FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں

 

حصہ اول

 

 

 

انتخاب و ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

غیرت مند

 

 

 

صبح کا وقت تھا۔ گاؤں کے لوگ جو کھیتوں میں گئے ہوئے تھے، وہ یہ کہتے ہوئے بھاگتے ہوئے آئے کہ سیلاب آ رہا ہے۔ ہر کوئی تھوڑا بہت سامان لے کر گاؤں سے نکلنے کی بھاگ دوڑ میں لگ گیا۔ عارب اور اس کا چھوٹا بھائی قاسم بھی بھاگتے ہوئے گھر آئے۔

’’جلدی کرو، کپڑے لتے، تھوڑا بہت ضروری سامان جو بھی لے سکو، لے کر نکلو۔ سیلاب بس اب آیا کہ تب آیا۔‘‘

قاسم کی بیوی زرینہ پیٹ سے تھی۔ آٹھواں مہینہ چل رہا تھا۔ وہ اٹھی اور ضروری اشیاء سمیٹنے لگی۔

’’صفوراں کہاں ہے؟‘‘ عارب نے پوچھا۔

’’کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔

’’اسے بھی ابھی باہر جانا تھا۔ لوگوں میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی اسے باہر جانے کی۔۔ ۔‘‘ عارب نے غصے سے کہا۔

’’میں دیکھ کر آتا ہوں۔‘‘ کہتا ہوا قاسم جلدی باہر نکل گیا۔ باہر آ کر ارد گرد نظریں دوڑائیں، پر وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔ وہ گھوم کر گھر کے پچھواڑے کی طرف گیا۔ کچھ فاصلے پر صفوراں، رمضان کے ساتھ باتیں کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر قاسم کا پارہ چڑھ گیا۔ اس کی رمضان کے ساتھ ویسے ہی ان بن تھی اور اب جو اسے بھرجائی کے ساتھ اتنی نزدیکی سے بات کرتے دیکھا، تو وہ چراغ پا ہو اٹھا۔ قاسم کلہاڑی لے کر ان کی طرف دہاڑتا ہوا بڑھا۔ رمضان نے اسے دور سے آتے دیکھا، تو وہ سر پٹ بھاگ گیا۔ صفوراں پتھرا سی گئی۔ قاسم نے ایک لمحے کی دیر نہ کی، ’’تم کاری ہو‘‘ کہتے ہوئے کلہاڑی کا زوردار وار اس کی گردن پر کیا۔ وہ دھڑام سے نیچے گری۔ قاسم الٹے قدموں گھر لوٹا، ایک بار بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ خون سے تر بتر کلہاڑی لے کر گھر پہنچتے ہی اپنے بھائی عارب کے سامنے رکھ دی۔ عارب ہکا بکا رہ گیا۔

’’یہ کیا کر آئے؟‘‘ ، عارب کی چیخ نکل گئی۔

’’بھرجائی کا قتل کر آیا ہوں۔‘‘ قاسم کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کی شکل میں بھی ایک وحشت تھی۔ زرینہ کانپنے لگی، خون سے رنگی کلہاڑی دیکھ اس کا جی متلانے لگا۔ عارب کا چھ سالہ بیٹا اور چار سالہ بیٹی، دونوں خوفزدہ ہو کر باپ اور چچا کو دیکھنے لگے۔

’’کیوں کیا؟‘‘ عارب نے ڈوبتی آواز میں پوچھا۔

’’پچھواڑے میں رمضان کے ساتھ اسے دیکھا۔‘‘ قاسم نے کہا۔

’’ایسا کیا دیکھ لیا۔۔ ۔؟‘‘ عارب نے پھر سوال کیا۔

’’دونوں ایک دوسرے کے نزدیک کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر رمضان بھاگ گیا اور بھاوج۔۔‘‘ قاسم نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

’’پھر کچھ پوچھے بغیر تم اسے مار آئے۔‘‘ عارب کی چیخ نکل گئی، ’’وہ میری زال تھی، مجھے بتاتے۔ تمہیں کیا حق تھا اسے قتل کرنے کا؟‘‘ عارب نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا۔

بچے جو اب تک خوف سے تھرتھرا رہے تھے، اب ’’اماں اماں‘‘ کہہ کر رونے لگے تھے۔

قاسم نے آگے بڑھ کر زمین پر پڑی کلہاڑی اٹھاتے ہوئے کہا، ’’بھائی میری غیرت جاگ اٹھی تھی۔ ٹھیک ہے، میں تھانے جا کر اپنی گرفتاری دیتا ہوں۔۔‘‘ وہ جانے لگا۔ زرینہ نے گھبرا کر قاسم کی طرف پھر عارب کی طرف دیکھا۔

’’ٹھہرو۔‘‘ عارب نے چلّاتے ہوئے کہا، ’’کلہاڑی مجھے دے دو۔‘‘

اس نے آگے بڑھ کر قاسم کے ہاتھوں سے کلہاڑی چھین لی اور زور سے بہت دور پھینک دی۔

’’تھانے جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چلو میرے ساتھ۔‘‘ عارب نے غصے سے کہا۔

سیلاب کا پانی اب گاؤں تک آ پہنچا تھا۔ عارب نے کندھے پر بیٹے کو بٹھایا اور بیٹی کو گود میں لیا۔

’’جلدی کرو، نکلے نہیں تو ڈوب جائیں گے۔‘‘

بڑھتا ہوا پانی اب ان کی کمروں تک پہنچ گیا تھا۔ بڑھتے پانی کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے وہ پشتے پر آ پہنچے۔ وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ آس پاس کے دیگر گاؤں گوٹھوں کے لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے تھے۔ سبھی اپنی اپنی فکروں اور پریشانیوں کی چادر اوڑھے ہوئے تھے۔

عارب کے گھر والوں نے وہ رات پشتے پر گزاری۔ دوسرے دن انہیں ایک ٹریکٹر ٹرالی میں سوار ہونے کی جگہ مل گئی۔ سیلاب سے متاثرہ دیگر لوگوں کے ساتھ وہ ’’سرور‘‘ آ پہنچے۔ کیمپ میں اُدھم مچا ہوا تھا۔ بچوں اور عورتوں کے ساتھ مردوں کی آوازیں بھی چاروں جانب گونج رہی تھیں۔ عارب بچوں کو اپنے ساتھ چپکا کر بیٹھ گیا۔ زرینہ بھی سامان کو سرکا کر وہاں آ بیٹھی۔ گاؤں سے نکلنے کے بعد عارب بالکل خاموش تھا۔

’’میں دیکھ کر آتا ہوں، کہیں کوئی رہنے کا ٹھکانا مل جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے قاسم لوگوں کی بھیڑ میں کھو گیا۔ رات بہت دیر گئے وہ واپس لوٹا۔

’’نام لکھوا آیا ہوں۔ ہمیں بھی ایک خیمہ ملا ہے۔ چلو چلتے ہیں۔۔‘‘ قاسم زرینہ کے ساتھ سامان لے کر آگے بڑھا۔ عارب بچوں کو لے کر خاموشی سے ان کے پیچھے جانے لگا۔ خیمے میں آ کر زرینہ نے سامان کو حفاطت سے رکھا۔ وہ اپنے ساتھ کچھ برتن بھی لے آئی تھی۔ قاسم ان میں سے ایک ہانڈی لے کر باہر چلا گیا۔ بچے دن بھر کی بھوک پیاس سے اب رونے لگے تھے۔ قاسم دلیے سے آدھی بھری ہانڈی لے کر اندر آیا۔

’’یہاں کھانا لینا نہیں پڑتا، بھیک میں مانگنا پڑتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ہانڈی نیچے رکھ دی۔ زرینہ نے دو پلیٹوں میں دلیا نکال کر دونوں بھائیوں کے سامنے رکھا۔ عارب بچوں کو کھانا کھلانے لگا۔

”ادا، بچوں کو میں کھلاتی ہوں، یہ آپ کھا لو۔‘‘ زرینہ نے عارب سے کہا۔

عارب نے کوئی جواب نہیں دیا۔ زرینہ نے قاسم کی طرف ایسے دیکھا، جیسے آنکھوں ہی آنکھوں سے شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہو، ’’دیکھا کیسا قہر ڈھا دیا تم نے۔‘‘

عارب نے بچوں کو کھلا کر، انہیں لٹایا اور خود بھی لیٹ گیا۔ نیند تو کسی کو بھی نہیں آ رہی تھی۔ زرینہ نے سونے کے لئے آنکھیں موندیں، تو اس کے آگے خون سے تر بتر کلہاڑی گھوم گئی۔ صفوراں تھی تو اس کی جیٹھانی، پر وہ اس کی ساس بن کر اس کا دُلار کرتی اور پیار کرتی۔ زرینہ ابھی دس سال کی ہی تھی کہ اس کی ماں مر گئی۔ اس کا باپ کی دوستیاں چور ڈاکوؤں کے ساتھ تھیں۔ وہ کبھی جیل میں ہوتا، تو کبھی باہر۔ زرینہ کبھی نانی کے پاس تو کبھی پرائی چوکھٹوں کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ سات آٹھ سال یوں ہی گزر گئے۔ اس کا باپ ایک دن اپنے بچپن کے دوست عارب کے پاس گیا اور زرینہ کو شادی کے بندھن میں باندھنے کی بات کی، تاکہ وہ اس جواب داری سے آزاد ہو سکے۔ عارب کو بھی اپنے چھوٹے بھائی قاسم کے لئے ایک رشتے کی تلاش تھی۔ زرینہ خوبصورت بھی تھی اور ہنرمند بھی۔ صفوراں نے اسے اپنی چھوٹی بہن کی طرح سمجھا اور مانا تھا۔ زرینہ کا دل اچانک بھر آیا اور اس سسکی بندھ گئی۔ وہ دوپٹہ منہ میں ٹھونس کر رونے لگی۔ قاسم سمجھ گیا کہ وہ رو رہی ہے۔ وہ خود بھی تو اس کے برابر میں بت بنا لیٹا رہا۔ اس کا ذہن بالکل ماؤف تھا۔

پھر نہ جانے کب ان دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ صبح اٹھے تو خیمے میں نہ عارب تھا، نہ بچے۔ انہوں نے سوچا شاید عارب بچوں کو باہر لے گیا ہو گا۔ جب کچھ دیر مزید گزری، تو قاسم انہیں تلاش کرنے کے لئے باہر نکلا۔ اس نے سارا کیمپ چھان مارا، پر عارب اور بچے کہیں بھی نہیں ملے۔ آخر کچھ دیر بھٹکنے کے بعد وہ اکیلا ہی خیموں کی جانب میں لوٹ آیا۔ زرینہ انتظار میں بیٹھی تھی، قاسم کو اکیلا آتے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔‘‘ کیا ہوا، ادا عارب نہیں ملے؟‘‘

’’نہیں، سارا کیمپ گھوم آیا ہوں، پر وہ کہیں بھی نظر نہیں آئے۔‘‘ قاسم نے مایوسی بھرے لہجے میں کہا۔

زرینہ حیرت بھری نگاہوں سے قاسم کی طرف دیکھتی رہی، ’’آخر وہ کہاں گئے ہوں گے؟ ۔‘‘

’’لگتا ہے بھیا بچوں کو لے کر کسی دوسری جگہ چلے گئے ہیں۔‘‘ قاسم نے کہا۔

زرینہ کے دل کو دھچکا ساپہنچا۔ وہ سمجھ گئی کہ عارب ان سے جدا ہو کر، بچوں کو لئے کہیں نکل گئے ہیں۔

’’اب تو ہم بالکل اکیلے ہو گئے ہیں۔‘‘ زرینہ جیسے خود سے بڑبڑانے لگی۔ قاسم نے بھی کچھ نہیں کہا۔

’’اب ہم خود بھی کیا کریں گے؟‘‘ زرینہ نے کچھ دیر بعد قاسم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کیا کریں گے۔ ابھی تو یہاں کیمپ میں بیٹھے ہیں۔۔‘‘ اس نے سائیڈ جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا۔ صرف ایک سگریٹ ہی بچا تھا۔ اس نے پیکٹ پھینک کر، سگریٹ سلگایا اور کش لینے لگا۔

’’کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔ ہانڈی دے دو تو دیکھتا ہوں۔ کھانا لینے کے لئے بھی لمبی قطار۔۔ ۔‘‘

زرینہ نے خاموشی سے ہانڈی لا کر اسے دی۔ قاسم باہر نکلا۔ وہ جب لوٹا تو اس کی قمیض پھٹی ہوئی تھی۔

’’کھانا لینے کے لئے تو، توبہ۔۔ توبہ۔۔ ۔ ایک طرف پولیس والوں کی لاٹھیاں، دوسری طرف لوگوں کی دھکم پیل۔۔‘‘ اس نے غصے سے کہا۔

ایک ہفتہ مزید گزرا، تو قاسم باہر سے پریشانی کی حالت میں اندر آیا۔

’’کہہ رہے ہیں کہ کل سے مفت کا کھانا بند ہے۔ ہر ایک اپنا انتظام خود کرے۔‘‘

’’پھر؟‘‘ زرینہ بھی پریشان ہو اٹھی۔

’’میرے پاس توکل ملا کر تین سو روپے ہوں گے۔ تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں؟‘‘ قاسم نے زرینہ سے پوچھا۔

زرینہ خاموشی سے اٹھی، ایک گٹھری میں سے پانچ سو روپے نکال کر قاسم کو دئیے۔

’’بس اتنے۔‘‘ قاسم نے ان پیسوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’ان سے کتنے دن گزاریں گے۔ یہ ختم ہو گئے تو پھر۔۔ ۔؟‘‘

’’زچگی میں بھی اب کچھ ہی دن باقی ہیں۔ اس کے لئے بھی چار پیسے پاس ہوں تو اچھا ہو گا۔۔‘‘ زرینہ نے جیسے اسے یاد دلاتے ہوئے کہا۔ قاسم کھانا بھول گیا۔ وہ پریشان ہو اٹھا۔

’’بھیا کے پاس کچھ پیسے تھے، مگر وہ ہمیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘ قاسم نے شکایتی لہجے میں کہا۔

’’کس منہ سے بھیا پر الزام لگا رہے ہو۔‘‘ زرینہ نے پہلی بار قاسم کے منہ پر سچ کہنے کی حماقت کی۔ قاسم نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، پر خاموش رہا۔

رات کو وہ دیر تک سوچتے رہے، لیکن مسئلے کا کوئی بھی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔

’’دیکھو شہر میں اگر کوئی نوکری مل جائے؟‘‘ زرینہ نے مشورہ دیا۔

’’یہاں کیمپ میں ہزاروں لوگ آئے ہیں، سبھی بھٹک رہے ہیں۔ کیا صرف مجھے ہی نوکری ملے گی؟‘‘ قاسم نے چڑتے ہوئے کہا۔

زرینہ نے خاموش ہونا ہی بہتر سمجھا۔ کچھ دیر بعد وہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ قاسم کو اچانک خالہ بھاگل یاد آ گئی، جو حیدرآباد میں رہتی تھی۔ خالہ کا شوہر ’’جانوں‘‘ جانا مانا ڈکیت تھا۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ مل کر اس نے ایک صوبیدار کو بھی مارا تھا، مگر پھر وہ ان ڈکیتوں کی ٹولی سے الگ ہو گیا۔ سستائی کے دنوں میں اس نے خالہ بھاگل سے شادی کی اور حیدرآباد میں قاسم آباد کے علاقے میں ایک جگہ بھی لے لی۔ وہیں پر اس کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا۔ کسی جان پہچان والے نے اسے قاسم آ باد میں دیکھ لیا اور جا کر پولیس میں مخبری کی۔ ایک رات پولیس کی ٹیم نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا اور اسے گرفتار کر کے لے گئے۔ خالہ بھاگل نے بہت جتن کئے، کورٹ میں کیس بھی چلا، وکیل بھی کئے، پر جانوں کو پھانسی کی سزا سے کوئی نہیں بچا پایا۔ ان دنوں کبھی عارب، تو کبھی قاسم ماں کے ساتھ قاسم آباد جاتے، اس کی مدد کرتے۔ جانوں کو پھانسی ہوئی تو وہ خالہ کے ساتھ جا کر جانوں کی لاش گاؤں دفنانے لے آئے۔

ماں کے گزر جانے کے بعد خالہ کے پاس ان کا آنا جانا کم کیا گیا تھا۔ اب تو برسوں گزر گئے تھے۔ ان کا خالہ کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہ رہا تھا۔ مگرقاسم کو یقین تھا کہ وہ اگر خالہ کے پاس جائے گا، تو وہ ضرور اس کا لحاظ کرے گی۔ قاسم نے سوچا، ’’اور کوئی چارہ بھی نہیں، یہ بچے کچے پیسے بھی ختم ہو جائیں گے، تو کوئی خیرات بھی نہیں دے گا۔‘‘ اسے کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے خالہ کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے سے جیسے اس کے دل سے بھاری بوجھ اتر گیا۔

صبح اٹھتے ہی اس نے یہ بات زرینہ کو بتائی۔ ناشتا کر کے، سامان سمیت وہ کیمپ چھوڑ کر سرورا سٹیشن پر آئے۔ قاسم نے قاسم آباد کے دو ٹکٹ لئے اور گاڑی میں روانہ ہو گئے۔

’’میرے خیال میں تو بھیا عارب بھی بھاگل کے پاس گئے ہوں گے۔‘‘ قاسم نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔

’’پتہ نہیں، وہاں چلیں گے تو معلوم پڑے گا۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔

’’یہ تو طے ہے وہیں ہوں گے، اور کہاں جانا ہے۔‘‘ قاسم نے کہا۔

قاسم اور زرینہ جب قاسم آباد، خالہ بھاگل کے گھر پہنچے، تب ان کی بہو نسرین نے آ کر دروازہ کھولا۔ قاسم نے اس سے پہلے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

’’خالہ بھاگل گھر میں ہیں؟‘‘ قاسم نے پوچھا۔

’’کون خالہ بھاگل؟‘‘ نسرین حیرت سے پوچھا۔

قاسم کشمکش میں پڑ گیا، ’’یہ گھر خالہ بھاگل کا ہے نا؟‘‘

’’نہیں، یہ خالہ امینہ کا گھر ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر نسرین دروازہ بند کرنے ہی والی تھی کہ خالہ نے پاس آ کر پوچھا۔ ’’کون ہے؟‘‘

اس کی نظر قاسم پر پڑی، تو خوشی سے چلا اٹھی، ’’قاسم تم؟‘‘

وہ قاسم اور زرینہ کو اندر لے آئی۔

’’شاباش ہے بیٹا۔ خالہ کو تو بالکل ہی بھلا بیٹھے۔ میں ٹی وی پر سیلاب کی خبریں دیکھ کر تشویش میں پڑ گئی کہ میرے یتیم بھانجوں کا نہ جانے کیا حال ہوا ہو گا؟ اچھا کیا آ گئے، پر عارب اور اس کے بچے کہاں ہیں؟‘‘ خالہ نے شکایت کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

’’کیمپ میں تو ساتھ تھے، پھر اچانک بھیا ہمیں بتائے بغیر بچوں کو لے کر نہ جانے کہاں چلے گئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید وہ آپ کے پاس آئے ہوں گے۔۔ ۔‘‘

خالہ نے حیرانی سے قاسم اور زرینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں تو نہیں آیا۔‘‘

’’خالہ آپ تو خوش ہیں نا؟ ‘ ‘قاسم نے بات کا رخ بدلتے ہوئے پوچھا۔

’’بس بیٹا۔ مالک کی مہربانی ہے، گزر بسر ہو رہا ہے۔ جو جمع پونجی تھی، وہ تمہارے خالو پر خرچ ہو گئی۔ پھر بھی شکر ہے، یہ گھر بچ گیا۔ اپنی چھت کی چھایا ہے۔‘‘

گھر کافی اچھا تھا، تین کمرے تھے، دالان اور باورچی خانہ۔ ایک کمرے میں صدیق، اس کی بیوی اور بچہ رہ رہا تھا۔ دوسرے کمرے میں خالہ بھاگل، جو آج کل خالہ امینہ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ تیسری کمرہ چھوٹا تھا، جس میں گھر کا سامان رکھا ہوا تھا۔ خالہ نے اس کمرے میں قاسم اور زرینہ کو پناہ دے دی۔

دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے وقت قاسم نے صدیق سے کہا، ’’بھائی صدیق، تمہیں اگر کوئی کام نظر آئے تو مجھے دِلا دینا۔ کسی نہ کسی روزگار سے لگ جاؤں تو اچھا ہو گا۔‘‘

صدیق ہنسنے لگا، ’’نوکریاں اتنی آسانی سے ملتیں، تو میں کیوں بے روزگار بیٹھا ہوتا۔ میٹرک پاس ہوں، پر چوکیدار کی نوکری بھی نہیں ملتی۔‘‘

’’بیٹا، نوکری ملنی مشکل ہے۔ کہیں اگر مزدوری مل جائے، تو اور بات ہے۔۔‘‘ خالہ امینہ نے کہا۔

صدیق ناشتا کر کے، تیار ہو کر، گھر کے باہر کھڑی نئی موٹر سائیکل پر سوار کہیں چلا گیا۔ قاسم نے سوچا کہ اسے خود ہی کوشش کر کے روزگار کی تلاش پڑے گی۔ اتنا بڑا شہر ہے، کہیں کوئی مزدوری تو ضرور مل جائے گی۔

قاسم کئی دن بھٹکتا رہا۔ دفتروں میں، دکانوں میں، ہوٹلوں میں، جہاں کہیں بھی گیا اسے دو ٹوک جواب ملا۔ اوپر سے زرینہ کی زچگی کے دن بھی قریب آنے لگے۔

خالہ نے زچگی کا سارا بوجھ خود پر لے لیا۔ کہیں سے دایہ کا انتظام کیا۔ زرینہ نے بیٹے کو جنم دیا۔ مبارکبادوں کا تبادلہ ہوا، خوشیاں منائی گئیں۔

ایک دن زرینہ نے بچے کو سلاتے ہوئے کہا، ’’خالہ نے ہم پر بہت مہربانی کی ہے۔ نہیں تو کون کسی کا اتنا خیال رکھتا ہے اور گھر میں بٹھا کر کھلاتا پلاتا ہے، مگر ہم آخر کب تک خالہ پر بوجھ بنے بیٹھے رہیں گے؟‘‘ فکر میں ڈوبی زرینہ نے کہا۔

’’پھر کیا کریں؟‘‘ ، قاسم بول اٹھا، اسے خود بھی اس بات کا احساس تھا۔

’’تم تھوڑا بہت ہی کما کر لے آؤ، تو ہم بھی سر اٹھانے جیسے ہوں۔‘‘ زرینہ نے کہا۔

’’تم کیا سمجھتی ہو کہ میں کمانے سے کتراتا ہوں؟ پورا مہینہ بھٹکا ہوں، کہیں مزدوری بھی نہیں ملی۔ بس بھیک مانگنے کا کام بچا ہے، کہو تو وہ بھی کر کے دیکھوں۔‘‘ قاسم نے چڑتے ہوئے کہا۔

’’آہستہ بولو، خالہ سن لے گی۔ میں نے کب کہا کہ بھیک مانگنے کا کام کرو۔‘‘ زرینہ نے جواباً چڑتے ہوئے کہا۔

’’تم بات ہی ایسی کرتی ہو۔ اپنی طرف سے میں نے پوری کوشش کی۔‘‘ قاسم نے اس کے کان کے پاس جا کر دھیرے سے کہا، ’’میری بات توسنو۔‘‘

زرینہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

’’یہ ہر روز شام ڈھلے خالہ کے گھر نہ جانے کون سی کون سی لڑکیاں سجی سنوری ہوئی آ جاتی ہیں۔ یہ ہیں کون؟ خالہ کے گھر میں کیا کرتی ہیں؟‘‘

’’مجھے کیا پتہ کون ہیں؟ میں بھی تمہاری طرح ہی دیکھ رہی ہوں۔۔‘‘ زرینہ نے جواب دیا۔

’’رات ہوتے ہی خالہ کے پاس فون آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ فون پر آہستہ سے بات کرتی ہے اور پھر لڑکیوں کو ساتھ لے کر نکل جاتی ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے؟‘‘ قاسم نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

’’یہ اس کی مرضی، تم کیوں سر درد مول لے رہے ہو۔ ہمیں پناہ دی ہے، تین بار کھانا دیتی ہے۔ ہم پر اس کا یہ احسان کم ہے کہ تم بیٹھے بیٹھے خالہ کی جاسوسی کر رہے ہو۔۔‘‘ زرینہ نے قاسم کو ہلکے سے ڈانٹا۔

’’جاسوسی نہیں کر رہا، سامنے کا منظر دیکھ رہا ہوں، اسی لئے پوچھ لیا۔‘‘

’’چلو اب زیادہ دماغ مت لڑاؤ، خاموشی سے سو۔‘‘ زرینہ نے اس کی طرف پیٹھ کرتے ہوئے کہا۔

ایک دن، رات کے وقت زرینہ خالہ کے پاس بیٹھی تھی کہ ایک فون آیا۔

’’ہاں رئیس۔ میں خوش ہوں، گاؤں سے کب لوٹے؟‘‘ خالہ نے پوچھا اور پھر بات سنتے ہی ہنس کر کہا، ’’آتے ہی اتنی بے تابی۔ اچھا دیکھتی ہوں اگر وہ گھر میں ہے، تو لے کر آتی ہوں۔‘‘

پھر خالہ نے کسی کو فون کر کے کہا، ’’رئیس نے بلایا ہے، تم تیار ہو جاؤ، تو میں رکشے میں تمہیں لینے آتی ہوں۔‘‘

خالہ نے زرینہ کی طرف دیکھا، ’’تم چلو گی گھومنے؟‘‘

’’کہاں خالہ۔۔ ۔؟‘‘ زرینہ نے پوچھا۔ ویسے بھی وہ کبھی کبھی خالہ کے ساتھ بازار میں گھر کے سودے کے لئے جایا کرتی تھی۔

’’بس یوں ہی چلو، چکر لگا آتے ہیں۔‘‘ خالہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’میرا۔۔ ۔ بچہ۔۔ ۔۔‘‘

’’نسرین جو بیٹھی ہے۔‘‘ خالہ نے نسرین کو بلا کر زرینہ کے بچے کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت کری۔ نسرین نے مسکرا کر زرینہ کی طرف دیکھا۔ وہ شکل صورت میں معمولی تھی، مگر دل کی اچھی تھی۔ زرینہ کو وہ بہت چاہتی تھی۔ گھر کا تمام بوجھ نسرین پر تھا، لیکن اب زرینہ بھی اس کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ خالہ امینہ تو فقط حکم چلایا کرتی۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر میں پکار کر نسرین کو چائے بنانے کے لئے کہتی۔ اسے چائے پینے اور سگریٹ پھونکنے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہ تھا۔

’’تو پھر چلیں؟‘‘ خالہ نے زرینہ سے پوچھا۔

زرینہ نے حامی بھری، تو خالہ نے اس کی طرف دیکھا اور ہنستے ہوئے کہا، ’’اس حال میں باہر چلو گی کیا؟ کپڑے تو ڈھنگ کے پہن لو۔‘‘

زرینہ نے اندر جا کر کپڑے بدلے اور بال ٹھیک کر کے باہر آئی۔ خالہ نے چاہت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور باہر آ کر ہاتھ کے اشارے سے ایک رکشے کو روکا۔ رکشے والے سے دو جگہوں پر رکنے کے پیسے طے کر کے زرینہ کے ساتھ اندر بیٹھ گئی۔ رکشہ ایک گلی میں کسی مکان کے پاس رکا۔ خالہ نے فون سے ایک مس کال دی۔ فوری طور پر چادر میں لپٹی لڑکی باہر آئی اور رکشے میں بیٹھ گئی۔ سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک بنگلے کے باہر آ کر رکشہ رکا، تو خالہ نے اس کا کرایہ چکایا۔ آگے جا کر اس نے گھر کی کال بیل بجائی۔ فوراً نوکر نے آ کر گیٹ کھول دیا۔ خالہ کو دیکھتے ہی مسکرا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ خالہ دونوں لڑکیوں کو لے کر بنگلے کے اندر گئی اور ڈرائینگ روم میں جا کر بیٹھ گئی۔ زرینہ کو محسوس ہوا کہ خالہ کا وہاں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ زرینہ نے زندگی میں پہلی بار اتنے بڑے بنگلے کو دیکھا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ ساتھ آئی لڑکی نے اپنی چادر اتار کر پاس ہی موجود سوفے پر رکھ دی۔ لڑکی نوجوان تھی اور دلکش بھی۔ چند لمحوں بعد رئیس اندر آیا اور اس نے خالہ کی طرف مسکرا کر پوچھا، ’’امینہ کیا حال ہے؟‘‘ پھر اس نے لڑکی اور ساتھ بیٹھی زرینہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں زرینہ پر ٹھہر گئیں۔ زرینہ کو شرم آنے لگی، اس نے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں۔

’’رئیس یہ میری بھانجی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے یہ لوگ گاؤں سے میرے پاس آئے ہیں۔‘‘ خالہ نے زرینہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا اور پھر دوسری لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ کا فرمائش پر شمائلہ کو لے کر آئی ہوں۔‘‘

رئیس نے مسکراتے ہوئے شمائلہ کی طرف دیکھا، ’’کیسی ہو؟‘‘

’’جی ٹھیک ہوں۔‘‘ شمائلہ نے مسکرا کر جواب دیا۔

رئیس کچھ سوچتے ہوئے اٹھا اور خالہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’امینہ یہاں آؤ تو۔۔ ۔‘‘ خالہ اٹھ کر اس کے پیچھے دوسرے کمرے میں گئی۔ رئیس بستر پر بیٹھا اور اس نے خالہ کو اپنے ساتھ بٹھایا۔ وہ خالہ کے کندھے پر اپنے بازو رکھ کر اسے دیکھنے لگا۔

’’کیا دیکھ رہے ہو رئیس؟‘‘ خالہ ہنسنے لگی، ’’میں تو اب بوڑھی ہو گئی ہوں۔‘‘

’’میں بھی کون سا نوجوان ہوں، امینہ۔ ساٹھ سال کا ہو گیا ہوں۔‘‘

’’نہیں رئیس، مرد اور گھوڑے دونوں کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔‘‘ خالہ کی بات سن کر رئیس نے قہقہہ لگایا۔

’’تمہاری یہی باتیں تو مجھے بھلی لگتی ہیں۔‘‘ رئیس نے ہنستے ہوئے کہا۔ پھر پل بھر رک کر بولا، ’’امینہ جوانی میں تم بھی قہر ڈھاتی تھیں، پر تمہاری بھانجی بھی غضب کی ہے۔ میں تو اس پر فدا ہو گیا ہوں۔‘‘

خالہ نے رئیس کی ہاتھ اپنے کندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا، ’’نہیں رئیس۔ زرینہ میرے بھانجے کی بیوی ہے، میرے پاس مہمان بن کر آئی ہے۔ یہ بات زیب نہیں دیتی۔ تم اس بات کو ذہن سے نکال دو۔ میں تمہیں زرینہ سے زیادہ خوبصورت لڑکی ڈھونڈ کر دوں گی۔‘‘

’’نہیں۔‘‘ رئیس نے انکار میں گردن ہلائی اور کہا، ’’مجھے تو وہ بھا گئی ہے۔ چاہئے تو بس یہی چاہئے۔‘‘ اس نے ضد کرنے کی کوشش کی۔

’’رئیس، میری بات سنو اور سمجھو، میں تو اسے یوں ہی گھمانے لے آئی تھی۔ مجھے کیا پتہ کہ اسے دیکھتے ہی اپنے ہوش کھو بیٹھو گے۔۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

رئیس نے خالہ کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے، ’’دیکھو امینہ تم کچھ بھی کرو، پر یہ کام کر دو۔‘‘

خالہ نے فوراً اٹھ کر رئیس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھاما، ’’یہ کیا کر رہے ہو رئیس۔ اچھا، کچھ دن صبر کرو، تو میں کوئی حل نکالنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘‘

رئیس نے خالہ کو آغوش میں لے کر اس کا گال چوم لیا، ’’بس اب سب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ کچھ کرنا، ورنہ میں مر جاؤں گا۔‘‘

’’اچھا، اچھا اب زیادہ اداکاری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہیں جانتی ہوں۔‘‘ خالہ جی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔

رئیس نے پرس سے ہزار ہزار کے دو نوٹ نکال کر خالہ کو دئیے۔

’’یہ ایک ہزار تمہارا اور ایک ہزار زرینہ کا۔‘‘ اس نے پھر تیسرا نوٹ نکالتے ہوئے کہا، ’’یہ شمائلہ کو دے دینا اور اسے اپنے ساتھ لیتے ہوئے جانا اب میرا من نہیں ہے۔‘‘

’’نہیں رئیس، یہ بات ٹھیک نہیں۔ تمہارے کہنے پر ہی اسے لے آئی ہوں۔ اب کس طرح کہوں کہ واپس چلو؟‘‘ خالہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔

’’اچھا ٹھیک ہے۔ آئی ہے، تو اس سے دل بہلا لیتا ہوں۔ ورنہ تم بھی برا مان جاؤ گی۔۔ ۔‘‘ رئیس نے خالہ کی بات مانتے ہوئے کہا۔

دونوں ڈرائنگ روم میں واپس آئے، تو خالہ نے زرینہ کو چلنے کے لئے کہا۔

’’ٹھہرو تمہیں میری گاڑی چھوڑ کر آتی ہے۔‘‘ خالہ کے منع کرنے کے باوجود وہ دونوں رئیس کی گاڑی میں سوارہو کر روانہ ہوئیں۔ گھر سے کچھ فاصلے پر دونوں گاڑی سے اتر کر گھر آئیں۔ زرینہ اپنے کمرے میں گئی، تو دیکھا کہ بچہ سو رہا تھا۔ قاسم ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ اتنے میں خالہ اس کے کمرے میں آئی۔

’’اے ری پگلی۔ رئیس تجھے دیکھ کر پاگل ہو گیا ہے۔۔‘‘ خالہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔

’’خالہ تم مجھے غیر مرد کے پاس کیوں لے کر گئیں؟‘‘ زرینہ نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔

’’اس لئے لے کر گئی کہ تم تھوڑا بہت گھوم پھر آؤ۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ وہ تجھ پر لٹو ہو جائے گا۔‘‘ خالہ نے ہزار کا نوٹ اس کی طرف بڑھاتے کہا، ’’یہ لو رئیس نے تجھے خوشی سے بخشش دی ہے۔‘‘

زرینہ حیرانی سے اس نوٹ کو دیکھتی رہی۔

’’نہیں، خالہ نہیں۔ قاسم پوچھے گا کہ پیسے کہاں سے لائی، تو کیا جواب دوں گی۔ تمہیں معلوم نہیں قاسم کتنا شکی ہے۔‘‘ پھر اس نے صفوراں کے قتل کی ساری داستان خالہ کو بتا دی۔

خالہ کے تو جیسے ہوش اڑ گئے، ’’یہ ظالم تو خونی ہے۔ میں بھی سوچوں کہ عارب چھوٹے بھائی کو چھوڑ کر کیوں چلا گیا ہو گا؟ اچھا، تو یہ بات ہے۔‘‘ اس نے ہزار کا نوٹ اپنے پاس رکھتے ہوئے کہا، ’’ہاں واقعی وہ پیسے دیکھ کر شک کرے گا۔ تمہارے پیسے میں اپنے پاس امانت کے طور رکھتی ہوں۔‘‘

’’خالہ ویسے بھی تمہارا ہی تو کھا رہے ہیں۔‘‘ زرینہ نے شکر ادا کرتے ہوئے کہا۔

’’نہیں پگلی نہیں۔ ہر ایک اپنے نصیب کا کھاتا ہے۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تمہیں پتہ ہے گھر کا اتنا خرچ کیسے چلتا ہے۔ صدیق بال بچوں والا ہو گیا ہے، لیکن گھر کی ذمہ داری بالکل پوری نہیں لے پاتا۔ ماں جو کما رہی ہے۔ باپ کے تمام پیسے مقدموں میں خرچ ہو گئے۔ خود تو پھانسی پر چڑھ گیا، پیچھے رہ گئی میں۔ صدیق تب بچہ تھا۔ میرے پاس اپنی جوانی کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘

خالہ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ’’تمہیں کیا پتہ، اکیلی عورت ذات ہو کر میں نے کس طرح گزارا کیا۔ گنہگار پیٹ کو ٹکڑا تو چاہئے نہ۔۔‘‘ خالہ کا گلا بھر آیا۔ وہ رونے لگی۔

’’میں نے یہ کام خوشی سے نہیں کیا۔ مجھے اپنا اور اپنے بچے کا پیٹ پالنا تھا۔ بس، اس دلدل میں اتری تو پھر باہر نہ نکل پائی۔‘‘

خالہ کو روتا دیکھ کر، زرینہ کا دل بھر آیا۔

’’دنیا بڑی ظالم ہے زرینہ۔ کسی نہ کسی طریقے سے اس سے گزرنا تو ہے ہی۔‘‘ خالہ نے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

زرینہ خالہ کی باتیں سن کر دنگ رہ گئی۔

ایک رات قاسم نے یوں ہی بات نکالی، ’’اب مجھے خالہ کے پاس رہنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘

’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘ زرینہ نے حیرانی سے پوچھا۔

’’مجھے خالہ کے آثار اچھے نہیں لگتے۔‘‘ قاسم نے کہا۔

زرینہ سکتے میں آ گئی، ’’تم نے ایسے کیسے سوچ لیا؟‘‘ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔

’’صدیق سارا دن موٹر سائیکل پر گھومتا رہتا ہے۔ کوئی کام بھی نہیں کرتا، تو پھر گھر میں اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ خالہ کوئی اچھا کام نہیں کر رہی ہے، اتنا تو میں بھی سمجھ گیا ہوں۔۔‘‘ اس نے گردن ہلا کہا۔

’’پتہ نہیں۔‘‘ زرینہ نے نرم لہجے میں کہا، ’’پھر تمہاری کیا مرضی ہے؟‘‘

’’کوئی بندوبست ہو تو یہاں سے نکل جائیں۔‘‘ قاسم نے کہا۔

’’مرد آدمی ہو، کوئی راستہ ڈھونڈ نکالو۔‘‘

’’صبح سے شام تک روزگار کے پیچھے بھاگتا پھرتا ہوں۔ بس دعا کر۔‘‘ قاسم نے بے بسی سے کہا۔

’’خدا کرے تمہارے روزگار کا کوئی راستہ نکل آئے۔‘‘ زرینہ نے کہا۔

شاید زرینہ کی دعا قبول ہوئی، قاسم کو ایک ہوٹل میں کام مل گیا، لیکن وہ کام اس کے لئے نیا بھی تھا اور مشکل بھی۔ ایک تو اس کے جسم میں پھرتیلا پن نہیں تھا، دوسرے کبھی اس کے ہاتھ سے پلیٹ گر جاتی، تو کبھی گلاس ٹوٹ جاتا۔ گاہکوں کی باتیں سننی پڑتیں اور ساتھ میں ہوٹل کے مالک کی سختی بھی برداشت کرنی پڑتی۔ وہ ایک ہفتہ بھی نہیں ٹک پایا۔ آخر ہوٹل کے مالک نے اسے نوکری سے نکال دیا۔ زرینہ نے سنا، تو اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا ما تھا پیٹ لیا۔

’’تم سے یہ کام بھی نہیں ہو پایا، تو دوسرا کون سا کام کرو گے؟‘‘ اس نے غصے سے کہا۔

’’لوگوں کی باتیں سن کر، سختی سہہ کر بھی کام کر رہا تھا۔ ہوٹل مالک نے خود جواب دیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟‘‘ قاسم نے کہا۔

’’آخر آپ کیا کریں گے؟ اگر تم سے کچھ نہیں ہوتا، تو پھر مجھے رہا کرو، تو میں خالہ کے ساتھ باہر نکلوں۔‘‘ زرینہ نے چڑتے ہوئے کہا۔ قاسم نے جھپٹ کر اسکوگردن سے پکڑ لیا۔

’’پھر اگر ایسی بات ہے، تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔‘‘ غصے سے اس کی مٹھیاں بھینچ سی گئیں۔

’’بھڑووں کے ساتھ رہ کر تم بھی ان جیسی ہو گئی ہو۔‘‘ اس نے زرینہ کی گردن پکڑتے ہوئے اسے دھکا دیا۔ زرینہ کمرے کی دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر پڑی۔ قاسم تیزی سے باہر نکل گیا۔ شور سن کر خالہ کمرے میں آئی۔ اس نے زرینہ کو گلے لگا کر اسے زمین سے اٹھایا۔ زرینہ خالہ سے لپٹ کر رونے لگی۔

’’ہم بھڑوے ہیں اور خود غیرت مند ہے، تو یہاں کیوں بیٹھا ہے؟‘‘ خالہ بہت غصے میں تھی۔ ’’مجھے تمہارا اور تمہارے بچے کا خیال نہ ہوتا، تو ابھی کا ابھی قاسم کو گھر سے باہر نکال پھینکتی۔ خود کو سمجھتا کیا ہے؟‘‘

اس نے اپنے دوپٹے سے زرینہ کے آنسو پونچھے۔ پھر پانی کا گلاس بھر کر اسے پلایا، ’’یہ پانی پی لے، یہ مرد سبھی کتے ہوتے ہیں۔ جھوٹے، مکار، غیرت مند۔ ان کا بس چلے، تو عورت کا گوشت تو گوشت، ان کی ہڈیاں بھی چبا ڈالیں۔‘‘ خالہ نے غصے بھرے لہجے سے کہا۔

رات کو قاسم دیر سے گھر آیا۔ زرینہ نے خاموشی سے کھانا لا کر اس کے سامنے رکھا اور خود بچے کے پاس لیٹ گئی۔ کھانا کھا کر کچھ دیرقاسم خاموش بیٹھا رہا۔ وہ چاہتا تھا کہ زرینہ سے بات کرے۔ اس نے زرینہ کے بازو پر ہاتھ رکھا، پر زرینہ نے اس کا ہاتھ پرے جھٹک دیا۔ قاسم زمین پر بچھے اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔

خالہ اور زرینہ جب سے رئیس کے پاس سے واپس آئی تھیں، شام ہوتے ہی وہ روز خالہ کو دو تین بار فون کرتا۔

’’کیا ہوا؟ میری راتوں کا سکھ چین کھو گیا ہے۔ کب پرندے کو لے کر آ رہی ہو؟‘‘

’’رئیس، زرینہ کوئی گلاب نہیں، جو خوشبو کے ساتھ تمہارے پاس لے آؤں، پر تمہاری وجہ سے میں بھرپور کوشش کروں گی۔‘‘ خالہ رئیس کو امید دیتی اور اپنی جان چھڑوا لیتی۔ جب رئیس کی بیتابی میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا، تو خالہ نے اس کے فون پر پوچھا، ’’اچھا یہ تو بتاؤ، زرینہ کو کسی طرح لے بھی آئی تو دو گے کیا؟‘‘

’’جو تم کہو گی۔‘‘ رئیس نے فوراً جواب دیا۔

’’زرینہ تمہارے پاس مہینے میں چار بار آئے گی۔ تم اس کے چالیس ہزار مہینے کے باندھ دو۔‘‘ خالہ نے اپنا پانسا پھینک دیا۔

’’یہ لو امینہ، تم تو پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئیں۔‘‘ رئیس کی جیسے چیخ نکل گئی۔

’’اگر رئیسوں کے ادب آداب اپنانے ہیں تو خرچہ تو کرنا پڑے گا۔‘‘

’’میں ہر ماہ تیس ہزار روپے دوں گا، ایک شرط پر۔۔ ۔‘‘

’’کیسی شرط؟‘‘ خالہ نے پوچھا۔

’’وہ میرے سوا کسی اور کے پاس نہیں جائے گی۔‘‘ رئیس نے شرط سامنے رکھی۔

’’واہ سائیں، واہ۔ تیس ہزار دے کر پرندے کو پنجرے میں بند کر کے رکھو گے۔ اگر ایسا شوق ہے، تو لاکھ روپے مہینے کے دو، نہیں تو ایسی پابندی قبول نہیں۔۔‘‘ خالہ نے روکھا سا جواب دیا۔

’’ایسی زور زبردستی نہ کرو امینہ۔ تمہیں پتہ ہے میرے اور بھی کئی خرچ ہیں۔‘‘

’’تو پھر ایسی شرط بھی مت رکھو۔‘‘

’’چلو پھر میں نے شرط کو منسوخ کر دیا۔ اب تو مان جاؤ۔۔ ۔‘‘ رئیس جیسے بے بس ہو گیا تھا۔

’’ٹھیک ہے رئیس، دیکھتی ہوں۔ میں کیا کر سکتی ہوں۔‘‘ خالہ نے کوئی وعدہ نہ کرتے ہوئے کہا۔

’’ہائے۔ اب بھی دیکھو گی؟ تب تک تومیں مر جاؤں گا۔۔‘‘ رئیس نے بے تاب ہو کر چلاتے ہوئے کہا۔

’’یہ جملہ کسی اور کو سناؤ، مرتا ورتا کوئی نہیں۔‘‘ خالہ نے ہنستے ہوئے کہا، ’’زرینہ کو حاصل کرنا اتنا آسان نہیں۔ مجھے تھوڑا وقت دو، اپنے گھر کو تو باندھ لوں۔‘‘

’’بس امینہ، اب تمہاری مرضی۔ ہم تو اب تیرے بس میں ہیں۔‘‘ رئیس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے فون بند کر دیا۔

’’خالہ تم نے یہ کیا کیا؟‘‘ زرینہ کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے بادل امڈ آئے۔

’’پگلی۔ رئیس کے سائے میں تم بس جاؤ گی۔۔‘‘ خالہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں خالہ نہیں۔۔ ۔، خوف سے میرا دل کانپ رہا ہے۔ قاسم کو تو تم جانتی ہو۔‘‘ اتنا کہہ کر زرینہ حقیقت میں کانپنے لگی تھی۔

’’اتنا ڈرنے کی بات نہیں۔ میں بھی اس بات کو سمجھتی ہوں۔ بات بنی تو بنی، نہیں بنی، تو خیر ہے۔ میں نے تو ایسے ہی رئیس سے جاننا چاہا کہ وہ دے گا کیا؟‘‘

خالہ نے زرینہ کو دلاسہ دیا۔

کچھ دنوں تک قاسم سے نہ زرینہ نے بات کی، اور نہ ہی خالہ اس کے منہ لگی۔ قاسم کو خالہ کی جانب سے زیادہ فکر تھی۔ اگر خالہ نے گھر سے نکال دیا، تو کہاں جائیں گے؟ اس خیال سے وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو جاتا۔ اب گاؤں میں بھی اس کے لئے کچھ نہ بچا تھا۔ ایک بڑا بھائی تھا، اس نے بھی اس سے ناطہ توڑ دیا تھا۔ کیمپوں میں خیرات پر آخر آدمی کب تک پڑا رہے گا۔ ایک دن اس نے زرینہ سے بات کرتے ہوئے التجا کی، ’’اب غصے کو تھوک بھی دو، کیا ساری عمر بات نہیں کرو گی؟‘‘

’’کیا بات کروں۔ بات کرتی ہوں، تو گلا دبا دیتے ہو۔‘‘ زرینہ نے اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔

"تم نے بات ہی ایسی کی۔ کیا غصہ نہیں آئے گا؟‘‘

’’یعنی، تمہیں میرا بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ تو پھر بات نہ کروں تو ہی ٹھیک ہے۔‘‘

’’گھر میں دو برتن ہوں گے، تو ضرور ہی ٹکرائیں گے۔ اس میں بڑی بات کون سی ہے؟‘‘

’’بڑا آیا ہے برتن۔۔ ۔‘‘ زرینہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔

’’غنیمت ہے، تم ہنسی توسہی۔‘‘

’’میری تو خیر ہے، مگر خالہ بہت غصے میں ہے۔‘‘ زرینہ نے قاسم کے اندر خوف کو پھونک دیا۔

’’ہاں، میں بھی دیکھ رہا ہوں، وہ گھاس ہی نہیں ڈال رہی۔ تم اس سے بات کرو، تو شاید اس کی ناراضگی کم ہو۔‘‘

’’خالہ تمہاری ہے اور کہا میرا مانے گی؟‘‘

’’ہاں۔۔ ۔ پر۔۔‘‘ کچھ کہتے کہتے قاسم خاموش ہو گیا۔

دوسرے دن شام کو خالہ کے گھر دو لڑکیاں آئیں۔ رات ہوتے ہی خالہ کے پاس فون آنے لگے۔ خالہ دونوں لڑکیوں کو لے کر گھر سے نکلی۔ گلی سے نکل کر روڈ پر آئی، تو ایک کار ان کا انتظار کر رہی تھی۔ کار نے انہیں لے کر ایک بنگلے کے سامنے چھوڑا۔ اندر صاحب اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ان کے سامنے وہسکی کے بھرے گلاس رکھے تھے۔ خالہ اور لڑکیوں کو دیکھ کر دونوں نے ملا جلا نعرہ لگایا ’’خالہ زندہ باد۔۔‘‘ خالہ نے لڑکیوں کو چھوڑ کر لوٹنا چاہا، پر صاحب اور اس کے دوست نے خالہ کو اپنے ساتھ بٹھایا اور وہسکی کا ایک گلاس خالہ کو پیش کیا۔

’’چیئرز‘‘ کہہ کر انہوں نے اپنے گلاس خالہ کے گلاس سے ٹکرائے۔ خالہ بھی دو پیگ پی کر، مد ہوشی کی حالت میں اپنے گھر واپس آئی۔ اس وقت تک زرینہ اور قاسم جاگ رہے تھے۔ خالہ نے زرینہ کو اپنے کمرے میں بلوایا۔

’’دے خبر؟ ، تمہارا مرد راستے پر آیا ہے یا نہیں؟‘‘ خالہ نے زرینہ سے پوچھا۔

’’تھوڑا بہت۔۔ کہتا ہے خالہ کو منالو۔۔‘‘ زرینہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اچھا، جاؤ اسے لے آؤ۔‘‘ خالہ خوشگوار موڈ میں تھی۔

کچھ دیر میں زرینہ لوٹ آئی اور اس کے پیچھے سہما سہما سا قاسم بھی اندر آیا۔

’’بیٹھو میاں قاسم خان۔‘‘ خالہ نے طنز بھرے لہجے میں کہا، ’’سخت جان ہو۔‘‘

’’نہیں خالہ، تمہارا بچہ ہوں۔‘‘ بیٹھتے ہوئے قاسم نے نرمی سے کہا۔

’’میری جنتی بہن کے بیٹے ہو، اسی لئے میں نے بھی تمہیں اپنا خون سمجھ کر گھر میں رکھا۔ باقی تم مجھے اگر برا سمجھتے ہو، تو دروازہ کھلا پڑا ہے۔ جانا چاہو، تو خوشی سے جا سکتے ہو۔۔‘‘ خالہ نے اس پر سیدھا وار کیا۔

’’نہیں خالہ، آپ بھی میری ماں جیسی ہو۔ تمہیں برا کیوں سمجھوں۔ تمہارے سوا ہمارا ہے ہی کون؟‘‘ قاسم کی آواز میں پشیمانی تھی۔ خالہ نے پرس میں سے پانچ سو والے چار نوٹ نکال کر آگے رکھے۔

’’میری اس کمائی پر سارا خاندان چلتا ہے۔ کچھ چھپا نہیں رہی۔ میرا دھندہ تیرے سامنے ہے، ’’اس نے پانچ سو کا ایک نوٹ قاسم کی طرف بڑھاتے کہا، ’’ہاں، یہ میری طرف سے جیب خرچ ہے۔‘‘

’’نہیں، نہیں، خالہ، تمہارا دیا کھا رہے ہیں، میرے لئے اتنا ہی کافی ہے۔‘‘ قاسم نے پیسے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا۔

’’اب لے بھی لو، خالہ کا دیا ہوا لوٹا رہے ہو۔‘‘ زرینہ نے زور دیا۔

قاسم نے جیسے بڑی لاچاری سے نوٹ لے کر جیب میں ڈالا۔

’’قاسم، اب میری بات ٹھنڈے دماغ سے سنو، کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اپنی مرضی والے ہو۔ اگر تمہیں یہ بات اچھی نہ لگے، تو جہاں چاہو اپنا راستہ پکڑ کر چلے جانا۔۔‘‘ خالہ نے غور سے قاسم کی طرف دیکھا۔ قاسم بالکل خاموش تھا۔

’’کیا کہتے ہو؟ بات چلاؤں؟‘‘ خالہ نے کہا۔

’’خالہ۔‘‘ قاسم کے گلے سے گھٹی گھٹی سی آواز نکلی۔

’’تمہاری بیوی اور بچے کا خرچ مجھ پر ہے۔ تم ان سے آزاد ہو۔ تمہیں ہر مہینے پانچ ہزار جیب خرچ ملے گا۔ بس، زرینہ کا ہاتھ میرے حوالے کر دو۔‘‘

قاسم کے چہرے کی نسیں تن گئیں اور اس کا جسم پتھرا گیا۔ خالہ نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔

’’تم بھلے ابھی جواب مت دو۔ ایک دو دن ٹھنڈے دماغ سے سوچ بچار کرو۔ پھر جو تمہاری مرضی۔۔‘‘ خالہ نے نیند میں ڈوبی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اب جا کر سو جاؤ۔‘‘

قاسم اپنے پتھرائے جسم کو ڈھو کر باہر نکل گیا۔ خالہ نے مسکرا کر زرینہ کو آنکھ ماری اور اسے قاسم کے پیچھے جانے کو کہا۔

قاسم جاتے ہی اپنے بستر پر ڈھیر ہو گیا۔ اس رات دونوں نے ایک دوسرے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ ہی دو تین دنوں تک خالہ والی بات چھیڑی۔

دو تین دن گزر گئے۔ قاسم دوپہر کا کھانا کھا کر باہر جانے لگا، تو زرینہ نے اس سے کہا، ’’سنو آج شام جلدی گھر آنا، کام ہے۔‘‘

’’کیا کام ہے؟‘‘ قاسم نے حیرت سے پوچھا۔

’’تم آؤ پھر بتاؤں گی۔‘‘

قاسم کچھ سمجھ نہیں پایا۔ بے چین دل میں اٹھتے نہ جانے کتنے سوالوں نے اس کا باہر رہنا محال کر دیا۔ شام ہوتے ہی گھر لوٹ آیا۔ زرینہ کمرے میں نہیں تھی۔ وہ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد زرینہ کمرے میں اندر آئی، تو قاسم اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اس نے اتنی سجی سنوری زرینہ اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پہلی بار زرینہ اسے اتنی خوبصورت لگی۔

’’اب کہو، اجازت دو تو خالہ کے ساتھ جاؤں؟‘‘ قاسم کا جسم ایک بار پھر پتھرا سا گیا۔

ایک لمحے کے لئے رک کر زرینہ نے کہا، ’’کیا کہتے ہو، تمہاری مرضی نہیں ہے، تو میں نہیں جاتی۔‘‘ زرینہ اس کی طرف دیکھتی رہی اور قاسم کی گردن جھک گئی۔ کچھ دیر کے بعد اس نے زرینہ کی طرف دیکھے بغیر ہولے سے کہا، ’’چلی جاؤ۔۔ ۔۔‘‘

زرینہ نے گردن موڑ لی۔ ایک طنز بھری مسکراہٹ کو ہونٹوں پر سجائے وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

آخری دن

 

 

جیسے ہی وہ نیند سے جاگا تو رات والا ڈر پھر سے اس کے دل میں گھس آیا۔ وہ رات کو بھی دیر رات تک اس بارے میں سوچتا رہا تھا کہ آنے والے دن کا وہ کس طرح سامنا کرے گا۔ دس سال پہلے بھی اس کے ساتھ وہی ہوا تھا۔ جب کافی وقت تک بیروزگار رہنے کے بعد اسے ابھی حال ہی میں ایک نوکری ملی تھی، تو وہ پوری رات سو نہ سکا تھا۔ نوکری ملنے کی خوشی کے ساتھ اسے ڈر بھی تھا۔ وہ اس کی اولین نوکری تھی، اس لئے وہ ڈر رہا تھا کہ پتہ نہیں آفس والوں کا اس کے ساتھ کیسا رویہ رہے گا۔ لیکن اس بات کو دس سال گزر چکے تھے اور اب وہ نوکری سے استعفی دے کر دوسری جگہ جا رہا تھا۔ ’’دس سال‘‘ اس نے سوچا کہ اس کی زندگی کے دس سال نوکری میں چلے گئے تھے اور اس سے زیادہ وقت دوسری نوکری میں چلا جائے گا۔ شخص کی پوری عمر فقط روزی روٹی کے چکر میں ہی تمام ہو جاتی ہے۔ ’’جہاں تک پیٹ پالنے کا سوال ہے تو یہ نوکری ہی ٹھیک ہے۔ دوسری میں کون سی دولت اکٹھا کروں گا۔ یہاں گھل مل گیا ہوں، نئی جگہ پر پتہ نہیں دل لگے یا نہ لگے۔ یہ سوچ کر اس نے دوسری نوکری کے لئے کبھی بھی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ یہاں پر اسے یہ سہولت تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا تھا اور ٹرانسفر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کسی اور نوکری میں تو شاید اسے باہر جانا پڑتا اور یہ بات اسے اور اس کے گھر کے افراد کو گوارا نہیں تھی۔ لیکن کچھ وقت کے بعد ہی وہ روٹین کام کرتے کرتے بوریت کا شکار ہو گیا تھا۔ وہی آفس، وہی گھر، گھر سے آفس اور آفس سے گھر جانے کا وہی راستہ۔ حیدرآباد کی تنگ، کئی موڑوں والی گندی گلیاں۔ جن پر ہر وقت نالیوں کا گندہ پانی پھیلا رہتا تھا۔ اچانک کراچی سے اسے ایک نوکری کی آفر ہوئی اور اس نے روٹین لائف سے جان چھڑانے کے لئے وہ آفر قبول کی تھی۔ اب اسے جو نوکری ملی تھی، اس میں نہ صرف تنخواہ کچھ زیادہ تھی، اسے پروموشن کی بھی امید تھی۔ ویسے پوسٹ کوئی خاص نہیں تھی، اس لئے اسے کوئی خوشی بھی نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہ اور نہیں تو ایک طرح کی تبدیلی تو ہے۔ اگر یہاں پر بھی پریشان ہو گیا (اور پریشان ہوں گا، یہ اسے پتہ تھا، اس کا مزاج ہی ایسا تھا) تو کسی اور جگہ پر کم سے کم ایسی نوکری تو مل ہی جائے گی۔ پوری عمر ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر تو اسے کیرئیر بنانا نہیں تھا۔

استعفی لکھنے پر اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے اپنی کسی پرانی چیز کو چھوڑنے پر ہوتا ہے۔ اس نے جس آفس میں دس سال گزارے تھے، وہاں سے وہ ہمیشہ کے لئے جا رہا تھا۔ اتنا وقت کسی جگہ پر رہنے سے لگاؤ تو پیدا ہو ہی جاتا ہے۔ اس نے ایسے لوگ دیکھے تھے، جن کو اپنے آفس سے بہت پیار تھا، گھر سے بھی زیادہ۔ اس حد تک کہ ان کو گھر سے زیادہ آفس میں سکون ملتا تھا۔ ایسے لوگ جب ریٹائر ہوتے تھے یا استعفی دیتے تھے تو رو دیتے تھے۔ وہ ایسے لوگوں پر ہنستا تھا، لیکن اب اسے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ خود بھی ایک جذباتی شخص تھا، اس لئے ہو سکتا ہے آفس سے رخصت ہوتے وقت اس کا دل بھر آئے، اس کی آنکھیں بھیگ جائیں اور ہو سکتا ہے کہ آنسو ہی نکل آئیں۔ رخصت کی دعوت میں باتیں کرتے اس کا گلا بھر آئے گا، گلے میں کچھ اٹک جائے گا اور اس کے منہ سے ایک بھی لفظ نہیں نکلے گا۔ اتنے لوگوں کے آگے رونی صورت بننے والی بات اسے اچھی نہیں لگتی۔ لیکن خود کو روک پانا بھی تو اس کے بس میں نہیں تھا۔

’’آفس میں میں نے کون سے شیر مارے ہیں، جو میرے لئے پارٹی کر رہے ہیں! چھوڑ دیں تو چپ چاپ چلا جاؤں۔‘‘ تبھی اسے خیال آیا کہ اگر آفس والے اس کے جانے کی دعوت نہ کرتے تو وہ ایسا سوچتا کہ آفس والوں نے اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ اسے تھوڑی خوشی ہوئی، لیکن پھر ڈر گیا کہ اس موقعے پر وہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر بیٹھے۔

آخر وہ پلنگ سے اٹھا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تو خلاف واقعہ اسے ایک گھنٹہ کی تاخیر ہو گئی تھی۔ اب اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ آفس میں دیر سے پہنچے گا، اس لئے وہ آرام سے تیار ہونے لگا۔ لیکن اسے لگا کہ اس ڈھیلے پن کی وجہ، آج کے دن کا ڈر تھا۔ اس وقت اسے یاد آیا کہ آفس کی طرف سے ایک فوٹو گرافر کو بھی بلوایا گیا ہے۔ اس نے سوچا کہ اس موقع پر اسے خاص تیاری کرنی چاہئے۔ لیکن ڈھیلے پن کی وجہ سے وہ کوئی خاص تیاری نہیں کر پایا اور پہلے کی طرح ہی عام سے کپڑوں میں آفس کی سمت روانہ ہوا۔ اس نے خود کو یہ بات سمجھانی چاہی کہ ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی آفس جا رہا تھا۔ اس نے کوشش کی کہ آخری دن والی بات کو کچھ وقت کے لئے دل سے نکال دے۔ لیکن یہ کوشش بیکار تھی۔ رخصتی والا بھوت اس کے دل میں پوری طرح سے گھس چکا تھا۔

اسے اپنے جذباتی پن پر طیش آنے لگا۔ اس نے سوچا کہ آفس جا کر استعفی واپس لے اور خود کو اپنے ایسے مزاج کے لئے سزا دے۔ آخر پوری عمر تو وہ آفس میں رہ نہیں سکتا۔ کبھی نہ کبھی تو اسے آفس کو چھوڑنا ہی تھا۔ آج نہیں تو کل۔ اتنا جذباتی لگاؤ بھی نہیں ہونا چاہئے جو آدمی آنکھیں بند کر کے، سب کچھ قربان کر دے۔ ابھی وہ نوجوان تھا اور اسے ایسی جگہ ہونا چاہئے۔ جہاں آگے بڑھنے کے مواقع ہوں۔ یہ منطق دے کر خود کو سمجھاتا رہا، لیکن اسے لگا کہ وہ جتنا پانی کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اتنا ہی نیچے طوفان اٹھ رہا تھا۔

وہ سوچنے لگا کہ دعوت میں اگر تقریر کی گئی تو اسے جواب میں کیا کہنا پڑے گا۔ وہ جوابی تقریر کے لئے مناسبا لفاظ تلاش کرنے لگا۔

’’میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں۔ جو آپ نے مجھے اس لائق سمجھا۔ میں نے اسے آفس کو آفس نہیں بلکہ اپنا گھر سمجھا تھا۔‘‘ آفس کے لئے گھر کا لفظ اسے اچھا نہیں لگا۔ انسان اس بات کو محسوس کر سکتا ہے، لیکن زبان سے کہنا ٹھیک نہیں تھا، اس لئے اس جملے کو اس نے رد کر دیا۔ ’’ہم نے اس آفس میں مل کر ایمانداری اور محنت سے کام کیا ہے۔ اس نے آفس کے کام کو اپنا خود کا کام سمجھا ہے۔ سچ پوچھیں تو آپ سے اور اس آفس سے الگ ہوتے مجھے کتنا دکھ ہو رہا ہے، وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ چاہے کہیں پر بھی ہوں، لیکن آپ کو اور اس آفس کو بھول نہیں پاؤں گا۔‘‘

اسے لگا کہ وہاں پر وہ رو پڑے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئیں۔ اس کے بعد عورتوں کی طرح رو مال سے آنکھیں صاف کرتے وہ کتنا عجیب اور مزاحیہ لگے گا۔

’’لیکن دس سال کوئی قلیل وقت تو نہیں! اتنے وقت تک جن لوگوں کے ساتھ رہا ہوں، ان سے رخصت لیتے وقت اگر دل بھر آیا تو کتنی بری بات ہے! دکھ تو ہو گا ہی اور آفس کے لوگوں کو بھی دکھ ہوا ہو گا۔ اتنے وقت تک میں نے کسی سے برا برتاؤ نہیں کیا ہے، سبھی سے اچھا طریقے سے چلا ہوں۔۔ ۔‘‘ تبھی اسے خیال آیا کہ تقریر میں اسے یہ الفاظ بھی کہنے چاہئیں۔ ’’اگر مجھ سے کوئی بھی غلطی ہو گئی ہو یا انجانے میں میں نے کسی کا دل دکھایا ہو تو مجھے معاف کیجئے گا۔‘‘ دل میں یہ جملہ دوہراتے ہوئے، منظور نے محسوس کیا کہ اس کے دل کو ایک ہلکا جھٹکا لگا تھا۔

وہ جیسے ہی آفس کے اندر داخل ہوا تو سامنے سے عالم چوکیدار آتا مل گیا۔

’’صاحب، آج ہم سے جدا ہو رہے ہیں۔‘‘

’’انسان دنیا میں ہمیشہ نہیں رہتا، یہ تو آفس ہے۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’صاحب میں خوشامد نہیں کر رہا ہوں لیکن آپ کے جانے پر بہت دکھ ہوا ہے۔۔ ۔‘‘

وہ آگے بڑھ گیا۔ اسے پتہ تھا کہ ٹھہرنے پر عالم تل کا پہاڑ بنا دے گا۔ اسے خیال آیا کہ آفس کے سبھی لوگوں کو کہہ دے کہ میرے سامنے کوئی بھی میرے جانے کا ذکر نہیں کرے۔ لیکن اوروں کو یہ بات عجیب لگتی۔ اسے خود پر طیش آنے لگا۔ میں بھی عجیب ہوں۔ ہزاروں لوگ نوکری چھوڑتے اور ٹرانسفر کرتے ہیں۔ آخر میرے ساتھ ایسا کیا مسئلہ ہے؟‘‘

اسے آتا دیکھ کر، اس کا چوکیدار اس کے لئے آفس کا دروازہ کھول کھڑا ہو جاتا ہے۔

’’صاحب، آج آخری بار آفس میں بیٹھئے۔‘‘

اس نے چاہا کہ چیخ کر کہے، ’’بند کرو یہ بکواس۔ میں نوکری چھوڑ رہا ہوں، مر تو نہیں رہا۔‘‘ لیکن منہ پر بناوٹی مسکراہٹ بکھیر کر وہ اندر چلا گیا اور اپنی کرسی پر جا بیٹھا۔ اسے لگا کہ کچھ کچھ اس کی سانس پھول رہی تھی۔ ’’اگر اندر آ کر چوکیدار وہی بکواس کرنے لگا تو میں کیسے خود کو روک پاؤں گا اور اگر میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی تو سبھی ایسے ہی سمجھیں گے کہ میں ہوش وحواس میں نہیں ہوں۔

اس نے اپنے جسم کو کرسی پر ڈھیلا چھوڑ دیا اور ٹانگے پھیلا کر پھیل گیا۔ ’’اچھا تو آج میرا آفس میں آخری دن ہے! آخری دن۔۔ ۔ آخری دن۔۔ ۔ بکواس ہے۔۔ ۔‘‘ اس نے دانت کٹکٹا کر خود کو ڈانٹا۔ اس کے دل نے چاہا کہ میز پر زور سے گھونسہ مار دے، لیکن اس وقت چوکیدار اندر گھس آیا۔

’’صاحب، بڑے صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘

بغیر کچھ کہے وہ اٹھا اور جلدی باہر نکل کر بڑے صاحب کی آفس میں چلا گیا۔

’’ہاں بھائی، ایک منٹ۔‘‘ صاحب نے میز پر پڑے کاغذوں کے اوپر سے سر اٹھا کر، سامنے کرسی کی اور اشارہ کر کے اسے کہا اور پھر سے کاغذوں کو دیکھنے لگا۔ اس کا صاحب کے ساتھ رویہ ہمیشہ اچھا رہا تھا۔ رخصت کی پارٹی بھی صاحب کی مرضی کے مطابق ہو رہی تھی۔ وہ اس گھڑی کا انتظار کرنے لگا، جب صاحب اوروں کی طرح اس کے جانے کے بارے میں باتیں کرے گا۔

صاحب نے کاغذوں کے اوپر سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

’’ہاں تو۔۔ ۔‘‘ فون کی گھنٹی نے اسے آدھے میں روک دیا۔

’’ایک منٹ۔‘‘ اس نے رسیور اٹھاتے کہا۔

فون صاحب کے کسی گہرے دوست کا تھا۔ اس لئے فون پر کچہری ہونے لگی۔ وہ بیٹھے بیٹھے بور ہونے لگا۔ اس نے سوچا کہ اٹھ کر چلا جائے۔ پہلے جب بھی صاحب کے پاس کوئی اہم فون آتا تھا تو وہ اٹھ کر چلا جاتا تھا۔ لیکن اس بار اٹھ کر چلے جانا اسے برا لگ رہا تھا۔ گفتگو کے جلد ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس کی بوریت بڑھتی گئی۔ ’’ایسا بیکار دن میں نے کبھی نہیں دیکھا ہے۔‘‘ اس نے سوچا۔ اس وقت صاحب نے دوست سے رخصت لے کر رسیور نیچے رکھا۔

’’طبیعت تو ٹھیک ہے نہ، تھکے تھکے لگ رہے ہو۔‘‘ صاحب نے اس سے پوچھا۔

’’میرے منہ میں خاک۔‘‘ اس نے کہنا چاہا، ’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

’’ابھی میں ایک ضروری کام سے باہر جا رہا ہوں، شاید تھوڑی دیر ہو جائے۔ میں آؤں تو پھر ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے۔‘‘ صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر چلا گیا۔

وہ اپنے آفس میں لوٹ آیا۔ اس نے کرسی پر بیٹھ کر اپنے آفس پر نظر ڈالی۔ اسے کچھ عجیب سا لگا۔ جیسے وہ کسی پرائے آفس میں کام کیلئے آ کر بیٹھا تھا اور وہاں بور ہو کر جلدی سے وہاں سے باہر نکلنے کے لئے بیقرار تھا۔ اس کے دل میں آیا کہ اٹھ کر بھاگ کر، گھر چلا جائے۔

’’آج تو بیچارہ مہمانوں کی مانند بیٹھا ہے۔‘‘ اس کے دو تین ساتھی اندر گھس آئے تھے۔

’’بس صاحب، خوش نصیب ہے جو جان چھڑا کر گیا، نہیں تو یہاں فاقوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’ہاں یار، اسے نوکری مزے والی ملی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم میں سے ایک دوست تو کم سے کم سنورا۔‘‘

اس نے اوروں کے ساتھ ہنسنے کی کوشش کی، لیکن اس کے گلے سے کوئی آواز نہیں نکلی، صرف بناوٹ نظر آ رہی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کے ساتھی اس لئے خوش نہیں ہوئے تھے کہ اسے اچھی نوکری ملی تھی، لیکن حقیقت میں وہ اس کے جانے پر خوش ہو رہے تھے۔ ’’ہو سکتا ہے کہ اندر ہی اندر جل رہے ہوں۔ لیکن اگر میری جگہ پر کوئی اور جاتا تو پھر باہر میں ان کے ساتھ مل کر ہنستا اور اندر ہی اندر جلتا۔‘‘ اسے خود پر ہنسی آنے لگی۔ اور اس نے دیکھا کہ اس کے قہقہوں کے نیچے اوروں کے قہقہے دب گئے تھے۔ لیکن ان قہقہوں میں مضبوطی نہیں تھی اور اس کے دل پر پڑا بوجھ تھوڑا چل کر پھر سے منجمد ہو گیا۔

’’صاحب آ گیا ہے۔ کہا ہے کہ فوٹوگرافر پہنچ گیا ہے۔ چل کر فوٹو کھنچوائیے۔‘‘ چوکیدار نے اندر آ کر اطلاع دی۔

جیسے ہی وہ قطاروں میں رکھی گئیں کرسیوں کے درمیان بیٹھا تو صاحب نے اسے پھولوں کا ہار پہنایا۔

’’مہربانی۔‘‘ اس نے کہا۔ اسے تعجب ہوا کہ اس کا لہجے میں مردنی تھی۔ فوٹو کھنچواتے وقت بھی اسے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد کھانا کھاتے وقت اسے ایسا لگا، جیسے وہ کسی معمول کی دعوت میں بیٹھا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پایا کہ اس کے اندر اچانک اتنی گہری خاموشی کیوں چھا گئی تھی!

’’معمول کی تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنے چاہے کہیں پر بھی جائیں، ان کو اپنے ساتھ ہی سمجھا جائے گا۔‘‘ کھانا ختم ہونے کے بعد صاحب نے کہا اور سب ہنستے ہوئے ٹیبل پر سے اٹھے۔

وہ صاحب کے ساتھ اس کے آفس میں گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد اس نے کہا، ’’اچھا صاحب، اب مجھے اجازت دیجیے۔‘‘ صاحب نے اٹھ کر اسے گلے سے لگایا۔

’’جب بھی کوئی کام ہو تو بے جھجھک آنا۔‘‘ صاحب نے کہا۔

وہ ڈرا کہ اب اس کا دل ضرور بھر آئے گا۔

’’مہربانی۔‘‘ اس نے کہا، لیکن اس کا انداز معمول کے مطابق تھا۔ وہ صاحب کے آفس سے باہر نکل آیا۔ برآمدے سے دیکھا کہ دور سامنے سے رستے پر بس آ رہی تھی۔ پہلے اس نے سوچا کہ باقی ساتھیوں سے رخصت لے، لیکن زیادہ سوچے بغیر وہ دوڑ کر رستے پر آیا اور بس میں چڑھ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سفر

 

 

کار شہر سے نکل کر ایک سنگل پکے راستے پر چلنے لگی تھی۔ ریاض کو کوئی خاص جلدی نہیں تھی۔ وہ اتنی جلدی نہیں پہنچنا چاہتا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اسے خیال آ گیا تھا۔ اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ اس نے اپنے ساتھ کچھ لیا بھی نہیں تھا۔ نہ زیادہ کپڑے، نہ شیونگ کا سامان۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑا لیٹنے کے بعد اچانک اٹھ بیٹھا تھا۔ مومی سو رہی تھی۔ ریاض کے اٹھنے پر اس نے نیند میں مخمور لہجے میں پوچھا تھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

’’مجھے تو جانا ہے۔ بات ہی بھول گیا تھا۔‘‘

’’کہاں جانا ہے؟‘‘ مومی نے پوچھا۔

’’میر پر خاص۔ ایک شخص سے ضروری کام ہے۔‘‘ اس نے جھوٹ بولا تھا۔ اسے لگا کہ بغیر سوچے بولا گیا جھوٹ خود بخود بن گیا تھا۔ لیکن اگر وہ سچ کہتا تو کیا فرق پڑتا۔ فقط اتنا کہ مومی کو سن کر تعجب ہوتا اور زیادہ پرشن کرتی۔

’’رات کو لوٹ آؤ گے؟‘‘

’’نہیں، رات کا سفر ٹھیک نہیں۔ کل جمعہ ہے۔ دوپہر کو کسی وقت آ جاؤں گا۔‘‘ اس نے سوچا شام تک لوٹ آئے گا اور بتائے گا کہ اس کے کچھ دوست مل گئے تھے۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ مومی نے مطمئن ہو کر کہا اور کروٹ بدل لی۔ ریاض بوٹ پہن کر باہر نکلا اور کمرے کا دروازہ بند کیا۔

سامنے سے ایک بس آ رہی تھی۔ ریاض کو پتہ تھا کہ ڈرائیور بس کو راستے سے نہیں اتارے گا۔ وہ کار کو کچے راستے پر اتار لے گیا اور جلدی ہی بس کے چلے جانے کے بعد پکے راستے پر آیا۔ وہ دس سالوں کے بعد گاؤں جا رہا تھا۔ گاؤں جانے میں کافی وقت لگ گیا تھا۔ اس کے لئے کوئی خاص سبب اسے نہیں سوجھا۔ کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ کوئی کام نہیں تھا۔ گاؤں میں باپ اور شادی شدہ بہن تھی۔ کچھ زمین تھی، جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے بدی کا ہاتھ ٹھکرا کر پتا کو غصہ کر دیا تھا۔ اگر پتا کی مرضی سے شادی کرتا تو گاؤں سے اس کا ناتا نہیں ٹوٹتا۔

بازو کا شیشہ اترا ہوا تھا، پھر بھی پوری طرح ہوا نہیں آ رہی تھی۔ ریاض نے ایک ہاتھ سے اسٹیئرنگ سنبھالا اور تھوڑی دور جھک کر دوسرے دروازے کا شیشہ کچھ نیچے اتارا۔ اب ہوا کو راستہ مل گیا تھا۔ تپتی دوپہر تھی اور جون کی سخت گرمی تھی۔ ریاض نے سوچا کہ بارش ہونی چاہئے۔ دھرتی خوش ہو جائے گی۔ اس کا گلا سوکھ گیا تھا۔ پتہ نہیں گاڑی کے ریڈی ایٹر میں بھی پانی تھا یا نہیں۔ ٹمپریچر کا کانٹا تھوڑا اوپر چڑھ آیا تھا۔ آگے جو شہر آئے گا، وہاں پر اس نے کار روکنے کے لئے سوچا۔ پیاس ستا رہی تھی۔ اس نے ایک غلطی کی تھی، جو اپنے ساتھ واٹر کولر نہیں لیا تھا۔ کم سے کم تھرمس تو لیتا۔ بغیر پروگرام بنائے، نکلنے سے ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اسے اچانک ایسا خیال کیسے آیا۔ آگے کچھ بھینسیں رستہ پار کر رہی تھیں، اس نے بریک کو دھیرے سے دبایا۔ کار دھیمی ہو کر ٹھہر گئی۔ دور کھیت سے لڑکا دوڑتا آیا۔ اس نے لاٹھی سے بھینس کو دور کیا۔ ریاض نے گاڑی کو فرسٹ گیئر میں ڈالا اور آخری بھینس کے جانے کے بعد کار چلنے لگی۔ راستے کے ایک طرف کھیتوں میں گنے کی فصل تھی۔ اور دوسری جانب کانٹے دار پودے۔ اس سے تھوڑے فاصلے پر ریل کی پٹری تھی۔ راستے پر زیادہ ٹریفک نہیں تھا۔ کبھی کبھی جب کوئی بس یا ٹرک گزر تے تھے تو اس وقت وہ کچے راستے پر اتر آتا تھا۔

اسے دور شہر کی جگہیں نظر آنے لگیں۔ اس نے کار وہاں پر روکنے کے لئے سوچا۔ اس نے اسپیڈ تھوڑی بڑھا دی۔ راستے کے کنارے کچھ ہوٹل تھے۔ اس نے کار ایک ہوٹل کے آگے روکی۔ وہ ہوٹل دوسروں کے مقابلے کچھ اچھا تھا۔ دوسرے ہوٹل کچی اینٹوں کی بنے ہوئے تھے۔ وہ اندر گھس گیا۔ ہوٹل میں صفائی کا انتظام مناسب تھا۔ وہ ایک خالی ٹیبل پر جا بیٹھا۔ بیرا پانی کا جگ اور گلاس لے کر آیا۔ ریاض نے دیکھا کہ گلاس کی باہری جانب تیل لگا تھا۔ کسی نے کھانا کھا کر پانی پیا تھا اور پھر گلاس کو صاف نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے بیرے کو ببل اپ لانے کے لئے کہا۔ اسے اپنے تھرمس میں پانی لے آنے کا خیال آیا۔ اس نے بڑی غلطی کی تھی۔ ایسے گندے گلاسوں میں پانی پینے سے الٹا دل گھبرا جاتا ہے، پیاس کہاں سے بجھے گی۔ بیرا بوتل لے کر آیا تھا اور اس کے آگے کھول کر ٹیبل پر رکھی۔ اس نے بوتل اٹھا کر منہ کو ہاتھ سے رگڑ کر صاف کیا اور منہ پر لا کر گھونٹ بھرا۔ اتنی خاص ٹھنڈی نہیں تھی۔ لیکن کم سے کم ڈسٹلڈ واٹر تو تھا۔ سامنے والی ٹیبل پر ایک شخص کھانا کھا رہا تھا۔ وہ ہڈیاں نیچے فرش پر پھینک رہا تھا۔ ریاض نے آخری بڑا گھونٹ بھرا اور پانی کا جگ لے کر باہر گاڑی کے پاس آیا۔ ریڈی ایٹر کا ڈھکن ابھی بھی گرم تھا۔ ریاض گاڑی صاف کرنے والا کپڑا لے آیا اور ڈھکن کو دھیرے دھیرے گھما کر کھول لیا۔ پانی تھوڑا کم تھا۔ اس نے کار کا دروازہ کھول کر اندر جھک کر گیئر کو نیوٹرل میں کیا اور کار کوا سٹارٹ کیا۔ پھر آگے آ کر ریڈی ایٹر میں پانی ڈالنے لگا۔ ریڈی ایٹر بھر جانے کے بعد اس نے ڈھکن لگا کر بونٹ بند کیا۔ کار کو بند کر کے جگ لے کر اندر ہوٹل میں گیا۔ جگ ٹیبل پر رکھ کر کاؤنٹر پر آیا۔ بیرے نے چلا کر پیسے بتائے اور ادائیگی کر کے وہ کار کی سمت بڑھا۔

کار روڈ پر آئی تو اس نے وہی اسپیڈ رکھی۔ شہر پیچھے رہ گیا اور پھر سے کھیت اور ان میں لہلہاتی فصلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اگر کہیں پر راستہ روکا ہو، تو وہ کیا کرے گا؟ اخبارات میں روز یہ خبریں آ رہی تھیں کہ فلاں جگہ پر لٹیروں نے پیڑ کاٹ کر روڈ بلاک کر کے لوٹ مار کی۔ اس نے سوچا کہ اس کے پاس کیا تھا۔ گھڑی، ایک ہزار روپے کیش اور یہ کار۔ اسے راستے پر کوئی نہ کوئی سواری مل جاتی، لیکن سب سے زیادہ نقصان اسے کار کے لٹ جانے سے ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ لٹیرے اسے بھی اغوا کر کے اپنے ساتھ لے جائیں۔ پھر اس کے لئے پیسہ کون دیتا! ایک لاکھ روپوں سے تو زیادہ ہی مانگتے۔ اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ باپ اتنا پیسہ نہیں دے گا۔ اتنے تو کیا بالکل ہی نہیں دے گا۔ بینک میں رکھا کیش اور مومی کے زیوروں کو ملا کر ایک لاکھ روپے ہو جائیں گے۔ لیکن کیا وہ اپنے زیور دے گی! ریاض اپنے آپ مسکرایا۔ لٹیروں کو پیسے کہیں سے نہیں ملیں گے۔ ایک سرکاری ملازم کو اغوا کر کے اپنے لئے مصیبت کھڑی کریں گے۔ وہ ایک گاؤں سے گذرا۔ گاؤں کے کتے بھونکتے کار کے ساتھ دوڑے۔ باقی سب تھک کر جلدی ٹھہر گئے، لیکن ایک کتا بہت دور تک کار کے پیچھے دوڑتا رہا اور پیچھے رہنے کے بعد بھی بھونکتا رہا۔ ریاض کو خیال آیا کہ وہ کتا کسی ٹرک یا بس کے نیچے آ کر ضرور مرے گا۔ اس کتے کو اوروں سے کچھ زیادہ ہی چپقلش تھی۔ ہائی وے پر کسی گاڑی کے نیچے آ کر مرے کتے کو دیکھ کر اسے کتے کی موت والی کہاوت یاد آتی تھی۔ موت تو فقط موت ہے، پھر کتے کی موت مرنا کیا ہوتا ہے۔ لوگ مرنا بھی شان سے چاہتے ہیں۔

اسے پھر سے پیاس لگی تھی۔ اسے خود پر غصہ آیا۔ تھرمس لینا ضروری تھا۔ کچھ بس اسٹاپوں پر کچے ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ اس نے وہاں رک کر پانی پینے کے بارے میں سوچا۔ اس نے اسپیڈ بڑھائی۔ دوپہر گزر چکی تھی۔ شام ہونے کو آئی، پھر بھی گرمی تھی۔ دور سے اسے کچھ رہائشی علاقے نظر آئے۔ بس اسٹاپ پر کچھ دوکانیں اور دو تین ہوٹل قائم تھے۔ اس نے ایک ہوٹل کے آگے کار کھڑی کی، ہارن بجایا۔ ہوٹل کے آگے کچھ کھاٹ پڑے تھے جن پر لوگ بیٹھے تھے۔

لڑکا دوڑتا اس کی جانب آیا۔

’’پانی تو پلا، لیکن گلاس کو دھونا۔‘‘ ریاض نے لڑکے کو کہا۔

’’جی، صاحب۔‘‘ لڑکا واپس دوڑتا گیا۔

ہوٹل کے پاس ہی ایک ہینڈ پمپ لگا تھا۔ ریاض کار سے اتر کر نیچے کھڑا ہو گیا۔ ریاض کا دل ہوا کہ اس ہینڈ پمپ کا تازہ پانی پیئے۔ اس نے دیکھا کہ لڑکا جگ اور گلاس لے کر ہینڈ پمپ کی جانب گیا۔ ریاض کو یہ بات اچھی لگی۔ لڑکے نے گلاس دھویا اور پھر پورا جگ بھر کر ریاض کے پاس لے آیا۔ پانی ٹھنڈا اور لوہے کے مزے والا تھا۔ وہ دو گلاس پی گیا۔ پھر اس نے ایک روپیہ نکال کر لڑکے کی طرف بڑھایا۔

’’نہیں صاحب، پانی کے پیسے لیتے ہیں کیا! پانی پلانا تو ثواب کا کام ہے۔‘‘ لڑکا گلاس اور جگ لے کر واپس گیا۔ ریاض نے ایک روپے کا نوٹ جیب میں ڈالا اور کار میں آ بیٹھا۔ کار کو ٹاپ میں لا کر اس نے کچھ زیادہ اسپیڈ میں چلنے کے لئے سوچا۔ وہ سورج ڈھلنے سے پہلے گاؤں پہنچ جانا چاہتا تھا۔

دھیرے دھیرے ہوا میں گرمی اور گھٹن کم ہوتی گئی۔ کھیتوں میں لہلہاتی فصلیں، بڑھتی شام کے رنگ میں رنگ کر مزید ہری لگ رہی تھیں۔ ریاض کو گاؤں میں شام کا وقت اچھا لگتا تھا۔ پیڑوں کے چاروں جانب بیٹھے پرندے، دھول اڑاتی بھینسیں اپنے گھروں کی سمت لوٹ رہے تھیں اور تھا جھٹپٹے کا رنگ۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے روشنی کم ہو گئی اور چاروں اطراف اندھیرا چھا گیا۔ جیسے زمین نے کالی چادر اوڑھ لی ہو۔ ریاض کے دل پر بچپن کے سبھی عکس نمایاں ہو گئے۔ گاؤں کو چھوڑے بھی کئی سال بیت گئے۔ گاؤں جانا بھی ایسا تھا، جیسے کچھ وقت کے لئے پردیس جانا اور پھر لوٹ کر اپنے دیس جانا تھا۔ اب تو شہر ہی اس کا دیس تھا۔

اچانک اسے کچھ شناسا سا لگا۔ اب گاؤں نزدیک تھا، کچھ میلوں کے فاصلے پر۔ ریاض نے دیکھا کہ سورج کا گولہ گنے کی پھنک پر آ ٹھہرا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ گنے کی فصل میں غائب ہو جانے والا تھا۔ ریاض کو کوئی خیال آیا اور اس نے راستے کے ایک جانب کار روکی۔ دروازہ کھول کر باہر آیا۔ اس نے لگاتار دو تین بڑی سانسیں لیں۔ فصل کی خوشبو اس کے دماغ پر چھا گئی۔ سورج کا ٹھنڈا گولہ نیچے ہوتا گیا۔ ریاض نے سوچا وہ وہیں کھڑا رہے، جب تک سورج اترے اور پھر واپس لوٹ کر شہر چلا جائے۔ وہ ڈھلتے سورج کو دیکھتا رہا، جب تک کہ سورج گنے کی فصل میں چھپ نہ گیا۔ ریاض نے سوچا کہ اندر گھس کر سورج کو ڈھونڈے۔ وہ کار میں بیٹھا۔ تھوڑی ہی دور گاؤں کی سمت جاتا راستہ نظر آیا۔ اس نے کار کو موڑ کر گاؤں کی جانب جاتے کچے راستے پر ڈالا۔ گنے کی گھنی فصل کے بیچ سے راستہ تھا۔ کار دھیرے دھیرے چلتی گئی۔ ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا۔ جیسے ہی راستہ فصل سے باہر نکلا، آگے گاؤں تھا۔ وہ گاؤں جہاں وہ پیدا ہوا تھا، اس کا بچپن گذرا تھا۔

اس نے کار برآمدے کے آگے کھڑی کی۔ برآمدے پر پڑی ایک کھاٹ پر اس کا باپ بیٹھا تھا۔ دوسری کھاٹ خالی پڑی تھی، جس پر چادر بچھی ہوئی تھی۔ اسکول کی دو تین بینچوں پر کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ ریاض کار کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔ بینچوں پر بیٹھے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ اس کے باپ کے ہاری تھے۔ ریاض باپ کی طرف آیا، جو تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور ریاض نے تھوڑا جھک کر اسے ہاتھ لگایا۔

’’کیسے ہو؟‘‘ باپ نے پوچھا۔

’’ٹھیک ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’بیٹھ۔‘‘ باپ نے برابر میں پڑے کھاٹ کی سمت اشارہ کیا۔ کھڑے لوگ باری باری سے ہاتھ ملاتے گئے۔

’’بوٹ اتار کر آرام سے بیٹھ۔‘‘ باپ نے کہا۔ ’’گھر پر سب راضی خوشی ہے؟‘‘

’’ہاں، سب ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بوٹ اتار کر پیر اوپر کئے اور تکیے سے ٹیک لگائی۔

باپ نے اس سے اس کی نوکری اور شہر کا حال چال پوچھا۔ پھر اس نے چلا کر لڑکے کو بلایا کہ گھر میں ریاض کی آمد کا بتائے اور چائے بنوا کر لائے۔ کچھ اور لوگ بھی آئے جو شاید کھیتوں سے لوٹے تھے۔ وہ ریاض سے ہاتھ ملا کر بینچوں پر جا بیٹھے اور اس کے باپ کو حال چال بتانے لگے۔ باپ کسانوں کے ساتھ کھیتوں کے کام کاج کے بارے میں باتیں کرنے میں مگن ہو گیا۔ ریاض کی ان باتوں میں دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے وہاں خود کو اکیلا محسوس کیا، جیسے شہر کا کوئی شخص تھا، جو کسی کام سے اس گاؤں میں آیا تھا۔ لڑکا کیتلی اور دو خالی کپ لے آیا۔ کپ بھر کر ایک اس کے باپ کو اور دوسرا اسے دیا۔ اتنے لوگوں کے بیچ صرف وہ خود اوراسکا باپ چائے پی رہے تھے۔ ریاض کو یہ اچھا نہیں لگا۔ خالص دودھ کی تیز میٹھی چائے اسے اچھی نہیں لگی۔ لیکن اسے کچھ بھوک بھی لگ رہی تھی، اس لئے وہ پورا کپ پی گیا۔ خالی کپ لڑکے کو دے کر وہ پھر سے لیٹ گیا۔ کچہری لگی ہوئی تھی۔ ریاض کو لگا کہ اس کا دماغ تھک گیا ہے۔ یہاں کیوں آیا تھا؟ اسے خیال آیا۔ اس نے دھیان سے لوگوں کو دیکھا۔ اندھیرے میں کسی کا بھی چہرہ صاف نہیں تھا۔ سبھی چہرے دھندلے تھے۔ سامنے کھاٹ پر بیٹھا شخص بھی دھندلا تھا۔ ریاض کو یہ سب عجیب لگا۔ وہ کسی انجان جگہ پر بیٹھا تھا۔ اس کا وہاں پر کیا کام تھا! اس کے دل میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ دل میں اور باہر سب گتھا ہوا تھا اور اندھیرے میں بندھا ہوا تھا۔ کوئی شخص اس کے آگے آ کھڑا ہوا تھا اور اس کی اور ہاتھ بڑھایا تھا۔ ریاض نے تکیے سے اٹھ کر ہاتھ ملایا۔ وہ شخص اس کے ہی کھاٹ پر بیٹھ گیا تھا۔

’’کب پہنچے؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

’’شام کو۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ لیکن وہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ شخص کیوں اس کے نزدیک آ بیٹھا تھا۔ اس نے چاہا کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

’’گھر سے ہو کر آئے ہیں؟‘‘ اس شخص نے پھر سے پوچھا۔

’’گھر؟ یہاں پر گھر کہاں سے آیا؟‘‘ ریاض نے خود سے پوچھا۔

سامنے کھاٹ پر بیٹھے شخص نے دوسرے شخص کو جواب میں کچھ کہا اور دوسری بات پوچھی۔ وہ دونوں آپس میں باتیں کرنے لگے۔ ریاض نے اپنی جان آزاد محسوس کی۔ اس نے تکیے سے ٹیک لگائی۔ کوئی سامنے کھاٹ پر بیٹھا غصے میں بھرا سخت لہجے میں باتیں کر رہا تھا اور بینچوں پر بیٹھے لوگوں میں سے کوئی ہاتھ باندھ کر میمنے جیسی آواز میں باتیں کر رہا تھا۔ دور کہیں کتے بھونک رہے تھے۔ ریاض کو لگا کہ وہ پھنس چکا تھا۔ بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس کی پوری شکتی ختم ہو چکی تھی اور دل بھی سونا سونا لگ رہا تھا۔ اس نے غلطی کی تھی یہاں آ کر۔

کھاٹ پر ساتھ بیٹھے شخص نے اس سے کچھ کہا۔ ریاض نے سمجھا نہیں اور نظر انداز کر کیا۔

’’شاید سو گیا ہے۔ تھک گیا ہو گا۔‘‘ کسی نے کہا۔

اسکا نام لے کر کسی نے بلایا۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ سب لوگ کھڑے ہو گئے تھے اور سامنے کھاٹ پر بیٹھا شخص اٹھ کر اس کے آگے آ کھڑا ہوا تھا۔

’’سو گئے ہو کیا؟ اٹھ، گھر چلیں۔‘‘

ریاض چپ چاپ اٹھا اور دونوں لوگوں کے ساتھ چلنے لگا۔ بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ گھر میں گھسے۔ عورتیں نے ریاض کو گھیر لیا۔ اس سے اسکا، گھر کا اور بچوں کا حال چال پوچھنے لگیں۔

’’اچھا اچھا، اب باقی حال چال کل پوچھنا۔ بیچارہ بہت تھکا ہوا ہے۔ جلدی کھانا لے کر آؤ تو کھا کر سوئے۔‘‘ باہر جو شخص اس کے ساتھ بیٹھا تھا اس نے سختی سے کہا۔ ریاض کے دل میں بھرپور خواہش جاگی کہ وہ ابھی ہی شہر واپس چلا جائے۔ اس کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود اس کے آگے جو کھانا آیا اس نے کھا کر پورا کیا۔

’’آپ چاہیں تو سو جائیے، کل باتیں کریں گے۔‘‘

ریاض کھاٹ پر لیٹ گیا اور صاف آسمان پر جھلمل کرتے بے شمار تاروں کو دیکھنے لگا۔ اس کی پلکیں بوجھل ہوتی گئیں اور پھر آنکھوں کو ڈھک لیا۔

اسکی آنکھ کھلی تو اس کے اوپر ہلکی دھوپ پڑ رہی تھی۔ سورج چڑھ آیا تھا۔ اس کے آس پاس موجود کھاٹ خالی پڑی تھیں۔ سب چلے گئے تھے۔ اسے یاد آ گیا اور اسے تعجب ہوا کہ رات کو کیا ہوا تھا۔ رات کو نشے جیسی حالت میں تھا۔ اس نے کوئی ایسی چیز کھائی بھی نہیں تھی۔ فقط چائے پی تھی، لیکن وہ تو ٹھیک تھی۔ وہ کھاٹ سے اٹھا۔ سامنے سے اس کا بہنوئی مسواک کرتا ہوا آ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر مسواک منہ سے نکال کر تھوک پھینکی، اور ہنستا ہوا اس کی جانب آیا۔

’’رات کو طبیعت ٹھیک نہیں تھی کیا؟‘‘

اسے لگ رہا ہے کہ شاید میں نشے میں تھا، ریاض نے سوچا۔

’’نہیں، بہت تھک گیا تھا۔‘‘ ریاض نے جواب دیا۔

’’تیار ہو جائیے تو ناشتہ کریں۔‘‘

ریاض ہاتھ منہ دھوکر برآمدے میں رکھی کرسیوں پر آ بیٹھا۔ اسے دیکھ کر اس کی بہن اس کی جانب بڑھی۔

’’ادا، تم نے تو ہمیں بالکل بھلا ہی دیا ہے۔ اتنے سال بیت جاتے ہیں اور ہمارا کوئی حال احوال نہیں پوچھتے۔‘‘ بہن نے طعنہ دیا۔

’’نہیں، بھولا نہیں ہوں۔ تم تو یاد آتی ہو۔‘‘

’’بھرجائی اور بچے خوش ہیں؟ ان کو بھی لے کر آتے۔‘‘

’’ہاں، لے کر آؤں گا، لیکن تم بھی تو کبھی آؤ نہ!‘‘ ریاض نے ہنستے کہا۔

’’بس بھائی جان، لے کر آنے والے کبھی لے کر آئیں نہ۔‘‘

انکا باپ بھی آ کر وہاں بیٹھا تھا۔

’’ناشتہ تیار ہو تو لے کر آؤ۔‘‘ اس نے اپنی لڑکی کو کہا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے دھیرے سے بیٹے کو کہا، ’’یہ اچانک کیسے آئے، کوئی ضروری کام تھا؟‘‘

’’نہیں نہیں، کوئی کام نہیں تھا۔ ایسے ہی اچانک خیال آ گیا۔‘‘

’’اچھا کیا، اچھا کیا۔ بچے تو خوش ہیں؟ ان کو لے کر نہیں آئے؟‘‘

’’دوپہر کی گرمی میں نکلا تھا، بچوں کو تکلیف ہوتی۔ اگلی بار لے آؤں گا۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ اسے پتہ تھا کہ باپ، مومی کے بارے میں کچھ نہیں پوچھے گا۔ اسکابہنوئی بھی آ کر بیٹھ گیا اور اس دوران ناشتہ بھی آ گیا۔ کھانا کھاتے وقت دونوں نے ریاض سے اس کی نوکری اور ترقی کے امکانات کے بارے میں پوچھا۔ ریاض کو خیال آیا، کہ بچوں کو اسکول جانے میں تکلیف ہوئی ہو گی۔ مومی غصے میں بچوں کو رکشا میں لے گئی ہو گی۔ لیکن پھر اسے یاد آیا کہ آج جمعہ تھا۔ رات کو بچوں نے وی سی آر پر فلم دیکھی ہو گی۔ ہو سکتا ہے دو فلمیں دیکھی ہوں اور ابھی تک سو رہے ہوں۔

چائے پی کر خالی کپ رکھتے ریاض نے کہا، ’’اب میں چلوں گا۔‘‘

’’کہاں؟‘‘ باپ نے حیرانگی سے پوچھا۔

’’شہر۔‘‘

’’لیکن آج تو تمہیں چھٹی ہے۔ ابھی ہی جانے کی کیا جلدی ہے؟‘‘

’’کچھ لوگوں میں ضروری کام ہے۔ ان سے وقت لے چکا ہوں۔‘‘

’’کھیت تو گھومتے۔‘‘ اس کے بہنوئی نے کہا۔

’’اگلی بار چھٹی لے کر آؤں گا، پھر دو تین دن رہ جاؤں گا۔‘‘

’’بھائی جان، کون سا روز روز آتے ہیں؟ آج بھی پتہ نہیں کس مقدر سے آئے ہیں۔ آج کا دن تو رہ جائیے۔‘‘ بہن نے کہا۔

’’اب جلدی آؤں گا۔ آپ بھی تو آئیے نہ۔‘‘ اس نے بہنوئی کی جانب دیکھتے کہا۔

’’چھوڑو، مانے گا نہیں۔‘‘ باپ کو اس کی جلد بازی اچھی نہیں لگی تھی۔ ’’آدمی آئے تو سکون سے آئے، باقی ایسے آنے سے کیا فائدہ!‘‘

دونوں اسے کار تک چھوڑنے آئے۔ کار مٹی سے سن گئی تھی۔

’’اے لڑکے، کار کو تو پونچھ لو۔‘‘ بہنوئی نے کہا۔ ’’مجھے چابی دیجیے تو پانی چیک کر لوں۔‘‘

ریاض نے اسے چابی دی۔

’’آئے بھی جلدی، جا بھی جلدی رہے ہو۔ ہے تو سب خیر؟‘‘ باپ نے شک بھرے انداز میں پوچھا۔

’’نہیں نہیں، ایسی کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بس ایسے ہی۔۔ ۔‘‘ ریاض ہنس پڑا۔

’’عجیب آدمی ہو تم، بال بچوں والے ہو گئے ہو لیکن ابھی تک ایسی عادتیں نہیں گئی ہیں۔‘‘ باپ نے غصے میں کہا۔ اس کے بعد دونوں میں سے کوئی نہیں بولا۔

کار صاف ہو چکی تھی۔ ریاض نے دونوں سے رخصت لی اور کار میں جا بیٹھا۔ اس نے کار اسٹارٹ کر انجن کو تھوڑا گرم ہونے دیا۔ وہ دونوں ابھی بھی کھڑے تھے۔ ریاض نے بازو باہر نکال کر ان کی جانب ہاتھ ہلایا اور پھر کار کو موشن میں کیا۔ پکے راستے پر چڑھنے کے بعد کار کو ٹاپ میں لا کر اس نے اسپیڈ بڑھا دی۔ وہ جلدی شہر پہنچنا چاہتا تھا۔ کھیت اور پیڑ تیزی سے بھاگتے گئے اور اس کی نظر سامنے موجود سیدھے راستے پر تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

بہتا پانی

 

 

 

شہنائی کی تیز آواز۔ کانوں سے گزر کر پردے میں شور کرتی۔ چاروں اطراف لوگ۔ لوگوں کا شور، شہنائی کے سُر سے مل کر مزید بلند، زیادہ پھیلا ہوا۔ کام کرنے والوں کی چیخ و پکار۔

’’فلاں، ارے ادھر۔‘‘

’’اے۔۔ ۔ صاحب کو پانی دے۔‘‘

’’ارے اندھے، صاحب کو ٹاول دے۔‘‘

’’ارے ایک دم ڈھیلے ہو، آگے بڑھو۔‘‘

چیخیں، ایک دوسرے کے اوپر گرتیں، کاٹتیں، ابھرتیں، دبتیں، دوڑتیں رہیں۔

ہنسی، قہقہے خوشی کے نشان۔ خوشی جو ایک پل کی ابھی ہے، وہ بعد میں نہیں ہو گی۔ بعد میں ہو گی فقط پریشانی، بیداری، تھکاوٹ۔

وہ چلتا رہتا ہے پاگلوں کی طرح، بیٹھنا نہیں چاہتا ہے۔ بیٹھنے سے بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ ہر کوئی خود میں مست ہے۔ اسے کوئی نہیں پوچھ رہا۔

’’یار، میرے گھر میں ایک پیسہ نہیں تھا۔ اور یہاں زمیندار کی شادی میں بھی ضرور آنا تھا۔ سالی میری زال کہہ رہی تھی کہ بچوں کے کپڑے پھٹے پرانے ہیں، میں ایسے کیسے جاؤں گی شادی میں۔ یہاں وہاں سے بندوبست کر کے کام کیا۔ بھگوان مالک ہے۔‘‘

’’میں نے تو بھائی گائے کو جا تھاما۔ بھنگ کے پیسے ابھی ابھی ملے ہیں۔ ایسے موقع تو کبھی کبھی ہی آتے ہیں۔ لوگوں کو کچھ ویسا ویسا بھی تو ہونا چاہئے۔‘‘

’’برابر، لیکن ہم ایسے کاموں سے دور ہیں۔ ہم سے تو ایسے پریشانی بھرے کام ہوتے نہیں۔‘‘

’’کندھے پر رسا لٹکائے، ہم بھی نہیں چل رہے، لیکن ایک بار کام ہاتھ میں لیتے ہیں تو اسے پورا کر کے ہی چھوڑتے ہیں۔‘‘

’’اچھا، بیڑی تو پلا۔‘‘

’’چل باہر دوکان پر تو تمہیں کیپسٹن سگریٹ پلاتا ہوں۔ تم بھی کیا یاد کرو گے؟‘‘

برآمدے کے باہری میدان میں پان بیڑی کے کیبن کے برابر میں چولہے پر چائے کی دیگچی، زمین پر رکھے کپ۔

’’زمیندار کی شادی ہے یا گھمسان۔‘‘

’’بھائی، آخر ہم بھی زمیندار ہے، ہم کوئی غریب نہیں ہیں جو تھوڑی سی خاطرداری کر کے، بس کھانا کھلا کر لوگوں کو رخصت کر دیں۔‘‘

’’شادی میں مویشی کتنے ہیں؟‘‘

’’چار گائیں ہیں، آٹھ دس بچھڑے ہیں۔‘‘

کان کے نزدیک منہ، بڑبڑاہٹ۔

’’مویشی ہیں سب چوری کے۔‘‘

’’نہیں نہیں! تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

’’مجھے پتہ ہے کہ کن کن لوگوں پر یہ بار رکھا گیا تھا۔‘‘

وہ بوٹ سے مٹی چھٹک کر پھر سے پہن کر اٹھ کر چلتا ہے۔

’’بہت شور ہے۔ زمیندار بھی رشتے دار ہیں۔ ایک دوسرے سے شادی نہیں کی ہے، میلہ لگا دیا ہے۔‘‘

ایک کسان دوڑتا ہوا ان کے پاس آتا ہے۔

’’صاحب، شہر سے مہمان آئے ہیں۔‘‘

مہمان! کون سے؟ کون آئے ہو نگے؟

چلتا ہے۔

’’دولہا یہ ہے۔‘‘

’’یہ ہے؟‘‘

’’اور نہیں تو، نہیں پہچانتے کیا؟‘‘

’’بچپن میں دیکھا ہو گا، ابھی بچے ہی تھے تو شہر چلے گئے۔‘‘

وہ آگے بڑھ آیا ہے۔ باراتیوں کی آنکھیں اس پر ہیں۔ وہ لوگوں کی جانب دیکھے بغیر چلتا رہتا ہے۔ خاص مہمانوں کے لئے بنے برآمدے میں اس کے دوست بیٹھے ہیں، شہر سے آئے ہوئے۔

گلے لگ کر ملتا ہے۔

’’گاؤں تک پہنچنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟‘‘

’’نہیں، سیدھے پہنچ گئے۔‘‘

’’ہم تو سفر کر کے آئے ہیں، لیکن تم کچھ تھکے ہوئے نظر آ رہے ہو۔ نیند نہیں کی ہے کیا؟‘‘

’’اب صاحب خوشی کی وجہ سے نیند کیسے کرے گا؟ صاحب کے لئے تو وقت کاٹنا ہی مشکل ہو گا۔‘‘

’’اب سب کسر نکالے گا۔‘‘

’’لیکن بعد میں پتہ چلے گا کہ شادی سے پہلے ہم سے مشورہ لیتا۔ میں کہتا بھائی، ایسا کام ہی مت کر۔‘‘

وہ اس دوست کی طرف دیکھتا ہے۔ دو شادیاں کی ہوئی ہیں اور ابھی مزید کی تلاش میں ہے۔

’’خیر، شادی ہے تو ایک معاشرتی رشتہ، لیکن سیکس پرابلم کا ایک اچھا حل ہے۔ ویسے ہم لوگ کہاں افورڈ کر سکتے ہیں!‘‘

’’ہاں یار، ہے بڑی پرابلم۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے اس دوست کی سیکسچوئل فرسٹریشن تو کم سے کم دور ہو گی۔‘‘

قہقہے سبھی کے ایک ساتھ۔ آنکھوں میں چمک، اشارے۔ وہ بھی چاہتا ہے انجوائے کرنا۔ بلند قہقہے لگانا۔ لیکن ایک دم بوریت کا احساس ان سب سے۔ دوست ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ سیاست پر بحث چھڑی ہوئی۔ بحث میں زور پیدا کرنے کے لئے اور زور سے باتیں کرنا! گانے شروع ہو گئے۔ لاؤڈ سپیکروں کی کان کے پردے پھاڑ دینے والی آوازیں۔ باتیں کرنے کی تیز آوازیں۔ وہ بھاگنا چاہتا ہے ان سبھی آوازوں کو پیچھے چھوڑ کر۔ آوازوں کو کسی گٹھری میں باندھ کر، گٹھری کو پیچھے پھینک کر دوڑ بھاگنے کی خواہش۔ شور۔ چلنا۔ ماتھا پچی، بھاگ دوڑ۔ ڈینگیں، شور غل، سرگوشیاں۔ وہ ان سب سے الگ دور۔ انجان، راستہ بھولے مسافر کی طرح بیٹھا ہے۔ جس کا کوئی تعلق نہ ہو اور جس سے کسی کا تعلق نہ ہو، ایک بھلا دیا گیا پرایا شخص۔

وہ اٹھتا ہے۔

’’کہاں؟‘‘

’’گھر سے ہو کر آتا ہوں۔‘‘

’’ہاں بھائی، تم ہمارے پاس کیسے بیٹھو گے؟‘‘

’’ابھی سے گھر کی کشش!‘‘

قہقہہ، بے وجہ۔

گھر، عورتوں اور بچوں کی بھیڑ۔

میں گھر کیوں آیا ہوں؟ بغیر کسی کام کے! عورتیں کیا کہیں گی۔ پیچھے دوست کیا کہیں گے؟ اور یہ مجھے ہوا کیا ہے؟ میرا اندر برف کا پہاڑ کیوں بن گیا ہے؟ یہ کیا بات ہے؟ پریشانی۔۔ ۔ بوریت اور بے بسی۔۔ ۔ جمود۔ لیکن آخر کیوں؟ شاید میں ڈرا ہوا ہوں۔ میں ایسا نہیں چاہتا تھا جو اب ہو رہا ہوں۔

وہ عورتوں کے ہجوم میں سے ہو کر کمرے میں اندر جانا چاہتا ہے۔

’’بیٹے یہاں آؤ۔‘‘

ماں کے کہنے پر سر گھماتا ہے۔ کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ’’مصیبت‘‘ ، وہاں جاتا ہے۔

’’بیٹے، یہ تمہاری چچا زاد، ماموں زاد بہنیں ہیں۔ کہتی ہیں ہم نے دولہا نہیں دیکھا ہے۔‘‘

ماں نام بتاتی جاتی ہے اور وہ ہاتھ ملاتا ہے۔ ’’ہوں۔۔ ۔ تو یہ ہے وہ۔‘‘ فیچرز بہت حسین ہیں۔ لڑکیاں پھیکی پھیکی۔ ایک بات کرتی ہے۔ چہرے پر سختی ہے۔

’’بھائی، ہمیں شادی سے زیادہ تمہیں دیکھنے کی چاہت ہے۔‘‘

’’پھر ابھی دیکھ لو۔‘‘

ہنسی۔

’’بھائی، مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ ایک ادھیڑ عمر کی عورت پوچھتی ہے۔

وہ شرمسار ہوتا ہے۔ جواب نہیں سوجھتا۔

’’نہیں مجھے تو یاد نہیں۔‘‘

’’واہ بھائی واہ، میں تیری ممانی ہوں، مجھے بھی نہیں پہچانتے؟‘‘

’’بہت دن ہو گئے ہیں نہ ممانی۔‘‘

ہنسی۔ وہ شرمسار ہوتا ہے۔ ماں اس کی جان چھڑاتی ہے۔

’’بیٹے، کام سے آئے تھے؟‘‘

کام سے! کام۔۔ ۔ کون سا کام۔۔ ۔

’’گرمی ہے۔ ندی پر نہانے جاتا ہوں۔ ٹاول اور صابن لینے آیا تھا۔‘‘

ماں اسے ٹاول اور صابن لا کر دیتی ہے۔ جلدی جلدی نکل جاتا ہے۔ ندی گھر کے پیچھے ہے۔ سامنے کھیتوں سے اور گھنے پیڑوں کے پیچھے ڈھلتا سورج۔ کھیتوں کی ہریالی اور شام کی نیلاہٹ ملے ہوئے۔ اکیلا پن۔ سبھی لوگ شادی کے شور میں۔ گانوں کا شور کچھ دھیمے انداز میں وہاں تک پہنچتا۔

کپڑے اتار کر، دھوتی پہن کر ندی میں گھس جاتا ہے۔ اسے پانی کا ٹھنڈا پن محسوس ہوتا ہے۔ ہر وقت نیا پانی۔ یہ جملے شاید اس نے ہر دل ہیس کے ناول ’’سدھار تھا‘‘ میں پڑھا تھا، ’’پانی جو ہمیشہ بہتا رہتا ہے اور ہمیشہ نیا ہوتا ہے۔‘‘

چاہتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے خود کو چھوڑ دے۔ ٹھنڈے پانی میں بہتا جائے۔

’’یہ اتنا شورو غل کیسا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ آنکھیں کھول کر کنارے کے نزدیک آتا ہے۔ حقیقتاً پانی میں بہتا جا رہا تھا۔

میرا بدن ہے۔ میرا دل ہے۔ پھر بھی میں کچھ نہیں ہوں۔ میری کوئی مرضی نہیں۔ ارادہ نہیں۔ انتخاب نہیں۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ میرا ہونا نہ ہونا ہے۔ اوروں کی مرضی ہے۔ اوروں کا انتخاب ہے۔ اوروں کا فیصلہ ہے۔ ہو وہی رہا ہے جو میں نہیں چاہتا۔

بہتے پانی کی طرف دیکھتے، اسے لگتا ہے، غم، لا محدود پانی کی طرح اس کی سمت بہتا آ رہا ہے، اس کی آنے والی نسل کی جانب اور وہ اس پانی کو روکنے کی بے وجہ کوشش کر رہا ہے۔

وہ ندی سے باہر نکل کر کپڑے پہنتا ہے۔

شور و غل دھیرے دھیرے اس کی جانب بڑھتا آ رہا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بھوکی خوب صورتی

 

مردان سے آگے مالاکنڈ ایجنسی والے خطرناک تنگ پہاڑی راستے نے احمد علی کے اعصاب کو دباؤ میں لا کر تھکا دیا تھا۔ راستہ کیا تھا سانپ کی لکیر تھا، جو ٹیڑھا میڑھا ہو کر پہاڑ کی بلندیاں پار کرتا سوات کی وادی کی سمت جا رہا تھا۔ مالاکنڈ ایجنسی کے خوفناک ننگے پہاڑ، جن پر ہریالی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ نیچے سفید لکیر کی طرح کوئی ندی بہتی جا رہی تھی۔ راستے پر کہیں کہیں کوئی شخص نظر آ رہا تھا۔ قبائلی علاقے کا پٹھان کندھے پر رائفل لٹکائے دوستوں اور دشمنوں کے لامحدود دائروں میں جیتا، ننگے پہاڑ کی مانند، سر گھوما ہوا۔ قدرت انسان کو اپنے جیسا بنا دیتی ہے۔ جیسی مٹی ویسے لوگ۔ مالا کنڈ میں ایک اونچے پہاڑ پرپل بنا ہوا تھا، جو انگریزوں نے پٹھانوں پر نظر رکھنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ ان پہاڑوں پر لوگ صدیوں سے اپنوں اور غیروں کا لہو بہاتے آئے ہیں، جس نے شاید پہاڑوں کو بھورا، جمے خون کا رنگ دے دیا ہے۔

پھر بلندیوں سے نیچے اترتے اچانک احمد علی کو ہریالی ہی ہریالی نظر آئی تو وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ یہ سوات کی وادی تھی، خوب صورتی اور ہریالی کی وادی۔

بیشمار برساتی جھرنے، چوڑی وادی میں سے اپنا راستہ خود بناتے ایک ندی میں آ کر مل رہے تھے۔ یہی ندی اسے سفید لکیر کی طرح نظر آئی تھی۔ ڈرائیور نے ویگن کو ایک جھرنے کے نزدیک کھڑا کیا۔ کلینر لڑکا ڈبہ لے کر پانی بھرنے کے لئے نیچے اترا۔ احمد علی بھی اور لوگوں کے ساتھ نیچے اتر گیا۔

اس نے بانہیں اوپر اٹھا کر کاہلی توڑتے لمبی سانس لی۔ ٹھنڈی نم ہوا نے جیسے اس کے تھکے ماندے بدن کو تازگی دے ڈالی۔ وہ برساتی جھرنے کے پاس آ بیٹھا اور ہاتھوں میں پانی بھر کر ہونٹوں تک لایا۔ ٹھنڈے پانی نے اس کے اندر ٹھنڈک پہنچا دی۔ اس نے ہاتھوں میں چار پانچ بار پانی بھر کر پیا۔ اس کے بعد وہ سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا اور اپنی گیلی مونچھوں کو پونچھتے وادی پر نظر ڈالی۔ میدان، ہریالی، پانی کے جھرنے، اسے خیال آیا کہ قدرت کی خوب صورتی کے بھی کئی رنگ اور کئی روپ ہیں۔ پہاڑوں کی اونچائیوں پر، راستے اور مٹی کی اپنی خوب صورتی تھی اور سوات کی وادی کی اپنی خوب صورتی تھی۔ ہر جگہ ایک الگ نظارہ تھا۔ خوب صورتی کا، حسن کا ایک ہی طریقہ، ایک ہی معیار نہیں ہے۔ کئی روپ ہیں۔ جب وہ ویگن میں آ کر بیٹھا تو اپنی ساری تھکان بھول گیا۔

احمد علی کو احساس ہوا کہ اس نے غلطی کی تھی اکیلا آ کر۔ اس نے چاہا کہ کسی سے بات کرے۔ سوات کی خوب صورتی کی تعریف کرے۔ لیکن اس کے برابر موجود ساتھی پورے راستے نیند لیتا آیا۔ کوئی سنگی ساتھی اس کے ساتھ ہوتا تو کم سے کم وہ اس سے باتیں تو کرتا رہتا۔ ایسے خوبصورت نظاروں کو دیکھ کر منہ بند کر کے بیٹھنا کچھ مناسب نہیں تھا۔ لیکن اس نے پہلے سے کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا۔ روزمرہ کے کاموں کی مشغولیت سے تنگ ہو کر، اچانک ہی ان کی زنجیروں کو توڑ کر بھاگ آیا تھا۔ اس نے اپنی مشغولیات اور پریشانیوں کو دل و دماغ سے نکال دینا چاہا، اسی لئے تو وہ یہاں آیا تھا، تاکہ زندگی کی روزمرہ کے مسائل سے کچھ دنوں کے لئے تو چھٹکارا مل سکے۔

ویگن نے مینگورہ میں آ کر سبھی مسافروں کو اتارا۔ مینگورہ، سوات کا سب سے بڑا شہر ہے۔ دوپہر ہو چکی تھی۔

احمد علی نے شہر کا تھوڑا چکر لگا کر، کسی ہوٹل میں کھانا کھا کر، پھر کسی دوسری ویگن میں چڑھ کر رات بحرین میں جا کر گذاری۔ کسی دوست نے اسے بتایا کہ بحرین، سوات کی بہت خوبصورت جگہ ہے۔ اس نے ایک ہوٹل میں کھانا کھایا اور اس کے بعد کاؤنٹر والی کو بیگ سنبھالنے کا کہہ کر مینگورہ کے بازار میں گھس گیا۔ مینگورہ اسے ایک معمولی شہر لگا، سوائے ایک بازار کے، جہاں غیر ممالک سے اسمگلنگ ہو کر آئے سامانوں کی دوکانیں تھیں۔ لوٹ کر اس نے بیگ اٹھایا اور بس اسٹینڈ پر آ کر بحرین جاتی ویگن میں بیٹھ گیا۔

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور ہوا میں نمی تھی۔ بادلوں کے سبب وادی کا حسن اور بھی نکھر کر دل نشین ہو گیا تھا۔ راستہ پہاڑ کی گود میں بنا ہوا تھا۔ راستے کے نیچے سوات دریا گرج کر بہہ رہا تھا۔ جیسے ہی ویگن آگے بڑھی، ویسے ہی وادی کی خوبصورتی میں اور پہاڑ کی ہریالی میں اضافہ ہوتا گیا۔ راستے کے ایک جانب امرودوں کے پیڑ تھے۔ جن میں کچے امرود لگے تھے۔ زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہیں تھا۔ جہاں ہریالی نہ بوئی گئی ہو۔ پہاڑ کی ڈھلانوں پر بھی ہریالی بوئی گئی تھی۔ گھر بھی پہاڑ کی ڈھلانوں پر بنائے گئے تھے۔ قدرت نے اپنی خوب صورتی سے لوگوں کو بھی حصہ دیا تھا۔ احمد علی نے سوات کی خوب صورتی کا شہرہ سنا تھا اور کبھی کبھی اسے وہ راستے پر نظر آ جاتی تھی۔ لوگ بے کس اور بیچارے سے لگ رہے تھے۔ شاید اس لئے کہ سوات میں بہت غربت تھی۔ بارش شروع ہو گئی اور ویگن دھیرے دھیرے چلنے لگی۔ بادل، بارش، پہاڑ پر گہری گھنی ہریالی، سوات دریا میں پانی کا شور۔ احمد علی چاروں اطراف پھیلی لا محدود خوب صورتی کو آنکھوں سے پیتا، گھونٹ بھرتا گیا اور اس کے دل میں مستی بھر گئی، انگ انگ بھر گیا۔ خود کو بیحد ہلکا، جیسے ہوا میں بارش کی بوندوں کے ساتھ پہاڑوں پر اڑتا محسوس کیا۔ ویگن کی پچھلی سیٹ پر کوئی شخص انگریزی میں بڑبڑانے لگا۔ احمد علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک اکیلا ہپّی بیٹھا تھا۔ جس کی ویران آنکھیں، ویگن کی کھڑکی کے باہر پہاڑوں کی بلندیوں پر کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ اکیلا تھا، شاید اس سے اس کا ساتھی بچھڑ گیا تھا۔ اس کی آواز میں بہت درد تھا – احمد علی دھیان سے سننے لگا۔

This evening in rain

My sad heart full of pain

I listen once again

For the echo of your step

ہپّی کی آواز نے پورے ماحول کو اداس بنا دیا۔ پہاڑ کے اوپر سے شور کر کے گرتا جھرنا، بارش اور نیچے بہتا دریا، سب جیسے اس اجنبی شخص کے دکھ میں ساجھے دار بن گئے تھے۔ احمد علی نے بھی اپنے دل میں ایک پر اسرار بے چینی محسوس کی۔ اس نے نہ کبھی محبت کی تھی اور نہ ہی کوئی اس سے بچھڑا تھا۔ لیکن پھر بھی اسے اپنے تنہائی کا شدت سے احساس ہوا۔ اسے لگا جیسے کہ ہپّی نے اسے خود کے آگے ظاہر کر دیا تھا۔ اس کی پوری زندگی خالی اور کھوکھلی تھی۔ زندگی میں نہ ہی پیار کا رنگ تھا اور نہ ہی بچھڑنے کا۔ پہلی بار اسے پتہ چلا کہ احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔

ویگن بحرین پہنچ تھی۔ بادل برس چکے تھے اور سامنے پہاڑوں کی بلندیوں پر لمبے سیدھے پیڑوں میں اٹک کر ٹھہر گئے تھے۔ شام ہونے والی تھی۔ بحرین کے چھوٹے بازار میں مقامی لوگوں کے مقابلے میں سیاح مرد اور عورتیں زیادہ چلتے پھرتے نظر آئے۔ بحرین کاسیزن عروج پر تھا۔ بازار کے پیچھے پہاڑ پر گھر بنے ہوئے تھے۔ بہتے پانی کا زوردار شور تھا۔ جھرنا پہاڑ سے ہوتا ہوا سیدھے بڑے بڑے پتھروں پر گر کر دریا میں مل رہا تھا۔ جھرنے کے گرنے اور دریا کے بہنے کی تیز آوازیں آپس میں مل کر ایک زوردار گرج پیدا کر رہے تھے۔ جھرنا جو راستہ پار کر کے دریا میں مل رہا تھا، اس پر پل بنا ہوا تھا۔ ہوٹل پل کے دوسری طرف تھا۔ احمد علی نے تھوڑی دیر، پل پر کھڑے ہو کر جھرنے کو دیکھا اور اس کے بعد پل پار کر کے ہوٹل میں چلا گیا۔ اس نے کاؤنٹر پر جا کر کمرے کی بابت بات کی۔ سیزن ہونے کے سبب ہوٹلوں میں بھیڑ تھی۔ بیرا اسے کمرہ دکھانے کے لئے لے گیا۔

’’ایک کمرہ ابھی ابھی خالی ہوا ہے۔ بہت ہی اچھی جگہ پر ہے۔ کونے پر ہے۔ وہاں سے آپ کو جھرنا بھی نظر آئے گا اور پہاڑ بھی۔‘‘ بیرا سیڑھی چڑھتے ہوئے باتیں کرتا رہا۔

کمرہ بڑا تھا۔ احمد علی کو اچھا لگا۔

’’کیا صاحب، کمرہ پسند آیا؟‘‘ بیرے نے کمرہ دکھانے کے بعد احمد علی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ احمد علی نے ایک نظر دوبارہ کمرے پر ڈالی۔ ’’بستر کی چادر تو بدلی ہے نہ؟‘‘

’’ہاں صاحب، میں نے ابھی ابھی بدلی ہے۔ آپ رکئے تو میں رجسٹر لے کر آتا ہوں۔‘‘ بیرا جلدی جلدی نیچے اتر گیا۔

احمد علی نے بیگ کھول کر کپڑے، ٹاول اور چپل نکال کر باہر رکھے۔ ٹاول لے کر باتھ روم میں گیا اور جلدی جلدی نہا کر باہر نکلا۔ اس نے چاہا کہ سورج ڈھلنے سے پہلے کچھ گھوم پھر لے۔ آنکھوں کا مناظر سے جی ہی نہیں بھر رہا تھا – بیرا رجسٹر لے کر آیا تو احمد علی نے اس میں نام اور پتہ لکھ کر دستخط کئے۔

’’صاحب، چائے لے کر آؤں؟‘‘ بیرے نے پوچھا۔

’’نہیں، ابھی ضرورت نہیں۔‘‘ احمد علی چائے کے لئے رک کر وقت نہیں گنوانا چاہتا تھا۔

وہ ہوٹل سے نیچے اتر کر راستے پر آ کھڑا ہوا۔ وہ راستہ کالام کی جانب جا رہا تھا، جس کے لئے اس نے سنا تھا کہ وہ جگہ بحرین سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ دوسرے دن اس نے کالام کی جانب جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ راستے کے اس جانب پہاڑ کے دامن میں سوان دریا بہہ رہا تھا۔ ہریالی سے ڈھکا پہاڑ بہت ہی بلند تھا اور اوپر لمبے لمبے اور سیدھے پیڑ کھڑے تھے۔ پہاڑ میں قدرت کی خوب صورتی کے ساتھ ایک عجیب طرح کا ڈر بھی تھا۔ نیچے کہیں کہیں گھر نظر آ رہے تھے۔ ندی کے دوسری جانب پہاڑ پر جانے کے لئے لکڑی کا مضبوط پل بنا ہوا تھا۔ احمد علی پل پار کر دوسری طرف آیا اور ندی کے کنارے والے راستے پر چلنے لگا۔ لوگوں کے قدموں نے ریتی اور پتھروں سے بھی راستہ بنا دیا تھا۔ ندی میں پانی اچھلتا ہوا، گھستا آ رہا تھا۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔ احمد علی ایک بڑے پتھر پر جا کر بیٹھ گیا اور دریا کے غصیل پانی کو دیکھنے لگا۔ جب اندھیرا ہو گیا اور پانی کا رنگ گہرا کالا ہو گیا تو وہ پتھر سے اٹھ کر واپس لوٹا۔ اس نے دریا کنارے بنے ایک چھوٹے ہوٹل میں چائے پی۔ دریا کی آواز اور زیادہ اونچی اور تیز ہو گئی تھی۔ احمد علی اٹھا اور بازار میں آ کر دوکانوں میں مقامی لوگوں کی دستکاری کے نمونے دیکھنے لگا۔ اس کا کچھ چیزیں خرید کرنے کا ارادہ تھا، لیکن دوسرے دن لینے کا سوچ کر واپس اپنے ہوٹل لوٹ آیا۔ اس نے بیرے کو بلا کر کھانے کے لئے پوچھا۔

’’صاحب، ہمارے یہاں مٹن کڑھائی فرسٹ کلاس بنتا ہے، یہ کھائیے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، لے کر آؤ۔‘‘ احمد علی اسے آرڈر دے کر پلنگ پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے پرسکون ہونے کی کوشش کی۔ دماغ کو خالی رکھنے کے لئے اس نے پانی کی گرج دار آواز پر دھیان دیا۔

کمرے میں کھٹکھٹاہٹ ہوئی تو اس نے آنکھیں کھولیں، بیرا کھانا لے کر آیا تھا۔ احمد علی نے اٹھ کر کھانا کھایا اور پھر بیرے کو بلا کر چائے لانے کے لئے کہا۔

’’صاحب اور کچھ چاہئے؟‘‘ بیرے نے تھالی اٹھا کر کہا۔

احمد علی نے سوالیہ نظروں سے بیرے کی جانب دیکھا۔ کھانا اور چائے کے بعد اور کون سی چیز اسے چاہئے تھی؟

’’یہاں پر سب کچھ ملتا ہے، صاحب!‘‘ بیرے نے معنی خیز اندازسے مسکراتے ہوئے کہا۔

’’سب کچھ میں کیا کیا ہے؟‘‘ احمد علی کو تعجب ہوا۔

’’عورت، وہسکی۔۔ ۔‘‘ بیرا مسکرانے لگا۔

’’وہسکی تو میں پیتا نہیں، باقی عورت کچھ اچھی ملے گی یا ایسی ویسی؟‘‘

’’فرسٹ کلاس، صاحب! آپ خود دیکھنا، پھر آپ کی مرضی۔‘‘

’’پیسے کتنے؟‘‘

’’پیسے تھوڑے ہی ہیں، صاحب فقط سو روپے۔‘‘

احمد علی نے تھوڑے دیر تک سوچا۔

’’ہوں! ٹھیک ہے۔‘‘

’’اچھا صاحب، پھردس بجے۔‘‘

احمد علی نے گردن ہلا کر ہاں کی اور بیرا باہر چلا گیا۔ احمد علی کپڑے بدل کر پلنگ پر لیٹ گیا۔ اس نے سوچا سوات کی خوب صورتی کا یہ مزہ بھی چکھ کے دیکھ لینا چاہئے۔ تھکاوٹ ہونے کے سبب اسے جلدی نیند آ گئی۔ دروازے پر کھٹکھٹاہٹ کی آواز نے اسے بیدار کر دیا۔ اس نے گھڑی پر نظر ڈالی، پونے بارہ بج رہے تھے اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر وہی بیرا کھڑا تھا اور اس کے پیچھے چادر میں لپٹی ایک عورت تھی۔ بیرا عورت کو لے کر اندر آیا۔ کمرے میں آ کر عورت نے منہ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ اس کی آنکھیں نیچے فرش پر تھیں۔ احمد علی نے اندازہ لگایا کہ وہ چوبیس پچیس سال کی ہو گی۔ کسی وقت بہت خوبصورت رہی ہو گی، لیکن ابھی بھی اس کی خوب صورتی کا کچھ عکس اس میں تھا۔ آنکھوں کے نیچے کالے نیلے حلقے تھے، لیکن گہرے رنگ پر وہ زیادہ جچ رہے تھے۔

احمد علی نے بیرے کی طرف دیکھا، جو اسے پرکھ رہا تھا۔ بیرے نے باہر آنے کا اشارہ کر کے کمرے سے نکل گیا۔ احمد علی اس کے پیچھے گیا۔

’’صاحب، کیا خیال ہے؟‘‘ بیرا روانی سے بولا۔

’’ٹھیک ہے۔‘‘ احمد علی نے دھیرے سے کہا۔

’’پھر صاحب پیسے دیجیے۔ عورت کا مرد نیچے کھڑا ہے۔ اسے دینے ہیں۔‘‘

احمد علی نے سو کے نوٹ کے ساتھ بیرے کو پانچ روپے خرچی دی۔ بیرا پیسے لے کر جلدی جلدی نیچے اتر گیا۔ احمد علی کمرے میں لوٹ آیا۔ اس نے دیکھا کہ عورت ابھی بھی اسی جگہ پر کھڑی تھی۔ اس نے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا دی۔

’’کھڑی کیوں ہو؟‘‘ احمد علی کی آواز پر گم صم کھڑی عورت ہڑبڑائی۔ ’’یہاں آ کر بیٹھ۔‘‘ احمد علی نے پلنگ کی جانب اشارہ کیا۔ اس نے کمرے کی بتی بجھا دی۔

ہلکے اندھیرے میں عورت کے بدن کا گندمی رنگ سونے کی طرح جھلک رہا تھا۔ احمد علی کو لگا جیسے اس کے پیروں کے نیچے شعلے آ گئے تھے۔ اس نے پلنگ پر دونوں بانہیں گھسا کر خود کو اوپر کیا اور عورت کے چہرے میں دیکھنے لگا۔ عورت نے آنکھیں بند کر لی تھیں، وہ کسی بے جان بت کی طرح پڑی تھی۔ احمد علی عورت کے قریب آیا تو اسے دودھ بھرے پستانوں کی بو آئی، کچے دودھ کی بو کی وجہ سے اس کا دل متلانے لگا۔ شاید وہ ابھی ابھی اپنے شیرخوار بچے کو دودھ پلا آئی تھی۔

وہ عورت سے دور ہو کر لیٹ گیا۔ کچھ دیر تک وہ کچھ نہ بولا اور اس کے بدن میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔

آخر بوریت مٹانے کے لئے اس نے عورت سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

’’انار گل۔‘‘ عورت نے ہچکتے ہوئے کہا۔

’’انار گل!‘‘ احمد علی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’تمہارے کتنے بچے ہیں؟‘‘

عورت نے خود کو ڈھکتے ہوئے بولی، ’’چار بچے ہیں۔‘‘

’’سب سے چھوٹا دودھ پیتا ہے کیا؟‘‘

’’ہاں آ۔۔ ۔‘‘ عورت ہچکچائی۔

’’تمہارا شوہر کیا کرتا ہے؟‘‘ احمد علی کو اپنا سوال عجیب لگا۔

’’مزدوری۔‘‘

’’مزدوری اچھی ملتی ہے؟‘‘

’’نہیں بابو صاحب، کبھی ملتی ہے، کبھی نہیں۔ سردی میں جب برف پڑتی ہے، تب کوئی کام نہیں ملتا۔‘‘

’’تمہارا شوہر تمہیں اوروں کے پاس کیسے چھوڑتا ہے؟‘‘

’’پیٹ، بابو صاحب، بھوکے پیٹ کے جہنم کو تو بھرنا ہے۔۔ ۔‘‘ عورت نے دکھ سے کہا۔

احمد علی کو بات سن کر سچ مچ دکھ ہوا۔ اس نے چاہا کہ دو تین لفظ ہمدردی کے کہے، کوئی بھروسہ دلائے، لیکن وہ کیا کہے؟ اور ایسا کہنے سے ہوتا بھی کیا! اس نے عورت کے کمر کے نیچے بازو دے کر اسے اپنی بازوؤں میں بھر لیا۔

جھرنے کا شور کرتا گرتا پانی دریا کی تیز دھارا میں مل گیا تھا۔ احمد علی کو لگا کہ اس کا پلنگ گرجتے دریا کے تیز بہاؤ میں بہتا جا رہا ہے۔

احمد علی کی آنکھ کھلی تو ابھی اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عورت  جا چکی تھی۔ کچھ دیر تک وہ دریا کی آواز سنتا رہا۔ آواز میں وہ جوش اور تیزی نہیں تھی۔ احمد علی کو تعجب ہوا۔ وہ اٹھ کر باتھ روم میں گیا۔ لوٹ کر کمرے کا دروازہ کھول کر باہر بالکنی میں آ کھڑا ہوا۔ سامنے صدیوں سے بلند اور رعب دار پہاڑ تھا، جس پر ہلکا کہرا پھیلا ہوا تھا۔ احمد علی نے ایک لمبی سانس لی۔ ٹھنڈی مخمور ہوا نے اس کے اندر لطف پیدا کر دیا۔ اس نے دونوں بانہیں اوپر اٹھا کر بدن کو کھینچ کر آلس توڑا۔ تبھی اسے انار گل یاد آئی۔ انار گل جس کی خوب صورتی یہاں کے قدرتی حسن کا ایک حصہ تھی۔ اچانک اس کے دل میں ایک خیال آیا کہ اس نے قدرت سے زیادتی کی تھی۔ اس نے قدرت کو سو روپیوں میں خرید کر کے اس کی خوب صورتی کو لوٹا تھا۔ احمد علی کا پورا وجود ہل گیا۔ اس کی نگاہیں سامنے موجود خوفناک پہاڑ سے ہوتیں نیچے دریا پر آئیں۔ اسے اپنی کمیں گی کا شدت سے احساس ہوا۔

سوات کی خوبصورت وادی، جس کی شہرت دور دور تک تھی، وہاں پر اتنی بھوک ہو گی، اس کا خیال باہر سے آنے والے لوگوں کو نہیں ہوتا ہے۔ وہ تو فقط خوب صورتی کو دیکھنے اور اسے لوٹنے آتے ہیں۔ لیکن اس قدرتی خوب صورتی سے یہاں کے لوگوں کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ احمد علی کو قدرت کی خوب صورتی میں بھوک کا احساس ہوا۔ اس کا دل اچاٹ ہو گیا، اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ وہ یہاں پر قدرت کی خوب صورتی دیکھنے آیا تھا، یہاں کی مجبور خوب صورتی کو پینے اور لوٹنے کے لئے نہیں آیا تھا۔ لیکن یہ سب کیوں تھا؟ خوب صورتی اتنی بیچاری، اتنی کٹھن اور بھوکی کیوں تھی؟ لوگ جو قدرتی خوب صورتی کے حصہ ہیں، ان کے بدن اور جوانی کی بولی کاغذ کے کچھ نوٹ ہیں؟

احمد علی کو چکر آنے لگا۔ اس نے چاہا کہ یہاں سے بھاگ نکلے۔ وہ لوٹ کر کمرے میں گیا۔ جلدی جلدی سامان بیگ میں بند کر کے نیچے اتر گیا۔ صبح کی پہلی ویگن واپس جانے کے لئے تیار کھڑی تھی۔ احمد علی ویگن میں جا بیٹھا۔ اس نے آنکھیں بند کر دیں۔ اس نے کچھ بھی دیکھنا نہیں چاہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

سرنگ

 

 

کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ سڑک کو لا کر اس کے گھر کے اندر رکھا گیا ہے۔ ٹرک، بسیں اور کاریں جیسے دروازے سے گھس کر اندر آ جاتی تھیں۔ ایک دن کھاٹ پر لیٹا ہوا تھا کہ اسے لگا کہ شور اس کے اوپرسوار ہوتا جا رہا ہے۔ اس نے زور سے کہا، ’’لے جاؤ سڑک کو یہاں سے! کیسی مصیبت ہے یہ؟‘‘ اور چلاتا ہوا کمرے سے باہر چلا آیا۔ سوکھی لکڑی کی طرح کمزور اس کی بوڑھی ماں ڈرتی ڈرتی اس کی جانب آئی اور ہلتے ہونٹوں سے بڑبڑاتے ہوئے، اس نے اوپر آسمان کی سمت آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ یہ دیکھ کر وہ مزید غصے میں ہو اٹھا۔ ’’ایسے منہ میں کیا بڑبڑا رہی ہو؟ زور سے کہہ تو بھگوان بھی سنے! میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ میرے لئے دعا مت مانگا کر۔۔ ۔‘‘ ماں ڈر کر سمٹ کر، چپ چاپ آنکھیں نیچے جھکا کر کھڑی رہی، لیکن اس کا بدن اب بھی کانپ رہا تھا۔ اسے ماں پر رحم آیا اور خود پر غصہ۔ لوٹ کر اندر کمرے میں چلا گیا، لیکن حقیقت میں رحم اسے اپنے آپ پر آتا تھا، اپنی ذات پر، اپنی بگڑتی دماغی حالت پر اور اپنے چاروں اطراف کے ماحول پر۔ یہی بات اسے اچھی نہیں لگتی تھی کہ اور لوگ اس پر رحم کھائیں اور اسے اپنے آپ پر بھی رحم آئے!

کمرے میں اندھیرا ہو گیا تھا۔ اس نے بلب جلانے کا سوچا، لیکن بٹن نیچے کرنے کے لئے اس کا ہاتھ بڑھ نہیں پایا۔ کھاٹ پر پڑے پڑے تھک گیا تھا اور اب کمرے میں اس کو گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ گھر سے باہر نکل گیا، راستوں پر بھٹکنے کے لئے۔ پیروں میں چپل پہنی ہوئی تھی اور داڑھی دو دنوں میں بڑھ گئی تھی۔ فٹ پاتھ پر چلتے اسے اپنے پرانے چوکیدار سے سامنا ہو گیا۔ وہ جب نوکری میں تھا اور کبھی اتفاق سے بازار میں چوکیدار سامنے آ جاتا تھا تو اسے سلام کر کے، اپنے راستے چلا جاتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ جیسے ہی چوکیدار کی اس پر نظر پڑی، وہ پہلے تو تھوڑا ہچکا، شاید گھبرا گیا تھا، اسے اس حالت میں دیکھ کر، وہ فوراً سلام کر کے سامنے کھڑا ہو گیا اور ہلکا ساجھکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔

’’کیا حال ہیں، میاں؟‘‘ اس نے رسمی انداز میں چوکیدار سے پوچھا۔ چوکیدار شرمندہ ہو کر اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کہ اس کی نوکری ختم ہونے کا سبب وہ خود ہو۔

’’صاحب، سب ٹھیک ہے۔۔ ۔ آپ تو خوش ہیں نہ صاحب!‘‘

اسکی بڑھی ہوئی داڑھی اور اترا چہرہ دیکھ کر گھبرا گیا۔ ’’آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نہ؟‘‘

’’ہاں ہاں، طبیعت ٹھیک ہے۔ تم بتاؤ، تم کیسے ہو؟ کام کاج کیسا چل رہا ہے؟‘‘ اسے سمجھ میں نہیں آیا کہ کیوں وہ چوکیدار سے اتنی بات چیت کرنے کے لئے ٹھہر گیا۔

’’بس صاحب، کام ایسے ہی چل رہا ہے۔۔ ۔ صاحب، آپ۔۔ ۔‘‘ چوکیدار ہچکچا اور رک گیا اور اس کے چہرے پر ہمدردی کے احساس ابھر آئے۔

’’یہ بیوقوف کیا سمجھ رہا ہے کہ نوکری کھونے کے بعد میں پاگلوں جیساہو گیا ہوں۔‘‘ وہ جان بوجھ کر مسکرایا اور کہا، ’’سب ٹھیک ہے، اچھا۔۔ ۔‘‘ اس نے چوکیدار سے ہاتھ ملایا اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے دیکھا ہاتھ ملاتے وقت چوکیدار کی آنکھوں میں اس کے لئے ترحم تھا۔ اسے سخت طیش آیا۔ اس کے لئے کہیں بھی جگہ نہیں تھی۔ باہر کوئی نہ کوئی واقفیت والا مل ہی جاتا تھا اور سبھی اپنی ہمدردی دکھانی شروع کر دیتے تھے۔ گھر پر کوئی آرام نہیں تھا۔ وہاں بھی دل گھبرا رہا تھا اور گھر کے سبھی افراد، اس کے سامنے جیسے خود کو قصوروار مان رہے تھے۔

آفس کے آخری دن، جب صاحب نے اس سے ہمدردی دکھائی، تو ایسا لگا جیسے وہ بھی خود کو قصوروار مان رہا تھا۔ اس نے اسے یقین دلایا کہ ٹرمینیشن میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ نوکری ختم ہونے کا سبب، جاب ریکوئسٹ لیٹر پر لکھا، سفارشی نوٹ تھا۔

’’میں تمہارے کام سے سیٹسفائی ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ تم بالکل ایفیشنٹ ہو، لیکن حالات تم خود دیکھ رہے ہو۔ اوپر سے آرڈر آیا ہے کہ جن لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے، ان کو نکالا جائے۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے، لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘

وہ بور ہونے لگا۔ اسے صاحب کی ہمدردی بیکار لگی۔ اس نے جلد از جلد جان چھڑانے کے لئے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں، صاحب، آپ مجبور ہیں۔ آپ کو مجھ سے ہمدردی ہے، یہ بھی بڑی مہربانی۔ اچھا صاحب۔۔ ۔!؟‘‘

اس نے سوچا کہ جتنی آسانی سے اور بغیرکسی تاخیر کے، اسے نوکری سے نکالا گیا تھا، اتنی آسانی سے نوکری ملی نہیں تھی۔ اس آدھی جملے والے نوٹ کو لکھانے کے لئے کتنا بھٹکا تھا، در در بھٹکا تھا اور کتنے لوگوں کو گزارشیں کی تھیں۔ اور اس کے بعد نوکری گئی تو اس آدھے جملے کے نوٹ کے سبب!

اسکی نظر آفس کے ایک کلرک پر پڑی، جو مزے سے سگریٹ پیتا آ رہا تھا۔ وہ گھبرا گیا اور گھوم کر برابر والی گلی میں گھس گیا۔ اس نے سوچا، اچھا ہوا جو کلرک کی نظر اس پر نہیں پڑی، نہیں تو پھر سے وہی سلسلہ شروع ہو جاتا۔ وہ بار بار اسی ہمدردی والے انداز میں کہی جانے والی باتیں سن سن کر پریشان ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی اس کے دل میں آتا تھا کہ کہہ دے، ’’نوکری گئی ہے تو میری گئی ہے، آپ کیوں میرے پیچھے لگ گئے ہیں؟‘‘ اور وہ ڈر رہا تھا کہ سچ مچ کبھی وہ پھٹ نہ پڑے۔ آتش فشاں کی طرح پھٹ نہ پڑے۔

گلی تنگ اور خراب تھی۔ ساتھ میں بہتے نالے میں سے کہیں کہیں گندہ پانی اور کچرا اچھل کر گلی میں بھر گیا تھا۔ وہ اس گلی میں پہلی بار آیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ پیچھے لوٹ جانے سے اچھا ہے کہ سیدھا چلتا رہے۔ یہ گلی آخر کہیں تو ختم ہو گی اور کسی دوسرے راستے سے جا ملے گی۔ ویسے راستے پر چلنا ٹھیک نہیں تھا۔ آفس کے لوگ ٹکرا رہے تھے اس راستے پر۔

وہ جلدی لوٹ کر گھر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ جب چل چل کر بالکل تھک جائے گا، تب گھر لوٹے گا۔ تھکان کے سبب نیند جلدی آ جائے گی، جو رات کو نہیں آتی تھی۔ جاگ کر سر بھاری ہو جاتا تھا اور آنکھیں درد کرنے لگتی تھیں۔ اگر نیند آتی بھی تھی تو سخت بے آرامی والی۔ بس الٹ پلٹ۔ رہ رہ کر آنکھ کھل جاتی تھی۔ اسے گھر کے لوگوں نے بتایا کہ وہ نیند میں چلاتا ہے، جیسے کہ کسی سخت تکلیف میں ہو۔ اس کی ماں اس کی چیخوں کی وجہ سے ڈر کر آ جاتی تھی کہ کہیں اس کی طبیعت تو خراب نہیں ہو گئی ہے۔ وہ ڈر ڈر کر پکارتی تھی اور جب اسے یقین ہو جاتا تھا کہ وہ نیند میں ہے، تب لوٹ جاتی تھی۔ گلی میں پڑے خراب پانی پر سے اچھلتے ہوئے، اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ اسے یہ عادت کب پڑی! اس کے دماغ میں بہت سی یادیں گھل مل گئیں اور کوئی بھی بات واضح نہیں تھی۔ پوری زندگی دکھ ہی دکھ تھے، رسوائیاں ہی رسوائیاں تھیں۔ بھوک، بیماری اور بے عزتی۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد تین سال تک بے روزگاری کا تکلیف دہ دکھ۔ یادیں، جن میں فقط تکلیفیں تھیں، اس کا ایک ڈھیر تھا اور وہ اس ڈھیر میں سے کوئی ایک یاد منتخب نہیں کر سکتا تھا۔ نیند میں چلّانے کی عادت اسے کافی عرصے سے تھی۔ اسے ڈر تھا کہ جب اس کی شادی ہو جائے گی تو اس عادت کے سبب نسرین کی نیند خراب ہو جائے گی۔ وہ اس پریشانی میں تھا کہ یہ عادت خود سے کیسے چھڑوائے۔ نوکری جانے کے سبب اور نہیں تو کم سے کم اس پریشانی سے تو اسے چھٹکارا ملا تھا۔ وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔

اچانک اس کا ایک پیر گندے پانی میں جا پڑا۔ چپل کیچڑ میں پھنس گئی اور چھینٹے اڑ کر کپڑوں پر آن پڑے۔ اس نے زور لگا کر چپل کیچڑ میں سے نکالی۔ بدبو نتھنوں میں گھس آئی۔ گلی تنگ تھی اور اس میں پوری طرح سے روشنی بھی نہیں تھی، وہ گھبرا کر رک گیا، ’’میں کہاں ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ گلی دیکھی بھالی نہیں تھی۔ کتنی طویل تھی اور کہاں جا کر ختم ہو رہی تھی، اس کا کچھ علم نہیں تھا۔ وہ الجھ گیا کہ کیا کرے۔ اسے لگا کہ کافی چل چکا ہے۔ اتنا پیدل چلنے کے بعد اب پیچھے لوٹنا نا ممکن تھا۔ ’’ہو سکتا ہے کہ اب گلی ختم ہونے کو ہو۔‘‘ اس نے سوچا اور چلنے لگا۔

’’اگر نسرین سے میری شادی ہو گئی ہوتی تو اس وقت کیا حالت ہوتی؟ وہ مجھے چھوڑ کر اپنے رشتے داروں کے پاس چلی جاتی۔ ایسا ہی ہوتا۔‘‘ اس بات کا اسے یقین تھا۔ اسے تعجب ہوا کہ نسرین اور اس کی آپس میں کس طرح کی محبت تھی! جہاں تک اس نے سنا تھا یا کتابوں میں پڑھا تھا، محبت جیسے ہر طرح کے لالچ اور غرض سے اوپر کوئی آسمانی شے ہوتی ہے۔ شاید ان کی محبت کم درجے والی تھی۔ اسے خیال آیا کہ نسرین اور اس کی محبت روایتی نہیں، بلکہ عملی محبت تھی۔ ’’ہاں، حقیقت یہی ہے۔‘‘ وہ خوش ہوا کہ سچائی کے تہہ تک جا پہنچا تھا۔ اس نے پوری بات کو پرکھنا چاہا۔ نسرین سے اس کی اس وقت سے محبت تھی، جب وہ ایک کلرک ہی تھا۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تھے، تو نظریں اٹک جاتی تھیں اور پھر نسرین کے بدن میں ایک ہلکی سی تھرتھراہٹ پیدا ہوتی اور وہ نظریں جھکا دیتی تھی۔ اس نے کبھی نسرین سے محبت کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن اسے پتہ تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے سے پیار ہے۔ اس وقت اس کی ماں اس کا ہاتھ مانگنے گئی، تو نسرین کے رشتے داروں نے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک کلرک کو لڑکی دے کر، اس کا مقدر ہمیشہ کے لئے خراب کرنا نہیں چاہا۔ اسے اپنی رسوائیوں کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ نسرین کو اس بات کا قطعی دکھ نہیں ہوا۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی، جو محبت تو غریبوں سے کرتی ہیں اور شادی ساہوکاروں سے۔ اس کے باوجود وہ نسرین سے محبت کرتا رہا۔ اس کے بعد جب بڑی کوششوں کے بعد سفارش کروا کر آفیسر ہوا، تو نسرین کے رشتے داروں نے خود ہاتھ دینے کی خواہش ظاہر کی۔ منگنی ہو گئی۔ شادی میں ابھی تھوڑا ہی وقت تھا، کہ اس کی نوکری ختم ہو گئی۔ نسرین کے رشتے داروں نے منگنی توڑ دی۔ اسے امید تھی کہ اگر نسرین رشتے داروں کے فیصلے کی مخالفت نہیں کر پائے گی، تو بھی اسے دل سے قبول نہیں کرے گی۔ اس نے نسرین سے ملنے اور اس سے بات کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب ملنے سے کیا فائدہ اور بات کرنے کے لئے کچھ رہا ہی نہیں ہے۔ نسرین نے اسے جواب بھیجا تھا۔ وہ چلتے چلتے ہنسا۔ اس نے چاہا کہ ایک بڑا قہقہہ لگائے، دل کے ڈپریشن کو ہلکا کرے، لیکن اسے لوگوں کا خیال آیا، جو اسے پاگل سمجھتے۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ اتنی دیر تک گلی میں چلتا رہا تھا، لیکن اسے کوئی ایک بھی شخص نہیں ملا تھا۔ گلی اب بھی ختم نہیں ہوئی تھی اور زیادہ تنگ ہو گئی تھی۔ وہ ٹھہر گیا۔ اسے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی۔ گلی میں ہوا بالکل نہیں تھی۔ اس نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا، لیکن آسمان نظر نہیں آیا۔ گلی کے دونوں اطراف پتھر کی لمبی دیواریں تھیں اور آسمان غائب تھا۔ اچانک اسے خیال آیا اور اس کے بال کھڑے ہو گئے۔ وہ جہاں کھڑا تھا، وہ کوئی گلی نہیں تھی، بلکہ ایک لمبی اندھیری سرنگ تھی۔ وہ ڈر گیا اور سرنگ میں سے جلد از جلد نکلنے کے لئے دوڑنے لگا۔ اندھیرے میں پتھر کی دیواروں سے ٹکرا کر کیچڑ میں گر رہا تھا اور اٹھ کر پھر سے دوڑنے لگتا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ سرنگ کہیں پر بھی ختم نہیں ہو گی، لیکن پھر بھی وہ دوڑتا رہا۔۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

 

گونگی دھرتی، بہرا آسمان

 

 

 

وہ فلم کے آخری شو سے لوٹا ہے۔ گھر کے سبھی لوگ سو چکے ہیں۔ بیوی کی نیند خراب کرنے کو مناسب نہیں سمجھ کر، وہ خود ہی کھانا نکالتا ہے۔ یہ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ آج دال کے بدلے پکوڑے ہیں۔ سوکھی روٹی کو زور سے چبا کر سوچتا ہے، ’’سیما بہت سمجھدار ہے۔ سوچا ہو گا کہ مہینے میں ایک بار فلم دیکھنے جاتا ہے، لوٹ کر آ کر روز روز والی دال کھائے گا تو فلم کی خوشی غائب ہو جائے گی۔ اسے دال سے سخت چڑ ہے، اس کے باوجود بھی روز وہی دال کھاتا ہے، وہ کھانا کھا کر، چپ چاپ کھاٹ پر بیوی کے نزدیک لیٹ جاتا ہے۔ چاند کی طرف دیکھتے دیکھتے سوچتا ہے، ’’رات کتنی حسین ہے۔ تام جانب جیسے دودھ جیسی چاندنی گری ہوئی ہے۔‘‘ دودھ والی بات پر اسے پھر سے دال یاد آتی ہے۔ دال کو بھولنے کے لئے وہ فطرت میں غائب ہو جانا چاہتا ہے۔

’’ٹھنڈی ٹھنڈی لہر کے جھونکوں میں کوئی نشہ رچا ہوا ہے۔ ہر چیز سکون کی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ اتنا سکون، اتنی خاموشی، میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی ہے۔ مجھے سکون ہی کب نصیب ہوا ہے، جو کسی چاندنی رات کے حسن کا دیدار کر سکوں اور جھنجھٹ بھری زندگی کو بھول سکوں۔ پورے دن کی بے زاری اور تھکان، ادھ مرا کر کے، موت جیسی نیند میں جھونک دیتی ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی، دن کا شور کسی دھماکے کی طرح کانوں میں گھس آتا ہے اور آفس جانے میں دیر ہونے کے ڈر سے تیاری میں لگ جاتا ہوں۔ اس کے بعد ایک درجن بچے نیند سے اٹھ کر اپنی چیخ و پکار سے دن کے شور میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔‘‘

اسے بچوں کے رونے سے سخت چڑ ہے، اسے بچوں کا رونا بالکل اچھا نہیں لگتا۔ ’’توبہ، ابھی سیما ایک کو ہی چپ کرائے گی تو دوسرا شروع ہو جائے گا یا کہیں پر آپس میں ہی لڑ پڑیں گے اور چلاتے رہیں گے! سیما ان کو چپ کرائے یا مجھے کچھ کر کے دے۔ جلدی جلدی میں ثابت نوالے نگل کر، سیما کو جھڑک کر، دو تین بچوں پر ہاتھ صاف کر کے، باہر نکل کر لوگوں کی بھیڑ میں غائب ہو جاتا ہوں۔ کتنی بھی کوشش کروں، آفس پہنچنے میں دیر ہو ہی جاتی ہے اور صاحب ڈانٹتے ہوئے وارننگ دیتا ہے۔ اس وقت دل چاہتا ہے کہا ستعفیٰ لکھ کر، صاحب کے منہ پر مار کر چلا جاؤں، لیکن جب سیما اور درجن بچے آنکھوں کے آگے گھوم جاتے ہیں، تب ہوتی ہے کاغذوں کی سر سر اور ٹائپ کی کھٹ کھٹ۔ آفس سے جاتے وقت خود کو سالوں کا تھکا اور بیمار سمجھتا ہوں، تب خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے، خود کشی کے کسی اچھے طریقے پر سوچتے سوچتے گھر پہنچ جاتا ہوں اور گھر پہنچنے پر بچوں کی چیخ و پکارسے ڈر کر سبھی خیالات بھاگ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ رات کو روٹی دال میں بھگو کر، جان بوجھ کر نگلتے، سیما سے مہنگائی کی شکایتیں، بچوں کے پھٹے کپڑوں کی اطلاعات، بچوں کی بات پر، کسی پڑوسی سے جھگڑے کی خبریں، بیچ بیچ میں کچھ میٹھی میٹھی باتیں سنتا رہتا ہوں، آخر نیند گھیر لیتی ہے۔ صبح پھر وہی کام، وہی کولہو کے بیل کا چکر!

’’ہم نوکری پیشہ والوں کے لئے سنڈے جیسا خوش قسمت اور اچھا دن اور کوئی نہیں۔ بس اسی دن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اور انسانوں جیسے انسان ہیں۔ ایسی رات تو سچ مچ خوش نصیب لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ مرغیوں کے ڈربے جیسے گھر میں، بہت دنوں کے بعد، ایسی خاموشی اور سکون دیکھا ہے۔ ویسے یہ بھی کوئی گھر ہے! سچ مچ مرغوں کا ڈربہ ہے! انسانوں کے لائق تو بالکل نہیں، لیکن انسان کیسے ہوئے! ایسے گھروں میں انسان تھوڑے ہی رہتے ہیں۔ گرمیوں میں ہوا کا جھونکا تک نہیں، سردیوں میں جیسے برف کا کارخانہ! شاید یہ ہمارے اوپر خدا کی مہربانی ہے، جو ہمارا گھر سردیوں میں ایئر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے! چوڑا بھی اتنا ہے، جو ایک دوسرے کے اوپر سٹے رہتے ہیں۔ ادھر درجن بچے ایک دوسرے سے سٹے ہوئے ہیں۔ وہ سر اوپر اٹھا کر بچوں کو دیکھتا ہے۔ ابھی کیسے پرسکون سے سوئے ہوئے ہیں، کتنے پیارے لگتے ہیں، لیکن جب جاگتے ہیں تو۔ ایک دم شیطان کے باپ بن جاتے ہیں، توبہ! ان کے لئے ہی تو ہم نے اپنی جوانی گھلا دی، لہو سکھا دیا۔۔ ۔‘‘

اچانک چاندنی دھندلی ہو جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ چاند کو ایک بڑے بادل نے ڈھک دیا ہے۔ اسے بادل پر بہت غصہ آیا۔ جب بادل ہٹ جاتا ہے، تب وہ بچوں کی مانند خوش ہو کر سوچتا ہے، ’’چاند کتنا خوبصورت ہے۔ چاند سے خوب صورتی چھٹک کر نیچے گر رہی ہے۔‘‘ اس کی بیوی اس کی جانب کروٹ بدلتی ہے۔ وہ بیوی کا چہرہ دیکھ کر سوچتا ہے، ’’اب سیما کتنی بدل گئی ہے۔‘‘ سوچ اس کے دل میں پرانی یادیں لا ایستادہ کرتی ہے۔ اسے ان یادوں سے بہت پیار ہے۔ جب وہ سیما سے اپنی شادی والے وقت کی باتیں کرتا ہے تو سیما آج بھی نئی نویلی دلہن کی طرح شرما نے لگتی ہے۔ کبھی سیما بھی چاندنی کی طرح تھی، لیکن ہے خدا! آج اس کا چاند جیسا چہرہ سیاہ پڑ گیا ہے۔ اب تو خوب صورتی پر سے میرا ایمان ہی نکل گیا ہے۔ اب جب بھی سیما کو دیکھتا ہوں تو ہر خوبصورت چیز سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ شاید اس لئے کہ میری خواہشات مر چکی ہیں۔ مشین جیسی زندگی میں پس گئی ہیں، لیکن نہیں، میں غلط ہوں۔ آج کی حسین رات نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ زندگی میں دکھ درد کے ساتھ خوب صورتی بھی ہے۔ جب تک انسان کی جان محفوظ ہے، تب تک انسان کی خواہشات نہیں مر سکتیں۔ ایسا نہ ہوتا تو خوبصورت شعر اور گیت، خوبصورت تصویروں اور شاعری کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ میری روح بھی شاعرانہ ہے! یہ میرا قصور تھا، جو میں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ اپنے چاروں جانب ایک دیوار کھڑی کر دی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ لیکن ایسے خوبصورت وقت میں احساسات کی پرواز اور خواہشات کی چھلانگ کو کیسے روک سکتے ہیں! دوپہر کے شور میں تو ایسے احساسات دب کر جاتے ہیں۔ جب ایسی حالت لگاتار قائم رہتی ہے تو پھر اس اندھی، گونگی اور بہری دھرتی پر ہمارے احساس بھی گونگے بن جاتے ہیں۔‘‘ اچانک اسے یاد آتا ہے کہ کافی دیر ہو گئی ہے، صبح دیر سے آنکھ کھلے گی اور آفس پہنچنے میں تاخیر ہو جائے گی۔ اسی وقت اسے یاد آتا ہے کہ کل سنڈے ہے اور وہ اپنے آپ پر ہنستا ہے۔

چاند کی جانب دیکھتے ہوئے، وہ پھر سے خیالات کی لہروں پر سوار ہو جاتا ہے۔ بہت دکھ ہیں اس دھرتی پر۔ میرا بس چلے تو میں اڑ کر چاند کی حسین دنیا میں جا پہنچوں۔ چاند کی دنیا دھرتی سے سو گنا اچھی ہو گی۔ لیکن سائنس نے تو اس بات کو غلط ثابت کیا ہے۔ مجھے سائنس سے بھی نفرت ہے۔ کوئی بھی مجھ سے چاند کا حسین تصور نہیں چھین سکتا۔ لیکن اگر چاند میں دنیا آباد نہیں ہے تو کچھ ستاروں میں تو ضرور ہی ہو گی! ستارے ابھی بھی سائنس کی پہنچ سے دور ہیں۔ ستاروں کی دنیا، اس دھرتی سے ضرور متضاد اور خوبصورت ہو گی۔ کاش! میں بھی کسی تارے میں چلا جاؤں۔ پرندے کی طرح اڑ کر، دھرتی کے دکھوں سے دور، اس جیل سے آزاد ہو کر۔ اس گھر سے تو جیل زیادہ چوڑی ہے۔ دیواریں کتنی گندی ہیں۔ گھر کی ہر شے غلیظ ہے اور ہر وقت، اٹھتے بیٹھتے، یہ سب کچھ دیکھتے جی کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو اپنے آپ سے ہی نفرت ہونے لگتی ہے اور میں خود کو ایک گندہ کیڑا سمجھنے لگتا ہوں۔ میں ہوں تو انسان، باقی انسانوں جیسا! کچھ لوگ عیش اور آرام کر رہے ہیں، میں ان کے جیسا نہیں ہوں کیا! کاش! میرا بھی ایک اچھا سا گھر ہو۔ گھر میں ایک خوبصورت سجا ڈرائینگ روم ہو، جیسا میرے صاحب کا ہے۔ لیکن اگر اس کے جیسا نہ ہو تو بھلے اس سے کم درجے کا ہو۔ ہاں، اس میں اچھے پردے ٹنگے ہوں، اچھا صوفہ اور میزیں پڑی ہوں۔ میزیں خاص اشیاء سے سجی ہوں۔ کھانا کھانے کا کمرہ بھی الگ ہو۔‘‘ یہ سوچ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ ’’میز پر طرح طرح کی مزیدار چیزیں رکھی ہوں، قیمتی پلیٹوں میں۔ ایک مرغا تو روز ہو اور کچھ میٹھا اور پھل بھی۔

’’گھر کے آگے ایک چھوٹا پارک ہو، جس پر میرے بچے اچھے کپڑے پہن کر کھیلتے ہوں۔ ہاں، ایک کار بھی ہو۔ شیورلیٹ تو بہت مہنگی ہے، بھلے اوپل کار ہی ہو۔ واکس ویگن ہو۔ نہیں تو تانگہ ہی ہو۔ نہیں، کار ہو۔ شام کو میں، سیما اور بچے بہت مہنگے کپڑے پہن کر، کار میں بیٹھ کر گھومنے جائیں۔ بڑے لوگوں سے ملیں، ان کے ساتھ بڑی دعوتوں میں شریک ہوں۔ لیکن سیما ایسی حالت میں تھوڑے ہی چلے گی۔ بہت کمزور ہو گئی ہے۔ سیما کا کسی بڑے ڈاکٹر سے علاج کرواؤں، طاقت کی سیسیاں لگواؤں اور مہنگی دوائیں اور مقوی چیزیں کھلاؤں۔ بچوں کے جھنجھٹ سے جان چھڑانے کے لئے بچوں کے لئے ایک خاص نوکرانی رکھ کر دوں۔ گھر کے کام کاج اور کھانا بنانے کے لئے ایک الگ نوکرانی ہو۔ میں آفس سے لوٹوں تو بس سیما میرے پاس بیٹھی ہو۔ وہ مسکرا کر، خوابیدہ سیما کی طرف دیکھتا ہے اور اس کے چہرے پر ہاتھ گھماتا ہے۔ وہ تب تک ہاتھ نہیں اٹھاتا، جب تک وہ جاگ کر، ہاتھ ہٹا کر، کچی نیند والی آواز میں کہتی ہے۔

’’ابھی تک جاگ رہے ہیں! کتنی رات ہو گئی ہے۔ اب تو سو جاؤ۔‘‘

وہ اس کے اوپر بازو رکھ کر پھر سے سو جاتی ہے۔ وہ سوچتا ہے، ’’واقعی کافی رات ہو گئی ہے۔ ایسے خیالی پلاؤ پکانے سے تو پوری رات ہی نیند نہیں آئے گی، نہ ہی ہمارا ایسا نصیب ہے۔‘‘ وہ ٹھنڈی آہ بھر کر، سیما کی چھاتی میں منہ چھپا کر سونے کی کوشش کرتا ہے۔

ایک پرندے، بہت تیزی سے ایک چمکتے ستارے کی سمت اڑتا جا رہا ہے۔ جلدی ہی وہ ستارے کے اندر پہنچ جاتا ہے۔ ستارے کی دنیا دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں، ’’ایسی حسین دنیا! ایسی حسین دنیا کا تو کوئی دل میں خیال بھی نہیں لا سکتا۔ چاروں جانب روشنی ہی روشنی، ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی سے بھی زیادہ موہنی۔ ہموار زمین پر ہریالی کی چادر بچھی ہے۔ تمام جانب رنگارنگ پھول اور پودے ہیں۔ کہیں بھی مٹی اور دھول کا نشان نہیں ہے۔ چاروں طرف خوب صورتی ہے، حسن ہے۔ کتنی خوبصورت دنیا ہے نہ چاند کی دنیا! وہ مسرت سے، ہریالی بھری زمین پر لوٹنے لگتا ہے۔ یہاں وہاں دوڑتا ہے۔ تجسس سے اس کی رگ رگ مچل جاتی ہے۔ دور سے کوئی آ رہا ہے۔ کچھ عجیب چہرہ ہے، لیکن لگتا تو انسانوں جیسا ہی ہے اور شاید لوگوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اچانک وہ اڑنے لگتا ہے۔ اچھا! تو یہاں کے لوگوں کو پر بھی ہیں! کتنا اچھا۔ پرندوں کی آوازیں سننے میں آتی ہیں۔ ’’شاید صبح ہونے والی ہے۔ میں تھک گیا ہوں۔ کوئی گھر نظر آئے تو وہاں بیٹھ کر تھوڑا آرام کروں اور دیکھوں کہ یہاں کے مقامات کس طرح کے ہیں۔‘‘ اسے مقامات نظر آتے ہیں۔ وہ بہت خوبصورت ہیں۔ دھرتی کے شاندار بنگلے بھی ان کے آگے کچھ نہیں ہیں۔ وہ ایک جگہ گھس جاتا ہے۔ جگہ اندر سے بھی اچھے طریقے سے سجی ہوئی ہے۔ لوگ ابھی ابھی اٹھے ہیں۔ بچے بھی اٹھے ہیں۔ اٹھ کر چپ چاپ صفائی میں لگ گئے ہیں۔ بچے کتنے تمیز دار، سمجھدار اور پیارے ہیں۔ اٹھنے سے نہ ہی روئے، نہ شور کیا۔ گھر میں شور تو بالکل ہے ہی نہیں۔ شاید یہ چاند کی دنیا ہی جنت ہے۔ کتنا آرام اور سکون ہے۔ یہاں کی پوری دنیا ہی ایسی ہو گی! یہاں کے لوگ غموں، تکلیفوں اور مسائل سے تو بالکل ہی لا علم ہوں نگے۔ میں پوری عمر یہاں رہوں گا۔! گھر کے لوگ کھانا کھانے والے کمرے میں آ کر اکٹھے ہوئے ہیں۔ صفائی تو کتنی ہے! میز پر طرح طرح کے پکوان رکھے ہوئے ہیں، جو زیادہ تیل کی وجہ سے چمک رہے ہیں! بچے کتنے سکون اور تمیز سے کھا رہے ہیں۔

’’بچے اچھے کپڑے پہن کر، باپ کے ساتھ باہر جا رہے ہیں۔ شاید اسکول جائیں گے۔ باپ ان کو اسکول چھوڑ کر اس کے بعد کام پر جائے گا۔ اس دنیا میں اگر کام نہ ہوتا تو بہت اچھا ہوتا۔ لیکن یہاں کے لوگوں کو دکھ درد بھی تو نہیں۔ کھانا پینا، کپڑے اور مقامات سب ایک جیسے اور بہت اچھے ہیں۔ آدمی بیکار تو بیٹھ نہیں سکتا۔ میں ان کے پیچھے جا رہا ہوں۔ وہ ایک بہت بڑی جگہ میں جا رہے ہیں۔ جگہ کے چاروں جانب ایک شاندار باغیچہ ہے۔ باغیچے میں کئی بچے کھیل رہے ہیں۔ صرف بچے ہی ہیں۔ ان کے بیچ کوئی بھی غریب، کمزور اور بیمار بچہ نظر نہیں آ رہا۔ یہ جگہ شاید بچوں کی تفریح کے لئے ہے اور یہاں کوئی بھی بچہ آ سکتا ہے!‘‘ وہ اس جگہ سے باہر نکل آتا ہے۔ چلتے چلتے بازار پہنچ جاتا ہے۔ بازار میں بڑی بڑی دوکان ہیں، جن میں طرح طرح کی چیزیں رکھی ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہر شخص بغیر ڈر اور ہچکچاہٹ کے جو چیز پسند آتی ہے، اٹھا لے جاتا ہے۔ نا کسی کی ڈانٹ، نہ ڈپٹ۔ وہ خوش ہوتا ہے کہ لوگ ایک جیسے ہیں اور یہاں پر کسی بھی چیز کی قیمت نہیں ہے، جسے جو چاہے، اپنی مرضی سے اٹھا لے جائے! بازار میں کئی عورتیں گھوم رہی ہیں۔ عورتیں اتنی خوبصورت ہیں جیسے پریاں، یہاں کی عورتیں شاید بیمار اور کمزور ہوتی ہی نہیں ہوں گی۔

اسکے بعد وہ ایک شاندار عمارت کے آگے آ کر کھڑا ہوتا ہے اندر سے سازوں کی سریلی آواز آ رہی ہیں۔ وہ قریب آ کر جھانکتا ہے، ’’کتنا پر کشش منظر ہے! لوگ خوشی سے قہقہے لگا رہے ہیں۔ میں بھی اندر جا کر ان کے ساتھ بیٹھوں، لیکن سبھی لوگ بہت اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، میرے کپڑے تو بہت ہی خراب ہیں۔‘‘ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں لوگ اسے بھگا نہ دیں! وہ دیکھتا ہے کہ لوگ اس عمارت میں بے پرواہ ہو کر جا رہے ہیں، جیسے ان کا اپنا گھر ہو۔ یہ دیکھتے بھی وہ وہاں ٹھہر نہیں پاتا اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ سوچتا ہے، ’’یہاں کے لوگوں کے تو مزے ہی مزے ہیں، نہ کوئی کام کاج، نہ کوئی دکھ تکلیف۔‘‘ اچانک وہ دیکھتا ہے کہ وہ شہر سے باہر آ گیا ہے۔ اب وہ بہت تھک گیا ہے۔ چاہتا ہے کہ کہیں آرام کرے۔ دور سے اسے کچھ چھوٹی چھوٹی جگہیں نظر آتی ہیں۔

’’شاید یہاں کے لوگوں نے اپنے جانوروں کے لئے ایسی جگہیں بنوائی ہوں گی۔ یہاں کے لوگ خود ایسی خوبصورت جگہوں میں رہتے ہیں تو ان کے جانوروں کے بھی ضرور گھر ہوں گے۔ کتنی اچھی ہے یہ چاند کی دنیا! گھر مہنگے اور اچھے تو نہیں ہیں، لیکن غریبوں کے گھر جیسے تو ہیں۔ یہاں پر مٹی اور دھول بھی ہے، ہریالی نہیں ہے، لیکن جانوروں کو اس بات کی کیا ضرورت! رہنے کے لئے اپنا گھر تو ہے، ادھر ادھر بھٹکتے تو نہیں ہو نگے۔ اس دنیا کے جانوروں کو بھی اتنی سمجھ ہے کہ اپنے گھر بنا کر بیٹھے ہیں!‘‘ وہ ایک گھر کے نزدیک پہنچ گیا ہے۔

’’دیکھوں تو سہی، جانور کس طرح گھروں میں رہ رہے ہیں۔‘‘ وہ ایک گھر کی دیوار پر بیٹھ کر، نیچے دیکھتا ہے۔ نیچے دیکھنے پر اس کی ایک ڈراؤنی چیخ نکل جاتی ہے، ’’ہے خدا! ان گھروں میں تو لوگ رہتے ہیں۔ کتنے بدصورت، کمزور اور بیمار لگ رہے ہیں۔ شاید نیند سے ابھی جاگے ہیں۔ بچے بھی ایک درجن ہیں۔ اٹھتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا ہے۔ کتنا شور ہے اس گھر میں، بچے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ کوئی روٹی کے لئے رو رہا ہے، تو کوئی ’’ماں ماں‘‘ کی رٹ لگا کر شکایت کر کے چلا رہا ہے۔ کپڑے گندے، پھٹے پرانے پہنے ہوئے ہیں، صفائی تو دور، گھر کتنا تنگ ہے۔ لوگ کیسے رہتے ہیں! دیواریں کتنی گندی، گھر کی چیزیں غلیظ۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ بھی گندے اور بدتمیز ہیں۔ بیمار اور کمزور عورت، بچوں کی ماں ہے۔ ارے۔! ہاں! یہ تو میرا گھر ہے۔ گھر کی چھت جھول رہی ہے! ابھی گری کہ تب گری۔ بھاگ نہیں سکتا اوہ۔ نیچے گر رہا ہوں۔ رہا ہوں۔ خدا، گر رہا ہوں۔‘‘

اچانک وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ خود کھاٹ سے نیچے گر گیا ہے۔ پکا کرنے کے لئے وہ نیچے جھک کر دیکھتا ہے۔ غور سے دیکھنے کے بعد اسے لگتا ہے کہ رات بہت ہی اندھیری اور تاریک ہے۔ وہ سوچتا ہے، ’’بادل کب سے آ گئے، آسمان کیوں بادلوں کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ وہ ستارہ۔‘‘ باہر سے کسی کتے کی لمبی اور اداسی بھری، رونے کی آواز سننے میں آئی۔ پھر اسے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی اس پر قہقہہ لگا رہا ہے۔ ہلکی بوندا باندی ہونی شروع ہو گئی۔ بچے جاگ گئے ہیں اور رونے لگے ہیں۔ اس کی بیوی بھی پریشان ہو کر اٹھی ہے۔ وہ جمائیاں لے کر کہتی ہے، ’’بارش کو بھی رات کو آنا تھا۔ قدرت کا بھی اندھیر ہے، اگر دوپہر کو برستا تو کیا ہو جاتا! ایک تو گھر تنگ، اوپر سے گھٹن۔ رات کو بارش ایک مصیبت ہے۔‘‘

وہ جواب میں کہتا ہے، ’’آسمان ہم پر طعنے کس رہا ہے!‘‘ سیما حیرت زدہ ہو کر اسے دیکھتی ہے۔ اس نے بات سمجھی نہیں۔

بارش تیز ہو جاتی ہے۔ وہ جلدی سے بستر اندر کرتے ہیں۔ ایک کھاٹ نکال کر برآمدے میں ڈالتے ہیں۔ بچے اور بھی زور سے رونے لگتے ہیں۔ طیش میں بھر کر سیما ایک بچے کو ہاتھ دکھاتی ہے۔ بچہ ڈر کر چپ ہو جاتا ہے۔ وہ بچوں کو سمجھا بجھا کر چپ کرا کر سلا دیتی ہے۔ بارش دھیرے دھیرے اور تیز ہو گئی۔ شوہر اور بیوی گھٹنوں میں سر چھپا کر، تنگ ہو کر مرغیوں کی طرح بیٹھے ہیں۔ سیما کچی نیند کی وجہ سے بار بار اٹھ کر بیٹھ رہی ہے وہ اندھیرے میں دیکھ کر سوچتا ہے، ’’آج کی رات بڑی مصیبت کی رات ہے، کب گزرے گی! صبح کب ہو گی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بھیانک موت

 

 

رات کے تین بجے تھے، لیکن فائرنگ ابھی تک بند نہیں ہوئی تھی۔ رہ رہ کر اچانک فائرنگ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ زینب دو سالہ بیٹے کے ساتھ کھاٹ پر لیٹی ہوئی تھی اور بازو میں دوسری کھاٹ پر کامل لیٹا ہوا تھا۔ وہ رہ رہ کر کروٹ بدل رہا تھا۔

’’جاگ رہے ہو کیا؟‘‘ زینب نے آدھی نیند میں کہا۔

’’ہاں۔ تمہیں بھی نیند نہیں آ رہی کیا؟‘‘

’’موت کے منہ میں کسے نیند آئے گی۔‘‘ زینب نے مخمور آواز میں کہا۔ وہ ڈر گئی کہ کہیں اس کی آواز کمرے سے، گھر سے باہر نہ نکل جائے اور گولی اس آواز کو پکڑ کر اندر نہ چلی آئے۔

’’ویلیم جو لا کر دیں تھیں، وہ نہیں کھائیں کیا؟‘‘ کامل نے پوچھا۔

’’دو کھائی تھیں۔ سر بھاری ہو گیا ہے، لیکن نیند نہیں آ رہی ہے۔‘‘

کامل نے کچھ نہیں کہا۔ موت کا ڈر، نیند کی گولیوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ پوری شیشی کھانے سے بھی کچھ نہیں ہو گا، اس نے سوچا۔

’’پڑوس میں جو دو تین سندھیوں کے گھر تھے، وہ سب فرار ہو گئے ہیں، باقی ہم جا کر بچے ہیں۔ اپنے پڑوس کے مہاجروں کی لڑکی آئی تھی۔ اس نے کہا کہ خطرہ ہے۔ آپ بھی بھاگ جائیں۔‘‘ زینب نے کہا۔

’’تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ ہمدردی میں تمہیں بتانے آئی تھی۔ اسے ڈرا کر بھیجا گیا ہو گا تمہیں ڈرانے کے لئے۔‘‘ کامل غصے سے کھاٹ سے اٹھ بیٹھا۔

’’نہیں نہیں، ایسا کیسے ہو گا۔‘‘ زینب نے غیر یقینی کے ساتھ کہا۔ ’’میں تو اس گھر میں ابھی آئی ہوں۔ لیکن یہ چالیس سالوں سے آپ کے ساتھ پڑوس میں رہتے ہیں۔ رشتے داروں جیسا ایک دوسرے میں اٹھنا بیٹھنا ہے۔ ایسا کیسے کریں گے۔‘‘

’’خود چاہے کچھ نہ کریں، لیکن اوروں کو چھوڑیں گے۔‘‘ کامل نے کہا۔ ’’ان کی آنکھ ہمارے گھر کی طرف ہے۔‘‘

’’تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘ زینب نے تعجب سے پوچھا۔

’’لڑکی کے باپ نے مجھ سے بات کی ہے۔ اس نے بھی وہی لڑکی والی بات کہی ہے کہ یہاں رہنا ہمارے لئے خطرے سے خالی نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر میں گھر بیچوں تو وہ لینے کے لئے تیار ہے۔‘‘

’’پھر؟ تم نے کیا کہا؟‘‘

’’میں نے کہا کہ میرے گھر کی قیمت اس وقت چار لاکھ روپے ہے۔ لیکن وہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ دینے کے لئے تیار نہیں۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ ’ زینب سوچ میں پڑ گئی۔ ٹھ ٹھ ٹھ ٹھا ٹھا۔ کہیں قریب سے فائرنگ کی آواز ہوئی۔ زینب اٹھ کر کامل کے کھاٹ کے آگے آن بیٹھی۔ اور کامل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ زینب کا ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ کامل نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ زینب کے ماتھے پر پسینے کا گیلا پن تھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘ کامل نے ہاتھ سے زینب کے ماتھے سے پسینہ پونچھتے کہا، ’’ڈر رہی ہو؟ لیٹ جاؤ۔‘‘

’’تمہیں ڈر نہیں لگ رہا؟‘‘ زینب اس کے بازو میں لیٹ گئی۔ کامل نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن اس نے دل میں کہا، ہاں، میں بھی ڈر رہا ہوں۔ وہ زینب کے بالوں میں انگلیاں پھرانے لگا۔

’’پتہ نہیں کتنی راتوں سے نیند نہیں آئی ہے۔ کرفیو میں بھی ڈر تھا۔ کرفیو ہوتے ہوئے بھی مہاجروں نے سندھیوں کے گھر پر حملے کئے ہیں۔ اب تو کرفیو بھی اتر گیا ہے۔ الٹا مزید ڈر ہو گیا۔ پوری رات فائرنگ سن کر ایسا لگ رہا ہے، جیسے کہ اپنے گھر پر حملہ ہوا ہے۔‘‘

’’پھر کیا کریں؟ اور کوئی راستہ بھی تو نہیں۔ جن سندھیوں کے گھر ان کے گاؤں میں بھی ہیں، وہ توفساد شروع ہوتے ہی اپنے گاؤں چلے جاتے ہیں۔ ہمارا تو کسی گاؤں سے تعلق نہیں ہے۔ دادا پردادا حیدرآباد کے تھے۔ کیا پتہ تھا کہ اپنے ہی دادا پردادا کے شہر میں، اپنے ہی گھر میں جان کی خیر نہیں رہے گی۔‘‘

’’میری صلاح ہے کہ گھر بیچ کر کہیں سندھیوں کے محلے میں جا کر رہیں۔‘‘

’’اونے پونے دام میں اپنا پشتینی گھر بیچ کر سندھیوں کے محلے میں جا کر رہیں۔‘‘ کامل نے چڑ کر کہا۔

’’جان سے زیادہ گھر ہے کیا! خدا خیر کرے، کل کو گھر میں گھس کر ماریں تو پھر گھر کس کام آئے گا۔‘‘ زینب نے اندھیرے میں کامل کی شکل دیکھنے کی کوشش کی۔

کامل نے ایک لمبی سانس لی۔ اسے لگا کہ زینب کی بات سچ تھی۔ دونوں جس بات کو ہونٹوں تک لانے سے کترا رہے تھے، اس سے کامل لا علم نہیں تھا۔ انہیں اپنی جان سے زیادہ چھوٹے لڑکے کی فکر تھی۔

’’اچھا ٹھیک ہے، کل قاسم آباد کے پاس جا کر معائنہ کرتا ہوں۔ جگہ لے کر پھر پڑوس کو ہی گھر بیچ کر چلیں گے۔ اور لوگ تو اب اتنے پیسے بھی نہیں دیں گے۔‘‘

زینب نے سکون کی سانس لی اور کامل کے گلے لگ گئی۔

قاسم آباد میں پراپرٹی ڈیلروں سے پوچھنے پر کامل کو پتہ چلا کہ جگہوں کے دام آسمان چڑھ گئے تھے۔ لطیف آباد اور حیدرآباد میں مہاجروں کے محلے میں رہنے والے سندھی بھاگ کر اس جانب آنے لگے تھے۔ اس لئے فلیٹ اور مکانات مہنگے ہو گئے تھے۔ کرائے بھی بڑھ گئے تھے۔ کامل کا کنبہ بڑا نہیں تھا۔ اس لئے اس کا کام چھوٹے گھر سے بھی چل جاتا۔ ایک دوست نے کامل کو بتایا کہ سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک ریٹائرڈ تپے دار حاجی صاحب کا گھر ہے۔ اس کا لڑکا سعودی عرب میں ڈاکٹر ہے۔ خود اپنی بیوی کے ساتھ نچلے حصے میں رہتا ہے۔ گھر کا اوپری حصہ خالی ہے، جس میں دو بیڈروم ہیں۔ کرایہ پندرہ سو روپے مہینہ اور ایک سال کا ایڈوانس لے گا۔ کرایہ زیادہ تھا، لیکن کامل نے سوچا کہ بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی مجبوری دیکھ کر ایک سندھی کی حیثیت سے حاجی صاحب مان جائے۔

شام کا وقت تھا۔ گھر کے باہر بنے چھوٹے لان میں کچھ کرسیاں پڑی تھیں، جن پر بڑی عمر والے ریٹائرڈ قسم کے بزرگ بیٹھے تھے۔ حاجی صاحب نے کامل کو بٹھا کر اس سے حال چال پوچھا۔

’’اب دیکھئے صاحب، بیچارے سندھیوں کو اپنے دادا پر داداؤں کے گھروں سے کیسے بھاگنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ جیسے کہ یہ حیدرآباد دکن ہو۔ ان کے باپ کا شہر ہے، جہاں سندھیوں کو رہنے کا کوئی حق نہیں!‘‘ حاجی صاحب کی بات نے کامل کے دل پر ٹھنڈے چھینٹے مارے۔ اب ہر سندھی کو اپنی لاپرواہی کا احساس ہونے لگا تھا۔

’’یہی درد تو ہم رو رہے ہیں۔ تمہارے آنے کے بعد بھی یہی بات چل رہی تھی۔‘‘ ریٹائرڈ استاد نے کامل کو کہا۔ ’’دنیا کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں کہ باہر سے آئے لوگوں نے مقامی لوگوں کو کیسے تباہ کر دیا۔ امریکہ میں ریڈ انڈین کی مثال ہے۔‘‘

’’یہ نو آبادیت کی پرانی مثالیں ہیں۔ آپ حالیہ دور کی سیاسی چالوں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔‘‘ دوسرے دانشور طرح کے ریٹائرڈ بزرگ نے کہا۔ ’’ایم کیو ایم کی دہشت گردی اسی راستے بڑھ رہی ہے، جس راستے پر ہٹلر کی نازی ہلچل ابھری تھی۔ ہٹلر نے جرمنوں میں ستائے لوگوں کا احساس پیدا کر کے، نسل پرستی کے جذباتی نعرے دے کر متعصب کر دیا۔ اسی طرح کے نازی دہشت گردیوں جیسے طریقے یہاں پر آزمائے جا رہے ہیں۔ نازیوں نے یہودیوں کی جائیداد لوٹ کر، گھر اور دوکان جلا کر، قتل کر کے ان کو ملک سے ہی نکال کر باہر کر دیا۔ وہی حال سندھیوں کا بھی کیا جا رہا ہے۔‘‘

’’ہمیں دھکیل کر کہاں بھیجیں گے۔‘‘ حاجی صاحب نے پوچھا۔ ’’ہمیں تو نہ ہندوستان قبول کرے گا، نہ افغانستان اور نہ ہی ایران۔‘‘

’’آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مہاجر سندھ کے بڑے شہروں میں یہ دنگا فساد بیکار کر رہے ہیں؟ آتے جاتے بیگناہ سندھی لوگوں کو بلا وجہ مار رہے ہیں؟‘‘ دانش ور ٹائپ بزرگ حاجی صاحب کی بات کو ان سنا کر کہتا رہا۔ ’’یہ سب سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔ ایم کیو ایم والوں کی یہ پلاننگ ہے کہ سندھیوں کو بڑے شہروں سے لوٹ مار کر بھگا دیا جائے۔ اس طرح رد عمل میں چھوٹے شہروں سے مہاجر بھاگنے پر مجبور ہو نگے۔ یہ جھگڑا جتنا زیادہ بڑھے گا اتنا اس جماعت کی پلاننگ کو فائدہ پہنچے گا۔ آخر ایک دن وہ صاف طور پر نعرہ لگا کر مہاجرستان بنانے کا دعویٰ پیش کریں گے اور سندھ کو دو حصوں میں بانٹنے کی کوشش کریں گے۔‘‘

’’ہاں صاحب، تنگ آ گئے ہیں ان مسائل سے۔‘‘ حاجی صاحب نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

’’لیکن صاحب معاف کرنا، یہ مسئلے ہمارے بڑوں نے ہی ہمارے گلے میں ڈالے ہیں۔ ہندوؤں کو سندھ سے نکال کر پرایوں کو دعوت دے کر یہاں کس نے بلایا؟ کہتے تھے، ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔ کراچی، حیدرآباد اور کئی دوسرے بڑے شہر ہم نے خود ان کو تحفے کے طرح پر پیش کئے ہیں۔ ان کا کیا سندھ کی عوام بھگت رہی ہے۔‘‘ کامل نے کہا۔

’’میاں صاحب، آپ کی عمر کتنی ہے؟‘‘ ریٹائرڈ استاد نے کامل سے پوچھا۔

’’تیس سال۔‘‘ کامل نے جواب دیا۔

’’پھر آپ کو اس زمانے کا کیا پتہ۔ ہندو اگر ہم پر زیادتیاں نہ کرتے، تو ہم کو کیا کتے نے کاٹا تھا جو ہم ان سے پریشان ہوں۔ وہ خود کو اُچ کوٹی کا سمجھتے تھے۔ انہوں نے جو ظلم کئے، اس کا آپ نوجوانوں کو پتہ ہی نہیں ہے۔‘‘ ریٹائرڈ استاد نے غصے میں کہا۔

’’آپ کی بات صحیح ہو گی، لیکن ہندو فسادیوں نے ٹولے بنا کر سندھی مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر ان کو بے عزت کر کے لوٹ مار نہیں کی تھی۔ انہوں نے راہ چلتے بیگناہ لوگوں کو گولیوں سے نہیں بھونا ہو گا۔ اگر سندھی ہندوؤں کی نظر میں سندھی مسلمان مورکھ تھے تو اب مہاجروں کی نظر میں ہم جنگلی، بد تہذیب اور جاہل ہیں۔ ہمیں کیا فرق پڑا۔ الٹا ایک پرائی زبان اور پرائی قوم ہم پر تھوپی گئی۔‘‘ کامل کو جوش آ گیا تھا۔

’’ہاں جوان، سچ کہتے ہو۔ آنکھوں پر پٹّی باندھ کر کھائی میں جا گرے۔ مہاجروں نے تو جیسے ہمیں جیت لیا ہے۔ بس یار، سندھی مسلمانوں کی قسمت ہی پھوٹی ہوئی ہے۔‘‘ حاجی صاحب نے کامل کی باتوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔

’’نہیں حاجی صاحب، قسمت کی بات نہیں۔ ہماری خود کی کمزوریاں ہیں۔‘‘ دانش ور طرح کے ریٹائرڈ بزرگ نے کہا۔ ہم سندھیوں میں حب الوطنی پوری طرح سے پیدا نہیں ہو پائی ہے۔ ہم میں سیاسی شعور کی کمی ہے۔ ہر سندھی میں متضاد سوچ اور عمل ہے۔ اخبارات اٹھا کر پڑھو۔ سندھی ایک دوسرے کے کتنے قتل کرتے ہیں۔ ذاتی دشمنی میں گھر کے گھر تباہ کر دیتے ہیں۔ معمولی پانی کے جھگڑے پر، گردنیں کاٹ دیتے ہیں۔ سندھی ڈاکو روز کتنے سندھیوں کو لے جاتے ہیں۔ دوسری جانب سندھ کی سیاست کو دیکھو۔ الطاف حسین نے چند سالوں کے اندر سبھی مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ایک مضبوط جماعت بنا ڈالی ہے۔ سندھی لیڈر کئی سالوں سے فقط باتیں کرتے آئے ہیں۔ کام کون سا کیا ہے؟ ہر کوئی اکا دکا لوگوں کے گروپ بنا کر بیٹھا ہے۔ لگ بھگ سو گروپ اور پارٹیاں ہیں۔ جب تک سندھی لیڈر اپنے مفاد کو بالائے پشت ڈال کر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہوتے، تب تک کچھ نہیں ہو گا۔ سندھی شخص ایسے ہی مروایا جائے گا اور سندھیوں کو شہر سے دھکیل کر نکالنے کی چال کامیاب ہو جائے گی۔‘‘

ماحول میں اداسی چھا گئی۔ لگ رہا تھا کہ کسی کو بھی بات کرنے کا جی نہیں ہو رہا تھا۔

’’اچھا یار، اب چلتے ہیں۔‘‘ ریٹائرڈ استاد اور بزرگ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ دونوں سے رخصت لے کر، حاجی صاحب نے بیٹھتے ہوئے کامل سے پوچھا، ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

’’کالج میں لیکچرار ہوں۔‘‘

’’ٹھیک ہے جوان، تمہارا خود کا ہی گھر ہے۔ بھلے یہاں آ کر رہو۔ ایسے مشکل وقت میں ہم سندھی ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو اور کون آئے گا۔‘‘

’’شکریہ صاحب۔‘‘ کامل نے دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتے کہا۔ ’’لیکن ایک گذارش ہے۔ کرایہ کچھ زیادہ ہے۔ میری تنخواہ تین ہزار روپے ہے۔ اگر آدھی تنخواہ کرائے میں چلی گئی تو پھر گزر بسر مشکل ہو جائے گا۔ دوسری سچ بات میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میرے پاس اس وقت کل رقم جتنی ہے، اس میں سے میں ایڈوانس کے آدھے پیسے ہی دے پاؤں گا۔ ہاں، باقی جیسے ہی میری جگہ بک جائے گی تو باقی پیسے دے دوں گا۔‘‘

حاجی صاحب سوچ میں پڑ گیا۔ ’’ٹھیک ہے، پھر تم ہی بتاؤ کہ تم کتنا کرایہ دے پاؤ گے؟‘‘

’’صاحب، آٹھ سو روپے لیں تو مہربانی ہو گی۔‘‘ کامل نے انکساری سے کہا۔

’’آٹھ سو روپے!‘‘ حاجی صاحب کے منہ سے قہقہہ نکل گیا۔

’’یہ تو بہت کم ہیں، بھائی اتنا نقصان تو نہیں دو۔‘‘

’’نہیں حاجی صاحب، خدا نہ کرے، میں آپ کو نقصان کیوں دوں گا۔ میں نے اپنی مجبوری آپ کے سامنے رکھی ہے۔ اگر مہربانی کر سکیں تو۔‘‘

’’ہوں۔‘‘ حاجی صاحب پھر سے سوچ میں پڑ گیا۔ ’’بچے کتنے ہیں؟‘‘

’’ابھی ایک ہی لڑکا ہے دو سال کا۔ سچ پوچھئے تو ہمیں خود سے زیادہ اس کی فکر ہے۔ میری بیوی پتہ نہیں کتنی راتوں سے ڈر کی وجہ سے سوئی نہیں ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، میں زیادہ سے زیادہ تین سو روپے چھوڑ سکتا ہوں۔ آخری بات بارہ سو روپے۔ باقی آدھا ایڈوانس دے کر چاہے تو کل ہی چابی لے لو۔ تم پر یقین ہے۔‘‘

کامل نے سوچا کہ زیادہ بولنا بیکار ہے۔

’’ٹھیک ہے، صاحب آپ کا فیصلہ سر آنکھوں پر، اب جگہ دکھانے کی تکلیف کریں گے۔‘‘

حاجی صاحب سیڑھی کا دروازہ کھول کر کامل کو اوپر لے گیا۔ جگہ ٹھیک تھی اور کامل کی ضرورتوں کے حساب سے ٹھیک تھی۔

’’پھر صاحب، میں کل ایڈوانس کی رقم دے کر چابی لے جاؤں گا۔‘‘ کامل نے حاجی صاحب سے رخصت لیتے ہوئے کہا۔

کامل نے گھر آ کر جب یہ خوشخبری زینب کو بتائی، تو اسے ایسے لگا جیسے زینب کے منہ پر آئے پریشانیوں اور ڈر کے کالے بادل بکھر گئے ہیں۔ زینب کی ڈراؤنی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ انسان امید کے آشواسن سے بھی جی اٹھتا ہے، یہ بات پہلی بار کامل کو محسوس ہوئی۔

’’گھر کیسا ہے بھلا؟‘‘ زینب نے پوچھا۔

’’اچھا ہے۔ اپنا گزر بسر آسانی سے ہو جائے گا۔‘‘

’’کرایا زیادہ تو نہیں؟‘‘

’’ہے تو زیادہ۔ پہلے انہوں نے پندرہ سوروپے مانگے تھے، لیکن بعد میں آخر بارہ سو پر رضامند ہو گئے۔ حاجی صاحب اچھے انسان ہیں۔ بہت ہمدردی دکھائی۔ اب سندھیوں کو ایک دوسرے کا احساس ہوا ہے۔‘‘

’’خدا سندھیوں کو سمجھ دے کہ آپس میں اتحاد سے رہیں، نہیں تو یہ ہمیں جینے ہی نہیں دیں گے۔‘‘ زینب نے کہا۔

دوسرے دن کامل کرائے کے پیسے لے کر حاجی صاحب کے گھر آیا۔ پچاس سال کی ایک عورت باہر نکلی۔

’’ماں جی، حاجی صاحب گھر پر ہیں؟‘‘ کامل نے پوچھا۔

’’حاجی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ سویا ہے۔ کام ہو تو بتاؤ۔‘‘ عورت نے اسے گھور کر دیکھتے کہا۔

’’میں کل حاجی صاحب سے ملا تھا۔ اوپری کمرے کرائے پر لینے کے لئے بات کی تھی۔ کرائے کے پیسے لے آیا ہوں۔ آپ کو حاجی صاحب نے بتایا ہو گا۔ حاجی صاحب کو تکلیف نہ دیں، آرام کرنے دیں۔ اگر آپ مجھے چابی دیں تو کل سامان لے کر آؤں۔ ہمیں وہاں سے جلدی شفٹ ہونا ہے۔‘‘

’’میں حاجی صاحب کی بیوی ہوں۔‘‘ عورت نے پہلی بار اپنا تعارف کرایا۔ ’’اس نے مجھ سے بات کی ہے۔ آج صبح کچھ اور گاہک آئے تھے۔ وہ پندرہ سوروپے کرایہ اور ایک سال کا ایڈوانس دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن حاجی صاحب نے ان کو جواب دے دیا۔ کیونکہ آپ سے وعدہ کر لیا تھا۔ اب آپ کی مرضی ہے، اب پندرہ سو روپے دے پاؤ تو چابی لے جاؤ۔‘‘ عورت حاجی صاحب سے زیادہ کنجوس تھی۔

’’لیکن ماں جی، حاجی صاحب تو مجھ سے بارہ سو میں بات پکی کر چکا ہے اور اس سے زیادہ کرایہ دینا میرے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘ کامل نے لجاہت سے کہا۔

’’وہ تمہاری مرضی ہے، کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ اس نے انکار کرتے پیر دروازے کے اندر رکھا۔

’’میری بات تو سنئے۔ حاجی صاحب کو پتہ ہے کہ میں سخت مجبور ہوں۔ آخر آپس میں سندھی ہیں، آپ ہماری مجبوری نہیں سمجھیں گے تو اور کون سمجھے گا۔ مہربانی کیجئے۔‘‘

کامل نے لجاہت سے کہہ کر عورت کو اندر جانے سے روکا۔

’’سندھی ہیں اس لئے خود کو نقصان پہنچائیں!‘‘ عورت نے اندر جا کر دروازہ بند کر دیا۔

کامل تعجب سے بند دروازے کو تکتا رہا۔ اس میں چلنے کی طاقت نہیں تھی، پھر بھی وہ گھسٹتا وہاں سے روانہ ہوا۔ چلتا ہوا وحدت کالونی سے گزر کر، چوک پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی ٹانگیں جواب دے چکی تھیں۔

‘ یہ میرے باپ داداؤں کا شہر ہے، جہاں سے جان بچا کر بھاگ نکلنے کے لئے کوشش کر رہا ہوں اور پناہ کے لئے در در بھٹک رہا ہوں۔‘‘ اسے خیال آیا۔ وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’مجھے اپنے گھر جانا چاہئے، زینب انتظار کرتی ہو گی اور پریشان ہو گی۔‘‘ وہ شہر جاتی سوزوکی میں چڑھ گیا۔

کامل جب گھر پہنچا تو زینب واقعی پریشان تھی۔ ’’کیا ہوا؟ اتنی دیر کیوں ہوئی؟‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں۔ تم پریشان نہ ہو، سب ٹھیک ہے۔‘‘ وہ کھاٹ پر بیٹھ کر بوٹ اتارنے لگا۔

’’گھر کی چابی لے کر آئے؟‘‘

’’نہیں۔ ہمیں کہیں نہیں چلنا ہے۔ ہم یہیں رہیں گے اسی گھر میں۔ جس گھر میں میرے سبھی بڑے، بابا اور ماں مر گئے، اس گھر میں خود مرنے سے کیوں ڈر رہے ہیں! آج سے دماغ سے ڈر نکال دو، کوئی فکر مت کر۔‘‘ کامل کھاٹ پر لیٹ گیا اور سگریٹ جلا کر آرام سے کش لگانے لگا۔

٭٭٭

 

 

 

 

شہر اور خواب

 

 

ایلفی اور بوری بازار کی گلیوں میں چکر لگاتے لگاتے، اس کی ٹانگیں سن ہو چکی تھیں اور پیر درد کرنے لگے تھے۔ وہ کولہو کے بیل کی طرح گھوم گھوم کر واپس اسی جگہ پہنچ جاتا تھا۔ اسے گھومتے کافی دیر ہو چکی تھی، لیکن اس نے کہیں بھی بیٹھنا نہیں چاہا۔ بیٹھنے سے اس کے اندر ہلچل سمندری بھنور کی طرح ابلنے لگی تھی۔ وہ جیسے سمندر کے تل میں پس گیا تھا۔ اس کی حالت ابھی تک ڈوبتے ہوئے شخص کی مانند تھی۔ اس نے چاہا کہ اتنا گھومے کہ تھک کر چور ہو کر اپنے ہوش حواس گنوا کر کہیں گر پڑے۔ بھیڑ کے سبب لوگ اسے آگے دھکیل رہے تھے، لیکن اسے اس بات کا دھیان نہیں تھا۔ اس کے آگے عورتیں گردنیں اونچی کر کے آسمان کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ پہلے یونس کو طیش آتا تھا کہ جیسے ہم زمین کے معمولی کیڑے ہیں ان کے آگے، جو ہماری طرف ایک بار بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتی ہیں۔ لیکن آج اسے کسی بھی چہرے میں ایسا کچھ نہ دکھا، جو دل کو پرکشش لگے۔ اس نے ایک بار نظر ڈال کر منہ پھیر لیا۔ سب بیکار تھا۔ اسے اپنے آپ پر غصہ آیا اور وہ ایلفی سے نکل کر وکٹوریہ روڈ کی سمت گھوم گیا۔ اب وہ پریشان ہو گیا تھا، اسے پتہ تھا کہ جس چیز سے وہ بھاگ رہا تھا اس سے بھاگنے کی کوشش بیکار تھی، اس کے پنجے اس کے دل میں گھسے ہی جا رہے تھے۔ فٹ پاتھ سے آتی جاتی منی اسکرٹ پہنے دیسی اور پردیسی عیسائی عورتوں کی بھوری، دودھ جیسی سفید، سانولی ٹانگوں اور داغوں سے بھرے گھٹنوں کے کٹوریوں کو دیکھ کر اس کے اندر نفرت کی لہریں اٹھنے لگیں۔ یونس کو لگا کہ اس کے اندر جسمانی کشش والی چیز مر گئی ہے۔ وہ چوک پھلانگ کر ہولی ٹرینٹی چرچ کے آگے آ کر کھڑا ہو گیا۔ چرچ کی دیوار کے باہر فٹ پاتھ پر لکڑی کی بینچیں رکھی ہوئی تھیں۔ کچھ عیسائی اور پارسی بوڑھے شام گزارنے کے لئے بینچوں پر آ کر بیٹھے تھے۔ بس ایک ٹوٹی ہوئی بینچ خالی تھی۔ وہ اس پر بیٹھ گیا۔ سامنے بڑے چوڑے چوک کے بیچ فوارہ نصب تھا۔ یونس چاروں اطراف سے آتے لگاتار اور نہ ختم ہونے والے ٹریفک کو دیکھتا رہا۔ نئی خوبصورت کاریں اور اس میں بیٹھے خوشحال لوگ، جنہیں نہ کوئی فکر تھی اور نہ خیال تھا۔ اس نے خود کی جانب دیکھا۔ چاروں اطراف سے آتے بھرپور ٹریفک جتنا دکھ تھا، جو اس کی دل کو کچلتا گزرتا جا رہا تھا۔

اس نے جان بوجھ کر خود پر سے نظریں ہٹا کر سامنے دیکھنے کی کوشش کی۔ اس نے کاروں میں بیٹھیں خوبصورت سجی سنوری عورتوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہی۔ سنگ مرمر جیسے سفید اور ٹھنڈے بدن، جن کے اندر فقط کاغذ کے نوٹوں نے گرمی پیدا کی تھی۔ کاغذ کے ان اڑتے نوٹوں کے پیچھے وہ کتنا دوڑا تھا، کیونکہ اسے پتہ تھا کہ دنیا کی ساری سچائی، ساری ذہانت ان کاغذ کے نوٹوں میں تھی۔ لیکن اس کی ساری دوڑ بیکار تھی۔ جوکروں جیسا کھیل تھا۔ وہ ایسا جوکر تھا، جو بس اپنے آپ پر ہنس سکتا تھا۔ اب جب اس نے اپنے آپ پر قہقہے لگانے چاہے، تو اسے رونا آ گیا۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ ٹریفک کا شور اس کے اوپر چڑھتا جا رہا تھا۔ وہ اس شور میں دبتا گیا۔ اس نے خود بھی ایسا ہی چاہا۔ لیکن چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ اس نے جو کچھ چاہا تھا، وہ کبھی ہو نہ سکا تھا۔

’’کراچی۔‘‘ اس کے ہونٹ پر آیا، ’’خوابوں کا شہر۔‘‘

بابا نے کہا تھا، ’’آخر کب تک کراچی میں دھکے کھاتے رہو گے، جہاں نہ رہنے کے لئے سہولت والی جگہ اور نہ ہی صحیح ڈھنگ کا کھانا پینا۔ دیکھ تو! ہوٹل کا بیکار کھانا کھاتے کھاتے تم کیسے گھل گئے ہو۔ گاؤں لوٹ کر آ، ہماری کھیتی ہے۔ خود بوئیں گے۔ اچھی گزر بسر ہو جائے گی۔‘‘

اس اپنے بابا کی باتیں مزاحیہ لگیں۔

’’نہیں بابا جان، مجھے گاؤں میں اچھا نہیں لگتا۔ کیسی جنگلی زندگی ہے! اگر میں ایک سال بھی وہاں پر رہوں گا تو پاگل بن جاؤں گا۔ نہ اٹھنا بیٹھنا، نہ گھومنا پھرنا۔ دن رات کھیت میں، پانی کی فکر اور جہالت بھرے جھگڑے۔ اوپر سے زمیندار کا رعب۔ بلاوجہ اپنا بڑا پن دکھاتا ہے۔ مجھ سے یہ باتیں برداشت نہیں ہوں گی۔‘‘

اسکی ایسی باتیں سن کر اس کا باپ کچھ ہچکچایا۔ ’’زمیندار کے پاس طاقت ہے اور پیسہ ہے۔ ہماری کم کھیتی باڑی ہے تو کیا، شروع سے ہی زمیندار کے کسان ہیں۔ لیکن تم پڑھے لکھے ہو۔ زمیندار کی مہربانی کا فائدہ اٹھاؤ گے۔‘‘

اس زمیندار کے سبب ہی تو اسے گاؤں چھوڑنا پڑا تھا۔ ایک بار بچپن میں وہ کھیل رہا تھا تو زمیندار کے بیٹے نواز نے بلاوجہ آ کر اسے گالیاں دیں۔ یونس نے غصے میں آ کر اسے دو تین ڈنڈے مار دئیے تھے۔ بابا کو جلد ہی پتہ چل گیا اور وہ اسے لے کر شہر چلا گیا۔ وہاں اسے اپنی بہن کے یہاں چھوڑ آیا، جس کا شوہر رئیس مل میں مزدوری کرتا تھا۔ زمیندار یونس کی پٹائی کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ اسے ہاتھ نہ آیا تو اس کے بابا کو اس نے بہت تکلیفیں دیں۔ یونس کافی وقت تک گاؤں نہ لوٹ پایا۔ بابا کی تمنا تھی کہ وہ شہر میں رہ کر پڑھے۔ یونس نے جیسے تیسے بہت تکلیف سے میٹرک پاس کی اور پھر نوکری کے لئے بھٹکتے بھٹکتے وہ کراچی پہنچ گیا۔ کراچی اسے اتنا بھا گیا کہ بیروزگاری اور بغیر مکان کے بھی وہ اسے چھوڑ نہ سکا۔ کافی بھٹکنے کے بعد جب اسے کلرک کی نوکری مل گئی تو پھر تو جیسے اس نے کراچی سے ہی بیاہ کر لیا۔

’’لیکن بابا مجھے تیرے زمیندار کی پرواہ نہیں۔ اس سے بھی بڑے مضبوط زمیندار، آفس میں ہمیں سلام کرنے کے لئے آتے ہیں۔ زمیندار تو جا کر کھڈے میں گرے، اصل میں اب میں گاؤں میں نہیں رہ پاؤں گا۔ کراچی کو چھوڑ کر اس جنگل میں آ کر رہوں۔ آخر کیا فائدہ، شہر میں کسی کی پرواہ نہیں۔ بادشاہ بن کے چلتے ہیں۔ یہاں تیرا زمیندار ملے تو اسے کوئی پوچھے بھی نہیں۔‘‘

نواز کتنی ہی بار اسے کراچی کی ہوٹلوں میں ملا تھا۔ یونس ایسا دکھاتا تھا جیسے اس نے نواز کو دیکھا ہی نہیں۔ لیکن یہ کوشش کرتا تھا کہ نواز اسے ضرور دیکھے۔ اس سے اسے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ خود کو زمیندار کے برابر محسوس کرتا تھا۔ بڑے قہقہے لگاتا تھا اور بیروں کو رعب سے بلاتا تھا۔ ہوٹل میں دونوں ایک جیسے ہوتے تھے۔ لیکن باہر نکلنے کے بعد جب نواز نئے ماڈل کی کار میں بیٹھ کر جاتا تھا تو یونس کو اپنی ساری خوشی اور فخر پانی کی لکیر جیسے لگتے تھے۔ غریبی کا احساس اسے کسی گہری کھائی میں گرا دیتا تھا۔ کراچی نے اسے ویسے بھی خوشیاں کم، غریبی کے ڈنک زیادہ دیئے تھے۔ لیکن ان ڈنکوں میں بھی کچھ ایسا مزہ تھا، جو ان کو اس نے چھوڑنا نہیں چاہا۔ کبھی کبھی اسے ایسا لگتا تھا کہ کراچی ایسی دلدل تھی جس میں وہ خوشی سے اندر دھنستا چلا جا رہا تھا۔

’’یونس، تجھے اور کسی بات کی پرواہ ہو نہ ہو، لیکن تمہاری ایک جوان بہن بھی ہے۔ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں، بیٹے، اب مجھ میں اتنی طاقت نہیں جو جوان بیٹی کا بوجھ اٹھا سکوں۔ اب یہ بوجھ تم پر ہے۔‘‘

یونس نے پیچھے بیٹھی بہن کی طرف دیکھا تھا، جو نیچے چٹائی پر بیٹھ کر بھرت بھر رہی تھی۔ ’’اگر میری پیاری بہن نجو شہر میں ہوتی تو شہر کی عورتیں اس کے آگے بھوتنی لگتیں۔‘‘ یونس نے سوچا۔ ماں تو اس کی بچپن میں ہی گزر گئی تھی۔ باپ نے ہی دونوں کو پالا پوسا تھا، یونس بہن کو بہت چاہتا تھا۔ یہ بہن ہی تھی، جس کا پیار اسے کبھی کبھی گاؤں کھینچ کر لے جاتا تھا۔

’’پتاجی، میرا مشورہ ہے کہ یہ کھیت بیچ کر شہر چل کر رہیں۔ جب تک زمیندار کی خوشامد نہیں کرتے، تب تک پانی بھی نہیں ملتا، اس سے اچھا ہے بیچ کر شہر میں کوئی اچھی جگہ لے کر رہیں۔ نجو کو میٹرک پاس کروا کر ماسٹری کی نوکری دلوا دیں گے۔ یہاں گاؤں میں کیوں اس کی زندگی خراب کرتے ہیں۔‘‘

پتاجی کو طیش آ گیا۔ ’’کھیتی باری مرد نہیں چھوڑتے ہیں، یونس! شہر میں رہ کر تم بے شرم ہو گئے ہو۔ اب بڑھاپے میں جوان بیٹی کو شہر لے جا کر دھکے کھاؤں!‘‘

یونس کھیتی باڑی والی بات کئی بار سن چکا تھا۔ پہلے سن کر ہنستا تھا۔ لیکن اب اسے اس بات پر طیش آتا تھا اور غصے کو دبا کر چپ ہو جاتا تھا۔

ایک لمبی چرچراہٹ بلند ہوئی۔ یونس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک کار چوک کی جانب سے تیزی سے گھومی تھی۔ مضبوط چکنے روڈ پر کار کے ٹائروں کے نشان بن گئے۔ یونس کا دل ڈوب گیا۔ آگے کی تصویر دھندلی ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔

’’او۔ میری پیاری بہن۔‘‘ اس کے اندر سے سسکیوں کی لہر اٹھی اور اس کے پورے وجود کو ڈبو گئی۔ اس کے دانت نچلے ہونٹ میں پستے چلے گئے۔ وہ روتی آنکھوں سے سامنے کی بڑی بڑی عمارتوں کی چوٹیوں کی جانب دیکھنے لگا۔ نجو کا سر دھڑ سے الگ پڑا تھا۔ اس کا باپ کلہاڑی لے کر تھانے میں حاضر ہوا تھا۔ اسے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی لڑکی کا زمیندار نواز سے جھگڑا تھا۔

یونس ایک دم اٹھ کھڑا ہوا۔ سسکیاں اس کی دل کو نچوڑ رہی تھیں۔ اسے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوا۔ دانتوں نے ہونٹ کو لہولہان کر دیا تھا۔ ٹریفک کم ہو گئی تھی۔ وہ سست قدموں سے چرچ کی طرف سے آگے بڑھتا، ایلفی کی سمت مڑا۔

وہ ایلفی کے ویران روڈ پر لڑکھڑاتے ہوئے چل رہا تھا۔ اسے سخت کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک وہ غش کھا کر بیچ روڈ پر گر پڑا۔ تیزی سے آتی کار کو ایک دم بریک لگا اور ٹائر زوردار آواز کرتے، ایک انچ کی دوری پر آ کر رک گئے۔ یونس ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور چیخ کر دوڑنے لگا، اسے لگا جیسے کچھ لوگ کلہاڑیاں لے کر اسے مارنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

اشارہ

 

 

’’دنیا جینے کے قابل نہیں یا میں دنیا کے قابل نہیں؟‘‘ کمال کے دماغ میں سوال اٹھا اور وہ الجھ کر کھڑا رہا۔ وہ لنڈا بازار سے باہر نکل کر لائٹ ہاؤس سنیما کے نزدیک آ کر کھڑا ہوا تھا۔ بندر روڈ کے ٹریفک کے سیلاب کو لائٹ ہاؤس کے آگے سگنل کی لال بتی نے کچھ دیر کے لئے بند بن کر روکا تھا، تب تک پاکستان چوک سے آتی ٹریفک کا نمبر آیا اور پھر اس کے بعد ہری بتی کے اشارے پر یہ سیلاب دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔

کمال کا ہاتھ خود بخود جیب کی جانب چلا گیا اور اس کے ہاتھ نے اندر جیب میں پڑے خط کو باہر سے بابامحسوس کیا۔ اس کا پورا دھیان اپنے بابا کی طرف چلا گیا۔ قد کا چھوٹا، موٹا اور ہاتھ میں ہمیشہ ڈنڈا۔ وہ باہر اسکول میں تو ہیڈ ماسٹر تھا، لیکن گھر میں بھی ہیڈ ماسٹر تھا۔ ہر وقت بیوی اور بچوں کو ڈانٹتا، کبھی کبھی غصے میں آ کر بچوں کو ڈنڈے سے پیٹتا۔ کمال، بابا کے اس سرشت کو سمجھ نہ سکا تھا کہ وہ ایسا کیوں تھا! اسے بابا سے کبھی بھی اپنائیت کا احساس نہیں ہوا! لیکن اسے اپنے بابا سے کبھی نفرت بھی محسوس نہیں ہوئی، فقط ڈر لگتا تھا۔ اب اسے لگا کہ اس کے اور اس کے بابا کے درمیان، صرف ڈر کا رشتہ تھا۔ پھر جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا اور اس کا بابا بوڑھا ہونے لگا تو یہ ڈر پرائے پن میں بدلتا گیا۔ کمال نے گھر چھوڑا، اسے کافی وقت ہو گیا تھا۔ اب وہ کبھی کبھی گھر جاتا تھا تو بابا سے ایک دو لفظ سے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ بابا اندر کے کمرے میں بیٹھا رہتا تو کمال باہر برآمدے میں جا کر بیٹھتا۔ بابا باہر بیٹھا رہتا تو کمال اندر جا کر بیٹھتا یا الٹا گھر سے باہر نکل جاتا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا تھا! بابا کی موجودگی میں اسے ایک عجیب گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ اس نے یہ بھی دیکھا تھا کہ بابا کو بھی کوئی پیار نہیں تھا کہ بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ باتیں کر لے۔ کچھ دیر ساتھ میں بیٹھنا بھی پڑتا تھا تو دونوں چپ ہوتے۔ گھر میں دوسری تھی اس کی ماں، جو ہر وقت کے رویے اور گھر میں کچھ نہ کچھ نہیں ہونے کی شکایت کرتی رہتی تھی۔ کمال چپ چاپ ماں کی باتیں سنتا رہتا تھا۔ اس نے کبھی بھی ماں کی شکایتوں کو سنجیدگی سے نہیں سنا تھا۔ لیکن کافی وقت کے بعد اسے احساس ہوا کہ ماں سے اس کا رویہ بالکل ویسا ہی تھا، جیسا اپنے بابا کے ساتھ تھا۔ اسے اپنی ماں پر ترس آیا، جسے اس کے شوہر نے تو نظر انداز کر ہی دیا تھا، لیکن بیٹوں نے بھی دھیان نہیں دیا اور پوری عمر اس غریب عورت نے کتنا کچھ جھیلا تھا!

کمال نے خط جیب سے نکالا اور کھڑے کھڑے پھر سے پڑھا۔ وہ اس خط کو پہلے بھی تین بار پڑھ چکا تھا۔ بابا نے لکھا تھا، ’’لوگ اولاد کو جنم دیتے ہیں تو ان کو پڑھا لکھا کر، اپنے پیروں پر کھڑا کر کے، امید کرتے ہیں کہ وہ انہیں مشکل وقت میں سہارا دے گی۔ ہم نے تمہارے لئے کیا نہیں کیا ہے؟ غریب ہوتے ہوئے بھی تمہیں پال پوس کر اتنا بڑا کیا، لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا کہ تم اتنے نالائق ثابت ہو گے، جو اپنی بوڑھی ماں اور بابا، اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کی دیکھ بھال نہیں کرو گے۔ کیا تمہیں تھوڑا بھی احساس نہیں ہے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ ہمیں چھوڑ، ہم نے تمہارے لئے کچھ نہیں کیا، ہم اب مرنے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے بعد ان معصوم لڑکیوں کا کیا سہارا ہے؟ تم تو بچپن سے ہی لا پرواہ ہو۔ نہ ہی ماں بابا کا خیال اور نہ ہی بہنوں کی فکر۔ یہاں تمہاری پاگل ماں تیری شادی کی تیاریاں کر رہی ہے۔ لڑکی والے اب جلدی کر رہے ہیں۔ میرے پاس تو پیسہ نہیں ہے، جو شادی کا خرچ اٹھا پاؤں۔ یہ سب اب تمہیں کرنا ہے۔ اب تو سستی اور بزدلی چھوڑ۔ زندگی میں کچھ سنجیدہ بن، کچھ احساس کر، کچھ کر۔ اس سے زیادہ میں تمہیں اور کیا کہوں۔‘‘

کمال نے خط سمیٹ کر جیب میں ڈالا۔ اس نے روڈ کراس کرنا چاہا، لیکن ٹریفک کا تیز بہاؤ دیکھ کر رکا، اب تب ریڈ سگنل ہو۔ اسے خیال آیا کہ وہ پوری عمر انتظار میں رہا کہ کہیں سے کوئی گرین سگنل ملے گا، کوئی اشارہ ہو گا اور وہ بھی دنیا کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اپنے مسائل کو دلدل سے، اپنے کمپلیکس کے گھیروں سے باہر نکالے گا۔

’’اتنی زندگی بیت گئی، لیکن مجھے کہیں سے بھی کوئی گرین سگنل نہیں ملا آگے بڑھنے کے لئے۔ گرین سگنل ہمیشہ اوروں کے لئے ہوتا ہے۔ باقی لوگ آگے بڑھ جاتے ہیں اور جب میری باری آتی ہے تو ریڈ سگنل روشن ہو جاتا ہے۔ وقت کتنا آگے بڑھ گیا ہے اور میں پیچھے دھکیلتا جا رہا ہوں۔ کسی عضو معطل کی طرح۔‘‘

کمال کو کراچی کی جس آفس میں نوکری ملی تھی، اس میں ابھی تک مطابقت نہیں بٹھا پایا تھا۔ کراچی کے لوگ باتیں کرنے، کام کرنے اور چلنے میں تیز۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ ایسا تیز جائیں گے، جیسے کوئی ایمرجنسی ہو اور لوٹتے وقت بھی اتنی ہی تیزی سے آتے، پھر چاہے انہیں اپنی ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد کوئی کام نہ ہو۔ کمال کا آفیسر مسٹر نظامی باہر سے ایسے تیز تیز آتا تھا کہ سانس بھی کرسی پر بیٹھ کر ہی لیتا تھا۔ یہ مسٹر نظامی، کمال کو لیزی کہہ کر بلاتا تھا، ’’کراچی جیسے تیز شہر میں ایسے تھکے قدموں سے چلو گے تو پیچھے رہ جاؤ گے اور باقی سبھی لوگ تم سے آگے نکل جائیں گے۔‘‘

لیکن کمال اپنے گھر سے جن تھکے قدموں سے باہر نکلا تھا، وہ کراچی میں بھی ویسے ہی رہے۔

’’کیوں؟ میں اوروں کے جیسا نہیں ہو سکتا!‘‘ اس نے خود کلامی کی۔

‘میں اوروں کی طرح تیز طرار اور چالاک نہیں ہوں۔ چلنے میں سست۔ بات کرنی آتی نہیں۔‘‘

’’تم لوگوں کے ساتھ رہے ہو یا جنگلی جانوروں کے ساتھ؟‘‘

وہ کرسٹائین تھی، جس نے اس سے پوچھا تھا۔ کالی ہونے کی حد تک سانولی، مسٹر نظامی کی اسٹینو۔ کمال ڈسپیچ کلرک تھا، اس لئے دونوں کا ایک دوسرے سے رابطہ تھا۔ لیکن کمال نے کوشش کی کہ اس کا رابطہ کم پڑے۔ کرسٹائین کا رابطہ کچھ زیادہ ہی تھا۔

’’تمہارے لئے تو میں جنگل سے پکڑا گیا ایک جانور ہی ہوں، آپ جیسے شہری لوگوں کے لئے دل بہلانے کا ایک ذریعہ۔‘‘

’’او نو۔ تم تو غصہ بھی بہت جلدی ہو جاتے ہو۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ تم دنیا سے کچھ سیکھ۔ کمپلیکس اور ٹے بوز سے باہر نکلو، نہیں تو یہ دنیا تمہیں کچل کر پیچھے چھوڑ دے گی۔‘‘ اور کرسٹائین خود ہی آگے بڑھ کر اس کے پاس آئی تھی۔ کمال نے تو اپنی جانب سے پوری کوشش کی تھی کہ کرسٹائین سے فاصلہ بنائے رکھے۔ اگر وہ خوبصورت نہیں تھی تو بھی پر کشش ضرور تھی۔ صحت مند اور ٹھیک ٹھاک۔ شادی شدہ تھی اور ایک بچے کی ماں بھی تھی۔ لیکن دکھنے میں ابھی بھی لڑکی ہی لگتی تھی۔ شروع شروع میں کمال اس سے باتیں کرتے وقت ڈرتا تھا۔ پہلے کرسٹائین ہی اس کے ساتھ فری ہوئی تھی اور اسے کھینچ کر اپنے نزدیک لائی تھی۔

’’تم ہر بات میں سست ہو، سوائے ایک بات کے۔‘‘

’’شکر ہے، کسی بات میں تو تیز ہوں! کون سی بات ہے وہ؟‘‘

’’تم آتے تیز ہو۔‘‘

کرسٹائین نے قہقہہ لگایا۔ کمال بھی اس کے ساتھ ہنسا، لیکن جلدی ہی گمبھیر ہو گیا۔ وہ پریشان ہو گیا۔

’’اب کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

’’ویسے تو میں تمہیں پہچانتی ہوں۔ سوچنے کے علاوہ تمہیں اور آتا ہی کیا ہے! خیر، بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘

’’یہی تیز آنے پر سوچ رہا تھا۔‘‘

’’یو اسٹوپڈ! یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے۔ میں نے تو مذاق میں کہا تھا۔ یہ تو نیچرل ہے تمہارے جیسے شخص کے لئے۔ جب کوئی زیادہ ہی ایکسائٹڈہوتا ہے نہ، تو جلدی آ جاتا ہے۔ تم خود ہی ٹھیک ہو جاؤ گے۔ اس پر زیادہ سوچ بچار کرو گے تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ لیکن مجھے تمہارا جلدی آنا بھی اچھا لگتا ہے۔ تم کچھ مت سوچو اس بارے میں۔‘‘

کرسٹائین نے اسے زور سے گلے لگا کر ایک لمبا کس کیا تھا۔

بندر روڈ پر تیز ٹریفک کے ساتھ اس کی نظریں بھی دوڑتی گئیں۔ اتنی بڑی دنیا میں ایک کرسٹائین ہی تھی جس سے اسے اپنا پن ملا تھا، جو اس کے وجود کی اندھیرے غار میں گھس آئی تھی اور وہاں جالے صاف کئے تھے۔ اسے انسان بنایا تو کرسٹائین نے۔

’’تم نے مجھے جنگلی جانور سے پالتو جانور بنا دیا ہے۔‘‘

’’بیوقوف ہو تم، پالتو جانوروں کے گلے میں تو پٹا ہوتا ہے۔‘‘

’’وہ پٹا تم ہو۔‘‘

’’نہ ہی تم پالتو جانور ہو اور نہ ہی میں تمہارے گلے میں بندھا پٹا۔ الٹی باتیں مت سوچا کر۔ آدمی ہمیشہ اچھی باتیں سوچے۔ تم شخص ہو اور لوگوں کی طرح عام آدمی۔ آئندہ کبھی بھی الٹی بات مت سوچنا۔‘‘

کمال نے سوچا، ’’لیکن جس شخص کا وجود ہی الٹا ہو، وہ الٹی باتیں نہیں سوچے گا تو اور کیا سوچے گا۔ میں کتنی ہی کوشش کرنے کے بعد بھی دنیا سے مطابقت نہیں بٹھا پایا ہوں۔ ہر جگہ، ہر کسی سے، ہر بات میں مس فٹ۔‘‘ اس کی نظریں آس پاس اور روڈ کے دوسری طرف کی دوکانوں، چیزوں، لوگوں اور گاڑیوں کی اوپر سے گھومتی سگنل پر آ کر ٹھہر گئیں۔ جیسے کہ اسے انتظار ہو کہ اسے کب اشارہ ملے گا، وہاں سے چلنے کا۔ اس اشارے کے انتظار میں پوری زندگی گزر گئی اور اس نے زندگی میں کچھ نہ کیا۔ نہ خود کے لئے، نہ اوروں کے لئے۔

لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے اوروں کے لئے کیا کیا ہے!

‘میں نے تو کسی کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ نہ اپنے گھر والوں کے لئے، نہ ہی کرسٹائین کے لئے۔‘‘

یہ کرسٹائین ہی تھی، جس نے اس کے لئے سب کچھ کیا، لیکن کرسٹائین کے لئے کچھ بھی نہیں کر پایا تھا۔ یہ بات کانٹا بن کر اس کے دل میں چبھ رہی تھی۔ اسے لگا کہ وہ نیچے گر گیا ہے۔ بہت زیادہ نیچے، جہاں سے نکلنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔

’’تم شروع سے ہی اتنے سنگ دل ہو یا اب ہوئے ہو؟‘‘

کرسٹائین نے پوچھا تھا اس سے اور اس نے سوچا تھا کہ کیا وہ اندر بھی اتنا ہی سنگ دل ہے، جتنا باہر سے لگتا ہے! اگر سچ میں ہی وہ اتنا سنگ دل ہے، جیسا اس نے خود کو کبھی نہیں سمجھا تھا، تو اس سنگ دلی کے کیا اسباب تھے؟‘‘

’’میں نے تو ہمیشہ ایسا ہی سمجھا ہے کہ میں حد سے زیادہ جذباتی ہوں۔ معمولی بات بھی مجھ پر بہت بڑا اثر کرتی ہے اور دل میں پیوست ہو جاتی ہے۔‘‘

’’ہاں، تم جذباتی تو ہو، لیکن فقط خود کے لئے، اپنی ذات کی حد تک۔ کسی اور کو کیا تکلیف ہے، کیا مسئلہ ہے، اس کا احساس تمہیں کہاں ہوتا ہے! جہاں تک دوسروں کی جذباتیت کا تعلق ہے، تب تمہاری جذباتیت کہاں غائب ہو جاتی ہے؟‘‘

کمال کو لگا، لائٹ ہاؤس کے سامنے سے گزرتی ساری ٹریفک اس کے اوپر چڑھتی آ رہی ہے۔ اس کی چھاتی کے اندر کوئی چیز کچل رہی تھی۔ کمال نے سینے پر ہاتھ رکھا اور لمبی سانس لینے کی کوشش کی۔ اچانک ریڈ سگنل کے سبب پوری ٹریفک رک گئی۔ سگنل کی لال بتی کمال کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔ اسے ڈر لگا کہ کہیں غش کھا کر فٹ پاتھ پر گر نہ پڑے۔ اس نے سینے کو زور سے دبایا اور پل بھر کے لئے آنکھیں بند کر دیں۔

اس نے خود سے کہا، تم وہ شخص ہو جس نے کبھی بھی کسی کے لئے کچھ نہیں کیا۔ کچھ کرنا تو دور، تم نے کبھی کسی کے لئے سوچا بھی نہیں۔ کوئی ایسا شخص ہے، جو تم سے خوش ہو! تم نے ہمیشہ اوروں سے امیدیں کیں کہ وہ تمہارا خیال رکھیں، تمہارے لئے کچھ کریں۔ تمہارے جینے کا سبب بنیں، لیکن تم نے ان کے لئے کیا کیا ہے؟ لعنت ہے تم پر، تمہارے جینے پر۔

ٹریفک کے شور پر اس نے آنکھیں کھولیں اور سگنل کی بتی کی طرف دیکھا۔ ہری روشنی اس کی آنکھوں میں ٹھنڈک بن کر آئی۔ اس نے خود سے پوچھا، ’’مجھے کبھی زندگی میں گرین سگنل ملے گا؟ پوری زندگی امید رہی، لیکن میرے سامنے سبھی راستے بند رہے ہیں، سب دروازے بند رہے ہیں، جب کوئی راستہ نہ ملے، کوئی دروازہ کھلا نہ ہو تو شخص کہاں جائے؟‘‘ تبھی اسے کرسٹائین کی کہی بات یاد آئی، ’’میرے گھر کا دروازہ تمہارے لئے ہمیشہ کھلا رہے گا۔‘‘ لیکن وہ دروازہ بھی بند ہو گیا تھا اس کے لئے۔

’’میرا شوہر دو سالوں سے امریکہ میں ہے۔ ابھی تک اس کے آنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ پیچھے میں بچے کی ماں بن جاؤں گی تو لوگ کیا کہیں گے؟ میرا شوہر کیا کہے گا؟ تم یہ سمجھتے کیوں نہیں!‘‘

’’تم طلاق لو، میں تم سے ہی شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘

’’اوہ کمال! یہ بات اتنی آسان نہیں ہے۔ طلاق لینے کے پیچھے کوئی سبب ہونا چاہئے۔ میں الگ ہونا چاہتی ہوں، میں کسی اور شخص سے پیار کرتی ہوں اور اس کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ یہ کوئی سبب نہیں ہے۔ دوسری بات تو طلاق اتنی جلدی ملے گی بھی نہیں۔ تب تک تو بچہ بھی ہو جائے گا۔ نہیں، مجھ میں اتنی ہمت نہیں جو میں دوستوں اور رشتے داروں کا سامنا کر سکوں۔‘‘

’’پھر تم کیا چاہتی ہو؟ ابارشن!‘‘

’’اور کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘

’’ہاں اور کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘ کمال کے منہ سے نکل گیا۔ پاس سے گزرتے شخص نے اس کی طرف دیکھا اور چلا گیا۔

لیکن یہ سب اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ بے بسی اتنی تھی جو وہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ کرسٹائین کے لئے اور نہ ہی اپنے ہونے والے بچے کے لئے۔ کرسٹائین چھٹی لے کر چلی گئی۔ اب بس فون پر ہی حال چال پتہ لگ سکتا تھا۔ ایک دن کرسٹائین نے اسے بتایا کہ جو عورتیں ابارشن کروانے میں ماہر ہیں اور بغیر کسی تکلیف کے جلدی ہی پورا کام کر دیتی ہیں، وہ زیادہ پیسے لیتی ہیں۔ کرسٹائین کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے، اس لئے اسے ایسی دائی کی تلاش تھی، جسے وہ افورڈ کر سکتی تھی۔

’’اس میں کوئی خطرہ تو نہیں؟‘‘

’’ہاں، رسک تو ہے۔ ایک دن سے زیادہ بھی لگ سکتے ہیں اور جب تک کچھ ہو، تب تک روز روز دوزخ کی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔‘‘

’’پھر یہ کام کسی اچھی جگہ سے کیوں کروایا جائے۔ جہاں تک پیسوں کا سوال ہے تو کہیں سے ادھار لے لیں گے۔ پھر جب تمہارے پاس ہوں دے دینا!‘‘

’’نہیں، ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔‘‘

چھٹیاں ختم ہونے کے بعد کرسٹائین جب آفس میں آئی تو وہ اسے دیکھنے سے کترا رہی تھی۔ کمال کو لگا کہ وہ کوشش کر کے اس سے دور بھاگ رہی تھی۔ کمال نے بہت سوچا، لیکن اسے کرسٹائین کے اس رویے کا کوئی سبب سمجھ میں نہیں آیا۔

’’کیا بات ہے، کرسٹائین! تم ناراض ہو؟‘‘

’’خود سے پوچھ!‘‘

’’خود سے بہت پوچھا ہے، لیکن کوئی سبب سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘

’’ایسے بچے تو نہیں ہو۔‘‘

’’سچ۔ اب بتاؤ بھی؟ مجھ سے کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی ہے؟‘‘

’’تمہیں کبھی اپنے فرض اور ذمے داری کا احساس ہوا ہے؟‘‘

’’میں سمجھا نہیں!‘‘

’’ہاں، تم کیوں سمجھو گے! تمہیں ضرورت ہی کیا ہے۔‘‘

’’لیکن تم صاف صاف کیوں نہیں بتاتی؟‘‘

’’میرا کوئی حق نہیں ہے تم پر؟ میں نے اتنی تکلیف برداشت کی، ابارشن کروایا۔ تم نے کیا کیا میرے لئے؟‘‘

’’میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ کسی اچھی جگہ سے کرواؤ۔ پیسوں کا بندوبست میں خود ہی کر لوں گا۔‘‘

’’جی نہیں۔ تم نے کہا تھا کہ کہیں سے ادھار لے لوں گا اور جب میرے پاس ہو جائیں تو واپس کروں۔ ادھار میں نہیں لے سکتی تھی کیا کہیں سے؟‘‘

’’میں نے سوچا کے اگر میں کہوں گا کہ تمہارے ابارشن کے پیسے میں دوں گا تو تمہیں برا لگے گا۔ مجھے پتہ ہے کہ تم خوددار ہو، اس لئے ڈر لگا کہ تم غصے میں نہ آ جاؤ۔‘‘

’’اصل میں تمہیں اپنی خود داری کا احساس تھا کہ کہیں میں انکار نہ کر دوں۔ تمہیں بس اپنا احساس ہوتا ہے۔ اوروں کا تو تمہیں ذرا بھی خیال نہیں ہوتا ہے۔ میں نے تو تمہارے جیسا سنگ دل انسان نہیں دیکھا ہے۔ مجھے نفرت ہے ایسے لوگوں سے۔‘‘

کمال کو لگا کہ وہاں کھڑے کھڑے اسے کافی وقت ہو گیا ہے۔ اسے خیال آیا کہ وقت کافی آگے نکل چکا ہے اور اس کے کرنے کے لئے اب کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ کسی کے لئے کچھ کرنے کے لائق نہیں تھا۔ اب اس کے جینے کا کوئی سبب نہیں رہ گیا تھا۔ فقط جینے کی خاطر جینا، اوروں سے تعلق توڑ کر اور کٹھور بن کر جینا بیکار تھا۔ اس نے جیب میں رکھے خط کو ہاتھوں سے چھوا اور کہا، ’’میرا ہونا اوروں کی تکلیف کا باعث ہے۔ میں ہوں تو اوروں کی مجھ سے جھوٹی امیدیں ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ لیکن جنہیں پتہ نہیں، انہوں نے ہمیشہ میرے ہاتھوں دھکے کھائے ہیں اور بعد میں جانا ہے کہ میرا وجود ایک فراڈ ہے۔ دھوکا ہے۔ کیا یہ ایسے ہی چلتا رہے گا؟ کب تک! کب تک! ۔۔‘‘

اسکی نظریں ٹریفک سگنل کی طرف گئیں۔ لال بتی بند ہو گئی اور پیلی بتی روشن ہو گئی۔ کمال کے دماغ میں بجلی کوند گئی۔ اسے لگا کہ پیلی بتی نے اسے اشارہ دیا تھا تیار رہنے کا۔ وہ خوش ہو گیا۔ ’’مجھے اشارہ مل گیا۔ اشارہ مل گیا۔‘‘ اس کے دماغ میں ایک جملہ، ریکارڈ پر پھنسی سوئی کی طرح بجنے لگا۔ ہری بتی جلنے سے ٹریفک رواں ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی کمال کا پیر بھی آگے سڑک کی سمت بڑھ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بد یقین

 

 

اسپتال کے آگے پھیلے چوڑے لان پر کتنے ہی شخص بیٹھے تھے۔ مریضوں کے رشتے دار عورتیں اور مرد، ان کے ساتھ آئے بچے اور کچھ مریض بھی جو گھومنے پھرنے لائق تھے اور تازی ہوا کھانے کے لئے باہر نکلے تھے۔ شام ہونے کو تھی۔ لان کا رنگ زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ لان کے چاروں جانب رنگ برنگے پھول ہلکی ہلکی چلتی ہواؤں پر ہل رہے تھے۔ الیاس پھولوں اور بچوں کو ویران نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دھیان پروین کی جانب مرکوز تھا، جو جنرل وارڈ کے ایک بستر پر ادھ موئی حالت میں پڑی تھی۔ الیاس کو لگا کہ وہ دھیرے دھیرے تباہی کی سمت بڑھ رہا تھا یا تباہی اس کی سمت بڑھ رہی تھی! اگر، اگر۔ اچانک ایک بچہ دوڑتے دوڑتے منہ کے بل جا گرا۔ الیاس ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور بچے کو اٹھانے کے لئے بڑھا، لیکن تب تک بچے کی ماں نے دوڑ کر بچے کو اٹھا لیا۔ الیاس بیٹھ گیا۔ ’’بچوں کو پھولوں کی مانند کیوں کہا جاتا ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ شاید اس لئے کہ پھول کچھ وقت تک تازے رہتے ہیں اور جب بڑے ہوتے ہیں تو ان کے اندر نہ خوشی رہتی ہے اور نہ بے پروا پن۔ الیاس کو اپنے بچے یاد آئے۔ اسے لگا کہ اس کے بچے وقت سے پہلے بڑے ہو گئے تھے۔ ان کو ہر بات پر ڈرایا جا رہا تھا، ہر چیز کے لئے ترسایا جا رہا تھا۔ ’’اور میں تو کبھی بچہ ہی نہیں تھا۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ میں نے کبھی بچپن میں کوئی مطالبہ کیا ہو!‘‘

اس نے خود بھی تو پوری زندگی ترس ترس کر گزاری تھی، لیکن اس نے چاہا تھا کہ اس کے بچے، بچے ہی رہیں اور ان کی ضرورتیں ادھوری نہ رہیں۔

’’ہو سکتا ہے والد صاحب نے بھی میرے لئے ایسا ہی چاہا ہو! ہر رشتے دار ایسا ہی چاہتا ہے اور اپنی پوری زندگی، اپنی سبھی خوشیاں اولاد کو دینا چاہتا ہے، لیکن ہوتا کیا ہے؟ اس کی زندگی پستی جاتی ہے اور خوشیاں اس کے پاس ہی نہیں تو اولاد کو کیا دے گا؟ یہ سب دھوکہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کے پاس اپنی اولاد کو دینے کے لئے نہ خوشی ہے اور نہ ہی سکھ ہے۔ حقیقت میں اس کے پاس جو دکھ اور تکلیفیں ہیں، اس میں اپنی اولاد کو حصے دار بنانا چاہتا ہے اور ہم جیسے لوگوں کو اولاد چاہئے ہی اس لئے۔‘‘

اس نے لان پر دوڑتے کھیلتے بچوں کی اور دیکھا۔ ’’اگر کوئی اپنی اولاد کو خوشیاں اور سکھ نہیں دے سکتا ہے تو اسے اولاد پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ظلم ہے، اسے روکنا چاہئے۔‘‘ اسے احساس ہوا کہ یہ بات وہ خود کو کہہ رہا تھا۔ ’’پہلے تو میں نے اپنے بچوں پر جو ظلم کیا ہے، مجھے اس کی سزا ملنی چاہئے، لیکن مجھے تو پہلے سے ہی اس کی سزا مل رہی ہے۔ اگر پروین نہیں بچتی ہے۔ اوہ میرے خدا! پھر؟ چھوٹے بچوں کا کیا ہو گا؟ انہیں کون سنبھالے گا؟ نہیں نہیں، میں انہیں دکھوں اور تکلیفوں میں نہیں دیکھ پاؤں گا۔‘‘ اسے لگا کہ وہ تباہی کے کنارے پر کھڑا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور چلنے لگا۔ اس کا رخ جنرل وارڈ کی طرف تھا۔ ڈاکٹروں نے اسے بتایا کہ پروین کے بچنے کی امید کم ہے۔ الیاس چلتے چلتے رک گیا۔ ’’لیکن میں جا کیوں رہا تھا؟ ابھی ابھی تو پروین کے یہاں سے ہو کر آیا ہوں، پھر ایک دم۔ میں نے کچھ دیر مریضوں کے کراہنے اور دواؤں کی بدبو سے دور رہ کر، باہر کھلی ہوا میں سانس لینی چاہی اور اب پھر سے واپس لوٹ جاؤں وہاں!‘‘ وہ لان میں آ کر بیٹھ گیا۔

اتنے دنوں تک وہ اسپتال میں رہ کر خود کو مریض محسوس کرنے لگا تھا۔ اسے یاد آیا کہ کل اسے دواؤں کے لئے پیسے لگیں گے۔ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اور ایسا کوئی شخص بھی نہیں سوجھ رہا تھا جس سے قرض لے۔ اس نے جو قرض لیا تھا، ابھی تک وہ بھی واپس نہیں کر پایا تھا۔ ایسا کون تھا، جو قرض کے اوپر قرض دیتا رہے۔ جن دوستوں کو ڈر تھا کہ الیاس ان سے قرض لے گا، انہوں نے اس سے ملنا چھوڑ دیا تھا اور جن سے اس نے قرض لیا تھا، وہ بھی اس سے اس لئے ملنے سے کترا رہے تھے کہ کہیں وہ مزید قرض نہ لے لے۔

’’پروین کی بیماری کتنی لمبی کھنچ گئی ہے! اس کی بیماری کے پیچھے سب کچھ ختم ہو گیا۔ گزر بسر کیسے ہو گا۔ جب اسے مرنا ہی ہے تو پھر یہ تاخیر۔‘‘ اس نے ایک دم سے خود کو روک لیا۔ ’’پتہ نہیں میں کیا کیا سوچ رہا ہوں۔ پروین کے بغیر میرا گھر بکھر جائے گا۔ آخر کہاں پہنچیں گے؟ انجام کہاں پر ہے، یا خدا! انجام کدھر ہے؟‘‘ اس کے دل میں آیا کہ ہاتھوں سے منہ چھپا کر سسک کر روئے۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ سوکھے ہاتھ اور ہڈی جیسی انگلیاں، جیسے کسی مردے کے ہاتھ تھے۔ ہتھیلیاں لکڑی کی طرح سخت تھیں، گوشت تو تھا ہی نہیں۔ ہاتھوں کے پیچھے بڑی نیلی نسیں ابھری ہوئی تھیں۔

’’یہ میرے ہاتھ ہیں؟‘‘ اسے اس بات کا احساس پہلی بار ہوا۔ ’’میرے ہاتھ ایسے تو نہیں تھے۔‘‘ اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ’’میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کو کیا نقصان پہنچتا۔ لیکن اگر مجھے ہی دکھ اور تکلیفیں برداشت کرنی تھیں تو میرے بچوں کی کیا خطا ہے۔ مجھے ملی سزا، یہ میرے ساتھ کیوں کاٹیں؟ ہاں، انہیں بھی میرے ساتھ یہ دکھ اور تکلیفیں برداشت کرنی ہیں، جب تک وہ اس لائق ہوں کہ اپنے مقدر کو میرے مقدر سے توڑ کر الگ کر دیں۔ لیکن اگر میرے بچوں کو میرے دکھ اور تکلیفیں ورثے میں ملیں تو۔‘‘ وہ ڈر گیا۔

پروین نے اسے کہا تھا، ’’ہم کیسے بدنصیب ہیں، جو اپنی اولاد کی معمولی فرمائش بھی پوری نہیں کر سکتے۔‘‘ تب اس نے اسے جواب دیا تھا، ’’فقط ہم ہی نہیں ہیں، ہمارے جیسے اور بھی کئی ہیں۔ کئی ہیں ہی ہمارے جیسے۔ ایسے شخص تو تھوڑے ہیں، جن کے بچے کبھی کسی چیز کیلئے نہیں ترستے ہوں۔‘‘ پروین نے اس کی جانب تعجب سے دیکھا تھا۔ اسے الیاس کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی، یا اس کے غصہ آیا تھا کہ الیاس اس کی بات کو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا۔ الیاس نے سوچا تھا کہ اب وہ یہی سمجھے گی کہ اسے اپنے بچوں کا کوئی خیال نہیں۔ ’’ہر ماں ایسا ہی سمجھتی ہے۔ میری ماں بھی والد صاحب کو ہمیشہ ایسا ہی کہتی تھی کہ تجھے اپنے بچوں کی کوئی فکر نہیں، کوئی فکر نہیں جیسے کہ اب والد صاحب چاہتے تو سب مصیبتیں ختم ہو جاتیں اور ہم خوشحال ہو جاتے؟ الیاس کو تعجب ہوا کہ جب وہ بچہ تھا، تب وہ خود بھی اپنے والد کے لئے ایسا ہی سوچتا تھا۔ اسکول میں کتاب یا کاپی نہ ہونے پر، فیس نہیں دے پانے کے سبب ماسٹر مارتا تھا، یا وہ کوئی چیز لینا چاہتا تھا تو لے نہ پاتا تھا، تب اپنے والد کو قصور وار سمجھتا تھا۔

اچانک اسے خیال آیا کہ کہیں اس کے بچے بھی تو یہی نہیں سمجھتے ہو نگے؟ اسے یاد آیا کہ جب بھی وہ بچوں کی کوئی فرمائش پوری نہیں کر پتہ تھا تو بچے اسے ایسے دیکھتے تھے، جیسے وہ جان بوجھ کر وہ چیز نہیں لے کر دے رہا ہو۔ اگر چاہے تو لے سکتا ہے۔ وہ بچوں کو کتنا بھی بتاتا کہ بھائی ہم غریب ہیں، ہم میں وہ چیز لے پانے کی طاقت نہیں ہے، لیکن بچوں کو یقین نہیں ہوتا تھا۔

’’اپنے بچوں کی نظروں میں، میں جھوٹا اور کنجوس ہوں۔ پروین سمجھتی ہے کہ مجھے بچوں کا خیال نہیں، میں ان کے لئے کچھ نہیں کرتا، بچے سمجھتے ہیں کہ میں کنجوسی کر رہا ہوں۔‘‘ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ جی میں آیا کہ لان پر لیٹ جائے، لیکن وہ بیٹھا رہا جیسے کہ اس میں چلنے پھرنے کی طاقت ہی نہ بچی ہو۔ وہ باہر سے جتنا خاموش اور پتھر بنا کھڑا تھا، اندر سے اتنا ہی ٹوٹ رہا تھا۔ اس کے اندر اٹھنے والی سوچ کی لہریں ایک جگہ ٹھہر کر جم گئیں۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کے سر کی نسیں درد کی وجہ سے کھنچ کر پھٹ رہی تھیں۔ اسے وہاں بیٹھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ ’’اتنی دیر تک پروین کو اکیلا چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ اب پروین کے پاس سے ہو کر گھر جاؤں گا اور پروین کی ماں کو اسپتال بھیجوں گا۔ بچوں کے پاس بھی جا کر کوئی تسلی دوں۔‘‘ وہ ہتھیلی کے زور پر اٹھ کھڑا ہوا اور دھیرے دھیرے چلنے لگا۔

جنرل وارڈ کے بڑے چوڑے ہال میں بلب جل چکے تھے۔ ہلکی روشنی میں پروین کے منہ کا پیلا پن بڑھ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ الیاس پلنگ کے پاس کھڑا ہو کر اسے کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ وہ ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ گئی تھی۔ گوشت جیسی کوئی چیز اس کے بدن پر تھی ہی نہیں۔

پروین نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔ شاید اس نے اپنے پاس الیاس کے آ کر کھڑے ہونے کو محسوس کر لیا تھا۔

’’تم کہاں چلے گئے تھے؟‘‘ پروین نے شکایتی انداز میں اس سے پوچھا۔

’’کیوں میں تو یہیں تھا۔‘‘ الیاس کو اس کا سوال عجیب لگا۔

’’نرس بھی پتہ نہیں کہاں گئی ہے، پیاس سے مر رہی ہوں۔‘‘

الیاس پانی کا گلاس بھر کر لایا اور پروین کو کندھے کے پیچھے ہاتھ کا سہارا دے اٹھایا۔ پروین نے پانی کے دو تین گھونٹ بھرے اور گلاس لوٹا دیا۔

’’بس، پیاس بھی اتنی۔ اس کی مرضی یہ ہے کہ میں پورا دن اس کے پاس بیٹھا رہوں۔‘‘ اس نے چڑ کر سوچا۔

’’آج شام کو بچے بھی نہیں آئے۔ جب تک زندہ ہوں، تب تک تو ان کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کروں۔‘‘ پروین خود سے باتیں کرتی چپ ہو گئی۔ الیاس سمجھ گیا کہ اس نے یہ بات اسے بتانے کے لئے کی تھی۔

’’میں اکیلا آدمی کیا کیا کروں! آفس جاؤں، اسپتال جاؤں اور روز روز بچوں کو بھی لے کر آؤں۔ آخر کہاں کہاں پہنچوں!‘‘ اسے محسوس ہوا کہ اس کی آواز میں پریشانی اور بیزاری تھی۔

’’اب تو خدا اپنے پاس بلا لے۔ اس حال میں تو ہر کوئی پریشان ہو جائے۔‘‘ پروین نے اور بھی کچھ کہنا چاہا، لیکن اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔

’’تم بیکار میں ایسی باتیں کیوں سوچتی ہو؟ پریشان کون ہوا ہے!‘‘ اس نے پروین کو تشفی دی، لیکن اسے یہ سب بیکار لگا۔ اور اس کی آواز میں بھی تشفی والی کوئی بات نہیں تھی۔ اسے تعجب ہوا کہ اسے اچانک یہ کیا ہو گیا تھا!

’’بدنصیب عورت! میں نے اسے کبھی پیار نہیں دیا۔ میں نے اسے ہمیشہ اپنے گلے کا پتھر سمجھا۔ اپنی سبھی مصیبتوں کا سبب سمجھا۔ میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ میرے گلے میں نہ پڑتی تو جان چھوٹ جاتی۔‘‘

الیاس کے دل میں پروین کے لئے ہمدردی کی لہر اٹھی۔ اس نے چاہا کہ پروین کو تسلی دے۔

’’تم کوئی فکر مت کر پروین، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اب تھوڑے ہی دنوں میں تمہیں گھر جانے کیلئے چھٹی دے دے گا۔‘‘

پروین نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے منہ پر دکھ اور لاچاری کے چھائے بادل کچھ زیادہ ہی گہرے ہو گئے اور اس کی نظروں میں بد یقینی تھی۔ الیاس کو اپنے لفظ کھوکھلے لگے، جن کا کوئی مطلب نہیں تھا، کوئی اہمیت نہیں تھی۔

’’میں آتا ہوں۔‘‘ وہ جلدی باہر نکل گیا۔

اسپتال کا لمبا کاریڈور ویران تھا۔ کاریڈور میں ملگجے بلب جل رہے تھے، جن کی ہلکی روشنی نے ویران ماحول میں مزید اداسی بھر دی تھی۔ الیاس ایک کھڑکی کے آگے کھڑا ہو گیا۔ باہر ان گنت بلب جل رہے تھے۔ اچانک اس کی سسکی نکل گئی اور وہ دھیرے دھیرے رونے لگا۔ لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں رو رہا تھا، پروین کے لئے، بچوں کے لئے یا خود اپنے لئے؟

٭٭٭

 

 

 

 

قصور وار شخص

 

اس نے سگریٹ پینی کب کی چھوڑ دی تھی، لیکن جس بات کے لئے اس نے سگریٹ چھوڑی تھی، اس بات نے اسے نہیں چھوڑا تھا۔ غلام محمد کو جب کھانسی کا دورہ پڑتا تھا تو کھانس کھانس کر ادھ مرا ہو جاتا تھا۔ اب بھی اس نے جیسے ہی کھانسی کو روکنے کی کوشش کی، ویسے ہی اس کے گلے میں سڑسڑاہٹ تیز ہو گئی۔

اسے اپنی تکلیف کا خیال نہیں تھا۔ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ اس کی کھانسی گھر والوں کی نیند خراب کر دے گی۔ ہوا بھی ایسے ہی۔ اس کا بڑا بیٹا انور کچی نیند میں پریشان ہو کر چیخا، ’’توبہ!‘‘ پھر باپ کو کچھ کہنے کے بجائے، اس نے ماں کو آواز دی۔

’’ماں! ہم کیوں آ کر پھنسے ہیں۔ رات کے چار پہر نیند بھی حرام ہے ہماری۔‘‘

’’بس بابا، پتا کو کیا پرواہ ہے۔ کھانے اور کھانسنے کے علاوہ اور کیا کام ہے!‘‘ مریم نے چڑتے ہوئے کہا۔

’’کھائے تو بھلے بیٹھ کر آئے، پتہ نہیں کما کے رکھا ہو گا، لیکن کم سے کم نیند تو خراب نہ کرے۔‘‘

’’بابا نے پہلے کبھی بچوں کا خیال کیا ہے، جو اب کرے گا۔‘‘ مریم نے منہ بنا کر کہا اور پھر سے کھاٹ پر لیٹ گئی۔

’’ہم جو پیدا ہو کر پھنسے ہیں۔‘‘ انور نے پریشان ہو کر کہا۔

’’بھائی، ایسے جان نہیں چھوٹے گی۔ بابا کو ڈرائینگ روم میں کھاٹ ڈال کر دو۔ پھر چاہے کھانستا رہے۔‘‘ چھوٹے بیٹے احمد نے انور کو صلاح دی۔

’’واہ کیا خوبصورت مشورہ دیا ہے!‘‘ انور نے غصے میں کہا۔ ’’ڈرائینگ روم میں بلغم کی نمائش کروا کر خود پر لوگوں کو ہنسوائیں!‘‘

غلام محمد سب کچھ ایسے سن رہا تھا، جیسے کہ کسی اور شخص کا ذکر چل رہا ہو، لیکن بعد میں اس سے برداشت نہیں ہوا۔ وہ کھانسی کو جان بوجھ کر روک کر چلایا۔ ’’مجھ میں کون سے کیڑے پڑے ہیں، جو لوگ مجھ پر ہنسیں گے؟‘‘

’’تم سے کس نے بات کی؟ بیچارے آپس میں بات کر رہے ہیں، تم فالتو غصے مت ہو۔ چپ چاپ بیٹھ کر کھانسو!‘‘ مریم نے غصے میں کہا۔

’’آپس میں باتیں کر رہے ہیں! میری باتوں کے علاوہ اور کوئی بات ہے کیا اس گھر میں؟‘‘ غلام محمد کو بھی غصہ آ گیا۔

مریم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’تم چاہے گھر والوں کی نیند خراب کرو! اور تمہیں کوئی کہے تو اسے گلے سے پکڑتے ہو!‘‘ مریم نے انور اور احمد کی طرف مدد کے لئے دیکھا۔

انور نے اٹھ کر باپ کے آگے دونوں ہاتھ باندھے۔

’’بھئی، اب ہم پر رحم کرو۔ پورا دن محنت کر کے رات کے چوتھے پہر پر آ کر سوتے ہیں۔ وہ تو خراب مت کر۔‘‘

’’کھانس کھانس کر پورا گھر بلغم سے بھر دیا ہے۔ پتہ نہیں کون سی بیماری ہے!‘‘ مریم نے غصے میں خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔

’’میں کوئی خوشی سے کھانس رہا ہوں! بلغم آتا ہے تو کہاں کروں؟‘‘ غلام محمد نے دبی آواز میں کہا۔

’’بھائی! پتاجی کو کسی اسپتال میں بھرتی کروا دو۔ گھر میں سب کو بیمار کر دے گا۔‘‘ احمد نے انور سے کہا۔

’’ہاں بھائی! آخرکار بیٹوں سے یہی امید کی جا سکتی ہے۔ کسی اسپتال میں جا کر پھینک آؤ۔ سب کی جان چھوٹ جائے گی۔‘‘ غلام محمد نے دکھی ہو کر کہا۔

’’اب سنو رانڈوں جیسے طعنے!‘‘ مریم نے انور اور احمد کی جانب دیکھ کر کہا۔

’’اس لئے تو بابا سے بات نہیں کرتے ہیں۔‘‘ انور نے غصے میں کہا۔

غلام محمد چپ ہو گیا۔ سمجھ گیا زیادہ بات کرنا ٹھیک نہیں۔ بیکار بات بڑھ جائے گی۔

’’بھائی، یہ بابا نہیں، دشمن ہے بچوں کا!‘‘ مریم غصے میں منہ گھما کر لیٹ گئی۔

غلام محمد کو پیاس لگی۔ لیکن اسے پتہ تھا کہ یہ بات کرنا ہی بیکار تھا۔ بیٹا تو دور، لیکن بیوی بھی اٹھ کر اسے پانی نہیں پلائے گی۔ وہ کھاٹ سے اٹھ کر کولر کے پاس گیا۔ اسے اپنا خاص گلاس اپنی مقر رہ جگہ پر رکھا نظر نہیں آیا۔ اس نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔

’’میرا گلاس کہاں ہے؟‘‘ اس نے لاچار ہو کر مریم سے پوچھا۔

’’وہیں کہیں پڑا ہو گا۔‘‘ بیوی نے جواب دیا۔ ’’اپنا گلاس سنبھال کر رکھا کرو۔‘‘

’’میں جہاں پر رکھتا ہوں، وہاں تو نظر ہی نہیں آ رہا!‘‘ غلام محمد نے شکایتی انداز میں کہا۔

’’ہاں، تیرا گلاس سونے کا ہے! کوئی چرا کر لے گیا ہو گا۔‘‘ بیوی نے طعنہ مارا۔

’’ہم تو اس گلاس کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’اس گلاس میں پانی پی کر کسے بیمار ہونا ہے؟‘‘

غلام محمد کو غصہ آ گیا۔

’’مجھے کون سی دمے کی بیماری ہے جو میرے گلاس میں کوئی پانی پیئے گا تو بیمار پڑ جائے گا!‘‘

’’دمے کو کون سے سینگ ہوتے ہیں! باقی یہ بلغم کیسا ہے؟ دیکھ کر الٹی سی آتی ہے۔‘‘ بیوی نے چڑ کر کہا۔

’’بھائی، پڑھ لکھ کر پتہ نہیں کیا کیا! گھر میں ادھر ادھر بلغم پھینکتا رہتا ہے۔‘‘ انور نے منہ بنا کر کہا۔

غلام محمد نے کچھ کہنا چاہا تو اس کی نظر اپنے گلاس پر پڑی، جو دور کونے میں نیچے زمین پر پڑا تھا۔ اسے کولیوں اور مینگھواڑوں کے گلاس اور کپ یاد آ گئے، جو چھوٹے شہروں میں ہوٹلوں پر کسی خاص جگہ پر رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اب اپنے گھر میں شیڈیولڈ کاسٹ کا ہو گیا تھا۔ اس نے گلاس اٹھایا، کولر سے پانی بھر کر پی کر اس گلاس کو مقر رہ جگہ پر رکھا اور پھر آ کر کھاٹ پر لیٹ گیا۔

لعنت ہے ایسے جینے پر! شخص بوڑھا ہو کر کتنا ذلیل ہو جاتا ہے۔ ساٹھ سالوں کے بعد نوکری سے ریٹائر ہونے کے ساتھ اگر شخص زندگی سے بھی ریٹائر ہو جائے تو اچھا۔ باہر تو کوئی نہیں پوچھتا، لیکن گھر میں بھی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے۔‘‘

اسے احساس ہوا کہ اب وہ کسی کام کا نہیں رہ گیا تھا۔ لیکن جب وہ نوکری میں تھا، تب بھی گھر والے اس سے خوش نہیں تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد گھر والوں کی اس کے خلاف، سب سے بڑی شکایت یہی تھی کہ اس نے نہ خود کو سنوارا اور نہ ہی بچوں کے مستقبل کے لئے ہی کچھ کیا۔

’’تم جب ریٹائر ہو گے تو حکومت تمہاری ایمانداری کے سبب تمہیں سونے سے تولے گی۔‘‘ بیوی اسے طعنے مارتی تھی۔ تب غلام محمد کا بھی رعب تھا، بیوی کو ڈانٹ کر چپ کرا دیتا تھا۔ لیکن اب تو وہ رعب ہی نہیں رہا تھا۔ مریم اور بچوں کے آگے بے بس ہو گیا تھا۔ انور زیادہ تر اس سے بات ہی نہیں کرتا تھا، کبھی بات بھی کرتا تھا تو غصے میں۔

’’تم نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے؟ کار تو دور، تم نے ہمیں سائیکل بھی لے کر نہیں دی اور تم سے کم گریڈ والوں کے بچے کاروں میں بیٹھ کر گھوم رہے ہیں۔‘‘

انور موٹر سائیکل والی پرانی بات بھولا نہیں تھا۔ غلام محمد جب نوکری میں تھا اور انور کالج میں پڑھتا تھا، تب اس نے موٹر سائیکل لے کر دینے کی ضد کی تھی۔

غلام محمد نے سختی سے انکار کر دیا تھا۔ ایک ٹھیکیدار غلط بل پاس کروانے کے لئے، غلام محمد کے گھر کے چکر کاٹنے لگا۔ غلام محمد تو اس سے نہیں ملتا تھا، لیکن ٹھیکیدار نے انور کی موٹر سائیکل والا شوق پتہ کر لیا تھا۔ ٹھیکیدار ایک نئی موٹر سایکل لے کر انور کو دے گیا۔ غلام محمد نے گھر پر موٹر سائیکل دیکھی تو طیش میں آ گیا۔ اس نے انور سے موٹر سائیکل چھین کر ٹھیکیدار کو واپس کر دی۔ انور اور مریم نے اسی دن فیصلہ کر لیا کہ غلام محمد ان کا دشمن ہے۔

روٹی، کپڑا اور مکان، غلام محمد کے ہاتھ میں تھا، اس لئے گھر کے لوگ مجبور تھے، ورنہ گھر میں وہ کسی کو پسند نہیں تھا۔ وہ دبی نفرت اب ظاہر ہو گئی تھی۔

غلام محمد بھی سمجھ گیا تھا کہ وہ گھر میں قصوروار شخص تھا۔ لیکن اس کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ اپنے ہی گھر میں اس کی حیثیت قصوروار شخص کی مانند تھی۔

‘ایمانداری میرا اندرونی چین تھا یا ایک ضد تھی؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ اس کی اس ضد کے سبب کئی لوگوں کو تکلیف پہنچی ہو گی! اس کا کسی کے اوپر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ ہر کسی پر شک کرتا تھا کہ لوگ ان سے بے ایمانی کروانا چاہتے ہیں۔ اس شک میں وہ لوگوں کے جائز کاموں کو بھی روک دیتا تھا۔ جب تک وہ نوکری میں تھا، لوگ اس سے تنگ تھے اور اب گھر والوں پر بوجھ تھا۔ اسے لگا کہ اس سوسائٹی میں یا شاید دنیا میں ہی وہ مس فٹ تھا، لیکن اب اس بات پر سوچنا بیکار تھا۔ اس نے بیوی اور بچوں کی جانب دیکھا۔ سب سو چکے تھے۔ اس کے گلے میں پھر سے سڑسڑاہٹ ہوئی۔ اس کے دونوں ہاتھ اپنے گلے کی طرف بڑھ گئے، کھانسی کو دبانے کے لئے۔ اس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ وہ بڑی تکلیف سے کھاٹ پر سے اٹھا اور ہونٹ دبا کر دبے طریقے سے کھانستا لیٹرین میں گھس گیا۔ اس کے بعد تو جیسے آتش فشاں ہی پھٹ پڑا۔ وہ ایک ہاتھ چھاتی پر اور دوسرا ہاتھ منہ پر رکھ کر کھانستا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ٹھہرا پانی

 

 

تالاب کے کنارے پر بیٹھے اسے بہت دیر ہو گئی تھی، اس کا اس نے اندازہ لگانا چاہا۔ کچھ پل! لیکن اب شام ہو گئی تھی۔ پورا دن! نہیں، جہاں تک مجھے یاد آ رہا ہے میں کئی دنوں سے بیٹھا ہوں۔ ایک ہفتہ ہو گیا ہو گا! مہینہ! نہیں، کئی سال گزر گئے ہیں مجھے یہاں بیٹھے۔ پہلے اس تالاب میں لہریں تھیں۔ پانی کنارے سے لگ کر لوٹتا تھا اور پھر سے آ کر کنارے پر لگتا تھا۔ لیکن اب تو پانی میں کوئی ہلچل نہیں ہے۔ پانی ایک جگہ ٹھہر گیا ہے۔ جم گیا ہے۔ مجھ جیسایا میں اس تالاب کی طرح۔ اس بات پر سوچنا بیکار ہے۔ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ نکلنے والا بھی نہیں۔ لیکن یہ بات صاف ہے کہ یہاں بیٹھے مجھے کئی سال گزر گئے ہیں اور میں نے تالاب کے پانی کو ایک دن ہواؤں پر چھلک چھلک کر جمتے دیکھا ہے۔ اسے بھی کافی وقت ہو گیا۔

میں جب خود کو دیکھتا ہوں تو جیسا بوڑھا آج ہوں ہمیشہ ایسا ہی رہا ہوں۔ میں کبھی بچہ نہیں تھا۔ کبھی نوجوان نہیں تھا۔ کبھی تھا، تو مجھے یاد نہیں۔ اندرونی طور پر ہمیشہ ایسا ہی دیکھا ہے خود کو۔ جب بیوی تھی، بچے تھے، تب بھی تنہا تھا۔ بیوی مجھے کبھی اچھی نہیں لگی۔ پھر بھی بچے ہوئے۔ گھر بھرا۔ پھلا پھولا۔ بچوں کے بچے ہوئے۔ یہ پورا وقت میں اکیلا تھا۔ اب جب وہ مر گئی ہے اور جب مری تھی، تب میں نے خود کو آزاد محسوس کیا۔ لیکن اس کے بعد اکیلا پن مزید بڑھ گیا۔ یہ کیا ہے۔ وہ تھی تو گھر میں شور تھا۔ جھگڑا تھا۔ بچوں کے مسائل تھے۔ اب کچھ نہیں رہا ہے۔ گھر، گھر نہیں رہا۔ میرے لئے نہیں رہا۔ اوروں کا ہو گیا ہے۔ گھر میں میرا وجود نا پسندیدہ ہے۔ کسی کی کھٹ پٹ نہیں۔ کوئی جھگڑنے والا نہیں۔ ہوں یا نہیں ہوں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نہیں، یہاں پر میں غلطی کر رہا ہوں۔ میرے ہونے سے فرق پڑتا ہے۔ بوجھ ہوں میں۔ لوگ بڑھ گئے ہیں اور گھر تنگ ہو گیا ہے۔ میں ناپسندیدہ شے کی طرح جگہ بھر کر بیٹھا ہوں۔ یہ کسی ضرورت مند کے کام آ سکتی ہے۔ انسان بھی کسی شے کی طرح ہے۔ جب تک وہ شے کارگر ہے اسے سنبھال کر رکھیں گے۔ اس کا کام ختم ہوا تو وہ شے بیکار بن جائے گی۔ اسے باہر پھینک دیتے ہیں۔ انسان کا انجام بھی یہی ہے۔ چیزوں کی طرح انسان بھی بیکار ہو جاتا ہے۔ کچھ مرنے سے پہلے مجھ جیسے۔ کچھ مرنے کے بعد۔ انجام دونوں ہی صورتوں میں وہی ہے، بوجھ کو پھینک کر آنے کا۔

مجھے دکھی ہونا نہیں چاہئے۔ اس نے خود کو یقین دہانی دینی چاہی۔ یقین دہانی میں خود کو دیتا آیا ہوں۔ اس سے ہوتا کچھ نہیں۔ اب بھی کچھ نہیں ہو گا۔ میرا اکیلا پن ختم نہیں ہو جائے گا۔ میرے دکھ نہیں ہو جائیں گے۔ سب کچھ ایسا ہی چلتا رہے گا۔ یہ سبھی باتیں میرے ساتھ رہنے والی ہیں اور میرے ساتھ ہی ختم ہونے والی ہیں۔

تالاب میں پانی جم کیوں گیا تھا، اس نے خود سے پوچھا۔ کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ پانی میں ہلچل ہوتی ہے۔ ہلچل کا بند ہونا، اسے سمجھ میں نہیں آیا۔ اسے خیال آیا کہ پتھر کو اٹھا کر تالاب میں پھینکے۔ پھر دیکھیں کہ پانی میں ہلچل ہوتی ہے یا نہیں۔ اس نے پتھر اٹھانے کے لئے ہاتھ اٹھایا، لیکن اس میں کوئی تحریک نہیں ہوئی۔ وہ ڈر گیا۔ اسے تعجب سے زیادہ ڈر لگا۔ یہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ اس کا بدن سن کیوں ہو گیا تھا۔ بدن میں کوئی حرکت نہیں تھی۔ جیسے بدن پر چٹان گری تھی۔ ہاتھ پیر سبھی سن تھے۔ وہ ایک دم جیسے منجمد ہو تھا۔ اس نے سوچا، پھر میں سوچ کیسے رہا ہوں، ایک دماغ ہی بچا تھا، جو ابھی تک کام کر رہا تھا۔ وہ بھی کب تک۔ اس نے خود سے پوچھا۔ پانی میں پتھر پھینک کر دیکھتا کہ اس میں ہلچل ہوتی ہے یا نہیں۔ یہ آخری خواہش بھی پوری ہونے والی نہیں تھی۔ تالاب پر بھی چٹان گری تھی کیا! پانی سن تھا۔ میں فقط جاننا چاہتا تھا۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہئے تھا۔ اب کوئی موہ ہی نہیں رہا تھا۔ چاہئے اسے ہوتا ہے، جس کا موہ محفوظ ہوتا ہے۔ میں نے تو ہر بات سے خود کو جدا کر دیا ہے۔ لیکن ابتدا میں ایسا نہیں تھا۔ سوائے بیوی کے انتخاب کے۔ میں نے بچوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی۔ ناکام کوشش۔ میرا بڑا بیٹا میری رائے لئے بغیر ایک بچے والی بیوہ کو بھگا کر لے آیا۔ میں بس اتنا کر پایا کہ اسے اپنے گھر سے نکال دیا اور اس کے حقوق چھین لئے۔ ایسا میں نے اس لئے کیا، کیونکہ جیسے میں اپنے باپ کے سامنے دبا ہوا تھا، ویسے ہی میرا بیٹا بھی میرے آگے دبا رہے۔ بیوی کے رونے دھونے کی پرواہ نہیں کی، بس اپنی بات پر قائم رہا۔ میں نے بیٹے کو گھر میں اجنبی کا درجہ دے دیا۔ کبھی کبھی اجنبیوں کی طرح آئے اور چلا جائے۔ لیکن میرے جو اپنے تھے، میرے اور بیٹے، جو میرے گھر میں تھے، وہ میرے ساتھ رہتے ہوئے اجنبی کیوں بن گئے؟ یا میں ان کے لئے اجنبی بن گیا! ہر کوئی خود میں کھو گیا ہے۔ میرے لئے کچھ نہیں بچا ہے۔ جو میں نے کیا وہ ٹھیک تھا یا نہیں! یہ فیصلہ کون کرے گا؟ میں اتنا اکیلا ہوں، خود کو بے یس مانتا ہوں۔ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔ میری عمر تک پہنچ کر ہر کوئی ایسا ہی سوچتا ہے کیا؟

اس نے چاہا کہ کسی سے پوچھے۔ اس نے تالاب سے پوچھنا چاہا۔ لیکن تالاب خاموش تھا۔ بنا ہلچل کئے آنکھیں پھاڑ کر اسے تک رہا تھا۔ اسے طیش آیا اور تالاب پر چڑتا رہا۔ اسے خیال آیا کہ تالاب کو لاتیں مارے۔ ٹھہرے پانی کی لاتوں سے دھنائی کرے۔ لیکن اس میں ہلنے کی بھی طاقت نہیں تھی۔

’’میرے مولیٰ، کسی کا محتاج مت بنانا۔‘‘ اس نے بڑوں کو ایسا کہتے سنا تھا۔ پھر جیسے جیسے وہ بوڑھا ہوتا گیا، اس نے خود بھی یہ دعا مانگنی شروع کی۔ اسے ڈر نے گھیر لیا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ دوسروں پر بوجھ بن رہا تھا۔ میں نہیں ہوں گا تو دوسروں پر سے ایک بار اتر جائے گا۔ ان پر ذمے داری نہیں ہو گی میری۔ لوگ انہیں ایسا نہیں کہیں گے کہ اپنے باپ کی جانب سے لا پرواہ بن گئے ہیں۔ وہ کسی کے لئے کچھ نہیں ہے۔ اس لئے میں کبھی کبھی ان کے معاملوں میں ٹانگ اڑاتا ہوں، تا کہ میں انہیں اپنے ہونے کا احساس دلاؤں۔ پھر اختلافات اور لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ تب لگتا ہے کہ میں ابھی کچھ ہوں۔ لیکن کچھ وقت سے، پتہ نہیں کب سے، شاید جب سے وہ مر گئی ہے، کوئی اختلاف اور کوئی جھگڑا اچھا نہیں لگتا ہے۔ بہت اذیت دیتے ہیں۔ دل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ سب بیکار لگتا ہے۔ میں بھی بیکار ہوں۔ تالاب میں کیچڑ والے، ٹھہرے پانی کی طرح بیکار۔ جب پیڑ کی جڑیں سوکھنے لگتی ہیں تو پیڑ بھی سوکھ کر لکڑی بن جاتا ہے۔ اسے کاٹا جاتا ہے۔ وہ پھر بھی کسی کام میں آ جاتا ہے۔ اس میں سے کچھ نہ کچھ بنایا جاتا ہے، کچھ نہیں بھی تو جلانے کے کام تو آتا ہی ہے۔ شخص کی اہلیت جب ختم ہو جاتی ہے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ اسے کسی کام میں نہیں لایا جا سکتا۔ انسان نامی مخلوق ہی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ باقی سب اس میں سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔

سورج غروب ہونے پر تھا۔ آسمان کی سرخی تالاب پر اتر آئی تھی۔ پانی تھا یا گندے کالے لہو کے دھبے تھے۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ تیز ہوا لگنی شروع ہو گئی تھی۔ مٹی کے بگولے اس کے وجود کو گھیر چکے تھے۔ تالاب کے اوپر فقط دھول نظر آ رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے بڑھتے گئے۔ اس کے منہ پر ہوا کے تیز تھپیڑے لگ رہے تھے۔ ہوا کا ایک زوردار تھپیڑا آیا اور کسی نے دھکا دیا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی، لیکن اس میں طاقت نہیں بچی تھی۔ وہ تالاب میں جا گرا۔ ہوا اسے آگے دھکیلتی گئی۔ میں اتنا ہلکا کیسے ہو گیا ہوں، جو پتے کی طرح پانی پر تیر رہا ہوں۔ اسے تعجب ہوا۔ ہوا اسے دھکیلتی گئی۔ ایک جگہ منجمد پانی میں جگہ بن گئی اور وہ کھنچنے لگا۔ اب اس کا بدن بھاری ہو رہا تھا۔ پھر وہ پانی میں اندر جانے لگا۔ پانی گلے تک آ گیا۔ اس نے آس پاس دیکھا۔ تیز ہوا کے سبب بس دھول تھی۔ کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ تالاب اس کے بدن کو نگل گیا۔ وہ نیچے چلا گیا۔ تالاب کے تلی میں گھاس کا گہرا جنگل تھا۔ ’’اب میں گھاس کے گہرے اندھیرے جنگل میں آرام کروں گا۔‘‘ اس نے آخری بار سوچا اور پھر گھاس کی جڑیں اس کے بدن سے لپٹ گئیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھوئی ہوئی پرچھائیں

 

ہوا بند ہے اور کوئی آواز نہیں ہے۔ کم گھٹن نگل چکی ہے سبھی آوازوں کو۔ میرے چلنے کی آواز بھی نہیں ہو رہی ہے رستے پر۔ فقط میرے دل میں، لگاتار چلنے والی، سوچ کی آواز ہے اور میں سوچ کے سلسلے کو ایک پل کے لئے بھی روک نہیں سکتا۔ دل چور ہو جاتا ہے اور پھر چور ہوتا ہے وجود۔ لیکن سوچ کے سلسلے کو روک کر ایک ہی جگہ ایستادہ کرنا، میرے بس سے باہر ہے۔ کاش میں سوچ نہ پاتا۔ پہلے جب رستے پر کچھ پاگل دیوانے دیکھتا تھا، جو اتنے تو گندے ہوتے تھے، کہ پاس سے گزر نے پر بھی گھبراہٹ ہوتی تھی، تو سوچتا تھا کہ میں چاہے قدم قدم پر خود کو تکلیفوں میں محسوس کروں، پھر بھی ان سے تو اچھا ہی ہوں۔ لیکن میں بھولا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ پاگل دیوانے چاہے کیسے بھی ہوں، لیکن سوچنے کی اذیت سے چھوٹے ہوئے ہیں۔ تب سے مجھے اپنے آپ پر رحم آنے لگا ہے اور اس سے زیادہ بے بسی کسی شخص کی ہو نہیں سکتی۔ یہ میرے کس کئے کا پھل ہے، کہ میں جس چیز کو چھوتا ہوں، وہ پرچھائیں بن کر غائب ہو جاتی ہے۔ کتنی تعجب خیز ہے! میں اس بات کو سوچنے سے کتراتا ہوں، لیکن جو بات پورے وجود کو گھیر کر چل رہی ہے، اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔ میں میڈاس بادشاہ کی طرح نہیں ہوں، جس نے دعا مانگی تھی کہ وہ جس چیز کو چھوئے، وہ سونا بن جائے۔ میرا دعا پر یقین ہی نہیں ہے تو پھر دعا کس سے مانگو! یا شاید دعا میں یقین نہ ہونے کے سبب، دعا نہ مانگنے کے سبب یہ سزا ملی ہے کہ میں جس چیز کو چھو لوں، وہ غائب ہو جاتی ہے۔

رستہ سنسان اور خاموش ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے رستہ ختم ہی نہ ہو گا۔ ویسے بھی کوئی راہ کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔ راہ میں سے راہ نکلتی ہے اور میں ان راہوں میں سے نکلنے والی راہوں میں کھو گیا تھا۔ یہ جان ہی نہیں پایا کہ میری راہ کون سی ہے یا کوئی راہ ہے ہی نہیں! کچھ پکا نہیں ہے۔ اچانک دل قدموں میں الجھ جاتا ہے تو میں چلاتا ہوں، کوئی ہے۔ کوئی ہے۔ جو مجھے منزل تک پہنچائے۔ کوئی ہے۔ پکار، باز گزشت بن کر لوٹ آتی ہے اور میرے اندر ہی کوئی جواب دیتا ہے، یہاں ہر کوئی بھٹکا ہوا ہے اور اپنی راہ خود ہی ڈھونڈ رہا ہے، کون فالتو بیٹھا ہے، کسی کی منزل دیکھنے کی تمنا میں، کاش انسان کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی! مجھے یاد آ رہا ہے کہ کسی نے مجھ سے کہا تھا، میں تمہاری بیوی بنوں گی۔ وہ کچھ وقت تک میرے ساتھ چلی، لیکن بعد میں آگے چل کر اس نے محسوس کیا کہ اس نے غلطی کی تھی، یہ وعدہ کر کے ہر کوئی اپنا مددگار خود بنے۔ اس نے اپنی غلطی کو محسوس کیا۔ نہ ختم ہونے والی راہ پر چلتے اس کے پیروں میں زخم ہو گئے تھے۔ اس وقت کہیں سے لوک کہانیوں کا شہزادہ اڑن کھٹولے پر چڑھ کر آیا اور اسے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ اس کے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

رستہ نہ ختم ہونے والا ہے اور پیر ہیں پتھر کی مانند، قدم قدم پر دل کی نسیں تن کر کھنچ جاتی ہیں۔ صرف پیر ہی پتھر کے نہیں ہیں، گھٹنوں کی کٹوریاں بھی پتھر کی ہیں اور ٹانگوں میں تو جان ہی نہیں۔ میں دل کے زور پر خود کو کہیں نہ ختم ہونے والی اور بے آواز راہ پر دھکیلتا جا رہا ہوں۔ اس نہ ختم ہونے والی اور اکیلی راہ پر کبھی احساس ہوا تھا، کسی اور کے وجود کا، پاس آنے پر دیکھا کہ سچ میں دوسرا وجود تھا۔ بازو سے پکڑ کر اس سے کہا، تم یہاں کیسے پرائی راہ پر بھٹک رہی ہو؟ اچانک میرا ہاتھ خالی ہو گیا اور وہ وجود پرچھائیں میں بدل گیا۔ پھر وہ پرچھائیں دھیرے دھیرے دھندلی پڑنے لگی اور آخر کار غائب ہو گئی۔ اچانک پتھر کے قدموں میں بکھر گیا میرا من، تب دیکھا کہ ایک پرچھائیں میرے ساتھ چل رہی تھی۔ میں چونک گیا۔ لیکن وہ میری پرچھائیں تھی۔ تب مجھے پتہ چلا کہ میری بھی پرچھائیں ہے، اکیلے، سنسان، بے آواز رستے پر۔ میری پرچھائیں کبھی کم ہوتی، کبھی بڑھتی رہتی ہے، کبھی ایک طرف سے نکلتی راہ پر تو کبھی دوسری جانب سے نکلتی راہ پر۔ میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی مجھ سے الگ راستے کے کناروں پر چھوٹے بڑے پتھر پڑے ہیں۔ پتھر بھی سوچتے ہو نگے بیچارے! میری پرچھائیں بڑی ہو کر پھر سے کم ہو گئی ہے۔ شخص نہ صرف خود سوچتا ہے، بلکہ اپنی سوچ اوروں پر تھوپتا بھی ہے اور ہر چیز کے لئے سمجھتا ہے کہ وہ ہو گی میرے جیسی، بیچارہ شخص!

کسی نے ایک بار کہا تھا، ’’تم بہت ہی جذباتی ہو۔ حد سے زیادہ جذباتی ہونا بھی بری بات ہے۔‘‘ میں مسکرا دیا، تو اس نے پھر کہا، ’’کیوں، ایک دم سے گمبھیر ہو گئے، میری بات اچھی نہیں لگی کیا! ’ میں نے سوچا کہ مجھے اپنے ساتھ آئینہ لے کر چلنا چاہئے۔ گھر آ کر آئینے میں مسکرا کر دیکھا۔ میری شکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی۔

کسی کو بیحد جذباتی بنانے سے زیادہ اور کوئی سزا نہیں دی جا سکتی۔ جذباتی شخص زندہ ہی جہنم میں ہے۔ وہ دنیا میں شروعات ہی کرنا چاہتا ہے تو اسے چاروں جانب سے باندھ کر جہنم میں دھکیلا جاتا ہے۔ سارتر نے کہا ہے کہ بہت سے لوگ جہنم میں ہیں، لیکن جہنم تو خود لوگوں میں ہے، کوئی محسوس کرے یا نہیں کرے۔‘‘ میرا دل میرے لئے جہنم ہے، جس میں وجود جلتا بھنتا رہتا ہے۔ یہ کیسی نا کردہ گناہ کی سزا ہے! رستے پر چلتے چلتے دل کے جہنم کے شعلے اتنا بھڑکتے ہیں، کہ چاہتا ہوں کہ زور زور سے چیخوں اور سر کو دیواروں سے ٹکرا کر دل توڑ پھوڑ دوں۔ اس وقت لگتا ہے کہ دل کا پورا بھرا ہوا تھال، الٹا ہونے کو ہے۔ بڑی مشکل سے تھال کو بچاتا ہوں۔ لیکن آخر کب تک! میں یہاں سے بھاگ نکلنا چاہتا ہوں، لیکن وہ سب بیکار ہے۔ آدمی دنیا سے بھاگ سکتا ہے، اپنے آپ سے نہیں۔ میں جتنا اپنے آپ سے بھاگتا ہوں، اتنی ہی زیادہ بندش محسوس کرتا ہوں۔ کیا کروں۔۔ کروں۔۔ کیا کیا کیا۔ آ آ۔!

دل ہے یا جتا ہوا کھیت، جس میں ہر کوئی خیال لاپرواہی سے اندر گھس آتا ہے، کوئی چاہے یا نہ چاہے۔ سب بکواس ہے، جب تک شخص کی اپنے اوپر مرضی نہیں چلتی۔ چاہے وہ چاند پر جا کر رہے، لیکن پھر بھی اپنے اوپر اس کی کوئی مرضی نہیں چلتی۔ کوئی بھی مرضی نہیں چلے گی۔ یہ کیا ہے! انسان اپنے آگے اتنا مجبور اور لاچار کیوں ہے؟ نیند، بھوک، پیاس، تھکان، سستی۔ افلاطون کا یوٹوپیا فقط دل میں ہی بن سکتا ہے۔ دل کی دنیا پانی کا بلبلا ہے۔ انسان اپنے آپ میں ہی کتنی بڑی بکواس ہے۔

یہ پیر تو پتھر کی مانند ہیں، اٹھتے ہی نہیں۔ بس دل کے سہارے دھکیلتا جا رہا ہوں۔ میں کوئی دیوتا تو نہیں ہوں، جس نے جادو سے ایک شہزادی کو پرچھائیں بنا دیا تھا۔ میرے پاس جادو نہیں ہے، پھر پتہ نہیں کیا ہے، جو میرے بس چھونے سے ایک شہزادی پرچھائیں بن گئی۔ ہر کوئی شخص خود کو دیوتاؤں، پریوں کی کہانیوں کا شہزادہ سمجھتا ہے، لیکن میں خود کو دیوتا سمجھتا ہوں۔ میرے چھونے بھر سے ایک شہزادی پرچھائیں بن گئی تھی۔ یہ کہانی نہیں ہے یا سچ میں کہانی ہے تو بعد میں ایک شہزادہ آیا تھا، جو کسی فقیر کی دعا سے ایسے سونے کے گہنے لایا، کہ میرے چھونے کا اثر ختم ہو گیا۔ وہ یہ گہنے پہن کر پرچھائیں سے بدل کر شہزادی بن گئی، راج کمار کے ساتھ چلی گئی اور میرے پیر پتھر کے بن گئے۔

اگر میں پورے کا پورا پتھر بن جاتا تو اچھا ہوتا۔ اس کم گھٹن والی لامحدود خاموشی میں غائب ہو جاتا۔ لا محدود خاموشی میں میری سوچ کی آواز کتنی بھیانک، ڈراؤنی اور تکلیف دہ لگ رہی ہے۔ سب کچھ وقوع پذیر ہو چکا ہے، سب کچھ۔ اکیلی اور سنسان راہ کے قدم قدم پر Silence اور Slow کے بورڈ لگے ہیں – عجیب ہدایتیں، حکم ہر جگہ ’’سخت منع ہے‘‘ کے الفاظ۔ یہاں پر شخص کے زندہ رہنے کی سبھی راہیں بند ہیں۔ اگر رہنا ہے تو مردہ بن کر رہو۔ چپ! چپ! اچھے بچے شور نہیں کرتے۔ شاباش! خاموشی اور سنجیدگی، مذہب اور معاشرے کیلئے ضروری ہیں۔ خاموش! بیوقوف، جاہل۔ ڈنڈے کے بنا نہیں سدھرتے۔ اس لا محدود خاموشی میں میرے سوچ کی آواز بھی زبردست گناہ ہے۔ اوہ! میرا دل آتش فشاں کی طرح پھٹ رہا ہے۔ (دانتوں کا پسنا، بدن کی نسوں کا کھنچ کر اکڑ جانا اور پتھر کی مانند پیروں کو تیز کرنے کی بیکار کوشش۔ )

گھر آ گیا۔ میں گھر کے آگے اچانک ہی اکڑ کر کھڑا ہوتا ہوں تو تعجب ہوتا ہے۔ مجھے پتہ ہی نہ چلا اور اپنے آپ پہنچ گیا۔ جب پہنچنا چاہتا ہوں تو پہنچ نہیں پاتا، پتھر کی مانند پیر اٹھتے ہی نہیں اور خیال آتا ہے کبھی نہ پہنچ پانے کا۔ تالا کھول کر، کنڈی اتار کر اندر جاتا ہوں۔ ہے کیا شہزادی جس کے سبب تالا لگاتے ہیں! انسان سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کتنی بیکار باتیں کرتا ہے۔ یہ گھر ہے یا تنگ غار ہے؟ اتنے تنگ غار میں کوئی شہزادی کیسے رہ سکتی ہے! بڑا ہی ذلیل تھا، جو اسے قید کر کے رکھنا چاہا۔

کتنا اندھیرا ہے! خود کو بھی نہیں دیکھ پا رہا۔ ایسے لگتا ہے، جیسے کسی گہرے لامحدود کنواں میں بیٹھا ہوں۔ ہوا بند ہے۔ سانس نہیں لے پا رہا۔ میں لا محدود کنواں میں نیچے جا رہا ہوں۔ نیچے۔ نیچے۔ چاروں جانب سے دباؤ ہے، میں پانی میں ڈوب رہا ہوں۔ سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔ میرا پورا وجود اندھیرے میں غائب ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے! لیکن مجھے تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے اندھیرا میرے پورے بدن کے ایک ایک حصے میں گھستا جا رہا ہے۔ میرا وجود، میری پرچھائیں کہاں ہے؟ اس سے پہلے کہ اندھیرا ہر چیز کو نگل لے، مجھے یہاں سے بھاگ نکلنا چاہئے۔ میں اٹھنا چاہتا ہوں۔ اندھیرے کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔ اٹھنے کے لئے سوچتا رہتا ہوں۔ شاید اعصاب نے کام کرنا بند کر دیا ہے، جو دماغ کا حکم بجا لاتے ہیں۔ میں اٹھ کیوں نہیں رہا؟ زور لگا رہا ہوں۔ پیر تو پتھر کی مانند ہیں، وہ اندھیرے میں نہیں بدلتے۔ میں شال پہن کر اٹھ کر باہر نکلتا ہوں اور روڈ پر آ کر کھڑا ہوتا ہوں۔ روشنیاں بہت تیز ہیں، جیسے کوئی سرچ لائٹ ہے چاروں جانب۔ لیکن میری پرچھائیں! میری پرچھائیں کہاں ہے؟ میری پرچھائیں غائب ہو گئی، کب، کہاں، کیسے؟ کہاں۔ کہاں۔ روشنیاں تو تیز ہیں، لیکن پرچھائیں کہاں ہے؟ پرچھائیں شروع سے میرے ساتھ تھی، لیکن مجھے پتہ نہیں چلا یا، میں نے اس پر دھیان نہیں دیا یا شاید میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی غائب تھی۔ کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ ایک دن اچانک پتہ چلا کہ میری بھی پرچھائیں ہے۔ پچھلی بار جب گاؤں گیا تھا، تب میں نے یہ بات گھر میں بھی کی تھی۔ گھر کے لوگ، خاص کر کے میرے بھائی ہنسنے لگے، لیکن بابا تو ایک دم غصہ ہو گیا، ’’ایسی بیوقوفیوں جیسی باتوں پر سوچ کر اپنا وقت مت گنوایا کر۔‘‘ مجھے پکا یقین تھا کہ ماں، جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اسے ضرور پتہ ہو گا۔ لیکن اس نے بس ٹھنڈی سانس لی اور کچھ دعائیں مانگنے لگی۔ میرے بھائیوں نے یہ بات اپنے دوستوں کو جا کر سنائی۔ میں یہ بات اپنے دوستوں کو نہیں بتانا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ میری پرچھائیں کے بارے میں میرے گھر والے ضرور کچھ نہ کچھ جانتے ہو نگے، دوستوں سے زیادہ۔ دوستوں نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے یہ سوچا کہ ہو سکتا ہے، وہ گھر والوں سے کچھ زیادہ جانتے ہوں، میں نے انہیں اپنی پرچھائیں کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنکھوں سے کچھ اشارے کئے اور میں نے محسوس کیا کہ اس دن کے بعد وہ مجھے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی پکا یقین ہو گیا کہ مجھے باہر سے، کہیں سے بھی کوئی بھی مدد نہیں ملے گی۔ میں نے ’’اسکی‘‘ پرچھائیں کو دھندلا ہو کر غائب ہوتے دیکھا تھا۔ وہ اتفاق سے مجھے ملی، تو میں نے اس سے اس کی پرچھائیں کے بارے میں بات کی۔ لیکن اسے کچھ بھی پتہ نہیں تھا اور اس نے شاید اوروں کی جانب سے میرے بارے میں سنا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے ایسی بیکار باتوں پر نہیں سوچنا چاہئے۔ میں چاہے ایسی باتوں پر سوچنا چھوڑ دوں، لیکن اپنے آپ کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں! یہ بات آخر انہیں سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی؟

’’کون ہو؟‘‘ (اچانک چیخ)

’’تم کون ہو؟‘‘

’’دیکھتے نہیں ہو کہ میں کون ہوں۔ آنکھیں نہیں ہیں کیا؟‘‘

ہاں آنکھیں فقط اوروں کو دیکھنے کے لئے ہیں۔ وہ پولیس والا ہے۔

’’کون ہو؟ اس وقت کیوں بھٹک رہے ہو؟‘‘ وہ مجھے خاموش دیکھ کر دھمکی بھرے انداز میں پوچھتا ہے۔

’’تمہاری پرچھائیں کہاں ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔

’’پرچھائیں! کیسی پرچھائیں؟‘‘ اس کے لہجے میں تعجب ہے۔

’’میں اپنی غائب ہو چکی پرچھائیں کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ لیکن تمہیں کیا پتہ۔‘‘

’’تمہیں تو خود اپنی پرچھائیں کے بارے میں بھی پتہ نہیں۔‘‘ وہ عجیب نظروں سے بڑبڑاتا چلا جاتا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے کیا سمجھتا ہو گا۔ میں نے اب اس بات کی فکر کرنی چھوڑی دی ہے کہ مجھے دوسرے لوگ کیا سمجھتے ہیں۔

پورا شہر خوابیدہ ہے۔ راستے اور جگہیں بھی سوئی ہوئی ہیں۔ میں اوروں پر کیسے فتویٰ دوں کہ وہ بدنصیب ہیں یا خوش نصیب، جو اپنی پرچھائیوں سے بے خبر اور لا پرواہ ہوئے، سوئے ہوئے ہیں۔ مجھے تو اپنے لئے ہی فیصلہ لینا ہے۔ کھڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پتھریلے پیروں کو تیز تیز کھینچنا شروع کر دیتا ہوں اور جیسے دوڑ رہا ہوں۔ پرچھائیں کا کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔ میں دوڑنے کی کوشش کرتا ہوں اور ڈھونڈتا رہتا ہوں۔

میں کتنا وقت دوڑتا رہا ہوں، مجھے پتہ نہیں ہے۔ صبح کی دھندلی روشنی میں دیکھتا ہوں کہ میں ابھی تک دوڑ رہا ہوں۔ چاہتا ہوں قہقہہ لگانا، اتنے بڑے خوفناک قہقہے، جو پورا سویا ہوا شہر ہڑبڑا کر جاگ جائے۔ سوئے ہوئے لوگ جاگ کر آنکھیں رگڑتے گلیوں میں نکل آئیں۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔ قدم سست پڑتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے پوری رات کوئی چٹان ڈھو کر آیا ہوں۔ اچانک ایک شخص گھر سے باہر نکلتے دیکھتا ہوں۔ اس کے ہاتھ میں ٹوکرا ہے۔ کتنا تھکا ہوا اور چور چور ہے۔ جیسے پوری رات کوئی درد جھیلتا رہا ہے۔ کہیں اس کی بھی پرچھائیں۔ مجھے پوچھنا چاہئے، شاید کچھ پتہ لگے۔ میں آگے بڑھ کر پوچھتا ہوں،

’’بھائی صاحب، آپ کی پرچھائیں تو غائب نہیں ہوئی ہے؟‘‘

اسکے ماتھے پر بل پڑ گئے۔

’’کیسی پرچھائیں، کون سی پرچھائیں؟‘‘ اور گھورتے چلا جاتا ہے۔ بیچارہ! مجھے اس پر ترس آ رہا ہے۔ اسے اپنی پرچھائیں کے بارے میں بھی پتہ نہیں۔ لوگ دھیرے دھیرے گھروں سے نکلتے جا رہے ہیں۔ ٹوکرے ہاتھوں میں، کندھا جھکا ہوا اور تھکے قدم جیسے پوری رات قبر میں تکلیف برداشت کی ہو۔ بیچاروں کو اپنی پرچھائیں کے بارے میں بھی پتہ نہیں ہے۔ میں بھی کندھے جھکا کر، پتھریلے قدموں سے ان کے جنازے میں شامل ہو جاتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

ہونٹوں پر اڑتی تتلی

 

عباس علی اتنے دن سے بستر پر لیٹے لیٹے بیزار ہو گیا تھا۔ اب نیند محسوس نہ ہونے پر بھی وہ آنکھیں موندے پڑا رہتا تھا۔ آنکھیں کھولتے ہی وہی ایک سا منظر دیکھ کر اسے ڈر لگنے لگتا اور چاہتا تھا کہ وہاں سے اٹھ کر بھاگے اور باہر نکل جائے۔ مگر باہر بھاگ نکلنے کی طاقت اب اس میں کہاں تھی۔ وہ جیسے اس کمرے کا قیدی بن کر رہ گیا تھا۔ اس میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ بیماری کی وجہ سے وہ باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے جیسا نہیں رہا تھا۔ ہسپتال میں رہنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر اسے جواب دے چکے تھے۔

’’کیا کھاؤ گے؟ کیا دلیہ بنا دوں؟‘‘

بانو کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب اندر آئی۔

’’نہیں، مجھے کچھ اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔

’’نہیں کھاؤ گے تو اور کمزور ہو جاؤ گے۔‘‘ بانو نے فکر مند لہجے میں کہا۔

’’اب کھانے اور نہ کھانے سے کون سا فرق پڑے گا۔‘‘ عباس کے خشک ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ ’’بانو بات سنو، کمزوری نہ کھانے کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی کچھ کھانے سے ختم ہو جائے گی۔‘‘

’’تب بھی، پیٹ میں کچھ تو ہو، میں دلیا بنا لیتی ہوں۔ دو چار چمچے کھا لینا۔‘‘ بانو نے زور دیتے ہوئے کہا۔

’’تمہاری مرضی، ویسے میرے دانے پانی کے دن اب پورے ہو چکے ہیں۔ سانس کی ڈور میں کھنچاؤ بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی وقت یہ ٹوٹ جائے گی۔‘‘

بانو کے دل کو دھچکا لگا۔

’’اللہ، یوں تو نہ کہو۔ میرا تو دم نکلا جا رہا ہے۔ پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘ بانو کا من بھر آیا۔ وہ عباس علی کے سامنے رو کر اسے مزید مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اٹھ کر تیز قدموں سے وہ کمرے کے باہر نکل گئی۔

پہلے جب کبھی بھی بانو کہتی تھی، ’’پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘ تو جواب میں وہ کہتا، ’’اللہ مالک ہے، پگلی۔‘‘

لیکن پھر اس نے جواب دینا بند کر دیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے الفاظ بانو کو ڈھارس دینے میں ناکام ہو چکے تھے۔ عباس علی سے اب زیادہ بات چیت بھی نہیں ہو پاتی تھی۔ حالانکہ اسے اس بات کا احساس تھا کہ بانو کی پریشانی یوں ہی نہیں تھی۔ وہ گھر میں اکیلا ہی کمانے والا تھا۔ اس کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ابھی چھوٹے ہی تھے۔ اس کی کوئی خاص ملکیت بھی نہ تھی۔

عباس علی کے والد، نیاز علی، پرائیویٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ چار بیٹیوں کے بعد عباس علی ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نیاز علی کی خواہش تو یہی رہی کہ اس کا بیٹا ڈاکٹر یا انجینئر بنے۔ عباس علی نے ابھی ہی انٹر پاس کیا تھا کہ نیاز علی ریٹائرڈ ہو گئے۔ عباس علی کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ نہ مل پایا۔ ویسے بھی اب اسے آگے پڑھانے کی ہمت نیاز علی میں نہ رہی تھی۔ عباس علی نے نوکری کی تلاش کے دوران پرائیویٹ بی اے بھی پاس کر لیا تھا۔ نیاز علی کا ایک پرانا شاگرد اب چیف انجینئر بن گیا تھا۔ نیاز علی نے اس سے درخواست کی، منتیں کیں۔ آخر عباس علی کو انجینئرنگ کے سیکشن میں کلرک کی نوکری مل ہی گئی۔ اسے ڈسپیچ کلرک کی میز پر بٹھایا گیا۔ سرکاری حساب کتاب والے کھاتوں کے رجسٹر میں اندراج کر کے، نمبر لگا کر، ڈاک میں بھیجنے کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی کام نہ تھا۔ اس دوران اس نے ایم اے بھی کر لیا۔ پھر پتہ نہیں آفس انسپکٹر قائم دین کو کیا سوجھی، اس نے صاحب کو کہہ کر عباس علی کو ٹھیکیدار کے بل پاس کرانے والی میز دلوا دی۔ اب تنخواہ کے علاوہ اس کی اوپر کی کمائی بھی شروع ہو گئی۔

عباس علی آنکھیں موندے موندے کافی تھک گیا تھا۔ ان میں کچھ درد کا احساس ہوا۔ آنکھیں کھول کر کمرے میں دیکھا، جس کی ہر اک چیز درہم برہم حالت میں بکھری پڑی تھی۔ ایک کونے میں اس کے اور بچوں کے کپڑے پڑے تھے، تو کہیں بچوں کے اسکول بیگ اور ان کے میلے جوتے پڑے تھے۔ کوئی چیز طریقے سے رکھی ہوئی نہ تھی۔

’’اگر فائزہ سے شادی ہوئی ہوتی تو اس گھر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔۔ ۔‘‘ اچانک عباس علی کو خیال آیا۔ اتنے سالوں کے بعد اسے فائزہ کی یاد آئی تھی۔ وہ عباس علی کے انسپکٹر قائم دین کی بیٹی تھی۔ فائزہ کسی انگلش میڈیم اسکول میں پڑھی تھی۔ بعد میں اس نے یونیورسٹی سے ایم ایس سی پاس کی تھی۔ ابھی حال ہی میں اس کو لڑکیوں کالج میں لیکچرر شپ ملی تھی۔ وہ ابھی یونیورسٹی میں ہی پڑھ رہی تھی کہ قائم دین نے اس کے لئے رشتے تلاش کرنے شروع کر دیے، پر کہیں بات نہیں بنی۔ ایک دن آفس میں بیٹھے بیٹھے اسے عباس علی کا خیال آیا۔ لڑکا اچھا اور مہذب تھا۔ عباس علی کو پہلے تو حیرت ہوئی کہ قائم دین اچانک اس پر کیوں اتنا مہربان ہوا کہ اسے کمائی والی میز دلوا دی۔ اپنے گھر سے آئے ٹفن سے زبردستی اس کو اپنے ساتھ کھانا کھلاتا تھا۔ پھر وہ اسے اپنے گھر بھی لے گیا اور گھر کے تمام لوگوں سے ملاقات کروائی۔

’’اس پہلی ملاقات میں قائم دین کی گھر والی نے اورفائزہ نے جیسے میرا انٹرویو لیا ہو۔ پر وہ انٹرویو نہ ہو کر بھی ایک ٹیڑھی میڑھی پوچھ گچھ رہی۔ میرے ماں باپ، گھر کے دیگر افراد کی بابت، خاندانی دولت اور جائیداد کے بارے میں، جو تھی ہی نہیں۔‘‘

عباس علی کو یاد آیا کہ ان کے سوالات ابھی پورے بھی نہیں ہوئے تھے کہ اچانک فائزہ نے پوچھا تھا، ’’آپ یونیورسٹی میں کب پڑھے تھے؟‘‘

’’میں یونیورسٹی میں پڑھنے نہیں گیا۔‘‘ عباس علی نے جواب دیا، ’’میں نے انٹر کے بعد تمام امتحانات پرائیوٹ دیے ہیں۔‘‘

فائزہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہیں۔ عباس علی اب بے دل ہو رہا تھا کہ اس سے یہ سب سوال کیوں پوچھے جا رہے ہیں۔ اس نے اجازت لے کر اٹھنے کی کوشش کی تو قائم دین اور اس کی بیوی بیٹھنے پر اصرار کرنے لگے۔

’’نہیں، ایسے کیسے ہو گا؟ پہلی بار ہمارے گھر آئے ہو، کھانا کھائے بغیر کس طرح چلے جاؤ گے؟‘‘

عباس علی کو مجبوراً بیٹھنا پڑا تھا۔ وہ قائم دین کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فائزہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی اور قائم دین بھی باہر سے کچھ لانے کے لئے چلا گیا۔ اس کی بیوی عباس علی کے پاس بیٹھی رہی۔

’’دیکھو بیٹا، دل میں نہ لینا کہ ہم نے تم سے چند ذاتی سوال پوچھے۔ حقیقت میں قائم صاحب تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ فائزہ کا رشتہ تم سے کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی تم اچھے لگے ہو۔‘‘

عباس علی کا سر چکرا گیا اور اس کی کنپٹیاں سرخ ہو گئیں۔

’’اپنی زندگی کے مستقبل کا فیصلہ تمہیں کرنا ہے۔ تم اگرچہ اپنے والد سے صلاح مشورہ کر لو، پر ایک بات ذہن میں رکھنا۔ ایسا رشتہ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ فائزہ نا صرف پڑھی لکھی ہے، بلکہ اچھے عہدے پر بھی ہے۔ وہ سگھڑ ہے، گھر کا ہر کام کاج جانتی ہے کہ گھر کو کیسے بنایا جائے، کیسے سجایا جائے۔‘‘

عباس علی نے ایک طویل سانس لی اور بستر پر کروٹ بدلی۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ میری قسمت پہلے ہی لکھی  جا چکی ہے۔ میری خالہ زاد بانو کے ساتھ میری منگنی ہو چکی ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت ہی آپ کو بتا دینی چاہیے تھی، پر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔

عباس علی کو یاد آیا کہ جب کھانا لگا دیا گیا تھا، تب اس کے حلق سے ایک نوالہ بھی نہیں اتر رہا تھا۔ کھانا بھی ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ جیسے تیسے تھوڑا بہت کھا لیا۔ اوروں نے سمجھا کہ وہ کھانے میں تکلف کر رہا ہے۔

’’بیٹا، اسے اپنا گھر ہی سمجھو، فائزہ نے سارا کھانا اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘‘ قائم دین کی بیوی نے کہا۔

عباس علی نے مسکرا کر فائزہ کی طرف دیکھا اور داد دیتے ہوئے کہا، ’’واقعی بہت مزیدار بنا ہے۔‘‘

سب نے کھانا کھایا، پھر کچھ دیر بعد عباس نے ان سے جانے کی اجازت طلب کی۔ باہر آ کر اس نے سرد ہوا میں ایک طویل سانس لی۔ جیسے قید خانے سے باہر نکلا ہو۔ اس نے پہلی بار فائزہ پر دھیان دیا۔ رنگت میں سانولی، قد بھی ٹھیک ٹھاک، پر اس کی شکل صورت اور جسم میں ایک خاص دلکشی تھی۔ پھر بانو کا کیا ہو گا؟ بابا اور اماں کبھی نہیں مانیں گے۔ پورے راستے چلتے ہوئے یہی خیال اس کے ذہن میں آتے رہے۔ اپنے کمرے میں آ کر اسے یاد آیا کہ وہ اپنا موبائل فون قائم دین کے گھر ہی بھول آیا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ اس وقت دوبارہ ان کے پاس جانا اس کو ٹھیک نہیں لگا، وہ بھی فون کی خاطر۔

دوسرے دن صبح قائم دین آفس میں اس کا فون لے آیا۔ اسی دن شام کے وقت اس کے فون پر کسی نامعلوم نمبر سے ایس ایم ایس آنے شروع ہو گئے۔ ابتدا شعر بھیجنے سے ہوئی۔ کچھ دنوں بعد ایس ایما یس آیا۔

’’شاید آپ کو شاعری میں دلچسپی نہیں۔‘‘

عباس علی نے جواب لکھا، ’’آپ نے کیوں کر جانا کہ مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں؟‘‘

جواب آیا، ’’آپ کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں ملا، اس لئے۔‘‘

عباس علی نے لکھا، ’’مجھے پتہ نہیں ہے کہ آپ کون ہیں، اس لئے۔‘‘

جواب آیا، ’’آپ اپنے دل سے پوچھتے تو پتہ چل جاتا۔‘‘

عباس علی سوچ میں پڑ گیا۔ تبھی اس کے ذہن میں جیسے بجلی کوند سی گئی، ’’یہ فائزہ ہو سکتی ہے۔‘‘

اس نے ایس ایم ایس لکھا، ’’دل نے تو مجھے بتایا ہے، مگر پھر بھی تصدیق کر لینا ضروری ہے۔‘‘

جواب آیا، ’’مطلب آپ اپنے دل کی بات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے اور نہ ہی اس کے کہنے کے مطابق کرتے ہیں۔ لگتا ہے، آپ کے پاس بہت ساری لڑکیوں کے ایس ایم ایس آتے ہیں۔ تبھی تو پہچان نہیں پائے کہ میں کون ہوں؟‘‘

عباس علی پریشان ہو گیا کہ اس بات کا کیا جواب دے۔ اپنی باتوں کے جال میں وہ خود پھنس گیا تھا۔ تبھی ایک اورمیسیج آیا، ’’کیا سوچ رہے ہیں؟ جواب دینے میں پریشانی ہے کیا؟‘‘

عباس علی نے لکھا، ’’میرے پاس اس سے پہلے کبھی کسی لڑکی کا ایس ایم ایس نہیں آیا ہے۔ دوسری بات کہ میرا دل پتھر کا بنا ہوا نہیں ہے۔ دوسروں کی طرح ہی دھڑکتا دل ہے۔‘‘

جواب آیا، ’’اچھا مان لیا۔ دھڑکتا دل کیا کہتا ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘

عباس علی نے فقط اتنا لکھا، ’’فائزہ۔‘‘

جواب آیا، ’’ارے واہ کیا اندازہ لگایا ہے۔‘‘

عباس علی کو ہنسی آ گئی۔

پھر آفس میں، گھر میں ایس ایم ایس کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ موبائل فون پر بات بھی ہوتی تھی، مگر ایس ایم ایس رات کو دو تین بجے تک چلتے رہتے تھے۔ کبھی کبھی عباس علی کا دل یہ سوچ کر بیتاب ہو جاتا تھا کہ آخر ایک دن یہ سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔ فائزہ کو جب اس بات کا پتہ چلے گا، تب کیا ہو گا؟ میری ساری عمر ان تین لفظوں کی چکی میں۔۔ ۔‘‘ عباس علی نے ایک طویل سانس لی اور آنکھیں موند لیں۔

بعد ازاں جب وہ گاؤں گیا، تو اس نے گھر میں یہ بات چھیڑی، گھر میں کہرام مچ گیا۔

’’میں بہن کو کیا منہ دکھاؤں گی؟‘‘ عباس علی کی ماں نے روتے ہوئے کہا، ’’خون کے سارے رشتے ٹوٹ جائیں گے عباس۔‘‘

’’ہم رشتے ناطے، برادری سب سے ہی کٹ کے رہ جائیں گے۔ تم تو جا کر شہر میں گھربسا لو گے، مگر یہ سوچو کہ تمہاری چار بہنوں کا کیا ہو گا؟ کون ہم سے ناطہ جوڑیں گے؟‘‘ نیاز علی کی آواز میں پریشانی کے ساتھ غصہ بھی تھا۔

عباس علی نے بڑی مشکل کے ساتھ دونوں کو سمجھایا، ’’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں نے تو صرف آپ کو حقیقت بتائی ہے۔ باقی ہو گا وہی جو آپ چاہتے ہیں۔‘‘

اب اس کے سامنے یہ دشواری تھی کہ قائم دین سے یہ بات کیسے کرے۔ وہ انہیں بہت دیر تک اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ آخر دل تھام کر ساری حقیقت قائم دین کے سامنے رکھی، جس نے اس کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے صرف اتنا کہا۔

’’میں نے تیرے بھلے کے لئے سوچا کہ تیرا مستقبل بن جائے گا۔ مگر خیر۔۔ ۔‘‘

اس دن کے بعد عباس علی کے موبائل فون پر ایس ایم ایس آنے بند ہو گئے۔ اس نے مسلسل دو تین دن ایس ایم ایس کئے۔ پر جواب نہیں آیا۔ اس نے فائزہ سے بات کرنی چاہی، مگر ہمت نہیں کر پایا۔

’’فائزہ سے شادی کرتا تو شاید حالات ایسے نہ ہوتے، جیسے اب ہیں۔‘‘ عباس علی نے سوچا، ’’اب جب سارا قصہ ہی ختم ہونے والا ہے، تو ان باتوں کو یاد کرنے کا کیا فائدہ۔‘‘

عباس علی کو کچھ دیر پہلے بانو کی وہی بات یاد آئی، ’’پھر ہمارا کیا ہو گا؟‘‘

خود اس کے لئے بھی موت سے زیادہ مہلک سوال یہ تھا کہ بعد میں کیا ہو گا؟ ۔ اس کو ڈاکٹر کے چہرے پر ابھری لکیریں اب تک یاد ہیں، جب اس نے ٹیسٹ کی رپورٹ دیکھی تھی۔ ڈاکٹر اسے بس دیکھتا رہا۔ تب عباس علی نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا۔

’’مجھے پتہ ہے ڈاکٹر صاحب، میری رپورٹ اچھی نہیں آئی ہے۔‘‘

’’جگر کے آدھے حصے کو کینسر کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا، ’’اس کا علاج صرف اور صرف لیور ٹرانسپلانٹ ہی ہے، جو یہاں نہیں ہوتا۔ اس کے لئے سنگاپور یا بھارت جانا پڑے گا۔ سنگاپور کے مقابلے میں بھارت پھر بھی سستا ہے۔‘‘

’’کتنا خرچ آئے گا، ڈاکٹر صاحب؟‘‘ عباس علی نے پوچھا تھا۔

’’تقریباً ساٹھ لاکھ روپے۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔

’’ساٹھ لاکھ۔‘‘ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ بانو نے جب یہ بات سنی تو وہ بھی دنگ رہ گئی۔ عباس علی نے نوکری کر کے جو بھی کمایا، وہ اس کی چار بہنوں کی شادیوں میں خرچ ہو گیا تھا۔ اس نے قاسم آباد میں ایک فلیٹ بک کروایا تھا، جس میں اب وہ بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہا ہے۔

’’اپنے پاس اور تو کوئی جمع پونجی نہیں ہے، صرف گھر ہے، وہی فروخت۔۔ ۔‘‘ بانو نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’پاگل ہو گئی ہو کیا؟ بچوں کے لئے یہ گھر بنایا ہے وہ فروخت کر دوں۔‘‘ عباس علی نے غصے سے کہا۔

’’مگر زندگی سے زیادہ تو کچھ نہیں ہے۔ ہمارا سب کچھ تم ہی ہو۔ تم سلامت رہو گے تو گھر پھر بن جائے گا۔‘‘

’’وہ تو ہے۔‘‘ عباس علی سوچ میں پڑ گیا۔

’’مگر بانو، ساٹھ لاکھ کوئی چھوٹی رقم تو نہیں۔ فلیٹ فروخت کرنے سے اتنے پیسے تو نہیں ملنے والے۔‘‘

’’میرے کچھ زیور ہیں۔ آپ پتہ تو لگاؤ کہ اس گھر کی کتنی کی قیمت ملے گی۔‘‘ بانو نے بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔

عباس علی نے پراپرٹی ڈیلر کے یہاں چکر لگائے، سب کو اس بات کا احساس تو تھا کہ جلد بازی میں گھر فروخت کرنے سے زیادہ سے زیادہ پچیس لاکھ ملنے والے تھے۔ ایسے ہی چھ سات لاکھ زیورات سے ملتے۔ باقی ضرورت کے مزید پیسوں کے ملنے کا امکان اور کہیں سے بہت کم تھا۔

یہاں اس کی حالت مزید بگڑتی رہی۔ ہسپتال سے آخرکار ڈسچارج ہو کر وہ گھر آ کر بستر سے لگ گیا۔

’’اب باقی چند مہینے، کچھ ہفتے، کچھ دن مزید بچے ہیں۔‘‘ عباس علی کو خیال آیا۔

’’میں نہیں رہوں گا تب میرے بچوں کا کیا ہو گا؟ بابا اور اماں بھی گزر گئے۔ بہنیں اپنے گھروں میں بسی ہوئی ہیں۔ بانو گھر کا انتظام اکیلی کس طرح سنبھال پائے گی؟ بچوں کی خیر خبر کون لے گا؟ پیچھے کوئی سہارا بھی تو نہیں۔ بیٹے تو پھر بھی دھکے کھا کر جوان ہو جائیں گے، شاید وہ پڑھ بھی نہ پائیں۔ کیا پتہ آوارہ بن جائیں۔ مگر پھر بھی مرد ہیں۔ زندگی کا سامنا کر ہی لیں گے۔ آگے ان کی قسمت۔ بیٹی ایک ہے، پر اس کا کیا ہو گا؟‘‘

عباس علی کے ذہن میں اتھل پتھل مچی تھی۔ اسے لگا کہ کمرے میں گھٹن بڑھ گئی ہے یا شاید وہ اس کے دل میں تھی۔

’’بیماری نے آہستہ آہستہ تمام جسم کو متاثر کر دیا تھا۔ وہ سوکھ کر ایک ڈھانچا بھر رہ گیا ہے۔ یہ مہلک بیماری دھیمی رفتار سے زہر بن کر اس کے اندر پھیل گئی ہے۔ یہ کتنی خطرناک صورتِ حال ہے آدمی کیلئے۔ جب وہ جانتا ہو کہ وہ موت کی جانب قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے یا موت دھیمی رفتار سے اس کی طرف چلی آ رہی ہو۔ کتنی اذیت دینے والی صورتحال ہے اور آنے والے کل کا خیال، تکلیف، تباہی۔۔ ۔ اف یہ موت سے بھی زیادہ دہشت ناک ہے۔‘‘

عباس علی آنکھیں موند کر لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی اسے خیال آیا۔

’’راستے پر اچانک حادثہ ہو جاتا اور اس میں مر جاتا یا کہیں دھماکے کے وقت میں وہاں موجود ہوتا اور میرے جسم کے ٹکڑے ہواؤں میں بکھر کر کہیں دور جا پڑتے تو؟ سب کچھ اچانک ختم ہو جاتا۔ نہ فکر، نہ بے چینی، نہ مشکلات کا احساس۔ کسی کے مرنے سے دنیا ختم تو نہیں ہو جاتی۔ میں نہ رہوں گا، تب بھی دنیا چلتی رہے گی۔ بعد میں کیا ہو گا، یہ تشویش بے کار ہے۔ جو زندہ رہیں گے، وہ جینے کی راہ ڈھونڈ ہی لیں گے۔ زندگی اپنا راستہ خود بنا لیتی ہے۔‘‘

عباس علی کو لگا کہ اس کے ذہن سے جیسے وزن کم ہو گیا تھا، پر اس نے خود کو بے حد تھکا ہوا محسوس کیا جیسے وہ پیدل سفر کر کے آیا ہو۔ وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔ اب اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں۔

بانو دلیہ کا پیالہ لئے کمرے میں داخل ہوئی، تو وہ پتھرا سی گئی۔ ایک خاموش چیخ کمرے میں گونج اٹھی۔ عباس علی بالکل سیدھا لیٹا تھا۔ ایک خوبصورت رنگین پروں والی تتلی اس کے ادھ کھلے ہونٹوں کے ارد گرد اڑ رہی تھی۔ عباس علی کے ہونٹوں پر معصومانہ مسکراہٹ تھی۔ بانو کو حیرت ہوئی کہ وہ تتلی کمرے میں آئی کہاں سے؟ اسے لگا کہ عباس علی ہمیشہ کی طرح آنکھیں موندے جاگ رہا ہے۔ اس نے آواز دیتے ہوئے پوچھا۔

’’جاگ رہے ہو؟‘‘ پر عباس علی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پہلے بانو کو خیال آیا کہ عباس علی کے ہونٹوں کے پاس اڑتی تتلی کو ہٹا کر دور کر دے۔ مگر پھر اس نے یہ خیال رد کر دیا۔ تتلی عباس علی کے ہونٹوں کے پاس اڑتی اچھی لگ رہی تھی۔ بانو کے ہونٹوں پر بھی ایک پوشیدہ مسکراہٹ تھرک گئی۔

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل