فہرست مضامین
- صبا شگفتہ ہے
- جمع و ترتیب: تصنیف حیدر
- بہار نشہ فزا ہے، ہوا شگفتہ ہے
- ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے
- خدا ہوا نہ کوئی اور ہی گواہ ہوا
- تڑپ بھی ہے مری اور باعثِ سکوں بھی ہے
- قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت
- جو سانس سانس سہی، اس سزا کا نام نہ لو
- پلِ صراط نہ تھا، دشتِ نینوا بھی نہ تھا
- وہ سیرِ گل کے واسطے آ ہی نہیں رہا
- درپیش کارِ عشق بھی ، کارِ وغا بھی ہے
- نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اُس کی
- محال ہے تو اسے سہل و سادہ کر نا ہے
- ہمارے عشق کا یوں کاروبار چل لا ہے
- فقط قیام کا مطلب گزر بسر کوئی ہے
- جو ہو سکا نہیں درپیش، اُسے بناتا ہوا
- تھا مگر اتنا زیادہ تو جنوں خیز نہ تھا
- دل کو تمھارے رنج کی پروا بہت رہی
- رنگ سے راستہ، صورت سے پتا لیتا ہوں
- بانہوں میں یار ہو، کوئی فرصت کی شام ہو
- پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا
- اک روز یہ سررشتۂ ادراک جلا دوں
- سگِ جمال ہوں، گردن سے باندھ کر لے جا
- منصبِ عشق سے کچھ عہدہ برآ میں ہی ہوا
- تیری آنکھوں کو تیرے حسن کا در جانا تھا
- بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا
- اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی
- یہ کج ادائی، یہ غمزہ ترا، کبھی پھر یار!
- یہ کیسی آیۂ معجز نما نکل آئی
- ردّ و کد کے بھی بعد رہ جائے
- خیر کی نذر کی ہے یا شر کی
- دکھائی دیتی ہے جو شکل، وہ بنی ہی نہ ہو
- ستارے ٹوٹ کے گرنے لگے کناروں سے
صبا شگفتہ ہے
سید کاشف رضا کی غزلیں
جمع و ترتیب: تصنیف حیدر
ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کے اردو ادیبوں کا ہم نے ایک چھوٹا سا میلہ لگایا ہے۔ دل کی پلیا پر سے گزرتے ہوئے اس تخلیقی رونق کو دیکھنے کے لیے چند مسافر رک جایا کرتے ہیں، خوشی اس بات کی ہے کہ ان کی آنکھیں علم کی مشعلوں سے چمکتی ہیں، ان کے دلوں میں نئے پن کی ہوک اٹھتی ہے، ان کے تبصرے تجربوں، مشاہدوں اور فکر کی کانوں سے تپ کر نکلتے ہیں، سو اس پیاری سی پلیا پر یہ چھوٹا سا میلہ، ادبی دنیا ہے۔پچھلے کچھ روز سے اس رہ گزر پر اندھیرا ہے، میری آنکھیں اس وقت بھی تھوڑی سوجی ہوئی ہیں، ہاتھ کی بورڈ پر دھیرے دھیرے حرکت کر رہے ہیں، ہونٹ ہر جنم لیتے ہوئے لفظ کے ساتھ ہل رہے ہیں، سب سے پہلے تو میں اتنے دنوں کی غیر حاضری کی معافی چاہتا ہوں، پھر اسی روایت کی تختی کو چیر کر ایک ان دیکھا ، ان چھوا شبد نکالتا ہوں، یہ طلسماتی شبد سید کاشف رضا کی غزلیات ہیں، چونکیے مت! ہم نے اس سے پہلے بھی نظم کی رزم گاہوں کے سورماؤں کی چپیاں توڑی ہیں، ان کی دوسری کروٹ کا نقشہ بھی دکھایا ہے۔ سید کاشف رضا کی یہ غزلیں ان کی دوسری جانب لی گئی کروٹ کا اسکیچ ہے۔ آپ بس اسے پڑھتے ہی روایتی شاعری مت سمجھ بیٹھیے گا، روایت ڈرنے ڈرانے والی چیز نہیں، یہ کوئی کلیہ نہیں، کہ غالب کا اسلوب یا میر کا لہجہ یا سودا کی لفظیات یا سرے سے کلاسیکی شعریات کو اب کوئی شاعر کبھی اپنا ہی نہیں سکتا۔ حالانکہ میں ہرگز نہیں کہہ رہا ہوں کہ کاشف رضا نے بالکل ایسا ہی کیا ہے، بلکہ وہ تو بڑے چھپے رستم نکلے، غزل کے معاملے میں واقعی اب تک چھپے ہوئے رستم کی طرح انہوں نے اس اوباش صنف کی چھت کی سیر خوب کی ہے، وہ تو اس کی کمر کے لوچ اور زلف کے پیچ دونوں سے بخوبی واقف ہیں۔آگے میں نہیں کہتا، غزل کہے گی، جو پہلی بار حجلۂ سیاہی سے نکل کر آپ کی نگاہوں کے سامنے آ رہی ہے، ننگے پاؤں، بے نقاب، کانچ سا بدن لیے ہوئے۔
تصنیف حیدر
بہار نشہ فزا ہے، ہوا شگفتہ ہے
کہ آج رنگ رخِ یار کا شگفتہ ہے
ہتھیلیوں پہ تری اے بہارکِ تازہ
گُلِ حنا جو شگفتہ ہے، کیا شگفتہ ہے!
تمھاری ہم قدمی پر ہے خوش خرام ہوا
تمھاری سانس کو جی کر صبا شگفتہ ہے
شگفتہ ہے لبِ بالا، مگر لبِ زیریں
شگفتگی سے ذرا سا سوا شگفتہ ہے
نشانِ بوسہ نہیں ہے یہ میرے ہونٹوں پر
یہ رنگ بوسۂ موعود کا شگفتہ ہے
بہت ہی دور اُن آنکھوں میں مَیں چلا آیا
بہت ہی دور تلک راستہ شگفتہ ہے
رُکا نہ میں کسی خوشبوئے تیز پر اُس روز
بلا رہا تھا وہ غنچہ جو نا شگفتہ ہے
شرابِ سرد ہے اور یاد آ رہے ہیں وہ ہونٹ
رگِ خیال میں دو آتشہ شگفتہ ہے
٭٭٭
ہر ایک چیز میسر سوائے بوسہ ہے
اور اپنے غم کا سبب التوائے بوسہ ہے
بھلے تو لگتے ہیں انکارِ بوسہ پر بھی یہ ہونٹ
کبھی تو یہ کہو ’یہ لب برائے بوسہ ہے‘
مرے قریب سے ہونٹوں کو مت گزار اتنا
کہ چل رہی مرے سر میں ہوائے بوسہ ہے
چھپایا کر نہیں ہونٹوں کو مُسکراتے ہوئے
یہ جائے شرم نہیں ہے، یہ جائے بوسہ ہے
لبِ خموش پہ بھی ہے مرے ہی کام کا حرف
مری مراد یہ ب ہے جو بائے بوسہ ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ بولتی ہو کیا
لبوں پہ کھیلتی پھرتی ندائے بوسہ ہے
یہی نہ چھوڑ کے جا تشنہ کام ہونٹوں پر
کہ یہ تو بوسۂ سہوِ قضائے بوسہ ہے
تمھاری خوش دہنی سے ہے اصل میں سروکار
یہ لب کا بوسہ تو بس ابتدائے بوسہ ہے
بس ایک بوسۂ صبح اور ایک بوسۂ شام!
فقیرِ بوسہ ہوں اور التجائے بوسہ ہے
لبانِ بوسہ چشیدہ بھی خوب ہیں لیکن
نگہ میں اک بتِ ناکتخدائے بوسہ ہے
٭٭٭
خدا ہوا نہ کوئی اور ہی گواہ ہوا
لکھا جو حرف تو ہونے کا اشتباہ ہوا
نواحِ عشق تلک کھینچتی گئی خوش بو
اک ایسا گل مری سانسوں پہ افتتاح ہوا
یہ کیا ہوس ہے کہ ملتا مجھے زیادہ وہ
مرے لیے تو وہ اتنا بھی بے پناہ ہوا
عجیب کیا ہے کہ تم سے نہیں نبھی میری
میرا تو خود سے بھی کم ہی کبھی نباہ ہوا
کبھی کبھی ترے دل تک پہنچ گیا میرا درد
کبھی ہوا تو یہی عشق میں گناہ ہوا
کسی بھی رنگ میں کھنچتی نہ تھی مری تصویر
میں بن گیا کوئی کاغذ اگر سیاہ ہوا
٭٭٭
تڑپ بھی ہے مری اور باعثِ سکوں بھی ہے
ترا بدن میرا حاصل بھی ہے، جنوں بھی ہے
بدن پہ دوڑتی آنکھوں کی پیاس غور سے پڑھ
کہ آنکھ ذرۂ صحرائے اندروں بھی ہے
قبول کر نگہِ پائمالِ خوش بدنی
مری انا کا یہ پرچم ہے، اور نگوں بھی ہے
مری نگاہ بھی بہکی ہوئی ہے کچھ، اور کچھ
حیائے حسن رخِ یار پر فزوں بھی ہے
تمھاری دید کی بھی ہے مہک ان آنکھوں میں
اسی نواح میں خوشبوئے جوئے خوں بھی ہے
٭٭٭
قرار دیدہ و دل میں رہا نہیں ہے بہت
نظر نواز مرے، کوئی گل سُریں ہے بہت
رکھا نہ ہو کسی خواہش نے سربخوں اِس کو
تمھارا ہونٹ کئی دن سے آتشیں ہے بہت
ملا نہیں ہے مجھے وہ مگر پتا ہے مجھے
وہ دوسروں کے لیے بھی بچا نہیں ہے بہت
کھلا نہ ایک بھی در سر کشیدگی پہ مری
ہوا ہوں خاک تو دامن کُشا زمیں ہے بہت
رکھا ہوا تھا سرِ طاقِ دل اک آئینہ
بہت دنوں سے کوئی آئینہ نشیں ہے بہت
تمھارا حسن ہی شعلہ فزا نہیں ہے مجھے
مرا لہو بھی کئی دن سے آتشیں ہے بہت
میں لہر لہر اسے جسم و جاں پہ اوڑھتا ہوں
غلاف ایسا ترا لمس مخملیں ہے بہت
٭٭٭
جو سانس سانس سہی، اس سزا کا نام نہ لو
ہمارے ساتھ رہو بس، وفا کا نام نہ لو
کہو تو یہ کہو دل کو خوش آ رہی ہے ہوا
مشامِ جاں سے گزرتی صبا کا نام نہ لو
حضورِ حسن جو رہنا ہے یوں ہی خوش اوقات
ستارہ و جگرِ سوختہ کا نام نہ لو
ملی ہے جو نگہِ یار کی اشارت سے
رضائے یار ہے یہ، تم قضا کا نام نہ لو
بکھرنے لگتی ہے رخ پر حیا اُسی جیسی
ہمارے سامنے اُس خوش ادا کا نام نہ لو
یہ عہدِ عشق ترے میرے درمیاں ہی رہے
خدا کے واسطے اس میں خدا کا نام نہ لو
٭٭٭
پلِ صراط نہ تھا، دشتِ نینوا بھی نہ تھا
تمھارا ہجر مگر ہم سے کٹ رہا بھی نہ تھا
نجانے کیوں تمھیں ایک اک خراش جانتی تھی
ہر ایک زخم تمھارا دیا ہوا بھی نہ تھا
بندھے ہوئے تھے کئی عہد، گر کرو محسوس
کرو جو یاد، تو وعدہ کوئی ہوا بھی نہ تھا
دعا سلام تو رکھنی تھی تیرے کوچے سے
وگرنہ تجھ سے تو ملنے کو دل کیا بھی نہ تھا
میں اب بھی اُجڑی ہوئی بستیوں کو روتا ہوں
جہاں پہ کوئی ٹھکانے کا آشنا بھی نہ تھا
٭٭٭
وہ سیرِ گل کے واسطے آ ہی نہیں رہا
سو اب، وہ لطفِ آب و ہوا ہی نہیں رہا
شاید اُکھڑ گیا تیری یادوں سے رنگِ لمس
ہاتھوں کو تیرے شوقِ حنا ہی نہیں رہا
کیوں کاٹتی نہیں ہے میرا درد موجِ مے
کیا اے شراب، تجھ میں نشہ ہی نہیں رہا
لے کر تو آ گئے ہو شکایت کا تم جواب
پر اب تو تم سے کوئی گلہ ہی نہیں رہا
میں کتنی کتنی دیر مناتا رہا اُسے
روٹھا ہوں آج تو وہ منا ہی نہیں رہا
کیا اُس کو میں وفا کے تقاضے بتاؤں اب
جب وہ وفا کا عہد نبھا ہی نہیں رہا
کچھ روز سے اُداس ہے دل، اور بہت اُداس
اور کیوں اُداس ہے، یہ بتا ہی نہیں رہا
٭٭٭
درپیش کارِ عشق بھی ، کارِ وغا بھی ہے
دل پر جو ہاتھ ہے، وہی دست آزما بھی ہے
ہے جستجو سرِ درِ مژگانِ نیم باز
در ہے کہ در کے پیچھے کوئی راستہ بھی ہے
نازک سی اک لکیر تھی پلکوں کے آس پاس
دل اُس پلِ صراط پہ کٹتا رہا بھی ہے
تکتا رہا ہوں آج بہت دیر تک وہ ہونٹ
اک رنگ اُن میں سرخیِ لب کے سوا بھی ہے
کچھ لفظ بس یونہی ہیں معانی سے متہم
جیسے لغت میں درج تو لفظِ وفا بھی ہے
شکوہ ہے گر، تو خود کو ہی کر لے میرا وکیل
اے میرے دوست! تُو تو مجھے جانتا بھی ہے
خالی سا کر گیا ہے ترا ہجر، ورنہ پاس
چوکھٹ بھی ہے، جبیں بھی ہے، اور اک خدا بھی ہے
٭٭٭
نگہ کی شعلہ فزائی کو کم ہے دید اُس کی
چراغ چاہتا ہے لو ذرا مزید اُس کی
درونِ دل کسی زخمِ دہن کُشا کی طرح
بہت دنوں سے طلب ہے بڑی شدید اُس کی
ملا تو ہے کوئی بنتِ عنب سا لب لیکن
ہمارے شہر میں ممنوع ہے کشید اُس کی
اب اس کا حق ہے بہشتِ بدن پہ جا اُٹھنا
نگہ ہوئی ہے رہِ دید پر شہید اُس کی
میں سربخاک ہوں، تاکہ وہ سرخ رُو ہو جائے
بپا جو ماتمِ دل ہو، تو پھر ہو عید اُس کی
٭٭٭
محال ہے تو اسے سہل و سادہ کر نا ہے
تمھارے حسن سے اب استفادہ کرنا ہے
سجا بنا کے چلو گے جو یوں بدن اپنا
تو پھر تو وصل کا دل نے ارادہ کرنا ہے
بڑھا رہا ہوں میں یہ جان کر بھی شوق اپنا
کہ تم نے اپنا تغافل زیادہ کرنا ہے
ہماری آنکھ میں تم پڑھ چکے ہوئے ہو جو عزم
تمھارے سامنے اُس کا اعادہ کرنا ہے
زباں پہ لاکھ ہو ترکِ تعلقات کا ذکر
تمھاری آنکھ نے ملنے کا وعدہ کرنا ہے
٭٭٭
ہمارے عشق کا یوں کاروبار چل لا ہے
ابھی بتوں سے ہمارا اُدھار چل لا ہے
سکوں سے ہوگا یہ سرمہ تمھاری پلکوں پر
ہمارے دل پہ تو کیا تیز دھار چل لا ہے
اسے میں باز رکھوں تیری دید سے کیسے
مرا اس آنکھ پہ کچھ اختیار چل لا ہے؟
سجا ہوا ہے بہت تم پہ زعفرانی رنگ
خزاں کا رنگ برنگِ بہار چل لا ہے
ہم اپنے عشق میں حد سے گزر گئے ہیں یہاں
وہاں پہ غیروں میں اپنا شمار چل لا ہے
رہِ ہوس، کہ رہِ عشق ہے نہیں معلوم
ابھی تو شوق کا ایسا خمار چل لا ہے
٭٭٭
فقط قیام کا مطلب گزر بسر کوئی ہے
میں رہ رہا ہوں جہاں پر، وہ میرا گھر کوئی ہے
جوان لو پہ نہ جا، نو دمیدہ ضو پہ نہ جا
چراغِ وعدہ ہے، جلتا یہ عمر بھر کوئی ہے
وہ پاس بیٹھ بھی جائے تو کیا کہوں اُس سے
جو داستان سنانی ہے، مختصر کوئی ہے
کہیں سے شوقِ تماشا میں آ گیا ہو گا
جو دل کو دیکھنے آیا ہے، چارہ گر کوئی ہے
جو کٹ رہی ہے تری چشمِ بے نہایت میں
رہِ حیات ہے ساری، رہِ سفر کوئی ہے
٭٭٭
جو ہو سکا نہیں درپیش، اُسے بناتا ہوا
میں خود بھی بیت گیا، راستے بناتا ہوا
سنوررہا تھا کوئی آئینہ نشیں جب میں
فگار دست ہوا آئینے بناتا ہوا
بنا رہا ہوں تجھے میں، کہ ہو مری تکمیل
سنورتا جاتا ہوں میں خود، تجھے بناتا ہوا
وہ ایک شکل جو ہے اس کا مرکزی کردار
اُجڑ گیا ہے یہ منظر اُسے بناتا ہوا
٭٭٭
تھا مگر اتنا زیادہ تو جنوں خیز نہ تھا
پہلے دیکھا تھا تو لب ہی تھا یہ، لب ریز نہ تھا
تھیں مگر اتنی بھی بدمست نہ تھیں یہ آنکھیں
تھا مگر آنکھ میں سرمہ تیرا یوں تیز نہ تھا
تیرے پھولوں سے یہ خوش بو تو نہیں آتی تھی
موسمِ لمس سے تو قریۂ زرخیز نہ تھا
یاد تو ہے تیری کم عمر نگاہوں کا فسوں
لیکن اس چشمِ جواں سا سحر انگیز نہ تھا
ٹوٹی پڑتی نہ تھیں آنکھیں مری تجھ پر ایسے
گل بداماں تو تُو پہلے ہی تھا، گل ریز نہ تھا
جیسا موّاج تھا اس حسن کا دریا کاشف
دل کا طوفان کوئی ویسا بلا خیز نہ تھا
٭٭٭
دل کو تمھارے رنج کی پروا بہت رہی
تلخیِ عشق اب کے گوارا بہت رہی
جس زندگی کو چھوڑ کے آیا ہوں یوں شتاب
اُس زندگی کی مجھ کو تمنا بہت رہی
دل کے ورق پہ صاف لکھی تھی جو ایک سطر
کاغذ پہ آ گئی تو بریدہ بہت رہی
بس ایک زخم سونپ کے مجھ سے کیا گریز
دل کو تو اُس مژہ سے تمنا بہت رہی
اک ہجرِ بے پناہ رقم کر رہا تھا میں
یہ لوحِ ہجر مجھ سے نوشتہ بہت رہی
٭٭٭
رنگ سے راستہ، صورت سے پتا لیتا ہوں
اور بچھڑے ہوئے اک عشق کو جا لیتا ہوں
اب تو یہ تجھ سے بھی باور نہیں ہونے والا
میرا قصہ ہے سو خود کو ہی سنا لیتا ہوں
اک زیارت کے سوا، یار کی قربت کے سوا
اور اے ارض و سما، تم سے میں کیا لیتا ہوں
رطلِ عشق اپنی طرف سے تو اُٹھایا ہوا ہے
لا اسے تیری طرف سے بھی اُٹھا لیتا ہوں
٭٭٭
بانہوں میں یار ہو، کوئی فرصت کی شام ہو
اور بارگاہِ عشق علیہ السلام ہو
چمکی ہوئی ہو موسمِ سرما کی اک دوپہر
خوش سبز راستوں میں کوئی ہم خرام ہو
چوما تھا میں نے جس کو، اجازت کی ایک شام
اُس کاکلِ سیہ کا بہت اہتمام ہو
لب ہو کسی بہارِ معنبر سے بوسہ یاب
اور اس کے شکر میں کوئی ہونٹوں کا جام ہو
مہکی ہوئی ملو کسی چاہت کی یاد سے
چاہت کا چاہے میرے علاوہ بھی نام ہو
٭٭٭
(آتش کی زمین میں)
پہلوئے غیر میں دکھ درد سمونے نہ دیا
دامنِ وصل میں اک ہجر نے رونے نہ دیا
رنج یہ ہے کہ میرا درد سے مہکا ہوا تیر
اُس وفا سوز نے پہلو میں کھبونے نہ دیا
عشق وہ شعلۂ سفّاک ہے جس نے مجھ پر
آگ جاری رکھی، اور راکھ بھی ہونے نہ دیا
تجھ کو تا ہجر رہا تھا میری وحشت سے گریز
اُسی وحشت نے تیری یاد کو کھونے نہ دیا
شرم آتی ہے بہت ایسی سُبک دوشی پر
عشق کا بوجھ بھی اس زیست نے ڈھونے نہ دیا
٭٭٭
اک روز یہ سررشتۂ ادراک جلا دوں
اے عشق تیری وحشتِ سفّاک جلا دوں
ہو بس میں جو میرے تو ترا نام بھی مٹ جائے
میں کر کے تجھے خاک تیری خاک جلا دوں
سینے میں الجھتی ہے رگِ دل سے رگِ دل
اے عشق ہوا دے، خسِ نم ناک جلا دوں
تاثیر میں کم ہو تو کروں شعر کو بھی عاق
آتش میں جو کم ہو وہ رگِ تاک جلا دوں
نظارہ کوئی یوں بھی نہ محرم ہو کہ کاشف
آنکھوں کو سرِ جلوۂ بے باک جلا دوں
٭٭٭
سگِ جمال ہوں، گردن سے باندھ کر لے جا
جمالِ یار مجھے آج سیر پر لے جا
ترے لبوں کا تبسم بھی تو رہا ہوں کبھی
بنا ہوں اشک تو پلکوں پہ ٹانک کر لے جا
سمیٹ کر مجھے رکھ لے کہ تیرا درد ہوں میں
ترا ہی عیب ہوں، مجھ کو چھپا کے گھر لے جا
کھُبا ہوا ہے تیرا حسن میری آنکھوں میں
نکال کر میری آنکھوں سے نیشتر لے جا
میں سنگ دل ہوں تو اک روز خانۂ دل میں
لگے ہوئے ہیں جو پتھر اُکھاڑ کر لے جا
بچھڑ رہا ہے تو اپنی نشانیاں بھی سمیٹ
اب اپنے ساتھ ہی یہ کوئے و بام و در لے جا
٭٭٭
منصبِ عشق سے کچھ عہدہ برآ میں ہی ہوا
تیرے کوچے میں سرافرازِ وفا میں ہی ہوا
کچھ چلی تو تیرے عاشق سے ہی تلوار چلی
جب ہوئی جنگ بپا مردِ وغا میں ہی ہوا
گر کھُلی تجھ پہ ہی خوشبوئے نہفتہ کوئی
تیرا محرم بھی تو اے بادِ صبا میں ہی ہوا
وہ جو بے اذن اُڑا لاتا تھا خوش بو تیری
پہلے پہلے تو وہ گستاخِ حنا میں ہی ہوا
کیسی شفّاف فضا تھی یہاں اوّل اوّل
ایک موسم تو یہاں بال کشا میں ہی ہوا
کچھ تیری زلف کھلی تو میری سانسوں پہ کھلی
تجھ پہ آوارۂ ہم رنگِ صبا میں ہی ہوا
تیری خاطر ہی تھا میں منصب و منبر کا حریص
تیری خواہش سے فقیر الفقراء میں ہی ہوا
تیرے باعث تھا میں سیّار و ثوابت کا حریف
اور ترا اذن ہوا جب، تو فنا میں ہی ہوا
٭٭٭
تیری آنکھوں کو تیرے حسن کا در جانا تھا
ہم نے دریا کو ہی دریا کا سفر جانا تھا
منتظر تھے تیرے ملبوس کے سوکھے ہوئے پھول
وہ جنھیں تیرے پہننے سے سنور جانا تھا
اذن در اذن چمکتے تھے ستارے دل کے
آج سب کو تیرے آنکھوں میں اُتر جانا تھا
ریزۂ کُحل کے مانند کسی روز ہمیں
تیری پلکوں کے کنارے پہ بکھر جانا تھا
وائے اس دل کو نہ دینی تھی کبھی رخصتِ ہجر
تیرے ہونٹوں کے قدم چوم کے مر جانا تھا
اور پھر یوں ہے کہ رکھتی تھیں جو اس دل کو خراب
اُن نگاہوں کو تیری اور سنور جانا تھا
٭٭٭
بے وفا تھا تو نہیں وہ، مگر ایسا بھی ہوا
وہ جو اپنا تھا بہت، اور کسی کا بھی ہوا
تیری خوش بو بھی تیرے زخم میں ملفوف ملی
تجھ سے گھائل بھی ہوا اور میں اچھا بھی ہوا
راہ دے دی تیرے بادل کو گزرنے کے لیے
ورنہ یہ دل تو تیری پیاس سے صحرا بھی ہوا
شُکر واجب تھا اسے تیری محبت کا، سو دل
تیرا یوسف بھی رہا، اور زلیخا بھی ہوا
بھیڑ وہ تھی تیری چوکھٹ پہ طلب گاروں کی
کوئی بے لمس رہا تیرا بلایا بھی ہوا
میں نے تصویر بنائی تو مخاطب بھی ہوئی
حرف کو ہاتھ لگایا تو وہ زندہ بھی ہوا
سجدۂ مرگ سے ماتھے کو اُٹھایا اک روز
میں ہوا خاک، تو پھر خاک سے پیدا بھی ہوا
جتنا اُجڑا ہے کوئی شہرِ تمنا، اے دل
کبھی لگتا ہی تھا اُتنا بسایا بھی ہوا
٭٭٭
اسی خیال سے دل کی رفو گری نہیں کی
وہ جس نے زخم دیا، اس نے مریمی نہیں کی
تیرا وجود سراسر ہے ملتفت تو پھر
تیرے گریز نے کیوں اب تلک کمی نہیں کی
ہوا پڑا ہے یونہی کلبۂ نظر تاریک
کہ آج اس کے سراپا نے روشنی نہیں کی
کہانیوں میں ہی ملتے ہیں کچھ نشاں میرے
گزار دی ہے جو میں نے، وہ زندگی نہیں کی
٭٭٭
یہ کج ادائی، یہ غمزہ ترا، کبھی پھر یار!
کہ تیرا شہر نیا، اور میں مسافر یار!
تو اور کچھ نہ سہی، دوست تو ہے آخر یار!
دکھی رہا ہے بہت آج تیرا شاعر یار!
کہاں کا لمس، کہاں کی ہوس، کہاں کا وصال
تڑپ رہا ہوں تیری ہم دمی کی خاطر یار!
سنبھل بھی جاتا تھا دل تیرے ہجر میں، یعنی
رہا ہوں میں بھی تیری آرزو کا منکر یار!
پکارتی ہیں مجھے گھنٹیاں تیری ایسے
کہ جیسا تیرا مدینہ ہو کوئی مندر یار!
٭٭٭
یہ کیسی آیۂ معجز نما نکل آئی
ہوائے دشت سے بادِ صبا نکل آئی
بچھا ہوا تھا نگاہوں میں فرشِ استسقاء
زمینِ دل پہ نبی کی دعا نکل آئی
کوئی دشا نظر آتی نہیں تھی تا بفلک
زمیں سے تا بفلک اک دشا نکل آئی
پہاڑ ہو گئی تنہائی، اور پھر اک روز
اسی پہاڑ سے غارِ حرا نکل آئی
گنی چنی ہوئی گھڑیوں میں ایک ساعتِ سبز
کنارِ دہر سے بھی ماورا نکل آئی
٭٭٭
ردّ و کد کے بھی بعد رہ جائے
شعر وہ ہے جو یاد رہ جائے
عشق کا باب بند ہے تو کیوں
نظمِ بست و کشاد رہ جائے
ایک دن میں تجھے نڈھال کروں
دل میں اتنا عناد رہ جائے
ڈھے گئیں جب تمام بنیادیں
کیوں دلِ کج نہاد رہ جائے
پیشِ چشمِ جنوں فروشندہ
دلِ وحشت نژاد رہ جائے
٭٭٭
خیر کی نذر کی ہے یا شر کی
اک یہ پونجی تھی زندگی بھر کی
سارے رستے بُجھا دیے میں نے
اک گلی خواب کی منوّر کی
تجھ کو اتنے تو بل میں دے لیتا
جتنی شکنیں ہیں میرے بستر کی
یہ میرا دل، یہ ریگ زارِ فراق
دیکھ لے آب اس سمندر کی
پیٹھ موڑے ہوئے ہر اک دیوار
بھاگنا چاہتی ہے اس گھر کی
٭٭٭
دکھائی دیتی ہے جو شکل، وہ بنی ہی نہ ہو
عجب نہیں کہ کہانی کہی گئی ہی نہ ہو
جو کھو چکا ہے، وہی اب ہو میرا سرمایہ
جو مل گیا ہے مجھے، وہ میری کمی ہی نہ ہو
لکھا ہی رہ نہ گیا ہو کہیں میرا قصہ
گزار دی ہے جو، وہ میری زندگی ہی نہ ہو
ہے کون جس کی ہو تحریر اس قدر سفّاک
یہ زندگی میری اپنی لکھی ہوئی ہی نہ ہو
دکھائی دینا بھی ہے اک طلسم، اور اگر
میں جس میں دیکھ رہا ہوں، وہ روشنی ہی نہ ہو
وہاں سے خواب کوئی اور لے اُڑا ہو اُسے
میری نگاہ تیری آنکھ میں رکی ہی نہ ہو
ہوا نہ ہو کوئی اذنِ فاقصُصِ القصَصَ
سنی ہو وہ جو کہانی کہی گئی ہی نہ ہو
خدائے دہر میرا ہی شعور ہے کاشف
تو کائنات کی سازش کہیں میری ہی نہ ہو
٭٭٭
ستارے ٹوٹ کے گرنے لگے کناروں سے
وفورِ نشۂ شب سے جب آسماں چھلکا
گریزِ نشہ مجھے بھی بہت تھا، پر اک روز
کسی کے رُخ پہ عجب رنگِ ارغواں چھلکا
طناب ٹوٹتی ہے جیسے، ویسے ٹوٹا خوں
بنا وصال تو اک نشہ ناگہاں چھلکا
خدا تو نشۂ تخلیق میں رہا مشغول
یہاں زماں کبھی چھلکا، کبھی مکاں چھلکا
٭٭٭
ماخذ:
http://www.adbiduniya.com/2015/10/syed-kashif-raza-ki-ghazalyaat.html
تدوین اور ای بک کی شکیل: اعجاز عبید