے بارے میں جتنی معلومات ہمیں آج تک فراہم ہوئی ہیں۔ ان کے پیشِ نظر اس قسم کے نعرے بلند کرنا ایک عظیم خطرہ مول لینا ہے۔ غالبؔ صرف پاکستان کے شاعر اور ادیب نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی حیثیت کے عظیم فنکار ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کے بارے میں دنیا کے مختلف ممالک میں کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے۔ غالبؔ کی شخصیت میں مغل ثقافت اور تہذیب کی تجسیم اس تنقید کا کارنامہ ہے جو ایک جانب ’ ’ بجنوریانہ‘‘ عناصر کی عکاس ہے تو دوسری جانب فقرے بازی کے چسکے نے اس کو ایک نوع کی فکری و نظریاتی بازی گری میں ڈال دیا۔ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر نہ تو ’ ’ بجنوریانی‘‘ تنقید کی کوئی گنجائش ہے اور نہ فقرے بازی کی۔ تہذیب اور ثقافت کے دھوم دھڑکے کے علاوہ غالب شناسی کو گزند پہچانے والے تنقیدی رجحانات میں سے ایک رجحان وہ ہے جس کے تحت ہم غالبؔ کو فلسفی اور مفکر ثابت کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ غالب تو غالب خود اقبال کی شاعری کے فکری عناصر خالص شاعرانہ نہج کے حامل ہیں۔ اگرچہ اقبال کے ہاں نوع کا فکری ارتقاء بھی مل جاتا ہے جو غالب کے ہاں مفقود ہے۔ فلسفے اور نفسیات کے ڈانڈے ملا کر یہ مسائل بھی عام طور پر اٹھائے جاتے ہیں کہ غالبؔ کے ہاں رجائیت ہے یا قنوطیت؟۔ اس طرح یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ غالبؔ کے ہاں نشاط ہے یا غم، اس سے آگے بڑھ کر یہ سوال کہ غالب کے ہاں نشاطِ غم ہے یا غمِ نشاط۔ ؟ یا اور قسم کی دوسری بے شمار باتیں محض اس لئے چھیڑی جاتی ہیں کہ ہمارے بیشتر نقاد غالبؔ کی عظمت کو تسلیم کرانے کے لئے نت نئے بہانوں کے متلاشی ہیں۔ کبھی وہ غالبؔ کو ایک عظیم انسان، مفکر، عظیم ماہرِ نفسیات اور عظیم صوفی ٹھہرا کر عظیم منواتے ہیں تو کبھی اس کو تہذیب اور ثقافت کی علامت گردان کر اس کی عظمت کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ غالبؔ کو ان بہانوں اور ان سہاروں کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہ ایک عظیم شاعر اور عظیم نثر نگار ہیں۔

ان کے کلام کے خلاف بھی ردِ عمل کے کچھ پہلو موجود ہیں۔ پہلا ردِ عمل جو اُن کے عہد سے لے کر آج کے عہد میں بھی بعض حلقوں میں موجود ہے، وہ ان کی شاعری میں اشکال اور ابہام کے عناصر کے خلاف معرضِ وجود میں آیا ہے۔ اشکال اور ابہام عظیم شاعروں کے ہاں بہت عام ہے۔ پہلا مسئلہ ایک عظیم شاعر کے غیر معمولی وجدان کا ہے۔ اس کے بعد زبان کی تجدید کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے۔ کیونکہ ہربڑا شاعر اپنی زبان کی تشکیل خود کرتا ہے۔ الفاظ میں تجدید معانی کے علاوہ نئے الفاظ کی اختراع، لفظوں کی نئی ترکیب کی تخلیق، ناموس الفاظ کا استعمال، تعمیم کی تخصیص، تخصیص کی تعمیم، نئے متروکات کا تعین، قدیم متروکات کی جانچ پڑتال اور ان کی حیاتِ نو، ابلاغ کی منفرد شکلوں کی تخلیق اور ان جیسے بے شمار مسائل ہر منفرد اور عظیم شاعر کے کلام میں اشکال اور ابہام کے عناصر کا باعث بن جاتے ہیں۔ ہر بڑا شاعر اپنے عہد کی مخصوص زبان کی تنگ حدود پر قانع نہیں ہوتا۔ وہ ان حدود کو اکثر اوقات نظر انداز کر جاتا ہے، اور اپنے ہم عصروں کے لئے اس کا کلام مشکل اور ابہام سے معمور ہوتا ہے۔ لیکن عہد در عہد کی تشریح اور تفہیمِ جدید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر عہد اس کو اپنے آئینے میں ایک نئے روپ کی شکل میں بازیافت کرتا ہے اور اس طرح ایک بڑے شاعر کا ابہام در حقیقت اس کے کلام میں آفاقی عناصر کی نشاندہی کرتا ہے۔

اشکال اور ابہام کے ضمن میں غالبؔ کے خلاف ردِ عمل کی نوعیت اتنی قابل توجہ نہیں رہی ہے۔ کیونکہ بہر صورت اس کی سنگینی دھیمی پڑ جاتی ہے۔ لیکن ایک اور نوعیت کا ردِ عمل جو چند ثقہ اصحاب ( ڈاکٹر عبد اللہ وغیرہ) کے ہاں غالبؔ شناسی کی پر خلوص سعی کے طور پر نموپذیر ہوا۔ آہستہ آہستہ چند تنقید کے ہنومانوں کے ہاتھ لگا ہے۔ جو لنکا ڈھانے کی فکر میں ہیں۔ جو نقاد غالب کے کلام میں توارد، تکرار، یہاں تک کہ سرقے کے شواہد تلاش کرتے ہیں، ان کو یہ غلط فہمی ہے کہ طبع زاد فکر شاعری میں ناگزیر ہے۔ تاریخ شعر و ادب کا مطالعہ یہ سکھاتا ہے کہ ہر زبان میں اور ہر دور میں عظیم شاعر اپنے عہد کی فکر سے استفادہ کرتا ہے۔ انتخاب، اکتساب اور امتزاج کے مرحلوں سے گزار کر وہ اس ذخیرۂ فکر کی نہ صرف تلخیص کرتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کو اپنے مشاہدۂ حیات، تجربات، عقلی تجزیے اور وجدانی پرکھ کی کسوٹیوں پر آنکتا ہے۔ خارجی کوائف کو باطنی کوائف کا اور باطنی کوائف کو خارجی کوائف کا روپ دے کر، ان کو خونِ جگر میں رچا کر ایسے سانچے سے گزارتا ہے کہ فکرو جذبہ ہم آہنگ ہو کر صوت و لفظ کا قالب اختیار کرتا ہے۔ فکر و جذبہ کی ہم آہنگی کے بغیر عظیم شاعری کی تخلیق نا ممکن ہے۔ غالب نے جہاں دوسرے شعراء کے اشعار کو اپنے اشعار میں ڈھالا ہے وہاں بھی دوسرے شعراء کے مضامین مندرجہ بالا مرحلوں سے گزارے ہیں۔ کچھ اشعار فارسی سے ترجمہ کی صورت میں بھی ملتے ہیں۔ اس زمانے میں یہ رواج نہ تھا کہ فارسی اشعار کا ترجمہ کیا جائے تو صراحت بھی کی جائے۔ غالبؔ پر اس قسم کی شرط عائد کرنا نا انصافی کے مترادف ہو گا۔ جہاں غالبؔ نے اپنے مضامین کا اعادہ کیا ہے وہاں ابلاغ کی مختلف النوع صورتوں کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

اب رہا غالب کی عظمت اور انفرادیت کا معاملہ تو کم از کم اردو شاعری میں ان کی عظمت کی اساس ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے غزل کو ایک نئی توانائی بلکہ حیاتِ نو، ایک نئی زبان، ایک نئی وسعت، ایک مخصوص طریقۂ ابلاغ کے ذریعے بخشی۔ جب ہم اردو غزل کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے جو شاعر ہمیں اپنی جانب متوجہ کرتا ہے وہ ولیؔ ہے۔ ولیؔ کے بعد میر تقی میر پر ہماری نگاہ ٹھہر جاتی ہے۔ اور پھر مصحفیؔ پر اچٹتی اچٹتی پڑتی ہے اور بالآخر غالبؔ پر۔۔ اور پھر اردو غزل کے خلاف ردِ عمل کا دور شروع ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی جدید غزل کا آغاز۔

غالب کے عہد میں صنفِ غزل کی حالت کا تصور کیجئے۔ ناسخؔ کی شاعری جو بعد میں منسوخ ہوئی۔ غالبؔ کے عہد میں صنفِ غزل کا لہو چاٹ رہی تھی۔ غالب کے ہم عصروں کی غزلوں میں ایک مردہ یا لبِ مرگ صنف کی تمام خصوصیات نمایاں ہیں۔ نیاز فتح پوری کے ہاتھوں یا ان کی سرپرستی میں مومنؔ کی بازیافت، حُبِ مومن یا حُب صنفِ غزل سے زیادہ بغضِ غالبؔ پر مبنی ہے۔ آپ مومنؔ کی غزلوں پر سر دھنئے، مزے لُوٹئے لیکن اس سے انکار تو نہ کیجئے کہ ان کے ہاں غزل کی صنف کی تنگ دامانی واضح سے واضح تر نظر آتی ہے۔ اور پھر غالبؔ کے ہاں تنگنائے غزل کی وسعت کا خیال کیجئے۔ یہ وسعت ایک زندہ صنف کی علامت ہے۔ اب آپ ملٹنؔ کی معرا شاعری پر غور فرمائیں۔ مارلوؔ نے معرا نظم کے فارم کو زندہ و توانا کیا اور شیکسپئر نے اس کو حد امکان تک استعمال کیا، اور ایک لحاظ سے اس کی ساری صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس منزل تک پہنچا دیا جہاں نیا صور پھونکے اور نئی زندگی دیئے بغیر اس کا مزید استعمال شاعر اور شاعری دونوں کے لئے پیغامِ اجل کے سوا کچھ نہ رہا۔ معرا نظم کے فارم کی موت کے بعد ملٹنؔ نے قلم اٹھایا اور اس کے قلم کے معجزے نے اس فارم کو ایک نیا آہنگ اور ایک نئی عظمت عطا کر کے انگریزی زبان کے زندہ و جاوید رزمیئے ’ ’ فردوس گم گشتہ‘‘ کے قالب میں ان توانائیوں سے روشناس کیا جو بابائے معراء نظم مارلوؔ کے ’ ’ تیمور لنگ‘‘ اور ڈاکٹر فارسٹس میں بھی نہیں ملتیں۔ اب آپ اہل زبان اصحاب کے مخصوص نقطۂ نظر سے ملٹنؔ کے فارم اور اسلوب پر سوچیں اور ناک بھوئیں چڑھائیں۔ شکوہ کریں کہ ملٹنؔ نے انگریزی زبان کو بگاڑ دیا اور یونانی، لاطینی اور نہ جانے کیا کیا خرافات اس پر مسلّط کر دیں۔ نامانوس تراکیب، اجنبی علامات تشبیہ و استعارے اور ابلاغ کی نت نئی صورتوں اور تجدید مفاہیم و معانی کے نت نئے تجربوں سے ایک جانی پہچانی زبان اور سمجھے بوجھے فارم کو اجنبی ملکوں کی اجنبی سوغات میں بدل کر رکھ دیا۔ غالب اور غزل کو متعلق کر کے ہم قریب قریب ایسے ہی متضاد و متنوع احساسات اور نتائج سے دو چار ہوتے ہیں۔ ایک بات اور ملٹنؔ نے معراء نظم کے فارم کو نئی زندگی اور توانائی عطا کی اور اس کی اپنی عظیم تخلیقات میں استعمال کیا اور پھر اس حالت میں چھوڑا کہ اس کے فوراً بعد نظم معراء کا ایک دور ہی ختم ہو گیا۔

ڈرائیڈنؔ اور پوپ کو مثنوی سے ملتے جلتے ’ ’ ہیروئک کو پلٹ‘‘ کے فارم میں پناہ لینی پڑی۔ غالب کے بعد صنفِ غزل میں آج تک کوئی قابلِ ذکر عظیم شاعر نہیں پیدا ہوا۔ میرؔ اور غالب نے اقلیم غزل کو جس طرح آپس میں تقسیم کر کے حکمرانی کا سلسلہ جاری کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے جدید ترین اردو غزل سے بھی کسی امتیازی کارنامے کی توقع محض خواب و سراب محسوس ہوتی ہے۔ یہاں ہم اس بات کے دعویدار نہیں ہیں کہ ان دو عظیم غزل گو شعراء کے حدود سلطنت قطعی طور پر واضح ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غالبؔ نے میرؔ کے علاقے بھی جا و بے جا غصب کر لئے ہیں۔ میر ہی نہیں بلکہ تنگنائے غزل کو بقدرِ ذوق بنانے کے لئے انہوں نے غاصبانہ پیش قدمیوں کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ ہندوستان سے ایران و توران تک پھیل گیا تھا۔ میرؔ اپنی گلی ہی میں ساری دنیا سمیٹ کر لاتے تھے اور دنیا کی وسعتوں میں ہوتے بھی تو دیکھنے والے کو یہی تاثر دیتے۔

؎ عمر بھر کوچۂ دلدار ( تنگنائے غزل) سے جایا نہ گیا

اس کی دیوار کا سر سے میرے سایہ نہ گیا

اس کے بر خلاف غالبؔ تنگنائے غزل کو ایک ’ ’ طلسم‘‘ کے ذریعہ ’ ’ بے درو دیوار‘‘ کر کے کائنات کی وسعتوں سے ہمکنار کر دیتے ہیں اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔

؎ خوشا مسافت عمرے کہ در سفر گزرد

غالب کا سفر ایک مقام سے دوسرے مقام کی جانب مسلسل حرکت سے عبارت نہیں بلکہ ایک دائرے میں گردش کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں تمام عالم اور اشیائے عالم حلقۂ زنجیر کے مشابہ ہیں۔

ہر چہ بینی بہ جہان حلقۂ زنجیری ہست

ہیچ جا نیست کہ این دائرہ با ہم نہ رسد

اردو غزل کے ضمن میں ایک خاص حد تک ولیؔ کو نقطۂ آغاز سے اور میرؔ کو خطوط کے ایک مجموعے سے جو اس نقطے کے مرکز سے شعاعوں کی مانند اس کے گردا گرد پھوٹتے ہیں، اور غالب کو ایک دائرے سے جو اس مرکز اور ان خطوط پر محیط ہے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ غالب کے ابتدائی کلام میں تنقیدی رنگ کی گرفت سخت ہے۔ ’ ’ طرز بیدل میں ریختہ کہنا۔ اسد اللہ خاں قیامت ہے ‘‘ گویا ایک چھوٹا سا دائرہ ہے جو تاریک اور بے رنگ ہے۔ جس میں روشنی کی چند لکیریں کہیں کہیں چمک چمک جاتی ہیں اس کے بعد یہ دائرہ مسلسل پھیلتا اور بڑھتا ہے۔ یہ خیال بھی بے جا طور پر عام کر دیا گیا ہے کہ انہوں نے بیدلؔ سے تاثر پذیری یک لخت ترک کر دی حقیقت یہ ہے کہ وہی تاریک اور بے رنگ دائرہ پھیلتا اور بڑھتا گیا ہے یہاں تک کہ بیدلؔ کے علاوہ صائبؔ، حزیںؔ  ابن یمینؔ، عرفیؔ، ظہوریؔ، حافظؔ، سعدیؔ اور اردو شعراء میں سب سے زیادہ میرؔ اس کی لپیٹ میں آ گئے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بیدلؔ سے ظہوریؔ کی جانب رجعت بھی میرؔ کی رہبری میں کی گئی۔ چند غالب شناسوں نے غالب کے سلسلے میں بیدل کو ایک ہوّا بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غالبؔ کے ہاں علامتوں اور استعاروں کا جو نادر اور مجتہدانہ استعمال ملتا ہے وہ انہیں بیدلؔ اور میرؔ تقی میر کی وساطت سے حاصل ہوا۔ ورنہ لفظ کو گنجینۂ معنیٰ کے طلسم کے روپ میں ڈھالنے کے معرکہ آرا کارنامے کی جانب غالب کا پہلا قدم ہی نہ رکھا جاتا۔ ( یہاں پہلے قدم کی تخصیص توجہ طلب ہے )

اردو نثر میں غالب کے کارنامے ( خطوط) کے بارے میں ان کے طرفدار اور سخن فہم متفق الخیال ہیں۔ بلکہ وہ لوگ جو ان کے شعری کارنامے کے منکر رہے ہیں، خطوط کی صنف میں ان کے عظیم اجتہاد اور ان کی اردو نثر کی مختلف النوع صفات کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ تاریخ اردو ادب میں ان کا مقام مسلّم ہے۔ یہ بھی کہنا بیجا نہیں ہے کہ غالب اگر شاعر نہ ہوتے تو بھی خطوط کے طفیل میں وہ ایک عظیم ادیب کے طور پر زندہ و پائندہ رہتے۔ تاہم اس ضمن میں بھی ان کے خلاف ردِ عمل بنام تحقیق صورت پذیر ہوا لیکن محض ہونے کے سبب بے وقعت ہو کر رہ گیا۔ قیاس آرائی کرنے والے تھے اردو کے مشہور محقق پنڈت برجموہنؔ دتاتریہ کیفی۔ ان کا موقف تھا کہ ماسٹر رام چندؔ نے ایک رسالہ میں ایک مضمون چھپوایا تھا جس میں خطوط میں طویل طویل القاب اور رسمی خطابات کے ترک کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ وہ رسالہ قلعہ معلی میں جایا کرتا تھا۔ قیاس یہ ہے کہ قلعہ معلی سے متعلق ہونے کے ناطے میرزا غالبؔ کے ہاتھ وہ رسالہ لگ گیا ہو گا اور متذکرہ مضمون غالبؔ کی نگاہ سے گذرا ہو گا۔ جس کی تحریک کی بنا پر انہوں نے غیر رسمی انداز میں خطوط لکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہو گا۔ سب ہی تسلیم کرتے ہیں کہ غالب کا کارنامہ صرف طویل القاب کو ترک کرنے تک محدود نہیں۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا۔ ان کے تخلیقی اور جدت پسند ذہن نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ اردو نثر کو سادگی اور پُرکاری سے آشنا کیا اور اس لائق کیا کہ پہلے ہی مرحلے پر وہ ارتقا ء کی اس منزل کو چھونے لگی جو کسی بھی زبان کی نثر کو صدیوں کی مسلسل ترقی و ترویج کے بعد حاصل ہوتی ہے۔

غالب شناسی کی روایت دوسری صدی میں داخل ہو چکی ہے۔ غالبؔ کی شخصیت اور فکرو فن کے بارے میں تنقیدی و تحقیقی مواد اس دوران میں مہیا ہو گیا ہے، اب ضرورت ہے چھان پھٹک، جانچ پڑتال اور تلخیص کی۔ حیرانی کا دور گزر گیا۔ غالبؔ کی شخصیت کو خانوں میں تقسیم کر کے اجزاء کی صورت میں دیکھنے کا زمانہ گیا۔ اب دور آیا ہے اصل مدعا میں محو ہونے کا۔ اب زمانہ آیا ہے موج کو چھوڑ کر دریا کو دیکھنے کا۔ شعاع سے قطع نظر کر کے آفتاب کی جانب رجوع کرنے کا۔ غالب کہتے ہیں۔ ؎

موجہ از دریا، شعاع از مہر، حیرانی چراست

محو اصل مدعا باش و بر اجزایش مپیچ

( گلفشاں لاہور غالب نمبر اپریل ۱۹۶۹ء)

٭٭٭

 

 

 

 

فراق گورکھپوری

 

پیدائش ۲۸ اگست ۱۸۹۶ ء

وفات ۳ مارچ ۱۹۸۲ ء

 

اردو زبان و ادب کے عظیم شاعر، نثر نگار اور نقاد رگھوپتی رائے سہائے، فراق گورکھپوری کا شعر و ادب میں مقام متعین کرنا مشکل ہی نہیں قریب قریب نا ممکن بھی ہے۔ میرے ذہن میں فراق کا نام میر، غالب اور اقبال کے بعد آ کھڑا ہوتا ہے۔ فیض، ن۔ م۔ راشد اور میرا جی کا نام ان کے بعد آتا ہے۔ فراق کی لفظیات اور زبان پر ہی معمولی توجہ دی جائے تو وہ اس زبان پر قدرتِ کاملہ کے حامل شاعر اور نثر نگار کے طور پر سامنے آتے ہیں جو بہ یک وقت ( اردو + ہندی) اور ( ہندی + اردو) روپ موقع و محل کی مناسبت سے استعمال میں لاتے تھے۔ یوں بھی خاندان کائستھ سے تھے۔ زبان کا ( اردو + ہندی ) روپ میں کیا ہے وہ کائستھوں کے بس کا روگ نہ تھا۔ اگر فراق اپنی زبان پر فخر و غرور کرتے تھے تو یہ ان کا حق تھا۔

’ ’ میری والدہ کا کہنا تھا کہ دو تین برس کی عمر ہی سے میں کسی بد صورت عورت یا مرد کی گود میں جانے سے انکار کر دیتا تھا بلکہ یہاں تک ضد کیا کرتا تھا کہ ایسے لوگ گھر میں نہ آئیں۔ اس کی خوب ہنسی اڑائی جاتی اور کبھی کبھی اس کے لیے مجھے چڑایا جاتا تھا۔ نو دس برس کی عمر ہی سے جس لڑکی یا لڑکے کو، مرد کو، یا عورت کو اپنے نزدیک خوبصورت سمجھتا تھا، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ میرا جسم بلکہ میری رگیں تک پگھل کر رہ جائیں گی۔ شعوری طور پر احساسِ حسن سے برانگیختہ ہونے والی شخصیت میرے اندر سنِ بلوغ سے کافی پہلے پیدا ہو چکی تھی۔۔ ۔۔ ‘‘

ص۔ ۱۱۔ ۱۲۔ من آنم۔ فراق۔

فراق صاحب کی مندرجہ بالا تحریر جو ان کے مجموعہ مکاتیب ’ ’ من آنم ‘‘ سے ایک اقتباس ہے، فراق صاحب کی مبالغہ آرائی کی شاہد نہیں بلکہ ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے پورے خاندان کے مبالغہ آرا اور مبالغہ پسند مزاج کی گواہی دے رہی ہے۔ شاعر فراق یا کسی بھی شاعر کو حسن پرست کہنا کوئی غیر معمولی دعویٰ نہیں جب کہ انسانوں کے حسن و جمال کے علاوہ فطرت کے حسن و جمال سے متاثر ہونے کا معاملہ بھی ہو لیکن دو تین برس کے بچے کی حسن پرستی صریحاً مبالغہ ہی کہلائی جائے گی۔ فراق کا یہ بیان یا اعتراف ’ ’نو دس برس کی عمر ہی سے جس لڑکی یا لڑکے کو، مرد کو یا عورت کو اپنے نزدیک خوبصورت سمجھتا تھا، اسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ میرا جسم بلکہ میری رگیں تک پگھل کر رہ جائیں گی ‘‘۔ مبالغے کی مد میں کم، کیفیت نگاری کی مد میں زیادہ آئے گا۔ فراق نے حسن کے مقابل اپنے اندرون کو خرج سے مصور کیا ہے۔ علامہ اقبال نے بلی کی خارج مصوری سے حسن کے مقابل اس کے اندرون کی تصویر کشی کی ہے۔ خیال رہے اگر آپ ’ بلّی‘ کو شاعر کی علامتی شخصیت نہ سمجھ بیٹھیں۔ ملاحظہ ہو اقبال کی نظم ’ ’۔۔ ۔ کی گود میں بلی دیکھ کر ‘‘ ص۔ ( ۸۲۔ ۸۳ ) کلیات اقبال ( اردو ) سنگِ میل پبلی کیشنز۔ لاہور۔ ۲۰۰۹ء

فراق کی حسن پرستی کے دائرے میں قدرت کے مظاہر حُسن کے علاوہ مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں کے حسن کے مظاہر بھی آتے تھے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ بقول فراق ’ ’شعوری طور پر احساس حسن سے برانگیختہ ہونے والی جنسیت میرے اندر سنِ بلوغ سے کافی پہلے پیدا ہو چکی تھی۔ ‘‘

من آنم ( ص ۱۱۔ ۱۲ )۔ شاعر۔ دانشور فراق گورکھپوری ( ص۔ ۱۱)

مندرجہ بالا اقتباس کی رُو سے فراق صاحب حُسن پرستی کو جنسی اساسی یا جنسیت اساسی حُسن پرستی کا نام دینے کو جی چاہتا ہے۔ سوچ کے سلسلے کو پیچھے لے جاتے ہیں تو امرد پرستی ایک مستحکم روایت کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کے فروغ کے لئے یہ جواز مہیا کیا جاتا ہے کہ ہمارا بر صغیری معاشرہ ایسا رہا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں سے نسبت ناقابلِ برداشت، معمولی سی بدگمانی اور شک پر تلواریں کھنچ آتی تھیں۔ آج کے دور میں بھی جب کہ ہند و پاک سماج میں کافی تبدیلی آ چکی ہے، امرد پرستی اپنی جگہ موجود ہے۔ دنیا بھر میں، گویا اس ضمن میں انقلاب آ چکا ہے۔ اپنے وقت کے عظیم قلم کار آ سکر وائلڈ کا مقدمہ ہارنا اور جیل جانا یاد آتا ہے اور بے ساختہ زبان پر آتا ہے۔ ’ ’ آ سکروائلڈ تم اپنے وقت سے بہت پہلے پیدا ہو گئے تھے ‘‘ فراق صاحب کو بھی اکیسویں صدی سے پہلے پیدا ہونا چاہیے تھا۔ فراق سے یہ غلطی سر زد ہوئی کہ وہ انیسویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئے۔ اور بیسویں صدی کے اختتام سے اٹھارہ برس قبل دنیا سے اٹھ گئے۔ یہ بھی غنیمت ہوا کہ ان کو انیسویں صدی کی دنیا میں اپنے بچپن اور اپنی عمر کے صرف چاربرس ہی گزارنے پڑے۔ اگر انیسویں صدی میں ان کو زیادہ مدت گزارنا پڑ جاتی تو نہ جانے ان کا کیا حال ہوتا۔ ان سے ایک اور غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انہوں نے اپنی بیگم کو طلاق دینے سے گریز کیا۔ کسی نے ان کے خاندان کے بزرگوں کو دھوکا دے کر ان کی شادی ایک ایسی لڑکی سے کرا دی جو کسی طور بھی ان کی رفیقۂ حیات بننے کے اہل نہیں تھی۔ حسن ظاہری میں وہ چہرے مہرے اور جسم کی بناوٹ کے اعتبار سے بدصورتی اور نا پسندیدگی کی حدوں کو چھوتی تھی۔ ذہنی اعتبار سے کند ذہن، خانہ داری کے معاملات میں پھوہڑ، گھر چلانے کی صلاحیت سے محروم تھی۔ پریم چند کی بیوی کے بارے میں جو معلومات بہم ہوئی ہیں ان کے مطابق وہ فراق کی بیوی سے ہزار درجہ بہتر تھی، لیکن پریم چند اس سے نباہ نہ کر سکے اور دوسری بیوی لے آئے جس نے ان کو، ان کے گھر کو اور ان کی پہلی بیوی یعنی اپنی سوت کو بھی سنبھالا۔ اس دوسری بیوی نے ہندی میں پریم چند پر ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔ فراق گورکھپوری نے دوسری شادی نہیں کی۔ ان کی خانگی زندگی ایک ایسا عذاب رہی جس کو وہ بھوگتے رہے۔ ان کی شاعری، غزلوں اور رباعیوں میں نسوانی روپ اپنے کمال کو پہنچتا ہوا ملتا ہے۔ وہ عورت جس کے وہ بقول ان کی والدہ کے ڈھائی تین برس کی عمر سے خواہاں تھے۔ انہیں جیون ساتھی کے روپ میں مل نہ سکی۔ اس عورت کو وہ اپنی پسلی سے تو نہ نکال سکے البتہ اپنے قلم سے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے قلم سے تخلیق کی ہوئی عورت ان کی فطری مانگ کے عین مطابق اس حسن سے بھی مالا مال تھی جس کو میں نے جنسیت اساسی حُسن کا نام دیا ہے اور اس حسن سے بھی جو ہندوستانی ناری کی دیو مالائی، تاریخی، تہذیبی اور تمدنی میراث ہے۔ اردو ادب کو فراق نے جس عورت کا تحفہ دیا ہے اس کی دنیا بھر کے ادب میں مثال نہیں ملتی۔ اس کو دنیائے شعر و ادب کے عجائبات میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اور کیا جانا چاہئے۔ فراق نے صفحات قرطاس پر جس ایلورا، اجنتا کو تخلیق کیا ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

فراقؔ کی عورت کو میں نے ہندوستانی لکھا ہے ہندو نہیں لکھا ہے۔ وہ مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھی ہو سکتی ہے۔ ذات پات، دین دھرم غیر اہم اور غیر متعلق ہو جاتے ہیں۔ عورت کو نظر میں رکھا گیا ہے۔ اس عورت کا بدن زیر پیرہن بھی جوت دیتا ہے اور برون پیراہن بھی جگ مگ کرتا ہے۔ صبح دم نکھرا نکھرا ہوتا ہے اور رات کے دھندلکے میں یوں لو دیتا ہے جیسے رودِ چمن میں جل رہا ہو کافور۔ وہ بدن جس کی کمر رنگین اور جس کے کولھے جگمگاتے ہیں۔ جس کو اس کا پریمی سو سو ہاتھوں سے سنبھالے ہوتا ہے۔

فراق کی روپ رباعیاں، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں ایک ایسی عورت کو ہمارے سامنے لاتی ہیں جو بہ یک وقت کلٹا بھی ہے پدمنی بھی۔

ناکام ازدواجی زندگی کے آغاز کے بعد فراقؔ کی زندگی میں دوسرا بڑا دھچکا ان کے والد کی وفات ہے۔ جب ان کے والد عبرت گورکھپوری کی طبیعت بگڑ نے لگی تو فراق رات کے وقت ایک لمبی مسافت طے کر کے علاقے کے سول سرجن گو گھر لانے میں کامیاب ہوئے۔ ان دنوں فراق کی عمر لگ بھگ بیس بائیس برس تھی۔ اس عمر کے نوجوان کے لئے سول سرجن کو راضی کر کے گھر لے آنا آسان کام نہ تھا۔ ان کے والد صبح صادق کے قریب ان کو چھوڑ کر دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔ فراق پر والد کی وفات کا گہرا اور دور رس اثر ہوا۔

والد کے دنیا سے جانے کے بعد رکھو پتی سہائے پر ایک خاندان کی ذمے داریوں کا بوجھ آن پڑا اور وہ دنیا کے مقابل ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے انگریزی ادبیات میں جامعہ الہ آباد اور جامعہ آگرہ سے ایم اے کیا۔ پروفیشنل سول سروس ( پی سی ایس ) مقابلے کا امتحان پاس کیا اور کچھ عرصے بعد انڈین سول سروس ( آئی سی ایس ) کے امتحان میں بھی کامیاب قرار دیے گئے۔ ڈپٹی کلکٹر بنے۔ شاعر، نثار، ادیب، تنقید نگار، مکتوب نگار، استاد اور خطیب، فراق کی عملی سیاسی زندگی پر کم توجہ دی گئی ہے۔ فراق اور پنڈت جواہر لال نہرو کے باہمی تعلق پر بھی سطحی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ یہ معاملہ سامنے آتا ہے کہ فراق نے گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک میں حصہ لیا اور آئی سی ایس اور پی سی ایس پر ٹھوکر مار دی۔ وہ جیل بھی گئے۔ ڈھائی سال بعد جیل سے باہر آ کر انہوں نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا اور لکچرار کے طور پر اپنی زندگی کی اس جہت کا آغاز کیا۔ پروفیسر کے طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کا علم انگریزی ادبیات تک محدود نہیں تھا۔ وہ ادبیات عالم پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ اردو اور ہندی کے علاوہ انگریزی میں انہوں نے ڈھیروں مقالے تحریر کیے۔ ان کا بیشتر تحریری مواد مختلف رسائل میں مدفون ہو کر رہ گیا، بہت کم کتابی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ان کے مکاتیب بھی بہت کم شائع ہوئے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں بحر العلم تھے، خاص طور پر زبان اور شعر و ادب کے معاملے میں ان کا علم ہمہ جہت تھا۔ بولنے کے بھی وہ ماہر تھے۔ وہ ادب کے خطیب با کمال تھے۔۔ چھوٹی ادبی نشستوں میں وہ سامعین کو مبہوت کر دیتے تھے۔ ان کی لفظیات کا ذخیرہ نہ صرف بے حد وسیع تھا بلکہ متنوع بھی تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کے آگے زبان کھولنے کی جسارت کرنے سے لوگ گریز کرتے تھے۔

وہ خواہ لکھنے پر آئیں، خواہ بولنے پر، آمد ہی آمد رہتی تھی۔ وہ شاعری میں بھی زود گو ہی نہیں بسیار گو تھے۔ انہوں نے تیس چالیس ہزار شعر صرف اردو میں کہہ ڈالے تھے۔ وہ یہ بھی وسیع القلبی سے تسلیم کرتے تھے کہ ان کے سارے اشعار ایک ہی معیار کے نہیں ہیں کچھ قدرے کم معیار کے بھی ہیں لیکن ان کی شاعری کا کڑا انتخاب مرتب کیا جائے تب بھی اشعار کی تعداد بیس پچیس ہزار سے زیادہ ہی نکلے گی۔ اپنی شاعری کے بارے میں خود انہوں نے کسی مقام پر لکھا ہے کہ میری شاعری ایک خود رو جنگل کی مانند ہے جس میں کوئی درخت بڑا ہے کوئی چھوٹا۔ غزلوں میں فراقؔ نے ایسے ایسے الفاظ کھپائے ہیں کہ ان کے ذخیرۂ الفاظ کی وسعت اور الفاظ پر ان کی قدرت کا مشاہدہ کر کے قاری حیران رہ جاتا ہے۔ لفظ ’ دستیاب ‘کا استعمال ملاحظہ کیجئے۔

آدمیوں سے بھری ہے یہ بھری دنیا مگر

آدمی کو آدمی ہوتا نہیں ہے دستیاب

’ ’ چھان لینے ‘‘ کا استعمال دیکھئے۔

نگاہِ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

’ دکان‘ کا استعمال بھی پڑھنے کے لائق ہے۔

انساں کو خریدتا ہے انساں

دنیا بھی دکان ہو گئی ہے

فراق کا حسّی ادراک ان کے ذہنی ادراک سے کچھ اس طرح مربوط ہے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں یا جس صورت حال کو وہ محسوس کرتے ہیں وہ ان کی فکر سے آمیز ہو جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل شعر کا تجزیہ کر کے دیکھئے۔

اک فسوں ساماں نگاہِ آشنا کی دیر تھی

اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

’ فسوں ساماں نگاہِ آشنا‘ کو سمجھنا اور سمجھانا قریب قریب ممکن نہیں ہے۔ دوسرے مصرعے میں جو کچھ ہوا اس کی توجیہہ کر کے دیکھئے۔

مندرجہ ذیل شعر کو فہم کی گرفت میں لانے کی کوشش کر کے دیکھئے۔ ’ عناصر کی کائنات‘ آپ کو کس طرح تنگ کرتی ہے اس کا لطف اٹھائیے۔

اس جا، تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں

لیتی ہے سانس جیسے عناصر کی کائنات

ایک بظاہر صاف اور سادہ شعر دیکھئے۔

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی

فراقؔ کیفیت کے شاعر کہلائے جاتے ہیں۔ یہ تو صاف ظاہر ہے کہ حسرت موہانی کا مشہور شعر۔ ؎

نہیں آتی تو یاد، ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فراق نے کہا۔ ؎

مدتیں گزریں، تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں

حسرتؔ نے ایک حقیقت کا اظہار کیا ہے لیکن فراقؔ نے ایک کیفیت کی تصویر کشی کی ہے۔

’ ’ اردو کی عشقیہ شاعری کا عطر ہمیں اردو غزل میں ملتا ہے۔۔ ۔ کیا غزال کی تکنیک ہمیں اس کی اجازت دیتی ہے کہ ٹھیٹھ محبت کے جذبات و نفسیات یا حیات و کائنات کے مرکزی حقائق اور اصولوں کے علاوہ ہم کچھ کہیں۔ ؟ ہم غزل کو فروعات و تفصیلات اور خارجی تسلسل کے اطناب محفوظ رکھیں تبھی اچھا ہے۔۔ لیکن اک سراپن، تھکا دینے والی یکسانیت کی خرابی سے بھی غزل کو بچانا چاہئے۔ ‘‘

( اردو کی عشقیہ شاعری۔ فراق گورکھپوری )

’ ’ جنسیت کو احساس و ادراک اور فکر و فلسفے کا حصہ بنا کر محبوب کے جسمانی روابط کو غزل کے پیمانے میں اتارنے کا سہرا عام طور پر فراق کو دیا جاتا ہے۔ ‘‘ ( شاعر، دانشور فراق گورکھپوری ص۔ ۲۷ )

’ ’ محبوب کی ہفت رنگ جنسیت حسرتؔ کی غزل میں اتنی رچی بسی ہے کہ فرق محبوب و محب جگہ جگہ مٹ گیا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی جنسیت کا احساس و ادراک ہے۔ ‘‘ ( خاطرِ معصوم، ضمیر الدین احمد )

یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بیگم حسرت اور حسرت کے مابین عشق کے رشتے سے جڑا ہوا ایک اور رشتہ بھی ہے اور وہ ہے ازواج کا۔ دونوں رشتے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ فراق کا عشق، عشق کے مرتبے کو چھوتا بھی نہیں۔ اس کو عشق بازی فلرٹیشن کے مرتبے پر فائز کریں تو مناسب ہو گا۔ پریم چند اور اس کی دوسری بیگم کے مابین جو عشق ہوا وہ بیگم حسرت اور حسرتؔ کے عشق سے قدرے ہم رشتہ و ہم مرتبہ لگتا ہے۔ ’ ’جوشؔ نے اپنی کتاب ’ ’ یادوں کی برات ‘‘ میں اپنے اٹھارہ عشق کا تذکرہ کیا ہے۔ فراق اگر باقاعدہ اپنی سوانح عمری لکھتے تو نہ جانے کتنے معشوقوں کا ذکر کرنا پڑتا اور نہ جانے کتنی عطار کے لونڈے اس کے مرکزی کردار ہوتے۔ ‘‘

(شاعر، دانشور فراق گورکھپوری ص۔ ۲۹۔ علی احمد فاطمی )

فراقؔ اور جوشؔ کے مابین موازنہ قدرے مناسب لگتا ہے فرق صرف اتنا کہ جوشؔ کی برات میں عطار کا صاحبزادہ صرف ایک ملتا ہے اور وہ بھی ’ فیل سوار ‘ علی احمد فاطمی نے فراق کے ہاں عشق کا دوسرا رخ بھی دکھایا ہے۔ لکھتے ہیں۔

’ ’ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے جو بظاہر کمزور ہے۔ پر اتنا ہی سادہ اور معصوم بھی۔۔ دوسرا رخ اتنا ہی تابناک، جاندار اور دعوتِ فکر دیتا ہے جس نے فراقؔ کے اس شعر کو بھی اردو کے عمدہ، جمالیاتی احساس سے بھرے اشعار کی صف لا کھڑا کر دیا ہے۔ ‘‘ ( ص۔ ۲۹ )

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

’ ’ زندگی جنسیت سے عبارت ہے۔ جب جنسیت، حاجت روائی یا ایک عارضی حالت ہو کر رہ جاتی ہے۔ تب محبت ایک نام نہاد اور ذلیل یا گری ہوئی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اور بقول ایڈ ورڈؔ کار پینٹر۔۔ ۔ گناہ ان حالتوں اور ان افعال کا نام ہے جن میں ہماری پوری شخصیت منہمک نہ ہو۔ ‘‘ ( اردو کی عشقیہ شاعری۔ ص۔ ۳۰ )

’ ’ میری اردو شاعری جذبات و خیالات کے معاملے میں اور معیار شاعری کے معاملے میں جتنی غیر اردو ادب سے متاثر رہی اتنا اردو شاعری سے نہیں رہی۔ ‘‘ ( من آنم )

غیر اردو ادب سے وہ سنسکرت ادب اور مغربی ادب ( ورڈس ورتھ وغیرہ ) مراد لیتے ہیں۔

’ ’ بڑی عشقیہ شاعری کی نگاہ میں جہاں ایک طرف معشوق ہوتا ہے، وہاں دوسری طرف قومی زندگی اور اس کے امکانات ہوتے ہیں۔ ‘‘ ( من آنم )

فراق کی ایک شب ( جس کو انہوں نے شبِ مرگ کا نام دیا ہے ) کا حال احوال دیکھئے۔ یہ روایتی شبِ فراق نہیں ہے جس کو عاشق محبوب کی جدائی میں، اس کی یاد میں یا اس کے انتظار میں نوع نوع انداز میں گزارتا ہے۔ یہ تو شبِ مرگ ہے۔ شبِ مرگ گزارنے کے لیے نہیں ہوتی ہے۔ شبِ مرگ اس وقت تک رکی رہتی ہے جب تک اس کا مقصود، اس کا صید، اس کا ٹارگٹ اپنی آخری سانس نہیں لے چُکتا۔ جس شبِ مرگ کو فراق مصور کر رہے ہیں وہ لگتا ہے کسی تذبذب میں مبتلا تھی اس سبب سے فراق نے رکی ہوئی نہیں کہا ہے بلکہ ’ ’ رکی رکی سی ‘‘ کہا ہے۔ چونکہ وہ ’ ’رکی رکی سی ‘‘تھی تو اس کا ختم ہونا بھی لازم تھا۔ پو کے پھٹنے پر اس کے خاتمے کا دارو مدار تھا۔ کسی کو اس کی جگہ لینی تھی۔ اس کی جگہ لینے والی کوئی اس کی ہم مرتبہ معمول کی صبح ہوتی اسی سبب سے فراق نے ’ صبح‘ کا لفظ نہیں لکھا ہے اس کی جگہ ’ ’ نئی زندگی ‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ میری اس ضروری یا غیر ضروری بات چیت کے بعد فراقؔ کی ایک مشہور غزل کا مندرجہ ذیل مطلع پڑھیے۔ ؎

رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی، وہ نئی زندگی نظر آئی

مندرجہ بالا شعر زندہ لفظوں سے تحریر کیا گیا ہے۔ اصوات کا زیر و بم ’ شاعری کی موسیقی ‘ کے ترنم اور لحنی ترنگ سے کچھ اس طرح معمور ہے کہ تحت اللفظ سے پڑھو تو بھی ترنم کا لطف آئے۔ شعریت جب موسیقیت سے لبریز ہو جاتی ہے تو معنویت سے قطع نظر کر کے بھی اپنے آپ کو منواتی ہے۔

اس شعر کے مصرع ثانی میں ’وہ‘ اشارے سے، جس ڈرامائی توانائی سے پورے منظر کو افق سے افق تک لا کھڑا کیا گیا ہے، وہ دیکھنے کی چیز ہے۔ مندرجہ بالا شعر کا قاری ( جو قاری سے کہیں زیادہ شاعر کا ساتھی ہے، )شریک تجربہ ہے، اس پورے شعر، اس کی لفظیات سے ہونے والے بہ یک وقت ذہنی اور حسّی نوعیت کے ابلاغ سے غیر متاثر، لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ پو پھٹنا، سحر کا طلوع ہونا، شبِ مرگ کا اتمام ہونا۔ نئی زندگی کا نظر آنا۔ ان سب تجربات سے، مشاہدے سے، قاری چشم پوشی نہیں کر سکتا۔ اس سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس کے خیال میں شاعر رات کو اہم قرار دے رہا ہے یا پو پھٹنے کو تو اس کا جواب صرف اور صرف یہ ہو گا کہ شاعر ’ ’ پو پھٹنے ‘‘ پر زور دے رہا ہے۔

فراقؔ کا مندرجہ ذیل شعر پڑھیے۔

نکہتِ زلف پریشاں، داستانِ شام غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

اس شعر میں ’ شام غم ‘اہم ہے یا ’ صبح ‘۔ ؟ اس سوال کا سیدھا سچا جواب یہی ہو گا ’ صبح‘۔

اب اس رباعی کو پڑھیے اور فیصلہ کیجیے کہ آیا شاعر رات کو اہمیت دے رہا ہے یا صبح کو ؟۔

رباعی

نکھری نکھری سی نئی جوانی دمِ صبح

آنکھیں ہیں سکون کی کہانی دمِ صبح

آنگن میں سہاگن، اٹھائے ہوئے ہاتھ

تلسی پہ چڑھا رہی ہے پانی دمِ صبح

 

اس رباعی میں صبح اہم ہے کہ یا نہیں۔ ؟

رنگت تری کچھ اور نکل آتی ہے

یہ آن تو حوروں کو بھی شرماتی ہے

کٹتے ہی شبِ وصال، ہر صبح کچھ اور

دوشیزگیِ جمال بڑھ جاتی ہے

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

اب فراق کے والد کی وفات کا ذکر فراق کی اپنی زبان میں پڑھیے۔ ’ ’ رات بھر میرے والد الٹی سانس لیتے رہے اور صبح کاذب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔۔ ۔۔ ۔ اس صبح جس کوٹھی میں، ’ میں ‘ مع خاندان مقیم تھا۔ چڑیوں کا نغمہ کئی گنا بڑھ گیا اور فضا غیر معمولی حد تک سہانی ہو گئی۔ میرے والدبستر مرگ پر اس طرح دائمی راحت میں لیٹے نظر آ رہے تھے گویا میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا۔ ’ تیرا باپ بڑا نرچھل آدمی تھا جبھی تو اس کی رحلت کے بعد یہاں کی فضا اتنی پاکیزہ اور سہانی معلوم ہوتی ہے۔ ‘ اس حادثے کے وقت تک مری شاعری شروع ہو چکی تھی تو اس منظر کی تصویر میں نے اس رباعی میں کھینچی۔ ؎

غفلت کا حجاب کوہ و دریا سے اٹھا

پردہ فطرت کے روئے زیبا سے اٹھا

پو پھٹنے کا سماں سہانا ہے بہت

پچھلے کو فراقؔ کون دنیا سے اٹھا

( میری زندگی کی دھوپ چھاؤں )

فراقؔ کے والد عبرت گورکھپوری کی وفات کا ذکر ہے لیکن فراق پو پھٹنے کا ذکر کر رہے ہیں۔

ناپسندیدہ ازدواجی زندگی، والد کی وفات کا صدمہ اور اس کے نتیجے میں خاندان کی ذمہ داری کا بوجھ سبب بنے یا سنگہرہنی کا مرض بہر صورت فراقؔ کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ وہ رات بھر جاگنے پر مجبور ہو گئے۔ وہ ساری ساری رات جاگتے اور تکلیف، درد اور کرب سے تڑپتے رہتے۔ علاج معالجے سے فائدہ نہیں ہوا، البتہ یہ تعجب کی بات ہے کہ فراقؔ نیند کی گولیوں کی پناہ میں نہیں گئے۔ وقت کے ساتھ انہوں نے شب بیداری سے سمجھوتا کر لیا۔ شاعری نے اس سمجھوتے کو ممکن العمل بنایا۔ فراق تھے ہی پُر گو شاعر۔ شب بیداری نے ان کو فکر شعر کی جانب راغب کیا۔ انہوں نے اپنی اس کیفیت کا بھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح رات کی بیداری کو بھگتانے، نصف شب کے بعد اشعار کا نزول ہونے لگتا اور جب وہ اپنی کسی طویل غزل کے مقطع تک پہنچ رہے ہوتے، صبح کاذب، صبح صادق کی طرف جا رہی ہوتی۔ پو پھٹ رہی ہوتی اور نئے روز کی نئی زندگی طلوع ہو رہی ہوتی۔ یہاں مجھے یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ میں نے فراقؔ کی شاعری کو فراقؔ کی راتوں کے واسطے سے جانا، پہچانا اور چاہا ہے۔

فراق شاعر نیم شب ص، ۹، ’ ’ شاعر دانشور فراق گورکھپوری‘‘ علی احمد فاطمی۔

’ ’ اگر ایک طرف نیاز فتح پوری، احتشام حسین، مجنوں گورکھپوری، حسن عسکری وغیرہ، فراق کو بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اردو کا آخری کلاسیکل شاعر قرار دے کر مناسب مقام سے نوازتے ہیں تو دوسری طرف جدید قسم کے نقاد بالخصوص شمس الرحمن فاروقی، فراقؔ کو احمد مشتاق، ناصر کاظمی وغیرہ سے چھوٹا شاعر ثابت کر کے انہیں وہ مقام دینے میں تامل برتتے ہیں جس پر فراق بلا شک و شبہ بیٹھے ہوئے ہیں ‘‘۔

علی احمد فاطمی کے اس خیال سے اختلاف کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ ان کے درج ذیل تاویل ضروری نہیں کہ تسلیم کی جائے۔

’ ’ فراق صاحب نے جب بھی اپنے سلسلے میں لکھا مبالغے کو اپنے ساتھ رکھا۔ اپنے سلسلے میں دوسروں سے لکھوایا، لڑائیاں لڑیں انعامات ملے یا حاصل کئے غرض کہ اپنے آپ چوٹی پر پہنچا ہوا شاعر، اس کوشش میں کہ اور اوپر اُٹھوں اکثر شخصی سطح پر نیچے اتر جاتا ہے۔ ‘‘ ( ص۔ ۹ )

’ ’ بچپن ہی سے میں اپنے بھائی بہنوں سے اپنے کو بہت مختلف پاتا تھا۔ مثلاً ان سب سے زیادہ جذباتی تھا۔ محبت اور نفرت کی غیر معمولی شدت میں اپنے اندر پاتا تھا۔ مانوس چیزیں بھی مجھے حد درجہ غیر مانوس اور حد درجہ عجیب محسوس ہوتی تھیں۔ مناظرِ قدرت سے میں اتنا متاثر ہوتا تھا کہ ان میں کھو جایا کرتا تھا۔ میرے بچپن کی دوستیاں بھی شدید قسم کی ہوتی تھیں۔ بچپن کے کھیل کھلونوں سے بھی اتنی زبردست لگاوٹ محسوس کرتا تھا کہ گھر والے تعجب کرتے تھے، اور کبھی کبھی میرامذاق اڑاتے تھے۔ میری والدہ کا کہنا تھا کہ دو تین برس کی عمر ہی سے کسی بد صورت عورت یا مرد کی گود میں جانے سے انکار کر دیتا تھا بلکہ یہاں تک ضد کیاکرتا تھا کہ ایسے لوگ گھر بھی نہ آئیں۔ اس کی خوب ہنسی اڑتی تھی اور کبھی کبھی اس کے لیے مجھے چڑایا جاتا تھا۔ نو دس کی عمر ہی سے جس لڑکی یا لڑکے کو، مرد یا عورت کو اپنے نزدیک خوبصورت سمجھتا تھا، اُسے دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ میرا جسم بلکہ رگیں تک پگھل کر رہ جائیں گی۔ شعوری طور پر احساسِ حسن سے بر انگیختہ ہونے والی جنسیت میرے اندر سنِ بلوغ سے کافی پہلے پیدا ہو چکی تھی۔۔ ‘‘ من آ نم ( ص۔ ۱۱، ۱۲ )

فراق کے مندرجہ بالا ’ اعترافات‘ کو مبالغہ آرائی کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے ؟ لیکن بیشتر ناقدین نے ایسا لکھا ہے۔ اس نوع کی تحریر کا مزاج ’ مغربی ‘ ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔

’ ’ اس دوران مجھے اور میرے خاندان کو دھوکا دے کر ایک صاحب نے میری شادی ایک ایسے خاندان اور ایک ایسی لڑکی سے کر دی کہ میری زندگی ایک ناقابل برداشت عذاب بن گئی۔ میری بیوی میں کوئی اخلاقی عیب نہ تھا لیکن معمولی سے معمولی انسان سے بھی یہ لڑکی کند ذہن اور نا اہل تھی۔ صورت میں کوئی کشش نہ تھی بلکہ نا پسندیدگی کا اثر پڑتا تھا۔ یہ لڑکی گھر نہیں چلا سکتی تھی اور اس کا میرے گھر آنا پورے کنبہ کے لیے منحوس ثابت ہوا۔ کوئی دوسرا ہوتا تو شاید دوسری شادی کر لیتا یا من مار کر رہ جاتا۔ میں دوسری شادی بھی نہ کر سکا تب سے آج تک میری زندگی ایک ناقابل برداشت تکلیف اور تنہائی کا شکار رہی۔ پورے ایک سال تک مجھے نیند نہ آئی۔ عمر بھر میں اس مصیبت کو بھول نہیں سکا۔ آج تک میں اس بات کے لیے ترس گیا کہ میں کسی کو اپنا کہوں اور کوئی مجھے اپنا سمجھے۔ ‘‘ ( میری زندگی کی دھوپ چھاؤں )

’ ’ مجھے وہ رات کبھی نہیں بھول سکتی جب آدھی رات کے قریب سول سرجن کی کوٹھی پر مجھے کئی میل تنہا جانا پڑا اور اسے اپنے ساتھ لانا پڑا۔ رات بھر میرے والد الٹی سانس لیتے رہے اور ۱۸ تاریخ ۱۹۱۸ء کو صبح کاذب میں ہمیشہ کے لیے ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ ‘‘ ( میری زندگی کی دھوپ چھاؤں )

’ ’ اس صبح جس کوٹھی میں میں بمع خاندان مقیم تھا چڑیوں کا نغمہ کئی گنا بڑھ گیا اور فضا غیر معمولی حد تک سہانی ہو گئی۔ میرے والد بستر مرگ پر اس طرح دائمی راحت میں لیٹے نظر آ رہے تھے۔ گویا میٹھی نیند سو رہے ہیں۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا ’ ’ تیرا باپ بڑا نرچھل آدمی تھا۔ جبھی تو اس کی رحلت کے بعد یہاں کی فضا اتنی پاکیزہ اور سہانی معلوم ہوتی ہے ‘‘ اس حادثے کے وقت تک میری شاعری شروع ہو چکی تھی تو اس منظر کی تصویر میں نے اس رباعی میں کھینچی۔ ؎

غفلت کا حجاب کوہ و دریا سے اٹھا

پردہ فطرت کے روئے زیبا سے اٹھا

پو پھٹنے کا سماں سہانا ہے بہت

پچھلے کو فراقؔ کون دنیا سے اٹھا ( میری زندگی کی دھوپ چھاؤں )

 

’ ’ میری زندگی جتنی تلخ ہو چکی تھی اتنے ہی پر سکون اور حیات افزا اشعار کہنا چاہتا تھا بلکہ یوں کہوں کہ تلخی کو شیریں میں بدل دینا چاہتا تھا۔ عام طور پر رات گئے اشعار کہنا شروع کرتا تھا اور غزل رات رہے ختم ہوتی تھی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوا ہے کہ ادھر پو پھٹی اور ادھر غزل کا مقطع ہوا۔ ؎

اجلے اجلے سے کفن میں سحر و شام فراقؔ

ایک تصویر ہوں میں رات کے کٹ جانے کی ‘‘

’ ’۔۔ ۔۔ طویل رات کو گزارنے کے لیے اس سے بہتر اور کیا صورت ہو سکتی تھی۔ پھر جتنی طویل اور ویران رات ویسی ہی لمبی لمبی غزلیں اور ان میں اس طرح اداسی اور تنہائی۔ یہیں پر ہمیں فراق کی بسیار گوئی کا راز بھی ملتا ہے۔ ( ص۔ ۱۵۔ ۱۶۔ شعر دانشور فراق ( علی احمد فاطمی ))

’ ’ بے خوابی اور تنہائی میں جب ایک روز رات بھیگ چکی تھی میں نے فانیؔ کے مطلع سے تحت الشعوری طور پر متاثر ہو کر غزل کہنی شروع کی۔

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

( فانی بدایونی)ؔ

جس کا مطلع ہے

نہ سمجھنے کی یہ باتیں ہیں نہ سمجھانے کی

زندگی اچٹتی ہوئی نیند ہے دیوانے کی

نو دس بجے رات سے غزل شروع ہو کر یہ غزل ہوتی رہی اور جب مقطع پر آنے ہی والا تھا کہ رات کٹ گئی اور پھو ٹتے پھوٹتے یہ مقطع کہا۔ ( مقطع اوپر درج ہے۔ )۔۔ ( من آنم)

فراق گورکھپوری اپنے مکتوبات اور دیگر تحریروں سے اپنے پڑھنے والوں کو اپنی زندگی اور زندگی گزارنے، بھوگنے اور بھگتنے کے تجربے میں جس طرح شریک کیا ہے اس طرح شاید ہی کسی اور شاعر نے کیا ہو۔ اسی طرح انہوں نے اپنی راتوں سے ( راتوں میں اشعار کے نزول کی کیفیت سے ) اپنے قاری کو آگاہ کیا یہ سب کہاں ملتا ہے۔ ؟ یہ سب کمیاب ہے اور اردو ادب میں خاصے کی چیز ہے۔

میں نے فراق کو دیکھا تو ہے لیکن ملا نہیں۔ میں عمر میں ان سے بہت چھوٹا تھا اور بے حد مرعوب بھی۔ میں نے ان کو، ان کی شاعری کے واسطے سے چاہا ہے اور وہ بھی بہت بہت۔ میں ان کی علمیت سے بھی متاثر رہا ہوں۔ میں نے ان کو بڑا شاعر بھی مانا ہے۔ میں ان کی نثر کا بھی دلدادہ ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ فراقؔ نے بے شمار شاعروں کو متاثر کیا ہے۔ یہاں میں نے ’میں ‘ کی تکرار یہ جتانے کے لیے بھی کی ہے کہ بڑے پُر اسرار طریقے سے فراق مجھے اپنا لگنے لگا اور لگتا رہا ہے۔ چلتے چلتے فراقؔ کی رباعیات بھی پڑھ لیجیے۔ میں ان کی سات رباعیات پر اکتفا کرتا ہوں تاکہ آپ ان کی ساری رباعیات پڑھنے پر مجبور ہو جائیں۔

گھر پر وہ پکا کے آلو پالک لائی

بارش میں بھی منزل وفا تک آئی

طے تو نہ تھا اور کل وہ خلافِ امید

سادھو کے شوالے میں اچانک آئی

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ماں اور بہن بھی اور چہتی بیٹی

گھر کی رانی بھی اور جیون ساتھی

پھر بھی وہ کامنی سرا سر دیوی

اور سیج پہ بیوا وہ رس کی پتلی

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

انگ انگ کی موج میں وہ شانِ تسخیر

چھم چھم کرتی ہوئی کمر کی زنجیر

ہنگام وصال پینگ لیتا ہوا جسم

بے لاگ ہنڈول راگ کی تصویر

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

آ جاتا ہے گات میں سلونا پن اور

چنچل پن، بال پن، انیلا پن اور

کٹتے ہی سہاگ رات دیکھیں جو اسے

بڑھ جاتا ہے روپ کا کنوارا پن اور

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

نکھری نکھری سی نئی جوانی دمِ صبح

آنکھیں ہیں سکون کی کہانی دم صبح

آنگن میں سہاگن اٹھائے ہوئے ہاتھ

تُلسی پہ چڑھا رہی ہے پانی دم صبح

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔

کس پیار سے دے رہی ہے میٹھی لوری

ہلتی ہے سڈول بانہہ گوری گوری

ماتھے پہ سہاگ، آنکھوں میں رس، ہاتھوں میں

بچے کے ہنڈولے کی چمکتی ڈوری

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

گل ہیں کہ رخِ گرم کے ہیں انگارے

بالک نین سے ٹوٹتے ہیں تارے

رحمت کا فرشتہ بن کے دیتی ہے سزا

ماں ہی کو پکارے اور ماں ہی مارے

٭٭

 

اردو غزل اور فراق گورکھپوری

 

ذیل کے اقتباسات درج کرنے کی ضرورت اس سبب سے پیش آ رہی ہے کہ گھوم پھر کر ’ غزل ‘ کی صنف کو موضوع بحث بنانے کی روایت بھی بن چکی ہے۔ ( ع۔ ج۔ )

٭ اردو کی عشقیہ شاعری کا عطر ہمیں اردو غزل میں ملتا ہے۔

٭ کیا غزل کی تکنیک ہمیں اس کی اجازت دیتی ہے کہ ٹھیٹھ محبت کے جذبات و نفسیات یا حیات و کائنات کے مرکزی حقائق اور اصولوں کے علاوہ ہم کچھ کہیں۔۔ ؟

٭ ہم غزل کو فروعات و تفصیلات اور خارجی تسلسل کے اطناب سے محفوظ رکھیں تبھی اچھا ہے لیکن اک سراپن، تھکا دینے والی یکسانیت کی خرابی سے بھی غزل کو بچانا چاہیے۔۔ ۔۔

( اردو کی عشقیہ شاعری۔۔ ۔ فراق گورکھپوری)

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل