FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

سخن میرا اداسی ہے

               جون ایلیا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

عجب حالت ہماری ہو گئی ہے

یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے

سخن میرا اداسی ہے سرِ شام

جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے

بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر

زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے

وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا

مری آواز بھاری ہو گئی ہے

دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی

بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے

یقیں معذور ہے اب اور گماں بھی

بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے

وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی

شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے

٭٭٭

نہیں نباہی خوشی سے غمی کو چھوڑ دیا

تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا

ہوں جو بھی جان کی جاں وہ گمان ہوتے ہیں

سبھی تھے جان کی کی جاں اور سبھی کو چھوڑ دیا

شعور ایک شعورِ فریب ہے سو تو ہے

غرض کہ آگہی، ناآگہی کو چھوڑ دیا

خیال و خواب کی اندیشگی کے سُکھ جھیلے

خیال و خواب کی اندیشگی کو چھوڑ دیا

٭٭٭

 

مہک سے اپنی گَلِ تازہ مست رہتا ہے

وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے

نگاہ سے کبھی گزرا نہیں وہ مست انداز

مگر خیال سے، اندازہ مست رہتا ہے

کہاں سے ہے رَسدِ نشہ، اس کی خلوت میں

کہ رنگ مست کا اندازہ مست رہتا ہے

یہاں کبھی کوئی آیا نہیں مگر سرِ شام

بس اک گمان سے دروازہ مست رہتا ہے

مجھے خیال کی مستی میں کس کا اندازہ

خدا نہیں جو باندازہ مست رہتا ہے

٭٭٭

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے

پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

شمالِ جاودانِ سبز جاں سے

تمنا کی عماری جا رہی ہے

فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں

مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے

کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے

ہے سینے میں عجب اک حشر برپا

کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے

وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے

دل اُس کے رُو برو ہے اور گُم صُم

کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے

وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ

میاں عزت ہماری جا رہی ہے

ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ

مری فریاد ماری جا رہی ہے

وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت

میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے

دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان

تری دوری پہ واری جا رہی ہے

بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ

تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے

تری مرہم نگاہی اے مسیحا!

خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے

خرابے میں عجب تھا شور برپا

دلوں سے انتظاری جا رہی ہے

٭٭٭

دل جو دیوانہ نہیں آخر کو دیوانہ بھی تھا

بھُولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا

جانیے کس شوق میں رشتے بچھڑ کر رہ گئے

کام تو کوئی نہیں تھا پر ہمیں جانا بھی تھا

اجنبی سا ایک موسم ایک بے موسم سی شام

جب اُسے آنا نہیں تھا جب اُسے آنا بھی تھا

جانیے کیوں دل کی وحشت درمیاں میں آ گئی

بس یونہی ہم کو بہکنا بھی تھا بہکانا بھی تھا

اک مہکتا سا وہ لمحہ تھا کہ جیسے اک خیال

اک زمانے تک اسی لمحے کو تڑپانا بھی تھا

٭٭٭

 

عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے

دل کو اب دل دہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں

ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ

اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات

ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش

عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہر غدار جان لے کہ تجھے

ایک امروہوی سے خطرہ ہے

ہے عجب طورِ حالتِ گریہ

کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے

حال خوش لکھنو کا دلّی کا

بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے

آسمانوں میں ہے خدا تنہا

اور ہر آدمی سے خطرہ ہے

میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے

تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنارِ بان مجھے

تیری اک سانولی سے خطرہ ہے

ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں

اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے

جونؔ ہی تو ہے جونؔ کے درپے

میر کو میر ہی سے خطرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

٭٭٭

کب پتا یار کو ہم اپنے لکھا کرتے ہیں

جانے ہم خود میں کہ نا خود میں رہا کرتے ہیں

اب تم شہر کے آداب سمجھ لو جانی

جو مِلا ہی نہیں کرتے وہ مِلا کرتے ہیں

جہلا علم کی تعظیم میں برباد گئے

جہل کا عیش جو ہے وہ علما کرتے ہیں

لمحے لمحے میں جیو جان اگر جینا ہے

یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی فنا کرتے ہیں

جانے اس کوچۂ حالت کا ہے کیا حال کہ ہم

اپنے حجرے سے بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں

میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں یہ ہے میرا سوال

اور سب لوگ جو کرتے ہیں وہ کیا کرتے ہیں

اب یہ ہے حالتِ احوال کہ اک یاد سے ہم

شام ہوتی ہے تو بس رُوٹھ لیا کرتے ہیں

جس کو برباد کیا اس کے فدا کاروں نے

ہم اب اس شہر کی رُوداد سنا کرتے ہیں

شام ہو یا کہ سحر اب خس و خاشاک کو ہم

نذرِ پُر مایگیِ جیبِ صبا کرتے ہیں

جن کو مُفتی سے کدورت ہو نہ ساقی سے گِلہ

وہی خوش وقت مری جان رہا کرتے ہیں

ایک پہنائے عبث ہے جسے عالم کہیے

ہو کوئی اس کا خدا ہم تو دعا کرتے ہیں

٭٭٭

ہر دھڑکن ہیجانی تھی ہر خاموشی طوفانی تھی

پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی

جس دن اُس سے بات ہوئی تھی اس دن بھی بے کیف تھا میں

جس دن اُس کا خط آیا ہے اُس دن بھی ویرانی تھی

جب اُس نے مجھ سے کہا تھا عشق رفاقت ہی تو نہیں

تب میں نے ہر شخص کی صورت مشکل سے پہچانی تھی

جس دن وہ ملنے آئی ہے اس دن کی رُوداد یہ ہے

اس کا بلاؤز نارنجی تھا اس کی ساری دھانی تھی

اُلجھن سی ہونے لگتی تھی مجھ کو اکثر اور وہ یوں

میرا مزاجِ عشق تھا شہری اس کی وفا دہقانی تھی

اب تو اس کے بارے میں تم جو چاہو وہ کہہ ڈالو

وہ انگڑائی میرے کمرے تک تو بڑی روحانی تھی

نام پہ ہم قربان تھے اس کے لیکن پھر یہ طور ہوا

اس کو دیکھ کے رُک جانا بھی سب سے بڑی قربانی تھی

مجھ سے بچھڑ کر بھی وہ لڑکی کتنی خوش خوش رہتی ہے

اس لڑکی نے مجھ سے بچھڑ کر مر جانے کی ٹھانی تھی

عشق کی حالت کچھ بھی نہیں تھی بات بڑھانے کا فن تھا

لمحے لافانی ٹھیرے تھے قطروں کی طغیانی تھی

جس کو خود میں نے بھی اپنی روح کا عرفان سمجھا تھا

وہ تو شاید میرے پیاسے ہونٹوں کی شیطانی تھی

تھا دربارِ کلاں بھی اس کا نوبت خانہ اس کا تھا

تھی میرے دل کی جو رانی امروہے کی رانی تھی

٭٭٭

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا

ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئی، میں نہیں گِنتا

بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا

ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا

لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی

مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا

وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں

وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے میں نہیں گِنتا

بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں

مرے لمحوں نے کتنے غم بھُلائے میں نہیں گِنتا

تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا مجھ سے

انہیں تُو موج اندر موج لائے میں نہیں گِنتا

وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک

تھے سب باشندۂ کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا

٭٭٭

 

غم ہے بے ماجرا کئی دن سے

جی نہیں لگ رہا کئی دن سے

بے شمیمِ ملال و حیراں ہے

خیمہ گاہِ صبا کئی دن سے

دل محلے کی اس گلی میں بَھلا

کیوں نہیں غُل مچا کئی دن سے

وہ جو خوشبو ہے اس کے قاصد کو

میں نہیں مِل سکا کئی دن سے

اس سے بھی اور اپنے آپ سے بھی

ہم ہیں بےواسطہ کئی دن سے

٭٭٭

ہے عجب حال یہ زمانے کا

یاد بھی طور ہے بھُلانے کا

پسند آیا ہمیں بہت پیشہ

خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا

کاش ہم کو بھی ہو نصیب کبھی

عیش دفتر میں گنگنانے کا

آسمانِ خموشیِ جاوید

میں بھی اب لب نہیں ہلانے کا

جان! کیا اب ترا پیالۂ ناف

نشہ مجھ کو نہیں پِلانے کا

شوق ہے ِاس دل درندہ کو

آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا

اتنا نادم ہوا ہوں خود سے کہ میں

اب نہیں خود کو آزمانے کا

کیا کہوں جان کو بچانے میں

جونؔ خطرہ ہے جان جانے کا

یہ جہاں جون! اک جہنم ہے

یاں خدا بھی نہیں ہے آنے کا

زندگی ایک فن ہے لمحوں کا

اپنے انداز سے گنوانے کا

٭٭٭

خود میں ہی گزر کے تھک گیا ہوں

میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں

اُوپر سے اُتر کے تازہ دم تھا

نیچے سے اُتر کے تھک گیا ہوں

اب تم بھی تو جی کے تھک رہے ہو

اب میں بھی تو مر کے تھک گیا ہوں

میں یعنی ازل کا آرمیدہ

لمحوں میں بِکھر کے تھک گیا ہوں

اب جان کا میری جسم شَل ہے

میں خود سے ہی ڈر کے تھک گیا ہوں

٭٭٭

 

تجھ بدن پر ہم نے جانیں واریاں

تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں

کر رہے ہیں یاد اسے ہم روز و شب

ہیں بھُلانے کی اسے تیاریاں

تھا کبھی میں اک ہنسی اُن کے لیے

رو رہی ہیں اب مجھے مت ماریاں

جھوٹ سچ کے کھیل میں ہلکان ہیں

خوب ہیں یہ لڑکیاں بےچاریاں

شعر تو کیا بات کہہ سکتے نہیں

جو بھی نوکر جونؔ ہیں سرکاریاں

جو میاں جاتے ہیں دفتر وقت پر

اُن سے ہیں اپنی جُدا دشواریاں

ہم بھلا آئین اور قانون کی

کب تلک سہتے رہیں غداریاں

سُن رکھو اے شہر دارو ! خون کی

ہونے ہی والی ہیں ندیاں جاریاں

ہیں سبھی سے جن کی گہری یاریاں

سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں

ہے خوشی عیاروں کا اک ثمر

غم کی بھی اپنی ہیں کچھ عیاریاں

ذرّے ذرّے پر نہ جانے کس لیے

ہر نفس ہیں کہکشائیں طاریاں

اس نے دل دھاگے ہیں ڈالے پاؤں میں

یہ تو زنجیریں ہیں بےحد بھاریاں

تم کو ہے آداب کا برص و جزام

ہیں ہماری اور ہی بیماریاں

خواب ہائے جاودانی پر مرے

چل رہی ہیں روشنی کی آریاں

ہیں یہ سندھی اور مہاجر ہڈ حرام

کیوں نہیں یہ بیچتے ترکاریاں

یار! سوچو تو عجب سی بات ہے

اُس کے پہلو میں مری قلقاریاں

ختم ہے بس جونؔ پر اُردو غزل

اس نے کی ہیں خون کی گل کاریاں

٭٭٭

کبھی کبھی تو بہت یاد آنے لگتے ہو

کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو

گِلہ تو یہ ہے تم آتے نہیں کبھی لیکن

جب آتے بھی ہو تو فوراً ہی جانے لگتے ہو

یہ بات جونؔ تمہاری مذاق ہے کہ نہیں

کہ جو بھی ہو اسے تم آزمانے لگتے ہو

تمہاری شاعری کیا ہے بھلا، بھلا کیا ہے

تم اپنے دل کی اُداسی کو گانے لگتے ہو

سرودِ آتشِ زرین صحنِ خاموشی

وہ داغ ہے جسے ہر شب جلانے لگتے ہو

سنا ہے کاہکشاؤں میں روز و شب ہی نہیں

تو پھر تم اپنی زباں کیوں جلانے لگتے ہو

٭٭٭

تم سے جانم عاشقی کی جائے گی

اور ہاں یکبارگی کی جائے گی

کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ

اب تو بس آوارگی کی جائے گی

تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم

یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی

یار اس دن کو کبھی آنا نہیں

پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی

اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں

ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی

ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں

اب تو یاراں نارسی کی جائے گی

آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں

آج کی بات آج ہی کی جائے گی

ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک

یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی

٭٭٭

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی

جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے

وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا

ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو

نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں

دار پر خود لٹک گئے ہوں گے

شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں

پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے

ہم تو اپنی تلاش میں اکثر

از سما تا سمک گئے ہوں گے

اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی

ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے

جونؔ ، اللہ اور یہ عالم

بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے

٭٭٭

دل جو اک جائے تھی دنیا ہوئی آباد اس میں

پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں

وہ جو تھا اپنا گمان آج بہت یاد آیا

تھی عجب راحتِ آزادیِ ایجاد اس میں

ایک ہی تو وہ مہم تھی جسے سر کرنا تھا

مجھے حاصل نہ کسی کی ہوئی امداد اس میں

ایک خوشبو میں رہی مجھ کو تلاشِ خدوخال

رنگ فصیلیں مری یارو ہوئیں برباد اس میں

باغِ جاں سے تُو کبھی رات گئے گزرا ہے

کہتے ہیں رات میں کھیلیں ہیں پری زاد اِس میں

دل محلے میں عجب ایک قفس تھا یارو

صید کو چھوڑ کے رہنے لگا صیاد اس میں

٭٭٭

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے

پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا

جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزمِ شوق کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں

دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو!

اُسی دنگل میں ہمیں داؤ سِکھائے بھی گئے

یادِ ایام کہ اک محفلِ جاں تھی کہ جہاں

ہاتھ کھینچے بھی گئے اور مِلائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشینِ احوال

روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو رُوداد ہماری ہرگز

ہم تھے وہ تاج محل جونؔ جو ڈھائے بھی گئے

٭٭٭

 

کر لیا خود کو جو تنہا میں نے

یہ ہنر کِس کو دکھایا میں نے

وہ جو تھا اس کو مِلا کیا مجھ سے

اس کو تو خواب ہی سمجھا میں نے

دل جلانا کوئی حاصل تو نہ تھا

آخرِ کار کیا کیا میں نے

دیکھ کر اس کو ہُوا مست ایسا

پھر کبھی اسکو نہ دیکھا میں نے

شوقِ منزل تھا بُلاتا مجھ کو

راستہ تک نہیں ڈھونڈا میں نے

اک پلک تجھ سے گزر کر ، تا  عمر

خود ترا وقت گزارا میں نے

اب کھڑا سوچ رہا ہوں لوگو!

کیوں کیا تم کو اِکھٹا میں نے

کوئی بھی کیوں مجھ سے شرمندہ ہوا

میں ہوں اپنے طور کا ہارا ہوا

٭٭٭

 

دل میں ہے میرے کئی چہروں کی یاد

جانیے میں کِس سے ہوں رُوٹھا ہوا

شہر میں آیا ہوں اپنے آج شام

اک سرائے میں ہوں میں ٹھیرا ہوا

بے تعلق ہوں اب اپنے دل سے بھی

میں عجب عالم میں بے دنیا ہوا

ہے عجب اک تیرگی در تیرگی

کہکشانوں میں ہوں میں لپٹا ہوا

اب ہے میرا کربِ ذات آساں بہت

اب تو میں اس کو بھی ہوں بھُولا ہوا

مال بازارِ زمیں کا تھا میں جونؔ

آسمانوں میں میرا سودا ہوا

٭٭٭

 

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم

وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا

کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ

جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن

وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا

ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

٭٭٭

 

میں دل کی شراب پی رہا ہوں

پہلو کا عذاب پی رہا ہوں

میں اپنے خرابۂ عبث میں

بے طرح خراب پی رہا ہوں

ہے میرا حساب بے حسابی

دریا میں سراب پی رہا ہوں

ہیں سوختہ میرے چشم و مژگاں

میں شعلۂ خواب پی رہا ہوں

دانتوں میں ہے میرے شہ رگ جاں

میں خونِ شباب پی رہا ہوں

میں اپنے جگر کا خون کر کے

اے یار شتاب پی رہا ہوں

میں شعلۂ لب سے کر کے سیّال

طاؤس و رباب پی رہا ہوں

وہ لب ہیں بَلا کے زہر آگیں

میں جن کا لعاب پی رہا ہوں

٭٭٭

 

جب تری خواہش کے بادل چھٹ گئے

ہم بھی اپنے سامنے سے ہٹ گئے

رنگِ سرشاری کی تھی جِن سے رَسَد

دل کی ان فصلوں کے جنگل کٹ گئے

اک چراغاں ہے حرم میں دیر میں

جشن اس کا ہے دل و جاں بٹ گئے

شہرِ دل اور شہرِ دنیا الوداع

ہم تو دونوں کی طرف سے کٹ گئے

ہو گیا سکتہ خرد مندوں کو جب

مات کھاتے ہی دوانے ڈٹ گئے

چاند سورج کے عالم اور واپسی

وہ ہوا ماتم کہ سینے پھٹ گئے

کیا بتائیں کتنے شرمندہ ہیں ہم

تجھ سے مِل کر اور بھی ہم گھٹ گئے

٭٭٭

 

وہ جو اپنے مکان چھوڑ گئے

کیسے دنیا جہان چھوڑ گئے

اے زمینِ وصال لوگ ترے

ہجر کا آسمان چھوڑ گئے

تیرے کوچے کے رُخصتی جاناں

ساری دنیا کا دھیان چھوڑ گئے

روزِ میداں وہ تیرے تیر انداز

تیر لے کر کمان چھوڑ گئے

جونؔ لالچ میں آن بان کی یار

اپنی سب آن بان چھوڑ گئے

٭٭٭

 

آدمی وقت پر گیا ہوگا

وقت پہلے گزر گیا ہوگا

خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں

آج ہر شخص مر گیا ہوگا

شام تیرے دیار میں آخر

کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا

مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر

اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا

٭٭٭

 

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے

اک دم سے بھُولنا اسے پھر ابتدا سے ہے

یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو

اک حُزن دل میں نکہتِ موجِ صبا سے ہے

دستِ شجر کی تحفہ رسانی ہے تا بہ دل

اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی

احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے

دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب

ناآشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے

اس میں کوئی گِلہ ہی روا ہے نہ گفتگو

جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے

آئے وہ کِس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں جونؔ

اک خامشی ہے جو مرے شورِ نوا سے ہے

٭٭٭

 

دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو

اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو

جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے

میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو

تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی

سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس ک

جسم میں آگ لگا دوں اس کے

اور پھر خود ہی بجھا دوں اس کو

ہجر کی نظر تو دینی ہے اسے

سوچتا ہوں کہ بھُلا دوں اس کو

جو نہیں ہے مرے دل کی دنیا

کیوں نہ میں جونؔ مِٹا دوں اس کو

٭٭٭

 

مجھ کو شبِ وجود میں تابشِ خواب چاہیے

شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام

صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے

کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے

کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے

اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا

میں ہوں بَلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے

امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی

یعنی کہ شہرِ دل کا حال اور خراب چاہیے

جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو

تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے

کھُل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و اُمید

جونؔ اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے

٭٭٭

 

 

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

میں بھی برباد ہو گیا تو بھی

حسنِ مغموم، تمکنت میں تری

فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی

حسن کہتا تھا ۔۔۔ چھیڑنے والے

چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی

ہائے اُس کا موج خیز بدن

میں تو پیاسا رہا لبِ جُو بھی

یاد آتے ہیں معجزے اپنے

اور اُس کے بدن کا جادو بھی

یاد سے اُس کی ہے مِرا پرہیز

اے صبا اب نہ آئیو تُو بھی

ہیں یہی "جون اِیلیا” جناب

سخت مغرور بھی تھے بد خُو بھی

٭٭٭

 

دولتِ دہر سب لٹائی ہے

میں نے دل کی کمائی کھائی ہے

ایک لمحے کو تیر کرنے میں

میں نے اک زندگی گنوائی ہے

وہ جو سرمایۂ دل و جاں تھی

اب وہی آرزو پرائی ہے

تو ہے آخر کہاں کہ آج مجھے

بے طرح اپنی یاد آئی ہے

جانِ جاں تجھ سے دو بدو ہو کر

میں نے خود سے شکست کھائی ہے

عشق میرے گمان میں یاراں

دل کی اک زور آزمائی ہے

اس میں رہ کر بھی میں نہیں اس میں

جانیے دل میں کیا سمائی ہے

موجِ بادِ صبا پہ ہو کے سوار

وہ شمیمِ خیال آئی ہے

شرم کر تو کہ دشتِ حالت میں

تیری لیلیٰ نے خاک اڑائی ہے

بک نہیں پا رہا تھا سو میں نے

اپنی قیمت بہت بڑھائی ہے

وہ جو تھا جون وہ کہیں بھی نہ تھا

حسن اک خواب کی جدائی ہے

٭٭٭

 

مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے

شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام

صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے

کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے

کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے

اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا

میں ہوں بلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے

امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی

یعنی کہ شہر دل کا حال اور خراب چاہیے

جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو

تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے

کھل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و امید

جونؔ اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے

٭٭٭

 

جب تری جان ہو گئی ہو گی

جان حیران ہو گئی ہوگی

شب تھا میری نگاہ کا بوجھ اس پر

وہ تو ہلکان ہو گئی ہوگی

اس کی خاطر ہوا میں خار بہت

وہ میری آن ہو گئی ہو گی

ہو کے دشوار زندگی اپنی

اتنی آسان ہو گئی ہوگی

بے گلہ ہوں میں اب بہت دن سے

وہ پریشان ہو گئی ہوگی

اک حویلی تھی دل محلے میں

اب وہ ویران ہو گئی ہوگی

اس کے کوچے میں آئی تھی شیریں

اس کی دربان ہو گئی ہوگی

کمسنی میں بہت شریر تھی وہ

اب تو شیطان ہو گئی ہوگی

٭٭٭

 

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی

کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں

رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی

ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں

یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی

دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی

اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی

میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب

میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی!!!!

اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے

یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی !!

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں

آخر میرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

٭٭٭

 

تھی گر آنے میں مصلحت حائل

یاد آنا کوئی ضروری تھا

دیکھیے ہو گئی غلط فہمی

مسکرانا کوئی ضروری تھا

لیجیے بات ہی نہ یاد رہی

گُنگُنانا کوئی ضروری تھا

گُنگُنا کر مری جواں غزلیں

جھُوم جانا کوئی ضروری تھا

مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم

چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا

اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی

یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا

اور ایسے اہم مذاق کے بعد

رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا

٭٭٭

 

خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں

اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں

خیمہ خیمہ گزار لے یہ شب

صبح دم یہ قافلہ بھی کہاں

اب تامّل نہ کر دلِ خود کام

روٹھ لے پھر یہ سلسلے بھی کہاں

آؤ آپس میں کچھ گِلے کر لیں

ورنہ یوں ہے کہ پھر گِلے بھی کہاں

خوش ہو سینو، ان خراشوں پر

پھر تنفّس کے یہ صلے بھی کہاں

اب نکل آؤ اپنے اندر سے

گھر میں سامان کی ضرورت ہے

ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا

جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے

خواہشیں دل کا ساتھ چھوڑ گئیں

یہ اذیت بڑی اذیت ہے

لوگ مصروف جانتے ہیں مجھے

ہاں میرا غم ہی میری فرصت ہے

آج کا دن بھی عیش سے گزرا

سر سے پا تک بدن سلامت ہے

پہنائی کا مکان ہے اور در ہے گُم یہاں

راہ گریز پائی صر صر ہے گُم یہاں

وسعت کہاں کہ سمت و جہت پرورش کریں

بالیں کہاں سے لائیں کہ بستر گُم یہاں

ہے ذات کا زخم کہ جس کا شگافِ رنگ

سینے سے دل تلک ہے پہ خنجر ہے گُم یہاں

بس طور کچھ نہ پوچھ میری بود و باش کا

دیوار و در ہیں جیب میں اور گھر ہے گُم یہاں

بیرون ذات کیسے ہے صد ماجرا فروش

وہ اندرونِ ذات جو اندر ہے گُم یہاں

کس شاہراہ پر ہوں رواں میں بہ صد شتاب

اندازِ پا درست ہے اور سر ہے گُم یہاں

ہیں صفحۂ وجود پہ سطریں کھینچی ہوئی

دیوار پڑھ رہا ہوں مگر در ہے گُم یہاں

٭٭٭

 

بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے

با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے

ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست

دستک؟ سو وہ نہیں ہے، پہ دروازہ ہے، سو ہے

آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت

پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے، سو ہے

اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں

صد حالتی میری، مری طنازہ ہے، سو ہے

شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں میرا

یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے، سو ہے

تھی یک نگاہِ شوق میری تازگی رُبا

اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے، سو ہے

بے یک نگاہ بے شوق بھی، اندازہ ہے، سو ہے

با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے

ہوں شامِ حال یک طرفہ کا امیدِ مست

دستک؟ سو وہ نہیں ہے، پہ دروازہ ہے، سو ہے

آواز ہوں جو ہجرِ سماعت میں ہے سکوت

پر اس سکوت پر بھی اک آوازہ ہے، سو ہے

اک حالتِ جمال پر جاں وارنے کو ہوں

صد حالتی میری، میری طنازہ ہے، سو ہے

شوقِ یقیں گزیدہ ہے اب تک یقیں میرا

یہ بھی کسی گمان کا خمیازہ ہے، سو ہے

تھی یک نگاہِ شوق میری تازگی رُبا

اپنے گماں میں اب بھی کوئی تازہ ہے، سو ہے

٭٭٭

 

بیمار پڑوں تو پوچھیو مت

دل خون کروں تو پوچھیو مت

میں شدتِ غم سے حال اپنا

کہہ بھی نہ سکوں تو پوچھیو مت

ڈر ہے مجھے جنون نہ ہو جائے

ہو جائے جنوں تو پوچھیو مت

میں شدتِ غم سے عاجز آ کر

ہنسنے لگوں تو پوچھیو مت

آتے ہی تمھارے پاس اگر میں

جانے بھی لگوں تو پوچھیو مت

٭٭٭

 

اے صبح! میں اب کہاں رہا ہوں

خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا

میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں

میں جُرم کا اعتراف کر کے

کچھ اور ہے جو چھُپا گیا ہوں

میں اور فقط اسی کی تلاش

اخلاق میں جھوٹ بولتا ہوں

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں

پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

اے شخص! میں تیری جستجو میں

بےزار نہیں ہوں، تھک گیا ہوں

٭٭٭

 

ہم بصد ناز دل و جاں‌ میں بسائے بھی گئے

پھر گنوائے بھی گئے اور بھلائے بھی گئے

ہم ترا ناز تھے ، پھر تیری خوشی کی خاطر

کر کے بے چارہ ترے سامنے لائے بھی گئے

کج ادائی سے سزا کج کُلہی کی پائی

میرِ محفل تھے سو محفل سے اٹھائے بھی گئے

کیا گلہ خون جو اب تھوک رہے ہیں‌ جاناں

ہم ترے رنگ کے پرتَو سے سجائے بھی گئے

ہم سے روٹھا بھی گیا ہم کو منایا بھی گیا

پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے

جمع و تفریق تھے ہم مکتبِ جسم و جاں‌ کی

کہ بڑھائے بھی گئے اور گھٹائے بھی گئے

جون! دل شہرِ حقیقت کو اجاڑا بھی گیا

اور پھر شہر توّہم کے بسائے بھی گئے

٭٭٭

 

اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں

سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں

سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا

جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

اب ہے اپنا سامنا درپیش

ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے

سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں

٭٭٭

 

ایک سایہ میرا مسیحا تھا

کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا

وہ فقط صحن تک ہی آتی تھی

میں بھی حُجرے سے کم نکلتا تھا

تجھ کو بھُولا نہیں وہ شخص کے جو

تیری بانہوں میں بھی اکیلا تھا

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ

وصل سے انتظار اچھا تھا

بات تو دل شکن ہے پر، یارو

عقل سچی تھی، عشق جھُوٹا تھا

اپنے معیار تک نہ پہنچا میں

مجھ کو خود پر بڑا بھروسہ تھا

جسم کی صاف گوئی کے با وصف

روح نے کتنا جھوٹ بولا تھا

٭٭٭

 

اُس نے ہم کو گناہ میں رکھا

اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا

کیا قیامت نمو تھی وہ جس نے

حشر اُس کی اٹھان میں رکھا

جوششِ خوں نے اپنے فن کا حساب

ایک چوب۔۔اک چٹان میں رکھا

لمحے لمحے کی اپنی تھی اِک شان

تُو نے ہی ایک شان میں رکھا

ہم نے پیہم قبول و رد کر کے

اُس کو اک امتحان میں رکھا

تم تو اس یاد کی امان میں ہو

اُس کو کِس کی امان میں رکھا

اپنا رشتہ زمین سے ہی رکھو

کچھ نہیں آسمان میں رکھا

٭٭٭

 

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں

بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز

اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا

دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق

وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے

سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ

ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ

سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام

اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں

اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی

نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس

جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو کہیں نہیں اس کا

سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید

اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا

کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں

رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب

یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں

٭٭٭

 

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے

پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا

جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزمِ شوق کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں

دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو!

اُسی دنگل میں ہمیں داؤ سِکھائے بھی گئے

یادِ ایام کہ اک محفلِ جاں تھی کہ جہاں

ہاتھ کھینچے بھی گئے اور مِلائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشینِ احوال

روز اس شہر میں ہم دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو رُوداد ہماری ہرگز

ہم تھے وہ تاج محل جونؔ جو ڈھائے بھی گئے

٭٭٭

 

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم

وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا

کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ

جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن

وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا

ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

٭٭٭

 

عیش ِ اُمید ہی سے خطرہ ہے

دِل کو اب دِلدہی سے خطرہ ہے

ہے کچھ ایسا کہ اُس کی جلوت میں

ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے

جس کی آغوش کا ہوں دیوانہ

اُس کی آغوش ہی سے خطرہ ہے

یاد کی دھُوپ تو ہے روز کی بات

ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے

ہے عجب کچھ معاملہ درپیش

عقل کو آگہی سے خطرہ ہے

شہرِ ِ غدار !جان لے کہ تجھے

ایک امروہوی سے خطرہ ہے

میں کہوں کِس طرح یہ بات اُس سے

تجھ کو جانم مُجھی سے خطرہ ہے

آج بھی اے کنار ِ بان مجھے!

تیری اِک سانولی سے خطرہ ہے

اُن لبوں کا لہُو نہ پی جاؤں

اپنی تِشنہ لبی سے خطرہ ہے

جون ہی تو ہے جون کے درپے

مِیر کو مِیر ہی سے خطرہ ہے

اب نہیں کوئی بات خطرے کی

اِن سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

٭٭٭

 

دل پریشاں ہے، کیا کِیا جائے

عقل حیراں ہے، کیا کِیا جائے

شوقِ مشکل پسند اُن کا حُصول

سخت آساں ہے، کیا کِیا جائے

عشقِ خُوباں کے ساتھ ہی ہم میں

نازِ خُوباں ہے، کیا کِیا جائے

بےسبب ہی مری طبیعتِ غم

سب سے نالاں ہے، کیا کِیا جائے

باوجود اُن کی دلنوازی کے

دل گریزاں ہے، کیا کِیا جائے

میں تو نقدِ حیات لایا تھا

جنس ارزاں ہے، کیا کِیا جائے

ہم سمجھتے تھے عِشق کو دُشوار

یہ بھی آساں ہے، کیا کِیا جائے

وہ بہاروں کی ناز پروَردہ

ہم پہ نازاں ہے، کیا کِیا جائے

مصرِ لُطف و کرم میں بھی اے جون

یادِ کنعاں ہے، کیا کِیا جائے

٭٭٭

 

اس کے پہلو سے لگ کے چلتے ہیں

ہم کہیں ٹالنے سے ٹلتے ہیں

میں اُسی طرح تو بہلتا ہوں

اور سب جس طرح بہلتے ہیں

وہ ہے جان اب ہر ایک محفل کی

ہم بھی اب گھر سے کم نکلتے ہیں

کیا تکلّف کریں یہ کہنے میں

جو بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں

ہے اُسے دُور کا سفر در پیش

ہم سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں

ہے عجب فیصلے کا صحرا بھی

چل نہ پڑیے تو پاؤں جلتے ہیں

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد

دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

تم بنو رنگ، تم بنو خوشبو

ہم تو اپنے سخن میں ڈھلتے ہیں

٭٭٭

 

تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں

دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں

یہ بہت غم کی بات ہو شاید

اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں

اس گمانِ گماں کے عالم میں

آخرش کیا بھُلا چُکا ہوں میں

اب ببر شیر اشتہا ہے میری

شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں

میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں

شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں

حال ہے اک عجب فراغت کا

اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں

لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا

اور دھونی رَما چُکا ہوں میں

نہیں اِملا دُرست غالب کا

شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں

٭٭٭

 

آدمی وقت پر گیا ہوگا

وقت پہلے گزر گیا ہوگا

خود سے مایوس ہو کر بیٹھا ہوں

آج ہر شخص مر گیا ہوگا

شام تیرے دیار میں آخر

کوئی تو اپنے گھر گیا ہوگا

مرہمِ ہجر تھا عجب اکسیر

اب تو ہر زخم بھر گیا ہوگا

٭٭٭

 

طفلانِ کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں

سودا بھی ایک وہم ہے اور سَر بھی کچھ نہیں

میں اور خود کو تجھ سے چھپاؤں گا، یعنی میں

لے دیکھ لے میاں! مِرے اندر بھی کچھ نہیں

بس اِک غبارِ وہم ہے یک کوچہ گرد کا

دیوارِ بُود کچھ نہیں اور دَر بھی کچھ نہیں

یہ شہر دار و محتسب و مولوی ہی کیا

پیرِ مغان و رِند و قلندر بھی کچھ نہیں

شیخ! حرام لقمہ کی پرواہ ہے کیوں تمہیں

مسجد بھی اس کی کچھ نہیں، منبر بھی کچھ نہیں

مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اِس دیار میں

شاید وہ جبر ہے کہ مقدّر بھی کچھ نہیں

جانی! میں تیرے ناف پیالے پہ ہوں فدا

یہ اور بات ہے تِرا پیکر بھی کچھ نہیں

یہ شب کا رقص و رنگ تو کیا سن مِری کہن

صبحِ شتابِ کوش کا دفتر بھی کچھ نہیں

بس اِک غبارِ طور گماں کا ہے تہ بہ تہ

یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں

ہے اب تو ایک حالِ سکونِ ہمیشگی

پرواز کا تو ذکر ہی کیا، پَر بھی کچھ نہیں

کتنا ڈراؤنا ہے یہ شہرِ نبُود و بُود

ایسا ڈراؤنا کہ یہاں ڈر بھی کچھ نہیں

پہلو میں ہے جو میرے کہیں اور ہے وہ شخص

یعنی، وفائے عہد کا بستر بھی کچھ نہیں

نسبت میں ان کی جو ہے اذیّت وہ ہے مگر

شہ رگ بھی کوئی شے نہیں اور سَر بھی کچھ نہیں

یارو! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئے

مجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں

گزرے گی جونؔ! شہر میں رِشتوں کے کس طرح

دل میں بھی کچھ نہیں ہے، زباں پر بھی کچھ نہیں

٭٭٭

 

تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو اور میں دل میں شرمندہ ہوں

اپنے جھوٹے دکھ سے تم کوکب تک دکھ پہنچاؤں گا

تم تو وفا میں سرگرداں ہو شوق میں رقصاں رہتی ہو

مجھ کو زوالِ شوق کا غم ہے میں پاگل ہو جاؤں گا

جیت کے مجھ کو خوش مت ہونا میں تو اک پچھتاوا ہوں

کھوؤں گا ، کڑھتا رہوں گا ، پاؤں گا ، پچھتاؤں گا

عہدِ رفاقت ٹھیک ہے لیکن مجھ کو ایسا لگتا ہے

تم میرے ساتھ رہو گی میں تنہا رہ جاؤں گا

شام کہ اکثر بیٹھے بیٹھے دل کچھ ڈوبنے لگتا ہے

تم مجھ کو اتنا نہ چاہوں میں شاید مر جاؤں گا

عشق کسی منزل میں آ کر اتنا بھی بے فکر نہ رہو

اب بستر پر لیٹوں گا میں لیٹتے ہی سو جاؤں گا

٭٭٭

 

جب ہم کہیں نہ ہوں گے، تب شہر بھر میں ہوں گے

پہنچے گی جو نہ اس تک، ہم اُس خبر میں ہوں گے

تھک کر گریں گے جس دَم، بانہوں میں تیری آ کر

اُس دَم بھی کون جانے، ہم کس سفر میں ہوں گے

اے جانِ! عہد و پیماں، ہم گھر بسائیں گے، ہاں

تُو اپنے گھر میں ہو گا، ہم اپنے گھر میں ہوں گے

میں لے کے دل کے رشتے، گھر سے نکل چکا ہوں

دیوار و دَر کے رشتے، دیوار و دَر میں ہوں گے

تِرے عکس کے سوا بھی، اے حُسن! وقتِ رُخصت

کچھ اور عکس بھی تو، اس چشمِ تر میں ہوں گے

ایسے سراب تھے وہ، ایسے تھے کچھ کہ، اب بھی

میں آنکھ بند کر لوں، تب بھی نظر میں ہوں گے

اس کے نقوشِ پا کو، راہوں میں ڈھونڈنا کیا

جو اس کے زیر پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے

وہ بیشتر ہیں، جن کو، کل کا خیال کم ہے

تُو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے

آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے

جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے

٭٭٭

 

ہونے کا دھوکا ہی تھا

جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا

اب میں شاید تہہ میں ہوں

پر وہ کیا دریا ہی تھا

بُود مری ایسی بِکھری

بس میں نے سوچا ہی تھا

بھُولنے بیٹھا تھا میں اُسے

چاند ابھی نِکلا ہی تھا

ہم کو صنم نے خوار کیا

ورنہ خدا اچھا ہی تھا

کیسا ازل اور کیسا ابد

جس دَم تھا لمحہ ہی تھا

٭٭٭

 

نہ میرے لیے حُسن میں اب کشش ہے،نہ کچھ کیف ہے رندی و سرکشی میں

یہ کیا ہو گیا میری دیوانگی کو؟ یہ کیا انقلاب آ گیا زندگی میں

بہت بے وفا ہیں وفا کرنے والے، یہ تم کن خیالوں میں کھوئی ہوئی ہو؟

کسے فرصتِ کاروبارِ وفا ہے؟ کسے دِل کا احساس ہے بے حسی میں؟

بھُلا دو جنوں کے وہ سارے فسانے، وہ اپنا ترنم، وہ میرے ترانے

جنوں کے لیے کچھ رعایت نہیں ہے نئے عہد کی سنگ دل آگہی میں

میں کب سے کڑی دھوپ میں چل رہا ہوں، نہ گیسو کا سایہ نہ آنچل کی چھاؤں

کبھی کتنی ہی شبنمی خلوتیں تھیں میرے جادۂ شوق و آشفتگی میں

اگر اب نہیں تو بہت جلد تم کو، بھُلانے پہ مجبور کر دے گی دنیا

وہ سب عہد و پیماں جو تم نے کیے تھے تصور کی مہکی ہوئی چاندنی میں

٭٭٭

 

جی ہی جی میں وہ جل رہی ہوگی

چاندنی میں ٹہل رہی ہوگی

چاند نے تان لی ہے چادرِ ابر

اب وہ کپڑے بدل رہی ہوگی

سو گئی ہوگی وہ شفق اندام

سبز قندیل جل رہی ہوگی

سرخ اور سبز وادیوں کی طرف

وہ مرے ساتھ چل رہی ہوگی

چڑھتے چڑھتے کسی پہاڑی پر

اب وہ کروٹ بدل رہی ہوگی

پیڑ کی چھال سے رگڑ کھا کر

وہ تنے سے پھسل رہی ہوگی

نیلگوں جھیل ناف تک پہنے

صندلیں جسم مل رہی ہوگی

ہو کے وہ خوابِ عیش سے بیدار

کتنی ہی دیر شل رہی ہوگی

٭٭٭

 

مجھ کو آپ اپنا پتا دیجیے گا

اور کچھ بھی نہ مجھ سے لیجیے گا

آپ بے مثل بے مثال ہوں میں

مجھ سِوا آپ کس پر ریجھیے گا

آپ جو ہیں ازل سے ہی بے نام

نام میرا کبھی تو لیجیے گا

آپ بس مجھ میں ہی تو ہیں، سو آپ

میرا بے حد خیال کیجیے گا

ہے اگر واقعی شراب حرام

آپ ہونٹوں سے میرے پیجیے گا

انتظاری ہوں اپنا میں دن رات

اب مجھے آپ بھیج دیجیے گا

آپ مجھ کو بہت پسند آئیں

آپ میری قمیص سیجیے گا

دل کے رشتے ہیں جھوٹ کے رشتے

یہ معمّا کبھی نہ بوجھیے گا

ہے میرے جسم و جان کا ماضی کیا

مجھ سے بس یہ کبھی نہ پوچھیے گا

مجھ سے میری کمائی کا سرِ شام

پائی پائی حساب لیجیے گا

زندگی کیا ہے اک ہُنر کرنا

سو قرینے سے زہر پیجیے گا

ایک نقطہ نہ بھولئے گا کبھی

مرتے رہیے گا اور جی جیے گا

ہوس جاوداں ہیں آپ مری

اب تو جم جم جناب جی جیے گا

میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

٭٭٭

ٹائپنگ: مختلف فورموں کے ارکان

پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید