FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

شہزادے کی سرگزشت

 

حصہ اوّل

 

 

               اقبال حسن خان

 

 

 

 

ابتدا کرتا ہوں اس قصہ بے نظیر و بے مثال کی اُس ہستی بزرگ و برتر کے نام سے کہ جس کی رحمت کے طفیل میرے والدین اس کمتر، عاصی ، بے توقیر کو اپنے باہمی اتصال کے نتیجے میں اس عالم خاکی تک، عدم سے وجود میں لانے کا سبب کر کے، خود کو اس الزام سے مہتم کر پائے کہ میں اُن واحد اولاد نرینہ ہوں۔ شنید یہی تھی کہ میں اس دنیا میں آنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا جو میرے والد بزرگوار کے لئے نہ صرف تشویش کا باعث تھا اور ننگِ اسلاف ہونے کا سبب بھی ، بلکہ شرقاً غرباً اور شمالاً جنوباً پھیلی ہوئی اُس سلطنت کے زوال کا سبب بھی ہو سکتا تھا کہ جس پر میرے والد کے آبا بزور و بذریعہ شمشیر حملہ آور ہو کر قابض و متصرف ہونے میں کامران رہے تھے۔

میں اپنی پیدائش کے قصے کو مختصر کرتا ہوں کہ اس میں اگر غیر ضروری تاخیر ہوئی تھی تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا اور جس کا تذکرہ والد صاحب، تا دم تحریر سلامت و حیات اور بدستور قابض و متصرف، ہر کسی کے سامنے نہیں کر سکتے تھے۔ تب ایک مرد دانا کہ اپنی زنبیل میں بے اولادی کے نسخوں سے لے کر سلیمانی ٹوپی تک رکھتا تھا، ناگہاں ، سمت غیب سے ایک دن دربار میں وارد ہوا۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ، وہ کہ چہرہ شناس بھی تھا اور نباض غم بھی، والد بزرگوار کے درد کو پڑھتے ہی مسکرایا اور ایک نسخہ کہ جسے وہ جواہر حیات کہتا تھا، والد صاحب حیات و سلامت کی نذر کیا اور اس شرط پر بھی سر تسلیم بخوشی خم کیا کہ نسخہ کارگر نہ ہونے کی صورت میں اپنی گردن شاہی جلاد کے سپرد کر دے گا کہ کتنے ہی ناکام حکمائے حاذق اسی انجام کو پہنچے تھے اور بہ صورت دگر تا حیات وظیفہ خواری کا مستحق گردانا جائے گا۔ کچھ والد صاحب کی ہمت، کچھ بزرگ دانا کی فراست اور کچھ میری قسمت کہ میں اس خاکدانِ کِبر میں کہ جسے دنیا کہتے ہیں ، آن براجا۔

میں چونکہ واحد اولاد نرینہ تھا اور مردِ دانا نے والد صاحب کی خفیہ لیکن خفتہ صلاحیتیوں کا اندازہ کر کے اپنے نسخے کا وہ جز تک استعمال کر ڈالا تھا کہ جسے پنجر استخواں پر چھڑک دیا جاتا تو اللہ کی ثنا بیان کرتا اُٹھ بیٹھتا، لہٰذا اُس نے مزید اولادوں کی پیدائش سے معذرت کر لی اور یوں میرے والدین کو مجھی پہ اکتفا کرنا پڑا۔ میری پرورش کے لئے اطراف و جوانب سے اپنے اپنے فن میں یکتائے روزگار ہنر مند طلب کر لئے گئے ، جو مجھے حرب و ضرب، ملک گیری، جہانبانی اور تعلیم دینی و دنیوی کے رموز و اسرار سے آگاہ کرنے لگے۔ میں اپنے والدین کی آنکھوں کا تارہ اور محبوب اور رعایا میں مقبول و مرغوب ٹھہرا۔ جس طرف نکل جاتا رعایا آنکھیں بچھاتی اور میری سلامتی اور درازی عمر کی(بظاہر) دعائیں مانگا کرتی۔ میرے بارے میں اہل دربار سے لے کر رعایا تک کا یہی کہنا تھا کہ میں ہر فن میں یکتا و ماہر تو ہوں ہی، ساتھ ہی مجھے مبدائے کائنات سے(مردانہ) حُسن کا وہ خزانہ بھی عطا ہوا ہے کہ جس کی نظیر چار دانگ عالم میں ملنی عبث ہے۔ ان باتوں نے مجھ میں خود بینی و خود پرستی کے ساتھ ایک گونہ غرور بھی پیدا کر دیا تھا اور میں دن کا بیشتر حصہ آئنے کے سامنے گزارنے لگا۔

ایک روز جبکہ میں معمولات صبح و مسا سے فارغ اور اپنے واحد دوست یعنی وزیر زادے کےساتھ باغ کی سیر میں مشغول تھا اور اپنا پسندیدہ موضوع یعنی خود ستائی چھیڑے ہوئے تھا کہ ناگہاں ایک سال خوردہ پیڑ سے دو پرندوں کی باہمی گفتگو سنائی دی۔

ہم دونوں اُس شجرِ بے برگ و بار کے تلے خاموش کھڑے اُن دونوں پرندوں کی گفتگو سننے لگے۔ ہمیں اُن کی باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ موضوع سخن ہمِیں تھے۔ ایک پرندہ بولا۔ مثال کے طور پراس درخت کے نیچے دیکھو۔ وہاں اس ملک کا شہزادہ کھڑا ہے جو خود کو حسن و فن میں کامل ، یکتا و یگانہ سمجھتا ہے لیکن غلط فہمی کا شکار ہے۔ اس گستاخانہ بیان کاسننا تھا کہ وزیر زادے نے ترکش سے تیر نکال لیا اور اُس

گستاخ پرندے کو ہست سے بود میں پہنچانے کا ارادہ باندھا۔ تس پہ میں نے اُسے روکا کہ میں اُس گفتگو کا بقیہ حصہ بھی سننا چاہتا تھا۔ اگر میں نے اُس وقت ایسا نہ کیا ہوتا تو یہ داستان ہی وجود میں نہ آتی اور میں در بدر کی وہ ٹھوکریں نہ کھاتا جو کہ اس دوران شدائدِ و حوادثِ حالات کے ہاتھوں میں نے کھائیں۔ وہ دونوں پرندے اپنی گفتگو میں مشغول رہے اور تبھی ایک نے کہا۔ کاش اس شہزادے نے شہزادی ماہ نور کی ایک جھلک دیکھی ہوتی تو یہ اپنے سراپے پہ غرور کا یہ لبادہ اوڑھے نہ پھر تا اور خوشامدی درباریوں کی باتوں میں آ کر یوں بیوقوف نہ بنتا۔ دوسرے پرندے کے اصرار پر پہلے پرندے نے شہزادی ماہ نور کے حسن کی تعریف ایسے انداز میں شروع کی کہ میں شہزادی کا نادیدہ عاشق ہو گیا۔ کسی ہُوش مالی کی بے وقت کھانسی کی آواز پر دونوں پرندے اُڑ گئے۔ وزیر زادے نے اصرار کیا کہ اس حرکت نامعقول ، نا وقت اور نا روا پر مالی کی گردن تن سے جد ا کرنے کی اجازت مرحمت کروں ، لیکن اُس وقت میں محبت کے شدائد میں یوں مبتلا ہو چکا تھا اور قلب اس قدر رقیق ہو گیا تھا کہ بولنے کا یارا نہ تھا، ضعف قلبی کے ہاتھوں پریشان اور محبت کے اندیکھے تیر کے سبب لہو لہان تھا، بڑی مشکل سے وزیر زادے کے سہارے چلتا ہوا اپنے محل خاص تک آیا اور شاہی چھپرکھٹ پہ اوندھا پڑ رہا۔

میری بیماری کی اطلاع کا پرچہ شہر بھر میں لگ گیا اور یہ چرچا ہوا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ میرے والدین کو اس کا علم نہ ہوتا۔ چنانچہ سب مجھ سے سبب لاچارگی کا دریافت کرتے تھے لیکن میں ایک سچے عاشق کی طرح اپنے دل کا بھید کسی پہ نہ کھولتا تھا۔ اس دنیا کے پردے پرمیرا ایک ہی رفیق و غم گسار ، لبیب خاص اور راز دار تھا اور وہ تھا وزیر زادہ۔ چنانچہ مجھ سے اِخفا، اور اُس کی گردن پر تلوار رکھ کے، میرے والد نے بہ اصرار اُس سے یہ راز اُگلوا لیا اور شہزادی کے ملک کا نام و پتہ معلوم کر کے وہاں کے بادشاہ سے یہ رشتہ طلب کرنے کا مصمم ارادہ اپنے جی میں باندھا۔ وہ مرد دانا کہ ، میری پیدائش میں جس کا حصہ، بقدر معقول جثہ(خفیہ) تھا ، اس راز سے آگاہ ہوا تو ایک دن لبوں پر ایک ایسی مسکراہٹ لئے والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جس میں تمسخر کے ساتھ ساتھ حقارت بھی جھلک رہی تھی۔ اگر ایسی مسکراہٹ کسی اور کے لبوں پر ہوتی تو اُسکے ہونٹ عتاب شاہی کی نذر ہو جاتے اور وہ تمباکو نوشی اور بوس و کنار کے فعل سے، کہ ہر دو مروج و مقبول تھے، بھی محروم ہو جاتا مگر چونکہ مرد دانا میری پیدائش کے بعد ہمارے خاندان کا مستقل محسن گردانا جاتا تھا اس واسطے والد بزرگوار نے اُس کی مسکراہٹ کو نظر انداز کر دیا لیکن سبب و علل دریافت کرنے سے خود کو نہ روک سکے۔

تس پر وہ مرد دانا گویا ہوا۔ اے بادشاہ، تیرا بیٹا جس شہزادی پر عاشق ہو کر اس حالت کو پہنچا ہے ، وصل اُس کا سبا افلاک کی خبر لانے سے زیادہ مشکل و ناممکن ہے۔ میرے والد ، سلامت و متصرف نے جلال شاہی کی شدت کے تاثرات کو بمشکل اپنے چہرے پر ہویدا ہونے سے روک کر اس کا سبب دریافت کیا۔ تس پر وہ مرد دانا بولا۔ اے بادشاہ۔ وہ ملک یہاں سے چالیس روز کی مسافت پر واقع ہے اور اُس راہ میں بے شمار ہَجر و شجر ہیں کہ جو سب کے سب عالمِ آسیب زدگی میں ہیں۔ قدم قدم پہ آدم خور دیو، جن، بھوت، پلید اس کے علاوہ ہیں اور اُن پچھل پائیوں کا کیا مذکور کہ جن کے خون آشام جبڑوں سے بھولے بھٹکے مسافروں کا خون ٹپکتا اور جن کی مرغوب غذاحسین و طرحدار جوانوں کے کلیجے ہیں۔ پھر کسی طرح کوئی خوش نصیب راہ کے آلام سے شومیِ تقدیر اگر بچ کے اُس ملک میں پہنچ بھی جائے اور شہزادی کے دربار تک رسائی ہو بھی جائے تو شہزادی چند ایسے سوالات سامنے رکھ دیتی ہے کہ جن کا پورا کرنا اُس مُشت خاک کے بس میں نہیں کہ جو خود کو انسان کہتا ہے۔ بڑے بڑے جن اُس کے عشاق اور سوالات سے عاجز و درماں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادی ابھی تک(بقول خود) ناکتخدا اور ( یہ بھی بقول خود) غیر مدخولہ اور باکرہ ہے۔ میں نے جو حقیقت تھی عرض کر دی، آگے سرکار والا تبار کی منشا۔

یہ بیان پُر اثر و ناخوشگوار اور اُس پر مرد دانا کے قوسین میں مشکوک تبصرے سننے کے باوجود، والد صاحب نے مرد دانا کے بیان پر شبہ کیا اور مذکورہ پرندوں کو کاذب و افترا پرداز قرار دینے کی سعی لاحاصل کی تو مرد دانا یوں گویا ہوا کہ اے بادشاہ ، میں اُن پرندوں سے ذاتی حیثیت میں  واقف و متعارف ہوں کہ لاف و گزاف ہرگز اُن کا پیشہ نہیں اور چونکہ میں اس حقیقت سے خود آگاہ ہوں اور اُن پرندوں کو جھٹلانے کا مطلب مجھے جھٹلانا ہو گا لہٰذا آپ یہ الفاظ واپس لے لیں۔ والد صاحب کہ حکومت پر قابض اور متصرف ہونے کے باوجود کبھی کبھی شرمندہ ہونے کی خوبی سے متصف ہیں (گو کہ یہ خوبی فی زمانہ صاحبان اقتدار کی کمزوریوں میں شمار کی جاتی ہے)اس بات کو تسلیم کر کے فرمانے لگے کہ اے مرد دانا اب تُو ہی میرے پسر واحد، نور عین، والی مستقبل، سبب تسلسل نسل شاہی اور مجھ پر کرم کر اور اس کی مشکل کا حل ڈھونڈ کہ آتش عشق نے اُسے جھلسا دیا ہے اور آرزوئے وصل نے اُس کو بھِلسا دیا ہے۔ وہ کام و دہن کی لذت سے بےگانہ ہو کر فقط خون جگر اور لذت غم پہ گزران کر تا ہے۔ تجھ سے زیادہ بہتر کون اس بات سے آگاہ ہے کہ میرے بعد اسسلطنت کا انتظام و انصرام اُسی کے ہاتھوں میں جاوے گا اور اگر اُس کی یہی حالت رہی تو یہ عبث ِ عین ہو گا۔ یہ سلطنت کہ جس پر میرے خلد آشیانی بزرگوں نے بذریعہ و بزور شمشیر قبضہ کیا تھا ، ہمارے ہاتھوں سے نکل نہ جاوے گی اور یہ واقعہ صدمہ جانکا ہ کے ساتھ ساتھ ننگ اسلافی کا سبب نہ ہو گا۔ تس پر وہ مرد دانا غور و فکر کے دریا میں غواصی کرنے لگا اور پھر یوں مسکرایا جیسے گوہر مراد پا گیا ہو۔

بعد ازاں ریش سے ایک بال توڑ کر بولا۔ اے بادشاہ، میں شہزادے کا کئی دفعہ(بیرونی) معائنہ کر چکا ہوں اور اُس کا واحد علاج شہزادی ماہ نور کے وصل میں پوشیدہ ہے۔ اس کے لئے شہزادے کو خود ہمت کرنا ہو گی اور میں اپنی ریش کا یہ موئے ابیض شہزادے کی نذر کرتا ہوں کہ شہزادی کے ملک کی سرحدوں تک جو شری و فسادی ہوائی مخلوق بستی ہے، وہ اس کے سبب شہزادے کا (کہیں کا بھی )بال بھی بیکا نہ کر پاوے گی۔ لیکن اس کے بعد کے مراحل شہزادے کو خود طے کرنا ہوں گے۔ اور اگر اُسے بھی اُسی نسخے کی ضرورت پڑی کہ جو استعمال کر کے تُو اُسے عدم سے وجود میں لایا تھا ، تو میں پیشگی معذرت کرتا ہوں کہ اب اُس جواہر حیات قسم کے نسخے کی جڑی بوٹیاں میرے کنے نہیں ہیں۔ میں اس واقعے کو مختصر کرتا ہوں۔ میرا اگلے روز وزیر زادے کے ہمراہ سوئے ملکِ معشوق و مطلوب جانا مقرر ہو گیا۔

وہ ساری رات جبکہ صبح میری روانگی تھی، شہر بھر میں شام کربلا کا عالم تھا۔ ہر جانب سے آہ و بکا اور الم و غم کی جگر کش صدائیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہوا ساکن تھی، طیور دم نہ کشیدم کی صورت تھے، ستارے بے نور لگ رہے تھے اور ماہ تاب سحابِ سیہ رنگ کی پناہ میں تھا۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی اور میں وزیر زادے کے ساتھ اپنے اسپِ تازی پہ سوار ہو کے نکلا۔ گھوڑا چونکہ پہلی بار شاہی اصطبل سے نکلا تھا اور نکلتے ہی اُس کی نظر ایک مشکی گھوڑی پر پڑی تھی، لہٰذا اُس کی رفتار معمول سے دُگنی تھی۔ وہ تو کئی فرسنگ جانے کے بعد وزیر زادے کو احساس ہوا کہ گھوڑا ہماری منزل کو نہیں ، بلکہ ایک مشکی گھوڑی کی بُو پہ اُڑا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے واقف ہو کر میرا شاہی خون بدن میں لہریں لینے لگا اور قریب تھا کہ میں زہر میں بجھا ہوا پیش قبض اُس ہوس پرست گھوڑے کی گردن میں اُتار دیتا، لیکن مصلحت آڑے آئی اور سفرکا پہلا گھونٹ یعنی صبر کا پیا۔ کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ وہ ملعونہ کسی اور راہ ہو لی اور چند ثانیوں کو گھوڑے کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو ئی۔ گھوڑا کھڑا ہو گیا اور مایوسی سے چاروں طرف دیکھنے لگا اور تبھی ہم چاروں کی نظر (دو گھوڑے اور دو سوار) اُس گھوڑی پہ پڑی جو ایک جھیل کے پار ایک اور گھوڑے کے ساتھ کلیلوں سے سِو ا بھی کچھ کرتی تھی۔ میرا اسپ تازی دل گرفتہ دکھائی دیتا لیکن پھر بھی تعجب خیز امر یہ تھا کہ حالتِ نعوظ میں تھا، تو میں نے اُسے (گھوڑے کو) تھپک کر بتلایا کہ ہم ایک لمبے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں اور اس گلشن میں علاجِ تنگی داماں کے امکانات قدم قدم پہ بکھرے پڑے ہیں۔ گھوڑا یہ سن کے بارے اطمینان سے ہوا اور سوئے منزل چلا۔

سفر کا پہلا دن بخیر و خوبی تمام ہوا۔ غروب آفتاب کے وقت ہم نے گھوڑے ایک درخت کے ساتھ باندھ کے اُن کی رسیاں دراز کر دیں کہ کھا پی لیں۔ ہمارا پڑاؤ ایک تالاب کے کنارے تھا اور ہمارے ساتھ کھانے پینے کا وافر سامان تھا۔ ہم دونوں ابھی منہ ہاتھ دھو کے بسم اللہ پڑھ رہے تھے کہ مانو جیسے زلزلہ آ گیا۔ چرند و پرند اپنے اپنے آشیانوں سے نکل آئے، جوانب سے وحشی درندے نکل کر اُفتاں و خیزاں بھاگنے لگے۔ طیورِ شب تو نکلے ہی، طیورِ روز بھی ایک وحشت کے عالم میں ہراساں کر دینے والی صداؤں سے فضا کو خوف سے آلودہ کرنے لگے۔ ابھی ہم سمجھنے کی کوشش کر رہی رہے تھے کہ اُس پانی میں ، کہ جس کے کنارے ہم پڑاؤ ڈالے بیٹھے تھے، ایک شدید ہلچل ہوئی اور ایک دیو قامت ہستی ( جو دیو ہی تھا)، برامد ہونے لگی۔ میں اور وزیر زادہ تو اُسے دیکھ کر لرزاں تھے ہی، گھوڑے بھی رسیاں تڑانے کی جستجو کرنے لگے لیکن ناکام رہے۔ دیو پانی سے برامد ہوا تو بلا شبہ تیس چالیس گز کا قد اور بیس پچیس گز کی چھاتی والا ایک عفریت ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ یہ پا کے بارے سکون سے ہوئے کہ بھاگنے کی صورت میں وہ نابکارچابکدستی سے ہمارے تعاقب میں نہیں آسکتا تھا کیونکہ اُس مردود کی ایک ٹانگ ران کے پاس سے کٹی ہوئی تھی لیکن باوجود اس کے وہ ایک ٹانگ پر بخوبی کھڑا تھا۔ تبھی اُس زلزلے کا سبب ہماری سمجھ میں آ گیا، وہ دیو چلنے کے بجائے اُچھل رہا تھا اور اُس کی اکلوتی ٹانگ اس شدت سے زمین پر پڑتی تھی ، کہ زمین ہِلتی اور اہلِ زمین کے دل د ہلتے تھے۔ ہم دونوں ایک سکوت کے عالم میں کہ جو خوف سے بھرا ہوا تھا اُسے اپنے قریب آتا دیکھنے لگے۔ دیو ہم سے ایک نا مناسب فاصلے پر رُک کر ہمیں اپنی سرخ اور وحشت زدہ آنکھوں

سے گھورنے لگا لیکن جیسا کہ بعد میں مجھے علم ہوا، اُسے آشوب چشم کی موروثی بیماری تھی، لہٰذا وہ اس فعل کو زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکا اور اپنی آواز کو پُر رعب بنا کر ہمارے وہاں آنے کا سبب دریافت کرنے لگا۔ میں نے جو بھی حقیقت حال تھی، جلدی جلدی بیان کر دی۔ تس پہ وہ کثیر الپدرمسکرایا اور اُس نے ہمیں بتایا کہ وہ بھی ماہ نور کے عُشاق میں سے ایک ہے اور اُس کے سات سوالوں کو پورا کرتے ہوئے اس حال کو پہنچا ہے۔ قریب تھا کہ دیو اپنی کہانی سنانا شروع کرتا، وزیر زادے نے مجھے احساس دلایا کہ ہم دونوں سارا دن کے بھوکے ہیں۔ وہ دیو نہ صرف دوسرو ں کے خیالات پڑھنے میں ملکہ رکھتا تھا بلکہ بعید و قریب کی گفتگو سننے کے علم بھی یکتا تھا، ہمیں کھانے کی اجازت دے کر اطمینان سے ایک طرف بیٹھ گیا اور ابھی جبکہ ہم نے ایک ایک لقمہ ہی توڑا تھا یوں گویا ہوا کہ اگر ہماری اجازت ہو تو وہ ہمارے گھوڑوں کو بطور جوع افزا استعمال کر لے؟ یہ سوال عجب تھا۔ تس پر وہ دیو ہماری فراست کی کوتاہی پہ مسکرایا اور کہنے لگا کہ چونکہ میں تم دونوں کو کھانے کا مصمم ارادہ کر چکا ہوں اور اس کے بعد تمہیں ان گھوڑوں کی ضرورت نہیں رہے گی لہٰذا میں نے یہ تجویز سامنے رکھی ہے۔ عین اُسیوقت مجھے مردِ دانا کا مرحمت کردہ، اُس کی ریش سپید سے حاصل کیا ہوا وہ بال یاد آیا اور میں نے جب وہ بال نکال کے دیو کے رُو برو کیا تو مانو دیو کے بدن میں آگ لگ گئی اور وہ لگا توبہ تِلاً کرنے۔ دونوں ہاتھ جوڑ کے اپنی واحد ٹانگ پہ کھڑا ہو گیا اور اس قدر خجل و نادم ہوا کہ کہ مرغا بن جانا چاہتا تھا لیکن ٹانگ کی فنی خرابی کے باعث ایسا کرنے سے قاصر رہا۔ تب اُس نے ہمیں ماہ نور کے ملک تک پہنچنے کا ایک آسان راستہ بتانے کا وعدہ کیا اور میں نے وہ بال اُس کے سامنے سے ہٹا لیا۔ دیو اس قدر خوفزدہ تھا کہ فوراً ہی پانی میں غرق ہو گیا اور ہمیں اپنا وعدہ کردہ راستہ بھی نہ بتلا سکا۔ اُس زمانے میں چونکہ گھوڑے بھی بولا کرتے تھے، اس لئے اُس رات کہ بیابان میں ہُو حق کا عالم تھا اور دل کی دھڑکنیں بھی بوجہ خاموشی سنی اور گنی جا سکتی تھیں ، اُن نا ہنجار گھوڑوں کی گفتگو سنی جس میں وہ دونوں دیو والے واقعے کے بعد فرار ہونے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ میں نے یہ بات اپنی گرہ سے باندھ لی اور جھوٹ موٹ سوتا بن کے اُن کی مزید گفتگو بھی سننے لگا لیکن وہ میرے لئے بے کار ثابت ہوئی کیونکہ وہ دونوں اب شاہی اصطبل کی اُن گھوڑیوں کا تذکرہ کر رہے تھے جنہیں وہ اپنے اپنے حبالہ آوارگی میں لینا چاہتے تھے یا لے چکے تھے۔

جوانی کی نیند، غلطیاں اور خوش فہمیاں چونکہ مشہور ہیں ، اس واسطے مجھ سے ایک غلطی سر زد ہوئی اور وزیر زادے سے بھی کہ ہم اُس رات ایسے سوئے کہ خرگوش جیسے حقیر جانور کو بھی مات دے دی۔ ہماری آنکھ کھلی تو گھوڑے ناپید، دن نصف اور وہ سرزمین مفقود تھی کہ جس میں ہم کل رات سوئے تھے۔ ہم دونوں نے اپنے کو ببول کے ایک ایسے شجرِ نا مراد کے نیچے پایا کہ جس کے پات جھڑ چکے تھے ، خار مغیلاں استادہ تھے اور ہر نوک خار پہ میری حسرتوں اور میرے پارہ پارہ قلب مضطر کے ٹکڑے لٹکے دکھائی دیتے تھے اور جس کی شاخوں پہ بُوم بسیرا کئے اُلٹے لٹکے ہوئے تھے۔ فضا مغموم اور ہوا مسموم تھی۔ بگولے غول بیابانی کی صورت ہمارے گرد رقصاں اور دھوپ عین ہمارے ڈھیلوں میں چمک رہی تھی۔ پیاس کا وہ عالم تھا کہ ہوا چلتی تو العطش العطش کی صدائیں سنائی دیتی تھیں۔ ہم دونوں کی زبانیں سفید ہو کر باہر لٹک رہی تھیں اور ہونٹوں پہ پپڑی کی وہ لُگدی تھی کہ بولنے کی کوشش کرتے تو جھڑی پڑتی تھی۔

وزیر زادہ بلا شبہ ایک رفیقِ جا نثار تھا۔ اُس عالم بے چارگی میں بھی اُس کی مسکراہٹ نسیم کا جھونکا تھی گو اُس کی پریشانی آنکھوں سے ٹپکی پڑتی تھی۔ میری آنکھوں میں اپنے یار خاص کی وفا دیکھ کر آنسو آ گئے کہ وہ یہ سارا جوگ میری خاطر بھوگ رہا تھا۔ ابھی میں اُس کی توصیف کرنے کو الفاظ کا چناؤ کر ہی رہا تھا کہ بالو کے اُڑتے بگولوں کے درمیان سے راہ بناتا ایک گھُڑ سوار دکھائی دیا۔ ہم دونوں ابھی عالم حیرت میں ہی تھے اور اُس کے بارے میں لب کشائی کرنے کو ہی تھے کہ یہ ہو نہ ہوسراب کی کوئی شکل ہے، لیکن وہ میدان مارتا چند ہی ساعتوں میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ اُس مرد سفید پوش کے چہرے پر نورانی ہالہ اور ہاتھوں میں دودھ اور شہد کا پیالہ تھا۔ ہم دونوں سے ایک لفظ کہے بغیر اُس نے وہ پیالہ وزیر زادے کے ہاتھ میں دے دیا۔ اُس وقت بھی وہ مردِ جری اپنی وفا پہ پورا اُترا اور پیالہ مجھے تھما دیا۔ کیا کہوں اُس آبخورے میں کیسی نعمت تھی۔ جنت میں اللہ کے نیک بندے وہی مشروب پیتے ہوں گے۔ میں ڈگڈگا کے ایک ہی سانس میں نصف پیالہ خالی کر گیا اور اس خوف سے کہ وزیر زادہ پیاسا رہ جائے گا، طوعاً و کرہاً اُسے اپنے لبوں سے جدا کیا۔ تس پہ وہ مرد بزرگ کہ سفید پوش بھی تھا مسکرا کے کہنے لگا کہ جتنا چاہو پیو، یہ کبھی ختم نہ ہو گا۔ میں نے پیالے کو غور سے دیکھا تو اُسے ایک بار پھر کناروں سے چھلکتا پایا چنانچہ پھر اُس ساغر لذت کو کھینچنے لگا۔ نطق اُس لذت کے بیان سے عاجز اور الفاظ اُس کی توصیف و مدح کے ذکر سے عاری ہیں۔ چاہتا تھا کہ جرعہ جرعہ کر کے تمام عمر پیتا رہوں مگر پھر لبیبِ حبیب کا خیال دامن گیر ہوا اور با دلِ ناخواستہ وہ پیالہ اُس کے حوالے کیا تو وہ بھی شاربِ مستِ حال کی طرح گھونٹ لینے لگا۔ وہ نعمتِ غیر مترقبہ ایسی تھی کہ میں چند ساعتوں کو اُس پری رُو کے تصور سے بھی دست کش ہو گیا کہ جس کی دامنگیری مجھ سے یہ صحرا چھنواتی تھی۔ پھر خود پہ صد حیف کہہ کے گریہ کناں ہوا کہ مجھ سے یہ بے وفائی کیونکر سرزد ہوئی۔ تس پر وہ مرد سفید پوش مسکرایا اور ہاتھ کے اشارے سے اُس سحر زدہ، بے فیض شجر پر بانات کی سبز چادر تان دی۔ بارے تن مردہ میں کچھ جان پڑی اور سودائے عشق پھر دل میں لہریں لینے لگا۔ وزیر زادہ کہ آبخورے کو بار بار خالی کرتا اور وہ پھر دستِ غیب سے بھر بھر جاتا تھا، بالآخر شادکامی کی منزل کو پہنچا اور نڈھال ہو کے، ولیمے کے مہمانوں کی صورت ایک طرف پڑ رہا۔

وہ بزرگ سفید پوش کہ ابھی تک گھوڑے پر سوار تھا، مجھ سے گویا ہوا اور جو گفتگو اُس نے کی اُس کا ماحصل اس دنیا کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا تذکرہ تھا اور سردو گرم چشیدہ لہجے کے معنی و مقاصد ایک ہی تھے کہ میں شہزادی ماہ نور کے وصال کے خیال سے دست کش ہو کر اپنے والد بزرگوار کی سلطنت کے امن میں واپس لوٹ جاؤں اور والد صاحب کے ارتحال پر ملال کا (بے چینی سے )انتظار کروں اور جب(انشا اللہ) ایسا ہو جائے تو ٹھاٹھ سے بادشاہی کروں۔

مجھے اس گفتگو سے شدید رنج پہنچ رہا تھا اور میں کہ سر پہ کفن لپیٹ کے اُس حور شمائل کے تصور وصال میں سرگرداں ، جگر لخت لخت حسرتوں کی رِداسنبھالے یہاں تک آ گیا تھا اور ایک لنگڑے دیو کی دست برد سے محفوظ رہ کر چنداں بلند حوصلہ بھی ہو چکا تھا، اس امر پر قطعاً آمادہ نہ ہوا اوراُس بزرگ سے مدد و اعانت کا خواہاں ہوا۔ بزرگ کہ میرا اور وزیر زادے کا محسن بھی تھا، بالآخر بہت ہی رد و قدح کے بعد آمادہ ہوا اور اُس نے کچھ یوں کہا۔ اے شہزادے۔ میں تجھے اُن نتائج و عواقب سے آگاہ کرنے کے واسطے بھجوایا گیا ہوں کہ جو تیری عقل اور آنکھوں سے شدتِ آرزوئے وصل میں اوجھل ہو چکے ہیں۔ کیوں اپنی جوانی، اپنے والدین کی آرزوؤں اور اپنی رعایا کی تمناؤں کے خون کے درپے ہے۔ تُو ابھی اُن سختیوں ، آزمائشوں اور کشا کش حالات سے ذرا بھی واقف نہیں کہ جو اس کٹھن رستے میں تیرے منتظر ہیں۔ بارے ان باتوں کو سن کر میری طبیعت کچھ دیر کو مائل بہ تَنغض ہوئی لیکن پھر جی نے سنبھالا لیا۔ بزرگ کی گفتگو میں رنگ تُسامح صاف جھلک رہا تھا اور یہ حقیقت واضح و آشکار تھی کہ جیسے وہ دل سے چاہتا ہو کہ میں اس صحرا نوردی اور اختر شماری سے دس کش نہ ہوں۔

تس پر وزیر زادہ کہ مشروب جان بخش کے گھونٹوں سے چونچال ہو چکا تھا اور اپنی سابق حالت پہ بحال ہو چکا تھا، مسکرا کے بزرگ سے بولا۔ اے مرد سفیدپوش مجھے آپ کی باتوں سے نیم دلی کی بُو آتی ہے، یعنی صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ اس بات کو سننا تھا کہ بزرگ کے نورانی چہرے کا رنگ تبدل پذیری کے مرحلے سے گزرا اور اُس پر لمحہ بھرکو خباثت جھلکی اور تبھی اُس نے ایسی آہِ سرد بھری کہ ہم بھری دوپہر میں کپکپا کے رہ گئے۔ اس کے بعد وہ مرد سفید پوش یوں گویا ہوا۔ اے نادانو اس سے پہلے کہ میں اپنی وہ داستان خونچکاں تم سے کہوں کہ جس میں قدم قدم پہ ہِجر کے ہَجر اور اشکوں کے سمندر میرا مقدر کر دئیے گئے ہیں ، مجھے یہ شعر پورا سناؤ۔ وزیر زادے نے جیسے ہی اُس کی یہ فرمائش پوری کی، بزرگ نے پچھاڑ کھائی اور چاہتا تھا کہ گھوڑے سے غش کھا کے گرے، تب گھوڑے نے نہایت بیزاری سے کہا۔ تمہیں پتہ ہے میں ایک ہفتے سے وجع الا اسنان میں مبتلا ہوں اور تمہیں دانتوں سے اُٹھا کر اس من بھر کے لاشے کو اپنی پیٹھ پہ لاد کے زقند نہیں بھر سکتا۔ تس پر بزرگ سفیدپوش نے گرنے کا ارادہ ملتوی کیا اور چلمن کے معنی و مطالب پوچھے اور اپنے معشوق کے پردہ زنگاری کو چلمن کا نام دے کر بتایا کہ کم و بیش سات برس قبل وہ ملکِ شام کی ایک نیم تاریک گلی میں ایک نقاب پوش حسینہ سے، کہ شب ہائے تار میں ایک جزو قتی اور آمدن کش کارِ خفیہ کو روا گردانتی تھی، اسی عالم میں ملاقات کرتے ہوئے اُسی کے نا ہنجار اور معاملہ نا شناس بھائیوں کے ہاتھوں داعی اجل کو لبیک کہتے کہتے رہ گیا تھا۔

الغرض جب بزرگ نے مجھ پہ ہر نصیحت کو بے اثر اور آتشِ شوق کو ہر حربے سے تیز تر پایا، تب ہار مان لی اور ایک نیا پینترا بدل کر یو ں گویا ہوا۔ اے مرد جری، تُجھ میں مَیں نے ایک عاشق کے جملہ اوصاف یعنی ضد، ہٹ دھرمی، حماقت اور کج بحثی بدرجہ اتم پائے ہیں اور تیری آرزوئے وصال سے چونکہ فی الحال صدق جھلکتا ہے اور یہ صدق اُس وقت تک جھلکے گا جب تک وہ ماہ رُو تیرے حبالہ عقد میں نہیں آ جاتی، اس کے بعد تُو جلد ہی رنڈیوں کی طرف متوجہ ہو جائے گا کہ یہی عشق کا انجام ہوتا ہے اور پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ جس میں رس ہو گا اُس پہ تیرا بس نہ ہو گا اور جس پہ بس ہو گا، اُس میں رس نہ ہو گا۔ یہ نیم فحش قسم کی پیش گوئی نما نصیحت کر کے بزرگ سفید پوش نے میرے دائیں بازو پر ایک تعویذ باندھا اور بتایا کہ دافع بلیات ہے۔ اس پر وزیر زادے کو اپنی حفاظت کی فکر لاحق ہوئی اور وہ بھی اسی قسم کے ایک تعویذ کے حصول کے لئے ملتمس ہوا۔ تس پر بزرگ سفید پوش نے دبے لفظوں میں اُس موکل کی تھوڑی سی غیبت کی کہ جس کا کام اس قبیل کے تعویذ مہیا کرنا تھا اور ہمیں فوراً روانہ ہونے کو کہا کہ کچھ ہی ساعتیں جاتی تھیں کہ یہ جگہ بلاؤں کا مسکن بننے والی تھی۔ اس بار بزرگ بھی کچھ جلدی میں لگتا تھا چنانچہ اُس نے خود بھی گھوڑے کو ایڑھ لگانے کے بجائے (گھوڑے کی) ایک ناگفتنی کل دبائی اور اپنی جگہ سے چشم زدن میں غائب ہو جانے کو ترجیح دی۔

وزیر زادہ کہ تعویذ سے محروم رہ گیا تھا، فوراً وہ جگہ چھوڑنے پہ اصرار کرنے لگا اور ہم دونوں یہ دیکھ کر حیرت کے سمندر میں غواصی کرنے لگے کہ ہم دونوں کے گھوڑے دُلکی چلتے ہماری جانب چلے آ رہے ہیں۔ گھوڑوں سے سوال و جواب اور استعجابیہ غواصی کا وقت نہ تھا، گو کہ مجھے یقین واثق اور کامل تھا کہ یہ گھوڑے اس صحرا میں رات بھر فقط صحرا نوردی ہی نہیں کرتے رہے ہوں گے مزید براں اُن دونوں کے پاس سے خوشبوئے وصل بھی آ رہی تھی، اور ہر شیخی خورے کامیاب عاشق کی طرح وہ زیٹ بھی اُڑا رہے تھے، معاملہ اس قدر واضح اور عیاں تھا کہ اُن سے کچھ پوچھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف تھا چنانچہ ہم دونوں اپنے اپنے(شب زاد) گھوڑے سوار پہ ہوئے اور برق رفتاری سے وہ بیابان عبور کرنے لگے۔ اس سفر کے دوران مجھے گھوڑوں کی شب گزشتہ کی آوارگیوں کا چندے اندازہ یوں بھی ہوتا رہا کہ وہ ایک دوسرے کو آنکھیں بھی مار رہے تھے۔ میں حیران و ششدر تھا کہ ان کمبختوں نے اس ہُو حق ویرانے میں لیلائے آرزو تلاش کر لی ؟۔ پھر ایک آہ سرد بھرکر اُن گھوڑوں کو نگاہ رشک سے دیکھا اور یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ خدا شکر خورے کو ہر حال میں شکر مہیا کرتا ہے۔ میں چاہتا تو حسد و رشک سے بھنتے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُن گھوڑوں کی کھال اُدھیڑ دیتا لیکن جہاں بانی کی تعلیم اور ملک گیری کی تربیت کے اسباق کے دوران مجھے یہ بھی سکھایا گیا تھا کہ ایسے موقعوں پر خاموشی بہترین وطیرہ ہے، چنانچہ خون کے گھونٹ پی کر گھوڑوں کو معاف کر دیا کہ اُن کی معاونت کے بغیر شہزادی ماہ نور سے آرزوئے وصل تشنہ رہ جانے کا احتمال تھا۔

اگلے تین چار روز ہم مقامات راحت و دل پسند پہ پڑاؤ کرتے ، طائران خوش گلو کے نغمے اور گھوڑوں کی لن ترانیاں سنتے بہ سبک ساری سفر کرتے اور دل سے تجربات نا پسندیدہ کا رنج دھوتے رہے۔ دن تو سفر میں گزر جاتا لیکن سمندِشب جونہی فضائے بے کنار میں زقندیں بھرنا شرو ع کرتا اور فلک کی نیلگوں کھڑکیوں میں اختر شماری کا سامان بہم پہنچتا ، میں بے قرار و مضطرب ہو جاتا اور اُس ماہ رُو کے تصورِ وصال سے خود کو شاد کام کرنے لگتا۔ ایک رات جب کہ میں اختر شماری کر رہا تھا اور ابھی فقط تیس ہزار ایک سو بارہ تارے ہی گن پایا تھا، میں نے وزیر زادے کی آواز سنی جو ایک شجر سایہ دار کے تلے کھڑا تھا۔ مجھے پہلے اُس پر خود کلامی کا گمان گزر ا لیکن کان لگا کر غور سے سنا تو دوسری آواز کسی عورت کی سنائی دی۔ میرے دل میں تجسس اور خوف بیک وقت پیدا ہوئے اور تب میں نے کھنکھار کر فقط اُس کی محویت توڑی اور یہ سوچ کر قریب نہ گیا کہ بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ دو میں تیسرا آنکھوں میں ٹھیکرا۔ میں جھوٹ موٹ سوتابن گیا اور وزیر زادے کو اپنی جانب آتے دیکھا۔ وزیر زادے نے میرے سو جانے کی تسلی کی اور طویل اور سرد آہیں بھرنے کے ساتھ ساتھ ہجریہ اشعار پڑھنے لگا۔ یہ بات میرے لئے از حد تعجب کا باعث تھی چنانچہ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے کہا۔ کیوں صاحب، آپ نے اس صحرائے بیاباں میں یہ دل بستگی کا سامان مہیا بھی کر لیا اور یاروں کو ہوا بھی نہ لگنے دی۔ تس پہ وہ مسکرایا اور قدرے شرمندہ ہو کر بولا۔ میں ایک جن زادی کے عشق میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ اور وہ ہر رات تمہارے سو جانے کے بعد مجھ سے ملنے ہر اُس جگہ چلی آتی ہے، جہاں ہم پڑاؤ کرتے ہیں۔ سبب تم سے اس واقعے کے تذکرے کی پہلو تہی کا یہ تھا کہ اُس نے اپنی جان کی قسم دے کر یہ راز فاش نہ کرنے کو کہا ہے لیکن اب جبکہ تم اس راز سے کسی حد تک واقف ہو ہی گئے ہو، یہ غلام زادہ مناسب نہیں سمجھتاکہ اس بات کو مزید اخفا میں رکھے۔

مجھے وزیر زادے کی یہ حرکت تو اچھی نہ لگی لیکن دل نے کہا۔ صاحب تم کس برتے پہ اُس غریب زادے کی دل لگی کو برداشت نہیں کر تے۔ تم بھی تو ایک حسینہ کے، کہ جسے تم نے ابھی تک دیکھا بھی نہیں ، اسیر زلف ہو کر یہ جوکھم بھوگ رہے ہو، چنانچہ میں خاموش ہو رہا اور اس عشق کا انجام دریافت کرنے لگا۔ تس پر وزیر زادہ یوں گویا ہوا کہ اس جنی کی بچپن میں ایک خبیث قسم کے جن سے منگنی ہو چکی ہے اور وہ اسے قطعاً پسند نہیں کرتی۔ چونکہ وہ شہزادی ہے اور ملک کوہ قاف کا ہر بزرگ و کودک اس منگنی سے واقف ہے اس لئے وہ اس منگنی کو اتنی سبک دستی سے توڑ بھی نہیں سکتی۔ اُسے شاہی محل کی ایک مشاطہ نے کہ جس کی عمر کا ساڑھے گیارہواں ہزار سال چل رہا ہے، مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی آدم زادے سے راہ و رسم پیدا کرے اور اُسے آمادہ نکاح کر ے تو شہنشاہ جنات بہ خوشی اُس کی منگنی اُس شیطان صفت، یک چشم جن سے ختم کر دیں گے۔

تس پر میں نے سوال کیا کہ تو اس نکاح میں کیا امر اب تک مانع ہے؟ وزیر زادے کا جواب سن کر میرا جی باغ باغ ہو گیا اور اگر میں اپنے والد صاحب کی سلطنت میں ہوتا تو اُس کا منہ موتیوں سے بھر دیتا۔ وہ مرد جری یوں گویا ہوا کہ شہزادے، میں اُس وقت تک اپنے اُوپر کسی بھی قسم کا عیش و آرام حرام سمجھتا ہوں ، جب تک تم اپنا گوہر مراد نہ پالو۔ بھلا کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں وصل کے پنگھوڑے میں اپنی عورت کے ساتھ جھولوں اور میر ا یار صحرا بہ صحرا اپنی مطلوبہ و معشوقہ کی تلاش میں سر گرداں رہے۔ یہ بات کہنے میں کوئی باک و عار نہیں کہ میں اُس جنی کے عشق میں مبتلا ہو کر عقل، دانش اور فہم کی حد کبھی کی پار کر چکا ہوں لیکن تیر ے دیوانے میں ابھی کچھ نہ کچھ ہشیاری باقی ہے۔

میں نے وفورِ محبت سے اُسے گلے سے لگایا تو ایک ایسی خوشبو اُس کے پنڈے سے آتی محسوس ہوئی کہ سُنی نہ سونگھی۔ استفسار پر اُس نے اپنے لباس سے ایک سبدِ گُل برامد کی کہ گونا گوں پھولوں سے اٹا اٹ بھری تھی اور وہی اس خوشبوئے دل کش کا منبع تھی۔ وزیر زادے نے تب بتلایا کہ وہ پری وِش ہر رات اُس کے واسطے پھولوں کی یہ ٹوکری اپنے باغ خاص سے لایا کرتی ہے۔ غرض وزیر زادے کو اپنے معشوق کے تصور میں غلطاں چھوڑ کر میں سونے کو لیٹ گیا، مگر صاحب یہ واقعہ دل پر اتنا گہرا اثر ڈال چکا تھا کہ نیند آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔

سویا تو بزرگ سفید پوش کو خواب میں روبرو پایا۔ غور سے دیکھا تو چہرے کی کیفیت پریشانی کی غماز دکھائی دی اور آنکھوں میں خفگی کا تاثر گہرا۔ میرے استفسار پر یوں گویا ہوا۔ اے شہزادے، تیرا رفیق اپنے ساتھ تجھے بھی کسی بڑی آفت میں مبتلا کرنے والا ہے کہ وہ جن زادی جو اُسے ہر رات تنہائی میں ملتی اور میری خفیہ اطلاع کے مطابق شاد کام بھی کرتی ہے، در اصل ایک خبیثہ ہے جسے بہ سبب آدم خوری صدیوں پہلے شہنشاہ جنات اپنی سلطنت سے بے دخل کر چکا ہے اور اب اُس کا شغل وزیر زادے جیسے دُناب جوانوں کو پھانس کے پہلے خلوت اور لطفِ شبِ زفاف بہم پہنچا نا بعد ازاں اُن کے گوشت سے لذت کام و دہن ہے۔ یہ سننا تھا کہ عالم رویا میں ہی مجھے اپنے تلے کی زمین سرکتی محسوس ہوئی اور آنکھوں تلے پہلے اندھیرا چھایا اور پھر تارے ناچنے لگے۔ بزرگ سفید پوش میری اس حالت کو بھانپ کر مسکرایا اور تسلی دینے کے انداز میں گویا ہوا۔ لیکن ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ وہ تیرے لبیب حبیب کواُس وقت تک نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک تیرے بازو پر وہ تعویذ بندھا ہوا ہے جو میں نے تجھے دیا تھا۔ اُس تعویذ کی نورانی شعاعیں شمالاً جنوباً اور شرقاً غرباً ہر وقت منعکس و جاری رہتی اور اپنے دافع بلیات ہونے کے خصائص کے سبب ، کسی بھی قسم کے نقصانات کے ازالہ پذیری کا تاثر رکھتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ تجھے پہلے بتایا تھا یہ تعویذ ایک سست الوجود قسم کے موکل نے بنایا تھا لہٰذا اس کی اثر پذیری محض پانسو گز تک محدود ہے اور جس دن بھی تیرا انیس و جلیس اس دائرے سے نکل گیا، سمجھ لینا کہ اُس کا چراغ حیات گُل ہو گیا۔ گو آج کی رات میری ذاتی مصروفیات کی رات ہوتی ہے، اور میں خواب وغیرہ میں دکھائی دینے سے مجتنب ہوتا ہوں لیکن تجھ پر رحم آیا تو میں چلا آیا۔ اور پھر اُس نے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں ، قسم کی دو چار اور باتیں کیں اور رخصت ہوا۔

میری آنکھ کھلی ہے تو میرا یار وزیر زادہ مبتلائے نوم تھا اور اُس کے چہرے سے وہ مسکراہٹ ہویدا تھی کہ جس میں حماقت کے ساتھ ساتھ اُس بدنصیبی کی آمیزش بھی ہوتی ہے اور جو فقط عاشقوں کے واسطے مخصوص ہوتی ہے۔ (مجھے یہ بہت بعد میں اندازہ ہوا کہ عاشق دونوں صورتوں میں بد نصیب ثابت ہوتے ہیں ، آرزوئے وصل کے ساغر کھینچتے ہوئے بھی اور تمنائے وصل کی تکمیل کے بعد بھی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی قصہ ہے، جو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھتا ہوں )۔ میں غور و فکر کرنے اور اپنے یار کو اُس چڑیل سے پنجہ خونی سے چھڑانے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ جانتا تھا کہ اس ذات الجُنب کا درماں میں بہ آسانی نہ کر پاؤں گا کہ میں خود اس کا شکار تھا اور شہزادی ماہ نور کے حُسن کا فقط تذکرہ ہی سن کے کشاں کشاں اُس کی جانب اُڑا چلا جاتا تھا۔ میں ابھی چہ می کنم کی کیفیت سے دو چار ہی تھا کہ ناگہاں آسمان کے ایک گوشے سے ایک ستارہ ٹوٹا اور میں نے اسے شگونِ بد جان کے آنکھیں میچ لیں اور اسے کجی فلک کا استعارہ گردانا۔ آنکھیں کھولیں تو جو دیکھا اُس نے میرا لہو میری رگوں میں منجمد اور جاں لبوں سے قریں کر دی۔ دیکھتا ہوں ایک جن ، کہ جس کے دانت شمشیر برہنہ آبدار کی جِلا رکھتے تھے، بڑھے ہوئے ناخن کہ اُن پر ہِلاہِل میں بجھے پیش قبض کا گماں ہوتا تھا اور آنکھیں کہ ہوسِ لہوسے یوں سُرخ تھیں گویا ہزار ہا چشم خوں ناب ایک جگہ جمع ہو گئی ہوں ، وزیر زادے پر یوں جھکا ہوا تھا گویا اُس کے کلیجے کو بس نکالا ہی چاہتا ہو۔ تبھی مجھے بزرگ سفید پوش کے عطا شدہ تعویذ کا خیال آیا۔ بازو ٹٹولا تو میرے رہے سہے اوسان مع اشیائے نا گفتنی خطا ہو گئے۔

خود پر حیف و نفرین کرتا سوچنے لگا کہ تو ناگہاں گمان میں آیا کہ سونے سے پہلے غسل کرتے وقت میں نے اُتار کر اُس پتھر پر رکھا تھا کہ جس کی آڑ میں کھڑے ہو کر غسل کیا تھا۔ پتھر کی آڑ گھوڑوں کی وجہ سے لینا پڑی تھی کہ اُن دنوں میں یہ سوچ سوچ کر متفکر اور مشوش ہو رہا تھا کہ میرے گھوڑے میں ستر بینی کا ذوق نجانے کیسے فروغ پا گیا تھا؟

الغرض مثال برگِ آوارہ، خاک سے معانقہ اور زمین کا بغور معائنہ کرتا آگے بڑھا اور بالآخر اُس تعویذ کو پا لینے میں کامران ہوا۔ تعویذ کا رُخ اُس ناہنجار کی طرف کیا ہی تھا جو وزیر زادے کے کلیجے پر ہاتھ ڈال چکا تھا کہ اُس (جن) نے ایک دلدوز چیخ ایسی ماری کہ وزیر زادہ تو ایک طرف رہا فضا میں موجود بوم و ہما تک شور قیامت میں شامل ہو گئے۔ تعویذ سے نکلنے والی ابرق رنگ شعاعیں عفریت کے بدن کو چھیدے ڈالتی تھیں۔ یہ حال دیکھا تو دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اس مردود کا آگا پیچھا دریافت کیا جائے۔ چنانچہ گھوڑوں کو کہ میرے بالیں کھڑے تھر تھر کانپ رہے تھے اور جن کے رنگ زعفران صورت ہو چکے تھے، بمشکل پیچھے ہٹایا، اپنے یار وزیر زادے کو تعویذ کی پناہ میں لیا اور بابِ تفتیش وا کیا۔ تس پر وہ مردود بولا کہ وہ اُس خبیثہ کا فرستادہ ہے اور اس وقت وزیر زادے کو بمع چارپائی اُٹھا لے جانے کے واسطے آیا تھا اور اُس کا ارادہ وزیر زادے سے شکم پُری ہرگز نہ تھا۔ میں چونکہ بذریعہ بزرگ سفیدپوش اس سارے قصے سے پہلے ہی بخوبی واقف تھا، اس واسطے چشم زدن میں معاملے کی تہہ کو پہنچ گیا اور حیران و ششدر وزیر زادے کو بعد ازاں سارا ماجرا کہہ سنانے کے وعدے پہ رکھا۔ جب وہ عفریت تو بہ تلا کرتا دفعان ہو گیا تو میں نے یہ حکایت بغیر نمک مرچ لگائے وزیر زادے کے گوش گزار کر دی۔ اُس ناداں کو پہلے تو یقین نہیں آیا لیکن چونکہ ماجرے کا کچھ حصہ بچشم خود ملاحظہ کر چکا تھا اس لئے اعتبار کے سِوا چارہ نہ تھا اور صبر کے علاوہ یارا نہ تھا۔

وزیر زادے نے ایک دلدوز چیخ ماری اور بے ہوش ہو گیا۔ میں چاہتا تھا کہ کہیں سے لخ لخہ پیدا کروں کہ اُسے سُنگھا کے عالم حواس میں واپس لاؤں ، لیکن صاحبو اُس بیاباں میں یہ حکیمی بوٹی کہاں سے لاتا۔ چنانچہ تالاب کے پانی پہ اکتفا کیا اور چند ہی چھینٹوں میں وزیر زادے نے ہوش کا دامن تھام لیا۔ عشق کی آتش اُسے بھِلسائے دیتی تھی اور آرزوئے وصال کی شدت جھلسائے دیتی تھی۔ بارے رات آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی اور وزیر زادہ سویا تو میں نے اطمینان کا سانس لیا اور ماہ نور کے تصور سے جی شاد کرنے لگا۔

میں تڑکے اُٹھ بیٹھا اور یہ دیکھ کر کہ وزیر زادے کی جائے نوم خالی تھی، قدرے مشوش ہوا لیکن پھر جی کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ عین ممکن تھا وہ تقاضائے بشری کی تکمیل کے لئے کہیں گیا ہوا لیکن جب خورشید جہاں ، فلک میں زقندیں بھر نے لگا اور چرند پرند اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکل کر باری تعالیٰ کا اُس روز کا مقررو مقدر کردہ، اپنے اپنے حصے کا رزق تلاش کرنے کو روانہ ہوئے تو میری پریشانی دو چند ہو گئی۔ میں نے غور سے دیکھا تو اپنے گھوڑے کو ایک پیڑ کے نیچے وہیں بندھا پایا جہاں میں نے اُسے شب گزشتہ باندھا تھا۔ گھوڑے سے دریافت کرنے پر علم ہوا کہ علی الصبح کہ ابھی پرندے سر سبز اشجار کی گود میں سر چھپائے خواب خرگوش کے مزے لُوٹ رہے تھے اور خرگوش بھی اُسی طرح لیلائے نوم سے ہم آغوش تھے کہ جس خوبی کے لئے ، موخر الذکر بدنام ہیں ، وزیر زادہ گھوڑے پر بیٹھ کر سمت غیب کی طرف روانہ ہو چکا ہے۔ میں نے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ ناکام عاشق اور اندھے بیل میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی ہر دو جس طرف جاتے ہیں اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ، لہٰذا میری پریشانی دو چند ہو گئی۔

صاحبو، پردیس، تنہائی اور غریب الوطنی کا احساس تھا کہ مارے ڈالتا تھا اورمستزاد یہ کہ میرا لبیبِ حبیب مجھ سے یوں جدا ہو چکا تھا کہ ناکامیِ عشق اور بے وفا محبوب کی محبت کا زخم ہنوز اُس کے دل میں رِستا تھا۔ چند لمحوں کو تو میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا۔ سوچا ماہ نور کو پانے کا ارادہ فسخ کروں اور وطن کو لوٹ جاؤں لیکن دل اس رکاکت پرکسی طور آمادہ نہ ہوتا تھا۔ مشورہ طلب نگاہوں سے گھوڑے کی طرف دیکھا جو سر جھکائے گھانس چرنے میں مصروف تھا۔ پھر سوچاہمت مرداں مدد خدا۔ رِکابِ اسپ پر قدم رکھا تو یہ فیصلہ کرنے میں حیض بیض کا تا دیر شکار رہا کہ پہلے اپنا منشا و مقصد پورا کروں یا اپنے یا جا نثار و مربی کو تلاش کروں۔

آدھا دن بے سمتی میں سفر کرتا کرتا بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچا کہ جہاں کی مٹی زرد، پہاڑ سبز اور پانی سرخ تھا۔ جی میں حیران منزل مارتا رہا لیکن شام سر پہ آئی اور وہ سر زمین تھی کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ تھکن سے چُور تھا اور گھوڑے کو بھی سفر سے مائل بہ حذر پاتا تھا چنانچہ ایک جگہ قیام کے ارادے سے اُتر پڑا۔ سرخ پانی میں منہ ہاتھ دھوکر خُرجی سے نان خشک نکال کراُس پر دانت لگایا ہی تھا کہ یوں لگا جیسے فضا میں گھنٹیاں سی بج اُٹھی ہوں۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ آواز دل پسند کس سمت سے آتی تھی کہ گھوڑے کو ایک جانب دِنایَت سے اشارہ کرتے دیکھا۔ اُس طرف متوجہ ہوا۔ نان خشک ابھی میرے ہاتھ ہی میں تھا کہ ایک پرندہ کہ خاطف صفت تھا، اُسے میرے ہاتھ سے اُچک کے لے گیا۔ میں اُس وقت اُن مترنم آوازوں کا کھوج لگانے میں سر گرداں تھا چنانچہ اُس گستاخ پرندے پر تیر کمان کے استعمال کا ارادہ فسخ کرتا ہوا آگے بڑھا۔ ایک پتھر کی آڑ لی اوراُس سمت دیکھنے لگا کہ جہاں اُن دل کش آوازوں کا منبع تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس بارہ پریاں ، کہ جن کے سِن جوانی کی راتوں اور مرادوں کے دنوں والے تھے اور طرحداری اور دل رُبائی میں جن کا ثانی نہ تھا، پانی میں یوں چہلیں کر رہی تھیں کہ تن کا ہوش تھانہ بدن کا اور وہاں قیس کے بجائے لیلیٰ ہر تصویر کے پردے سے یوں نکلی پڑتی تھی کہ جیسا بیان قیس کے بارے میں ہوا ہے۔

اُن کے زریں اور زیریں ملبوس قریب ہی درختوں پہ جھول رہے تھے۔ میں اس نظارے میں گُم اور محویت میں غرق تھا کہ ناگہاں کسی نے ڈپٹ کے مجھے مخاطب کیا۔ گھوما تو کیا دیکھتا ہوں مثل حُور، مانند تخیل مانی و آذر، شراب گوں آنکھوں ، سحاب رنگ لباس، شفق صفت رنگت والی ایک حسینہ کھڑی مجھے گھور رہی ہے۔ اُس کے رخ طرحدار پر پہ بکھری گھٹا صورت زلفوں سے پانی یوں قطرہ قطرہ ٹپکتا تھا مانو شراب چُوائی جا رہی ہو۔ میں اُس حسن جہاں سوز میں سر تا سر غرق ہوا ہی چاہتا تھا کہ شہزادی ماہ نور کے عشق نے میرے دل کو چٹکی میں لے کے یوں مسوسا کہ میں تلملا کے رہ گیا۔ جانے یہ میری صورت کا کمال تھا یا شہزادی کا حسن نظر، مجھے لگا وہ (واقعتاً) پر ی رُو مجھ پہ ہزار جان سے عاشق اور میری صورت کی دلدادہ ہو چکی ہے۔ میرے جواب دینے سے پہلے وہ مسکرائی اور اپنا تعارف یوں کروایا کہ یہ پریوں کا وطن و مسکن تھا جہاں میں بھٹک کے آن نکلا تھا اور میں پہلا آدم زاد تھا کہ جس کے رو برو وہ پہلی دفعہ ہوئی تھی اور اُس نے بے محابا عین میرے خدشات کے مطابق، یہ بھی کہہ دیا کہ وہ مجھ پر ہزار جان سے عاشق ہو چکی ہے اور نکاح کی متمنی بھی۔

میں جی میں سوچتا تھا کہ یہ کیا نئی اُفتاد مجھ پہ نازل ہوئی ہے۔ شکایت بھرے دل اور شکوہ فشاں آنکھوں سے فلک کو دیکھا لیکن اُس در کو ذراسا بھی وا نہ پایا کہ جہاں سے نالوں کا جواب آیا کرتا ہے۔ وہ پری رُو مجھ سے قریب ہوئی اور میرے دل کو گدگدانے کی کوشش کرتے ہوئے ملتمس بھی کہ میں اُسے اپنے حبالہ زوجیت میں قبول کروں اور اسی پانی کے کنارے شبِ زفاف کے جملہ مراحل سے جی کو شاد کروں اور اگر پسند ہو تو اُس کے باپ نے اُسے بادلوں پر جو محل مرحمت کر رکھا ہے اُس میں عیش و عشرت کی سبد گل سے جو چاہوں چُنوں۔ صاحبو، اگر میں شہزادی ماہ نور کے عشق کی حدت بے پایاں سے اپنے کو بھِلسا نہ چکا ہوتا اور تو عین ممکن تھا کہ اُس کی درخواست پر غور کرتا اور فیصلہ بھی عین اُس کی منشا کے مطابق کرتا لیکن میرے دل نے مجھ پر حیف و نفرین کے وہ وار کئے کہ میں خود سے شرمندہ ہوا اور( بادل نخواستہ)انکار کے کلمات میرے منہ سے ادا ہوئے۔ میرا خیال تھا کہ میرا انکار اُسے چراغ پا کر دے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ اسی اثنا میں حسینوں کا وہ غول بھی اپنے اپنے لباس اپنے گل رنگ پنڈوں پہ لپیٹتا حاضر خدمت ہو گیا کہ جن کے اجسام کی ناگفتنی و خفیہ جزئیات و تفصیلات مجھے ازبر ہو چکی تھیں اوراس راز سے واقف ہو کر شاد تھا لیکن میرے انکار نے گلرخوں کے اُس مجمعے پر گہری اُداسی طاری کر دی۔ میں خود کو اُس وقت اس عالمِ ہست و بود کا عظیم چغد محسوس کر رہا تھا۔ میری وہی کیفیت تھی کہ جو کسی بزرگ نے کعبے اور کلیسا والے شعر میں بیان کی ہے۔ جب مجھے ملول اور دل گرفتہ پایا تو اُس شمع رُو حسینہ نے اس کا سبب دریافت کا، تس پہ میں نے اپنا دل کھول کے اُس کے سامنے رکھ دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ میں کسی کا ہو چکا ہوں اور اُس کے تصور سے جدائی اختیار کرنے کو کفر کرنے کے مترادف گردانتا ہوں۔

گمانِ اغلب کے بر عکس وہ پری رُو ہنسی اور مجھے یوں تکنے لگی جیسے میں نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔ وہ مجمع معشوقاں کہ حالاتِ دگر میں عمر بھر کی ضروریاتِ ناگفتنی کی تکمیل کے واسطے کافی سے زیادہ ہوتا، اپنی شہزادی کا ساتھ دینے لگا۔ میں جی ہی جی میں حیراں اوراس فکر میں غلطاں تھا کہ یا باری تعالیٰ میں نے یہ بات کہہ کے کونسا درِ خند وا کر دیا ہے کہ جواب میں مجھے مینا و قلقل کے سے مترنم قہقہے سننے کو مل رہے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے استفسار کیا کہ اے شہِ خوباں ، غلام اس ہنسی کا سبب دریافت کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ تس پر وہ رشک خورشید اور ہنسی اور بولی۔ اے بد نصیب آدم زادے۔ تُو کس گمان میں ہے۔ تیرا یہ سودائے عشق کہ تُو شہزادی ماہ نور کو پا لے گا اور نہ صرف پا لے گا بلکہ اپنی آتش وصل کو اُس کے قرب سے سرد کر لے گا، ابھی خام ہے۔ یہ وہ راہ ہے کہ جس میں برگد کے پیڑ جتنے خارِ مغیلاں اور اُتنے ہی قد و قامت کے مصائب قدم قدم پہ کھڑے ہیں۔ تُو اگر میرا نہیں بنتا اپنا تو بن اور انہی قدموں اپنی سلطنت کی امان میں لوٹ جا۔ اگر گھوڑے پر مزید سفر کرنے کا یارا نہ ہو تو ابھی تیرے واسطے تخت ہوائی کا بندوبست کر دوں کہ جسے چار جن اُٹھائے میرے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں اور چونکہ مدت سے ٹھالی گھومتے ہیں اس واسطے سست الوجود بھی ہو چکے ہیں۔

واپس لوٹ جانا میری غیرت پہ تازیانہ تھا لہٰذا میں نے انکار کے سوا چارہ نہ پایا اور اپنے ارادہ پر ڈٹے رہنے کا عندیہ دیا۔ تس پہ وہ افسرِ خوباں ایک دلگیر ہنسی کے ساتھ بولی۔ دیکھ آدم زادے میں تجھے ایک موقع اور دیتی ہوں ، میری مان جا اور اس پیشکش سے فائدہ اُٹھا کے عمر بھر کو نِچنت ہو جا لیکن اُدھر کے اصرار کے جواب میں اِدھر انکار ہی تھا۔ چنانچہ وہ ایک ایسے حربے پہ اُتر آئی کہ جس کا توڑ اس عالمِ نا پائیدار کے بڑے سے بڑے حکما، فضلا اور عقل باز آج تک دریافت نہ کر سکے اور ہنوز عاجز و قاصر ہیں۔ وہ مہ لقا آٹھ آٹھ آنسوؤں سے گریہ کناں ہوئی۔ ہر عاشق کی طرح میں بھی رقیق القلب ہوں اس لئے قریب تھا کہ میں شہزادی اور اُس کی ہمجولیوں کی مسلسل آہ و بکا سے، کہ مجلس حسین کا منظر پیش کر تی تھی، متاثر ہو کر سپر ڈال دیتا اور اُس تالاب کے کنارے شب زفاف کے جملہ مراحل دلپذیرسے گزر جاتا لیکن باری تعالیٰ نے عین وقت پر میری چشم نیم وا کو ، وا کر دیا اور میں اس رکاکت بھرے ارادے سے ایک بار پھر اپنا تصور شہزادی ماہ نور کی جانب پھِرانے میں کامران ٹھہرا۔

الغرض جب اُس نے یہ حیلہ بھی نا کارگر ہوتا دیکھا اور مجھے ماہ نور کے عشق میں سر تاسر غرق پایا اور یہ اندازہ لگانے میں کامران ہوئی کہ میں اپنے جذبے میں صادق اور ارادے میں پختہ ہوں تو مجھے اپنی یاد گار کے طور پر ایک طلائی انگوٹھی پیش کی اور ساتھ ہی یہ نصیحت بھی کہ میں اُس کے استعمال میں حد درجہ کی احتیاط کروں۔ قصہ یوں تھا کہ اس انگوٹھی کی فنی، جادوئی، ہوائی، جنی بناوٹ کچھ اس قسم کی تھی کہ اسے سیدھا رگڑنے سے ایک جن رگڑنے والے کی جملہ ضروریات چشم زدن میں پوری کر سکتا تھا لیکن غلطی سے اُلٹی رگڑے جانے کی صورت میں ، جن ، انگوٹھی رگڑنے والے کو رگڑ سکتا تھا۔ میں نے احتیاط کا وعدہ کیا اور پھر ملنے کا رسمی سا وعدہ اللہ میاں کی منشا کے سپرد کیا کہ اگر وہ چاہے گا تو ایسا ضرور ہو گا۔ وہ مہ لقا اپنی سہلیوں کے ساتھ چشم زدن میں غائب ہو گئی لیکن کوئی میرے اندرسے پکار پکار کے کہتا تھا کہ وہ میرا پنڈا اتنی سہولت سے نہیں چھوڑے گی۔

پری زادوں کے جاتے ہی مجھے جو پہلا خیال دامنگیر ہوا وہ اپنے یار وزیر زادے کا تھا۔ چونکہ طلسمی انگوٹھی میرے پاس تھی اور اس بہانے اُس کی آزمائش بھی ہو سکتی تھی، لہٰذا میں نے بڑی احتیاط کے ساتھ اُسے جیب سے نکالا۔ گھوڑا چونکہ اس دوران میرے قریب ہی رہا تھا اور انگوٹھی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کا سامع بھی، اس لئے جب اُس نے مجھے انگوٹھی رگڑنے پہ آمادہ پایا تو احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھام کے ذرا فاصلے پر واقع ایک درخت کی آڑ میں چھپ کے، ظہور میں آنے والی کرامت کا منتظر ہوا۔ میں نے اللہ کا نام لے کر انگوٹھی کے سیدھے اُلٹے ہونے کا بغور معائنہ کیا اور اُسے ایک پتھر پر رگڑا۔ چند ہی لمحوں میں انگوٹھی میں سے دھواں نکلا جو قدر میں بس اتنا تھا جتنا کسی عاشق کا دل جلنے پر نکلا کرتا ہے کہ صرف ناصح ہی اُسے دیکھ سکتا ہے اور خلق خدا اُس سے محروم رہتی ہے۔ جن باہر نکلا تو میں اور گھوڑا ذرا بھی مرعوب نہ ہوئے۔ اُس کا قد کاٹھ عام انسانوں والا تھا ، بس دو چیزیں اُسے عام انسانوں سے ممیز کرتی تھیں ، ایک تو اُس کے سر پہ گندھی ہوئی چٹیا تھی اور دوسرے دو چھوٹے چھوٹے سینگ تھے۔ گھوڑا بھی اس معمولی وضع کے جن کو اپنے سامنے پا کے شیر ہوا اور دلکی چلتا میرے پہلو میں آن کھڑا ہوا۔ جن کو حکم دیتے وقت میں قطعی پُر اُمید نہیں تھا کہ وہ میرا مطلوب مجھے ڈھونڈ لا دے گا، پھر بھی چونکہ وہ پری زاد بڑے وثوق اور یقین کامل سے اس جن کا تذکرہ کر چکی تھی، لہٰذا میں نے اپنا مدعا بیان کر دیا۔ تس پر وہ جن مسکرایا اور اپنے دونوں ہاتھ سامنے کے رخ پھیلا کر جادوئی قسم کی اول فول بکنے لگا۔ اُس کے دونوں ہاتھوں سے دھواں نکلا اور وہ چند لمحوں کو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوا۔ دھواں چھٹتے ہی کیا دیکھتا ہوں کہ میرا یار وزیر زادہ بمع اپنے گھوڑے کے میرے سامنے کھڑا ہے۔ ابھی میں اس معجزے پر حیران ہونے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ وزیر زادہ بمع گھوڑے میرے گلے لگ گیا۔ میں چونکہ پہلی بارکسی گھوڑے سے گلے مل رہا تھا ، اس لئے خاصی کوفت ہوئی۔ بہر حال، جن کو دوبارہ انگوٹھی میں جانے کا حکم دے کر (جو اُس نے قدرے رد و قدح سے بجایا) میں اپنے دوست کی خیر سلا دریافت کرنے میں لگ گیا اور اُس کا گھوڑا میرے گھوڑے سے سرگوشیاں کرنے لگا جس سے اُس کی فتوحات کا حال سن کر میرے گھوڑے کی رال ٹپکنے لگی جو میں صاف دیکھ سکتا تھا۔

بارے کھا پی کے فارغ ہوئے تو وزیر زادے نے اپنی بپتا سنائی۔ اُس نے کہا۔ صاحب عالم میں اُس رات اپنے محبوب کی بے وفائی پر دل گرفتہ و آزردہ تھا۔ تم تو تصور محبوب میں ڈوبے ہوئے تھے اور یہاں یہ عالم کہ بدن میں جیسے رُوجھی پڑی ہوئی ہو۔ تارے گننے کی کوشش کی مگر صدمہ اس قدر تھا کہ ایک کے دو دکھائی دیتے تھے، چنانچہ بار بار حساب غلط ہوا جاتا تھا۔ پھر اپنی حالت زار پر غور کیا، ماضی کے اُن لمحوں کو یاد کیا جب ہر رات شب برات تھی، اُس بے وفا کے لطف و التفات کاسوچا تو زندگی بے مزہ اور مزید جینے کی آرزو لا حاصل لگی چنانچہ اپنے دل میں اس جاں سے گزر جانے کا ارادہ باندھا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بے سمت چل نکلا۔ گمان اغلب تھا کہ مجھے اپنی جاں ، حق کے سپرد کرنے میں زیادہ تگ و دو کے مراحل جاں گداز سے نہیں گزرنا پڑے گا کہ اس سر زمین پر آسیب یوں بکھرے پڑے ہیں جیسے جناب والا کے شاہی باغ میں سیب۔ چنانچہ منزلوں پہ منزلیں مارتا چلا جاتا تھا۔ لیکن شومیِ قسمت کسی آسیب نے مجھ بےکس پر توجہ نہ کی۔ ایک آدھ غول بیابانی نظر پڑا، میں نے گھوڑے کی باگ اُدھر موڑی لیکن وہ بھی مجھ سے کترا کے نکل گیا۔ ایک جگہ ایک چڑیل اپنے بڑے بڑے دانت منہ سے باہر نکالے اُنہیں ایک پتھر پہ تیز کرتی تھی، اُس کی جانب چلا اور جب اُس نے ایک عجیب نظراستغناسے دیکھا اور اپنے کام میں مشغول رہی تو ڈھیٹ بن اُس سے التجا گزار ہوا کہ وہ میرے خون سے اپنے مشام جاں تازہ اور میرے کلیجے سے اپنی لذت دہن کو دُونا کر ے۔ تس پہ وہ چڑیل ایک سرد آہ بھر کے بولی۔ اے بھولے آدم زادے ، تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ، ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ میں نے سبب مغائرت کا دریافت کیا تو ، تس پہ وہ بولی۔ چند روز ہوئے میں کسی ملک کا ایک ایسا آدم زادہ کھا چکی ہوں کہ جس نے مرتے وقت مجھ پہ آخری بار رعب ڈالنے کو اپنا تعارف اُردو کے نقاد کے طور پر کرایا تھا اور جسے کھانے کے بعد ہاضمہ ہے کہ ٹھیک ہونے میں ہی نہیں آتا۔

صاحب عالم میرے لئے یہ لفظ بھی نیا تھا اور پیشہ بھی چنانچہ میں یہ سمجھ کے ، کہ لعینہ مجھے بوجوہ کھانے سے مائل بہ گریز ہے، مایوسی کے عالم میں آگے بڑھا۔ ایک منزل کی مسافت تک جب کوئی ایساحیلہ نہ پایا جو میری موت کا سبب بن سکتا تو پھر خود ہی کچھ کرنے کی جی میں ٹھان کے ایک بلند چٹان منتخب کی کہ اُس سے کُو د کے جان دے دوں۔ یہ نا ہنجار گھوڑا میرے ارادے کو پا گیا اور بولا۔ صاحب، ٹھیک ہے آپ کے پاس جان دینے کو ایک معقول وجہ موجود ہے لیکن میں نے کیا کِیا ہے جو مجھے اپنے ساتھ حرام موت مرنے پہ مجبور کرتے ہیں۔ اور دوسرے میں آپ کی طرح بیوقوف نہیں ہوں۔ یاروں نے تو ہمیشہ تُو نہیں اور سہی والے مقولے پہ عمل درآمد کیا اور اسے بیحد کامیاب پایا۔ آپ کی طرح ایک شاطر محبوب کی بے وفائی کو حرز جاں نہیں بنایا چنانچہ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ گھوڑے کی زبانی یہ کلمات سن کر بارے میں نے اپنی اُس حرکت کے بارے میں سوچا کہ جو کرنے کو میں سرگرداں اُس بیاباں میں پھر تا تھا۔ اپنے تئیں بڑی شرم آئی کہ صاحب آپ اشرف المخلوقات ہونے کے مدعی اور کتوں بلیوں کی طرح جان دینے کے درپے؟حق تعالی کا سب سے بڑا تحفہ زندگی یوں ایک بے وفا کی خاطر لٹانے پہ آمادہ؟قریب تھا کہ اپنے خجل و ندامت کے پسینے میں کھڑے کھڑے غرق ہو جاتا کہ صاحب عالم تمہارا خیال جی سے گزرا کہ تم میری اس بے وفائی کے صدمہ سے کیسے گزرے ہو گے۔ یہ خیال آنا تھا کہ مرنے کا ارادہ فسخ کیا اور باگ واپسی کے ارادے سے موڑی۔

آتے وقت چونکہ موت کو گلے لگانے کا مصمم ارادہ کر چکا تھا اس واسطے واپسی کا راستہ بھی یاد نہ رکھا تھا، چنانچہ بھٹک گیا اور سر شام ایک ایسی سر زمین میں جا نکلا کہ جہاں کے باشندے خالص بت پرست تھے اور اپنے دیوتا کو خوش کرنے کے واسطے کسی انسانی جان کی قربانی پہ آمادہ و تیار۔ چنانچہ اُن وحشیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ وہ لوگ چونکہ گھوڑے کومقدس جانور گردانتے تھے، لہٰذا اس خبیث کو عزت و تکریم سے ایک وسیع اصطبل میں کہ دنیا جہاں کی بد معاشیوں کا سامان، مختلف العمر و نسل گھوڑیوں کی صورت مہیا تھا، چھوڑ دیا گیا جہاں اس گھوڑے نے جو قیامت مچائی، میں اُس کا شاہدِ چشم دید ہوں۔ میں اس تفصیل کو مختصر کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں۔ جب رات ایک پہر گزری اور ملکۂ شب نے طلعت جواں کا تاج اپنے سر پہ سجایا تو میرے گرد رقص کناں حبشیوں نے کہ صورتیں جن کی یزیدی فوجیوں کی سی تھیں اور جن پہ ایسی پھٹکار برستی تھی کہ شیطان بھی دیکھتا تو تاب نہ لا سکتا اور آنکھیں میچ کے کسی اور طرف کو سٹک جاتا، سونے میں مُغرًق ایک برچھا عین میرے سامنے لا کر رکھ دیا اور معلن نے بہ آواز بلند شراب و کباب میں مد ہوش جسم و رُو سیاہ مجمعے تک یہ اطلاع پہنچائی کہ اب چند ہی ساعتوں میں اس اجنبی کا گوشت تقسیم ہو گا۔

صاحب عالم آنسواُس وقت میری آنکھوں سے دھل دھل بہتے تھے۔ میں نے تو کبھی موت کے بارے میں ہی نہ سوچا تھا اور ایسی اسفل موت کہ میرے گوشت سے وہ رذیل قوم اپنے دہن کو شاد کام کرے۔ زندگی میں پہلی بار صدق دل سے یوں دعا مانگی کہ دعا کے دوران خدا کا تصور کیا۔ اُس وقت میرے شناساؤں میں فقط یہ گھوڑا تھا لیکن یہ بد بخت بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کی مجسم تصویر بنا ، میرے سامنے انتہائی بے حیائی اور ڈھٹائی سے داد عیش دے رہا تھا۔ میں نے اُس وقت قسم کھائی کہ اگر کوئی معجزہ ہو گیا اور میں اس ننگ دھڑنگ غول بیابانی کی دست برد سے آزاد ہو گیا تو اس کو اپنے ہاتھ سے آختہ و قتل کروں گا۔ ابھی قسم کھا کے فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک حبشی سونے میں مغرق برچھا اُٹھائے میرے گرد ناچنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ میں اپنی حیاتِ مختصر کے فرسنگ و فرسخ تمام کر چکا ہوں اور کوئی ساعت جاتی ہے کہ یہ مردود اس برچھے کی انی میری شہ رگ میں بھونک کے میری حیات کے چراغ کو عین اُس عالم میں بجھا دے گا کہ آرزوئے لطف ہائے شب زفاف دل میں لئے پھرتا ہوں۔ میں اُس نابکار کے چمکتے دانت دیکھ کے لرزاں تھا اور میرے مقامات اخراج بس میرا ساتھ دینے سے معذوری کا اظہار کرنے کو ہی تھے کہ ایک معجزہ ایسا رو نما ہوا کہ میں بیکس اس وقت تمہارے سامنے بیٹھا اپنا قصہ کہہ رہا ہوں۔

پہلے تو وہ وحشی جو میرے اندازے کے مطابق میری رگ جاں کے درپے تھا ، بگٹٹ ایک جانب بھاگ نکلا اور پھر بقیہ منحوس بھی یوں بھاگنے لگے جیسے اُن پر کوئی ناگہانی اُفتاد ٹوٹ پڑی ہویا عزرائیل کا منہ تک لیا ہو۔ میں چونکہ ایک رسی سے بندھا ہوا تھا اس واسطے بھاگنے سے قاصر تھا۔ لیکن اُس عالم میں بھی گھٹنے گھٹنے حیرت میں غرق تھا کہ آخر یہ تبدیلی حالات کیسی؟ اصطبل کی جانب نگاہ کی تو اس مردود گھوڑے کو بدستور عیش و مستی میں غرق پایا اور اگر میرا حافظہ دھوکہ نہیں دے رہا تو میں نے اُس وقت بھی اسے بُل بَھکوا بنا ایک پٹھوری کا تعاقب کرتے ہی دیکھا۔ الغرض اُن وحشیوں کے فرار کی وجہ سمجھ میں نہ آتی تھی۔ تبھی مجھے وہ بزرگ دکھائی دئیے کہ ہاتھ میں ایک شمشیر آبدار لئے کہ تیغ علی بنی اُن لعینوں پہ ٹوٹی پڑتی تھی، اُن کا تعاقب اور بچے کھچوں کو وہیں کھیت کرنے کی کوششوں میں مشغول و مصروف تھے۔

چاہتا تھا کہ اس تائید ایزدی پر جناب باری تعالیٰ میں جھک جاؤں اور سجدہ شکر کے طور پر دو گانہ ادا کروں لیکن رسیوں کی وجہ سے عاجز و قاصر تھا، چنانچہ جی ہی میں شکر ادا کیا اور اپنے انجام کا منتظر رہا۔ وہ بزرگ اُن خبیثوں سے اُس مقام کو پاک کرنے کے بعد میری جانب متوجہ ہوئے اور اپنی تلوار کو نیام میں ڈالتے ہوئے السلام’علیکم کہا۔ میں نے مودب سلام کا جواب دیا اور چاہتا تھا کہ اُن کے ہاتھ چوموں اور آنکھوں سے لگاؤ ں۔ وہ میرا ارادہ بھانپ کر مسکرائے اور میری مشکیں چشم زدن میں کھولتے ہوئے فرمایا کہ ہم خواجہ خضر ہیں اور ہمیں تمہاری مدد کو آنے کا حکم ہوا تھا۔ یہ خبیث اس زمین پر فتنہ و فساد پھیلائے ہوئے ہیں اور خالص مشرک و بت پرست ہیں اور آد م خوری کا وصف اس کے سوا ہے۔ اب تم اپنی راہ لگو کہ ہم انہیں یہاں سے چند فرسخ دُور واقع ایک گھاٹی میں طویل عرصہ تک قید کرنے کو جا رہے ہیں۔ مجھ بیکس نے عرض کیا کہ یا خواجہ ، میں کونسی راہ لگوں۔ رستہ جانتا تو اس عذاب الیم میں کیوں کر پھنستا۔ تس پہ وہ مرد بزرگ مکررمسکرائے اور ایک طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی یہ وعید بھی دی کہ تم اس مقام نحس سے نکلو ، تمہیں لینے کو ایک جن روانہ ہو چکا ہے جو تمہیں بہ حفاظت منزل مقصود و مطلوب تک پہنچا دے گا۔ اور اُس جن کے بارے میں ہشیار کرتا ہوں کہ پرلے درجے کا خبیث ، طوطا چشم اور حریص ہے۔ چنانچہ انسانوں والی ساری خوبیاں بتلا کر مجھے رخصت کیا۔ میں گھوڑے پہ سوار ہوا اور تم تک پہنچا۔ ہر چند کہ میں اس گھوڑے کے سلوک و کردارسے ہرگز مطمئن نہ تھا ، لیکن اور کوئی چارہ نہ پا کر اسی پہ سواری گانٹھی اور ابھی چند قدم ہی چلا ہوں گا کہ یہ جن کہ جو ابھی قدرے تکلف کے ساتھ اس انگوٹھی میں واپس گیا ہے، حاضر ہو ا اور مجھے گھوڑے سمیت اپنے شانے پہ بٹھا کے حاضر خدمت ہو گیا۔ یہاں وزیر زادے کا قصہ تمام ہوا اور میں اپنے رفیق دیرینہ کو اپنے سامنے پا کے شاد ہوا۔ اور اُسے پریزادوں کی افسرخوباں کا قصہ سنایا اور انگوٹھی بھی دکھلائی۔

اب چونکہ میں اور وزیر زادہ ایک دوسرے کو پا چکے تھے اور اُن مصائب سے بھی ایسے گزر چکے کہ جیسے گزرنے کا حق تھا تو جی میں کہا صاحب۔ اب وہ کام کرنے کو ایک بار پھر کمر بستہ ہوئے کہ جسے کرنے کو غریب الوطنی کے دشت کا سفر اختیار کیا تھا۔ رات کو کھانے کا بندوبست انگوٹھی کے جن نے کیا اور کہیں سے نہایت عمدہ شیر مال ، کہ گھی سے تر ترائے ہوئے تھے اور ملائی کے دُونے کہ جن سے ابھی تک بنانے والی کمہارن کے ہاتھوں کا لمس پھوٹا پڑتا تھا، حاضر خدمت کئے۔ جن انگوٹھی میں رہتے رہتے عاجز ہو چکا تھا، چنانچہ ملتمس ہوا کہ اگر اجازت ہو تو وہ ایک رات ہمارے ساتھ ان اشجار راحت بخش اور سکون آور کے نیچے گزار لے اور اس اجازت کے بدلے وہ ہمیں سمندر پار کے کسی ملک کی انگور کی ایسی شراب مہیا کرنے کا لالچ دینے لگا کہ جسے چُوانے والے بھی اس قدر بد مست و مدہوش جاتے ہیں کہ کار پردازانِ حکومتِ وقت کو(بجا) لطیف رشتوں کی کثیف گالیوں پر رکھتے اور نتیجۃً ایسے انجام کو پہنچا دئیے جاتے ہیں کہ ایسا کرنے والے کا جس انجام کو پہنچنے کا حق ہے۔ میں اور وزیر زادہ کہ مسلسل سفر میں تھے اور اس مشغلے سے پہلو تہی کرنے کے اسباب بھی رکھتے تھے، جن کی پیشکش بمع حکایت لذیذ کو نہ ٹھکرا سکے اور اُسے ایک رات انگوٹھی سے باہر گزارنے کی مہلت کے عوض شراب مہیا کرنے کی اجازت دے دی۔ جن نے شراب چند لمحوں میں ہمارے سامنے لا رکھی۔ مقدار اتنی زیادہ تھی کہ اُسے ختم کرنے کو بھی کسی جن ہم مشرب کی ضرورت تھی۔ یہ کمی پوری کرنے کو جن نے قدرے شرماتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر دیں اور یوں ہم جن کے ساتھ جانے کب تک رندی کرتے رہے۔ جن ایک بُرا ہم مشرب ثابت ہوا اور نشے سے جلدی پچھاڑ کھا گیا اور نجانے کب تک ایک بے وفا جنی کا قصہ سناتا رہا جو اُسے ناحق کوہ قاف کے پہاڑ چھنواتی ، ہیرے جواہر جمع کراتی رہی اور شادی اُس نے ایک ایسے جن سے کی جو اُس سے عمر میں ساڑھے تین ہزار سال نہ صرف بڑا تھا بلکہ ایک پر سے بھی معذور تھا اور اُڑنے میں خاصی دشواری محسوس کرتا تھا۔ یہی نہیں ملکوں ملکوں حکیمی دواؤں کی تلاش میں الگ سے سر گرداں رہتا تھا۔ ہمارے جن کو بعد ازاں معلوم ہوا کہ دراصل وہ مال زادی مال اس سے کھاتی اور اپنا منال کہیں اور لٹاتی رہی۔ جن کی حکایت جگر افگن نے میرے قلب پہ اتنا اثر کیا کہ میں روتے روتے سو گیا۔

گجر دم میری آنکھ کھلی تو وزیر زادے کو اپنے قریب سوتا پایا۔ اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو گھوڑے اور جن کو غائب پایا۔ چاہا کہ انگوٹھی رگڑوں اور جن کو حاضر کروں ، ہر جگہ تلاش کر دیکھا، مگر وہ انگوٹھی مِلنا تھی، نہ ملی۔ گمان گزرا کہ شاید میرے رفیق وزیر زادے نے کہیں نہ رکھ دی ہو۔ اُسے بمشکل بیدار کیا تو اُس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ گھوڑے بھی اپنے مقام پہ نہ تھے اور وہ تعویذ بھی کہ جو ہمیں بزرگ سفید پوش اور ہمارے اپنے مرد دانا نے دافع بلیا ت کے طور پر دیئے تھے۔ ہم دونوں حیرت اور غم و فکر کے سمندر میں غواصی کرتے تھے کہ انگوٹھی کا بہت عمدہ استعمال سوچا تھا۔ کہ صاحب لو ، تمہاری ساری مشکلات کا حل اُس دافع المشکلات نے کیسانکالا، صبح انگوٹھی مطلوبہ احتیاط کے ساتھ رگڑیں گے، جن سے کہیں گے کہ ہمیں شہزادی ماہ نور کے محل میں چھوڑ آؤ اور اگر اُس نے، جیسا کہ شنید تھی، کچھ سوالات بھی سامنے رکھے تو وہ بذریعہ جن حل کروائیں گے اور اتنی دیر اُس کے دیدار حسن سے جی کو شاد کریں گے اور بعد ازاں اسی جن کے شانوں پہ سوار ہو اپنے ملک کی جانب عازم سفر ہوں گے۔

لیکن فلک کو غور سے دیکھا تو اُسے بدستور کجی پہ آمادہ پایا۔ اپنے جلیس و انیس کی جانب نگاہ پائی تو اُس کے چہرے پر ڈوبتے مہ تاب کی سی زردی کھنڈی دیکھی۔ خدا کے بجز سہارا نہ تھا اور پیچھے دیکھنے کا یارا نہ تھا۔ گویا آسمان دُور اور زمین سخت بھی۔ ہم دونوں گھوڑوں کے بغیر دو قدم چلنے کا حوصلہ بھی خود میں نہ پاتے تھے لیکن ایسا سفر در پیش تھا جو ہمیں بہر حال کرنا ہی تھا۔

مرتے کیا نہ کرتے، ایک دوسرے کو جھوٹی طفل تسلیاں دیتے روانہ ہوئے۔ دو ساعتیں بھی نہ گزریں تھیں کہ ایک ایک قدم من من بھر کا ہو گیا۔ اُوپر سے تمازت خورشید بھِلسائے دیتی تھی، نیچے سے حرارت زمین جھُلسائے دیتی تھی۔ لباس گویا جہنمیوں کے جامے تھے کہ جن میں آگ بھری ہوئی تھی۔ پاپوش جےسے دوزخ میں ابو جہل کی پاپوش تھی۔ حدت کی وہ شدت تھی کہ ہم دونوں سیخ پہ لگے مرغ و ماہی کی سچی مثال تھے۔ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور جی ہی جی میں اپنی نادانیوں پر خود پر صد حیف و نفرین کے ڈونگرے برساتے اُس ہُو حق ویرانے میں چلے جاتے تھے کہ جس کو کنارِ ناپید یوں کہا جا سکتا تھا کہ وہ فقط آسمان کی کمان سے گلے ملتا دکھائی دیتا تھا۔ صاحبو اُس آتش کدے میں اس شدت کی لُو چل رہی تھی کہ چرند و پرند بھی الاماں الحفیظ کا وِرد کرتے کہیں جائے اماں کی تلاش میں جا چکے تھے۔ اس وقت اگر اس بیابان آتش نما میں کوئی تھا تو، میں تھا یا میرا رفیق دیرینہ۔ وزیر زادے نے وقت کاٹنے کو ایک آدھ بار شہزادی ماہ نور کی داستان چھیڑنے اور میرے زخم دل پہ مرہم مژدہ ملاقاتِ یار رکھنے کی کوشش کی، مگر وہاں کس کو آرزوئے وصال یا تصورِ لیلائے جمال کا یارا تھا۔ میں تو وہ ساعتیں بھی گن چکا تھا کہ جب اس صحرا میں مُور و ملخ ، نازوں پلے اس تن شاہی کی دعوت اُڑاتے ہوں گے اور کاسئہ سروحشی درندوں کی ٹھوکروں میں ہو گا۔ اپنی اس بے بسی اور اس قدر رذیل موت کا تصور کرتے ہی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں

نے خود کو تپتی ریت پہ گرا دیا لیکن پھر فوراً ہی اُٹھ کھڑا ہونے پر مجبور ہوا کہ گرم ریت ایسے مقامات کو بھونے ڈالتی تھی کہ جن کے بیان کی تہذیب اجازت نہیں دیتی۔

عین اُسی وقت صحرا میں ایک بگولا اُٹھنے لگا۔ ہم دونوں نے بمشکل آنکھیں کھولیں تو بزرگ سفید پوش کو اپنے گھوڑے پہ آتے دیکھا۔ وہیں سجدہ ریز ہو کر اس غیبی تائید ایزدی کے لئے کلمہ شکر ادا کیا اور منتظر نگاہوں سے بزرگ سفید پوش کا اپنے قریب ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید آج بزرگ سفید پوش کے گھوڑے کو کوئی اور عارضہ لاحق ہے جو اُس کی چال میں یہ سستی ہے۔ بہر حال بزرگ سفیدپوش قریب آیا تو ہم نے سلام کیا جس کا جواب اُس نے ہم دونوں پر ایک غصیل نگاہ ڈالتے ہوئے، ایک طویل ”ہوں ” کی صورت میں دیا۔ ہم جانتے تھے کہ وہ روشن ضمیر ہستی ہے اور کل رات اُس نابکار جن کی باتوں میں آ کر ہم دونوں سے جو رکیک حرکت سرزد ہوئی تھی، یہ اُس کا رد عمل ہے۔ ہم دونوں نے فوراً ہاتھ جوڑ کر اپنی تقصیر کا اقرار کیا اور زندگی بھر دختر رز سے مجتنب ہونے کا عندیہ دیا۔ تس پر بزرگ سفیدپوش حیرت زدہ رہ گیا اور غصیل صورت ایک مسکراہٹ میں بدل گئی اور وہ ہم سے کرید کرید کے ماجرا دریافت کرنے لگا۔ ہم دیکھ سکتے تھے کہ مردسفید پوش ولایتی شراب کے نام پر اپنے لبوں پہ زبان پھیرتا تھا۔ پھر ہم سے بالتفصیل سمندر پار کی اُس دکان کا پتہ دریافت کرنے لگا جہاں سے ، بقول اُس (جن)کے، وہ بد بخت اور سارق ہمارے لئے شراب لایا تھا۔ ہمارے جواب سے قبل اُس نے جو کہا اُس سے ہم فقط اتنا ہی سمجھے کہ بزرگ سفید پوش کسی ایسے کلال سے اپنی بیزاری کا اظہار کر رہا تھا کہ جو نقد وصول کرنے باوجود انتہائی ناقص مال بہم پہنچانے میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا۔

میں نے چاہا کہ بزرگ سفید پوش کے حلیے کے ساتھ اس بیان پر حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاؤ ں لیکن پھر وہ ، مانگی ہے اک بزرگ تہجد گزار نے ، والا شعر یاد آ گیا۔ میں چاہتا تھا کہ دوسرا مصرع بھی پڑھوں لیکن اپنی حالت کے پیش نظر ایسا کرنے کی نہ ہمت تھی اور نہ ہی طاقت طلاقت، بس آہ بھر کے خاموش ہو رہا اور حیرت سے پھٹی آنکھوں سے بزرگ سفید پوش کو دیکھا کیا۔ وزیر زادہ کہ ابھی تک اُس کے کچھ اوسان بحال تھے، تس پہ مسکرایا اور بزرگ سفید پوش کو اُس خبیث جن کے بارے میں مطلوبہ معلومات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض گزاشت ہوا کہ ہمارے تعویذات کہ دافع شریات و بلیات اور اس قبیل کے کاموں میں آزمودہ بھی تھے، وہ جن اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔ بزرگ سفید پوش کہ اس وقت دختر رز کی ہُڑک سے بے تاب تھا، اس سوال کو نظر انداز کر کے پوچھنے لگا کہ آیا رات کی تلچھٹ کہیں سے مل سکتی ہے۔ ہمیں بزرگ سفید پوش کی اس آرزوئے دختر رز کی شدت پر حیرت در حیرت ہوتی تھی، قصہ مختصر اس وعدے پر بزرگ سفید پوش نے ایک بار پھر ہماری مدد کی حامی بھری کہ ہم اپنے مقاصد میں کامرانی کے فوراً بعد کہیں سے سہی، اُس کے لئے ولایتی کا بندوبست کر دیں گے۔

بزرگ سفید پوش نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس وقت ہمیں محض اتفاقاً مل گیا ہے اور اس کی وجہ بھی گھوڑے کی کوئی فنی خرابی تھی کہ اُسے اس بیابان میں اُترنا پڑا ورنہ وہ تو ملک یمن کی طرف مائل بہ پرواز تھا جہاں کا وزیر زادہ شورہ پشتی پہ آمادہ اور شہزادے کو اپنے ساتھ شکار کے بہانے جنگل میں لے جا کے اُس کا سر تن سے جدا کرنا چاہتا تھا کہ دونوں ایک ہی رنڈی کے عاشق تھے۔ بزرگ سفید پوش نے چند لمحوں تک خلا میں دیکھ کر ہاتھ دراز کیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ اُس کے ہاتھوں میں سمتِ غیب سے ایک سینی وارد ہوئی کہ جس میں دو آبخورے نہایت عمدہ رنگ کے اور بظاہر مفرح دکھائی دینے والے شربت سے لبالب دھرے تھے۔ ہم دونوں اُس وقت اتنے پیاسے تھے کہ پینے کے نام پہ کچھ بھی پی سکتے تھے، چنانچہ اپنا اپنا آبخورہ لبوں سے بسم اللہ کہہ کے لگا لیا اور ایک ہی سانس میں کر دیا۔ بزرگ سفید پوش نے اس دوران تالی بجائی۔ تالی کی صدا، ابھی اُس صحرائے نا پید کنار میں پوری طرح گونجی بھی نہ تھی کہ ہمارے دونوں گھوڑے ، عرق ندامت میں ڈوبے اور شرمندگی کی دلدل کو اپنے سموں سے روندتے دلکی چلتے ہمارے قریب آن کھڑے ہوئے۔ میں شدت غیض سے کانپنے لگا اور چاہتا تھا کہ دونوں کی گردنیں اُسی ساعت تن سے جدا کر کے، گھوڑوں کی آنے والی نسلوں کے لئے اُن کمبختوں کو نشانِ عبرت بنا ڈالوں مگر بزرگ سفید پوش نے یہ کہہ کر میری آتش غضب کو سر د کر دیا کہ

کم از کم اس بار یہ دونوں بے قصور ہیں اور اس غیر حاضری کے پردے میں اُس خبیث جن کی عیاری کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور انہیں ہلاک کرنے بعد ان کی اگلی نسل کی پیدائش کے اسباب معدوم ہو سکتےہیں اور یہ کہ میں عالمِ غیض میں ہوں چنانچہ اول فول میں سے نکال رہا ہوں۔

میں چاہتا تھا کہ گھوڑوں سے اُن پر جو گزری تھی، دریافت کروں لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی اور میرا گھوڑا اس سے قبل ہی یوں گویا ہوا کہ آقا وہ جن ہم دونوں کو ایک ایک بغل میں داب کے جو اُڑا ہے تو یہاں سے میلوں دُور ایک محل کی چھت پہ اُترا اور میرے منہ میں خاک، آپ کی نادانی پہ ہنستا تھا کہ تمہارے مالک کو کیسا نکو بنایا کہ رات انگوٹھی سے باہر رہنے کی اجازت محض دو گھونٹ شراب کے بدلے لے لی۔ اس وقت وہ انگوٹھی اُس کے پاس ہے اور وہ اپنے آبائی محل میں داد عیش دے رہا ہے اور نجانے کب سے جمع و منتظر حُسن زادیوں کا مجمع اُس کے چاروں طرف ہے۔ ہمیں ایک اصطبل میں کہ جہاں مادہ کے نام پہ چڑیا بھی نہ تھی، یہ کہہ کر باندھ دیا گیا تھا کہ امشب تم دونوں کے گوشت کی دعوت اُڑے گی کہ اچانک تائیدِ مبدائے کائنات سے ہم آپ کے پاس پہنچا دئیے گئے۔

اُس وقت اُم الخبائث کی جملہ خرابیاں مجھ پر یوں عیاں ہوئیں اور شرمندگی کا وہ شدید دورہ پڑا کہ عنقریب تھا کہ میں توبۃ النصوح پر آمادہ ہو جاتا لیکن بزرگ سفید پوش کہ روشن ضمیر بھی تھا، میرے خیالات کو پڑھ کر شتابی بولا کہ ابھی تم جوان ہو اور جوانی میں کی گئی توبہ کی شکست و ریخت کے امکانات حد سے زیادہ ہوتے ہیں ، لہٰذا ابھی اس کی کوئی ضرورت نہیں ، ویسے بھی سپید ریش ہی توبہ تِلا کرتے اچھے لگتے ہیں۔ میں اس پندِ ناصحانہ کے پیچھے چھپی بزرگ کی خواہش کو پا گیا اور فی الفور دختر رز سے دست کشی کا ارادہ فسخ کر دیا۔ بزرگ سفید پوش نے تب دست غیب سے سامان سفر پیدا کیا اور بوجھل دل سے ہم سے رخصت ہونے سے پہلے ایک ایک نقشِ سلیمانی ہم دونوں کے گلوں میں اپنے ہاتھوں سے پہنایا کہ بقول اُس کے ہر قسم کی ہوائی مخلوق کے تیر بہدف علاج کی خوبیاں رکھتا تھا۔ ساتھ ہی ایک زنبیل بھی دی کہ جس میں جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کو نان خشک اور گھوڑوں کے لئے چارہ بھی تھا۔ پھر وہ چشم زدن میں غائب ہو گیا اور ہم دونوں اپنے اپنے گھوڑوں پہ بیٹھ کے منزلیں مارنے لگے۔

ہمیں اہلِ وطن کو الوداع کئے کئی مہینے ہو چکے تھے اور کبھی کبھی رنج و آلام سے بھرے اس رستے پہ وہاں کی یاد اس شدت سے آتی تھی کہ کلیجے پہ آرے چلتے تھے۔ یہی حال وزیر زادے کا بھی تھا کہ اُسے والدین سے زیادہ اپنے توتے کی یاد ستاتی تھی۔ وہ توتا اُسے باغ کی سیر کی دوران یوں بے یار و مدد گار ملا تھا کہ کسی نے تیر سے اُس کا پہلو چھیل دیا تھا۔ وزیر زادہ کہ سد ا کا رقیق القلب ہے اُس طائرِ مجبور کو اپنے گھر لے گیا اور خدام کو اُس کے بہترین علاج کا حکم دے کر اُس کی صحتیابی کا منتظر ہوا۔ بارے دو ہفتے گزرے کہ توتا صحت مند ہو کر چونچال ہو گیا اور تب سے وہ وزیر زادے کی صحبت میں رہنے لگا۔

جس رات ہم اُس شریر جنی کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ہیں ، (جس کا قصہ آگے آئے گا)اُس سے ایک رات پہلے وزیر زادے نے توتے کو خواب میں دیکھا کہ اُس کے فراق میں سوکھ کے ہڈیوں کا ہار ہو گیا تھا۔ یہی نہیں اُس نے وزیر زادے سے یہ بھی کہا کہ صاحب ہم سے تم سے اچھی چاہت تھی کہ مجھ بیکس کو اپنے کندہ نا تراش قسم کے غلاموں کے سپرد کر کے خود مزے مزے کے مقامات کی سیر کرتے اور اس درماں حال کے بارے میں بھولے سے بھی نہیں سوچتے۔ وزیر زادہ بیدار ہو کر گریہ زاری میں مصروف ہوا اور میرے بہت اصرار پر حقیقت حال سے مجھے آگاہ کیا۔ تس پر میں نے کہا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ طائر وفادار ایسا کچھ جھوٹ بھی نہیں کہتا۔ صاحب دنیا جہان کا بوجھ اُٹھائے اس سفر پہ نکلے ہو، کیا ہوتا جو اُس ننھی سی جان کو بھی ساتھ لیتے آتے۔ وزیر زادہ کہ ہر سوال کا شافی جواب جس کے پاس تیار ہوتا ہے، یو ں گویا ہوا۔ صاحب عالم ، تم بھی مجھی پہ طعنہ زنی کرتے ہو۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں اگر اُسے اپنے ہمراہ نہ لایا تو اس میں اُس محبت کا پہلو مضمر تھا ، جو مجھے اُس سے ہے کہ میں اُسے رستے کی سختیوں نے بچانا چاہتا تھا۔ بھلا وہ معصوم جان ان سختیوں کی متحمل ہو سکتی تھی کہ جن سے ہم تم گزرتے ہیں۔ میں اس منطق پر لاجواب ہوا تو وزیر زادے کو بھی سکون ہوا اور اپنے فیصلے پر جو ندامت اُسے توتے کو خواب میں دیکھ کر کھائے جاتی تھی، بارے اُس میں کچھ کمی ہوئی۔

صاحبو اُس وقت تک وزیر زادہ اور نہ ہی میں اُس توتے کی اصلیت سے واقف تھے۔ یہ بھید تو بہت بعد میں کھلا۔ وہ توتا ، اصلاً توتا نہ تھا بلکہ خُمخانہ گردوں کا ستایا ہوا ایک شاہ زادہ تھا جسے اُس کی سوتیلی ماں نے جلاپے میں اسیرِ طلسم کروا دیا تھا۔ شہزادے کی کہانی کچھ یوں تھی کہ وہ ابھی شیر خوارگی کے عالم میں تھا کہ اُس کی ماں اس جہان سے گزر گئی۔ تس پہ وزیر زادی کہ جسے مال زادی کہنے میں بھی کچھ مضائقہ نہ ہو گا، بادشاہ پہ ڈورے ڈالنے اور اُسے اُن ڈوروں میں باندھنے میں یوں کامیاب ہوئی کہ بادشاہ اُس سے نکاح کر بیٹھا۔ بادشاہ کی صرف ایک ہی شرط تھی کہ شہزادے کو کوئی تکلیف نہ ہو، اُس کے عیش و آرام اور تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہ رہے۔ وہ حرافہ کہ باہر سے مادرِ مشفق لبادہ اوڑھے اور اندر سے سراسر ہِلاہِل فشاں تھی، بادشاہ کو جُل دینے میں کامیاب رہی۔ بادشاہ ملک گیری میں اور وہ شہزادے کی خبر گیری میں یوں مصروف کہ اپنے یک چشم بھا ئی کو کہ بغداد کا بدنام جادوگر اور اس شغل میں اس قدر پختہ کام کہ سامری اُس کے سامنے پانی بھرتا تھا، بلوا بھیجا اور کامیابی کی صورت میں نصف سلطنت کا لالچ دیا۔ وہ مردود اُسی دم شہزادے کو اسیر طلسم کرنے کے کام میں جُٹ گیا اور طرح طرح کے حیلے کرنے لگا۔ شہزادے کا اُسی برس میٹھا برس لگا تھا۔ وہ فن حرب و ضرب میں طاق اور شکار و گھڑ سواری میں مشاق تھا لیکن اس حقیقت سے بے خبر و بے پروا کہ سوتیلی ماں اُس کے رستے میں کیسے خار زنی پہ آمادہ تھی۔ چنانچہ ایک روز اُس حرافہ کے ساحرِ یک چشم بھائی نے کہا کہ اے خواہرِ عزیز کل کسی طرح شہزادے کو جنگل میں شکار کے بہانے بھجوانے کا حیلہ کیجئے کہ کل کے دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آیا چاہتی ہے کہ میرا وار خالی نہ جاوے گا۔ بادشاہ کا دستور تھا کہ شہزادے کو کبھی اکیلا محل سے دُور نہ بھجواتا تھا۔ جب بادشاہ امور سلطنت سے خالی اور مائل عیش ہوا تو اُس حرافہ نے اُسے معمول سے بڑا ایک جام اپنے ہاتھوں سے نوش کروایا اور ساتھ ہی یہ عرضداشت بھی گوش گزار کر دی کہ شہزادہ جوان ہو چکا ہے اور کل اُسے اس سلطنت کی بادشاہی کرنا مقدر ہو چکا ہے تو ایسا کیوں نہ کیجئے کہ اُسے دلیر ی اور دلاوری کے امتحان سے گزارئیے۔ تس پہ بادشاہ حیران ہو ا اور پوچھنے لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ مال زادی کہ ذات کی اصل چنڈالنی تھی، بادشاہ کے زانو سے زانو بھِڑا کے بیٹھ گئی اور اٹھلا کے بولی۔ جاؤ بھی کیوں بناتے ہو۔ ملک گیری کرتے ہو اور اِتی سی بات نہیں سمجھتے۔ بادشاہ کہ جورو کے لاڈ سے پھولا نہ سماتا تھا اُس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے بولا۔ تمہاری قسم جان من، میرے مرے ہوئے کا منہ دیکھو اگر میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔ میں کچھ نہیں سمجھا۔ تس پہ وہ چڑیل مگر مچھ کے آنسو بہا نے لگی اور رو رو کے گویا ہوئی کہ اگر پھر کبھی ایسی بات منہ سے نکالی تو خشکہ کھا کے شبنم میں سو رہوں گی۔ بادشاہ نے ہنس کے کہا۔ چلو نہیں کہتے لیکن وہ شہزادے والی کیا بات ہے۔ تس پہ وہ بادشاہ کو یوں شیشے میں اُتارنے میں کامیاب ہوئی کہ شہزادے میں اعتماد پیدا کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اُسے اکیلا جنگل میں جانے اور شکار کر کے لانے کی صعوبتوں سے گزارا جائے۔ بادشاہ نے غور کیا تو اس بات کو دُرست پایا اور ایسا کرنے کا عندیہ دے کے سو رہا۔

سویرے تڑکے اُس حرافہ نے شہزادے کو اپنے یک چشم بھائی کے ساتھ ، کہ اپنا پیشۂ ساحری اب تک خفیہ رکھنے میں کامران تھا، جنگل کو روانہ کیا اور خود شام ہونے کی راہ اور خوشخبری کی منتظر جھروکے میں بیٹھ رہی۔ اب اُدھر کی سنو۔ یک چشم جادو گر شہزادے کو لئے چلا جاتا تھا اور حکایات دل خوش کن سے اُس کا جی بہلاتا تھا۔ شہزادہ ایسے رفیق کو پا کر خوش تھا اور سوچتا تھا کہ جب کبھی بادشاہ بنوں گا اسے اپنے نو رتنوں میں ضرور شامل کروں گا۔ جب آدھا دن اُدھر ہوا اور دھوپ کی شدت اور لُو کی تندی میں قہر جھلکنے لگا اور شہزادہ سفر کی تکان سے بے حال ہوا تو وہ یک چشم دجال بولا۔ میری رائے میں کچھ دیر اس درخت تلے آرام کیجئے اور غلام کو اجازت دیجئے کہ جو کھانے پینے کو ساتھ لایا ہوں ، وہ سامنے چُن دوں۔ کچھ کھا پی کے تازہ دم ہوئیے اور اس غلام کو بھی بارے آرام کی اجازت مرحمت کیجئے۔ شہزادہ کہ خود بھوک سے نڈھال تھا ، فوراً آمادہ و تیار ہو گیا اور دونوں نے حسب مراتب بیٹھ کے کھانا کھایا۔ وہ مردود پہلے ہی کھانے کو بے ہوشی کی دوا سے آلودہ کر چکا تھا۔ شہزادہ چند ہی لمحوں میں انٹا غفیل ہو گیا تب اُس مردود نے اپنے آلاتِ طلسم اپنی زنبیل سے نکالے اور شہزادے کے بالیں آلتی پالتی مار کے بیٹھ گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ شہزادے کو پتھر کا کر دے اور اُس کا بت کسی اندھے کنوئیں میں پھینک کے نچنت ہو جاوے اور حسب وعدہ اپنی خواہرِ کثیر الپدرسے آدھی سلطنت لے کے باقی کی عمر شاہی عشرت میں بسر کرے۔ سوئے اتفاق بلبلوں کا ایک جوڑا کہ اُسی درخت کی ایک اُونچی شاخ پہ بیٹھا تھا کہ جس کے نیچے وہ نابکار اپنا طلسمی عمل شہزادے پر کر تا تھا، یہ سارا ماجرا دیکھ کے حیرت میں ڈوبا ہوا تھا۔ بلبلوں نے پایا کہ یہ پاکیزہ صورت جوان ضرور کسی سلطنت کا شہزادہ اور یہ کریہہ الصوت و صورت مردود یقیناً کوئی جادو گر ہے۔

نر بلبل نے اپنی جورو سے کہا۔ سنتا ہوں اس قسم کے جادو گر اپنا عمل کرنے سے پہلے آدمی کو بے ہوش کر دیتے ہیں اور مجھے یہ مظلوم نوجوان بے ہوش ہی لگتا ہے تو ایسا کیا کیجئے کہ یہ مردود اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ اُس کی جورو کہ دانا بھی تھی۔ بولی ہم نحیف و نزار پکھیرو بھلا کیا کر سکتے ہیں۔ ایک ترکیب البتہ ضرور ہے کہ ہم اس بد بخت کے عین سر کے اُوپر شور بپا کروا دیں اور وہ ایسے ممکن ہے کہ تم وہ سامنے گھونسلے سے کوے کا بچہ اُٹھا کے اس کے قریب ڈال دو۔ کوا پکار مشہور ہے۔ کوے ضرور ہی یہاں چند ساعتوں میں شور قیامت بپا کر دیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور جبکہ وہ یک چشم مردود اپنی جادوئی حرکتوں میں مشغول تھا، کووں نے اُس کے بالیں اپنی کریہہ آوازوں سے محشر بپا کر دیا۔ تس پہ وہ غصے میں آ گیا اور کوے کے بچے کو اُٹھا کے دُور پھینک دیا۔ اس حرکت نے کووں کے اشتعال کو دو چند کر دیا اور اُنہوں نے اُسے اپنی ٹھونگوں پر دھر لیا۔ اُس کا عمل ادھورا رہ گیا اور وہ جنگل سے توبہ تلا کرتا بھاگ نکلا لیکن جتنا بھی عمل اُس کا کار گر ہوا تھا اُس کے نتیجے میں شہزادہ بے چارہ بت تو نہ بن سکا بلکہ ایک توتے کی شکل بے شبہ اختیار کر گیا۔ بلبلوں کا جوڑا کہ سارے واقعے کا چشم دید تھا، ایسی سینہ کوبی کرتا تھا کہ شامِ کربلا کی سچی تصویر دِکھتی تھی اور پکارتا تھا کہ ہائے آج ہماری حَذاقَت بھی کچھ کام نہ آ سکی اور یہ جوان کہ ضرور ہی کسی مملکت کا شہزادہ لگتا ہے، توتے کے قالب میں ڈھل گیا۔

خدا کا کرنا دیکھئے اُسی وقت جنگل میں ایک چڑی مار کہ شکل بھی پیشے سے متشابہ تھی، اپنا اسباب اسیری لئے داخل ہوا۔ بلبل سمجھ گئے کہ اب اس نوجوان کی خیر نہیں اور یہ چڑی مار ضرور ہی اسے اسیر کر کے کسی بازار میں بولی لگا دے گا۔ شہزادہ کہ توتے کے قالب میں آنے کے باوجود ابھی تک بے ہوش تھا، اور گھانس پہ بینڈا، بے سدھ پڑا تھا۔ وہ مردود چڑی مار پرندوں کی بُو لیتا اُسی سمت بڑھ رہا تھا۔ بلبلوں کا جوڑا چاہتا تھا کہ غُل مچا کے فضیحتا کرے اور توتے کو ہشیار کر دے مگر صاحب اپنی جاں ، ہر کسی کے تئیں جانِ عزیز ہوتی ہے، چنانچہ مصلحت کے مارے خاموش ہو رہے اور ٹک ٹک دیدم کے مصداق تماشہ دیکھا کئے۔ وہ چڑی مار جوں جوں آگے بڑھتا اور یہ دونوں اُسے دیکھتے تھے، ووں ووں ان کا دم سینے میں اٹکتا تھا۔ چڑیمار اپنی عورت سے ایک وعدہ کر کے آیا تھا۔ اُس کی جورو سب چڑی ماروں کی جوروؤں میں طرحدار تھی اور جب مِسی کی دھڑی جما کے مسکراتی تھی تو رستہ چلتے رُک جاتے تھے۔ وہ چڑی مار سے مسلسل کئی مہینوں سے چاندی کے تعویذ کی فرمائش کر رہی تھی کہ اپنی گردن کی سوبھا دو چند کرے اور چڑی مار مسلسل اُسے ٹال رہا تھا۔ آج بھی جب کام پہ نکلنے لگا تو جورو نے فرمائش سامنے رکھ دی اور اُس نے حسب معمول وعدہ کر لیا مگر جی ہی جی میں سوچتا تھا کہ شام کو کیا جواب دوں گا۔ اُس روز اُس کی بیوی رات کی بھری بیٹھی تھی، بل کھا کے بولی۔ اجی کان کھول کے سن لو، آج مجھے تعویذ نہ لا کے دیا تو پھر میں چلی جاؤں گی اپنے باوا کے گھر۔ کس قسم کے مرد ہو۔ عورت کی اِتی سی فرمائش پوری نہیں کر سکتے۔ چڑی مار کہ مفرطِ جماع تھا تس پہ ڈرا اور جی میں ٹھان لی کہ کچھ بھی ہو آج اپنی عورت کی فرمائش ضرور پوری کروں گا۔ ناگہاں اُس کی نظر شہزادے پہ پڑی جو ساحری کے ظلم تلے توتے کی صورت گھانس پہ بینڈا بینڈا پڑا تھا۔ چڑی مار نے جی میں کہا۔ واہ پالن ہار۔ کچھ اور مانگ لیتے۔ قریب ہوا اور غور سے توتے کو دیکھا۔ شہزادہ توتا تو بن گیا تھا مگر کچھ کچھ انسانی شباہتیں باقی تھیں ، جنہوں نے اُسے ایک دلکش روپ دے دیا تھا۔ چڑی مار نے جی ہی جی میں کہا۔ صاحب، باپ دادا کے وقت سے یہی پیشہ ٹھہرا ہے مگر اتنا طرحدار توتا پہلے کبھی دیکھا نہ سنا۔ اسے اتے میں تو بیچ ہی دوں گا کہ جورو کے لئے چاندی کا تعویذ خرید سکوں ، چنانچہ اُس دن مزید شکار کا ارادہ فسخ کیا اور طوطے کو پنجرے میں ڈال سوئے شہر روانہ ہوا۔

اِدھر شہزادے کو ہوش جو آیا تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ کہاں وہ سنہری پوشاک اور کہاں یہ سبزبالوں سے بھرا بدن، کہاں وہ سفیدریشمی ایال والا اسپ عربی اور کہاں یہ پنجرہ کہ جسے ایک مُچھل ہُوش اُٹھائے چلا جاتا تھا۔ غور کیا تو سارا ماجرا سمجھ میں آ گیا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ چاہتا تھا کہ دھاڑیں مار مار کے روئے اور اپنے نصیب اور اُس گھڑی کا ماتم کرے جب اُس کم بخت یک چشم کے ساتھ جنگل کو جانے کی حامی بھری تھی۔ بار بار باپ کا تصور آتا تھا کہ وہ میری جدائی میں محل کے در و دیوار سے کیسے ٹکریں مارتا ہو گا۔ کوئی مونس و غمخوار نہیں تھا۔ غور سے دیکھا تو بلبلوں کا ایک جوڑا محتاط فاصلے پہ اُڑتا پایا۔ اُنہیں یہ ششدر لگا تو اُنہوں نے کچھ ایسا اشارہ کیا جیسے کہتے ہوں ، چپکے رہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ سوچ کر بارے دل کو تسلی ہوئی کہ اس بھری دنیا میں کوئی تو اُس کا تھا۔ چڑی مار نے شہر پہنچ کے جیسے ہی پنجرہ زمین پہ رکھا، ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے، ہر کوئی اُس خوبصورت توتے کو دیکھتا اور دام آنکتا تو بجز مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آتا اور اپنی راہ لگتا تھا۔ چڑی مار جی میں ٹھانے ہوئے تھا کہ اِتے سے کم ہرگز نہ بیچوں گا کہ جِتے میں جورو کے لئے اُس کا دل پسند تعویذ آتا ہے۔ شام ہونے کو تھی اور یہ ابھی حیض بیض میں تھا کہ شہر کے جوہری کی جُروا اپنی سواری میں نکلی۔ لوگوں کے ٹھٹ دیکھے تو غلام کو دوڑایا کہ دیکھے کہ ماجرا کیا ہے۔ غلام نے ترنت اطلاع دی کہ بی بی ایک طوطا ایسا بِکتا ہے کہ جس کی نظیر دیکھی اور نہ جس کا ثانی سنا۔ یہ سننا تھا کہ جوہری کی جُروا کا اشتیاق سہ چند ہو گیا۔ بولی۔ کیا مانگتا ہے چڑی مار؟ غلام ٹانگوں کا تیز تھا پل بھر میں قیمت پوچھ آیا۔ جوہری کی جروا کہ توتے کی نادیدہ عاشق ہو چکی تھی، انگیا سے روپے نکال کے بولی۔ بس اب وہ توتا شتابی میرے پاس لے آ کہ اب اور انتظار کا یار ا نہیں۔ غلام روپے دے کے توتا لئے ہوئے بی بی کی سواری میں پہنچا تو توتے کو دیکھتے ہی بے اختیار عاشق ہو ئی اور پنجرہ پہلے اپنے سینے سے لگایا اور پھر گود میں رکھ کے سوئے خانہ روانہ ہوئی۔ وفا دار بلبلوں کا جوڑا ساتھ ساتھ اُڑتا تھا۔ اِدھر یہ توتے کو سینے سے لگائے اپنی محلسرا میں داخل ہوئی، اُدھر بلبلوں نے باغ میں ایک پیڑ پہ آشیانہ ڈھونڈا اور پتوں میں سر چھپا کے پڑ رہے۔

اب اِدھر کی سنو۔ جوہری کی جُروا کہ طرحداری اور دلداری میں اپنا الگ مقام رکھتی تھی، محل میں اکیلی رہتی اور ہفتے عشرے میں اپنے دھِگڑے کو خواب گاہ میں بلواتی تھی کہ جوہری ہمیشہ نئے نئے جواہر کی تلاش میں لمبے لمبے سفر کرتا تھا اور گھر میں مہمان کی سی بسر کرتا تھا اور اتنا بھی نہ سوچتا تھا کہ اتصالِ مرد و زن کا جو وقفہ شریعت نے مقرر کیا ہے، اُس کو یاد رکھے، چنانچہ اُس کی جُروا کہ اپنی جراحت میں پھنکی جاتی تھی، اپنی گزران یار پہ کرتی تھی۔ وہ رات کہ جب وہ توتا خرید کے لائی ہے، اپنے یار سے ملاقات کو مقرر کر چکی تھی۔ توتے کو کشمشوں بھرا ملیدہ کھلانے کے بعد خواب گاہ میں ایک طرف ٹانگ دیا اور خود بے لباس ہونے لگی کہ جانور ذات سے کیسا پردہ؟اِدھر پابند شریعت شہزادہ کہ بظاہر توتا اور بباطن ہنوز انسان تھا، شرم سے کٹتا تھا مگر کن اکھیوں سے برابر تکتا تھا۔ اور خود پہ اس موقعہ پہ توتا ہونے پہ نفرین بھیجتا تھا۔ جب نیند نے ستایا تو آنکھیں میچ کے پڑ رہا مگر بر گوش آواز رہا کہ آخر کو انسان تھا۔ چاہتا تھا کہ کسی طرح سو جائے مگر نیند عنقا و ہما تھی۔ خیر، رات جب ایک پہر گزر گئی تو اُس رنڈی کا یار کمرے میں وارد ہوا۔ شہزادہ سمجھا کہ اُس کا خصم ہو گا لیکن جب گفتگو سنی تو پتہ چلا کہ نہیں صاحب، یہ تو قصہ ہی کچھ اور تھا۔ اُدھر وہ بے حیائی کرتے تھے اِدھر شہزادے کا بس نہ چلتا تھا کہ خصم کی موجودگی میں یار رکھنے والی اس رنڈی کے ٹکڑے اُڑا دے۔ الغرض رات بھر مفت کا تماشہ دیکھا کیا اور جب شمعوں کا رنگ کافوری ہونے لگا تو اُس کا یار رخصت ہو گیا۔ شہزادہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اس قید سے رہا ہو۔ بلبلوں نے شہزادے کا کمرہ ڈھونڈ لیا تھا اور چاہتے تھے کہ اُس کو رہائی دلوائیں۔ الغرض دوپہر کے قریب جوہری کی جورو نیند سے بے دار ہوئی اور کنیزوں کے ہمراہ پائیں باغ میں توتے کا پنجرہ بھی اُٹھوا لائی۔ کنیزیں اُسے غسل کرواتی اور آپس میں چہلیں کرتی تھیں اور کچھ دیر کو سبھی توتے کی طرف سے غافل ہو گئیں۔ بلبل کہ یاران جا نثار اور موقعے کی تلاش میں تھے، پنجرے کے تالے کے کھٹکے کے قریب آن بیٹھے اور یا علی مدد کا نعرہ لگا کے یک ہی بار میں جو زور لگایا ہے تو دروازہ اُوپر اُٹھ گیا اور شہزادہ آزاد ہو کے فضا میں زقند بھر گیا۔ اُدھر کنیزوں اور جوہری کی جورو نے جو توتے کو اُڑتے دیکھا تو لگیں ہاتھ ملنے کہ ہائے ہم نے یوں کیوں نہ کیا، ہائے ہم نے ووں کیوں نہ کیا۔ اِدھر یہ تینوں اُڑتے ہوئے شاہی محل کے اُوپر پہنچے۔ بلبل سمجھ گئے کہ یہ شہزادے کا گھر ہی رہا ہو گا تبھی تو اتنی رسان سے یہاں تک آ پہنچا ہے۔ یہاں پہنچ کے شہزادے نے بلبلوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جب کبھی وہ بادشاہ بنا اُنہیں ایک باغ کشمش کا لگوا کے اُس میں خس کاگھونسلہ بنوا کے دے گا۔ بلبلوں نے جنگل کی راہ لی اور یہ اپنے باپ کی تلاش میں محل میں اِدھر اُدھر اُڑنے لگا۔

اُدھر بادشاہ بیٹے کی جدائی میں نڈھال تھا۔ بار بار بے ہوش ہوتا اور گریہ اس شدت سے کرتا تھا کہ لخلخہ سنگھا کے ہوش میں لاتے تھے مگر پھر بے ہوش ہو جاتا تھا۔ ملکہ کے یک چشم بھائی کو علم تھا کہ واپسی کا مطلب خود کو جلاد کے سپرد کرنا ہو گا چنانچہ وہ نابکار محل واپس ہی نہیں آیا اور راستے سے ہی اپنے ملک کی طرف سٹک گیا تھا۔ رہ گئی ملکہ تو وہ جانتی تھی کہ بادشاہ کو اُس پہ کبھی شک نہیں ہوسکتاکہ زن مریدوں کا یہی وطیرہ ہے۔ چنانچہ شہزادہ اِدھر اُدھر ٹکریں مارتا پھرتا تھا لیکن اپنے باپ کو کہیں نہ پاتا تھا۔ ناگہاں محل کے ایک باغ پہ سے گزرا توکسی سپاہی کے بچے وہاں تیر کمان سے کھیل رہے تھے، ایک نے توتے کو دیکھا تو ترنت تیر چلے پہ چڑھا کے اس کی جانب چھوڑ دیا۔ بچے کا ہاتھ اور نشانہ خام تھا، چنانچہ تیر پروں کو چھیدتا ہوا نکل گیا مگر درد کی شدت تھی کہ مارے ڈالتی تھی۔ اِدھر یہ خود کو اُڑنے سے معذور پاتا تھا۔ کرنا خدا کا دیکھئے کہ اُسی وقت ایک بہت تیز ہوا چلنے لگی اور اس نے خود کو ہوا کے سپرد کر دیا۔ ساری رات ہو ا کے سہارے سفر کرتا علیٰ الصبح وزیر زادے کے باغ میں پہنچا اور بے ہوش ہو گیا۔ وزیر زادے نے اس کا علاج کروایا اور تندرست ہونے پر اپنا رفیق خاص بنا لیا۔ اور اس وقت وزیر زادہ اُسے یاد کر رہا تھا اور یہی حال شہزادے کا بھی تھا کہ اپنے یار کے ہجر میں بھنتا تھا اور اُس وقت پہ حیف و نفرین کرتا تھا کہ جب اُس کا لبیبِ خاص اُسے تنہا چھوڑ گیا تھا۔ دن رات اس فکر میں رہتا تھا کہ کیا ایساکیجئے کہ اپنے مونس و جلیس سے ملاقات ہو۔

میں اور وزیر زادہ منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے جاتے تھے۔ پورے سفر میں یہ چار دن ایسے گزرے تھے جب کسی آسیب سے واسطہ پڑا تھانہ کسی نابکار جن بھوت نے آسیبی شرارت کی تھی۔ مگر تابکہ۔ صاحبو ہم اشرار کی سر زمین کے کیسے مسافر تھے کہ جو ان آفتوں میں نہ گھِرتے؟ چنانچہ ایک شام کہ آسمان پر لکہ ابر نہ تھا اور بادِ صر صر عنقا و مفقود تھی اور ہم پانی کے کنارے ڈیرے ڈالے پڑے تھے۔ دن کا آتش فشاں خورشید، شب کے سمندر میں غوطہ زن ہوا ہی چاہتا تھا، اچانک ہوا چلنے لگی۔ شروع کے نسیم کے جھونکے خوشگوار تھے اور طبیعتوں کو جولانی پہ آمادہ کر تے تھے مگر پھر شدت میں اضافہ ہوا اور ایسا ہوا کہ پل بھر میں ہر سُو رات سے پہلے رات ہو گئی۔ گھوڑے اس وحشت میں رسیاں تڑاتے تھے اور ہم بمشکل اُن سے چمٹے اُنہیں روکنے کی فکر میں تھے۔ آسمان پر رعد اپنی پوری قوت سے چنگھاڑ رہا تھا اور صاعقہ بار بار ہم پہ گرنے کو تڑپتی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آج آسمانوں میں ہماری بربادی کے مشوروں پر مہر تصدیق لگ چکی ہے اور اگر بجلی سے بچے تو ہوا کہیں لے جاوے گی اور اگر اس طوفان نے چھوڑ دیا تو بجلی تو ہمیں ضرو رہی خاک کر ڈالے گی۔ ناچار ایک پیڑ تلے گھوڑوں کی راسیں تھامے کھڑے تھے کہ ناگہاں اُسی درخت کے سامنے والا حصہ روشن ہو گیا اور اُس میں سے ایک ڈائن نے، کہ جس کے دانتوں سے بجلی بار بار ٹکراتی تھی اورجس کے جھونٹے طوفان میں گوڑوں کی طرح لہرا تے اور جس چیز پہ پڑتے ، اُسے ملیا میٹ کر تے تھے، ہمیں دیکھ کے دانت نکوسے۔ صاحبو ایسا نظارہ خدا کسی جیتے جی انسان کو نہ دکھائے۔ وزیر زادہ کانپ گیا اور گویا ہوا۔ صاحب عالم یہ وہی جنی ہے کہ جو میری جان کے درپے ہوئی تھی اور جس کی اصلیت سے بزرگ سفید پوش نے ہمیں آگاہ کیا تھا۔ ب یہ ضرور ہم سے انتقام لینے آئی ہے۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ چنڈالنی تنہا نہ تھی، اُس کے جلو میں بے شمار چڑیلیں ، بھوت، پلید اور اسی طور کے غولِ بیابانی اپنی اپنی اداؤں اور صورتوں سے ہمیں دہلا رہے تھے۔

مجھے یقین ہو گیا کہ آج وہ دن آن پہنچا کہ جس کا خدشہ مدتوں سے اپنے قلب ناتواں میں پروان چڑھا رہا تھا۔ اس وقت ہمارے پاس فقط بزرگ سفید پوش کے دئیے ہوئے تعویذوں کے علاوہ اور کوئی شئے دافع بلیات نہ تھی، چنانچہ کوشش کی کہ تعویذ کو اُن آفتوں کے روبرو کیا جائے لیکن ہوا کی شدت مارے ڈالتی تھی اور اس ارادے کی راہ میں مزاحم بھی۔ میں نے کسی طور اپنا تعویذ اُس مال زادی کے روبرو کیا ، تس پہ اُس نے ایسی دلدوز چیخ ماری کہ زمین شق ہو گئی اور آسمان کو میں طوفان کی وجہ سے نہ دیکھ سکا کہ اُس پہ کیا گزری۔ پھر اُس نے نجانے کیسا منتر پڑھا کہ اُسی درخت کی شاخیں ہم دونوں پہ جھکیں اور ہماری مشکیں کس لیں۔ میں نے غور سے دیکھا۔ ہمارے گھوڑے بھی ہماری طرح گرفتار بلا تھے۔ وہ چنڈالنی ہنسی اور بولی۔ اس وقت تمہارے تعویذوں نے تمہاری جانیں بچا لی ہیں اور میں اور میرے ساتھ یہ خون آشام تمہیں ہاتھ نہیں لگا پائے لیکن میں تمہیں گرفتار کر کے اب یہاں سے رخصت ہوتی ہوں۔ اس طلسم کا اثر سال بھر رہتا ہے اور ایک سال میں جب تم دونوں کے فقط پنجر استخوانی باقی رہ جائیں گے، تب تمہارے کاسہ سر کو ٹھوکروں پہ رکھنے کو آؤں گی۔ اور وزیر زادے تم نے میرے ساتھ جو خوشی وقتی کی ہے اب اُس کا مزہ چکھو۔ صاحبو یہ کہتے ہی وہ مانو ہوا میں تحلیل ہو گئی اور وہ طوفان بھی یک دم تھم گیا اور فضا پہلے کی طرح صاف ہو گئی۔ ہم دونوں کا حال غنیمت تھا کہ پاؤں زمین پہ ٹکے ہوئے تھے، گھوڑے ہم سے بد تر حال میں تھے کہ وہ معلق تھے اور ایک دوسرے کو حسرت سے تکتے اور جب مُوتتے تھے ہمیں آلودہ کرتے تھے۔ کارِ دگر کا تو مذکور ہی کیا؟

جب پہر رات گزر گئی اور ماہ تاب خمخانہ گردوں میں لڑکھڑاتا عین ہمارے سروں پہ پہنچ گیا اور اُس آسیبی مقام کے غول بیابانی ہمارے مرنے کے انتظار میں ، اپنے اپنے دانت نکوسے ہمارے چاروں طرف منڈلانے لگے تب مجھے یقین کامل ہوا کہ ہم پوہ پھٹتی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ایک تو ویرانہ، دوسرے آسیب زدہ۔ وہاں کسی آدم زادے کا کیا کام تھا۔ گھوڑے بار بار ہم سے منت و زاری

کرتے تھے کہ آقاؤ، ہم دہری مصیبت میں ہیں اور گمان اغلب ہے کہ ہمارے دم تم سے پہلے نکلیں گے۔ قصہ مختصر جب تیسرا روز بھی گزر گیا اور کوئی مدد پہنچی اور نہ ہی کسی مدد کی اُمید رہی تو مارے نقاہت کے ہم چاروں کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ بزرگ سفید پوش کہ ہر مصیبت کا چارہ اور ہر دُکھ کا درماں بن کے ہماری مشکل کُشائی پر مستعد ہوتا تھا، ہما و عنقا تھا۔ اُس درخت کی شاخیں جہاں جہاں ہمارے بدنوں میں گڑھی تھیں ، وہاں بدھیاں پڑ گئی تھیں جن سے لہو چھلک کے ہماری پوشاکوں کو داغدار کر تا تھا۔ وزیر زادہ ہمہ وقت خود کو نفرین کرتا کہ کاہے کو اُس نے لذت بے فیض کے حصول کی خاطر ایک آدم خور چنڈالنی سے جی لگایا۔ بار بار کہتا تھا کہ صاحب عالم میں اس عشق و عاشقی کے کھیل سے بھر پایا اور عہد کرتا ہوں کہ اگر اس گرداب بلا سے کسی طور رہائی پا گیا تو عورت کی طرف نظر بھر کے پھر نہ دیکھوں گا۔ مگر مصیبت کے وقت انسان توبہ تِلا کرتا ہی ہے، چنانچہ میں اس قسم کا اعتبار کرنے سے خود کو قاصر پاتا تھا اور تجربے نے آگے چل کے یہ بات دُرست ثابت بھی کر دی۔

قریب تھا کہ اگلی صبح ہمارے لاشوں پہ طلوع ہوتی کہ وزیر زادے کا توتا ہماری مدد کو آن پہنچا۔ ہمارے مونہوں میں کھانے کے نام پہ کھِیل تک اُڑ کے نہ گئی تھی اور پانی کے نام پہ لکۂ ابر تک فلک پہ نہ دیکھا تھا۔ ہم اب اپنے زور پہ نہیں ، بلکہ اُن شاخوں سے بُوم بنے لٹکے ہوئے تھے کہ جو ہماری مشکیں کسے ہوئے تھیں کہ کسی توتے کی ٹیں ٹیں کی آواز کانوں میں پڑی۔ نقاہت سے بند پلک بچی کھچی طاقت سے کھولی تو سامنے ایک ہریل توتا کہ بلا شبہ وزیر زادے کا رفیق اور مرغوب تھا، بے تابی سے اُڑتا پایا۔ توتے کو دیکھنا تھا کہ وزیر زادے کا غنچہ تمنا مسکراہٹ کی صورت کھِل اُٹھا اور اُس کابس نہ چلتا تھا کہ قلقاریاں مارنے لگتا۔ توتا کہ ہر فن میں یکتا تھا، ہمارے قریب آیا اور اپنے پنجوں اور چونچ سے اس شتابی سے ہماری مشکوں کی گرہیں کھولنے لگا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ پہلے وزیر زادہ اور پھر میں اُس طلسم سے آزاد ہوئے اور ایک دوسرے کے گلے لگ کے اشک ہائے مسرت سے ایک دوسرے کا منہ دھونے لگے، تس پہ ہماری طرح عذاب رسیدہ گھوڑے فریاد کرنے لگے کہ کوئی ہے جو ہم بےکسوں کو نجات دلائے۔ گھوڑوں کو ترنت آزاد کرایا اور خود سے گلے لگ کر گریہ کرنے سے بمشکل روکا۔

توتا کہ وہاں سے یہاں تک کے سفر میں راہ سے خوب واقف اور مقامات جنس خوردنی کی معلومات بھی وافر رکھتا تھا، ہمیں چندساعتیں صبر کی تلقین کر کے پھر اُڑ گیا اور واپس لوٹا تو اُس کی چونچ اور پنجوں میں انگور سے بڑے اور کھجور سے چھوٹے پھلوں سے لدی ڈالیاں تھیں کہ کھانے کے ساتھ پینے کے لوازم بھی پوری کرتی تھیں۔ گھوڑوں نے آس پاس کی گھانس اور ہم نے اُن میوہ ہائے خوش رنگ و ذائقہ سے اپنی بھوک رفع کی اور آرام کے واسطے اُنہی درختوں تلے پڑ گئے۔ ہم وہاں کامل دو راتوں اور ایک دن تک یوں سوئے کہ پلک سے پلک جدا نہ ہوئی۔ جب بیدار ہوئے تو قریبی تالاب سے غسل کیا اور پوشاک دھو کے سکھائی اور زیب تن کی اور توتے سے پہلی مرتبہ احوالِ وطن مفصل دریافت کیا اور وہاں سب کی خیریت کی خبر پا کر جی کو شاد کیا۔ وزیر زادے نے توتے سے یہاں تک آمد کا احوال جاننا چاہا تو تو تا یوں گویا ہوا۔ صاحبو میں اسیر طلسم ہوں اور اپنا قصہ سناتا ہوں۔ بعد ازاں توتے نے اپنا قصہ شتابی سنایا اور وہ کچھ بیان کیا جو اس بارے میں پہلے بیان ہو چکا ہے۔ وزیر زادہ کہ توتاجس کا ایک برس سے

انیس و جلیس تھا اس امر پہ حیرت سے اُنگلیاں کاٹنے کا ارادہ کر نے لگا کہ توتا انسانوں کی طرح گویا کیسے ہوا جبکہ آج سے پہلے وہ فقط توتوں کی طرح ٹیں ٹیں ہی کیا کرتا تھا۔

تس پہ توتا (شاید) مسکرایا اور بولا۔ جناب والا۔ اس سارے قصے میں کہنے والی بات یہ ہے کہ جب مجھ پہ اُس نابکار کا طلسم ادھورا رہ گیا اور میں ایک بت کی جگہ توتا ہی بن کے رہ گیا ، تب سے ایک بزرگ مسلسل میرے خواب میں آتے اور کہتے رہے کہ اس راز کو راز رکھیو کہ کہ تُو اصل میں آدم زادہ ہے۔ تیرے اسیر طلسم ہونے کی مدت اب تمام ہوئی چاہتی ہے اور عنقریب تُو انسانوں کی جُون میں لوٹ جائے گا۔ لیکن اس سے پہلے تجھے ایک غلام زادہ کہ اسی محل میں رہتا ہے آزار کی سولی پہ یوں ٹانگنے کی کوشش کرے گا کہ تُو اپنی جان سے بھی جا سکتا ہے۔ یہ سن کر میرے اوسان خطا ہو گئے۔ مجھے موت سے زیادہ دو باتوں کا خوف تھا، ایک تو یہ کہ آپ پر میری موت کے بعد کیا گزرے گی اور دوسرے وہ آتش انتقام کیوں کر ٹھنڈی ہو گی جو اپنی سوتیلی ماں اور اُس کثیر الپدر جادو گرکے واسطے دل میں لئے پھرتا ہوں۔ کل جب آدھی رات اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی اور کافور نامی غلام کہ مجھے ملیدہ کھلانے پہ مامور ہے، اپنے ساتھ ایک اور حبشی کو لئے ہوئے آیا اور مجھے ملیدہ کھلاتے ہوئے اپنے ساتھی سے ہنس کے بولا۔ سو دینار میں ، میں اس جیسے سو توتے تمہیں اور لا کے دے سکتا ہوں ، تم اسی کو خریدنے پہ کیوں مصر ہو؟ تس پہ وہ دوسرا کہ صورت سے رذیل اور ذات کا اسفل لگتا تھا ، بولا۔ ہماری مالکہ کو اسی قبیل کا توتا کھا کے صحت ہوسکتی ہے اور طبیب حاذق نے اُس کی بیماری کا یہی علاج بتلایا ہے۔

الغرض دونوں میرے بارے میں ، میرے سامنے باتیں کرتے اور ہنستے تھے۔ کافور نے اُس مردود سے دینار لے کے میرا پنجرہ اُس کے حوالے کر دیا اور ہنس کے مجھ سے بولا۔ ہم سے جو بن پڑا تمہاری سیوا کی، تم ہمارے آقا کو ضرور محبوب ہو مگر یاروں کو سو دینا مل رہے ہیں اور دولت سے انکار کوئی احمق ہی کر سکتا ہے۔ وہ حبشی میرا پنجرہ اپنے لباس میں چھپائے آپ کے محل سے نکلا اور تاریک گلیوں میں چلنے لگا۔ رستے میں اُسے کوتوال کے آدمیوں نے روک لیا اور لگے سوال جواب کرنے۔ تس پہ وہ گھبرا گیا اور لگا بہانے گھڑنے۔ جب مرحلہ تلاشی کا آیا تو وہ میرا پنجرہ پھینک، بگٹٹ ایک طرف بھاگ نکلا۔ کوتوال کے آدمی اُس کے پیچھے بھاگے۔ گرنے سے پنجرے کا دروازہ کھل گیا اور میں آزاد ہو گیا۔ آقا، اُسی وقت وہ بزرگ کہ مجھے خواب میں دکھائی دیا کرتے تھے، اندھیرے سے وارد ہوئے اور نورانی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔ تیرے ساتھ تائید ایزدی ہے کہ تُو ان موذیوں کے ہاتھ سے بچ گیا۔ اب شمال کو اُڑ جا۔ تیرا آقا وزیر زادہ اور اُس کے ساتھ بادشاہ زادہ اس وقت ایک شدید قسم کے طلسمی حصار میں گرفتار اور جان بلب ہیں۔ رات بھر کی مسافت پہ وہ مقام واقع ہے۔ چنانچہ میں بزرگ کی دعا اور مشورے سے اُڑا اور آپ سے آن ملا اور اب خوش ہوں کہ میرے ساتھ آپ نے جو رحم و کرم کا معاملہ کیا تھا، اُس کا بدلہ دینے میں کسی حد تک کامران رہا۔ وزیر زادہ اور میں توتے کی داستان کہ رنگین بھی تھی سنگین بھی، سن کے خوش ہوئے اور یہ جان کر اور خوشی ہوئی کہ اب اس سفر میں ہمیں ایک اور جانثار مل گیا تھا۔ توتے نے بعد ازاں پیش آنے والے مصائب اور ابتلاؤں میں ہماری بڑی خدمت و اعانت کی اور ہمیں کئی مواقع پر سفر میں قدم قدم پہ ملنے والے آسیبوں کے شر سے بھی بچایا۔

ہم منزلوں پہ منزلیں مارتے چلے جاتے تھے اور اُس دن کے بے چینی سے منتظر تھے کہ کب وزیر زادے کا یار خاص ، جو اصلاً شہزادہ تھا انسانی جُون میں لَوٹے گا۔ میں اس فکر میں غلطاں رہتا تھا کہ انسانی روپ میں واپسی کے بعد اُسے بھی ہمارے ساتھ سفرکرنے کو ایک گھوڑے کی ضرورت پڑے گی۔ یہاں نہ کسی سوداگر کا گزر تھا اور نہ ہی گھوڑوں کی سی جنس کا کوئی بازار لگتا تھا کہ شئے مول لے

لی جاتی، چنانچہ وزیر زادے کے سامنے ، توتے کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ رکھا۔ اُس نے تجویز پیش کی

کہ صاحب عالم یہ عین ممکن ہے کہ میں اُسے اپنے ساتھ گھوڑے پہ نصف یوم کوسوار کرا لوں اور نصف یوم کے واسطے وہ آپ کا مُرادِف ہو۔ میں بخوشی تیار تھا لیکن میری نظر اپنے گھوڑے پہ پڑی جو غازی مرد کا لقب رکھنے کے باوجود کردار کی انتہائی پستی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے اپنے بڑے سے تھوبڑے کو نفی میں ہلا رہا تھا، وزیر زادے کے گھوڑے کی جانب نگاہ کی، تو یہی رکیک حرکت کرتے اُسے بھی پایا۔ میں نے ، کہ جہانبانی کے جملہ اسباق اپنے اتالیق سے ازبر کر چکا تھا اور جن میں بوقت ضرورت گدھے کو پدر تسلیم کرنے کا درس سر فہرست تھا، شکر باری تعالیٰ ادا کیا کہ گدھے جیسے

اسفل جاندار کی بجائے گھوڑے کو وہ بنانے کو تیار ہوا کہ جس کو بار بار دہرانے کی شاہی لہو اجازت نہیں دیتا۔ قصہ یہ تھا صاحبو کہ گھوڑوں سے تعاون نہ کرنے کی صورت میں وہ نابکار ہمیں ناکوں چنے چبوا سکتے تھے کہ اس ویرانے کا سفر گھوڑوں کے بغیر ناممکنات میں سے تھا۔ بہت آگے چل کر معلوم ہوا کہ اس دنیا میں ایسی بہت سی خلق خدا بھی بستی ہے جو گدھوں کو باپ ہی نہیں دادا بھی کہتی اور سمجھتی ہے۔

چنانچہ مشکل اپنی جگہ رہی کہ ہم دونوں گھوڑوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔

وہ شہزادہ کہ بس چند ہی ایام میں انسانی جُون میں آیا چاہتا تھا ، ایک معمول پر سختی سے کاربند تھا کہ اِدھر سورج نکلا اور اُدھر وہ نکلا۔ وہ ہم سے دس بیس فرسخ آگے کی خبر قیلولہ سے قبل لے آیا کرتا تھا اور ہمیں سب پتہ چل جاتا تھا کہ کہاں پانی ہے، کہاں ذخیرہ ہے اور کہاں آدم خور بھوت پلید ، ابن آدم کے انتظار میں دانت نکالے بیٹھے ہیں کہ نخچیر اب آیا کہ تب آیا۔

ایک روز دن بھر اشرار و اسرارِ زمین سے لڑتے ہم نے ایک مقام پہ پڑاؤ ڈالا اور گھوڑوں کو گھانس چارہ ڈال کے ایک طرف تکان سے چُور پڑ رہے۔ وہ توتا کہ ایک طرح سے ہمارا خانِ ساماں بن چکا تھا، ابھی تک وہ فواکہات لئے نہ لوٹا تھا کہ جن کے کھانے کا عیش ہم اُس کی آمد سے اب تک کر رہے تھے۔ بھوک سے ہم دونوں کا برا حال تھا اور مردود گھوڑے گھانس پہ منہ مارتے ہوئے ہمیں اُن نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کہ جن کی سزا اُن کے ڈھیلے نکلوا دینے کی سِوا دوسری کوئی نہ تھی کہ ہوا سے لڑتا، باران سے جھگڑتا، ہمارا یارِ خاص توتا ہمارے قریب آن بیٹھا۔ اُس نے چونچ اور پنجوں میں ایک زنبیل لٹکا رکھی تھی کہ جس سے اشتہا انگیز خوشبو کے بھبھکے یوں اُٹھ رہے تھے کہ ہم دونوں کی بھوک رال بن بن کے ٹپکی جاتی تھی۔ قریب تھا کہ میں اُس روز کھانے پہ بسم اللہ پڑھے بغیر ہی ٹوٹ پڑتا کہ توتا بولا۔ صاحب میں جو خبر آج لایا ہوں ، وہ سنو گے تو کھانے کو بھولو گے اور سر سے کھیلو گے۔ سفر کی یہ تکان اور نیم جانی کی یہ کیفیت فراموش کر دو گے۔ تمہارا عشق بلا شبہ صادق اور جذبہ تشکک سے پاک ہے اور تمہارا پیار اُس پری رُو کے واسطے سچا ہے۔ میں نے تنک کر کہا تمہیں شوخیاں سوُجھ رہی ہیں یہاں بھوک کے مارے دم لبوں پہ ہے۔ تس پر وہ لبیب خاص بولا۔ صاحب عالم تمہاری جان کی قسم ایسی خبر لایا ہوں کہ سنو گے تو کھانا چھوڑ کے سر سے کھیلو گے۔ وزیر زادہ کہ ا س حکایت سے میری طرح سُولی پہ لٹکا ہوا تھا، تڑخ کے بولا۔ کچھ منہ سے بھی بولو گے یا پھر دُون کی ہی دیتے رہو گے۔ میں نے دیکھا ہماری اس بحث کو دونوں گھوڑے بھی حیرت، تعجب اور فکر مندی سے سن رہے تھے۔ وہ توتا گویا ہوا۔

میں نہ چاہتا تھا کہ آج لمبی اُڑان بھروں لیکن صاحب ، کاتب تقدیر کہ اپنے قلم سے جو لکھ چکا، اُس کی سیاہی خشک ہو چکی اور کسی ذی روح کو اُس لکھے سے مفر نہیں۔ میں شمال کی طرف جانا چاہتا تھا اور اپنی دُور بین نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ وہاں سبزہ بہت گہرا اور پانی بالکل نیلا ہے، چنانچہ جی میں کہتا تھا کہ امشب یہیں بسرام ہو گا لیکن اُسی وقت باد صبا، باد صر صر میں تبدیل ہوئی اور ایک جھونکا اس شدت کا آیا کہ میں کہیں سے کہیں جا پہنچا۔ عجیب سر زمین تھی۔ جن بھوت پریاں دیو فضا میں یوں اُڑے پھر رہے تھے کہ برسات کی اُن چیونٹیوں کا گمان ہوتا تھا کہ جن کے پر راتوں رات نکل آتے ہیں۔ مجھے توتا سمجھ کے کسی نے تعرض نہ کیا۔ ایک آدھ جن نے ، جس کے رستے میں ، میں غلطی سے آ گیا تھا، مجھے گھور کے دیکھا لیکن میں کان دبائے اُڑتا رہا۔ دو بوڑھے جن ، کہ جن کی رفتار مجھ سے بھی دھیمی تھی، باتیں کرتے چلے جاتے تھے۔ میں اُن کے قریب اُڑنے لگا کہ ذری سنوں تو سہی، یہ کیا کہتے ہیں۔ وہ دونوں نوجوان جنوں کی غیبت کرتے اور اُنہیں نا پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ صاحبو، ہاں چند جن ایسے بھی تھے کہ جن کے ساتھ نوجوان ، طرحدار جنیاں اُڑی چلی جاتی تھیں اور بوڑھے جنوں کی تنقید کا نشانہ بنتی تھیں۔ الغرض مجھے اُن کی باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی خاص تقریب میں شرکت کو جا رہے ہیں۔ صاحب عالم، میرے جتنے بڑے بھی اس وقت کان ہیں ، وہ کھڑے ہو گئے جب میں نے اُنہیں شہزادی ماہ نور کا ذکر کرتے سنا۔ تس میں مزید مستعدی سے اُن کی باتیں سننے لگا۔ میر ے اور اُن کے درمیان ایک بد تمیز دیو کچھ دیر کو اُڑنے لگا اور میں بقیہ گفتگو نہ سن سکا۔ الغرض دُور سے ایک محل کے مینار، جھروکے اور کھڑکیاں نظر پڑیں اورساتھ ہی جنوں ، پریوں کا اژدہام بھی کہ محل کی وسیع چھت پہ جس کے پرے کے پرے اُتر رہے تھے۔ میں بھی ایک مینار کے ایک کنگرے پہ جہاں محل کے پالتو کبوتر، کہ قد و قامت میں ہماری بکریوں کے برابر ہوں گے، پہلے سے ہی بیٹھے تھے، اُترا۔ مجھے اجنبی اور غریب الوطن جان کے کسی نے یہ تک نہ پوچھا کہ میاں تمہارے منہ میں کَے دانت ہیں ؟

کوئی ایک ساعت گزری کہ معلن نے شہزادی کی آمد کا اعلان کیا۔ ہوائی مخلوق کی صفوں میں وہ غلغلہ مچا ہے کہ الاماں۔ پھر ایک دیو کہ فقط ایک سینگ اور آنکھ رکھتا تھا، ہوا میں معلق ہوا اور سب کو حد ادب میں رہنے کا فرمان جاری کیا۔ تبھی ایک طرف سے روشنی پھوٹی۔ میں حیران اور پریشان تھا کہ یا الٰہی یہ دوسرا سورج کہاں سے نکل رہا ہے۔ وہ روشنی اُس ماہ رُو کے چہرے کی تھی کہ صاحب عالم جس کے عشق میں گرفتار اور نادیدہ محبت میں اسیر جنگلوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ پھر وہ جب پوری طرح جلوہ آرا ہوئی تو جوان جن بے ہوش اور بڈھے ہشیار ہو گئے۔ اُس کے حسن کا بیان کرنے سے میرا نطق عاجز ہے اور الفاظ ہاتھ جوڑے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس پر میں نے توتے سے گزارش کی کہ وہ میرے دل کے سکون، آنکھوں کی ٹھنڈک اور روح کی تراوٹ کے حُسن کا حال کھول کھول کے صاف اور واضح الفاظ میں بیان کرے اور فقط چہرے کے پیچھے ہی نہ پڑا رہے اور اُس گلشن میں فراخی داماں کے جو جو امکانات ہیں ، اُن پر سَیر حاصل روشنی ڈالے۔ تس وہ وہ گویا ہوا۔ صاحب عالم شہزادی کی خوبصورتی بیان کرنے کو عمر خیام کے سے معانی، سعدی شیرازی کے سے الفاظ اور مانی و آذر کے سے رنگ کہاں سے لاؤں ؟اُس کا نظر اُٹھا نا طلوع، نظر جھکانا غروب، بیٹھنا کہ دلوں کو بٹھاتی ہے، اُٹھنا کہ محشر اُٹھتا ہے، چلتی ہے تو زمانہ ساتھ چلتا ہے اور مسکراتی ہے تو وہ لعل و گہر کہ حسینوں کے بدن کی زینت ہیں اور وہ بھی کہ ابھی زمانے کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ، پانی پانی ہوا چاہتے ہیں۔ اُس زلف کے آگے شب دیجور والی مثال کسی بھانڈ کی گفتگو لگتی ہے، اُس پیرہن کی کیا تعریف کہ جس میں وہ بدن یوں چھلک رہا تھا جیسے مئے عنب کا بھرا جام کسی رندِ مبتدی کے ہاتھ میں ہو۔ تمہاری امانت جان کے عمیق جائزے سے مجتنب رہا اور جی کو مارا ورنہ جہاں جہاں اُچٹتی نظر پڑی، وہاں وہاں فقط سسکاری لے کے رہ گیا۔

میں اُس حسن کی مزید تعریف نہ سن سکا اور بے ہوش ہو گیا۔ ہوش میں آیا تو گریبان کو چاک کیا، وہیں سے مٹھیاں بھر بھر کے خاک سر کو اُلیچنے لگا۔ میری یہ حالت کہ تصور یار کرتا تھا اور سر سے کھیلتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کہیں اسے الُوپ انجن مل جائے کہ آنکھوں میں ڈال کے اسی وقت اُس بارگاہ میں حاضر ہو جاؤں اور اُس کے سامنے ہلاہل میں بجھے خنجر سے اپنا کلیجہ نکال کے قدموں پہ وار دوں۔ توتا میرے حال کو دیکھتا اور پشیمان ہوتا تھا کہ کاہے کو یہ حکایت رنگین میرے سامنے دہرائی لیکن پھر اپنے تئیں تسلی دیتا تھا کہ جو کہا، میرے کہنے پہ کہا۔ وہ میری حالت دیکھ کے آگے کا قصہ کہنے سے مجتنب تھا۔ بارے مجھے قرار ہوا اور زنبیل سے نکلی ولایتی کے دو گھونٹ حلق سے اُترے تو اتنا ہوش آیا کہ جتنا حق تھا، تب گویا ہوا۔ صاحب عالم، میں آپ سے ان چند دنوں میں اتنا مانوس ہو چکا ہوں کہ آپ پر مرتا ہوں مگر آپ کی حالت کے پیش نظر آگے کا قصہ کہتے ڈرتا ہوں کہ اگر آپ کا یہی شعار رہا تو وصل کی آرزو ادھوری رہ جائے گی جو اب اُس بت طناز کی زندگی کا بھی منشا و مقصد ہے۔

وزیر زادے نے میرے جام کو ایک بار پھر لبریز کیا اور گرمیِ شراب نے میرے اسپ شوقِ کو اور تیز کیا تو میں نے کہا۔ اے توتے کہ تیرے بارے میں مجھے یقین واثق ہے کہ تُو آگے چل کے میرا سچا مونس ہمدم ثابت ہو گا، کیا کہنے کو کچھ اور بھی باقی ہے۔ اور اُس کی زندگی کا منشا و مقصد تجھ پہ کیسے آشکار ہوا؟تس پہ وہ توتا ہنسا اور بولا۔ وہ جلسہ اُس بت طناز کے باپ نے اسی لئے منعقد کیا تھا کہ اپنی قلم رو کے ہر انس و جن کے کان میں یہ بات ڈال دے کہ شہزادی ، کہ پہلے شادی کو ہنسی ٹھٹھا سمجھتی اور اُمید واروں کی جان سے کھیلتی تھی، اب خود کسی کو دل دے کے اس روگ کو یوں حرز جاں بنا بیٹھی ہے کہ اُس کے فراق میں گھِلتی اور دن رات گریاں کنا ں ہے اور صاحب عالم وہ جس کے عشق میں پھنک رہی ہے، وہ کوئی اور نہیں ، آپ ہیں۔ اس حکایت پر دونوں گھوڑے قہقہہ لگا کر ہنسے اور وزیر زادہ بھی سر جھکا کے مسکرایا تو مجھے اپنی خجالت کا چھپانا مشکل ہو گیا۔ میں غصے سے کانپنے لگا تو گھوڑے اُدھر منہ پھیر کر ہنسنے لگے۔ اور میں اس کا اندازہ اُن کے بے ڈھنگے پن سے ہلتے جسموں کو دیکھ کر بخوبی کر سکتا تھا۔

قریب تھا کہ میرا ہاتھ پیش قبض پہ پڑتا اور دو حیوانی اور ایک انسانی لاشہ خاک پہ تڑپتا دِکھتا لیکن پھر میں نے سمندِ غیض کو لگام ڈالی اور طیش کے بادبانوں سے ہوا نکالی اور خود کو حد درجہ سکون و صبر پر مائل و فائز کیا کہ اہل اللہ کا خاصہ ہے اور یوں گویا ہوا کہ میں تیری بات کی تہہ کو ہرگز نہیں پہنچا۔ تس پہ توتا کہ گھوڑوں اور وزیر زادے کی حرکاتِ اسفلیہ پہ دل گیر دکھائی دیتا تھا بولا۔ صاحبِ عالم۔ یہ قصہ میرا دیدہ و شنیدہ ہے اور آپ کے نصیب اُس چرخ گردوں کے منصرم نے ایسے کھولے ہیں کہ باید و شاید ہی کسی کے کھلے ہوں گے۔ میں سمندر حیرت میں غواصی کرتا اور ولایتی کے گھونٹ بھر تا تھا۔ ہوا اپنے آپ ہی رنگ ٹپکاتی مسکرا رہی تھی اور اگر اُسے دیکھنے کی باری تعالیٰ نے مجھے قوت ودیعت کی ہوتی تو مجھے یقین کامل تھا کہ میں اُسے لڑکھڑاتے دیکھا۔ غرضیکہ توتا یوں گویا ہوا۔

وہ جلسہ تا دیر رہا اور میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ یہ سب وہاں کسی خاص مقصد کے پیش نظر جمع ہوئے ہیں۔ اور جلد ہی یہ راز بھی مجھ پہ منکشف ہو گیا۔ شہزادی کی پیدائش کے فوراً بعد ایک نجومی نے کہ اپنی زنبیل میں فلک کے سب ستاروں کے احوال اور اُن کے انسانوں سے باہمی تعلقات کی ہر چال پہ نظرِ عمیق اور ان کا حسابِ دقیق رکھتا تھا، لگی لپٹی رکھے بغیر بتلا دیا تھا کہ شہزادی کی شادی اُسی سے ممکن ہے جو شہزادی کے سات سوال پورے کرے گا۔ یہی نہیں وہ متفنی و عیار سات سوالات اور اُن کے شافی جوابات لکھ کے شہزادی کے بالیں دھر بھی گیا تھا۔ یہ بھی سنا کہ اُس خبیث کی اب موت ہو چکی ہے مگر اُس کا پھیلایا ہوا طلسم ہنوز شہزادی کو گھیرے ہوئے ہے۔ چنانچہ شہزادی ، کہ بالغ ہوئے جسے مدتیں گزر گئیں اور حُسنِ خدا داد پہ گزران کرتی ہے، شادی کو کب کی آمادہ و تیار ہے لیکن وہ سوال کون پورے کرے۔ شہزادی آدم زادی ہے لہٰذا اُس کے والدین کی خواہش اولین یہی تھی کہ کسی آدم زادے سے بیاہی جاتی لیکن اُس خبیث نجومی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے سوالات نے جنوں بھوتوں تک کو عاجز و درماں کر رکھا ہے تو انس غریب کی بھلا کیا مجال۔ تس پہ میں غصے سے کَھول گیا اور جی میں ٹھہرایا کہ اب تو ضرور ہی ہمارے صاحب عالم شہزادی کے سات سوالات پورے کریں گے کہ جن کے پورا نہ کرنے کی صورت میں شہزادی کی شادی اگر ہوتی ہے تو وہ عین اپنی شب زفاف کے طربیہ لمحوں کے دوران (اُن حرکات و وجوہات کے بغیر بھی) وفات پا سکتی ہے کہ جن کا مبینہ ملزم اُس کا شوہر بھی ٹھہر سکتا ہے۔ یہاں تک تو قصہ سمجھ میں آتا ہے صاحب عالم مگر جتنا عشق آپ کو شہزادی سے ہے، اُس سے کہیں بڑھ کے وہ آپ سے کرتی ہے۔ اس کا قصہ بھی سن لیجئے۔

جوں جوں توتا اس حکایت لذیذ کو پرت در پرت کھولتا تھا، ووں ووں میں دیکھتا تھا کہ وزیر زادے اور گھوڑوں کی آتش شوق بھی بھڑکتی تھی مگر میری آتش شوق دو آتشہ تھی کہ وہ قصہ میرے مطلوب و محبوب کے بارے میں تھا اور اس میں میرا نام بھی آتا تھا۔ توتا یوں بولا۔ صاحب عالم اُس عظیم الشان جلسے میں مجھ پہ کھلا کہ ابھی چند روز جاتے ہیں کہ وہ قتالہ عالم اپنی جائے نوم میں اُس یہودن مشاطہ کے ساتھ موجود تھی جو بچپن سے شہزادی کی پرداخت کرتی ہے اور اس عمر میں بھی شہزادی کو اتنی عزیز ہے کہ اُس کی پائینتی رات کو سوتی ہے، مشاطہ یہودن کا ایک بھائی کہ جس کی جادو گری کی دوسری مثال عنقا و نا پید ہے ، اُس سے ملنے آیا اور ساتھ میں شیشے کا وہ آلہ بھی لایا کہ جس میں وہ دنیا بھرکا احوال یوں دیکھتا ہے جیسے اس وقت میں اور آپ ایک دوجے کو دیکھتے ہیں۔ شہزادی نے اُس جام جم کا تذکرہ سنا تو مشاطہ کے سر ہوئی کہ ہم بھی یہ تماشہ دیکھیں گے، چنانچہ وہ مشاطہ اپنے بھائی سے وہ آلہ کہ دنیا بھر کے طلسمات جس میں بند ہیں اور اپنی اس خوبی میں یکتا ہے کہ دُور کو قریب دکھلاتا ہے، عاریتاً مانگ لائی۔ شہزادی اور اُس کی سہیلیاں تا دیر اُس سے کھیلتی رہیں۔ تب شہزادی کی ایک سہیلی بولی۔ اری سنتی ہو۔ ہم نے اس جام جم میں طرح طرح کے گفتنی اور نا گفتنی تماشے دیکھے۔ ذرا یہ بھی تو دیکھو کہ تمہارے نصیب میں کون لکھا ہے اور لکھا بھی ہے کہ نہیں۔ تس پہ ساری سہیلیوں نے اصرار کیا اور مشاطہ نے کہ اپنے جادو گر بھائی سے سوال کرنے کا ڈھب سیکھ چکی تھی، اُس گولے کے سامنے یہ سوال رکھا۔ جیسا میں نے سنا ہے صاحب عالم۔ اُس آئینے میں آپ کی صورت اُبھری اور یہ بھی پتہ چلا کہ وہ امن آباد کا شہزادہ ہے جس نے دو پرندوں سے شہزادی کے حسن کا عالم سنا اور نادیدہ ایسا عاشق ہوا کہ شہزادی کی تلاش میں صحرا صحرا گھومتا ہے۔ شہزادی کو پہلے بھی یہ خبر جن پریوں سے مل چکی تھی لیکن اُس نے اٹھلا کے کہا تھا کہ یہ کونسے نئے حضرت مرنے کو پر تول رہے ہیں۔ مگر جب اُس جام جم میں آپ کے رُو برو ہوئی تو کھانا پینا سب چھُٹا اور عشق کا آزار درپے ہوا۔ مجھے آپ کے وطن مالوف کا نام پتہ تھا، لہٰذا میں شتابی سمجھ گیا کہ وہ جس پہ عاشق ہوئی ہے، آپ کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہے۔

وزیر زادہ اور گھوڑے حیران یہ حکایت کہ اُن کے لئے باعث حیرت اور میرے لئے مُسکنِ قلب تھی، سن رہے تھے۔ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا تھا۔ اُس کا میری معشوقہ ہونا ثابت ہو چکا تھا اور آتش شوقِ وصل کے دُودِ نامحسوس سے شعلے اُٹھ رہے تھے۔ میں نے توتے کی طرف دیکھا جو اس حکایت کو یہاں تک بیان کرنے کے بعد سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ اُس کی آواز پہلے ہی آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے رُندھ گئی تھی۔ تس پہ میں سوال کیا۔ تیری آواز کو کیا ہوا اور میں تیری آنکھوں میں وہ اشک دیکھتا ہوں کہ جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ توتے نے سردآہ بھری اور گویا ہوا۔ صاحب عالم، یہاں تک تو سب ٹھیک ہے لیکن وہ سات سوال کہ جن کو پورا کرنا اُس کے دُلہا کا مقدر کر دیا گیا ہے، وہ تو آپ کو ہر صورت پورے کرنے ہوں گے ، بصورت دِگر اُس ہونی کو کوئی نہیں روک سکے گا کہ جو مقدر ہو چکی ہے۔ اور یہ کام اب کارِ نا ممکن کی صورت یوں بھی اختیار کر گیا ہے، کہ علاقے کے جن بھوت اور دیو اور شہزادی کے اپنے ملک کے وہ شورہ پشت کہ جو اُس سے نکاح کے متمنی اور اُس کے باپ کی سلطنت پر اس راہ سے قابض و متصرف ہونا چاہتے تھے، آپ کی جان کے درپے ہو چکے ہیں اور اس نوع کی گفتگو میں اپنے گنہگار کانوں سے سنتا آیا ہوں۔ شہزادی کی رضا مندی اور خود کو میری معشوقہ ظاہر کرنے کے بعد میں چاہتا تھا کہ اب کسی لمبے چوڑے راستے کو کہ اختیار نہ کروں اور وطن مالوف و عزیز میں رائج اور کامیاب طریقے کو اختیار کروں ، یعنی محبوبہ کو چارپائی سمیت اغوا کر کے کسی محفوظ مقام پر اپنے حبالہ نکاح میں لے آؤں چنانچہ میں نے یہ تجویز اپنے ہمراہیوں کے سامنے رکھ دی اور اُن کے مشورے کا طالب ہوا۔ وزیر زادہ اور توتا اس تجویز پر توبہ تِلا کرنے لگے البتہ گھوڑوں نے اسے خوب سراہا اور عین مردانگی قرار دیاتس پر وزیر زادہ قدرے تُرشی سے بولا۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔ میں کسی ایسی تجویز کے حق میں رائے نہیں دے سکتاکہ جس کی موافقت گھوڑے ہی کرتے ہوں۔ حضور والا۔ گھوڑوں کے مشوروں سے چلنے والا انتظام و انصرام خود اپنی ہی لات سے زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ مجھ پہ پند ناصحانہ کا یہ بوجھ لادنے کے بعد وزیر زادہ اور توتا مجھ سے قدرے سرگشتہ ہو کے بیٹھ گئے اور میں نے وزیر زادے کو یہاں تک کہتے سنا کہ ایسا رکیک فعل سرانجام دینے سے تو بہتر ہے کہ آدمی ید و بدن کا تعلق استوار کر لے۔ میں جوں جوں غور کرتا اُنہیں حق پہ پاتا اور خود اپنے ہی عرق ندامت میں غرق ہوا جاتا تھا، رات جب آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی تو میں نے خود کو اپنے عرق ندامت میں ٹخنوں تک ڈوبے پایا اور اپنی تجویز انتہائی اسفل و رکیک محسوس ہوئی تو یاران سفر کو گلے میں ہاتھ ڈال کے منا لیا اور توتے سے کہا کہ گو رات بہت ہو چکی ہے لیکن اگر وہ چاہے تو شہزادی ماہ نور کے حسن کے بچے کھچے ذکر کو پھر چھیڑ سکتا ہے، چنانچہ توتا ایک بار پھر اُس حکایت دلپذیر میں رطب اللسان ہوا۔

اگلے چند روز ہم بے خطر سفر کرتے رہے، اس دوران دو چار چھوٹے موٹے جنوں نے ہم سے ٹکرانے کی کوشش کی اور ایک چڑیل نے میرے گھوڑے پر دانت لگانے کی سعی بھی کی لیکن بزرگ سفید پوش کا تعویذ اُن کے لئے کافی و شافی ثابت ہوا۔ ایک دوپہر جبکہ توتا حسب معمول و دستور ہمارے لئے کھانے کی کھکھیڑ کرنے گیا ہوا تھا، اور ہم ایک درخت تلے سانس لینے کو رُکے ہوئے تھے کہ بزرگ سفید پوش وارد ہو گیا۔ اُس کا لباس کہ عام حالات میں جھل جھل کیا کرتا تھا، نہ صرف میلا میلا سا تھا بلکہ کہیں کہیں سے قدرے شکستہ بھی۔ وہ آسمان سے اُترا اور گھوڑے کو یونہی کھلا چھوڑ کے ہمارے پاس آن بیٹھا۔ مجھے اس وقت بزرگ سفید پوش کی آمد کی پر بے حد خوشی ہوئی اور یہی حال وزیر زادے کا بھی تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ اُسے اُس کی غیر حاضری کے دوران پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کریں لیکن اُس نے یہ کہہ کر ہماری حیرت کو دو چند کر دیا کہ وہ کُل حالات سے واقف ہے اور اس وقت ہماری مدد کرنے کو نہیں ، بلکہ اپنا دُکھڑا کہنے اور ہماری پناہ میں آنے کا طالب ہے۔ حیرتوں کے پہاڑ تھے کہ ہم دونوں پہ ٹوٹے پڑتے تھے۔ بزرگ سفید پوش کو بھی ہماری مدد کی ضرورت تھی۔ ہم کہ جنہیں وطن کی ہوا کی خوشبو سونگھے اور اپنوں کی چاہت بھری نگاہوں کا حظ اُٹھائے مدت ہو چکی تھی اور کوئی پرسان حال نہ تھا، ہماری بھی کوئی مدد چاہتا تھا۔ میں نے بزرگ سفید پوش سے اس بے وقت مذاق کا سبب پوچھا تو وہ آنکھوں میں آنسوبھر کے یوں گویا ہوا۔ اے شہزادے ، چونکہ برگ تمنا کی گھنی چھاؤں اب تجھ پہ سایہ فگن ہوا ہی چاہتی ہے اور تُو وصل کے چمنستان سے اپنا گُلِ آرزو توڑ کے اُسے اپنی رعنائیوں کے گلدستے کی زینت بنایا ہی چاہتا ہے اس واسطے تجھے ہری ہری سوجھ رہی ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یاروں پہ اس وقت جو اُفتاد پڑی ہے، وہ اللہ کسی پہ نہ ڈالے کہ چو مکھی لڑ رہا ہوں۔ میری محبوبہ بے سبب مجھ سے بیزار اور اُس کے بھائی میری شہ رگ کے درپے اور دشمنی کی سب سے گھٹیا قِسم ، یعنی میرے خلاف مخلوق کے کان بھرنے میں مصروف ہیں۔ یہی نہیں وہ ایک جن کو کہ شورہ پشتی میں کوہ قاف میں جس کا کوئی ثانی نہیں ، مقرر کر چکے ہیں اور وہ جن ہر لحظہ اُس لمحے کی تلاش میں ہے جب میرا کاسہ سر میرے شانوں سے جدا کر دے۔

یہ حکایت سن کے میرے اور وزیر زادے کے رونگٹے یوں کھڑے ہوئے کہ ہمیں اپنے لباس خار زدہ محسوس ہونے لگے۔ میں گھوڑوں کو تکتا تھا کہ ہنہنانا تو درکنار، پلک تک جھپکانا بھول گئے تھے۔ کوئی اس عالم میں اگر اطمینان سے بیٹھا کُریال کرتا تھا تو وہ ہمارا توتا تھا کہ جس کے انسانی جُون میں لوٹنے کے ہم دونوں منتظر اور دست بدعا تھے اور گھوڑوں کا احوال اس کے اُلٹ تھا کہ وہ ایک فالتو بوجھ اُٹھانے سے بغاوت کی حد تک منکر اور تھے۔ میں نے توتے سے اس کا سبب دریافت کیا کہ صاحب، اس حکایت خونچکاں میں اطمینان کا آخر ایسا کونسا پہلو پنہاں ہے کہ تم اطمینان کے جھولے پہ جھولتے اور اپنے تئیں شایدمسکراتے بھی ہو۔ وہ توتا کہ زمانے بھر کی بلندی و پستی دیکھتا اور اس معاملے

میں پرندِ باراں دیدہ بلاشبہ کہلایا جا سکتا تھا۔ یوں گویا ہوا۔ صاحب عالم یہ بزرگ سفید پوش کہ باری تعالیٰ کی جانب سے خضر صورت مقرر کیا گیا ہے، بلا وجہ و سبب پریشان ہے اور اس صورت میں تو اس پریشانی کا اظہار ہی شیوہ مردانگی کے خلاف ہے جبکہ وہ اپنے آپ پہ خود لائی گئی ہو۔ یہ کلام سن کے بزرگ سفید پوش کا چہرہ لمحہ بھر کو متغیر ہوا لیکن پھر وہ تمام تر بزرگانہ جلال کے ساتھ ڈپٹ کے بولا۔ اے حقیر پرندے کہ تیرے جثے سے سے تیری جیبھ کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ، یہ کیا زیٹ اُڑاتا ہے؟تس پہ توتا مسکرایا اور بولا۔ حضور میں کئی ہفتوں سے جوار میں اُڑا کرتا ہوں اور زمین پہ ہونے والے واقعات پہ گہری نظر رکھتا ہوں۔ یہ سچ نہیں کہ جناب کی محبوبہ خوش جمال ا ور اُس کے برادرانِ بد خصال، اپنے دل میں جناب کی طرف سے جو گمان رکھتے ہیں ، وہ دُرست ہے اور اگر وہ آپ سے نالاں و بیزار ہیں ، تو اس کا کچھ سبب بھی ہے ؟اور جناب کی پریشانی خود آوردہ ہے کیوں کہ جناب بیک وقت دو بیڑیوں میں پیر ڈالے پڑے ہیں اور اگر کہیں تو پیروں اور بیڑیوں کی صراحت کروں لیکن ایسا کرنے سے خود کو قاصر پاتا ہوں کہ شریفوں میں آدابِ مجلس کا پاس بھی کوئی شئے ہے۔ مجھ پہ اور وزیر زادے پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے پڑتے تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ بزرگ سفید پوش نے کوئی چارہ نہ پا کے اقرار کیا کہ وہ اپنی کُل وقتی محبوبہ کے ساتھ ساتھ ایک جُز وقتی داشتہ بھی رکھے ہوئے تھا اور اُس پہ نادم بھی تھا۔ ہم پہ بزرگ سفید پوش کی سفید پوشی میں یہ راز منکشف ہو رہے تھے اور عقل ساتھ دینے سے عاجز تھی۔ اب بزرگ سفید پوش کھل گیا اور لگا اپنی حماقتوں کا اقرار کرنے۔ میں اگرسافر نہ ہوتا اور دنیا کو یوں اپنی چشم حیرت کشا سے نہ دیکھتا تو ہر سفید پوش کو فرشتہ ہی سمجھتا لیکن چونکہ بزرگ سفید پوش کے ہم پہ بے شماراحسانات تھے، اور وہ ہماری طرح بشریت کا بہتان اُٹھائے پھرتا تھا اس واسطے ہم پر اُس کی مدد واجب تھی۔ ہم نے دبے ڈھکے لفظوں میں بزرگ سفید پوش کی سرزنش کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ہماری یہ گفتگو گھوڑوں کو، کہ آوارگی جن کے مزاج کا خاصہ تھی، بالکل خوش نہ آئی۔

قصہ کوتاہ ہم نے توتے کی مدد سے اُس ماہ رُو کے بھائیوں کو صحرا میں بلوایا اور اُن کی ہمشیر کو بھی کہ جس کا سینہ اُس سے آگے چلتا اور بجائے خود ایک شمشیر نیم برہنہ تھا اور بزرگ سفید پوش کو ناکح اور اُسے منکوحہ بنوا دیا۔ دُلہا دُلہن، جب شب زفاف کے ارمان دل میں لئے ہم سے رخصت ہو گئے تو بزرگ سفید پوش کے تینوں سالے کھِل کے کھیلے اور اُن کی جملہ سوقیانہ حرکات بعد از استعمالِ دخترِ رز صاف کہے دیتی تھیں کہ بزرگ سفیدپوش نے کس خاندان کی ناکتخدا و غیر مدخولہ(ایک بہت بڑا سوالیہ نشان) کے ساتھ رشتہ مناکحت اُستوار کیا تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو جو حرکتیں اور سُفلہ پن نشے میں بزرگ سفید پوش کے سالوں سے سر زد ہوا ، اُسے کرنے میں ہمارے آوارہ منش گھوڑوں کو بھی تکلف ہوتا۔ نشے میں بے لباس ہو کر بکرے بُلانا اُن کی اسفل حرکات میں سب سے ادنیٰ درجے کی حرکت شمار کی جا سکتی ہے۔ صاحبو ہم سوئے، کوئے جاناں منزلوں پہ منزلیں مارے جاتے تھے اور توتا ہماری رہنمائی کرتا تھا۔ ایک شام ایک ایسے جنگل سے گزر ہوا کہ جس کے میوے خوش ذائقہ، پھول خوش رنگ اور پرند خوش گلو تھے۔ ٹھنڈی ہوا ایسے اِٹھلاتی چل رہی تھی جیسے کوری ٹھلیا لئے کوئی ناری زینہ چڑھتی ہو۔ ہوا سے رنگ اور نشہ ٹپکا پڑتا تھا۔ وزیر زادہ گویا ہوا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم آج کی رات اس خوش رنگ ماحول میں گزاریں۔ مطلع اتنا صاف ہے کہ تارے زمین پہ لگے محسوس ہوتے ہیں اور صاحب عالم کو اختر شماری میں چنداں تکلیف نہ ہو گی۔ گھوڑے اُس کی بات مکمل ہونے پہلے ہی تھوتھنیاں اُٹھا کے رُک گئے اور خود کو سبک بدن کرنے کو اول الذکر شئے کو بے تابی سے ہلانے لگے چنانچہ ہم نے وہیں پڑاؤ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ توتا ابھی تک یومیہ کے خورد و بلا نوشی کا انتظام کر کے واپس نہ لوٹا تھا۔ ہم نے گھوڑوں کو چرنے کو چھوڑ دیا کہ ہری دُوب وہاں بسیار تھی۔ وزیر زادہ تمبو گاڑنے میں مصروف ہوا اور میں آنکھیں بند کر کے اپنی محبوبہ کے تصور خوش کُن میں ڈوب گیا۔ نسوانی ہنسی نے میری آنکھیں کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس بارہ پریزادیاں عین اُسی درخت کے اُوپر سے اُڑی جاتی ہیں کہ جن کے نیچے میں استراحت میں مشغول تھا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُن میں سے ایک نیچے اُتری اور جنگل میں گُل چینی کرنے لگی۔ ناگہاں اُس کی نگاہ مجھ پہ پڑی اور حیرت سے ناک پہ اُنگلی رکھ کے بولی میں مر جاؤں اگر یہ کوئی خواب ہے۔ میں نے پہچان لیا اور مسکرا کر کہا۔ یہ کوئی خواب نہیں ، میں ہی تمہارے روبرو ہوں۔ تم کیسی ہو اور پریوں کا یہ پرا کس طرف کو رواں ہے اور یہ حُسن کی دیوی یہاں کیوں اُتر پڑی ہے۔ تس پہ وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔ جاؤ جی۔ کیوں بناتے ہو۔ اگر ہم اِتے ہی حسین ہوتے تو تم ہم سے شادی نہ کر لیتے۔ اب بھی وقت ہے ، مان جاؤ، اس ویرانے میں کہ ہر شئے نشے میں ڈوبی ہوئی ہے، مجھ حرماں نصیب سے نکاح کر لو۔ میں نے حسب دستور(بھاری دل سے) انکار کیا اور تبھی مجھے یاد آیا کہ اُس کا انگوٹھی والا جن کیسے دغا کر گیا تھا۔ چنانچہ یہ قصہ اُس کے گوش گزار کیا۔ تس پہ اُس کا گلابی رنگ اور گلابی ہوا اور ڈپٹ کے بولی۔ اُس مردود کی یہ مجال کہ ہمارے پردیسی یار سے دغا کرے۔ میں اُسے ہرگز جیتا نہ چھوڑوں گی اور ابا جان سے کہلوا کے آج ہی اُس نابکار کی بوٹیاں چیلوں کووں کو ڈلوا ؤں گی۔ چونکہ میں اُس جن کا کچھ اور استعمال سوچے بیٹھا تھا اس لئے جی ہی جی میں ڈرا کہ اگر اس نے ویسا عمل بھی کر دیا جیسے ارادے کا اظہار کیا ہے تو میرا منصوبہ تلپٹ ہو جائے گا۔ چنانچہ منت بھرے لہجے میں کہا۔ اس سب کی ضرورت نہیں۔ میں فقط اُس کی واپسی چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ مسکرائی اور ایک بوسہ قیمت مقرر کی جو میں نے ماہ نور کے حق میں خیانت کر کے اُسی وقت ادا کر دی اور وہ ایک ساعت میں جن کی واپسی کی نوید سنا کے اپنی ساتھنوں سے جا ملی۔ وزیر زادہ کہ سارے ماجرے کا گواہ تھا اور یکطرفہ بوس و کنار کا چشم دید شاہد بھی ، مسکرا کے بولا۔ کیوں صاحب۔ جنگل میں یہ منگل کیسا؟میں نے ساری واردات سنائی تو وہ میری فراست کا قائل ہوا اور بوسے کی طوالت پر، ایک نیم فحش مسکراہٹ کے ساتھ اُس سمت دیکھ کے، جدھر کو پریزادوں کا غول گیا تھا، حسرت سے تنگی داماں والا شعر پڑھنے لگا اور ناداں کا لفظ یوں کھینچ کے ادا کیا کہ اُس سے میرے واسطے چغد کے معنی صاف نکلتے دکھائی دیتے تھے۔

بارے توتا روز مرہ کا کھانا اور مئے ناب لئے آن موجود ہوا۔ بلاشبہ وہ ایک ذہین شہزادہ تھا اس لئے کھانے پینے کے دوران خاموش رہا اور جب اُس کی لائی ہوئی ولایتی شراب کا نشہ ، پہلے سے نشہ آور بوسے نے دو چند کر دیا، تب وہ یوں گویا ہوا۔ صاحب عالم۔ آپ کو پریزاد کے بوسے سے مجتنب رہنا چاہئے تھا کہ یہ حرکت شہزادی ماہ نور کے علم میں آ چکی ہے اور اگر ایسا کرنا ضروری ہی تھا تو اُن شادی شدہ حضرات کی طرح کرتے کہ جو گھر جانے سے پیشتر اگر کچھ نہ کر پائیں تو منہ ہاتھ تو دھو ہی لیتے ہیں۔ اور ویسے بھی بوسہ ایک مختصر حرکت کا نام ہے جسے آپ نے طویل تر کر دیا تھا۔ یہ سننا تھا کہ جام جو میرے لبوں تک پہنچا ہی چاہتا تھا، ہاتھوں سے چھٹ گیا اور اُس میں موجود مئے ناب کہ اُس جنگل میں تحفہ نایاب سے کسی طور کم نہ تھی، خاک میں ملیا میٹ ہوئی۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ کیسے۔ تس پہ وہ توتا یوں گویا ہوا کہ جیسا کہ میں پہلے جناب کے علم میں لا چکا ہوں کہ شہزادی ماہ نور آپ کو اُس جام جم میں دیکھ کے آپ پر اُسی شدت سے عاشق ہو چکی ہے، جس شدت سے جناب اُس پر عاشق ہیں اور اُس نے ایک تھیلیا اشرفیوں کی دے کے اپنی ملازمہ و مشاطہ کے جادو گر بھائی سے آئنہ محض اس لئے کچھ مدت کے واسطے لے لیا ہے کہ اُس میں آپ کی صورت دیکھے اور جی کو شاد کرے۔ آج جس وقت آپ نے اُس پریزاد کا بوسہ لیا ہے، شہزادی اپنی ساتھنوں سہیلیوں کے ساتھ آپ کا دیدار کر رہی تھی، کہ جب سے اہرمن عشق کا گھاؤ کھایا ہے، یہی اُس کا معمول ٹھہر ہے۔ میں سوئے اتفاق شہزادی کی خبر لینے اور واپسی میں اُس کی بے تابی کا قصہ آپ سے کہنے اُدھر جا نکلا تھا اور جس وقت جناب اُس پریزاد کے گُل رنگ لبوں سے شغل فرما رہے تھے، میں نے یہ ماجرا بچشم خود دیکھا اور اس کی گواہی شہزادی کی وہاں موجود سہیلیوں سے بھی لی جا سکتی ہے۔ بہر حال جو ہوا اچھا نہیں ہوا اور میں چونکہ آپ کی نیت سے بخوبی واقف ہوں اس واسطے گمان کرتا ہوں کہ بعضے بعضے وقت آنکھوں دیکھی پہ بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ بات میں نے حضور کا دل رکھنے کو کہی ہے۔ اب سچ کیا ہے یہ تو حضور کو پتہ ہو گا یا اُس پریزاد کو کہ جس کا جناب نے ایسا ملذذبوسہ لیا کہ جس کی طوالت فعلِ ناگفتنی کے پورے وقت پہ محیط پاتا ہوں۔

بارے توتے نے اپنی گفتگو ختم کی تو مجھے ہوش آیا۔ یہ سچ تھا کہ میری نیت میں قطعاً فتور نہیں تھا، اگر فتور ہوتا تو جب پہلی بار وہ پریزادوں کی شہزادی مجھے ملی تھی اور میری منکوحہ بننے کو نہ صرف تیار تھی بلکہ ”جگہ ” کا مسئلہ حل کرنے کے واسطے اپنے باپ کا تحفہ کردہ محل بھی استعمال کرنے پر زور دے رہی تھی، مجھے کیا امر مانع تھا کہ میں انکار کرتا۔ اُس کا ایک ہی سبب تھا اور وہ تھا شہزادی ماہ نور کی محبت۔ یہ حکایت کہ ہرگز دل پسند نہ تھی، اور مجھے مارے ڈالتی تھی۔ میں نے اپنے یار وزیر زادے کی طرف دیکھا جو مجھ سے بڑھ کر رنج کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ توتا بھی ملول دکھائی دیتا تھا۔ اگر میرے اُس وقت کے ہم جلیسوں میں کوئی بالکل لا تعلق تھا تو وہ ہمارے گھوڑے تھے، چونکہ میں اُن گھوڑوں کے کردار سے کئی بار واقف ہو چکا تھا اور اُنہیں رفیق رکھنا مجبوری تھی اس واسطے اُن کی طرف توجہ نہ کی اور اپنے سچے دوستوں سے مشورے کا خواہاں ہوا۔

ابھی ہم نے اس مسئلے پر گفتگو شروع ہی کی تھی کہ پریزادوں کی شہزادی کا فرستادہ انگوٹھی کا وہ جن حاضر ہو گیا جو ہمیں دھوکے میں رکھ کے مفرور و اشتہاری ہوا تھا۔ جن کے چہرے پر مار پیٹ کے نشانات اور بدن پر تشدد کی بدھیاں صاف کہے دیتی تھیں کہ اُسے ہمارے پاس روانہ کرنے سے قبل اُس کے ساتھ وہ سلوک اچھی طرح روا رکھا گیا ہے کہ جو وطن عزیز میں کوتوال شہر اُن چوروں پر اس جرم میں روا رکھتا کہ ہے اُنہوں نے مسجد سے جوتیاں چرانے جیسا اسفل کام کیوں کیا اور یہ کہ کیا اس گلشن میں تنگی داماں کے اور امکانات اور مثالیں مفقود تھیں ؟اور اُنہیں فلاں ابن فلاں کی مثال دیتا ہے کہ جو چور ہونے کے باوجود عزت و توقیر کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اس طرح اگلی دفعہ کوئی بڑی اور با عزت واردات کرنے کو اُنہیں انگیخت فراہم کرتا ہے۔ جن گھٹنوں تک عرق ندامت میں ڈوبا ہوا تھا شاید اِس سے اُوپر بھی اُس کا یہی حال ہو لیکن تہذیب اور جن کا لباس ہمیں دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ چونکہ ہم لوگ اس وقت ایک دقیق مسئلے میں اُلجھے ہوئے تھے اس لئے جن کے سلام کا رسمی سا جواب دے کر وہ راہ ڈھونڈنے لگے کہ جس سے شہزادی ماہ نور کی غلط فہمی دُور ہو سکے۔ جن کہ اپنی سابقہ حماقتوں کی تلافی کرنا چاہتا تھا ، مسئلے کو سمجھ کے اس کے حل کے سلسلے میں دخل در نا معقولات کرنے لگا لیکن جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ وہ دخل در معقولات کر رہا تھا چنانچہ ہم تینوں اُس کی جانب متوجہ ہوئے۔ جن نے اس مسئلے کا ایک سادہ سا حل پیش کر دیا اور وہ یہ تھا کہ شہزادی ماہ نور کو حقیقت حال سے واقف کرانے کو اُسے (جن کو) اُس کی خدمت میں روانہ کر دیا جائے اور وہ حضرت سلمان کی قسم کھا کر اُسے یقین دلا دے گا اور ویسے بھی جن سوائے مئے نوشی کے مجھ میں کوئی شرعی عیب نہ پاتا تھا اس لئے اُسے یقین کامل تھا کہ دربارِ حُسن میں میری عرض گزاشت قبول کر لی جاوے گی۔ مزید گواہی کے لئے توتے نے اپنی خدمات پیش کیں۔ مجھے اور وزیر زادے کو یہ حل پسند آیا اور جن نے اپنی واپسی کی خوشی میں ولایتی کی دو بوتلیں نکال کر ہماری خدمت میں پیش کیں جو وہ احتیاطاً کسی کلال کی دکان سے اُچکتا لایا تھا۔ وہ رات بہت اچھی گزری۔ میں جن سے اپنی گمشدہ انگوٹھی واپس لے چکا تھا اور اُسے اپنے ازار بند سے اتنی مضبوطی سے باندھ چکا تھا کہ اگر جن پھر دغا بازی پہ اُترتا اور انگوٹھی وہاں سے باز یاب کرنے کی کوشش کرتا تو اُس پہ ذوقِ ستر بینی ا ور مفعولِ لواطت کا الزام با آسانی لگایا جا سکتا تھا!

ابھی عروسہ شا م نے اپنی مدھ ماتی انکھیاں چودھویں کے چاند سے لڑائی بھی نہ تھیں کہ جن اور توتا الگ الگ پروازوں سے لوٹ آئے اور یہ مژدہ جاں بخش سنایا کہ شہزادی نے میری عرض گزاشت قبول کی اور نہ صرف یہ کرم کیا بلکہ اپنے دست حنائی سے ایک خط بھی میرے نام لکھا ہے۔ خط دیتے ہوئے جن نے یہ بھی بتلایا کہ چونکہ شہزادی ہمہ وقت طلسمی شیشے میں مجھے دیکھتی اور فقط اُس وقت اُس سے جدا ہوتی ہے جب اُسے سونا ہوتا ہے، لہٰذا اگلی بات میں خود سمجھ جاؤں۔ میں حیران جن کی صورت دیکھنے لگا تس پہ وہ بد بخت توتے کو آنکھ مار کے بولا کہ یاروں سے اس کی صراحت نہیں ہوتی، تم خود سمجھدار ہو۔ منہ سے پھوٹتے کیوں نہیں۔ لیکن توتے کے بولنے سے قبل جب ایک گھوڑا قہقہہ مار کے ہنسا تو مجھ پہ اظہار ہوا کہ وہ اُن اوقات میں مجھے ہشیار رہنے کو کہہ رہا تھا کہ جب کسی سبب کی بنا پر انسان کو جامے سے باہر آنا پڑتا ہے۔ میں نے آئندہ کے لئے ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔

صاحبو جیسا کہ میں پہلے بتلا چکا ہوں میں نے شہزادی ماہ نور تک پہنچنے اور اُس کے ساتوں سوالات پورے کرنے کو اُس بے اعتبار جن کی خدمات مستعار لینے کا ارادہ اپنے جی میں باندھا تھا لیکن جب یہ تجویز جن کے سامنے رکھی تو اُس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ اگر یہ کام اتنا ہی سہل ہوتا تو یار خود نہ کر لیتے اور جنوں میں سُرخرو ٹھہرتے کہ شہزادی ماہ نور کو پانا اُس خطے کے ہر جن و انس کی خواہش اولین ہے۔ یہ کام تو مجھے خود ہی کرنا ہو گا۔ شہزادی نے جو خط میرے نام لکھا تھا اُس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ اگر میں اُس کے حُسن عالمتاب کا تہہ دل سے تمنائی ہوں اور اُس کے حصول کے لئے در در کی خاک چھان رہا ہوں ، تو مجھی بیکس کو اُس کے سوالات اپنے بازو کے زور سے پورے کرنے

ہوں گے لیکن وہ مرحلہ جاں گسل تو بعد کی بات تھا۔ ابھی تو شرائط کے مطابق مجھے رستے کی بلاؤں سے لڑتے جھگڑتے شہزادی کے دربار تک پہنچنا تھا جو سر دست ایک نہایت ہی ادق مرحلہ دکھائی دیتا تھا۔ جن صرف پیغامبر کے فرائض ادا کر سکتا تھا اور اس میں بھی ہِچر مِچر کر رہا تھا کہ اُس کا شہزادی کے محل میں روز کا آنا جانا ، اجانب کے جنوں کے دلوں میں شکوک پیدا کر سکتا تھا۔ ویسے بھی وہ جنوں کے اُس خاندان غلاماں سے تعلق رکھتا تھا کہ جن کا بسیرا انگوٹھیوں ، چراغوں اور بوتلوں وغیرہ میں ہوتا ہے۔ اب اللہ جانے سچ تھا یا جھوٹ ، ہمارا انگوٹھی کا جن بتایا کرتا تھا کہ الہ دین کے جادوئی چراغ کا جن اُس کے ننھیالی رشتہ داروں میں سے تھا اور ابھی تک اُسی چراغ میں مکین تھا اور وہ چراغ کوہ قاف کے رستے میں ، ایک بوسیدہ محل کے کسی کمرے کے طاق میں رکھا اپنے نئے مالک کا منتظر تھا۔ ہمارے جن میں وہ تمام خصوصیات پیدا ہو چکی تھیں کہ جو مدتوں غلام رہنے کے بعد کسی میں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ مسکرانے کے نام پر صرف ہونٹ کانوں تک کھینچ کے رہ جاتا تھا، ہنسنے کے نام پر دانت دکھا سکتا تھا اور آواز دینے پر خود آنے سے پہلے چار دفعہ اپنی آمد کا یقین دلایا کرتا تھا۔ میں نے یہ دیکھ کے، کہ وہ اب بھی کبھی کبھی اُس انگوٹھی کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھا کرتا ہے کہ جس میں اُسے بند کیا گیا تھا، وہ انگوٹھی زیادہ احتیاط سے رکھنا شروع کر دی تھی۔ ویسے بھی جس روز اُس کی انگوٹھی سے باہر موجودگی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی، میں اُسے رات کو انگوٹھی میں ہی بند کر دیا کرتا تھا۔ وزیر زادے نے مجھے ایک روز مشورہ دیا کہ میں چونکہ اس بد بخت کی بہم کردہ شراب کچھ زیادہ ہی پی لیتا ہوں ، اس لئے انگوٹھی رگڑنے میں قرار واقعی احتیاط سے کام لیا کروں کیونکہ اُس انگوٹھی کو غلط طرف سے رگڑنے والے کو رگڑ دینے کا استحقاق بہر حال جن کے پاس موجود تھا۔

ایک روز جبکہ ہم اپنے اپنے گھوڑوں کو شہزادی ماہ نور کے ملک کی طرف بھگائے چلے جاتے تھے اور جن مردود سر درد کا بہانہ کر کے انگوٹھی سے نکلنے سے معذرت کر چکا تھا، آدھا دن گزرنے پہ پیاس کی شدت نے حلقوم میں ببول کے پیڑ کھڑے کر دئیے تھے اور گھوڑے بھی اس گرمی کی وجہ سے آشفتہ سری پہ مائل تھے کہ جان بوجھ کے گڑھوں سے بھرے رستے کو اختیار کئے ہوئے تھے جس کی بنا پر میرے پیٹ کی قراقر میرے کانوں تک آ رہی تھی، چنانچہ میں اور وزیر زادہ ایک شجر سایہ دار دیکھ کر چنداں آرام کی غرض سے اُتر پڑے۔ ہری دوب پہ گھوڑوں کو چھوڑ ا اور خود خرجی سے کچھ نکال کے کھانے لگے۔ ابھی دانت غذا پہ اچھی طرح جما بھی نہ تھا کہ توتا اُفتاں و خیزاں ہمارے پاس اُترا اور سیدھا پانی کے کٹورے کے کناروں پہ بیٹھ کے پیاس بجھانے لگا۔ بارے سکون سے ہوا تو یوں گویا ہوا۔ صاحب عالم بس کوس دو کوس کے فاصلے پہ ایک ایسا بیابان شروع ہوا جاتا ہے کہ جس میں دو سَروں والی مخلوق بستی ہے۔ وہ لوگ پرلے درجے کے شورہ پشت ہیں اور اپنی اسی شورہ پشتی کے سبب کسی بزرگ کی بد دعا سے ایک گھاٹی میں ہزار برس کو قید کر دئیے گئے ہیں۔ وہاں سے گزرنا جاں سےگزرنے کے مترادف ہے مگر کیا کیجئے اس کی علاوہ اور کوئی وسیلہ بھی نہیں کہ صرف ایک یہی رستہ بچا ہے کہ جس سے ہمیں گزر نا ہے اور اس راستے کے ختم ہوتے ہی شہزادی ماہ نور کے ملک کی حد شروع ہوتی ہے۔

پہلے خدا کا شکر اور پھر توتے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہم تینوں اس فکر میں غلطاں ہوئے کہ اُس سر زمین سے اپنے سر کیسے بحفاظت بچا کے اپنے مطلوب و مقصود کے ملک تک پہنچا جائے۔ گھوڑے البتہ بالکل لا تعلق دکھائی دیتے تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ اس ماجرے اوراس کے عواقب سے واقف ہو چکے تھے۔ تس پہ مجھے اُن گھوڑوں پہ شدید غصہ آیا اور میں نے ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھ کے اُنہیں ہر قسم کے کلمات فحش کی سان پہ دھرا تو میری توقع کے عین بر عکس معافی تلافی کرنے کے بجائے، میرا گھوڑا بولا۔ ہمارا کام وزن لاد کے بھاگنا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم پہ ایک سروالا چڑھے یا دو سَروں والا۔ بات دُرست تھی اور میں نے جب اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا تو اپنے اُن کلمات نازیبا و ناگفتنی کے لئے جی ہی جی میں شرمسار ہوا لیکن توتے نے یہ کہہ کے اُن خبیث گھوڑوں کی ساری حاضر جوابی ملیا میٹ کر دی کہ دو سَروں والی مخلوق کا من بھاتا کھاجا گھوڑے ہیں۔ تس پہ دونوں گھوڑے ساری چوکڑی بھول گئے اور دھل دھل موتنے کے بعد لگے معافیاں مانگنے اور اپنی جان بچانے کے عوض تمام عمر وفاداری کی قسمیں کھانے لگے۔ چونکہ توتے نے ابھی تک یہ نہیں بتلایا تھا کہ دو سَروں والی مخلوق بنی آدم کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھتی تھی اس لئے وزیر زادے نے اس بارے میں جاننے کو واجب جانا اور جواب سن کر ہم چاروں یعنی انسانوں اور گھوڑوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ توتے نے بتلایا کہ وہ انسانوں کو گھوڑوں سے پہلے کھانے کے شائق ہیں اور اُن کی سرزمین پر ہر دو کے پنجر ہائے استخواں کے ڈھیر دُور سے دِکھتے ہیں کہ جو اُن کی لذت کام و دہن کے کام آئے۔

ہماری وہی مثل تھی کہ زمیں سخت اور آسمان دُور تھا۔ تس پہ میرے گھوڑے نے ایک انتہا درجے کی رکاکت بھری تجویز دی کہ ہمیں وطن کی طرف لوٹ چلنا چاہئے کہ صاحب ایں جنوں است وغیرہ۔ بُشرے سے وزیر زادے کے بھی یہی عیاں تھا کہ وہ گھوڑے کی تجویز پر غور کر رہا تھا لیکن اس موقعے پہ وہ شیر مرد کہ نیرنگی زمانے کے باعث توتے کا روپ دھارن کئے پھرتا تھا۔ ایک طنز سے بولا۔ صاحبو کیا یہی شیوہ مردانگی ہے کہ محبوب دیوارسے جھانکے اور ہر معانی و مطالب کے لذیذ اشارے کرے اور بتلائے کہ اماں ابا پڑوسیوں کی شادی میں دوسرے شہر گئے ہیں اور چھوٹا بھائی بھی ہمراہ ہے اور ایسا موقعہ پھر نہیں ملنے کا، اور عاشق محض گلی کے کتوں کے خوف سے لَوٹ جائے؟ایسا سوچنازمانے بھر کے عاشقوں کی توہین اور اُس جذبے کے اسفل ہونے کی روشن دلیل ہے کہ جسے پیار کہتے ہیں۔ ان کلمات ہمت آور و حوصلہ بخش نے مانو ہم سب میں ایک نیا ولولہ پھونک دیا اور گھوڑے کے ہاتھ محض شرمندگی کے اور کچھ نہ آیا۔

جن نے بے وقت انگوٹھی کھٹکھٹائی تو مجھے گونہ حیرت ہوئی۔ دستور یہ تھا کہ ہم انگوٹھی رگڑیں گے تو جن حاضر ہو گا۔ میں حیران تھا کہ یہ کیسا جن تھا کہ جو خود انگوٹھی سے باہر آنے کو بے تاب تھا۔ انگوٹھی رگڑی ، جن حسب دستور دھواں چھوڑتا ہوا باہر آیا۔ میں نے سبب دریافت کیا تو گونہ خجالت کے ساتھ گویا ہوا۔ صاحب جب بھی ولایتی شراب مقدار سے زیادہ پی، شدت بول نے پریشان کیا۔ معافی چاہتا ہوں کہ اس وقت انگوٹھی سے باہر آنا پڑا لیکن سبب جو بھی تھا بیان کر چکا۔ اب اجازت ہو تو وہ سامنے والے درخت کی آڑ میں بیٹھ کر حاجت رفع کر لوں۔ جن واپس لوٹا تو بشاش تھا اور انگوٹھی میں واپس جانے سے قدرے گریزاں بھی۔ وہیں گھانس پہ بیٹھ گیا اور ہماری صورتوں کو دیکھ کر بولا۔ نصیب دشمناں میں ان صورتوں پہ کہ کیسی زردی کھنڈی دیکھتا ہوں یا پھر یہ میری نظر کی کوتاہی ہے۔ تس پہ وزیر زادے نے توتے سے سنی ہوئی داستان دہرائی اور جن کی طرف مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا۔ جن نے کسی بھی قسم کی مدد سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ اس سلسلے میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا اور ہم وہ تعویذ کیوں کام میں نہیں لاتے کہ جو بزرگ سفید پوش نے ہمیں عنایت کئے تھے۔ تس پہ توتے نے کہ اُس روز کوئی بھی خوش کن خبر سنانے کی قسم کھا چکا تھا شتابی جواب دیا کہ دو سروں والی مخلوق کے جادو کے آگے وہ تعویذ بیکار محض ہیں اور یہ بھی کہ ہم شاید بھول رہے ہیں کہ پچھلی ملاقات میں جب کہ بزرگ سفید پوش اپنے نکاح کے سلسلے میں پریشان تھا، ہمیں واضح لفاظ میں بتا گیا تھا کہ ان تعویذوں کی مدتِ اثر پذیری ختم ہونے کو ہے اور اب ان کا استعمال خطرہ مول لینے والی بات تھی۔ کوئی اور موقعہ ہوتا تو میں ان تعویذوں کی تحریر میں جلعسازی کر کے ان کی مدت بڑھا دیتا کہ وطن عزیز میں کھانے پینے کا تو مذکور ہی کیا، یہ عمل دواؤں تک کے ساتھ ڈنکے کی چوٹ پہ جاری و ساری تھا لیکن اس وقت یہ امر ناممکنات میں تھا اور میری دسترس سے باہر بھی، چنانچہ ہم نے ایک بار جن کو اُمید بھری نگاہوں سے دیکھا۔ تس پہ جن بولا۔ صاحبو ، میں غلام ہوں اس لئے کوئی غلط مشورہ نہیں دوں گا اور چونکہ ایک بار آپ کی نگاہوں میں مردود بھی قرار پا چکا ہوں اور اس سلسلے میں شہنشاہ پریزاداں کے دربار میں اپنی مقعدِ بے لباس پہ دُرے بھی کھا چکا ہوں اس لئے میرا مشورہ کبھی غلط نہ ہو گا۔ میری رائے میں ہم ایک دوسرا راستہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن وہ راستہ میں اُڑ کے چھے مہینوں میں طے کرتا ہوں اور ان گھوڑوں پہ سات برس کا عرصہ لگ جائے گا۔ لیکن اگر بزرگ سفید پوش اس کام کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو یہ امر چنداں مشکل نہیں اور نہ ہی وقت کے زیاں کا کوئی خدشہ ہو گا۔

سات بر س ایک طویل عرصہ تھا اور میری اور شہزادی کی آتش شوق کو سرد کرنے کے درمیان اتنی لمبی مدت نا قابل برداشت تھی چنانچہ ہم نے دو سَروں والی مخلوق کے علاقے سے گزرنے کا ارادہ مصمم اپنے دلوں میں باندھا۔ سچ پوچھئے تو مجھے اُس وقت بزرگ سفید پوش پر حد درجہ کا غصہ تھا لیکن وہ اپنی نئی نویلی بیوی کے ساتھ ہم سے کوسوں دُور کہیں متاہلانہ زندگی کے مزوں میں مست تھا اور اس راہِ مُتَعسَر میں ہماری مدد و کاوش سے معذور بھی۔ وہ رات ایسی بے چینی میں گزر رہی تھی کہ مرغ و ماہی کی سیخ پہ آرام سے گزرتی ہو گی۔ اگلے دن وہ سفر درپیش تھا کہ جس میں جانوں سے گزر جانے کا امکان تھا اور واپسی کی اُمید شاید و باید۔ اسی کیفیت میں سونے کو دراز ہوا۔

نسیم کے جھونکوں نے نیند کے دو چار ہلکورے دئیے کہ خواب نما کیفیت سے دو چار ہوا اور بزرگ سفید پوش کو اپنے سامنے پایا۔ آنکھ کھلی تو در حقیقت ایسا ہی تھا۔ بزرگ سفید پوش کہ آج ایک دوسرے گھوڑے پر سوار تھا، ہمارے قریب کھڑا مسکرا رہا تھا۔ سچ کہتا ہوں کہ ایسی خوشی یعقوب کو یوسف کے ملنے پہ بھی نہ ہوئی ہو گی جیسی اُس وقت مجھے بزرگ سفید پوش کے ملنے کی ہوئی۔ بزرگ سفید پوش سے نیم قد ہو کے ملاتس پہ بزرگ سفید پوش نے بتلایا کہ آج وہ پری رُو شہزادی ماہ نور کی وجہ سے یہاں کھڑا ہے کہ جس نے جام جم نما میں میری پریشانی کو دیکھا اور ایک خاص ذریعے سے بزرگ سفید پوش کو اطلاع کروائی۔ جن کو انگوٹھی سے نکالا اور اُسی وقت ناشتہ لانے کے واسطے روانہ کیا۔ جن چند لمحوں میں کسی نہاری پائے کی دکان سے الم غلم اُٹھا لایا جو بزرگ سفید پوش نے بچ جانے پہ ایک رُمال میں باندھ لیا کہ بیوی کے کام آوے گا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کے گھانس پہ پھینک کے بولا کہ آج شام ہی ایک جن نے مطلع کیا تھا کہ بنانے والے پایوں کو صاف کرنے کےواسطے وہ سفوف استعمال کرتے ہیں کہ جو موئے زِہار کی صفائی کے واسطے استعمال ہوتا ہے ، چنانچہ ہمارا بھی جی برا ہو گیا اور اُن جہنمیوں کے واسطے بد دعا با جماعت کی۔ ہمارے گھوڑوں نے بزرگ سفید پوش کے گھوڑے سے اتنی سی دیر میں یاری گانٹھ لی اور ہوا میں اُڑنے کا گُر جاننے کی سعی کرنے لگے۔ بزرگ سفید پوش نے دستِ غیب سے ایک قالین پیدا کیا اور مسکرا کر بولا۔ یہ قالین بمع موکلوں کے بڑی دُور سے آیا ہے اور یہ کہ اس کے موکلین پرلے درجے کے اسفل پیشہ ہیں ، چنانچہ تمہیں ہشیار کرتا ہوں۔ اب اس پہ تم سب اپنے اسباب سمیت سوار ہوکے وہ سر زمین عبور کرو گے کہ جسے دو سَروں والی مخلوق کی سرزمین کہتے ہیں۔ لیکن اس کی پرواز کے دوران تم میں سے کوئی کچھ ہی دیکھے منہ سے کچھ نہیں کہے گا کہ اس کو اُڑانے والے موکلین انسانی آواز سنتے ہی اسے وہیں چھوڑ دیں گے اور تم اپنے خدشات سمیت ، کہ جن کے بعد ازاں حقیقت بننے میں کوئی شبہ نہ ہو گا، اُس مخلوق کے دسترخوان پہ جا گرو گے۔ چنانچہ ہم سے وعدہ لے کے اور اپنی مسلسل جاری عیش کوشی کے حوالے سے ہمیں ایک ہلکی سی آنکھ مار کے بزرگ سفید پوش اپنے گھوڑے پہ سوار ہوا اور غائب ہو گیا۔ ہمیں حیرت تھی کہ بزرگ سفید پوش کا گھوڑا کیوں غائب نہ ہوا۔ چند ہی لمحوں بعد بزرگ سفید پوش دوبارہ گھوڑے کی پشت پہ ظاہر ہوا اور چیں بجبیں ہو کر بولا۔ او نابکار گھوڑے تُجھے میرے ساتھ غائب ہونے میں کیا میں کیا امر مانع تھا۔ تس پہ گھوڑا شرمندگی سے سر جھکا کے بولا کہ میں غائب ہونے والا منتر بھول گیا تھا۔ ابھی نیا ہوں۔ مشق بہم پہنچاؤں گا تو آپ کے ساتھ ہی غائب ہوا کروں گا۔ بزرگ سفید پوش نے مسکرا کے یہ عذر قبول کیا اور گھوڑے کو کان میں یہ منتر بتلایا جسے ہمارے گھوڑوں نے سننے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ اُن دونوں کے غائب ہو جانے کے بعد ہم نے جن سے ناشتے کے برتن دھلوائے اور اپنا اسباب اُس قالین پہ لادنے لگے۔ جب یہ سارا کام اپنے تکملے کو پہنچ گیا تو گھوڑوں کو سوار کیا۔ جن کو جگہ بنانے کی خاطر انگوٹھی میں جانے کا حکم دیا تس پہ وہ سیر و تفریح کا خوگر بہانے بنانے لگا کہ ہو سکتا ہے ، وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے موکلوں کو میری مدد کی ضرورت پڑ جائے۔ خطرے کے وقت آپ کہاں کمر بند کھول کے انگوٹھی رگڑتے پھرئیے گا۔ بات معقول تھی اس لئے جن کو ایک کونے میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ سب سے آخر میں ، میں بسم اللہ پڑھ کر سوار ہوا اور قالین کو اُڑنے کا حکم دیا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قالین ہوا میں بلند ہوا اور چند ہی لمحوں بعد ہم دو سَروں والی مخلوق کی سر زمین سے گزرنے لگے۔ وہ سرزمین واقعی خبیثوں سے پُر تھی۔ ہم دُور سے دیکھ سکتے تھے کہ آگ کے بڑے بڑے الاؤ جل رہے تھے، جن پہ دیگیں دھری تھیں ، مسالہ جات کے ڈھیر الگ سے تھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں بول سکتا تھا کہ ہم آدم زادے تھے لیکن گھوڑوں اور جن کو بولنے کی آزادی تھی، چنانچہ جن نے گھوڑوں کو مخاطب کر کے بتلایا کہ اگر ہمیں یہ قالین نہ ملا ہوتا اور ہم نے یونہی یہاں سے گزرنے کی کوشش کی ہوتی تو اس وقت ہم ان دیگوں میں ان مسالوں کے ساتھ پک رہے ہوتے۔ دو سروں والے اپنے جادو کے زور سے جان چکے تھے کہ اُن کا ناشتہ قالین پہ اُڑا چلا جاتا ہے ، چنانچہ اُنہوں نے اپنے دو چار موکل ہوا میں بلند کئے کہ ہمارے قالین کو نیچے گھسیٹ لائیں لیکن ہمارا انگوٹھی کا جن اُس وقت ہمارے بڑے کام آیا اور اُس مردود نے نجانے کہاں سے ایک آتشیں گرز نکال کے اُن موکلوں کے ناگفتنی مقامات پہ مار مار کے اُن کی طبیعتیں صاف کر دیں اور وہ چِلاتے، متاثرہ و متذکرہ مقامات کو سہلاتے نیچے کی طرف بھاگ نکلے۔

قالین ہمیں لئے اُڑا جاتا تھا اور گھوڑے ، جن سے باتیں کرتے تھے۔ میں اور وزیر زادہ مونہوں پہ ڈھاٹے باندھے بیٹھے تھے کہ ہماری آواز کان میں پڑتے ہی موکلین قالین کو چھوڑ کے الگ کھڑے ہو جاتے اور ہماری فوری فوتگی پہ ہاتھ جھاڑ کے چل دیتے۔ قالین چندساعتوں کے بعد ایک سرزمین میں اُتر گیا۔ اللہ اللہ کیا دلکش جگہ تھی۔ جگہ جگہ سے پانی کے چشمے جاری و ساری تھے۔ نسرین و نسترن تھے کہ ہر موئے زمین سے پھوٹے پڑتے تھے۔ سبزہ تھا کہ ایک قالین تا حد نظر بچھا ہوا تھا۔ جگہ جگہ لاجوردی پتھروں کے ڈھیر لگے تھے کہ اصلی معلوم ہوتے تھے، اور تھے۔ ہوا کہ جیسے ہوائے جنت ، فضا کہ جیسے باراں سے نہا کے ابھی نکلی ہو۔

ہم ابھی اپنا اسباب قالین سے اُتار ہی رہے تھے کہ ہمارا جن کسی اندیکھی مخلوق سے اُلجھنے لگا۔ ہم جن کی گفتگو سمجھے اور نہ ہی اُس مخلوق کی۔ جن نے وزیر زادے کے کان میں کچھ کہا تس پہ وزیر زادے نے اپنے گلے سے نقرئی مالا کہ جس میں اصلی ہیروں کی لڑی تھی، اُتار کے جن کے ہاتھ میں دی۔ جن نے وہ کسی کو ہاتھ بڑھا کے دی اور وہ ہماری نظروں سے چشم زدن میں غائب ہو گئی۔ جن بڑبڑاتے ہوئے اسباب یکجا کرنے لگا تومیں نے اُس سے اس قصے کو جاننا چاہا تس پہ وہ یوں گویا ہوا۔ اس غلام زادے کی تو تو میں میں اس وقت اس قالین کو اُڑانے والے موکلوں سے ہو رہی تھی جو اول درجے کے بے ایمان اور زبان سے پھر جانے والے ہیں۔ در اصل بزرگ سفید پوش نے جلدی میں کرائے پہ اس قالین کا بندوبست کیا تھا اور اپنی جیب خاص سے ان مردودوں کا عوضانہ بھی پیشگی بھر دیا تھا۔ رستے میں ان کی نظر وزیر زادے کی مالا پہ پڑی اور یہاں پہنچنے کے ساتھ ہی اُنہوں نے مزید کرائے کا مطالبہ کر دیا۔ سبب اس کا وہ یہ بتلاتے تھے کہ اُن سے کہا گیا تھا کہ فاصلہ چند فرسخ ہو گا جبکہ اُنہیں آدھا دن پرواز کر کے وہ مقام وحشت عبور کرنا پڑا اور چونکہ وہ قالین کو اپنے کندھوں پہ لئے پرواز کرتے تھے اور دو سر والی مخلوق کی براہ راست زد میں بھی تھے چنانچہ اُس مخلوق کے فرستادہ موکلوں نے اُن کے ساتھ بھاگتے چور کی لنگوٹی والا واقعہ محاورتاً سچا کر دکھایا تھا اور اُن کے عیوب میں برہنگی کا ٹانکا بھی لگا دیا تھا اور آقا یہ غلام سچ کہتا ہے، چاروں موکلین میرے سامنے جس حالت میں کھڑے تھے، وہ ناگفتنی ہے۔ اگر میں وزیر زادے کی مالا دے کر اُن خبیثوں کے منہ نہ بند کرتا تو وہ واپس ہمیں وہیں پہنچانے کی دھمکی دے رہے تھے کہ جہاں سے لائے تھے۔ اگر جن سچا تھا تو بلائے گزشت والا معاملہ سمجھ کے آگے کی فکر کرنی ضروری تھی۔

ہم نے اُس سرزمین کے چشموں سے پانی پیا، غسل کیا اور جن کو پہرے داری پہ مقرر کر کےسو گئے۔ ابھی سوتے ہوئے چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ زمین کے ہلنے کی آواز نے ہڑ بڑا کے اُٹھ کھڑے ہونے کو مجبور کر دیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عفریت (جو بعد میں بھی یہی ثابت ہوا) اپنے ایک سینگ پہ ہاتھ پھیرتا، زمین کو روندتا چلا آتا ہے۔ وہ پانی کے کنارے ٹھہر گیا اور لگا ہم سب کو اپنی بڑی بڑی سرخ آنکھوں سے گھورنے۔ امداد کو اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو کسی مونس کو قریب نہ پایا۔ گھوڑے، وزیر زادہ اور توتاسبھی مجھ سے دُور ایک بڑے سے درخت کی آڑ میں کھڑے کانپ رہے تھے۔ جن غائب تھا۔ سوچا یا الہٰی اس نابکار سے کیسے نمٹوں۔ تلوار کے قبضے پہ ہاتھ رکھا تو اُسے (ہاتھ کو) کانپتے پایا۔ اپنے اُن آبا کو یاد کیا کہ جنہوں نے ایک پوری سلطنت پہ بزور و بذریعہ شمشیر قبضہ کیا تھا اور حیرت کی جگہ خود میں غیرت بیدار کرنے کی سعی ناکام کی۔ اتنے میں وہ نابکار میرے سر پہ آن کھڑا ہوا اور اپنے سینگ پہ ہاتھ پھیر کے بولا۔ سنتا ہوں تم دونوں میں سے کوئی ایک شہزادی ماہ نور کا عاشق اوراُس سے نکاح کا خواہاں ہے۔ کون ہے وہ؟اس مرتبہ ایک بار پھر وزیر زادے نے جان پہ کھیل کے ایک جھوٹ گھڑا اور اپنی جانب اشارہ کر کے بولا۔ میں ہوں وہ، اس سوال کا مقصد کیا ہے۔ تس پہ وہ مردود مسکرایا اور وزیر زادے کو دیکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا اور ایک پھونک اتنی زور کی ماری کہ چند لمحوں کو ہم سب فضا میں پرواز کر کے بخیر و خوبی زمین پہ اُترے۔ اب کی بار وہ نابکار مجھ سے مخاطب ہوا اور بولا۔ میں نے یہ پھونک بلا سبب نہیں ماری۔ میرے جادو نے واضح کر دیا ہے کہ تُو اُس ماہ لقا کا عاشق اور یاروں کا رقیب رو سیاہ ہے۔ اب تیرے سامنے دو رستے ہیں۔ شہزادی کے عشق سے تائب ہو کے اپنے وطن کو لوٹ جا یا پھر میرا مقابلہ کر۔ میں کسی تیسرے راستے سے مایوس ہوا اور اُس نابکار کا خوف دل پہ حد درجہ طاری ہوا اور ایک ساعت کو جی میں آئی بھی کہ اگر جان ہے تو ماہ نور جیسی اور بھی مل جائیں گی کہ یہ دیو یقیناً مجھ سے قد ہی میں پانچ گنا نکلتا ہوا تھا اور اپنے سینگ پہ جو ں جوں ہاتھ پھیرتا تھا وہ ووں ووں آبدار ہوتا جاتا تھا۔ پھر موروثی و آبائی غیرت نے جسم میں لہر لی۔ سوچا شِغال اور شیر والی مثال کو سامنے رکھا چاہئے۔ چنانچہ میں نے تلوار بے نیام کی اور ڈپٹ کے بولا۔ او گیدی تُو نے مجھے سمجھا کیا ہے۔ ہم عاشق ہیں اور عاشق جان کی بازی لگاتے ہیں تو کہیں جا کے یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کر لے جو تیرا جی چاہے۔ میں شہزادی پہ یہ مشت خاک کہ جسے جسم و جاں کہتے ہیں وارنے کا ارادہ کر کے گھر سےنکلا ہوں۔ چاہتا تھا کہ اُس مردود پر وار کروں لیکن وہ ایک قدم پیچھے ہٹا، مسکرایا اور گویا ہوا۔ آقا میں شہزادی کا فرستادہ ہوں اور شہزادی نے آپ کا امتحان لینے کے واسطے مجھ نا ہنجار کو بھجوایا ہے۔ مبارک ہو کہ آپ امتحان میں پورے اُترے۔ اب شہزادی کا دیدار کرنے میں راہ کی کوئی مشکل مانع نہیں۔ چاہیں تو ابھی تشریف لے چلیں۔ یہ کلمات سننا تھے کہ میرے تن مردہ میں گویا نئی جان پڑ گئی۔ گھوم کے اپنے ساتھیوں کو دیکھا تو سبھی کو شاداں و فرحاں پایا بلکہ جن تو ایک گھوڑے کی اگلی ٹانگیں اُٹھائے اُس کے ساتھ ناچنے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ میں اُسی وقت سجدہ ریز ہوا اور دوگانہ ادا کیا کہ شہزادی کے پیار کے پہلے امتحان میں پورا اُترا۔ دیو اس اثنا میں گھانس پہ اُلٹا لیٹ چکا تھا اور پرواز کے لئے تیار تھا۔ ساتھیوں کی طرف مشورہ طلب نگاہوں سے دیکھا۔ وزیر زادہ آگے بڑھا اور بولا۔ اگر مزاج یار یہی ہے کہ آقا اسی وقت ملاقات کریں تو ہم سب کی طرف سے بہت بہت مبارک ہو۔ چنانچہ جلد واپس آنے کا کہہ کر دیو کے شانے پہ سوار ہوا اور وہ کمبخت کچھ ایسے بے ڈھنگے انداز میں اُڑا کہ میں گرتے گرتے بچا۔ تس پہ دیو نے فوراً عذر خواہی کی کہ وہ سواریوں والا دیو نہیں اور یہ کام بہ امرِ مجبوری کر رہا ہے۔ دیو کی باقی کی پرواز پر سکون رہی اور اُس نے آن کی آن میں مجھے شہزادی ماہ نور کے صحن میں جا اُتارا۔

شہزادی کے محل کے آثار میلوں سے دکھائی دینا شروع ہو چکے تھے اور جب دیو نے بلندی چھوڑ کے اپنا سر زمین کی جانب کیا تومیں خود کو گرنے سے بچانے کو بڑی مشکل سے اُس عفریت کا سینگ تھامے کھڑا رہا لیکن وہ بلا کا چابکدست دیو تھا، ترنت ہی اُتر گیا اور میں نے جیسے ہی اُس کو اپنے وزن سے سبکدوش کیا، نجانے کس کونے میں چپکے سے سٹک گیا۔ صحن سے ملحق ایک باغ تھا اور شہزادی اُسی باغ میں میری منتظر تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حسینوں کا ایک پرا ، ہنستا ، کھیلتا، بولتا، ناچتا، گاتا میری جانب چلا آتا ہے۔ بیس پچیس حسیناؤں میں ہر ایک اس قابل کہ حبالہ نکاح میں لانے کو جی مچل اُٹھے۔ ایک دوسری کو دھکے دیتی اور مذاق کرتی وہ سب کی سب میرے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ ایک کہ افسرخوباں کے عہدے پہ متمکن ہونے کے قابل تھی، مجرا کر کے بولی۔ اجی جناب کھڑے کیا ہیں۔ چلئے کہ ہماری شہزادی آپ کے فراق میں گھل گھل کے ہڈیوں کا ہار ہو گئی ہیں۔ الگنی پہ ٹانگنے کے قابل۔ تس پہ وہ سب کی سب یوں کھلکھلا کے ہنسیں ، مانو بہت سی مہتابیاں ایک ساتھ چھٹتی تھیں۔ دوسری نے کورنش بجا لا کر کہا۔ جناب آپ کی صورت ہی ایسی ہے کہ جس روز سے شہزادی نے دیکھی ہے، فقط اشک خوں پہ گزارا ہے۔ غم دل کھاتی اور آہ سرد یوں بھرتی ہیں کہ ہم سب جاڑے سے ٹھٹھرائی پھرتی ہیں۔ تس پہ ایک قہقہہ اور پڑا اور میں اُس ہجوم میں ، کہ باکرہ و غیر مدخولہ انبوہ دل کش کے سوا اور کچھ نہ تھا، اور اُن جنگلی پھولوں کی خوشبو جن کے گلابی پنڈے سے پھوٹی پڑتی تھی کہ جنہیں انسانی نظر نے، اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی چھوا تھا، چغد بنا چلا جا رہا تھا۔ شہزادی میری طرف سے پیٹھ کئے بیٹھی تھی مگر حُسن کی ضو تھی کہ مجھے چہرہ دیکھے بنا ہی پھونکے ڈالتی تھی۔ سہیلیاں نہ جانے کدھر کو ہو لیں اور اب میں اور وہ بت طناز خلوت میں تھے۔ میں نے کہا۔ اجی ہم کتنے جوکھم سے گزر کے اور قدم قدم پہ اس جان ناتواں کو خطروں میں ڈالتے اب آپ کے حضور میں پیش ہوہی گئے ہیں تو یہ پردہ کیسا۔ ذرا رُخ اِدھر گھمائیے اور اُس شربت دیدار کا ایک گھونٹ پلوائیے کہ جسے پینے کو ہم مرے جاتے ہیں۔ تس پہ وہ تڑخ کے بولی۔ کون تھی وہ نگوڑی کہ جس کا بوسہ لیا تھا۔ میں حق دق کھڑا تھا کہ اسے ابھی تک وہ واقعہ یاد ہے۔ مسکرا کے کہا۔ حضور میں اس واقعے کی صراحت کر چکا ہوں اور تمہارے حُسن کے دربار سے معافی کا پروانہ بھی بذریعہ جن حاصل کر چکا ہوں۔ بیتی پہ خاک ڈالئے اور دیدار کروائیے۔ وہ بولی۔ میں ایسے نہیں ماننے کی۔ پہلے ثبوت دینا ہو گا کہ وہ کلمونہی تمہاری کچھ نہیں لگتی۔ میں نے جی میں سوچا۔ ملن کی اس گھڑی میں یہ سُوت کے بنولے کئے دے رہی ہے، خوشامدانہ بولا۔ جس کی قسم کہو کھانے کو تیار ہوں۔ کہو تو اسی وقت زہر سے بجھے اس خنجر سے اپنی جان لے کے تمہارے قدموں میں اپنا لاشہ وار دوں تب تمہیں یقین آئے گا۔ تس وہ تڑپ گئی اور اپنا رُخ میری جانب کیا۔ صاحبو کیا کہوں ، کیسا حسن تھا۔ چہرے پہ ایسی ملاحت کے نمک کی کانیں شرما جائیں۔ رنگت وہ کہ گلاب چھپنے کو کونے کھدرے ڈھونڈیں۔ وہ روشنی کے چاند بے چارہ گریبان چاک کر لے اورمسکراہٹ ایسی کہ بجلیاں گرنا بھول کے فرط حیرت سے منہ کو تکے جائیں۔ غرض جیسا سنا تھا اُسے بڑھ کے پایا۔ چاہتا تھا کہ بے ہوش ہو جاؤں مگر پھر یہ سوچ کے ارادہ فسخ کیا کہ چند لمحوں کی فرصت ہے اور یہاں ہر قسم کا پھول اور ہر نوع کی بوٹی ہے مگر لخلخہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ چنانچہ جھکنے کو کافی جانا۔ پھر خلوت میں راز و نیاز ہوئے کہ جن کا تذکرہ میں مناسب نہیں سمجھتا۔ ابھی ہم ایک دوسرے سے حال دل کہہ ہی رہے تھے کہ اُس کی سہلیوں میں سے ایک نے آ کر یہ روح فرسا خبر سنائی کہ مجھے واپس لے جانے کو جن حاضر ہے اور واپسی کو دُند مچا رہا ہے۔ اب شہزادی نے میرے سامنے پہلا سوا ل رکھا اور کہا اب میں تم سے اُس وقت ملوں گی جب تم پہلے سوال کا جواب لے کے کامران لوٹو گے اور مجھے یقین ہے کہ تم ساتوں سوالوں کے جواب لے آؤ گے کہ تمہارا جذبہ کھوٹ سے خالی ہے۔ ہمارے تمہارے درمیان رشتہ مناکحت اور اُس کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے سلسلہ لذائذ کا دار و مدار ان سوالوں کے حل میں پوشیدہ ہے۔ بعد ازاں اُس نے میرے بازو پہ امام ضامن باندھا اور پہلا سوال دہرایا اور اس نوع کا پرچا بھی دیا۔

 

شہزادی کا پہلا سوال:لالچی کا شکم کیا شئے بھرتی ہے؟

 

میں یہ پہلا سوال سن کر چکرا گیا اور گمان کیا کہ شہزادی سے سوال کرنے میں غلطی ہوئی ہے اور اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ تس پہ شہزادی مسکرائی اور بولی کہ بلا شبہ یہی سوال ہے اور تمہیں اسی کا جواب ڈھونڈنا ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کو فقط تین ماہ کی مدت ملی اور میں شہزادی سے بہ چشم نم رخصت ہوا اور اُسے بھی اسی حالت میں پایا۔ مجھے جدائی کے صدمے نے اس قدر رقیق القلب اور کور چشم کر رکھا تھا کہ بجائے جن کی پیٹھ پہ سوار ہونے کے ، اُس کی ٹانگوں پہ چڑھ گیا اور وہ مردود کہ ذات کا بھانڈ بھنڈیلہ معلوم ہوتا تھا ، ہنس کے بولا۔ صاحب ، چڑھنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں ، یہ وہ جگہ نہیں ہے۔ الغرض جن فوراً پرواز کر گیا اور مجھے اپنے ساتھیوں میں لوٹا کے شتابی واپس ہوا۔

یہاں ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وزیر زادے کے سامنے ایک حسین نوجوان کہ عمر میں مجھ سے دو چار برس چھوٹا ہو گا، بیٹھا انگور کھا رہا ہے۔ سوچا اس جنگل میں تیسرا آدم زاد کہاں سے آ گیا۔ ابھی اپنی حیرت کو لفظوں میں ڈھالنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ وزیر زادے نے مبارک باد دیتے ہوئے بتلایا کہ یہ ہمارا یار توتا ہے جو ابھی ابھی اُس طلسم سے آزاد ہوا ہے کہ جس میں اسے اس کی کٹنی سوتیلی ماں نے بندھوایا تھا۔ یہ بے شک خوشی کی گھڑی تھی، چنانچہ اُس سے بغل گیر ہوا اور اپنے ساتھیوں کے سامنے شہزادی کا پہلا سوال رکھا۔ انگوٹھی سے جن کو بھی برامد کر کے مشورے میں شامل کیا۔ گھوڑے یہ سوال سن کر بد تمیزی سے ہنسے لیکن اُنہیں دیدار یار کی خوشی میں معاف کیا لیکن اس تقصیر کو لوح دل پہ رقم کیا اور اس ارادے کو مزید مصمم بھی کہ وطن لوٹتے ہی ان خبیثوں کو آختہ کروانے کی قسم ضرور پوری کروں گا۔ جن نے تھوڑی دیر کے بعد بحث سے اُکتا کر کہا کہ اگر اجازت ہو تو وہ ولایتی کا بندوبست کرے کہ ہمارے مسلسل ساتھ کی وجہ سے وہ اب کچھ بھی اُس وقت تک نہیں سوچ سکتا جب تک چند گھونٹ ولایتی کے حلق سے نہ اُتار لے۔ چنانچہ جن کو اجازت دی اور وہ چند ہی لمحوں میں ولایتی لے کے حاضر ہو گیا۔ توتا کہ جس بارے میں میرا خیال تھا کہ وہ ایک زاہد اور صالح نوجوان ہے اور ان شرعی عیبوں سے پاک بھی، بلا کا بِلا نوش نکلا اور اپنے توتے پن کے دنوں کی کسر نکالنے لگا۔ ہم رات کے آخری پہر تک پیتے رہے لیکن کسی نتیجہ پہ نہ پہنچے تو سو گئے۔

اگلی صبح پچھلی شام سے زیادہ سہانی تھی، طیور یوں چہچہا رہے تھے کہ سماں بندھا ہوا تھا۔ ہوا تھی کہ اٹھکھیلیاں کرتی اور ایسی خوشبوسے نہائی ہوئی معلوم دیتی تھی جیسے ابھی کوئے یار سے گزر کے آئی ہو۔ ہر شئے حسین بلکہ حسین تر لگ رہی تھی لیکن جلد ہی کھِلا کہ یہ پچھلی رات کی مئے ناب کا اثر تھا، جو جیسے ہی ڈھلا شہزادی کے سوال کے پورا کرنے کی فکر دامنگیر ہوئی۔ اِدھر اُدھر نگاہ کی تو ساتھیوں کو خواب غفلت میں پایا اور جن کو غیر حاضر۔ بارے گمان گزرا کہ وہ کمبخت شاید ایک بار پھر دغا دے گیا ہے لیکن جن اچانک ہی وارد ہوا اور دونوں ہاتھوں سے اُس گٹھری کی گرہیں کھولنے لگا کہ جس میں وہ ہمارے لئے ناشتہ لایا تھا۔ جن کے ناشتے چننے کے دوران میرے دونوں ساتھی بھی بیدار ہوئے اور منہ ہاتھ دھو کے ناشتے پہ بیٹھے۔ عجیب ناشتہ تھا ، ہم کھاتے اور سَیر نہ ہوتے تھے۔ ناشتہ ختم کیا تو ایسی غنودگی طاری ہوئی کہ سب اپنی اپنی جگہ ڈھلک لئے۔ آنکھ کھلی تو سورج خم خانہ گردوں کا نصف سفر طے کر چکا تھا۔ جن بھی ایک طرف لڑھکا پڑا تھا۔ میں حیران و پریشان تھا کہ یہ کیسا ناشتہ تھا جس نے ولایتی سے بڑھ کے کام کیا تھا۔ جن کو ہشیار کیا اور سبب دریافت کیا۔ تس پہ وہ مردود مسکرا کے بولا۔ آقا میں یہ ناشتہ ایک شہر انتخاب لاہور سے لایا تھا۔ پوچھا وہاں خلق خدا ایسا ہی ناشتہ کرتی ہے تو کاروبار حیات کیسے چلاتی ہو گی۔ جن بولا۔ حضور وہاں کا کاروبار حیات ہی یہی ہے کہ آدھے ناشتہ بناتے اور آدھے کھاتے ہیں۔ جن کو دوبارہ ایسا خواب آور ناشتہ لانے سے منع کیا اور ساتھیوں کے ساتھ بارے اطمینان سے بیٹھ کر ایک بار پھر یہ سوال زیر بحث لایا کہ شہزادی کا سوال کیسے حل ہو اور اس کے لئے کس سمت کا سفر اختیار کیا جائے۔ وزیر زادے نے اس سوال میں فنی خرابیاں تلاش کرنے کی کوشش کی تس پہ میرا جلال شاہی غیض کی صورت اختیار کیا ہی چاہتا تھا کہ شہزادہ توتے نے بات کو سنبھال لیا اور گویا ہوا کہ شہزادی سے اس سوال کی صراحت کروائی جا چکی ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سوال اپنی اصلی صورت میں ایسا ہی ہے۔ چنانچہ قرعہ فال کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ شمال کا سفر اختیار کیا جائے۔ لیکن فوراً ہی تیسری سواری کا مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ شہزادہ توتا بھی ہمارا ہم سفر تھا۔ گھوڑوں کی طرف دیکھا تو وہ ہم بہو بیٹیاں بھلا یہ کیا جانیں کی عملی تفسیر دکھلائی دئیے۔ جن سے اس مسلئے کو حل کرنے کو کہا گیا تو اُس نے فوری معذرت کر لی کہ اتنی جلدی گھوڑے کا بندوبست کرنا اُس کے دائرہ اختیار میں نہ تھا۔ تس پہ وزیر زادے نے بگڑ کر کہا کہ ابے گیدی تُو کس قسم کا جن ہے۔ اتنا معمولی سا کام نہیں کر سکتا۔ جن نے کہا حضور مجھ بےکس پہ ناحق کیوں بگڑتے ہیں ، سر دست میں ایک گھوڑی کا بندوبست کر سکتا ہوں لیکن آپ خود ہی کئی بار اپنے گھوڑوں کی بد چلنی کے فسانے سنا چکے ہیں ، چنانچہ میں کسی قسم کا فساد برپا نہیں کرنا چاہتا، آگے آپ کی مرضی کہ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

گھوڑوں کی سابقہ حرکات اسفلیہ کو مد نظر رکھ کر دیکھا جاتا تو جن کی بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی۔ اور گھوڑوں کی قدرتی بناوٹ اور سماجی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ اگر واقعتاً کوئی گھوڑی ہمارے کارواں میں شامل ہو جاتی تو گھوڑوں پر کسی قسم کی حد بھی نافذ نہیں کی جا سکتی تھی چنانچہ جن کی بات کو در خور اعتنا گردانا گیا۔ یہ سب تو اپنی جگہ تھا، شہزادے توتے کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا۔ وزیر زادے نے پہلے دن اپنے گھوڑے کو بمشکل اس پر آمادہ کیا کہ اُس کا گھوڑا دو آدمیوں سے خود کو زیر بار کرے، تس پہ گھوڑے نے رفتار تیز نہ ہونے کی صورت میں چابک کے استعمال کو ممنوع قرار دلوایا اور ہم جانب شمال روانہ ہوئے۔

جن زیادہ تر انگوٹھی میں ہی بند رہتا تھا اور عرق النسا کی شکایت کرتا تھا، صرف کھانے کے وقت اُڑتا اور کہیں سے خوان نعمت لے آیا کرتا تھا اور ہم سب سے زیادہ شدت سے کھایا کرتا تھا۔ وزیر زادے نے پہلے اسے جُو ع الکلب اور پھر جُوع البقر قرار دیا اور ہم نے جن سے صاف کہہ دیا کہ حضت آپ اپنے لئے علیحدہ سے بندوبست کیجئے کہ آپ کی وجہ سے ہم نیم شکمی کا شکار ہوئے جاتے ہیں۔ جن نے بعد ازاں اپنے لئے الگ سے ایک خوان نقرئی کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔ ایک روز کھانے لے کے لوٹا تو ہمیں یہ مژدہ جانفزا سنایا کہ بزرگ سفید پوش ہماری طرف اُڑا چلا آتا ہے اور چونکہ اُس کے گھوڑے کی رفتار اور جن کی رفتار میں بُعدِ مشرقین ہے اس واسطے ابھی اُسے پہنچنے میں وقت لگے گا۔ ہمیں سفر کرتے پندرہ روز سے کچھ کم ہوئے تھے اور ابھی تک سوال ہی ہماری سمجھ میں ایسے نہ آیا تھا کہ جیسے سمجھ میں آنے کا حق تھا، چنانچہ میں ہمہ وقت اختلاج کی سی صورت میں خود کو پاتا تھا۔ بارے بزرگ سفید پوش کی آمد کی خبر ہوئی تو مانو سوکھے دھانوں میں پانی پڑا۔ ہم کھا پی کے نچنت ہوئے ہی تھے، کہ بزرگ سفید پوش آن براجا۔ اُس کا گھوڑا چست لیکن بزرگ سفید پوش سست دکھائی دیتا تھا۔ وزیر زادے نے اس کا سبب دریافت کیا تو اُس نے فقط گھورنے پر اکتفا کیا لیکن جب شہزادے توتے نے بھی استفسار کیا تو وہ بولا۔ کچھ باتوں کی پردہ داری مرد شریف پر لازم ہوتی ہے۔ مجھے اس لئے یہاں بھجوایا گیا ہے کہ تمہیں منزل کی طرف ڈال دوں ، تم لوگ ابھی تک غلط سمت میں سفر کرتے رہے ہو اور یہ وقت اکارت گیا سمجھو۔ اس انکشاف نے مانو میرے سینے میں برچھی سی ماری۔ گویا اب شہزادی ماہ نور کے سوال کو پورا کرنے میں ڈھائی مہینے سے کچھ کم وقت رہ گیا تھا۔ بزرگ سفید پوش نے جب استفہامیہ نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا تو میں اُس کا مدعا پا گیا اور ولایتی کی ایک بوتل جو رات کے استعمال کے ارادے سے الگ رکھ چھوڑی تھی، اُس کی نذر کی۔ بزرگ سفید پوش جب وہ کر چکا کہ جو وہ اس بوتل کے ساتھ کر سکتا تھا اور اُس کی آنکھوں میں لال ڈورے تیرنے لگے تب وہ بولا۔ شہزادی کا سوال دہراؤ۔

میں نے سوال دہرایا کہ لالچی کا شکم کیا چیز بھرتی ہے؟ تس پہ وہ مرد پر اسرار مسکرایا اور گویا ہوا۔ بلا شبہ یہ ایک مشکل سوال ہے اور تمہیں اس سوال کے جواب پہ مبنی ایک قصہ سننے کو ملے گا اور اُسی میں اس سوال کا جواب مضمر ہو گا۔ میں سر دست اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔ یہ عقدہ لاینحل ، حل ہوتے ہی میں نے بزرگ سفید پوش کے ہاتھ چوم لئے اور ولایتی کی آخری بوتل بھی اُس کی نذر کر دی۔ دوسری بوتل کو چندے زیر استعمال لا کے اور بعد ازاں بقیہ کو نیفے میں احتیاط سے ٹُوم کے بزرگ سفید پوش بولا۔ یہاں سے ہزار فرسخ کی مسافت پہ ایک پہاڑ ہے۔ اُس پہاڑ کے پار ایک قوم رہتی ہے۔ تمہیں اُس قوم کو پہچاننے میں چنداں دشواری نہیں ہو گی ، کہ وہاں کا ہر فرد خود کو غیور، جری، ایماندار، سچا، فراخ دل، مہمان نواز اور خدا ترسمجھتا ہے لیکن معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔ وہاں کمزوروں کے لئے اور قوانین اور طاقتوروں کے لئے جدا قانون ہے۔ وہاں کی سرزمین سونا اُگلتی اور ہوا سے چاندی ٹپکتی ہے مگر اُس پہ حق وہاں کے طاقتوروں کا ہے۔ وہاں قانون بکتا اور انصاف کا سودا ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں سچ ، ایمانداری ، خدا ترسی اور رحمدلی کا سبھاؤ اختیار مت کرنا کہ وہ تمہاری گردنیں پشت کی جانب سے کاٹ ڈالیں گے۔ میں اس وقت تمہیں یہی انتباہ کرنے آیا تھا کہ اُس سمت کو نہ جانا۔ میں اب چلتا ہوں کہ جب سے شادی کی ہے، میری زوجہ نے میرے آنے جانے کے اوقات کا جدول بنا کے رکھ دیا ہے۔ خیر وہ بھی اتنا غلط نہیں کر تی، غیر متاہلانہ دور حیات میں جو جو حماقتیں کی ہیں ، اُن کی اُسے سب خبر ہے۔ یہ کہہ کر بزرگ سفید پوش ہم سے رخصت ہوا اور ہم اگلے سفر کے لئے کمرکسنے لگے۔

ابھی ہم اپنی کمریں پوری طرح کس بھی نہ پائے تھے کہ اچانک دلکی کی آواز کان پڑی۔ ہم سے زیادہ ہمارے گھوڑے ہشیار ہوئے اور ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے لیکن اُن کی تمناؤں پر بجلی گری اور ہمارے سوکھے دھانوں میں پانی پڑا جب دیکھا کہ ایک نوجوان کہ جس کے چہرے سے شرافت، آنکھوں سے نقاہت اور حلیے سے رکاکت ٹپکتی تھی، اس حال میں ہماری طرح بڑھا آتا ہے کہ ایک گھوڑے پہ خود سوارہے اور دوسرا گھوڑا ساتھ گھسیٹے لئے چلا آتا ہے۔ قریب آنے پر وہ نوجوان اپنے گھوڑے سے گرا ہی چاہتا تھا کہ وزیر زادے نے لپک کے اُسے تھاما اور خاک چاٹنے سے بچا لیا۔ نوجوان کی تھکان اور چہرہ ایک ساتھ کہہ رہے تھے کہ دنوں سے اُس کے منہ میں کھِیل اُڑ کے نہیں گئی اور پانی کی صورت نہیں دیکھی۔ اُس کے حلق میں دو بوندیں پانی کی ڈالیں اور بعد ازاں کچھ کھلایا پلایا۔ اُس کے گھوڑے ہمارے گھوڑوں سے رل مل گئے تب ہم نے اس بیابان میں اُس کی آمد کا سبب پوچھا تس پہ وہ گویا ہوا۔

صاحبو میں یہاں سے بہت دُور ایک ملک سیستان کا رہنے والا ہوں۔ باپ میرا سوداگر تھا اور اتنا کامیاب کہ ہمارے گھرکی کنڈیاں اور تالے تک نقرئی تھے چنانچہ چور کبھی گھر کے اندر داخل نہیں ہوتے تھے، جو بھی منہ کالا کرنا ہوتا تھا، باہر ہی سے کر لیتے تھے۔ میرے دو بھائی اور بھی ہیں اور میں خود کو برادر خورد کہلواتا اور ہوں ، تو مجھ سے اُن کا وہی سلوک تھا جس کے لئے کوئی عقلمند کہہ گیا ہے کہ سگ باش ، برادر خورد نہ باش۔ میرے دونوں بڑے بھائی ویسے ہی ہیں جیسی اُن زر داروں کی اولاد ہوا کرتی ہے کہ جو اُنہیں فقط سونے کا نوالہ کھلاتے ہیں ، اُس جانور کی آنکھ سے نہیں دیکھتے کہ اب جو فقط چڑیا گھروں میں پایا جاتا ہے یا جس کا لاحقہ اپنے ساتھ کچھ لوگ لگایا کرتے ہیں اور اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں کہ والدہ محترمہ جنگل گئی تھیں یا جو وقوعہ پیش آیا تھا ، اُس کا مقام اُن کا اپنا گھر تھا۔ بہرحال اس جملہ معترضہ کے بعد یوں داستان گزاشت ہوتا ہوں کہ ایک روز میرے باپ نے جب کہ وہ ایک طویل سفر پر جانے والا تھا اور میری ماں کو بھی ہمراہ لے جا رہا تھا، ہم تینوں بھائیوں کو اپنی خدمت میں حاضر کرا اور یوں گویا ہوا۔ تم تینوں مجھے جان سے زیادہ عزیز ہو۔ اب کی بار ایک ایسا سفر درپیش ہے جو طویل بھی ہے اور خطر ناک بھی۔ چاہتا ہوں کہ احکام خداوندی اور شریعت محمدیؐ کے بموجب تم میں اپنا ترکہ تقسیم کروں۔ تم دونوں بڑے ہو اور یہ چھوٹا ہے لیکن اللہ رسول کا حکم ہے کہ میں جو بھی ہے اُسے عین انصاف سے تقسیم کروں اور کسی کی عمر اور تجربہ ہرگز خاطر میں نہ لاؤں۔ چونکہ یہ تمہارا بھائی مجھے اور تمہاری ماں کو بہ سبب طفلی اور معصومیت زیادہ عزیز ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم اس سے وہ سلوک نہ کرو جو فی زمانہ لوگ اپنے چھوٹے بھائیوں کےساتھ کرتے ہیں۔ اسے بھی وہی کھلانا جو تم کھاؤ اور یہی حال پہناوے کا بھی رکھنا۔ تس پہ میرا منجھلا بھائی بولا۔ ابا جان آپ کی نصیحت اور آپ کے انداز بیان کو دیکھتے ہوئے یہ وصیت سر آنکھوں پر لیکن یہ ابھی چھوٹا ہے۔ نا سمجھ اور نا تجربہ کار ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ اس کا اثاثہ بھی ہم دونوں پر برابر تقسیم کر دیں۔ ڈرتا ہوں کہ یہ اپنی ناسمجھی کے سبب اس کی کوڑیاں نہ کر دے۔ ابھی منجھلے کی بات پوری طرح ختم نہ ہوئی تھی کہ بڑا یوں گویا ہوا۔ میں منجھلے کی بات کی تائید کرتا ہوں اور یہ خوف ہم دونوں کو بلا سبب نہیں ہے۔ چنانچہ دیر نہ کیجئے اور ہم سے اس نوع کی ایک تحریر ابھی لے لیجئے کہ ہم اسے اپنی اولاد کی جگہ سمجھیں گے اور اس کے حق میں آپ ہمیں ہر گز نا انصاف نہ پاویں گے اور جب یہ سن بلوغ کو پہنچے گا تو ہم اس کا حصہ اس کے حوالے کر کے دنیا اور آخرت کی سُرخروئی سمیٹیں گے۔ میرا باپ یہ تجویز سن کر مخمصے میں پڑ گیا اور لگا میری ماں کو تکنے۔ میری ماں بھی چونکہ مجھے کودکِ ناداں سمجھتی تھی چنانچہ اُس نے بھائیوں کے فیصلے پر لبیک کہا اور یوں میرے باپ نے ایک تحریر میرے دونوں بھائیوں سے لی اور خود عازم سفر ہوا۔

میں اپنے بھائیوں کے ساتھ والدین کو رخصت کرنے گیا اور جب تک جہاز نے لنگر نہ اُٹھائے اور بادبان نہ چڑھائے میں نم آنکھوں سے وہیں کھڑا رہا۔ بعد ازاں جب جہاز روانہ ہو گیا اور سمندر کا حصہ بن گیا۔ ہم تینوں نے گھر کی راہ لی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب گھر پہنچتے ہی میرے بھائیوں نے تین حبشی غلاموں میں سے ایک کو ترنت بازار میں بیچ دیا کہ وہ مجھے اُس کی جگہ دینے والے تھے۔ میں نے بھائیوں کی اس زیادتی پہ احتجاج کیا تو بڑا بولا۔ دو غلام ہم تینوں کی خدمت کو کافی سے زیادہ ہیں اور تم ابھی بچے ہو، اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے ڈھنگ سیکھو تاکہ آڑے بینڈے وقت میں کام آوے۔ میں بڑے بھائیوں کو بجائے پدر سمجھتا تھا اس لئے چپکا ہو رہا۔ جلد ہی بھائیوں نے اپنے ہاتھ پیر نکالنا شرو ع کئے اور باپ کی دکان پہ مجھ سے ہر وہ اسفل کام کروانے لگے کہ جو ایک بڑے سوداگر بچے کے شایاں نہ تھے۔ میں گاہکوں کو قہوہ پانی پلاتا، اُن کے لئے کھانے کے خوان سر پہ رکھے بازار سے لاتا اور جب بھی رموز سوداگری سیکھنے کی کوشش کرتا ، میرے بھائی مجھے وہاں سے اُٹھا دیتے۔ دونوں غلام مجھ سے میرے بھائیوں کے کہنے پہ گفتگو کرنے سے احتراز کرنے لگے۔ سار ا دن وہ کام کر کے کہ جن کا سوداگری سے زیادہ غلامی سے تعلق تھا ، میں تھک ہار کے اپنے کمرے میں پڑ رہتا۔ میرا واحد غم گسار و جلیس میرا توتا تھا کہ میرا باپ ایک بار یمن کے سفر سے میرے لئے بطور سوغات کے لایا تھا۔ میں توتے سے اپنا حال دل کہتا اور ٹسوے بہا لیتا تھا۔ مجھ میں نہ تو اتنی قوت تھی اور نہ ہی جرات کہ بھائیوں کے سلوک کی شکایت کرتا چنانچہ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ ایک رات میرے بڑے بھائی نے مجھے اپنے کمرے میں بلوایا اور دو چار میٹھی میٹھی باتیں کر کے یوں گویا ہوا کہ تم ابھی چھوٹے ہو اور ہمارے باپ نے ہم تینوں کے الگ الگ جو محل بنوائے ہیں ، اُس میں ہم دونوں کا رہنا توسمجھ میں آتا ہے۔ کاروبار کے سلسلے میں جو مہمان تاجر دوسرے ملکوں سے آتے ہیں ، اُنہیں سرائے میں ٹھہرانے پر بہت اخراجا ت اُٹھتے ہیں۔ صلاح یہ ٹھہری ہے کہ تم اپنا محل اس مقصد کے واسطے خالی کر دو اور اکیلی جان ہو، شاگرد پیشے میں بچھونا بچھا لو۔ میں عمر میں چھوٹا ضرور تھا لیکن شتابی سمجھ گیا کہ میرے بھائی مجھے میرے محل سے بے دخل کرنے کے درپے ہیں چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ آسماں کو دور اور زمیں کو سخت پاتا تھا ، اس لئے توتے کا پنجرہ اُٹھائے شاگرد پیشے کے ایک کمرے کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ وہ دونوں حبشی غلام بھی وہیں مکین تھے اور میرے بھائیوں کا مجھ سے سلوک دیکھ کے اتنے بلند حوصلہ ہو چکے تھے کہ کبھی کبھی مجھ سے بھی خدمت لے لیا کرتے تھے۔

غرض صاحبو میں اپنے ہی گھر میں ایک غلام جیسی زندگی گزار رہا تھا اور دن رات اس فکر میں رہتا تھا کہ اس حالت کا تدارک کیوں کر کیا جائے۔ شاید میں کچھ اور دنوں تک اسی سوچ بچار میں رہتا کہ ایک دن میرا انیس و جلیس توتا مجھ سے یوں گویا ہوا کہ آقا زادے، میں حیوان ذات ہوں اور میری اوقات میٹھی میٹھی باتیں کر کے تیرا دل بہلانے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اپنے جثے کے بقدر میری جیبھ بھی اتنی ہی ہے اور اس سے کوئی بڑی بات نکالتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں کہ اگر میری بات تیرے تئیں ناگوار گزری اور جوش برادرانہ نے تجھے میرے لئے غیض میں مبتلا کر دیا تو میں اپنی اس جانِ ناتواں سے جاؤں گا لیکن اُس نمک کی قسم جو تُو برسوں سے مجھے اپنے ہاتھوں سے کھلاتا ہے، جو کہوں گاسچ کہوں گا اور سچ کے سوا اور کچھ نہ کہوں گا۔ میں توتے کی یہ گفتگو سن کر حیران و مشوش ہوا اور کہا۔ اے توتے تُو مجھے آج تک اُن ملکوں کی حکایاتِ لذیذ ہی سناتا رہا ہے کہ جہاں جہاں سے تیرا گزر ہوا ہے، یہ آج تُو نے کونسا قصہ چھیڑ دیا ہے اور قصہ بھی ایسا کہ جس میں میرے بھائیوں کا تذکرہ بھی شامل ہے اور جو اندیشہ ہائے دُور دراز میں مجھے مبتلا کر کے میرے دل کو مسوسے ڈالتا ہے۔ تجھے اُسی نمک کا واسطہ کہ جو تو میرے ہاتھوں سے کھاتا رہا ہے، بے خوف ہوکے اپنی زبان کھول اور اگر میں نے تجھے حق پہ پایا تو تجھ پہ بگڑنا نا حق ہو گا۔ تس پہ توتا بارے اطمینان کی سانس لے کے بولا۔ آقا زادے ، تیرے یہ دونوں بھائی تیرے حق میں چھلوری ہیں اور ہر روز یہ زخم پکتا اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ میں حیوان ہو ں مگر اُس کی قدرت سے مجھے قوت نطق بھی عطا ہوئی ہے اور میں اس قابل بنایا گیا ہوں کہ تیرے حق میں تیرے بھائی جو جو کانٹے بوتے چلے جا رہے ہیں ، تجھے اُن سے آگاہ کر کے خود کو تیری نظروں میں سُرخرو کروں اور اسی تمنا کو خدا کے دربار میں ساتھ لے جانے کو بھی روا گردانوں۔ میں اپنے بھائیوں کے سلوک سے آگاہ تھا، ایک مونس ہمدرد توتے کی صورت پا کر میرے آنسو ڈھلک جانے کو تھے کہ توتے نے کہا۔ تُو ایسے رذیلوں اور اسفل صفتوں کے لئے آنسو نہ بہا اور میں جو خبر لایا ہوں اُسے غور سے سن اور اس کا درماں کر۔ چونکہ قاعدہ یہ تھا کہ میں توتے کو دن ہوتے ہی پنجرے سے آزاد کر دیتا تھا اور وہ واہی تباہی ہر جگہ گھوما پھرا کرتا تھا چنانچہ ایک دن وہ میرے بھائیوں کی محفل میں جا بیٹھا جہاں میرے بھائی ایک دوسرے سے یوں گویا تھے کہ برادر خورد کا بوجھ اب ساتھ لادے پھرنا کہاں کی دانائی تھی اور والدین کا عرصہ دراز سے کوئی پتہ نہیں چنانچہ کیوں نہ فرض کیجئے کہ وہ اب کبھی لوٹ کے نہ آئیں گے اور وہ تحریر جو ہم نے اس کی بابت اُنہیں دی تھی، اُسے قصہ پارینہ جانئے اور اس مردود کو راستے سے ہٹائیے۔ مجھے توتے کی زبان پہ اعتبار نہ آیا لیکن پھرسوچا ایسا کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ بھائیوں کا مجھ سے سلوک سب کہے دیتا تھا چنانچہ توتے کا اعتبار کیا اور اُسے گفتگو جاری رکھنے کی اجازت دی تو ، توتا بولا۔ میرے آقا زادے۔ طے یہ ہوا ہے کہ آج رات جب تُو سو جائے گا، ان دونوں حبشی غلاموں میں سے ایک تیرا کام تمام کر دے گا اور شہر میں یہ پرچا لگے گا کہ تُو ڈاکوؤں کی حرص کا شکار ہوا۔ تیرے بھائی تیرے لئے مگر مچھ کے آنسو بہائیں گے اور عین ممکن ہے تیرا مقبرہ بھی اپنی حیثیت کے موافق تعمیر کروا کے اُس پہ کرائے کے مولوی اور قوال بھی تعینات کروا دیں کہ خلق خدا کو مرحوم سے اپنی محبت کا ثبوت فراہم کرنے کو یہ چارہ ہمیشہ سے کارگر پایا گیا ہے۔ میں تیرا رفیق و ہمدرد ہوں ، جو سنا تیرے آگے بیان کر دیا۔ اب جو کرنا ہے تجھی کو کرنا ہے ورنہ اُس حبشی غلام کو کہ جسے تیری جان لینے کے واسطے مقرر کیا گیا بخوبی علم ہے کہ اُسے کیا کرنا ہے۔

میں توتے کی یہ بات سن کے حیرت کے سمندر سے نکلا تو خوف کے سمندر میں ڈوب گیا لیکن تبھی مجھ پہ کھلا کہ ان سمندروں میں غوطہ زنی عبث ہے اور مجھے اپنی جان بچانے کو کوئی تدبیر کرنی ہو گی۔ توتے سے مشورہ کیا کہ وہ ملکوں ملکوں کا پانی پیا ہوا ایک حیوان باراں دیدہ تھا اور چالاکی و ہشیاری میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ توتا یوں عرض گزاشت ہوا کہ اے آقا زادے۔ صرف ایک غلام جو تیرے بڑے بھائی کی خدمت میں رہتا ہے، اس راز سے واقف ہے اور اُسی کواس رذیل کام پہ مقرر کیا گیا ہے، چنانچہ تُو کچھ ایسا چارہ کر کہ آج کی رات تیرے بچھونے پہ دوسرا غلام تیری جگہ سو جاوے اور اس کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ تُو اُس غلام کو مے ناب کا لالچ دے۔ چنانچہ میں نے رات ڈھلنے سے کچھ پیشتر ایسا ہی کیا اور غلام جب نشے سے بے حال ہو گیا اور کچھ بھی پہچاننے سے اُسے قاصر و معذور پایا تو اُسے اپنے بچھونے پہ لٹا کے خود ایک گوشے میں منتظر کھڑا ہو گیا۔ توتا سچا تھا کہ رات بھیگنے سے ذرا پیشتر کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے بھائی کا غلام خنجر کے دستے پہ ہاتھ رکھے کمرے میں وارد ہوا۔ اِدھر اُدھر دیکھتا سیدھا میرے بچھونے کی طرف گیا اور لگا تار چار چھے وار کر کے شتابی بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ میں یہ سارا ماجرا دیکھ کے سُن رہ گیا۔ تب توتے نے کہا۔ آقا زادے اب یہ مردود سیدھا تیرے بھائیوں کے پاس جائے گا اور اپنا انعام وصول کرے گا۔ میں اس کے تعاقب میں جاتا اور وہاں پیش آنے والے واقعات سے تجھے آگاہ کرتا ہوں۔ چنانچہ توتا اُس نابکار کے پیچھے روانہ ہو گیا۔

توتے کا کہنا تھا کہ میرے دونوں بھائی اپنے تئیں مجھے موت کی نیند سلا کے اس قدر خوش تھے کہ بیان سے باہر ہے۔ بار بار ایک دوسرے کو گلے لگاتے اور کہتے تھے کہ لیجئے صاحب آج ہماری راہ کا واحد کانٹا نکل گیا اور اب سویرے پہلا کام یہ کیجئے کہ بھائی کی جائیداد اور مال و اسباب کے اپنے اپنے حق میں بخرے کیجئے۔ وہ نابکار حبشی اپنے حصے کا انعام دونوں بھائیوں سے وصول کر کے

شاداں و فرحاں کسی کلال خانے کو روانہ ہوا اور توتے نے مجھے جملہ حالات سے آگاہ کیا۔ وہ رات مجھ پہ بڑی بھاری تھی۔ اگر میرے بھائی مجھ سے میرے حصے کے خواہاں ہوتے اور قرار واقعی میرے مونس و ہمدرد بن کے دکھاتے تو باری تعالیٰ کی قسم ہے ، میں اپنا سارا اندوختہ بلا چوں و چراں اُنہیں سونپ دیتا لیکن اُن کا سفید لہو مجھے خون کے آنسو رلا رہا تھا۔ الغرض صبح کے نقیب نے نقارہ بجایا اور میرے بھائی رونی شکلیں بنانے کی مشق کرتے میری خواب گاہ میں داخل ہوئے تو میں توتے کے مشورے کے بموجب آڑ میں کھڑا ہو گیا۔ حبشی غلام کی نعش سے چادر اُتری تو دونوں کے منہ بھی اُتر گئے۔ ابھی حیران ہو ہی رہے تھے کہ میں ظاہر ہوا۔ مجھے دیکھ کے دونوں حیرت میں غرق ہوئے اوریوں مخاطب کیا کہ اے ہماری ماں باپ کی آنکھوں کی روشنی، ہم یہ کیا ماجرا دیکھتے ہیں کہ تیرے بچھونے پہ اس غلام کی لاش پڑی ہے۔ میں اُس وقت غصے سے کانپ رہا تھا چنانچہ میں نے کچھ لحظوں کو اُن کے بڑے بھائی ہونے کے لحاظ کو پس پشت ڈالا اور نوکِ زبان سے وہ خار زنی کی کہ دونوں بلبلا اُٹھے اور جب میں نے اس کُل واقعے کی اطلاع قاضی شہر کو دینے کی دھمکی دی تو دونوں میرے پیروں میں گرے اور لگے منت و زاری کرنے۔ تس پہ برادرانہ لہو نے جوش مارا اور توتے کی شدید مخالفت کے باوجود میں نے بھائیوں کو معاف کیا لیکن ساتھ ہی شرط رکھی کہ تم دونوں ابھی میرا سارا اسباب کہ تجارت سے متعلق تھا، اور میرا محل کہ میری رہائش کے واسطے میرے باوا جانی نے بنوایا تھا، میرے حوالے کرو۔ بھائی مصلحت کوش تھے، میری ساری شرائط کو ماننے پہ تیار ہو گئے۔

میں اپنے محل میں اُٹھ آیا اور اس توتے کے لئے خالص سونے پنجرہ بنوایا اور اُس میں دانے پانی کے واسطے چاندی کی کٹوریاں دھروائیں۔ پھر اپنے حصے کی ایک دکان کو آراستہ کیا اور اسباب تجارت کا رکھ کے اللہ پہ بھروسہ کیا اور دن رات اپنے کاروبار کی فکر میں رہنے لگا۔ میں نے اپنے بھائیوں سے اپنا منافع قدرے کم رکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے میری دکان چل نکلی۔ میں دساور کو بھی اپنا اسباب تجارت اپنے زر خرید غلاموں کے ذریعے بھجوایا کرتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو چار سالوں میں میرا شمار معزز تاجروں میں ہونے لگا اور میری خبر شاہی محل تک ہو گئی۔ میرے بھائی بظاہر میری ترقی سے مطمئن دکھائی دیتے تھے مگر اندر سے اُن مرغ و ماہی کی طرح بھنے جاتے تھے کہ جنہیں سیخ پہ چڑھا کے انگاروں پہ رکھا جاتا ہے۔ صاحبو ایک روز کرنا خدا کا کیا ہوا کہ شاہی محل سے فرستادہ میرے پاس دکان پہ آیا اور مجھے اپنے پارچات بیش قیمت کے ساتھ شاہی محل میں حاضر ہونے کا حکم پہنچا کے لوٹ گیا۔ میں نے بارہ غلاموں پہ اپنا قیمتی ترین اسباب لدوایا اور شاہی محل میں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کے علم ہوا کہ شہزادی زر نگار کہ حُسن و سلیقے میں جس کی دھومیں چار دانگ عالم میں تھیں ، اپنی پسند سے کچھ خریدنا چاہتی ہے۔ مجھےاس بار منافع کئی گنا ہوتا دکھائی دیا چنانچہ میں بڑھ بڑھ کے اپنے اسباب کی تعریف کرنے لگا۔ شہزادی اور اُس کی سہلیاں ایک پردے کے پیچھے سے مجھ سے گفتگو کرتی اور اشارے سے اپنی پسند کا اسباب چھانٹنے کو کہتی جاتی تھیں۔ میں چند حسین ہاتھ پردے سے باہر آتے دیکھ سکتا تھا اور فقط اندازے لگا رہا تھا کہ ان میں کونسے ہاتھ شہزادی کے ہو سکتے ہیں۔ اُسی وقت ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور ہمارے درمیان پڑا پردہ ہٹ گیا۔ میری نظر اس بے حجاب انبوہ خوباں پہ پڑی، اللہ اللہ کیا نظارہ تھا لیکن اُن میں ایک کہ افسرِ خوباں تھی، اورسب سے جُدا دکھائی دیتی تھی اور وہ مہ لقا، پری وش، خورشید صفت، طلعت اوصاف، نک سک سے مکمل، نازو ادا میں اکمل، زلف مشک ختن، چہرہ بدر افگن، مسکراہٹ کہ صاعقہ کو مات دیتی تھی، مجھ کو ایک عالم محویت میں تکتی تھی۔ میرا بھی یہی حال تھا۔ یہ معاملہ دیکھا تو اُس کی کسی کنیز نے پردہ کھینچ کے پھر برابر کر دیا۔ اُس کے بعد بھی سودے ہوتے رہے لیکن صاحبو میں دل کا سودا کر چکا تھا اور اُس میں بری طرح زیاں بھی اُٹھا چکا تھا چنانچہ بعد کے سودے اپنے غلاموں کے سپرد کر کے ایک گونے میں دلگیر و دل فگار ہوکے بیٹھ رہا۔ میں اپنا دل ایک ایسی جگہ دے چکا تھا کہ جہاں پہنچنے کا ہر راستہ دار و رسن کی منزل سے گزرتا تھا۔ میں شہزادی زر نگار کے عشق میں برباد ہو کے گھر لوٹا۔

بالی عمر میں دل بھی چونکہ خام ہوتا ہے اس لئے اہرمنِ عشق کا گھاؤ جگر تک اُتر جاتا ہے۔ میں واپس لوٹا تو نہ کھانے کا ہوش تھانہ پینے کا دھیان۔ لگتا تھا اندر سے کچھ نکل کے وہیں رہ گیا تھا۔ میرے غلاموں کی فوج جو سب کے سب جماعت احمقا میں سے تھے اور کبھی احیاناً بھی عقل کا کلمہ منہ سے نہ نکالتے تھے، میری کیا مدد کرتے بلکہ اُلٹا مجھی کو ایسے بد نام کرتے کہ میرا تن نازک شاہی عقوبت خانے میں گل سڑ جاتا یا پھر مجھے کسی ہاتھی کے پاؤں تلے کچل دیا جاتا۔ میری بے قراری جب آتش پائی کا رنگ اختیار کر گئی تو میرے مونس و جلیس توتے نے نہایت راز داری سے جب کمرے میں ہم دونوں کے سوا اور کوئی نہ تھا یہ ماجرا دریافت کیا۔ تس پہ میں نے توتے سے دل کے چھِن جانے کا واقعہ اوراُس پر چھیننے والی کا نام ظاہر کر دیا۔ توتے نے سارا واقعہ سن کے فقط اتنا کہا کہ آقا زادے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تیری عمر، صورت اور مرتبے کا نوجوان اگر ایسی کسی واردات سے دو چار نہ ہو تو اُس کی صحت مخفی مشکوک ہوتی ہے چنانچہ تُو نے جو کیا، بالکل دُرست کیا لیکن تجھے پتہ ہے کہ عشق اور شادی میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ عشق کے لئے دوسرے فریق کا راضی ہونا ایک لازمی امر ہے جبکہ شادی کی جھک دوسری صورت میں بھی بخوبی ماری جا سکتی ہے اور خلق خدا مار رہی ہے۔ میں اس وقت توتے سے فلسفہ ازدواج پر بحث نہیں کرنا چاہتا تھا اور اپنی جراحت میں پھنکا جا تا تھا چنانچہ میں اُس سے مشورے و مدد کا خواستگار ہوا۔

توتا اپنا سر بڑی دیر تلک اپنے سبز پروں میں چھپایا کیا اور پھر بولا۔ آقا زادے، میں توتا ہوں ، قوت پرواز رکھتا ہوں اور دن کے وقت جب مجھے آزاد کر دیا جاتا ہے، میں شاہی باغ کے میوے اور توتیاں ، ہر دو کو تباہ کرنے کے واسطے وہاں جاتا ہوں اور تو جس کا ذکر کرتا ہے، میں نے اُس قتالہ کو بھی بارہا دیکھا اور اپنے توتا ہونے پر نفرین بھیجی ہے، میں اُس کی خواب گاہ سے بھی واقف ہوں۔ اب صرف ایک ہی ترکیب رہ جاتی ہے کہ میں اُس کا حال دیکھوں اور تجھے آگاہ کروں۔ اور جیسا کہ تیرا گمان ہے کہ اُس نے بھی تجھے محبت بھری نگاہوں سے دیکھا ہے اور اگر وہ بھی اس وقت تیری طرح بسمل زدگی کی شکار ہے ، تو تیرا پیغام اُس تلک پہنچاؤں اور اگر اُسے بھی تیرے عشق میں مبتلا پاؤں تو تم دونوں کے درمیان اُس شخص کا کردار ادا کروں جسے اللہ کی مخلوق طرح طرح کے ناپسندیدہ ناموں سے یاد کرتی اور بوقت ضرورت کام میں بھی لاتی ہے یعنی دلا وغیرہ۔ لیکن میرے آقا زادے۔ نوکری کیا اور نخرہ کیا چنانچہ میں ابھی روانہ ہوتا اور کوئے یار کی تازہ بتازہ خبر لاتا ہوں۔ توتے کے اس تعاون اور اُمید افزا گفتگو سے میرا نخل تمنا قدرے ہرا ہوا اور میں نے اُس کے طلائی پنجرے کا دروازہ کھول کے اُسے روانہ کیا اور کئی روز بعد خواہش طعام بیدار ہوئی۔ میں ابھی خلال ہی کر رہا تھا کہ توتا ساری خبر لے کر آ گیا اور مجھے شتابی سنانے لگا کہ کہ وہ ماہ لقا تجھ سے بڑھ کے بے قرار ہے اور جس وقت میں اُس کی خواب گاہ کے روشن دان پہ بیٹھا تھا اُسی وقت وہ اپنی ایک سہیلی سے اپنے تیری آنکھوں پہ فدا ہو جانے کی داستان کہہ رہی تھی اور اُسے بتلا رہی تھی کہ ہم اُس سوداگر بچے پر یوں فدا ہوئے ہیں کہ کیا لیلیٰ مجنوں پہ ہوئی ہو گی۔ اب کچھ ایسا کیا چاہئے کہ اُس کو ملاقات کا پیغام پہنچے اور وہ کچے دھاگے میں بندھا ہماری آتش شوق کو سرد کرنے کھِچا چلا آوے۔ آقا زادے مبارک ہو کہ وہ بھی تیرے عشق کی بلا میں گرفتار ہو گئی ہے۔ یہ سن کر بار ے اطمینان ہوا کہ میں اکیلا ہی یہ آتش شوق سلگائے نہیں پھرتا، دوسری طرف بھی برابر کی آگ لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ کئی ماہ بعد حمام کیا اور دختر رزسے جی بہلایا۔

بعد ازاں اپنے خنجر سے اپنی اُنگلی کو شگاف دیا اور ایک محبت نامہ تحریر کر کے توتے کے حوالے کیا کہ ابھی شہزادی زر نگار کو پہنچائے اور اگر ممکن ہو تو جواب بھی لائے۔ توتے نے اس وقت جانے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ چونکہ وہ شہزادی کی گود میں ایک پالتو اور پلاؤ بلی دیکھ چکا ہے اور توتے اور بلی کے درمیان ہرگز وہ معاملہ نہیں ہو سکتا جو میرے اور شہزادی کے درمیان ہے، چنانچہ اگر اس وقت اُسے اس خدمت سے معاف کر دیا جائے تو وہ شکر گزار ہو گا چنانچہ دل پہ پتھر رکھ کے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ میرے اور شہزادی کے درمیان اب باقاعدہ راہ ہو گئی اور میں دن رات اُسے حبالہ نکاح میں لانے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ اُس کی تحریروں سے اور توتے کی زبانی میرا یہی گمان شہزادی کے بارے میں بھی پرداخت کی منازل طے کرنے لگا۔

اِدھر میں عشق کی سر مستی میں ڈوبا ہوا تھا اُدھر میرے دونوں بھائی کہ شروع ہی سے بد چلن، بد قماش اور بد راہ بھی تھے، ایک ہی کٹنی پہ عاشق ہوئے اور اپنا اندوختہ بمع منافع اُس رنڈی پہ لُٹانے لگے۔ اُس کی فرمائشیں اس درجہ کو پہنچیں کہ دونوں مقروض ہوئے اور جب قرض خواہوں کو بار بار بے نیل و مرام اُن کے گھروں سے پھِرنا پڑا تو اُنہوں نے قاضی شہر سے اس کی شکایت کی اُن کی مشکیں کسوا دیں۔ قاضی شہر نے دونوں سے استفسار کیا اور میرے باپ کی عزت اور میری ساکھ کے پیش نظر اُنہیں دو چار بار مہلت بھی دی کہ اپنے قرضے بے باق کر دیں مگر صاحبو وہاں چیل کے گھونسلے میں ماس ہی کہاں تھا، چنانچہ اُن کے محل اور جو بھی جملہ اسباب اُن میں تھا نیلام کر وا دیا گیا۔

برستی بارش اور چِلے کے جاڑوں کے دن تھے جب کسی نے مجھے اُن کی کس مہ پرسی کی داستان سنائی۔ اُنہوں نے میرے ساتھ برادر سگ والاسلوک کیا تھا لیکن تھے تو میرے مادر زادے، چنانچہ لہو نے جوش مارا اور میں دونوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کے گھر لے آیا کہ ایک بدرو کے کنارے بیٹھے جاڑے میں کپکپاتے تھے اور لوگ اُن کے ساتھ سگِ کوچہ والا معاملہ کرتے تھے کہ جب چاہا بچا کھچا آگے ڈال دیا اور جب چاہا ٹھوکروں پہ دھر لیا۔ حمام تیار کروایا اور خاص کھانے پکوائے۔ نئی پوشاکیں پہنوائیں اور اپنے محل میں دونوں کو علیحدہ علیحدہ کمرے دئیے۔ دونوں کی شرمندگی کا وہ عالم تھا کہ میرے سامنے زمین میں گڑھے جاتے تھے۔ کھا پی کے فارغ ہوئے تو میں اُن سے یوں گویا ہوا کہ اے میرے پدر زادو۔ یہ سچ ہے کہ تم نے میرے ساتھ جو سلوک روا رکھا اُس کو نظر میں رکھوں تو تمہیں

وہ گالیاں دے سکتا ہوں کہ جن سے ہماری ماں کے کردار کا مشکوک ہونا ثابت ہوسکتا ہے اور ہمارے باپ کے نطفے میں فے نکالا جا سکتا ہے۔ لیکن میں اپنے ماں اور باپ دونوں کو معصوم مانتا ہوں اور یہ جو سلوک تم نے میرے ساتھ روا رکھا اس کی وجہ صرف ایک ہی پاتا ہوں کہ جس رات ہماری ماں کو حمل قرار پایا تھا تو ضرور ہی اُس رات میرے باپ نے جانے انجانے میں لقمۂ حرام توڑا تھا کہ اس کی یہ خاصیت سنتا ہوں کہ اس کی تاثر پذیری سات نسلوں تک نہیں جاتی اور اُن پر حیرت اور تعجب ہوتا ہے کہ اپنی اولاد کو حرام کا لقمۂ تر کھلاتے اور خوش ہوتے ہیں اور جب اولاد کسی بھی نوع کی حرامکاری پر آمادہ ہوتی ہے تو اپنے نصیبوں کو روتے اور یہ ہرگز نہیں سوچتے کہ جو وہ آج خود کاٹ رہے ہیں ، کل اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے بویا تھا۔ آج تم جس حال کو پہنچے ہو وہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے۔ بخدا اس گفتگو سے میرا مقصود تمہیں مزید سُبک سر کرنا نہیں ہے بلکہ مجھے تم سے یہ باتیں کرتے خود شرم آتی ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ تمہیں تمہاری کجی کا احساس دلاؤں اور اُن خرابیوں کی نشان دہی کروں کہ جن میں تم نے خود کو ایسے مبتلا کیا کہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے۔ تس پہ میرے دونوں بھائی عرق ندامت میں غرق ہوئے اور بولے کہ بے شک تُو نے اس شام کربلا میں ہماری جو دستگیری کی ہے اور ہمیں ذلت کے اندھیرے سے جیسے نکالا ہے، ہم اُس کے لئے خجل و شرمندہ ہیں اور اے بھائی ہم تیرے کاروبار میں تیرے غلاموں کی طرح تیری مدد کریں گے۔ اپنے بھائیوں کی یہ بات سن کر میرے اشک رواں ہو گئے اور میں نے اُنہیں گلے سے لگا کے کہا کہ صبح ہو لینے دو میں سب تمہاری منشا کے مطابق کر دوں گا۔

چنانچہ سویرے جب کہ ابھی میرے دونوں بھائی سو رہے تھے، میں ڈھونڈ تا ہوا اُن آدمیوں کے پاس پہنچا کہ جنہوں نے میرے بھائیوں کے کاروبار اور محل نیلامی میں خریدے تھے اور اُن کو منہ مانگے دام دے کے ایک بار پھر سب کچھ واپس لیا اور جب گھر پہنچا تو دونوں کو منہ ہاتھ دھو کے ناشتے کے لئے منتظر پایا۔ پہلا لقمہ توڑنے سے پیشتر محلوں اور دکانوں کی چابیاں دونوں کے حوالے کیں اور تب رزق کو ہاتھ اور دانت لگایا۔ دونوں بھائیوں کی آنکھوں سے اشک ندامت و شکر گزاری ایک ساتھ بہتے تھے اور میں دیکھ دیکھ کے شرمندہ ہوتا تھا۔ بھائیوں والے معاملے سے بخیر و خوبی فارغ ہو کر میں ایک بار پھر اپنی محبوبہ زرنگار شہزادی کے تصور میں گم ہو گیا اور اُس کو اپنے نکاح میں لانے کے واسطے تدبیریں سوچنے لگا۔ میرے غلاموں میں ایک غلام، ماہر جس کا نام تھا، اور جسے میں زیادہ پسند اس واسطے بھی نہ کرتا تھا کہ وہ شراب و کباب کا حد درجے رسیا تھا، میں نے اپنے بھائیوں کے سپرد بمع چار اور غلاموں کے کیا اور اُس شورہ پشت سے نجات پا کے اطمینان کا سانس لیا۔ اِدھر میرا وفا دار توتا منہ سے تو کچھ نہ کہتا تھا لیکن میں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مروت اور سیر چشمی کا جو مظاہر کیا تھا، اُس پہ شاکی نظر آتا تھا پر اُس نے کبھی اس امر کا اظہار نہ کیا تھا۔

میرے بھائیوں نے جب اپنا کاروبار ایک بار پھر پایا اور عشرت کے ایام کو اتنی آسانی سے اپنی دست گاہ میں دیکھا تو ایک بار پھر کھل کے کھیلنے لگے اور ہر روز کو روز عید اور ہر شب کو شب برات جانا۔ میں نے اس دوران اُن کی بے راہ روی کی خبریں پا کے اُنہیں اپنے تئیں سمجھانے کی بڑی کوشش کی لیکن ڈھاک کے وہی تین پات چنانچہ اُن کی حالت زار پہ افسوس کر کے چپکا ہو رہا اور جی میں ارادہ باندھا کہ اس بار مرتے مر جائیں میں ان کی طرف سے خود کو بری الذمہ ہی رکھوں گا۔ میرے بھائیوں کی خدمت میں میرے دئیے ہوئے غلاموں میں سے ایک غلام ماہر بھی تھا، جس کی شورہ پشتی اور رکاکت کا تذکرہ گزر چکا ہے، وہ میرے بھائیوں کی لہو و لعب میں ڈوبی زندگی کا خاص راز داں بن گیا اور ہم مشرب بھی کیونکہ وہ خود بھی اُم الخبائث کا رسیا و خدمت گزار تھا۔ چونکہ پہلے وہ میرے محل میں رہتا تھا اور اُس کے کانوں میں میری شہزادی زر نگار سے دلچسپی والا واقعہ، اپنی چھپ کے باتیں سننے کی عادت قبیح کے باعث پڑ چکا تھا، لہٰذا اُس نے میرے بھائیوں کو ورغلایا کہ حضور اس بار موقع سنہری ہے اور آپ اپنے پدر زادے کو بڑی آسانی سے راستے سے ہٹا اور اُس کے جملہ اسباب پہ قبضہ کرسکتے ہیں۔ میرے بھائیوں نے جب اس کی صراحت چاہی تو وہ مردود بولا۔ اے مالکو تمہارا بھائی شہزادی زر نگار کے عشق میں اور وہ اُس کی چاہ میں گھٹنوں گھٹنوں ڈوبی ہوئی ہے اور تمہیں پتہ ہے شاہزادیوں سے دل لگی کوئی مذاق نہیں کہ ایسے عاشق کی چرمِ پشت سے ذرا نیچے واقع ایک مقام کے ساتھ ساتھ ساتھ گلا بھی ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے۔ یہ داستان اگر کچھ مرچ مسالہ لگا کے بادشاہ کے کانوں تک پہنچا دی جاوے تو بادشاہ تمہارے برادر خورد کی کھال کھچوا کے اُس میں شتابی بھُس بھروا دے گا اور بعد ازاں تم اُس کے اندوختے پہ قبضہ کر کے جیسے چاہو میٹنا۔

میرے بھائیوں نے ماہر نامی غلام کی اس بات سے خوش ہو کے اُسے اُسی وقت کچھ انعام سے سر افراز کیا اور ایسی تدبیریں سوچنے لگے کہ جن سے میرا اور شہزادی کا تعلق نہ صرف ثابت ہو جائے بلکہ مشکوک بھی۔ اب وہ دونوں دن رات اسی فکر میں رہتے۔ یہ بات معمولی نہ تھی اس واسطے پھونک پھونک کے قدم اُٹھاتے تھے۔ اگر بادشاہ کے حضور میری خالی خولی شکایت کرتے اور اُسے ثابت نہ کر پاتے تو پھر اُنکے متذکرہ بالا مقامات کو وہی خطرہ تھا جو وہ میرے لئے سوچے بیٹھے تھے، چنانچہ اُنہوں نے غلام نابکار سے مشورہ کیا کہ ایسا کیا کیا چاہئے کہ ہمارا بھائی شہزادی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا جاوے اور ہم بادشاہ کے حضور اُسے مجرم ثابت کر کے سزا دلوا سکیں۔ میرا وفا دار توتا کہ معتمد بھی تھا ، اور زیرک اس قدر کہ مجھے ایسی خبریں دے کے پریشان نہ کرتا تھا بلکہ سب کچھ اپنے دل میں رکھتا تھا تا وقتیکہ میں واقعتاًکسی مصیبت میں نہ پڑ جاؤں ، سب حالات کی برابر خبر رکھتا تھا۔ ایک روز جبکہ توتا میری اور شہزادی کی ، محل کے پائیں باغ میں ملاقات کی ساری جزئیات طے کر کے لَوٹا اور واپسی میں میرے بھائیوں کی طرف سے ہوتا آیا، وہ یہ جان کے ششدر رہ گیا کہ شہزادی کی مجھ سے ملاقات کی خبر توتے کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی میرے بھائیوں کے علم میں آ چکی تھی اور اس کا سبب شہزادی کی ایک کنیز تھی کہ شہزادی کی منہ چڑھی اور راز دار بھی تھی۔ بعد ازاں توتے کو علم ہوا کہ اس ساری سازش کا سرغنہ وہ نابکار حبشی غلام تھا کہ میں جسے اپنے بھائیوں کو سونپ چکا تھا۔ توتے نے مجھ تک پہنچ کے مِن و عَن سار ا واقعہ میرے گوش گزار کیا۔ تِس پہ میں نے جی میں ارادہ باندھا کہ اُسی وقت اپنے بھائیوں اور اُس نابکار غلام سے سوال جواب کروں لیکن توتے نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ میں کچھ ایسی ترکیب کرتا ہوں کہ آپ اپنے دام میں صیاد آ جائے۔ ہماری ملاقات کا راز فاش ہونے پر میں نے شہزادی سے سر دست ملاقات کا ارادہ فسخ کیا اور آرزوئے وصال یار کا گلا گھونٹ دیا۔ توتے نے شہزادی کو اُس کی کنیز کی غداری سے آگاہ کیا اور یہ بھی کہا کہ فی الحال وہ چُپکی رہے۔ شہزادی نے سبھی کچھ توتے کی منشا کے بموجب کیا۔

میرے بھائیوں کو چونکہ یقین تھا کہ میں ملاقات کے واسطے پائیں باغ میں ضرور پہنچوں گا اور اُدھر وہ کُٹنی بھی کہ شہزادی کی راز داں بنی ہوئی تھی، یہی یقین کئے بیٹھی تھی، چنانچہ میرے بھائیوں نے بادشاہ سے اذن باریابی چاہا اور چونکہ وہ میری طرح شہر کے تجار میں ایک نام رکھتے تھے، چنانچہ بادشاہ نے اُنہیں اپنے حضور بلوانے میں کوئی ہرج نہ جانا۔ تس پہ وہ دونوں اُس خبیث غلام کے ہمراہ بارگاہ سلطانی میں حاضر ہوئے اور میرا اور شہزادی کا قصہ نمک مرچ لگا کے سنایا۔ بادشاہ فرط غضب سے تھر تھر کانپنے لگا اور عنقریب تھا کہ تالی بجا کے غلاموں کو حاضر کرتا لیکن اُس کا وزیر کہ با تدبیر بھی بلا کا تھا یوں گویا ہوا۔ ظل سبحانی۔ بعضی بعضی بات آنکھوں دیکھنے پر بھی دُرست ثابت نہیں ہوتی چنانچہ بنا کسی ثبوت کے آپ کے جلال شاہی کا اظہار کوئی معنی نہیں رکھتا۔ غلام زادہ چاہتا ہے کہ جب تک یہ بات کسی ثبوت کے ذریعے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ جائے، غیض سلطانی قابو میں رہے۔ بادشاہ نے سوچا اور وزیر کے مشورے کو صائب جانا۔ تس پہ میرے دونوں بھائیوں نے وہ وقت اور دن بتلایا جب کہ میری شہزادی سے فسخ شدہ ملاقات طے پائی تھی۔

چنانچہ بادشاہ نے سب سے پوشیدہ حیطہ محل میں ماہر تیر انداز تعینات کر دئیے اور حکم جاری کیا کہ مجھے زندہ گرفتار کیا جائے اور اگر میں فرار کی کوشش کروں تو مجھے تیروں کی باڑھ پہ رکھ لیا جائے اور بعد از مرگ میری لاش چیل کووں کے آگے ڈلوا دی جائے۔ توتا پل پل کی خبر مجھے پہنچائے جاتا تھا۔ چنانچہ جب مقررہ رات آئی اور کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا تو بادشاہ نے میرے بھائیوں اور اُس نابکار غلام کی مشکیں کسوا کے اپنے دربار میں طلب کیا اور اُن سے اس نا پاک جسارت کا سبب پوچھا کہ جس کی بدولت شہزادی کے دامن عفت کو داغ دار کرنے کی مکروہ سازش اُنہوں نے کی تھی۔ میرے بھائیوں نے سار ا الزام غلام پہ دھرنے کی کوشش کی تب غلام نے کہا کہ وہ اتنی بڑی بات بلا سبب نہیں کہتا اور شاہی جلال کی قسم کھا تا ہے کہ میرا شہزادی کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہے۔ غلام نے کٹنی کا نام لیا اور کٹنی نے قسم کھا کے کہا کہ یہ بات دُرست ہے اور یہ بھی کہا کہ اس سارے قصے کے پیچھے ایک توتا سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے توتے کی گرفتاری کے احکامات جاری ہوئے اور بعد ازاں مجھے کیفر کردار تک پہنچانے کی صلاح ٹھہری۔ توتا دربار میں ہونے والی اس گفتگو سے کوشش کے باوجود واقف نہ ہو سکا کیونکہ وہاں کوئی ایسا در یا روزن وا نہ تھا کہ جس سے اُس کی رسائی دربار کے اندر تک ہو سکتی۔ چنانچہ اُس کی گرفتار ی کے لئے سلطنت کے بڑے بڑے چڑیماروں کو طلب کر لیا گیا جو اپنے پھندے اور جال لئے اُس کی تلاش میں میرے گھر کے گرد منڈلانے لگے۔

ایک صبح جبکہ میں نے توتے کو پنجرے سے نکالا ہی تھا، وہ بےکس ایک نا ہنجار چڑی مار کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور شاہی محل میں بادشاہ کے حضور پیش کر دیا گیا۔ بادشاہ نے وزیر کو طلب کیا اور وزیر نے دروغہ زنداں کو کہ اپنے چہرے سے بڑی مونچھیں رکھتا تھا۔ اُس ظالم نے توتے کو بلیوں کے آگے ڈلوا کے اُس سے سارے راز اُگلوا لئے اور ایک ایسے پنجرے میں پھنکوا دیا کہ جس میں اندھے اُلو پہلے سے ہی قید تھے۔ میں اس سارے واقعے سے بے خبر اپنے کاروبار میں مصروف تھا کہ شاہی فرستادے میری گرفتاری کے احکامات لئے آن پہنچے اور شتابی میری مشکیں کس کے بادشاہ کے حضور پیش کر دیا۔ بادشاہ نے مجھے چند لمحوں تک اُن آنکھوں سے دیکھا کہ جنہیں بھوکے شیر کی چشم گرسنہ کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا اور تب مجھ سے اس جسارت کا سبب دریافت کیا۔ عشق میں وہ حماقت کہ جسے شاعر لوگ جرات رندانہ کہتے اور یہ فعل کر کے یا تو پچھتاتے ہیں یا پھر کسمپرسی کی موت مر جاتے ہیں ، مجھ میں نجانے کہاں سے عود کر آئی اور میں نے بادشاہ سے کہا۔ اے منصفو ں کے منصف، اے بہادروں کے بہادر، اے پشت ہا پشت سے ملک گیری اور جہانبانی کرنے کے خوگر، یہ دُرست ہے کہ میں تیری بیٹی سے عشق کرتا ہوں اور وہ بھی مجھ سے یہی کچھ کرتی ہے لیکن میری نیت میں کوئی فتور نہیں۔ اگر تُو میری وہی نیت سمجھ رہا ہے تو مجھ سے بڑا احمق اور کوئی دوسرا تیری مملکت میں ہو گا کہ جو جنس قدم قدم پہ ، ٹکے ٹکے میں ملتی ہے اُس کے لئے شاہی محل کو تاکوں اور کیا تو نے سنا نہیں کہ جو شئے رانی کے پاس ہے وہی کانی کے پاس بھی ہے۔ بادشاہ چونکہ اُس وقت غیض کی کیفیت میں اس شدت سے کانپ رہا تھا کہ ایک غلام تاج شاہی کو بار بار اُس کے سر سے گرنے کو سنبھالتا تھا اس واسطے میری بات اُس کی سمجھ میں نہ آئی لیکن اُس کا وزیر با تدبیر بولا۔ اے بادشاہ مجھے اس نوجوان سے بات کرنے دے کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی مگر دل کو لگتی ہے بات بکری کی۔ بادشاہ نے بیزاری سے کہا۔ اے وزیر جو تیرا جی چاہے پوچھ لیکن میں اس خبیث کو سزا دینے کا فیصلہ کر چکا ہوں کہ اس نے شہزادی سے عشق کرنے کی جرات کی ہے۔ تس پہ وہ وزیر با تدبیر مسکرایا اوریوں سر ہلایاجیسے بادشاہ کے چغد پن سے مدتوں سے آشنا ہو۔ میں نے عرض کیا۔ اے بادشاہ میری غرض و غایت اس کے سوا اور کچھ بھی نہ تھی کہ میں تیری بیٹی کو عین شریعت کے مطابق اپنی منکوحہ بنانا چاہتا ہوں اور اگر اس میں کوئی ہرج ہے تو مجھے بتا۔ میں نے اپنی بات کہہ کے بادشاہ کو دیکھا جو اب بھی فرط غضب سے کانپ رہا تھا لیکن اس کپکپاہٹ میں پہلی سی شدت نہ تھی۔ عین اُسی وقت ملکہ نے جو پردے کے پیچھے سے سارا ماجرا چپکی کھڑی سنتی اور دیکھتی تھی، ڈپٹ کے کہا۔ اے جی۔ سنتے کیوں نہیں۔ ہر وقت تم پہ یہ شاہی جلال کیوں طاری رہتا ہے۔ بچی سمجھدار ہو گئی ہے اور ہمیں اُس کی شادی کہیں نہ کہیں تو کرنی ہے۔ اپنے شہر کا ، تمہاری رعایا کا، دیکھا بھالا بچہ ہے۔ ہاں کیوں نہیں کر دیتے یا پھر اُن جاہلوں کی طرح اپنا تماشہ بنواؤ گے جو پسند کی شادی کرنے والی بچیوں اور اُن کے شوہروں کو قتل کر کے، برسوں تمہارے دربار کے چکر کاٹتے اور اُس بات کے چرچے کر کے اپنا مذاق اُڑواتے، اور جو بات جو بڑی آسانی سے چھپ سکتی ہے، اُس کے شہر بھر میں پرچے لگواتے ہیں۔ میں کہے دیتی ہوں ، اس وقت اپنے جلال شاہی کا مت سوچو ، اپنی بیٹی کا سوچو اور اگر نہیں سوچو گے تو دو ساعت بعد دربار برخاست کر کے آنا تو تمہیں شاہی محل میں ہی ہے۔ وہیں بات ہو گی۔ ملکہ کو بات کرنے کا ملکہ تھا تبھی تو بادشاہ کچھ نرم پڑا اور وزیر با تدبیر کو دیکھ کر بولا۔ اے وزیر، اس معاملے میں میری عقل بالکل ساتھ نہیں دیتی لیکن چونکہ میری بیٹی شہزادی ہے اور میں اُسے کسی بہادر شہزادے سے بیاہنا چاہتا ہوں کہ کل اس مملکت پہ کوئی خطرہ منڈلائے تو اُس کا مناسب اُپائے سو چ سکے۔ تس پہ وزیر با تدبیر بولا۔ اے بادشاہ، مملکتیں کسی ایک فرد پہ چلانے کا انجام تیرے سامنے ہے۔ مملکت کو چلانے والے وہاں کے عوام ہوتے ہیں اور ہم میں یہ خرابی پتہ نہیں کہاں سے در کر آئی ہے کہ ہم شخصیتوں کو آگے لاتے ہیں۔ اے بادشاہ یہ تو قوم موسیٰ والا حال ہے کہ اُنہیں بس ایک خدا درکار ہوا کرتا تھا کہ وہ اُس کی پوجا کریں۔ چاہے وہ فرعون ہو یا اپنے ہاتھوں سے گھڑا ہوا نقرئی بچھڑا۔ مجھے اس وقت تیری سوچ کا یہ انداز جان کے بڑا افسوس ہوا ہے۔ آخر ایک مملکت چلانے والے اور ایک تانگہ چلانے والے میں سوچ کا فرق تو ہونا چاہئے۔ بادشاہ نے جب بات کا رخ کسی اور طرف جاتے دیکھا تو قدرے شرمندہ ہوا اور بولا۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں والی مثال تو تُو نے سنی ہو گی ، اس واسطے جو میں کہتا ہوں وہی دُرست مان لے۔ ملکہ سے گفتگو کے بعد میں اس تاجر زادے سے اپنی بیٹی بیاہنے کو تیار ہوں مگراس کے واسطے میری ایک شرط ہے۔ اور وہ شرط یہ ہے کہ یہ نوجوان کوہ قاف جائے اور وہاں سے وہ سفید گلاب لائے کہ جسے سونگھنے سے پیر جواں اور جواں ، نوجواں ہو جاتا ہے۔ اور دیکھ وزیر با تدبیر اس خواہش کا علم ملکہ کو نہ ہونے پائے کہ وہ فضیحتا کرے گی اور اس کا سببِ خفیہ تُو جانتا ہے۔ تس پہ وزیر با تدبیر مسکرایا اور بولا۔ اے بادشاہ۔ تو نے اس وقت میرے دل کی بات کہہ دی۔ میں خود بھی مدتوں سے اُس گلاب کی فکر میں ہوں کہ جب سے تیسری شادی کی ہے اُس کی اشد ضرورت محسوس کرتا اور ایک سبب ِ ناگفتنی کے تیسری کے طعنے سنتا ہوں۔

چنانچہ اس گفتگو کے بعد میرا رشتہ منظور ہوا اور میں شہزادی سے نکاح اور بعد ازاں مراحل کے تصور میں گم ہو گیا لیکن میری گمشدگی کی مدت بہت کم تھی کہ مجھے فوراً ہی دربار کے درویش کے سامنے پیش کیا گیا جس نے مجھے کوہ قاف کے اُس مقام کا پتہ سمجھایا اور وہاں کے بادشاہ کے نام ایک رقعہ کہ جناتی زبان میں لکھا ہوا تھا دیا اور ساتھ ہی ایک بیش قیمت گھوڑا بھی اُس کی نذر گزارنے کو میرے حوالے کیا۔ میں چاہتا تھا کہ رخصت ہونے سے پیشتر اپنی قراۃ العین سے ملوں لیکن اس کا موقع ہی نہ ملا اور میں کوہ قاف کے سفر پہ روانہ ہو گیا۔

رستے میں مجھ پہ جو بیتی اُس میں سب سے اندوہ ناک پہلو یہ ہے کہ میں درباری درویش کا لایا ہوا وہ تعویذ کھو بیٹھا اور اس کا سبب یہ ہے کہ میں سفیدگلاب لانے کے راستے میں پیش آنے والی آزمائشوں کی پہلی منزل پر ہی ایک پریزاد کی زلفوں کا ایسا اسیر ہوا کہ شہزادی زر نگار کو بھول بیٹھا اور ایک رات جبکہ میں عیش و عشرت کی تکان اُتارنے کو سویا تو وہ پریزاد کہ حرافہ مجھ سے چھل کر رہی تھی، میرا تعویذ لے کے غائب ہو گئی۔ اس واقعے کو تین دن ہو تے ہیں ، نہ کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو۔ گھوڑے میری صورت سے بیزار اور میں زندگی سے۔ اتفاقاً اِدھر آن نکلا ہوں اور تمہاری مدد کا طالب ہوں کہ تم بھی میری طرح کے مسافر ہو اور اس سفر میں ملنے والے پہلے آدم زاد۔ میری مدد کرو ورنہ میں جان سے گزرا کہ گزرا۔

اب ایک اور عشق کا مارا ہمارا ہم جلیس تھا اور اُس کی مدد نہ کرنا پرلے درجے کی دَنایَت تھی چنانچہ جی میں مصمم ارادہ باندھا کہ اس غریب الدیار اور تارک الوطن کی مدد ضرور کیا چاہئے۔ اپنے انیسوں سے مشورہ چاہا تو اُنہیں اس داستان خونچکاں سے دلگیر پایا اور مدد پر آمادہ بھی۔ ہم میں سے صرف وہ توتا کہ اب شہزادہ بن چکا تھا ، قدرے حیض بیض کا شکار تھا۔ وجہ دریافت کرنے پر وہ گویا ہوا کہ اے شہزادے۔ یہ ضرور ہے اس تاجر زادے کی داستان رنگین و سنگین ہے لیکن تُو شاید بھول گیا ہے کہ بزرگ کہہ گئے ہیں کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو چنانچہ ایسا نہ ہو کہ پرائی نبیڑنے میں اپنی راہ کھوٹی ہو جائے۔ تیرے پاس ویسے بھی اب شہزادی ماہ نور کا پہلا سوال پورا کرنے کو گنتی کے دن ہی رہ گئے ہیں۔ آگے جیسی تیری مرضی کہ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔ غور کیا تو اُس کی بات کو کچھ ایسا غلط بھی نہ پایا۔ ایک طرف اپنی غرض دامن کشاں تھی تو دوسری طرف ایک ضرورت کا مارا در کی زنجیر ہلائے جاتا تھا۔ گھوڑوں کی طرف نگاہ کی تو اُنہیں اپنی سرمستی میں مشغول دُند مچاتے پایا۔ وزیر زادہ کہ میرا مونس و غمخوار تھا یوں گویا ہوا کہ اے آقا زادے۔ انسان ، انسان کے کام نہ آوے گا تو پھر کون آوے گا۔ اور پھر دردِ دل کے واسطے والا شعر پڑھ کے بولا، یہ نوجوان جو تیرے سامنے مسمسی صورت بنائے بیٹھا ہے تو در اصل بنائے نہیں بیٹھا ، اُفتاد پڑے تو صورت ایسی ہو ہی جایا کرتی ہے۔ کیا خبر اس کی مدد میں ہمارے لئے کوئی خیر کی صورت مضمر ہو چنانچہ میرا حقیر مشورہ یہ ہے کہ تُو میرے سابق توتے کی باتوں پر نہ جا کہ وہ انسانوں کی طرح سوچنے لگا ہے، جب توتے کی جُون میں تھا اور حیوانوں کی طرح سوچتا تھا، تو بہتر سوچتا تھا چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اس نوجوان کی مدد ضرور کریں۔ اور اب جبکہ ہمارے پاس گھوڑوں کی کمی بھی نہیں ، ہمیں یہ کام شتابی کرنا چاہئے۔ چنانچہ میں نے ساتھیوں سے کمریں کسنے کو کہا اور ہم نے نوجوان کے بتلائے ہوئے راستے پہ گھوڑے ڈال دئیے۔ ہم شام تک سفر میں رہے اور جب تھکن نے ہمارے چہروں سے تراوٹ اور واماندگی نے آنکھوں سے روشنی چھیننا شروع کی اور گھوڑے بھی سستی پہ مائل ہوئے تو ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔

جن کو انگوٹھی سے نکالا اور شتابی کچھ کھانے پینے کا سامان لانے کو روانہ کیا۔ جب ہم کھانے پر بیٹھے تو جن نے وزیر زادے کی بغل میں کہنی مار کے آنکھوں کے اشارے سے تاجر زادے کے بارے میں سوال کرا۔ تس پہ وزیر زادے نے جن کو تاجر زادے کی داستان مختصراً سنائی اور اپنے ارادے سے بھی مطلع کیا اور ساتھ ہی حسرت سے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے اس کی مدد کرنے کے دوران ہم اپنی راہ کھوٹی کر دیں اور سوال کہ ماہ نور نے سامنے رکھا تھا پور ا نہ کر سکیں۔ تس پہ جن نے ایک فلک شگاف قہقہہ مارا اور پھر کھانے میں مشغول ہوا۔ مجھے جن کی یہ رکاکت بھری حرکت گراں گزری تو میں نے غیض بھرے لہجے میں کہا۔ کیوں صاحب اس وقت چِبلے پن کا یہ دورہ کیسا۔ یہ وقت تمسخر کا نہیں۔ تس پہ جن قدرے نادم ہوا اور سرزنش بھرے لہجے میں کہ جس میں چنداں شرمندگی کا عنصر بھی شامل تھا یوں گویا ہوا۔ اے آقا چونکہ میں اس انگوٹھی میں رہتا ہوں مطلب یہ کہ میرے رہنے کی جگہ انسانوں کے قریں انتہائی ذلیل و اسفل ہے اور انسانوں میں قدر اُسی کی ہوتی ہے کہ جو جائے معقول یعنی محل میں رہے۔ چونکہ آپ انسانوں میں عقل کی کمی کو دولت سے پورا کرنے کی کوشش کرنے کی گھٹیا روایت پنپ چکی ہے اس لئے آپ مجھے بھی اُسی نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جن یہ کہہ کر خاموش ہوا تو میں نے پوچھا ابے گیدی تُو اس وقت اس طبقاتی فلسفے کی گتھی سے کیا نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تو جن بولا۔ آقا اگر مجھے پہلے ہی انگوٹھی سے نکال لیتے اور مشورہ لیتے تو میں اس مسئلے کو چٹکی بجاتے میں حل کر دیتا۔ وہ سفید گلاب کہ جس کی یہ تاجر زادہ تلاش میں در بدر پھر رہا ہے، میری انگشت شہادت کی مار کے فاصلے پہ ہے۔ تس پہ میں نے کہا۔ مردود اگر یہ کام اتنا ہی سہل تھا تو تُو نے پہلے منہ سے کیوں نہ پھوٹا اور ضروری تھا کہ ہمیں شرمندہ بھی کرتا۔ جن بولا۔ میں حکم کا غلام ہوں اور چونکہ آپ نے مجھے ابھی تک ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور میں خود کچھ بھی نہیں کر سکتا اس واسطے میں معذور ہوں۔ چنانچہ میں نے کہا اگر تُواس کام کو اتنا ہی سہل جانتا ہے اور دعویٰ بھی کرتا ہے تو پھر ہمارے یار کی خواہش پوری کر نیز یہ بھی بتلا کہ تجھے اس کام کو سر انجام دینے میں کتنا وقت لگے گا۔ جن مسکرایا اور اپنا ہاتھ اپنے سامنے کے رُخ بڑھایا۔ اُسی وقت جن کے ہاتھ میں ایک سفید رنگ کا گلاب دِکھا جو اُس سبزی سے مماثل تھا کہ جسے مضبوط سے مضبوط معدے کا آدمی بھی کھا لے تو دو نمازوں کے درمیان وضو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ وہ پھول ، گوبھی کے پھول کے برابر اور اُسی سے ملتا تھا۔ جن نے وہ پھول تاجر زادے کے حوالے کیا اور بولا۔ اے تاجر زادے۔ یہ ہے تیرا نخل تمنا۔ اب اسے اپنی خرجی میں رکھ اور اپنے وطن کی جانب روانہ ہو جا اور شہزادی کو نکاح میں لا کے بعد از نکاح کے جملہ مراحل سے بخوشی گزر اور اگر اس میں بھی کوئی اڑچن پاتا ہے تو مجھ سے کہہ کہ میرے کنے ایک ایسے ملک کے بارے میں معلومات ہیں کہ جہاں کی آدھی آبادی اس نوع کے مجرب نسخے ڈنکے کی چوٹ مشتہر و استعمال کرتی ہے۔ تاجر زادے نے جن کی دوسری پیش کش کو ٹھکرا دیا اور کہا کہ وہ باقی سارے معاملات میں خود کفیل ہے اور فقط اس سفید گلاب کا متلاشی و متمنی تھا۔ چنانچہ ہم نے اُس رات اُسے مہمان کھا اور سویرے جب وہ روانہ ہونے لگا تو جن نے یہ منحوس انکشاف کیا کہ چونکہ یہ پھول سو سال میں ایک بار کھلتا ہے اور صرف شہنشاہ جنات کے باغ خاص کی سوغات ہے اس لئے شہنشاہ جنات اسے بہت عزیز رکھتا ہے اور ہمارا جن اسے بغیر کسی اجازت کے لے آیا تھا اس لئے اب تک اس کی ڈھنڈیا پڑ چکی ہو گی اور بہت ممکن ہے کہ ڈھونڈنے والے اس جانب بھی آن نکلیں اس لئے اسے لے کر فوراً یہاں سے نکل لے۔ تاجر زادہ قدرے گھبرایا تس پہ میں نے جن کو حکم دیا کہ اس وقت گھوڑے پہ سفر کی کھکھیڑ خطرے سے خالی نہیں اس لئے کیا بہتر نہ ہو گا کہ جن تاجر زادے کو اپنے شانے پہ بٹھا کے بمع پھول کے اُس کے وطن تک پہنچا دے۔ جن تھوڑی سی ہچر مچر کے بعد راضی ہوا اور پندرہ دن انگوٹھی سے باہر رہنا اس کی شرط ٹھہرائی۔ میں نے اُس کی شرط منظور کی اور تاجر زادہ بمع گھوڑے اُس کی کمر پہ سوار ہوا اور جاتے وقت کہہ گیا کہ زندگی میں ہمیں کبھی اُس کی ضرورت پیش آئی تو جان کے علاوہ سب کچھ حاضر کر دے گا اور اُس نے اپنی ایک انگوٹھی بھی نشانی کے طور پر میری اُنگلی میں پہنانی چاہی جو قدرے چھوٹی تھی تو میں نے اُسے اپنی پگڑی کے پیچ میں رکھ لیا۔ ہم اُس وقت تک اُن دونوں کو دیکھتے رہے جب تک جن ایک بادل میں داخل نہ ہو گیا۔

ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا اور ہم ابھی توتے شہزادے کے لئے اُس گھوڑے پہ زین ہی کس رہے تھے کہ جو ہمیں تاجر زادہ دے گیا تھا کہ بزرگ سفید پوش ہاتھوں میں ایک بڑا سا ٹوکرا لئے ایک درخت کے پیچھے سے مبارک سلامت کے شور کے ساتھ برامد ہوا۔ ہم اس وقت بزرگ سفید پوش کو دیکھ کر اتنے فرحان ہوئے کہ میں تو خوشی سے بے ہوش ہونے کو تھا مگر یہ دیکھ کر ارادہ ملتوی کیا کہ ٹوکرا نوع نوع کی مٹھائیوں سےمنہ در منہ تھا۔ بزرگ سفید پوش یہ کہتا جاتا تھا اور ہمارے مونہوں میں وہ خوش رنگ و خوش ذائقہ مٹھائی ڈالتا جاتا تھا کہ مبارک ہو تمہارا پہلا سوال بخیر و خوبی جواب سے ہمکنار ہوا۔ میں نے حیرت سے کہا۔ اے بزرگ سفید پوش اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیری آمد ہمیشہ باعث خیر و برکت و شادمانی ٹھہری ہے لیکن اس وقت اس شیرینی اور تیری اس عنایات بے پایاں کا سبب جاننے سے میری عقل عاری ہے۔ تس پہ وہ بولا۔ ابھی جو تاجر زادہ یہاں سے گیا ہے، وہ تائید غیبی کی صورت شہزادی ماہ نور کے پہلے سوال کا جواب تمہیں بتلا گیا ہے۔ اُس کا سوال تھا کہ لالچی کا شکم کیا چیز بھرتی ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ لالچی کا شکم فقط قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ اور جب تمہارا جن واپس آوے تو میری بات کی حقیقت کی گواہی اُس سے لے لینا۔ جن کے واپس آتے ہی اب تم ترنت اُس کے شانے پہ سوار ہو کے شہزادی کے حضور پہنچ جاؤ اور اس سوال کا جواباُس کے سامنے رکھو اور شاباش لو۔

بعد ازاں بزرگ سفید پوش باقی ماندہ مٹھائی احتیاط سے ایک رُمال میں باندھ کے اپنے گھوڑے کے ساتھ مائل بہ پرواز ہو گیا اور دوسری طرف سے جن اُترا۔ جن بار بار دونوں کانوں اور ناک کو ہاتھ لگا کر توبہ کرنے کا بصری تاثر دے رہا تھا۔ جب وہ اس کام میں زیادہ دیر تک مشغول رہا تو میں نے اس کا سبب دریافت کیا تس پہ جن بولا میں تاجر زادے کو محل کی چھت پہ اُتار کے واپس لوٹنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ بادشاہ دکھائی دیا۔ میں نے غائب ہونے والی کل دبائی اور اُن کی باتیں سننے لگا۔ بادشاہ کے دربار کے درویش نے سفید گلاب کے اصل ہونے کی سند فقط اُسے دیکھ کر ہی جاری کر دی۔ بادشاہ نے اُسی وقت جشن بپا کرنے کے احکامات جاری کئے اور تاجر زادے کے دونوں بھائیوں کے قتل کے احکامات بھی ضمناً صادر کر دئیے لیکن تاجر زادہ کہ تخم اصل ہے اس پہ آمادہ نہ ہوا

اور کم سے کم سزا کا خواستگار ہوا چنانچہ میرے سامنے شاہی نائی کو بلوا کر اُن دونوں کے سر بھوؤں سے گدی تک مونڈ کے اُن دونوں کے ہاتھوں میں ایک ایک جھانکڑ دے دیا گیا کہ شاہی باغات میں کوے ہکنوں کے فرائض تب تک سر انجام دیویں جب تک جیتے رہویں لیکن میں نے تاجر زادے کے توتے کو کہتے سنا کہ اے آقا ان دونوں کو قتل کروا دینا زیادہ ضروری ہے کہ یہ لالچی ہیں اور ان کا شکم فقط قبر کی مٹی ہی سے بھرا جا سکتا ہے مگر اُس مرد نر نے اسی سزا پہ اکتفا کیا۔ یہ حکایت لذیذ سن کر میں جن سے گویا ہوا۔ اے جن میں جانتا ہوں کہ تیرا شہزادی ماہ نور کے ملک میں ایک بہت پرانا معاشقہ ہے اور وہ عفیفہ اب تک تیرے فراق میں آہیں بھرتی لیکن ساتھ ہی سولہ بچوں کی ماں بھی بن چکی ہے، اس وقت تُو مجھے شتابی شہزادی ماہ نو ر کے محل میں لے چل کہ بہت ہی ضروری کام آن پڑا ہے۔ جن نے جب یہ بات سنی تو مسکرا کے بولا۔ آقا وہ تو میں جز وقتی رکھ چھوڑی تھی لیکن اب چونکہ انگوٹھی کے طلسم کا اسیر ہوں اور یہ موقع ہاتھ آ رہا ہے تو جب تک تم اپنا کام پورا کرنا میں اپنی محبوبہ پارینہ سے ملاقات کی کوشش کروں گا۔

چنانچہ میں اُس پختہ کار، در کارِ ہائے مخفی بہ بابتِ زنان جن کی کمر پہ سوار ہو کے شہزادی ماہ نور کے محل کی جانب رواں ہوا۔ موسم اچھا تھا اس لئے ہم جلد ہی شہزادی ماہ نور کے پائیں باغ میں جا اُترے اور میں نے وقت کا زیاں کئے بغیر شہزادی کے سامنے پہلے سوال کا جواب رکھا جسے اُس نے فوراً قبول کیا اور مجھے اس قدر جلد جواب ڈھونڈنے پہ مبارک باد دی اور اُس رات اپنے محل کو رہنے کی دعوت بھی لیکن میں چونکہ شہزادی کے اگلے سوال کا جواب شتابی ڈھونڈنا چاہتا تھا اس واسطے معذرت کی اور کہا جانی یہ سارے سوالات پورے کرنے کے بعد مجھے یہ یہیں رہنا ہے کیونکہ میں تیرے باپ کی گفتگو میں وہ سارے قرائن دیکھتا ہوں جو اُس سسر کی گفتگو میں پائے جاتے ہیں کہ جو گھر داماد پالنے کا شائق ہوتا ہے۔ تس پہ شہزادی مسکرائی اور کہا چونکہ ابا جی بھی گھر داماد ہیں اور اسی سلسلے میں بادشاہت بھی نصیب ہوئی ہے اس لئے وہ ایسا تو از بس چاہیں گے۔ غرض دو چار اور اسی نوع کی میٹھی میٹھی باتیں ہوئیں اور شہزادی نے اگلا سوال بتلایا:

 

شہزادی کا دوسرا سوال: تُکا کیسے لگتا ہے؟

 

میں اس عجیب و غریب سوال کی نوعیت سمجھنے کی کاوش ناکام کی سعی میں غرق ہوا ہی چاہتا تھا کہ جن دیوار سے مجھے اشارے کرنے لگا اور میں شہزادی سے با دلِ ناخواستہ رخصت ہو کر اُس کی کمر پہ سوار ہو گیا۔ جن کی پرواز نا ہموار تھی اور وہ اپنی محبوبہ کے وصال کے نشے میں سر شار تھا چنانچہ اُسے تنبیہ کی تو وہ اپنی محبوبہ سے ملاقات کی زیٹ اُڑانے لگا۔ غرض چند ہی ساعتوں میں ، میں اپنے ساتھیوں میں جا اُترا۔ جن کو شراب لانے کے واسطے روانہ کیا اور اُن کے سامنے شہزادی ماہ نور کا دوسرا سوال رکھا۔ ہم تینوں جانتے تھے کہ تکا کیا ہوتا ہے لیکن یہ علم کسی کو نہ تھا کہ یہ کیسے لگتا ہے۔ ابھی ہم غور و فکر ہی کر رہے تھے کہ وزیر زادہ یوں گویا ہوا۔ اس کفش نشین کی سمجھ میں تو فقط یہی آتا ہے کہ اس سوال کا جواب بھی کسی حکایت دلپذیر میں مضمر ہے اور وہ حکایت اب چاہے جگ بیتی کی صورت ہو یا آب بیتی کی شکل میں۔ توتا شہزادہ اس پر اپنا سر زور زور سے اثبات میں ہلانے لگا لیکن چونکہ فقط سر ہلانے سے مسئلے حل نہیں ہوتے تو عنقریب تھا کہ میری آتش غضب بھڑک اُٹھتی کہ جن اپنے ساتھ شراب کا مٹکا اور ایک بد ہئیت کلال دوسرے شانے پہ اُٹھائے چلا آیا۔ مٹکا احتیاط اور کلال کو برابر کی ایسی احتیاطی سے زمین پہ رکھا کہ وہ اپنے سرین سہلاتا کھڑا ہوا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کیا کہ حضور یہ جن ہر روز ڈرا دھمکا کے مجھ سے وہ مے ناب خاص کہ فقط شاہی محل کی محفلوں کے واسطے کشید کرتا ہوں ، بلا معاوضہ لاتا ہے اور اس پر ہزاروں دینار سرخ واجب ہیں۔ آج مجھے بھی اُٹھا لایا ہے اور بضد ہے کہ مجھے آج کی رات نوش جاں کرے گا حالانکہ مجھے ہضم کرنا اس کے باپ کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ تس پہ میں نے جن سے استفسار کیا تو جن بولا۔ میں اس مردود کو بلندی سے اپنے شانے سے گرا دینا چاہتا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ اگر یہ مر گیا تو یہ ہمیں یہ مے سرخ کون فراہم کرے گا۔ فاصلہ زیادہ طے کر چکنے کے بعد یہ خیال آیا۔ اب اگر آپ کہتے ہیں تو اسے وہیں پٹخ آتا ہوں کہ جہاں سے لایا ہوں۔ وہ کلال تھر تھر کانپ رہا تھا۔ مجھے اُس پر رحم آ گیا اور جن سے کہا کہ اُسے فوراً واپس پہنچا آئے اور اپنی ہمیانی سے اُس کلال کے مطالبہ کے بموجب دینار نکال کے اُس کے حساب سے خود کو سبک سر کیا اور شراب کو کسی حد تک خود پہ حلال کیا۔ وہ کلال اس درجے ممنون ہوا کہ ہاتھ جوڑ کے بولا کہ اس غلام زادے کے واسطے کوئی خدمت ہو تو بتلائیے۔ وزیر زادے نے کہا کہ ہم ایک سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ تکا کیا ہے اور یہ کیسے لگتا ہے۔ تس پہ وہ کلال غور و فکر کرنے لگا اور مسکرا کر بولا۔ اس ہو حق ویرانے میں تو اس سوال کا جواب ملنے سے رہا۔ میں ملتمس ہوں کہ حضور میرے غریب خانے پہ تشریف لے چلیں۔ وہ شہر آدم خیز ہے اور وہاں نوع نوع کی مخلوق بستی ہے۔ اُن میں وہ بھی ہیں کہ عقل و فہم میں ثانی نہیں رکھتے اور وہ بھی کہ اُنہی کی جوتیوں کے طفیل جہانبانی کرتے، اور اسے عین اپنی فراست کا بین ثبوت اپنی دانست میں گردانتے ہیں تو ممکن ہے کہ آپ اپنے سوال کا جواب وہاں سے منشا کے بموجب پاویں۔ توتا شہزادہ اور وزیر زادہ کہ جنگلوں کی خاک چھانتے چھانتے تھک چکے تھے اس تجویز پر مرحبا کہنے لگے اور مجھ سے مصر ہوئے کہ اس سوال کا جواب شہر میں تلاش کیا جانا چاہئے۔ میں نے جن کی طرف دیکھا تو وہ تلخ نوائی پہ اُتر آیا کہ سرکار ہمیں کیا، ہمیں تو انگوٹھی میں رہنا ہے ہاں اگر آپ مجھے اس منحوس انگوٹھی میں رہنے سے رخصت عطا کریں تو شکر گزار ہوں گا اور اس تجویز پہ صاد بھی کروں گا اور ویسے بھی مجھے اس انگوٹھی میں رہتے رہتے عرق النسا کا عارضہ لاحق ہوا چاہتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد آپ کے کسی کام کا بھی نہ رہوں گا اور ہمت گناہ ہونے کے باوجود طاقت گناہ سے بھی گزر جاؤں گا۔ چنانچہ ہم نے طے کیا کہ اس سوال کا جواب کسی شہر میں تلاش کیا جانا چاہئے۔ جملہ اسباب بمع گھوڑوں کے جن پر لادا ، کلال کو ایک کونے میں بٹھلایا۔ جن کہ پہلے زمین سے کھڑے کھڑے ہی پرواز کر جایا کرتا تھا، اُس روز زمین پہ خاصی دور تک بھاگا اور تب جا کے کہیں فضا میں بلند ہوا۔ تو مجھے یقین ہوا کہ وہ مردود اپنے مرض کے بارے جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔

ہم آن کی آن میں کلال کے گھر کی چھت پر جا اُترے۔ بہت دنوں کے بعد شہر دیکھا تھا اس واسطے دل کو یک گونہ طمانیت ہوئی۔ اسباب ٹھکانے پہ لگوایا اور کلال ہمیں اپنے خلوت خانہ خاص میں لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ہر طرف مادر پدر آزاد مرد و زن کی تصویریں دیواروں پہ کھُدی ہوئی ہیں اور اُن میں مرد و زن وہ وہ افعال دل خوش کن سر انجام دے رہے ہیں کہ جن کا مقصد بقائے نسلِ انسانی کی کاوشوں کے سوا کچھ اور بھی تھا اور جیسا کہ اُنہیں سر انجام دینے کا حق ہے۔ جن اُن تصاویر کو دیکھ کسی گھوڑے کی طرح ہنہنانے لگا۔ گھوڑے وہاں ہمارے ساتھ نہیں تھے ورنہ وہ نجانے کیسے ہنہناتے۔ کلال نے اپنا وہ لباس تبدیل کیا کہ جس میں وہ کلال دکھائی دیتا تھا، اب کے اُس نے جو جو کچھ بھی زیب تن کیا اُس میں وہ دلال دکھائی دے رہا تھا اور آگے چل کر معلوم ہوا کہ وہ اس جُز وقتی پیشے سے بھی متعلق تھا اور اس مقصد کے واسطے اُس نے خوبانِ شہر میں سے کتنی ہی شب زادیاں ملازم رکھ چھوڑی تھیں۔ اور یہ تصاویر، پچاس سے اُوپر کے مردوں کے جذبہ ناقابلِ تحریر کو انگیخت دینے کے واسطے ان دیواروں پہ کھدی ہوئی تھیں ، جو وزیر زادے کی رائے میں ، اثر پذیری کے حوالے سے ستر برس سے اُوپر والوں کے مقاصد بھی بخوبی پورا کر تی تھیں۔ کلال نے ہماری خدمت کے واسطے حُور و غلمان جیسی کنیزوں اور غلاموں کا بندوبست کیا کہ جو کھانے سے قبل نیم گرم پانی کی سلفچیاں لئے ہمارے بالیں کھڑے ہوئے اور کھانے کے بعد بھی یہی فعل سر انجام دیا۔ کلال ، کہ اب دلال کے لباس کے ساتھ ساتھ گفتگو کرنے کے انداز میں بھی ویسا ہی ہو چلا تھا ، چاہتا تھا کہ ہماری خدمت خفیہ بھی کرے لیکن چونکہ ہم تینوں آدم زاد فقط ایک ہی شرعی عیب تک محدود رہنا چاہتے تھے، چنانچہ معذرت خواہ ہوئے اور اپنا سوال کلال کو یاد دلایا۔ تس پہ کلال نے ذرا سا غور کیا اور مسکرا کر بولا۔ حضور میری رائے میں اس سوال کا جواب آپ کو شہر کے ایک آدمی سے مل سکتا ہے کہ اب سے دو سال قبل ایسے پیشے سے وابستہ تھا کہ جس کا ہر دوسرا آدمی مریض ہے اور اب زر و جواہر میں کھیلتا ہے اور ممکن ہے کل ہمارا بادشاہ بھی کہلائے۔ اور خلقِ خدا کہتی ہے کہ اُس کا یقیناً تکا لگا ہے ورنہ ایسی کایا کلپ تو صدیوں میں ہونا بھی نا ممکن ہے۔ اگر اجازت ہو تو جناب کو اپنی ہمرہی میں وہاں لے چلوں۔ اجازت کا کیا سوال تھا، میں تو اس سوال کا جواب لینے کو مرا جا رہا تھا لیکن چونکہ کلال میری شہزادگی سے واقف تھا اور حسب مراتب سے بھی، چنانچہ اُسے اجازت مرحمت کی اور ہم اُس کی معیت میں سوئے مقصود روانہ ہوئے۔ ہم نے جن کی خواہش پہ اُسے بھی ساتھ لے لیا اور جن نے اس موقع کی مناسبت سے کسی مذہبی پیشوا کا روپ دھارن کر لیا۔ سیاہ ریش ، بغیر مونچھ اور آنکھوں میں دنبالے دار سرمے کے ساتھ وہ ویسا ہی منحوس صورت لگ رہا تھا جیسا کہ کسی مذکور کو لگنا چاہئے۔

اُس مرد مہمان نواز نے کہ بعد میں کلال کا مقروض بھی نکلا ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور جب اُس کی کنیزیں ہمیں قہوے کے فنجان پہ فنجان پلا چکیں اور باہر رات گہری ہو گئی تو وہ یوں گویا ہوا۔ صاحبو میرا اصل نام لال دین ہے لیکن چونکہ میں ایک نہایت ہی عسرت زدہ خاندان میں پیدا ہوا تھا اور غریبوں کے بچوں کے ناموں کے ساتھ عُرفیت کا دم چھلا ضرور ہوتا ہے، چنانچہ مجھے لالو کے نام سے مخاطب کیا جاتا تھا۔ میرے ماں باپ میں ہمیشہ سے ویسے ہی تعلقات تھے جیسے کہ مفلس خاندانوں میں میاں بیوی کے ہوا کرتے ہیں یعنی ماں کو زبان اور باپ کو ہاتھ چلانے میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ میں اپنے ماں باپ کی سب سے چھوٹی اولاد تھا۔ بڑھاپے کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میرے باپ نے میری دونوں بہنوں اور چاروں بھائیوں کی شادیاں کر دیں اور جب میری مسیں بھیگیں اور میں نے آدھ دینار یومیہ کے حساب سے ایک تندورچی کا بھاڑ جھونکنے کی ملازمت بھی کر لی اور میرے والدین کے کانوں پہ کچھ بھی نہ رینگا تو مجھے منہ کھول کے اپنی شادی کی فرمائش کرنا پڑی تس پہ میرے باپ نے مجھے وہ گالیاں دیں جن سے میری ماں کا بازاری ہونا ثابت ہوتا تھا۔

میں نے چند ماہ صبر کیا۔ میرے ایک مونس و غمخوار نے کہ میری ہی طرح کے ایک خانوادے کا فرد تھا ، مجھے مشورہ دیا کہ مجھے اپنی آمدنی بڑھانے کا حیلہ کرنا چاہئے اور بھاڑ جھونکنے کی ملازمت کو خیر باد کہنا چاہئے کہ تجربہ کہتا ہے کہ بھاڑ جھونکنے والے ہمیشہ بھاڑ ہی جھونکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے مختلف النوع کام شروع کئے جن میں سرمہ بنانے سے لے کر وہ دوائیں تک شامل تھیں کہ جنہیں احمق روٹھی اور گُمی جوانی کی تلاش میں بے محابا استعمال کرتے اور رہی سہی سے بھی جاتے ہیں۔ چونکہ میں پرلے درجے کا اناڑی تھا اس لئے جہاں دوا بیچتا تھا تو وہاں کے لوگ کبھی اندھے، کبھی نا مرد اور کبھی کچھ اور ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ کوتوال شہر کو میرے کرتوتوں کی خبر ہوئی اور ایک روز جبکہ میں مجمع لگائے اپنی دوا کی تعریفوں میں رطب لسانی کر تا اور سلاست کے دریا بہاتا تھا، سپاہی میری مشکیں کس کے مجھے بندی خانے لے گئے جہاں رات ہونے پہ مجھے کوتوال شہر کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ سچ کہتا ہوں کہ اُس کی صورت اس قدر بول آور تھی کہ میں نے بڑی مشکل سے اپنے لباس کو آلودہ ہونے سے روکا۔ اُس کی بڑی بڑی مونچھیں مانند بادبان پھڑ پھڑ ا رہی تھیں اور آنکھوں سے وہ شعلے نکل رہے تھے کہ اگر میں قریب ہوتا تو جل ہی جاتا۔ میں نے جی میں ٹھان لی تھی کہ آج یہ کوتوال میرے جسم کو سِندان بنا کے چھوڑے گا لیکن اُس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُس نے تخلیے کا حکم صادر کیا ، ور تنہائی پا کر میرے قریب ہوا اور اتنے نرم لہجے میں ، کہ ریشم و کمخواب کسی حسِین پنڈے پر کیاپھسلتا ہو گا ، یوں گویا ہوا۔ سنتا ہوں کہ تُو ایسی دوا بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا کہ جسے کھا کے پیر، مرد اور مرد ، جواں مرد اور جواں مرد وہ مجرم بن جایا کرتے ہیں کہ جو پڑوس کے گھر کے دروازے کے بجائے ، دیوار پھلانگ کے گوہر مقصود تک پہنچتے اور اُسے بچھونے سمیت اُٹھا لاتے ہیں۔ اگر تیرے تئیں واقعی کوئی ایسا نسخہ ہے تو میری نذر کر اور اگر مجھے واقعی فائدہ پہنچا تو اس شہر میں مرضی کیا کر اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر میں تجھے ایک رات کے لئے اُن سپاہیوں کے حوالے کر دوں گا کہ جن کی صورتوں سے زیادہ دل سیاہ ہیں۔ میں یہ سن کر تھرا گیا۔ میں جو الم غلم خود بنایا کرتا تھا، وہ واقعی خلق خدا کے لئے ضرر رساں تھا لیکن ابھی پچھلے ہی دنوں ایک بزرگ، کہ کوہ و دمن میں آوارگی جس کا شعار اور غلاظت ہجر یعنی سلاجیت حاصل کرنا پیشہ تھا، مجھے چند تولے سلاجیت کے دے گیا تھا۔ میں نے سوچا اس کی اس سے بہتر آزمائش اور کہیں نہیں ہو سکتی چنانچہ اپنے چہرے پہ ایک کریہہ مسکراہٹ ہویدا کر کے ، کہ اپنے ہاں پیشہ وروں میں مقبول اور مخاطب کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے میں جواب نہیں رکھتی، میں نے ایک تولہ سلاجیت اُس ظالم صورت مگر ضرورت مند کوتوال شہر کو دی جسے وہ چند لمحوں تک غور سے دیکھا کیا اور اُسی وقت ایک سپاہی سے پانی منگوا کے اُسے نوش جاں کر گیا۔ میں اپنی ٹانگوں کو کانپنے سے بمشکل روکے ہوئے تھے اور انتظار کر رہا تھا کہ دیکھئے دو ا کے پردے سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ چنانچہ صاحبو چند ساعتیں بھی نہ گزری تھیں کہ کوتوال شہر پہ دوا کا اثر ظاہر ہو گیا۔ اُس نے سب سے پہلے اپنے سامنے پڑی میز کو اُٹھا کر دیوار سے دے مارا اور پھر اُن سپاہیوں کو بھی کہ جو آواز سن کے کمرے میں آ گئے تھے۔ اُس کی آنکھوں سے شرارے نکلے اور وہ مجھے روکے رکھنے اور دو گھڑے شرا ب کے میرے واسطے لانے کا کہہ کر شتابی کمرے سے نکل گیا۔ یہ میرا پہلا تکا تھا جو لگا تھا۔ کوتوال شہر نے مجھے اتنی رقم اور ایسی جگہ رہنے کو مہیا کر دی کہ میرے سان گمان میں بھی نہ تھا۔ میں اس دوران اُس کا علاج کرتا رہا اور وہ ایسا شفا یاب ہوا کہ اُس کی زوجہ جھولیاں پھیلا پھیلا کے میرے حق میں دن رات (بد ) دعا گو رہتی تھی۔

سوئے اتفاق اُنہی دنوں بادشاہ بیمار ہو گیا اور بڑے بڑے نامی گرامی حکیم اُس کا علاج کرنے سے قاصر و معذور ٹھہرے اور شاہی جلادوں کے سپرد کئے گئے ، لیکن بادشاہ کو صحت ہو کے نہ دیتی تھی۔ ایک روز جبکہ کوتوال ، بادشاہ کی مجلس میں موجود تھا، کسی درباری نے کوتوال کے حوالے سے میری تعریف کی اور بادشاہ کو بتلایا کہ کوتوال شہر آپ کی رعایا میں سے ایک زیرک و دانا حکیم کے طفیل صحت یاب ہوا ہے ، کیوں نہ اُس حکیم کو بلوایا چاہئے تاکہ حضور کو اُس کے ہاتھوں شفا نصیب ہو۔ چونکہ وہاں صحت نہ ہونے کے صورت میں طبیبوں کے واسطے سزائے موت مقرر تھی، اس واسطے کوتوال کے ذریعے جب حضور شاہی میں اگلی صبح پیش ہونے کے احکام مجھے ملے تو میں نے اُس رات کو اپنی حیات چند روزہ کا اختتام جانا اور اپنی سیہ بختی پہ ماتم کناں رہا۔ خیر صاحب، حکم حاکم مرگ مفاجات کے مصداق اگلی صبح بادشاہ کے حضور پیش کر دیا گیا۔ مجھے اپنا بھرم تو رکھنا تھا چنانچہ چہرے پہ ایک نہایت مدبرانہ مسکراہٹ اور ہاتھوں کے کانپنے کو بمشکل روک کر بادشاہ کی نبض تھامی۔ وہاں نبض دیکھنے کی اٹکل کس کافر کو آتی تھی، چنانچہ الل ٹپ نبض کو دیکھا کیا اور پھر مرض دریافت کیا۔ تس پہ بادشاہ بولا۔ جس رات مجھے یہ مرض لاحق ہوا ہے میں شاہی دسترخوان پر مچھلی کھا رہا تھا۔ ایک کانٹا کہ جلال شاہی سے واقف نہ تھا، گلے میں کچھ یوں اٹکا ہے کہ اُس دن سے کچھ بھی کھانا مشکل ہو گیا ہے اور فقط مشروب پر گزران ہے۔ کچھ نہ کھانے سے بدن میں ضعف کا غلبہ بڑھتا جاتا ہے اور غشی کی کیفیت دن دونی ہوتی جاتی ہے اور با ایں سبب ملکہ مجھ سے منہ پھیرے ہوئے ہے اور وجہ تُو سمجھتا ہو گا کہ تفصیل میں جاتے کٹتا ہوں۔ تیرے بارے میں سنا ہے کہ مُردوں کے حق میں عیسیٰ صفت ہے، تو میرا کچھ علاج کر اور اگر کامیاب رہا تو مالا مال کر دیا جائے گا اور اگراس کے بر عکس ہوا تو اپنے سے اگلے حکیموں کے بارے میں تو تُو سن ہی چکا ہے اور یہ جو سیہ تن اور باطن جلاد میرے بالیں پہ کھڑا ہے، ناکامی کی صورت میں تیری گردن اسی وقت اُتار دے گا۔

صاحبو ایک نظر تلوار اور جلاد کی جانب کی اور یہ شکایت مرض بمع دھمکی جاں لیوا سنی تو مجھے موت سامنے رقص کناں دکھائی دی اور میں چکر ا کے کچھ ایسے کڈھب انداز سے گرا کہ سموچا بادشاہ کے اُوپر جا پڑا۔ چونکہ وہاں خدام موجود تھے اس لئے وہ لینا پکڑنا کی صدائیں لگاتے مجھ پہ ٹوٹ پڑے اور مجھے بادشاہ سے جدا کیا۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور شاہی جلاد کی تلوار کے خود کو سپرد کئے جانے کا حکم شاہی سننے کا منتظر رہا۔ لیکن بادشاہ نے جب میرا ہاتھ پکڑا تو میں نے آنکھیں کھولیں۔ ساتھ ہی نے میرے بازوؤں پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مسکراتے ہوئے بادشاہ کے ہاتھ میں اُنگل برابر ایک سفید سی شئے ہے۔ بادشاہ نے وہ چیز میرے سامنے کی اور بولا۔ میں تیرا اور تیرے طریق علاج کا قائل ہو گیا ہوں۔ تیرے مجھ پہ گرنے کے سبب یہ منحوس کانٹا میرے حلق سے نکل گیا اور میں اب شفا یاب ہوں۔ میں جانتا ہوں یہ طریق علاج اگر تُو مجھے بتلاتا تو میں اس پہ کبھی آمادہ و تیار نہ ہوتا لیکن تُو چونکہ ایک حکیم حاذق ہے اور میرا علاج اسی طریق میں مضمر پاتا تھا چنانچہ تو نے شتابی اپنا طریقہ اختیار کیا اور مجھے صحت ہو گئی۔ صاحبو یہ دوسرا تکا تھا جو لگا۔ بعد ازاں بادشاہ نے ایک طرف مجھے کھڑا کیا اور جواہرات میں تولنے کا حکم دیا۔ میں بار بار کف افسوس ملتا تھا کہ اُس روز اپنا بھاری لباس زیب تن کر کے کیوں نہ گیا لیکن بادشاہ نے اگلا حکم صادر کیا تو میری ساری خوشی ہوا ہو گئی۔ بادشاہ نے مجھے تلوانے سے پیشتر میرا لباس اُتروا دیا کہ میرے خالص وزن کے برابر مجھے انعام دیا جاوے۔

اس کے بعد ملک بھر میں بادشاہ کا جشن صحت منانے کا پرچا لگا۔ بادشاہ اس واقعے کے بعد مجھ پہ اس قدر مہربان ہو گیا کہ مجھ کو خودسے دم بھر کو جدا نہ کرتا تھا۔ میں جلوت و خلوت میں اُس کا دمساز بنا اِتراتا پھرتا تھا۔ بادشاہ مجھے اپنے رفیق خاص کا درجہ دیتا اور حد درجے کی شفقت سے پیش آتا تھا۔ ایک روز جبکہ مجلس خاص میں بادشاہ، وزیر اور میں موجود تھا ، بادشاہ نے تجویز کیا کہ اب وہ میری شادی کر دینا چاہتا ہے اور چونکہ میں اُس کا مصاحب خاص ہوں چنانچہ وہ میری شادی اپنی پڑوسی مملکت کی شہزادی سے کہ جس کا نام نو بہار تھا، کرنے پر مصر ہوا۔

تس پہ اُس کا وزیر با تدبیر بولا کہ جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں۔ شاہی ابروئے جنبش کو موافق دیکھ کر یوں گویا ہوا کہ اے بادشاہ۔ وہ شہزادی سنا ہے اپنی شادی کے واسطے یہ شرط رکھتی ہے کہ جو اُسے شمشیر زنی میں ہرائے گا وہ اُسی کے گلے میں بر مالا ڈالے گی۔ چونکہ وہ حُسن میں بے مثال اور تدبیر میں با کمال ہے اس لئے اُس سے شادی کتنے ہی مشتاق شہزادے اپنی جانیں گنوا اور حسرت وصل لئے پیوند خاک ہو چکے ہیں۔ یہ غریب ٹھہرا ایک حکیم ، شمشیر زنی کے واسطے شمشیر ابن شمشیر ہونا لازمی شرط ہے۔ چنانچہ میرا مشورہ یہ ہے کہ اس خیال سے گزرئیے اور اس کی شادی کہیں اور کروانے کا سلسلہ جنبانی شروع کروائیے۔ بادشاہ کہ اپنی ضد کا پکا اور بات کا دھنی تھا، تس پہ اُکھڑ گیا اور بولا۔ یار ہمارا ہو، تجویز ہماری ہو اور لفظ نا ممکن ہو، یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اے وزیر اسے سپہ سالار کے سپرد کر کہ اسے فن شمشیر زنی میں طاق کر دے اور وہ سارے داؤں پیچ سکھلا دے کہ جو اس فن میں مہارت تامہ کے واسطے از بس ضروری ہیں۔ وزیر کہ مجھے بادشاہ کی طرح ہی عزیز رکھتا تھا ڈرتے ڈرتے بولا۔ اس کی حذاقت اپنی جگہ لیکن تلوار کا دھنی ہونے کو سپاہی بچہ ہونا ضروری ہے اور اس ناچیز کی رائے میں سپہ سالار بھی اُس درجے کی تعلیم شمشیر زنی اس کو نہ دے پاوے گا ، جس کی توقع حضور لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن صاحبو راج ہٹ مشہور ہے، چنانچہ حکم شاہی کے بموجب اُسی وقت سپہ سالار کو حاضر کیا گیا اور اُس کو یہ احکام دے کر مجھے اُس کے سپرد کر دیا گیا۔ میں دل میں مصمم ارادہ باندھ چکا تھا کہ اب جیسے ہی موقع ہاتھ آوے گا ، اپنے والدین کو لے کسی اور ملک کو نکل جاؤں گا۔ میرے پاس روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی اور ہر روز قافلے دوسرے ملکوں کو جایا کرتے تھے۔ سبب اس کا یہ تھا کہ ایک تو تلوار چلانا میرے مزاج کو موافق نہ تھا اور دوسرے میں اپنے تئیں اُس مہارت کے قابل نہ پاتا تھا جو اُس شہزادی سے مقابلہ کرتا اور اُسے شکست دے پاتا چنانچہ اُوپری دل سے شمشیر زنی کے داؤں پیچ سیکھتا اور فرار کے منصوبے بناتا رہا۔

بادشاہ نے میرے حق میں کانٹے یوں بوئے کہ شہزادی نو بہار کے باپ کو شادی کا پیغام بھجوا دیا اور اُس سے یہ بھی کہلا بھیجا کہ تین مہینے کے اندر اندر ہم شمشیر زنی کی تاریخ مقرر کریں گے اور ہمیں چونکہ اُمید ہے کہ ہمارا اُمید وار تیری بیٹی کو خاک چاٹنے پہ مجبور کر دے گا اس واسطے تُو جہیز بنانے کی طرف توجہ دے۔ جب یہ اطلاع میرے کانوں سے گزری تو میرا جی چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اُس میں سما جاؤں۔

چنانچہ اُسی رات ایک قافلہ سالار سے بات کی اور اگلی صبح چپکے سے اُس کے ساتھ نکل جانے کے واسطے تیاری کرنے لگا۔ صبح تڑکے اُٹھنا تھا اس لئے ماں باپ کو جلدی سلا دیا اور خود بے چینی سے صحن میں ٹہلنے لگا تو میرا راز دار حبشی غلام اُفتاں خیزاں گھر میں داخل ہوا۔ میں سمجھا کہ میرے فرار کا راز فاش ہو گیا ہے لیکن اُس مردود نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ایک عورت، کہ جس کے ساتھ حبشی غلام اور ایک کنیز ہے، میری ڈیوڑھی پہ کھڑی اور اندر آنے کی منتظر ہے۔ اجازت ہو تو اُنہیں بار یاب کرواؤں۔ میں جی ہی جی میں حیران تھا کہ مجھ سے اس وقت کون عورت ملنے آ سکتی ہے، چنانچہ اجازت دی اور چند ہی لمحوں میں دو نقاب پوش عورتیں بمع غلام ، ڈیوڑھی اُلانگ کے میرے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ عورت نے اشارہ کیا تس پہ اُس کا غلام میرے غلام کو لیتا ہوا منظر سے ہٹ گیا۔

عورت یوں گویا ہوئی۔ میرا نام شہزادی نوبہار ہے اور یہ میرے ساتھ میری کنیز خاص ہے کہ راز داری میں جواب نہیں رکھتی۔ سنتی ہوں کہ تُو مجھ سے شادی کا خواہشمند ہے۔ میں ڈرا کہ کہیں وہ سیاہ جامے سے تلوار نہ نکال لے۔ وہ میرا خوف سمجھ گئی اور بولی۔ مجھ سے مت ڈر۔ میں اس وقت تجھ سے ایک راز کہنے آئی ہوں۔ میرا باپ جو در اصل میرا باپ نہیں ، بلکہ میرا چچا ہے اور میرے باپ کو قتل کر کے سلطنت پہ قابض و متصرف ہے ، یہ راز دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے میں کامیاب بھی، میری شادی کہیں بھی نہیں کرنا چاہتا کہ اس طرح مجھ سے ہونے والی اولاد کل کو دعویٰ داری کر سکتی ہے، چنانچہ اُس نے میری شادی کی یہ شرط رکھ دی ہے۔ سن اے نوجوان۔ اب جو میں بات تجھ سے کہنے والی ہوں ، اگر اُسے خود تک محدود رکھے گا تو شب زفاف مجھے اپنے پہلو میں پائے گا ورنہ نہیں۔ اور وہ بات یہ ہے کہ میرا باپ زنانہ لباس اور نقاب میں میری جگہ اپنے سپہ سالار کو میدان میں اُتارتا ہے اور وہ چونکہ ایک ماہر شمشیر زن ہے، اس واسطے مجھ سے شادی کے اُمیدواروں کو بہ سہولت چِت کر دیتا ہے۔ میری شادی کی عمر گزرتی جاتی ہے اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، اور مجھے اُمید ہے کہ چلتا رہے گا تو تُو بھی مجھے نہ پا سکے گا۔ اب میں تیری آتش شوق کو مہمیز اور آرزوئے وصال کو انگیخت دینے کے واسطے اپنا نقاب اُٹھاتی ہوں۔ اگر تُو نے مجھے پسند کر لیا تو پھر بات آگے چلائیں گے۔ یہ کہتے ہی اُس ماہ رُو نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا۔ میرے گھر کی مشعلیں مانو ماند پڑ گئیں۔ شہزادی نوبہار کے حُسن کی تاب نہ لا کر میں چاہتا تھا کہ بے ہوش ہو جاؤں مگر ابھی بہت سی باتیں طے کرنی تھیں ، اس لئے ارادہ ملتوی کیا اور اُسے اور اُس کی کنیز کو مسند خاص پہ بٹھلایا۔ کنیز نے بھی بے تکلف موقع پا کر نقاب رُخ سے ہٹا دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ بھی کچھ ایسی بری نہ تھی۔ میں یہ سوچ کے چپکا ہو رہا کہ اگر میری شادی شہزادی سے ہو جاتی ہے تو اس کو بہر حال اسی گھر میں آنا ہے۔ پھر کی پھر دیکھی جائے گی۔ میں نے شہزادی سے کہا۔ تیرے حسن کو جیسا سنا تھا اُس سے بڑھ کے پایا اور اب تیرے حُسن تدبیر کا امتحان ہے۔ سنتا ہوں کہ تُو خوش تدبیری میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ جہاں تک میری شمشیر زنی کا تعلق ہے، تو میں ابھی اس میدان میں کودک ہوں۔ اُس خبیث کا مقابلہ کرنے کو تو اُسی کی ٹکر کا جوان چاہئے۔ شہزادی مسکرائی اور بولی۔ سنتی ہوں تو حکیم حاذق ہے اور ایسے ایسے نسخے تیری دسترس میں ہیں کہ بڑے بڑے حکما تیرے آگے کان پکڑتے ہیں۔ اگر تُو ایسا کوئی نسخہ ہمیں دے دے کہ میں مقابلے والے دن اُس نابکار کو کھلوا دوں اور وہ اس قابل ہی نہ رہ جائے کہ تجھ سے مقابلہ کر سکے تو کیسا ہو۔ میں کیسا حکیم تھا صاحبو اس کا اندازہ تو اب تک کی گزارشات سے آپ سبھوں کو بخوبی ہو چکا ہو گا۔ مجھے ایک بد نام زمانہ دوائی کا نام پتہ تھا کہ جسے جمال گوٹہ کہتے ہیں ، چنانچہ میں نے مکر سے کام لیا اور غور و فکر کے سمندر میں دکھاوے کی غواصی کرنے لگا۔ جب سمندر سے اُبھرا تو مسمسی صورت بنا کے کہا ایک دوا ایسی ہے تو ضرور لیکن اُسے کھلائے گا کون۔ تس پہ اُس کی کنیز کہ جس کے بارے میں ، میں ابھی تک کچھ مصمم و ناگفتنی ارادے اپنے دل میں باندھ چکا تھا، بولی۔ حضور یہ میرا کام ہے۔ وہ بد بخت میری نظر کرم کا منتظر رہتا ہے۔ ایک جام شراب میں جو کہیں گے، میں گھول کے پلا دوں گی۔ چنانچہ میں نے جمال گوٹے کا ایک نہایت ہی شدید التاثیر نسخہ تیار کیا کہ جس میں ہر جُز کو چوگنا استعمال کیا گیا تھا اور اُن کے حوالے کیا۔ اُن کی رخصت کے بعد فرار کا ارادہ فسخ کیا اور میٹھی نیند سو رہا۔ میں چونکہ شمشیر زنی کے اسباق لے رہا تھا اس لئے اتنا تو سیکھ ہی گیا تھا کہ اُس سپہ سالار کو بحالت بیمار ی چِت کر سکوں۔ قصہ مختصر مقابلے کا دن آن پہنچا۔ دونوں ملکوں کی سرحدوں پہ ایک وسیع میدان مقام مبارزت قرار دیا گیا اور دونوں ملکوں کے عوام و خواص مقابلہ دیکھنے کو آئے۔

چونکہ میں اس مقابلے کا انجام اپنی دانست میں پہلے سے طے کر چکا تھا ، اس واسطے میں نے اپنے دوست بادشاہ کے اصرار کے باوجود خود و زرہ کا اہتمام نہ کیا اور میری اس جرات رندانہ پر دونوں ملکوں کے لوگ داد و تحسین کے ڈونگرے برسا تے تھے۔ مقابلے کا وقت آن پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اُدھر سے ایک مرد توانا کہ قد میں مجھ سے ڈیوڑھا رہا ہو گا، سر تا پیر لوہے میں یوں غرق کہ فقط چمکدار آنکھیں دکھائی دیتی تھیں ، صاعقہ صفت گھوڑے پہ بیٹھا میری طرف اُڑا چلا آ رہا ہے۔ اُس کی تلوار کی آب کے آگے خاور شرمندہ اور کونے کھدرے تلاش کرتا دکھلائی پڑتا تھا۔ میں جنگی لباس کی کھکھیڑ سے آزاد تھا اور کچھ داؤں پیچ بھی سیکھ چکا تھا نیز اس حقیقت سے بھی واقف تھا کہ یہ مقابلہ زیادہ دیر جاری نہیں رہے گا اور میرا مقابل چند ہی لمحوں میں اخراج براز کی شدت سے بھاگ نکلے گا، چنانچہ میں نے اُس کے پہلے وار کو خالی کر دیا۔ تس پہ ہجوم نے پُر شور تحسین میر ی اس مہارت کی، کی۔ ناگہاں مجھے ہجوم میں وہی کنیز دکھلائی دی کہ جو اُس رات شہزادی کی ہمرکاب تھی، کنیز کچھ اس نوع کے اشارے کر رہی تھی کہ جن سے یہ عیاں ہوتا تھا کہ میں میدان سے راہ فرار اختیار کر لوں۔ میں حیران و پریشان بھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ موذی شمشیر بدست میرے سر پہ وارد ہو گیا اور میں نے جھکائی دے کے اُس کا وہ وار بھی خالی کر دیا۔ آدمیوں کا انبوہ کثیر اب مجھ سے جوابی وار کرنے کو گلے پھاڑ رہا تھا لیکن صاحبو اُن تلوں میں تیل ہی کہاں تھا۔ اُس کا اگلا وار بمشکل خالی گیا اور دونوں جواں مردوں کو ایک ایک ساعت آرام کرنے کا وقت دیا گیا کہ یہی دستور تھا۔ اس وقفے کے دوران نوبہار کی کنیز کہ دل بہار کہیں جسے، اور جس پہ لہلوٹ ہونے کا قصہ بیان کر چکا ہوں ، لپ جھپ کرتی میرے قریں آئی اور اُس نے میرے کان میں جو کہا اُس کا لُب لباب یہ تھا کہ اصل موذی یعنی سپہ سالار پر میری دی ہوئی دوا کا اثر جلدی ہو گیا اور وہ میدان میں اُترنے سے قاصر ہوا تو اپنے ایک شاگرد رشید کو بھیج دیا ہے جو اُس سے قابلیت و اہلیت میں کسی طور کم نہیں اور کشتوں کے پشتے لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اُس کا کہنا تھا شہزادی نوبہار مجھ سے ملاقات کے بعد میرے عشق میں سوختہ جاں ہو چکی ہے اور نہیں چاہتی کہ اس مبارزت کے نتیجے میں ، میں جاں سے گزروں چنانچہ وہ مجھے فرار کا مشورہ دیتی اور بعد ازاں کسی محفوظ مقام پر مل کر اپنے باپ نما چچا کی مرضی کے خلاف مجھ سے فوری طور پہ رشتہ مناکحت اُستوار کر نا چاہتی ہے۔ کنیز تو یہ پیغام دے کر رخصت ہوئی۔ اِدھر میرا یہ عالم کہ دو کے چار دکھائی دینے لگے، دماغ سے ہوش اور جسم سے جوش بیک وقت رخصت ہو گیا اور سر پہ قضائے مبرم کھیلتی دکھائی دینے لگی۔ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا واقعہ سر سے گزر رہا تھا کہ وہ موذی اس بار گھوڑے کے بجائے لوہے میں مغرق، ٹانگوں پر چلتا میرے قریب آیا اور مجھ پر وار کیا۔ بس صاحبو وہی مقام تھا کہ میرا تکا لگ گیا۔ وہ جوش میں اُن گڑھوں کو نہ دیکھ سکا کہ جو اُس کے گھوڑے کی سموں نے رات کی بارش سے نرم ہو جانے والی زمین کے سینے پہ پیدا کر دئیے تھے۔ وہ لڑکھڑایا اور سنبھلنے کی جتنی کوشش کرتا تھا، اور لڑکھڑاتا تھا کہ وہ سامان جو خالص لوہے کو ڈھال کے اُس کی حفاظت کے واسطے بنوایا گیا تھا اُس کے واسطے وبال بنتا تھا۔ پھر وہ بھرم رکھنے کو زنانہ لباس بھی زیب تن کئے ہوئے تھا اور راز کو راز رکھنے کی خاطر جتنا بات کو سنبھالتا تھا، وہ اُتنی ہی بگڑتی تھی۔ جب وہ میرے سامنے چِت ہو نے کو تھا تو میں نے آگے بڑھ کے ایک کاری وار کرا لیکن وہ منجھا ہوا شمشیر زن تھا، بچا گیا۔ میں نے دوسرا وار کرا، وہ بھی اُس نے خالی کر دیا۔ میں اس جانتا تھا کہ اگر یہ مردود اپنی ٹانگوں پہ ٹِک گیا تو پھر میری گردن میرے شانوں پہ نہ ٹِک سکے گی۔ ہجوم شور مچا رہا تھا اور وہ مثل مینڈک کے میرے آگے بھاگتا اور میں اُس کا تعاقب کرتا تھا۔ الغرض میں نے اُسے جا لیا اور اس سے قبل کہ اُس پہ وار کرتا وہ دونوں ہاتھ جوڑ کے گڑگڑانے اور معافیاں مانگنے لگا۔ مجھے گِرے ہوئے کو مارنا اچھا نہ لگا اور میں فقط اُس کے سینے پہ ایک پیر رکھ کے کھڑا ہو گیا اور اپنی شمشیر ہوا میں لہرائی۔ بے قابو ہجوم نے اسے میری فتح گردانا اور میری طرف کے لوگ مجھے شانوں پہ لاد کے دیوانہ وار رقص کرنے لگے۔

تو صاحبو یہ تیسرا تکا تھا جو لگا۔ میری ساری زندگی تکوں کی رہین منت ہے اور میں باری تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ آج میرے پاس تم جو بھی دیکھتے ہو، اس میں میری ذاتی ہمت، قابلیت و اہلیت کا شمہ برابر حصہ نہیں۔ اگلے مہینے میری شادی ہے اور اُمید ہے اولاد بھی تکے سے ہی ہو گی کہ میں در کارہائے خفیہ و ناگفتنی، خود کو من دانم کہتا ہوں ، اور اُمید کرتا ہوں کہ آپ صاحبان تھوڑے کہے کو بہت جانیں گے۔

ہم نے دو راتیں اور دو دن اُس شہر میں اور گزارے اور میں جن پہ سوار ہوکے بمع اپنے ساتھیوں کے جنگل میں اُس جگہ واپس پہنچا کہ جہاں سے شہزادی ماہ نور کے ملک کی سرحد شروع ہو تی تھی تو کیا دیکھتا ہوں کہ بزرگ سفید پوش وہاں پہلے ہی سے موجود ہے اور ہمارا منتظر بھی۔ وہ ہماری آپ بیتی سے اپنی روحانی یا جیسی بھی طاقت اُس کے پاس تھی، پہلے ہی سے واقف ہو چکا تھا۔ چنانچہ اُس نے ہماری داستان سن کر سند جاری کی کہ بیشک شہزادی کے سوال کا شافی جواب اس داستان میں موجود ہے اور یہ کہ مجھے فوراً شہزادی تک اس سوال کا جواب پہنچا کے اگلا سوال لانا چاہئے۔ چنانچہ میں فوراً جن کو کام میں لایا اور اپنی مقصودہ کے دربار حسن میں فخریہ باریاب ہوا۔ شہزادی نے میری حکایت میں چھپے اپنے سوال کے جواب پر اطمینان کا اظہار کیا اور دو ساعتیں مجھے شربت دیدار اور تخم بالنگا پلا کے اگلا سوال میرے ہاتھ میں تھما کر مجھے بچشم نم رخصت کیا۔ شہزادی کا تیسراسوال تھا۔

 

شہزادی کا تیسرا سوال: اندھوں بہروں کی سرزمین کی خبر لاؤ

 

میں چونکہ شہزادی کے عجیب و غریب سوالا ت کا عادی ہو چکا تھا اس لئے اب کی بار جب اُس نے سوال میرے ہاتھ میں تھمایا تومیں نے اُس کی صراحت نہ چاہی اور واپس اپنے ساتھیوں میں جا اُترا۔ یہاں پہنچا تو ایک نئی اُفتاد میری منتظر تھی۔ توتا شہزادہ ایک بار پھر توتے کا روپ دھارن کر چکا تھا۔ بزرگ سفید پوش جا چکا تھا اور وزیر زادہ توتے کو اپنے ہاتھ پہ بٹھلائے چوری کھلا رہا تھا۔ جن بہت تھک چکا تھا چنانچہ وہ ایک درخت کی اُونچی سی شاخ پہ جا سویا۔ میں پہلے سمجھا کہ یہ کوئی اور توتا ہے لیکن جب توتا آداب و تسلیمات پر اُترا تو میری عقل نے ٹھونگ مار کے مجھے سمجھایا کہ یہ تو میرا یار توتا شہزادہ ہے۔ میں نے پہلے توتے اور پھر وزیر زادے سے اس دوبارہ کایا کلپ کا سبب جاننا چاہا۔ تس پہ وزیر زادہ یوں گویا ہوا۔

اے آقا زادے شہزادے کے دوبارہ توتے کے روپ میں آنے کی کایا کلپ یا قصہ کچھ یوں ہے کہ اس پر جس سامری صفت جادوگر نے وار کیا تھا اور ناکامی سے دوچار ہوا تھا، وہ ایک بار پھر اس کی سوتیلی ماں کا مقرب خاص ٹھہرا ہے اور اُس نے وہ آئینہ حاصل کر لیا ہے کہ جو ہفتے میں ایک بار اُسے اس شہزادے کے جملہ احوال سے با خبر رکھتا ہے، چنانچہ اُسے جب شہزادے کے انسانی جُون میں لوٹنے کی خبر ملی تو اُس نے کچھ ایسا پڑھ پھونکا کہ یہ دیکھتے ہی دیکھتے آدمی سے توتے کے قالب میں ڈھل گیا۔ توتا ہماری گفتگو سنتا اور مزے سے کُریال کرتا تھا۔ وزیر زادے نے یہ بھی بتلایا کہ یہ سب تفاصیل توتے کو خواب میں اُس ظالم جادو گر نے خود بتلائی ہیں اور یوں بھی کہتا تھا کہ اب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے انسانوں کے گروہ میں شامل ہوتے ہو اور یہی نہیں اب ہم اپنا ایک خاص جن بیری کو صورت بھیجیں گے جو تمہارے ٹکڑے کر کے کھا جائے گا۔

میں اپنی فکر میں تھا اور سوچا تھا کہ آج رطلِ گراں پی کے مدہوش ہوا جائے اور اگلی صبح تازہ دم ہو کے اپنی قراۃ العین کے سوال کا جواب ڈھونڈنے کو چلا جائے۔ توتے نے جو میری اُداس صورت دیکھی تو گویا ہوا۔ اے جلیس و انیس شہزادے۔ میری خاطر غم نہ کر اور حیض بیض میں پڑ کے اپنی منزل کھوٹی مت کر۔ اگر وہ نابکار اُس رنڈی کے کہنے سے میری جان کا لاگو ہو ہی گیا ہے تو یہ منشائے الٰہی کے عین مطابق ہے اور مر د اُسی کو جانیے کہ اپنے تئیں کوشش و ہمت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے اور پھر اپنے معاملات کردگار کے سپرد کر کے صابر و شاکر ہو جاوے اور سعی کامل کو ہر وقت بروئے کار لاوے چنانچہ میں راضی برضا ہوں اور اس وقت جو مرحلہ درپیش ہے اُس کو اولیت دیتا ہوں۔ بارے توتے شہزادے کی یہ گفتگو جی کے لئے سُرور بخش ثابت ہوئی اور میں نے ترنت ایک ڈھیلہ درخت پہ سوئے ہوئے جن کو مارا اور اُسے ہشیار کر کے رات کے اِکل و شراب کا بندوبست کرنے کو روانہ کیا۔ وہ کلال کہ جس نے سوال حل کرنے میں ہماری مدد کی تھی، پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ اب تم ہمارے یار خاص ہو اور تمہیں مئے ناب اُس نسخے سے بنی مہیا کیا کروں گا کہ جس نے بڑی بڑی سلطنتیں خود میں ڈبو کے تاریخ کا دھارا موڑ دیا ہے۔ کلال کہ دلال بھی تھا ، پیشوں کی رذالت کے قطع نظر ایک نہایت ہی مدبر اور مدمغ شخص تھا اور میں چاہتا تھا کہ اُسے اپنے کفش برداروں میں شامل رکھوں مگر وہ اس پہ تیار نہ ہوا کہ اُسے اپنے موجودہ پیشوں میں اس کے سوا اور کوئی قباحت نہ دِکھتی تھی کہ وہ ہمہ وقت کوتوال شہر کے دیدوں میں رِڑکتا تھا لیکن چونکہ اپنے پیشوں کے حوالے سے اُس کی خسروان مملکت اور خویش مذکوراں سے خیر سلا تھی اس لئے ایک گونہ محفوظ بھی تھا۔

جن کو روانہ کر کے میں نے شہزادی کاسوال اپنے ہم جلیسوں کے سامنے رکھا اور اُنہیں غور و فکر کے سمندر کا غواص پایا تو پنڈے پہ کپڑا ، اور جی میں غسل کا ارادہ باندھا اور قریبی تالاب میں نہانے کو اُتر گیا اور اس امر سے ناواقف رہا کہ اُس وقت جل پریاں بھی سطح آب پہ آ کے کنول کے پھول چنا کرتی تھیں کہ جن کو ہر رات جل محل میں ہونے والے یومیہ جشن میں بادشاہ کے حضور میں پیش کیا جاتا تھا۔ میں ایک ڈبکی لگا کے جونہی اُبھرا، میں نے ایک غول دیکھا کہ جن کا ہر بن مُو نہایا ہوا تھا اور آنکھیں یوں دمکتی تھیں کہ شب تار میں جگنو کیا چمکتا ہو گا۔ ایک بولی۔ اری یہ کون نگوڑا ہے کہ ہمارے تالاب میں یوں نہا رہا ہے کہ آگا پیچھا سب کھلا ہوا ہے۔ تس پہ دوسری ہنس کے بولی۔ لگتا تو آدم زادہ ہے۔ چلو اس کو کئے کی سزا چکھائیں۔ میں یہ گفتگوسنتا اور اپنے ستر کو پھولوں کی آڑ میں چھپانے کی سعی ناکام کرتا تھا کہ کپڑا یہ سوچ کے ایک طرف رکھ دیا تھا کہ یہاں کون ستر بینی کرسکتا ہے۔ مگر وہ پانی کی رہنے والی مخلوق تھی، آن کی آن میں دس پندرہ میرے حلقہ بگوش ہوئیں اور میرے بدن کو چھو چھو کے دیکھنے لگیں جو باعث انگیخت تو تھا لیکن مجھ پہ اُس وقت خوف اس درجہ طاری تھا کہ مستی کا کیا مذکور جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور اتنے پری وشوں کی موجودگی کے با وصف، طبیعت کو اُس فعل خوش وقت پہ کسی طور مائل نہ پاتا تھا کہ جس کی وقوع پذیری کی خواہش ہر مرد کے دل میں اپنے قُلوں تک باقی رہتی ہے، چنانچہ خود کو اُن سے دُور رکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی اثنا میں اُن میں سے کسی نے ایسے ڈھب سے میری آنکھوں کو چھوا کہ میں اندھیرے میں اُتر گیا۔

ہوش آیا تو اپنے تئیں ایک ایسے محل میں پایا جس کی ہر شئے پانی کی بنی ہوئی تھی۔ قالین و مسند، شمع دان ، جھاڑ، فانوس، تخت و کرسی، ستائر و در اور تو اور وہ فرش تک جس پہ میں کھڑا تھا آب رواں کا تھا۔ میں حیران و ششدر ، آب دار تخت پہ بیٹھی ملکہ کو دیکھتا تھا کہ جس کے بالیں کھڑی دو کنیزیں کہ جن کے حُسن کا مذکور کرنے سے اس حقیر کا نُطق عاجز ہے، اُسے جس مورچھل سے ہوا دے رہی تھیں وہ بھی پانی کا بنا ہوا تھا۔ وہ اساتذہ کہ جنہوں نے مجھے ملک گیری و جہانبانی کے اسرار و رموز سمجھائے تھے ، اُن کے قصوں میں جل پری کو ایک ایسی مخلوق قرار دیا گیا تھا کہ جس کا بالائی دھڑ عورت کا اور زیریں مچھلی کا ہوتا ہے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ اگر یہ سچ ہے تو بقائے نسل کے جملہ مراحل سے یہ مخلوق کس طور عہدہ برا ہوکے اپنی تعداد میں اضافہ کرتی ہو گی لیکن یہ وقت ان باریکیوں کو سوچنے کا نہ تھا کہ میرے سامنے جو مخلوق تھی وہ ایک مکمل عورت تھی اور بے لباس بھی کہ اُن کی دنیا میں لباس پہننے کا نہ دستور تھا اور نہ ہی تکلف اور میں اُن کے بدن دیکھ کے کم از کم اپنے ایک سوال کا جواب تو پا ہی چکا تھا کہ اپنی تعداد میں اضافے کے واسطے اُن کے تئیں جو ذرائع دستیاب تھے، وہ اس کام کے لئے کافی سے زیادہ تھے۔

ملکہ مجھے یوں دیکھتی تھی کہ میں شرم سے کٹا جاتا تھا۔ ملکہ کی داہنی جانب کھڑی ایک کنیز یوں گویا ہوئی۔ ملکہ جل۔ اس وقت جو مجرم آپ کے رُو برُو ہے یہ ہماری مملکت میں درانہ گھسا چلا آیا ہے اور کنول ہاریوں کے جس گروہ نے اسے گرفتار کیا ہے اُن کا کہنا ہے کہ یہ انسان ہوتے ہوئے بھی ستر پوشی کے جملہ معاملات کو مد نظر نہ رکھتے ہوئے تالاب میں گھس آیا تھا۔ تس پہ وہ قتالہ عالم مسکرائی اور گویا ہوئی۔ مجھے کوئی بھٹکا ہوا مسافر لگتا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس سے اس کا قصہ اسی کی زبانی سنیں۔ چنانچہ میں نے مختصراًاُس ویرانے میں اپنی آمد اور اپنا منشا ملکہ کے سامنے بیان کر دیا۔ ملکہ اور اُس انبوہِ برہنہ تنوں نے قصے کو کامل دلچسپی سے سنا لیکن میں کہ در در کی ٹھوکریں کھا کے سرد و گرم چشیدہ ہو چکا تھا، بخوبی دیکھ سکتا تھا کہ شہزادی ماہ نور کے تذکرے پر ملکہ کی پیشانی شکن آلود ہوئی تھی۔

میں اپنی آب بیتی سنا کر خاموش ہو رہا اور منتظر ہوا کہ دیکھئے اب غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ ملکہ بولی۔ اے آدم زادے۔ میں نے پہلی بار کسی آدمی کو دیکھا ہے اور بے شک اپنی اناؤں اور کنیزوں سے آدمیوں کی بہت سے کہانیاں سن چکی ہوں اور سچ تو یہ ہے کہ میں جل نگر کے بادشاہ کی بیٹی ہوں اور بیوہ ہوں۔ تجھے جب سے دیکھا ہے اپنا سُکھ چین بھولی ہوں اور تیرے عشق کے کانٹے اپنے دل میں چبھتے محسوس کرتی ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تُو مجھے اپنے نکاح میں قبول کر لے حالانکہ ہمارے دستور کے مطابق میں کسی آدم زادے سے رشتہ مناکحت اُستوارکرنے کی صورت میں اس مقام سے گرا دی جاؤں گی۔ شہزادی کی سہیلوں نے با آواز بلند شہزادی کی خواہش کی تائید کی۔ میں اُس وقت گو مگو کی کیفیت میں تھا۔ شہزادی ماہ نور سے بے وفائی کا تصور دل کو مسلے دیتا تھا اور آدم زادہ ہونے کی سرشت کی بنا پر اس شہد اور دودھ کے ڈھیر کو پائے حقارت سے ٹھکرانے پہ دل کسی طور آمادہ نہ ہوتا تھا اور یہ بات بس سے باہر کی دِکھتی تھی لیکن شہزادی کی محبت جیتی اور میں نے صاف کہہ دیا کہ میں اپنی محبت سے رُو گردانی کروں تو یوم حشر میرا انجام اُن سپہ سالاروں کا سا ہو کہ اپنے ہی ملک کو فتح کر کے کامرانی کے جھنڈے لہراتے ہیں اور میں اُنہی کا سا سیاہ رُو اُٹھوں ، اس لئے اے ملکہ میں تیری خواہش پوری نہیں کر سکتا۔ ایک مہربانی مجھ پہ اور کر کہ مجھے میری دنیا میں واپس بھجوا دے کہ میرے ساتھی وہاں میرے منتظر ہیں اور شہزادی ماہ نور کا سوال پورا کرنے کو وقت بھی بہت کم ہے۔ تس پہ وہ مسکرائی اور بولی۔ آفرین ہے تیرے جذبے کو اور میں تحسین کرتی ہوں تجھ جیسے عاشق کی اور شہزادی ماہ نور کو مبارک باد دیتی ہوں کہ اُس کو تجھ جیسا عاشق ملا ہے۔ لیکن یہ سارا واقعہ کے جس سے تُو گزرا ہے تیر ی آزمائش کے سِوا کچھ نہیں۔ اگر تُو مجھ سے نکاح کی حامی بھر لیتا تو وصل کے ساتھ ہی تیرا خاتمہ بھی ہو جاتا اور تُو ان سب میں شامل ہو جاتا کہ جن کا حشر میں تجھے ابھی دکھانے والی ہوں۔ چنانچہ اُس نے اشارہ کیا اور میرے سامنے سے پانی کی دھندلی دیوار ہٹ گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ فرش سے چھت تک بوسیدہ پنجرہائے استخواں کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور پہلی نظر میں یہ اندازہ کر لینا کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ سب کبھی انسان رہے ہوں گے۔ میں یہ منظر دیکھ کر کانپ گیاتس پہ وہ پری رُو بولی۔ تُو اس وقت صرف اپنے اُس جذبے کی وجہ سے بچ گیا کہ جسے محبت کہتے ہیں اور سچی محبت ہی اس وقت تیری بقا کی ضامن ہوئی ہے۔ میں تیری واپسی کابندوبست ابھی کئے دیتی ہوں اور ساتھ ہی تجھے یہ بھی بتلائے دیتی ہوں کہ اندھوں بہروں کی سرزمین کو کونسا رستہ جاتا ہے۔ اُسی رستے میں کوہ قاف بھی پڑے گا کہ جہاں الہ دین کا چراغ ہے اور ایک ویران محل کے طاقچے میں رکھا ہے۔ اُس محل پہ جس دیو کا قبضہ ہے اُسے بھی نہیں پتہ کہ یہ چراغ کتنے کام کی چیز ہے۔ تُو اُس چراغ کی مدد کے بغیر کسی صورت اندھوں بہروں کی سرزمین تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور سن، اب جو کہتی ہوں اُسے ضرور ہی یاد رکھیو۔ تجھے دیکھنے کے بعد آدم زادوں کے عشق میں گرفتار ہو چکی ہوں اور چاہتی ہوں کہ کوئی دُناب جوانِ تنومند کہ افعالِ دِگر و ناگفتنی میں مہارتِ تامہ رکھتا ہو اور حکیمی دواؤں پہ جس کی گزران نہ ہو، میرے واسطے مہیا کرنے

کی سعی ضرور کیجیو۔

تس پہ میں شکر گزار ہوا اور بمشکل جل پریوں کی ملکہ کے چہرے کی طرف نگاہ کی اور یوں عرض گزاشت ہوا۔ اے ملکہ میں تیرا سپاس گزار ہونے کو اُن الفاظ کو ڈھونڈنے سے عاجز ہوں کہ جن کو میں اس مقصد کے لئے استعمال کر نا چاہتا ہوں ، تھوڑے کہے کو بہت جان اور میری شکر گزاری کو قبول کر اور جہاں تک تیری فرمائش کا تعلق ہے تو اس میں حکیمی دواؤں والی شرط کڑی ہے کہ وطن مالوف میں اس کا استعمال بے محابا ہے اور بادی النظر میں یہ لگتا ہے کہ میرے باپ کی آدھی سلطنت یہ دوائیں بناتی اور آدھی استعمال کرتی ہے لیکن پھر بھی کوشش کرنے کا عندیہ دے کر تجھ سے رخصت چاہتا ہوں۔ تس پہ وہ مسکرائی اور مجھے اندھوں بہروں کی سرزمین تک جانے کا رستہ سمجھایا اور ساتھ ہی وہ راہ بھی بتلائی کہ جہاں الہ دین کے چراغ والا محل واقع تھا اور مجھے ایک سنہری انگوٹھی مرحمت کی کہ کسی بھی قسم کا سمندری طوفان ہو اسے سامنے کر دینا تجھے محفوظ و مامون رکھے گی اور بعد ازاں ایک جل پری کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور میں نے ہوش کھو دئیے۔ مجھے ہوش آیا تو نہ محل تھا، نہ ملکہ اور نہ اُس کا دربار۔ میں تالاب میں کھڑا اپنے اُوپر پانی ڈال رہا تھا۔ پھر یہ خیال کر کے کہ مجھے اپنے درمیاں نہ پا کے میرے ساتھی پریشان ہوتے ہوں گے، میں تالاب سے نکلا اور بالباس ہو کر اُن میں پہنچا۔ وزیر زادہ اور توتا ابھی تک سوچ میں ڈوبے بیٹھے تھے۔ کسی نے میری تا دیر گم شدگی پہ حیرت کا اظہار نہ کیا تو میں نے کرید کرید کے پوچھا کہ میں بھلا کتنی دیر بعد لوٹا ہوں گا۔ وہ حیرت زدہ ہوئے اور بولے یہ کس نوع کا سوال ہے۔ تس پہ میں نے اُنہیں جل پریوں کے دربار تک اپنی رسائی اور وہاں جو بیتی تھی وہ سنایا۔ وہ یقین کرنے میں حیض بیض کا شکار دکھائی دیتے تھے چنانچہ اُنہیں وہ انگوٹھی دکھلائی کہ جو ملکہ نے مجھے دی تھی اور اپنی بات کا یقین دلانے اور خود کو سچا ثابت کرنے میں کامران ٹھہرا۔

جن اسباب اکل و شراب لئے لوٹا اور ہم نے حسب دستور کھایا پیا۔ جن سارے واقعے سے آگاہ ہوا تو مسکرا کے بولا۔ آقا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ الہ دین کے چراغ والا جن رشتے میں میرا ماموں ہے اور اگر اُس سے ملاقات ہو جائے تو میرا بھی ایک حساب نکلتا ہے۔ پھرملتمس ہوا کہ آج کی رات اُسے انگوٹھی میں گزارنے کی اجازت دی جائے کہ وہ بہت تھک چکا تھا چنانچہ جن کو انگوٹھی میں بند اور اپنے خیمہ خاص میں جا کر اختر شماری کی کوشش کی لیکن وہاں سے آسمان صاف دکھائی نہ دیتا تھا چنانچہ اختر شماری کو اگلی رات پہ موقوف کر کے سو رہا۔

خاور، خم خانہ گردوں اپنے سفر پہ نکلا ہوا اور ہم اپنے سفر پہ۔ جل پریوں کی ملکہ کے بتلائے ہوئے رستے پہ چلے جاتے تھے اور زمین کو گھوڑوں کے سموں میں سمیٹتے تھے۔ چار منزل چلے ہوں گے کہ جنگل کی شام نے آن لیا۔ گھوڑے بھی نڈھال لگ رہے تھے اور توتا بھی تھکا ہوا کہ ہراول میں اُڑتا اور آگے کی خبر لاتا تھا۔ توتے نے بتلایا کہ بس یہ جگہ شب باشی کو محفوظ و مرغوب ہے، چنانچہ یہاں سامان کھولنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جن کو انگوٹھی سے برامد کیا کہ اکل و شراب کا حیلہ کرے۔ جن روانہ ہوا تو میں اور وزیر زادہ کمریں سیدھی کرنے کے ارادے سے ہری ہری اُس دُوب پہ لیٹ گئے کہ جس پہ گھوڑے کلیلیں کرتے ہوئے اُسی شے کو کھا بھی رہے تھے۔ صاحبو پہلے میں اسے نظر کا فتور اور نگاہوں کا دھوکہ سمجھا لیکن حقیقت پردے سے باہر آ کے بول رہی تھی۔ ہمارے دونوں گھوڑے میرے دیکھتے ہی دیکھتے سفید پتھر کے ہو گئے اور میں نے جیسے ہی استعجابیہ نگاہ وزیر زادے کی طرف کی، اُسے بھی ایک بت میں تبدیل پایا۔ توتا البتہ اُس وقت وہاں موجود نہ تھا اور جن کے ساتھ ہی روانہ ہوا تھا۔ میں ہڑ بڑا کے اُٹھ کھڑا ہوا اور چاہتا تھا کہ چیخ مار کے بے ہوش ہو جاؤں کہ درختوں کے عین درمیان ایک کریہہ الصورت و صوت مرد کے چہرے کی شبہہ اُبھری اور جو مجھ سے یوں گویا ہوا۔ تم لوگ بلا اجازت سامری وقت ہامون جادوگر کی قلمرو میں داخل ہوئے ہو اور تیرے ساتھیوں کو اسی کی سزا ملی ہے اور اب انہیں اس صورت میں ایک سو سال تک رہنا ہو گا۔ تُو فقط اس لئے بچ گیا کہ تیرے داہنے ہاتھ کی چھوٹی انگشت میں جل پریوں کی ملکہ کی دی ہوئی انگوٹھی ہے۔ اس سحر کا کوئی توڑ نہیں اور تیرے حق میں یہی مناسب ہے کہ تُو اس جنگل سے شتابی نکل جا ورنہ انہی جیسا ہو جائے گا۔ وہ معلن یہ اعلان کر کے تحلیل ہوا تو بارے مجھے ہوش آیا۔

چاروں طرف دیکھا تو دو بت گھوڑوں کے اور ایک بت کی صورت اپنے یار وزیر زادے کو پایا۔ بیابان میں ہر سُو منحوس طلسمی آوازیں گونج رہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ جن اور توتا شہزادہ واپس نہ آئیں کہ اُن کے بھی اس طلسم میں گرفتار ہونے کے قوی امکانات تھے مگر اُسی وقت وہ دونوں اُڑتے اور قہقہے لگاتے وارد ہو گئے۔ مجھے پریشان اور گھوڑوں اور وزیر زادے کو اس حالت میں دیکھا تو خود بھی حیران ہوئے۔ اِدھر میں منتظر کہ وہ دونوں اب پتھر کے ہوئے کہ تب ہوئے۔ تب میں نے اُنہیں سارے ماجرے سے مطلع کیا۔ تس پہ جن مسکرانے لگا اور ہمیں بتلایا کہ کوئی ہزار سال پہلے جب کہ اُس کا مالک کوئی اور تھا اسی جنگل میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا مگر اے آقا تم بوجہ اُس انگوٹھی کے محفوظ رہے تو میں قوم اجنہ میں ہونے کی وجہ سے محفوظ رہوں گا، رہا توتا تو وہ پہلے ہی طلسمی آزار میں گرفتار ہے چنانچہ تم اپنی اور ہماری طرف سے نچنت ہو جاؤ اور ان دونوں گھوڑوں اور اپنے یار وزیر زادے کو صورتِ اصل میں واپس لانے کی صورت کرو کہ یہاں میرے اختیار کی حدیں معدوم ہوتی ہیں۔ یہ کہا اور اسباب خورد و نوش زمین پہ رکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کھانے پینے کی ہر چیز فوراً پتھر ہو گئی۔ تب ہم پہ عقدہ کھلا کہ ہم تینوں کے علاوہ یہاں کی ہر چیز سحر زدہ ہے اوراس بیابان میں ہمیں بھوکا رکھنے اور پیاسا مارنے کی ہر ترکیب وہ نا ہنجار کہ اپنا نام ہامون جادوگر بتلاتا تھا ، کر چکا تھا۔ آدھی رات اس فکر میں گزری کہ اس آسیب کے چنگل سے نکلیں تو کیسے۔ بھوک دو آتشہ اور پیاس سہ آتشہ تھی۔

جن اور توتے سے کچھ اور لانے کو کہا تو اُس وقت پتہ چلا کہ توتا تو اپنی قوت پرواز کھو چکا ہے اور جن بمشکل ایک آدھ درخت کی بلندی تک ہی پرواز کر کے اُس شخص کی صورت ہانپنے لگا کہ جو جوان جورُو بڑھاپے میں کر لیتا ہے۔ یہ حال دیکھا تو توتے کے ہاتھوں کے ساتھ جن کے ہاتھوں کے توتے بھی اُڑ گئے۔ وہ رات اُس بیابان میں اسی حالت میں کاٹی۔ توتے نے تو اِدھر اُدھر ٹھونگیں مار کے ثمرات خود روسے شکم پُری کر لی۔ جن نے بھی ساگ پات کھا کے گزران کی مگر میں تھا کہ گرسنگی شکم کے ہاتھوں مرا جاتا تھا۔ پہر دن گزرا اور بھوک نے وہ حالت کی کہ توتا اور جن دھندلا گئے کہ کور چشمی بوجہ بھوک تھی۔ میں نے چاہا کہ بھوک سے لاچار ہو کر میں بھی جنگلی ثمر کھانے کی کوشش کروں مگر جس پھل کو ہاتھ لگاتا تھا، اُسے پتھر کا پاتا تھا۔ گھوڑوں اور وزیر زادے کو اس حالت میں جنگل میں چھوڑ نا حد درجہ اسفل اور رکاکت بھر ا کام دکھائی دیا چنانچہ مردوں کی طرح مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا مگر اُس روز زندگی میں پہلی بار یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کے واسطے پیٹ میں اناج کا دانہ ہونا کس قدر ضروری ہے۔

اگلی رات اور نصف دن یونہی گزرا۔ قضا سر پہ کھیل رہی تھی اور پیاس ہونٹوں پہ العطش کا اشتہار بنی دُور سے دِکھتی تھی، بارے کانوں میں کسی آدم زاد کی آواز پڑی کہ رنج و محن میں ڈوبا نغمہ گاتا تھا۔ مجھ میں نہ سرکنے کی قوت تھی اور نہ ہی زبان میں طلاقت کی ہمت، پڑا پڑا جن اور توتے کو تکا کیا۔ وہ دونوں بیک وقت گئے اور ایک نحیف و نزار جوان کو کہ مشت استخواں سے زیادہ جس کا جثہ نہ تھا، اپنے ہمراہ لئے واپس آئے۔ نوجوان نے آدم زادے کو دیکھا تو فرط حیرت سے اُس کی آنکھیں ڈھیلوں سے باہر نکل آئیں اور تبھی اُس نے ذرا سی خاک مٹھی میں لے کر ہوا میں اُچھالی۔ ابھی خاک زمین پر گری بھی نہ تھی کہ پیش منظر، پس منظر اور جو بھی منظر ہمارے گرد تھا بدل گیا۔ نہ وہ جنگل رہا، نہ وہ بوٹے اور ہری دُوب۔ ہم نے خود کو یکا یک ایک پہاڑی کی چوٹی پہ پایا۔ میں یہ دیکھ کر اور بھی ششدر ہوا کہ وزیر زادہ اور گھوڑے اپنی اصلی حالت میں تھے اور موخر الذکر یوں کلیلیں کر رہے تھے ، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ نحیف جوان کہ چند لمحوں پہلے رنج و الم کی تصویر بنا بیٹھا تھا، ایک خوش رُو اور تنو مند جوان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میں فرط حیرت سے بے ہوش ہوا چاہتا تھا لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ فسخ کیا کہ اس نوجوان سے اس راز سے پہلے پردہ ہٹوایا چاہئے۔ چنانچہ پوچھا کہ اے عزیز یہ کیا ماجرا ہے۔ تس پہ وہ جوان یوں گویا ہوا۔ میرا نام شہزادہ وطن دوست ہے اور مملکت میرے باپ کی یہاں سے کوئی ہزار فرسخ کے فاصلے پہ ہے۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ اور میری تعلیم و تربیت اُسی ڈھنگ سے ہوئی تھی کہ جو شہزادوں کے واسطے مخصوص ہے۔ اور جب میں فن حرب و ضرب سے فارغ ہوا اور میرے باپ کے سر میں پہلا سفید بال نمودار ہوا تو اُسے میری شادی کی فکر دامنگیر ہوئی۔ میری ماں کو یہ فکر پہلے سے دامنگیر تھی چنانچہ میرے بیاہ کے واسطے لڑکیوں کی تلاش میں کنووں میں بانس ڈلوائے گئے یعنی ہر قابل شادی لڑکی جو ہماری مملکت میں تھی، اس مقصد کے واسطے دیکھی بھالی گئی مگر میرے والدین خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھے اور میری شادی کے واسطے اُنہیں کوئی ناکتخدا جچتی ہی نہیں تھی۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک روز جبکہ میں شاہی محل کے پائیں باغ میں ٹہلتے ہوئے خوش رنگ پھولوں کو دیکھ کر عش عش کر رہا تھا، میری نظر ایک حسینہ پہ پڑی کہ جو میرا چین، قرار، نیند، سکون وغیرہ ایک ہی نظر میں لے گئی اور میں اہرمن عشق کے بے رحم ہاتھوں گھائل ہو دن رات مرغ و ماہی بنا تڑپتا تھا کہ انگاروں پہ اُن کا حال مجھ سے اچھا ہوتا ہو گا۔ بارے ہوش آیا اور تحقیق کروائی تو وہ کافر صورت کہ جس کے بائیں رخسارپہ اُبھرے سیاہ تل نے بعد کو میرا مقدر بھی ویسا ہی کر دیا، شاہی مالی کی دختر بد اختر نکلی۔ صاحبو میں نے محاورہ تبدیل کیا ہے اور تمہاری پیشانیاں شکن آلود ہوتی دیکھی ہیں تو اس کا کچھ سبب بھی ہے اور آگے جو بیان کروں گا تو اس سے اس کی صراحت ہو جا وے گی۔ میں اُس پہ ہزار جان سے عاشق ہوا اور ایک معتمد مشاطہ کے ہاتھ اُسے پیام شوق بھجوایا اور ملنے کے واسطے رات کی آخری گھڑی مقرر کی۔ مشاطہ نے شتابی لوٹ کے یہ جاں افزا پیغام دیا کہ وہ بھی میرے تیر نظر سے گھائل اور واماندگی شوق کے عالم الم سے اُس وقت سے مسلسل سے گزر رہی ہے جب سے ہماری آنکھیں چار ہوئی تھیں۔ چنانچہ اُس رات اُس پری رو سے میری ملاقات ہوئی اور پھر یہ معمول بن گیا۔ میں آتش شوق میں پھنکا جاتا تھا اور وہ بھی اسی قبیل کے جذبات کا اظہار کرتی تھی۔ میں اُسے فوراً حبالہ نکاح میں لا کر وصال کے جملہ مراحل طے کرنے کو مرا جاتا تھا لیکن اپنے باپ سے یہ کہنے کہ ہمت و جرات خود میں نہ پاتا تھا کہ میں ایک مالی زادی پہ عاشق ہوں۔ چنانچہ اپنی ماں کو وسیلہ بنا کر باپ کے کان سے یہ خبر گزاری۔ میری توقع کے عین مطابق میرے باپ کا شاہی خون غضب میں آیا اور اگلی صبح مالی کے سارے خاندان کی مشکیں کسوا کے اُس کا زن بچہ کولہو میں پِلوانے کا حکم صادر ہو گیا۔ مجھے اپنے باپ سے اس درجہ کے سفلے پن کی توقع نہ تھی چنانچہ میں آمادہ بغاوت ہوا اور اپنی معشوقہ کے خاندان کو اپنے چند جا نثاروں کی مدد سے ایک محفوظ مقام پہ پہنچوا کے اپنے باپ کو اس کی اطلاع کری۔ میرے باپ کا وزیر کہ مرد سرد و گرم چشیدہ اور وزیر ابن وزیر تھا اور بوجوہ مجھ سے خوش رہتا اور انعام وصول کرتا تھا، میرے باپ سے یوں ملتمس ہوا کہ جہاں پناہ۔ اس وقت شہزادے پر جوانی کے جوش کا غلبہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ اگر شہزادے کو کوئی گزند پہنچا تو آپ کے پرکھوں کے وقت سے چلی آتی یہ سلطنت خدا نہ خواستہ آپ کے ہاتھوں سے نکل سکتی ہے، اس لئے غلام کا مشورہ ہے کہ اس وقت شہزادے کی شادی اُس مال زادی سے کر کے اس بلا کو ٹالا جائے اور چونکہ ابھی تک آپ (بد) ذات خوداس مملکت پہ قابض و متصرف اور شاہی تخت پہ متمکن و سریر آرا ہیں ، اس لئے اس قضیہ کو بعد میں نمٹانا ہی عین تقاضائے دانش ہے۔ میرے باپ نے غور کیا تو وزیر کے مشورے کو صائب پایا اور فوراً بطور انعام اپنے گلے کی مرصع مالا اُتار کے اُس کی نذر کی اور میری شادی مالی زادی سے کرنے کا دن مقرر کر دیا۔ یہ عقدہ تو مجھ پہ شب زفاف کھلا کہ در اصل وہ مال زادی مجھے اپنے حسن کے جال میں کیوں پھانسنا چاہتی تھی۔ وہ حرافہ اندر سے ایک جادوگرنی تھی اور ایسی زِشت خُو کہ میری نظروں کے سامنے اپنے یار سے بھی راز و نیاز کرتی تھی۔ میں اپنے یاروں سے رخصت ہوا اور شب عروس منانے کے واسطے اپنے محل کی جانب روانہ۔ میں کمرے کے دروازے پہ کھڑا تھا اور چونکہ میرے یاروں نے اُس رات میری شادی کی خوشی میں مجھے ضرورت سے زیادہ شراب پلا دی تھی، اس واسطے لڑکھڑا تا تھا۔ میں نے اُس شاطرہ کی منہ دکھائی کے واسطے اصلی مروارید کا جو ہار الگ رکھا تھا وہ اپنے شاہی لباس کی مختلف جیبوں میں کھوجتا اور خود کو ہار نہ ملنے پہ نفرین کرتا تھا کہ کمرے سے کسی مرد کے ہنسے کی آواز کان میں پڑی۔ میرا نشہ ہرن ہو گیا۔ جھانک کے دیکھا تو ایک لحیم شحیم مرد اُس کی گود میں لیٹا اُس سے چہلیں کر رہا تھا۔ پس میری آنکھوں میں خون اُتر آیا اور کف افسوس کو ملنے لگا کہ یہ میں نے کس رنڈی سے بیاہ رچا لیا جو شب زفاف اپنے یار سے راز و نیاز کرتی ہے؟

تلوار سونت کے کمرے میں گیا تو بوجہ غیض کسی چیز سے اُلجھ کے لڑکھڑایا۔ تس پہ وہ مسہری سے اُتری اور لگی ناز و انداز دکھانے۔ میں نے اُسے دھکا دے کے ایک طرف گرایا اور دہاڑ کے بولا۔ اے چنڈالنی کہاں ہے تیرا وہ یار کہ جس کے ساتھ ابھی تو خر مستیاں کر رہی تھی۔ پہلے تو وہ حیران ہوئی اور پھر آنکھوں میں آنسو بھر کے بولی۔ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ کونسا یار، کہاں کا یار۔ میں نگوڑی کب سے تمہارے انتظار میں سوکھ رہی ہوں۔ تس پہ میں نے کمرے کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن وہاں کسی مرد کا کوئی نشان نہ پایا۔ محجوب ہو کر ایک طرف پڑ رہا اور اسے اُس شراب کاشاخسانہ قرار دیا کہ جس کے نشے میں میرے یاروں نے مجھے مبتلا کیا تھا۔ کمرے میں وہ تھی ، میں تھا یا پھر اُس کے توتے کا پنجرہ تھا جسے وہ کبھی خود سے جدا نہ کرتی تھی۔ غرضیکہ ہمارے دن عیش و عشرت میں گزرنے لگے۔ ایک روز وہ شاطرہ عین عیش و مستی کے لمحات میں بولی۔ اجی تم کب تک شہزادگی پہ گزارہ کرتے رہو گے۔ تمہارے باوا جان اب بڈھے ہو گئے ہیں۔ کل کلاں کسی دشمن نے حملہ کر دیا تو وہ وضو کا لوٹا اور کمر بند ہی سنبھالتے رہ جائیں گے۔ میں کہتی ہوں تم اب اُنہیں مکے مدینے بھجوا کے خود بادشاہت کیوں نہیں سنبھالتے۔ اُس کی بات جی کو لگی اور میرا باپ ویسے بھی مرضِ فتق میں مبتلا تھا اور چلنے اور بیٹھنے میں اُسے شدید تکلیف کا سامنا تھا اور ملک بانی اب اُس کے مقدرت کی بات نہیں لگتی تھی، چنانچہ اُس کی بات کو دُرست تسلیم کیا۔ میرا باپ ہنوز رعایا میں مقبول و مر غوب تھا اور اُس کی سلطنت میں انصاف اور امن کا دور دورہ تھا ، صحت کی ذرا سی خرابی کو چھوڑ کر کوئی بھی اور ایسا سبب نہ تھا کہ جس کی وجہ سے وہ تخت شاہی میرے زانو تلے سرکا دیتا اور تاج شاہی میرے سر پہ رکھ دیتا چنانچہ میں دن رات اسی فکر میں غرق رہنے لگا کہ کیا سبب ہو کہ میں اپنے باپ کو موقوف کر کے خود شاہی کے مزے لوٹوں۔ وہ حرافہ ہر رات مجھے نئی پٹی پڑھاتی تھی۔ ایک رات جبکہ میں شراب میں غرق ہونے کی وجہ سے جلدی سو گیا اور رات میں کسی وقت شدت بول کی وجہ سے جاگا تو مجھے کمرے میں کسی مرد کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ یہ وہی آواز تھی جو میں شب عروس سن چکا تھا ، چنانچہ قدرے آنکھوں کو میچ کے دیکھا تو وہ چنڈالنی توتے کا پنجرہ پہلو میں لئے پڑی تھی اور توتا مردانہ آواز میں بول رہا تھا۔ میں حیران کہ یہ کیا اسرار ہے۔ توتا بولا۔ جانی پتہ نہیں کب تیرا یہ خصم اپنے باپ کے تخت پہ بیٹھے گا اور تیرے ہاتھوں ختم ہو گا اور میں اس مملکت پہ بادشاہی کروں گا۔ تس پہ میری زوجہ بولی۔ تم دیکھتے تو ہو، میں ہر روز اس کمبخت کو دانہ ڈالتی ہوں۔ پھر وہ دونوں ہنسے۔ غصے سے میں اس شدت سے کانپا کہ مسہری ہلنے لگی، تس پہ وہ شتابی توتے کے پنجرے کو مسہری تلے سرکا کے مجھ سے بولی۔ جانی دیکھتی ہوں تم شراب کچھ زیادہ ہی پینے لگے ہو۔ ایسامت کرو اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو میں نگوڑی کیا کروں گی۔ میں تلوار سونت کے کھڑا ہو گیا اور کڑک کے بولا۔ اے خصم پہ یار رکھنے والی۔ میں تیرے مکر سے بخوبی واقف ہو چکا ہوں۔ مجھ سے سچ کہہ کہ یہ کیا اسرار ہے اور یہ توتا کون ہے کہ تُو جس کا پنجرہ فرج سے بھِڑائے رکھتی ہے۔ میری آنکھوں میں خون اُترا ہوا تھا پر وہ ذرا نہ گھبرائی اور بولی۔ اب تم اس راز سے واقف ہو ہی گئے ہو تو سن لو کہ پنجرے میں جو توتا بند ہے، وہ میرا یار ہے اور میں جادو گرنی ہوں۔ اب بولو تم میرا کیا کر سکتے ہو۔ میں چاہتا تھا کہ اُس کا سر اُس کے شانوں پہ نہ رہنے دوں مگر پہلے اُس کے یار کو مارنا ضروری تھا ، چنانچہ وہ ہائیں ہائیں کرتی رہ گئی اور میں نے پنجرے پہ تلوار کے دو ایسے کاری وار کئے کہ وہ مردار انسانی جُون میں آنے سے پہلے ہی جہنم واصل ہو گیا۔ میں اب تلوار لے کے اُس چنڈالنی کی طرف بڑھا مگر اُس نے پڑھ کے جو پھونک ماری تو تلوار میرے ہاتھ سے نکل کے فضا میں معلق ہو گئی۔ تس پہ وہ حرامزادی بولی تو نے میرے یار کو مار دیا اب میں تجھ سے وہ بدلہ لوں گی کہ تُو نہ جیتوں میں ہو گا نہ متروں میں۔ میں تجھے اپنے اُستاد سامری وقت ہامون جادو گر کی قلمرو میں قید کر دوں گی اور تُو وہاں اُس وقت تک قید رہے گا جب تک وہاں ایک جن، ایک توتا، دو مرد اور دو گھوڑے تجھے ڈھونڈ نہ لیویں گے۔ اب اس میں دو برس لگیں یا دو سو، میں کچھ نہیں جانتی۔ پھر اُس کٹنی نے کچھ پڑھ کے ایک پھونک ماری اور میں نے اپنے تئیں اس جنگل میں پایا جہاں سے آپ نے مجھے بازیاب کیا۔ ابھی کچھ دنوں سے میں ایک بزرگ سفید پوش کو خواب میں دیکھتا تھا کہ جن نے مجھے ایک منتر بتلایا تھا کہ جب تجھے وہ لوگ ملیں تو ترنت وہ منتر پڑھ کے زمین سے خاک ہوا میں اُچھالیو ، تم سب ہامون جادوگر کے چنگل سے رہائی پا کے جائے امن میں پہنچ جاؤ گے۔ تو صاحبو مجھ پہ جو بیتی، کہ چکا۔ اب چاہتا ہوں کہ فوراً اپنے باپ کی سلطنت میں پہنچ جاؤں اور اگر وہ کسی مصیبت میں ہے تو خود کو اُس کی مدد پہ مستعد کروں اور اُس حرامزادی کے قتلے اپنے ہاتھوں سے کروں۔

نوجوان کی یہ رنگین و سنگین داستان ہمیں خوب لگی اور میں چاہتا تھا کہ شتابی اُس کی مدد کروں۔ مشورہ طلب نگاہوں سے اپنے ہم جلیسوں کو دیکھا تو سبھی کو مُنڈیاں اثبات میں ہلاتے پایا۔ جن کو اُس شہزادے کی منزل تک پہنچانے کا حکم دیا جو اُس نے بسر و چشم قبول کیا لیکن روانہ ہونے سے عین پہلے کہ وہ ایک ٹانگ جن کے دوش پر رکھ چکا تھا، ہم سے یوں گویا ہوا۔ میں نے ابھی تک تم سے تمہاری وہ بپتا تو سنی ہی نہیں کہ جس کے کارن تم اُس بیابان میں ہامون جادوگر کی قید میں گرفتار ہوئے تھے۔ وزیر زادے نے اُسے مختصراً ہمارے بارے میں بتلایا تس پہ وہ نوجوان مسکرایا اور یوں گویا ہوا۔ اچھا ہوا جو تم نے اپنی مجھ سے کہہ دی۔ اندھوں بہروں کی سرزمین ہماری مملکت سے فقط چند کوس کے فاصلے پہ ہے اور یہ جن جو میرے ہمراہ جاتا ہے، واپسی میں اُس کے کُجاتوں کی خبر لیتا آوے گا۔ میں وہاں کے باشندوں کے بارے میں یہ لفظ سن کر ششدر رہ گیا ، شہزادہ کہ بلا کا ذکی اور فہیم تھا، میری حیرت کو پا کر بولا۔ اپنے تئیں دیکھو گے تو حیرت رفع ہو جاوے گی، مجھے اجازت دو اور ہاں کبھی میری مدد کی ضرورت ہو تو ہمارے محل کے صدر دروازے کی زنجیر ہلا دینا کہ اُس کا دوسرا سرا ہمارے قاضی شہر کے ازار بند سے بندھا رہتا ہے اور تمہیں مجھ تک ترنت رسائی ہو جاوے گی۔ یہ کلمات کہہ کے وہ جن کے شانے پہ بیٹھا اور روانہ ہوا۔

توتا آگے کی خبر لانے کے واسطے ہراول کے طور پر اپنے کارِ روزینہ کے بموجب چلا گیا اور شتابی لوٹا تو یہ خبر لایا کہ ہم اس وقت کوہ قاف کی سرزمین پر موجود ہیں اور جناب کو جس الہ دین کے چراغ کی خوشخبری ملی تھی، وہ چراغ جس محل میں ہے ، میں اُس پر پرواز کر چکا ہوں اور گھوڑوں پہ یہ مسافت فقط دو دن کی ہے، چونکہ اندھوں بہروں کی سرزمین تک پہنچنے کا رستہ فقط الہ دین کے چراغ کے جن کی کمر پہ ہی طے کیا جا سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اُس محل کی خبر لانی ہو گی۔ ابھی توتے کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ جن شہزادے کے بوجھ سے سبکدوش ہم میں آن اُترا اور یوں گویا ہوا۔ اے آقا بے شک وہ شہزادہ سچا تھا اور اُس کے واپس پہنچتے ہی اُس مملکت میں رنج و محن کی جگہ خوشی و سرشاری نے لے لی۔ اُس کا باپ چونکہ فتق کے مرض سے شفا پا چکا ہے اور کسی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا تھا، اگلے دن اُس کی تاجپوشی کا اعلان بھی کر چکا اور اس وقت مملکت کے لوگ موم جمع کر رہے ہیں کہ اگلے روز چراغاں کر سکیں۔ میں اُس کٹنی کو بھی دیکھ آیا ہوں کہ ابھی تک بادشاہ بہو کا بہروپ بھرتی ہے۔ میرے مشورے پہ شہزادے نے فی الحال خاموشی اختیار کر لی ہے لیکن اُس چنڈالنی کی سزا کے واسطے کہ ابھی تک شہزادے کی منکوحہ ہے، میں شہزادے کو(حکیمی)نسخے بتلاتا آیا ہوں کہ جب تک جیے گی ، مجھ بےکس کو کوستی رہے گی۔ رستے میں ہمیں وہ سفید پوش بزرگ بھی ملے تھے جو شہزادے کو خواب میں دکھلائی دیا کرتے ہیں۔ وہ کوئی اور نہیں اپنے وہی بزرگ سفید پوش ہیں کہ جن کا ماضی ہمارے سامنے یوں عیاں ہے کہ جیسے یہ چمکتا سورج۔ یہ حکایت سنا کے جن نے پو ٹلی کھولی کہ جس میں ہمارے کھانے اور پینے کو رستے سے اسباب جمع کرتا لایا تھا۔ وہ دن ہم کھانے پینے کی مستی گزار کے سو گئے۔

اگلی صبح یہ سن کہ کے ہمارا قصد کوہ قاف کے اُس محل کا ہے کہ جس میں ایک طاقچے میں رکھے چراغ میں الہ دین کا جن بند ہے، ہمارا جن ہتھے سے اُکھڑ گیا اور لگا پرانے خاندانی قضیے بیان کرنے۔ کسی زمانے میں ، کہ ہمارا جن دو ہزار سال قبل کا واقعہ بتلاتا تھا، چراغ والے جن نے کہ رشتے میں ہمارے جن کا ماموں بھی تھا، ہمارے جن کے باپ سے دو سو اشرفیاں اُدھار لی تھیں اور ڈکار گیا تھا اور تقاضے پہ ہمارے جن کے باپ کو ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسوا کے اور بوتل میں بند کروا کے کسی سمندر میں پھنکوا دیا تھا۔ ہمارے جن کا کہنا تھا کہ اُس نے یہ فعل انسانوں کی نقالی کرتے ہوئے سر انجام دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ہمیں ہمارا جن ہی وہاں تک لے جا سکتا تھا اور اس مردود کی مدد ہمارے واسطے کس قدر ضروری تھی، چنانچہ اُس وقت جھوٹے منہ اُس کی طرفداری کرنے کے سوااور کوئی چارہ نہ پایا اور اُس نابکار کو ، ضرورت کے وقت داشتہ کام آتی ہے، قسم کی مثال کے ترجمے سے واضح کیا کہ ہم اُسی کے ساتھ ہیں۔

چنانچہ ہم پہلے گھوڑوں پہ اور پھر کوئی اور راہ نہ پا کے ایک مقام پہ جن کے شانوں پہ سوارہوئے اور آن کی آن میں اُس محل کی چھت پہ جا اُترے کہ جس کے کسی کمرے میں ہمارا گوہر مقصود تھا۔ وہ جادوگر کہ جس نے اُس محل پہ قبضہ جما رکھا تھا، اپنی محبوبہ سے ملنے کے واسطے سات سمندر پار گیا ہوا تھا اور نگہبانی کو ایک ایسے دیو کو مقرر کر گیا تھا کہ جو جتنی دیر ہوا میں معلق رہتا تھا اُس کی طاقت برابر بڑھتی رہتی تھی، چنانچہ جس وقت ہم وہاں پہنچے ہیں وہ مردود ہوا میں ٹنگا ہوا سو رہا تھا۔ ہمارا ایک گھوڑا کہ چند روز سے مذکوم تھا، ایسی بلند آواز میں چھینکا کہ وہ مردود شتابی جاگا اور ہمیں اپنی ایک آنکھ سے گھورنے لگا۔ ہمارے جن نے اُسی وقت ہم پہ واضح کر دیا کہ حضت اس نابکار سے لڑنا میرے بس کی بات نہیں ، آپ کچھ کر سکتے ہیں تو کر لیں۔ بندہ یہاں بیٹھ کے تماشہ دیکھے گا۔ جن کی اس بے موقع بے وفائی نے میرا دل پارہ پارہ کر دیا لیکن پھر سوچا اس کمبخت نے ہر آڑے وقت میں ساتھ دیا ہے، اب کچھ ایسا ہی ہو گا جو یہ شغال بن گیا ہے۔ اچانک اُس مردود دیو نے ہاتھ بڑھا کے میرے گھوڑے کو ہوا میں اُٹھا لیا اور میں نے فوراً سجدہ شکر ادا کیا کہ میں اُس وقت گھوڑے پہ سوار نہ تھا۔ گھوڑے نے دہائی دی اور اپنی سابقہ خدمات یاد دلائیں اور یہ بھی بتلایا کہ اگر اُس کا خاتمہ اس دیو کے شکم عظیم میں ہو گیا تو میں باقی سفر طے نہ کر سکوں گا اور شہزادی ماہ نور کے وصل کی لذت سے محروم رہ جاؤں گا۔ تس پہ وہ نابکار دیو ہشیار ہوا اور ڈپٹ کے بولا۔ یہ شہزادی کا کیا قصہ ہے۔ یہ وہی شہزادی تو نہیں کہ جو اپنے ہر اُمید وار کے سامنے سات سوال رکھتی ہے۔ اس پر میں نے ششدر ہو کر کہا۔ تُو اُسے کیسے جانتا ہے۔ دیو زمانے بھر کی تلخی اپنی مسکراہٹ میں بھر کے بولا۔ وہ بہت بڑی رنڈی ہے۔ یاروں کی ایک آنکھ اُس حرافہ کا پہلا سوال پورا کرنے میں کام آئی تھی اور اگر تُو اُس کا اُمید وار ہے تو پھر یاروں کا رقیب ہوا اور یار اپنے رقیب سے پہلے نمٹیں گے۔

ابھی اُس نے گھوڑے کو کھانے کا ارادہ ملتوی کیا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں بزرگ سفید پوش آدھے لباس میں اُفتاں و خیزاں محل کی چھت پہ اُترا۔ اور سب سے پہلے ہمیں نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا کہ وہ جلدی میں لباس زیریں پہننا بھول گیا تھا۔ لیکن اُس نے یہ حکم اُس وقت دیا جبکہ ہمیں جتنا گناہگار ہونا تھا، ہو چکے تھے۔ بزرگ سفید پوش نے اُوپری لباس ، زیریں حصے پہ لپیٹنے کی کوشش ناکام کرتے ہوئے میرے کان میں کہا۔ کچھ ایسا کرو کہ اس دیو کو زمین پر اُتار لو کہ اس سے اس کی طاقت گھٹتی ہے۔ یہ راز بتلا کہ وہ چشم زدن میں غائب ہوا۔ میں نے وزیر زادے تک یہ راز پہنچایا تو وزیر زادے نے دیو کو ایسی مغلظات پہ دھرا کہ میرے کان جلنے لگے حالانکہ وزیر زادہ دیو کو جو گالیاں دے رہا تھا، وہ ناممکنات میں سے تھیں اور دیو کو اُنہیں سمجھنے میں وقت لگ رہا تھا مگر صاحب وہ دیو تھا، سیار نہ تھا۔ چنانچہ وزیر زادے پہ حملہ آور ہوا۔ وزیر زادہ جھکائی دے کر خود کو بچا گیا اور دیو سے فاصلے پر چلا گیا۔ دیو قدرے نیچے ہوا اور پھر ہاتھ بڑھایا مگر ہنوز ناکام رہا۔ تس پہ وہ زمین پہ اُتر آیا تو میرے اشارے پہ گھوڑے اور پھر میں خود بھی اُس پر یوں سوار ہوئے کہ بادشاہ کو جلا وطن کر کے کوئی سپہ سالار بھی رعایا پہ کیا سوار ہو تا ہو گا۔ ہم جوں جوں اُسے اپنے نیچے دابتے تھے، ووں ووں دیو کی طاقت میں کمی واقع ہوتی تھی، تا آنکہ اُس میں ایک مرغ غیر اصیل سے زیادہ طاقت باقی نہ رہی اور قد بھی حیوانِ مذکور کا ساہو گیا تو ہم نے اُسے خرجی میں بند کر کے خرجی زمین پہ رکھ دی اور اپنے اصل کام کی طرف توجہ کی۔ محل کے ایک ٹوٹے پھوٹے کمرے میں ہمیں الہ دین کا چراغ مل گیا۔ چراغ نہایت بوسیدہ حالت میں تھا اور اُسے رگڑنے کا دُرست طریق بھی کسی کے علم میں نہ تھا چنانچہ جن سے مشورے کے طالب ہوئے تووہ منہ پھیر کے کھڑا ہو گیا۔ تس پہ وزیر زادے نے اللہ کا نام لے کے چراغ کو رگڑا تو بجائے جن برامد ہونے کے ایک نہایت ہی نحیف آواز سنائی دی کہ کون ہو بھائی۔ تس پہ میں ڈپٹ کے بولا۔ باہر نکل گیدی۔ ہم اس چراغ کے قابض و متصرف ہیں اور تُو اب سے ہمارا غلام ہے۔ بارے انتظار کیا، دُودِ موہوم کا ترشح ہوا اور چراغ سے سفید بالوں والا ایک ضعیف العمر ، لاٹھی ٹیکتا اور دیکھنے کی کوشش میں ہاتھوں کا چھجہ استعمال کرتا جن نکلا۔ وہ کبھی کبھی کھانستا بھی تھا۔ اُسے خدمت کا حکم تو کیا دیتے، اُس کی حالت دیکھ کے خود ہمارا دل اُس کی خدمت کو چاہنے لگا۔ جن ایک پتھر پہ بیٹھ کے کچھ دیر سانس لیتا اور اس عمل میں اُس تکلیف سے دو چار دکھائی دیا کہ جس کے لئے کسی بزرگ نے کہا تھا کہ ؎ سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے۔ بارے دم کو دم سے ملا کر بولا۔ دو ہزار برس سے چراغ میں قید ہوں۔ چراغ میں کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ ہوا دان تک بند ہو چکے ہیں۔ ایک بوسیدہ بستر پہ پڑا موت آنے کی گھڑیاں گنا کرتا ہوں لیکن چونکہ اب آپ میرے آقا ہیں اس لئے حکم کیجئے ، بجا لانے کا کوئی چارہ کرتا ہوں۔ اتنا کہا اور غش کھا کے اُسی پتھر پہ بینڈا پڑ رہا کہ جس پہ بیٹھا گفتگو کرتا تھا۔ جن کی یہ حالت ہمارے لئے باعث عبرت تھی۔ اس جن کے کارنامے بچپن سے اب تلک سنے تھے اور اُن کہانیوں میں اس کی شہ زوری اور خوش تدبیری کا جو چرچا پایا تھا، اب اُس کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ ہمارا جن قریب آیا اور چراغ کے جن کی نبض ٹٹول کے بولا۔ آقا میں اس کی یہ حالت دیکھ کے اس کا قصور معاف کرتا ہوں۔ بے شک یہ دمِ واپسیں پہ ہے اور اسے فوری طبی امداد کی ضرورت ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس کا کیا علاج ہے۔ آپ اس کے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے دے کے اسے ہوش میں لانے کی تدبیر کیجئے میں ذری کی ذری میں اس کے لئے دوا لاتا ہوں۔ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر جن غائب ہو گیا۔ وزیر زادے اور توتے شہزادے نے جن کی طرف توجہ کی اور جن ہوش میں آیا اور پڑے پڑے بولا۔ میں اس وقت نا طاقتی کے ہاتھوں اتنا لاچار ہوں کہ بیان سےنطق عاجز ہے۔ وہ جن جو آپ کے ساتھ کھڑا تھا، میرا رشتے کا بھانجا ہے اور میری اُس کے باپ سے ان بن تھی۔ میں چونکہ یہ قصہ پہلے سن چکا تھا اس واسطے جن کو مزید بولنے سے روکنے کی خاطر یہ حقیقت اُس سے کہہ دی۔ تس پہ وہ جن اپنے سر کو زور زور سے نفی میں ہلا کے بولا۔ شاہ جنات کی قسم۔ بات اشرفیوں کی نہیں تھی، ایک طرحدار جنی کا فضیحتا تھا جو ہم دونوں سے مال کھا رہی تھی اور بعد ازاں بیاہ کسی تیسرے سے کر کے اُس کے ساتھ نکل لی۔ ابھی بات یہیں تک پہنچی تھی کہ ہمارا جن دوا لئے آ گیا اور ایک بڑے سے پھاوڑے کی مدد سے چار خوراکیں چراغ کے جن کے منہ میں اُنڈیل دیں۔ دوا جادو اثر تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چراغ کا جن ایک نوجوان، بد صورت اور بد ہیئت جن میں تبدیل ہوا اور اپنی چمکتی چوٹی پہ ہاتھ پھیر کے بولا۔ حکم میرے آقا۔ اُس کی آواز اس قدر خوفناک تھی کہ ہمارے گھوڑے اُسی وقت بول و براز کی کیفیت سے گزر گئے۔ وزیر زادے کا میں کہہ نہیں سکتا، مجھے اپنے مقامات اخراج کو قابو میں رکھنے میں شدید دقت پیش آئی۔ تس پہ وہ جن کہ خوش تدبیری ، معاملہ فہمی اور ذکاوت میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا، بولا۔ آقا یہ صحت یابی کے بعد میری پہلی آواز تھی جس سن کر اچھے اچھوں کا پِتا پانی ہو جایا کرتا ہے، آئندہ محتاط رہوں گا۔ میرے لئے کیا حکم ہے۔ یہ گفتگو اُس نے غیر جناتی انداز میں کی۔ چنانچہ میں نے اُسے حکم دیا کہ وہ ہمیں اندھوں بہروں کی سرزمین تک پہنچا دے اور چاہے تو چراغ میں آرام کرے اور چاہے تو فی الحال رخصت پر چلا جائے۔ جن نے موخر الذکر تجویز پر صاد کیا اور اُسی وقت ایک اشارہ کیا۔

کیا دیکھتا ہوں کہ سرخ رنگ کا ایک ایرانی قالین اُڑتا ہوا آیا اور ہمارے قدموں میں بچھ گیا۔ جن نے کہا۔ یہ قالین آپ کو اندھوں بہروں کی سرزمین تک پہنچا دے گا اور چراغ آپ کے پاس ہے ، جب رگڑیں گے میں حاضر ہو جاؤں گا لیکن میری التجا ہے کہ بہت رات گئے نہ رگڑیں کہ جنوں کی بھی کوئی ذاتی زندگی ہوتی ہے اور میں چونکہ بیوی بچوں والا ہوں ، حالات کے ہاتھوں فوجی بنا بہت دنوں بعد گھر جا رہا ہوں۔ ویسے آپ خود بھی سمجھدار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آخری بات کہہ کے جن نے آنکھ بھی ماری تھی۔ چنانچہ ہم سب قالین پہ سوار ہوئے اور قالین کو اُڑنے کا حکم دیا۔ چراغ کا جن تھوڑی دیر ہمارے ساتھ اُڑا اور پھر ایک مقام کی طرف اشارہ کر کے بولا۔ میرے گھر کو یہ رستہ جاتا ہے اس لئے میں اب آپ سے جدا ہوتا ہوں۔ وہ بادلوں کی آڑ میں ہوا اور ہم اپنے قالین پہ اُڑتے رہے۔

تین ساعت بعد یہ سفر ختم ہوا اور ہمارا قالین ایک مرتفع جگہ پہ خود بخود اُتر گیا کہ اُسے ایسا ہی کرنے کو کہا گیا تھا۔ قالین پہ بیٹھے بیٹھے ہاتھوں پیروں سے جُڑ گئے تھے۔ گھوڑوں کو ہری دوب پہ چرنے کو چھوڑا اور میں اور وزیر زادہ گھنے پیڑوں تلے پاؤں پسار کے پڑ رہے۔ توتے اور جن کو شتابی آگے روانہ کیا کہ ہم اس وقت اندھوں بہروں کی سرزمین پر تھے اور ہماری راہ چونکہ طلسمات سے بھری اور آفات سے گھری تھی، اس لئے آگے کی خبر معلوم ہونا ضروری تھی۔ جن جانے کہاں ملیا میٹ ہو کے رہ گیا تھا، توتا البتہ شتابی لَوٹا اور اُس نے یہ عجیب خبر دی کہ آقا ہم شایدکسی غلط سر زمین پہ اُتر گئے ہیں۔ وجہ اس کی وہ یہ بتلاتا تھا کہ یہاں ہر مرد و زن نہ صرف دیکھتا پایا گیا ہے بلکہ سنتا بھی ہے اور ہم میں اور اُن میں مطلق فرق نہیں۔ میں یہ بات سن کے سوچ میں مستغرق ہوا اور وزیر زادے کو بھی اسی فعل میں مبتلا پایا۔ نہ جن کا حساب غلط ہو سکتا تھا، نہ جل پریوں کی ملکہ اور نہ ہی بزرگ سفید پوش کا۔ تس پہ توتا، کہ فہم و ذکا میں ہم سب سے بڑھ کے تھا، بولا۔ اس سوال کا جواب کہ اندھوں بہروں کی سرزمین کی خبر لاؤ، اسی سوال میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ چنانچہ کچھ ایسا کیجئے کہ اس بھید کو پانے کے واسطے شہر کی جانب کُوچ کیجئے کہ اس کے سوا اور کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی ہم بیٹھے یہ گفتگو کرتے ہی تھے کہ جن لوٹا اور بعینہ وہی خبر لایا کہ جس سے ہمیں توتا مطلع کر چکا تھا۔ بلکہ جن کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ یہاں کی عورتیں مردوں سے زیادہ بولتی اور بلا کی شکی مزاج ہیں۔ مثال کے طور پر جن نے اپنا واقعہ سنایا کہ وہ ایک مرد کے بھیس میں ایک گلی سے چلا جاتا تھا، ایک عورت سے اُس کا بازو چھُو گیا تس پہ اُس عفیفہ نے جن کو کوتوال کے پاس پہنچانے پہنچاتے چھوڑا اور جب تک دس اشرفیاں نہ دھروا لیں جن کی جان نہ چھوڑی۔ جن اس قدر ڈرا ہوا تھا کہ ہمارے اکل و شراب کا یومیہ جو بندوبست کرتا تھا، اُسے بِسرا آیا تھا۔ چنانچہ طے یہ ہوا کہ ہم خود شہر کی راہ لیں۔ گھوڑوں کو دُوب سے تھوتھنیاں کھینچنے پہ مجبور کیا اور اُن پہ سوار ہو کے شہر کی جانب چلے۔

ہم گلیوں گلیوں دلکی چال سے چلے جاتے تھے اور کہیں شب بسری کی فکر میں بھی تھے کہ ناگاہ ایک بھٹیار خانے پہ نظر پڑی اور ساتھ ہی تازہ پکتی روٹیوں کی خوشبو نے ہمارے مونہوں کو رال دار کر دیا۔ چنانچہ وہیں پہ اُتر پڑے۔ گھوڑوں کو ایک ملازم کے حوالے کیا اور ایک اشرفی فی بچھونے کے حساب سے شب بسری کا معاملہ طے کیا۔ جب ہم غسل و طہارت سے فارغ ہو گئے تو بھٹیارن صاف ستھرے خوانوں میں گرم روٹیاں ، چنے کی دال کہ جس پہ پیاز اور ادرک کی لچھیاں سلیقے سے کتر کے چھڑکی گئی تھیں ، گرم روٹیاں اور کھٹی چٹنی لئے حاضر خدمت ہوئی۔ کھانے رکھ کے لپ جھپ ٹھنڈے پانی کی کوری ٹھلیا لائی اور جب ہم نے کھانا شروع کیا تو اُس نے پنکھے سے فرضی مکھیاں اُڑانی شروع کر دیں۔ میں کھاتا جاتا تھا، پیٹ بھر گیا مگر نیت نہ بھرتی تھی۔ وہ عفیفہ وہیں سے بیٹھی بیٹھی آواز دیتی اور اُس کا خصم کہ صورت سے پیر فرتوت لگتا تھا اور تھا، تازی روٹیوں کی سینی بھرے لئے چلا آتا تھا۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی اور کھانے سے پہلے کی طرح ، پس خوردن ہمارے ہاتھ سلفچیوں کے خوشبودار پانی سے دھلوائے جانے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ عفیفہ، وزیر زادے کے ہاتھ دھلواتے وقت اُسے پُر شوق نگاہوں سے دیکھتی تھی اور وزیر زادہ بھی اُسی نوع کے جوابی عمل میں مصروف تھا۔ یہ دیکھ کر میرا ما تھا ٹھنکا لیکن پھر اس مارے خود کو معترض ہونے سے باز رکھا کہ اس سارے سفر کے دوران وزیر زادے کو ، کہ اس سفر سے پہلے ہر رات خوش فعلیوں میں مشغول رہتا تھا، چونکہ کسی آدم زادی سے قربت کا موقع ہاتھ نہ آیا تھا، چنانچہ صاحب وہ جو کر رہا تھا وہ عین تقاضہ بشری تھا۔ ہمیں علم نہیں تھا کہ بھٹیارن گانے بجانے کے فن میں بھی طاق تھی، چنانچہ جب رات بھیگی تو وہ لباس بدل کے آ گئی اور ساتھ میں اُس کے دو ملازم بھی تھے اور پیر فرتوت نما خاوند بھی۔ ملازموں نے رباب و چنگ کو چھیڑا، اُس کا خصم ڈمڈمی لے کے بیٹھ گیا اور بھٹیارن گانے لگی۔ میں چاہتا تھا کہ اس وقت دو گھونٹ مے ناب کے بھی مل جاتے۔ بعضی بعضی بات یوں پوری ہوا کرتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ، چنانچہ بھٹیارن نے ایک خفیہ اشارہ کیا اور دو اور ملازم شراب کا مٹکا لئے حاضر ہو گئے۔ وہ حرافہ بظاہر ناچتی گاتی سب کے لئے تھی، مگر وزیر زادے پہ ڈَھے ڈَھے پڑتی تھی اور وہ بھی نشے میں حسب مراتب بھول کے خر مستیاں کر رہا تھا۔ غرضیکہ جب رات آدھی اِدھر اور آدھی اُدھر ہوئی تو میں نشے سے بے حال وہیں لڑھک گیا۔

رات گئے آنکھ کھلی تو اپنے تئیں ایک آرام دہ بچھونے پہ پایا۔ شدت بول نے مثانے کو خار خار کر رکھا تھا چنانچہ باہر گیا اور ایک نالی پہ بیٹھ کے حاجت رفع کی۔ واپسی میں سرائے کے ایک کمرے سے عورت کی ہنسی کی آواز سنی۔ تجسس نے ٹھونگ ماری کہ دیکھئے رات کے اس وقت کون کسےگد گدا رہا ہے کہ آخر شب کی نسوانی ہنسی بے وجہ نہیں ہو تی۔ چنانچہ اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا اٹکل سے اُس کمرے کے دروازے تک جا پہنچا کہ جس کی جھِریوں سے روشنی پھوٹ رہی تھی۔ آنکھ لگائی اور اندر دیکھا تو آنکھیں کھل گئیں۔ وہ شاطرہ وزیر زادے کی گردن میں بانہیں ڈالے پڑی تھی۔ ایک بیاہتا عورت کو یار کے ساتھ دیکھ کے میں فرط غضب سے کانپنے لگا اور چاہتا تھا کہ تلوار سے دونوں کے ٹکڑے کر دوں۔ کمر ٹٹولی تو (تلوار) ندارد پائی۔ چنانچہ خون کے گھونٹ حلق سے اُتارے ، چاہتا تھا کہ دروازہ توڑ دوں کہ وزیر زادے کی زبان سے اپنا نام سن کے ہشیار ہوا اور قتال کا ارادہ ملتوی کر کے سننے لگا۔ وزیر زادہ کہ عالم عیش کوشی میں بھی اپنی وفا داری پہ قائم و دائم تھا، نام لے لے کے میرے بزرگوں کی توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا اور اُن کی وہ وہ روحانی خوبیاں بیان کر رہا تھا کہ اگر اُن میں ہوتیں تو شہزادگی کے بجائے میں کسی خانقاہ میں بیٹھا حرماں نصیب عورتوں کو ، زچگی کے مراحل بغیر درد کے گزارنے کے مفید اور کثیر المقاصد تعویذ بانٹ رہا ہوتا۔ الغرض جب وہ میری اور میرے بزرگوں کی تعریف و توصیف کے کذب سے فارغ ہوا تو اس شہر میں اپنی آمد کی وجہ بیان کرنے لگا اور ساتھ ہی یوں بھی کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہم غلط جگہ آ گئے ہیں کہ یہاں تو ہر کوئی سنتا اور دیکھتا ہے۔ تس پہ وہ مال زادی اچانک رونے لگی۔ میں کسی عورت کو روتا نہیں دیکھ سکتا چنانچہ میری آنکھیں بھی ڈبڈبا آئیں اور میں زیادہ غور سے اُس کی باتیں سننے لگا۔ وزیر زادہ بولا۔ جانی تم نے اس تذکرے میں کونسی ایسی بات پائی کہ عیش و عشرت کے اُن لمحات کو مٹی کئے دیتی ہو کہ میں ، جنہیں شروع کرنے کو مرا جاتا ہوں۔ تس پہ وہ بھٹیارن بولی۔ اے وزیر زادے۔ میری کہانی سن اور عبرت پکڑ۔ یہ الگ بات کہ میں تجھے دل دے بیٹھی ہوں لیکن میں ہنوز باکرہ و غیر مدخولہ ہوں اور یہ مرد جو پیر فرتوت کی سی شکل بنائے میرا شوہر مشہور ہے، میرا دیرینہ غلام ہے۔ اور میں اس بھٹیار خانے کو محض اس واسطے چلا رہی ہوں کہ میرے دشمن مجھ تک نہ پہنچ جائیں۔ کہے تو شب خوانی کروں۔

وزیر زادہ کہ خود کو ایک نوجوان عورت کے پہلو میں پا کے انگیخت کے اسپ تازی کو ایڑھ لگا کے ، پوری رفتار سے بھگانے کی فکر میں تھا، مانو ڈھل گیا اور بولا۔ جانی میں تیرا قصہ سننے کو بے تاب ہوں۔ تس پہ وہ گویا ہوئی۔ میرا نام شہزادی جواہر ہے اور میں اسی ملک کے بادشاہ کی بیٹی ہوں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اور کسی زمانے میں جب دشمنوں نے میرے باپ کے تخت پہ سازشیوں ، مکاروں ، زن فروشوں اور ڈھل کمروں کے ذریعے قبضہ نہ کیا تھا ، میرے حسن کے چرچے شمالاً جنوباً تھے۔ یہ اس وقت جو تُو میرا حلیہ دیکھتا ہے، اورجس پہ مر مٹا ہے، اسے میں دھوئیں اور خاک میں چھپائے رہتی ہوں۔ کسی دن غسل کر کے اور ڈھنگ کی پوشاک سے ، خود کو آراستہ کر کے تیرے سامنے آ جاؤں تو تُو رعب حسن سے بے ہوش ہو جاوے۔ جب میں جوان ہوئی تو میرے باپ کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ میرے لئے اطراف و جوانب سے ہزاروں اُمید وار رشتے بھیجنے لگے۔ میرا باپ کہ ایک سمجھدار آدمی تھا اور شریعت کے بموجب میری شادی میری مرضی سے کرنے کا خواہاں بھی، ہر رشتہ میرے سامنے رکھ دیتا تھا اور میں چونکہ اپنے حسن پہ مغرور و نازاں تھی، ہر رشتے کو منع کر دیتی تھی۔

جب اس طور کئی سال گزر گئے اور میرے باپ کی کمر میں ، بوجہ پیری خم اور درد رہنے لگا اور اُس کے اُن اشغال میں حارج و مانع ہوا کہ جس کی شریعت اجازت دیتی ہے اور ماں کے سر کا پہلا بال پکا تو ایک روز وہ دونوں تنہائی کو موافق پا کر میرے پاس آئے اور میرا باپ یو ں گویا ہوا۔ اے جان پدر ، اے قراۃ العین تیرے میٹھے برس لگے مدتیں گزر گئیں اور دو چار برس میں وہ وقت آیا چاہتا ہے کہ تجھ سے فقط شادی کے خواہشمند باقی رہ جائیں گے اور اولاد پیدا کرنے کے تُو قابل نہ رہے گی۔ میں بادشاہی کرتا ہوں ، اس مملکت کے چرند پرند میرے تابع و غلام ہیں اور رعایا کا تو مذکور ہی کیا۔ میں جانتا ہوں کہ تجھے باری تعالیٰ نے دولت حسن سے مالا مال کیا ہے اور یہ بھی کہ تُو کسی بھی شادی کے اُمید وار کو اپنی ٹکر کا نہ پا کے ہر رشتے سے انکار کرتی ہے لیکن جان پدر تابکہ۔ میرا باپ اتنا کہہ کے خاموش ہوا تو میری ماں بولی۔ اس میں کیا کلام ہے کہ تُو حسن صورت و سیرت میں با کمال ہے اور تجھے بے شک یہ سزاوار ہے کہ تُو اپنی شان کے مطابق ایسا بر تلاش کرے کہ جو تجھ سی خوبیوں سے مزین ہو اور تیرے باپ کے بعد اس مملکت پہ بادشاہی کرنے کا اہل بھی لیکن میری جان سر دست چونکہ کوئی ایسا رشتہ ہماری نظروں میں نہیں ہے، چنانچہ اب ہم مجبور ہو کے تیرے پاس آئے ہیں کہ ملک فارس کا بادشاہ جو ہنوز کنوارا ہے اور تیری جیسی کسی کنواری کی تلاش میں بھی، ہم سے تیرے ہاتھ کی خاطر ملتمس ہوا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ کنواری کو سدا بسنت والی مثال تجھ پہ صادق آتی ہے مگر یہ بسنت ہمیشہ رہ نہیں سکتی۔ بے کہی لڑکیاں دنیا اور آخرت میں کبھی خوش نہیں رہ سکتیں۔ آج ہم ہیں ، کل نہ ہوں گے کہ یہی دستور دنیا ہے۔ ذرا سوچ اگر مجھے یا تیرے باوا کو کچھ ہو گیا تو اس سلطنت کے دشمن تجھ اکیلی کو چین پہ چھوڑیں گے۔ تجھے ایک ساتھی کی ضرورت ہے اور عورتیں وہی کامران رہتی ہیں کہ جومناسب عمر میں بیاہی جاتی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہم نے شرعاً تیرے حق کو مقدم جانا اور ہمیشہ تجھ سے رائے لی لیکن ہم تجھے یہ حق کیسے دے دیں کہ تُو شادی کے قابل ہونے کے باوجود واہی تباہی پھرتی رہے، چنانچہ میری جان میرا مشورہ یہ ہے کہ تُو شاہ فارس کا رشتہ قبول کر اور اُس کے رشتہ مناکحت میں خود کو دے کے ہمیں بھی نچنت کر اور خود بھی متاہلانہ زندگی کے عیش سے گزر۔ اور اگر اُسے دیکھنا چاہتی ہے کہ یہ تیرا حق ہے تو یہ رہی اُس کی تصویر۔ میری ماں نے شتابی ایک تصویر نکال کے میرے سامنے کی اور میں دیکھتے ہی اُس مرد جواں پہ کہ میرا ہم عمر رہا ہو گا، عاشق ہو گئی اور اُسی لمحہ اپنا عندیہ اثبات میں اپنے والدین کو دے دیا۔

اگلے دن سے سلطنت میں چراغاں ہو گیا اور ہر کہ و مہ اپنی اوقات کے مطابق اپنے گھروں پہ روشنی کرنے لگا۔ شاہ فارس کے سفیرکو کہ کسی جواب کا منتظر شاہی روٹیاں توڑتا تھا اپنی ہاں کے ساتھ واپس اُس کے وطن روانہ کیا اور میری شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میرا یہ حال کہ شادی کے دن کے انتظار میں وقت کو گھڑی گھڑی کر کے کاٹتی اور ہجر کے انگاروں پہ لوٹتی تھی۔ میرے باپ نے میرا جہیز تیار کروانا شروع کیا اور اُسے لاد کے بھیجنے کے واسطے ستر اصیل گھوڑے کہ عربستان سے منگوائے گئے تھے اور اتنے ہی اونٹ کہ وہیں سے ہی منگوائے گئے تھے، منتخب کئے۔ جب ساری تیاریاں مکمل ہو گئیں تو ہرکارے جو مہینوں سے دونوں ملکوں کے بیچ دوڑتے تھے، خبر لائے کہ شاہ فارس ایک عظیم انبوہ باراتیوں کا لئے روانہ ہو چکا ہے تس پہ میرے باپ نے شہر سے تین منزل دُور اُس کا استقبال کرنے کو آدمی مقرر کر دئیے۔ شادی میں چند روز باقی تھے کہ ملک کی مشہور مشاطاؤں نے مجھے نکھارنا سنوارنا شروع کیا۔ میں خوشی سے مری جاتی تھی اور ہر روز اپنے ہونے والے شوہر کی تصویر کو چومتی اور خود سے ایک پل کو جدا نہ کرتی تھی۔ ایک رات جب میری سہلیاں ساتھنیں مجھے چھوڑ کے اپنی اپنی جائے نوم کو چلی گئیں اور میں کمرے میں اکیلی رہ گئی تو ایک کریہہ الصورت و صوت عورت اچانک نمودار ہوئی۔ میں اُسے دیکھ کے ڈری تو وہ نرمی سے بولی۔ شہزادی مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں کوہ قاف کی ایک چوٹی پہ ایک غار میں رہتی ہوں اور پیشہ صدیوں سے جادو گری ہے۔ میں اپنے جادو کے طفیل تین ہزار سال کی زندگی پا چکی ہوں کہ جس میں سے ابھی فقط تین سو برس گزرے ہیں اور اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے یہ عمل کر کے غلطی کی تھی۔ میں مسلسل جینے سے عاجز ہوں اور ہر جتن کر چکی ہوں لیکن موت آ کے نہیں دیتی۔ اب مجھے بتلایا گیا ہے کہ اگر تُو میری مدد کرے تو میں مر سکتی ہوں۔ تیری یہ مہربانی ہنسی خوشی ہو جائے تو فبہا ورنہ مجھے دوسرا راستہ بھی یہ کام کرانے کے واسطے معلوم ہے۔

میں بڑھیا کی اس حکایت کو سن کر ششدر رہ گئی اور اُس سے دریافت کیا کہ میں اُس کی کیسے مدد کر سکتی ہوں۔ تس پہ وہ اپنا پوپلا منہ کھول کے ہنسی اور بولی۔ مجھے جادوگروں کے سردار سامری کی روح نے بتلایا ہے کہ میری مدد وہی شہزادی کر سکتی ہے کہ جس کی شادی عنقریب ہونے والی ہو۔ میں اپنے جادوئی قالین پہ دو دن میں ساری دنیا کا چکر لگا چکی ہوں اور یہ میں نے اسی ملک میں پایا کہ تیری شادی اتنی جلدی ہونے والی ہے کہ تیرا دُلہا بارات تک لے کے روانہ ہو چکا ہے۔ تُو میری مدد اس طرح کر سکتی ہے کہ میں تیری سہاگ رات تیرے حجلہ عروسی میں کالی بلی بن کے آؤں گی اور تُو اپنے میاں کو قتل کر کے اُس کا خون مجھے پلائے گی۔ میں یہ تجویز سن کے سُن ہو گئی اور چاہتی تھی کہ تالی بجا کے کنیزوں کو حاضر کروں تاکہ وہ اس مکروہ و منحوس عورت کو پکڑ کے میرے باپ کے سامنے لے جاویں اور وہ اس کے قتل کا حکم صادر کرے۔ تس پہ اُس ڈائن نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کے جو مجھ پہ پھونکا ہے تو میرے دونوں ہاتھ شل ہو گئے اور میں نے خود کو اُنہیں حرکت دینے سے قاصر پایا۔ وہ ہنسی اور بولی۔ اگر تُو انکار کرتی ہے تو پھر میں اسی جگہ کھڑے کھڑے تیری ماں اور تیرے باپ کو یوں مار دوں گی کہ اُنہیں پتہ بھی نہ چلے گا۔ میں چونکہ اُس چنڈالنی کے جادو کا ایک تماشہ دیکھ چکی تھی اس واسطے اُس کے بیان پہ یقین کیا اور اُس کی منت کی کہ وہ مجھے اس کام کے لئے نہ چُنے مگر وہ پتھر دل ڈائن جو جی میں ٹھان کے گھر سے نکلی تھی، اُس سے سرِ مُو نہ ٹلی۔ اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگی اور منہ ایک طرف کو اُٹھا کے پھونک ماری۔ اور بولی۔ اگر تُو انکار پر مُصر رہی تو اگلا وار تیری ماں پہ ہو گا کیونکہ تیرا باپ تو واصل حق ہو ہی چکا۔ قبل اس کے کہ میں کچھ جواب دیتی، محل میں کہرام مچا اور وہ ڈائن یہ کہتی رخصت ہوئی کہ باپ کی تکفین سے فارغ ہو کے سوچیو کہ تُو اپنے ماں کو اس انجام سے بچانا چاہتی ہے یا نہیں۔ وہ یہ کہہ کے کھڑی کھڑی غائب ہو گئی۔ الغرض جب میرے باپ کی تدفین ہو چکی تو عین اُسی روز شاہ فارس شاہی محل پہ بارات لئے وارد ہوا۔ وزیر اعظم سے میری ماں نے مشورہ کیا تو وہ یوں گویا ہوا کہ ملکہ عالیہ اب تم دونوں عورتیں اکیلی ہو۔ تم خوش نصیب ہو کہ میاں کے مرتے ہی داماد کا سہارا ہوا چاہتا ہے۔ نکاح عین شریعت ہے اور یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر لڑکی کا باپ مر جائے تو اُس کے نکاح میں تاخیر کی جائے البتہ اس موقع پہ جو خوشی کا سامان بہم پہنچانا ضرور تھا، اُسے موقوف کرنا واجب ہے۔ میں سرے سے ہی شادی سے منکر تھی کہ میں قرولی لگا کے بھلا اپنی شب زفاف کو کیسے داغدار کر لیتی چنانچہ میں نے باپ کی موت کو سامنے رکھ کے بڑی ہچر مچر کی مگر وہاں میری کون سنتا تھا۔ اب ایک طر ف میری ماں تھی کہ جسے میں جان سے زیادہ عزیز رکھتی تھی اور دوسری طرف میرا ہونے والا خصم تھا کہ جس پہ میں جی جان سے مر مٹی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ جتنا سوچتی تھی، اُتنے ہی دل میں شبکًے پڑتے تھے۔ وہ حرافہ یہ راز کسی پہ نہ آشکار کرنے کو کہہ چکی تھی اور میں تھی کسی سے بھی کہنے کو مری جاتی تھی۔ چنانچہ ماں پہ خصم کو وارنے کا ارادہ کر کے نکاح پہ ہاں کر دی۔

بعد نکاح کے ایک بڑی دعوت ہوئی جس میں میرے باپ کی وصیت کے بموجب میرے خصم کو اُس مملکت کا بادشاہ بھی بنا دیا گیا کہ جس پہ میرا باپ متصرف تھا۔ جب میں تنہا ہوئی اور اپنے کا انتظار کرنے لگی اور اُس کے آنے کی اطلاع ہوئی تو میں نے وہ خنجر اپنے عروسی لباس میں رکھا کہ جس سے مجھے اپنے خصم کو قتل کرنا تھا۔ کیا بتاؤں اُس گھڑی میں کیسے لہو کے آنسو رو رہی تھی۔ اُسی وقت وہ حرافہ ظاہر ہوئی اور مجھ سے بولی کہ اگر میں نے اُس کے حکم سے سر مو بھی رو گردانی کی تو ابھی اپنی ماں کی موت کی خبر سن لوں گی وہ یہ کہہ کے غائب ہوئی اور میرا شوہر شاداں و فرحاں حجلہ عروسی میں داخل ہوا۔

میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ میرے قریب آیا اور بولا ایک راز ہے جو تجھ سے اسی وقت کہنا مناسب گردانتا ہوں۔ نہ تو میں تیری عمر کا ہوں اور نہ ہی ویسا ہوں کہ جیسی تُو نے میری تصویر دیکھی تھی۔ میں یہ بہروپ اس لئے بھرے پھرتا ہوں کہ نئی نئی شادیوں کا شائق ہوں اور اگر اصل صورت میں سامنے آؤں تو تیرے جیسے چاند کے ٹکڑے کیسے مجھ سے بیاہ پر ہامی بھریں۔ میں اُس کی باتوں سے پریشان ہوتی اور اُسے دیکھتی تھی۔ اُس نے میرے سامنے اپنی بتیسی نکال کے ایک طرف رکھی اور پوپلے منہ سے کہنے لگا۔ ایسے کیا دیکھتی ہے جانی۔ میری تو ایک آنکھ بھی پتھر کی ہے اور یہ ایک جنگ میں کام آ گئی تھی۔ اس کے بعد شتابی آنکھ بھی نکال کے ایک طرف کو رکھ دی اور لگا اپنی داہنی ٹانگ کے تسمے کھولنے اور بولا۔ جب اِتا بتا دیا ہے تو یہ بھی سن لو کہ یاروں کی ایک ٹانگ بھی مصنوعی ہے۔ میں حیرت اور خوف سے اپنے خصم کو ادھورا ہوتا دیکھتی تھی۔ مجھے اُس کی مکروہ صورت سے زیادہ اُس شاطرانہ ڈھنگ پہ طیش آ رہا تھا کہ جس میں اُس نے میری ماں اور باپ کو جال بنا کے پھانسا تھا۔ میں جی ہی جی میں کہتی تھی کہ ایسے بد طینت کو تو مارنے میں اب کچھ افسوس نہ ہو گا۔ پھر وہ اپنے لباس کو سنبھالتا میرے قریب آیا اور منہ دکھائی میں سونے کا ایک ہار دے کے کہنے لگا۔ لیکن ان تمام خرابیوں کے با وصف تُو مجھے ایسا مرد پاوے گی کہ جس سے تجھے کوئی گلہ نہ ہووے گا اور ہاں اس بار شادی کرنے میں خود کو اس لئے خوش نصیب پاتا ہوں کہ تیرے جیسی عورت کے ساتھ ساتھ پوری سلطنت بھی میرے ہاتھ لگی ہے۔ اُسی وقت وہ چنڈالنی کالی بلی کا روپ دھارن کئے اچانک پیدا ہو گئی اور ہم دونوں کو دیکھ دیکھ کے اپنی منحوس آواز میں میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ میں اُس کا منشا سمجھ گئی اور چاہتی تھی کہ اپنے لباس میں چھپے خنجر سے اُس مردود کا کام تمام کر دوں کہ وہ ہنسا اور درانہ میرے کپڑوں میں ہاتھ ڈال کے وہ خنجر اپنے قبضے میں کیا اور بولا۔ حرام خور میں نے یہ سارا پاکھنڈ تجھے آزمانے کرا تھا۔ تجھے یاروں سے زیادہ اپنی ماں عزیز ہے چنانچہ اسی وقت تجھے طلاق دیتا ہوں اور کل سے میری بادشاہی کی مہر بھی اس مملکت میں جاری ہو جاوے گی۔ اور یہ بھی سن کہ تُو چونکہ میری دشمن ثابت ہوئی ہے اس واسطے کل تجھے پاگل ہاتھی کے پیر سے بندھوا کے شہر بھر میں گھسٹواؤں گا کہ تیری بغاوت کا فتنہ ہمیشہ کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور یوں اُن کے بھی کان ہو جاویں گے جو کبھی میرے خلاف بغاوت کا خیال اپنے جی میں لاویں گے۔ بھی اُس کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ وہ حرافہ انسانی روپ دھارن کر کے کھڑی ہوئی تو ایک نوجوان عورت تھی۔ وہ حرام خور بولا۔ یہ اپنی معشوقہ ہے اور بہت بڑی جادوگرنی بھی۔ اس نے مجھ سے شرط بدی تھی کہ میں اپنے جادو سے تیری ہونے والی بیوی کو ڈراؤں گی اور وہ اپنے والدین پہ تجھے فوقیت دے گی۔ میرے تو کاٹو بدن میں لہو نہیں۔ میں پشیمان ہوتی تھی کہ کیوں اُس مردود کی تصویر دیکھ کے عاشق ہوئی اور اپنے والدین کی بات مانی اور باپ کو کھو دیا۔ پھر وہ دونوں میرے سامنے بے حیائی کی ساری منزلوں سے گزرنے لگے۔

میں نے ایک موقعے پہ اُنہیں ایک دوسرے میں مشغول پایا تو چپکے سے کمرے سے نکلی اور اپنی ماں کو سارا قصہ جاسنایا۔ ماں نے یہ سارا واقعہ سنا تو شتابی میری ہمرہی میں وزیر کے پاس گئی۔ وزیر نے کہا اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ آپ دونوں بھیس بدل کے شہر میں خود پوشیدہ کریں کہ کل سے نئے بادشاہ کی مہر جاری ہو جاوے گی۔ چنانچہ میں اپنی ماں کے ہمراہ اس بھٹیار خانے میں مقیم ہو گئی اور یہ جو تو نوکر چاکر دیکھتا ہے یہ سب میرے وفا دار ہیں۔

میری ماں دو سال ہوئے قضائے الٰہی سے فوت ہو گئی۔ میں ان نوکروں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کر رہی ہوں اور وہ ملعون میری تلاش میں کنوئیں جھنکوا رہا ہے اور اس مملکت پہ تصرف بے جا کا مرتکب ہو رہا ہے۔ رعایا پریشان اور مفلوک ہے۔ ملک سے برکت اُٹھ گئی ہے۔ لوگ نا ہوتگی کے سبب ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ شرفا کی پگڑیاں اُچھل رہی ہیں اور رذیل عہدے پا رہے ہیں۔ مجھے غیر حاضر پا کے میرے باپ کے وہ وفادار کہ اندر سے موقع پرست تھے، اُس سے مل گئے ہیں اور میں دن رات یہاں بھٹیارن کا سوانگ رچائے پڑی رہتی ہوں۔ آج جب تُو اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمارا مہمان ہوا تو میں شتابی تجھے دل دے بیٹھی۔ اے آقا مجھے نہیں پتہ تُو کون ہے اور کہاں سے آیا ہے لیکن میں نے جب سے تجھے دیکھا ہے تیرے عشق کی جراحت میں پھنکتی ہوں۔ اور تجھ پہ بھروسہ تھا جو رات کے اس پہر تیرے پاس چلی آئی۔ میں ناکتخدا اور غیر مدخولہ ہوں اور اب تیرے بس میں ہوں۔ چاہے تو آباد کر ، چاہے تو برباد کر۔ صاحبو وزیر زادہ کہ سدا کا رقیق القلب ہے آنکھیں بھر کے بولا۔ جانی تیرا باپ اس رعایا کو اس قدر مرغوب اور مقبول تھا تو رعایا اس منحوس کو تخت سے اُتارنے کا کوئی حیلہ کیوں نہیں کرتی۔ تس پہ وہ بولی مجھے لگتا ہے سب اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں کہ ظلم ہوتا تکتے اور مونہوں سے کچھ نہیں پھوٹتے۔ یہ کہہ کہ زار زار رونے لگی۔

اُس کی آنکھوں سے دھل دھل آنسو بہتے تھے اور یہی کیفیت میری بھی تھی۔ وزیر زادہ بولا۔ جانی میں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں۔ کنوارا ہونے کا دعویٰ بوجو ہ البتہ نہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے تجھے دیکھا ہے میں اپنے تئیں تیرے تیر نظر کا گھائل پاتا ہوں اور یہ بھی سچ ہے کہ جب تُواُس محفل میں ناچتی گاتی تھی تو اُس وقت تک تجھ پہ نگاہ بد رکھتا تھا لیکن اب تیری حکایت خونچکاں سن کے میں اپنے دل سے وہ سارے ارادے مٹا چکا کہ جن کی ترغیب شیطان لعین مجھے دے رہا تھا۔ صلاح یہ ہے کہ تجھے اپنے حبالہ نکاح میں لے لوں اور جب اس کام سے فراغت پاؤں کہ جس کے لئے مسافرت اختیار کئے پھرتا ہوں تو تجھے اپنے وطن لے جا کے کھانے والوں پہ دعوت ولیمہ حلال کروں۔ بعد ازاں وزیر زادے نے اُسے ہماری وجہ سفر سے آگاہ کیا لیکن وہ پھر بھی مصر رہی کہ اول نکاح پڑھوا لیا جائے اور بعد کے مراحل کے لئے انتظار کیا جائے لیکن وزیر زادہ کہ تخم اصل تھا، نہ مانا اور اُسے مجبور کیا کہ وہ نکاح کے واسطے انتظار کرے۔ پھر وہ بت طناز وزیر زادے کے پہلو سے اُٹھی اور بولی۔ جانی اب جب تک تیرا قیام یہاں رہے گا میں ہر رات تجھ سے ملنے کے واسطے آیا کروں گی۔ اب تُو جا کہ شمع کی لو کا رنگ کافوری ہوا چاہتا ہے جو دلیلِ آمد سحر ہے۔

میں چونکہ جھکا جھکا کئی ساعتوں سے اُن کی باتیں سن رہا تھا، اس لئے جب سیدھا ہونا چاہا تو معلوم ہوا کہ بدن اُسی صورت میں اکڑ گیا ہے اور سیدھا ہونا ایک امر محال ہے چنانچہ اُسی حالت میں ، کہ کسی بیاہتا عورت کے گھر، راتوں کو چھپ کے ملنے جانے والے ملعون کی سی ہوتی ہے ، اپنے بچھونے تک پہنچا اور جھوٹ موٹ کا سوتا بن گیا۔ چند ثانیوں کے بعد وزیر زادہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا اور اپنے بچھونے پہ دراز ہو گیا تب میں نے کہا۔ کیوں صاحب ہمیں بالکل ہی بھِگا گردانتے ہو کہ ساری رات کے بعد اب لوٹے ہو اور بچھونے میں دبک کے سمجھتے ہو کہ یار بالکل ہی گاؤدی ہیں۔ تس پہ وہ اپنے بچھونے پہ سیدھا ہو کے بیٹھا اور یوں گویا ہوا کہ اے بادشاہ زادے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میں اُس بھٹیارن سے راز و نیاز کر کے آیا ہوں لیکن آگے جو بھی کروں گا وہ تمہاری باستفشاع کے بغیر نہ ہو گا اور میں اس امر کی گفتگو اپنی آشنا سے کر آیا ہوں۔ تس پہ میں نے اُس کی تحسین کی اور کہا کہ میں تجسس کا مارا اُس کی خلوت کی گفتگو سن چکا ہوں اور ایک بار پھر اُس کی وفاداری کو خراج پیش کرتا ہوں۔ لیکن عزیز از جان لبیب حبیب، اس قصے میں جس ادھورے اور بد نیت بادشاہ کا تذکرہ ہے، اُسے سزا نہ دینا اور حق دار کو اُس کا حق نہ دلوانا عین رذالت ہو گا اور اب جبکہ تُواس ماہ طلعت سے وعدہ نکاح بھی کر چکا ہے، چنانچہ ہم پہ واجب ہے کہ اُس کی یہاں تک اعانت کریں کہ وہ ایک بار پھر اپنے باپ کی مملکت پہ قابض و متصرف ہو جائے اور وہ پاکھنڈی کہ جس کے لئے لطیف رشتوں کی کثیف گالیاں میرے منہ پہ آ آ کے رُکی جاتی ہیں ، اپنے انجام کو پہنچے۔ وزیر زادہ یہ گفتگو سن کے شاد ہوا اور بولا۔ اے شہ زادے اب سویر ہونے والی ہے، نیند میری آنکھوں میں خار زنی کرتی ہے ، کیوں نہ اس موضوع کو فی الحال اُٹھا رکھا جائے۔ میں نے اُس کی بات سے اتفاق کیا اور ہم سو گئے۔

اُس مہ لقا نے اپنے غلاموں اور پیر فرتوت کو ہمارے بارے میں بتا دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اب سے اس سرائے میں کوئی اور مہمان نہ ٹھہرے چنانچہ ہم وہاں بلا تکلف مقیم رہے۔ پھر توتے اور جن کی مشاورت سے بحث ہوئی کہ کیسے دوبارہ وہ سلطنت وزیر زادے کی معشوق کی حکمرانی میں لائی جاوے۔ جن کو اس کام پہ مامور کیا تو وہ اندر کی خبر کچھ یوں نکال کے لایا کہ وہ چنڈالنی اصل میں بادشاہی کرتی ہے اور لنگڑا لولا بادشاہ فقط نام کا بادشاہ ہے۔ میں چاہتا تھا کہ جن کسی روز اُسے تخت سمیت یہاں لے آئے لیکن جن نے بہ صد ادب و احترام عرض کیا کہ یہ کام میرے بس کا نہیں کہ وہ اپنے چاروں طرف جادو کا ایک ایسا حصار کئے رکھتی ہے کہ جسے توڑنے سے میری طاقت عاجز ہے۔ وہ تو اُس کے موکلوں میں سے ایک سے میری پرانی علیک سلیک تھی، جو میں اتنی خبر بھی پا سکا۔ ہاں البتہ چراغ کے جن کو اگر حکم دیا جائے تو یقیناً وہ کچھ کر سکے گا کہ وہ عمر، عزیمت ، عیاری اور عقل میں مجھ سے سوا ہے۔ چنانچہ میں نے چراغ رگڑا تو جن فوراً حاضر ہو گیا لیکن اُس کی ہیئت ایسی تھی کہ میں اُسے فوری طور پر کوئی حکم دینے سے قاصر تھا۔ جن کے کندھے پہ تولیہ پڑا تھا اور منہ میں مسواک تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کمبخت عین غسل کی تیاری سے اُٹھ کے حاضر ہوا ہے، چنانچہ اُسے سرزنش کی کہ اس طور مالک کے سامنے آنے میں کیا رمز ہے، تس پہ وہ بولا۔ چراغ کے جنوں پر مالک کے فوراً ہی بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے میرے آقا۔ حکم کیجئے۔ لیکن میں ایک نیم برہنہ جن کو حکم دینے کو تیار نہ تھا چنانچہ اُسے حکم دیا کہ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر لباس مناسب میں حاضر ہو۔ جن کوئی ایک ساعت کے بعد حاضر ہوا تو لباس شرعی متنازعہ میں تھا کہ شلوار ٹخنوں سے اُونچی باندھے ہوئے تھا۔ جن سے اس سلسلے میں مشورہ چاہا تو وہ اپنی مُنڈی نفی میں ہلانے لگا۔ تس پہ مجھے غصہ آ گیا اور ایسا کرنے کا سبب دریافت کیا تو جن بولا۔ میرے آقا میں اُس چنڈالنی سے واقف ہوں اور اُس کے جادو سے بھی۔ اور یہ اُسی جادو کا اثر ہے کہ اس سرزمین کے لوگ بھوکے، ننگے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔ امن اور انصاف کا دُور دُور پتہ نہیں مگر احتجاج کی ایک صدا بھی سنائی نہیں دیتی۔ رذیل ، شریفوں کی پگڑیاں سر بازار اُچھال رہے ہیں مگر وہ اُف نہیں کرتے۔ شاہی دربار سے اہل عقل نکال کے اُن کی جگہ مسخروں اور بھانڈوں کو بڑے عہدے دے دئیے گئے ہیں ، مگر ملک میں سناٹا ہے۔ چنانچہ اس کا حل اور کچھ نہیں ، لوگوں کے ذہن تبدیل کرنا ہے اور یہ کام صرف اُسی وقت کے دوران ہو سکتا ہے جب وہ چنڈالنی اپنے جادو کو برقرار رکھنے کے واسطے سال میں دس دن کوہ قاف پہ اپنے اُستا د لعین سامری جادو گر کی ہڈیوں کی عبادت میں گزارتی ہے اور اس دوران دنیا مافہاسے بے خبر ہوتی ہے اور اے آقا میں تجھے یہ خوش خبری بھی دیتا ہوں کہ یہ مدت کل سے شروع ہو رہی ہے چنانچہ ہمارے پاس دس دن کی مہلت ہے کہ ہم اس ملک سے اس آسیب کے سائے کو دفع کر دیں۔ وزیر زادے نے سوال کیا کہ جب وہ چنڈالنی کوہ قاف سے لوٹے گی تو کی محشر نہیں اُٹھا دے گی؟۔ تس پہ جن مسکرایا اور بولا اے نائب آقا وہ اپنی جان اُس لولے لنگڑے بادشاہ میں رکھ جاتی ہے۔ ایک دفعہ ہم قابض و متصرف ہو جاویں تو پھر میں اُس بادشاہ کو کہ طے شدہ حرام الدہر ہے، ایسی گھاٹی میں بند کر دوں گا کہ وہ وہاں سے کبھی نہ نکل سکے گا۔ آگے جو حضور کا حکم۔

چنانچہ اُس رات ہم نے یہ سارا معاملہ اُس در شہوار اور اُس کے نمک خواروں کے سامنے رکھا اور اُنہیں ساری حقیقت سے آگاہ بھی کیا۔ پیر فرتوت تس پہ یوں گویا ہوا۔ اگر ہماری شہزادی اچانک کسی بازار میں جا کے نقاب اُلٹ دے اور لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے تواُسی وقت باغیوں کا ایک گروہ لیس و تیار ہوکے شاہی محل پہ حملہ کر سکتا ہے اور چونکہ اس وقت اُس موذی کے گرد وہ خوشامدی گھیرا کئے ہوئے ہیں ، کہ ہر احمق بادشاہِ وقت کے جسمِ زیریں کے معلقات کے ساتھ، خود کو باندھنے میں کامیاب رہتے اور بوقت مشکل خود کو اُن سے بکمال چابکدستی علیحدہ کرنے میں یدِ طولیٰ بھی رکھتے ہیں ، لہٰذا گمان اغلب ہے کہ ہم کامیاب ہو جاویں گے۔

اگلے روز شہزادی ایک اسپ عربی پہ ، کہ جن کہیں سے لایا تھا ، سوار ہوئی اور اپنے باپ کے سارے ہتھیار بدن پہ سجائے اور خود کو یوں نکھارا سنوارا کہ شہزادی کے سوا اور کچھ نہ دِکھتی تھی اور اپنے غلاموں کی معیت میں شہر کے چوک میں جا کھڑی ہوئی اوریوں گویا ہوئی۔ اے شہرو الو، جو دُور ہو وہ قریب آ جاؤ اور جو قریب ہو وہ اور قریب آ جاؤ اور میری بات غور سے سنو۔ میں شہزادی جواہر ہوں اور اب تک اُس ظالم کے خوف سے چھپی پھرتی تھی اور اسی شہر میں تھی۔ تم میرے باپ کی وہ رعایا ہو کہ اُس کے دور میں پھولتے پھلتے اور عیش کرتے تھے۔ تمہیں انصاف تمہارے گھروں کی دہلیز پہ میسر تھا اور کھانے پینے کے سامان کی وہ فراوانی تھی کہ جانور انسانوں کی خوراک کھاتے تھے۔ تمہاری عورتیں جو سنبل و کمخواب پہنتی تھیں ، آج ٹاٹ لپیٹے پھرتی ہیں۔ شریفوں کا جینا دُوبھر اور کمینوں اور اسافل کی زندگیاں آسان ہو چکی ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے تم پہ جو شخص حکومت کر رہا ہے وہ اول درجے کا غاصب، جھوٹا اور پاکھنڈی ہے۔ شاہی محل کہ جہاں میرے باپ کی حکومت میں شراب و کباب کا گزر نہیں تھا، آج نوچیوں اور رنڈیوں کی آماج گاہ ہے۔ شراب پانی کی طرح بہتی ہے اور پانی نایاب ہے۔ یہ کہہ کے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا۔ انبوہ شہر جو اُس کے گرد جمع ہو چکا تھا، اُن میں سے ایک پیر مرد بولا۔ اے شہزادی بے شک تُو سچ کہتی ہے اور اس وقت تیرے آنے سے ہمیں نیا حوصلہ ملا ہے چنانچہ بتلا کہ اس موذی کو دفع و رفع کرنے کو تیرے کنے کیا ترکیب ہے لیکن ہم نے سنا ہے کہ وہ رذیل اس ملک پہ کسی جادوگرنی کی مدد سے حکومت کرتا ہے۔ تس پہ جواہر بولی۔ اے مرد پیر تُو اُس کی فکر نہ کر۔ میں اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ شاہی محل پہ حملہ کرنے جا رہی ہوں ، تم میں سے جو جو میرے ساتھ آنا چاہیں ، وہ آ جائیں کہ ہم آج اس شب تار کا خاتمہ کر کے دم لیں گے اور یہ بھی سن لو کہ میرا خون تم سے پہلے بہے گا۔ صاحبو میرا خیال تھا کہ شہزادی کی بات پہ جمع شدہ ہجوم یوں لبیک کہے گا کہ اُن کے نعروں کی گرج شاہی محل کے در و دیوار کو ہلا دے گی مگر وہاں دو چار کو چھوڑ کے سب ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی عملی تصویر و تفسیر بنے ہوئے تھے۔ اُسی وقت ہجوم کے سروں پہ ہوا میں معلق بزرگ سفید پوش دکھائی دیا اور بولا۔ شہزادے اس وقت تیرے سوا نہ کوئی مجھے دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتا تھا۔ یہی وہ اندھوں بہروں کی سرزمین ہے کہ جس کی خبر لانے کے واسطے تیری معشوقہ نے تیرے سامنے سوال رکھا تھا۔ تجھے تیرے سوال کا جواب مل گیا اور اس کے سوا اب جو تُو کرے گا وہ تیری عالی نسبی کی دلیل ہو گی۔ میں چلتا ہوں کہ میری بیوی اوراُس پدر سوختہ بھائیوں نے میری زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اب کسی اور وقت ملاقات ہو گی۔ یہ کہہ کہ وہ اپنے گھوڑے سمیت غائب ہو گیا۔

میں نے اپنے سامنے جمع ہجوم کی کم ہمتی دیکھی تو بے شک اسے اپنے سوال کا بالکل دُرست جواب پایا اور اس طرف سے مطمئن ہو گیا۔ میں اپنے سامنے ایسے ایسے جوان دیکھ سکتا تھا کہ جو شاہی محل کے دروازے اپنے کندھوں سے توڑ سکتے تھے، مقابلے پہ آمادہ ہو جاتے تو دشمنوں کے پرے کے پرے صاف کر دیتے مگر وہ پست ہمتی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔ میں مایوس ہو کے شہزادی جواہر سے کہنے کو تھا کہ ان رذیلوں کو ان کے حال پہ چھوڑے اور ہمارے ساتھ یہاں سے نکل چلے اور وزیر زادے کی خواہش کے عین مطابق افزائش نسل میں اپنا حصہ ڈالے مگر تبھی ایک دس بارہ برس کا بچہ کہ ابھی تک دودھ کی بُو جس کے منہ سے آتی تھی، مستانہ وار نعرہ مار کے بولا۔ میں تمہارے ساتھ شاہی محل چلوں گا اور اُس موذی سے لڑوں گا۔ پھر ایک اور بچہ آگے آیا اور پھر ایک اور۔ پھر ایک بوڑھے نے نعرہ حق بلند کیا۔ چند عورتوں نے اُن کا ساتھ دیا تب اُس سر زمین کے نوجوانوں کی حمیت جاگی اور آن کی آن میں شاہی محل پہ حملہ کرنے کو ایک جیش عظیم تیار ہو گیا۔ چند ایک کے پاس تلواریں تھیں ، کچھ نے ہاتھوں میں پتھر اُٹھا رکھے تھے اور کسی کے پاس ڈنڈے تھے۔ ننگوں بھوکوں کا یہ ہجوم شاہی محل کی جانب رواں تھا۔ اُن کی آنکھوں سے نفرت کے شعلے اور حلقوں سے سنگ پاش نعرے بلند ہو رہے تھے۔ ہجوم نے آن کی آن میں شاہی محل کے دروازے توڑ ڈالے اور اندر داخل ہو گیا۔ وہ موذی کہ بھاگنے سے لاچار تھا اور مصنوعی ٹانگ پہ جس کا گزران تھا، اپنے وقتی وفا کیشوں سے ملتمس ہوا کہ میں نے تم پہ عیش کوشی کی ہر حد تمام کر دی، اب سخت وقت پڑا ہے تو میری امداد کرو تو وہ ڈھل کمرے یہ کہتے ہوئے فرار ہوئے کہ ہم تیرے وفادار اُس وقت تلک تھے جب تلک تو سریر آرائے تخت تھا اور اے بادشاہ اب ہماری ساری ہمدردیاں اور وفائیں اپنی شہزادی کے واسطے ہیں کہ جو چند ہی لمحوں میں اس ملک کی تقدیر کی مالکہ بنی چاہتی ہے۔ اس مکالمے کے دوران چراغ کے جن نے اُس نابکار کو اُچک لیا اور خلق خدا کے واسطے سوئے نامعلوم اور ہمارے واسطے سوئے معلوم کو روانہ ہوا۔

شہزادی جواہر نے تخت پہ بیٹھتے ہی سب سے پہلے شاہی خزانوں کے منہ کھول دئیے اور ہر بھوکے کو کھانا، ہر ننگے کو کپڑا اور ہر بے گھرکو چھت فراہم کرنے کے احکامات جاری کئے۔ جب لوگ خوش خوش گھروں کو لوٹے تو اُس نے اپنے باپ کے باغیوں کو سر دربار بلوا کے اُن کے سر منڈوا دئیے اور توبڑے دے کے اُنہیں ذلیل و اسفل کاموں پہ لگا دیا۔ اپنے وفا داروں کو خلعتیں عطا کیں اور شاہی خزانے سے اُن کے روزینے مقرر کئے۔ سپہ سالار کا جو اُس موذی سے مل گیا تھا، سر منڈوا کے ، ایک ہاتھ میں گوپھن اور دوجے میں جھانکڑ دے کے شاہی باغات کا کوے ہنکنا مقرر کیا۔

غرض سارا انتظام خوش اسلوبی اور خوش معاملگی سے دُرست کیا اور تب اپنے عاشق وزیر زادے سے گویا ہوئی کہ اے جانی۔ تیری اور تیرے ساتھیوں کی ہمت اور بلند حوصلگی سے مجھے یہ درجہ عالیہ نصیب ہوا ہے چنانچہ خوشی کے اس موقع کو دو چند کرنے کے واسطے میں تجھے دعوت نکاح دیتی ہوں۔ وزیر زادے نے ایک بار پھر میرے کام کو اولیت دینے کا عذر تراشا تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کے بولی۔ تُو باد شاہ زادہ ہے اور کل اپنے باوا کی رحلت کے بعد تجھی کو اپنا ملک سنبھالنا ہے۔ میں نے فقط سنا ہی نہیں ، خود بھی اس امر سے اچھی طرح واقف ہوں کہ بادشاہ زادے بڑے عالی حوصلہ ہوتے ہیں ، اگر تجھے اپنے یار سے محبت ہے تو تُو اسے نکاح کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ سچ تو یہ ہے کہ میں کبھی اس نکاح کے خلاف نہ تھا، وزیر زادہ اپنے تئیں ضد کئے جاتا تھا، چنانچہ میں نے وزیر زادے کو اس نکاح پہ آمادہ کیا اور بڑی دھوم دھام سے وزیر زادہ غیر متاہلانہ سے متاہلانہ زندگی کی طرف رجوع کر گیا۔ میں چاہتا تھا کہ اس شادی کی خبر کسی طرح وزیر زادے کے اہل خاندان تک پہنچواؤں چنانچہ جب جن اُس موذی کو کسی اندھیری گھاٹی میں قید کر کے لوٹا تو میں نے اُسے شتابی اپنے وطن کی جانب روانہ کیا اور سلطنت کے ایک چابک دست مصور سے دلہا دلہن کی تصویر بنوا کے ہمراہ کر دی کہ سب دیکھیں اور شاد ہوں۔ میرے باپ کو اس کامیابی کی خبر ملی تو اُس نے سات سو غیر مدخولہ اونٹنیاں ذبح کروا کے اُن کا گوشت رعایا میں تقسیم کروایا اور اس طرح نجانے کتنے اونٹوں کی بد دعائیں لیں۔

کامل پندرہ روز وزیر زادہ اپنی دلہن کے ساتھ ایسے مگن رہا گویا عالم دوبارہ نیست کی عملی تفسیر کر رہا ہو۔ بارے عیش سے تھکا، رُکا نہیں تو مجھ سے یو ں گویا ہوا۔ اے آقا ولی نعمت، میں تیری خواہش کے عین بموجب اس مرحلے سے بھی گزر گیا اور کامران گزرا۔ اپنے ماضی کی سیاہ کاریوں کے سبب ، گرہستی کے جملہ فرائض کے حوالے سے جو خدشات تھے، وہ بھی باطل ثابت ہوئے اوراس امر کی گواہی میری زوجہ سے چاہے تو لے لے، چنانچہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی بی بی کو تا وقتیکہ تیرے فرض سے فارغ نہ ہو جاؤں ، یہاں ملک بانی کے واسطے چھوڑتا ہوں اور صلاح یہ ٹھہری ہے کہ ہم اب جلد از جلد یہاں سے تیری منزل مراد کو کُوچ کر جائیں۔ مجھے وزیر زادے کی یہ تجویز خوش آئی اور دونوں جنوں اور توتے کو آگاہ کیا۔ گھوڑوں سے مشورہ لینا اس واسطے طبیعت کو گوارا تھا کہ میں اس ملک میں اُنہیں شاہی اصطبل میں بھجوانے کے بعد مسلسل اُن کی گھوڑا مستیوں کی خبروں سے آگاہ ہوتا رہتا تھا چنانچہ دل میں ایک بار پھر اسارادے کو مصمم کیا کہ وطن مالوف لوٹتے ہی ان دونوں کو خصی کروا کے رہٹ چلانے جیسے ذلیل کام پہ لگوا دوں گا۔

اگلے دن چراغ کے جن سے مشاورت کی اور اُسی کی کمر پہ سوار ہوکے ماہ نور کے وطن کی جانب روانہ ہوا۔ میں اس حقیقت سے نا واقف تھا کہ وہ کمبخت چھوٹے یعنی انگوٹھی والے جن کی مسلسل صحبت بد میں رہنے کے باعث دختر رز کا والہ و شیدا ہو چکا ہے اور رات بھر پی کے بے ہوش بھی، چنانچہ اُڑنے کو تو وہ اُڑ گیا مگر جب ٹھنڈی ہوا لگی تو لگا لہرانے۔ میں نے ڈانٹ کے کہا بھی کہ او گیدی، تیرا کیا ہے لڑکھڑا کے سنبھل بھی جاتا ہے کہ ہوا میں اُڑتا ہے، میں اگر تیری کمر سے ٹہل گیا تو میری ہڈی پسلی کا سرمہ ہو جاوے گا، تس وہ قدرے شرمندہ ہوا اور احتیاط کا وعدہ کیا۔ مگر ایک بار پھر لڑکھڑایا۔ میں کہ اُس کی چوٹی پکڑے اُس کی کمر پہ ایستادہ تھا، ایسا لڑکھڑایا کہ چٹیا میرے ہاتھوں سے چھٹ گئی اور میں سر کے بل زمین کی طرف جانے لگا۔ گھومتے ہوئے سر سے بس اتنا منظر دیکھا کہ جن ارے ارے کرتا ہوا میری طرف لپک رہا تھا، مگر پھر مجھے دو نرم و نازک ہاتھوں نے تھام لیا اور ایسی رسان سے زمین پہ اتارا کہ کسی گلبدن کے تن پہ کمخواب کیا پھسلتا ہو گا۔

بارے ہوش آیا تو خود کو حسینوں کے مجمعے میں پایا۔ مگر صاحبو یہ آدم زادیاں نہ تھیں ، پری زادیاں تھیں۔ ایک انبوہ ایسا کہ ایک شاہ خوباں تو دوسری افسر نگاراں تھی۔ ایک سے نظر ہٹتی تھی، تو دوسری پہ جا رُکتی تھی، مگر بھرتی نہ تھی اور میں خود کو حالت نُعُوظ میں پاتا تھا۔ پھر اُس مجمعے میں روشنی پھیلی اور اُن میں جو سب سے زیادہ دلپسند تھی، اُس نے آگے بڑھ کے در گفتگو کو یوں وا کیا کہ اے آدم زادے تُو کیسے درًانہ ہمارے علاقے میں دخیل ہوا اور کیا جانتا نہ تھا کہ یہاں کس کی فر ماں روائی ہے ؟ اس خطے میں ایسی کوئی مخلوق دخیل نہیں ہو سکتی کہ جس کے پر نہ ہوں۔ تب پہلی مرتبہ میں نے اُن کے معلقاتِ مدورسے نگاہ کسی اور طرف پھیری تو اُن سب کو پر دار پایا اور ترنت سمجھ گیا کہ میں ایک بار پھر پریزادوں کے چنگل میں ہوں۔ چنانچہ خود کوسنبھالا اور انتہائی شرمندگی سے عرض کیا کہ اے حسینوں کی سردار۔ میں اپنے جن کی کمر پہ سوار چلا جاتا تھا اور وہ ناہنجار بوجوہ اپنی پرواز کو ہموار رکھنے میں ناکام رہا۔ میں لڑکھڑا کے گرا اور پھر یہاں کسی دست حنائی نے مجھے ہوا میں ہی تھام لیا اور پھر میں نے خود کو اس مجمع دلبراں میں پایا۔ جو سچ تھا تجھ سے کہہ دیا۔ آگے تیری منشا، مارے یا چھوڑے۔ بیان ختم کر کے اور اپنی آنکھوں کو بڑی دقت سے ، معلقات و متعلقات عقبی و غیر عقبی سے گھما کے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں اپنے لئے یقین پایا۔ تس پہ اُس کی ایک سہیلی شوخی سے بولی۔ شہزادی بے چارہ سچ بولتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی تقصیر کو در گزر کر دینا چاہئے۔ ناگاہ میری نظر ایک اونچے درخت پہ پڑی تو اپنے جن کو وہاں ٹنگا دیکھا کہ دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھا۔ میں حیران کہ ان کی نظر جن پہ کیوں نہیں پڑتی۔ چنانچہ عرض کیا۔ اے شہزادی میں اس وقت ایک ضروری کام کو نمٹانے جا رہا تھا کہ اس حادثے سے دو چار ہوا۔ مجھے جانے کی جلدی ہے۔ تس پہ وہ گویا ہوئی۔ ایسی کونسی نگوڑی آفت ٹوٹی پڑتی ہے۔ ذری رک جاؤ تو ہم بھی آپ کی صحبت سے حظ اُٹھا لیں۔ پھر اشارہ کیا اور وہیں جنگل میں منگل کا سماں بندھ گیا۔ وہ مجھے لئے ہوئے ایک فرش احمر پہ بیٹھی اور زانو سے زانو بھِڑا لیا اور اشارہ کیا تو اُس کی کنیزوں نے چنگ و رباب چھیڑ دئیے اور دو چار رقص کناں ہوئیں۔ یہ نظارہ بے حد دل پسند تھا اور جوں جوں رقص میں تیزی آتی اور نغمے کی لَے بلند ہوتی تھی، ووں ووں وہ مجھ میں گھسی جاتی تھی، نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں اُس کے پھولوں جیسےبوجھ تلے دب گیا تب وہ اپنی آنکھوں میں شراب بھر کے بولی۔ جانی تُو مجھے بہت اچھا لگا ہے۔ صلاح یہ ٹھہری ہے کہ تُو آج کی رات ہمارا مہمان رہ اور ہماری مہمان نوازی کے وہ مزے چکھ کہ جو تو نے کبھی سنے ہوں گے نہ دیکھے ہوں گے۔ پھر اشارہ کیا اور غلام قطار اندر قطار بھنے گوشت کی قابیں اور ہاتھ دھلوانے کے واسطے نقرئی سلفچیاں لئے حاضر ہوئے۔ میں نے نظر اُٹھا کے دیکھا تو جن کو سر شدت سے نفی میں ہلا تا پایا۔ میں اُس وقت اس کا کچھ مطلب نہ سمجھا اور گلاب کے عرق سے بھری سلفچیوں سے ہاتھ دھو کے کھانے کو منتظر ہوا۔ وہ ماہ لقا مجھے اپنے ہاتھوں سے لقمے کھلاتی اور اس دوران مجھ سے برابر محبت کا اظہار کئے جاتی تھی۔ کھانے کے بعد شراب کا دور ہوا اور پھر اُس نے تالی بجائی تو ہم پہ ایک کمخوابی خیمہ تن گیا۔ خیمے میں مکمل تنہائی ہوئی تو اُس نے شراب کا ایک خاص جام میرے واسطے تیار کیا اور معذرت خواہانہ بولی۔ جانی میں اب جاتی ہوں۔ دو ساعتوں بعد آؤں گی کیونکہ یہ وقت میرا اپنے باوا کی خدمت میں حاضر ہونے کا مقرر ہے۔ گھبرانا مت۔ میں گئی اور آئی۔ یہ کہا اور شتابی خیمے سے نکل گئی۔ میں نے جام کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ جن اُفتاں و خیزاں حاضر ہو گیا۔ اور ہاتھ جوڑ کے بولا۔ میرے آقا مجھ سے جو تقصیر ہوئی اُس کی صراحت و صفائی کا یہ وقت نہیں ، بس یہاں سے شتابی نکلنے کی کوئی صورت کیجئے کہ یہ جو کارخانہ جو آپ دیکھتے ہیں ، سب ہوائی مخلوق کی کارستانی ہے اور وہ چنڈالنی کہ جو آپ کی آغوش میں گری جاتی تھی، آپ کی موت کا بندوبست کرنے یہاں سے گئی ہے۔ یہ سات سہیلیوں کا طلسم ہے کہ جنہیں اس وادی میں ایک بزرگ قید فرما گئے تھے اور رہائی کی شرط یہ ٹھہری تھی کہ یہ کسی آدم زادے کے خون سے غسل کریں۔ ہزار برس میں آپ پہلے آدم زاد ہیں کہ جو ان کے چنگل میں پھنسا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ آپ کا التفات بھی اُن کی جانب خاص انداز کا ہے۔ وہ اپنی سہلیوں کو لے کے آتی ہی ہو گی ، تو میری صلاح یہ کہ یہاں سے فوراً نکلنے کی صورت کی جائے۔ مجھے جن پہ اتنا غصہ تھا کہ سوچا تھا کہ یہاں سے فراغت پا کے اُس مردود کو اتنا چھوٹا ہونے کا حکم دوں گا کہ کسی مرغے کے برابر ہو جاوے اور پھر چٹیا سے پکڑ کے کسی پیڑ سے دے ماروں گا۔

مگر یہ ماجرا سنا تو ارادہ ملتوی کیا اور اس کا سبب دریافت کیا کہ کیسے تُو اُن بظاہر پریزادوں اور بباطن چڑیلوں کے انبوہ کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ تس پہ جن مسکرایا اور یوں عرض گزاشت ہوا کہ جنوں کو غائب رہنے کے لئے جو کل دبائے رکھنا پڑتی ہے وہ ناگفتنی ہے، اتنی دیر میں میری جان پہ بن آئی ہے چنانچہ اے آقا شتابی میرے کندھوں پہ سوار ہو اور تاکہ ہم یہاں سے تیرے مقصود کی جانب روانہ ہوں۔ میں اُس حرافہ کے حسن کا عالم اور شباب کا جو نظارہ دیکھ چکا تھا، اُس کے مد نظر خود کو اس امر پہ آمادہ کرنا عبث لگا تس پہ وہ جن طنز سے بولا۔ صاحب یہ اچھی محبت ہے کہ دل کسی کو دیا ہے اور فعلِ فلاں کے واسطے کسی اور کو چنتے ہیں۔ تس پہ خود کو حد درجے کا شرمندہ پایا اور جن کے شانوں پہ سوار ہوا۔ ابھی جن اُڑا ہی تھا کہ نظر نیچے کی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ہر قد کاٹھ کی سات دنتیلی چڑیلیں دانت نکوسے اور آنکھیں اُلٹائے ہماری طرف اُڑی چلی آتی ہیں۔ میں ڈرا کہ ابھی یہ آن کی آن میں جن کے اعضائے خبیثہ پہ حملہ آور ہوکے اُنہیں نوچ لیں گی مگر جن ہنسا اور رفتار تیز کرتے ہوئے بولا۔ اب یار اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ ان چنڈالنیوں کے بس میں آ جاویں گے ، چنانچہ جن اتنی بلندی پہ اُڑنے لگا کہ وہ مال زادیاں بہت دُور رہ گئیں اور ہاتھوں کو مل مل کے کہتی تھیں کہ ہم سے ایک آدم زادہ چھل کر گیا، خیر کوئی بات نہیں ، یار زندہ صحبت باقی، کبھی نہ کبھی تو کوئی ہاتھ آوے گا اور ہم اُس کے خون سے نہا کے اس عذاب سے نکلیں گی۔

جن نے مجھے آن کی آن میں شہزادی ماہ نور کے محل کی چھت پہ اُتار دیا۔ شہزادی وہاں میری منتظر تھی اور چونکہ میں اپنی مقررہ مدت سے متاخر ہوا تھا ، اُس کے جی میں طرح طرح کے وسوسے اُٹھ رہے تھے۔ بارے مجھے سامنے پایا تو پہلے سجدہ شکر بجا لائی اور پھر مجھ سے بگڑ کے بولی۔ کیوں جی، اس باری کیوں اتی دیر کری؟ کہیں کوئی چنڈالنی بیرن بنی تمہارے رستے میں تو نہیں آ گئی تھی۔ یاد رکھو اگر کبھی تم نے مجھ سے بے وفائی کی تو اس محل کی فصیل سے کود کے جان دے دوں گی۔ اپنی معشوقہ کو جو خود پہ بیتی تھی (ضروری حذف و کسر کے ساتھ)سنائی اور کہا کہ میں اندھوں بہروں کی سرزمین کی خبر لایا ہوں۔ اب تُو شتابی وہ کاغذ دیکھ کہ جس پہ اس سوال کے دُرست یا غلط ہونے کا جواب لکھا ہے اور مجھے بتلا حالانکہ مرد سفید پوش مجھے پہلے ہی بتلا چکا ہے لیکن جب سے شادی شدہ ہوا ہے مجھ اُس کی بات کا زیادہ اعتبار نہیں رہا کہ شادی شدہ مردوں کو اتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں کہ اُن بیکسوں کی سچی بات بھی جھوٹی لگتی ہے۔ شہزادی ماہ نور نے کاغذ منگوا کے دیکھا اور جواب بالکل دُرست پایا۔ وہ چاہتی تھی کہ میں ایک رات رکوں اور میں خود بھی یہی چاہتا تھا مگر جن اڑ گیا کہ صاحب اندھیرا ہوا چاہتا ہے اور واپسی میں وہی رستہ اختیار کرنا مجبوری ہے، میں رتوند کا مریض ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کو لے کے کسی اور طرف نکل جاؤں چنانچہ جن کی بات پہ صاد کیا اور اپنے معشوق سے وقتی جدائی اختیار کر کے جن پہ سوار ہوکے اپنے یاروں میں جا اُترا۔ لیکن اس سے پہلے ماہ نور سے چوتھا سوال لیا جو کہ کچھ یوں تھا۔

٭٭٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/groups/urduafsane/775646045823102/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید