FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں

 

 

حصہ دوم

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 کنڈل فائل

 

 

 

 

 

دہشت زدہ شخص

 

 

وہ فٹ پاتھ پر رکھی سیکنڈ ہینڈ اور پرانی کتابوں کے اسٹالوں پر باری باری سے ٹھہرتا، کتابوں کو جائزہ لینے لگا۔ ایک جگہ اسے ’’گاڈ فادر‘‘ نامی ناول نظر آیا۔ قیمت پوچھی، بیس روپے۔ اس نے تعجب سے اسٹال والے کی جانب دیکھا۔

’’دوکان پر یہ کتاب آپ کو چالیس پچاس روپے میں ملے گی۔‘‘ اسٹال والے نے کہا۔

’’وہ تو اچھی حالت میں ہو گی۔ اس کی حالت تو بہت خستہ ہے۔‘‘

’’آپ کی مرضی۔ مشہور ناول ہے۔ اس پر فلم بھی بنی ہے، جس میں مارلن برانڈو نے کام کیا ہے۔ پاکستان میں اس فلم پر پابندی ہے۔‘‘ ا سٹال والے نے اپنی معلومات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس نے بغیر کچھ کہے ناول اسٹال والے کو لوٹا دیا۔

وہ چلتا دوسرے اسٹال پر آ کر کھڑا ہوا۔ موٹی کتابوں کے درمیان اس نے نو بوکوف کا ناول ’’لولیتا‘‘ رکھا دیکھا، پختہ جلد کے ساتھ، اچھی حالت میں۔ اس نے قیمت پوچھی۔ دس روپے۔

’’آٹھ روپے لو۔‘‘

اسٹال والے نے بغیر کسی بحث کے ناول دے دیا۔

کافی وقت سے اسے ’’لولیتا‘‘ پڑھنے کی خواہش تھی۔

اسٹال والا قیمت کم نہ کرتا تو بھی وہ لیتا۔

شام ہو چکی تھی۔ کراچی میں رات کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ جارج ہوٹل کے سامنے والی فٹ پاتھ پر بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ زور زور سے کیسٹوں کے بجنے کا شور تھا۔ وہ لوگوں کی بھیڑ میں سے پستا چلا۔ اس کی سانس گھٹنے لگی۔ وہ سب وہ کی جانب سے مڑ کر وکٹوریہ روڈ پر آیا۔ کپڑوں کی دوکانوں سے چلتے ہوئے اسے خیال آیا کہ ایک نئی پتلون اور قمیض کے لئے کپڑا لے۔ تنخواہ کے پورے پیسے اس کی جیب میں تھے۔ پچھلے مہینے اس نے جو پتلون لی تھی وہ بھی درزی سے لینی تھی۔ اسے نئے کپڑے خرید کرنے کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے اپنا خیال بدل دیا۔ پھر سوچا کہ کسی اچھے سے ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پیئے اور ’’لولیتا‘‘ کے صفحات پلٹے۔ شام کا قہر اسے کسی بھی طرح برداشت کر گزارنا تھا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ پیراڈائیز سنیما کے پاس راستہ پار کے لئے آ کھڑا ہوا۔ ایک عورت بھی ٹریفک رکنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے عورت کی طرف دیکھا۔ وہ لگ بھگ اٹھائیس تیس سال کی تھی۔ رنگ سانولا تھا اور چہرہ پرکشش۔ عورت نے بھی اس کی جانب دیکھا اور پھر دوبارہ ٹریفک کی سمت دیکھنے لگی۔ ٹریفک رکا تو وہ روڈ کراس کر کے فٹ پاتھ پر آئے۔ چلتے چلتے عورت نے ایک بار پھر اس کی جانب دیکھا۔ اسے تجربہ نہیں تھا، پھر بھی اس نے اندازہ لگایا کہ وہ ’’پرائیویٹ‘‘ تھی اور گاہک کی تلاش میں بھی۔ اس نے سوچا کہ اس سے بات کرے اور پتہ کرے کہ اس کا ریٹ کتنا ہے۔ لیکن اگر وہ پرائیویٹ نہ ہوئی اور اس کا بولنا اسے برا لگا تو! وہ سوچ میں پڑ گیا۔ جیب میں تنخواہ کے پورے پیسے تھے۔ وہ خرچ کر سکتا تھا، لیکن اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عورت سے بات کیسے کرے۔ لوگ تو اچھی بھلی عورتوں کو پھانس لیتے ہیں اور وہ ایک پرائیویٹ عورت سے بھی بات نہ کر پا رہا تھا۔ اس نے خود کو ہمت دلائی۔ عورت نے اس کی جانب ترچھی نظروں سے دیکھا اور اس نے سمجھا کہ عورت کے ہونٹوں پر ہلکی مسکان تھی۔ اس نے سوچا کہ اگر آس پاس کوئی آدمی نہ ہو تو اس سے بات کرے۔ عورت کسی بھی جانب مڑنے کے بجائے سیدھی چلتی رہی۔ ریکس سنیما کے آگے، آخرکار اسے موقع ملا۔ اس نے دل کو مضبوط کر قدم بڑھائے اور عورت کے پاس آ کر نکلتے ہوئے ’’ہیلو‘‘ کہا۔ عورت نے اس کی جانب دیکھا اور مسکرائی۔

’’ہیلو۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔ اس کی ہمت تھوڑی بڑھی۔

’’برا نہ مانیں تو کہیں بیٹھ کر چائے پئیں۔‘‘

اسے یہ جملہ بڑی عجیب لگا، لیکن اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ پرائیویٹ عورت سے کس طرح بات کرتے ہیں۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ عورت نے کہا۔

’’ولیج ہوٹل میں بیٹھیں؟‘‘ چرچ کے فٹ پاتھ پر آ کر اس نے پوچھا۔

’’آپ کی مرضی، جہاں بھی چل کر بیٹھیں۔‘‘

دونوں ساتھ چلتے ولیج ہوٹل کے جھونپڑے میں آ کر بیٹھے، ویٹر مینو لے کر آیا۔ مینو دیکھ کر اس نے پوچھا، ’’کیا منگائیں؟‘‘

’’کچھ بھی منگا لیں‘‘ عورت نے اپنائیت سے کہا۔ اس نے حیرانگی سے عورت کو دیکھا اور اسے تعجب ہوا، جیسے وہ اس کو پہچانتا ہو اور اس نے سب کچھ اس کی مرضی پر چھوڑ دیا ہو۔ اس نے ویٹر کو چکن سینڈوچ اور چائے لانے کو کہا۔

’’جی؟‘‘ اس نے شروعات کرنی چاہی۔

’’جی! آپ بتائیں؟‘‘ عورت کی آنکھیں مسکرانے لگیں۔ وہ ایک سیدھی سادی عورت تھی، جس میں کوئی بھی اچنبھے والی بات نہیں تھی۔ نہ زیادہ میک اپ اور نہ ہی کپڑوں سے فیشن ایبل لگنے والی۔ وہ بالکل شادی شدہ عورتوں کی طرح تھی۔ ’’لیکن کسی مجبوری نے اسے اس دھندے میں دھکیلا ہو گا۔‘‘ اس نے سوچا۔

’’تمہیں گھر جانے کی جلدی تو نہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’نہیں ایسی کوئی خاص جلدی تو نہیں۔‘‘ عورت نے جواب دیا۔

اس نے سوچا کہ اس سے پوچھے کہ تمہارا گھر کہاں ہے، لیکن اسے یہ بات ٹھیک نہ لگی۔ ایسی عورت اپنا گھر کا پتہ نہیں بتائے گی اور پوچھنے سے فائدہ بھی کیا۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو بات کرنا ضروری تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ بات کیا کریں؟ اور اسے عورت کچھ الجھی الجھی سی لگ رہی تھی یا یہ اس کا وہم تھا۔

’’تمہیں میک اپ کرنا اچھا نہیں لگتا کیا؟‘‘

’’کیوں؟ میں میک اپ کے بغیر اچھی نہیں لگتی کیا؟‘‘ عورت نے ہنس کر کہا۔

’’اچھی تو لگتی ہو۔‘‘ اس نے عورت کی آنکھوں میں دیکھتے کہا، ’’ہاں، تم بغیر میک اپ زیادہ خوبصورت لگتی ہو۔‘‘

وہ ہنسنے لگی، ’’ایسی باتیں مت کر و، جو میں حقیقت میں خود کو سمجھنے لگوں۔‘‘

وہ عورت کو دیکھتا رہا۔ اس نے اپنے دل کو کچھ بوجھل محسوس کیا۔ اس نے چاہا کہ عورت کا چہرہ، اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہے اور اس میں خود کو ڈھونڈے۔

’’مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ میں اتنی خوبصورت تو نہیں۔‘‘

’’میں تمہاری آنکھوں میں کچھ ڈھونڈ رہا ہوں۔‘‘

عورت کو تعجب ہوا۔

’’مجھے تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘

’’سمجھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ دو تین گھنٹوں میں ایک دوسرے کو سمجھ کر کیا کریں گے!‘‘ وہ سنجیدہ ہو گیا۔

عجیب آدمی ہے، عورت نے سوچا۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ کیوں اسے اس کے لئے اتنی ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔

ویٹر سینڈوچ لے کر آیا تھا۔ دونوں کھانے لگے۔ اس کے بعد نیپکن سے ہاتھ پونچھتے عورت نے کہا، ’’ہمیں کہاں چلنا ہے؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’کوئی جگہ ہے یا ہوٹل میں کمرہ لینا پڑے گا؟‘‘

وہ مطلب سمجھ گیا۔ ’’اسکی ضرورت نہیں۔ ہمیں نہ کسی جگہ پر چلنا ہے اور نہ ہوٹل کے کمرے میں۔‘‘

عورت اسے تعجب سے دیکھنے لگی۔

’’پھر تم مجھے کیوں لے آئے ہو؟‘‘

’’میں تمہیں اس کے لئے نہیں لے کر آیا ہوں۔‘‘ اس نے منہ بنا کر کہا۔ اس نے دیکھا کہ عورت کے چہرے پر مایوسی چھا گئی ہے۔

اس نے جیب سے تنخواہ کے پیسے نکال کر ٹیبل پر رکھے۔

’’دو تین گھنٹوں کے لئے تمہاری جو فیس ہے وہ ان میں سے لے لو۔‘‘

عورت کو کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔ اسے یہ سب عجیب عجیب لگ رہا تھا۔ اس طرح کے شخص سے اس کا کبھی پالا نہیں پڑا تھا۔ اس نے نوٹوں کو دیکھا اور اندازہ لگایا کہ لگ بھگ ہزار ہوں گے۔ اُس نے، اِس کی جانب دیکھا، جو بغیر دیکھے ہی اسے تک رہا تھا اور خود پتہ نہیں کہاں تھا۔ ویٹر آیا اور خالی پلیٹیں لے کر گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد چائے لے کر آیا۔

’’نہیں، مجھے ایسے پیسے نہیں چاہئے۔‘‘ آخر عورت نے کہا۔

’’کیوں؟ یہ پیسے میں تمہیں خیرات میں نہیں دے رہا ہوں۔ یہ تمہارے دو تین گھنٹوں کی فیس ہے۔‘‘

’’عجیب شخص ہو تم! مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تم بیکار ہی کیوں مجھے اتنے پیسے دے رہے ہو۔ تمہیں کیا ملا؟‘‘

وہ مسکرایا۔

’’تمہیں کیا پتہ کہ مجھے کیا ملا۔ نہیں، تم یہ بات حقیقت میں سمجھ بھی نہیں پاؤ گی۔ خیر، بات اصول کی ہے۔ میں نے تمہارا وقت لیا ہے اور اس کی فیس مجھے ضرور بھرنی چاہئے۔ تمہیں جتنا ٹھیک لگے، اس میں سے اتنے لے لو۔‘‘

’’تمہارے پاس پیسے زیادہ ہیں کیا؟‘‘ عورت نے چائے بناتے ہوئے کہا۔

’’زیادہ تو نہیں ہیں۔ میں ایک معمولی ملازم ہوں۔ یہ میری تنخواہ کے پیسے ہیں۔‘‘

’’اور یہ پیسے تم اس طرح گنوا دینا چاہتے ہو؟‘‘

’’اگر میں ہوٹل میں کمرہ لیتا اور تمہیں وہاں لے کر چلتا، تب میں سمجھتا کہ میں نے پیسے گنوا دئیے، لیکن یہ سب میں اپنی خوشی سے کر رہا ہوں۔ مجھے فقط تمہارا ساتھ چاہئے۔ میں تم سے باتیں کرنا اور تمہارے ساتھ رستوں پر گھومنا چاہتا ہوں۔ اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے۔‘‘ اس کا لہجہ گمبھیر ہو گیا۔

عورت آنکھیں نیچے کئے، اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی۔

’’تم سمجھتی ہو گی کہ میں کوئی پاگل ہوں۔‘‘ اس نے ہنستے کہا۔

’’نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘ عورت کو شرم محسوس ہونے لگی۔ ’’اچھا، پیسے تم اپنے پاس رکھو، مجھے کچھ خرید کر دینا۔‘‘

’’ہاں، یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے پیسے لے کر جیب میں ڈالے۔ عورت نے دیکھا کہ وہ خوش ہو گیا تھا۔ اس نے ٹیبل پر رکھا عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے دیکھنے لگا۔ پھر ہاتھ کو اوپر اٹھا کر پاس لایا اور ہتھیلی پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے۔ وہ ہر گزرتے پل کو پیتا رہا۔ ویٹر ایک بار پھر آیا اور اندر دیکھ کر چلا گیا۔

’’تم ایسے کیوں ہو؟‘‘ عورت بڑبڑائی۔

’’ایسا کیسا؟‘‘

عورت سوچنے لگی کہ وہ اسے کیسے اپنی بات سمجھائے۔ وہ چپ ہو گئی۔ وہ عورت کی ہاتھوں پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

’’سنو۔‘‘ عورت بڑبڑائی۔

’’کہو؟‘‘

عورت نے کچھ نہ کہا۔

’’کیا بات ہے؟ کہتی کیوں نہیں؟‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر عورت کے گال پر رکھا اور عورت کی گردن اس کے ہاتھ پر جھک گئی۔

’’تمہاری بیوی ہو گی! تمہارے بچے ہو نگے!‘‘ عورت نے ہچکچا کر کہا۔

’’نہ میرے بچے ہیں اور نہ میری بیوی ہے۔‘‘

’’تم بالکل اکیلے ہو!‘‘ عورت نے تعجب سے کہا، ’’تمہارا کوئی نہیں۔‘‘

’’میرا کوئی بھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا اور سوچا کہ عورت سے پوچھے، ’’تم میری بنو گی؟‘‘ لیکن وہ کہہ نہ پایا۔ عورت کو شاید اس کے اکیلے پن کی بات سن کر ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے اس کے ہاتھ کو ہلکے سے دبایا۔

اس نے چاہا کہ عورت کا نام اور حال چال پوچھے، لیکن پھر اس نے وہ خیال بدل دیا۔ اس سے کچھ فرق نہ پڑتا۔ وہ ایک عورت تھی، اس کے پاس بیٹھی تھی، اس سے باتیں کر رہی تھی اور یہی اس کے لئے کافی تھا۔ وہ کون تھی، یہ پوچھ کر وہ کیا کرتا۔ اس سے حاصل کچھ نہ ہوتا۔ یہی کچھ گھنٹے، جو وہ اس کے ساتھ تھی، اس کی پراپرٹی تھے۔ ان گھنٹوں سے پہلے اور ان گھنٹوں کے بعد، دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں تھا، کوئی شناسائی نہیں تھی۔ اسے کسی کے ساتھ کی ضرورت تھی۔ وہ ساتھ جو اسے اتنے بڑے جگمگاتے شہر میں نہ مل پایا تھا، وہ اس نے پیسے سے خرید لیا تھا۔ بس، اس سے زیادہ اسے کچھ نہیں چاہئے تھا۔

اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ آٹھ بجنے والے تھے۔ وہ پریشان ہو گیا۔

’’ارے! آٹھ بج رہے ہیں، دوکانیں تو بند ہو گئی ہوں گی۔‘‘ اس نے گھبرا کر کہا۔

’’نہیں، دوکانیں دیر تک کھلی ہوں گی۔ عید قریب ہے نہ۔‘‘ عورت نے کہا۔

تبھی اسے یاد آیا کہ عید میں تین دن باقی ہیں۔ جس دن کا لوگ اتنا انتظار کرتے ہیں، اتنے پیسے خرچ کر کے کپڑے اور سامان لیتے ہیں، وہ اس کے لئے بہت ہی بوریت والا دن ہوتا ہے، وہ پورا دن سویا پڑا رہتا ہے۔ کسی کے پاس جانا یا کسی سے ملنا پسند نہیں کرتا۔

’’اب چلنا چاہئے۔‘‘ اس نے ویٹر کو بلا کر بل منگوایا اور پیسے دے کر عورت کے ساتھ اٹھا۔

دونوں دھیرے دھیرے، چہل قدمی کے انداز میں فٹ پاتھ پر چلنے لگے، جیسے روز وہ ایسے ہی گھومتے ہوں۔ جیسے یہ ان کی روٹین تھی۔

’’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ ہم دونوں روز ہی رات کو کراچی کے رستوں پر ایسے ہی گھومنے نکلتے ہیں اور آج بھی ایسے ہی گھوم رہے ہیں۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔

’’ہاں، مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔‘‘ عورت بھی ہنسنے لگی۔

’’جیسے کہ ہم سالوں سے ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں اور ساتھ رہتے ہوں۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ اس نے ہنکاری بھر کر عورت کی آنکھوں میں دیکھا اور وہ سچ مچ شرما گئی۔ اسے عورت کے شرما نے پر لطف آیا اور قہقہہ لگایا۔

’’گندے!‘‘ عورت نے مصنوعی غصے سے اس کے کندھے پر چپت لگائی۔ اس نے ہنستے ہنستے عورت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر اکٹھے ہنسنے لگے۔ ہنسنے کا کوئی سبب نہ تھا، لیکن انہیں بلاوجہ ہنسی آ رہی تھی۔ دونوں خوش تھے۔

وہ ریو سنیما کا راستہ کراس کر کے ایلفی میں داخل ہوئے۔

’’تو میڈم کون سی خریداری کا ارادہ رکھتی ہیں؟‘‘

’’میں عید کے لئے ایک ڈریس لوں گی۔ تم بھی عید کے لئے ایک ڈریس لینا، نہیں تو پیسے فالتو خرچ ہو جائیں گے۔ کپڑے ہو نگے تو کام میں آتے رہیں گے۔‘‘

’’نہیں، میں عید کے لئے کپڑے نہیں لیتا۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’میں عید پر کہیں نکلتا ہی نہیں، پھر کپڑے لے کر کیا کروں گا!‘‘

’’اوہ۔!‘‘ عورت کو جیسے کچھ سمجھ میں آ گیا تھا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے عورت کے ہاتھ پر دباؤ ڈالا، شاید یہ کہنے کیلئے کہ ’’کوئی بات نہیں۔‘‘

’’بھلا کیا کسی خاص دوکان سے کپڑا لینا ہے؟‘‘ اس نے مزاحیہ انداز میں پوچھا۔

’’نہیں، کلاتھ مارکیٹ میں چلتے ہیں۔‘‘ عورت نے اس کے چہرے کو دیکھا اور ہنس پڑی۔

وہ دونوں کلاتھ مارکیٹ میں آئے۔ ایک دوکان میں گھس گئے۔ عورت الگ الگ طرح کے کپڑے دیکھنے لگی اور اس سے رائے پوچھتی گئی۔

’’مجھے کپڑوں کی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ تمہاری مرضی، تمہیں جو اچھا لگے وہ لو۔‘‘ اس نے کہا۔ آخر عورت نے کپڑا پسند کیا۔ قیمت پر دوکاندار سے لڑ پڑی۔ وہ بغیر جھک جھک کے پیسے دینے کے لئے تیار تھا، لیکن عورت نے اسے روکا۔

’’تم چپ چاپ کھڑے رہو۔ آپ مردوں کو ویسے ہی دوکاندار لوٹتے ہیں۔‘‘ وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ عورت دوکاندار سے بحث کرنے لگی۔

’’ابھی دو تین دن پہلے میری سہیلی یہی کپڑا لے کر گئی ہے۔ مجھے قیمت معلوم ہے۔ ہم عید والی قیمت نہیں دیں گے۔‘‘

دوکاندار قسم کھانے لگا کہ وہ عید کا دام نہیں لے رہا، لیکن عورت یقین کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھی، وہ دوکان سے باہر جانے لگی، تو دوکاندار نے پیچھے سے آواز دی، ’’ٹھیک ہے لے کر جائیے۔‘‘

’’دیکھا!‘‘ عورت نے مسکرا کر کہا، ’’یہ دوکاندار بڑے حرامی ہوتے ہیں۔‘‘

دوکاندار نے کپڑا کاٹ کر پیکٹ میں بند کیا۔ اس نے جیب سے پیسے نکال کر دوکاندار کو دئیے۔ دوکان سے باہر آئے تو ایک بھکارن نے ان سے بھیک مانگی۔

’’خدا جوڑی سلامت رکھے۔‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کی اور دیکھا اور مسکرا دیئے۔ اس نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر بھکارن کو دیا۔

’’بیچاری بھکارن! اس کی دعا بیکار گئی۔‘‘ آگے چل کر اس نے ہنس کر کہا۔ عورت خاموش تھی۔

’’اور بھی کچھ لینا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’نہیں، بس۔‘‘

’’شرم مت کر۔‘‘

’’نہیں، شرم کیسی۔ مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ عورت نے اسے یقین دلایا۔

’’اور اب؟‘‘ اس نے عورت سے پوچھا۔

’’اور اب؟‘‘

’’اب کیا پروگرام ہے؟‘‘

’’میرا تو کوئی پروگرام نہیں ہے۔ جیسا تم کہو؟‘‘

’’چل تو کہیں چل کر کھانا کھائیں۔‘‘

’’کھانا؟ لیکن مجھے تو بھوک نہیں۔‘‘

’’چائینز میں چلتے ہیں۔ ہلکا کھانا ہے۔ ٹھیک ہے نہ؟‘‘

’’ٹھیک ہے۔ جیسی تمہاری مرضی۔‘‘ عورت نے بات مانتے ہوئے کہا۔

چلتے چلتے عورت نے کہا، ’’عید کے سبب اتنی جگمگاہٹ ہے، نہیں تو ویسے آٹھ بجے کے بعد سنسان ہوتا ہے۔‘‘

’’ہاں، آج سچ میں جگمگاہٹ ہے۔ مجھے بھی نظر آ رہی ہے۔‘‘ اس نے عورت کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

’’مجھ میں کیا دیکھ رہے ہو؟ جگمگاہٹ راستوں پر ہے، مجھ میں نہیں۔‘‘ عورت نے قہقہہ لگایا۔

’’مجھے تو تمہارے سبب جگمگاہٹ محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے سنجیدہ بنتے ہوئے کہا۔

’’سچ؟‘‘ عورت بھی سنجیدہ ہو گئی۔

’’سچ۔‘‘ اور اس نے دیکھا کہ عورت کے چہرے پر اداسی آ گئی تھی۔

دونوں کیفے ہانگ کانگ میں آ کر بیٹھے۔ دیر ہونے کے سبب بس تین چار جوڑی لوگ بیٹھے تھے۔

’’تم بور تو نہیں ہو گئی ہو؟‘‘

’’نہیں، بالکل نہیں، کمال ہے، تم نے ایسا کیسے سمجھا!‘‘ عورت نے مسکراتے اور ناراض ہوتے ہوئے کہا۔

’’پتہ نہیں! میں تو ایسا ہی سمجھتا ہوں کہ میرے ساتھ سے دوسرے کو فقط بوریت ہی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

’’تم بھی عجیب آدمی ہو۔ اپنے لئے خود ہی سوچ بنا کر بیٹھے ہو۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

’’خیر، میری آج کی شام تمہارے نام ہے۔ شاید میرے زندگی کی یہ پہلی شام ہے، جو تمہارے وجہ سے بوریت کے بغیر گزر گئی اور مجھے پتہ بھی نہ چلا۔‘‘

’’لیکن میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ہے!‘‘

وہ ہنس کر چپ ہو گیا۔

جب تک انہوں نے کھانا کھایا، ہوٹل لگ بھگ خالی ہو چکا تھا۔ اس نے بل منگا کر پیسے دئیے۔ باہر آ کر اس نے کہا، ’’اب تم جاؤ گی؟‘‘

’’ہاں جانا تو پڑے گا ہی۔‘‘ عورت نے ہنس کر کہا۔

’’کوئی ٹیکسی لینی چاہئے۔‘‘ وہ ادھر ادھر ٹیکسی کے لئے دیکھنے لگا۔

’’تھوڑا چلتے ہیں۔ صدر میں ٹیکسی مل جائے گی۔‘‘ عورت نے کہا اور دونوں چلنے لگے۔ اسے اپنا دل بھاری بھاری اور تھکا ہوا محسوس ہونے لگا۔ اس احساس کو دبانے کے لئے کچھ بات کرنی چاہی۔

’’اگر پھر کبھی تم کہیں مل جاؤ تو مجھے پہچانو گی؟‘‘

’’میں تمہیں بھول نہیں پاؤں گی۔‘‘ عورت نے پوری سنجیدگی سے جواب دیا۔ اور وہ قہقہہ لگانے لگا۔

’’کیوں؟ اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘

’’یہ ڈائیلاگ تو فلم میں ہیروئین بولتی ہے۔‘‘ وہ ابھی تک قہقہے لگا رہا تھا۔ عورت نے اس کی جانب دیکھا، اس کی نظروں میں کرب تھا۔

وہ اچانک چپ ہو گیا اور کہا، ’’ٹیکسی تو نظر ہی نہیں آ رہی۔‘‘ عورت نے کچھ نہیں کہا۔ سمجھ گیا کہ اس کی بات نے عورت کو دکھ پہنچایا ہے، لیکن وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اسے عورت کا فقرہ بالکل روایتی سا طرح کا لگا تھا اور۔ اور ہنسنا تو اس نے جان بوجھ کر چاہا تھا۔

دونوں چلتے رہے اور دونوں چپ تھے۔ ٹریفک کم ہو گیا تھا اور شہر کا شور تھک ہار کر کمزور پڑ گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے دور دور چل رہے تھے۔ ایک خالی ٹیکسی پاس سے گزری۔ اس نے اشارہ کر ٹیکسی رکوائی۔ دونوں آگے بڑھ کر ٹیکسی کے پاس آئے۔ اس نے پچھلا دروازہ کھولا اور عورت چپ چاپ ٹیکسی میں جا بیٹھی۔ اس نے ڈرائیور کو کرائے کیلئے دس روپے کا نوٹ نکال کر دیا اور پھر ٹیکسی کی کھلی کھڑکی کے پاس جھک کر عورت کو دیکھا اور بھاری آواز میں کہا، ’’ساتھ کے لئے شکریہ۔‘‘

عورت نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں گیلی تھیں۔ یا اسے ایسا لگا تھا۔ ٹیکسی دونوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔

وہ ایمپریس مارکیٹ کے بس اسٹاپ پر آیا۔ اپنی بس میں چڑھ گیا۔ پورے راستے اس کا دماغ خالی تھا۔ گھر کے سامنے والے اسٹاپ پر بس سے اترا اور سنسان گلی پھلانگ کر اپنے کمرے کے دروازے کے آگے آ کر کھڑا ہوا۔ دروازہ کھول کر دروازے کی سامنے والی دیوار پر بٹن ٹٹول کر بتی جلائی۔ کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ وہ ہڑبڑا کر ڈر کر دروازے پر ہی کھڑا رہا۔ کمرے کی ویرانی اور تنہائی کی دہشت ایک دم سے اس کے اوپر چھا گئی۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر تعجب اور ڈر سے کمرے کو دیکھنے لگا۔ کمرے میں رکھی ہر چیز مردہ تھی۔ اسے اچانک موت کا احساس ہوا اور اس کے دل میں ڈر بھر گیا۔ دل اچھل کر گلے میں اٹک گیا۔ اس نے چاہا کہ پیچھے بھاگے، لیکن اس کے پیر پتھرا گئے تھے۔ اسے محسوس ہوا کہ کمرے میں بھرا ہوا اکیلا پن اور ویرانی دھیرے دھیرے اس کی جانب بڑھ رہے تھے اور پھر انہوں نے اس کے وجود کو گھیر لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھوں میں بُنے سپنے

 

ریک سے کتاب نکالتے، دیکھتے اور واپس رکھتے ہوئے کنول نے محسوس کیا کہ کسی کی آنکھیں، اس کو لگاتار گھور رہی ہیں۔ اس نے ایک دو بار آڑھی ترچھی نظروں سے اس شخص کی طرف دیکھا اور کترا گئی۔ لیکن شخص تھا جو پتھر بنا کھڑا تھا۔ کنول کتاب دیکھ رہی تھی اور وہ کنول کو دیکھ رہا تھا۔ کنول کو سخت کوفت محسوس ہوئی۔ اس نے طیش میں آ کر براہ راست اس شخص کے چہرے کو گھور کر دیکھا۔ اس کی نظروں کو جیسے دھچکا لگا۔

’’جانی!‘‘ نام اس کے ہونٹوں پر آ گیا۔ اس کی آنکھوں میں کوفت کی جگہ استعجاب بھر گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے نظریں جم گئیں۔

’’ہیلو۔‘‘ پتھر بن گئے جسم میں ہلچل پیدا ہوئی۔ کنول نے سوچا، وہ فوراً وہاں سے چلی جائے۔ جس ہاتھ میں کتاب پکڑے ہوئے تھی، اس ہاتھ میں تھوڑا ڈر محسوس کیا۔ اس نے چہرہ گھما کر کتاب ریک میں رکھی۔ اسے اپنی بے رخی ٹھیک نہیں لگی۔

’’یہاں پر کب سے کھڑے ہو؟‘‘ اس نے رسمی انداز سے پوچھا۔

’’جب سے تم دوکان میں آئی ہو۔‘‘ جانی کی آواز گھٹی ہوئی تھی۔

’’لیکن مجھے تو دس پندرہ منٹ ہو گئے ہیں۔ اتنی دیر میں تم نے بات بھی نہیں کی! اگر میں تمہیں نہ دیکھتی اور چلی جاتی تو بھی تم بات نہیں کرتے؟‘‘

’’میں اتنی دیر تک سوچتا رہا کہ تمہاری توجہ اپنی جانب کیسے مرکوز کراؤں۔‘‘ اس نے ہنسنے کی کوشش کی۔ دوکان پر کھڑے لوگوں کی ترچھی نظریں اور دھیان ان کی جانب تھا۔ دونوں دوکان سے باہر آ گئے۔

’’اگر تمہیں جلدی نہ ہو تو کہیں پر ایک گھنٹے کے لئے بیٹھیں؟‘‘ جانی نے فٹ پاتھ پر آ کر پوچھا۔ کنول نے انکار کرنا چاہا۔ جانی جوش بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ انکار نہیں کر پائی۔

’’صاف ہے، ایک گھنٹے کے لئے تو بیٹھنا ہی ہے۔‘‘ کنول نے مسکراتے کہا اور سوچا، ’’یہ ایک گھنٹہ ہی تو ہمارے نصیب میں ہے۔‘‘

جانی نے کار کا دروازہ کھولا اور کنول کو بیٹھنے کے لئے کہا۔ اس نے کار اسٹارٹ کی اور روڈ پراسے لایا۔

’’کیسے ہو؟‘‘

’’تمہیں کیسا لگ رہا ہوں؟‘‘

’’پہلے سے زیادہ سلم اور اسمارٹ۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ مسکراہٹ زخم کی طرح اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔

’’دو سالوں میں تم بالکل نہیں بدلی ہو۔ میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں۔ دیکھو، بالوں میں سفیدی آ گئی ہے۔‘‘

وہ ہنسنے لگا، پھیکی ہنسی۔

کنول نے اس کے سر کو دیکھا۔ اسے کالے بالوں میں کچھ سفید بال نظر آئے۔ اس نے پھر سے جانی کے چہرے میں دیکھا۔ وہی چہرہ تھا۔ معصوم، اپنا پن محسوس کرانے والا اور دوسرے کو خود کی طرف متوجہ کرانے والا۔ آنکھیں کھنڈر تھیں، بے بسی اور بزدلی کے نشان۔ کنول کے دل میں نفرت پیدا ہوئی۔ ایک پل کے لئے اسے جانی سے نفرت کا احساس ہوا۔

’’بزدل۔‘‘ لفظ لگ بھگ اس کے ہونٹوں پر آ گئے تھے۔ اس نے نچلے ہونٹ میں دانت دبا دیئے۔

’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘

کنول ہڑبڑائی اور لوٹ آئی۔

’’تمہاری بوڑھی بننے کی سوچ رہی تھی۔‘‘

جانی نے قہقہہ لگایا۔

’’کچھ لوگ بوڑھے ہو جانے کے بعد بھی دماغی طور پر جوان ہوتے ہیں اور ہم جیسے ٹوٹے لوگ جوان ہوتے ہوئے بھی دماغی طور پر خود کو بوڑھا محسوس کرتے ہیں۔‘‘

کنول نے کوئی جواب نہیں دیا۔ دونوں خاموش تھے۔ کار شہر کے ہنگاموں سے نکل کر باہر بڑے چوڑے راستے پر آ گئی تھی۔ جانی نے ایک کول کارنر کے پاس گاڑی سائیڈ کر کے کھڑی کی۔ اس نے ہارن بجا کر لڑکے کو بلایا اور اسے اسنیکس اور کوک لانے کے لئے کہا۔

’’دو سال کوئی اتنا بڑا وقت نہیں، لیکن اس وقت میں بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس لئے حال چال دینا لازمی ہے، کیوں؟‘‘ جانی نے کہا۔

’’حال چال کچھ خاص تو نہیں۔ میں ایم اے کرنے کے بعد گھر جا کر بیٹھ گئی۔ لیکن بعد میں بور ہو گئی۔ بوریت کے سبب گھر والوں سے روز کھٹ پٹ ہوتی تھی۔ اس حد تک کہ گھر کے لوگ مجھ سے تنگ آ گئے اور میں گھر کے لوگوں سے۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔ ’’آخر نوکری آ کر کی۔ اب یونیورسٹی میں لیکچرار ہوں۔‘‘

’’رہتی کدھر ہو؟‘‘

’’وہیں کیمپس میں گھر ملا ہے۔‘‘

’’اکیلی؟‘‘

’’ہاں، کیوں؟ آدمی اکیلا نہیں رہ سکتا کیا؟ میرے ساتھ ایک عورت رہتی ہے، اس کا کوئی گھر نہیں ہے۔ گھر کا کام کاج کرتی ہے اور میرے ساتھ ہی رہتی ہے۔‘‘

’’تم نے شادی نہیں کی ہے؟‘‘ جانی نے ہچکچا کر پوچھا۔ کنول اس کا منہ تکنے لگی۔ پھر اس کے ہونٹوں پر پھیکی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے منہ پھیر لیا۔

جانی کو اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا۔

لڑکا ا سنیکس اور کوک لے کر آیا تھا۔ کچھ دیر تک چپ رہنے کے بعد کنول نے کہا، ’’تم بتاؤ؟ تمہارے کیا حال ہیں؟‘‘

’’میں تو اب زیادہ تر گاؤں میں رہتا ہوں۔ بابا کے گزر جانے کے بعد زمینیں سنبھالنے کا پورا کام مجھے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے باہر نکلنے کے لئے زیادہ وقت نہیں ملتا۔ کام کرنے میں ہی پورا وقت نکل جاتا ہے۔‘‘

’’بچے کتنے ہیں؟‘‘

’’ابھی تو ایک بچہ ہوا ہے، لڑکا ہے۔‘‘ اس نے باہر راستے پر دیکھتے ہوئے کہا۔

’’خوش ہو؟‘‘ کنول کا سوال غیر متوقع تھا۔ جانی نے اس کی جانب دیکھا۔

’’اگر میں ’’نہیں‘‘ کہوں گا تو یہ بات تمہیں جھوٹ لگے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اوروں کی مرضی کے آگے گردن جھکا کر شادی کرنے کے بعد میں نے یہ سوچنا چھوڑ دیا ہے کہ میں خوش ہوں یا نہیں! تمہیں پتہ ہے میری کوئی مرضی نہیں۔ میرا اپنا کوئی حق نہیں۔‘‘ اس نے جیسے خود کو طعنہ مارا۔ ’’مجھے اوروں کی مرضی کے مطابق جینا ہے۔ میں خوش ہوں یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ اس کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔

دو سال پہلے یونیورسٹی میں جب جانی کے والد کا خط آیا تھا، تب اس نے کنول کو ایسے ہی دکھی اور بھاری لہجے میں کہا تھا، ’’بابا نے خط میں لکھا ہے کہ شادی پکی ہو گئی ہے۔ میرے چاچا کی بس ایک ہی لڑکی ہے اور کوئی اولاد نہیں۔ زمین بہت ہے۔ بابا میری شادی اس لئے کروانا چاہتا ہے تاکہ چاچا کی جائیداد ہمارے پاس رہے، باہر نہ جائے۔ اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ انکار کر پاؤں۔ بابا اور چاچا کی مرضی کے آگے جھکنے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔‘‘

’’تم بزدل ہو۔‘‘ کنول نے اس کی بے بسی پر دکھ اور غصے سے بھرتے ہوئے کہا تھا۔

’’ہاں، تم سچ کہہ رہی ہو۔ میں بزدل ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ میں بزدل ہوں۔‘‘ اور پھر وہ گردن جھکا کر لڑکھڑاتے قدموں سے چلا گیا تھا۔

کنول کو اب بھی وہی دکھ اور وہی غصہ محسوس ہوا۔ اس نے کہنا چاہا، ’’تم بزدلی کے عادی ہو گئے ہو۔ تم کبھی خوش نہ رہ پاؤ گے۔‘‘ لیکن جانی کی آنکھیں دیکھ کر اسے اس کے اوپرترس آ گیا۔ کچھ لوگوں کے نصیب میں صرف دکھ جھیلنا ہی کیوں ہوتا ہے؟ اور کیا یہ ضروری تھا کہ جانی میری زندگی میں آتا، یا میں جانی کی زندگی میں آتی۔ ہماری زندگی میں کیا کوئی نارمل بیلنسڈ آدمی نہیں آ سکتا تھا اور اگر آتا تو شاید ہم ایسے نہ ہوتے، جیسے آج ہیں۔ یہ آدمی کے ذاتی حالات ہیں، جو اسے باہری زندگی میں بنا یا بگاڑ دیتے ہیں۔‘‘

’’میں تمہارے گھر آ سکتا ہوں؟‘‘ جانی کو خاموشی اچھی نہ لگی۔

’’کیا مجھے رسمی دعوت دینی پڑے گی؟‘‘

جانی ہنسنے لگا۔

’’جب چاہے تم آ سکتے ہو۔‘‘

پھر سے سناٹا چھا گیا۔ دونوں کے پاس بولنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔

’’اب چلنا چاہئے۔‘‘ کنول نے گھٹن محسوس کرتے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ جانی نے کار اسٹارٹ کی۔ ’’مجھے گھر کا پتہ دو تو تمہیں ڈراپ کرتا جاؤں۔‘‘

کنول نے اسے ایڈریس بتایا اور سوچا، ’’کتنی عجیب بات ہے۔ ہم نے ساتھ رہنا، ساتھ جینا چاہا تھا لیکن اب ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ہم رہتے کہاں ہیں اور کیسے جیتے ہیں؟‘‘

کار جب کنول کے گھر کے آگے آ کر کھڑی ہوئی تو اس نے جانی کو اندر چلنے کی دعوت دی۔

’’نہیں، آج نہیں، تمہارے پاس کل آؤں گا شام کو۔‘‘

اور اس نے ہاتھ ہلا کر کنول سے رخصت لی۔

صبح نیند سے جاگتے ہی کنول کے دماغ میں شام کا انتظار شروع ہو گیا۔ یونیورسٹی میں کلاس لیتے، اسٹاف روم میں اوروں سے باتیں کرتے ہوئے، اس پر شام کا انتظار حاوی تھا۔ اسے اپنی اس بے چینی اور انتظار والی کیفیت سے شرمندگی ہونے لگی۔ اسے اپنے اوپر طیش آیا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے اس کیفیت سے جان نہ چھڑا سکی۔ اسے خیال آیا، اکیلی اداس شاموں کا خاتمہ تو ہونا ہی نہیں ہے، اس ایک شام کو جانی آ بھی گیا تو کیا ہو گیا۔ اس کے بعد بھی تو یہی شامیں ہوں گی اور اکیلا پن ہو گا۔

شام کو جانی نے آتے ہی اس سے پوچھا، ’’تم ایسے اکیلی کیسے رہ لیتی ہو! تمہیں گھٹن نہیں ہوتی؟‘‘

’’نہیں تو، میں اکیلی کہاں ہوں، یونیورسٹی سے لوٹ کر آ کر سو جاتی ہوں۔ رات کو ٹی۔ دیکھتی ہوں یا کتاب پڑھتی ہوں۔ کبھی کبھی شام کو کوئی سہیلی آ جاتی ہے۔ اور گھر میں ماسی تو ہے ہی، مسئلہ ہے وقت کاٹنے کا، وہ تو گزر ہی جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں، مسئلہ ہے وقت کاٹنے کا، جو ایسے نہیں کٹتا، جیسا ہم چاہتے ہیں۔ لیکن خیر، ہمارے نہ چاہتے ہوئے اور ہماری مرضی کے خلاف بھی کٹ ہی جاتا ہے۔‘‘ جانی نے کمرے کے چاروں اطراف دیکھتے کہا۔ ’’لیکن اکیلے پن میں جو وحشت ہے، وہ آخر شخص کو تھکا دیتی ہے۔ سچ بتاؤ، تم اپنی زندگی سے خوش ہو؟‘‘

کنول نے قہقہہ لگایا۔ جانی کو لگا کہ اس نے اس کے سوال کو قہقہے میں اڑا دیا ہے۔

’’لوگوں کو میرا اس طرح سے رہنا عجیب لگتا ہے۔ اس معاشرے میں اگر کوئی بھی عورت آزاد رہے تو لوگوں کی بحث کا موضوع بن جاتی ہے۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں۔ میں اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتی ہوں۔ اور اگر کوئی شخص اپنی مرضی کے مطابق جی رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہئے۔ میں خوش نظر نہیں آتی کیا؟‘‘

جانی چپ چاپ اسے تک رہا تھا۔

’’مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ کنول نے مسکراتے ہوئے کہا۔ جانی نے کوئی جواب نہیں دیا، فقط دیکھتا رہا۔

’’پلیز، مجھے ایسے مت دیکھو۔‘‘ جانی کی نظریں کنول کے دل میں ہلچل پیدا کر رہی تھیں۔ اس نے آنکھیں نیچے کر کے جانی کی نظروں سے خود کو چھڑانا چاہا۔

جانی اپنی جگہ سے اٹھ کر کنول کے پاس آ کر بیٹھا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اس نے کہا، ’’کنول، ہم دونوں خوش نہیں ہیں اور دونوں یہ بات چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

کنول نے اپنی گردن جانی کے کندھے پر رکھ دی۔ ’’کاش! وقت تھم جائے۔ ہم دونوں گھی شکر بن جائیں۔ کتنا سکون اور آرام ہے جانی کے کندھے کے سہارے میں۔ سہارے کے بنا زندگی کاٹنا کتنا مشکل ہے، لیکن یہ سہارا عارضی ہے۔ آج ہے، اس پل ہے۔ کل نہ ہو گا۔‘‘

’’کنول۔‘‘ جانی بڑبڑایا۔

’’جانی۔‘‘

جانی نے کنول کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔

’’تم مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہو؟‘‘ کنول کے لب تھرتھرانے لگے تھے۔ جانی نے اس کے تھرتھراتے لبوں میں اپنے ہونٹ پیوست کر دئیے۔ کنول کو لگا کہ اس کا وجود معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ بدن میں کوئی لہر اٹھنے لگی تھی اور اس کی سانس کھنچ کر ہونٹوں میں آ پھنسی تھی۔

کنول اسٹاف روم میں اکیلی بیٹھی تھی۔ باقی سبھی باہر کاریڈور میں دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کل شام والی بوریت ابھی تک اس پر چھائی ہوئی تھی، جانی کافی وقت کے بعد آیا تھا اور آتے ہی کہا تھا، ’’ضروری کام سے آیا تھا، آج ہی واپس گاؤں جانا ہے۔ سوچا کچھ دیر تک تمہیں دیکھتا چلوں۔‘‘

’’اس کچھ دیر کے لئے آنے کی ضرورت کیا تھی؟‘‘

’’ویسے تمہیں دیکھنے کے لئے بہت دن ہو گئے تھے۔‘‘ جانی مسکرایا، کنول چڑ گئی۔ اس نے جانی کی طرف دیکھا اور ہونٹ کو زور سے کاٹ کر چہرہ پھیر لیا۔

’’ایک تو تمہیں غصہ بہت آتا ہے اور جب آتا ہے تو اسے دبا دیتی ہو۔ لڑتیں، گالیاں دیتیں، اپنے لمبے ناخنوں سے میرا منہ نوچتیں، لیکن اپنے ہونٹ کو ایسے بیہودگی سے کاٹ کر لہولہان مت کرتیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میری مرضی۔ میں اپنے غصے کو خود پر اتارنا چاہتی ہوں، ہونٹ میرا ہے۔ باقی سب خیر ہے۔‘‘ کنول نے غصے کو روک کر صبر سے جواب دیا۔

’’ہونٹ تو تمہارے ہیں، لیکن تکلیف مجھے ہو رہی ہے۔‘‘

کنول نے دیکھا کہ جانی کی آنکھوں میں شرارت تھی۔

’’کیوں؟ تمہیں تکلیف کیوں ہونی چاہئے؟‘‘

’’کٹے ہوئے ہونٹ کو چومنے میں کیا تکلیف نہ ہو گی؟‘‘

جانی نے قہقہہ لگایا۔ وہ مسکرا بھی نہ پائی۔ لیکن نہیں، اس کے دانت دکھے تھے، تا کہ جانی یہ نہ سمجھے کہ اس نے اس کے مذاق کو انجوائے نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد وہ جلدی چلا گیا۔

سب کچھ نئے سرے سے شروع ہو چکا تھا۔ جانی اب مہینے میں ایک دو بار اس کے پاس آتا تھا۔ کنول نے سوچا کہ یہ سب شروع کیوں ہوا۔ اور اس کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے الگ ہوئے تھے۔ ہمیں بہت کچھ بدل جانا چاہئے تھا، اس وقت ہمیں ویسا نہیں ہونا چاہئے جو ہم دو سال پہلے تھے۔ ویسے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ حالات۔ وقت۔ پھر بھی ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے وہی ہیں۔ اسی طرح سوچتے ہیں، یہ کون سی سزا ہے؟ وہ اذیت جو دو سال پہلے ہماری زندگی میں گھس آئی تھی وہ ہمیشہ رہے گی؟ یہ کیا ہے؟ کیا ہے؟ اس نے چاہا کہ چیخے، ’’یہ سراسر جذباتی پن ہے، پاگل پن ہے۔‘‘ تبھی اس نے پاگلوں کی مانند قہقہے لگانے چاہے۔ لیکن کوئی ٹیس تھی جو گلے میں آ کر اٹکی تھی۔ اسے خود سے نفرت کا احساس ہوا۔

’’کنول۔‘‘ کسی نے اندر آ کر اسے بلایا۔

کنول نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔ سلمیٰ اسے تعجب سے دیکھ رہی تھی۔

’’کیا بات ہے؟ طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا؟‘‘

’’ایسے ہی بیٹھے بیٹھے سانس گھٹنے لگی تھی۔‘‘

’’یہ تو خطرناک ہے۔ ڈاکٹر کو دکھاؤ۔ اس سے ہارٹ اٹیک بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

’’ہاں، آج شام کو ڈاکٹر کے پاس جاؤں گی۔‘‘ کنول نے بات پوری کرنی چاہی۔

’’ایک بات پوچھوں۔‘‘ سلمیٰ نے اس کے پاس بیٹھ کر اپنائیت سے کہا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

’’جانی کیا اب تمہارے پاس روز آتا ہے؟‘‘

’’کہیں تو کافی پبلسٹی ہو گئی ہے۔‘‘ کنول مسکرانے لگی۔

’’لوگوں کا تو تجھے پتہ ہے اور وہ بھی یہاں کے! ہمیشہ اس موقعے میں رہتے ہیں کہ انہیں کسی کی کوئی بات ہاتھ آ جائے۔‘‘

’’مجھے پتہ ہے کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ان کی نظروں میں، میں بدنام ہوں۔ جانتی ہوں۔ لیکن یہ سبھی باتیں تو بیچاروں کے لئے بڑی تفریح کی ہیں، نہیں تو اس دشت میں اور رکھا ہی کیا ہے؟‘‘

’’لیکن کنول، آخر یہ چکر کیا ہے؟‘‘

’’کونسا چکر؟‘‘

’’یہی، جانی کا تمہارے پاس آنا۔ ایک دوست کی حیثیت سے میری تم سے گذارش کہ تم شادی کر لو۔ بیکار بدنامی سے کیا فائدہ؟ میں تو کسی سے تمہاری چغلی سنتی ہوں تو اس سے لڑ پڑتی ہوں۔‘‘

’’تم آخر کتنا لڑو گی میرے لئے۔‘‘ کنول ہنسنے لگی۔ ’’لوگوں کو بولنے دو۔‘‘

’’اب تمہیں کون سمجھائے۔ اچھا اٹھو تو باہر چل کر دھوپ میں بیٹھیں۔ کمرہ تو دیکھو کتنا ٹھنڈا ہے۔‘‘ سلمی اسے باہر لے آئی۔

سردیوں کا موسم پورے عروج پر تھا۔ تیز ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے اور کبھی کبھی بوندیں برس رہی تھیں۔ ٹھنڈ مزید بڑھ گئی تھی۔ باہر تیز ٹھنڈی ہوائیں تیر کی طرح چبھنے لگی تھیں اور اندر کمرے میں ہیٹر کی گرمی کے مارے گھٹن تھی۔ کنول سخت ڈپریسڈ تھی۔ اسے کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی کہ اس ڈپریشن سے کیسے جان چھڑائے۔ نہ ہی کتابوں کی کہانیوں میں مزہ تھا اور نہ ہی ٹی وی پر کوئی اچھا پروگرام ہی تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو وہ ہڑبڑا گئی۔ اب رات کو آٹھ بجے کون آیا ہو گا؟

ماسی نے جا کر دروازہ کھولا اورتیں قدم اس کے کمرے کی جانب آئے۔

’’جانی!‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ ’’میں سخت ڈپریشن محسوس کر رہی تھی۔ یہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایسے اچانک آ جاؤ گے۔‘‘

’’ابھی بھی ڈپریشن ہے؟‘‘ جانی نے مسکرا کر پوچھا۔

’’نہیں! اب تو ڈپریشن کا نام بھی نہیں ہے۔‘‘ کنول نے قہقہہ لگایا۔ ’’باہر تو کافی سردی ہے۔ اوہ۔ تمہارے ہاتھ کتنے ٹھنڈے ہیں، برف کی مانند!‘‘ کنول نے جانی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔ سردی کی وجہ سے جانی کے ہونٹ نیلے پڑ گئے تھے اور ناک برف جیسی ٹھنڈی تھی۔ کنول نے اسے کھینچ کر ہیٹر کے پاس کیا اور اپنا منہ اس کے ہونٹوں اور ناک پر رگڑنے لگی۔

’’اتنی سردی میں نکلنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

’’بس، اچانک خیال آیا اور چلا آیا۔ ابھی سیدھا گاؤں سے ہی آ رہا ہوں۔ ’’Soul Poor‘‘ کنول نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پھراتے ہوئے کہا، میں تمہارے لئے گرم گرم کافی بنا کر لاتی ہوں۔‘‘

’’کافی تمہارے ہونٹوں سے زیادہ گرم نہ ہو گی۔ بیٹھو، ایک ضروری بات کہنی ہے۔‘‘

کنول نے اس کی سنجیدگی کو بڑے تعجب سے دیکھا اور بیٹھ گئی۔

’’میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جانی جلدی جلدی میں کہہ گیا۔ کنول کو وہ سخت بیوقوف لگا۔

’’یہ بات کہنے کے لئے تم اتنی سردی میں گاؤں سے آئے ہو۔‘‘ وہ ہنسنے لگی۔

’’پلیز، کنول! میں سنجیدہ ہوں۔‘‘

’’لیکن میں نہیں چاہتی۔‘‘ کنول نے ہنسی روک کر سنجیدگی سے کہا۔

’’کیوں؟‘‘ جانی کو جیسے اس جواب کی امید نہیں تھی۔

’’بس، میں نہیں چاہتی، میری مرضی۔‘‘ اس نے منہ بنا کر کہا۔

’’کنول، بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ ہمارا اس طرح سے ملنا ٹھیک نہیں۔ لوگ باتیں کرنے لگے ہیں۔‘‘

’’لوگ۔ لوگ۔‘‘ اس نے تنگ ہو کر کہا۔ ’’لوگوں کا کام ہے باتیں کرنا۔ تم اگر لوگوں سے ڈر کر مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو تو مجھے نفرت ہے اس سے۔‘‘

’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘ جانی پریشان ہو گیا۔ ’’کنول، تمہیں پتہ ہے کہ میں اپنی ذاتی زندگی میں کتنا دکھی ہوں۔ ایک دلدل ہے جس میں پھنستا جا رہا ہوں۔ فقط تم ہی مجھے بچا سکتی ہو۔ مجھے تمہارے پیار کی چھاؤں چاہئے۔ لیکن یہ حالات کب تک رہیں گے؟ تمہارے لئے بھی یہ ٹھیک نہیں۔ ہمارے معاشرہ میں یہ عزت دار طریقہ نہیں، کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسی عورتوں کو ’’رکھیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ تم میرے لئے رکھیل نہیں ہو اور میں تمہارے لئے کوئی بھی ایسی بات برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ میں بھی رکھیل بن کر رہنا نہیں چاہتی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی نہیں چاہتی کہ مجھے تمہاری دوسری عورت کا نام دیا جائے، جو عام زبان میں سوتن ہوتی ہے۔ اگر لوگوں کی بات کرتے ہو تو وہ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے تم سے شادی اس لئے کی ہے، کیونکہ تمہارے پاس پیسہ ہے، زمینیں ہیں، کار اور بنگلہ ہے۔ نہیں، میں اوروں کی نظر میں اپنا یہ کردار کبھی بھی پسند نہیں کروں گی۔‘‘

’’ویسے تو تم کہتی رہتی ہو کہ تمہیں لوگوں کی پرواہ نہیں، پھر اس بات میں پرواہ کیوں کرتی ہو؟‘‘

’’میں نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی ہے۔ اگر پرواہ کرتی تو ایسے اکیلی نہیں رہتی اور تم سے نہ ملتی۔ لیکن میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ مجھے لالچی سمجھا جائے یا ایسا کہا جائے کہ میں نے تمہیں دولت کی وجہ سے پھنسایا ہے۔ تمہاری بیوی اور تمہارے رشتے دار بھی تو ایسے ہی سمجھیں گے۔‘‘

’’اوہ کنول۔‘‘ جانی سر کو رگڑنے لگا۔

’’جانی تم میری پوزیشن کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ میں خود کو ذہنی طور پر گرا نہیں سکتی۔‘‘ کنول نے اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے کہا۔

جانی کچھ دیر تک چپ کر کے بیٹھا رہا۔ پھر کہا، ’’نہیں کنول، مجھے یہ حالات اچھے نہیں لگ رہے۔ تم پھر سے سوچو۔ میں کل اس وقت تمہارے پاس آؤں گا۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جانے لگا۔ کنول نے اسے روکنا چاہا، لیکن روک خود کو لیا، کچھ کہنے سے۔ وہ چپ چاپ باہر کے دروازے تک اس کے ساتھ آئی۔ جانی دروازہ کھول کر پیچھے مڑا اور کنول کو دیکھتا رہا۔ کنول نے چاہا کہ وہ اس سے کہے، ’’تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہیں کیوں کہتی ہوں کہ تم مجھے ایسے مت دیکھا کرو؟ مجھے لگتا ہے جیسے کہ تم مجھے آخری بار دیکھ رہے ہو۔‘‘ اور تب تک جانی دروازہ بند کر کے  جا چکا تھا۔

شام سے نہ کٹتا وقت کھینچ کھینچ کر گزر گیا۔ رات سرکتی زیادہ سرد ہوتی گئی۔ دس بج گئے۔ ڈپریشن کی بہت بڑی لہر اٹھی اور کنول کے اوپر چھا گئی۔ اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر کمرے میں چلنے لگی۔ اچانک اسے خیال آیا کہ جانی نہیں آئے گا۔ اب کبھی نہیں آئے گا۔ کنول ڈر گئی۔ اسے اپنی سوچ پر یقین نہ ہوا۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار نہ تھی۔ تبھی اس کے دل میں زوردار خواہش اٹھی، سگریٹ پینے کی اور اپنے اندر وسیع اور کبھی نہ بھرنے والی کھائی کو دھوئیں سے بھرنے کی۔ اس نے الماری کھولی۔ جانی کے سگریٹوں کے چار پانچ پیکٹ پڑے تھے۔ کنول ایک پیکٹ اور ماچس لے کر کرسی پر آ بیٹھی۔ اس نے پیکٹ کھول کر سگریٹ نکالا اور اس کا دل بھر آیا۔ ہونٹ کو زور سے کاٹ کر خود کو رونے سے روکا۔ ایک قطرہ اس کے دل کی مانند بھٹک کر ہاتھ پر آ گرا۔ کنول نے ہاتھ اوپر اٹھا کر زبان سے اس قطرے کو پونچھ دیا۔ (ذائقہ کڑوا نمکین تھا، اس کی زندگی کی طرح! ) اس نے سگریٹ جلا کر ایک لمبا کش کھینچا۔ دھواں اس کے پھیپھڑوں میں بھر گیا اور وہ کھانسنے لگی۔ دو سال پہلے جب جانی نے شادی کی تھی، کنول نے پہلی بار سگریٹ پیا تھا۔ تب بھی اسے کھانسی ہوئی تھی۔ کتنے لمبے وقت کے بعد اس کی پھر سے سگریٹ پینے کی خواہش ہوئی تھی۔ کنول کو خیال آیا کہ وہ جلدی جلدی کش لے رہی تھی اور اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ پتے سب گر گئے تھے اور وہ اپنے آنگن میں سوکھے پتوں کی کھڑکھڑ کی آواز صاف سن رہی تھی۔ سردی کی ہوا کمرے کے کھلے دروازے سے اندر گھس رہی تھی۔ کنول نے اٹھ کر دروازہ بند کرنا چاہا لیکن اس نے سوچا کہ اگر جانی نے باہر کے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی تو! سن کیسے سکیں گے؟ ماسی تو سوئی ہو گی۔ کنول نے دروازے کو بند کرنے کا خیال اتار دیا۔ اس نے خود کو رضائی سے اچھی طرح ڈھک لیا۔ سگریٹ ختم ہونے کو تھا۔ کنول نے اس سگریٹ سے نیا سگریٹ جلایا اور ٹوٹا ایش ٹرے میں مروڑ دیا۔

’’اکیلے پن میں اتنا ڈر کیوں ہے؟ میں ہمیشہ سے ہی ہجوم سے دور بھاگنے والی ہوں۔ اکیلا پن چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ اکیلا پن کسی عفریت کی طرح مجھے نگلتا جا رہا ہے۔ نہیں نہیں، میں کوئی سادھو سنیاسی نہیں ہوں، جو اکیلی رہوں، لیکن اگر میں گوتم بدھ کے دور میں ہوتی تو شاید بھکشو بن جانا زیادہ پسند کرتی۔ لوگ بڑے ذلیل ہیں۔ دنیا بڑی ذلیل ہے اور میں بڑی ذلیل ہوں، جو ذلیل دنیا میں جی رہی ہوں۔ وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں ہے؟ اسے آنا چاہئے تھا۔ کم سے کم آج۔ آج تو ضرور آئے۔ اگر آج آیا تو میں اس کی بات مان جاؤں گی۔ ایک دم ہاں کر دوں گی۔ میں نے ہمیشہ خود کو دو کشتیوں پر سوار پایا ہے۔ تبھی مجھے لگا کہ میں اب گری کہ تب گری، ایک بڑی کھائی میں۔ ہوا تو زوردار ہے لیکن پیر بے حرکت ہیں۔ جم ہی گئے ہیں۔‘‘ کنول کو ہنسی آ گئی۔ سگریٹ کا دھواں بائیں آنکھ میں گھس گیا اور آنکھ میں آگ بھر گئی۔ دونوں آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’اکیلا پن کتنا تباہ کن ہے۔ خطرناک ہے۔ کتنا مسلتا ہے۔ اور جانی کتنا ذلیل ہے۔ میرا اکیلا پن۔ سارے ریگستان جیسے اکیلے پن کا کچھ احساس ہی نہیں ہے۔ لیکن ابھی تک آیا کیوں نہیں۔ آج تو آئے۔ آج تو کیسے بھی کر کے آنا چاہئے۔ جانی۔ ج آ آ نی۔ ج آ آ آ آ ن۔‘‘ جنوب کی تیز ٹھنڈی ہوا باہر آنگن میں سرسرا رہی تھی۔ اس کی چیخیں سردی میں جمی برف بن گئیں۔

کنول کی انگلیاں جلنے لگیں۔ اس نے ٹوٹا ایش ٹرے میں پھینک دیا۔ عیش ٹرے سگریٹوں سے بھر چکی تھی اور نیچے فرش پر بھی سگریٹ بکھرے پڑے تھے۔ اس نے نئی سگریٹ جلائی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ باہر کی کنڈی کھڑک رہی ہے۔ وہ بنا چپل کے باہر دوڑتی گئی اور بنا پوچھے دروازہ کھولا۔ باہر کوئی نہ تھا۔ ایک کار سرسراتی رستے سے گزر گئی۔ سخت سردی تھی۔ کنول دروازہ بند کر کے لوٹ کر کمرے میں کرسی پر آ کر بیٹھی اور جلدی جلدی سگریٹ پینے لگی۔ اسے خیال آیا اور وہ سگریٹوں کا پیکٹ اور ماچس لے کر باہر آنگن میں آ کر بیٹھی۔

’’پوری رات یہیں کھڑے رہ کر جانی کا انتظار کروں گی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ چاہے سردی میں جم کر برف بن جاؤں۔ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنا اب میری قوت برداشت سے باہر ہے۔ ہر پل ایسا لگ رہا ہے، جیسے کہ جانی باہر سردی میں دروازے پر کھڑا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ اب سردی میں باہر نکلا ہو۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ پیار میں اتنی اذیت بھی ہے۔ اتنی تکلیف! وہ کون پاگل فنکار تھا، جس نے اپنی محبوبہ کے باپ کو یہ دکھانے کے لئے کہ اسے اس کی لڑکی سے کتنا پیار ہے، جلتی ہوئی موم بتی پر اپنا ہاتھ رکھ کر جلایا تھا۔ آخر کیوں؟ کیوں؟ کیوں؟ کیا یہی پیار ہے؟ یہ کیا پاگل پن ہے۔ کیا جانی بھی ایسا ہی محسوس کرتا ہو گا، جو میں محسوس کر رہی ہوں؟ ہو سکتا ہے وہ اب نہ آئے۔ میرا آخری جواب سننے کے لئے ہی تو دروازے پر کھڑا رہا تھا۔ وہ اب نہیں آئے گا۔ ایسا ہونا ہی تھا۔ ہم جب دوبارہ ملے تھے، تب مجھے محسوس ہوا تھا کہ ہم پھر سے دوبارہ الگ ہونے کے لئے ملے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ میں بھی خود کو گرا نہیں سکتی۔ میں نے جانی کے لئے ایسا کبھی نہیں سوچا ہے کہ میں اسے اپنے پاس باندھ کر بٹھا دوں۔ میں نے اسے کبھی مجبور نہیں کیا ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچہ چھوڑ کر فقط میرے پاس ہی ٹکا رہے۔ اگر وہ پہلے کی ہی طرح پھر سے چلا جائے تو کیا میں اسے روک سکوں گی! روک تو میں اسے پہلے بھی نہ سکی تھی۔ تب وہ کیسے بزدلی دکھا کر چلا گیا تھا۔‘‘ کنول کے دل میں ابال آیا۔ ایک سوکھا پتّہ اڑ کر اس کے منہ پر آ کر لگا اور کھڑکھڑاتا نیچے گر گیا۔ کنول کو اپنے پیر بے حس و حرکت اور مردہ محسوس ہوئے۔

سگریٹ ختم ہو چکی تھی۔ اس نے ٹوٹا پھینک کر نیا سگریٹ نکالنے کے لئے پیکٹ کھولا۔ دو سگریٹ باقی بچے تھے۔ اس نے دونوں سگریٹ نکال کر ان کو منجمد انگلیوں میں مروڑ کر نیچے پھینک دئیے۔ اس کے بعد سُن پیروں کو کھینچتے اندر کمرے میں آئی اور بتی بجھا کر پلنگ پر لیٹ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

گلے میں پھنسی سسکی

 

وہ مشین کو تیز تیز چلانے لگی، تا کہ اس کی سوچ پیچھے رہ جائے۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی بابن کا دھاگہ ختم ہو گیا ہے اور اس کے بعد بھی وہ مشین چلاتی جا رہی تھی۔ اس نے مشین بند کر دی۔ مشین کا شور ختم ہونے سے ایک دم سناٹاچھا گیا۔ اس نے دیوار پر لگی الیکٹرک گھڑی کی طرف دیکھا۔ دونوں کانٹے بارہ کے قریب جا پہنچے تھے۔ اسے رات کی تنہائی کا احساس ہوا۔ اگر کوئی چور گھر میں گھس آئے تو وہ اکیلی کیا کرے گی!

اس نے سوچا، ڈرپوک تو وہ بچپن سے ہی ہے۔ نانی نے مجھے جن بھوتوں کی کہانیاں سنا سنا کر اتنا ڈرا دیا تھا کہ رات کے وقت اپنی پرچھائیں سے بھی ڈرتی ہوں۔ میں نے یہ بات آصف کو بھی بتائی تھی۔ اسے پتہ ہے کہ میں کتنی کمزور دل ہوں۔ لیکن وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ وہ مجھے جان بوجھ کر ٹارچر کیوں کر رہا ہے؟ اگر ایسی کوئی بات ہے تو مجھے بتاتا کیوں نہیں؟ میں تو پوچھ پوچھ کر تنگ آ گئی ہوں۔ کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں ہے، تمہارا وہم ہے۔ ٹھیک ہے، میں وہمی ہوں۔ لیکن اس کا رویہ کافی وقت سے بدلہ ہوا ہے۔ جان بوجھ کر تھوڑا ہی بات کرتا ہے، وہ بھی جب میں اتنی کوشش کرتی ہوں۔ کیا مجھے آنکھیں نہیں جو دیکھوں کہ وہ کتنا پریشان ہوتا رہتا ہے۔ برابر کھانا بھی تو نہیں کھاتا۔ دو تین نوالے کھا کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ میں پوچھتی ہوں، ’’کیوں جان، کیا بات ہے؟ کھانا اچھا نہ لگا کیا؟‘‘ تو وہ بے دلی سے کہتا ہے، ’’نہیں، مجھے بھوک نہیں۔‘‘ روز بھوک نہیں! تینوں وقت بھوک نہیں! پھر چلتا کیسے ہے؟ نہیں، میں جانتی ہوں کہ وہ کہیں باہر سے کھا کر آتا ہے۔ اب تو رات کو بھی دیر سے گھر آتا ہے۔ پلنگ پر منہ پھیر کر لیٹ جاتا ہے۔ میں اسے گلے لگانا چاہتی ہوں تو چڑ کر میری بانہیں کھینچ کر پیچھے دھکیل دیتا ہے، جیسے کہ مجھ سے گھن آتی ہو۔ اگر اس کا بس چلے تو میرے ساتھ سوتا ہی نہیں۔ لیکن ڈبل بیڈ جو ہے۔ پورا مہینہ ہو گیا ہے اور اس نے مجھے پیار ہی نہیں کیا ہے۔ پیار جائے کھڈے میں، لیکن وہ ایسا کیوں کر رہا ہے! اتنا بدل کیوں گیا ہے!

ثریا کو یاد آیا ہے کہ بابن کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہے اور اس نے کتنی دیر تک سیا نہ تھا، منہ ہتھیلی پر ٹکا کر سوچ میں گم ہو گئی۔

وہ مجھے کتنا چاہتا تھا! شادی کی رات اس نے مجھ سے کہا تھا، ’’ثریا ، تم شاید یقین نہیں کرو گی، لیکن تم میری زندگی میں پہلی اور آخری عورت ہو۔ تم یقین کرو کہ میں تمہیں اپنی زندگی سے بھی زیادہ چاہوں گا۔‘‘ اور میں اس سے چپک گئی تھی۔ میں نے اس کی بانہوں کی چھاؤں کو قبول کر لیا تھا۔ پر مجھے پتہ نہ تھا کہ یہ چھاؤں عارضی چھاؤں ہے۔ کوئی وقت آئے گا، جب میں رات کے اکیلے پن سے ڈرتی رہوں گی اور کوئی بھی چھاؤں نہیں ہو گی میرے لئے۔ آصف کہتا ہے کہ میں وہمی ہوں، میں نے تو پہلی رات کو دل کی گہرائیوں سے اس کی باتوں کا یقین کیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ مرد شادی کی رات اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن میں نے تو اس پر سب کچھ نچھاور کر دیا تھا۔ ابھی ایک سال ہی ہوا ہے اور یہ سبھی باتیں ہوا ہو گئی ہیں۔ اسے کبھی یاد آتا ہو گا کہ اس نے پہلی رات کو کیا کہا تھا! وہ تو سب بھول چکا ہے۔ اب تو جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہے تو مجھے بھی بھول جاتا ہے۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ گھر میں میرے وجود سے ہی بے خبر ہے۔ آخر اسے ہو کیا گیا ہے؟ ایسی کون سی بات ہے جو وہ مجھے بتانا نہیں چاہتا؟ کل جب میں نے اسے بہت کچھ کہا، تب فقط اتنا کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر ہو بھی تو اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ ٹھیک ہے۔ مانا، اس بات کا تعلق مجھ سے نہ بھی ہو، لیکن اس کی جو پریشانی ہے، اسے میں شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ آخر وہ یہ بات سمجھتا کیوں نہیں؟ کیا اسے یہ بات معلوم نہیں کہ وہ ہی میرا سب کچھ ہے۔ اگر وہ پریشان ہے تو میں کیسے خوش رہ سکتی ہوں۔ میرے خدا! وہ سمجھتا کیوں نہیں۔

ثریا نے ماتھے کو زور سے رگڑا۔ اسے سر میں سخت درد ہونے لگا۔

وہ اتنا پریشان کیوں ہے؟ اس کی پریشانی نے اسے مجھ سے جدا کر کے الگ کر دیا ہے۔ میں اس کے ہوتے ہوئے بھی اکیلی اور الگ ہوں اور اس سے کٹی کٹی ہوں۔ نہیں، یہ میری قوت برداشت سے باہر ہے۔ اس کی ایسی حالت ہو اور مجھے کچھ پتہ نہ ہو اور میں اس کے لئے کچھ نہ کر پاؤں! میرے ہاتھوں سے، بانہوں سے، ہونٹوں سے، بدن سے وہ قوت ختم ہو چکی ہے، جو اسے سہارا دے سکے، اس کا دل بہلا سکے۔ میں تو اس کا بچے کی طرح خیال رکھتی ہوں۔ اسے دیکھتی ہوں تو دل کے اندر کتنی خوشی بھر جاتی ہے۔ چاہتی ہوں کہ اسے دیکھتی رہوں۔ اسے چلتے، بیٹھتے، کھانا کھاتے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ میں اسے کتنا چاہتی ہوں۔ کتنا چاہتی ہوں۔ اس کا اسے کوئی اندازہ بھی نہیں ہے شاید!

اچانک دروازے کی گھنٹی بجی اور ثریا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ دروازے پر جا کر اس نے پوچھا، ’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں۔ آصف!‘‘ وہ جیسے غصے میں کھڑا تھا۔

ثریا نے دروازہ کھولا اور ایک امید سے اس کے چہرے کی جانب دیکھا۔ وہ ویسے ہی تھا، الجھا الجھا پریشان۔ آصف اس کی طرف دیکھے بغیر اندر چلا گیا۔ ثریا دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے گئی، آصف بیڈروم میں جا کر سوفے پر بیٹھ گیا۔

’’جان، تم کپڑے بدل لو، تب تک میں کھانا گرم کر کے لے آتی ہوں۔‘‘ ثریا نے کہا۔

’’نہیں، تم تکلیف مت کر۔‘‘ آصف کی ڈوبی ہوئی آواز ابھری۔ اس نے جیسے کوشش کر کے یہ فقرہ ادا کیا تھا۔

’’کیوں؟‘‘ ثریا کو یہ لفظ بہت مشکل لگا۔ ’’تکلیف تو پرایوں کے لئے کرتے ہیں۔ تم مجھے پرایا۔۔ ۔۔‘‘

’’او ثریا ، پلیز!‘‘ آصف نے ہاتھ اٹھا کر اسے اور کچھ کہنے سے روک لیا۔

’’تم کھانا کھا کر آئے ہو کہیں سے؟‘‘ ثریا نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔

’’نہیں، مجھے بھوک نہیں۔‘‘

ثریا نے نچلے ہونٹ کو کاٹا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں وہ اپنا حوصلہ نہ کھو بیٹھے اور اگر بات شروع ہو گئی تو پھر پتہ نہیں کیا کیا بول جائے گی۔

’’تم یہاں آ کر بیٹھو۔‘‘ آصف نے اسے اپنے پاس بلایا۔ ’’مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ آصف دیوار کی طرف دیکھ رہا تھا۔

ثریا نے اسے بغور دیکھا اور پھر نیچے قالین پر رکھی مشین پر بیٹھ گئی۔ آصف چپ رہا۔ ثریا اسکی طرف دیکھتی رہی۔ وہ کتنا کمزور ہو گیا تھا اور کتنا پریشان لگ رہا تھا۔ ثریا کے دل میں اس کے لئے ہمدردی کی لہر اٹھی۔ اس نے چاہا کہ اٹھ کر اس کے پاس جا کر بیٹھے اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر اس کے بالوں میں انگلیاں پھراتی رہے۔ لیکن وہ اٹھ نہ پائی اور اس نے کہا، ’’تم اتنا پریشان کیوں ہو؟‘‘

ثریا کو پتہ تھا کہ اس کے اس رٹے سوال کا جواب رٹا ہوا ہی ملے گا، ’’نہیں، ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘ لیکن آصف چپ رہا۔ اس نے فقط ثریا کی جانب ایک بار دیکھا اور پھر انگلیوں کو مروڑنے لگا۔

ثریا کو خیال آیا کہ وہ چیخ کر سر دیوار سے ٹکرائے اور کہے، ’’میرا کیا قصور ہے جو تم مجھے اتنا ٹارچر کر رہے ہو!‘‘

’’ثریا !‘‘ آصف نے دھیرے سے کہا اور ایک بارا سے دیکھ کر نظریں ہٹا کر نیچے دیکھنے لگا۔

’’مجھے پتہ ہے کہ میں نے تمہیں بہت پریشان کیا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے، لیکن مجھے کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔ میں بھی پریشان رہوں اور تمہیں بھی پریشان کروں، اس سے اچھا ہے کہ بات ایک جانب ہو جائے۔‘‘ وہ چپ ہو گیا۔

ثریا کو ایک انجان سا ڈر محسوس ہوا۔ اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔

’’ثریا ، ہم دونوں کے لئے یہی اچھا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔ جن حالات میں ہم ساتھ رہ رہے ہیں، اس سے تو نہ رہنا ہی اچھا ہے۔ تمہیں مجھ سے پریشانیوں کے سوا شاید اور کچھ نہ مل سکے۔ مجھے دکھ ہے لیکن میں۔ میں کسی کو چاہتا ہوں، اس کے بغیر زندہ نہیں رہ پاؤں گا، ایسی حالت میں۔‘‘ وہ چپ ہو گیا۔

چیخ ثریا کے گلے میں آ کر اٹک گئی۔ اسے لگا اسے ہاتھوں اور پیروں سے جان نکل گئی ہے۔ پھر بھی پتہ نہیں کیسے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’تم کھانا کھا کر نہیں آئے ہو گے۔ میں تمہارے لئے کھانا گرم کر کے لاتی ہوں۔‘‘ وہ ایک ہی بار میں کہہ گئی اور اسے خود پر تعجب ہوا۔

آصف نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا، ’’نہیں، تم بیٹھو، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔‘‘

وہ بیٹھی رہی۔ اس کی ٹانگیں سوکھی لکڑی بن گئی تھیں۔

’’اچھا ہو گا کہ ہم شرافت سے ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں۔ میرا مطلب ہے کہ الگ ہونا ہی ہے تو بیکار کے گلے شکوے سے کیا حاصل! بات بڑھے گی تو اس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ویسے، تمہیں جو کچھ چاہئے تم لے سکتی ہو اور بھی جتنا کچھ ہو سکے گا، میں ضرور کروں گا اور۔‘‘

’’تم۔ تم۔ میں تمہارے لئے کھانا لاتی ہوں۔‘‘ ثریا نے جلدی میں اس کی بات کاٹی اور پھر جلدی کمرے سے باہر نکل گئی۔ وہ کچن میں چولہے کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے ماچس اٹھا کر تیلی جلائی اور جلی ہوئی تیلی چولہے کے برنر کے قریب لائی۔ چولہا بھڑک کر جل اٹھا۔ ثریا کے گلے میں اٹکا ابال اچانک نکل آیا۔ اس کی سانس جیسے اٹک گئی تھی اور پھر وہ دہاڑیں مار کر رونے لگی۔

٭٭٭

 

 

 

 

عاسی

 

اسے فضل خان سے بہت لگاؤ تھا۔ فضل خان بھی اسے کچھ کم پیار نہ کرتا تھا، اس لئے وہ جب باہر جاتا تھا تو وہ بے چین ہو اٹھتی تھی۔ اسے ایک انجانا ڈر ستانے لگتا تھا۔ ایک رات فضل خان سے جھگڑتے اس نے کہہ دیا،

’’تم کہاں باہر جا رہے ہو جو۔‘‘

’’جو! ۔۔ سب ٹھیک تو ہے؟‘‘ فضل خان نے پیار سے پوچھا۔

’’مجھے ڈر لگ رہا ہے!‘‘ اس نے ہچکتے ہوئے کہا۔

’’کیسا ڈر؟‘‘ فضل بھی گھبرا گیا۔

’’بس۔ تم باہر جاتے ہو تو مجھے چین نہیں آتا ہے، پتہ نہیں کیوں۔‘‘

’’پاگل! یہ بھی کوئی بات ہے۔‘‘ فضل خان نے پیار سے اسے اپنے پاس کھینچتے کہا۔ اس نے اپنا سر فضل خان کے سینے پر رکھ دیا۔

وہ غریب رشتے داروں کی لڑکی تھی، لیکن تھی فضل خان کی برادری کی۔ اس کے رشتے دار، فضل خان کے کسان تو نہیں تھے، لیکن سال در سال لاباری (اناج کو کھیتوں سے نکالنا) کے لئے اس کے گاؤں آتے تھے۔ فضل خان نے عاسی کو جب پہلی بار بٹے نکالتے دیکھا، تب اپنا دل ہار بیٹھا۔

عاسی کے رشتے دار خود کو بڑا خوش نصیب سمجھنے لگے، جب فضل خان نے ان سے عاسی کا ہاتھ مانگا، عاسی بھی کم خوش نہ تھی، اور فضل خان کے پیار نے تو خوشی کو دوگنا کر دیا۔ لیکن کبھی کبھی وہ بے قرار ہو اٹھتی تھی، اسے کبھی کبھی یہ ڈر ستانے لگتا کہ کہیں فضل خان دوسری شادی تو نہیں کرے گا۔ اس کے باپ نے بھی تو پانچ شادیاں کی تھیں۔

‘نہیں نہیں، یہ مجھے اتنا پیار کرتا ہے، ایسا کبھی نہیں کرے گا۔‘‘ وہ خود کو دلاسا دیتی۔

حاجی فضل خان اپنے علاقے کا بڑا زمیندار تھا۔ وہ اپنے سبھی بھائیوں میں سب سے زیادہ رعب دار اور طاقتور تھا۔ سبھی بھائیوں میں وہی ایک پڑھا لکھا تھا۔ باپ کی زندگی میں اپنے بڑے چچیرے بھائی کے ساتھ وہ حج پر سے بھی ہو کر آیا تھا۔ باپ کے گزر جانے کے بعد اس کے بھائی آپس میں لڑ کر فالتو خرچ کر کے کنگال ہو گئے۔ فضل خان کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اس کے آباء و اجداد کی زمین، باہر کے لوگوں کے قبضے میں آئے، اس لئے پوری زمین اس نے خود خرید لی۔ پھر جب مشرقی سمت بیراج بنا تو جلد ہی وہاں بھی زمین خرید لی۔ اس کی دیکھ بھال بھی اسے ہی کرنی پڑتی تھی۔ لیکن عاسی کو یہ بات اچھی نہیں لگ رہی تھی کہ حاجی وہاں پر ہفتے کے ہفتے جا کر بیٹھے۔ دھیرے دھیرے اسے محسوس ہونے لگا کہ جب وہ بیاہ کر آئی تھی جو حاجی کا اس سے کتنا پیار تھا۔ پورے تین مہینے کبھی باہر نہیں گیا تھا۔ اس کے بعد جاتا تھا، تو جلدی لوٹ آتا تھا۔ جب پہلا بچہ ہوا تھا تو وہ کتنا خوش ہوا تھا، پورا دن وہ باہر نہ نکلا تھا۔ پہلا بچہ اپاہج تھا، لیکن ان کے چہرے تک پر کوئی شکن نہ آئی اور جب تھوڑے دنوں کے بعد بچہ مر گیا، تو وہ بہت ہی غمگین ہو گیا۔ لیکن بعد ازاں دھیرے دھیرے اس میں تبدیلی آتی گئی اور اب عاسی کو محسوس ہونے لگا کہ باہر بھی بہت دن تک رہتا ہے، آخر اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے! وہ زیادہ سوچ نہ پاتی تھی۔

بیٹھے بیٹھے وہ کسی خیال میں ڈوب جاتی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگتے تھے۔ آنسوؤں کا تو تالاب تھا، اس کی آنکھوں میں جو جلدی سے اچھل پڑتا تھا۔ جب سے لگاتار اس کی اولادیں نہیں بچی تھیں، تب سے آنسوؤں کا تالاب اچھلتا رہتا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ اب اس کی کوئی بھی اولاد نہیں بچے گی۔ وہ خود کو منحوس سمجھ کر کوستی رہتی تھی اور حاجی اسے مناتا، چپ کراتا، تھک جاتا تھا۔

’’اتنے آنسو کہاں سے آئے، عاسی! اتنا مت رو۔‘‘

’’اپنے پھوٹے نصیب پر روؤں نہیں تو کیا کروں؟‘‘

’’پاگل، بیکار روکر خود کو ہلاک کر رہی ہو! تمہارا نصیب کیوں پھوٹا ہے؟‘‘

’’پھوٹا ہوا نہیں تو اور کیا ہے؟ خدا جو دیتا ہے، وہی جلدی واپس لے لیتا ہے۔ میرے جیسا نصیب خدا کسی کا نہ کرے۔‘‘ وہ آنسو بہاتی رہی اور پیروں فقیروں کو جگاتی رہی، منتیں مانگتی رہی۔ آخر اس نے ایک تندرست لڑکے کو جنم دیا۔ اس نے خدا سے بہت منتیں کیں کہ اس بچے کو وہ بخش دے۔ جب اس کا لڑکا کچھ بڑا ہوا، تو بڑے دھوم دھام سے صدقہ و خیرات کی گئی۔ عاسی تو خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھی۔

اسکے پیار میں کوئی دوسرا شریک ہو، یہ بات فضل خان کو اچھی نہیں لگی۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کا اور عاسی کا پیار کچھ کم ہو گیا ہے، کچھ تقسیم ہو گیا ہے۔ اسے یہ بھی محسوس ہونے لگا کہ عاسی میں اب پہلے جیسا تمتما نہیں رہا ہے اور شاید اس لئے گھر میں بھی کوئی کشش نہیں رہ گئی تھی! وہ بیراج والی زمین پر زیادہ رہنے لگا۔ یہ بات عاسی نے پہلے بھی محسوس کی تھی، لیکن اب اسے پکے طور پر احساس ہوا، لیکن وہ کچھ سمجھ نہ سکی۔ اس نے چاہا کہ حاجی سے پوچھ کر بات صاف کرے، لیکن اس نے خود میں اتنی ہمت محسوس نہیں کی۔ دھیرے دھیرے اسے باتیں سننے کو مل رہی تھیں کہ فضل خان کا کسی سے جھگڑا ہو گیا ہے اور یہی سبب ہے کہ وہ بیراج والی زمین پر زیادہ دیر تک رہتا ہے۔ جب پہلی بار اس نے یہ سنا، تب اس نے ایسا سمجھا تھا کہ یہ کوئی افواہ ہے، وہ اس کے ساتھ کبھی بھی ایسا نہیں کرے گا۔ جب یہ بات زور پکڑنے لگی، تب اسے بھی ڈر ستانے لگا۔

’’حاجی۔ میں نے سنا ہے، کہ۔‘‘ اس کا صبر جواب دے گیا اور پوچھنے پر مجبور ہو گئی۔ وہ بہت گھبرا رہی تھی۔ الفاظ اس کے گلے میں اٹک رہے تھے۔

’’کیا سنا ہے؟‘‘ فضل خان نے تعجب میں پوچھا۔

’’کہ۔۔ ۔ کہ مشرق والے کھیت پر۔‘‘

’’کیا ہے وہاں، بتاؤ؟‘‘

’’وہاں پر کوئی رانڈ تم نے۔۔ ۔‘‘ وہ زیادہ بول نہ پائی۔

فضل خان سب سمجھ گیا۔

’’تمہیں میرے اوپر یقین ہے یا لوگوں پر!‘‘

لیکن آخر لوگوں کی بات سچ نکلی اور ایک بار فضل خان کھیت پر گیا تو کچھ عرصے تک وہیں بیٹھا رہا۔ وہ دن قیامت جیسے دن تھے عاسی کے لئے۔ وہاں کی تصویر یاد آتے ہی اسے ڈر لگنے لگتا۔

ایک دن فضل خان آیا، لیکن وہ اکیلا نہ تھا، اس کے پیچھے دلہن کے لباس میں ایک عورت کھڑی تھی۔ عاسی ہڑبڑا گئی، جیسے کہ اس کے آگے کوئی بم پھٹا تھا، جس نے اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ اس کی آنکھوں سے ایسے آنسو نکل رہے تھے، جیسے بڑی بوندوں والی بارش۔ اس رات دیر تک وہ سو نہ سکی تھی اور آنسوؤں کا سیلاب ایک بار پھر اچھل پڑا۔

عامی، عاسی سے زیادہ بھاری نہ تھی، لیکن اس کی جوانی اور سانورے رنگ کے آگے، عاسی کم لگ رہی تھی۔ اب اسے یقین ہو گیا تھا کہ خوشی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ فضل خان سب دیکھ رہا تھا، لیکن اس کے اوپر دھیان دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس کے بڑوں نے بھی تو اس بات پر کبھی دھیان نہیں دیا تھا۔

عاسی نے عبادت شروع کر کے دی۔ خدا کو پکارنے کے علاوہ وہ تعویذ اور ٹونے بھی کراتی رہی۔ دھیرے دھیرے اس کے دل میں فضل خان کے لئے جو پیار تھا وہ کم ہوتا، ختم ہو کر اولاد کے پیار سے جا ملا۔ اس کا بڑا لڑکا اسکول میں پڑھتا تھا۔ دوسرے بچے کو پیدا ہوئے ایک سال گذر چکا تھا۔ اس کا شوہر چھوٹے کو بہت چاہتا تھا۔ عامی کے آنے کے بعد عاسی چھوٹے کو شوہر کی طرف جانے سے روکنے لگی۔ عامی کو بچے کی بہت آرزو تھی، وہ عاسی کے بچوں کو بہت پیار کرتی تھی۔ ایک دن فضل خان نے چھوٹے کو لانے کے لئے دائی کو بھیجا۔ لیکن عاسی نے دائی کو صاف جواب دے دیا۔

فضل خان کو طیش آ گیا، وہ خود اٹھ کر آیا۔ کچھ سوچ کر دھیرے سے کہا،

’’کیوں عاسی، چھوٹے کو کیوں نہیں دیا؟‘‘

’’چھوٹے میں آپ کا کیا؟ آپ کو خدا اپنا دے گا۔‘‘ اس کی آنکھیں بھر گئیں اور فضل خان چپ چاپ باہر نکل گیا۔

عامی کو بیٹا تو ہوا، لیکن وہ اس کے لئے جیسے چھلاوہ بن گیا۔ فضل خان بہت رویا، لیکن عاسی کو ایسا محسوس ہوا، جیسے کوئی آفت ٹل گئی۔

فضل خان اور عاسی پھر ایک دوسرے سے ایسے رہنے لگے جیسے کہ ہمیشہ سے ہی ایسے رہتے آئے ہوں۔ فضل خان اب اچھی طرح جانتا تھا کہ عاسی اب اس کے منہ بالکل نہیں لگ رہی اور وہ خود کو ایسے تباہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے خود کو پرکھا۔ وہ تو بالکل جوان تھا، جوانوں سے بھی دو قدم آگے اور اسے اپنے جیسی جوان عورت کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ عاسی تو اب تین بچوں کی ماں تھی، اس سے پہلے تو اس کے کتنے ہی بچے مر چکے تھے۔ لیکن عاسی ایسا بالکل نہیں سوچ رہی تھی۔ اس کا پیار اب پہلے جیسا نہیں تھا، لیکن اب اس میں ایک اور رنگ آ گیا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کا شوہر اسے گالیاں دے، مارے، لیکن اسے پھر سے چھوڑ کر نہ جائے۔ اب وہ پہلے جیسا تھوڑی تھوڑی بات پر روٹھتی نہیں تھی۔ اسے گالیوں میں بھی مزہ آتا تھا اوراس پر خدا کا شکر ادا کرتی تھی۔

اچانک ہی ایک بار پھر سے اس کی زندگی میں سیلاب آیا۔ وہ خدا کو پکارتی رہی، ’’ہے خدا! میں جانا کا منہ بھی نہیں دیکھوں گی۔‘‘ اور جب دلہن گھر میں داخل ہوئی تو اس نے منہ پھیر لیا، اس کی آنکھوں سے پتہ نہیں کیوں فقط دو تین آنسو گرے اور مٹی میں مل گئے۔

جانا بھینس لگ رہی تھی، چلتی تھی تو جیسے زمین کانپ رہی تھی۔ وہ مزاج کی اچھی تھی، اسے شاید عاسی پر ترس آنے لگا تھا، اس لئے وہ عاسی سے اچھے سے پیش آئی، لیکن عاسی کو تو جانا کی شکل صورت ہی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ جب جانا کی ماں، جو ڈیل ڈول میں اپنی لڑکی سے دوگنی تھی اور دو تین قدم چلتے ہی ہانپنے لگتی تھی، اپنی لڑکی سے ملنے آئی تو اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ ہانپنے ہانپنے لڑکی کو سمجھانے لگی،

’’پاگل مت بن، شوہر کو ایسے قابو میں نہیں کرتے ہیں۔ عاسی تجربے کار ہے، تم تو ابھی اس کے آگے چھوٹی بچی ہو۔ عاسی سے الگ رہو، شوہر کو عاسی سے ملنے نہ دو، اسے شوہر کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہ ہونے دے۔ بوڑھے آدمی کا دل جیتنا جو بہت آسان ہے۔‘‘ جانا مینڈک کی طرح پھول گئی، جب اس کی ماں نے دیکھا کہ اب وہ پھٹنے پر ہے، تب جا کر چپ بیٹھی اور پھر تو ایک دم ہی بدلاؤ ہو گیا۔ جانا نے شوہر کو قابو میں کر لیا۔ اس کی ماں نے شکریہ ادا کیا اور وہ لڑکی کو کچھ اور سمجھا کر، سامان کی گاڑی بھروا کر چلی گئی۔

جانا کی ماں نے پتہ نہیں کیا کان بھرے، عاسی کے لئے جیسے پانی ابلنے لگا۔ تل کا پہاڑ بننے لگا، بات بات میں جھگڑا ہونے لگا، بات جا کر گالی گلوچ تک پہنچی۔ چپ رہنا تو عاسی کے لئے بھی مشکل تھا۔ فضل خان ہمیشہ جانا کی ہی طرفداری کرتا تھا، عاسی کو کئی گالیاں دے کر نکلتا تھا۔ اب گھر میں عاسی کی عزت بہت کم ہو گئی تھی۔ اس کا پورا سر سفید ہو گیا تھا، چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں، تھوڑی اور بازو کا گوشت لٹک گیا تھا۔ اسے قیدیوں کی طرح کھانا اور کپڑا دیا جاتا تھا۔ گھر کے گھٹن بھرے ماحول میں وہ یہ بھول گئی تھی کہ باہر کیا ہے؟

ایک بار وہ بہت بیمار پڑ گئی، مرنے کے قریب پہنچ گئی تھی۔ اس نے فضل خان کی طرف ایک آدمی بھیجا، لیکن اس نے پوری بات سنی تک نہیں، جیسے عاسی سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ دھیرے دھیرے عاسی کے دل میں اس کے لئے نفرت پیدا ہونے لگی۔ فضل خان کی کسی تکلیف کے بارے میں سن کر اسے فکر کے بجائے خوشی ہوتی تھی۔ اب جب دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر وہ حاجی کو بددعا دیتی تھی تو اسے بالکل دکھ نہیں ہوتا تھا۔ اس کے شوہر نے تو اس کی آنتوں کو بھی چھین لیا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھ رہا تھا کہ عاسی کی اولاد اس کی اپنی اولاد تھی، جیسے کہ اس کی پہلے کی اولادیں تھیں۔

جانا نے فضل خان کو اتنی اولادیں پیدا کر کے دیں، جو اسے کسی اور کی یاد بھی نہ آتی تھی۔

عاسی نے سنا کہ اس کا شوہر بہت بیمار پڑ گیا ہے۔ لیکن اس نے کوئی دھیان نہیں دیا۔ جیسے کہ اس بات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ اس کا شوہر بیمار پڑ گیا تو اس کے لئے کیا، اگر اچھا بھلا ہو تو کیا! فضل خان کی بیماری نے زور پکڑ لیا۔ اچانک اسے سالوں سے بھولی عاسی کی یاد آ گئی۔ اس نے پریشان ہوتے کہا،

’’عاسی کمینی ہے! ۔۔ میری اتنی بڑی بیماری کو سن کر بھی مجھے پوچھنے نہیں آئی۔‘‘

عاسی کو اس کے بیٹوں نے مجبور کیا کہ اس حال میں والد کو کو چل کر ضرور دیکھے، نہیں تو دنیا ہنسے گی۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ پھر کبھی جانا کے دروازے پر پیر نہیں رکھے گی، لیکن بیٹوں کے زور دینے پر وہ دل پر پتھر رکھ کر جانا کے گھر میں گھسی۔

’’سنو جی! سنا ہے کہ مجھے طعنے دے رہے تھے؟ مجھے تمہارے طعنے لگتے بھی ہیں!‘‘ اس نے اپنے پن سے کہا۔

’’نہیں نہیں۔ طعنے کیسے! تم نہیں پوچھو گی تو کیا، پوچھنے والے اور بھی کئی ہیں۔ تمہارے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں!‘‘

عاسی نے منہ پھیر لیا۔ لیکن اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں گرے۔ اس کی آنکھیں سوکھ چکی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

چتھڑے جتنا آسمان

 

 

(۱)

 

آنکھ کھلتے ہی نواز نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ چھ بجے تھے۔ اس کے بعد پھر سے اس کی آنکھیں بند ہو گئیں اور نیند نے گھیر لیا۔ کچھ دیر کے بعد اسے محسوس ہوا کہ وہ جاگ رہا تھا۔ اس نے پوری طرح سے بیدار ہونے کی کوشش کی اور خود کو نیند کے گھیرے سے آزاد کرنا چاہا، لیکن اس میں اتنی قوت نہیں تھی۔ آنکھیں کھل رہی تھیں، پھر سے بند ہو رہی تھیں۔ اس نے خود کو بے حد تھکا ہوا، بے حد کمزور محسوس کیا۔ وہ کتنی ہی دیر تک نیم بیداری اور نیم غنودگی کی حالت میں رہا۔ آخر جا کر نیند کی گہرائی سے ابھر کر باہر نکلا اور سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔ اس کے بعد بھی اٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ نواز نے آسمان کی سمت دیکھا۔ چتھڑے جتنی جگہ کھلی ہوئی تھی، جس میں سے آسمان کا چوکور ٹکڑا نظر آ رہا تھا۔ چاروں جانب طویل دیواریں تھیں اور ان کے درمیان میں اس کی کنویں جتنی کوٹھری اور تنگ آنگن تھا، جس میں دو کھاٹ رکھنے جتنی جگہ تھی۔ نواز کی کھاٹ بھی وہیں پڑی تھی، باورچی خانہ اور نہانے کی جگہ بھی وہیں تھی۔ اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے نواز کی آنکھیں، کبھی کبھی سامنے والی اونچی دیوار میں اٹک جاتی تھیں۔ اس نے بے حد تھکان بھری، لمبی جمائی لی اور تنگ ہو کر کروٹ بدلی۔ اسے اٹھنے کا خیال آیا، لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ساکت تھا۔ اس کا انگ انگ سن تھا، جیسے کہ کسی نے نچوڑ دیا تھا۔ اسے ایسا لگا اور ہر صبح اسے ایسا لگتا تھا جیسے پوری رات سویا ہی نہ ہو اور رات کروٹیں بدل کر گزری ہو۔

وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھا اور لمبی جمائی لے کر مردہ قدموں سے کوٹھی کے اندر گھس گیا۔ پیٹی کی طرح بند کوٹھی میں سانس گھٹ رہی تھی۔ آئینہ اٹھا کر منہ دیکھا۔ آئینے میں نواز کو اپنا زرد، سوکھا چہرہ نظر آیا اور اس نے آئینہ رکھ دیا۔ اس نے سوچا کہ اٹھتے ہی وہ کوٹھی میں کس کام سے گیا تھا۔ ’’فقط آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کے لئے!‘‘ وہ روز ایسا ہی کرتا تھا اور پھر اسے خود پر غصہ آتا تھا۔ وہ باہر نکل گیا۔ لوٹا لے کر اسے پانی سے دھوکر کھاٹ پر رکھ کر، قمیض پہنی۔ اس کے بعد تالا اور لوٹا لے کر باہر آیا۔ دروازے پر تالا لگا کر، چابی جیب میں ڈال کر، اندھیری بدبو دار سیڑھی سے نیچے اتر گیا۔

نیچے کھلا میدان تھا۔ وہ پڑ تھا، جس کے وسط میں علم نصب تھا، تینوں اطراف خالی علاقہ تھا اور دور سڑک تھی۔ نواز نے لمبی سانس لے کر پھیپھڑوں میں تازی ہوا بھری۔ اس کے بعد وہ سیدھے ہاتھ والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اندر بھینس کا باڑہ تھا۔ وہاں بازار کے مقابلے میں زیادہ دودھ ملتا تھا۔ اندر ایک تختے پر دودھ کی بالٹیاں بھری رکھی تھیں۔ باڑے میں مال کے بھوسے اور پیشاب کی بو تھی۔ بچو نہیں تھا۔ شاید اوپر گیا تھا۔ باڑے کے اوپر اس کا گھر تھا۔

نواز باڑے سے باہر نکل گیا اور دروازے کی دیوار سے پشت لگا کر کھڑا ہو گیا۔ برابر والے گھر کی بالکنی میں شاہ، کرسی پر بیٹھ کر بیڑی پی رہا تھا اور وقفے وقفے سے کھانس رہا تھا۔ بالکنی کے نیچے بچو کا لڑکا صدیق لکڑیاں کاٹ رہا تھا۔ اس کا باپ دودھ کا دھندہ کرتا تھا اور صدیق لکڑیاں کاٹ کر بیچتا تھا۔ صدیق گردن نیچے کئے لکڑیاں بھی کاٹ رہا تھا اور شاہ سے باتیں بھی کر رہا تھا۔ شاہ کی تھوڑی بہت زمین تھی، لیکن اس سے زیادہ اس کا پیری مریدی کا دھندہ چلتا تھا۔ مہینے کے کچھ دن شہر میں رہتا تھا اور کچھ دن گاؤں میں۔ وہ ادھیڑ عمر کا تھا۔ رنگت کا کالا اور شکل موالیوں جیسی تھی۔ نواز کو اس کی پیلی آنکھوں میں سفید کیچ نظر آئی۔ اس کا جی متلانے لگا اور منہ گھما کر دور سڑک کی جانب دیکھنے لگا، جہاں سے وقفے وقفے سے کوئی رکشا یا تانگے نکل رہے تھے۔ سڑک پر چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ ایک رکشا آ کر کھڑا ہوا اور اس میں سے کالے برقعے میں ایک عورت اتری۔ اس کی فقط آنکھیں نظر آ رہی تھیں اور منہ پر نقاب تھا۔ یہ پردے کا خاص طریقہ تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی پڑ میں آئی اور شاہ کی بالکنی سے گزر کر، اندھیرے والی سیڑھی چڑھ گئی۔

’’نائٹ ڈیوٹی کر کے آ رہی ہے کیا؟‘‘ شاہ نے ہنس کر کہا اور اس کی آنکھوں کا پیلا پن مزید گہرا ہو گیا۔ صدیق، جو کلہاڑی ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا تھا اس نے بڑا قہقہہ لگایا اور کلہاڑی زور سے تنے پر مارا۔ شاہ نے بیڑی کا گہرا کش بھرا اور ہنستے ہنستے کھانسنے لگا۔

نواز اندر باڑے میں گھس گیا۔ بچو بالٹیوں کا دودھ ناپ رہا تھا۔ اس نے ایک بن لیا اور واپس لوٹا۔ شاہ کی بالکنی سے گزرتے ہوئے، اس کی گردن نیچے تھی۔ اس نے شاہ اور صدیق کی طرف دیکھنا نہیں چاہا۔ اس نے سوچا کہ وہ کس کوٹھی میں گھس گئی ہو گی۔ اس کے بازو والی کوٹھی میں یا اوپر کی جو کوٹھیاں تھیں؟ اندھیری سیڑھیاں چڑھتے اسے خیال آیا کہ اس کے بارے میں شاہ اور صدیق کیا کہتے ہوں گے؟ ‘وہ مجھے پہچانتے ہیں یا کچھ اور سمجھتے ہیں؟ پڑوس میں لوگوں سے الگ رہنے کے سبب ہو سکتا ہے کہ لوگ مجھے پہچانتے نہ ہوں اور میرے لئے برا سوچتے ہوں۔ انہیں یہ پتہ نہ ہو گا کہ میں ایک شریف آدمی اور سرکاری آفس میں کلرک ہوں۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ میں بھی کوئی نائٹ ڈیوٹی کر کے آنے والی کسی عورت کی کمائی پر جیتا ہوں۔‘‘ اسے اپنے آپ پر طیش آیا۔ ’’لوگوں کو جو چاہئے بھونکتے رہیں۔ لوگوں کے کہنے سے میں ہو نہیں جاؤں گا۔‘‘ دروازے کا تالا کھولتے اسے شاہ کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی، ’’نائٹ ڈیوٹی کر کے آ رہی ہے کیا؟‘‘

’’اہوں، نائٹ ڈیوٹی۔‘‘ نواز غصے میں بڑبڑایا اور اندر جا کر دروازہ بند کیا۔ دودھ کا لوٹا چولہے پر رکھ کر، اس کے اوپر تھالی رکھ دی۔ اس کے بعد برتن میں پانی بھر کر اوپر جاتی سیڑھی کے نیچے بنے پاخانے کا دروازہ کھول کر اندر گھس گیا۔ پاخانے کی تیز بدبو اس کی ناک میں چلی گئی۔ اسے خیال آیا۔ میں اس جگہ سے شاید مر کر نکلوں اور یہاں تو میری لاش بھی جلدی سڑ کر بدبو پھیلا دے گا۔ کوئی اور اچھی جگہ ملنے کی تو کوئی امید ہی نہیں۔ پوری عمر اس کال کوٹھری میں سڑ سڑ کر گزر جائے گی۔‘‘ نواز نے جب پہلی بار یہ جگہ دیکھی تھی، تب اس کے دل پر بوجھ پڑ گیا تھا۔ اسے جگہ کی اور وہ بھی سستی جگہ کی سخت ضرورت تھی، لیکن اس جگہ میں رہنے پر اسے کوئی خوشی نہ ہوئی۔ ’’میں وہمی نہیں ہوں، لیکن اس وقت سے میرے دل میں یہ وہم ہو گیا ہے کہ یہ کوٹھی میرے لئے قبر ہے۔ اس میں میرا کوئی قصور بھی نہیں۔ یہ فقط وہم بھی تو نہیں تھا۔ جگہ ہے ہی ایسی۔ آگے اور برابر سے بڑی بڑی آسمان تک جاتی دیواریں اور ان کے بیچ میں یہ کنویں جیسی بند کوٹھی۔ یہ جگہ انسانوں کے رہنے لائق ہے؟ یا تو میں انسان نہیں ہوں جو ایسی جگہ پر آ کر رہ رہا ہوں۔ لیکن فقط میں ہی تو نہیں ہوں۔ کئی اور بھی جو رہتے ہیں یا رہتی ہیں! ایسی اندھیری پوشیدہ جگہ میں۔ ان کے لئے ٹھیک ہے۔ یہ سبھی آئی کہاں سے ہیں؟ اچھا ہوتا بازار میں جا کر رہتیں۔ وہاں بھی بہت ہو گئی ہوں گی اور جگہ نہیں ملتی ہو گی۔ اور پھر یہاں پر ان کی حفاظت بھی ہے۔ آس پاس شریف لوگوں کا محلہ ہے۔‘‘ نواز کو خیال آیا، کہ اس جگہ سے کوئی بھی آتا جاتا ہے، اسے لوگ شکی اور عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ’’ہو سکتا ہے یہ میرا وہم ہو۔ لیکن نہیں، میں یہاں رہنا ہی نہیں چاہتا۔ مجھے اس کال کوٹھری سے ہی نفرت ہے۔‘‘

وہ پاخانے سے نکل کر باہر آیا۔ کمرے سے برش اور پیسٹ لے کر آیا اور دروازے کے باہر جاتے نالے کے آگے دانتوں پر برش کرنے لگا۔ وہاں سے فارغ ہو کر چائے کی چھوٹے برتن کو پانی سے دھوکر ڈیڑھ کپ پانی ڈالا اور چولہا جلا کر اس پر رکھا۔ خود لکڑی کے اسٹول پر دیوار سے پیٹھ ٹکا کر بیٹھ گیا۔ گھر میں کچن نہیں تھا، اس لئے اس نے آنگن کے ایک کونے میں عارضی کچن بنایا تھا۔ وہ سر دیوار سے ٹکا کر تنگ آنگن کی لال اینٹوں کو دیکھنے لگا۔ اندر کوٹھی میں سیمنٹ کا پلاسٹر اور اس پر چونا پوتا ہوا تھا، لیکن باہر کی دیواریں ننگی تھیں۔ ان پر پلاسٹر نہیں تھا اور نہ ہی چونا پوتا تھا۔ لال اینٹیں دیکھ کر اسے ایسا لگتا تھا جیسے کہ ڈراؤنے جانور، لال لال خون سے بھری زبانیں نکال کر اسے گھور رہے ہیں۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ برتن میں پانی کے ابلنے کی آواز آنے لگی تو اس نے آنکھیں کھولیں اور چائے بنائی۔ اس نے برتن اتار کر چائے مگ میں ڈالی۔ رات کو لی، ڈبل روٹی لے کر آیا اور مگ میں ڈبو کر کھانے لگا۔ پہلا مگ ڈبل روٹی چوس گئی۔ اس نے دوسرا مگ بھر کر چائے پی، اس کے بعد برتن اور مگ کو دھوکر رکھا۔

وہ کمرے سے شیونگ کا سامان لے آیا۔ پیالی میں پانی ڈال کر کھڑکی پر آ کر رکھا۔ آئینے کو کھڑکی کی کنڈی پر اٹکا کر، کریم، برش پر رکھ کر داڑھی پر لگانے لگا۔ اس نے بلیڈ نکال کر سیفٹی ریزر میں ڈالنا چاہا۔ ’’تیسرے دن میں نے بلیڈ کا کون سی سائیڈ استعمال کی تھی؟‘‘ اس نے یاد کرنا چاہا، لیکن اسے یاد نہ آیا۔ ’’پتہ نہیں کون سی سائیڈ تھی! مصیبت ہے۔ میں یہ بات ہمیشہ بھول جاتا ہوں۔ دن بدن میری یادداشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ابھی پرسوں ہی شیو کیا تھا اور بلیڈ رکھتے وقت بھی یاد کرنے کی کوشش کی تھی۔ پھر بھی بات بھول گیا۔ پتہ نہیں کون سی سائیڈ تھی۔ لیکن اس بلیڈ سے تو یہ چوتھی بار شیو ہے۔ ایسے تھرڈ کلاس بلیڈ سے چار شیو مہنگے تو نہیں ہیں۔ پہلے کے دو شیو تو ہر ایک دھار سے اچھی بن جاتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد شیو کچھ مشکل لگتی ہے۔ جیسے تیسے کام چل جاتا ہے۔ ہفتے میں ایک بلیڈ کافی ہے۔ میں کوشش تو بہت کرتا ہوں، لیکن پھر بھی بچت نہیں ہوتی کہ گاؤں میں کچھ پیسے بھیج سکوں۔ میں خود پر کم سے کم پیسے خرچ کرتا ہوں۔ کھینچ کھینچ کر مہینہ پورا ہوتا ہے۔ اس لئے تو میں لوگوں سے زیادہ گھلنے ملنے سے کتراتا ہوں۔ دوپہر کا کھانا گھر میں کرنا مشکل ہے۔ آدمی آفس سے تھک ہار کر آئے تو کھانا کھا کے آدھا ایک گھنٹہ آرام کرے۔ تھکاوٹ اور بھوک میں کھانا بنانا مجھ سے نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی بنانا پڑتا ہے۔‘‘ وہ شیو بنا چکا تھا۔ اس نے منہ دھویا اور تولیہ سے منہ کو پونچھا۔ اس وقت آٹھ بج رہے تھے۔ وہ جلدی جلدی میں کپڑے پہننے لگا۔ آفس کا وقت ساڑھے سات کا تھا، لیکن وہ ٹھیک وقت پر پہنچ نہیں پاتا تھا۔ روز ڈر ڈر کر جاتا تھا کہ آج ڈانٹ پڑے گی۔ ڈانٹ پڑتی تو دوسرے دن تھوڑا جلدی جاتا تھا۔

وہ کپڑے پہن کر جانے کے لئے تیار ہوا، تو کسی نے دروازے پر دستک دی۔ صفائی والی آئی ہو گی! اس نے سوچا اور جا کر دروازہ کھولا۔ باہر صفائی والی کھڑی تھی۔

صفائی والی نے کوئی جواب نہیں دیا اور اندر گھس آئی۔ نواز مٹکے سے پانی نکال کر ڈبے میں ڈالنے لگا۔ ’’اس بوڑھی نے تو تنگ کیا ہے۔ آفس جانے کے لئے تیار ہوں گا تو اوپر سے آ کر دستک دے گی۔ اگر کوئی نوجوان ہوتی تو کم سے کم صبح صبح کوئی اچھی شکل تو دیکھنے کو ملتی۔‘‘

صفائی والی، صفائی کر کے چلی گئی اور نواز بھی تالا لے کر باہر آیا۔ دروازے کو تالا لگاتے اسے خیال آیا، ’’کچھ لینا بھول تو نہیں گیا ہوں! لگتا ہے کوئی چیز بھول گیا ہوں۔ بہت بھلکڑ ہو گیا ہوں، کیا کروں؟ ایک بات ہے کہ اگر کوئی چیز بھول جاتا ہوں تو دل میں گھومتی رہتی ہے۔ آج بھی گھوم رہی ہے۔ کون سی چیز بھول گیا ہوں؟‘‘ اس نے دماغ پر زور ڈالا، لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا۔ وہ خود پر چڑ کر جلدی جلدی بدبو دار سیڑھی سے نیچے اتر گیا۔

 

(۲)

 

اس سال تو مارچ کے مہینے میں ہی گرمیاں شروع ہو گئی تھیں۔ دھوپ میں زیادہ تپش آ گئی تھی۔ دن گرم ہو گئے تھے، باقی رات کچھ ٹھنڈی تھی۔ نواز رات کو باہر ایک کھاٹ رکھنے جتنے آنگن میں سو سکتا تھا، جہاں کبھی کبھی ہوا کا کوئی جھونکا، لمبی دیواروں سے ٹکرا کر اسے آ کر لگتا تھا، لیکن اصل مسئلہ دن کا تھا۔ آفس سے لوٹ آنے کے بعد وہ کہاں جائے! پیٹی جتنی بند کوٹھی میں پنکھا بھی نہ لگوایا تھا۔ پنکھا خرید کر کے لگوانا نواز کی پہنچ سے باہر تھا۔ اس نے کئی بار سوچا کہ پیڈسٹل فین یا کم سے کم ٹیبل فین خرید کرے۔ اس سے فائدہ یہ تھا کہ دوپہر کو کوٹھی میں اور رات کو آنگن میں کام آ سکتا تھا۔ تنخواہ سے جیسے تیسے گذارا ہوتا ہے۔ اس نے آفس سے قرض لینے کی کوشش کی تھی، وہ کام بھی ابھی ہو نہ سکا تھا۔

گرمی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ہی گھٹن بھی۔ نواز نے چاول بنانے کا خیال دل سے اتار دیا۔ اس نے پیالی لی اور دروازے کو تالا لگا کر نیچے اتر گیا۔ اس نے پہلے دہی لیا اور اس کے بعد ہوٹل سے دو روٹیاں لیں اور واپس لوٹ آیا۔ مرچ کی آگ سے تو پھر بھی دہی پیٹ کو ٹھنڈا رکھتی ہے۔ اس نے کھانا کھا کر، پیالی کو پانی سے دھوکر رکھا۔

آنگن جتنا ٹکڑا پورا سیاہ تھا۔ اس نے کوٹھی کے دروازے تک قالین بچھا کر اس پر تکیہ رکھ کر منہ آنگن کی طرف کر کے لیٹ گیا۔ کبھی کبھی گرم ہوا آ رہی تھی تو وہ اخبار سے خود کو ہوا جھلنے لگا۔ ایسی تپش میں بھی اسے نیند گھیر رہی تھی، لیکن کوٹھی کی گھٹن اور گرمی کے سبب نیند کے حصار سے باہر نکل رہا تھا۔ تکیے پر رکھی گردن پوری طرح پسینے سے بھیگ گئی تھی۔ اس نے گیلی قمیض اتاری اور اسے کرسی پر پھینک دیا۔ بنیان تو وہ پہنتا ہی نہ تھا۔ اس نے شلوار کے دونوں پائنچوں کو کھینچ کر اوپر گھٹنوں تک کیا اور لیٹ گیا۔

آفس سے آتے وقت اس نے سوچا تھا کہ گھر نہیں جائے گا۔ بس میں چڑھ کر رانی باغ میں چلا جائے اور وہاں لان کے کسی پیڑ کی چھاؤں کے نیچے جا کر سو جائے۔ اس نے پچھلی گرمیاں بھی ایسے ہی کاٹی تھیں۔ آفس سے لوٹ کر، کلو پکوڑے والے کے پاس آتا تھا اور وہاں سے ڈبل روٹی اور پکوڑے لے کر، بس میں چڑھ کر رانی باغ جاتا تھا۔ کسی گہرے پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر ڈبل روٹی اور پکوڑے کھا کر، نل سے پانی پی کر لیٹ جاتا تھا۔ کبھی نیند آتی تھی، کبھی نہیں بھی آتی تھی۔ لیکن ان گرمیوں میں یہ سلسلہ پھر سے شروع کرنا مشکل تھا۔ پکوڑے کھا کھا کر اس کا ہاضمہ بگڑ گیا تھا۔ اب وہ آفس سے لوٹ کر، ہوٹل سے روٹیاں لے کر گھر آتا تھا اور جیسی تیسی سبزی بنا کر کھاتا تھا۔

پسینے سے تر بالوں میں انگلیاں پھیرتے، اسے یاد آیا کہ اس کے بالوں میں کافی سفید بال آ گئے تھے۔ بال تو کبھی بھی سفید ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے عمر کی کوئی حد نہیں۔ آج کل تو چھوٹی عمر کے لوگوں کے بھی بال سفید ہونے لگے ہیں اور اس نے سوچا کہ اس کی عمر تو پھر بھی پچیس سال تھی۔ لیکن وہ اس عمر میں ہی بوڑھا ہونے لگا تھا۔ کم سے کم نوجوانی تو اس نے دیکھی ہی نہ تھی۔ اسے یاد آیا کہ جب سے اسے ہوش آیا، اس نے خود کو بڑا سمجھا، گھر کا پورا بوجھ، سبھی ذمے داریاں اس کے اوپر آن پڑی تھیں۔

‘میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ ’’میرے ہونے سے کیا فرق پڑا ہے! میں نے گھر والوں کے لئے کون سے بڑے کام کئے ہیں۔ دو پاٹوں میں پس رہا ہوں۔ پس کر نہ آٹا بن رہا ہوں اور نہ ہی جان چھوٹ رہی ہے۔ ایک گہری اذیت ہے، جس سے نہ دن بچے ہیں نہ راتیں۔ اور اس زندگی کی فقط کمائی ہے، یہ قبر جتنی کوٹھی! ’ اس وقت کوٹھی کی گھٹن اور گرمی میں زندگی کے سبھی زخم مل گئے ہیں۔

دل کے کسی درد بھرے کونے سے شہناز کی یاد، لو کی طرح اس کے تن دل کو جلا گئی۔ اسی کوٹھی میں شہناز بھی رہ کر گئی تھی۔ نواز کو جب نوکری ملی تھی اور وہ کم کرائے والی جگہ کی تلاش کر رہا تھا، تب اسے کسی نے بتایا تھا کہ شہناز کے لوگ وہ جگہ خالی کرنے والے تھے۔ اسے وہ جگہ شہناز کے لوگوں نے ہی دلائی تھی، لیکن تب بازاری عورتوں نے یہاں رہنا شروع نہیں کیا تھا، پابندی کے بعد ان میں سے کچھ یہاں آ کر رہنے لگی تھیں۔

نواز نے پیشانی اور ناک پر سے بہتا پسینہ پونچھا۔ وہ اور شہناز ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے۔ پھر اچانک کیا بات ہوئی، جو سب کچھ ختم ہو گیا۔ اس نے اس بات پر کئی بار سوچا تھا، ’’زندگی میں اتنے بڑے بدلاؤ کیسے آ جاتے ہیں۔ انسان تو وہی ہوتا ہے، پھر بھی اس کے باہر اور اس کے اندر اتنا بدلاؤ ہو جاتا ہے، کہ وہ وہی نہیں رہتا، جو پہلے تھا۔ جذباتی سوچ ہی سہی، کیونکہ اس کی عمر ہی ایسی تھی، لیکن ہم نے تو ایسا سمجھا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ پائیں گے، پھر جب زندگی کی کڑوی سچائیاں سامنے آئیں تو پوری جذباتیت بلبلے کی مانند تحلیل ہو گئی۔ میں خود بیروزگار، رات کو سونے کے لئے ٹھکانہ گیراج اور ورکشاپ۔ وہ مجھ سے زیادہ سمجھدار اور میچور تھی، تبھی تو اس نے مجھ سے کہا تھا، اچھا ہو کہ ہم فقط اچھے دوست بن کر رہیں۔ میں نے اس کی مجبوریاں نہیں دیکھیں۔ میں نے سمجھا کہ میرے پاس کچھ نہیں، اس لئے وہ مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے۔ آدمی بس خود کے لئے ہی کیوں سوچتا ہے! ہم کسی کو کتنا بھی چاہیں، لیکن سوچتے فقط خود کے لئے ہی ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوسرا بھی ہمارے لئے ہی سوچے۔ میں نے کیوں نہیں سوچا کہ شہناز کتنے مشکل حالات سے گزر رہی تھی۔ میں خود تو شہناز کے لئے کچھ کر نہ سکا۔ لیکن اس کی شادی کی بات سن کر مجھے غصہ آیا کہ اس نے گاڑی اور بنگلے کے شوق کے لئے خود کو بیچ دیا۔‘‘

نواز کو خود پر غصہ آیا۔ ’’کبھی کبھی آدمی اتنا بے لچک ہو جاتا ہے کہ نہ خود کو دیکھتا ہے نہ مجبوریوں کو، دوسروں کی مجبوریاں دیکھنا تو دور کی بات ہے۔ لیکن آدمی کتنا وقت گنوا سکتا ہے۔ آخر تو آئینے میں اسے اپنا آپ نظر آ جاتا ہے، اس کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ آدمی ہنسے یا روئے۔ جو اپنے ہاتھوں خود دھوکا کھاتے ہیں، وہ نہ ہنس سکتے ہیں، نہ رو سکتے ہیں۔‘‘

اس نے چاہا کہ اسے نیند آ جائے، لیکن ایسی گرمی میں نیند آنا مشکل تھا۔ زندگی ایسی تھی، ایسی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ اسے دور دور تک کسی بدلاؤ کے نشاں نظر نہیں آ رہے تھے۔ بھری دوپہر کا یہ سفر کہاں ختم ہو گا؟ پسینے کی بوندوں کی طرح دماغ میں یہ سوال نمودار ہوتے رہے اور نواز منہ سے پسینہ پونچھنے کے ساتھ ان سوالوں کو بھی سمیٹنے کی بیکار کوشش کرتا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 خوفزدہ دل، بیقرار روشنی

 

 

ایک بڑا چاقو سورج کی روشنی میں چمکتا، ایک بوڑھے دیہاتی کے پیٹ کو چیرتا اور پھاڑتا، باہر نکل آیا، خون سے بھرا ہوا اور مرنے والے کی فقط ایک دبی ہوئی ہچکی اور چاروں جانب نعرے اور شور۔ اس کے کانوں میں نعرے اور گالیاں، جلتا ہوا سیسہ بن گئے اور دماغ میں انگارے ابلنے لگے۔ غصے و ڈر کے سبب اس کا رواں رواں سوکھ گیا۔ کچھ بھی نہ کر سکنے کی وجہ سے، بے بسی، آنکھوں کے سامنے موت و ٹانگوں میں لہو جم گیا، پھر بھی وہ منہ اٹھا کر بھاگنے لگا۔ وہ چاروں جانب سے گھرا ہوا تھا اور جلادوں سے گھرا ہوا۔ ماحول میں خون اور بارود کا عجب امتزاج تھا۔ اس کا دماغ ان کی بو اور ڈر کے احساس سے سن ہو چکا تھا۔ آوازیں اس کی پیچھے، برابر سے اور اس سے آگے، اس کے ساتھ دوڑتی رہیں اور وہ ان آوازوں سے دور ہونے کے لئے آواز سے تیز دوڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بھاگتا گیا، سہمے اور ڈرے کتے کی طرح۔ لیکن اسے لگا، وہ بھاگ نہیں رہا تھا، چاروں جانب گھوم رہا تھا آوازوں کے دائرے میں۔ پھر بھی وہ بھاگتا رہا۔ اچانک اس کے آگے دھماکے کے ساتھ زمین ہل گئی۔ شاید بم پھٹا تھا۔ اس نے گھوم کر پیچھے بھاگنا چاہا، لیکن اس کے آگے کالے لال ہرے پیلے تارے آ گئے اور دماغ اور پیروں نے ساتھ دینا چھوڑ گیا۔ پیچھے سے، برابر سے، آگے دوڑتی آوازیں بھی دھیرے دھیرے کم ہوتی ہوئیں، دور ہوئیں، پھر اچانک بند ہو گئیں۔

وہ بھاگتا گیا اور اسے لگا، وہ بہت دور نکل آیا تھا، کہاں؟ اسے پتہ نہ لگ سکا۔ ’’عجیب جگہ ہے، لیکن نہیں، یہ میری جانی پہچانی ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔ چاروں اطراف ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے، ویرانی تھی اور وہ اس ویرانے میں اکیلا تھا۔ ریت کے پہاڑوں جتنے ٹیلوں پر چڑھ چڑھ کر اس کی سانس پھول گئی۔ اسے لگا کہ یہاں بھی لوگ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اس نے تیز چلنا چاہا، لیکن پیروں کی ایڑیاں ریت میں گھس رہی تھیں۔

’’میں بھاگ کیوں رہا ہوں! میں نے کون سا گناہ کیا ہے؟‘‘ اس نے اپنے دماغ پر زور دینا چاہا، لیکن اسے کچھ بھی یاد نہیں آیا۔ کچھ لوگ مجھے مارنے کے لئے پیچھے پڑے ہیں! اور کچھ عجیب دھندلی، غیر تحریر شدہ اور بے معنی تصویریں اس کے دماغ میں ابھر کر مٹتی رہیں، جو شاید اس کے ماضی سے جڑی تھیں یا شاید حال کی تھیں، لیکن کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ اچانک ایک خیال اس کے ساکت ہوئے دماغ میں بجلی کی طرح کڑک کر پیدا ہوا اور الجھی لکیروں کو مٹاتا گیا۔ زندگی کا بڑا اور بھرپور حصہ بیکار اور بے مطلب گزر گیا۔ وہ سن ہو گیا۔ تبھی۔۔ تبھی۔۔ لیکن میں اس بے مطلب کی زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہوں۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ میں کسی مطلب کے بغیر ہی پیدا ہوا ہوں اور میرے چاروں اطراف بے مطلبی اور اجنبی پن ہے۔ میں نے پوری عمر اس اجنبی پن کے دھوئیں میں سانس لی ہے۔ میری سانس گھٹ رہی ہے۔ اسے سخت تکلیف محسوس ہونے لگی۔ میں نے بھی خواب دیکھے تھے، اپنے گھر کے، اپنے دیس کے۔ لیکن یہ میرا دیس نہیں تھا، میں نے خود کو اپنے ہی دیس میں پرایا محسوس کیا ہے۔ اپنے ہی دیس میں پرایا اور بے گھر! جبھی تو زندگی ایسے بے مقصد گزر گئی۔‘‘ یہ جملہ بار بار اس کے دماغ میں گھومنے لگا۔ ’’لیکن میں نے اس پرائے پن اور بے مطلبی کو کبھی بھی دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ میں نے حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا ہے، اسی لئے تو مجھے دیس چھوڑنے کی سزا دی گئی ہے۔ میں بھاگ بھاگ کر یہاں آ کر پہنچا ہوں، لیکن یہاں بھی لوگ میرے پیچھے ہیں۔‘‘ وہ سہم گیا اور جلدی جلدی چلنا چاہا۔ ’’یہ عجیب بات ہے کہ غلاموں کو اپنی غلامی کا احساس نہیں ہے اور وہ اس بے بسی میں ہی خوش ہیں!‘‘ سوچ بکھر گئی اور اس کے ٹوٹے ٹکڑے اس کے اندر چبھنے لگے۔ کافی دیر تک فقط وہی چبھن تھی اور بے حد اذیت تھی۔ دھیرے دھیرے آسمان میں بادل چھٹنے لگے اور اس کے بعد کچھ نہیں تھا۔

ہونے کا احساس آسمان میں بھرے بادلوں کو چیر کر ابھر کر آیا۔ اس نے خود کو اکیلا پایا اور چاروں اور ریت کا کبھی نہ ختم ہونے والا صحرا تھا۔ اسے خیال آیا کہ یہ صحرا کبھی بھی جاگ نہیں پائے گا۔ آخر وہ کہاں جائے، قدم قدم پر اس کے آگے کئی راہیں نکل رہی تھیں اور وہ الجھا کھڑا تھا۔ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کون سی راہ چنے۔ راہیں الگ الگ تھیں اور ایک دوسرے سے منسلک تھیں اور الجھی ہوئی تھیں۔ کبھی کبھی وہ چل چل کر پھر اسی جگہ لوٹ کر آتا تھا، جیسے کہ چلا ہی نہیں تھا۔ اسے لگا کہ جیسے وہ ایک ہی چکر میں پھنسا ہوا تھا، جہاں سے نکلنے کا کوئی بھی طریقہ اسے نہیں سوجھ رہا تھا۔ وقت کیسے بیت گیا اور بیت رہا تھا! کبھی اسے لگتا کہ ابھی ابھی ہی یہاں پر پہنچا ہے، کبھی وہ سمجھ رہا تھا کہ اسے چلتے چلتے کئی سال بیت گئے ہیں۔ لیکن وہ کچھ بھی صحیح اندازہ نہیں لگا پایا۔ اتنا سمجھ رہا تھا کہ اسے کافی وقت ہو گیا ہے۔ لیکن اب تو وقت بیتنے کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔

پیر آگ کی مانند، جیسے تپے ہوئے توے پر رکھے ہوئے تھے اور دماغ تھکان سے بھرا ہوا تھا۔ تھکاوٹ، لاچاری اور ایک عجیب دکھ کا دبا دبا احساس سبھی بند توڑ کر باہر نکلنے کے لئے بے قرار تھے۔ اچانک اس کے آگے دھول کا ایک بگولہ اٹھا اور ناچتے ناچتے دور ہوتے ہوئے اوجھل ہو گیا۔ اسے لگا، وہ بھی دھول کا بس ایک بگولہ ہے اور باقی سب ختم ہو چکا تھا۔

’’کیا، حقیقت میں سب کچھ ختم ہو چکا ہے!‘‘ وہ ہڑبڑایا۔ ’’لیکن میں لڑے بغیر ہی ہار چکا ہوں۔‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ’’میں ایک شکست خوردہ ہوا انسان ہوں۔‘‘ چاروں جانب دور دور تک ریت کے ٹیلے تھے۔ اس نے خود کو دیکھنا چاہا۔ بس محسوس کرنے کی حد تک وہ وہی تھا، نہیں تو اس میں کوئی بھی بات ایسی نہیں رہی تھی جسے دیکھ کر کہا جا سکے کہ وہ وہی تھا یا شاید وہ تھا ہی نہیں۔

’’اور میں سہما ہوا اور دکھی ہوں!‘‘ اس نے خود کو طعنہ دے کر کہا اور ہنسنا چاہا۔ قہقہہ لگاتے اسے اندازہ ہوا کہ وہ چیخ رہا ہے اور شکایت کر رہا تھا۔ وہ ایک دم خاموش ہو گیا اور اس کے ساتھ سوچ بھی چپ ہو گئی۔

’’انسان فقط ایک ہی بات پر کیوں ٹھہر جاتا ہے۔ گھڑی کے پنڈولم کی حدود ہیں، بار بار پھر سے اسی جگہ لوٹ کر آتا ہے۔ وہی راستہ۔ وہی چلنا۔ لیکن شخص کا ٹھکانہ ایک جگہ ہے ہی نہیں، یا کم سے کم دماغ تو ایک جگہ ٹک کر کھڑا نہیں ہوتا۔ میں بہت تیز چلا ہوں۔ میں نے کہیں پہنچنا چاہا۔ لیکن کہاں؟ کسی ایسی جگہ جہاں آرام ملے۔ میں کہیں بھی رکا نہیں یا رکا تو میں نے رکنا نہیں چاہا، لیکن مجھے رکنا پڑ رہا تھا۔ ہے خدایا! میں سمجھ رہا تھا کہ میں کچھ کروں گا۔ اور لوگ بھی ایسا ہی کہہ رہے تھے۔ ماں کہہ رہی تھی کہ میرا بیٹا بڑا آدمی بنے گا اور ہمارے غم ختم جائیں گے۔ مجھے یہ باتیں سن کر رونا آ رہا تھا یا غصہ آ رہا تھا خود پر۔ میں اپنی ماں کے منہ سے عمر کی لکیریں مٹا نہیں سکتا تھا، لیکن دکھ کی لکیریں تو مٹا سکتا تھا اور اس نے مجھ سے کتنی غلط امیدیں رکھیں۔ میں بچپن سے ہی سپنے دیکھ کر خوش ہوا ہوں۔ میں نے تیز دوڑنا چاہا۔ میں نہیں دوڑا تھا کیا؟ لیکن میں نے دیکھا کہ راستہ بند تھا۔ میں نے اس بند کو توڑنا چاہا۔ میں نے سب سے کہا کہ ماحول میں غلامی کا دھواں ہے۔ آپ اندھے ہیں، گونگے ہیں، بہرے ہیں، بے بس ہیں۔ سست ہیں۔ آپ غلام ہیں اور غلامی میں خوش ہیں۔ لعنت ہے آپ پر۔ میں ایسے ماحول میں نہیں رہ سکتا۔ نہیں رہ سکتا۔ نہیں رہ سکتا۔ لیکن میں تو رہا ہوں۔ میں تو ہمیشہ ہی ایسے ماحول میں رہا ہوں، میرے لئے کوئی بھی مستقبل نہیں۔ فقط حال ہے اور کتنا تکلیف دہ۔ کتنا ڈراؤنا۔ لیکن میں نہیں ڈرتا۔ ڈرنے کی فکر کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ پھر بھی میں بھاگ کیوں رہا ہوں۔ جبکہ انسان جانتا بھی ہے کہ بھاگنے کا، بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔ کتنا تھک چکا ہوں بھاگ بھاگ کر۔‘‘

ریت بہت گرم تھی۔ پیر کے ناخن سے چوٹی تک درد کی بے شمار لہریں تھیں۔ وہ بیٹھ گیا سانس لینے کے لئے۔ اسے بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک پیچھے سے کسی نے اسے دھکا دیا۔ اس نے خود کو گرنے سے بچا لیا اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ فقط اندھیرا تھا، جو تیزی سے آگے بڑھتا اور پھیلتا گیا۔ اس کے روئیں کھڑے ہو گئے۔ ’’آخر پہنچ گئے۔‘‘ اس نے بھاگنا چاہا لیکن وہ دسیوں سمتوں سے گھر چکا تھا۔ ہوا، ریت کی مٹھی بھر کر اس کے منہ، چھاتی اور پیٹھ کو پیٹ رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر دی تھیں۔ ریت کے ذرات سے خود کو بچانے کے لئے وہ ادھر ادھر بیکار دوڑ رہا تھا۔ ’’پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کب کہاں سے دھکا لگ رہا تھا۔ لیکن اگر پتہ چلے بھی، تو اس سے کیا فرق پڑتا۔ کہیں سے بھی کوئی بھی وار ہو اور بھلے انسان دیکھے، لیکن جب بچاؤ کر بھی سکے۔ سوال یہ نہیں کہ وار ہو رہا ہے۔ وار ہر جانب سے اور ہر طرح کا ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بچاؤ کیسے کریں۔ مسئلہ ہے ہی بچاؤ کا۔ اور یہاں بچاؤ کی سبھی راہیں بند ہیں۔‘‘ اسے اپنی سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے منہ کو زور سے بند کر دیا۔ لیکن ریت ناک میں گھس رہی تھی۔ جیسے اس کے سر پر کوئی زور دے رہا تھا اور اس کا درد پورے بدن میں، نسوں میں دوڑ رہا تھا۔ اس کے پیر ریت میں دھنسے ہوئے تھے اور جیسے وہ ربر کا گڈا تھا، جسے کوئی زور سے دبا کر پھر سے چھوڑ رہا تھا۔ کپکپاہٹ تھی، لیکن بدن کے کس حصے میں! شاید ٹانگیں کپکپا رہی تھیں یا دانت یا سینہ یا شاید پورا وجود۔ ’’کسی بھی بات کا یقین نہیں۔ ہر وقت بے یقینی کی کیفیت، اگلے پل میں کیا ہو گا، کوئی اندازہ نہیں، کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ کیا پتہ کب طوفان ختم ہو جائے اور یہاں تو کئی طوفان آئے ہیں اور گزر چکے ہیں۔ میں نے کسی کو کہتے سنا ہے کہ ہم ٹیلے ہیں، ابھرنے اور کچلنے کے بعد بھی پھر سے جنم لیں گے۔ ختم ہو جائیں گے اور پھر سے جنم لیں گے اور فقط ٹیلے ہی رہیں گے۔‘‘

اسے احساس ہوا کہ اس کا منہ کھلا ہے۔ اس نے زور سے منہ کو بند کیا۔ دانتوں کا آپس میں ملنے سے یا شاید دانتوں میں ریت کی آواز ہوئی اور وہ ڈر گیا۔ کسی نے دانت توڑے! اس نے ہڑبڑا کر چاروں جانب دیکھا۔ ریت کے بگولے تھے، جو اس کے چاروں جانب بھوتوں کی طرح گھوم رہے تھے اور وہ ان بھوتوں سے ڈرتا، تیز ہوا میں دھکے کھاتا، بھاگتا گیا۔ اڑتی ریت اس کی آنکھوں میں گھس رہی تھی اور وہ آنکھیں نہیں کھول پا رہا تھا۔ ریت میں دوڑتے ہوئے گر گیا، پھر بھی وہ بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا، شاید صرف کوشش ہی کر رہا تھا۔ ’’میں جانتا ہوں کہ یہ ساری کوششیں رائے گاں ہیں۔ بچنے کے سبھی راستے بند ہیں اور چاروں جانب تلواریں ہیں، جو انسان کو دھکیل کر، لاتیں مار کر پھر اسی جگہ پر لا پٹکتی ہیں، جہاں سے وہ بھاگا تھا۔ کوئی بھی اس قید خانے سے بھاگ نہیں سکتا۔ میں چاروں جانب سے گھرا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے، اچانک کوئی جال میرے اوپر پھینکا جائے گا اور میں پھنس جاؤں گا، تڑپوں گا لیکن سب بیکار اور اچانک ایک تلوار میری چھاتی میں گھس جائے گی۔‘‘

اسے بھاگنے کا خیال آیا اور اس نے اپنی پوری طاقت سمیٹ کر بھاگنا چاہا، لیکن طاقت جیسی کوئی چیز بچی نہیں تھی۔ سارا لہو جیسے ریت چوس گئی تھی اور ٹانگیں سوکھ کر پتھرا گئی تھیں۔ فقط ہڈیاں تھیں، جس پر سوکھی چمڑی چڑھی ہوئی تھی اور ہڈیوں کے کھانچوں میں اذیت بھری ہوئی تھی۔ اس نے جیسے ہی پورا زور دے کر آگے بڑھنا چاہا، تو اس کی ٹانگیں ریت میں دھنس گئیں۔ وہ گھٹنوں تک پھنس چکا تھا۔ اس نے ریت سے پیروں کو نکالنے کی بہت کوشش کی، لیکن پیر تو جیسے اس کے تھے ہی نہیں، بس اس کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ تیز ہوا نے اس کے آس پاس، ریت کا ٹیلا بنانا شروع کیا اور ٹیلا اس کے گھٹنوں سے اوپر چڑھتا گیا۔ اس نے اپنے منہ سے اور آنکھوں سے ریت ہٹانی چاہی، لیکن اسے ایسے لگا، جیسے اس کے ہاتھ اور سر کے درمیان میلوں کا فاصلہ ہو۔ بازو اس کے کندھوں سے فقط چپٹے ہوئے تھے۔ دماغ کا، جسم کے کسی بھی حصے پر اختیار نہیں تھا اور فقط درد کی لا محدود لہریں تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

تخمینہ

 

 

جب تک اس کا باپ زندہ تھا، یعقوب حیدرآباد میں اٹھکھیلیاں کرتا رہا۔ جب سے پڑھنے کے لئے یونیورسٹی میں داخلہ لے کر جامشورو میں آ کر رہا، تو ہاسٹل جیسے اس کا گھر بن گیا۔ پڑھنے میں اس کی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، یہ اور بات تھی کہ پھر بھی ہر سال وہ پاس ہوتا آیا۔ اس کی اصل تمنا یہ تھی کہ گاؤں سے دور حیدرآباد میں جا کر رہے۔ جس دن شام کو جامشورو سے حیدرآباد نہیں جاتا تھا، وہ دن اس کے حساب سے جیسے بیکار گیا ہو۔ اس نے بہت کوشش کی کہ پوری عمر اسٹوڈنٹ بن کر ہاسٹل میں ہی رہے۔ پیچھے کی فکر اسے نہیں تھی۔ زمین اس کا باپ سنبھالتا تھا۔ ویسے بھی یعقوب کو گاؤں میں مزا نہیں آتا تھا۔ ماں کے گزر جانے کے بعد وہ کشش بھی نہیں رہی تھی۔

یونیورسٹی میں امن و امان کے حالات جب بہت خراب ہو گئے، تو مارشل لا حکومت نے وہاں پولیس چوکیاں بنائیں۔ ہاسٹلوں پر زیادہ سختی کی گئی۔ پڑھائی پوری ہونے کے بعد بھی ہوسٹل میں رہنے کی روایات ختم ہو گئیں۔ جب یعقوب کو یونیورسٹی والوں نے زبردستی ڈگری دی تو مجبوری میں اسے ہوسٹل سے بوریا بستر باندھنا پڑا۔ کچھ وقت حیدرآباد میں چھڑے چھانٹ دوستوں کے پاس ٹھکانہ کیا، لیکن آخر کسی بلڈنگ میں خالی کمرہ کرائے سے مل گیا۔ اب وہ پکا حیدرآبادی تھا۔ باپ نے بہت زور دیا کہ وہ گاؤں آ کر رہے اور زمینیں سنبھالے، لیکن یعقوب گاؤں سے کترا رہا تھا۔ کون کھیتی باری میں بھٹکے اور کسانوں سے ماتھا پچی کرے۔ اس سے تو حیدرآباد کے رستوں پر گھومنا زیادہ مزیدار تھا۔ آدھی آدھی رات تک ہوٹلوں میں بیٹھ کر دوستوں سے گپ شپ کرنے اور راستوں پر گھومنے کے بعد جا کر سوتا تھا اور دوپہر کو اٹھتا تھا۔ باپ کا اکلوتا لڑکا تھا، اس لئے اس کا باپ اسے خرچہ پانی دیتا تھا۔

یعقوب کا باپ جب اپنی سبھی تراکیب چلا چکا تو اس نے آخری طریقہ اپنایا۔ اس نے یعقوب کی شادی کروا دی۔ لڑکی تھوڑی بہت پڑھی لکھی تھی اور جہیز میں کچھ زمین بھی لے کر آئی تھی۔ یعقوب نے پہلے تو انکار کیا، لیکن جو باپ تمام عمر اس کی مرضی پر چلا تھا، اس کی بات اسے ماننی ہی پڑی۔ اس کے باپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی کہ وہ شادی کرنے کے بعد حیدرآباد چھوڑ کر گاؤں آ کر رہے۔ یعقوب کی روٹین اس طرح کی تھی کہ وہ گاؤں جاتا تھا، کچھ دن وہاں رہتا تھا، پھر سے حیدرآباد کھینچتا تو خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ باپ تو کوشش کر کے تھک گیا۔ اس کے بعد بیوی کا نمبر آیا۔ لیکن وہ بھی یعقوب کو حیدرآباد جانے سے روک نہیں پائی۔

’’سچ بتاؤ، حیدرآباد میں کسی کے ساتھ تعلق تو نہیں؟‘‘ بیوی نے اس سے پوچھا۔

’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں، قسم سے۔‘‘ اس نے بیوی کو یقین دلانے کی کوشش کی۔

’’پھر تمہیں حیدرآباد کا اتنا جنون کیوں ہے؟‘‘ بیوی نے غیر یقینی سے کہا۔

’’تمہیں سچ بتاؤں؟‘‘ یعقوب کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ اس کی بیوی کی بھنویں تن گئیں، ’’بتاؤ؟‘‘

’’میرا حیدرآباد سے تعلق ہے۔‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر بیوی کو کھینچ کر گلے لگایا۔

بچے بھی ہوئے۔ ایک لڑکا، ایک لڑکی۔ یعقوب بیوی اور بچوں کو چاہتا بھی تھا، لیکن گاؤں میں رہنا اس کے لئے کٹھن تھا۔ اس کا بس چلتا تو زمینیں فروخت کر کے ہمیشہ کے لئے حیدرآباد میں جا بستا۔ لیکن باپ کے سامنے یہ بات کرنے کی اس کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

باپ کے گزر جانے کے بعد وہ اکیلا زمینوں کا مالک بن گیا۔ باپ کے انتقال کو چالیس دن بیت گئے تو اس نے اپنے دل کی بات بیوی کے سامنے ظاہر کی۔

’’ارے بھائی، زمینیں سنبھالنے کا کام مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں پوری عمر اس جھمیلے سے دور رہا ہوں۔ مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔ کسان مجھے لوٹ کر، کھا پی کر چٹ کر جائیں گے۔‘‘

’’زمینیں نہیں سنبھالو گے تو پھر کھائیں گے کہاں سے؟‘‘ بیوی نے تعجب سے کہا۔

’’پوری دنیا کا گزارا فقط زمینوں پر ہے کیا؟ اور بھی کئی ذرائع ہیں۔ جس کام میں دل نہ لگے، اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہئے۔ کھیتی باری مجھ سے ہو گی نہیں، نہ ہی میں یہاں رہ پاؤں گا۔‘‘

’’پھر تمہاری مرضی کیا ہے؟‘‘ بیوی نے اس سے پوچھا۔

’’میری مرضی ہے کہ زمینیں بیچ کر حیدرآباد میں گھر لے کر رہیں۔ بچوں کو بھی وہیں پڑھائیں۔ گاؤں میں کون سی پڑھائی ہے۔ تین چار سالوں کے بعد تو ویسے بھی بچوں کو شہر میں پڑھوانا پڑے گا۔‘‘

’’کھیت کھلیان بیچ کر شہر میں چل کر رہیں! پھر گزارا کیسے ہو گا؟‘‘

’’وہ تم مجھ پر چھوڑ۔ شہر میں بہت زرخیز ہیں۔ کسی نہ کسی کام میں لگ جاؤں گا۔‘‘

بیوی نے دیکھا کہ اس کے ماننے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بچوں کی تعلیم کا بھی مسئلہ تھا اور حیدرآباد میں رہنے کے لئے اس کا بھی دل کر رہا تھا۔

یعقوب نے کھیت کھلیان بیچ کر لطیف آباد میں بنگلہ خرید لیا۔ بچوں کو انگریزی، اردو میڈیم کے پرائیویٹ اسکول میں داخلہ دلایا۔ وہ دوستوں سے پہلے ہی کسی مناسب ذریعہ معاش کے حوالے سے صلاح مشورہ کرتا رہا تھا۔ دوستوں نے اسے کہا تھا کہ آج کل سندھی لوگوں نے اپنے گاؤں چھوڑ کر حیدرآباد اور کراچی کا رخ کیا ہے۔ ایک تو ڈاکوؤں نے سندھی لوگوں کو بہت تنگ کیا ہے۔ گائے بیلوں اور مال کی چوریاں ختم ہو گئیں۔ اب لوگوں کی چوری عروج پر ہے، کیونکہ یہ سب سے آسان کام ہے۔ کسی مالدار آدمی کے گھر کا کوئی فرد کا اغوا کرنا چاہئے اور پھر دو تین لاکھ لے کر لوٹنا چاہئے۔ لوگ گائے بیل بیچ کر ڈاکوؤں کو پیسہ دیں، اس سے اچھا یہ ہے کہ یہ پیسے لے کر حیدرآباد یا کراچی جا کر بس جائیں۔ ایسے لوگوں کے علاوہ یعقوب جیسے لوگ بھی تھے، جن کو شہری زندگی زیادہ پسند تھی۔ گاؤں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سندھی لوگوں کو حیدرآباد میں گھروں کی ضرورت تھی۔ دوستوں نے یعقوب کو بتایا کہ اس فیلڈ میں جوا سٹیٹ ایجنٹ ہیں، ان میں سندھی کم ہیں۔ انہوں نے یعقوب کو مشورہ دیا کہ وہ یہ کام کرے۔ ایک اچھا سجاوٹ والا ایئر کنڈیشنڈ آفس بنا کر آرام سے بیٹھا رہے۔ جسے گھر بیچنا یا کرائے پر دینا ہو گا، وہ خود ہی اس کے پاس آئے گا اور خریدنے یا کرائے پر لینے والے لوگ ویسے ہی تلاش میں ہوتے ہیں۔

یعقوب نے لطیف آباد میں ایک دوکان کرائے پر لی۔ اس میں شیشے کے پارٹیشن اور ایئر کنڈیشنڈ لگا کر عمدہ فرنیچر ڈال کر بیٹھ گیا۔ اتنے عرصے تک حیدرآباد میں رہنے کے سبب جو جان پہچان تھی، وہ بھی کام آئی۔ اس کا کام اچھا چل نکلا۔

دیکھتے دیکھتے ملک کی سیاسی سرگرمیاں جو مارشل لاء کے وقت میں دبی ہوئی تھیں، اس نے عجیب پلٹا کھایا۔ مہاجروں کی ایک تنظیم نے جنم لیا، جس نے ’’مہاجر پاور، سپر پاور‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کراچی اور حیدرآباد کے پرسکون ماحول میں کوئی زہریلی گیس بھر گئی۔ کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ کافی خون خرابہ ہوا۔ یہ جھگڑا بڑھ کر حیدرآباد تک پہنچا۔ پٹھانوں کی جگہوں اور دوکانوں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ راستے پر جاتے جسے، جس کا آدمی ہاتھ لگا، وہ مرا پڑا تھا۔ سندھی خاموش تماش بین تھے۔

کراچی اور حیدرآباد میں کرفیو لگ گیا۔ یعقوب آرام سے گھر بیٹھ گیا۔ اس کی نوکری تو تھی نہیں، جو فکر کرے۔ لیکن اسے ایک بات کھٹک رہی تھی۔ اس نے بیوی سے یہ بات چھیڑی۔

’’پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ مہاجروں اور پٹھانوں کے درمیان جو جھگڑا ہوا ہے، وہ ایک طرح کی ریہرسل ہے۔ مہاجر فقط پٹھانوں اور پنجابیوں کو اپنا دشمن نہیں مانتے۔ پنجابیوں اور پٹھانوں کے تو خود کے صوبے ہیں، لیکن مہاجروں کا اصلی جھگڑا زمینداروں سے ہی ہو گا۔‘‘

بیوی نے اٹھتے ہی اس کی اس بات کو رد کر دیا۔

’’پتہ نہیں تمہیں یہ خیال کہاں سے آیا ہے۔ ہمارے پڑوس میں سبھی مہاجر ہیں۔ سندھیوں کو بس اپنا گھر ہے۔ میرا ان کی عورتوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے۔ میں ان کے گھر جاتی ہوں، وہ میرے گھر آتی ہیں۔ مجھے تو کبھی ایسا نہیں لگا ہے کہ مہاجر سندھیوں کے خلاف ہیں۔‘‘

’’پڑوس کی بات اور ہے۔ میرا ہر طرح کے لوگوں سے پالا پڑتا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ مہاجروں کا سر خراب ہے۔‘‘

’’سر خراب ہے تو ہمارا کیا؟ جا کر پنجابیوں پٹھانوں سے لڑیں۔ ہم بیچ میں آئیں ہی کیوں؟‘‘ بیوی نے اس کی بات کو زیادہ توجہ نہیں دی۔

کرفیو اتر گیا تو زندگی کے کاروبار پھر سے شروع ہو گئے۔ یعقوب کو کھٹکنے والی بات نہیں اتری۔ اس نے اپنے دوستوں سے اس کا ذکر کیا۔ لیکن دوستوں نے اس کی اس بات کو بیوی کی طرح کوئی توجہ نہیں دی۔

’’یہ سیاسی چالیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گے۔ پنجابیوں کا مقابلہ کرنا اکیلے سندھیوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ سندھی، پنجابی سے بھی لڑیں اور مہاجروں کو بھی خود سے الگ رکھیں تو پھر isolation کا شکار بن جائیں گے۔ ایم کیو ایم سندھ میں ایک نیا طاقتور فیکٹر ہے۔ سندھیوں کو ان کا ساتھ حاصل کرنا چاہئے۔ مہاجروں کو سندھ میں ہی رہنا اور مرنا ہے۔ اگر یہ دونوں طاقتیں آپس میں مل جائیں گی تو پنجابیوں پر بھاری پڑیں گے۔‘‘ سیاسی معلومات رکھنے والے ایک دوست نے یعقوب کو سمجھاتے ہوئے کہا۔

یعقوب کو اس کی بات دل کو لگی۔ اس کے دل میں کھٹکنے والی بات کو بھروسہ ملا۔ اسے لگا کہ مہاجر اس کے زیادہ قریب تھے۔ پڑوس کے لحاظ سے بھی اور کام کے لحاظ سے بھی۔ جو پڑھے لکھے مہاجر اس کے آفس میں آتے تھے، ان کے آگے وہ ایم کیو ایم کی تعریف کرتا تھا۔ سندھی اور مہاجروں کے ایکے کے پیچھے اپنے سیاسی دوستوں سے سنی دلیلوں کو دوہراتا تھا۔

اگر کوئی مہاجر، سندھ یونیورسٹی میں مہاجر طلباء سے ہوئی زیادتیوں کا ذکر کرتا تھا تو یعقوب ایک دم اس بات کی مذمت کرتا تھا۔

’’میں بھی یونیورسٹی میں پڑھا ہوں۔ کبھی کبھی وہاں مہاجر طلباء پر زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ لیکن یہ پنجابیوں کی چال تھی۔ وہ دونوں گروپوں کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش تھی کہ مہاجر اور سندھی آپس میں لڑتے رہیں۔ سندھی طلباء بہت سیدھے ہیں۔ گاؤں سے چل کر شہر میں یونیورسٹی جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں آتے ہیں، تو اس وقت ان میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی ہے۔ بھیڑوں کی طرح ان کو جس جانب چلاتے ہیں، وہ چل پڑتے ہیں۔ اس لئے وہ غلط حرکتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان میں یہ دلچسپی پیدا ہوئی ہے کہ سندھ کے اصل دشمن کون ہیں۔ آج کل سندھی طلباء مہاجر طلباء کو زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔‘‘

اتنی بات کرنے کے بعد یعقوب کو خوشی ہوتی تھی کہ اس میں بھی سیاسی قابلیت آ گئی ہے اور سیاسی معاملوں میں اچھا خاصا بول لیتا ہے۔

لیکن یعقوب کو یہ پتہ نہیں تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں کیسے جنم لیتی ہیں اور وہ مظلوم ہونے کے دعویٰ کر کے کیسے دہشت گردی کرتی ہیں۔ حیدرآباد کے ایک میئر کے ایک اخبار کو دئیے بیان کے خلاف رد عمل دینے کیلئے یونیورسٹی کے سندھی طلباء بسوں میں چڑھ کر میونسپل آفس پہنچے۔ اچانک بسوں پر گولیوں کی بارش ہو گئی۔ وہ جان بچانے کے لئے حیدرآباد کی جس گلی میں بھاگ رہے تھے، وہاں ان کو گھیر لیا گیا۔ فوراً پورے شہر میں مہاجر سندھی فساد شروع ہو گئے۔

یعقوب اس وقت اپنے آفس میں نہیں تھا۔ وہ کسی گاہک کو جگہ دکھانے کے لئے گیا تھا۔ لوٹ کر آیا تو اس کی آفس میں کوئی چیز محفوظ نہیں تھی۔ شیشے والا پارٹیشن ٹوٹ پھوٹ گیا تھا۔ ایئر کنڈیشنڈ اور صوفہ غائب تھے۔ اتنی بھاری چیزیں منٹوں میں غائب ہو گئیں! آس پاس کی دوکانیں بھی بند تھیں۔ شہر میں کرفیو لگ گیا۔ یعقوب گھر میں بند ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کے دل میں کھٹکنے والی بات، ایک بار پھر سے جاگ گئی۔ ایم کیو ایم اور سندھی قوم پرست لیڈروں کے بیچ باتیں ہوئیں۔ غلط فہمیوں کو دور کر کے ایک دوسرے سے تعاون اور اتحاد پر بیان دیا گیا۔ لیکن یعقوب کو کھٹکنے والی بات کو اب بھروسہ نہیں ملا۔ ایک چنگاری جو بڑی آگ لگا سکتی ہے، پھر بھی اس نے نئے سرے سے آفس کو بنایا۔ آفس کو بنانے اور فرنیچر لینے میں کافی خرچہ ہو گیا۔

ابھی تھوڑا بہت سنبھلا ہی تھا کہ دوسرا شعلہ بھڑکا۔ پورے شہر میں آگ کی طرح بات پھیل گئی کہ میئر پر سندھیوں نے قاتلانہ حملہ کیا ہے۔ بارش کے بعد جیسے مشروم پیدا ہوتے ہیں، ویسے ہی پتہ نہیں کہاں سے نقاب پوش نکل آئے۔ ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں اور جہاں بھی کوئی سندھی ان کو نظر آتا، اس کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا تھا۔ فساد پھوٹ پڑے تھے۔ دوکانیں بند ہو گئی تھیں۔ یعقوب آفس بند کر کے گھر کی جانب بھاگا۔ جب تک کرفیو لگتا، سندھیوں کا کافی جانی نقصان ہو چکا تھا۔ یعقوب کے آفس کو آگ لگا کر جلا دی گئی۔ ’’اگر اس وقت میں وہاں ہوتا تو مجھے بھی آفس میں جلا دیتے۔‘‘ اسے خیال آیا۔

اتنا وحشی پن اور نفرت کہاں سے پیدا ہوئی! یعقوب کا تازہ پیدا ہوا سیاسی تجسس، اس بات کا جواب نہیں دے پایا۔ اڑوس پڑوس کے رویوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ لیکن دلوں میں شکوک پنپ چکے تھے۔ کچھ کھوٹ رہ گئی تھی۔ چالیس سالوں سے ساتھ رہنے والے مہاجر اور سندھی ایک دوسرے کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔ کچھ محلوں میں جہاں سندھی قلیل تعداد میں تھے، ان کے گھروں پر حملہ ہوا تھا۔ کچھ لوگ گاؤں چلے گئے تھے، ان کے گھروں کے تالے توڑ کر سامان لوٹا گیا تھا۔ لطیف آباد میں جس محلے میں سندھیوں کے فقط ایک دو گھر تھے، انہوں نے ڈر کی وجہ سے بہت سستے میں گھر بیچ دیئے۔ جیسے چالیس سالوں کے بعد پھر سے بٹوارا ہوا تھا۔ سندھی ہندوؤں نے اپنے گھر چھوڑ دیئے تھے اور اب مسلمانوں کی باری تھی۔

گھر بیچنے والے کاروبار سے تعلق ہونے کے سبب، یعقوب کو پتہ تھا، جس گھر کی قیمت پانچ لاکھ تھی تو اس کے اب فقط دو لاکھ مل رہے تھے۔ خود یعقوب نے اپنا گھر بیچنے کی کوشش کی۔ لیکن پہلی بات تو کوئی گاہک نہیں مل رہا تھا، لیکن اگر کوئی مل رہا تھا تو آدھی قیمت سے بھی کم پیسے دے رہا تھا۔

یعقوب کا کام لطیف آباد میں بالکل ختم ہو چکا تھا۔ سندھی لوگ حیدرآباد سے دور قاسم آباد، سٹیزن کالونی اور بھٹائی نگر جا بسے تھے۔ اس طرف یعقوب کو کام کا چانس تھا، لیکن یہاں لطیف آباد میں سانس سولی پر ٹنگی ہوئی تھی۔ گھر چھوڑ کر جائے تو اس پر قبضہ ہونے کا ڈر تھا۔ اسے کوئی راہ نہیں سوجھ رہی تھی۔

ایک دوست نے یعقوب سے پوچھا، ’’گھر میں کوئی ہتھیار بھی ہے یا نہیں؟‘‘

’’ہتھیار! نہیں یار، ہتھیار تو کوئی بھی نہیں۔‘‘ یعقوب نے کہا۔

’’پڑوس میں فقط تمہارا ہی سندھی گھر ہے اور کل کو خدا نخواستہ اگر تمہارے گھر پر حملہ ہو تو تمہارے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں، جو اپنے بچوں کی حفاطت کر سکو۔‘‘

’’بس یار، اندازے پر بیٹھے ہیں۔ میں نے اپنی پوری عمر میں کبھی کوئی ہتھیار ہاتھ میں نہیں لیا۔ مجھے تو چلانا بھی نہیں آتا ہے۔‘‘

یعقوب نے اپنی بیوی کو دوست والی بات بتائی۔ اس کی بیوی کا بھی خیال تھا کہ شریف اور امن پسند لوگوں کا ہتھیار سے کیا تعلق۔ دوسری بات، ان کا پڑوس بھی اچھا تھا۔

’’ہتھیار تو گھر میں پڑا رہے گا اور کل اگر کوئی راہ چلتے مار دے تو گھر پر پڑا ہتھیار کیا کرے گا۔‘‘ یعقوب نے کہا۔

’’اللہ خیر کرے۔ باقی، پڑوس میں تو کوئی ڈر نہیں۔ اپنی تو کسی سے دشمنی نہیں۔ پھر بلا وجہ ہمارا نام کیوں لیں گے۔‘‘ اس کی بیوی نے کہا۔

ایک دن صبح یعقوب نے گھر کا دروازہ کھولا تو اس نے دیکھا دروازے پر قلم سے کراس کا نشان لگا ہوا تھا۔ یہ بات اشارہ کرتی تھی کہ اس کا گھر حملے کے دائرے میں تھا۔ یعقوب نے پڑوس کے لوگوں کو بلا کر وہ نشان دکھایا۔

کچھ مہینوں کے بعد تیس ستمبر انیس سو اٹھاسی میں حیدرآباد کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام ہوا۔ موٹر کاروں میں بیٹھے لوگ حیدرآباد کے مہاجر علاقوں میں اندھا دھند فائرنگ کرتے شہر سے نکل کر بھاگ گئے تھے۔ اس قتل عام کا حساب حیدرآباد میں خالی ہاتھ رہنے والے سندھی لوگوں کو بھرنا پڑا۔ اس رات کراچی اور حیدرآباد میں نقاب پوشوں نے سندھی گھروں میں گھس کر کئی کنبوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جو کنبے اپنے گھروں میں مارے گئے تھے ان کے نام اخبارات میں آئے۔ ان میں ایک خاندان یعقوب کا بھی تھا۔ اخبار کے مطابق دونوں شوہر بیوی اور اس کا بڑا لڑکا مارے گئے تھے اور تین بچے زخمی ہوئے تھے، جن کو اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کون ہیں؟

 

حیدرآباد میں دہشت گردوں کو جب انسانوں کا لہو بہانا ہوتا تھا تو پہلے وہ اس کی ریہرسل کرتے تھے۔ ابتدا میں سندھی گاؤں والوں سے مار پیٹ اور ان کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں پڑھنے والے سندھی بچوں کو ڈرانے کی کار روائیاں ہوتی ہیں۔

یہ ریہرسل کچھ دنوں سے چل رہی تھی۔ تین چار دہشت گرد کلاشنکوفیں لے کر ایم نام چین اسکول کے اندر گھس گئے۔ اس اسکول میں شہر کے امیروں اور ساہوکار لوگوں کے بچے پڑھتے تھے۔ دہشت گرد ایک کلاس کے اندر گھس گئے۔ اس وقت ان کی ہم زبان ٹیچر کلاس لے رہی تھی۔ دہشت گردوں نے اسے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا۔

وہ بچوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر باہر نکل گئی۔

’’یہاں پر جو سندھی ہیں وہ کھڑے ہو جائیں!‘‘ دہشت گردوں کے لیڈر نے حکم دیا۔

کلاس میں کل تیس بچے تھے، جن کی عمر لگ بھگ چھ سے سات سال کے درمیان تھی۔

’’اگر کوئی جھوٹ بولا تو اسے گولی مار دیں گے۔‘‘ دوسرے دہشت گرد نے دھمکی دی۔

دس بچے ڈرتے ڈرتے کھڑے ہو گئے۔ پہلی بار ان کی آنکھوں میں موت کا خوف دکھ رہا تھا۔

’’سبھی یہاں کونے میں قطار میں کھڑے ہو جاؤ!‘‘

ڈرے ہوئے بچے ایک کونے میں کھڑے ہو گئے۔

دو دہشت گرد انہیں تھپڑ مارتے ان کی گھڑیاں، پین اور جیب میں رکھا جیب خرچ چھینتے گئے۔

’’ابھی بھی کوئی رہ تو نہیں گیا ہے؟‘‘ دروازے پر کھڑے دہشت گرد نے اپنے ہم زبان بچوں کی جانب دیکھ کر کہا۔ ’’کوئی جھوٹ تو نہیں بولا ہے؟‘‘

ایک بچے نے دوسرے کی جانب اشارہ کیا۔

’’کھڑے ہو جاؤ!‘‘ دہشت گرد چیخا۔

بچہ ڈر کر اٹھ کھڑا ہوا۔

’’کون ہو تم؟‘‘ ڈانٹتا ہے۔

’’میں سید ہوں۔‘‘

’’مہاجر سید یا سندھی سید؟‘‘ دوبارہ ڈانٹا۔

بچہ الجھ گیا۔ تھوڑا سوچ کر کہا، ’’پتہ نہیں!‘‘

’’گھر پر کون سی زبان بولتے ہو؟‘‘ دہشت گرد نے اب کچھ نرمی سے پوچھا۔

’’انگلش اور اردو۔‘‘ بچے نے جواب دیا۔

دہشت گرد مسکرائے۔

’’پھر یہ سندھی کیسے ہوا؟‘‘

ایک دہشت گرد نے دوسرے سے کہا۔

’’ہوں!‘‘ دہشت گرد لیڈر نے کچھ سوچا۔ مسئلے کو سلجھانا ضروری تھا۔ اس کے بعد اسے ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ ’’تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟‘‘

’’زمیندار ہے۔‘‘

’’ہوں!‘‘ دہشت گردوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا۔

’’کہاں پر زمینیں ہیں تیرے باپ کی؟‘‘

’’سکرنڈ میں۔‘‘ اچانک ایک تھپڑ بچے کے گال پر پڑ گیا۔ وہ بینچ پر جا گرا۔

’’ہمیں بیوقوف بنا رہا تھا انگلی جتنا چھوکرا!‘‘ دہشت گرد نے ٹوکتے ہوئے کہا۔

’’اٹھاؤ اس سندھی پونگرے کو۔‘‘ دہشت گرد لیڈر نے حکم دیا۔

دہشت گرد بازوں کی طرح بچے کو اٹھا کر باہر چلے گئے۔ اسکول کے کاریڈور میں سناٹا چھا گیا تھا۔ طلباء اور ماسٹرنیاں کلاسوں اور کامن روموں میں سانس روک کر بیٹھے تھے۔

دہشت گردوں نے بچے کو اٹھا کر باہر کھڑی جیپ میں پھینکا۔ جیپ تیز رفتار سے چلی گئی۔ دہشت گرد بچے کو لاتیں، تھپڑ مارتے اور گالیاں دیتے رہے۔

’’وہ سالے اردو پڑھ لکھ کر ہمارے حق چھین لے گئے اور اب سندھیوں نے یہ حرام خوری شروع کی ہے۔‘‘ دہشت گرد لیڈر نے اوروں کو اس سازش سے روشناس کیا۔

’’ہوں۔‘‘ دوسرے دہشت گردوں نے بھیانک ہنکار سے بچے کو گھور کر دیکھا۔ انہیں بچہ سازش کا حصہ لگا۔

’’اسکا باپ سید ہے اور بڑا زمیندار ہے۔ پکا ظالم ہو گا اور لوگوں کا اغوا کروا کر پیسے بھی لیتا ہو گا!‘‘

’’آج اس کے بیٹے کا اغوا ہوا ہے۔ بھلے سور کے بچے کو پتہ چلے۔‘‘ دہشت گرد قہقہے لگانے لگے۔

’’پھر کیسا ماسٹر؟ لے چلیں اسے ٹارچر روم میں۔‘‘ جیپ چلانے والے دہشت گرد نے پوچھا۔

’’چھورا ٹارچر روم کی سختی سہہ نہیں پائے گا۔ مر جائے گا۔‘‘ دوسرے نے کچھ ڈر جتایا۔

’’لیکن ابھی مرکز سے گرین سگنل نہیں ملا ہے۔ ابھی فقط مار پیٹ کرنے کا آرڈر ہے۔‘‘ دہشت گرد نیتا نے کہا۔

’’ٹھیک ہے تو پھر اسے کسی بھیڑ میں پھینک کر چلے جائیں گے۔‘‘ انہوں نے فیصلہ کیا۔

جیپ ہوم اسٹیڈ ہال والی چڑھائی چڑھ کر اوپر آئی۔ ایک دہشت گرد کلاشنکوف کے ساتھ پکے قلعے کے دروازے پر اتر گیا۔ جیپ قلعے کے آڑے ترچھے راستوں سے ہوتے نیچے آئی اور فقیر کی پوڑھی کی جانب جانے والے چوک پر ہجوم کے درمیان آ کھڑی ہوئی۔ ایک دہشت گرد نے بچے کو جیپ سے نیچے اتارا اور جیپ پھلیلی کی سمت جانے والے رستے پر چلی گئی۔

بچہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔ اس کا گلا سوکھ گیا تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کہاں پر ہے۔ کسی سے کچھ پوچھنے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ بچہ سٹی کالج کے آگے بنی دوکانوں کے فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔

اس دوران اسکول کے پرنسپل نے پولیس کو اور بچے کے رشتے داروں کو اطلاع دے دی تھی۔ پولیس کی موبائل ٹیمیں اور بچے کا باپ شاہ صاحب، پجیرو جیپ کی تلاش میں نکل چکے تھے۔ شہر سے باہر جانے والے راستوں پر بنی پولیس چوکیوں پر کڑی چھان بین شروع ہو گئی تھی۔

پولیس کی ایک گاڑی ڈومن ندی، نشاط سنیما سے ہوتے فقیر کی پوڑی کی طرف آئی۔ اے ایس آئی کی نظر اچانک فٹ پاتھ پر بیٹھے بچے پر پڑی۔ سندھی لگ رہا تھا اور کسی بڑے گھر کا خاندانی تھا۔ اس نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لئے کہا۔

وہ نیچے اتر آیا اور بچے کے پاس گیا۔

’’کون ہو تم؟‘‘ اس نے پوچھا۔ بچہ ڈر کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ڈر کے مارے وہ کوئی جواب نہ دے پایا۔

’’بھائی، تم کون ہو؟ کس کے لڑکے ہو؟ کہاں رہتے ہو؟‘‘

’’ڈیفنس سوسائٹی میں۔‘‘ بچے نے ڈرتے ڈرتے آخری سوال کا جواب دیا۔

اے ایس آئی کو یقین ہو گیا کہ یہ سیدوں کا لڑکا ہے۔ ’’سید احمد علی شاہ کے لڑکے ہو؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ بچے نے جواب دیا۔

اے ایس آئی کی بانچھیں کھل گئیں۔

’’زورآور! پہلے کیوں نہیں بتایا کہ کون ہو۔ اچھا بیٹھ گاڑی میں، شاہ صاحب خود تھانے میں بیٹھا ہے۔‘‘

اس نے بچے کو اپنے ساتھ آگے بٹھایا اور وائیرلیس پر بچے کے ملنے کی اطلاع دی۔

گاڑی پولیس چوکی پہنچی تو شاہ صاحب پہلے ہی سے باہر کھڑا ملا۔ اس نے بچے کو ایسے گلے لگایا کہ اسے اپنے سے الگ ہی نہیں کر رہا تھا۔ بچہ بالکل سہما اور الجھن میں تھا۔ اس نے ایک لفظ نہیں کہا۔

شاہ صاحب اے ایس آئی کا لاکھ لاکھ بار شکریہ ادا کر رہا تھا۔

’’صاحب، ہم تو اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ جان ہتھیلی پر لے کر آپ کی خدمت کرتے ہیں۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ پولیس نکمی ہے۔ کرائم پر کنٹرول نہیں کرتی۔‘‘

’’نہیں نہیں، آج کا کام تو سبھی باتوں کا جواب ہے۔‘‘ شاہ صاحب نے کہا۔

بیان لکھانے کے لئے بچے کو انسپکٹر کے کمرے میں لایا گیا۔

’’شاہ صاحب پر اپنی مہربانی ہو گئی۔ پتہ ہے؟‘‘ اے ایس آئی نے پیچھے جاتے حوالدار کو آنکھ ماری۔ ’’شاہ صاحب جلدی ہی وزیر بننے والے ہیں۔‘‘

قانونی کار روائی پوری ہونے کے بعد شاہ صاحب بچے کو لے کر بنگلے پر پہنچا۔ بچے کی ماں، خالہ، پھوپھی روتی آئیں اور باری باری سے بچے کو گلے سے لگایا۔

بچہ چپ چاپ سب کو دیکھتا رہا۔ پھر پوری ٹولی ڈرائینگ ہال میں آ بیٹھی۔ وہ بچے سے الگ الگ طرح کے سوال پوچھنے لگے اور بچہ، ’’ہاں نہ ’’میں جواب دیتا رہا۔ جیسے کہ وہ ابھی تک تھانے میں بیٹھا ہو۔

’’بیچارہ تھکا ہوا ہے، پورے دن کا بھوکا ہے۔ اسے کھانا تو دو یا اوپر بیٹھ کر کھانے بیٹھ گئیں ہو سب۔‘‘ شاہ صاحب نے سب کو جھڑک دیا۔ بچہ ملنے کی خوشی میں گھر والے یہ بات بھول ہی گئے تھے کہ بچہ بھوکا ہے۔

’’نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘

بچے نے پہلی بار بات کی۔ پھر اچانک وہ اٹھ بیٹھا۔ اس نے اپنے ماں باپ کی اور چہرہ کر کے پوچھا، ’’ہم کون ہیں؟‘‘

گھر والوں نے تعجب سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔

’’ہم سید ہیں، بھائی!‘‘ شاہ صاحب نے اسے بتایا۔

’’اسے یہ بھی پتہ نہیں کہ ہم سید ہیں!‘‘ بچے کی ماں کو پورے دن کی ذہنی اذیت جھیلنے کے بعد پہلی بار اپنے بیٹے کی سادگی پر ہنسی آئی۔

’’نہیں، تم سب لوگ جھوٹ بول رہے ہو۔ ہم سندھی ہیں۔‘‘ بچہ چیخ کر کہنے لگا۔ ’’ہم سندھی ہیں، تبھی تو انہوں نے مجھے مارا۔‘‘ وہ دوڑتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

بدلاؤ

 

 

چودھری کے منہ سے لال ٹپک رہی تھی، زبان پر گالیوں کی بوچھار تھی۔

’’اس کمینے، کتے کی اولاد کی اتنی ہمت ہو گئی ہے جو میری بھینسوں کو چرانے والے کو گالیاں دے کر میری بھینسوں کو بھگا دیا! ارے الو، اسے جلدی پکڑ کر میرے سامنے لا۔‘‘ چودھری نے کسان کو جھڑک کر کہا۔ کسانوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، ان کا تو لہو ہی جم گیا۔ ڈر کے مارے چودھری کو ایسے دیکھنے لگے، جیسے بلی کتے کو۔

’’خدا رحم کرے! آج تو بیچارے دینے کی خیر نہیں۔‘‘ بوڑھے وِلو نے دھیرے سے بڑبڑا کر کہا۔

’’چاچا آخر ہوا کیا ہے؟ آج تو چودھری غصے میں پاگل ہو گیا ہے!‘‘ قریب بیٹھے ایک نوجوان نے پوچھا۔

’’بھائی، چودھری کا جو بھینسیں چرانے والا ہے، وہ ہے اس کا رشتے دار، اس لئے چودھری بھی اسے اپنی آنکھوں کا تارا مانتا ہے۔ آج دینے کے کھیت میں بھینسیں آ گئیں، بیچارے کا کافی نقصان ہو گیا۔ اس نے بھینسیں چرانے والے کو کہا کہ بھینسیں کھیت میں سے نکال، اس بات سے اتنی آگ لگ گئی ہے!‘‘

’’چاچا، یہ تو ظلم ہے! اگر چودھری کا مال آتا ہے تو بھی مصیبت اور اگر اس کو بھگاتے ہیں تو بھی مصیبت! اب جائیں تو جائیں کہاں؟‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔

’’بس بھائی، سب سے بھلی خاموشی!‘‘ بوڑھے نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

’’یہ الو کہاں غائب ہو گیا، بدو جا کر دیکھ، اپنے باپ دینے کے پاس جا کر بیٹھ گیا کیا؟‘‘ چودھری نے اس نوجوان کو جھڑک کر کہا۔ بدو بے بس سے منہ بنا کر اٹھا۔

دینا دور سے ڈرتا ڈرتا آیا۔ آنکھیں کٹھور، ہونٹ سوکھے، ڈر کے مارے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی چودھری نے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی،

’’ارے سور کے بچے، تم نے میری بھینسیں چرانے والے کو گالیاں دے کر بھینسیں بھگا دیں۔ کچھ نہیں بولتا تو سر پر چڑھتے جا رہے ہو۔‘‘

’’صاحب، پورا سال محنت کرتے ہیں، وہ ایک پل میں برباد ہو جاتی ہے۔‘‘ دینے نے کوشش کر کے دو تین لفظ حلق سے نکالے۔

’’کمینے، کھیت کیا تیرے باپ کا ہے کیا؟ چودھری آگ بگولا ہو گیا۔ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا، ’’ارے الو، جلدی کر، پکڑ سالے کو۔ ارے سنتے نہیں ہو کیا، ارے جلدی کر یا تجھے بھی سیدھا کروں!‘‘ چودھری کی ڈانٹ سن کر وہ آگے بڑھا، اس نے دینے کی جانب دیکھا، اس کی بے بس، ڈری ہوئی آنکھیں دیکھ کر وہ پہاڑ کی طرح ایک ہی جگہ جم گیا۔

’’بدو، ارے او بدو! ارے تو آ کر اسے مزہ چکھا!‘‘ بدو نے اسے تیز تیز نظروں سے گھور کر دیکھا۔ دینے کے مردہ دل میں جان آ گئی، اس نے زبان پھیر کر ہونٹوں کو گیلا کیا۔ چودھری نے بے بس ہو کر لوگوں کی طرف دیکھا، وہ تیز نظروں کی تپش جھیل نہیں پایا۔ اس نے دینے کی جانب دیکھا، اسے محسوس ہوا کہ دینے میں ایک بدلاؤ آ چکا ہے، سبھی کسانوں میں بدلاؤ آ چکا تھا۔ وہ پیچھے ہٹا اور ہارے جواری کی مانند خود کو کرسی پر پٹخ دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

لہو کی سیج

 

’’بیلوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے، ایک دم ہاتھ اوپر کر دیئے ہیں۔‘‘ پورے گاؤں میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیل گئی۔ جہاں بھی، آرو کے جھونپڑے میں، گاؤں کی پوڑی میں، جنگل میں، دو لوگ آپس میں مل رہے تھے تو یہی مدعا تھا۔ جب بھی کبھی کوئی خاص بات ہوتی تھی تو سبھی گاؤں والے آرو کے تنگ جھونپڑے میں جمع ہوتے تھے۔ آج تو آرو کی چیخ کے اوپر چیخ تھی، ’’ارے بھائی، کیوں مجھ غریب کا جھونپڑا توڑ رہے ہیں۔‘‘ لیکن کسی نے بھی اس کی چیخوں پر دھیان نہیں دیا۔ سبھی کے منہ میں فقط بیلوں کی ہی بات تھی۔

کھیری کو بیلوں پر بہت طیش تھا۔ انہیں بھلا برا کہہ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا، ’’ان بیلوں کا اب دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم میں بھی آپ ہی کی طرح جان ہے، کب تک ظلم سہتے رہیں گے، ہوں۔‘‘

’’لیکن، لیکن، انہوں نے ایسی باتیں سیکھیں کہاں سے؟‘‘ چاچے مٹر کو اس بات پر تعجب ہو رہا تھا، بار بار یہی بات کر رہا تھا۔

’’چاچا، پوری دنیا بیدار ہو گئی ہے۔ کتے بھی لوگوں کے ساتھ مل کر کھا پی رہے ہیں اور ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ تو پھر بھی بڑے کام والے جانور ہیں۔‘‘ ایک نوجوان نے جواب دیا۔

’’تم چپ رہو!‘‘ ولو نے اس کو جھڑک کر کہا۔ ’’تم سبھی لڑکوں نے ہی ان کو بگاڑا ہے۔ ایسی بیکار باتیں کر کے ان بیوقوف بیلوں کے دماغ میں پتہ نہیں کیا بھر دیا ہے۔‘‘

’’میرے والا بیل مجھے کہتا ہے کہ صاحب، ہم اپنا لہو جلا کر کے آپ کے لئے روزی پیدا کرتے ہیں اور ہمیں سوکھی گھاس بھی لاٹھیاں کھا کر ملے۔‘‘

’’بھائی، بڑے سچ کہہ گئے ہیں کہ قیامت قریب ہے۔ بھلا ان بیوقوفوں کو کون سمجھائے کہ خدا نے ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پر پیدا کیا ہے۔ ایسے ہی دنیا کا کام چل رہا ہے۔‘‘

’’تو چاچا یہ بات بھی خدا نے ہی ان کے دماغ میں پیدا کی ہے کہ اب آپ سب بھی بیدار ہو جاؤ۔ خدا نے ہی ان کو یہ سمجھ دی ہے اور کس کے پاس طاقت ہے۔‘‘ اسی نوجوان نے پھر سے کہا۔

’’چپ کر لڑکے، فالتو بک رہے ہو!‘‘ ایک بوڑھے نے کہا۔ کچھ وقت کے لئے سناٹا چھا گیا۔

’’آخر ان بیلوں کو کیسے سبق سکھائیں، مار تو یہ روز ہی کھاتے ہیں!‘‘ ایک شخص نے پوچھا۔

’’بھائی صاحب، میرے تو بازو ہی سُن پڑ گئے ہیں، کل جو بیلوں کو مارا تھا، اس نے تو الٹے ہمیں ہی بیمار کر دیا ہے۔‘‘ کھیری نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

’’میرے ساتھ بھی یہی حال ہے۔ کل سبھی کو یقین ہو گیا کہ مار سے وہ کبھی نہیں سدھریں گے۔ کوئی اور راستہ ڈھونڈنا پڑے گا۔‘‘

’’دس پندرہ لوگ مل کر انہیں سمجھانے گئے ہیں، دیکھیں کیا ہوتا ہے۔‘‘

لیکن سبھی کا یہ خیال تھا کہ کل اتنی مار کے بعد بھی نہیں مانے، تو سمجھانے سے کیا سمجھیں گے۔ سبھی کو بہت غصہ تھا۔ کوئی ڈانٹ رہا تھا تو کوئی گالیاں دے رہا تھا اور کسی کسی کو ڈر لگ رہا تھا۔ ’’بیل کتنے ہی دنوں تک نہیں آئے ہیں، کھیتی کیسے ہو گی، زمیندار حالت خراب کرے گا۔‘‘

’’سلام۔‘‘ باہر سے آتے ایک ساتھی نے ہانپتے ہوئے سلام کیا۔ جیسے کہ چھتے میں کسی کا ہاتھ لگ گیا تھا اور بھوں بھوں تیز آواز بلند ہو گئی۔

’’پیرل، بتا کیا حال ہیں؟‘‘ ایک ساتھی نے جلد بازی میں پوچھا۔

’’حال کیا بتائیں! خرگوش کی ٹانگیں تین، پوری بات ہی نہیں سن رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے ہمیں کئی دنوں تک بھڑکایا اور ٹھگا ہے۔ اب ہمیں بھی پتہ چل گیا ہے کہ آپ ہمیں لوٹ کر عیش کرتے ہو۔ ہل چلا چلا کر، کھیت جوت جوت کر، اناج اگا اگا کر، کندھے گھسا کر مر جائیں گے، ہوں!‘‘ پیرل نے بیل کو گالی دی۔

’’مٹر والے مریل لال بیل کی بات سنی تھی؟ کہہ رہا تھا، ’’ہم تو زندہ ہوتے ہوئے بھی مرے ہوئے ہیں، ہماری موت مکوڑے کی موت کے برابر ہے، اس لئے کیوں نہ اپنا بیکار لہو دے کر اپنے پیچھے کے لوگوں کو سکھی کریں۔‘‘ عارب نے کہا۔

’’ہاں یار، یہ مریل لال بیل بڑا شرارتی ہے۔ اس کا حال دیکھا ہے، مٹر والے کی مار نے اس کا گوشت تو گلا ہی دیا ہے، باقی اوپر کی ہڈیاں بچی ہیں، تو بھی شرارت نہیں چھوڑ رہا۔‘‘ ولو نے غصے سے کہا۔

’’وہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن اب اس بات پر آئیے کہ آخر کریں کیا؟‘‘

’’کریں گے کیا! میں بیلوں کے بزرگوں کو دھمکا کر آیا ہوں کہ اپنے لڑکوں کو سمجھائیے، ہم پھر بھی آپس میں ہیں، چھاؤں میں رکھیں گے، لیکن اگر زمیندار کو پتہ چل گیا تو سب کی خیر نہیں۔‘‘ پیرل نے بتایا۔

’’زمیندار!‘‘ کھیرے سے لگ بھگ چیخ نکل گئی، ’’زمیندار تو پہلے سے ہی ایسے موقعے کی تاک میں ہے کہ کوئی بہانہ بنا کر ہم سب کو ہمارے پشتینی کھیتوں سے بے دخل کر دے، اپنوں کو دے دے۔ حال تو پہلے سے ہی دیکھ رہے ہیں کہ روز روز ہمارے کھیت زمیندار کے باہر سے آئے گرگوں اور خوشامدوں کے قبضے میں ہوتے جا رہے ہیں۔ کھیتی ہو نہ ہو، لیکن زمیندار کو اپنا حصہ ضرور چاہئے۔ وہ ہمیں کیسے بھی بھیک مانگ مانگ کر دینا ہی ہے۔‘‘

’’سچ کہتے ہو! اب تو دو پاٹوں کے بیچ پھنس گئے ہیں، اگر بیلوں کی مانتے ہیں اور ڈھیل دیتے ہیں تو پورا کام ہمیں کرنا پڑے گا، اگر زمیندار سے مدد مانگتے ہیں تو الٹے کھیتوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ کریں تو کریں کیا!‘‘

’’زمیندار کے حکم پر بیلوں پر پہلے ہی کم ظلم نہیں ہوا ہے۔ اس بات نے تو بیلوں کو الٹے بگاڑ دیا ہے۔‘‘

’’پھر چاچا، کھیت لٹانے سے تو یہ اچھا نہیں ہو گا کہ بیلوں سے سمجھوتہ کر لیں۔ بیلوں نے ہمیشہ ہمارے لئے اپنی جان قربان کی ہے۔ لیکن ہم ایسے ہے کہ جو خود تو ظلم کرتے ہی ہیں غیروں سے بھی کرواتے ہیں، یہ تو اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔‘‘ نوجوان نے کہا۔

’’نہیں نہیں! ایسا نہ ہوا ہے، نہ ہو گا۔ ان بیوقوف بیلوں کے ہاتھوں خود کو ڈرائیں؟ ایسا کیسے ہو گا۔ اپنے بزرگوں کو نہیں شرمائیں گے۔ ان بیلوں کو سبق سکھائیں پھر جو خدا کو منظور ہو گا۔‘‘ بوڑھے نے سختی سے کہا۔

’’پھر بھلے ہی ہمارے ہاتھ کٹ جائیں، ہمارے کھیتوں پر پرائے قبضہ جما کر ہمیں یہاں وہاں ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیں۔‘‘

’’اچھا اچھا، زیادہ بکو مت۔‘‘ بوڑھے نے غصے سے کہا۔

’’بیکار بکواس مت کرو۔‘‘ ایک لاغر، بوڑھے کمزور بیل نے غصے سے کہا، ’’کیوں بیکار بگڑ گئے ہو، اپنے دادا پر داداؤں کو دیکھو، کسی نے بھی ایسا نہیں کیا، اپنے مالکوں کو جواب دیتے ہو۔ توبہ، توبہ، خدا کچھ سمجھ دے تم جوانوں کو۔‘‘

’’ہاں چاچا، یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن تم نے کبھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچا ہے۔ نہیں، کیونکہ ہماری عقل پر، آنکھوں پر پردے چڑھ گئے ہیں، جس سے ہمیں کچھ بھی نظر نہ آئے اور کولہو کا چکر چلتا رہے۔ ہماری آنکھیں بند ہیں تو ہمارا بدن بھی قید ہے۔ تم نے کبھی سوچا ہے، تم نے کبھی یہ محسوس کیا ہے کہ ہمیں کس طرح سے دھوکا دیا جا رہا ہے، کس طرح لوٹا جاتا ہے، ہمارا خون کس طرح چوسا جاتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے، چاچا، ہمیں سوچنا چاہئے۔‘‘ ایک نوجوان بیل نے جوش سے کہا۔

’’ہمارے گلے میں صدیوں سے غلامی کا پٹا بندھا ہے۔ اس لئے تھوڑی تھوڑی بات پر بھی آپ ہڑبڑا جاتے ہیں۔ اسی ڈر نے تو ہمیں برباد کر دیا ہے۔ ظالم ہمارے ڈر کا فائدہ اٹھا کر، ہم پر اور زیادہ ظلم کرتے رہتے ہیں۔ صدیاں بیت گئیں، لیکن وہی کولہو کا چکر، وہی ہل، وہی پل پل کا کھیل، پھر اب جب ہم کچھ بیدار ہوئے ہیں تو آپ بزرگوں میں ڈر بیٹھ گیا ہے۔ ہم تکلیف برداشت کر رہے ہیں، مار کھا رہے ہیں، لیکن اس میں خوش ہیں کہ ہماری زندگیاں گندے پانی کے ڈبے کی طرح ساکت اور خاموش ہیں۔‘‘ کانورے بیل نے کہا۔

مریل لال بیل، جو چپ چاپ نظریں نیچے گڑھا کر نوجوان بیلوں کی جوش بھری باتیں سن رہا تھا اوروں کی طرف منہ کر کے کہا، ’’بھائیوں، اس میں ہمارے بزرگوں کا کوئی قصور نہیں ہے، حقیقت میں انہیں کچھ بہتری کی امید نہیں ہوتی ہے، اس لئے انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ بدلاؤ ان کے مسئلے کو اور بڑھائے گا۔‘‘

’’لیکن چاچا، موت ہی موت پر فتح حاصل کرے گی۔ پیڑھی کو سکھی رکھنے کے لئے، پھر سے زندہ ہونے کے لئے، ہم میں سے ہزاروں کو مرنا پڑے گا۔‘‘

’’لیکن صاحب، مالک دھمکی دے کر گئے ہیں کہ ہم زمیندار سے مدد لے کر ایسا سبق سکھائیں گے کہ آپ کی پیڑھیاں بھی یاد رکھیں گی۔‘‘ بوڑھے بیل نے ڈرتے ہوئے کہا۔

’’ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے۔ لیکن ہمارے مالک یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ایسے کر کے وہ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ چاچا، آپ نے بھی وقت دیکھا ہے۔ جب بھی ہمارے مالکوں نے اپنوں کو ڈرانے اور مظالم ڈھانے کے لئے پرایوں سے کوئی مدد مانگی تو اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے۔‘‘

’’ہمارے مالک خود تو اندھیرے میں رہتے ہی ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ باقی لوگ بھی اندھیرے میں رہیں۔ عقل کی روشنی تو دن بدن پھیلتی جائے گی، پھر جو اس روشنی کے سامنے ہاتھ دے گا وہ خود اندھیرے میں رہے گا۔‘‘ مریل لال بیل نے کہا۔

’’ہم تو اپنی عمر کھو چکے ہیں۔ اگر آپ حق پر ہیں تو خدا آپ کی مدد کرے گا۔‘‘ بوڑھے بیل نے لاچار ہو کر کہا۔

کسانوں کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ زمیندار سے مدد مانگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

وہ ڈرتے ڈرتے، زمیندار کے عالیشان برآمدے میں گھسے۔ زمیندار ایک بڑی کرسی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے چاروں اطراف چاپلوس ڈیرا ڈالے بیٹھے تھے، ناخن سے لے کر چوٹی تک زمیندار پر قربان ہو رہے تھے۔ کسانوں پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھیں گیدڑ کی آنکھوں سے بھی تیز چمک اٹھیں۔

’’سرکار، سلام۔ زمیندار اور اس کا گھرانا شاد باد رہے۔‘‘ سبھی باہر سے آئے لوگوں نے بڑے ہی ٹھنڈے و پرسکون انداز سے کہا۔

’’ہوں؟‘‘ زمیندار کالے ناگ کی مانند پھنکارا۔

’’کس کام سے آئے ہیں؟‘‘ اس نے رعب سے پوچھا۔

’’صاحب، ہمارے بیلوں نے کھلی بغاوت کر دی ہے۔ انہوں نے کام کرنے سے اور ہمارا حکم ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ ہم نے ان کو آپ کا ڈر بھی دیا، لیکن وہ ضد پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ پیرل نے ادب کے ساتھ ہاتھ باندھ کر گذارش کی۔

’’ہوں؟ ان بیوقوف جانوروں کے خالی دماغ میں یہ ہوا کس نے بھری ہے اور تم جانوروں کو سمجھا بھی نہیں سکتے، بس تھوڑی تھوڑی بات پر یہاں دوڑ کر چلے آتے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ اب تم سب بھی اپنے بیلوں کی طرح نکمے اور ناکارہ ہو گئے ہیں۔ تم میں اب کوئی قابلیت نہیں رہ گئی ہے۔ اب تم سے مشقت نہیں ہوتی ہے اور ایک دم جاہل ہو گئے ہیں۔ تم کو نئے طریقوں سے کھیتی کرنی نہیں آتی۔ ان کھیتوں سے ہمیں کیا مل رہا ہے! اس لئے ہم پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ اب یہ کھیت باہر سے آئے محنتی اور ہوشیار لوگوں سے جتوانا چاہئے۔ تم سب لوگوں نے تو کھیتوں کا ایک دم کچومر نکال دیا ہے۔‘‘

’’لیکن صاحب، سالوں سے ہمارے دادا پردادا یہ کھیت آباد کرتے آ رہے ہیں۔ نئے طریقے ہم بھی سیکھ سکتے ہیں۔‘‘

’’بس بس، زیادہ بکواس مت کر۔ اپنی زبانوں کو ہمیشہ بند رکھو۔‘‘ اس نے بات کاٹتے کہا۔ ’’ان بیوقوف جانوروں کا دماغ بھی تم لوگوں نے ہی خراب کیا ہے۔ ان کے ساتھ تم لوگوں کو بھی ایسا سبق سکھانا چاہئے، جو پوری عمر یاد رکھو۔‘‘ ان نے اپنے گرگوں کو اشارہ کیا، جو پہلے سے ہی اشارے کی تاک میں بیٹھے تھے۔ فقط نوالہ ڈال کر چبانے کی دیر تھی۔ گاؤں والوں نے بے بس ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کے ہاتھوں سے جیسے کوئی چیز نکل گئی تھی۔ وہ ایسے ڈگ بھر رہے تھے، جیسے کہ قتل ہونے جا رہے ہوں۔

’’تیز چلو، پیروں میں بیڑیاں ہیں کیا؟‘‘ انہیں جانوروں کی طرح زور زور سے پیچھے سے دھکیلا گیا۔

جوان بیل گائے، نوجوان بچھڑے بچھڑیاں، دور دور سے آ کر اپنے کھیتوں کو بچانے کے لئے اکٹھے ہوئے تھے۔ کوئی بڑی عمر والا بیل گذرے وقت کا دکھڑا رو رہا تھا تو کوئی نوجوان بیل مستقبل کے شاندار سپنے دیکھ رہا تھا، تو کوئی مضبوط ارادوں والا بیل سبھی میں جوش پھونکنے کا کام کر رہا تھا۔ مریل لال بیل سب کے آگے آگے تھا۔ وہ زور زور سے کہہ رہا تھا، ’’ہمیں ہمیشہ سے عقل کا اندھا اور دماغی طور پر غلام سمجھا گیا ہے، ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دشمنوں، اپنے مالکوں کے آگے یہ ثابت کر دیں کہ عقل اور علم کی روشنی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ہم نے حق اور سچائی کو پرکھ کر پہچان لیا ہے۔ ساتھیوں، آپ کو پتہ ہے کہ آپ کی کیا قیمت ہے۔ اس قیمت کو نہیں مانیں، جو آپ کا لہو چوسنے والوں نے آپ کی طے کی ہے۔ آپ کو خود اپنی قیمت لگانی چاہئے، اصل قیمت تو آپ کے اندر ہے۔‘‘

سبھی بیلوں میں زبردست جوش اور جذبہ تھا۔ وہ سر پر کفن باندھ کر آئے تھے۔ صدیوں کے بعد وہ بیدار ہوئے تھے اور کولہو کے چکر کو ڈھانے کے لئے، سر کی قربانی دینے کے لئے، غیروں سے کھیتوں کو بچانے کے لئے آ کر اکٹھے ہوئے تھے۔

دشمن دور سے دھکیلتا آ رہا تھا۔ دشمنوں کو دیکھ کر جوش کے مارے بیلوں کے بال کھڑے ہو گئے۔ لال بیل نے خبردار کرتے کہا، ’’ساتھیو، کسی بھی چیز سے مت ڈرنا۔ آخر بھی ہماری زندگی سے بھیانک اور کڑوی چیز اور کیا ہو گی! وہ کڑواہٹ جو روز ہمارے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے! شاباش ساتھیو، سبھی مل کر ایک مضبوط طاقت بن جائیں۔‘‘

دشمنوں میں ناخن سے لے کر چوٹی تک گھبراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے کسانوں کو آگے دھکیل کر ایک زوردار حملہ کر دیا۔

’’اب اپنے اور پرایوں کو نہ دیکھو، لہو کی ندیاں بھی سچائی کو ڈبو نہیں پائیں گی۔‘‘ بیلوں کے لیڈروں نے نعرہ لگایا۔

اسکے بعد جنگ چھڑ گئی۔ ہزاروں کے سر گرتے رہے، لاکھوں سر اٹھتے رہے۔ خون کی ندیاں بہہ نکلیں۔ آسمان کالا پڑ گیا، جیسے قیامت تھی، ایسا ہی نظارہ تھا اور ظالموں کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ صدیوں کے ستائی، سوکھی اور بنجر زمین کو خون نے لال اور گیلا کر دیا اور جیسے اسے لہو سے سینچا گیا۔ ایک نئی قوت، ایک نئی طاقت مل گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

خالی پیج

 

 

جس وقت نونی اس کے کمرے میں آیا، وہ کوئیٹ زی کا ناول Disgrace پڑھ رہا تھا۔ بیٹے کو کمرے میں آتا دیکھ کر، اس نے کتاب بند کر دی۔

’’کیسے ہو؟ خوش تو ہو؟‘‘ کامران نے مسکراتے ہوئے بیٹے سے پوچھا۔

’’ہاں۔‘‘ نونی نے اختصار میں جواب دیا اور کچھ ڈھونڈنے لگا۔ کامران نے چاہا کہ نونی کچھ دیر کے لئے اس کے پاس بیٹھے۔

’’کچھ دیر بیٹھ تو سہی، کچھ حال چال پوچھیں۔‘‘ اس نے دیکھا کہ اس کے لہجے میں پیار کے ساتھ کچھ اصرار بھی شامل تھا۔

’’میں گیم کھول کر آیا ہوں۔ بعد میں آتا ہوں۔‘‘ نونی نے جواب دیا اور کمرے میں پڑے پلے اسٹیشن ٹو جی کی سی ڈی لے کر جلدی سے باہر نکل گیا۔

کچھ دیر تک وہ خالی خالی بیٹھا رہا۔ اسے بیٹے کے اس رویے پر کوئی دکھ نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ اس میں غصہ کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ بس اس کا دل کچھ دیر کے لئے خالی خالی ہو گیا تھا۔ اس نے بند کی ہوئی کتاب اٹھائی اور کچھ دیر تک کتاب کو دیکھتا رہا، لیکن اس نے کتاب نہیں کھولی۔ کتاب پڑھنے کا اس کا دل نہیں ہوا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کا خالی دل پیچھے چلا گیا تھا، یادوں کے گھنے جنگل میں۔ وہیں کہیں الجھے راستوں پر یادوں کے کونوں میں الجھ گیا تھا۔ لیکن وہاں پر اسے ایک ہی شخص نظر آیا – اس کا باپ واقعی ایسا تھا یا اس نے سمجھا تھا کہ اس کا باپ روکھے مزاج کا تھا۔ احساسات سے ماورا۔ دونوں باپ بیٹے کے بیچ کھائی تھی۔ جیسے دونوں کے بیچ ریگستان کی ریت کی بڑی بڑی دیواریں تھیں۔ ایسا کب ہوا؟ اس نے یاد کرنا چاہا۔ اس کے اور اس کے باپ کے درمیان فاصلے کی شروعات کب ہوئی؟ اس نے الجھے راستے پر نشان ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ لیکن اسے لگا، یہ کوشش بیکار تھی۔ اس کے اور اس کے باپ کے بیچ نزدیکی تھی ہی کب! اس کا باپ ایک ناقابل فہم شخص تھا۔ فقط اس کے ساتھ نہیں، بلکہ پورے گھر سے، بچوں سے اس کا کوئی لگاؤ نہیں تھا، کچھ اپنا پن نہیں تھا۔ لگتا تو ایسا ہی تھا۔ گھر میں وہ پرائے شخص کی مانند رہتا تھا۔ بچے کیسے پڑھے، کیسے انہوں نے ہاتھ پیر مار کر زندگی جینے کی کوشش کی، اس بات سے اس کے باپ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس نے سوچ رکھا تھا، پکا عہد لیا تھا کہ اپنے باپ کے الٹ، وہ اپنے بچوں کو بھرپور پیار دے گا۔ اس سے جتنا ہو سکے گا، وہ اپنے بچوں کو دنیا کی ہر خوشی دے گا۔ اسے پتہ نہیں چلا کہ ایک طرف اس کے باپ کا رویہ تھا، پیار سے، احساسات سے خالی، تو دوسری جانب اس کا رویہ تھا۔ اس کے پاس جتنا پیار تھا، جتنے احساسات تھے، وہ سب اس نے اپنے بیٹے کے حوالے کر دیئے تھے۔ جب نونی کی ہر بات، ہر تمنا خود بخود پوری ہوتی گئی، تو اسے باپ کے پاس آ کر بیٹھنے اور کچھ بولنے، بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑ رہی تھی۔

تھوری دیر کے لئے خالی ہوا دل، اب پتہ نہیں کتنی ہی باتوں سے بھر گیا تھا۔ دل میں الگ الگ عکس تیزی سے بدل رہے تھے۔ اس کا بیٹا چھوٹا تھا تو اس کے بہت قریب تھا۔ بڑا ہونے کے بعد دھیرے دھیرے، وہ اس سے دور ہوتا گیا۔ اپنے شوق میں وہ ڈوبتا گیا۔ گیم، پلے اسٹیشن، کمپیوٹر۔

کامران چاہتا تھا کہ نونی کے کمرے میں جا کر تھوڑی دیر اس سے باتیں کرے، ملے جلے۔ نونی کے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا رہتا تھا۔ آنکھیں کمپیوٹر مانیٹر کی اسکرین میں گڑھی رہتی تھیں۔ اپنی باتوں اور سوالوں کی جانب نونی کا دھیان نہ ہوتا دیکھ کر، وہ کمرے سے اٹھ کر چلا آتا تھا۔

اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ کتنی ناقابل فہم بات تھی۔ اسے خیال آیا، ’’باپ سے پیار نہ ملا اور بیٹے سے پیار کا جواب نہیں ملا!‘‘

تبھی اسے لگا کہ پیار ویار سب بکواس ہے۔ اس نے اپنی پوری زندگی اس ایک بیکار لفظ کے چکر میں پھنسا کر گنوا دی۔ اسے پتہ تھا کہ وہ احساسات کی بیماری میں ڈوبا تھا۔ کر بھی کیا سکتا تھا! کسی کے دکھوں کی بات سن کر، درد سے بھرا شعر پڑھتے، کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں جذباتی سین دیکھ کر اور ڈائیلاگ سن کر اس کے دل کا بھر آنا، حساسیت نہیں تھی تو اور کیا تھا؟ اس نے خود سے پوچھا۔ جب اس کا باپ بیمار ہو گیا تھا تو اس نے اسے اسپتال میں داخل کروایا۔ ویسے اس کا باپ کسی بھی بیماری وغیرہ میں علاج نہیں کرواتا تھا۔ خود ہی دوائیں لے کر کھاتا تھا، ٹھیک ہو جاتا تھا۔ لیکن اس بار ٹھیک ہونے کے بجائے، مزید بیمار پڑ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ کچھ دنوں کے بعد ٹھیک ہو جائے گا۔ دل ہی دل میں اس نے یہ بات مانی کہ اپنے باپ کی بیماری پر اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا تھا۔ پھر اچانک ہی اس کا باپ اسپتال میں گزر گیا۔ اس وقت وہ اسپتال کے کمرے میں باپ کے پاس ہی موجود تھا اور تب دہاڑیں مار کر رویا تھا۔

’’باپ کے مرنے پر میں اتنا کیوں رویا تھا؟‘‘ کامران نے خود سے پوچھا۔

اور کوئی تو بات نہیں تھی۔ اسے باپ سے پیار بھی نہیں تھا۔ آخری وقت میں اس نے باپ کی برابر دیکھ بھال نہیں کی تھی اور اس احساس کے دکھ کے سبب وہ اتنا رویا تھا۔ یا شاید باپ کی ایک پرائی اور غیر تعلق بھری زندگی گزارنے کے سبب اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ ان میں سے کوئی ایک سبب تھا یا دونوں اسباب آپس میں مل گئے تھے! کامران کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پایا۔

اسکا دھیان کوئیٹزی کے ناول پر گیا، جو ابھی تک بند حالت میں اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ وہ کتاب کو دیکھنے لگا۔ جہاں تک اس نے ناول پڑھا تھا، وہ یاد کرنا چاہا۔ ناول کا مرکزی کردار، جنوبی افریقہ کے بڑے شہر کی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا۔ اپنے طالب علم سے جسمانی تعلق بنانے کے سبب، اسے اپنا قصور ماننے کے علاوہ معافی لکھ کر دینے کے لئے کہا گیا۔ اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے اور اس کی بیوی کے بیچ کچھ سال پہلے طلاق ہو چکا تھا۔ اس کی ایک جوان بیٹی تھی۔ وہ جنوبی افریقہ کے کسی دور افتادہ مقام پر تنہا رہتی تھی۔ وہاں اس کی بیٹی نے زمین لے کر اپنا فارم بنایا تھا۔ پروفیسر کچھ دن بیٹی کے گھر رہنے کا سوچ کر فارم پر آتا ہے۔ اسے دیکھ کر اس کی بیٹی کو کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی بیٹی کو طالب علم والے اسکینڈل کے سبب نوکری چھوڑنے کی بات بتاتا ہے۔ اس بات پر بیٹی کوئی خاص رد عمل ظاہر نہیں کرتی۔ وہ باپ سے کہتی ہے کہ جتنے دن چاہے اس کے پاس رہ سکتا ہے۔ پروفیسر کوشش کرتا ہے کہ گھر میں اور زمین کے کام کاج میں بیٹی کا ہاتھ بٹائے۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت ختم ہونے کے بعد وہاں حالات بدل گئے ہیں۔ پروفیسر اور بیٹی گورے ہیں اور وہ مقامی لوگوں کے بدلے رویے کو محسوس کرتے ہیں۔ ایک دن تین چار نیگرو نوجوان فارم والے گھر میں آتے ہیں۔ پروفیسر کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے باتھ روم میں بند کر دیتے ہیں۔ پروفیسر کتوں کے بھونکنے کی آواز، فائرنگ کی آواز، گھر میں چیزوں کے ٹوٹنے کی آوازیں اور بیٹی کی چیخیں سنتا ہے۔ لیکن وہ کچھ نہیں کر پاتا۔ حادثے کے بعد وہ بیٹی سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا؟ وہ کوئی جواب نہیں دیتی۔ پروفیسر بہت شرمندہ ہے کہ وہ بیٹی کے لئے کچھ نہیں کر پایا اور بیٹی سخت ذہنی اذیت کے سبب کچھ دنوں تک بستر پر پڑی رہتی ہے۔

باپ اور بیٹی کے درمیان فاصلے کی دیوار مزید طویل ہو جاتی ہے۔ وہ پروفیسر کے ساتھ بیٹھنے اور اس سے بات کرنے سے کتراتی رہتی ہے۔ پروفیسر اسے سمجھاتا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں۔ اچھا یہ ہو گا کہ فارم بیچ کر واپس چلیں۔ لیکن بیٹی انکار کرتی ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر کو بتاتی ہے کہ اس کی بیٹی حاملہ ہے۔ بیٹی، بچے کو گرانا نہیں چاہتی تھی اور اس نے اپنے فارم پر ہی رہنے کا فیصلہ لیا۔ پروفیسر کو محسوس ہوتا ہے کہ یہاں بیٹی کے گھر پر رہنا، جو بات اس کی بیٹی بھی نہیں چاہتی، اب غیر ضروری ہے۔

’’میں اگلے سال ریٹائر ہو جاؤں گا۔‘‘ اچانک کامران کی توجہ ناول سے ہٹ کر خود پر گئی۔

’’پھر کیا کروں گا؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔

کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ پورا دن گھر میں گذارنے کے بارے میں سوچتے وہ ابھی سے بیزار ہونے لگا۔ تب اس کا دھیان پھر سے بیٹے کی طرف گیا۔

’’وہ بھی مجھے پورا دن گھر میں بیٹھا دیکھ کر پریشان تو نہیں ہو گا؟‘‘

اس نے خود سے پوچھا کہ جب کوئیٹزی والے کردار پروفیسر کی بیٹی کی طرح، نونی کو میرا گھر میں رہنا غیر ضروری لگا تو؟

’’ناول اور کہانیاں پڑھ پڑھ کر میرا سر گھوم گیا ہے۔ بیکار باتیں سوچ رہا ہوں۔‘‘ اس نے جیسے خود کو ڈانٹا۔

دھیان ہٹانے کے لئے کامران نے ناول وہیں سے پڑھنا چاہا، جہاں اس نے چھوڑا تھا۔ اس نے کتاب کا وہ پیج ڈھونڈ کر کھولا اور پڑھنے لگا۔ پڑھ کر اس نے صفحہ پلٹا۔ لیکن اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا پڑھ گیا تھا! شاید وہ اپنے بارے میں ہی سوچتا رہا تھا۔ اس نے دوبارہ وہی پیج پھر سے پڑھنا چاہا۔ پھر سے پیج پلٹ کر اس نے پورے دھیان سے پڑھنے کی کوشش کی۔ لیکن اس پیج پر چھپے الفاظ مکوڑے بن کر سرکنے لگے۔ پھر دھیرے دھیرے غائب ہوتے گئے۔ اسے لگا کہ وہ پورا پیج خالی تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

مالک کی قیامت

 

اللہ رکھا کی طبیعت کئی دنوں سے خراب تھی، اس کے باپ نے اسے شہر لے جا کر ڈاکٹر کو دکھا کر دوا بھی لی تھی، لیکن ابھی تک کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔ اللہ رکھا کا باپ چودھری خدا بخش اپنے گاؤں کا چھوٹا موٹا زمیندار تھا، اس کی زمین چھوٹی لیکن اچھی تھی، اچھی پیداوار ہوتی تھی۔ چودھری خدا بخش خوشحال زمیندار مانا جاتا تھا، اسے پانچ لڑکیوں کے بعد ایک بیٹا ہوا تھا۔ اس لئے اللہ رکھا اس کا لاڈلا تھا، اٹھارہ سال کا نوجوان ہو گیا تھا، لیکن چودھری خدا بخش کے لئے ابھی تک وہی بچہ تھا، اللہ رکھا کی تھوڑی بھی تکلیف اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ اللہ رکھا جب گاؤں کے پرائمری اسکول سے پڑھ کر شہر کے ہائی اسکول میں داخل ہوا تو وہاں پر اس کا دل نہیں لگا، وہ اسکول جانے سے کترانے لگا۔ چودھری خدا بخش نے جب یہ دیکھا تو اس نے بھی زیادہ زور نہیں دیا۔

’’بیٹے، تمہارا دل نہیں لگتا تو ٹھیک ہے، میرے کون سے سات لڑکے ہیں؟ تم اکلوتے ہو، تمہاری گزربسر کے لئے بہت کھیت ہے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے کہا۔

اصل بات یہ تھی کہ چودھری خدا بخش کو اللہ رکھا میں اتنا موہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اپنی آنکھوں سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا، اللہ رکھا پڑھائی چھوڑ کر باپ کے ساتھ کھیت سنبھالنے لگا۔ اللہ رکھا کی ماں فاطمہ اور اس کی بہن ہاجراں جس کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی، وہ بھی خوش ہوئیں، لیکن اللہ رکھا کی اچانک بیماری نے سب کو پریشان کر دیا تھا۔

اللہ رکھا کچھ کھاتا تھا تو اسے متلی آتی تھی، کبھی کبھی الٹی کر دیتا تھا، یہ حالت دیکھ کر گھر کے افراد گھبرا جاتے تھے۔

’’ضرور میرے بچے کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔‘‘ ایک دن فاطمہ نے چودھری خدا بخش سے کہا۔

’’ہماری کسی سے کون سی دشمنی ہے! نظر کون لگائے گا؟‘‘ چودھری خدا بخش نے پھیکی مسکراہٹ سے ہاجراں کی طرف دیکھا۔

’’بابا، ہمارے بھائی جیسا خوبصورت لڑکا ہمارے رشتے داروں میں ہو تو بتائیے؟‘‘ ہاجراں نے اپنے باپ سے کہا۔

’’خدا لمبی عمر دے، ہمارے اللہ رکھا جیسا خوبصورت جوان رشتے داروں میں تو چھوڑ، پورے گاؤں میں نہیں ہے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے فخر سے کہا۔

’’اور نہیں تو کیا؟ لوگ تو ہیں جلنے والے، کسی بری نظر والے کی نظر میرے بچے کو لگ گئی ہے۔‘‘ فاطمہ نے پریشان ہو کر کہا۔

’’ہاں، ڈاکٹر کی دوا سے تھوڑا بھی فائدہ نہیں ہوا ہے۔‘‘ اب چودھری خدا بخش کو بھی شک ہونے لگا۔

’’موسی کھتو نظر اتارتی ہے، میں نے اسے کہا ہے کہ دھاگہ کٹوری دو اور ملا سے پانی بھی پڑھواتے ہیں۔ خدا کے کرم سے نظر اتر جائے گی۔‘‘ فاطمہ کو جیسے پورا یقین تھا۔

’’خدا ٹھیک کر دے گا۔‘‘ چودھری خدا بخش بھی پریشان ہو گیا تھا، لیکن کٹوری دھاگے اور پڑھے گئے پانی سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ اللہ رکھا کی طبیعت ویسی ہی خراب رہی، آخر ڈاکٹر نے کہا کہ حیدرآباد کے کسی اسپیشلسٹ کو دکھائیے، اس نے چودھری خدا بخش کو ایک مشہور ڈاکٹر کا نام بتایا۔

پہلے تو فاطمہ نے ضد کی کہ وہ بھی اپنے بیٹے کے ساتھ چلے گی، لیکن چودھری خدا بخش نے اسے سمجھایا کہ گھر میں جوان لڑکی کو اکیلا چھوڑ کر چلنا ٹھیک نہیں ہے۔

’’تم وہاں چل کر کرو گی بھی کیا؟ تم ماں ہو اسکی، گھر میں بیٹھ کر اس کی دعا کرو۔‘‘ چودھری خدا بخش نے کہا۔

’’ماں تم بیکار پریشان ہو رہی ہو، تم دیکھنا جلدی ہی ٹھیک ہو کر گھر آؤں گا۔‘‘ اللہ رکھا نے ماں کو بھروسہ دلایا۔

’’خدا ٹھیک کر دے گا، بیٹا خدا سب ٹھیک کر دے گا۔‘‘ فاطمہ نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے، ’’ہے خدا! اللہ رکھا تم نے ہی دیا ہے، اب تم ہی اس کی حفاطت کرنا۔ خدا کرے جلدی ٹھیک ہو کر اپنے گھر لوٹ آئے۔‘‘

’’ماں، بھیا جلدی ٹھیک ہو کر گھر آ جائے گا تو صدقہ کریں گے۔‘‘ ہاجراں نے باپ کی طرف دیکھا، ’’کیوں بابا؟‘‘

’’ہاں ہاں، بہت بڑا صدقہ کریں گے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے مسکرا کر کہا۔

’’اچھا ماں، چلتا ہوں۔‘‘ اللہ رکھا نے ماں سے رخصت لی۔

’’بیٹے، خدا تمہاری حفاظت کرے۔‘‘ فاطمہ نے اللہ رکھا کو گلے لگا کر ما تھا چوما، اس کے بعد اللہ رکھا، بہن سے رخصت لے کر بابا کے ساتھ باہر نکل گیا۔ فاطمہ اسے جاتا دیکھ کر روہانسی ہو گئی، ہاجراں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔

حیدرآباد کے صدر والی ڈاکٹروں کی گلی میں مشہور ڈاکٹر کے کلینک پر زبردست بھیڑ تھی، ڈاکٹر کے سیکریٹری نے چودھری خدا بخش کو صاف جواب دے دیا کہ آج وقت نہیں ہے۔

’’دیکھتے نہیں کتنی بھیڑ ہے۔ نام لکھوا کر جائیے، کل آنا۔‘‘ اس نے کہا۔

’’دوست، ہم دور سے آئے ہیں، میرے بیٹے کی طبیعت بہت خراب ہے، مہربانی کرو۔‘‘ چودھری خدا بخش نے اس سے ہاتھ جوڑ کر گذارش کی اور پھر اس کے قریب جا کر دھیرے سے کہا، ’’تمہیں خرچہ پانی دیں گے۔‘‘

سیکریٹری نے اللہ رکھا کی طرف دیکھا اور پھر کہا، ’’مریض اندر سے نکلے تو میں ڈاکٹر صاحب کو بتاتا ہوں کہ ایمرجنسی ہے۔ فیس کے پانچ سو روپے دے دیجیے۔‘‘

’’خدا تمہارا بھلا کرے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے جیب سے پانچ سو روپے کے نوٹ کے ساتھ ایک سو روپے کا نوٹ نکال کر سیکریٹری کو دیا۔

ایمرجنسی کے سبب ڈاکٹر نے اللہ رکھا کو جلدی بلایا اور اچھی طرح چیک کر کے دیکھا، چودھری نے اسے پچھلے ڈاکٹر کی لکھی دواؤں کا پرچہ بھی دکھایا۔

’’یہ دوائیں تو کسی جاہل نے لکھی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے غصے سے کاغذ کو ہٹاتے کہا۔ ’’صاحب ہمارے شہر والی اسپتال کا نوجوان ڈاکٹر ہے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے اسے بتایا۔

’’ہاں مجھے پتہ ہے، یہ نوجوان ڈاکٹر سب جاہل ہیں۔ ہمارے ہی کالج سے پڑھ کر کاپی کر کے جا کر ڈاکٹر بنے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے منہ بنا کر ٹوکتے کہا۔

’’صاحب، میرا اکلوتا لڑکا ہے، آپ کے ہاتھ میں جادو ہے، ایسی کوئی دوا دیجیے جو میرا بیٹا جلدی ٹھیک ہو جائے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے گذارش بھرے لہجے میں کہا۔

’’فکر کرنے کی بات نہیں ہے، کچھ ٹیسٹ کروانے پڑیں گے، وہ کروا لیجیے۔ تب تک میں دوائیں دیتا ہوں، وہ کھلائیے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔

اس نے دوائیں لکھتے کہا، ’’یہاں حیدرآباد میں رہتے ہیں؟‘‘

’’نہیں صاحب، ہمارا گاؤں بہت دور ہے۔‘‘

’’پھر ایسا کیجئے، یہاں قریب ہی ایک پرائیویٹ اسپتال ہے، وہاں رہیے، علاج میری نگرانی میں ہونا ضروری ہے، میں روز آ کر دیکھ کر جاؤں گا۔‘‘ ڈاکٹر نے چودھری خدا بخش کی اور دیکھا، ’’کیسے، ٹھیک ہے؟‘‘

’’ڈاکٹر صاحب، جیسا آپ ٹھیک سمجھیں۔‘‘ ڈاکٹر نے اسپتال میں بھرتی ہونے کے لئے چٹھی لکھ کر دی، چودھری خدا بخش نے باہر آ کر سیکریٹری کا شکریہ ادا کیا اور اسپتال کا پتہ پوچھا۔

اسپتال میں بھرتی ہونے کے بعد باپ بیٹے کمرے میں آ کر بیٹھے تو اللہ رکھا نے کہا، ’’بابا، لگتا ہے بڑا ڈاکٹر ہے۔‘‘

’’ہاں بیٹے، کہتے ہیں کہ بڑا پروفیسر ہے، جو لڑکوں کو پڑھا کر ڈاکٹر بناتا ہے وہ ضرور بڑا لائق ہو گا۔‘‘ چودھری خدا بخش نے کندھا ہلا کر کہا۔

ڈاکٹر روز اللہ رکھا کو دیکھنے آتا تھا اور ایک منٹ رک کر اپنی فیس لے کر چلا جاتا تھا۔

’’بیٹے، علاج سے کچھ فرق محسوس ہوا؟‘‘ چودھری خدا بخش، اللہ رکھا سے پوچھتا تھا۔

اللہ رکھا پریشان ہو جاتا تھا کہ باپ کو کیا جواب دے۔ اسے علاج سے کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا تھا، الٹا دواؤں کے سبب اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔

’’ہاں بابا، کچھ فرق پڑا ہے۔‘‘ وہ باپ کا دل رکھنے کے لئے کہتا تھا۔

کچھ دنوں کے بعد چودھری خدا بخش کو بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ اللہ رکھا پہلے سے زیادہ کمزور ہو گیا ہے، اس کے دل میں خیال اٹھنے لگے کہ پتہ نہیں کون سی بیماری ہے، جو اتنے بڑے ڈاکٹر کے علاج کے بعد بھی نہیں اتر رہی!

چھٹی کا دن تھا۔ چھٹی ہونے کے سبب اصول کے متضاد صبح صبح ہی ڈاکٹر شلوار قمیض میں چکر لگانے آیا۔

’’کیسی طبیعت ہے؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا، ’’اب تو کچھ ٹھیک لگ رہی ہے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب، طبیعت ابھی بھی ویسی ہی ہے۔ کچھ فرق نہیں پڑا ہے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے ہچکتے ہوئے کہا۔

’’میں ڈاکٹر ہوں، جادوگر نہیں ہوں، علاج ٹھیک طرح سے چل رہا ہے۔ کچھ وقت تو لگے گا ہی۔‘‘ ڈاکٹر نے غصے سے کہا اور اپنی فیس لے کر چلا گیا۔

’’پتاجی، آپ نے ڈاکٹر کو طیش دلا دیا۔‘‘ اللہ رکھا نے پھیکی مسکراہٹ سے کہا۔

’’میں نے ایسی تو کوئی بات نہیں کی! آخر ہم یہ بھی نہیں بتائیں کہ ابھی تک علاج سے کوئی فائدہ ہوا ہے یا نہیں؟‘‘

اللہ رکھا نے باپ کی پریشانی کو دیکھ کر ڈھارس کے کچھ لفظ کہنے چاہے، لیکن کہہ نہیں پایا۔

اس نے دل ہی دل میں خدا کو پکارا کہ وہ اسے جلدی ٹھیک کر دے، ’’میرے سبب سبھی گھر والے پریشان ہیں۔ بیچاری ماں کا پتہ نہیں کیا حال ہو گا!‘‘ اس نے سوچا۔

وہاں بیٹھے بیٹھے چودھری خدا بخش کی سانس گھٹنے لگی۔ اس کے دل نے چاہا کہ اللہ رکھا کو گلے لگا کر روئے۔ اس نے زبردستی خود کو روکا۔

’’میں تھوڑا باہر سے ہو کر آتا ہوں۔‘‘ اس نے اللہ رکھا کی اور دیکھے بغیر کہا اور باہر چلا گیا، وہ اسپتال سے باہر نکل کر راستے پر آ کھڑا ہوا۔ راستے پر گاڑیوں اور لوگوں کا شور تھا، وہ اس شور سے، آس پاس کی مناظر سے انجان اپنے آپ میں کھڑا رہا، اچانک کسی شخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے آواز دی۔ چودھری خدا بخش نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا، وہ اس کے تعلقے کا کلرک نواز تھا۔

’’چودھری، سب ٹھیک تو ہے، یہاں کھڑے ہو؟‘‘ نواز نے پوچھا۔

حیدرآباد کے پہچان والے شخص کو دیکھ کر چودھری خدا بخش کو کچھ ڈھارس ہوئی، اس نے نواز کو پورا حال کہہ سنایا۔

’’پہلے میں بھی جب بیمار ہوا تھا تو اسی ڈاکٹر کے پاس آیا تھا، اس نے مجھے لوٹ کر برباد کر دیا، پھر بھاگ کر اپنی جان چھڑائی۔‘‘ نواز نے چودھری خدا بخش کے ساتھ اسپتال کی طرف جاتے کہا۔

’’آج جب صبح آیا تھا تو میں نے اسے کہا کہ علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے تو الٹے غصہ ہو گیا۔ ڈانٹ کر فیس کے پیسے لے کر چلا گیا!‘‘ چودھری خدا بخش نے جیسے اس سے شکایت کرتے کہا۔

’’ارے!‘‘ نواز نے حیران ہو کر ہاتھ گاڑی پر انگلی رکھی، ’’ابھی ابھی ہی جب میں لاج پت نگر کی مارکیٹ سے آ رہا تھا تو یہ ڈاکٹر ٹوکری لے کر کھڑا تھا، سبزیاں لے رہا تھا!‘‘

’’تو پھر صبح سبزیاں لینے کے لئے گھر سے نکلا ہو گا اور اس بہانے اللہ رکھا کو دیکھ کر پیسے لے کر گیا!‘‘ چودھری خدا بخش نے ٹوکنے والے انداز سے کہا۔

نواز نے قہقہہ لگایا۔

’’تمہارے پیسوں سے ڈاکٹر کی سبزیوں کا خرچ نکل آیا۔‘‘ پریشان ہوتے ہوئے بھی چودھری خدا بخش، اس بات پر ہنس پڑا۔

نواز نے اس کے ساتھ جا کر اللہ رکھا کو دیکھا۔

’’باپ رے! دوست تو بیچارہ کافی کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے۔‘‘ نواز نے اللہ رکھا کو دیکھا تو فکرمند ہو کر کہا۔

’’یہاں آیا تھا تو اس سے اچھا تھا۔‘‘ چودھری خدا بخش نے کہا۔

’’چودھری! اس ڈاکٹر سے جان چھڑا۔ یہ کیڑے کی طرح خون چوستا رہے گا۔‘‘

’’یار میں خود الجھن میں پڑ گیا ہوں کہ کیا کروں؟‘‘ چودھری خدا بخش نے بے بسی سے کہا۔

’’کراچی میں بہت بڑے اسپتال ہیں، وہاں پر خرچ برابر ہوتا ہے، لیکن علاج بہت اچھا ہے، میری صلاح مان، آج ہی یہاں سے ٹین ٹپڑ اٹھا اور کراچی جاؤ۔‘‘

’’لیکن یار میں نے سنا ہے کہ کراچی میں شور شرابہ، لوٹ مار اور گھمسان لگا ہوا ہے۔‘‘ چودھری خدا بخش نے دل مسوس کے کہا۔

’’آپس میں لڑ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا؟ یہاں رہ کر بیکار وقت گنواؤ گے۔‘‘ نواز نے اسے سمجھاتے کہا۔

چودھری خدا بخش کو وقت گنوانے کی بات دل سے لگی۔ اسپتال والوں سے حساب کر کے، اللہ رکھا کو لے کر کراچی کے لئے روانہ ہو گیا۔

نواز کے بتائے اسپتال میں آ کر چودھری خدا بخش کی آنکھیں پھٹ گئیں، اتنا عالیشان اسپتال اس نے کبھی زندگی میں نہیں دیکھا تھا، اسے ڈر لگا کہ یہاں پر بہت بڑا خرچ ہو گا۔

’’ضرورت پڑی تو کھیت کھلیان بیچ کر بھی اللہ رکھا کا علاج کرواؤں گا، اس سے بڑھ کر میرے لئے اور کیا ہے؟‘‘ اس نے خود کو سمجھایا۔

پہلے تو ڈاکٹر کی پوچھ تاچھ کرتے کرتے ہی وہ پریشان ہو گیا، لیکن آخر اللہ رکھا کو بھرتی کیا گیا، پہلے دو دن تو فقط ٹیسٹوں پر ہی زور تھا، اس کے بعد علاج شروع ہو گیا۔ دھیرے دھیرے اللہ رکھا کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی۔ چودھری خدا بخش کے بے جان جسم میں بھی جیسے نیا جوش بھر گیا۔ اس نے گاؤں میں پیغام بھیجا کہ اللہ رکھا اب ٹھیک ہو گیا ہے اور جلد ہی یہاں سے چھٹی ملے گی۔

فاطمہ نے اللہ رکھا کے ٹھیک ہونے کا پیغام سن کر بانہیں اوپر اٹھا کر ہاتھ جوڑ کر خدا کا شکریہ ادا کیا، اسے جتنی خوشی اللہ رکھا کے جنم لینے پر ہوئی تھی اتنی خوشی اس کے ٹھیک ہونے پر ہوئی۔ گاؤں والوں نے بات سنی تو چودھری خدا بخش کے گھر میں عورتوں کا جمگھٹ لگ گیا۔ سبھی نے فاطمہ کو مبارک بادیں دیں۔

’’میرا اللہ رکھا ٹھیک ہو کر جلدی گھر آ جائے تو بڑی پارٹیاں کریں گے، سب مل کر ناچیں گے، گائیں گے۔‘‘ فاطمہ نے خوشی سے عورتوں کو گلے لگاتے کہا۔

’’اللہ رکھا ہمارے چودھری کا لاڈلا بیٹا ہے، اس کی خوشی میں ناچ ناچ کر دھرتی ہلا دیں گے۔‘‘ عورتوں نے کہا۔ اس کے بعد سریلی اور بے سری سبھی گانے لگیں۔

اللہ رکھا اٹھ کر تھوڑا گھومنے پھرنے لگا تھا، ’’بابا، اب مجھے تھوڑی تھوڑی بھوک بھی لگتی ہے۔ متلی بھی نہیں آتی ہے۔‘‘ اللہ رکھا نے باپ کو بتایا۔

چودھری خدا بخش کا دل خوشی سے کھل اٹھا۔

’’خدا بھلا کرے نواز کا جس نے یہ صلاح دی، نہیں تو حیدرآباد والے ڈاکٹر نے تو مار ہی ڈالا تھا۔‘‘ چودھری خدا بخش بہت خوش تھا۔

ڈاکٹر نے کہا کہ اللہ رکھا اب ٹھیک ہے، اسے اب زیادہ اسپتال میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، باقی دوائیں اور ملیں گی، وہ گھر جا کر کھائے۔ ایک مہینے کے بعد پھر سے طبیعت دکھانے آئے۔

چھٹی ملی تو چودھری خدا بخش اسپتال جا کر حساب چکتا کر آیا۔ گاؤں جانے کے لئے اس نے پوری گاڑی کرائے پرلی، گاڑی اسپتال سے نکلی تو اس نے دل ہی دل میں وہاں ڈاکٹروں کو دعائیں دیں۔

’’فاطمہ اللہ رکھا کو ٹھیک دیکھے گی تو کتنا خوش ہو گی۔‘‘ وہ سوچ کر مسکرانے لگا۔

گاڑی کراچی کے بھیڑ بھاڑ والے راستوں سے ہوتے ہوئے گھومتی رہی۔ چودھری خدا بخش بار بار پچھلی سیٹ پر بیٹھے اللہ رکھا کی جانب سکون بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔

’’بیٹے، لیٹ جاؤ، بیٹھ بیٹھ کر تھک جاؤ گے۔‘‘ اس نے اللہ رکھا سے کہا۔

’’نہیں پتاجی، ابھی بیٹھنا ہے، شہر سے باہر نکلیں گے تو لیٹ جاؤں گا۔‘‘

چودھری خدا بخش مسکرایا۔ اچانک فائرنگ کی آوازیں سننے میں آئیں۔

’’بھائی صاحب یہ آواز کیسے ہیں؟‘‘ چودھری خدا بخش نے ڈرائیور سے پوچھا۔

’’فائرنگ ہو رہی ہے۔‘‘

’’ڈرنے کی بات تو نہیں نہ؟‘‘ چودھری خدا بخش پریشان ہو گیا۔

’’یہ تو کراچی کے روزمرہ کی بات ہے۔‘‘ ڈرائیور نے لاپرواہی سے کہا۔

’’یار، راستہ بدل کر دوسرے راستے سے چل۔‘‘ آواز قریب آتی گئی تو چودھری خدا بخش سخت پریشان ہو گیا۔

’’نہیں، نہیں، ہم تیز تیز چلتے چلے جائیں گے، یہاں نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘ ڈرائیور نے رفتار بڑھا دی، کہیں سے ایک گولی گاڑی کے پچھلے شیشے کو توڑ کر اللہ رکھا کے سر کے نیچے لگی اور اللہ رکھا سیٹ پر گر پڑا۔

’’ارے بیٹے، میرے بیٹے۔‘‘ چودھری خدا بخش سے چیخ نکل گئی، وہ اچھل کر پچھلی سیٹ پر گیا، وہ اللہ رکھا کا خون سے سنا چہرہ ہاتھوں میں اٹھا کر دہاڑیں مارنے لگا ’’بیٹے، میرے بیٹے! یہ کیا قیامت ہو گئی؟‘‘

ڈرائیور گاڑی کو تیز چلا کر واپس اسی اسپتال میں آ گیا۔

’’ارے میرے اللہ رکھا کو بچاؤ۔ مجھ سے پتہ نہیں کس نے قیامت کی۔‘‘ چودھری خدا بخش پاگلوں کی طرح چیخنے لگا۔

ڈاکٹر نے دیکھا اور اس کے بعد کہا کہ اللہ رکھا اپنے خدا کے پاس پہنچ گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

رات کا رنگ

 

 

وہ کروٹ بدل بدل کر پریشان ہو گیا، پھر بھی اس نے اٹھنا نہیں چاہا۔ گھڑی میں وقت دیکھا، جبکہ کچھ ہی دیر پہلے وقت دیکھ چکا تھا۔ ابھی تک دس بھی نہیں بجے تھے۔ ویسے اٹھنے کا وقت آٹھ بجے کا تھا۔ دس بجے آفس کی گاڑی لینے آتی تھی۔ لیکن آج فوتگی جیسا دن تھا۔ چھٹی کا دن تھا۔ دن بڑی مصیبت بن جاتا تھا، اتنا بڑا دن جو تمام ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے سورج بھی اس دن چھٹی کرتا تھا اور سستی سے سرکتا، سانس لیتا جاتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ آنکھ کھولنے سے وہی دیکھی ہوئی شکلیں نظر آئیں گی، روزمرہ کی وہی باتیں کرنی پڑیں گی۔ اس کے پارٹنرز وقت کاٹنے کے لئے بیٹھ کرتا ش کھیلتے رہیں گے اور خود انہیں کھیلتے ہوئے دیکھتا رہے گا۔ اسے کھیلنا نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی کتاب اٹھا کر پڑھے گا، لیکن اب تو کتابوں سے جی اوب چکا تھا۔ دھیان سے کتاب نہیں پڑھ پا رہا تھا۔ صفحات کے صفحات پلٹنے کے بعد اسے احساس ہوتا تھا کہ پتہ نہیں کیا پڑھا ہو گیا۔ پھر صفحے پلٹ کر دوبارہ پڑھتا تھا۔ پچھلے ایک سال سے لگاتار اس کی ایسی ہی حالت تھی۔ روٹین لائف، کوفت، مردنی زندگی کی، بدلاؤ، رنگینی کا احساس معدوم۔

’’ایسا لگ رہا ہے جیسے کہ کئی سالوں سے فریزر میں بند پڑا ہوں اور منجمد ہو کر برف بن گیا ہوں۔ لیکن برف تو باہر نکلنے پر گھل جاتی ہے اور پانی بہنے لگتا ہے۔ بہتا پانی مجھے اچھا لگتا ہے۔ ٹھہرا ہوا پانی دیکھ کر دل پریشان ہو اٹھتا ہے۔ بہتے پانی کی مانند انسان بھی چلتا رہے۔ ایک ہی جگہ جم نہ جائے۔

اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اس کے سبھی پارٹنرز ابھی تک سو رہے تھے، بڑے مزے سے۔ وہ ماحول سے مطابقت نہ بٹھاتے ہوئے بھی ٹھیک ٹھاک تھے۔ انہیں کچہری لگانے، فالتو باتیں کرنے، ڈینگیں ہانکنے میں مزا آتا تھا۔ وہ سبھی نارمل طرح کے انسان تھے۔ ’’انسان ہو تو نارمل ہو، ورنہ ایبنارمل شخص کے لئے جو حساس بھی ہو، تو اس کے لئے زندگی سزا ہے۔ مجھ میں بیزاری پہلے سے ہی تھی۔ اپنے آپ سے بیزاری، حالات سے بیزاری۔ لیکن اب یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے، لہر کی طرح میرے اوپر چڑھتا جا رہا ہے۔ حالات و واقعات کا ختم نہ ہونے والا بہاؤ ہے۔ بس میں کچھ بھی نہیں۔ فقط بے بسی، مجبوری اور ان کے نتیجے میں غصہ اور نفرت اپنے آپ سے، کیونکہ لگ رہا ہے کہ قصور خود ہی کا ہے۔ دنیا سے، ماحول سے ’’ایڈجسٹ‘‘ نہیں کر پاتا۔ انسان اوروں کے لئے پریشانی تو ہے ہی، خود اپنے لئے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ جب کوئی شخص خود کے لئے ہی جہنم بن جائے تو اس کے لئے زندگی کاٹنا کتنا دشوار تر کام ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں ایسا ہی ہو گیا ہوں۔ میں نے ایسا چاہا نہیں تھا، لیکن چاہنے نہ چاہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہوا ہے، وہ پتہ نہیں کیسے دھیرے دھیرے یا اچانک ہو گیا۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ میں بیمار بن گیا ہوں۔‘‘

پارٹنرز ایک کے بعد ایک اٹھنے لگے۔ اس نے پھر سے آنکھیں بند کر کے سونے کا ڈھونگ رچایا۔ اس کی پریشانی بڑھتی گئی۔ کچھ دیر بعد اس کے دل نے چاہا کہ اٹھ کر چیخے۔ غصے میں پیروں سے چادر ہٹا کر وہ اٹھ بیٹھا اور پھر رواج کے مطابق تیار ہونے لگا۔

’’پارٹنر آج کہاں کی تیاری ہے؟‘‘ ایک نے پوچھا۔

’’دوست کو وقت دیا ہے۔‘‘ اس نے اختصار میں جواب دیا۔

’’یار، کبھی ہمیں بھی وقت دو، آخر ہمارا بھی تو حق ہے۔‘‘

’’آپ لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں، گپ شپ کرتے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا کر سکتا ہوں!‘‘

’’چھوڑ یار، رات کو پتہ نہیں کب آتے ہو اور صبح تم سوئے ہی پڑے رہتے ہو تو ہم چلے جائیں۔ کبھی آدمی سامنے بیٹھ کر گپ شپ کرے، تبھی مزا ہے۔‘‘

’’ہم تو ان کے ساتھ گپ شپ کرنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔‘‘ دوسرے پارٹنر نے کہا۔

’’یہ تو آپ لوگوں کا پیار ہے، کیا کریں نوکری ہی ایسی ہے۔ ویسے، آج میں جلدی لوٹ کر آؤں گا، اس کے بعد گپ شپ کریں گے۔‘‘

اور اس گپ شپ میں میں فقط سننے والا رہوں گا، اس نے دل میں کہا۔

زیادہ کھنچاؤ سے بچنے کے لئے وہ جلدی تیار ہو کر باہر نکل گیا۔

چھٹی ہونے کے سبب بس میں بھیڑ کم تھی۔ لوگ آرام سے کھڑے ہو رہے تھے۔ کسی اور دن تو بس میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہ ملتی۔ لوگ ایسے بھرے رہتے ہیں، جیسے ٹرک میں بھری ہوئیں بھیڑیں اور بکریاں۔ کوفت، پسینے کی بدبو، لاتیں، کنڈکٹر کی چہل پہل۔

صدر، ایلفی، جہاں لوگوں سے زیادہ موٹر کاریں ہوتی ہیں، وہاں آج ویرانی تھی۔ بس ہوٹلیں کھلے ہوئے تھے، لیکن ان میں وہ شور نہیں تھا۔ فٹ پاتھوں پر پرانی کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ڈھیر میں سے کبھی کبھی اچھی کتاب نکل آتی ہے اور ویسے کتاب ڈھونڈے ہوئے، وقت بھی کٹ جاتا ہے۔ وہ کچھ دیر تک کتابیں دیکھتا اور ڈھونڈتا رہا۔ اس بار کوئی بھی اچھی کتاب نظر نہیں آئی۔ ’’انگریزی میں اتنا سارا ٹریش لٹریچر لکھا جاتا ہے! یہ کس طرح کے لوگ پڑھتے ہوں گے؟‘‘ آخر وہ تھک کر اٹھا۔

وہ بوری بازار کی سنسان گلیوں میں، ایلفی، وکٹوریہ روڈ اور ریگل کے آس پاس بھٹکتا رہا۔ ’’ایک وہ لوگ ہیں، جنہیں وقت نہیں ملتا اور میرے لئے وقت کاٹنا بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوتگی جیسا دن آخر کب ختم ہو گا؟ (جب تک مردار جیسی زندگی ہے ) اتنے بڑے، جگمگاتے شہر میں میرا وقت نہیں کٹ رہا، جہاں وقت کاٹنے کے لئے ہر چیز دستیاب ہے۔ لیکن یہ چیزیں رستوں پر گری ہوئی تو نہیں پڑی ہیں۔‘‘

چلتے چلتے اس کی ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ وہ پیراڈائز سنیما کے پاس ریلنگ پر بانہیں رکھ کر کھڑا رہا۔ اکا دکا کاریں گزرتی رہیں۔ ایک دو کاروں میں اسے جانی پہچانی صورتیں بھی نظر آئیں اور اس نے منہ پھیر لیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے کہ فالتو لوگوں کی طرح اور عجیب نظروں سے گھور گھور کر دیکھ رہا ہے، لعنت ہے۔ جسے جو چاہے جا کر سوچے۔ میں اپنے آپ سے بھی ڈروں اور دوسروں سے بھی ڈروں۔۔ بڑا نیچ ہوں، معمولی ہوں۔ خود پسندی کا مریض ہوں۔ مجھے خود سے نفرت ہے۔ نفرت ہے۔‘‘ اس نے ریلنگ پر زور سے گھونسے مار دیئے، اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اسے آفس میں ہوئی کل کا واقعہ یاد آ گیا۔

’’جی؟‘‘ لڑکی نے اس سے تیسری بار پوچھا، ’’معاف کیجئے، مجھے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی!‘‘

’’کہتا ہے کہ تمہارے کاغذ ابھی تک پڑھ نہ سکا ہوں۔ اب جلدی پڑھ کر، خط کے بارے میں بتاؤں گا۔‘‘ دوسری لڑکی نے سہیلی کو سمجھاتے کہا۔

وہ بلاوجہ کاغذوں کو الٹ پلٹ رہا تھا۔ نگاہیں کاغذوں پر تھیں، لیکن پوری توجہ لڑکیوں کی بڑبڑاہٹ کی جانب تھی۔

’’اتنا دھیرے بات کرتا ہے کہ مجھے تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ پتہ نہیں تم کیسے سمجھ جاتی ہو؟‘‘

’’پہلی بار میں تو میں بھی نہیں سمجھ رہی۔‘‘ دونوں منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگیں۔ اس کے بدن سے پسینہ بہنے لگا۔ اسے خیال آیا کہ زیادہ دیر تک چپ رہا تو چوتیا لگوں گا۔

کوشش کر کے اس نے بڑے آواز میں کہا، ’’آپ پاس میں ہی رہتے ہیں یا دور؟‘‘ اسے اپنی آواز کچھ زیادہ ہی بلند لگی۔

’’نہیں، میرا گھر کافی دور ہے۔ کراچی میں سواری کی بڑا مسئلہ ہے۔ رکشا والے تو بالکل نواب ہیں۔ جس سمت وہ جانا چاہیں تو مسافر بھی اسی سمت جائیں۔‘‘

’’آپ کے کام میں تھوڑی دیر لگے گی۔‘‘ درمیان میں وہ دوسری بات کر بیٹھا۔ لیکن لڑکی نے اس کی بات نہیں سمجھی۔

’’ہاں، یہ روز کی مصیبت ہے۔ رکشا والوں کو بولنے والا کوئی نہیں ہے۔ پولیس سے تو ان کی ملی بھگت ہوتی ہے، اس لئے شکایت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔‘‘

’’حقیقت میں پورا نظام ہی ایسا ہے۔ ہمارے یہاں بھی آپ کو بلاوجہ دیر ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے مذاق پیدا کرنے کی کوشش کی۔

’’جی!‘‘

دوسری لڑکی ہنسنے لگی، ’’دونوں ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھتے۔‘‘

وہ ٹوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا۔

’’صاحب، آپ یہاں کھڑے ہیں؟‘‘ اس نے ہڑبڑا کر دیکھا، سامنے آفس کا کوئی شخص کھڑا تھا۔

’’اوہ! میں یہاں ٹیکسی کے لئے کھڑا تھا۔‘‘ اس نے جان چھڑانی چاہی۔

’’صاحب، یہاں تو ٹیکسی ملنا مشکل ہے۔ میں آپ کے لئے لے کر آؤں؟‘‘

’’نہیں نہیں، تم جاؤ، میں خود ہی لے کر آؤں گا۔‘‘

وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھتا چلا گیا۔

’’لوگ کہیں بھی نہیں چھوڑتے۔ میری مرضی، میں کہیں بھی کھڑا رہوں۔‘‘ وہ وہاں سے چلنے لگا۔ سامنے ہوٹل پر نظر گئی۔ اندر چلا گیا اور خالی ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا۔ بیرا پانی کا گلاس لے کر آیا۔ چائے لانے کے لئے کہہ کر اس نے آس پاس دیکھا۔ پوری ہوٹل میں اس کے علاوہ اور کوئی بھی اکیلا نہیں تھا۔

’’تم اتنا دھیرے کیوں چل رہے ہو؟ ایسے سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتے ہو، جیسے ڈر رہے ہو کہ کہیں دھرتی کو تکلیف نہ ہو۔‘‘ ایک دوست نے کہا تھا۔ لیکن پھر بعد میں جب اس نے اس بات پر غور کیا تھا تو اسے دوست کی بات درست لگی تھی۔

’’زندگی جینے کے قابل نہیں یا مجھ میں جینے کا مادہ نہیں۔ جینا بھی ایک فن ہے، جو مجھے کبھی نہ آیا۔ ایسی نا مکمل، غلط اور بیکار زندگی جینے کا کیا فائدہ۔ موت تو کبھی بھی آ سکتی ہے، پھر آدمی بیٹھا انتظار کرے اور تکلیفیں برداشت کرے!‘‘

پہلے کئی بار سوچی ہوئی بات اس کے دماغ میں پھر آئی۔ پتہ نہیں کتنے وقت تک میں اس پر سوچتا آیا ہوں۔ لیکن اب، اس وقت مجھے پکا ارادہ کرنا چاہئے۔ میرے لئے یہی ایک عزت دار طریقہ ہے، نہیں تو میں اپنے آپ سے نفرت کے جہنم میں جلتا رہوں گا۔ مجھے آج ہی اپنا خاتمہ کرنا چاہئے، آج ہی۔‘‘ اس نے پکا ارادہ کیا۔ اس کے آگے ٹیبل پر پلیٹ میں بل رکھا تھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ کب اس نے چائے پی لی۔ کپ خالی تھا اور اس کے پیندے میں تھوڑی بچی ہوئی چائے تھی۔

جیب سے پیسے نکالتے اس نے سوچا کہ کون سی جگہ ٹھیک رہے گی۔ اسے سمندر کا خیال آیا۔ ’’ہاں، سمندر زیادہ ٹھیک ہے۔ سمندر نے ہمیشہ سے میرے دل کو اپنی جانب کھینچا ہے۔ سمندر دیکھ کر مجھے کشش کے ساتھ ہیبت بھی محسوس ہوتی ہے۔ میں خود کو سمندر کے لا محدود خلا میں گم کر دوں گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری موت پر باتیں کریں۔ جیتے جی تو مجھ پر باتیں کرتے رہتے ہیں، لیکن میں انہیں اپنی موت پر باتیں کرنے نہیں دوں گا۔ کسی کو میری خبر تک نہیں لگے گی۔‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہوا اورک فٹن کی طرف جاتی ہوئی بسوں کے اڈے کی جانب چلنے لگا۔ ایک بس اڈے سے چلنے والی تھی۔ چھٹی ہونے کے سبب کلفٹن جاتی بسوں میں زیادہ بھیڑ تھی۔ اس نے دوسری بس کا انتظار کرنا نہیں چاہا۔ چلتی بس میں چڑھنے کے لئے دوڑا۔ اس کا ہاتھ ڈنڈے پر پڑ گیا اور پیر اوپر اٹھ گئے۔ اور بھی کئی لوگ باہر لٹک رہے تھے۔ فقط اس کے ایک پیر کو ہی فٹ بورڈ پر جگہ مل پائی اور دوسرا پیر لٹکتا رہا۔ ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔

’’اگر میں فقط یہ ہاتھ چھوڑ دوں تو دیر ہی نہیں لگے گی۔ وہیں کام پورا ہو جائے گا، لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ میں اپنی موت کو تماشا بنانا نہیں چاہتا۔ موت کی پبلسٹی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ صاف ہے کہ بس رکوائی جائے گی۔ لوگ اسے اتفاقی حادثہ کہیں گے، لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے بے پرواہ اور بس کے دروازے پر لٹکنے والا شو باز سمجھیں گے۔ رشتے داروں، دوستوں اور پہچان والوں کو میری بیوقوفی پر تعجب ہو گا۔ بس میں سفر کرنے والے سبھی لوگ مجھے گالیاں دیں گے کہ میرے سبب انہیں دیر ہو گئی۔ بس کا غریب ڈرائیور اور کنڈکٹر پھنسیں گے۔ یہ سب باتیں ہیں، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ میں مروں ہی نہیں، بس سے تو دور جا کر گروں گا، فقط ہاتھ پیر ٹوٹیں اور اپاہج بن جاؤں۔ اس وقت خود پر بوجھ ہوں، بعد میں اوروں پر بوجھ بن جاؤں گا۔‘‘ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ آگے کھڑے شخص کا پورا وزن اس کے اوپر پڑ رہا تھا اور اس کے ہاتھ کی پکڑ ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ اس نے اس شخص کو اپنی چھاتی سے ڈھکیلتے غصے سے کہا، ’’بھائی صاحب، خود کو سنبھالو، گرا رہے ہو۔‘‘

شخص نے اس کی طرف غصے سے دیکھا، ’’مجھے بھی دوسرے لوگ دھکیل رہے ہیں۔‘‘ لیکن پھر بھی اس نے خود کو سنبھالا۔

کچھ دیر تک دماغ کو آرام مل گیا۔ وہ پورے راستے خود کو مضبوطی سے سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ بس کلفٹن پر آ کر کھڑی ہوئی تو اسے بس مٹھی کھولنی پڑی اور با آسانی اتر آیا۔ ہاتھ میں درد ہو گیا تھا اور ہتھیلی سرخ ہو گئی تھی۔ وہ چلتا ہوا سمندر کی طرف آیا۔ بچے، عورتیں اور مرد ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے، سبھی خوش تھے یا خوش ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھے۔ وہ خود بھی تو ایسا ہی کرتا آیا تھا، دوستوں اور پہچان والوں کے آگے، منہ پر پرسکون ہونے کا، خوش ہونے کا، جھوٹا نقاب چڑھا کر۔ جب اکیلے میں وہ یہ نقاب اتارتا تھا تو اس کا دل بھر آتا۔ چاہتا کہ اس وقت کوئی ہو، جو اس کے دل کو سمجھ سکے۔

تمہارا چہرہ اتنا Expressionless کیوں ہے؟

تم ہمیشہ Confuse اور دکھی کیوں رہتے ہو؟

تم چپ چاپ کن خیالوں میں کھوئے رہتے ہو؟

تمہارے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں، ہونٹوں میں کیا بڑبڑاتے رہتے ہو؟

تم میں پھرتی نہیں ہے! لگتا ہے جیسے خود سے ہی پریشان ہو۔ اور اس نے خود سے پوچھنا چاہا، ’’تم اتنے وقت تک زندہ کیوں ہو؟‘‘

اچانک وہ زور سے چیخا، فالتو۔ ایک دم ہڑبڑا کر آس پاس دیکھا۔ پاگلوں کی طرح چیخنے پر اسے شرم محسوس ہوئی۔ لیکن اسے تعجب ہوا کہ کسی کا بھی اس کی جانب دھیان نہیں تھا۔ لوگوں نے جان بوجھ کر اس کی جانب توجہ نہیں کی یا کوئی اور بات تھی۔ اس کی سانس گھٹنے لگی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ یہ چیخ اس کے گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اسے خود پر طیش آیا۔ ’’بزدل، ڈرپوک۔ جو کچھ چاہتا ہوں، وہ کر نہیں پاتا، ایک چیخ بھی نہیں!‘‘ اسے رونا آ گیا، وہ بھی اندر ہی اندر۔ باہر کچھ نہ تھا۔ ٹھہرا پانی، جمع ہوا، برف بنا ہوا، اندر گہرائی میں پانی ابل رہا تھا اور اذیت تھی جلنے کی۔

وہ کنارے پر بنی پتھر کی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سمندر کی طرف دیکھنے لگا۔ کچھ گھنٹوں کے بعد وہ خود کو ان لہروں کے حوالے کرنے والا تھا۔

وقت ریت کی مانند اس کی مٹھی کے سروں سے سرکتا جا رہا تھا۔ اسے خیال آیا کہ اتنے سارے لوگوں کے سامنے وہ نہیں مرے گا۔ وہ اٹھا اور کنارے کنارے چلتا رہا، کسی سنسان اور صحیح جگہ کی تلاش میں۔ وہ لوگوں، لوگوں کے قہقہوں اور بچوں کے شور سے بہت دور نکل آیا۔ وہاں بس سمندر کا شور تھا اور اس کے اوپر سفید پرندے اڑ کر چیخ رہے تھے۔ لہریں اس کے پیر بھگونے لگیں۔ اس نے پیچھے دیکھا، دائیں بائیں دیکھا اور پھر سمندر کی طرف۔ اس کے آگے تا حد نگاہ، لا محدود سمندر تھا، سمندر کی چھوٹی بڑی لہریں تھیں اور سمندر کا پہاڑ تھا۔ اس نے خود کو بے حد اکیلا، بیچارہ اور بے بس پایا۔ اس نے پوری زندگی ایسا ہی محسوس کیا تھا۔ ’’آخری لمحوں میں جب میں اپنی مرضی سے کچھ کر رہا ہوں، پھر بھی خود کو بیچارہ محسوس کر رہا ہوں۔‘‘

بائیں جانب پہاڑیاں تھیں۔ اسے خیال آیا کہ ان پہاڑوں پر چڑھ کر آس پاس آخری نگاہ ڈالے۔ وہ جب ایک پہاڑ پر چڑھ رہا تھا تو دو لوگوں کی باتیں کرنے کی آوازیں سنیں، عورت اور مرد۔ وہ ٹھٹک کر ٹھہر گیا۔

’’میں ایک معمولی حیثیت والا آدمی ہوں۔ میں تمہیں اتنا سکھ نہ دے پاؤں گا، جتنا تمہیں اپنے رشتے داروں سے ملا ہے۔ میں نے تجھ سے کچھ نہیں چھپایا ہے، وینا! فیصلہ تمہارے اوپر ہے۔ ایسا نہ ہو، کہ خوشی اور آرام کی زندگی چھوڑ کر، پوری عمر پچھتاتی رہو!‘‘

پھر اس نے عورت کی آواز سنی، ’’ہم دونوں پڑھے لکھے ہیں۔ رسمی پیار پر ہمارا یقین نہیں۔ ہم ایک دوسرے کے اندر شعور کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، سہہ سکتے ہیں۔ ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اس سے زیادہ اور کیا چاہئے۔ ہم بھوکوں نہیں مریں گے۔ باقی عیش آرام نہ ہوا تو کیا، ہم ایک دوسرے کے لئے عیش آرام ہیں۔‘‘

’’او وینا۔ وینا۔ میری وینا۔ تم نے مجھے تباہ ہونے سے بچا لیا۔ تم نے میری بے رنگ زندگی میں رنگ بھر دیئے ہیں۔ سمندر کا رنگ، دھرتی کا رنگ، پہاڑیوں کا رنگ، آسمان کا رنگ اور شام کا رنگ۔! پتہ نہیں کتنے رنگ بھر گئے ہیں میری بے رنگ زندگی میں!‘‘

’’عشق نے تمہیں شاعری سکھا دی ہے۔‘‘ قہقہہ لہروں کے سنگیت میں گھل کر، ’’لیکن اچھا شاعر بننے کے لئے عشق میں ناکامی ضروری ہے۔‘‘

’’نہیں نہیں، میں ناکام شاعر بننا زیادہ پسند کروں گا۔‘‘ سمندر کی لہروں پر تیرتا قہقہہ۔

اسکا پورا بدن کانپ رہا تھا۔ زیادہ وقت تک ٹھہر نہیں پایا اور چلنے لگا۔ وہ کانپتے قدموں سے واپس جانے لگا، لیکن اسے اس بات کا ہوش ہی نہ تھا۔

’’کیا کوئی شخص اس امید پر خود کو جینے کے لئے مجبور کر سکتا ہے کہ کبھی اس کی بے رنگ زندگی میں رنگ بھر جائیں گے۔ سمندر کا رنگ، زمین کا رنگ، آسمان کا رنگ، شام کا رنگ۔ شاید کبھی کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے زندگی میں۔‘‘ اسے یاد آیا کہ وہ خودکشی کرنے کے لئے آیا تھا، وہ نجات اور چھٹکارا جسے میں خود محسوس کر سکوں، مزہ لے سکوں، وہ تو موت میں بھی نہیں ملے گا۔ وہ تو الٹا انجان ہے، زندگی میں دکھ درد ہیں، نس نس پر درد ہے، لیکن یہ سبھی احساس ہیں تو سہی، موت کے بعد تو یہ احساس بھی نہیں رہیں گے۔ میں چاہتا ہوں نجات، جس میں نجات کا کوئی احساس نہ ہو گا۔‘‘ اس نے خود کو ہلکا ہلکا بے وزن محسوس کیا۔ اس کی طبیعت کا بھاری پن اتر گیا، ڈپریشن کی لہر ابھر کر اتر گئی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے ایک بھاری ہنگامے کے بعد سناٹا چھا گیا ہو۔

‘کہیں میں نے ڈر کر خود کشی کا خیال دل سے اتار تو نہیں دیا۔ نہیں، میں نے یہ اتار نہیں دیا ہے۔ فقط کچھ وقت کے لئے ٹال دیا ہے۔ میں انتظار کرنا چاہتا ہوں، دیکھنا چاہتا ہوں۔ شاید کبھی حالات میں بدلاؤ آئے گا۔ ابھی تو بہت وقت پڑا ہے۔ دیکھتے ہیں۔‘‘ وہ پھر سے لوگوں کے ہجوم میں آ پہنچا۔ اس نے خود کو عام آدمی کی طرح سمجھا۔ اس کے دل نے چاہا کہ کسی سے بات کرے، قہقہے لگائے۔

بہت سے لوگ واپس جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اس نے سوچا کہ اسے بھی واپس جانا چاہئے۔ دو بسیں بدلنی تھیں اور گھر کراچی کے آخری کنارے پر تھا۔ وہ بس اسٹاپ کی سمت جانے لگا۔

لوگ بھیڑ کر کے بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ سیٹ ملنے کی امید کم تھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ کیسے بھی کر کے بس میں پہلے چڑھنے کی کوشش کرے گا اور سیٹ پر ضرور بیٹھے گا۔ اسے بس میں کھڑے لوگوں کی بھیڑ میں پسنا نہیں چاہا۔ وہ ابھی کچھ فاصلے پر تھا تو بس آ کر کھڑی ہو گئی۔ لوگوں نے بس کو گھیر لیا اور اترنے والے بڑی مشکل سے اترنے لگے۔ وہ دوڑ کر بس کی طرف بڑھا۔ روڈ پار کرتے وقت اس کی نظریں بس کے دروازے پر تھیں۔ سڑک سے تیزی سے آتی ہوئی کار کے ٹائروں کی زوردار آواز ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے الگ الگ رنگ ناچنے لگے۔ دھرتی کا رنگ، آسمان کا رنگ، شفق کا رنگ اور نہ ختم ہونے والی اندھیری رات کا رنگ۔

٭٭٭

 

 

 

 

اسٹوڈنٹ لیڈر

 

 

 

وہ اولڈ کیمپس کے بس اڈے پر کھڑا رہا۔ بسیں طلبا سے بھر کر نیو کیمپس جا رہی تھیں۔ اس نے ہر بار بس میں چڑھنے کے بارے میں سوچا اور اس کے پیر تھے، جو اپنی جگہ سے ہل ہی نہ رہے تھے۔ اس نے جانا چاہا/ اس نے جانا نہیں چاہا۔ اس کے لئے فیصلہ لینا مشکل ہو گیا تھا۔ اس نے جیل میں سوچا تھا کہ پھر سے یونیورسٹی نہیں جائے گا، لیکن چھوٹنے کے بعد ایک زوردار خواہش ابھری تھی اس کے دل میں، ایک بار، فقط ایک بار یونیورسٹی جانے کی، دیکھنے کی۔ چھ سال ایک بڑا عرصہ تھا۔ جیل میں تو ایسا لگ رہا تھا، جیسے پوری عمر ہی گزر چکی ہو۔ اس پر جتنے بھی کیس تھے، ان میں وہ باری باری سے سزا کاٹ چکا تھا۔ پھر بھی اس کے چھوٹنے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ وقت اس کے ارادوں اور خیالوں پر جگہ بنا کر، دراڑ بنا کر گزرتا رہا۔ اس کے اندر دھیرے دھیرے کچھ ٹوٹتا پھوٹتا رہا۔ شروع شروع میں کچھ دوست اس سے ملنے کے لئے آتے تھے اور اسے بتاتے تھے کہ اس کی گرفتاری کے خلاف ہلچل کا سلسلہ زورو شور سے چل رہا ہے اور اسے کسی نے بھی بھلایا نہیں ہے۔ لیکن بعد میں دوستوں کا آنا کم ہوتا گیا۔ فقط اس کا بوڑھا باپ کبھی کبھی گاؤں سے آتا تھا اور بتاتا تھا کہ اس کی ماں رو روکر آنکھوں کی روشنی گنوا چکی ہے۔

پیشی پر اتفاق سے کوئی دوست ملتا تھا تو اسے یونیورسٹی کے بارے میں حال چال معلوم ہوتا تھا۔ ہلچل ختم ہو چکی تھی۔ کلاس باقاعدہ طریقے چل رہی تھیں۔ اس کا نام یونیورسٹی سے کاٹ دیا گیا تھا۔ اتنے شورو غل کے بعد اب بالکل شانتی تھی۔

’’اور ہمارے مطالبے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’ان میں سے ایک بھی نہیں مانا گیا۔‘‘

’’بھلا عام لوگوں کا کوئی رد عمل؟ کہیں سے کوئی تعاون ملا؟‘‘ اس کے دوست نے نفی میں سر ہلایا۔

’’ویسے ہم اتنا کس کیلئے لڑ رہے تھے؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔ اس کا دوست سر جھکا کر کھڑا رہا۔

’’دیگر ساتھیوں کا کیا ہوا؟‘‘ اس نے پھر پوچھا۔

’’انڈر گراؤنڈ ہو گئے ہیں۔‘‘

’’انڈر گراؤنڈ!‘‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ ’’بھاگ جانے کیلئے اچھا لفظ ہے۔‘‘ واپس جیل میں آ کر وہ لگاتار سوچتا رہا۔ ’’قومی جنگ (آزادی کی جنگ) ایسے چلے گی کہ کچھ بھاگ جائیں اور دوسرے بوجھ بن کر بیٹھے رہیں! لعنت ہے طلباء سیاست پر، اسے بہت طیش آیا۔ ’’لیکن جہاں ملک کی سیاست میں دم نہ ہو، وہاں طلباء سیاست کی کیسی سمت ہو گی! کسی مضبوط سیاسی گروہ کے علاوہ صرف طلباء سیاست کا سہارا لینا خودکشی کرنے کے مصداق ہے۔ یہ خود ہی نوجوان نسل کو تباہ کرنے جیسا ہے۔ وہ فقط گھستے جائیں گے، نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔‘‘

کافی دیر کے بعد بھی بس نہ آئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ وہاں کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ وہ ان میں جانی پہچانی صورتیں ڈھونڈنے لگا۔ سبھی لڑکے لڑکیاں انجان تھے۔

’’چھ سال۔‘‘ اس نے ایک لمبی سانس لی۔

اچانک دوڑ بھاگ شروع ہو گئی۔ بس آئی تھی۔ وہ بھی بھیڑ میں دھکیلتا بس میں جا چڑھا۔ سبھی سیٹیں بھر گئی تھیں۔ وہ ڈنڈے میں ہاتھ ڈال کر کھڑا رہا۔ پہلے جب بس میں چڑھتا تھا اور کوئی سیٹ خالی نہ ہوتی تھی تو لڑکے اسے دیکھ کر زبردستی اپنی سیٹ دیتے تھے۔ لیکن آج کسی کو پتہ نہ تھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے لئے نعرے لگتے تھے، جسے ہر اسٹوڈنٹ پہچانتا تھا اور اس کی عزت کرتا تھا۔ پہلے یونیورسٹی میں طلباء سیاست فقط لڑکوں تک ہی محدود تھی، لیکن یہ پہلا شخص تھا، جس نے لڑکیوں کو بھی حصہ لینے کے لئے پر جوش کیا۔ اس کے خیال میں طلباء فقط طلباء تھے اور جب تک سندھی لڑکیاں متحرک نہ ہوں گی، تب تک سیاسی اور سماجی محاذوں پر ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ اس کے اکسانے پر لڑکیوں نے جنرل باڈی کی میٹنگوں میں شریک ہونا شروع کیا تھا، نہیں تو وہ ان باتوں سے دور ہی رہتی تھیں۔

اسے ایک بات یاد آئی،

وہ دو تین دوستوں کے ساتھ آرٹس فیکلٹی کے لان پر بیٹھ کر باتیں کر رہا تھا تو کچھ لڑکیاں وہاں آئیں اور ایک لڑکی جو سبھی میں سے سب سے زیادہ بولڈ لگ رہی تھی، اس کے روبرو ہوئی،

’’میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔‘‘

وہ اس لڑکی کو پہچانتا تھا۔ اس کا نام حمیدہ تھا۔ اس نے آخری سال میں داخلہ لیا تھی، لیکن نئی ہوتے ہوئے بھی کافی متحرک تھی۔ وہ اپنے کالج یونین کی لیڈر رہ چکی تھی اور اچھی ڈبیٹر بھی تھی۔

’’جی ضرور پوچھئے، لیکن پہلے بیٹھیں تو سہی۔ آپ کھڑی ہو کر ایسے پوچھ رہی ہیں، جیسے لڑنے کے لئے تیار ہو کر آئی ہیں۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔ لڑکیاں ہنسنے لگیں اور لان پر بیٹھ گئیں۔

’’اب فرمائیے؟‘‘ اس نے کہا۔

’’یونیورسٹی میں آ کر آپ میں سے کتنے ہی لڑکے عورتوں کی آزادی کے حامی بن جاتے ہو۔ لیکن اپنے گھر میں اپنی بہنوں کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھتے ہو۔ آپ یہ برداشت نہیں کرتے ہو کہ آپ کی بہنیں بھی یونیورسٹی میں آئیں اور اجنبی لڑکوں سے باتیں کریں۔ آپ پرائی بہنوں کی آزادی کے حامی ہو اور اپنی بہنوں کو بند کر کے بیٹھے رہتے ہو۔ یہ فرق کیوں ہے؟‘‘ حمیدہ نے تقریر کر ڈالی۔

’’یہ فرق اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، اس سے مجھے انکار نہیں۔ ہمارے لڑکے، لڑکیاں زیادہ تر گاؤں سے آتے ہیں۔ جہاں ابھی تک روایتی معاشرہ ہے۔ روایتی معاشرے میں رسم رواج اور پابندیوں کی جکڑ زیادہ ہوتی ہے۔ ہم میں ایک مضبوط مڈل کلاس پیدا نہ ہو سکی ہے، جو ماحول میں تبدیلی لا سکے۔ اس لئے جس ماحول میں ہم رہتے ہیں، اس میں ایسا فرق ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔‘‘

’’اگر آپ کی کوئی بہن گھر میں بند ہو تو آپ کیا کریں گے؟‘‘

’’پہلی بات تو بدقسمتی سے میری کوئی بہن نہیں ہے۔ لیکن اگر ہوتی بھی تو اسے اسے ماں باپ کی مرضی پر چلنا پڑتا، نہ کہ میری مرضی پر۔ میں اپنے ماں باپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا، لیکن پھر بھی آخری فیصلہ انہیں کا ہوتا۔‘‘

’’جو شخص اپنا گھر نہ سدھار پائے وہ ملک کو کیا سدھارے گا؟‘‘ حمیدہ نے لڑکیوں کی جانب دیکھ کر طعنہ مارا۔ لڑکیاں خاص انداز سے ہنسیں۔

’’آپ کا مطلب ہے کہ گھر والوں کو ڈنڈے سے سدھاریں!‘‘

اس نے طعنے کا جواب ہنس کر دیا۔ لڑکوں نے قہقہے لگائے۔

حمیدہ اٹھ کھڑی ہوئی اور لڑکیوں کے ساتھ چلی گئی۔ اس کے بعد حمیدہ کبھی سامنے آتی تو ناراض ہو کر چلی جاتی تھی۔ ایک بار اس نے خود حمیدہ کو روکا۔

’’بات تو سنئے!‘‘

’’جی؟‘‘ حمیدہ نے ناراض ہو کر کہا۔

’’مجھے لگتا ہے کہ آپ کا میرے اوپر غصہ ہے۔ لیکن میرا قصور کیا ہے؟ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اس کے لئے میں معافی کا طلبگار ہوں۔‘‘

’’نہیں نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘ حمیدہ نے ایک دم کہا۔

’’ہو سکتا ہے میں نے غلط سمجھا ہو۔ خیر، بات یہ ہے کہ کل مائی بختاور شہید کا دن ہے۔ ٹھیک سمجھو تو اس موقع پر آپ بھی کچھ بولیں۔‘‘

’’لیکن مجھے تو مائی بختاور کے بارے میں زیادہ کچھ جانکاری نہیں۔‘‘

’’مائی بختاور ایک کسان تھی، جس نے انگریزوں کے دور میں کسانوں کے حقوق کی خاطر لڑ کر مرنا قبول کیا۔ لیکن بڑے لوگوں کے آگے نہ جھکی۔ آپ مائی بختاور کی اور سے سندھی عورت کی سیاسی بیداری پر بولنا۔‘‘

’’ٹھیک ہے، میں کوشش کروں گی۔‘‘

’’نہیں، پکا بتائیں۔‘‘

حمیدہ نے اس کی جانب دیکھ کر کچھ پلوں کے لئے سوچا اور پھر ہنس کر کہا، ’’پکا۔‘‘

بس کیمپس میں داخل ہو چکی تھی۔ اسے لگا اپنی غائب ہوئی دنیا میں صدیوں کے بعد لوٹ کر آیا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا، سب کچھ بدل گیا تھا۔ وہی جگہیں تھیں اور ہر بلڈنگ کی دیوار نعروں سے پٹی ہوئی تھی۔ نعرے، دلکش نعرے۔ خالی نقارے کی طرح بجنے والے۔ نعرے پڑھتے ہوئے اس کے اندر طیش آنے لگا۔ بس آرٹس فیکلٹی کے آگے جا کر کھڑی ہوئی۔ وہ لوگوں کی بھیڑ میں پستا نیچے اترا۔

آرٹس فیکلٹی کے آگے اور اندر لڑکے لڑکیوں کے گروپ کھڑے تھے۔ گپ شپ، ہنسی مذاق، قہقہے تھے۔ ان گروپوں کے پاس سے ہوتا ہوا اندر گھسا۔ انجان۔ کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ یہ وہی ہے۔ اس کے اندر سے کوئی چیخا، میں ہوں وہ۔ وہ میں ہوں۔ میں ہوں۔ اور مسکرا کر اس نے خود سے کہا، تم کچھ نہیں۔ تمہیں ان میں سے کوئی نہیں پہچانتا۔ وہ آڈیٹوریم کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ ہال خالی تھا۔ اس ہال میں اس کی آواز گونجتی تھی اور اس کے پیچھے تالیوں اور نعروں کی گونج ہوتی تھی۔ وہ آڈیٹوریم میں اندر گھس گیا اور چلتے چلتے پہلی لائن کے پاس آ پہنچا۔ کچھ دیر تک ان خالی سیٹوں پر کھڑا رہا اور پھر ایک سیٹ پر جا بیٹھا۔ سامنے ڈائیس پر تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ درمیان میں بڑی صدارتی کرسی اور اس کے آس پاس دو کرسیاں۔ وہ ان خالی کرسیوں کو تکتا رہا۔ اس اسٹیج پر اس نے آخری تقریر کی تھی اور اطلاع دی تھی کہ ہلچل جاری رہے گی جب تک چھینے گئے حق واپس نہیں ملتے ہیں۔ اس کے دوسری رات ہاسٹلوں پر چھاپہ پڑا تھا اور وہ گرفتار ہو گیا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے سیٹ پر پھیل گیا۔ طلباء تنظیم کے لیڈروں کے حلف لینے کے لئے بیٹھک بلائی گئی تھی۔ حلف لینے کی رسم پوری ہونے کے بعد موسیقی کا پروگرام تھا۔ اس کے سبھی ساتھی کام میں لگ گئے تھے اور وہ خود ان سب سے الگ رہا۔ اس کا کام تھا اپنی فیڈریشن کے امیدواروں کو انتخاب میں جتانا۔ وہ کام پورا ہو چکا تھا۔ اس کے ہی زور دینے پر، حمیدہ لڑکیوں کی لیڈر کے طور پر انتخاب میں کھڑی ہوئی تھی اور جیت گئی تھی۔ وہ آڈیٹوریم کے پیچھے لان پر بیٹھ کر سگریٹ کے اوپر سگریٹ سلگا کر پیتا رہا۔ موسیقی کا پروگرام شروع ہو چکا تھا۔ سبھی لوگ اندر آڈیٹوریم میں تھے اور وہ اکیلا ہی لان پر بیٹھا رہا۔ اسے لگا کہ کوئی اس کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ہے۔ اس نے گردن گھمائی۔

’’آپ یہاں بیٹھے ہیں!‘‘ حمیدہ نے حیران ہو کہا تھا۔

’’آؤ بیٹھو۔‘‘ اس نے کہا۔ وہ اس کے سامنے بیٹھ گئی۔

’’میں آپ کو پورے ہال میں ڈھونڈتی رہی۔‘‘

’’اتنی بھیڑ میں گھس گئی کیا مجھے ڈھونڈنے کے لئے؟‘‘ وہ ہنسا۔

’’حلف لیتے وقت ہم سبھی ڈائیس پر بیٹھے تھے اور میری آنکھیں آپ کو ایک ایک سیٹ پر ڈھونڈتی رہیں۔‘‘

اور جواب میں اس نے ایاز کا شعر گنگنایا، ’’میلے میں تم تنہا تنہا، کسے ڈھونڈ رہے ہو۔‘‘

’’آج صاحب کے موڈ کو کیا ہوا ہے؟ فنکشن میں کیوں نہیں چل رہے؟ سبھی ساتھی پوچھ تاچھ رہے تھے۔‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں۔ یہاں آ کر بیٹھا تو ایک دم بیٹھ ہی گیا۔‘‘

’’اور یہ اتنی ساری سگریٹ تم نے پی ہیں؟ میں نے اتنی ساری سگریٹ پیتے تمہیں کبھی نہیں دیکھا ہے۔ سچ بتاؤ، بات کیا ہے؟‘‘

’’بس آج میں خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہا ہوں۔ آیا تھا، لیکن اتنا شور دیکھ کر آڈیٹوریم کے دروازے سے واپس لوٹ گیا۔ اندر جانے کو دل نہیں ہوا۔‘‘

’’لیکن آخر کیوں؟ یہ شورو غل اور ہنگامہ کوئی نئی بات تو نہیں۔ تم تو ان سب کے عادی ہو!‘‘

’’سب بیکار ہے، حمیدہ طلباء سیاست کی یہ خامی ہے۔ یونین کا لیڈر اور جنرل سیکریٹری دونوں اسی فیڈریشن کے ہیں، لیکن رات کو یونین فنڈ کے پیسوں کے بٹوارے کو لے کر آپس میں لڑ پڑے اور ایک دوسرے پر پستول تان کر کھڑے ہو گئے۔‘‘

’’یہ بات میں نے بھی سنی ہے۔ ہے تو خراب، لیکن کیا کریں! خیر، بعد میں تو متفق ہو گئے نہ آپس میں؟‘‘

وہ ہنسنے لگا۔

’’پورا سال فقط لڑنے اور بننے میں گزر جائے گا۔‘‘

’’تمہیں پہلے معلوم نہیں تھا کیا کہ طلباء سیاست سطحی اور عارضی ہوتی ہے!‘‘

اس نے غور سے حمیدہ کی طرف دیکھا۔

’’یہ بات تمہارے دماغ میں کب آئی کہ طلباء سیاست سطحی اور عارضی ہے؟‘‘

’’یہ تو صاف بات ہے۔ یہاں سے نکلنے کے بعد اور سبھی باتیں بھول جائیں گے۔ ہر کسی کو اپنے روزگار کی فکر ہو گی۔ یہاں کی موج مستی بھول جائیں گے۔ بعد میں پتہ چلے گا کہ پریکٹیکل لائف میں کن کن مصیبتوں کا منہ دیکھا ہے۔‘‘

’’تم مجھ سے زیادہ پریکٹیکل نکلیں۔‘‘ اس نے ہنستے کہا۔

’’تم سمجھتے ہو کہ تمہیں کوئی فقط آئیڈلسٹ بن کر رہنے دے گا؟‘‘

’’کیوں؟ مجھے کیا کرنا پڑے گا؟‘‘ اس نے حیران ہو پوچھا۔

’’پریکٹیکل شخص کے ساتھ تمہیں بھی پریکٹیکل ہونا پڑے گا، صاحب میرے۔‘‘ حمیدہ کی ہنسی کے جواب میں وہ فقط مسکرایا۔ وہ آخری سال میں تھا۔ حمیدہ کا خیال تھا کہ ایم اے کرنے کے بعد وہ سی ایس ایس کیلئے تیاری کرے۔ اس بات پر دونوں میں بحث چھڑ جاتی تھی۔

’’تم ذہین ہو۔ سی ایس ایس کے امتحان میں ٹاپ کرو گے۔ کیوں فالتو آئیڈلسٹ بن کر اپنی خدمات کو بیکار گنوانا چاہتے ہو۔‘‘

’’خدمات کو کام میں لانے کا فقط یہی ایک طریقہ ہے کہ آدمی سرکاری مشینری کا پرزہ بن جائے! میں ایک معمولی پرزہ بننا نہیں چاہتا۔‘‘

’’تم پاگل ہو۔ ملک اور عوام کی خدمت آدمی کہیں بھی کر سکتا ہے۔ تمہاری کوئی حیثیت ہو گی، تمہارے پاس پاور ہو گی تو کچھ زیادہ ہی کر پاؤ گے۔‘‘

اس بات پر اس نے قہقہہ لگایا۔

’’یہ فقط باتیں ہیں، خود کو اور دوسروں کو دھوکا دینے کے لئے۔ ہم کرنا خود کے لئے چاہتے ہیں، تھوڑا ملک و عوام کے لئے کرتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے پاور انسان کو خود غرض بناتی ہے!‘‘

’’کیوں؟ زندگی گزارنے کے لئے خود کو کچھ نہیں چاہئے؟ اتنا پڑھنے کے بعد بھکاری بن کر زندگی گزاریں گے کیا؟ اپنے رہنے کے لئے اچھا گھر نہیں چاہئے۔ کار نہیں چاہئے۔ کل بچے ہوں گے تو ان کے لئے چیزیں نہیں چاہئے؟‘‘

اسکا دل الجھنے لگا اور اس نے ایک دم آنکھیں کھول کر چاروں اور دیکھا۔ وہ ہال میں تنہا تنہا بیٹھا تھا اور اس نے خود سے پوچھا، ’’اس گھر کو بننے سے پہلے گرانے پر مجھے کیا ملا؟ میرے خیالوں کو، میرے نظریئے کو کون سی طاقت ملی؟ فنکشن والی رات میں نے خود کو بہت اکیلا محسوس کیا لیکن حمیدہ کے وجود نے مجھے قوت دی تھی کہ میں اکیلا نہیں ہوں اور آج کوئی طاقت نہیں ہے، دل کو تقویت دینے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ کہاں ہو گی! کیسی ہو گی!

اس نے چاہا کہ کسی سے حمیدہ کے بارے میں پوچھے۔ لیکن فوراً ہی اس نے اس سوچ کو رد کر دیا۔ ایسا ہر کسی سے پوچھنا ٹھیک بات نہیں تھی۔ جب وہ جیل میں تھا تو کسی دوست نے ملاقات پر اسے بتایا تھا کہ حمیدہ ایم اے کرنے کے بعد یونیورسٹی میں ہی پروفیسر مقرر ہوئی تھی۔ بعد میں اسے پتہ چلا کہ پڑھنے کے لئے اسکالر شپ پر انگلینڈ گئی تھی۔ اس سے زیادہ اسے کچھ پتہ نہ تھا۔ حمیدہ کے واپس لوٹنے کا اسے پتہ ہوتا تو شاید وہ یہاں نہ آتا۔

’’لیکن میں یہاں پر آیا کیوں ہوں؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ میں تو بالکل ہی آؤٹ سائیڈر ہوں یہاں پر۔ یہ بلڈنگ، یہ آڈیٹوریم، یہاں کے درخت، یہاں کے راستے۔ کوئی بھی تو مجھے نہیں پہچانتا۔ لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ کسی کے لئے میں انجان ہوں، کوئی میرے لئے انجان ہے۔ لیکن یہاں کے پیڑ، یہاں کے راستے اور جگہیں؟ اور اگر اتفاق سے حمیدہ مل جائے تو؟ وہ بھی لوگوں، جگہوں، راستوں اور پیڑوں کی طرح ملے گی؟‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سوچا کہ یہاں آ کر غلطی کی تھی۔ ایک بار پھر اس نے اپنے آپ سے پوچھا کہ وہ یہاں پر کیوں آیا تھا؟ کون سی بات اسے یہاں کھینچ لائی تھی۔

وہ آڈیٹوریم سے نکل کر طویل کاریڈور میں آیا۔ کچھ کلاس چل رہی تھیں۔ فیکلٹی کے اندر کے لان پر لڑکے لڑکیاں بیٹھے تھے۔ وہی چہل پہل تھی۔ وہی چکا چوند تھی۔ فقط وقت وہی نہ تھا۔ وقت بہت آگے بڑھ گیا تھا اور خود بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اس کے پیر بوجھل ہو رہے تھے، آگے بڑھنا مشکل ہو گیا تھا اور اچانک اس کے پیر منجمد گئے۔ سامنے سے حمیدہ آ رہی تھی۔ حمیدہ نے دیکھا، کوئی شخص ہے جو پتھر کی مورتی بن گیا تھا، بیچ کاریڈور میں۔ پاس آ کر اس کے منہ سے اچانک نکلا، ’’تم۔؟‘‘ منجمد ہونٹ تھرتھرائے، وہ فقط مسکرایا۔

’’آپ کب آئے؟‘‘

’’ابھی ہی آیا ہوں۔‘‘

’’میرا مطلب ہے۔ کب۔ آپ کو کب چھوڑا؟‘‘ حمیدہ نے اٹک کر اپنی بات پوری کی۔

وہ ہنسا۔ ’’دس بارہ دن ہوئے۔‘‘

’’آؤ۔ بیٹھو آ کر۔‘‘ حمیدہ نے بیچ کاریڈور میں کھڑے ہو کر بات کرنا ٹھیک نہیں سمجھا۔ ’’وہ دور میرا آفس ہے۔ آؤ۔‘‘

چلتے چلتے اس نے کہا، ’’شکر ہے، کسی نے تو پہچانا۔ یہاں تو سبھی انجان چہرے ہیں۔‘‘

حمیدہ نے کچھ نہ کہا، فقط اس کی طرف دیکھا۔ اسے لگا، جیسے پوچھے گی، تمہیں کیا ضرورت تھی؟

آفس میں گھستے ہی حمیدہ نے ملازم کو بوتلیں لانے کے لئے کہا۔

کرسی پر بیٹھ کر وہ ٹیبل پر رکھے کاغذوں کو پلٹنے لگی۔ اسے لگا کہ حمیدہ کچھ نروس تھی اور اس کی جانب دیکھنے سے کترا رہی تھی۔

’’میں نے سنا تھا کہ آپ پڑھنے کے لئے انگلینڈ گئے تھے؟‘‘ اس نے سکون تحلیل کیا۔

’’ہاں، تین سال تک وہیں پر تھی۔‘‘ اس کا چہرہ کاغذوں میں تھا۔

’’واپس کب آئے؟‘‘

’’ایک سال ہو گیا ہے۔‘‘ حمیدہ نے گردن اوپر اٹھا کر جواب دیا اور پھر سے کاغذوں کو الٹنے پلٹنے لگی جیسے کوئی اہم کاغذ ڈھونڈ رہی ہو۔

کچھ وقت تک سناٹاچھایا رہا۔ اسے لگا کہ چھ سال بہت بڑا عرصہ تھا، سو سالوں کے برابر۔

ملازم بوتلیں لے کر آیا۔ تبھی حمیدہ نے گردن اوپر اٹھائی۔

’’لیجیے۔‘‘ اس نے بوتل کی جانب اشارہ کیا۔

اس نے بوتل اٹھائی اور اس کا منہ ہاتھ سے صاف کر کے ایک بڑا گھونٹ بھرا۔

’’اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟‘‘ حمیدہ نے پوچھا۔

’’ارادہ؟ ابھی تک تو کوئی ارادہ نہیں کسی بات کا۔‘‘ وہ زبردستی مسکرایا۔

’’میرا مطلب ہے کہ ایم اے کمپلیٹ کریں گے یا؟‘‘

’’رسٹی کیشن کے پانچ سال تو گزر چکے ہیں۔ پتہ نہیں اب امتحان میں بیٹھنے کی اجازت ملے گی یا نہیں؟‘‘

’’کوشش کر کے دیکھئے۔ فقط امتحان ہی تو دینا ہے، اجازت ملنی تو چاہئے۔‘‘ حمیدہ نے انجان بنتے کہا۔

اس نے چاہا کہ حمیدہ سے پوچھے، ’’تم کیسی ہو؟‘‘

’’آپ کافی کمزور ہو گئے ہیں، ویسے جو جیل جاتے ہیں وہ بیٹھ کر کھا کھا کر تگڑے بن کر نکلتے ہیں۔‘‘ حمیدہ نے پہلی بار مسکرا کر اس کو دیکھا۔

جواب میں وہ فقط مسکرایا۔ حمیدہ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی، جیسے بھانپنا چاہتی ہو، پھر ایک دم نظریں ہٹا کر کاغذوں میں دیکھنے لگی۔

اس نے پوچھنا چاہا، ’’تم ابھی تک ناراض ہو مجھ سے؟‘‘ لیکن چھ سال بہت بڑا وقت تھا۔

حمیدہ نے گھڑی میں وقت دیکھا۔

’’معاف کیجئے گا، مجھے کلاس لینی ہے۔‘‘ وہ اچانک اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’اوہ! ایک منٹ۔‘‘ حمیدہ کو کوئی بات یاد آ گئی۔ اس نے ٹیبل کی دراز کھولی۔ اس میں سے لفافے میں پڑا کارڈ نکال کر ٹیبل پر رکھ کر اس کا نام لکھا۔

’’اچھا ہوا جو آپ خود مل گئے۔ اگلے ہفتے میری شادی ہے، آنا۔‘‘ حمیدہ نے کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے حمیدہ سے لفافہ لیتے وقت صرف لفافے کی جانب دیکھا۔ وہ سمجھ تو رہا تھا کہ کیوں حمیدہ کی جانب دیکھنے سے کترا رہا تھا۔

’’اوکے، سی یو۔‘‘ حمیدہ نے کہا اور جلدی سے باہر نکل گئی۔

وہ بھی باہر نکل آیا۔ ایک بہت بڑی کھائی نمودار ہوئی اور اس کے دماغ کو، سوچ کو، اس کے وجود کو نگل گئی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے چلتا، طویل کاریڈور پار کرتا ہوا باہر نکلا۔ فیکلٹی کے آگے بس اسٹاپ پر آ کر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور بس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

 کنڈل فائل