فہرست مضامین
سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد دوم
جنائز کے متعلق احادیث
مشرکین کی اولاد
محمد بن عبداللہ بن مبارک، اسود بن عامر، حماد، قیس، ابن سعد، طاؤس، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا مشرکین کی اولاد کے حال کے بارے میں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس وقت خداوند قدوس نے ان کو پیدا فرمایا وہ خوب واقف تھا کہ وہ کس طرح کے عمل کرنے والے تھے۔
٭٭ محمد بن المثنی، عبدالرحمن ، شعبہ، ابو بشر، سعید بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مفہوم مندرجہ بالا حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ہشیم، ابو بشر، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مشرکین کی اولاد کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس نے جس وقت ان کو پیدا فرمایا وہ خوب واقف تھا کہ وہ کس طرح کے عمل کرنے والے تھے۔
حضرات شہداء کرام پر نماز کا حکم
سوید بن نصر، عبد اللہ، ابن جریج، عکرمۃ بن خالد، ابن ابو عمار، شداد بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جو کہ جنگل کا باشندہ تھا خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور وہ مشرف با اسلام ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہو گیا پھر کہنے لگا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہجرت کروں گا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے واسطے بعض صحابہ کرام کو وصیت کی جس وقت غزوہ ختم ہو گیا یعنی غزوہ میں مسلمانوں کو بکریاں حاصل ہوئیں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان بکریوں کو تقسیم فرمایا اور اس کا بھی حصہ لگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام نے اس کا حصہ اس کو دیا۔ وہ ان کے سواری کے جانور چوری کیا کرتا تھا جس وقت اس کا حصہ دینے کے واسطے آئے تو اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تمہارا حصہ ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم کو عطا فرمایا ہے اس نے لے لیا اور اس کو لے کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کیا ہو گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ تمہارا حصہ میں نے دیا ہے۔ اس نے عرض کیا کہ میں اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نہیں ہوا تھا بلکہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کی اس وجہ سے کی ہے میری جگہ پر (یعنی حلق کی طرف) اشارہ کیا کہ تیر مارا جائے (یعنی غزوہ میں ) پھر میرا انتقال ہو جائے اور میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تو خداوند قدوس کو سچا کرے گا تو خداوند قدوس بھی تم کو سچا کرے گا۔ پھر کچھ دیر تک لوگ ٹھہرے رہے اس کے بعد دشمن سے جنگ کرنے کے واسطے اٹھے اور لڑائی شروع ہوئی۔ لوگ اس کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اس شخص کے تیر لگا ہوا تھا۔ اسی جگہ پر اس شخص نے بتلایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کو اس نے سچ کیا۔ یعنی خداوند قدوس نے مجاہدین کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان تمام کو اس نے سچ کیا۔ تو خداوند قدوس نے بھی اس کو سچا کیا یعنی اس شخص کی مراد پوری ہوئی یہ شخص شہید ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مبارک جبہ کا کفن اس کو دے دیا اور آگے کی جانب رکھا اور اس پر نماز ادا کی تو جس قدر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز میں سے لوگوں کو سنائی دیا وہ یہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ یا اللہ یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے راستے میں ہجرت کر کے نکلا اور یہ شخص راہ خدا میں شہید ہو گیا میں اس بات کا گواہ ہوں۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یزید، ابو خیر، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے ایک مرتبہ باہر نکلے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی احد کے شہداء پر پھر منبر کی جانب آئے اور فرمایا میں تمہارا پیش خیمہ ہوں یعنی قیامت میں تم سے قبل اٹھ کر تم لوگوں کے واسطے جنت میں داخل ہونے کی تیاری کروں گا اور تم پر گواہ ہوں۔
٭٭ قتیبہ، لیث، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب بن مالک، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ احد کے شہداء میں سے دو شہداء (کے جسم کو) جمع فرماتے پھر فرماتے کہ ان دونوں شہیدوں میں سے کون شخص قرآن کریم زیادہ جانتا ہے ؟ جس وقت لوگ ایک جانب اشارہ فرماتے اس کو قبر میں آگے کی جانب کرتے قبر کی جانب اور پھر ارشاد فرماتے میں گواہ ہوں ان لوگوں پر اور حکم فرمایا ان کے دفن کرنے کا خون لگے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان پر نماز ادا فرمائی اور ان کو غسل دیا۔
جس شخص کو سنگسار کیا گیا ہو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا
محمد بن یحیی و نوح بن حبیب، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی قبیلہ اسلم میں سے (ماعز اسلمی) خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور زنا کا اقرار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی جانب سے چہرہ انور پھیر لیا یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ اپنے اوپر گواہی دی (یعنی چار مرتبہ زنا کا اقرار کیا) تب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم کو جنون ہے ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تو محض ہے (تمہارا نکاح ہو چکا ہے ؟) انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا ان کو سنگسار کیا جائے۔ جب ان کو پتھروں کے مار کی تکلیف اور اذیت محسوس ہوئی تو وہ بھاگنے لگے۔ لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور سنگسار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے حق میں نیک باتیں کیں اور اس پر نماز (جنازہ) نہیں ادا فرمائی۔
حد زنا میں جو شخص پتھروں سے مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنا
اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ابو قلابۃ، ابو مہلب، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ خاتون اس وقت حاملہ تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو وارث (سر پر ست) کے سپرد کر دیا اور فرمایا اس کو اچھی طرح سے رکھو جب ولادت ہو جائے تو اس کو میرے پاس لے آنا جس وقت اس خاتون کے ہاں ولادت ہو گئی تو اس کو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر کیا گیا۔ اس خاتون نے اپنے کپڑے اپنے اوپر لپیٹ لیے (کانٹوں سے ) تاکہ جب سنگسار کیا جائے تو نہ کھلے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خاتون کو پتھروں سے ہلاک کرا دیا۔ پھر نماز پڑھی۔ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر نماز پڑھتے ہیں اور اس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس خاتون نے ایسی توبہ کی کہ اگر مدینہ منورہ کے ستر آدمیوں پر وہ توبہ تقسیم کر دی جائے تو البتہ ان سب پر وہ کافی ہو اور کیا (کوئی) اس سے بہتر توبہ ہو گی کہ اس نے اپنی جان کو دے ڈالا خداوند قدوس کے لیے۔
جو آدمی وصیت کرنے میں ظلم سے کام لے (یعنی جائز حق سے زیادہ کی وصیت کرے ) اس کی نماز جنازہ
علی بن حجر، ہشیم، منصور، ابن زاذان، حسن، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے مرنے کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا اور ان کے علاوہ اور کچھ مال اس شخص کے پاس نہیں تھا یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہنچی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ ہوئے اور فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ اس پر نماز نہ پڑھوں پھر اس کے غلاموں کو لایا اور اس کے تین حصہ کیے پھر قرعہ ڈالا تو غلاموں کو آزاد کیا اور چار غلاموں کو رہنے دیا۔
جس کسی نے مال غنیمت میں چوری کی ہو اس پر نماز پڑھنا
عبید اللہ بن سعید انصاری، یحیی بن سعید، یحیی بن سعید الانصاری، محمد بن یحیی بن حبان، ابو عمرۃ، زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی غزوہ خیبر میں مارا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اس پر نماز ادا کر لو (میں اس پر نماز نہیں پڑھتا) اس شخص نے راہ خدا میں چوری کی ہے جس وقت ہم لوگوں نے اس شخص کا سامان دیکھا تو یہود کے نگینوں میں سے ایک نگینہ پایا جس کی قیمت دو درہم بھی نہیں تھی۔
مقروض شخص کی جنازہ کی نماز
محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، عثمان بن عبداللہ بن موہب، عبداللہ بن ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک انصاری شخص کا جنازہ آیا نماز جنازہ کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم لوگ اپنے صاحب پر نماز جنازہ پڑھ لو (میں اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا) اس لیے کہ یہ شخص مقروض ہے۔ حضرت ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ قرضہ میرے ذمہ ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو اس اقرار کو مکمل کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں پورا کروں گا تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص پر نماز پڑھی۔
٭٭ عمرو بن علی و محمد بن مثنی، یحیی، یزید بن ابو عبید، سلمہ ابن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک جنازہ آیا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا اس شخص کے ذمہ قرض ہے ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا وہ شخص کوئی جائیداد وغیرہ چھوڑ گیا ہے کہ جس سے اس شخص کا قرض ادا کیا جا سکے ؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اپنے صاحب پر نماز پڑھ لو ایک انصاری شخص کے جن کو حضرت ابو قتادہ کہتے تھے انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ لیں وہ قرض میرے ذمہ ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (مطمئن ہو کر) نماز جنازہ پڑھی۔
٭٭ نوح بن حبیب القومسی، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک جنازہ پیش ہوا لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! اس کی نماز جنازہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت کیا کیا اس شخص کے ذمہ قرض ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! اس شخص کے ذمہ دو دینار قرض ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ اس کی نماز (جنازہ) پڑھ لو۔ یہ سن کر ابو قتادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میں دونوں دینار ادا کروں گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھ دی اور جس وقت خداوند قدوس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (حالات میں ) وسعت (مال غنیمت) عطا فرما دی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں ہر ایک مومن پر اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہوں اور جو کوئی مقروض ہو کر مر جائے تو وہ قرض میرے ذمہ ہے اور جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے تو وہ اس کے ورثہ کاہے۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس و ابن ابو ذئب، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت کوئی مومن وفات کر جاتا اور وہ شخص مقروض ہوتا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دریافت فرماتے کہ یہ شخص اپنے قرض کے مطابق جائیداد چھوڑ گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص پر نماز جنازہ پڑھ دیتے۔ اگر صحابہ کرام فرماتے کہ مرنے والے کے ذمہ کسی قسم کا قرض ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ سے فرماتے کہ تم اس پر نماز پڑھ لو۔ جب کہ خداوند قدوس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر (دنیا کو) وسیع کر دیا (یعنی مال غنیمت زیادہ حاصل ہو گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مومن پر ان کی جانوں سے زیادہ مہربان ہوں۔ پس جو شخص وفات کر جائے مقروض ہو کر تو اس کا قرضہ میرے ذمہ ہے اور جو شخص مال چھوڑ کر مر جائے تو وہ اس کے ورثہ کاہے۔
جو شخص خود کو ہلاک کرے اس کی نماز جنازہ سے متعلق احادیث
اسحاق بن منصور، ابو ولید، ابو خیثمۃ، زہیر، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنے ہی تیر سے خود کو ہلاک کر لیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس شخص کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلیمان، ذکوان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص خود اپنے کو پہاڑ کے اوپر سے گرا کر ہلاک کر لے تو وہ شخص ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں اوپر سے نیچے گرتا رہے گا اور وہ شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ( اور یہی عمل کرتا رہے گا) اور جو شخص زہر پی کر خود کو ہلاک کر لے تو زہر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ شخص دوزخ میں ہمیشہ اس کو پیا کرے گا اور جو شخص خود کو کسی لوہے سے قتل کرے (یعنی بندوق تلوار وغیرہ) تو پھر اس کے بعد مجھ کو یاد نہیں نہ یہ راوی کا قول ہے یعنی تیر چیز سے تو وہ لوہا اس کے ہاتھوں میں ہو گا دوزخ کی آگ میں اور ہمیشہ وہ شخص اس کو پیٹ میں داخل کرتا رہے گا اور وہ شخص ہمیشہ اس میں رہے گا۔
منافقین پر نماز نہ پڑھنے سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن مبارک، حجین بن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبد اللہ، عبداللہ بن عباس، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت عبداللہ بن ابی سلول (منافق) مر گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا گیا اس پر نماز پڑھنے کے واسطے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور تیار ہو گئے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ابن ابی وقد پر نماز پڑھتے ہیں حالا نکہ اس نے فلاں روز ایسی بات کہی تھی (جو کہ کفر اور نفاق کی باتیں تھیں ) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا کہ اے عمر! تم جانے دو جب میں نے بہت زیادہ ضد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو یہ اختیار ہے کہ میں منافقین پر نماز (جنازہ) پڑھوں یا نہ پڑھوں تو میں نے (منافقین پر) نماز پڑھنے کو اختیار کیا اور اگر میں اس بات سے واقف ہوں کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ مغفرت چاہوں تو اس کی بخشش ہو جائے گی البتہ میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں۔ (یعنی خداوند قدوس نے مجھ کو اختیار دیا اور ستر اس سے مراد ستر کا عدد نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ منافقین کی کبھی مغفرت نہ ہو گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز (جنازہ) پڑھی اور واپس تشریف لائے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ سورہ برات کی یہ دو آیات کریمہ نازل ہوئیں آخر تک۔ اور تم ان میں سے کسی پر نماز نہ پڑھو جب وہ مر جائے اور نہ تم اس کی قبر پر کھڑے رہنا کیونکہ ان لوگوں نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انکار کیا ہے اور وہ گنہگار ہوئے اور گنہگار ہونے کی حالت میں مر گئے (تو حضرت عمر کی رائے گرامی خداوند قدوس کے نزدیک منظور اور قبول ہوئی) پھر میں نے حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اپنی اس قدر بہادری سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اس دن اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوب واقف ہیں (کہ اس میں کیا مصلحت تھی)۔
مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کا بیان
اسحاق بن ابراہیم و علی بن حجر، عبدالعزیز بن محمد، عبدالواحد بن حمزٰۃ، عباد بن عبداللہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سہیل بن بیضاء پر مسجد کے اندر نماز جنازہ ادا کی۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، موسیٰ بن عقبۃ، عبدالواحد بن حمزٰۃ، عباد بن عبداللہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت سہیل بن بیضاء پر نماز نہیں ادا فرمائی لیکن خاص مسجد کے اندر۔
رات میں نماز جنازہ ادا کرنا
یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو امامۃ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خاتون عوالی میں بیمار ہوئی (عوالی ان بستیوں کا نام ہے جو کہ مدینہ منورہ کے مضافات میں ہیں ) جو کہ غریب تھی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام سے اس کا حال دریافت فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ مر جائے تو تم اس کی تدفین نہ کرنا۔ جس وقت تک کہ میں اس پر نماز جنازہ نہ پڑھوں۔ وہ خاتون مر گئی تو لوگ اس کو مدینہ منورہ میں نماز عشاء کے بعد لے کر حاضر ہوئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے تھے حضرات صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نیند سے بیدار کرنا مناسب خیال نہیں کیا اور اس پر نماز ادا کر کے جنت البقیع میں دفن فرما دیا۔ جس وقت صبح ہوئی تو صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حالت دریافت کی۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی تدفین ہو گئی اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو رہے تھے تو ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیدار کرنا برا سمجھا یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روانہ ہو گئے اور صحابہ کرام بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کی قبر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دکھلائی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف بنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر نماز ادا فرمائی اور تکبیرات پڑھیں
جنازہ پر صفیں باندھنے سے متعلق
محمد بن عبید، حفص بن غیاث، ابن جریج، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے بھائی نجاشی کی وفات ہو گئی تو تم کھڑے ہو جاؤ اور نماز ادا کرو۔ اس پر پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور ہماری صفیں بندھوائیں۔ جس طریقہ سے نماز جنازہ پر صفیں ہوتی ہیں اور اس پر نماز ادا کی۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاشی کی وفات کی اطلاع اس روز دی کہ جس دن ان کی وفات ہوئی حالانکہ وہ ایک طویل فاصلہ پر واقع ملک میں تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کرام کو لے کر مصلی کی جانب نکلے اور ان کی صفیں بندھوائی۔ اور ان پر نماز ادا کی اور چار تکبیریں کہیں۔
چند لوگوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا
ابراہیم بن یعقوب، سلیمان بن حرب، حماد بن زید، ایوب، حمید بن ہلال، سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا غزوہ احد کے روز صحابہ کرام بہت زیادہ زخمی (شہید) ہو گئے تھے لوگوں نے اس بات کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قبر کھود ڈالو اور قبر وسیع کھود ڈالو اور ایک ایک قبر میں دو دو تین تین حضرات کی تدفین کرو اور جو قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو تم لوگ اس کو تدفین میں مقدم کرو۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، مسدد، عبد الوارث، ایوب، حمید بن ہلال، ابو الدہماء، ہشام بن عامر اس حدیث شریف کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
قبر میں تدفین کے وقت کس کو آگے کیا جائے ؟
محمد بن منصور، سفیان، ایوب، حمید بن ہلال، ہشام بن عامر سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد غزوہ احد کے دن شہید کیے گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ (ان کیلئے قبر) کھودو اور قبر کو اچھی طرح سے صاف کرو اور اس میں دو اور تین کو ایک ہی قبر میں دفن کر دو اور دفن میں اس کو مقدم کرو جو قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو اور میرے والد ماجد (جو کہ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے تھے ) وہ تیسرے تھے اور ان تمام میں وہ ہی جو قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتے تھے۔
تدفین کے بعد مردہ کو قبر سے باہر نکالنے سے متعلق
حارث بن مسکین، سفیان، عمرو، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچے جب کہ وہ قبر میں دفن کیا جا چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا وہ قبر سے نکالا گیا پھر اس کو اپنے گھٹنوں پر بٹھلایا اور اپنا (مبارک) تھوک ڈالا اور اپنا (مبارک) کرتہ اس کو پہنایا اور خداوند قدوس اچھی طرح واقف ہے کہ اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کیا مقصد تھا؟
٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، حسین بن واقد، عمرو بن دینار، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عبداللہ بن ابی کے واسطے اس کو قبر میں دفن کیے جانے کے بعد قبر سے نکلوایا اور پھر اس کا سر اپنے گھٹنوں پر رکھا اور اپنا تھوک اس پر ڈالا اور اس کو اپنا کرتہ پہنایا۔
٭٭ عباس بن عبدالعظیم، سعید بن عامر، شعبہ، ابن ابو نجیح، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد اور ایک اور آدمی قبر میں رکھے گئے میرا دل خوش نہ ہوا میں نے اس کو نکال کر اس کو علیحدہ دفن کیا
قبر پر نماز پڑھنے سے متعلق احادیث
عبید اللہ بن سعید، ابو قدامۃ، عبداللہ بن نمیر، عثمان بن حکیم، خارجۃ بن زید بن ثابت، یزید بن ثابت سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نکلے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک تازہ قبر دیکھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا تھے ؟ لوگوں نے عرض کیا یہ فلاں خاتون ہے فلاں لوگوں کی باندی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی شناخت فرمائی۔ دوپہر میں اس کی وفات ہو گئی اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ رکھ رکھا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو رہے تھے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیدار کرنا مناسب معلوم نہ ہوا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے صف باندھ لی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چار مرتبہ تکبیر فرمائی اور فرمایا کہ تم لوگوں سے جس وقت کوئی شخص وفات کرے تو مجھ کو اطلاع کرنا کیونکہ میری نماز اس کے واسطے رحمت ہے۔
٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، سلیمان شیبانی، شعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے اس شخص نے نقل کیا جو کہ ایک قبر پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امامت فرمائی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف باندھی۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے حضرت شعبی سے دریافت کیا کہ وہ کون آدمی تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم ، ہشیم، الشیبانی، شعبی اس حدیث کا ترجمہ سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ مغیرۃ بن عبدالرحمن، زید بن علی، ابو اسامۃ، جعفر بن برقان، حبیب بن ابو مرزرق، عطاء، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خاتون کی قبر پر اس کی تدفین کے بعد نماز (جنازہ) پڑھی۔
جنازہ سے فراغت کے بعد سوار ہونے سے متعلق
احمد بن سلیمان، ابو نعیم و یحیی بن آدم، مالک بن مغول، سماک، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن ابو دحداح کے جنازہ کے ساتھ نکلے جس وقت واپس آنے لگے تو ایک گھوڑا برہنہ پشت (بغیر زین) کا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہوئے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چل دیئے۔
قبر کو بلند کرنے سے متعلق
ہارون بن اسحاق ، حفص، ابن جریج، سلیمان بن موسیٰ و ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرمایا اور قبر میں زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس پر کانچ لگانے سے یا اس پر لکھنے سے منع فرمایا۔
قبر پر عمارت تعمیر کرنا
یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبر پر کانچ لگانے سے یا اس پر تعمیر بنانے سے یا اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
قبروں پر کانچ لگانے سے متعلق
عمران بن موسی، عبدالوارث، ایوب، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبروں پر کانچ لگانے سے منع فرمایا۔
اگر قبر اونچی ہو تو اس کو منہدم کر کے برابر کرنا کیسا ہے ؟
سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث، ثمامۃ بن شفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ روم میں حضرت فضالہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے وہاں پر ہمارے ایک ساتھی کی وفات ہو گئی حضرت فضالہ بن عبید نے حکم فرمایا ان کی قبر برابر کی گئی پھر بیان کیا کہ ہم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے قبروں کے برابر کرنے کا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، سفیان، حبیب، ابو وائل، ابو ہیاج سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا میں تم کو اس کام پر نہ روانہ کروں کہ جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو روانہ فرمایا تھا کہ کوئی بھی قبر اونچی نہ چھوڑوں لیکن اس کو برابر کر دوں۔ کوئی بھی تصویر کسی مکان میں نہ دیکھوں مگر اس کو روند ڈالوں اور مٹا دوں۔
زیارت قبور سے متعلق
محمد بن آدم، ابن فضیل، ابو سنان، محارب بن دثار، عبداللہ بن بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو منع کیا تھا قبروں کی زیارت کرنے سے لیکن اب تم لوگ زیارت قبور کر سکتے ہو اور میں نے تم کو منع کیا تھا قربانی کے گوشت کو تین روز سے زیادہ رکھنے سے اب جس جگہ تک دل چاہے رکھ لو اور میں نے تم لوگوں کو کھجور کے رکھنے سے منع کیا تھا کہ کسی برتن میں کھجور نہ بھگونا علاوہ مشک کے اب تم لوگ جس برتن میں دل چاہے اس کو بھگو دو اور تم لوگ پی لو لیکن نشہ لانے والی چیز نہ ہو۔
٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، ابو فروٰۃ، مغیرۃ بن سبیع، عبداللہ بن بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں تھے کہ جس میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے تم کو قربانی کا گوشت تین روز کے بعد کھانے سے منع کیا تھا اب تم لوگ کھاؤ اور کھلاؤ اور جس قدر دل چاہے تم اس کو جمع کر لو جس قدر تم کو مناسب معلوم ہو اور میں نے تم کو نبیذ بنانے سے منع کیا تھا چند برتنوں میں مرتبان اور کھجور کے تونبے میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا اور ہرے رنگ کے روغن والے برتن میں نبیذ بنانے سے منع کیا تھا اب تم لوگ جس برتن میں دل چاہے نبیذ بنا لو لیکن تم لوگ ہر ایک شئی سے بچو جو کہ نشہ لانے والی ہو اور میں نے تم کو منع کیا تھا زیارت قبور سے کہ جس کا دل چاہے قبروں کی زیارت کرے لیکن زبان سے بری بات نہ کہے۔
کافر اور مشرک کی قبر کی زیارت سے متعلق
قتیبہ، محمد بن عبید، یزید بن کیسان، ابو حازم، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگ گئے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے وہ بھی رونے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی والدہ کے واسطے دعا کرنے کی اجازت مانگی تو مجھ کو اس کی اجازت نہیں مل سکی (کیونکہ خداوند قدوس مشرک کی مغفرت نہیں فرمائے گا) پھر میں نے ان کی قبر پر حاضری کی دعا مانگی تو مجھ کو اس کی اجازت مل گئی تو تم لوگ بھی زیارت قبور کیا کرو۔ کیونکہ زیارت قبور موت کو یاد دلاتی ہے۔
اہل شرک کے لیے دعا مانگنے کی ممانعت سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، محمد و ابن ثور، معمر، زہری، سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ جس وقت (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا) ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے وہاں پر ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے میرے چچا! تم لَا اِلہِ اِلَّا اللہ کہو اس جملہ کی وجہ سے میں تمہارے واسطے بارگاہ خداوندی میں حجت کروں گا (سفارش کی کوشش کروں گا) اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابو طالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے نفرت کرتے ہو؟ پھر وہ دونوں ان سے گفتگو کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ابو طالب کی زبان سے آخری جملہ یہ نکلا کہ میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے واسطے اس وقت تک دعا مانگو گا کہ جب تک مجھ کو ممانعت نہ ہو گی اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی۔ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اور جو لوگ ایمان لائے ان کو مشرک کے واسطے دعا نہیں مانگنا چاہیے اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی تم جس کو چاہے راہ ہدایت پر نہیں لا سکتے لیکن خدا تعالیٰ ہی جس کو چاہے ہدایت پر لا سکتا ہے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، ابو اسحاق ، ابو خلیل، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک شخص کو سنا وہ آدمی دعا مانگا کرتا تھا اپنے والدین کیلئے جو مشرک تھے۔ اس نے کہا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے واسطے دعا مانگی ہے یعنی آذر کے واسطے حالانکہ وہ مشرک تھا۔ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کے واسطے جو دعا مانگی تھی وہ ایک وعدہ کی وجہ سے تھی جو کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا اس وجہ سے کہا تھا میں تمہارے واسطے دعا مانگوں گا جس وقت ان کا علم ہوا کہ وہ خدا کا دشمن تھا تو وہ اس سے بیزار اور علیحدہ ہو گئے۔
مسلمانوں کے واسطے دعا مانگنے کا حکم
یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، عبداللہ بن ابو ملیکۃ، محمد بن قیس بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سنا انہوں نے کہا کہ میں تم سے اپنا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت عرض کروں ہم نے کہا کہ جی ہاں ضرور بیان کرو۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ میری آپ کی باری والی رات میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تھے کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری کروٹ لی اور دونوں جوتے اپنے پاس رکھ لیے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی مبارک چادر کا بستر بچھایا پھر نہیں ٹھہرے لیکن اس قدر کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خیال ہوا کہ میں سو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خاموشی سے جوتے پہن لیے اور خاموشی سے چادر اٹھائی پھر خاموشی سے دروازہ کھولا اور خاموشی سے نکل گئے میں نے بھی یہ حالت دیکھ کر اپنے سر میں کرتہ ڈالا اور سر پر دوپٹہ ڈالا اور تہہ بند باندھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے پیچھے چلی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبرستان بقیع پہنچ گئے وہاں جا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ دونوں ہاتھ اٹھائے اور کافی دیر تک کھڑے رہے پھر واپس آئے میں بھی واپس آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی سے روانہ ہوئے میں بھی جلدی ہی چل پڑی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوڑ پڑے میں بھی دوڑی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور زیادہ زور سے دوڑے چنانچہ میں بھی زور سے دوڑی اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل گھر پہنچ گئی۔ لیکن میں لیٹی ہی رہی تھی کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اے عائشہ صدیقہ رضی اللہ تمہارا سانس پھول گیا ہے اور تمہارا پیٹ اوپر کی جانب اٹھ گیا ہے (جس طریقہ سے کہ کسی دوڑنے والے شخص کی حالت ہوتی ہے ) میں نے عرض کیا کہ کوئی بات نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم مجھ سے کہہ دو ورنہ جو ذات کے تمام باریک سے باریک بات کا علم رکھتا ہے (یعنی خداوند قدوس) مجھ سے کہہ دے گا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہو جائیں یہ سبب اور ذریعہ ہے اور میں نے تمام حال بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ کیا تو ہی تھی وہ سیاہی جو میں اپنے سامنے دیکھتا تھا۔ میں نے کہا کہ جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سینہ پر ایک گھونسہ مارا جس سے مجھ کو صدمہ ہوا۔ پھر فرمایا کہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم پر ظلم کرے گا یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دل میں یہ خیال کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خفیہ طریقہ سے کسی دوسری بیوی کے پاس جاتے ہیں اس وجہ سے میں ساتھ ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا بات پوشیدہ رکھیں گے خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتلایا ہے کہ میرے قلب میں یہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرائیل میرے پاس تشریف لائے جس وقت تم نے دیکھا لیکن اندر تشریف نہ لائے اس وجہ سے کہ تم کپڑے اتار چکی تھیں۔ انہوں نے مجھ کو تم سے خفیہ ہو کر مجھ کو آواز دی میں نے بھی ان کو جواب دیا۔ تم سے چھپا کر پھر میں یہ سمجھا کہ تم سو گئی اور مجھ کو تمہارا بیدار کرنا برا محسوس ہوا اور مجھ کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ تم تنہا پریشان نہ ہو۔ بہرحال حضرت جبرائیل نے مجھ کو قبر ستان بقیع میں جانے کا حکم دیا اور وہاں کے لوگوں کے واسطے دعا مانگنے کا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کس طریقہ سے کہوں (جس وقت) میں (قبرستان) بقیع جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم کہو السَّلَامُ عَلَی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ یَرْحَمُ اللَّہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّہُ بِکُمْ لَاحِقُونَ۔
٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، علقمہ بن ابو علقمہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رات کھڑے ہوئے اور کپڑے پہنے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے میں نے اپنی باندی بریدہ سے کہا کہ تم پیچھے پیچھے جا۔چنانچہ وہ چلی گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (قبرستان) بقیع میں پہنچے اور وہاں پر جس قدر خداوند قدوس کو منظور تھا کھڑے رہے پھر واپس آئے تو وہ باندی بریدہ آگے آئی اور مجھ سے نقل کیا کہ میں نے کچھ نہیں کہا جس وقت صبح کا وقت ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات کا تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں بقیع والوں کی جانب دعا کرنے کے واسطے بھیجا گیا تھا۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، شریک، ابن ابو نمیر، عطاء، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی باری جس وقت ان کے گھر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پچھلی رات کو (قبرستان) بقیع کی جانب نکلتے اور فرماتے سلام ہے اے گھر مسلمانوں کے اور ہم تم وعدہ دئیے گئے ہیں اور اگر خدا چاہے تو ہم تم سے ملاقات کرنے والے ہیں اے خدا بقیع غرقد والوں کی مغفرت فرما دے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، حرمی بن عمارۃ، شعبہ، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن بریٍدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت قبور پر تشریف لے جاتے تو فرماتے آخر تک۔ یعنی اے مومن تمہارے اوپر سلام ہے اور مسلمانوں تم پر سلام ہے مسلمانوں کے گھر والو تم پر سلام ہے اللہ چاہے تو ہم تم سے ملاقات کریں گے تم ہم سے آگے گئے ہو اور ہم تمہارے پیچھے ہیں۔ میں خداوند قدوس سے سلامتی چاہتا ہوں تم لوگوں کے واسطے اور اپنے واسطے۔
٭٭٭
نکاح سے متعلقہ احادیث
ماں اور بیٹی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے
قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، عراک بن مالک، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم درہ بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی؟ اگر میں حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا سے نکاح نہ کیا ہوتا تو جب بھی وہ میرے واسطے حلال نہیں تھیں کیونکہ ان کے والد میرے رضاعی بھائی ہیں۔
دو بہنوں کو ایک (شخص کے ) نکاح میں جمع کرنے سے متعلق
ہناد بن سری، عبدہ، ہشام، ابیہ، زینب بنت ابو سلمہ، حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بہن کی جانب رجحان فرما رہے ہیں ؟ (یعنی میری بہن کی طرف کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رغبت ہے ؟) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تو میں کیا کروں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ان سے نکاح کر لیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم اس بات پر خوشی سے راضی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس لیے کہ میں تنہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلیہ نہیں ہوں چنانچہ میری خواہش ہے کہ کسی دوسرے کے بجائے میری بہن میرے ساتھ بھلائی کے کام میں حصہ دار بن جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ میرے واسطے حلال اور جائز نہیں ہے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اس کی اطلاع ملی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم درہ بنت ام سلمہ کو نکاح کا رشتہ بھیجنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر اس نے میرے یہاں پرورش نہیں پائی ہوتی تو جب بھی وہ میرے واسطے حلال نہیں تھی کیونکہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی لڑکی ہے تم لوگ اپنی لڑکیاں اور بہنیں میرے نکاح کے واسطے نہ تجویز کیا کرو۔
پھوپھی اور بھتیجی کو ایک نکاح میں جمع کر نا
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ بھتیجی پھوپھی اور بھانجی خالہ کو ایک (شخص کے ) نکاح میں اکٹھا نہ کیا کرو۔
٭٭ محمد بن یعقوب بن عبدالوہاب بن یحیی بن عباد بن عبداللہ بن زبیر بن عوام، محمد بن فلیح، یونس، ابن شہاب، قبیصہ بن ذویب، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، ابن ابو مریم، یحیی بن ایوب، جعفر بن ربیعہ، عراک بن مالک و عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، عراک بن مالک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھوپھی کے نکاح میں رہتے ہوئے بھتیجی سے نکاح کو منع فرمایا اور خالہ کے نکاح میں رہتے ہوئے بھانجی سے نکاح کو منع فرمایا۔
٭٭ عمرو بن منصور، عبداللہ بن یوسف، لیث، ایوب بن موسی، بکیر بن عبداللہ بن الاشج، سلیمان بن یسار، عبدالملک بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا چار عورتوں کے نکاح میں جمع کرنے کو (ایک تو) بھتیجی کو پھوپھی کے ساتھ اور (دوسرے ) بھانجی کو خالہ کے ساتھ اور اس کا عکس (یعنی پھوپھی خالہ بھتیجی بھانجی کے ساتھ جمع کرنے کو)۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ابن عیینہ، عمرو بن دینار، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا چار عورتوں کے نکاح میں جمع کرنے کو (ایک تو) بھتیجی کو پھوپھی کے ساتھ اور (دوسرے ) بھانجی کو خالہ کے ساتھ اور اس کا عکس (یعنی پھوپھی خالہ بھتیجی بھانجی کے ساتھ جمع کر نے کو)۔
٭٭ یحیی بن درست، ابو اسمعیل، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا چار عورتوں کے نکاح میں جمع کرنے کو (ایک تو) بھتیجی کو پھوپھی کے ساتھ اور (دوسرے ) بھانجی کو خالہ کے ساتھ اور اس کا عکس (یعنی پھوپھی خالہ بھتیجی بھانجی کے ساتھ جمع کرنے کو)۔
بھانجی اور خالہ کو ایک وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے
عبید اللہ بن سعید، یحیی، ہشام، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا نہ تو بھتیجی سے پھوپھا کا نکاح کیا جائے اور نہ ہی بھانجی سے خالو پر نکاح کیا جائے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، معتمر، داؤد بن ابو ہند، شعبی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھوپھی کی موجودگی میں نے تو عورت (بیوی) کی بھتیجی سے نکاح کیا جائے اور نہ ہی خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کیا جائے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عاصم، شعبی، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھوپھی کی موجودگی میں نہ تو عورت (بیوی) کی بھتیجی سے نکاح کیا جائے اور نہ ہی خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کیا جائے۔
٭٭ محمد بن آدم، ابن مبارک، عاصم، شعبی، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھوپھی کی موجودگی میں نے تو عورت (بیوی) کی بھتیجی سے نکاح کیا جائے اور نہ ہی خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کیا جائے۔
محرم کو پچھنے لگانا
ابراہیم بن حسن، حجاج، ابن جریج، ابو زبیر،جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا نہ تو بھتیجی سے پھوپھا کا نکاح کیا جائے اور نہ ہی بھانجی سے خالو پر نکاح کیا جائے۔
دودھ کی وجہ سے کون کون سے رشتے حرام ہو جاتے ہیں
عبد اللہ بن سعید، یحیی، مالک، عبداللہ بن دینار، سلیمان بن یسار، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ولادت کی وجہ سے جو رشتے حرام ہوتے ہیں اس قدر رشتے دودھ پینے کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں یعنی رضاعت کا اور دودھ کا حکم ایک ہی ہے نکاح کے سلسلہ میں۔
٭٭ قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، عراک، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو اطلاع ملی کہ ان کے چچا جس کا نام افلح ہے ان کے پاس آنے کی اجازت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ دودھ کے رشتہ سے ان کے چچا تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان سے پردہ کر لیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کی اطلاع ملی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ان سے پردہ نہ کرو کیونکہ دودھ پینے کی وجہ سے بھی اس قدر لوگ محرم بن جاتے ہیں جتنے کہ نسب کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں۔
٭٭ محمد بن بشار، یحیی، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دودھ پلانے سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں کہ جتنے رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
٭٭ محمد بن عبید، علی بن ہاشم، عبداللہ بن ابو بکر، ابیہ، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دودھ پینے یا پلانے کی وجہ سے اس قدر رشتے حرام ہوتے ہیں کہ جس قدر رشتے ولادت کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، سعد بن عبیدہ، ابو عبدالرحمن، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا سبب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (قبیلہ بنو ہاشم کو چھوڑ کر) قریش کی ہی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہاری نگاہ میں کوئی ہے ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ! حضرت حمزہ کی لڑکی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وہ میرے واسطے حلال نہیں ہے اس لیے کہ وہ میرے دودھ شریک بھائی کی لڑکی ہے وہ میرے لیے حلال نہیں ہے۔
٭٭ ابراہیم بن محمد، یحیی ابن سعید، شعبہ، قتادہ، جابر بن زید، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی سے نکاح کرنے کیلئے کہا گیا تو فرمایا وہ میرے دودھ شریک بھائی کی لڑکی ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن صباح، عبد اللہ، محمد بن سواء، سعید، قتادہ، جابر بن زید، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت حمزہ کی لڑکی سے نکاح کرنے کے لیے کہا گیا تو فرمایا وہ میرے دودھ شریک بھائی کی لڑکی ہے اور یہ کہ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں
کتنا دودھ پی لینے سے حرمت ہوتی ہے ؟
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ خداوند قدوس کی جانب سے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی گئی تھی اور حارث نامی ایک شخص کی روایت میں ہے اس طرح سے آیت کریمہ نازل کی گئی یعنی دس قطرات معلوم اور ان کا حکم یہ ہے کہ حرام کرتے ہیں نکاح کو پھر پہلی آیت کریمہ اس آیت کریمہ سے منسوخ ہو گئی یعنی اس کے معنی ہیں پانچ قطرات معلوم۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی اور وہ آیت قرآن کریم میں تلاوت کی جاتی رہی۔
٭٭ عبد اللہ بن صباح بن عبد اللہ، محمد بن سواء، سعید، قتادہ و ایوب ، صالح ابو خلیل، عبداللہ بن حارث بن نوفل، ام فضل، حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دودھ کے رشتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دودھ ایک یا دو مرتبہ پستان (منہ میں ) لے لینے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ حدیث میں لفظ املجہ کے بجائے لفظ مصہ منقول ہے۔
٭٭ شعیب بن یوسف، یحیی، ہشام، ابیہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ زیاد بن ایوب، ابن علیہ، ایوب، ابن ابو ملیکہ، عبداللہ بن زبیر، عائشہ رضی اللہ عنہا اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، ابن زریع، سعید، قتادہ، ابراہیم بن یزید، حضرت شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ دودھ چاہے کم پیا ہو یا زیادہ اس سے نکاح حرام ہو جاتا ہے۔ نیز حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایک یا دو گھونٹ نکاح کو حرام نہیں کرتے۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، اشعث بن ابو شعثاء، ابیہ، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف لائے تو میرے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بات ناگوار محسوس ہوئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چہرہ انور پر غصہ اور ناراضگی کے آثار دیکھے تو عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! یہ شخص میرا دودھ شریک بھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون کون ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ مزید یہ جملے ارشاد فرمائے کہ تمہاری بہن کون کون سی ہیں کیونکہ دودھ کے رشتہ کا اعتبار اس صورت میں ہے کہ اس سے بھوک ختم ہو جائے۔
عورت کے دودھ پلانے سے مرد سے بھی رشتہ قائم ہو جاتا ہے
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، عبداللہ بن بکر، عمرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے پاس تشریف فرما تھے کہ میں نے ایک آدمی کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان میں داخلہ کی اجازت حاصل کرتے ہوئے سنا۔ تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مکان میں داخلہ کی منظوری مانگ رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میری رائے میں وہ شخص حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا چچا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اگر فلاں آدمی زندہ ہوتا تو وہ میرا دودھ شریک چچا ہوتا اور وہ میرے گھر آیا کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دودھ کے رشتہ کی وجہ سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو کہ ولادت کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔
کنواری سے اس کے نکاح کی اجازت لینا
محمود بن غیلان، ابو داؤد ، شعبہ، مالک بن انس، نافع، عبداللہ بن فضل، نافع بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بیوہ خاتون اپنے نفس کی اپنے ولی کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہے۔ اور کنواری لڑکی سے اجازت حاصل کر کے اس کا نکاح کیا جائے نیز اس کی خاموشی اس کی اجازت پر دلالت کرتی ہے۔
٭٭ احمد بن سعید، یعقوب، ابیہ، ابن اسحاق، صالح بن کیسان، عبداللہ بن فضل بن عباس بن ربیعہ، نافع بن جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کا ترجمہ سابق جیسا ہے۔
٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، صالح بن کیسان، نافع بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو خاتون کنواری نہ ہو تو ولی کا اس پر (زبردستی کرنے کا) کسی قسم کا کوئی حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی سے اجازت حاصل کرے کے اس کا نکاح کرنا چاہیے نیز اس کی خاموشی اس کا اقرار ہے۔
والد کا لڑکی سے اس کے نکاح سے متعلق رائے لینا
محمد بن منصور، سفیان، زیاد بن سعد، عبداللہ بن فضل، نافع بن جبیر، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو خاتون کنواری نہ ہو وہ اپنے نفس کی ولی سے زیادہ حقدار ہے (یعنی مستحق) ہے جب کہ کنواری سے اس کا والد اجازت حاصل کرے اور اس کی اجازت اور منظوری اس کا (اجازت لیتے وقت) خاموش رہنا ہے۔
غیر کنواری عورت سے اس کے نکاح سے متعلق اجازت حاصل کرنا
یحیی بن درست، ابو اسماعیل، یحیی، اباسلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ثیبہ (یعنی جس کا پہلے نکاح ہو کر شوہر سے خلوت ہو گئی ہو) اس کی منظوری اور اجازت کے بغیر نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی کسی کنواری لڑکی سے اجازت کے بغیر نکاح کیا جائے۔ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کنواری لڑکی سے کس طریقہ سے اجازت حاصل کرنا چاہیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کی اجازت اور منظوری اس کا خاموش رہنا ہے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، یحیی بن سعید، ابن جریج، ابن ابو ملیکہ، ذکوان ابی عمرو، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کنواری لڑکیوں سے ان کے متعلق فیصلہ کرنے کے وقت ان کی اجازت حاصل کرنا چاہیے۔
٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ثیبہ (غیر کنواری) سے اس کی منظوری اور رضامندی کے بغیر نکاح نہ کیا جائے حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی اجازت کس طریقہ سے حاصل ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ کہ وہ عورت (اجازت لینے کے وقت) خاموش رہے۔
اگر والد اپنی ثیبہ لڑکی کا اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر دے تو کیا حکم ہے ؟
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، عبدالرحمن بن قاسم، محمد بن سلمہ، عبدالرحمن بن قاسم، ابیہ، عبدالرحمن و مجمع، یزید ابن جاریہ، حضرت خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ ان کے والد نے ان کا نکاح کر دیا جب کہ وہ ثیبہ تھیں اور اس پر راضی نہیں تھیں چنانچہ وہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نکاح ختم کر دیا رد کر دیا۔
اگر والد اپنی کنواری لڑکی کا نکاح اس کے منظوری کے بغیر کر دے
زیاد بن ایوب، علی بن غراب، کہمس بن حسن، عبداللہ بن بریدہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دن ایک جوان لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھائی کے لڑکے سے اس وجہ سے کر دیا ہے کہ میری وجہ سے (یعنی مجھ سے شادی کرنے کی وجہ سے ) اس کی رزالت ختم ہو جائے گی اور وہ بھی لوگوں کی نظر میں ایک با عزت شخص بن جائے جب کہ میں اس کو ناپسند کرتی ہوں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم بیٹھ جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار کرو۔ چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو اس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے والد کو طلب فرمایا اور اس کی لڑکی کو اختیار عطا فرما دیا اس پر لڑکی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد صاحب نے جو کچھ کیا وہ مجھ کو منظور ہے لیکن میں اس سے واقف ہونا چاہتی ہوں کیا خواتین کو بھی اس معاملہ میں کسی قسم کا کوئی حق ہے یا نہیں ؟
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کنواری لڑکی سے اس کے نفس کے بارے میں اجازت اور رضامندی حاصل کرنا چاہیے اگر وہ خاموش رہے تو یہ اس کی اجازت ہے اور اگر انکار کر دے تو اس پر کسی قسم کی زبردستی نہیں ہے۔
احرام کی حالت میں نکاح کی اجازت
عمرو بن علی، محمد بن سواء، سعید، قتادہ و یعلی بن حکیم، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے بحالت احرام نکاح کیا دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ نکاح سرف(نامی جگہ) میں ہوا۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، عمرو، ابی شعثاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت حالت احرام میں تھے۔
٭٭ عثمان بن عبد اللہ، ابراہیم بن حجاج، وہیب، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح فرمایا انہوں نے اپنے بارے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اختیار عنایت کیا تھا۔
٭٭ احمد بن نصر، عبید اللہ، ابن جریج، عطاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں تھے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا محرم نہ تو خود نکاح کرے نہ دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے۔
٭٭ ابوالاشعث، یزید، سعید، مطر و یعلی بن حکیم، نبیہ بن وہب، ابان بن عثمان، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا محرم نہ تو خود نکاح کرے نہ دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے۔
بوقت نکاح کونسی دعا پڑھنا مستحب ہے
قتیبہ، عبثر، الاعمش، ابو اسحاق، ابو الاحوص، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ضرورت کے موقعہ پر تشھد پڑھنے کی تعلیم دی۔ ترجمہ تمام قسم کی تعریفیں خداوند قدوس کے واسطے ہیں ہم اپنے نفسوں کے شر سے اس کی مدد پناہ طلب کرتے ہیں جس کو خداوند قدوس ہدایت فرما دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جس کو گمراہ کر دے کوئی اس کو ہدایت نہیں دے سکتا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ خداوند قدوس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں۔
٭٭ عمرو بن منصور، محمد بن عیسی، یحیی بن زکریا بن ابو زائداہ، داؤد ، عمرو بن سعید، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آخر تک۔
خطبہ میں کیا پڑھنا مکروہ ہے
اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، عبدالعزیز، ثمیم بن طریہ، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو اشخاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے خطبہ پڑھا۔ ایک شخص نے سے لے کر تک کہا۔ یعنی جس نے اللہ اور اس کے رسول کی فرما برداری کی وہ شخص ہدایت یافتہ ہو گیا اور جس نے ان کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہو گیا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کتنے برے خطیب ہو۔
وہ کلام جس سے نکاح درست ہو جاتا ہے
محمد بن منصور، سفیان، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک خاتون کھڑی ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے خود کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سپرد کر دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے بارے میں جو مناسب خیال فرمائیں وہ کر لیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش رہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاتون دوبارہ کھڑی ہو گئی اور اس نے وہی بات عرض کی یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا اس سے نکاح کرا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے ؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر تم جاؤ اور جستجو کرو چاہے وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو (یعنی مہر کے لیے کچھ نہ کچھ ہونا چاہیے ) چنانچہ وہ شخص رخصت ہو گیا اور اس نے تلاش کیا پھر وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا کہ مجھ کو کوئی چیز نہیں مل سکی یہاں تک کہ مجھ کو کوئی چیز (یعنی معمولی سے معمولی چیز بھی) حاصل نہ ہو سکی اور یہاں تک کہ لوہے کی انگوٹھی تک میسر نہیں آ سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم کو قرآن کریم میں سے کچھ یاد ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ مجھ کو قرآن کریم کی فلاں فلاں سورت یاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی قرآن کریم کی تعلیم کے بدلہ (وہ خاتون) تمہارے نکاح میں دے دی۔ جو تم کو یاد ہے (یعنی جس قدر قرآن کریم تم کو یاد ہے میں نے اس کے عوض تمہارا نکاح کر دیا)
نکاح درست ہونے کے لیے شرط
عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو الخیر، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شرائط میں سب سے زیادہ پورا کرنے کے لائق دو شرائط ہیں جن کے ذریعہ تم لوگ شرم گاہوں کو حلال کرتے ہو۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن تمیم، حجاج، ابن جریج، سعید بن ابو ایوب، یزید بن ابو حبیب، ابو الخیر، حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شرائط میں سب سے زیادہ پورا کرنے کے لائق دو شرائط ہیں جن کے ذریعہ تم لوگ شرم گاہوں کو حلال کرتے ہو۔
اس نکاح سے متعلق کہ جس سے تین طلاق دی ہوئی عورت دینے والے شخص کے واسطے حلال ہو جاتی ہے
اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ قرظی کی اہلیہ ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے عرض کیا کہ (میرے شوہر) حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو تین طلاقیں دے دی تھیں جس کے بعد میں نے حضرت عبدالرحمن بن زبیر رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس کپڑے کے پھندہ کی طرح ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں عورت کا حق ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے اور وہ عورت کے قابل نہیں ہیں ) یہ سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہنسی آ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا خیال ہے کہ تم چاہتی ہو کہ تم حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کے پاس پھر چلی جاؤ لیکن نہیں اس کے واسطے لازم ہے کہ تم اس کا اور وہ تمہارا مزا چکھ لے۔
جس کسی نے دوسرے کے پاس پرورش حاصل کی تو وہ اس پر حرام ہے
عمران بن بکار، ابو الیمان، شعیب، زہری، عروہ، حضرت زینب بنت ابی سلمہ، حضرت ام سلمہ، ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا سے نقل فرماتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری بہن سے نکاح کر لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا تم اس طرح سے چاہتی ہو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں ! کیونکہ میں تنہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہلیہ نہیں ہوں جو اس طرح سے خواہش نہ کروں اور پھر اگر میری بہن میرے ساتھ کسی بھلائی میں شرکت کر لے تو یہ کسی دوسرے کی شرکت سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری بہن میرے واسطے حلال نہیں ہے اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! خدا کی قسم ہم نے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم درہ بنت ابی سلمہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر انہوں نے میرے پاس پرورش نہ پائی ہوتی تو جب بھی وہ میرے واسطے حلال اور جائز نہیں تھیں کیونکہ وہ میری دودھ شریک بھتیجی ہے۔ یعنی میں نے اور ابو سلمہ نے ثوبیہ کا دودھ پیا ہے اس وجہ سے تم لوگ آئندہ اپنی بہن بیٹیاں میرے نکاح کے لیے پیش نہ کرنا۔
ماں اور بیٹی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنا حرام ہے
وہب بن بیان، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، حضرت زینب بنت ابی سلمہ اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما سے نقل ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے والد کی لڑکی کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے نکاح میں کر لیں (یعنی ان کی بہن کو)۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم اس کو پسند کرتی ہو (کہ میں اس سے نکاح کروں ؟) انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس لیے کہ میں تنہا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی نہیں ہوں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دوسری بیویاں ہیں ) چنانچہ میری خواہش ہے کہ میرے ساتھ خیر میں کسی دوسرے کے بجائے میری بہن شریک ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے واسطے اس طرح کرنا حلال نہیں ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جی ہاں خدا کی قسم ہم نے تو یہ سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم درہ بنت ابی سلمہ سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا ام سلمہ کی لڑکی۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اول تو اس نے میرے پاس پرورش پائی ہے اور خدا کی قسم اگر وہ پرورش کی ہوئی نہ ہوتی تو جب بھی میرے واسطے حلال نہیں تھی۔ اس لیے کہ ان کے والد حضرت ابو سلمہ اور میں نے حضرت ثوبیہ کا دودھ پیا ہے یعنی کہ ہم دونوں دودھ شریک بھائی ہیں۔ تم لوگ اپنی لڑکیوں اور بہنوں کو میرے نکاح کے واسطے پیش نہ کرو (آئندہ اس کا خیال رکھنا)۔
٭٭٭
امامت کے متعلق احادیث
امامت صاحب علم و فضل کو کرنا چاہئے
اسحاق بن ابراہیم وہناد بن سری، حسین بن علی، زائٍدۃ، عاصم، زر، عبداللہ سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی تو قبیلہ انصار کے حضرات نے فرمایا کہ ہم لوگوں میں سے ایک امیر ہونا چاہیے اور ایک امیر تم لوگوں (مہاجرین) میں سے ہونا چاہیے الگ امیر ہونا چاہیے تو حضرت عمر ان کے پاس آئے اور فرمایا کیا تم لوگ اس بات سے واقف نہیں ہو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر صدیق کو حکم فرمایا تھا نماز کی امامت کا اس کے بعد تم لوگوں میں سے کس شخص کا دل خوش ہو گا؟ ابو بکر کی امامت پر تو حضرات انصار نے جواب دیا کہ ہم لوگ ابو بکر کے آگے بڑھ جانے (امامت سے ) خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔
ظالم حکمرانوں کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
زیاد بن ایوب، اسماعیل بن علیٰۃ، ایوب، ابو العالیٰۃ سے کہ جن کا نام حضرت براء ہے روایت ہے کہ حضرت زیاد نے (جو کے حاکم تھے ) ایک دن انہوں نے نماز میں تاخیر فرما دی تو حضرت ابن صامت میرے پاس تشریف لائے میں نے ان کو کرسی دے دی وہ اس پر بیٹھ گئے پھر میں نے ان سے زیادہ کی حالت عرض کی (یعنی وہ نماز میں تاخیر فرماتے ہیں ) تو انہوں نے دانت کے نیچے انگلی رکھ لی اور میری ران پر ہاتھ مارا اور بیان کیا کہ میں نے حضرت ابو ذر سے یہی بات دریافت کی تھی جس طریقہ سے کہ تم نے مجھ سے دریافت کی۔ انہوں نے میری ران پر ہاتھ مارا اور بیان کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس مسئلہ کو دریافت کیا تھا کہ جس طریقہ سے کہ تم نے مجھ سے دریافت کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری ران پر ہاتھ مارا کہ جس طریقہ سے کہ میں نے تمہاری ران پر ہاتھ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی نماز وقت پر ادا کیا کرو یعنی اول وقت پر۔ پھر اگر ان کے ساتھ ہو اور نماز کھڑی ہو تو پھر تم پڑھ لو وہ نماز نفل بن جائی گی اور تم یہ بات نہ کہو کہ میں نماز سے فارغ ہو گیا میں نماز نہیں پڑھوں گا (کیونکہ کہ وہ ظالم حکمران تم کو سخت تکلیف میں مبتلا کر دیں گے )۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، ابو بکر بن عیاش، عاصم، زر، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تم لوگ اس قسم کے لوگوں کو پاؤ گے جو کہ نماز کو اس کے وقت پر نہیں ادا کریں گے پھر اگر تم اس قسم کے لوگوں کو پاؤ تو تم نماز اپنے وقت پر ادا کرو اور ان کے ساتھ نماز ادا کرو نوافل کی نیت کر کے۔
امامت کا زیادہ حق دار کون؟
قتیبہ، فضیل بن عیاض، اعمش، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، ابو مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو کہ سب سے زیادہ عمدہ طریقہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو۔ اگر وہ شخص قرآن کریم کی تلاوت میں برابر ہو تو جس شخص نے پہلے ہجرت کی تو وہ شخص امامت کرے اگر (اتفاق) سے ہجرت میں تمام کے تمام حضرات برابر ہوں تو جو شخص سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ واقف ہو تو اس شخص کو امامت کرنا چاہیے اگر اس میں بھی تمام کے تمام افراد برابر ہوئے تو جس شخص کی عمر دوسرے سے زیادہ ہو تو اس شخص کو امامت کرنا چاہیے اور دوسرے کسی شخص کو نہیں کرنا چاہیے کہ وہ شخص دوسرے شخص کی امامت کی جگہ میں پہنچ کر امامت کا فریضہ انجام دے یا اس کے عہدہ کی جگہ جا کر بیٹھے لیکن اس کی اجازت (رضامندی) سے۔
جو شخص زیادہ عمر رسیدہ ہو تو اس کو امامت کرنا چاہئے
حاجب بن سلیمان منبجی، وکیع، سفیان، خالد، ابو قلابۃ، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک روز حاضر ہوا اور میرے ہمراہ میرا چچا زاد بھائی تھا اور کبھی اس طریقہ سے نقل کیا کہ میرا ایک ساتھی تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم سفر میں نکلو تو تم لوگ اذان اور تکبیر پڑھو اور امامت تم دونوں میں سے وہ شخص کرے جو عمر میں زیادہ ہو۔
جس وقت کچھ لوگ اکھٹے ہوں تو کس شخص کو امامت کرنا چاہئے ؟
عبید اللہ بن سعید، یحیی، ہشام، قتادہ، ابو نضرۃ، ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تین شخص ایک جگہ جمع ہوں تو ان میں سے ایک شخص کو امام بن جانا چاہیے اور سب سے زیادہ حقدار امامت کرنے کا وہ شخص ہے جو کہ قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو یا عمدہ آواز سے تلاوت قرآن کرتا ہو۔
جس وقت آدمی اکٹھے ہوں اور ان میں وہ شخص بھی شامل ہو جو کہ تمام کا حکمران ہو
ابراہیم بن محمد تیمی، یحیی بن سعید، شعبہ، اسماعیل بن رجاء، اوس بن ضمعج، ابو مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کے اقتداء میں امامت نہ کرے اور نہ بیٹھو اس کی عزت کی جگہ پر لیکن اس کی رضا مندی سے۔
جس وقت رعایا میں سے کوئی شخص امامت کرتا ہو اسی دوران حاکم وقت آ جائے تو وہ امام پیچھے چلا جائے
قتیبہ، یعقوب، ابن عبدالرحمن، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات کا علم ہوا کہ قبیلہ عمرو بن عوف کی باہمی جنگ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان میں مصالحت کرانے کے واسطے تشریف لے گئے اور چند حضرات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ وہاں پر روک لئے گئے (تاخیر ہو گئی) اور نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو حضرت بلال حضرت ابو بکر کے پاس پہنچے اور فرمایا اے ابو بکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تاخیر ہو گئی ہے اور نماز کا وقت ہو گیا ہے تم نماز کی امامت کر سکتے ہو۔ حضرت ابو بکر نے فرمایا جی ہاں اگر تم چاہو۔ بلال نے تکبیر پڑھی اور حضرت ابو بکر آگے بڑھے لوگوں نے تکبیر پڑھی اس دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے صفوں کے اندر کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارادہ فرمایا کہ نماز میں شرکت فرما لیں اس دوران لوگوں نے دستک دینا شروع کر دیا لیکن ابو بکر بحالت نماز کسی کی جانب خیال نہیں فرماتے تھے پس جس وقت لوگوں نے بہت زیادہ دستک دیں تو انہوں نے دیکھا تو ان کو علم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لا رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی جانب اشارہ فرمایا کہ نماز کی امامت فرمائیں اس وقت ابو بکر نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور خداوند قدوس کا شکر ادا کیا اس پر کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو امام کے قابل خیال فرمایا تو وہ پیچھے چلے آئے یہاں تک کہ صف میں شرکت فرما لی اور حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھ گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی امامت کرائی اور جس وقت نماز سے فراغت فرمائی تو لوگوں کی جانب خطاب فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! تم لوگوں کی یہ حالت ہے جس وقت تم لوگوں کو کسی قسم کا کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے بحالت نماز تو تم لوگ دستک دینے لگ جاتے ہو دراصل دستک دینا تو خواتین کے واسطے ہے اب جس وقت کوئی شخص کی آواز سنے گا تو وہ اس جانب خیال کرے گا پھر حضرت ابو بکر صدیق نے ارشاد فرمایا کہ تم نے کس وجہ سے نماز نہیں ادا کی میں نے جس وقت تمہاری جانب اشارہ کیا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ ابو قحافہ کے صاحبزادے کے شایان شان نہیں تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موجودگی میں امامت کریں۔
اگر امام اپنی رعایا میں سے کسی کی اقتداء میں نماز ادا کرے ؟
علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کہ ہمراہ آخری نماز ایک کپڑے میں لپٹ کر حضرت ابو بکر صدیق کی اقتداء میں ادا فرمائی۔
٭٭ محمد بن مثنی، بکر بن عیسیٰ صاحب بصری، شعبہ، نعیم بن ابو ہند، ابو وائل، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق نے نماز کی امامت فرمائی اور حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صف میں تھے۔
جو شخص کسی قوم سے ملنے جائے تو ان کی اجازت کے بغیر ان کو امامت نہ کرے
سوید بن نضر، عبد اللہ، ابان بن یزید، بذیل بن میسرۃ، ابو عطیٰۃ، مالک بن الحویرث سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص کسی قوم سے ملاقات کے واسطے جائے تو (ان کی اجازت کے بغیر) نماز نہ پڑھے۔
نا بینا شخص کی امامت
ہارون بن عبد اللہ، معن، مالک، حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ حضرت عتبان بن مالک اپنی قوم کی امامت فرمایا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی کبھی اندھیرا چھا جاتا ہے اور بارش ہوتی ہے اور نالے بھی چلتے ہیں۔ میں ایک نابینا شخص ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے مکان میں کسی جگہ نماز پڑھ لیں میں اسی جگہ نماز ادا کر لیا کروں گا۔ یہ بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکان کے اندر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ کس جگہ کے بارے میں خواہش کرتے ہو کہ میں اس جگہ پر نماز ادا کروں ؟ انہوں نے مکان کے اندر ایک جگہ کی نشاندہی فرمائی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ پر نماز ادا فرمائی۔
نا بالغ لڑکا امامت کر سکتا ہے یا نہیں ؟
موسی بن عبدالرحمن مسروقی، حسین بن علی، زائٍدۃ، سفیان، ایوب عمرو بن سلمہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کے پاس سواری کرنے والے لوگ گزرا کرتے تھے ہم لوگ ان لوگوں سے قرآن کریم کی تلاوت حاصل کیا کرتے تھے تو میرے والد ماجد خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں کی وہ شخص امامت کرے جو کہ قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو۔ جس وقت میرے والد واپس آئے تو انہوں نے یہ بیان فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ شخص امامت کرے جو قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو پھر لوگوں نے دیکھا تو سب سے زیادہ مجھ کو قرآن کریم یاد نکلا۔ میں ان حضرات کی امامت کرتا رہا اس وقت میری عمر ساٹھ سال کی تھی۔
جس وقت امام نماز پڑھانے کے واسطے باہر کی جانب نکلے تو اس وقت لوگ کھڑے ہوں
علی بن حجر، ہیثم، ہشام بن ابو عبداللہ و حجاج بن ابو عثمان، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت نماز کی تکبیر شروع ہو تو تم لوگ اس وقت تک نہ کھڑے ہوں کہ جس وقت تک تم لوگ مجھ کو نہ دیکھ لو۔
اگر تکبیر پوری ہونے کے بعد امام کو کوئی کام پیش آ جائے ؟
زیاد بن ایوب، اسماعیل، عبدالعزیز، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے نماز کے واسطے تکبیر پڑھی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص سے کان میں گفتگو فرما رہے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنے کے واسطے کھڑے نہیں ہوئے حتی کہ بعض حضرات کو نیند آ گئی۔
جس وقت امام نماز کی امامت کیلئے اپنی جگہ کھڑا ہو جائے پھر اس کو علم ہو کہ اس کا وضو نہیں ہے
عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر، محمد بن حرب، زبیدی، زہری و الولید، اوزاعی، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نماز کی تکبیر ہوئی لوگوں نے صفیں بنائیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی جگہ کھڑے ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد آیا کہ میں نے غسل نہیں کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ اسی جگہ ٹھہر جا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مکان میں تشریف لے گئے اور باہر نکل آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل فرمایا جس وقت ہم لوگ صفیں بنا کر کھڑے ہوئے تھے۔
جس وقت امام کسی جگہ جانے لگے تو کسی کو خلیفہ مقرر کر جانا چاہئے
احمد بن عبٍدۃ، حماد بن زید، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو عمرو بن عوف میں جنگ ہو گئی یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچ گئی آپ نماز ظہر ادا فرما کر ان لوگوں کے پاس تشریف لے گئے اور بلال سے فرمایا اے بلال! جس وقت نماز عصر کا وقت شروع ہو اور میں وہاں پر نہ پہنچوں تو تم ابو بکر سے عرض کرنا کہ وہ نماز کی امامت فرمائیں پس جس وقت نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ بلال نے اذان دی پھر تکبیر پڑھی اور حضرت ابو بکر سے کہا کہ تم نماز کی امامت کے واسطے آگے بڑھو چنانچہ ابو بکر آگے کی طرف بڑھ گئے اور نماز کا آغاز فرما دیا جس وقت نماز کی ابتداء فرما چکے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور لوگوں سے آگے بڑھ کر ابو بکر کی اقتداء میں نماز کی نیت باندھ لی تو لوگوں نے دستک دینا شروع کر دی حضرت ابو بکر کا یہ اصول تھا کہ جس وقت وہ نماز کی حالت میں ہوتے تھے تو وہ کسی کی جانب توجہ نہیں فرماتے تھے مگر جس وقت انہوں نے دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ رہو اور نماز کی امامت کرو تو حضرت ابو بکر نے خداوند قدوس کا شکر ادا کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہ فرمانے پر کہ تم نماز پڑھا پھر فوراً وہ پیچھے آ گئے۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے بڑھ گئے اور نماز کی امامت فرمائی اس کے بعد نماز سے فراغت کے بعد فرمایا اے ابو بکر جس وقت میں نے تمہاری جانب اشارہ کیا تھا تو تم اپنی جگہ پر نماز کس وجہ سے نہیں پڑھاتے رہے۔ ابو بکر نے فرمایا ابو قحافہ کے لڑکے کی (یعنی میری) یہ مجال ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امامت کرے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں کو نماز کی حالت میں کسی قسم کا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو مردوں کو چاہیے کہ کہہ لیا کریں اور خواتین کو چاہیے کہ وہ دستک دیا کریں۔
امام کی اتباع کا حکم
ہناد بن سری، ابن عیینہ، زہری، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں کروٹ پر ایک مرتبہ گھوڑے سے گر گئے تو صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے اور نماز کا وقت ہو گیا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز سے فراغت فرما لی تو ارشاد فرمایا امام اسی واسطے ہوتا ہے کہ اس کی تابعداری کی جائے اور جس وقت وہ رکوع کرے تو تم لوگ بھی رکوع کرو اور جس وقت وہ سجدہ میں جائے تو تم بھی سجدہ میں جاؤ اور جس وقت وہ سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ پڑھو۔
اس شخص کی پیروی کرنا جو امام کی اتباع کر رہا ہو
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، جعفر بن حیان، ابو نضرۃ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام کی جانب دیکھا کہ وہ حضرات نماز میں پیچھے کی طرف کھڑے ہوتے ہیں (پہلی صف میں نہیں کھڑے ہوتے )۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ آگے کی طرف بڑھو اور میری فرمانبرداری کرو اور تمہارے بعد جو حضرات ہیں وہ تمہاری اتباع کریں اور بعض لوگ اس قسم کے ہیں جو کہ نماز میں تم لوگوں سے پیچھے رہا کریں گے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی ان کو پیچھے ڈال دے گا۔
٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ جریری، ابو نضرہ سے بھی حدیث سابق کی مثل روایت منقول ہے
٭٭ محمود بن غیلان، ابو داؤد، شعبہ، موسیٰ بن ابو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر صدیق کو نماز کی امامت فرمانے کا حکم فرمایا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز امامت فرما رہے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور تمام حضرات حضرت ابو بکر صدیق کی اقتداء میں نماز ادا فرما رہے تھے۔
٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، یحیی یعنی ابن یحیی، حمید بن عبدالرحمن بن حمیدرواسی، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر کی امامت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے حضرت ابو بکر صدیق تھے جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر پڑھتے ہم لوگوں کو سنانے کے واسطے (تو ہم لوگ حضرت ابو بکر کی اتباع کرتے ) اور حضرت ابو بکر صدیق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع کرتے۔
جس وقت تین آدمی موجود ہوں تو مقتدی اور امام کس طرف کھڑے ہوں ؟
محمد بن عبیدالکوفی، محمد بن فضیل، ہارون بن عنترۃ، عبدالرحمن بن اسود، اسود، علقمہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ دور نزدیک ہے جس وقت مالدار لوگ نماز کے وقت دوسرے کاموں میں مشغول رہیں گے تو تم لوگ اپنے وقت پر نماز ادا کرنا پھر حضرت عبداللہ بن مسعود کھڑے ہو گئے اور حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے درمیان میں کھڑے ہو کر نماز ادا فرمائی اس کے بعد فرمایا میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے عمل فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔
٭٭ عبٍدۃ بن عبد اللہ، زید بن حباب، افلح بن سعید، بریٍدۃ بن سفیان بن فروٰۃ اسلمی، غلام، مسعود سے روایت ہے کہ میرے سامنے سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ گزرے۔ ابو بکر نے مجھ سے فرمایا تم اپنے آقا ابو تمیم کی خدمت میں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ ہم کو ایک اونٹ سواری کے واسطے دے دو سامان سفر بھی دے دو اور راستہ کی رہبری کرنے کے واسطے ایک شخص بھی دے دو جو کہ ہم کو مدینہ منورہ کا راستہ بتلا دے چنانچہ میں اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے کہا انہوں نے میرے ساتھ ایک اونٹ اور دودھ کی ایک مشک بھیجی پھر میں ان کو لے کر خفیہ راستوں سے روانہ ہو گیا (تا کہ مشرکین کو میری سرگرمی کا علم نہ ہو سکے ) اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دائیں جانب کھڑے ہوئے اور اس زمانہ میں میں مذہب اسلام سے واقف ہو گیا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اس وجہ سے بھی حاضر ہوا اور دونوں کے درمیان میں کھڑا ہو گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سینہ پر ہاتھ مارا اور وہ پیچھے چلے اور اس کے بعد ہم دونوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔
اگر تین اشخاص اور ایک عورت ہو تو کس طرح کھڑے ہوں ؟
قتیبہ بن سعید، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ان کی دادی محترمہ حضرت ملیکہ نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھانا تناول فرمانے کے واسطے دعوت دی جو کھانا انہوں نے تیار فرمایا تھا وہ کھانا کھانے کے واسطے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بلایا۔ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھانا تناول فرمایا پھر فرمایا تم کھڑے ہو جاؤ میں تم کو نماز پڑھاؤں۔ حضرت انس نے فرمایا کہ میں اٹھا اور ایک بوریا جو کہ زمین پر بچھاتے بچھاتے سیاہ ہو چکا تھا اس کو میں نے پانی سے دھویا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور میں اور ایک یتیم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے اور وہ بوڑھی خاتون بھی پیچھے تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت ادا فرمائی اور سلام پھیرا۔
جس وقت دو مرد اور دو خواتین ہوں تو کس طریقہ سے صف بنائی جائے ؟
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، سلیمان بن مغیرۃ، ثابت، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز ہمارے مکان پر تشریف لائے تو اس وقت کوئی شخص وہاں موجود نہ تھا لیکن میں اور میری والدہ ایک یتیم لڑکا اور ام حرام میری خالہ موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کھڑے ہو جاؤ میں تمہارے ساتھ نماز ادا کروں گا۔ اس وقت نماز کا وقت نہ تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی (تبرک کے واسطے )۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عبداللہ بن مختار، موسیٰ بن انس، انس سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم موجود تھے اور ان کی والدہ محترمہ اور خالہ صاحبہ موجود تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت انس کو دائیں جانب کھڑا کیا اور والدہ صاحبہ اور خالہ کو اپنے پیچھے کھڑا کیا۔
جس وقت ایک لڑکا اور ایک خاتون موجود ہو تو امام کو کس جگہ کھڑا ہونا چاہئے ؟
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، زیاد، قزعۃ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے ایک روز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر میں نماز ادا کی اور حضرت عائشہ صدیقہ ہمارے پیچھے کھڑی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر میں تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کرتا جاتا تھا۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، عبداللہ بن مختار، موسیٰ بن انس، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے ساتھ نماز ادا فرمائی اور ہمارے مکان کی ایک خاتون بھی موجود تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھاتے وقت مجھ کو دائیں جانب کھڑا فرمایا اور خاتون کو اپنے پیچھے کی جانب کھڑا فرمایا۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، ایوب، عبداللہ بن سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں رات میں حضرت میمونہ کے گھر پر رہا جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زوجہ مطہرہ تھیں رات میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنے کے واسطے بیدار ہوئے میں بھی ساتھ میں اٹھ گیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا سر پکڑ کر مجھ کو دائیں جانب کھڑا کر لیا۔
امام کے قریب کن لوگ کھڑے ہوں اور ان کے قریب کون ہوں ؟
ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، عمارۃ بن عمیر، ابو معمر، ابو مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے مونڈھوں پر ہاتھ پھیرتے تھے بحالت نماز اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم لوگ آگے پیچھے کی جانب نہ کھڑے ہوں ورنہ تم لوگوں کے قلوب میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور میرے قریب (پہلی صف میں ) وہ حضرات رہیں گے جو کہ عقل مند ہیں (سمجھ بوجھ والے اہل علم اور معمر لوگ) پھر وہ لوگ رہیں گے جو کہ ان سے نزدیک ہیں۔ اس کے بعد وہ لوگ جو ان سے نزدیک ہیں۔ ابو مسعود نے کہا آج کے دن تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔
٭٭ محمد بن عمر بن علی بن مقدم، یوسف بن یعقوب، تیمی ابو مجلز، قیس بن عباد سے روایت ہے کہ میں مسجد کے اندر پہلی صف میں تھا کہ اس دوران ایک آدمی نے مجھ کو پیچھے کی جانب پکڑ لیا اور پکڑ کر پنی طرف کھینچ لیا اور خود وہ شخص میری جگہ کھڑا ہو گیا تو خدا کی قسم مجھ کو نماز میں (غصہ کی وجہ سے ) ہونے کا دھیان اور احساس ہی نہیں رہا۔ جس وقت میں نماز سے فارغ ہو گیا تو پتہ چلا کہ وہ شخص حضرت ابی بن کعب ہیں انہوں نے بیان کیا اے نوجوان شخص!خداوند قدوس تم کو رنج و غم میں مبتلا نہ کرے۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت ہے کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک رہیں اس کے بعد خانہ کعبہ کی جانب چہرہ انور کر کے ارشاد فرمایا کہ خانہ کعبہ کے پروردگار کی قسم اہل عقد یعنی حکمران لوگ جس وقت نماز کا اہتمام کرتے اور لوگ نماز کی صفوں کا دھیان رکھتے تھے وہ لوگ وفات کر گئے۔ تین مرتبہ اسی طرح ارشاد فرمانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا کی قسم مجھ کو اس کا افسوس نہیں ہے افسوس تو ان لوگوں پر ہے کہ جنہوں نے دوسروں کو گمراہ کیا۔ میں نے دریافت کیا کہ اے ابو یعقوب! اہل عقد سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاکم اور مال دار لوگ۔
امام کے نکلنے سے پہلے صفیں سیدھی کر لینا
محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ تکبیر پڑھی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تشریف لانے سے قبل ہی صفوں کو ٹھیک کر لیا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اپنے مصلی پر کھڑے ہو کر تکبیر پڑھنے ہی والے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رخ موڑا اور فرمایا تم لوگ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو ہم لوگ کھڑے کھڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منتظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غسل فرما کر نکلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر پڑھی اور نماز ادا فرمائی۔
امام کس طریقہ سے صفوں کو درست کرے
قتیبہ بن سعید، ابو احوص، سماک، نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صفوں کے درمیان ایک جانب سے دوسری جانب جایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے مونڈھوں اور سینوں پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگ بالکل اختلاف نہ کرو ورنہ تم لوگوں کے قلوب میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ خداوند قدوس اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے دعا فرماتے ہیں آگے والی صف والوں کی واسطے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، ابو احوص، منصور، طلحہ بن مصرف، عبدالرحمن بن عوسجۃ، براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کی صفوں کے درمیان ادھر ادھر تشریف لے جاتے اور ہمارے مونڈھوں اور سینوں پر ہاتھ پھیرتے تھے اور ارشاد فرماتے تم لوگ اختلاف نہ کرو ورنہ تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے آگے کی صف والے نمازیوں کے لئے دعا مانگتے ہیں۔
جس وقت امام آگے کی جانب بڑھے تو صف کو برابر کرنے کے واسطے کیا کہنا چاہئے ؟
بشر بن خالد عسکری، غندر، شعبہ، سلیمان، عمارۃ بن عمیر، ابو معمر، ابو مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے مونڈھوں پر اور سینوں پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حکم فرمایا کرتے تھے کہ تم لوگ برابر ہو جاؤ اور آگے پیچھے نہ ہو ورنہ تم لوگوں کے قلوب میں اختلاف پیدا ہو جائے گا اور میرے سے وہ لوگ قریب رہیں جو کہ سمجھ بوجھ والے حضرات ہیں پھر وہ لوگ نزدیک رہیں جو کہ اس سے نزدیک ہیں پھر وہ لوگ جو کہ ان سے نزدیک ہیں۔
امام کتنی بار یہ کہے کہ تم لوگ برابر ہو جاؤ؟
ابوبکر بن نافع، بہزبن اسد، حماد بن سلمہ، ثابت، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرمایا کرتے تھے تم لوگ برابر ہو جاؤ تم لوگ برابر ہو جاؤ تم لوگ برابر ہو جاؤ۔ خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں تم لوگوں کو اس طریقہ سے دیکھتا ہوں پیچھے کی جانب سے کہ جس طریقہ سے کہ میں تم کو آگے کی جانب سے دیکھتا ہوں۔
امام لوگوں کو صفیں درست کر نے کی توجہ دلائے اور لوگوں کو ملا کر کھڑے ہونے کی ہدایت کرے
علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز پڑھنے کیلئے کھڑے ہوتے تو ہم لوگوں کی جانب تکبیر تحریمہ سے قبل متوجہ ہوتے پھر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اپنی صفیں برابر کرو (اور تم لوگ مل کر کھڑے ہو جاؤ) اس لئے کہ میں تم لوگوں کو پیچھے کی جانب دیکھتا ہوں۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، ابو ہشام، ابان، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ صفوں کو ملا ہوا رکھا کرو اور تم لوگ صفیں قریب (قریب) کھڑی کرو اور درمیان میں اس قدر فاصلہ نہ رکھو دوسری صف کھڑی ہو جائے خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صفوں کے درمیان داخل ہو جاتا (اور ایسا لگتا ہے کہ) گویا کہ وہ کالے رنگ کا بکری کا بچہ ہے۔
٭٭ قتیبہ، فضیل بن عیاض، اعمش، مسیب بن رافع، تیمیم بن طرفۃ، جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ فرشتوں کی طرح سے خداوند قدوس کے سامنے صف نہیں باندھتے ہو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرشتے کس طریقہ سے اپنے پروردگار کے سامنے صف باندھتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ مکمل کرتے ہیں پہلی صف کو (یعنی آگے والی صف کو) پھر جس وقت وہ صف پوری ہو جاتی ہے تو پھر وہ دوسری صف بناتے ہیں اور صف کے اندر مل کر کھڑا ہوتے ہیں۔
پہلی صف کی دوسری صف پر فضیلت
یحیی بن عثمان حمصی، بقیٰۃ، بحیر بن سعد، خالد بن معدان، جبیر بن نفیر، عرباض بن ساریہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی صف کے واسطے تین مرتبہ دعا مانگا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسری صف کے واسطے ایک مرتبہ دعا مانگتے۔
پیچھے والی صف سے متعلق
اسمعیل بن مسعود، خالد، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ پہلی صف کو مکمل کرو پھر اس کے بعد والی صف کو مکمل کرو اگر (اتفاق سے ) کچھ کمی باقی رہ جائے تو تم پیچھے والی صف میں رہو (نہ کہ پہلی صف میں )
جو شخص صفوں کو ملائے
عیسی بن ابراہیم بن مثرود، عبداللہ بن وہب، معاویہ بن صالح، ابو زاہریٰۃ، کثیر بن مرۃ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو صفوں کو ملائے گا تو خداوند قدوس بھی اس کو ملا دے گا اور جو شخص صف کو کاٹ دے گا تو خداوند قدوس بھی اس کو کاٹ دے گا۔
مردوں کی صف میں کونسی صف بری ہے اور خواتین کی کونسی صف بہتر ہے ؟
اسحاق بن ابراہیم، جریر، سہیل، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مردوں کی صف میں بہترین صف وہ صف ہے جو کہ سب سے آگے ہو (یعنی امام کے نزدیک ہو) اور بدترین صف وہ ہے کہ جو کہ تمام کے بعد ہو (یعنی خواتین کے نزدیک جو صف ہو) خواتین کی صفوں میں بہتر صف وہ ہے جو کہ تمام کے بعد ہو اور بدترین صف وہ صف ہے کہ جو کہ تمام سے آگے ہو (یعنی مردوں کے نزدیک ہو)۔
ستون کے درمیان صف بندی
عمرو بن منصور، ابو نعیم، سفیان، یحیی بن ہانی، عبدالحمید بن محمود سے روایت ہے کہ ہم لوگ انس کے ہمراہ تھے تو ہم لوگوں نے ایک حاکم کے ساتھ نماز ادا کی۔ لوگوں نے اس قدر پیچھے کی جانب ڈال دیا یہاں تک کہ ہم لوگ کھڑے ہو گئے اور نماز ادا کی دو ستون کے درمیان اور اس وجہ سے انس کبھی پیچھے کی طرف ہٹے تھے اور انس فرماتے تھے کہ ہم لوگ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس سے بچتے تھے یعنی دو ستون کے درمیان کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ پیچھے والی صف الگ کرتے تھے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مسعر، ثابت بن عبید، ابن براء، براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم لوگ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کرتے تھے تو میں چاہتا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دائیں جانب کھڑا ہوں۔
امام نماز پڑھنے میں کس قدر تخفیف سے کام لے ؟
قتیبہ، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی امامت کرے توہلکی نماز پڑھے کیونکہ جماعت میں مریض بھی ہے اور بوڑھا آدمی بھی ہے اور جب کوئی شخص تنہا نماز پڑھے تو جس قدر دل چاہے نماز لمبی کرے یعنی چاہے جس قدر طویل رکعات پڑھے۔
٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام لوگوں سے ہلکی اور پوری نماز پڑھا کرتے۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں جس وقت نماز پڑھنے کے واسطے کھڑا ہوتا ہوں پھر میں بچے کے رونے کی آواز سن لیتا ہوں تو میں نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ مجھ کو یہ بات ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ اس کی والدہ کو تکلیف پہنچے۔
امام کیلئے طویل قرأت کے بارے میں
اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، ابن ابو ذئب، حلوث بن عبدالرحمن، سالم بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ہلکی پڑھنے کا حکم فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں سورہ صافات کی تلاوت فرماتے تھے۔
امام کو نماز کے درمیان کون کونسا کام کرنا درست ہے ؟
قتیبہ، سفیان، عثمان بن ابو سلیمان، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم زرقی، ابو قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امامت فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کاندھوں پر (اپنی نواسی) حضرت امامہ بنت ابی العاص کو اٹھائے ہوئے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع کرنے کے واسطے ان کو زمین پر بٹھلاتے تھے پھر جب سجدہ سے اٹھتے تو اس کو اٹھاتے اور اپنے کاندھوں پر بٹھلاتے۔
امام سے آگے رکوع اور سجدہ کرنا
قتیبہ، حماد، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نماز کی حالت میں اپنا سر امام کے سر اٹھانے سے قبل اٹھا لیتا ہے تو وہ شخص اس بات کا خوف نہیں کرتا کہ خداوند قدوس اس کا سر گدھے کے سر جیسا بنا دے۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، شعبہ، ابو اسحاق، عبداللہ بن یزید، براء بن عازب سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ حضرات صحابہ کرام نماز ادا فرماتے تھے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو وہ صحابہ سیدھے کھڑے رہتے جس وقت وہ حضرات دیکھ لیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں چلے گئے ہیں تو وہ حضرات اس وقت سجدہ فرماتے۔
٭٭ مومل بن ہشام، اسماعیل ابن علیٰۃ، سعید، یونس بن جبیر، حطان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے نماز پڑھائی پس جب وہ نماز میں بیٹھ گئے تو ایک شخص آیا اور عرض کیا نماز قائم کی گئی ہے نیکی اور پاکی سے۔ پس جس وقت حضرت ابو موسیٰ نے سلام پھیرا تو وہ لوگوں کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کس نے یہ بات کہی ہے ؟ یہ بات سن کر تمام حضرات بالکل خاموش رہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ تم نے ہی یہ بات کہی ہو۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں مجھے اندیشہ ہے کہ تم ایسا نہ ہو کہ ناراض ہو جاؤ۔ تم ناراض نہ ہونا۔ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز اور اس کے طریقے سکھلایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ امام تو اس واسطے ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے جس وقت وہ تکبیر پڑھے تو تم بھی تکبیر پڑھو۔ جس وقت وہ آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔ خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا اور جس وقت وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جس وقت وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھا اور جس وقت وہ (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو تم (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) پڑھو۔ خداوند قدوس تم لوگوں کے کلمے کو ضرور سن لے گا اور جس وقت وہ سجدہ میں جائے تو تم بھی سجدہ میں جا اور جس وقت وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اس لئے کہ امام تم سے پہلے ہی سجدہ میں جاتا ہے اور سر اٹھاتا ہے اور تم لوگوں کا ہر ایک رکن اس کے بعد انجام پائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس طرف کی کمی دوسری طرف سے پوری ہو جائے گی۔
کوئی شخص امام کی اقتداء توڑ کر مسجد کے کونہ میں علیحدہ نماز ادا کرے
واصل بن عبدالاعلی، ابن فضیل، اعمش، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص قبیلہ انصار میں سے حاضر ہوا اور نماز کھڑی تھی وہ شخص مسجد میں داخل ہو گیا اور اس نے حضرت معاذ بن جبل کی اقتداء میں جا کر نماز با جماعت میں شرکت کر لی حضرت معاذ نے رکعت کو طویل کیا (یعنی سورت کو طویل کرنا شروع کیا) اس شخص نے نماز توڑ کر ایک کونہ میں کھڑے ہو کر علیحدہ نماز ادا کی اور پھر وہ شخص چلا گیا۔ جس وقت حضرت معاذ نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے اس سے نقل کیا کہ فلاں آدمی نے اس طرح سے ایک حرکت کی ہے۔ حضرت معاذ نے ان سے فرمایا کہ جب صبح ہو جائے تو میں اس سلسلہ میں یہ واقعہ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہو کر عرض کروں گا۔ بہرحال حضرت معاذ خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور تمام حالت بیان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو بلا بھیجا اور اس کو طلب فرما کر اس سے دریافت کیا کہ تم نے یہ کس وجہ سے کیا؟ اور کیوں یہ کام کیا؟ (یعنی امام کی اقتداء چھوڑ کر اپنی نماز علیحدہ کی) تو اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے تمام دن پانی کھینچا جب مسجد میں آیا تو دیکھا کہ نماز شروع ہو چکی تھی میں سجدہ میں چلا گیا اور نماز با جماعت میں شرکت کر لی امام نے (یعنی حضرت معاذ نے ) فلاں فلاں (لمبی) سورت تلاوت کرنا شروع کر دی اور بہت زیادہ قرت لمبی کی۔ اس وجہ سے میں نے (امام کی اقتداء چھوڑ کر) اور نیت توڑ کر مسجد کے ایک کونہ میں علیحدہ نماز پڑھنا شروع کر دی۔ یہ بات سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے معاذ! کیا تم لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والے ہو؟ اے معاذ! کیا تم لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والے ہو؟ اے معاذ! کیا تم لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والے ہو؟
اگر امام بیٹھ کر ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
قتیبہ، مالک، ابن شہاب، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھوڑے سے گر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک کا دایاں حصہ چھل گیا۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت کی نماز بیٹھ کر ادا فرمائی ہم لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز ادا کی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز سے فراغت ہو گئی تو ارشاد فرمایا امام تو اس لئے ہے کہ اس کی تابعداری کی جائے۔ جس وقت وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو اور جس وقت وہ رکوع میں جائے تم لوگ بھی رکوع میں چلے جاؤ اور جس وقت وہ (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہے تو تم (رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ) پڑھو اور جس وقت وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم لوگ بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔
٭٭ محمد بن علاء، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت زیادہ بیمار پڑ گئے تو حضرت بلال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کی اطلاع دینے کیلئے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حضرت ابو بکر کو نماز کی امامت کرنے کا حکم دو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ابو بکر نرم دل و رحم دل شخص ہیں اور وہ کمزور دل کے آدمی ہیں جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جگہ امامت کرنے کیلئے کھڑے ہو گے (تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کریں گے ) تو لوگوں کو ان کی آواز نہیں سنائی دے گی اور کیا ہی عمدہ بات ہوتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عمر کو حکم فرماتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم حضرت ابو بکر کو حکم دو کہ وہ نماز کی امامت فرمائیں میں نے حفصہ سے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم یوسف کی ساتھی ہو کہ تم صرف اپنی ہی بات کہتے جا رہے ہو اور کسی دوسرے کی بات نہیں سنتے ہو۔ تم حضرت ابو بکر کو حکم دو کہ وہ نماز کی امامت کریں آخر کار لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نماز پڑھائیں۔ جس وقت انہوں نے نماز شروع فرمائی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی طبیعت میں ہلکا پن محسوس فرمایا (یعنی مرض کی سختی میں کمی محسوس فرمائی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو آدمیوں کے سہارا لگا کر روانہ ہو گئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت ابو بکر نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قدم مبارک کی آہٹ محسوس فرما کر پیچھے کی جانب چلنے کا ارادہ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور حضرت ابو بکر کے دائیں جانب بیٹھ گئے تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز ادا فرماتے تھے اور حضرت ابو بکر کھڑے کھڑے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی فرماتے تھے اور تمام لوگ حضرت ابو بکر کی پیروی فرماتے تھے۔
٭٭ عباس بن عبدالعظیم عنبری، عبدالرحمن بن مہدی، زائٍدۃ، موسیٰ بن ابو عائشہ، عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حالت مجھ سے بیان نہیں فرماتی ہیں انہوں نے فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مرض کی سختی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ لوگ نماز ادا کر چکے ؟ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں وہ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میرے واسطے پانی جمع رکھو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق پانی رکھا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھنے لگے تو بے ہوش ہو گئے پھر ہوش میں آئے تو دریافت فرمایا کہ لوگ نماز سے فارغ ہو گئے ہیں ہم نے عرض کیا کہ نہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا میرے واسطے ایک طشت میں پانی رکھ دو۔ بہرحال ایک طشت میں پانی رکھا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غسل فرمایا پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا تو بے ہوش ہو گئے اس کے بعد تیسری مرتبہ اس طرح سے کیا اور لوگ مسجد میں جمع تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتظار فرما رہے تھے آخرکار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر کو کہلا کر بھیجا کہ تم نماز پڑھاؤ پس جب ان کی خدمت میں ایک پیغام لانے والا شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم کو حکم فرماتے ہیں نماز کی امامت کرنے کا وہ ایک نرم دل شخص تھے انہوں نے نقل کیا کہ اے عمر تم نماز کی امامت کرو حضرت عمر نے جواب دیا کہ امامت کے زیادہ حقدار تم ہو (یعنی حضرت ابو بکر امامت کے زیادہ حقدار ہیں ) پھر ان دنوں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مرض کے حال میں کچھ کمی محسوس فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر کی جانب آئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے حضرات کے سہارے باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں سے سہارا لگائے ہوئے تھے اور جن حضرات پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سہارا لگا رکھا تھا ان میں سے ایک صاحب حضرت عبداللہ ابن عباس تھے جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا تھے (اور دوسرے شخص حضرت علی تھے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان کا نام نہیں لیا۔) جس وقت حضرت ابو بکر نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب دیکھا تو وہ پیچھے کی جانب ہٹنے لگے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا کہ تم بالکل پیچھے کی جانب نہ ہٹو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دو حضرات پر کہ جن پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سہارا لگائے ہوئے تھے یہ حکم فرمایا ان حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بٹھلایا۔ حضرت ابو بکر کھڑے کھڑے نماز ادا فرماتے رہے اور لوگ ان کی اتباع کرتے رہے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ کر نماز ادا فرماتے رہے حضرت عبید اللہ نے بیان فرمایا کہ میں یہ حدیث سن کر حضرت عبداللہ بن عباس کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ میں تم سے وہ بات عرض کروں جو بات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری سے متعلق بیان فرمائی ہیں انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے کچھ نقل کر دیا ہے انہوں نے کسی بات میں انکار نہیں فرمایا مگر صرف اسی قدر فرمایا ہے کیا نام لیا ہے حضرت عائشہ صدیقہ نے دوسرے شخص کا جو کہ عباس کے ساتھ تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس نے فرمایا وہ حضرت علی تھے۔
اگر مقتدی اور امام کی نیت میں اختلاف ہو؟
محمد بن منصور، سفیان، عمرو، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا فرماتے تھے اس کے بعد اپنی قوم کی جانب روانہ ہوتے تھے اور نماز پڑھاتے تھے۔ ایک (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو) نماز ادا کرنے میں تاخیر ہو گئی تو معاذ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ نماز ادا فرمائی اس کے بعد اپنی قوم میں تشریف لے گئے اور امامت فرمائی اور سورہ بقرہ تلاوت فرمائی ایک شخص نے مقتدیوں میں سے جس وقت دیکھا تو انہوں نے صف سے نکل کر علیحدہ نماز ادا کی اور پھر چلا گیا لوگوں نے اس سے کہا کہ تو تو منافق بن گیا۔ اس شخص نے بیان کیا کہ خدا کی قسم میں منافق نہیں ہوں۔ البتہ ضرور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کروں گا پھر وہ شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! معاذ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا فرماتے ہیں پھر یہاں سے نماز ادا کر کے ہم لوگوں کے پاس آتے ہیں اور امامت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گزشتہ رات نماز میں خود تاخیر فرمائی تھی۔ معاذ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا فرما کر ہم لوگوں کے گھر آئے اور انہوں نے نماز پڑھائی تو نماز میں سورہ بقرہ تلاوت فرمائی۔ جس وقت میں نے یہ بات سنی تو میں پیچھے نکل گیا اور نماز (اکیلے ہی) پڑھ لی ہم لوگ(تمام دن) پانی بھرنے والے ہیں اور اپنے ہاتھ سے محنت کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے معاذ تم (لوگوں ) میں فتنہ پیدا کرو گے تم نماز میں ایسی سورتیں پڑھا کرو کہ جیسے سورہ بروج اور سورہ وغیرہ۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، اشعث، حسن، ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز خوف ادا فرمائی تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھے ان کے ساتھ دو رکعت ادا کی پھر وہ چلے گئے اور جو لوگ ان کی جگہ آئے ان کے ساتھ دو رکعت ادا فرمائیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چار رکعت اور ان حضرات کی دو دو رکعت ہوئیں۔
فضیلت جماعت
قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جماعت کی نماز تنہا پڑھی جانے والی نماز پر27 گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے
٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز با جماعت تنہا نماز ادا کرنے سے 25 گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن عمار، قاسم بن محمد، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جماعت کی نماز تنہا نماز ادا کرنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
جس وقت تین آدمی ہوں تو نماز جماعت سے پڑھیں
قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، ابو نضرۃ، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک شخص نماز کی امامت کرے اور امامت کرنے کے واسطے زیادہ مستحق ہو شخص ہے جو قرآن کی کافی تعلیم حاصل کئے ہوئے ہو۔
اگر تین اشخاص ہوں ایک مرد ایک بچہ اور ایک عورت تو جماعت کرائیں
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، زیاد، قزعۃ، عکرمۃ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے برابر میں نماز پڑھی اور ہمارے پیچھے حضرت عائشہ صدیقہ تھیں وہ بھی ہمارے ہمراہ نماز میں شریک تھیں۔ (واضح رہے کہ اس وقت حضرت عبداللہ ابن عباس لڑکے تھے )
جب دو آدمی ہوں تو جماعت کرائیں
سوید بن نصر، عبد اللہ، عبدالملک بن ابو سلیمان، عطاء، ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا کی تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ کر دائیں جانب کھڑا کر لیا۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، شعبہ، ابو اسحاق، عبداللہ بن ابو بصیر، شعبۃ، ابو اسحاق، ابی بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز نماز فجر ادا فرمائی پھر ارشاد فرمایا کیا فلاں آدمی نماز با جماعت میں شریک ہوا تھا؟ لوگوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا اور فلاں آدمی؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ دو نمازیں (یعنی فجر اور نماز عشاء) بہت گراں گزرتی ہیں اہل نفاق پر اور اگر لوگ یہ جان لیں ان نمازوں میں کیا فضیلت ہے تو لوگ سرین کے بل گھسیٹتے ہوئے ان نمازوں میں شرکت کے واسطے حاضر ہوں۔ صف اول دراصل فرشتوں کی صف ہے اگر تم لوگ اس کی بزرگی کو جان لو تو تم لوگ جلدی کرو صف اول میں شرکت کے واسطے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا یعنی نماز با جماعت ادا کرنا۔ تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے اور دو شخص کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنا بہتر ہے ایک آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے سے اسی طریقہ سے جماعت میں جس قدر زیادہ افراد ہوں تو وہ خدا کو زیادہ پسندیدہ ہے۔
نفل نماز کے واسطے جماعت کرنا
نصر بن علی، عبدالاعلی، معمر، زہری، محمود، عتبان بن مالک سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے مکان سے لے کر مسجد تک ندیاں ہیں (جو موسم برسات میں زور شور سے بہتی ہیں جس کی وجہ سے راستہ طے کرنا سخت دشوار ہوتا ہے ) اس وجہ سے میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے مکان پر تشریف لے چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی جگہ پر نماز ادا فرما لیں تو میں اس جگہ پر مسجد تعمیر کر لوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اچھا ہم تمہارے ساتھ چلیں گے۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو دریافت کیا تم کو کونسی جگہ مسجد بنانے کی خواہش ہے ؟ میں نے عرض کیا اس جگہ پر۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں صف باندھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعات ادا فرمائیں (یعنی نفلی نماز جماعت سے )۔
جو نماز قضاء ہو جائے اس کے واسطے جماعت کرنے سے متعلق
علی بن حجر، اسماعیل، حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری جانب متوجہ ہوئے جس وقت نماز کے واسطے کھڑے ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ اپنی صفوں کو ٹھیک کرو اور تم لوگ مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ کیونکہ میں تم لوگوں کو پشت کے پیچھے سے دیکھتا ہوں (یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت تھی دوسرے کسی کو حاصل نہیں )۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو زبیدو اسمہ، عبشر بن قاسم، حصین، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے کہ اس دوران بعض لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کاش کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مجھے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ میں سو جاؤں اور اس طرح سے میری نماز ضائع ہو جائے۔ بلال نے فرمایا کہ میں اس کا انتظار کروں گا۔ لوگ آرام کرتے رہے اور سو گئے اور بلال نے اپنی پشت اونٹ سے لگا لی (اور وہ سو گئے ) پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے تو سورج کی کرن چمک رہی تھی اور حضرت بلال سے ارشاد فرمایا کہ تم نے کیا بات کہی تھی (کہ میں نماز کا انتظار کروں گا)؟ حضرت بلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھ کو اس قدر نیند کبھی نہیں آئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس نے تم لوگوں کی ارواح قبض فرما لیں پھر جس وقت خدا کی مرضی ہوئی تو تمہاری روحیں تم لوگوں کو واپس کر دی گئیں۔ اے بلال تم اٹھ جاؤ اور اذان دو۔ حضرت بلال کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اذان دی پھر تمام حضرات نے وضو فرمایا۔ اس وقت سورج بلند ہو گیا تھا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی امامت فرمائی۔
نماز با جماعت میں حاضر نہ ہونے کی وعید
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، زائٍدۃ بن قدامۃ، سائب بن حبیش کلاعی، معدان بن ابو طلحہ یعمریٰ، ابو درداء سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین اشخاص ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آ گیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کر لو کیونکہ بھڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہو گئی ہو حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز با جماعت ہے۔
جماعت میں شرکت نہ کرنے کی وعید
قتیبہ، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں نے اس کا ارادہ کیا کہ میں حکم دوں لکڑیاں جلانے کا۔ پھر میں حکم دوں نماز کے واسطے اذان دینے کا اور ایک شخص کو حکم دوں نماز پڑھانے کا اور میں (جماعت چھوڑنے والوں کے گھر جاؤ) اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم لوگوں میں سے کسی شخص کو علم ہو کہ مسجد کے اندر ایک موٹے گوشت کی ہڈی یا دو عدد عمدہ قسم کے مکانات ملیں گے تو لوگ نماز عشاء میں شرکت کرنے کے واسطے آئیں۔
جس جگہ پر اذان ہوتی ہے وہاں پر جماعت میں شرکت کرنا لازم ہے
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، مسعودی، علی بن اقمر، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس شخص کو قیامت کے دن خداوند تعالیٰ سے کامل درجہ کا مسلمان ہو کر ملاقات کی تمنا ہو تو وہ شخص ان پانچ وقت کی نماز کی حفاظت کرے کہ جس جگہ پر اذان ہوتی ہو تو اذان کی آواز سن کر نماز با جماعت میں شرکت کرنے کے واسطے حاضر ہو کیونکہ خداوند قدوس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے ہدایت کے راستے بنا دئیے ان ہی راستوں میں سے ایک راستہ نماز بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ تم لوگوں میں سے کوئی اس قسم کا آدمی نہ ہو گا کہ جس کی ایک مسجد اس کے مکان میں موجود نہ ہو کہ جس جگہ وہ شخص نماز ادا کرتا ہے پس اگر تم لوگ اپنے اپنے مکانات میں نماز ادا کرو گے اور مساجد کو نظر انداز کر دو گے تو تم لوگ اپنے پیغمبر کے طریقے کو چھوڑ دو گے اور جس وقت تم نے اپنے پیغمبر کے طریقے کو چھوڑ دیا تو تم لوگ گمراہی میں مبتلا ہو جاؤ گے اور جو بندہ مسلمان اچھی طرح سے وضو کرے پھر وہ نماز کے واسطے (مکان سے ) روانہ ہو تو خداوند قدوس اس کے واسطے ہر ایک نیک عمل لکھ دے گا یا اس شخص کا ایک درجہ بلند فرما دے گا یا اس شخص کا ایک گناہ معاف فرما دے گا اور تم لوگ دیکھتے ہو کہ جس وقت ہم نماز ادا کرنے کے واسطے چلتے ہیں اور ہم لوگ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتے ہیں (تا کہ زیادہ نیک عمل ہوں ) اور تم لوگ دیکھتے ہو کہ جماعت میں وہ ہی شخص شریک نہیں ہوتا جو کہ علی الاعلان منافقت رکھتا ہو اور میں نے (دیکھا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ) کہ ایک آدمی کو دو شخص سنبھال کر لاتے یہاں تک کہ وہ شخص صف کے اندر کھڑا کر دیا جاتا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم، مروان بن معاویہ، عبید اللہ بن عبداللہ بن الاصم، عمہ یزید بن الاصم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کوئی شخص لے جانے والا نہیں ہے جو کہ مجھ کو مسجد تک پہنچا دیا کرے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اجازت عطا فرمائیں مجھ کو مکان میں نماز ادا کرنے کی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اجازت عطاء فرما دی۔ جس وقت وہ شخص پشت پھیر کر روانہ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اس کو بلایا اور فرمایا کہ تم کو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے ؟ اس نابینا شخص نے کہا جی ہاں ! آواز سنائی دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم مؤذن کی دعوت کو قبول کر لو جس وقت کہ اذان دینے والا پکارتا ہے (حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ)
جس جگہ پر اذان ہوتی ہے وہاں پر جماعت میں شرکت کرنا لازم ہے
ہارون بن زید بن ابو زرقاء، سفیان، عبداللہ بن محمد بن اسحاق، قاسم بن یزید، سفیان، عبدالرحمن بن عابس، عبدالرحمن بن ابو لیلی، ابن ام مکتوم سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ میں کیڑے مکوڑے اور درندے بہت زیادہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو اس کی اجازت عطا فرما دیں کہ میں مکان میں نماز ادا کر لیا کروں ؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم (حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ) اور (حَیَّ عَلَی الفَلَاحِ) کی آواز سنتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں سنتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تم حاضر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان صحابی کو نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں عطا فرمائی۔
عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑنا
قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن ارقم اپنے حضرات کی امامت فرمایا کرتے تھے ایک مرتبہ نماز کا وقت ہو گیا تو وہ قضائے حاجت کے واسطے گئے پھر واپس آئے اور ارشاد فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت تم لوگوں میں سے کسی شخص کو پاخانہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو نماز سے قبل ہی قضائے حاجت کر لے یعنی استنجاء سے فارغ ہو جائے (چاہے استنجاء کرنے کی وجہ سے جماعت ہی کیوں نہ نکل جائے )
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم میں کسی کے سامنے شام کے وقت کا کھانا پیش ہو اور سامنے نماز ہو رہی ہو (مطلب یہ ہے کہ نماز عشاء کھڑی ہو گئی ہو) تو پہلے تم کھانے سے فارغ ہو جایا کرو۔
٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، ابو ملیح سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا کہ ہم لوگ غزوہ حنین میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے وہاں پر بارش ہونے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مؤذن نے نماز کے واسطے اذان دی اور اس نے کہا کہ تم لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز ادا کر لو
بغیر جماعت کے جماعت کا اجر کب ہے ؟
اسحاق بن ابراہیم، عبدالعزیز بن محمد، ابن طحلاء، محصن بن علی فہری، عوف بن حارث، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے بہترین طریقہ سے وضو کیا مسجد کے ارادہ سے جس وقت وہ شخص مسجد میں داخل ہو گیا تو اس شخص کو اسی قدر اجر اور ثواب ہے کہ جس قدر اس شخص کو ثواب ہے جو کہ جماعت میں شریک تھا اور جماعت والوں کا اجر و ثواب بالکل بھی کم نہیں ہو گا۔
٭٭ سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث، الحکیم بن عبداللہ قرشی، نافع بن جبیر و عبداللہ بن ابو سلمۃ، معاذ بن عبدالرحمن، حمران، عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ جو شخص نماز ادا کرنے کے واسطے پورے طریقہ سے وضو کرے (یعنی سنت کے مطابق وضو کرے ) پھر وہ شخص فرض نماز ادا کرنے کیلئے مسجد پہنچے اور لوگوں کے ہمراہ نماز ادا کر کے جماعت سے نماز پڑھے یا مسجد میں نماز ادا کر کے جماعت سے نماز پڑھے یا مسجد میں نماز پڑھے مطلب یہ ہے کہ وہ شخص بڑی جماعت میں شریک ہو یا دوسری جماعت میں یا تنہا نماز ادا کرے بہرحال خداوند قدوس اس شخص کے تمام گناہ معاف فرما دے گا۔
اگر کوئی شخص نماز تنہا پڑھ چکا ہو پھر جماعت سے نماز ہونے لگے تو دوبارہ نماز پڑھے
قتیبہ، مالک، زید بن اسلم، رجل من بنی الدیل، بسر بن محجن، محجن سے روایت ہے کہ وہ ایک مجلس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران نماز کی اذان ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرما کر آئے تو دیکھا کہ حضرت اسی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے نماز کس وجہ سے ادا نہیں کی؟ کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں ! میں تو مسلمان ہوں لیکن میں اپنے مکان میں نماز ادا کر چکا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم مسجد میں حاضر ہو تو تم لوگوں کہ ہمراہ شرکت کر لو یعنی نماز میں شرکت کر لو چاہے تم نماز سے فارغ ہو چکے ہو۔
٭٭ زیاد بن ایوب، ہشیم، یعلی بن عطاء، جابر بن یزید بن اسودعامری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ نماز فجر میں مسجد خفیف میں موجود تھا (جو کہ مقام مننی میں ہے ) جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو چکے تو دیکھا کہ دو شخص پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے نماز نہیں ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں اشخاص کو میرے پاس لے کر آؤ۔ لوگ ان کو لے کر آئے اور ان کی رگیں پھڑک رہے تھیں (بوجہ خوف کے )۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے ہم لوگوں کہ ہمراہ کس وجہ سے نماز نہیں ادا کی تھی؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم اپنی جگہ نماز ادا کر چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو جس وقت تم اپنے ٹھکانوں میں نماز ادا کر لو پھر تم اس مسجد میں آؤ کہ جس جگہ جماعت ہوتی ہے تو تم دوسری مرتبہ نماز پڑھ لو وہ نماز نفل نماز شمار ہو گی۔
اگر نماز کا افضل وقت گزرنے کے بعد جماعت ہو جب بھی شرکت کر لے
محمد بن عبدالاعلیٰ و محمد بن ابراہیم بن صدران، خالد بن حارث، شعبہ، بدیل، ابو عالیٰۃ، عبداللہ بن صامت، ابو ذر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اور میری ران پر ہاتھ مارا تم کیا کرو گے جس وقت ایسے لوگوں میں رہ جاؤ گے جو کہ نماز میں تاخیر کریں گے ان کے (مقررہ) وقت سے یعنی نماز مکروہ وقت میں ادا کریں گے۔ میں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا حکم فرماتے ہیں (یعنی ایسے وقت میں ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم وقت پر نماز ادا کرو پھر تم اپنے کام میں لگ جانا۔ اگر تم مسجد میں ہو اور تمہارے سامنے جماعت ہو چکی ہو تو تم جماعت میں شرکت کر لینا۔
جو شخص امام کے ساتھ مسجد میں جماعت سے نماز ادا کر چکا ہو اس کو دوسری جماعت میں شرکت کرنا لازم نہیں ہے
ابراہیم بن محمد تیمی، یحیی بن سعید، حسین المعلم، عمرو بن شعیب، سلیمان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو بلاط نامی جگہ (جو کہ مدینہ منورہ کے نزدیک ہے ) پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور لوگ نماز میں مشغول تھے۔ میں نے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمن! تم کس وجہ سے نماز نہیں پڑھتے ہو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو نماز سے فارغ ہو چکا اور میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے کہ ایک نماز کو ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ مطلب یہ ہے کہ جس وقت جماعت سے امام کے ساتھ نماز ادا کر لی اب پھر اس کو پڑھنا ضروری نہیں ہے۔
نماز کیلئے کس طریقہ سے جانا چاہئے ؟
عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن زہری، سفیان، زہری، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ نماز پڑھنے کیلئے حاضر ہوں تو تم لوگ نماز کیلئے دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ معمول کی رفتار کے مطابق نماز کیلئے آؤ اور مطمئن رہو اور تم کو جس قدر نماز مل جائے اتنی جماعت سے نماز ادا کرو اور جس قدر نماز نے مل سکے اس کو تم (سلام پھیرنے کے بعد) ادا کر لو۔
نماز کے واسطے جلدی چلنا بغیر دوڑے ہوئے
عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، ابن جریج، منبوذ، فضل بن عبید اللہ، ابو رافع سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز عصر ادا فرما چکے تو قبیلہ بنی عبد الاشہل کے حضرات میں جاتے اور ان سے گفتگو فرماتے حتی کہ مغرب کی نماز کے واسطے واپس ہوتے تو حضرت ابو رافع نے کہا کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلدی جلدی نماز مغرب ادا کرنے کے واسطے تشریف لے جا رہے تھے اور ہم لوگ قبرستان بقیع کے سامنے نکلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اف اف۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یہ فرمانے سے میرے قلب میں ایک خوف محسوس ہوا میں پیچھے کی جانب ہٹ گیا اور مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ جملہ اف میرے ہی متعلق ارشاد فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم کو کیا ہو گیا تم کیوں نہیں چلتے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا مجھ سے کسی قسم کی کوئی غلطی صادر ہو گئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کے کس طریقہ سے علم ہوا؟ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو کلمہ اف فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے تجھ کو یہ بات نہیں کہی میں نے اس شخص سے کہا کہ جس کو میں نے صدقہ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا اس آدمی نے ایک کھال چوری کر لی اب اس جیسی کھال ایسے آدمی کیلئے دوزخ کی آگ سے تیار کی گئی ہے۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ، معاویۃ بن عمر، ابو اسحاق ، ابن جریج، منبوذ، ابو رافع ترجمہ گزشتہ حدیث جیسا ہے۔
نماز پڑھنے کے واسطے اول اور افضل وقت نکلنے سے متعلق
احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان، شعیب، زہری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو عبد اللہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص (مسجد میں ) نماز ادا کرنے کے واسطے تمام لوگوں سے پہلے حاضر ہو تو اس شخص کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کہ کسی نے ایک اونٹ قربانی کے واسطے مکہ مکرمہ بھیجا پھر اس کے بعد جو شخص آئے وہ ایسا ہے کہ جیسے کہ کسی شخص نے ایک بیل گائے کو قربانی کرنے کے واسطے بھیجا۔ پھر اس کے بعد جو شخص آئے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کہ کسی شخص نے (راہ خدا میں ) ایک مینڈھا بھیجا۔ پھر اس کے بعد جو شخص آئے تو وہ شخص ایسا ہے کہ جیسے کہ کسی شخص نے مرغی بھیجی۔ پھر اس کے بعد جو شخص آئے تو وہ شخص ایسا ہے کہ جیسے کہ کسی نے ایک انڈا بھیجا۔
جس وقت نماز کے واسطے تکبیر ہو جائے تو نفل یا سنت نماز پڑھنا منع ہے
سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، زکریا، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت نماز فرض کی تکبیر ہو تو اس وقت میں کسی قسم کی نماز نہیں ہے علاوہ فرض نماز کے۔ (مطلب یہ ہے کہ مذکورہ وقت میں نماز سنت یا نماز نفل کوئی نماز نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ نماز فرض میں شرکت کرنا چاہیے )۔
٭٭ احمد بن عبداللہ بن حکم و محمد بن بشار، محمد، شعبۃ، ورقاء بن عمر، عمرو بن دینار، عطاء بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت نماز فرض کی تکبیر ہو تو اس وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھنا چاہیے علاوہ فرض نماز کے۔
٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، سعد بن ابراہیم، حفص بن عاصم، ابن بحینۃ، عبداللہ بن مالک سے روایت ہے کہ نماز فجر کی تکبیر ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا نماز پڑھتے ہوئے اور اس وقت مؤذن تکبیر کہہ رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم نماز فجر کی چار رکعات پڑھ رہے ہو؟
اگر کوئی شخص نماز فجر کی سنت میں مشغول ہو اور امام نماز فرض پڑھائے
یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، عاصم، عبداللہ بن سرجس سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے تو اس شخص نے (سنت فجر کی) دو رکعات پڑھیں۔ پھر نماز فرض میں شرکت کی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا کہ اے فلاں شخص تیری کونسی نماز تھی جو کہ تو نے ہمارے ساتھ ادا کی تھی یا وہ نماز کونسی تھی جو کہ تو نے تنہا ہی ادا کی تھی؟
جو شخص صف کے پیچھے تنہا نماز ادا کرے
عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، سفیان، اسحاق بن عبد اللہ، انس سے روایت ہے کہ ایک روز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے تو میں نے اور یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے صف باندھ کر نماز ادا کی اور حضرت ام سلیم نے ہماری اقتداء میں نماز ادا کی۔
٭٭ قتیبہ، نوح یعنی ابن قیس، ابن مالک، عمرو، ابو جوزا، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک بہت خوبصورت خاتون حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرتی تھی تو چند حضرات پہلی صف میں چلے جاتے تاکہ وہ نظر نہ آئے اور بعض حضرات آخری صف میں رہتے تھے اور جس وقت وہ خاتون رکوع کرتی تھی تو اس خاتون کو لوگ بغلوں کے درمیان سے جھانکتے تھے جس وقت خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی آخر تک۔ اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اچھی طرح سے واقف ہیں ان لوگوں سے جو کہ نماز کے دوران آگے رہتے ہیں اور ہم ان سے بھی اچھی طرح واقف ہیں جو کہ پیچھے رہتے ہیں۔
صف میں شامل ہونے سے متعلق رکوع کر نے سے متعلق
حمید بن مسعٍدۃ، یزید بن زریع، سعیدزیاد الاعلم، حسن، ابو بکرۃ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع میں تھے انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کر لیا (جلدی کی وجہ سے )۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تجھ کو اس سے زیادہ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے لیکن تم آئندہ سے ایسا نہ کرنا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو اسامۃ، ولید بن کثیر، سعید بن ابو سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن نماز پڑھائی پھر نماز سے فراغت کے بعد فرمایا اے فلاں شخص! تم اپنی نماز کو صحیح طریقہ سے ادا نہیں کرتے کیا نمازی خود یہ بات نہیں پہچان سکتا کہ نماز کس طریقہ سے ادا کرنی چاہیے۔ (مطلب یہ ہے کہ نماز خشوع و خضوع اور ادب کے ساتھ پڑھنا چاہیے ) اور میں پیچھے سے بھی اسی طریقہ سے دیکھتا ہوں کہ جس طریقہ سے سامنے کی جانب دیکھتا ہوں۔
سنن نسائی
امام ابو نسائی
جلد سوم
قبلہ کے متعلق احادیث
بیت اللہ شریف کی طرف چہرہ کرنا
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، اسحاق بن یونس زرق، زکریا بن ابو زائٍدۃ، ابو اسحاق، براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو بیت المقدس کی جانب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سولہ ماہ تک نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ مبارک فرمایا۔ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا کر کے قبیلہ انصار کی ایک قوم کے نزدیک گیا اور وہ قبلہ کی جانب نماز ادا فرما رہے تھے۔ اس نے کہا میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ مبارک فرمایا ہے ان لوگوں نے یہ بات سننے کے بعد ہی (بحالت نماز ہی) بیت اللہ شریف کی جانب رخ کر لیا۔
کون سے وقت بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ کرنا لازم نہیں ہے
قتیبہ، مالک بن انس، عبداللہ بن دینار، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی اونٹنی پر نماز ادا فرماتے تھے اور سفر میں چاہے جس جانب اس کا چہرہ ہوتا (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طرف ہی نماز ادا فرماتے ) حضرت عبداللہ بن دینار نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمر بھی اسی طریقہ سے عمل فرماتے تھے
٭٭ عیسی بن حماد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سالم، عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھا کرتے تھے اونٹنی پر چاہے جس طرف اس اونٹنی کا رخ ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز وتر بھی اسی پر ادا فرماتے لیکن نماز فرض اس پر ادا نہ فرماتے۔
اگر ایک آدمی نے غور کر کے بیت اللہ شریف کی جانب نماز ادا کی پھر علم ہوا قبلہ اس جانب نہیں تھا
قتیبہ، مالک، عبداللہ بن دینار، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ لوگ مسجد قبا میں نماز فجر ادا فرما رہے تھے کہ اس دوران ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آج کی رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قرآن کریم نازل ہوا ہے اور حکم ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کعبہ کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنے کا۔ یہ بات سن کر لوگوں نے (بحالت نماز میں ) بیت اللہ شریف کی جانب رخ کر لیا پہلے ان کے رخ ملک شام کی جانب تھے پھر ان کے رخ بیت اللہ شریف کی جانب پھر گئے۔
نمازی شخص کے سترہ سے متعلق
عباس بن محمد الدوری، عبداللہ بن یزید، حیوٰۃ بن شریح، ابو اسود، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے غزوہ تبوک میں دریافت کیا گیا کہ نماز شخص کا سترہ کس طرف ہونا ضروری ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس قدر (اونٹ وغیرہ کے ) پالان کی لکڑی ہوتی ہے (ایک ہاتھ کے قریب قریب) اگر اتنا سترہ نماز پڑھنے والے کے سامنے ہو تو اس کے سامنے سے نمازی کا گزرنا ممنوع نہیں ہے۔
٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی، عبید اللہ، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے سامنے کی جانب نیزہ گاڑ لیا کرتے تھے پھر اس کی طرف رخ فرما کر نماز ادا فرماتے۔
نمازی کو سترہ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھنا چاہئے
علی بن حجر و اسحاق بن منصور، سفیان، صفوان بن سلیم، نافع بن جبیر، سہل بن ابی حثمۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص سترہ کھڑا کرے تو اس شخص کو چاہیے کہ وہ سترہ کے نزدیک کھڑا ہو ایسا نہ ہو کہ شیطان اس شخص کی نماز توڑ دے (خراب کر دے )
نمازی شخص کو سترہ سے کس قدر فاصلہ پر کھڑا ہونا چاہئے ؟
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز بیت اللہ شریف میں تشریف لے گئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ حضرت اسمہ بن زید اور حضرت بلال اور حضرت عثمان ابن طلحہ بھی تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دروازہ بند فرما لیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نکلے تو میں نے حضرت بلال سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا طریقہ بیان کیا ہے حضرت بلال نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ستون کو بائیں جانب کیا اور دو ستون کے دائیں جانب اور تین ستون پیچھے کی طرف اور اس دور میں بیت اللہ شریف چھ ستونوں پر تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی دیوار کے تین ہاتھ کے فاصلہ سے۔ (اس وجہ سے اس کے برابر نماز کا سترہ ہونا چاہیے )
بحالت نماز کونسی شے کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہوتی ہے اور کونسی شے سے نہیں
عمرو بن علی، یزید، یونس، حمید بن ہلال، عبداللہ بن صامت، ابو ذر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے واسطے کوئی شئی آڑ بن جائے گی۔ جو کہ پالان کی لکڑی کے برابر ہو لیکن اگر اس کے سامنے اتنی پڑی کوئی شئی نہ ہو تو اس کی نماز کو عورت اور گدھی اور کالا کتا فاسد کر دے گا (جب کہ یہ تین اشیاء نمازی کے سامنے سے گزریں ) حضرت عبداللہ بن صامت نے فرمایا کہ میں نے ابو ذر سے دریافت کیا سیاہ رنگ کے کتے کی کیا خصوصیت ہے ؟ اگر زرد یا لال رنگ کا کتا ہو تو پھر کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، شعبہ و ہشام، قتادہ، نے فرمایا کہ میں نے حضرت جابر بن زید سے دریافت کیا کہ کس شئی کے سامنے سے گزرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جس عورت کو حیض آ رہا ہوتا ہے تو اس عورت کے سامنے سے گزرنے اور کتے کے سامنے سے نکل جانے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے حضرت یحیی نے فرمایا کہ حضرت شعبہ نے اس حدیث کو مرفوع قرار دیا ہے (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد مبارک قرار دیا ہے )۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، عبید اللہ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں اور حضرت فضل بن عباس دونوں ایک ہی گدھے پر سوار ہو کر پہنچے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھنے میں مشغول تھے تو ہم لوگ صف کے سامنے سے گزرے پھر ہم لوگ اترے اور گدھے کو چھوڑ دیا وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے گھاس چرتا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو کچھ نہیں کہا (یعنی ہمارے عمل پر تنقید نہیں فرمائی)۔
٭٭ عبدالرحمن بن خالد، حجاج، ابن جریج، محمد بن عمر بن علی، عباس بن عبید اللہ بن عباس، فضل بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن حضرت عباس سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ہم لوگوں کے پاس ایک گدھی تھی اور ایک کتیا تھی وہ گدھی گھاس کھا رہی تھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر ادا فرمائی اور وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے سامنے سے ان کو نہ ہٹایا اور نہ دوسری طرف بھگایا۔
٭٭ ابواشعث، شعبہ، حکم، یحیی بن جزار، صہیب، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک روز وہ خود اور قبیلہ بنوہاشم میں سے ایک لڑکا ایک گدھے پر سوار ہو کر کسی جگہ جا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز ادا فرمانے میں مشغول تھے پھر وہ ٹھہرے اور نماز میں شرکت کر لی تمام لوگوں نے نماز ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی نماز ادا فرمائی کہ اس دوران دو لڑکیاں حاضر ہوئیں جو کہ خاندان عبدالمطلب میں سے تھیں وہ لڑکیاں دوڑتی ہوئی پہنچیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھٹنوں سے وہ لڑکیاں لپٹ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں کو چھڑایا اور نماز کی نیت نہیں توڑی۔
٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، منصور، ابراہیم، اسود، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز میں مشغول رہتے تھے تو جس وقت میں اٹھنا چاہتی تو مجھے برا لگتا کہ میں وہاں سے اٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے نکلوں چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے آہستہ سے نکل جاتی تھی۔
سترہ کے اور نماز کے درمیان سے نکل جانے کی وعید
قتیبہ، مالک، ابو نضر، بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے ان کو ابو جہیم کے پاس بھیج دیا اس سوال پر کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا بات سنی ہے ؟ اس شخص کے متعلق جو کہ نمازی کے سامنے سے گزر جائے۔ ابو جہیم نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی نمازی کے سامنے سے گزرے اگر وہ شخص یہ بات جانے کہ نمازی کے سامنے گزرنے سے کس قدر گناہ ہے تو وہ شخص چالیس روز تک کھڑا رہنا عمدہ اور بہتر سمجھے نمازی کے سامنے سے نکل جانے سے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، زید بن اسلم، عبدالرحمن بن ابو سعید، ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص نماز میں مشغول ہو تو کسی شخص کو اپنے سامنے سے نہ گزرنے دے اگر وہ یہ بات نہ مانے تو اس سے جھگڑا کرے۔
مذکورہ مسئلہ کی اجازت سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج، کثیر بن کثیر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا انہوں نے اپنے دادا سے سنا اور انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کا سات مرتبہ طواف کیا پھر دو رکعت بیت اللہ کے سامنے مقام ابراہیم کے کنارہ پر ادا فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور طواف کے درمیان میں کوئی شئی حائل نہیں تھی (یعنی لوگ طواف کرتے تھے اور وہ سامنے سے گزرتے جاتے تھے )۔
سوتے ہوئے شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرنا
عبید اللہ بن سعید، یحیی، ہشام، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں نماز ادا فرماتے تھے اور میں ان کے رخ کے سامنے بیت اللہ شریف کی جانب لیٹی رہا کرتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بستر مبارک پر اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر ادا فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو نیند سے بیدار فرماتے میں وتر ادا کرتی۔
قبر کی جانب نماز ادا کرنے کی ممانعت سے متعلق
علی بن حجر، ولید، ابن جابر، بسر بن عبید اللہ، واثلہ بن الاسقع، ابو مرثد غنوی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ نماز نہ پڑھو قبروں کی جانب اور تم لوگ قبروں پر نماز نہ پڑھو۔
تصویر والے کپڑے پر نماز نہ پڑھنے سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، صنعانی، خالد، شعبہ، عبدالرحمن بن قاسم، قاسم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میرے مکان میں ایک کپڑا تھا کہ جس میں تصاویر تھیں میں نے اس کو اٹھا کر طاق میں رکھ دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جانب نماز ادا فرماتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عائشہ صدیقہ! تم اس کپڑے کو ہٹا دو چنانچہ میں نے اس کپڑے کو اتار کر اس کے تکیے بنا لئے۔
نمازی اور امام کے درمیان سترہ کا حکم
قتیبہ، لیث، ابن عجلان، سعید مقبری، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک بوریا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن کے وقت اس کو بچھا لیا کرتے تھے اور رات کے وقت اس کی آڑ فرماتے اور نماز ادا فرماتے۔ لوگوں کو علم ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز ادا کرنے لگے اور ان کے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان ایک بوریا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس قدر عمل کرو کہ جس قدر تم عمل کی طاقت اور قدرت رکھتے ہو۔ اس لئے کہ خداوند قدوس ثواب اور اجر کے دینے سے نہیں تھکتا اور تم لوگ ہی تھکن محسوس کرنے لگتے ہو اور بلا شبہ خداوند قدوس کو وہ عمل بہت زیادہ پسند ہے جو ہمیشگی اور پابندی کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اگرچہ وہ عمل کم ہی ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں پر نماز ادا کرنا چھوڑ دی اور کبھی نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دنیا سے ہی اٹھا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت کوئی کام انجام دیتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مضبوطی سے وہ کام انجام دیتے۔
ایک کپڑے میں نماز پڑھنا
قتیبہ بن سعید، مالک، ابن شہاب، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا ایک کپڑے (تہہ بند میں ) نماز ادا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ (اگر چادر وغیرہ نہ ہو) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم لوگوں میں ہر ایک کے پاس دو کپڑے ہیں اور نماز سب کو ادا کرنا چاہیے پھر ایک کپڑے میں بھی نماز درست ہو گی۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ہشام بن عروہ، عمر بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ام سلمہ کے مکان میں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک کپڑا میں نماز ادا فرماتے ہوئے اور اس کے دونوں کنارے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کندھوں پر تھے۔
صرف کرتے میں نماز ادا کرنے سے متعلق
قتیبہ، عطاف، موسیٰ بن ابراہیم، سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں شکار میں جاتے وقت صرف کرتا ہی پہن لیا کرتا ہوں کیا اس طریقہ سے نماز ادا کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نماز ادا کر لو اور اس میں بٹن لگا لو اگرچہ ایک کانٹے کا ہو۔ (تا کہ تمہاری ستر نہ کھل سکے )
تہہ بند لنگی میں نماز ادا کرنا
عبید اللہ بن سعید، یحیی، سفیان، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ نمازیں ادا فرماتے تھے تہہ بند کو باندھے ہوئے لڑکوں کی طرح سے (مطلب یہ ہے کہ جس وقت وہ لوگ سجدہ میں جاتے تھے تو پیچھے کی جانب سے ان کی ستر دکھلائی دیتی تھی) تو خواتین کو حکم ہوا تھا کہ وہ (سجدہ سے ) سر نہ اٹھاویں جس وقت تک مرد سیدھے نہ کھڑے ہوں۔
٭٭ شعیب بن یوسف، یزید بن ہارون، عاصم، عمرو بن سلمہ سے روایت ہے کہ جس وقت میری قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے واپس آئی تو اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگوں کی وہ شخص امامت کرے جو قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا ہو لوگوں نے مجھ کو بلایا (کیونکہ میں قرآن کریم کا زیادہ علم رکھتا تھا) اور رکوع اور سجدہ مجھ کو سکھلائے میں نماز کی امامت کرتا تھا اور اس وقت میرے جسم پر ایک بوسیدہ قسم کی چادر ہوتی تھی اور لوگ میرے والد سے عرض کرتے کہ تم اپنے لڑکے کے ستر کا ہم سے پردہ نہیں کرتے۔
اگر ایک کپڑے کا کچھ حصہ نمازی کے جسم پر ہو اور ایک حصہ اس کی بیوی کے جسم پر ہو؟
اسحاق بن ابراہیم، وکیع، طلحہ بن یحیی، عبید اللہ بن عبد اللہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات میں نماز ادا فرماتے اور میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک ہوتی تھی اور میں اس وقت حالت حیض میں ہوتی تھی اور ایک ہی چادر ہوا کرتی تھی جس میں چادر کا کچھ حصہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پڑا ہوا کرتا تھا۔
ایک ہی کپڑے کے اندر نماز پڑھنا جب کہ کاندھوں پر کچھ نہ ہونا
محمد بن منصور، سفیان، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص نہ نماز پڑھے ایک ہی کپڑے میں جب کہ اس کے کاندھوں پر کوئی کپڑا نہ ہو۔
ریشمی کپڑے میں نماز ادا کرنا
قتیبہ و عیسیٰ بن حماد زغبۃ، لیث، یزید بن ابو جبیب، ابو خیر، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ریشم سے بنی ہوئی ایک قبا بطور تحفہ کے بھیجی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہن کر نماز ادا فرمائی پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز سے فراغت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طاقت سے اس کو اتار کر پھینک دیا۔ پھر ارشاد فرمایا اہل تقویٰ کو اس کا پہن لینا مناسب نہیں ہے۔
نقشین چادر کو اوڑھ کر نماز ادا کرنا
اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ بن سعید، زہری، عروہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک چادر میں نماز ادا فرمائی کہ جس میں نقش و نگار تھے پھر نماز ادا فرما کر ارشاد فرمایا کہ مجھ کو نماز میں (خشوع و خضوع سے ) ان نقش و نگار نے باز رکھا تم لوگ اس چادر کو ابو جہیم کے پاس لے جا اور اس کے عوض اون کا ایک کمبل لے آ۔
سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز ادا کرنا
محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، عون بن ابو جحیفۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سرخ رنگ کے کپڑے زیب تن فرما کر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک نیزہ سامنے گاڑ دیا اس کے بعد نماز ادا فرمائی اور اس نیزہ کے آگے سے کتا اور گدھا اور عورت بھی نکلی تھی۔
ایسے کپڑے میں نماز ادا کرنا جو کہ جسم سے لگا ہوا رہے
عمرو بن منصور، ہشام بن عبدالملک، یحیی بن سعید، جابر بن صبح، خلاس بن عمرو، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں کے دونوں ایک کپڑا اوڑھ کر سو جاتے تھے اور میں اس وقت حالت حیض میں ہوتی تھی اکثر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے میں کوئی چیز لگ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ کو دھو دیتے۔ اس سے زیادہ جگہ نہ دھوتے۔ اس کے بعد نماز ادا فرماتے پھر اگر میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ جاتے اگر کچھ لگ جاتا تو اسی قدر جگہ دھوتے اس سے زیادہ نہ دھوتے۔
موزے پہن کر نماز ادا کرنے سے متعلق
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، سلیمان، ابراہیم، ہمام سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جریر کو دیکھا کہ انہوں نے پیشاب کیا پھر پانی طلب فرمایا اور وضو فرمایا اور موزوں پر مسح فرمایا پھر کھڑے ہوئے اور نماز ادا فرمائی۔ کسی نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے موزوں سے نماز ادا کی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
جوتا پہن کر نماز ادا کرنا
عمرو بن علی، یزید بن زریع و غسان بن مضر، ابو مسلمۃ و اسمہ، سعید بن یزید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جوتہ پہن کر نماز ادا فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔
جس وقت امام نماز پڑھائے تو اپنے جوتے کس جگہ رکھے ؟
عبید اللہ بن سعید و شعیب بن یوسف، یحیی، ابن جریج، محمد بن عباد، عبداللہ بن سفیان، عبداللہ بن سائب سے روایت ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے جوتے بائیں جانب رکھے۔
پاکی کا بیان
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’اے لوگو جب تم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو اپنا چہرہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو‘ کی تفسیر
قتیبہ بن سعید، سفیان، ابی زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ وضو کے پانی میں (برتن) میں نہ ڈالے جب تک کہ ہاتھ کو تین مرتبہ نہ دھو لے کیونکہ تم کو معلوم نہیں کہ (نیند کی حالت میں ) تمہارا ہاتھ کس کس جگہ پڑا (یعنی جسم کے کس کس حصہ کو نیند میں ہاتھ نے چھوا)۔
باب رات کو بیدار ہونے کے بعد مسواک کرنا
اسحاق بن ابراہیم و قتیبہ بن سعید، جریر، منصور، حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رات میں (نیند سے ) بیدار ہوتے تو اپنا منہ مسواک سے صاف کرتے (یعنی مسواک کرتے )۔
باب طریقہ مسواک
احمد بن عبدہ، حماد بن زید، غیلان بن جریر، ابو بردۃ، ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز میں حضرت جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسواک کر رہے تھے اور مسواک کا کونا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت عا عا کر رہے تھے یعنی اس طرح کے الفاظ کہہ کر حلق کی صفائی کر رہے تھے۔
کیا حاکم اپنی رعایا کی موجودگی میں مسواک کر سکتا ہے ؟
عمرو بن علی، یحیی، ابن سعید، قرۃ بن خالد، حمید بن حلال، ابو بردۃ، ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو حضرات بھی تھے۔ ان میں سے ایک شخص میرے دائیں جانب اور دوسرا شخص میرے بائیں جانب تھا۔ دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے لئے نوکری دیئے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبی بنا کر بھیجا ہے۔ مجھ سے ان دونوں میں سے کسی نے اپنے ارادہ کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی مجھ کو اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نوکری مانگنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نوکری کا خواہش مند ہوتا ہے ہم اس کو نوکری نہیں دیتے۔ لیکن ابو موسیٰ تم جاؤ ہم تم کو نوکری دیتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو موسیٰ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور ان کو معاذ کا مددگار مقرر کیا۔
باب فضیلت مسواک
حمید بن مسعدۃ و محمد بن عبد الاعلی، یزید و ابن زریع، عبدالرحمن بن ابو عتیق عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مسواک (کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ) منہ کو صاف کرنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہتا ہے۔
کثرت کے ساتھ مسواک کرنے کی ہدایت
حمید بن مسعدۃ و عمران بن موسی، عبدالوارث، شعیب، ابن حباب، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے مسواک سے متعلق تم لوگوں کے سامنے کافی باتیں بیان کر دی ہیں (یعنی فضیلت بیان کر دی ہیں )۔
روزہ دار شخص کے لیے تیسرے پہر تک مسواک
قتیبہ بن سعید، مالک اپنے والد ابو زناد، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں امت کے لیے دشواری نہ سمجھتا تو میں ان کو ہر نماز کے واسطے مسواک کرنے کا حکم (لازم قرار) دیتا۔
باب ہر وقت مسواک کرنا
علی بن خشرم، عیسیٰ و ابن یونس، مسعر، مقدام و ابن شریع، حضرت شریح بن حبان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکان میں تشریف لے جاتے تو گھر میں سب سے پہلے کس کام سے شروع فرماتے ؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسواک سے شروعات فرماتے (یعنی سب سے پہلے مسواک کرتے )۔
پیدائشی سنتیں جیسے ختنہ وغیرہ کرنے کا بیان
حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشاد فرمایا پانچ اشیاء پیدائشی سنتیں ہیں (1) ختنہ کرانا (2) ناف کے نیچے بال کاٹنا (3) مونچھوں کے بال کاٹنا (4) ناخن کاٹنا (5) بغلوں کے بال کاٹنا (مذکورہ تمام سنتیں پچھلے حضرات انبیاء سے چلی آ رہی ہیں اور ان سنتوں کو سنت ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے )۔
ناخن کاٹنے کا بیان
محمد بن عبدالاعلی، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزیں پیدائشی سنتیں ہیں (1) مونچھوں کا کترنا (2) بغل کے بال صاف کرنا (3) ناخن کاٹنا (4) ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا (5) ختنہ کرنا۔
بغل کے بال اکھاڑنے کا بیان
محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (1) ختنہ کرنا (2) ناف کے نیچے بال مونڈھنا (3) بغل کے بال اکھاڑنا (4) ناخن تراشنا (5) مونچھ کے بال کترنا پیدائشی سنتیں ہیں۔
باب ناف کے نیچے کے بال کاٹنے کا بیان
حارث بن مسکین، ابن وہب، حنظلہ بن ابو سفیان، نافع، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ناخن کاٹنا مونچھ کترنا اور ناف کے نیچے بال کاٹنا (ان کو مونڈھنا) پیدائشی سنت ہے۔
مونچھ کترنا
علی بن حجر، عبیدۃ بن حمید، یوسف بن صہیب، حبیب بن یسار، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مونچھ کے بال نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی ان کا یہ عمل ہمارے طریقہ کے خلاف ہے۔
مذکورہ اشیاء کی مدت سے متعلق
قتیبہ، جعفر، ابن سلیمان، ابو عمران جونی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کے واسطے حد اور مدت مقرر فرما دی ہے یہ کہ مونچھ کے کترنے اور ناخن کاٹنے اور ناف کے نیچے کے بال اور بغل کے بال صاف کرنے میں۔
مونچھ کے بال کترنے اور داڑھی کے چھوڑنے کا بیان
عبیدللہ بن سعید، یحیی و ابن سعید، عبیدللہ، نافع، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مونچھوں کو کم کرو اور ڈاڑھیوں کو چھوڑو (یعنی بڑھاؤ)۔
پیشاب پاخانہ کے لئے دور جانا
عمرو بن علی، یحیی بن سعید، ابو جعفر خطمی، عمیر بن یزید، حارث بن فضیل و عمارۃ بن خزیمۃ بن ثابت، حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ قضائے حاجت کے لئے گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت قضائے حاجت کے لئے جاتے تو دور چلے جاتے (اس کی وجہ یہ ہے کہ تاکہ ستر پر لوگوں کی نگاہ نہ پڑے )۔
٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو دور تشریف لے جاتے کسی سفر میں ایک دن جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو مجھ سے فرمایا تم میرے لئے وضو کا پانی لے کر آؤ چنانچہ میں وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانا
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، عمیش، شقیق، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قوم کے کوڑے پر پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے ہٹ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب سے فارغ ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
باب پاخانہ کے لئے جانے کے وقت کی دعا
اسحاق بن ابراہیم، اسماعیل، عبدالعزیز بن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو فرماتے یا اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں بھوتوں اور چڑیلوں (اقسام شیطان) سے۔
قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنے کی ممانعت
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، رافع بن اسحاق، حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس وقت وہ ملک مصر میں رہتے تھے تو اس طرح سے فرماتے کہ خدا کی قسم میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں ان بیت الخلاؤں کے ساتھ کیا کروں ؟ (ان کا رخ بیت اللہ کی جانب تھا) حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص پیشاب پاخانہ کے لئے جائے تو قبلہ کی جانب نہ تو چہرہ کرے اور نہ پشت کرے بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب رخ کیا کرو۔
پیشاب یا پاخانہ کرنے کے وقت بیت اللہ کی جانب پشت کرنے کی ممانعت
محمد بن منصور، سفیان، زہری، عطا بن یزید، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جب کوئی شخص قضائے حاجت کے لئے جائے تو چہرہ قبلہ کی جانب کر کے نہ بیٹھے بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف کر کے بیٹھے۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم، غندر، معمر، ابن شہاب، عطا بن یزید، حضرت ابو ایوب انصاری، یعقوب بن ابراہیم، غندر، معمر، ابن شہاب، عطاء بن یزید، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص پیشاب، پاخانہ کرنے کے لئے جائے تو بیت اللہ کی جانب چہرہ کر کے نہ بیٹھے بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب منہ کر کے بیٹھے
مکانات میں پیشاب پاخانہ کے وقت بیت اللہ کی جانب چہرہ یا پشت کرنا
قتیبہ بن سعید، مالک، یحییٰ بن سعید، محمد بن یحیی بن حبان، واسع بن حبان، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک روز) میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو اینٹوں پر قضائے حاجت کے لئے بیٹھے ہوئے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ بیت المقدس کی طرف تھا۔
باب قضائے حاجت کے وقت شرم گاہ کو دائیں ہاتھ سے چھونے کی ممانعت
یحیی بن درست، ابو اسماعیل، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو اس کو چاہیے کہ عضو مخصوص کو دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے (یہ حکم دائیں ہاتھ کے احترام کی وجہ سے ہے )
٭٭ ہناد بن سری، وکیع، ہشام، یحیی، ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرے تو اپنا عضو مخصوص دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے۔
صحرا میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کا بیان
مومل بن ہشام، اسماعیل، شعبۃ، سلیمان، ابو وائل، حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قوم کے کوڑا (پھینکنے کی جگہ) پر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، منصور، ابو وائل، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قوم کے کوڑا دان پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
٭٭ سلیمان بن عبید اللہ، بہز، شعبہ، سلیمان و منصور، ابو وائل، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک قوم کے کوڑے پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ سلیمان نے اس قدر اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں پر مسح کیا۔ لیکن منصور نے اپنی روایت میں مسح کرنے کے بارے میں تذکرہ نہیں کیا
مکان میں بیٹھ کر پیشاب کرنا
علی بن حجر، شریک، مقدام بن شریح، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق جو شخص تم لوگوں سے یہ بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر پیشاب کیا کرتے تھے تو تم اس کے قول کو سچا نہ ماننا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے بغیر پیشاب نہیں کیا کرتے تھے۔
کسی شے کی آڑ میں پیشاب کرنا
ہناد بن سری، ابو معاویہ، عمیش، زید بن وہب، حضرت عبدالرحمن بن حسنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ مبارک میں ڈھال جیسی ایک شئی تھی تو آپ نے اس کو اپنے سامنے رکھا اور اس کی آڑ میں بیٹھ کر اس کی طرف پیشاب کیا۔ تو قوم کے بعض مشرکین (ایک روایت کے مطابق یہود) نے کہا کہ ان کو دیکھو کہ یہ نبی کس طریقہ سے خواتین کی طرح سے پیشاب کرتے ہیں ، جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کیا تم اس بات سے واقف نہیں ہو کہ جو کہ قوم بنی اسرائیل کے ایک شخص کو پہنچی اور قوم بنی اسرائیل کے لئے یہ ہدایت تھی کہ جب ان کے کپڑے پر ناپاکی لگ جاتی تھی تو ان کو وہ کپڑا ناپاکی کی جگہ سے کاٹ ڈالنے کا حکم ہوتا۔ پس ایک شخص نے ان کو ایسا کرنے اور کپڑا کاٹ ڈالنے سے منع کیا تو اس وجہ سے وہ شخص عذاب قبر میں مبتلا ہوا۔
پیشاب سے بچنے کا بیان
ہناد بن سری، وکیع، عمیش، طاؤس، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو قبروں کے پاس سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان دونوں قبروں کے مردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ لوگ کسی بڑی وجہ کے سبب عذاب نہیں دیئے جا رہے ہیں بلکہ ان میں سے ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری میں مبتلا رہتا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھجور کی کی تازہ شاخ منگائی اور اس کو درمیان سے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک مردہ کی قبر پر ایک ایک شاخ گاڑ دی اور فرمایا کہ ہو سکتا ہے کہ جس وقت تک یہ دونوں شاخیں خشک نہ ہوں اس وقت تک ان دونوں شخصوں کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔
برتن میں پیشاب کرنا
ایوب بن محمد، حجاج، ابن جریج، حکیمۃ بنت امیمہ، حضرت امیمہ بنت حضرت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے لکڑی کا ایک پیالہ تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پیالہ میں پیشاب کیا کرتے اور اس کو اپنے تخت کے نیچے رکھ لیتے۔
طشت میں پیشاب کرنا
عمرو بن علی، ازہر، ابن عون، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کو وصیت فرمائی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک طشت پیشاب کرنے کے واسطے طلب فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک دوہرا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو احساس نہ ہوا پھر معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس کو وصیت فرمائی۔
سوراخ میں پیشاب کرنے کی ممانعت
عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، اپنے والد سے ، قتادہ، حضرت عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کوئی شخص کسی سوراخ میں پیشاب نہ کرے لوگوں نے کہا کہ سوراخ کے اندر پیشاب کرنا کس وجہ سے مکروہ ہوا۔ انہوں سے کہا کہ سوراخوں میں جنات رہتے ہیں۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کا بیان
قتیبہ، لیث، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکے ہوئے پانی (جو ایک جگہ ٹھہر جائے ) میں پیشاب کرنے کی ممانعت فرمائی۔
غسل خانہ میں پیشاب کرنا منع ہے
علی بن حجر، ابن مبارک، معمر، اشعث بن عبدالملک، حسن، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص (کسی) غسل خانہ میں (ہرگز) پیشاب نہ کرے کیونکہ اس عمل میں اکثر وساوس پیدا ہوتے ہیں۔
پیشاب کرنے والے شخص کو سلام کرنا
محمود بن غیلان، زید بن حباب و قبیصہ، سفیان، ضحاک بن عثمان، نافع، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک سے ایک شخص کا گزر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کر رہے تھے اس شخص نے آپ کو اسی حالت میں سلام کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب نہ دیا (فراغت کے بعد جواب دیا)۔
وضو کرنے کے بعد سلام کا جواب دینا
محمد بن بشار، معاذ بن معاذ، سعید، قتادہ، حسن، حضین ابو ساسان، حضرت مہاجر بن قنفذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت پیشاب کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو سلام کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (پہلے ) وضو کیا جب وضو سے فراغت ہو گئی تو ان کے سلام کا جواب دیا۔
ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت
احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابو عثمان، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہڈی اور لید سے استنجاء کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔
لید سے استنجا کرنے کی ممانعت
یعقوب بن ابراہیم، یحیی یعنی ابن سعید، محمد بن عجلان، قعقاع، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ میں تم سب کے لئے باپ کے درجہ میں ہوں (تعلیم و تربیت اور خیرخواہی کے اعتبار سے ) اس وجہ سے میں تم کو یہ بات سکھاتا ہوں کہ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کے لئے جائے تو بیت اللہ کی طرف چہرہ نہ کرے اور نہ اس طرف پشت کرے اور نہ وہ دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو تین پتھروں سے استنجاء کرنے کا حکم فرمایا نیز پرانی ہڈی اور گوبر سے استنجاء کرنے سے منع فرمایا۔
استنجا میں تین ڈھیلے سے کم ڈھیلے استعمال کرنے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، عمیش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید، حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تم کو تمام چیزوں کی تعلیم دی یہاں تک کہ پاخانہ کرنا بھی سکھلایا۔ حضرت سلیمان نے جواب دیا بلاشبہ ہم کو پاخانہ کرنا بھی سکھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی جانب چہرہ کرنے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت فرمائی۔
دو ڈھیلوں سے استنجا کرنے کی رخصت
احمد بن سلمان، ابو نعیم، زہیر، ابو اسحاق، ابو عبیدۃ ذکرہ، عبدالرحمن بن سود، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پاخانہ کے لئے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم تین پتھر لے آؤ۔ (باوجود تلاش کے ) مجھ کو صرف دو پتھر ہی مل سکے تو میں گوبر کا ایک ٹکڑا ان دو پتھروں کے ساتھ لے آیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دو پتھر تو لے لئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گوبر کا ٹکڑا پھینک دیا اور فرمایا یہ تو رکس ہے۔ (پہلے تو پاک تھا اب ناپاک ہو گیا) کیونکہ پہلے یہ (گوبر) کھانا تھا لیکن اب یہ گوبر ہو گیا۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ رکس سے مراد جنات کی غذا ہے۔
ایک پتھر سے استنجا کرنے کی رخصت و اجازت کا بیان
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ہلال بن یساف، حضرت سلمہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص استنجاء کرے تو اس کو چاہیے کہ طاق ڈھیلے لے۔
صرف مٹی یا ڈھیلوں ہی سے استنجا کر لیا جائے ؟
قتیبہ، عبدالعزیز بن ابو حازم، اپنے والد سے ، مسلم بن قرط، عروہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی پیشاب پاخانہ کے لئے جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ استنجاء کرنے کے لئے اپنے ساتھ تین پتھر (یا مٹی کے ڈھیلے ) لے جائے اس لئے کہ پہلے تین پتھر اس کو استنجاء کرنے کے لئے کافی ہیں۔
پانی سے استنجا کرنے کا حکم
اسحاق بن ابراہیم، نضر، شعبہ، عطاء بن ابو میمونہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت پاخانہ کرنے جاتے تو میں اور میرا ایک ساتھی ایک لڑکا پانی کا ڈول اٹھا کر (ساتھ) چلتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی سے استنجاء کرتے۔
٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، قتادہ، معاذٰۃ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے خواتین سے کہا کہ تم اپنے اپنے شوہروں کو پانی سے استنجاء کرنے کا حکم دو کیونکہ مجھ کو اس طرح کی بات کرنے میں شرم و حیا محسوس ہوتی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانی سے استنجاء کیا کرتے تھے۔
دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے کی ممانعت
اسمعیل بن مسعود، خالد، ہشام، یحیی، عبداللہ بن ابو قتادہ، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص پانی پیے تو اس کو چاہیے کہ وہ پانی کے برتن میں سانس نہ لے اور جس وقت کوئی شخص پاخانہ کرنے جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنے عضو مخصوص کو دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور نہ دائیں ہاتھ سے اس کو صاف کرے یا سونتے۔ (جھاڑے )
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن، عبدالوہاب، ایوب، یحیی بن ابو کثیر، ابن ابو قتادہ، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتن میں پھونک مارنے اور دائیں ہاتھ سے عضو مخصوص کو چھونے اور دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی (شدید) ممانعت بیان فرمائی۔
٭٭ عمرو بن علی و شعیب بن یوسف، عبدالرحمن بن مہدی، سفیان، منصور، و عمیش، ابراہیم، عبدالرحمن بن یزید، حضرت سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے حضرت سلیمان سے کہا کہ ہم تمہارے صاحب یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھتے ہیں کہ وہ تم کو (پیشاب) پاخانہ تک کرنا سکھلاتے ہیں۔ حضرت سلیمان فارسی نے کہا کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو منع فرمایا ہے کہ ہم لوگ دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں اور استنجاء کے وقت قبلہ کی جانب چہرہ کرنے سے منع فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص تین ڈھیلوں سے کم استنجاء نہ کرے۔
استنجا کرنے کے بعد زمین پر ہاتھ رگڑنا
محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، وکیع، شریک، ابراہیم بن جریر، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب استنجاء کیا تو اپنے ہاتھ کو زمین سے رگڑا۔
٭٭ احمد بن صباح، شعیب یعنی ابن حرب، ابان بن عبد اللہ، ابراہیم بن جریر، حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیت الخلاء تشریف لے گئے اور پاخانہ سے فارغ ہوئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے جریر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پانی لاؤ۔ میں (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے ) پانی لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی سے استنجاء کیا اور زمین پر ہاتھ رگڑے۔
پانی میں کتنی نا پاکی گرنے سے وہ نا پاک نہیں ہوتا اس کی حد کا بیان
ہناد بن سری و حسین بن حریث، ابو اسامہ، ولید بن کثیر، محمد بن جعفر، عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کسی نے اس پانی کے بارے میں دریافت فرمایا کہ جس پانی میں درندے اور چوپائے آتے ہیں (یعنی وہ پانی پیا کرتے ہیں اور اس پانی میں پیشاب کر جاتے ہیں ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرمایا جب پانی دو قلہ ہو جائے تو پانی ناپاکی کے لائق نہیں رہتا۔
٭٭ قتیبہ، حماد، ثابت، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (عہد نبوی میں ) ایک گاؤں والے نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ یہ دیکھ کر لوگ اس کی جانب (مارنے کے لئے ) دوڑے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کو چھوڑ دو اور تم اس کو پیشاب سے نہ روکو۔ جب وہ شخص فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی کا ایک ڈول منگایا اور وہاں بہا دیا۔
٭٭ قتیبہ، عبیدۃ، یحیی بن سعید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ڈول پانی (لانے کے لئے ) حکم فرمایا چنانچہ ایک ڈول پانی اس جگہ بہا دیا گیا۔
٭٭ ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم لوگ بئربضاعہ (مدینہ منورہ میں ایک کنویں کا نام) کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں اور بئربضاعہ ایک ایسا کنواں ہے جس میں حیض کے کپڑے اور مرے ہوئے کتے اور بدبو دار اشیاء ڈالی جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پاک ہے اور اس کو کوئی شئے ناپاک نہیں کرتی۔
٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، یحیی بن سعید، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ماحول کو دیکھ کر ارشاد فرمایا تم لوگ اس کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے اس کو چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ وہ شخص پیشاب سے فارغ ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ڈول پانی اس جگہ بہانے کا حکم فرمایا۔
٭٭ عبدالرحمن بن ابرہیم، عمر بن عبدالواحد، اوزاعی، محمد بن ولید، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کا رہنے والا شخص کھڑا ہو گیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا۔ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو چھوڑ دو اور اس نے جس جگہ پیشاب کیا ہے وہاں پر پانی کا ایک ڈول ڈال دو۔ کیونکہ تم لوگ دنیا میں سہولت اور آسانی کے واسطے بھیجے گئے ہو۔
ٹھہرے ہوئے پانی سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، عیسیٰ بن یونس، عوف، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ پھر (بعد میں ) اس پانی سے وضو (بھی) کرے۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم ، اسماعیل، یحیی بن عتیق ، محمد بن سیرین ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت اس طرح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر اس پانی سے غسل کرے کیونکہ احتمال ہے کہ پھر پیشاب (ہی) ہاتھ میں آ جائے (البتہ) جو پانی بہہ رہا ہو اس میں پیشاب کرنا درست ہے کیونکہ اس میں ناپاکی نہیں ٹھہر سکتی۔
سمندری پانی کا بیان
قتیبہ، مالک ، صفوان بن سلیم ، سعید بن سلمہ ، مغیرۃ بن ابو بردۃ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا یا رسول اللہ ہم لوگ سمندر میں سوار ہوتے ہیں اور اپنے ساتھ کچھ پانی رکھ لیتے ہیں اگر ہم لوگ اس پانی سے وضو کریں تو پیاسے رہ جائیں اس وجہ سے کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سمندری پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردہ حلال ہے۔
برف سے وضو کرنے کا بیان
علی بن حجر، جریر ، عمارۃ بن قعقاع ، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ دیر تک خاموش رہتے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس خاموش رہنے کے وقت کیا پڑھتے ہیں ؟ یعنی جو وقفہ تکبیر اور قرأت کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس سکتہ کے دوران یہ دعا پڑھتا ہوں یعنی اے اللہ میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ایسا فاصلہ کر دے جیسا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کر دیا ہے۔ اے اللہ مجھ کو گناہوں سے ایسے پاک صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک صاف کر دیا جاتا ہے۔ اے اللہ مجھ کو دھو ڈال میرے گناہوں سے برف اور پانی اور اولوں سے۔
برف کے پانی سے وضو
اسحاق بن ابراہیم ، جریر ، ہشام بن عروہ ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں اے اللہ میرے گناہوں کو دھو ڈال برف اور اولوں کے پانی سے اور میرا دل گناہوں سے اس طرح صاف کر دے کہ جیسے تو نے صاف کیا سفید کپڑے سے میل کو۔
اولوں کے پانی سے وضو
ہارون بن عبداللہ ، معاویہ بن صالح ، حبیب ابن عبید ، جبیر بن نفیر ، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جنازہ کی نماز ادا فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا مانگی اس شخص پر مغفرت فرما دے اور اس پر رحم فرما اور اس کو عافیت عطا فرما اور اس کے گناہوں سے درگزر فرما دے اور اچھی طرح اس کی مہمانی فرما اور اس کی جگہ کو (قبر) کو وسیع فرما دے اور اس کے گناہوں کو دھو ڈال برف اور اولوں سے جس طریقہ سے کپڑا میل کچیل سے صاف کر دیا جاتا ہے۔
کتے کے جھوٹے کا حکم
قتبہ، مالک ، ابو زناد ، اعرج ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی کتا تمہارے کسی برتن سے پانی پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔
٭٭ ابراہیم بن الحسن، حجاج، ابن جریج ، زیاد بن سعد، عبدالرحمن بن زید ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کسی کے برتن میں جب کتا منہ ڈال کر چپ چپ کر کے پئے تو اس برتن کو سات مرتبہ (پاک کرنے کے لئے ) دھوئے۔
٭٭ ابراہیم بن حسن ، حجاج، ابن جریج ، زیاد بن سعد ، ہلال بن اسامہ، ابو سلمہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ترجمہ مندرجہ بالا حدیث کی طرح ہے۔
جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈال کر چپ چپ کر کے پانی پی لے تو برتن میں جو کچھ ہے اس کو بہا دینا چاہئے
علی بن حجر ، علی بن مسہر ، اعمش ، ابو رزین و ابو صالح ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال کر چپ چپ کر کے پانی پی لے تو جو کچھ اس برتن میں موجود ہو وہ بہا دو اس کے بعد اس برتن کو سات مرتبہ دھو لو۔
جس برتن میں کتا منہ ڈال کر پی لے تو اس کو مٹی سے مانجھنے کے بارے میں
محمد بن عبدالاعلیٰ ، خالد ، شعبہ، ابو تیاح ، حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتوں کے مارنے کا حکم فرمایا لیکن شکاری کتے کو بکریوں کے گلے کا محافظ کتا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسے کتے کے پالنے کی اجازت عطا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کتا برتن میں منہ ڈال کر چپ چپ کر کے پانی پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھو اور آٹھویں مرتبہ میں اس برتن کو مٹی سے مانجھ کر وضو کرو۔
بلی کے جھوٹے سے متعلق
قتیبہ ، مالک ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ ، حمیدۃ بنت عبید بن رفاعۃ، کبشۃ بنت کعب بن مالک سے روایت ہے کہ ابو قتادہ میرے پاس آئے پھر کوئی ایسی بات کی کہ جس کے یہ معنی تھے کہ میں نے ان کے واسطے وضو کا پانی لا کر رکھا کہ اس دوران بلی آ گئی اور وہ پینے لگی۔ ابو قتادہ نے اس بلی کے پینے کے لئے پانی کا برتن ٹیڑھا کر دیا یہاں تک کہ اس نے جی بھر کر پانی پی لیا۔ حضرت کبشہ نے کہا کہ پھر مجھ کو جو دیکھا تو میں ان کی جانب دیکھ رہی ہوں تو انہوں نے مجھ سے کہا اے میری بھتیجی! کیا تم حیرت اور تعجب کر رہی ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ تو انہوں نے کہا کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلی تو ناپاک نہیں ہے کیونکہ وہ تمہارے آس پاس گھومنے والوں میں سے ہے۔
گدھے کے جھوٹے سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن یزید ، سفیان ، ایوب ، محمد ، حضرت انس سے روایت ہے کہ ہمارے پاس جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے اعلان کرنے والا آیا اور اس نے بیان کیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم کو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت فرماتے ہیں کیونکہ وہ ناپاک ہے۔
حائضہ عورت کے جھوٹے کا بیان
عمرو بن علی ، عبدالرحمن ، سفیان ، مقدام بن شریح ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں ہڈی کو چوسا کرتی تھی اس کے بعد جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی جگہ اپنا منہ رکھ کر چوسا کرتے تھے کہ جہاں پر میں نے منہ رکھا تھا حالانکہ میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی اور میں برتن میں پانی پیتی پھر جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اس جگہ اپنا منہ لگا کر پانی پیتے کہ جہاں میں نے منہ لگایا تھا حالانکہ میں اس وقت حیض سے ہوا کرتی تھی۔ (اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس عورت کو حیض آ رہا ہو اس کا جھوٹا پاک ہے اور اس کے پسینے کا بھی یہی حکم ہے۔)
مرد اور عورت کے ایک ساتھ وضو کرنے کا بیان
ہارون بن عبداللہ ، معن ، مالک و الحارث بن مسکین ، ابن قاسم، مالک، نافع، حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں خواتین اور مرد سب ایک ساتھ ہی وضو کرتے تھے (مطلب یہ ہے کہ ایک برتن میں سے سب وضو کرتے )۔
جنبی کے غسل سے جو پانی بچ جائے اس کا حکم
قتیبہ بن سعید ، لیث ، ابن شہاب ، عروہ ، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ وہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی برتن میں غسل کیا کرتی تھیں۔
وضو کے لئے کس قدر پانی کافی ہے ؟
عمرو بن علی ، یحیی ، شعبہ، عبداللہ بن جبیر، حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مکوک پانی سے وضو فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانچ مکوک پانی سے غسل فرمایا کرتے تھے۔
٭٭ محمد بن بشار ، محمد ، شعبہ، حبیب ، عباد بن تمیم ، حضرت ام عمارہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک پانی کا برتن لایا گیا کہ جس میں دو تہائی مد پانی تھا شعبہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو (پانی سے ) دھویا اور ان کو ملایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کانوں میں مسح فرمایا اور مجھ کو یہ بات نہیں یاد کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کانوں کے اوپر کی طرف مسح فرمایا (یا نہیں ؟)
وضو میں نیت کا بیان
یحیی بن حبیب بن عربی ، حماد و حارث بن مسکین ، ابن قاسم ، مالک، سلیمان بن منصور ، عبداللہ بن مبارک ، یحیی بن سعید، محمد بن ابراہیم ، علقمہ بن وقاص ، حضرت عمر سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اعمال کا اعتبار (دراصل) نیت پر ہے اور ہر ایک شخص کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے (یعنی کوئی برا عمل ثواب کا اہل نہیں ہے اور برے کام کرنے والے کو اجر نہ مل سکے گا) تو جس کی نیت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ہو گی وہ شخص عند اللہ اجر و ثواب کا مستحق ہے اور جس کی ہجرت دنیا کے لئے ہوئی کہ (وہ یہ نیت کرے کہ میں اس عورت کو حاصل کر لوں ) تو اس کی نیت اسی کے لئے ہے کہ جس کے لئے اس نے ہجرت کی یعنی دنیا عورت کے حاصل کرنے کی نیت سے وہ نیت اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی کے لئے نیت شمار نہ ہو گی۔
باب برتن سے وضو کے متعلق فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
قتیبہ ، مالک ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا۔ اس روز نماز عصر ادا کرنے کا وقت ہو گیا لوگوں نے وضو کے لئے پانی تلاش کیا لیکن پانی نہ مل سکا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک اس برتن میں رکھ دیا اور لوگوں کو وضو کرنے کا حکم فرمایا تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک انگلیوں سے پانی ٹپک رہا تھا یہاں تک کہ اخیر میں جو شخص تھا اس نے بھی وضو کیا۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم ، عبدالرزاق ، سفیان ، اعمش ، ابراہیم ، علقمہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے۔ لوگوں کو پانی نہ مل سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک کڑھائی پانی کی پیش کی گئی۔ آپ نے اپنا ہاتھ مبارک اس کے اندر ڈال لیا۔ تو میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا کے پانی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک انگلیوں سے نکل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ تم لوگ آ جاؤ پاک پانی کے پاس اور اللہ تعالیٰ کی برکت کے پاس آ جاؤ۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم بن ابی الجعد نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر سے کہا کہ تم لوگ کتنے آدمی تھے اس روز؟ انہوں نے کہا ایک ہزار پانچ سو افراد تھے۔
بوقت وضو بسم اللہ پڑھنا
اسحاق بن ابراہیم ، عبدالرزاق، معمر، ثابت و قتادہ ، حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے وضو کا پانی طلب کیا اور فرمایا تم لوگوں میں سے کیا کسی شخص کے پاس پانی موجود ہے ؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ مبارک پانی میں رکھا اور فرمایا تم لوگ اللہ تعالیٰ کے نام سے وضو کرو تو میں نے یہ منظر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی نکل رہا تھا یہاں تک کہ تمام لوگوں نے وضو کیا اور کوئی شخص وضو سے باقی نہ بچا۔ ثابت نے کہا جنہوں نے اس حدیث کو نقل فرمایا ہے انس سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں مجموعی اعتبار سے کل کتنے حضرات موجود تھے ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا تقریباً ستر حضرات تھے۔
اگر خادم وضو کرنے والے شخص کے اعضاء پر وضو کا پانی ڈالتا جائے
سلیمان بن داؤد و حارث بن مسکین ، ابن وہب ، مالک و یونس و عمرو بن حارث ، ابن شہاب ، عباد بن زیاد ، عروہ بن مغیرۃ ، حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ غزوہ تبوک میں جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا تو میں نے (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر) پانی ڈالا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔ امام نسائی کہتے ہیں کہ مالک نے عروہ بن مغیرہ کا ذکر نہیں کیا۔
وضو کرتے وقت اعضاء کو ایک ایک مرتبہ دھونا
محمد بن مثنی ، یحیی، سفیان، زید بن اسلم ، عطاء بن یسار ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کیا میں تم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو سے خبردار نہ کروں پھر آپ نے وضو فرمایا۔
وضو میں اعضاء کو تین تین مرتبہ دھو نا
سوید بن نصر ، عبداللہ بن مبارک ، اوزاعی ، المطلب بن عبداللہ بن حنطب ، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کیا تو انہوں نے ہر ایک عضو کو تین تین مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح کیا کرتے تھے یعنی عمل نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طرح سے تھا۔
وضو کا طریقہ، دونوں ہاتھ دھونا
محمد بن ابراہیم بصری ، بشر بن مفضل ، ابن عون ، عامر شعبی ، عروہ بن مغیرۃ ، مغیرۃ و محمد بن سیرین سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے پیٹ میں اپنا عصا مبارک چبھویا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مڑ گئے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک ایسی زمین پر تشریف لائے جو کہ ایسی ایسی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس جگہ اونٹ بٹھلایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری نگاہ سے غائب ہو گئے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس پانی موجود ہے ؟ اس وقت میرے پاس ایک پانی مشکیزہ تھا۔ میں اس کو لے کر حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں پہونچے اور چہرہ مبارک دھویا اس کے بعد دونوں ہاتھوں کے دھونے کا قصد فرمایا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جبہ پہنے ہوئے تھے جو کہ ملک شام کا تیار کردہ تھا کہ جس کی آستین تنگ تھی اس وجہ سے اس کی آستین اوپر نہ چڑھ سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ چوغہ مبارک کے نیچے سے نکال لیا اور چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھ دھوئے اس کے بعد حضرت مغیرہ نے عمامہ اور پیشانی کا حال (مسح) بیان فرمایا۔ حضرت ابن عون فرماتے ہیں کہ مجھ کو اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ جو بات میں چاہتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے موزوں پر مسح فرمایا اس کے بعد فرمایا اب تم ضرورت سے فارغ ہو جاؤ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ مجھ کو ضرورت نہیں ہے اس کے بعد ہم لوگ آئے تو اس وقت امام عبدالرحمن بن عوف تھے اور وہ اس وقت نماز فجر کی ایک رکعت ادا فرما چکے تھے۔ میں نے ارادہ کیا کہ میں حضرت عبدالرحمن کو مطلع کو دوں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لا چکے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کی ممانعت فرما دی پھر جس قدر ہم لوگوں کو نماز ملی تھی اس کو پڑھا اور جس قدر نماز ہم سے قبل ادا کی جا چکی تھی اس کو سلام کے بعد مکمل فرمایا
وضو میں کتنی مرتبہ اعضاء کو دھونا چاہئے ؟
حمید بن مسعدۃ ، سفیان ، ابن حبیب ، شعبہ، نعمان بن سالم ، حضرت ابن ابی اوس سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دونوں پہونچوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا۔
وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا
سوید بن نصر ، عبداللہ ، معمر ، زہری ، عطاء بن یزید ، عمران بن ابان ، عثمان بن عفان ، حضرت عمران بن ابان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان کو دیکھا کے انہوں نے وضو کیا تو (پہلے ) انہوں نے تین مرتبہ پانی ڈال کر ان کو دھویا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی دیا (یعنی ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کی) پھر چہرہ تین مرتبہ دھویا اس کے بعد کہنی تک اپنا دایاں ہاتھ تین مرتبہ دھویا اس کے بعد بایاں ہاتھ اسی طرح تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا اور پھر انہوں نے بایاں پاؤں بھی دھویا پھر فرمایا کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ نے اس میرے وضو جیسا وضو کیا اس کے بعد فرمایا کہ جو شخص میری طرح سے وضو کرے کہ جیسے میں نے یہ وضو کیا ہے پھر دو رکعت نماز ادا کرے اور دل میں لغو اور بیہودہ خیالات نہ لائے تو اس کے اگلے گناہ تمام کے تمام معاف ہو جائیں گے۔
دونوں ہاتھوں میں سے کون سے ہاتھ میں پانی لے کر کلی کرے ؟
احمد بن محمد بن مغیرۃ ، عثمان ، ابن سعید بن کثیر بن دینار ، شعیب ، ابن ابو حمزٰۃ ، زہری ، عطاء بن یزید ، حضرت عمران سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے وضو کا پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اس کے بعد دایاں ہاتھ پانی میں ڈال کر کلی کی اور ناک صاف کی اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا چہرہ تین مرتبہ دھویا اور کہنی تک دونوں ہاتھ تین مرتبہ دھوئے پھر سر کا مسح کیا اور ہر ایک پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا پھر حضرت عثمان نے کہا کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی طرح سے وضو کیا جیسا میں نے یہ وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص میری طرح سے وضو کرے کہ میں نے جس طریقے سے وضو کیا ہے اس کے بعد وہ شخص کھڑے ہو کر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اور نماز کے دوران لغو اور بیہودہ خیالات اور وسوسے (خود سے ) نہ لائے تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
ایک ہی مرتبہ ناک صاف کرنے کا بیان و احکام
محمد بن منصور ، سفیان ، ابو زناد ، حسین بن عیسیٰ ، معن ، مالک، ابو زناد، اعرج ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو اپنی ناک میں پانی ڈالے اس کے بعد ناک صاف کرے۔ دوسری روایت میں ہے کہ تین مرتبہ ناک صاف کرے۔
وضو کرتے وقت ناک میں پانی زور سے ڈالنے کا بیان
قتیبہ بن سعید ، یحیی بن سلیم ، اسماعیل بن کثیر و اسحاق بن ابراہیم ، وکیع ، سفیان ، ابو ہاشم ، حضرت لقیط بن صبرہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! مجھے اچھی طرح سے وضو کرنا سکھلا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم وضو مکمل طریقہ سے کیا کرو اور ناک صاف کرنے میں زور لگایا کرو مگر یہ کہ تم روزہ دار ہو۔
ناک میں پانی ڈالنے اور صاف کرنے کا بیان
قتیبہ ، مالک ، اسحاق بن منصور، عبدالرحمن ، مالک ، ابن شہاب ، ابو ادریس ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص وضو کرے تو ناک صاف کرے یعنی ناک سنکے اور جو شخص ڈھیلے سے استنجاء کرے تو طاق لے یعنی استنجاء طاق عدد تین پانچ سات ڈھیلے یا پتھر سے کرے۔
٭٭ قتیبہ ، حماد، منصور، ہلال بن یساف، سلمہ بن قیس، حضرت سلمہ بن قیس سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو ناک صاف کرو اور جب تم استنجاء کے لئے ڈھیلے لو تو طاق عدد استعمال کرو۔
بیدار ہونے کے بعد ناک صاف کرنے کا بیان
محمد بن زنبور المکی، ابن ابو حازم ، یزید بن عبداللہ ، محمد بن ابراہیم ، عیسیٰ بن طلحہ ، ابو ہریرہ ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی شخص سو کر اٹھے پھر وہ وضو کرے تو تین مرتبہ ناک صاف کرے کیونکہ شیطان رات میں ناک کی جڑ کے اندر رہتا ہے (مراد نیند کی حالت ہے چاہے رات میں سوئے یا دن میں )
کون سے ناک سنکے
موسی بن عبدالرحمن ، حسین بن علی ، زائدۃ ، خالد بن علقمہ ، عبد خیر ، حضرت علی سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کے لئے پانی طلب فرمایا تو کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور بائیں ہاتھ سے ناک صاف کیا۔ انہوں نے تین مرتبہ اسی طریقے سے کیا اور فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی وضو ہے
وضو میں چہرہ دھونا
قتیبہ ، ابو عوانہ ، خالد بن علقمہ ، عبد خیر سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت علی بن ابی طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے تھے۔ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا۔ ہم لوگوں نے کہا کہ یہ اس پانی کا کیا کریں گے یہ نماز سے تو فارغ ہو چکے ہیں (شاید) ہم لوگوں کو طریقہ وضو بتلانے کے لئے پانی منگوایا ہے بہرحال ان کے پاس ایک برتن آیا کہ جس میں پانی تھا اور ایک طشت آیا انہوں نے برتن سے اپنے ہاتھ سے پانی ڈالا اور اس کو تین مرتبہ دھویا اس کے بعد کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور اسی ہاتھ سے پانی ڈالا کہ ہاتھ سے وہ پانی لے رہے تھے۔ اس کے بعد چہرہ کو تین مرتبہ دھویا اور تین مرتبہ دایاں ہاتھ دھویا اور تین ہی مرتبہ بایاں ہاتھ دھویا اور ایک مرتبہ سر کا مسح فرمایا۔ پھر دایاں پاؤں دھویا تین مرتبہ اور بایاں پاؤں بھی تین مرتبہ دھویا اور اس کے بعد انہوں نے فرمایا۔ جس شخص کو یہ خواہش ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقے سے وضو کرتے تھے تو اس کے واسطے یہی وضو ہے۔
٭٭ سوید بن نصر ، عبداللہ وابن مبارک ، شعبہ، مالک بن عرفطۃ ، عبد خیر سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس ایک کرسی لائی گئی وہ اس پر بیٹھ گئے پھر ایک برتن منگوایا کہ جس میں پانی موجود تھا اور تین مرتبہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنا برتن جھکا کر ڈالا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا ایک ہی چلو سے تین مرتبہ پھر تین مرتبہ انہوں نے چہرہ دھویا اور دونوں بانہیں دھوئیں۔ اس کے بعد پانی لیا اور سر کا مسح کیا اپنی پیشانی سے اپنی گدی تک پھر فرمایا کہ مجھ کو علم نہیں کہ گردن سے ہاتھ کو پھر وہ پیشانی تک لائے یا نہیں اور دونوں پاؤں دھوئے تین تین مرتبہ۔ اس کے بعد کہا کہ جس کو خواہش ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وضو کو دیکھنے کی تو آپ کا یہی وضو تھا۔
وضو میں دونوں ہاتھ دھونے کا بیان
عمرو بن علی و حمید بن مسعدۃ ، یزید و ابن زریع ، شعبہ، مالک بن عرفطۃ، عبد خیر ، کی روایت ہے کہ ایک دن میں حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے ایک کرسی منگوائی اور اس پر تشریف فرما ہوئے اس کے بعد انہوں نے ایک برتن میں پانی طلب فرمایا اور دونوں ہاتھ دھوئے تین مرتبہ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا ایک ہی چلو سے تین مرتبہ اور پھر چہرہ دھویا۔ تین مرتبہ اور تین تین مرتبہ دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈال کر سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں دھوئے تین تین مرتبہ۔ اس کے بعد کہا کہ جس شخص کو خواہش ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وضو دیکھنے کی تو وہ شخص اس وضو کو دیکھ لے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی وضو تھا۔
ترکیب وضو
ابراہیم بن حسن مقسمی، حجاج، ابن جریج ، شیبہ ، محمد بن علی ، ابو علی ، حسین بن علی سے روایت ہے کہ میرے والد حضرت علی نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا میں نے وضو کا پانی پیش خدمت کر دیا۔ انہوں نے وضو کرنا شروع کر دیا تو انہوں نے پہلے دونوں پہونچوں کو پانی سے ہاتھ ڈالنے سے قبل دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک صاف کی اور پھر چہرہ کو تین مرتبہ دھویا اس کے بعد دائیں ہاتھ کو اسی طریقہ سے دھویا پھر سر پر ایک ایک مرتبہ مسح فرمایا۔ پھر دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین مرتبہ دھویا۔ اس کے بعد انہوں نے اسی طریقہ سے بائیں پاؤں کو دھویا۔ پھر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ مجھے پانی دے دو۔ میں نے وہی برتن لیا کہ جس میں وضو کا پانی بچا ہوا تھا۔ انہوں نے کھڑے کھڑے اس میں سے پانی پی لیا اس پر میں نے حیرت ظاہر کی انہوں نے کہا تم حیرت میں نہ پڑو کیونکہ میں نے تمہارے والد (یعنی نانا) کو دیکھا کہ وہ بھی اس طریقہ سے کیا کرتے تھے جس طریقہ سے میں نے تم کو بتلایا اور دکھلایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے کھڑے پیا کرتے تھے۔
وضو میں ہاتھوں کو کتنی مرتبہ دھونا چاہئے ؟
قتیبہ بن سعید ، ابو حوص ، ابو اسحاق، ابی حیٰۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو پہلے اپنے دونوں پہونچے دھوئے یہاں تک کہ انہوں نے ان کو (اچھی طرح سے ) صاف کیا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ تین مرتبہ دھویا اور دونوں ہاتھ تین تین مرتبہ دھوئے پھر سر پر مسح فرمایا۔ اس کے بعد دونوں پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا۔ پھر کھڑے ہو گئے اور وضو کا پانی کھڑے کھڑے پی لیا اس کے بعد فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ میں تم لوگوں کو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ وضو سکھلاؤں۔
ہاتھوں کو دھونے کی حد کا بیان
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم ، مالک ، عمرو بن یحیی مازنی ، عبداللہ بن زید بن عاصم و اصحاب ، حضرت عمرو بن یحیی مازنی نے بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے سنا اپنے والد یحیی بن عمارہ بن ابی حسن سے کہ انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن زید بن عاصم سے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ہیں اور عمرو بن یحیی کے دادا ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا تم لوگ دکھلا سکتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقے سے وضو فرمایا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں تب انہوں نے وضو کا پانی طلب کیا اور اس کو اپنے ہاتھ پر ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دھویا دو دو مرتبہ۔ اس کے بعد کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا پھر چہرہ دھویا تین مرتبہ اس کے بعد دو مرتبہ ہاتھوں کو دھویا کہنی تک پھر مسح کیا سر کا دونوں ہاتھوں سے اور دونوں ہاتھ پیشانی سے گدی تک لے گئے اس کے بعد ہاتھوں کو پیشانی تک لے گئے پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔
سر پر مسح کی کیفیت کا بیان
عتبہ بن عبداللہ ، مالک و ابن انس ، عمرو بن یحیی، اپنے والد سے ، عبداللہ بن زید بن عاعم ، عمرو بن یحیی، اپنے والد ماجد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن زید بن عاصم سے عرض کیا کہ آپ مجھ کو دکھلا سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے وضو کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں اور پھر انہوں نے پانی منگوا کر دائیں ہاتھ پر ڈالا اور ہاتھ کو دو دو مرتبہ دھویا پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر دو مرتبہ دونوں بازو کہنیوں تک دھوئے۔ پھر ہاتھوں سے سر کا اس طریقہ سے مسح کیا کہ دونوں ہاتھوں کو آگے کی جانب سے پیچھے کی طرف لے گئے پھر ہاتھوں کو پیچھے کی طرف سے آگے کی جانب لائے۔ پھر پیچھے سے آگے کی جانب ہاتھوں کو لائے۔ یہاں تک کہ اسی جگہ ہاتھوں کو واپس لائے کہ جس جگہ سے شروع کیا تھا پھر دونوں پاؤں کو دھویا۔
سر پر کتنی مرتبہ مسح کرنا چاہئے ؟
محمد بن منصور، سفیان، عمرو بن یحیی، عبداللہ بن زید، کہ جنہوں نے خواب میں اذان سنی تھی وہ فرماتے ہیں کے میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو کرتے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ چہرہ دھویا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے دو مرتبہ پاؤں دھوئے اور دو مرتبہ سر کا مسح فرمایا۔
عورت کے مسح کرنے کا بیان
حسین بن حریث، فضل بن موسی، جعید بن عبدالرحمن، عبدالملک بن مروان بن حارث بن ابو ذباب، ابو عبداللہ سالم سبلان فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ ان کی دیانت اور امانت کی بہت زیادہ قائل تھیں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ نے مجھ کو دکھلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے وضو فرماتے ہیں انہوں نے تین تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر چہرہ کو تین مرتبہ دھویا پھر دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ تین تین مرتبہ دھوئے پھر ہاتھ کو سر کے آگے رکھ کر پیچھے کی طرف لے گئے اور سر کا مسح ایک ہی مرتبہ کیا پھر دونوں ہاتھوں کو پہلے کانوں پر اور پھر دونوں رخساروں پر پھیرا۔ سالم کہتے ہیں کہ میں مکاتب تھا اس وجہ سے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا اور وہ مجھ سے پردہ نہیں کیا کرتی تھیں اور وہ مجھ سے گفتگو تک فرما لیا کرتی تھیں یہاں تک کہ ایک دن میں ان کے پاس گیا اور میں نے کہا ام المومنین آپ میرے واسطے خیر و برکت کی دعا فرمائیں۔ انہوں نے دریافت فرمایا کہ کس وجہ سے ؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو آزادی کی نعمت سے نوازا ہے اس پر وہ فرمانے لگیں کہ اللہ تعالیٰ تم کو خیر و برکت سے نوازے اور اس کے بعد سے وہ پردہ فرمانے لگیں اور اس روز کے بعد پھر کبھی میں نے ان کی زیارت نہیں کی۔
کانوں کے مسح سے متعلق
ہیثم بن ایوب طالقانی، عبدالعزیز بن محمد، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وضو فرماتے ہوئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کو پہلے دھویا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر چہرہ اور ہاتھوں کو ایک ایک مرتبہ دھویا پھر ایک ایک مرتبہ سر اور کانوں کا مسح کیا۔ حضرت عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ مجھے اس نے خبر دی کہ جس نے حضرت ابن عجلان سے سنا کہ اس روایت میں انہوں نے پاؤں دھونے کا بھی تذکرہ بیان کیا ہے۔
کانوں کا سر کے ساتھ مسح کرنا اور ان کے سر کے حکم میں شامل ہونے سے متعلق
مجاہد بن موسی، عبداللہ بن ادریس، ابن عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسا ر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو کیا تو ایک چلو (پانی) لے کر اس سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر چلو لے کر چہرہ دھویا۔ پھر دایاں اور بایاں بازو دھویا پھر سر اور دونوں کانوں کے اندر کے حصہ کا شہادت کی انگلی سے اور باہر کے حصہ کا انگوٹھے سے مسح فرمایا پھر (ایک پانی) چلو لے کر دایاں پاؤں دھویا اور پھر اسی طرح سے (جس طرح سے دایاں پاؤں مبارک دھویا) بایاں پاؤں بھی دھویا۔
٭٭ قتیبہ و عتبہ بن عبد اللہ، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، عبداللہ ضابحی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت کوئی مومن وضو کرتا ہے اور وہ دوران وضو کلی کرتا ہے تو اس کے چہرہ سے اس کے تمام (چھوٹے ) گناہ نکل جاتے ہیں۔ اسی طریقہ سے جب وہ ناک سنکتا ہے تو ناک سے اور چہرہ دھوتا ہے تو چہرہ سے یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کی پلک سے ہونے والے تمام کے تمام گناہ نکل جاتے ہیں پھر جب دونوں ہاتھوں کو دھوتا ہے تو ان سے ہونے والے گناہ اور حتی کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی گناہ نکل جاتے ہیں۔ اسی طریقہ سے سر کا مسح کرنے سے اور حتی کہ دونوں کانوں سے بھی (صغیرہ) گناہ نکل جاتے ہیں اور جس وقت پاؤں دھوتا ہے تو ان کے ناخنوں کے نیچے تک کے گناہ نکل جاتے ہیں پھر وہ بندہ مسجد کی جانب چل دیتا ہے اور وہ مسجد میں نوافل ادا کرنے لگتا ہے تو ان کا اجرو ثواب علیحدہ ہے یعنی اس کا مزید ثواب ملے گا۔ حضرت قتیبہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ روایت حضرت ضابحی سے سنی اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔
عمامہ پر مسح سے متعلق
حسین بن منصور، ابو معاویہ، الاعمش، حسین بن منصور، عبداللہ بن نصیر، الاعمش، الحکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، کعب بن عجزٰۃ، بلال سے روایت ہے کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موزوں اور عمامہ پر مسح کرنے کی حالت میں دیکھا ہے۔
٭٭ حسین بن عبدالرحمن، طلق بن غنام، زائدۃ و حفص بن غیاث، الاعمش، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے دیکھا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے۔
٭٭ ہناد بن سری، وکیع، شعبہ، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، بلال سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمامہ اور موزوں پر مسح فرماتے تھے۔
پیشانی اور عمامے پر مسح کرنے کے متعلق
عمرو بن علی، یحیی بن سعید، سلیمان تیمی، بکر بن عبداللہ مزنی، حسن، ابن مغیرۃ بن شعبہ، مغیرۃ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشانی اور عمامہ پر مسح فرمایا۔
٭٭ عمرو بن علی و حمید بن مسعدۃ، یزید و ابن زریع، حمید، بکر بن عبداللہ مزنی، حمزٰۃ بن مغیرۃ بن شعبہ، حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ایک سفر کے دوران) لوگوں (صحابہ) سے پیچھے رہ گئے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ پیچھے رہ گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی حاجت سے فراغت حاصل فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس پانی موجود ہے ؟ میں ایک گھڑا پانی کا لے کر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھویا پھر آستین سے ہاتھ نکالنے لگے تو وہ تنگ تھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مبارک چوغہ کو مونڈھے پر ڈالا اور اندر سے ہاتھ نکال لئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھ دھوئے پیشانی پر مسح فرمایا پھر عمامہ اور موزوں پر مسح فرمایا۔
عمامہ پر مسح کرنے کی کیفیت
یعقوب بن ابراہیم، ہشیم، یونس بن عبید، ابن سیرین، عمرو بن وہب ثقفی، مغیرۃ بن شعبہ سے روایت ہے کہ دو باتیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں میں کسی سے دریافت نہ کروں گا۔ جو کہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دیکھ چکا ہوں۔ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (دوران سفر حاجت پورا کرنے کے لئے ) تشریف لے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واپس تشریف لا کر وضو فرمایا اور پیشانی پر مسح فرمایا اور عمامہ کے دونوں کناروں اور موزوں پر مسح فرمایا (اس وجہ سے اب اس سلسلہ میں کسی دوسرے سے دریافت کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی) دوسری بات یہ ہے کہ امام اپنی رعایا میں سے کسی شخص کی اقتداء میں نماز ادا کرے تو کیا یہ درست ہے ؟ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ نماز کا وقت ہو گیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف نہیں لائے تو صحابہ نے نماز شروع فرما دی اور لوگوں نے عبدالرحمن بن عوف کو (امامت کے لئے ) آگے بڑھایا۔ انہوں نے نماز پڑھانا شروع فرما دی۔ اسی دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے آئے اور عبدالرحمن بن عوف کی اقتداء میں جس قدر نماز باقی تھی وہ ادا فرمائی۔ پس جس وقت عبدالرحمن بن عوف نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جس قدر نماز باقی تھی وہ پڑھی۔
پاؤں دھونے کے واجب ہونے کے متعلق
قتیبہ، یزید بن زریع، شعبہ، مومل بن ہشام، اسماعیل، شعبہ، محمد بن زیاد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہلاکت و بربادی ہے (پاؤں کی) ایڑی کی دوزخ کے عذاب سے۔
٭٭ محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، منصور، ہلال بن یساف، ابو یحیی، عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ جو وضو میں مشغول ہیں اور ان کی ایڑیاں خشکی کی وجہ سے چمک رہی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھ کر ارشاد فرمایا ہلاکت ہے ایڑیوں کی دوزخ کے عذاب سے اور تم لوگ وضو کو مکمل کرو۔
وضو میں کون سے پاؤں کو پہلے دھونا چاہئے ؟
محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امکانی حد تک دائیں جانب سے شروع کرنے کو پسندیدہ خیال فرماتے تھے۔ پاکی حاصل کرنے میں جوتا پہننے میں اور کنگھا کرنے میں۔ (اور اس کے علاوہ دیگر کئی کاموں میں۔ جن کی تفصیل سیرت کی کتابوں میں مفصل طور پر موجود ہے )۔
دونوں پاؤں کو ہاتھوں سے دھونے سے متعلق
محمد بن بشار، محمد،شعبۃ، ابو جعفر مدنی، ابن عثمان بن حنیف یعنی عمارۃ حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد قیسی سے روایت ہے کہ وہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برتن جھکا کر پانی کو دونوں ہاتھوں سے ڈالا اور ایک مرتبہ دھویا پھر چہرہ اور ایک ایک بازو بھی دو مرتبہ دھوئے اور پھر دونوں ہاتھ دھوئے ایک ایک مرتبہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں سے دونوں پاؤں کو دھویا۔
انگلیوں کے درمیان خلال کرنے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، یحیی بن سلیم، اسماعیل بن کثیر، محمد بن رافع، یحیی بن آدم، سفیان، ابو ہاشم بن لقیط، حضرت لقیط بن صبرہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ وضو کرو تو وضو کو (اچھی طرح سے پورا کرو) اور تم انگلیوں کے درمیان خلال کرو (تاکہ انگلیوں کے درمیان کا خلاء خشک نہ رہ جائے )۔
کتنی مرتبہ پاؤں دھونا چاہئے
محمد بن آدم، ابن ابو زائدۃ، ابو وغیرہ، ابو اسحاق، ابو حیوۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا انہوں نے وضو کیا تو دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ اور تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ اور منہ دھویا تین مرتبہ اور دونوں بازوں تین تین مرتبہ دھوئے اور سر کا مسح کیا اور تین تین مرتبہ دونوں پاؤں کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی وضو تھا۔
رات دن کے نوافل کے متعلق احادیث
وتر پڑھنے کے حکم کا بیان
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، ابو نعیم، سفیان، ابو اسحاق ، عاصم بن ضمرۃ، علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر فرض (نماز) نہیں ہے بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مبارکہ ہے۔
سونے سے قبل وتر پڑھنے کی ترغیب کا بیان
سلیمان بن سلم و محمد بن علی بن حسن بن شقیق، نضر بن شمیل، شعبہ، ابو شمر، ابو عثمان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی (1) وتر پڑھنے کے بعد سونا۔ (2) ہر ماہ تین روزے رکھنا۔ اور (3) فجر کی دو سنتیں (ضرور) پڑھنا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، عباس جریری، ابو عثمان، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین چیزوں کی وصیت کی۔ رات کے پہلے حصہ میں وتر پڑھنا۔ فجر کی دو سنتیں پڑھنا اور ہر ماہ تین روزے رکھنا۔
ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنے کی ممانعت کا بیان
ہناد بن سری، ملازم بن عمرو، عبداللہ بن بدر، قیس بن طلق فرماتے ہیں کہ طلق بن علی ایک مرتبہ رمضان میں ہمارے ہاں تشریف لائے تو شام تک وہیں رہے۔ رات کی نماز پڑھی اور وتر ادا کرنے کے بعد ایک مسجد میں تشریف لے گئے۔ وہاں بھی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی لیکن جب وتر پڑھنے کی باری آئی تو دوسرے شخص کو آگے کر دیا اور کہا کہ وتر پڑھاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ ایک رات میں دو مرتبہ وتر نہیں ہوتے۔
وتر کے وقت کا بیان
محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، ابو اسحاق ، اسود بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کے ابتداء حصہ میں سو جاتے پھر اٹھتے اور سحری کے وقت وتر پڑھتے۔ پھر اپنے بستر پر آ جاتے اور اگر خواہش ہوتی تو زوجہ محترمہ کے پاس جاتے۔ پھر جب اذان سنتے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوتے اور اگر غسل کرنا ہوتا تو غسل کرتے ورنہ وضو کے بعد نماز کے لیے تشریف لے جاتے
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، سفیان، ابو حصین، یحیی بن وثاب، مسروق و عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رات کے ابتداء حصے آخری حصے اور درمیانی حصے سب وقتوں میں وتر پڑھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وتر ادا کرنے کا آخری وقت سحری (کے قریب کا) وقت ہوتا تھا۔
٭٭ قتیبہ، لیث، نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص رات کو نماز پڑھے اور آخر میں وتر پڑھنے چاہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (ہمیں ) یہی حکم فرمایا کرتے تھے۔
صبح سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان
عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، محمد و ابن مبارک، معاویہ، ابن سلام بن ابو سلام، یحیی بن ابو کثیر، ابو نضرہ عوفی، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وتر کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا صبح ہونے سے قبل وتر ادا کر لیا کرو۔
٭٭ یحیی بن درست، ابو اسماعیل القناد، یحیی و ابن کثیر، ابو نضرۃ، ابو سعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد) فرمایا وتر فجر سے قبل پڑھ لیا کرو۔
فجر کی اذان کے بعد وتر پڑھنا
یحیی بن حکیم، ابن ابو عدی، شعبہ، ابراہیم بن محمد بن منتشر، اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ عمرو بن شرجیل کی مسجد میں تھے کہ جماعت کے لیے اقامت ہوئی تو لوگ ان کا انتظار کرنے لگے۔ جب وہ آئے تو کہنے لگے میں وتر پڑھ رہا تھا۔ اس کے علاوہ فرمایا کہ ایک مرتبہ عبداللہ سے پوچھا گیا کہ کیا فجر کی اذان کے بعد وتر پڑھنا جائز ہے ؟ فرمایا ہاں ! بلکہ اقامت کے بعد بھی جائز ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی نماز کے وقت اٹھ نہ سکے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی۔
سواری پر وتر پڑھنے کا بیان
عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، عبید اللہ بن اخنس، نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سواری پر وتر نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔
٭٭ ابراہیم بن یعقوب، عبداللہ بن محمد بن علی، زہیر، حسن بن حر، نافع، عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ اپنے اونٹ پر وتر پڑھتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی اسی طرح (وتر پڑھا) کیا کرتے تھے۔
٭٭ قتیبہ، مالک، ابو بکر بن عمر بن عبدالرحمن بن عبداللہ بن عمر بن خطاب، سعید بن یسار، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹ پر (سوار ہو کر) وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
رکعات وتر کا بیان
محمد بن یحیی بن عبد اللہ، وہب بن جریر، شعبۃ، ابو التیاح، ابو مجلزرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا وتر رات کے آخری حصے میں ایک رکعت ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، یحیی ومحمد، شعبۃ، قتادہ، ابو مجلز، ابن عمر رضی اللہ عنہ مذکورہ سند سے بھی وہی حدیث منقول ہے۔ کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وتر رات کے آخری حصے میں ایک رکعت ہے
٭٭ حسن بن محمد، عفان، ہمام، قتادہ، عبداللہ بن شقیق، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو ارشاد فرمایا دو دو رکعت اور وتر رات کے آخری حصے میں (صرف) ایک رکعت ہی ہے۔
ایک رکعت وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان
ربیع بن سلیمان، حجاج بن ابراہیم، ابن وہب، عمرو بن حارث، عبدالرحمن بن قاسم، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے اور اگر تم نماز ختم کرنے کا ارادہ کرو تو ایک رکعت وتر پڑھ لیا کرو۔ اس طرح وہ سب رکعات وتر (طاق) بن جائیں گی۔
٭٭ قتیبہ، خالد بن زیاد، نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہیں اور وتر ایک رکعت ہے۔
٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نافع و عبداللہ بن دینار، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے لیکن اگر کسی کو فجر طلوع ہو جانے (صبح ہو جانے ) کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ کر پوری نماز کو وتر (طاق) کر لے۔
٭٭ عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، محمدیعنی ابن مبارک، معاویہ، ابن سلام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن و نافع، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا رات کی نماز دو دو رکعت ہے لیکن اگر صبح ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لیا کرو۔ (تاکہ باقی نماز طاق ہو جائے )
٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، مالک، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے اور ان میں سے ایک وتر کی رکعت ہوتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں کروٹ آرام فرمایا کرتے۔
تین رکعات وتر پڑھنے کے طریقہ کا بیان
محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، سعید بن ابو سعید مقبری، ابو سلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رمضان کی نماز کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان یا اس کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعات پڑھتے اور ان کی خوبی اور طوالت سے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار رکعت پڑھتے اور ان کی حسن اور طوالت کے متعلق بھی مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین رکعت پڑھتے۔ (تین وتر کی) پھر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں ؟ فرمایا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا! میری آنکھیں تو سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔
راہ الہی میں وقف سے متعلقہ احادیث
مسجد کے واسطے وقف سے متعلق
عمران بن بکار بن راشد، خطاب بن عثمان، عیسیٰ بن یونس، ابیہ ، ابو اسحاق، حضرت سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ جس وقت لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قید خانہ میں ڈال دیا تو وہ اوپر چڑھ گئے اور انہوں نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے لوگو! میں تم سے خداوند قدوس کا واسطہ دے کر معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا تم لوگوں میں سے کوئی ایسا شخص ہے جس نے کہ پہاڑ کے حرکت میں آنے پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ٹھوکر مارتے ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے پہاڑ! تو اسی جگہ ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی صدیق اور دو شہید کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس وقت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا۔ اس پر کچھ لوگوں نے ان آیت کریمہ کی تصدیق کی۔ انہوں نے فرمایا میں خداوند قدوس کا واسطہ دے کر معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی اس قسم کا شخص آج ہے جس نے کہ بیعت رضوان پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہو کہ یہ اللہ کا ہاتھ ہے اور یہ حضرت عثمان کا ہاتھ ہے اس پر کچھ لوگوں نے حضرت عثمان کے فرمان کی تائید کی اور اس کی تصدیق کی پھر انہوں نے فرمایا میں خداوند قدوس کا واسطہ دے کر معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی شخص ایسا موجود ہے کہ جس نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو کہ کون ہے کہ جو قبول ہونے والا مال صدقہ میں دیتا ہے ؟ اس بات پر میں نے اپنے ذاتی مال سے آدھے لشکر کو آراستہ کیا اس پر بھی لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ انہوں نے پھر فرمایا میں خدا کا واسطے دے کر معلوم کرتا ہوں کہ کہ کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو اس مسجد میں جنت کے مکان کے بدلہ توسیع کرتا ہے اس بات پر میں نے اپنے ذاتی مال سے وہ زمین خریدی۔ اس بات پر لوگوں نے ان کی تصدیق کی۔ انہوں نے پھر فرمایا میں خداوند قدوس کا واسطہ دے کر دریافت کرتا ہوں کیا کوئی اس قسم کا شخص موجود ہے جس نے کہ بئر رومہ کے کنویں کی فروخت کا مشاہدہ کیا ہو جس کو میں نے اپنے ذاتی مال سے خرید کر مسافروں کے واسطے وقف کر دیا تھا اس بات پر بھی کچھ لوگوں نے ان کی بات کی تصدیق کی۔
٭٭ محمد بن وہب، محمد بن سملہ ، ابو عبدالرحیم، زید بن ابو انیسہ، ابو اسحاق، ابو عبدالرحمن، اس حدیث کا مضمون سابقہ حدیث کے مطابق ہے۔
وصیتوں سے متعلقہ احادیث
وصیت کرنے میں دیر کرنا مکروہ ہے
احمد بن حرب، محمد بن فضیل، عمارہ، ابو زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور اس نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کون سے صدقہ کا ثواب زیادہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس حالت میں خیرات دینا کہ تم تندرست ہو اور مال دولت کا لالچ تمہارے دل میں ہو اور تم غربت اور فاقہ سے ڈرتے ہو اور تم زندگی کی توقع رکھتے ہو یہ نہیں کہ جان کے حلق میں آنے کا انتظار کرتے رہو اور اس وقت تم کہنے لگو اس قدر فلاں کا حصہ ہے اور اس قدر فلاں کا۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو معاویہ، اعمش، ابراہیم، حارث بن سوید، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون شخص ایسا ہے کہ جس کو اپنے وارث کی دولت اپنے مال دولت سے زیادہ پسندیدہ ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اس قسم کا کوئی شخص نہیں ہے ہر آدمی کے نزدیک اس کا اپنا مال اس کے وارث کے مال دولت سے زیادہ محبوب ہے اس بات پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تو پھر تم یہ بات جان لو کہ تمہارے میں سے کوئی شخص اس قسم کا نہیں ہے کہ جس کے نزدیک اس کے وارث کی دولت اس کی اپنی دولت سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ اس وجہ سے تمہاری دولت وہ ہے جو کہ تم نے خیرات کر دیا اور جو تم نے چھوڑ دیا وہ تو تمہارے ورثہ کی ملکیت ہے۔
٭٭ عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، قتادہ، حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے نقل فرماتے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی یعنی یہ فخر تم لوگوں کو غفلت میں ڈرائے رکھتا ہے یہاں تک کہ تم لوگ قبرستان میں پہنچ جاتے ہو اور ارشاد فرمایا۔ انسان کہتا ہے کہ میری دولت ہے یہ میری دولت ہے حالانکہ درحقیقت تمہاری دولت تو وہی ہے جو کہ تم نے کھا کر (یا استعمال کر کے ) ختم اور فنا کر دیا پہن کر پرانا کر دیا اور صدقہ ادا کر کے آخرت کے واسطے بھیج دیا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد، شعبہ، ابو اسحاق، حضرت ابو حبیبہ طائی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے مرنے کے وقت کچھ دولت راہ خدا میں صدقہ کرنے کی وصیت کی تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس مسئلہ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے بیان فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مرنے کے وقت غلام آزاد کرتا ہے یا صدقہ ادا کرتا ہے تو اس شخص کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کہ خوب اچھی طرح پیٹ بھرنے کے بعد ہدیہ دیتا ہے۔
٭٭ قتیبہ بن سعید، فضیل، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کے واسطے یہ جائز نہیں ہے کہ اسے کسی چیز کے بارے میں وصیت کرنا ہو اور وہ رات اس حالت میں گزر جائے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔
٭٭ محمد بن سلبمہ، ابن قاسم، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن خاتم بن نعیم، حبان، عبد اللہ، ابن عون، نایع، ابن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث کا مضمون بھی سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، اب شہاب، سالم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس وقت میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت کے بارے میں ارشاد گرامی سنا ہے تو اس وقت سے میری وصیت میرے پاس موجود رہتی ہے۔
٭٭ احمد بن یحیی، وزیر بن سلیمان، ابن وہب، یونس و عمرو بن حارث، ابن شہاب، سالم بن عبد اللہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کے واسطے جائز نہیں ہے کہ اس کو کسی چیز میں وصیت کرنی ہو اور تین رات اس حالت میں گزر جائیں کہ اس کی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔
کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وصیت فرمائی تھی؟
اسمعیل بن مسعود، خالد بن حارث، مالک بن مغول، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے دریافت کیا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وصیت فرمائی تھی؟ فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا تو پھر مسلمانوں پر یہ وصیت کس طریقہ سے فرض ہوئی؟ ارشاد فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کتاب اللہ کی وصیت فرمائی تھی۔
٭٭ محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل، اعمش، محمد بن علاء، احمد بن حرب، ابو معاویۃ، اعمس، شقیق، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو کوئی دینار چھوڑا نہ درہم نہ بکری اور نہ اونٹ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
٭٭ محمد بن رافع، مصعب، داد، اعمش، شقیق، مسروق، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو کوئی دینار چھوڑا نہ درہم نہ بکری اور نہ اونٹ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
٭٭ جعفر بن محمد بن ہذیل و احمد بن یوسف، عاصم بن یوسف، حسن بن عیاش، اعمش، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو کوئی دینار چھوڑا نہ درہم نہ بکری اور نہ اونٹ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی وصیت نہیں فرمائی۔
٭٭ عمرو بن علی، ازہر، ابن عون، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا وصی بنایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس وقت یہ حالت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشاب کرنے کے لیے ایک طباق منگایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اس وجہ سے میں اس سے واقف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس کو وصیت کی۔
٭٭ احمد بن سلیمان، عارم، حماد بن زید، ابن عون، ابراہیم، اسود، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس میرے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت ایک طشت منگایا تھا۔
ایک تہائی مال کی وصیت
عمرو بن عثمان بن سعید، سفیان، زہری، حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد سے نقل کرتے ہیں انہوں نے بیان فرمایا جس وقت ایک مرتبہ میں سخت بیمار ہو گیا اور میں اپنے مرنے کے قریب پہنچ گیا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری مزاج پرسی کے واسطے تشریف لائے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میرے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور میری وارث میری ایک لڑکی ہے۔ کیا میں اپنی دولت کے دو تہائی حصہ کو اس کو خیرات کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا کیا آدھی دولت صدقہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا تہائی مال۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک تہائی مال تم (صدقہ کر دو) یہ بھی زیادہ ہے اس وجہ سے کہ تمہارا اپنے ورثہ کو غنی (یعنی ان کو فقر و فاقہ سے بے پرواہ خوش حال) چھوڑنا ان کو تنگ دست اور محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔
٭٭ عمرو بن منصور و احمد بن سلیمان، ابو نعیم، سفیان، حضرت سعد ابراہیم فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ معظمہ میں میری عیادت کرنے کے واسطے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کیا میں اپنی تمام کی تمام دولت خیرات کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا آدھی دولت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا تہائی دولت۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ایک تہائی دولت (کی وصیت) کر دو لیکن ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اس لیے کہ تم اپنے وارثوں کو دولت مند (خوشحال) چھوڑ دو اس سے کہیں بہتر ہے۔ کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو وہ لوگوں کے ہاتھ دیکھتے رہیں (یعنی محتاج اور دست نگر رہیں )۔
٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، سعد بن ابراہیم، عامر بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری عیادت کے واسطے مکہ معظمہ تشریف لائے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں اس جگہ انتقال کروں کہ جہاں میں نے ہجرت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خداوند قدوس حضرت سعد بن عفراء پر رحم فرمائے ان کی صرف ایک ہی لڑکی تھی۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں اپنے تمام کے تمام مال کی وصیت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا آدھا مال۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی مال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک تہائی مال کی وصیت کر دو حالانکہ یہ بھی زیادہ ہے اس وجہ سے کہ تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ دو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑ دو اور وہ لوگوں کے دست نگر (یعنی ان کے محتاج) بنے رہیں۔
٭٭ احمد بن سلیمان، ابو نعیم، مسعر، سعد بن ابراہیم، آل سعد، اس حدیث کا مضمون سابق کے مطابق ہے۔
قسموں اور نذروں سے متعلق احادیث مبارکہ
اس نذر سے متعلق کہ جس میں رضاء الہی کا قصد نہ کیا جائے
محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، سلیمان الاحول، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک شخص کے پاس سے گزرنا ہوا وہ شخص (کہ جس کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر ہوا) ایک دوسرے شخص کو رسی میں باندھ کر کھینچ رہا تھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص کے پاس تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو (یعنی رسی کو) کاٹ دیا کہ جس سے وہ شخص دوسرے کو کھینچ رہا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس شخص نے اس طریقہ سے نذر مانی تھی۔
٭٭ یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، سلیمان الاحول، طاؤس، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور دیکھا کہ اس کو دوسرا شخص کھینچ رہا تھا اونٹ کی نکیل سے باندھ کر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو اپنے مبارک ہاتھوں سے کاٹ دیا اور حکم فرمایا کہ تم اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لو اور حضرت ابن جریج کی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس آدمی کے پاس سے گزرے اور وہ شخص خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا اور ایک شخص نے اس کے ہاتھ باندھ دیئے تھے دوسرے شخص کے ساتھ اور جس شے سے ہاتھ باندھے تھے وہ تسمہ یا ڈورا تھا یا کوئی اور چیز تھی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے اس کو کاٹ ڈالا اور اس کو کھینچنے والے شخص سے فرمایا کہ تم اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لو۔
اس شے کی نذر ماننا جو کہ ملکیت میں نہ ہو
محمد بن منصور، سفیان، ایوب، ابو قلابہ، ان کے چچا، حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جائز نہیں نذر کرنا اللہ کی نافرمانی اور گناہ کی چیز میں اور اس چیز میں بھی نذر جائز نہیں ہے کہ جس کا انسان مالک نہیں۔
٭٭ اسحاق بن منصور، ابو المغیرۃ، اوزاعی، یحیی، ابو قلابۃ، حضرت ثابت بن ضحاک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اسلام کے علاوہ کسی ملت کی قسم کھائے اور وہ شخص اپنی قسم میں جھوٹا ہو جائے تو وہ ایسا شخص ہے کہ جیسا اس نے اپنے کو کہا اور جس شخص نے خود کو کسی شے سے ہلاک کیا تو اس شخص کو اس شے کے ساتھ کہ جس شے (یعنی آلہ وغیرہ سے ) اس نے خود کو ہلاک کیا تھا تو قیامت کے دن تک اس طرح عذاب دیا جاتا رہے گا اور جس چیز کا انسان مالک نہیں ہے اس کی نذر نہیں ہوتی۔
جو شخص خانہ کعبہ کے لیے پیدل جانے سے متعلق نذر کرے
یوسف بن سعید، حجاج، ابن جریج، سعید بن ابی ایوب، یزید بن ابی حبیب، ابو الخیر، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میری بہن نے نذر مانی کہ میں خانہ کعبہ تک پیدل چل کر جاؤں گی اور مجھ کو حکم کیا کہ تم یہ مسئلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھو۔ چنانچہ میں نے اس (اپنی بہن) کے واسطے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسئلہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس کو چاہیے کہ (جہاں تک ہو سکے وہ) پیدل چلے اور باقی سوار ہو کر چلے۔
اگر کوئی عورت ننگے پاؤں ننگے سر چل کر حج پر جانے کی قسم کھائے
عمرو بن علی ومحمد بن مثنی، یحیی بن سعید، یحیی بن سعید، عبید اللہ بن زحر، عبداللہ بن مالک،ضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کے لیے (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ) مسئلہ دریافت کیا کہ اس نے نذر مانی ہے ننگے پاؤں اور ننگے سر چلنے کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی بہن سے کہہ دو کہ وہ اپنا دوپٹہ اوڑھ لے اور سوار ہو کر جائے اور تین دن کے روزے رکھے۔
اس شخص سے متعلق کہ جس نے روزے رکھنے کی نذر مان لی پھر وہ شخص فوت ہو گیا اور روزے نے رکھ سکا
بشر بن خالد عسکری، محمد بن جعفر،شعبۃ، سلیمان، مسلم البطین، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک خاتون دریا میں سوار ہوئی تھی اور اس نے ایک ماہ کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی کہ وہ مر گئی روزے رکھنے سے قبل ہی۔ پھر اس کی بہن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا اس کا حال۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا۔ (جو کہ اوپر مذکور ہے )
اس شخص سے متعلق کہ جس کی وفات ہو جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو
علی بن حجر و حارث بن مسکین، سفیان، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ، حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنی والدہ کی نذر کے متعلق دریافت کیا کہ جسے پورا کرنے سے پہلے ہی ان کی والدہ کی وفات ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنی والدہ کی طرف سے نذر پوری کرو۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث میں گزر چکا۔
٭٭ ترجمہ حدیث سابق میں گزر چکا۔
اگر کوئی شخص منت پوری کرنے سے پہلے مسلمان ہو جائے تو کیا کرے ؟
اسحاق بن موسی، سفیان، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے نذر مانی تھی تمام رات مسجد حرام میں اعتکاف کرنے کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا یہ مسئلہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم ارشاد فرمایا ان کو اعتکاف کرنے کا۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن یزید، سفیان، ایوب بن نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے دور جاہلیت میں ایک روز کے اعتکاف کی نیت فرمائی تھی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو اس جگہ اعتکاف کرنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ اس سند سے بھی سابقہ حدیث کی مانند منقول ہے۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلیٰ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبداللہ بن کعب، حضرت کعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کی جس وقت توبہ قبول ہوئی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے مال دولت سے علیحدہ ہوں اور میں اس کو صدقہ کر دیتا ہوں تاکہ میں اس کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب صدقہ و خیرات کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے مال میں سے رکھ لو تاکہ اس سے تمہارا کام چل جائے اور تم کو آرام حاصل ہو سکے۔
اگر کوئی اپنے مال و دولت کو نذر کے طور پر ہدیہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
سلیمان بن داؤد، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عبدالرحمن بن کعب بن مالک، حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت کعب بن مالک سے سنا جس وقت انہوں نے اپنے پیچھے رہ جانے کی حالت بیان کی یعنی اس زمانہ کا حال کہ جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک نقل فرماتے ہیں کہ جس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میں اپنے مال و دولت سے علیحدہ ہو جاؤں اور میں اس کو صدقہ کر دوں اور اس کو میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے بھیجوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے نزدیک کچھ مال و دولت رکھ لو یہ بات تمہارے واسطے بہتر ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا میں نے اپنے واسطے وہ حصہ رکھ لیا ہے جو کہ خیبر میں ہے (مختصرا)
٭٭ یوسف بن سعید، حجاج بن محمد، لیث بن سعد، عقیل، ابن شہاب، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ حضرت کعب بن مالک سے سنا جس وقت انہوں نے اپنے پیچھے رہ جانے کی حالت بیان کی یعنی اس زمانہ کا حال کہ جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تھے۔ حضرت کعب بن مالک نقل فرماتے ہیں کہ جس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری توبہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میں اپنے مال و دولت سے علیحدہ ہو جاؤں اور میں اس کو صدقہ کر دوں اور اس کو میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے بھیجوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اپنے نزدیک کچھ مال ودولت رکھ لو یہ بات تمہارے واسطے بہتر ہے۔ وہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا میں نے اپنے واسطے وہ حصہ رکھ لیا ہے جو کہ خیبر میں ہے (مختصرا)
٭٭ محمد بن معدان بن عیسیٰ، حسن بن اعین، معقل، زہری، عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب، ان کے چچا حضرت عبید اللہ بن کعب سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد حضرت کعب بن مالک سے سنا۔ وہ نقل فرماتے تھے کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! خدا بزرگ و برتر نے مجھ کو سچ کی برکت سے (آفت سے ) نجات عطا فرمائی اور میری توبہ میں یہ بات بھی ہے کہ میں اپنے مال و دولت سے صدقہ و خیرات علیحدہ کروں (یعنی راہ خدا میں خرچ کروں ) خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس میں سے کچھ مال رکھ لو اپنے واسطے یہ بات بہتر ہے تمہارے حق میں وہ کہتے تھے کہ میں نے عرض کیا رکھ لیا ہے اپنے واسطے وہ حصہ جو کہ خیبر میں ہے۔
مال نذر کرتے وقت اس میں زمین بھی داخل ہے یا نہیں ؟
حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک،ثور بن زید، ابو الغیث مولی ابن مطیع، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے کہ خیبر والے سال میں ہم کو وہاں پر لوٹ حاصل نہ ہوئی یعنی سامان اور کپڑے ہمارے ہاتھ نہ آئے تو ایک شخص نے غلام دیا جس کا نام رفاعہ بن زید تھا اور وہ شخص قبیلہ ضبیب سے تھا اس نے ایک حبشی غلام دیا اس غلام کو مرغم کہا جاتا تھا پھر وہاں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وادی القری کی جانب متوجہ ہوئے جس وقت ہم لوگ وادی القری پہنچے تو اچانک اس غلام کے بے خبری میں ایک تیر آ کر لگا اور اس تیر نے اس غلام کو ختم کر دیا اور اس غلام کے وہ تیر ایسی حالت میں لگا کہ جس وقت کہ وہ غلام (مد عم) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سامان اتار رہا تھا۔ لوگ عرض کرنے لگے کہ تم کو جنت مبارک ہو یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہرگز یہ بات نہیں ہوئی یعنی جنت کا مل جانا خیر ہے۔ اس پروردگار کی قسم! کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ کملی (چادر) جو اس نے لی تھی خیبر والے دن لوٹ اور مال غنیمت میں سے جب کہ مال تقسیم نہیں ہوا تھا (یعنی تقسیم سے قبل جو چیز اس نے لی تھی) اس کی وجہ سے اس پر دوزخ کی آگ شعلے مارے گی اور اس پر آگ برسے گی جب لوگوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تو اس وقت ایک شخص چمڑے کی ایک یا دو دوالین (تسمے ) لے کر حاضر ہوا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چمڑے کی جو ایک یا دو دوالین ہیں وہ آگ ہیں۔
انشاء اللہ کہنے سے متعلق
یونس بن عبدالاعلیٰ، ابن وہب، عمرو بن حارث، کثیر بن فرقد، نافع، حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قسم کھا کر جو شخص انشاء اللہ کہہ دے تو اس شخص نے استثناء کر لیا یعنی قسم میں سے نکال لیا اب اس کو اختیار ہے کہ وہ شخص اپنی قسم پوری کرے یا نہ کرے۔
٭٭ محمد بن منصور، سفیان، ایوب، نافع، حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی شے پر قسم کھائے اور اس کے بعد وہ شخص انشاءاللہ کہے تو اس شخص کو اختیار ہے چاہے وہ شخص وہ بات پوری کرے یا نہ کرے۔
اگر کوئی شخص قسم کھائے اور دوسرا شخص اس کے واسطے انشاء اللہ کہے تو دوسرے شخص کا انشاء اللہ کہنا اس کے واسطے کیسا ہے ؟
عمران بن بکار، علی بن عیاش،شعیب، ابو زناد، حضرت عبدالرحمن بن اعرج حضرت ابو ہریرہ سے سن کر روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ایک دن حضرت سلیمان بن داؤد نے کہا تھا میں ایک ہی رات میں اپنی نو کی نو بیویوں کے پاس جاؤں گا (یعنی میں اپنی تمام کی تمام بیویوں سے ایک ہی رات میں ہم بستری کروں گا) ہر ایک بیوی سے ولادت ہو گی ایک سوار (یعنی مجاہد) کی جو کہ راہ خدا میں جہاد کرے گا۔ یہ سن کر ان کے ساتھ والے شخص نے کہا کہ اس بات کے واسطے انہوں نے انشاءاللہ نہیں کہا پھر حضرت سلیمان نے کہا کہ پھر میں اپنی بیویوں کے پاس گیا اور ان سے صحبت کی لیکن کوئی بھی اہلیہ حاملہ نہ ہو سکی۔ علاوہ ایک اہلیہ محترمہ کے اور ایک اہلیہ بھی ایسی حاملہ ہوئی کہ اس کے ناقص بچہ پیدا ہوا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اگر وہ جملہ انشاءاللہ کہہ لیتے تو البتہ ان کے تمام کے تمام صاحبزادے راہ خدا میں جہاد فرماتے۔
نذر کے کفارہ سے متعلق
احمد بن یحیی بن وزیر بن سلیمان وحارث بن مسکین، ابن وہب، عمرو بن حارث، کعب بن علقمۃ، عبدالرحمن بن شماسۃ، حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نذر کا کفارہ وہ ہی کفارہ ہے جو کہ قسم کا کفارہ ہے۔
٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب ، یونس ، ابن شہاب، ابو سلمہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کے کام میں نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔
٭٭ کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، قاسم، حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا گناہ کی بات میں نذر نہیں ہوتی۔
جنگ کے متعلق احادیث مبارکہ
راوی ابو اسحق سے اختلاف سے متعلق
ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔
٭٭ مفہوم ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق ، عامر، جریر حضرت جریر نے فرمایا جو غلام اپنے مالکوں کے پاس سے گیا اور دشمن کے ملک (دار الکفر) میں چلا گیا اس نے اپنا خون خود ہی حلال کر لیا۔
مرتد سے متعلق احادیث
ابوالازہر احمد بن الازمر نیسابوری، اسحاق بن سلیمان رازی، مغیرۃ بن مسلم، مطر وراق، نافع، ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مسلمان کا خون حلال نہیں ہے مگر تین وجوہات سے ایک تو وہ جو کہ زنا کا مرتکب ہو (یعنی محصن ہونے کے بعد اس کو زنا کر نے کی وجہ سے سنگسار کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ مر جائے ) دوسرے وہ جو کہ قصداً قتل کرے (تو اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا) تیسرے جب کوئی مسلمان مرتد ہو جائے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
٭٭ مؤمل بن ہاب، عبدالرزاق، ابن جریج، ابو نضر، بسر بن سعید، عثمان بن عفان نے فرمایا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ مسلمان کا خون درست نہیں ہے مگر تین وجہ سے یا تو وہ محصن ہونے کے بعد زنا کا مرتکب ہو جائے یا کسی شخص کو قتل کرے یا اسلام قبول کرنے کے بعد کافر بن جائے (مرتد ہو جائے تو وہ قتل کیا جائے گا)۔
٭٭ عمران بن موسی، عبدالوارث، ایوب، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کر دو۔
٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، ابو ہشام، وہیب، ایوب، عکرمہ سے روایت ہے کہ بعض لوگ اسلام سے منحرف ہو گئے تو حضرت علی نے ان کو آگ میں جلوایا۔ تو حضرت ابن عباس نے فرمایا اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو کبھی میں ان کو آگ میں نہ جلواتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کسی کو تم لوگ عذاب خداوندی میں (یعنی آگ کے عذاب میں ) مبتلا نہ کرو۔ البتہ میں ان کو قتل کر دیتا۔ اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کر دو۔
٭٭ محمود بن غیلان، محمد بن بکر، ابن جریج، اسماعیل، معمر، ایوب، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ جو کوئی اپنا مذہب تبدیل کرے تو اس کو قتل کر دو۔
٭٭ ہلال بن العلاء، اسماعیل بن عبداللہ بن زرارۃ، عباد بن عوام، سعید، قتادۃ، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ جو کوئی اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کر دو۔
٭٭ موسی بن عبدالرحمن، محمد بن بشر، سعید، قتادۃ، حسن سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کر ڈالو۔ (معلوم ہوا کہ کسی جان دار کو خواہ انسان ہو یا جانور وغیرہ اس کو کسی بھی صورت میں آگ کے عذاب میں مبتلا کرنا ناجائز ہوا)۔
٭٭ ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبدالصمد، ہشام، قتادۃ، انس، ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس بعض لوگ زط(نامی پہاڑ) پر لائے گئے جو کہ بت پرستی میں مبتلا تھے تو حضرت علی نے ان کو آگ میں جلوا دیا۔ ابن عباس نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنا دین تبدیل کرے تو اس کو قتل کر ڈالو۔
٭٭ محمد بن بشار و حماد بن مسعدۃ، قرۃ بن خالد، حمید بن ہلال، ابو بردۃ بن ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو (حکام بنا کر) ملک یمن کی طرف روانہ فرمایا پھر حضرت معاذ کو بھیجا اس کے بعد جب وہ ملک یمن پہنچ گئے تو انہوں نے فرمایا اے لوگو! میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قاصد اور سفیر ہوں یہ سن کر حضرت ابو موسی اشعری نے ان کے واسطے (ان کے آرام کرنے کے لیے ) تکیہ لگایا کہ اس دوران ایک آدمی پیش کیا گیا جو کہ پہلے یہودی تھا پھر وہ شخص مسلمان بن گیا تھا پھر وہ کافر ہو گیا۔ حضرت معاذ نے فرمایا میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا کہ جس وقت تک یہ آدمی قتل نہ کر دیا جائے خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موافق۔ (کیونکہ یہ شخص مرتد ہو چکا تھا اس لیے اس کا قتل کیا جانا ضروری تھا بہر حال) جس وقت وہ شخص قتل کر دیا گیا تب وہ بیٹھے۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، احمد بن مفضل، اسباط، زعم سدی، مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ جس روز مکہ مکرمہ فتح ہوا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام لوگوں کو امن دیا (یعنی پناہ دی) لیکن چار مردوں اور عورتوں سے متعلق فرمایا یہ لوگ جس جگہ ملے ان کو قتل کر دیا جائے اگر یہ لوگ خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے ہوں (مراد یہ ہے کہ چاہے جیسی بھی عبادت میں مشغول ہوں ) وہ چار لوگ یہ تھے عکرمہ بن ابو جہل عبداللہ بن خطل مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی السرح۔ تو عبداللہ بن خطل خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ملا تو اس کو قتل کرنے کے واسطے دو شخص آگے بڑھے ایک تو حضرت سعد بن حریث اور دوسرے حضرت عمار بن یاسر لیکن حضرت سعد حضرت عمار سے زیادہ جوان تھے تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا آگے بڑھ کر اور مقیس بن صبابہ بازار میں ملا تو اس کو لوگوں نے وہاں پر ہی قتل کر دیا اور ابو جہل کا لڑکا عکرمہ سمندر میں سوار ہو گیا تو وہاں پر طوفان آ گیا اور وہ اس طوفان میں گھر گیا تو کشتی والوں نے اس سے کہا کہ اب تم سب صرف خداوند قدوس کو پکارو اس لیے کہ تم لوگوں کے معبود اس جگہ کچھ نہیں کر سکتے (یعنی سب بے بس اور مجبور محض ہیں ) اس پر عکرمہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم اگر دریا میں اس کے علاوہ کوئی مجھ کو نہیں بچا سکتا۔ اے میرے پروردگار میں تجھ سے اقرار کرتا ہوں کہ اگر اس مصیبت سے کہ میں جس میں پھنس گیا ہوں تو مجھ کو بچا لے گا تو میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ رکھوں گا (یعنی جا کر ان سے بیعت ہو جاؤں گا) اور میں ضرور ان کو اپنے اوپر بخشش کرنے والا مہربان پاؤں گا۔ پھر وہ حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا اور عبداللہ بن ابی سرح حضرت عثمان کے پاس جا کر چھپ گیا اور جس وقت اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو بلایا بیعت فرمانے کے لیے تو حضرت عثمان نے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے لا کھڑا کر دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عبداللہ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیعت کر لیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مبارک اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ کی جانب تین مرتبہ دیکھا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک مرتبہ اس کو بیعت فرمانے سے انکار فرما دیا تین مرتبہ کے بعد پھر آخر کار اس کو بیعت کر لیا اس کے بعد حضرات صحابہ کرام کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا کیا تمہارے میں سے کوئی ایک شخص بھی سمجھ دار نہیں تھا کہ جو اٹھ کھڑا ہو تو اس کی جانب جس وقت مجھ کو دیکھتا کہ میں اس کو بیعت کرنے سے ہاتھ روک رہا ہوں تو اسی وقت عبداللہ کو قتل کر ڈالتا۔ ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مبارک کی بات کا کس طریقہ سے علم ہوتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آنکھ سے کس وجہ سے اشارہ نہیں فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نبی کی یہ شان نہیں ہے (یعنی نبی کے واسطے یہ مناسب نہیں ہے ) کہ وہ آنکھ مچولی کرے۔
مرتد کی توبہ اور اس کے دوبارہ اسلام قبول کرنے سے متعلق
محمد بن عبداللہ بن بزیع، یزید، ابن زریع، داؤد، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک شخص کہ جس کا نام حارث بن سوید تھا وہ مسلمان ہو گیا تھا لیکن پھر وہ مرتد ہو گیا تھا اور کفار کے ساتھ شامل ہو گیا تھا پھر وہ شرمندہ ہوا تو اس نے اپنی قوم کو کہلا کر بھیجا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کر لو کہ کیا میری توبہ قبول ہے ؟ چنانچہ اس کی قوم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا فلاں آدمی اب نادم ہے اور اس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس سلسلہ میں دریافت کر لیں کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو گی؟ اس پر آیت کریمہ (کَیْفَ یَہْدِی اللہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ سے غَفُورٌ رَحِیمٌ تک) 3۔ آل عمران:86)۔ اس قوم کو خداوند قدوس کس طریقہ سے ہدایت دے گا جو کہ کافر بن گئی ایمان قبول کرنے کے بعد اور جو کہ گواہی دے چکی پیغمبر سچا ہے اور پہنچ گئی ان کی دلیلیں اور اللہ راستہ نہیں بتلاتا ان لوگوں کو جو کہ ظلم کرنے والے ہیں اور ان لوگوں پر لعنت ہے اللہ کی فرشتوں اور لوگوں کی اور وہ لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے اور ان کا عذاب کبھی کم نہ ہو گا اور نہ کبھی ان لوگوں کو مہلت ملے گی مگر جن لوگوں نے توبہ کی اور نیک بن گئے تو خداوند قدوس بخشش فرمانے والا اور مہربان ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کو کہلوا دیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔
٭٭ زکریا بن یحیی، اسحاق بن ابراہیم، علی بن حسین بن واقد، وہ اپنے والد سے ، یزید نحوی، عکرمۃ، ابن عباس سے روایت ہے کہ قرآن کریم کی سورہ نحل میں جو آیت کریمہ ہے (مَنْ کَفَرَ بِاللَّہِ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ إِلَی قَوْلِہِ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ) یعنی جس کسی نے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر اختیار کیا تو اس پر خداوند قدوس کا غصہ ہے اور اس کے واسطے بڑا عذاب ہے یہ آیت کریمہ منسوخ ہو گئی اور اس آیت کریمہ کے حکم سے کچھ لوگ مستثنی کر لیے گئے جن کو کہ بعد والی آیت کریمہ ( اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جہَدُوْا وَصَبَرُوْٓاۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنْۢ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) 16۔ النحل:110) میں بیان فرمایا گیا یعنی پھر جو لوگ ہجرت کر کے آئے فتنہ میں مبتلا ہونے کے بعد اور ان لوگوں نے جہاد کیا اور صبر اختیار کیا تو تمہارا پروردگار بخشش فرمانے والا اور مہربان ہے یہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ ملک مصر میں تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کاتب تھا پھر اس کو شیطان نے ورغلایا اور وہ مشرکین میں شامل ہو گیا جس وقت مکہ مکرمہ فتح ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم فرمایا (اس کے مرتد ہونے کی وجہ سے ) پھر حضرت عثمان نے اس کے واسطے پناہ کی درخواست فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پناہ دیدی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (نعوذ باللہ) برا کہنے والے کی سزا
عثمان بن عبد اللہ، عباد بن موسی، اسماعیل بن جعفر، اسرائیل، عثمان شحام، ابن عباس سے روایت ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک نابینا شخص تھا اس کی ایک باندی تھی کہ جس کے پیٹ سے اس کے دو بچے تھے وہ باندی اکثر و پیشتر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا (برائی سے ) تذکرہ کرتی تھی (اور اس کے دو بچے تھے ) وہ نابینا شخص اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتا تھا لیکن وہ نہیں مانتی تھی اور اس حرکت سے باز نہ آتی چنانچہ (حسب عادت) اس باندی نے ایک رات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تذکرہ برائی سے شروع کر دیا وہ نابینا شخص بیان کرتا ہے کہ مجھ سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی میں نے (اس کو مارنے کے لیے ) ایک نیمچہ (جو کہ ایک لوہے وغیرہ کا وزن دار تلوار سے نسبتاً چھوٹا ہتھیار ہوتا ہے ) اٹھایا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر میں نے وزن دیا یہاں تک کہ وہ باندی مر گئی۔ صبح کو جس وقت وہ عورت مردہ نکلی تو لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تذکرہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تمام حضرات کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں اس کو خدا کی قسم دیتا ہوں کہ جس پر میرا حق ہے (کہ میری فرمانبرداری کرے ) جس نے یہ حرکت کی ہے وہ شخص اٹھ کھڑا ہو یہ بات سن کر وہ نابینا شخص گرتا پڑتا (خوف سے کانپتا ہوا) حاضر خدمت ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ حرکت میں نے کی ہے وہ عورت میری باندی تھی اور وہ مجھ پر بہت زیادہ مہربان تھی اور میری رفیقہ حیات تھی اس کے پیٹ سے میرے دو لڑکے ہیں جو کہ موتی کی طرح (خوبصورت) ہیں لیکن وہ عورت اکثر و پیشتر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو برا کہتی رہتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو گالیاں دیا کرتی تھی میں اس کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کرتا تو وہ باز نہ آتی اور میری بات نہ سنتی آخر کار (تنگ آ کر) گزشتہ رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تذکرہ پھر برائی سے شروع کر دیا میں نے ایک نیمچہ اٹھایا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر زور دیا یہاں تک کہ وہ مر گئی یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمام لوگ گواہ رہیں اس باندی کا خون ہدر ہے (یعنی معاف ہے اور اس کا انتقام نہیں لیا جائے گا) اس لیے کہ ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کا قتل کرنا لازم ہو گیا تھا۔
٭٭ عمرو بن علی، معاذ بن معاذ، شعبہ، توبۃ عنبری، عبداللہ بن قدامۃ بن عنزٰۃ، ابو برزٰۃ اسلمی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر صدیق کو سخت کہا میں نے کہا کہ اس کو قتل کر ڈالوں ؟ تو انہوں نے مجھ کو اس بات پر ڈانٹ دیا اور فرمایا یہ مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث شریف میں حضرت اعمش پر اختلاف
محمد بن العلاء، ابو معاویٰۃ، الاعمش، عمرو بن مرۃ، سالم بن ابو جعد، ابو برزٰۃ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ایک شخص پر غصہ ہو گئے۔ میں نے عرض کیا اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اس کو قتل کر دوں ؟ آپ نے دریافت فرمایا تم یہ کس طریقہ سے کرو گے ؟ میں نے عرض کیا واقعی قتل کر دوں گا۔ تو اللہ کی قسم! میری اس بڑی بات نے ان کا غصہ ختم کر دیا اور پھر ارشاد فرمایا یہ درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی کو حاصل نہیں ہے۔
٭٭ ابو داؤد، یعلی، الاعمش، عمرو بن مرۃ، ابو بختری، ابو بردۃ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو بکر صدیق کے پاس سے گزرا اور وہ اپنے لوگوں میں سے کسی پر غصہ ہو رہے تھے باقی روایت مذکورہ روایت کی طرح ہے۔
٭٭ محمد بن مثنی، یحیی بن حماد، ابو عوانۃ، سلیمان، عمرو بن مرۃ، ابو بختری، ابو برزٰۃ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ایک شخص پر غصہ ہوئے میں نے عرض کیا اگر آپ فرمائیں تو کچھ کروں (یعنی اس کی گردن اڑا دوں ) اس پر حضرت ابو بکر نے فرمایا خدا کی قسم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کسی کے واسطے یہ کام جائز نہیں ہے۔
٭٭ معاویٰۃ بن صالح اشعری، عبداللہ بن جعفر، عبید اللہ، زید، عمرو بن مرۃ، ابو نضرۃ، ابو برزٰۃ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ایک شخص پر سخت غضبناک ہوئے یہاں تک کہ اس شخص کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ میں نے عرض کیا اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! خدا کی قسم اگر تم مجھ کو حکم دو تو میں اس شخص کی گردن اڑا دوں۔ میری یہ بات کہتے ہی وہ ایسے ہو گئے کہ جیسے ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا گیا ہو اور ان کا غصہ اس شخص کی طرف سے زائل ہو گیا اور کہنے لگے کہ اے ابو برزہ تمہاری ماں تم پر روئے (یہ عرب کا ایک محاورہ ہے ) یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا اس روایت کی اسناد میں غلطی ہو گئی ہے اور ابو نضرہ کی بجائے ابو نضر ٹھیک ہے اور اس کا نام حمید بن ہلال ہے حضرت شعبہ نے اس طریقہ سے روایت کیا ہے۔
جو کوئی تلوار نکال کر چلا نا شروع کرے اس سے متعلق
محمد بن معمر بصری جرانی، ابو داؤد طیالسی، حماد بن سلمہ، الازرق بن قیس، شریک بن شہاب سے روایت ہے کہ مجھ کو تمنا تھی کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کسی صحابی سے ملاقات کروں۔ اتفاق سے میں نے عید کے دن حضرت ابو برزہ اسلمی سے ملاقات کی اور ان کے چند احباب کے ساتھ ملاقات کی میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ خوارج کے متعلق سنا ہے ؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے کان سے سنا ہے اور میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ مال ان حضرات کو تقسیم فرما دیا جو کہ دائیں جانب اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے کی طرف بیٹھے تھے ان کو کچھ عطاء نہیں فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مال انصاف سے تقسیم نہیں فرمایا وہ ایک سانولے (یعنی گندمی) رنگ کا شخص تھا کہ جس کا سر منڈا ہوا تھا اور وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بہت سخت ناراض ہو گئے اور فرمایا خدا کی قسم! تم لوگ میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی دوسرے کو (اس طریقہ سے ) انصاف سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔ پھر فرمایا آخر دور میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ آدمی بھی ان میں سے ہے کہ وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دائرہ اسلام سے اس طریقہ سے خارج ہوں گے کہ جس طریقہ سے تیر شکار سے فارغ ہو جاتا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ لوگ سر منڈے ہوئے ہوں گے ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے پیچھے لوگ دجال ملعون کے ساتھ نکلیں گے۔ جس وقت ان لوگوں سے ملاقات کرو تو ان کو قتل کر ڈالو۔ وہ لوگ بدترین لوگ ہیں اور تمام مخلوقات سے برے انسان ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید