FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شاؔد عارفی کی غزلگوئی

               ڈاکٹر مظفر حنفی

 

 

شادؔ عارفی  نے پہلا شعر آٹھ سال کی عمر میں کہا تھا، لیکن شاعری کی طرف سنجیدگی کے ساتھ وہ سولہ سترہ سال کی عمر میں متوجہ ہوئے۔ ایک جگہ اپنی شاعری کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ اس کے بعد یہ لَے بڑھتی گئی یہاں تک کہ اس سوئی کا نیزہ بن کر رہا۔ تیرہویں برس میں ایک خاندانی لڑکی سے عشق ہوا جس نے آگ پر تیل کا کام کیا۔‘‘[i]

پہلے کہا جا چکا ہے کہ وہ زیادہ بوڑھا ہونا پسند نہیں کرتے تھے، لہٰذا اپنا سنہ پیدائش جو حقیقتاً ۱۹۰۰ء تھا کبھی کبھی ۱۹۰۳ء بیان کرتے تھے، اس لحاظ سے عشق کا اوّلین حادثہ انھیں در اصل سولہ سال کی عمر میں پیش آیا ہو گاجو بلوغت کے قریب تر ہونے کی وجہ سے فطری بھی ہے اور اسی عشق نے اُن کے ذوقِ شعری کی آگ پر تیل کا کام کیا تھا۔ قدرتی طور پر اسی زمانے کے آس پاس انھوں نے سنجیدگی کے ساتھ غزل گوئی اختیار کی ہو گی۔ اس بات کی تصدیق شادؔ عارفی کے ایک مقامی ہمعصر اور ابتدائی زمانے کے دوست محشرؔ عنایتی کے بیان سے بھی ہوتی ہے جو لکھتے ہیں :

’’ ۱۹۲۲ء کے ابتدائی مہینے تھے جب کہ میں نے مشاعروں میں شرکت کا آغاز کیا۔ رام پور کے دوسرے شعرا کے دوش بدوش میں نے احمد علی خاں شادؔ عارفی کو بھی دیکھا۔ وہ مجھ سے تقریباً پانچ سال بڑے تھے، یہ معلوم نہیں کہ موصوف شاعری کے سلسلے میں کے سال زیادہ تھے۔ لیکن یہ مسلّمہ ہے کہ وہ مجھ سے ہر اعتبار سے سینئر تھے۔‘‘[ii]

احتیاطاً شادؔ کی ادبی عمر بھی راوی سے پانچ سال زائد تسلیم کی جائے تو اُس کی ابتدا  ۱۹۱۷ء سے ہوتی ہے۔ اس قیاس کی تائید یوں بھی ہو جاتی ہے کہ انھوں نے بارہ سال کی عمر میں انگریزی اسکول میں داخلہ لیا تھا۔[iii]  یہ الفاظ دیگر ۱۹۰۰ء سن پیدائش کے اعتبار سے یہ داخلہ ۱۹۱۲ء میں لیا گیا تھا اور خود شادؔ کا بیان ہے کہ اُن کو شاعری کا چسکا اسکول کی پانچویں جماعت میں لگا تھا،[iv] اس جماعت میں وہ داخلے کے پانچ سال بعد یعنی ۱۹۱۷ء میں پہنچے ہوں گے۔

محبوبِ غزل نے عمر کے آخری لمحات تک شادؔ عارفی کا ساتھ نبھایا۔ اس لحاظ سے اُن کی غزل چھیالیس سینتالیس برسوں کا احاطہ کرتی ہے۔

بقول عابد سہیل شاد عارفی کی آخری غزل وہ ہے،جس کا مطلع ہے:

 خلوتِ حسن کی رنگیں یادو

دلِ مغموم کو مت ایذا دو [v]

لیکن اس بارے میں راقم الحروف کے نام، ایک خط میں سلطان اشرف کا بیان ہے کہ شادؔ کی آخری غزل کا مطلع ہے:

فن پر قدرت رکھنے والا جب محوِ شعریّت ہو گا

جو رُجحان تاثر دیگا،مطلع اس کی بابت ہو گا

اور سلطان اشرف کی شہادت کو زیادہ معتبر سمجھنا چاہیے کیونکہ اُن کے پاس شادؔ عارفی کی قلمی بیاضیں بھی محفوظ تھیں۔

شادؔ عارفی کی غزل بہ اعتبار موضوعات و اسالیب ، دو ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب شادؔ ’ ریشمین شاعری‘ کا شوق فرماتے تھے[vi]اس  دور کو وہ رنگین نوائی کا دور کہتے ہیں اور دوسرے دور کو’ عہد شعلہ بیانی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔[vii]

سنین کے اعتبار سے ان ادوار کے درمیان کوئی واضح خطِ فاصل نہیں کھینچا جا سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ شادؔ عارفی میں اپنے کلام پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی صلاحیت موجود تھی اور وہ وفتاً فوقتاً اپنی پرانی غزلوں میں تبدیلیاں کرتے رہتے تھے۔ مسرّت حسین آزاد کو ان تبدیلیوں سے مطلع کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’میں ہر دس سال کے بعد اپنے پُرانے کلام پر نظر ثانی کرتا ہوں اور شعور کی رہنمائی میں کلام کو کاٹ چھانٹ کر خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش برابر کرتا رہتا ہوں ، میری بیشتر غزلیں نظمیں ایسی ہیں جو پہلے کچھ تھیں اور اب تبدیلی کے بعد کچھ اور ہی بن گئی ہیں۔‘‘[viii]

اس طرح اُن کی غزلیں جو اکثر رسائل میں بار بار شائع ہوتی رہیں ، مختلف اوقات میں اصلاح ،تنسیخ اور اضافے سے دو چار ہوئیں اور اپنی نوعیت تبدیل کرتی رہیں۔

بار بار نظر ثانی کے نتیجے میں شادؔ کی’ رنگین نوائی‘ کے دور کی غزلوں میں اکثر طنز یہ اشعار اور’ شعلہ بیانی‘کے عہد کی غزلوں میں کہیں کہیں’ ریشمیں شعروں ‘ کی موجودگی اس اہم موڑ کے تعیّن میں رکاوٹ بنتی ہے جو شاد عارفی کی شاعری نے لیا ہے:

دس پانچ برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رخسار رہا ہے

اگر مندرجہ بالا شعر کو اساس بنا کر ہم کوئی فیصلہ کرنا چاہیں تو بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ شادؔ عارفی کی’  رنگین شاعری‘ زیادہ سے زیادہ دس سال چلی ہو گی اور ۲۷۔ ۱۹۲۶ء میں اُس نے طنزیہ موڑ لے لیا ہو گا لیکن ماہنامہ’ ’ادبی دنیا‘‘ ( لاہور) کے ۱۹۳۳ء کے فائل میں اُن کی یہ عزل موجود ہے:

چھپائی ہے جس نے میری آنکھیں ، میں اُنگلیاں اس کی جانتا ہوں

مگر غلط نام لے کے دانستہ لطف اندوز ہو رہا ہوں

اس پوری غزل میں ایک شعر بھی طنزیہ رنگ کا حامل نہیں ہے۔ آگے چل کر ہفت روزہ’ ’دبدبۂ سکندری‘‘ ( رام پور) کی ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء کی فائلوں میں اُن کی بارہ خالصتاً عشقیہ غزلیں ملتی ہیں۔

۱۔         لکھتا ہوں یہ غزل نگہِ یار دیکھ کر                              (۲۴؍ جون ۱۹۳۵ء)

۲۔        سُنتا ہوں آج وہ بھی بہت بے قرار ہے                    (۲۹؍ جولائی ۱۹۳۵ء)

۳۔        صحرائے عرب ہے چمنستان ہمارا                             (۲۱؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء)

۴۔        یاد نے اُس کی وہی ہم پہ ستم ڈھائے نا                        (۲۸؍ اکتوبر ۱۹۳۵ء)

۵۔        ہم اضطرابِ دل کے اسباب کیا بتائیں                        (۴؍ نومبر ۱۹۳۵ء)

۶۔        دل مرا اس آرزوئے خام سے گھبرا نہ جائے               (۱۸؍ نومبر ۱۹۳۵ء)

۷۔        کرمِ موج پہ ساحل کو گوارا کر لوں                            (۳۰؍ دسمبر ۱۹۳۵ء)

۸۔        حسین جلووں کی بے قراری سے عشق ترتیب پا رہا ہے (۱۳ جنوری ۱۹۳۶ء)

۹۔         آج ظالم نے دکھا کر شکلِ نورانی مجھے             (۲۰؍جنوری ۱۹۳۶ء)

۱۰۔       اُسی کوچے میں سحرؔ ایک حسیں دیکھ آیا                                 (۱۷؍ فروری ۱۹۳۶ء)

۱۱۔        نیند اُن کی بھی رات بھر نہ ہوئی                               (۲۴؍ فروری ۱۹۳۶ء)

۱۲۔       قریب اُس نے بُلایا بھی،کچھ کہا بھی نہیں                    (۱۶؍ مارچ ۱۹۳۶ء)

ایک اور’ رنگین غزل‘ جو شادؔ عارفی کی نظر ہائے مابعد کی کتر بیونت سے محفوظ ہے، ۱۹۳۷ء کے’ ’ ادبی دنیا‘‘ (لاہور) کی فائل میں پھر نظر آتی ہے جس کا مطلع ہے:

سلامت اگر عشق ایذا طلب ہے

یہی رنج دائم رہے گا، جو اَب ہے

ہفت روزہ’ ’ اقبال‘‘ ( رام پور) ۲۴؍ جون ۱۹۳۹ء کی اشاعت میں ایک غزل __ بیدھڑک اب نامہ و پیغام ہونا چاہیے__ اور ۶؍ اکتوبر ۱۹۳۹ء کی اشاعت میں دوسری غزل __وہ ادھر در پر نظر آیا،ادھر روپوش تھا__  شامل ہے۔ ان دونوں غزلوں کا مزاج بھی اوّل تا آخر عاشقانہ ہے۔ اس طرح داخلی شہادتوں سے یہ طے ہو جاتا ہے کہ کم از کم ۱۹۳۹ء کے اواخر تک شادؔ عارفی کی غزل کا رنگ یقیناً وہ تھا، جسے انھوں نے’  ریشمیں شاعری‘ کا نام دیا ہے۔ غزل کو طنزیہ رُخ دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے وہ ایک مطلع میں کہتے ہیں :

بے کسوں پر ظلم ڈھا کر ناز فرمایا گیا

طنز کی جانب میں خود آیا نہیں ، لایا گیا

اور بقول مسعود اشعر:

’’ ملازمت کے زمانے میں ہی اُنھوں نے والدہ کی یہ خوشی بھی پوری کر ڈالی تھی کہ چالیس برس کی عمر میں شادی کر لی۔ یہ اُن کی زندگی کا شاید سب سے زیادہ آسائش کا دور تھا۔‘‘[ix]

اُن کی اہلیہ تقریباً ڈیڑھ سال زندہ رہیں ، بیوی کے انتقال کے بعد اُن کی بیکسی کا تلخ ترین دَور شروع ہوا اور جس دور کو شادؔ ، جنونِ لب و رُخسار، کا دور کہتے ہیں وہ محض دس پانچ برس نہیں ، بلکہ پورے پچیس برس تک چلا ہے۔

قدرتی طور پر بھی ایک نارمل انسان کے فطری عشق کا دور، اُس کے آغازِ شباب سے شروع ہوتا ہے اور چالیس پینتالیس برس کی عمر میں ، جب وہ بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے، اُس کے عشق کا جوش و خروش بھی ختم ہو جاتا ہے اور اُس کی زبان سے عشق و محبت کی داستان مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دو دو عشقوں میں ناکامی اُٹھا کر ، بیالیس سال کی عمر میں بیوی کی دائمی مفارقت کا صدمہ جھیلنے کے بعد شادؔ عارفی نے شاعری میں اپنی رودادِ محبت کا بیان ختم کر کے بڑی صداقت اور فنکارانہ حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ عمر رسیدہ آدمی کی شاعری کو بھی اُس کے عہدِ شباب کی شاعری سے مختلف ہونا چاہیے۔ ایسے حالات میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹؔ کے خیال کے مطابق شاعر کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں :

۱۔         یا تو وہ شاعری ایک سرے سے ترک کر دے۔

۲۔        یا پھر پُرانے تجربات ہی کو زبان و بیان کی زیادہ پختگی کے ساتھ بیان کرنے لگے، یعنی استاد بن جائے۔

۳۔        اور آخری راستہ سیدھے سچے آدمی اور فنکار کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے تجربات کو قبول کر لے اور اُن کے لیے کوئی موزوں پیرایۂ بیان اختیار کر لے۔

شادؔ عارفی نے یہی تیسرا راستہ اختیار کیا اور بیالیس سال کی عمر میں طنز کو اپنا فن قرار دیا۔

عشقیہ غزلیں

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلیں ، اُن کی غزلوں کی مجموعی تعداد کے تقریباً ایک تہائی حصّے کا احاطہ کرتی ہیں۔ اپنی اوّلیں دَور کی شاعری کے متعلق شادؔ عارفی کا بیان ہے:

’’ جوانی میں شاعری کا رنگ وہی تھا، جو اس زمانے میں’ چالُو‘ تھا، مگر میں نے اُس وقت بھی’  رقیب وقیب‘ کی جھنجھٹ کبھی مول نہیں لی اور قریب قریب وہ اندازِ بیان بھی چھوڑ دیا جو اُس وقت رائج تھا۔‘‘[x]

مولوی منہاج الدین مینائی نے ، جو غزل گوئی کی ابتدا کے زمانے میں شادؔ کے قریبی دوست تھے ایک جگہ لکھا ہے:

’’سب سے بڑا محرّک ، جس نے اُن کی شاعری کے رُخ کو پلٹا، یہ تھا کہ جب میں’  عالِم‘ (عربی) کی درسیات پڑھ رہا تھا تو’ معلقات سبع‘ ،’ نقد الشعرا‘،’ نہایت الایجاز‘ اور دیوانِ حماسہ‘ وغیرہ مطالعہ میں تھیں۔ عرب کی شاعری سے شادؔ صاحب کو روشناس کرانے کا موقع ملا۔ اُردو کی وہ شاعری جو محض گل و بلبل، قیس و لیلیٰ ، شیریں و فرہاد کے دور از کار تخیلی افسانوں پر مبنی تھی یاوہ شاعری جو صرف قافیہ پیمائی کے لیے کی جاتی تھی، بے مقصد شاعری کے نام سے موسوم کی گئی۔ عربی اشعار کو سُن کر شادؔ صاحب نے تسلیم کیا کہ حقیقی واردات اور واقعات کو منظوم کرنے میں جو تاثیر ہے وہ متذکرہ بالا شاعری میں نہیں ہے چنانچہ انھوں نے’  سبع معلقات‘ جو مولوی اعزاز علی صاحب دیوبندی کے ترجمے کے ساتھ طبع ہوئے تھے، مجھ سے لے لیے، اس میں رزم کے واقعات بھی ہیں اور بزم کے بھی، مکارمِ اخلاق کا بیان بھی ہے اور عیش و نعم کی داستان بھی، مگر سب واقعات اور واردات ہیں اس لیے وہ پڑھنے والے کو اور سُننے والے کو متاثر کرتے ہیں۔ ‘‘[xi]

اس کے آگے شاد ہی کی زبان سے سنیے:

’’ عربی ادب سے واسطہ پڑنے پر معلوم ہوا کہ غالبؔ، میرؔ، سوداؔ، حالیؔ، جرأتؔ، اکبرؔ اور ڈاکٹر اقبال سے ہٹ کر اُردو ادب میں دھول اُڑتی ہے۔ واقعیت کا فقدان طبیعت پر کھلنے لگا اس لیے اب جو’ چل مرے خامہ بسم اللہ‘ کہہ کر اپنے لیے نئی راہ نکالی تو ثابت ہوا کہ خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصوّر کرنا آسان کام نہیں ، مگر ڈھونڈے سے خدا ملتا ہے۔[xii]

اس زمانے میں فانیؔ، حسرتؔ، اصغرؔ، جگرؔ وغیرہ غزل کو نئی تب و تاب دینے کی کوشش کر رہے تھے لیکن دیرینہ روایات کی پاسداری بھی پوری احتیاط کے ساتھ کی جا رہی تھی جس کی نشان دہی عندلیبؔ شادانی نے’’ دورِ حاضر میں اُردو غزل گوئی‘‘ میں اور کلیم الدین احمد نے’’ اُردو شاعری پر ایک نظر‘‘ میں تفصیل کے ساتھ کی ہے۔ حقیقتاً یہ شعراء میرؔ، امیرؔ، سوداؔ، مصحفیؔ او رآتش وغیرہ کی کلاسیکیت کو بیسویں میں دوبارہ زندہ اور متحرّک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہر چند کہ ہمارے بیشتر نقادوں نے ان کے دور کو غزل کی تجدید و احیا کا دور قرار دے کر انھیں اپنے عہد کی غزل کے چار ستونوں کی حیثیت دی ہے لیکن حق تو یہ ہے کہ اُن کی مجموعی کاوشوں کو کسی جاں بلب بیمار کے سنبھالے سے زیادہ اہمیت نہ دینی چاہیے۔ فانیؔ کی شاعری میں ماتمی لَے اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ نوحہ و بُکا کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور لکھنوی غزل کے تصنّع کی جھلک رکھتی ہے۔ حسرتؔ کی غزل میں بیباکی، صداقت اور خلوص کا عنصر ضرور ہے لیکن اس کے باوجود اس میں سطحیت اور یک رُخا پن محسوس ہوتا ہے۔ اصغرؔ کی غزل ان کی شائستہ مزاجی کی عکّاس تو ہے لیکن زندگی کی پیچیدگیوں سے اسے بہت کم سروکار رہا ہے۔ اس میں جذبے کی گرمی بہت کم ہے۔ جذبے کی یہ حرارت جگرؔ کے اشعار میں بھی کم نظر آتی ہے۔ انھوں نے اس کمی کو والہانہ کیفیت سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس شعوری والہانہ پن نے اُن پر فکر و تامّل اور صدق بیانی کے دروازے بند کر دیے چنانچہ اُن کا تصورِ محبت زندگی کی وسیع صورتوں اور ارضی وسعتوں سے ربط قائم نہیں کر سکا۔ الغرض اقبالؔ کی فلسفیانہ مقصدیت، اصغرؔ کی سرمستانہ رجائیت، فانیؔ کی مفکرانہ یاسیت اور جگر کی والہانہ سرشاری ، بیسویں صدی کی غزل کے برگزیدہ پہلو تو ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی شاعر غزل کے میدان میں غالبؔ کے آس پاس نہیں پہنچتا۔

ان کے علاوہ شادؔ عارفی کے معاصرین میں بے شمار شاعر تھے لیکن اُن میں سے کوئی بھی غزل میں وہ انفرادیت نہیں پیدا کر سکا جو یگانہؔ چنگیزی، فراقؔ گورکھپوری اور شادؔ عارفی کے حصّے میں آئی۔ بقول شمس الرحمن فاروقی:

’’یگانہؔ، فراقؔ اور شادؔ عارفی نے اپنی اپنی انفرادیت کو زیادہ استقلال بخشا، انھوں نے غزل کے سرمائے سے ایسے الفاظ کم کرنے کی کوشش کی جو اُردو غزل کی دونوں روایتوں میں مشترک تھے، جنھیں ترقی پسندوں نے بھی مسترد نہیں کیا تھا لیکن جو اپنی معنویت کھو چکے تھے۔ انھوں نے شاعرانہ موضوعات کی کچھ عمارت ڈھا دی اور یہ دکھایا کہ خلاقانہ ذہن کے لیے ہر موضوع شعر کا موضوع بن سکتا ہے۔‘‘[xiii]

اُردو غزل کے روایتی پس منظر میں شادؔ عارفی کی عاشقانہ غزلیں بھی اپنا ایک قطعی مختلف گھریلو حسن لے کر سامنے آتی ہیں اور دیرینہ روایاتِ غزل کی جگہ نئی روایت قائم کرتی ہیں۔ ان غزلوں میں مواد او ر اسلوب ہر دو لحاظ سے انفرادیت نظر آتی ہے:

بدلی ایسی زُلف کی لٹ میں شامل کر کے الجھن کوئی

میری خاطر ناپ رہا ہے، بال سکھانے آنگن کوئی

_________

کہتے ہیں پوچھا گیا جب چھپ کے رونے کا سبب

دردِ دل کا کام اُس نے دردِ سر سے لے لیا

_________

یہ اتفاق ہے،مگر عجیب اتفاق ہے

جہاں بھی میں رُکا وہ برقِ سروقد ٹھہر گئی

_________

ابھی انگڑائیاں لی جا رہی ہیں

سمجھتے ہیں ابھی دیکھا نہیں ہے

_________

میرے ہاں وہ اور کبھی میں اُس کے گھر

اک قدم پھولوں پر اک تلوار پر

_________

سانولا رنگ، کشیدہ  قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ

_________

بھرا گھر جس کی شوخی اور طراری کا قائل ہے

مجھے دیکھا کہ اُس پر ہو گئی سنجیدگی طاری

_________

لائے ہیں تشریف تکیوں پر دُلائی ڈال کر

حسن اور اس درجہ بے خوف و خطر میرے لیے

_________

راتیں گزر گئی ہیں مجھے جاگتے ہوئے

تکیوں سے اب تو اُس کے پسینے کی بُو نہ آئے

_________

چھپ چھپ کے جو مصروفِ دعا میرے لیے ہے

شاید وہ بُتِ ہوش رُبا میرے لیے ہے

_________

مسکرا دیں گے، مرا نام کوئی لے دیکھے

وہ کسی فکر میں بیٹھے ہوں ، کسی کام میں ہوں

_________

کھنچے رہیے تو سو سو طرح نظّارے لٹائیں گے

بُتوں سے آپ کو بھی واسطہ اکثر رہا ہو گا

_________

کہیں پڑوس ،نہ در تک،نہ بام پر جائیں

جو ہم پہ ہوں یہی پابندیاں تو مر جائیں

_________

آپ یا میں ،سوچیے، اُلفت جتاتا کون ہے

انجمن میں آنکھ ملتے ہی لجاتا کون ہے

_________

’حسیں ہو تم‘،’ آپ کی بلا سے‘،’  پری ہو تم‘،’ آپ کی دُعا سے‘

جواب ملتا ہے سخت لہجے میں ، اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

_________

جذبۂ محبت کو تیرِ بے خطا پایا

میں نے جب اُسے دیکھا، دیکھتا ہوا پایا

_________

بھیجا  ہے اس لحاظ سے شادؔ اس کو آئینہ

کیا حال ہو گیا ہے محبت چھپا کے، دیکھ

_________

ان شعروں کی تخلیق آج سے پچاس پچپن سال قبل کی گئی تھی۔ عہدِ حاضر کے قاری اور اس زمانے کے پڑھنے والوں کے مزاجی فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو واضح ہو گا کہ ممکن ہے آج اس قسم کے اشعار کہنے والا غزل کا باغی نہ سمجھا جائے لیکن اس عہد میں اساتذہ نے شادؔ عارفی کو ضرور’ نا شاعر‘ قرار دیا ہو گا۔ اُس زمانے میں اس نہج کی جدّت اور اختراعیت کا کیا مفہوم تھا، اس کا صحیح اندازہ آج بمشکل ہی کیا جا سکتا ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں شادؔ عارفی کا یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نظر نہیں آتا کہ اُنھوں نے خوبصورتی کے ساتھ واقعیت کو مصوّر کرنے کی کوشش کی ہے۔ صاف دکھائی پڑتا ہے کہ غزل میں اُن کی محبوبہ متوسط طبقے کی ایک ہندوستانی لڑکی ہے جو ذہین اور تیز و طرّار بھی ہے، الّھڑ اور معصوم بھی۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں ہے۔ شادؔ کی محبوبہ اُن کی خاطر بال سکھانے کے حیلے سے آنگن ناپتی ہے، دردِ محبت سے بیچین ہو کر روتی ہے اور اُسے چھپانے کے لیے دردِ سر کی آڑ لیتی ہے، راہ میں جہاں شادؔ رُکتے ہیں ،وہ’ برقِ سروقد‘ بھی ٹھہر جاتی ہے۔ انھیں رجھانے کے لیے مسلسل انگڑائیاں لیتی ہے، صرف شادؔ ہی اُس کے گھر نہیں جاتے وہ بھی سماجی پابندیوں کی تلوار پر چل کر اُن کے گھر آتی ہے،وہ روایتی غزل کے فرضی محبوب کی طرح پَری یا حُور نہیں ، اسی جیتی جاگتی دنیا کی ایک کشیدہ قامت، سانولی رنگت کی حقیقی لڑکی ہے، عام طور پر شوخ اور طرّار لیکن شادؔ کو دیکھتے ہی وہ مصنوعی سنجیدگی اختیار کر لیتی ہے، تکیوں پر دُلائی ڈال کر گھر سے بے خوف و خطر اُن سے ملاقات کرنے آ جاتی ہے۔ شادؔ کے تکیے اُس کے پسینے کی بُو سے رَچ بس گئے ہیں۔ وہ اُن کے لیے چھپ چھپ کر دعائیں مانگتی ہے اور کتنی ہی فکر مند یا مصروف ہو، شادؔ کا نام سُن کر مسکرا دیتی ہے۔ شادؔ کھنچے کھنچے رہتے ہیں توسو سو طرح نظارے لٹا کر انھیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، اُس پر بھی پابندیاں عاید ہیں کہ پڑوس ، دریا بام پر نہ جائے، وہ شادؔ سے آنکھ ملتے ہی لجا کر اُلفت کا اظہار کرتی ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ شادؔ سے خفا ہو کر پیار کی باتوں کے جواب میں’  آپ کی بلا سے ‘اور’ آپ کی دعا سے‘ قسم کا بہ ظاہر سخت لیکن بہ باطن پیار بھرا لہجہ اپناتی ہے پھر بھی شادؔ جب اُسے دیکھتے ہیں ، اپنی طرف دیکھتا ہوا پاتے ہیں ، اُس کے سامنے پہنچ کر وہ جانے کا تصور بھی نہیں کر پاتے۔ اُن کی محبوبہ تابِ ہجر نہ لا کر اس حالت کو پہنچ جاتی ہے کہ شادؔ کو بطور ہمدردی آئینہ بھیجنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی حالت سُدھار سکے۔

سادہ سادہ سے واقعات ہیں لیکن زندگی،اور حرارت سے کتنے بھرپور شادؔ عارفی کے علاوہ پوری اُردو شاعری میں غزل اس حد تک سچ بولتی ہوئی صرف حسرتؔ کے ہاں نظر آتی ہے۔ حسرتؔ اُردو غزل کے امام کہے جاتے ہیں کہ انھوں نے تجدید غزل کا سامان کیا۔ امام کے لیے مقلدین ضروری ہوتے ہیں لیکن نگاہِ غور بیں سے حسرتؔ کے فوراً بعد آنے والی نسل کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ کلام حسرتؔ نے اُس حد تک اگلی نسل کو متاثر نہیں کیا جتنا کہ شادؔ عارفی کی شاعری نے نئی نسل پر اپنا اثر قائم کیا ہے۔ یہ بحث آگے آئے گی، فی الحال یہ غرض کرنا تھا کہ ہرچند کہ شادؔ عارفی نے کہا ہے:

 دس پانچ برس حضرتِ حالیؔ کی طرح شادؔ

مجھ کو بھی جنونِ لب و رُخسار رہا ہے

 لیکن یہاں اُن کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ حالیؔ کی طرح عاشقانہ شاعری سے مقصدی شاعری کی طرف آئے ہیں ورنہ اُن کی’  ریشمیں غزلوں ‘ پر کہیں بھی حضرتِ حالیؔ کی عشقیہ غزلوں کے سپاٹ پن کا سایہ نہیں پڑا ہے نہ انھوں نے غزل میں حالیؔ سے اثر قبول کیا ہے۔ البتہ حسرتؔ کے اثرات اُن کی عاشقانہ غزلوں میں اس حد تک ضرور پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنی داستانِ عشق میں سچ بولتے ہیں اور اُن کا عشق بھی حسرتؔ کی مانند دونوں طرف آگ لگاتا ہے۔ انھوں نے بھی حسرتؔ کی طرح خاندان کی لڑکی سے عشق کیا اور اپنی شاعری میں عرب کے شعرائے جاہلیت سے اثر قبول کرنے کے علاوہ’ بنتِ عم‘ سے عشق کر کے عربی روایت پر بھی عمل پیرا ہوئے  اُن کی شاعری میں احساس کی جتنی شدّت ہے اُتنی ہی محسوسات کی صداقت بھی ہے۔ لیکن حسرتؔ اور شادؔ کی عشقیہ شاعری میں بہت فرق بھی ہے۔ حسرتؔ کا عشق ، ایک سیدھے سادے مولوی نما نوجوان کا عشق ہے اور اُن کی محبوبہ بھی واجبی سی شوخی کے ساتھ ایک سادہ لوح دیہاتی لڑکی ہے۔ پھر حسرتؔ نے اپنی رودادِ عشق کے بیان میں کوئی خاص نُدرت نہیں برتی اور نہ کوئی مخصوص اسلوب اختیار کیا۔ اُن کے اشعار میں عاشق و محبوب کے نفسیاتی تجزیے بھی نظر نہیں آتے،وہ جیسا اُن کے ساتھ عشق میں پیش آتا ہے اُتنا کچھ ہی سچ سچ بیان کر دینے پر قناعت کر لیتے ہیں۔ یہ سپاٹ سچ بھی اُن کی غزلوں کے سبھی اشعار میں نظر نہیں آتا،اکثر غزلیں خالصتاً روایتی گل و بلبل والی شاعری کا نمونہ ہیں۔ اور بیشتر غزلوں میں اُن کے مخصوص’  سچ‘ کے ساتھ روایتی رنگ کے اشعار ملے جُلے ہیں برخلاف اس کے، شادؔ عارفی کے ہاں ہمیں حسن و عشق کی پیچیدہ کیفیات کے دائرہ در دائرہ عکس بھی واضح نظر آتے ہیں اور سچ بولنے میں بھی وہ حسرت سے میلوں آگے ہیں۔ اُن کی عشقیہ غزل میں روایتی موضوعات پر مبنی اشعار بہت کم نظر آتے ہیں۔ بقول آل احمد سرور:

’’ شاد کے یہاں صرف سماج کی خرابیوں پر طنز ہی نہیں ہے،محبت اور نفسیاتِ انسانی کی سچی تصویریں بھی ہیں اور انھیں ایک ایسے تیور اور بانکپن سے پیش کیا گیا ہے کہ فوراً ذہن پر نقش ہو جاتی ہیں۔‘‘[xiv]

شریکِ راہِ محبت ہے طبعِ موزوں شادؔ

ہر ایک شعر مرا حسبِ حال ہوتا ہے

اور

دوسروں کے واقعاتِ عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

اُن کے پاس دو کامیاب معاشقوں کے ٹھوس اور حقیقی تجربات ہیں۔ وہ حسرتؔ کی طرح مسکین طبع نہیں ، رام پوری پٹھان ہیں۔ اُن کی محبوبہ بھی گھریلو عورت ہونے کے باوجود ایک زندہ دل، حاضر دماغ، ذی فہم، با شعور، چنچل اور ذہین دوشیزہ ہے۔ پھر شادؔ کی نُدرتِ ادا سونے پر سہاگے سے کم نہیں۔ چنانچہ:

تغافل، تجاہل سے آتا ہے عاجز

مرا کچھ نہ کہنا بھی حسنِ طلب ہے

_________

تووہ انداز جیسے میرا گھر پڑتا ہو رستے میں

پئے اظہارِ ہمدردی وہ جب تشریف لائے ہیں

_________

اے تُو! کہ شرارت سے نہیں پاؤں زمیں پر

تھوڑی سی عنایت بھی کسی خاک نشیں پر

_________

گدگدائے نہ بنے، ہاتھ لگائے نہ بنے

بن کے لیٹی ہو جوانی تو اٹھائے نہ بنے

_________

مری بے بسی ہو کہ بیکسی تری بے رُخی ہو کہ دِلبری

کوئی کہہ رہا تھا کہ بیٹھ ابھی تری بزم سے میں جہاں اُٹھا

_________

دیکھ کر مجھ کومسکرا دیں آپ

اس قدر احتیاط کافی ہے

_________

مجھ پہ اس حیا خُو کی ہر نظر ادھوری ہے

پھر بھی مدّعا کامل ، پھر بھی بات پوری ہے

_________

بھولی سی ہم مکتب کوئی، کوئی سہیلی خالہ زاد

ان کے ہاتھوں خط بھجواتے میں ڈرتا ہوں لیکن وہ

_________

عتاب کی نگاہ سے جھلک رہی ہیں شوخیاں

کسی بھی فن میں ہو مگر کمال بھی تو چاہیے

_________

نقاب کی یہ جنبشیں ، حجاب کے یہ زاویے

جو اُس سے چاہتا ہوں میں اُسے سمجھ رہا ہے وہ

_________

آپ اس کو اتفاقی بات کہتے ہیں ،مگر

سامنے آ جائے وہ دیوانہ وار، آساں نہیں

_________

کام کی شے ہیں کروٹن کے یہ گملے اے شادؔ

وہ نہ دیکھے مجھے، میں اُس کا نظارا کر لوں

_________

لکھ کر میرا نام اے شادؔ

اُس نے بھیجا ہے رومال

_________

بہ پاسِ احتیاطِ آرزو یہ بارہا ہوا

نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا

_________

نگاہِ اشتیاق میں وہ زُلف و رُخ کے زاویے

کبھی سلام ہو گیا، کبھی پیام مل گیا

_________

بھاگتا ہے جیسے جنگل میں شکاری سے ہرن

وہ اِدھر در پر نظر آیا اُدھر روپوش تھا

_________

خط غلط تقسیم ہو جاتے ہیں اکثر، تم نے بھی

کہہ دیا ہوتا یہ کس کا خط مرے نام آ گیا

_________

کیا لکھ رہے ہو میری طرف دیکھ دیکھ کر

میں نے دیا جواب غزل کہہ رہا ہوں میں

_________

رفتہ رفتہ میری’ الغرضی‘ اثر کرتی رہی

میری بے پروائیوں پر اُس کو پیار آتا گیا

_________

میں اُس کو دیکھ رہا ہوں اس احتیاط کے ساتھ

ابھی تو جیسے محبت کی ابتدا بھی نہیں

آپ نے دیکھا۔ شادؔ کے یہ عشقیہ اشعار ،ہماری ، اُردو غزل کے عاشقانہ اشعار سے، بشمول حسرتؔ ، کتنے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کے عاشق نے محبوب کے آگے سرِ تسلیم اس لیے نہیں خم کر رکھا ہے کہ بے زبانی روایتی شاعری کے عاشق کا شیوہ ہے۔ اُس کی خاموشی در اصل حسنِ طلب ہے کیونکہ وہ صنف نازک کی اس فطرت سے واقف ہے کہ اُس کے تغافل کا جواب تجاہل سے ملے تو خود کھینچتی ہے۔ عاشق محبوب کی ایک ایک ادا کا مزاج داں ہے چنانچہ اظہارِ ہمدردی کے لیے تشریف لانے والی محبوبہ کی اس بناوٹ کو بھانپ لیتا ہے جو ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ راہ سے گزرتے ہوئے وہ یونہی عاشق کے گھر بھی آنکلی ہے، ادھر شوخ اور چنچل محبوبہ ہے کہ اُس کے پاؤں شرارت سے زمین پر نہیں پڑتے،بن بن کر لیٹ جاتی ہے کہ تہذیب عاشق کو نہ گُدگُدانے دیتی ہے نہ ہاتھ لگانے کی ہمت پڑتی ہے۔ شاعر کو صحبتِ یار سے اٹھنا ہے لیکن طبیعت نہیں چاہتی ، وہ تجزیہ نہیں کر پاتا کہ اسے اپنی بے بسی اور بے کسی سے تعبیر کرے یا محبوبہ کی بے رُخی یا دلبری کو اس کا سبب سمجھے۔ محبوبہ ضرورت سے زیادہ محتاط ہے اور عاشق کا مشورہ ہے کہ بہر حال اُسے دیکھ کر مسکرا دینے میں افشائے راز کا احتمال نہیں ہے۔ حیا خُو محبوبہ اُسے نگاہ بھر کر نہیں دیکھتی لیکن عاشق کا مدّعا تکمیل پا لیتا ہے کیونکہ وہ محبوبہ کی محتاط طبیعت اور زمانے کی سرشت کو پہچانتا ہے۔ وہ محبوبہ کی ذرا ذرا سی بے اعتدالیوں پر اُسے متنبہ کرتا ہے، کہیں کسی خالہ زاد سہیلی کے ذریعے اور کبھی کسی بھولی بھالی ہم مکتب سے نامہ بر کا کام لیا جاتا ہے تو وہ محبوبہ کی رُسوائی کے ڈر سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ محبوبہ محبت کو عاشق سے بھی چھپاتی ہے اور جواباً اُسے آئینہ بھیجا جاتا ہے کہ دیکھ خود تیرا سراپا محبت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ محبوبہ کے نقاب کی ایک ایک جنبش اور حجاب کا ایک ایک زاویہ عاشق کے لیے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ وہ دیوانہ وار عاشق کے سامنے آتی بھی ہے تو ایسی ذہانت کے ساتھ کہ لوگ اُسے ایک اتفاقی بات سمجھیں لیکن حقیقت عاشق پر روشن ہے۔ کروٹن کے گملوں کی آڑ سے چھپ چھپ کر اس طرح نظارہ کر لیا جاتا ہے کہ محبوبہ کو پتہ نہ چل پائے دوسری طرف سے رومالوں پر شادؔ کے نام کاڑھ کر بھیجے جاتے ہیں۔ یہ اور ایسے ہزاروں معاملات شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل میں بھرپور شاعرانہ کیفیات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلم متوسط طبقے کے عاشق و معشوق کی ان باریک نفسیاتی کیفیتوں پر اُردو کے کسی شاعر کی نگاہ اس طرح نہیں پہنچ سکی جس طرح کہ شاد ؔ ان کے غمّاز ہیں۔ یہاں نہ محبوب میرؔ کے عہد کا ہے نہ عاشق قرونِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والا۔ شادؔ عارفی کی شاعری جس طرح اُن کی شخصیت کے لیے نقاب نہیں بلکہ آئینے کا کام دیتی ہے بالکل وہی فریضہ اُن کی عشقیہ غزل اُن کے محبوب کے لیے انجام دیتی ہے اور یہ فریضہ ہماری شاعری میں کم کم ہی ادا کیا  گیا ہے۔

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزل، سلیم احمد کے الفاظ میں ،اُردو شاعری میں ایک’ پورے آدمی‘ کے عشق کی داستان ہے جس کا لہجہ عام عشقیہ شاعری کے انفعالی لہجے سے علیحدہ اور منفرد ہے۔ اس آواز میں جو مردانہ پن ہے وہ غزل کو ایک نئے ذائقے سے روشناس کرتا ہے۔ حالیؔ کی اصلاحی تحریک کے زیرِ اثر لکھنؤ اسکول کی بھونڈی اور مبتذل خارجیت کو ترک کر کے غزلؔ میں میرؔ جیسی داخلیت کا دوبارہ دَور دَورہ تو ہوا لیکن چونکہ اس داخلیت کو شعوری طور پر اپنایا جا رہا تھا اور اسے برتنے والوں میں کوئی میرؔ کی خلاقانہ صلاحیتوں کا عظیم فنکار نہ تھا اس لیے اپنی انتہا کو پہنچ کر اس نے فانیؔ کی قنوطیت کی شکل اختیار کر لی۔ جدید تر غزل کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی کہتے ہیں :

’’ بعض شعر ا کا خیال تھا کہ غزل ضرورت سے زیادہ داخلی ہو جانے کی وجہ سے انفعالیت کا شکار ہو گئی ہے اس لیے اسے مردانہ لہجہ اور صلابت عطا کرنے کے لیے خارجیت کو بھی ایک حد تک اپنانا چاہیے۔ یگانہؔ اور شادؔ عارفی نے اس عنصر کو ایک بار پھر اپنی غزل میں جگہ دی یگانہؔ اور شاد دونوں زبان و فن پر بڑی قدرت رکھتے تھے اور اُن کے یہاں ایک طرح کی تلخی اور طنزیاتی روح اُن کے مزاج کا فطری عنصر معلوم ہوتی ہے اس لیے انھوں نے اس خارجیت سے خاصا کام لیا۔‘‘[xv]

یہی وجہ ہے کہ شاد عارفی کی غزل پر کہیں کہیں آتشؔ کے رنگ کی چھوٹ پڑتی نظر آتی ہے۔ بے باک لہجہ اور بے تکلف اندازِ گفتگو اور محبوب کے سامنے بھی سپاہیانہ بانکپن کے ساتھ آنا،آتشؔ کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شادؔ کے ہاں بھی ہمیں آتشؔ کی طرح شوخ لہجے کے ساتھ احساس کی گرمی، محبوب کے جسم کی آنچ، حسن کی چلتی پھرتی تصویر اور عشق کی حقیقی کیفیات کی نقاشی ملتی ہے لیکن آتشؔ کی پوری شاعری اس پائے کی نہیں ہے اور بیشتر مقامات پر وہ بُری طرح لکھنوی رنگ کا شکار ہو گئی ہے جبکہ شادؔ کی تقریباً تمام عشقیہ غزلیں ان خصوصیات کی حامل ہیں۔ اور اُن کے ہاں یہ رنگ کافی نکھر کر اوپر آیا ہے۔ اُن کے اشعار میں عاشق و محبوب کی انسانی فطرت اور نفسیات کے ایسے متحرک عکس نظر آتے ہیں جو پڑھنے والے کو دیرپا مسرت سے ہمکنار کرتے ہیں۔ احتساسی شاعری اور لمسیت کی اتنی اچھی اور ایسی مثالیں ، جن کے لیے انگریزی ادب میں کینٹسؔ مشہور ہے،اُردو میں شادؔ عارفی کے ہاں بکثرت ملتی ہیں۔ ثبوت میں کچھ شعر ملاحظہ فرمائیے:

_________

دیکھ پاتے ہیں جو ہم کو درمیانِ کوئے دوست

کھڑکیوں سے جھول جاتے ہیں بُتانِ کوئے دوست

_________

مچل رہے ہیں لبِ شگفتہ پہ اس طرح بے صدا دلاسے

چمن میں جس طرح ہل رہی ہوں گلاب کی پتیاں ہواسے

_________

وہ چشم نیم خواب ،وہ زُلفیں گری ہوئی

صبحِ بہار ایک ہی انگڑائی کی ہوئی

_________

شبِ مہتاب وہ پھولوں کا زیور منتشر زُلفیں

بقولِ راز داں کیا خوشنما منظر رہا ہو گا

_________

وہ قریب سے گزرا ، بن کے صبح کا جھونکا

اس طرح کہ چپکے سے حرفِ مدّعا کہہ دوں

_________

وہ زبانِ بے زبانی سے ابھی واقف نہیں

ہاتھ رکھنا پڑ رہا ہے بارہا دل پر مجھے

_________

ابھی ہنگامہ آرا دل میں ہے اک عشرت رفتہ

ابھی تک تیری خوشبو آ رہی ہے میرے بستر سے

شاد عارفی نئی بات کہتے ہیں یا عام سی بات کو اس زاویے سے کہتے ہیں کہ وہ نئی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پرانے لفظوں کو نئی فضا اور معنویت بخشی۔ یہی نہیں کہ ان عشقیہ غزلوں میں محاکات،معاملہ بندی اور واقعہ نگاری ایک ایسے انوکھے انداز سے کی گئی ہے جوان سے قبل ناپید تھا بلکہ وہ عشق کے تاثرات و وارداتِ قلب کو بھی اسی نُدرت ادا کے ساتھ بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے موضوعات کو ادراک و احساس کا لمس بھی دیا۔ شادؔ کی عشقیہ غزل میں بڑی حلاوت اور جذباتی آسودگی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند اشعار دیکھئے:

سوتے ہی اپنے بستر پر

میں ہوتا ہوں اُس کے گھر پر

_________

ذرا خاموش رہنے دے کہ ذہنی طور پر ہمدم

ابھی واپس نہیں آیا ہوں میں اُس کی شبستاں سے

_________

لرز رہا تھا میں کہیں کھٹک نہ جائے انجمن

وہ انجمن میں آج اس قدر بچا بچا رہا

_________

جیسے کسی حسین کے ہونٹوں پہ سرد آہ

پھولوں کی پتیوں پہ کرشمے ہوا کے دیکھ

_________

حیرتِ جلوۂ محبوب بتاؤں

ڈر رہا تھا کہ کہیں جاگ نہ جاؤں

_________

چارہ گر اُلفت کی نفسیات سے واقف نہیں

لے کے نام اُس کا کوئی دیکھے مرے چہرے کا رنگ

_________

حسن ہر حال میں ڈرتا ہے ہوَسناکوں سے

پھول کھلتا ہے تو ہر سونگراں ہوتا ہے

_________

دھیمی پے چل ، بھینی خوشبو ہلکی ہلکی دستک جاری ہے

یاوہ ہے، یا صبحِ بہاراں ، یا ذہنی گلکاری ہے

_________

تجھ بن مرا مذاق اُڑانے کے واسطے

ہر مہ جبیں نقاب اُٹھا کر ٹھہر گئی

_________

جاڑے کی وہ بھیگی راتیں ، گرمی کے یہ جلتے دن

یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹ رہا ہوں لیکن وہ

_________

اپنی جانب سے نہیں ممکن جو اُن کو خطِّ شوق

بھیج دینی چاہیے میری غزل لکھ کر مجھے

_________

شادؔ صاحب جو ہنسے پڑتے ہیں ہر بات میں آپ

آج وہ ہوشربا آپ کا مہماں تو نہیں

_________

مخاطب ہے وہ ایسے زاویے سے

جسے دیکھو مرا منہ تک رہا ہے

_________

دل نوازی جو بھرے گھر میں نہیں بن پڑتی

رُخِ محبوب پہ گیسو ہی بکھر پڑتا ہے

_________

ڈاک سے بھینی خوشبو والے خط پر خط آئے تو اِک دن

پوچھے گا خط لانے والا، بابو جی! یہ خط کس کا ہے

شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں میں فطری سادگی، شوخی اور لہجے کا انوکھا پن ہے۔ ان میں جوانی کی تازگی، متوسط طبقے کے نوجوان کو پیش آنے والے واقعات کی سرشاری اور زندگی کی حرارت ہے جس میں محاکاتی پہلوؤں کے ساتھ ایک خوشگوار سا کھردرا پن ، واقعیت، خلوص اور بے جھپک قسم کا مکالماتی طرز( جسے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ حقیقی شاعری کا جزوِ اعظم قرار دیتا ہے) طرفہ کاری، تنوع، واشگاف مخاطبت اور ابلاغ کا براہِ راست انداز ہے۔ ہر چند کہ اس میں حیات و کائنات کے متعلق کوئی خاص نظریہ یا زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے گہرے تجربات کاعکس اور فلسفیانہ تفکر نہیں ہے ( جسے حقیقی عشق کے بیان میں ہونا بھی نہیں چاہیے)لیکن اپنے جدید اسلوب اور مخصوص رنگ و آہنگ کے لحاظ سے اس غزل کی ایک جداگانہ اور منفرد اہمیت ہے۔ در اصل شادؔ عارفی نے روایتی غزل کے مروجہ علائم ورموزسے روگردانی کرتے ہوئے غزل کی مخصوص رمزیت اور اشاریت سے دانستہ پہلو تہی برتی اور موضوع کی براہِ راست ترجمانی کا فن اختیار کیا۔ اس طرح وہ بڑی فراخدلی کے ساتھ غزل کی مروجہ علامتوں ، تمثیلوں ، کنایوں اور اُن کے ساتھ وابستہ ذہنی متعلقات اور تصوراتی لوازمات سے دست بردار ہو گئے۔ نتیجے کے طور پر اُن کی غزل کسی حد تک ان لوازمات کی پیدا کردہ پہلو داری اور اس پسِ منظر کے ایک حصے سے محروم بھی ہو گئی جو غزل کی روایت عام اشعار کو فراہم کرتی ہے، نیز وہ شے بھی اُن کے ہاں کم کم نظر آتی ہے جسے اساتذہ خالص تغزل کا نام دیتے ہیں۔

 آج سے تقریباً ایک صدی قبل کی عشقیہ غزل میں تازگی اور نیا پن،روایت سے شادؔ عارفی کی اُسی بے تعلقی اور  اور انحراف نے پیدا کیا جس کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ عام لوگوں کے لیے اُن کی شاعری آج بھی نئی ہے۔ اپنی شاعری کی ابتدا سے ۱۹۴۲ء تک اُن کی عشقیہ غزل اس دور کے قاری اور اُن کے ہمعصروں کو جس حد تک چونکاتی رہی ہو گی،اس کا اندازہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔

ان غزلوں کے گہرے مطالعے سے اس حیرتناک حقیقت کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اس کھلے کاروبار عاشقی میں کہیں جنسی کثافت کی کھوٹ نہیں ہے۔ شادؔ جیسا کھل کر بات کہنے والا شاعر کہیں محبوب یا تصورِ محبوب کے ساتھ کھل نہیں کھیلا۔ نازک سے ناک تر مقام پر بھی انھوں نے احترامِ حسن کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس کا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ وہ بے باک اور حق پرست تو تھے، لیکن اُن کے دل و دماغ پر مذہب کا جو اثر قائم ہو چکا تھا،اُس نے عام زندگی میں بھی اُنھیں محبوب کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا موقع نہیں دیا حتیٰ کہ اُن کے دونوں معاشقے اس اعتبار سے ناکام رہے کہ وہ اپنے محبوب سے شادی نہ کر سکے لیکن اسی جذبے نے عشقیہ غزلوں میں جہاں انھیں شدتِ احساس سے مالا مال کیا، وہیں انھیں دوسرا جرأت ہونے سے بچا لیا ورنہ اُن کا مزاج حقیقت کو نقاب پہنا کر سامنے لانے کاعادی نہ تھا۔ اس سلسلے میں اُن کے خیالات کا اندازہ ان اشعار سے ہوسکتا ہے۔

عشق بانہیں مروڑنے میں نہیں

شاعری پھول توڑنے میں نہیں

_________

ساتھ کھیلے کی محبت بڑھ کے بن جاتی ہے عشق

اس سے زائد عشق کا اے شادؔ میں قائل نہیں

_________

احترامِ جلوہ چینی یہ بھی کچھ تھوڑا نہیں

آنکھ نے جس پھول کو دیکھا اُسے توڑا نہیں

_________

خوشنما پھولوں کو چھونا کفر تھا میرے لیے

گدگدا سکتا تھا ورنہ بارہا پہلوئے دوست

_________

ہم ہی کچھ احترام کرتے ہیں

ورنہ دامن چھڑا کے بھاگ نہ پاؤ

_________

ذکرِ قرب دوست ہی میرے لیے کافی ہے شادؔ

جب کہ اربابِ غزل کہتے وہ ہم آغوش تھا

 حسرتؔ جیسے مہذّب انسان اور پاکباز شاعر کے ہاں بھی کافی اشعار میں ، دھول دھپّے والی وہ کیفیت مل جاتی ہے جسے خود انھوں نے’ فاسقانہ شاعری‘ کا نام دیا ہے لیکن شادؔ کی غزلوں میں تلاش بسیار کے بعد بہ مشکل دو تین اشعار اس قسم کے ملیں گے:

_________

پھانس نکلوانے کے کارن دے دیتا ہوں ہاتھ میں ہاتھ

موقع پا کر ران میں چٹکی بھر لیتا ہوں ، لیکن وہ

_________

اِک بھینی بے نام سی خوشبو

شامل ہے ہونٹوں کے رس میں

_________

یہ گدگدانا یہ بوسۂ لب اُسی کا ردِّ عمل سمجھئے

ابھی جوار شاد ہو رہا تھا کہ ہم سے کیوں کوئی بولتا ہے

اپنی شاعری کی جنسیت اور ارضیت کے باوجود وہ عشق اور ہوسناکی کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ عملاً ہجر نصیب شاعر ہونے کے باوجود حرماں نصیبی کی فضا ،چند اشعار کے استثنا کے ساتھ، شادؔ کی عشقیہ غزلوں میں نہیں پائی جاتی، انھیں خود بھی اعتراف ہے کہ:

’’ میرے ہاں غمِ جاناں کا ذکر بہت کم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں محبت میں خود داری کو ہاتھ سے دینے کا قائل نہیں ہوں۔‘‘[xvi]

اُن کی پوری عشقیہ شاعری دیکھ جایئے۔ بہت کم اشعار اس روایتی انداز میں ملیں گے جس میں ہمارے غزل گو محبوب کو ستم پیشہ اور غارتگر قرار دے کر اُس کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے آئے ہیں ، اور دُشنامِ یار کے طبع حزیں پر گراں نہ گزرنے کا اعلان فرماتے ہیں۔ غالبؔ کی طرح شادؔ بھی اس معاملے میں بے حد غیور اور خود دار عاشق ہیں۔ محبوبہ کو جی جان سے چاہتے ہیں لیکن اُس کے ہاتھ اپنی عزت نیلام نہیں کرتے:

محبت میں خودی کی موت بھی دیکھی نہ جائے گی

اگر میں بارِ خاطر ہوں تو اُٹھ جاؤں ترے در سے

_________

جھٹک کے ہاتھ سے دامن کو جانے والے، بس

ترے خیال کا دامن بھی چھوڑتا ہوں میں

_________

کس طرف روئے سخن ہے،نام اُس کا لیجئے

بِن بُلائے آپ کی محفل میں آتا کون ہے

_________

یہ تو مت محسوس ہونے دیجئے

اجنبی ہیں آپ کی محفل میں ہم

 اردو غزل میں امتحانِ وفا محض عاشق دیتا آیا ہے،شادؔ کی غزل محبوب کا امتحان بھی لیتی ہے:

دیر سے پہنچنے پر بحث تو ہوئی، لیکن

اُس کی بے قراری کو حسبِ مدّعا پایا

اسی لیے شادؔ جورِ محبوب کا شکوہ بہت کم کرتے ہیں :

شاؔد غیر ممکن ہے شکوۂ بُتاں مجھ سے

میں نے جس سے اُلفت کی اُس کو با وفا پایا

اُن کی شاعری میں بڑی با وقار اور توانا ارضیت ہے۔ عام بول چال کی زبان میں ،اس نُدرتِ ادا کے ساتھ، جو صرف انھیں سے مخصوص ہے،حقیقت پر مبنی واقعات عشق کو بعینہٖ غزلوں میں منعکس کر کے شادؔ عارفی نے عشقیہ شاعری میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اُن کی عشقیہ غزلیں غیر ضروری آرائش کے عناصر سے بالکل پاک ہیں اسی لیے تغزل پسند طبیعتیں غزل کے مروجہ معیاروں کی روشنی میں ان کی غزلوں کی سچّی قدر نہیں کر پاتیں۔

مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ شادؔ کی غزلوں میں نہ قدم قدم پر گراں بار تشبیہوں کے ڈھیر لگائے گئے ہیں اور نہ مرعوب کن صنائع بدائع اور تراکیب کا غیر متوازن استعمال اُن کے ہاں ملتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی تشبیہ یا استعارہ شاد نے استعمال کیا ہے وہاں اُن کے تخیل کی نادرہ کاری اور طرفگی لطف دے گئی ہے اور یہ صنعتیں شعر کی بالائی سطح پر واقع نہ ہو کر گہرائی میں اُتری ہوئی ہیں۔ صنّاعی کی کوشش کے بجائے ایسے اشعار جذبے کی تپش اور فکر کی تابناکی سے لبریز ہیں۔ شادؔ کو عام تشبیہوں سے بچ کر اپنے لیے خود نئی تشبیہات تلاش کرنا اور استعارات خلق کرنا آتا ہے۔ اُن کی تشبیہیں بیشتر مرکب ہوتی ہیں اور اصل خیال کی وسعت میں اضافہ کر کے شعر کو تہہ دار بناتی ہیں :

جیسے مصرعِ موزوں تکملہ کی باہوں میں

وہ مرے برابر سے اس طرح گزرتا ہے

_________

مقابل قدِّ آدم آئینہ ہے

بڑا دلچسپ مطلع لڑ رہا ہے

_________

بِن اندھیرے غزالِ یار کہاں

چاندنی رات میں شکار کہاں

_________

دل جونہی بیٹھنے لگا،منزلِ آرزوئے دل

محملِ گرد باد سے جھانک کے مسکرا گئی

_________

اُسے نسیمِ چمن کہہ رہا ہوں میں ، لیکن

کہیں نسیم چمن مُڑ کے دیکھتی بھی ہے

محبوب کے برابر سے گزرنے پر مصرعِ موزوں کا تکملے کی بانہوں میں ہونا، قدِّ آدم آئینے کے سامنے محبوب کی موجودگی سے دلچسپ مطلع کا لڑنا، پھول کی پتّیوں کے ہوا سے لرزنے کو کسی حسین کے ہونٹوں پر سرد آہ سمجھنا، برقِ سروِ قد کا ٹھہر جانا، حسن کا ہوسناکوں کے خوف سے پھولوں کی طرح ہر سو نگراں ہونا، یادوں کے دانتوں سے ناخن کاٹنا، محبوب کے غزل گنگنانے پر ترنّم صبحِ گلستاں کا تصور، اُس کا در پر آ کر فوراً یوں روپوش ہو جانا جیسے جنگل میں شکاری سے ہرن بھاگتا ہے۔ صبحِ بہار کا ایک ہی انگڑائی کا ہونا، محبوب کو نسیم چمن کہنا اور نسیم چمن کا مڑ کر نہ دیکھنا اور اسی قسم کی لاتعداد نادر اور انوکھی تشبیہات اپنے مناسب موقع و محل پر شادؔ کے ہاں استعمال ہوئی ہیں۔ اپنے سیاق و سباق سے ہٹ کر ان تشبیہوں کا حُسن زائل ہو جاتا ہے۔ اصل خوبی یہ ہے کہ انھیں وہیں برتا گیا ہے جہاں واقعی ان کی ضرورت تھی،چنانچہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح دمکتی ہیں اور اشعار کی پہلو داری میں اضافہ کرتی ہیں۔ حسین و شگفتہ استعاروں کا بھی یہی حال ہے اور نئی نئی تراکیب اختراع کرنے کے معاملے میں بھی شادؔ عارفی کا ذہن حیرت انگیز طور پر زر خیز ہے۔ ’ ’کنگرۂ آرزو‘‘،’ ’ عشرتِ رفتہ‘‘،’ ’حیرتِ جلوۂ محبوب‘‘،’ ’ برقِ سروقد‘‘،’’غزالِ یار‘،’’ آویزشِ یقین و گماں ‘‘،’’ محملِ گرد باد‘‘،’’ تجربہ کارانِ خلوت‘‘،’’ پاسِ احتیاطِ آرزو‘‘،’’ ترنّم صبحِ گلستاں ‘‘،’ ’احترامِ جلوہ چینی‘‘،’’ بتانِ کو بکو‘‘،’’ پشیمانِ عقیدت‘‘،’’جوازِ شکستِ رنگ‘‘،’’چشمِ جلوہ جو‘‘،’’سحرِ سکوت فروش‘‘،’’ بتانِ مرمریں بُت کدہ‘‘،’’ ساقیِ رنگین ادا‘‘،’’ رنگِ پشیمانی‘‘،’’ چراغِ آرزو مندی‘‘،’’کلیاتِ نظم فطرت‘‘،’’ دامنِ نکہت‘‘،’’ بدرِ قدح صورت‘‘ اور’ ’شعر و غزل دستہ‘‘ جیسی سیکڑوں تازہ دلکش تراکیب کا خزانہ شادؔ عارفی کی عشقیہ غزلوں میں محفوظ ہو چکا ہے۔

شادؔ عارفی اُردو کے وہ پہلے غزل گو ہیں جنھوں نے ہریجن الفاظ اور اچھوت خیالات کے لیے اپنے فکر و فن کے مندر کھول دیے۔ عشقیہ غزل میں منہ پر رسالہ ڈھک کر سو جانے، روایتی نامہ برکی جگہ کسی بھولی سی ہم مکتب یا خالہ زاد سہیلی سے خط بھجوانے ، بن کے لیٹی ہوئی جوانی کو گُدگُدانے، محبوب کے کام میں مصروف ہونے کے باوجود عاشق کا نام سن کر مسکرا دینے، تکیوں سے پسینے کی بُو آنے،بال سکھانے کے بہانے آنگن ناپنے اور بُتانِ کوئے دوست کے کھڑکیوں سے جھول جانے کی باتیں کرنے کی جسارت ہمارے ادب میں پہلی بار شادؔ عارفی نے کی ہے اور آج سے تقریباً چالیس پچاس سال قبل کی ہے جب کہ عہدِ حاضر میں بھی تغزل چشیدہ بزرگوں کی پیشانی غزل میں ان باتوں کے ذکر سے شکن آلود ہو جاتی ہے۔ اسی طرح’’ چپقلش‘‘،’’ جوتے جھاڑ لینا‘‘،’’ بندی‘‘،’’آنگن ناپنا‘‘،’’سانولا رنگ‘‘،’’بھرا گھر‘‘،’’ڈاک‘‘،’’کارن‘‘ ،’’خط لانے والا‘‘،’’بابو جی‘‘،’ بانہیں مروڑنا‘‘،’’ روپ دھارنا‘‘،’’کروٹن کے گملے‘‘،’’ کٹی ہوئی پتنگ‘‘،’ ’بھگتوان‘‘،’’ پاؤں سونا‘‘،’’ سرپھرے‘‘،’’ اوس پڑنا‘‘،’’ہاری لکھنا‘‘ اور اسی قبیل کے بے شمار الفاظ اور جملے شادؔ عارفی نے اپنی عشقیہ غزلوں میں بڑی خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ استعمال کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اگر فن پر قدرت حاصل ہو اور فنکار کی اُنگلیاں الفاظ کی نبض پر ہوں تو کوئی لفظ یا جملہ غزل کے مزاج کے نا مواقف نہیں ہوتا۔ بقول ظ۔ انصاری:

’’الفاظ اور تراکیب سے اُن کا جمہوری  برتاؤ ہے۔ غزل کی وضع دارانہ محفل میں بھی ہر ایک گوت اور ہر ایک فیشن کے لفظ کو پاس بٹھا لیتے ہیں ،نہ ناک بھوں چڑھاتے ہیں نہ ذات برادری پوچھتے ہیں۔ کتنے ایسے غزل گو ہیں جو شادؔ عارفی کی طرح دعویٰ کر سکیں کہ اُن کی غزل جدید نظم  کے لب و لہجے سے اس قدر قریب ہے۔ شادؔ کی غزل ہمارے تازہ واردانِ بساط کو جرأت دلاتی ہے اور لفظوں کے انتخاب سے روا داری نہیں بیباکی کا سبق دیتی ہے۔ ‘‘[xvii]

شادؔ کی عشقیہ غزلوں میں کہیں کہیں متصوفانہ خیالات کے حامل اشعار بھی مل جاتے ہیں ، مثلاً :

اگر تصوّر کی وادیوں میں نہ کی گئی میری رہنمائی

کسی کا دامن بھی تھام سکتا ہوں میں سمجھ کر تمھارا دامن

_______

ان کی رحمت سے دور نہیں ، لیکن اس پر مجبور نہیں

اغماض کریں ہر لغزش پر سجدوں پر برہم ہو جائیں

_________

رائیگاں کیوں سفرِ دیر و حرم اے ساقی

دیکھنے سے اُسے مطلب تھا، کہیں دیکھ آیا

_________

کسی بھی در پر علاجِ آویزشِ یقین و گماں نہ ہو گا

ادھر چلا آ کہ میکدے میں اگر نہیں ہے مگر نہیں ہے

_________

دور سے آتا ہے مبہم سا جواب

دیں اُسے آواز جس منزل میں ہم

_________

پکارنے پہ جب آیا تو تیرا دیوانہ

کسی بھی نام سے تجھ  کو پُکار آئے گا

_________

شیخ کہتا ہے سرِ طور ہے وہ

اس کا مطلب ہے بہت دُور ہے وہ

_________

ہماری بندگی پابندِ کعبہ ہے نہ بُت خانہ

جسارت چاہیے ، سجدوں پہ قدرت ہو ہی جاتی ہے

لیکن ایسے اشعار کی تعداد اُن کی غزلوں میں برائے نام ہی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ’ برائے بیت‘ کہے گئے ہیں۔ ان میں تصوّف کے کوئی نئے یا گہرے مسائل بھی نہیں چھیڑے گئے ہیں۔

اپنی عام طنزیہ شاعری کی طرح جس کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا، عشقیہ غزلوں میں بھی شادؔ عارفی نے بات کہنے کا جو لہجہ اختیار کیا ہے، اس نے ہر شعر پر اُن کی مہر انفرادیت ثبت کر دی ہے۔ ان غزلوں کا حقیقی لطف اُسی وقت اُٹھایا جا سکتا ہے جب اُنھیں ایک مخصوص لہجے میں پڑھا یاسُنا جائے۔ انکے کلام کو سمجھنے سمجھانے کے لیے قدم قدم پر علامتی نشانوں (Punctuations) کی ضرورت پڑتی ہے۔ کہیں وہ مکالماتی انداز برتتے ہیں ، جس میں ایک مصرع متکلم اور دوسرا مخاطب کی زبان سے ادا ہوتا ہے،کبھی ایک ہی مصرع میں دو جملے علیحدہ علیحدہ افراد کی زبان سے کہلائے جاتے ہیں۔ کہیں استعجابیہ،استہزائیہ یااستفہامیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں اور بعض جگہ ان سب کے امتزاج سے شعر میں افسانوی فضا پیدا کر دیتے ہیں۔ اس طرح اُن کے بعض اشعار غزل کے شعر رہ کر بھی،مکمل نظم کا تاثر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں واوین اور قوسین کا بکثرت استعمال ہوا ہے جن کو ہٹا دیا جائے تو شعر بے لُطف سا نظر آنے لگتا ہے، مثلاً اس شعر میں عاشق و محبوب کا مکالمہ دیکھیے:

’حسیں ہو تم‘،’  آپ کی بلا سے‘،’  پری [xviii]ہو تم‘،’ آپ کی دُعا سے‘

جواب ملتا ہے سخت لہجے میں ، اُن سے جو بات پوچھتا ہوں

مندرجہ ذیل اشعار میں بھی جب تک تردیدی اور استہزائیہ لہجہ اختیار نہ کیا جائے اُن کا اصل مفہوم اور لُطف واضح نہیں ہوتا:

یہ تحقیقیں ، یہ توجیہیں ،یہ اپنے اور یہ بیگانے

میری مجبوری کا تم پر آ جائے الزام تو کیا ہو!

_________

کیوں ہمیں بدنام کرتا ہے زمانہ، پوچھیے

’’ کوئی خط پکڑا گیا؟‘‘،’’ تحریر پہچانی گئی؟‘‘

_________

ناصحِ مشفق! تو راہِ عشق میں ہر گام پر

آپ کے نزدیک لگنی چاہیے ٹھوکر مجھے!

_________

میں کم ظرف نہیں اے ساقی

مینا میں اک جام بھی ہو گی؟

_________

میری الفت سے اُسے انکار بے حد تھا مگر

جب کہا لوگوں نے’’ یہ تحریر؟‘‘ اب خاموش تھا!

اور خالص لہجے کا یہ شعر بہی دیکھیے:

_________

گیسو بدوش، محوِ تماشائے آئینہ

اُس کی نگاہ روزنِ دیوار پر نہیں !

غرض کہ شاؔ عارفی کے نوّے فیصد اشعار اپنا مخصوص لہجہ رکھتے ہیں۔

صرف عشقیہ غزلوں کی روشنی میں ہی دیکھا جائے تو شادؔ عارفی ماضی کومستقبل سے ملانے والے شاعر ہیں۔ غزل کی روایتی نازک مزاجی کے باوجود اُن کی عشقیہ غزل، جدّت ،بغاوت، تجربے اور نُدرت کے امکانات واضح کرتی ہے۔ اُن کی غزل میں بات سے بات پیدا کرنے کا شوخ انداز ہے۔ اُن کی سی قدرتِ کلام اُن کے بہت کم عم عصروں کو نصیب ہوئی، لیکن ان تمام اوصاف کے با وصف اُن کی عشقیہ غزل اپنے عہد میں نقادوں کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی۔ ہر چند کہ شادؔ عارفی کی تنک مزاجی اور ناقدین سے موقع بے موقع اُلجھتے رہنے کا وطیرہ بھی اس بے التفاتی کاایک سبب ہے لیکن دوسرا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ شادؔ نے ایک بالکل ہی نئی طرز ایک ایسے عہد میں اختراع کی کہ وہ اپنی اجنبیت اور نا مانوسیت کی بنا پر نقادوں کو غیر اہم سی نظر آئی۔ موجودہ صدی کی عشقیہ غزل کا جائزہ لیں تو ترقی پسند شعرا کی بہ ظاہر عاشقانہ اور بہ باطن وردی پوش غزلوں کا ذکر ہی فضول ہے کیونکہ یہ عاشقانہ استعاروں میں سیاسی صورتِ حال بیان کرتی ہیں۔ اس کے بعد بیسویں صدی کے دوسرے رُبع کو غزل سے اگر یگانہؔ، شادؔ اور فراق کو خارج کر دیا جائے تو وہ قدیم غزل کا قدرے بدلا ہوا رُوپ نظر آئے گی۔

فراقؔ اپنے نرم و ملائم لہجے والی شاعری اور بذاتِ خود اپنے نقاد ہونے کی بِنا پر ابتداسے ہی (Establishment) کا جزو بن گئے۔ یگانہ کو اوّل نقادوں نے نظر انداز کیا لیکن مجنوں ؔ گورکھپوری نے اُن کی انفرادیت کا اعتراف کر کے نقادوں کے لیے راستہ کھول دیا۔ شادؔ عارفی اپنی روایتی بدقسمتی کے تحت اس پہلو سے بھی بد قسمت ثابت ہوئے اور نقاد انھیں آج تک نظر انداز کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے اُن کے ساتھ تنقید کی بے رُخی کا احساس اختر انصاری دہلوی کو ہوا چنانچہ اپنی تصنیف’ ’ ایک ادبی ڈائری‘‘ کے ۱۹۴۲ء کے ایک اندراج میں انھوں نے لکھا تھا:

’’ شادؔ عارفی بھی اُن شاعروں میں ہیں جو درجہ اوّل کے شاعر ہوتے ہوئے بھی نقادوں کی نگاہِ التفات سے محروم ہیں صرف اس لیے کہ اب تک کسی بڑے نقاد نے اپنے اشاروں پر چلنے والے دوسرے نقادوں کو اُن کی طرف متوجہ نہیں کیا۔ اُن کا قصور صرف اس قدر ہے کہ وہ شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا کرنا نہیں جانتے۔ انھوں نے اپنے آپ کو کسی با اثر گروہ (Clique) کے ساتھ وابستہ نہیں کیا نہ مشاعروں میں جا جا کر گلے بازی کی۔‘‘

اس کے باوجود اُن کی وفات کے بعد تک اردو تنقید شادؔ عارفی سے بے اعتنائی برتتی رہی ہے۔ اب یہ جمود کسی حد تک ٹوٹا ہے تو لوگ زیادہ تر اُن کی طنزیہ شاعری پر لکھ رہے ہیں حالانکہ بقول خلیل الرحمن اعظمی:

’’ اُردو کے چند اہم اور بڑے شعرا کی طرح شادؔ عارفی بھی کلیات کے شاعر تھے اور اُن کے فن کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ جب تک سارا کلام سامنے نہ ہو اُن پر تنقیدو تبصرے کا حق ادا ہوتا ہے اور نہ اُن کے موضوعات اور اسالیب کے ساتھ پورا انصاف کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

ضرورت اس بات کی ہے کہ شادؔ عارفی کا عشقیہ کلام بھی پرکھا جائے اور اُس کی صحیح قدر و قیمت متعین کی جائے،کیونکہ عشقیہ غزلوں کے خالق کی حیثیت سے بھی اُن کا قد کئی بلند قامت معاصروں سے نکلتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: پرویز مظفر ابن مظفر حنفی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید



[i] ’’شاد عارفی سے ایک ملاقات‘‘: وصی اقبال۔ ماہنامہ’’ تحریک‘‘ دہلی۔ جون ۱۹۶۴ء۔ص ۱۲

[ii] ’’ شاد عارفی مزاجی اعتبارسے‘‘ ۔محشر عنایتی۔ ’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر جنفی ۔ ص ۸۲۳

[iii] ’’شاد عارفی سے ایک ملاقات‘‘: وصی اقبال۔ ماہنامہ’’ تحریک‘‘ دہلی۔ جون ۱۹۶۴ء۔ص ۱۲

[iv] ’’شاد عارفی سے ایک ملاقات‘‘۔ وصی اقبال۔ماہنامہ ’’ تحریک‘‘ دہلی، جون ۱۹۶۴ء

[v]اداریہ ماہنامہ ’’ کتاب‘‘ لکھنؤ۔مارچ ۱۹۶۴ء۔ ص ۵

[vi] مجھے بھی شاد ؔریشمین شاعری کا شوق تھا            مگر وہ عمر سرخوشی کی تھی، یہ آگہی کی ہے

[vii] وہ رنگیں نوائی، یہ شعلہ بیانی    کئی دور آئے مری شاعری میں

[viii] ’’کلامِ شادؔ پر اصلاح خود شادؔ صاحب کے   قلم سے‘‘ مسرت حسین آزاد۔ ’’ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص۲۷۷

[ix] کٹی پتنگ۔ مسعود اشعر ۔ سہ ماہی ’’ فنون‘‘ لاہور۔اشاعت خاص نمبر۵۔ ۱۹۶۴ء۔ ص ۳۴۴

[x] پیش لفظ ’’ رخ و گیسو‘‘۔ شاد عارفی۔مشمولہ ’’ نثر و غزل دستہ‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی ۔ ص ۱۴۰

[xi] شاد ؔ عارفی مرحوم۔ منہاج الدین مینائی۔’’ ایک تھا شاعر‘‘ مرتبہ: مظفر حنفی۔۴۵۲۔۴۲۴

[xii] سفینہ چاہیے۔ شاد عارفی۔ مرتبہ: سلطان اشرف۔ ص ۱۵

[xiii] ہندوستان میں نئی غزل۔ شمس الرحمن فاروقی۔ ’’ فنون‘‘ لاہور، جدید غزل نمبر، حصہ اوّل ۔ ص ۱۳۶۔ ۱۳۴

[xiv] میرا صفحہ۔آل احمدسرور۔ہفت روزہ ’’ ہماری زبان‘‘ علی گڑھ۔ ۸؍ اپریل ۱۹۶۸ء۔ ص ۱۲

[xv] جدید تر غزل۔ ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی۔ سہ ماہی ’’ فنون‘‘ لاہور۔جدید غزل نمبر حصہ اوّل۔ ص ۷۲

[xvi] پیش لفظ۔’’ رُخ وگیسو‘‘۔شاد عارفی۔ مشمولہ ’’نثر و غزل دستہ‘‘ مظفر حنفی۔ ص ۱۳۹

[xvii] شادؔ عارفی کی شاعری اور شخصیت: ظ ۔ انصاری، ماہنامہ ’’صبا‘‘حیدر آباد بابت اکتوبر ۱۹۶۴ء

[xviii] یہاں یہ یاد دہانی دلچسپی کا باعث ہوگی کہ شادؔ کی اہلیہ کا نام پری بیگم تھا، اُن کاایک اور شعر ہے::

سانولا رنگ، کشیدہ قامت

نہ پری ہے نہ کوئی حور ہے وہ