FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اُن بچوں کے لیے خوبصورت سفرنامہ جنہیں پہاڑ، ندیاں اور بندر اچھے لگتے ہیں

 

 

ذرا ایوبیہ تک

 

 

                محمد ندیم اختر

 

 

 

 

 

 

                انتساب

 

پیارے بھائی، پیارے دوست اور پیارے استاد

ناصر ملک

کے نام!

جن کی قدم قدم پر رہنمائی نے مجھے صاحب کتاب بنایا

 

 

 

 

                کان بند ہو جائیں گے

پچھلے آدھے گھنٹے سے ہم اسلام آباد کی ایک سٹرک پر سفر کر رہے تھے۔ ہمارے سفر کا آغاز سنگم شادی ہال راولپنڈی سے ہوا تھا۔ یہ میری زندگی کا خوبصورت اور یادگار سفر تھا۔ میرے ساتھ و یگن کی پچھلی سیٹ پر بائیں جانب دبلے پتلے سے چھوٹے سے قد کے امر ادریس بیٹھے تھے۔ اَ مر ادریس حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں اور سندھی زبان میں بچوں کے لئے لکھتے ہیں جبکہ دائیں جانب ماہنامہ ذوق شوق کے معاون مدیر سعید شیر خان ویگن کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہے تھے۔ میری اگلی سیٹ پر دائیں جانب بچوں کے معروف ادیب جن کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ ماہنامہ پیغام اقبال کے معاون مدیر بھی رہ چکے تھے یہ تھے محمد علی جو کسی سوچ میں گم جانے کیا سوچ رہے تھے۔ ان کے ساتھ میلسی سے تعلق رکھنے والے بچوں کے معروف ادیب شاہد حفیظ بیٹھے تھے جو کبھی شاہد حفیظ الہ آبادی کے نام سے لکھا کرتے تھے دیکھنے میں کسی سرائیکی ڈرامے کے کسی کردار سے مشابہت رکھتے تھے ان کے بڑے بڑے بال جو ہمیشہ ان کے گردن، کانوں اور ماتھے پر پڑے رہتے تھے، ساتھ بیٹھے خوبصورت نوجوان ادیب شاہنواز سرمد سے خوش گپیوں میں مصروف تھے، ساتھ ہی بائیں جانب ایک معصوم سا بچہ بیٹھا تھا ارے نہیں یہ معصوم سا بچہ ضرور ہے لیکن یہ ماہنامہ پیغام اقبال کے معاون مدیر بھی ہیں، ان سے اگلی سیٹ پر ملتان سے تعلق رکھنے والے بچوں کے معروف ادیب جو شکل کے معصوم لگنے والے ہماری رائے کے مطابق وہ ہیں ہی معصوم سے، جی ہاں عرفات ظہور تھے جو موبائل پر میسیج پڑھ رہے تھے، ان کے ساتھ پھول کہانی گھر وہاڑی کے صدر وقار عظیم بیٹھے شاید ڈرائیور کو دیکھ رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ ایک اپنی معصوم اور جاذبیت سمیت ماہنامہ پیغام اقبال کے مدیر محمد عامر جلوہ افروز تھے جو معاون مدیر عمار محبوب سے شاید کسی بحث میں مصروف تھے، اب چلتے ہیں فرنٹ سیٹ پر جی ہاں وہاں بھی کچھ شخصیات تشریف فرما ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ پورے راستے ویگن میں بیٹھے باقی ادیبوں سے لاتعلق رہے جی ان میں ایک ہیں بزم پیغام پنجاب کے صوبائی صدر محمد سلیم اور دوسرے ہمارے ہمسفروں میں طویل القامت شخص پھول بھائی جی ہاں عبدالصمد مظفر جو بچوں کے ادیب تو ہیں ہی لیکن ساتھ ماہنامہ آنکھ مچولی کے معاون مدیر بھی ہیں۔ اتنے سارے بچوں کے ادیبوں کو ایک ساتھ اکٹھا کرنے کا سہرا ماہنامہ پیغام اقبال کے سر جاتا ہے کہ انہوں نے ہما رے اعزاز میں اس یادگار سفر کا اہتمام کیا تھا۔

ان سے فرصت ملی تو ہم بھی باہر کا نظار ہ کرنے لگے، ارے یہ کیا بھئی ابھی کچھ دیر پہلے تو ہماری گاڑی اسلام آباد کی اونچی عمارتوں اور پلازوں کے درمیان سے گزر رہی تھی اور اب سڑک کے اطراف میں اکا دکا دکانیں نظر آ رہی تھیں اور دو کہیں آبادی کے آثار بھی نظر آ رہے تھے۔

’’محمد علی یہ کونسا روڈ ہے اور ہم اس وقت کہاں پہنچ چکے ہیں ؟‘‘میں نے محمد علی کو مخاطب کیا۔ ’’بھائی ہم بارہ کوہ روڈ پر سفر کر رہے ہیں اور یہ بارہ کوہ سٹاپ ہے اس نے ایک مسافر خانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اور ہم اب ہم اونچائی کی طرف سفر کریں گے ‘‘ محمد علی نے جھٹ سے جواب دیا۔ میں نے اچھا کہا اور کھڑکی کے شیشے سے باہر قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھنے میں محو ہو گیا، نیلگوں آسمان کے درمیان سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ کرنیں زمین پر پھیلا رہا تھا، ہماری ویگن تارکول کی سٹرک پر بھاگتی جا رہی تھی۔

’’اب ہم کشمیر پوائنٹ پہنچ چکے ہیں ‘‘محمد علی کی آواز گونجی۔ ’’ارے اتنی جلدی ہم کشمیر میں کیسے پہنچ سکتے ہیں ‘‘شاہد حفیظ نے جھٹ سے محمد علی کو جھٹلایا۔ ’’نہیں جی ہم کشمیر میں نہیں یہ بارہ کوہ سے اگلا مقام ہے جسے کشمیر پوائنٹ کہتے ہیں ‘‘ عبدالمنان نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ’’اچھا…!ایک لمبے اور کھنچے ہوئے ’’اچھا ‘‘ کی آواز ویگن میں گونجی تو ویگن قہقہوں سے گونج اٹھی۔

’’ارے بھائی سب لوگ منہ چلانا شروع کر دیں ‘‘یہ محمد علی کی آواز تھی۔ ’’بھئی وہ کیوں …؟‘‘میں نے تعجب سے پوچھا۔

’’ہم اونچائی کی جانب جا رہے ہیں اور ہوا کا دباؤ بڑھ رہا ہے اگر خاموش بیٹھے نظارے ہی کرتے رہے تو کان بند ہو جائیں گے اس لیے یہاں منہ چلا نا ضروری ہے ‘‘ اور ساتھ ہی عمار محبوب کی آواز آئی ’’یہ دیکھو میرا تو دایاں کان تو بند ہو گیا‘‘

’’نہیں یار میرا تو بایاں کان بند ہو گیا ہے ‘‘ عرفات ظہور نے بائیں کان پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ہنسنے کی آواز نے ویگن کے ماحول کو سریلا بنا دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

                ایک دفعہ کا ذکر ہے

ایک خوبصورت سفر تھا جو جاری تھا۔ تارکول کی سڑک پر ہماری ویگن دوڑتی جا رہی تھی بل کھاتی سڑک پر چلتی ہوئی ویگن نجانے کیوں خوبصورت لگ رہی تھی شاید آج کے سفر میں مسافر خوبصورت تھے یا دیکھنے اور سوچنے والے کی آنکھ اور دل نے خوبصورت بنا دیا تھا۔ سڑک اطراف میں اکا دکا دکانیں اور سڑک کے کنارے بنے ہوئے گھر اب نظر نہیں آ رہے تھے تا حد نگاہ بلند ہوتے پہاڑ تھے اور پہاڑوں سے پار کچھ بھی نہیں تھا۔ دسمبر کا آخری ہفتہ تھا اور اسلام آباد میں سردیاں زوروں پر تھی لیکن ویگن کے شیشے بند تھے جو ویگن کے اندر کے ماحول کو گرم رکھے ہوئے تھا۔ اس موسم میں بلند ہوتے پہاڑ خشک پہاڑ نظر آ رہے تھے جیسے ڈیرہ غازیخان سے فورٹ منرو جاتے ہوئے خشک پہاڑ نظر آتے ہیں، لیکن پھر بھی یہاں کہیں کہیں ہریالی نظر آ رہی تھی، سردی کی وجہ سے ان پہاڑوں پر اگنے والے چھوٹے پودے سردی کی وجہ سے جل جاتے ہیں لیکن فطرت کا حسن گرمیوں کے دنوں میں دیکھنے کو ہوتا ہے۔ جب چاروں اطراف سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے۔

شاہد حفیظ نے آگاہ کیا، ’’یہ چھتر پارک ہے۔ ‘‘

’’ تمہیں کیسے پتا کہ یہ چھتر پارک ہے۔ ‘‘شاہنواز سرمد نے سراٹھاتے ہوئے کہا۔

’’یہ دیکھو!لاہوری ہوٹل کے بورڈ پر جگہ کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ ‘‘شاہد نے ہوٹل کے سائن بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔

’’جناب یہ بورڈ ہوٹل کا ہے لیکن یہاں تو ہوٹل کی جگہ سی این جی پمپ نظر آ رہے ہے۔ ‘‘شاہنواز بولا۔

’’بھئی لڑتے کیوں ہیں، ہوٹل ہو یا سی این جی پمپ بہر حال ہے یہ چھر پارک۔ ‘‘عامر بھائی نے ان کے ساتھ ساتھ سب کی الجھن ختم کر دی۔ سڑک کے مشرقی کنارے بڑے رقبے پر پارک بنا ہو ا تھا جہاں بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے نظر آ رہے تھے اور پارک کے وسط میں واک کے لئے ٹریک بھی موجود تھا جبکہ گھاس والے پلاٹ پارک کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے تھے۔

’’ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک بادشاہ تھا، فروٹ کاٹتے ہوئے اس کی انگلی کٹ گئی ‘‘

’’عمار بھائی یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اصلی والا بادشاہ ہو اور خود ہی اپنے لیے فروٹ کاٹے، یہ ناممکن ہے، ایسے کام تو اس کے خادم اور خادمائیں ہی کرتی ہوتی ہیں۔ ‘‘عرفات ظہور نے عمار محبوب کی سنائی جانے والی کہانی اچک لی۔

’’بھئی سنے تو سہی بڑے مزے کی کہانی ہے۔ ‘‘

’’مزے کا تو فروٹ ہوتا ہے، کہانی تو کہانی ہوتی ہے۔ ‘‘میری آواز سن کر ہنسنے کی آواز ویگن میں گونجی اور پھر سب لوگ خاموش ہو گئے کہ عمار محبوب کی کہانی سن لی جائے اسی دوران عمار کے موبائل کی گھنٹی بجی اور وہ موبائل پر کسی شناساسے بات کرنے لگا۔

’’ہاں تو میں کہانی سنا رہا تھا کہ بادشاہ کی انگلی کٹتے ہی دربار میں شور مچ گیا کہ بادشاہ سلامت کی انگلی کٹ گئی ہے، شاہی طبیب کو فوراً حاضر کیا گیا، بادشاہ فکر مند تھا کہ انگلی کا کٹنا برا شگون لگتا ہے، اس نے اپنے وزیر سے مشورہ کیا اب کیا کرنا چاہیے کیا کوئی صدقہ خیرات کر لی جائے تو وزیر نے کہا کہ ہے تو یہ اچھی بات لیکن اللہ باری تعالی جو بھی کرتے ہیں بہتر کرتے ہیں۔ بادشاہ وزیر کا جواب سن کر غصے میں آگیا کہ حل بتانے کی بجائے اللہ کی خوشنودی کی طرف لے جا رہا ہے۔ چند دن گزرے تو بادشاہ اپنے ساتھیوں سمیت جنگل میں شکار کرنے گیا تو وہاں اسے اس پرانا خشک کنواں نظر آیا تو بادشاہ نے وزیر کو اس کنویں میں گرا دیا۔ وزیر نے کہا بادشاہ سلامت یہ آپ نے کیا کیا تو بادشاہ بولا اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے، اور وزیر کو چھوڑ کر شکار پر نکل پڑا، بادشاہ اپنے ساتھیوں سمیت ابھی کچھ ہی دور گھنے جنگل میں پہنچا تو بادشاہ کو ساتھیوں سمیت جنگلیوں نے گھیر لیا، جنگلی تعداد میں زیادہ تھے اور انہوں نے ہاتھوں میں بھالے اٹھارکھے تھے، جبکہ بادشاہ اور اس کے ساتھی کم تھے، زیادہ دیر جنگلیوں کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور ہتھیار پھینک دیے۔ انہوں نے ان سب کو گھیر ے میں لیا اور اپنے قبیلے میں لے گئے۔ بادشاہ نوجوان اور خوبصورت تھا۔ قبیلے کا سردار بہت خوش ہوا کیونکہ انہیں اپنے دیوتا کے چرنوں میں قربان کرنے کے لئے ایسے ہی خوبصورت اور نوجوان کی تلاش تھی۔ جب وہ دیوتا کے پاس بادشاہ کو لے کر گئے تو وہاں موجود ’’اوتار ‘‘ نے بادشاہ کی قربانی رد کر دی کہ بادشاہ کی انگلی زخمی ہے اور وہ کسی صورت میں زخمی انسان کی قربانی قبول نہیں ہو گی۔ اور اس طرح بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا گیا۔ آزادی پا کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسے اپنے وزیر کی کہی بات جو اللہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے، یاد آ گئی۔ بادشاہ اپنے ساتھیوں سمیت جلد از جلد اس کنویں تک پہنچنا چاہتا تھا جہاں اس نے اپنے وزیر کو کنویں میں دھکا دیا تھا کہ اسے فوراََ بچایا جائے۔ وزیر کو کنویں میں سے نکال لیا گیا۔ وزیر بادشاہ کی اس عنایت پر بہت خوش ہوا اور پوچھا کہ بادشاہ سلامت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پہلے آپ نے مجھے کنویں میں دھکا دیا اور اب مجھے نئی زندگی دی۔ بادشاہ نے کہا وزیر کو پوری داستان سنائی کہ کس طرح ان کی جان بچی تو وزیر نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ آپ نے مجھے کنویں میں دھکا دے دیا ورنہ میں بھی آپ کی طرح جوان اور خوبصورت شخصیت کا مالک ہوں اگر میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا تو آج آپ کی جگہ وہ لوگ مجھے اپنے دیوتا کے سامنے قربان کر چکے ہوتے۔ اللہ جو بھی کرتا ہے بہتر ہی کرتا ہے۔ اور اس دونوں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ‘‘عمار محبوب نے کہانی ختم کی تو سب لوگ جو بڑے انہماک سے کہانی سن رہے تھے، وہ دل ہی دل میں خدا کی بڑائی کرنے لگے چند ایک لوگوں کی زبان پر بھی خدا کی بڑائی کی آواز گونجی۔

٭٭٭

 

 

 

 

                یہ بس ٹیڑھی ہو کر پیر ودھائی جائے گی

 

ہماری ویگن مارگلہ کی پہاڑیوں پر بل کھاتی اور اوپر کو جاتی سٹرک پر چلتی جا رہی تھی، ’’یہ وہ مارگلہ کی پہاڑیاں جن کے بارے میں پچھلے دنوں کہا جا رہا تھا کہ طالبان یہاں پہنچ چکے ہیں ‘‘شاہد حفیظ نے کہا۔

’’چھوڑو یار !ڈراؤنی باتیں نہیں کرتے بلکہ طالبان کا خوف کی بجائے باہر کی خوبصورتیاں سمیٹو۔ ‘‘وقار عظیم نے خوبصورتی سے بات کو رخ بدلتے ہوئے کہا اور باہر کی ایک خوبصورت مقام کی طرف اشارہ کیا۔ یہ ویلی پارک تھا۔ سڑک سے نیچے مغربی جانب جہاں بچوں کے جھولے اور ’’زو‘‘(چڑیا گھر )نظر آ رہا تھا۔ چڑیا گھر کو دیکھ کر دل للچایا کہ گاڑی کو رکوا لیا جائے اور سورج کی ہلکی دھوپ میں بیٹھ کر اسی پارک میں دن گزار دیا جائے اور ساتھ ہی پیغام اقبال ٹیم کا شکریہ بھی ادا کر دیا جائے کہ انہوں نے میرا بچپن مجھے لوٹا دیا ہے۔ لیکن یہ حسرت دل میں ہی رہی اور ہماری گاڑی نے ایک موڑ کاٹا یہ مری کا آغاز تھا۔ سڑک کے کنارے پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا کہ پنڈی پوائنٹ 10کلو میٹر آگے، اور 10روپے میں لفٹ کے مزے دوبالا کریں۔

’’ندیم بھائی !پنڈی پوائنٹ میں چیئر لفٹ کتنی سستی ہے، یار ویسے مزہ تو پتریاٹہ میں چیئر لفٹ اور کیبل کار میں بیٹھنے کا ہے ‘‘عرفات کی خوشگوار آواز میرے کانوں میں پڑی۔

’’جی ہاں !مجھے یاد ہے آج سے 10سال قبل ہم اور آپ اکٹھے ہی مری سے نیومری (پتریاٹہ )گئے تھے۔ اس وقت یار اس کا ٹکٹ سو روپے تھا اب تو میں پچھلے سال وہاں اپنی فیملی کے ساتھ گیا تودوسور وپے ٹکٹ ہو چکا ہے اور سنا ہے کہ اب یہ تین سو کا ہو گیا۔ ‘‘

ہماری گاڑی اب موڑ کاٹتے ہوئے اونچی ہوتی جا رہی تھی، سڑک کے بائیں جانب سرنکالے چیڑ اور صنوبر کے درخت کتنے خوبصورت لگ رہے۔ ان خوبصورت درختوں سے نیچے نظر ماریں تو وہاں حسن بے نظیر وادیاں نظر آ رہی تھیں۔ روایتی طرز کے لکڑ اور پتھر کے گھر جن کی چھتیں ٹین کی تھی، بھی بکھری آبادی کی صورت میں نظر آ رہے۔ ویگن فراٹے بھرتے ہوئے چلی جا رہی تھی اور یوں لگ رہا تھا کے زمین سے نکلنے والے چیڑ اور صنوبر کے بڑے بڑے درخت بھی ہمارے ہمسفرہیں۔ پہاڑوں پر کہیں کہیں دھوپ کی چمک پڑتی دکھائی دیتی تو یوں لگتا کہ جیسے تانبا چمک رہا ہے۔ میں حیرانی سے قدرتی حسن کو اپنی آنکھوں میں سمو رہا تھا اور نجانے کن خیالوں میں گم اللہ تعالی کی تعریف میں سر دھن رہا تھا کہ آواز آئی۔

’’کل چکوال میں برف باری ہوئی ہے ‘‘عبدالمنان کی آواز پر گاڑی میں قہقہہ گونجا۔ ’’کیوں بھئی اگر جدہ میں بارشیں ہو سکتی ہیں تو چکوال میں برف باری کیوں نہیں ہو سکتی ؟‘‘عبدالمنان نے سب کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’ہو سکتی ہے ہاں بھئی کیوں نہیں ہو سکتی ؟‘‘عمار محبوب کی ہاں میں ہاں سن کر عبدالمنان خوش ہو گیا۔

اچانک ہماری گاڑی رک گئی۔ سامنے سڑک کی ایک طرف اس کی مرمتی کا کام ہو رہا تھا۔ اور سامنے سے ایک ہینو بس کا کراس آگیا تھا۔ ڈرائیو نے ویگن روک دی تاکہ بس کو گزرنے میں آسانی ہو۔ ’’یہ بس سیدھی پیر ودھائی جائے گی ‘‘ محمد علی نے کہا۔ ’’نہیں یہ بسی ٹیڑھی ہو کر پیر ودھا ئی جائے گی کیوں کہ آگے سیدھی سٹرک نہیں بلکہ ٹیڑھی میڑھی سڑک ہے جناب !‘‘محمد عامر کی آواز پر ایک بار پھر ہماری ویگن قہقہوں سے گونج اٹھی۔ ہماری ویگن کمپنی باغ پہنچ چکی تھی۔ مری جاتے ہوئے اس مقام پر تمام گاڑیاں رک کر گاڑی کا انجن ٹھنڈا کرتے ہیں۔ کچھ دیر قیام کے بعد پھر گاڑی اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں لیکن ہماری ویگن والے کو شاید جلدی تھی اس لئے ڈرائیور نے یہاں بریک نہ ماری ورنہ میں سوچ رہا تھا کہ جب ہماری ویگن یہاں رکے گی تو سڑک کے مغربی جانب پہاڑوں سے بہنے والے چشمے کا پانی پیؤں گا، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ہماری ویگن ایک بڑا سا موڑ کاٹا، سامنے ایک آئینہ نصب تھا، موڑ خطرناک تھا، یہ آئینہ ایسے زاویے میں لگایا گیا تھا کہ پہاڑ کے عقب میں سامنے سے آنے والی گاڑی سامنے والے گاڑی کے ڈرائیور کو صاف نظر آتی ہے۔ اسی دوران کافی دیر سے خاموش بیٹھے ذوق شوق کے معاون مدیر سعید شیر خان نے کہا کہ ’’سعید سیاح مرح کی خوبصورت سڑکوں پر۔ ‘‘ سب کی توجہ سعیدشیر خان پر چلی گئی جو اپنی چھوٹی چھوٹی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر مسکر ا رہے تھے۔

اعظم طارق کوہستانی نے حیرانگی سے سوال کیا ’’سعید بھائی یہ تو سنا تھا کہ سعید سیاح اسلام آباد میں لیکن کیا کمال ہو کہ آپ بھی ماہنامہ ذوق شوق میں اپنا لکھا ہوا سفر نامہ شائع کریں۔ اس طرح حکیم محمد سعید صاحب کی طرح آپ بھی بچوں کے سفرنامے لکھنے والے مشہور ہو جائیں گے۔ ‘‘حکیم محمد سعید کا نام سنتے ہی جانے دل میں ایک حسرت نے ایک بار پھر بڑے عرصے بعد سر اٹھایا، جب میں سوچا کر تا تھا کہ ایک دن میں بھی نونہال اسمبلی میں جاؤں گا اور سفید شیروانی والے حکیم صاحب سے مصافحہ کروں گا لیکن میرا وہ بچپن کا شوق دہشت گردوں نے پورا نہیں ہونے دیا اور ایک دن بچوں کے حکیم جو اپنے مریضوں کی نبض شناسی ہی نہیں جانتے تھے بلکہ ہر عمر کے بچوں کے احساسات کو بخوبی سمجھتے تھے۔ ایک آہ تھی جو لب تک آئی اور آنکھ میں آنسوؤں کا ایک قطرہ یوں ٹپکا کہ میرے ہمسفروں میں سے کوئی بھی میری کیفیت کو سمجھ پایا۔

٭٭٭

 

 

 

 

                کھڑکی میں سے اڑ جاؤ گے

 

’’اس وقت ہم گھوڑا گلی پہنچ چکے ہیں، کیوں جی سب لوگ باخبر ہیں نا…!‘‘ شاہنواز نے ہم سب کی توجہ آنے والے نئے سٹاپ کی دلائی۔ سب لوگ تو قدرت کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے تھے۔ شاید کسی نے بھی شاہنواز کی بات پر توجہ نہیں دی کیونکہ سب لوگ ہی دیکھ رہے تھے سڑک کے اطراف بنی دکانوں پر گھوڑا گلی واضح لکھا ہوا تھا۔

اسی دوران شاہنواز ایک بار پھر آواز ابھری، ’’ہم اس وقت سطح سمندر سے 500کلو میٹر اوپر ہیں۔ ‘‘

اَمر ادریس جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے نمی نمی ہنسی ہنس رہا تھا اور پوراراستہ صرف باتیں سن رہا تھا پہلی بار بولا، ’’جناب آپ کو کیسے معلوم کہ ہم سطح سمندر سے اتنی بلندی پر ہیں ‘‘شاہنواز نے اپنا موبائل سامنے کیا اور کہا کہ اس میں ویب کی سہولت ہے اور اسے میں ایکٹو کروایا ہوا ہے ابھی ابھی چیک کیا ہے انٹر نیٹ تو یہ ہی بتا رہا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد گاڑی میں خاموشی چھا گئی، سب لوگ انہماک سے سڑک کے اطراف میں خاموش پہاڑوں کو دیکھ رہے تھے جہاں خوبصورتی بولتی تھی۔ جہاں ہلکی ہوا کے جھونکے صنوبر کے درختوں کو رقص پر مجبور کر رہے تھے۔ میں نے آہستہ سے کھڑکی کا شیشہ کھول دیا اسی لمحے کوئل کی سریلی آواز نے خاموش فضا میں راگ بکھیر دیا۔ گاڑی ایک بار پھر رک چکی تھی یہاں سڑک کے دائیں طرف سڑک مرمت کی جا رہی تھی اور ڈرائیور نے سامنے سے آنے والی ویگن کو راستے دینے کیلئے ہماری ویگن روک دی تھی۔ عبدالمنان نے گجراتی زبان میں گنتی گننا شروع کر دی۔

’’ منان یہ کونسی زبان میں گنتی ہے ؟‘‘عمار نے جھٹ سے دریافت کیا۔

’’یہ گجراتی زبان تھی …!‘‘

’’اچھا اگر ہر ہندسے کے آخر پر ’’ہا اوں ‘‘ لگا دیں تو وہ گنتی گجراتی گنتی کہلائے گی۔ ‘‘عمار نے تصدیق کرنا چاہی۔

’’آہو………!‘‘منان کی ’’آہو ‘‘ سن کر سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ گاڑی ابھی تک رکی ہوئی تھی۔ اسی دوران منان کو پتا نہیں کیا یاد آیا وہ بولا، ’’ جب بھی میں گوجرانوالہ جاؤں تو وہاں بھی ہمیشہ کوئی نہ کوئی سڑک مرمت کی جا رہی ہے اور میں اس کا یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر رکشہ پر بیٹھ جاؤ تو دل گردے کی پتھری پٹ سے باہر آن ٹپکے گی۔ ‘‘

گاڑی ایک بار چل پڑی تھی، تارکول کی سڑک پر سیدھی جانے کی بجائے ہر موڑ پر اوپر کی طرف اٹھ رہی تھی۔ میں نے فوراََ کھلی کھڑکی بند کر دی کیونکہ سرد ہوا کے جھونکے گاڑی کے اندر گرم ماحول کو اب کچھ زیادہ ہی ٹھنڈا کرنے لگے تھے اگر کچھ دیر اور کھڑکی بند نہ کر تا تو دھوپ میں میرے دانت بجنے شروع ہو جانے تھے۔ اسی دوران میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر چٹہ موڑ مری لکھا ہوا تھا، اس کا مطلب ہم مری کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ شاہد حفیظ کی آواز آئی، ’’سامعین مری کا آغاز ہو چکا ہے، کان کھلے ہیں نا سب کے…!‘‘

میرے کان تو کھلے ہیں اتنی اونچی آواز میں بول رہا ہے کیا دوسروں کے کان بند کروائے گا۔ ‘‘ساتھ بیٹھے ہوئے شاہنواز نے اس سے بھی اونچی آواز میں کہا۔ سب لوگوں نے شاہنواز کی طرف دیکھا اور پھر کوئی موبائل سے کھیلنے لگا اور کوئی باہر کے نظار ے کرنے لگا۔ ایک بار پھر خاموشی تھی، ویگن کے انجن کی آواز ہی اس خاموشی میں خلل ڈال رہی تھی یا پھر اسی دوران عرفات ظہور بولا، ’’ندیم اختر یاد ہے ہم خانس پور میں بادلوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے اور ہاتھ گیلے ہو جاتے تھے۔ ‘‘

میں نے کہا، ’’ہاں سب یاد ہے لیکن وہ خانس پور تھا اور یہ ویگن ہے یہاں نیچے دیکھو کتنی عمیق گہرائی ہے، دیکھو ویگن یکدم بلند ہو رہی ہے اور موڑ کاٹ رہی ہے، یہ چوٹیاں دیکھو ہم سب پر اپنی ہیبت کی دھاک بٹھانا چاہتی ہیں، ایڈونچر

ہے نا…اف میر ے اللہ …اتنا خوف …خانس پور میں تو بادلوں کو چھونے سے ہاتھ گیلے ہوتے تھے اور آج دیکھو نیچے دور جاتی گہرائیاں جسم میں خوف کی لہر پیدا کر رہی ہیں اور ٹھنڈ میں پسینہ جسم کو گیلا کر رہا ہے۔ ‘‘ہماری منزل تو ایوبیہ تھی اور ابھی تک ہم مری کے قریب بھٹک رہے تھے۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے یوں لگ رہا تھا کہ ابھی سفر کا آغاز ہوا ہے۔ ہم سب لوگ اس سال کے دسمبر میں برف باری دیکھنے جا رہے تھے۔ اگر آج ایوبیہ میں برف باری دیکھ لی تو میری زندگی ایک بڑی خواہش پور ی ہو جائے گی میں نے اس سے پہلے صرف انگریزی فلموں میں بر ف باری دیکھی تھی یا پھر مجھے یاد ہے ایک یا دو ایسے ڈرامے تھے جہاں پر برف باری کے سین دیکھے تھے، تب سے میرے دل میں یہ امنگ پیدا ہو گئی تھی کہ میں بھی کبھی نومبر، دسمبر میں مری اور اس کے ساتھ والے علاقوں میں جاؤں گا اور برف کو چوموں گا اور اس سے کھیلوں گا۔ ’’سنو فائٹ ‘‘ کروں گا، برف کے گھر بنا کر انہیں وہیں چھوڑ آؤں گا۔ لیکن ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ہمیشہ جب بھی ان شمالی علاقہ جات میں آنا ہوا وہ جون، جولا ئی کے دن ہی رہے تھے۔ میں اپنی سوچوں میں گم بیٹھا تھا کہ شاہنوا ز بولا، ’’محمد علی کھڑکی کھولو…!‘‘محمد علی جو کھڑکی کے ساتھ بیٹھا تھا اس نے فوراََ کھڑکی کھولنے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو شاہد نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’محمد علی کھڑکی نہ کھولو یار کھڑکی میں سے اڑ جاؤ گے۔ ‘‘محمد علی نے غصے سے شاہد کی طرف دیکھا اور دوبارہ خاموشی سے بیٹھ کر باہر کے نظارے کرنے لگا۔

’’یار شاہد کان بند ہو رہے ہیں اسے کھڑکی کھولنے دو، اتنی ٹھنڈ نہیں ہے۔ ‘‘

’’چھت پر بیٹھ جاؤ۔ ‘‘شاہنواز کیا کہتا شاید اس لیے خاموش ہو گیا۔ ابھی شاہنواز اور شاہد خاموش ہوئے ہی تھے بہت دیر بعد ایک مانوس سی آواز ابھر ی، یہ آواز اعظم طارق کوہستانی کی تھی، ’’دیکھو دوستوں ہم اس امید پر ایوبیہ جا رہے ہیں کہ ہم سب برف دیکھیں گے اور کسی نے یہ بھی سوچاہے کہ باہر دھوپ ہے اور اگر اس دھوپ کی وجہ سے برف پگھل چکی ہوئی تو کیا ہو گا؟‘‘

’’کچھ نہیں ہو گا اور برف سے صاف ستھرا ایوبیہ دیکھ کر واپس آ جائیں گے۔ ‘‘محمد علی نے کہا اور سب کے چہروں پر ہنسی پھیل گئی۔

٭٭٭

 

 

 

                ایوبیہ کے چالاک بندر تھینک یو نہیں بولتے

ہماری منزل برف والے پہاڑ تھے جہاں برف کی سفید چادر پھیلی ہو گی، جہاں ہوا میں خنکی ہو گی، اور سرد ہوا کے جھونکے جسم کو چیر کر رکھ دیں گے، جہاں لوگ اون کے گرم سویٹر، گول پھندوں والی ٹوپیاں پہن کر پھر رہے ہوں، بہت سارے لوگوں نے لمبے کوٹ پہنے ہوں گے اور ان کے ہاتھ چمڑے کے دستانوں سے ڈھکے ہوں گے۔ جی ہاں ہم اسی منزل کی طرف جا رہے تھے، ایک خواب تھا جو آج کچھ ہی دیر بعد حقیقت بن کر ہمارے سامنے آنے والا تھا۔ بس اسی حقیقت کو چھونے کی جستجو ہمارے حوصلوں کو بڑھا رہی تھی، ورنہ یہ اونچے آسمانوں کو چھوتے پہاڑ تو شاید ہمارا راستہ روک لیتے، ایک طرف عمودی بلندی تھی اور دوسری طرف عمودی گہرائی تھی، کوئی چٹا ن یا زمین کا ٹکڑا نظر آتا تو اطمینان سا ہوتا تھا۔ یہ ہی تو ایڈونچر تھا …نہیں تو اور کیا تھا۔

ہماری گاڑی ایک بار پھر رک چکی تھی، ہم کب کے مری کو بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہاں ہمارا قیام باڑیاں پور تھا۔ گاڑی رکی تو عمار محبوب اور عبدالمنان گاڑی سے اترے باڑیاں پور میں موجود دکانوں کی طرف بھاگے، عامر بھائی نے بتایا کہ عبدالمنان کو علی الصبح جرابیں پہننا یاد نہیں رہیں اس لیے وہ ضد کر رہا تھا کہ جرابیں خریدنا ہیں، وہ دونوں جرابیں خریدنے گئے ہیں، یہاں کوئی بڑی مارکیٹ نہیں تھی بس پچھلے سٹاپوں کی طرح سڑک کے اطراف میں چند دکانیں جہاں خواتین کی گرم شالیں اور بچوں کے گرم سوٹ لٹکے ہوئے تھے، ان میں چند فروٹ کی دکانیں اور منیاری کے سامان سے بھرے ہوئے جنرل سٹور تھے۔ ہم بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے گاڑی سے نیچے آ گئے کہ چلو اسی بہانے باہر گاڑی سے باہر کا نظارہ بھی ہو جائے اور ذرا ٹانگیں بھی سیدھی کر لیں گے۔ لیکن باہر آ کر معلوم ہوا کہ یہ واقعہ ٹھنڈے علاقے ہیں وہ جو گاڑی میں دھوپ ہمیں محسوس کرا رہی تھی کہ اتنی سردی نہیں ہے ’میں ہوں نا‘ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے پھیلے ہوئے تھے اور سورج اپنی دھوپ کی تمازت سمیت بے بس تھا کیونکہ یہاں باڑیاں پور میں فضا میں حدت کی بجائے اچھی خاصی خنکی تھی۔ اس دوران فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھلا عبدالصمد مظفر بھی باہر نکل آئے اور نکلتے ہی بولے، ’’پاجی !ایتھے تے ٹھند اے ‘‘(بھائی جان !یہاں تو سردی ہے )

’’جی …پاجی …!دانت بج رہے ہیں، اس کا واقع مطلب ہے کہ یہاں ٹھنڈ ہے۔ ‘‘ میں بجتے دانتوں سے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

’’تو پھر ہو جائے ایک، ایک تصویر …!‘‘ صمد نے اپنا ڈیجٹیل کیمرہ نکالا اور میری تصویر بنانے لگا۔ اس کے بعد خود ایک خوبصورت سے قدرتی لینڈ سکیپ کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا، ’’او بادشاہو ساڈی ایتھے فٹ قسم دی فوٹو کھچو۔ ‘‘(جناب ہماری یہاں اچھی سی تصویر بناؤ)میں نے کیمرہ کا بٹن دبا دیا اور صمد کی تصویر کیمرے میں محفوظ کر لی۔ اتنی دیر میں عمار اور منان بھی آن پہنچے ان کے ہاتھ میں مالٹو سے بھر اہوا چھاپر تھا۔

گاڑی ایک بار پھر چل پڑی تھی اور عمار سب میں مالٹے تقسیم کررہا تھا۔ یہاں کے مالٹے ٹھنڈے تھے ایسے جیسے فریزر میں سے ٹھنڈے آم نکال کر کھائے جاتے ہیں۔ اتنے ہی یخ ٹھنڈے، مالٹے چھیلتے ہوئے ہاتھ سن ہو گئے تھے اور کھاتے ہوئے دانت سن ہو رہے تھے لیکن سب مزے مزے سے مالٹے کھا رہے تھے کہ محمد علی کی آواز ابھر ی۔

؎مالٹا چھلیا تے لون کوئی نئیں

گھر بیٹھے تھے سکون کوئی نئیں

ایک خوبصورت موقع پر یہ شعر خوبصورت لگا تب ہی سب نے تعریف کے پل باندھ دیے، واہ …واہ …!

’’یہاں کے کوے بھی کالے ہوتے ہیں دیکھو ان کی گردن پر بھی سفید بال نہیں ہیں۔ ‘‘اعظم طارق کوہستانی کوؤں کی نئی قسم دریافت کر لی تھی اس لیے ایک اڑتے کوے کو دیکھ کر چلا یا۔ اس سے پہلے کوئی کچھ کہتا عرفات بولا، ’’اعظم آپ پٹھان ہو ؟‘‘

نہیں میں کوہستانی ہوں، لیکن ادھر کوہستان میں نہیں رہتا‘‘اس نے مغرب کی طر ف پہاڑوں کو دیکھتے ہوئے اشارہ کیا، ’’ عرفات صاحب یہ علاقہ انسانوں کا رہنے والا نہیں ہے، مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں، نرا خوف ہی خوف ہے، بھوک، بیماری اور جہالت، نہ خوراک ہے اور نہ کھیت، بس بھر بھری مٹی کے پہاڑ ہیں۔ جن میں صدیوں سے لوگ رہتے چلے آئے ہیں۔ انہیں باہر کی دنیا کا کچھ پتا نہیں ہے، وہ غیر قوموں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اس لئے کچھ سیکھ نہیں سکے۔ ان کی ذاتی دشمنیاں اس حد تک ہیں وہاں لوگ رات کو ایک جگہ نہیں سوتے، رات کو جگہ بدلتے رہتے ہیں تاکہ سوتے وقت کوئی دشمن وار نہ کر جائے، وہاں کے لوگ اپنے چہرے کو چھپا کر رکھتے ہیں تاکہ کوئی پہچان نہ لے۔ میرے بابا ایک عرصے سے کراچی میں رہتے ہیں، بابا کہتے ہیں جب بھی ہم لوگ کوہستان جاتے ہیں اپنا چہرہ چھپا لیتے ہیں کون جانے میرے دادا پر دادا کی کسی کے ساتھ دشمنی ہو اور اس کی اولاد میں سے کوئی ہمیں پہچان لے اور ختم کر دے۔ جانور ہیں عرفات صاحب …اس لیے تو لوگ کہتے ہیں کوہستانیوں میں پٹھانوں کی ساری برائیاں ہیں لیکن اُن کی خوبی ایک بھی نہیں ہے۔ ‘‘ اعظم طارق کوہستانی خاموش ہو گیا۔ ماحول سنجیدہ ہو گیا تھا، تب ہی عبدالمنان نے ماحول کو خوشگوار بنا دیا، وہ بولا۔

’’مالٹے کے چھلکے سنبھا ل کر رکھنا ہیں، ایوبیہ کے بندر بڑے چالاک ہوتے ہیں، ان کی آنکھوں میں ڈالیں گے، وہ بڑے چالا ک ہیں ان کو ٹافیاں بھی دیں تو وہ ٹافی کا ریپر اتار کر کھاتے ہیں اور کھلانے والے کو تھینک یو بھی نہیں بولتے۔ ‘‘

’’ہاں …ہاں …یار بندر چھلیاں بھی بڑے مزے سے کھاتے ہیں، میں نے اپنے محلے میں ایک بندر والے کو دیکھا تھا، وہ چھلیاں کھا رہا تھا، میں نے کہا دیکھو تو سہی بڑا بندر ہے، بندر والا بولا نہیں پاجی! یہ بڑا بندر نہیں بلکہ بندر کا بچہ ہے۔ ‘‘ محمد علی کی باتیں سن کر سب کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔

٭٭٭

 

 

 

                سنومین

 

ہنستے ہنستے یک دم دم بخود رہ گئے کیونکہ سڑک کے کناروں پر برف کی تہیں صاف دیکھی جا سکتی تھیں۔ میں نے دیکھا تو سڑک کے کنارے پر ایک بورڈ نصب تھا جس پر اس مقام کا نام ’’دریا گلی لکھا ہوا تھا۔ سورج کی ہلکی ہلکی تپش کی وجہ سے کہیں کہیں برف پگھلی ہوئی دکھائی دیتی اور کہیں بالکل سفید چادر کی طرح سڑک کے کناروں پر خاموشی سے پڑی ہمیں محظوظ ہوتے دیکھ رہی تھی۔ یہ برف ہے جسے دیکھنے کیلئے میں اور ہم سب اتنی دور سے اس کی طرف کھنچے چلے آ رہے تھے۔

’’وہ مارا…‘‘ عامر بھائی بھی خوشی سے نہال دکھائی دیے تو سب کی توجہ عامر کی انگلی کی جانب تھی ان کا اشارہ سڑک کنارے عمودی بلندی کو چھوتے پہاڑوں کی جانب تھا جہاں برف ہی برف تھی۔ سورج کی روشنی میں پہاڑوں پر پڑی برف چاندی کی طرح چمک رہی تھی۔ سب ہی ان برف سے ڈھکے پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی اپنی آنکھوں کو خیرہ کر رہے تھے جیسے آج کے بعد شاید پھر کبھی ایسے مناظر دیکھنے کو نہ ملیں۔

’’کاش مجھے پتہ ہوتا تو میں روح افزا کی بوتل بھی ساتھ لے آتا اور برف کے گولے بنا بنا کر کھاتا۔ ‘‘ محمد علی نے للچائی ہوئی آواز میں کہا تو عبدالمنان کہاں پیچھے رہنے والا تھا فوراََ بولا، ’’ہاں …ہاں …اتنی ساری برف پورے پاکستان کے لوگوں کے لئے برف کے گولے بنا کر پیسے کمائے جانے کا جاندار طریقہ ہے۔ ‘‘ان کی باتیں کتنی خوبصورت تھیں، بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے اور بچوں جیسی ہی باتیں کر رہے تھے۔ اور ہم بچوں کی طرح ان باتوں کو حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اسی دوران کسی نے پھر کوئی خوبصورت چیز دیکھی تھی تب ہی عرفات کی آواز آئی، ’’یار دیکھو کتنے بادل، اف کتنے خطرناک ہیں۔ ‘‘

’’یار بادل خطرناک نہیں، بادل خوبصورت ہوتے ہیں، اپنی گرائمر ٹھیک کرو۔ ‘‘شاہنواز نے رعب جھاڑا۔

بادل خوبصورت ہی ہوتے ہیں، جب برستے ہیں تو بارش بھی خوبصورت لگتی ہے لیکن جب بارش زیادہ برسے تو اکثر اوقات زندگی کو بدصورت کر دیتی ہے۔ ہم خمیرا گلی سے گزر رہے تھے، آہستہ آہستہ پہاڑوں پر پڑی برف بہت واضح ہوتی جا رہی تھی، وہ جو دور سے سفید چادر نظر آتی تھی اب روئی کے گالوں کی طرح لگنے لگی تھی۔

’’یار ہم لوگ اس برف کو کتنا انجوائے کر رہے ہیں لیکن سوچو کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں کتنی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ ‘‘وقار عظیم نے فکر سے کہا۔

’’ہاں …مثلاََ بچوں کے سکول بند ہو جاتے ہیں، پہاڑوں کی بلندیوں پر رہنے والے اپنے جانوروں اور ضروری سازو سامان کے ساتھ اپنا گھر بار چھوڑ کر نیچے کی وادیوں میں چلے آتے ہیں۔ ‘‘وقار ٹھیک کہتے ہو سعید شیر خان نے افسردگی سے کہا۔

سڑک کے کنارے’’ سنومین ‘‘ بڑے خوبصورت لگ رہے تھے، مقامی لوگ گرم چادریں اوڑھے سڑک کنارے چل رہے تھے۔ بر ف بڑھتی جا رہی تھی۔ دور نظر دوڑاؤ تو دور کہیں ان پہاڑوں سے بھی بہت اونچے پہاڑ نظر آ رہے تھے جو برف سے ڈھکے ہوئے تھے، سورج کی روشنی میں یہ برف سے ڈھکے پہاڑ اپنی طرف کھینچتے تھے، یہ پہاڑ کشمیر کے پہاڑ تھے جو سورج کی روشنی بہت واضح دکھائی دیتے تھے۔ اور پھر ہماری گاڑی نے ایک موڑ کاٹا اور سفید پہاڑ آنکھوں سے ایسے اوجھل ہوئے کہ ’’آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل ‘‘کا مقولہ یہاں یاد آگیا۔

’’یہ ہمارا سوئٹر ز لینڈ ہے، وہ دیکھو بر ف سے بنائے ہوئے مجسمے ’’سنو مین ‘‘ سڑک کے کنارے کھڑے ہیں جو ہم سب کو اپنی طرف بلا رہے ہیں، لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر کتنے فخر سے تصاویر بنوا رہے ہیں۔ ‘‘عمار نے فخر سے پاکستان کے اس حسین خطے کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ ہماری گاڑی برف کے درمیان میں سے گزر رہی تھی۔ اتنی برف کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ اس برف کی وجہ سے سردی زیادہ ہے اور ہم گرم علاقے سے آئے ہیں اور یہ برف اسی گاڑی میں بیٹھ کر دیکھنا وگی۔ ہم ایوبیہ کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے کیونکہ اب سڑک کے کناروں پر بندروں کی ٹولیاں نظر آنے لگی تھیں جو ندیدوں کی طرح سڑک پر گھومتے بچوں اور سیاحوں کو دیکھ رہے تھے۔ وقار، شاہد اور شاہ نواز اپنے اپنے موبائل سے ان خوبصورت مناظر کی مووی بنانے میں محو تھے۔ گاڑی میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی، ہر بند ہ دل میں خوشی اور رب سوہنے کی بڑائی کر رہا تھا۔ ہم ایوبیہ کے خوبصورت بازار میں پہنچ چکے تھے۔ جہاں دکانیں کم اور ہوٹل زیادہ نظر آ رہے تھے۔ آدھا دن گزر چکا تھا۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف پارک کی اور ہم سب گاڑی سے نیچے اتر آئے اور تازہ فضا میں ایک بھر پور سانس لی۔ سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں ایوبیہ کی خنکی کو کم نہیں کر سکیں تھیں۔ سب لوگوں نے ایک نظر ہوٹلوں کی قطاروں پر ڈالی جہاں ہر ہوٹل کے سامنے ہرکارے آوازیں لگا رہے تھے، ’’آئیں جی سستا اور بہترین کھانا ملے گا …ابھی آرڈر دے جائیں گھوم پھر کر کھا لیجیئے گا…!‘‘ہم نے سنی سب کی پر کی اپنی مرضی اور اوپر اٹھتی سڑک کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے۔

٭٭٭

 

 

 

                چیئر لفٹ

 

ہم اونچائی پر چڑھتے ہوئے ایک چبوترے پر پہنچ گئے، یہ ایوبیہ وہ مقام ہے جہاں سے چیئر لفٹ شروع ہوتی ہے، لوگ نوے روپے کا ٹکٹ خرید کر چیئر لفٹ کے ذریعے یہاں سے اوپر پہنچتے ہیں، ایڈونچر پسند لوگ پیدل اس جگہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ اب ایوبیہ برف سے ڈھکا ہوا تھا، اسلیے وہاں تک پیدل پہنچنا نہ صر ف دشوار گزار تھا بلکہ خطرناک بھی تھا۔ برف باری کے دوران ایوبیہ میں سیاحوں کا رش کم تھا۔ ورنہ گرمیوں میں اگر ادھر آیا جائے تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ میں چوتھی بار ایوبیہ آیا تھا۔ تین بار تو گرمی کے دنوں میں آیا اب کی بار بھی سوچ رہا تھا کہ اس خوبصورت مقام پر اتنا ہی رش ہو لیکن ایسا نہیں تھا۔ سیاحوں کی بہت کم تعداد تھی۔ غیر ملکی سیاح تو پورا دن نظر نہیں آئے۔ اس کی بڑی وجہ حالیہ دہشت گردی کی فضا تھی۔ ہم سب لوگ چیئر لفٹ کے سامنے کھڑے ہوکر دھوپ سینکنے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ عامر بھائی اور صمد چیئر لفٹ کے ٹکٹ خرید لائے۔ باری باری سب لوگ چیئر لفٹ پر سوار ہونے لگے۔ میں اور عرفات بھی ایک طرف ہو کر چیئر لفٹ کی جانب بڑھے اور دھپ سے ایک چیئر لفٹ پر سوار ہو گئے۔ چیئر لفٹ پر بیٹھنا بھی دنیا کا جہان آسان کام ہے وہاں اتنا ہی مشکل کام بھی ہے بشرطیکہ بندہ موٹا نہ ہو۔ چیئر لفٹ ہمیں زمین سے اٹھا کر آسمان کی طرف لے جا رہی تھی اور آہستہ بلند ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے ہم زمین اور آسمان کے درمیان آویزاں ہیں اور ہچکولے کھا رہے ہیں۔ زمین پر برف ہی بر ف تھی۔

’’وہ دیکھو شوقین مزاج، ایڈونچر پسند نوجوانوں کا ٹولہ پیدل سفر کر رہا ہے۔ ‘‘عرفات نے میری توجہ بر ف پر چلتے ہوئے نوجوانوں کے ایک گروپ کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے ہماری طرف نظر دوڑائی اور ایک نعرہ مارا جو فضا میں بکھر گیا جس کی سمجھ نہ مجھے آئی اور نہ ہی عرفات ظہور کو …!ہم صر ف مسکر ا دیے اور ہاتھ ہلا کر ان کے نعرے کا جواب دیا۔ ہمارے ساتھیوں میں سے کچھ ساتھی ہم سے اگلی لفٹوں پر فضا میں معلق تھے اور کچھ ہماری پچھلی چیئر لفٹوں پر اس آسمانی جھولے کو انجوائے کر رہے تھے تب ہی با الکل ہمارے پچھلی چیئر لفٹ سے شاہد حفیظ کی ہو …ہا …کی آوازیں واضح سنائی دے رہی تھی۔ ہمارے بائیں اور دائیں جانب آسمان کو چھوتے صنوبر اور چیڑ کے درخت سفر کر رہے تھے ان کی ٹہنیوں پر بھی کہیں کہیں بر ف جمی ہوئی تھی۔ اور وہ دور کچھ ہی دور پہاڑ تھے جو زمین کے سینے پر صدیوں سے کھڑے تھے اور ان کے اوپر برف کی سفید چادر روئی کے گالوں کی طرح پڑی تھی جو اپنی خوبصورتی اور سحر انگیزی سے ہمیں اپنی جانب بلاتی تھی۔ پندرہ منٹ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا لیکن ابھی تک وہ مقام نہیں آیا تھا جہاں ہم نے چیئر لفٹ اتر کر زمین پر قدم رکھنا تھا۔ بلند ی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور پھر ہماری آنکھوں کے ساتھ پیالہ نما میدان آگیا جہاں ہم نے اپنے قدم رنجا فرمانے تھے۔ سامنے گلیات ڈویلپمنٹ ا تھارٹی کا بورڈ نصب تھا اور یہ ہی وہ پوائنٹ تھا جہاں ہماری چیئر لفٹ نے بالکل زمین کے قریب آنا تھا اور ہم نے چستی سے چھلا نگ لگا کر اپنی چیئر لفٹ کو چھوڑ دینا تھا اور پھر ایسا ہی کیا اور ہم زمین پر کھڑے تھے اور ہماری چیئر لفٹ گھوم کر دوبارہ واپس جا رہی تھی۔

اترتے ہی میں نے اور عرفات نے چیئر لفٹ کی قطار کے سامنے سب سے پہلے ایک ایک تصویر بنوائی، اتنی دیر میں باقی ساتھی بھی اس مقام پر پہنچ چکے تھے۔ ہمارے سامنے یہ پیالہ نما میدان تھا جہاں پر بہت کم سیاح پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔ یہاں بھی برف کے بنے مجسمے (سنومین )دیکھے، لوگ ان سنومین کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تصاویر بنو ا رہے تھے، سنومین کا مالک ہر تصویر کے 10روپے لیتا تھا۔ مغربی طرف نیلم ویو ریسٹورنٹ تھا، جو شاید گرمیوں میں کھلتا ہو گا، ٹین کی چادر سے بنی اس کی دیواروں پر معروف مشروب بنے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ بائیں جانب والے پلاٹ میں چند ایک کھانے کے پوائنٹ تھے جہاں پر دہی بھلے اور، چنا چاٹ، سموسے، ابلے ہوئے انڈے اور گرما گرم پکوڑے ملتے تھے۔ جبکہ مزید آگے بڑھیں تو نیچے جاتی پتھر کی پانچ سیڑھیاں ایک اور گراسی پلاٹ میں جا کر ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ ایک کھلا میدان تھا اور اس سے لوہے کا جنگلہ تھا اور جنگلے سے پرے گہری کھائیاں اور کھائیوں میں گھپ اندھیرا…!پلاٹ میں لوہے کی کرسیاں اور لوہے کے ٹیبل پڑے تھے اور ان کے مالک آنے والے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے کہ صاحب …ادھر آئیں تشریف رکھیں …آرڈر دیں …آپ کی تواضع ہمارا فرض ہے۔ پلاٹ میں کہیں کہیں برف جمی ہوئی تھی زیادہ تر برف پگھل کر پانی بن چکی تھی۔ ہم نے جہاں برف دیکھی وہیں ادیبوں کے سیاحتی گروپ کی تصاویر بنا ڈالیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

                بندر کا شب خون

 

ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ اب ہم واپسی کا سوچ رہے تھے لیکن واپسی سے پہلے سردی کو کم کرنے کے لئے چیئر لفٹ کے سامنے کراچی کے مشہور چنا چاٹ، دہی بھلے اور گرما گرم پکوڑوں والی دکان سے سب نے مزے مزے سے گرما گرم پکوڑے کھائے اور واپسی کی راہ لی۔ ہم نے چیئر لفٹ کے ٹکٹ نیچے سے خرید ے تھے وہ دو حصوں میں تھے ان دو حصوں میں سے ایک حصہ ہمارے پاس ابھی بھی موجود تھا۔ اس کی موجودگی سے ہی دوبارہ ہم چیئر لفٹ پر سوار ہو کر واپس نیچے جا سکتے تھے اور چیئر لفٹ پر بیٹھ گئے اب چیئر لفٹ بلند ی کی جانب جانے کی بجائے گہرائی کی طرف جا رہی تھی، ہمارا دل و دماغ ابھی تک اسی میدان میں پھیلی برف کی آغوش میں کہیں گم تھا اور ہم واپس اسی مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں سے چیئر لفٹ میں سوار ہوئے تھے۔

تین بج چکے تھے۔ ہم واپسی کیلئے نیچے جاتی سڑک پر چل پڑے، عمار محبوب سمیت بہت سے دوستوں نے وہاں کی مشہور سوغات ’’کشتہ ‘‘خرید لی۔ ’’کشتہ دیسی گھی اور باداموں، میوؤں سے تیار کی جاتی ہے۔ نیچے جاتے ہوئے ہمارے ارد گرد بندر گھوم رہے تھے۔

میں اور صمد اپنے اپنے کیمرے سے ان بندروں کی تصاویر بنا رہے تھے۔ شاہد حفیظ اور محمد علی ان بندروں کو چھیڑ رہے تھے، امرادریس اور سعید شیر خان خاموشی سے ہمارے پیچھے آ رہے تھے کہ اچانک ایک بندر جھٹ سے آیا اور عمار محبوب کے ہاتھ خرید ا گیا ’’کشتہ ‘‘والا شاپر چھین کر سڑک کے مشرقی جانب بنے لوہے کے جنگلے پر بیٹھ گیا اور منہ چڑانے لگے۔ ہمارے سمیت پیچھے آنے والے سیاحوں کی بھی ہنسی نہیں تھم رہی تھی اور عمار محبوب توایسے تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں …اور پھر عمار محبوب پھنکار ا، ’’اوئے بندر کے بچے …!‘‘لیکن وہ بندر تھا، اس نے ایک چھلانگ لگائی نیچے جنگل میں چلا گیا۔

’’میں نہیں کہتا تھا کہ یہ بندر بڑے چالاک ہوتے ہیں، کسی سے کوئی چیز لے بھی لیں تو تھینک یو نہیں بولتے ‘‘عبدالمنان کے اس فقرے پر عمار محبوب سمیت کھلکھلا کر ہنس پڑے اور نیچے ایک چیڑ کے درخت کے بیٹھے اسی بندر کو دیکھ رہے تھے جس نے عمار محبوب ’’کشتہ ‘‘ پر شب خون بلکہ دن میں ڈاکہ ڈالا تھا اور تھینک یو بھی نہیں بولا تھا۔ عمار محبوب نے ظالم بندر پر چار حرف بھیجے اور تلخ یادوں کے ساتھ ہمارے ساتھ ویگن میں سوار ہو گیا اور ویگن اسی راستے پرواپس چل پڑی جس راستے سے آئی تھی۔ لیکن ساتھیوں ہم آج بھی جب یہ یادگار سفر لکھ رہے تھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم ابھی تک وہیں ہیں۔ اگر آپ بھی جائیں تو باقی سب ٹھیک لیکن بندروں سے ہوشیار باش رہیے گا کیونکہ ان کی عادت تھینک یو کہنے کی نہیں ہے، لیکن آپ ان کو دیکھ کر تھینک یو ضرور کہیے گا۔ کیونکہ وہ اپنی حرکتوں سے آپ کو خوش جو کرتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید