FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہ7

 

 

 

ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں

 

(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء)

 

 

انتخاب اور ترجمہ: عامر صدیقی

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

مئی کی سانجھ!

 

منّو بھنڈاری

 

منّو بھنڈاری، پیدائش: ۳ اپریل، ۱۹۳۱، بھان پورہ، مدھیہ پردیش۔ میدان: کہانی، ناول۔ کچھ اہم تخلیقات: میں ہار گئی، یہی سچ ہے، ایک پلیٹ سیلاب (کہانی مجموعہ)۔ آپ کا بنٹی، مہابھوج، ایک انچ مسکراہٹ، مالک (ناول)۔ کچھ کہانیوں پر فلمیں بھی بنیں۔ کئی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

***

 

 

ساڑھے چھ بجے ہیں۔ کچھ دیر پہلے جو دھوپ چاروں جانب پھیلی پڑی تھی، اب پھیکی پڑتی ہوئی عمارتوں کی چھتوں پر سمٹ آئی ہے، گویا پیہم ختم ہوتے اپنے وجود کو بچائے رکھنے کیلئے اس نے مضبوطی سے منڈیروں کو پکڑ لیا ہو۔

آگ برساتی ہوئی ہوا، دھوپ اور پسینے کی بدبو سے بہت بوجھل ہو گئی ہے۔ پانچ بجے تک جتنے بھی لوگ دفتروں کی بڑی بڑی عمارتوں میں مقید تھے۔ اس وقت برساتی نالے کی طرح سڑکوں پر پھیل گئے ہیں۔ ریگل کے سامنے والی فٹ پاتھ پر چلنے والوں اور ہاکرز کا ملا جلا شور چاروں جانب گونج رہا ہے۔ گجرے بیچنے والوں کے پاس سے گزرنے پر خوشبو بھری تراوٹ کا احساس ہوتا ہے، اسی لیے نہ خریدنے پر بھی لوگوں کو ان کے پاس کھڑا ہونا یا ان کے پاس سے گزرنا اچھا لگتا ہے۔

ٹی ہاؤس بھرا ہوا ہے۔ اس کا اپنا ہی شور کافی ہے، پھر باہر کا سارا شور شرابہ بغیر کسی رکاوٹ کے کھلے دروازوں سے اندر آ رہا ہے۔ چھتوں پر پوری اسپیڈ میں گھومتے پنکھے بھی جیسے آگ برسا رہے ہیں۔ ایک لمحے کو آنکھ موند لیں تو آپ کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ آپ ٹی ہاؤس میں ہیں یا فٹ پاتھ پر۔ وہی گرمی، وہی شور۔

گیلارڈ بھی بھرا ہوا ہے۔ مرد، ایئر کنڈیشنڈ چیمبرزسے تھک کر اور عورتیں اپنے اپنے گھروں سے اکتا کر اپنا دل بہلانے کیلئے یہاں آ بیٹھے ہیں۔ یہاں نہ گرمی ہے، نہ نا قابلِ برداشت شور۔ چاروں جانب ہلکی، نرم، دودھیا روشنی پھیل رہی ہے اور مختلف پرفیومز کی خوشبوئیں کاک ٹیل ہوا میں تیرا رہی ہیں۔ ٹیبلوں پر سے اٹھتی ہوئی سرسراتی سی آوازیں موسیقی میں ہی ڈوب جاتی ہیں۔ گہرا میک اپ کئے ڈائس پر جو لڑکی گا رہی ہے، اس نے اپنی اسکرٹ بیلٹ خوب مضبوطی سے باندھ رکھی ہے، جس سے اس کی پتلی کمر اور بھی پتلی دکھائی دے رہی ہے اور اس کے مقابلے میں چھاتیوں کا ابھار کچھ اور نمایاں ہو اٹھا ہے۔ ایک ہاتھ سے اس نے مائیک کا ڈنڈا پکڑ رکھا ہے اور جوتے کی ٹو سے وہ تال دے رہی ہے۔ اس کے ہونٹوں سے لپ اسٹک بھی لپٹی ہے اور مسکراہٹ بھی۔ گانے کے ساتھ ساتھ اس کا سارا جسم ایک خاص ادا کے ساتھ جھوم رہا ہے۔

قریب ہی دونوں ہاتھوں سے جھنجھناسا بجاتا جو شخص پورے جسم کو لچکا لچکا کر تال دے رہا ہے، وہ نیگرو ہے۔ بیچ بیچ میں جب وہ اس کی طرف دیکھتی ہے تو آنکھیں ملتے ہی دونوں ایسے ہنس پڑتے ہیں گویا دونوں کے بیچ کہیں ’’کچھ‘‘ ہے۔ لیکن کچھ دن پہلے جب ایک اینگلو انڈین اس کے ساتھ بجاتا تھا، تب بھی یہ ایسے ہی ہنستی تھی، تب بھی اس کی آنکھیں ایسے چمکتی تھیں۔ اس کی ہنسی اور اس کی آنکھوں کی چمک کا اس کے دل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ الگ ہی چلتی ہیں۔

ڈائس کی برابر والی ٹیبل پر نوجوان لڑکا لڑکی بیٹھے ہیں۔ دونوں کے سامنے پائن ایپل جوس کے گلاس رکھے ہیں۔ لڑکی کا گلاس آدھے سے زیادہ خالی ہو گیا ہے، پر نوجوان نے شاید ایک دو گھونٹ ہی لئے ہیں۔ وہ صرف اسٹرا ہلا رہا ہے۔

لڑکی دبلی اور گوری ہے۔ اس کے بال کٹے ہوئے ہیں۔ سامنے آ جانے پر سر کو جھٹک دے کر وہ انہیں پیچھے کر دیتی ہے۔ اس کی کلف لگی ساڑی کا پلو اتنا چھوٹا ہے کہ کندھے سے مشکل سے چھ انچ نیچے تک آ پایا ہے۔ چولی نما بلاؤز سے ڈھکی اس کی پوری کی پوری پیٹھ دکھائی دے رہی ہے۔

’’تم کل باہر گئی تھیں؟‘‘ نوجوان بہت ہی نرم لہجے میں پوچھتا ہے۔

’’کیوں؟‘‘ بائیں ہاتھ کی لمبی لمبی پتلی انگلیوں سے تال دیتے دیتے ہی وہ پوچھتی ہے۔

’’میں نے فون کیا تھا۔‘‘

’’اچھا؟ پر کس لئے؟ آج ملنے کی بات تو طے ہو ہی گئی تھی۔‘‘

’’یوں ہی تم سے بات کرنے کا دل چاہا۔‘‘ نوجوان کو شاید امید تھی کہ اس کی بات لڑکی چہرے پر کوئی خوشگوار رد عمل ظاہر کرے گی۔ پر وہ ہلکے سے ہنس دی۔ نوجوان جواب کے انتظار میں اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پر لڑکی کی توجہ شاید آس پاس کے لوگوں میں الجھ گئی تھی۔ اس پر نوجوان اداس ہو گیا۔ وہ لڑکی کے منہ سے سننا چاہ رہا تھا کہ وہ کل وِپن کے ساتھ اسکوٹر پر گھوم رہی تھی۔ اس بات کے جواب میں وہ کیا کیا کرے گا۔ یہ سب بھی اس نے سوچ لیا تھا اور کل شام سے لے کر ابھی لڑکی کے آنے سے پہلے تک اس کو کئی بار دہرا بھی لیا تھا۔ پر لڑکی کی خاموشی سے سب گڑبڑا گیا۔ وہ اب شاید سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے۔

’’اے گورا!‘‘ بالکنی کی جانب دیکھتے ہوئے لڑکی کے منہ سے نکلا۔

’’یہ ساری کی ساری بالکنی کس نے ریزرو کروا لی؟‘‘ بالکنی کی ریلنگ پر ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی سفید تختی لگی تھی، جس پر سرخ لکھاوٹ میں لکھا تھا، ’’ریزروڈ‘‘

نوجوان نے سر جھکا کر ایک گھونٹ لیا، ’’میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

اس کی آواز کچھ بھاری ہو گئی تھی، جیسے گلا بیٹھ گیا ہو۔ لڑکی نے گھونٹ لے کر اپنی آنکھیں نوجوان کے چہرے پر ٹکا دیں۔ وہ ہلکے ہلکے مسکرا رہی تھی اور نوجوان کو اس کی مسکراہٹ سے تھوڑی تکلیف ہو رہی تھی۔

’’دیکھو، میں اس سارے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوں۔‘‘ جھجکتی آواز میں وہ بولا۔

’’سنجیدہ؟‘‘ لڑکی کھلکھلا پڑی تو اس کے بال آگے کو جھول آئے۔ سر جھٹک کر اس نے انہیں پیچھے کیا۔

’’میں تو کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے لینے میں اعتبار ہی نہیں کرتی۔ یہ دن تو ہنسنے کھیلنے کے ہیں، ہر چیز کو ہلکے پھلکے اندازسے لینے کے۔ سنجیدگی تو بڑھاپے کی نشانی ہے۔ بوڑھے لوگ مچھروں اور موسم کو بھی بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں اور میں ابھی بوڑھا ہونا نہیں چاہتی۔‘‘

اور اس نے اپنے دونوں کندھوں زور سے اچکا دیئے۔ وہ پھر گانا سننے میں لگ گئی۔ نوجوان کا من ہوا کہ وہ اس کی ملاقاتوں اور پرانے خطوں کا حوالہ دے کر اس سے کئی ایک باتیں پوچھے، پر آواز اس کے گلے میں ہی اٹک کر رہ گئی اور وہ خالی خالی نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اس کی نظر ’’ریزروڈ‘‘ کی اسی تختی پر جا ٹکی۔ اچانک اسے لگنے لگا، جیسے وہ تختی وہاں سے اٹھ کر ان کے درمیان آ گئی ہے اور پلاسٹک کے لال حروف نیون لائٹ کے حروف کی طرح جگمگانے لگے۔

تبھی گانا بند ہو گیا اور سارے ہال میں تالیوں کی آوازیں گونج اٹھیں۔ گانا بند ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کی آوازیں دھیمی ہو گئیں، لیکن ہال کے بیچوں بیچ، ایک چھوٹی ٹیبل کے سامنے بیٹھے ایک بھاری بھرکم کھدر دھاری شخص کی رواں تقریر آواز کی اسی سطح پر جاری رہی۔ سامنے پتلون اور بش شرٹ پہنے ایک دبلا پتلا شخص ان کی باتوں کو بڑے دھیان سے سن رہا ہے۔ ان کے بولنے سے تھوڑا تھوڑا تھوک اچھل رہا ہے جسے سامنے والا شخص ایسے پونچھتا ہے کہ انہیں معلوم نہ ہو۔ پر ان کے پاس شاید ان چھوٹی موٹی باتوں پر توجہ دینے لائق وقت ہی نہیں ہے۔ وہ موڈ میں آئے ہوئے ہیں۔

’’گاندھی جی کی پکار پر کون شخص اپنے کو روک سکتا تھا بھلا؟ کیا دن تھے وہ بھی! میں نے بزنس کی تو کی ایسی کی تیسی اور دیش سیوا کے کام میں لگ گیا۔ پھر تو ساری زندگی پولیٹیکل سفرر کی طرح ہی گزار دی!‘‘

سامنے والا شخص چہرے پر تکریم کے تاثرات لانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا۔

’’دیش آزاد ہوا تو لگا کہ اصل کام تو اب کرنا ہے۔ سب لوگ پیچھے پڑے کہ میں کھڑا ہو جاؤں، منسٹری پکی ہے، پر نہیں صاحب، یہ کام اب اپنے بس کا نہیں رہا۔ جیل کی زندگی نے جسم کو بری طرح سے تھکا دیا، پھر یہ بھی لگا کہ تعمیرِ نو میں نیا خون ہی آنا چاہئے، سو بہت پیچھے پڑے تو بیٹوں کو جھونک دیا اس چکر میں۔ انہیں سمجھایا، زندگی بھر کی ہماری قربانی اور محنت کا پھل ہے یہ آزادی، تم لوگ اب اس لاج رکھو، بزنس ہم سنبھالتے ہیں۔‘‘

نوجوان الفاظ میں عقیدت بھرتا ہوا سا بولا، ’’آپ کی ملک سے محبت کو کون نہیں جانتا؟‘‘

وہ طمانیت بھری ایک ڈکار لیتے ہیں اور جیب سے رومال نکال کر اپنا منہ اور مونچھوں کو صاف کرتے ہیں۔ رومال واپس جیب میں رکھتے ہیں اور پہلو بدل کر دوسری جیب سے چاندی کی ڈبیا نکال کر پہلے خود پان کھاتے ہیں، پھر سامنے والے شخص کی طرف بڑھا دیتے ہیں۔

’’جی نہیں، میں پان نہیں کھاتا۔‘‘ تشکر کے ساتھ ہی اس کے چہرے پر بے چینی کے تاثرات ابھر جاتے ہیں۔

’’ایک یہی لت ہے جو چھوٹتی نہیں۔‘‘ پان کی ڈبیا کو واپس جیب میں رکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’انگلستان گیا تو ہر ہفتے ہوائی جہاز سے پانوں کی گڈی آتی تھی۔‘‘

جب من کی بے چینی صرف چہرے سے نہیں سنبھلتی تو وہ آہستہ آہستہ ہاتھ رگڑنے لگتا ہے۔

پان منہ میں ایک طرف دھکیل کر وہ تھوڑا ساہکلاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اب آج کی ہی مثال لو۔ ہماری کلاس کا ایک بھی شخص شمار کرا دو جو اپنے یہاں کے ملازم کی شکایت اس طرح سنتا ہو؟ پر جیسے ہی تمہارا کیس میرے سامنے آیا، میں نے تمہیں بلایا، یہاں بلایا۔‘‘

’’جی۔‘‘ اس کے چہرے پر تشکر کا احساس اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی بات شروع کرنے کیلئے الفاظ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ اس نے بہت تفصیل سے بات کرنے کی منصوبہ بندی بنائی تھی، پر اب ساری بات کا خلاصہ کہہ دینا چاہتا ہے۔

’’سنا ہے، آپ کچھ لکھتے لکھاتے بھی ہیں؟‘‘ اچانک ہال میں پھر سنگیت گونج اٹھتا ہے۔ وہ اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرتے ہیں۔ نوجوان کا متجسس چہرہ تھوڑا اور آگے کو جھک آتا ہے۔

’’تم چاہو تو ہماری اس ملاقات پر ایک مضمون لکھ سکتے ہو۔ میرا مطلب۔۔۔ لوگوں کو ایسی باتوں سے نصیحت اور سبق حاصل کرنا چاہئے۔ یعنی۔۔۔‘‘

پان شاید انہیں جملہ پورا نہیں کرنے کی اجازت دیتا۔ تبھی درمیانی ٹیبل پر ’’آئی، اوئی‘‘ کا شور ہوتا ہے اور سب کا دھیان غیر ارادی طور پر ادھر چلا جاتا ہے۔ بہت دیر سے ہی وہ ٹیبل لوگوں کی توجہ غیر ارادی طور پر کھینچ رہی تھی۔ کسی کے ہاتھ سے کافی کا کپ گر پڑا ہے۔ ویٹر جھاڑن لے کر دوڑ پڑا اور اسسٹنٹ منیجر بھی آ گیا۔ دو لڑکیاں کھڑی ہو کر اپنے کرتوں کو رومال سے صاف رہی ہیں۔ باقی لڑکیاں ہنس رہی ہیں۔ سبھی لڑکیوں نے چوڑی دار پاجامے اور ڈھیلے ڈھیلے سے کرتے پہن رکھے ہیں۔ صرف ایک لڑکی ساڑی میں ہے اور اس نے اونچا سا جوڑا باندھ رکھا ہے۔ بات چیت اور ناز و انداز سے سب ’’مرینڈینس‘‘ لگ رہی ہیں۔ میز صاف ہوتے ہی کھڑی لڑکیاں بیٹھ جاتی ہیں اور ان کی باتوں کا منقطع سلسلہ چل پڑتا ہے۔

’’پاپا کو اس بار ہارٹ اٹیک ہوا ہے، سو چھٹیوں میں کہیں باہر تو جا نہیں سکیں گے۔ ہم نے تو ساری چھٹیاں یہیں بور ہونا ہے۔ میں اور ممی ہفتے میں ایک پکچر تو دیکھتے ہی ہیں، اٹس اے مسٹ فار اَز۔ چھٹیوں میں تو ہم نے دو دیکھنی ہیں۔‘‘

’’ہماری کِٹی نے بڑے سویٹ پپیز دیئے ہیں۔ ڈیڈی اس بار اسے ’’مِیٹ‘‘ کروانے ممبئی لے گئے تھے۔ کسی پِنرس کا السیشین تھا۔ ممی بہت بگڑی تھیں۔ انہیں تو دنیا میں سب کچھ ویسٹ کرنا ہی لگتا ہے۔ پر ڈیڈی نے میری بات رکھ لی اینڈ اٹ پیڈ اَز آلویز۔ رئیلی پپیز بہت سویٹ ہیں۔‘‘

’’اس بار ممی نے، پتا ہے، کیا کہا ہے؟ چھٹیوں میں کچن کا کام سیکھو۔ مجھے تو بابا، کچن کے نام سے ہی الرجی ہے! میں تو اس وقت موراوِیا پڑھوں گی۔ ہندی والی مس نے ہندی ناولز کی ایک لسٹ پکڑائی ہے۔ پتہ نہیں، ہندی کے ناولز تو پڑھے ہی نہیں جاتے!‘‘

وہ زور سے کندھے اچکا دیتی ہے۔ تبھی باہر کا دروازہ کھلتا ہے اور چست درست جسم اور رعب دار چہرہ لیے ایک شخص اندر آتا ہے۔ اندر کا دروازہ کھلتا ہے، تب وہ باہر کا دروازہ بند ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے باہر کا شور اور گرم ہوا کا بھبکا بھی اندر نہیں آ پاتا۔

سیڑھیوں کے پاس والے کونے کی چھوٹی سی ٹیبل پر دیوار سے پیٹھ لگائے ایک عورت بڑی دیر سے بیٹھی ہے۔ ڈھلتی عمر کے اثرات کو بھرپور میک اپ سے دبا رکھا ہے۔ اس کے سامنے کافی کا کپ رکھا ہے اور وہ بغیر کسی مطلب کے تھوڑی تھوڑی دیر کیلئے تمام ٹیبلوں کی طرف دیکھ لیتی ہے۔ آنے والے شخص کو دیکھ کر اس کے بیزاری بھرے چہرے پر ہلکی سی چمک آ جاتی ہے اور وہ اس شخص کو اپنی جانب متوجہ ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ خالی جگہ دیکھنے کیلئے وہ شخص آس پاس نظریں دوڑا رہا ہے۔ عورت کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں شناسائی کا تاثر ابھرتا ہے اور عورت کے ہاتھ ہلاتے ہی وہ ادھر ہی بڑھ جاتا ہے۔

’’ہیلو! آج بہت دنوں بعد دکھائی دیں مسز راوت!‘‘ پھر کرسی پر بیٹھنے سے پہلے پوچھتا ہے، ’’آپ یہاں کسی کیلئے ویٹ تو نہیں کر رہی ہیں؟‘‘

’’نہیں جی، گھر میں بیٹھے بیٹھے یا پڑھتے پڑھتے جب طبیعت بیزار ہوتی ہے تو یہاں آ بیٹھتی ہوں۔ دو کپ کافی کے بہانے گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا مزے سے کٹ جاتا ہے۔ کوئی جان پہچان کا فرصت میں مل جائے تو لمبی ڈرائیو پر لے جاتی ہوں۔ آپ نے تو کسی کو ٹائم نہیں دے رکھا ہے نا؟ َ‘‘

’’نو۔۔۔ نو۔۔۔ باہر ایسی شدید گرمی ہے کہ بس۔ بالکل آگ برس رہی ہے۔ سوچا، یہاں بیٹھ کر ایک کولڈ کافی ہی پی لی جائے۔‘‘ بیٹھتے ہوئے اس نے کہا۔ جواب سے کچھ پرسکون ہو کر مسز راوت نے بیرے کو کولڈ کافی کا آرڈر دے دیا۔

’’اور بتائیے، مسز آہوجا کب لوٹنے والی ہیں؟ سال بھر تو ہو گیا نا انہیں؟ َ‘‘

’’گاڈ نوز۔‘‘ وہ کندھے اچکا دیتا ہے اور پھر پائپ سلگانے لگتا ہے۔ ایک کش کھینچ کر اقساط میں دھواں اڑاتے پوچھتا ہے، ’’چھٹیوں میں اس بار آپ نے کہاں جانے کا پروگرام بنایا ہے؟‘‘

’’جہاں بھی موڈ آ جائے چل دیں گے۔ بس اتنا طے ہے کہ دہلی میں نہیں رہیں گے۔ گرمیوں میں تو یہاں رہنا نا ممکن ہے۔ ابھی جب یہاں سے نکل کر گاڑی میں بیٹھیں گے، اس وقت تک جسم جھلس جائے گا۔ سڑکیں تو جیسے بھٹی ہو رہی ہیں۔‘‘

گانے کا سُر ڈائس سے اٹھ کر پھر سارے ہال میں تیرتا گیا، ’’آین سنڈے، آئی ایم ہیپی۔۔۔‘‘

’’نان سینس! میرا تو سنڈے ہی سب سے بور دن ہوتا ہے!‘‘

تبھی موسیقی کی سریلی لہروں کے سائے میں پھیلے ہوئے بھنبھناتے سے شور کو چیرتا ہوئے ایک عجیب سا غل غپاڑہ سارے ہال میں پھیل جاتا ہے۔ سب کی نظریں دروازے کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ عجیب منظر ہے۔ باہر اور اندر کے دروازے ایک ساتھ کھل گئے ہیں اور ننھے منے بچوں کے دو دو، چار چار کے گروپ ہلا گلا کرتے اندر گھس رہے ہیں۔ سڑک کا ایک حصہ دکھائی دے رہا ہے، جس پر ایک اسٹیشن ویگن کھڑی ہے، آس پاس کچھ تماش بین کھڑے ہیں اور ویگن میں سے بچے اچھل اچھل کر اندر داخل ہو رہے ہیں۔

’’بوبی، ادھر آ جا!‘‘

‘ ‘ندھو، میرا باکس لیتے آنا۔۔۔!‘‘

بچوں کے اس شور کے ساتھ ساتھ باہر کا شور بھی اندر آ رہا ہیں بچے ٹیبلوں سے ٹکراتے، ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے سیڑھیاں پر جاتے ہیں۔ لکڑی کی سیڑھیاں کارپیٹ بچھا ہونے کے باوجود دھم دھم کر کے بج اٹھی ہیں۔

ہال کا معتدل ماحول ایک جھٹکے کے ساتھ بکھر جاتا ہے۔ لڑکی گانا بند کر کے عاشقانہ وارفتگی سے بچوں کو دیکھنے لگتی ہیں۔ سب کی باتوں پر اسٹاپ کا نشان لگ جاتا ہے اور چہروں پر ایک ناگواری کا ایک تاثر پھیل جاتا ہے۔ کچھ بچے بالکنی کی ریلنگ پر جھولتے ہوئے ہال میں غبارے اچھال رہے ہیں۔ کچھ غبارے کارپیٹ پر آ گرے ہیں، کچھ کندھوں پر سروں سے ٹکراتے ہوئے ٹیبلوں پر لڑھک رہے ہیں، تو کچھ بچوں کی کلکاریوں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تیر رہے ہیں۔ نیلے، پیلے، ہرے، گلابی۔۔۔

کچھ بچے اوپر اچھل اچھل کر کوئی نرسری پویم گانے لگتے ہیں تو لکڑی کا فرش دھم دھم بج اٹھتا ہے۔

ہال میں چلتی فلم کی ریل جیسے اچانک ٹوٹ گئی ہے۔

***

 

 

 

 

فینس کے اِدھر اور اُدھر

 

گیان رنجن

 

گیان رنجن، پیدائش: ۲۱ نومبر، ۱۹۳۱ء، اکولا، مہاراشٹر۔ میدان: کہانی، یادداشتیں، مضامین۔ اہم تخلیقات: کہانی مجموعے: فینس کے ادھر اور ادھر، یاترا، کشن جیوی، سپنا نہیں، پرتندھی کہانیاں۔

***

 

ہمارے پڑوس میں اب مکھرجی نہیں رہتا۔ اس کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ اب جو نئے آئے ہیں، ہم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ وہ لوگ پنجابی لگتے ہیں، یا شاید پنجابی نہ بھی ہوں۔ کچھ سمجھ نہیں آتا ان کے بارے میں۔ جب سے وہ آئے ہیں، ان کے بارے میں جاننے کی عجیب جھنجھلاہٹ ہو گئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھ سے انجان نہیں رہا جاتا۔ دَوروں میں بھی شریک مسافروں سے انجان نہیں رہتا۔ شاید یہ مزاج کا حصہ ہے، لیکن ہمارے گھر میں کوئی بھی ان سے شناسا نہیں ہے۔ ہم لوگ عزت دار ہیں۔ بیٹی بہو کا معاملہ، سب کچھ سمجھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا ہم لوگ ہمیشہ سمجھتے رہتے ہیں۔ متجسس رہتے ہیں اور نئے پڑوسی کی سرگرمیوں کا ’’امپریشن‘‘ بناتے رہتے ہیں۔ میں انہیں بمعہ اہل و عیال اپنے گھر بلانا چاہتا ہوں، ان کے گھر آنا جانا چاہتا ہوں۔ پر ان لوگوں کو میرے خیالات کا احساس بھی نہیں ہوتا شاید۔ ان کی زندگی عام قسم کی نہیں ہے۔ وہ اپنے برآمدے کی باہر والی سخت زمین والے حصے پر کرسیاں ڈالے دن کے کافی وقت بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کی یہ کرسیاں ہمیشہ وہیں پڑی رہتی ہے، رات کو بھی۔ وہ لا پرواہ لوگ ہیں، لیکن ان کی کرسیاں کبھی چوری نہیں ہوئیں۔

ہمارے مکان کے ایک طرف سرکاری دفتر ہے اور اونچی اینٹوں کی دیوار بھی، پیچھے دو منزلہ عمارت کے فلیٹوں کا پچھواڑا ہے اور سامنے مرکزی سڑک۔ اس طرح ہمارے خاندان کو کسی دوسرے خاندان کی آزمائشی قربت اب دستیاب نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں ایک دوسرے سے تعلق نہ رکھ کر، خود میں ہی رہنے کی جو خصوصیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ کچھ انہی خصوصیات اور اصولوں کے حامل لوگ ہمارے نئے پڑوسی لگتے ہیں۔ یہ شہر اور محلہ دونوں پرسکون ہیں۔ لوگ دھیمی رفتار سے آتے جاتے اور نسبتاً بے تکلفی سے چہل قدمی کرتے ہیں، کیونکہ زندگی میں تیزی نہیں ہے۔ اسی لیے ہمیں اپنے پڑوسی عجیب لگتے ہیں۔ میں باہر نکلتا ہوں۔ وہ لوگ صبح کی چائے لے رہے ہیں۔ نو بجے ہیں۔ میاں بیوی کے علاوہ ایک لڑکی ہے۔ لڑکی ان کی بیٹی ہو گی۔ یہ تین لوگ ہی ہمیشہ دکھائی پڑتے ہیں۔ چوتھا کوئی نہیں ہے۔ یوں تو لڑکی خوبصورت نہیں، پر سلیقے والی ہے۔ شاید ٹھیک سے میک اپ کرے تو خوبصورت بھی لگے۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ اکثر اور خوب ہنستی ہے۔ اس کے ماں باپ بھی ہنستے ہیں۔ وہ سب کے سب ہمیشہ خوش ہی نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس کیسی باتیں ہیں اور وہ کیوں ہمیشہ ہنستے ہیں؟ کیا ان کی زندگی میں ہنستے رہنے کے لئے ڈھیر سارے خوشگوار واقعات ہیں؟ کیا وہ زندگی کے کٹھن اور حقیقی حالات سے غافل ہیں؟ مجھے حیرت ہوتی ہے۔ میں اپنے گھر اور پڑوسی خاندان کا موازنہ کرنے لگتا ہوں۔

ابھی ابھی وہ لوگ مجھے چونکاتے ہوئے بری طرح ہنسی میں لوٹ پوٹ ہو گئے ہیں۔ میری توجہ گلاب کی کیاریوں کی طرف تھی۔ میری کھرپی رک گئی۔ ان کی ہنسی رک نہیں پا رہی ہے۔ لڑکی کرسی چھوڑ کر اٹھ گئی ہے۔ اس نے چھلکنے کے خوف سے چائے کا کپ اپنی ماں کو تھما دیا ہے۔ وہ سیدھی نہیں کھڑی ہے، دوہری ہوئی جا رہی ہے۔ کوئی مذاقیہ بات ہو گی یا چٹکلا ہی، جس نے ان میں ہنسی کا دھماکا کر دیا ہے۔ لڑکی ہنس ہنس کر نڈھال سی ہو گئی ہے۔ اسے اندازہ نہیں ہے کہ اس کا دوپٹہ صرف ایک کندھے پر رہ گیا اس کی چھاتیوں سے لا پروائی اور معصومیت دِکھتی ہے۔ بہت ہو گیا۔ اس کی ماں کو اب اسے اس غیر معقولیت پر جھڑکنا چاہئے۔ پتہ نہیں وہ کیسی ہے کہ اسے برا نہیں لگتا۔ شاید میرے علاوہ ان میں سے کسی کا بھی دھیان اس طرف نہیں ہے۔

میں روزانہ کسی حد تک مجبور ہو جاتا ہوں۔ مجھے اپنے نئے پڑوسیوں کو لے کر من میں ایک زبردست کھنچاؤ بڑھتا محسوس ہوتا ہے۔ میں ہی کیوں، پپّی بھی تو اکثر ہیجان سے بھری، اس لڑکی کے کرتے کے کپڑے کی تعریف کرتی رہتی ہے۔ باورچی خانے میں سے بھابھی بھی اکثر و بیشتر ان کے گھر کی طرف جھانکتی رہتی ہے اور دادی کو تو اتنا تک پتہ رہتا ہے کہ کب پڑوسی کے یہاں سنگھاڑا اور لوکی خریدی گئی اور کب ان کے یہاں چولہا سلگا ہے۔ اس کے باوجود وہ لوگ ہم لوگوں میں رتی بھر بھی دلچسپی نہیں لیتے۔

وہ لڑکی ہماری طرف کبھی نہیں دیکھتی، اس کے ماں باپ بھی نہیں دیکھتے۔ ایسا بھی نہیں لگتا کہ ان کا ہماری طرف نہ دیکھنا اختیاری ہو۔ گفتگو کرنے کی بات تو بعید اور ناقابل تصور ہے۔ شاید انہیں اپنی دنیا میں ہماری دخل اندازی درکار نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ہمیں نیچا سمجھتے ہوں۔ یا ان کو ہماری قربت سے کسی بدامنی کا شبہ اور خوف ہو۔ پتہ نہیں، اس میں کہاں تک سچائی ہے، لیکن اس لڑکی کے ماں باپ کی آنکھوں میں اپنے گھر کی چھاتی پر ایک نوجوان لڑکے کو دیکھ کر، اپنی لڑکی کے متعلق ویسا ڈر نہیں بھرتا، جیسا میرے دوستوں کو دیکھ کر میرے پتا کے من میں پپّی کے لئے بھر جاتا ہے۔

ان کے یہاں ریڈیو نہیں بجتا، ہمارے گھر اکثر زور سے بجتا ہے۔ ان کے گھر کے سامنے سادہ زمین ہے۔ کہیں بھی گھانس نہیں ہے۔ ہمارے گھر کے سامنے لان ہے، برابر میں سبزیوں کی باڑی اور تیز خوشبو والے پھولوں کی کیاریاں بھی۔ وہ لڑکی کیوں نہیں میری بہن اور بھابھی کو اپنی سہیلی بنا لیتی؟ اس کے ماں باپ کیوں میرے والدین سے گھل مل نہیں جاتے؟ وہ ہمیں اپنے پیالوں سے زیادہ خوبصورت پیالوں میں چائے پیتے ہوئے کیوں نہیں دیکھتے؟ ان کو چاہئے کہ وہ ہمیں اپنے رابطوں کی فہرست میں شامل کر لیں۔ انہیں ہماری تمام چیزوں سے تعلق رکھنا چاہئے! فینس پر ہی، ہماری طرف گھنے اونچا املی کا درخت ہے۔ اس میں چھ چھ انچ لمبے کٹارے لٹکتے ہیں۔ لڑکیوں پر املی دیکھ پاگل پن سوارہو جاتا ہے، پر پڑوس کی یہ لڑکی کٹارے دیکھ کر کبھی نہیں مچلتی۔ اس نے کبھی ہمارے درخت سے املیاں توڑ کر مجھے خوش نہیں کیا۔

میں انتظار کرتا ہوں۔

ہمارے پڑوسیوں کی ایسی کوئی دقت نہیں، جس کیلئے انہوں نے کبھی ہمارا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت سمجھی ہو۔ جیسے ہمارے گھر اور دوسرے گھروں میں بہت سی اندرونی اور چھوٹی موٹی پریشانیاں ہوتی ہیں، ویسی شاید ان کے یہاں نہیں ہیں۔ نہیں ہونا ایک اچنبھا ہے۔ تینوں میں سے کبھی کسی کو پریشان نہیں پاتا ہوں۔ لڑکی کے باپ کی پیشانی پر شاید بل پڑتے ہوں اور اس کی ماں کبھی کبھار خود پر ابل بھی پڑتی ہو، لیکن یہاں سے کچھ دکھائی سنائی نہیں دیتا۔ ممکن ہے کہ لڑکی کے من میں اس کا اپنا کوئی پوشیدہ ذاتی کونا ہو۔ کوئی الجھن یا جذباتی کشمکش ہو۔ ہو یا قطعی نہ ہو۔ یقینی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

رات کو زیادہ تر ان کے بیچ والے کمرے کی روشنی جلتی ہے، جس میں مکھرجی اپنے تمام گھر والوں کے ساتھ سوتا ہے۔ لگتا ہے وہ اندر بھی ایک ساتھ بیٹھتے اور گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے پاس بے شمار داستانیں ہوں گی اور ایسی گفتگو کے قابل تجدید، شکم پر موضوعات۔ خود بخود ایک طویل اور سرد سانس چھوٹ جاتی ہے۔ ہمارے گھر میں تو موسم، مچھر، بچوں کی پیدائش، رشتہ داری، بہوئیں، چولہا چوکا اور حال کا کچومر نکال دینے والے خوبصورت ماضی کے دیو مالائی مردوں کا ہی غلبہ رہتا ہے۔

ان کے اور ہمارے مکان کے درمیان فینس ایک برائے نام رکاوٹ ہے۔ فینس مٹی کی ایک فٹ اونچی منڈیر بھر ہے۔ کڑوا کروندا اور ایک طویل حصے تک خشک اینٹھی جنگلی ناگ پھنی کا سلسلہ! نامعلوم ناموں والی کچھ جھاڑیاں، جن کی جڑوں میں ہمیشہ دیمک لگی رہتی ہے۔ ان جھاڑیوں کی پتیاں گہرے سبز رنگ کی ہیں۔ منڈیر بیچ بیچ میں بہت سے مقامات سے کٹ چکی ہے۔ راستے بن گئے ہیں۔ ان راستوں سے سبزی اور پھل والا آ جاتا ہے، جمعدارن اور اخبار کا ہاکر آتا ہے۔ ڈاکیا اور دودھ والا برسوں سے انہی راستوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ کتوں بلیوں کے بے دھڑک آنے جانے اور گھاس، پھول پودے چرنے والے جانوروں سے ہوئے نقصان کو برداشت کے بعد بھی فینس ویسی ہی رہتی ہے۔ کچھ دن پہلے تک مکھرجی کی بچی شیلا میرے پاس کتاب لینے انہی رستوں سے آتی رہی ہے۔ یہ اتنی سہولت والی اور آسان سی فینس ہے کہ ہم سائیکل سے بغیر اترے، کٹے ہوئے حصوں سے کھیلتے ہوئے ادھر سے ادھر آ جا سکتے ہیں۔ پہلے جاتے بھی تھے، اب نہیں جاتے، کیونکہ ہمارے پڑوسی کیلئے فینس۔ کبھی نہ پھلانگنے والا، مفہوم ہی دیتی ہے۔

انہیں آئے تین ماہ ہو گئے ہیں۔

اکثر پڑھنے کیلئے میں اپنا ڈیسک باہر نکالتا ہوں۔ باہر کی ہوا آج کل بڑی خوشگوار لگتی ہے، اسی طرح جیسے گرمی کی تیز پیاس میں برفیلا پانی۔ لیکن باہر پڑھنا دشوار ہو جاتا ہے۔ آنکھیں فینس پھلانگ جاتی ہیں۔ من پڑوسی کے گھر میں منڈلانے لگتا ہے۔ نوجوان اور قابو سے دور لڑکی۔ خوش مزاج اور بے خوف والدین۔ کاش میں ان کے گھر میں ہی پیدا ہوا ہوتا! من یوں ہی اڑتا ہے۔

کبھی کبھی یہ پڑوسی لڑکی اکیلی ہی بیٹھی رہتی ہے۔ کوئی کام کرتی ہوئی یا بیکار۔ گھومتے گھومتے اپنے مکان کے پرلی طرف والی چار دیواری تک چلی جاتی ہے۔ کہنیاں ٹکا کر سڑک دیکھتی ہے۔ لوٹ آتی ہے۔ ہمارے محلے میں دوسرے محلوں کے آوارہ لڑکے بھی خوب آتے ہیں۔ ویسے ہمارے محلے میں بھی کم نہیں ہیں، لیکن وہ ہمیشہ انجان اور لا پروا رہتی ہے۔ اس کے قدم چھوٹے اور مستی بھرے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے یہاں تو بھابھی پوجا کے پھول بھی پپّی کے ساتھ لینے نکلتی ہیں۔ وہ باہر بھی ڈرتی ہیں اور گھر میں بھی انہیں ڈرا کے رکھا جاتا ہے۔ پپّی پر بھی تیز نگاہ ہے۔ ایک بار پڑوسن لڑکی کا باپ اپنی بیوی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بات کرنے لگا، تو فوری طور پر پپّی کو کسی بہانے گھر کے اندر بلا لیا گیا۔ پھر تو اس منظر نے ہمارے گھر میں ایک کھلبلی سی مچا دی۔ کیسی بے شرمی ہے! آہستہ آہستہ ہمارے گھر کے لوگ پڑوسیوں کو بہت خطرناک سا سمجھنے لگے ہیں۔

دن تو گزرتے ہی ہیں۔ اب ہمارے یہاں جبراً پڑوسی میں دلچسپی لے کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا جانے لگا ہے، جبکہ ہمارے لئے ان کا ہونا، بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ آہستہ آہستہ ہمارے گھر میں پڑوسی کو دنیا کی تمام برائیوں کا ’’ریفرینس‘‘ بنا لیا گیا ہے۔ ہم لوگوں کی آنکھیں ہزاروں بار فینس کے اطراف جاتی ہیں۔ ضروری، غیر ضروری روزمرہ کے سبھی کاموں کے درمیان یہ بھی ایک ’’روٹین‘‘ بن گیا ہے۔ بہت سے دیگر خدشات کے ساتھ من میں ایک نئی بے کلی بھی سمانے لگی ہے۔ میں خود بھی اپنے بہت سے وقت کا زیاں کرتا ہوں، لیکن اُدھر سے کوئی نظر کبھی ادھر نہیں آتی۔ قریب کہیں ’’آؤٹر‘‘ نہ پا کر کھڑا ڈیزل انجن چیخ رہا ہے۔ اس کی آواز کی تازگی چونکانے والی ہے۔ ہم سب ابھی تھوڑی دیر تک ڈیزل انجن کے بارے میں ہی باتیں کریں گے۔

آج وہ پڑوسی دوپہر سے گھر میں نہیں ہیں۔ ان کے یہاں دو تین مہمان جیسے اشخاص آ کر ٹھہرے ہیں۔ کوئی پریشانی نہیں ہے۔ روز کی سی ہی بے چینی میں اٹھ کر اندر گیا۔ بھابھی بال خشک رہی ہیں۔ پھر پتہ نہیں کیوں انہوں نے پڑوسی لڑکی سے میرا تعلق جوڑ کر ایک خاموش مذاق کیا۔ میں دل میں ہنستا باہر آ گیا۔ تبھی وہ لڑکی اور اس کی ماں بھی پیک کیا ہوا سامان لیے شاید مارکیٹ سے لوٹی ہیں۔ باپ پیچھے رہ گیا ہو گا۔

شام اور دوسری صبح بھی ان کے یہاں لوگ آتے جاتے رہے۔ پر انہیں زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے گھر ایک عام دعوت جیسا ماحول ابھر آیا۔ پھیکا، پھیکا۔ لیکن یہ ہم سب کو حیران کرنے والی خبر لگا، جب دودھ والے نے بتایا کہ اس لڑکی کا بیاہ گزشتہ رات کو ہی ہوا ہے۔ یہیں پریڈ کا کوئی بابو ہے۔ آریہ سماج میں شادی ہوئی ہے۔ بھابھی نے میری طرف عجیب افسوس سے دیکھا اور مجھے ہنسی آ گئی۔ بڑی کھل کر ہنسی آئی۔ یہ سوچ کر کہ ہم سب لوگ کتنے ہوائی قلعے بناتے ہیں۔

ان کے گھر دو چار لوگ بیچ بیچ میں آ رہے ہیں۔ وہ لوگ گھر کے اندر جاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد باہر نکل کر چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر سنجیدہ اور نظم و ضبط والے لوگ ہیں۔ کبھی کبھی کچھ بچے جمع ہو کر ہنستے اور دوڑ لگاتے ہیں۔ اور کوئی دھوم دھام نہیں ہے۔ سب کچھ سہولت سے، با آسانی ہوتا ہوا جیسے۔ پتہ نہیں کیا اور کیسے ہوتا ہوا؟ ہمارے گھر میں یہ بڑی تکلیف کا دن ہے۔ گھنٹوں بعد وہ لڑکی باہر آئی۔ شاید پہلی بار اس نے ساڑی پہنی تھی۔ ساڑی سنبھالتے اور ہاتھ میں ناریل لئے ہوئے برآمدے میں چلی۔ وہ محتاط ہے، لیکن اس کیے مخمور قدم ساڑی میں لپٹ کر بہت مختصر ہو گئے ہیں۔ وہ اپنی نظر میں اگلے قدم کے منظر کو بھر کر چلتی رہی۔ اس نے نہ کوئی آڑ لی اور نہ شوہر سے چپک کر چلنے کے باوجود، اس میں نئی دلہنوں کا سا روایتی بانکپن اور لاج ہی پیدا ہوا۔ اس کے شوہر کی صورت مجھے اپنے کسی دوست سی لگ رہی ہے۔ کوئی بھی رو پیٹ نہیں رہا ہے۔ لڑکی کی ماں اس کے دونوں گالوں کو کئی بار پوری طاقت سے چوم چکی ہے۔ باپ اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ اب لڑکی کی آنکھوں میں ہلکے پانی کی چمک اور نئی زندگی کا جوش چھپ نہیں پا رہا ہے۔

فینس کے ایک کونے سے دوسری طرف گلہریاں دوڑ رہی ہیں۔ اماں مجھ سے لڑکی کے نہ رونے پر حیرت کا ظاہر کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق وہ پڑھ لکھ جانے کی وجہ سے ایک کٹھور لڑکی ہے، جسے اپنے ماں باپ سے سچی محبت نہیں ہے۔

’’آج کل سبھی ایسے ہوتے ہیں۔ پیٹ کاٹ کر جنہیں پالو پوسو، انہی کی آنکھوں میں سے دو بوند آنسو نہیں۔‘‘

میرے کانوں کو ایسا کچھ سننے میں کچھ خاص دلچسپی نہیں ہے۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اماں کو دھوپ اچھی لگ رہی ہے۔ دھوپ جدھر سے کم ہوتی جا رہی ہے، اسی طرف سے ماں بھی ہٹ جاتی ہیں۔ لیکن تبھی پتا جی ایک حوالہ پیش کرتے ہیں، ’’پہلے زمانے میں لڑکیاں گاؤں کی حد تک روتی تھیں۔ جو نہیں روتی تھیں، انہیں مار مار کر رلایا جاتا تھا، نہیں تو ان کی زندگی سسرال میں کبھی پر سکون نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘ پتاجی کو بڑا درد محسوس ہوتا ہے کہ آج ویسا نہیں رہ گیا ہے۔ پرانا زمانہ جا رہا ہے اور ’’آدمی کا دل مشین ہو گیا ہے، مشین!‘‘ ایسے وقت ہمیشہ پتا جی کی آواز تیز ہو جاتی ہے اور آنکھوں میں قیامت کے کھنڈرات ناچنے لگتے ہیں۔

ہمارے گھر کے آسمان پر بادلوں کے کچھ چھوٹے اور اکیلے ٹکڑے آ کر آگے نکل گئے ہیں۔ پڑوسی لڑکی کو اس کے ماں باپ اور رشتہ دار اب مکمل طور رخصت کرنے کیلئے دروازے تک پہنچ کر کھڑے ہیں۔ لڑکے والے دلہن کے لئے ’’ہیرالڈ‘‘ لائے ہیں۔ ’’ہیرالڈ‘‘ ایک رنگین کمرہ لگتی ہے۔ وہ رنگین کمرہ آہستہ آہستہ کھسکنے لگا۔ اب چلا گیا ہے۔

سب سے زیادہ غم نانی کو ہے۔ وہ خود کلامی کے انداز میں بڑبڑا رہی ہیں۔ انہیں یہ شادی بالکل سمجھ نہیں آئی، ’’نہ روشن چوکی، نہ دھوم دھڑکا، نہ تر پکوان۔ ایسی کنجوسی کس کام کی اور پھر ایسے موقع پر پڑوسی کو نہ پوچھنا، واہ رے انسانیت! رام رام۔‘‘

وہ لوگ لڑکی کو رخصت کر کے لوٹ آئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے لئے کرسیاں لے لی ہیں اور باہر ہی بیٹھ گئے ہیں۔ لڑکی کے چلے جانے کے بعد اس کی ماں مزید سست اور سنجیدہ ہو گئی ہے۔ کئی لوگ مل جل کر اس کے دل کو بہلانے کی شاید کوشش کر رہے ہیں۔ میرا دوست راگھو، یہ دعوے کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ لڑکی دنیا دیکھی ہوئی تھی۔ ایک گہری کمی سے پیدا ہوئی اداسی کے علاوہ مجھے کچھ اوراحساس نہیں ہوتا۔ عجیب سا خالی پن۔ پیچھے ہٹے رہنے کا خالی پن یا اس لڑکی کے سلسلے میں راگھو کے لا پرواہ خیالات سے پیدا ہوا کھوکھلا پن۔ بالکل انجان سا۔ لڑکی کے بد چلن ہونے کی بات کبھی کبھی ایک رو بہ تنزل ہوتا اطمینان بھی دینے لگتی ہے۔ شاید میں بھی دل کے کسی کونے میں اپنے گھر والوں کی ہی طرح پڑوسی کو برداشت نہیں کر پا رہا ہوں۔

رات شام کی کینچلی اتار رہی ہے۔ فینس کے پار ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے لوگ اٹھ اٹھ کر بکھر گئے ہیں۔ روز کی طرح پڑوسی کے بیچ والے کمرے میں بجلی کا بلب جل گیا ہے۔ دروازے کے شیشوں کے کھرچے ہوئے حصوں پر مٹ میلی روشنی دھبوں کی طرح چپکی ہوئی ہے۔ ان رات کی پرسکون اور اصولوں کے مطابق ہو چلی ہے پتہ نہیں، انہیں گھر میں ایک شخص کا کم ہو جانا کیسا لگ رہا ہو گا؟ ہمارے گھر تو پڑوسی پر ملامت کا بازار بہت گرم ہے۔

***

 

 

 

تین وقتوں کی کتھائیں

 

کاشی ناتھ سنگھ

 

کاشی ناتھ سنگھ، پیدائش یکم جنوری، ۱۹۳۷ء، جیان پور، وارانسی، اتر پردیش۔ میدان: کہانی، ناول۔ کچھ اہم تخلیقات: گھر جو گی جوگڑا (یادداشتیں)، پرتندھی کہانیاں، یا ہو کہ نہ یاد ہو۔ وغیرہ۔ ایوارڈز: کیڑا ساہتیہ اکیدیمی ایوارڈز سمیت کئی اہم ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا۔ کہانیوں اور ناولوں کے کئی زبانوں میں ترجمے شائع ہو چکے ہیں۔

***

 

قحط

 

 

یہ واقعہ دُودھی تحصیل کے ایک خاندان کا ہے۔ گزشتہ روز چار دنوں سے غائب مرد، غصہ کھاتا ہوا اپنے گھر آتا ہے اور دروازے سے آواز دیتا ہے۔ اندر سے پاؤں گھسیٹتی ہوئی اس کی عورت باہر نکلتی ہے۔ مرد اپنی دھوتی کے ڈھب سے دس روپے کا ایک مڑا تڑا نوٹ نکالتا ہے اور عورت کے ہاتھ پر رکھ کر بولتا ہے کہ جب وہ شام کو واپس آئے تو اسے کھانا ملنا چاہئے۔

عورت فکر مند ہو کر پوچھتی ہے، ’’اناج کہاں ہے؟‘‘

’’جہنم میں۔‘‘ مرد ڈپٹ کر کہتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔

عورت نوٹ کو غور سے دیکھتی ہے اور جتن سے طاق پر رکھ دیتی ہیں۔ وہ اپنے چار سال کے لڑکے کو، جو کھیلتے کھیلتے ہی سو گیا ہے، جگاتی ہے اور کہتی ہے، ’’تم گھر دیکھو، میں ابھی آ رہی ہوں۔‘‘

لڑکا آنکھ ملتا ہے اور وہ اسے لوٹ کر اپنے ساتھ بازار لے چلنے کا لالچ دیتی ہے۔ لڑکا خاموشی سے اپنی ماں کو دیکھتا رہتا ہے۔ عورت جھوٹے برتنوں کو اٹھاتی ہے اور دھونے کیلئے باہر چلی آتی ہے۔ وہ جھٹ پٹ برتن دھو کر جب گھر آتی ہے، تو چوکھٹ پر پہنچ کر دنگ رہ جاتی ہے۔ نیچے زمین پر نوٹ کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ وہ برتن پھینک کر طاق کے پاس جاتی ہے۔ نوٹ ندارد۔ لڑکے کھٹیا پر جوں کا توں لیٹا ہے۔ وہ غصے میں ہے اور منہ پھلائے ہے۔ وہ لڑکے کو کھینچ کر مارنا شروع کرتی ہے، پھر تھک جاتی ہے اور رونے لگتی ہے۔ شام کو مرد آتا ہے اور صحن میں پیڑھے پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ عورت کو آواز دیتا ہے کہ فوری طور پر کھانا دو۔ عورت صحن میں بیٹھے بیٹھے بتاتی ہے کہ جب وہ برتن دھونے گئی تھی، لڑکے نے نوٹ کو پھاڑ دیا تھا۔ مرد اپنی سوکھی ٹانگ پر ایک مکا مارتا ہے اور اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ لپک کر چولہے کے پاس سے چمٹا اٹھاتا ہے اور صحن میں کھڑا ہو کر کہتا ہے، ’’اگر کوئی میرے پاس آیا تو اسے کچا کھا جاؤں گا۔‘‘

اس کا منہ اپنی عورت کی طرف ہے۔ عورت بِنا اسے دیکھے سنے بیٹھی رہتی ہے۔ مرد جھپٹا مار کر لڑکے کو اٹھاتا ہے اور اس پر چڑھ بیٹھتا ہے۔ پھر چمٹے کو جھنڈے کی طرح تان کر عورت کو للکارتا ہے، ’’کچا کھا جاؤں گا۔‘‘

عورت اس کی طرف بالکل نہیں دیکھتی۔ مرد لڑکے کے گلے پر چمٹا دباتا ہے اور غصے میں دھاڑتا ہے، ’’سالے، تجھے حلال کر کے چھوڑوں گا۔‘‘ اور اپنے ہونٹ بھینچ لیتا ہے۔ لڑکا بِنا چیخے، چلائے، روئے اس کے گھٹنے کے درمیان ہی دبا ہے، وہ کسی طرح سانس لیتا ہے، ’’اوہ، ایسے نہیں، آہستہ آہستہ۔۔۔۔‘‘ اور پولیس دوسری صبح اصولوں کے مطابق مرد کے ساتھ اپنا فرض پورا کرتی ہے۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔

 

پانی

 

 

پولیس کو خبر دی جاتی ہے کہ سات دنوں کا بھوکا، نٹھوہر کنویں میں کود گیا ہے اور وہ باہر نہیں آ رہا ہے۔

’’اس میں پریشانی کیا ہے؟‘‘ پولیس والے پوچھتے ہیں۔

’’حضور، وہ مرنا چاہتا ہے۔‘‘

’’اگر وہ یہی چاہتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ پولیس والے دوبارہ کہتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ اس کے مر جانے کے بعد ہی، اس کیلئے کچھ کر سکتے ہیں، اس سے پہلے نہیں۔ انہیں اس کیلئے ’’فائر بریگیڈ‘‘ دفتر کو خبر کرنی چاہئے۔ خبر کرنے والے فکر مند ہوتے ہیں اور کھڑے رہتے ہیں۔

’’صاحب، وہ کنویں میں مر گیا تو ہم پانی کہاں پئیں گے؟‘‘ ان میں سے ایک آدمی ہمت کر کے کہتا ہے۔

’’کیوں؟‘‘

’’ایک ہی کنواں ہے۔‘‘ وہ ہچکچاہٹ کے ساتھ آہستہ سے کہتا ہے۔

دوسرا آدمی مزید وضاحت کرتا ہے۔ ’’اس کنویں کو چھوڑ دیا تو پانی کیلئے ہمیں تین کوس دور دوسرے گاؤں جانا پڑے گا۔‘‘

کافی غور کرنے کے بعد دو سپاہی کنویں پر آتے ہیں۔ وہ جھانک کر دیکھتے ہیں۔ پانی بہت نیچے چلا گیا ہے اور وہاں اندھیرا دکھائی پڑ رہا ہے۔ پانی کی سطح کے اوپر ایک کنارے ڈول پکڑے نٹھوہر بیٹھا ہے، ننگا اور کالا سیاہ۔ سپاہی ہولی کا مزہ کرکرا کروانے پر انہیں گالیاں دیتے ہیں اور رسی لانے کیلئے کہتے ہیں۔ رسی لائی جاتی ہے اور کنویں میں ڈال دی جاتی ہے۔ سپاہی الگ الگ بھی اور ایک ساتھ چلا کر بھی نٹھوہر سے رسی پکڑنے کیلئے کہتے ہیں۔ رسی نٹھوہر کے سامنے ہلتی رہتی ہے اور وہ چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔

سپاہی اسے ڈانٹتے ہیں، ’’باہر آنا ہو تو رسی پکڑو۔‘‘

کافی شور شرابے کے بعد نٹھوہر اپنی آنکھیں رسی کے ساتھ ساتھ اوپر کرتا ہے، پھر سر دوبارہ جھکا لیتا ہے۔

’’وہ رسی کیوں نہیں پکڑ رہا ہے؟‘‘ ایک سپاہی بستی والوں سے پوچھتا ہے۔

بستی والے بتاتے ہیں کہ وہ رسی پکڑنے کیلئے نہیں، مرنے کے ارادے سے اندر گیا ہے۔ وہ بھوک سے تنگ آ چکا ہے۔ سپاہی استہزا کرتے ہیں کہ کیا وہ ان کے نٹھوہر کیلئے روٹی بن جائیں۔ سپاہیوں میں سے ایک مزید کہتا ہے کہ اگر وہ مرنے پر آ گیا ہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ لیکن وہ کم از کم آج نہیں مر سکتا۔ آج ہولی ہے اور یہ غلط ہے۔

’’ہاں، وہ کسی دوسرے دن مر سکتا ہے، جب ہم نہ ہوں۔‘‘ دوسرا سپاہی بولتا ہے۔

جواب میں نٹھوہر کے ہونٹ ہلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں، لیکن آواز نہیں سنائی دیتی۔

’’کیا بولتا ہے؟ َ‘‘ ایک سپاہی پوچھتا ہے۔

’’منہ چِڑا رہا ہے۔‘‘ دوسرا کہتا ہے۔

’’نہیں، وہ گالیاں دے رہا ہو گا، بڑا غصیل ہے۔‘‘ دوسری طرف سے اندر جھانکتا ہوا ایک آدمی کہتا ہے۔

’’گالیاں؟ کھینچ لو۔ تم سب کھینچ لو رسی اور سالے کو مر جانے دو!‘‘ باہر رسی پکڑے بستی والوں پر ایک سپاہی چیختا ہے۔ بستی والوں پر اس چیخ کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

’’جانے دو۔ گالی ہی دے رہا ہے، گانا تو نہیں گا رہا ہے۔‘‘ اس کا ساتھی پھر مسخرہ پن کرتا ہے اور ہی ہی کر کے ہنستا ہے۔

’’اچھا، ٹھیک ہے، باہر آنے دو۔‘‘ سپاہی خود کو پر سکون کرتے ہوئے کہتا ہے۔

رسی کھینچ لی جاتی ہے اور اسے باہر نکالنے کے لئے طرح طرح کے مشورے دیئے جانے لگتے ہیں۔ طے ہوتا ہے کہ وہ بھوکا ہے اور روٹیاں دیکھ کر اوپر آ جائے گا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ روٹیاں کہاں سے آئیں؟ اگر روٹیاں ہوتی تو وہ کنویں میں کیوں بیٹھتا؟ پھر بات اس پر بھی آتی ہے کہ اسے یہیں سے چارا دکھایا جائے۔ نرم اور ملائم پتے۔

’’کیوں، تم سب اسے پاڑا سمجھتے ہو؟‘‘ ناراض سپاہی پوچھتا ہے اور اپنا تھل تھل جسم ہنسی سے تھر تھرانے لگتا ہے۔ آخر میں طے پاتا ہے کہ کوئی آدمی قریب کے بازار میں چلا جائے اور وہاں سے کچھ بھی لے آئے۔ گھنٹے بعد پاؤ بھر ستّو آتا ہے۔ سپاہی پوری عقلمندی کے ساتھ ایک گاگری میں ستّو گھول کر نٹھوہر کے آگے ڈال دیتے ہیں۔ وہ گاگری کو ہاتھوں میں لے کر ہلاتا ہے، اس میں جھانکتا ہے، سونگھتا ہے۔ پھر ایک ہی سانس میں پی جاتا ہے۔ خالی گاگری پھر جھولنے لگتی ہے اور اوپر ہنسی نکل رہی ہوتی ہے۔

’’اچھا بنایا اس نے۔‘‘ ایک سپاہی کہتا ہے۔

’’اب تو وہ اور بھی باہر نہیں آئے گا۔‘‘ بستی کا ایک آدمی اداس ہو کر کہتا ہے۔

’’ہاں ہاں، رُکو۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘ تھل تھل کرتا سپاہی اندر جھانکتا ہوا ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے۔ دوسرے بھی جھانکتے ہیں۔ نٹھوہر نے گاگری نکال کر پانی پر پھینک دی ہے اور پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا ہے۔

’’اس نے پھندا پکڑ لیا ہے۔‘‘ پہلا سپاہی چلاتا ہے۔

’’کھینچو، میں کہتا ہوں، کھینچو سالے کو۔‘‘ دوسرا بھی چیختا ہے اور نٹھوہر کو نکال لیا جاتا ہے۔ اس کی انگلیاں پھندے پر کس گئی ہیں۔ زبان اور آنکھیں باہر نکل آئی ہیں اور ٹانگیں کسی مرے مینڈک کی طرح تن گئی ہیں۔ سپاہیوں کو کرتب دکھانے ذریعہ ملتا ہے اور بستی والوں کو پانی۔

۔۔۔۔ ۔۔۔۔

 

نمائش

 

 

خبر پھیلی ہے کہ اس علاقے میں قحط سالی دیکھنے وزیر اعظم آ رہی ہیں۔ سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جنگل کے وسط سے نمونے کے طور پر پچاس ڈھانچے نما انسان حاصل کئے جاتے ہیں اور پندرہ دن تک کیمپ میں رکھ کر انہیں اس موقعے کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ استقبال کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پھاٹک بنائے جاتے ہیں۔ مرکزی دروازہ اور اسٹیج سجائے جاتے ہیں۔ ’’خوش آمدید‘‘ اور ’’ویل کم‘‘ کے بورڈ لٹکائے جاتے ہیں۔

’’جے ہند‘‘ پر دو رہنماؤں میں اختلافات ہو جاتا ہے، لہٰذا اسے نہیں لٹکایا جاتا۔ گاڑیوں اِدھر سے اُدھر دوڑتی ہیں اور اُدھر سے اِدھر۔ پولیس کے سپاہی آتے ہیں، صحافی آتے ہیں، رہنما اور افسر آتے ہیں۔ سی آئی ڈی کی نگرانی بڑھتی ہے۔ اپنے اپنے علاقوں کے کامیاب رہنما، لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ یہ ان کی آواز ہے جو وزیر اعظم کو یہاں گھسیٹ لائی ہے۔ اس طرح اگلے انتخابات میں ان کے جیتنے کا امکان روشن ہوتا ہے۔ دوسرے علاقوں سے آئے رہنماؤں کو کوفت ہوتی ہے کہ ان کا علاقہ قحط سالی سے کیوں محروم رہ گیا۔ اس دوران قحط سالی بھی زور پکڑ لیتی ہے۔ بیل، مہوے، کروندے، کُنرُو کے درختوں سے بور کا صفایا ہو چکا تھا۔ اب درخت بھی ننگے ہونے لگے ہیں۔ ان کی پتیوں میں سے نرم اور ملائم کو چھانٹا جا رہا ہے اور کھایا جا رہا ہے۔ یہ سب اس وقت تک چلے گا، جب تک ایک بھی پتی باقی ہے۔

عین وقت پر وزیر اعظم آتی ہیں۔ وہ دس روپے کی ساڑی میں سو مربع میل کا سفر کرتی ہیں۔ چند گھنٹوں میں اتنا طویل سفر لوگوں کو سکتے میں ڈال دیتا ہے۔ وزیر اعظم خوش ہوتی ہیں کہ لوگوں کو بھوک لگی ہے، پھر بھی ان کو دیکھنے کے لئے سڑکوں پر دھوپ میں کھڑے ہیں۔ عوام، وزیر اعظم پر اپنے پورے اعتماد اور لگاؤ کے ساتھ قحط میں مر رہی ہے۔ آخر میں، وزیر اعظم کا دس منٹ تک پروگرام ہوتا ہے۔ رام لیلا میدان میں کہیں کوئی تیاری نہیں ہے۔ کیونکہ باہر سے لائے جانے والے پھل، گجرے، کیلے کے گچھے غریبوں کے درمیان محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور ایسے بھی یہ پروگرام جشن منانے کیلئے نہیں ہے۔

پروگرام سے پہلے نمائش کے لئے تیار شدہ سینتالیس ڈھانچے لائے جاتے ہیں۔ پچاس میں سے تین مر چکے ہیں۔ کیمپ میں آنے کے تیرہویں دن جب ان کو کھانے کیلئے روٹی دی گئیں تو وہ پوری کی پوری نگل گئے۔ اور ہوا یہ کہ روٹی خشک حلق میں پھنس گئی اور وہ اوپر روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم ان کے اور ساری بھیڑ کے سامنے اپنا پروگرام پیش کرتی ہیں۔ وہ دھوپ میں ایک چبوترے پر آ کھڑی ہوتی ہیں۔ بولنے کی کوشش میں ہونٹوں کو کپکپاتی ہیں۔ آنکھوں کو رومال سے پونچھتی ہیں اور سر دوسری طرف گھما لیتی ہیں۔ رومال کے ایک کونے پر سرخ گلاب کڑھا ہے۔ بھیڑ پر جوش ہو جاتی ہے۔ اس خاموش بھرے پروگرام کے بعد مطمئن چہرے کے ساتھ وزیر اعظم رخصت ہو جاتی ہیں۔ نعرے لگتے ہیں۔ جے جے کار ہوتا ہے۔ اور دوسرے دن شہر کے سب سے بڑے ہوٹل میں وزیر اعظم صحافیوں کے درمیان بیان دیتی ہیں کہ ’’ہم ثابت قدمی، پختہ ارادے اور اپنے بل بوتے پر ہی اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘

افسر خوش ہوتے ہیں کہ دورہ بغیر کسی حادثے کے اختتام پذیر ہوا ہے۔ بھیڑ پہلی بار اپنی زندگی میں وزیر اعظم کا دیدار پا کر چھنٹ جاتی ہے اور وہ سینتالیس غریب گھاس اور جڑی بوٹیاں کھانے کیلئے جنگل کی طرف ہانک دیئے جاتے ہیں۔

***

 

 

 

چوہے دانی

 

دُودھ ناتھ سنگھ

 

دُودھ ناتھ سنگھ۔ پیدائش: ۱۷ اکتوبر، ۱۹۳۶ء، سوبنتھا، بِلیا، اتر پردیش۔ میدان: ناول، کہانی، ڈرامہ، یادداشتیں، شاعری، تنقید۔ کچھ اہم تخلیقات: ناول: آخری کلام، نشکاسن، نمو اندھ کارم۔ کہانیوں کے مجموعے: سپاٹ چہرے والا آدمی، سکھانت، پریم کتھا کا انت نہ کوئی، مائی کاشو کے گیت، دھرم شیترے کرک شیترے، تو فو،۔ شاعری کے مجموعے: اگلی شتابدی کے نام، ایک اور بھی آدمی ہے، یووا خوشبو، سرنگ سے لوٹتے ہوئے (طویل نظم)۔ ڈرامہ: یم گاتھا۔ ایوارڈز: شرد جوشی سمان، کتھا کرم سمان، ساہتیہ بھوشن سمان وغیرہ

***

 

گاڑی چل پڑی تو اس کا دل ہوا کہ پلیٹ فارم پر رومال ہلاتے بسنت کو بلا لے۔ اس کے ارد گرد مسافروں اور رخصت کرنے والوں کی بھیڑ نکلتی جا رہی تھی اور وہ بھیڑ سے بچتا ہوا مسلسل اپنا رومال ہلاتا چلا جا رہا تھا۔ یہاں تک تو اس کی ضد چل گئی تھی، لیکن اس کے بعد سُمیتا نے کہا تھا کہ وہ اُسے ساتھ نہیں لے جا سکے گی۔ لہجے میں کچھ ایسا کھنچاؤ تھا کہ بسنت اپنا سامان ’’کلوک روم‘‘ میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ پھر گاڑی جب تک نہیں چلی، وہ کھڑکی کی سلاخوں سے سر ٹکائے چپ چاپ کھڑا رہا۔ سُمیتا کبھی اس کی طرف دیکھ لیتی، پھر منہ پھیر کر دوسری طرف باہر دیکھنے لگتی۔ بسنت کی ناک، اس کے ہونٹ اور ٹھوڑی کھڑکی سے اندر موجود تھے۔ کھڑکی پر اس طرح کھڑے ہونے کی اس کی پرانی عادت تھی۔ اس سے پتہ نہیں کیسا کیسا ہونے لگتا تھا سُمیتا کے دل میں۔

وہ کہتا، ’’مس شرما!‘‘

’’آ جائیے اندر۔‘‘

’’نہیں، میں جلدی میں ہوں۔ بس یونہی چلا آیا تھا۔‘‘ اور وہ تیز قدموں سے چلا جاتا۔

اب وہ کہاں ہو گا۔ شاید سامان اٹھا کر کسی ہوٹل میں چلا گیا ہو گا۔ لوٹنے کیلئے تو اسے کل صبح ایک دوسری گاڑی کا انتظار کرنا ہو گا۔ کل صبح تک وہ کہاں ہو گی؟ میرٹھ۔ پھر؟ ۔۔۔۔ اس نے چاہا کہ نیند آ جائے اور صبح اٹھنے پر سوم اسے اسٹیشن پر کھڑے مل جائیں۔ وہ کیسے ملیں گے؟ کیا انہیں کوئی خبر ہے؟ اور خبر ہوتی بھی تو بھی کیا وہ اسٹیشن آتے؟ تب وہ کیوں جا رہی ہے؟ ۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ جیسے کھڑکی سے باہر سر جھکائے بسنت کہیں چلا جا رہا ہو۔ بھاگتی ہوئی ریل سے باہر نظر آنے والے تار، افق پر کھنچی ہوئی پتلی سفید لکیروں کی طرح لگتے تھے۔ ہلکے نیلے رنگ والا آسمان، درخت، میدان، پگڈنڈیاں، باغ، گاؤں، اندھیرے میں ٹمٹماتی روشنیاں سبھی مرطوب دھند میں ڈوبے ہوئے سے۔ بھاگتی ہوئی ٹرین کے ساتھ دھند کی پٹی بھی جیسے دوڑ رہی تھی۔ دھند کے بیچ سے کہیں درختوں کی پھنگیاں تو نظر آ جاتی، لیکن باقی حصہ گھنی پٹی کے درمیان ڈھکا رہتا۔ جیسے درخت کا اوپری حصہ ہوا میں بے وجود ساٹنگا ہو۔ یہی منظر لگا تار چلتا جاتا۔۔۔ پھر رات کا سناٹا، پیچھے چھوٹتے ہوئے اسٹیشن، قلیوں اور مسافروں کا شور، اور پھر دھند میں ڈوبے انجن کی کھرکھراتی سی آواز۔۔۔ اس نے کھڑکی سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔

اندر کہیں ایک صورت ابھری۔ لگتا تو بسنت ہے۔ اس کے ہونٹ سلاخوں کے اندر داخل ہو کر اس کے گالوں سے ایکدم پیوست ہیں۔ ٹھنڈ کی وجہ سے اس کی گرم سانسوں کی بھاپ وقفے وقفے سے اس کے چہرے پر پھیل رہی ہے۔ اس کی نگاہیں گالوں کو سہلا رہی ہیں اور وہ دونوں بانہوں سے کھڑکی کی سلاخوں کے ساتھ ہی اسے جکڑے ہوئے ٹنگا ہوا سا چلا آ رہا ہے۔ بانہوں کی جکڑ ڈھیلی ہوئی نہیں کہ وہ چلتی ہوئی ریل سے نیچے۔۔۔

سوم کی بانہیں بھی تو اسی طرح اٹھتی تھیں۔ بستر پر لیٹے لیٹے وہ دونوں بانہیں اٹھا دیتے۔ وہ لجاتی لجاتی ان میں ڈوب جاتی۔ کئی بار جب اس نے بھاگنے کا سوچا تو پایا کہ وہ بانہیں اسے گھیرے ہوئی ہیں۔ لیکن بسنت؟ اس کی بانہیں؟ اس نے اس التجا کا جواب کبھی نہیں دیا۔ بسنت کی بانہیں اٹھتیں اور پھر نیچے گر جاتیں۔ کھسیا کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگتا اور ہاتھ پیچھے باندھے جیسے وہ اپنی انگلیوں کا کھنچاؤ چھپا لینا چاہتا ہو۔ اس کی گہری آنکھوں کے سامنے ایک دھندلی سی تصویر تھی۔ وہاں سوم کا چہرہ تھا۔ وہی ایکدم معصوم، نا تجربہ کار اور پر سکون سا چہرہ۔ ساتھ ہی مضبوط بانہوں کے گھیرے، کچھ موٹے ہونٹ اور مختصر سی ٹھوڑی جو سارے چہرے کو مزید نرماہٹ سے بھر دیتی تھی۔ ماں نے پہلی بار دیکھ کر کہا تھا، ’’یہ تو کوئی نارسسس Narcissus لگتا ہے۔‘‘

پہلی بار وہ دیکھنے آئے تھے اور آنکھیں جھکائے بیٹھے رہے۔۔۔ کتنی سچ نکلی یہ مثال کہ یہ شخص جس کسی کو بھی ایک بار اپنی بانہوں میں سمیٹ لے گا، اُسے کتنا گہرا سکھ ۔ ۔ ۔ نہیں دکھ، کرب، احساس کا فقدان۔ کیا کہے وہ؟ کچھ نہیں کہہ سکتی۔ وقت جیسے سارے فیصلوں کو ڈبو لے گیا ہے۔ شادی کے دوسرے دن صبح اس نے چندرا سے خوب کھل کر بتائی تھی باتیں۔ ایک ایک گھڑی کا احوال اس نے دیا تھا۔ ایک ایک پل کا۔ آنکھوں کی ایک ایک جھپک کا۔ اس نے کہا تھا، ’’بس پاگل ہو جانا باقی ہے۔ مجھے لگتا ہے میں ہو جاؤں گی۔ اتنا سب کیسے سنبھلے گا! تم ہی بتاؤ چندرا۔ تم جو پہیلی بجھاتی تھیں، وہ میں سمجھ گئی ہوں۔‘‘

دونوں سہیلیاں ایک دوسرے میں پیوست لیٹی رہیں۔ تھوڑی دیر بعد چندرا نے کہا تھا، ’’ایسے نصیب سب کے نہیں ہوتے۔ رانی تم خوش نصیب ہو۔ لیکن ہمیں بھول نہ جانا۔‘‘

’’ضرور بھول جاؤں گی۔ میں دنیا جہان بھول جاؤں گی۔‘‘ وہ دونوں کھلکھلا کر ہنسیں تو ماں آ گئی تھیں۔

رات بھر میں وہ سِرس کے پھول کی طرح ہلکی ہو گئی تھی۔ ایک تجربہ کار خاتونِ خانہ کی مانند دن بھر وہ ماں، بھابھیوں کے درمیان ڈولتی ہوئی بات بات میں دخل دیتی رہی۔

’’ایک ہی رات کا یہ اثر! رانی جی، اب اروند کی ’’ڈیوائن لائف‘‘ نہیں رٹو گی؟‘‘ بڑی بھابھی نے کہا تھا۔

’’تم ہٹو بھابھی! میں خود ہی ’’ڈیوائن لائف‘‘ ہو گئی ہوں۔‘‘ اس وقت تک اس نے ماں کو دیکھا۔ اپنی اسرار بھری مسکراہٹ اچھال کر اس نے روٹھنے کی اداکاری تو سبھی قہقہے لگا کر ہنس پڑے تھے۔ وہ بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔

سسرال میں پھولوں کی سیج۔ پرت در پرت سارے تن من میں خوشبو۔۔۔ جیسے ساری زندگی میں سہاگ راتیں۔ اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تھا۔ الہ آباد کے مقابلے میں میرٹھ اسے ایک معمولی سا قصبہ لگا تھا۔ اسٹیشن میں مادھو نگر تک آتے ہوئے سڑکوں کے تنگ اور پیچیدہ پیچ و خم، دکانوں پر جلتی ہوئی تیل کی ڈھبریاں یا گیس بتیاں، راستے میں کہیں بجلی اور کہیں تیل کے پرانے لیمپ پوسٹوں کے درمیان اندھیرے اجالے کے کئی کئی رنگ۔ اس کو سب کچھ کچھ بڑا پیارا، پر سکون سا لگا تھا۔ رات ہوئی تو چپکے سے وہ ایک بار چھت پر گئی۔ چھت سے دور دور تک گھنے، شاندار پپیتوں کے باغ اور ان کے درمیان سے گزرتی ہوئی سیاہ تاریک سڑک۔ مغرب کی طرف چنگی پھاٹک کے پاس ہی ایک بڑا سا اینٹوں کا دروازہ اور اسی سے لگا ہوا، ٹوٹی پھوٹی، پرانی نئی قبروں سے انچ انچ بھرا ہوا قبرستان۔ وہ چپ چاپ نیچے اتر آئی۔ کھڑکی سے ٹک کر باہر دیکھنے لگی۔ قبرستان پر آہستہ آہستہ چاندنی پھیلتی اور بادلوں کے پردے میں گم ہو جاتی۔ اور اسی طرح تین دن اور تین راتیں۔

بسنت پہلے بہت پوچھتا تھا، ’’اتنے کم وقت میں ایسا کیا مل گیا جو۔۔۔‘‘ اب نہیں پوچھتا۔ اوپر سے نیچے تک خوشیوں کے بوجھ سے لدی، بیہوش سی، وہ کبھی اپنے باہر تکتی، کبھی اپنے اندر۔ ساری دنیا کا وجود جیسے ختم ہو گیا تھا۔ چاروں جانب صرف سناٹا اور تنہائی اور اس تنہائی میں صرف دو وجود۔ کسی پر اسرار، مفہوم سے ماورا گیت کا آلاپ گنگناتے ہوئے۔ اب تو اس کی گمنام پرچھائیاں بھر ہی ہیں۔ وہی اسے روکتی ہیں۔ پست ہمت یا مضبوط بناتی ہیں۔ اب وہ خود نہیں جان پاتی۔ چندرا سے کہی گئی وہ بات کتنی سچ نکلی۔ ’’اب صرف پاگل بھر ہونا باقی بچ رہا ہے۔‘‘ لیکن کیا واقعی انہی معنوں میں؟ کُل تین دن ہی تو گزرے تھے۔ وہی دن، جن میں اسے لگا تھا کہ وہ کئی زمانوں سے اسی طرح مسرتوں میں مدہوش، طویل عمر جیتی چلی آئی ہے۔ وہ ہی تین دن، جنہوں نے اُسے یہ اذیتیں جھیلنے کیلئے سچ مچ امر کر دیا۔۔۔۔

کھڑکی سے لگی، باہر کی جانب تکتی، وہ دروازے سے آتے ہوئے پیروں کی آہٹ لے رہی تھی۔ باہر قبرستان پر نیم کی پتیاں جھڑ رہی تھیں اور بیچ بیچ میں پرندوں کا جھنڈ چہچہا کر چپ ہو جاتا تھا۔ جیسے گھونسلوں میں جگہ کی کمی ہے۔ سب کو نیند آ رہی ہے، کوئی کسی کو ہلا جلا دیتا ہے تو نیند ٹوٹنے کی وجہ سے وہ جھلا کر کچھ کہتا ہے۔ پھر تُو توُ، میں میں ہوتی ہے بالآخر پھر سب خاموش۔ بچپن میں وہ سب بھائی بہن اسی طرح کرتے تھے۔ تب ماں آ جاتی تھیں۔ اسے یاد آیا۔۔۔ تبھی اس نے آہٹ سے جانا ہے کہ سوم آ کر اس کے پیچھے والے پلنگ پر بیٹھ گئے ہیں۔ اب وہ اپنی بانہیں پھیلائیں گے۔ اب! ابھی۔۔۔ اس سے انتظار نہیں ہو سکا۔ وہ پیٹھ کے بل ہی ان کی آغوش میں لڑھک گئی۔ آنکھیں موند لیں اور انتظار کرنے لگی۔

’’مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ ایک لمحے بعد، کوئی جواب نہ پا کر اس نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا۔ ایکدم چونک کر اٹھ بیٹھی۔ سوم کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ آنکھیں سلگ رہی تھیں۔ نتھنے پھڑک رہے تھے، ہونٹوں کے کونوں میں سے ہلکا سا جھاگ نکل آیا تھا۔ وہ اس طرح باہر کی طرف دیکھ رہے تھے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔

’’کیا ہوا، کسی سے لڑ کر آئے ہو کیا؟‘‘ اس نے اس کا چہرہ پکڑ کر گھما دیا۔ انہوں نے ایک بار گھور کر دیکھا اور ایک دھکے سے اٹھا کر الگ کر دیا۔ دھکا اتنے زور سے دیا گیا تھا کہ وہ بستر پر لڑھک سی گئی۔ پھر بھی وہ کچھ نہیں بولی، اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر اس نے لحاف گھسیٹ کر اپنے پیروں پر ڈال لیا۔ پھر اچانک اس سے رہا نہیں گیا۔ بانہوں میں چہرہ ڈھک کر مزید روہانسی ہو گئی۔

’’کیوں، کیوں، کیوں؟ آخر کیوں؟‘‘ انہوں نے اس کا بازو زور سے پکڑ لیا۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتی رہی، ’’تم عورت ہو نا؟‘‘

’’۔۔۔‘‘

’’یہ سب کہاں سے آتا ہے؟ تم جانتی ہو؟ نہیں جانتیں؟ ’’

’’۔۔۔‘‘

’’کیا ہو رہا ہے؟ یہ سب نہیں چلے گا، سمجھیں! بے وقوف۔‘‘ انہوں نے ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑکی بند کر دی۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر کھول دی۔ پھر ساری کھڑکیاں کھول دیں۔ دروازے کھول دیئے۔ کچھ ایک پل کھڑکی کی سلاخوں پکڑے باہر قبرستان کی طرف تکتے رہے۔ پھر پاس آ کر بولے، ’’جانتی ہو، مطلب؟ بولو؟ ضرور جانتی ہو۔ کیوں نہیں جانتیں؟ کیوں، کیوں، کیوں؟‘‘ انہوں نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھانا چاہا۔ پھر بھی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا بولے۔

’’میں جانتا ہوں، میں۔‘‘ انہوں نے اپنی چھاتی ٹھوکتے ہوئے کہا، ’’دنیا کی جتنی بد چلن عورتیں ہیں، وہ اپنے شوہروں کو اتنا ہی زیادہ پیار کرتی ہیں۔ جس کی یاری جتنی گہری ہو گی، شوہر کیلئے اس کی محبت کا ڈرامہ اتنا ہی گہرا اور کامیاب ہو گا۔ میں سچ نہیں بول رہا ہوں؟ میں سب جانتا ہوں۔ پتہ نہیں چلتا، اتنا فریب، اتنا ڈرامہ، اتنا گناہ اس ننھے سے جسم میں کہاں سے سماتا ہے۔۔۔ بولو؟ میں سمجھتا ہوں۔‘‘ بازو چھوڑ کر وہ دھم سے پلنگ پر بیٹھ گئے۔ اس نے سوچا، اب وہ پر سکون ہو گئے ہیں۔ سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔

’’میں دیکھوں گا۔‘‘ وہ اچانک تن کر کھڑے ہو گئے، ’’کہاں گرمی نکالتی ہو تم لوگ؟‘‘ انہوں نے اسے پکڑ کر پہلے اٹھایا اور پھر پلنگ پر پٹک دیا۔ وہ ٹکر ٹکر ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ساڑی انہوں نے کھینچ کر الگ کر دی۔ بلاؤز کے بٹن ایک جھٹکے سے چٹخ کر کھل گئے۔

’’یہاں؟‘‘ اس نے کچھ نہیں کہا۔ اس کے پیٹ اور چھاتیوں پر کھرونچوں سے خون نکل آیا۔

’’ہٹاؤ ہاتھ۔۔۔۔ یہاں۔۔۔ یہاں؟‘‘ انہوں نے جگہ جگہ چٹکی کاٹنا شروع کیا، ’’یہاں‘‘ تڑاک تڑاک اس کے دونوں گالوں پر تین چار طمانچے جڑ دیے، ’’بولو؟ نہیں بولو گی؟‘‘ اس نے تکیے میں اپنا منہ گڑا لیا، ’’نہیں بولو گی؟ میں تمہیں گولی مار دوں گا۔ میرا پستول کہاں ہے؟‘‘ انہوں نے الماری کی طرف دیکھا، ’’یہاں نہیں ہے۔‘‘ اور وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ ’’آئی ایم جسٹ ریٹرننگ مائی لٹل ڈارلنگ۔ ہیو پیشینس۔ ڈونٹ لوز یور کریز۔‘‘ وہ چپ چاپ اٹھ کر دوسرے دروازے سے نیچے آئی اور ساس کو جگا دیا۔ دوڑ بھاگ شروع ہوئی۔ دو آدمیوں نے پکڑ کر انہیں زبردستی لٹایا۔ ڈاکٹر آیا۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد سوم کے چہرے پر وہی اطمینان بھرا احساس لوٹ آیا۔ جیسے وہ بہت تھک گئے ہوں اور سونا چاہتے ہوں۔ سب لوگ ڈاکٹر کے ساتھ باہر جانے لگے تو ساس نے اسے بھی چلنے کا اشارہ کیا۔ اس نے کہہ دیا کہ وہ تھوڑی دیر میں آئے گی۔ پھر وہ سوم کے سرہانے آ کر خاموشی سے بیٹھ گئی اور ان کے بالوں میں انگلیوں پھیرنے لگی۔ پھر جیسے ایک دھند سی چھٹنے لگی اور آنکھوں سے خاموش آنسوؤں کی لڑیاں سی لگ گئیں۔ اب کیا ہو گا؟ کیا ہو گا اب؟ تبھی اس نے سنا۔ ڈاکٹر برآمدے میں کھڑا کہہ رہا تھا، ’’مسٹر گوڑ! تجربہ بری طرح ناکام ہو گیا۔‘‘ اس ایک لمحے میں ہی وہ سُن ہو گئی۔ اس کے ہاتھ جہاں کے تہاں رک گئے۔

’’ایک تجربہ!‘‘ اسے لگا کہ وہ چیخ پڑے گی۔ ’’ایک تجربہ۔‘‘

سوم کے ماتھے کو ہلکا سا جھٹکا دے کر وہ اٹھ آئی۔ اس کا دل ہوا کہ سوم کا پستول اٹھا کر وہ باہر کھڑے تمام لوگوں کو ایک ایک کر کے گولی مار دے۔ اس نے سوچا کہ بس، اسی لمحے، ابھی وہ چل دے گی۔ چاہے رات اسے کسی ہوٹل میں گزارنی پڑے یا کہیں اور۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ سوم کی دونوں بانہیں اس کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ آنکھوں سے دو بوندیں گالوں پر بہہ آئی تھیں اور وہ ایک بے بس بچے کی طرح اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس کے اندر سے امڈ امڈ کر کچھ اٹکنے سا لگا۔ اس کا دل چاہا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہو جائے۔ بھونچال آئے، یا کچھ بھی ہو، چاہے سوم اسے گولی ہی مار دیں۔ وہ چپ چاپ دانتوں سے ہونٹوں کو دبائے کمرے سے باہر نکل آئی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا تھا۔ وہ سوچ نہیں سکی تھی کہ سوم اگر دروازہ پکڑے، کھڑے کھڑے اس کی طرف دیکھ رہے ہوں گے تو وہ کیا کرے گی۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اندر شاید پھر انہیں دورہ پڑ گیا تھا۔ کچھ لوگ انہیں پکڑے ہوئے تھے۔ ان کی چیخ سارے بنگلے میں گونجتی رہی تھی۔‘‘ سالی، کتیا۔ کمینی۔۔ تھوُ۔‘‘

کھڑکی سے ٹکے ٹکے، جانے کب اسے نیند آ گئی تھی۔ ہڑبڑا کر جب وہ اٹھی تو پایا کہ صبح ہو گئی ہے اور گاڑی میرٹھ پہنچنے والی ہے۔ اسٹیشن پر اترتے ہی وہ کپکپا گئی۔ وہی چھوٹا سا اسٹیشن تھا۔ بالکل ویسا ہی۔ کہیں کوئی تبدیلی نہیں، ’’یہی شہر ہے جہاں وہ خود کو دفن کر گئی تھی۔‘‘ اس نے سوچا اور قلی سے سامان اٹھوا کر اسٹیشن سے باہر آ گئی۔ یہیں اُس بار اُس کی ساس کھڑی تھیں۔ اور ساتھ ہی کتنے ہی اجنبی لوگ، جو اس کو دیکھنے اور استقبال کرنے کیلئے موجود تھے۔ دوکانیں ویسی ہی تھیں۔ تو کیا وہ سیدھے ہی مادھو نگر چلی چلے؟ اسی پس و پیش میں وہ رکشے پر بیٹھ گئی۔ ’’کسی ہوٹل میں چلیں گے، سمجھے۔‘‘ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی۔ دوپہر گزر گئی تھی۔ ہوٹل کی چھت پر دھوپ میں ایک دری بچھا کر وہ لیٹی ہوئی تھی۔ دھوپ پیشانی پر کچھ تیکھی لگنے لگی تو اس نے نوکر سے کہہ کر ایک پلنگ کھڑا کرا لیا۔ اوپر آسمان میں کافی اونچائی پر چیلوں کے جھنڈ اڑ رہے تھے۔ گہرے نیلے آسمان میں سفید بادلوں کے دھبے، پیوند کی طرح کہیں کہیں ابھرتے اور پھر گم ہو جاتے۔ پھر اچانک دوبارہ آسمان کی لامحدود گہرائیوں میں سے کہیں ایک سفید ٹکڑا نمودار ہو جاتا اور ہوا کے اشارے پر جھلملاتا ہوا سرکنے لگتا۔

’’بیکار ہے تیرا یہاں آنا۔ تیرے دل میں تو کچھ بھی نہیں ہے سُمیت!‘‘ وہ بار بار خود سے کہتی۔ اور پھر وہ کیسے ملے گی؟ کیا کہے گی کہ وہ کیوں آئی ہے؟ کیا وہ نارمل رہ سکے گی؟ جو بھی ہو، وہ پوچھے گی، سوم کے سینے پر مکے مار مار کر پوچھے گی، ’’تم نے ایسا کیوں کیا؟ تم نے مجھے ایسا کیوں بنا دیا؟ تم مجھے کیوں نہیں چھوڑتے؟‘‘ اور سوم؟ اس کے ساتھ کیسا برتاؤ کرے گا۔ لیکن جو بھی ہو، وہ ملے گی ضرور۔ پھر؟ پھر کیا؟ اب اور کیا باقی رہ گیا تھا۔ ان سات سالوں میں خاموشی سے طلاق بھی ہو گئی تھی۔ اس وقت سوم پاگل خانے میں تھے۔ دستخط کرتے وقت وہ وہیں پھوٹ پڑی تھی۔ نہیں، وہ یہ بالکل نہیں چاہتی۔ اس کا دل ہوتا کہ وہ سوم کو پاگل خانے جا کر دیکھ آئے۔ پھر اس نے ریسرچ مکمل کی۔ پاپا نے کہا تھا کہ ’’کچھ کر لے۔‘‘ ، پھر انہی کی سفارش پر اس نے لیکچرار کا عہدہ بھی قبول کر لیا۔ اس کے دوسرے دن اس نے پاپا کو خط لکھا تھا، ’’پاپا، مجھے اب کچھ کرنے کیلئے مت کہنا۔ میں ٹھیک ہوں۔‘‘ وہیں رہتے ہوئے اسے چندرا سے خبر ملی کہ سوم اچھے ہو گئے ہیں اور انہیں نوکری پر دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے۔ اسے اطمینان ہوا تھا اور اس نے سوچا تھا کہ ایک بار بغیر کسی کو بتائے وہ میرٹھ چلی جائے اور انہیں دیکھ آئے۔ لیکن ان کے ذرا سا بھی ’’ڈسٹرب‘‘ ہونے کے تصور سے ہی وہ کانپ اٹھتی اور اس کا جانا رہ جاتا۔

اسی پس و پیش میں ایک دن چندرا کا خط آیا۔ لکھا تھا، ’’سوم نے دوبارہ شادی کر لی ہے۔‘‘ وہ حیران رہ گئی۔ پہلے تو اسے یقین نہیں ہوا۔ اس نے چندرا کو تار دیا کہ یہ خبر کہاں تک سچ ہے۔ جواب میں چندرا نے لکھا کہ ’’یہاں سب کو پتہ ہے۔ ساتھ ہی ایک ہفتہ وار اخبار میں اس نے سوم اور اس لڑکی کی تصویر چھپی ہوئی بھی دیکھی ہے۔ تصویر کا تراشہ وہ بھیج رہی ہے۔‘‘ تصویر دیکھ کر بھی اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ کئی بار اسٹول پر کونے میں رکھی سوم کی تصویر سے وہ اس کا ملاپ کرتی اور دیکھتی رہ جاتی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اپنے ساتھ کیسا سلوک کرے؟ خاموشی سے وہ باہر نکل آئی۔ کچھ لڑکیاں اس کے ساتھ روزانہ ’’نیو سائٹ‘‘ تک گھومنے جایا کرتی تھیں۔ اس نے سب کو منع کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی واقعے یا حادثے پر اسے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ سب کچھ ممکن ہے یہاں اور سب کچھ نا ممکن بھی۔ بالخصوص جسے انہونا سمجھا جاتا ہے وہ تو واقع ہو کر ہی رہتا ہے۔ اسے لگا کہ کسی نے ڈنک سے اس کا خون چوس لیا ہے اور ایک کٹھ پتلی کی طرح ساکت، گم صم، وہ خاموشی سے چلی جا رہی ہے۔ ہوسٹل میں وہ کافی دیر سے لوٹی تھی۔ بہت ساری لڑکیاں دروازے پر بیٹھی سرگوشیاں کر رہی تھیں۔ کوئی اور دن ہوتا تو وہ ڈانٹ دیتی، لیکن آج کچھ نہیں بولی۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ ان سب سے گئی گزری ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اندر آ کر وہ لیٹ گئی۔

کھڑکی کے باہر اندھیرے میں دیکھتے ہوئے اس کے اندر ایک مروڑ سی اٹھنے لگی۔ جیسے سلاخوں سے باہر کی ہر چیز پرائی ہو گئی ہو۔ اس کا دل چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر، باہر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ساری ہریالی اور جھرجھراتی ہوا اپنے اندر کھینچ لے۔ پھر اس رات۔۔۔ بے دم سی کروٹیں بدلتی ہوئی نہ جانے کسی ان دیکھے وجود کو سنا کر وہ کراہتی، چھٹپٹاتی رہی۔ صبح اٹھی تو لگا جیسے کسی پرائے دیس میں جاگی ہے۔ رات بھر میں ہی جیسے ساری زندگی، کھڑکیوں کے راستے سرک کر گم ہو گئی تھی۔ جیسے اندر کا سب کچھ نچڑ کر بہہ گیا تھا اور اس کا سوکھا ہوا ڈھانچہ ایک مورتی کی طرح کھڑکی پر بیٹھا دیا گیا تھا۔ ہاتھ منہ دھوتے وقت وہ نہ جانے کسی دوسری انہونی کا انتظار کرتی رہی۔ گھنٹوں باتھ روم کے فرش پر بیٹھی ٹھٹھرتی رہی۔ ’’ڈائیننگ ہال‘‘ میں گئی تو اس سے کچھ بھی کھایا نہیں گیا۔ نوالہ منہ میں ڈالتے ہی الٹی سی آنے لگتی۔ چھوڑ کر وہ اٹھ آئی۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کمرے میں وہ ایک لمحے کو بھی نہیں رہ سکتی۔ جلدی جلدی کپڑے تبدیل کر کے وہ یونیورسٹی چلی گئی۔

کلاس میں جاتے وقت اسے لگا جیسے سبھی اسی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کی پیٹھ پر، بانہوں پر، آنکھوں میں، بھوؤں میں سب کچھ لکھ کر ٹانگ دیا گیا ہے۔ کلاس ختم ہونے پر اس سے وہاں نہیں رہا گیا۔ ’’اسٹاف روم‘‘ کی جانب جانے کے بجائے وہ پیدل ہی ہوسٹل چل پڑی۔ کمرے کا دھیان آیا تو اس نے سوچا اب کہاں جائے۔ پھر وہ اپنے آپ ’’نیو سائٹ‘‘ کی جانب مڑ گئی۔

آہستہ آہستہ دن ڈوب گیا۔ ہلکی سی ٹھنڈک چھا گئی۔ اندھیرا بڑھنے لگا۔ اس اندھیرے میں افق کی سرحدوں کو توڑتے ہوئے انجان پرندے تھے۔ بادلوں کے ننھے ننھے چھلّوں میں لال مچھلیاں تھیں۔ کہیں دور ٹرین کی ہم آہنگ ٹوٹتی ہوئی آواز تھی۔ سب کچھ کتنی تیزی سے ٹوٹ رہا تھا۔ ہوا رکتی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ اس کے پھیپھڑے بے حال ہو رہے تھے۔ مشرق کی جانب جھیل میں سرخ کنول بند ہو رہے تھے اور دور دور تک اونچے اونچے ٹیلوں، وادیوں اور کھیتوں کے درمیان، کنکریلے راستوں، پگڈنڈیوں اور کھائیوں میں تاریکی بھرتی جا رہی تھی۔ وہ گھاس میں منہ کے بل لیٹ گئی اور سسک سسک کر رونے لگی۔ سناٹے میں اس کا سسکنا صاف صاف سنائی دے رہا تھا، جیسے بچہ آدھی رات کو ماں کو بستر پر نہ پا کر ڈرتا ہوا آہستہ آہستہ سسکنے لگتا ہے۔ اس کے منہ میں نچی ہوئی گھاس بھر گئی تھی اور اسی طرح منہ کے بل پڑی ہوئی وہ نہ جانے کب سو گئی تھی۔ چھت پر موجود دھوپ نہ جانے کب کی سرک گئی تھی۔ جھٹپٹا ہو گیا تھا۔ برفیلی ہوائیں بدن چیرتی ہوئی سرسرانے لگی تھیں۔ ٹھنڈ کی وجہ سے آسمان عجیب طریقے سے سکڑا لگتا تھا۔ چاروں جانب موجود گھروں اور دکانوں پر جھریاں سی پڑ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہوٹل کے لڑکے سے رکشہ بلانے کا کہہ کر، کمرے میں چلی گئی۔

اسے کپڑوں کا خیال آیا۔ کیا پہن کر وہ جائے! اتنے زیادہ دکھ میں بھی یہ نازک سا احساس، اسے خوشگوار سی خوشی دے گیا۔ جیسے سوم کہیں انتظار کر رہے ہوں۔ اب بھرے بھرے دل سے جا کر ان سے لپٹ جانا ہو۔ رکشے پر چلتے ہوئے ان تمام جگہوں کی دھندلی سی تصویر صاف ہو گئی۔ لیکن تعارف کی وہ سطح بدل گئی تھی۔ بے عزت ہو کر ڈوب جانے کے وہ خوف بھری تنہائیاں اب کہاں تھیں۔ پیچیدہ گلیوں میں ہاتھ رکھ رکھ کر وہ گھسٹتے گھسٹتے چل رہے تھے۔ کہیں کہیں ڈھبریوں کی روشنی یا بجلی کی ہنسی اوڑھے شام جھلملا رہی تھی۔ سڑک پر ہی وہ رکشے سے اتر گئی۔ سامنے وہی ہاپوڑ نوچندی کی چنگی، اس طرف وہی بڑا سا پھاٹک اور پھر ہاپوڑ کی جانب جاتی ہوئی اندھیری سڑک۔ اس کھڑکی سے یہ سب نظر آتا تھا۔ اچانک وہ کپکپا گئی اور اس نے شال کھینچ کر ہاتھوں کو ٹھیک سے ڈھک لیا۔ سڑک چھوڑ کر وہ گلی میں آ گئی۔ مکان کے چبوترے پر چڑھتے ہی اس کی دھڑکنیں بڑھ گئیں۔ اندر روشنی جھلک رہی تھی۔ سامنے والی کھڑکی کھلی تھی۔ دروازے پر لگی سفید ’’کال بیل‘‘ چمک رہی تھی۔ اس کے ہاتھ ’’کال بیل‘‘ دبانے ہی جا رہے تھے کہ اندر سے سوم کے قہقہے کی آواز سنائی پڑی۔ وہ سہم کر کانپ گئی۔ کیا ایک بار کی گہری شناسائی انسان کو کبھی نہیں بھولتی؟ ۔۔۔ کھڑکی کے ذریعے اس نے دیکھا۔ سوم ایک ننھی سی بچی کو اچھال رہے ہیں۔ بچی روتی چلی جا رہی ہے اور مان نہیں رہی ہے۔ بیوی فرش پر بیٹھی ہوئی ایک دوسرے بچے کو کچھ کھلا رہی ہے۔ اس کی پیٹھ کھڑکی کی طرف تھی۔ لمحے بھر کیلئے سوم کی بات بھول کر بیوی کی پیٹھ، وہ ایک ٹک دیکھتی رہی۔ اس نے چاہا کہ ایک بار اس عورت کا منہ دیکھ لے۔ سوم کا چہرہ بھی دوسری طرف تھا اور ان کے کندھے پر چیختی ہوئی بچی کا آنسوؤں سے تر، گول مٹول چہرا بھر دکھ رہا تھا۔ اچانک اسے یہ سب کچھ بڑا اٹ پٹا سا لگا۔ اس نے مڑ کر پیچھے گلی میں دیکھا۔ آتے جاتے لوگ اسے اس طرح کھڑکی سے جھانکتے ہوئے دیکھ کر کیا سوچیں گے! وہ دبلے نہیں دِکھ رہے تھے۔ کندھے اور بھی کسرتی اور گول ہو گئے تھے۔ کمر موٹی لگ رہی تھی۔۔۔۔ یہی بدن کبھی کتنا اپنا تھا، جس نے اسے اس طرح پاگل بنا دیا تھا، اس نے سوچا اور ایک لمحے کو پھر اس نے دیکھنا چاہا کہ۔۔۔ بچی کھلکھلا رہی تھی اور وہ جھک کر مسلسل بیوی کے گال کو چوم رہے تھے۔ وہ جلدی سے نیچے اتر آئی اور گلی میں یوں چلنے لگی جیسے یہیں کہیں رہتی ہو۔ سڑک پر آ کر اس ادھر ادھر دیکھا۔ کوئی رکشہ آس پاس دکھائی نہیں پڑا۔ چنگی پھاٹک پار کر کے وہ آگے بڑھ گئی۔ کچھ دور اندھیری سڑک پر چلنے کے بعد وہ نوچندی کے بڑے والے میدان کی طرف مڑ گئی۔

اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جا رہی ہے۔ اسے اپنے چلنے کا پرانا راستہ بھی بھول گیا تھا۔ اچانک اس نے خود کو قبروں کے درمیان میں پایا۔ پلاش اور جھاؤ کی جھاڑ یوں کے درمیان پرانی ہوئی قبریں اس کے قدموں کے نیچے تھیں۔ پہلی بار یہیں پر اسے شک ہوا تھا۔ ’’سورج کنڈ‘‘ کی جانب سے گھومتے ہوئے سوم اور وہ سرد رات میں یہاں آئے تھے۔ تب اسے کتنا ڈر لگا تھا۔ اور اب؟ ’’تمہیں ڈر لگتا ہے؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ اس سے زیادہ ڈر تو اسے سوم کی کھڑکی پر کھڑے کھڑے لگا تھا۔ کیسا ڈر۔۔۔؟ چلتے چلتے کبھی وہ کسی دھنسی ہوئی قبر میں چلی جاتی، پھر کسی دوسری قبر پر چڑھ کر اسے پار کرتی۔ وہ کھڑی ہو گئی اور پگڈنڈی کا اندازہ لگانے لگی۔ کچھ دور پر ایک چھوٹی سی مسجد دکھائی دی۔ اندر کوئی ننھا سا چراغ جلا گیا تھا۔ ہوا سے خشک پتے کھڑکھڑا کر اڑتے اور پھر ایکدم سناٹا۔ پلاش اور جھاؤ کی جھاڑیوں کے بیچ سے عجیب عجیب سی کالی کلوٹی، انسان نما شکلیں ابھرنے لگیں۔ کیا وہ زندہ ہیں، دفن نہیں کئے گئے ہیں؟ کیا ان کا جسم ان کی قبروں میں موجود نہیں؟ قبر جس کے سپرد وہ خود کو کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ کوئی اس پر پھول چڑھائے۔ پھر بھی وہ سپرد نہیں کر پاتی۔

وہ ایک نئی تازہ قبر پر بیٹھ گئی۔ خواہش ہوئی کہ یہیں لیٹ جائے اور کوئی اوپر سے مٹی ڈال دے۔ دل مایوسیوں سے بھر آیا۔ کوئی کسی کا دکھ نہیں سمجھ سکتا۔ وہ کسی کو بھی دوش نہیں دیتی۔ پاپا کو بھی نہیں۔ کیا کسی کے بھی بس میں ہے کہ وہ دوسرے کو خوش رکھ سکے۔ ہاں ایسا چاہا ضرور جا سکتا ہے، لیکن چاہنے سے ہی تو سب کچھ نہیں ہو جاتا۔

گزشتہ سات سالوں سے وہی کمرہ اور وہی راتیں۔ جن میں ایک پل کو بھی وہ جاگتے ہوئے رہنا نہیں چاہتی۔ لیکن نیند؟ آنکھ جھپکتے ہی وہ چونک کر اٹھ بیٹھتی۔ جیسے کوئی سانس چرا کر بھاگنے کی فکر میں دروازے پر گھات لگائے ہو۔ جھٹ وہ بتی جلا دیتی۔ کہیں کچھ بھی نہیں۔ اندر اتنی تھکاوٹ اور اتنا دباؤ۔ ہاتھ پاؤں کے جوڑوں پر کھال کے نیچے رگوں کا دھڑکنا صاف صاف دکھائی دیتا۔ تکیے پر کانوں کے ذریعے ان دھڑکنوں کو سنتے سنتے وہ بور جاتی۔ کروٹیں بدلتی۔ پھر بدلتی۔۔ پھر۔۔ پھر۔ پھر نیند میں خوابوں کے ہجوم۔۔ ہر کروٹ پر کسی ڈراؤنے خواب کے خوفناک مناظر ٹوٹ ٹوٹ کر جڑتے جاتے۔۔ صبح اٹھنے پر وہ شام سے بھی زیادہ تھکی ہوتی۔ سارے بدن میں صرف رگوں کا دھڑکتا جال محسوس ہوتا۔ بیچ بیچ میں کبھی کبھار ماں آ کر ایک آدھ ہفتے کے لئے رہ جاتیں۔ پچھلی دفعہ انہیں پتہ چل گیا تھا۔ جب بھی صبح وہ فروٹ سالٹ کا گلاس مانگتی، وہ سمجھ جاتیں۔ ماں صرف خاموشی سے دیکھتیں اور ہونٹ دانتوں تلے دبائے خاموشی چلی جاتیں۔ وہ مناتی، ’’کچھ نہیں ماں، وہ نیند نہیں آتی نہ، تو۔۔۔‘‘ وہ لپٹ جاتی۔

’’توتُو نیند کی گولیاں کیوں نہیں رکھتی؟‘‘

’’اور کسی دن ایک ساتھ کئی گولیاں کھا لوں۔۔۔ تو ماں؟‘‘

ماں آنسوؤں کو پونچھتی ہوئیں رسوئی میں چلی جاتیں۔ ’’تُو بس نوکری چھوڑ اور چل۔۔۔۔‘‘ وہ کہتیں۔

اس کا دل ہوتا کہ پوچھے، ’’کہاں ماں؟‘‘ لیکن وہ خاموش رہ جاتی۔

یونیورسٹی جانے لگتی تو ماں کہتی، ’’دیکھو بیٹا۔ دیر نہ کرنا۔‘‘ وہ ہمیشہ روہانسی لگتیں۔

دھرم شالے کے پیچھے ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ بوڑھی عورت کو وہ بھابھی کہتی۔ برف میں رکھی ہوئی ’’بیئر‘‘ کی بوتل نکال کر وہ خود ہی رکھ لیتی۔ بھابھی پکوڑے اور پاپڑ بھون لاتی۔ اس وقت تک وہ ’’کاک ٹیل‘‘ بناتی۔ پھر تھوڑی دیر بعد آوازیں دور دور لگنے لگتیں۔ سارا ماحول، لوگ، بھیڑ، سواریاں سبھی کافی دور دور لگتے۔ اپنی آواز بھی جیسے کافی دور سے آتی ہوئی لگتی۔ جلدی لوٹ آنے پر بھی ماں سمجھ جاتیں۔

’’ماں، پاپا سے مت بتانا، میں اتنی گر گئی ہوں۔‘‘ پھر ماں بیٹی دونوں پھوٹ پڑتیں۔

’’تُو کتابیں کیوں نہیں پڑھتی؟‘‘ ماں کہتیں۔

’’ساری کتابیں مجھے چڑاتی ہیں ماں۔ سب جگہ میری ہی بات لکھی ہے۔‘‘ وہ کھلکھلاتی۔ ماں چونک کر اسے دیکھتی رہ جاتیں۔ ایک بار پھر ماں کے چلے جانے کے بعد وہ اسی طرح بے بس ہو جاتی۔ گھنٹوں بستر پر، فرش پر یا دروازے کی چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رہتی۔ سُونے دن یا رات کے تنہائی میں اسے لگتا کوئی آواز دے رہا ہے۔ ’’سُمیت۔‘‘ وہ چونک کر چاروں طرف دیکھتی رہ جاتی۔ نہیں، یہ وہم ہے۔ ایسی چیزوں پر اسے قطعی یقین نہیں ہوتا۔ بارش کا ہونا، پہاڑیوں اور کھیتوں میں شام کے جھٹپٹے کا بجھنا، راتوں کا ڈھلنا یا دن کی تیکھی دھوپ کے پنجے پھیلانا۔ سب میں اسے ایک خوفناک شبیہ سی نظر آتی۔ اسے پھر وہی آواز سن دیتی۔

’’سُمیت!‘‘

وہ گھوم کر چاروں طرف دیکھتی اور ایک عجیب سے پر مسرت انداز میں بول پڑتی، ’’ہوں، بولو؟‘‘ پھر وہ سناٹے کی اسی آواز کا انتظار کرتی۔ ایسے ہی لمحات میں پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ٹھونسے بسنت کبھی کبھار نظر آ جاتا۔ اکثر کلاس سے لوٹتے وقت وہ اسٹاف روم کی کھڑکی پر آ کر کھڑا ہو جاتا۔ ’’مس شرما۔‘‘ جیسے نیند سی ٹوٹتی۔ وہ کرسی گھما کر اسے دیکھتی رہ جاتی۔

’’آ جائیے نا اندر۔‘‘

’’کلاس ہے۔‘‘ وہ کھڑکی کی سلاخیں پکڑے مسکراتا۔ اس کی ناک، ہونٹ اور ٹھوڑی کھڑکی کے اندر آ جاتے۔ وہ تھوڑی دیر تک یونہی کھڑا رہتا، پھر چلا جاتا۔ اس دن ساری رات اس نے فیصلہ کیا تھا۔ ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں نشے میں تو وہ ایسا نہیں سوچ رہی ہے۔

صبح میٹنگ تھی۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد اس نے بسنت کو آواز دی۔ پہلے اس کے ہاتھ اٹھے، پھر وہ پیچھے ہاتھ باندھے، مسکراتا ہوا آ کر کھڑا ہو گیا۔ اور بولا، ’’آج آپ کو خوش نظر آ رہی ہیں۔‘‘

’’چلیں، تھوڑا گھوم آئیں۔‘‘ اس نے بات کو بدلتے ہوئے کہا۔

سڑک چھوڑ کر وہ اونچے نیچے راستے پر ہو لیئے۔ ٹیلے پر چڑھتے وقت ایک آدھ جگہ بسنت نے ہاتھ بڑھانا چاہا تو اس نے ایسے ظاہر کیا کہ جیسے دیکھ ہی نہیں رہی ہو۔ ایک جگہ کچھ چوڑی سی کھائی تھی، بسنت پھر اپنا ہاتھ بڑھا کر کھڑا ہو گیا۔ ایک لمحے توقف کے بعد اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور کھائی پار کر گئی۔ ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کر وہ بیٹھ گئے۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ بسنت کا چہرہ سورج کے سرخ رنگ میں رنگ کر ایک دم لال ہو رہا تھا۔ اچانک پھر نہ جانے کیسے اسے سوم کا چہرہ یاد آیا۔ کیوں ایسا ہے؟ کیوں؟ کسی بھی تنہائی میں سوم کی یادیں گھر آتی ہیں؟ اس نے سر جھٹک لیا۔

’’سُمیت پلیز!‘‘ اس نے دل ہی دل نے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ بعد میں جو بھی کہہ لینا۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بسنت سے چھپانے کے لئے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کا دل چاہا کہ چلنے کو کہے۔ سب بیکار ہے۔

’’ٹھنڈ کافی ہے۔‘‘ بسنت نے تبھی کہا۔ اس کی دونوں بانہیں اوپر آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ ’’آپ نے پل اوور نہیں پہنا۔‘‘ اس نے کہا۔

’’میں اپنے لئے نہیں کہہ رہا۔‘‘ بسنت نے کہا۔ پھر دونوں خاموش ہو گئے۔ بسنت رہ رہ کے کوئی پتھر اٹھاتا اور نیچے کھائی کی جانب اچھال دیتا۔ کبھی لڑکھڑاتے ہوئے پتھر کی آواز سنائی دیتی، کبھی نہیں۔ اچانک اس نے کروٹ گھوم کر اپنا ایک بازو بڑھا کر پورے طور پر اسے کھینچ لیا۔ وہ شاید اٹھ کر چلنا چاہ رہی تھی۔ اس غیر متوقع عمل سے کچھ بھی سمجھ نہیں پائی۔ بسنت نے اور بھی زور سے چپٹاتے ہوئے کہا، ’’آپ انہیں بہت چاہتی ہیں نا؟‘‘ کچھ جواب دیتے نہیں بنا اسے۔ سوم! ایک تنہا شخص۔ اس کے سارے احساسات، سارا بدن، دل اور روح میں بچھا ہوا۔ کیا حق ہے؟ کسی کو بھی کیا حق ہے کہ وہ اپنی روح کو اتنا غیر انسانی بنا دے؟ وہ کہنا چاہتی تھی، ’’نہیں، میں اس شخص سے بے حد نفرت کرتی ہوں نا، میں آزاد ہوں۔ میں بالکل اکیلی ہوں۔ اکیلی بن کے دکھا سکتی ہوں۔۔۔ مجھے تم کہیں بھی لے چلو۔ میں۔‘‘ لیکن اس کے منہ سے کچھ بھی نہیں نکلا۔

’’کتنی بڑی بات ہے یہ۔‘‘ بسنت نے کہا۔

’’کتنی بڑی بات ہے! کوئی بسنت۔‘‘ اس نے کہنا چاہا، ’’یہ ایک خوفناک موت ہے جسے پل پل محسوس کرنا ہوتا ہے۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ ’’تمہاری عمر جیوتش کے مطابق کتنے سال ہے؟ تو میں اس کے سوال کے جواب میں کہوں گی کہ تمہاری موت جیوتش کے مطابق ابھی کتنے سالوں تک چلے گی؟ بسنت، میں کچھ نہیں چاہتی۔ نہیں چاہتی یہ مثالی بیوی کا دھرم اور محبت کا بڑا پن۔ میں گناہ کرنا چاہتی ہوں۔ میں گرنا چاہتی ہوں۔ میں سیتا، ساوتری، دمینتی، رادھا۔۔۔ کچھ نہیں بننا چاہتی۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ میں کوئی نیک روح نہیں ہوں۔ دکھ پانا کسی نیک روح کے نصیب میں نہیں ہوتا ہے۔‘‘ لیکن، وہ ایک دم خاموش تھی۔

’’کتنی عجیب ہے یہ دنیا!‘‘ بسنت نے اسی طرح کہا، ’’جو ایک بار سکھ سے دیتا ہے، وہ اپنا دیا واپس نہیں لے جاتا۔ یوں کہیں کہ نہیں لے جا پاتا۔ اس کے لوٹانے کا ادھیکار داتا کو نہیں رہ جاتا۔ اور پھر اس سکھ کے سیلاب میں ہم زندگی بھر ابھرتے ڈوبتے ہوئے رہتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ پھر شاید کچھ نہیں ہو پاتا۔ کچھ سکھ ہوتے ہی ایسے ہیں جو ہمیں ہمیشہ کے لئے پاگل کر دیتے ہیں۔۔۔‘‘ آگے وہ کھو سا گیا۔

اچانک اس کے اندر کوئی چیز لڑکھڑانے لگی۔ اس نے ایک جھٹکے سے خود کو الگ کر لیا اور کھڑی ہو گئی۔ یہ ہو کیا گیا؟ یہ اس نے کیا کر دیا؟ اس کی مرضی ہوئی کہ خوب زور سے چیخے، ’’نہیں، سوم۔ نہیں۔‘‘ بھربھرا کر آنسو نکل آئے۔ بسنت بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ آہستہ سے اس نے اس کا بازو چھوا، ’’کیا ہوا مس۔‘‘

’’آپ یہاں سے جائیے۔ مجھے چھوڑ دیں۔۔۔۔ جائیے۔‘‘ اس نے بازو جھٹک دیا۔ جیسے وہاں بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ بسنت نے ایک بار کہنا چاہا۔ تبھی اس نے آنکھیں اٹھائیں۔ پھر وہ کچھ نہیں بولا۔ اس کے ہاتھ ویسے ہی پیچھے بندھے ہوئے تھے، جیسے اپنی انگلیوں کی بندش چھپا لینا چاہتا ہوں۔

پاس کی جھاڑی میں ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ ہوئی۔ وہ چونک گئی۔ ہوا کے جھونکے میں پتیاں زمین پر گھسٹ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ جھاڑیوں کے درمیان سے راستہ بناتی ہوئی وہ نوچندی کے بڑے والے میدان میں نکل آئی۔ بڑے بڑے ٹین شیڈز میں اندھیرا اور بھی گنجان ہو رہا تھا۔ وہ چلتی ہوئی، بڑے پھاٹک سے نکل کر پھر سڑک پر آ گئی۔ سوم کا مکان وہاں سے دکھائی دے رہا تھا۔ پیچھے والی کھڑکی کھلی تھی اور روشنی کے ہالے میں کوئی عورت نما مورتی بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ پھر کھڑکی بند ہو گئی۔ رکشوں کو دیکھتی وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ تبھی اس نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا ہے اور وہی عورت نما مورتی ایک بچے کو انگلی پکڑائے سڑک کی جانب چلی آ رہی ہے۔ وہ جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔ عورت نے سڑک پر آ کر ایک بار پیچھے کی طرف دیکھا، پھر بچے کو اٹھا لیا۔ سارے بناؤ سنگار کے باوجود وہ کوئی خاص خوبصورت نہیں لگ رہی تھی۔ پھر بھی بدن بھرا پرا تھا اور چہرہ سپاٹ تھا۔ مقابلے میں اس نے خود کو ایک بار پرکھنے کی کوشش کی تو لگا کہ اس کا چہرہ مرجھا گیا ہے، آنکھیں دھنس گئی ہیں۔ سارے بدن کا گوشت سوکھ گیا ہے اور لباس کے اندر وہ کسی طرح اپنی ہڈیوں کو چھپائے، لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی ہے۔ تبھی دروازے سے سوم کا لمبا تگڑا جسم نمودار ہوا۔ ایک طرف ہٹ کر وہ چپ چاپ انہیں سڑک کی طرف آتے دیکھتی رہی۔ دو چار قدم چل کر وہ کھڑے ہو گئے اور سگار سلگانے لگے۔ کش کھینچتے ہی سگار کی آگ میں ان کا چہرہ دمک کر پھر اندھیرے میں اوجھل ہو گیا۔

ہوٹل لوٹ کر وہ بغیر کھائے پئے بستر پر گر گئی تھی۔ گہری نیند میں اسے لگا، کوئی اس کے ہاتھ کی انگلیاں زبان سے چاٹ رہا ہے۔ اس کا ایک بازو لحاف کے باہر پڑے پڑے ایکدم ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ ہڑبڑا کر وہ جاگ گئی۔ اندھیرے میں کہیں کوئی آہٹ نہیں محسوس لگی۔ اس نے ہیٹر کا سوئچ جلا دیا۔ کمرہ ٹھنڈ سے سکڑ کر جیسے اور بھی چھوٹا لگ رہا تھا۔ ایک کونے میں گرد سے بھری ایک چوہے دانی رکھی ہوئی تھی۔ لگتا تھا مہینے پہلے کسی مسافر کی شکایت پر ہوٹل منیجر نے یہ رکھوائی ہو گی۔ ہوٹل کی خستہ حالت اور ماحول سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی نے چوہے دانی دوبارہ ہٹانے کی زحمت نہیں اٹھائی تھی۔ اس نے دیکھا ایک چوہیا مہینوں پہلے، شاید چوہے دانی میں پھنس گئی تھی۔ اس کا جسم ایک دم سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا۔ چوہے دانی کی سلاخوں پر اپنے اگلے دو پاؤں رکھ کر تھوتھنی کو باہر نکالتے ہوئے، اس نے نکلنے کی بہت کوشش کی ہو گی، لیکن اسی حالت میں لڑتے لڑتے وہ سوکھ گئی۔ چوہے دانی کے باہر ایک بڑا سا چوہا شک بھری آنکھوں سے کبھی اس کی طرف دیکھتا اور کبھی اپنے دونوں اگلے پاؤں اوپر اٹھا کر اپنی تھوتھنی سے چوہیا کی تھوتھنی کو ہلاتا۔ اس نے منہ پھیر لیا اور بتی بجھا دی۔ کروٹ بدلتے وقت پلنگ پر، باوجود بستر کے، کولہے کی ہڈیاں گڑ رہی تھیں۔

***

 

 

 

 

مکان

 

کامتا ناتھ

 

کامتا ناتھ۔ پیدائش: ۲۲ اکتوبر، ۱۹۳۵ء، لکھنؤ، اتر پردیش۔ کچھ اہم کام: سمندر تٹ پر کھلنے والی کھڑکی، صبح ہونے تک، چھٹیاں، تیسری سانس وغیرہ۔

***

 

چابی تالے میں پھنسا کر اس نے اسے گھمایا تو اس نے گھومنے سے قطعی انکار کر دیا۔ اس نے دوبارہ زور لگایا، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اپنی جیبیں ٹٹولنا شروع کر دیں۔ اوپر والی جیب میں اسے اسٹیل کا بال پوائنٹ پین مل گیا۔ اس نے اسے جیب سے نکال کر چابی کے ماتھے میں بنے سوراخ میں ڈال کر، مٹھی کی مضبوط گرفت میں لے کر پیچ کس کی طرح زور سے گھمایا۔ کھٹاک کی ایک آواز کے ساتھ تالا کھل گیا۔ کنڈی کھولنے میں بھی اسے کافی پریشانی ہوئی۔ جن دنوں وہ یہاں رہتا تھا، شاید ہی کبھی یہ کنڈی بند ہوئی ہو۔ اسی لیے اسے ہمیشہ ہی بند کرنے اور کھولنے، دونوں میں ہی پریشانی ہوتی تھی۔ کنڈی کھول کر اس نے دروازے کو زور کا دھکا دیا۔ دروازے کے پلے کافی موٹے اور بھاری تھے۔ ان میں پیتل کے چھوٹے چھوٹے پھول جڑے تھے، جن میں چھوٹے چھوٹے مضبوط کڑے لگے تھے، جو دروازہ کھلنے، بند ہونے پر ایک عجیب جل ترنگ جیسی آواز پیدا کرتے تھے۔ دروازہ کھول کر وہ دہلیز میں آ گیا۔ گھستے ہی اس نے دیکھا، فرش پر کچھ کاغذ وغیرہ پڑے تھے۔ اس نے جھک کر انہیں اٹھا لیا۔ دو لفافے، ایک پوسٹ کارڈ اور ایک تہہ کیا ہوا کاغذ تھا۔ شاید ڈاکیا ڈال گیا ہو، اس نے سوچا، اس نے ان کے بھیجنے والوں کے نام پڑھنے چاہے، لیکن وہاں روشنی بالکل نہیں تھی اور کچھ بھی پڑھ پانا نا ممکن تھا۔

اس نے آگے بڑھ کر زینے کے پاس کا سوئچ ٹٹولا۔ اندھیرے میں سوئچ تلاش کرنے میں اسے کچھ مشکل ہوئی۔ ویسے جب وہ یہاں رہتا تھا، تب کتنا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلی بار میں ہی انگلی اپنے آپ سوئچ پر نہ پہنچ گئی ہو، اسے حیرت ہوئی کہ سوئچ آن کرنے پر بھی روشنی نہیں ہوئی۔ ہو سکتا ہے زینے کا بلب فیوز ہو گیا ہو، اس نے سوچا۔ تبھی اس نے محسوس کیا نیچے کا پائپ زوروں سے بہہ رہا ہے۔ تقریباً ایک سال سے مکان بند تھا۔ اس کا مطلب یہ کہ اتنے دنوں سے یہ پائپ مسلسل بہہ رہا ہے۔ اس نے اندر والے دروازے کی کنڈی ٹٹولی۔ اس میں تالا نہیں تھا۔ اٹیچی اس نے وہیں دہلیز میں رکھی رہنے دی اور کنڈی کھول کر اندر آ گیا۔ اندر کا سوئچ دبانے سے بھی روشنی نہیں ہوئی۔ صرف آنگن میں ہلکی چاندنی کی کٹی ہوئی قتلیاں دکھائی دے رہی تھیں، جو اوپر لوہے کے جنگلے سے چھن کر آ رہی تھیں۔

وہ واپس دہلیز میں آ گیا جہاں میں سوئچ لگا تھا۔ ہو سکتا ہے وہی آف ہو، اس نے سوچا اور جیب سے ماچس نکال کر اس کے روشنی میں اسے دیکھا۔ لیکن میں سوئچ آن تھا۔ زینے کا بلب بھی ٹھیک ہی لگا، تبھی اس کو یاد آیا کہ کسی کے بھی رہائش پذیر نہ ہونے پر بجلی کا بل اتنے دنوں سے ادا نہیں ہوا ہو گا، لہٰذا ہو سکتا ہے بجلی کمپنی والوں نے کنکشن ہی کاٹ دیا ہو۔ تب کیا ہو گا؟ وہ رات کیسے کاٹے گا؟ دیکھا جائے گا، اس نے سوچا اور دوبارہ ماچس جلا کر اندر آ گیا تاکہ کم از کم پائپ تو بند کر دے۔ لیکن پائپ میں ٹونٹی ہی نہیں تھی۔ اس میں دانے نکالے ہوئے بھٹے کا ٹکڑا ٹھونس کر۔ اسے کپڑے سے باندھا گیا تھا۔ کپڑا سڑ کر پھٹ گیا تھا، جس سے دوبارہ پانی بہنے لگا تھا۔ اس نے اسے ویسے ہی پڑا رہنے دیا اور اٹیچی ہاتھ میں لے کر سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کے حصے میں آ گیا۔

اوپر چھت پر کافی چاندنی تھی۔ چھلے سے چابی تلاش کر کے اس نے کمرے کا تالا کھولا اور اندر کمرے میں آ گیا۔ یہاں کا سوئچ بھی اس نے آن کر کے دیکھا، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اٹیچی ایک کنارے رکھ کر ماچس جلا کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تبھی اسے الماری میں ایک موم بتی دکھائی دے گئی، جسے پہلے کسی نے جلایا ہو گا۔ اس نے اسے جلا کر وہیں دیوار میں بنے ہوئے طاق میں چپکا دیا۔

دیوار سے لگے پلنگ پر بیٹھ کر اس نے سگریٹ جلا لی اور نیچے سے اٹھا کر لائے خط وغیرہ دیکھنے لگا۔ پہلے اس نے تہ کئے ہوئے کاغذ کو دیکھا۔ وہ بجلی کے بل کا فائنل نوٹس تھا۔ کوئی دس مہینے پرانا۔ تب اس نے پوسٹ کارڈ دیکھا۔ اس کا ایک کونا پھٹا ہوا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اسے پڑھا۔ خط اس کے ننہال سے آیا، جس میں اسے اس کے ماموں کے مرنے کی اطلاع دی گئی تھی۔ وہ ماموں کے وجود کو بھی بھول چکا تھا۔ ننہال گئے ہوئے بھی اسے آٹھ دس سال ہو چکے تھے۔ کارڈ وہیں بستر پر ڈال کر وہ لفافے کھولنے لگا۔ ایک، کسی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ اس نے اسے ہی پہلے کھول دیا۔ کسی ’’راجکمار‘‘ کی شادی پر اسے بلایا گیا تھا۔ اس نے اپنی یادداشت پر بہت زور دیا، لیکن اسے لگا کہ نہ تو وہ کسی راجکمار سے واقف ہے اور نہ ہی کارڈ پر چھپے کسی دوسرے نام سے۔ پتہ سیتاپور کا تھا۔ اس کو یاد آیا کہ سیتاپور میں اس کے پتا کی پھوپھی کے کوئی رشتے دار رہتے ہیں۔ کون، یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ لیکن وہ لوگ ضرور اس سے واقف ہوں گے، کیونکہ دعوت نامہ اسی کے نام سے آیا تھا۔ آج سے کوئی آٹھ سال پہلے پتا کی پہلی برسی پر ماں کے کہنے پر اس نے اپنے تمام رشتہ داروں کو بلایا تھا۔ ان کے پتے اس نے تایا کے لڑکے سے، جو اس سے عمر کے کافی بڑا تھا، لئے تھے، اس کے بعد سے آج تک وہ ان لوگوں سے نہیں ملا تھا۔ ماں کے مرنے کی اس نے کسی کو بھی اطلاع نہیں دی تھی۔ اس طرح پتے تو ایک طرف، وہ تو ان لوگوں کے چہرے بھی اب تک بھول چکا تھا۔ اس نے کارڈ پر درج تاریخ دیکھی۔ وہ کوئی تین ماہ پرانی تھی۔

اس نے دوسرا لفافہ کھولا۔ وہ اس کے اپنے دوست وِپن کا تھا، جو پچھلے دنوں انگلینڈ چلا گیا تھا اور وہیں کسی انگریز لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ کچھ دنوں کیلئے بہن کی شادی پر وہ وطن واپس آ رہا ہے، وہ اس سے ضرور مل لے۔ یہ خط بھی تین چار ماہ پرانا تھا۔ وِپن اس کے بچپن کا دوست اور ہم جماعت تھا۔ اسے افسوس ہوا کہ وہ اس سے ملنے سے محروم رہ گیا۔ غلطی اس کی اپنی تھی۔ اپنے ٹرانسفر کے بارے میں اس نے وپن کو کوئی اطلاع نہیں دی تھی۔ ہو سکتا ہے وپن یہاں آیا بھی ہو اور گھر میں تالا لگا دیکھ کر لوٹ گیا ہو۔

گلی کی طرف کا دروازہ کھول کر وہ بالکنی میں آ گیا۔ ایک کونے میں گھر کی بیکار چیزوں، جیسے خالی بوتلیں، ٹوٹی انگیٹھیوں اور کنستروں وغیرہ کا ڈھیر لگا تھا۔ اس کے علاوہ ایک پرانی بالٹی میں لگا تلسی کی ایک سوکھا پودا لگا تھا، جو شاید اتنے دنوں تک پانی نہ ملنے سے سوکھ گیا تھا۔ یہ پودا اس کی ماں نے لگایا تھا۔ جب تک وہ زندہ تھیں وہ روز اسے پانی دیتی تھیں۔ ماں کی موت کے بعد اس کی بیوی اور اس کے ٹرانسفر کے بعد چھوٹے بھائی کی بیوی یہ کام کرتی تھیں۔ اب چھوٹے بھائی کا ٹرانسفر ہوئے بھی ایک سال ہونے آ رہا تھا۔ اور اس طرح خالی گھر میں پڑا ہوا یہ پودا پانی کی غیر موجودگی میں سوکھ گیا تھا۔

وہ بالکنی کی دیوار پر تھوڑا جھک کر سگریٹ پینے لگا۔ گلی میں بجلی کا سرکاری بلب جل رہا تھا۔ لیکن کافی سناٹا تھا۔ اس نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھی۔ پونے نو ہوئے تھے۔ ابھی سے اتنا سناٹا! اسے حیرت ہوئی۔ جب وہ یہاں تھا تو رات گئے تک گلی میں رونق رہتی تھی۔ مرلی بابو کے دروازے پر کھیلی جانے والی شطرنج تو بارہ بجے تک اور کبھی کبھی اس کے بعد بھی چلتی تھی۔ پتہ نہیں مرلی بابو اب زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ ان کے گھر کے سامنے ایکدم سناٹا تھا۔ تبھی اس نے دیکھا، کوئی آدمی سائیکل لئے ہوئے گلی میں آ رہا تھا۔ وہ غور سے دیکھنے لگا۔ گلی کے ایک ایک شخص کو وہ پہچانتا تھا۔ اپنی پیدائش سے لے کر تیس بتیس سال تک وہ اسی مکان میں رہا تھا۔ لیکن وہ کوئی اجنبی شخص نکلا، جسے وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ وہ اس مکان سے آگے جا کر بُچّو بابو کے مکان کے سامنے رک گیا۔ سائیکل گلی میں کھڑی کر کے اس نے دروازے کی کنڈی کھٹکھٹائی۔ گود میں بچہ لیے ہوئے کسی خاتون نے دروازہ کھولا اور وہ شخص سائیکل اٹھا کر اندر چلا گیا۔ شاید کوئی کرایہ دار ہو، اس نے سوچا۔

وہ دوبارہ اندر آ گیا۔ کھانا وہ اسٹیشن سے آتے وقت ہوٹل میں کھا آیا تھا۔ رات اسے مکان میں کاٹنی تھی۔ بارش کے دن آ گئے تھے۔ بھائی نے مکان چھوڑتے وقت اسے بیچ دینے کی تجویز دی تھی، کیونکہ وہ تو مستقل طور پر دوسرے شہر کا ہو گیا تھا، بھائی کی بھی دوبارہ اس شہر میں ٹرانسفر ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اور پھر مکان کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ اوپر کے کمروں کی چھتیں ٹپکنے لگی تھیں۔ لیکن اس نے بھائی کی تجویز کو نامنظور کر دیا تھا۔ اس نے لکھ دیا تھا کہ وہ مکان خالی کر کے چابی اسے بھجوا دے۔ اگلی برسات سے پہلے آ کر وہ اس کی مرمت کرا دے گا۔ اسی مقصد کیلئے وہ وہاں آیا تھا۔

اس نے دیکھا، کمرے کی دونوں اطراف کی دیواروں پر پانی بہنے کے نشانات بنے تھے، جو شاید ابھی تک نم تھے۔ اس کا مطلب کہ دو ایک بارشیں یہاں ہو چکی ہیں۔ دیوار میں ایک جگہ کریک بھی آ گیا تھا۔

اس نے چھت پر آ کر موسم کا جائزہ لیا۔ آسمان صاف تھا اور ہوا میں کوئی خاص ٹھنڈک نہیں تھی۔ اس نے چار پائی چھت پر نکال لی اور اٹیچی سے دری، چادر اور تکیہ نکال کر بستر لگا لیا۔ لیکن اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ نہ ہی لیٹنے کی خواہش ہو رہی تھی۔ ویسے اس کے پاس اٹیچی میں دو ایک کتابیں تھیں، جن میں سے ایک کو اس نے سفر میں تقریباً آدھا پڑھا بھی تھا اور وہ اسے آگے پڑھنا چاہتا تھا۔ لیکن بجلی نہ ہونے کی دقت تھی۔ موم بتی کی روشنی کافی نہیں تھی۔ لہٰذا اس نے بستر لگا کر کپڑے تبدیل کئے اور پاجامہ بنیان پہن کر بستر پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر لیٹنے پر اسے لگا کہ اسے سفر کی کچھ تھکاوٹ ہے۔ لیٹے لیٹے ہی اس نے ہاتھ پاؤں ادھر ادھر جھٹکے اور پھر سگریٹ سلگا کر پینے لگا۔

پتا نے جب یہ مکان خریدا تھا تب وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ اس وقت وہ کچا تھا۔ بعد میں پتاجی نے اسے تڑوا کر نئے سرے سے پکا بنوایا تھا۔ اس وقت وہ کوئی پانچ چھ سال رہا ہو گا۔ کچا مکان اسے بالکل بھی یاد نہیں ہے۔ لیکن جب کچا مکان ٹوٹ کر نیا بن رہا تھا، اس وقت کی کچھ کچھ یادیں اس کو ہیں۔ سامنے گلی میں اینٹوں کے ڈھیر لگے رہتے تھے۔ وہ ان پر چڑھ کر کھیلا کرتا۔ ایک بار گر بھی گیا تھا اور اس کے سر میں کافی چوٹ آ گئی تھی، جس کا نشان آج تک اس کے سر میں ہے۔ خچر پر لد کر ریت، سیمنٹ، مٹی وغیرہ آیا کرتے اور وہ وہیں کھڑا کھڑا خچروں کو گنا کرتا اور پھر جا کر ماں کو بتایا کرتا کہ کتنے خچر آج آئے، حالانکہ خچر کو وہ گھوڑے کہا کرتا تھا۔ اس وقت گھوڑے اور خچر میں فرق کرنے کی تمیز اس کے پاس نہیں تھی۔

ایک بار، اُسے یاد ہے، دیوار یا چھت کا کوئی حصہ اپنے آپ ٹوٹ گیا تھا یا توڑ دیا گیا تھا اور اس نے دوڑ کر ماں سے کہا تھا کہ نیا مکان گر پڑا ہے۔ ماں نے اس کی بات سچ مان لی تھی اور ہڑبڑاہٹ میں گلی سے باہر نکل آئی تھیں، ان دنوں پتا نے اسی گلی میں ایک اور مکان کرائے پر لے لیا تھا اور سب لوگ وہیں شفٹ ہو گئے تھے۔ آفس کی شاید انہوں نے چھٹی لے رکھی تھی اور ننگے بدن، دھوتی پہنے سارا دن گلی میں کھڑے مزدوروں اور کاریگروں کو حکم دیتے رہتے یا پھر بڑے بڑے رجسٹر میں گم، سیمنٹ یا مزدوروں کی اجرت کا حساب لکھتے رہتے۔

پوری گلی میں اس کا مکان اپنے ڈھنگ کا ایک بنا تھا۔ اندر دالان میں ستونوں کے اوپر دیوار میں پھول پتیوں کی جالیاں بنائی گئی تھیں۔ دروازوں کے اوپر محرابوں سمیت روشندانوں میں بھی جالیاں کاٹی گئی تھیں۔ حالانکہ جب وہ بڑا ہوا تو اس نے اپنے کمرے کے روشندانوں کی ان جالیوں کو گتے سے ڈھک دیا تھا، کیونکہ ان سے دھول مٹی اندر بھر جاتی تھی۔ بارش میں پانی کی بوچھار سے ان پر رکھا سامان، کتابیں وغیرہ بھیگ جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کو صاف کرنے میں بھی بڑی مشکل ہوتی تھی۔ باہر سے صدر دروازے میں تو نہ جانے کتنی کاریگری کی گئی تھی۔ پرانے زمانے کے مندروں جیسی محراب بنی تھی۔ اس کے اندر دونوں جانب نیم گولائی میں بڑی بڑی مچھلیاں بنی تھیں، جن کے درمیان ایک بڑے سے طاق میں گنیش کی مورتی بنی تھی۔ بعد میں اسی گنیش کی مورتی کے اوپر چڑیوں نے اپنے گھونسلے بنانے شروع کر دئیے تھے۔ پتا جب تک زندہ رہے، انہوں نے یہ گھونسلے کبھی نہیں بننے دیئے۔ جب بھی ان کی نگاہ جاتی، وہ گھونسلہ اکھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اس کی موت کے بعد تو چڑیاں ان میں انڈے بچے بھی دینے لگیں۔ دروازے کے دونوں جانب ستون بنائے گئے تھے، جن میں پھول پتیاں، دیوتاؤں اور دیویوں کی مورتیاں وغیرہ بنائی گئی تھیں۔ دروازے کی چوکھٹ میں بھی، جو خاصی چوڑی تھی، کافی کاریگری کی گئی تھی۔ دروازے پر گنیش جی کی مورتی کے نیچے پتا نے اس کا نام لکھوا دیا تھا۔ ’’شنکر نِواس۔‘‘ ایسا شاید انہوں نے اس لئے کیا کہ اس وقت اس کے اور چھوٹے بھائی نہیں تھے۔ اندر دہلیز میں سیمنٹ کے فرش پر سورہی بنی تھی۔ اس بات کو لے پتاجی کے دوست اکثر آپس میں مذاق کرتے تھے کہ جگت بابو نے سورہی اس لئے بنوائی ہے کہ میاں بیوی بیٹھ کر آپس میں کھیلا کریں گے۔ اس کے بعد ماں باپ نے کبھی کھیلا یا نہیں، وہ نہیں جانتا، لیکن وہ ضرور بچپن میں اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں بیٹھ کر سورہی کھیلا کرتا تھا۔

یہ سب تو بنا تھا، لیکن اس وقت مکان بہت سے معاملات میں نا مکمل رہ گیا تھا۔ اوپر کے کسی بھی حصے میں پلاسٹر نہیں ہوا تھا۔ ایک چھوٹے کمرے کی چھت بھی نہیں پڑی تھی۔ آنگن میں جنگلا نہیں لگا تھا۔ باہر صدر دروازے میں پٹ نہیں لگے تھے۔ اوپر تیسری منزل پر جانے کے لئے سیڑھی نہیں بنی تھی۔ سامنے بالکنی کی دیوار نہیں بنی تھی۔ چھت سے آنے والی کسی بھی نالی میں پائپ نہیں لگا تھا۔ یہ سب شاید اس لئے رہ گیا تھا، کیونکہ پتا کے پاس پیسوں کی کمی پڑ گئی تھی۔ کافی دنوں تک یہ اسی طرح پڑا رہا۔ پھر کچھ پتا جی کے ریٹائر ہونے پر مکمل ہوا اور کچھ اس کی نوکری لگ جانے کے بعد۔ ویسے کچھ چیزیں آج بھی ادھوری ہی پڑی ہیں۔

اچانک وہ ڈر گیا۔ عجیب سے کوئی دو پرندے کہیں سے آ کر اس کے پلنگ کے اوپر اڑنے لگے تھے۔ اور پھر وہ سامنے والی دو چھتی کی چھت کے پٹروں کے درمیان کسی سوراخ کے اندر گھس گئے۔ اسے سمجھنے میں کچھ دیر لگی کہ وہ چمگادڑیں تھیں۔ اس کا دل اچانک تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اس نے نئی سگریٹ جلا لی۔ پہلی بار یہ چمگادڑ، جب پتا جی زندہ تھے، تب آئے تھے اور انہی سوراخوں میں کہیں گھسے تھے۔ پتا نے دوسرے دن ہی سوراخوں کے نیچے نیم کی ڈھیر ساری پتیاں جلا کر دھواں دیا تھا اور پھر سیمنٹ ریت سے ان سارے سوراخوں کو بند کر دیا تھا۔ ماں نے شاید اس کے اگلے اتوار کو ستیہ نارائن کی کتھا بھی کروائی تھی۔ اس کے بعد چمگادڑ دوبارہ نہیں دکھائی دی تھیں۔ اب شاید وہ مستقل طور پر یہاں رہنے لیے تھیں۔ تبھی وہ پھر نکل آئیں۔ اس بار چار تھیں۔ کافی دیر وہ آنگن میں ہی ادھر ادھر اڑتی رہیں۔ پھر چھت کے اوپر آسمان میں کہیں چلی گئیں۔

اس نے محسوس کیا، نیچے کا پائپ اب بھی بہہ رہا تھا۔ باہر کا دروازہ بھی، اس کو یاد آیا، اس نے بند نہیں کیا تھا۔ اندر کمرے میں جا کر اس نے دوبارہ موم بتی جلائی اور جلی موم بتی لے کر وہ نیچے اتر آیا۔ باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے انہیں بھیڑ کر اندر سے کنڈی لگا دی۔ پھر اندر کا دروازہ کھول کر موم بتی پائپ کے پاس بنی چھوٹی سی دیوار پر رکھ کر ادھر ادھر کوئی کپڑا تلاش کرنے لگا۔ ایک کونے میں اسے پھٹا ہوا کوئی کپڑا مل گیا۔ شاید کوئی پرانی بنیان تھی۔ اسی سے اس نے ایک لمبی پٹی سی نکالی اور بھٹے کو پائپ میں ٹھونس کر اسے کپڑے سے کسنے لگا۔ پانی گرنا بالکل بند تو نہیں ہوا، لیکن بہت کم ہو گیا۔

وہ واپس اوپر آنے لگا، تبھی یاد آیا کہ باہر کا دروازہ اتنی دیر کھلا پڑا رہا ہے، ہو سکتا ہے، کوئی اندر گھس کر بیٹھ گیا ہو۔ وہ ایک بار پھر ڈر گیا۔ لیکن اس نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی کہ اس ویران گھر میں کوئی کیوں گھسے گا۔ پھر بھی اس نے طے کیا کہ وہ ایک بار سارے گھر کو دیکھ آئے گا۔ موم بتی بس تھوڑی سی باقی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے وہ مزید چل سکتی تھی، اس نے اندازہ لگایا۔

آدھی سیڑھیوں سے ہی وہ واپس نیچے اتر آیا۔ پہلے اس نے باہری کمرہ کھول دیا۔ اِسے پہلے، جب سب لوگ یہاں رہتے تھے تو ’’دروازے والا کمرہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب تک وہ انٹر میں نہیں پہنچا تھا، اس وقت تک یہ کمرہ اس کے پتا کے قبضے میں تھا۔ انہوں نے اس میں ایک تخت، ایک چھوٹی میز اور دو چار کرسیاں ڈال رکھی تھیں۔ دیواروں پر دیوی دیوتاؤں کی تصاویر لگا رکھی تھیں۔ الماریوں میں ان مطلب کی کئی چیزیں، جیسے رینچ، ہتھوڑی، پلاس، شطرنج کی بساط اور مہرے وغیرہ رکھے رہتے۔ آتشدان کے اوپر کپڑے کے دو بستوں میں ان کی کتابیں وغیرہ بندھی رکھی رہتیں۔ ایک بستے میں بھگوت گیتا، مہابھارت، رامائن وغیرہ رہتیں، دوسرے میں الف لیلا، گل صنوبر وغیرہ۔

اسی کمرے میں پتا اپنے ملنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ دیوالی پر میز کرسی وغیرہ سب اندر سے ہٹا دی جاتیں۔ فرش پر دری اور چادر بچھا دی جاتی اور لکشمی پوجا کے بعد سے تین دن تک مسلسل فلش کھیلی جاتی۔ زیادہ تر تو گلی کے لوگ ہی ہوتے۔ ویسے کبھی کبھی باہر کے لوگ، پتا کے آفس کے ساتھی وغیرہ بھی آ جاتے، وہ بھی اکثر رات میں پتا کے لاکھ منع کرنے کے باوجود آ کر وہیں بیٹھ جاتا۔ کبھی کبھی رات بھر بیٹھا رہتا، کیونکہ پتا اور ان کے دیگر دوست، بازی جیتنے پر اسے پیسے دیا کرتے تھے۔ رات بھر میں وہ دو تین روپے کی ریزگاری جمع کر لیتا۔

لیکن جب وہ انٹر میں پہنچا، تو پتا اپنا سامان دوسری جگہوں پر اٹھا لے گئے۔ شروع میں اس بات کو لے کر، اس میں اور پتا میں کافی منہ ماری بھی ہوئی۔ پتا کہتے کہ سامان وہیں رکھا رہنے دو، تمہارا کیا لے گا! لیکن وہ اپنے کمرے میں رینچ، ہتھوڑی وغیرہ رکھنے کے لئے قطعی تیار نہیں تھا۔ آخر پتا نے ہار مان لی اور اس نے کمرے پر اپنا حق جما لیا۔ اس کے آنے کے کچھ دنوں کے اندر ہی کمرے کا حلیہ بالکل تبدیل کر دیا گیا۔ آتشدان پر نقلی پھولوں کے گلدستے لگ گئے۔ دیوی دیوتاؤں کی تصویروں کی جگہ پر فلم اسٹارز کی تصاویر اور سینریاں لگ گئیں۔ الماری میں رینچ اور پلاس کی جگہ جیومیٹری اور الجبرا کی کتابیں سج گئیں۔ بعد میں وہ اسی کمرے میں تخت پر سونے بھی لگا۔ اکثر چھٹیوں والے دن وہ اپنا کھانا بھی یہیں منگا لیتا۔ کبھی چھوٹا بھائی دے جاتا، کبھی ماں۔

اسی کمرے میں رہتے ہوئے، اسے زندگی کا وہ انوکھا احساس پہلی بار محسوس ہوا تھا جسے ’’نوعمری کی محبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان دنوں وہ بی اے سال اول میں پڑھا کرتا تھا۔ سامنے والے مکان میں ایک نئے کرایہ دار آئے تھے۔ نئے کیا، کافی دنوں سے وہاں رہ رہے تھے۔ مرد آر ایم ایس میں کام کرتا تھا۔ وہ، اس کی بیوی، ایک چھوٹا بچہ اور اس کی نوجوان بہن، جس کا اصلی نام تو وہ آج بھول گیا ہے لیکن گھر میں اسے بٹّی کہا کرتے تھے، اس مکان میں رہتے تھے۔ بٹّی کی عمر پندرہ سولہ کی رہی ہو گی۔ اس کی آنکھیں کافی بڑی اور خوبصورت تھیں۔ بدن بھرا ہوا اور پر کشش تھا۔

اچانک ایک دن اس نے غور کیا کہ جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر پڑھتا لکھتا تو بٹّی اپنی کھڑکی پر کھڑی ہو کر اسے دیکھا کرتی ہے۔ اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا۔ بعد میں اس نے اپنی میز گھما کر اس طرح لگا لی کہ بالکل اس کی کھڑکی کے سامنے پڑتی۔ اکثر دونوں ایک دوسرے کو دیر تک دیکھتے رہتے۔ پھر پتہ نہیں کب اور کیسے بٹّی اس کے گھر بھی آنے لگی، اس کی ماں کے پاس۔ دو ایک بار ایسا بھی ہوا کہ سیڑھیاں پر چڑھتے اترتے دونوں ایک دوسرے سے مل گئے۔ جان بوجھ کر تو نہیں، ہاں انجانے میں ایک آدھ بار دونوں کے جسم بھی چھو گئے۔ ان دنوں وہ شیلے اورکیٹس کو پڑھا کرتا تھا اور محبت کا ایک بہت ہی مثالی تصور اس کے دماغ میں موجود تھا۔ پورے ایک سال تک ایسا چلتا رہا کہ جب بھی وہ یونیورسٹی سے لوٹ کر آتا، وہ اپنی کھڑکی پر کھڑی ہوتی۔ لیکن دونوں میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ماں کے سامنے ضرور ایک آدھ بار ان ڈائریکٹ طریقے سے کچھ بات ہوئی۔ لیکن کوئی خاص نہیں۔ ہاں، ایک بار ضرور ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس کی یاد آج بھی اسے ہلکا سا کہیں گدگدا جاتی ہے۔ رات کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ وہ بتی بجھا کر لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر ایک ہلکی سی دستک ہوئی۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو دیکھا، بٹّی کھڑی تھی۔ دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی وہ اندر آ گئی اور چپ چاپ کھڑی ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کیا بات کرے؟ تبھی اس نے پوچھا۔‘‘ کیا بات ہے؟‘‘

بٹّی پھر بھی خاموش رہی۔ پھر بولی، ’’آپ کے پاس ایناسن تو نہیں ہے۔ بھیا بھابھی سنیما گئے ہیں۔ میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘

’’ایناسن؟ میرے پاس تو نہیں ہے۔ کہو تو باہر سے لا دوں۔‘‘ اس نے کہا۔ بٹّی پھر کچھ دیر کیلئے خاموش ہو گئی۔ پھر بولی، ’’نہیں، رہنے دو۔‘‘ اور خاموشی سے واپس لوٹ گئی۔

اس کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا کہ بٹّی شاید ایناسن کیلئے نہیں آئی تھی۔ وہ کچھ اور کہنا چاہتی تھی۔ باتوں کے بیچ کی خاموشی نے شاید اس سے کچھ کہا بھی تھا۔ لیکن وہ سمجھ نہیں سکا تھا۔ اپنی اس حماقت پر اسے بہت افسوس ہوا تھا۔ اس ساری رات وہ سو نہیں سکا تھا۔ انتظار کرتا رہا تھا کہ شاید بٹّی پھر آئے۔ لیکن وہ نہیں آئی۔ یہی نہیں، اس کے بعد کئی دنوں تک وہ اپنی کھڑکی پر بھی نہیں دکھائی دی۔

اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ہی بٹّی کی شادی ہو گئی۔ اور وہ گڑیا کی طرح سج کر اپنی سسرال چلی گئی۔ وہاں سے واپس لوٹنے کے بعد ایک دو بار وہ ضرور اپنی کھڑکی پر دکھائی دی۔ اس کے گھر بھی آئی۔ لیکن تبھی اس کے بھائی کا ٹرانسفر کہیں اور ہو گیا اور وہ لوگ مکان چھوڑ کر چلے گئے۔ ان لوگوں کے جانے کے کافی دنوں بعد تک اسے بٹّی کی یاد آتی رہی۔ اس کا دل کسی کام میں نہ لگتا۔ گھنٹوں وہ پڑھنے کی میز پر بیٹھا، کاغذ پر بٹّی کا نام لکھا کرتا۔ اس کی سسرال اسی شہر میں تھی۔ اکثر وہ سائیکل لے کر ادھر سے چکر بھی کاٹا کرتا، لیکن بٹّی اسے نہیں ملی۔ ہاں، ایک آدھ بار مارکیٹ وغیرہ میں اس نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ ادھر ادھر آتے جاتے ضرور دیکھا۔ مہینوں اسی طرح بٹّی کا خیال اسے ستاتا رہا۔ اسے لگتا جیسے اس کی اپنی سب سے قیمتی چیز کسی نے اس سے چھین لی ہے، لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ پھر نارمل ہو گیا۔

موم بتی لے کر وہ کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں کافی گرد و غبار اور کوڑا کرکٹ تھا۔ تخت اب بھی اپنی جگہ پڑا تھا۔ میز کرسیاں شاید بھائی اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ الماریاں بھی خالی پڑی تھیں۔ صرف آتشدان کے اوپر گنیش، لکشمی کی مٹی کی پرانی مورتیاں رکھی تھیں، جن کا رنگ اڑ چکا تھا۔ دیواروں پر کچھ تصاویر بھی لگی تھیں۔ ایک تصویر آٹھ ممالک کے صدور مثلاً، لینن، ہو چی منہ، گاندھی، سوئیکارنو، ماؤ وغیرہ کی تھی، جسے اس نے کبھی کسی میگزین سے کاٹ کر خود چپکایا تھا۔ تصویروں کا اسے خاص شوق تھا۔ اپنے آپ وہ انہیں چھٹے ساتویں مہینے نکالتا یا بدل دیا کرتا تھا۔ لیکن یہ تصویریں کافی پرانی تھیں۔ اسے اس نے بعد میں کبھی کیوں نہیں بدلا، اس کی کوئی وجہ اس کے پاس نہیں تھی۔

دیواروں میں جگہ جگہ سیم لگنے لگی تھی۔ الماریوں کی چوکھٹ میں کئی جگہ دیمک لگ گئی تھی۔ دائیں طرف والی دیوار میں کافی سیلن تھی۔ یہ سیلن بہت پرانی تھی۔ اس کی وجہ تھا میونسپلٹی کا پائپ، جو باہر گلی میں اس کی دیوار سے ملا کر لگا ہوا تھا۔ جن دنوں وہ اس کمرے میں رہا کرتا تھا، یہ پائپ الارم کا کام کرتا تھا۔ ریلوے والے رادھے چچا اپنا لوہے کا پرانا کڑی دار ڈول لے کر ٹھیک ساڑھے چار بجے پائپ پر پہنچ جاتے اور ’’گنگا بڑی کہ گوداوری کہ تیرتھ راج پریاگ، سب سے بڑی ایودھیا جہاں رام لین اوتار‘‘ کا الاپ اتنی زور سے کھینچتے کہ کانوں میں روئی ٹھونس کر سونے والا شخص بھی سوتا نہیں رہ سکتا تھا۔ اس الاپ کے ساتھ ساتھ اپنے سر پر پانی کی پہلی دھار، اپنے ڈھائی کلو والے پیتل کے لوٹے سے ڈالتے اور ’’ہر ہر گنگے مہادیو‘‘ کی دوہرائی پر اتر آتے۔

اس پائپ کی ہی وجہ سے اس کے باہر والے چبوترے کا کافی پلاسٹر اکھڑ گیا تھا۔ کیونکہ اکثر لوگ اس پر کپڑے دھونے کا کام کرتے تھے۔ کچھ لوگ تو باقاعدہ صابن لگا کر فٹافٹ دھوبی گھاٹ کھول دیتے۔ پتاجی، جب تک وہ زندہ رہے، اگر کبھی کسی کو ایسا کرتے دیکھ لیتے تو بہت سخت باتیں سنا کر اس سے فوری طور پر چبوترہ دھلوا کر دوبارہ کبھی ایسا نہ کرنے کی سخت تاکید کر دیتے، لیکن ان کی موت کے بعد تو وہاں باقاعدہ دھوبی گھاٹ بن گیا تھا اور اکثر لوگ کپڑے دھونے کے بعد بغیر چبوترہ دھوئے ہی صابن کا جھاگ وہاں چھوڑ کر چلے جاتے۔

اس نے آگے بڑھ کر دیوار کو دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے چھوا تو سرخ چونے کا ڈھیر سارا پلاسٹر اپنی جگہ سے گر پڑا۔ جانے کس کے کہنے پر پتا نے اس کمرے میں سرخ چونے کا پلاسٹر کرایا تھا۔ صرف دیواروں تک۔ چھت اور فرش سیمنٹ کے تھے۔ بلکہ چھت میں خاصی پھول پتیاں بنائی گئی تھیں، جن کے درمیان بڑے بڑے لوہے کے کڑے لٹکائے گئے تھے۔ ان کڑوں کو ہاتھ سے کھینچنے والا پنکھا لگانے کیلئے لگایا گیا تھا۔ پتا کی کافی خواہش تھی کہ وہ پنکھا لگ جائے۔ لیکن ان کی زندگی میں ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مکان بنوانے میں ہی کافی قرض ان کے اوپر چڑھ گیا تھا، جس سے وہ زندگی بھر نکل نہیں پائے تھے۔

کمرے سے باہر نکل کر اس نے اس کے دروازے کی کنڈی لگا دی اور دہلیز سے ہوتا ہوا اندر دالان میں آ گیا۔ اندر دو دالان تھے، ایک دوسرے سے نوے ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے۔ پہلا دالان چھوٹا تھا۔ اس میں ایک اوکھلی بنی ہوئی تھی، جس میں ماں کبھی کبھار دال وغیرہ کوٹا کرتی تھیں۔ ویسے اس دالان کا کوئی خاص استعمال نہیں تھا سوائے جوتے موزے اتارنے کے، یا ایندھن رکھنے کے۔ یا پھر جب وہ انٹر میں پہنچا تھا اور پہلی بار گھر میں ایک پرانی نیلامی کی سائیکل آئی تھی، اس کے رکھنے کے۔ ہاں، اس سے ملے ہوئے دوسرا دالان کا، جو نسبتاً کافی بڑا تھا، بڑا استعمال ہوتا تھا۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر اس میں عورتوں کا گانا بجانا، رتجگے اور سوانگ ہوتے تھے۔ اسی میں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں گھر کے لوگ یہیں دوپہریا کاٹا کرتے تھے، کیونکہ یہاں جاڑا، گرمی، برسات کبھی نہیں آتی تھی۔ اسی دالان میں اس کے چھوٹے بھائی کی پیدائش اور پتا کی موت ہوئی تھی۔ اسی کے فرش پر اس کے پتا کی لاش بیس گھنٹے تک رکھی رہی تھی اور اس نے ساری رات اس کے برابر بیٹھ کر جاگتے ہوئے گزاری تھی۔

اس دالان سے ملی ہوئی ایک چھوٹی کوٹھری تھی، جس کے اندر دن میں بھی اندھیرا رہتا تھا۔ اس کے اندر ایک بڑی الماری تھی اور دیوار میں ایک طرف لکڑی کے دو بڑے بڑے شیلف بنے تھے۔ ان شیلفوں پر ان دنوں نہ جانے کتنے ہی برتن، پیتل کی بڑی بڑی پراتیں، بٹوے، بالٹی، کڑاہیاں، تھالیاں، لوٹے وغیرہ بھرے رہتے تھے۔ لوگ انہیں شادی بیاہ میں مانگنے آیا کرتے تھے۔ اسے حیرت ہوئی کہ آج وہ سب کہاں چلے گئے۔ اس کے پاس تو ان میں سے ایک بھی نہیں ہے۔ بھائی کے پاس بھی نہیں ہے۔ جانے کیسے اسی گھر میں وہ کہیں گم ہو گئے۔ اسی الماری میں بڑی بالٹیوں میں سال بھر کیلئے اناج بھر کر رکھا جاتا تھا۔ یہ بہت پرانی بات ہے، ورنہ جب سے وہ ہائی اسکول میں پہنچا تھا، اس کے بعد سے تو ہرمہینے کا راشن، اسے راشن والے کی دکان میں لائن لگا کر لانا پڑتا تھا۔ اسی الماری میں اوپر ایک دو چھتی بنی تھی، جس میں قدرتی روشنی نام کی کوئی چیز، سر سی وی رامن کے اصول کے باوجود کبھی نہیں پہنچی۔ اس کے اندر گھسنا بھی ایک کمال ہوا کرتا تھا، کیونکہ اس کا راستہ چھت میں ایک چوکورسوراخ کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ آج تو شاید وہ اس میں گھس بھی نہیں سکتا۔ ہاں، جب چھوٹا تھا، تو ضرور گندم کی بالٹی پر چڑھ کر، جو ٹھیک اس سوراخ کے نیچے رکھی رہتی تھی، گھس جاتا تھا۔ یہ دو چھتی کیوں بنائی گئی، وہ کبھی سمجھ نہیں پایا۔ شاید پتا جی نے سوچا ہو کہ کبھی اس گھر میں سونے چاندی کی اینٹیں ہوئیں تو انہیں آرام سے چھپا کر رکھیں گے۔ لیکن اس کی یادوں کے مطابق جو چیزیں اس دو چھتی میں ہوتی تھیں، وہ کچھ اس طرح سے تھیں۔ ٹوٹے صندوق، پرانے کنستر، خالی بوتلیں، پرانے جوتے، ٹوٹی چھتریاں، بانس کے ڈلوے وغیرہ۔ اس نے سوچا، کوٹھری کا دروازہ کھول کر اندر جائے لیکن پھر ٹال گیا۔

اسی کوٹھری کے ساتھ ایک کمرہ اور تھا، جسے ’’منو دادا والا کمرہ‘‘ کہا جاتا تھا کیونکہ اس کے چچازاد بھائی، جن کا نام منو تھا، کبھی اس میں رہا کرتے تھے۔ ان کی ساری پڑھائی لکھائی، پرورش، شادی بیاہ وغیرہ کا سبھی خرچ اس کے پتا نے کیا تھا۔ شادی کے بعد منو دادا اپنی بیوی کے ساتھ اسی کمرے میں رہا کرتے تھے۔ اُن تھوڑے دنوں کیلئے اس کمرے کا حلیہ بدل گیا تھا۔ ورنہ یہ خالی پڑا رہتا تھا۔ ان دنوں اس کی کھڑکیوں میں پردے لگ گئے تھے۔ اندر دیواروں پر کیلنڈر اور دیگر تصاویر لگی تھیں۔ ایک کونے میں بھابھی کا سنگھار دان رکھا رہتا تھا۔ دو ایک میز کرسیاں بھی آ گئی تھیں۔

منو دادا کی شادی، جو اسی شہر میں ہوئی تھی، محلے کی کچھ نامی گرامی شادیوں میں سے ایک تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کیونکہ ان کی بارات میں ہاتھی گھوڑے وغیرہ شامل تھے۔ ڈیڑھ دو درجن مرد اور عورت کے ہاتھوں میں رنگین کاغذوں کی کشتیاں لے کر چل رہے تھے، جن میں نوٹ چپکے تھے۔ ساتھ ہی محلے سے نکلنے والی کسی بارات میں پہلی بار پولیس بینڈ آیا۔ بھانڈ اور طوائفیں بھی تھیں۔ ماں نے ان سب باتوں کیلئے منع کیا تھا، لیکن پتا اڑیل قسم کے آدمی تھے، خالص متوسط طبقے کی سوچوں سے دوچار۔ انہوں نے اپنے پروویڈنٹ فنڈ سے قرض لیا تھا۔ مہاجنوں سے بھی کچھ ادھار لیا تھا اور جسے گھر پھونک تماشا دیکھنا، کہتے ہیں، وہی کیا تھا۔ یہ سب اس لئے تاکہ رشتے داروں اور محلے والوں میں سے کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ بھتیجے کی شادی پر جگت بابو کنجوسی کر گئے۔ لیکن اس کے بعد جو مہاجنوں کا گھر پر آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو پتا کی موت کے بعد تک ختم نہیں ہوا۔ ایک مہاجن تو ان کی موت کے تیسرے چوتھے دن آ دھمکا تھا، کیونکہ اس کے پرونوٹ کی تاریخ نکل رہی تھی اور اسے اندیشہ تھا کہ کہیں ان کا بیٹا پرونوٹ بدلنے سے انکار نہ کر دے۔

شادی کچھ اور لحاظ سے بھی اس کے خاندان میں اہمیت رکھتی تھی۔ کیونکہ کسی بات کو لے کر منو دادا نے اپنے سسر کو تھپڑ مار دیا تھا۔ سسر نے تو کچھ نہیں کہا تھا۔ لیکن لڑکی والوں کی طرف سے کئی لوگ کافی بگڑ گئے تھے۔ بات لاٹھی بندوق تک پہنچی تھی۔ آخر کسی طرح سے بات نمٹائی گئی اور منو دادا اپنی دلہن لے کر گھر لوٹے۔

لیکن اس کے بعد منو دادا زیادہ دنوں گھر میں نہیں رہے۔ ان کی بیوی اور اس کی ماں میں کچھ ان بن رہنے لگی۔ پہلے تو گھر میں ہی دو چولہے جلے۔ اور پھر پہلی بار نیچے کے حصے میں بنے کمرے سے لگی ہوئی رسوئی کا استعمال ہوا۔ ورنہ جب سے مکان بنا تھا، وہ خالی پڑی ہوئی تھی۔ لیکن یہ سلسلہ بھی زیادہ دنوں نہیں چلا۔ جلد ہی منو دادا گھر چھوڑ کر چلے گئے اور آہستہ آہستہ دونوں خاندانوں میں آنا جانا تک بند ہو گیا۔ اس واقعہ کے دس پندرہ سال بعد، جب وہ بڑا ہوا اور ہولی دیوالی پر اس نے منو دادا کے یہاں آنا جانا شروع کیا تو تعلقات ایک بار پھراستوار ہونے لگے۔

وہ آنگن میں کھڑا تھا۔ اسی آنگن میں شادی بیاہ کے موقع پر منڈپ بنایا جاتا تھا۔ اس کے بیاہ کے وقت بھی یہیں منڈپ بنا تھا اور اگرچہ شادی بیاہ کی رسومات سے اسے انتہائی درجے کی چڑ تھی، پھر بھی تیل ابٹن والے کچھ سوانگوں میں اسے حصہ لینا پڑا تھا۔

منو دادا کے کمرے کی کنڈی بند تھی۔ اس نے اسے کھولا نہیں، صرف کھڑکی کی سلاخوں سے، جس میں پٹ نہیں تھے، اندر جھانک کر دیکھا۔ اندر اندھیرا اور سیلن تھی، دیوار پر گیرو سے سواستیکا سا کچھ بنا ہوا تھا۔

کچھ دیر وہ اسی طرح کھڑکی کی سلاخیں پکڑے کھڑا رہا۔ پھر واپس مڑ گیا۔ باہر ڈیوڑھی میں آ کر اس نے نیچے کے حصے کے دروازے کی کنڈی لگا دی اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آ گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے موم بتی کا پگھلتا ہوا گرم گرم موم اس کی انگلی پر گر پڑا تھا اور وہ جل گئی تھی۔ اس نے موم بتی دوسرے ہاتھ میں پکڑ لی اور جلی ہوئی انگلی منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔ ایسا کرنے سے اسے کچھ آرام ملا۔

اوپر پہنچتے ہی وہ ایک بار پھر ڈر گیا۔ اس کے بستر پر ایک موٹی سی سیاہ بلی بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہاں سے کود کر وہ دیوار پر جا کر بیٹھ گئی اور وہاں سے اسے اپنی چمکدار آنکھوں سے دیر تک گھورتی رہی۔ اس نے اسے بھگایا تبھی وہ وہاں سے ہٹی۔

ایک لمحے وہ وہیں چھت پر کھڑا رہا۔ پھر مکان کے اوپر والے حصے کا معائنہ کرنے لگا۔ پہلے اس نے پیچھے والے حصے کا کمرہ کھولا۔ یہ کافی بڑا تھا۔ لیکن لوگ اس میں رہتے نہیں تھے۔ زیادہ تر اس سے اسٹور کا کام لیا جاتا تھا۔ روزمرہ استعمال ہونے والا راشن، آٹا، دال، چاول وغیرہ اس میں رکھا جاتا تھا۔ ایک الماری تھی جو طرح طرح کے اچاروں کے مرتبانوں سے بھری رہتی تھی۔ روزمرہ استعمال والے برتن بھی اسی کمرے میں رہتے تھے۔ اسی زمانے کا لکڑی کا ایک بڑا سا صندوق، جس میں اصلی گھی کا برتن، تیل، مسالا وغیرہ چوہوں سے بچانے کے لئے رکھے جاتے تھے۔ اب بھی ایک کونے میں پڑا تھا۔ اس کا اوپری ڈھکن، جو درمیان سے آدھا کھلتا تھا، ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے قریب جا کر موم بتی کی روشنی میں اس میں جھانک کر دیکھا، اس میں کچھ کنڈے اور لکڑی کے ٹکڑے پڑے تھے۔

دیوار پر ’’ہرچھٹ‘‘ بنی ہوئی تھی۔ یہ کون سی دیوی ہیں، وہ آج تک نہیں جان پایا۔ ماں کسی خاص دن یہ پوجا کیا کرتی تھیں۔ جب بھی یہ تہوار آتا تھا، ماں صبح سے روزہ رکھ کے بڑی تندہی سے رنگ میں روئی بھگو کر دیوار پر یہ تصویر بنایا کرتیں۔ دیوی کا پیٹ چوکور ہوتا۔ چاروں کونوں پر چھوٹے چھوٹے دو پیر ہوتے۔ اوپر نکیلا برفی نما سر ہوتا۔ پیٹ کے اندر ماں جانے کیا کیا سورج چاند، گنگا جمنا، چھلنی وغیرہ بناتیں۔ وہ سوچتا، یہ دیوی، جن کے پیٹ میں ساری دنیا سمائی ہوتی ہے، ضرور بڑی طاقتور ہوتی ہوں گی۔ پھر آج تک اس نے ان کا نام کہیں اور کیوں نہیں سنا؟ اسی دیوی کے ساتھ ساتھ ماں ایک اور تصویر بناتی تھیں۔ وہ بھی کچھ اسی طرح قسم کا ہوتی تھی اور اسے ایسے مقام پر بنایا جاتا تھا کہ دیوی اور دھوبن ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں۔ ہندو معاشرے میں دھوبن کی بھی بہت اہمیت ہے۔ کیونکہ اسے یاد ہے کہ کسی اور تہوار پر دھوبن ماں کو سہاگ دینے آیا کرتی تھیں۔ ماں کہتی تھیں کہ دھوبن کا سہاگ امر ہوتا ہے۔ سارے جہان کو سہاگ بانٹنے پر بھی اس کا سہاگ کم نہیں ہوتا۔ مگر باوجود اس کے کہ ماں ہر سال دھوبن سے سہاگ لیا کرتی تھیں، اور اس کے علاوہ بھی اپنے سہاگ کی حفاظت کے لئے کتنے ہی تیج تہوار مناتی تھیں، نذر رکھتی تھیں، ان کی موت بیوہ ہو کر ہوئی تھی۔

اس کمرے کی چھت بھی شکستہ تھی۔ یہ تو انہی دنوں سے شکستہ تھی جب وہ یہاں رہا کرتا تھا۔ چھت کے شہتیر بھی بول گئے تھے۔ اس نے موم بتی کی روشنی میں دیکھا، دیواروں پر پانی بہنے کے نشانات تھے۔ درمیان میں ایک شہتیر بھی کافی نیچے جھک آیا تھا۔ یہی ایک کمرہ تھا جس میں پتا جی نے سلیب کی جگہ شہتیر ڈلوائے تھے۔ اس کے پیچھے بھی شاید کہیں پیسوں کا فقدان تھا۔

کمرے سے وہ اس کی بغل والی کوٹھری میں آ گیا، جس کی چھت اس کی نوکری لگ جانے کے بعد پڑی تھی۔ اس میں کھانا پکا کرتا تھا، جس کی وجہ سے اس کی ساری دیواریں اور چھت دھوئیں سے سیاہ پڑ گئی تھیں۔ بہت دنوں تک اس میں دروازہ بھی نہیں تھا، جس کی وجہ سے اکثر بندر اس میں گھس کر کھانے پینے کا سامان اٹھا لے جاتے تھے۔ بعد میں زینے کا نیچے والا دروازہ وہاں سے اکھڑوا کر یہاں لگوا دیا گیا۔ زینے والا دروازہ اس کے بعد آج تک نہیں لگ سکا۔

الماری سے نکل کر چھت پر سے ہوتا ہوا وہ گلی کی طرف والے کمرے میں آ گیا، جس میں اٹیچی رکھی تھی۔ اسے ملا ہوا ایک اور کمرہ، جو شروع میں بہت چھوٹا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی شادی کے موقع پر اسے توڑ کر اور بڑا کیا گیا۔ شادی کے بعد وہ اسی کمرے میں رہنے لگا تھا۔ رہنے تو خیر پہلے ہی لگا تھا، لیکن شادی کے بعد یہ کمرہ اس کا ذاتی کمرہ ہو گیا تھا اور اس کی بیوی کے علاوہ شاید ہی کبھی کوئی اس میں آتا ہو۔ بیوی کا سارا سامان بھی اسی کمرے میں رکھنے لگا تھا۔ اس کا بھی ایک دروازہ باہر بالکنی پر کھلتا تھا۔

اس کی شادی کے موقع پر مکان میں اس قسم کے چھوٹی موٹی کئی تبدیلیاں ہوئی تھیں۔ جیسے اوپر چھت پر جانے کیلئے سیڑھیاں بنی تھیں۔ مکان میں بجلی کا کنکشن لیا گیا تھا۔ اوپر گلی کی طرف والے دونوں کمروں میں پلاسٹر ہوا تھا۔ بالکنی کی دیوار بنی تھی۔ اور ایک بار پھر گھر کا گھٹتا ہوا قرض دوبارہ بڑھ گیا تھا۔

اس کمرے سے ہوتا ہوا وہ پھر بالکنی پر آ گیا۔ گلی میں لگا ہوا بجلی کا بلب اب تک بجھ چکا تھا۔ صرف ایک ہلکی چاندنی گلی کے فرش اور مکانوں کی دیواروں پر بکھری ہوئی تھی۔ اکا دکا کسی کسی گھر میں روشنی بھی ہو رہی تھی۔ مگر زیادہ تر مکانوں کی بتیاں گل تھیں۔

کافی دیر تک وہ اسی طرح کھڑا رہا۔ گلی میں ہونے والے کتنے ہی چھوٹے بڑے واقعات، شادی بیاہ، لڑائی جھگڑے، محبت بغاوت، پیدائش اموات کا وہ گواہ تھا، ساری باتیں اسے ایک ایک کر کے یاد آ رہی تھیں۔ کتنے اور نئے لوگ آ گئے ہوں گے۔ کچھ عجیب سے احساس میں ڈوبا ساکت سا، وہ بالکنی پر کھڑا رہا۔

تھوڑی دیر ایسے ہی کھڑے کھڑے اس نے ایک سگریٹ پی۔ تب وہاں سے ہٹ آیا۔ لوٹتے وقت اس نے بالکنی کا دروازہ بند کیا تو وہ آسانی سے بند نہیں ہوا۔ دونوں پلے بھڑا کر اسے زور سے دھکا دینا پڑا۔ جھٹکے کی آواز سے ساتھ دروازہ بند ہو گیا۔ لیکن ساتھ ہی ڈھیر سا پلاسٹر چھت سے اکھڑ کر فرش پر گر پڑا۔ موم بتی، جسے وہ پہلے ہی بجھا چکا تھا، اس نے الماری پر رکھ دی اور چھت پر آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔

اس مکان کو بنوانے میں پتا جی مالی طور پر ٹوٹ گئے تھے۔ اور بار بار ٹوٹے تھے۔ لیکن یہی مکان کئی بار ان کی پریشانیوں میں آڑے بھی آیا تھا۔ کئی بار اسے گروی رکھ کر انہوں نے بڑے بڑے کام نکالے تھے۔ آخری بار تو یہ ہاتھ سے نکلتے نکلتے رہ گیا تھا۔ آخر اسے چھڑانے کے لئے انہیں گاؤں کی ساری جائداد بیچنی پڑی تھی۔ لیٹے لیٹے اس نے اندازہ لگایا کہ اس کی مرمت میں اسے کتنا خرچ کرنا پڑ سکتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار روپے وہ لے کر آیا تھا۔ لیکن ایک ہزار میں ایک کمرے کی سلیب پڑنی بھی مشکل تھی۔ جس خستہ حالت میں یہ مکان پہنچ چکا تھا، یہاں آتے وقت اس نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ویسے یہاں اس کے بہت سے دوست تھے، جن سے ضرورت پڑنے پر وہ قرض لے سکتا تھا۔ لیٹے لیٹے وہ ان کے بارے میں سوچنے لگا۔

دیر تک اسے نیند نہیں آئی۔ ایک بار تو اس آنکھ قریب قریب لگ گئی تھی، لیکن تبھی سرہانے والی دیوار پر بلی آ کر رونے لگی اور اس کی نیند اچٹ گئی۔

صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ نہا دھو کر اس نے کپڑے بدلے اور مکان میں تالا لگا کر باہر نکل آیا۔ وہ اپنے کسی دوست کے یہاں جا رہا تھا لیکن اس سے قرض لینے نہیں، بلکہ گھروں کا سودا کرنے والے کسی دلال کا پتہ پوچھنے۔

***

 

 

 

 

نو سال چھوٹی بیوی

 

رویندر کالیا

 

رویندر کالیا، پیدائش: ۱۱ نومبر، ۱۹۳۸ء جالندھر، پنجاب۔ کچھ اہم تخلیقات، کہانی مجموعے، نو سال چھوٹی پتن، کالار جسٹر،: غریبی ہٹاؤ، بانکے لال، گلی کوچے، وغیرہ، ناول۔ خدا صحیح سلامت ہے، سترہ رانڈے روڈ، اے بی سی ڈی، وغیرہ۔ مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ انتقال، ۹ جنوری ۲۰۱۶ء، ممبئی۔

***

 

کُشل دبے پاؤں اس طرح گھر میں گھسا تھا، جیسے گھر اس کا اپنا نہ ہو اور کھانسی آنے پر وہ گلی میں جا کر اس طرح جی بھر کر کھانس آیا تھا، جیسے مدن کو نصیحت کرنے کا موقع نہ دینے کیلئے وہ اکثر دکان کے باہر جا کر کھانسا کرتا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ شاید اپنے اچانک آ جانے سے ترپتا کو چونکانا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ مسکرا دیا کہ چونکانے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ ترپتا نے کُشل کو دیکھا تو حقیقت میں ہی چونک گئی۔ اس نے کُشل کو دیکھتے ہی کاغذوں کا ایک پلندا ٹرنک میں چھپا دیا، جسے وہ دیوار سے پیٹھ ٹکائے سرگوشیوں میں بڑی محویت سے پڑھ رہی تھی۔ اس کی آواز کے اتار چڑھاؤ کو بھی ہدف بنایا جا سکتا تھا۔ اس نے حال ہی میں دھوئے ہوئے بالوں کو جوڑے کے روپ میں اکٹھا کر کے ان پر اپنا سر اس طریقے سے رکھا ہوا تھا، جیسے بالوں سے تکیے کا کام لے رہی ہو۔ کُشل کو دیکھتے ہی اس کی پیشانی پر ڈھیر سارا پسینہ جمع ہو گیا اور وہ کھڑی ہو گئی۔ اس کے بال کھل کر کندھوں پر بکھر گئے۔ اس نے کارنش سے لال رنگ کا ربن اٹھایا اور بال باندھنے لگی۔ کُشل نے پلنگ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے اور بولا، ’’آج مدن دہلی گیا ہے اور میں اٹھ آیا۔‘‘

ترپتا کی قمیض پسینے سے بدن پر چپکتی جا رہی تھی۔ اور گردن سے پسینے کے قطرے نکل کر ہنسلی کی ہڈی پر ایسے رینگ رہے تھے، جیسے بارش کے بعد بجلی کی تاروں پر پانی رینگتا ہے۔ اس نے قمیض کے پلو سے منہ پونچھا اور بولی، ’’آج تو بہت گرمی ہے۔‘‘ پھر اس نے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے سرکاتے ہوئے کہا، ’’میں تو سمجھی تھی، پرکاش کھانا لینے آیا ہو گا، آپ اس وقت کیسے آ گئے؟‘‘ پھر اس نے کُشل کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ کُشل سوچنے لگا کہ اگر وہ ترپتا کی جگہ ہوتا تو اس وقت کیسے آ گئے کی جگہ پر ’’کہاں سے ٹپک پڑے۔‘‘ کہتا۔ ترپتا کو آہستہ آہستہ سرخ ہوتے دیکھ کر اور ڈھونڈنے پر بھی نہ ملنے کے انداز میں ادھر ادھر گھومتے اور نظریں دوڑاتے دیکھ کر کُشل نے جیب سے ماچس نکال ترپتا کی جانب پھینکتے ہوئے کہا، ’’یہ لو۔‘‘

ترپتا نے ماچس دبوچ لی اور بولی، ’’آپ کیسے جان گئے تھے کہ میں ماچس ڈھونڈ رہی تھی۔‘‘ کُشل کو معلوم تھا کہ ترپتا ماچس نہیں ڈھونڈ رہی تھی، بلکہ چھوٹی سی بات کو لے کر پریشان ہو رہی تھی۔ اس نے صرف اس کی گھبراہٹ کم کرنے کیلئے ہی ماچس پھینکی تھی۔ پھر اس نے کہا، ’’میں جانتا تھا، چولہے پر تمہاری نظر نہیں جائے گی۔ اگرچہ تمہیں معلوم ہے کہ ماچس وہیں پڑی رہتی ہے۔‘‘ ترپتا نے چولہا جلایا اور چائے کا پانی چڑھا دیا اور پھر خود بھی کُشل کے قریب پلنگ پر آ کر بیٹھ گئی اور پاؤں ہلانے لگی۔ کُشل نے کہا، ’’پاؤں کیوں ہلا رہی ہو؟‘‘ ترپتا نے پیر ہلانے بند کر دیئے اور پاس رکھا تولیہ اٹھا کر رگڑ رگڑ کر منہ صاف کرنے لگی۔ پسینہ خشک گیا تھا اور وہ پھر بھی تولیہ نہیں چھوڑ رہی تھی۔ کُشل نے اسے مطمئن اور پرسکون کرنے کیلئے اپنے لہجے کو ایکدم نارمل بناتے ہوئے کہا، ’’کہانی لکھ رہی تھیں کیا؟‘‘ اس نے ترپتا کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ تم کہانیاں لکھتی رہو تو بہت بڑی مصنفہ بن جاؤ گی۔‘‘

ترپتا، کُشل کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور اس کی بو شرٹ پر رینگتی ہوئی ایک چیونٹی پھینکتے ہوئے بولی، ’’شادی کے بعد تو کچھ بھی نہیں لکھا۔ وہی پرانی کہانی پڑھ رہی تھی، جسے سن کر آپ نے میرا بہت مذاق اڑایا تھا۔‘‘ وہ پھر پاؤں ہلانے لگی اور شکایتی انداز میں کُشل کی طرف دیکھنے لگی۔ کُشل نے محسوس کیا کہ کئی بار بیوقوف بنا کر اتنا مزہ نہیں آتا، جتنا بن کر آتا ہے۔ لیکن جب ترپتا بالکل مطمئن ہو گئی کہ کُشل مکمل طور پر بیوقوف بن چکا ہے تو کُشل کو وہ اچھا نہیں لگا۔ اس نے کہا، ’’عجیب بات ہے، ٹانگیں تو میری درد کر رہی ہیں اور ہلا تم رہی ہو۔‘‘ پھر اس نے کچھ دیر خاموش رہ کر کہا، ’’ترپتا! ذرا میری طرف دیکھو۔‘‘ ترپتا نے تولیے کو اوپر سرکا کر تھوڑی سی آنکھ ننگی کی اور پھر فوری طور پر منہ چھپاتی ہوئی بولی، ’’آپ مجھے ڈرا کیوں رہے ہیں؟‘‘

’’ڈرا کِسے رہا ہوں؟‘‘ کُشل کو ہلکی سی مسرت ہوئی۔ اس نے ترپتا کے ہاتھ سے تولیہ کھینچتے ہوئے کہا، ’’دیکھو چولہا شاید بجھ گیا ہے۔‘‘ ترپتا پوری قوت سے بھاگ کر چولہے کی طرف گئی، جیسے دودھ ابل گیا ہو، اور پھر کُشل کی طرف پیٹھ کر کے چولہے کے قریب رکھے پٹرے پر بیٹھ گئی۔

اچانک کُشل کو لگا کہ باتھ روم کا نل کھلا ہے۔ ویسے باتھ روم کا نل تب تک کھلا رہتا ہے، جب تک میونسپلٹی اس کی رگوں کو پانی مہیا کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے گلی میں شور کرتے ہوئے بچوں کی آوازیں بھی اسے سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ بچوں کا شور سن کر وہ اچانک مسکرا دیا۔ مدن جب کبھی موڈ میں ہوتا ہے تو دکان میں آنے والے گاہکوں کو کبھی کبھی کُشل کا حوالہ دے کر بتایا کرتا ہے کہ ’’ہندوستان میں تبھی چین سے سویا جا سکتا ہے۔‘‘ مدن چٹکی بجا کر کُشل کو ہاف سیٹ چائے کا آرڈر دینے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتا، ’’جب رات کو آپ بچوں کے رونے دھونے کو لوری سمجھیں اور صبح گلی کے ننھے منوں کے اجتماعی رونے دھونے سے آپ گھڑی کے الارم کا کام لیں۔‘‘

اتوار کی دوپہر تو کُشل جیسے تیسے کر کے گھر میں ہی گزار لیتا ہے، مگر اس وقت بچوں کی دھینگا مشتی نہ تو لوری کام دے رہی تھی اور نہ گھڑی کے الارم کی۔ اس نے ترپتا سے پوچھا، ’’کیوں ترپتا، گلی کے بچوں کے اسکول کب کھل رہے ہیں؟‘‘

ترپتا نے مسکرا کر پیچھے کی طرف دیکھا، وہ شاید اب تک سنبھل چکی تھی یا شاید مذکورہ سوال کی نوعیت سے متاثر ہو کر اس نے سوچ لیا تھا کہ کُشل کی نظر اتنی گہری نہیں ہے، جتنی کہ وہ سمجھ بیٹھی ہے۔ وہ چولہے سے کیتلی اتارنے لگی۔

اس نے کُشل کیلئے چائے کا کپ تیار کیا اور کُشل کو پکڑاتے ہوئے بولی، ’’آپ شیو بنا لیں، میں اس وقت تک آپ کے کپڑے استری کر دیتی ہوں۔ کتنا اچھا رہے، اگر آج سنیما چلیں۔‘‘

’’میرا خیال ہے سنیما تو ہم مدن کی واپسی تک نہیں جا سکیں گے۔ اسے دہلی جانا تھا، میں نے پیسے نہیں مانگے۔‘‘

’’سنیما جتنے پیسے میرے پاس ہیں۔‘‘ ترپتا نے پاؤں سے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے مزید دھکیلتے ہوئے کہا، ’’کل سوم دے گیا تھا۔‘‘

کُشل کی لمبی ناک چائے کے کپ میں ڈوب گئی، اس نے آخری گھونٹ بھرنے کے بعد خالی کپ ترپتا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’پہلے چائے کا ایک اور کپ، بعد میں کچھ اور۔‘‘

کل ہی کُشل، سوم کی باتوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ کل جب سوم گھر کا پتہ جاننے کیلئے دکان پر آیا، تو کُشل جان بوجھ کرسوم کے ساتھ خود نہیں آیا تھا، بلکہ اس نے دکان کے چپراسی کے ساتھ سوم کو گھر بھجوا دیا تھا۔

جب سوم آیا تھا تو کُشل ایک خط ٹائپ کر رہا تھا، جب وہ چلا گیا، وہ پھر ٹائپ رائٹر پر جھک گیا اور ٹائپ کرنے لگا۔ سوم ڈرپوک تھا کہ ترپتا ڈرپوک تھی، نہیں سیانی۔ سوم ڈرپوک تھا، سوم ڈرپوک ہے، سوم ڈرپوک رہے گا۔ ترپتا ڈرپوک تھی، ترپتا ڈرپوک۔۔۔ کُشل نے مدن کی طرف دیکھتے ہوئے کاغذ نکالا اور میز کے نیچے لے جا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تھا، تو سوم  جا چکا تھا۔ کھانے کے بعد جب ترپتا طشتری میں آم لے کر آئی، تو اس نے جان بوجھ کر نہیں پوچھا کہ آم کون لایا تھا۔ آم کے چھلکے چوستے ہوئے ترپتا نے کہا تھا، ’’پانچ بجے تک سوم آپ کا انتظار کرتا رہا۔‘‘

کُشل نے جواب نہیں دیا اور ترپتا کو چائے کیلئے کہہ کر نل کی طرف چلا گیا تھا۔ ’’سوم کہہ رہا تھا، ماں بہت یاد کر رہی تھیں۔‘‘ نل سے لوٹ کر کُشل نے دیکھا، ترپتا کی گالوں پر آم کا رس لگا تھا۔ اس نے ترپتا کی بات ان سنی کر دی اور تولیے سے اس کے گال پونچھ دیئے۔

چائے کا دوسرا کپ پیتے پیتے کُشل بھی پسینے سے بھیگنے لگا۔ اس نے بوشرٹ اتار پر پلنگ پر رکھ دی اور اپنی چھاتی کے گھنے بالوں میں رینگتا ہوا پسینہ پونچھنے لگا۔ سیاہ بالوں کے درمیان ایک سفید بال پر اس کی نظر گئی تو اس نے اسے انگلی پر لپیٹ کر جڑ سمیت اکھاڑ دیا اور پھر سے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

ترپتا نے ٹیبل گھسیٹ کر کُشل کے آگے کر دی اور اس پر شیو کا سامان سجا دیا۔ کُشل منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔

’’آپ اب شیو بنا لیجئے۔‘‘ ترپتا نے کہا اور کُشل کی اتاری ہوئی بوشرٹ کو چوہیا کی دم کی طرح پکڑ کر باتھ روم میں لے گئی۔

کُشل نے استرے میں بلیڈ فٹ کیا اور دیر تک منہ پر صابن کا جھاگ بناتا رہا، لیکن اس کا شیو بنانے کا جی نہیں ہو رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے شیو بنا لیا تو نہانا بھی پڑے گا اور نہانے کیلئے وہ بالکل تیار نہیں تھا۔ اس کی پنڈلیوں میں درد ہو رہا تھا اور بدن کا ہر جوڑ دکھ رہا تھا۔ یہ صبح سے ہو رہا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ صبح بھی بغیر نہائے نکل گیا تھا۔ اس شاندار تھکن اور عجیب درد سے نڈھال ہو کر آج صبح اٹھتے ہی ترپتا سے کہا تھا کہ کیا وجہ ہے وہ کل سے بے پناہ لاڈ کر رہی ہے؟ کُشل کو چہرے پر جھاگ بناتے دیکھ ترپتا نے پوچھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے؟

’’یہی کہ۔۔۔‘‘ کُشل نے استرے کو پانی میں گیلا کرتے ہوئے کہا، ’’اس پہلی کو ایک نیا پلنگ لے آؤں گا۔‘‘

’’ترپتا کو مشورہ بڑا فضول لگا، بولی، ’’میں تو بہت کم جگہ گھیرتی ہوں۔‘‘

’’کئی باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ تم ابھی بچی ہو۔‘‘ کُشل نے آئینے میں سے ترپتا کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’کئی بار تو تمہارے منہ سے دودھ کی بو بھی آتی ہے۔‘‘ ترپتا کچھ دیر اس کی طرف تکتی رہی، پھر باتھ روم میں چلی گئی۔ جب وہ غسل کر کے واپس آئی تو کُشل تب بھی چہرے پر جھاگ بنا رہا تھا۔ ترپتا کو دیکھ کر اس کے دماغ میں کسی چھایا وادی شاعر کے مصرعے تیرنے لگے، ان کو پکڑنے کی بجائے وہ ترپتا کو انتباہی لہجے میں کہنے لگا کہ وہ مستقبل میں اسے شیو بنانے اور غسل کرنے کیلئے کبھی نہ کہے۔ اس کی مرضی ہو گی تو وہ خود غسل کر لے گا۔

اتنے میں باہر کا دروازہ کھلا اور کسی کے آنے کی چاپ سنائی دی۔ ترپتا نے اچک کر باہر دیکھا اور بولی، ’’سُبّی ہے۔‘‘

سُبّی نیلی آنکھوں والی دبلی سی ترپتا کی ہم عمر لڑکی ہے۔ اس نے آنگن میں آ کر کُشل کو دیکھا تو زبان نکال کر بھاگ گئی۔

’’سُبّی بہت خراب لڑکی ہے۔‘‘ ترپتا نے کہا۔

’’لڑکیاں سبھی خراب ہوتی ہیں۔‘‘ کُشل نے کہا۔ وہ جانتا تھا، ترپتا کی نظروں میں سُبّی کیوں خراب ہے۔

کُشل شیو بناتا رہا۔ ترپتا کچھ پل رک کر بولی، ’’دیکھنے میں کتنی بھولی لگتی ہے، پر موئی کے پاس لڑکوں کے خط آتے ہیں۔‘‘

آئینے میں کُشل کا چہرہ مسکرانے لگا، اس نے ٹھوڑی پر استرا چلاتے ہوئے کہا، ’’دیکھنے میں تو تم بھی بہت بھولی لگتی ہو۔‘‘

ترپتا کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ اس نے بات کا رخ موڑ دیا، ’’جوان لڑکی کو لوگ ایسے ہی بدنام کر دیتے ہیں۔‘‘

’’میں بھلا اس کی بدنامی کیوں کروں گی۔‘‘ ترپتا نے کلائی میں پہنی چوڑیوں کو انگلیوں سے گھماتے ہوئے کہا، ’’میں نے خود دیکھے ہیں اس کے پاس درشن کے خط۔۔ ناس پیٹی ان کے جواب بھی لکھتی ہے۔‘‘

’’تم کیا خاک کہانیاں لکھتی ہو گی۔‘‘ کُشل کے منہ میں صابن چلا گیا تھا، اس نے تولیے سے ہونٹ صاف کئے اور بولا، ’’خط لکھنے میں کیا برائی ہے؟ کہانی لکھنے والی مصنفہ کو کچھ تو کشادہ دل ہونا چاہئے۔‘‘ کُشل نے اپنی ٹانگ سے ٹرنک کو تھوڑا سا سرکا دیا اور پھر وہ ایسے پاؤں ہلانے لگا، جیسے ٹرنک اتفاق سے چھو گیا ہو۔

’’آپ کو کوئی اور مکان دیکھنا چاہئے۔‘‘ ترپتا نے کہا، ’’چیزیں رکھنے کیلئے بھی جگہ نہیں ہے۔ ساری رات ٹرنک میری پیٹھ پر چبھتا رہتا ہے۔‘‘

’’سونے سے پہلے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے سے نکال دیا کرو۔‘‘ کُشل نے کہا۔

’’آپ شیو کیوں نہیں بناتے؟‘‘

’’شیو تو اب بن ہی جائے گی۔‘‘ کُشل استرے کو پانی کے گلاس میں گھماتا رہا۔ جب صابن اتر گیا تو اس نے کہا، ’’سُبّی تو ابھی بالکل معصوم ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کیوں سوچتی رہتی ہو۔‘‘

’’آپ کو بات کا پتہ نہیں ہوتا اور۔۔۔‘‘

’’اور کیا؟ خط لکھنے میں مجھے تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔‘‘ کُشل نے جان بوجھ کر ترپتا سے آنکھ نہیں ملائی۔ ترپتا کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھ کر اس نے کہا، ’’خط لکھنے کے علاوہ بھی کچھ کرتی ہو، میں سوچ نہیں سکتا۔ تم اس بات کو کیوں بھول جاتی ہو کہ اکثر لڑکیاں ڈرپوک ہوتی ہیں۔‘‘

’’آپ کو اسی دن پتہ چلے گا، جب اس کے فرار کی خبر ملے گی۔‘‘

’’اگرسُبّی ایسی لڑکی ہے، تو تم اس کے ساتھ تعلق کیوں رکھے ہو؟‘‘

’’میں تو اسے سمجھاتی رہتی ہوں۔‘‘

’’کیا سمجھاتی رہتی ہو؟‘‘ کُشل کے گال پر ایک کٹ آ گیا۔

’’یہی کہ درشن خط لکھتے ہیں تو وہ جواب کیوں دیتی ہے؟‘‘

کُشل نے تولیے سے گلا صاف کیا۔ دوسرے ہی لمحے خون کا ایک اور قطرہ چمکنے لگا۔

ترپتا بھاگ کر ’’ڈیٹول‘‘ لے آئی۔ روئی سے اس کے گال پر لگاتے ہوئے بولی، ’’میں نے اسے یہ بھی سمجھایا ہے کہ وہ درشن سے کہے کہ جب تک وہ اس کے پچھلے خط نہیں لوٹائے گا، وہ اس سے بات نہیں کرے گی۔‘‘

کُشل نے قہقہہ لگایا اور بولا، ’’تم ضرور اسے پھنساؤ گی۔‘‘

’’پھنساؤں گی کیسے؟‘‘

’’اس سے نہ تو خطوں کو جلاتے ہی بنے گا اور اگر سنبھال کر رکھے گی تو کسی وقت بھی راز کھل سکتا ہے۔‘‘ کُشل نے کہا۔

’’بھاڑ میں جائے سُبّی اور اس کے خط۔ اگر آپ سینما نہیں جائیں گے، تو میں آپ کے لئے کچھ خرید کر لاؤں گی۔‘‘

’’اتنا پیار نہ کیا کرو، تپّو۔‘‘ کُشل نے ترپتا کی کلائی پکڑی لی اور اسی روئی کو ترپتا کے گال پر گھستے ہوئے بولا، ’’پہلے تو تم اتنی۔۔۔‘‘

’’بس بس۔۔۔‘‘ ترپتا نے بات درمیان میں ہی کاٹ دی، ’’بتائیے آپ کیلئے کیا لاؤں؟‘‘

’’میرے لئے ایک پلنگ لاؤ۔‘‘ کُشل کی پنڈلیوں میں پھر زوروں کا درد ہونے لگا تھا۔

ترپتا جیسے محبت کی زیادتی میں مچل اٹھی، گنگنانے لگی، ’’نہیں، پلنگ نہیں۔ ایک نئی بوشرٹ، ایک آپ کی پسندیدہ کتاب، نیا ٹوتھ برش اور۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’اور ٹافیاں لالی پاپ!‘‘

’’تم صرف ٹافیاں لالی پاپ لے آؤ۔‘‘

’’نہیں، میں سب چیزیں لاؤں گی۔‘‘

’’تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟‘‘

’’پانچ روپے۔‘‘ ترپتا نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔

’’پانچ روپیوں سے تو یہ سب نہیں آئے گا، تمہارے پاس ضرور اور پیسے ہوں گے۔‘‘

’’قسم سے، اتنے ہی ہیں۔‘‘ ترپتا نے کہا، ’’آپ سوم سے پوچھ لیں، وہ پانچ روپے ہی دے کر گیا تھا۔‘‘

کُشل شیو بنا چکا تھا، لیکن فوری طور پر نہانا نہیں چاہتا تھا، بولا، ’’بھلا تم نے سوم سے پیسے کیوں لئے؟‘‘

ترپتا کا چہرہ چھلے آلو کی طرح ہو گیا، بولی، ’’آپ نے منع کیا ہوتا تو کبھی نہ لیتی۔‘‘

’’پیسے لینے میں تو کوئی حرج نہیں تھا۔۔۔‘‘ کُشل نے کہا، ’’کیوں ناحق اس کا خرچ کروایا جائے۔ اس دن دکان پر آیا تو بہت سے پھل بھی لیتا آیا تھا۔‘‘ جھوٹ بول کر اسے خوشی ہوئی۔

’’آپ نے بتایا کیوں نہیں؟‘‘

’’بھلا اس میں بتانے کی کیا بات تھی۔ اور پھر تم نے بھی تو نہیں بتایا تھا کہ وہ پیسے بھی دے گیا ہے۔‘‘

’’بتا تو دیا ہے۔‘‘

’’خیر۔‘‘ کُشل نے بات ختم ہوتے دیکھ کر چٹکی بھری، ’’سوم تمہارا کیا لگتا ہے؟‘‘

’’پھوپھی کا لڑکا ہے۔ آپ کو کئی بار تو بتایا ہے۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا۔

’’میں ہر بار بھول جاتا ہوں۔‘‘ کُشل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اپنے بیاہ میں سب سے الگ تھلگ کھڑا جس طریقے سے رو رہا تھا، اس سے تو میں نے اندازہ لگایا تھا کہ ضرور رقیب ہو گا۔‘‘

’’رقیب کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘‘ ترپتا نے فوراً پوچھا۔

’’عربی میں پھوپھی کے لڑکے کو رقیب کہتے ہیں۔‘‘ کُشل نے کہا اور کندھے پر تولیہ رکھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔

کُشل نے باتھ روم کا دروازہ بند کیا، تو اسے پلنگ گھسیٹنے کی آواز آئی۔ اس نے محسوس کیا کہ غسل سے پہلے سگریٹ مزہ دے سکتی ہے۔ وہ خود سگریٹ اٹھا لاتا، مگر جب اسے چور ہاتھوں سے تالا لگانے کی آواز آئی تو اس نے خود جانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے ترپتا کو آواز دی کہ وہ ایک سگریٹ دے جائے۔ ترپتا نے دوسرے ہی لمحے جھروکے سے سگریٹ اور ماچس پکڑا دی۔ سگریٹ پکڑتے ہوئے اس کے دل میں ترپتا کے لئے پیار امنڈنے لگا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی تفریح کیلئے ترپتا کو پریشان کر رہا ہے۔

یہ تفریح کا ذریعہ بھی اچانک اس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ اُس دن ایک کتاب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ترپتا کے ٹرنک کی بھی چھان بین نہ کرتا، تو شاید اس سے محروم ہی رہتا۔ کتاب نہ ملنے پر اس نے محسوس کیا تھا کہ ٹرنک میں وقت کاٹنے کیلئے دلچسپی کا بہت سا مواد بھرا پڑا ہے۔ ٹرنک میں کپڑوں کے نیچے ایک عام سا پرس پڑا تھا، پرس میں میٹرکولیشن کا سرٹیفکٹ، تڑی مڑی سی دو ایک تصویریں، جن میں ترپتا کی ایک تصویر تھی، مالا سے بکھرے ہوئے کچھ موتی، ایک میلا پکچر پوسٹ کارڈ، ایک سینٹ کی تقریباً خالی شیشی بہت حفاظت سے رکھی ہوئی تھی۔ میٹرکولیشن کا سرٹیفکٹ دیکھ کر کُشل سرد ہو گیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے انجانے میں اس سے چوزہ ذبح ہو گیا ہو۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق ترپتا کی عمر اس سے نو سال کم بیٹھتی تھی۔ اس نے سرٹیفکیٹ سے ترپتا کے نمبرز بھی نہ پڑھے تھے کہ واپس پرس میں رکھ دیا۔ ٹرنک میں سب سے نیچے اخبار کا ایک بڑا کاغذ بچھا تھا، مگر صاف پتہ چلتا تھا کہ کاغذ کے نیچے کچھ ہے، کیونکہ کاغذ ایک جگہ سے ایسے اٹھا ہوا تھا، جیسے اس کے نیچے ایک بڑا مینڈک پڑا ہو۔ کُشل نے بڑی احتیاط سے وہ مینڈک نکالا۔ کاغذوں کا ایک خستہ پلندا تھا، جس میں دونوں کے خطوط تھے۔ سوم کے بھی اور ترپتا کے بھی، جو شاید ترپتا نے چالاکی سے واپس لے لیے تھے یا سوم نے شرافت سے لوٹا دیئے تھے۔ خط پڑھتے پڑھتے کُشل، کتنی دیر تک ہنستا رہا تھا۔ ترپتا نے وہی باتیں لکھی تھیں، جو کبھی کبھی جذباتی ہو کر اس سے بھی کیا کرتی ہے۔ سوم کے خط پڑھ کر تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا تھا۔ سوم کی شکل دیکھ کر تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا جذباتی ہو سکتا ہے اور ہجوں کی اتنی غلطیاں کر سکتا ہے۔ اس بار جب سوم آیا تھا تو اس نے تھوڑی تھوڑی مونچھیں بھی بڑھائی ہوئی تھیں۔ کُشل کو یہ بات بڑی عجیب لگی کہ مونچھیں بڑھا کر بھی آدمی جذباتی ہو سکتا ہے۔ مونچھوں والا جذباتی!

شام کو جب ترپتا بازار سے واپس آئی تو اس نے کہا، ’’ترپتا، تم تیس برس کی کب ہو گی؟‘‘

’’آپ کیوں مجھے بوڑھی دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘

’’نہیں بوڑھی نہیں، لیکن بچی بھی نہیں۔ کاش! تم تیس سال کی ہوتیں۔‘‘

کُشل ہنس پڑا تھا۔ کُشل غسل خانے سے لوٹا تو کمرے کی شکل بالکل بدلی ہوئی تھی۔ پلنگ، جو اس سے پہلے کمرے کے ٹھیک درمیان میں موجود تھا، اب دوسرے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ ٹکا دیا گیا تھا۔ اور اس پر انگوری رنگ کی ایک نئی چادر بچھی تھی۔ پلنگ کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ ترپتا کا ٹرنک رکھا تھا، جس پر اسی کی طرح کا کڑھا ہوا ایک خوبصورت میز پوش بچھا تھا اور جس کے اوپر بیٹھی ترپتا کروشیئے سے کچھ بُنائی کر رہی تھی۔ اس نے آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیریں کھینچ لی تھیں۔ ہونٹ لپ اسٹک کے ہلکے سے لمس سے کشمشی ہو گئے تھے۔ کُشل نے یہ تبدیلی دیکھی تو مسکرا دیا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر ترپتا نے پوچھا، ’’آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟‘‘

ترپتا کروشیئے سے پیٹھ کھجلانے لگی، جس سے اس کا بلاؤز کندھے کے نیچے سے غبارے سا پھول گیا تھا۔ کُشل کے من میں لمحے بھر کیلئے یہ خیال آیا کہ وہ باہر کا دروازہ بند کر آئے، لیکن غسل کرنے سے اس کی پنڈلیوں کو تھوڑا سا سکون ملا تھا، جسے وہ کچھ دیر مزید برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے سر پر کنگھی پھیرتے ہوئے کہا، ’’تم کہتی ہو تو نہیں مسکراتا۔‘‘

’’آپ کو کچھ سوچ رہے ہیں۔‘‘ ترپتا کروشیئے پر نظریں گڑا کر بولی، ’’کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘

کُشل نے کچھ سوچنے کی کوشش کی اور فرضی گرل فرینڈ کا پرانا قصہ لے بیٹھا، بولا، ’’در اصل مجھے شیلا یاد آ رہی تھی۔ جب میں ہنستا تھا، تو وہ بھی تمہاری طرح ٹوک دیتی تھی۔ جب میں سگریٹ پیتا تھا، وہ مجھ سے دور جا بیٹھتی تھی۔ جب کبھی اس کے گھر جاتا تو نوکر کو بھیج کر سگریٹ منگوا دیتی۔ عجیب لڑکی تھی شیلا۔۔۔‘‘

کُشل نے سگریٹ سلگائی اور خالی پیکٹ ڈرامائی انداز میں دور پھینک دیا۔ ترپتا نے کروشیئے سے نظریں نہیں اٹھائیں۔ کُشل نے ترپتا کا نشانہ لے کر دھوئیں کا ایک گہرا بادل اس کی طرف پھینکا۔ اسے امید تھی کہ تازہ لپ اسٹک پر تھوڑا سا دھواں ضرور جم جائے گا۔ اپنی بات کا اثر نہ ہوتے دیکھ کر اس نے بات آگے بڑھائی کہ کیسے وہ شیلا کے ساتھ پکنک پر جایا کرتا تھا اور۔۔۔

’’بس۔۔۔۔ بس میں اور نہیں سنوں گی۔‘‘ ترپتا نے کروشیئے سے آنکھیں اٹھا کر کُشل کی طرف غیر یقینی سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ مجھے بیوقوف بنا رہے ہیں۔‘‘

کُشل نے ایک لمبا کش لیا اور بولا، ’’اچھا، اب تم مجھے بیوقوف بناؤ۔‘‘ اس بار اس نے ناک سے دھواں چھوڑا۔ ترپتا کو خاموش دیکھ کر اس نے کہا، ’’بناؤ بھی۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یہی بیوقوف۔‘‘ اس نے ترپتا کی طرف سرکتے ہوئے کہا، ’’تم شاید سمجھتی ہو کہ میں پہلے ہی بیوقوف ہوں۔‘‘

’’بیوقوف تو آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘ ترپتا کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور تلخی پی جانے سے اس نے روہانسی سی ہو کر کہا، ’’رقیب کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘

’’پھوپھی کا لڑکا۔‘‘ کُشل نے سگریٹ کے ٹکڑے کو پاؤں سے مسل دیا، ’’عظیم مصنفہ ہو کر بھی اس کا مطلب نہیں جانتیں؟‘‘ کُشل کو معلوم تھا کہ اب وہ کہانیوں کی مصنفہ کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور ہے۔

’’آپ کو میرا کچھ پسند بھی ہے؟‘‘ ترپتا کی آنکھوں میں پانی چمکنے لگا تھا۔ وہ چاہتا تو آسانی سے ترپتا کو رلا سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ادھر ادھر سگریٹ کا کوئی بڑا ٹکڑا ڈھونڈتے ہوئے اس نے نہایت سادگی سے کہا، ’’یقیناً مجھے تمہاری تخلیقات پسند آ سکتی ہیں، لیکن تم سناؤ، تب ہی تو۔‘‘

ترپتا نے کُشل کی طرف نہیں دیکھا، اس کی بات بھی اَن سنی کر دی اور گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو کُشل کے جی میں آیا کہ ترپتا کو چپ کروایا جائے اور اسی بہانے پیار بھی کیا جائے، لیکن اس نے محسوس کیا کہ بغیر سگریٹ کے کش کھینچے، پیار نہیں کیا جا سکتا، پر جوش تو بالکل نہیں ہوا جا سکتا۔ کُشل جانتا ہے کہ ترپتا جذباتیت سے مبراء پیار کو قبول نہیں کرے گی۔ اس نے گھٹنوں پر جھکی ترپتا کی طرف دیکھا اور پاؤں میں چپل پہننے لگا۔ ترپتا کے جھک کر بیٹھنے سے اس کی پیٹھ بھری پوری اور صحت مند لگ رہی تھی۔ سفید وائل کے بلاؤز میں سے اس کے برا کی کسی ہوئی ڈوریاں نظر آ رہی تھیں۔

ترپتا نے کُشل کو چپل گھسیٹتے ہوئے باہر جاتے دیکھا تو سسکیاں بھرنے لگی۔ کُشل کے ذہن میں ترپتا کیلئے ہمدردی امڈ رہی تھی۔ اسے دکان سے اس طرح اٹھ آنے میں کوئی تُک نظر نہیں آ رہی تھی۔ اسے معلوم ہے کہ اب وہ ترپتا کو جتنا بھی منانے کی کوشش کرے گا، وہ اتنا ہی روٹھتی چلی جائے گی۔ منانے کے اس لمبے سلسلے سے تو دکان میں دن بھر ٹائپ کرنا کہیں زیادہ آسان ہے، کُشل نے سوچا اور پنواڑی سے سگریٹ کا پیکٹ لیا۔ وہ لوٹا تو بھرے ٹب میں پانی گرنے کی وہی مانوس آواز سنائی دی۔ اسے لگا، جیسے اچانک کسی نے دیر سے اس کے کانوں میں رکھی روئی نکال کر پھینک دی ہو یا وہ برسوں پرانے ماحول میں لوٹ آیا ہو۔ اس نے دیکھا، ترپتا پلنگ پر اوندھی لیٹی تھی اور اس نے اپنا منہ تکیے میں چھپا رکھا تھا۔ چولہے پر پانی ابل رہا تھا اور جلے ہوئے کاغذ چولہے پر رکھے پانی میں تیر رہے تھے۔ کُشل نے بڑی احتیاط سے ایک سیاہ کاغذ اٹھایا اور ترپتا کی پشت پر پاپڑ کی طرح چورا کرتے ہوئے بولا، ’’کہانی جلا ڈالی کیا؟ اٹھو۔۔۔ بیاہتا عورتیں بچوں کی طرح نہیں رویا کرتیں۔‘‘

ترپتا جو ہولے ہولے سسک رہی تھی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ کُشل پلنگ کے قریب پڑے ٹرنک پر بیٹھ گیا اور کھلے تالے سے کھیلنے لگا، جو میز پوش پر پیپرویٹ سا پڑا تھا۔ سگریٹ سلگا کر بھی وہ ترپتا کو خاموش کرانے کی ہمت نہ بٹور سکا، اسے لگ رہا تھا، ترپتا کا رونا بالکل جائز ہے۔

***

 

 

 

وہ اور جگہ

 

ہردیش

 

ہردیش، اصل نام: ہردیہ نارائن میہروترا۔ پیدائش: ۲ جولائی، ۱۹۳۰ء، شاہجہاں پور (اتر پردیش)۔ میدان: ناول، کہانی۔ کچھ اہم کام: ناول: گانٹھ، ہتیا، ایک کہانی انتیہین، سفید گھوڑا کالا سوار، سانڈ، پُنر جنم، دنڈنایک، پگلی گھٹی، حویلی۔ کہانیوں کے مجموعے: چھوٹے شہر کے لوگ، اندھیری گلی کا راستہ، اتہاس، اُتّر ادھیکاری، امر کتھا، پرتندھی کہانیاں، ناگرک، رام لیلا اور دیگر کہانیاں، سمان، جیونراگ، سن ۱۹۲۰ء، اسی جنگل سمیہ میں، میری پریہ کہانیاں، دس پرتندھی کہانیاں، شرووات، محبت سنبندھوں کی کہانیاں، شکار۔ سوانح عمری: جوکھم۔ اعزاز، ایوارڈ: پہل سمان، ساہتیہ بھوشن سمان۔ انتقال: ۳۱ اکتوبر، ۲۰۱۶ء، شاہجہاں پور (اتر پردیش)۔

***

 

مراری قصداً دیر سے لوٹا۔ وہ مسئلہ جو کسی قدر سخت اور بھدا تھا، یوں جیسے تیسے دھکیل دیا گیا تھا، پر وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بعد جو کیا جانا تھا، اسے آخرکار اس کی موجودگی میں ہی دیا جائے۔ دوسروں کیلئے صورتِ حال اس کی وجہ سے تکلیف دہ ہو گئی ہے، یہ احساس اسے کچھ اس طرح اندر سے کاٹ رہا ہے، جیسے وہ دعوت کی سجی سجائی میز پر بیٹھا ہے اور اس کے سامنے بہت سے مزیدار اور قیمتی ترین پکوان سجائے کیے گئے ہیں اور اچانک اسے پتہ لگ گیا ہے کہ میزبان نے وہ سب ادھار لے کر بڑی مجبوری سے اس کیلئے بنائے ہیں اور پھر وہ دعوت کی میز سے نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ قدردانی اور رغبت کے ساتھ کھا ہی پاتا ہے۔ درمیان میں جو رشتہ ہے اس کی وجہ سے انہیں تکلیف کے لئے شاید دکھ نہیں ہو گا، وہ اسے تکلف یا کچھ ایسا ہی مانیں گے، پر اس کے اپنے اندر جو کسیلا گرم بگولا گھوم رہا ہے وہ۔۔۔؟ چھوٹی اور عام باتیں بھی کیوں کسی کو اتنا زیادہ پریشان کرتی ہیں؟

نومبر کے آخری دن تھے اور سردی ہونی ہی چاہئے۔ ان دنوں رات ہوتے ہی اندھیرا جیسے خون کے سیاہی مائل چکتوں جیسا جم جاتا تھا۔ دفتر کا بندہ ستیش مل گیا تھا اور وہ اس سے ڈھیر ساری بیکار کی باتیں کرتا رہا تھا۔ پھر وہ دیر تک بلا وجہ سڑک سے لگے ایک ٹاکیز کے کاریڈور میں گھس کر باہر جالی دار کھڑکیوں میں چپکی تصویریں دیکھتا رہا۔ اس کے بعد ایک سگریٹ سلگا کر اس طرف نکل گیا جدھر پانچ منزلہ نئی عمارت بن رہی تھی۔ یوں تو وہ اسے پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ جب وہ لوٹ کر اپنی گلی میں آیا، تب تک وکیل صاحب کی بیٹھک کی بتی بجھ چکی تھی۔ بدری دودھ والا اپنی دکان پر کونڈے میں دہی جمانے کے لئے دودھ انڈیل رہا تھا۔ کھنڈر کی طرف منہ کئے ایک کتا وقفے وقفے سے غرا رہا تھا۔ اپنے گھر کے موری میں گھسنے سے پہلے اس نے پاس کے دروازے والے مکان کی طرف دیکھا۔ مالک مکان کا لڑکا آ کر اب اس میں خود رہنے لگا تھا۔ دو ماہ پہلے وہاں رُکمو بھابھی رہتی تھیں۔ ایک نازک سی سرسراہٹ کی لہر اس کی رگوں میں دوڑ گئی۔ سدری میں ایک مڑی ہوئی سلاخ کے سہارے لالٹین لٹکی ہوئی تھی اور اس کی چھنتی ہوئی دھندلی روشنی پھیلی ہوئے تھی۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی دو جوڑی آنکھیں اس کے چہرے پر جڑ گئیں۔

’’کہیں کچھ کام تھا؟‘‘ اماں نے خود کو پھیلانا چاہا۔ یا شاید خود کو سمیٹا ہی ہو۔ کھانسی کے دورے سے بابو، کھاٹ پر بیٹھے بیٹھے ہلنے لگے، ایسے جیسے کسی کاغذ کے پتلے کو ہوا چھیڑ گئی ہو۔ اس نے بابو کی طرف دیکھا۔ گاڑھے کی گنجی کے اوپر وہ تمباکو کے رنگ کا سویٹر پہنے تھے، جگہ جگہ جس میں تار نکلے تھے۔ کسی ٹوٹتی لہر کی طرح ان کا سینہ اٹھ، بیٹھ رہا تھا۔ اماں کی آنکھیں اس کے چہرے پر اب بھی جمی ہیں، اس نے محسوس کیا۔

’’یوں ہی دفتر کا ستیش مل گیا تھا۔‘‘ وہ بول گیا۔ اماں کے استفسار میں کیا فکر کے ساتھ ساتھ ایک ہلکا سا خوف بھرا تاثر نہیں تھا؟ بابو اور اماں کو شبہ ہے کہ وہ مطمئن ہے۔ اس کے آنے سے پہلے شاید وہ اسی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے اور اس کے واپس آنے میں تاخیر کی وجہ سے فکر مند تھے۔ اسے ستیش کی کہی گئی بات یاد آ گئی۔ بات چیت ختم کرتے ہوئے اس نے پوچھا تھا، ’’رخصت کرا لائے؟ دوپہر کی گاڑی سے آئے ہوں گے؟‘‘ پھر ہونٹوں کو پھیلاتا ہوا مسکرا دیا، ’’یار، جاؤ گھر میں، بی بی انتظار کر رہی ہو گی!‘‘

دوسری طرف چھوٹے سے آنگن کے سرے پر جو کوٹھا تھا، اس کی دہلیز پر نکل کر کنتو کھڑی ہو گئی تھی۔ وہ پھر آنگن پار کر کے مسکراتی ہوئی وہاں آ گئی جہاں اماں تھی۔

’’بھابھی کے ساتھ خوب باتیں چھن رہی ہیں، کیوں نہ؟ جب سے آئی ہے، منہ سے منہ جوڑے ہیں۔‘‘ اماں بھی ہنس دی اور اس کی طرف دیکھنے لگی۔ پر وہ کنتو کی طرف دیکھتا رہا، جو اب بھی مسکرا رہی تھی۔ کنتو اس سے تین سال ہی چھوٹی ہے۔ اس کی شادی اس سے پہلے ہونی تھی، لیکن لگی بات ٹوٹ گئی۔ کئی بار ٹوٹ گئی۔ بابو اور اماں پھر کوشش میں ہیں کہ کہیں بات لگے۔ سر سے اوپر ہوتا پانی نیچے اترے۔ اسے لگا کہ سامنے کوٹھے میں ساڑی کی ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی ہے۔ وہاں آج شاید لیمپ جل رہا تھا۔ ملگجی سی روشنی وہاں بھی پھیلی تھی۔ کچھ دیر ایسا لگا کہ کسی خاموش فلم کے وہ اداکار ہیں۔

وہ اب کوٹھے کے اندر تھا۔ شادی کے بعد جب بیوی آئی تھی تو سات دن رہی تھی اور سات دن میں شاید ساری جھجک، ہچکچاہٹ اور اجنبی پن دور ہو چکا تھا۔ بیوی پلنگ پر دونوں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی۔ پیروں میں چاندی کی باریک پازیبیں تھیں۔ تلوے اور ایڑیاں مہاور سے گلابی تھے۔ کھاٹ پر سفید چادر بچھی تھی۔ بیوی کی لچکیلی مسکراہٹ بھی شاید اتنی ہی دھول بھری تھی۔ کوٹھے کی اس دوران صفائی ہو گئی تھی۔ جالا وغیرہ پونچھ دیا گیا تھا۔ پر صفائی اور پونچھے جانے کے نشان چھوٹ گئے تھے۔

سدری میں بابو کو کھانسی پھر اٹھی تھی اور وہ پھر کھانسنے لگے تھے۔ بابو کو کھانسی کی شکایت ہے۔ کھانسی سردیوں میں مزید غصب ناک ہو جاتی ہے۔ بابو اب سدری میں سویا کریں گے اور وہ کوٹھے میں۔ ایک لمبے عرصے سے، شاید اپنے ہوش سے ہی، وہ بابو کو اسی کوٹھے میں سوتے دیکھتا رہا تھا۔ گرمیوں میں وہ کوٹھے کے آگے کے کواڑ اور پیچھے گلی میں کھلنے والی کھڑکی کھول کر سوتے تھے اور برسات اور سردیوں میں کواڑ بھیڑ کر۔ وہ اب تک دوسروں کے ساتھ سدری میں سوتا رہا تھا۔ شادی کے بعد وہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا تھا کہ بہو کہاں سوئے گی؟ بہو بیٹی کے لیٹنے بیٹھنے کیلئے آڑ، اوٹ چاہئے ہی۔ گھر میں صرف وہی ایک پٹا کوٹھا تھا۔ دو سدریاں تھیں، جن میں ایک میں چیکا تھا، پوجا کیلئے اٹھا ہوا ایک گھیرا اور اس کے پیچھے ایندھن، بھرساون وغیرہ رکھنے کی دبی دبی سی پٹی نما جگہ۔ دوسری سدری میں سونا لیٹنا ہوتا تھا۔ بائیں طرف باہر کی طرف ٹٹّی تھی اور اس سے پیوست، اندر کی جانب ٹین کی چادروں سے غسل خانے کی ضرورت کو پورا کرنے والا اٹھا ہوا ایک گھیراؤ۔ بہت پہلے چھت پر ایک برساتی تھی جو برساتی پانی میں گر گئی اور اب اوپر بس کھلی ننگی چھت تھی، غیر معتبر زندگی جیسی۔

شادی میں اس کی سہاگ سیج پڑوس کی رُکمو بھابھی کے گھر میں بنائی گئی تھی۔ رکمو بھابھی کے شوہر تالے اور نیم پلیٹ بنانے والی ایک کمپنی میں ملازم تھے اور ان دنوں مال لے کر دورے پر گئے تھے۔ رکمو بھابھی کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ محلے کی عورتوں اور نوجوانوں کی ایسا ماننا تھا کہ ان کے ہاں اولاد ہو گی بھی نہیں۔ رکمو بھابھی کے شوہر کی عمر کافی تھی۔ رشتے داروں سے ان دنوں اس کا چھوٹا سا گھر کسی ریل کے ڈبے جیسا بھرا ہوا تھا۔ رکمو بھابھی نے خود ہی سہاگ سیج وہاں بنانے کی تجویز رکھی تھی۔ شادی کے بعد کی مخمور راتیں دوسرے کے گھر میں گزارتے ہوئے اسے کچھ بھاری بھاری سا لگا تھا۔ اس کی بیوی کیا محسوس کرے گی؟ سلونے سندر عضو پر جیسے ایک گندا زخم دِکھ گیا ہو۔ ایک رات بیوی نے پوچھا بھی۔ ’’میں دوبارہ جب لوٹ کر آؤں گی تو کیا انتظام ہو گا جی؟‘‘

اس نے اماں کے منہ سے ان دنوں جو بات سنی تھی اس کو دہرا دیا۔‘‘ ہم لوگ دوسرے بڑے مکان کی تلاش میں ہیں۔ اس وقت تک کیا کوئی مل نہیں جائے گا؟‘‘

بیوی اس کے بعد رکمو بھابھی کے شوہر کے بارے میں پوچھنے لگی تھی، جس کے بارے میں اتنے دنوں میں اس نے اپنی ہمجولیوں کے منہ سے کچھ جان لیا تھا کہ کیا وہ بہت زیادہ بدصورت بھی ہے اور غصے والا بھی، کہ پہلے کیا اس کی عادتیں بہت خراب تھیں۔۔۔ اسی رات کو اس نے خواب دیکھا کہ رکمو بھابھی کا شوہر گجادھر پرساد دورے سے واپس آیا ہے اور رکمو بھابھی پر بگڑ رہا ہے کہ اس نے کسی دوسرے کو وہاں سونے کیوں دیا اور اس کی سیج کے قریب آ کر وہ غصے سے بھرا اسے جھنجھوڑ رہا ہے۔ اس جب آنکھ کھلی تو اس نے پایا کہ اس کی گردن پسیجی ہوئی ہے۔ بیوی اس سے لپٹ کر سو رہی تھی اور اس کی لمبی لمبی جھروکے دار پلکوں پر بے فکری کے ساتھ ساتھ ترغیب بھی تھی۔ اسے پھر دوبارہ بہت دیر تک نیند نہ آئی اور برسات کے دنوں جیسی ایک عجیب سی گھٹن اور بے چینی محسوس ہوتی رہی۔

ایسی بات نہیں کہ اس کے بعد اس نے کسی دوسرے مکان کی تلاش نہ کی ہو۔ اپنی طرف سے اس نے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ چند ہی ایسے کام تھے جن میں اتنی زیادہ فکر اور جوش و خروش دکھایا ہو۔ لیکن ہندوستان کے دارالحکومت دہلی جیسے شہر میں خواہش کے مطابق مکان ملنا، شاید ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک تو پگڑی کا سوال تھا اور دوسرا کرائے کی شرح کا۔ جس مکان میں رہا جا رہا تھا، وہ صرف بارہ روپے پر تھا۔ دوسرا جو اس سے کچھ ہی بڑا ہوتا، اس کے پچاس ساٹھ روپے مانگے جاتے۔ کیا چاہتے ہوئے بھی وہ دے سکتا؟ گھر میں صبح شام مکان کی بات ہوتی۔ اس کا چھوٹا بھائی رادھے یا بابو جی دھیمی بجھی آواز میں بتاتے کہ ان کو کسی لڑکے یا دفتر کے ساتھی سے پتا لگا ہے کہ فلاں بستی میں فلاں مکان خالی ہوا ہے۔ پر وہاں جانے پر وہی حشر ہوتا۔ یا تو کرایہ بہت زیادہ ہوتا یا موٹی پگڑی کا سوال۔ اماں بدبداتیں کہ وہ کسی دوسرے کی جگہ پر ہزار بارہ سو روپیہ قرضہ لے کر کس طرح نئی تعمیر کروا سکتی ہیں۔ مالک مکان کرایہ تو لے جاتا ہے، پر یہ نہیں ہوتا کہ اوپر ایک کمرے اور بنوا دے، وہ آٹھ دس روپے کرایہ اور بڑھانے کو تیار ہیں۔ پر مالک مکان کیا اس کیلئے راضی ہے؟ یہ مکان چھوڑنے میں ہی اسے فائدہ تھا۔ اس صورتِ حال کا حل صرف ایک ہی طرح ممکن تھا اور وہ یہ کہ بابو وہ کوٹھا خالی کر دیں۔ پر ہچکچاہٹ یہ تھی کہ بابو کو کافی تکلیف اور پریشانی تھی، خاص طور پرسردیوں کے دنوں میں سدری میں سیدھے ہوا جاتی تھی۔ ان کو اکیلے میں سونے کی بھی عادت تھی۔

پیچھے گلی کے اسکول کے احاطے کا ہر پھول کھل چکا تھا اور رات میں ہوا میں ایک میٹھی خوشبو بسی ہوتی تھی، کنوئیں کے ٹھنڈے پانی میں جیسے ہلکی سی مٹھاس گھلی ہو۔ بہو کو رخصت کرانے کی بات اٹھتی تھی۔

’’اس کے لئے کسی جگہ کا بھی انتظام بھی ہوا ہے کہ بلانے کو ہی سوچا جا رہا ہے؟‘‘ جیسے ایک کمرہ ہو اور اس کے فرش پر مڑے تڑے کچھ کاغذ بکھرے ہوں اور ہوا کا ایک جھونکا آیا ہو اور وہ سب کاغذ پھڑپھڑا اٹھے ہوں۔

صبح کا وقت تھا اور گھر میں سب ہی موجود تھے۔ بابو پوجا کیلئے اٹھائے ہوئے گھیرے میں آسنی بچھا کر جاپ کر رہے تھے اور اس کی آواز شاید وہاں بھی پہنچ گئی تھی۔ چند پلوں کیلئے لگا کہ جاپ رک گیا ہے اور پھر جب شروع ہوا تب آواز ہموار نہ تھی۔ کہہ کر جب اس نے تجربہ کیا تو برسات کی سیلن جیسی چپچپاہٹ اس کے دل پر چھانے لگی۔ اتنا گستاخ وہ کیسے ہو گیا۔ کون سی ایسی ذہنی رو تھی، جس میں وہ خود کو نہ سنبھال سکا۔ رادھے اس کی جانب، کتاب کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا۔ برتن مانجھتی کنتو کی پلکیں نل کے نیچے سے بار بار اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ انگیٹھی کے پاس بیٹھی ہوئی اماں کے چہرے کی مرجھائی ہوئی کھال کے نیچے کوئی سایہ تھرتھرا رہا تھا۔

’’جگہ کی تنگی کے پیچھے کیا بہو آئے گی نہیں؟ کسی نہ کسی طرح بیٹے، وقت کاٹا ہی جاتا ہے۔‘‘ اماں کے لہجے میں بھیگی کپکپاہٹ تھی۔

اس نے محسوس کیا کہ اماں کی آنکھوں میں نمی اتر آئی ہے۔ ایک ایسا پوشیدہ دباؤ تھا جو گراں ہوتا جا رہا تھا۔ نہیں، جیسے لمحہ بہ لمحہ اسے کوئی ننگا کر رہا تھا۔ وہ وہاں سے جلد اٹھ آیا تھا۔ پھر جب جب اس سلسلے میں کوئی بات اٹھی وہ خود کو بچاتا رہا، چھپاتا رہا۔ اس کی کوئی بھی خواہش، ہچکچاہٹ، رضامندی، غیر رضامندی نہیں۔ مسئلے کا ایک ہی حل تھا جسے وہی نہیں سب جانتے تھے اور آخر میں اسی پر آیا گیا تھا۔ بابو سدری میں آ جائیں گے۔ سردی جب زیادہ پڑے گی، ٹاٹ کے بھاری پردے ڈلوا دیئے جائیں گے یا لکڑی کے تختے ٹھکوا دیے جائیں گے۔ اس نے اپنے اندر ایک بجھا پن سا محسوس کیا۔ رگوں میں جیسی گرمی ہونی چاہئے، ویسی نہ تھی۔ جوش کو جیسے کسی نے مسل دیا ہو۔ اس نے اس صورت حال سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی، پر کچھ ہی دیر بعد وہ خود کو پھر اسی دباؤ کے نیچے دبتا محسوس کرنے لگتا، بابو کو کھانسی کیا آج زیادہ آ رہی ہے؟ بابو کیلئے سدری نئی جگہ ہے۔ ضرور وہ کچھ عجیب سا محسوس کر رہے ہوں گے۔

اس نے پیچھے گلی میں کھلنے والی کھڑکی کھول دی۔ رخصت ہوتی ہوئی رات میں ہوا مزید تند ہو گئی تھی اور اس میں اسکول کے احاطے کے پھولوں کی مہک گھلی تھی۔ چاند آسمان میں دودھ میں بھیگی روٹی جیسا نظر آتا تھا۔ سردیوں کی چاندنی زیادہ صاف اور چمکدار ہوتی ہے۔ چاندنی کا ایک بڑا ٹکڑا اندر بھی رینگ آیا۔ کوٹھے کا فرش کافی کھردرا تھا۔ چونے کا گٹا پڑا تھا اور جگہ جگہ چونا اتر گیا تھا اور گٹا ننگا رہ گیا تھا۔ بابو نے پچھلی برسات میں کہا تھا کہ ایک بوری سیمنٹ کا انتظام ہو جائے تو چھت کی دراڑیں بھی بھروا لیں۔ لیکن پھر انہوں نے یہ خواہش دبا لی اور چھت کی دراڑوں میں کہیں سے لا کر پگھلا تارکول بھر دیا۔

ایک چوہا پیچھے چھپا، کاٹھ کے صندوق کو کٹ کٹ کر کے کتر رہا تھا۔ آہٹ پا کر ذرا دیر کے لئے چپ ہو جاتا تھا اور پھر کترنے لگتا تھا۔ بابو پھر کھانسنے لگے تھے۔ خشک کھانسی کی آواز یوں اٹھتی تھی جیسے کوئی سخت چیز چھیلی جا رہی ہو۔ کچھ دیر بعد جب اسے پیشاب خانے جانے کی ضرورت ہوئی اور وہ باہر آنگن میں آیا، بابو تب بھی کھانس رہے تھے۔ اسے لگا، کنتو بھی سوئی نہیں ہے اور جاگ رہی ہے۔ اس کی آہٹ پا کر اس نے ابھی ابھی کروٹ بدلی ہے اور لوئی سر تک کھینچی ہے۔ اس کا بچھونا ماں سے ادھر ہی ہٹ کر تھا۔ چار فٹ کا آنگن کوٹھے اور سدری میں کتنا فاصلہ رکھ سکتا ہے۔

کچھ دیر پہلے بیوی کوٹھے میں کسی بات پر کھل کر ہنسی تھی، پر فوراً بعد ہی سہم گئی، اے رام! باہر آواز سن کر کوئی سوچے گا کہ بہو کتنی گستاخ ہے۔ نہ جانے کیوں اسے انہی پلوں میں دس بارہ دن پہلے کا وہ قصہ بھی یاد آ گیا۔ صبح آٹھ یا نو بجے کا وقت ہو گا۔ دھوپ اونی قالین کی طرح بچھ رہی تھی اور وہ اوپر چھت پر چلا آیا تھا۔ دوسرے مکان کی منڈیر پر کبوتروں کا ایک جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ کبوتر کبوتری کے آگے پیچھے گردن پھلاتا اور غٹروں غوں کی آواز نکالتا چکر کاٹ رہا تھا۔ اچانک کبوتر، کبوتری پر بیٹھ گیا۔ اسے تبھی پتہ چلا ہے کہ پیچھے کنتو بھی آ گئی ہے۔ دو پلوں کیلئے دونوں کی آنکھیں ملیں اور ہٹ گئیں۔ ان میں ایک ایسا طوفان اٹھ رہا تھا، جو اوٹ چاہ رہا تھا۔ کنتو نیچے واپس لوٹ گئی۔ وہ دوسری طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے لگا کہ کنتو وہاں اس کی موجودگی محسوس کر رہی ہے۔ وہ غسل خانے کو پار کرتا ہوا پیشاب خانے میں چلا گیا۔ لوٹتے ہوئے سدری میں اس کی نظر چلی گئی۔ کھانسنے کے بعد گھرگھراہٹ کے ساتھ بابو سانس لے رہے تھے جیسے کسی برتن کے سوراخ میں سے بھاپ سوں سوں کر کے گزر رہی ہو۔ اماں گدا ڈالے زمین پر سو رہی تھیں۔ تھوڑا ہٹ کر کنتو لیٹی تھی۔ اس نے ابھی ابھی کروٹ پھر بدلی تھی۔ اور رادھے۔۔۔ ایں۔۔ رادھے کہاں سو رہا ہے! ۔۔۔ جب وہ واپس لوٹ کر آیا، رادھے شاید نہیں تھا۔ شاید وہ رجنی کانت کی بیٹھک میں سو رہا ہو گا۔ رجنی کانت کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس کی پڑھائی چلتی ہے۔ اس سال وہ دسویں درجے میں ہیں۔ اسے یاد آ گیا کہ تیسرے پہر یہ گفتگو چلی تھی کہ امتحان تک رادھے وہاں سونے کو کہتا ہے۔ چودہ سال کا رادھے بھی کیا صورتِ حال سے واقف ہے اور سمجھوتہ کرنا جانتا ہے؟ اسے لگا کہ ہوا میں بڑی ہوئی ٹھنڈک اسے تیزی سے چھو رہی ہے۔ وہ اندر چلا گیا۔ صبح چائے کے وقت اس نے پایا کہ وہ خود کو سب کی نگاہوں سے محفوظ رکھنا چاہ رہا ہے۔ وہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کیلئے خود سے جوجھتا رہا ہے، پر بار بار اسی کے بیچ خود کو پاتا ہے۔

***

 

 

 

غلط غلط

 

رمیش اپادھیائے

 

رمیش اُپادھیائے، پیدائش: یکم مارچ، ۱۹۴۲ء، بڑھاری بیس، ایٹہ، اتر پردیش۔ میدان: کہانی، ناول، ڈرامہ، مضامین، تنقید، انٹرویو، رپورٹز۔

کچھ اہم کام: کہانیوں کے مجموعے: جمی ہوئی جھیل، شیش اتہاس، ندی کے ساتھ، چتردک، بدلاؤ سے پہلے، پیدل اندھیرے میں، راشٹریہ راج مارگ، کسی دیش کے کسی شہر میں، کہاں ہو پیارے لال! ، ارتھ تتر اور دیگر کہانیاں، ڈوکیو ڈراما اور دیگر کہانیاں، ایک گھر کی ڈائری، ساتھ چلتا شہر۔ ناول: چکر بدھ، دنڈ دوِیپ، سوپن جیوی، ہرے پھول کی خوشبو۔ ڈرامے: صفائی چالو ہے، پیپرویٹ، بچوں کی عدالت، بھارت بھاگی ودھاتا، ہاتھی ڈولے گام گام، گرگٹ، ہریجن دہن، راجا کی رسوئی، ہنسا پرمو دھرم، برہم کا سوانگ، سمر یاترا، مدھو آ، تماشا۔ ایوارڈ: گنیش شنکر ودیار تھی ایوارڈ، ساہتیہ پتر کارتا ایوارڈ، اور بہت سے دیگر ایوارڈ۔

***

 

اس بار فروری اٹھائیس کا ہے۔ اسٹک میں آٹھ پوائنٹ کے چھوٹے چھوٹے ٹائپ رکھتے ہوئے، سات تاریخ کو ملنے والے ساٹھ روپے کے بارے میں سوچ کر خوش ہو جاتا ہوں۔ کچھ تو فائدہ ہے ہی۔ تیس اکتیس دن کام کرنے پر بھی ساٹھ اور اٹھائیس دن کرنے پر بھی۔ سال کے زیادہ تر مہینوں میں اکتیس دن ہونے کی بات بری لگتی ہے، مگر آج میں غصے اور دکھ سے الگ ہٹ کر کوئی بات سوچنا چاہتا ہوں۔ دل ہی دل اندازہ لگاتا ہوں کہ اوور ٹائم کے تقریباً تیس روپے مزید ہو جائیں گے۔ ساٹھ اور تیس، نوے۔ چالیس ایڈوانس کے نکال دو باقی پچاس۔ بس؟ من کسیلا سا ہو جاتا ہے۔ پیسوں کی بات سوچ کر اچھا نہیں کیا۔ کوئی اور اچھی بات سوچنی چاہئے۔ جیسے پل پر کھڑے ہو کر نیچے بہتے ہوئے پانی کو دیکھنے کے بارے میں کوئی بات۔ اگہن کی کھیتی پر جمی ہوئی اوس کی بوندوں کی بات۔ چاندنی رات میں رات کی رانی کی مہکتی کلیوں اور ڈیوڈ کے وائلن کی بات۔

اسٹک میں جمی ہوئی لائنیں اتار کر قطار میں رکھنے اور کاپی پر نظر جما کر کمپوزنگ کا آلہ پکڑنے کے بعد، جب ماہر ہاتھ تیزی سے چھوٹے چھوٹے ٹائپ چننے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ آج کچھ باتیں خود بخود یاد آتی چلی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے کہ اندر کا کوئی پہریدار پرانی چیزوں کو الٹنے پلٹنے لگتا ہے۔ کمپوزنگ سیکشن سُونا پڑا ہے۔ اتوار کی چھٹی میں، میں اکیلا ہی ایک ارجنٹ کام کیلئے اوور ٹائم پر آیا ہوں۔ بنرجی بابو، دفتر میں بیٹھے اونگھ رہے ہیں اور مشین میں ودیا رام، کھٹارا ٹریڈِل چلائے جا رہا ہے۔ مشین کی آوازیں کمپوزنگ سیکشن میں ایکدم صاف سنائی دے رہی ہیں اور جیسے آ آ کر کہے جا رہی ہیں کہ ٹریڈِل، وقت کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑوں میں سادہ کاغذوں پر اپنی چھاپ چھوڑے جا رہی ہے۔ کمپوز کئے ہوئے ٹائپ، مشین پر چڑھ کر امپریشن دے رہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں انہیں مشین سے اتار دیا جائے گا۔ ودیا رام کا ہیلپر انہیں دھوئے گا اور اِدھر دے جائے گا۔ سارے ٹائپ ڈسٹری بیوٹ ہو جائیں گے اور ان کا اس میٹر سے کوئی تعلق نہیں رہے گا، جس میں لگ کر وہ ابھی چھپ رہے ہیں۔ پھر ایک نیا میٹر کمپوز ہو گا۔۔۔

چاروں جانب سردی، سیلن اور منحوسیت چھائی ہوئی ہے۔ دھول بھرے کیس، لکڑی کے پرانے ریک، بلاک، لیڈ، رول، کٹر، چمٹی، کینچی، چپّی، ڈوری۔۔۔ سبھی سرد اور اداس! اوپر جلتی ہوئی مر کری ٹیوب کے اجالے میں ٹھنڈ اور رطوبت سے بھرا کمرہ، جیسے کوئی غار۔ من کے اندر کا کوئی پہرے دار، بے ترتیب پھیلی ہوئی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر باہر رکھ رہا ہے۔ میرے ہاتھ کے انگوٹھے سے اسٹک میں ٹائپ جمانے کیلئے جو لے تال بندھی، کھٹ کھٹ ہو رہی ہے، اسی لے تال میں وہ پہریدار کام کر رہا ہے۔ میں جیسے ہر لائن میں ضرورت کے حساب سے برابر ’’اسپیس‘‘ ڈال رہا ہوں، وہ بھی چاہتا ہے کہ برابر جگہ چھوڑ کر سب چیزیں قرینے سے دے، پر اسے مشکل ہو رہی ہے۔ شاید وہ اس کا عادی نہیں ہے۔ تب اور اب میں کتنا فرق ہے! پہلے دن ایسے نہیں ہوتے تھے۔ پگھلے کولتار کی طرح آہستہ آہستہ رِستے ہوئے سے۔ کمپوز تب بھی کرنا پڑتا تھا، لیکن اپنے شہر سے دور ایک اجنبی شہر کا نیا پن ایک نوع کی تنہائی سی دیتا رہتا تھا۔ اگرچہ نام اور حوالہ محض ’’کمپوزیٹر‘‘ میں سمٹ آئے تھے اور صبح سات سے شام کے سات تک کی ایک سیدھی لکیر دن اور رات کو قطع کرتی تھی اور وقت کے وہ دونوں ٹکڑے جیسے اَن چھوئے ہی قریب سے پھسل کر پانی میں جا گرتے تھے۔ تب زندگی پر غصہ بھی آتا۔ ہر چیز بے تکی لگتی اور ہر بات کے بعد ’’کیوں‘‘ لگا دینے کی خواہش ہوتی۔ کوٹھری کی چھت پر ایک ہی چادر اوڑھ بچھا کر سونے میں مجھے تکلیف ہوتی تھی، لیکن جس دن تکلیف ہوتی، اندھیری رات ہوتی یا تھکاوٹ سے بدن دُکھ رہا ہوتا، نیند بڑی جلدی آ جاتی۔ مگر چاندنی رات میں جب پرمود جی کے باغیچے میں رات کی رانی کی کلیاں مہکنے لگتیں اور گلی کے موڑ پر بنے چیپل کے پاس رہنے والا ڈیوڈ وائلن بجایا کرتا، تو آنکھوں سے نیند اڑ جاتی۔ چاندنی اور رات کی رانی کی مہک میں ڈوبا خاموش شہر، اپنے اونچے نیچے مکانوں میں چپ چاپ سو رہا ہوتا۔ سڑکوں کی بتیاں چاندنی راتوں میں بجھ جایا کرتیں اور دوسری منزل پر بنی اس کی کوٹھری کی چھت سے چاروں جانب کی پہاڑیاں نیند کے جھونکے پھینکتی ہوئی سی لگتیں۔ تب اپنا شہر یاد آتا۔ ڈیوڈ کے وائلن کے سُر، بارہ ایک بجے تک درد میں بھیگ بھیگ کر آتے رہتے اور مجھے لگتا کہ میرے چھوٹے سے شہر میں شکنتلا چپ چاپ رو رہی ہے۔ اس کی پیٹھ اور بانہوں پر رسی کی مار کی نیلی لکیریں ابھر آئی ہیں اور کراہنے پر اس کی ماں نے غصے بھرے لہجے میں ڈانٹ دیا ہے۔

پاس ہی اپنا گھر ہے۔ منا سو گیا ہے۔ بھابھی کہنیاں ٹکائے کھڑی ہیں۔ اماں، جی جی اور بھیا آنگن میں میرے سامنے کھڑے ہیں۔ بھیا کہہ رہے ہیں، ’’تجھے جو لینا ہو، لے جا، پر آئندہ اس گھر میں قدم رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، سمجھا!‘‘

اماں کچھ کہنا چاہتی ہیں، پر بھیا کا تیکھا لہجہ انہیں روک دیتا ہے، ’’دیکھو اماں، تم درمیان میں مت بولو۔ اب یا تو اس گھر میں، میں رہوں گا یا یہ رہے گا۔ میرے لئے آج سے یہ مر گیا اور اس کیلئے میں۔ بٹوارہ کرنا ہو، ابھی کر لے، پر میرے ہوتے اب یہ اس گھر میں نہیں گھس سکتا۔‘‘

میرے پاؤں میں طاقت نہیں رہی ہے۔ میں بیٹھ جانا چاہتا ہوں۔ ناک سے ابھی تک خون بہہ رہا ہے اور سر چکرا رہا ہے۔ اسی حالت میں جی جی کی آواز سنائی دیتی ہے، ’’لیکن بھیا، ایسی حالت میں کہاں جائے گا وہ؟‘‘

بھیا پھر چیخ اٹھتے ہیں، ’’ایسی تیسی میں جائے! مجھے کیا معلوم!‘‘ اور انہوں نے میرے دونوں کندھے پکڑ کر مجھے دروازے کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔

چھر ر۔ ر۔ ر۔ ر۔ ر آٹھ پوائنٹ کے ننھے ٹائیپوں کی پوری لائن اسپیس ڈال کر کستے وقت اچانک ٹوٹ جاتی ہے۔ کچھ ٹائپ کیس میں گر پڑتے ہیں۔ غلط خانوں میں گر کر یہ نہ جانے کتنے لفظ غلط کریں گے! ٹوٹی ہوئی لائن دوبارہ کمپوز کرتے ہوئے لگتا ہے کہ میرے برابر کا ہی ایک لڑکا میرے پاس کھڑا ہوا، جھک کر ٹوٹی ہوئی لائن اور بکھرے ہوئے ٹائیپوں کو دیکھ رہا ہے۔ سر جھکا ہوا ہے، ناک سے خون بہہ رہا ہے، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ گئے ہیں۔ مار کے نشان اور چوٹ کی سوجن بدن پر کئی جگہ دکھائی دے رہی ہے۔

میں اس کی طرف گھور کر دیکھتا ہوں تو یہ آہستہ آہستہ دروازے سے باہر چلا جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ دونوں جانب بے جان سے جھول رہے ہیں اور وہ جیسے تیسے اپنے پاؤں گھسیٹتا ہوا چل رہا ہے۔ باہر پڑوس کے گھر کا بند دروازہ ہے، جس پر ایک چک جھول رہی ہے اور اس بند دروازے کو چیر کر رسی کی سڑاک سڑاک کی آوازیں آ رہی ہیں، ساتھ ہی چیخیں اور رونا دھونا اور سب سے اوپر ایک تند اور دبی ہوئی آواز، ’’خبردار جو چلائی! تُو بھی تو کم نہیں ہے، بے شرم!‘‘

اور آگے گلی میں جانے پر ہنسی، قہقہے، نفرت اور حقارت میں ڈوبی کچھ آوازیں۔۔۔ مجنوں ہے سالا۔۔۔ زندگی بھر یاد رکھے گا۔۔۔ گھر سے نکال دیا؟ اچھا کیا۔۔۔ آخر بڑا، سمجھدار لڑکا ہے، اس کی تو، سالے کی صحبت ہی ایسی ہے! صحبت!

اس حالت میں آتے ہوئے دیکھ کر مسرانی بھوجی دوڑ پڑتی ہیں، ’’ارے بھیا، ای کا بھوا؟ ای کا حال بنائے رکھا ہے؟ کونو ساتھے جھگڑا ہو گوا کا؟ ہائے دیا!‘‘ محلے والوں کو گالیاں دیتی جاتی ہیں اور ہلدی چونے کا گرم لیپ چوٹوں پر لگاتی جاتی ہیں۔

نیم بے ہوشی کے عالم میں لگتا ہے، جیسے اپنے سب لوگ کھڑے کھڑے دیکھ رہے ہیں اور مسرانی بھوجی اپنی نرم انگلیوں سے نس نس سہلائے جا رہی ہیں۔ مشراجی اور مسرانی بھوجی سے کچھ نہیں چھپا۔ انہی سے تو چالیس روپے قرضے لئے تھے اور روز دو گھنٹے اوور ٹائم لگا کر لوٹائے تھے۔ شکنتا کو سمجھا دیا تھا کہ اپنی ماں کو نہ بتائے، کہہ دے، پرنسپل نے اپنی طرف سے امتحان کی فیس بھر دی ہے، تیس پینتیس روپے کے پیچھے کالج کا رزلٹ اور شکنتا کا سال بگاڑنا وہ نہیں چاہتیں۔ یہ جھوٹ اس وقت اچھا لگا تھا۔ ایک خواب ٹوٹنے سے بچ گیا تھا، جس کی حفاظت شکنتا کی ماں سے نہیں ہو پا رہی تھی۔ لیکن امتحان کے بعد جب شکنتا نے اسی جھوٹ کا سچ ماں سے کہہ دیا تھا تو وہ ابل پڑی تھیں۔ سینے پیٹتی ہوئی گلی میں نکل آئی تھیں، ’’ہائے، اب تو غریبوں کی عزت آبرو ہی نہیں رہی۔ بیوہ بامنی لٹ گئی رے! سیدھی جان کے، چھوری کو بہکا لیا رے۔ اے۔ اے۔۔۔ چالیسا رُپییا کی خاطر۔۔۔‘‘

چالیس روپے کی تو آڑ تھی۔ شکنتا کی ماں اس دن کا بدلہ لے رہی تھیں، جس دن میں نے کہہ دیا تھا، ’’ماں جی، کوئی چھوٹی موٹی دکان ہی رکھ لو گھر میں، دو ہی تو جنے ہو، گزارا ہو جائے گا۔ یہ سیدھی سادی نیگ پوجا۔۔۔‘‘ جی میں آیا تھا، کہہ دوں کہ پروہتائی کے نام پر بھیک لینا اچھی بات نہیں ہے، پر کہا اتنا ہی، ’’۔۔۔ اب وقت بدل گیا ہے۔‘‘ ماں جی کو برا لگا تھا۔ اس وقت بات ٹال گئی تھی، لیکن دل میں ایک گرہ پڑ گئی تھی، جو موقع پاتے ہی اس دن کھل پڑی۔ اور محلے والوں کا خون کھول اٹھا تھا۔ غریب کی بیٹی ہے۔ جتنی حیثیت تھی، پڑھایا، نہیں پڑھا سکتی، گھر بٹھا لیا۔ اس کے باپ کا اس میں کیا جاتا تھا۔ وہ کون ہوتا تھا، چوری چھپے چالیس روپے دے کر فیس بھرنے والا۔۔۔ اور پھر، اس کے پاس چالیس روپے آئے کہاں سے۔ تنخواہ تو پوری کی پوری گھر میں دے دیتا ہے۔ ملتے ہی کتنے ہیں، چالیس اوپر پانچ روپے۔ گھر میں کسی نے نہیں دیے؟ پھر؟ پھر کیا، کہیں چوری چپاٹی کی ہو گی۔۔۔ کب کی بات ہے۔۔۔ تین ماہ پہلے۔۔۔ ارے، تبھی ہمارے گھر میں گھڑی چوری گئی تھی۔۔۔ بس، گھڑی بیچ کے چالیس دیے ہوں گے شکنتا کی فیس کے اور اور باقی اڑا دیے ہوں گے۔۔۔ ارے، اڑا کیا دیے ہوں گے، دن رات اس مسرانی کے یہاں گھسا رہتا ہے۔۔۔ پوچھو، اسی سے پوچھو۔۔۔ بتا، کہاں بیچی تھی گھڑی۔۔۔ جھوٹ، جھوٹ بولتا ہے۔۔ بتا، کتنے روپے لئے تھے۔۔۔ نہیں بتاتا تو لے۔۔ مارو سالے کو۔۔۔ اپنے آپ قبولے گا۔۔۔ لگتا ہے، اس وقت ساری دنیا کی نفرتوں سے بھر کر جو اس اجنبی شہر میں چلا آیا تھا، وہ کوئی اور تھا۔ وہ کوئی اور ہی رہا ہو گا، جو مشراجی کا دیا ہوا دھوتی کرتہ پہنے، ہندوستانی پریس میں آ کھڑا ہوا تھا اور کام مانگنے لگا تھا۔

آج کا سا من ہوتا تو ریل میں بیٹھ کر یہاں آنے کے بجائے، ریل کے نیچے لیٹ کر کہیں چلا جاتا، لیکن ان دنوں تو ایک آگ تھی۔ حرام زادوں، تم نے مجھے بے قصور مارا ہے، ٹھہر جاؤ تھوڑے دن، گن گن کر ایک ایک سے بدلہ لوں گا۔۔۔ ان دنوں بار بار خواہش ہوتی تھی کہ کسی ڈاکو کا گروہ مل جائے تو اس میں شامل ہو جاؤں۔۔۔ تب ایک ایک کو بھون کر رکھ دوں۔۔۔ لیکن ہندوستانی پریس میں کام مل گیا تھا اور بنرجی بابو نے ہی ایک کوٹھری پانچ روپے مہینے پر دلا دی تھی۔ شروع شروع میں سامان کے نام پر مسرانی بھوجی کی دی ہوئی ایک چادر بھر تھی، مگر آہستہ آہستہ کوٹھری میں سامان بڑھ گیا تھا۔ پچاس روپے میں آرام سے مہینہ کٹ جاتا تھا۔ ایک ہی چادر اوڑھ بچھا کر سونے کی مجبوری نہیں رہ گئی تھی، مگر جب چاندنی رات میں رات کی رانی مہکنے لگتی اور ڈیوڈ کے وائلن کے سُر درد میں بھیگ بھیگ کر آنے لگتے تو نیند اڑ جاتی۔ کہنیاں ٹکائے کھڑی بھابھی تیز نظروں سے دیکھتی رہتی۔ اماں اور جی جی کے ہونٹ کچھ کہنے کیلئے پھڑکتے رہتے۔ بھیا مجھے گھر سے باہر دھکیلتے رہتے اور میں سر جھکائے، بے جان سا بازو لٹکائے، پاؤں گھسیٹتا ہوا سا دروازے سے نکلتا رہتا، اور پاس ہی کہیں ایک نوجوان لڑکی رسی کی مار کے بعد کراہتی رہتی۔ مگر ایک دن وائلن خاموش ہو گیا۔ وہ خاموشی بڑی عجیب لگی تھی۔ یوں تو میں جانتا تھا کہ ڈیوڈ کینسر کا مریض ہے، اسے کسی بھی دن وائلن چھوڑنا پڑ سکتا ہے، لیکن ایک دن اس نے کہا تھا، ’’مادھو بابو، ڈاکٹر سالا ہمیں بولا کے وائلن مت بجا، لیکن ہم پلٹ کے کہا، ’’ڈاکٹر، وائلن نئی بجائے گا تو جئے گا کیسے؟ گریس کو ہم کوئی خوشی نہیں دے پایا، وائلن اس کا ہابی ہے، وہ بھی ہم کو بند کر دے؟ نہیں نہیں مرتے دم تک ہم بجاتا رہے گا۔‘‘

کہتے کہتے اس کے گلے کی نسیں پھول گئی تھیں اور کتھئی دھبوں والے اس کے سفید چہرے پر لال رنگ ابھر آیا۔ چیپل کے احاطے کی دیوار پر بیٹھ کر وہ بڑے اطمینان سے باتیں کیا کرتا تھا۔ اس نے آئر لینڈ کبھی نہیں دیکھا تھا، لیکن اس کا نقشہ اس کے دماغ میں گھومتا رہتا۔ کہتا، ’’مادھو بابو، ہمارا پیرنٹس ہمیں ایک مہینے کا لے کر یہاں آیا۔ ہم آئرش ہے۔ ایک مہینے کا بچہ کیا ہوتا ہے؟ یہیں اتنا بڑا ہو گیا۔ تم سمجھتے ہو، مجھے ٹھیک سے ہندوستانی بولنا نہیں آتا؟ لیکن بھائی، اس چیپل کے احاطے میں میرے والدین کی بہت سی یادیں ہیں۔ انہیں برقرار رکھنے کیلئے میں ویسے ہی بولتا ہوں، جیسے وہ بولتے تھے۔ بہت پیار کرتے تھے مجھے۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے ہوا میں ایک کراس بنایا تھا۔ لیکن اس دن وائلن نہیں بج رہا تھا۔ لگتا تھا کہ چاندنی رات میں چیپل کے پاس کا وہ علاقہ اس کے سُر کے بغیر ویران ہو گیا ہے۔ دیکھنے کیلئے اترا ہی تھا کہ ڈیوڈ کی موت کی اطلاع دیتا ہوا چیپل کا گھنٹہ بج اٹھا تھا۔

اس دن گریس کو دیکھا تھا، پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے۔ اس گریس کو، جو بیمار اور بیکار ڈیوڈ کا انتخاب کر کے، اپنی نوکری سے اس کے ساتھ گرہستی چلاتی ہوئی، ہڈیوں کا پنجر برابر رہ گئی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کون سا سکھ سمیٹا ہو گا انہوں نے۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں نے بھی تو بڑی جد و جہد سے اپنے ماحول میں ماضی کی ہر چیز کا ایک متبادل ڈھونڈ نکالا تھا۔ اماں کیلئے پڑوس میں رہنے والی پرمود جی کی ماں، جی جی کیلئے بنگالی بابو کی بہن روما دی، بھابھی کیلئے مونا بھابھی، مشرا جی کے لئے وِمل دا اور مسرانی بھوجی کیلئے شانتا بھابھی۔ لیکن شکنتا کا متبادل نہیں ملتا تھا۔ اس کے متبادل کی تلاش جاری تھی۔ ان متبادلوں کی تلاش میں کبھی کبھی من جھوٹی طمانیت سے بھر جاتا کہ یہ سارے رشتے زبردستی مسلط ہوئے نہیں ہیں، بلکہ خود کے بنائے ہوئے ہیں۔ سب کچھ خود حاصل کیا ہوا ہے۔ خود منتخب کر لینے کا ایک خوشگوار احساس ہوتا۔ خرید لینے کا سا احساس، جو غلط فہمی پر مبنی ہو کر بھی خوشی دیتا تھا۔ پر ڈیوڈ کی موت نے سب کچھ جھٹلا دیا۔ چاندنی راتوں کی خاموشی دور کرنے کیلئے کوئی ڈیوڈ نہیں خریدا جا سکتا۔ گریس کے آنسوؤں کو خشک کرنے کیلئے کوئی ایسا رومال نہیں خریدا جا سکتا، جو اس کی آنکھوں میں گہری ہوتی ہوئی، ڈیوڈ کی غیر موجودگی کی کھائی کو پاٹ سکے۔ آدمی باتوں کو خانوں میں بانٹ کر اور ایک ایک خانے سے ٹائپ لے کر زندگی کمپوز کرتا چلا جاتا ہے، لیکن میں کمپوزیٹر ہوتے ہوئے بھی۔۔۔ جھاڑی سے ایک ٹہنی کھینچنے پر جیسے ایک دوسرے سے الجھ کر بہت سے دیگر جھاڑ جھنکاڑ کھنچ آتے ہیں، ویسے ہی اپنی باتوں کے ساتھ اور دوسروں کی بہت سی باتیں اور یادیں، بھی چلی آتی ہیں۔

اس دن اچانک ہندوستانی پریس کا پتہ پوچھتے ہوئے بھیا میرے سامنے آ کھڑے ہوئے، تو میرے ہاتھ کانپ گئے تھے۔ پانچ چھ مہینوں بعد بغیر کسی اطلاع کے بھیا کیوں چلے آئے؟ اس دن بھی ننھے ننھے ٹائیپوں سے کمپوز کی ہوئی ایک لائن ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔ ٹوٹی ہوئی لائن دوبارہ کمپوز کرنے کے بجائے میں اسٹک ایک طرف رکھ کر بھیا کے پاؤں چھونے کیلئے نیچے جھک گیا تھا اور جب سب کے سامنے بھیا کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے تھے، تو لگا تھا کہ بھیا کی زندگی کی پوری گیلی کے پروف میں یہ آنسو ’’رونگ فونٹ’’ بن کر چمک رہے ہیں۔ میلا سا سفید کرتا اور دھوتی۔ پیروں میں ٹوٹی چپل۔ بکھرے ہوئے بال اور چہرے پر، رات بھر کی بیداری اور سفر کی تھکاوٹ، اداسی بن کر جمی ہوئی۔ بالکل یقین نہیں آیا کہ بھیا اتنے قابلِ رحم روپ میں بھی کبھی میرے سامنے آ سکتے ہیں۔ چھٹی لے کر پریس سے نکلا تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ انہیں کہاں لے جاؤں۔ کوٹھری چھوڑنے کا دکھ ہو رہا تھا۔ پانچ روپے کی بچت کی چاہ میں۔۔۔۔ لیکن اندر ہی اندر ایک خوف سا مجھے ڈرائے جا رہا تھا۔ میرے ساتھ گریس کو دیکھ کر کیا کہیں گے بھیا؟ پھر اچانک سر جھکائے، بے جان سا ہاتھ ہلاتا اور پیروں کو گھسیٹتے ہوئے دروازے سے باہر نکلتا ہوا ایک لڑکا، میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا اور میں کٹھور ہو گیا۔ پوچھا فقط اتنا ہی،

’’اماں کیسی ہیں؟‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘

’’بھابھی۔‘‘

’’وہ بھی۔‘‘

’’اور جی جی؟‘‘

’’پچھلے مہینے اس کا بیاہ کر دیا۔‘‘

میں نے بھیا کی طرف گھور کر دیکھا۔ لگا کہ ان کی اداسی اور چہرے پر جمی تکلیف کی پرتیں، ایک میک اپ ہیں، جو کسی خاص کردار کیلئے کیا گیا ہے۔

کہا، ’’مجھے خبر بھی نہیں دے سکتے تھے؟‘‘

’’تجھے بلانے کا دل تو بہت تھا، پر لوگ نہ جانے کیا سوچتے۔۔۔ کسی کا منہ تو پکڑا نہیں جاتا۔۔۔ کہیں شادی ہی رک جاتی۔۔۔‘‘

’’ہُوں!‘‘

’’تُو ابھی تک ناراض ہے؟‘‘

’’ناراض ہونے سے کیا ہوتا ہے! یہاں کیسے آنا ہوا؟ پتہ کس طرح چلا کہ میں یہاں ہوں؟‘‘

’’مشرا جی جونپور جاتے وقت پتہ دے گئے تھے۔ مارہرہ والے پیچھے پڑے ہیں اپنی لڑکی کیلئے۔‘‘

’’سب جانتے ہوئے بھی؟‘‘

’’ارے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے! ’’

میں نے پھر ان کے چہرے کی طرف دیکھا، شاید تیکھے پن سے کہنے کیلئے کہ جی جی کے بیاہ میں میرے آنے سے کیا فرق پڑتا تھا۔ بھیا ایک پل ٹھٹک کر مجھے گھورنے لگے تھے۔ شاید میری نظر مزید تیکھی ہو گئی تھی۔ پھر ان کی آنکھوں میں ایسی مجبوری جھلک آئی تھی، گویا کہہ رہے ہوں، کیا بات ہے، تُو ہم لوگوں کو معاف نہیں کر سکتا؟ لیکن دل یہ سب سننے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اپنی توہین چبھ رہی تھی۔ خواہش ہو رہی تھی کہ بھیا کو جتنا ستا سکوں، ستاؤں۔ شاید یہی موقع ہے۔ ایک لمحے سوچ کر میں نے کہ ڈالا تھا،

’’میں نے شادی کر لی ہے۔‘‘

’’شادی کر لی ہے؟ کب؟ کس سے؟‘‘ بھیا نے میرا بازو پکڑ کر مجھے جھنجھوڑ دیا تھا۔ لمحے بھر کیلئے غم و غصے کا ملا جلا سا تجربہ ہوا تھا، مگر بھیا کی پکڑ ڈھیلی ہو جانے پر آواز کھینچ کر میں نے کہہ دیا تھا، ’’چلو، دیکھ لو چل کر۔‘‘

بھیا، گریس کو تھوڑی دیر تک ایک ٹک دیکھتے رہے تھے، پھر ان کی آنکھوں میں وہی ’’تُو میرے لئے مر گیا۔‘‘ والا جذبہ نمودار ہو گیا تھا۔ بولے، ’’اچھا، میں چلوں اب۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’آج ہی واپس جانا ہے۔‘‘

’’لیکن کھانا۔۔۔ تھوڑا آرام تو کر لیتے، سفر میں تھک گئے ہوں گے۔‘‘

’’کھانا۔۔۔ آرام۔۔۔‘‘ بھیا بڑبڑائے، ’’خیر، جو تمہارے من میں آئے، کرو۔۔۔ آدمی کو اکیلے ہی۔۔۔ اپنے پاؤں پر۔۔۔‘‘ اور اٹھ کر چل دیئے تھے۔ گریس نے رُکنے کیلئے کہا تو ان کا چہرہ غصے اور نفرت سے اکڑ گیا۔ اس وقت بھیا پر غصہ آیا۔ لگا کہ اگر گریس کیلئے ایک لفظ بھی انہوں نے کہا تو۔۔۔ کچھ انہونی ہو جائے گی۔ لیکن بھیا خاموشی سے پلٹ پڑے تھے۔ سیدھا اسٹیشن۔

گاڑی چلنے تک میں پاس رہا، پر بھیا میری طرف سے منہ گھمائے رہے۔ کچھ بھی نہیں بولے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ گاڑی چلنے تک بھیا کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہ گاڑی سے اتر کر میرے ساتھ چل دیں گے، کہیں گے، ٹھیک ہے، اب جو بھی ہے، ٹھیک ہے، مگر پلیٹ فارم پر ان کے ڈبے کی کھڑکی کے سامنے میں ہاتھ جوڑے کھڑا رہ گیا اور بھیا دوسری سمت میں دیکھتے چلے گئے۔ یہ بھی نہیں دیکھ پایا کہ جاتے وقت ان کی آنکھوں میں کیا موجزن تھا! لوٹتے وقت ان کے بڑبڑاتے ہوئے الفاظ یاد آتے رہے۔ ’’آدمی کو اکیلے ہی۔۔۔ اپنے پاؤں پر۔۔۔‘‘ لیکن یہ ہی الفاظ ایک دفعہ کتنے تیکھے لہجے میں کہے تھے بھیا نے،

’’ہائی اسکول کرا دیا، یہی بہت ہے۔ آگے ہماری ذمے داری نہیں ہے۔ میری مانو تو پریس میں کام سیکھ کر کچھ کمانے کے قابل بنو، میں نے شیو دیال جی سے بات کر لی ہے۔ اور آگے تم جانو اور اماں جانیں۔ میرے پاس نہیں ہے پیسہ۔ کل کو تم تو پڑھ لکھ کر اپنی گرہستی سنبھالو گے، پھر۔۔۔ مجھے تو اپنے بال بچے دیکھنے ہیں۔ آدمی اکیلے جھیلتا ہے، اپنے پیروں پر ہی اسے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔‘‘ اس کے بعد سے اسکول کالج کی بات کبھی گھر میں نہیں چلی۔

پریس میں دو مہینے کام سیکھنے کے تیس روپے اور تیسرے مہینے سے چالیس اوپر پانچ روپے ہر ماہ۔۔۔ چھ پوائنٹ سے بہتّر پوائنٹ، بلیک وائٹ، اِیٹیلک، لیڈ، رول، قینچی، چمٹی۔۔۔ ایک ایک حرف۔۔۔ ایک ایک حرف۔۔۔ یہ انگلیاں ایک دن سُن ہو جائیں گی، تب بوڑھے بھولا رام کمپوز یٹر کی طرح تنخواہ ستر سے کم کر کے پچاس کر دی جائے گی۔۔۔ پھر پچاس سے تیس روپے۔۔۔۔ اور ایک دن نوکری سے نکال دیا جائے گا۔

’’بھولا رام، اب تم سے کام تو ہوتا نہیں، بڑھاپے میں بیٹھ کر آرام کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’صاحب، کمانے والا تو میں ہی ہوں، آرام کروں تو۔۔۔‘‘

’’اب تو لڑکا بڑا ہو گیا ہے، اسے سکھا دو کام!‘‘

’’وہ پڑھ رہا ہے صاحب، پڑھ لکھ جائے گا تو جندگی بن جائے گی۔‘‘

’’لیکن ہم یہ روز روز کا نقصان کیسے دیکھیں؟ ایک روپے میں تم جتنا کام کرتے ہو، کوئی نیا لڑکا بارہ آنے میں اتنا کام کھینچے گا۔‘‘

’’لیکن۔۔۔‘‘

لیکن کچھ نہیں۔ بھولا رام کمپوزیٹر زندگی کے پچاس سال، چھ پوائنٹ سے بہتّر پوائنٹ کے پھیر میں گزار کر، ٹھنڈ، سیلن اور اداسی سے بھرے اسی کمپوزننگ سیکشن میں پچاس سال تک محنت سے کام کرنے کے بعد بیکار ہو جاتا ہے۔۔ دن بھر کام میں لگی رہنے والی گریس، مزید دبلی اور کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ نوکری سے اسے نکال دیا گیا ہے۔ میرے اسی نوے روپے میں ہی دونوں کا کام کسی طرح چل رہا ہے، لیکن اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ جینے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ رات کے اندھیرے میں جب ہم دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے پاس جاگی ہوئی پڑی رہتی ہیں، تب ڈیوڈ کے ماں باپ کے وقت کی پرانی دیوار گھڑی کلک کلک کے بجائے غلط غلط کہتی ہوئی لگتی رہتی ہے۔ غلطی کے اس احساس سے بچنے کیلئے اور اندھیرے میں ایک دوسرے سے اپنا چہرہ چھپانے کیلئے ہم قریب آ جاتے ہیں، لیکن یہ احساس پیچھا نہیں چھوڑتا۔ جانے کیوں سب کچھ بھول جانے کے لمحات میں بھی یہ یاد رہتا ہے کہ ہم جی نہیں رہے، موت کے ٹھنڈے، اندھیرے اور گہرے غار میں اترتے جا رہے ہیں۔

اس دن دیر رات تک اوور ٹائم کرنے کے بعد گھر لوٹا تو لگا کہ موسم بدل گیا ہے۔ سردیاں ختم ہو گئی ہیں اور ہوا میں کچھ خشکی سی آ گئی ہے۔ چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور سڑک کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ چیپل کے احاطے میں قدم رکھتے ہی لگا کہ ڈیوڈ کی کمی آج سب دنوں سے زیادہ کھٹک رہی ہے۔ وائلن کی دھنوں کی کمی ہے کہ وہ ہو اور رات کا ادھوراپن مٹا جائے۔ ایک آہ سی، احاطے کی ہوا کو سونپتے ہوئے کمرے کی طرف آیا تو لگا کہ کھڑکی کے سہارے وائلن لئے ہوئے اپنے جانے پہچانے انداز میں ڈیوڈ کھڑا ہے۔ صرف، کھڑا ہی ہے، بجا نہیں رہا ہے آگے بڑھ کر پکارا، ’’گریس!‘‘ اور بائیں ہتھیلی سے اس کی گردن پر بکھرے بالوں کو سہلا دیا۔ وہ رو رہی تھی، پر مجھے دیکھ کر چونکی نہیں۔ وائلن اسی طرح پکڑے رہی۔ آنسو پونچھنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ انتہائی اداس اور ٹھنڈے لہجے میں بولی، ’’ڈیوڈ کی یاد آتی ہے۔۔۔‘‘

آگے کا لفظ میرا ہی نام تھا، لیکن وہ رونے میں دب گیا اور وہ وائلن کھڑکی میں ہی رکھ کر اوندھے منہ چارپائی پر جا گری۔ خاموشی سے دیکھتا رہا۔ دلاسہ بھی نہیں دے پایا۔ وائلن کو سہلا کر جیسے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتا رہا۔ اور اُس رات۔۔۔

’’کتنا اور رہ گیا بھائی؟‘‘

’’آں؟‘‘ چونک کر بنرجی بابو کی طرف دیکھتا ہوں، پھر اچانک ہڑبڑا کر کہتا ہوں، ’’بس، ابھی ہوا جاتا ہے، صاحب، صرف پریس لائن لگانی ہے۔‘‘

’’تو آج دو بجے چھٹی کرنے کا پکا ارادہ ہے؟‘‘

’’ہاں صاحب، آج تو۔۔۔‘‘ دل چاہتا ہے کہ کہہ دوں کہ آج گریس کے ساتھ سنیما دیکھنے جانا ہے، پر کہا نہیں جاتا۔

’’اچھی بات ہے، لیکن رک جاتے تو تھوڑا سا کام اور نمٹ جاتا۔‘‘

خاموش رہ جاتا ہوں۔ میرے خاموش رہ جانے کا مطلب بنرجی بابو سمجھتے ہیں اور خاموشی سے دفتر میں چلے جاتے ہیں۔ میرے ہاتھ تیزی سے کمپوز کرنے لگتے ہیں۔ لائن مکمل ہونے پر میٹر اتار باندھ کر پروف بنرجی بابو کی میز پر رکھ کر ٹب میں بھرے پانی سے کالک لگے ہاتھ دھونے لگتا ہوں۔ چلتے وقت اپنا ٹائم کارڈ بنرجی بابو کے سامنے بڑھاتا ہوں تو کہتے ہیں، ’’اوہ ہاں، تمہارا ایک خط ہے۔‘‘ اور ایک پوسٹ کارڈ میری طرف بڑھا دیتے ہیں۔

کونے پھٹا پوسٹ کارڈ، بھابھی گزر گئیں! کارڈ پر لکھے بد صورت حروف، کانٹوں کی طرح آنکھوں میں چبھنے لگتے ہیں۔ چپ چاپ کارڈ جیب میں رکھ لیتا ہوں۔ من میں کوئی کہتا ہے کہ رونا چاہئے، لیکن رونے جیسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ سامنے بیٹھے میرے ٹائم کارڈ پر اوور ٹائم لکھتے ہوئے بنرجی بابو پر مجھے غصہ آنے لگتا ہے کہ کتنی دیر سے یہ اس کارڈ کو رکھے بیٹھے تھے۔ ٹائم کارڈ جیب میں رکھ کر باہر آتا ہوں تو لگتا ہے کہ دماغ ایک دم ٹھپ ہو گیا ہے۔ ودیا رام، ٹریڈِل پر اب بھی پوری رفتار سے کام کئے جا رہا ہے۔

پریس سے باہر نکل کر بھی ٹریڈل کی بھڑاک بھڑاک کانوں پر چوٹ کرتی رہتی ہے۔ بھابھی کے کئی روپ آنکھوں میں بھر آتے ہیں۔ ان کی کھلکھلاتی ہوئی ہنسی کی یادیں چیرتی چلی جاتی ہیں اور سامنے موجود مکانات، سڑک اور باہر کھیلتے ہوئے بچے، آنکھوں میں ڈوبنے لگتے ہیں۔ دیوار پر کہنیاں ٹکائے کھڑی بھابھی کا چہرہ ایک ٹک تکنے لگتا ہے۔ گھر پہنچتا ہوں تو اچانک چونک جاتا ہوں۔ گریس آسمانی رنگ کی ساڑی پہنے، شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی بالوں پر کنگھی پھیر رہی ہے۔ دیکھتے ہی کہتی ہے، ’’تم بھی کیا یاد کرو گے، آج تمہاری پسند کی۔۔۔‘‘ لیکن میری طرف گھوم کر دیکھتے ہی اپنی بات بیچ میں ہی چھوڑ دیتی ہے اور ایکدم سامنے آ کر کہتی ہے، ’’کیا ہوا؟‘‘

میں کارڈ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ کارڈ پڑھ کر وہ ہوا میں ہی کراس کا نشان بنا کر کچھ بڑبڑاتی ہے۔ پھر پاس آ کر میرے بالوں کو سہلا کر کہتی ہے، ’’رو مت، رونے سے کیا ہو گا!‘‘ کہتے کہتے اس کی آواز  بھاری ہو جاتی ہے اور وہ رسوئی کی طرف چلی جاتی ہے۔ تھوڑی دیر میں آتی ہے تو وہی سادی پھولدار ساڑی پہنے ہوئے، ہاتھ میں پانی سے بھرا ہوا گلاس لئے ہوئے، ’’لو اٹھو، ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘

دس بج کر دس منٹ۔ گاڑی چھوٹنے میں ابھی پانچ منٹ مزید باقی ہیں۔ ڈبے میں بھیڑ نہیں ہے۔ جگہ اچھی مل گئی ہے۔ رات بھر آرام سے سوتے ہوئے جایا جا سکتا ہے۔ ہلکا سا بستر برتھ پر بچھا کر گریس نیچے اتر آئی ہے۔ بولی، ’’دیکھو، پہنچتے ہی خبر دینا اور زیادہ دن مت لگانا۔‘‘ میں کچھ نہیں بول پاتا ہوں۔ ایک ہی سوال من میں اٹھتا ہے کہ میں کیوں جاؤں وہاں؟ مجھے کس نے بلایا ہے؟ اماں نے اطلاع بھجوائی ہے، بلایا تو نہیں ہے۔ بھیا سے سب کچھ معلوم ہو گیا ہو گا، لیکن کچھ نہیں۔ میرے بارے میں، گریس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں۔ جیب میں پڑا ٹکٹ چبھ سا رہا ہے۔ ایک چھوٹے سے شہر کا اسٹیشن یاد آ رہا ہے، جہاں ایک اجنبی شہر کو جانے والی گاڑی میں بیٹھ کر پھر کبھی نہ لوٹنے کی قسم کھا رہا ہوں، جہاں مسرانی بھوجی رخصت کرنے آئی ہیں اور رو پڑی ہیں۔۔۔ ایک شہر یاد آ رہا ہے، جہاں ایک آدمی بے گناہ پٹ کر اپنے پاؤں گھسیٹتا ہوا سا چل رہا ہے اور ایک نوجوان لڑکی رسیوں کی مار کے بعد کراہ رہی ہے۔

گاڑی سیٹی دے کر چلنے کو ہوتی ہے کہ میں تیزی سے بستر سمیٹ کر پلیٹ فارم پر اتر آتا ہوں۔ گریس پوچھتی ہے، ’’یہ کیا، اتر کیوں آئے؟‘‘ میں چپ ہوں۔ کھلا ہوا بستر میرے ہاتھوں میں دبا ہوا ہے اور گاڑی آنکھوں کے سامنے دھیرے دھیرے کھسک رہی ہے۔ تھوڑی دور جا کر گاڑی کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور انجن کی چھک چھک کی طرح میرے سینے میں دھک دھک ہو رہی ہے۔ پلیٹ فارم جیسے ایک اندھا غار بن گیا ہے اور وہاں کھڑا ہوا میں کسی پرانی گھڑی کی کلک کلک کی آواز سن رہا ہوں۔

***

 

 

 

لہو پکارے آدمی

 

مدھوکر سنگھ

 

مدھوکر سنگھ۔ پیدائش: ۲ جنوری ۱۹۳۴ء۔ میدان: ناول، کہانی، شاعری، ڈرامہ، بچوں کا ادب۔ کچھ اہم تخلیقات: ناول: سون بھدر کی رادھا، سب سے بڑا چھل، سیتارام نمسکار، جنگلی سور، منبودھ بابو، اُتّرگا تھا، بدنام، بے مطلب زندگیاں، اگنی دیوی، دھرم پور کی بہو، ارجن زندہ ہے، سہدیورام کا استعفی، کتھا کہو کنتی مائی، سمکال۔ کہانیوں کے مجموعے: پورا سناٹا، بھائی کا زخم، ہریجن سیوک، پہلا پاٹھ، اساڑھ کا پہلا دن، مائیکل جیکسن کی ٹوپی، پاٹھ شالہ۔ ڈرامہ: لاکھو، صبح کے لئے، بابو جی کا پاس بک، قطب بازار۔ گیتوں کا مجموعہ: رک جا بدرا۔ انتقال: ۱۵ جولائی، ۲۰۱۴ء، آرا (بہار)۔

***

 

ترپاٹھی جی کا لڑکا بھیرو ناتھ آج کی دنیا میں بھی کالج پیدل جاتا ہے۔ جن کی حیثیت ہے، وہ تو شہر میں ہی رہتے ہیں۔ سری پور کے باقی لڑکوں کے پاس سائیکلیں ہیں۔ گاؤں سے نکلتے ہی اکثر بھیرو کی سڑک پر یا کچھ دور آگے نکل آنے پر نگینہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ سائیکل سوار لڑکے بھیرو ترپاٹھی سے مذاق کرتے ہیں، پنڈت جی کی قسمت میں نگینہ مُسہر ہے۔ سن اکہتر کی آخری تاریخ تک ضلع بھرسے ایک ہی مُسہر کالج میں داخل ہوا ہے اور بی اے فائنل ایئر کا طالب علم ہے۔ اپنے ہم جماعتوں سے بچ کر چلنا ہی اسے اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر درخت کے پیچھے یا جھاڑیوں میں یا کھیتوں میں اتر جاتا ہے۔ جب ان کی سائیکلیں دور نکل جاتی ہیں، تب نگینہ سڑک پر آتا ہے۔ تاہم، ان کی چھیڑ چھاڑ کا اثر اب اس کے اوپر نہیں ہوتا۔ شروع شروع میں اسکول میں اسے خاصی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مخالفت، برداشت سے باہر ہوئی تھی۔ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر شہر جانا پڑ گیا تھا۔ آوارہ گردی، لوٹ مار، راہزنی، چوری چکاری جیسی وارداتیں عام طور پر ہوتی رہتی ہیں۔ نگینہ کو ہر بار اس میں پھنسانے کی کوشش ہوتی۔ لیکن وہ بال بال بچ جاتا ہے اور خوف کے مارے کانپنے لگتا ہے۔ بھیرو ناتھ ترپاٹھی کے ساتھ جب سے اس کی دوستی ہوئی ہے، حوصلے مسلسل بلند ہوتے رہے ہیں۔ برہمن لڑکے کے ساتھ اس کی دوستی ہے۔ برہمن اور مُسہر کی دوستی عجوبہ بات بن گئی ہے۔ بھیرو کہتا ہے، ’’سائیکلیں دونوں کے پاس نہیں ہیں، بزرگوں کے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے۔‘‘

اس لئے نگینہ رام مُسہر اور بھیرو ناتھ ترپاٹھی ایک ساتھ چلنے پر مجبور ہیں اور چھ میل کی دوری دوسراہٹ میں کٹ جاتی ہے۔ اب تو سبھی لوگ ہنستے ہیں کہ مُسہر کے ساتھ رہتے رہتے، برہمن کی عقل بھی مُسہر ہو گئی ہے۔

مگر بھیرو پنڈت کی فکر کچھ دوسری ہے۔ فرسٹ کلاس آنی بھی ہو گی تو نہیں آئے گی۔ یونیورسٹی میں ہیڈ کی ذات کا ہی لڑکا فرسٹ آتا ہے، پڑھ کر فرسٹ کلاس آنے والے کا زمانہ نہیں ہے۔ نگینہ کیلئے تو یہ سارے واقعات اور بھی عجیب ہیں۔ اپنی ذات کا ہیڈ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ اپنے بارے میں بھیرو کی طرح تصور کرنے کا لمحہ کب آئے گا؟ اپنے یہاں مُسہر سے چھوٹی کوئی ذات نہیں ہوتی ہے۔۔ سور کو اور مُسہر کو کوئی ایسا جانور نہیں سمجھا جاتا، جس پر رحم کیا جائے۔ تمام ذاتوں کو اس پر رعب جمانے کا حق ہے۔ دونوں کی کاٹھی ایک طرح کی ہے۔ گاؤں میں لوگ سامان ڈھونے کا کام بیل اور مُسہر سے لیتے ہیں۔ نگینہ کا کالج جانا، سب کیلئے اتنا ہی حیران کن واقعہ ہے، جتنا ایک جانور کا آدمی بن جانا۔ ترپاٹھی جی کو لوگوں نے بہت سمجھایا بجھایا۔ ’’پنڈت جی، بھیرو کو سمجھا دو، مُسہر چمار کی سنگت چھوڑ دے۔ برہمن کے گاؤں میں اگر ایسی بات ہو تو سب کی بدنامی ہوتی ہے۔‘‘

ترپاٹھی نے صاف سنا دیا، ’’کھانے پینے میں ذات اٹھ گئی تو باقی کیا رہا؟ اب تو شادی بیاہ میں بھی کوئی نہیں پوچھتا، میرا لڑکا گھر سے پیدل جاتا ہے۔ تمہارے لڑکے اس کے ساتھ پیدل جانے کیلئے تیار ہیں؟ میرے پاس سائیکل خریدنے کا دام نہیں ہے تو خرید دو گے کیا؟‘‘

لوگوں نے غور کیا، برہمنوں کی عزت کا سوال ہے۔ اس سال ہولی میں دروازے پر لونڈوں کا ناچ نہیں ہو گا، ترپاٹھی جی کے لڑکے کیلئے چندہ جمع کر کے سائیکل خریدی جائے گی۔ برہمن اور بھُکّڑ کو دان کرنے سے ثواب ہی ہوتا ہے۔ اس ثواب میں گاؤں بھر کا حصہ رہے گا۔ سب کی چھاتی چوڑی ہو گی۔

نئی سائیکل پر چڑھ کر جاتے ہوئے بھیرو کو نگینہ دور سے دکھائی دیا تو وہ اتر گیا اور بولا، ’’آؤ نگینہ، تم آگے بیٹھ جاؤ۔‘‘

’’نہیں بھیرو بابا، لوگ دیکھیں گے، تو کیا کہیں گے؟ میں سائیکل چلانا جان جاتا تو تم آگے بیٹھتے اور میں چلاتا۔ اس کا اثر میرے باپ پر پڑے گا۔ کہیں مُسہر ٹولی پر آفت نہ آ جائے!‘‘

بھیرو کا ما تھا جھنجھنا گیا۔ اس نے کہا، ’’تمہارے لئے کالج میں، میں چندہ کروں گا۔‘‘

’’مگر اُس سائیکل پر میں گاؤں کیسے آ سکتا ہوں؟‘‘

’’گاؤں والوں سے ہم دونوں نمٹ لیں گے۔ صرف اپنے دل سے یہ خیال نکال دو۔‘‘

’’چندہ کوئی دے گا؟‘‘

’’یونین سے ابھی تمہارا رابطہ نہیں ہے۔ ہم لوگ تیس مارچ سے ہڑتال پر جا رہے ہیں۔ ایک غلط اور نکمّے لڑکے کو امتحان میں چوری کرا کر فرسٹ کلاس دے دیا گیا ہے۔ وائس چانسلر کے گھیراؤ میں تم بھی رہنا۔‘‘

نگینہ کو سائیکل اور گاؤں جیسی چیزوں سے ہٹ کر، بھیرو کے ساتھ ایسی باتوں سے کچھ طاقت محسوس ہوتی ہے۔

’’یونین کا ممبر میں بھی بنوں گا، بھیرو بابا۔‘‘

’’تم کو اپنے سیکریٹری سے ملاؤں گا، اجے سنگھ، ہیرا آدمی ہے۔‘‘

’’ہمارے ساتھ پڑھتا ہے؟‘‘

’’ابھی تو دوسرے سال کا طالبِ علم ہے۔‘‘

کبھی اس کی تقریر سنی؟‘‘

’’آگ اگلتا ہے، آگ۔‘‘

’’تم چلو۔ میں پیدل دوڑ کر آ جاتا ہوں۔‘‘

بھیرو کو نگینہ کے ایسے جوش و خروش سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ سائیکل چلاتے وقت لگتا ہے، لوہے کی سلاخوں پر بیٹھا ہے۔ اگر لڑکے سائیکل کے بارے میں پوچھیں گے تو کیا بتائے گا۔ ان سے کہے گا کہ گاؤں والوں نے مل جل کر خریدی ہے؟ مُسہر کے ساتھ دوستی کی یہی سزا ہے؟ وہ اپنی کلاس میں نہیں گیا بلکہ سیدھا اجے سنگھ کی کلاس میں جا پہنچا۔ اس نے کہا، ’’اجے سنگھ! گاؤں کی روایات میرا قتل کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ اس نے اجے کو ساری باتیں بتا دی۔

اجے بولا۔ ’’تم بیوقوف ہو بھیرو بھائی، ان سے کہو، نگینہ سائیکل سے چلنے پر دِکھ جاتا ہے۔ موٹر سائیکل خرید دو تو خوب تیز چلاؤں گاتا کہ نگینہ پر کہیں نظر نہ پڑے۔‘‘

بھیرو کو ہنسی آ گئی، ’’سری پور کے لوگ بڑے عجیب ہیں۔‘‘

’’ہر گاؤں کے لوگ عجیب ہوتے ہیں۔‘‘

’’چھٹی کے دن میں تمہیں نگینہ سے ملاؤں گا۔ گیارہ چالیس سے ہماری کلاس ہے۔ اس وقت تک ضرور آ جائے گا۔‘‘

’’شام کو تم دونوں میٹنگ میں ضرور آنا۔‘‘

بھیرو اپنے گاؤں کے ہر لڑکے کو میٹنگ میں لانا چاہتا ہے۔ شاید ان کا دماغ بدل جائے۔ بڑے چھوٹے کا زہر زیادہ دور تک نہیں گھسے۔ راستے بھر آوارہ گردی کرتے ہیں، کیا کوئی بھی انہیں طالب علم کہہ سکتا ہے؟

بھیرو کی باتیں سن کر ساتھیوں نے مذاق اڑایا، ’’یہ بھیرو ناتھ ترپاٹھی، گاندھی مہاتما کا اوتار ہے۔ ایک بار بول، گاندھی مہاتما کی جے۔‘‘ بھیرو نے جاگا پانڈے سے پوچھا، ’’پڑھ لکھ کر کیا کرو گے؟‘‘

’’مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس میٹنگ میں سیاست ہو گی۔‘‘

’’کیسی سیاست؟‘‘

’’اجے سنگھ کو امتحان میں فرسٹ کلاس دلانا ہو گا۔‘‘

’’یونیورسٹی میں ذات پات ٹھیک ہے؟‘‘

’’مگر چھوٹے کو ماتھے پر چڑھانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

’’کیسی بات کرتے ہو! ۔ ہڑتال کے دن ہم مزے اڑائیں گے، کالج نہیں آئیں گے۔ بازار میں اپنی پسند کی چیزیں لوٹیں گے۔ بھیرو ناتھ ترپاٹھی زندہ باد!‘‘

’’کوئی پرواہ نہیں، گاؤں سے نگینہ اور بھیرو ہی رہیں گے۔‘‘ اس نے نگینہ سے مشورہ کیا، ’’ہم لوگ گاؤں میں نوجوانوں کا ایک ادارہ بنائیں گے، کمیونسٹ، سوشلسٹ، مصنف، محقق۔‘‘

’’سبھی صحیح سمجھ والے لوگوں سے خطاب کرائیں گے۔ تعلیم کتنی کھوکھلی ہے، بھیرو بابا! ہم کیسے برداشت کر رہے ہیں؟‘‘

’’اس غلیظ حالت کے خلاف نوجوان کہاں تیار ہیں؟‘‘

’’دلی، الہ آباد، سبھی بڑی یونیورسٹیوں میں آغاز صحیح ہی ہوتا ہے، مگر اس جنگ کو بہت غلط موڑ دیا جاتا ہے۔ آگے چل کر یونین ان سے مل جاتی ہے یا گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔‘‘

اجے سے ملاقات کے بعد نگینہ کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ اس نے نگینہ کو کچھ کتابیں دی ہیں۔ نگینہ نے ان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ یہ کیسی تعلیم ہے؟ لیکچرار بھی یا تو ان کتابوں کا نام تک نہیں جانتے یا پھر لڑکوں کو بتانا نہیں چاہتے۔ لوٹتے ہوئے راستے بھر دونوں کے منصوبے بنے۔ نگینہ سائیکل پر آگے بیٹھا ہے۔ اندھیرے کی وجہ سے سڑک صاف نظر نہیں آتی۔ مگر ٹرکوں کی مسلسل آمد و رفت سے ان کی باتیں رک جاتی ہیں اور دماغ کو جھٹکا لگتا ہے۔

ان دنوں گاؤں میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے زمین کی تحریکیں چل رہی ہیں، جہاں بے زمین اس سے آگاہ ہیں، وہاں قبضہ کر رہے ہیں۔ سری پور میں برہمن، چمار، مُسہر، اہیر، کُرمی، ایک آدھ گھر لوہار اور جولاہے ہیں۔ برہمن کے علاوہ دو چار گھر چماروں کے پاس بھی بھی کھیتی ہے۔ مگر ایسا کوئی بھی آدمی نہیں ہے، جس کے پاس پچاس ایکڑ سے زیادہ ہو۔ جاگا پانڈے کے باپ کی صرف پچیس ایکڑ زمین ہے، مگر ترپاٹھی جی کے پاس ایک انچ بھی نہیں ہے۔ دادا کے زمانے کا مٹی کا ایک گھر ہے۔ بھیرو کا اس مکان میں رہتے رہتے جی اُوب کیا گیا ہے۔ وہ تبدیلی ضرور چاہتا ہے، لیکن ایسا کیسے ممکن ہے؟ ترپاٹھی کی آنکھ کے سامنے والے گڑھے پر ہے۔ ’’دو تین ایکڑ سے کم نہیں ہے۔ بے زمین ہونے کی وجہ سے شاید انہیں بھی ملے۔ تب جم کر کھیتی بھی ہو گی اور مٹی کی جگہ اینٹوں کا مکان بھی بن جائے گا۔ تب ترپاٹھی جی خود ہل چلائیں گے۔ دیکھتے ہیں، کون مائی کا لال ہے جو کہتا ہے کہ برہمن ہو کر ہل مت چلاؤ۔ ایسی مخالفت کرنے والے سے جنگ کرے گا۔‘‘

جاگا پانڈے کے پاس تو بڑی بڑی سہولیات ہیں۔ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پانڈے جی کی زمین میں کیسے اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ادھر ہاتھ مار کے اور گندے شیطانی کام کرنے کے بعد کچھ حیثیت والے اور مالدار بنے ہیں۔ گووند چمار اوربیمانی کے بعد دیو لال اہیر کا سارا کھیت ہڑپ لیا ہے۔ گاؤں کا کھوبھاڑی لال سالوں سے سرکاری وزیر ہے، جاگا کی نوکری کیلئے پانڈے جی کو کوئی فکر نہیں ہے۔ امتحان نہیں بھی دے گا تو پاس کر جائے گا اور نوکری لگے گی۔ وہ کھوبھاڑی لال کو ہریجن ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔ ان کی رائے میں ذات پات، شاستر دھرم کی چیز ہے، مگر کھوبھاڑی بابو کو ایشور نے نیا جنم دیا ہے۔ پانڈے جی چماروں کے کان کھڑے کئے رہتے ہیں کہ ’’تیتر مُسہر کا لونڈا نگینہ کچھ ہو گیا تو کھوبھاڑی بابو کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ اندر اندر اپنی لڑائی مُسہر ٹولی کے خلاف تیز رکھو۔ مُسہر تم سے چھوٹی ذات کا ہے۔‘‘

ترپاٹھی کو اپنے لڑکے کو لے کر بڑی تشویش ہے۔ لڑکا ہی کیوں، پورے خاندان کو ہی لے کر فکرات ہیں۔ پچھلے سال انہوں نے بیٹی کا بیاہ کیا تو پانڈے جی ہنس رہے تھے، ’’بَڑھیا لڑکا نہیں ملا تو پروہت کا کام کرنے والے سے کر دیا۔ یجمانی بھی کوئی نوکری ہے؟‘‘

ترپاٹھی جی نے غصے میں گالی دے دی تھی، ’’سالے کو دھن کا گھمنڈ ہے، آنے دو سماج واد۔ آنکھ کاڑھ لوں گا، ہنسی اڑاؤ گے تو۔‘‘

سب نے پانڈے جی کو سمجھایا، ’’ترپاٹھی جی بزرگ آدمی ہیں، معاف کر دیجئے۔ گاؤں جوار کے پروہت اور باپ دادا کے داکھِل ہیں۔‘‘ مگر پانڈے جی نے دوبارہ گالی دے ہی دی تھی، ’’سالے کو دم نہیں، گمان سنگھ نام!‘‘

بھیرو، جاگا پانڈے سے زیادہ الجھنا نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے حق میں ہے کہ گاؤں کے نوجوانوں کی میٹنگ میں، جاگا بھی اپنی رائے کا اظہار کرے۔ کھوبھاڑی لال ہائی اسکول اسی کے باپ کا ہے۔ کیا جاگا وہاں میٹنگ کرنے دے گا؟ نگینہ کو گاؤں کے اسکول چھوڑ کر شہر میں پڑھنا پڑا ہے۔ پانڈے جی چاہتے تو کیا نگینہ گاؤں کا اسکول چھوڑ کر باہر جا سکتا تھا؟ تیتر مُسہر حرام زادہ ہے۔ فیس معاف، اسکول کی کتابیں مل ہی جاتی ہیں۔ حکومت وظیفہ دیتی ہی ہے۔ اب کیا چاہئے۔۔۔ گھنٹا؟

تیتر مُسہر بولا، ’’گھنٹا نہیں بابا، مالک لوگ کبھی نگینہ کو گالی دیتے ہیں۔ کبھی مار دیتے ہیں۔ پانڈے جی جھنجھلا کر گالی نہیں دیں تو کیا نگینہ چندن ہے کہ پیشانی پر لگائے پھریں؟‘‘

’’پانڈے جی کو ہم لوگ اپنے ادارے کا صدر بنا دیں۔‘‘

بہت غور کرنے کے بعد بھیرو سے نگینہ نے کہا، ’’دھت! نوجوانوں کا ادارہ اور بوڑھا ہمارا صدر بنے گا؟ چھی!‘‘ بھیرو ہنسنے لگا۔

’’ہم جاگا کو بھلے صدر مان لیں، مگر اس کا باپ تو سب نوجوانوں کو ہضم کر جائے گا۔‘‘

’’ادارے کا نام سوچا ہے؟‘‘

’’میں نے تو سوچا ہے، اجے سنگھ سے بھی رائے لی ہے۔ ’ترقی پسند نوجوانوں کا پلیٹ فارم‘ سے ’ سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

اگلے اتوار کو بھیرو نے سری پور کھوبھاڑی لال ہائی اسکول میں طالب علموں، ان پڑھ بے روزگار، ذات، پرجات، تمام نوجوانوں کا ایک اجلاس بلایا اور ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کا اعلان کر دیا۔ جب اس کے عہدیداروں کے انتخابات کی بات آئی تو زیادہ تر نوجوانوں کی رائے یہ تھی کہ اس کی ذمے داری بھیرو ناتھ ترپاٹھی کو سونپ دی جائے۔ نگینہ اور ہریجن ٹولی کے لڑکے ہر بات کی حمایت میں بس ہاتھ اٹھا دیتے تھے۔ انہیں گاؤں میں ایک ساتھ بیٹھ کر میٹنگ کرنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔

بھیرو کہنے لگا، ’’پڑھے لکھے اور ہماری پیڑھی کے لوگوں میں ذات پات، لڑائی جھگڑا شرم کی بات ہے۔ ہم گاؤں میں ایسا پلیٹ فارم چاہتے ہیں جہاں سے ہمارے شعور کی ترقی ہو۔ ہم نئے خیالات اور روایات کے ساتھ چل سکیں، نوجوانوں کو ادھر مڑ کر بالکل نہیں دیکھنا ہے، جہاں خود غرضی، نفرت اور بغض کی چنگاریاں سلگ رہی ہوں، بلکہ ہم لوگ مل جل کر اسے ہمیشہ کے لئے بجھا دیں گے، ہم نے عہدیداروں کو منتخب کر لیا ہے۔ تم لوگ کہو تو نام سنا دوں؟‘‘

’’نام جلدی سنا دو۔‘‘ ، زیادہ تر نوجوانوں نے آواز لگائی۔

بھیرو نے نام پڑھنا شروع کئے، ’’جاگا پانڈے۔ صدر، بھیرو ناتھ ترپاٹھی۔ نائب صدر، نگینہ رام مُسہر۔ جنرل سکریٹری، کیلاش ترپاٹھی۔ سکریٹری، سیوک راموی شوکرمی۔ خزانچی، ان کے علاوہ سات افراد کی ایک ورکنگ کمیٹی ہے۔ کسی کو اعتراض ہو تو ابھی ہاتھ اٹھا دو۔ ہم ہر طرح سے ردّ و بدل کرنے کیلئے تیار ہیں۔‘‘

ایسا سناٹا رہا، جیسے کہیں غلط کام ہوا ہے اور اچانک دھماکا ہو گا۔

’’اگر تم لوگ کچھ نہیں بول رہے ہو تو میں مان لیتا ہوں کہ تم سب راضی ہو۔ میری الگ سے تجویز ہے کہ ہماری دوسری میٹنگ میں بحث کا موضوع رہے گا ’’بے روزگاری اور زمین کی مرکزیت‘‘ ۔ پروفیسر شُکدیو چودھری صدارت کریں گے۔ ان کے ساتھ اجے سنگھ بھی آئے گا۔ بولو، کسی کو اعتراض ہے؟‘‘

جاگا پانڈے کھڑا ہو گیا اور بولا۔ ’’شکدیو چودھری، ہریجن ہیں سوچ لو، یہاں کے لوگ برداشت کریں گے؟‘‘

’’جاگا، تمہارا دماغ خراب ہے، کسی کی رائے بھی نہیں سن سکتے، اچھا، نام تم ہی کیوں نہیں تجویز کرتے؟‘‘ بھیرو غصے میں تھا۔

’’اس میں خرابی شروع ہو رہی ہے۔‘‘

’’انتخاب پر پھر سے غور کیا جائے۔‘‘

اچانک جاگا کی مخالفت کے ساتھ ہی اس کی حمایت میں درجنوں آوازیں آئیں، یہاں تک کہ ہریجن نوجوانوں نے بھی مشین کی طرح ہاتھ اٹھا کر سر ہلا دیا۔

’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم، سے گیتا کا پروچن کرانا چاہتے ہو، کراؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ مگر مقصد کا بھی خیال رکھو۔‘‘ بھیرو اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اسے اس کی سمجھ ہے کہ معاملہ کہاں سے گڑبڑ ہے اور ان کا اشارہ کدھر ہے۔ مگر بھیرو اس کیلئے تیار ہے کہ وہ جہاں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، وہاں تبدیلی بہت مشکل ہے۔ تب تو یہ نوجوان پلیٹ فارم کہاں رہے گا، برہمن فورم ہو جائے گا۔

’’اس میں بھیرو ترپاٹھی نے نا اہل آدمی کو چن لیا ہے۔‘‘ ایک آواز آئی۔

’’نام لے کر کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کون ہے؟‘‘ بھیرو پھر کھڑا ہو گیا۔

سناٹا بڑھنے لگا لیکن اسے توڑتے ہوئے نگینہ بولا۔ ’’ساتھیو! میں اپنا نام واپس لیتا ہوں۔‘‘

’’یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ بھیرو چلایا۔

مگر باقی لوگوں نے مخالفت نہیں کی کہ نگینہ کو اپنا نام واپس نہیں لینا چاہئے۔

’’اب بولو، اس کا نام برہمن فورم رہنے دوں؟‘‘ بھیرو نے پوچھا۔

’’ایسے تو پہچان میں آ جائے گا۔‘‘

بھیرو اپنا غصہ دبانے کی بہت کوشش کر رہا تھا۔ کافی سنجیدہ ہو کر سوچنے لگا، لوگوں میں ایسے برے خیالات کب تک زندہ رہیں گے؟ دیہات میں سیاسی شعور کتنا ضروری ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی لیڈر نہیں سمجھ پا رہا۔ اسے تو انتخابات کے لئے سیاست کی سازش لگتی ہے۔ طالب علموں کو برابر ڈرایا دھمکایا کہ سیاست بھلے لوگوں چیز نہیں ہے۔ جسے تھوڑی بہت سیاسی سمجھداری ہے، اسے جیل میں ڈلوا دیا جاتا ہے۔ گاؤں کے بڑے بزرگ ہنستے ہیں کہ لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔ آزادی کی تحریک کے دنوں میں بھی پندرہ اگست انیس سو سینتالیس سے پہلے لوگ اسی طرح ہنستے ہوں گے، مگر نوجوانوں نے ان کی بالکل پرواہ نہیں کی تھی۔ اس گاؤں کے نوجوان اتنے کاہل کیوں ہیں؟

اس دن کی میٹنگ ختم ہو گئی۔ مگر دوسرے دن سے نوجوانوں میں اس پرسخت بحث رہی کہ برہمن نوجوان، مُسہر کا مددگار کیسے ہو سکتا ہے۔ کیلاش ترپاٹھی مددگار سکریٹری اور نگینہ رام جنرل سکریٹری؟ سیانوں کو بات معلوم ہوئی تو انہوں نے برہمن ٹولی کو کوسا۔ آہستہ آہستہ تمام لڑکے الگ ہونے لگے۔ جاگا پانڈے صدر تھا، اس لئے دونوں طرف تھا۔ وہ بھیرو کے سامنے پہچان میں بھی نہیں آنا چاہتا تھا۔ جاگا، بھیرو، نگینہ، سیوک رام اور ایک چمار رکن کو چھوڑ کر باقی سب نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ سے استعفی دے دیا۔ کیلاش ترپاٹھی نے ہنگامہ کیا کہ بڑے پنڈت جی کا لڑکا بھیرو کمیونسٹ ہو گیا ہے۔ بھیرو، پوری برہمن ٹولی کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔۔ اندرا گاندھی کو بھلے سوشلزم سے پیار ہو، لیکن ہم تو کمیونسٹ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں۔ گاؤں بازار کے بھلے لوگ کمیونسٹ بن رہے ہوں، مگر برہمن ٹولی کو ابھی تک یہ ہوا نہیں لگی ہے۔ جاگا پانڈے کے باپ نے ’’باغی نوجوانوں‘‘ کو سمجھایا کہ نہرو جی سوشلزم چاہتے ہوئے چل بسے۔ اندرا جی کا سوشلزم بڑا غیر متشدد ہے، کسی کا بھی دل دُکھانے کی بات نہیں ہے۔ حکومت کسی کی زمین نہیں لے گی، جو شاستر، روایت کے مطابق چلتی رہی ہے، وہ چلتی جائے گی۔ سوشلزم میں وہی سہولتیں رہیں گی، جو کانگریس سے پہلے تھی۔ کمیونسٹ کی کیا ضرورت ہے؟ ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ بنا کر بھیرو گاؤں کے لڑکوں کو تباہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟

کیلاش ترپاٹھی نے ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کے خلاف مکمل ماحول تیار کر لیا۔ بپت چمار بھی اسی کے حق میں ہے۔ بپت کا باپ زمانے سے کیلاش کا ہل چلاتا ہے۔۔ سسرے کی کیا مجال جو بھیرو یا نگینہ کی پارٹی میں چلے جائیں۔ اس طرح کے دباؤ کے زیرِ اثر دوچار جولا ہے، لوہار بھی اس کے حق میں ہیں۔ جاگا کے باپ پانڈے جی بھی کیلاش کا ہی طرفدار ہے۔ کیلاش نے ادھر نعرہ دیا کہ جو سسرے، بھیرو کے دَل میں گئے، ان کی ٹانگ کاٹ لی جائے گی۔ کیلاش ہاتھ پاؤں سے مضبوط آدمی ہے۔۔ تمام لڑکے اس سے خوف کھاتے ہیں۔ بھیرو نے بڑی ذلت کی بات کر دی ہے کہ نگینہ مُسہر کو اس کے اوپر جنرل سکریٹری بنا دیا ہے۔ سالا نگینہ جہاں بھی اکیلا مل جائے، سر نہ اتارا تو اصل برہمن کے بوند سے نہیں۔ ذات کے مسہر، بنیں گے جنرل سکریٹری! ۔ میٹنگ کی بات جب جب کیلاش کو یاد آتی ہے، خون غصے سے کھولنے لگتا ہے۔ اس کا باپ بھی تو پانڈے جی سے حیثیت میں کم نہیں ہے۔ چالیس ایکڑ زمین ہے۔ پانڈے جی کے خاندان میں جاگا، تشدد پسند نکل رہا ہے۔ پانڈے جی، گاندھی جی کے پجاری بنے رہیں، بھیرو تو جاگا کو کمیونسٹ بنا کے چھوڑے گا۔ انہوں نے مل جل کر یہ طے کیا کہ گاؤں میں شکدیو چودھری کی تقریر نہیں ہونے دی جائے گی۔ کیلاش کو پانڈے جی نے ایک اچھا مشورہ دیا، ’’بیٹا تم دوسرا فورم کھول دو ’’ گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ ، گاندھی جی کے نام سے سب ڈریں گے۔‘‘

کیلاش نے چلا کر اعلان کیا، ’’اب سالوں کا گاندھی جی کے نام پر ہی مزاج کھٹّا کر دوں گا۔ ایک بار بولو، مہاتما گاندھی جی کی جے!‘‘

اس نے پانڈے جی سے کہا، ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم، میں بڑی ذاتوں کی توہین نہیں کی جائے گی۔ برہمن ہی صدر اور سیکریٹری رہے گا۔ کیلاش ترپاٹھی، صدر اور بہورن پانڈے، سیکریٹری۔‘‘

اس نے سترہ لوگوں کی کمیٹی بنائی، گیارہ برہمن، دو ہریجن اور چار پسماندہ ذات سے لیے۔ گاندھی وادی نوجوان فارم زندہ باد، سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد۔ مہاتما گاندھی کی جے!

وہ بپت چمار سے بولا، ’’بپتا، نگینہ کو گاؤں نہیں چھڑوا دیا تو۔۔۔‘‘

’’میں تو ہر طرح سے برہمن ٹولی کیلئے تیار ہوں۔ صرف چاہتا ہوں کہ میٹرک پاس کرا دیجئے۔ زبان دیتا ہوں، آگے نہیں پڑھوں گا۔ آپ لوگوں کی خدمت کرتا جاؤں گا۔‘‘

’’تم لوگوں کے نصیب میں پڑھائی ٹھونس بھی دی جائے، تب بھی عقل نہیں آ سکتی۔ ساری سہولیات ہیں، مگر سسرے تب بھی تڑپ رہے ہیں۔‘‘ کیلاش ترپاٹھی تالی مار کر ہنس رہا تھا۔

’’میرے ہاتھ میں ابھی سے بھالا دیجئے، مالک!‘‘

’’کا ہے خاطر سسرا؟‘‘

’’نگینہ رام کو اسی پر ٹانگ لیتا ہوں۔‘‘

’’جیو بیٹا!‘‘

بپت چمار، نگینہ کو اپنا سب سے مشکل دشمن بولتا ہے۔ جب کیلاش ترپاٹھی کا ہاتھ اس کے سر پر ہے، تو کوئی بھی مائی کا لال اس کا گٹا نہیں پکڑ سکتا۔ اس نے کہا، ’’شکدیو چودھری گاؤں میں آیا تو خون ہو جائے گا۔ مجھے کالج میں نہیں پڑھنا ہے کہ خوف لگے گا۔ میں رہوں گا یا نگینہ مُسہر۔‘‘

بھیرو ناتھ ترپاٹھی کا نام، بپت اس لئے نہیں لیتا ہے کہ کچھ بھی ہو، ہے تو برہمن! اتنی جرات کہاں ہے کہ بڑی ذات والوں کی مخالفت کر سکے۔ اندر اندر تو خوف لگتا ہی ہے کہ اس گروپ بندی میں بھیرو  ناتھ ترپاٹھی کا نام نہ منہ سے نکل جائے۔ نگینہ کے ساتھ دشمنی سے تو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

اتوار کے دن بھیرو اور نگینہ کوششیں کر کر کے تھک گئے ہیں، مشکل سے میٹنگ میں سات آٹھ نوجوان شامل ہوئے ہیں اور پروفیسر شکدیو چودھری کی باتیں سن رہے ہیں، تبھی باہر سے روڑے پتھر پھینکے گئے اور کیلاش اور ان کے ساتھی ’’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم مردہ باد‘‘ ، ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘ کے نعرے چیخ چیخ کر لگا رہے تھے۔

کیلاش نے باہر مائیک کھڑا کیا تھا اور خود چلا رہا تھا، ’’یہ لوگ گاندھی کے، کانگریس کے دشمن ہیں۔ یہ لوگ اپنے یار روس، چین کی حمایت میں ہم نوجوانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھیں، ہم اپنی ثقافت کو چھوڑنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہیں۔ ہماری ثقافت سے ہی ہم بڑے ہیں۔ ہندوستانی ثقافت زندہ باد! ہندوستانی ثقافت زندہ باد! بھائیو! اس بات کو یاد رکھیں، نوٹ کر لیں، اصلی نوجوان پلیٹ فارم، گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم ہے۔ جو اصلی ہے، اس کے مندرجہ ذیل عہدیدار ہے۔ آپ کو فہرست پڑھ کر سناتا ہوں۔ مسٹر کیلاش ترپاٹھی صدر، مسٹر بہورن پانڈے سکریٹری، مسٹر پھینکا تیواری خزانچی۔ ہم نے ہر ذات کے نمائندے کو موقع دیا ہے۔ برہمن زیادہ ہیں، اس لئے انہیں زیادہ مواقع ہیں۔ ہم گاؤں کی عزت ہیں۔ نعرہ لگائیے، گاؤں کی عزت جانے نہ پائے۔ گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم زندہ باد!‘‘

لیکن ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی میٹنگ چلتی رہی۔ انہیں یقیناً پتہ ہے کہ اس میں کیلاش ترپاٹھی کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ہم لوگ آہستہ آہستہ انہیں صحیح راستے پر لائیں گے۔ ہفتے میں ایک بار ہر اتوار کو اپنی بیٹھک کرتے جائیں گے۔

جاگا پانڈے کا من الجھنوں میں پھنس گیا ہے۔ نہ صدر کا عہدہ نگلتے بنتا ہے، نہ اُگلتے۔ وہ ذہنی الجھن میں بری طرح پھنسا رہا کہ کیلاش کو کس طرح سمجھایا جائے۔ چلو، اور کچھ نہیں تو وہ بابوجی کی عزت تو کرتا ہی ہے۔ بابوجی اس کی برابر حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ انہی کے مشورہ پر تو اس نے ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کھڑا کر دیا ہے۔ وہ اچھی طرح سمجھ رہا ہو گا کہ اُس کی دلی ہمدردی اسی کے ساتھ ہے۔ یہی بہورن پانڈے بھاری لٹھ آدمی ہے۔ ذرا اسی کو سمجھانا پڑے گا کہ تمہارا دشمن میں یعنی جاگا پانڈے نہیں، بھیرو اور نگینہ مُسہر ہے۔ اگرچہ، جاگا سمجھ رہا ہے کہ بھیرو اور نگینہ بڑے صاف گو ہیں۔ یہ نوجوانوں کے لئے جو بھی باتیں کرتے ہیں، اچھی لگتی ہیں۔ ان کے ساتھ دھوکہ، کتنے بڑے اعتماد کا خون ہو گا! یہ لوگ بھی جاگا کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کسی شرارت کی سوچ رکھنا تو غلط بات ہے۔ جاگا کو ایک اندرونی خوف ستا رہا ہے کہ اس نے کیلاش کا ساتھ دیا تو وہ اپنے ہی اعتماد کا خون کرے گا۔ بپت چمار، رام دیو لوہار، رحمت اللہ جلاہا سبھی گمراہ لوگ ہیں۔ جس دن ان کو اصل بات کا پتہ چل گیا، اس دن سے وہ بھی کیلاش کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کیلاش کی وجہ سے کسی کی بیٹی بہو کی عزت مشکل ہے۔ نگینہ تلملا کر رہ جاتا ہے۔ کیلاش کو نگینہ اس لئے بھی برداشت نہیں ہو پاتا کہ نگینہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ کیلاش کا خون کھولتا ہیں کہ اس مُسہر کے باپ کا کیا جاتا ہے۔ بیٹی بہو جس کی خراب ہوئی، وہ تو غریب کچھ بولتا نہیں، اس نگینہ کو کیا ہو جاتا ہے؟ مُسہرِن کو وہ چھو کر سکتا تو کوئی مُسہر ٹولی میں بھی بچتی کیا؟ اتنے میں ہی لڑکوں نے پھر عہد لیا کہ ’’سماج وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی بیٹھک مخالفت کے باوجود کرتے جانا ہے۔ پروفیسر شکدیو چودھری ان کے گھر میں برابر آئیں گے۔

باہر کیلاش اور ان کے ساتھی چلا چلا کر تھک گئے۔ ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ کیلاش، بپت اور دیگر ساتھیوں سے بول رہا تھا۔ ’’بھیرو اور نگینہ کو ایک ہفتے کے اندر مار کر خراب نہیں کیا تو برہمن نہیں!‘‘ اس کے بعد سے مخالفانہ انداز میں مواقع تلاش کر رہا ہے، کوئی تو مل جائے۔ چاہے نگینہ، چاہے بھیرو۔ دونوں دھرم کے قاتل ہیں۔

زیادہ تر بھیرو اکیلے سائیکل سے کالج نکل جاتا ہے اور نگینہ پیچھے سے پیدل پہنچتا ہے۔ مگر کالج سے لوٹتے وقت بھیرو کبھی نگینہ کو نہیں چھوڑتا۔ کیلاش نے بپت چمار کو للکار دیا ہے کہ نگینہ رام کو جہاں کہیں بھی دیکھو، سر اتار لو۔ اسے یہ فکر پھر کھائے جا رہی ہے کہ باپ نے بندوق کا لائسنس ابھی تک نہیں کروایا۔ بندوق ہوتی تو تشویش کی بات نہیں ہوتی۔ ساری مُسہر ٹولی کو اڑا دیتا۔ کہیں کچھ نہیں ہو گا۔۔۔ نہ تھانہ، نہ اسمبلی، کہیں نہیں۔ گاؤں میں اور بھی کئی بندوقیں ہیں، پر کیلاش کے پاس نہیں ہے۔ کیلاش چھوٹی ذات والوں کا، خاص کر مُسہروں کا شدید مخالف ہے۔ مُسہروں کو آدمی نہیں کہتا ہے۔ مُسہر پالکی ڈھوتے ہیں، چار آدمیوں کی جگہ ایک مُسہر۔ تب کوئی مُسہر آدمی کیسے ہے؟ نگینہ آدمی نہیں ہے۔ مار دے تو کیا تکلیف ہو گی؟ مُسہر چوہے سے پیدا ہے، جیسے بندر سے آدمی ہوا ہے۔ کیلاش کو فوری طور خیال آیا ہے۔ اپنے ’’گاندھی وادی نوجوان پلیٹ فارم‘‘ کی بھی میٹنگ بلائی جائے اور بحث کا موضوع رہے۔ ’’مُسہر آدمی ہوتا ہے یا جانور؟‘‘ جو جانور کے حق میں ہیں، وہ ہمارے ہوئے اور جو اس کے مخالف ہیں، وہ بھیرو کے۔

’’مگر نگینہ نے آدمی کے حملے کا، جانور کی طرح جواب دیا تب کیا ہو گا؟‘‘ اس نے بپت چمار سے پوچھا۔

’’میں بھی چمار ہوں۔‘‘

’’بھاگ، سسرا!‘‘ کیلاش اس کی حماقت پر ہنسا۔ اس کے دماغ میں یہ بات برابر موجود رہی ہے کہ اگر بپت کے ہاتھوں بھیرو کو تھوڑی بھی کہیں چوٹ آئی تو برہمن ٹولی میں بدنامی ہو گی۔ لوگ اسلحہ اٹھا اٹھا کر کہنے لگیں گے۔ ’’کیلاش نے برہمن کے لڑکے کو چمار سے پٹوا دیا۔‘‘ لہٰذا نگینہ کی خبر لینا ضروری ہے۔ اس کا اثر بھیرو پر پڑے گا اور ڈر جائے گا۔ پھر اس کی ہمت نہیں ہو سکتی ہے کہ گاؤں میں کوئی دوسری حرکت کرے۔ بزرگ کیلاش کے اقدامات کی تعریف ہی کریں گے۔

’’میں تو جان لے لوں گا نگینہ کی۔‘‘ بپت بولا، ’’مہاتما گاندھی کے خلاف فورم بنا کر بھی کوئی جیت سکتا ہے؟ میں آج اکیلے دونوں کو دیکھ لوں گا۔‘‘

’’ابھی بھیرو نہیں، نگینہ۔ اس میں بدنامی کا ڈر ہے۔‘‘

انہوں نے سائیکل آم کے درخت سے لگا دی اور دونوں سڑک سے اتر کر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔

’’وہ لوگ آ رہے ہیں۔‘‘ بپت نے سرگوشی کی۔

’’چپ، حرامی کہیں کا!‘‘

بپت خاموش سے اٹھا۔ اس نے بھیرو کی سائیکل پیچھے سے پکڑ کر الٹ دی اور نگینہ کے سینے پر بیٹھ کر کھجور کی چھڑی سے پیٹنے لگا۔ بھیرو نے بپت کی گردن پکڑ لی اور جوتے کی نال سے اس کا جبڑے دبا دیا۔ نگینہ کے جسم سے کافی خون نکل رہا تھا، مگر اس نے خون کو بھول کر کیلاش کو پکڑ لیا اور بے رحم ہو کر اتنا مارنے لگا کہ خود تھک گیا۔ کیلاش کے مار کھانے سے بپت کی ہمت بالکل ٹوٹ گئی۔ وہ کیلاش کو اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔

’’جاؤ، سالے۔ بھاگ رہے ہو، ورنہ جان لے لیتا۔‘‘ بھیرو چیخ کر بولا۔

’’نگینہ برہم ہتیا لگے گی سالے! تم نے تشدد کیا ہے۔‘‘ بھیرو ترپاٹھی کو للکارا ہے۔ میں نے بپتا کو کہہ دیا تھا کہ بھیرو کو مت مارنا۔ متشدد اور جانور بھیرو کو لاج نہیں آئی کہ برہمن ایک مُسہر کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔‘‘

ان کے جانے کے بعد نگینہ نے پوچھا، ’’اب کیا ہو گا بھیرو بابا؟ اب تو مُسہروں کا گاؤں کے پاس رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے چلتے سبھی پریشانی برداشت کریں گے۔‘‘

’’ہمت رکھو، نگینہ۔‘‘

’’سو تو رکھنی پڑے گی۔‘‘

’’تب کیا بات ہے؟‘‘

’’کیلاش شیطان ہے، ہمارا نمبر ون دشمن!‘‘

’’مگر گاؤں کے سبھی تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘

’’مجھے ڈر نہیں لگتا۔ مگر چوبیس سالوں کی آزادی نے کتنے صحیح لوگوں کو پیدا کیا ہے؟‘‘

وہ لوگ جب گاؤں پہنچے تو مُسہر ٹولی میں آگ لگی ہوئی تھی اور سبھی بچے، عورتیں، مرد چلاتے ہوئے گاؤں چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ نگینہ رام اور بھیرو ترپاٹھی، بہت اونچے طوفان کو سینے کے اندر روک کر گاؤں کے کنارے پر رکے ہوئے تھے۔

***

 

 

 

جنازہ

 

شانی

 

شانی، اصل نام: گل شیر خان۔ پیدائش: ۱۶ مئی، ۱۹۳۳ء، جگدل پور، مدھیہ پردیش۔ میدان: کہانی، ناول، یادداشتیں، مضامین۔ کچھ اہم تخلیقات: ناول: کالا جل، کستوری، پتھروں میں بند آواز، ایک لڑکی کی ڈائری، سانپ اور سیڑھی، ندی اور سیپیاں۔ کہانیوں کے مجموعے: ببول کی چھاؤں، چھوٹے گھیرے کا وِدروہ، ایک سے مکانوں کا نگر، ایک ناؤ کے یاتری، شرط کا کیا ہوا، برادری، سڑک پار کرتے ہوئے، جہاں پناہ جنگل۔ ایوارڈ: شیکھر سمان (مدھیہ پردیش سرکار کی جانب سے )۔ انتقال: ۱۰ فروری، ۱۹۹۵ء۔

***

 

 

پھر اب کیا کریں؟ ایک لمحے بعد رمن پھر وہیں سوال پوچھ بیٹھا، جس کا شنکر دت کو برابر ڈر بنا ہوا تھا۔ پھر وہ ان کی طرف ایسی نظروں سے دیکھنے لگا، جیسے اچانک انہیں غلط نکتے پر پکڑ لینا چاہتا ہو۔ سہم کر وہ دوسری طرف دیکھنے لگے۔ ساؤتھ کے ان دوسرے بلاک کی طرف، جہاں یو کلپٹس کے چھوٹے چھوٹے پیڑ سلیقے سے لگے ہوئے تھے اور دسمبر کی خوشگوار دھوپ کی کرنیں کیلے کے پیڑوں پر چمک رہی تھیں۔ ہوا اوپر کیسے شفافیت لیے کانپتی ہے، اس کا احساس جیسے انہیں پہلی بار ہوا۔ واضح طور پر اتنے ناگہانی حادثے کا ادھر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ لوگ اپنے اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کے ساتھ چھٹی کے دن کی سستی بھری اور نارمل زندگی گزار رہے تھے۔

’’کوارٹر نمبر تو بتا دیا تھا؟‘‘ اچانک شنکر دت نے کچھ یاد کر کے پوچھا۔

’’ہاں۔‘‘ رمن بولا، ’’ویسے بھی قریشی کو معلوم ہے۔‘‘

دونوں الگ الگ اور دور کھڑے تھے۔ رضوی کے کوارٹر سے ہی نہیں اس کے صحن، سامنے والے احاطے اور اس جگہ سے بھی دور، جہاں دو دو، چار چار کے گروپ میں اچھی خاصی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ کچھ دیر پہلے شنکر دت بھی انہی میں سے ایک تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سی چیزوں کے حصہ دار۔ لیکن رمن نے انہیں نکال لیا تھا۔ قریشی کے یہاں سے لوٹنے پر، رمن نے انہیں دور سے ہی اشارہ کر دیا تھا اور وہ نکل آئے تھے۔

’’دت جی۔‘‘ ایک طویل وقفے کے بعد رمن نے بے صبری سے کہا، ’’ساڑھے گیارہ ویسے ہی بج رہے ہیں۔ اگر ابھی سے اتنی دیر ہوئی تو جنازہ اٹھنے میں شام ہو جائے گی۔ کالونی والے کب تک بھوکے پیاسے بیٹھے رہیں گے؟ ناگی صاحب اور جوشی جی بار بار کہہ رہے ہیں کہ بھئی، جو کچھ کرنا ہے، جلدی کرو۔۔۔‘‘

یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ رمن کی غیر حاضری کے دوران جب شنکر دت بھیڑ میں شامل تھے، تو اس بات کے کھسونٹے انہیں کئی بار لگے تھے۔ دلیلیں وہ ہی تھیں، لیکن اس وقت رمن کے منہ سے وہی باتیں شیشے کی طرح دھار دار لگیں۔

’’جوشی خود ہی کچھ کیوں نہیں کرتا؟‘‘ وہ پوری طرح پھٹ کر چیخنا چاہتے تھے، لیکن فوراً موقعے کی نزاکت سامنے آ گئی۔

’’رک جاؤ۔‘‘ ظاہری سنجیدگی کے ساتھ وہ معتدل لہجے میں بولے، ’’تھوڑی دیر اور دیکھ لیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسٹیشن سے کوئی خبر آتی ہو۔ ممکن ہے کہ قریشی دفتر سے ہوتا ہوا سچ مچ آ جائے یا۔۔۔‘‘ لیکن آگے بولا نہیں گیا۔ چاہے رمن کی گھورتی ہوئی نظریں ہوں یا ان کے خود کے ہی اعتماد کی کمی، وہ خود خاموش ہو گئے۔ اسٹیشن سے کیا خبر آنی ہے، وہ بھی جانتے تھے اور دوسرے لوگ بھی کہ وہاں سے ننانوے فیصد مایوسی ہاتھ لگانے والی ہے۔ لیکن پھر دوسرا حل؟ کیا وہ واقعی اسٹیشن کی خبر کیلئے ہی رکے ہوئے ہیں؟

’’ذرا انکوائری کو تو فون کر دیکھو۔‘‘ اچانک پر جوش ہو کر انہوں نے کہا۔

’’وہ میں کر آیا ہوں۔‘‘

’’اچھا! پھر؟‘‘

’’جی ٹی، صرف دس منٹ لیٹ تھی۔‘‘ رمن نے بتایا، ’’اور انکوائری نے کہا کہ گاڑی ٹھیک دس سترہ کو بھوپال چھوڑ چکی ہے۔‘‘

دس سترہ یعنی صرف آدھے گھنٹے کی مہلت! جب اسٹیشن کے لئے کسی آدمی کو دوڑایا جا رہا تھا اس وقت پونے دس بج رہے تھے۔ یوں اس حادثے کی وحشت اس وقت بھی سب پر طاری تھی۔ تو بھی کالونی کے ہر آدمی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ کسی نہ کسی کو اسٹیشن ضرور بھیجنا چاہئے۔ کون جانتا ہے کہ قسمت سے گاڑی مل جائے اور رضوی کے بدنصیب بیوی بچے آخری دفعہ کم از کم منہ ہی دیکھ لیں۔۔۔

شنکر دت نے گھڑی دیکھی۔ اسٹیشن سے کوئی خبر آئے یا نہ آئے اس بات پر آہستہ آہستہ انہیں بھی یقین ہوتا جا رہا تھا کہ قریشی غچا دے گیا۔ آنا ہوتا تو وہ پہلی خبر پہنچتے ہی کبھی کا آ چکا ہوتا۔ لیکن دل جیسے مکمل طور مانتا نہیں تھا۔ لگتا تھا، کچھ بھی سہی، قریشی آخر ہے تو مسلمان ہی، اپنی برادری والے آدمی کیلئے کہیں تو کچھ درد ہو گا۔۔۔

’’دت جی!‘‘ اس بار رمن کی آواز کچھ بدلی ہوئی تھی، ’’میرے خیال سے قریشی کی راہ دیکھنا بیکار ہے۔ وہ نہیں آنے کا۔‘‘

’’اس نے پہلے کیا کہا تھا؟‘‘

’’کہتا کیا۔‘‘ رمن بولا، ’’وہیں، جو ایسے موقعے پر سب کہتے ہیں۔‘‘

’’پھر بھی؟‘‘

’’سن کر پہلے تو وہ بھونچکا رہ گیا تھا، پھر عربی کی کوئی آیت پڑھتا ہوا بولا تھا کہ آپ چلئے، میں ابھی حاضر ہوتا ہوں میں نے کہا نہ، مجھے تو تبھی شک ہوا تھا۔ دوسری بار اس لئے میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ سوچئے تو سہی، کیا ایسے کاموں میں بھی تقاضے کی ضرورت پڑتی ہے؟‘‘

اصل میں رمن کو دونوں مرتبہ شنکر دت نے ہی بھجوایا تھا۔ جیسے ہی اس حادثے کی وحشت کچھ کم ہوئی تھی اور آگے کا خیال آیا، انہوں نے قریشی کو بلانے کیلئے رمن کو دوڑا دیا تھا۔ پہلی بار اطلاع آئی تھی کہ آ رہے ہیں۔ گھنٹے بھر انتظار کرنے کے بعد دوبارہ رمن گیا، تو اب یہ خبر لے کر آیا ہے کہ قریشی گھر پر ہی نہیں ملا۔ اُسے بچوں سے کہلوا دیا گیا کہ اچانک صاحب کا چپراسی بلانے آ گیا تھا، سو وہ یہ کہہ کر چلے گئے ہیں کہ ادھر ہی سے ہوتے ہوئے میت میں شامل ہو جائیں گے۔‘‘

شامل؟ شنکر دت کے حلق میں بہت کچھ آ کر پھنس گیا تھا، لیکن انہوں نے ہونٹوں کو کس لیا۔ محض شامل ہونے والوں اور تماش بینوں کی یہاں کون سی کمی ہے! جمع تو ہے ہی آدھی کی آدھی کالونی۔۔۔

’’ارے بھائی، آخر کیا طے ہوا؟‘‘ دفعتاً بلند آواز میں پکار کر جوشی نے پوچھا۔

جیسے طے کرنے یا نہ کرنے کی ذمہ داری اکیلے شنکر دت کی ہی ہو اور اب تک کچھ نہ کر سکنے کی وجہ سے انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہو۔ یہ آدمی کتنا کمینہ اور کٹھور ہے! جوشی کا چقندر نما چہرہ دیکھتے ہی شنکر دت کی بائیں کنپٹی کی رگ پھڑپھڑائی اور نچلا ہونٹ غصے سے کانپ کر لٹک گیا۔ سالا، ہر ضروری، غیر ضروری جگہ اپنی گندی ناک ضرور گھسیڑتا ہے۔

’’قریشی گھر پر نہیں ہے۔‘‘ رمن نے بہت معتدل لہجے میں جیسے سب کو ایک ساتھ بتایا اور بالکل لاتعلق انداز سے جا کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ بھیڑ میں ایک لمحے کے لئے سکتہ طاری ہو گیا۔

’’چھٹی کے دن بھی دفتر؟‘‘ کسی نے دھیرے سے ایک جملہ اچھالا۔

’’دفتر نہیں، صاحب!‘‘ سپرا نے کہا۔

’’صاحب؟‘‘ تنقید کرنے والے نے وضاحت سے کہا، ’’صاحب کہ میم صاحب۔‘‘

’’اماں میم صاحب ہی نہیں، میم صاحب کا پیٹی کوٹ اور پیٹی کوٹ ہی نہیں، اس کا کمربند۔۔۔‘‘

قریشی کے پیچھے اکثر یہ بات کہی جاتی تھی کہ وہ صاحب کا منہ چڑھا اور پٹھو ہے کہ چھٹی کے دن بلا ناغہ وہ بنگلے پر حاضری دیتا ہے کیونکہ بچوں کی فراک سے لے کر میم صاحب کے سینٹری ٹوولز تک کا بوجھ قریشی نے لے رکھا ہے۔

’’اجی مارو گولی قریشی کو۔‘‘ اچانک جوشی نے طیش میں آ کر کہا، ’’کیا سالے قریشی کے بغیر رضوی کی لاش نہیں اٹھ سکتی؟ کیوں دت جی؟‘‘

’’اٹھ کیوں نہیں سکتی۔‘‘ جوشی نے کہا۔‘‘ آپ ہی آگے بڑھیں اور اٹھائیے لاش کو۔ بھلا اس میں مجھے یا کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم لوگ تو محض اس وجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں کہ یہ دوسری برادری کا معاملہ ہے۔۔۔‘‘

اور پھر بھیڑ میں خاموشی چھا گئی۔ تھوڑی دیر آپس میں کھسر پسر ہوتی رہی۔ ہر کوئی یہ یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کالونی میں اور کون کون سے مسلمان گھر آباد ہیں۔۔

’’محکمہ آبکاری کے قدرت اللہ صاحب؟‘‘

’’افسر ہے، نہ ہندو، نہ مسلمان!‘‘

’’پکا مسلمان اور پرہیز گار قسم کا آدمی۔ جو ایمان والے نہیں، انہیں انسان ہی نہیں سمجھتا۔‘‘

’’علی صاحب؟‘‘

’’ایک نمبری گھمنڈی! اس قدر کم ظرف ہے کہ۔۔۔‘‘

’’ہیں۔ اور انصاری؟‘‘ کسی نے یاد دلایا۔

’’وہی ہوتا تو پھر رونا کس بات کا تھا۔‘‘ شنکر دت نے کہا، ’’کم بخت دورے پر چلا گیا ہے۔‘‘

سب چپ۔ دو ایک منٹ بعد بھیڑ میں پھر چھوٹے چھوٹے گروپ بننے لگے۔ کچھ لوگوں نے جمائیوں سے بچنے کے لئے بیڑی سگریٹ جلائی، کچھ نے تمباکو پھانکا۔

شنکر دت نے بھی ڈبہ کھول کر ایک پان منہ میں رکھا۔ پھر سب مل کر اس سڑک کی طرف دیکھنے لگے۔ جدھر سے بس آتی تھی۔ اسٹیشن ہو کر آنے والی بس۔

’’اب اور کتنی دیر ہے؟‘‘

شنکر دت ابھی زینے پر ہی تھے کہ دالان میں کھڑی بیوی نے جیسے اس کا سوال نما ہاتھوں سے راستہ روک لیا۔

’’دیر ہے۔‘‘ کہہ کر وہ تیزی سے اندر گھس گئے۔ اغل بغل کے کوارٹرز کی خواتین بھی اپنے اپنے دالانوں سے انہیں ہی گھور رہی تھیں۔

’’بڑی پیاس لگی ہے۔‘‘ اندر آ کر انہوں نے یوں بیٹھتے ہوئے کہا، جیسے اپنے ٹوٹے ہوئے جسم کو سستانے کیلئے ڈال رہے ہوں۔ پیچھے پیچھے آنے والی بیوی رکی نہیں، سیدھا کچن کی طرف نکل گئی۔ دو منٹ بعد وہ پانی کا گلاس لے کر واپس آئی۔

’’اسٹیشن سے کوئی خبر آئی؟‘‘

’’ہاں، آ گئی۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ٹرین  جا چکی تھی۔‘‘

بہت دیر تک بیوی انہیں خاموشی سے گھورتی رہی پھر پھنسی ہوئی آواز سے بولی، ’’مطلب یہ کہ رضوی کے بال بچے آخری دفعہ منہ دیکھنے سے بھی۔۔‘‘

شنکر دت نے اپنی آنکھیں بیوی کی طرف اٹھا دیں۔ بولے نہیں، بس دیکھتے رہے۔ ساری کالونی میں مسز رضوی اگر کہیں جاتی تھیں تو وہ یہی گھر تھا، صرف یہی گھر!

’’پھر؟‘‘ بڑی دیر کے بعد ایک سوال ہوا۔

شنکر دت نے کھنکھار کر گلا صاف کیا، جیسے پوچھتے ہوں، پھر کیا؟ آہستہ سے بولے۔‘‘ خبر پہنچا دی ہے مسجد میں۔‘‘

’’میونسپلٹی میں؟‘‘

’’مسجد۔‘‘ شنکر دت نے زور سے کہا، ’’میونسپلٹی نہیں مسجد، در اصل۔۔۔‘‘

بیوی کی میونسپلٹی والی بات ان کے اندر کہیں بہت گہری اتر گئی تھی۔ کئی کئی زخموں کو ایک ساتھ ادھیڑتی ہوئی! مفلسی میں زندہ رہنا تو سہا جا سکتا ہے لیکن مرنا اور وہ بھی پرائے شہر میں؟ مان لو کہیں وہ ہی پرائے شہر میں ہوتے تو؟ لیکن شہر اپنا کیسے ہوتا ہے؟ کیا صرف جنم لینے اور دو چار نسلوں سے رہتے آنا ہی؟ پرایا نہ سہی لیکن کئی بار خود انہیں کیا اس اپنے ہونے میں شک نہیں ہوتا؟ مان لو رضوی کی جگہ وہی ہوتے؟ کیوں نہیں ہو سکتے؟ رضوی نے ہی کہاں تصور کیا ہو گا؟ کل وہ دفتر آیا تھا۔ رات انہوں نے اس سے بات کی تھی۔ صبح اس کی آواز سنی تھی۔

وہ جانتے تھے کہ مسز رضوی اپنے بچوں کے ساتھ وطن جا رہی ہے۔ اس وقت وہ ایک بہت ضروری کام سے نکلے تھے، جب رضوی کے گھر کے سامنے تانگا کھڑا تھا اور اسٹیشن چلنے کی تیاری ہو رہی تھی۔ کوئی دو گھنٹے بعد جب وہ واپس آئے، تو دیکھا کہ رضوی کے گھر کے سامنے ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ کالونی کے بہت سے لوگوں نے ایک تانگے والے کو گھیر لیا تھا اور لاتوں، گھونسوں اور جوتوں سے اس کی مرمت کی جا رہی تھی۔ شنکر دت جھپٹتے ہوئے پہنچے تھے اور وہاں جو کچھ سنا، دیکھا اور جانا، وہ ان پر فالج کا حملہ تھا!

رضوی کی لاش کے پاس بمشکل ایک آدھ آدمی تھے، جبکہ تانگے والے کو مارنے کے لئے آدھی کالونی جمع ہو گئی تھی۔ وہاں سے نکل آنے کے بعد بھی دیر تک ان جملوں نے پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔

’’کیوں بے، کیا نام ہے تیرا؟‘‘

’’کریم۔‘‘

’’ابے میاں، کسی نے کہا تھا اپنی برادری والے پر تو رحم کیا ہوتا۔۔۔‘‘

شنکر دت جانتے تھے کہ رضوی کے بیوی بچے وطن جا رہے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اسٹیشن تک چھوڑنے رضوی جانے والا ہے۔ آگے کا پتہ نہیں تھا، جانے رضوی بچوں کو روانہ کر کے ہی لوٹا یا اسٹیشن تک چھوڑ کر چلا آیا تھا، تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا تھا کہ رضوی سے تانگے والا آٹھ آنے زیادہ مانگ رہا تھا اور بری طرح اَڑ گیا تھا۔ جب تو تو، میں میں سے گھر کے سامنے ایک تماشا لگنے لگا، تو رضوی کو ہار ماننی ہی پڑی تھی۔ رضوی نے آخر میں اٹھنی پھینک دی تھی، لیکن وہ غصے میں آگ بگولا ہو چکا تھا۔ لوگوں نے بس اتنا ہی دیکھا تھا اسے کہ غصے میں کہتے ہوئے وہ گھر کے اندر داخل ہوا تھا، تانگے والا بمشکل سو گز آگے بڑھا ہو گا کہ معلوم ہوا وسیم رضوی اپنے گھرکے دیوان پر مرا پڑا ہے۔

شنکر دت جس تیزی سے لپکے تھے، اسی شدت سے برف بھی ہو گئے تھے۔ لاشیں انہوں نے کئی دیکھی تھیں، لیکن ویسا ڈراؤنا چہرہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ رضوی غصے میں کھولتا ہوا مرا تھا، لہٰذا اس کے دونوں ہونٹ کس کر بھچے ہوئے تھے، گالوں کے تنے ہوئے پٹھوں میں دہری تہری لکیریں پڑ گئی تھیں اور آگ بگولا ہوتی ہوئی اس کی کھلی آنکھیں مر جانے پر بھی نگلتی ہوئیں اور انتہائی ڈراؤنی تھیں۔ شنکر دت بچوں کی طرح دہل کر ہٹ گئے تھے۔

’’ایک اٹھنی کیلئے پٹھے نے جان دے دی۔‘‘ کوئی آہستہ سے کہہ رہا تھا اور شنکر دت میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ اس کی طرف دیکھ لیتے۔

’’وسیم۔‘‘ ایک بار شنکر دت نے رضوی سے کہا تھا، ’’تم میں اتنا غصہ کیوں بھرا ہوا ہے؟ جانتے ہو، جو کچھ نہیں کر سکتا وہی غصہ کرتا ہے۔‘‘

’’جانتا ہوں۔‘‘

’’پھر بھی؟‘‘

’’شاید اسی لیے کرتا ہوں۔‘‘

’’تمہیں پتہ ہے کہ تم اکیلے پڑتے جا رہے ہو؟‘‘ کسی اور موقعے پر شنکر دت نے رضوی سے کہا تھا۔ وہ یا تو پاکستان سے جنگ کے دن تھے یا کسی بھیانک فسادات کے بعد کا کوئی موقع۔

’’شاید۔‘‘

’’ہیں اور یہ بھی پتہ ہے کہ مسلمان تمہیں۔۔۔‘‘

’’ہاں، یہ بھی پتہ ہے کہ مسلمان مجھے کافر سمجھتے ہیں، اور ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ میں۔۔۔۔ لیکن کیا آدمی صرف سیاہ یا سفید ہی ہوتا ہے؟ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں کے درمیان کئی کئی رنگ گھلے ہوں؟‘‘

بہت لمحے رک کر شنکر دت نے کہا تھا۔‘‘ کیا یہ ضروری ہے کہ جو رنگ آپ کے اندر سے ہو، اسے باہر بھی دکھایا جائے؟‘‘

’’دت جی، اگر یہ ضروری نہیں تو ہپو کریسی اور ایمانداری میں کیا فرق ہوا؟‘‘ رضوی نے کہا تھا، ’’قریشی اور مجھ پھر کیا فرق ہوا؟ کیا قریشی اور اس جیسے لوگ یہ سب کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔‘‘

شنکر دت خاموش ہو گئے تھے۔ رضوی نے جیسے انہیں یاد دلا دیا تھا کہ وہ اپنی نہیں، دوسروں کی آواز میں بول رہے ہیں۔ گویا اپنے اور رضوی کے اتنے برسوں کے سنگ ساتھ اور بدنام دوستی کو جھٹلا دینا چاہتے ہو۔ کیا یہ کبھی ممکن تھا؟

دفتر اور کالونی دونوں ہی جگہ شاید وہ اکیلے آدمی تھے، جو رضوی کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے ہمدرد دوست ہونے کیلئے بدنام بھی تھے۔ عام طور پر وسیم رضوی کو سنکی، غصے والے اور چڑچڑے آدمی کے روپ میں جانا جاتا تھا۔ اور نتیجے میں یہ تھا کہ لوگ اس سے یا تو کٹتے تھے یا اسے اپنے سے کاٹ دیا کرتے تھے۔

’’اماں یار، کس سڑے آدمی کو چپکائے پھرتے ہو؟‘‘ دفتر کے ساتھیوں نے کئی بار انہیں ٹوکا تھا، ’’کیا سانپ بھی کبھی کسی کا دوست ہو سکتا ہے؟‘‘

’’سانپ؟‘‘ انہیں تعجب ہوا تھا، اگر رضوی سانپ ہے، تو قریشی کیوں نہیں۔ قریشی اور رضوی ایک ہی برادری کے ہونے پر اور ایک ہی دفتر میں کام کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے بالکل برعکس تھے۔ یہی نہیں، ان میں آپس میں کبھی پٹی بھی نہیں۔ ویسے بھی رضوی کا سب سے بڑا نقاد قریشی ہی تھا۔ چائے کی کینٹین ہو یا دفتر کی میز، رضوی کے بالکل برعکس قریشی خوشگوار، ملنسار اور یار باش آدمی کی طرح مشہور تھا۔ ہر لمحہ چٹکلوں اور چست درست فقروں سے لیس قریشی، گاہے گاہے اپنی بذلہ سنجی کی مثالیں پیش کرتا رہتا تھا۔ اجتماعی بات چیت کے دوران ملک اور قومیت اس کے محبوب موضوعات تھے۔‘‘ تم آدمی ہو یا مسلمان۔‘‘ یہ اس کا ایسا تکیہ کلام تھا، جس سے وہ اپنے ہندو دوستوں کو خوب محظوظ کیا کرتا تھا۔

اولمپک ٹورنامنٹ چل رہے تھے اور دفتر میں کئی دنوں سے بڑی سرگرمی تھی۔ سسپنس اس بات پر تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ہاکی کے کھیل میں کون بازی مار لے جاتا ہے؟ قریشی اپنا چھوٹا ٹرانزسٹر لے کر دفتر آیا کرتا تھا اور لنچ بریک کے علاوہ اور وقتوں میں بھی کمنٹری سنی جاتی تھی، بحثیں ہوتی تھی اور شرطیں لگائی جاتی تھیں۔ رضوی کا یہاں بھی کوئی موقع نہیں تھا۔ اس دن دفتر پہنچ کر شنکر دت سانس بھی نہیں لے پائے تھے کہ قریشی مٹھائی کا ایک دونا لے کر ان کے سر ہو گیا تھا۔ سارا دفتر منہ میٹھا کر رہا تھا، لیکن کس بات پر اور کون کرا رہا ہے، یہ تھوڑی دیر راز ہی بنا رہا۔ رضوی اس دن بھی دیر سے دفتر آیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے آتے ہی چہ میگوئیاں ہوئی تھیں۔ تھوڑی دیر کھسر پسر ہوتی رہی، پھر اچانک قریشی، رضوی کے پاس مٹھائی کا دونا لے کر پہنچ گیا تھا۔

’’کس بات کی مٹھائی؟‘‘ قدرتی طور رضوی نے بھی پوچھا تھا۔

’’آپ کو پتہ نہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’یارو!‘‘ قریشی نے جیسے سارے دفتر کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’اب تو مان جائیے کہ رضوی صاحب کتنے معصوم ہے۔ بیچارے کو یہ بھی پتہ نہیں کہ اولمپک ٹورنامنٹ میں اس بار ہم نے پاکستان کو پٹخنی دے دی ہے۔‘‘

دفتر کے لوگ ہنسنے لگے تھے۔

’’مٹھائی کون کھلا رہا ہے؟‘‘ رضوی نے حیران ہوئے بغیر آہستہ سے پوچھا۔

’’اماں، آپ کو آم کھانے سے مطلب ہے کہ درخت گننے سے؟‘‘

’’دونوں سے۔‘‘ رضوی نے سختی سے کہا تھا، ’’اب فرمائیے۔‘‘

رضوی کا یہ انداز ایسا تھا کہ ایک لمحے کو دفتر میں سکتہ سا طاری ہو گیا۔ خود قریشی جیسا سہم سا گیا تھا لیکن تبھی پچھلی میز سے آواز آئی تھی۔

’’درخت آپ کے سامنے کھڑا ہے۔‘‘

اس بار دفتر میں گونجنے والی ہنسی بلند تھی۔ ایک حد تک بے سبب اور شاید ضرورت سے زیادہ تلخ بھی۔ پتہ نہیں وہ اس کا رد عمل تھا یا کچھ اور، اچانک رضوی نے مٹھائی کا دونا غصے سے اٹھا کر باہر پھینک دیا تھا۔

ساری کالونی سوئی پڑی تھی، خاموش۔ تین چوتھائی رات گزر گئی تھی کب اور کیسے، پتہ نہیں! شنکر دت جاگ رہے تھے۔ کسی کی میت میں جانے کا، کفن دفن سے لوٹنے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا، اپنے اور غیروں کو ملا کر ایسے بیسیوں موقعے آئے تھے، لیکن ایسی تکلیف پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اپنے نوجوان بیٹے کو پھونک آنے کے بعد بھی نہیں۔ اصل میں وہ صدمہ تھا، جبکہ یہ صدمے سے زیادہ تکلیف دہ۔ وسیم رضوی کا مردہ چہرہ ان کے اندر کہیں بہت گہرائی میں پیوست ہو گیا تھا۔

’’کیا بے وقوفی ہے!‘‘ شنکر دت نے دل ہی دل میں جھلا کر خود کو ڈانٹا اور کروٹ بدل لی۔ انہوں نے نیند لانے کی آخر کوشش کرتے ہوئے، پھر سختی سے آنکھیں موند لیں، لیکن دوسرے ہی لمحے گھبرا کر آنکھیں کھولنی پڑیں۔ رضوی کا چہرہ بری طرح تنگ کرتا تھا۔ وہ پھر، اور پھر، بڑی دیر تک یہی کرتے رہے، لیکن نہ تو بند آنکھوں میں نیند آ رہی تھی۔ اور نہ کھلی آنکھوں میں۔۔۔۔

***

 

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل