فہرست مضامین
خوبصورت بچوں کے لیے خوبصورت کہانیاں
شرارت کی چالاکی
(ایک اضافی کہانی کے ساتھ ای بک)
محمد ندیم اختر
انتساب
اپنے
امی جان اور ابو جان
کے نام!
ایک نعرہ
گھر میں غل غپاڑہ روز کا معمول تھا وہی چند لمحے سکون کے ہوتے جب جنید سکول گیا ہوتا تھا ورنہ وہی ڈیک پر انڈین موسیقی یا ٹی وی پر فلموں کا شور ……حشمت علی اپنے پوتے کے یہ کرتوت دیکھ کر کڑھتے تھے۔ آج بھی حسب معمول وہی شور تھا۔
’’جنید بیٹا! پانی تو لے کر آنا۔ بہت پیاس لگ رہی ہے۔ ‘‘حشمت علی نے اپنے پوتے کو آواز دی۔
’’دادا جان ! ایک منٹ شاہ رخ کی بڑی زبردست لڑائی ہو رہی ہے وہ دیکھیں کیسے مار رہا ہے اپنے دشمنوں کو …ٹھاہ …ٹھاہ …اف اللہ! شاہ رخ کو گولی لگ گئی۔ اف! میرے اللہ شاہ رخ کو بچا لینا۔ ‘‘جنید بولے چلے جا رہا تھا۔
’’جنید !پانی دے دو پھر فلم دیکھ لینا۔ ‘‘دادا جان نے ایک بار پھر آواز دی۔
’’اچھا دادا جان !…‘‘جنید نے ناگواری سے کہا اور فریزر کی جانب بڑھ گیا۔
جنید پانی لے کر آیا تو بہت افسردہ تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘دادا جان نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے جنید سے پوچھا۔
’’وہ داد ا جان ! شاہ رخ کو گولی لگ گئی ہے۔ ایمبولینس آئی اور اسے ہسپتال لے گئی ہے اگر وہ مرگیا تو کالیاکو کو ن مارے گا جو انڈیا کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے ؟‘‘جنید نے افسردگی سے کہا۔
’’یہ کیا بکواس کر رہے ہو …کتنی بار کہا ہے کہ کیبل کا کنکشن کٹوا دو اولاد خراب ہو جائے گی لیکن میرے بیٹے کو کہاں خیال کہ اولاد کس سمت جا رہی ہے۔ اسے تو اپنی دکانداری کا خیال ہے۔ اگر بچے کو برے کام سے جھڑک دیں تو بہو رانی برا مان جاتی ہیں۔ زاہد میاں کو بھی اپنی بیوی کی باتیں سچی لگتی ہیں۔ میرا کسے خیال ہے لیکن میں پھر بھی روکتا ہوں۔ چلو جنید یہ ٹی وی بند کرو اور اپنا ہوم ورک کرو۔ ‘‘داد ا جان نے اتنے غصے سے کہا کہ جنید منہ بسورتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
’’ابا جان ! یہ کیا آپ ہر وقت جنید کو ڈانٹتے رہتے ہیں ؟بچہ ہے بڑا ہو کر سمجھ جائے گا لیکن آپ ہیں کہ گھر میں بیٹھے ڈانٹنے کے علاوہ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں …کبھی ڈیک نہ چلاؤ…کبھی ٹی وی بند کر دو۔ ‘‘کچھ ہی دیر بعد بہو رانی اپنے بیٹے کی طرف داری کرنے آ گئیں۔
’’بہو!یہ دیکھو تو سہی گولی فلم میں ہیرو کو لگی ہے۔ انڈیا فلم میں تباہ ہو رہا ہے لیکن افسردہ جنید ہو رہا ہے۔ بہو یہ ابھی بچہ ہے، کیا اثر لے گا۔ میں تو اتنا کہتا ہوں کہ بچے کو اچھی تربیت دو۔ محب وطن بناؤ۔ پاکستان سے محبت کا درس دو۔ ‘‘
’’ہونہہ! ابا جان محب وطن بنو، بڑا ہو گا تو وطن سے محبت خود بخود ہو جائے گی آپ کس وطن کی بات کرتے ہیں اس وطن کی جہاں حکیم سعید جیسے محب وطن گولی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ‘‘ بہو رانی منہ میں بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔
حشمت علی نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر لیں۔ ہندوستان کی سرزمین 14اگست 1947 کا دور تھا۔ جب حشمت علی بھی جنید کا ہم عمر ہی تھا۔ جب تقسیم ہوئی ان کا اتنا بڑا گھر اور خاندان تھا، جب وہ انبالہ کے اس محلے میں سے سارے محلے والوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں اپنی جان بچا کر بھاگے تھے لیکن حشمت علی کو اتنا یاد تھا کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو اکیلا تھا۔ ابا اماں بہن بھائی جانے کہاں کھو گئے تھے۔ شاہد وہاں وہ ان لوگوں کے ساتھ مارے گئے جن کے خون کی نہریں ہندوؤں نے بہا دی تھیں۔ کوئی بھی نہیں ملا۔ مہاجر کیمپ میں میاں فرزند نے حشمت علی کو اپنے گلے سے لگایا اور مرتے دم تک اپنی اولاد کی طرح رکھا۔
رات کا کھانا کھاتے ہوئے زاہد نے بات شروع کی۔ ’’اباجان !جنید ابھی معصوم ہے لیکن آپ ہیں کہ پوتے کو خوش نہیں دیکھ سکتے یہ ہر وقت کا ڈانٹنا بھی اچھا نہیں ہوتا۔ بچے کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ ‘‘
’’بیٹا !میں نے جنید کو کون سا تھپڑ مار دیا ہے ؟صرف اس لئے ڈانٹا تھا کہ ایک تو ہوم ورک کا وقت ہو چلا تھا دوسرا انڈین فلم میں فلم کے ہیرو کو گولی لگی تو جنید اس کا اثر ذہن پر لے رہا تھا۔ زاہد بیٹا انڈیا فلم میں تباہ ہو رہا تھا اور افسوس جنید کو ہو رہا تھا۔ بیٹا اگر پاکستان کے بچوں کا یہ حال رہا تو پھر پاکستان کو کون بچائے گا۔ ہماری تو امیدیں ہی ان بچوں پر ہیں، جو میرے ملک کا مستقبل ہیں۔ بہو رانی اور تم کیوں نہیں سمجھتے کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دو۔ دین کی تعلیم …وطن سے محبت کی تعلیم …اچھے کام کی شاباش دو۔ انہیں بتاؤ کہ انڈیا کیا ہے اس کے عزائم کیا ہیں۔ ہندوستان کے باسیوں نے تقسیم کے وقت مسلمانوں پر کیا کیا مظالم ڈھائے۔ بیٹا اپنی اولاد کو بتاؤ کہ وہ ہمارے دوست نہیں ازلی دشمن ہیں۔ حشمت علی زاہد کو سمجھا رہا تھا۔ ’’بس …ابا جان ! آپ جذباتی ہو رہیں بچہ ہے بڑا ہو گا تو زمانے کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے سمجھ جائے گا۔ ‘‘باپ اور بیٹے میں بحث جاری تھی۔ جنید حیران بیٹھا اپنے دادا ابو کی سچی باتیں سن رہا تھا۔ حشمت علی سوچ رہا تھا کہ آئندہ سے پوتے کو اس برائی سے منع نہیں کرنا۔ لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ اگر میں اپنے پوتے اپنی نسل کو اچھا سبق نہ دے سکا تو میں کیوں کر یقین کر لوں کہ میرے علاوہ کوئی اور شخص میرے پوتے کو بہتر سبق دے گا۔ جو فلاح کا سبق ہو گا۔ جس سبق میں میرے پوتے کی فلاح ہو گی۔ دین کی فلاح ہو گی اور میرے پیارے وطن کی فلاح ہو گی۔
حشمت علی تین چار دن سے دیکھ رہے تھے کہ گھر میں شور شرابا کم ہو گیا نہ بے ہودہ گانوں کی آواز سنائی دیتی اور نہ انڈین فلموں کا شور سنائی دیتا۔ تین چار دن سے جنید کارٹون دیکھ رہا تھا یا اپنا ہوم ورک کرتا نظر آیا۔ جنید کے چہرے پر سنجیدگی بھی نظر آنے لگی تھی۔ ا چانک اتنی بڑی تبدیلی حشمت علی کے لئے حیران کن تھی۔ حشمت علی کے لئے اپنے پوتے کا رویہ معمہ بن گیا تھا ایک دن جنید اسکول سے آ کر کارٹون دیکھ رہا تھا کہ حشمت علی چپکے سے جنید کے پاس جا بیٹھے۔
’’جنید بیٹا! چینل تبدیل کرو شاہ رخ کی فلم لگاؤ۔ میں بھی آج جنید بیٹے کے ساتھ فلم دیکھوں گا۔ ‘‘حشمت علی نے معمہ حل کرنے لئے جنید سے دوستانہ ماحول میں بات شروع کی۔
’’دادا ابو! آپ بھی انڈیا کی فلم دیکھیں گے لیکن وہ تو ہمارے دشمن ہیں اف اللہ کتنے گندے ہیں ٹھاہ …ٹھا ہ …میں انہیں مار دوں گا۔ ‘‘جنید نے منہ سے گولیاں چلانے کی آواز نکالی۔ ’’دادا ابو!آپ بھی اس دن ابو جان سے کہہ رہے تھے کہ انڈیا والے ہمارے دشمن ہیں۔ ‘‘
ہاں بیٹا…!‘‘
’’دادا ابو ! میں نہیں مانتا تھا اور ابو بھی نہیں مان رہے تھے پتہ ہے کیا ہوا ہفتہ والے دن سنی دیول کی ایک فلم لگی ہوئی تھی اس میں پتہ ہے کیا ہوا …سنی دیول نے ہمارے جھنڈے …جیسا ہماری چھت پر لگا ہوا ہے، اس نے اس جھنڈے کو آگ میں جلا دیا اور وہ کہہ رہا تھا …رام قسم ہم پاکستان کو تباہ کر دیں گے …دادا ابو !آپ کو پتہ ہے ہماری کتاب میں کیا لکھا ہے۔ ‘‘جنید معصوم لہجے میں بولا۔
’’بیٹا!کیا لکھا ہے آپ کی کتاب میں …‘‘ حشمت علی نے ایک بار پھر دوستانہ لہجے میں پوچھا۔
’’ہمارا سبز ہلالی پرچم ہمارے ملک کی پہچان ہے جو ہمارے اس پرچم کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا …بچو!اس کی آنکھیں نکال دو…کیوں کہ وہ ہمارا دشمن ہے، دادا ابو! کیا وہ ہمارے وطن کو سچ مچ تباہ کر دیں گے۔ اگر ہمارا ملک تباہ ہو گیا تو ہم دادا ابو کہاں رہیں گے ؟‘‘جنید بات کرتے ہوئے رو دیا اور حشمت علی نے اپنے پوتے کو اپنے گلے سے لگا لیا۔
’’جنید بیٹا! وہ بکواس کرتے ہیں …وہ جھوٹ بولتے ہیں …وہ کیسے تباہ کریں گے۔ بیٹا ہمارے وطن کی سرحد پر اس وطن کے بیٹے حفاظت کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہیں۔ بیٹا یہ وطن قائم ہونے کے لئے بنا ہے۔ تم پڑھو گے …لکھو گے اور بڑے آدمی بنو گے۔ پاکستان کا بچہ بچہ بڑا آدمی بنے گا۔ تم ہی اس وطن کی حفاظت کرو گے تو وہ انڈیا والے تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے …‘‘
حشمت علی جذبات میں آ کر جانے کیا کچھ کہہ گئے تھے ان کا معمہ بھی حل ہو گیا تھا۔ جنید کو اپنے دادا ابو کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں لیکن وہ اتنا جانتا تھا کہ دادا ابو سچ کہہ رہے ہیں، پھر وہ آنسو پونچھتا ہوا باہر نکل گیا تو حشمت علی سوچنے لگا کہ جنید چاہے جس ماحول میں بھی پرورش پا رہا تھا لیکن اس کا خمیر اسی پاک مٹی سے اٹھا تھا۔ ۔ اس کے بزرگوں نے اسی پاک وطن کی مٹی کو لہو سے سیراب کیا تھا۔ جنید اسی وطن کی ہواؤں میں سانس لیتا تھا۔ پھر وہ کیسے محب وطن نہ بنتا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا وہ اپنے وطن میں سانس لیتا ہو اور اپنے وطن کے دشمنوں کو اپنا دشمن نہ سمجھے۔ حشمت علی کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور پاک وطن کی مٹی میں جذب ہو گئے اور نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں دور کہیں ’’ ایک نعرہ‘‘ گونجا ’’پاکستان زندہ باد …پائندہ باد ‘‘۔
٭٭٭
شرارت کی چالاکی
شرارت نے ایک نظر علی میاں پر ڈالی تو ابھی تک علی میاں اپنے بیڈ روم میں بیٹھے ہوم ورک کر رہے تھے، کافی دیر گزرنے کے باوجود علی میاں نے سر اٹھا کر ارد گرد نہ دیکھا تو شرارت کو غصہ آگیا کہ عجیب بچہ ہے، میں اس کو اشارے کر رہی ہوں اور یہ ہے کہ بیٹھا ہوم ورک کر رہا ہے، شرارت چپکے سے علی میاں کے پاس پہنچ گئی، ابھی وہ علی میاں کو ہاتھ لگانے ہی والی تھی کہ اسے ایک قہقہہ سنائی دیا، یہ قہقہہ اس کے لیے نیا نہیں تھا، اس نے غصے سے قہقہہ مارنے والے کو دیکھا تو وہ عقل تھی جو علی کے پاس ہی بیٹھی تھی، اس نے گرج دار آواز میں کہا ’’اے شرارت چل بھاگ یہاں سے کیوں بچوں کو خراب کرنے آ جاتی ہو؟‘‘شرارت عقل کی بات سن کے سہم سی گئی۔
’’اے پیاری عقل میری بہنا ! مجھے کچھ نہ کہو، مجھے علی کے پاس آنے دو، آج ظفر چھوٹو بھی بیمار ہے اور ننھا طاہر اپنے ابو کے ساتھ شہر گیا ہوا ہے، محلے میں کوئی بھی بچہ نہیں ہے جو میرا کہا مانے اور میں صبح سے اسی انتظار میں تھی کہ علی میاں جب سکول سے آئیں گے تو میرا کہا مانے گے اور پھر میں خوش ہو کر اپنے گھر چلی جاؤں گی۔ ‘‘شرارت نے التجائیہ انداز میں عقل سے درخواست کی۔
’’چل نکھٹو کہیں کی …! پہلے ہی تمہاری وجہ سے میرے علی میاں کو پرسوں سکول سے ڈانٹ پڑی، اگر تم نہ ہوتی علی میاں کبھی کلا س روم میں شرارت نہ کرتا اور آدھا گھنٹہ ڈسک پر کان پکڑ کا نہ کھڑا ہوتا۔ عقل نے شرارت کی سرزنش کی۔
’’اری عقل بہن اس میں میرا کیا قصور یہ تو آپ خواہش بی سے کہو جس نے علی میاں کے دل میں یہ خواہش پیدا کی وہ بھی اپنے استاد کی استاد کی کرسی پر بیٹھ کر حکم چلائے اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہو۔ ‘‘ شرارت نے سارا الزام خواہش بی پر تھوپ دیا۔
’’قصور تمہارا ہوتا ہے اور سارا الزام مجھ پر لگا دیتی ہو، ہائے …ہائے …کیا زمانہ آگیا ہے ؟ ‘‘خواہش بی جو سوئی ہوئی تھیں ان کی باتیں سن کے جاگ گئیں اور انگڑائی لیتے ہوئے شرارت کو کوسنے لگیں۔
علی میاں شوکت اسلام کا اکلوتا بیٹا تھا، جو محلے میں شرارتی بچوں کے ٹولے کا سردار تھا، محلے میں ننھا طاہر اور ظفر چھوٹو اس کے ہم عمر ہی تھے لیکن ظفر کا قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے اسے ظفر چھوٹو پکارا جاتا اور طاہر ذرا جسمانی لحاظ سے ان دونوں سے صحت مند واقع ہوا اور اسے سکول اور محلے میں ننھا طاہر کے نام سے پکارا جاتا تھا، محلے میں شرارتوں کی وجہ سے انہوں نے پورے محلے کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ لیکن ایک بات ان میں سب سے اچھی تھی شرارتی تو وہ تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ آج بھی جب علی میاں سکول سے واپس آئے تو گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے اس نے سوچا کہ پہلے ہوم ورک کر لیا جائے بعد میں کچھ اور کیا جائے گا کیونکہ ظفر چھوٹو گھر میں بیمار پڑا تھا اور ننھا طاہر اپنے ابو کے ساتھ آج شہر گیا ہوا تھا۔ اگر اس کے دونوں ساتھی اس کے ساتھ ہوتے تو آج ان کا پروگرام بگیاڑی میدان کے ساتھ والے گھر میں لگے آموں کے پیڑ سے آم توڑنے کا تھا۔ بس ان دونوں کی وجہ سے آج علی میاں کا پروگرام دھرا کا دھرا رہ گیا تھا۔ اس کے ایسا کرنے سے عقل بہت خوش تھی کہ آج علی میاں نے سکول سے واپس آتے ہی شرارت کی نہیں بلکہ اس کی بات مانی اور ہوم ورک کرنے لگا جب کہ خواہش کو پتہ چل گیا تھا آج اس کے دونوں ساتھی اس سے نہیں مل پائیں گے اور ان کی جو یہ خواہش تھی کہ بگیاڑی میدان کے ساتھ والے گھر سے آم چرا کے کھائیں گے وہ پوری نہیں ہونے والی تو اس نے سونے میں ہی عافیت سمجھی لیکن شرارت کو کسی پل بھی چین نہیں تھا کیونکہ کچھ دن پہلے جو اس کے کہنے پر علی میاں نے کلاس روم میں شرارت کی تھی اس کی وجہ سے اسے سزا بھگتنا پڑی تھی بس یہ ہی بات تھی کہ عقل کو موقع مل گیا کہ ہو علی میاں کو اپنے قابو میں کر لے کیونکہ یہ تینوں ایسے نکمے تھے کہ عقل کی بہت کم باتیں مانتے تھے ورنہ خواہش بی اور شرارت کی باتوں کو زیادہ ترجیح دیتے تھے۔
٭…٭…٭
شرارت، عقل اور خواہش بی کی آپس میں بحث و تکرار جاری تھی اور پھر ان کی اس بات پر آ کر بحث ختم ہوئی کہ آؤ دیوار کی منڈیر پر بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں کہ علی میاں آج کس کی مانتے ہیں۔ اور وہ تینوں دیوار کی منڈیر پر بیٹھ کر علی میاں کو دیکھنے لگی۔ ابھی وہ دیوار پر بیٹھی ہی تھیں کہ خواہش بی نے ان سے آنکھ چرا کر علی میاں کو کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور علی میاں جو ابھی تک ہوم ورک کر رہے تھے، انہوں نے کتابیں اپنے بیگ میں رکھیں اور میز پر پڑا ٹی وی ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کر دیا۔ جب خواہش بی نے یہ دیکھا کہ علی میاں نے ہوم ورک چھوڑ دیا ہے اور اس نے ٹی وی آن کر لیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئی کہ چلو عقل کا کہا چھوڑ کر علی میاں نے اس کی مان لی ہے۔
’’ خواہش بی ! دیکھا تم نے چیٹ کیا ہے اور تم نے اسے میرے لگائے ہوئے کام سے اٹھا کر ٹی وی پر بٹھا دیا۔ ‘‘ ٹی وی آن ہوتے دیکھ کر عقل نے غصے سے خواہش بی کو کہا۔
’’ بھلا اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ بے چارہ بچہ ہے تھک گیا ہو گا تو اس نے ہوم ورک چھوڑ دیا اور تھوڑی دیر کے لیے ٹی وی آن کر لیا تو کون سی آفت آن پڑی ہے۔ ؟‘‘ خواہش بی نے اپنا دفاع کیا۔ بس یہ ہی موقع تھا جب شرارت کو موقع ملا تو اس نے فوراََ کہا ’’ عقل بہن خواہش بی ٹھیک کہہ رہی ہیں علی میاں تھک گئے ہوں گے تو انہوں نے ٹی وی آن کر لیا۔ اسی بہانے ہم بھی ذرا آرام کر لیں چلو چل کے اس کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ‘‘ شرارت نے دونوں کو مشورہ دیا۔
’’ ہاں ٹھیک کہہ رہی ہے شرارت کہ اب ہمیں بھی آرام کرنا چاہیے جب تک علی میاں ٹی وی دیکھ لیں۔ ‘‘ خواہش بی نے شرارت کی ہاں میں ہاں ملائی۔
علی میاں ٹی وی دیکھ رہے تھے، اسے نہیں خبر تھی کہ اس کے ساتھ شرارت اور عقل بھی ٹی وی دیکھ رہی ہیں، اس پر تجوید القرآن کا پروگرام آ رہا تھا، ایک لمحے کے لیے چینل وہیں رک گیا ٹی وی پر قاری صداقت حسین بچوں کو قرأت سکھا رہے تھے، علی میاں نے ٹی وی پر گول مٹول بچے دیکھ چینل تبدیل نہ کیا تو عقل نے خوشی سے خواہش بی اور شرارت کی طرف دیکھا اور کہا دیکھو یہ ہوتے ہیں عقل کے کام …بے شک وہ ٹی وی دیکھ رہا ہے لیکن عقل کا کام کر رہا ہے۔ ‘‘اتنی دیر میں خواہش بی نے انگڑائی لی تو اسی وقت علی میاں نے ریموٹ سے چینل تبدیل کر کے کارٹون والے چینل دیکھنے لگا جس میں ٹام اینڈ جیری کارٹون چل رہے تھے۔ اس میں جیری کی شرارتیں دیکھ کر شرار ت نے خوشی سے عقل اور خواہش بی کی طرف دیکھا اور کہا کہ ’’دیکھو یہ میں ہوں اس میں دیکھو اس چوہے نے بلی کے ناک میں دم کر رکھا ہے اپنی شرارتوں سے ……‘‘ عقل نے شرارت کی بات سن کر کہا ویسے جیر ی جو بھی کر رہا ہے اس میں میرا یعنی عقل کا کتنا عمل دخل ہے اگر اس چھوٹے سے چوہے میں عقل نہ ہوتی تو یہ اپنی شرارتوں سے کبھی بھی اپنے سے بڑی بلی کے ناک میں دم نہ کر سکتا، اس چھوٹے سے چوہے کے پاس عقل ہے تو وہ اپنی شرارتوں سے بلی کو مار بھگا رہا ہے۔ ‘‘ بی خواہش ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اور ٹی وی پر بھی نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ ٹام اور جیری آموں کے درخت میں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ اسی وقت اس نے شرارت اور عقل کی طرف دیکھا تو وہ دونوں اپنی بحث میں الجھی ہوئی تھی تو اس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے، فوراََ علی میاں سر پر ہاتھ مارا، علی میاں تو جیسے کچھ سوچ میں پڑ گئے ہوں، علی میاں کے دل میں اس گرمی میں آم کھانے کی خواہش نے کروٹ لی اور اس نے ٹی وی بند کیا اور بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا کہ اب بگیاڑی میدان کے ساتھ والے گھر میں آموں کے پیڑ سے آم کیسے توڑے جائیں۔ وہاں اس گھر کے گیٹ پر بیٹھا چوکیدار بڑی بڑی مونچھوں والا انہیں آم نہیں توڑنے دے گا۔ وہ سوچ رہا تھا لیکن کوئی بھی ایسا کام جو کیا جائے اور چوکیدار سے نظر بچا کر آم لے لیے جائیں لیکن یہ کیسے ہو گا۔ لیکن کیا کیا جائے۔ علی میاں سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے اتنی دیر میں ننھا طاہر اس کے کمرے کے داخل ہوا، علی میاں طاہر کو دیکھ کر خوش ہو گیا۔ جیسے اب تو اس کی خواہش پوری ہو جائے گی۔
٭…٭…٭
علی میاں نے ننھے طاہر کے سامنے آموں والا مسئلہ رکھا کہ آج ہر حال میں آم کھانے ہیں اور وہ بھی اس گھر سے توڑ کر، سوچو کیا کیا جائے۔ ننھا طاہر علی میاں کی بات سن کر سوچنے لگا کہ ایسی ترکیب نکالی جائے کہ علی میاں کی خواہش پوری ہو جائے۔ دونوں ایک ہی مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے تھے، علی میاں کافی دیر سوچتے سوچتے پریشان ہو گیا کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے۔ علی میاں اور ننھا طاہر کو سوچتے دیکھ کر شرارت نے ایک نظر عقل پر ڈالی اور بولی۔
’’عقل بہن ! بچے ہیں، پریشان ہو رہے ہیں میرے پاس ایک حل تو ہے اگر آپ اجازت دو تو کیا میں ان کا ساتھ دوں۔ ‘‘ شرارت نے معصومیت سے عقل کو مخاطب کیا۔
’’ہاں بولو کیا حل تمہارے پاس کہ یہ دونوں معصوم بچے خوش ہو جائیں، لیکن مجھے غصہ تو اس وقت بی خواہش پر آ رہا ہے کہ جب وہ بیٹھا تجوید القرآن کا پروگرام دیکھ رہا تو بی خواہش نے کیوں علی میاں کو کارٹون دیکھنے پر اکسایا اور پھر اور تو اور اس گرمی میں آم کھانا اور وہ بھی چوری توڑ کر ………‘‘ عقل نے جل بھن کر بی خواہش کی طرف دیکھا۔ بی خواہش نے تو جیسے سنا ہی نا ہو۔ وہ خاموشی سے دونوں کی طرف دیکھتی رہی۔
’’عقل بہن ! اگر آپ ساتھ دو تو علی میاں کے پاس ایک پلاسٹک والا پستول ہے جس میں ربڑ کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بھری جاتی ہیں، وہ ہی اصلی پستول جیسا کھلونا پستول اگر علی میاں اس پستول سے گلی کی نکڑ پر کھڑے ہو اسے چھوٹی گولیاں مارے اور دوسری نکڑ پر ننھا طاہر کھڑا ہو جائے جیسے ہی چوکیدار علی میاں کے پیچھے بھاگے تو پیچھے سے ننھا طاہر موقع ملتے ہی آم لے سکتا ہے۔ ‘‘شرارت نے عقل میاں کو اپنا پلان بتایا تو عقل نے حیرانگی سے شرارت کی طرف دیکھا اور کہاں ’’تمہارا پلان تو اچھا ہے اس طرح کھیل کھیل میں علی میاں کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔ ‘‘شرارت نے جب عقل کی بات سنی تو اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ دیکھو کیسے میں نے علی میاں اور ننھے طاہر کی معصومیت کو وجہ بناتے ہوئے اپنی چالاکی سے عقل کو قائل کر لیا کہ وہ اس کا ساتھ دے۔ اور پھر عقل نے آہستہ سے علی میاں کے سر پر ہلکا سا ہاتھ رسید کیا تو علی میاں نے یا………ہو…… کا نعرہ لگایا اور ننھے طاہر کو اپنے منصوبے سے آگاہ کرنے لگا۔ ننھا طاہر اس کی باتیں سن کر خوش ہونے لگا اور پھر دونوں اپنے اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل گئے۔
٭………٭………٭
گلی کی ایک نکڑ پر علی میاں ہاتھ میں کھلونا پستول لئے کھڑا سامنے گیٹ پر بیٹھے چوکیدار کا نشانہ لے رہا تھا اور دوسری نکڑ پر ننھا طاہر اسی انتظار میں تھا کہ کب چوکیدار کو گولی لگے گی اور وہ ہڑ بڑ ا کر اٹھ بیٹھے گا۔ اسی اثنا میں علی میاں نے ٹریگر پر دباؤ بڑھا دیا اور کھلونا پستول سے نکلنے والی گولی چوکیدار کے بازو پر لگی تو اس نے بازو پر ہاتھ رکھ کر کراہنے لگا کہ یہ کون سی آفت آن پڑی اسی دوران دوسری گولی اس کی ٹانگ پر لگی تو اس نے بازو چھوڑ کر ٹانگ پر ہاتھ رکھا اور ارد گرد دیکھنے لگا کہ یہ کس کی شرارت ہے جیسے ہی اس نے گلی کی نکڑ کی طرف دیکھا تو اسے وہاں ایک چھوٹا سا بچہ کھڑا نظر آیا جس کے ہاتھ میں پستول تھا، ابھی چوکیدار سوچ ہی رہا تھا کہ علی میاں نے ایک بار پھر ٹریگر دبایا اس بار جو گولی نکلی تو سیدھے چوکیدار کی آنکھ میں جا لگی، گولی لگتے ہی چوکیدار کی چیخ بلند ہوئی، چیخ سنتے ہی علی میاں نے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی ادھر ننھا عاطف بھی چوکیدار کی چیخ سے سہم گیا اور اس نے بھی گھر کی طرف دوڑ لگا دی اور علی میاں کے گھر آ کر ہی دم لیا۔
’’علی ! لگتا ہے گولی اس کی آنکھ میں لگی ہے جو اس نے فوراََ اپنا ہاتھ اپنی آنکھ پر رکھ لیا تھا۔ ‘‘طاہر نے علی کو کہا
’’ہاں یار ! مجھے بھی یہی لگتا ہے، اگر ایسا ہو گیا ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ ‘‘ علی نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ ‘‘
’’ہونے کو چھوڑو یہ سوچو کہ اگر ہمارے گھر والوں کو پتہ چل گیا کہ چوکیدار انکل کو نشانہ ہم نے لگایا تھا تو کیا ہو گا۔ ‘‘ننھا طاہر تو سہم کر رونے لگا۔
٭…٭…٭
شرارت، عقل اور بی خواہش تینوں پریشان بیٹھی تھی کہ اس چوکیدار کی آنکھ میں جو کھلونا پستول والی گولی لگی ہے اس سے اس کی آنکھ ضائع ہونے سے تو بچ گئی لیکن زخم اچھا خاصا آیا تھا، وہ تو ڈاکٹر نے تسلی دی تھی کہ ایک ہفتے تک آنکھ ٹھیک ہو جائے، ڈاکٹر نے چوکیدار کی آنکھ پرپٹی بھی کر دی تھی اور ڈراپ بھی دیے تھے۔
’’شرارت ! آج پھر تم نے مجھے شرمندہ کرا دیا، تمہاری چالاکی کی وجہ سے میں تمہاری باتوں میں آ گئی اور میں نے تمہارا ساتھ دیا۔ ‘‘ عقل نے افسردہ لہجے میں شرارت کو کوسا۔
’’عقل بہن مجھے کیا پتہ تھا کہ میری وجہ سے اس چوکیدار کو اتنی تکلیف سہنا پڑے گی۔ ‘‘
’’نہیں اس میں تم دونوں کا کوئی قصور نہیں اس میں سب سے بڑا قصور میرا ہے کہ میں نے علی کے دل میں خواہش پیدا کی کہ وہ چوری کے آم کھائے۔ ‘‘بی خواہش نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو شرارت اور بی خواہش تم اس دنیا میں آئی ہو، جو تمہارے ذمہ کام ہے وہ تم کرو لیکن ایسا کام نہ کرو کہ جس سے کسی کی زندگی کو خطرہ ہو۔ اب دیکھو شرارت بی بی تمہاری وجہ سے اگر چوکیدار کی آنکھ ضائع ہو جاتی تو ………؟‘‘عقل نے شرارت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
شرارت نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ عقل بہن میں وعدہ کرتی ہوں کہ آئندہ سے کبھی ایسا کام نہیں کروں گی جس سے کسی کی زندگی کو نقصان پہنچے لیکن شرارت ضرور کروں جو میرا حق ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے بچوں کی خوشی کی لئے میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی لیکن یاد رہے کہ ایسی کوئی کام نہیں ہو گا جیسا آج ہوا۔ ‘‘شرارت نے عقل کی بات سن کر عقل کو گلے سے لگایا اور شرارتی لہجے میں بولی چلو کسی اور گھر چلتے ہیں اور کوئی ایسی شرارت کرتے ہیں جس سے لوگوں کے چہروں پر دکھ نہیں خوشیاں بکھر جائیں۔ ‘‘شرارت کی بات سن کر عقل نے بی خواہش کی طرف دیکھا جو پہلے ہی اس گھر کی طرف روانہ ہو رہی تھی جہاں ابھی ان دونوں نے جانا تھا۔
٭٭٭
الف سے………!
دریائے چناب کے مشرقی کناروں پر اُگے لئی (۱)کے جھنڈ کے اوپر سے سورج نے جھانکا۔ سورج کی کرنیں دریا کے گدلے پانی پر سنہری مچھلیوں کی طرح تیر رہی تھیں۔ لئی کے جھنڈ کے اوپر سے جھانکے تو وہاں موروں (۲) کی بستی تھی۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی بابا رحیمو ٹوکروں کو دریا کے کنارے اکٹھا کر چکا تھا۔ بابا رحیمو مور تھہیم بستی میں مقیم بیس خاندانوں کا مشترکہ مکھیا (۳)تھا ان کے دکھ سکھ اور برادری کے چھوٹے بڑے فیصلے کرتا تھا۔ جہاں بستی کے سارے جھونپڑی والے ہفتہ بھر میں درجنوں ٹوکرے اور ٹوکریاں بناتے تو بابا رحیمو ہفتہ بعد ان ٹوکروں کو شہر لے جا کر بیچتا اور ٹوکرے مالکان کو ان کے عوض وصول ہونے والی آمدنی ان کے حوالے کرتا تھا۔
کمالو !کہاں مر گیا، دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘ بابا رحیمو نے کمالو کو آواز دی جو ابھی تک نظر نہیں آیا تھا۔ اس کشتی کا ملاح کمالو تھا جس کشتی میں آج سارے ٹوکرے دریا پار لے کر جانے تھے۔ کیونکہ گلاب دین بیمار تھا ورنہ اس سے پہلے عموماََ گلاب دین کی کشتی پر ہی ٹوکرے لادے جاتے تھے۔ کیونکہ گلاب دین کی کشتی کمالو کی کشتی سے زیادہ بڑی تھی۔
’’کمالو جلدی جھونپڑی سے باہر نکلو ……!بابا رحیمو آوازیں دے رہے ہیں۔ ‘‘اللہ رکھی نے بابا رحیمو کی آواز سن کر کمالو کو آواز دی۔
’’آیا …………!‘‘ کمالو بھاگتا ہو بابا رحیمو کے نزدیگ پہنچ گیا۔
’’کمالو کہاں مر گیا تھا، میں کب سے یہاں ٹوکرے رکھ کر تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ ‘‘ با با رحیمو نے کمالو کو ہلکی سے سرزنش کی۔
’’ با با وہ تمہارا پوتا ہے نا اللہ رکھا وہ زد کر رہا تھا کہ اس نے بھی شہر جانا ہے اور شہر دیکھنا ہے۔ اسے سمجھا رہا تھا ابھی اسے اس کی ماں کے حوالے کر کے آیا ہوں کہ پھر کسی دن جاؤں گا تو تمہیں بھی لے جاؤں گا۔ ‘‘
’’اچھا ……اچھا ……اب باتیں زیادہ نہ کر ٹوکرے کشتی پر لاد پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے۔ گلاب دین ہوتا تو کب کے ہم ٹوکرے لاد کے دریا کے پار بھی پہنچ چکے ہوتے۔ ‘‘
’’لے بابا ! یہ کون سی بات کی تم نے ابھی پانچ منٹ کا تو کام ہے ابھی لے ٹوکرے کشتی میں لادے جائیں گے۔ ‘‘کمالو نے جھٹ سے ٹوکرے کشتی میں لادنے شروع کر دیے۔
٭………٭………٭
’’اماں دیکھو نا ! ابا آج بھی مجھے شہر نہیں لے کر گیا۔ اوں ………اوں ……اوں …!‘‘اللہ رکھا نے رونا شروع کر دیا۔
’’پتر اللہ رکھے روتے نہیں اگر بابا رحیمو نے سن لیا تو وہ تمہیں اور تمہارے ابا کو بھی ڈانٹے گا۔ چپ کر جا میرا پتر ……میں اپنے پتر کو شہر لے کر جاؤں گی۔ ‘‘اللہ رکھاپانچ سال کاچھوٹا سا بچہ تھا۔ بستی کے باقی بچوں کی نسبت اللہ رکھا اپنے ماں باپ کا کچھ زیادہ ہی لاڈلا تھا۔ وہ کتنے دنوں سے زد کر رہا تھا کہ اس نے شہر دیکھنا ہے، لیکن ہر بار اس کا ابا کمالو اسے طفلِ تسلیاں دے کر خود شہر چلا جاتا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا، اس لئے تو اللہ رکھا نے رونا شروع کر دیا۔ اس کی ماں نے اسے کچھ دیر پچکارا، گلے سے لگایا اور جھونپڑی میں اکیلا چھوڑ کر باہر نکل گئی۔
اللہ رکھا نے جب دیکھا کہ اب تو اس کو روتے دیکھنا والے کوئی بھی نہیں تو وہ خود ہی چپ ہو گیا اور باہر بستی کی کچی سڑک پر بیٹھ گیا۔ یہ اس کا سب سے بڑا مشغلہ تھا کہ صبح سویر جب سکول کا وقت نزدیک ہوتا تو وہ جھونپڑی کے ساتھ بنی کچی سڑک کے کنارے بیٹھ کر ان بچوں کا انتظار کرتا جو ان کی بستی سے نزدیک ایک بستی دوانہ بہادر سے سے آتے اور ان کی بستی کے پاس سے گزر کر سکول جاتے تھے۔ صبح کے وقت اور پھر سکول سے چھٹی کے وقت اللہ رکھا کا معمول بن گیا تھا جب وہ ان تمام بچوں کو دیکھتا جو آسمانی رنگ کے کپڑے پہن کر سکول جا رہے ہوتے تھے ان کے گلے میں کپڑے کے بنے ہوئے تھیلے ہوتے جو دیکھنے میں کافی وزنی معلوم ہوتے تھے۔ سکول سے واپسی پر اسے گول مٹول سا سرخ و سفید چہرے والا بچہ بہت پسند تھا جو روزانہ سکول سے واپسی پر بھاگتا ہوا اپنی بستی کی جانب بڑھ رہا ہوتا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کے اثرات نمایاں نظر آ رہے ہوتے تھے۔ اللہ رکھا روزانہ اسے دیکھتا تھا لیکن اللہ رکھا کو کبھی کسی بچے نے غور سے نہیں دیکھا تھا۔
٭………٭…………٭
یہ بھی ایک معمول کا دن تھا جب اللہ رکھا اسی کچے راستے پر بیٹھا اس بچے کا انتظار کر رہا تھا جو روزانہ گلے میں کپڑے کا بنا ہوا تھیلا (بستہ) پہنے ہوئے اچھلتا کودتا اس کے پاس سے گزر جاتا تھا۔ اس دن بھی اللہ رکھا نے دیکھا کہ دور سے اچھلتا کودتا ہو ا آ رہا تھا۔ اللہ رکھا اس بچے کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا میں بھی اپنے اماں ابا سے بات کروں کہ میں بھی اس بچے کی طرح گلے میں کپڑے کا تھیلا پہن کر سکول جانا چاہتا ہوں۔ لیکن پھر وہ مایوس ہو جاتا۔ ایک بار اس نے اپنے اماں ابا سے کہا تھا۔ ابا نے فوراََ ڈانٹ دیا تھا کہ پتر ہم صدیوں سے ایسے ہی ہیں۔ پڑھنا لکھنا ہمارا کام نہیں ہے، ہماری بستی میں کوئی ہے جو پڑھا لکھا ہو۔ اور پتر وہ لوگ پڑھتے ہیں جن کے ٹھکانے ایک ہی جگہ پر ہوتے ہیں ہم تو اڑتے ہوئے پنچھی کی طرح ہیں۔ تم نے دیکھا پوری بستی والے ٹوکرے بناتے ہیں اور دیکھنا جب دریا میں سے لئی ختم ہو جائے گی توہم سب کشتیوں میں سوار ہو کر اپنا نیا ٹھکا نہ تلا ش کریں گے جہاں لئی نظر آئے گی ہمارا اگلا ٹھکانہ وہ ہی ہو گا اس لئے یہ نہ سوچا کر………بس میرا پتر اب تو بڑا ہو جائے گا تو ہمارے ساتھ مل کر ٹوکرے بنایا کرے گا۔ اور پھر میں اپنے پتر کے لئے بڑی کشتی تیار کراؤں گا جس کا ملاح میرا اللہ رکھا ہو گا۔ اور لوگ میرے پتر کو اللہ رکھا ملاح کہیں گے۔
اللہ رکھا کا دھیان اپنے ابا کمالو کی باتوں کی طرف تھا جب اچانک اس نظر اس بچے پر پڑی جو ابھی ابھی اس کے نزدیک سے اچھلتا کودتا گزر گیا تھا اللہ رکھا کی نظریں اس کا تعاقب کر رہی تھیں کہ اللہ رکھا نے دیکھا کہ کپڑے کے تھیلے میں سے کوئی چیز زمین پر گری، لیکن اس بچے کو کوئی خبر نہیں تھی کہ کوئی چیز اس کے تھیلے میں سے گرپڑی ہے۔ اللہ رکھا بھاگتا ہوا اس چیز کے نزدیک پہنچ گیا اس نے دیکھا کہ یہ کتاب تھی۔ اس نے جھٹ سے اٹھا لی۔ اٹھاتے وقت اللہ رکھا نے پیچھے مڑکر دیکھا کہ کسی نے یہ کتاب اٹھاتے ہوئے دیکھا تو نہیں، دیکھنا والا تو کوئی نہیں تھا۔ وہ کتاب اٹھا کر بھاگتا ہو ا اپنی جھونپڑی کی جانب بڑھا اس کی ماں جھونپڑی کے پچھواڑے سائے میں بیٹھی ٹوکرا بنا رہی تھی اور اس کی ابا آج بھی بابا رحیمو کے ساتھ دریا پار گیا ہوا تھا۔ جھونپڑی میں داخل ہوتے ہوئے اس کو کسی نے نہیں دیکھا۔ جب وہ جھونپڑی میں داخل ہوا تو ہانپ رہا تھا۔ جب اسے یقین آگیا کہ اس کے پیچھے کوئی نہیں آیا تو وہ تسلی سے کتاب کھول کر دیکھنے لگا۔ کتاب میں خوبصورت رنگین تصاویر تھیں۔ ایک تصویر پر دیکھ کر اس کے منہ میں پانی آگیا۔ تصویر میں سڑک کے کنارے بہت سے سٹال نظر آ رہے تھے جس میں ہر قسم کے پھل نظر آ رہے تھے ایک سٹال پر جلیبیاں نظر آ رہی تھی اس کے ساتھ سے بس گزر رہی تھی، تصویر میں بڑی بڑی عمارتیں بھی نظر آ رہی تھیں، اس نے سوچا یہ شہر کی تصویر ہو سکتی ہے، وہ خیالوں ہی خیالوں میں کچھ ماہ پہلے اس میلے میں پہنچ گیا جو ان کی بستی سے دس بستیاں چھوڑ کر لگا ہوا تھا جہاں وہ اپنے اماں اور ابا کے ساتھ گیا تھا۔ وہاں پر اس کے ابا نے اسے جلیبیاں لے کر دی تھیں اور مزے مزے سے اس نے سب کے ساتھ مل کر جلیبیاں کھائی تھی۔
’’اللہ رکھے یہ کتاب کہاں سے اُٹھا لائے ہو ؟‘‘اس کی اماں کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ تصویر دیکھنے اور اپنے خیالوں میں اتنا مگن تھا کہ اسے خبر ہی ہوئی کہ اس کی اماں کب جھونپڑی میں داخل ہوئی ورنہ وہ کتاب کہیں چھپا دیتا۔
’’میں یہ کتاب نہیں دوں گا ؟‘‘ اس نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’پتر بتا تو سہی ! یہ کتاب توں نے کہاں سے لی ہے ؟‘‘اماں نے پچکارتے ہوئے اللہ رکھا سے پوچھا۔
’’یہ مجھے باہر سڑک پر پڑی ملی ہے۔ ‘‘ میں یہ کتاب نہیں دوں گا چاہے جس کی بھی ہے۔
’’اچھا ……اچھا ……ٹھیک ہے پتر !نہ دے کسی کو کتاب ……………!‘‘اپنی اماں کی بات سن کر وہ خوش ہو گیا۔
٭………٭………٭
یہ اگلی صبح تھی جب اللہ رکھا بستی کے ساتھ گزرنے والے کچے راستے پر سکول جانے والے بچوں کا انتظار کر رہا تھا۔ اس بچے کو دیکھ کر اس کا انتظار ختم ہو گیا جس بچے کی کتاب اسے ملی تھی۔ وہ بچے آج خاموش تھا اس کے چہرے پر خاموشی تھی، اللہ رکھا حیران ہوا کہ آج وہ بچہ پہلے کی نسبت خاموش ہے اس کے چہرے سے افسردگی صاف ظاہر ہو رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح وہ بچہ افسردہ چہرے کے ساتھ اس کے پاس سے گزر گیا اور اللہ رکھا اٹھ کر اپنی جھونپڑی کی طرف بڑھ گیا۔ لیکن اللہ رکھا کے دل میں یہ ہی وسوسہ تھا کہ آج اس بچے کو کیا ہوا ؟ پھر اسے یاد آیا کہ شاید اسے گھر سے مار پڑی ہو کہ وہ کتاب کہاں پھینک آیا ہے۔ وہ کافی دیر سوچتا رہا اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ وہ بچہ اتنا افسردہ افسردہ کیوں تھا۔ آخر وہ ایک فیصلے پر پہنچ گیا۔ اور سکول کی چھٹی کا انتظار کر نے لگا۔ انتظار ایسا تھا کہ وقت گزر ہی نہیں رہا تھا۔ خدا خدا کر کے وہ وقت بھی آن پہنچا جب سکول سے چھٹی کے بعد سکول کے بچوں نے ان کی بستی کے قریب سے گزرنا تھا۔ وہ کتاب اٹھا کر کچے راستے کے کنارے بیٹھ گیا۔ کافی دیر بعد اسے وہ بچہ نظر آیا جو آج صبح کی طرح خاموشی سے چلا آ رہا تھا۔ پہلی بار اللہ رکھا نے دیکھا کہ وہ اچھلتا کودتا ہو ا نہیں آ رہا تھا۔ جوں جوں وہ بچہ اس کے قریب آ رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی۔ اتنی دیر میں وہ بچہ اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ اللہ رکھا نے اسے آواز دینا چاہی لیکن جیسے اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس گئی ہو۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اسے کس نام سے پکارے اور کیا کہے۔ اللہ رکھا ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے سوچتے سوچتے وہ بچہ اس کے قریب سے گزر گیا۔ بڑی مشکل سے اللہ رکھا نے اسے آواز دی۔
’’اوئے چھوکرے !‘‘ اس کی آواز سن کر اس بچے نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، اللہ رکھا کے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر وہ وہ بچہ رک گیا۔ اتنی دیر میں اللہ رکھا اس کے قریب پہنچ گیا، اللہ رکھا نے بغیر کچھ کہے کتاب اس کی طرف بڑھا دی۔ کتاب ہاتھ میں آتے ہی جیسے اس بچے کی خوشیاں لوٹ آئی ہوں۔
’’یہ کتاب کہاں سے لی تم نے ……؟‘‘ اس بچے نے پوچھا تو اللہ رکھا بتایا کہ اس کے تھیلے میں سے یہ کتاب گر پڑی تھی تو اس نے اٹھا لی تھی۔
’’کیا نام ہے تمہارا ؟ ‘‘ اس بچے نے پوچھا۔
’’ اللہ رکھا مور ہے میرا نام …اور تمہارا کیا نام ہے، کیا اس طرح کی ایک کتاب مجھے بھی دے سکتے ہو۔ ‘‘ اللہ رکھا نے جھٹ سے جواب دیا اور اس بچے سے سوال بھی کر دیا۔
’’ میرا نام اکبر ہے ………میرا پہلی جماعت والا قاعدہ ہے وہ میں اپنے دوست اللہ رکھے کو لا کر دوں گا۔ ‘‘اکبر نے اللہ رکھا سے ہاتھ ملایا۔ اس طرح اللہ رکھا اور اکبر کی دوستی ہو گئی۔
اکبر نے اللہ رکھا کو اگلی صبح قاعدہ لا کر دیا۔ اس میں بھی تصویریں تھیں لیکن اس کتاب جیسی نہیں تھیں۔ سکول جاتے وقت اور سکول سے واپسی پر اکبر اللہ رکھا سے مل کر جاتا ان کی دوستی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دن اللہ رکھا نے اکبر سے کہا کہ وہ بھی سکول جانا چاہتا ہے لیکن اس کے اماں ابا نہیں مانتے۔ اُس دن اکبر نے کہا کہ وہ جو قاعدہ میں نے تمہیں دیا تھا وہ روزانہ اپنے ساتھ رکھا کرو میں اپنے دوست کو پڑھا دیا کروں گا۔ اکبر کی بات سن کر اللہ رکھا خوش ہو گیا اور اس نے روزانہ اکبر سے قاعدہ پڑھنا شروع کر دیا۔
٭………٭………٭
جھونپڑی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اللہ رکھا چھپ کر سبق یاد کر رہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس کے باپ نے دیکھ لیا تو وہ اسے ڈانٹے گا۔ اس نے پورا قاعدہ پڑھ لیا تھا۔ اکبر نے وعدہ کیا تھا وہ اسے انگریزی والا قاعدہ لا کر دے گا۔ اللہ رکھا نے ایک سے سو تک گنتی بھی یاد کر لی تھی۔ سبق یاد کرنے اللہ رکھا بہت تیز نکلا تھا۔ اس نے قاعدہ کھولا اور شروع سے پڑھنا شروع کیا۔ الف سے ………! ابھی اس نے اتنا ہی پڑھا تھا کہ اس کے ابا کمالو کی کڑک دار آواز سنائی دی۔
’’اللہ رکھا! یہ کیا ہو رہا ہے ؟‘‘ جھٹ سے اس کے ہاتھ سے قاعدہ چھین لیا۔
اللہ رکھا ڈرتے ہوئے اپنے ابا کی طرف دیکھا، جس بات کا اسے ڈر تھا وہ ہی ہوا۔ آج اس کی چوری پکڑی گئی۔
’’ میں نے پڑھنا ہے ………ابا مجھے نہیں پتہ میں نے پڑھنا ہے۔ ‘‘ اللہ رکھا نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر اس کی ماں اور بابا رحیمو جو قریب ہی جھونپڑی کے بیٹھا تھا وہ دونوں بھاگتے ہوئے جھونپڑی میں داخل ہوئے۔
’’کمالو! کیا ہوا ……اللہ رکھا کو کیوں مارا ہے ؟‘‘بابا رحیمو نے اللہ رکھا کو اونچی آوازمیں روتے دیکھ کر پوچھا۔
’’بابا ! میں نے مارا نہیں ……بلکہ یہ دیکھو اپنے پوتے کے کام ………جو کام ہماری بستی میں کسی نے سوچا وہ کام یہ اللہ رکھا کر رہا ہے۔ ‘‘کمالو نے قاعدہ بابا رحیمو کی طر ف بڑھا دیا۔
’’اوہو ! میر ا پتر کیوں روتا ہے ……ادھر آ میرا اللہ رکھا ……یہ لے قاعدہ …!‘‘ بابا رحیمو نے پچکارتے ہوئے اللہ رکھا کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اللہ رکھا کے آنکھوں میں ابھی آنسو تھے۔ وہ سہمی ہوئی نظروں سے اپنے ابا کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ میرا سوہنا پتر ! کیوں روتا ہے کیا ہے اس قاعدے میں ذر ا ہمیں بھی تو سنا۔ ‘‘ بابا رحیمو کی نرم آواز سن کر جیسے اللہ رکھا خوش ہو گیا۔ اس نے جھٹ سے قاعدہ بابا رحیمو کے ہاتھ سے لیا اور کھول کر اونچی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا۔
’’الف سے …امی …الف سے استاد …الف سے انار ……الف سے اللہ ………!‘‘
’’اللہ کیا کرتا ہے۔ ‘‘با با رحیمو نے پچکارتے ہوئے اللہ رکھا سے پوچھا۔
’’اللہ روٹی دیتا ہے۔ ‘‘
’’ اور اللہ کیا دیتا ہے۔ ‘‘ بابا رحیمو نے مسکراتے ہوئے اللہ رکھا سے پوچھا۔ اللہ رکھا نے کچھ دیر سوچا اور بولا۔
’’اللہ ہی ہے جو سب کچھ دیتا ہے۔ ‘‘ شاباش میرا پتر ……شاباش ……‘‘ بابا رحیمو نے پیار سے اللہ رکھا کوگلے سے لگا لیا۔
’’ با با میں نے پڑھنا ہے اور ابا پڑھنے نہیں دیتا۔ ‘‘ اللہ رکھا نے بابا رحیمو کے گلے سے چمٹے ہوئے اپنے ابا کی شکایت لگائی۔
’’ ہاں پتر ! توں بھی پڑھے گا اور بستی کے سارے بچے بھی پڑھیں گے۔ کمالو اٹھو بستی والوں سے کہو شام کو سارے بستی والے اکٹھے ہو جائیں۔ میں بستی والوں کو کہتا ہوں اپنے سارے بچوں کو سکول میں داخل کرائیں میں ان کے ساتھ سکول کے ہیڈ ماسٹر کے پاس جاؤں گا۔ ‘‘بابا رحیمو کی بات سن کر مجال تھی کہ کمالو کچھ اور بولتا۔ وہ بھی کچھ سوچتا ہو ا جھونپڑی سے باہر نکل گیا تاکہ بابا رحیمو کا پیغام سب کو دے سکے۔ با با رحیمو کی بات سن کر اللہ رکھا کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔ اس کے خیالوں میں آسمانی رنگ کی وردی اور گلے میں کپڑے کا تھیلے تھا۔ جس میں کتابیں رکھ کر وہ سکول جایا کرے گا اور پھر وہ تصویروں والی کتاب بھی اس کی اپنی ہو گی۔
(۱) لئی دریا کے کناروں اور دریا کے درمیان خشک جگہ پر پیدا ہونے والا پودا جس کی چھڑیوں سے ٹوکریاں اور ٹوکرے بنائے جاتے ہیں۔
(۲)دریا چناب کے کنارے بسنے والی وہ آبادیاں جو صدیوں سے دریا کے کناروں پر جھونپڑیاں بنا کر رہتے آ رہے ہیں۔ ان کا ذریعہ روز گار لئی سے ٹوکرے بنا نا، بیچنا اور دریا سے مچھلیاں پکڑنا ہے۔ انہیں مقامی زبان میں مور کہتے ہیں۔
(۳) مقامی زبان میں قبیلے کے سردار کو مکھیا کہتے ہیں۔
٭……………٭……………٭
ایک کہانی، تھوڑی پرانی
بیڈ روم اکھاڑے کا منظر پیش کررہا تھا، نومی اور کامی دونوں نے بیڈروم میں دنگل لگا رکھا تھا، سامنے کرسیوں پر سائرہ، پپو اور مٹھو تینوں بیٹھے زور زور سے آوازیں کس رہے تھے، وہ …مارا…وہ …مارا۔ ’’آج ہمارا جھارا پہلوان جیت جائے گا، دیکھنا وہ تمہارے گامے، مامے کو چت کر دے گا۔ ‘‘مٹھو جو کہ نومی کا حامی تھا وہ نومی کو جھارا کہہ رہا تھا اور دوسری طرف سائرہ اور پپو دونوں کامی کے حامی تھے انہوں نے آج کے دن کامی کا نام گاما پہلوان رکھ لیا تھا۔
نومی، کامی، سائرہ، پپو اور مٹھو تینوں چچا زاد تھے، نومی کے گھر میں آج دنگل کا اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ محلے میں آنٹی حاجراں کافی دنوں سے بیمار تھیں اور نومی کے امی ان کی تیمار داری کرنے گئی ہوئی تھی۔ کراچی میں ان دنوں پاکستان کے نامور پہلوانوں کے دنگل کا بڑا چرچا تھا، قائد اعظم کے مزار کے احاطے میں واقع میدان میں دنگل کی تیاری پورے زور و شور سے جاری تھیں، روزانہ ٹی وی پر اس دنگل کی پرچار ہوتی تھی۔ کل رات کی بات ہے جب ٹی وی پر اس دنگل کا اشتہار دیکھ کر نومی نے ابو جان سے کہا کہ ہم سب بھی یہ دنگل دیکھنے جائیں گے تو ابو نے فوراََ سے اس کی یہ فرمائش پوری کرنے کے لیے ہاں کر دی، بس پھر تو نہ پوچھیے نومی کا …کہ اس کی خوشی سنبھالی نہیں جا رہی تھی اس نے اسی وقت پورے گھر میں اعلان کر دیا کہ ہم اگلے جمعہ کے دن مزار قائد کے احاطے میں ہونے والے دنگل کو دیکھنے جا رہے ہیں۔
اگلے دن سکول جاتے ہوئے اور سکول ٹائم میں بھی صرف دنگل کی باتیں ہی ہوتی رہیں کہ دنگل میں کیا ہو گا۔ کون جیتے گا ؟
میرا خیال ہے جھارے پہلوان کو جیتنا چاہیے۔ نومی نے جھارا جو اشتہار میں تو بڑا موٹا تازہ لگتا تھا، اس کی تصویر سے اندازہ لگاتے ہوئے کہا تو کامی فوراََ سے بولا ’’نہیں جھارا نہیں گاما پہلوان زیادہ طاقت ور ہے وہ جیت جائے گا۔ ‘‘
’’بھلا وہ کیسے جیت جائے گا جبکہ اشتہار میں دیکھو تو سہی وہ جھارے پہلوان سے کم طاقت ور لگتا ہے۔ ‘‘نومی نے جھٹ سے کہا۔
’’نومی ! وہ جیتے گا …دیکھ لینا وہ جیتے گا۔ ‘‘ کامی نے غصے سے مکا ڈیسک پر مارا تو ساری کلاس کی نظر کامی پر چلی گئی۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے ؟‘‘ مس فوزیہ نے کامی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا اور اسے اپنے پاس بلا لیا۔
’’وہ …وہ …مس …جو مزار قائد کے احاطے میں دنگل ہو گا اس میں جھارا پہلوان اور گامے پہلوان کا مقابلہ ہے، نومی کہتا ہے کہ جھارا پہلوان جیت جائے گا جبکہ میں کہتا ہوں کہ نہیں گاما پہلوان جیت جائے گا۔ ‘‘ کامی کی بات سن کر مس فوزیہ نے نومی کو بھی اپنے پاس ہی بلا لیا۔
’’ کتنی بری بات ہے کہ آپ لو گ چھوٹی چھوٹی بات پر اتنا غصہ میں آ گئے ہو۔ میدان کوئی بھی ہو، چاہے جنگ کا میدان یا کھیل کا میدان یا پھر کشتی کے لیے اکھاڑا ہو اس میں دونوں فریقین مقابلہ کرتے ہیں اور جو اپنی عقل کا استعمال کرتا ہے وہ ہی جیت جاتا ہے، طاقت سے کبھی کوئی نہیں جیتا۔ طاقت کے زور پر جیتنے والے عقل کے سامنے ہار جاتے ہیں۔ جیسے ابھی آپ دونوں عقل کے سامنے ہار گئے۔ ‘‘ مس فوزیہ نے دونوں کو سرزنش کی۔
’’مگر مس!میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا وہ تو کامی نے ڈیسک پر زور سے غصے میں ہاتھ مارا ہے۔ ‘‘ نومی نے جھٹ سے اپنا دفاع کیا۔
’’ دیکھو! آپ دونوں خوامخواہ اس اس بات پر جھگڑ رہے ہو، جس کا نتیجہ ابھی آنا ہے اور نتیجہ کیا آئے گا ؟ اس کا نہ تو جھارے پہلوان اور نہ گامے پہلوان کو پتہ ہے کہ ان دونوں میں سے کون جیتے گا جبکہ بچو دیکھو جو بھی میدان میں کسی مقابلے کے لیے اترتا ہے تو یہ سوچ کر اترتا ہے کہ وہ جیت جائے گا۔ شاباش اب آپ دونوں اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھوسکول ٹائم کے دوران اپنی توجہ ان باتوں کی بجائے اپنی پڑھائی پر مرکوز رکھو کیوں کہ آپ دونوں کے لیے یہ سکول اکھاڑہ ہے جہاں آپ پڑھائی میں مقابلہ کر رہے ہو۔ ‘‘مس فوزیہ نے ان دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ مس فوزیہ کی بات سن کر دونوں اپنی اپنی سیٹ پر جابیٹھے۔
٭٭٭
’’یہ کیا تماشہ لگا رکھا ہے ؟‘‘ نومی کی امی جو آنٹی حاجراں کے گھر سے ان کی تیمار داری کر کے گھر واپس آئی تو انہوں نے بیڈ روم میں بچوں کا اودھم دیکھ کر اونچی آواز میں کہا تو نومی اور کامی جو دونوں پنچوں میں پنجے ڈالے ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے زور آزمائی کر رہے تھے ایک دم سے سہم گئے اور …’’وہ …وہ …امی …!‘‘ ابھی ان آواز نکلنے ہی نہیں پائی تھی کہ جھٹ سے امی نے کہا کہ چلو نکلو اس بیڈ روم سے کچھ دیر کے گھر کو اکیلا کیا چھوڑا کہ پورے کمرے کی سیٹنگ تہس نہس کر کے رکھ دی ہے، نومی ! آپ کے ابو کو آنے دو میں تمہارے کارنامے ان کو بتاتی ہوں کہ ان کا لاڈلا ان کے پیچھے کیا کیا کارنامے سرانجام دے رہا ہے۔ ‘‘نومی کی امی غصے سے بولی جا رہی تھی اسی دوران سارے بچے کمرے سے باہر نکل گئے۔
رات کو ڈرامے دیکھتے ہوئے، وقفے کے دوران مزار قائد میں ہونے والے دنگل کا اشتہار آ رہا تھا۔ اشتہار دیکھ کر نومی کی امی کو دن والا واقعہ یاد آگیا۔
’’نومی کے ابا! آج دن میں پتہ ہے تمہارے لاڈلے نے کیا کیا۔ ‘‘امی کی آواز سن کے نومی سمیت سارے بچے سہم گئے کہ اب خیر نہیں ہے کہ اس شکایت کے بعد ان سب کی درگت بننے والی ہے۔
’’بیگم صاحبہ ! اب کیا ہو گیا۔ کیا کوئی ہمارے نومی نے نئی شرارت کر ڈالی ہے۔ ‘‘ نومی کے ابو نے نومی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں …ہاں …آپ تو سارا دن دفتر میں ہوتے ہیں۔ پیچھے ان کے سارے کرتوت مجھے ہی بھگتے پڑتے ہیں۔ ایک آپ ہیں کہ آپ کو کچھ بتاؤ تو ہنس کے اپنے لاڈلے کی سارے کرتوتوں پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘ نومی کی امی حسب معمول غصے سے بولتے ہوئے کچھ بتائے بغیر کمرے سے باہر نکل گئیں۔
’’نومی بیٹا ! آج کیا ہو ا۔ ؟ نومی کے ابو نومی کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس سے پہلے کہ نومی کچھ بتاتا، کامی، مٹھو، سائرہ اور پپو جھٹ سے بولے۔
’’ وہ انکل ! آج آنٹی کسی کے گھر ان کی تیمار داری کرنے گئی تھیں تو …!‘‘ انہوں نے سارا واقعہ ان کے گوش گزار کر دیا۔
’’ہونہہ ! تو یہ بات ہے۔ اچھا نومی اٹھو اور اپنی امی سے سوری کرو اور ان سے وعدہ کر و کہ ان کی اجازت کے بغیر پھر کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرو گے جس سے آپ کی امی ناراض ہو ں۔ جلدی جاؤ اور امی کو کمرے میں ساتھ لے کے آؤ پھر آپ کو ایک کہانی سناتاہوں۔ ‘‘ کہانی سننا تو نومی کیا ان سب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
٭٭٭
سب بچے نومی کے ابو کے سامنے بیٹھے تھے کہ آج کی تازہ کہانی کیا ہو گی۔ تو نومی کے ابو بولے۔
’’دیکھو بچو! آج جو کہانی میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں۔ وہ کہانی تھوڑی پرانی ہے لیکن آپ سب نے غور سے سننی ہے اور کہانی سننے کے بعد اس کہانی میں جو سوال ہو گا اس کا جواب بھی تلاش کرنا ہے۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے انکل ! سب بچونے زور سے کہا۔ اور نومی کے ابو نے کہانی کا آغاز کیا۔
’’بہت پرانے وقتوں کی بات ہے جب ابھی آپ اس دنیا میں نہیں آئے تھے، ہم بھی نہیں آئے تھے۔ ایک ملک میں میں ایک پہلوان رہتا تھا جسے لوگ رستم ہند کہتے تھے۔ اس کی طاقت کا چرچا پورے ہند میں تھا۔ اسے خبر ہوئی کہ ہند کے ساتھ والی ریاست میں ایک رستم مولتان نام کا ایک پہلوان رہتا ہے، اور اس کی طاقت کا بھی کوئی اندازہ نہیں کر سکتا ہے۔ جب رستم ہند نے رستم مولتان کے بارے میں سنا تو اسے غصہ آگیا کہ وہ کون ہوتا ہے جو اس سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔ تو اس نے فیصلہ کیا وہ ہند سے جا کر مولتان میں اس رستم مولتان نامی پہلوان سے مقابلہ کرے گا۔ اور لوگوں کو بتائے گا کہ اس سے زیادہ طاقت ور کوئی نہیں ہے۔ پھر وہ دن آن پہنچا جس دن اس نے اپنے سفر کا آغاز کرنا۔ اس زمانے میں زیادہ تر لوگ پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ تو رستم ہند نے بھی پیدل سفر کا آغاز کیا تو اس نے اپنے ایک کندھے پر دس بوریاں شکر اور دوسرے کندے پر دس بوریاں سَتو کی رکھیں اور مولتاں کی طرف چل پڑا۔
’’ انکل یہ اچھی خاصی وزنی بوریاں ہوں گی۔ ‘‘ سائرہ نے جھٹ سے کہا۔
’’خاموشی سے کہانی سنو۔ انکل نے بتایا تو ہے کہ وہ طاقت ور تھا آپ جیسا سنگل پسلی نہیں تھا جو اتنا وزن نہ اٹھا سکتا۔ ‘‘مٹھو نے ٹوکتے ہوئے کہا۔ نومی کے ابو نے مسکر ا کر ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر کہانی شروع کر دی۔
’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس نے سفر کا آغاز کیا۔ سارا دن وہ سفر کرتا رہا اور دوپہر کے وقت جب وہ ریاست مولتان کی حدود کے آغاز پر ہی دریائے چناب کے پل پر پہنچا تو اسے پیاس محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی بوریاں زمین پر رکھیں اور دریا کے پانی پر نظر ڈالی تو دریا کے کنارے کے ساتھ ہی پانی میں بہت سے بھینسیں دریا کے پانی میں بیٹھیں ٹھنڈے پانی کے مزے لے رہی تھیں۔ اس نے اندازہ لگایا کہ جس جگہ بھینسیں ہیں وہ جگہ زیادہ گہری نہیں ہے۔ اس نے ایک ہاتھ سے ساری بھینسیں اٹھا کر دریا سے باہر پھینک دیں اور اس جگہ پر اپنی شکر اور سَتوؤں والی بوری خالی کر دیں کہ تاکہ وہ شربت بنا کر اپنی پیاس بجھا سکے۔
’’یہ کیا ؟انکل آپ یہ جھوٹی کہانی سنا رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اتنی بڑی بھینسوں کو ہاتھ سے اٹھا کر دریا سے باہر پھینک دے۔ ‘‘ پپو، سائرہ، کامی اور مٹھو نے کہانی کے درمیان میں ٹوک دیا۔
’’ابو ! بتا تو رہے ہیں کہ وہ طاقت ور پہلوان تھا جس کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ‘‘نومی جو دلچسپی سے کہانی سے سن رہا تھا اس نے اپنے ابو کی طرف داری کی۔
’’ بچو! میں نے کہا تھا کہ یہ بہت پرانی کہانی ہے جب ہم اور آپ اس دنیا میں نہیں آئے تھے اس زمانے میں بڑے طاقت ور لوگ پیدا ہوتے تھے۔ اور خاموشی سے کہانی سنیں نہیں سننی تو ابھی اور اسی وقت کہانی ختم کر دوں گا۔ یہ کہانی سننے کے بعد جو سوال ہو گا اس کا اگر آپ لوگ جواب دیں گے تو آپ کو مزار قائد کے احاطے میں ہونے والے دنگل میں لے کر جاؤں گا۔ ‘‘ نومی کے ابو نے کہا۔
’’ نہیں انکل ! آپ سنائیں ہم تو بس ایسے ہی کہہ رہے تھے۔ مزے کی کہانی ہے۔ ‘‘ کہانی کے دوران ٹوکنے والے بچوں نے جھٹ سے سہمے لہجے میں کہا کہ کہیں دنگل دیکھنے کا پروگرام ادھورا نہ رہ جائے۔ ان کی بات سن کر نومی کے ابو مسکرائے اور پھر گویا ہوئے۔
’’ ہاں تو بچو! رستم ہند نے دریا کے پانی سے اپنی پیاس بھجائی اور پھر دوبارہ وہ سڑک پر آگیا جو مولتان کی طرف جا رہی تھی۔ اسے چونکہ رستم مولتان کا پتہ نہیں تھا کہ وہ مولتان میں کس جگہ پر رہتا ہے تو اس نے ایک راہ گیر سے رستم مولتان کے گھر کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ رستم مولتان کا گھر قصبہ شجاع آباد میں ہے۔ اور اس نے اسے راستہ سمجھایا کہ وہ کس راستے سے رستم مولتان کے گھر پہنچ سکتا ہے۔ اور رستم ہند اس کے بتائے گئے راستے پر چلتا ہو دوپہر ڈھلنے سے پہلے قصبہ شجاع آباد میں پہنچ گیا۔ قصبہ میں پہنچ کر اس نے رستم مولتان کا گھر معلوم کیا تو اسے بتایا گیا وہ سامنے والا کچا گھر جس کے دیواروں پر ہلکے نلکے رنگ کا روغن کیا گیا ہے وہ رستم مولتان کا گھر ہے۔ جب رستم ہند اس گھر کے سامنے پہنچا تو دروازے پر دستک دینے سے پہلے رک گیا کہ اگر اس نے دروازے پر دستک دی تو اس کی توہین ہو گی۔ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے رستم مولتان کو معلوم ہو کہ اس کے گھر کے سامنے رستم ہند آیا ہے اور اس رستم ہند کی دھاگ بیٹھ جائے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ارد گر د نظر دوڑائی تو اسے ایک ہاتھی نظر آیا۔
’’ اچھا انکل ! پھر …پھر …اس رستم ہند نے اس ہاتھی کو دیکھ کر کیا کیا۔ ؟‘‘سارے بچے جو بڑے انہماک سے کہانی سن رہے تھے۔ ان میں سے پپو سے رہا نہ گیا اور جھٹ سے بولا۔
’’پپو ! وہ ہی تو اب انکل بتانے لگے ہیں کہ اس کے بعد کیا ہو ا۔ انکل بتائیں پھر کیا ہوا۔ ‘‘ سائرہ جھٹ سے بولی۔ نومی کے ابو نے مسکراتے ہوئے رکی ہوئی کہانی کا پھر آغاز کیا۔
’’ پھر رستم ہند نے اس ہاتھی کو اٹھا کر رستم مولتان کے صحن میں پھینک دیا اور ایک دھماکے کی آواز آئی۔ دھماکے آواز سن کر وہ خوش ہو گیا کہ اب رستم مولتان کو معلوم ہو گا کہ اس سے بھی کوئی زیادہ طاقت ور ہے۔ ‘‘
نومی کے ابو ابھی اتنا ہی کہا تھا۔ سارے بچے یک زبان بول پڑے۔
’’ یہ کہانی جھوٹی ہے، ایسا ناممکن ہے۔ آپ چیٹ کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’ او ہو …ایک تو یہ آپ لوگوں میں بری عادت ہے کہ پوری کہانی سننی نہیں ہوتی اور شور مچانا شروع کر دیتے ہو۔ پہلے پوری کہانی تو سن لیں۔ آگے سنے گے تو اس سے دلچسپ واقعہ ہو ا۔ تو سنو !‘‘ نومی کے ابو نے کہا۔
’’جی سنائیں ! ‘‘منہ بسورتے ہوئے سب نے کہا۔
’’رستم ہند دوسرے پہلوان کے گھر میں ہاتھی پھینک کر انتظار کرنے لگا کہ ابھی سہما ہو ارستم مولتان باہر نکلے اور اس کی طاقت دیکھ کر وہ مقابلہ کیے بغیر ہی ہار مان جائے گا۔ اور پھر دروازہ کھلا۔ دروازے پر ایک چھوٹی سے یہی کوئی پندرہ سال کی ایک لڑکی ہو گی جس نے جھاڑو پر ہاتھی کو رکھا ہوا اور اسے گھر سے باہر اچھالتے ہوئے کہنے لگی کہ یہ چوہیا سی کس نے ہمارے گھر میں پھینک دی ہے۔ رستم ہند اس لڑکی آواز سن کر حیران رہ گیا کہ جس کارنامے پر وہ فخر کررہا تھا۔ وہ اس چھوٹی سی لڑکی کے لیے کوئی کارنامہ نہیں تھا تو اس کا باپ کے سامنے یہ کارنامہ کیا ہو گا۔ اس نے جلدی سے اس سے پہلے کہ وہ دروازے سے واپس گھر میں داخل ہوتی تو اس نے اس لڑکی سے اس کے باپ کے بارے میں پوچھا اور اسے بتایا کہ وہ اس کے باپ رستم مولتان سے مقابلہ کرنے کتنی دور سے آیا ہے۔ تو لڑکی نے کہا کہ چاچا جی ! ابا جان تو جنگل سے لکڑیاں کاٹنے گئے ہیں بس آنے والے ہی ہیں آپ اتنی دیر گھر میں بیٹھیں میں چائے پانی کا انتظام کر تی ہوں۔ لیکن رستم ہند کو غصہ تھا کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے رستم مولتان سے ملے اور اس سے مقابلہ کر کے اسے پچھاڑ دے اور دونوں ریاستوں میں اپنی طاقت کی دھاگ بٹھا دے۔ اس نے کہا کہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے مجھے یہ بتاؤ کہ جنگل کی طرف کون سا راستہ جاتا ہے میں تمہارے باپ کو وہیں مل لیتا ہوں۔ لڑکی نے جب دیکھا کہ رستم ہند اس دعوت قبول کرنے کی بجائے اس کے باپ سے جلد سے جلد ملنے کا خواہش مند ہے تو اس جنگل کی طرف جانے والا راستہ اسے بتا دیا کہ وہ سامنے والی گلی ختم ہوتے ہیں جو کچا راستہ رہا ہو گا وہ سیدھا جنگل کی طرف ہی جاتا ہے۔ اور پھر جنگل کی طرف جانے والا راستہ سمجھ کر رستم ہند نے جنگل کی راہ لی تاکہ وہ جلد سے جلد رستم مولتان سے مل کر اس سے مقابلہ کر سکے۔ ابھی جنگل کے آدھے راستے پر ہی پہنچا ہو گا کہ اس نے دیکھا کہ راستے پر گردو غبار کا اڑ رہا ہے اور اس گردو غبار میں سے اس جیسا کہ موٹا سا بند ہ اپنی ٹانگوں کے ساتھ درختوں اور اور اپنے کندھوں پر دو پورے درخت لاد کر لا رہا ہے۔ اس نے فوراََ پہچان لیا کہ ہو نہ ہو یہ ہی رستم مولتان ہے جو اتنی طاقت کا مظاہر ہ کر رہا ہے۔ اس نے اس کے سامنے پہنچتے ہی اسے للکارا کہ اے بندہ خدا کیا تم ہی رستم مولتان ہو۔ درخت کھینچ کر لانے والا رک گیا اور اس نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تو رستم ہند نے اسے اپنا مدعا بیان کیا اس نے کہاں سے
کہاں تک کا سفر صرف اس سے مقابلہ کرنے کے لیے طے کیا ہے۔ رستم ہند کی بات سن کر رستم مولتان نے کہا کہ آپ میرے مہمان بن کر آئے ہیں تو آج آپ میرے گھر آئیں تاکہ میں آپ کی مہمان نوازی کا شرف حاصل کر سکوں اور کل کا سورج نکلتے ہیں ہم اکھاڑے میں مقابلہ کر لیں۔ لیکن رستم ہند نہ مانا ا س نے کہا کہ کل کا سورج کس نے دیکھا ہے۔ میں ابھی اور اسی وقت آپ سے مقابلہ کر نا چاہتا ہوں۔ جب رستم مولتان نے دیکھا کہ رستم ہند اس کی ایک نہیں مان رہا تو اس نے درخت ایک طرف کیے اور اسی کچے راستے پر اکھاڑا سجا لیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے زور آزمائی کرنے لگے لیکن جب کافی دیر گزر گئی اور دونوں میں مقابلہ سخت ہونے کے ساتھ ساتھ برابر تھا لیکن فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔ تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے قریب سے ایک بوڑھی عورت اپنے سر پر روٹیوں کی چنگیر رکھے گزر رہی تھی اس کے ہاتھ میں لسی کا گڑوا بھی تھا۔ تو انہوں کچھ دیر کے لیے اپنا مقابلہ روک دیا اور اس بوڑھی عورت سے کہنے لگے کہ آپ ہمارا
مقابلہ دیکھیں اور ہمیں بتائیں کہ ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے ؟ وہ بوڑھی عور ت کچھ دیر تو ان کا مقابلہ دیکھتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ دونوں ابھی تک برابر کا جوڑ ہیں تو اس نے ان دونوں پہلوانوں سے کہا کہ مجھے دیر ہو رہی ہے اور پہلے ہی آج دوپہر کا کھا نا میں دیر سے لے کر کھیتوں میں جا رہی ہوں اور میرا بیٹا بھوکا بیٹھا ہو گا۔ آپ دونوں برابر ہیں۔ لیکن دونوں نے کہا کہ اے بوڑھیا تم اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک ہمارا فیصلہ نہ ہو جائے۔ ان دونوں پہلوانوں کی بات سن کر اس بوڑھیا کو غصہ آیا تو اس نے دونوں پہلوانوں کو اٹھایا اور اپنے سر پر روٹیوں والی چنگیر میں یہ کہتے ہوئے رکھ لیا۔ یہ لو اب کرتے رہو مقابلہ …! میرا بیٹا بھوکا بیٹھا ہو گا۔ میں اتنا انتظار نہیں کر سکتی۔ وہ دونوں اس روٹیوں کی چنگیر میں مقابلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور بوڑھی عورت کھیتوں کی طرف جا رہی تھی۔ ‘‘
’’ دیکھا نہ میں نے کہا تھا کہ یہ کہانی جھوٹی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بوڑھی عور ت ان پہلوانوں کو اٹھا کر اپنی روٹیوں والی چنگیر میں رکھ لے۔ انکل آپ تو ایسے کہہ رہے کہ جیسے یہ پہلوان نہ ہو کسی مرغی کے چوزے ہوں۔ ‘‘ سائرہ نے ایک بار پھر کہانی کے درمیان ٹوکا۔
’’ سائرہ خاموشی سے کہانی سنو ! ورنہ دنگل میں نہیں لے کر جاؤں گا۔ ‘‘ اب کی بار نومی کے ابو نے دنگل میں نہ لے جانے کی پھر دھمکی دے ڈالی۔
’’نہیں …نہیں …انکل آپ سنائیں۔ اس کو کیا پتہ کہ کہانی کیا ہوتی ہے۔ جب آپ نے بتایا بھی ہے کہ یہ کہانی ذرا پرانی بھی ہے اور پھر اس کہانی میں ایک سوال بھی تو ہے۔ ہم اس انتظا میں ہیں کہانی کے آخر پر سوال کیا ہو گا۔ پلیز انکل چھوڑیں نا!‘‘ مٹھو نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ تو نومی کے ابو نے ایک بار کہانی کا آغاز کیا۔
’’ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ وہ دونوں پہلوان اس روٹیوں کی چنگیر میں مقابلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اسی دوران آسمان پر اڑتی ہوئی ایک چیل کی نظر ان پر پڑ گئی تو ایک دم سے اس نے وہیں سے ہوا میں غوطہ لگایا
اور روٹیوں والی چنگیر میں سے ان دونوں پہلوانوں کو جھپٹا مار کر اپنے پنجوں میں دبوچ لیا اور پھر وہ چیل آسمان کی طر ف اڑ گئی۔ لیکن ان دونوں پہلوانوں کے نہیں معلوم تھا کہ وہ چیل کے پنچوں میں ہیں بس وہ تو دونوں اپنی دھن میں مگن زور آزمائی کر رہے تھے۔ اور پھر پتہ ہے کیا ہو ا؟۔ ‘‘ نومی کے ابو نے کہا
’’اچھا پھر کیا ہو ا ؟ ابو جان جلد ی بتائیں نا۔ ‘‘ نومی جو پورے انہماک سے کہانی سن رہا تھا جھٹ سے بولا۔
’’ پھر یہ ہوا کہ دور کہیں ایک محل کے باغیچے میں ایک شہزادی اپنی کنیزوں کی ساتھ سیر کر رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور اس دن موسم بھی بڑا سہانا تھا۔ ایک کنیز نے شہزادی سے کہا کہ اے پیاری شہزادی دیکھو آج آسمان پر کتنے خوبصور ت بادل ہیں۔ شہزادی نے جب آسمان کی طرف دیکھا تو اسی وقت وہ چیل جس کے پنجوں میں دونوں پہلوان زور آزمائی کر رہے تھے۔ ایک پہلوان اس کے پنجے سے پتہ نہیں کس طرح نکلا اور سیدھا، شہزادی جو آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اس کی آنکھ میں آن گرا۔ تو اسی وقت شہزادی نے اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھا اور کنیز سے کہنے لگی کہ دیکھو میری آنکھ میں کیا شے ہے۔ جب کنیز نے شہزادی کی آنکھ میں آرام سے اپنے ڈوپٹے کے پلو کی نوک کے ساتھ اس پہلوان کو باہر نکالا تو کنیز کہنے لگی۔ شہزادی صاحبہ میرے خیال میں یہ کوئی خون پی پی کر موٹا تازہ مچھر لگتا ہے جو آپ کی آنکھ میں آگیا ہے۔ اور پھر اس نے اپنی انگلی سے اسے اچھال دیا اور اپنی سانس کی گرمی سے ڈوپٹہ گرم کر کے شہزادی کی آنکھ پر رکھ دیا تاکہ آنکھ کی جلن کچھ کم ہو سکے۔ کہانی ختم
سارے بچے جو انہماک سے کہانی سن رہے تھے ایک دم چونکے۔ کیا کہانی ختم ہو گئی۔ لیکن اس میں ایسا کیا سوال ہے ؟ جو آپ پوچھنا چاہ رہے ہیں۔
’’ تو بچو! اب یہ کہانی سننے کے بعد سوال یہ کہ آپ لوگ بتاؤ کہ ان دونوں پہلوانوں میں سے طاقت ور پہلوان کون سا ہو گا۔ ؟‘‘ اس سے پہلے
سے بچے کچھ جواب دیتے۔ نومی کے ابو نے کہا کہ اس کا جواب کل تک آپ لوگ تلاش کریں۔ میں تو چلا اب سونے اب آپ بھی سو جاؤ۔ شب بخیر۔
٭٭٭
مور پنکھ
بانسری کی آواز اس کے کانوں میں پڑ رہی تھی جب اس نے دریائے چناب کی طرف قدم اٹھانے شروع کیے۔ یہ رو ز کا معمول تھا کہ جب مور پنکھ کو بانسری کی آواز سنائی دیتی تو اس کے قدم اس بانسری کی آواز کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتے تھے۔ آج پھر حسب معمول وہ ہی آواز تھی جو اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ وہ روزانہ کی طرح دریا کے کنارے لگے درخت کے نیچے بیٹھابانسری والے کو دیکھنے لگا جو اس سے عمر میں یہ ہی کوئی پانچ سال بڑا ہو گا، مور پنکھ کبھی اس لڑکے کے نزدیک نہیں گیا تھا کہ اس سے نام پوچھ لے بس وہ تو اسے دور سے بیٹھ کر دیکھا کرتا تھا۔ اپریل کی ابتدا تھی اور صبح کے وقت ہی دھوپ تیز ہوتی تھی، مور پنکھ تو درخت کے نیچے بیٹھ کر اس لڑکے دیکھتاجو دریا کے بیچوں بیچ بیٹھا بانسری بجایا کرتا تھا اور اس کی بھیڑ بکریاں دریا کے کنارے گھوم کر چرتی تھیں۔ مور پنکھ بانسری کی آواز میں اتنا کھویا کہ اسے اس لڑکے کا خیال ہی نہ رہا اور وہ اپنی سوچوں میں بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ کبھی وہ اس بانسری کی طرح بانسری بجانا سیکھے گا۔ جب اس کے کانوں میں کرخت آواز آئی۔
’’اوئے اندھا ہے، اپنی بکریوں اپنے قابو میں نہیں رکھ سکتا دیکھ تمہاری بکریوں نے میری فصل اجاڑ دی۔ ‘‘ یہ چاچا اللہ وسایا کی آواز تھی۔ جو شاید اسی لڑکے کو ڈانٹ رہا تھا اور لڑکا بانسری چھوڑ کر اپنی بکریوں کی طرف دوڑ رہا تھا کہ انہیں ہانک کر فصل سے باہر نکال لے جائے۔
مور پنکھ کے اماں باوا بتاتے تھے کہ’ پتر !یہ دریا ئے چناب ہے، اور اب توں جس سوکھے دریا کو دیکھتا ہے یہ ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ پہلے یہ چناب پانی سے بھرا ہوتا تھا اور دریا پار کرنے کے لیے وہ سامنے والے درختوں کے نیچے کشتیوں کا پتن(کشتی کھڑی کرنے کی جگہ ) ہوتا تھا جہاں سے ہم سب بستی والے کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کیا کرتے تھے۔ اس دریا میں بہار کے موسم میں مور پنکھ اترا کرتے تھے، بہت خوبصورت پرندہ ہوتا تھا۔ اب تو نجانے کہاں گئے وہ موپنکھ کبھی دیکھے ہی نہیں …!‘‘
’’بابا ! مور پنکھ کیا خوبصورت ہوتے تھے ؟‘‘ ایک دن مور پنکھ نے اپنے بابا سے پوچھا تو بابا نے بتایا کہ ’’ہاں پتر! مور پنکھ پانی کی سرزمین پر اترتے ہیں، جب وہ کافی عرصہ نہ آئے توشہر کے لوگ جو مور پنکھ دیکھنے آتے تھے انہوں نے بھی آنا ختم کر دیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ دریا میں اب اتنا پانی نہیں آتا اور نہ ہی مور پنکھ آتے ہیں تو شہر کے لوگوں نے ادھر بستیوں کا رخ کرنا بھی چھوڑ دیا۔ ‘‘
’’پتر ! جب ہم نے بھی دیکھا کہ اب مور پنکھ کبھی نہیں آئیں گے تو ہم بھی مایوس ہو گئے اور پھر اس دوران تم پیدا ہوئے تو ہم نے اس پرندے کی یاد میں تمہارا نام مور پنکھ رکھ دیا۔ اب جب تم ہمارے سامنے آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ دریا میں پانی لوٹ آیا ہے اور ساتھ ہی مور پنکھ بھی لوٹ آئے ہیں۔ ‘‘ مور پنکھ کے بابا نے افسردہ لہجے میں مور پنکھ کو یاد کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اور پھر پتر مور پنکھ! اب توں دیکھتا ہے دریا خشک ہو گیا ہے بس دریا کے درمیان میں پانی کی ایک لکیر ہے جسے ہم پیدل عبور کر لیتے ہیں، پتہ ہے پتر یہ جو وڈیرہ سائیں ہے نا اس نے دریا میں اونچی جگہ دیکھ کر قبضہ کر رکھا ہے اور وہاں پر اپنے مزارع بٹھا دیے ہیں جو فصل بوتے ہیں اور وڈیرہ سائیں ساری فصل لے جاتا ہے۔
’’باوا! یہ دریائے چناب کا پانی کہاں گیا ہے ؟‘‘مور پنکھ نے ایک دن اپنے بابا سے پوچھا۔
’’پتر ! مجھے زیادہ تو پتہ نہیں بس ایک دن شہر سے چند لوگ آئے ہوئے تھے جن کی گاڑیاں وہ سامنے جو دریا کے کنارے درخت لگے ہیں ان کے نزدیک ٹھہری تھیں۔ تو اس دن ہم سب بستی والے اسی جگہ پر اکٹھے ہوئے تھے۔ وہ ہم سے ہمارے مسائل پوچھ رہے تھے۔ کہ دریا میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو کیا مسائل آ رہے ہیں۔ ‘‘مور پنکھ کے بابا نے بتاتے ہوئے ایک سانس لیا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ ’’پتر ! میں نے بتایا کہ میں پہلے کشتی کا ملاح تھا تو کچھ نہ کچھ روزی روٹی کا سامان بن جاتا تھا۔ دریا سوکھنے کے بعد اب لوگوں کو کشتی کی ضرورت ہی نہیں رہی تو گذر بسر مشکل ہو گیا ہے۔ ‘‘
’’پھر بابا ! کیا انہوں نے اس کا حل نہیں بتایا۔ ‘‘ مور پنکھ نے تجسس سے پوچھا۔
’’پتر ! انہوں نے مسئلے کا حل تو نہیں بتایا پر مجھے یاد ہے کہ جب چاچے دینو نے پوچھا کہ ہمارے دریا بادشاہ خشک کیوں ہو گیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ’’ دریائے چناب جو صدیوں سے پوری آب و تاب کے ساتھ بہتا چلا آ رہا تھا اب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کے نصف پانی پر قبضہ کر لیا ہے۔ ‘‘تو چاچے دینو نے ایک بار پھر پوچھا کہ بھارت نے کیسے قبضہ کیا ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ ’’ بھارت نے دریائے چناب اور دریائے جہلم پر چار بڑے، پانچ درمیانے اور بیس چھوٹے ڈیم مکمل کر لیے ہیں۔ بڑے ڈیموں میں بگلیہار ڈیم سب سے بڑا ہے۔ ان ڈیموں کی وجہ سے 34لاکھ کیوسک پانی اب بھارت اپنے پاس محفوظ کر رہا ہے۔ پتر انہوں نے دریائے سندھ کے حوالے سے بھی بتایا تھا کہ دریائے سندھ پر بھی بھارت نے دو بڑے اور اکیس چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سن2012ء تک مکمل کر لینی ہے۔ جب وہ اس وقت دریائے سندھ پر چودہ ڈیم مکمل کر چکا ہے۔ ‘‘ مور پنکھ کے باوا مور پنکھ کو ہونے والی گفتگو بتا رہا تھا۔ مور پنکھ کچھ سمجھ رہا تھا اور کچھ نہیں بس اسے اتنا ہی پتہ چل رہا تھا کہ ہمسایہ ملک بھارت کی وجہ سے ان کا دریائے چناب خشک ہو گیا ہے۔ اسی دوران اس کے باوا بولے چاچا دینو نے ان سے سندھ طاس معاہدے کا بھی پوچھا تھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ جب ایوب خان کا دور حکومت تھا تو اس وقت پاکستان اور بھار ت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ دریائے بیاس جس کا پانی دریائے چنا ب کی طرح پاکستان استعمال کر تا تھا۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا کہ دریائے بیاس کا سارا پانی بھارت اپنے پاس محفوظ رکھے گا۔ جب پاکستان کے پاس دریائے راوی، دریائے ستلج، دریائے چناب اور دریائے جہلم کا پانی آئے گا۔ جب دریائے سندھ جو سندھ ساگر کہلاتا ہے وہ پہلے ہی شمال میں واقع گلیشیئر سے نکلتا ہے۔ اس کا پانی بھی پاکستان ہی استعمال کرے گا۔ اور اس معاہدے کی رو سے پانچ دریاؤں کا پانی پاکستا ن استعمال کر ے گا۔ لیکن بھارت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دریائے چناب کا پانی اپنے پاس محفوظ کر لیا ہے۔ اور اس دریا میں سے جو نہریں نکالی گئی ہیں۔ جن نہروں سے پاکستان کا زرعی رقبہ سیراب ہوتا تھا وہ اب بنجر ہو گیا ہے۔ نہروں میں پانی نہیں ہے۔ جس سے پاکستان میں زرعی فصلوں کی پیداوار کم ہو گئی ہے
٭٭٭
مور پنکھ بانسری کی آواز بھی سنتا تھا اور ساتھ وہ اپنے باوا کی باتوں کو یاد کرتا کہ ان کا ہمسایہ ملک نے ان کے دریا کے پانی پر قبضہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے دریا کا پانی خشک ہو گیا ہے۔ اسے اپنے باوا کی وہ باتیں بھی یاد آتی تھیں کہ جب دریا بہتا تھا تو ہر سال سائبیریا سے جو یہاں سے لاکھوں میل دور ایک جزیرہ ہے وہاں سے ہزاروں نسلوں کے پرندے سفر کر کے آتے تھے اور دریائے چناب میں بنے بیلوں میں اپنا بسیر ا کرتے تھے۔ اور شہر سے ہزاروں لوگ ان پرندوں کو دیکھنے آیا کرتے تھے۔ اسے اپنے باوا کی باتیں یاد آتی تو وہ دل ہی دل میں کڑھتا کہ وہ کیا کرے کہ پھر سے شہر کے لوگ ان کے علاقے میں آئیں اور دریا کی سیر بھی کریں اور دریا کے پانی کو دیکھ کر خوش بھی ہوں۔ انہی سوچوں میں وہ عمر کی منزلیں طے کرتا جوانی کو چھونے لگا۔ چونکہ اس علاقے کے قرب و جوار میں کوئی بھی ایسا سکول نہ تھا کہ جہاں سے وہ تعلیم حاصل کر سکتا اور نہ ہی اس کے باوا کے پاس اتنے وسائل تھے کہ وہ مور پنکھ کو قریبی کسی شہر کے سکول میں پڑھنے کے لیے بھیج دے۔ البتہ اس نے بستی کی مسجد سے ناظرہ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک دفعہ وہ اپنے باوا کے ساتھ قریبی قصبے میں گیا تھا۔ راستے میں اسے ایک رنگین تصویروں والی کتاب ملی جو شاید کسی کی گر گئی تھی۔ اس نے جھٹ سے اٹھا لی۔ گھر آ کر اس نے کتاب کی ورک گردانی کی تو وہ حیران رہ گیا اس کتاب میں دریا، کشتی اور دریا کے کنارے پھول دار باغیچے تھے۔ بہت سے لوگ دریا کے کنارے گھومتے نظر آ رہے تھے۔ کتاب کے اگلے صفحے پر بچے اور بڑے ایک قطار میں کھڑے تھے اور دریا کے کنارے پر ایک کشتی کھڑی تھی۔ تصویر میں لگ رہا تھا کہ لوگ کشتی میں بیٹھنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے اگلے صفحے پر لوگوں سے بھری کشتی دریا کے درمیان میں تھی اور ملاح چپو چلا رہا تھا۔ مور پنکھ کو یہ تصویریں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ وہ خوابوں ہی خوابوں میں ایک خوبصورت میں دنیا میں چلا گیا۔ اس نے سوچا کہ کاش ان کی بستی کے سامنے گزرنے والا دریائے چناب کبھی خشک نہ ہوتا بلکہ پانی سے بھرا ہوتا تو وہ بھی اس دریا کے کنارے پر باغیچے لگاتا، اس کے باوا کی کشتی ابھی خشک دریا میں کھڑی تھی۔ کیونکہ جب کبھی بارشیں زیادہ ہوتی تھیں، ایسا سال بھر میں کہیں ایک دو بار ہی ہوتا تھا۔ جب بارشوں کے پانی سے دریا میں پانی نظر آتا اور پانی کی جو لکیر نظر آیا کرتی تھیں وہ ذرا بڑی ہو جاتی تھی تو لوگ دریا پار کرنے کے لیے کشتی کا سہارا لیتے تھے۔ وہ اس کشتی پر لوگوں کو دریا کی سیر کرایا کرتا۔ اسی سوچ میں اس نے کتاب کا اگلا ورق دیکھا تو وہاں دریا کے کنارے پر ایک سٹال نظر آیا جس پر مچھلیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ تو اس کے منہ میں پانی بھر آیا کہ کتنے دن ہو گئے ہیں اس نے مچھلی نہیں کھائی تھی۔ ابھی انہی خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ سے کسی نے کتاب چھین لی۔ اس نے ہڑ ا بڑا کر کتاب چھیننے والے کی طرف دیکھا تو وہ اس کی اماں تھیں۔
’’میرا پتر مور پنکھ ! یہ کتاب کہاں سے لایا ہے۔ ؟‘‘ اماں پوچھتے ہوئے کتاب میں چھپی تصویروں کو دیکھنے لگی۔
’’اماں ! کتنی خوبصورت تصویریں ہیں۔ کیا ہمارا دریائے چناب جب اس میں پانی ہوتا تھا تو ایسا ہی خوبصورت ہوتا تھا۔ ‘‘ مور پنکھ نے اپنی اماں سے پوچھا۔
’’ ہاں پتر ! جس طرح اس کتاب میں دریا کے اندر پانی ہے ایسے ہی ہمارے دریا بادشاہ کے پیٹ میں پانی ہوتا تھا۔ اس وقت ہمارے دریا کے کنارے پر پھولوں والی کیاریاں تو نہیں تھیں لیکن مجھے یاد ہے ایک قطار میں بہت سے سر سبز درخت ہوتے تھے۔ اور دریا کے کنارے پر سر سبز گھاس کی چادر ہوا کرتی تھی۔ تیرے باوا کی کشتی اس گھاس والے کنارے کے ساتھ آ کر کھڑی ہوتی تھی اور اس بستی کے لوگ اور دور کی بستیوں کے لوگ اسی پتن (کشتی کھڑا ہونے کی جگہ )سے دریا عبور کرتے تھے۔
’’اماں ! اگر میں اس کنارے پر درخت لگا لوں، اور بازار سے مچھلی لا کر اس کنارے پر بیچا کروں اور درختوں کے ساتھ پھولوں والی کیاریاں بنا لوں تو کیا لوگ یہاں آیا کریں گے۔ ‘‘ مور پنکھ نے معصومیت سے اپنی اماں سے پوچھا۔
’’ہاں …ہاں …کیوں نہیں پتر !‘‘
’’ تو پھر آپ باوا سے بات کریں نا !‘‘ مور پنکھ نے اماں سے درخواست کی۔
’’ ٹھیک ہے شام کو ہم دونوں تمہارے باوا سے بات کریں گے۔ ‘‘ امی نے مور پنکھ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
شام کو صحن میں بیٹھے ہوئے، مور پنکھ کی اماں نے کہا۔ ’’ مور پنکھ کے باوا ذرا سنتے ہیں، ہمارا مور پنکھ کیا کہتا ہے۔ ‘‘؟اماں نے پاس بیٹھے باوا سے کہا۔
’’کیا کہتا ہے ہمارا مور پنکھ …؟‘‘ باوا نے مور پنکھ کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا۔ مور پنکھ جو نزدیک بیٹھا تھا۔ خود ہی بول پڑا۔ اور اپنا سارا منصوبہ بتا دیا۔
’’ بات تو مور پنکھ کی ٹھیک ہے۔ لیکن ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔ کہ ہمارا مور پنکھ ایسا کوئی کام کر ے۔ ‘‘ مور پنکھ کے باوا نے ہولے سے کہا۔
’’ مور پنکھ کے باوا میں نے ایک منصوبہ سوچا ہے۔ ‘‘ اماں نے جھٹ سے کہا۔
’’ بھلا وہ کیا منصوبہ ہے ؟‘‘ باوا نے پوچھا
’’گھر میں جو اتنی بکریاں ہیں ان میں سے اگر تین بکریاں بیچ دی جائیں تو ہمارے پاس اپنے مور پنکھ کی خواہش پوری کرنے کے لیے پیسے آ سکتے ہیں۔ ‘‘ اماں نے منصوبہ بتایا۔
’’ ہاں یہ ہو سکتا ہے، میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ ان بکریوں سے ہم اپنے مور پنکھ کی خوشی خرید سکتے ہیں۔ ‘‘ باوا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ اس طرح میں بھی اپنے مور پنکھ کا ہاتھ بٹاؤں گا۔ باقی بات رہ گئی اس جگہ کی تو وہ اللہ وسایا کی زمین ہے جس کی آدھی زمین تو دریا برد ہو چکی ہے۔ باقی کنارے پر بھی اس کے کھیت ہیں۔ اس سے بات کرتا ہوں۔ اگر وہ مان گیا تو ہم آنے والے بدھ کو قریبی قصبے میں لگنے والی مویشیوں کے منڈی میں اپنی بکریاں بیچ دیں گے۔ اور شہر میں میں ایک مچھلی فروش میرا واقف بھی ہے۔ اس سے بات کروں گا وہ فارم کی مچھلی ہمیں فراہم کر سکے۔ قریبی بستیوں اور نزدیکی قصبوں میں جیسے پتہ چلے گا کہ دریا چناب کے کنارے ایسی جگہ بھی جہاں لوگ دریا کی سیر کرنے کے ساتھ تازہ مچھلی بھی کھا سکتے ہیں تو ہمارا کام چل نکلے گا۔ ‘‘ باوا نے مور پنکھ اور اس کی اماں سے بات کرتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی بتائی۔
٭٭٭
چاچا اللہ وسایا نے جگہ دینے کے لیے ہاں تو کر دی لیکن جتنی جگہ وہ استعمال کریں گے۔ اس کا اتنا ماہانہ کرایہ دیں گے۔ لین دین کا معاملہ تھا سو مور پنکھ کے باوا نے مان لیا۔ منڈی والے دن انہوں نے اپنی بکریاں منڈی میں فروخت کیں۔ مویشی منڈی جاتے ہوئے باوا مور پنکھ کو بھی ساتھ لے گئے۔ ان کی بکریاں منڈی میں اچھے داموں فروخت ہو گئی تھیں۔ معقول رقم ہاتھ آنے کے بعد بعد از دوپہر وہ دونوں باپ بیٹا منڈی سے فارغ ہو کر باوا کے اس دوست کی طرف چلے گئے جو مچھلی فروخت کرتا تھا۔ اس سے بات ہوئی تو اس نے ان کا خوش دلی سے خیر مقدم کیا۔ اس طرح جس کام کے بار ے میں مور پنکھ نے سوچا تھا وہ ابھی تک تو خیر و عافیت سے انجام پا رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے پندرہ دن کے اندر دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور واپس اپنی بستی میں آ گئے۔ اس دن مور پنکھ بہت خوش تھا۔ اب وہ دریا کے کنارے پر درخت بھی لگائے گا۔ کنارے پر کھڑی اپنے باوا کی کشتی کو نیا رنگ و روغن کرے گا۔ کنارے پر دس مرلہ جگہ کو صاف کر کے اس پر کیاریاں بنا کر گھاس لگائے گا۔ اس نے یہ بھی سوچ رکھا تھا ابھی شروع میں گھر سے چارپائیاں اٹھا کر دریا کے کنارے پر رکھے گا تاکہ لوگ ان چارپائیوں پر بیٹھ کر مچھلی کھا سکیں۔ اور پھر مور پنکھ اور اس کے باوا نے
اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع کر دیا۔ جب انہوں نے دریا کے کنارے درخت لگائے، کشتی کو رنگ و روغن کیا اور دریا کے کنارے پر کیاریوں میں گھا س لگایا تو ان کی بستی کے ساتھ ساتھ نزدیکی بستیوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ باوا حشمت دریا کے کنارے مچھلی تلنے اور بیچنے کا کام شروع کرنے لگا ہے۔ جہاں پر نزدیکی چھوٹے بڑے قصبوں سے لوگ دریا کی سیر کرنے اور مچھلی کھانے آیا کریں گے۔ اور پھر دو ہفتے کی مسلسل محنت کے بعد وہ اس قابل ہو گئے کہ وہ شہر جائیں تو مچھلی والے سے بات کر کے مچھلی لے کر آئیں اور اپنی دکانداری کا آغاز کریں۔
٭٭٭
جس صبح مور پنکھ اور اس کے باوا کا پروگرام بنا تھا کہ وہ شہر جائیں گے۔ لیکن شام سے ہی آسمان پر گہر ے بادل چھائے ہوئے تھے۔ کہ لگتا تھا کہ مینہ ابھی برسا کہ ابھی برسا۔ ساری رات بادل گرجتے رہے۔ صبح نماز فجر کا وقت ہو گا جب گرجتے بادلوں نے برسنا شروع کیا۔ پھر وہ ایسا برسا کہ مسلسل کئی گھنٹے تک بارش ہوتی رہی۔ اماں اور باوا رحمت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچے گھر کے صحن کی ایک دیوار بھی گر گئی۔ گرمی کے موسم میں اس شام اچھی خاصی خنکی تھی۔ اس طرح مور پنکھ اور اس کا باوا قریبی قصبے میں مچھلی فروش سے بات کرنے نہ جا سکے۔ آسمان پر ابھی بھی بادل تھے۔ مون سون کا آغاز تھا۔ انہیں خبر تھی کہ مون سون کے موسم میں برسات تو ہوتی ہے لیکن جتنی بارش اس دن ہوئی اتنی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ رات کو باوا ریڈیو آن کر کے حسب معمول بی بی سی اردو خبریں سن رہا تھا۔ جب خبروں میں بتایا گیا کہ اس سال مون سون کا موسم وقت سے پہلے شروع ہو گا اور سابقہ سالوں کی نسبت بیس فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی۔ جس سے بھار ت سمیت پاکستان میں بہنے والے ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ہے۔
اس رات بھی بارش ہوئی جس سے بستی سے باہر جانے والے
سارے راستے کیچڑ کی وجہ سے خراب ہو گئے۔ کھیتوں میں فٹ فٹ پانی کھڑا ہو گیا۔ بستی کے سارے لوگ اپنے گھر وں میں دبکے رہے۔ اگلے دن جب باوا نے ریڈیو آن کیا تو اس پر خبر آ رہی تھی کہ بھارت میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورتحال واضح ہو گئی ہے اور بھار ت نے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں میں بغیر اطلاع کیے پانی چھوڑ دیا ہے۔ خصوصاً پاکستان میں دریائے چناب کے کنارے بسنے والی آبادیاں محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں اور تازہ اطلاعات کے لیے ریڈیو سمیت اطلاعات کے تمام ذرائع سے رابطے میں رہیں۔ اور اسی ہفتے میں ان تک یہ خبر پہنچ گئی کہ دریا چناب میں اونچے درجے کا سیلاب ہے، شام پانچ بجے ہیڈ تریموں سے ساڑھے چار لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزرے گا، دریائے چناب کے کنارے بسنے والی آبادیاں حکومت کے قائم کردہ ریلیف کیمپوں یا کسی بھی محفوظ مقامات پر جلد سے جلد منتقل ہو جائیں۔ یہ خبر سنتے ہی پوری بستی کی طرح مور پنکھ اور اس کے اماں باوا نے بھی گھر میں سے سارا سامان تو نہیں اپنی بکریاں اور اور پوٹلی میں کچھ کپڑے باندھے اور بستی والوں کے ساتھ سہمے خوفزدہ ہو کر حفاظتی بند پر منتقل ہو گئے اور سیلاب کا انتظار کرنے لگے۔ وہ آدھی رات کا وقت تھا جب سیلابی ریلا ان کی بستی تک پہنچ گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پانی دریا سے نکل کر بستی میں داخل ہوا اور حفاظتی بند تک پہنچ گیا۔ صبح ہوتے تک پانی کی سطح چھ فٹ تک پہنچ چکی تھی۔ حفاظتی بند سے ان کی بستی تک پانی کی چادر تھی اور حفاظتی بند کے ساتھ جو گھر نشیبی سطح پر بنے ہوئے تھے، پانی ان گھروں کی چھتوں کے اوپر سے بھی گزر گیا تھا۔ اس طرح دریائے چناب میں پانی کی آمد کا سلسلہ ایک ہفتہ جاری رہا۔ اس دوران مور پنکھ اور اس کے گھر والے نزدیکی قصبے کے ایک سکول میں چلے گئے جہاں انہیں تین وقت کا کھانا دیا جاتا تھا۔ کوئی ایک ماہ کے بعد جب علاقے میں پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوئی تو وہ باقی لوگوں کی طرف اپنے گھروں کی طرف لوٹے۔ جب وہ اپنی بستی میں پہنچے تو ان کے گھر کی جگہ مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ باقی بستی کی طرح ان کا گھر بھی پانی
کے کسی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ گھر کا سامان بھی بہہ گیا۔ اور جو بکریاں وہ اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، وہ دوران سیلاب وبا پھیلنے کی وجہ سے مر گئی تھیں۔ گھر کی جگہ مٹی کا ڈھیر دیکھ کر اماں اور باوا دونوں کی دھاڑ نکل گئی۔ ان کو روتا دیکھ کر مور پنکھ سے بھی نہ رہا گیا۔ وہ تینوں رو رہے تھے اور ان کو کوئی بھی چپ کرانے والا نہیں تھا۔ مور پنکھ اپنی اماں کی گو د میں چھوٹے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔ ’’اماں اب کیا کریں گے؟ ‘‘
’’پتر ! چپ کر، ہم دریا ئی لوگ ہیں، ہماری قسمت میں یہ ہی سب کچھ ہے ؟ اگر دریا خشک ہو جائے تو ہم برباد ہوتے ہیں اور اگر دریا میں پانی آ جائے تو بھی ہم ہی برباد ہوتے ہیں۔ ‘‘ اماں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
مور پنکھ مٹی کے ڈھیر پر بیٹھا سوچ رہا تھا کہ جو پیسے انہوں نے بکریاں بیچ کر کام کرنے کے لیے اکھٹے کیے تھے۔ اس سے تو اب گھر بنے گا جہاں وہ اپنا سر چھپائیں گے۔ تو کام کرنے کے لیے پھر انتظار کرنا پڑے گا۔ اور جب انتظار ختم ہو گا تو انہیں صدیوں کی طرح ایک اور سیلاب سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی۔ اسی دوران اس کے کانوں میں بانسری کی آواز پڑی تو اس نے گھٹنوں میں دیے سر کو اٹھا کر بانسری بجانے والے کی سمت دیکھا تو دور بستی کی ایک نکڑ میں وہی لڑکا اس کی طرح مٹی کے ڈھیر پر بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ لیکن آج اس بانسری کی آواز سریلی نہیں تھی بلکہ اس آواز میں ایک درد تھا۔ جو درد صرف سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگ ہی سمجھ سکتے تھے۔
٭٭٭
عظیم سوچ
ابو جان نے بتا یا کہ ہم ملتان جا رہے ہیں، تو سب چونک پڑے۔ ’’ ابو ہم سب جائیں گے ؟‘‘ نومی بولا۔ ’’ نہیں تم اور تمہاری امی یہیں گھر پر رہیں گی میں اور سلمیٰ جا رہے ہیں ‘‘۔
میں اپنا سن کر کھل اٹھی۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ابو مجھے اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔ میں نے ایک نظر نومی کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا۔ شاید نومی کو غصہ آ گیا تھا اور پھر نومی کھانا درمیان میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
’’ کیا ضرورت تھی نومی کا دل توڑنے کی‘‘ وہ کیا سوچے گا۔ بچے کو اس طرح’’ ہرٹ‘‘ کرتے ہیں ؟
امی جان بول پڑیں۔
بیگم نومی کو لے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں اگر نومی چلا گیا تو تمہارے پاس کون رہے گا ؟ اور ویسے بھی ابھی چند ماہ پہلے ہی تو تمہارے ساتھ ملتان گھوم کر آ یا ہے۔ اور سلمیٰ کو کافی عرصہ ہو گیا ہے اپنے انکل سے ملے ہوئے، میں نے سوچا اچھی چھٹیاں ہوئی ہیں چلواس بہانے سلمیٰ بھی اپنے انکل اور آنٹی سے مل آئے۔ میرے کچھ دفتری امور ہیں وہ بھی نمٹا لوں گا اور سلمیٰ بھی ملتان دیکھ لے گی۔ اور یہ کہہ کر اٹھ کر چلے گئے،
اور میں سیدھی نومی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی کہ اسے منا سکوں۔
ایک طویل سفر کے بعد ہم ملتان پہنچے تو سفر کی وجہ سے کافی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی، ہم ایک ٹیکسی کے ذریعے انکل کے گھر پہنچے۔ سب گھر والے مجھے اور ابو جان کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’ بھائی صاحب بہت بڑا سرپرائز دیا ہے۔ آنے سے قبل کوئی اطلاع ہی نہیں دی ‘‘۔ انکل کہنے لگے۔
’’بس اچانک ہی دفتر کا کچھ کام نکل آیا تو پروگرام بن گیا ‘‘۔ ابو جان نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ہمیں یہاں آئے ہوئے چار دن ہو گئے تھے۔ شام کو انکل نے بتایا کہ ہم ڈنر کیلئے حیدر صاحب کے گھر جا رہے ہیں انہوں نے آج ڈنر پر مدعو کیا ہے۔
’’ یہ حیدر صاحب کون ہیں ؟‘‘ میں نے انکل سے پوچھا۔
انکل نے بتایا کہ حیدر صاحب ہمارے دفتر کے ساتھی ہیں اور ان کی مسز یہاں کی ایک مشہور استاد اور ماہر تعلیم ہیں۔
میں آنٹی، انکل اور ابو جان حیدر صاحب کے گھر پہنچے تو انہوں نے بہت پر تپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا۔ میں انکا رویہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی، انکا ملنا اور ویلکم کہنا واقعی شاندار تھا۔ وہ ہمارے ساتھ اس انداز میں ملے کہ جیسے برسوں سے جان پہچان ہو، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گپ شپ چلی اور پھر بیگم صفیہ کھانے کا کہہ کر اٹھ گئی۔ کھانا بہت لذیذ تھا، سب نے کھانے کی بہت زیادہ تعریف اور داد دی۔ بیگم صفیہ ہنس ہنس کر داد وصول کر رہی تھیں۔ بیگم صفیہ اور حیدر صاحب بہت زیادہ مہمان نواز تھے۔ کھانے کے کچھ دیر بعد چائے کا دور چلا۔
ابھی چائے پی جا رہی تھی کہ اندر سے ایک بہت ہی پیاری سی بچی نمودار ہوئی نزدیک آنے پر اس نے بڑے ادب سے سب کو سلام کیا اور پھر بیگم صفیہ کے پاس جا کر بولی ’’ باجی میں نے برتن دھو کر کچن صاف کر دیا ہے کیا اب میں جا سکتی ہوں ؟
’’ نہیں ابھی نہیں، ابھی مہمان بیٹھے ہیں کچھ دیر اور ٹھہر جاؤ‘‘۔
اس نے فرمانبرداری سے گردن جھکا لی اور جانے لگی مجھے اس معصوم لڑکی نے بہت متاثر کیا۔
’’ سنو ادھر آؤ۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے اسے آواز دے ڈالی اس نے جاتے جاتے پلٹ کر دیکھا اور پھر میرے قریب آ گئی۔ دھیمے لہجے میں بولی ’’ جی باجی ! کوئی کام ہے مجھ سے ؟‘‘ ’’ نہیں ادھر میرے پاس بیٹھو یہ کیک لو۔ ۔ ۔ ۔ !! میں نے کیک کا ایک ٹکڑا اس کی طرف بڑھایا۔ ’’ نہیں شکریہ آ پ کھائیں۔ میں نے اصرار کیا تو بیگم صفیہ نے بھی کہا لے لو، اس نے شکریہ کہہ کر کیک لے لیا۔ تب میں نے اس سے پوچھا ’’ کیا نام ہے تمہارا۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘
میرا نام گڑیا ہے۔
’’ کونسی کلاس میں پڑھتی ہو ؟‘‘
’’ جی چھٹی کلاس میں۔ ۔ ۔ !‘‘
’’واقعی تم گڑیا کی مانند ہو، میرا نام سلمیٰ ہے کیا تم مجھ سے دوستی کرو گی۔‘‘
گڑیا نے سر ہلا کر میرے دوستی کیلئے بڑھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
بیگم صفیہ کو شاید یہ بات ناگوار گزری تب ہی تو انہوں نے گڑیا کو اندر جانے کو کہا۔
’’ یہ کون ہے ؟‘‘ میں نے بیگم صفیہ سے پوچھا۔
’’ چھوٹے موٹے کاموں کیلئے ملازمہ رکھی ہے ‘‘۔ بیگم صفیہ نے سرسری انداز میں جواب دیا۔
یہ سن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ میں تو سمجھ رہی تھی یہ پیاری سی لڑکی بیگم صفیہ کی بیٹی ہے،
جب اس نے باجی کہہ کر جانے کو کہا تو سمجھی کہ شاید پڑوسن کی بچی ہو، جسے ماں نے ہاتھ بٹانے کیلئے بھیجا ہو۔
لیکن بیگم صفیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ تو ملازم ہے تو مجھے بہت افسوس ہوا۔
شاید گڑیا کے گھر والے مجبوری کی بنا پر اسے یہاں بھیجتے ہوں۔ کچھ دیر بعد ہی میری سوچوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ سب الوداع ہونے کی تیاری میں تھے۔ لیکن میرے خیالوں میں
گڑیا تھی صرف گڑیا۔ ۔ ۔ ۔ !!
اس کی معصوم پیاری سی صورت کسی فلمی منظر کی طرح میرے سامنے رقصاں تھی۔
تقریباً ایک ہفتہ میں اور ابو انکل کے ہاں رہے۔ دو دن بعد ہمارا واپسی کا ارادہ تھا۔
آنٹی اس شام مجھے اپنے ساتھ بازار شاپنگ کے لئے لے گئیں۔ میں نے بہت کہا کہ مجھے کسی شے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ بضد تھیں کہ کچھ نہ کچھ تو لینا ہو گا چاہے کچھ ہو جائے سو مجھے ان کے ساتھ بازار جانا پڑا۔
بازار میں اچانک میری نظر ایک مانوس چہرے پر ٹک گئی۔ یہ چہرہ گڑیا کا تھا۔ گڑیا سوٹ پیک کروا رہی تھی۔ میں تیزی سے اس کی طرف بڑھی، میں نے اسے پکارا تو اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور سلام کیا۔
’’ کیسی ہو گڑیا۔ ۔ ۔ ۔ ٹھیک تو ہو نا ؟۔ ۔ ۔ تمہارے ہاتھ میں اتنے سارے پیکٹ۔ ۔ ۔ تم تو۔ ۔ ۔ ؟
اس نے مجھے بات مکمل نہ کرنے دی اور بولی پلیز ادھر سے چلیں یہاں بہت رش ہے ‘‘
پھر اس نے ایک پر وقار شخص سے یہ کہہ کر میرا تعارف کرایا کہ ’’ یہ میرے ڈیڈی ہیں ‘‘۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، میں تو بس گڑیا کو تکے جا رہی تھی۔ اور سوچ رہی تھی کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟
گڑیا، بیگم صفیہ کے گھر میں ایک ملازمہ کے روپ میں ملی تھی اور یہاں۔ ۔ ۔ ۔ !!
’’ گڑیا، وہ بیگم صفیہ تو تمہیں نوکر کہہ رہی تھیں ‘‘۔
آخر میں، میں نے ڈرتے ڈرتے دل کی بات کہہ ہی دی۔
باجی اگر وہ مجھے نوکر کی بجائے کچھ اور بھی کہہ دیتیں تو تسلیم کر لیتی کیونکہ وہ میری استاد ہیں۔ ٹیوشن پڑھاتی ہیں وہ مجھے۔ ۔ ۔ میں تو ان کا حق ہی ادا نہیں کر سکتی۔ ماں باپ سے بڑھ کر رتبہ ہے انکا، وہ بہت شفیق اور محبت کرنے والی ہیں۔ میں ان کی کوئی بات ٹال نہیں سکتی۔ اگر انہوں نے آپ کے سامنے مجھے نوکر کہہ ہی دیا تو آخر حرج کیا ہے ؟ میں اگر ساری عمر ان کی خدمت کرتی رہوں تو پھر بھی کم ہے۔
گڑیا کے دل میں بیگم صفیہ کیلئے بہت محبت تھی۔ عزت و احترام تھا، اس کے پاکیزہ خیالات سن کر میں سوچوں کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی۔ میں سوچنے لگی اس گڑیا سی لڑکی کی کتنی عظیم سوچ ہے۔ ایک وہ استاد جس نے محض نمود و نمائش کیلئے اپنی معصوم شاگردہ کو ملازمہ کہا اور دوسری طرف گڑیا جو اپنی استانی کی عظمت کے گن گار ہی تھی، اس کا حق اس کا مقام تسلیم کر رہی تھی۔
مجھے بیگم صفیہ کی سوچوں سے گھن آ رہی تھی۔ لیکن گڑیا کی عظیم سوچ پر پیار آ رہا تھا۔
بہت سی باتیں کرنے کے بعد گڑیا نے مجھ سے وعدہ لیا کہ یہ بات کسی کو نہ بتائے۔ پھر وہ اپنے ڈیڈی کے ساتھ واپس چلی گئی۔ اب بھی کبھی مجھے گڑیا کا خیال آتا ہے تو اس چھوٹی سی لڑکی کی عظمت کو سلام کرتی ہوں، جس نے اپنے طرز عمل سے سمجھایا تھا کہ استاد کی عزت و احترام کس طرح کی جاتی ہے۔
٭…٭…٭
آخری فیصلہ
بگیاڑی میدان میں کرکٹ کا کھیل جاری تھا۔ سیون سٹار کرکٹ کلب نے ٹاس جیت کر چاند کرکٹ کلب کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی تھی۔ صدام حسین باؤلنگ کرا رہا تھا اور پہلے اوور کی پانچویں گیند پھینکنے کیلئے پر تو ل رہا تھا کہ بیٹنگ پر کھڑے شکیل اخترنے نے شور مچایا ’’وہ دیکھو یاسر نواز کا نیا روپ‘‘ یاسر نواز گلی سے باہر نکل کر ابھی میدان میں پہنچا بھی نہ تھا کہ شور مچ گیا، میچ رک گیا، شکیل، صدام اور محسن یاسر کی جانب لپکے لیکن جعفر جو ان سے عمر میں بڑا اور سیون سٹار کرکٹ کلب کا کپتان بھی تھا، نے ڈانٹ کر سب کو روک دیا کہ اپنا کھیل جاری رکھو۔ میچ کے بعد یاسر کو دیکھ لینا اور مل لینا وہ کون سا بھاگ جائے گا اور سب اپنی اپنی پوزیشن پر لوٹ آئے۔ یاسر اس سارے معاملے سے بے خبر اپنے نئے روپ کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا باؤنڈری لائن کے ساتھ ہی بیٹھ کر بیچ دیکھنے لگا۔
یہ روپ نگر تھا اور روپ نگر کی گلی نمبر 10 سے باہر کھیل کا میدان تھا جسے بگیاڑی میدان کہتے تھے، اس میدان کا نام بگیاڑی ہونے کے پیچھے بہت سی داستانیں تھیں۔ اُ ن میں سے ایک داستان یہ بھی تھی کہ میدان کے سمت مصنوعی جنگل اور جنگل کے وسط میں روپ نگر کا قبرستان اور قبرستان سے آگے پھر ایک طویل جنگل تھا کہا جاتا تھا کہ رات کو جنگل میں سے سور، گیدڑ اور بگیاڑ نکل کر اس میدان میں گھومتے ہیں اور کسی رات ایک شخص کا گزر اس میدان سے ہوا تو ایک بگیاڑ نے اس آدمی پر حملہ کر دیا اور وہ زخمی ہو گیا جس کے بعد اس میدان کا نام بگیاڑی میدان رکھ دیا اور روپ نگر کی گلی نمبر 10 کے بچے بھی اسی میدان میں کھیلا کرتے تھے۔ باقی بچے تو معمول کے مطابق اپنا کھیل کھیلتے تھے لیکن ان میں یاسر نوا ز جسے اکثر دوست یاسر میاں بھی پکارتے تھے اور آئے روز انوکھے روپ میں محلے کے دوستوں کے سامنے آتا تھا آج اس نے ناک پر بغیر شیشوں کے عینک لگا رکھی تھی اور ہاتھ میں نذیر انبالوی کی کتاب ’’کہانی کیسے لکھی جائے ؟‘‘ کتاب پکڑی ہوئی تھی وہ اتنا عجوبہ تو نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ روپ گذشتہ اپنائے گئے روپ سے شریفانہ ضرور تھا پہلے تو یاسر میاں کچھ دیر برے انہماک سے میچ دیکھتے رہے پھر یاسر میاں کی توجہ میچ سے ہٹ گئی اور نذیر انبالوی کی کتاب پڑھنے لگا۔ یاسر میاں کو کوئی خبر نہ تھی کہ میچ ختم ہو چکا ہے اور چاند کرکٹ کلب تین وکٹوں سے میچ جیت چکا ہے اور پھر ………؟
’’ارے واہ …! یاسر میاں آج تو انکل منٹو لگ رہے ہو۔ ‘‘شکیل کی چہچہاتی ہوئی آواز نے اس کی توجہ کتاب سے ہٹا دی۔
’’نہیں یار …! کیوں انکل منٹو کو اس انکل نکھٹو کے سامنے شرمندہ کرتے ہو۔ ‘‘ صدام
نے فوراََ طنز کی ایک اور ضرب لگاتے ہوئے کہا۔ جعفر بھیا بھی اتنی دیر میں یاسر میاں کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ’’ارے نکمو…! کیوں ہمارے یاسر میاں کو تنگ کرنے پر تُلے ہوئے ہو، اتنے پیارے تو لگ رہے ہیں یاسر میاں …!‘‘ جعفر بھیا کی آواز سن جیسے یاسر کی جان میں جان آ گئی ہو ورنہ اسے معلوم تھا کہ شکیل اور صدام اپنی نوک جھونک سے اس کی ناک میں دم کر دیں گے۔
’’جی شکریہ جعفر بھیا …!‘‘ تشکرانہ نظروں سے یاسر نے سر اوپر اٹھا کر جعفر کی طرف دیکھا۔
’’میاں خیر تو ہے پچھلے ہفتے تو آپکے ہاتھوں میں اشتیاق احمد کا جاسوسی ناول تھا، سر پر ہیٹ اور ناک پر کالے شیشوں والی عینک تھی اور وہ لمبا سا کالا کوٹ بھی تو تھا، اور آپ کا کہنا تھا کہ مجھے یاسر میاں نہیں میاں جاسوس کہو تو مناسب رہے گا، لگتا ہے جاسوسی کا بھوت اتر گیا اور اس وقت ہاتھ میں پکڑی کتاب بتا رہی ہے کہ میاں جاسوس، میاں ادیب بننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں، ویسے یہ اچانک ہمیشہ آپ میں اتنی بڑی تبدیلی کیونکر آ جاتی ہے ؟‘‘جعفر بھیا نے پیار سے پوچھا
’’میاں جاسوس صاحب اب بولو بھی سہی ہم آپ کے کارنامے سننے کیلئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں۔ ‘‘ یاسر کو خاموش دیکھ کر محسن نے طنزیہ آواز میں اسے مخاطب کیا۔
’’نکمو…! چپ رہو، کیوں مذاق اڑاتے ہو…؟یاسر میاں آپ ہمیں اپنی ایک ہفتے کی کارکردگی بتائیں کہ جاسوسی اور سراغرسانی کے دوران ایسا کیا ہوا کہ آپ نے جاسوس سے ادیب بننے کا اتنا بڑا فیصلہ کر مارا۔ جی میاں اب بو لو تو سہی …!‘‘ جعفر بھیا نے یاسر کو پچکارتے ہوئے کہا۔ یاسر جعفر بھیا کی بات سن کر تسلی میں نظر آ رہا تھا، اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔
’’جعفر بھیا …! میں آپ کی وجہ سے اس میدان میں آتا ہوں کیونکہ ہمیشہ آپ ہی میرا ساتھ دیتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ میں جاسوس بننا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کہ ابھی عمر کے اُس حصے میں ہوں کہ میں جاسوس نہیں بن سکتا۔ ‘‘ یاسر نے جھٹ سے کہا اور خاموش ہو گیا۔
’’ اور وہ …؟ وہ بات تو بتاؤ …؟ یار وہ کتے والی بات …!‘‘ شکیل نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ بھئی یاسر میاں یہ کتے کا کیا چکر ہے ؟‘‘ جعفر بھیا نے پوچھا
’’بھیا …! یہ کیا بتائے گا، بھلا ناکامی کے قصے بھی کوئی بتاتا ہے۔ ‘‘شکیل نے جب یاسر کو خاموش دیکھا تو موقع دیکھتے ہی فوراََ طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’وہ یوں ہوا کہ …! بلکہ آپ سب کو یاد ہو گا کہ پچھلے ہفتے کی اخبار میں ایک خبر چھپی تھی کی گلی نمبر 8 کے میدان میں سے کسی انسان کی ٹانگ ملی ہے۔ تو جناب اصل بات کچھ یوں ہے کہ میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں نے اس ٹانگ کو دریافت کیا اسی وقت اتفاق سے یاسر میاں کا گزر بھی ادھر سے ہوا، بچوں کا شور سن کر موقع واردا ت پر پہنچے اور انہی دنوں ہمارے معزز دوست یاسر نواز المعروف میاں جاسوس کو نیا نیا جاسوسی کا شوق ہوا تھا اور انہوں نے اس کی اطلاع فوراََ متعلقہ تھانے پہنچائی، پہلے بات پولیس تک پہنچی اور پھر اخبار نویسوں تک
…!اس کے بعد یوں ہوا کہ پولیس نے ایک دو دن تحقیق کی اور چونکہ موصوف میاں جاسوس نے اطلاع دی تھی اسلئے وہ موقع ملتے ہی سپاہیوں کے ساتھ ہولیتے تھے اور ان کے ساتھ تفتیش کیلئے گھومتے تھے …!یاسر میاں مجھے انہی دنوں ملے تھے اور بہت خوش تھے کہ ابھی تو جاسوسی کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ایک بڑا کیس ہتھے لگ گیا اور مجھے بڑے پر جوش انداز میں بتا رہے تھے کہ شکیل دعا کر نا کہ یہ کیس حل ہو جائے اور قاتل پکڑا جائے، جہاں پولیس کیس کا معمہ حل کر رہی ہے وہاں میں بھی اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ قاتل کے پیچھے ہوں، یاسر میاں نے بتایا کہ اشتیاق احمد کے ایک ناول میں ایسا ہی واقع تھا، اور اس قتل کی کڑیاں بھی اسی واقعے سے ملتی جلتی ہیں میں وہ ناول کل لائبریری سے لے آیا تھا اس ناول میں تو قاتل پکڑا گیا تھا اور اللہ نے چاہا تو یہ معمہ بھی میں ہی حل کروں گا اور قاتل پکڑا جائے گا اور پھر دیکھنا جاسوسی اور سراغرسانی کی دنیا میں یاسر نام ایک نیا اضافہ ہو گا۔ ‘‘شکیل نے اتنی بات کی اور تھوڑی دیر توقف کے بعد پھر سے بولا ’’ پھر کچھ یوں ہوا…! کہ پتا چلا کہ گلی نمبر 8کے میدان سے ملنے والی ٹانگ کسی مقتول کی نہیں ہے بلکہ دس دن پہلے ہونے والی بارش سے قبرستان میں ایک تازہ بنی ہوئی قبر بیٹھ گئی تھی اور رات کو کسی جنگلی جانور نے اس قبر کو مزید اکھاڑ دیا اور اس طرح مردے کے باقی اعضاء تو نہیں بلکہ کسی کتے کے منہ یہ ٹانگ لگی اور وہ اسے میدان میں پھینک گیا۔ اور میاں جاسوس جو قاتل ڈھونڈ رہے تھے تو وہاں قتل تو ہوا ہی نہیں تھا۔ اس لیے موصوف دلبرداشتہ ہو کر نئے روپ میں ہمارے سامنے ہیں۔ ‘‘
’’کیوں یاسر میاں …!شکیل سچ کہہ رہا ہے ؟‘‘ جعفر بھیا نے پوچھا۔
’’ جی بھیا …! یاسر نے ہاں میں سر ہلایا تو باقی بچوں کے قہقہے فضا میں گونجنے لگے۔ ’’لیکن اب دیکھنا میں ایک بڑا ادیب بنوں گا، کل میں ابو سے کہہ کر یہ کتاب منگوائی ہے جس میں کہانی لکھنے کے لئے تمام باتیں لکھی ہوئی ہیں کہانی لکھتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، یاسر نے نذیر انبالوی کی کتاب ’کہانی کیسے لکھی جائے ؟‘‘ دکھاتے ہوئے کہا اور پھر آپ سب لوگ دیکھیں گے کہ ایک دن میں بہت بڑا ادیب بن جاؤں گا اور جب سب لوگ مجھ سے آٹو گراف لیا کریں گے اور میری کہانی لوگ شوق سے پڑھا کریں گے، پھر میں شکیل، صدام اور محسن کو آٹو گراف نہیں دوں گا، کیوں بھیا …؟ ‘‘ یاسر نے جعفر بھیا کی جانب دیکھا تو جعفر بھیا نے اسے پیار سے دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ ’’ ہاں بہت خوب …! تم ایک بڑے ادیب بن سکتے ہو۔ ‘‘ اور مغرب کی اذان سن کر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے، چلتے ہوئے صدام کی آواز آئی کہ اگلی دفعہ ہم یاسر میاں کو ادیب نہیں خطیب بنتے دیکھیں گے۔ ‘‘ اور فضا میں سب کے قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگیں کیوں کہ سب ہی جانتے تھے کہ ادیب بننے کا بھوت چند دن کا ہو گا، جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔
ایک ہفتہ گز چکا تھا، پھر وہ میدان تھا، کرکٹ کا کھیل جاری تھا کہ شور مچا کہ میاں ادیب، میاں جاسو س ہمارے یاسر میاں آج نئے روپ میں ہمارے سامنے آنے ہی والے ہیں، شکیل نے گلی سے میدان کی جانب آتے ہوئے یاسر میاں کو دیکھا اور میدان میں کھیلتے ہوئے تمام بچوں کو یاسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں اطلاع دی۔ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا، یاسر جو گذشتہ ہفتے بغیر شیشوں کی عینک لگائے ہاتھ میں نذیر انبالوی کی کتاب ’’کہانی کیسے لکھی جائے ؟‘ لے کر بڑا ادیب بننے کی خبر دینے آیا تھا آج وہ اس سے یکسر تبدیل تھا، آج اس کے سر پر پھندے والی ٹوپی، ناک پر وہ ہی بغیر شیشوں والی عینک اور ہاتھ میں نذیر انبالوی کی جگہ احمد حاطب صدیقی کی نظموں والی کتاب تھی۔ میچ کے فوراََ بعد تمام بچے یاسر میاں کی جانب لپکے
کہ یاسر میاں سے پوچھیں کہ اتنی جلدی اتنی بڑی تبدیلی کیونکر ممکن ہوئی، جعفر بھیا نے سب کو خاموش رہنے کی تاکید کی تھی کہ آج کوئی بھی یاسر کو طنز کا نشانہ نہیں بنائے گا بلکہ جعفر بھیا خود ہی یاسر سے سب کچھ پوچھیں گے۔
’’میاں ادیب …! خیر تو ہے آج آپ کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہیں کہیں کہانی تو چھپ گئی اور یہ اتنی پیاری ٹوپی تو آپ کو بہت سجتی ہے۔ ‘‘
’’ یاسر جو احمد حاطب صدیقی کی کتاب پڑھ رہا تا تھا، شفقت بھر لفظ سن کر مسکرایا اور بولا۔
’’ جی بھیا…! اب میں ایک ادیب نہیں بلکہ ایک عظیم شاعر بن چکا ہوں کیوں کہ میں دو دن بڑی محنت سے ایک کہانی لکھی اور اخبار والوں کو ارسال کی لیکن کل کی اخبار میں ناقابل اشاعت میں میرا نام تھا، مجھے بڑا دکھ ہوا کہ ان اخبار والوں کو مجھ پر تھوڑا سا بھی ترس نہیں آیا کہ میں نے اتنی محنت سے اتنی پیاری کہانی لکھی اور انہوں نے اسے ناقابل اشاعت قرار دیا، میں نے باجی کو بتایا تو انہوں نے کل رات مجھے یہ کتاب دی کہ اسے پڑھو اور تم شاعری کیا کرو، یاسر نے احمد حاطب صدیقی کی نظموں والی کتاب سب کو دکھائی اور جھٹ سے بولا کہ میں نے رات ایک نظم بھی لکھ ماری ہے، سناؤ…؟
’’ جی جی ارشاد فرمائیے …! صدام نے فوراََ کہا تو جعفر بھیا نے مزید کہا کہ ’’ ہاں بھئی اب تو سننا ہی پڑے گی کیوں کہ یقینا تم اعتراف کرتے ہو کہ عظیم شاعر ہو تو عظیم شاعری ہی کی ہو گی۔ ‘‘
’’ جی جنا ب میاں شاعر، شاعر روپ نگر ……!اب ارشاد کا ٹوکرا اٹھا بھی لو کہ ایسے کون سے گل ہیں جو ہمارے عظیم دوست نے کھلائے ہیں۔ ‘‘ شکیل نے یاسر کو جھنجوڑنے کے انداز میں کہا۔
’’جی تو پھر سنیے …ارشاد ہے کہ …!
؎یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
اور امی نے بھی سمجھائی نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں
جب میٹھی چیز کھائی نہیں
یہ چاند کیسا ماموں ہے
جب امی کا وہ بھائی نہیں
کیوں لمبے بال ہیں بھالو کے
کیوں اس کی ٹنڈ کروائی نہیں
کیا وہ بھی گند ا بچہ ہے
یا جنگل میں کوئی نائی نہیں
نانی کے میاں تو نانا ہیں
اور دادی کے میاں دادا ہیں
تو پھر باجی کے میاں باجا نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
’’ واہ واہ …واہ واہ …واہ واہ …!‘‘داد تھی کہ پورا میدان واہ واہ سے گونج اٹھا۔
’’ لیکن یہ داد اس شاعر کو دی جا رہی ہے جس نے یہ نظم لکھی ہے اور ہم شکر گزار ہیں کہ میاں عظیم شاعر یاسر میاں نے ہمیں یہ نظم سنائی، ‘‘محسن نے یاسر کے ہاتھ سے کتاب لی اور سنائی جانے والی نظم والا صفحہ نکال کر سب کے سامنے کر دیا اور کہا کہ اس نظم کو لکھنے والے یہ داڑھی والے صاحب ہیں‘‘ محسن نے کتاب کے ٹائٹل پر بنی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور یاسر میاں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کل رات یہ نظم لکھی ہے ‘‘۔ اتنی بات سن کر سب کے قہقہے جاگ اٹھے اور یاسر شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا۔
’’ یہ میری نظم ہے اگر میرے خیالات انکل داڑھی والے سے مل گئے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟‘‘اور اٹھ کر جلدی سے سب کو کوستا ہو ا یاسر گھر کی جانب چل دیا۔ سب کو پتا تھا کہ اب بھی اتنی بڑی چوری پکڑے
جانے پر وہ منع نہیں ہو گا بلکہ اگلے ہفتے یاسر میاں ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے ہوں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا لیکن ایک ہفتے بعد نہیں بلکہ دو دن بعد یاسر میاں میدان کی جانب چلے آ رہے تھے۔ ابھی میچ ختم ہوا ہی تھا کہ یاسر میاں بھی میدان میں پہنچ گئے بڑے سادہ سے، معصوم سی شکل کے ساتھ، آ ج ناک پر عینک نہیں تھی، ہاتھ میں کوئی دیوان بھی نہیں تھا، سر پر لمبے پھندے والی ٹوپی بھی نہ تھی اور میدان میں پہنچتے ہی سب سے پہلے اونچی آواز میں یاسر کے منہ سے السلام علیکم …! کی آواز نے سب کو چونکا دیا کیونکہ آج وہ پورے اعتماد میں تھا اور پہلی بار ایسا ہو ا کہ وہ میدان میں آیا اور سب کو السلام و علیکم کہہ کر مخاطب کر رہا تھا۔
سب بچے یاسر کے گرد بیٹھے تھے اور اس سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اب کی بار یاسر میاں کیا بننے کا ارادہ لے کر آئے ہیں۔ جعفر بھیا نے یاسر میاں کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے پوچھا میاں اب کے کون سا فیصلہ کیا ہے کہ آج ہمارے سامنے لے کر آنے والے ہیں ؟۔
’’ جعفر بھیا …!اب کی بار میں نے آخری فیصلہ کیا ہے کہ اب میں نیک انسان بنوں گا۔ کیوں کہ کل رات ابو جان بتا رہے تھے کہ اگر دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ سے رجوع کرو کیوں کہ اللہ میاں کی نظر میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو۔ میں نے اس سے پہلے جو بھی فیصلے کیے اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں تھی اور میں ناکام ہوتا رہا اب کی بار جو میں نے فیصلہ کیا ہے اس میں اللہ میاں کی رضا شامل ہے۔ یاسر میاں کے اس آخری فیصلے پر سب خاموش تھے اور سوچ رہے تھے کہ یاسر کا یہ فیصلہ کہ وہ اچھا انسان بنے گا تو سب فیصلوں پر بھاری ہے، اس فیصلے نے شکیل، صدام اور محسن سمیت جعفر بھیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا کہ یاسر جسے وہ بے وقوف سمجھتے تھے اس نے ان سب سے پہلے
اچھا انسان بننے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ جو اپنے آپ کو ہمیشہ سے عقل مند سمجھتے آئے تھے وہ ایسے
بڑے اور نیک فیصلے سے پیچھے رہ گئے تھے اور یاسر جیت گیا تھا۔ اسی دوران
مغرب کی اذان کی آواز گونجی تو یاسر نے اٹھتے ہوئے کہا کہ چلیں نماز کی جانب ………اور لاؤڈ سپیکر سے آواز آ رہی تھی حی الفلاح …حی الفلا ح …اللہ اکبر …اور یاسر سمیت سب کے قدم گھروں کی بجائے مسجد کی جانب تھے۔
٭……٭……٭
بابا فول
گھر کے درمیان والے کمرے میں سفیان، ارسلان، صفیہ اور ماریہ کا اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کا ایجنڈا اس ماہ کا اپریل فول تھا کہ اس بارکس کو نشانہ بنایا جائے اور وہ مذاق کیسا ہو کہ جو زندگی بھر یاد رہے کیونکہ گذشتہ سال تو وہ کسی کو کیا فول بناتے بے چارہ ارسلان خود ہی سکول پہنچنے سے پہلے ہی فول بن چکا تھا وہ اسے اگلے دن معلوم ہو ا کہ کل سکول سے چھٹی نہیں تھی بلکہ علی نے اس کے ساتھ مذاق کیا تھا کہ ارسلان سکول سے چھٹی ہے۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ گذشتہ سال ارسلان جیسے ہی گھر سے سکول کی طرف روانہ ہو ا تو ابھی وہ اپنی گلی کی نکڑ پر ہی پہنچا تھا کہ راستے میں علی گلے میں بستہ ڈالے مل گیا جو واپس گھر کی طرف آ رہا تھا، ارسلان حیران ہوا کہ علی کو خیر ہے کہ وہ واپس گھر کی جانب آ رہا ہے جیسے ہی علی نزدیک پہنچا تو اس سے پہلے کہ ارسلان کچھ پوچھتا علی جھٹ سے بولا ارسلان آج تو سکول بند ہے کیونکہ میں آج صبح جلد ی سکول پہنچ گیا تھا لیکن سکول پہنچنے پر چوکیدار بابا نے بتایا کہ بیٹا آج سکول کی چھٹی ہے اور میں واپس آگیا، ارسلان علی کی بات سن کر خوش ہو گیا کیونکہ آج اس کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ سکول جائے، صبح جب جاگا تو اس کا دل آج سکول جانے کو نہیں چاہ رہا تھا لیکن ابو کے ڈر سے اس نے اپنی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ اس دن تو ارسلان واپس گھر کی جانب لوٹ گیا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ارسلان کی امی جان نے حیرانگی سے پوچھا کہ ارسلا ن ابھی تو تم گھر سے سکول کی طرف روانہ ہوئے تھے اور اتنی جلدی واپسی خیر ہے ؟تو ارسلان نے سارا قصہ امی جان کے گوش گزار کر دیا۔ ارسلان کی امی جان حیران تھی نہ تو آج سرکاری چھٹی ہے اور نہ ہی حکومت نے کوئی اعلان کیا پھر کاہے کی چھٹی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ اگلے دن جب ارسلان سکول پہنچا تو کلاس میں پہنچتے ہی اس کے کلاس فیلوز نے فول فول اپر یل فول۔ ۔ بابا فول۔ ۔ فول فول کے نعرے لگانے شروع کر دیے، یہ نعرے اس کے لیے نئے تھے کہ کلاس کے سارے بچے اپریل فول بابا فول فول فول کے نعرے کیوں لگا رہے ہیں اور علی سب سے آگے اونچی آواز میں نعرے لگا رہا تھا۔ ابھی نعرے لگ ہی رہے تھے کہ مس فوزیہ کلاس روم میں داخل ہوئیں۔
’’سب بچے خاموش ہو جائیں کیوں اتنا شور مچا رکھا ہے ؟‘‘مس فوزیہ نے دھیمے لہجے میں غصے سے بچوں کی سرزنش کی تو کلا س کے تمام بچے ایک دم سے خاموش ہو گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اتنی دیر میں مس فوزیہ نے حاضری رجسٹر ڈ نکالا اور رول نمبر پکارنے لگیں۔ جب ارسلان کا نمبر آیا تو مس فوزیہ نے پوچھا ’’ارسلان کل آپ کی غیر حاضری تھی اور آپ نے بغیر بتائے غیر حاضری کی۔ ۔ ۔ ‘‘
’’مس کل تو چھٹی تھی نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘ ارسلان نے جھٹ سے جواب دیا۔
’’ارسلان کس نے کہا کہ کل چھٹی تھی۔ ‘‘مس فوزیہ کی بات سن کر ارسلان نے فوراََ علی کی طرف دیکھا اور بولا۔
’’مس میں کل سکول کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن علی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اور پھر ارسلان نے سارا واقعہ سنا دیا۔ ارسلان نے ابھی واقعہ سنایا ہی تھا کہ پوری کلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔
’’خاموش !‘‘مس فوزیہ نے غصے سے کہا تو کلا س میں موجود سارے بچے خاموش ہو گئے۔ ’’علی ادھر آؤ ذرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسا مذاق ہے ؟‘‘مس فوزیہ نے علی کو اپنی طرف بلایا۔
’’جی۔ ۔ ۔ جی۔ ۔ ۔ وہ مس۔ ۔ ۔ ۔ کل یکم اپریل تھا تو میں نے ارسلان کے ساتھ اپریل فول منایا تھا۔ ‘‘علی نے ہکلاتے ہوئے سہمے لہجے میں کہا۔
’’بچو! کتنی بری بات ہے کہ کسی کے ساتھ ایسا مذاق کرنا اور وہ مذاق جس کی ہمیں ہمارا مذہب بھی اجازت نہیں دیتا۔ ‘‘ مس فوزیہ نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو بچو! اپریل فول منا نا ہمارے مذہب اور ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہے تو انگریزوں اور یہودیوں کے چٹکلے ہیں اور انہوں نے ایک دن کو انہی کاموں کے مختص کر دیا ہے اور آپ کو پتا ہے نا یہودی کون ہیں ؟ آپ کو یاد ہو گا میں نے ایک بار آپ کو بتایا کہ یہودی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں اور آپ کو فلسطین کی کہانی بھی سنائی تھی جہاں پر ہمارا پہلا کعبہ موجود ہے اس پر یہودی قابض ہیں اور آئے روز فلسطین کے نہتے مسلمانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ یہودی جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اپنے ظلم کا شکار بناتے ہیں۔ اور علی میں اگر آپ کو سزا بھی دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا فائدہ آپ کا اسی میں ہے کہ آپ اپنے دل میں تہیہ کر لو آئندہ ایسا کوئی کام نہیں کرو گے۔ ‘‘ مس فوزیہ نے علی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
٭٭٭
ارسلان اور ماریہ دونوں بہن بھائی تھے جبکہ سفیان اور صفیہ ان کے چاچا فرزند علی کی اولاد تھے ارسلان کے امی ابو اور سفیان کے امی ابو دادا جان کی چھوڑے ہوئے آبائی گھر تاریخی قصبہ کبیر پور میں اکھٹے ہی رہتے تھے جو اب شہر کہلانے لگا تھا کیوں ان کا قصبہ جرنیلی سڑک کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے اس میں ترقیاتی کام اچھے خاصے ہو چکے تھے بینک، سکول، کالج اور پارک بن چکے تھے لیکن تاریخی عمارتوں کی وجہ سے آج بھی ان کا قصبہ ملک بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتا تھا۔ اکٹھے رہنے کی وجہ سے ان چاروں کزنوں کی آپس میں گہری دوستی تھی۔ وہ چاروں درمیانے کمرے میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اس سال وہ بھی کسی کو فول بنائیں حالانکہ ارسلان نے منع بھی کیا تھا کہ مس فوزیہ نے کہا تھا کہ یہ یہودیوں کے چٹکلے ہیں اور ہم مسلمان ان کی کسی بات کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنائیں لیکن وہ تو سفیان بضد تھا کہ پچھلے سال علی نے جو ارسلان کے ساتھ کیا اس کا بدلہ تو لینا ہے نا چاہے کسی سے بھی لیا جائے اور ہم نے تو ایک بار ہی مذاق کرنا ہے چلو اگر یہودیوں کے کام ہیں تو کون سے ہم ایک بار ان کے والا کام کر کے یہودی ہو جائیں گے۔ سفیان کی ہاں میں ہاں ماریہ اور صفیہ نے ملا دی اور ارسلان بھی رضا مند ہو گیا۔
’’ یوں کرتے ہیں ابا جان کو فول بنا تے ہیں ؟‘‘ ماریہ نے تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ بھلا وہ کیسے۔ ۔ ۔ ۔ جلدی بتاؤ ان کو کیسے فول بنایا جا سکتا ہے ؟‘‘ تینوں نے یک زبان ہو کر پوچھا۔
’’ نکمو! وہ ایسے کہ ہم ابا جان کو کہیں گے کہ وہ جو شہر کے وسط میں مینار کھڑا ہے رات کسی گاڑی نے ٹکر ماری اور وہ گر گیا اور اس کے نیچے آ کر کچھ لوگ مر گئے اور کچھ لوگ شدید زخمی ہیں، آخر ابا جان کسی نہ کسی سے پوچھیں گے نا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا جب آگے سے وہ بندہ کہے گا کہ ایسا واقعہ ہوا ہی نہیں تو ہو گیا نا اپریل فول۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ماریہ نے تینوں کی دیکھتے ہوئے اپنا پلان بتایا۔
’’ نا بابا !۔ ۔ ۔ نا۔ ۔ ۔ ‘‘ ابا جان غصے والے ہیں اور اگر ان کا ہاتھ چل گیا تو یاد ہے ماریہ اس دن اگر امی جان درمیان میں نہ آتی تو پتہ نہیں میرا کیا حشر ہوتا۔ ‘‘ ارسلان نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اس پلان کو اور خصوصاً ابا جان کے کردار کو رکوا دیا۔
’’ چلو ابا جان نہ سہی ماموں جان یا ساتھ والے ہمسائے اپنے مرزا جی کو لے لیتے ہیں ‘‘سفیان نے ابا جان کو نکال کے مرزا جی اپریل فول کی کہانی میں ڈال دیا۔
’’ چھوڑو سارے پلان ایک پلان ہے میرے پاس اگر اس پر ہم عمل کریں تو۔ ۔ ۔ ۔ ؟‘‘صفیہ جو کافی دیر سے سو چ و بچار میں تھی فوراََ سے گویا ہوئی۔
’’ آپ کے کھوکھلے دماغ میں کیا دھماکہ ہو ا ہے اب۔ ۔ ۔ ؟‘‘ سفیان نے صفیہ کو گھورتے ہوئے پوچھا۔
’’ جی میرا کھوکھلا دماغ نہیں بلکہ میرا پلان سن کے آپ تینوں کے کھوکھلے دماغ بھر جائیں گے، ادھر قریب قریب ہو جاؤ سب اور اپنے کان، دماغ بلکہ حواس خمسہ کھول کے میرا پلان سنو۔ ‘‘ صفیہ نے تینوں کو اپنے قریب ہونے کا اشارہ کیا اور اپنے پلان سے آگاہ کرنے لگی۔ صفیہ نے جب اپنے پلان سے تینوں کو آگاہ کیا تو ان کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی۔
’’ ارسلان ! چلو پھر آج عصر کی نماز مسجد میں ہی پڑھتے ہیں اور اسی بہانے کنویں کا جائزہ بھی لے لیں گے کہ اس میں کتنا پانی ہے اور اگر کوئی اینٹ یا پتھر نہیں اس کنویں کے قریب نہیں پڑا تو اس کا بندوبست بھی کر آتے ہیں۔ ‘‘ سفیان نے ارسلان کو مشورہ دیا تو ارسلان نے کہا ’’ ٹھیک ہے کیوں کہ اگر اپریل فول منانا ہی ہے تو پھر پوری منصوبہ سازی سے منانا چاہیے۔
٭٭٭
یکم اپریل کی اس صبح وہ چاروں حسب معمول ہاتھوں میں سپارے پکڑے مسجد کی جانب بڑھ رہے تھے لیکن آج مولوی صاحب سے سبق پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہن میں شرارت بھی بھری ہوئی تھی جسے وہ اپریل فول کا نام دے رہے تھے۔ جیسے ہی وہ مسجد میں داخل ہوئے تو دروازے کے ساتھ ہی غسل خانے اور دوسری طرف وضو کرنے کے لیے ٹونٹیوں کی لمبی قطار تھی جبکہ ٹونٹیوں سے ذرا ہٹ کر پرانے وقتوں کا کنواں آج بھی اسی طرح چلتا تھا لیکن جدید زمانے کے عین مطابق چونکہ اب نلکوں اور ٹینکیوں کا دور آگیا تھا اور کنویں کا استعمال بہت کم بلکہ گزشتہ سالوں سے اس کا استعمال تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ مسجد کی انتظامیہ نے کنویں پر لکڑی کے پھٹے رکھ دیے تھے کہ کوئی ذی روح غلطی سے کنویں میں نہ جا گرے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی ماریہ اور صفیہ جوتے اتار کر مسجد کے صحن میں داخل ہوئیں کیونکہ صحن عبور کر کے آگے مسجد کے اندرمسجد کے قریبی گھرانوں کے بچے قرآن پاک پڑھنے میں مشغول تھے۔ ارسلان اور سفیان بجائے اس کے وہ مسجد کے صحن میں داخل ہوتے وہ وضو کرنے کے لئے بیٹھ گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اب انہیں کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا ارسلان اٹھ کر کنویں کی طرف گیا اور پھٹا سرکا کر اس نے دیکھا کہ اتنی جگہ بن گئی ہے کہ اس میں ایک بندہ گر سکتا ہے۔ اور اس نے نزدیک پڑی ایک اینٹ اٹھا کر کنویں میں پھینک دی اور کنویں میں چھپاک کی بجائے چٹاخ کی آواز آئی پہلے تو وہ حیران ہوا کہ لگتا ہے کنویں میں پانی نہیں لوہا بھرا ہوا ہے لیکن پھر وہ اپنے پلان کے مطابق بھاگ کر مسجد سے باہر نکل گیا۔ اتنی دیر میں سفیان بھی مسجد میں مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
’’کیا آج ارسلان آپ لوگوں کے ساتھ نہیں آیا ؟‘‘ مولوی صاحب نے پوچھا۔
’’ جی وہ آیا تھا میرے ساتھ ہی وضو کر رہا تھا جب میں نے وضو کر لیا تو میں آپ کے پاس آگیا اس نے بھی وضو کر لیا تھا پر وہ آیا نہیں جب میں صحن سے اندر داخل ہو رہا تھا تو وہ وضو کر کے میرے پیچھے آنے کی بجائے کنویں کی طرف جانے لگا تھا۔ ‘‘ سفیان نے بتایا۔ ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ بچاؤ۔ ۔ بچاؤ کی آواز ان کے کان میں پڑی۔
’’ یا اللہ خیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘ مولوی صاحب کے منہ سے نکلا اور وہ اٹھ کر باہر کی جانب لپکے ان کے ذہن میں فوراََ آیا کہ ارسلان کنویں کی طرف گیا تھا وہ کنویں کی طرف بڑھے۔ یہ آواز سن کر سارے بچے بھی مولوی صاحب کے پیچھے لپکے وہ مولوی صاحب سمیت سب بچے کنویں کے قریب پہنچ گئے۔ آواز ایک بار ہی آئی تھی اس کے بعد خاموشی تھی۔
’’ سفیان پتر ! ارسلان کیا کنویں کی طرف آیا تھا ؟‘‘ مولوی صاحب نے تشویشی انداز میں سفیان سے تصدیق چاہی۔
’’ مولوی صاحب ! جی ہاں وہ ادھر ہی آ رہا تھا۔ ‘‘یہ بات سن کر مولوی صاحب نے فوراََ کنویں میں جھانکا کہ کہیں ارسلان کنویں میں نہ گر گیا ہو مولوی صاحب کو دیکھ کر سارے بچے بھی تشویش زدہ تھے لیکن وہ تینوں دبی دبی ہنسی سے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ ہوا تو کچھ بھی نہیں ابھی ان کی ہنسی نکلنے ہی والی تھی کہ ایک چیخ بلند ہوئی کہ جیسے ہی بچے کنویں کے قریب ہوئے تو دھکم پیل میں ایک بچہ بے قابو ہو کر کنویں میں جا گر ا۔ یہ اتنا اچانک تھا کہ کسی کو بھی کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا ہو رہا ہے۔ ان تینوں کی ہنسی وہیں رک گئی اور ان کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔ وہ شکر ہے کہ مسجد کی انتظامیہ نے کنویں کے کنارے سے نیچے پانچ فٹ چھوڑ کر لوہے کی سلاخوں کا ایک بڑا سا جنگلا فٹ کر دیا تھا کہ اگرخدانخواستہ کوئی ذی روح بھولے سے گر بھی جائے تو کنویں کے پانی میں ڈوبنے کی بجائے جنگلے میں اٹک جائے۔ بچوں کی چیخ و پکار سن کر مسجد کے ساتھ والے گھروں سے لوگ اکٹھے ہو گئے اور فوراََ گرنے والے بچے کو باہر نکال لیا گیا۔ بچے کو زیادہ چوٹیں تو نہیں آئی
بچے کی ٹانگ پر خراشیں آ گئی تھیں۔ اس واقعے کے بعد مسجد کی انتظامیہ نے جب واقعہ کی جانچ پڑتا ل کی تو انہیں پتہ چلا کہ اصل وقوعہ کیسے وقوع پذیر ہوا۔ ان کے والدین تک جب یہ واقعہ پہنچا تو پھر اپریل فول کے نام پر مذاق جو سنگین مذاق بن گیا تھا اس پران کی جو درگت بنی وہ اس کا ان تینوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اپریل فول کے نام پر ان کی شرارت انہی کو مہنگی پڑ جائے گی۔ اوپر سے وہ شرمندہ بھی تھے کہ مس فوزیہ نے ٹھیک کہا تھا کہ یہ یہودیوں کے ہتھکنڈے ہیں اور کبھی بھی نہیں چاہتے کہ مسلمان امن میں رہیں چاروں نے تہیہ کیا کہ اب وہ کسی بھی اپریل فول بلکہ کبھی ایسی کوئی شرارت نہیں کریں گے جس سے ان کی خوشی کے پیچھے کسی کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو۔ چاروں درمیانے کمرے میں بیٹھے اپنی درگت پر پریشان تھے کہ آپا کمرے میں داخل ہوئی اور کہنے لگی فول فول بابا فول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپا کی آواز سن ان کے لٹکے چہروں پر ہلکی سے مسکراہٹ ابھری تو آپا نے پوچھا اگلے سال کس کے ساتھ فول منانے کا ارادہ ہے تو سب یک زبان ہو کر بولے
’’ آپا ! آپ کے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !کیوں کہ آپ تو ہماری پیاری آپا ہیں اور کچھ نہیں کہیں گی نا۔ ۔ ۔ ہائے۔ ۔ ۔ ہائے۔ ‘‘ اتنی بات کہتے ہیں ارسلان نے اپنے بازوں پر ہاتھ رکھا جہاں پڑنے والی مار کے بعد درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
٭٭٭
جب صبح ہوئی
رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ایک شور مچ گیا۔ شہر کی مساجد کے لاؤڈ سپیکروں سے اعلان ہونے لگے کہ رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا ہے۔ صبح پہلا روزہ ہو گا۔ گھر میں بھی سب ہی اعلان کر رہے تھے۔ ’’ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ ‘‘سو ہم نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی کہ اس سال ہم بھی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں تو ثواب دونوں ہاتھوں سے اکٹھا کرنے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں۔
امی جان اور ابو جان بھی دعائیں مانگ رہے تھے۔ گھر میں خالہ جان اور ان کے دو بچے ہنی اور مُنی بھی آئے ہوئے تھے۔ اور میرے بہن بھائیوں کے ساتھ آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ جو کچھ بھی ہو جائے ہم پہلا روزہ رکھیں گے۔ ان میں سے دونوں چھوٹوں کو سمجھایا کہ ابھی تم چھوٹے ہو اور گرمی زیادہ ہے، اس لئے اس گرمی میں پیاس برداشت نہیں کر سکو گے اور روزہ توڑ لو گے۔ اور اللہ میاں تم دونوں کو کان پکڑا دیں گے۔
’’بس اتنی سی سزا ………!‘‘ اتنی سزا تو ہمیں روزانہ سکول میں مل جاتی ہے۔
’’آج سکول میں مس نے ٹیبل پر شکیل کو کان پکڑوائے تھے شکیل بتاؤ بھیا کو ؟‘‘ننھی نے شکیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں بھئی!مس نے تمہیں کیوں کان پکڑوائے تھے۔ ‘‘ میں تجسس کے مارے شکیل سے پوچھا۔
’’وہ ……وہ …بھیا ! میں علی کے کان پکڑ کر کہا تھا کہ مجھے مرغا بن کر دکھا ؤ تو مس نے دیکھ لیا۔ ‘‘ شکیل نے روہانسے انداز میں بتایا۔
’’بہرحال کچھ بھی ہو جائے تم دونوں میں سے کوئی بھی روزہ نہیں رکھے گا۔ تم دونوں ابھی چھوٹے ہو، جب تم دونوں میری طرح بڑے ہو جاؤ گے تو پھر آ پ دونوں کو کوئی بھی نہیں روکے گا۔ بس اب سن لیا نا !میرا فیصلہ میں نے جو کہہ دیا سمجھو میرا فیصلہ اٹل ہے۔ ‘‘میں نے دونوں پر دھونس جمائی۔
’’ہونہہ! فیصلہ اٹل ہے۔ ہم روزہ رکھیں گے اور میں بھی …‘‘ شکیل کے ساتھ میرے خالہ زاد ہنی کی آواز بھی سنائی دی۔
’’اگر تم نہیں مانتے تو صبح جگانا تو میں نے ہی ہے نا …میں تم دونوں کو نہیں جگاؤں گا پھر کیا کر لو گے۔ ‘‘ میں بھی آج ان دونوں سے دو دو ہاتھ نمٹنے کے لئے تیار تھا۔ میں نے کچھ دن پہلے ہی سنا تھا کہ ’بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ہیں ‘۔
’’بڑے آئے جگانے والے۔ بھیا! خود تو آپ صبح دس بجے سے پہلے کبھی بستر سے نکلے نہیں اور ہمیں جگانے کا ذمہ لے رہے ہیں۔ ‘‘شکیل نے منہ پھلا کر پورے سال کی کمائی میرے منہ پر دے ماری اور میں سوچنے لگا کہ واقعی پورا سال دس بجے سے پہلے کبھی اٹھنے کا عادی نہیں ہوں، صبح کیا بنے گا جب گھر والے سحری کے لئے اٹھائیں گے۔
’’اچھا …اچھا …ٹھیک ہے دیکھ لوں گا تم دونوں کو کیسے روزہ رکھتے ہو؟‘‘ میں نے منہ چڑا کر ان سے جان چھڑوانے میں ہی عافیت سمجھی۔
رات تراویح کے بعد ابو جان نے تمام بچوں کو اور گھر والوں کو اپنے پاس بلایا اور ماہ رمضان کی برکت کے بارے میں بتانے لگے۔
’’بیٹا روزہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ رحمتوں اور عظمتوں اور برکتوں کا ہے۔ روزہ ایمان کو از سر نو تازگی اور بے حد شگفتگی کیلئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بڑائی علیم و خیرو رحیم و رحمن اور مالک یوم الدین ہونے پر جس طرح روزہ یقین پیدا کرتا ہے اس کی مثال نہیں ملتی روزے کی حالت میں بھوک، پیاس اور برائی پر فقط وہی شخص قابو پا سکتا ہے جو خدا کی تمام خوبیوں پر تہہ دل سے یقین رکھتا ہے۔ مسلمان اپنے ایمانی جذبے کی بدولت وہ ضبط کا امتحان دیتا ہے۔ جو کسی اور پابندی کے تحت کبھی نہیں دے سکتا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں آیا ہے صبر والے خدا کے ہاں اپنا اجر بے حساب پائیں گے۔ ‘‘
’’ابو جان! آپ رمضان المبارک کی نمایاں خصوصیات سے آگاہ کریں ‘‘ میں نے پوچھا۔
’’شاباش بیٹا! بہت اچھا سوال کیا۔ میں آپ کو رمضان المبارک کی چند خصوصیات بتا دیتا ہوں۔
۱۔ خدائے بر تر پر ایمان کی بختگی، ۲۔ صبر جمیل اور نعمتوں کا اعتراف، ۳۔ شب بیداری کی عبادت کا ثواب بے پناہ، ۴۔ لیلۃ القدر کی سعادت، ۵۔ قرآن پاک کے نزول کا مہینہ، ۶۔ اجتماعی عبادت یعنی ایک ہی وقت میں پوری دنا کے مسلمان عبادت کر رہے ہوتے ہیں، ۷۔ آخری عشرے میں اعتکاف کی سعادت، ۸۔ دعاؤں کی قبولیت میں ربط، ۹۔ ہر مسلمان پر صدقہ فطر کا واجب ہونا۔ ‘‘
ہم سب ابو جان کی میٹھی میٹھی باتیں سین رہے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کب ابو جان نے محفل بر خواست کی اور سونے کا حکم دیا وہ تو شکیل!شکیل میاں کی آواز پر چونکے۔
’’بھیا!ثواب سوچنے سے نہیں ابو جان کہتے ہیں روزہ رکھنے سے ملتا ہے‘‘۔ اور ہم شکیل کو آنکھیں دکھاتے ہوئے بستر میں گھس گئے یہ سوچ کر کے صبح جلدی بیدار ہونا پڑے گا۔
٭…٭…٭
صبح جب ہم بیدار ہوئے تو عجب غل غباڑہ تھا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ ہر سو روشنی کی پھیلی ہوئی تھی۔
’’ماشاء اللہ ! میرا شہزادہ جاگ گیا ہے، صبح سحری کے وقت کتنے جتن کئے، بیٹا !اٹھو سحری کھا لو …وقت گزر رہا ہے …لیکن اوں …اوں …آں …آں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، اب بھی سوئے رہتے۔ ‘‘ امی
جان کی غصے بھری آواز سن کر ہم چڑیوں کی ترنم بھری آوازوں کے سحر سے آزاد ہوئے تو آنکھ کھول کر دیکھا تو امی جان کمرے سے جا چکی تھیں۔ اسی دوران شکیل کمرے میں داخل ہوا۔
’’بھیا! آپ نے تو روزہ رکھا نہیں، پتہ ہے ہم بھی سحری کے وقت نہیں جاگے، سو صبح اٹھ کر ہم نے چڑی روزہ رکھ لیا ہے۔ آپ بھی ایسا کریں چڑی روزہ رکھ لیں۔ ‘‘ شکیل دانت نکالتا ہوا باہر نکل گیا اور ہم بستر پر بیٹھے یہ سوچنے لگے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی بتا دیں آپ صبح جلد ی اٹھنے کی عادت ڈالیں ورنہ ہو سکتا ہے آپ کو بھی میری طرح دیر سے جاگنے پر چڑی روزہ رکھنا پڑے گا۔
٭٭٭
اضافی کہانی
چاند کی بڑھیا
’’بچو! چاند کو غور سے دیکھو۔ چاند میں بادل اور پہاڑ ہیں اور جن دنوں چاند پورا ہو جاتا ہے اس دن آپ کو چاند میں ایک بڑھیا نظر آتی ہے۔ اسے چاند کی بڑھیا کہتے ہیں جو کروڑوں سالوں سے چاند پر بیٹھی چرخہ کات رہی ہے۔ ‘‘ دادی اماں نے جب کہانی شروع کی تو ان کی کہانی چاند پر چرخہ کاتنے والی بڑھیا کی کہانی تھی۔ دادی اماں نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ چھوٹی سی تھیں تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی دادی اماں سے کہانیاں سنا کرتی تھیں۔ دادی اماں نے چاند کی بڑھیا کی کہانی سنائی تھی اور پھر میں نے کئی بار چاند کی بڑھیا کو دیکھا جب بھی پورا چاند نکلتا تھا تو چاند کی بڑھیا چاند کے پہاڑوں کے سامنے بیٹھ کر چرخہ کات رہی ہوتی تھی۔ پھر دادی اماں نے سب بچوں کو چاند کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ آج بھی پورا چاند نکلا ہوا ہے لیکن اب میری بینائی کم ہو گئی ہے۔ بچو!آپ دیکھو آپ کو نظر آ جائے گی۔ سب بچوں نے چاند کی طرف دیکھا وہاں پورا چاند چمک رہا تھا۔ اس دن روشن رات تھی۔ چاند کے ارد گرد خوبصورت تارے ٹمٹما رہے تھے۔ چاند میں بادل تھے۔ ایسے ہی جیسے چند دن پہلے بار ش برسنے سے پہلے بچوں نے آسمان پر بادلوں کو ہوا کے ساتھ ساتھ بھاگتے دیکھا تھا۔ بچوں نے بہت غور کیا۔ چاند پر بادلوں کے ساتھ ساتھ انہیں ہلکا ہلکا شبہ ہوا کہ اس میں بڑے بڑے پہاڑ ہیں بالکل ایسے پہاڑ جیسے انہوں نے اپنے قاعدے میں دیکھے تھے۔ لیکن نہ تو انہیں بڑھیا نظر آئی اور نہ ہی چرخہ نظر آیا۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا دادی اماں وہاں تو بڑھیا بی نہیں ہیں۔ لیکن ان میں سے عبیرہ جو کہ خاموشی سے چاند کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ بولی نہیں دادی اماں وہاں بڑھیا بی بیٹھی چرخہ کات رہی ہیں۔ عبیرہ کی خالہ زاد افراء نے بھی عبیرہ کی ہاں میں ہاں ملائی کہ جی دادی اماں وہاں چاند پر بڑھیا بی بیٹھی چرخہ کات رہی ہیں۔ لیکن ریحان اور فیضان نے شور مچا دیا کہ دادی اماں یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ اگر انہیں نظر آ رہی ہیں تو ہمیں کیوں نظر نہیں آ رہی وہ بڑھیا بی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! دادی اماں نے حیرانی سے کہا بھئی میں نے خود بڑھیا بی کو کئی بار چاند پر چرخہ کاتتے ہوئے دیکھا ہے۔ عبیرہ اور افراء ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ لیکن مجال کے ریحان اور فیضان مان جاتے اور اسی بات پر چاروں بچوں کی ہاں نظر آ رہی ہے …نہیں نظر آ رہی …یہ بچوں کی رٹ جھگڑے پر پہنچ گئی اور دادی اماں کو کہانی ادھوری چھوڑنا پڑی کہ’’ بچو! پہلے آپ چاروں فیصلہ کر لیں کہ چاند پر بڑھیا بی نظر آ رہی ہیں یا نہیں آ رہی ہیں۔ جب آپ کا متفقہ فیصلہ ہو جائے گا تو میں آپ کو چاند کی بڑھیا کی مکمل کہانی سناؤں گی ‘‘۔ دادی اماں یہ کہتے ہوئے سونے کے لیے لیٹ گئیں اور وہ چاروں بھی منہ بسورتے ہوئے اپنے اپنے بستروں پر چلے گئے۔ اگلے دن چونکہ سکول کی چھٹی تھی اس لیے انہیں سونے کی جلدی نہیں تھی۔ ریحان اور فیضان کھڑکی میں سے چاند کو بغور دیکھتے رہے لیکن انہیں بڑھیا نظر نہ آئی اور پھر ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب انہیں ایک نرم اور ملائم ہاتھ نے جھنجھوڑا۔ ریحان اور فیضان نے اوں …اوں …کرتے ہوئے جیسے ہی آنکھیں کھولیں تو خوف کے مارے ان کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ انہوں نے دیکھا کے ان کے بستر کی ایک طرف ان کے دادا جان کی طرح ایک بزرگ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اس کے سفیدبال اتنے لمبے تھے کہ وہ اس کے کاندھوں کو چھو رہے تھے۔ سفید داڑھی سے ان کا چہرہ مکمل ڈھکا ہوا تھا۔ چہرے کی جگہ صرف دو آنکھیں، چھوٹی سی ناک اور کشادہ سا ما تھا ہی نظر آ رہا تھا۔ اس سفید بالوں والے بزرگ نے سفید رنگ کا کرتا پہنا ہوا تھا۔ وہ چوغہ نما کرتا اتنا لمبا تھا کہ جس سے اس کے پاؤں بھی چھپ گئے تھے۔ وہ دونوں اس اجنبی بوڑھے کو دیکھ کر چیخنا چاہتے تھے لیکن اس کی مسکراہٹ میں ایسی کشش تھی کہ وہ چیخ نہ سکے۔ پھر اس اجنبی بوڑھے نے انہیں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود کمرے سے باہر نکل گیا۔ ریحان اور فیضان کسی نادیدہ قوت کے زیر اثر آ چکے تھے۔ وہ دونوں اپنے بستر سے نیچے اترے اور اس اجنبی بوڑھے کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ باہر صحن میں ان کے لیے حیرت کا پہاڑ کھڑا تھا۔ ایک لمحے کے لیے وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ ان کے صحن میں سفید رنگ کی بگھی کھڑی تھی جس کے آگے دو سفید رنگ کے گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ وہ اجنبی بوڑھا صحن میں کھڑی بگھی پر بیٹھ کر اس کی باگیں سنبھال چکا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پتلا اور لمبا سا چابک بھی تھا۔ اس بوڑھے نے چابک سے دونوں کو اشارہ کیا تووہ خاموشی سے بگھی میں بیٹھ گئے۔ بگھی میں بیٹھتے ہی انہیں ایک اور حیرت کا سامنا کرنا پڑا۔ بگھی کی پچھلی سیٹوں پر عبیرہ اور افراء بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔ ابھی وہ حیرت سے عبیرہ اور افراء کی جانب دیکھ ہی رہے تھے کہ بگھی نے حرکت کی اور ایک لمحے میں گھوڑے ان کے صحن میں لگے پھاٹک نما گیٹ کو عبور کر گئے۔ حیرت انگیز طور پر بگھی کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔ ریحان اور فیضان کے لیے یہ سب نیا تھا وہ بت بنے اجنبی بوڑھے کو دیکھ رہے تھے اور اجنبی بوڑھا کبھی کبھار پیچھے مڑ کر دیکھتا اور مسکراتے ہوئے اپنی توجہ سامنے کر لیتے۔ ان کی حیرت اس وقت دوگنی ہو گئی جب بھگی سڑک پر بھاگتے بھاگتے فضا میں بلند ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بگھی فضا میں بلند سے بلند ہوتی چلی جا رہی تھی۔ ان کی نظر جب نیچے زمین پر پڑی تو انکا سر چکرانے لگا کیونکہ ان کو شہر کی جگہ چھوٹی چھوٹی جگمگاتی بتیاں نظر آ رہی تھی۔ وہ ابھی تک حیران تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ یہ اجنبی بوڑھا کون ہے ؟ یہ اجنبی بوڑھا انہیں کہاں لے کر جا رہا ہے۔ وہ اس بات پر بھی پریشان تھے جب ان کے گھر والوں کی آنکھ کھلے گی تو وہ انہیں تلاش کریں گے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ انہیں اپنا سر گھومتا ہوا نظر آیا۔ پھر انہیں کوئی ہوش نہ رہا۔ پتہ نہیں کتنے ہی لمحے گزر گئے تھے جب اجنبی بوڑھے نے انہیں پچکارتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ دونوں بے ہوش تھے اور پتہ نہیں کتنی دیر بے ہوش رہے۔ جب انہیں ہوش آیا تو وہ حیران رہ گئے وہ ایک چٹیل میدان میں لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے سرہانے عبیرہ اور افراء بھی کھڑی ہیں۔ جبکہ وہ اجنبی بوڑھا بگھی میں جتے گھوڑوں کو کھول رہا تھا۔ ’’مم …مم…میں کہاں ہوں ‘‘؟ ریحان نے ہوش میں آتے ہی پوچھا۔ بیٹا آپ لوگ اس وقت چاند کے مہمان ہیں اور مجھے چاند کی بڑھیا نے آپ کو لانے کا حکم دیا تھا۔ اور ہم لاکھوں میل کا سفر کر کے اس وقت زمین کی بجائے چاند کی دھرتی پر موجود ہیں۔ ریحان اور فیضان نے آنکھیں ملتے ہوئے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو دودھیا رنگ کی مٹی کی تہیں تھیں جبکہ کہیں کہیں سرخ اور کہیں مٹیالے رنگ کے چھوٹے بڑے پتھر نظر آئے۔ ان کے آنکھوں کے سامنے پہاڑوں کے سلسلے تھے۔ ایک پہاڑ کے سامنے ایک چرخہ پڑا تھا۔ چرخہ دیکھتے ہی انہیں دادی اماں کی کہانی یاد آنے لگی۔ ’’و ہ دیکھو چرخہ پڑا ہے ‘‘ عبیرہ نے چرخے پر نظر پڑتے ہی زور سے کہا۔ ’’لیکن بڑھیا بی نظر نہیں آ رہی۔ ‘‘ افراء نے کہا۔ اسی دوران وہ اجنبی بوڑھا ان کے قریب آیا اور اس نے ایک بلند و بالا پہاڑ کی جانب اشارہ کیا کہ چاند کی بڑھیا ذرا سستانے کے لیے اس پہاڑ کی اوٹ میں آرام فرما رہی ہوں گے۔ ’’لو جی ! وہ بڑھیا بی آپ کو خوش آمدید کہنے آ رہی ہیں۔ ‘‘اجنبی بوڑھے نے اسی پہاڑ کی اوٹ سے نکلتے ہوئے بڑھیا بی کو دیکھ لیا تھا۔ بڑھیا بی انہی کی جانب مسکراتے ہوئے چلی آ رہی تھیں۔ وہ بہت عمر رسید ہ تھیں۔ بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کمر کمان کی طرح جھک گئی تھی۔ سر کی سفید بال بالکل چاند کی طرح سفید تھے۔ ان کا چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا تھا۔ چاند کی بڑھیا کے ہاتھ انسانی ہاتھوں سے کچھ زیادہ ہی لمبے واقع ہوئے تھے۔ وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے انہی کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ جیسے جیسے چاند کی بڑھیا ان کے نزدیک آ رہی تھی انکا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ پھر چاند کی بڑھیا بالکل ان کے نزدیک پہنچ گئی۔ بڑھیا نے عبیرہ اور افراء کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور ان کے گالوں کو چھوٹے ہوئے کہا کہ میری بیٹیوں تم تو بالکل ویسی معصوم فرشتوں جیسی ہو۔ اسی لیے مجھے پیاری لگتی ہو۔ پھر بڑھیا نے مڑکر ریحان اور فیضان کی جانب دیکھا۔ ریحان اور فیضان کو لگا کہ اب وہ ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کرے گی لیکن چاند کی بڑھیا نے غصے سے ان دونوں کی جانب دیکھا اور واپس اپنے چرخے کی جانب بڑھ گئی۔ وہ دونوں بڑھیا کے اس رویے سے پریشان ہو گئے کہ بڑھیا نے انہیں کیوں نہیں پیار کیا۔ پھر اجنبی بوڑھے کے اشارے پر وہ چاروں بڑھیا کی جانب بڑھنے لگے اور جہاں بڑھیا چرخے کے سامنے بیٹھ چکی تھی۔ وہ چاروں اس کے بالکل نزدیک جا کر رک گئے۔ چاند کی بڑھیا نے نظر یں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔
’’دیکھو بچو! میں اچھے اور نیک عمل کرنے والے بچوں سے پیار کرتی ہوں۔ لیکن جو بچے اچھے نہیں ہوتے جو شرارتی ہوتے ہیں اور گھر والوں کے ساتھ اپنے دوستوں کو تنگ کرتے ہیں میں ان سے پیار نہیں کرتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مجھے وہ ہی بچے دیکھ سکتے ہیں جو دنیا میں اچھے کام کرتے ہیں۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ بڑھیا کچھ اور کہتی ریحان نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا۔ ’’ بڑھیا بی ہم بھی تواچھے ہیں پھر آپ ہم سے پیار کیوں نہیں کرتی جبکہ آج رات آپ عبیرہ اور افراء کو چاند پر بیٹھی نظر آ رہی تھیں اور ہماری دادی جان کہہ رہی تھیں کہ انہیں بھی آپ پورے چاند کی رات نظر آتی تھیں۔ ‘‘ بڑھیا بی نے غصے سے ان کی جانب دیکھا اور کہنے لگیں اچھا آپ دونوں اچھے بچے ہو۔ میں کیا اندھی ہوں۔ بچو! میری عمر بے شک لاکھوں سال ہے لیکن میری نظر آپ کی دنیا کے تمام انسانوں سے زیادہ ہے۔ میں چاند پر بیٹھ کر آپ کے تمام کرتوت دیکھتی ہوں۔ فیضان تمہیں پتہ نہیں یاد ہو یا نہ مجھے وہ دن یاد ہے جب تم نے کلاس روم میں اپنے کلاس فیلو کا ٹفن چر ا لیا تھا اور اس کا سارا لنچ ہڑ پ کر گئے تھے۔ وہ تمہارا کلاس فیلو عبداللہ بھوک کی وجہ سے سارا دن کلاس میں روتا رہا تھا اور تم ریحان کے ساتھ مل کر ہنس رہے تھے۔ اور تو اور میں روز دیکھتی ہوں نہ آپ دونوں سکول جانے سے پہلے گھر والوں کو سلام کرتے ہو اور واپسی پر بھی اودھم مچاتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہو۔ کئی بار میں نے سنا کہ آپ دونوں کی امی آپ کی لاپرواہی کی وجہ سے کتنا پریشان رہتی ہیں۔ آپ لوگ گھر میں داخل ہوتے ہی بستہ اٹھا کر صحن میں پھینکتے ہو۔ کمرے اور برآمدے کی ہر نکڑ میں آپ کے موزے اور جوتے پڑے ہوتے ہیں۔ آپ لوگ اتنے لاپروا ہو کہ اپنی امی کا اتنا خیال بھی نہیں کرتے کہ وہ گھر کے کام کاج کر کے تھک گئی ہوتی ہیں اور تمہاری سکول کے بستے اور جوتے سنبھال رہی ہوتی ہیں۔ ریحان اور فیضان بچے میں اندھی نہیں ہوں۔ ہر روز صبح جاگتے وقت کتنے بہانے بناتے ہو اور ہمیشہ برش کرنے سے گھبراتے ہو۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ بڑھیا ان کی اور خامیاں گنواتیں، عبیرہ بول پڑی۔ ’’جی بڑھیا بی ! ریحان اور فیضان دونوں کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ بھی نہیں دھوتے جس کی وجہ سے جراثیم ان کے کھانے کے ساتھ ان کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور مہینے میں کئی بار بیمار بھی پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘ ریحان بھی کہاں چپ رہنے والا تھا، فٹ سے منہ چڑاتے ہوئے بولا۔ ’’بیمار پڑ جاتے ہیں، اپنا پتہ نہیں بھلا …اس دن بیمار ہو گئی۔ خود بھی تو بیمار ہوئیں تھیں۔ ‘‘ عبیرہ پر حملہ ہو اور افراء چپ رہ جائے وہ ہمیشہ عبیرہ کا ساتھ دینے کے ہر دم تیار رہتی تھی۔ ریحان کو برہم ہوتے دیکھ کر بولی۔ ’’ بڑھیا بی عبیرہ بیمار نہیں ہوئی تھی بلکہ اسے فلو ہوا تھا کیونکہ اس دن سردی زیادہ تھی۔ احتیاط کے باوجود سردی لگ گئی اور فلو کی وجہ سے بخار ہو گیا تھا۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ ریحان اور فیضان کوئی دو ٹوک جواب دینے کی کوشش کرتے۔ بڑھیا بی ! نے ڈانٹنے کے انداز میں بولا۔ ’’چپ کرو ریحان اور فیضان ابھی آپ زمین پر نہیں ہو بلکہ چاند پر ہو اور چاند پر لڑائی نہیں ہوتی۔ مجھے پتہ ہے کون کیا ہے ؟ عبیرہ اور افراء بہت نیک اور صالح بچیاں ہیں وہ اپنے ماں باپ کا بہت خیال کرتی ہیں۔ اپنا ہوم ورک وقت پر کرتی ہیں۔ صبح وقت پر بیدار ہو جاتی ہیں۔ گھر کے کام کاج میں اپنی امی کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ سکول میں اپنی کلاس فیلوز کے ساتھ دوستیاں بناتی ہیں۔ عبیرہ اب سات سال کی ہو گئی ہے وہ اپنی امی جان کے ساتھ جائے نماز بچھا کر نماز بھی پڑھتی ہے۔ ‘‘بڑھیا بی نے جب ڈھیر ساری اچھائیاں گنوائیں تو ریحان اور فیضان دونوں پریشان ہو گئے کہ بڑھیا بی کو تو زمین پر کی جانے والی اچھائیوں اور برائیوں کا پتہ ہے۔ پھر ایک دم ریحان کو خیال آیا کہ اس دن جو اس نے ایک چڑیا کے بچے کو پکڑ کر اس کی ٹانگ توڑ دی تھی اگر اس کا بھی پتہ ہوا تو یہ نہ ہو کہ بڑھیا بی اس کی بھی ٹانگ توڑ دے۔ یہ سوچتے ہی اسے رونا آگیا اور اس نے اونچی اونچی رونا شروع کر دیا۔ ریحان کو روتے دیکھ کر فیضان نے بھی رونا شروع کر دیا۔ ان کو روتے دیکھ کر عبیرہ اور افراء آگے بڑھیں اور دونوں کو چپ کرانے کی کوشش کرنے لگیں۔ بڑھیا بی !چرخے کے سامنے بیٹھی ان کا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ اتنی دیر میں عبیرہ بولی۔ ’’ اے چاند کی پیاری بڑھیا ! ہمارے ان بھائیوں کو معاف کر دو۔ یہ آئندہ سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے دوسرے تنگ ہوں۔ ہم ان کی جگہ معافی مانگتی ہیں۔ ‘‘ عبیرہ کو معافی کے لیے ہاتھ جوڑتے دیکھ کر افراء نے بھی معافی کی غرض سے ہاتھ جوڑ دیے۔ ان کو ہاتھ جوڑتے دیکھ کر بوڑھیا بی اپنے چرخے کے سامنے سے اٹھ کر ان کے قریب آ گئیں۔ قریب آ کر چاند کی بڑھیا نے ریحان اور فیضان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہیں چپ کر جانے کا کہا۔ رونے سے ان کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ پھر چاند کی بڑھیا نے ان کی تھوڑی کو پکڑ کر انکا سر اوپر کیا اور انہیں اپنی گو د میں لے لیا۔ دونوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ’’اے پیاری چاند کی بڑھیا ! ہمیں معاف کر دو اب ہم کوئی بھی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے دوسرے تنگ ہوں۔ ہم وعدہ کرتے ہیں …پکا وعدہ …آپ بھی وعدہ کریں آپ عبیرہ اور افراء کی طرح ہم سے بھی محبت کریں گی۔ ہمیں بھی پورے چاند کی رات نظر آیا کریں گے۔ ‘‘ بڑھیا بی ! نے پیار سے چاروں کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور پیار بھر انداز میں بولیں۔ مجھے زمین پر بسنے والے تمام لوگ بہت پیار ے لگتے ہیں۔ زمین پر بسنے والے بچے تو میر ی جان ہیں۔ کیونکہ بچے تو جنت کے پھول ہوتے ہیں۔ پیارے پیارے بچو! جاؤ میں نے معاف کیا۔ جاؤ اب میں آپ دونوں کو بھی چاند کی پوری رات نظر آیا کروں گی۔ لیکن جس دن تم دونوں نے وعدہ خلافی کی اس دن کے بعد میں نظر نہیں آؤں گی۔ جاتے جاتے میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ زمین پر جا کر بڑوں کا احترام اور اپنے سے چھوٹے سے شفقت سے پیش آنا۔ ‘‘ چاند کی بڑھیا نے اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے۔ جب ہاتھ نیچے کیے تو ان میں میں ڈھیر ساری چاکلیٹ تھیں۔ لو بچو ! یہ چاند کی سپیشل چاکلیٹ ہے۔ میری طرف سے چاکلیٹ کا تحفہ آپ چاروں کے ساتھ جائے گا۔ پھر چاند کی بڑھیا نے اجنبی بوڑھے کو حکم دیا کہ میرے پیارے بچوں کو ان کے گھر میں حفاظت سے پہنچا آؤ یہ نہ ہو کہ وہاں صبح ہو جائے۔ اجنبی بوڑھے نے حکم کی تعمیل کی اور بگھی کو تیار کرنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ چاند سے زمین کی جانب سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے زمین کی جانب آتے ہوئے دیکھا کہ چاند میں جہاں بادل اور پہاڑ نظر آ رہے تھے وہاں ایک بڑھیا چرخہ کات رہی تھی۔ ریحان اور فیضان نے خوش ہو کر عبیرہ اور افراء کو بھی بتایا کہ چاند کی بڑھیا وہ سامنے چرخہ کات رہی ہیں۔ اجنبی بوڑھے نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور پہلی بار مسکراتے ہوئے بولا۔ چاند کی بڑھیا ہر اس بچے کو نظر آتی جو بچے اپنا اور اپنے ساتھیوں اور اپنے بڑوں کا خیال رکھتے ہیں۔ پتہ نہیں کتنا وقت گزر گیا جب انہیں لگا کہ ان کی بگھی اب فضا کی بجائے سڑک پر دوڑ رہی ہے۔ یہ ان کا وہم نہیں تھا۔ بلکہ سچ میں بگھی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ جب وہ لوگ اپنے گھر کے صحن میں پہنچے تو اس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔ اجنبی بوڑھے نے انہیں صحن میں اتارا اور چاند کی بڑھیا کی طرح انہیں پیار کیا۔ جب بگھی واپس جا رہی تھی تو اس وقت چاروں ہاتھ ہلا ہلا کر اس اجنبی بوڑھے کو الوداع کہہ رہے تھے۔
پیار ے بچو! اب ذرا آپ بھی سوچیے گا کہ جب پورے چاند کی رات ہوتی ہے تو کیا آ پ نے چاند پر ایک بڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھا ہے۔ اگر نہیں دیکھا تو پھر یقیناً آپ دوسروں کا خیال نہیں رکھتے ہوں گے۔ اگر آپ پورے چاند کی رات چاند کی بڑھیا کو دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر عبیرہ اور افراء رانی کی طرح امی ابو، دوستوں اور چھوٹوں کا خیال رکھنا ہو گا۔ ورنہ …………
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید