فہرست مضامین
زید سے مکالمہ
آفتاب اقبال شمیم
جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…..مکمل کتاب پڑھیں
زید سے مکالمہ
آفتاب اقبال شمیم
جمع و ترتیب: یاور ماجد، اعجاز عبید
(ایک طویل نظم ’نہیں اور ہاں سے آگے‘ کو علیحدہ ای بک کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے)
دیباچہ
وہ اور میں
یہ طویل نظمیں شاید اس طویل نظم کے بیچ بیچ کے حصہ ہیں جو ہمارے دور میں زیر تخلیق ہے۔ جس کے ’’ہونے‘‘ کا جغرافیہ کسی مخصوص خطہ ارض سے منسوب نہیں بلکہ اس دور کے تہذیب اور ہمارے نفسیاتی علاقوں کی خط کشی کرتا ہے۔ یہ طویل نظمیں کچھ ایسے ہیں جو آج کے خارج و داخل کی منظر کشی اور صدابندی کرتے ہوئے کسی رزمیے کے بجائے المیے کی تالیف کرتی نظر آتی ہیں۔ یوں بھی آج کی نظم میں کسی اخیل، تبریس، سہراب یا ابلیس کی کردار کشی شاید ممکن نہیں رہی۔ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم پر اپنی تاریخ کا جو انکشاف اس صدی میں ہوا ہے، اس نے ہمارے بہت سے رومانی رویوں کو مسمار کر دیا ہے۔ مشرق و مغرب کی تاریخ اور فلسفہ ہماری اجتماعی میراث ہے۔ ہم نے صدیوں کے عمل میں جیسی بھی انسانی تہذیب کی صورت گری کی ہے۔ اس نے ہمیں یہ شعور ضرور بخشا ہے کہ انسان کو خطوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ زمین، فطرت اور زندگی کے مرتب کردہ منظر نامے میں انسان ایک مرکزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیا معلوم کہ انسان کی اس حیثیت کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی کارفرما ہو۔ لیکن تا حال تو یہی منکشف ہوا ہے کہ اتنی وسیع کائنات میں وہ بے کنارہ وسعت کی لہروں پر اکیلی ناؤ کی طرح ڈولتے ہوئے بہے چلا جا رہا ہے اور بظاہر اس بے معنی سفر میں وہ بالکل تنہا خود اپنے آپ سے متصادم بھی ہے۔ اسے اس صورتِ حال کا شعور بھی ملتا جا رہا ہے۔ اس تصادم کے امکانات کیا ہیں؟ وہ اپنے آپ سے آگے بھی نکل سکتا ہے اور خود کو فنا بھی کر سکتا ہے۔ اگ وہ خود کو فنا کر دیتا ہے تو وہ ایک ناقص الوجود مخلوق کی حیثیت سے عناصر کے تجربے کا حصہ بن جائے گا او شاید زندگی آگے چل کر اس کے مقابلے میں زیادہ بسیط اور مکمل تر مخلوق پیدا کرے اور یہ سلسلہ جاری رہے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ انسان میں امکانات کی اتنی گنجائش ضرور ہے کہ وہ اپنے آپ سے آگے نکل جائے۔ مثلاً یہی چند صدیاں پہلے بستیوں کو تاراج کرنے والوں کو ہیرو قرار دیا جاتا تھا۔ ایسے ہیرو اب بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں مینیک یا ولن کے لقب سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طرح استبداد اور استحصال جو آج بھی بہت عام ہے، مظلوموں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے آزادی پسند قوتیں ایک ایسے زمانے کا خواب دیکھ رہی ہیں جب جبر و استحصال کا نام نہ رہے گا۔ اب وہ نشہ آور فلسفوں اور ثقافتی افیونوں مثلاً آئیڈیلائزڈ محبت جیسی منشیات کے بارے میں جان چکی ہیں کہ ان کے بیج سے عالمی نفرت کی فصل اگتی رہی۔ ان کے نام پر مظلوموں کو لوریاں دی جاتی رہیں اور انہیں خوابوں کی بافندگی کا پیشہ سونپ دیا گیا۔ اب وہ نیند سے بیداری کے عالم میں ہیں۔ مظلوم اپنی نیم وا آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ زور آور کے معبد میں مورتیں بنانے، ان کی غیبی قوت کی تشہیر کرنے پر کون مامور ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ وہ جبر کے بوڑھے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہوئے ہیں اور ان کی گردن سے قطرہ قطرہ سرخ زندگی ٹپک رہی ہے۔ انہیں معلوم ہوتا جا رہا ہے کہ زورآور کی سیاست کا قلم ان کی لوح حیات پر جو لکھتا ہے وہی ان کی تقدیر بن جاتا ہے۔ یہ حقیقتیں آشکار تو ہو رہی ہیں لین حقیقت خود ایک معمہ ہے۔ رومان کا عمل آسان سا ہے، وہ شیشے کو سانس سے دھندلا کر چیزوں اور مظاہر کو دیکھ لیتا ہے۔ حقیقت بظاہر پردے اٹھاتی ہے لیکن اس عمل میں تہ اندر تہ حقیقتیں سراب سی نظر آنے لگتی ہیں۔ بہر طور یہ ادراک تو میسر آتا ہے کہ کوئی اخذ شدہ نتیجہ آخری نتیجہ نہیں، کوئی فیصلہ آخری فیصلہ نہیں اور کوئی نظام فکر آخری نظام فکر نہیں۔ محدود لا محدود نہیں ہوتا۔ ہم مشاہدے، فکر اور تور سے معنی کا جو تانا بانا بنتے رہے وہ زندگی کی جامعیت پر تنگ رہا۔ انسان کو برے اور بھلے میں بانٹنا معاشرے اور فرد کو متوازن رکھنے کے لیے مفید عمل تو ہو سکتا ہے لیکن ایسا کرنے سے ہم نے فرد کو اس کو کلیت سے محروم کر دیا۔ اس کے شعور اور لاشعور میں فاصلے بڑھا دیے۔ نصیحتوں، دھمکیوں اور سزاؤں کی بٹی ہوئی رسی کی جنبش پر اسے چلنا اور رکنا سکھایا۔ وہ اپنی فطرت کی اکائی سے الگ ہو کر ایک یا دو دنیاؤں کی فکر میں اتنا سنجیدہ ہو گیا کہ اس نے اشیاء کی منڈی اور کنشت و کلیسا کے ماورائی ڈھانچے کے درمیان آمدورفت میں ہی صدیاں گزار دیں۔ کیوں نہ ہم ایک سادہ سی، آسان سی زندگی گزارنے پر سمجھوتا کر لیں ادنیٰ و اعلیٰ اور نیک و بد کی مصنوعات بنانے سے دست کش ہو جائیں۔ ایسے شجر اکھاڑ پھینکیں جن پر استحصال اور جبر کا پھل لگتا ہے۔ فرد کی کلیت کو تسلیم کیا جائے اور فرد انسانی تاریخ میں کھائی ہوئی شکستوں اور فہم خالص کے شعور میں اپنی حدوں کے المیے کا اعتراف کرے۔ ایک درد مشترک کا اسے وہ اخلاقی بصیرت بخشے کہ وہ اپنی اصل کو پہچان کر انبوہ کے رواں دھارے میں قطرے کی طرح مدغم ہو جائے۔ ایسے قطروں سے بنا ہوا دھارا یقیناً اپنے آپ سے آگے نکل جائے گا۔ کیا ضروری ہے کہ صدیوں سے کھیلا جانے والا آگ اور خون کا ناٹک جاری رہے۔ کیا ضروری ہے کہ افلاس اور غلامی کی وبأ پھیلانے کے لیے ہوس کے گٹروں میں زرموش کی پرورش کی جائے۔ جنس قوت تخلیق ہے، اسی کے شبستانوں میں بقا کا خواب پلتا ہے۔ اسے سمٹ سمٹ کر چلنے کا پابند کیوں بنایا جائے۔ سخاوت اور احسان ہی وہ انصاف ہے جو زندگی ہم سے مانگتی ہے۔ کیا یہ کار ناممکن ہے؟ نہیں۔ یہ ہماری حد امکان میں ہے۔
میں اپنے گریبان میں کیا جھانکوں۔ یہاں تو ابھی رفو کا بہت سا کام پڑا ہے یہاں تو ابھی شخصی حکومتیں چل رہی ہیں۔ ابلاغ عامہ کا سرافیل جاگتے ہوؤں کو سلانے اور آذر جمود باطن کے بتوں کو پختہ کرنے پر مامور ہے۔ یہاں تو ابھی مرد نے بیچاریوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ دینے کی ذمہ داری جبراً اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ اشتہار اور اشیاء کی چکا چوند میں آنکھیں کیا دیکھیں، اپنے لیے برے دھندے اور اولادوں کے لیے بڑی جائیدادیں یہی ہماری ساری تگ و دو کا مرکز و محور ہے۔ ایک طبقہ ہے جو شاہ کو کج کلاہی کے تیور سکھاتا ہے، گدا کو خانقاہیں چلانے کی سہولتیں بخشتا ہے اور شاعر سے حب الوطنی کے ثبوت میں ترانے لکھواتا ہے۔ اس کی حکمت و حکومت موقع پرستی اور منافقت کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ایک پورا کلچر ہے جو اس کے پیچھے پیچھے کلیشے اور جذباتیت کی بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ اس مکتب شہ گری اور درسگاہ انا شکنی کے ’’ان پڑھ‘‘ دکھ اٹھانے اور رسوا ہونے کے پرانے عادی ہیں اور صدیوں کی تنبیہ و سزا کے باوجود ان کی یہ عادت نہیں گئی۔ اور یہی ہیں وہ جن پر میری ساری امیدوں کا انحصار ہے۔ یہی ہیں وہ جو اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ میں خود اسی قبیلے کا فرد ہوں۔
اور زندگی کی اس موجود منظر گاہ میں اپنے روبرو کھڑا میں سوچ رہا ہوں کہ وقت، عناصر اور تاریخ کا تیار شدہ پیکر اپنی اصل میں کیا ہے؟ میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں جو صدیوں سے بے تغیر چل رہا ہے۔ اس انبوہ کی ایک خردہ شکل میرے اندر بھی موجود ہے۔ میں اس فطرت کا قدیم عکس ہوں جو میرے باہر اور اندر محیط ہے۔ میں اس پرانی مٹی کی روئیدگی کا ثمر ہوں جسے دھوپوں نے پکایا ہے۔ میں اس تاریخ کا مرقع بھی ہوں جو خیال کو جبلت پر حاوی کرتی رہی ہے اور یوں ایک تجربے کا حاصل بھی ہوں۔ میرے اندر شکستوں کے دراز سائے بھی ہیں اور امکان کی دور نما جھلمل بھی۔ دیکھوں تو میں خود بھی نہیں۔ اپنے آپ سے ملا ہوں، اپنے آپ سے بچھڑا ہوا۔ اپنے آپ میں بہت مضطرب، بہت مطمئن۔ ندی کی روانی بھی اور کنارے کا ٹھہراؤ بھی۔ زندہ و خوبصورت کی بے پناہ چاہت بھی اور خود سے اجنبیت اور بیزاری بھی۔ میں اپنی گھمبیر تنہائی میں ’زید‘ سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ نا وقت اور نا لفظ میں چھپی ہوئی اصل۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن ایک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوک سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اس کے بہت سے اندھیرے میری حسیات کے ٹٹولنے کی پہنچے سے باہر ہیں۔ اس کی بہت سی آوازیں میری سماعت کے منطقوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی اور میں اپنی آدھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ذرا سنیے وہ آپ میں بھی موجود ہے اور یہ گفتگو آپ کی گفتگو بھی ہے۔ اور کیوں نہیں؟ ہم سب اس مہینے، اس سال اور اس صدی میں اکٹھے زندگی کر رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ میں اگلے جنم میں بھی آؤں گا اور زید سے یہ مکالمہ جاری رہے گا۔
آفتاب اقبال شمیم
اپریل، ٨٩
٭٭
وہ اور میں
یاور ماجد
(محترم آفتاب اقبال شمیم کی کتاب زید سے مکالمہ کا دیباچہ جو انہوں نے خود لکھا اور میں نے اپنے شعری سفر کی ابتدا میں منظوم کیا)
ہمارے دور کی اس نظم بے آخر کا یہ اک اقتباس چند منظر ہے
کہ جس کی وجہ پیدائش
کسی جغرافیے یا پھر کسی بھی خاص خطے سے کوئی ناتا نہیں رکھتی
اگرچہ یہ ہمارے دور کی تہذیب کی جہتوں
ہمارے کنج ہائے ذہن کے پردہ سرائے نفس کے منظر دکھاتا ہے؛
یہ ایسی نظم ہے جو لمحۂ موجود کی اصلیتوں کے خارج و داخل کے منظر
اور صدا کو پیش کرتی ہے
بجائے رزمیے کے المیے کی داستان خونچکاں تالیف کرتی ہے
ہمارے دور میں ابلیس یا سہراب جیسے سورما پیدا نہیں ہوتے
ہماری آنکھ سے تاریخ کے پردے اٹھے تو
ہم نے رومانی رویوں کے گلستاں کو جلا کر راکھ کر ڈالا
ارسطو ہو یا رومی ہو
خدا ہو یا کہ پرمیشر! ہماری ہی وراثت ہیں
کہ صدیوں کے عمل نے اور تو کچھ ہو نہ ہو
ہم کو شعور زندگی بخشا ہے
ہم انسان کو خطوں میں کیسے منقسم کر دیں
کہ ہم مرکز ہیں اور فطرت زمین اور زندگی گویا ہمارے دائرے ہیں
پس آئینہ کیا معلوم جانے کیا حقیقت ہے
مگر تا حال تو صدیوں پہ پھیلے واقعوں کے موڑ ایسا ہی بتاتے ہیں
کہ انسان تا کراں حیرانیوں کے بحر میں کب سے
ہوائے صد زماں کے ان گنت سفاک اور ظالم تھپیڑوں میں،
اکیلا زندگی کی ناؤ پر بہتا رہا ہے!
بظاہر تیرگی کے بے سر و پا اور نابینا سفر میں موت کے آگے اکیلا ہے!
ہزاروں مسئلے ہیں اور موجودات کا خود سے تصادم بھی
تو کیا اپنے تضادوں کے سفر میں ایک دن پامال ہو جائے گا؟
اک بے جان عنصر کی طرح
صدہا عناصر کے ازل سے تابہ محشر تجربے کا حصہ ٹھیرے گا؟
یا اپنے آپ سے ہی ماورا ہونے کا سوچے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
تو کیا پھر زندگی اس سے بھی بڑھ کر افضل و اعلیٰ
کوئی مخلوق پیدا کر دکھائے گی؟
ہمارا دائروں کا یہ سفر جاری رہے گا کیا؟
مگر میں دیکھتا ہوں اشرف المخلوق میں امکان کے مثبت اشارے ہیں
کہ وہ خود سے بھی کچھ آگے نکل جائے
ذرا مڑ کر تو دیکھو!
بستیاں پامال کرنے والے وحشی سورما کا نام پاتے تھے،
مگر اب ہم شعور زندگی رکھتے ہیں، ان کو قابلِ نفرت سمجھتے ہیں
وہ استبداد و استحصال جو کل تک ہمارا بے بدل مقسوم ٹھیرا تھا
ابھی بھی ہے
مگر اب سارے مظلوموں پہ یہ احساس حاوی ہے
کہ جور و جبر جو کل تک اٹل تھا
اور لازم تھا
اسے وہ ٹال سکتے ہیں
انہیں ہر حال میں اس کو مٹانا ہے
انہیں اب آدمیت کی نئی قدریں بنانا ہیں
ہمیں ادراک ہے
ان نشہ آور فلسفوں، افیوں فروشوں کی ثقافت
کے پلے بیجوں سے صرف اک عالمی نفرت کی پیلی فصل اگتی ہے
ہمیں خوابوں کے بافندے بنایا جا رہا تھا
ہم انہی کی لوریوں سے نیند کی وادی میں پہنچے تھے
مگر ہم جاگ اٹھے ہیں!
ہم اپنی نیم وا آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے مندر میں رکھی مورتی کی غیبی قوت مشتہر کرنے پہ آخر کون بیٹھا ہے
یہ ہم جو جبر کے شبدیز کے پہلو سے لٹکے ہیں!
ہماری گردنوں سے قطرہ قطرہ سرخ جیون بہہ رہا ہے
ہمیں ادراک ہوتا جا رہا ہے زور آور کی سیاست کا!
مفاد اس کا جو اس کے حکم کی تحریر بنتا ہے
وہی پھر نسل بعد نسل کی تقدیر بنتا ہے
یہ مانا اب حقیقت روشنی بن کر
ہماری سوچ پر افشا تو ہونے لگ پڑی
لیکن
حقیقت خود معمہ ہے!
یہ رومانی رویہ تو بڑا آسان ہے شیشے کو گہری سانس
سے دھندلا کے جو چاہیں وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں!
یہ گہری سانس ظاہر میں کئی خوشیوں بھرے منظر دکھاتی ہے
تو باطن میں کئی پردے گراتی ہے
مگر ایسے عمل میں ہم نے یہ ادراک پا یا ہے!
کہ کوئی اخذ و حاصل آخر ی حاصل نہیں ہوتا
کوئی بھی فلسفہ حتمی نہیں ہوتا
یہ ہم فکر و تصور سے معانی کا جو تانا بانا بنتے تھے
کبھی بھی زندگی کی جامعیت تک نہیں پہنچا
ہمارے اس عمل نے لا شعوری
اور شعوری فاصلوں کو اور زیادہ وسعتیں بخشیں
سزاؤں، دھمکیوں، پند و نصائح کی بٹی رسی کی جنبش پر
ہمیں چلنا بھی آیا
اور ہم فطرت اکائی سے الگ ہو کر
کئی اشیا کی منڈی اور کلیسا کے سفر میں کھو گئے آخر
چلو آؤ ناں
سادہ اور آساں زندگی کی راہ پر چل دیں!
سخاوت اور احساں ہی تو وہ انصاف ہے
جو زندگی ہم سے طلب کرتی ہے
کیا ممکن نہیں ایسا کہ یہ انصاف کر کے نوع ہستی کو بدل ڈالیں
نہیں!
یہ سب امکان کی حد میں ہے، کل کی دسترس میں ہے
میں ڈرتا ہوں!
میں اپنے ہی گریباں میں بھلا کیا جھانک کر دیکھوں
یہاں اب تک رفو کا بے تحاشا کام باقی ہے!
یہاں تو اب تلک شخصی حکومت چل رہی ہے
یہاں ابلاغ عامہ کا جو اسرافیل ہے
وہ جاگتوں کو بھی سلانے پر لگا ہے
یہاں انسان کو پیہم ہی نا انساں بنانے کا عمل صدیوں سے جاری ہے
یہاں تو مرد نے
بے چاریوں کی ذمہ داری تک بھی جبراً پاس رکھی ہے
یہاں ایسا بھی طبقہ ہے
امیرِ شہر کو جو کج کلاہی کے سبھی تیور سکھاتا ہے
اسی طبقے کی حکمت اور حکومت اس جگہ موقع پرستی، دوغلے پن کی
نہایت حوصلہ افزائی کرتی ہے
ثقافت جب کلیشے اور نابینائی کے سینچے ہوئے جذبات سے بنتی ہو
تو پائے گدائے لنگ کے مانند بے ساکھی پہ چلتی ہے
گدا کی خانقاہوں میں بڑی توسیع ہوتی ہے
یہاں آنکھوں کا بھینگا پن نہیں جاتا
یہاں ایذا پرستی، دکھ اٹھانے کا تلذذ کس طرح جائے
کہ یہ آزار تو ان کی وراثت ہے
یہ سب صدیوں کی تنبیہ و سزا کے باوجود
اپنی وراثت کے نشے میں مست رہتے ہیں!
مری ساری امیدوں کا
مگر!
محور یہی تو ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
یہی ہیں وہ جو اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ کر
اسے وحشت دلاتے ہیں
میں خود بھی اس قبیلے میں بصد اعزاز شامل ہوں
میں اپنی زندگی کے آئینہ خانے میں
عکسوں کے عجب الجھاؤ میں رہتا ہوں
یہ تاریخ کیا ہے
یہ عناصر اور وقت اپنی حقیقت میں بھلا کیسی قیامت ہیں
میں اس انبوہ کی پہلی اکائی ہوں
جو دور صد زماں سے بے تغیر چل رہا ہے
اسی انبوہ کا اک فرد ہے
جو مجھ میں بیٹھا میرے نوحے میرے نالے سن رہا ہے
اور جو فطرت میں باہر میرے اندر ہے
اسی کا عکس ہوں شاید!
ثمر ہوں ایسی مٹی کا جسے دھوپوں نے گرمی میں پکایا ہو!
میں اس تاریخ کا ننھا خلاصہ ہوں
جو نا پختہ ارادے، سوچ کی محدودیت، لا انتہا خواہش، گھنی گہری
جبلت کے الجھتے اور ملتے واقعوں سے بنتی رہتی ہے
مرے اندر شکستوں کے گھنے سائے ہیں
امکانوں کے جھلمل بھی!
میں اپنے آپ سے کچھ مطمئن ہوں
مضطرب بھی ہوں!
میں ندی کی روانی ہوں
کناروں کا ہوں ٹھیراؤ!
میں حسن اور زندگی سے بے تحاشا پیار کرتا ہوں
’’مجھے خود سے مکمل اجنبیت ہے‘‘
میں اپنے دل کی تنہائی میں اکثر زید سے ملتا ہوں
اپنے سچ سے ملتا ہو ں!
میں اس سے گفتگو کرتا ہوں اکثر!
لیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یک طرفہ!
وہ میرے سامنے ہے اور مری پہچان سے باہر بھی رہتا ہے
اسے پہچانوں تو کیسے! کہ میری آنکھیں گھائل ہیں
،، وہ اور میں،، زندگی کے دو اہم کردار ہیں
جو دور اک دوسرے سے لفظ و معنی کی رسائی میں
جو چاہیں بھی تو شاید مل نہیں سکتے
وہ میرا اور میں اس کا کبھی محرم نہیں ٹھیرے
وہ میری پوری سچائی ہے
اور میں آدمی کے اصل کی آدھی صداقت ہوں!
کہ میں صدیوں سے اس سے گفتگو میں گم ہوں
اور یہ گفتگو ایسی جو یک طرفہ رواں ہے
مرا ایمان ہے اگلے جنم بھی جب میں آؤں گا
مری اور زید کی یہ گفتگو دائم رواں ریگ فرات تشنگی پر چل رہی ہو گی
*
ستمبر کا شہر
ہواؤ! آؤ
کھڑے ہیں افتادہ پا مسافر
جھکی جھکی ٹہنیوں میں
دامان و آستیں کا ہجوم الجھا ہوا ہے کب سے
فضا کی بے سمت آنکھ میں
سوختہ دنوں کا غبار
بھیگی ہوئی عبارت کے آبدیدہ حروف
بے جان و جسم بکھرے ہوئے پڑے ہیں
خمیدہ پیڑوں پہ ٹمٹماتی حنائی شمعیں
صدائے صرصر کی منتظر ہیں
ہواؤ! آؤ!
انہیں بجھاؤ
شکستہ دل، دست و پا بریدہ
سپاہ دارا
ستم کے تاریک راستے پر
چلی ہے شہر فنا کی جانب
جہاں پہ کتنے ہی زرد سورج
شب مسلسل کی سرد مٹی میں دب چکے ہیں
ہواؤ! آؤ!
نہ جانے اب کون سا پڑاؤ ہے جس میں ہم
بے درا پڑے ہیں
ابھی تو جانا ہے اور آگے
قدیم راہیں
ابھی پسارے ہوئے ہیں اپنے برہنہ بازو
کہ کوئی شعلہ
بھڑک کے اس نو دمیدہ سبزے کو راکھ کر دے
تو راکھ میں دب کے سو بھی جائیں
نڈھال بانہیں مگر ابھی تو
ابھی تو جانا ہے اور آگے
(کہیں پہ ان سست ساعتوں کا اداس لشکر ٹھہر نہ جائے)
کوئی چھلاوا
بلند چپلیوں
سفید، یخ بستہ چوٹیوں پر
کھڑا ہے سرما کی دھوپ کا تاجِ سر پہ پہنے
وہی تو ہے وہ مقام اول
جہاں سے بانگ رحیل کی اولیں صدا
بے خروش لمحوں کو لے اڑی تھی
بہارِ بے برگ و گل کی جانب
عروس نو
نا چشیدہ لذت سے نا شناسا
کھڑی ہوئی نیم سوختہ شام کے کنارے
شفق کے پھولوں سے آنے والی
وصال کی نرم نرم خوشبو
حنائی کرنوں کی آنچ سے شعلہ بن گئی تھی
نگاہ امید منتظر تھی
وہ رات آئے
کہ لحظہ لحظہ پگھلتی شمعوں کی روشنی میں
مئے شبانہ کی نرم قلقل کا ساز
اس راگ کو جگا دے
کہ جس کی موجِ نشاط میں
بوئے درد بھی ہے۔۔۔ عذاب و راحت
مگر ہوا آنے والی شب کی خبر نہ لائی
فضا کے سینے میں بند نوحے
سسکتے لب
زخم خام کی بوئے آتشیں سے دہک اٹھے تھے
ہوا کی سرگوشیوں میں جیسے
تمام چنگاریاں دبی ہوں ۔۔۔۔۔۔
مگر ہوا آنے والی شب کی خبر نہ لائی
بلند و بالا نشیں سفیدوں
دراز ستواں صنوبروں پر
مدام اگتی رہی سیاہی
کہیں پہ اس ۔۔۔۔۔۔ آسماں کے نیچے
اداس پچھلے پہر کی پیلی
خنک خنک دھوپ میں بگولے
ملول رستوں کی خاک پر محوِ رقص ہوں گے
درخت بے برگ و شاخ
جیسے صلیب چپ چاپ، سانس روکے ہوئے کھڑے ہوں
کہ آسماں سے ہلاک پتوں
گزیدہ شاخوں کا خون برسے
تو ڈوب جائیں
کشیدہ راہیں
کہیں پہ ہوں گے
کشاں کشاں قافلے روانہ
بہار صوتِ ہزار کی دائمی خلش میں
قدم قدم پر سراب
بے صرفہ خواہشوں کو فریب دے کر
دکھاتے ہوں گے
مسافروں کو نشانِ منزل
یہ قافلے گرم جستجو ہیں
کہ جیسے کم سن سا کوئی بچہ
ادھر ادھر
عکس آئینہ کو اسیر کرنے کی خام خواہش میں
دوڑتا ہو
کھنڈر کے نیچے
پرانے شہروں کے خاص ایواں
ستون شوکت
دبے ہوئے بے نمود خلقت کی خاک میں
بے نشاں پڑے ہیں
کھنڈر کے کتبے پہ نقش
حرف شکست
برسوں کے باد و باراں کے تازیانے سے بے خبر ہے
ہواؤ! آؤ!
لحد سے یہ اوڑھنی اٹھاؤ
یہاں پہ ہم نے
کئی ہزیمت زدہ زمانوں کے سرد لاشے
سپرد شہر خزاں کیے تھے
وہ سرد لاشے
کہ جن کی آنکھوں کے نور سے
مشعلیں جلائے
رواں دواں کارواں ہوئے تھے
گزرتے شام و سحر کی بوجھل
سیاہ و روشن سلیں اٹھائے
چلے تھے سنگین و سخت اہرام
ان سلوں سے بلند کرنے
۔۔۔۔ قدیم خود ساختہ لحد۔۔۔
جس کے سرد خانوں میں سو رہی ہیں
مشقتوں سے نڈھال روحیں
مسافروں کو نہیں ہے اذن مقام لیکن
ابھی تو جانا ہے اور آگے
پریدہ لمحے
کشاں کشاں ماہ و سال
حدِّ نگاہ سے دور جا چکے ہیں
مگر وہ بے درد گیت
یادوں کی دھند میں اب بھی تیرتے ہیں
کہ جن کو آنسو بنا کے
ٹپکا دیا تھا ہم نے
شفیق راتیں
گئے دنوں کے غبار میں گم
طویل رستے کی ایک جانب
تھکی تھکی روشنی میں ماتم کناں ہمیں
دور سے بلائیں
گزرتے لمحو!
یہ قہوہ خانے کی کنج تنہا
وہی ہے جس میں
عزیز چہروں کے پھول ہر شب کھلا کیے تھے
وہ مسکراتی رفیق آنکھیں
دبی دبی گفتگو کا جادو
کسے بتائیں
کہ ان چراغوں کے نرم شعلے دمِ سحر نے بجھا دیے تھے
بہار زار شاخ سے جدا
برگِ زرد
سرما کا چاند
خاموش بستیوں، سونی خواب گاہوں
سے دور ہو گا
اکیلا۔۔۔۔ تنہا
کہیں پہ ریگِ رواں کے نیچے
دبے ہوئے ساحلوں کا موتی
نمودِ یک شب کی آس میں محوِ خواب ہو گا
کبھی تو اس لامکاں سمندر
میں چھپنے والے
ابھر کے دیکھیں گے شاخ شب پر
اداس ۔۔۔ سرما کا چاند
حرماں نصیب موتی
خیال۔۔۔ شیریں و ترش
آوارہ طائروں، اڑتے بادلوں کی طرح گریزاں
گزر گئے تو
زمیں کے خاکستری لبادے پہ
کوئی نقش بقا نہ چھوڑا
خیال۔۔۔ شیریں و ترش
لیکن
بدلتے پیکر میں جذب
ساون کی پہلی بارش سے اٹھنے والی
عجیب خوشبو
اڑا گئے تھے
وہ باس جس کی خفیف آتش میں جل کے
روما کے آزروؤں نے صنم تراشے
یہ سجدہ گاہیں
جہاں یہ آنکھوں کے جلتے بجھتے چراغ
تاریک طاقچوں سے
کسی کو اک آنکھ دیکھنے کو
ترس گئے ہیں
یہیں ہزیمت زدہ تمنا نے سخت پتھر کو
رنگ و نغمہ کا روپ بخشا
کہیں پہ مسمار مکتبوں میں خیال
پیرانہ سال مٹی میں دفن ہوں گے
نئے شوالوں میں بت، تحیر فزا
کھڑے ہیں
نئے پجاری کو دیکھتے ہیں
کو جو نحیف و ضعیف کاہن کو گاڑا آیا ہے
منہدم معبدوں کے نیچے
خیال ۔۔۔ شیریں و ترش
لے کر مسافروں کو چلے تو کتنے ہی خار
دامان و آستیں سے الجھ گئے تھے
دھواں دھواں
راستے پہ چلتے رہے مسافر
فگار پاؤں کے آبلوں نے
قدم نہ روکے
صدائے صور سکوت، سن سن کے گرنے والے
ہلاک پتے
کئی زمستاں پرے یہاں سے
شب مسلسل کی برف باری میں
دب چکے ہیں
کوئی چھلاوا
بلند چیلوں
سفید یخ بستہ چوٹیوں پر
کھڑا ہے سرما کی دھوپ کا تاج سر پہ پہنے
بلا رہا ہے
ہواؤ! آؤ!
یہ قافلے اپنی آگ میں راکھ ہو چکے ہیں
یہ ڈھیر پتے
یہ کاہ و خاشاک
خاکدان نمود سے لامکاں سیاہی
کی سمت جانے کے منتظر ہیں
ہلاک سورج
کشیدہ سایوں کی گود میں
لخت لخت
بکھرے ہوئے پڑے ہیں
ہواؤ! آؤ!
جھکی فصیلوں، پناہ گاہوں
میں بند لشکر
دھوئیں کے گرتے حصار دیکھیں
سیاہ رتھ کے قریب آتی ہوئی
صدا
سن رہے ہیں شاید
یہ ٹمٹماتی حنائی شمعیں
یہ زرد آنکھیں۔۔۔ یہ سرد چہرے
مثال تصویر۔۔۔ دم بخود ہیں
ہواؤ! آؤ!
٭٭٭
اپنے ہونے کی سزا
دیکھ!
اس بے سقف کمرے میں بجھے تاروں کی بارش کا سماں
سن!
شکستہ آئینے کی کرچیوں پر رینگتے لمحوں کا شور
کھٹکھٹاتا ہے گلی کے بند دروازوں کو
پاگل پیل مرد
اور مسجد کے قریب
ہو گیا ہے خود بخود دو نیم برگد کا درخت
شہر میں بے ربط آوازیں۔۔۔
درندوں، وحشیوں کے قہقہے
اور اس نظارہ و آواز کے ملبے میں
چشم و گوش بے نام و نشاں
بے خروش
آنکھ کا سیلاب کب کا تھم چکا
اب حقارت کی سیہ صرصر بیابانوں میں چلتی ہے سدا
پر کسی تاریک گوشے میں ابھی تک ٹمٹماتا ہے
کسی نادار خواہش کا چراغ
اور مرجھائی ہوئی کرنوں میں کوئی ڈھونڈتا رہتا ہے
امکان بہار
درد کے اہرام سے باہر نکل آئے کبھی
جس کے تہ خانوں کی سب پرپیچ راہوں، چور دروازوں
در بیروں کا رستہ
بے زباں گونگے محافظ جانتے ہیں
پر بتا سکتے نہیں
اور وہ صدیوں پرانی چھت کو دزدیدہ نظر سے دیکھ کر
سوچتا ہے کس طرح کچھ سال پہلے
شہر کے اک خانۂ تاریک میں
دب گیا تھا بے خطا
طفل یتیم
کوچہ و بازار میں رسوا خیال
گوش بر آواز ہیں
جا بجا بکھرے ہوئے پیتل کے ارزاں قہقہے
چوک میں لٹکی ہوئی بوڑھے مؤذن کی صدا
اور کج پیکر مکیں
کھینچتے پھرتے ہیں بازاروں میں
ستواں جسم پورس کی برہنہ لاش کو
آنکھ، اس تاریک زنداں کی اسیر
دیکھتی ہے ان سلاخوں سے پرے سب واہمہ ہے
سب سراب
(اپنے ہونے کی سزا)
کل بھی تھا وہ اجنبی لوگوں میں تنہا۔۔۔ بے رفیق
مرد و زن ترشے ہوئے شیشے کی آنکھوں سے اسے
دیکھتے تھے اور نفریں قہقہے سے
پھیر لیتے تھے نظر
اس کی رفعت سے کہیں کم تر نگاہیں
اپنی پستی سے زیادہ پست۔۔۔ کیسے دیکھتیں
اس کی رخشندہ جبیں
وہ کسی فردا کے نادیدہ جہاں کا منتظر
بے ثمر، یکساں دنوں کی ایک سی رفتار سے
نا مطمئن
چاہتا تھا اپنی آہ سرد سے
یہ سدا جلتا ہوا سورج بجھا دے
وہ ہمیشہ بے اماں
دھوپ سے پگھلے ہوئے جسموں کو ہر دم چاٹتی چابک کی زہریلی صدا
سنتا رہا
جس نے دیکھے خوں چشیدہ کھیت میں اگتے ستوں
جبر کے اونچے محل
وہ کسی فردا کے نادیدہ جہاں کا منتظر
اجنبی شہروں میں سرگرداں رہا
دل۔۔۔ ہوا میں کانپتا پتہ۔۔۔ ہمیشہ مضطرب
روز و شب کے معنی و اسلوب سے نا مطمئن
چاہتا تھا توڑ دے خود بیں خداؤں کے سیہ آئین کو
مشرق و مغرب میں حائل فاصلے کو پاٹ دے
خود ستائش گر نظر سے
چھین لے وہ عکس جو آئینہ گر کا فیض تھا
اور دھو دے
بے بصر دل کی سیاہی
جسم و جاں کی سلوٹوں سے خوف و اندیشہ کا میل
تاکہ مل جائے انہیں
دائمی ساعت کا بے پایاں سکوں
شہر میں سرکش
اناؤں کی سدا جلتی ہوئی آندھی کا زور
ناتواں پیڑوں کو گرتا دیکھ کر
کف اڑاتا ہے کسی سفاک، بے ساحل سمندر کا جنوں
اس سمندر کو ابھی تک یاد ہے
ان گنت، بھولی ہوئی جنگوں کا حال
اولیں سایہ ابھی تک
کوئی کیوں سوچے کہ اس کے خون میں محفوظ ہے
کوئی کیوں سوچے کہ اس کا اولیں سایہ
پرانی رزم گاہوں میں لہو پیتا رہا
(اپنے ہاتھوں قتل ہونے سے اسے ہوتا تھا جیسے
اپنے ہونے کا گماں)
اور اس لا انتہا لذت سے ملتا تھا اسے
ایک لحظہ کے لیے اس دائمی ساعت کا بے پایاں سکوں
جو گھنے جنگل میں رکھتی تھی
اسے آئندہ و رفتہ کے اندیشے سے دور
(آنکھ تھی ہر واہمے سے بے نیاز)
اس گھنے، لا انتہا جنگل کی سرحد بن گئی
نیم روشن آ گہی
اور پھر اپنی انا۔۔
جسم و جاں کا اولیں سایہ ہوا گرمِ ستیز
(دائمی ساعت کے کھو دینے کے دکھ کا انتقام)
آ گہی نے کتنی زنجیریں بنائیں
تاکہ جنگل کی ہوا کو، رینگتے بے جسم سائے کو
کسی حیلے سے کر لے زیرِ دام
پر سدا چلتی ہوئی
چراغ چشم کی انگشت بھر لو سے کہاں تھمتی
کہ وہ ہر ضابطے کی قید سے آزاد تھی
اپنے ہونے کا صلہ ہے
بے کراں ساعت کی بے صرفہ تمنا کا عذاب
بے ثمر خوابوں کا دکھ
کل بھی کوئی آئے گا طرح دگر پر
شہر نو تعمیر کرنے کے لیے
اور اس کی دکھ بھری آواز
غراتی مشینوں، اجنبی لوگوں کے ارزاں قہقہوں کے شور میں
کھو جائے گی
دکھ کی سل دل پر اٹھائے
کوچہ و بازار میں تنہا پھرے گا
اور سوچے گا
کہ اس تاریک زنداں سے پر
سب واہمہ ہے، سب فریب
(اپنے ہونے کی سزا)
*
بے انت کا سپنا
بوڑھا سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ
وہاں تو ہر جا
چمکتی دہشت کی دھار سے سر بریدہ شاخوں
ہلاک پتوں کے خون کی پپڑیاں جمی ہیں
سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ
سفید کرگس
تمہارے جسموں کو نچ لیں گے
سیاہ بارود کی مچانوں پہ چھپ کے بیٹھے ہوئے شکاری
چمکتی آنکھوں میں قبر کھودیں گے گولیوں سے
سنو! سنو! نوجوان لڑکو
تمہارے ناخن گلاب کی پتیاں ہیں، ان سے
کڑی سلاخوں کو کیسے کاٹوں گے، کیا کرو گے
زمیں کی تختی پہ سارے وقتوں کا فیصلہ کیسے لکھ سکو گے
تم ان سے کالے سمندروں کی تہیں ٹٹولو گے
اور واپس نہ آ سکو گے
سنو! سنو! جنگلوں کی جانب ابھی نہ جاؤ
وہاں اندھیرا سلگ رہا ہے
مدوسا۔ انگ گنت دانت مرے ہا۔ ہا۔ہا
سینکڑوں ہاتھ مرے ہا۔ہا۔ہا
آگ پاکیزہ ہے
میں اگر اپ کی اولاد ہوں، ماں ہوں
تو مقدس ہوں میں
آؤ، سب آؤ، مرے شعلوں میں مدغم ہو جاؤ
یہ مکاں ہیں کہ کھنڈر ہیں، جن کی
کنڈیاں بند ہیں، دانتوں میں دبائی ہوئی سانسوں کی صدا آتی ہے
کانپتی بلڈنگیں، بے آہ و فغاں، ٹھہرا ہوا واویلا
عورتیں، ہا۔ ہا ۔ ہا
اور بچوں کا بلکنا۔ ہا، ہا
تو نے اس شہر کے مردوں کو کہاں بھیجا ہے
ٹکٹکی باندھ کے کیوں دیکھتا جاتا ہے مجھے
اے پجاری! تری خواہش کا معطر دریا
بہہ رہا ہے، جس پر
رینگتا ہے مری آواز کا سنسان دھواں
اے ہیہوئے کے مقدس کاہن!
میں تری ماں ہوں، ترے بیٹوں کی اولاد بھی ہوں
اجنبی گورکنوں کو میں نے
اس جگہ بھیجا ہے
جو مری اگ میں کفنائے ہوئے شہروں کو دفنائیں گے
اسے ہیوئے کے مقدس کاہن!
تو نے اس شہر کے مردوں کو کہاں بھیجا ہے
شہر کیوں خالی ہے
ہا۔ہا۔ہا
میں۔ زید! آ چل کے خبروں کے اونچے دھماکے سنیں
کیا خبر برف کے زخم کھائے ہوئے ہاتھ کی پشت پر
روشنی تیز ریزر سے نیلی رگیں کاٹ دے
اور تیزاب میں دل کے اجلے بدن
اپنی تازہ تپش سے مہکنے لگیں
کیا خبر
کنکریٹ اور سیمنٹ کی سخت دیوار پر
تیز بارش کا سبزہ اگے
زید۔ میرے ہمزاد! چائے کی خالی پیالی بڑھا
تیری آنکھوں میں اگتا ہوا سبز منظر بہت غیر دلچسپ ہے
میں یہاں دس برس سے ہوں بیٹھا ہوا
میں نے دیکھا ہے سیسے کی بیساکھیوں پہ اپاہج دنوں کا سفر
ہاتھ بنجر سہی
پر کئی سال ہم دھوپ میں بیٹھ کے
ناخنوں کی کھڑی فصل کو کاٹتے ہی رہے
بند کمرے میں آنکھوں کی دیوار پر
لڑکیوں کی سرکتی ہوئی نیم عریاں تصاویر نے
جسم پر رینگتی کیڑیوں کی طرح
گدگدایا ہمیں
روزناموں میں قتل اور اغوا کی خبریں مزے لے کے پڑھتے ہوئے
ہم نے ہاتھوں کو سانسوں سے ٹھنڈا کیا
میرے ہمزاد! تو نے مجھے اور میں نے تجھے
بارہا مات دی
بارہا ہم نے باتوں کی جنگیں لڑیں
میرے ہمزاد! آ آج بھی حسبِ معمول باتیں کریں
آ کسی تیسرے شخص کی ذات کو
چست فقروں کی چوکاٹ میں جڑ کے اک دوسرے کو
دکھاتے پھریں
کورس۔ سفید طاعون حملہ آور ہے
دبا کے نرغے میں آئی بستی کے جسم پر کپکپی ہے طاری
ہماری آنکھوں میں دیکھ بابا!
ہمارے سینوں میں غیب کی روشنی کا سنگیت بج رہا ہے
ہیوئے سے سائیگاؤں تک
آنے والے موسم کی راہ میں ہم
گلاب کیسر بریدہ قلمیں لگا رہے ہیں
بہار کا گیت لکھ رہے ہیں
وہ دیکھ بابا!
بموں کی بارش نے تازہ مٹی کے برتنوں کو گھلا دیا ہے
ہمارے بھائی
دھوئیں کے جنگل میں ہم سے غافل
لہو کی چادر میں سو رہے ہیں
انہیں جگانا ہے اور جانا ہے آسماں تک
جہاں سے ہم سبز دیو مالا کا اسمِ اعظم
زمیں پہ پھونکیں گے اور کبڑی زمیں کے سب بل نکال دیں گے
میں۔ رات بھر آسماں اور میں
مرد و زن طرح اپنے سینوں کو باہم ملائے ہوئے
نیم بے ہوش کیفیتوں میں اندھیرے کی سرگوشیاں
سن رہے تھے
صدا اپنے مرکز سے محور کی جانب رواں
بے خزاں وقت ذروں کو لہریں بناتے ہوئے
اور لہروں کو نابود کرتے ہوئے
زندگی۔۔ موت۔۔ لا انتہا
خون کی اوس ہی آسمان و زمیں، بحر و بر اور مخروط کی
نوک سے دائرہ تک کا پیہم سفر
اے خدا! تو اکائی بھی، لا انتہا بھی، اکیلا بھی ہے اور
انبوہ بھی، زلزلے، آندھیاں، بے حسی۔۔ موت یا نیند
کی بے حسی۔۔ سب کے سب تیرے مظہر ہیں۔۔ تو کیا ہے
اے جاگتوں کے خدا! اے سلگتے اندھیروں کے آقا
تجھے کون سا نام دوں۔۔ تیرے اوراق پہ روشنائی کے
ساتوں سمندر ہیں پھیلے ہوئے
وہم کی روشنی اتنی کم ہے یا اتنی زیادہ ہے
رستوں کا مقصد سرابوں میں غرقاب ہے، خواب کی
سب نے سب سے ہمیشہ کہا
موت کی بادشاہت میں آنکھوں کے پرچم کو اونچا رکھو
قاف کی چوٹیوں پہ کھڑے
سب نے سب سے ہمیشہ کہا
آخری جنگ کے بعد تابہ ابد نور ہی نور ہے
اے خدا تیرے منشور و آیات کی خیر ہو
کیا یہی آخری جنگ ہے؟
ایک آواز: کھیسان کی سولی ٹوٹ چکی
اب شہر پناہوں کے باہر
چوبی لشکر پھر چوکس ہے
کیا مرکو سیاست کی قوت
پھر جیتے گی
اندازے کی بالشتوں سے کیا ناپتے ہوئ
نسوانی لمس خوش آمد کا
اچھا لگتا ہے کیا کیجے
سب بزدل میں
بیماروں کے اس میلے میں
کل سوچوں، سارے وقتوں کا
انداز وہی ہے، جو کل تھا
دوسری آواز فلسفے سب فلسفے
دلدلیں، ابلے ہوئے لاوے، پرانی گیس کے اندھے کنوئیں
نصف دائیں دھڑکی اقلیدس تمہیں
لائنوں اور زاویوں کی مختلف اشکال میں
اور تہذیب و ثقافت، مذہب و جغرافیہ کے جال میں
جکڑے ہوئے
تم کو تم پر فاش کر سکتی نہیں
تم کہ ہو
سام کی بورھی حکومت کی عصا
تم کہ ہو
تہ بہ تہ، پردہ بہ پردہ ان گنت اوہام میں لپٹے ہوئے
کھولتے خوں کے چمٹتے سورجوں کو
بزدلی یا مصلحت یا فیصلے کے ضعف کی پھونکیں
بجھا سکتی نہیں
تم سمجھتے ہو کہ شاید آسماں کی جبر کا طوفاں اڑا لے جائے گا
تم سمجھتے ہو تمہاری خندقیں سیلاب کی زد میں نہیں
اس طرف دیکھو جہاں
نوجواں لڑکوں نے اپنے ناخنوں سے آہنی دیوار کو
کر دیا ہے ناتواں
زندہ باد اے ویت نام
بوڑھا۔ جوان لڑکو! تمہاری مائیں
جلی ہوئیں بستیوں کے ملبے پہ آنسوؤں کی
چمکتی مالائیں لے کے برسوں سے منتظر ہیں
زمیں کو رعشہ سا ہو گیا ہے
تم آؤ گے اور تم نہ آؤ گے اور وہ منتظر رہیں گی
جوان لڑکو!
بموں کی بارش میں آگ کے پیڑ اگ رہے ہیں
زمیں کی چھت سے دھوئیں کے جالے لٹک رہے ہیں
بہار کی دلہنیں کہاں ہیں؟
سنا ہے وہ بھی
تمہارے ہمراہ آ رہی ہیں
(سنا ہے وہ بین کر رہی ہیں)
نہیں، نہیں، تم ضرور آؤ گے، آخری جنگ۔۔ ساری
سوچوں کا، سارے وقتوں کا فیصلہ کرنے والے لڑکو!
تم آؤ گے اور تم نہ آؤ گے اور ہم منتظر رہیں گے
٭٭٭
میں ابد ہوں
آسماں ڈوب گیا تنگ خلیجوں میں کہیں
میز پہ رکھے ہوئے ہاتھوں پر
سانس دھندلائی ہوئی گرتی ہے
ادھ کھلی کھڑی سے
رات انڈیل رہی ہے خنکی
سارے دروازو ں پر
خود کو کم جاننے کے پہرے ہیں
اجنبیت کا پرانا احساس
ڈولتے کوہ کی مانند جھکا ہے سر پر
جو ابھی سونڈ میں لپٹا کے
اچھالے گا اسے
اور پلٹا کے پھٹی آنکھوں کو
اپنی پیشانی میں وہ جھانکے گا
اور دیکھے گا تھیٹر کا وہ منظر جس میں
بیل ہسپانوی لڑکے کو ارینا میں کچل دیتا ہے
مسکراتا ہوا لڑکا جس کی
موت محبوبہ ہے
کیا یہ تہوار ہے خوشبوؤں کا؟
سرمئی ریت میں ڈوبے ہوئے شفاف لہو کے
سوج
آسماں کے مہکتے ہوئے پھیلاؤ میں
رات کے پیڑ پہ اگ آئے ہیں
اور اب
دھوپ کی پتیاں رستوں میں لٹائی ہے ہوا
زرد مشرق میں غلامی کی سڑاند
صندلیں نسل کی یورش میں بہی جاتی ہے
کیا یہ تہوار ہے خوشبوؤں کا؟
قہر کے کوہ سے بہہ نکلی ہے
آہستہ سے
سرخ ملبوس میں دلہن ہے رواں
اور فرہاد نئے موسم کا
حود کشی کر کے انا الحق کی اذاں دیتا ہے
ویت نامی بھکشو
کھول کے اپنی رگیں
خام قوت کے مقابل میں گواہی اپنی
دے رہا ہے دیکھو!
مشرق و مغرب میں
چی گویرا کی صدا پھیلتی ہے، پھیلتی ہے
میں نے پہچان سے اثبات کا
نا وقت سفر
طے کیا اور اجالے مرے قدموں میں بچھے
میں کہ بے انت اندھیرے کی
کسی شاخ سے لٹکا ہوا اک پتا تھا
میری آنکھوں سے کئی صدیوں کے
جہل کی چھال گری۔۔ اور زمانوں کے زمانے پلٹے
نوجوانوں کی جواں تر آواز
خوں میں گونجتی ہے، گونجتی ہے
سوچ کا بحر ہے میلو ں گہرا
اور نوان خامشی کا پرندہ ہے بلندی سے
نگاہیں جس کی
معتدل موسموں کو برف پہ چھڑکاتی ہیں
بس ابھی پھینکیں گی
آسمانوں سے ابابیلیں کئی سوچتے جذبوں کی
حرارت جس سے
جھوٹ کی کند تہوں کے چھلکے
سارے جسموں سے اتر جائیں گے
اور گو تم کوئی
ساتھ لائے گا خود آگاہیوں کا آئینہ
سب کی پیشانیاں پاکیزہ زمانوں کی بشارت سے
دمک اٹھیں گی
(٢)
تو نے دیکھا ہے کبھی
تند دریاؤں کو پستی سے بلندی کی طرف بہتے ہوئے
تو نے خوشیوں کے کھلے موسم میں
سرمئی دھوپ کو آنکھوں سے ٹٹولا ہے کبھی؟
جب اجالے کا ابو الہول ترے سینے پر
ناچنے لگتا ہے
تو نے محسوس کیا ہو شاید
تیرے آئینے میں الٹائی ہوئی شکلیں ہیں
اپنی تردید سے خائف ہو کر
وہم کے تنکوں سے
تو بناتا ہے عقیدوں کی فصیلیں کتنی
انکشافات کے لشکارے کو
تو سیاہی میں ڈبوئے ہوئے الفاظ کے
چھینٹوں سے بجھا دیتا ہے
گول ابھری ہوئی آنکھوں سے تجھے تاڑتی
رہتی ہیں کئی چھپکلیاں
خوف و حیرت کے سوالات ہیں منہ کھولے ہوئے
اور تو جانتا ہے
روشنی ڈھونڈنے والوں کو مکوڑوں کی طرح
رات کی ڈائنیں کھا جاتی ہیں
اور مکروہ سواتلا خلاؤں کی طرح
گھورے رہتے ہیں
روزمرہ کے بنائے ہوئے تسلیم شدہ رستوں پر
دھول ہی دھول ہے سمجھوتوں کی
یہ نفی کے پردے
دیکھنے والے کی پوشش بھی ہیں عریانی بھی
روشنی کے قد سے
گھر کے یہ سائے بہت لمبے ہیں
فرش پر بکھرے ہوئے جوتوں کے
منہ کھلے ہیں جن سے
رات بھر اڑتی ہے بیمار سفر کی بدبو
کیسے ہر شام کو ہارا ہوا خود سر لڑکا
اپنی چوکور پنہ گاہ میں لوٹ آتا ہے
اور کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک
جیسے دانتوں سے کرنے کی مسلسل آواز
کوئی شے گھٹتی ہوئی
رونما ہوتے ہوئے واقعے، وقفوں کے خلا
بلبلے اور زمانے یکساں
دیکھتے دیکھتے خاموش دھماکوں میں بکھر جاتے ہیں
وقت بے سمت مکاں ہے جس کا
کوئی دروازہ نہ دیواریں ہیں
ایک احساس بیک وقت
ہزاروں جانب
پھیلتا او سکڑتا ہے حوالوں سے ترے
تو خود اپنا کل ہے
اپنے پاؤں کے تلے روندا ہوا تیرا احساس ہے ایذا تیری
تو تر و تازہ چراگاہوں سے
دن کے ڈھلے ہوئے سورج کی رفاقت میں
بہت دور نکل آیا ہے
منزلیں۔۔ عارضی ترکیبیں بغاوت کو
فرو کرنے کی
نظریے موم کے بت ہیں جن کو
مصلحت اور ہوس کی گرمی
مسخ کر دیتی ہے
تو نے دیکھا ہو گا
سادگی اور خباثت کو گلے ملتے ہوئے
فلسفے اور اصول
بات سے بات بنانے کے ہنر
اور تحریر کے کوزہ گر نے
چاک پر، ایک ہی مضمون کو ڈھالا ہے
کئی شکلوں میں
توڑ ان خوابوں کو
واہمے دن کی چٹانوں پہ گرا
المیے خبروں کے
آنکھ میں چبھتے ہوئے گرد کے تنکوں کی طرح
منکشف ہوتے ہوئے، چھپتے ہوئے
منظروں اور مزاروں کی نمائش گاہیں
جن میں چندھیائی ہوئی، سکڑی ہوئی
پتلیاں کھلتے کھلتے
اپنے پھیلاؤ میں صدیوں کے اندھیرے کو ڈبو لیتی ہیں
اور پھٹ جاتی ہیں
ایک انبار ہے بولے ہوئے، لکھے ہوئے حزووں کا جسے
لیمپ کی روشنی میں
توکدار انگلیاں سلجھاتی ہیں
اور پھر رسیوں کے ٹکڑوں سے
بنتی رہی ہیں بچھونا جس میں
کوئی سوراخ نہ ہو
دھڑ تڑپتا ہوا نا یافتہ آسائشوں کی خواہش میں
سر کو ڈستے ہیں سوالات کے کالے کژدم
اپنی حد بندیوں کی سولیاں لٹکی ہوئیں۔۔ چاروں جانب سب عمل بے مقصد
سرحدیں۔۔ ڈوریاں الجھی ہوئیں ہر پاؤں میں
پتلیاں ناچتی ہیں، ناچتی ہیں
(٣)
سرد کافور کی بو، صبح کی پہلی کرنیں
اور فلموں کے پرانے گانے
ایک سا ذائقہ ہے
ناشتے اور نئے دن کے خبر نامے کا
کھردرے چہرے پہ ریزر کے رگڑنے کی صدا
تیز چائے میں گھلائے ہوئے سگرٹ کا دھواں
منہ میں ٹپکاتا ہے
سالہا سال کی عادات کا مٹیالا مزا
اور الماری سے آتی ہے کتابوں کی پرانی خشبو
وہ کتابیں جن میں
ہم رکھا کرتے تھے
خوشنما مور کے پر اور سنہری کتریں
یاد ہے؟ آج سے برسوں پہلے
ہم اسی وقت اسی راستے پر
ہاتھ میں تختیاں لٹکائے ہوئے چلتے تھے
آسماں اور زمیں اپنے تھے
معرکے تازہ لہو کے جن میں
چاہتے تھے کہ نئی لرزشیں محسوس کریں
نت نئے تجربوں سے خون ابالیں اپنا
کوئی دعویٰ ہمیں تسخیر کرے
یاد ہے؟ سینکڑوں پگڈنڈیاں کھلتی ہوئیں
پاؤں کے تلے
کھلکھلاتی تھی ہمیں دیکھ کے، سبزے میں بھگوئے ہوئے
کھیتوں کی ہوا
سخت کھینچے ہوئے تاروں کی رگیں بجتی تھیں
اور گہنائے ہوئے چاند، اٹھائے ہوئے صدمات کی پیلاہٹیں، ناکامیاں
رومان، چکا چوند دلیلوں کی شکستیں، نئی دریافتیں، اعصاب سے
گرتا ہوا ہیجان، نئے روپ، بلدتی ہوئی
پہچان میں سرجن کی جراحت کا عمل
سارے افعال و مسائل کی اذیت میں
عجب لذت تھی
کون سی شام تھی جب
میں نے جلتے ہوئے سگرٹ سے ڈسی تھیں آنکھیں
بے دلی گہری، بہت گہری تھی
جا بجا درزوں سے
روشنی چھنتی تھی
جیسے بے جسم اندھیرے کے مساموں سے لہو رستا ہو
جاگتے رہنے کی حاجت تھی کہ سو جانے کی
سرد سیسے کی طرح سست وجود کوئی نسیاں کے سمندر میں گرا دے مجھ کو
میں نے یوں چاہا تھاپر دل سے کہاں چاہا تھا
اور پھر میں نے کہا زید سے سرگوشی میں
آ چلیں چائے پئیں
نیم رس روشنیاں ہوٹل کی
منتظر ہیں اپنی
دیکھ! وہ لڑکیاں خوشبو کے بگولے کی طرح
گزری ہیں
عکس پھلدار درختوں کے رواں سایوں کے
روح میں تیرتے ہیں
گدگداتی ہے طبیعت کو ستمبر کی ہوا
آ کہ ان رکتے ہوئے، چلتے ہوئے جھونکو ں کو
اپنے ہر انگ سے محسوس کریں اور حسیں
دنیا کے
منظروں اور رتوں کا امرت
چسکیاں لے کے پئیں
دوستو! دوریاں طبعی ہیں، مری مجلس میں
تم سدا رہتے ہو
واہ کی مال، صدر کی سڑکیں
اور جہلم کا ابد کا دریا
مرے ہونے کے حوالے ہیں، مرے ماخذ ہیں
جو مرے مسخ شدہ چہرے کی
آخری سرخی ہیں
جبر کے سلسلے، سسلی کے پہاڑ
پیٹ میں بھوک کے لاوے کا ابال
گھر پہ نیپام بموں کی بارش
اور گورے حبشی
سینکڑوں برسوں سے
ان گنت راستوں سے شہر پہ حملہ آور
اجنبی جبر کے خفیہ رستے
موت پھنکارتی پھرتی ہے گلی کوچوں میں
زرد قوت کا بھینکر اژدر
جس کا اگلا ہوا پیلا لاوا
شہر زادوں کو بہائے لیے جاتا ہے نشیبوں کی طرف
جس طرح دھوپ کو ڈستے ڈستے
پھیلتا سایہ فنا کر ڈالے
جیسے پندرہ راتیں
چاند کے جسم کو کھا جاتی ہیں
زرد قوت کا بھینکر اژدر
رینگتا رہتا ہے بل کھائی ہوئی سڑکوں پر
منڈیوں، ہوٹلوں، بنکوں کا خدا
کتنی پرہول ہے صورت اس کی
میں نے آرے کی مشینوں میں پھنسی بوٹیاں
دیکھی ہیں کٹے جسمو ں کی
میں نے دیکھا ہے لہو تھوکتے مزدوروں کو
زرد قوت کا خدا
روندتا جاتا ہے
جس طرح پاؤں رگڑنے سے بجھا دے کوئی
فرش پر کوئلے کی تحریریں
زید! تو کہتا ہے میں زندہ ہوں
میرے ہونے کی ضرورت کی ہے
اور پھر کون سے مقصد کے لیے
خود کو موسم کی ہواؤں کے حوالے کر دوں
میں کہ مظلوم ہوں، ظالم کے گلے کیسے لگوں
میں چلا جاؤں۔۔ کہاں جاؤں؟
کہ جینا مری معذوری ہے
فیصلہ۔۔ میری حقیقت ہے جسے
میں نے گم کر دیا ابہام کے چو رستے پر
خود کشی اور بغاوت دونوں
میرے ہونے کی دلیلیں ہیں جنہیں دے نہ سکوں
دیکھ! وہ دیکھ بہادر لڑکے
خون میں ڈوب کے ابھرے ہیں فلک زاد اجالے کی طرح
ویت نامی لڑکے
اور میں ان کے لیے جیتا ہوں
اور پھر سوچتا ہوں
روز و شب۔۔ وقت کی خوش فہمیوں کے جگنو ہیں
ان کے پیچھے پیچھے
کوئی بھاگے کب تک
اور آوازوں کے
کتنے انبوہ تعاقب میں مرے
چلے رہتے ہیں، مجھے کہتے ہیں
میں فنا ہو جاؤں
ورنہ ایندھن کے بڑے ڈھیر میں سڑتے سڑتے
راکھ بن جاؤں
ہاں اسی مٹی پر
گر کے شفاف پیالے کی طرح ٹوٹ چکی ہیں آنکھیں
اور ان بکھری ہوئی کرچیوں میں عکس پڑے ہیں کتنے
نرغہ در نرغہ سوالات کھڑے ہیں کتنے
پوچھتا ہوں کہ مرا نام ہے کیا
میں کہ خود میں بھی نہیں
بیش تر ٹیپ شدہ تقریریں
پیش رو ہیں میری
میرے افعال نئے فیشنوں کی نقلیں ہیں
میں اسے ڈھونڈوں کہاں
میں کہ خود میں بھی نہیں
ہاں مگر میرے لیے
غیر محسوس ارادوں کی کئی منزلیں ہیں
جو مجھے ساتھ لیے پھرتے ہیں
ڈوبتی گرمیوں کی شامیں گھنی جھاڑیوں میں
بیٹھی ہوئیں
سانولی دلہنیں آنکھوں کے اشارے سے
بلاتی ہیں مجھے
اور میں روز چھٹی سڑک پہ جاتا ہوں
جہاں
منتظر ہوتا ہے
آسماں۔۔ میرے لڑکپن کا رفیق
اور ہم باہوں میں باہیں ڈالے
گھر سے بھاگے ہوئے لڑکوں کی طرح
شہر سے دور نکل جاتے ہیں
دور۔۔ خاموشیوں کے معبد میں
ہم اشاروں کے اسالیب میں سرگوشیاں کرتے کرتے
آنسوؤں اور ستاروں کو ملا دیتے ہیں
پھیلتی پھیلتی بیہوشی میں
روشنی گھلتی ہے
دیکھتے دیکھتے شکلوں کے مکعب
آنکھ سے ٹوٹ کے گر جاتے ہیں
پھر ہمیں راہ میں بھیگے ہوئے سٹرس کی گریزاں خوشبو
اور سر زرد سریں کے سائے
ساتھ لے اڑتے ہیں
سنسناتا ہے، مرے جسم پہ کانٹے سے ابھر آتے ہیں
اور پھر آنکھوں سے
آبشاروں کی طرح گرتے ہیں
خواب آئندہ کے
کون سی لڑکیاں تھیں؟
جن کو چاہا تھا، بہت چاہا تھا
وہ کسک۔۔ حزنیہ گیتوں کی کسک آج بھی ہے
آج بھی ہے
جو مرے جسم کو سلگائے ہوئے رکھتی ہے
اور میں زندہ ہوں
دیکھ! وہ مشرق و مغرب کے جلوس
مشعلیں تھامے ہوئے، نعرے اڑاتے ہوئے
آ پہنچے ہیں
میرے ہونے کی گواہی دینے
خون میں ڈوب چکا ہوں تو کیا؟
میں اندھیرے کے درندے سے لڑا ہوں برسوں
اور اب شہر بہ شہر
گھنٹیاں بجتی ہیں
آسمانوں سے اذانوں کی صدا آتی ہے
اور میں زندہ ہوں
٭٭٭
درخت
ابھی ابھی برف کی چڑیلیں
ہری ہری مسکراہٹوں کو
شگفتہ چہرے سے نوچ لیں گی
ابھی ابھی باؤلے دنوں کی
سیہ لٹکتی ہوئی زبانیں
سرر سرر چاٹنے لگیں گی ترے بدن کو
خزاں کا سفاک لکڑا ہارا
ابھی ترا انگ انگ کاٹے گا، پھانسیاں سی
تجھے بلندی سے پستیوں میں کڑک کڑک
کھینچنے لگیں گی
مگر معطر لہو برستا ہے جب فضا سے
خنک خنک آگ جاگ اٹھتی ہے جب رگوں میں
تو ایسے موسم میں تیرے زخموں سے پھوٹ آئیں گی
عہد نامے کی آیتیں سی
تو مسکرا کر محبتوں کی گواہی دے گا
(کرن کا بے انت روشنی سے اٹوٹ رشتہ)
زمیں کے پرچم! تجھے نگوں کون کر سکا ہے
کھڑے کھرے مری بھی جائے گا تو
مگر وہیں پر
جن کی مٹی سے تیرا ناتا بندھا رہے گا
لگا ہوا اپنے آستاں سے
ملا رہا ہے یہاں کی پستی کو آسماں سے
مجھے بھی یہ شوکتیں عطا کر
مجھے بھی اپنا سا عزم دے دے
مجھے بھی آزادیوں کا، سر کو اٹھائے رکھنے کا
بھید سمجھا
یہاں میں نیچی چھتوں کو اوڑھے
چہار دیواریوں کا بکل بدن پہ مارے ہوئے
کھڑا ہوں
دروں پہ بے اعتمادیوں کی، شکوک کی کنڈیاں لگی ہیں
ثقالتوں میں گڑا ہوں ہوں
(یہی بہت ہے
تری بلندی سے دیکھ لیتا ہوں آسماں کو)
مرے اندھیرے کی جھیل میں روشنی کی شبنم
ٹپکتی رہتی ہے کھڑکیوں سے
میں اپنے روزن سے تک رہا ہوں
کھلی فضا میں ترے لچکتے دراز بازو
اٹھے ہوئے ہیں
تو اپنی نمناک انگلیوں سے
فلک کے رخ پر
چمکتے چھینٹے اڑا رہا ہے
یہ شب کی بھیگی ہوئی سی خوشبو
مرے مساموں سے کیوں نکلتی نہیں
کہ میں بھی
ہوا کو بھر دوں لطافتوں سے
وجود میرا
گیاہ زاروں کے بیچ میں جیسے کوئی سمٹا ہوا صحرا
میں اپنے ہیجان کا جزیرہ ہوں
جس میں بدمست پیل پیکر سوال
چنگھاڑتے ہیں
بے اطمینانیوں کی بلائیں، اندھی انائیں ہر سو
’نہیں نہیں‘ کی کٹار چیخوں پہ ناچتی ہیں
تجھے وفا کے، عبادتوں کے صلے میں شاید
سدا کا نروان مل گیا ہے
ازل کی پاکیزگی کا لمحہ
مرے تنفس میں گھولتا ہے
تری محبت کے گرم معنی
تو میں اندھیرے کا، چمنیوں کے دھوئیں کا پردہ
اٹھا کے اس سمت دیکھتا ہوں
جہاں مجھے بے لباس دیکھا تھا تیری چھاؤں نے
مجھ پر جھک کر
میں اک بگولا تھا سرکشی کا
جسے جھلاتے رہے ہواؤں میں تیرے بازو
مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب مری رضا نے
مرے لیے وقت کی، زمانے کی سرپرستی
قبول کر لی
میں تجھ سے بچھڑا تو پھر نہ لوٹا
جنم جنم کی رفاقتوں کو بھلا چکا ہوں
عجیب معصومیت کے دن تھے
میں تیری اس رقص کرتی چھاؤں میں
دھوپ کی تتلیاں پکڑتا تھا
اور تو تالیاں بجا کر، مجھے اٹھا کر
اچھالتا تھا
مرے تصور کا سبز پیکر
ہوا کی گت پر چھڑا ہوا گیت طائروں کا
کبھی اندھیرے میں شاہزادہ دکھائی دیتا تھا
تو طلسمات کی زمیں کا
میں دیکھتا ہوں
کہ بلڈنگوں کے مہیب عفریت
تیرے سر پہ جھکے ہوئے ہیں
تو سنگ سڑکوں کی، تنگ رستوں کی
بیڑیاں ڈال کر کھڑا ہے
تو اگ رہا ہے مری ہوس کی
سیاہ مٹی میں
میرے لا انتہا خلا میں
کھڑا ہے تو وقت کی عدالت میں
دے گواہی
یہ روپ۔۔۔۔میرا۔۔۔۔مرا نہیں ہے
مجھے مری ذات کے سفر میں
مرے ارادوں نے، حادثوں نے
فنا کیا ہے
لٹک رہا ہوں صلیب پر
اور اپنا منکر ہوں۔۔۔۔جانتا ہوں
یہاں میں بن باس میں ہوں
یہ بے درخت دنیا مری نہیں ہے
کبھی کسی سچ کا اسمِ اعظم
مجھے رہائی دلائے اس سے
جو میں نہیں ہوں
کبھی کسی راستے کا پربت
وجود کی گھاٹیوں سے مجؒ کو
فراز کے دوش پر اٹھالے
کبھی تری مامتا سی چھاؤں
کڑی اذیت کی دوپہر سے مجھے بچا لے
تری پناہوں میں اتنا سوؤں
کہ اپنی تاریخ بھول جاؤں
میں تیری پہچان بن کے جاگوں
٭٭٭
شجرستان ہجر کا مسافر
جب سہ ہر کی ڈھلوانوں سے روشنیاں بہہ جاتی تھیں
جب انگشت ستارے کی
تھرانے لگتی تھی شام کے بربط پر
اور معطر سی گھمبیر اداسی کے ویرانے میں
شاخِ شجر سے اڑتی تھیں
لرزاں لرزاں پیلی تانیں پتوھں کی
اس دم جانے کون صدا دیتا تھا۔۔ آؤ
بجھتے رنگوں کے یہ تحفے
آؤ! اپنے کل کے سپنوں کی قیمت میں
لیتے جاؤ
اور آواز کے راتوں لمبے رستے پر
دو رویہ خاموشی میں
ہجر کے شجرستاں کی جانب ہم دونوں چل پڑتے تھے
یاد ہے؟ تو کہتا تھا اپنی خوشبو کی سرگوشی میں
ہجر مسافت جان سے جان کے ملنے کی
کسی نے کب طے کی ہے پیارے
ہجر فنا کا رستہ ہے
شوق تحیر سے گزرے تو وقت کی سرحد سے آگے نا وقت ملے
اور تحیر صدیوں کے پھیلاؤ میں
جانے کون سی نادیدہ منزل کی سمت اشارا ہے
اس سے پہلے۔۔ روز سفارت لفظوں کی
بے آواز چلی آتی ہے وعدے کی اسناد لیے
خالی آنکھ کے ایواں میں
یعنی ایک کبھی نہ آنے والے کل کے آنے تک
بس اک خواب کے درشن کرنا، کرتے رہنا
جیتے رہنا، مرتے رہنا
تیشے سے
کوہ مقدر سر کر کے
آخر میں اپنے ہی خون کی ندی پر
اپنی پیاس بجھانا ہے
ہجر زدہ صحرا زادے
ناامید نہیں ہیں جان لٹا کر بھی
اب تو جاتے ہیں لیکن پھر آئیں گے
(جینا خون بہا ہے شاید مرنے کا)
جب سانوں کے امبر پر
ٹوٹ رہے ہوتے ہیں تارے پیلی رت کے آنگن میں
دل پر دستک ہوتی ہے
اور دریچے کی چلمن سے ساحر آنکھیں
کیسے شوخ اشاروں میں
پھولوں کے آدرش کا مژدہ دیتی ہیں
دل کا شجر
شنا درجدبے اور تصور ان ہونی سی باتوں کا۔۔ آس کے در اک لمبے پر وا ہوتے ہیں
لہروں کی خویصیں کندھوں پر تھال اٹھائے آتی ہیں
اور الٹتی جاتی ہیں
ریزہ ریزہ روشنی کے گوہر ریت کی جوھلی میں
دیکھا تھا نا! ہم نے ہجر کے شجرستاں میں
وہ برگد کے سائے میں
صبح و شام کے خاکستر سے کرنیں چنتا رہتا تھا
دھیان سے اڑتی خوشبو کے مرغولوں سے
سپنے بنتا رہتا تھا
جانے اس کے نور کا کس پہ کشف ہوا
وہ شہزادہ عمروں کے بن باس میں اب بھی
تنہا پھرتا رہتا ہے
خبروں کے انبار میں اک نادیدہ حرفِ محبت کا
ڈھونڈیں پر کیسے ڈھونڈیں
دکھ کے معرکہ زاروں میں
ہونے والی جنگوں کے طرے ہونے کا امکان نہیں
روز مچھیرا معلوم تعاقب میں
رنگ و بو کا جال اٹھائے آتا ہے اور خلیج شام سے آگے
بے تکمیل سفر کے لمبے سایوں میں کھو جاتا ہے
لیکن آ تسلیم کریں یہ سوچیں کم معنی ہیں
لفظ ذرا سے گونگے بھی ہیں بہرے بھی
ہوش مساحت گر ٹھہری اندازے کی، اندیشے کی
ہم کیا جانیں کون تماشا گرے ہے ان دنیاؤں کا
جن کے سناٹے میں وقت کا ٹپکاؤ
ہستی کے گلزار کھلاتا رہتا ہے
ہم اس ہونے، نہ ہونے کے عالم گیر تماشے میں
ناظر بھی ہیں، منظر بھی تمثیلوں کے
ہم کیا جانیں کیا ہیں!
۔۔۔۔ یاد نہیں کیا؟
کیسے جشن کی کیفیت تھی دن کے چڑھتے منظر میں
آئینے در آئینہ
عکسوں کی گہماگہمی سی رہتی تھی
تازہ زخموں کی مہکاریں
ہم دنوں کو
آوارہ رکھتی تھیں دل کے قریے میں
اول اول
جب میں مونج کی چپل پہنے
اور بسنتی خواب کی چھتری سر پر تانے
برفوں کے اونچے پربت سے اترا تھا
تم بستی سے باہر دھوپ کی سنگت میں
مجھ کو لینے آئے تھے
تم نے میرے لمبے بالوں، نسواری پیراہن کو
کتنے غور سے دیکھی تھا
پھر جیسے تم نے مجھ کو، میں نے تم کو پہچان لیاج
یاد ہے نا! وہ بے چنی سی
دل کی ممنوعہ گلیوں میں جانے کی
دور کہیں برجوں پر جلتی قندیلیں
چاندیوں کے گیت، تھرکتے پاؤں سے اڑتی چاندی کے چھینٹوں میں
رقص کی لہروں پر ہلکورے کھاتی آنکھیں
دن کی بارہ دریوں میں
شہر صبا آباد خرام لالہ رخاں
ہر نفسے ہم رنگ پیام لالہ خاں
کھل کھل آنا نیم شگفتہ زخموں کا
اور بہ چاہت دل میں مر جانے کی
گرم لہو کی لوریاں سنتے سنتے ہم
اونگھنے لگتے تھے رنگیں افسانوں کے گہوارے میں
پھر ہم دنوں
ٹھہرے لمحے کی جنت سے، اپنے ہی اکسانے پر
مٹی کے دکھ کا بےنام ثمر چکھ کے
ہونے کا، نہ ہونے کا تاوان ادا کرنے نکلے
باہر ایک تماشا ہر سو بے چہرے انبوہوں کا
سایہ سایہ زلفیں کھولے
دھوپ پرانی دہلیزوں پر بیٹھی تھی
گھر کے کچے آنگن میں
بے شکوہ آکھوں سے قطرہ قطرہ گرتی بینائی کی آہٹ سی
بوڑھے ہاتھوں میں رعشہ ناداری کا
زید کے ماتھے کی تختی پہ کھا تھا
یہ مٹی، یہ آل اولاد ستاروں کی
قحط کی فصلیں کیوں ہرسان اگاتی ہے
اے داتا! ان ناحق مرنے والوں کو
اپنی بخشش سے تو لمبی عمریں دے
آئندہ کی دنیا میں
قصر بہت اونچے تھے عشرت گاہوں کے
جن کے شب زاروں میں پھول مہکتے تھے
بوٹے جیسے قد و قامت کی نوخیز کنیزوں کے
جن کے زینے سے خلقت پر جینے کا انعام اترتا رہتا تھا
آتے جاتے موسم سبز صلیبوں کے
خاک کا دامن بھر جاتے تھے سرخ سجیلے جسموں سے
جبر کے ظلمت خانے میں
خوف، اندھیرے اور دھوئیں کے سناٹے
زنگی پہرے داروں کی چنگھاڑیں رات کے جنگل میں
گرتے خون کی موسیقی پر رقص برہنہ شعلوں کا
کیا دیکھا؟ ۔۔۔۔ بے چشم مصنف بستی کی دیواروں پر
سہ پہروں کے سائے لکھتا رہتا تھا
طاقت کے شاہی قلعے ماخذ ساری تہذیبوں کے
جس کے دانش زادوں نے تعمیر کیے
زر کے بیجوں سے اگتی بحالی کے پس منظر میں
چمنستان ثقافت کے
یاد ہے؟ ہم دنوں نے اپنے سارے خون کی شدت سے
نفرت، نفرت، نفرت کا اقرار کیا
اے شاعر! آ
عمروں کے فاقے سے برفائے ہاتھوں کو بوسہ دیں
روشنیاں انڈیلیں ٹھنڈے سینوں میں
اتنی کہ صبحوں کے گھاؤ پڑ جائیں
رب جبر کی نازل کردہ ظلمت کی پیشانی پر
خواب پرندے اور نشیمن آنکھوں کے
آدم زادے شہرِ ازل کی گم کردہ جنت کی دھن میں یوں نکلے
جوں عشاق نکلتے ہیں
اے ایام کی مٹتی یاد گوہی دے
ہم فردا کے دزد اندھیری راتوں میں
روشنیوں کے نعرے دیواروں پہ لکھتے رہتے تھے
لگتا تھا کہ دل نو رستہ جذبوں کی طغیانی میں بہہ جائے گا
لیکن کیسے قد آور سالاروں نے
ڈھلتی عمروں کی ٹھنڈی آسائش کے خس خانے میں
منصوبے تیار کیے پسپائی کے
دام بچھائے نا فہمیدہ سچائی کی منطق نے
پھر۔۔۔۔ ہم بھی کچھ ایسے تھے
نا آموز شناور بحر ہمت کے
ڈوبے حیلے اور حوالے کے گدلے گردابوں میں
ہم کیا کرتے
(ہم نے سوچا) بہتر ہے سمجھوتے سے
ہم ابہام کے پیچ و خم میں کھو جائیں
ورنہ یہ جابر سلطان زمانے کا
ہم آزادوں سے مانگے کا جزیہ باجگزاری کا
بہتر ہے کہ سر پہ لے لیں تہمت کم کم جینے کی
کیا ہے؟ غور سے دیکھو تو
زرد بگولے کی مٹھی میں نیک کمائی تنکوں کی
سارے جذبے لا حاصل
اس سے آگے منظر شام سرائے کا
چائے کے مٹیالے گھونٹوں سے گرمائے ہجے میں
پہروں خود چھپ کر خود سے باتیں کرنا
باہر افراتفری ٹوٹے آئینوں کے عکسوں کی
خالی کمرے میں مجمع آوازوں کا
بے پیغام، تہی تمثیلیں معنی اور حوالے کی
ایک تمسخر ہونٹوں پر
لایعنی فعلوں کی زریں فصلیں بونے والوں کا
بس ایسے ہی کاٹ دیا
اکتا دینے والے روز و شب کے آنے جانے میں
ہم نے رہتی عمروں کو
اے شاعر آ
ہجر کے اندر ہجر کے اس دورہے پر
موڑ مڑیں ایسے کہ کوئی منظر پچھلی یادوں کا
نظروں سے روپوش نہ ہو
بچھڑیں لیکن اگلی رت میں پھر ملنے کے وعدے پر
ہم کہ پیوستہ ہیں خون کے رشتے میں
دکھ کے زرد قبیلے سے
دیکھ! یہاں پر
ہجر کے شجرستاں میں کیسے لمبے لمبے سائے ہیں
اے جنموں کے آوارہ! اے ازلوں کے سیلانی آ
دل کے عرش پہ چل کے تارے چنتے ہیں
دلبر سے ملنے سایوں کی بستی میں
پیارے! کل پھر آنا
٭٭٭
تشکر: یاور ماجد
ماخذ:
سخن سرا ڈاٹ کام
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں